Areej Shah Novels Urdu Novels

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel | Romantic Urdu Novel by Areej shah

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel |  Romantic Urdu Novel by Areej shah

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel

 

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by Areej Shah,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer. Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel is the latest novel by areej shah . Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.

Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

Tu Puch Na Haal Fakiran Da by Areej Shah

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by areej shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there.so this novel is a lesson for us if you want to free download Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by Areej Shah to click on the link given below,

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel

Inteha e Ishq Urdu Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Inteha e Ishq Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society

 

 

↓ Download  link: 

If the link doesn’t work then please refresh the page.

Tu Puch Na Haal Fakiran Da Novel by Areej Shah Complete

 

 

Read Online Tu Puch Na Haal Fakiran Da by areej shah

ازقلم" اریج شاہ"
قسط.01
آخر وہ پیرس کی سرزمین پر قدم رکھ چکی تھی
اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی یہاں آکر وہ آزاد ہو چکی تھی یہاں نہ تائی امی کا ڈرتھا اور نہ ہی بابا کی کوئی پریشانی
وہ کھل کر سانس لے رہی تھی ایئر پورٹ پر اسے لینے سندس آئی تھی جبکہ نیلم صبح سے ہی اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی
عذرا خالہ کی بس دو ہی بیٹیاں تھیں اور پورے خاندان میں بس یہی دو لڑکیاں تھی جو اسے پسند کرتی تھی اور جن کے ساتھ اس کی بہت بنتی تھی
ورنہ تائی امی کی بیٹیوں کو نہ وہ خود منہ لگانا پسند کرتی تھی اور نہ ہی وہ اس سیدھے منہ بات کرتی تھیں اس کے آنے کی خوشی میں گھر پر کافی انتظامات بھی کر رکھے تھے
آخر ان کی کزن پہلی بار یہاں آئی تھی وہ کہنے کو تو پیرس جیسے بڑے ملک میں رہتی تھیں لیکن ان کی تہذیب اور تربیت آج بھی پاکستان کے کسی عام سے گھرانے جیسی تھی
۔اور آج بھی ان کے لیے ان کی ماں کی بات حکم کا درجہ رکھتی تھی وہ دونوں بہنیں اپنے آپ کو چھپا کر رکھنے والوں میں سے تھیں اس علاقے کے بہت کم لوگ جانتے تھے کہ اس گھر میں دو لڑکیاں رہتی ہیں۔
عذرا بیگم خود ہی اپنی دوکان سنبھالتی بھی جس سے ان کے گھر کا گزارا ہوتا وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بچیاں باہر کبھی اس ماحول میں نکل کر اس ماحول کو اپنائیں جسے دیکھتے ہوئے بھی وہ شرمندہ ہو جاتیں تھیں۔
اگر بچیوں کی تعلیم ضروری نہ ہوتی تو شاید وہ انہیں کبھی گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتیں
آج وہ بھی دکان پر نہیں گئی تھی بلکہ گھر پہ ہی رہ کر اپنی بھانجی کا آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔
عکانشہ پڑھائی کے سلسلے میں یہاں آ رہی تھی اس کا ارادہ تو لندن جانے کا تھا لیکن اسے اجازت ہی بس خالہ کے گھر آنے کی ملی تھی کیونکہ بابا اسے اتنے بڑے ملک میں اکیلے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے تھے
یہ تو شکر تھا کہ اسے یہاں آنے کی اجازت مل گئی ورنہ وہ تو اس کے لیے بھی تیار نہ تھے اور تائی کا بس چلتا تو اسے باہر ملک روانہ کرنے کی بجائے ہمیشہ کے لئے کسی لنگڑے لولے سے نکاح پڑواکر گھر سے رخصت کروا دیتیں
وہ تو شکر تھا کہ بابا کو تھوڑا اس پر ترس آ گیا اور اسے اس کی خالہ کے گھر پیرس بھیجوا دیا"
°°°°°°°°°°
پاکستان کے بارے میں کیا پوچھ رہی ہیں آپ وہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا آپ چھوڑ کر آئی تھیں وہیں وہاں کے مرد اب بھی بیٹیوں کو باہر نکل کر نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے وہی عورتوں کی گھسی پٹی سوچ کے لڑکیاں صرف شادی کرکے بچے ہی پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔!!
پتہ نہیں بابا کے دماغ میں یہ بات کہاں سے آگئی کہ میں آگے بڑھ سکتی ہوں کچھ بن سکتی ہوں۔ورنہ تائی امی نہ میرا رشتہ ڈھونڈنے میں لگ گئی تھیں عکانشہ نے بیزاری سے کہا ۔
بیٹا تمہاری تائی کا بس چلے تو کسی کے ساتھ بھی باندھ دے تمہیں وہ تو نیلم نے کہا کہ تم پڑھائی میں اچھی ہو اور تمہیں یہاں آنے کا آئیڈیا دیا بھائی صاحب بھی دو تین بار کہنے پر مان گئے
خالہ نے خوش دلی سے بتایا۔۔۔۔"
اگر آج اس کی خالہ نہ ہوتیں تو یقیناً وہ یہاں کبھی نہیں پہنچ پاتی
ایک اس کی یہ خالہ اور یہ خالہ کی دو بیٹیاں بس یہی اس کے اپنے تھے باقی سب نے تو بس اس کے خلاف اس کے بابا کی کان بھرتے تھے وہ تو شکر ہے کہ تائی امی کی باتوں میں بابا نہیں آئے ورنہ شاید وہ یہاں نہیں آ پاتی۔۔۔"
خالا آپ کے ہاتھ کا کھانا ہمیشہ سے ۔۔۔۔۔" بیسٹ ذائقہ زبردست ہے وہ کھانے سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے خالہ کی تعریف کرنے لگی جبکے وہ مسکراتے ہوئے اس کی پلیٹ میں مزید سرو کررہی تھیں۔۔۔۔"
ابھی وہ لوگ کھانے پر ہی مصروف تھی جب کوئی داخل ہوا عکانشہ نے نظر اٹھا کر سامنے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر پریشانی سے خالہ کو دیکھنے لگی آخر یہ کون آ گیا تھا اس کے مطابق توخالہ کے گھر توصرف خالہ اور ان کی دو بیٹیاں ہی رہتی تھی ۔۔۔۔"
ہنی بیٹا تمہارے لیے کھانا لگا دوں اس کے قریب آنے پر وہ پوچھنے لگے عکانشہ نے غور سے اس شخص کو دیکھا سیاہ گہری کالی آنکھیں ' مغرور ناک ' سگریٹ نوشی کی وجہ سے سیاہ لب '6 فٹ سے نکلتا قد'سرخ و سفید رنگت کسرتی وجود وہ بے شک ایک بہت پرکش نوجوان تھا عکانشہ نےاگلے ہی پل نظریں چڑالی ۔۔۔"
جب کہ سامنے کھڑے لڑکے نے یہ تک دیکھنے کی غلطی نہ کی تھی کہ آج ان تینوں کے درمیان چوتھا وجود بھی موجود ہے۔۔۔"
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ذرا سا آخری سیڑھی پر رکا
. نو آنٹی تھنکس جب مجھے ضرورت ہوگی میں خود لے لوں گا آپ ٹینشن نہ لیں وہ بس اتنا کہتا اوپر چلا گیا جب کہ قدموں کی لڑکر آہٹ صاف بیان کر رہی تھی کہ وہ نشے میں ہے۔۔۔"
نیلم جاؤ یہ پانی کا جگ اس کے کمرے میں چھوڑ آؤں پھر بےچارہ رات کو پانی لینے کے لیے آئے گاعذرا بیگم نے فکر مندی سے کہا جب کہ وہ تو اپنی خالا کی فکرمندی کو دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی وہ تو ایسے ری ایکیٹ کر رہی تھیں جیسے اوپر جانے والا ان کا اسگا بیٹا ہو۔۔۔۔"
خالا وہ ہے کون اس نے نیلم کے جگ اٹھا نے سے پہلے ہی جگ پکڑ لیا
بیٹا وہ ہمارا پینگ گیسٹ ہے یہاں پر کرائے پر رہتا ہے خالہ نے اس کا تجسس دور کرتے ہوئے بتایا ۔۔۔۔"
مطلب آپ کے گھر میں ایک کرائے دار رہتا ہے جو اس طرح سے نشے میں گھر آتا ہے اور آپ وہاں اپنی بیٹی کو بھیج رہی ہیں خالہ کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ پریشانی سے بولی ۔
عکانشہ میں ان کی بہنوں جیسی ہوں کیسی باتیں کر رہی ہو تم لاو میں پانی چھوڑ کے آتی ہوں نیلم نے جگ اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔"
بھائیوں جیسا۔۔۔؟ مجھے تو شکل سے ہی غنڈا لگ رہا تھا اپ نے اسے یہاں رکھا ہوا کیوں ہے ایک تو آپ تین عورتیں یہاں اکیلی رہتی ہیں خدا نخاستہ کوئی چور ہوا تو آپ کیسے بنا جانے پہچانے کسی کو بھی رکھ لیتی ہیں خالہ وہ خاصہ پریشان ہو چکی تھی ۔۔۔۔"
"۔۔۔ہم تین عورتیں یہاں اکیلی رہتی تھی اسی لیے آئے دن غنڈے کبھی باہر کے کانچ توڑ جاتے تو کبھی دکان میں گھس آتے لیکن جب سے ان لوگوں کو پتہ چلا ہے کہ ان کے گھر میں کوئی لڑکا رہتا ہے کوئی اس طرف نہیں آتا ہمیں تو ہنی کے روپ میں ایک سہارا مل گیا ہے بیٹا بس صرف رات کو ہی یہاں۔ آتا ہے
سارا دن وہ کیا کرتا ہے کہاں جاتا ہے کوئی نہیں جانتا بس رات کو پورے دس بجے یہاں واپس جا کر سیدھا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اگر ضرورت محسوس ہو تو کھانا کھا لیتا ہے ورنہ رات کو جب بھوک لگتی ہے خود ہی کھانا بنا بھی لیتا ہے کبھی مجھے تکلیف نہیں دی۔۔۔۔"
اور کرایہ بھی وقت پر دیتا ہے وہ پچھلے گیارہ ماہ سے یہاں رہ رہا ہے نیلم اور سندس دونوں اسے بھائی کہتی ہیں اور وہ بھی اپنی بہن مانتا ہے کبھی ہنستا بولتا مسکراتا نہیں ہے لیکن بہت کچھ ہے جو سب سے چھپائے ہوئے صرف اپنے سینے میں دبا کر بیٹھا ہے ایسا لگتا ہے جیسے بہت درد سہہ کر آیا ہو۔۔۔
خالہ اسے سب کچھ بتاتی اٹھ کر کمرے میں چلی گئیں عکانشہ نے ایک نظر ان سیڑھیوں کی طرف دیکھا جہاں سے نیلم واپس آ رہی تھی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے وہ اسے پانی نہ دے سکی۔۔۔۔"
کیا ہوا اس نے اشارے سے نیلم سے پوچھا
شاید وہ آتے ہی سو گئے نیلم مسکراتے ہوئے سے بتا کر کچن میں چلی گئی
سو نہیں گیا ہوگا نشے میں دھت ہو کر بے ہوش ہوگیا ہوگا اوپر جا کر۔ عکانشہ مذاق اڑاتے ہوئے اس کے پیچھے آئی جب نیلم نے اسے گھورا ۔۔۔"
سنو یہ رات کو نیچے تو نہیں آئے گا نا میرے کمرے کا لاک تو ٹھیک سے لگتا ہے اس نے نہ ایک کے بعد ایک نیلم سے سوال پوچھا جس پر نیلم کی گھوری مزید بڑھ گئی
مطلب وہ اس کے بھائی کو اتنا بے اعتبار سمجھ رہی تھی۔۔۔"
ارے یار گھورو تو مت وہ نشے میں ہے اور نشے میں انسان کو ہوش نہیں ہوتا اور وہ تو شکل سے ہی غنڈا لگتا ہے ۔
وہ پریشانی سے بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے کمرے میں آئی جب ایک بار پھر سے ایک پیر باہر رکھتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف جھانک کر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا صرف اندھیرا تھا ۔
اول "تو پوچھ نہ حال فقیرا دا
ازقلم" اریج شاہ"
قسط_ "02
"وہ کافی دیر دروازہ بجنے کی آواز سنتا رہا پر اٹھ کر دروازہ نہیں کھولا اسے اپنا جسم بے جان محسوس ہو رہا تھا اس وقت وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔
اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا
اور پھر اپنے سامنے دیکھ کر مسکرایا چہرے پر لمحے میں معصومیت چھا گئی تھی ۔
آئی ایم سوری یار غلطی ہوگئی میں پینا نہیں چاہتا تھا لیکن تم تو جانتی ہو نا جس دن نہ پیوں اس دن میرا کیا حال ہوتا ہے ساری رات نیند نہیں آتی ارے یار ادھر دیکھو تو سہی غلطی ہوگئی سوری بول تو رہا ہوں ۔اب روٹھ کر بیٹھ گئی تمہیں پتا ہے نہ تمہاری ناراضگی میری جان لے لیتی ہے ۔اچھا ادھر دیکھو میری طرف اٹھیک بیٹھک کر رہا ہوں ۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کان پکڑے کبھی زمین پر بیٹھ رہا تھا تو کبھی اٹھ کر کھڑا ہو رہا تھا
یار تھک چکا ہوں اب مسکرا دو ۔وہ منتوں پر اتر آیا لیکن پھر سامنے اپنی جان کی تو خوبصورت آنکھوں دیکھا ۔جس میں وہ اپنے لئے ناراضگی محسوس کر رہا تھا ۔
اچھا تو ایسے نہیں مانوگی ہاں ۔۔۔۔۔لگتا ہے ناراضگی بہت بڑھ گئی ہے ۔۔۔ دیکھو تمہیں پتا ہے میں اتنی دیر تک تمہیں نہیں منا سکتا ۔بہتر ہے اب جلدی سے تم خود مان جاؤ ۔مجھ سے نہیں اٹھائے جاتے اتنے نخرے معافی مانگ تو رہا ہوں ۔
نہیں مانو گی نہ تم ۔۔۔۔اب وہ انگلی اٹھا کر اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔
لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
مان جاؤ نا پلیز . ۔۔دیکھو میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔. کیوں مجھ سے روٹھ گئی ہو ۔ ۔۔کیوں مجھ سے اتنی دور چلی گئی ہو تم کہ میں چاہ کر بھی تمہیں واپس نہیں لا سکتا ۔۔۔
کیوں کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئی تم اب وہ دیوار پر لگی تصویر پر محبت سے ہاتھ پھیرا تھا اپنا درد بیان کر رہا تھا
وہ معصوم چہرہ وہ خوبصورت آنکھیں وہ گلابی لب ۔سرخ و سفید چہرہ اس کے لئے اس کا کل جہان تھا ۔جواب اس سے بہت دور جا چکا تھا
وہ اس تصویر کو دیکھتا آہستہ آہستہ پیچے کی طرف قدم بڑھاتا صوفے کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا نظریں اب بھی اسی چہرے کا طواف کر رہی تھی
دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگی ۔اور وہ نیند کی گہرائیوں میں اترنے لگا
°°°°°°°°°°°°
کتنا عجیب آدمی تھا سیدھے منہ بات تک نہیں کی اور تو اور نشے میں تھا وہ شراب پیتا ہے ۔اور بھی پتا نہیں کون کون سے حرام کام کرتا ہوگا استغفراللہ اس سے تو بات کرنا بھی گناہ ہے ۔۔۔اللہ جی مجھے اپنے حفظ و امان میں رکھنا ۔ایسے شیطان سے تو میلوں دور رکھنا
دنیا کا سب سے حرام کام کرتا ہے اور نہ جانے کتنے حرام کام کرتا ہوگا اس سے تو بچ کر رہنا پڑے گا ۔
ایٹیٹیوڈ تو دیکھو اس کا ایک تو اتنی محبت سے کھانے کا پوچھا کیا تھا اگر خالہ کی بات مان کر اتنا لذیذ کھانا کھا لیتا تو کیا چلا جاتا مسٹر کھڑوس کا ۔
مجھ سے تو بات تک نہیں کی ہیلو ہائے تک نہیں کیا دیکھا تک نہیں میری طرف اچھا ہی ہے شکر ہے اس نے میرے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا ویسے بھی پوچھ بھی لیتا تو کون سا وہ اس گھر کا مالک ہے ایک مہمان ہی تو ہے ۔
اس طرح کا انسان اس گھرمیں نہیں رہنا چاہیے مجھے خالہ سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے ۔خیر میں کون سا ساری زندگی کے لیے یہاں آئی ہوں دو سال کی بات ہے پھر میں یہاں سے چلی جاؤں گی ۔اگر کوئی بندہ خالہ کو ٹھیک لگتا ہے تو ٹھیک ہی ہوگا مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے کیا میں اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔
میں اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں .پاگل کہیں کا شکل سے ہی غنڈہ لگتا ہے ۔میں کیا کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔ اپنا وقت برباد کر رہی ہوں صرف اس کے بارے میں سوچ کر شاید اس سے پہلے اس طرح کا غنڈا کبھی نہیں دیکھا اسی لئے دماغ سے نکل ہی نہیں رہا ۔وہ اسےسوچتے ہوئے کروٹ بدل گئی ۔
°°°°°°°°°°
نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب اسے سخت پیاس لگی اس نے دائیں جانب ٹیبل پہ ہاتھ مارا تو وہاں پانی موجود نہ تھا پھر اسے یاد آیا کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ پیرس میں ہے ۔
نیلم کیا جاتا تمہارا یار اگر یہاں پانی کا ایک گلاس ہی رکھ دیتی دعا ملتی ایک پیاسی لڑکی کی وہ اکتایت سے بھرپور لہجے میں کہتی تھی اٹھ کر پانی پینے کی نیت سے باہر آئی
اس وقت اس کے ذہن میں "وہ" بالکل بھی نہیں تھا وہ پرسکون سی کچن میں آ کر پانی پینے لگی ۔ابھی اس نے صرف دو ہی گھونٹ لیے تھے جب اسے اچانک اپنے پیچھے کسی کا سایہ محسوس ہوا کہ اس نے جیسے ہی پلٹ کر دیکھا اس کی چیچ نکلتے نکلتے رہ گئی
کیوں کہ اس کے نازک لبوں پر کسی کا بھاری ہاتھ آچکا تھا
چلانے کی غلطی غلطی سے بھی مت کرنا ۔۔۔جب تمہیں پتا ہے اس گھر میں ایک غنڈہ نما شخص رہتا ہے جو شکل سے بھی غنڈا ہی لگتا ہے اور شراب کے نشے میں کچھ بھی کر سکتا ہے تو تمہیں آدھی رات کو یہاں اس طرح سے بے فکری سے بنا دوپٹے کے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیے
اس کے سراپے پر گہری نظر ڈالتا اسے گھورتے ہوئے بولا ارادہ یقیناً اسے ڈرانے کا تھا
عکانشہ کی آواز جیسے حلق میں ہی دب کر رہ گئی اس کے ہاتھ اٹھانے کے بعد بھی وہ ایک لفظ بھی نہ بھول پائی۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت اسے اس شخص سے اتنا خوف آ رہا تھا کہ اس کی آواز تک نہیں نکل رہی تھی اگر چاہتی تو چیچ کر سب کو بلا سکتی تھی لیکن وہ ایسا نہیں کر پا رہی تھی نہ جانےسامنے کھڑے اس شخص کی آنکھوں میں کیا تھا
عجیب سی وحشت۔۔۔۔ اسے لگا یہ شخص اسے ابھی زندہ نکل جائے گا وہ اتنی ڈرپوک کبھی بھی نہیں تھی لیکن اس وقت ڈر کے مارے اس کا سارا وجود کانپ رہا تھا
اگر وہ اسے دیکھ کر تلخی سے مسکراتا پیچھے کی طرف قدم نہ اٹھاتا تو یقیناً وہ بے ہوش ہوجاتی
وہ ایک گہری نظر اس پر ڈالتا پیچھے کی طرف جاتا چلا گیا ۔جبکہ عکانشہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے
°°°°°°°°°°°°
پانی کا گلاس آدھا ہی رہ گیا وہ دوڑکرکمرے کی طرف بھاگی۔ وہ بہت پریشان ہو چکی تھی وہ چلا گیا تھا یا وہیں تھا اس نے پلٹنے کی غلطی ہرگز نہیں کی تھی ۔کمرے میں آ کر دروازہ بند کر کے اس نے گہری سانس لی
اس کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا
وہ دروازہ بند کرکے بیڈ کی طرف جا ہی رہی تھی جب اسے اچانک سے اوپر سے دھرم کی آواز آئی
یااللہ کہیں مرمراتو نہیں گیا اس نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
جبکہ بیڈ پر لیٹی نیلم بھی جاگ چکی تھی ۔
نیلم کہیں تمہارا پینگ گھسٹ مر تو نہیں گیا یقینا نشے میں کسی دیوار سے ٹکرا گیا ہوگا ۔۔۔ وہ نیلم سے آ کر بولی
بھائی نے دروازہ نہیں کھولا تھا مجھے تو یہی لگا کہ وہ سو گئے ہونگے تم فکر مت کرو ان سب چیزوں کی ہمیں عادت ہے یہاں آکر سو جاؤ نیلم جو پہلے بوکھلا کر اٹھی تھی ۔بے فکر ہو کر دوبارہ سونے لگی
جب اس کی بہن کو یہ اس کی پرواہ نہیں ہے تو میں کیوں مری جا رہی ہوں وہ خود سے بڑبراتی ہوئی آ کر بیڈ کی دوسری طرف لیٹ گئی ۔
ابھی اسے لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک بار پھر سے احساس جاگا
یااللہ نشے میں تھا کہیں سچ میں ہی کچھ الٹا سیدھا نہ ہو گیا ہو اس کے ساتھ وہ پریشانی سے نیلم کو دیکھنے لگی جو دوبارہ گہری نیند میں اتر چکی تھی
میں اتنی سگ دل نہیں بن سکتی اس کی طرح بے ضمیر تھوڑی ہوں مجھے اسے جا کر دیکھنا چاہیے ۔ہوسکتا ہے مصیبت میں ہو اسے مدد کی ضرورت ہو وہ اپنا دل مضبوط کرتی کمرے سے باہر نکلی
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھی اس سے ڈر لگ رہا تھا ۔لیکن اگر ہمت دیکھا ہی لی تھی تو ڈرنا کیسا
اس نے جیسے ہی دروازے پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھٹکھٹانا چاہا دروازہ اچانک کھلا اور اگلے ہی پل کوئی اس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر کی جانب کھینچ چکا تھا
بہت شوق ہے تمہیں غنڈے نما انسان کی شکل دیکھنے کا جب تمہیں پتا ہے ایک انسان نشے میں ہےنشے کی حالت میں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تو یہاں تک آنے کا کیا مقصد تھا ۔وہ سرخ لہو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بلکہ غصے سے گھورتے ہوئے بولا
میں ۔۔۔۔میں دیکھنے آآآ۔ ۔۔آئی تھی تتتت تم ۔۔وہ سہمے ہوئے لہجے میں کچھ کہنا چاہتی تھی
آئندہ مجھے دیکھنے آنے کی غلطی ہرگز مت کرنا کیونکہ میں یہاں ہر روز نشے میں ہوتا ہے اور نشے میں انسان سے کچھ بھی ہو جاتا ہے اسی لئے اس غنڈے نما شکل والے انسان سے دور رہو تو بہتر ہوگا
اگلے ہی لمحے اسے خود سے دور کرتا ہے باہر کی جانب دھکادیتا اس کے منہ پر دروازہ بند کر چکا تھا ۔
جب کہ عکانشہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ باتیں اس نے صرف نیلم سے کہی تھی وہ اسے کیسے پتہ چلی اسے کیسے پتہ چلا تھا کہ اس نے اس کے نشے میں ہونے کا مزاق کرتے ہوئے اس کی شکل کو غنڈے جیسا کہا ۔
لیکن اس کے پاس ہی سوچنے کا وقت نہیں تھا اس سے پہلے کہ وہ پھر سے دروازہ کھلتا وہ الٹے قدموں واپس کمرے میں لوٹ آئی۔
یہ آدمی جئے یا مرے اب عکانشہ مر کے بھی سڑھیاں نہیں چھڑے گی اس نے قسم کھائی اور سونے کے لئے لیٹ گئی آج تو نیند ناممکن تھی
°°°°°°°°°°
یہ کیا بات ہوئی بس آج ہی بس نہیں آنی تھی کیا بس والے کو پتا تھا کہ میں یہاں آ گئی ہوں عکانشہ پریشانی سے ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی
آج اسے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا تھا اور یہاں اسے پتہ چلا تھا کہ یونیورسٹی کا ٹائم ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی ہیں اور بس کا ابھی تک کچھ اتا پتا نہیں ہے
جبکہ بس اس سے پہلے کبھی لیٹ نہیں ہوئی تھی
خالا مطلب پاکستان میں تو چلتا ہے یہ سب کچھ لیکن یہاں اتنی بڑی کنٹری میں کتنے غیر ذمہ دار لوگ ہیں یہ فرض کریں آج اگر کوئی پیپر وغیرہ ہوتا تو سکول کے بچے تو فیل ہی ہو جاتے نہ ان بسوں کے چکر میں مطلب کسی بات کی حد ہوتی ہے میں تو کہتی ہوں چھوڑیں اس بس والے کو پیدل چلتے ہیں وہ نیلم اور سندس کو دیکھتے ہوئے بولی جو کب سے اس کی مسلسل بولتی زبان کو دیکھ رہی تھی
یار تم تھکتی نہیں ہو کتنا بولتی ہوں نیلم اس کی اتنی لمبی تقریر کے بعد بولی تھی جب سڑھیوں سے کسی کے اترنے کی آواز آئی
بھائی ہماری بس نہیں آئی کیا آپ ہمیں یونیورسٹی چھوڑ دو گے سندس اس کی طرف دیکھے بغیر انتہائی معصوم منہ بنا کر ہنی سے کہنے لگی
نہیں مجھے بھوک لگی ہے میں ناشتہ کر رہا ہوں وہ نظرانداز کرتا ٹیبل پر بیٹھ کر کہنے لگا جبکہ اس کی اس حرکت پر عکانشہ کو غصہ آ گیا تھا کتنی معصومیت سے وہ کہہ رہی تھی اور یہ آدمی کیسے نخرے دکھا رہا تھا چئیرپرتو ایسے بیٹھا ہوا تھا جیسے مالک ہو یہاں کا غصہ تو اسے خالا پر آیا تھا جو اس کے لہجے کی پرواہ کیے بغیر اپنی بیٹی کی انسلٹ کو بھی نظر انداز کرکے اس کے لئے ٹیبل پر ناشتہ لگانے لگی
اسے اسی طرح دیکھ رہی تھی کہ نیلم اٹھتے ہوئے سندس اور عکانشہ کو اشارہ کرنے لگی
عکانشہ ہنی کو گھورتے ہوئے نیلم کے پیچھے چلی گئی
عجیب آدمی ہے ایسے بھائی ہونے سے بہتر ہے بھائی ہی نہ ہو وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے آگے بڑھی جب کہ سندس اسے گھورتے ہوئے آگے جارہی تھی مطلب کے اتنی بےعزتی کے بعد بھی اسے اس کا بھائی بہت پیارا تھا جو اس سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا
ڈیر کزن پاکستان میں اگر تم کسی سڑک پر کھڑی ہو کر بھی اتنی معصومیت سے کسی اجنبی کو کہتی تو وہ بھی تمہیں یونیورسٹی چھوڑآتا یہ تو پھر تمہارا بھائی تھا ۔
ابھی وہ لوگ آگے بڑھ رہی تھی جب اچانک ان کے سامنے ایک گاڑی آکر کی جس پر منہ بناتی سندس کھل اٹھی
دیکھا میرے بھائی اتنے بھی برے نہیں ہیں وہ چہک کر بولی جب کہ وہ آنکھوں پر گلاسس چڑائے نخرے دکھاتا ہوا گاڑی میں اندر بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا
جبکہ نیلم اور سندس دونوں بیٹھ چکی تھی اگر وہ پاکستان میں ہوتی تو اکیلے ہی چلی جاتی لیکن اس مغرور شخص کے ساتھ بیٹھنے کی غلطی کبھی نہیں کرتی لیکن مجبوری تھی کہ اس یونیورسٹی کا راستہ نہیں آتا تھا
°°°°°°°°
یار بندہ اتنا کھڑوس کیسے ہو سکتا ہے مطلب کھڑوس لوگوں کے ریکارڈ توڑنے ہیں کیا تمھارے بھائی نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے حیرانگی سے پوچھ رہی تھی گاڑی میں ہنی نے زبان تک نہ ہلائی بس ان لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچاتا آگے بڑھ گیا
جبکہ نیلم اور سندس ان سب کی عادی تھی وہ تو ان سب باتوں کا کوئی اثر تک نہیں لے رہی تھی ۔جب کہ ان دونوں کا تو کہنا تھا کہ فضول میں ہی ان کا بھائی اسے برا لگنے لگا ہے ۔
ایڈمیشن لینے کے بعد وہ کافی خوش لگ رہی تھی اس کے رپورٹس دیکھ کر ٹیچر نے بھی اس کی کافی تعریف کی تھی
سیکولوجسٹ بننے کی خواہش سے یہاں تک لے آئی تھی لوگ کیا کرتے ہیں کیوں کرتے ہیں یہ ساری چیزیں تو کوئی بھی دوسرا انسان سمجھ سکتا تھا لیکن ایک سیکولو جسٹ بنا مطلب کے انسان کے دماغ کے اندر کے بارے میں جاننا ایک بہت بڑی بات تھی ۔
ڈاکٹر بننا علاج کرنا کامیابی پانا یہ بھی اس کی نظروں میں بالکل عام سی بات تھی وہ تو جاننا چاہتی تھی کہ انسان سوچتا کیا ہے کچھ کرنے سے پہلے کیا محسوس کرتا ہے کونسی چیز اسے کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے
اور اسی خواہش کے ساتھ وہ یہاں آئی تھی اپنی کلاس میں قدم رکھتے ہوئے وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی ۔
لیکن اسی کلاس نے اسے زندگی کی اصل کامیابی دینی تھی وہ اپنے ذہن سے ہنی کو بالکل نکال چکی تھی اس خوبصورت وقت میں وہ ہنی جیسے شرابی نشائی کھڑوس اکرو مغرور شخص کو بالکل یاد نہیں کرنا چاہتی تھی
^°°°°°°°°°
کلاس میں اس کا ویلکم بہت اچھے طریقے سے کیا گیا سارے ہی اچھے تھے بس انگریزوں کی اولاد اسے پسند نہیں تھی اسی لیے وہ کسی سے بھی دوستی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اس کے باوجود بھی جو کوئی اس سے اچھے سے بات کر رہا تھا وہ بھی اسے بہت اچھے سے جواب دے رہی تھی
پہلی کلاس کی شروعات ہوئی یہاں سب کچھ بہت الگ تھا لیکن اس نے ایک چیز بہت شدت سے نوٹ کی تھی اس کا ملک بھی کسی ملک سے پیچھے نہیں ہے ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان بھی ان سب ملکوں کے ساتھ ساتھ کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے ۔
پاکستان سے بھی بہت سارے اسٹوڈنٹس تھے۔ جواس سے اردو میں بات کر رہے تھے ۔یہاں لڑکے لڑکیوں کا الگ الگ بیٹھنا فاصلہ قائم رکھنا وغیرہ جیسا کچھ نہیں تھا ۔
یہاں سب کچھ فری تھا یہ کوئی بڑی بات نہ تھی
تھوڑی ہی دیر میں لیکچر سٹارٹ ہو گیا جسے وہ بہت غور سے سن رہی تھی کیونکہ کلاس شروع ہوئے تقریباً ڈیڑھ مہینہ ہو چکا تھا اور وہ اب تک یہ سب کچھ مس کر چکی تھی اسی لئے اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی
ٹیچر اینجلینا انہیں کسی پیشنٹ کے بارے میں کچھ بتا رہی تھی جوانہیں کی سوسیئٹی میں رہتا تھا لیکن باقی لوگوں سے کافی ڈیفرنٹ تھا
آپ لوگوں کے گھر کے آس پاس بھی ایسے ہی لوگ رہتے ہوں گے جو آپ کو باقیوں سے مختلف لگتے ہوں کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ وہ مختلف کیوں ہیں ان کی زندگی میں ایسا کیا ہوا ہے کہ وہ باقی دنیا سے کٹ کر اپنی الگ دنیا بسانے لگے ہیں ۔
ٹیچر اینجلینا کی باتیں سن کر نا جانے کیوں اسے ہنی کا خیال آیا جسے جھٹلا کر وہ ٹیچر اینجلینا کے لیکچر میں دھیان دینے لگی
ایسے لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں ۔ان کے دکھ کی وجہ جانے ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں ان کے پاس رہے تاکہ آپ جان سکیں کہ وہ اتنے الگ کیوں ہے کیوں وہ عام لوگوں کی طرح ہنستے بولتے نہیں کیوں زیادہ لوگوں کے بیچ میں نہیں رہتے بھیر بھاڑ پسند نہیں کرتے ۔
آپ لوگ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے ۔یا ان کی زندگی میں کچھ ایسا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اس طرح سے ہوگئے ہیں ۔ٹیچر اینجلینا انگلش میں لیکچر دیتے ہوئے مسکراتی ان کے ذہن کے اندر جھانک رہی تھی
وہ نظروں سے دیکھ کر پہچان سکتی تھی کہ کون ان کی بات سمجھ رہا ہے اور کون نہیں
سب اسٹوڈنٹس آہستہ آہستہ اٹھ کر چلے گئے جبکہ عکانشا کا دھیان اب بھی ہنی کی طرف تھا وہ کیوں سب سے الگ ہے کیوں ہنستا بولتا نہیں ۔کیا اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیا وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا کتنے ہی سوال اس کے ذہن میں آئے ابھی اسے ملے ہوئے اسے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے لیکن وہ بری طرح اس کے دماغ پر حاوی ہو چکا تھا
میرے خیال میں آپ کسی ایسے پیشنٹ کو جانتی ہیں وہ اپنی چیئر پر بیٹھی مسکراتے ہوئے بولی جب عکانشہ کا دھیان کلاس کی طرف گیا جہاں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔
جائیں جانے اس کے بارے میں وہ کیوں سب سے الگ ہے کیا وہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے ٹیچر اینجلینا انتہائی یقین کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے اسے اکسا رہی تھی جبکہ عکانشہ نفی میں سر ہلاتے مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی
بیسٹ آف لک ۔۔۔اسے کمرے سے نکلتے ہوئے ٹیچر کی آواز سنائی دی اس نے مڑ کر دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں بس مسکرا کر باہر نکل گئی
میرا کیا دماغ خراب ہے کہ وہ کھڑوس کے بارے میں جاننا چاہوں گی اس ہٹلر مغرور انسان کو کوئی تکلیف نہیں ہے بس وہ اپنی انا کے دائرے میں اپنا ایٹیٹیوڈ گنوانا نہیں چاہتا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے اس کے بارے میں جاننے کی بھاڑ میں جائے میری طرف سے ۔ٹیچر اینجلینا کی بات کو اگنور کرتے ہوئے نیلم اور سندس کو ڈھونڈنے لگی جو کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں ایک بہت مشکل مرحلہ تھا
°°°°°°°°
وہ گھر آئی تو خالہ کافی زیادہ پریشان لگ رہی تھی اسے یہاں رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا ہنی کا سامنا بہت کم ہوتا تھا کیونکہ وہ رات کو لیٹ آتا تھا اور ویسے بھی اسے اس سے کیا مطلب تھا وہ لیٹ آئے یا جلدی بقول ا سکے ۔اسے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ہاں لیکن اس دن ٹیچر اینجلینا کے لیکچر کے بعد وہ غیر ارادی طور پر اس کے بارے میں جاننا چاہتی تھی
صبح اٹھ کر اکثر خالہ سے پوچھتی کہ وہ آیا تھا یا نہیں ۔۔۔۔!
کب آیا تھا ۔۔۔!
جا چکا ہے یا ابھی گھر پر ہی ہے ۔۔۔۔۔۔!
اور خالہ بھی ان کے سوالوں کا سرسری سا جواب دے دیتیں۔ کیونکہ یہ بات وہ بھی جانتی تھیں کہ عکانشہ اسے زیادہ پسند نہیں کرتی۔ جبکہ اس کی دونوں بہنوں کو اس کی بہت پرواہ تھی
ابھی بس سے اتر کر سیدھا گھر کے اندر داخل ہو ئی روز کی بانسبت آج سردی زیادہ تھی۔ ایسے میں ہیٹر ایک نعمت تھا ۔
کیا ہوا خالہ آپ پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔! وہ کافی دیر سے ان کے سامنے بیٹھی اپنے ہاتھ پیر سیک رہی تھی جب انہیں پریشان محسوس کیا تو وہ جو کب سےخاموش لگ رہی تھی اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگیں
کچھ نہیں بیٹا تم بتاؤ آج کا دن کیسا گزرا وہ اس کا سوال اگنور کرتیں اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرنے لگی لیکن عکانشہ بچی تو ہرگز نہیں تھی
خالہ بتائیں مجھے کیا ہوا ہے ۔۔۔!آپ اتنی پریشان کیوں ہیں۔۔۔۔! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ۔۔۔۔!اس کے لہجے میں فکرمندی تھی جبکہ نیلم بھی ان کے قریب آ بیٹھی
سٹیفن اور ایلکس زبردستی ہماری دکان چھیننا چاہتے ہیں میں بہت دنوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں ۔۔ وہ بہت کم قیمت دے رہے ہیں اور اتنی کم قیمت پر میں اپنی دکان انہیں نہیں بیچوں گی لیکن اب انہوں نے دوسرا حربہ آزمایا ہے وہ آئے دن مجھے تنگ کرنے لگے ہیں آج صبح تو دکان کا شیشہ توڑ دیا خالہ نے پریشانی سے بتایا
آپ نے یہ سب کچھ ہنی بھائی کو کیوں نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔! وہ خود ہینڈل کر لیں گے کمرے سے نکلتے سندس نے کہا
میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں چاہتی اور ہنی کب تک ہماری حفاظت کرے گا وہ ساری زندگی تو ہمارے پاس نہیں رہے گا نا کیوں ہم اس کے لیے جگہ جگہ دشمنیاں پال رہے ہیں میں نہیں چاہتی کہ یہاں سے جانے کے بعد ہنی کے لیے کوئی مصیبت بنے ہمارے لئے نہ جانے کتنے لوگوں سے لڑتا رہتا ہے بچارا بچہ خالہ نے پریشانی سے کہا
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر کوئی مصیبت آئے تو آپ مجھے بتائیں گے ہی نہیں گھر کے اندر داخل ہوتے ہنی نے غصے سے کہا
نہیں بیٹا میرا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے خالہ پریشانی سے بولی
آپ کا جو بھی مطلب ہے آپ پر کوئی پروبلم آئے تو مجھے بتانا آپ کا فرض بنتا ہے کے آپ مجھے سب کچھ بتائیں صرف بیٹا کہتی ہیں آپ مانتی نہیں اگر مانتی ہوتی تو یہ بات کبھی مجھ سے نہیں چھپاتیں۔ ۔۔ وہ غصے سے جس طرح سے آیا تھا اسی طرح سے نکل گیا جبکہ خالہ پریشانی سے اس کے پیچھے ہی گھر سے باہر نکلی تھی یقیناً وہ ان کی دوکان کے ساتھ والی دوکان پر جانے والا تھا جہاں پر وہ آتے ہوئے سٹیفین اور ایلکس کو بیٹھے دیکھ چکا تھا
بہت شوق ہے تمہیں یہ دکان خرید نے کا جتنی رقم دوکان کے مالک نے دوکان کی لگائی ہے اگر دینے کو تیار ہو تو دکان تمہاری ۔۔۔اگر اتنی رقم نہیں دوگے اور دوکان پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہارے ہاتھ پیر منہ توڑنے کی ذمہ داری میری وہ انگلش میں بولتے ہوئے اس کا گریبان پکڑ چکا تھا اس سوسائٹی میں سب ہنی سے کان مارتے تھے کیونکہ وہ سب کو اپنے کسرتی بازو کا مزاچھکا چکا تھا ۔
اس معاملے سے دور رہو تو بہتر ہوگا یہ تمہارا نہیں میرا اور ان محترمہ کا معاملہ ہے دکان ان کی ہے تمہاری نہیں اور دوکان انہوں نے دینی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اب وہ کرے گی تمہیں کوئی حق نہیں بنتا اس سب کے بیچ میں پڑنے کا تم ان کے کرائے دار ہو اس گھر کے یا دوکان کے مالک نہیں ایلکس نے گھبراتے ہوئے مگر ہمت دکھا کر کہا
لیکن اگلے ہی لمحے اس کے منہ پر ہنی کا پڑنے والا مکااس کا منہ بند کر چکا تھا عکانشہ جو کتنے دن سے یہاں آ کر بور ہو رہی تھی آج ایکشن سین دیکھ کر کچھ خوش ہوگئی سیٹفن ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ ہنی سے پنگا لینے کی غلطی وہ نہیں کرنا چاہتا تھا جبکہ ایلکس کافی دیر اس کے ہاتھ سے مار کھانے کے بعد اب ہاتھ باندھ کر معافی مانگ رہا تھا
آج کے بعد اس علاقے کے آس پاس بھی نظر مت آنا ورنہ ابھی ہاتھ پیر چلانے کے قابل ہو اگلی دفعہ اس کے بھی نہیں رہو گے وہ اسے دھکا دیتے ہوئے اس کی جیب سے پیسے نکالنے لگا عکانشہ کو آج دن سے اس کی بس یہی حرکت بری لگی تھی ایک تو ان کا حال بگاڑ دیا اور ان کی جیب میں جو پیسے تھے وہ بھی نکال لئے
یہ پکڑیں اور دوکان کا شیشہ لگوائیں جن لوگوں نے توڑا ہے برپائی بھی وہی کریں گے اس کے الفاظ پر عکانشہ اپنی سوچ پر شرمندہ ہو گی کیونکہ اسے لگا تھا کہ ہنی نے وہ پیسے اپنے لئے نکالے ہیں ۔
خآلہ نے بنا کچھ کہے پیسے تھام لیے انہیں یہ اصول اچھا لگا تھا جس نے نقصان کیا ہے برپائی بھی وہی کرے
اور اس کے بعد شروع ہوا نیلم اور سندس کی تعریفوں کا سلسلہ جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا ٹھیک ہے آج عکانشہ بھی اس کی فین ہو گئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اس کی اتنی ساری تعریفیں کرتی
°°°°°°°°°°
کچھ دن اور گزر گئے ۔ رات کو بیڈ پر لیٹی تو اچانک ہی اسے ہنی کا خیال آیا وہ گھر آیا ہے یا نہیں کیونکہ خالہ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کمرے میں جا کر سو چکی تھی جبکہ نیلم باہر بٹھی ہنی کے آنے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ اسے کھانے کے لئے پوچھ سکے کل نیلم کا بہت ضروری ٹیسٹ تھا جبکہ رات کے دو بج رہے تھے اور ابھی تک ہنی نہیں آیا تھا
سندس تو کب کی سوچکی تھی وہ اٹھ کر باہر آئی تو نیلم باہر ٹہل رہی تھی اسے بے ساختہ اس پر ترس آگیا
نیلم یار سو جاؤ آرام کرو اس ہٹلر پلس کھڑوس کو کھانا میں دے دوں گی اسنے آفر کی
ارے نہیں یار میں ہوں نا میں تو جاگ رہی ہوں اور مجھے نیند بھی نہیں آئی تم فکر مت کرو جاؤ آرام سے جا کر سو جاؤ اور ویسے بھی تمہیں تو بہانہ چاہیے میرے بھائی کو باتیں سنانے کا میں تمہیں یہ موقع ہرگز نہیں دے سکتی نیلم نے صاف انکار کیا
ارے یار کچھ نہیں کہتی میں تمہارے بھائی کو ۔۔۔ میں بات بھی نہیں کروں گی اگر ہاں کہا تو کھانا دے دوں گی اور اگر نہ کہا تو میں واپس کمرے میں آ کر سو جاؤں گی لیکن جس ٹیسٹ کی تم نے اتنی زیادہ تیاری کی ہے میں نہیں چاہتی کہ وہ کل تمہاری نیند کی وجہ سے خراب جائے اسی لیے بہتر ہو گا کہ شرافت کا چولا پہنتے ہوئے تم اندر کمرے میں چلی جاؤ
عکانشہ نے تھوڑا غصہ اور شرارت دکھاتے ہوئے کہا تو نیلم مسکراتے ہوئے اسے گڈنائٹ کہتی اندر چلی گئی
پانچ منٹ کے بعد جب وہ اپنا فون لینے کے لئے اندر آئی تونیلم گہری نیند سو رہی تھی اندر آنے سے انکار کر رہی اور اتنی سخت نیند آرہی تھی اسے پھر بھی ہنی کا انتظار کر رہی تھی اور نہ جانے یہ محترم کہاں ہے
وہ اپنا فون لے کر باہر صوفے پر آ بیٹھی
کچھ دیر میں وہ نشے کی حالت میں گھر میں قدم رکھتے ہوئے اندر داخل ہوا
نہ جانے کیوں اس کے نشے کی حالت سے اسے ہمیشہ خوف آتا تھا اب تو اس کے بارے میں جاننے لگی تھی کہ وہ کس طبیعت کا ہے خاموش طبیعت لڑاکو مزاج شرابی اور نا جانے کیا کیا یہ سب کچھ عکانشہ نے خود سے ہی اندازہ لگا لیا تھا
ایک دو بار اس کا دل چاہا کہ انجلینا میم کی بات پر عمل کرتے ہوئے اس کی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کرے
لیکن پھر اس نے ارادہ تبدیل کر لیا
کھانا کھاؤ گے۔۔۔ اس کے آنے پر اس نے فورا سے پوچھا ۔۔۔جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا
لیکن اس کی نظروں سے وہ صاف اندازہ لگا چکی تھی کہ آج اسے دیکھ کر اسے بالکل اچھا نہیں لگا شاید وہ آنٹی یا نیلم کا انتظار کر رہا تھا
اس نے ٹیبل پر کھانا لگایا تو وہ خاموشی سے شراب کی بوتل ساتھ رکھتے ہوئے کھانا کھانے لگا جس کی بدبو سے اس کا دل خراب ہونے لگا
تمہیں شرم نہیں آتی اس گھر میں تمہاری بہن اور ماں جیسی عورت رہتی ہے اور تم شراب پی کے آتے ہو اس سے نہ رہا گیا تو غصے میں کہنے لگی جبکہ وہ اس کی بات کا اثر لیے بغیر کھانا کھا رہا تھا
میں نے جب یہاں کرائے پر رہنا شروع کیا تھا تب آنٹی کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں شراب پیتا ہوں ان کو تواس بات پر اعتراض نہیں تھا تو اب کسی کے بھی اعتراض کرنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا
لیکن مجھے فرق پڑتا ہے تمہیں شراب نہیں پینی چاہیے یہ صحت کے لئے اچھی نہیں ہوتی وہ شراب کی بوتل کو اٹھانے لگی تو اگلے ہی لمحے وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا
میری ماں نہیں ہو تم ۔۔۔۔۔میری صحت کے لئے کیا اچھا ہے کیا برا یہ میں تم سے بہتر سمجھتا ہوں انتہائی غصے سے بوتل چھیڑنے لگا جب اگلے ہی لمحے عکانشہ نے بوتل زمین پر پھینک دی جس سے وہ کہیں ٹکروں میں تقسیم ہوگئی عکانشہ کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی جبکہ ہنی نے نہ صرف اسے غصے سے دیکھا بلکہ ایک جاندار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا
لیکن پھر اپنی بے اختیاری پر شرمندہ سا ہو کر پیچھے ہٹا
عکانشہ کو تو لگا جیسے آسمان اس کے سر پہ آگیا ہو وہ آنسو بھری نظروں سے دیکھنے لگی اس سے پہلے کہ وہ معافی مانگتا عکانشہ اسے دھکا دیتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بھاگ گئی
••••|
وہ صبح نیچے آیا تو عذرا بیگم ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور اس کے سامنے ناشتہ رکھنے لگیں ہنی بنا کچھ بولے بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا جب کہ نظریں بار بار کسی کی تلاش کر رہی تھی ۔لیکن اس کی چوری نیلم نے پکڑ لی۔
کیا ہوا بھائی آپ کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں یا آپ کو کچھ چاہیے نیلم نے پوچھا
نہیں کچھ نہیں تم بتاؤ تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے اس نے فورا بات بدلتے ہوئے پوچھا
میری پڑھائی تو ایک دم فرسٹ کلاس نیلم نے مسکرا کر جواب دیا ہاں لیکن حیران ضرور ہوئی تھی کیونکہ آج سے پہلے اس نے کبھی بھی یہ سوال نہیں کیا تھا ۔
ابھی وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا کہ وہ کمرے سے باہر نکلی چہرے پر انگلیوں کا نشان صاف نظر آ رہا تھا ۔
ارے عکانشہ بیٹا یہ تمہارے چہرے پر کیا ہوا ہے عذرا بیگم فکرمندی سے بولیں
کچھ نہیں خالہ جان بس میں کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کر رہی تھی اس نے مجھے میری اوقات یاد دلادی وہ جتلاتے ہوئے اسے مزید شرمندہ کر گئی ۔
رات کی حرکت کے لئے میں شرمندہ ہوں آئی ایم سوری بےاختیار مجھ سے وہ حرکت ہوگئی ہنی اٹھ کر معافی مانگنے لگا جبکہ اسے واقع ہی سب کے سامنے اس سے معافی کی امید ہرگز نہیں تھی ۔
اٹس اوکے اس وقت مجھے بھی آپ کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی شراب پینا یا نہ پینا آپ کا ذاتی معاملہ ہے خیر ایم سوری لیکن اس طرح بے اختیار کسی پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے ۔وہ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بتانا نہیں بھولی تھی۔
وہ اسے ناشتہ کرتے دیکھ ادھورا ناشتہ چھوڑ کر چلا گیا اور عذرا بیگم ارے ارے کرتیں رہ گئی
°°°°°
تھپڑ مار کر سوری بول دیا ہیں یہ کیا بات ہوئی اتنی ہی فضول ہوں میں کہ کوئی بھی آ کر تھپڑ لگا کر سوری بول دے اور ہوگئی سوری صبح سے کچھ کھایا تک نہیں جا رہا مجھ سے اور صارف کہتے ہیں بے اختیار غلطی ہوگئی سوری ۔لوجی ہوگئی معافی تم بھی تھپڑ مارو اور سوری بول دو وہ ایک انگریز کے سامنے کھڑی مسلسل بربڑا رہی تھی
جو اسے پاگل سمجھ ہی نہیں بلکہ کہہ رہا تھا
میں پاگل نہیں ہوں پاگل وہ ہے ٹھیک کہتی ہیں مس انجلینا ہمارے آس پاس بہت سارے مینٹل کیسز ہیں اور سب سے بڑا پاگل میرے گھر میں رہتا ہے کرائے دار بن کر ۔اس نے نیلم اور سندس کو جب کل رات کا واقعہ سنایا تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی
کیسی بہنیں تھیں اس کی جو اس کے سامنے اس کا مذاق اڑا رہی تھی
مجھے ہی کیا پڑی تھی اس پاگل سے بوتل لینے گئی پیتا ہے تو پیتا رہے گردہ پھٹے پا لیور مجھے کیوں اس کی پرواہ ہے
کیا۔۔۔! مجھے اس کی پرواہ ہے وہ خود سے سوال کرنے لگی
ارے مجھے اس کی کیوں پرواہ ہونے لگی میری طرف سے بھاڑ میں جائے ٹھیک ہے شکل تھوڑی اچھی ہے کافی ہینڈسم دیکھتا ہے ۔۔
کیا۔۔۔۔! وہ ہینڈسم ہے مجھے کیا پتا کیا میں نے اتنے غور سے دیکھا وہ ایک بار پھر خود سے سوال کرنے لگی
یا اللہ میں کیوں اسے اتنے غور سے دیکھنے لگی ہوں مجھے کیا مطلب کہ وہ ہینڈسم ہے یا نہیں اس کی شکل کیسی بھی ہو میرا کیا لینا دینا ۔کیا میں اسے اتنے غور سے دیکھنے لگی ہوں کہ مجھے وہ ہینڈسم لگتا ہے مجھے اس کی شکل اچھی لگتی ہے
۔
لیکن میں کیوں دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔! ہاں اس نے مجھے تھپڑ مارا ہے اسی لیے میں نے غور سے دیکھ لیا ہو گا
لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا بھاڑ میں جائے میری طرف سے میں اس کے بارے میں سوچ ہی کیوں رہی ہوں۔ مجھے اس کے بارے میں سوچنا ہی نہیں ہے وہ خود سے وعدہ کرتے ہوئے کلاس کی جانب چلی گئی
°°°°°°
نیلم تمہاری کلاس کب تک ختم ہو گئی مجھے دو تین چیزیں لینی ہیں میں شاپنگ کرکے واپس ہی آ جاؤں گی تم تب تک اپنی کلاسز ختم کر لینا
عکانشہ دماغ تو نہیں خراب ہوگیا تمہارا اس طرح کیسے اکیلے جاؤ گی ۔نیلم نے پریشانی سے پوچھا
اپنے پیروں پر ۔اس نے مسکرا کر جواب دیا ۔
یار ایک تو گھر اتنا پاس ہے لیکن تم لوگ پھر بھی بس پہ آتی ہو اور اتنا ڈرتی ہو تم دونوں ۔ میں چلی جاؤں گی یہ اتنا مشکل نہیں ہے اور ویسے بھی میں یونیورسٹی کے پاس ہی مارکیٹ میں جا رہی ہوں
تقریبا پندرہ منٹ میں دوبارہ تم سے یہی پر ملتی ہوں پریشان مت ہو وہ مسکرا کر کہتے ہوئے باہر کی جانب چلی گئی جب کہ نیلم اسے روک نہیں پائی تھی
لیکن فون کر کے عزرا کو ضرور بتا دیا
°°°°°°
ابھی وہ جا ہی رہی تھی کہ اچانک راستے میں دو انگریز اس کے سامنے آ رکے جن کی کوشش اس سے اس کا بیگ چھننا تھا اس نے آگے پیچھے دیکھا دور دور تک کوئی نہیں تھا اسے گھبراہٹ ہونے لگتی
اور گھبرا کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھاگتے انگریز نے اس کے سامنے چاقو نکالا ۔
بھاگنے کی کوشش مت کرنا یہ بیگ ہمارے حوالے کر دو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے اس نے انگریزی میں کہا ۔
لیکن وہ اپنا بیگ ان کے حوالے نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس بیک میں اس کی بہت ساری ضروری ڈاکومنٹس تھی ۔
اگر اپنی جان کی سلامتی چاہتی ہو تو وہ بیگ ہمارے حوالے کر دو انگریز نے پھر سے کہا
جب عکانشہ نے بھاگنے کی کوشش کی ۔وہ اپنا بیگ چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگنے لگی ۔ لیکن وہ رفتار میں اس سے زیادہ تیز تھے اس سے پہلے کہ وہ گلی کے نکڑ تک پہنچتی وہ لوگ اسے دوبارہ پکرنے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔
ڈر کے مارے اکانشہ کا پورا جسم کانپنے لگا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان انگریزوں کے سامنے رو دی تھی اب نہ جانے یہ لوگ اس کے ساتھ کیا کریں گے
ہم نے تم سے کہا تھا کہ صرف اپنا بیگ دے دو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے لیکن نہیں ہوشیاری دکھانے کی غلطی کی ہے تم نے اب اس کی سزا ضرور ملے گی وہ چاقو سے اس پہ وار کرتے ہوئے بولا لیکن اس سے پہلے کہ چاقو عکانشہ کو لگتا کسی نے پکڑ لیا
وہ جو اپنی آنکھیں بند کی اپنی آخری سانسوں کا انتظار کر رہی تھی خود پر حملہ ہوتے نہ دیکھ کر آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی جہاں اس کا مسیحا اس کے سامنے کھڑا انگریز کے بازو پر زور ڈالے ہوئے اس کے چاقو کو زمین پر گرا چکا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک ہاتھ سے مکہ بنا کر انگریز کے منہ پر مارا جب کہ ٹانگ دوسرے انگریز کو ماری ۔
اور پھر ان کی طرف بڑھتے ہوئے ان کی درگت بنانے لگا ۔
کچھ ہی دیر میں وہ عکانشہ کا بیگ وہیں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلے
جبکہ عکانشہ اسے شکرگزار نظروں سے دیکھتے ہوئے شکریہ ادا کرنے لگی
یہ پاکستان نہیں ہے لڑکی کہ جب تمہارا دل چاہے منہ اٹھا کر چل دو گی ایسے کیسز کی ذمہ داری یہاں کی پولیس بھی نہیں لیتی جو بہادر ہے لڑ سکتا ہے وہ نکلے اور جو کمزور ہے وہ گھر پہ ہی رہے یہ پیرس کے اصول ہیں وہ اسے گھورتے ہوئے بولا جبکہ عکانشہ تو پریشان تھی اس کے الفاظ پر وہ تو اتنے گن گن کا الفاظ کا استعمال کرتا تھا آج تو ہے دو تین جملے اس کے سامنے بول ڈالے
لیکن آج عکانشہ پر ایک اور راز فاش ہوا تھا وہ بات کرتے ہوئے بھی پیارا لگتا تھا ۔لیکن مجھے کیا لینا دینا اس کے بات کرنے کے انداز سے یا اس کے پیارے ہونے سے اس نے فورا اپنے خیال کو جھٹکا
آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ دوں اس نے آفر کی تھی
گھر نہیں ہیں یونی چھوڑ دو نیلم انتظار کر رہی ہوگی ۔وہ بنا شرمائے اس کی آفر قبول کر چکی تھی ۔
°°°°°°
اس نے آتے ہی نیلم کو ساری بات بتائی ۔نیلم تو شکر ادا کر رہی تھی کہ ہنی وہاں پہنچ گیا ورنہ نہ جانے وہ لوگ اس کا کیا حال کرتے ۔ہنی نے راستے میں ااے عذرا کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا اور یہی بات اس نے نیلم کو بھی بتا دی۔
نیلم کو بھی اپنی ماں کو کچھ بھی بتانا ٹھیک نہیں لگا تھا اور ویسے بھی اس کے بھائی نے منع کیا تھا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ نیلم کسی کو یہ بات بتا دے
۔
وہ لوگ گھر واپس آئے تو ہنی نہیں آیا تھا مطلب وہ اسے یونی چھوڑ کر کہیں غائب ہو گیا تھا اس نے تو گاڑی میں بھی اس سے کوئی بات نہیں کی تھی
اس کا دل چاہا کہ پوچھ ہی لے کیا بات کرنے کی پیمنٹ لیتے ہو ۔۔لیکن پھر ڈر بھی تھا کہ یہاں سے ایک اور ہی نہ لگا دے ابھی تو کل والا درد نہیں گیا تھا ۔اس لیے اس نے بھی اپنا منہ بند ہی رکھا
ہاں لیکن عذرا نے آتے ہی اس کی اچھی خاصی کلاس لی تھی اور کہا تھا کہ آج کے بعد وہ اکیلی باہر نہیں جائے گی اور آج سے تو اس نے خود بھی توبہ کر لی تھی کہ وہ کبھی اکیلی باہر نہیں جائے گی آج تو ینی آگیا لیکن ہمیشہ آئے گا اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی اور پیرس میں رہنے والے لوگ اپنی حفاظت خود کرتے ہیں اس بات کا اندازہ اسے اچھے سے ہو گیا تھا
°°°°°°
آج بھی اس نے ضرورت سے زیادہ پی لی تھی اس نے گھر میں قدم رکھا تو رات کے دو بج رہے تھے جب اس نے ٹیبل پر سر رکھے آدھے نیند میں عکانشہ کو دیکھا جو دروازہ کھٹکھانے کی آواز پر فورا اٹھ بیٹھی تھی
ارے آگئے تم تمہارے لیے کھانا لگاؤں اس نے ایک نظر شراب کی بوتل کو دیکھا اور پھر پوچھنے لگی ۔
نہیں میں کھانا کھا کر آیا ہوں وہ کہہ کر آگےجانےلگا۔
میں تین گھنٹوں سے یہاں تمہارا انتظار کر رہی ہوں اور تم باہر سے کھا کے آئے ہو وہ غصے سے پوچھنے لگی
میں نے تو نہیں کہا تھا میرا انتظار کرنے کو اس کے انداز پر وہ پیچھے مڑ کر بولا ۔
ہاں لیکن میں نے پھر بھی تمہارا انتظار کیا ہے تمہیں میرا دل رکھنے کے لیے کھانا چاہیے نہ جانے کیوں وہ گلا کرنے لگی ایک تو اسے اتنی زیادہ نیند آرہی تھی پھر بھی وہ اس کا انتظار کرتی رہی اور اب وہ کھانا کھانے کو تیار ہی نہیں تھا ۔
تمہارے دل سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے سمجھی تم ۔ تم اپنی مرضی سے یہاں بیٹھ کر میرا انتظار کر رہی تھی اور آئندہ مت کرنا اگر مجھے ضرورت محسوس ہو گی تو میں خود کھا لوں گا وہ انتہائی تلخ لہجے میں بولا ۔
جبکہ اس کے اتنے تلخ انداز پر عکانشہ خاموش ہوگئی ۔
تم بہت عجیب ہوں ہنی کل تم نے اپنے ہاتھ سے مجھے تکلیف پہنچائی آج اپنے لہجے سے پہنچا رہے ہو نہ جانے وہ کیوں چاہتی تھی کہ اسے احساس ہو کہ اس کا انداز عکانشہ کے لئے ناقابل برداشت ہے
اگر میرا لہجہ تمہیں تکلیف پہنچا رہا ہے تو مجھ سے بات مت کرو ۔وہ سفاک انداز میں کہتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔
جبکہ نیچے کھڑی عکانشہ اسے اوپر کی طرف جاتے دیکھ کر نہ جانے کیوں رو پڑی ۔
تم ایسے کیوں ہو ہنی۔ ۔۔!
کیا تمہیں کسی کی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیا تم ہمیشہ سے ایسے ہو کیا تم ایسے ہی رہو گے لیکن تم ایسے ہی رہو گے تو میرا کیا ہوگا وہ واپس اسی جگہ بیٹھ گئی جہاں ہنی کے آنے سے پہلے بیٹھی تھی ۔
میں کیوں اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں کیوں اس کا اندازہ مجھے تکلیف پہنچاتا ہے کیوں میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھ سے پیار سے بات کرے ۔کیوں میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھے پیار کرے ۔
کیا میں اس سے پیار کرتی ہوں ۔۔۔۔!
وہ خود سے سوال کرتے ہوئے خالی سیڑیاں دیکھ رہی تھی اس کے دل کی دھڑکن اسے جواب دے رہی تھی ۔لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو آئے ۔۔۔ اس کا دل چاہا کہ وہ بے تحاشا روئے
کیا اسے محبت ہو گئی تھی ۔۔۔!
کیا اسے اس شخص سے محبت ہوئی تھی ۔۔۔!
کیا اسے اسی شخص سے محبت ہونی تھی ۔۔۔۔!
اپنے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اس نے سنا تھا کہ محبت میں انسان روتا ہے بے تحاشا روتا ہے لیکن یہ کیسی شروعات تھی ۔کہ اس کا محبوب ہیں اسے تکلیف پہنچا رہا تھا یہ پہلا احساس پہلی مبحت اتنی تکلیف دا کیوں تھی
کیوں اس کا لہجہ اسے تکلیف دیتا تھا ۔۔۔۔!
۔کیوں اس کا اگنور کرنا اسے تکلیف دیتا تھا ۔۔۔۔۔!
کیوں وہ اسے تکلیف دیتا تھا ۔۔۔!
°°°°°°°°

اب محبت تو وہ کر بیٹھی تھی اب نبھانی تو تھی ہی چاہے حالات جو بھی ہو چاہے اب ہنی شرابی ہو یا کوئی اور بھی کچھ کیوں نہ ہو لیکن محبت کرنے کی غلطی تو وہ کر بیٹھی تھی
اور اب اس کا پیچھا کرنا اس کے ایک ایک منٹ کی خبر رکھنا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی آخر محبت کے اصول بھی تو نبھانے تھے ۔
اس پر نظر رکھنے کے لئے سب سے اہم ترین کام تھا اس کے بارے میں جاننا ہے اس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کے بارے میں سب کچھ جانے گی
وہ کیا کرتا تھا۔۔۔۔!
کہاں جاتا ہے۔۔۔۔!
کہاں سے آتا ہے۔۔۔۔!
دن بھر کہاں رہتا ہے ۔۔۔۔!
ایک ایک سوال کا جواب اسے چاہیے تھا یعنی اس کی ساری انفارمیشن نکالے گی یہ تو وہ جانتی تھی کہ وہ خود اسے کچھ نہیں بتائے گا نہ ہی اسے منہ لگائے گالیکن وہ کہیں سے بھی پتہ لگا لے گئی ۔
لیکن وہ بھی عکانشہ تھی کہیں نہ کہیں سے تو اس نے بھی ساری معلومات اکٹھی کر ہی لینی تھی اور سب سے پہلے اس کا شکار تھی خالا اور نیلم جو اس کے بارے میں زیادہ نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ تو جانتی تھی ۔
°°°°°°°°
سچ سچ بتاو عکانشہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے آخر ہو گیا ہے تمہیں کیا سوچ رہی ہو اور اس کے کمرے میں کیوں جانا چاہتی ہو اور اس کے بارے میں اتنے سوال کیوں پوچھ رہی ہو تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے خالہ نے جناچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
خالہ میرا ارادہ اسے آپ کا جمائی راجہ بنانے کا ہے وہ بنا شرمائے بولی خالہ تو پریشان نظروں سے دیکھنے لگی
جھٹکا تو نیلم اور سندس کو بھی بہت زور کا لگا تھا ۔لیکن ماں کو پوچھتے دیکھ کر وہ دونوں خاموشی سے سن رہی تھی جب کے وہ نون اسٹاپ بولے جارہی تھی ۔
تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا خالا نے پریشانی سے پوچھا
وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ضرور وہ کسی شرارت کو سوچ کر ہنی کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہی ہو گی لیکن یہاں تو اس نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا تھا
خالا اس میں دماغ خراب ہونے والی کونسی بات ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں جلد سے جلد اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی ہوں اور اس کے لیے مجھے آپ سب کی مدد کی ضرورت ہے
وہ تو ویسے بھی تم دونوں کا بھائی اور آپ کے بیٹے جیسا ہے تو میں بھی تو آپ کی بیٹی ہوں تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے ظالم سماج بننے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے وہ ان تینوں کو وارن کرتے ہوئے بولی
جب کہ وہ تو ہکا بگا اسے دیکھے جا رہی تھی
وہ کبھی تم سے شادی کےلئے تیار نہیں ہوں گے وہ تمہیں بالکل پسند نہیں کرتے نیلم نے فورا کہا تھا
تمہیں بیچ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے نند ہو نند بن کر رہو ساس بننے کی ضرورت نہیں ہے اس کام کے لیے خالہ ہیں تو ۔ہیں نہ کیوں خالا ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ میں پلیز میری مدد کریں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔وہ مینتں کرنے لگی
لیکن ہمیں کرنا کیا ہوگا عکانشہ خالا نے ہار مانتے ہوئے پوچھا
وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ ہنی خوش رہے اس طرح اکیلا تنہا نہ رہے اب وہ ہنستا بولتا نہیں تھا کسی سے بات نہیں کرتا تھا اپنا دکھ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتا تھا
لیکن اس کی آنکھوں میں کتنا درد تھا یہ تو وہ ہمیشہ سے دیکھتی آئیں تھیں وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں کوئی ایسا انسان آجائے جو اسے خوشیوں کا مطلب سمجھ آئے
اور عکانشہ ہی وہ لڑکی تھی جو اسے خوش رکھ سکتی تھی اسے زندگی کی خوشیوں سے روشنا کروا سکتی تھی۔
دیکھو عکانشہ یہ سب کچھ اگر تم ہنی کے ساتھ مذاق یا اسے ہرٹ کرنے کے لئے کر رہی ہو تو یاد رکھنا اگر اس بچے کو تکلیف ہوئی تو میں ساری زندگی معاف نہیں کروں گی
خالہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تو عکانشہ کو ان پر پیار آیا جو اپنے بھانجی کا ساتھ دینے کے بجائے اس انجان لڑکے کا ساتھ دے رہی تھی ۔
آپ لوگوں کو کچھ نہیں کرنا کھانا سب کچھ میں کروں گی آپ لوگ بس میرے ساتھ رہے گا فی الحال میں اس کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا بناوں گی تاکہ رات کو آ کر وہ میرے ہاتھ سے کھانا کھائے
میں چاہتی ہوں اسے جلد ہی عادت ہو جائے میرے ہاتھ کا کھانا کھانے کی اور پلیز آپ بے فکر ہو جائے میں اسے بالکل ہرٹ نہیں کروں گی اور نہ ہی کسی کو کرنے دوں گی اس نے ایک آنکھ دبا کر خالہ سے کہا
جبکہ سندس تو اس کے ہر قدم پر اس کے ساتھ ساتھ تھی آخر اس کی وجہ سے اس کے بھائی کی زندگی میں کوئی لڑکی آنے والی تھی
ہو سکتا ہے وہ چینج ہو جائے سب سے ہنس کھیل کر باتیں کرنے لگے زندگی کے حسین رنگوں کو جاننے لگے ۔خوش رہنے لگے۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی اسے اپنا بھائی مانتی تھی اور وہ چاہتی تھی
کہ اس کا بھائی اس کی ہر خوشی میں اس کے ساتھ ہو تو ہر مصیبت میں تو اس کے ساتھ کھڑاہوتاتھا لیکن وہ اسے اپنی خوشیوں کا حصے دار بنانا چاہتی تھی
°°°°°°°°
رات کو وہ گھر واپس آیا تو روز کی طرح آج بھی کوئی نہ کوئی اس کے انتظار میں تھا اور اتفاق سے آج بھی وہی تھی اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کا موڈ خراب ہو جاتا ۔
وہ ا اس سے بالکل بات نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے کل بھی بھوک ہونے کے باوجود وہ بنا کھانا کھائے اپنے روم میں چلا گیا اور اب بھی وہی اس کے سامنے کھڑی تھی
عجیب لڑکی تھی مہمان تھی تو مہمان بن کر رہے گھر کی مالکن کیوں بن رہی تھی اسے غصہ تو بہت آیا لیکن آج اسے بہت سخت بھوک لگی تھی
وہ اسے دیکھتے ہی ٹیبل پر کھانا لگانے لگی کھانا کھا کے آئے ہوئے کھاؤ گے ۔۔۔۔۔!
اگر کھا کے بھی آئے ہو تو بھی کھا لو کیوں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے میں کھانا لگا رہی ہعں تم ہاتھ منہ دھو کر آو
اورہاں یہ شراب کی بوتل اندر رکھ آنا مجھے اس سے اسمل آتی ہے اور میرا دل خراب ہوتا ہے
عجیب حکم تھا لیکن ہمیں بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں چلا گیا واپس آیا تو کھانا لگا چکی تھی وہ خاموشی سے ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا وہ دوبارہ پہلے والی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا اسے تھپڑ مار کے وہ پچھتا رہا تھا نہ تو وہ اس پر کوئی حق رکھتا تھا اور نہ ہی اس سے بات کرنا چاہتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی اس حرکت کو لے کر شرمندہ بھی تھا
خاموشی سے بیٹھ کر کھانا کھانے لگا جب کہ وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر اسے گھور کر دیکھ رہی تھی
کیا مسئلہ ہے تمہیں کچھ چاہیے کیا وہ سرد آواز میں بولا
ہاں مجھے بہت کچھ چاہیے لیکن تم آرام سے کھانا کھا لو میں خوف بنایا ہے اپنے ان ہاتھوں سے اس نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے کیے جیسے وہ خوشی سے اس کے ہاتھ ہی چوم لے گا
تمہارا بہت شکریہ لیکن آئندہ کھانا مت بنانا تم بہت خراب کھانا بناتی ہو۔اور اگر تمہارا کھانا بنانا اتنا ہی ضروری ہے تو پلیز آنٹی سے کہہ کر مجھے فون کر کے بتا دینا کہ کھانا تم نے بنایا ہے
میں باہر سے کھا کے آؤنگا وہ بھی جتلاتے ہوئے لہجے میں بول کر دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا اور دو تین نوالے لے کر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
جیسا بھی بناتی ہوں کھانا تو تمہیں ایسا ہی ملے گا
اب بھی اور فیوچر میں ہی بہتر ہے اسی کی عادت ڈالو وہ برتن پٹخ کر ٹیبل سے اٹھاتی کچن کے سنگ میں پھینک کر اندر چلی گئی
جہاں نیلم اس کا چہرہ دیکھ کر قہقہ لگائے بنا نہیں رہ سکتی تھی
ہنسنا بند کرو اور جا کر برتن واش کرو تمہارے بھائی صاحب نے کھانا کھا لیا ہے وہ انتہائی غصے سے اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولی جب کہ نیلم قہقہ لگاتے باہر آ گئی تھی
°°°°°°°°
اب کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں عکانشہ تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں نیلم برتنوں واش کر کے آئی تو اسے چھت کو گھورتے ہوئے دیکھا
مجھے دیکھنا ہے کہ ہنی اس وقت کیا کر رہا ہے وہ سیریس انداز میں بولی
مطلب اب تم جاسوسی بھی کرو گی نیلم کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا
پیار میں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے میری جان تم نہیں سمجھو گی وہ اٹھ کر آہستہ آہستہ اوپرکی طرف جا رہی تھی
اس نے دروازے کے لاکر سے تھوڑے سے سراخ سے جھانک کر دیکھا لیپ ٹاپ پر کوئی ویڈیوز چل رہی تھی اسے فوراً ہی سمجھا گیا کہ وہ کسی سے بات کرنے میں لائیو چیٹ ویڈیو پر مصروف ہے
امی جان کیوں چاہتی ہیں آپ کے میں اپنے ملک واپس نہ آوں کیوں چاہتی ہیں آپ کے میں اپنی بہن کی شادی میں نہ آوں آج بھی اگر مریم مجھے فون کرکے نہیں بتاتی تو مجھے تو پتا ہی نہیں چلتا کہ میری بہن کی شادی ہے
میں پاکستان آ رہا ہوں بس بات ختم میری بہن کی شادی ہے اور مجھے کسی نے بتایا نہیں۔ میں آ رہا ہوں پاکستان اور اب چاہے جو بھی ہو جائے میں نہیں رکوں گا
بہت سہہ لیا میں نے بہت برداشت کر لیا میں نے کسی سے نہیں ڈرتا میں اس کے لہجے سے انگارے پھوٹ رہے تھے وہمجس طرح سے بات کر رہا تھا اس کے لہجے نے تو عکانشہ کو بھی سہمنے پر مجبور کر دیا
مطلب کے یہ پاکستان جا رہا ہے عکانشہ نے خود سے کہا اور پھر اس کی بات سننے میں مصروف ہو گئی
سمجھنے کی کوشش کرو حنان تمہاری جان کو خطرہ ہے میں تمہاری جان پر کوئی رسک نہیں لے سکتی اور مریم کی آج نہیں تو کل ہم نے شادی تو کرنی ہی تھی نہ اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے تمہارے یہاں نہ آنے پر لیکن سمجھنے کی کوشش کر
تمہاری جان کو یہاں خطرہ ہے
میری جان کو خطرہ ہے بس اسی ڈر سے آپ لوگوں نے مجھے زبردستی یہاں بھیج دیا اس نے گیارہ مہینوں سے گھوٹ گھوٹ کر جی رہا ہوں امی سمجھنے کی کوشش کریں میں پاکستان آنا چاہتا ہوں
وہ تڑپ کر بول رہا تھا جبکہ عکانشہ کو تو بس ایک ہی بات سمجھ آرہی تھی کہ پاکستان میں اس کی جان کو خطرہ تھا
پاکستان میں ایسا کیا ہوا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے
اس کی بہن کی شادی ہے تو یقینا یہ پاکستان ضرور جائے گا اور اس کی ضد بتا رہی تھی کہ یہ پاکستان جا کر ہی دم لے گا
لیکن میں اسے اکیلے نہیں جانے دوں گی ۔۔میں اس کے ساتھ جاؤں ۔۔اگر اس کی جان کو خطرہ ہے تو مجھے اس کے ساتھ جانا ہی ہو گا
میں اسے نہیں چھوڑ سکتی ہنی نہیں حنان صاحب تم میرے ہواور اپنے بغیر تمہیں گھر سے بھی باہر نہیں نکنے دوں گی خالا کے پاکستان جانے دوں گی
نیور ۔۔۔۔اب تم جہاں بھی جاؤ گے جس نگر بھی جاؤ گے عکانشہ تمہارے ساتھ ساتھ آئے گی تمہارے ہر قدم کے ساتھ قدم ملاکو وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی خود سے بڑبڑا رہی تھی
تم سامان کیوں پیک کر رہی ہو نیلم پریشانی سے سامان پیدا کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی
میں یہاں سے جا رہی ہوں اس نے مصروف انداز میں کہا
لیکن کہاں۔۔۔۔! نیلم پریشان ہوئی
ارے یار اپنے ہونے والے کے ساتھ پاکستان جا رہی ہوں وہ پاکستان جانے والا ہے اور وہاں اسے خطرہ ہے ایسی کنڈیشن میں اسے اکیلے تو نہیں جانے دے سکتی نہ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اس کے ساتھ ہی جاؤں گی
اور اس کے ساتھ ہی رہوں گی آخر مجھے اس کا ساتھ دینا ہے اس کی حفاظت کرنی ہے اب وہ میرا ہونے والا شوہر ہے میں اسے اکیلے نہیں جانے دے سکتی اب اس کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے
عکانشہ اپنا سامان کرتے ہوئے کہا جبکہ نیلم کو تو اس کی ایک بات سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
عکانشہ فضول بولنا بند کرو اور مجھے بتاؤ کہ یہ سب کچھ تم کیا کر رہی ہو اب وہ سیریس انداز میں بولی کیونکہ کب سے اس کی فضول گوئی سن سن کر تنگ آ چکی تھی ۔
کچھ نہیں کر رہی یار اپنا سامان پیک کر رہی ہوں وہ کل پاکستان جانے والا ہے کسی سے بات کر رہا تھا وہ اوپر اور وہ آنٹی جو اس سے بات کر رہی تھیں شاید اس کی ماں ہیں وہ کہہ رہیں تھیں کہ وہ اس کی جان کو خطرہ ہے اور اسے وہاں نہیں آنا چاہیے اور اگر ایسا ہے تو میرے خیال میں مجھے اس کے ساتھ جانا چاہیے تھا
اورکچھ بھی نہ سہی میں پولیس کو انفارم کر سکوں گی ۔جانتی ہوں وہ مرد ہے اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے میں اس کی حفاظت نہیں کر سکتی میں بس اس کے ساتھ جانا چاہتی ہوں کہ اگر اس کی جان کو کوئی خطرہ ہو یا ایسا کچھ بھی ہو تو میں اس کی کچھ مدد کر سکوں
اور ویسے بھی اس سے شادی کرنے کے لئے مجھے اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہیے اور شادی کرنے کے لئے سب سے ضروری تو پیار ہوتا ہے اور اس کے پاکستان میں اور میرے یہاں رہنے سے پیار تو ہونے سے رہا
ہمیں ساتھ رہنا ہوگا سو اسی بہانے ہماری آوٹنگ بھی ہو جائے گی اب مجھے سامان پیک کرنے دو وہ اسے سب کچھ سمجھاتے دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو چکی تھی
جبکہ نیلم کو اس سر پھری لڑکی کے بارے میں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا اسی لیے سونے کے لئے چلی گئی ۔
°°°°°°°°
بیٹا تمہارا جانا اتنا ضروری ہے کیا ۔۔۔! عذرا نے پوچھا
جی آنٹی میرا جانا بہت ضروری ہے اسی لیے تو جا رہا ہوں میں جلد واپس آ جاؤں گا
آپ اپنا بچیوں کا اور اپنا خیال رکھیے گا۔اور کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے فون ضرور کیجئے گا
وہ کہہ کر باہر جانے لگا جب عکانشہ کو اپنا سامان لے کر نکلتے دیکھا
رکو میں بھی تمہارے ساتھ آ رہی ہوں مجھے بھی اچانک پاکستان جانا پڑ رہا ہے خالہ باقی سب باتیں آپ کو نیلم بتا دی ہیں وہ نیلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
اور اپنا سامان ہنی کی گاڑی میں رکھنے لگی جس پر ہانی نے اسے گھورا تھا
یار تمہارے ساتھ ایئرپورٹ تک تو آ ہی سکتی ہوں میں نے کبھی بھی ایجنسی ٹکٹ نہیں خریدا اس کے لیے تمہیں میری مدد کرنی ہوگی اور اگر تم ان سب کی اتنی مدد کر سکتے ہو تو میں بھی کرو میں بھی انہیں اپنی ہوں چاہو تو پوچھ سکتے ہو ان سے اس نے معصوم شکل بنا کر کہا تو وہ بنا کچھ بولے ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا
یہ کہاں جارہی ہے اس طرح سے اچانک ہوا نیلم مجھے بتاؤ عذرا پریشان ہوئیںں
امی میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں آپ اندر چلیں بھائی کو خداحافظ کہہ کے آتی ہوں نیلم عذرا کے سوالوں سے بچنے کے لئے فورا اس طرف جا چکی تھی ۔
بھائی پلیز اس کا بہت خیال رکھیے گا یہ بالکل پاگل ہے اپنا دھیان نہیں رکھ پائے گی اسی لیے اسے آپ کے ساتھ بھیج رہی ہوں پلیز پلیز پلیز میرے لیے اس کا خیال رکھیے گا اور پلیز اس آیت کے لئے مت چھوڑئیے گا
وہ ہنی کی منتیں کرنے لگی جس پر اپنی آنکھوں پر گلاس چرائے وہ صرف ہاں میں سر ہلا گیا جب کہ اپنی بہن کی محبت پرعکانشہ تو صدقے واری جا رہی تھی
°°°°°°°°
ان دونوں کے ایک ہی فلائٹ تھی لیکن سیٹ الگ الگ اور فاصلے پر تھی جس پر ان کا عکانشہ منہ بسور ایک طرف ہو کر بیٹھی تھی جہاں اس کے ساتھ ایک جوان ماڈرن سی لڑکی تھی جو اسے دیکھ کر بار بار مسکرا رہی تھی جب ہنی کے ساتھ کوئی بوڑھی عورت تھی ۔
وہ کافی دیر ہنی کو دیکھتے رہیں تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد ہنی اٹھ کر رسٹروم میں گیا یہی موقع تھا ہنی کے پاس جانے کا وہ فورا آنٹی کے پاس آئی
ایکسکیوز می کیا آپ میرے ساتھ سیٹ ایکسچینج کرسکتی ہیں وہ کیا ہے نہ کی میرے شوہر کافی ان کنفرمٹیبل ہے اگر آپ بہتر سمجھیں تو پلیز
آؤ تو وہ ہینڈسم کڑوس تمہارا شوہر ہے اسی لئے اپنے پاس بیٹھی اتنی حسین لڑکی کو بھی نہیں دیکھا آنٹی نے مسکراتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا
جی وہ کڑوس میرے شوہر ہیں اور میرے یہاں اپنے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے تو یوں کڑوس کی طرح منہ بنا کر بیٹھے ہیں اگر آپ کی اجازت ہو تو چینج کر لیں
ہاں بیٹا کیوں نہیں اتنا ہینڈسم لڑکا اور اس طرح سے منہ بنا کر بیٹھا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تم یہاں اپنے شوہر کو کمپنی دو میں تمہاری سیٹ پر بیٹھ جاتی ہوں انہوں نے فوراً مانتے ہوئے کہا ۔
جس پر مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہنی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی اور جب ہی واپس آیا اسے اپنے ساتھ بیٹھے دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔!
وہ آنٹی تمہیں لے کر کافی ان کنفرٹیبل تھی انہوں نے مجھ سے کہا کہ سیٹ چینج کر لواگر تم اس لڑکے کو جانتی ہو عجیب کھڑوس اکڑو لڑکا ہے تو مجھے بھی تم کچھ ایسے ہی لگتے ہو اسی لیے میں نے ان کی مشکل آسان کردی وہ احسان جتانے والے انداز میں بولی
جبکہ ہنی بنا کچھ کہے اپنے منہ پر رومال ڈال کر اسے بالکل نظر انداز کرکے آج پر عکانشہ کھول کر رہ گئی ۔
°°°°°°°°
وہ لوگ اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترے تھے اور نیکسٹ فلائٹ سے اسے کراچی بھیجنے کا ارادہ رکھتا تھا جس کے لیے وہ سارا کام بھی خود کر رہا تھا
تم کیا کر رہےہو۔۔۔!
تمہیں کراچی بھیجنے کے لیے ٹکٹ بک کروانے جا رہا ہوں
لیکن اس کی ضرورت نہیں ہے عکانشہ نے فورا کہا
کیوں ضرورت نہیں ہے کیا تم اسلام آباد کی رہنے والی ہووہ پوچھنے لگا
نہیں میں کراچی کی رہنے والی ہوں لیکن یہاں میں تمہارے ساتھ ہوں تو تمہارے ساتھ رہوں گی میرے گھر میں تو کسی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ میں آرہی ہوں ۔
اور وہ تمہاری بہن نے کیا کہا تھا مجھے بالکل اکیلے مت چھوڑنا میرا بہت سارا خیال رکھنا اور اپنے ساتھ رکھنا ۔
اسی لیے تو میں آئی ہوں یہاں تمہارے ساتھ اپنے گھر کراچی تو میں مر کر بھی نہ جاؤں گھر کہاں ہے تمہارا گھر اسلام آباد کے رہنے والے ہو تم ۔۔۔! وہ اس کا اور اپنا بیگ گھسیٹتے ہوئے ایئرپورٹ سے باہر جا رہی تھی جب کہ ہنی اسے دیکھتے اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا
او بے وقوف لڑکی کہاں جانا ہے تم نے صاف صاف بتاؤ یہاں میرے پیچھے کیوں آئی ہو وجہ کیا ہے اب ہنی کو اس بے وقوف لڑکی پر غصہ آ رہا تھا
دیکھو میں نے کل رات تمہاری باتیں سنیں تھی تمہاری امی کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں تمہیں خطرہ ہے اسی لیے میں یہاں آئی ہوں ۔اور اب تم یہ بھی پوچھنا چاہو گے کہ ایسا کیوں۔۔۔۔!
تو بات گھمانے کی عادت نہیں ہے مجھے صاف صاف بتا رہی ہوں اچھے لگتے ہو تو مجھے پسند کرنے لگی ہوں تمہیں آسان الفاظ میں اپنے سپنوں کا راج کمار ماننے لگی ہوں آئی سمجھ
اس لئے اگر تمہارا کوئی افیئر وغیرہ چل رہا ہے تو اسے ختم کر دو کیونکہ اب تمہاری لائف میں میں آ گئی ہوں عکانشہ تمہاری عاشی۔
چٹاخ۔ ۔۔ عکانشنہ جانے ابھی کیا کیا بولے جا رہی تھی جب ہانی کا ہاتھ ایک بار پھر سے اس کا نہ گال سرخ کر گیا
خبردار جو آج کے بعد میرے سامنے آئی دفع ہو جاؤ یہاں سے بے وقوف لڑکی کتنا جانتی ہو مجھے کتنا پہچانتی ہو میرے پیچھے پیچھے یہاں گی۔اپنی عزت کی ذرا بھی پروا ہے تمہیں اگر میں تمہیں راستے میں یہاں پر تمہارے ساتھ کچھ بھی الٹا سیدھا کردوں تو کیا منہ لے کر جاؤ گی اپنے ماں باپ کے پاس
کون سی دنیا میں نکل پڑی ہیں لڑکیاں۔اپنے عزت اپنی عصمت کو اتنا بے مول کر دیا ہے تم لوگوں نے تمہارے باپ نے یقین کر کے تمہیں خود سے دور بھیجا ہے اور تم یہ سب کچھ کرتی پھر رہی ہو بے وقوف لڑکی اب یہاں سے سیدھی کراچی جاؤ گی ۔
اور خبردار پھر کبھی کسی کی پرائیویٹ کال سنی۔ پسند کرتی ہے ۔مائی فٹ وہ غصے سے وارن کرتا ہوں وہاں سے نکلتا چلا گیا جبکہ عکانشہ اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی
حنان کو یقین تھا کہ اتنا بھرپور تھپڑ کھانے کے بعد وہ اسکا پیچھا ہرگز نہیں کرے گی ۔
°°°°°°°°
وہ سیدھا گھر ہی آیا تھا جہاں اس کی ماں اور بہن بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی وہ ان دونوں سے ملا یہ جو اس سے مل کر جہاں آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے ہوئے تھیں وہی ان کی آنکھوں میں ڈر بھی وہ صاف پڑھ سکتا تھا
امی جان پلیز رونا بند کریں ۔اتنے دنوں کے بعد آیا ہوں اور آپ ہیں کہ رونے بیٹھ گئیں ہیں ۔
تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا حنان اگر ان لوگوں کو پتہ چل گیا تو نہ جانے کیا کر دیں گے امی نے روتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا
امی میں کسی سے نہیں کرتا بس بہت ہو گیا کب تک یوں ڈرڈر جیتے رہے آج نہیں تو کل موت تو آنی ہی ہے اور جس طرح کی زندگی میں جی رہا ہوں قسم سے ایسی زندگی سے موت بہتر ہے ۔
چھوڑیں یہ ساری باتیں اور رونہ بند کریں میں فریش ہو کر آتا ہوں تب تک میرے لئے کچھ اچھا سا کھانے کو بنائیں فلائٹ میں بھی کچھ نہیں کھایا بہت بھوک لگی ہے وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دہائی دینے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ماں بیٹی مسکرا کر اس کے لیے کھانے کا انتظام کرنے لگیںں
°°°°°°°°
وہ کب سے اس گھر میں گھوم گھوم کر گھر کا ایک ایک کونہ چیک کر رہی تھی گال ایک طرف سے بری طرح سے سوجا ہوا تھا لیکن اس کا دھیان اپنے گال کے درد پر نہیں بلکہ اس گھر پر تھا
جو نہ تو اتنا چھوٹا تھا اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ برا
ایکسکیوزمی کون ہیں آپ اور اس طرح سے اندر کیسے چلی آئی۔۔۔۔۔!
مریم جو کچن سے باہر کسی کام کے سلسلے میں آئی تھی انجان لڑکی کو دیکھ کر پوچھنے لگی جو مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی
تمہاری شادی ہونے والی ہے نہ ہنی یہی آیا ہے نا
یہی آیا ہے میں نے دور سے دیکھا تھا اسے اندر آتے ہوئے خیر مجھ سے ملو میں تمہاری بھابھی عکانشہ۔مطلب ہونے والی بھابھی پیرس میں کیا فرق پڑتا ہے ہوچکی ہویا ہونے والی یو نو واٹ آئی مین
وہ۔مسکرا کر اس سے ملتے ہوئے پھر سے گھر دیکھنے کی طرف متوجہ ہو چکی تھی جبکہ مریم حیرانگی سے دیکھ کر کچن کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں دروازے پر کھڑی اس کی ماں بھی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی ۔
سنو لڑکی کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو ان کے لہجے میں خود بخود غصہ بھرنے لگا تھا
آنٹی میں ہنی کی آئی مین میں نے اسے پسند کرتی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں ویسے آپ کا بیٹا ضرورت سے زیادہ کڑوس اور اکڑو ہے کوئی بات نہیں میں اسے سیدھا کر لوں گی اگر آپ کی اجازت ہو تو
عکانشہ پہلی بار کسی سے بات کرتے ہوئے اتنی ہچکچا رہی تھی ۔
تو کیا آپ مجھ سے اپنی بہو تسلیم کریں گی وہ ان کے سامنے انتہائی معصوم سی شکل بنا کر بولی ۔
تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے لڑکی ہنی میرا بیٹا نہیں داماد ہے
اور اس کا بھائی نہیں بہنوئی ہے ۔آنٹی نے ایک نظر سیرھیوں سے نیچے اترتے ہنی کو دیکھ کر کہا ۔
مطلب کے وہ شادی شدہ ہے عکانشہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا ایسا لگا جیسے دل کی دنیا ویران ہو گئی ہو جب کہ ہنی جس طرح خاموشی سے سیڑھیاں اتر رہا تھا اسی طرح کسی دوسرے کمرے میں گھس گیا جیسے اسے منہ لگانا چاہتا ہو۔
ہانی کی بے رخی سے اس کے ہر سوال کا جواب دے چکی تھی اس کا یہاں رہنا فضول تھا اسی لیے اس نے جانا بہتر سمجھا
محبت کرتی ہو اس سے اس کے قدم دروازے کی طرف جاتے دیکھ کر آنٹی کی آواز آئی ۔
اس نے ایک زخمی سی نظر ان کی طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا
یہاں کیوں آئی تھی۔۔۔۔!
اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کے لئے اس کی آواز میں صاف لڑکھڑاہٹ تھی جیسے کچھ پانے سے پہلے کھو دیا ۔
یہ کیسی محبت ہے کہ تم اس کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر یوں ہی جا رہی ہو اگر محبت کرنے کی ہمت کر ہی لی ہے تو اس کے بارے میں سب کچھ جان بھی جاؤ ان کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ عکانشہ باہر کی طرف ایک اور قدم نہ اٹھا پائی۔

ماضی۔
وہ چاروں بھاگتے ہوئے اس نیو بلڈنگ کی سیڑھیاں طے کر رہے تھے نہ جانے کیا ہونے والا تھا سب کی سانس پھولی ہوئیں تھیں وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت تک پہنچے جہاں ان کا جان سے پیارا دوست آس اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا ۔۔
وہیں رک جاؤ حنان میرے پاس مت آؤ پلیز وہ بلڈنگ کے دیوار پر کھڑا بس کودنے ہی والا تھا ۔جبکہ اس کی بات پر حنان کو مزید غصہ چڑھا دیا
ہاں ٹھیک ہے مر جاؤ ہم میں سے کوئی آگے نہیں بڑھے گا تمہیں مر ہی جانا چاہیے تم جیسا محبت میں ناکام عاشق مرنے کے لیے تو پیدا ہوا تھا کیا فرق پڑتا ہے کہ تمہاری ماں ہر دن کے ساتھ ہماری زندگی کی دعائیں مانگتی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ تمہارا باپ تمسے امید لگائے بیٹھا ہے
مر جاؤتمہاری بہنیں کنواری رہیں انہیں اس کے بھائی کی خودکشی کی وجہ سے کوئی نہ اپنائے لیکن تم تو مثال قائم کرنے جا رہے ہو مر جاؤتمہیں تو مر ہی جانا چاہیے
ہاں لیکن تم ایک بات یاد رکھو کہ اپنی محبوبہ کے عشق میں سب سے اچھے عشق ثابت ہو کر دنیا میں ایک مثال قائم کر دو گے لیکن اپنے اپنوں کو جلتی آگ میں جھنک جاو گے لیکن تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ تم ایک اچھے بھائی نہیں بن پائے اچھے بیٹے نہیں بن پائے اپنے باپ کا سہارا نہیں بن پائے گا لیکن ناکام عاشق بن کر خود کشی کر کے تو مر جاؤ۔
لیکن مرنے سے پہلے مجھے ایک بات کا جواب دے دو تمہاری ماں تمہاری بہنیں تمہارے باپ کو کیا کہیں گے ہم کیوں خودکشی کی تم نے کیونکہ ایک لڑکی کا عشق تمہارے لئے ان سب کی محبتوں سے بڑھ کر تھا یہی وجہ ہے ۔۔۔!
حنان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا جب کہ وہ اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا
حنان میں ہار گیا اس کے پیار میں ہار گیا میں کیا کروں کہ اسے بھول جاوں میں نے ہر وہ کام کیا جو وہ چاہتی تھی اور آج وہ کسی اور کی دلہن بننے جا رہی ہے میرا دل جل رہا ہے میں کیا کروں رہا ہوں آس آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
تمہیں کیا کرنا ہے یہ میں تمہیں بتاؤں گا رونے سے کچھ نہیں ہوگا اس کا
چلو تمہارے عشق کا انتقام لیتے ہیں وہ لڑکی جو تمہیں اتنےسالوں تک وہ تمہیں بےوقوف بنا کر لوٹتی رہیں
آج وہ لٹے گی سب کے سامنے۔۔۔
ایسا کچھ بھی سوچنا بھی مت اس کی زندگی برباد ہو جائے گی
ہوتی ہے تو ہوتی رہے تمہاری زندگی برباد ہو رہی تھی تمہارے ماں باپ بہنیں سب کی زندگی برباد ہو رہی تھی اس نے نہیں سوچا تھا
لیکن آج سوچے گی اور سے سوچے گی
حنان سیریس انداز میں بول رہا تھا جبکہ اس کے ارادوں سے ڈر کر اس نے نامیں سر ہلایا لیکن اس بار حنان نہ سننے کے بالکل موڈ میں نہیں تھا اسی لیے زبردستی سے اپنے ساتھ لے آیا
°°°°°°°°
نکاح کی رسم ادا کی جارہی تھیجب وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئے ۔
روکیں روکیں یہ نکاح ہونے سے پہلے میں کچھ باتیں کلیئر کرنا چاہتا ہوں اس انجان لڑکےکو دیکھ کر حیران تھے
میرا نام حنان ہے اور میں آس کا بیسٹ فرینڈ ہوں
اب یہ آس کون ہو گا یہ سوچ رہے ہوں گے آپ لوگ تو آس میرا دوست جو آج خود کشی کرنے جارہا تھا خود کشی کیوں کرنے جارہا تھا یہ سوال بھی آپ لوگوں کے دماغ میں آ رہا ہوگا
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دلہن میڈم کاکالج ے یونیورسٹی تک افیئر چل رہا تھا تقریبا آٹھ سال سے اور جب شادی کی باری آئی ہے تو کسی اور کے ساتھ نکاح کرنے جا رہی ہے
تو میرے پیارے دلہا میاں تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو جو پہلے ہی آٹھ سال تک کسی اور کے عشق میں گرفتار رہی ہو
بکواس کر رہا ہے یہ آدمی جھوٹ بول رہا ہے میں اسے جانتی بھی نہیں وہ فورا اپنے باپ کے پاس آئی تھی
جھوٹ اور سچ تو یہ تصویریں فیصلہ کریں گی آس تصویریں دکھاؤ وہ زبردستی اس کے جیب سے موبائل فون نکالنے لگا
جس کے لئے اس بار بار مناکر رہا تھا لیکن وہ بھی حنان تھا پیچھے ہٹنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا وہ اس کے موبائل نکال کر اس لڑکی کے باپ اور ہونے والے شوہر کے سامنے کر چکا تھا
میں یہ بات اپنے دوست اس کے سامنے نہیں بتانا چاہتا تھا لیکن آج مجبور ہوں اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سارے لڑکے ہیں جس کے ساتھ آپ کی ہونے والی بیگم کے افیئرز رہ چکے ہیں یعنی کہ اس جیسے نجانے کتنے ہی اور لڑکے ہیں جو اپنی زندگی کو ختم کرنے جا رہے تھے
جناب وہ دورگیا جہاں لڑکیاں مجبور ہوتی تھی اور لڑکےاں کے ساتھ افیئر چلا کر ان کی زندگی برباد کر تے تھے آج کل یہ کام لڑکیاں بھی سرانجام دے رہی ہیں اور آس میرا دوست ہے اسے تو میں کچھ ہونے نہیں دوں گا
اور ان کے عاشقوں کو بچانا میری ذمہ داری نہیں اگر چاہو تو شادی کرو ورنہ چھوڑ دینا بیسٹ آپشن ہے کیونکہ ایسی لڑکی سے شادی کرنے کا کیا فائدہ جو شادی سے پہلے ہی اپنے باپ کو دھوکا دے کر کسی اور کے ساتھ عشق لراتی رہے
خیرتمہاری مرضی تمہاری زندگی لیکن میرے دوست کے ساتھ جو ہوا ہے وہ کسی اور کے ساتھ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا ہے خدا حافظ وہ آس کا ہاتھ تھا میں اسے زبردستی واپس باہر لے جانے لگا
جب اسے کوئی آواز سنائی دی یہ آواز کب سے آ رہی تھی جو اسے بے چین کر رہی تھی کبھی وہ کہتی کہ عجیب پاگل آدمی ہے تو کبھی دوسری لڑکیوں کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف ہو جاتی لیکن یہ آواز اس سے کافی دیر سے تنگ کر رہی تھی
وہ آواز کو اگنور کرتے ہوئے آگے بڑھ آج اچانک ایک لڑکی اس کے ساتھ آ کر ٹکرائی
ایک پل کیلئے حنان کو لگا جیسے پوری دنیا گئی ہو
سامنے کھڑی لڑکی سرخ لباس میں کوئی آسمان سے اتری حور ہی لگی تھی ایک پل کے لئے تو حنان بھی حیران اور پریشان اس لڑکی کو دیکھنے لگا شاید ہی اس سے پہلے یا اس سے زیادہ حسین پری پیکر اس کی زندگی میں آئی تھی۔
وہ لڑکیوں میں زیادہ نہیں الجھتا تھا لیکن سامنے کھڑی یہ لڑکی اس کے دل میں ہلچل مچا چکی تھی جو اس سے ٹکرا کر فورا ہی اسے دھکا دیتی واپس اندر کی طرف بھاگ گئی تھی
اب یہاں کیوں کھڑے ہو چلو یہاں سے آس نے اسے گھورتے ہوئے کہا
آئی ایم ان لو۔ ۔۔۔۔ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا
کیا کہہ رہے ہو دماغ تو نہیں خراب ہوگیا
ہاں دماغ خراب ہو گیا ہے اور ساتھ میں دل بھی اسے ٹھیک کرنا ہوگا
وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر کی طرف جا چکے تھے
°°°°°°°
رات پارٹی کرنے کے بعد آج وہ دوسرے دن یونیورسٹی آئے تھے آس بھی اس کے ساتھ تھا جواب کافی ریلیکس تھا وہ جانتا تھا اس لڑکی کو اس کے انجام تک پہنچانے کے بعد اس کا دوست بھی سنبھل جائے گا
اور ویسے بھی اس کے لحاظ سے وہ لڑکی اس کے قابل ہی نہیں تھی ابھی وہ انہی باتوں میں مصروف تھا جب اچانک انیلا اس کے پاس آئی
کیسے ہو تم حنان میں نے تمہیں بہت مس کیا وہ اس کے گلے میں باہوں کا ہار ڈالتے ہوئے بولی جبکہ حنان اس سے دور کرتے ہوئے کافی دوری پر جا کر کھڑا ہوا
دیکھو انیلا میں بہت بار کہہ چکا ہوں کہ دور سے بات کیا کرو چپکنے کی ضرورت نہیں ہے وہ انتہائی غصے سے بولا تھا جس انیلا کا موڈ بن چکا تھا
میں تمہاری گرل فرینڈ ہوں اور یہ بات پوری یونیورسٹی جانتی ہے وہ غصے سے بولی
تم میری کچھ نہیں ہوں زبردستی میری گرل فرینڈ بننے کی کوشش نہ کرو تو بہتر ہوگا ۔حنان کو مزید غصہ آیا
آئی لو یو حنان میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں اور اس یونیورسٹی کو تو کیا دنیا کے ہر انسان کو کھڑا کر کے بتاؤں گی کہ مجھے تم سے محبت ہے تم ایک بار ہاں تو کرو وہ اکھرے ہوئے انداز میں بولی جیسے اس سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہی ہو اور اس کے مزید قریب آنے کی کوشش کی
جس پر حنان کو مزید غصہ چڑھ گیا اور بنا اس کی طرف دیکھیں وہاں سے نکلتا چلا گیا اس سر پھری لڑکی کے ساتھ سر کھپانا ایک بے وقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا جبکہ دماغ میں صرف اور صرف وہی لڑکی گھوم رہی تھی لال سرخ حور پری کاش میں اس سے دوبارہ مل پاتا اس کے دل میں ایک حسرت سے جاگی
اس رات اس نے جو محسوس کیا وہ اپنے دوست کے سامنے بول دیا وہ محبت ہی تو تھی ہاں وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا پہلی نظر کی محبت اور وہ اسے پانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا
فرسٹ ایر کس طرف ہے۔ ۔۔۔! وہ یہی سب سوچ رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی یہ آواز اس نے اس رات بھی سنی تھی وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا نیلے لباس میں وہ اس کی طرف پیٹھ کیے کسی اور سے بات کرنے میں مصروف تھی اب تو وہ اسے کروڑوں میں پہچان سکتا تھا
تو اللہ بھی یہی چاہتے ہیں گڈ ہو گیا وہ مسکرایا اس سے پہلے کہ وہ اس لڑکی کی طرف بڑھتا ہے ایک لڑکا بھاگتے ہوئے آ رہا تھا جس کا مطلب سمجھ کر وہ اور اس کے سارے دوست الرٹ ہو کر اس کی طرف بڑھ رہے تھے
حنان وہ لوگ ہماری سائٹ پر آئے ہیں آج تو ان کی خیر نہیں چلو ان کی بینڈ بجاتے ہیں وہ ان سب کو کہتے ہوئے واپس پیچھے کی طرف بھاگا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ لوگ ہاتھ میں جو ہتھیار آئے وہ لے اس کے پیچھے آرہے تھے
بہت دنوں کے بعد ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملا تھا
یہ دو گروپس تھے اور ان دونوں گروپ کو اسی سوسائٹی کے الگ الگ دو حصے دیے گئے تھے ایک گروپ کو دوسرے گروپ کی جگہ کسی بھی ممبر کا آناجانا منع تھا یہاں پر الیکشن کی پارٹی بھی ہوتی تھی جس میں ایک طرف حنان خان کی پارٹی تھی تو دوسری طرف مدثر کی پارٹی تھی ان دونوں میں اس حد تک دشمنی تھی
کہ اگر ایک سائیڈ کا آدمی دوسری سائیڈ پر قدم بھی رکھ دے تو وہ اس کی ٹانگیں توڑ کر ہی دوسری سائیڈ بھیجتے تھے ۔حنان کے ماں باپ بھی اس روٹین سے بہت تنگ تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ لڑائی جھگڑے ختم کرکے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھے لیکن کالج سے شروع ہوئی کہ لڑائی آٹھ سال سے چل رہے تھے اور نہ جانے کتنے سال تک چلنی تھی
آج میں کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا وہ سب یونیورسٹی سے باہر نکل کر اس سائٹڈ کی طرف جا رہے تھے جہاں مدثر کے آدمی آئے ہوئے تھے ۔یہ ان کے لیے کھلے عام ایک چیلنج تھا جسے پورا کرنے کے لئے اب وہ کوئی بھی رسک کو اٹھانے کو تیار تھے
°°°°°
جاری ہے

لڑائی بہت زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے بات سوسائٹی کے سربرہ تک پہنچ گئی حنان کو غصہ اور کسی بات کا نہیں بس ایک بات کا آ رہا تھا
کہ آس نے اس کو اس لڑکے کو مارنے سے کیوں روکا یہ ساری باتیں وہ یہاں سے باہر جانے کے بعد پوچھنے والا تھا فی الحال تو بس اسے گھور رہا تھا جب کہ دونوں پارٹیز کے ماں باپ بیٹھے ان لوگوں کے کارنامے سن رہے تھے
اپنے بیٹے کو سنبھالے خان صاحب یہ نہ ہو کہ کسی دن آپ کو پچھتانا پڑے جائے مدثر کے پاپا نے بڑے غرور سے کہا
میں تو اپنے بیٹے کو سنبھال ہی لوں گا چوہدری صاحب لیکن آپ بھی اپنی پرورش پر ذرا غور فرمائیں سیہ ہمارے ایریا میں گھس کر ہمارے ایریا کے بزرگوںطسے بد تمیزی کر رہا تھا اس سے پہلے بھی اس نے بہت بار یہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آپ کے بیٹے کو تمیز چھو کر بھی نہیں گزری انتہائی بدتمیز ہے یہ خان صاحب نے انتہائی غصے سے کہا ۔
اگر بد تمیز ہوں تو منہ کیوں لگ رہا ہے۔۔۔۔۔مدثر نے بدتمیزی سے کہا
یہ دیکھ رہے ہیں آپ اس کی بد تمیز انسان کو بابا نے حنان کے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے آگے بڑھنے سے روکا
یہی ساری حرکتیں یہ ہمارے ایریا میں کرتا ہے بلکہ ہم سے امید رکھی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ نہ ہو ۔
اور اس بار آپ کے بیٹے نے جن لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے ان پر بھی ذرا غور فرمائیے یہ جو لوگ اس کے بیٹے کے گروپ میں شامل ہوئے ہیں کوئی عام نہیں بلکہ بہت بڑے غنڈے کے آدمی ہیں بلکہ ایک تو اس غنڈے کا بھائی ہے
یہ نہ ہو کہ ایریا کے جھگڑے میں سوسائٹی کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے آپ اپنے بیٹے کو کسی بڑے مسئلے میں ڈال دیں۔
یہ ایک الیکشن ہے اس محلے کا سربراہ وہی بنے گا جو الیکشن جیتے گا جس کو سو سائٹی والے زیادہ ووٹ دیں گے بہتر ہوگا کے آپ باہر کے لوگوں کو شامل نہ کریں یہ آپ کے لیے اور ہمارے لئے بالکل بہتر نہیں ہے
خاص کر ایسے ہندوں کو ہمارے ایریا میں شامل نہ کریں تو بہتر ہو کا ۔ خان صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی
وہ میرے بیٹے کا دوست ہے اور میری سوسائٹی میں ضرور آئے گا ہماری سوسائٹی میں ہماری فیملی کا کوئی بھی ممبر کوئی بھی دوست آ سکتا ہے آئندہ یہ آپ کے ایریا میں نہیں آئے گا
۔لیکن آپ بھی اپنے اس بے لگام بیٹے کو ذرا لگام ڈالے ۔ جو اس نے میرے بیٹے کا حال کیا ہے اگر میں چاہتا تو اسے جیل میں بھی ڈال سکتا تھا ۔ لیکن اپنی سوسائٹی کی عزت کے لیے خاموش ہو گیا ہوں ۔لیکن آئندہ میں خاموش نہیں رہوں گا چوہدری صاحب نے اپنے بیٹے کے ٹوٹے منہ کو دیکھ کر کہا جہاں سے جگہ جگہ خون بہہ رہا تھا
۔اس کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی آس اور حنان کی ہنسی چھوٹ گئی جو مدثر کو مزید غصہ دلا گئی
°°°°°°
ارے ایسے کیسے لڑکی پسند کرتی ہے آپ نے مجھے وہ لڑکی پسند نہیں ہے جو آپ لوگوں نے میرے لیے پسند کی ہے میں اپنے لیے لڑکی ڈھونڈ چکا ہوں اور اس سے شادی کروں گا
حنان ایسے کیسے بیٹا ایک بار اسے دیکھ تو لوماما نے سمجھانے کی کوشش کی
ماما میں اپنے لیے لڑکی پسند کر چکا ہوں اور مجھے بہت پسند ہے آپ کو ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں آپ کی بہوبہت خوبصورت ہے ۔وہ پرسکون سا بولا تھا
دیکھو حنان میں اپنے دوست کی بیٹی کو بہت عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ وہ میری بہو ہے اب میں اس سے انکار نہیں کر سکتا تم ایک بار اسے دیکھ تو لو مل تو لو ایک دوسرے سے بات تو کر لو خان صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی
میں نہ تو اسے دیکھوں گا نہ اس سے ملوں گا اور نہ ہی کوئی بات کروں گا بلکہ آپ لوگ تیار ہو جائیں بہت جلد میں آپ لوگوں کو کسی کے گھر بیچنے والا ہوں اب میں ایک بہت ذمہ دار بچہ بن چکا ہوں اور بہت جلد اس سوسائٹی کا مینیجر بننے والا ہوں ۔ اس لیے آپ لوگ بھی اچھے والدین بن جائیں کیونکہ میں مینیجر بننے سے پہلے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ پر سکون سا صوفے پر لیٹے ہوئے بولا جانتا تھا اس کی ضد کے سامنے اس کے ماں باپ ہمیشہ کی طرح ہار جائیں گے
مینیجر بننے کے لیے الیکشن ہوں گے ووٹنگ ہوگی اور مدثر کی ٹیم بہت مضبوط ہے اس کا پورا ایریا اسے ہی ووٹ دے گا۔
تو کیا ہوا بابا اگر وہ ڈرا دھمکا کر ووٙ حاصل کرے گا تو میں بھی پیار محبت سے اپنے سارے ایریا کا ووٹ لے لوں گا کیونکہ ڈرانے دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اگر میں بھی اپنے ایریا بھی اس کے جیسے غنڈے بٹھا کر زبردستی کے ووٹ لینے لگا تو مجھ میں اس میں فرق کیا رہ جائے گا
لیکن آپ بے فکر ہو جائیں میںنجر تو میں ہی بنوں گا
مدثر کی غیر قانونی ٹیم تو میں چلنے نہیں دوں گا بےشک اس کے لیے گئی مجھے ٹیری سے ہی کیوں نہ نکالنا پرے وہ اتنا مطمئن لگ رہا تھا خان صاحب اور مسز خان بے چین تھے ۔ کیونکہ وہ جتنا آسان یہ سب کو سمجھ رہا تھا وہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ چودھری صاحب اپنے بیٹے کو اس سیٹ پر اس لئے بٹھانا چاہتے تھے مینجر کی سئٹ سے حاصل ہونے والا پیسہ وہ اپنی جیب میں ڈال سکے اور اس کے بعد سوسائٹی کو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہونا تھا
اور دوسری طرف مدثر اور حنان کی دشمنی تو سکول کے زمانے کی تھی۔ خان صاحب اپنے بیٹے کو اس کھیل میں شامل تو کر چکے تھے ۔لیکن یہ سب انہیں بہت مشکل لگ رہا تھا ۔کے اس پار مدثر جیتنے کے لیے شہر کےسب سے خطرناک غنڈے کے لوگوں کو اپنی ٹیم میں شامل کر چکا تھا
°°°°°°
کمینے میں تحھے کل سے ڈھونڈ رہا ہوں اب بتا تو نے مجھے اس لڑکے کو مارنے سے روکا کیوں تھا کیا کھلا ہوا انڈا مارنے میں بھی الگ ہی مزا آتا حنان کو تو کل سے سکون نہیں مل رہا تھا کہ وہ ایک لڑکےکو بری طرح سے پیٹا پیٹتا رہ گیا
ارے وہ امجد کا بھائی تھا آس نے بتاتا۔
کون امجد حنان نے پوچھا
ابےتو خبریں نہیں سنتا کیا امجد بہت بڑا غنڈا ہے ۔ پورا علاقہ جانتا ہے اس کے بارے میں جگہ جگہ دہشت پھیلائی ہوئی ہے زبان سے کم بندوق سے زیادہ باتیں کرتا ہے ۔ کل انکل بتا تو رہے تھے کے مدثر نے غنڈوں کا سہارا لیا ہے اس نے امجد کےچھوٹے بھائی سے دوستی کر لی ہے وہ نشہ کرتا ہے بس اسی وجہ سے کسی کلب میں ان دونوں کی دوستی ہو گئی ۔اور اب تو اسی کا سہارا لے کر اپنے پورے ایریا کو ڈرانے میں کامیاب ہو چکا ہے اس کے ایریا سے تجھے ایک پرسنٹ ووٹ نہیں مل سکتا دونوں ایریا کو ملا کر دیکھا جائے تو ایک دو بندے ہیں آگے پیچھے ہیں ورنہ دونوں کی آبادی برابر ہے اگر اس طرف سے ووٹ زیادہ ہوگئے تو پھر پکا سوسائٹی مینجر مدثر ہی بنے گا ۔اس نے اسے پوری بات سمجھ آئی
افف دفعہ کر ان سب باتوں کو میں جا رہا ہوں فرسٹ ایئر میں مجھے کچھ بہت ضروری کام ہے
ارے کیا کام ہے کچھ بتا کر تو جا آس نے اسے روکا
ابھی بڑے بوڑھوں کی بات نہیں سنی کیا پیچھے سے نہیں روکتے تیری بھابھی کو پرپوز کرنے جا رہا ہوں حناننےسمجھایا
مطلب ڈائریکٹ پرپوز کرنے جا رہے ہو پہلے سمجو جانو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو یہ کیا بات ہوئی یار
ابے یہ پاکستان ہے بیٹا اور پاکستان میں جاننے سمجھنے کے دوران کوئی ٹائم ویسٹ نہیں کرتا شادی تو اسی سے کرنی ہے وہ میرے دل میں دستک دے چکی ہے اب وہ مانے یا نہ مانے شادی تو اسے کرنی ہی ہوگی سوچا بتاتا ہوں یہ نہ ہو کہ یونیورسٹی میں آ کر بگڑجائے یہاں تو بڑی بڑی لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں میں بالکل رسک نہیں لینا چاہتا ۔وہ دونوں ہاتھ ہلا تا اسے بائے کر کے اوپر چلا گیا ۔
اس کو اپنے اس بچپن کے دوست کی سمجھ نہیں آتی تھی
کبھی بھی کسی چیز میں ایکسائٹمیٹ نہیں دکھاتا تھا
پاس ہوگئے اچھی بات ہے
فرسٹ آگئے بہت اچھی بات ہے ۔
پورے کالج میں ٹاپ کرلیا تو محنت کی تھی ٹاپ تو کرنا ہی تھا
بائیک لی ہے ہم واؤ ۔۔
اس میں واو والی کونسی بات ہے اباتڑلے کیے ہیں تب جا کے ملی ہے
اور اب پیار ہوگیا پرپوز کرنے جا رہا ہوں شادی بھی اسی سے کروں گا ۔۔ مطلب حد ہے اس کو تو اپنا یہ دوست بہت ٹھنڈا مزاج لگتا تھا ۔
°°°°°°
وہ اچانک اس کے سامنے آ روکا وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی پہچان تو وہ اسے پہلے دن ہی گئی تھی کہ یہ وہی شادی والا سرپھرا ہے جس نے اس کی کزن کی شادی تروائی ہے
۔
یونیورسٹی میں بھی کافی لڑکیاں اس پر مرتی تھی فرسٹ ایئر کی تمام لڑکیوں کاکرش تھا اس کی گرل فرینڈ انیلا کے بارے میں پوری یونیورسٹی جانتی تھی ۔
ہٹومیرے راستے سے وہ رکھے انداز میں بولی جب کہ اس کا انداز بھی اسے پسند آیا تھا
دیکھو میں اپنا ٹائم بالکل ویسٹ نہیں کرتا آئی لو یو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں اب یہ تم بتاؤ کہ تمہیں ایک مہینے میں شادی کرنی ہے یہ دو مہینوں میں کیونکہ میرے دل کے تمام جذبات جاگ اٹھے ہیں
میرے لاسٹ سمسٹر کے پیپر کچھ دن کے بعد ہونے والے ہو اس کے بعد میں ہر وقت شادی کے لیے میسر ہوں لیکن اگر تم پہلے بھی کرنا چاہو تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اگر چاہیں تو
اب بھی یہی کورٹ میرج کر لیتے ہیں پیپر میں بنوا لوں گا اور وکیل کوئی آس پکڑ لائے گا یا کسی مولانا کا انتظام کروں جو تم چاہو گی وہ ہو گا سوائے انکار کے تو جلدی سے ہاں کرو تاکہ میں بارات لے کر آؤ ں وہ اس طرح سے پرپوز کر رہا تھا جیسے کوئی عام سی بات ہو
جبکہ اس کے انداز پر وہ گھبرا گئی تھی لیے وہاں سے نکلنا ہی بہتر سمجھا یہ نہ ہو کہ وہ اس کے ساتھ کوئی پرنیک کر رہا ہو وہ پوری یونیورسٹی میں بد نام ہو کر رہ جائے ۔
عاشی بات سنو ۔اس سے پہلے کہ وہ جاتی حنان نے اس کا ہاتھ تھام کر روکا
میرا نام انشاہے ۔وہ غصے سے بولی
انشاء تو سب کے لئے ہو میرے لیے تم میری عاشی ہو ۔اور اس کی بھی عادت ڈالو ۔ بہت جلد تمہیں اپنی دلہن بناؤں گا ۔وہ انتہائی محبت سے بولا تھا جب کہ وہ اپنا ہاتھ گھبراتی وہاں سے بھاگ چکی تھی
°°°°°
حناننے جب سے اسے پرپوز کیا تھا وہ اس سے دور رہتی تھی جس راستے سے وہ گزرتا وہ سارا دن اس جگہ نظر نہ آتی جبکہ حنان اس کے بارے میں سب کچھ پتہ لگا چکا تھا وہ اس سے بالکل تنگ نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے سمسٹر کی تیاری کر رہا تھا
ہاں لیکن اس کی نظریں اسے خوف میں مبتلا کر دیتی ۔اس کی نظروں میں محبت تھی یا نہیں وہ نہیں جانتی تھی ہاں لیکن وہ اس کا احترام کرتا تھا ۔اس کی سب دوست ایسے بھابھی کہہ کر پکارنے لگے اپنے گھر میں اس سب کے بارے میں نہیں بتا سکتی تھی ۔کے تایا نے بہت مشکل سے اسے یونیورسٹی آنے کی اجازت دی تھی
اور یہاں یہ پاگل سر پھرا عاشق اس کے پیچھے لگ گیا تھا پوری یونیورسٹی میں ایسا کوئی نہیں تھا جو اسے تنگ کرتا ہو یاد چھڑ سکتا ہو انیلا اسے دور دور سے گھورتی تھی جس سے نازک سی لڑکی سےہم کر رہ جاتی لیکن وہ مجبور تھی کچھ کر نہیں سکتی تھی
وہ شروع میں یہ سب کچھ مذاق سمجھ رہی تھی لیکن اب سمجھ گئی تھی کہ حنان بالکل سیریس ہے
°°°°
وہ کمرے کی کھڑکی پھلانگ کر اندر آیا جب کہ اس آواز پر وہ گھبرا کر اٹھی تھی
تم یہاں کیا کر رہے ہو وہ نیند کی خماری میں ہربڑا کر اس کے سامنے آ رکی
جانی تم سے ملنے آیا ہوں تمہیں کہا تھا مجھے تم تم نہ کہا کرو ۔
دیکھو پلیز تم اس وقت تک یہاں سےچلے جاؤ میں صبح یونیورسٹی میں تم سے ملوں گی میں وعدہ کرتی ہوں وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی جبکہ حنان اس کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر مزید اس کے قریب آ چکا تھا ۔۔
تم نے پھر مجھے" تم "کہا۔نو ڈارلنگ اب تو میں یہاں سے بالکل نہیں جاؤں گا ذرا سوچو اگر تمہاری ماں کو پتہ چل گیا کہ آدھی رات کو تم سے تمہارا بوائے فرینڈ ملنے آیا ہے
بکواس بند کرو تم میرے بوائے فرینڈ نہیں ہو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے سمجھے تم اس کے الفاظ اسے مزید گھبراہٹ میں مطلع کر رہے تھے۔
پھر تم۔ ۔۔۔وہ غصے سے اسے دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے بولا جس پر عاشی مزید گھبرا گئی اس کے دونوں سائیڈ پر حنان کے ہاتھ اس کا راستہ بلاک کر چکے تھے
آج کے بعد اگر میں نے تمہارے منہ سے یہ تم سنانا تو تمہارے لئے بالکل بھی اچھا نہیں ہوگا اور یہ تو میں جانتا ہوں کہ میں تمہارا بوائے فرینڈ نہیں ہوں اور تو کوئی نہیں جانتا نہ ہاں لیکن رات کے 2 بجے کوئی بھی مجھے اتنے تمہارے پاس یہاں دیکھ کر یہی سمجھے گا نہ کہ میں تمہارا سپیشل ون ہوں۔ حنان کہتے ہوئے مزید اس کے پاس آ چکا تھا جبکہ اس کی بھرتی ہوئی نزدیکی پر عاشی کے پسینے چھوٹ رہے تھے
دیکھو تم میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہو میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔
پھر تم ۔۔۔۔۔!
نہیں میرا مطلب ہے آپ ۔پلیز میری جان چھوڑ دیں بخش دیں مجھے میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں اس بارعاشی سچ مچ میں رونے والی ہو چکی تھی
نو ڈارلنگ رونے کی غلطی مت کرنا ورنہ میں جس انداز میں تمہارے آنسو صاف کروں گا وہ انداز تو میں بالکل پسند نہیں آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد تم آئینہ دیکھنے کے قابل رہو مطلب کے شرماؤگھبراؤ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔
اور آج کے بعد نہ میرے سامنے یہ چھوڑنے والے بات مت کرنا کیوں کہ اب حنان سکندر مرتے دم تک تمہیں نہیں چھوڑے گا ۔تمہیں میرے سامنے نہیں آنا چاہے تھا یہ ادائیں نہیں دکھانی چاہے تھی اگر میں پچھے پڑ جاو تو پچھتانا پڑنا اب پچھتانے کی باری ہے ۔۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے انتہائی نزدیک کھڑا تھا ۔
پھر نہ جانے اچانک اسے کیا ہوا کہ اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کے اس کے گال پر رکھتے ہوئے وہ اس کے نیچے لب کو اپنے انگوٹھے سے چھونے لگا۔حنان گہری دلچسپ نظروں سے اس کے لبوں کو دیکھ رہا تھا
کبھی وہ اس کی آنکھوں کی ہیرپھیر کو محسوس کرتے ہوئے اس کے مزید قریب آ جاتا تو کبھی اس کی گھبراہٹ پر ایک قدم پیچھے ہو کر اس کے کانپتے پر وجود کو دیکھتا
۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا دل کی ہر دھڑکن سے بس ایک ہی آواز آرہی تھی حنان سکندر خان سامنے کھڑی لڑکی کو اپنے اندر اپنے دل کی دنیا میں کہیں چھپا لو اسے پوری دنیا سے دور کر دواسے صرف اور صرف خود میں ہی کہیں رکھ لوں۔یہ صرف تمہاری ہے
اس پر کسی اور کا کوئی حق نہیں اسی دنیا سے چھپا لو ۔اس کا دل بار بار صدائیں دے رہا تھا کہ اس کے لبوں کی نرمی کو اپنے لبوں سے محسوس کرو لیکن وہ اس نازک جان پر اتنا ظلم نہیں کرسکتاتھا
جبکہ اس کی اس حرکت پر عاشی کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹی تھی لیکن ہائے یہ دیوار جو بیچ میں آگئی اگر اس میں طاقت ہوتی تو آج اس شخص کی قربت پر وہ یہ دیوار توڑ کر یہاں سے غائب ہو جاتی ہے ۔
دیکھو میرا مطلب ہے دیکھیں آپ کو نہ غلط فہمی ہوئی ہے وہ کیا ہے نا جس دن آپ کو لگا کے آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہے اس دن میں نے بہت سارا میک اپ کیا تھا آپ کو پتہ ہے نہ اس دن میری کزن کی شادی تھی میں بالکل بھی خوبصورت نہیں ہوں اقصی اور رائما مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
اور آپ کی گرل فرینڈ انیلا تو خوبصورت کیا آسمان سے اتری حورہے حور پلیز آپ ان کو تنگ کریں ناپلیز اس وقت ان کے گھر جائیں میرے پیچھے کیوں پڑے ہیں ۔عاشی نے اسے اپنی طرف سے بہت بڑی حقیقت بتائی تھی ۔۔۔
جان اب کچھ نہیں ہو سکتا وہ کہاوت مشہور ہے نا کیا کہتے ہیں جب دل آ جائے گدی پے تو پری کیا چیز ہے میرے ساتھ وہی معاملہ ہوگیا ہے اب اس دل میں تم اندر تک گھس کر بیٹھ چکی ہو اب یہاں سے نکلنے کا تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ ہی میں پیچھے ہٹنے والا ہوں تیار ہو جاؤ اب تمہیں میرا ہونا پڑے گا ۔وہ اس کے سارے پلان پر پانی پھیرتے ہوئے بولا
جبکہ خود کو گدی کہلاتے ہوئے عاشی کو بھی اچھا خاصہ غصہ آ گیا تھا
ٹھیک ہے میں اقصی رائمہ اور آپ کی گرل فرینڈ انیلا کے جتنی خوبصورت نہیں ہوں لیکن میں نے گدی بھی نہیں ہوں وہ کہے بنا نہیں رہ سکی لیکن اس کی بات پر حنان کی مسکراہٹ گہری ہوئی
تم حنان سکندر خان کے دل کی ملکہ ہو گہرے لہجے میں بولا جبکہ اس کی اس بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی عاشی اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی تھی

ایسے کیسے میرا رشتہ کر دیا میں یہ شادی نہیں کروں گی اور ویسے بھی ابھی تو مریم آپی کی شادی نہیں ہوئی میری شادی کیسے ہو سکتی ہے آپ اس رشتے سے انکار کر دیں اس نے فوراً انکار کیا وہ جیسے ہی یونیورسٹی سے گھر واپس آئی تھی اسے پتہ چلا تھا کہ تایا ابو نے اس کا رشتہ کر دیا ہے
یونیورسٹی میں وہ لڑکا اسے سانس نہیں لینے دیتا آتے جاتے تنگ کرتا رہتا ہے اور اب گھر میں بھی رشتہ
عاشی بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو تمھارے تایا نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا اپنے گھر میں بھی بچیاں رکھی ہیں انہوں نے کوئی ایسے ہی تو نہیں رشتہ کر دیں گے تمہارا کافی اچھے لوگ تھے مجھے بھی پسند آئے ان کے لڑکے نے تمہیں کہیں دیکھا ہے اور پسند کیا ہے شاید رایما کی شادی میں ہی دیکھا ہو بیٹا میں چاہتی ہوں کہ اپنی ہیں اپنی زندگی میں ہی تم دونوں کو رخصت کر دوں
آج کے دور میں یتیم بچیوں کے سر پر کون ہاتھ رکھتا ہے یہ تو بھائی صاحب کی کرم نوازی ہے ۔
کون سی کرم نوازی امی ہماری جائیداد پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے ہیں ہمیں اپنے باپ کے حصہ سے دو کمروں کا مکان نہیں دیا اور پھر زبردستی مریم آپی کے ہاتھ میں اپنے بیٹے کے نام کی انگوٹھی ڈال گئے جو نہ جانے دبئی میں کیا کر رہا ہے کے چھ سال سے اس کی کوئی خبر ہی نہیں اور اب آ گئے ہیں میرا رشتہ طے کرنے میں بتا رہی ہوں میں وہاں شادی نہیں کروں گی تب خیال نہیں آیا یتیم بچیوں کا جب ان کی بھابھی لوگوں کے گھروں کے کام کرکے اپنی بچیوں کی پیٹ پلاتی تھی
اور اب آئے ہیں بڑے سربرہ بننے والے ہمیں نہیں چاہیے سربراہی میری طرف سے اس رشتے سے صاف انکار ہے وہ انتہائی غصے سے بولی
بیٹا تمہارے تایا کی زیادتیوں کا اس رشتے سے بھلا کیا لینا دینا ہے مجھے وہ لوگ بہت اچھے لگے اور بہت خاندانی عزت دار لوگ ہیں اور تمہارے اس بچپنے میں یہ رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی مریم کی زندگی کا فیصلہ تو تب ہوگا جب عمر واپس آئے گا لیکن تم اس شادی کے لئے تیار رہو اپنے تایا کے لیے نہیں سہی اپنی بیوہ ماں کے لیے کب تک تم لوگوں کو دنیا کی بری نظر سے بچا کے رہوں گی اب خود خدا کے لئے مجھے اپنی ذمہ داری نبھانے دو ۔
مجھے یہ رشتہ قبول ہے اور میں تمہاری طرف سے ہاں ان لوگوں کو بھیج رہی ہوں اور اب میں تمہارے منہ سے انکار نہ سنوں امی کے لہجے میں نرمی لیکن حق تھا جس کے سامنے وہ چپ ہو کر رہ گئی
°°°°°°°°
ارے ارے صاحبزادے کہاں تھے آپ ۔۔¡ آپ کی امی حضور تو شام سے آپ کا انتظار کر رہی ہیں خان صاحب نے اپنی بیگم کی طرف اشارہ کیا جو بیٹھی مسکرا رہی تھی
امی آپ کی مسکراہٹ بتا رہی ہے کہ رشتے کے لیے ہاں ہوگئی اس نے ان کی مسکراہٹ سے بات کی گہرائی کا اندازہ لگایا جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا
یہ ہوئی نہ بات ویسے مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ مجھے کوئی انکار نہیں کرسکتا
بہت بہت مبارک ہو صاحبزادے اب شادی کی تیاریاں کب تک کرنی ہے یہ بھی بتا دو کیونکہ ہم لوگوں کو بتا چکے ہیں کہ ہمارے صاحبزادے کو شادی کی کافی جلدی ہے ۔خان صاحب نے پوچھا
بتایا تو تھا بابا مینیجر بننے سے پہلے میں چاہتا ہوں میری اس کامیابی میں میری بیگم بھی میرے ساتھ ہو اور جہاں تک سٹڈیز کی بات ہے تو وہ تو سمجھیں اس بار بیرا پار ہے وہ مسکرا کر ان دونوں کو گڈنائٹ کہتا اندر جا چکا تھا
جب کہ اتنی جلدی شادی کا سوچ کر مسٹر اینڈ مسز خان دونوں ہی پریشان لگ رہے تھے وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی بہت دھوم دھام سے کرنا چاہتے تھے جس کے لئے بہت ساری تیاریوں کی ضرورت تھی اور شاید وہ لوگ بھی اتنی جلدی رشتے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔لیکن پھر بھی انہیں یقین تھا کہ وہ انکار بھی نہیں کریں گے لیکن ان کے گھر کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ اتنی جلدی شادی کر پاتے ۔
°°°°°°°°
بھائی صاحب اتنی جلدی شادی آپ بات کریں ان لوگوں سے ہم اتنی جلدی شادی کے انتظامات نہیں کر سکتے بیٹی کو جہیز بھی دینا ہے اسے اچھے سے رخصت بھی کرنا ہے اتنی جلدی یہ سب کچھ کیسے ہو گا بھلا اور ابھی توعاشی یونیورسٹی کے پہلے سال میں ہے میرے خیال میں یہ سب کچھ بہت جلدی ہو رہا ہے ۔
ارے زلخا تم جلدی کی کیا بات کرتی ہو اور اخراجات کو لے کر تم کیوں پریشان ہوں میں کیا مر گیا ہوں۔ ابھی میری بچیوں کا یہ تایا زندہ ہے میں کروں گا ان دونوں کی شادی اور کسی بات کو لے کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے شادی کا سارا خرچہ میں اٹھاؤں گا تایا ابو نے تائی اماں کو گھورتے ہوئے کہا جو انہیں ایسا کہنے سے روک رہی تھی لیکن تایا ابو تو آج ضرورت سے زیادہ ہی دیالو بنے ہوئے تھے دروازے کے باہر کھڑی عاشی اور مریم بھی یہی سوچ رہی تھی کہ تایاایسی بات کیسے کر سکتے ہیں
جنہوں نے ان کے باپ کے مرنے کے بعد رہنے کے لیے چھت تک نہ دی بھلا شادی کے اخراجات کیسے اٹھاتے خیر جو بھی تھا آج وہ ان کی ماں کی اتنی مدد کر رہے تھے یہ تو کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔
بھائی صاحب آپ بیٹھے میں آپ کے لئے چائے لے کے آتی ہوں لڑکیوں کو بولا تھا لیکن نہ جانے کہاں رہ گئی امی نے خوشی سے اٹھ کر کچن کی راہ لی ۔
مریم فور امی کے ساتھ ہی کچن کے اندر آ گئی جب کہ وہ وہیں کھڑی تائی اور تایا کی باتیں سن رہی تھی
آپ کا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا اتنے پیسے کہاں سے دیں گے جانتے بھی شادی پہ کتنا خرچہ ہوتا ہے ابھی ابھی رایما کی شادی ٹوٹی ہے اور آپ ہیں کہ جائیداد بانٹنے کے پیچھے لگ گئے ہیں تائی نے غصے اور حقارت سے کہا
ارے بیگم پریشان کیوں ہو رہی ہو تمہیں کیا لگ رہا ہے یہ سارا خرچہ میں اپنی جیب سے کروں گا ارے نہیں یہ سارا خرچہ لڑکے والے دیں گے وہ لڑکا نہ کوئی بہت ہی بڑا عشق ہوگیا ہے اس کا اور عاشقی کا ثبوت وہ ہمیں نوٹوں کی صورت میں دے رہے ہیں ارے میں نے تو پہلے ہی صاف انکار کر دیا تھا کہ ایسے ہی میں اس کی شادی نہیں کرواؤں گا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ دہیج میں دینے کے لئے میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے
پھر کیا تھا خان صاحب عقل مند تھے انہوں نے کہا کہ یہ عورت شرمندہ نہ ہوکہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی ٹھیک سے نہیں کر سکی اس لیے شادی کا سارا خرچہ وہ خود اٹھائیں گے
یہ کہہ کر کے سارا پیسہ میں نے دیا ہے سارا خرچہ میں نے کیا ہے پھر کیا تھا میں بھی بھابی کے پیچھے لگ گیا اس رشتے سے کہیں انکار نہ ہو جائے کچھ فائدہ ہمیں بھی تو ہوگا تایا آبا کم آواز میں بول رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان کے ایک حرف کو سن چکی تھی
یقینا وہ لوگ بہت اچھے ہیں ہوں گے جو اس کی ماں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے سارا خرچہ اٹھا رہے ہیں لیکن اس لڑکے نے اس میں ایسا کیا دیکھا اس کی محبت میں پاگل ہوگیا یہ تو وہ بھی جاننا چاہتی تھی ۔ اور دوسری طرف یونی والے اس لڑکے کی بھی پریشانی تھے حنان اس کو تو وہ کل ہی اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی دیکھا کر بتا دیتی کہ اب وہ منگنی شدا ہے اور کچھ ہی دنوں میں اس کی شادی بھی ہونے والی ہے
اس کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ عاشقی مشوقی والا چکر کسی اور کے ساتھ چلائے۔ ہاں لیکن اپنے تایا کی سوچ پر افسوس ضرور ہوا تھا ۔لیکن اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں تھی یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا ایک بار اور سہی
°°°°°°°°
وہ صبح سے اس کا انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ ائے گی اور کب وہ اسے بتائے گا کہ آخر وہ اسے
اپنا نے جا رہا ہے ہمیشہ کے لئے کیا وہ جانتی ہو گی کہ اسی لڑکے کا رشتہ اس کے لیے آیا ہے کیسے جانتی ہو گی اسے تو کچھ بھی پتہ نہیں ہوگا
چلو اگر نہیں پتا ہوگا تو میں خود ہی بتا دوں گا آج وہ بہت خوش تھا لیکن اپنے ایکسپریشن کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے والدین اس کی خوشی کا اندازہ لگا چکے تھے وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا آکسائیڈ کیوں ہے آج تک اس نے جو چاہا تھا اس نے حاصل کیا تھا اور اب محبت کے میدان میں بھی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا اس نے جسے چاہا وہ اس کی زندگی میں شامل ہونے جا رہی تھی
یا تو وہ بہت اچھی قسمت لے کر آیا تھا یا اللہ اس سے بے انتہا محبت کرتا تھا کہ اس کی کسی بھی خواہش کو وہ رد نہیں کرتا تھا اس کے والدین کہتے تھے کہ شکر ادا کیا کرو لیکن وہ ایسا ہی تھا ہمیشہ یہی سوچتا کہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ ڈیزر کرتا ہے اسے شکر ادا کرنا نہیں آتا تھا ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ شکر ادا کرنا نہیں چاہتا تھا وہ کرنا چاہتا تھا لیکن کر نہیں پاتا تھا ۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب وہ اس کے قریب سے گزرنے لگی لیکن اچانک ہی وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا ۔
تم مجھ سے چھپ کر یہاں سے گزرنے کی کوشش کر رہی ہو اس کا ہاتھ تھامیں مسکرا کر بولا
دیکھیں میرا ہاتھ چھوڑے میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے خدا کے لئے مجھے تنگ کرنا بند کریں میری شادی ہونے والی ہے وہ انتہائی غصے سے بولی تھی
اور اسے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ اس کی شادی ہونے والی ہے لہٰذا وہ اسے تنگ نہ کرے
ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے تمہاری شادی ہونے والی ہے بہت بہت مبارک ہو حنان نے مسکرا کر کہا ۔
جب کہ اس کے فیس سے ایکسپریشن سے اندر کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا نہ جانے کیوں اس شخص سے عاشی کو خوف آنے لگا ۔
یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا ہاتھ تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکالتی اوپر کی طرف جا چکی تھی
اس کا مطلب محترمہ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کا ہونے والے دولہا میں مسکرایا
پھر تو اور بھی مزہ آئے گا
°°°°°°°
وقت پر لگا کر گزر رہا تھا دو ہفتے گزر چکے تھے اور عاشی نے کچھ دن سے یونیورسٹی آنا منہ بند کر دیا تھا ویسے بھی حنان اسے بالکل تنگ نہیں کر رہا تھا وہ خود پر جبر کیے ہوئے بالکل اس کے راستے میں آتا اور نہ ہی اس کے سامنے آتا جبکہ دل بار بار اسے دیکھنے کے لئے بے چین ہوتا صدائیں دیتا کہ ایک بار اسے دیکھ آو ایک بار اپنی نظروں کی پیاس کو بجھاو لیکن پھر بھی وہ نہیں آتا اس کے سامنے دو دن کے بعد مہندی کی رسم ادا ہونی تھی
اور مہندی سے پہلے ان دونوں کا نکاح تھا اب تو وہ صرف نکاح کے بعد ہی اس سے ملنے جانے والا تھا ۔
دوسری طرف عاشی اپنی شادی کو لے کر بہت پریشان تھی سب کچھ اتنا جلدی کیوں ہو رہا تھا لیکن کہیں نہ کہیں اس بات کو لے کر بھی تسلی تھی کہ شادی کے بعد بھی وہ یونیورسٹی جا سکتی ہے اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہے
بس یہی وجہ تھی کہ وہ بھی اپنی امی اور بہن کی خوشیوں میں شریک ہو گئی اسے یہی لگ رہا تھا کہ حنان اسی لئے خاموش ہو گیا ہے کیونکہ وہ اسے بتا چکی ہے کہ اس کی شادی ہونے والی ہے ۔اور وہ جو اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کے لئے یہ سارے ڈرامے کر رہا تھا وہ اس نے بند کر دیے ۔
اپنے ہونے والے ہم سفر کو وہ ابھی تک دیکھ نہیں پائی تھی حالانکہ دل میں ارمان ضرور جاگنے لگے تھے اسے دیکھنے کے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے سارا دن آج کل اسی کے بارے میں سوچتی تھی لیکن کہیں نہ کہیں ایک سوچ اس کی ہر سوچ پر بھاری ہو جاتی
کے آخر اس شخص نے اس کے لیے اتنے پیسے کیوں دیے جس سے تایا کا منہ بھی بند ہوگیا اور اس کی ماں شرمندہ بھی نہیں ہوگی
گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی اس لیے اس نے تایا کہ منہ سے جو کچھ سنا وہ بتانے کی ہمت اپنی ماں کے سامنے نہیں کر پائی ہاں لیکن مریم کو بتا دیا تھا جس کے بعد مریم نے اسے سمجھایا کہ اگر وہ ایک اچھا انسان نہیں ہوتا تو خود پیسے دے کر امی کو شرمندہ کرسکتا تھا لیکن وہ صرف اور صرف اس کی ماں کی عزت کی خاطر ان سے چھپ کر یہ کام کر رہا ہے تو یقینا وہ ایک اچھا انسان ہے اور مریم کے سمجھانے کا ہی اثر تھا اب وہ اس کی اچھی سوچوں میں شامل ہو گیا تھا
°°°°°°°°
صبح سے ہی عجیب سی بے چینی تھی آج اس کا نکاح تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آگے کیا ہونا ہے اپنی ماں اور بہن کو چھوڑنے کا سوچ سوچ کر وہ صبح سے روئے جارہی تھیں جس پر مریم اور زلیخا بیگم بار بار اسے سمجھاتی ۔
لیکن اس کے آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور انہیں آنسوؤں کے دوران ہی اس کا نکاح ہوگیا اپنے والد کے سائے کے بغیر ماں کی دعاؤں کے آنچل میں اس نے یہ نکاح تو قبول کر لیا لیکن مولوی صاحب کی آواز کو ٹھیک سے سن بھی نہ پائی شاید آنسوؤں کا دریا ہر چیز پر بھاری تھا ۔
نکاح کے بعد رات کو مہندی کی رسم ادا کی گئی
اس کے سسرال والے دھوم دھام سے مہندی لائے تھے جس میں اس کی ماں نے بھرچڑ کر شان سے حصہ لیا اس کی ماں کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھی کل ان کی چھوٹی بیٹی رخصت ہونے جا رہی تھی اور بڑی بیٹی کے بارے میں ابھی کچھ پتہ نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں کیا ہونا ہے
اس سے گھونگھٹ میں باہر لایا گیا دھڑکتے دل کے ساتھ لا کر دلہے کے ساتھ بٹھایا گیا دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں سینے میں دھڑکتا چھوٹا سا دل سہم سا گیا تھا وہ اپنے ہی دلہے کہ اتنے قریب بیٹھی اپنی دھڑکن شمار کر رہی تھی ۔دل نے بہت چاہا کہ گھونگھٹ ہٹا کر اس کا دیدار ہی کر لے لیکن ہمت کہاں سے لاتی ۔
لیکن پھر اپنے کان کے بالکل قریب آواز سنائی تھی
نکاح مبارک ہو مسز حنان سکندر خان ۔وہ اس کے کان کے بالکل قریب انتہائی محبت سے بولا لہجہ جذبات سے بوجھل تھا لیکن اس کی آواز کو پہچانتے ہوئے وہ فوراً اپنے چہرے سے گھونگھٹ چکی تھی
تم ۔۔۔۔۔۔؟ وہ حیرت کا مجسمہ بن نے بولی
کتنی بار کہا ہے تم سے کہ مجھے تم نہ کہا کرو اب تو شوہر بن گیا ہوں تھوڑی عزت دے ہی ڈالو وہ ایک آنکھ دبا کر شرارت سے کہتا تھا آس کو اشارہ کرنے لگا
اور اگلے دو ہی منٹ میں تمام ہال کی لائٹ اف ہو چکی تھی
وہ بے یقینی سے اس کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ رہی تھی جو اب اندھیرے میں ڈوب چکا تھا جب اچانک اسے اپنے چہرے پر سخت ہاتھوں کی گرفت محسوس ہوئی
اور پھر ایسی ہی ایک گرفت لبوں پر وہ اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کیے اس کی سانسیں روک چکا تھا ۔عاشی کا دل زور سے دھڑکا وہ اس کے ہاتھ سینے پہ ہاتھ رکھے اسے خود سے دور کرنے لگی لیکن اس کا چوڑیوں سے بھرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آ چکا تھا ۔
سانسیں تھی جو الجھی ہوئی تھی ۔ اس پر ستم یہ کہ یہ شخص رحم کرنا بھی نہیں جانتا تھا ۔
ہر طرف شور مچا ہوا تھا کہ لائٹ چلی گئی جبکہ یہاں دلہن کے جان پر بنی تھی اور دلہا اس کی سانسوں کی سلطنت پر اپنی حکومت جمائے دنیا جہان بھولا ہوا تھا ۔اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر وہ اس سے دور ہوا پھر اسے اپنی بالکل قریب سے ایک چٹکی کی آواز سنائی دی اور اگلے ہی لمحے لائٹ اون ہو چکی تھی جب کہ اس کے سر پر ایک بار پھر سے وہ گھونگھٹ ڈال چکا تھا
نکاح مبارک ہو ۔۔
اب باقی کا پیار محبت ہم کل کریں گے ۔وہ اس کے قریب سے اٹھتے ہوئے اس کے کان میں ایک سرسراتی سی سرگوشی کر گیا
عاشی نے دور تک اسے محسوس کیا تھا ۔
اس کے لیے یہی صدمہ بہت برا تھا کہ اس کا شوہر کا نام سکندر خان ہے
نہیں وہ کبھی اس آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی یہ غندہ نما آدمی اُس کا ہمسفر بنے گاجس کی صبح لڑائی سے ہوتی ہے رات کو کسی نہ کسی سے لڑتا ہی رہتا ہے وہ اس سے کبھی شادی نہیں کر سکتی اس زبردستی کی شادی کو ختم کرے گی لیکن اب کیسے اب تو نکاح ہو چکا تھا
وہ اپنی ہی سوچوں میں بری طرح سے ڈوبی اپنے آس پاس لہراتے ہوئے دوپٹوں کو دیکھ رہی تھی


عاشی اپنی شادی کو لے کر بہت پریشان تھی وہ ایسے شخص سے شادی کرنے جا رہی تھی جسے وہ بلکل پسند نہیں کرتی اس نے سوچ لیا تھا کہ اور کچھ نہ سہی لیکن اپنی ماں سے اس بارے میں بات ضرور کرے گی
ہو سکتا ہے وہ سب کو جان کر یہ رشتہ ختم کردیں یا ہو سکتا ہے اس کی ماں کو جب یہ پتہ چلے کہ یہ لڑکا یونیورسٹی میں سے تنگ کرتا ہے تو وہ اس رشتے سے انکار کردیں یہ صرف اس کی سوچ تھی
جب ہمت کرکے یہ بات کی تو امی نے کچھ یوں جواب دیا بیٹا یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتا ہے تو یہ تو اچھی بات ہوئی نا اور لڑکے ہیں لڑائی جھگڑے تو کرتے ہی رہتے ہیں تم ذرا سی بات کو لے کر اتنی پریشان ہو رہی ہو ذرا سوچو تو سہی وہ لڑکا کتنا اچھا تھا جو تم سے شادی کی خواہش لے کر ہمارے گھر آیا
ورنہ آج کل کے لڑکوں کو توصرف افیئرز چلانے ہوتے ہیں وقت گزاری کرنی ہوتی ہے بے شک لڑکی کی زندگی برباد ہو جائے لیکن اس بچے کی شرافت دیکھو تمہیں پسند کرتے ہی وہ رشتہ لے کر آیا
مجھے تو یہ بچہ بہت اچھا لگ رہا ہے اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے میری بچی میں اس رشتے سے بہت خوش ہوں اماں نے خوشی سے اسے اپنے گلے سے لگایا
کیوں کہ عمر سے تو کوئی خاص اچھی امید رکھتی نہیں تھی لیکن یہ ہوا تھا کہ اس کی زندگی میں آنے والا اس کا ساتھی امی کو پرسکون کرگیا تھا
ّورنہ عمر جب سے گیا تھا نہ تو واپس آیا تھا نا ہی فون پر ایک بار بھی ان لوگوں سے بات کی تھی اور مریم کے ہاتھ میں اس کے نام کی انگوٹھی دیکھ کر اکثر پریشان رہتی ایسے میں عاشی کے لیے حنان کا رشتہ ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھا
امی کی خوشی کو سوچتے ہوئے وہ ہر بار کی طرح خاموش ہو گئی لیکن یہ سوچ لیا تھا کہ جب تک کہ حنان کو وہ خود ایک اچھا انسان نہیں سمجھتی تب تک اس کے ساتھ اس رشتے کو آگے نہیں بھرائے گی ۔
اگر حنان کو یہ لگتا ہے کہ کوئی کمزور بے بس لڑکی ہے جو ڈر کر خاموش ہو جائے گی تو وہ ایسا نہیں ہونے دے گی ۔وہ اسے بتائے گی کہ وہ ایک بہادر لڑکی ہے تایا نے جب پہلی بار حنان کو دیکھا تو پریشان ہوگئے تھے کہ یہ تو وہی لڑکا ہے جس نے ان کی بیٹی کی شادی توڑاوئی تھی
پہچان تو اسے امی بھی گئی تھی لیکن یہ وقت ہی ایسا تھا کہ سب ہی خاموش ہو گئے کیونکہ حنان کے والدین اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور وہ چاہتے بھی نہیں تھے کہ ان کی عزت کا جنازہ مزید نکلے
تائی کو تو بے حد غصہ آیا تھا اس لڑکے کو دیکھ کر لیکن اپنے عزت کی خاطر وہ بھی خاموش ہی ہوگی دل تو چاہ رہا تھا کہ اس رشتے سے انکار کردے لیکن وہ جو موٹی رقم ان لوگوں نے شادی کے لیے دی تھی وہ بھی تو ہاتھ سے نکل جاتی یہ عورت اور پیسہ اپنے ہاتھوں سے جانے دے ایسا تو ممکن ہی نہ تھا
رائمانے تو شادی میں نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی کیونکہ اس کا سامنا آس ہونا تھا ۔
جسے برباد کرکے وہ اپنی ایک نئی دنیا بسانے جارہی تھی لیکن حنان نے ایسا نہ ہونے دیا
گزرتے دنوں کے ساتھ آج رخصتی کا دن بھی آ پہنچا آج وہ ہمیشہ کے لئے اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر اپنے پیا کے گھر رخصت ہونے جا رہی تھی امی کی آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں وہی دل پر سکون تھا کہ ان کی بیٹی کو ایک اچھا ہمسفر مل گیا
حنان کے لیے دل میں وہ ایسے جذبات محسوس کر رہی تھی جو عمر کے لئے کبھی بھی نہ کیے انہیں یقین تھا حنان عمر سے بہتر انسان ہے یہی وجہ تھی کہ حنان کے لئے ان کے دل میں ایک خاص مقام تھا
اور وہ بھی تو امی امی کرتا ان کے دائیں بائیں گھومتے ہوئے باتوں میں لگا کے رکھتا تھا
اس نے امی کو اپنا اس طرح سے اسیر کر لیا تھا کہ میں اس کے علاوہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی
°°°°°°
رخصتی بہت افسردہ ماحول میں ہوئی ہر کسی کی آنکھیں نم تھیں وہی تایا اور تائی مسکرا رہے تھے کہ اتنا زیادہ خرچہ کرنے کے باوجود بھی ان کے پاس اچھی خاصی رقم بچ چکی تھی
لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان لوگوں کو کہہ چکے تھے ان کی دی ہوئی رقم کم پر گئی ہے اسی لیے انھوں نے خود سے ہی کچھ پیسے ڈال کر رسم ادا کی ہے لیکن ان لوگوں کے لالچ دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے ان کا یہ احسان بھی نہ لیا تھا ۔
ان کو اور پیسے دیتے ہوئے یہ احسان بھی چکا دیا۔
اور آخر عاشی ہمیشہ کے لیے اس گھر سے رخصت ہو کر اس گھرمیں آگئی عاشی کو اس گھر میں بہت دھوم دھام سے ویلکم کیا گیا تھا سب لوگ بہت خوش تھے پوری سوسائٹی اس کی شادی میں شامل ہوئی تھی ایریا کا کوئی بھی انسان ایسا نہیں تھا جو یہاں پر موجود نہ ہو
اور ایسے میں رسموں کا دور بھی بالکل ایسے ہی چلا تھا ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس نے بہو کو ویلکم کر رہا تھا ۔
عاشی بری طرح سے تھک گئی تھی رات کے 2 بجے کے قریب ایسے حنان کے کمرے میں بٹھا دیا گیا کمرہ بہت خوبصورت تھا جو ہر طرح سے حنان کے ذوق کی عکاسی کرتا تھا وہ بہترین چوز کا مالک تھا
°°°°°°
آج تو ہر کوئی اس کی خوشیوں کا دشمن بنا ہوا تھا وہ اپنی شادی سے اتنا خوش تھا کہ حد نہیں اور رخصتی کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ خوش تھا کیوں کہ اس کی خوابوں کے شہزادی ملنے والی تھی لیکن یہاں آکر سب لوگوں نے اس کے خوابوں کے شہزادی پر قبضہ جما لیا
رسموں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا اور پھر آخر کار رات کے 2 بجے جا کر اسے تھوڑا سا سکون ملا جب بتایا گیا کہ اس کی دلہن کے کمرے میں پہنچ چکی ہے ۔
لیکن پھر اس کے ایریا والے نہ سہی لیکن اس کے دوست اس کے دشمن ضرور بن گئے تھے جو اسے اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے پھر آخر کار وہ انہیں گھورتے اور ڈارتے اپنے کمرے کی طرف آیا ۔
جہاں اس کی بیگم بیڈ پر چڑھے ہوئے دونوں سینڈل ہاتھ میں پکڑےسامنے دیوار پر نشانہ لگانے میں مصروف تھیی
بےبی یہ تم کیا کر رہی ہو تم میری چھمک چھلو کو جان سے مارنا چاہتی ہو وہ دیوار پر چھپکلی کو دیکھ کر بولا
چھمک چھلو ۔۔۔! اس نے حیرت سے دہرایا
وہ چھپکلی پلیز اس کو مار دے مجھے چھپکلی سے بہت ڈر لگتا ہے وہ کافی سہمی ہوئی سے دیکھ کر بولی
آج ہماری ویڈنگ نائٹ ہے بےبی تم اس پر دھیان دینے کی بجائے اپنے شوہر کی طرف دھیان دو اس کا دلہن بنا سراپا حنان کے چاروں خانے چت کر رہا تھا۔
نہیں پہلے آپ اس کو ماریں اس نے دیوار سے چپکی چھپکلی کی طرف اشارہ کیا ۔
دفع کرو تم اس کو کیوں اتنے دھیان سے دیکھ رہی ہو مجھے جلن ہو رہی ہے ۔وہ چھپکلی کی بجائے چھپکلا بھی ہو سکتا ہے تم میری بیوی ہو مجھے دیکھو مجھ سے بات کرو مجھ سے پیار کرو کچھ رومینٹک باتیں کرو پیاری پیاری آج ہماری شادی کی پہلی رات ہے حنان نے جلس ہوتے ہوئے کہا ۔
میں سب کچھ کروں گی حنان پلیز آپ اس کو ماردیں ۔مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ وہ مسکین سی شکل بنا کر یہ بھی بھول چکی تھی کہ حنان اس کا زبردستی کا شوہر ہے ۔
مطلب کے اگر میں نے اس کو قتل کر دیا تو تم مجھ سے پیاری پیاری میٹھی میٹھی پیار بھری باتیں کرو گی تھوڑا بہت پیار بھی کر لینا باقی سب کچھ میں خود سنبھال لوں گا اس میں تو میں ویسے بھی ایکسپرٹ ہوں ۔اور جتنا تمہارے پیار میں میں ذلیل ہوا ہوں اس کے بعد تو اس کام کے لیے مجھے کسی مدد کی ضرورت بھی نہیں ہے حنان اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے بالکل اپنے قریب کرتے ہوئے اس کی شہ رگ پر اپنے لب رکھ کراٹھانا بھول گیا اس کی ریڑھ کی ہڈی سنسنائی ۔
جبکہ حنان چھپکلی کو بھلائے اس کے حیسن موجود کی رعنائیوں میں کھوتا چلا جا رہا تھا ۔جو اس کی ملکیت تھا ۔اب وہ اس کی ذات کا سربراہ تھا
جب کہ وہ سانس روکے کبھی حنان کی بڑھتی ہوئی بے قراریوں پر پریشان ہو رہی تھی تو کبھی دیوار سے چپکی ہوئی چھپکلی کو دیکھ کر ڈر رہی تھی
اسے زیادہ کس چیز سے ڈرنا چاہیے چھپکلی یاحنان سے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی
حنان چھپکلی۔۔۔ عاشی نے پھر سے یاد آیا ۔
جیسٹ ویٹ میری کوئن ابھی تمہاری چھپکلی کو ہلاک کرتا ہوں لیکن اپنے وعدے سے مکرنا نہیں چھپکلی کو قتل کرنے بعد تم میرے ساتھ پیار بھری میٹھی میٹھی باتیں کرو گی اور پیار بھی کرو گی کیا کرو گی نہ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا
آپ اس کو جان سے مار دیں میں آپ کے ساتھ پیار بھری میٹھی باتیں بھی کروں گی اور ۔۔۔۔۔۔
اور ۔۔۔۔ کیا جلدی بولو ۔۔۔۔۔اس بار اس نے ذرا سختی دکھائی
اور۔۔۔ پیار بھی کروں گی اس بار اس کا لہجہ تھوڑا زیادہ ہی مدھم تھا کہ حنان کو سننے میں مشکل پیش آئی ۔
یہ میری جان میں ابھی آیا ۔۔
پیاری چھمک چھلو مجھے معاف کر دینا میں جانتا ہوں میں بہت بڑا گناہ کرنے جا رہا ہوں ۔
آپ اس کے ساتھ مذاکرات بعد میں کر لیجئے گا پہلے قتل کریں اس کا ۔وہ چلائی تھی ۔
جب میں بات کرتا ہوں تب تمہاری آواز نہیں نکلتی اب اس دشمن کو مروانے کے لئے اس کا قتل کروانے کے لیے مجھے آگے کرتے ہوئے تو اتنا چلا رہی ہے مجھ پرجاو نہیں مارتا میں اس کو وہ فوراً مکر کر بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
حنان پلیزوہ نیچے آ رہی ہے ۔اس بار عاشی کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اسے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسے گھور رہی ہے جیسے یہاں اس کا قتل کرنے آئی ہو۔
حنان پلیز اسے مار دیں آپ جو کہیں گے میں کروں گی اس بار وہ مینتوں پر اتر آئی تھی ۔
"۔۔۔۔اوکے فائن کس می ۔۔۔۔"
حنان نے کھینچ کر اسے اپنے قریب کیا ۔اور اس کے لبوں پر جھکا وہ پورے حق سے اس کے لبوں پر جھکا اس کی سانسوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں منتقل کر رہا تھا ۔وہ نہ تو اس سے دور ہو پا رہی تھی نہ اسے خود سے دور کر رہی تھی وہ پوری طرح سے اس کے باہوں میں بے بس ہو کر رہ چکی تھی حنان کی بے بسی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے لبوں کو چھوڑ کے اب اس کی صراحی دار گردن پر اپنے ہونٹوں کو بے لگام چھوڑ چکا تھا ۔ وہ اسے اپنی باہوں میں اس طرح سے قید کر چکا تھا کہ آج کل بالکل ناممکن ہو چکا تھا ۔
اس کی دہکتی سانسوں میں سانس لیتے عاشی کچھ لمحے کے لی سب کچھ بھلا چکی تھی ۔اس کا محبت سے بھرپور لمس اسے سب کچھ بھولنے پر مجبور کر رہا تھا وہ خاموشی سے اسے محسوس کرنے لگی
جب اسے کمرے میں کچھ غیر معمولی محسوس ہوا
اس نے حنان کو دور کرتے ہوئے اس کی باہوں سے پناہ چاہیے جب وہ اسے مزید اپنے قریب کرتے ہوئے خمار آلودہ انداز میں بولا پریشان مت ہو بےبی چنکو منکو ہوں گے ۔
وہ ریلیکس انداز میں کہتا اس کا دوپٹہ اس کے جسم سے الگ کرتے ہوئے صوفے پر پھینک چکا تھا جب کہ وہ اس کے الفاظ چنکو مینکو پر ہی حیرت سے اسے دیکھنے لگی جب کہ دیوار پر اب اس کی چھمک چھلو مطلب چھپکلی موجود نہیں تھی۔
جہاں اس کی حرکت پر وہ شرم سے دوری ہوئی جا رہی تھی وہی چھنکو مینکو کو کے بارے میں جاننا بھی چاہتی تھی ۔
چینکو مینکو کو مطلب میرے کاکروچ میری چھممک چھلو مطلب چھپکلی اور میرے کاکروچ اسی کمرے میں میرے ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن تم بے فکر ہو تو میں بالکل تنگ نہیں کریں گے وہ لوگ میرے دوست ہے وہ ریلیکس انداز میں اسکی چیخیں نکال چکا تھا
کیا آپ کے کمرے میں چھپکلی کے علاوہ کاکروچ بھی رہتے ہیں
اور وہ آپ کے دوست ہیں
مجھے نہیں رہنا یہاں مجھے میرے گھر جانا ہے
مجھے میری امی کے پاس جانا ہے
میں یہاں ایک منٹ نہیں رکھ سکتی
وہ صوفے سے اپنا دوپٹہ اٹھائے باہر کی طرف دوڑ لگانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ چکا تھا ۔
بیگم مجھے تو لگ رہا تھا کہ تم کو بہت ہی بہادر لڑکی ہولیکن تم تو بہت ڈرپوک نکلی چھپکلی اور کاکروچ سے ڈر لگتا ہے تمہیں تو میرا مقابلہ کیسے کروگی ۔میں تو ان سے بھی زیادہ خطرناک ہوں وہ اسے ڈراتے ہوئے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دے اسے بالکل اپنے ساتھ کر چکا تھا
آپ سے ڈر نہیں لگتا مجھے اور مجھے کمزور لڑکی سمجھنے کی بالکل بھی غلطی مت کیجئے گا اور میں ان لوگوں سے بھی کچھ زیادہ نہیں ڈرتی ہوں بس تھوڑی بہت ڈرتی ہوں وہ اپنا کونفیڈنس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔
مطلب کے تم بہت بہادر ہواور تمیہں کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا پھر تو تمہیں چیک کرنا چاہیے آج تو میں بھی تمہیں ڈرا کر ہی دم لونگا وہ ایک آنکھ دباتا اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے دوبارہ اپنے قریب کرتے ہوئے اس کی سانسوں میں اپنی سانس سے الجھا چکا تھا ۔
اپنی تشنگی مٹانے کے بعد وہ اس کے لبوں کی جان بخشتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں بھر کر بیڈ کر لے آیا
اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے وہ پوری طرح اسے اپنی باہوں میں قید کر چکا تو تیار ہو جاؤ ڈرنے کے لئے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس کے جھمکے اتار کر زمین پر پھینک چکا تھا جب کہ عاشی اس کی پناہ سے آزادی چاہتے ہوئے مزید اس کی باہوں میں سمٹتی جا رہی تھی۔
وہ اس کے پاس نہیں آنا چاہتی تھی نہ ہی اسے کوئی حق دینا چاہتی تھی لیکن اس کی محبت کے سامنے وہ اس طرح سے بے بس ہوئی تھی کہ حنان اس پر ذات پر اپنی ملکیت اور محبت کے جھنڈے گاڑتے ہوئے اسے اپنا بنا چکا تھا ۔
اور گزرتے ہر لمحے کے ساتھ اس کی باہوں میں پگلتی چلی گئی
............
عاشی اس کی باہوں میں گہری نیند سو رہی تھی
۔وہ ساری رات اس کی شدتوں کو سہتی بری طرح سے تھک چکی تھی پھر صبح پانچ بجے کے قریب حنان کو اس پر ترس آ گیا اور اسے سونے کی اجازت دے دی
لیکن اس کے انداز سے عاشی اس کی محبت کا بھرپور اندازہ لگا چکی تھی ۔
اور اب حنان جانے کب سے اسے اپنی باہوں کے حصار میں لیے اس کی سوئے ہوئے خوبصورت چہرے پر نظریں ٹکا ئے ہوئے تھا
منزل کو حاصل کر لینے کا احساس بھی کتنا خوبصورت ہوتا ہے ایسے ہ احساس میں حنان میں اس وقت گرا ہوا تھا اس کی خوبصورت منزل اس کی باہوں میں تھی
جس سے وہ بے پناہ محبت کرتا تھا
اس کے بغیر رہنا اب حنان کے لیے ناممکن تھا وہ کب سے اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا کیا نہیں تھا اس کے چہرے پر خوبصورتی معصومیت وہ ایک پاکیزہ وجود جواب اس کا نصیب تھا جسے پا کر وہ بہت خوش تھا اس کی پہلی اور آخری محبت
کتنا خوبصورت احساس تھا اسے پا لینے کا اسے اپنا بنا لینے کا اوقر اب تو وہ اسے مکمل اپنی محبت میں قید کر چکا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے لیکن حنان اسے پہلی رات ہی منا لینا چاہتا تھا اور شاید اس نے منا لیا تھا
حنان تو ساری رات ایک پل کو بھی نہ سویا تھا اور نہ ہی اس کا دل چاہا اس کے چہرے سے نظریں ہٹانے کا وہ ساری رات اسے دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتا رہا اور عاشی اس کی باہوں میں گہری پرسکون نیند سو رہی تھی ۔
رات کمرے میں آتی کھڑکی سے ہوا کی آواز کو اس نے چین کو چینکو منکو کا نام دے ڈالا جبکہ چھمک چھلو کو تو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ چھپکلی اس کے کمرے میں کہاں سے آگئی ہاں لیکن عاشی کو تنگ کرنے میں اسے الگ ہی مزا آ رہا تھا
اسے پتہ تھا ہر لڑکی کی طرح عاشی بھی کارکروچ اور چھپکلی سے ڈرتی ہو گی اور یہی ڈر اس کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوا تھا
اب یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ جب تک چھممکچھللو اور چینکو مینکو خود اس کے سامنے نہ آئے وہ اس کے بارے میں نہیں پوچھے گی
آاس وقت صبح کے گیارہ بج رہے تھے ابھی تک کسی نے بھی انہیں جگانے کی گستاخی نہیں کی تھی لیکن وہ جاگ رہا تھا اور انتظار میں تھا کہ کب کوئی آئے اور وہ عاشی جگانے کی گستاخی کرے
وہ صبح کے تقریبا پانچ بجے ہی سوئی تھی
اب وہ اسے ڈسٹرب کر کے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے چہرے کی شرماہٹ اور اپنے نام کی سرخی دیکھنے کے لئے بھی بے چین تھا
لیکن اب تک کوئی انہیں جگانے ہی نہ آئیں ویسے تو دلہا دلہن کو صبح صبح ہی جگہ ڈسٹرب کیا جاتا ہے لیکن نہ جانے اس کے والدین کس پر گئے تھے جنہیں اسے ڈسٹرب کرنے کا بالکل خیال نہیں آیا وہ یہی سب سوچ رہا تھا جب اچانک ہی وہ اس کی باہوں میں عاشی زرا سا کسمسائی جب اس نے اسے مزید اپنے قریب کرتے ہوئے گھیرا مضبوط کرلیا ۔
اب وہ موومنٹ بھی آگیا جس کا وہ بے چینی سے انتظار کر رہا تھا وہ اس سے نظر ملاتے ہوئے نظریں جھکا کر اس کے قریب سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کی پکڑ بہت مضبوط تھی جو اسے اٹھنے نہیں دے رہی تھی
میری پیاری سی نازک سی جان اتنی بھی جلدی کیا ہے یہاں سے بھاگنے کی ابھی تو میں نے تمہیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں وہ اسے کھینچ کر اپنی نزدیک کرتے ہوئے خود پر گرا چکا تھا ۔
وہ مجھے فریش ہونا ہے کتنا وقت ہو گیا ہے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے وہ بہانہ بنانے لگی
یہ میرا گھر ہے بےبی اور یہاں کوئی بھی ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا جب تک تمہارا شوہر نہیں چاہے گا تم بے فکر ہو کر اپنے شوہر کی باہوں میں آرام فرما سکتی ہو وہ مسکرا کر اسے مزید اپنی باہوں میں قید کرتے ہوئے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔
اس معصوم کے پاس تو بچنے کی کوئی راہ تھی اور نہ ہی کوئی وجہ وہ بنا مزاحمت اس کے سینے پر سر رکھے کمرے کو دیکھ رہی تھی جہاں کل رات ایک چھپکلی اور دو کاکروچ بھی موجود تھے جس کی وجہ سے وہ اس شخص کے اپنے پاس آ گئی لیکن وہ اتنا بھی برا نہیں تھا کتنی محبت سے وہ اس کے پاس آیا اسے چھوا کسی پھول کی طرح سنبھال کر رکھا
جیسے اک ذرا سی ٹھوکر لگ جانے تو وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی حنان محبت کرنے اور محبت نبھانے میں بھی کمال رکھتا تھا ۔
یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ وہ ایک ہی رات میں اس کی پناہوں میں آ کر اس کی دیوانی ہو چکی تھی بے شک وہ اس کی محبت میں بری طرح سے قید ہو چکی تھی ۔ہر لڑکی کی طرح وہ بھی ایک ہی رات میں اپنے شوہر کو بے پناہ چاہنے لگی تھی
جس سے دور ہونے کا تصور بھی اس کے لئے ساہان روح تھا
لیکن اب وہ اس سے نظریں ملانے کی ہمت کہاں سے لاتی رات تو وہ اسی کی باہوں میں چھپ کر اسے اس کے ارادوں میں روک نہیں پائی اور اب بھی وہ ایسا ہی کر رہا تھا اس کی کمر پو حنان کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی
اور وہ آنے والے لمحات کے لئے تیار نہیں تھی کیونکہ ابھی تو وہ حنان کی رات کی شدتوں سے نہیں سنبھلی تھی کہ وہ اسے ایک بار پھر سے اپنی پناہوں میں قید کر لینا چاہتا تھا۔
حنان ایک ہی جھٹکے میں وہ اسے بیڈ پر گراتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا اس سے پہلے کہ وہ اس کے لبوں کو اپنے ستم کا نشانہ بناتا کسی نے درواے پر دستک دی
حنان بیٹا اٹھ گئے تو باہر آجاؤ شام میں ولیمے کی تقریب شروع ہوگی امی کی آواز پر اس نے ذرا سا چہرہ اٹھا کر اس کے ساتھ چہرے کو دیکھا اور پھر امی کو جواب دے کر اٹھنے کی اجازت دیے بنا اس کے لبوں پر جھکا ۔
محبت سے بھرپور جسارت اس کے لبوں پر چھوڑ کر وہ اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا جبکہ وہ کتنی ہی دیر اس کی خوشبو میں سانسیں لیتی اپنا چہرہ اپنے ہی ہاتھوں میں چھپا کر شرما دی ۔
پھر اس کی رات بھر کی جسارتوں کو سوچ کر کتنی دیر شرماتی رہی کہ وہ باہر آ کر آئینے کے سامنے کھڑا ہوا اور عاشی لو پتہ بھی نہ چلا
جبکہ حنان اس کے خوبصورت چہرے اور شرمائے ہوئے روپ کو فرصت سے دیکھنے لگا
لگتا ہے محترمہ آپ نے فریش نہیں ہونا وہ اس کے بالکل قریب انتہائی شرارت سے بولا جب کہ اپنے اتنے قریب اس کی آواز سن کر عاشی اگلے ہی لمحے واش روم کی طرف دوڑ لگا چکی تھی جب کہ اس کی سپیڈ دیکھ کے حنان کا قہقہ بے ساختہ تھا
°°°°°°°°
ولیمہ بہت شاندار طریقے سے ہوا تھا سب کچھ ہی زبردست اور سب کچھ ایریا والوں نے کیا تھا پورا ایریا اس کے ولیمے میں شامل تھا اور پوری سوسائٹی کو بھی انوائٹ کیا گیا تھا لیکن مدثر کی طرف سے کوئی بھی اس کی شادی میں شامل نہ ہو سکا
ولیمہ کے بعد عاشی کو رسم کے لیے گھر لے جانے کے بات ہوئی تو حنان فوراً منع کر گیا کہ یہ رسم نہیں ہو گی لیکن امی نے کہا کہ یہ رسم بہت ضروری ہے لیکن اگر وہ اس کے ساتھ جانا چاہے تو جا سکتا ہےلیکن سب کے سامنے اس نے کہہ دیا کہ اکیلے ہی جائے گی ہیں آخر ساری زندگی اسی کے ساتھ رہے گی اور اب حنان کو عاشی کے بغیر بہت بے چینی ہورہی تھی
لیکن اب وہ صبر کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس وقت رات کے آٹھ بجے تھے آہستہ آہستہ سب مہمان جارہے تھے اتفاق سے اج آس کے ساتھ انیلا بھی اس کے ولیمے میں شامل ہو گئی جب سے اس کی شادی کی باتیں شروع ہوئی تھی یا پھر شادی طے ہونے کے بعد اس نے انیلہ کو نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی وہ دیکھنا چاہتا تھا
لیکن آج انیلا جب اس کے ولیمے میں شامل ہوئی تو اسے خوشی ہوئی تھی کہ انیلا ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے جو ایک بات کے پیچھے پڑ جاتیں ہیں لیکن اس کی سرخ آنکھیں ماور مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ پریشان ہوا تھا
اس نے کبھی بھی انیلہ کے جذبات کے ساتھ نہیں کھیلا تھا اور نہ ہی اسے کوئی امید دلوائیں تھی انیلہ خود ہی اسے اپنا بی ایف بنا کر پوری یونیورسٹی میں بد نام کر رہی تھی
اور اب انیلہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو بھی یہ بات بتا چکی تھی کہ حنان شادی کر چکا ہے اور عاشی ہی وہ لڑکی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور جس کے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔
محبت انسان کو رسوا کر دیتی ہے انیلا خود ہی اپنی بے جا اور خود ساختہ محبت میں رسوا ہو رہی تھی اس کی آنکھوں کے آنسو اس کی آنکھوں کی سرخی محبت میں ناکامی یہاں موجود محفل میں ہر انسان بخوبی دیکھ سکتا تھا لیکن انیلہ کی ہمت کی داد دینی ہوگی جو آج اپنی آنکھوں اسے کسی اور کا ہوتے دیکھ کر اس محفل میں شامل ہو گئی تھی
وہ جانتا تھا دو دن کے بعد انیلا امریکہ جانے والی ہے اور آج آخری بار اسے دیکھنے کے لیے یہاں آئی ہے وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ سوچ کر اس کے پاس جانے لگا کہ وہ اس کی ایک اچھی دوست ہے اس کے گروپ کا بھی ایک اہم حصہ رہی ہے اور اب مجھ سے دور جا رہی ہے تو گڈبائے تو بنتا ہے
آس نے اس کے پاس جانے سے منع کیا تھا شاید وہ جانتا تھا کہ انیکہ اس وقت بہت زیادہ اداس ہے پریشان ہیں اسی لیے اس نے کہا کہ اس کے پاس نہیں جانا چاہیے لیکن حنان کا دل چاہا کہ وہ ایک بار سوری بولے
بے شک اس کی کوئی غلطی نہیں تھی اس نے کبھی بھی انیلہ کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش نہیں کی وہ خود ہی اس کی طرف کھنچی چلی آ رہی تھی لیکن جو بھی تھا جیسا بھی تھا بس کی دوست تھی اور ایک بار صرف ایک بار جو ایسے سمجھانا چاہتا تھا کہ اسے آگے بڑھنا چاہیے یہ سب کچھ بھلا کر اور یقینا وہ اس بات کو سمجھے گی یہی سوچ کر وہ اس کے پاس چلا گیا
°°°°°°°°
تم یہاں تک آئی مجھے بہت اچھا لگا تم جا رہی ہو یہ سن کر برا بھی لگ رہا ہے خیر پڑھائی تو مکمل ہو چکی ہے اوقر رزلٹ جب آئے گا فون کرکے میں ہی بتا دوں گا وہ شرارت سے بولا جب کہ اس کی آنکھوں کی سرخی سے نظریں چرا گیا
اب کوئی فرق نہیں پڑتا میں پاس ہوں یافیل مجھے کسی چیز سے کوئی مطلب نہیں جس سے مطلب تھا وہ تو کسی اور کا ہو گیا وہ ٹوٹی ہوئی تھی لیکن حنان اسے سنتا گیا
تم جانتے ہو محبت میں ناکامی کا درد کیا ہوتا ہے شاید نہیں اور شاید سمجھ میں نہیں پاؤ گے تم نے تو جسے چاہا اسے حاصل کر لیا اور میں۔۔۔۔۔
تمہارے علاوہ میں نے کبھی کسی کو نہیں چاہا تھا اور تم ہی مجھ سے الگ ہو کے مجھ سے دور چلے گئے میں چاہ کر بھی تم حاصل نہیں کرپائی میں پوری یونیورسٹی میں سب سے کہتی تھی کہ تم میرے ہو اور آج پوری دنیا کے سامنے تو کسی اور کے ہو گئے اور میں یہ صرف دیکھتی رہ گئی ۔
قسمت اسی کو کہتے ہیں دیکھو نا کل تک ساری دنیا کے سامنے میں دعوا کرتی تھی کہ میں تمہیں حاصل کر لوں گی تمہیں پا لوں گی اور آج تم کسی اور کے ہو گئے ہو ۔اس کے آنسو بری طرح سے بہہ رہے تھے لیکن حناح اب بھی خاموش تھا
کاش تم میرے ہوتے حنا کاش تم ہوتے صرف میرے لیکن اب اس طرح کہہ کر کسی اور کا نصیب نہیں چھینوں گی
حنان اب میں جانا چاہتی ہوں مجھے روکنا مت کیونکہ پھر میرا دل چاہے گا کہ تمہیں میری محبت کا احساس ہو تمہیں پتہ چلے کہ میں اس وقت کس دوہرئے پر کھڑی ہوں تمہیں پتہ چلے کہ میں محبت میں ناکام ہو کر کون سا درد جیل رہی ہوں
حنان نہ جانے کیوں میرا دل چاہتا ہے کہ تم میرے درد کو محسوس کرو تم میری تڑپ کو سمجھو تم بھی وہی درد محسوس کرو جو بھی اس وقت محسوس کر رہی ہوں لیکن میں تمہیں بددعا نہیں دے رہی میں تمہیں بددعا دے ہی نہیں سکتی میں بے تحاشا محبت کرتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں میرا دل چاہتا ہے کہ جس آگ میں جل رہی ہوں اس آگ میں تم بھی جلو مجھے جانے دو یہ نا ہو کہ میرے دل سے کوئی بددعا نکل جائے اور تم برباد ہو جاؤ انیلہ اپنے لبوں پے ہقتھ رکھے وہاں سے بھاگتے ہوئے باہر کی طرف جا چکی تھی
کیوں اللہ انسان کے دل میں ایسے شخص کے لیے محبت پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ کبھی حاصل نہیں کرپاتا کیا انیلہ نے سچ میں اس سے محبت کی تھی لیکن اگر یہ محبت تھی تو وہ کیوں پا نہیں سکی کہتے ہیں محبت میں اگر لگن سچی ہو تو انسان ہر چیز حاصل کر لیتا ہے
حنان کی لگن سچی تھی اسی لئے اس نے اپنی محبت کو پا لیا تو کیا انیلا کی لگن سے سچی نہیں تھی کہ وہ اپنی محبت کو کھو چکی تھی کیوں ہوا تھا یہ سب کچھ انیلہ کی باتیں کسی بد دعا کی طرح محسوس کر رہا تھا اللہ نہ کرے کہ اس کی زندگی میں کبھی کوئی دن ایسا آئے گا کہ جب وہ عاشی کی جدائی کو محسوس کرے عاشی کی جدائی کا درد سہے
چند دن میں وہ لڑکی اس کے دل سے روح میں اتر چکی تھی وہ اس کے بغیر سانس لینے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتا تھا لیکن انیلہ کی باتوں نے اسے عجیب سے ڈر میں گرفتار کر لیا تھا
اب وہ عاشی سے دور نہیں رہنا چاہتا تھا اور نہ ہی رہ سکتا تھا اس نے جیب سے فون نکالا اور امی سے کہا کہ وہ عاشی کے پاس جا رہا ہے اس کے بغیر رہنا اب اس کے لیے ممکن نہیں ہے اس نے پہلی بار اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کیا تھا امی نے مسکرا کر لے جانے کی اجازت دے دی
عاشی ایک خوش قسمت لڑکی تھی جسے ایسا چاہنے والا شخص ملا تھا جو شخص کسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتا عاشی کے لئے اس کے جذبات بھی سامنے تھے اس کا اظہار بھی سرعام تھا
کچھ ہی دنوں میں سوسائٹی میں الیکشن شروع ہونے والے تھے ووٹنگ ہو رہی تھی کہ کون سوسائٹی کا اگلا مینیجر بنے گا مدثر غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہا تھا وہ حنان پیار محبت کی زبان استعمال کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف مدثر کر غلط کام رہا تھا جو ووٹ حاصل کرنے کے لئے کر سکتا تھا مدثر کے اندر جلتی حسد کی آگ کس کو کتنا جلائی گئی ہیں تو صرف وقت ہی جانتا تھا
.......................
عاشی گہری نیند سو رہی تھی جب اسے اپنے اوپر وزن محسوس ہوا اسے لگا شاید مریم آپی اس کے ساتھ سو رہی ہیں
وہ آہستہ سے اٹھنے لگی جب اسے مریم کی جگہ حنان آپنے بالکل قریب نظر آیا وہ تو گھر پہ تھا یہاں کیسے آیا
وہ تو یہاں نہیں آنے والا تھا اور اس کے ساتھ آنے سے بھی منع کر دیا تھا اس نے کہا تھا کہ وہ کل اسے لینے آئے گا تو اچانک یہاں کیسے آیا اسے اپنے قریب دیکھ کر عاشی پریشان ہوئی تھی
جب کہ وہ اس کے سینے پر سر رکھے گہری نیند میں سو چکا تھا اس نے اس کو جگانے کا سوچا کیونکہ وہ اس کی باہوں میں بری طرح قہد تھی لیکن اس کو جگاوہ پھر اپنے لئے دوبارہ مصیبت کو آواز نہیں دے سکتی تھی اسی لیے بنا آواز کئے اس کے ساتھ ہی وہی پری رہی
دل تو کر رہا تھا کہ سانس بھی نہ لے کہیں وہ جاگ گیا تو عاشی کے تو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے کہ وہ کل رات اس کی محبت میں پوری طرح سے ڈوبی ہوئی تھی اور کہاں آج وہ اس کی شدت سے بچنا چاہتی تھی ۔
حنان کی بے پناہ محبت سے ڈرنے لگی تھی اس کا جنون اس کی حق جتاتا لہجہ اسے پریشان کر رہا تھا اسے صبح والی حنان کی ضد یاد آئی
کہ وہ اس کے منہ سے اپنے لیے اظہار محبت کرنا چاہتا ہے اور ولیمے کی تقریب میں بھی اسے تنگ کرتا رہا اور وہ بھی اس کی بےچینی بھرپور فائدہ اٹھا کر اس کو نخرے دکھاتی رہی
وہ جان چکا تھا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسی نے کھل کر اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا اور یہی چیز حنان کو غصہ بھی دلا رہی تھی اور اس معاملے میں وہ کچھ کر بھی نہیں پا رہا تھا سارا دن اسے تنگ کرنے کے باوجود بھی جب اس نے اظہار محبت نہ کیا
اس معاملے میں وہ اس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی بھی نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ اس عاشی نے اس کی ضد کے سامنے انتہائی معصومیت سے کہا تھا کہ میں اظہار نہیں کروں گی تو کیا آپ زبردستی کروائیں گے اور تب سے حنان خاموش ہو گیا وہ اس سے اپنی محبت کا اظہار چاہتا تھا لیکن زبردستی نہیں وہ چاہتا تھا کہ وہ دل سے اپنی محبت کا اظہار کرے
لیکن اس لڑکی نے تو اسے آزمانے کی قسم کھا رکھی تھی ۔
عاشی اس کی سارے دن بھر کی اس کی باتیں سوچتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کیا تھا حنان دنیا کے سامنے سخت مغرور اکڑو قسم کا لڑکا اور حقیقت میں ایک معصوم سا دل رکھنے والا ایک بہت ہی پیارا انسان جس پر صرف اور صرف عاشی کا حق تھا ۔
وہ بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی جب اچانک اس کے لب کھلے اگر اپنی شامت نہیں بلانا چاہتی تو سو جاؤ بیوی ورنہ اگر میں موڈ میں آ گیا تو پھر پچھتاوگی اس کے دیکھنے کے انداز میں شرارت واضح تھی جب کہ اس کی رات بھر کے شدتوں کا سوچتے ہوئے اگلے ہی لمحے عاشی آنکھیں بند کر سونے کی بھرپور کوشش کرنے لگی جبکہ وہ اسے مزید اپنی باہوں میں قید کر چکا تھا
°°°°°°°°°
عاشی کی آنکھ کھلی تو وہ رات کا منظر ایک بار پھر سے اس کے سامنے تھا وہ بالکل ویسے ہی اس کے بالکل پاس اسے اپنی باہوں میں قید کیے گہری نیند سو رہا تھا
لیکن اب بہت وقت ہو چکا تھا وہ سارا وقت اسے دیکھنے میں ضائع نہیں کر سکتی تھی اس کو باہر جانا تھا نہ جانے اس کی ماں اور بہن اپنے جمائی راجہ کے لیے کیا کیا تیاری کر رہی ہوں گی اس نے اس کے قریب سے کوشش کی جو ناکام ہوچکی تھی
آپ جاگ رہے ہیں چھوڑے مجھے باہر جاکر آپی اور امی کی مدد کرنی ہے وہ احتجاج کرتے ہوئے بولی
جا سکتی ہو تو چلی جاؤ میں نہیں چھوڑوں گا وہ شرارت سے کہتا اسے ایک بار پھر سے اپنے شکنجے میں وید چکا تھا
حنان پلیز مجھے جانے دیں باہر آپی اور امی اکیلے کام کر رہی ہوں گی مجھے ان کی مدد کرنی ہے وہ انتہائی معصومیت سے بولی تو حنان اس کا چہرہ دیکھنے لگا
پہلے آئی لو یو بولو پھر چلی جانا حنان نے شرط رکھی
پھر وہی ضدکیسے بولوں میں آپ سے جب کہ میں آپ سے پیار کرتی ہی نہیں تو انتہائی شرارت سے اس کے اتنے قریب تھی کہ وہ اس کی سانسوں کی آواز اور دل کی دھڑکن بھی باآسانی سے سن سکتا تھا
اظہار تو تمہیں کرنا ہوگا اور پیار بھی تم کرتی ہو آج نہیں تو کل سہی لیکن ایک نہ ایک دن تم پوری دنیا کے سامنے تم مجھ سے محبت ہے اظہار کرو گی تیار رہو اس دن کے لیے کیونکہ جس دن تم نے اقرار کیا اس دن میں کوئی ریاعت نہیں دوں گا وہ نرمی سے اس کے بلوں کو چومتا اٹھ کر واش روم میں بند ہوچکا تھا
حنان سکندر خان میں بھی آپ کی بیگم ہوں اتنی آسانی سے تو کہو گی نہیں آپ سے اپنے دل کی بات اگر آپ سے ایڑی چوٹی کا دم نہ لگاوایا تو میرا نام بھی مسز حنان سکندر خان نہیں وہ معصومیت سے اسے خود ساختہ چیلنج کرتی اٹھ کر ڈریسنگ روم میں آئی تھی آپنے کپڑے نکال کر سیدھے مریم کے کمرے میں چلی گئی
کیونکہ اگر حنان کے آنے کا انتظار کیا تو یقینا وہ شرارتی انداز میں اسے تنگ کرنے لگے گا پر فی الحال اسے حنان کے پاس نہیں بلکہ ماں اور مریم آپی کی مدد کرنے کے لئے جانا تھا
کہاں کل تک وہ اس سے شادی سے انکار کر رہی تھی اور کہاں آج اسی کا بخشا ہوا یہ روپ سروپ لیے ہر طرف شرمائی شرمائی گھوم رہی تھی امی تو مریم اس کی خوب درگت بنا رہی تھی کہ تمہیں تو حنان بالکل پسند نہیں تھا تو پھر اچانک اس کے نام پر اتنا شرمانا کہاں سے سیکھا
جب کہ اس معصوم کے پاس تو کوئی جواب ہی نہیں تھا اور نہ وہ حنان کی قربتوں کا ذکر سب کے سامنے نہیں کر سکتی تھی ۔ امی تو اس کی بلائیں لیتی نہ تھکتی جب کہ مریم تو آتے جاتے اسے چھڑ دیتی اب تو حنان کا نام ہی کافی تھا اس کی جان مشکل میں ڈالنے کے لیے
°°°°°°°°
مریم اور حنان کی بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی مریم کی طرح وہ امی کے ساتھ جس طرح سے کھل کر بات کر رہا تھا عاشی کو وہ ایسا کبھی بھی نہیں لگتا تھا
کہ وہ اتنا فرینڈلی ہو سکتا ہے جبکہ مریم کو بھی وہ بہت پسند آیا تھا وہ تو ابھی سے ہی سے اپنا بھائی کہنے لگی تھی
اور پھر امی کا بھی سارا دن اس کی خاطرداری کرنا اسی کی طرف دھیان دینا عاشی کو تو جلن ہونے لگی تھی کہ شادی اس کی بھی ہوئی ہے بیٹی وہ ان کی ہے اور وی آئی پی ٹریٹمنٹ گھر میں ان کے داماد کو مل رہا ہے یہ کیا بات ہوئی
کل رات حنان نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسے ہنی مون پر مری لے کر جا رہا ہے ایک ہفتے کے لئے اور وہ ایک ہفتے کے لیے اپنے گھر والے سے دور رہنے والے تھے اور یہاں سب اس سے زیادہ حنان کو اہمیت دے رہے تھے جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں جلن ہو رہی تھی گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اسے ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت ملتی آئی تھی اور اب اچانک حنان ان دونوں کا لاڈلا بنتا جا رہا تھا تو جلن تو بنتی تھی
سارا دن ان دونوں گزار کر وہ شام کو اسے اپنے ساتھ یہاں لے کر آیا تھا لیکن یہاں ایک الگ منظر تھا جہاں جنان ہمشہ سےاپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا وہاں اب عاشی آ چکی تھی جیسے عاشی ان کی بیٹی ہو اور حنان ان کا دماد ہو
لیکن حنان اس سب سے بہت خوش ہو رہا تھا کیونکہ وہ پہلے ہی یہی چاہتا تھا کہ اس کی بیوی کو بھی گھر اپنے جنتی اہمیت ملے
لیکن یہاں تھوڑا زیادہ ہو گیا تھا کیونکہ آج رات کے گیارہ بجے بھی ان دونوں کے کمرے میں بیٹھے نہ جانے کیا کر رہی تھی جبکہ حنان اس کا انتظار کرتے کرتے ایک بار نیند کی جھونکی بھی لگا چکا تھا
وہ رات آٹھ بجے کے قریب کمرے میں آیا تو اسے نیند آ رہی تھی اور لیٹے لیٹے اس کے انتظار میں ہی اس کی آنکھ لگ گئی لیکن اپنے قریب اسے نہ پا کر جلد ہی اس کی آنکھ کھل گئی
جب سوکر اٹھا تو اس رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے اور ابھی تک عاشی کا کوئی اتا پتا نہیں تھا وہ مجبور ہو کر اٹھا اور اپنے ماں باپ کے کمرے میں آیا
وہ خود پر کمبل ڈالے ہوئے امی کے ساتھ بیڈ پر بٹھی نہ جانے کون سے قصے کہانیاں سنانے میں مصروف تھی بابا بہت غور سے صوفے پر بیٹھے اس کی باتیں سن کر مسکرا رہے تھے جبکہ امی تو ساتھ ساتھ مونگ پھلی کے دانے چھیل کر اس کے منہ میں ڈال رہی تھی
یہاں پر کیا ہو رہا ہے عاشی تم نے سونا نہیں ہے کیا اتنا وقت ہو چکا ہے چلو کمرے میں چل کے سو جاؤ اور اب بابا اقر امی کو بھی آرام کرنے دو وہ اس کے قریب آ کر بولا جس پر امی اور بابا دونوں کا ہی موڈ آف ہو گیا
بیٹا جی وہ گئی تھی کمرے میں مگر آپ آرام فرما رہے تھے تو واپس آ گئی بابا نے بتایا
بابا میں اس کا انتظار کررہا تھا اور انتظار کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی مجھے پتہ نہیں چلا مجھے نہیں پتہ تھا یہ اب تک یہاں بیٹھی آپ دونوں کا سرکھارہی ہوگی
چلو عاشی بہت ٹائم ہوگیا ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر سے اٹھانے لگا
نہیں مجھے نہیں جانا آج یہی سونگی امی کے پاس وہ امی کے گلے میں بازو ڈالے لاڈ سے بولی
ہاں بیٹا کیوں نہیں تمہیں سو جاؤ ویسے بھی حنان کو تمہارے بغیر بہت اچھی نیند آتی ہے امی نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا
بالکل بھی نہیں اچھی پلاینگ کی ہے آپ دونوں نے میری بیوی کو مجھ سے دور کرنے کے لیے لیکن میرا نام بھی حنان سکندر خان ہے اور اس طرح سے تومیں اپنی بیوی پر کسی کو قبضہ جمانے نہیں دوں گا وہ ایک ہی لمحے میں کہتا ہے اسے اگلے ہی سیکنڈ اپنی باہوں میں اٹھائے کمرے سے باہر لے گیا جبکہ اس کی حد درجہ بے باکی پر عاشی نگاہ تک نہ اٹھا پائی جبکہ اس کے ماں باپ اس کی اس حرکت پر مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کے دیکھ کر رہ گئے
°°°°°°°
چھوڑیں حنان نیچھے اتریں مجھے پلیز حنان آپ کتنے بدتمیز ہیں ذرا شرم نہیں آتی آپ کو ماں باپ کے سامنے ایسی حرکت کرتے ہوئے کیا سوچ رہے ہوں گے وہ ہمارے بارے میں وہ شرمندگی کی کھائیوں میں گری مسلسل برابڑارہی تھی
جبکہ حنان مسکراتے ہوئے اسے کمرے میں لاکر پاوں کی مدد سے دروازہ بند کرتا اسے بیڈ پر لٹانے لگا
حنان میں آپ سے بول رہی ہوں کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے آپ کی ان حرکتوں ۔۔۔۔۔۔اس کے چپڑچیڑ چلتی زبان حنان کے لبوں نے بند کی تھی
جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ جلدی کمرے میں آنا میں تمہارا انتظار کروں گا تو پھر کیوں اتنی دیر ان کے کمرے میں رہیں اور وہ میرے ماں باپ ہیں وہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ میری کوئی بھی چیز پر اگر کوئی اور اپنا حق جاتتا ہے تو میں ایسا ہی کرتا ہوں
اور تم کوئی چیز نہیں بلکہ میری محبت ہو میرا پیار ہو اور اگر میری محبت کو وہ لوگ مجھ سے دور کریں گے بے شک شرارت میں ہی سہی تو مجھے برا تو لگے گا ہی نا تو پھر میں ایسی ہی حرکت کروں گا ہاں میں تھوڑا بے شرم ہوں تھوڑا بد دماغ ہوں بد تمیز بھی ہو اور بے باک بھی ہوں
اور تمہیں ایسے ہی شخص کے ساتھ ساری زندگی گزارنی ہے وہ محبت سے کہتا اس کے چہرے پر جھکا تھا مجھے نیند آرہی ہے حنان آپ اپنی نیند مکمل کر چکے ہیں میری ابھی تک نہیں ہوئی وہ فورا سے روکتے ہوئے بولی
تو کہا تھا کہ کمرے میں آؤ اس وقت تو ہم آرام کر رہے ہوتے وہ انتہائی بولڈ انداز میں کہتا ایک بار پھر سے اس کے لبوں پر جھکا تھا اور عاشی اس کی بے باکیوں پر دہری ہوتی اپنے آپ کو اس کے سپرد کرچکی تھی ۔
حنان اس موم کی گڑیا کو اپنے ساتھ لگاتا کسی اور ہی دنیا کا باسی بن چکا تھا جہاں صرف اور صرف اس کی عاشی اور حنان تھے وہ ایک الگ ہی جہاں تھا جہاں وہ عاشی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا جہاں کوئی بھی نہ ہو کوئی تیسرا نہیں صرف ایک عاشی اور حنان اور ان کی محبت اور عاشی بھی ہمیشہ اسی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی جہاں وہ لے جائے وہ اپنے ہم سفر کے ساتھ چلنے کو تیار تھی
کل ان لوگوں کو مری کے لئے نکلنا تھا
عاشی اس سے پہلے کبھی مری نہیں گئی تھی تو اس کے لیے وہ کافی زیادہ ایکسئیڈ تھی جبکہ حنان اس کی ایکسائٹمنٹ سے بھرپور باتیں سنوتے ہوئے بار بار اس کے لبوں کو چومتا جس پر وہ ذرا سا شرم آ کر آگے پیچھے دیکھتی اور اس کے سینے پر مکا مارتے ہوئے ایک بار پھر سے اپنی باتوں میں مگن ہو جاتی ۔
جبکہ اس کا یہ روپ حنان کے لئے دنیا کا سب سے خوبصورت منظر تھا
....................
لاہور سے مری تک کا بائ روڈ سفر کرتے ہوئے راستے میں کہیں جگہوں پر رکے کے ہر جگہ پر تصویریں بنائی حنان خود ڈرائیو کر رہا تھا اسلیے راستے میں اسے جی بھر کر تنگ کیا
دو جگہ پر رک کے انہوں نے کھانا کھایا چائے پی ۔سفر کافی زیادہ لمبا تھا انشاء کو گاڑی چلانے نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ تھوڑی دیر کے بعد یہ ضرور کہتی کہ حنان آپ تنگ گئے ہوں گے یہاں پر تھوڑی دیر رک جاتے ہیں آپ آرام کر لیں
حنان نے پہلے تو اس کی بات نہ مانی اور پھر کچھ آگے جا کے ایک ویران جگہ دیکھتے ہوئے وہی گاڑی روک دی اور پھر اپنی باتوں اور حرکتوں سے اسے حد درجہ زچ کیا کہ وہ پچھتائی کہ اسے روکنے کے لیے کیوں کہہ دیا
نہ تو اس سفر میں حنان کے چہرے پر کسی قسم کی تھکاوٹ تھی اور نہ ہی اس کے انداز میں کوئی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی وہ تو اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت سفر کر رہا تھا جس میں اس کہ ہمسفر اس کے ہر قدم پر اس کے ساتھ ساتھ تھی
وہ ہر تھوڑی دیر میں اسے تنگ کرنے لگتا لیکن پھر بیچ میں اس نے اسے سونے کے لئے کہا کیونکہ سفر بہت لمبا تھا اور ابھی بہت فاصلہ طے کرنا تھا مری تو شاید انہوں نے صبح کے تین بجے تک بھی پہنچنا تھا
اس کے کہنے پر وہ تھوڑی دیر کے لئے آرام کرنے لگی لیکن بس یہی سوچ حاوی تھی کہ حنان اتنی زیادہ ڈرائیو کرنے کے بعد کتنی بری طرح سے تھک چکا ہوگا کاش اسے گاڑی چلانی آتی یقیناٙ وہ اس کی ہیلپ کرتی
جس طرح کی لڑکیوں کے ساتھ حنان کا اٹھنا بیٹھنا تھا وہ اتنی ماڈرن اور نئے زمانے کی تھی کہ انہیں تو ہر کام آتا تھا خاص کر انیلا تو ان سب کاموں میں بہت تیز تھی نہ صرف چال ڈھال میں وہ بہت بولڈ تھیں بلکہ گاڑیاں بائیک سب اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا
اگر آج وہ حنان کے ساتھ ہوتی تو یقین آدھا راستہ وہ خود ڈرائیو کر کے طے کرتی اس نے گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے سوچا
پھو سوچا کہ بلا وہ اس کے شوہر کے ساتھ کیوں ہوتی اسے اچانک ہی نئی سوچ نے گھیرا اور اپنی پچھلی سوچ پر لعنت بھیجتے ہوئے اس نے حنان کے کندھے پر اپنا سر رکھا
حنان نے مسکرا کر اس کے معصوم سے چہرے کو دیکھا تھا نہ جانے اندر ہی اندر کیا سوچ رہی تھی لیکن کافی دیر اس کا چہرہ دیکھ کر وہ اس کی سوچوں کی گہرائی تک پہنچ چکا تھا
تمہارے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ہوسکتی وہ اسے دیکھتے ہوئے محبت سے بولا تو ایک جھٹکے سے وہ اٹھ کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگی
حنان آپ کو کیسے پتہ کہ میں کیا سوچ رہی ہوں کیا میں اونچی کی آواز میں بول رہی تھی وہ اسے گھور کر پوچھنے لگی اور اسے ایسا ہی لگا تھا کہ وہ اپنی سوچوں میں شاید اونچی آواز میں برابڑا رہی ہے تبھی تو حنان کو پتہ چل گیا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے
بیگم میں ایک فیوچر ماہر نفسیات ہوں اور میں پچھلے دو سال سے یونیورسٹی میں جک نہیں مار رہا تھا ۔
میں نے اس چیز کی تعلیم لی ہے وہ اس کا چہرہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولا جب کہ وہ اپنی جلد بازی پر شرمندہ ہو گئی
آپ کو پتہ ہے کہ میں کیا سوچ رہی تھی وہ تھوڑی دیر کے بعد شرمندگی کی گہریوں سے نکل کر وہ پھر سے پوچھنے لگی جس پر اس نے ہاں میں سر ہلایا
مطلب کہ آپ کو پتہ ہے میں تو کیا سوچ رہی تھی میں بتائیں زرا میرے دماغ میں کیا چل رہا ہے کس چیز کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی جس پر وہ ایک بار پھر سے مسکرایا تھا
تم سوچ رہی تھی کہ یہاں میرے ساتھ کوئی اور لڑکی بھی ہو سکتی تھی اور میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ چیز مجھے تمہارا چہرہ پڑھ کر نہیں بلکہ تمہارے چہرے پر جلن کے تاثرات دیکھ کر پتہ چل رہا ہے تمہیں بہت جلد ڈرائیو سکھاؤں گا پلیز اس چیز کے لیے احساس کمتری کے شکار ہرگز مت بنو
حنان سکندر خان سر سے لے کر پیر تک صرف اور صرف انشاء حنان سکندر خان کا ہے اور کسی اور کا ہو بھی نہیں سکتا جس طرح سے انشاء حنان سکندر خان پر صرف اور صرف حنان سکندر خان کا حق ہے اسی طرح سے حنان سکندر خان پر صرف اور صرف انشاء حنان سکندر خان کا حق ہے
اسی لیے اپنے دل و دماغ میں کبھی کسی دوسری لڑکی کا خیال بھی مت لانہ وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر اس کی تھوڑی کو چھو کر بولا
اور اگر میں مر گئی۔۔۔۔! تو وہ مذاق میں بولی جبکہ اس کے اچانک سوال پر حنان نے گاڑی کو بریک لگائی تھی ۔
اس فضول ترین سوال کا مطلب۔۔۔۔۔۔! وہ غصے کی حدوں کو چھوتے ہوئے بولا اچانک ہی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی اس کے چہرے کے تاثرات پر بے حد سیریر تھے
ہا ہا حنان کیا ہو گیا ہے آپ کو اچانک سے آپ تو سیریس ہو گئے میں صرف مذاق کر رہی ہوں دیکھیں اپنی حالت کیسے پسینہ آرہا ہے آپ کو ایسے گاڑی روکی ہے اگر ایکسیڈنٹ ہو جاتا تو وہ ہنستے ہوئے بولی تھی جبکہ خان ابھی تک غصے میں اسے گھور رہا تھا اور پھر نجانے اسے کیا ہوا کہ اگلے ہی لمحے وہ اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں قید کر چکا تھا ایک پل کے لئے تو انشاء بوکھلا گئی
عاشی پلیز ایسا مذاق دوبارہ مت کرنا پلیز ڈونٹ دیکھو میرا دل کیسے دھڑک رہا ہے وہ اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر بولا ۔جو پوری شدت سے دھڑک رہا تھا
عاشی مجھے لگ رہا ہے کہ اگر تم نہ رہی تو مجھے دوسری سانس نہیں آئے گی میں مر جاؤں گا میں بے موت مر جاؤں گا پلیز ایسا مذاق دوبارہ مت کرنا وہ اسے دیکھتے ہوئے سیریز انداز میں بولا جبکہ اس کی اس حالت کو دیکھ کر پریشان ہو چکی تھی لیکن اسے ہوا کیا ہوگیا ہے عاشی نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا
حنان کیا ہوا ہے آپ کو میں صرف مذاق کر رہی تھی صرف مذاق ہی کہیں نہیں جا رہی آپ کو چھوڑ کر وہ اس کے سینے پر سر رکھ کے اس کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز سن رہی تھی ۔
پھر اس سے الگ ہو کر شرمندہ سی ہو کر اسے دیکھنے لگی
ایم سوری ان میں تو صرف مذاق کر رہی تھی مجھے نہیں پتا تھا آپ ہرٹ ہوں گے مجھے معاف کر دیں
اس کی مبحتکے سامنے وہ ہار مان چکی تھی اس کے آنکھوں سے مسلسل آنسو بہنے لگے جب کہ حنان شکوہ کن نظروں اسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا گناہ کر دیا اور کوئی گناہ سے کبھی تو نہیں تھا اس کے مزاق پر حنان کی جان لبوں تک آ گئی تھی
اظہار تو کرتی نہیں ہو بس بکواس کرتی ہوں فضول باتیں کرتی ہو اسی لئے تو اچھی نہیں لگتی تم مجھے وہ گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اداس سا بولا
اچھا میں اچھی نہیں لگتی تو کیا وہ اچھی لگتی ہے جو آپ کے ساتھ سارا دن چپکی رہتی تھی اسے اچانک ہی دوبارہ انیلہ یاد آ گئی اس نے تو ولیمے میں بھی انیلا کو دیکھا تھا
اب اس سب میں وہ کہاں سے آگئی اس نے انیلا کا نام نہیں لیا تھا لیکن پھر بھی وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ اسی کی بات کر رہی ہے
ابھی آپ نے ہی تو کہا کہ میں آپ کو اچھی نہیں لگ رہی تو پھر کوئی تو اچھا لگتا ہی ہوگا وہ معصومیت سے آنکھیں ٹمٹما کر بولی
بس دل جلانے والی باتیں کیا کرو دل دھڑکانا تو تمہیں آتا ہی نہیں وہ افسوس سے سر ہلا گیا جبکہ اس کے اس طرح سے کہنے پر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکی
حنان۔۔۔ وہ جذبات سے بھرپور انداز میں اسے پکارگئی تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا اسے اچانک شاید رومانٹک دورہ پڑا تھا ۔حنان کو تو ایسا ہی لگا تھا ۔کہ شاید اس کی باتیں اثر کو گئی
جبکہ اس کا یہ اندازحنان کو مسکرانے پر مجبور کر گیا
ہوں بولو ۔۔۔وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا جب کہ اس کے اس طرح سے کہنے پر وہ اس کے مزید قریب ائی پھر اس سے اگلی کارستانی کو سوچ کر ہنسہ تھا۔
اس کے قریب آنے پر حنان اس کے مزید قریب آیا جبکہ اس کی اگلی بات پر حنان کا موڈ بری طرح سے آف ہوا تھا
ہم نے ساری رات یہیں پر گزارنی ہے وہ مبحت سے پھرپور انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولی اور پھر اس سے دور ہٹ کر قہقہ لگا کر ہنسی
یہ بات تو وہی دور بیٹھ کر بھی کہہ سکتی تھی پاس آکر میرے جذبات جگانے کی کیا ضرورت تھی اب بھگتو وہ اس پر جھکتے ہوئے بولا جب کہ اپنی شامت دیکھ کر وہ بری طرح سے مچلی تھی لیکن اب وہ اتنی ٹھنڈ میں گاڑی سے باہر نہیں نکل سکتی تھی اسی لیے حنان کا ستم اپنے لبوں پر برداشت کر گئی
جبکہ وہ اس کے لبوں پر بھرپور لمس چھوڑ کر سکون سے پیچھے ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا
آپ انتہائی بے شرم اور برے انسان ہیں وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے منمنائی تھی اگر اونچی کی آواز میں بولتی تو یقینا شامت دوبارہ آ جاتی وہ اس سے روٹھتے ہوئے گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائے سونے کا ڈرامہ کرنے لگی اور کب یہ ڈرامہ حقیقت میں بدل گیا اسے خود بھی پتا نہ چلا
°°°°°°°°
آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو بیڈ پر پایا ۔بلینکٹ کو خوب اچھی طرح سے اس کے اوپر ڈالا کو اسے کور کیا گیا تھا اور ساتھ ہی حنان گہری نیند سو رہا تھا
اس نے مسکرا کر گھڑی کی طرف دیکھا جہاں نماز کا وقت ہو چلا تھا وہ جلدی سے اٹھ کر واش روم کی طرف آئی کے وضو کر کے نماز ادا کرسکے جب سے اس شیطان سے پالا پڑا تھا وہ اللہ کے حضور ایک بار بھی اپنے زندگی کی خوبصورتی کا شکریہ ادا نہیں کر پائی
موقع ملا تھا تو فورا ہی اٹھ کر آئی لیکن وضو کر کے باہر آئی تو احساس ہوا کہ اکیلے کیوں وہ بھی تو اس کےساتھ نماز ادا کرے آخر اس کو بھی تو اللہ کا تھینک یو کرنا چاہیے تھا آخر کار اسے بھی تو اللہ نے اتنی خوصورت اور اتنی پیاری بیوی دی ہے تھینک یو تو اس کو بھی کرنا چاہے وہ سوچتے ہوئے اس کے پاس آئے اور زبردستی اسے جگانے لگی
حنان اٹھے نماز پڑھتے ہیں کتنا وقت ہو چکا ہے
وہ اسے زبردستی جگا رہی تھی جب کہ اب وہ آنکھیں کھولے اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی ناممکن سے بات کر رہی ہو کیا کر رہی ہو
جان تم نے کبھی مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ مسکرا کر پوچھنے لگا
نہیں دیکھا اسی لیے کہہ رہی ہوں جناب اٹھے اللہ کو تھینک یو بولے اللہ نے آپ کو اتنی پیاری بیوی دی ہے وہ شرارت سے کہتے ہوئے مسکرائی تھی
جبکہ اس کی بات پر وہ بھی مسکرائے بھی نہ رہ سکا
یار مسئلہ یہ ہے کہ مجھے نماز تو آتی ہے اور پڑھ بھی لیتا ہوں کبھی کبھی لیکن مجھے دعا مانگنی نہیں آتی وہ پریشانی سے کہنے لگا کچھ شرمندہ بھی لگ رہا تھا
حنان کی اس بات پر عاشی کو تو حیرت کا جھٹکا لگا تھا مطلب اسے اپنے ہی اللہ کے سامنے دعا مانگنا نہیں آتا تھا
۔
اف حنان آپ کو آتا کیا ہے مطلب دعا مانگنا نہیں آتا آئیے میں آپ کو سکھاتی ہوں
صرف فضول کام ہی کیا کریں آپ آتا کیا ہے جناب کو بس لڑائی جھگڑے کرنے یا پھر فضول حرکتیں کرنا وہ اسے زبردستی واش روم تک لائی
وضو کرنا تو آتا ہے یا وہ بھی میں سکھاؤں وہ اس سے گھور کر پوچھنے لگی جس پر وہ ہاں میں سر ہلا گیا
چلو کچھ تو آتا ہے جلدی کریں میں ویٹ کر رہی ہوں باہر وہ کہہ کر جانماز بچھانے لگی جبکہ وہ ہاں میں سر ہلا تا اندر گھس گیا
°°°°°°°
وہ پورے پانچ منٹ کے بعد وضو کر کے باہر آیا تو وہ سچ میں ابھی تک جائے نماز پر کھڑی کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کے ساتھ آیا اور دوسرے جائے نماز پر کھڑا ہوگیا
بے فکر ہو مجھے نماز آتی ہے دعا کا جب وقت آئے گا تب پوچھ لوں گا وہ اسے اس طرح سے انتظار میں دیکھ کر کہنے لگا تو وہ بھی ہاں میں سر ہلا کر اپنی نماز ادا کرنے لگی
اس نے بالکل ٹھیک طریقے سے پوری نماز ادا کی اور اب اس سے پہلے نماز ختم کرکے اسے دیکھنے لگا نہ جانے کیوں اس کی نماز اتنی لمبی ہو چکی تھی شاید شکر آنے کے نفل ساتھ شامل تھے ۔
نماز ختم کرکے اس کی طرف دیکھنے لگی جو کافی دیر سے اس کا انتظار کر رہا تھا
دعا شروع کریں اس نے پوچھا تو وہ بھی مسکرا دیا
اور پھر اس نے اسے اپنے طریقے سے شکر کرنا سکھایا کہ اپنے رب کے آگے کس طرح سے دعا مانگی جاتی ہے کس طرح سے اس کے احسانات کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے وہ سکھایا بے شک شکریہ تو بنتا تھا اس رب کریم نے اسے اتنا خوبصورت ساتھی دیا تھا تو وہ اس کی شکرگزار کیوں نہ ہوتا
پھر نماز ادا کرکے وہ دونوں مری کے برفیلے راستوں کی طرف آئے
بھرتی سردی کے ساتھ وہ اس کی باہوں میں سمٹی کسی چھوٹی سی معصوم سی گڑیا کی طرح تھی جسے خود میں چھپائے وہ ان خوبصورت سڑکوں اور ان خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا
کبھی کوئی ٹوٹی ہوئی پل سامنے آجاتی تو کبھی خوبصورت پہاڑوں سے بہتے جھرنے جو برف باری کی وجہ سے جمے ہوئے تھے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں برفباری شروع ہو گئی اور وہ اسے لے کر واپس آنے لگا آسمان سے اترتے چھوٹے چھوٹے روئی کے ذروں کے ساتھ وہ ان سڑکوں پر اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت وقت گزار رہے تھے
................
مری کی خوبصورت سڑکیں اس وقت برف سے ڈھکی ہوئی تھی جب کہ انہیں سڑکوں پر پھسلتے عاشی کے پیر بری طرح سے لڑکھڑا رہے تھے وہ مسلسل کبھی حنان کی شرٹ پکرتی تو کبھی اس کا ہاتھ پکڑ کر خود کو گرنے سے روکتی جبکہ وہ اس کے اس طرح سے لڑانے پر مسکرائے جا رہا تھا
میں نے تم سے کہا تھا دوسرے شوز پہنو تب تو تم نے میری بات مانی نہیں بھگتو وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لیے اسے گرنے سے بچائے ہوئے تھا
نہیں نہ حنان وہ میرے ڈریس کے ساتھ میچ نہیں کرتے تھے نہ اس نے اپنا لاجک دیتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کی شرٹ کو اپنی مٹھی میں بھیجا
تو میری جان یہاں تمہیں میرے علاوہ کون دیکھ رہا تھا کہ تمہیں میچنگ کرنے سے ضرورت تھی وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے چلنے میں مدد دے رہا تھا
ہاں تو آپ کو وہ چڑیلیں نظر نہیں آرہی وہ جو سامنے برف سے کھیل کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس نے فورا سامنے کھیلتی ہوئی لڑکیوں کے گروپ کی طرف اشارہ کیا
جن کے مقابلے میں آج انشاء بھی کافی موڈرن لگ رہی تھی وہ تو ہوٹل میں موجود لڑکیوں کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ یہاں اس کی سادگی نہیں چلے گی اپنے شوہر کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے لئے اسے بھی تھوڑا ماڈرن تو ہونا پڑے گا
جبکہ یہاں بھی حنان کی نظروں میں اس کی معصومیت قابل دید تھی کیوں کہ جینز کی پینٹ اور ریڈ شرٹ جیسے ماڈرن کپڑے پہننے کے بعد بھی اس نے خود کو ایک لمبے سے جمپر کے بعد ایک شال میں چھپایا تھا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی مجھے ہی ان پریس کرنے کے لیے یہاں آئی ہے وہ لوگ انجوائے کرنے آئے ہیں ابھی وہ بول ہی رہا تھا جب اس نے ایک لڑکی کو دیکھا جو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہائے کہہ رہی تھی جب کہ وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے عاشی کو سمجھا رہا تھا
آپ ایسا نہیں کہہ سکتے وہ دیکھیے وہ سامنے کھڑی لڑکی کیسے آپ کو گندے گندے اشارے کر رہی ہے اس نے فورا سامنے والی لڑکی کی چوری پکڑی
کون سے گندے گندے اشاروں کی بات کر رہی ہو وہ تو میرے دوست کی بہن ہے
بہن جیسی ہے میرے لیے میں جانتا ہوں اسے پہچان لیا ہوگا مجھے اس لئے ہاتھ ہلا رہی ہے حنان نے فورا صفائی پیش کی تھی
اچھا ایسی بات ہے تو چلے آپ کے دوست کی بہن سے مل کر آتے ہیں آپ کو تو پہچانتی ہے کیسے ہاِئے کر رہی ہے تو ایک بار سلام دعا کر کے آتے ہیں وہ اس کا ہاتھ پکڑ کے زبردستی آگے کی طرف جانے لگی جب بھی برفانی سڑک پر ایک بار پھر سے اس پھسلا اور وہ ایک بار پھر سے وہ حنان کی باہوں میں تھی۔
وہ بیگم چار قدم تو اٹھائے نہیں جا رہے ہیں اور وہاں تم میرے دوست کی بہن کے سامنے مجھے شرمندہ کرنا چاہتی ہوچلو میرے ساتھ ہوٹل واپس اور جلدی یہ جوتے چینج کرو حنان کو تو جیسے بہانہ مل گیا اسے واپس لے کر جانے کا کیوں کہ سردی بھر رہی تھی اور وہ واپس چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور ایسے میں میڈم کوئی بھی ایسی گرم چیز نہیں کھاتی تھی جو ایسے موسم میں اس کے لیے فائدے مند تھی
ڈرائی فروٹ سے تو نفرت تھی اسے ہیٹر کے پاس بیٹھنے سے اسے الجھن ہوتی تھی جبکہ آگ سے تو اسے دور سے ہی انکار تھا جبکہ میڈم کا یہ کہنا تھا کہ دھوپ میں بیٹھنے سے اس کی سکن خراب ہو جائے گی اور شادی کے شروع میں وہ اپنی سکن پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتی کیونکہ اس کی بہن کہتی ہے کہ اس کا شوہر جو اس پر لٹو ہوا ہے وہ شادی کے صرف چند دن ہے بعد میں ہر مرد کی طرح وہ بھی اسے اپنے اصلی رنگ دکھائے گا اور بالکل بدل جائے گا ۔
یہاں آ کر اسے اپنی سالی کی بھی بہت ساری ایسی باتیں پتہ چلی تھی یہی سوچ کر وہ بہت پریشان ہوا تھا وہ تو مریم کو بالکل سیدھی سادھی لڑکی سمجھ رہا تھا لیکن یہاں تو مریم اپنی بہن کو شوہر کو مٹھی میں کرنے کے طریقے بتا رہی تھی
چلو یہ ساری باتیں تو اسے سردیوں کے مطابق پتہ چلی تھی کہ وہ کیا چیز پسند کرتی ہے اور کیا نہیں پتا نہیں گرمیوں میں اس نے کونسا رونا مچانا تھا
°°°°°
ابھی وہ اسے لئے ہوٹل میں داخل ہی ہوا تھا کہ سامنے سے آتی ایک اور لڑکی نے اسے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا اور پھر آنکھ دبائی
اب بتائیں یہ لڑکی آپ کی کون سی دوست کی بہن ہے یا آپ کے چچا کی بیٹی ہے ۔وہ انتہائی غصے سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے لڑاکا انداز میں بولی
یہ لڑکی یہ لڑکی شاید میں جانتا ہوں اسے مجھے یاد نہیں آرہا شاید میرے کسی دوست کی بہن ۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بالکل یہ بھی آپ کے دوست کی بہن ہے دنیا کی ساری لڑکیاں تو آپ کے دوستوں کی بہنیں ہیں ایک میں ہی تھی جو آپ کے دوست کی گرل فرینڈ کی کزن ہوں ۔ حنان باقی ساری دنیا تو آپ کی رشتہ دار ہے
جس کا دل چاہے جیسےدل چاہے ادھر سے اشارہ کرے ادھر سے اشارہ کرے آپ کے دوست کی بہن کا علاج تو میں ابھی کرتی ہوں وہ اسے وارن کرتے ہوئے اس لڑکی کی طرف بڑھ رہی تھی جبکہ اس کا جارحانہ انداز بتا رہا تھا کہ آج لڑکی کی ہے نہیں
وہ اس کی طرف لپکا لیکن دیر ہو چکی تھی
ہاں بہن کیا تکلیف ہے تجھے کیوں بار بار میرے شوہر کو اشارے کر رہی ہے
وہ انتہائی غصے سے اب اس لڑکی کے سامنے کھڑی اس کی بینڈ بجانے میں مصروف تھی
ایکسکیوزمی میں کیوں آپ کے شوہر کو اشارے کرنے لگی مجھے کیا اور کوئی کام نہیں ہے وہ لڑکی ایک ادا سے کہتی اپنے بال پیچھے کرتے ہوئے اسے جواب دے کر بولی
اوہو زیادہ بالوں کی نمائش کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ سارے کام مجھے بھی آتے ہیں اور میں اپنے شوہر کے لئے کر سکتی ہوں تمہیں دیکھنے کے لئے مرا نہیں جا رہا میں اور جس ہاتھ سے اشارہ کیا ہے اسے کاٹ کر پھینک دوں گی دوبارہ کیا تو ۔ بہت دیکھی ہیں تمہارے جیسی ۔ خبردار جو اپنی آنکھوں سے میرے شوہر کی طرف دیکھا بھی تو اگر اتنا ہی شوق ہے اشارہ کرنے کا تو اپنے شوہر کو کرو اور اگر نہیں ہے نہ تو کر لو شادی نکاح کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا لیکن دوسروں کی پراپرٹی پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے
وہ غصے سے اسے گھور رہی تھی جب کہ سامنے کھڑی لڑکی کو وہ شاید پاگل ہی لگ رہی تھی
دیکھیے بہن جی میری بیوی تھوڑی سی ۔۔۔۔حنان نے کچھ بولنا چاہا اس سے پہلے ہی عاشی نے خطرناک گھوڑی سے نوازا تھا
میرا مطلب ہے میری بیوی مجھے لے کر بہت ٹچی ہے اور اسے ہرگز پسند نہیں آپ نے جس طرح سے مجھے اشارہ کیا اور پھر میری بیگم کے سامنے اسے یہ سب کچھ ہرگز پسند نہیں آیا اگر آپ کوئاگر اشارے کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کرلیں شادی میری بیوی آپ کو اچھا مشورہ دے رہی ہے ۔
وہ شاید اس لڑکی سے اپنی بیوی کے رویے کے لئے معذرت کرنے والا تھا لیکن عاشی کی خطرناک گھوری ے اسے بات بدلنے پر مجبور کردیا کیونکہ حنان اب سب کچھ برداشت کر سکتا تھا سوائے عاشی کی ناراضگی کے
کہیں نہ کہیں تو دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔کہ اس کی عاشی اس کے لیے اتنی پوسوزوہے ۔
جب کے سامنے کھڑی لڑکی کے اس کی طرف سے معذرت کا انتظار کر رہی تھی اپنی بےعزتی کو محسوس کر کے عاشی کو نفرت سے گھورنے لگی
ان دونوں کی لڑائی ہوتی دیکھ کر ہوٹل کا مینیجر بھاگ کر آیا تھا
کیا ہوا میڈم سب کچھ ٹھیک تو ہے کوئی بات مسئلہ ہوگیا ہے کیا وہ ہکلاتے ہوئے پوچھنے لگا
جی ہاں مسئلہ ہوگیا ہے آپ کیا دیکھ کر لوگوں کو ہوٹل میں نہیں رکھ سکتے کوئی بھی منہ اٹھا کر چلا آئے گا اور میرے شوہر کو اشارے کرے گا دیکھو بہن یہ سب کچھ نہ تمہارے گھروں میں چلتا ہو گا ہم شریف لوگ ہیں ۔ آئندہ کسی کو اشارہ کرنے سے پہلے یہ بےعزتی یاد رکھنا
کیا بکواس کر رہی ہو تم وہ اسے گھورتے ہوئے بازو پکڑ چکی تھی جبکہ اس بار حنان کو بھی سامنے والی لڑکی کی جرات پر غصہ آیا تھا
میڈم پلیز نرمی کا مظاہرہ کرے آپ جانتی ہیں کہ آپ کی وجہ سے پہلے بھی ہوٹل میں ہنگامہ ہو چکا ہے یہ کون سا طریقہ ہے انجوائمنٹ کرنے کا آتے جاتے لڑکوں کو اشارہ کرنا یہ سارے کام تو لڑکوں کے تھے لیکن آپ جیسی لڑکیوں کی وجہ سے آج کل کے شریف لڑکے بھی بد نام ہو کر رہ گئے ہیں ۔
پہلے بھی آپ کی وجہ سے یہاں ایک کپل کا جھگڑا ہوا یہ سب کچھ آپ کے لئے انٹرٹینمنٹ ہوگا لیکن اس طرحکپلز کی زندگی برباد ہو سکتی ہے ۔
بہتر ہوگا کہ آپ اپنی انٹرٹینمنٹ کو ہوٹل کے باہر تک محدود رکھیں ورنہ ہمیں اسٹریک ایکشن لینا ہوگا۔
مینجر انتہائی غصے سے ایسے گھورتے ہوئے بولا ابھی دو تین دن پہلے کی ہی تو بات ہے جب اس لڑکی کی وجہ سے یہاں آئے ہنیمون کپل کا بری طرح سے جھگڑا ہوا بات طلاق تک آ پہنچی اور دو دن کے اس کپل میں نے فورا ہی واپسی کی راہ لی
پچھلے سال بھی یہ لڑکی اور اس کے گینگ کی کچھ لڑکیاں یہی سب کچھ کر کے انٹرٹینمنٹ محسوس کرتی رہیں یہ جانے بغیر کہ ان کی ان کی حرکتوں کی وجہ سے کسی کا گھر برباد ہو رہا ہے
چلے حنان مجھے بھوک لگی ہے وہ حنان کا ہاتھ پکڑے معصومیت سے بولی ۔
سر پلیز چلے میں آپ کے لیے کھانا لگاتا ہوں مینیجر نے مودبانہ انداز میں کہا
۔
جبکہ حنان نے مسکراتے ہوئے کرسی اس کے لیے کھینچی
بیٹھ جاؤ میری شیرنی مجھے پتہ چل چکا ہے کہ تمہیں صرف اور صرف چھمک چھلو اور چھنکو منکو سے ڈر لگتا ہے ۔باقی تم بہت بہادر ہو ۔ویسے ایک بات بتاؤاگر وہ لڑکی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی تو تم کیا کرو گی وہ اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے پوچھنے لگا
اگر وہ لڑکی باز نہیں آئی نہ تو وہ بال جو کبھی ایک کندھے پر تو کبھی دوسرے کے کندھے پر گراتی ہے نہ اس سارے کاٹ کر اسے گنجا کر دوں گی عاشی نے فورا اسے اپنا ارادہ بتایا
کیا بات ہے میری بہادر شیرنی تم تو سچ میں بہادر ہو ۔ اس نے مسکراتے ہوئے نوالہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالا جسے چبانے کا انداز ایسا تھا جیسے اس کے منہ میں نوالہ نہیں بلکہ وہ لڑکی آگئی ہو ۔
میری بیوی کو بہت غصہ آتا ہے مجھے تو ڈر کر رہنا پڑے گا وہ دوسرا نوالہ اس کے منہ میں ڈالتا محبت سے بولا
ارے نہیں نہیں آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے تھوڑی نہ اشارہ کیا ہے اگر آپ نے اشارہ کیا تو آپ کے بال نہیں بلکہ ہاتھ کاٹ دوں گی اس نے مسکراتے ہوئے اپنا منصوبہ بتایا ۔
اور اس کے اس بات پر اسے اپنے معصوم نہیں خطرناک ترین بیوی ضرور لگی تھی
°°°°°°°°
ثانیہ اتنی بےعزتی کے بعد میں تو اس ہوٹل سے چیک آؤٹ کرنے والی ہوں اس کی سہیلی نے ایک ادا سے کہتے ہوئے اپنا سامان پیک کیا جائے گی
جاوں گی تو میں بھیردا لیکن ایسے نہیں پہلے اسلڑکی کو سبق سکھاوں گی سمجھتی کیا اپنے آپ کو پورے ہوٹل کے سامنے میری بےعزتی کروا دی اگر اس کو اس کی اوقات نہ یاد دلائی تو میرا نام بھی ثانیہ نہیں وہ غصے سے دائیں بائیں چکر کاٹتے ہوئے بولی
لیکن تم کروگی کیاآخر تمہارے دماغ میں چل کے آ رہا ہے پریشانی سے پوچھا جبکہ ثانیہ ایک ادا سے مسکرائی ۔
وہ تو اب تمہیں کل ہی پتا چلے گا تمہیں بھی اور اس لڑکی کو بھی ۔میرے ذرا سے مذاق کی وجہ سے اس نے میری اتنی انسلٹ کروائیں وہ بھی پورے ہوٹل کے سامنے اب اسے بھی سزا تو ملے گی ضرور ملے گی ۔
ثانیہ پلیز کچھ بھی ایسا الٹا سیدھا مت کرنا تم جانتی ہو نہ ہم پہلے ہی بہت مشکل سے یہاں آئے ہیں ورنہ تمھارے بابا اور بھائی ہمیں کبھی بھی اس طرف آنے کی اجازت نہیں دیتےدرا نے سمجھاتے ہوئےکہا
او پلیز میرا موڈ خراب مت کرو بابا پاکستان میں ہی نہیں اور میرا بھائی نشہ کرکے کہیں پڑھا ہوگا ثانیہ بے فکر انداز میں بولی جبکہ ردا اس کے ساتھ کسی بھی معاملے میں پھسنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے اپنا بوریا بستر پیک ر کے ہوٹل سے چیک آؤٹ کر گئی
°°°°°°
تم یہی انتظار کرو میں گاڑی نکال کے فون کرتا ہوں آج برف نہیں ہے سڑک بھی صاف ہے لانگ ڈرائیو میں مزا آئے گا وہ پیار سے اس کے گال چومتا اسے روم میں ہی رہنے کا کہہ کر باہر جانے لگا
نہیں میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں نہیں یہاں روم میں تو میں بور ہو جاؤں گی وہ اس کا بازو پکڑ کر تے ہوئے بولی کیونکہ کل سے ہی وہ لڑکی اسے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی بھی اس کے شوہر پر گندی نظر ڈالے
بیوی کتنی شکی مزاج ہو چلو آجاؤ میرے ساتھ تم وہی ہوٹل میں رکنا میں دو منٹ میں گاڑی لے آؤں گا ۔
وہ اس کا ہاتھ تھا میں اسے اپنے ساتھ ہی نیچے لے آیا ۔
جب کے وہ بھی مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامیں اس کے کندھے پر سر رکھ دیا آہستہ آہستہ نیچے آ رہی تھی جب سامنے ہی وہ آتی نظر آئی جس پر وہ حنان کے اورقریب ہوئی تھی
میری جان تم یہاں رکومیں دو منٹ میں آیا وہ اسے وہیں رکنے کا کہتا ہوا باہر کی طرف جا چکا تھا جب ثانیہ اس کے پاس آئی
حنان کے بغیر ایک پل کے لئے اسے کہ اس لڑکی سے خوف آیا تھا جو اسے کل سے گھورے جا رہی تھی لیکن اسے بہادر بننا تھا اب وہ ایک لڑکی سے ڈر تو نہیں سکتی تھی اور ویسے بھی تو مریم کہتی تھی باقی ہر چیز پر سمجھوتا کر لو لیکن ایک عورت اپنے شوہر پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی بس پھر مریم کی باتیں یاد کرتے ہوئے اسے تھوڑی سی ہمت ملی تھی
ہائے ایم ثانیہ ایم سوری کل کیلئے میں صرف مستی کر رہی تھی مجھے نہیں پتا تھا تمہیں اتنا برا لگ جائے گا ۔معاف کر دو مجھے فرینڈز وہ اس کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ ہوئے بولی جب کہ اس کے لہجے اور انداز سے وہ کہیں سے بھی اسے شرمندہ محسوس نہیں ہوئی تھی۔
کوئی بات نہیں وہ اس کا پڑھایا ہوا ہاتھ تھام کر مسکرا کر بولی
جب کہ وہ مسکراتے ہوئے پیچھے کی طرف مرنے لگی کہ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کوفی عاشی سویٹر پر گر گئی
اوشٹ ایم ریلی سوری یہ کیا ہوگیا میرے ہاتھوںچلو میرے ساتھ واش روم میں اسے صاف کرنے میں تمہاری ہیلپ کرتی ہوں تمہارا نیو سویٹر خراب ہوگیا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ میری کوئی دوست نہیں ہے میں سب خراب کرتی ہوں وہ شرمندہ سے اسے دیکھ کر کہنے لگی جب کہ عاشی کو اس کی بات پر افسوس ہوا تھا
کیا تمہاری کوئی دوست نہیں ۔۔۔عاشی پوچھے بھی نہ رہ سکی
مجھے جیسی لڑکی سے کون دوستی کرے گا میں مستیوں میں بھی لوگوں کی انسلٹ کروا دیتی ہوں اب دیکھو نہ جو لڑکیاں میرے ساتھ آئی تھیں وہ اس ہوٹل سے چیک آؤٹ کرکے جا چکی ہیں
شاید میں کسی کے دوست بننے کے لائق ہی نہیں ہوں میں جو بھی کرنے کی کوشش کرتی ہوں وہ ہمیشہ خراب ہو جاتا ہے ۔وہ اس کے ساتھ واش روم کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بول رہی تھی
سوری میری وجہ سے ہوا شاید میں کل کچھ زیادہ ہی ریکٹ کر گئی تمہارے جیسا اشارہ کرنے سے پہلے باہر بھی ایک لڑکی نے اسی طرح حنان کو اشارہ کیا تھا اور مجھے غصہ آگیا عاشی اسے مکمل بات بتاتے ہوئے بولی جب کیا وہ تھوڑی ہی دیر میں اندازہ لگا چکی تھی کہ لڑکی کافی معصوم اور حد سے زیادہ بیوقوف ہے
کوئی بات نہیں یار ایسے دوستوں کا کیا کرنا جو مصیبت میں ہاتھ چھڑا کر چلے جائیں وہ عاشی کے ساتھ کھڑی تھی جبکہ عاشی پانی سے اپنا سویٹر صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
تمہارا موبائل بھیگ جائے گا لاؤ مجھے دو میں فون پکر لیتی ہوں وہ اس کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھ کر کہنے لگی جو کہ عاشی مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ میں پکڑا چکی تھی جب اچانک اس نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا
او شٹ میرا موبائل باہر پڑا ہے میں لانا بھول گئی تم یہ صاف کرو اسے میں اپنا موبائل لے کر آتی ہوں وہ مسکرا کر کہتی باہر کی طرف جانے لگی جب کہ وہ بھی ہاں میں سر ہلا کر اپنا کام کرنے لگی
°°°°°°°°
یہاں میری بیوی کھڑی تھی کہاں گئی ہے وہ وہ سامنے آتے مینیجر کو دیکھ کر بولا
ایم سوری سر میں نے تو آپ کی مسز کو نہیں دیکھا مینیجر جو ابھی ابھی آیا تھا وہ بتانے لگا
کیا مطلب نہیں دیکھا ابھی تھوڑی دیر پہلے تقریبا پانچ منٹ پہلے وہ یہاں تھی اب جانے کہاں غائب ہوگئی روم میں گئی ہوگی میں دیکھتا ہوں وہ پریشانی سے اپنے کمرے کی طرف جانے لگا
ایک منٹ ایک منٹ تم اپنی بیوی کو ڈھونڈ رہے وہ ابھی تمہارے جاتے ہی تمہارے پچھے ہی باہر نکل گئی ہو سکتا ہے تمہارے پیچھے گئی ہو باہرہی ہوگی ثانیہ فور اس کے پاس آ کر کہنے لگی
جبکہ حنان اب اپنے موبائل سے اس کے فون پر کال کر رہا تھا
بے وقوف لڑکی فون بھی نہیں اٹھا رہی وہ برابڑتا ہوا باہر کی جانب بھاگا تھا ۔
جبکہ ثانیہ کھڑی اس کی بے چینی دیکھ کر ہنس رہی تھی
بہت شوق ہے نا تمیں لڑکیوں کے ابسلٹ کرنے کا مسز انشاء حنان خان ۔ اب آج کا دن اسی ٹھنڈے واش روم میں گزارو پھر پتہ چلے گا تمہیں کہ ثانیہ سلمان سے پنگا لینا کتنا برا ہے ۔
وہ کل ہی پتہ لگا چکی تھی کہ اوپر کی بلڈنگ کے واشروم نئے تعمیر کیے گئے ہیں اور ابھی زیر استعمال نہیں ہیں ۔ سارا دن اس طرف کوئی نہیں جاتا تھا اسی لئے تو اس نے اپنے کام کے لئے وہی جگہ چنی تھی
................

پچھلے چار گھنٹوں سے وہ مسلسل ہر جگہ اسے ڈھونڈ رہا تھا کوئی جگہ نہیں تھی جو اس نے نہیں دیکھی تھیں ہوٹل کے آس پاس سے لے کر دور دور تک نہ جانے وہ اچانک کہاں چلی گئی تھی
سر مجھے تو لگتا ہے کڈنیپگ کا کیس ہے ہمیں پولیس کو انفارم کرنا چاہیے ۔وہ جو مسلسل اسے پاگلوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگتے دیکھ رہا تھا پریشانی سے بولا
اچانک اس طرح سے ہوٹل میں سب کے سامنے لڑکی کا غائب ہو جانا پھر کہیں پتہ نہ چلنا یہ انہی سوچوں میں ڈال چکا تھا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو لگتا ہے پولیس سٹیشن جانا چاہے اب حنان پرنشانی سے باہر نکلنے لگا جب ثانیہ اس کے پیچھے آئی
مجھے نہیں لگتا کہ یہ کڈنیپنگ کیس ہے جس میں پولیس کو شامل کیا جائے وہ کوئی بچی نہیں ہے ہوسکتا ہے کہیں چلی گئی ہو گومنے پھیرنے یا پھر کسی کو جانتی ہو اس کے ساتھ چلی گئی ہو
مجھے نہیں لگتا کہ تمہیں پولیس وغیرہ میں جانا چاہیے ویٹ کرو ہو سکتا ہے شام تک وہ آجائے ثانیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
وہ یہاں کسی کو نہیں جانتی کسی کو بھی نہیں میرے علاوہ وہ اس طرح سے کہیں نہیں جاتی ۔ ضرور اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے وہ بے چینی سے کہتا باہر نکلنے لگا جبکہ اس کا پولیس سٹیشن جانا ثانیہ کو بھی پریشان کر چکا تھا
اس نے یہی سوچا تھا کہ وہ مستی کرئی گی لیکن یہاں یہ تو پولیس کیس بنتا جا رہا تھا اگر یہ تھانے پہنچ گئی تو بابا اسے کبھی باہر نہیں نکلنے دیں گے اور بھائی تو جان سے مار دے گا
°°°°
وہ پریشانی سے سوچتے ہوئے اپنے روم میں آئی
اس کے دماغ سے یہ بات مکمل نکل چکی تھی کہ نجانے کتنے گھنٹے سے وہاں اوپر بند ہے اور نہ ہی اسے کوئی پرواہ تھی اسے پرواہ تھی تو بس اس بات کی کہ کسی کو پتہ چل گیا کہ اس نے پھر سے کوئی الٹا سیدھا کام کیا ہے تو اس کے باپ اور بھائی اس کا گھر سے نکلنا بند کر دیں گے
اور اب تو اس کی ساری دوست بھی واپس جا چکی تھی کیونکہ شاید وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینے جا رہی ہے
مجھے ہوٹل سے چلے جانا چاہیے یہی بیسٹ آپشن رہے گا اس نے سوچتے ہوئے اٹھ کر اپنا سامان پیک کرنا شروع کیا
اور ہوٹل سے چلے جانا ہی بہتر سمجھا لیکن جیسے ہی وہ سامان لے کر باہر آئی مینیجر نے اسے روک لیا میم آپ جانتی ہیں کہ ہوٹل میں کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے یہاں سے ایک لڑکی غائب ہو چکی ہے کڈنیپنگ کیسق بھی ہو سکتا ہے
یہاں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اب پلیز آپ اس طرح سے باہر نہ نکلنے کہ یہ پہلے ہی ایک پولیس کیس بن چکا ہے یہ جو لڑکا ہے ۔جس کی بیوی غائب ہوئی ہے بہت بڑےخاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔بہتر ہوگا کہ جب تک وہ لڑکی مل جائے نہ تو ہوٹل سے کوئی باہر جائے اور نہ ہی باہر سے کوئی باہر سے آئے گا اب یہ ہماری ذمہ داری ہے وہ لڑکی ہمارے ہوٹل کے اندر سے غائب ہوئی ہے
اور اس پولیس کیس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو ہوٹل کے اندر موجود ہیں ایم ریلی سوری آپ کو تھوڑی سی تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن ہم آپ کو اس طرح سے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
مینیجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے اب ثانیہ کو کچھ نہیں سوچ رہا تھا وہ یہاں سے نکلے تو نکلے گی کیسے اور اگر کسی کو یہ پتہ چل گیا کہ یہ سب کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے تو وہ بری طرح سے پھس جائے گی
°°°°°°
صبح سے شام ہونے کو آئی تھی لیکن ابھی تک عاشی کا کچھ اتا پتا نہیں تھا حنان نے ا لگ ہنگامہ مچا رکھا تھا پولیس بھی ہر ممکن طریقے سے عاشی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی
ہمیں ہوٹل کی چیکنگ کرنی ہوگی ۔ہو سکتا ہے کہ وہ ہوٹل کے اندر ہی کہیں ہوں پولیس نے کہا
ہوٹل کے اندر ممکن کیسے ہے اگر وہ یہاں ہوتی تو کوئی چھوٹی بچی تھوڑی نہ ہے کہ یوں غائب ہو جاتی اور مس ثانیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے انہیں باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہے مینجر نے ثانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے لیکن ہم باہر ہر طرف چیک کر چکے ہیں یہاں آس پاس وہ کہیں بھی نہیں ہے اور اتنے گھنے جنگل میں کوئی بیوقوف ہی ہے جو جائے گا
آج برف باری نہ ہونے کی وجہ سے راستے صاف کیے جا رہے ہیں اس لئے یہاں سے آگے تھوڑی ہی فاصلے پر سارے راستے بھی بند ہیں کوئی بھی اس طرح سے آگے نہیں جا سکتا
اور نہ ہی دور دور تک مسز حنان کو کسی نے جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اسی لئے ہمارا شک یہی کہتا ہے کہ وہ یہی ہوٹل کے اندر ہیں ۔ ہم ایک پر پورا ہوٹل چیک کرنا ہوگا انسپکٹر نے کہا تو میجر نے بھی فوراً ہی اجازت دے دی تھی وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ مسئلہ جلدی سے جلدی حل ہو جائے جبکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ثانیہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی
°°°°°°°
ہوٹل بس اتنا ہی ہے ۔۔ اس کے علاوہ ہوٹل میں کچھ نہیں ہے سوائے اوپر کچھ نئے کمرے تعمیر کیے جا رہے ہیں سردی کی وجہ سے کام رک دیا ہے
اگر آپ چاہیں تو وہاں بھی دیکھ سکتے ہیں
آپ کا اسٹاف کتنے بجے تک آتا ہے انسپکٹر نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پوچھا
سر ہمارے دو اسٹاف ہیں ایک رات کی ڈیوٹی کے لئے ایک صبح کی ڈیوٹی کے لئے رات کی ڈیوٹی سٹاف نو بجے تک آ جاتے ہیں اور تقریبا صبح چھ بجے کے قریب چلے جاتے ہیں
اس دوران مہمانوں کو بھی کم ہی کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے اور صبح کے سٹاف نو بجے تک آتی ہے ۔
پانچ لوگ رات کی ملازمت کرتے ہیں اور پانچ لوگ صبح کی جب یہ واقعہ پیش آیا تب تک ہوٹل میں کسی بھی قسم کا اسٹاف موجود نہیں تھا
مینیجر تفصیل بتاتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ اوپر کی طرف آیا تھا
جبکہ انسپیکٹر اب ایک ایک کمرہ کھول کھول کر چیک کر رہا تھا جب کانسٹیبل نے انہیں آواز دی
یہاں زمین پر ایک لڑکی بپری ہے اس کے کہنے کی دیر تھی کہ سارے سٹاف کے ساتھ حنان دور کر واش روم پہنچا
جہاں سامنے زمین پر ہی وہ بے ہوش پڑی تھی
وہ پچھلے 12 گھنٹے سے اس واش روم میں بند تھی
حنان فورا اس کے پاس آیا اور اسے اٹھا کر باہر لایا
عاشی پلیز آنکھیں کھولو کیا ہو گیا ہے تمہیں وہ اس کے ہاتھ سہلاتا مسلسل اسی جگانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ بے ہوش تھی ۔ اس کے ہاتھ پیروں پر برف بن چکے تھے جبکہ انسپیکٹر وش روم کا کونا کونا چیک کر رہا تھا ۔
یہاں اپنے آپ تو آئی نہیں ہوگی یقینا انہیں یہاں کوئی لایا ہوگا یہ کڈنیپنگ کیس بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اور مقصد بھی ہو سکتا ہے انہیں یہاں لانے کا یہ اتنی بیوقوف تو نہیں ہے کہ خود ہی یہاں آ جائیں انسپکٹر نے سوچتے ہوئے کہا
کیوں کوئی ایسی جگہ پر آئے گا جو ابھی زہر تعمیر ہو اوپر کے بلڈنگ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے وہ واشرومز تھے جو مکمل تیار تھے انسپکٹر نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کسی کی غلط رہنمائی میں یہاں تک آئی ہے جبکہ اس کے فون کو ٹریس کرتے ہوئے یہی پتہ چلا تھا کہ آخر میں فون ہوٹل کے اندر سے ہی بند ہوا ہے ۔
اور ہوٹل میں موجود ایک لڑکی ثانیہ سلیمان ۔ اسلام آباد کے ایک بہت بڑے غنڈے سلمان پاشا کی بیٹی تھی ۔ اور ہوٹل کے مینیجر نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ کل اس لڑکی کے ساتھ مسز خان کی لڑائی بھی ہوئی ہے
مینیجر صاحب آپ نے تو کہا تھا اوپر کوئی نہیں آتا تو یہ لڑکی یہاں اوپر کیسے پہنچی انسپکٹر نے مینیجر کو آڑے ہاتھوں لیا
سر مجھے نہیں پتا اس طرف کے راستے تو ہمیشہ بند رہتے ہیں یہاں کیسے آئی یہ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آرہا مینیجر نے پریشانی سے جواب دیا ۔
آپ ڈاکٹر کو بلائیں جب تک انہیں ہوش نہیں آ جاتا ہوٹل سے نہ تو کوئی باہر جائے گا اور نہ ہی کوئی باہر کا اندر آئے گا ۔ میں جاننا چاہتا ہوں یہ اتفاق سے یہاں آئی ہیں یا کوئی انہیں یہاں لایا ہے ۔
مسٹر خان آپ اپنی وائف کا دھیان رکھے انہیں روم میں لے جائیں اور آپ ڈاکٹر کو بلائیں انسپکٹر مینیجر سے کہا تھا جس پر وہ موبائل نکال کر ڈاکٹر کو فون کرنے لگا
انسپکٹر نیچے آتا سیڑھیوں پر کھڑی ثانیہ کے پاس ایک منٹ کے لئے رکاتھا
اس کیس میں کوئی بھی شامل ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو بھی ہو کر بری طرح سے پھس جائے گا ایک بار مسز خان کو ہوش آ جائے تو وہ خود بتائیں گی کہ ان کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ۔ اور یہ حرکت جس نے بھی کی ہے اسے سخت سے سخت سزا ملے گی ۔ چاہے وہ کسی کی بھی بیٹی کیوں نہ ہو ۔میرا مطلب ہے کتنے بھی بڑے گھر سے اس کا تعلق کیوں نہ ہو ۔
تب تک ہوٹل سے باہر کوئی نہیں جا سکتا وہ اسے سنانے والے انداز میں کونسٹیبل کو بتا رہا تھا ۔
انسپیکٹر بہت ہوا اب مجھے یہاں سے جانا ہے میں آج صبح ہی یہاں سے جانے والی تھی لیکن اس سارے کیس سلسلے میں نہیں جا پائ
کوئی بات نہیں مس ثانیہ آپ کل چلے جائے گا ۔ اور ویسے بھی مسز خان کو صبح تک ہوش آجائے گا۔ہم آپ کو زیادہ تکلیف نہیں دیں گے ۔ وہ اسے گھورتا ہوا باہر نکل گیا جبکہ ثانیہ کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ بری طرح سے پھس چکی ہے
°°°°°°
ڈاکٹر اسے چیک کرکے جا چکا تھا سردی میں اتنی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے اس کا خون جم چکا ہے جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی ۔
ڈاکٹر کے جانے کے بعد حنان مسلسل اس کے پاس بیٹھا اس کے ہاتھ پیر سہلا رہا تھا اس نے گھر میں اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا
لیکن اصل میں یہ سب کچھ سنبھالنا بھی اس کے لیے بہت مشکل تھا مینیجر اور انسپکٹر کے حساب سے کہیں نہ کہیں اس سب میں ثانیہ شامل تھی۔
کیوں کہ ثانیہ کا ایک جھوٹ پکڑا جا چکا تھا کہ صبح اس نے اسے باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہے جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا وہ کہیں باہر گئی ہی نہیں تھی آج کا دن حنان کی زندگی کا سب سے برا دن تھا
ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اسے کسی بھی وقت ہوش آ سکتا ہے اس وقت رات کے دو بج رہے تھے جب کہ حنان اپنے بھوک پیاس کی پرواہ کیے بغیر بس اسی کے بارے میں سوچے جا رہا تھا
اگر تو اس سب میں ثانیہ شامل تھی کہ تو وہ اسے سخت سے سخت سزا دلوا نہ چاہتا تھا ۔لیکن اسے غصہ اپنی لاپروائی پر آرہا تھا وہ کیسے اسے چھوڑ کر چلا گیا صرف پانچ منٹ کے اندر کیا سے کیا ہو گیا تھا اگر وہ صبح تک وہاں نہ پہنچتے تو شاید وہ اپنی عاشی کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھتا
وہ تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ اس نے وقت پر پولیس کی مدد لے لی پولیس کا تو کہنا تھا کہ جب تک 24 گھنٹے مکمل نہ ہو جائے وہ اس طرح کا کوئی بھی کیس نہیں لے سکتے
لیکن اس کی بے چینی اور جنون دیکھتے ہوئے انسپکٹر نے اس کے کیس کو لینے کی حامی بھر لی تھی
اب بس ایک بار اسے ہوش آ جائے تو وہ خود ثانیہ کا نام لے کر اسے اس کے کیے کی سزا دلوائے گی ابھی وہ یہی سب کچھ سوچ رہا تھا کہ اسے عاشی موجود میں کپکپاہٹ محسوس ہوئی ۔وہ اگلے ہی پل اپنی ساری سوچوں کو سائیڈ کرتا اس کے وجود کو خود میں سمیٹ چکا تھا ۔
اسے اپنے قریب محسوس کر کے عاشی بی اس کی بانہوں میں سمیٹ آئی تھی
°°°°°°
عاشی کیآنکھ کھلی تو وہ اس کے بالکل پاس بے چین سا لیٹا ہوا تھا یقیناً وہ جاگ رہا تھا
ایک پل کے لئے تو وہ بلا ہی چکی تھی کہ وہ کہاں تھی لیکن اب یاد آیا تو آنسو ایک بار پھر سے اس کی پلکوں پہ آ گئے
اس نے کیوں اس لڑکی پر اعتبار کیا وہ قسے وہاں بند کر کے چلی گئی نجانے کتنے گھنٹے وہ دروازہ کھٹکھٹاتی رہی چلا چلا کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی رہی
لیکن اتفاق ایسا تھا کہ سارا دن اس طرف کوئی گیا ہی نہیں اور وہ بری طرح سے وہیں پھنس گئی اس کا فون تک وہ لڑکی لے کر جا چکی تھی اسے رہ رہ کر اپنی بیوقوفی پر غصہ آیا
وہ سمجھ سکتی تھی کہ یہ چند گھنٹے حنان پر کیا گزری ہوگی
حنان اپنے چہرے پر نظروں کی تپش کو محسوس کرکے آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا جو کب سے اسے دیکھ رہی تھی
عاشی میری جان تم ٹھیک ہو نا وہ اگلے ہی پل اٹھ کر بیٹھتے ہوئے ایک پل پھر سے اس کا ماتھا اور چہرہ چیک کرنے لگا
حنان اس نے مجھے وہاں اوپر بند کر دیا ۔ میں بہت ڈر لگی تھی ۔میں بہت چلائی تھی مجھے لگا میں وہیں مر جاؤں گی کوئی نہیں آئے گا مجھے بچانے عاشی کہتے ہوئے بری طرح سسکی تھی جب کہ وہ اسے اپنی باہوں میں بھیجے اپنے سینے سے لگا چکا تھا
سوری جان میں نے بہت دیر کردی ۔ لیکن آئی پرومس آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی میں تمہیں ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔ یہ سب کچھ میری لاپرواہی کی وجہ سے ہوا ہے وہ اسے اپنے سینے سے لگائے آہستہ آہستہ بول رہا تھا
تمہیں وہاں ثانیہ لے کر گئی تھی نا وہ اسے اپنے سینے سے لگائے پوچھنے لگا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی ایک بار پھر سے اس کی باہوں میں سمیٹ رہی تھی
ثانیہ کا تو میں وہ حال کروں گا جو ساری زندگی یاد رکھے گی وہ غصے سے کھولتے ہوئے بولا
نہیں حنان ہم کچھ نہیں کریں گے ہم واپس اپنے گھر چلتے ہیں میں یہاں نہیں رکنا چاہتی آپ ویسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی
نہیں عاشی ہم کسی کی بے وقوفی کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو قربان کریں ایسی لڑکی کو اس کے کیے کی سزا ملنی چاہیے اور ہم یہاں ایک ہفتے کے لیے آئے ہیں تو ایک ہفتے کے بعد ہی واپس جائیں گے لیکن وہ لڑکی یہاں سے سیدھا جیل جائے گی
اگر ہم تھوڑا اور لیٹ پہنچتے تو جانتی ہووہاں کیا ہوتا میں اس پر اپنی بیوی کے مارنے کی پلاننگ کا کیس کروں گا کچھ بھی ہو سکتا تھا تمہیں وہاں اور اس لڑکی کے لئے یہ سب کچھ ایک مذاق ہے زندگی مذاق ہے اس کے لیے ۔
اسے اس ی سزا ضرور ملے گی یہ لوگ تو جانتے بھی نہیں ہیں کہ اپنی چند سیکنڈ کی خوشی کے لیے یہ کسی دوسرے کی ساری زندگی برباد کر دیتے ہیں
عاشی کے اتنی دیر سمجھانے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا وہ اپنی بات پر قائم تھا کہ وہ ثانیہ کو اس کے کیے کی سزا ضرور دلوائے گا اور اس کی ضد پر وہ بھی خاموش ہو گئی کیونکہ وہ حنان کو غصہ دلارہا ہی تھی
°°°°°°°°
چھوڑو مجھے میں نے کچھ نہیں کیا وہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے ۔ ثانیہ مسلسل لیڈی کانسٹیبل کا شکنجہ توڑتے ہوئے بولی لیکن لیڈی کانسٹیبل کے ایک تھپڑ نہیں اس کا منہ بند کر دیا تھا
آج کی نوجوان نسل میں پرنیک ایک نشہ ہے ۔ جو کہ نوجوان نسل میں بری طرح سے پھیلا ہوا ہے پرنیک ایڈک لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس چھوٹی سی مستی کی وجہ سے دوسرے کی زندگی کس طرح سے برباد ہو سکتی ہے
اس کی جان جا سکتی ہے ۔انہیں پرواہ ہوتی ہے تو صرف اور صرف اپنے مستی مذاق اور انٹرٹرمنٹ کی بہت سارے ممالک میں پرینک کو ایک گناہ تصور کیا گیا ہے
یہ ایک ایسے نشہ ہے جو انسان کی زندگی برباد کر دیتا ہے
چند ممالک میں ان کی سخت سزا رکھی گئی ہے لیکن چند ممالک میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور ایسے ہی چند ممالک میں عام انسان کی زندگی اس نشے کا شکار ہو رہی ہے
۔
مزاق کے ایک حد مقرر ہے ایسے مذاق جو دوسروں کی دنیا برباد کر دیں وہ مذاق نہیں بلکہ گناہ ہے اور ایسا ہی گناہ اپنے سکون کے لیے ثانیہ کرنے جا رہی تھی
.................
انہیں واپس آئے ہوئے پندرہ دن گزر چکے تھے آج کل حنان ہر وقت ایریا میں رہنے لگا تھا اس کا زیادہ تر وقت ایریا میں گزرتا ایریا کے لوگوں کو کیا مسئلہ ہے اور ایریا میں کون سی چیز کی ضرورت ہے وہ چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بری سے بری چیز کا خیال رکھنے لگا تھا ایریا کی ذمہ داری اس نے اپنے کندھوں پر لے لی تھی
ایریا کی سب لوگ اسے ایک اچھا لیڈر سمجھنے لگے تھے سب نے ہی اسے ہی مینیجر بنانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ پورے ایریا کے لوگوں کو ایک فیملی کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا
اپنے غصے اور لڑاکا طبعیت کو ایک سائیڈ پر رکھ کر وہ صرف اور صرف ایریا کی بھلائی کے لئے سوچ رہا تھا جبکہ دوسری طرف سوسائٹی میں کیا ہو رہا ہے اس کی بھی خبر اسے ملنے لگی تھی مدثر غنڈوں کا سہارا لے کر ایریا کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر وؤٹ حاصل کر رہا تھا
ایریا کےدو تین لوگوں نے باہر کے لوگوں کا ایریا میں آکر غنڈاگردی کرنے کے شکایت بھی کی تھی لیکن مدثر کا یہی کہنا تھا کہ وہ سب اس کے دوست ہیں اور اس کے ایریا میں آ سکتے ہیں ۔ اور اسی بات پر سوسائٹی کے ہیڈ خاموش ہو جاتے کیوں کہ کسی کی فیملی میٹر میں انٹر فیر کرنے کی انہیں کوئی اجازت نہیں تھی
سوسائٹی کے بھلائی کے بارے میں سوچنا ان کا کام تھا لیکن سچائی یہی تھی کہ کسی گھر میں کیا چل رہا ہے اس سب کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں تھا
لیکن ایک دن سوسائٹی کے لوگوں کا شکایت کرنا انہیں ایکشنا لینے پر مجبور کر کے انہوں نے مدثر کو بلا کر سمجھانے کی کوشش کی کہ ایریا میں غنڈہ گردی کرنا بند کرو تو وہ ہیڈ کو نظر انداز کرکے اپنے ہی ایریا کے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے لگا
جس کا اثر یہ ہوا تھا کہ کے اس کے ایریا کے لوگ اس سے دب کر رہنے لگے تھے اب نہ تو ہیڈ تک کوئی شکایت آ رہی تھی اور نا ہی مدثر کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا
لیکن ایریا میں کیا ہو رہا تھا اس سے کوئی بھی بے خبر نہیں تھا لیکن حنان چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ مدثر کا ایریا تھا وہاں کے سارے لوگ مدثر کا ساتھ دے رہے تھے ووٹنگ میں بھی زیادہ تر نام مدثر کا ہی آ رہا تھا اس طرف کے ایریا سے کسی نے بھی حنان کو ووٹ نہیں دیا تھا
اگر حنان ووٹنگ میں جیت جاتا ہے تب ہی اسے پوری سوسائٹی کی ذمہ داری ملے گی اور وہ دوسرا ایریا بھی اس کے انڈر آ سکتا تھا لیکن اگر وہ ووٹنگ میں نہیں جیت سکا تو مدثر پورے سوسائٹی پر حاوی ہو جائے گا اور مدثر اور اس کا باپ صرف اور صرف پیسوں کے لیے ایریا کا ہیڈ بننا چاہتا تھا یہ تو پوری سوسائٹی اچھے طریقے سے جانتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس کے ڈر سے خاموش تھے
اور اس سب کی وجہ وہ غنڈا تھا جس کا تعلق کسی بہت بڑے غنڈے سے تھا شاید کسی بہت بڑے غنڈے کا بھائی تھا یا بیٹا تھا جو بھی تھا لیکن ایریا کے لیے کافی حطر ناک ثابت ہو رہا تھا وہ اپنے لوگوں کی مدد سے مدثر کو ہر ممکن طریقے سے سپورٹ دے رہا تھا جس کے بدلے میں مدثر اس کے نشے کی ضرورت کو پورا کرتا تھا ۔
اس طرف کے ایریا کے لوگوں نے مدثر کے باپ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کے آپ کا بیٹا غلط لوگوں کا ساتھ دے رہا ہے اور غلط لوگوں کو غلط طریقے سے سوسائٹی میں لاکر سوسائٹی کو بھی خراب کر چکا ہے لیکن اس کے باپ نے بس ایک اپنا ہی کہا کہ بہتر ہے کہ وہ لوگ اپنے کام سے کام رکھے ان کا بیٹا ہر وہ کام کرے گا جو ایریا کے لیے اچھے مینیجر کو کرنا چاہیے
اس لیے بہتر ہوگا کہ اس طرف کا کوئی بھی انسان مدثر کے کام میں خلل اندازی نہ دے لیکن ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا ایریا کے لوگ اپنے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھا رہے کیوں مدثر کی بے جا ٹھوس اور دباؤ کو برداشت کر رہے ہیں
کیوں وہ کسی غیر کے ڈر میں آکر اپنا حق نہیں لے رہے ۔ ایریا کے لوگوں نے مدثر اور اس کے دوست کے غنڈوں کو خود ہی اپنے آپ پر حاوی کر لیا تھا ان کا ڈر اتنے برے طریقے سے ان لوگوں کے دلوں میں بیٹھا جا رہا تھا حنان چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا
°°°°°°°°
سارا دن سوسائٹی میں رہ کر وہ کافی تھک ہار آیا تھا گھر آیا تو امی روز کی طرح آج بھی کھانے پر اس کا انتظار کر رہی تھیں ۔
امی نے بولا تھا نہ میں کھانا کھا لوں گا آپ پھر بھی میں انتظار کرتی رہی ہیں وہ ان کا ماتھا چومتے ہوئے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا
ہاں پتا تھا کہ تم کھانا کھا کے آوگے میں تو بس تمہیں دیکھنے کے لیے تمہارا انتظار کر رہی تھی کتنے دن ہو گئے ہیں نہ تمہیں ان کاموں میں بزی ہوئے وقت ہی نہیں ملتا سارا دن تمہارا چہرہ تک نہیں دیکھ پاتی میں ان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی
بس کچھ دن اور پیاری امی جان پھر دیکھئے گا آپ کا بیٹا سوسائٹی کا مینیجر بن جائے گا اور لوگوں کو حقیقت کا آئینہ دکھائے گا سوسائٹی کے لوگوں کا غلط استعمال میں نہیں ہونے دوں گا مدثر اور اسکے باپ کو لگتا ہے کہ سوسائٹی کا مینیجر بن کر وہ سوسائٹی کو لوٹ لیں گے تو ایسا میں ہونے نہیں دوں گا
میرے ایریا کے تقریبا سبھی لوگ مجھے ہی ووٹ کریں گے اور اس کے لوگوں کو اس نے اس طرح سے ڈرایا ہوا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی بھی ووٹ نہیں ملے گا لیکن مینجمنٹ میں اگر کوئی مجھے ووٹ کریں تو ہو سکتا ہے میرے جتنے کے چانسز بن جائیں
اور آپ اتنی دیر یوں سردی میں بیٹھ کر میرا انتظار نہ کیا کریں آپ تو جانتی ہیں نہ کہ رات کا کھانا میں سوسائٹی کے لوگوں کے ساتھ کھاتا ہوں تو میرے کھانے پینے کی فکر چھوڑے اور اپنی کچھ ذمہ داری اپنی بہو بیگم پر بھی ڈال ہی دیں
مجال ہے جو آپ کی طرح انتظار کرتی ہوئی کبھی ملے وہ شکایت کرتے ہوئے بولا تو امی مسکرا دیں اب اپنی لاڈلی بہو کے خلاف تو وہ سن نہیں سکتی تھی اسی لئے تو فوراً بولی
ایسے مت کہو وہ رات دیر تک تمہارا انتظار کرتی ہے یہاں بیٹھ کر اور جب تم نہیں آتے تو کبھی ادھر تو کبھی ادھر گھومتی رہتی ہے اور پھر تھک ہار کر سو جاتی ہے ۔پچھلے ہفتے تم نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ سوسائٹی کے کاموں کو تھوڑا سائیڈ لگا کر تم اسے اس کے گھر لے کر جاؤ گے جس سے تم نے ابھی تک نہیں پورا کیا۔
آج دوپہر کو مجھ سے تمہاری شکایت کر رہی تھی ۔ تو میں نے کہہ دیا بیٹا ناراض ہو جاؤ اس سے وہ اس کے ہی سامنے اس کی برائی کرتے ہوئے بولی تو وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا
لیکن میری معصوم بہو نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کا بیٹا تو گھر آتا نہیں تو کس سے ناراض ہوںں
بھلا کوئی کرتا ہے اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ ایسا پندرہ دن ہو چکے ہیں تمہیں ہنی مون سے واپس آئے ہوئے لیکن مجال ہے جو تم نے ایک بار بھی اس سے اس کی امی کے گھر جانے دیا
خود نہیں جا سکتی تو کم ازکم اسے تو جانے دو دو تین دن گزر آئی جب تک تمہاری یہ سارے کام کرتے ہیں امی نے سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں امی نہیں وہ چلی جائے گی تو میں کیسے رہوں گا ۔میں اپنی بیوی کو کہیں اکیلے نہیں جانے دوں گا سوسائٹی کے کام ختم ہوں تو خود ہی لے جاؤں گا اسے اس کے سارے گلے شکوے بھی دھو ڈالوں گا ۔
اور اب تو اسے نئی نویلی بیوی نہ کہا کریں کچھ دن میں مہینہ ہو جائے گا ہماری شادی کو اب ذرا ایکشن میں آ جائے ساس بہو والے ڈرامے شروع کریں جب میں شام کو گھر واپس آؤں تو مجھے دونوں شکائیں لگاتی ہوئی ملے
یہ دوستی مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی وہ ان کا ماتھا چومتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف آیا جب کہ اس کی بات پر آمی مسکرائے بنا نہ رہ سکیں ۔
°°°°°°°°
حنان نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ سو رہی تھی وہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑھ رہا ہے اور جھک کر نرمی سے اس کے ماتھے کو چھوتے ہوئے پیچھے ہٹا لیکن سامنے والے کو تو ذرا اثر نہیں ہوا اور یہی بات
حنان کو بری لگی تھی
وہ اس کے لمس سے انجان ہو کر کیسے سو سکتی تھی حنان تو اس کی نس نس میں اتر جانا چاہتا تھا ۔وہ اس کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر بے خود سا کر اس کی شہ رگ کو اپنے لبوں سے چھونے لگا
لیکن سامنے والا وجود تو جیسے گھوڑے گدھے بیچ کر سویا تھا جس پر اس کے لمس کا کوئی اثر ہی نہ ہوا بس پھر کیا تھا ہر حنان کو مزید غصہ آنے لگا اور وہ اس کی گردن پر جا بجا اپنے لبوں سے ظلم ڈھانے لگا
پھر سر اٹھا کر دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مطلب کے اثر تو ہوا تھا لیکن میڈم کے جاگنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا آسان کے الفاظ میں وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی حنان دوبار اس سے گھر لے جانے کا وعدہ کیا اور دونوں بار نہیں لے جا پایا
اور اسی کے اظہار پر محترمہ اس سے بالکل منہ نہیں لگا رہی تھی اور جاگتے ہوئے سونے کا بھرپور ڈرامہ کر رہی تھی ۔
عاشو سوری یار بس کچھ دن انتظار کر لو میں تمہارے گھر لے جاؤں گا وہ صلح کا جھنڈا لہراتے ہوئے بولا لیکن کے سامنے والے پر کوئی اثر نہیں ہوا مطلب کہ وہ مزید ناراض رہنے کا ارادہ رکھتی تھی
کیا یار عاشو تم تو پکی والی ناراض ہوگئی اب میں تمہیں مناؤں گا کیسے وہ مسکراتے ہوئے اس کے اس کو چھونے لگا اور اس کے لب جا بہ جا اس کا ایک ایک نقوش کو بڑی عقیدت سے چوم رہے تھے جس پر عاشو کا چہرہ خون چھلکنے لگا اور حنان کی شرارتیں مزید بھرنے لگی۔
اب تم مان رہی ہو یا پھر میں زیادہ فری ہو جاؤں اس نے مسکراتے ہوئے اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی مطلب صاف تھا اگر اپنا بھلا چاہتی ہو تو ناراضگی ختم کر دو ۔
وا حنان کیا بات ہے آپ کے صبر کی تھوڑا سا منع نہیں سکتے مجھے بس یہی ساری حرکتیں کرنی آتی ہے جب بیوی ناراض ہوتی ہے تو اسے کس طرح سے بنایا جاتا ہے اتنا تک نہیں پتا آپ کو ہر چیز میں مطلب پورا کرنا ہوتا ہے بہت تیز کہتی ہے اپنی زبان کو دانتوں میں دبا گئی ہے جبکہ اس کے بات پر قہقہ لگا کرہنسہ
مطلب کے آسان لفظوں میں تم مجھے مطلبی کہہ رہی ہو اب وہ اس پر رعب جما رہا تھا
میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا حنان چھوڑ دے مجھے وہ اس کی نظروں سے بچتے ہوئے بولی مطلب صاف تھا اسے مطلبی بول دیا اب وہ اپنا مطلب پورا کرکے ہی پیچھے ہٹے گا
ارے ایسے کیسے چھوڑ دوں اب تم نے مجھے مطلبی کہے دیا ہے تو پھر مجھے میرا مطلب پورا کرنے دو وہ ہنستے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا تھا
حنان میں ناراض ہوں نا اس کی شدت سہتے ہوئے وہ بے بسی سے بولی
پیار کرنے تو دو میں بعد میں منا لوں گا ٰحنان اس کے کانوں کے لو کو چومتے ہوئے سرگوشی کرکے اسے اپنی باہوں میں سمیٹ گیا
جبکہ اب وہ اسے سہی مہینوں میں مطلب کا مطلب سمجھا رہا تھا ۔ جب تک کہ وہ اس کی باہوں میں پھگلتی اس کی شدتوں کو برداشت کر رہی تھی۔
°°°°°°
رات کا نہ جانے کون سا وقت تھا جب اس کا فون بار بار بجنے لگا اس نے ایک نظرگھڑی کی طرح دیکھا جو رات کے تین چار ہی تھی اور پھر اگلے ہی لمحے اپنا فون اٹھانے لگا اتنی رات کے کس کا فون ہو سکتا ہے
کیا ہوا آس انتی رات کے فون کیا خیریت تو ہے اس نے آس کا فون اٹھا کر پوچھا
کچھ خیریت نہیں ہے حنان مدثر اور اس کے غنڈے ہمارے ایریا میں ہیں نہ جانے کیا کر رہے ہیں مجھے تو لگ رہا ہے کہ چھپا کر کوئی بری چال چل رہے ہیں تم جلدی سے آ جاؤ
کچھ دیر پہلے رضوان ہوسٹل سے گھر واپس آیا تو اسے کچھ گھڑبڑ محسوس ہوئی باہر نکل کر اس نے مدثر اوراس کے غنڈوں کو دیکھا ہے ہم لوگ چھپ کر ان کا پیچھا کر رہے ہیں پلیز تم جلدی آ جاؤ اس سے پہلے کہ یہ کوئی بڑی گڑبڑ کردیں اسے پوری بات بتا کر فون رکھ چکا تھا جب کہ وہ بسترایک طرف کر کے جلدی سے اٹھا وہ آپنے ایریا پر کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا تھا
یقینا مدثر اسے کسی بڑے کھیل میں پھسانے کا ارادہ رکھتا تھا یا شاید وہ ایریا کے لوگوں کو بری طرح سے نقصان پہنچانے والا تھا مگر جو بھی تھا وہ رسک لینے کو بالکل تیار نہیں تھا
وہ جتنا جلدی ہو سکے اس جگہ پر پہنچا تھا جہاں اس نے اسے بلایا تھا اس کے ساتھ ایک لڑکا اور بھی تھا رضوان جو اسی کے ایریا سے تعلق رکھتا تھا اور ہوسٹل میں رہتا تھا آج رات ہی اس نے واپس آنا تھا واپس آتے ہی اس نے اپنے ایریا میں اس وقت ان کو دیکھا تو فورا ہی انہیں بتایا
حنان بھیا وہ دیکھیں وہ لڑکے بجلی کاپٹن کے ساتھ کچھ کر رہے ہیں اس نے بجلی کاپٹن کے ساتھ کھڑے تین لڑکوں کو دیکھا جن میں ایک مدثر کا دوست ہے وہ غنڈا بھی تھا وہ انتہائی غصے سے ان کی طرف بڑھا اسے سامنے سے آتے دیکھ کر وہ غنڈے بھی الرٹ ہو کر اس کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن حنان روکا نہیں
وہ آگے بڑھتے ہوئے ان تینوں کی درگت بنانے لگا جب کہ پکڑنے کی وجہ سے مدثر تھوڑا خوفزدہ ہو چکا تھا اس کا ارادہ واپس جانے کا دل لیکن یہ لڑکے یہیں پر لڑائی جھگڑا کرنے لگے ۔
کیوں آئے تھے تم اتنی رات کو یہاں پر وہ ان تینوں کو بری طرح سے پیٹ کر مدثر کے گربان پکڑ کر پوچھنے لگا ۔جب اچانک پیچھے سے کسی نے اس پر حملہ کیا اس سے پہلے کے وہ ڈنڈا اس کے سر پر لگتا ہے وہ اپنی ٹانگ کی مدد سے پیچھے کھڑے لڑکے کو مار چکا تھا ۔
ویکی ایک جھٹکے سے ڈنڈا چھوڑتا زمین پر گرا تھا آس اور اس کے باقی دوست موقع پر پہنچ کر ہی ان لوگوں کی درگت بنانے لگے جب کہ حنان کا سارا دھیان ویکی پر تھا جو نشے کی حالت میں بری طرح سے لڑتا ہوا اپنے دوست کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا
وہ اس کے قریب آیا اور اس کے سینے پر اپنا بوٹ رکھ کر اسے وارن کرنے لگا دیکھو لڑکے تم چاہے کتنی بھی بڑے غنڈے کے بیٹے کیوں نہ ہو میری ذات پر اتنا سا فرق بھی نہیں پڑتا میں تمہاری وہ حالت کروں گا باپ کو شکل دکھانے کے لائق نہیں رہو گے
تمہارا باپ غنڈا سہی لیکن تمہیں برائی سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس میں تم اپنا آپ برباد کر رہے ہو
ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ یہ تو مدثر ہے اسی قانونی سے تعلق رکھتا ہے یہ تو پھر میرے ہاتھوں زندہ بچ جائے گا
لیکن تم نہیں بچو گے میں کسی باہر کے انسان کو اپنی سوسائٹی میں برداشت نہیں کر سکتا اور تم جیسے غنڈوں کو کس طرح سے سیدھا کرنا ہے کہ حنان سکندر خان بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے اسی لیے بہتر ہوگا کہ آج کے بعد تم مجھے اس ایریا میں نظر نہ آؤ نا یہاں نہیں اس طرف ورنہ بہت پچھتاؤگے سمجھ رہے ہو نا میری بات کو
آس ان سب ایریا سے دھکے مار کر باہر نکالو لیکن ٹانگوں پر نہیں گدھوں پر وہ آس کو کہتا ہوا خود اٹھ کر اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا جبکہ اب اس اس کے دوستوں نے ہی کسی کو منہ دکھانے کے لیے تھا
............
حنان بہت مصروف تھا ووٹنگ شروع ہو چکی تھی۔
حنان کا سارا ایریا اسی کو ووٹ دے گا اسے یقین تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حنان کے ایریا کے لوگ کم پڑ چکے تھے یقینا مدثر نے ہی جیتنا تھا حنان بہت کوشش کے باوجود بھی یہاں آ کر بالکل بے بس ہو چکا تھا ۔
ووٹنگ ختم ہوئی تو رزلٹ کا انتظار ہونے لگا مدثر بڑے ہی شان بے نیازی سے سامنے کی کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہوں ہار مبارک ہو جبکہ حنان خاموشی سے آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا اگر مدثر جیت گیا تو اس کا ایریا اور یہ سوسائٹی بری طرح سے تباہ ہو جائے گی اور یہ بات پوری سوسائٹی بہت اچھے سے جانتی تھی
سوسائٹی کی مینجمنٹ اس وقت اسٹیج پر کھڑی فیصلہ سنانے لگی تھی
یہاں سے چلے جاؤ حنن ہوسکتا ہے ہار برداشت نہ کر پاؤ تم وہ اس کے قریب کھڑا کہنے لگا حنان ایک تلخ سی مسکراہٹ مسکرا کر سوسائٹی کو دیکھنے لگا
فیصلہ سنے بغیر بھاگنے والے وقت سے پہلے ہار جاتے ہیں مدثر اور میں اس طرح سے ہار کر نہیں جاؤں گا اور ایک اور فیصلہ سنے بغیر اپنی جیت کا فیصلہ کرنے والا بھی کھلاڑی نہیں ہوتا ۔وہ اسے جواب دیتا منیجمنٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے لگا
دونوں ہی پارٹیوں نے بہت اچھے سے کام کیا ہے جو سوسائٹی کی بہتری کے لیے کیا جاسکتا ہے اس سب میں دونوں نےاپنا اپنا کردار نبھایا ہے لیکن جیت تو کسی ایک کی ہو سکتی ہے ۔ اور جیت اسی کی ہوگی جس کی ووٹنگ زیادہ ہے جس کے لیے لوگ زیادہ چاہتے ہیں کہ وہ اس سوسائٹی کا مینیجر بن کر اس سوسائٹی کو ہینڈل کرے تو اب آتے ہیں جیت کی طرف آج کا یہ جیت کا فیصلہ ہم نے یا مینیجمنٹ نے نہیں بلکہ آپ سب عوام نے کیا ہے یعنی کہ ایریا کے لوگوں نے اور ایریا کے لوگوں نے اپنا لیڈر چن لیا ہے
ونر کا اعلان کرتے ہوئے مدثر نے اٹھ کر اپنے کوٹ کے بٹن بند کیے تھے جبکہ حنان ایک نظر اسے دیکھ کر سر جھکا گیا ۔ لیکن منیجر اگلے الفاظ نے اس کے قدموں میں زنجیر ڈال دی تھی
پوری سوسائٹی میں صرف چھ لوگوں نے مدثر کو ووٹ کیا ہے جس میں اس کے والد والدہ اور اس کے چار دوست شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ اس کے پورے ایریا کے ساتھ ساتھ حنان کی پوری ایریا نے صرف اور صرف حنان کو ہی ووٹ کیا ہے
جب سے ہم نے اس سوسائٹی کو سنبھالنا شروع کیا ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے اچھے سے کسی نے پوری سوسائٹی پورے ایریا کو سنبھال لیا ہو اور اپنے ایریا کے ساتھ ساتھ حنان نے جس طرح سے دوسرے ایریا کی مدد کی اور ان کا سہارا بنا اس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حنان ہی ایک باکمال لیڈر بن سکتا ہے اور ہمارے فیصلے کے تحت آپ سب کو یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ ہمارا اگلا مینیجر حنان سکندر خان ہے
حنان کے نام کے ساتھ ہی پورے ہال میں تالیاں بجنے لگی جبکہ وہاں موجود چھ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ بازی کس طرح سے الٹ گئی
حنان ساری ساری رات جاگ کر صرف اور صرف اپنے اور مدثر کے ایریا کی مدد کر رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس ایریا کے لوگ بہت زیادہ ڈرے ہوئے ہیں مدثر نے غنڈوں کا سہارا لے کر جس طرح سے ووٹنگ حاصل کرنے کی کوشش کی وہ ایک جرم تھا لیکن اس جرم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں تھے اور جہاں سختی کام نہیں کرتی وہ نرمی اور خوش اخلاقی ایک بہترین سہارا ہے
اور حنان نے اپنے اسی سہارے کا استعمال کیا تھا مدثر کی غیر موجودگی میں وہ ایریا کو پوری طرح سے اپنے حق میں کر چکا تھا ان لوگوں نے ایک پلان بنایا جس کے مطابق وہ لوگ مدثر کا ہی ساتھ دے رہے تھے لیکن عین وقت پر جب ووٹنگ کی باری آئی تو سب نے حنان کو آؤٹ کیا کیوں کہ زندگی ڈر کر گزارنے سے بہتر تھا کہ وہ حنان جیسے ایک اچھے مینیجر کو ووٹ دے کر اپنی زندگی آسان کر لیں
پورا ایریا خوشی سے جھوم رہا تھا جبکہ مدثر اپنی اس بےعزتی کا بدلہ لینے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا اتنی زیادہ بےعزتی کے بعد وہ سر جھکا کر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے نکل گیا
°°°°
پندرہ دن میں حنان نے پورے ایریا کا نقشہ بدل دیا تھا پاور ہاتھ میں آتے ہی وہ ہر وہ کام کر رہا تھا جو اسے ایریا کے لئے بہتر لگ رہا تھا جبکہ ایسے میں مدثر اپنی بےعزتی اور جلن کی آگ میں بری طرح سے جل رہا تھا آج کل وہ اپنے کسی دوست کو بھی منہ نہیں لگاتا تھا بس دل و دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ وہ اپنی بےعزتی کا انتقام کیسے لے
جب کہ حنان اور اس کے دوست ایریا کے اصل ممبر ہونے کا حق ادا کر رہے تھے ۔
کچھ ہی دن میں مسٹر اور مسز عمرے کے لیے جانے والے تھے ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی بہو کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے ایسے میں حنان سکندرخان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتا اور ایریا کو چھوڑ کر فی الحال وہ کہی نہیں جاسکتا کیونکہ پورے ایک ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ہے ۔
جب کہ ڈاکٹرز نے عاشی اپنا بہت خیال رکھنے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ جسمانی طور پر کافی کمزور تھی ایسے میں اس کو ہر وقت کسی نہ کسی کی ضرورت تھی ۔ حنان نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے پوتی یا پوتے کا بھرپور خیال رکھے گا اور اپنی بیوی کا کتنا خیال رکھتا ہے یہ وہ سب ہی جانتے ہیں ۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی انہیں پتہ چلا تھا کہ عاشی پریگننٹ ہے ۔ان دونوں کی خوشی کی تمام نو کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔ لیکن تب تک ان کی سیٹ کنفرم ہوچکی تھی ۔ اور اللہ نے انہیں اپنے گھر پانے کا موقع فراہم کیا تھا وہ اس سعادت کو چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے
جبکہ حنان نے کہا تھا کہ ابھی پریگنینسی سٹارٹ ہوئی ہے وہ آرام سے ایگزیمز دے سکتی ہے کیونکہ ابھی سے ہی وہ اس کی کاہلی کو نوٹ کرنے لگا تھا اسی لئے صاف صاف کہہ دیا کہ میں اس سوسائٹی کا مینیجر ہوں اور میری بیوی گوار رہے یہ بات مجھے گوارا نہیں ۔
اس کے لئے بچاری عاشی کو حنان جیسا ہٹلر ہزبنڈ (بقول عاشی کے ) بھی سنبھالنا تھا ۔
ماں باپ جیسے سسر اور ساس کا بھی خیال رکھنا تھا ۔
اپنی پڑھائی کو بھی توجہ دینی تھی
اور اب اپنے بےبی کی بھی کرنی تھی ۔ کیونکہ اب اس کے نازک معصوم کندھوں پر بہت ساری ذمہداریاں آچکی تھی
اور ایسے میں مما بابا بھی عمرہ کیلئے جانے والے تھے ۔وہ بھی عمرے کے لیے جانا چاہتی تھی لیکن حنان نے اس سے وعدہ کیا کہ اگلے سال وہ اسے خود اپنے ساتھ عمرے کے لئے لے کر جائے گا ۔ جس پر اب وہ اگلے سال نہ صرف عمرے کا نہیں بلکہ اپنے بےبی کا بھی انتظار کر رہی تھی تاکہ ان تینوں یہ سعادت نصیب ہو
°°°°°°°°
یار کب تک جائیں گے آپ لوگ عمرے کے لئے اتنے دن ہو چکے ہیں ٹکٹس آئے ہوئے ابھی تک آپ کا یہ ہفتہ نہیں گزرا جب دیکھو میری بیوی کو اپنے پاس بٹھایا رہتے ہو قبضہ جمائے رہتے ہو آپ لوگوں کی وجہ سے میری بیوی کے پاس میرے لئے ٹائم ہی نہیں ہے وہ جیسے ہی باہر سے آیا تھا صوفے پر بیٹھے ہوئے ان دونوں کو کہنے لگا
جب کہ وہ دونوں اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے عاشی کو ہدایات دے رہے تھے ۔ اور پھر اس سے ہٹ کر بابا نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے وارن کرنے والے انداز میں کہا کان کھول کر سن لو حنان ہر تین دن کے بعد اسے ماں کے گھر لے کر جانا اس کی ماں اور بہن سے ملوانے کے لیے ہمیں زیادہ وقت لگ جائے گا واپس آتے ہوئے ۔
عمرے سے واپسی پر ہم زیارتوں کے لیے جائیں گے ۔ اللہ کی پاک جگہوں کو دیکھنا نصیب ہوا ہے تو ہم جلدی واپس نہیں آسکیں گے لیکن اگر تمہاری کوئی بھی شکایت کی نہ اس نے تو آتے ہی تمہاری کلاس ضرور لگ جائے گی
خبردار جو ہماری بیٹی کو زیادہ تنگ کیا اس کی ہر بات ماننا ۔اسے کسی قسم کی کوئی ٹینشن نہیں ہونی چاہیے اورخبردار جو تم نے اس سے سختی کی اونچی آواز میں بات کی بابا سختی سے کہہ رہے تھے
ٹھیک ہے بابا میں آپ کی ساری باتیں مانوں گا لیکن اب جس طرح سے آپ مجھے ڈانتے ہیں ذرا سا ڈانٹے اسے بھی
کہیں کہ اپنے ہسبنڈ کا خیال رکھے اس کی ساری باتیں مانے اور فضول میں بیکار ضد کرکے اسے غصہ نہ لائے اور کاہلی اور سستی چھوڑ دے اب وہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے عاشی کے لیے ہدایات بتا رہا تھا
ہماری بہو پرفکیٹ ہے اسے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں بیٹا جی تمہیں بھگڑے ہوئے ہو بہتر ہو گا کہ اپنی روٹین پر غور کرو ٹھیک ہے تم ایریا کے مینیجر ہو لیکن وہاں سے زیادہ گھر کا خیال رکھنا ہے تمہیں بابا اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے جس پر وہ منہ بسور کر بیٹھ گیا
جب سے شادی ہوئی تھی کہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ ان کا داماد ہے یا بیٹا
لیکن داماد کو بھی تو وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتا ہے یہاں پر تو اس کے ساتھ کسی زبردستی کے مہمان جیسا سلوک کیا جاتا تھا ۔
°°°°°°°°
رات کو کمرے میں آیا تو وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے آپ کو ہر طرف سے دیکھ رہی تھی اس کے کمرے میں آتے ہی اس کا پہلا سوال روز والا سوال تھا
حنان کیا میں موٹی لگ رہی ہوں ۔ ۔ !
حنان مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے آیا اور اسے اپنے باہوں کے حصار میں لیا
ابھی تو نہیں لیکن 4سے5 مہینوں میں تم گول مٹول ہو جاؤ گی ۔ اورپھر تم اور بھی زیادہ پیاری لگو گی وہ۔اپنے لبوں سے اس کے رخسار کو چھوتے ہوئے بولا جس پر عاشی اپنا سرخ چہرہ جھکائے اس کی باہوں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی
کوشش بیکار ہے اور مجھے پسند بھی نہیں تم جانتی ہو نا وہ اس کے حصار کو توڑنے کی کوشش پر سختی سے بولا تھا جس پرعاشی بے بس سی ہو کر مزاحمت ترک کرتے ہوئے اس کے سینے سے سر ٹکا گئی۔
حنان ایک بات کہوں ناراض تو نہیں ہوں گے غصہ نہیں کریں گے مجھ پر وہ آئینے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو حنان نے مسکراتے ہوئے نہ میں سرہلایا
لیکن جانتا تھا وہ ضرور کوئی نہ کوئی ایسی فضول بات کرنے جا رہی ہے جس پر اسے غصہ آئے گا اور پھر وہ ہمیشہ کی طرح وعدہ بھلا کے اسے بہت سارا ڈانٹے گا
نہیں کروں گا غصہ بولو کیا کہنا چاہتی ہو اس کے خاموش رہنے پر وہ بولا تھا عاشی مسکراتے ہوئے اس کی طرف مڑی جس پر وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگا چکا تھا ۔
حنان اگر مجھے کچھ ہوگیا تو آپ دوسری شادی کر لینا نا جانے اس کے دماغ میں کیا سمائی تھی کہ وہ کہنے لگی
حنان میں چاہتی ہوں کہ میرے جانے کے بعد آپ خوش رہیں میں خود آپ کو اس بات کی اجازت دے رہی ۔۔۔۔۔۔۔
عاشی ۔۔۔۔ آواز میں انتہا کی سختی تھی جبکہ ایسی ہی سختی پر اپنی کمر پر بھی محسوس کر رہی تھی ۔
کتنی بار منع کیا ہے فضول باتیں کرنے سے لیکن تمہیں سمجھ میں نہیں آتی میری بات تم نرمی کے لائق ہی نہیں ہو۔۔تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں ہر وقت ڈانٹتا رہوں ۔
اچھے خاصے موڈ کا بیڑا غرق کر دیا وہ اس سے دور ہٹتے ہوئے غصے سے بولا ۔
حنان پلیز ناراض نہ ہوں میں تو بس ایسے ہی بات کر رہی تھی عاشی نے منانے کی کوشش کی جس پر حنان اس کے ہاتھ پر جھٹکا کمرے سے باہر نکل گیا یقینن آپ باہر صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ کا دھواں اڑا رہا ہو گا ۔ نجانے عاشی ہوا کیا تھا اب تو وہ اکثر کی ایسی ہی باتیں کرنے لگی تھی جس سے حنان کا موڈ خراب ہو جاتا وہ تو اس کے بغیر سانس لینے کے بارے میں نہیں سوچتا تھا اور وہ کیسے دائمی جدائی کی باتیں کر لیتی تھی۔
اف کیا ہو جاتا ہے مجھے کبھی کبھار حنان ناراض ہو کہ اب مجھے منانا ہوگا کیوں کرتی ہوں میں ایسی فضول باتیں ۔وہ خود کو ڈانٹتے ہوئے کمرے کے دروازے پر آ رکی جہاں سے باہر تھوڑے ہی فاصلے پر حنان صوفے پر بیٹھا سیکریٹ پی کر رہا تھا
°°°°°°°°
میرا بے بی ناراض ہو گیا مجھ سے
میرا بابو بات بھی نہیں کرے گا ۔ وہ کمرے کے دروازے سے ذرا سا چہرہ باہر نکال کر بولتی اور پھر چھپ جاتی ۔جبکہ اس کے انداز پر حنان اپنی مسکراہٹ دبائے اسے مزید تنگ کرتے ہوئے صوفے پر ہی لیٹ گیا
یا اللہ حنن آپ یہاں کیوں سو رہے ہیں اٹھیں کمرے میں چلیں یہاں کیوں لیٹ گئے ہیں کیا سوچیں گے ماما بابا کی میں نے آپ کو کمرے سے نکال دیا میں اتنی بھی ظالم نہیں ہوں وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہنے لگی
تم بہت ظالم ہو عاشی ۔۔ بہت بہت ظالم میری سوچ سے بھی زیادہ ظالم یہ جو تمہارا معصوم چہرہ ہے نہ اس کے پیچھے ایک بہت سفاک اور ظالم انسان چھپا ہے جو کبھی بھی کسی کا بھی دل پوری طرح سے دکھا سکتا ہے وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سیریس بات اس میں بول رہا تھا
سوری حنان میرا ارادہ آپ کو ہرٹ کرنے کا نہیں تھا میں صرف ایک بات کہہ رہی تھی کہ موت سب کو آنی ہے آج نہیں تو کل سہی ضروری نہیں کہ ہم ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ رہیں میں تو بس کہہ رہی تھی کہ اگر میں نہ رہیں تو خدا کے لیے اپنی زندگی کو روک مت دیجئے گا وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس سے کہنے لگی جب کہ حنان کو اس کی باتوں پر مزید غصہ آنے لگا جس پر اُس کا ہاتھ جھٹک کر کروٹ لے کر صوفے کی طرف ہوگیا
حنان میری طرف دیکھیں بات سنیں میری جانتے ہیں جب سے ہماری شادی ہوئی ہے کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا کہ مجھے یہ محسوس ہوا ہو کہ آپ کی محبت میں میرے لئے کمی آرہی ہے دن بہ دن کی محبت بڑھتی چلی جارہی ہیں اور مجھے آپ کی بڑھتی ہوئی محبت سے خوف آ رہا ہے
میں دن رات اللہ سے یہ دعا مانگتی ہوں ۔ وہ ہم دونوں کو جدا نہ کرے ۔ میں جانتی ہوں آپ کے بنا میرا کوئی وجود نہیں ہے میں بالکل ختم ہو جاؤں گی لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر میں نہ رہی تو آپ بھی نہیں رہیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی
میں بس یہ چاہتی ہوں
بس کر عاشی میں نہیں سننا چاہتا کہ تم کیا چاہتی ہو یا نہیں میں خوش ہوں تمہارے ساتھ میں نہیں کرنا چاہتا جدائی کی باتیں ۔ مجھے بھی ڈر لگتا ہے مجھے بھی خوف آتا ہے جدائی سے اس سے مت کرو یہ ساری باتیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی میرے اندر کوئی مجھےکاٹ رہا ہے ۔
اس پر وہ اونچی آواز میں چلایا تھا جس پر عاشی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹی لیکن اگلے ہی پل وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے اوپر گیا چکا تھا ۔
عاشی مجھے نہیں کرنی ایسی باتیں جس میں تم نہ ہو ۔ مجھے نہیں جینی ایسی زندگی جس میں میری عاشی نہ ہو وہ اسے اپنی باہوں میں سمیٹتے ہوئے بولا جب کہ اس کے سینے پر سر رکھ تے ہوئے عاشی بھی اپنے دماغ سے ساری سوچوں کو جھٹلاتے ہوئے اس کی دھڑکنوں کی آواز سننے لگی جس کی ہر دھڑکن کے ساتھ عاشی کا نام جوڑا تھا
..................
دو مہینے بعد
مدثر رحم کرو مجھ پر خدا کے لئے بس تھوڑا سا دے دو وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بول رہا تھا
دیکھو ویکی تم الریڈی بہت زیادہ لے چکے ہو اس سے زیادہ لو گے تو مر جاؤ گے اور ویسے بھی تو مجھے پیسے تو دیتے نہیں اور تمہارے ہونے کا کوئی فائدہ تو ہے نہیں مجھے خدا کے لیے میری جان چھوڑو تم سے تو اتنا نہ ہوسکا کہ مجھے اس سوسائٹی کا مینیجر بنا دو ویسے تو غنڈے بنے رہتے ہو
اور ہو کیا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں کوئی اوقات نہیں ہے تمہاری ..اپنے باپ کی غنڈا گردی پر اکڑدکھانے والے تمہاری اوقات کیا ہے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی میں نے تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر آج تمہاری وجہ سے میں مینیجر نہیں بنا تھیک سے ڈرا تک نہیں سکتے تم سوسائٹی والوں کو اور تمہیں مجھ سے ڈرگزچاہیے وہ بھی فری کا تمہارے باپ کا ہے کیا وہ ویکی کو دھکادیتے ہوئے بولا ۔
ویسے بھی اب تو اسے اس سے کوئی خاص مطلب تھا نہیں جس سے کی وجہ سے وہ اس سے دوستی بنا کر رکھتا یہ تو مدثر بھی سمجھ چکا تھا کہ ویکی کے ہونے کے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا
وا جب تمہیں مجھ سے فائدہ ہو رہا تھا میری وجہ سے تم سب کو ڈرانے میں کامیاب ہو رہے تھے تب تو میں تمہارا دوست تھا تمہارا یار تھا تمہارا سب کچھ تھا اور اب جب تمہیں لگ رہا ہے کہ تم مینیجر نہیں بن سکتے ہیں پوری سوسائٹی تمہارے ہاتھ سے نکل چکی ہے تو میرے ساتھ اس طرح سے کر رہے ہو جب کہ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں جب کہوں گا تب تم میری ضرورت پوری کرو گے اور اوقات کی بات کیا کر رہے ہو میں آج بھی چاہوں تو تمہیں ایک ہی اشارے پر دنیا سے غائب کر سکتا ہوں اب وہ اسے دھمکی دے رہا تھا
تو مجھے غائب کرے کہ دنیا سے اوقات ہے تیری کیا سکتا ہے اپنے باپ کے نام کے بغیر سانس تک نہیں لے سکتا یہ ملک یہ پورا شہر صرف اور صرف تجھ سے اس لیے ڈرتے ہے کیونکہ سلمان پاشا کا بیٹا ہے تو ورنہ کوئی پوچھتا تک نہیں اور اس پر رعب جما رہا ہے اتنا ۔ نہیں ڈرتا میں تجھ سے اوقات کیا ہے تیری لوزر ہے تو نا مرد کہی کا
سالا نا مرد مجھ سے آ کر مقابلہ کرتا ہے دفع ہو یہاں سے کچھ نہیں ملے گا تجھے آج کے بعد میری سوسائٹی میں قدم تک نہیں رکھنا سالے ۔مدثر نے نشے میں اسے دھکا دیا تھا یہ جانے بغیر کے ویکی نشے میں لڑکڑآتے ہوئے کس جانب گرا احساس تو تب ہوا جب اس کے دوستوں نے چلاتے ہوئے ویکی کا نام لیا
مدثر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پیچھے رکھے شیشے پر گرا بری طرح سے تڑپ رہا تھا مدثر کے ہاتھ پیر بری طرح سے پھول گئے اور یہی حال باقی اس کے دوستوں کا بھی تھا
ایک دوست نے ہمت کر کے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ پہلے ہی مر چکا تھا اس نے مدثر کو بری خبر سنائی مدثر اپنے آپ کو لے کر بہت گھبرا گیا کیونکہ اس سے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا گناہ ہوا تھا وہ کسی کا قاتل بن چکا تھا اب تو سلمان پاشا نے اس کی جان لے لینی تھی ۔
سلیمان پاشا اپنے بچوں کو ہر غلط کام سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا جہاں بیٹی کو آزاد خیالی نے آ گھیرا وہی بیٹے کو نشے نے بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کی وجہ سے آج وہ موت کے منہ میں جا چکا تھا ۔ سلمان پاشا کو اپنے ہی گناہوں کی بہت بری سزا ملی تھی
جہاں وہ پورے شہر پر غنڈا گردی سے حکومت کیے ہوئے تھا وہیں اپنے بچوں میں اس کی جان تھی جن کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا اور اب جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ اس کا بیٹا نشے کی حالت میں مدثر نامی آدمی سے مارا گیا تو مدثر کی موت تو آنی ہی تھی
°°°
تم سچ کہہ رہے ہو نہ عارف کسی کو پتہ تو نہیں چلے گا کہ یہ میرے ہاتھوں سے مرا ہے مدثر نے گھبرائے ہوئے پوچھا
تم گھبراؤ نہیں مدثر اس طرح سے ڈرتے رہو گے تو یقیناً ہم سب لوگ پھنس جائیں گے دیکھو ہم اس کی لاش کو حنان کے ایریا میں پھینک آئیں گے مینیجر وہ ہے سب کچھ اسی نے ہی سنبھالنا ہے
اب اس پر الزام لگتا ہے تو اس میں ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں اور ویسے بھی تو حنان نے کہا تھا کہ اگر اس نے اس کے ایریا میں پاؤں میں رکھا تو وہ اسے جان سے مار دے گا
ارے ہم پر شک بھی نہیں جائے گا ہم تو کہں گے کہ ہم تو اس سے ملے ہی نہیں کل اور اس کی لاش کو اس کے ایریا میں پھینک آتے ہیں
وہ جانے اور سلمان پاشا جانے ہمارا نام بھی کہیں نہیں آئے اور ہم تو ویسے بھی اس کے دوست ہیں ہم پر کوئی شک نہیں کرے گا عارف نے سمجھاتے ہوئے کہا
اندر سے سب ہی ڈرے ہوئے تھے یہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی کہ شہر کے سب سے بڑے غنڈے کے بیٹے کا قتل ہونا اب تو قیامت تو ضرور آئے گی سلمان پاشا اس طرح سے خاموش تو ہرگز ہی بیٹھے گا
وہ جو اپنے بیٹے کو ہر بری عادت سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے بھلا کیسے ممکن ہے کہ اس کے بیٹے کا قتل ہوجائے اور وہ خاموشی سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے ۔
لیکن اب جو بھی کرنا تھا نا نے کرنا تھا وہ دونوں ویکی کی لاش کو ہلا کے ایریا میں پھینک کر آئے تھے
°°°°°°
دیکھئے حنان صاحب لاش آپ کے ایریا سے ملی ہے اور آپ نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ یہاں پر دوبارہ نظر آئے تو اپنے جان سے مار دیں گے پہلے بھی آپ لوگ ہاتھا پائی اور لڑائی کر چکے ہیں اور قانون کا شاک آپ کی طرف جارہا ہے وہ صبح سے حنان کو بری طرح سے گھیرئے ہوئے تھے
لیکن اسپیکٹر میں نے کچھ کیا نہیں ہے اور نہ ہی مجھے اس سب کا ڈر ہے ڈرتا تو وہ ہے جو گناہ گار ہو۔میرا اس سب سے کوئی واسطہ نہیں ہے ہاں لیکن یہ قتل میرے علاقے میں ہوا ہے تو میں اس کا ذمہ دار ضرور ہوں ۔ اور میں آپ کے ساتھ پوری طرح سے کوآپریٹ کرنے کی کوشش بھی کروں گا لیکن آپ جس طرح سے مجھ پر الزام لگا رہے ہیں یہ آپ کا طریقہ بالکل غلط ہے فلحال آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے مجھے مجرم ٹھہرانے کے لیے حنان نے سمجھداری سے کہا
دیکھے حنان صاحب سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دھمکی آپ نے انہیں دی تھی اور دوسرا وہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ سلمان پاشا کا بیٹا ہے سلمان پاشا کون ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ کسی تعارف کے محتاج تو وہ ہے ہی نہیں
سلمان پاشا اپنے طریقے سے اس کے قاتل تک پہنچیں بہتر ہے کہ آپ اقرار جرم کر لیں ۔ورنہ سوائے پچھتانے کے کچھ نہیں رہے گا آپ کے پاس وہ اسے ڈراتے ہوئے بولا یقینا سلمان پاشا کے ٹکڑوں پر بکنے والا ایک غدار تھا ۔
حنان سکندر خان نے کبھی پچھتانا نہیں سیکھا اور جہاں میری غلطی ہو وہاں میں اپنے جرم کو قبول کر لیتا ہوں یہاں میں نے کچھ نہیں کیا اور بہتر ہے کہ آپ سلمان پاشا کی ٹھوس جمانہ چھوڑ دیں آپ اپنے شک کی بنیاد پر پچھلے چوبیس گھنٹے سے مجھے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور شک کی مدت بس اتنی ہی ہوتی ہے تو میں اب جا رہا ہوں اپنے ایریا میں اگر اس کے اس میں میری کسی بھی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں
پچھلے چوبیس گھنٹے سے یہاں پولیس سٹیشن میں بیٹھا ان کا شک دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا نہ جانے کون تھا وقاص پاشا کا قاتل جس کا الزام اس کے سر پہ لگا گیا تھا اس نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس کے ایریا میں دوبارہ نظر آیا تو وہ اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اسے قتل کر دے گا اور بہت سارے وقت سے تو حنان نے تو اسے دیکھا تک نہیں تھا
ماما اور بابا دو ماہ کے بعد اگلےہفتے واپس پاکستان آنے والے تھے وہ اور عاشی تو ان کی واپسی پرسرپرائز میں ان کی ویڈنگ انیورسری کی پارٹی کی تیاریاں کر رہے تھے اور اچانک ویکی کی لاش ملی وہ بھی اسی کی ایریا سے جس کا الزام بھی اسی کے سر پہ آ چکا تھا وہ ان دونوں کے آنے سے پہلے پہلے ہی اس کے اس کو ختم کر دینا چاہتا تھا لیکن شاید اب یہ کیس لمبا چلنا تھا
°°°°°°°°
سلمان پاشا کے غصے اور دکھ کی کوئی انتہا نہ تھی آپنے جو اکلوتے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر وہ غنڈا نما انسان بھی ٹوٹ کر بکھر چکا تھا دنیا کے سامنے درندہ کہلانے والا انسان آج بہت بری حالت میں اپنے بیٹے کی لاش پے تڑپ رہا تھا
پاشا کو مطلب تھا تو صرف اور صرف اپنے بیٹے کے قاتل سے وہ اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ کر جس طرح سے تڑپ رہا تھا ویسے ہی اس کا خون کھول رہا تھا اپنے بیٹے کے قاتل کو جان سے مار دینے کے لئے
وہ حنان کے بارے میں وہ ساری انفارمیشن اگر ٹھیک کر چکا تھا اس کے بیٹے کو دھمکی دی گئی تھی یہ بھی وہ جا چکا تھا مدثر اور عارف اس وقت پاشا کے دائیں بائیں کھڑے اس کے دکھ میں برابر کے شریک ہو رہے تھے
۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر اسے پتہ چل گیا کہ اس کے بیٹے کو مارنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسی کے سامنے کھڑے یہی دو لڑکے ہیں تو وہ انہیں موت کے گھاٹ اتارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائے گا اور اس وقت حنان کو پھانے اور اس کیس سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے
جبکہ سلمان پاشا اپنے بیٹے کے قاتل کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تیار ہو چکا تھا ۔اس نے سوچ لیا تھا وہ حنان کو ایسی موت دیے گا کہ وہ تڑپ کر مرے گا جس طرح سے اس نے اس کے سب سے عزیز ہستی کو اس کی زندگی سے دور کر دیا تھا اسی طرح سے وہ بھی اسے تڑپنے پر مجبور کردے گا
جبکہ دوسری طرف حنان اس کے سے مکمل طور پر اپنا ہاتھ نکال چکا تھا صرف شک کی بنیاد پر پولیس اسے گرفتار نہیں کرسکتی تھی اور پولیس کے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ حنان کا بس اتنا ہی کہنا تھا کہ وہ اس کیس میں مینیجر ہونے کے ناطے شامل ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے مدد بھی کرے گا لیکن کوئی بھی اسے جھوٹے کیس میں نہیں پھسا آسکتا
عاشی بہت پریشان تھی وہ تو ماما بابا کو سب کچھ بتا دینا چاہتی تھی لیکن حنان نے اسے سمجھایا کہ یہ اتنی بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے جس پر ماما بابا کو پریشان کیا جائے اگلے ہفتے تک وہ لوگ ویسے بھی یہاں آ جائیں گے تو انہیں پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے
اس کی پریشانی کو وہ سمجھ رہا تھا اور آج کل تو وہ زیادہ ہی گھبرائی ہوئی تھی اور اس کی الٹی سیدھی بات تو حنان کو غصہ دلاتی تھی۔
اور پھر جب اس کی باتیں سن کر وہ اسے ڈانتا تھا تو اس کا رونا دھونا اور ماما بابا سے اس کی شکایت شروع ہوجاتی جس پر حنان بےبس ہو جاتا ہاں لیکن غصہ بھی بہت آتا تھا
°°°°°
عاشی تم تیار ہونا کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے وہ لوگ آ گئے ہیں شاید دروازہ بج رہا ہے میں دروازہ کھولتا ہوں تم بالکل تیار رہنا وہ اسے کہتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگا تھا جبکہ عاشی میز پر کیک رکھ کر تیاری ممکل کر چکی تھی۔
حنان نے دروازہ کھولتے ہوئے اپنے ماں باپ کو سرپرائز دینا چاہا لیکن سامنے کھڑے شخص نے بنا اسے بولنے کا موقع دیے روڈ اس کے منہ پر دے مارا وہ اس حملے سے سنبھل نہیں پایا تھا اسی لیے دور جا کر زمین پر گرا لیکن حیرت سے آنے والے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو نہ جانے کیوں آتے ہیں اس پر یوں جارحانہ وار کر رہا تھا ۔
ایک کے بعد دو اور دوسرے تیسرے کے بعد لگاتار وہ اسے مارتا ہی چلا گیا تھوڑی ہی دیر میں حنان بری طرح خون سے لت پت زمین پر پڑا تھا اچانک ہونے والے حملے نے اسے بکھلاکر رکھ دیا تھا آخر کیوں وہ شخص اسے مار رہا تھا آخر کیا دشمنی تھی اس شخص کی حنان کے ساتھ ۔
جب کہ اس حملے پر عاشی تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن اس شخص نے اس معصوم پر بھی رحم نہ کیا اگلے ہی لمحے وہ اسی روڈ سے ایک دھکا عاشی کو بھی مار چکا تھا وہ بھی دور جا کر زمین پر گرے اور سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے اور چند ہی لمحوں میں وہ بے ہوش ہو چکی تھی حنان چلایا تھا
وہ بہت ہمت کرنے کے بعد اٹھ کر عاشی کی طرف آنے کی کوشش کرنے لگا لے کے اس شخص کو اس پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ وہ جب بھی اٹھنے کی کوشش کرتا تو وہ روڈ سے بری طرح سے مار کر پھر سے زمین بوس ہونے پر مجبور کر دیتا ۔
حنان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس شخص کے ساتھ دشمنی کیا ہے اور اتنی مار کھانے کے بعد اس میں ہمت بھی نہ بچی تھی اس سے وجہ پوچھنے کی اس کے غنڈوں نے حنان کے ہاتھ پیر باندھ دیے ۔
وہ اسے زمین پر بیٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا پھر اس نے حنان کے بالوں کو اپنی مٹھی میں پکڑتے ہوئے اس کا چہرہ اونچا کیا تھا
تم نے میرے بیٹے کو مارا کیا سوچا تھا اتنی آسانی سے بچ جاؤ گے تم تم نے میرے بیٹے کو مارااور مجھے تڑپنے پرمجبور کیا اب تم تڑپو گے تم نے مجھ سے میرے جینے کی وجہ چھین لی اور مجھے جینے پر مجبور کردیا اب میں بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی کروں گا میں تم سے تمہارے جینے کی وجہ سے چھین لوں گا اور میں جینے پر مجبور کر دوں گا
تم نے کبھی بادشاہ کے بارے میں نہیں سنا نا پاشا ہوں میں جو لوگوں کی کمزوریوں کو اپنی طاقت بناتا ہے یہاں آنے سے پہلے میں نے تمہاری ساری کمزوریوں کو دیکھا اور تمہاری سب سے بڑی کمزوری ہے تمہاری بیوی تم نے مجھ سے میری جان چھین کر مجھے کمزور کر دیا نا اب میں تم سے تمہاری کمزوری تمہاری جان چھین لوں گا
دیکھو ۔۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا اور تمہیں یہ سب کچھ نہیں کر سکتے عاشی بے قصور ہے میں بے قصور ہوں میں نے کچھ نہیں کیا تمہارے بیٹے کو کیا ہوا میں کچھ نہیں جانتا قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لو میں تمہاری مدد کروں گا تمہارے بیٹے کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کے لیے لیکن پلیز عاشی کو کچھ مت کرنا وہ اسے عاشی کی طرف روڈ لے جاتے دیکھ کر مجبوری میں اس کی منتیں کرنے لگا وہ عاشی پر رسک کبھی نہیں لے سکتا تھا اگر یہاں اس کی جان جاتی ہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اپنی جان کی جان جاتے ہو کیسے دیکھتا ۔
نہیں حنان سکندر خان پاشا کا ایک ہی اصول ہے جان کے بدلے جان تم نے میرے بیٹے کی جان لے کر مجھے بے جان کر دیا اور میں تمہاری جان لوں گا وہ عاشی کے سرکلر روڈ سے وار کرتے ہوئے سچ میں اسے بے جان ہی تو کر گیا تھا
حنان رویا تھا۔۔۔۔۔۔
تڑپاتھا ۔۔۔۔۔۔
گرگرایا تھا ۔۔۔۔۔
مینتں کی تھی۔۔۔۔۔
پیر پکڑے تھے۔۔۔۔۔۔
لیکن اس سفاک شخص کو رحم نہ آیا اسے تو عاشی کے امید سے ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا وہ تو حنان کی ختم کر دینا چاہتا تھا عاشی کو اس کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کرکے اس نے حنان کو بھی جینے کے لائق نہیں چھوڑا ۔وہ جو اپنی طرف سے حنان کو بھی ختم کر کے گیا تھا لیکن دو ماہ کوما میں رہنے کے بعد حنان کو خوش آیا تو وہ ایک پر پھر سے تڑپ اٹھا وہ اپنی عاشی کی آخری رسومات ادا نہیں کر پایا تھا ۔
°°°°°°°°
حال
عکانشہ آن کوسنتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی کیا کچھ نہیں بیتی تھی اس شخص پہ اور وہ لڑکی جو اس شخص کی محبتوں کے لائق تھی تو اس شخص کی محبتوں کے حقدار تھی وہ تو نہ جانے کتنے وقت سے حنان کے محبتوں کے ساتھ موت کی گہرائیوں میں اتر چکی تھی ۔
عکانشہ کے پاس الفاظ ختم ہو چکے تھے وہ تو بس انہیں سن رہی تھی انہیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی مریم پاس خرید روی جا رہی تھی اپنی بیٹی کی موت کی داستان سناتے ہوئے ان کی اپنی آنکھیں بھی نم تھی لیکن پھر بھی وہ ہمت کرکے اسے سارا سچ بتا رہی تھی ۔
ہم سب کو ڈر تھا کہ حنان کو وہ شخص دوبارہ مارنے سے ضرور آئے گا کیونکہ اسے یہ پتہ چل چکا تھا کہ ہمارا حنان ابھی زندہ ہے اسی لئے ہم سب نے اسے اپنے رشتوں کی قسم دے کر یہاں سے ہمیشہ کے لئے پیرس بھیج دیا
وہ عاشی کو انصاف دلانا چاہتا تھا اس شخص کو سزا دلوانا چاہتا تھا لیکن ہم سب نے اسے ایسا کچھ بھی نہیں کرنے دیا ہم اپنی بیٹی کو چکے تھے بیٹا نہیں کھونا چاہتے تھے عاشی کی موت تو اسے موت ماری رہی تھی لیکن اس سے مزیدمرتے ہوئے ہم سب نہیں دیکھ سکتے تھے اسی لیے اسے یہاں سے ڈیڑھ سال پہلے ہی ہم نے پیرس بیچ دیا تھا
دور ہی سہی لیکن زندہ ہے بس اسی سہارے پر اس کے ماں باپ بھی جی رہے ہیں تمھیں یہاں دیکھ کر دکھ نہیں ہوا مجھے پل کی خوشی ہوئی یہ سوچ کر کہ حنن کی زندگی میں پھر کوئی آگیا ہے اسے پھر سے جوڑنے کے لیے لیکن تم تو اتنی کم ہمت ہو کے اس کی شادی کے بارے میں سوچ کر ہی تم یہاں سے جا رہی تھی
اسی لئے سوچا کہ تمہیں سب کچھ بتا دوں اب چاہو تو یہاں رک ورنہ چلی جاؤ اگر تمہارے اندر ایک بکھرے ہوئے شخص کو سمیٹنے کی ہمت ہے تو یہاں رہ سکتی ہو ورنہ تم یہاں سے جا سکتی ہو وہ کہتے ہوئے اٹھ کر اندر کمرے میں بند ہوگئی جبکہ مریم وہی بیٹھی بری طرح سے رو رہی تھی
°°°°°°°°
امی جان پلیز اپنے ڈر کو کنٹرول کریں اب میری جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے سلمان پاشا اس وقت جیل میں ہے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا پلیز اب اس طرح سے ڈر ڈر کر جینا ختم کر دیں میں بالکل محفوظ ہوں سلمان پاشا سے آپ مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے
وہ صبح باہر جانے لگا تو امی نے اسے باہر جانے سے منع کردیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ سلمان پاشا اس پر پھر سے حملہ کرنے کی کوشش کرے گا ان کا یہی ڈر تو اسے پاکستان آنے نہیں دے رہا تھا
نہیں بیٹا جب تک مریم کی شادی نہیں ہو جاتی ہو تم یہاں سے واپس پیرس نہیں چلے جاتے تم کہیں مت جاؤ ۔اپنی بیٹی کو کھو کر بیٹا کھونے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں عاشی کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہونے لگی اور وہ بے بس ہو کر انہیں اپنے سینے سے لگائے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن کب تک سمجھاتا ان کا یہ ڈر ان پر حاوی تھا
°°°°°°°°
خالہ نے رات کو ہی اس کے بابا کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان آئی ہوئی ہے یہ کوئی اتنی عام سی بات نہیں تھی لڑکی ذات کا معاملہ تھا نیلم اور عکانشہ کی یہ پلاننگ خالہ کو اچھا خاصا غصہ دلا چکی تھی نیلم اور عکانشہ کو ایسے نازک معاملات کی سمجھ ہی نہیں تھی جس کی وجہ سے خالہ کو غصہ آیا اور خالا نے ان کے بابا کو فون کرکے پاکستان میں بتا دیا کہ عکانشا اس وقت پاکستان جا چکی ہے رات کو نیلم نے اسے فون کر کے یہ سب کچھ بتایا تھا
اس کا گھر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیوں کہ یہ بات تو وہ بھی سمجھتی تھی کہ اگر وہ گھر جائے گی تو یقینا تائی نے کسی کے ساتھ بھی پکڑ کر شادی کر دینی تھی ان کو تو بہانہ چاہیے تھا بابا کے کان بھرنے کا۔ اور یہاں جب سے اسے ہنی کی زندگی کے بارے میں پتہ چلا تھا اس کا تو ایک پل کو بھی کہیں آگے پیچھے جانے کو دل نہیں کرتا اس وقت بھی وہ ہنی کے ساتھ ہی باہر جانے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن وہ تو اسے منہ تک نہیں لگا رہا تھا
وہ جو بہت ساری امیدیں لے کر پیرس سے حنان کے پیچھے یہاں آئی تھی وہ ساری امیدیں ٹوٹ چکی تھی اب وہ حنان سے کوئی بھی امید نہیں رکھتی تھی بس اسے اپنے آپ پر یقین تھا کہ وہ اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی
کل ہنی نے اس سے کہا بھی تھا تمہیں میری زندگی کے بارے میں سب کچھ پتہ چل چکا ہے عکانشا اب تمہارا یہاں رکنے کا کوئی مقصد نہیں بہتر ہے کہ یہاں سے چلی جاؤ اور اپنی ایک نئی زندگی کی شروعات کرو میرے پیچھے آنے سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا میری زندگی میری عاشی سے شروع ہو کر اسی طرح ختم ہوتی ہے
میری زندگی میں عاشی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔ اور یہی حقیقت ہے تم اپنی زندگی برباد مت کرو اور اس سب کے بعد بھی اسے ایک ہی جواب سننے کو ملا تھا
ہنی میں تم سے اپنی محبت کے بدلے محبت نہیں مانگتی ۔ اور مجھے یقین ہے کہ میری محبت تمہیں مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی ۔ اور اس کا یہ جواب سننے کے بعد ہنی نے اس سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا تھا اس وقت بھی وہ کہیں جانے والا تھا
°°°°°°°°
اس کے جانے کے بعد سوسائٹی کو نیا منیجر تو مل گیا لیکن اس کے ماں باپ کو ایک بیٹے کی ضرورت تھی
عارف اور مدثر کے جھگڑے میں عارف نے سلمان پاشا کے سامنے مدثر کی حقیقت لا کر رکھ دی اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ مدثر ہی اس کے بیٹے کا قاتل ہے ۔ سلمان پاشا جو اپنی بیٹی ثانیہ سلمان پاشا کے اچانک خودکشی کرنے پر ٹوٹا بکھرا ہوا تھا ۔مزید ٹوٹ گیا اس کی بیٹی جو کسی کی محبت میں بری طرح سے پاگل ہو چکی تھی۔
اور اس سے شادی کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی سلمان پاش نے اپنی بیٹی کی اس ضد کو دیکھتے ہوئے اس آدمی کا بھی قتل کروانے میں کامیاب ہو گیا جس کے بعد اس کی بیٹی نے خود ہی اپنی جان لے لی ۔اور اس کے بیٹے کا قاتل حنان نہیں بلکہ مدثر نکلا
اس خبر نے اسے ہلاکر رکھ دیا اور پھر اس کے ہاتھ سے اگلا قتل مدثر کا ہی ہوا تھا ۔ اس نے مدثر کا قتل چھپا کر نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کے سامنے کیا تھا جس پر سوسائٹی اس کے خلاف گواہ بن کر اسے تھانے میں پہنچانے میں کامیاب ہوگئی وہ عمر قید کی جیل کاٹ رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس کی دہشت نہ صرف سوسائٹی بلکہ اس کے والدین کے دل میں بھی بنی ہوئی تھی
اور یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ اسے واپس پاکستان نہیں آنے دے رہے تھے یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ صرف اپنی ماں باپ کہ بے جا ڈر کی وجہ سے ان سے دور رہا تھا اور کہیں نہ کہیں یہاں پر موجود اس کی چار ماہ کی شادی شدہ زندگی کی یادیں تھیں جن میں وہ تڑپ کر رہ جاتا
عاشی کی یادوں سے دور جانے کے لئے اس علاقے سے دور جانا تھا وہ پیرس تو چلا گیا لیکن اس کی یادیں اس سے دور نہ ہوئی تھی اس کا دل آج بھی اسی کے نام پر دھڑکتا جو اس سے دور مٹی میں جا سوئی تھی
عاشی کی اچانک موت نے مریم کے دل میں بھی ہمت جگائی اور وہ بھی اپنے حق کے لیے لڑ گئی اس نے اپنے تایا کے سامنے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ عمر سے شادی نہیں کرے گی اور نہ ہی ان لوگوں کا اس سے کوئی تعلق ہے ۔
اس کے بعد زیادہ تو کچھ بھی نہ ہوتا بس تایا ان سے ہمیشہ کے لئے منہ پھیر گئے ایسے رشتوں سے رشتوں کا نہ ہونا زیادہ بہتر تھا ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ مریم آج اپنی مرضی سے اپنے پسند کے لائف پارٹنر کو چن چکی تھی اور کچھ ہی دنوں میں اس کی شادی بھی ہو رہی تھی جس سے وہ بہت خوش تھی
°°°°°°°°
بیٹا تم ایک بار اپنے باپ سے بات تو کر لو نا میں بس اتنا کہہ رہی ہوں کے آپنے بابا کو بتا دو کہ تم پاکستان میں ایک محفوظ جگہ پے ہو خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
خالہ کیا ہوگیا ہے آپ کو کیا آپ میرے پاپا کو جانتی نہیں ہیں اگر انہیں پتہ چل گیا کہ میں یہاں ہوں تو دو منٹ نہیں لگائیں گے مجھے لینے آنے میں میں انہیں کچھ بھی نہیں بتا رہی اور خدا کے لئے آپ بھی انہیں کچھ مت بتائے گا اور حنان کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں وہ منتیں کر رہی تھی ۔
اکانشا وہ تمہارے بابا ہیں میں تمہاری فکر ہے بیٹا اس طرح سے جوان جہاں لڑکی پاکستان میں کہاں چلی گئیں یہ سوچ ہی انہیں پاگل کر رہی ہے اور تم کیا بچکانہ حرکتیں کر رہی ہو ۔ اور اوپر سے گھر کا کوئی برا بھی تمہارے ساتھ نہیں ہے ۔ تم خود ہی سوچو تمہاری تائی نہ جانے انہیں کیا کیا بتا چکی ہوگی خالا نے پریشانی سے کہا
آپ پریشان نہ ہوں تائی کا تو کام ہے بابا کو میرے خلاف کرنا اور آپ میری فکر نہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں اور ویسے بھی آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہاں کوئی برا نہیں ہنی کی ساس ایک بہت اچھی عورت ہیں اور انہوں نے مجھ سے اچھی کی امید ہے انہیں لگتا ہے کہ میں ہنی کی زندگی کو سنوار سکتی ہوں اس کی زندگی میں وہ خوشیاں واپس لا سکتی ہو جو تقدیر نے اس سے چھین لی
میں اس سے بہت پیار کرتی ہوں ۔۔ مجھے بس ایک موقع چاہیے اسے اپنا بنانے کا اسے اپنی زندگی میں لانے کا پلیز خالہ سے یہ موقع نہ چھینے ۔ شاید اب اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گی ۔ زندگی میں پہلی بار مجھے ایسا لگ رہا ہے ۔ اس دنیا میں کوئی تو ہے جیسے میرے لیے بھیجا گیا ہے جسے میرے لیے بنایا گیا ہے ۔
مجھے یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا اگر آج میں نے اس کا ساتھ نہیں نبھایا سے اپنی زندگی میں نہیں لا پائی تو پھر وہ کبھی میرا نہیں ہوگا میں سے ہمیشہ کے لئے کھو دوں گی
مجھے پتا ہے اس کی زندگی بہت مشکل رہی ہے ۔ بہت کچھ سہا ہے اس نےخالہ اسے بھی حق ہے خوش رہنے کا اور میں اس کی خوشیاں واپس لاؤں گی ۔میں اسے زندگی کے ہر وہ خوشی دونگی جس کیلئے وہ تڑپا ہے
۔میں اس کی زندگی سے اس کی عاشی تک کی کمی کو پورا کروں گی ۔ خالہ میں اس کی عاشی بنوں گی ۔وہ آہستہ آہستہ انہیں اپنے دل کی بات بتا رہی تھی جب کہ ہمیشہ کی طرح حالا اس کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئی
°°°°°°
اپنے ایریا میں قدم رکھتے ہی اسے اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کا ایک ایک قدم یاد آیا تھا جو اس نے یہاں پر گزارا۔
وہ اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا جب راستے میں اچانک اسےمدثر کے بابا نظر آئے ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے شاید وہ ابھی ابھی مسجد سے نکلے تھے بیٹے کی جدائی نے انہیں اللہ کی راہ پر لگایا تھا
وہ جو دولت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے یہاں تک کہ بیٹے کو سوسائٹی کا مینجر بنا کر اس سوسائٹی کے پیسے پر عیاشی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اسی بیٹے کی جدائی نے انہیں صحیح اور غلط کی پہچان سکھا دی تھی
اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جبکہ دونوں ہاتھ باندھے وہ معافی کے انداز میں اس کے سامنے کھڑے تھے
اس نے آگے بڑھتے ہوئے ان کے دونوں ہاتھ تھام لئے ۔جب کہ ان کی نم آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اس نے انھیں اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اور اس کے سینے سے لگتے ہی وہ ٹوٹا ہوا باپ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ۔
میرے بیٹے نے تمہیں تباہ کردیا حنان مجھے معاف کر دو ۔ میرے بیٹے کو معاف کر دو اس دنیا سے جاچکا ہے اس کی غلطی کو معاف کر دو بیٹا میں جانتا ہوں میں تمہیں تمہاری عاشی واپس لاکر نہیں دے سکتا لیکن اپنے بیٹے کی گناہوں کی معافی تو مانگ سکتا ہوں وہ روتے ہوئے کہہ رہے تھے جبکہ انھیں اپنے سینے سے لگائے حنان خاموشی سے انہیں سن رہا تھا ۔
بس کر دیں انکل شاید عاشی کی زندگی کے اتنے ہی دن تھے مجھے مدثر سے کوئی گلہ نہیں جا چکا ہے وہ اس سے گلہ کرکے بلا مجھے کیا حاصل ہوگا ۔ مجھے آپ سے بھی کوئی گلا نہیں اور نہ ہی میں اپنے دل میں آپ دونوں کے لیے کسی قسم کی نفرت رکھتا ہو جو ہوا سو ہو گیا ۔
وہ انہیں خود سے الگ کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف جانے لگا جہاں دروازے پر اس کا باپ اس کا انتظار کر رہا تھا اس نے آگے بڑھتے ہوئے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا ۔ دونوں کی آنکھیں نم تھیں لیکن وہ رونا نہیں چاہتا تھا اس کی ماں بیمار تھیں اور اس کے سامنے رو کر وہ اسے مزید بیمار نہیں کر سکتا تھا اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور مسکراتا چہرہ لئے کمرے کی طرف آ گیا ۔
آج ڈیڈھ سال کے بعد اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے جی اٹھیں تھیں۔
زندگی میں اچانک ہونے والے حادثات زندگی کو بری طرح سے بدل دیتے ہیں ۔ اور صرف ایسے حادثات کی وجہ سے ہم زندگی کو دوبارہ ویسا نہیں بنا سکتے جیسے ہماری زندگی کبھی ہوا کرتی تھی
شاید زندگی اسی کا نام ہے
°°°°°°°°
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو عاشی بیڈ پر گہری نیند سو رہی تھی اس نے ایک نظر مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے صوفے پر آبیٹھا اسے سوسائٹی کے کچھ کام کرنے تھے
وہ فائلوں میں سردیے کب سے اس کے چہرے پہ آئے غصے کو نوٹ کر رہا تھا لیکن نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہا جب کہ عاشی آنکھیں بند کئے ہوئے غصے سے کھول رہی تھی
لیکن سونے کی ایکٹنگ بھی کرنی تھی پچھلے چار دن سے سوسائٹی کے کاموں کی وجہ سے وہ اس حد تک مصروف تھا کہ عاشی کو دیکھنے کا وقت نہیں ملتا جب بھی رات کو گھر آتا تو عاشی اسے سوئے ہوئے ملتی وہ بھی اسے ڈسٹرب نہیں کرتا تھا کیونکہ اس سوسائٹی کے کام ختم کرنے کے بعد اس کا ارادہ اسے باہر گھومانےلے کر جانے کا تھا
وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اس نے ایک نظر عاشی کی طرف دیکھا جو بیڈ سے گرنے ہی والی تھی وہ تیزی سے آگے بڑھا اور اسے بیڈ سیدھا کرکے لٹایا ۔ پھر اس کے چہرے کو دیکھا شاید وہ سچ میں سو چکی تھی وہ واپس اپنے جگہ پر آکر کام کرنے لگا ۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ عاشی کا ہاتھ سے ایک بار پھر سے زمین پر نظر آیا ۔
عاشی کتنی لاپروائی سے سو رہی ہو تم وہ کہتے ہوئے پھر سے سے اٹھ کر اس کے پاس آیا اس کا ہاتھ بیڈ پر رکھا اور کروٹ کے بل اسے دوسری طرف کرتے ہوئے اس پر سیدھا کر دیا ۔ جب کہ وہ اب بھی گہری نیند میں تھی یا تو آج وہ اسے تنگ کر رہی تھی یا شاید نیند میں وہ خود بھی بے خبر تھی
وہ صوفے پر آکر بیٹھا اور ایک بار پھر سے اپنا کام کرنے لگا جبکہ عاشی دوسری طرف چہرے پر شرارت لیے مسکرا رہی تھی تھوڑی دیر بعد اس نے پھر سے کروٹ لی ۔
ایک بار پھر سے زمین پر گرنے لگی۔ جانتی تھی کہ وہ اسے گرنے نہیں دے گا ابھی وہ پھر سے زمین پر گرنے ہی والی تھی کہ اسے ایک بار پھر سے تھام لیا گیا ۔
لیکن اس بار اس نے اس کی شرارتوں پر بریک لگا دی تھی کیونکہ وہ خود زمین پر بیٹھتے ہوئے اس کی ساری گرنے کی جگہ کو کور کر چکا تھا شاید اس کی شرارت کو سمجھ گیا تھا
عاشی کا اچھا خاصا موڈ خراب ہو گیا مطلب اب وہ اسے تنگ بھی نہیں کر سکتی تھی وہ منہ بسور کر سونے کی کوشش کرنے لگی جبکہ اس کی شرارتوں کو سمجھتے ہوئے مسکراتے ہوئے اپنے کام سرانجام دینے لگا ۔لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اسے اپنے گلے میں اس کی باہوں کا ہار محسوس ہوا
آپ بالکل بھی اچھے شوہر نہیں ہیں وہ اس کی گردن میں چٹی کاٹتے ہوئے بولی
اچھا جو شوہر اپنی بیوی کو شرارت نہیں کرنے دیتا کیا وہ اچھا شوہر نہیں ہوتا وہ اسے دیکھ کر بولا ۔جس پر وہ زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی
اور وہ شوہر جو شرارتیں کرنے کتنے دینے کے ساتھ ساتھ کرتا بھی ہے وہ کیسا ہوتا ہے وہ اپنا کام بند کرتے ہوئے بیڈ پر آ کر اسے گدگدانے لگا جبکہ وہ اس سے بچتی کھلکھلاتے ہوئے اسے دور ہونے لگی ۔
حنان دروازے پر کھڑا ہوں کب سے اپنی ماضی کی خوبصورت لمحات کو یاد کر رہا تھا ۔اس کی آنکھیں نم ہونے لگی کتنی خوبصورت یادیں تھی اس کی جواب اس سے دور ہو چکی تھی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا آ کر بیڈ پر بیٹھ گیا
اس نے عاشی کے ساتھ زندگی کے صرف اور صرف چار ماہ ہی گزرے تھے لیکن شاید اب وہ چار ماہ وہ ساری زندگی نہیں بھلا سکتا تھا
°°°°°°
مہندی کی رسم شروع ہوچکی تھی عکانشہ اپنے کپڑے لے کر یہاں نہیں آئی تھی اسی لیے وہ کیا پہنے اس لئے بہت کنفیوز ہو رہی تھی جب مریم نے اسے ایک ڈریس لا کر دیا عکانشہ یہ ڈریس پہن لو
تم پر بہت سوٹ کرے گا مریم ایک بہت ہی خوبصورت سے ڈریس کے سامنے کرتے ہوئے بولی پہلے تو وہ اس سے ڈریس لیتے ہوئے ہچکچا رہی تھی لیکن پھر سوچا کہ یہ کوئی غیر نہیں ہے
مریم نے کہا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے تو پھر بہن سے شرمانا کیسا وہ اس سے ڈریس لے کر تیار ہونے چلی گئی جب حنان کمرے میں آیا
حنان بھائی آپ کے ماما بابا آئے ہیں مہندی پر
وہ اس کے سامنے کھڑی پوچھنے لگی جب حنان نے نفی میں سر ہلایا
نہیں مما کی طبیعت بہت خراب تھی وہ نہیں آئیں گے ۔ لیکن میں تو ہونا یہاں اس نے مسکراتے ہوئے مریم کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ بھی مسکرا دی جب عکانشہ واشروم سے نکل کر اس کے سامنے آئی۔
لیکن اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں حنان کو غصہ آنے لگا اور اس کی آنکھوں کا غصہ دیکھ کر مریم اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی وہ عکانشہ نے شاپنگ نہیں کی تھی تو اس کے پاس کپڑے نہیں تھے بس اسی لیے میں نے اس عاشی کا ڈریس دے دیا ۔
وہ کچھ شرمندہ سی اسے بتا رہی تھی جبکہ اس کی نظروں کا محفوظ سمجھ کر وہ بھی اندازہ لگا چکی تھی کہ عاشی کو ڈریس پہننے کی وجہ سے اسے غصہ آ رہا ہے ۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ بھی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا
°°°°°°°°

وہ عاشی کی ڈریس پہنے حنان کے دائیں بائیں گھوم کر اسے غصہ دلا رہی تھی اس کا کبھی اس طرف کبھی اس طرف عاشی کی ڈریس میں کیٹ واک کرنا اسے اچھا خاصہ تپا گیا تھا
اس کا بس چلتا تو وہ کسی کو بھی عاشی کی چیزوں کو چھونے تک نہ دیتا اور مریم نے کتنی آسانی سے عاشی کا ڈریس اس کے حوالے کر دیا
یہ ڈریس عاشی کی شادی کے پہلے کے ڈریس میں سے ایک تھی ۔ اسے یاد تھا بہت شادی کے بعد جب وہ عاشی کو دوسری بار اس کے گھر رہنے کے لئے لایا تھا اور اس نے اپنی فیورٹ ایک ایک چیز نکال کر اسے دکھائی تھی جو شادی کے بعد وہ اپنے ساتھ حنان کے گھر لے کر نہیں جا پائی تھی
اس کی معصومیات بھری باتیں اور ہر چیز کو حسرت سے دیکھنے پر وہ صرف مسکرا دیا تھا
شادی کے بعد لڑکیوں کو بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے عاشی نے بھی بہت کچھ چھوڑا تھا اور ان سب میں آج یہ چیزیں بھی شامل تھی جو عکانشہ پہن کے ہر طرف گھوم رہی تھی
محبت بھی کتنی عجیب چیز ہوتی ہے نا شیئرنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ عاشی کی ہر چیز سے محبت کرتا تھا اور اس کی چیزیں شیئر کرتے ہوئے اس کی جان جا رہی تھی
ہنی پلیز یہ پنز پکڑو۔ ۔۔۔ وہ مجھ سے یہ ڈریس ہینڈل نہیں ہو پا رہا میں اتنے ہیوی ڈریس پہنتی نہیں ہوں وہ اس کے ہاتھ میں سیفٹی پن کا ڈھیر رکھتے ہوئے بولی
ضرورت کیا تھی میری عاشی کی چیزوں کو چھونے کی وہ غصے سے پھینکا رہا تھا
میں نے خود نہیں لی مجھے مریم نے دی ہے اور مریم اس کی بہن ہے ویسے مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ تم اس ذرا سے بات کو اپنے دل پر لے لو گے ۔ تم تو اس ڈریس کے لئے اتنے پریشان ہو رہے ہو کل مریم کی شادی پر بھی میں عاشی کا ہی ڈریس پہننے والی ہوں
اب کیا ہے نا اس کی ساری چیزوں کے ساتھ اس کی لائف سٹائل کی عادت ڈالنی ہوگی مجھے اس کے بارے میں سب کچھ جاننا ہے ویسے کافی کمال کی لڑکی تھی
اللہ اسے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ۔ وہ افسوس سے بولی حنان نے چہرے کو غصے سے دیکھا تھا
قسم سے مجھے بہت پیار آتا ہے اس معصوم لڑکی پر بہت برا ہوا اس کے ساتھ لیکن ایک بات ایمان داری سے بتاؤں اگر وہ زندہ ہوتی نہ تو شاید میں کبھی بھی اس کے لیے اتنی ہمدردی کا اظہار نہیں کر پاتی
شاید محبت ایسی ہی ہوتی ہے ۔۔۔
بکواس بند کرو کوئی محبت نہیں ہے یہ صرف اور صرف انٹریکشن ہے جو مجھے دیکھ کر تمہیں ہو رہی ہے ۔تھوڑا وقت گزرے گا بھول بھلا جاؤ گی ۔فضول میں اپنی زندگی کو میرے پیچھے تباہ کرنا بند کرو
میری نظر میں تمہارے فضول کے انٹریکشن کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تھا
انٹریکشن مطلب کے متاثر کردینے والی چیز سے ایسا کیا ہے رائٹ۔ ۔۔!
تم میں ایسا کیا ہے کہ میں تم سے متاثر ہو جاؤں گی تم کیا دنیا کے سب سے پرکشش انسان ہو تم۔کہ میں تم سے متاثر ہوں جاوں گی کیا تمھارے سر پہ ایک آنکھ ایکسٹرا ہے ۔کیا الگ ہے تم میں ایسا کا ہے تم میں حنان سکندر خان جو میں تم پر فدا ہو جاؤں گی ۔
تم ایسے پرکشش حسین مردوں میں سے نہیں ہوں جنھیں دیکھ کر کوئی کرش ہو جائے ۔ایک نارمل شکل صورت کے انسان ہو ۔تمہارے جیسے انسانوں سے دنیا بھری پڑی ہے تم اپنی یہ غلط فہمی دور ہی کردو کہ میں تمہاری طرف ایکٹ ہوئی ہوں
محبت شکل و صورت یا پرسنیلٹی دیکھ کر نہیں ہوتی حنان سکندر خان محبت ہو جاتی ہے اس کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی میں تم سے کیوں محبت کرتی ہوں کیوں مجھے تو اچھے لگے میں نہیں جانتی ۔اس محبت کا کوئی ریزن نہیں ہے میرے پاس لیکن یہ محبت ہے کوئی انٹروڈکشن نہیں ۔
لیسن حنان سکندر خان آئی لو یو ۔۔۔ جانتی ہوں بہت اوور ری ایکٹ کر رہی ہوں بار بار تمہارے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرکے لڑکی اپنے منہ سے اظہار محبت کرتی اچھی نہیں لگتی ۔
یہی سوچ ہوتی ہے آج کل کے مردوں کی کیوں کہ عورتوں کو اپنی پسند کا اظہار کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے لیکن کیا ہے نہ کہ تم پسند آ گئے ہو مجھے ۔ جانے کیوں کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی سے اترنے لگی اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے وہ اس کے سامنے بے بس ہو رہی تھی وہ اپنے آپ کو بہت بہادر سمجھتی تھی بولڈینس اور کونفڈینس کی کمی نہیں تھی اس کے اندر لیکن وہ اس شخص کے سامنے خود کق بے بس محسوس کر رہی تھی
میں تم سے محبت نہیں کرتا عکانشہ اور نہ ہی کر سکتا ہوں تم فضول میں اپنا وقت برباد کر رہی ہو میں کبھی بھی تم سے محبت نہیں کر سکتا عاشی میری پہلی اور آخری محبت ہے پلیز اس سب کو بند کرو ۔
تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہوئی ہے ۔تم بہت اچھی لڑکی ہو تو مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتی ہو اور تمہیں مجھ سے بہتر ملے گا ۔اس کی آواز اور آنکھوں کی نمی کو نوٹ کر کے وہ نرمی سے بولا تھا
حنان سکندر خان بہت ہی عام سے ڈائیلاگ بول رہے ہو یہ تو میں ہر فلم اور ہر سٹوری میں دیکھتی اور پڑھتی آئی ہوں کچھ تو نیا بولو کچھ تو ایسا بولو کہ میرا دل تم پر سے اٹھ جائے میں تمہارا نہیں ہوسکتا میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں غیرہ و غیرہ بہت اولڈ ہو چکا ہے یہ سب کچھ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی
اس کی انہیں سب باتوں سے وہ زچ ہو گیا تھا اسی لیے مڑ کے واپس جانے لگا لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی حنان سکندر تم نے اپنی محبت کو ایک موقع دیا اور عاشی کو حاصل کرلیا ایک موقع مجھے بھی چاہیے تمہیں حاصل کرنے کا اور یقین کرو میں بھی اپنی محبت کو حاصل کر لوں گی
وہ اس آنکھوں میں آنکھیں دیکھ بھال چیلنج کر رہی تھی کچھ دیر پہلے والی شوخی اب نہیں تھی
یہ نا ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے چیلنج پر پھینکا تھا
کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔لاپروا ساانداز تھا
کوشش وہاں کی جاتی ہے جہاں کوئی فائدہ ہو ۔۔۔حنان نے غصے سے کہا
محبت کے معاملے میں نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا ۔اس کے پاس ہر دلیل کا جواب تھا
تم کیوں اپنی زندگی برباد کر رہی ہو عکانشا۔حنان انتہائی غصے کے عالم میں بولا تھا
میں اپنی زندگی برباد نہیں کر رہی حنان ۔یقین کرو میں تمہیں پا لوں گی وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یقین دلانے والے انداز میں بولی تھی حنان کو اس کی آنکھوں میں کچھ تو ایسا نظر آیا کہ وہ نہ صرف نظریں جھکا گیا بلکہ اگلے ہی لمحے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا
ہائے میرے ہونے والے "وہ" تو شرما گئے ۔۔۔۔۔کوئی ایک ادا سے مسکراتے ہوئے بالوں کو پیچھے کی جانب جھٹکا دیتی لڑکیوں کے گروپ کی طرف چلی گئی
°°°°°°°°
وہ صبح صبح ہی تیار ہو گئی تھی آج بھی اس نے عاشی کے ہی کپڑے پہنے تھے جنہیں دیکھ کر ایک بار پھر سے حنان کو غصہ آیا تھا ۔ لیکن کٹرول کرنے لگا کیونکہ امی نے کہا تھا کہ عکانشہ ان کی مہمان ہے
تمہارے ماما بابا آنے والے ہیں وہ کیا ہے میں اپنے سسرساس سے ملنا چاہتی ہوں وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ انداز شرمالا تھا۔۔ شاید اس کے لیے یہ سب کچھ ایک مذاق تھا لیکن حنان کے لئے نہیں
اپنی بکواس خود تک محدود رکھو میرے ماں باپ کو اس سب میں گھسیٹنے کی ہرگزضرورت نہیں ہے وہ غصے سے بولا
تم ہر وقت مرچیاں کیوں چھپائے رکھتے ہو بالکل اچھے نہیں لگتے ایسے منہ بنائے ہوئے تمہیں کس نے کہہ دیا کہ ہر وقت جلی ہوئی روٹی کی طرح منہ بنا کر تم پیارے لگتے ہو کبھی کبھی مسکرا دیا کرو یار تب سچ میں بہت ہی پیارے لگو گے
وہ اس کا گال کھنچ کر بولی حنان پھر غصہ کنٹرول کر گیا ۔اسے خود پر خیرت تھی کہ وہ اسے کیسے برداشت کر رہا ہے
سنو میرے سامنے مسکرانا صرف وہ کیا ہے نہ میں کسی کو بھی تمہاری طرف دیکھنے نہیں دوں گی تمہارے معاملے میں بہت ٹچی ہوں عاشی کو بھی بس اس لیے برداشت کر گئی کیونکہ وہ میرے آنے سے پہلے تھی
ورنہ میں بہت ہی ڈینجرس قسم کی لڑکی ہوں تمہیں کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرنے والی۔۔۔ ۔۔۔وہ اسے مسکراتی نظروان سے دیکھتے ہوئے بولی جبکہ وہ اس کی فضول بحث اور بکواس سنے بغیر ہی آگے بڑھ گیا تھا
ہائے میرے "وہ" کتنے شرماتے ہیں وہ ایک ادا سے کہتی ہوئی لڑکیوں کے کمرے کی طرف آئی تھی
°°°°°
یہ سچ ہے کہ حنان ہمیشہ سے کافی غصے والا ہے لیکن تمہیں کیسے برداشت کر رہا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا مریم دلہن بنی اسے گھور کر بولی تھی جس پر وہ قہقہ لگاتی اس کے پاس آئینے میں اپنا دل کش سراپا دیکھنے لگی
ویسے ایک بات ایمانداری سے بتاؤ صرف مجھے ایسا لگتا ہے یا میں واقع میں ہی عاشی سے زیادہ خوبصورت ہوں وہ آئینے میں اپنے بال بنا رہی تھی جب مریم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا
وہ میری بہن تھی میرے لئے عزیز تھی میں کسی ایک کو سلیکٹ نہیں کر پاؤں گی مریم نے شاید اس کا دل رکھنے کے لئے کہا تھا کیونکہ سامنے دیوار پر لگی تصویر میں دو خوبصورت لڑکیاں ایک دوسرے سے گال سے گال ملائے فوٹو میں بہت ہی پیاری لگ رہی تھی
یار واقعی تمہاری بہن بہت خوبصورت تھی لیکن کم تھا عکانشہ بھی نہیں ہے احساس کمتری کا شکار رہنا تو عکانشہ کو آتا ہی نہیں تھا وہ اپنے بالوں کو پونی ٹیل کی شکل دیتی منہ بنا کر اپنا ہیر سٹائل نہ پسند کرتی ہوئی دوبارہ بالوں کو کھول چکی تھی
تم بہت پیاری ہو عکانشا شکل صورت میں کیا رکھا ہے انسان کا دل خوبصورت ہونا چاہیے ۔ اور مجھے یقین ہے تم بہت جلد میرے بھائی کی زندگی کو بدل دو گی مریم نے مسکراتے ہوئے امید سے کہا تھا اس سے زیادہ خود کو یقین دلانا رہی تھی کہ حنان کی زندگی سنور جائے گی
مریم ایک بات کہوں تم بہت اچھی ہو پلیز میرا حوصلہ بنائے رکھنا ورنہ حنان کی باتیں مجھے اندر سے کھائے جا رہی ہیں وہ جو حنان کے سامنے خود کو بہت بولڈ اور کونفیڈنڈ شو کر رہی تھی مریم کے سامنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
عکانشہ کیا ہوگیا تمہیں اس طرح سے کیوں رو رہی ہو مجھے تم پر پورا یقین ہے پلیز ایسے مت کرو یار اس طرح سے میری ہمت بھی توڑ رہی ہو اس کے اس طرح سے اچانک رونے پر مریم بوکھلا کر بولی تھی
مریم وہ عاشی سے بہت پیار کرتا ہے شاید وہ کبھی بھی میرا نہیں ہو پائے گا میں بے کار کوشش کر رہی ہوں
میں نے اس کی آنکھوں میں محبت کا جو سمندر دیکھا ہے وہ کبھی بھی اپنے لئے نہیں دیکھ سکتی مرد کسی عورت سے جنون کی آخری حد تک محبت صرف ایک بار ہی کرتا ہے
اور حنان سکندر خان اپنے حصے کی محبت کر چکا ہے ۔ وہ اپنا جنون اپنی دیوانگی کسی اور پر لٹا چکا ہے اب اس کی زندگی میں آنے والی کوئی بھی عورت کبھی بھی عاشی نہیں ہو سکتی
۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن اس کے لفظوں کی گہرائی کو مریم بھی سمجھ چکی تھی
میں مانتی ہوں حنان اپنی زندگی کی محبت کر چکا ہے اپنا جنون اپنی دیوانگی عاشی پر لگا چکا ہے لیکن تم نے تو اپنے حصے کی محبت نہیں کی تم نے تو اپنی دیوانگی اپنا جنون کسی کو نہیں دکھایا کیا تمہارا جنون تمہاری دیوانگی تمہاری محبت تم دونوں کے لیے کافی نہیں ہوگی تم حنان سے محبت کی امید مت رکھو یہ تو جذبہ خود بخود جگائے گا ۔
مجھے یقین ہے تمہاری محبت حنان اور تمہارے دونوں کے لیے کافی ہو گی ۔ بس ہمت مت ہارنا ۔محبت میں ہار مان جانے والے کبھی جیت نہیں پاتے وہ اسے اپنے سینے سے لگائے سمجھا رہی تھی جب حنان کمرے میں داخل ہوا
نکاح کی رسم ادا ہوگی مولوی صاحب آنے والے ہیں تیار رہو وہ ایک نظر عکانشا کے روئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مریم سے مخاطب ہوا تھا
°°°°°°
ماحول بہت افسردہ تھا عکانشہ کے آنسوؤں اور اماں کے دعاؤں میں مریم ہمیشہ کے لیے اس گھر سے رخصت ہو کر اپنے پیا کے گھر جا چکی تھی ۔
ہاں لیکن جانے سے پہلے کہہ گئی تھی کہ اس کی ماں کا خیال اب سے ان کی دوسری بیٹی رکھے گی
حنان کو تو بس یہ سوچ سوچ کے غصہ آ رہا تھا آخر کیسے کو اپنی بیٹی کی جگہ کسی دوسری لڑکی کو دے سکتے ہیں کیسے ان دونوں نے اپنی بیٹی کی جگہ کسی اور لڑکی کو قبول کر لیا وہ اپنے غصے کا اظہار لمحہ لمحہ لوگوں پر کر رہا تھا کتنی بار کہہ چکا تھا کہ عاشی کی جگہ عکانشا نہیں لے سکتی آپ اس لڑکی کو فضول میں سر چڑ رہی ہیں
میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی بھی ہو سکتا ہے
لیکن مریم اور امی دونوں نے ہی اس کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں لیا تھا وہ تو امی اسے عاشی بھی کہنے لگی تھیں اور یہی بات اس سے مزید غصہ دلا رہی تھی رخصتی کے بعد میں سب مہمان رخصت ہوئے تو وہ عاشی کمرے کی جانب بڑھنے لگا
لیکن اس کے کمرے میں اسے دیکھ کر اس سے اچھا خاصہ غصہ آ گیا تھا مطلب اب وہ عاشی کے روم میں بھی رہے گی
تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ انتہائی غصے سے اسے عاشی کے نائٹ ڈریس میں مبلوث دیکھ کر بولا
سونے کی تیاری کر رہی ہوں فیوچر ہسبینڈ۔۔ لیکن تم یہاں کیا کر رہے ہو تمہیں اتنا نہیں پتا کہ شادی سے پہلے لڑکے کا لڑکی کے کمرے میں آنا آلاؤڈ نہیں ہوتا اپنی شیریر طبیت کے مطابق شرارتی انداز میں بولی تھی لیکن اس کا یہ انداز حنان کو تپا گیا تھا
بس کر دو عکانشہ اس بکواس کو بند کرو بہت ہو گیا تمہارا ڈرامہ صبح ہوتے ہی نکلو یہاں سے وہ اب فصیلے پر آیا تھا اب یہ لڑکی مزید یہاں نہیں رک سکتی ۔
میں آنٹی کی مہمان ہوں تمہاری نہیں جتالیا گیا۔
تو صرف ان سے ہی بات کرو۔ میری جان چھوڑو ۔وہ بدلخاظی کا مظاہرہ کررہا تھا۔
یہ تو اب ممکن نہیں ۔ خان صاحب عکانشہ کی گندی نظر اب آپ پے ہے لیکن" آپ بے گھبرانا نہیں ہے" وہ ایک آنکھ دبا کر شررات سے بولی ۔جبکہ حنان کو مزید اس کے منہ لگنے سے وہاں سے جانا بہتر لگا۔
...............
تو میری جان میں نے کب کہہ دیا کہ وہ عاشی ہے یا اس کی جگہ لے سکتی ہے اس کو اتنے غصے کو دیکھ کر امی جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا
جی میں یہی کہہ رہا ہوں کہ وہ عاشی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی جگہ لے سکتی ہے لیکن آپ نے عاشی کی ساری چیزیں اسے استعمال کرنے کے لیے دیں دی ہیں نہ صرف استعمال کرنے کے لیے بلکہ وہ عاشی کی ہر چیز پر اس طرح سے قبضہ جمائے ہوئے ہے جیسے وہ اس کی اپنی ہو اور اب اس کے کمرے میں اس کی نائٹ ڈریس پہن کے بیٹھی ہے وہ اپنے غصے کو ان اب پر نکال رہا تھا
وہ تمہارے پیچھے جلد بازی میں یہاں آئی ہے اپنا سامان تک نہیں لائی یہی وجہ ہے کہ مریم نے اسے عاشی کی چیزیں استعمال کرنے کے لئے دی عاشی کی چیزیں کسی کے استعمال میں نہیں ہیں اچھا ہے نہ بچی کو فائدہ ہو گیا امی جان کے لیے جیسے یہ بات کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی تھی ۔
آپ جانتی ہیں نہ وہ یہاں کس مقصد سے آئی ہے اس کے باوجود بھی آپ یہ سب کچھ کر ریی ہیں حنان نے سمجھانے کی کوشش کی
ہاں میں جانتی ہوں وہ یہاں تمہارے لیے آئی ہے اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تم سے محبت کرتی ہےمیں تو بس دیکھ رہی ہوں کہ تم سے کتنی محبت کرتی ہے تمہاری محبت میں وہ عاشی تک کو قبول کر رہی ہے ایک ہارے ہو شخض کو قبول کر رہی ہے اس کی محبت واقعی مثالی ہے امی نے مسکراتے ہوئے کہا
میری نظر میں اس کی یہ محبت کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور آپ بھی اسے کوئی اہمیت نہ دیں یہی بہتر ہوگا ہمارے لئے ۔ مجھے لگا تھا کہ اگر آپ اسے عاشی کے بارے میں کچھ بتائیں گے تو وہ ہار کر چلی جائے گی لیکن یہ تو جان کا روگ بن گئی ہے یہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہی اور آپ بھی اسے اپنی بیٹی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں اب وہ ان پر غصہ ہونے لگا تھا ۔
میں اس کے ساتھ برا سلوک کیوں کروں حنان اتنی پیاری بچی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ تم سے محبت کرتی ہے تمہاری زندگی میں خوشیاں لانا چاہتی ہے ۔تمہیں خوش رکھنا چاہتی ہے بلا مجھے اس بات سے زیادہ اور کس بات کی خوشی ہو سکتی ہے
تم عاشی کوبھلا کر آگے بڑو یہی زندگی ہے ساری زندگی عاشی کے نام پر بیٹھے رہنا بے وقوفی ہے میں یہ نہیں چاہتی کہ تم عاشی کو بھول جاؤ یا اسے اپنی زندگی سے نکال دو بس یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنی زندگی میں خوش رہو آگے بڑھو چار مہینے کی شادی تھی وہ صرف چار مہینے رہی وہ تمہارے ساتھ اور تم ان چار مہینوں کی شادی کی یادوں میں خود کو ختم کر رہے ہو
تم نے اپنے غم میں اپنے ماں باپ سے ان کی ہر خوشی چھین لی وہ ماں باپ جو تمہیں مسکراتے دیکھ کر جیتے ہیں
تمہیں خوش دیکھ کر وہ سانس لیتے ہیں تمہاری خوشیوں کی دعائیں مانگتے ہیں تم نے اس سے دعاؤں کا حق چھین لیا ان سے سانس لینے کی اجازت چھین لی تم نے اپنے ماں باپ سے خوشیاں چھین لی حنان تمہیں کوئی حق نہیں بنتا کہ تم اپنےوالدین سے ان کی خوشیاں چھین لو جو تمہاری خوشیوں کیلئے پل پل دعا گو رہتے ہیں ۔
میں اپنے ماں باپ کو ان کی زندگی کے ہر خوشی دینا چاہتا ہوں لیکن میری کوئی بھی خوشی اس لڑکی سے جوڑی نہیں ہوگی آپ میری عاشی کی جگہ کسی اور کو دینے کو تیار ہیں تو ٹھیک ہے دے دیجئے لیکن میری زندگی میں میری عاشی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ہے جارہا ہوں میں یہاں سے وہ انتہائی غصے سے کمرے سے نکل گیا جبکہ امی جان اس کے غصے پر صرف مسکرا دی تھی ۔
عاشی بیٹا تو ٹھیک کہتی تھی اسے کوئی بات سمجھانا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے
°°°°°°°
ولیمے پے آنا تو تھا اس کی زمہداری تھی بہن کا حق ادا کرنا تھا ورنہ اس کا اس طرف آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا
وہ پوری محفل میں تھوڑی دیر کے لئے ہی نظر آیا مریم اور امی سے ملا اور پھر غائب ہو گیا
وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاگل ہو چکی تھی آخر وہ آیا تھا تو گیا کہاں مریم اور امی جان سے پوچھا تو وہ بھی یہی بتا رہی تھی کہ یہی تھا لیکن اب نہ جانے کہاں چلا گیا
اس کی پریشانی دیکھتے ہوئے امی جان نے جب حنان کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنے گھر جا رہاہے ۔اب واپس تب آئے گا جب وہ لڑکی وہاں سے چلی جائے گی
تو جناب ہم سے چھپ کر وہاں سے چلے گئے ہیں پھر کیا ہوا میں بھی اس کے پیچھے پیچھے آوں گی وہ بنا کچھ بھی سوچے سمجھے اس کے گھر کا ایڈریس لے کر اس کے گھر کی طرف آئی
لیکن گھر کا دروازہ بند دیکھ کر اسے بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی تھی وہ وہیں دروازے پر ہی بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی نہ جانے وہ کہاں گیا تھا یا شاید گھرمیں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا تھا تبھی تو کہیں بھی دروازہ پر تالا لگا کر چلا گیا
صبح سے شام ہو چکی تھی وہ وہیں بھوکی پیاسی بیٹھی رہی آتے جاتے کہیں لوگوں نے اسے دیکھا لیکن اس کے منہ پر نو لفٹ کا بورڈ دیکھ کر کسی نے بھی پوچھنے کی غلطی نہیں کی کہ محترمہ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں
تھوڑا تھوڑا اندھیرا چھانے لگا تووہ کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے دروازے کی طرف آیا اور اس کے وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے دروازہ کھولنے لگا
حنان کہاں تھے تم میں صبح سے یہاں بیٹھی تمہارا انتظار کر رہی ہوں اور تم نہ جانے کہاں ہو کیا کر رہے تھے
وہ اس کی بیچینی کو نوٹ کیے بغیر بولی تھی وہ اس کو دیکھے بنا ہی اندر کی طرف گیا اور بے چینی سے کچھ ڈھونڈنے لگا وہ بھی اس پیچھے پیچھے آئی تھی جب کے اس کو نظر انداز کرتا انداز اسے مزید سلگاگیا تھا
او ہیلومیں تم سے بات کر رہی ہوں بے وقوف سمجھ رکھا ہے مجھے کیا جب دل چاہے مجھے نظر انداز کرو گے جب دل چاہے گا بات سمجھتے کیا ہو محبت کی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں بے مول ہوں وہ انتہائی غصے سے اس کا بازو اپنی طرف موڑ کر بولی تھی ۔
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ اب تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو کیا میں تمہاری پوجا کروں تمہارے آگے پیچھے گھوموں ۔تمہاری جی حضوری کروں۔ ۔ کیا کروں بولو وہ انتہائی غصے سے تمہارا تھا
کوئی احسان نہیں کیا ہے تم نے مجھ پر مجھ سے محبت کر کے اور تم جیسی لڑکیوں کا تو کام ہے آج ایک اور کل دوسرا بوائے فرینڈ رکھنے کی ایک بات کان کھول کر سن لڑکی تمہاری محبت میری نظر میں اتنی اہمیت بھی نہیں رکھتی کہ میں کھڑا ہو کر تم سے بات کروں۔ تم جیسی کریکٹرلوز اور گری ہوئی لڑکی میری تو کیا کسی بھی مرد کی محبت کے قابل نہیں ہے
کسی نے تمیز نہیں سکھائی کہ ایک انسان اگر اگنور کر رہا ہے تم سے بات نہیں کرنا چاہتا تو اسے چھوڑ دو بخش دو اس کی جان کو لیکن نہیں تم تو میری جان کا عزاب بن گئی ہو
محبت محبت محبت بھاڑ میں گئی تمہاری محبت میری نظر میں تمہاری محبت کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ تم میری عاشی کپڑے پہن کر اس کی طرح بننے کی کوشش ضرور کر سکتی ہو لیکن کبھی بن نہیں سکتی ۔ ۔ یہ دل ہے نہ اس میں صرف اور صرف ایک عاشی رہتی ہیں اور کوئی بھی نہیں تم جیسی دو ٹکے کی لڑکی کبھی عاشی جگہ نہیں لے سکتی ۔
عاشی میری محبت نہیں میرا جنون ہے ۔ عاشی میرے دل میں نہیں میری روح میں بسی ہے اور تم کبھی بھی عاشی کی جگہ نہیں لے سکتی ۔ میری پہلی اور آخری محبت صرف اور صرف عاشی ہے اس لئے بند کرو اپنی ڈرامہ بازی اور دفع ہو جاؤ یہاں سے کیونکہ میں تم جیسی لڑکی کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا محبت تو دور کی بات ہے ۔
جا کر اپنی اداؤں سے کسی اور کا دل بہلاو حنان سکندر خان کا دل اتنا سستا نہیں ہے کہ تم جیسی دو ٹکے کی لڑکی پر آجائے
وہ جلدی سے کچھ کاغذات اٹھاتا اس کے آنسو نظرانداز کئے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
جبکہ اس کی باتوں نے اس کے انداز نے آج پہلی بار اسے ہرٹ کیا تھا یہ اہمیت تھی اس شخص کی نظروں میں اس کی محبت کی یہ سوچ تھی اس کی اس کی ذات کے بارے میں اس کی محبت اتنی سستی تھی اس کی نظروں میں ۔
نہیں اب اور نہیں وہ اپنی محبت کی مزید توہین برداشت نہیں کرسکتی تھی آج اسے پہلی بار ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے غلط شخص سے محبت کی
°°°°°°°
دیکھو بیٹا تم اپنے گھر کیوں جا رہی ہو تم پیرس واپس لے جاؤ میں سارے انتظامات کروا دیتی ہوں اس کے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر امی ہار کر رہ گئی وہ کیا سوچ رہی تھی اور کیا ہوگیا حنان نے اس طرح سے اس کا دل دکھایا تھا کہ وہ خود بھی کچھ نہ کہہ پائی
محبت اپنی جگہ لیکن توہین کوئی بھی لڑکی برداشت نہیں کرتی اور اپنے عزت نفس کی توہین تو برداشت کرنا کسی کے بس میں بھی نہیں تو وہ کیسے اس سے امید رکھتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حنان کے سامنے گرا لے حنان کی باتیں جب اس نے ان کو بتائی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ ان کی زندگی سے دور چلی جاؤ تم نہیں لیکن حنان تمہارے قابل نہیں ہے
نہیں آنٹی میں واپس پیرس نہیں جاؤں گی میں اپنے بابا کے پاس جاؤں گی وہ مجھ سے خفا ہیں میں نے ہمیشہ اپنی طرف سے ناراض رکھا ہے کبھی خوش نہیں ہونے دیا پانچ سال پہلے میری ماما اس دنیا سے چلی گئی میں نے اپنے بابا کے قریب جانے کی بہت کوشش کی لیکن تائی امی نے کبھی بھی مجھے ان کے پاس نہیں جانے دیا اور پھر بابا کے دل میں بھی شاید میرے لیے کوئی خواہش نہیں تھی اسی لئے وہ بھی اپنے آپ کو کام میں مصروف کر چکے تھے
میں جتنا اپنے بابا کی قریب جانے کی کوشش کرتی وہ اتنے ہی مجھ سے دور چلے جاتے ہیں پھر میں نے اپنے بابا سے دور رہنا شروع کر دیا آپ نے ان سے بات نہیں کرتی ہفتہ ہفتہ میں اپنی شکل نہیں دکھاتی تھی۔ بابا شکایت کرتے تو کہتی تھی کہ آپ خود ہی اچھے باپ نہیں ہے
ہم دونوں کی اس دوری کا تائی نے بہت فائدہ اٹھایا وہ بابا کو میرے خلاف کرنے لگی بابا ان کے منہ سے جو بھی سنتے اس پر یقین کر لیتے پھر پچھلے دو سال سے میری شادی کے پیچھے پڑ گئے بہت مشکل سے میں نے بابا سے پیرس جانے کی اجازت مانگی تھی اس میں نیلم اور سندس نے میرا بہت ساتھ دیا
لیکن اب اور نہیں میں اپنے بابا کے پاس رہنا چاہتی اب میں تائی امی کو اپنی زندگی کنٹرول نہیں کرنے دوں گی جو میرے بابا چاہیں گے وہی ہوگا میں نے پانچ سالوں میں اپنے بابا کا بہت دل دکھایا ہے
اور شاید حنان کے غم کو اپنے بابا کے غم سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی شاید حنان کی دی ہوئی تکلیف کو اپنے بابا کی کی تکلیف پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
وہ گئی تو مریم بھی رسم ادا کرنے کے لیے ہوئی تھی اس کے گلے لگ کر ایسے روئی جیسے ایک بار پھر سے اس کی بہن مر گئی ہو کاش حنان اس کی فیلنگ کو سمجھ جاتا کاش وہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ اس کی عاشی کی جگہ لینے نہیں بلکہ اپنی جگہ بنانے آئی ہے
°°°°°°°
پیشنٹ کی حالت بہتر ہے پلیز انہیں ٹینشن مت دیجئے آپ جانتے ہیں ان کی حالت کیسی ہے اس کے باوجود اتنی زیادہ ٹینشن میں ان کا بی پی شوٹ کر گیا ہے ان کا خیال رکھیں ڈاکٹر ان لوگوں سے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا
میری جان پریشان مت ہوں وہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گی بابا نے اسے سمجھاتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا
میسز خان کا بلڈ پریشر بری طرح سے شوٹ کر چکا تھا دونوں باپ بیٹے ان کو لے کر ہسپتال آئے ہوئے تھے وہ شادی سے گھر ہی آ رہا تھا جب بابا کا فون آیا کہ ماما کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے وہیں سے سیدھا گھر آیا
لیکن ماں کی اتنی خراب حالت دیکھ کر وہ بہت پریشان ہو چکا تھا ڈاکٹر نے پرانی رپورٹ منگوائی جسے لینے وہ گھر گیا تھا اور وہاں عکانشہ کو دیکھ کر اس کا دماغ ایک بار پھر سے گھوم گیا تھا ۔
یہی وجہ تھی کہ وہ عکانشہ سے بہت بد تمیزی سے بات کرکے آیا تھا یہاں تک کہ اسے ایسی باتیں سنائی جو شاید کبھی بھی ایک لڑکی نرداشت نہ کرے
بابا ماما کی پریشانی کی وجہ میں ہوں نا میری وجہ سے وہ اتنی پریشان رہتی ہیں اتنی ٹینشن میں رہتی ہیں ۔ وہ اداسی سے بولا تو بابا کے پاس کوئی جواب نہ تھا
کون سی ماں اپنے جوان بیٹے کو مرتے دیکھ کر خوش ہوتی ہوگی حنان وہ تمہارے لئے دن رات پریشان رہتی ہیں ۔ یہ سوچ اسے جینے نہیں دیتی کہ اس کا بیٹا یوں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہا ہے اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے ۔
بابا جیسے آج کوئی بھی راز راز نہ رکھنے کی ٹھان لی تھی وہ بھی تنگ آ چکے تھے اس کی اس روٹین سے عاشی کے جانے کے بعد اس نے اپنی زندگی کا دائرہ اپنے تک محدود کر لیا تھا ۔
جیسے اس کی زندگی میں صرف اور صرف عاشی ہو عاشی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہ ہو ۔
حنان کب تک یوں زندگی گزارو گے کیا تمہارے لیے صرف عاشی سب کچھ ہے کیا ہم لوگ کچھ بھی نہیں بابا اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھ کر اندر چلے گئے
جبکہ حنان کے دروازے کے باہر کھڑا خاموشی سے اپنی بیمار ماں اور مجبور باپ کو دیکھ رہا تھا
°°°°°°°°
اب کیوں آئے ہو یہاں اب کچھ باقی رہ گیا ہے کیا چلے جاؤ یہاں سے امی جان نے دروازہ کھولتے ہی اسے دروازے پر دیکھ کر انتہائی غصے سے کہا تھا آج اس نے ان کا بھی دل دکھایا تھا
امی میں اس کو سوری بولنے آیا ہوں شاید میں بہت بے تکی اور فضول باتیں کر گیا
دراصل امی کی طبیعت بہت خراب تھی وہ دروازے پر اسے بیٹھے دیکھ کر میرا دماغ گھوم گیا وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگا
تم نے اس سے بہت بد تمیزی کی لیکن بے تکے اور فضول باتیں نہیں بلکہ انتہائی نیچ گری ہوئی باتیں کی ہےتم نے اس کا دل دکھایا ۔
کیا غلطی ہے اس معصوم لڑکی کی صرف اتنی سی ہے کہ تمہیں تمہارے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانا چاہتی ہے تمہیں ایک نئی زندگی دینا چاہتی ہے تمہیں خوشیاں دینا چاہتی ہے ۔ اس کا قصور اتنا بڑا نہیں تھا نا جتنی بڑی سزا تم نے اسے دی ہے ۔ تم سے محبت کرنے کی سزا میں تم نے اس کی ذات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا
کسی کی محبت کا یہ انجام نہ ہو حنان چلی گئی ہے وہ یہاں سے فکر مت کرو اب تمہیں کبھی بھی ڈسٹرب نہیں کرے گی تمہاری عاشی کی ساری چیزیں بھی یہی رکھی ہے جاتے ہوئے لے جانا تو تاکہ کوئی اور یہاں آ کر عاشی کی چیزوں کو کبھی ہاتھ نہ لگائیں لیکن ایک بات کہنا چاہوں گی تم سے وہ تمہاری عاشی کی جگہ لے نہیں رہی تھی بلکہ اپنی جگہ بنا رہی تھی
تمہاری اس ہٹ دھرمی تمہاری اس بے جا ضد نے آج مجھ سے دوسری بار میری بیٹی چھین لی تم نے اسمعصوم لڑکی کی ذات پر نہیں انگلی اٹھائیں آج تم نے اپنی ماں کا دل توڑ دیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی چلے جاؤ یہاں سے امی روتے ہوئے دروازہ اس کی منہ پر بند کر چکی تھی ۔
......................
وہاں سے بنا کسی کو کچھ بتائیے پاکستان چلی آئی اور اب پندرہ دن کے بعد گھر آکر یہ رونا دھونا مچا رہی ہے اندازہ بھی ہے خاندان بھر میں کتنی بدنامی ہوئی ہے ہماری تمہارا باپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا پہلے یہ بتاؤ لڑکی اتنے وقت کہاں تھی
اور گھر کیوں نہیں آئی تائی امی غصے سے اس کے سامنے کھڑی تھی جب کہ وہ بابا کے سینے سے لگی بالکل ہی نظرانداز کر رہی تھی
اب بس کر دیں بھابھی گھر تو آئی ہے کیا اتنا کافی نہیں ہے انور عاجزی سے بولے
انور بھائی میں تو بس پوچھ رہی ہوں یہ کوئی طریقہ ہے اس طرح سے وہاں سے چلی آئی کم از کم ہمیں فون کرکے بتا تو سکتی تھی اگر کسی دوست کے گھر جا رہی تھی تو میں بتانا اس کا فرض بنتا ہے ہم گھر والے ہیں اس کے جوان جہان بچی نہ جانے کہاں چلی گئی اور آپ کو تو بس بیٹی واپس ملنے کی خوشی ختم نہیں ہو رہی
اسے اس طرح سے سینے سے لگانے پر تائی آمی نے چوٹ کی تھی لیکن آج تو بابا کو بھی تو ان کی بالکل پروا نہ تھی وہ تو اسے ایسے دیکھ کر رہے ہیں جیسے ان کی بیٹی انہیں صدیوں بعد ملی ہو اور ایسا بھی اتفاق سے پہلی بار ہوا تھا کہ بابا تائی امی کے سامنے اس کی سائیڈ لے رہے تھے
بابا اب میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی کبھی بھی نہیں تقئی امی کو نظرانداز کیے ان کے سینے سے لگی محبت سے بولی تھی جس پر بابا نے مسکراتے ہوئے اسے مزید خود میں سمیٹ لیا
میری جان اب میں تمہیں خود سے کبھی دور جانے بھی نہیں دوں گا وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے محبت سے بولے
جب کہ تائی امی انکی محبتوں پر منہ بنا کے وہاں سے اٹھ کر اندر چلی گئی ۔
بیٹا مجھے سچ سچ بتاؤ وہ لڑکا کون تھا جس کے پیچھے تم پاکستان آئی ان کے اندر جاتے ہی بابا نے سیریس انداز میں اس سے پوچھا تھا جب کہ وہ تو اپنے بابا کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی میرے بار بار پوچھنے پر عذرا نے مجھے سب کچھ بتا دیا تم پاکستان کسی لڑکے کے پیچھے آئی تھی بتاؤ میری جان لڑکا کون ہے اگر تم اس سے محبت کرتی ہو تو میں تمہارے لئے اسے کہیں سے ڈھونڈ نکالوں گا بابا نے جیسے اس کی آنکھوں کی ویرانی کو محسوس کر لیا تھا
اتنی بدنامی ہونے کے باوجود بھی بابا اس سے اس کی پسند پوچھ رہے تھے وہ جانتی تھی اس کے یہاں نہ آنے کی وجہ سے خاندان بھر میں کے بعد میں پھیلی ہوئی ہے
بابا وہ صرف میری غلط فہمی تھی اور کچھ بھی نہیں وہاں اسے دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ اسے میرے لیے بنایا گیا ہے میں اسے پا لوں گی وہ میرا ہو گا لیکن بابا وہ میرا نہیں ہو سکتا وہ پہلے سے ہی شادی شدہ تھا اور اس کی بیوی کی ڈیتھ ہو گئی تھی
میں فضول میں اس کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس نے مجھے میری اوقات ایسے طریقے سے یاد کروائی ہے کہ اب میں کبھی بھی اس کے پیچھے نہیں جاؤں گی ایم سوری بابا اس کی محبت میں میں آپ کا وقار بھی غرق کرنے جا رہی تھی جب کہ آپ اتنے پیار سے مجھ سے اس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں ہم اس کی محبت میں آپ کی عزت سب کو داؤ پر لگانے چلی تھی ان کے اس انداز پر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی انھیں بتانے لگی جب کہ بابا اس کے اس طرح سے ہونے پر اسے ایک بار پھر سے اپنے سینے سے لگائے سمجھانے لگے
تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے میری بچی ساری غلطی میری ہے تمہیں جوانی کی دہلیز پر چھوڑ کر میں نے اس طرح سے دامن چھڑایا جیسے میرا تم سے کوئی واسطہ ہی نہیں
ایک بچی جب چھوٹی ہوتی ہے اس کا باپ ہر ممکن طریقے سے اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں جھٹا رہتا ہے اور جب وہ اصل ہواہش کی طرف آتے ہوئے تھے اس کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کرتی ہے تب ہی پسند کے مطابق شادی کرنے دیں تو وہ باغی ہو جائے گی اگر اس سے لڑکے کے معاملے میں پسند پوچھ لیں تو وہ اس کا عزت اور وقار روند ڈالے گی
جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ایک بیٹی کو سب سے زیادہ اپنے باپ کی ضرورت تب ہوتی ہے جب وہ اپنی مرضی کا جیون ساتھی چنتی ہے جب اسے اپنے معیار کے مطابق انسان کی تلاش ہوتی ہے تو وہی بات غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کو کسی کے ساتھ بھی باندھ کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ ایسے معاملات میں لڑکیوں سے نہیں پوچھا جاتا
کل تک میری بھی یہی سوچ تھی کہ میں جس سے چاہوں گا تمہاری شادی کر دوں گا لیکن اب نہیں میں جانتا ہوں میری بچی اپنا شعور رکھتی ہے اسے اپنے بارے میں سب کچھ پتہ ہے اس کو حق ہے اپنی پسند کا جیون ساتھی چننے کی
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی اپنی کسی بچی سے بنا پوچھے اس کا نکاح نہیں کیا تھا بلکہ جب ان کی سب سے پیاری بیٹی فاطمہ زہرہ کا رشتہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف سے آیا ۔
تو ان کا سوال بھی یہی تھا کہ اگر میری بیٹی کی اجازت ہو تو میں اس رشتے کے لیے ہاں کر دوں۔
اگر ہمارے نبی نے بیٹیوں کے لئے یہ حق رکھا ہے کہ وہ خود اپنی پسند کا جیون ساتھی چھین سکتی ہیں تو ہم تو ان کی پیروں کے خاک برابر بھی نہیں ہیں ۔
تم جسے چاہو گی تمہاری شادی اسی کے ساتھ کروں گا تمہارے لئے ایک بہت بہترین رشتہ آیا تھا لیکن جب مجھے عذرا نے اس لڑکے کے بارے میں بتایا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میری بیٹی کی شادی وہی ہوں گی جہاں وہ چاہے اسی لیے میں نے ان کو انکار کر دیا بابا اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
نہیں بابا اگر آپ کو وہ رشتہ میرے لئے مناسب لگتا ہے تو آپ بے شک کر دیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں نے سایوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا ہے ۔آپ کو جو ٹھیک لگے مجھے منظور ہے وہ ان سے کہتے ہوئے آہستہ سے ان کے قریب سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی
تائی امی کچن میں ان کی باتیں سن رہی تھی اس کے جاتے ہی باہر آ گئی دیکھا انور صاحب اب تو آپ کو سکون مل گیا نہ مل گئی آپ کو آپ کی بیٹی کی اجازت آپ ے دوسرے رشتے کی بات کیوں نہیں کی اتنا اچھا رشتہ ہے وہ بھی اسے یوں ہاتھ سے نہ جانے دیں ہماری بچی راج کرے گی راج میری مانیں تو اب یہ رشتہ طے کر دںں
ویسے بھی نہ جانے کون تھا جس کے عشق میں یہ وہاں سے پاکستان آگئی بہتر ہے کہ ہم جتنی جلدی ہو سکے اس کے ہاتھ پیلے کر دے میرا مطلب ہے بچی کی زندگی سنور جائے گی اور وہ اس شخص کو بھی بھول جائے گی جس کے لیے وہ پاکستان آئی تھی ان کی نظروں نے اچانک ہی ان کے لہجے میں عکانشہ کے لئے محبت بھر دی تھی بابا کچھ نہیں بولے صرف ہاں میں سر ہلاتے اٹھ کر باہر چلے گئے
°°°°°°
کیا بات ہے حنان تم اتنے پریشان کیوں ہو سب کچھ ٹھیک تو ہے ما ما اس کے پاس بیٹھی کب سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اس نے مسکرا کر نہ میں سر ہلایا وہ باہر آ گیا۔
وہ کافی پریشان لگ رہا تھا کچھ دنوں سے
اور اس کی یہ پریشانی سب نے ہی نوٹ کی تھی اس کے بعد وہ واپس امی جان سے ملنے کے لیے نہیں گیا تھا دو تین بار فون پر ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بات نہیں کی مطلب وہ اس سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے تھی
اسے بھی اپنی اس دن والی غلطی کا بہت افسوس تھا جو بھی ہوا غلط ہوا اسے عکانشہ سے اتنی بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی کہ اس نے عکانشہ کے لئے بہت غلط الفاظ کا انتخاب کیا تھا وہ اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا ۔
جس طرح سے حنان نے اس کی محبت کی توہین کی تھی اپنے الفاظ پر وہ بعد میں جی بھر کر شرمندہ ہوا تھا کہ اتنے غلط الفاظ استعمال کئے تھے اس نے اس لڑکی ذات کے لیے
۔وہ اتنی گری ہوئے گھٹیا باتیں کیسے کرگیا اسے ایک بار خیال نہ آیا کہ جب وہ عشق محبت میں اتارا ہوا تھا تو وہ بھی صحیح غلط کی پہچان کھو بیٹھا تھا لیکن وہ تو مرد تھا
کیوں ہمارے معاشرے میں لڑکی کی محبت کو اتنا حقیر سمجھا جاتا ہے
کیوں ہمارے معاشرے میں لڑکی کو کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں
کیوں ہماری نظروں میں لڑکی کی محبت کی کوئی قدر نہیں
اگر لڑکی خود اٹھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو ضروربد اخلاق اور آزاد سوچ والی ہے
حنان کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا ۔
اسم نے نیلم سے فون پر بات کرکے اس سے عکانشہ کا ایڈریس مانگا تھا لیکن نیلم نے بھی کہہ دیا کہ اسے مزید ہرٹ نہ کریں آپ کی محبت میں وہ پاکستان تک آئی لیکن جو آپ نے کیا وہ بہت غلط ہے مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی حنان بھائی نیلم کے الفاظ سے اسے مزید خود پر غصہ آیا تھا نیلم نے کبھی اس سے اس طرح سے بات نہیں کی تھی اس نے ہمیشہ ان کے لہجے میں اپنے لئے احترام محسوس کیا تھا لیکن اس وقت وہ نیلم کے لہجے میں اپنے لیے مایوسی محسوس کر رہا تھا
°°°°°°°°
تائی امی اتنی جلدی شادی تائی نےجیسے ہی اسے اندر آکر بتایا تھا کہ اس کے بابا اس کا رشتہ کر رہے ہیں اس نے پریشانی سے پوچھا تھا
ہاں تو پچھلے ہفتے تم نے خود ہی تو اپنے باپ سے کہا تھا کہ جہاں وہ بہتر سمجھے تمہارا رشتہ کر سکتا ہے کہ وہ سارا صرف ڈرامہ تھا وقتی باتیں تھی جو تو نے اپنے باپ سے کہیں وہ اس مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی
نہیں تائی امی میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا بس مجھے اتنی جلدی اس سب چیزوں کی امید نہیں تھی وہ نظر چرآ گئی
ہاں لڑکی ہم لوگ تو تمہاری امید پر بیٹھے ہیں باپ کو تو نہ جانے کون سا نشہ چڑھا ہے جو تمہارے خلاف ایک لفظ نہیں سنتا جبکہ اس طرح سے دس پندرا دن گھر سے غائب لڑکی کو پلکوں پر بٹھا کے جا رہا ہے پورے خاندان میں ہماری تھو تھو ہو رہی ہے
لیکن مجھ سے یہ جھوٹی محبت کے ڈرامے نہیں ہوتے میری نظروں میں اس لڑکی کی کوئی اوقات نہیں ہے جو اتنے دن گھر سے غائب رہے شکر کر تیرے لئے اتنا اچھا رشتہ آیا ہے ورنہ تجھ جیسے لڑکی کو اب پوچھتا ہی کون ہے اس کے ساتھ کیا کیا کر کے آئی ہے تو اور اب معصوم بن کے باپ کو اجازت دے رہی ہیں کہ میری شادی کرا دو تائی غصے سے کہتی منہ بنا رہی تھی ۔
تائی امی مجھے نہیں پتا آپ کیا باتیں کر رہی ہیں لیکن آپ کی ان فضول باتوں کوئی کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے میرے بابا کو مجھ پر یقین ہے اور کسی اور کے اعتبار کی مجھے ضرورت نہیں اگر بابا نے میرا رشتہ کر دیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگاا
آپ کی نظروں میں میری پہلے کون سا کوئی اوقات تھی جواب ہو گئی لیکن مری میں بھی نہیں جا رہی ہیں آپ کے لیے وہ آئینہ دکھاتے اٹھ کر واش روم میں بند ہو گئی تھی یعنی کے صاف الفاظ میں وہ یہ کہہ رہی تھی کہ نکل جاؤ میرے کمرے سے
ہاں ہاں یہی سکھا کے گئی ہے تیری ماں تجھے بروں سے بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں سکھایا منہوس کہیں کی مجھے کہتی ہے کوئی اوقات نہیں یری تجھے اس گھر سے دفع کر کے ساری زندگی منہ نہیں لگاؤں گی
ہاں میں تو مری جا رہی ہوں آپ کے منہ لگنے کے لیے واش روم کے اندر سے آواز آئی تھی
جس نے تائی امی کو مزید غصہ چڑھادیا لیکن اس وقت اپنی مزید بےعزتی کروانے سے وہ کمرے سے باہر نکلنا بہتر سمجھتی تھی
°°°°°°°°
اتنی جلدی شادی کیسے کروا سکتے ہیں ہم لوگ بابا پریشان تھے
ارے جلدی والی کونسی بات ہے 22 سال کی تو وہ بھی ہو گئی ہے ابھی اتنا اچھا رشتہ آیا ہے تو ہم کیا نخرے کرتے رہیں گے ابھی تو کسی کو پتہ بھی نہیں کہ یہ دس پندرہ دن گھر سے غائب رہی ہے تائی کی سوئی وہیں پر لٹکی ہوئی تھی
بھابھی آپ میری بات کو نہیں سمجھ رہی وہ لوگ جلدی شادی کرنا چاہتے ہیں اور میں اتنی جلدی شادی کے حق میں نہیں ہوں بابا نے سمجھانا چاہا
شادی بیاہ کے معاملات جلدی ہی ہی طے کئے جاتے ہیں انور صاحب میں تو کہتی ہوں کہ کل کے بجائے آج کرو نکاح ۔بچی جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائے اتنا ہی جلدی اچھا ہے
اور وہ کونسا آج ہی بارات لے کر آرہے ہیں ابھی تو صرف اور صرف نکاح کی بات ہو رہی ہے
نکاح کے بعد بچی کے دن ڈالیں گے مہندی کروائیں گے مایوں ہوگی پھر جا کر کہیں شادی اور رخصتی کی باری آئے گی ۔
اتنا اچھا رشتہ ہے اس طرح سے نکھرے کر کے تم نہ شکریہ کر رہے ہو اگر یہ رشتہ ہاتھ سے چلا گیا تو کبھی واپس نہیں آئے گا تائی نے سمجھاتے ہوئے کہا
میں ایک دفعہ لڑکے کو ٹھیک سے جاننا چاہتا ہوں لڑکا پہلے ہی شادی شدہ ہے میں اپنی بیٹی کو کسی جہنم میں نہیں پھینکنا چاہتا بابا انتہائی پریشان تھے
دیکھو انور میاں پوری بلادری میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ تمھاری بیٹی دس پندرہ دن گھر سے غائب رہی ہے نہ جانے لوگ کیسی کیسی باتیں کر رہے ہیں ایسے میں اتنا اچھا رشتہ آیا ہے اور لڑکا شادی شدہ تھا اب نہیں ہے ۔اور گھر اور خاندان دیکھو ۔اتنے بڑے خاندان سے رشتہ آیا ہے اور تم یہ سب کچھ سوچنے میں بیٹھ گئے ہو
اگر اس رشتے سے انکار کیا نہ تو یاد رکھنا تمھاری بیٹی کے لیے اور کوئی رشتہ نہیں آئے گا ۔
بھابی آپ بار بار ان دنوں کا ذکر کرتی ہیں مجھے میری بیٹی پر پورا یقین ہے اس نے ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا اس سے اس طرح سے کسی کے ساتھ بھی بیا کردوں بابا نے اس پار غصے سے کہا تھا
انور میاں تمہیں یقین ہے اپنی بیٹی پر دنیا والوں کو نہیں خاندان والوں کے سامنے جس طرح سے چہک چہک کر یہ اچھلتی کو دیی ہے کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا خاندان میں تو کسی کے ساتھ مزاج نہیں ملتے اس لڑکی کے ۔ساری زندگی ایسے بیٹھی رہے گی اگر یہ رشتہ نہ ہوا ہے تمہیں تو شکر منانا چاہیے کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی اتنا بہترین رشتہ آیا ہے
اور تمہیں یہاں پریشانیاں کھائے جا رہی ہیں بیمار عورت ہے نہ جانے کتنے دن جئے گی مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتی ہے اکلوتا لڑکا ہے گھر بار ساری جائیداد اس کے نام ہے ۔اتنا بڑا عزت دار خاندان ہے اور تم یوں ناشکری کر رہے ہو اگر عکانشہ کی طرح میری بیٹی کا یہاں رشتہ ہوتا تو میں دے دیتی تائی نے اپنی تمنا ان کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہا
بابا آپ اس رشتے کے لیے ہاں کردیں کمرے کے اندر کب سے وہ ان لوگوں کی آوازیں سن رہی تھی تائی تو جان بوجھ کر اتنی اونچی اونچی آواز میں بات کر رہی تھی کہ کمرے تک اس کی آواز جائے
بابا مجھے یہ رشتہ قبول ہے تائی ٹھیک ہی کہتی ہیں مجھے اس طرح سے پیرس سے پاکستان آ کر غائب نہیں ہونا چاہیے تھا اس کی وجہ سے پورے خاندان میں آپ کی بےعزتی ہو رہی ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہے بابا لیکن اس غلطی کی سزا میں آپ کو نہیں بھکتنے دوں گی ۔
وہ لوگ نکاح کے لیے آنا چاہتے ہیں انہیں بلا لیجئے ویسے بھی میں جلد سے جلد کسی رشتے میں بند کرنا نا محرم کے بارے میں سوچنا چھوڑنا چاہتی ہوں پلیز مجھے میرے مقصد میں کامیاب کرنے کے لئے میری مدد کریں۔
کچھ ہی دن میں اس کا روشن ہر وقت چہکتا چہرہ مرجھا گیا تھا ۔بابا تو اپنی اس معصوم بچی کو دیکھ کر پریشان ہو کر رہ گئے تھے ۔
سن لیا انور میاں اب بیٹی کی اجازت مل گئی اب دیر نہ کرو ایسے رشتے قسمت سے آتے ہیں تائی نے بولنا ضروری سمجھا ۔
°°°°°°°
ایک ہفتے میں اس کا نکاح تھا نیلم سندس عذرا تینوں ہی پاکستان آ چکی تھیں۔
مریم کو اس نے خود فون کرکے اپنے نکاح کے بارے میں بتایا تھا اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا حالاکہ نیلم نے اعتراض کیا تھا اسے یہ سب کچھ بالکل اچھا نہیں لگتا تھا حنان کو بلانے کا یہ کون سا طریقہ تھا کہ وہ خود کسی اور کے ساتھ رشتے میں بندھ جائے
لیکن عکانشہ نے اسے یہ کہہ کر مطمئن کیا تھا کہ وہ ساری زندگی اس کی یادوں میں بندھ کر نہیں رہنا چاہتی ہوں وہ کوئی کمزور لڑکی نہیں ہے جو محبت میں ناکامی کے بعد اپنی زندگی برباد کردے یا ایک کونے میں بیٹھ کر ساری زندگی روتی رہے وہ روئی گی نہیں بلکہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی حنان کو بلا کر
مریم اور آنٹی دونوں نے ہی اس سے شادی پر آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان دونوں کی ناراضگی حنان سے اب بھی برقرار تھی
عکانشہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ حنان کو خود پر حاوی نہیں ہونے دے گی وہ اسے بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات کرے گی وہ جانتی تھی حنان کو بھلانا اس کے لیے آسان نہیں تھا لیکن وہ اپنے بابا کو بھی اب مزید اور کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔
.........
*******
مہندی کی رسم ادا ہو رہی تھی بلو ساڑھی میں ایک معزز خاتون نے دلہا کی طرف سے رسم ادا کی تھی دلہا کی طرف سے زیادہ لوگ مہندی کی رسم میں شامل نہیں ہوئے تھے
لیکن پھر بھی دلہے کے دوستوں نے خوب رونق لگائی ہوئی تھی ۔
دلہا خود نہیں آیا تھا ۔ اسے دیکھنے کی خواہش بھی نہ تھا ۔ لیکن دل ہے کہ جو دوست یہاں آئے تھے انہوں نے کافی ہلا گلا مچا رکھا تھا ان کی خواہش تھی کہ وہ دلہن سے بھی ملیں گے لیکن وہ پہلے ہی اپنے کمرے میں آگئی اس کا دل کسی سے بھی ملنے کو نہیں کر رہا تھا
وہ سب لوگوں سے اپنی حالت چھپانا چاہتی تھی کسی کو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی کہ اس کے اندر کی دنیا میں کیا اور طوفان مچا ہوا ہے وہ خاموش تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس کی آنکھوں میں جو تحریریں تھیں وہ نیلم سے چھپی ہوئی نہیں تھی
اسے بھی اپنے کمرے میں آئے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا جب نیلم اس کے پیچھے ہی اندر آ گئی وہ عورت اس سے بھی کافی اچھے طریقے سے ملی تھی اور سندس سے بھی لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اب عکانشہ کے ساتھ اب وہ صرف اور صرف حنان کو دیکھنے لگی تھی وہ تو دن رات نمازؤں میں دعا مانگی تھی کہ عکانشہ اور اس کا بھائی ایک ہو جائیں ۔
لیکن افسوس شائد حنان اور عکانشہ کا ساتھ لکھا ہی نہیں تھا تب ہی تو اس کی کوئی دعا رنگ نہ لائی وہ ایک نہیں ہو سکے صبح کا نکاح تھا کسی اور شخص کے ساتھ
یقینا وہ بہت خوش قسمت تھا جس کے ساتھ اس کی پیاری سی کزن کی شادی ہونے جا رہی تھی لیکن کاش وہ حنان ہوتا اس کے دل میں آیک دبی دبی سی آرزو تھی جو پوری نہ ہوئی تھی
عکانشہ اب بھی دیر نہیں ہوئی خود پر جبر مت کرو یہ زبردستی کے رشتے جوڑ کر تم خود کو اذیت میں ڈال رہی ہو میری مانو اس رشتے سے انکار کر دو اور میرے ساتھ پیرس واپس چلو اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرو فی الحال شادی جیسے جھنجٹ میں مت پڑھو وقت ہے ابھی بھی سنبھل جاؤ میں خود انکل سے بات کرتی ہوں وہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہتے ہوئے اچھے دوست ہونے کا فرض ادا کر رہی تھی
نہیں نیلم نہیں اب میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی میری وجہ سے پہلے ہی بابا کی بہت بدنامی ہوئی ہے اب اور نہیں یں اس شادی کے لئے خود اپنے دل کی رضا مندی سے تیار ہوئی ہوں میں اب اس رشتے سے انکار نہیں کروں گی
میں نے پہلی بار اپنے بابا کی نظروں میں اپنے لیے فخر دیکھا ہے میں ان کو شرمندہ نہیں کروں گی۔وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہی تھی نیلم اسے دیکھ کر رہ گئی ۔اس کی جھلی سی دوست جسے مستی مذاق علاوہ کچھ نہیں سوجتا تھا آج اتنی گہری باتیں کر رہی تھی وہ صرف اپنے بابا کے لیے اس رشتے کے لیے حامی بھر رہی تھی
°°°°°°
اس کے دل میں عجیب ویرانی کا سماں تھا ایسا لگتا تھا جیسے سب کچھ بنجر ہو گیا وہ مہندی کی دلہن بن انتہائی خوبصورت لگ رہی تھی لیکن وہ اپنے حسن سے بے خبر اندر آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی دل چاہا دہاڑیں مار مار کے روئے
لیکن وہ نہیں سکتی تھی وہ کیوں روتی ہو کہ اپنی مرضی سے یہ رشتہ کروایا تھا اپنے بابا کی بات مانی تھی زندگی میں پہلی بار اپنی ذات سے انہیں کوئی خوشی دی تھی
نیلم نے کہا تھا اس نکاح سے انکار کر دو اب بھی وقت ہے لیکن وہ کیوں انکار کردے زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے بابا کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے خوشی محسوس کی تھی فخر محسوس کیا تھا
ہاں وہ بہک گئی تھی کچھ لمحوں کے لیے وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہو گئی لیکن وہ شخص اسے اس کی اوقات بتآگیا اس کی نظروں میں اس کا مقام اتنا حقیر تھا کہ وہ خود سے نظر ملنے کے قابل نہ رہی کتنی آسانی سے وہ اس کی محبت کو دو کوڑی کا کر گیا کتنی آسانی سے وہ اس کی معصوم جذبات کی توہین کر گیا وہ اسے اسی کی نظروں میں بے مول کر دیا
وہ اپنی ذات سے بے انتہا محبت کرنے والی لڑکی آج بری طرح سے ٹوٹ گئی تھی وہ اپنے آپ کو دنیا میں سب سے اہم جانتی تھی اور آج اپنی ہی نظروں میں بری طرح سے گرگی
کاش اسے وقت پر عقل آجاتی تو اپنی جذبے اس شخص کے سامنے یوں بیان کر کے اپنی بےعزتی نہیں کرواتی
کوئی اہمیت نہ تھی اس کے پیار کی اس کی نظروں میں وہ خود کو رسوا کر گئی تھی لیکن اب ان آنسووں کا کیا فائدہ ۔۔۔۔۔!
کون سا یہ آنسو بہانے سے وہ اسے حاصل کرپائے گی کون سا وہ اس کا ہو جائے گا وہ نہیں روئے گی اس بے قدر شخص کے لئے وہ اپنے آنسو ضائع نہیں کرے گی
اس نے ٹھان لی تھی اس نے اٹھ کر اپنی آنکھیں صاف کیں تو کمرے پر دروازے پر بابا کو کھڑا دیکھا اس نے اپنے اندر کا درد چھپاتے ہوئے مسکرا کر میں انہیں اندر بلایا
°°°°°°
بیٹا جس سے تمہارا کل نکاح ہوئے ایک بار تم سے ملنا چاہتا ہے بہت اچھا بچہ ہے مجھے تو بہت اچھا لگا داماد کے روپ میں بیٹے جیسا مجھے یقین ہے کہ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہو گی تم ایک بار مل لو اچھا ہے نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو کچھ جان جاو گے بابا نے آکر کہا
نہیں بابا میں کسی سے نہیں ملنا چاہتی آپ نے رشتہ کر دیا ہے شادی ہو رہی ہے تو اب کیا ملنا بس ٹھیک ہے۔کل شادی ہے ملنے کا ٹائم نہیں ہے اور ویسے بھی اس وقت تو میرے سر میں بھی بہت درد ہے اس وقت تو میں ویسے بھی کسی سے نہیں ملنا چاہتی اور اب میں اس سے ملاقات نکاح کے بعد ہی ملوں گی وہ پرسکون سے انداز میں بولی
بیٹا صرف ایک بار اس سے مل لو وہ صرف نکاح سے پہلے ایک پر ملاقات کرنا چاہتا ہے اور مجھے اس میں کچھ غلط نہیں لگتا بابانے سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں بابا بات صحیح ہے یا غلط کی نہیں ہے اب تو شادی ہو رہی ہے سب کچھ طے ہوچکا ہے تو یہ ملنا ملانا نہ صرف ایک فارملٹی ہے اور میں اس طرح کی کسی بھی تکلفات میں نہیں پڑنا چاہتی۔
وہ اس سے ملنے سے صاف انکاری تھی وہ لڑکا تھوڑی ہی دیر میں ان کے پاس اس سے ملنے کے لیے آ رہا تھا انکی دو بار اس لڑکے سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اسے بہت اچھا جانا تھا
اسی لیے انہیں شادی سے پہلے ملنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا وہ لڑکا بس ایک بار عکانشہ سے مل کر اس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ انکار کررہی تھی
تھوڑی ہی دیر میں ان کا موبائل بجا اسی لڑکے کا فون تھا اور وہ باہر آنے کو بول رہا تھا انہوں نے ایک بار عکانشہ کو دیکھا اور اسے ایک بار پھر سے چلنے کے لیے کہا لیکن اس کا جواب انکار تھا بابا خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے گئے
°°°°°°°
بار بار آنسوؤں سے آنکھیں بھیگ جاتی بابا سمجھا سمجھا کر تھک کر چلے گئے لیکن وہ کیا کرتی اس وقت اس کے دماغ میں صرف حنان کا دکھ بیسرہ کیے ہوئے تھا۔
آنسو تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے شاید یہ آنسو حنان کی یاد میں بہنے والے آخری آنسو تھے
وہ رونا چاہتی تھی بے تحاشا رونا چاہتی تھی اتنا کے اس کے بعد ہنی کے نام کے سارے آنسو ایک ہی بار میں بہہ جائیں وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتی تھی کل صبح اس کا نکاح تھا وہ ہمیشہ کے لئے کسی اور کے ہونے جا رہی تھی اور اس سے پہلے وہ آخری بار حنان کی یاد میں پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی تاکہ وہ آئندہ اسے کبھی یاد نہ آئے
یکطرفہ محبت کتنا عذاب دیتی ہیں نہ اس کے لیے یہ محبت بھی عذاب بن گئی تھی اس نے بنا سوچے سمجھے بنا کسی غرض کے اس شخص کو چاہا تھا جسے کوئی عزیز نہیں تھا اس کی زندگی میں اس کی اہم ترین ہستی اس کی بیوی تھی جو اسے چھوڑ کر چلی گئی ااور اس کے بعد حنان خود ہی ٹوٹ کر بکھر گیا اس کے لئے کوئی بھی اہم نہیں تھا یہاں تک کہ حنان کی اپنی ذات بھی اس کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی
وہ بلا کیوں اسے اپنے ساتھ کی بھیک مانگتی وہ کیسے اسے اپنی زندگی میں شامل کرتی جس کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تھا
وہ کیسے اس کو اس کی ذات کے خول سے نکال کر باہر لاتی وہ کیسے اس سے اس کی عاشی کی یادوں کو ختم کرکے آگے بڑھنے کا کہتی وہ اسے ایک نئی زندگی کی ہر کوشش کر کے ہار گئی تھی کیونکہ وہ اس کے نام نہیں تھا
کیوں اللہ اگر وہ میرا نہیں ہو سکتا تھا تو اس نے میرے دل میں کیوں بتایا
اللہ جسے ہم چاہتے ہیں وہ تو ہمارا ہوتا ہے نہ آپ تو ہمارے دل میں اسی کی محبت پیدا کرتے ہیں جسے آپ نے ہمارے لیے بنایا ہوتا ہے تو پھر اگر حنان میری ذات کا حصہ نہیں تھا تو اسے کیوں میرے دل میں بسایا کیوں مجھے اس سے محبت ہوئی
یا اللہ میرے دماغ سے دل سے اس کا نقشا مٹا دیں ختم کردیں اسے میری زندگی سے نکال دیں اسے میری روح سے مجھے نہیں لینا اس کا ساتھ مجھے اپنی زندگی کی ایک نئی شروعات کرنی ہے وہ سجدے میں جھکی مسلسل رو رہی تھی
ایک نامحرم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر اس نے اپنے محرم کے لیے رکھے سچے پاکیزہ جذبات کی توہین کی تھی وہ اس شخص کی بھی گناہ گار تھی جو کل اس کا محرم ہونے جا رہا تھا
°°°°°°
بہت خاموشی سے نکاح کی رسم ادا ہوئی اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ بیٹھی اپنے جمع حقوق کسی کے نام کر رہی تھی بابا نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا یہ اس کی زندگی کا سب سے مشکل ترین لمحہ تھا
آج اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اب وہ کبھی حنان کے لیے نہیں روئے گی کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچے گی اگر سوچیں کی تو صرف اور صرف اس شخص کے بارے میں جس سے اس کا نکاح ہوا ہے وہ بے دھیانی میں نکاح اس میں اپنے شوہر کا نام تک نہ سنا آئی تھی
ٹینشن سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا وہ اپنے آپ کو حنان کے بارے میں جتنا سوچنے سے روک رہی تھی اتنا ہی وہ اس پر حاوی ہوئے جارہا تھا وہ ہر ممکن طریقے سے اپنے آپ کو اس کی یادوں سے دور کرے گی اس نے خود سے فیصلہ کیا تھا ۔
تھوڑی دیر میں اس کی رخصتی ہو جانی تھی پھر ایک نیا سفر شروع ہونا تھا وہ سب کچھ بھلا کر اس نئے سفر میں اپنے شریک سفر کے ساتھ جانا چاہتی تھی وہ حنان کو بھلانا چاہتی تھی اور وہ بھلا دے گی اسے یقین تھا
اسے اپنے رب پر یقین تھا اس نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نا محرم کے بارے میں نہیں سوچے گی حنان اس کا نامحرم تھا اس پر صرف اور صرف اس کے شوہر کا حق تھا اس کی یادوں پر اس کے خوابوں پر اور اس کی محبت پر صرف اور صرف اس شخص کا حق تھا جس کے نام وہ اپنے تمام حقوق کر چکی تھی
°°°°°°
خالہ نیلم سندس مریم اور آنٹی سب باری باری اسے دعائیں دیتے ہوئے اس سے مل رہے تھے یہ اس کے آخری لمحات تھے اس گھر میں اس کی رخصتی ہو رہی تھی وہ معتبر سی خاتون اسے اپنے ساتھ لیے گاڑی میں بٹھا رہی تھی آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
اس کے بابا اپنی بہٹی کو رخصت کرتے ہوئے رو رہے تھے ۔ گھر کے سب لوگ ہی اداس تھے ۔ تائی امی تو شائد شکر ادا کر رہی تھی اس کے جانے پر وہ دور ایک سائیڈ پر کھڑی تھی دنیاوئی دکھاوے کے لیے بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہ نکالا تھا ۔
لیکن وہ یہاں سے جانے سے پہلے انہیں بھی اپنے دل سے معاف کر رہی تھی آج تک جو بد سلوکی انہوں نے اس کے ساتھ کی وہ ہر بات کے لئے انہیں دل سے معاف کر چکی تھی وہ نئے سفر میں پرانی یادوں کی بدمغاضی لے کر نہیں جانا چاہتی تھی۔
اس کے ساتھ اس کی بائیں جانب اس کے بالکل قریب وہ شخص بیٹھا تھا جو اس کے تمام جمع حقوق کا اکلوتا حقدار تھا ۔گھونگھٹ لمبا ہونے کی وجہ سے وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی اور اندر کوئی خواہش بھی نہیں تھی اسے دیکھنے کی
وہ خاموشی سے بیٹھی اس سفر کے تمام ہونے کا انتظار کر رہی تھی سفر ختم ہوا تو رسموں کا لمبا سلسلہ شروع ہو گیا وہ بہت چاہنے کے باوجود بھی اپنے چہرے سے بیزاری کے تاثرات کو ختم نہیں کر پائی تھی وہ جتنی خوشی سے یہ ساری رسم ادا کرنا چاہتی تھی اتنا ہی بیزار اس کا موڈ ہو چکا تھا جس کا اندازہ اس کی ساس نے بھی لگا لیا تھا ۔ لیکن تھکاوٹ سمجھی
یہی وجہ تھی کہ تھوڑی ہی عورتوں کے رسموں کے بعد انھوں نے اسے کمرے میں لے جانے کے لیے ایک لڑکی کو اس کے ساتھ بھیجا اسے بیڈ کے بیچوں بیچ گھونگھٹ میں بٹھا دیا گیا اس نے گھونگھٹ ہٹا کر کمرہ دیکھنے کی بھی غلطی نہیں کی تھی
ہر لڑکی کی طرح اس رشتے کے بارے میں اس نے بھی بہت سوچا تھا ۔ شادی چاہے پسند کی ہو یا ناپسندیدگی کی لیکن جذبات یکسر ہی رہتے ہیں ۔ اس کا دل بھی بہت بے چینی سے دھڑک رہا تھا نہ جانے کیا ہونے والا تھا کیا وہ اس شخص کو اپنی محبتوں کا حقدار بنا پائے گی جس کی وہ ملکیت تھی ۔
کیا وہ اس شخص کو وہ خوشیاں دے پائے گی جس کا وہ حقدار تھا ۔
کیا وہ حنان کو بھلا دے گی اس کے دل میں کتنے ہی سوال تھے جب آہستہ سے دروازے پر دستک ہوئی اس کا دل ایک نئی ترنگ میں دھڑکا تھا ۔
وہ خاموشی سے اپنی طرف بڑھنے والے قدموں کو دیکھ رہی تھی۔ اور اس کے ہر ہر قدم کے ساتھ عکانشہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھی ۔
اس کا سر جھکا ہوا تھا وہ چاہنے کے باوجود بھی سر اٹھا کر اسے نہیں دیکھ پائی وہ آہستہ سے اس کے قریب آ کر رکا
مانتا ہوں یہ شادی تمہاری مرضی سے نہیں ہوئی لیکن کی شرمانے کی اتنی اووور ایکٹنگ کیوں کر رہی ہو تم۔۔۔۔! اس کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ بے ساختہ نظر اٹھا کر بےیقینی سے اپنے مزاجی خدا کو دیکھنے لگی جو مسکراتے لب اور دلکش نظر سے اس کے حسین سراپے کو دیکھ رہا تھا
وہ حیرت بھری نظروں سے سامنے کھڑے اس آدمی کو دیکھ رہی تھی جو بڑی دلچسپی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے باغور اس کے حسین سراپے کا جائزہ لے رہا تھا ۔
تم۔۔۔! تم یہاں کیا کر رہے ہو وہ پریشانی سے اٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو چکی تھی بے اختیار نگاہیں دروازے کی طرف گئی جیسے چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے کا ڈر ہو
میں یہاں کیا کر رہا ہوں کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔؟ اور تم یوں چوروں کی طرح دروازے پر کیوں دیکھ رہی ہو ڈارلنگ تم کسی غیر کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے شوہر اپنے مزاجی خدا کے ساتھ ہووہ کافی بے تکلف انداز میں بولا
شوہر کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔ تم تمہارا میری شادی ۔۔۔۔میرا مطلب ہے تم میرے شوہر وہ پریشانی سے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
ڈارلنگ ریلیکس کیا ہو گیا ہے تمہیں میں تو تمہاری خواہش پوری کر رہا ہوں اور تم یوں کیوں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہو مجھے تو لگتا تھا کہ جب تمہیں پتہ چلے گا کہ میں تمہارا ہونے والا شوہر ہوں تو تم خوشی سے پاگل ہو جاؤ گی لیکن تم تو شادی سے پہلے مجھ سے ملنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی مجھے بالکل اچھا نہیں لگا ایک بار مل لیتی تو اچھا تھا تمہارا کوئی فائدہ ہی ہوجاتا جو میری یاد میں اتنے اشک بہائے ہیں ان کی بچت ہو جاتی وہ دلچسپی سے اس کا چہرہ اور اس کی آنکھیں دیکھتے ہوئے بولا
غلط فہمی ہے آپ جناب کی میں اور آپ کے لیے آنسو بہاؤں گی اتنے بے مول آنسو نہیں ہیں میرے میں تو تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہت تم جیسے انسان کے ساتھ محبت کر کے میں نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے جس کا احساس مجھے اب ہو چکا ہے میں کبھی مر کر بھی تمہارے پاس نہیں آتی
اگر مجھے اس شادی سے پہلے پتہ چل جاتا کہ میری شادی تمہارے ساتھ ہو رہی ہے تومیں نکاح سے انکار کر دیتی وہ انتہائی غصے سے اسے کہہ رہی تھی جب کہ وہ تو اس کے غصے پر بھی مسکرائے جا رہا تھا اس کی مسکراہٹ پر عکانشہ کو شک ہوا کہ یہ حنان ہے بھی یا نہیں ۔
اچھا تو یہ بات ہے تو تم نے نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے انکار کیوں نہیں کیا تم سے جب تمہاری مرضی پوچھی گئی تب تم نے اس رشتے سے انکار کیوں نہیں کیا اور وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ۔
میں نے نکاح نامے پر تمہارا نام نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی میں مولوی صاحب کی آواز کو ٹھیک سے سن پائی تھی اس وقت میرے سر میں بہت درد ہو رہا تھا اب اس خوش فہمی میں مت بیٹھ جانا کہ تمہاری یاد میں آنسو بہا بہا کر میں نے اپنے سر میں درد کرلیا تھا
کچھ نہیں تھا بس میری طبیعت تھوڑی سی خراب تھی لیکن اب میری طبیعت بالکل ٹھیک ہو چکی ہے اور میں تمہارے ساتھ اس کمرے میں ایک چھت کے نیچے ہرگز نہیں رہوں گی وہ انتہائی غصے سے کہتے دروازے کی طرف بھری تھی لیکن اس سے پہلے ہی حنان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا
بس بس میری جانسی کی رانی جانتا ہوں میں تم کتنی بہادر ہو اب مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بات سنو میری تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اس کی نازک کمر میں اپنا ہاتھ ڈال چکا تھا جب کہ وہ تو اس کے قریب آ کر بکھلا گئی تھی
دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے ابھی سینے کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکلے گا اور اس دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ حنان آسانی سے اپنا نام سن رہا تھا وہ جانتا تھا ہی دل صرف اسی کے لئے دھڑکتا ہے
چھو چھوڑو مجھے حنان مجھے نہیں کرنی تم سے کوئی بھی بات ہوئی وہ انتہائی غصے سے اپنا آپ اس سے چھڑانے لگی دل کی دھڑکن اب بھی بہت تیز تھی لیکن اس شخص کے ساتھ وہ ایک سیکنڈ نہیں رہنا چاہتی تھی جو اس کے جذبات کی توہین کر چکا تھا وہ کیوں رہتی اس شخص کے ساتھ جو اس کی محبت کو اپنے قدموں تلے روند چکا تھا
میں اپنی غلطی کو قبول کرتا ہوں عکانشہ میں نے تمہارے ساتھ بہت برا رویہ رکھا کبھی تم سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی لیکن اس سب کے پیچھے ایک وجہ تھی اور اب تم اس وجہ سے بھی واقف ہو میں عاشی کو بھلا کر آگے نہیں کر پا رہا تھا
عاشی کو بھلا کر آگے بھرنا میرے لیے ایک بے حد مشکل کام ہے عاشی میری پہلی محبت ہے اور پہلی محبت کو بھولنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا تم جس طرح سے میری زندگی میں آئی مجھے لگا تم عاشی کی جگہ لینے کی کوشش کر رہی ہو میں سمجھ ہی نہیں سکتا تم تو میری تنہائیاں بانٹنے آئی ہو
میں سمجھ ہی نہیں سکا تم میرا درد بانٹنے آئی ہو مجھے محبت دینے آئی ہوں مجھے دوبارہ زندگی کی طرف لانے آئی ہو میں تو بس یہی سمجھتا رہا کہ تم میری عاشی کی جگہ لینے آئی ہو میں یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ تم عاشی کی جگہ لینے نہیں بلکہ اپنی جگہ بنانے آئی ہوں اور میں یہ بھی سمجھ نہیں پایا کہ عاشی کی جگہ تمہیں نہ دینے کی ٹھان کر کبھی میں تمہیں اپنے ہی دل جگہ دے بیٹھا
ہاں یہ سچ ہے عکانشہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے شاید مجھے اس محبت کا احساس کبھی نہیں ہوتا اگر اس دن امی اتنی بیمار نہ ہوتیں۔ امی کی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ ڈاکٹر نے کہا کہ مزید انہیں ٹینشن دینے سے ان کی جان جا سکتی ہے میں بہت پریشان ہو گیا تھا اس دن میری ماں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں دوسری شادی کر لوں اور دوسری شادی کا ذکر آتے ہی میرے دماغ میں جو پہلا نام آیا وہ تمہارا تھا عکانشہ۔
ہاں عکانشہ یہ سچ ہے شاید مجھے تمہاری محبت کا احساس بھی نہیں ہوتا لیکن دوسری شادی کا خیال آتے ہی میرے دماغ میں سوائے تمہارے اور کوئی نہیں آیا تھا میری امی نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میری نظر میں کوئی لڑکی نہیں ہے تو وہ میری شادی کسی سے بھی کردیں گی تو سوچا کہ خود کوئی لڑکی ڈھونڈ نے سے بہتر ہے اسے ڈھونڈوں جس نے مجھے ڈھونڈ لیا ہے ۔
میں ساری رات صرف تمہارے بارے میں سوچتا رہا یہ وہ پہلی رات تھی جب مجھے عاشی کا خیال نہیں آیا میں نے تمہاری محبت کی توہین کی تمہارے جذبات کو بری طرح سے روند ڈالا تاکہ تم میرا پیچھا چھوڑ کر اپنی زندگی کی ایک نئی شروعات کرو لیکن تمہاری آنکھوں کے آنسو اس دن دیکھ کر میں بہت تڑپا تھا میں عکانشہ میں کبھی بھی تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا لیکن پھر بھی ہمیشہ تمہاری تکلیف کی وجہ بنا ہوں
میں شادی سے پہلے تم سے ایک بار مل کر یہ سب کچھ کلیئر کرنا چاہتا تھا میں تم سے معافی مانگنا چاہتا تھا تاکہ ہماری نئی زندگی کی شروعات بہت خوبصورت ہو لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی عکانشہ میں نے جو تمہارے ساتھ کیا وہ بہت برا تھا میں نے تمہارے جذبات کی توہین کی تمہاری محبت کو غلط نام دیا پلیز مجھے معاف کر دو حنان اس کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا جب کہ عکانشہ پریشانی سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی
عکانشہ کا دل چاہا کہ آگے بھر کر اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو کھول دے اور اس کی باہوں میں سما کر اس کے دل کی دھڑکن کو سنیں ہمیشہ کے لئے اسے اپنا بنا لے کبھی اسے خود سے دور نہ جانے دے وہ اسے پانا چاہتی تھی صرف اور صرف اپنا بنانا چاہتی تھی لیکن نہیں اتنی آسانی سے ۔
وہ اپنی توہین کو بھلا نہیں سکتی تھی حنان نے اس کی جذبات کی توہین کی تھی اسے ہرٹ کیا تھا ٹھیک ہے وہ معافی مانگ چکا تھا لیکن پھر بھی وہ اتنی آسانی سے اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی وہ اس سے اپنی بدلہ لینا چاہتی تھی ۔
اگر آج معاف کر دیا تو شاید آگے بھی حنان کبھی بھی اسے ہرٹ کر سکتا تھا اور وہ حنان کو ایسا موقع دوبارہ نہیں دینا چاہتی تھی ۔
نہیں حنان میں تمہیں معاف نہیں کر سکتی تم ایک بار میری محبت کی توہین کر چکے ہو میرے جذباتوں کو بے مول کر چکے ہو اب میں بار بار تمہارے سامنے رسوا نہیں ہونا چاہتی میں اس رشتے کو آگے لے کر نہیں جانا چاہتی مجھے نہیں پتا تھا کہ یہاں تم ہو گے
اگر تمہاری جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو مجھے قبول ہوتا لیکن تم نہیں میں کبھی ایسے شخص کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں سوچتی سکتی جس کی نظروں میں میری محبت کی کوئی قدر نہیں جس کے سامنے میری نفس کوئی اہمیت نہیں رکھتی
تمہارا ناراض ہونا بجا چاہے عکانشہ تمہاری ناراضگی تمہارا غصہ سب سر آنکھوں پر ایک بار مجھے معاف کر دو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں زندگی میں دوبارہ کبھی تمہیں تکلیف نہیں کروں گا یہ حنان سکندر خان کا وعدہ ہے ۔
اور مجھے کبھی باتیں بھی نہیں سناؤ کہ اس کی خفا سی آواز آئی اس نے مسکرا کر ہاں میں سرہلایا
میری ہر بات مانو گے ۔ اس نے پھر سے کہا وہ اسے شک بھری نگاہوں سے دیکھتا پھر ہاں میں سر ہلا گیا
میرا جب بھی نیلم اور سندس سے ملنے کا دل کرے گا تم مجھے فور لے کر جاؤ گے ۔ اس کی اس فرمائش پر وہ بول اٹھا ہیں یار میں تمہیں ہر روز پیرس کے چکر نہیں لگا سکتا اتنا امیر نہیں ہوں میں
ٹھیک ہے تو پھر معافی کینسل وہ اس کے انکار پر فوراً اس کے قریب سے اٹھ کر کمبل سیدھا کرنے لگی
ٹھیک ہے میں تمہیں سال میں ایک بار پیرس لئے جایا کروں گا اس نے کچھ سوچتے ہوئے فیصلہ کیا
نہیں جب میرا دل کرے گا میں تب جاؤں گی وہ منہ بنا کر بولی
اچھا ٹھیک ہے دوبار اس سے زیادہ نہیں لے کے جا سکتا میں تمہیں ایک سال میں ٹھیک ہے میں اچھا کماتا ہوں اچھا کھاتا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر روز پیرس جانا افورڈ کر پاؤں
تین بار اس نے تین انگلیاں نہ دکھائے مطلب اس کی بات نہ ماننے کی تو اس نے قسم کھا رکھی تھی
مطلب کے اگر تین بار کے لیے ہاں کر تو تمہاری ناراضگی ختم ہوجائے گی وہ دیکھتے ہوئے بولا
سوچا جا سکتا ہے وہ قدرے بے نیازی سے بولی
اتنا سب کچھ ماننے کے باوجود بھی صرف سوچا جا سکتا ہے اگر اتنا سوچ سمجھ کر تم اگزیمز دیتی تو فرسٹ پوزیشن آتی ۔
کیا مطلب تم مجھے نالائق سمجھتے ہو تمہیں کیا لگتا ہے میں نے کبھی فرسٹ پوزیشن نہیں لی وہ خاص عورتوں والے انداز میں بولی تھی
عکانشہ یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے یہ تو ہماری زندگی کی شروعات کا ہے میرا خیال ہے ہمیں اپنا ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہیے وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا ۔
اس سے پہلے کے وہ اس کے لبوں پر اپنے لبوں کالمس چھوڑتا وہ پہلے ہی اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ چکی تھی ۔
ایسے کیسے پہلے میری تعریف کرو پچھلے آٹھ گھنٹے سے مسلسل لہنگا پہن کر میں نے اپنی جان کو عذاب میں ڈالا ہوا ہے ۔اور تم بنا میری تعریف کی ہے اگلے مراحل ادا کرنے کے پیچھے پڑے ہو پہلے میری خوبصورتی کی تعریف کرو ۔ میری تعریف میں زمین آسمان میں کرو ۔ مجھے کسی شاعر کی حسین غزل کہو ۔آسمان کا چمکتا چاند کا زمین کا سب سے خوبصورت پھول کہو۔ ٹھنڈے پانی کی جھیل کی لہر کہو ۔وہ اداِ نزاکت دکھاتی ہوئی سے خود سے دور کر کے بولی
یہ سچ ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو لیکن یہ پھول پتے سمندر پانی لہرے آسمان زمین چاند سورج سیارے عطارد مشتری یار یہ سب کچھ مجھے سے نہیں ہوتا تم کیا اس کے بغیر کام نہیں چلاسکتی انداز میں خاصی کوفیت تھی
کیا مطلب تم میری تعریف نہیں کرنے والے انتہائی غصے سے بولی
یار میں تعریف کر دوں گا لیکن جس انداز میں تم چاہتی ہو یہ شاعرانہ جملے مجھ سے نہیں ہوں گے
ٹھیک ہے نارمل ہی کر دو وہ احسان کرتے ہوئے بولی
شکریہ۔ ۔۔۔ اس کے انداز پر وہ کہیں بھی نہ رہ سکا
ہاتھ تو کیا کرنا تھا تمہاری تعریف رائٹ کرتا ہوں میں تمہاری تعریف ۔وہ دائیں بائیں سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے تعریف کے لئے الفاظ تلاش کرنے لگا
ریڈ کلر بہت سوٹ کر رہا ہے تم پر وہ کافی دیر کے بس اتنی سی ہی لائن بولا تھا
یہ تم نے سوٹ کی تعریف کی ہے میری نہیں وہ جتلانے والے انداز میں بولی
یار میں تعریف کر رہا ہوں تم خاموشی سے بیٹھ کر سنو نہ بیچ میں بول کیوں رہی ہو۔ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
دیکھو عکانشہ مجھ سے یہ سب کچھ نہیں ہوگا میں نے تم سے شادی تمہاری خوبصورتی کو دیکھ کر نہیں بلکہ تمہارے سچے جذبات کو دیکھ رہی ہے ۔ میرے لیے تمہارے جذبات اہمیت رکھتے ہیں جو تم نے صرف اور صرف میرے رکھے ہیں ۔تمہاری پاکیزہ محبت سے زیادہ میرے لئے اور کچھ بھی انمول نہیں ہے کال میں وعدہ کرتا ہوں تمہارے ان جذبوں کی قدر کروں گا تا قیامت۔جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے اس کی معافی ساری زندگی مانگتا رہوں گا تم میری محبت میں کبھی بھی کسی قسم کا جول نہیں دیکھو گی ۔اور یہ تعریف کرنا وغیرہ یہ سب کچھ تو مجھے خود بعد میں سکھا دینا۔وہ اپنی بات کہہ کر معصوم سی شکل بنا کر بولا تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی
چلو ٹھیک ہے کیا یاد کرو گے کیسے سخی بیوی سے پالا پڑا ہے ۔ خوبصورت سے مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولی ۔
تم کتنی سخی ہو وہ تو اب پتا چلے گا ۔ اس یار عکانشہ کےلبوں پہ ہاتھ رکھنے سے پہلے ہی جھک کر اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ کر چکا تھا ۔ ۔اس کے لبوں کا لمس محسوس کر کے عکانشہ کا دل الگ تڑنگ میں دھڑکا تھا ۔ وہ اسے پوری طرح خود میں گم کر رہا تھا ۔ وہ آہستہ آہستہ اپنا آپ بولتی جا رہی تھی محبت کی نئی شروعات ہو چکی تھی اس کا انداز اتنا خوبصورت تھا کہ وہ پوری طرح سے اس کے باہوں میں قید ہو کر رہ گئی ۔وہ اس کی محبت میں بہت آگے نکل چکی تھی ۔
خواب اس طرح بھی پورے ہوتے ہیں ابھی کچھ گھنٹے پہلے تک وہ اپنے آپ کو کسی اور کی بیوی سمجھ کر حنان کو بلانا چاہتی تھی اور اب حنان کی ہی باہوں میں خود کو پگھلتے ہوئے محسوس کر رہی تھی ۔
حنان جس نے سوچا تھا کہ کیا عاشی کے بغیر وہ جی نہیں سکتا عاشی کے بعد اس کی کوئی زندگی نہیں ہے بس ایک قدم محبت کے ساتھ اٹھایا تھا اور اپنا دل بڑا کر کے عکانشہ کو زندگی میں جگہ دی تھی عاشی کو بھلانا آسان نہیں تھا ہے لیکن عکانشہ کے ساتھ اس نئے سفر کی شروعات بہت حیسن ہے ۔
رات کی کالی سیاہی پھیلتے ہوئے ان کی زندگی میں خوبصورت روشنیوں کا سویرا ہو رہا تھا ۔ وہ پوری طرح سے اس کی محبت میں گلاب کے مانند مہک رہی تھی ۔ اور حنان کسی قیمتی متاع کی طرح اسے خود میں سمیٹے ہوئے تھا ۔
°°°°°°°°
سچ ہے لگن اور پانے کی شدت سچی ہوتو راستے خود بخود کھل جاتے ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔عکانشہ کی لگن سچی تھی وہ حنان کی محبت کو پانا چاہتی تھی ۔ اور اس نے پا لیا تھا ۔آج حنان پوری طرح سے صرف اور صرف اس کا تھا ۔ محبت میں شرطیں نہیں ہوتی اس کی محبت میں بھی یہ شرط نہیں تھی کہ وہ عاشی بھلا دے ۔ اس نے حنان کے ساتھ حنان کی پہلی محبت کو بھی قبول کیا تھا ۔
حنان اکثر اسے عاشی کے بارے میں بتایا تھا ۔ وہ عاشی سے اس کی سچی محبت کو وہ محسوس کرتی تھی لیکن اس کے انداز میں کوئی جلن یا حسد نہ تھا ۔ کیونکہ وہ ہر اس چیز سے محبت کرتی تھی جوحنان کی محبت تھی۔شاید یہی وجہ تھی کہ حنان اپنے دل کی ہر بات اس کے سامنے بےجھچک کہہ دیتا
حنان اکثر اس سے باتیں کرتے ہوئے عاشی کا ذکر چھڑ دیتا تھا لیکن کبھی بھی اس کے چہرے پر کوئی بیزاری یا یا نفرت کو محسوس نہیں کیا تھا وہ عاشی کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن کبھی کبھی اس کی باتیں اس کا اندازہ اسے عاشی کی یاد دلاتا تھا ۔
عکانشہ نے حنان کے ساتھ ساتھ عاشی کو بھی قبول کیا تھا لیکن اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کبھی بھی ان دونوں میں کسی تیسرے کو نہ لائے ۔
حنان نے شادی کے بعد عاشی کی ساری تصویریں گھر سے اتار دینے کو کہا تھا لیکن عکانشہ نہیں مانی اس نے یہی کہا تھا کہ وہ اپنی جگہ بنانے آئی ہے عاشی کی جگہ لینے نہیں عاشی کی کوئی بھی چیز اس کی جگہ سے نہیں ہٹائی جائے گی ۔ یہ گھر جتنا اس کا ہے اتنا اُس کا بھی ہے ۔بے شک وہ ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن اسے اس طرح سے ہٹایا بھی نہیں جائے گا ۔وہ بے قصور معصوم سی لڑکی ہمیشہ ہماری زندگی میں اہم رہے گی
°°°°°°°°
عاشی بیٹا آرام سے گر جاو گی ۔۔۔۔
وہ اس کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ چلتی دونوں طرف ہاتھ دائیں بائیں رکھے اسے آرام سے چلنے کے لئے کہہ رہی تھی ۔
جب کہ وہ جو ابھی ابھی چلنا شروع کر رہی تھی ایسی سپیڈ میں بھاگتی تھی کہ اکثر گر جاتی۔
عکانشہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی اسے گرنے سے بچانا چاہتی تھی لیکن گیٹ پر جیسے ہی دروازہ کھلا اور حنان کی انٹری ہوئی اس کی سپیڈ سے دیکھنے لائق تھی اور اس کی یہ سپیڈ دیکھتے ہوئے حنان نے بھی وہاں سے دوڑ لگا دی تھی ۔
کیونکہ اسے چلتے ہوئے ابھی صرف چند دن ہی ہوئے تھے اور فی الحال تو وہ زمین پر ٹھیک سے پاوں بھی نہیں رکھ پاتی تھی لیکن حنان کو دیکھتے ہی اس کا معصوم وجود پر جوش مارنے لگتا ۔
اور باپ کو دیکھتے ہی وہ سارا ڈر بھول کر اس کی طرف بھاگ آتی ۔ جیسے اسے یقین تھا اس کا باپ کبھی اس گرنے نہیں دے گا حنان دوسری طرف سے بھاگتےہوئے فور اس کے پاس پہنچ کر اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر سینے سے لگا چکا تھا ۔
اسے ابھی فقط دو ہی لفظوں سے آتے تھے بابا اور ماما جو کہتے ہوئے وہ اس کے منہ پر اپنے تھوک بھرے بوسے دی رہی تھی ۔
اور وہ بھی اس کی خوبصورت محبت کو وصول کرتا ہوا اس کے نرم پھولے پھولے گالوں کو لبوں سے چھورہا تھا ۔
عکانشہ نے گھور کر اپنی بیٹی کو دیکھا سارا دن وہ اس سے نخرے اٹھاتی رہتی تھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی رہتی تھی اس کی پسند کی ہر چیز ہو اسے دیتی لیکن شام کو باپ کے آتے ہی وہ اسے ایسے بھلاتی تھی جیسے اسے جانتی ہی نہ ہو ۔
عاشی اس کی گھوری کی پرواہ کیے بغیر وہ صوفے پر بیٹھی اپنے باپ کے سینے پر سر رکھے آنکھیں بند چکی تھی تھوڑی دیر میں نیند کی وادیوں میں گم ہو جانا تھا جبکہ عکانشہ اپنے دوپٹے سے حنان کا چہرہ صاف کررہی تھی جو اس کی بیٹی کی جارحانہ محبت سے تقریبا سارا ہی بھیگ چکا تھا ۔
ابھی وہ اپنے دوپٹے کی مدد سے اس کا چہرہ صاف کر ہی رہی تھی کہ اچانک حنان نے اسے خود پر گراتے ہوئے اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا تھا ۔
انتہائی نکمی بیوی ہو تو جب شوہر گھر آتا ہے تب سے پیار سے ویلکم کیا جاتا ہے جیسے میری بیٹی کرتی ہے کچھ سیکھو اس سے ۔ وہ شرارت سے بھرپور انداز میں اسے دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر عاشی کو اٹھا کر اندر لے گیا ۔
ہاں اس بیٹی سے سیکھو جو سارا دن میرے آگے پیچھے گھومتے رہتی ہے اور تمہارے آتے ہی بھول جاتی ہیں کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے ۔وہ پر بڑبڑاتے ہوئے کہ چکن میں آ کر اس کے لئے چائے بنانے لگی حنان کی بہت کوشش کے باوجود بھی عکانشہ تم سے آپ نہیں آئی تھی
ہاں تو میں سکھا دیتا ہوں اگر اس سے نہیں سیکھنا تو نہ جانے کب کچن میں اس کے پیچھے آتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں بھر چکا تھا ۔اور اب وہ اسے پوری طرح خود میں قید کیے اس کے صراحی دار گردن پر جھکا تھا
حنان میں چائے بنا رہی ہوں گر جائے گی اس کی بڑھتی ہوئی جسارتوں کو دیکھ کر وہ بے بسی سے بولی
اس وقت چائے کا نہیں چاہ کا وقت ہے وہ شرارت سے کہتا اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا

 

 

 

♥ Download More:

 Areej Shah Novels

 Zeenia Sharjeel Novels

 Famous Urdu novel List

 Romantic Novels List

 Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

 

 

آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

 

 

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.

About the author

Muhammad Qasim

Muhammad Qasim, founder of Shaheen ebooks website, which is an online ebooks library serving Urdu books, novels, and dramas to the global Urdu reading community for the last 3 years (since 2018. Shaheenebooks.com.

Leave a Comment