Aab e Hayat Novel
Novels make our lives, this line can only be understood by those who used to read novels. Best novels give us many lessons. Novels give us special feelings, these provide us the experience for new things to be happened in our life. Aab e Hayat Novel is of best ones which I read yet.
Novels Lines in urdu
Novels, novels gives us sense to distinguish between right and wrong. Novels which we used to read many years and months ago, when their beautiful scenes and dialogues comes in front of us, we really get surprised and enjoy those lines very much.
We, shaheenebooks, are going to share with you, the famous and amazing lines of famous novels, which we know are of course special for you. These lines are very close to your heart (😉😍and our also). Hope so you will fresh the old memories of novels which have got pressed in your heart. So let’s open the closed chapters again…………….
Novel: Aab e Hayat by Umaira Ahmed
↓ Download link: ↓
Aab e Hayat Novel Complete PDF Download
Novels Lines in Urdu
امامہ نے سالار کو دیکھتے ہوۓ سوچا جو اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت ترین باب تھا۔ یہ انگوٹھی کی قیمت نہیں تھی جس نے امامہ ہاشم کی زبان سے الفاظ چھین لیے تھے، یہ دینے والے کی بے لوث محبت تھی جس کے سامنے امامہ کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ کیا کہتی، وہ سالار سکندر سے کیا کہہ سکتی تھی۔
” آئي لو یو “ سالار کے جملے نے اسے چند لمحوں کے لیے ساکت کیا۔ وہ اس کے پاس تھا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جیسے کچھ اس سے سننے کی خواہش رکھتا ہو۔۔۔۔
” تھینک یو “ وہ بے اختیار ہنسا۔ ایک گہرا سانس لے کر۔ ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کرتے ہوۓ اس نے جیسے گھنٹے ٹیک دیے تھے۔ وہاں اس کے قریب کوئی اور عورت ہوتی تو اسے اظہارِ محبت ہی ملتا۔ یہ امامہ ہاشم تھی اس کا اظہارِ تشکر ہی کافی تھا۔
” میں ناول کھولتی تھی اور ایک دم زندگی بدل جاتی تھی۔ میری فیملی ہوتی تھی اس میں۔ میں ہوتی تھی۔۔۔جلال ہوتا تھا “
سالار کافی کا گھونٹ نہیں لے سکا۔ اس کے لبوں پر اس وقت اس ” شخص “ کا نام سن کر کتنی اذیت ہوئی تھی اسے۔۔۔نہیں، اذیت بہت ہی چھوٹا لفظ تھا۔ ایسی تکلیف شاید انسان کو مرتے وقت ہوتی ہوگی۔ ہاں، اگر یہ ناول اس کی ” کامل دنیا “ اور اس کا ونڈرلینڈ تھے تو اس میں جلال انصر ہی ہوتا ہو گا، سالار سکندر نہیں ہو سکتا تھا۔
آنکھیں وہی تھیں ۔۔۔تاثرات بدل گۓ تھے ۔ نو سال لگے تھے امامہ ہاشم کو ان آنکھوں میں جھانکنے کے لیے ۔جن میں محبت تھی۔ سالار سکندر کی پاک محبت ۔۔۔
یہ کونسا کلر ہے ؟ ” وہ دوپٹے کو اپنے سر اور گردن کے گرد لپیٹتے ہوۓ اس کے سوال پر ٹھٹکی ۔“
” کرمزن۔۔۔کیوں ؟ “
سالار نے شال اس کے کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوۓ کہا۔
” میں تمہیں بتانا چاہتا تھا ۔۔۔۔تم اس کلر میں بہت اچھی لگتی ہو“
” تہجد پڑھ کر جب وہ میرے اور اپنے عمر بھر کے ساتھ اور میری خوشی کی دعا کرتا ہے اور پھر مجھے نماز کے لیے جگاتا ہے تو اس وقت وہ میرا سالار سکندر ہوتا ہے اور میں اس کی امامہ۔۔۔ “
” تم مجھے اگنور کرتے رہے “
” اگنور ؟ “وہ بھونچکا رہ گیا ۔
” میں تمہیں ۔۔۔”تمہیں“ اگنور کرتا رہا؟۔۔۔میں کر سکتا ہوں؟ “
اس نے بے یقینی سے کہا ۔
” تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو یہ ؟ تمہیں اگنور کرنے کے لیے شادی کی تھی میں نے تم سے ؟ تمہیں اگنور کرنے کے لیے اتنے سالوں سے خوار ہو رہا ہوں میں ؟ “
بات محبت کی نہیں عادت کی تھی ۔اُسے، اس کی عادت ہو گٸ تھی ۔ اور عادات بعض دفعہ محبت سے بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
محبت اور شادی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں پارٹنرز ایک دوسرے کو اپنے اپنے ہاتھ کی مٹھی میں بند کر کے رکھنا شروع کر دیں۔ اس سے رشتے مضبوط نہیں ہوتے دم گھٹنے لگتا ہے ۔ ایک دوسرے کو سپیس دینا، ایک دوسرے کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرنا ، ایک دوسرے کی آزادی کے حق کا احترام کرنا بہت ضروری ہے ۔ ۔ ہم دونوں اگر صرف ایک دوسرے کے عیب اور کوتاہیاں ڈھونڈتے رہیں گے تو بہت جلد ہمارے دل سے ایک دوسرے کے لیے عزت اور لحاظ ختم ہو جاۓ گا ۔کسی رشتے کو کتنی بھی محبت سے گھوندا گیا ہو، اگر عزت اور لحاظ چلا جاۓ تو محبت بھی چلی جاتی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں محبت کے گھر کی چار دیواری ہیں، چار دیواری ختم ہو جاۓ تو گھر کو بچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔
” کیا نہیں سکھایا زندگی نے ؟ گنوا نہیں سکتی میں ۔بہت سبق سکھاۓ ہیں زندگی نے مجھے “
” سبق سکھاۓ ہوں گے” گر“ نہیں “
امامہ نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا ۔وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا ۔ وہ سیدھی باتیں کبھی بھی نہیں کرتا تھا لیکن وہ ایسی ٹیڑھی باتیں کرنے والوں میں سے بھی نہیں تھا ۔
” اچھا لگ رہا ہوں کیا ؟ “
” کیا ؟ “
” تم مجھے دیکھ رہی ہو اس لیے پوچھ رہا ہوں “
امامہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا پھر بے اختیار ہنس پڑی ۔ اس شخص میں کوٸ ایسی بات تھی جو سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ کٸ سال پہلے آٸ تھی نہ آج اب آ رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے وہ اسے واقعی اچھا لگا تھا ۔
” تم دوسری موویز بھی لے کر آۓ ہو ۔ ان میں سے کوٸ دیکھ لو
“ ” اوکے ۔ ٹھیک ہے “
” اب خوش ؟ “
” آٸ ایم سوری تینوں موویز اسی کی ہیں “
” دیکھنے دو یار “
” تعریف نہیں کرو گے تم اس کی “
” آٸ پرومس “
” وہ خوبصورت نہیں ہے “
” بالکل بھی نہیں “
” اور بری ایکٹریس ہے “
” بے حد “
” اور تم اسے اب اس طرح نہیں دیکھو گے جیسے پہلے دیکھ رہے تھے “
اس بار سالار ہنس پڑا
” کیسے دیکھتا ہوں میں اسے ؟ “
” تم دیکھتے نہیں گھورتے ہو اسے “
” کون ایسا نہیں کرے گا۔ وہ اتنی ۔۔۔“
” کہہ دو ناں کہ خوبصورت ہے “
” میں تمہارے لیے اس کو بہن نہیں بنا سکتا “
” تو صرف ایکٹریس سمجھو اسے “
” یہ کون ہے؟ “
” تم نہیں جانتیں؟ “
” نہیں “
” چارلیز تھیرن ہے ۔ میرے نزدیک دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔ “
” خوبصورت ہے ناں ؟ “
” ٹھیک ہے بس “
” مجھے تو خوبصورت لگتی ہے “
” خوبصورت ہے لیکن بری ایکٹریس ہے “
” آسکر جیت چکی ہے “
” مجھے اس کی ناک اچھی نہیں لگ رہی “
” ناک کو کون دیکھتا ہے ؟ “
” پھر ۔ ۔ ۔؟ “
” مجھے بال پسند ہیں اس کے “
سالار کو بے اختیار ہنسی آٸ ۔ اس نے امامہ کو ساتھ لگایا۔
” تم ذرا بھی ذہین نہیں ہو “
” کیا ہوا؟ “
” کچھ نہیں ۔ مووی دیکھو “
امامہ نے ریموٹ کنٹرول اٹھا کر سی ڈی پلییر بند کر دیا ۔
”اچھے انسان ہو تم ویسے“
”اچھا“
” میں نے تمہاری تعریف کی ہے۔“
” بہت شکریہ “
” تمہیں خوشی نہیں ہوٸ۔ “
” کس چیز سے “
” میں نے تمہاری تعریف کی ۔“
” اور میں نے تمہارا شکریہ ادا کر دیا۔“
” لیکن تمہیں اچھا نہیں لگا؟ “
” کیا اچھا لگتا مجھے؟ میری باتیں سن کر اچھا آدمی کہہ رہی ہو، عمل دیکھ کر کہتیں تب خوشی ہوتی مجھے اور فی الحال میں تمہیں کوٸ ایسا عمل پیش نہیں کر سکتا ۔“
”ان ساری اسٹچز میں ایک چیز کامن تھی۔میں تمہیں کبھی بھی اپنے ذہن سے نہیں نکال سکا ۔مجھے تمہارا خیال آتا تھا اور آتا رہتا تھا اور بس میرا دل تمہاری طرف کھننچتا تھا ۔ خوار جو کرنا تھا اللٰہ نے مجھے، میری اوقات بتا کر۔ بس اور کوٸ بات نہیں تھی ۔اس لیے یہ تو کبھی پوچھو ہی مت کہ کیوں اچھی لگی تھیں تم مجھے ۔“
”مجھے کچھ رقم کی ضرورت تھی“
” کس لیے“
” مجھے امامہ کو ایک رنگ خرید کر دینی تھی“
” کیا ؟ “
”امامہ کے لیے ایک رنگ خریدنی تھی “
” لاکھ دو لاکھ کی رنگ کے لیے تم نے پلاٹ پیچ دیا؟ “ ۔ ۔ ۔
”دس لاکھ کی بات نہیں تھی “
”پھر“
“ 13. 7 ”
” کیا ؟ “
“ 13. 7 ”
” ملین کی رنگ دی ہے تم نے اسے 13.7؟ “
”سالار ایک کڑوڑ سینتیس لاکھ روپے کی رنگ خرید کر دی ہے تم نے اسے؟ “
” جی ۔ ۔ “
”جی۔۔۔“
” کہاں سے لی تھی رنگ؟ “
”Tiffany سے “
”ڈیزاین کرایا ہو گا۔۔ “
”جی، جیولری سٹیٹمیینٹ “
”نہیں، تو کوٸ اس سے مہنگی رنگ نہیں تھی؟ ابھی دوسرا پلاٹ پڑا تھا، چار ہیرے اور لگوا دیتے۔ “
سالار کے داییں گال میں ڈمپل پڑا
” اتنے سالوں جب بھی میں یہاں آیا، تمہارے لیے بھی عمرہ کیا تھا میں نے ۔ “
” تمہاری طرف سے ہر سال عید پر قربانی بھی کرتا رہاں ہوں میں “
” کیوں ؟ “
” تم منکوحہ تھیں میری۔۔۔دور تھیں لیکن میری زندگی کا حصّہ تھیں “
وہ روتی گئی۔ اس کے لیے سب کچھ اسی شخص نے کرنا تھا کیا ؟
بلاشبہ اسے زمین پر اتاری جانے والی صالح اور بہترین عورتوں میں سے ایک دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے سالار نے ہر وقت اور ہر جگہ دعا کی تھی۔ کیا سالار سکندر کے لیے نعمتوں کی کوئی حد رہ دی گئی تھی؟ اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی تو اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لیے لے بیٹھا تھا، اسے اس عورت کا کفیل بنا دیا گیا تھا جو نیکی اور پارساٸ میں اس سے کہیں آگے تھی ۔
” مجھے تم سے کتنی محبت ہو گی۔ میں یہ نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے، مگر میں جتنی زندگی بھی تمہارے ساتھ گزاروں گی۔ تمہاری وفادار اور فرمانبردار رہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے۔ میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئي ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔ “
بہت سی نعمتیں پتہ نہیں اللٰہ کس نیکی کے عوض عطا کرتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ دلوں میں کیسے رہتا ہے ۔ وہ سنتی آئي تھی، وہ دلوں کو کیسے بوجھ لیتا ہے، وہ دیکھ رہی تھی۔۔۔بس سب کچھ ” کن“ تھا اللٰہ کے لیے۔۔بس ایسے۔۔۔اتنا ہی سہل۔۔۔آسان۔۔۔پلک جھپکنے سے پہلے۔۔۔سانس آنے سے پہلے
” جب مستقبل بدل نہیں سکتے تو اسے جان کر کیا کریں گے۔ بہتر ہے غیب غیب ہی رہے ۔۔۔۔اللٰہ سے اس کی خبر کی بجاۓ اس کا رحم اور کرم مانگنا بہتر ہے ۔ “
” زندگی اور قسمت کا پتہ اگر زایچوں، پانسوں، اعداد، لکیروں، اور ستاروں سے لگنے لگتا تو پھر اللٰہ انسان کو عقل نہ دیتا، بس صرف یہی چیزیں دے کر زمین پر اتار دیتا “
” اس انگوٹھی کی قیمت کیا ہے ؟ “
” یہ انمول ہے کیونکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ “
” میں سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھی۔ وہ وقت گزر گیا۔ پھر ایک وقت آیا جب اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی تھی۔ دوسروں کے سر پر محتاجی کی زندگی گزارنی پڑی۔ وہ وقت بھی گزر گیا۔ پھر تمہارے ساتھ گزرے پچھلے ساتھ سال میں دنیا کی ہر نعمت، دنیا کی ہر آسایش ملی لیکن میں یہ کبھی نہیں بھولی کہ یہ وقت بھی گزر جاۓ گا ۔ چیزوں کی اہمیت نہیں ہوتی، وہ کبھی نہ کبھی مل ہی جاتی ہیں۔ صرف انسان ہوتے ہیں جن کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ وہ نہیں ملتے۔ “