Iqbal Ghazals in Urdu

Allama Muhammad Iqbal Ghazals in Urdu 

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

Allama Muhammad Iqbal needs no introduction in the world of poetry as well as in others, like philosophy, and many more.

Allama Muhammad Iqbal is our National poet, he had seen a dream for us which no other did. we get out country “PAKISTAN” just because of him, he realized Muslims about their strength and courage. 

Muslims were so powerful till they had followed Quran o Sunnah but at that time they forgot every thing, they actually forgot their strength, in that hour of need Iqbal made them to realize the truth. That was very big struggle, he did.

He used his mean of poetry to tell Muslims the right path which they had forgotten.

IQBAL GHAZALS IN URDU

Now here we are providing you some of his Ghazals in Urdu……………

خفتگانِ خاک سے استفسار

مہرِ روشن چھپ گیا، اٹھی نقابِ روئے شام

شانہ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام

یہ سیہ پوشی کی تیاری کس کے غم میں ہے

محفلِ قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے

کر رہا ہے آسماں جادو لبِ گفتار پر

ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۃ بیدار پر

غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا

ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا

دل کہ ہے بے تابیِ اُلفت میں دنیا سے نفور

کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامئہ عالم دُور

منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں

ہم نشینِ خفتگان کُنجِ تنہائی ہوں میں

تھم ذرا بے تابیِ دل! ذرا بیٹھ جانے دے مجھے

اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے

اے مئے غفلت کے سر مستو! کہاں رہتے ہو تم؟

کُچھ کہو اُس دیس کی آخر، جہاں رہتے ہو تم

وہ بھی حیرت خانہ امروز و فردا ہے کوئی؟

اور پیکارِ عناصر کا تماشا ہے کوئی؟

آدمی واں بھی حصارِ غم میں محصور کیا؟

اُس ولایت میں بھی انساں کا مجبُور کیا؟

واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟

اُس چمن میں بھی گلُ و بُلبل کا ہے افسانہ کیا؟

یاں تو اک مصرعے میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل

شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتا ہے دل؟

رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں

اُس گلستاں میں بھی کیا ایسے نُکیلے خار ہیں؟

اس جہاں میں اک معیشت اور سو اُفتاد ہے

رُوح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟

کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟

قافلے والے بھی ہیں، اندیشہ  رہزن بھی ہے؟

تِنکے چُنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟

خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟

واں بھی انساں اپنی اصلیت سے بیگانے ہیں کیا؟

امتیازِ ملت و آئیں کے دیوانے ہیں کیا؟

واں بھی کیا فریادِ بلبل پہ چمن روتا نہیں؟

اِس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟

باغ ہے فردوس ہا اِک منزلِ آرام ہے؟

یا رخِ بے پردۃ حُسنِ ازل کا نام ہے؟

کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟

آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟

کیا عوض رفتار کے اُس دیس میں پرواز ہے؟

موت کہتے ہیں جسے اہلِ زمیں، کیا راز ہے؟

اضطرابِ دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے 

علمِ انساں اُس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟

دید سے تسکین پاتا ہے کیا دلِ مہجور بھی؟

لن ترانی’ کہہ رہے ہیں کیا واں کی طُور بھی؟’

جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟

واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟

آہ! وہ کِشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟

یا محبت کی تجلی سے سراپا نُور ہے؟

تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے

موت اِک چُبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

 

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

عقل و دِل

عقل نے ایک دن یہ دِل سے کہا

بُھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ میرا

دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں

کام دنیا میں رہبری ہے مرا

مثل خضر، خجستہ پا ہوں میں

ہوں مفسرِ کتابِ ہستی کی

مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں

بوند اِک خون کی ہے تُو لیکن

غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں

دِل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے

پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں

رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے

!اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

ہے تُجھے واسطہ مظاہر سے

اور باطن سے آشنا ہوں میں

علم تُجھ سے تو معرفت مجھ سے

تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں

علم کی انتہا ہے بے تابی

اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

شمع تُو محفلِ صداقت کی

حُسن کی بزم کا دیا ہوں مین

تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا

طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں

کس بلندی پہ ہے مقام میرا

!عرشِ ربِّ جلیل کا ہوں

Iqbal Ghazals in Urdu

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

شمع و پروانہ

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں

یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پہ نثار کیوں

سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا سے

آدابِ عشق تُو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟

کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا

پھونکا ہوا ہے کیا تیری برقِ نگاہ کا؟

آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟

شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟

غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو

اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو

گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے

ننھے سے دل میں لذّتِ سوز و گداز ہے

کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حُسنِ قدیم ہے

چھوٹا سا طُور تُو، یہ ذرا سا کلیم ہے

پروانہ، اور ذوقِ تما شائے روشنی

!کیڑا ذرا سا، اور تمنائے روشنی

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

ایک آرزو

!دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا

ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری

دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں

دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو

لذّتِ سرود ہو چڑیوں کی چہچہوں میں

چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو

گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا

ساغر ذرا سا گویا مجھ کوجہاں نما ہو

ہو ہاتھ کا سرہانہ، سبذے کا ہو بچھونا

شرمائے جس سے جلوت، خلوت میں وہ ادا ہو

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل

ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ میرا ہو

صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں

ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ

پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو

آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ 

پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک کے گُل کی ٹہنی

جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلہن کو

سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو

راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم

اُمید ان کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو

بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے

جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھرا ہوا ہو

پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مؤذن

میں اُس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو

کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا احساں

روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو

پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے

رونا میرا وضو ہو، نالہ میری دعا ہو

اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے

تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو

ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے

بے ہوش ہو جو پڑے ہیں، شاید اُنہیں جگا دے

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

دردِ عشق

 اے دردِ عشق! ہے گُہرِ آب دار تُو

نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تُو!

پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے

ظاہر پرست محفلِ نَو کی نگاہ ہے

آئی نئی ہوا چمنِ ہست و بود میں

اے دردِ عشق! اب نہیں لذّت نمود میں

ہاں، خود نمائیوں کی تجھے جُستجو نہ ہو

منّت پذیر نالۂ بُلبل کا تُو نہ ہو!

خالی شرابِ عشق سے لالے کا جام ہو

پانی کی بوند گریۂ شبنم کا نام ہو

پنہاں دُرونِ سینہ کہیں راز ہو ترا

اشکِ جگر گداز نہ غمّاز ہو ترا

گویا زبانِ شاعرِ رنگیں بیاں نہ ہو

آوازِ نَے میں شکوۂ فُرقت نہاں نہ ہو

یہ دَور نُکتہ چیں ہے، کہیں چھُپ کے بیٹھ رہ

جس دل میں تُو مکیں ہے، وہیں چھپ کے بیٹھ رہ

غافل ہے تجھ سے حیرتِ علم آفریدہ دیکھ!

جویا نہیں تری نگہِ نا رسیدہ دیکھ

رہنے دے جُستجو میں خیالِ بلند کو

حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو

جس کی بہار تُو ہو یہ ایسا چمن نہیں

قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں

یہ انجمن ہے کُشتۂ نظّارۂ مجاز

مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز

ہر دل مئے خیال کی مستی سے چُور ہے

کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طُور ہے اِ

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

عشق اور موت

(ماخوذ از ٹینی سن)

سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی

تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی

کہیں مہر کو تاجِ زر مِل رہا تھا

عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی

سِیَہ پیرہن شام کو دے رہے تھے

ستاروں کو تعلیمِ تابندگی تھی

کہیں شاخِ ہستی کو لگتے تھے پتّے

کہیں زندگی کی کلی پھُوٹتی تھی

فرشتے سِکھاتے تھے شبنم کو رونا

ہنسی گُل کو پہلے پہل آ رہی تھی

عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو

خودی تَشنہ کامِ مئے بے خودی تھی

اُٹھی اوّل اوّل گھٹا کالی کالی کوئی

حُور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی

زمیں کو تھا دعویٰ کہ مَیں آسماں ہوں

مکاں کہہ رہا تھا کہ مَیں لا مکاں ہوں

غَرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا

کہ نظّارگی ہو سراپا نظارا

ملَک آزماتے تھے پرواز اپنی

جبینوں سے نورِ ازل آشکارا

فرشتہ تھا اک، عشق تھا نام جس کا

کہ تھی رہبری اُس کی سب کا سہارا

فرشتہ کہ پُتلا تھا بے تابیوں کا

مَلک کا مَلک اور پارے کا پارا

پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا

قضا سے مِلا راہ میں وہ قضا را

یہ پُوچھا ترا نام کیا، کام کیا ہے

نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا

ہُوا سُن کے گویا قضا کا فرشتہ

اجل ہوں، مرا کام ہے آشکارا

اُڑاتی ہوں مَیں رختِ ہستی کے پُرزے

بُجھاتی ہوں مَیں زندگی کا شرارا

مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے

پیامِ فنا ہے اسی کا اشارا

مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی

وہ آتش ہے مَیں سامنے اُس کے پارا

شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں

وہ ہے نورِ مطلق کی آنکھوں کا تارا

ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسُو

وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا

سُنی عشق نے گفتگو جب قضا کی

ہنسی اُس کے لب پر ہوئی آشکارا

گری اُس تبسّم کی بجلی اجل پر

اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا

بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ

قضا تھی، شکارِ قضا ہو گئی وہ 

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

شاعر

قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم

منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم

محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیبائے قوم

شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم

مبتلائے درد کوئی عُضو ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

رُخصت اے بزمِ جہاں!

(ماخوذ از ایمرسن)

رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں

آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں مَیں

بسکہ مَیں افسردہ دل ہوں، درخورِ محفل نہیں

تُو مرے قابل نہیں ہے، مَیں ترے قابل نہیں

قید ہے، دربارِ سُلطان و شبستانِ وزیر

توڑ کر نکلے گا زنجیرِ طلائی کا اسیر

گو بڑی لذّت تری ہنگامہ آرائی میں ہے

اجنبیّت سی مگر تیری شناسائی میں ہے

مدّتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا

مدّتوں بے تاب موجِ بحر کی صورت رہا

مدّتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں مَیں

روشنی کی جُستجو کرتا رہا ظُلمت میں

مَیں مدّتوں ڈھُونڈا کِیا نظّارۂ گُل، خار میں

آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں

چشمِ حیراں ڈھُونڈتی اب اور نظّارے کو ہے

آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے

چھوڑ کر مانندِ بُو تیرا چمن جاتا ہوں مَیں

رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں

گھر بنایا ہے سکوتِ دامنِ کُہسار میں

آہ! یہ لذّت کہاں موسیقیِ گُفتار میں

ہم نشینِ نرگسِ شہلا، رفیقِ گُل ہوں مَیں

ہے چمن میرا وطن، ہمسایۂ بُلبل ہوں مَیں

شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے

صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے

بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند

ہے دلِ شاعر کو لیکن کُنجِ تنہائی پسند

ہے جُنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں مَیں

ڈھُونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں مَیں؟

شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے؟

اور چشموں کے کناروں پر سُلاتا ہے مجھے؟

طعنہ زن ہے تُو کہ شیدا کُنجِ عُزلت کا ہوں مَیں

دیکھ اے غافل! پیامی بزمِ قُدرت کا ہوں مَیں

ہم وطن شمشاد کا، قُمری کا مَیں ہم راز ہوں

اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں

کچھ جو سنتا ہوں تو اَوروں کو سُنانے کے لیے

دیکھتا ہوں کچھ تو اَوروں کو دِکھانے کے لیے

عاشقِ عُزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ مَیں

خندہ زن ہوں مسندِ دارا و اسکندر پہ مَیں

لیٹنا زیرِ شجر رکھتا ہے جادُو کا اثر

شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر

عِلم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود!

گُل کی پتّی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود

Iqbal Ghazals in Urdu

Iqbal Ghazals in Urdu
Iqbal Ghazals in Urdu

چاند

میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن

قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زرد رُو شاید ہوا رنجِ رہِ منزل سے تو

آفرنیش میں سراپا نور تُو، ظُلمت ہوں میں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں

آہ! مَیں جلتا ہوں سوزِ اشتیاقِ دید سے

تو سراپا سوز داغِ منّتِ خورشید سے

ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے

میری گردش بھی مثالِ گردشِ پَرکار ہے

زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تُو، حیراں ہوں مَیں

تُو فروزاں محفلِ ہستی میں ہے، سوزاں ہوں مَیں

مَیں رہِ منزل میں ہوں، تُو بھی رہِ منزل میں ہے

تیری محفل میں جو خاموشی ہے، میرے دل میں ہے

تُو طلب خُو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے

انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تُو، تنہا ہوں مَیں

مہرِ کا پرتَو ترے حق میں ہے پیغامِ اجل

محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حُسنِ ازل

پھر بھی اے ماہِ مبیں! مَیں اور ہوں تُو اور ہے

درد جس پہلو میں اُٹھتا ہو، وہ پہلو اور ہے

گرچہ مَیں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو

جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے

بچّہ اور شمع

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو!

شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو

یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جُنبش ہے کیا

روشنی سے کیا بغَل گیری ہے تیرا مدّعا؟

اس نظارے سے ترا ننھّا سا دل حیران ہے

یہ کسی دیکھی ہُوئی شے کی مگر پہچان ہے

شمع اک شعلہ ہے لیکن تُو سراپا نور ہے

آہ! اس محفل میں یہ عُریاں ہے تُو مستور ہے

دستِ قُدرت نے اسے کیا جانے کیوں عُریاں کیا!

تُجھ کو خاکِ تِیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا

نور تیرا چھُپ گیا زیرِ نقابِ آگہی

ہے غبارِ دیدۂ بینا حجابِ آگہی

زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ

خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ

محفلِ قُدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن

آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن

حُسن، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے

مِہر کی ضوگستری، شب کی سِیہ پوشی میں ہے

آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ

شام کی ظُلمت، شفَق کی گُل فرو شی میں ہے یہ

عظمتِ دیرینہ کے مِٹتے ہُوئے آثار میں

طفلکِ ناآشنا کی کوششِ گُفتار میں

ساکنانِ صحنِ گُلشن کی ہم آوازی میں ہے

ننھّے ننھّے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے

چشمۂ کُہسار میں، دریا کی آزادی میں حُسن

شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حُسن

رُوح کو لیکن کسی گُم گشتہ شے کی ہے ہوس

ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس!

حُسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے

زندگی اس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے

Leave a Comment