Afsana Khalona | Romantic Story
Ye Salwa nami Larki ki kahani ha jo ek jageerdar or ameer family se belong krti hai. Salwa ko apni family k ek noker zahid se Love ho jata hai. Zahid k parents bhi salwa ki family k mulazim hoty hn or issi waja se salwa k baba jamal sab salwa or zahid ki shadi se inkar kr dty hn lakin bd mn salwa jamal sab ko qail krny mn kamyab ho jati hai or yun salwa ki shadi zahid se ho jati hai.
افسانہ : کھلونا
تحریر : وحید سلطان
صلوا جمال صاحب کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تهی ۔
صلوا کی پیدائش کے وقت کچھ پیچدگیوں کی وجہ سے جمال صاحب کی بیوی انتقال کر گیئں تهی ۔
صلوا کو جمال صاحب نے نہایت لاڈ سے پالا تها ۔ جسکی وجہ سے صلوی نہایت خود سر اور مغرور تهی ۔
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
زاہد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ۔ زاہد کے بابا جمال صاحب کی زمینوں پر کام کرتے تھے جبکہ اس کی والدہ جمال صاحب کے گھر پر کام کرتی تھیں ۔ زاہد بھی اپنے بابا کی مدد کے لیے کھیتوں میں کام کے لیے چلا جاتا ۔ ایک دن وہ اپنے بابا کے ساتھ جمال صاحب کے باغ میں کام کر رہا تھا کہ صلوا بھی اپنی پھوپھو کے ساتھ باغ میں سیر کے لیے آئی ۔ اس نے زاہد کو دیکھا اور خوب جی بھر کر دیکھا ۔ زاہد صلوا کو ایک نگاہ میں ہی اچھا لگنے لگتا ہے ۔ پھر صلوا ہر روز عصر کی نماز کے بعد باغ کی سیر کو جانے لگی ۔ یہ ساتواں دن تھا ۔ صلوا باغ کی سیر کے لیے گئی لیکن آج زاہد باغ میں کام کے لیے نہیں آیا تھا ۔ آج صرف زاہد کے بابا ہی کام کر رہے تھے ۔ پھر کئی دن گزر گئے لیکن صلوا زاہد کو نہ دیکھ سکی ۔
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
کچھ دنوں بعد زاہد اپنی والدہ سے کسی ضروری کام کے سلسلے میں ملنے آیا تو اس کی ملاقات جمال صاحب اور ان کی بیٹی صلوا سے بھی ہو گئی ۔
“یہ میری بیٹی صلوا ہے” جمال صاحب صلوا کا تعارف زاہد سے کرواتے ہیں ۔
“ہیلو” زاہد نہایت ادب سے مسکرا کر بس ایک نگاہ صلوی پر ڈال کر دوبارہ جمال صاحب کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
اسکے جانے کے بعد صلوا جمال صاحب کے کمرے میں آتی ہے ۔
“بابا مجهے آپ سے ضروری بات کرنی ہے”
صلوا لاڈ سے بولتی ہے
“بولو بابا کی جان کیا بات ہے”جمال صاحب پیار سے پوجهتے ہیں
“بابا مجهے زاہد سے شادی کرنی ہے” صلوا نے آرام سے باپ کو دیکهتے ہوئے کہا
“مگر بیٹا وہ…….”
“بابا پلیز مجهے وہ بہت اچها لگا ہے … “میں بس اسی سے شادی کروں گی” باپ کی بات کاٹ کر انہیں اپنا فیصلہ سنا کر وہ چلی گئ ۔
جمال صاحب جانتے تهے کہ انکی بیٹی جو چاہتی تهی وہ ان سے کروا کر ہی دم لیتی تهی ۔
ڈنر پر دوبارہ دونوں باپ بیٹی کی ملاقات ہوئی تو جمال صاحب نے صلوا پر یہ بات واضح کر دی کہ زاہد ایک نوکر کا بیٹا ہے اور تمہاری شادی زاہد کے ساتھ نہیں ہو سکتی ۔ جمال صاحب نے صلوا کو یہ بھی بتایا کہ اس کی شادی اپنے معیار کے خاندان میں ہو گی ۔
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
اگلے روز بابا کے گھر سے جانے کے بعد صلوا زاہد کی ماں سے ملی ۔ وہ صلوا کے گھر میں کمروں کی صفائی کر رہی تھی ۔
“خالہ جی! یہ صفائی کا کام بعد میں کیجیے گا پہلے آپ اپنے گھر واپس جائیں اور زاہد کو اپنے ساتھ لے کر آئیں مجھے اس سے ضروری بات کرنی ہے” صلوا نے زاہد کی ماں سے تحکمانہ لہجے میں کہا تو زاہد کی ماں نے صلوا کو تعجب سے دیکھا اور پھر چلی گئیں ۔ صلوا اپنے کمرے میں بے چینی سے زاہد کے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔
“اسلام و علیکم” زاہد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی صلوا کو سلام کیا
“وعلیکم اسلام”
” آو بیٹهو” صلوا نے سامنے رکهے صوفے پر بیٹهنے کا اشارہ کیا
زاہد صوفے پر بیٹھ گیا
“شادی کب تک کرنے کا ارادہ ہے تمهارا”
صلوا نے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا
“جی میں سمجها نہیں” زاہد نے نہ سمجهنے والے انداز میں حیرت سے صلوا کو دیکها
“بات یہ ہے کہ مجھے تم پسند آگئے ہو اور میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں” صلوا نے ساری بات زاہد کے سامنے رکھ دی تو زاہد کو ایسا لگا جیسے وہ کوئی کهلونا ہو اور صلوا کو پسند آگیا ہو اور وہ اسے چائیے ۔
زاہد کو ایسا لگا کہ بیچ بازار میں کسی نے اسے تهپڑ مار دیا ہو ۔
“سوری ، میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا”زاہد نے خود کو سنبهال کر بمشکل کہا
“تم کو پتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو اور کس سے کہ رہے ہو”صلوا نے زاہد پر رعب ڈالتے ہوئے کہا
میں تمہیں اور تمہارے والدین کو نوکری سے بهی نکلوا سکتی ہوں” صلوا نے زاہد کو دیکهتے ہوئے غرور سے کہا
آپ کی مرضی ہے ، رزق دینے والا تو اللہ ہے …. وہ میرا اور میرے والدین کا دوسرا بندوبست کردے گا….. مگر میں اپنی خوداری کا سودا نہیں کر سکتا
آپ اپنے لیے کوئی اور دوسرا کهلونا خرید لیں”زاہد نے نہایت ہی ضبط سے اور ادب سے کہا اور تیزی سےکمرے کا دروازہ کهول کر باہر جانا چاہا تو دروازے کے بیچ میں جمال صاحب کهڑے تھے ۔
زاہد کو دیکھ کر وہ ایک طرف ہوگئے ۔ زاہد تن فن کرتا کمرے سے باهر نکل گیا
جمال صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔
“بابا میں آج ہار گئی ، زندگی میں پہلی بار میں اپنے لیے وہ حاصل نہ کر سکی جو میں نے چاہا” صلوا بابا کے
سامنے سسک پڑی ۔
“حوصلہ رکھو بیٹی” بابا نے صلوا سے کہا
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
زاہد باغ میں پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھا کہ صلوا بھی وہاں آ گئی ۔
“کل تم نے بابا کے سامنے کمال کی اداکاری کی تھی ، بابا اب تمہیں اچھا سا گھر بھی دیں گے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے تین لاکھ روپے بھی دیں گے اور تم بنو گے میرا کھلونا” صلوا نے براہ راست مدعے پر بات کرتے ہوئے پرمسرت لہجے میں کہا
“مجھے جیسا تم نے کہا تھا میں نے ویسا کچھ بول دیا ، تم اپنے بابا کو خوب جانتی ہو ، واقعی تمہیں فن آتا ہے بابا کو بات منوانے کا” زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا
“بابا تمہاری باتوں سے چڑ کھا گئے تھے اور تم نے کھلونا نہ بننے کی جو بات کی تھی وہ بات خاص طور پر بابا کو چبھی تھی اور اسی بات کو بابا نے اپنی انا کا مسئلہ سمجھ کر ہم دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا ہے” صلوا نے مسکراتے ہوئے زاہد کو خوشخبری سے آگاہ کیا ۔
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
جمال صاحب زاہد سے اپنی بیٹی صلوا کی شادی کے لیے رضامند نہ تھے لیکن صلوا کی زاہد کے لیے چاہت اور زاہد کے جذبہ خودداری سے متاثر ہو کر وہ اس شادی کے لیے رضامند ہو گئے اور پھر ایک ماہ بعد صلوا کی شادی زاہد سے ہو گئی اور وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے ۔
☆☆☆- – – – – – – – – – – – – ☆☆☆
“میں تمہیں کھلونا کہہ کر مخاطب کرتی ہوں تو سچ میں تمہیں برا محسوس ہوتا ہے؟” صلوا نے ہنستے ہوئے زاہد سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
“او کے ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آج کے بعد میں تمہیں زاہد میاں کہہ کر مخاطب کیا کروں گی” صلوا نے کہا تو زاہد بے اختیار مسکرا پڑا ۔
.
ختم شدہ
Free Download Afsana Khalona
Read Online Afsana Khalona
[pdf-embedder url=”https://shaheenebooks.com/wp-content/uploads/2019/02/afsana-khilona-by-waheed-sultan.pdf”]