Jannat K Pattay
Novels make our lives, this line can only be understood by those who used to read novels. Best novels give us many lessons. Novels give us special feelings, these provide us the experience for new things to be happened in our life. Aab e Hayat Novel is of best ones which I read yet.
Novels Lines in urdu
Novels, novels gives us sense to distinguish between right and wrong. Novels which we used to read many years and months ago, when their beautiful scenes and dialogues comes in front of us, we really get surprised and enjoy those lines very much.
We, shaheenebooks, are going to share with you, the famous and amazing lines of famous novels, which we know are of course special for you. These lines are very close to your heart (😉😍and our also). Hope so you will fresh the old memories of novels which have got pressed in your heart. So let’s open the closed chapters again…………….
Novel:Jannat K Patty Novel by Nimra Ahmed
↓ Download link: ↓
Jannat K Patty Novel Complete PDF Download
Jannat k Pattay
” مگر جہان تو اچھا لڑکا ہے۔تم اس سے ملے تو تھے جب پچھلے سال تم استنبول گۓ تھے“
” جی…جہان سکندر…اچھا لڑکا…مائی فٹ ”
“اسلام و علیکم! “
” میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں “
” پاکستان سے کون ؟ “
” میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں پلیز ان کو فون دے دیں “
” وہ جواہر تک گئی ہیں کوئی میسج ہے تو بتا دیں “
” وہ…وہ سبین پھپھو نے نہیں آنا پاکستان؟ داور بھاٸ کی شادی پر۔ “
” نہیں، وہ بزی ہیں “
” آپ…آپ کون ؟ “
” ان کا بیٹا جہان! “ .
” پھر…پھر آپ نے کیا سوچا “
” کس بارے میں ؟ “
” آپ کے اس رشتے سے انکار کے بارے میں “
” ساری عمر پڑی ہے ان یہ باتیں کرنے کے لیے حیا! ابھی تو ان لمحوں سے فائدہ اٹھاو جو میسر ہیں “
” مجھے جانے دو! “
” کیسے جانے دوں، پھر تم نے تھوڑا ہی آنا ہے “
” پلیز میں ایسی لڑکی نہیں ہوں “
” پلیز “
” شش “
شوخ نارنجی شلوار قمیض میں ملبوس، میک اپ سے اٹا چہرہ لیے، وہ ہی اس روز والا خواجہ سرا ڈولی، اس کے ہاتھ میں ایک فراینگ پین تھا جو اس نے شاید ولید کے سر پر مارا تھا۔
” بے حیا! “
” اسلام و علیکم! مس حیا سلیمان “
” جی…جی… آپ کون؟ “
” میں میجر احمد بات کر رہا ہوں، سایبر کرائیم سیل سے۔ آپ نے ہماری ایجنسی میں رپورٹ کی ہے، ہمیں ابھی آپ کی کمپلینٹ موصول ہوئی ہے “
” مگر میں نے رپورٹ میں اپنا نمبر تو نہیں لکھا تھا“
” نمبر تو بہت عام سی چیز ہے مس سلیمان! میں تو آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں “
” کیا؟ “
” یہی کہ آپ سلیمان اصغر کی بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پچھلے ہفتے اپنے کزن داور فرقان کی مہندی کے فنکنشن والی ویڈیو کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈنگ کو آپ نے رپورٹ کیا ہے۔ از دیٹ رائٹ میم؟ “
” جی جی وہی ویڈیو “
” اب آپ کیا چاہتی ہیں “
” یہی کہ آپ اسے اس ویب سائٹ سے ہٹا دیں“
” اوکے، اور کچھ؟ “
” اور جن لوگوں کے پاس اس کی سی ڈی ہے وہ بھی “
” میں شہر کے ایک ایک بندے سے وہ ویڈیو نکلوا لوں گا، آپ بے فکر رہیے “
” تھینک یو میجر احمد “
” میرے سامنے موجود لیپ ٹاپ پر تمام سسٹم کھلا ہوا ہے۔ میں ایک کلک کروں گا اور آپ کی ویڈیو صفحہ ہستی سے یوں مٹ جاۓ گی جیسے کبھی بنائی ہی نہ گئی ہو۔ بولیے حیا میں کلک کر دوں ؟ “
” حیا! میں نے زندگی میں ایک ہی بات سیکھی ہے کہ انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی، جب تک کہ وہ خود نہ ہار مان لے “
” اتنے ہینڈسم لڑکوں کی بہن بننے پر کم از کم میں تیار نہیں ہوں۔ یہ بھاٸ چارہ تمہیں ہی مبارک ہو “
” انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی اسے کمی لگتی ہے سو میں ہمیشہ زندگی مانگتا ہوں۔ زندگی ہے تو سب خوبصورت ہے اگر نہیں ہے تو سب اندھیرا ہے۔ “
” ویلکم ٹو سبانجی”
” ایک آیت زندگی بدل دیتی ہے۔ بس ایک آیت۔۔۔ “
” اگر یہ سیاہ بادل ہماری زندگی پہ نہ چھاییں ناں تو ہماری زندگی میں کبھی رحمت کے بارش نہ ہو “
” تمہیں پتہ ہے انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود نہ ہار مان لے، میں نے آج امید نہیں ہاری تھی۔
” مگر بعض دفعہ قسمت ہرا دیا کرتی ہے“
” جہان۔۔۔؟“
” حیا۔۔۔ڈی جے کی ڈیتھ ہو گئی ہے “
” اچھی لڑکیاں اللٰہ تعالٰی کی بات مانتی ہیں، وہ ہر جگہ نہیں چلی جاتیں، وہ ہر ایک سے نہیں مل لیتیں، وہ ہر بات نہیں کر لیتیں “
” رہی محبت…تو وہ اچھی لڑکیوں کو بھی ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن جب انہیں یہ پتہ چل جاۓ کہ وہ محبت انہیں مل ہی نہیں سکتی تو وہ خاموش رہتیں ہیں۔ اچھی لڑکیاں خاموش ہی اچھی لگتی ہیں۔ “
” تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی تھی جہان؟ جب میں نے ریسٹورنٹ میں گلدان توڑ کر پھینکا تھا یا جب میں نے تمہارے اوپر جنجر بریڈ کا ٹکڑا پھینکا تھا؟ “
” جب تم نے میرے اوپر ٹھنڈا سلش پھینکا تھا۔ “
” اگر زندگی میں کوئی آپ کو جنت کے پتے لا کر دے تو انہیں تھام لیجیے گا۔ وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔ “
” تمہارا مسئلہ پتہ ہے کیا ہے ؟ تم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہیں کہ تم کسی چیز کی کتنی ہی صفائی کیوں نہ کر لو اس پر جالے پھر سے بن جائیں گے۔ یہ جو تم بار بار اسٹرگل کرتے کرتے تھکنے اور اداس ہونے لگتی ہو ناں، یہ اسی وجہ سے ہے۔ اور یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس فیز میں یوں بےزار ہو کر نہیں بیٹھ جاتے، بلکہ خود کو منفی ردِ عمل سے بچاۓ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صبر اسی چیز کا نام ہے، خود کو منفی ردِ عمل سے روکنا اور مثبت سوچ پہ جماۓ رکھنا۔ “
” دل کا بوجھ کسی کے سامنے ہلکا ہلکا کرتے کرتے بعض دفعہ ہم اپنی ذات کو ہی دوسرے کے سامنے ہلکا کر دیتے ہیں۔ پریشانیں بتانے سے کم ہو سکتی ہیں ختم نہیں۔ “
” اچھی لڑکیاں چھپے دوست نہیں بناتیں “
” بیٹوں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، صلیب پر لٹکانے کے لیے صرف بیٹیاں ہوتی ہیں “
” یہ آدمی بھی نہ ذرا دو چار دن مہذب بنا رہے تو بیمار پڑ جاۓ اس لیے اپنے اصل روپ میں جلدی واپس آ جاتا ہے “
” کیا آپ اپنی کسی ہم وطن ایکسچینج سٹوڈنٹ کے ساتھ کمرہ شییر کرنا چاہیں گی؟ “
” بالکل بھی نہیں! “
” کیا آپ اسموکنگ کرتی ہیں؟ “
” بالکل کرتی ہوں “
” ڈرنک کرتی ہیں؟ “
” وہ بھی کرتی ہوں “
” آپ کس قسم کی طبیعت کی مالک ہیں؟ “
” سخت جھگڑالو اور خونخوار “
” ہرگز نہیں، ہم نے اتنا بھاری ہینڈ کیری نہیں اٹھانا “
” ڈی جے مجھے سچ میں سمجھ میں نہیں آ رہی، میں آج پہلی دفعہ جہاز میں بیٹھی ہوں “
” ہاتھ مارو، میں بھی آج پہلی دفعہ جہاز میں بیٹھی ہوں “
جہان سکندر کا ترکی اس کے قدموں تلے تھا
” خدا کرے رات برف نہ پڑے “
” ایویں ایں نہ پڑے، خود تو برف دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں، ہمیں تو دیکھنے دیں۔ اللٰہ کرے رات برف ضرور پڑے، آمین ثم آمین “
” جواہر؟ “
” جواہر شاپنگ مال ہے، یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا مال “
” او اچھا! جیسے پاک ٹاورز “
” پاک ٹاورز؟ “
” ہمارا پاک ٹاورز ایشیا کے بڑے شاپنگ مالز میں شمار ہوتا ہے “
”نایس“ ہالے کے جانے کے بعد حیا ڈی جے سے پوچھنے لگی
” یہ پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا مال کب سے ہو گیا؟ “
” اس نے کونسا جا کر چیک کر لینا ہے۔ تھوڑا شو مارنے میں کیا حرج ہے “
”اوہ حیا! “
” جہان سکندر! “
”حیا۔کیسی ہو؟ اکیلی ہو؟ “
” جی اکیلی ہوں “
” میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیسی ہو؟ “
”ممی تمہیں یاد کر رہی تھیں۔پھر کب آٶ گی گھر؟ “
” بس۔۔۔۔شاید کچھ دن“
” جوتے کو کیا ہوا ہے؟ اتنی سردی میں ننگے پاٶں بیٹھی ہو۔ لاٶ دکھاٶ “
” یہ تو الگ ہونے والا ہے “
”جہان رہنے دو “
” ٹھہرو شاید یہ جڑ جاۓ “
” جہان! لوگ دیکھ رہے ہیں “
” یہ پکڑو ذرا “
” اب پہنو! “
” اوہ! “
ہیل ٹوٹ چکی تھی
” کوئی بات نہیں “
اب وہ نیچے جھکا اپنے بوٹ کا تسمہ کھول رہا تھا
” پہن لو، باہر ٹھنڈ ہے، سردی لگ جاۓ گی “
” نہیں، رہنے دو، میں ابھی مارکیٹ سے نیا لے لوں گی “
” پہن لو حیا! “
” مگر تم کیا کرو گے؟ تم تو آفس جا رہے ہو ناں؟ “
” میں ننگے پاٶں جا کر کیا کروں گا “
” جوتے پہن لو، لوگ اب بھی دیکھ رہے ہیں “
” جہان! تمہارا پاوں۔۔۔تمہیں زخم آیا ہے “
” خیر ہے “
” مگر تمہارا خون نکلا ہے “
” بچوں والی بات کرتی ہو تم بھی۔ اتنے ذرا سے خون سے میں زخمی تو نہیں ہو گیا۔ بہت ٹف زندگی گزاری ہے میں نے “
” تمہارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں “
” میں ایک غریب سا ریسٹورنٹ اونر ہوں، استقلال سٹریٹ پر جو پہلا برگر کنگ ہے وہ میرا ہے “
” کسی دوست نے پوچھ لیا تو کیا کہو گی؟ “
” کہ دوں کہ ساتھ گدلی برف کے ساتھ کیچڑ تھی گھاس پہ، وہیں پھسل گئی “
” پھسل گئی تو ہتھیلی رگڑی گئی؟ “
” ہاں! “
” اور گھٹنے؟ “
” مطلب؟ “
” لڑکی کور سٹوری پوری بنایا کرو! اگر تم ہتھیلیوں کے بل کیچڑ میں گرو تو اصولاً تمہارے گھٹنوں پر بھی رگڑ آنی چاہیے۔ “
” اتنا بھی کوئی شکی مزاج نہیں ہوتا جہان سکندر! “
پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کم گو، سنجیدہ طبیعت کا اور لیے دیے رہنے والا شخص ضرور ہے، مغرور بھی ہے اور جلدی گھلتا ملتا بھی نہیں، مگر اندر سے وہ بہت خیال رکھنے والا بھی ہے اور باریک بین بھی۔ جو معمولی باتیں وہ نظر انداز کر دیتی تھی وہ جہان سکندر کی زیرک نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی تھیں۔
” چھوڑیں “
” کیا کر رہے تھے آپ؟ وہ آپ کی بیٹی کی طرح ہے، ایک بات میری دھیان سے سنیں ۔ آٸیندہ اگر آپ نے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا “
”پھپھو کا بیٹا مر گیا تھا جو انہوں نے تمہیں بھیجا؟ منع بھی کیا تھا مگر یہاں کوئی سنے تو“
” میں بکواس کر کے گیا تھا ناں، مگر میری کون سنتا ہے اس گھر میں؟ دو دن کے لیے نہ ہوں تو سارا نظام الٹ پلٹ جاتا ہے۔ پورے گھر کو پاگل کر دیا انہوں نے “
” میں ایک غدار کا بیٹا ہوں۔ میرا باپ ایک ملک دشمن ہے ۔ اس ذلت کے باوجود ہم ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ احساسِ جرم ہے یا قدرت کی سزا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ذہن کھوتے جا رہے ہیں۔ سزاۓ موت کا خوف ان کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے۔ جو انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ان کو اس پہ معاف کر دینا۔ وہ میرے باپ ہیں اور باوجود اس کے کہ یہ حقیقت بہت جگہ میرا سر جھکا دیتی ہے، میں ان سے محبت کرنے پہ مجبور ہوں “
” کیا ہوا؟ “
” مرچیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی مرچیں حیا!“
” نن۔ ۔ نہیں، یہ ترکی کی مرچیں پھیکی ہوتی ہیں اس لیے میں نےتو صرف چار چمچے۔ ۔ ۔ “
” چار چمچیں۔ ۔ ۔ یہ خالص ممبٸی کی مرچیں ہیں، میں سارے مصالحے وہیں سے لاتی ہوں “
” اوہ نہیں “ اس نے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا جب کہ ڈی جے ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔
” جہان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
” کیا مسئلہ ہے؟ “
” میں حیا “
” ہاں تو پھر؟ “
”پھر “
” کوئی کام ہے؟ “
” نہیں“
تو میری شکل کیا دیکھ رہی ہو۔ جاٶ! “
سردی کی لہر دروازے سے اندر گھس رہی تھی۔ اس نے بائیں ہاتھ سے ٹرے پکڑے دائیں ہاتھ سے دروازہ دھکیلنا چاہا۔ وہ بد قسمتی کا لمحہ تھا۔ دروازے کی ناب کو اس نے چھوا ہی تھا کہ دروازہ زور سے پورا کھلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا۔ کھلتے دروازے نے اس کا بڑھا ہاتھ پیچھے دھکیلا اور وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹی اور اس کے بائیں ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیڑھی ہوئی۔
” اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نو! “
بہت سی دلدوز چیخیں بلند ہوٸیں اور ان میں سب سے دلخراش چیخ اس کی اپنی تھی۔ الٹی ہوٸی ٹرے اس کے ہاتھ میں رہ گئی۔ ہلکی سی ٹھڈ کی آواز کے ساتھ جنجر بریڈ ہاٶس زمین پہ جا گرا۔ ہر دیوار ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ بنٹیز اور جیلیز اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ فرش پہ بریڈ، چاکلیٹ، کریم اور رنگ برنگی بنٹیوں کا ملبہ پڑا تھا اور وہ سب سناٹے کے عالم میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
کتنے ہی پل وہ شاک کے عالم میں اس ملبے کو دیکھے گئی، پھر اس نے پار نظر آتے جوگرز کو دیکھا اور اپنی ششدر نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ وہ جہان سکندر تھا، اور اتنی ہی بے یقینی اور شاک سے ملبے کو دیکھ رہا تھا۔ حیا کے دیکھنے پر بے اختیار اس نے نفی میں سر ہلایا۔
” حیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٸی ایم سوری۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم سامنے۔ ۔ ۔ ۔ اوہ گاڈ “
تاسف ملال کے مارے وہ کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔ وہ جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ایک دم لب بھینچ گئی۔ اس کی آنکھوں مں تحیر کی جگہ غصے نے لے لی۔ خون کی سرخ لکیریں اس کی آنکھوں میں اترنے لگی۔ وہ ایک دم جھکی، بریڈ کا ٹوٹا، کریم۔میں لتھڑا ٹکڑا اٹھایا اور سیدھے ہوتے ہوۓ پوری قوت سے جہان کے منہ پہ دے مارا۔ وہ اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہ تھا۔ ٹکڑا اس کی گردن پہ لگا تو وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹا۔ اس نے بے یقینی سے حیا کو دیکھا۔
” حیا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا “
”شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ“
” چلے جاٶ تم یہاں سے۔ کہیں بھی چلے جاٶ مگر میری زندگی سے نکل جاٶ، تم۔میرے عذاب اور دکھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں لاۓ۔ نکل جاٶ اس کمرے سے “
” حیا۔ ۔ ۔ “
” میرا نام بھی مت لو “
” چیزیں وقتی ہوتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں، بکھر جاتی ہیں، رویّے دائمی ہوتے ہیں۔ صدیوں کے لیے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں “
” کیا ہے؟ “
” ابھی تک خفا ہو؟ “
” خفا ہونے کا اختیار اپنوں کو ہوتا ہے، مجھے یہ اختیار کسی نے دیا ہی نہیں “
” اتنے لمبے مکالمے مت بولو، اب مجھ سے سردی میں کھڑا نہیں ہوا جا رہا، جلدی باہر آٶ “
” تم کہاں ہو؟ “
” تمہارے ڈورم کے باہر بالکونی میں کھڑا ہوں “
” میرے اللٰہ! تم ابھی تک یہیں ہو؟ “
”اف جہان! “
” کب سے کھڑے ہو ادھر؟ “
” جب سے تم نے بتایا تھا کہ تمہاری زندگی میں جنجر بریڈ ہاٶس سے بڑے مسئلے ہیں۔ میں نے سوچا ان کو حل کیے بغیر نہ جاٶں۔ چاۓ تو نہیں پلاٶ گی؟ “