Do Sahailiyaan- short story

Do Sahailiyaan- short story

 

Do Sahailiyaan

Do Shahailiyan is the story of two best friends, freinds love each other always. Never feel jealous from each other best friends are always best friends.

Here is the story for you to read…..

 

پھر ایک دن اس کا اپنے عزیزوں میں رشتہ طے ہو گیا لیکن یہ جان کر سب لوگ افسوس کرنے لگے کہ اس کا ہونے والا دولہا اس عمر میں کافی بڑا ہے کیونکہ اس کی فیملی والے غیروں میں رشتہ نہیں کرتے تھے اس وجہ سے وہ عمر کے فرق کونظر انداز کر گۓ․
سرخ وسفید رنگت والی باجی عائشہ جو سمارٹ بدن،سراپا حسن ایسا لگتا تھا کہ پرستان سے کوئی پری اتر آئیں ہوں۔وہ سراپا حسن تو تھی ہی لیکن وہ اپنے بے مثل اخلاق میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔

باجی کا تعلق شہر کے ایک معزز اور معروف مذہبی خاندان سے تھا وہ میری بڑی کزن سیما کی بچپن کی سہیلی تھی۔ باجی سیمانے سانولی رنگت کے باوجود من موہنی شکل وصورت پائی تھی۔یہ دونوں مقامی گورنمنٹ گرلز اسکول میں ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔

یہ اس دور کی بات ہے جب کسی بھی اسکول کے کلاس روم میں طلبہ کے لئے میزوں یا کرسیوں کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا بلکہ کلاس رومز میں ٹاٹ بچھے ہوئے ہوتے تھے کچھ سکولوں کے کلاس رومز میں ٹاٹ بھی کم پڑ جاتے تھے تو لڑکیاں اپنی اپنی کلاسوں میں بیٹھنے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے کوئی نہ کوئی بندوبست کرکے آتی تھیں۔

میری کزن سیما جو بعد میں میرے بڑے بھائی سے شادی ہونے کے باعث میری بھابی بن گئیں تھی۔جس گرلز سکول میں یہ دونوں پڑھتی تھیں یہ سکول ہماری حویلی کے قریب واقع تھا لہٰذا میری کزن سیما روزانہ اپنے گھر سے بوری کا ایک پرت اپنے ساتھ لے جاتی تھیں جس کو یہ دونوں اپنی کلاس میں بچھا کر اکٹھی بیٹھتی تھیں اور اپنے اپنے لائے ہوئے کھانوں کو بھی مل کر کھاتیں تھی یہی وجہ تھی کہ ان کی ایک دوسرے سے دوستی دوسری لڑکیوں کے لئے ضرب المثل بن چکی تھی ویسے بھی دونوں خاندانوں کی خواتین کا بھی ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا لیکن ان دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آناجا نا کچھ زیادہ ہی ہو چکا تھا میری کزن سیما کی تو دوران تعلیم ہی میرے بڑے بھائی سے شادی ہو گئی تھی۔

شادی کی وجہ سے میری بھابی سیما تو اپنی تعلیم مزید جاری نہ رکھ سکیں اور اپنے گھر کی ہو کر رہ گئیں جبکہ باجی عائشہ نے اپنی تعلیم جاری رکھی میری بھابی کے سکول چھوڑنے کے باوجود بھی ان کی دوستی ختم نہیں ہوئی بلکہ باجی عائشہ روزانہ سکو ل سے واپسی پر بھابی سیماکو ملے بغیر اپنے گھر واپس نہیں جاتی تھی یوں کہنا صحیح ہو گا کہ وہ روزانہ ہماری حویلی میں نظر آتی تھیں اور میری بھابی سیما آئے روز مجھے اپنے ساتھ لیکر اپنی سہیلی کے گھر پہنچ جاتیں۔

جب میں بھابی کے ساتھ باجی عائشہ کے گھر جاتا تو وہاں رکھے ہوئے کھلونوں کے ساتھ کھیلتا رہتا اور یہ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے سے مصروف گفتگو رہتیں پتہ نہیں ان کا موضوع گفتگو کیا ہوتا مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تھا اور جب وہ ہمارے گھر آتیں تو میری دیگر کزن کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ میرے ماموں کے کمرے میں رکھے ہوئے ریڈیو کو چوری چوری چلا کر گانے اور دیگر پروگرام ضرور سنتیں۔

یہ اس دور کا ذکر ہے جب ہمارے شہر میں ٹی وی نہیں آیا تھا لہٰذا ریڈیو ہی خبروں اور تفریح کا واحد ذریعہ ہوتا تھا ۔اس دوران میری بھابی سیما کا بیٹا پیدا ہوا تو باجی عائشہ نے اس نومولود بچے کا نام چھٹی کی رسم کے موقع پر ہی کر دیا۔

معلوم نہیں ان دونوں کی دوستی کو کس کی نظر لگ گئی کہ کچھ دنوں بعد بھابی سیما بیمار ہوگئیں اور مقامی سر کاری ہسپتال سے ان کا علاج ہونے لگا جب کچھ دنوں تک افاقہ نہیں ہوا تو ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد دیگر ادویات کے ساتھ انجکشن بھی تجویز کیا۔

ہسپتال میں موجود انجکشن اسی ہسپتال کے ڈسپنسر نے ایکسپائری ڈیٹ چیک کیے بغیر لگا دیا جس کے زہر سے اسی وقت ہسپتال ہی میں ان کا انتقال ہو گیا ان کی وفات سے جہاں ہمارے رشتہ داروں اور جاننے والوں میں کہرام مچ گیا اس سے بھی زیادہ باجی عائشہ کایوں اچانک اپنی عزیز ترین سہیلی کے آناًفاً جدا ہونے کے غم میں رو رو کر برا حال تھا ایسے لگتا تھا جیسے اس کی سگی بہن فوت ہوگئی ہو۔

باجی اپنی سہیلی کی جدائی کے بعد بھی ہماری حویلی میں آتی رہتی تھیں لیکن اب ان کے چہرے پر وہ پہلے جیسی خوشی کے اثار نظر نہیں آتے تھے۔پھر ایک دن اس کا اپنے عزیزوں میں رشتہ طے ہو گیا لیکن یہ جان کر سب لو گ افسوس کرنے لگے کہ اس کا ہونے والا دولہا اس سے عمر میں کافی بڑا ہے کیونکہ ان کی فیملی والے غیروں میں رشتہ نہیں کرتے تھے اس وجہ سے وہ عمر کے فرق کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے باجی کی شادی کی تمام رسومات میں میرے خاندان والے شریک ہوئے۔

شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے باجی عائشہ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔باجی جب بھی اپنے میکے آتیں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ہماری حویلی میں ضرور آتیں ۔اسی طرح دن گزرتے گئے اور ایک دن ان کی بڑی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ آگیا اور میری بھابیاں اس کی شادی میں شریک ہو کر واپس آئیں تو انہوں نے پریشان کن لہجے میں بتایا کہ باجی عائشہ کا داماد بھی کافی عمر کا ہے اور وہ افسوس کرنے لگیں کہ اللہ میاں نے ماں بیٹی کا نصیب بھی کیسا بنایا ہے کہ ماں کو بھی اپنا شریک زندگی اپنی عمر سے کافی عمر کا ملا تھا اور بیٹی کو بھی ماں کی طرح بڑی عمر ہی کا ملا ہے۔

شاید قدرت نے باجی سے اور بھی امتحان لینے تھے کہ باجی کی بیٹی اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش کے چند ماہ بعد کچھ دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئیں ویسے ہی جیسے اس کی عزیز ترین سہیلی بھابی سیما اپنے بیٹے کی پیدائش کے چند ماہ بعد ایک بیماری کے دوران ایکسپائری انجکشن لگنے کی وجہ سے انتقال کر گئیں تھی۔

باجی عائشہ کے لئے یہ صدمہ نا قابل بر داشت ثابت ہوا اور انہیں ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے وہ کئی دن بھاول وکٹوریہ ہسپتال کے آئی سی سی یو وارڈ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد حالت بہتر ہونے پر ہسپتال سے گھر منتقل ہو گئیں لیکن ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق وہ چل پھر نہیں سکتی تھی لہٰذا وہ ویل چیئر کے سہارے کی محتاج ہو گئیں۔

اسی دوران انہیں شوگر کا عارضہ لا حق ہو گیا جو ان کی صحت کو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح کھاتا گیا اور گزشتہ سال باجی سب کو روتا چھوڑ کر اس جہاں فانی سے ہمیشہ کے لئے اپنانا طہ توڑ گئیں۔اب جب بھی ان کی یاد آتی ہے تو میرے دماغ میں ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ یا اللہ ایک طرف آپ ایک حسین وجمیل مورت بناتے ہیں اور دوسری طرف اس کو ناقابل برداشت امتحانات میں مبتلا کر کے اپنوں سے جدا کر دیتے ہیں‘رحم یا خدا۔

Leave a Comment