Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas | Free Urdu Novels

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas , Ana Ilyas is one of the best famous Urdu novel writer. Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas is the latest novel . Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Eid Or Piya Ki Deed Novel by Ana Ilyas is a very special novel based on our society and love.

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas

Ana Ilyas has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas | Rude Hero Based Novel

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer. There are also sad moments because happiness in life is not always there. So this novel is a lesson for us if you want to free download Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas  to click on the link given below,

↓ Download  link: ↓

If the link doesn’t work then please refresh the page.

Main Tum Ho Jaoon Novel by Ana ILyas PDF Ep 1 to Last

 

 

Read Online Main Tum Ho Jaoon by Ana Ilyas:

"مل گيا تمہيں سکون" وہ تنفر سے اسے ديکھ رہی تھی۔
"يہی چاہتے تھے تم۔۔ مقصد پورا کر ہی ليا آخرکار" اسکی دبی دبی مسکراہٹ نشرہ کو اور بھی سيخ پا کر رہی تھی۔
"ابھی کہاں پورا ہوا ہے بی بی۔ ابھی تو بہت سی مسافت اور طے کرنی ہے" سينے پر ہاتھ باندھے اسکے سجے روپ پر طنز بھری نگاہ ڈال کر وہ کمرے سے جا چکا تھا۔
اسکے مطمئن انداز پر وہ غصے سے اپنے گرد لپٹے زرتاج دوپٹے کو ايک جھٹکے سے اپنے تن سے جدا کرکے بيڈ پر پھينکتے مٹھیاں بھنچ گئ۔
"تو پھر يہ جان لو کہ آج کے بعد تمہاری زندگی کو مزيد جہنم بنانے ميں ۔۔ميں سب سے پيش پيش ہون گی" اسکے ہيولے سے دانت پيس کر وہ مخاطب ہوئ۔
"نکاح کر ليا ہے مگر بيوی۔۔ ہونہہ ميری جوتی بھی تمہاری بيوی نہ بنے" اس کا غصہ کسی طور کم ہونے ميں نہيں آرہی تھا۔
غصے سے بيڈ سے اٹھ کر شيشے کے سامنے کھڑے ہوکر پرپل ديدہ زيب کام والے سوٹ ميں اپنے سجے سنورے روپ کو ديکھا۔
"ہونہہ۔ اس منحوس کے لئے تيار ہوئ تھی ميں۔" تيزی سے سب زيور اتارا۔۔ غصہ شديد تھا۔ بس نہيں چل رہا تھا کہ وہ دوبارہ سامنے آۓ اور اس کا سر توڑ دے۔ کب سوچا تھا کہ وہ جس کی کوئ شناخت نہ تھی، جس کا ساری زندگی مذاق اڑايا تھا۔ آج يوں اس سے اتنا اہم رشتہ جڑجاۓ گا۔
اور وہ تو ہميشہ اس سے نفرت ميں پيش پيش رہی تھی۔۔
"آہ۔۔ قسمت نے يہ دن بھی دکھانے تھے۔۔ مارج۔۔ تم جيسے دو ٹکےکے انسان سے ميرا اب نکاح بھی ہونا تھا” وہ اپنی قسمت پر اس لمحے جتنا ماتم کرتی کم تھا۔
___________________________
"تمہاری پاکستان واپسی کب ہے؟” اسکے کندھے پر سر ٹکاۓ وہ اداس نظروں سے سامنے ديکھ رہی تھی۔
“کل ہے” وہ مسلسل موبائل پر مصروف تھا۔
“وريد تم اس وقت ميرے ساتھ وقت گزارنے آئے ہو” اسکے موبائل پر چلتے ہاتھوں اور اسکی بے توجيہی پر وہ جھٹکے سے اسکے کندھے سے سر اٹھا کر خفگی بھری نگاہ اس پر ڈالے بولی۔
“ہاں يار اب تمہارے ساتھ ہونے کا يہ مطلب تو نہيں کہ مين پوری دنيا سے کٹ کے رہوں” اسکا يوں حق جتانے والا انداز اسے ايک آنکھ نہيں بھايا تھا۔
“ميں نوٹ کررہی ہوں کہ تمہاری واپسی جيسے جيسے قريب آرہی ہے تم مجھ سے جان چھڑا رہے ہو” اپنے آدھے برہنہ کندھوں پر پڑنے والے براؤن بالوں کو جھٹکے سے پيچھے کرتے وہ اس سے شکوہ کررہی تھی۔
“يونو واٹ جينی۔۔؟” اپنے بازو کو ايک جھٹکے سے اسکے بازو سے نکال کر وہ اسکی جانب خشمگيں نگاہوں سے ديکھنے لگا۔
“تمہين اب يہ حقيقت تسليم کرلينی چاہئے کہ تمہارا اور ميرا ساتھ يہيں تک تھا۔ اس سے آگے کا خواب تم نہ ہی ديکھو تو اچھا ہے” اسکے پاس سے اٹھ کر وہ اسے حقيقت کا آئينہ دکھا رہا تھا۔ جينی نے ڈبڈبائ آنکھوں سے اس ايشين بيوٹی کو ديکھا۔ گندمی مگر صاف رنگت والا، گھنے سياہ بالوں کو خوبصورتی سے جيل سے سيٹ کئے۔ تيکھے اور کسی قدر مغرور نقوش والا وريد جو ايک ہی نظر مين اسے بھا گيا تھا۔ جسے وہ پجھلے چھ سالوں سے جانتی تھی۔ نجانے کتنے دن، شاميں اور حتی کہ راتيں تک اسکے ساتھ گزار چکی تھی۔ آج اسے وہ کوئ اجنبی محسوس ہورہا تھا۔ اسکی آنکھوں ميں عجيب سی بے گانگی تھی۔
“مم۔۔۔ ميں محبت کرتی ہوں تم سے؟” ڈبڈبائ آنکھوں سے اس بے مہر کو ديکھتے وہ بس رونے کے قريب تھی۔
“اوہ پليز جينی بی پريکٹيکل۔۔۔۔ يہ محبت وحبت کچھ نہيں ہوتا۔ بس ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے تمہاری اور تمہيں ميری ضرورت بس يہيں تک تھی۔ باقی سب بے کار کی چيزيں ہوتی ہيں۔ اور تم جيسی ايک فارن لڑکی محبت کی باتيں کرتی بالکل بھی اچھی نہيں لگتی” وہ سمجانے سے زيادہ اس کا تمسخر اڑا رہا تھا۔ جينی کی آنکھوں مين مرچيں سی بھر رہی تھيں۔
“تو پھر ميں دعا کرتی ہوں کہ تم بھی اس جذبے کا مزہ چکھو اور ايسے کہ کسی دن ميری جگہ تم ہو اور کوئ تمہارے اس جذبے کا ايسے ہی مذاق اڑاۓ” اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی وہ ايک ايک لفظ چبا کر بولتی بے دردی سے آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو صاف کرتی تيزی سے پارک سے نکلتی چلی گئ۔
وہ سر جھٹک کر اسکے پاگل پن پر صرف کندھے اچکا کر رہ گيا۔
_________________________
وہ غصے سے تن فن کرتا کمرے ميں داخل ہوا۔ جہاں وہ شرميلی مسکان لئے اسکی منتظر تھی۔
"کيا بکواس کی تھی تم نے فون پر؟" وہ جو بيڈ پر بيٹھی کب سے اسکے انتظار مين تھی اسے يوں غصے مين اپنی جانب بڑھتے ديکھ کر ابھی سنبھلنے بھی نہ پائ تھی کہ وہ اس کا منہ اپنے ہاتھ ميں دبوچ کر جھٹکا دے کر بولا۔
"تم جيسی عورتوں کے ساتھ صرف وقت کو حسين بنانے کے لئے چند لمحے گزارے جاتے ہيں۔ اس سے آگے کوئ اور مقام نہيں ديا جاتا۔ جتنی جلدی ہوسکے اس بچے سے اپنی جان چھڑاؤ اور کيا گارنٹی ہے کہ يہ بچہ ميرا ہی ہے" وہ اسکے کانوں ميں زہر گھول رہا تھا۔
مہرنگار کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ايک جھٹکے سے اسکا منہ چھوڑا۔
"سائيں آپ جانتے ہيں کہ ميں اس کوٹھے کی زينت بنتے ہی آپکے حصے مين آئ تھی" کس کرب سے وہ اپنی بے گناہی کا ثبوت دے رہی تھی۔
"مجھے کيا معلوم۔۔ جيسے جھوٹے تعلق تم لوگ بناتی ہو۔۔ ويسے ہی نجانے کتنے جھوٹ اور گھڑتی ہو۔ مگر ميری بات ياد رکھنا" انگلی اٹھا کر اسکے خوبصورت چہرے کو تنفر سے ديکھتے وارننگ کا انداز اپنايا۔
"تم کسی کا کارنامہ مجھ پر نہيں تھوپ سکتی۔۔ اور فرض کرو يہ ميرے اور تمہارے حسين پل کی يادگار کے طور پر تمہارے وجود کا حصہ بن بھی گيا ہے۔ تب بھی ميرا اس سے کوئ تعلق نہيں۔۔" وہ سفاک انداز اپناۓ ہوۓ تھا۔
ابھی کل ہی اسے معلوم ہوا تھا کہ جس کوٹھے والی سے وہ ايک مہينے سے تعلق بناۓ ہوۓ تھا وہ اسکے خون کو خود ميں سينچ رہی تھی۔
بس يہ سننا تھا کہ ملک سرفراز غصے ميں پاگل ہو کر شہر ميں اس کوٹھی ميں پہنچا جو مہر نگار کے حسن کے نذرانے کے طور پر اسے دے رکھی تھی۔
"نکاح تم جيسی سے تو کسی صورت مين نہيں کرنے والا۔ تم بھی اس مصيبت سے چھٹکارا حاصل کرو۔
ويسے بھی ميں ايک مہينے سے زيادہ کسی کے ساتھ رہنا پسند نہيں کرتا۔ ميری بيوی ميرے گھر ميں موجود ہے اور اولاد بھی آنے ہی والی ہے۔ مگر۔۔ تم۔۔۔" وہ اسے باور کرواتا نخوت سے پھر اسکی جانب انگلی اٹھا کر اسےکڑی نظروں سے ديکھنے لگا۔
"تم کسی صورت وہ مقام حاصل نہيں کرسکتی۔۔ ہماری عورتوں کی ايک عزت ہے۔۔ تم جيسيوں سے ان کا کيا مقابلہ" اسکے لہجے کا زہريلا پن مہر نگار کے دل کو چھلنی کر رہا تھا۔
"اں اور انہی عزت دار عورتوں سے چھپ چھپا کر آپ جيسے اپنی عزت کو بڑھانے ہمارے کوٹھوں پر آتے ہيں۔" شکوہ کناں نظروں سے جو سچ اس نے بولا وہ ملک سرفراز سے برداشت نہ ہوا۔
"بکواس کرتی ہو" الٹے ہاتھ کا تھپڑ اپنے سے چند گز کے فاصلے پر بيٹھی مہرنگار کو مارنے مين اس نے پل بھر کی دير نہيں کی تھی۔
گال پر ہاتھ رکھے وہ اسکی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالے بيٹھی تھی۔
"ميرا بھی وعدہ ہے آپ سے۔۔۔ يہ بچہ آپکے لئے امتحان نہ بنا ديا تو ميرا نام اس صفحہ ہستی سے مٹا دينا" اسکا نڈر انداز ملک سرفراز کو آگ لگا گيا۔
غصے سے اٹھ کر وہ کمرے سے باہر چلا گيا۔
اب کی بار پاس پڑے فون سے وہ ملک اياز کا نمبر ملا رہی تھی۔
___________________________
کچھ دير پہلے ہی وہ ڈيرے سے واپس آئے تھے۔ مردان خانے ميں موجود ملازم سے مارج کے بارے ميں استفسار کيا۔
"ملک جی وہ تو پچھلے باغ ميں موجود ہيں۔ نہر والے لوگوں کا کچھ مسئلہ تھا بس اسی کے سلسلے ميں ان سے بات چيت کررہے ہيں" ملازم نے تفصيل بتائ۔
"اس کو بولو فورا ميری بات سنے۔ اور ان لوگوں کو بٹھاؤ ميں خود اس سارے معاملے کو سنوں گا۔ مصيبت ڈالی ہوئ ہے ان لوگوں نے۔ لڑائ جھگڑوں سے باز نہيں آتے۔" اپنی پگ کو غصے سے سر سے اتار کر سامنے موجود لکڑی کی خوبصورت ميز پر رکھتے بولے۔
"جی ملک صاحب" ملازم فورا سے پہلے مارج کو بلانے بھاگا۔
ابھی انہيں انتظار کرتے زيادہ وقت نہيں گزرا تھا کہ دائيں جانب سے کاہی رنگ کے شلوار قميض ميں کندھوں پر ہلکے سرمئ رنگ کی چادر پھيلاۓ آنکھوں پر سن گلاسز لگاۓ انہيں وہ کسی شہزداے سے کم نہ لگا۔
اپنی اولاد سے بڑھ کر انہوں نے اسے چاہا تھا۔ اور اس نے بھی ہميشہ اس چاہت کا مان رکھتے اولاد سے بڑھ کر ان سے محبت کی تھی۔
انکے پاس آتے ہی ہميشہ کی طرح جھک کر ان کا داياں ہاتھ تھام کر محبت سے لبوں سے لگايا۔
"جی بڑے سائيں" مودب انداز ميں ہاتھ باندھے سر جھکاۓ وہ ان کے پاس کھڑا تھا۔
"کيسا ہے ميرا شير۔۔ صبح سے نظر ہی نہيں آيا" محبت سے چور لہجے ميں پوچھا۔ اسے مخاطب کرتے انکے لہجے ميں بے حد فخر شامل ہوتا تھا۔
"نہر والے معاملے مين مصروف تھا۔ آپ حکم کريں" مختصر انہيں بتايا۔
"گھنٹے تک بچيوں کو لينے شہر چلے جاؤ۔ اور کوشش کرنا رات سے پہلے واپسی ہو۔ نشرہ ضد کرے تو مجھے فون کر دينا۔" وہ جانتے تھے اپنی ضدی بيٹی کو شروع سے باقی گھروالوں کی طرح وہ بھی مارج سے شديد نفرت کرتی تھی۔ اور اب تو يہ نفرت اور بھی بڑھ چکی تھی۔
"جو حکم بڑے سائيں" مودبانہ انداز ميں سر کو ہولے سے جھکا کر وہ حويلی کے اندر کی جانب بڑھا۔
گھنٹے بعد اسکی پجيرو ہوا سے باتيں کرتی ہوئ شہر کی جانب بڑھ گئ۔
اپنی اڑيل منکوحہ سے تو وہ بھی اچھی طرح واقف تھا اور اسے راہ راست پر کيسے لانا تھا اس سے بھی واقف تھا۔
_______________________________
اور پھر اس نے اپنا کہا پورا کر دکھايا۔ مہرنگار انتظار ہی کرتی رہ گئ۔ مگر اس نے نہيں آنا تھا وہ نہيں آيا۔ ہر طرح کا تعلق واسطہ وہ ختم کرچکا تھا۔ صرف يہ ايک کوٹھی اسکے نام تھی ورنہ شايد وہ اسے يہاں سے بھی در بدر کرديتا۔
کوٹھی بيچ کر وہ ايک چھوٹا گھر لے چکی تھی۔ وہ واپس کوٹھے جانا نہيں چاہتی تھی۔ وجہ اسکی اپنی ذات نہيں بلکہ وہ بچہ تھا جو وہ اپنی پيار يا شايد بھول کی نشانی سمجھ کر سينے سے لگا چکی تھی۔
اس سب ميں وہ پھر بھی پيچھے ہٹنے والی نہيں تھی۔ اس کے ارادے اتنے مضبوط تھے کہ وہ اپنی اولاد کو اس کا حق دلانے کے لئے ملک اياز تک اسی دن پہنچ گئ تھی جس دن ملک سرفراز اپنی ہی اولاد کو جھٹلا کر گيا تھا۔
ملک اياز نے اسکے وعدے پر سب مخفی رکھتے نہ صرف اس سے ملک سرفراز کی اس بے راہ روی پر معذرت کی تھی بلکہ اسکا اور اسکے بچے کا خرچہ پانی بھی اٹھا ليا تھا۔
ملک سرفراز کی اس حرکت کی تصديق ملک اياز نے اسکے خاص بندوں سے اگلوا کر کر لی تھی۔ اور جب اس بات ميں کوئ شک نہ رہا کہ مہرنگار کے کوکھ ميں پلنے والا بچہ اسکے بھائ کا ہی ہے تب وہ خود کو مہرنگار کی مدد کرنے سے روک نہ پاۓ۔ اس بچے کو نام بھی ملک اياز نے ديا تھا۔ "مارج" انہيں اپنے بيٹوں سا ہی لگتا تھا۔ اسی لئے اسکی حفاظت اور اسکی پرورش ميں انہوں نے کوئ کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔
_________________________
"آگيا ميرا شير" چوہدری وجاہت علی اسے گلے لگا کر اسکی پيٹھ تھپتھپا کر بولے۔
"کيسے ہيں آپ ابا سائيں" وہ محبت سے انکے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا۔
"ميں پھر سے جوان ہوگيا ہوں" اسکے چوڑے کندھوں کو تھام کر مسکراتی آنکھوں سے اپنے خوبرو بيٹے کو ديکھا۔ جو باہر کی دنيا ميں جاکر بھی اپنے اصل رنگ نہيں بھولا تھا۔ کچھ دير پہلے ہی ان کا بڑا بيٹا چوہدری وليد اسے ائير پورٹ سے لے کر آيا تھا۔ اور چند گھنٹوں بعد ہی نہا دھو کر وہ انکی خدمت ميں حاضر ہوگيا تھا۔
سفيد کڑکڑاتا شلوار قميض پہنے اپنی مخصوص خاندانی چادر کندھوں کے گرد اوڑھے ان کا "وريد" انکی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا۔
"آپ ہميشہ سے ہی جوان ہيں" وہ بھی بھاری مونچھوں تلے عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ لا کر بولا۔
"چلو کوئ روٹی ٹکر کھاتے ہين پھر اپنے شير سے ولايت کے قصے سنيں گے" وہ اسکے کندھوں کے گرد بازو کا گھيرا بنا کر اسے لئے اپنے شاہانہ کمرے سے باہر نکلے۔ دونوں کا رخ کھانے والے کمرے کی جانب تھا۔
"تو پھر تم کب سے يونيورسٹی جوائن کررہے ہو؟" کھانے کے دوران وليد سے چھوٹے حديد نے سوال پوچھا۔
"بھائ ان شاءاللہ اگلے ہفتے سے " وہ نيپکن سے منہ صاف کرکے بولا۔
"لے ۔۔۔ ابھی تو تو آيا ہے اور اب پھر سے شہر چلا جاۓ گا۔ ماں کو بس ترسا کر رکھ" اسکے ساتھ والی کرسی پر موجود صغراء بيگم لہجے ميں اداسی لئے بوليں۔
"بس کر يہ دوسری کی چاکری۔۔۔ اپنے باپ دادا کی زمينوں کو ديکھ" سامنے ہی اسکی دادی رقيہ بيگم موجود تھيں۔ کرخت چہرے واليں۔ ستر سال کی ہو کر بھی ان کا رعب اور دبدبہ ويسے کا ويسا ہی تھا۔ نخوت سے بوليں۔ صغراء نے ايک نظر بيٹے کو ديکھا۔ انہوں نے بڑی کوشش کی تھی انکی اولاد ميں اس خاندان اور يہاں کے لوگوں جيسا غرور اور رعونيت نہ آئے۔ مگر وہ اس قدر کامياب نہيں ہوسکيں۔ خود وہ عاجزی پسند اور اللہ سے ڈرنےوالی خاتون تھيں۔ مگر يہاں ايک سے ايک غرور ميں ڈوبا وجود تھا۔ اور يہی غرور انکی اولاد ميں بھی تھا۔
"بہت سے ہيں يہاں باپ دادا کی جائيداد کو ديکھنے والے۔ مجھے ابھی صرف اپنا شوق پورا کرنا ہے اور پی ايچ ڈی ميں نے ان زمينوں پر اگانے اور دبانے کے لئے نہيں لی تھی" ايک وہی تھا جو رقيہ بيگم کو يوں جواب دے سکتا تھا۔ کچھ وہ ان سے خفا بھی تھا۔ اور يہ خفگی بہت سالوں سے تھی۔ وہ جانتی تھيں کہ وہ حق بجانب ہے اسی لئے اسے کچھ کہتی بھی نہيں تھيں۔
"اچھا اچھا چل تو شوق پورا کر" چوہدری وجاہت نے فورا بات بدلی۔
"اور تيرا شادی کا کيا ارادہ ہے۔۔ يا پھر جوگ لے رکھنا ہے ساری عمر" رقيہ بيگم بھی کہاں پيچھنے ہٹنے والی تھيں۔ ان کی بات پر اسکے چہرے کا رنگ يک لخت بدلا۔ کسی اور ميں اتنی جرات نہيں تھی کہ اس سے يہ سوال پوچھتے۔ سب اس کے جنون اور اسکی اس بات سے جڑی شدت سے واقف تھے۔
"جوگ لے گی ميری جوتی مجھے صرف بدلہ لينا ہے۔ پہلے وہ لے لوں پھر شادی بھی کرليں گے" اس کے لہجے ميں نفرت تھی۔ يا بدلے کی آگ کی تپش اندازہ لگانا مشکل تھا۔
"اور آپ تو يہ بات پوچھيں ہی مت۔۔ آپکی لاپرواہی کی وجہ سے ميں اس آگ ميں جل رہا ہوں" وہ رقيہ بيگم کی آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر بولا۔ غصے سے نيپکن ٹيبل پر پھينک کر زور سے کرسی پيچھے گھسيٹ کر تن فن کرتا نکل گيا۔
"اماں سائيں حد کرتی ہيں آپ آج ہی وہ پہنچا ہے اور آج ہی آپ يہ منحوس ذکر لے کر بيٹھ گئيں" چوہدری وجاہت ماں کو ملامت کرنے لگے۔
"تو تم آج گاؤں جارہی ہو" وہ دونوں اس وقت ہاسٹل کے گراؤنڈ ميں بيٹھيں شام کے منظر سے لطف اندوز ہورہيں تھيں۔
"ہاں يار بابا سائيں نے بلوايا ہے۔ شايد بھائ کی شادی کی ڈيٹ فکس کررہے ہيں۔" وہ بے زار سی گھاس کو نوچ رہی تھی۔
"اتنی مضطرب کيوں ہو؟" وہ دو دنوں سے اسکی بے چينی نوٹ کررہی تھی۔
"کيا نہيں ہونا چاہئے؟" وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگی۔
"تو تمہاری اس حرکت کے بعد تم کيا سمجھتی ہو تمہارے بابا سائيں تمہيں پھولوں کے ہار پہناتے۔ يقينا سب عزت دار لوگ بيٹی کی بے راہ روی ديکھ کر اسی طرح اسے کسی بھی ايرے غيرے کے ساتھ باندھنے پر تيار ہوجاتے ہيں" وہ بھی اسکی حرکت پر اب تک اس سے خفا تھی۔
"اب تم شروع ہوجاؤ۔ ارے ميں نے کون سا اس صائم کمينے سے شادی کرلی تھی۔ اس قدر ڈرپوک مرد ميں نے زندگی ميں نہيں ديکھا۔ ارے بجاۓ خوش ہونے کے کہ لڑکی خود چل کر اسکے گھر آگئ ہے۔ الٹا اپنے ماں باپ اور پھر ميرے ماں باپ کو انوالو کرگيا" وہ ابھی بھی اپنے کئے پر شرمندہ نہيں تھی۔ اسکی بات سن کروہ افسوس سے سر ہلانے لگی۔
"يعنی تم اب بھی اس بات کو معمولی لے رہی ہو؟" وہ جتنا اسکی عقل پر افسوس کرتی کم تھا۔
"نار تم بھی نا۔۔۔ حد ہے يار کتنا بڑا ايڈوينچر کررہی تھی ميں اور وہ بزدل ميرے باپ کی حيثيت سے ڈر گيا۔۔ اور بابا سائيں نے بھی پکڑ کر اس نيچ شخص کے پلے باندھ ديا۔" اسکے لہجے ميں ابھی بھی مارج کے لئے نفرت تھی۔ نار کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ بس ايک نظر اسے ديکھ کر رہ گئ۔
وہ مارج سے اچھے سے واقف تھی۔ کئ بار اسے انہيں ہوسٹل لينے آتے ديکھا تھا۔ اس لمحے وہ نشرہ کی بے عقلی پر ماتم ہی کرسکتی تھی جو اتنے ڈيشنگ اور اصل مرد کو چھوڑ کر اب بھی صائم جيسے بندے کے نہ ملنے پر افسوس کررہی تھی۔
"بی بی آپ کو لينے آئے ہيں" ہاسٹل کی ايک ملازمہ تيزی سے انکے قريب آتے بولی۔
"اچھا آرہی ہوں۔ باقی سب کو بھی بتا دو" منہ بگاڑتے بولی۔
"پليز نشرہ اب مزيد کوئ بے وقوفی مت کرنا" وہ اسے سمجھاۓ بنا نہ رہ سکی۔
"ہاں ايک ميں ہی تو بے وقوف ہوں۔ باقی سب تو عقل مند ہيں" وہ سر جھٹک کر کھڑی ہوئ۔
"اچھا اب خفا مت ہو" وہ بھی اسکے ساتھ کھڑی ہوتے اسے بے اختيار بازوؤں کے گھيرے ميں لے گئ۔ اسکی خفگی کہاں اسے چين لينے ديتی تھی۔
"چلو مجھے چھوڑنے آؤ۔ اور ہاں اگر بھائ کی ڈيٹ فائنل ہوگئ تو تمہيں حويلی بلوا لوں گی۔ اور ميں کوئ انکار نہ سنوں" اسکی بات پر وہ اسے بس ديکھ کر رہ گئ۔
"سوچوں گی" وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔
"سوچنے کی نہيں ہورہی۔۔ بس ميں نے کہہ ديا آنا ہے تو آنا ہے۔ ويسے بھی تمہارے کون سا کوئ آگے پيچھے ہے کہ تمہيں اجازت لينی پڑی" وہ جلدی ميں بے حد غلط بات کرگئ۔ اپنے کہے الفاظ کی سنگينی کا احساس تب ہوا جب نار اس سے چند قدموں کے فاصلے پر رک گئ۔
چند قدم لينے کے بعد اسے احساس ہوا وہ اکيلی چل رہی ہے۔مڑ کر نار کو ديکھا تو احساس ہوا کچھ غلط بول گئ ہے۔
"آئم سوری نار" يکدم واپس آتے وہ ملتجی لہجے ميں بولی۔
وہ بمشکل اپنے آنسو پی کر مسکرائ۔
"کوئ بات نہيں۔۔ کچھ غلط بھی نہيں کہا تم نے" ہنس کر اسکی بات ٹالی۔
"نہيں يار ميں نے تمہيں ہرٹ کرديا" وہ اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولی۔ اب پچھتائ کہ کيوں بنا سوچے سمجھے بولتی ہے۔
"آپی جلدی کريں۔ مارج بھائ کب سے انتظار کررہے ہيں" اس سے پہلے کہ ان دونوں ميں مزيد گفتگو ہوتی ہانيہ بھاگئ ہوئ ان تک آئ۔ مارج کا نام سنتے ہی نشرہ کا حلق تک کڑوا ہوگيا۔ جبکہ نار کا دل بری طرح دھڑکا۔
"چلو جاؤ تم اب۔۔ ميں گيٹ تک آتی ہوں" اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ تيزی سے اسے لئے اندر کی جانب بڑھی۔
کچھ دير بعد ہی وہ ان چاروں کے ہمراہ انکی گاڑی تک آئ۔
چہرہ حسب معمول چادر سے چھپا رکھا تھا۔ صرف آنکھيں دکھائ دے رہی تھيں۔ مارج نے ايک نگاہ غلط نار پر ڈالی۔ اسے ايک نظر ديکھ کر ہی دل اندر تک سرشار ہوا۔
گاڑی کی سيٹ سنبھالتے بھی سائيڈ مرر سے نار کو ديکھنا نہيں بھولا تھا۔ سب خاموشی سے پجيرو ميں بيٹھ چکی تھی۔ نار کی بہت منتوں کے سبب نشرہ خاموشی سے اس لمحے جيپ ميں بيٹھ چکی تھی۔ نار کی نظر بے ساختہ مارج کی جانب اٹھی اسے اپنی جانب ديکھتا پاکر وہ بوکھلائ۔ تيزی سے نشرہ کو ہاتھ ہلا کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئ۔ مارج کے چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ بکھری۔ انکی نظروں کی يہ آنکھ مچولی نشرہ کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ چند لمحے تو وہ گنگ رہ گئ۔ کچھ دير بعد ہی ايک زہريلی مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھری۔
________________________
"کيا کر رہی ہو تم يہاں" وہ چھوٹی سی بچی اس لمحے پائيں باغ ميں حويلی کے باقی بچوں کو کھيلتے ديکھ کر چلی آئ۔
ابھی چند لمحے ہی ہوۓ تھے اسے وہاں کھڑے جب اسکے عقب سے اس سے چند سال بڑے ايک لڑکے کی کرخت آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ۔
وہ ڈر کر اچھلی۔ خوفزدہ نظروں سے پيچھے مڑ کر ديکھا يہ وہی بچہ تھا جو اسکے يہاں آنے پر اس سے ناروا سلوک رکھے ہوئے تھا۔ دو دن پہلے بھی اس سے مار کھائ تھی اور اب وہ پھر سے غصيلے تاثرات لئے اسکے پيچھے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔
"مم۔۔۔ ميں۔۔۔ ميں تو۔۔ بس ايسے ہی يہاں۔۔۔"
"خاموش" ابھی اسکی آواز حلق سے پوری طرح نکل بھی نہ پائ تھی کہ ايک زوردار تھپڑ نے اسے بالکل خاموش کروا ديا۔
"ميرے آگے بولتی ہے۔۔۔ تو ہے کيا" اسکی دو چوٹيوں ميں سے ايک کو زور سے اپنی گرفت ميں ليتے اسکے سر کو زور سے جھنجوڑا۔ وہ تکليف سے بلبلا کر رہ گئ۔
"آئندہ ميرے سامنے زبان مت چلانا" وہ اس لمحے اسے دس سال نہيں تيس سال کا اس حويلی کا وہ مرد لگا جو عورتوں کو کسی قابل نہيں سمجھتے تھے۔
زمين پر پٹخ کر وہ يہ جا وہ جا۔
وہ ننھی سی آٹھ سال کی کلی اس ظلم پر کسی کو اپنی مدد کے لئے بلا بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کا يہاں تھا ہی کون۔ وقت نے ان ظالموں کو اسکا حاکم بنا ڈالا تھا۔
اب وہ جيسے چاہے اسے استعمال کرتے۔ اپنی ہچکيوں پر بمشکل قابو پاتے وہ اپنا ننھا سا وجود گھسيٹ کر جامن کے درخت کے تنے سے لگ کر سکڑ سمٹ کر بيٹھی نجانے کتنی دير روتی رہی۔
کبھی گال پر ہاتھ رکھ کر جلتے گال کو سہلاتی کبھی اپنے بالوں کو تھام کر انکی تکليف کم کرنے کی کوشش کرتی۔
"اماں" منہ پر ہاتھ رکھے ماں کو آواز بھی نہيں دے سکتی تھی۔ کوئ سن ليیتا تو اسکی اور بھی شامت آنی تھی۔ وہ نہيں جانتی تھی کہ اس لڑکے کو اس سے کيا بير تھا۔۔ بس اس کا جب دل کرتا اسے دھنک کر رکھ ديتا۔
اور کوئ بچہ اس سے اس طرح پيش نہيں آتا تھا۔ مگر يہ نجانے کيوں۔۔۔
_____________________________
"مت مارو مجھے۔۔۔ ميں ۔۔ مين۔۔۔ نے ۔۔۔ اماں ں ں۔۔ ميں نے کيا بگاڑا ہے تمہارا" وہ زور زور سے چلا رہی تھی۔ بلک رہی تھی۔
مگر وہ وحشی بنا اسے اپنی وحشت کا نشانہ بنا رہا تھا۔
"بکواس بند کر۔۔۔ کمينی کہيں کی۔۔۔ تو ہے۔۔ تيری وجہ سے۔۔۔۔" اسکا تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ اس بيچاری کے ہونٹ پھٹ گئے۔ مگر وہ کسی صورت اس پر رحم کرنے کو تيار نہ تھا۔۔۔
"بيٹا وہ۔۔۔ وہ تمہيں بتانا تھا" يکدم منظر بدلا۔ کوئ فون پر اسے اطلاع دے رہا تھا۔
"کيا ہے جلدی بولين" وہ بيزاری سے بولا۔۔ ابھی تو شيلٹن کے وہ قريب ہوا ہی تھا کہ منحوس فون نے رخنا ڈالا۔۔۔
فون کان سے لگاۓ مخمور نگاہوں سے وہ شيلٹن کے بجلياں گراتے حسن کو ديکھ رہا تھا۔
"وہ۔۔ وہ نا۔۔بھا۔۔۔۔" دوسری جانب سے جو بات اسے بتائ گئ نہ اسے شيلٹن ياد رہی نہ کوئ اور
"کيسے ہوا يہ۔۔۔۔ اتنی پہرہ داری مين کيسے۔۔۔۔۔ ميں چھوڑوں گا نہيں ايک ايک کو" وہ دھاڑ رہا تھا۔۔ اپنے بال نوچ رہا تھا۔۔
"کيسےےے۔ےےےے" چلاتے ہوۓ وہ اٹھ بيٹھا۔۔۔
آنکھيں پھاڑ کر اردگرد ديکھا۔۔ مگر وہاں نہ کوئ شيلٹن تھی نہ ہی يہ اس کا فليٹ تھا۔
وہ تو اس لمحے حويلی ميں اپنے کمرے ميں موجود تھا۔
مگر يہ خواب۔۔۔بہت سالوں سے يہ خواب اسے تنگ کررہا تھا۔ ۔۔ سر ہاتھوں پر گرايا۔۔ ايک لمبی سانس خارج کرتا وہ کمفرٹر غصے سے خود پر سے ہٹاتا بيڈ سے اٹھا۔
سائيڈ ٹيبل سے موبائل اٹھا کر وقت ديکھا۔ رات کے ڈھائ بج رہے تھے۔ ہر سمت سناٹا تھا۔ موبائل واپس پٹخ کر سگريٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی کی جانب رخ کيا۔
نومبر کی خنک ہوا نے اسکے جلتے دماغ کو پرسکون کيا۔
سگريٹ سلگا کر باغ ميں موجود کسی غير مرئ نقطے کو نجانے کتنی دير ديکھتا رہا۔ اضطراب کم ہونے کی بجاۓ بڑھتا جارہا تھا۔
"ڈھونڈ نکالوں گا تمہيں۔۔ جا کہيں بھی تم ہوئيں۔۔ چھوڑوں گا نہيں۔۔ ايک بار مل جاؤ۔ تمہارے کئے کی بہت کڑی سزا ملے گی تمہيں" سگريٹ کے ايک دو اور کش لگا کرزمين پر پھينک کر پاؤں سے اسے ايسے مسلا جيسے سگريٹ نہيں اسے تکليف دينے والا وہ شخص ہو۔
_____________________________
"مبارک ہو اللہ نے آپ کو دو بيٹيون سےنوازا ہے" وہ جو کب سے مضطرب سا ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔ ڈاکٹر کے باہر آکر خوشخبری سنانے پر تھم سا گيا۔ اسے آس تھی کہ شايد بيٹا ہو۔
"مگر اب اسکے بعد آپکی وائف دوبارہ بچہ کنسيو نہيں کرسکتيں۔ لہذا اب دوبارہ آپ ايسا کچھ مت کيجئے گا۔ ورنہ انکی زندگی کی ہم گارنٹی نہيں دے پائيں گے۔ اب بھی کيس بہت پيچيدہ تھا۔ مگر اللہ نے ان دونوں کی زندگی رکھی تھی اسی لئے يہ دنيا ميں آئيں" ڈاکٹر کی بات پر اسکے کندھے جھک کر رہ گئے۔
پچھلے چھ سالوں سے اسکے ساتھ يہی ہو رہا تھا۔صرف ايک زرناب تھی انکی تين سالہ بيٹی جو انکی اولاد ميں سے اب تک زندہ سلامت تھی۔ باقی سب بيٹے اللہ کو پيارے ہوچکے تھے ۔ ايک بار اللہ نے بيٹا صحيح سلامت ديا مگر ڈليوری کے چند گھنٹوں بعد ہی اللہ نے اسے واپس بلا ليا۔
"نجانے کس کی بددعائيں ميرے بچے کی خوشياں کھا گئيں۔" عشرت بيگم روتے ہوۓ ملک سرفراز کے کندھے کےساتھ لگ کر چہکوں پہکوں رو نے لگيں۔
"کسی کی بددعائيں نہيں انسان کے اپنے اعمال کبھی کبھی اسکی راہيں کھوٹی کرديتے ہيں۔ شکر کرو۔ اللہ نے اولاد سے نوازا ہے" ملک اياز نے گلا کھنکھار کر ايک ہاتھ سے بھائ کا کندھا تھپتھپايا۔
"اپنے بيٹوں پر غرور مت کريں" بھائ کی بات وہ برداشت نہ کرسکا۔ ہاتھ جھٹک کر نخوت سے بولا۔
"ميں اپنے بيٹوں پر غرور نہيں کرتا۔۔ يہی فرق ہے مجھ ميں اور تم ميں" اپنی پگڑی درست کرکے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔
چند دن بعد ہی "مارج" کو لئے وہ حويلی ميں داخل ہوۓ۔
"کون ہے يہ بچہ" گندمی رنگت کا پيارا سا سات سال کا بچہ ملک اياز کے ہمراہ آتے ديکھ کر رضيہ مايا کو تخت پر احتياط سے لٹا کر کھڑی ہوئيں۔
عشرت بيگم اور زرينہ کے بھی تاثرات رضيہ سے مختلف نہيں تھے۔
"يہ ميرے دوست کا بيٹا ہے۔۔ ماں باپ دونوں زندہ نہيں ہيں۔ اسی لئے ميں اسے يہاں لے آيا۔ اب سے يہ يہيں رہے گا" ملک اياز کی بات پر ہال ميں آتے سرفراز کے کانوں ميں پڑی۔
"بھائ صاحب ايسی کہانياں بہت پرانی ہوچکی ہيں۔ بتائيے گا ذرا کون سے دوست کا بيٹا ہے يہ" جب سے پگڑی ملک اياز کو ملی تھی تب سے ملک سرفراز ويسے ہی بھائ سے جل رہا تھا۔ اب بھی اسی جلن کے تحت وہ جان بوجھ کر باپ جيسے بھائ پر الزام لگانے لگا۔ اسکی بات پر وہاں موجود تينوں خواتين کے چہرے کے تاثرات لمحہ بھر کے لئے بدلے۔
"تم نہيں جانتے اسے" بڑی مشکل سے بھائ کی بات کو برداشت کرتے انہوں نے اپنا لہجہ اعتدال پر رکھا۔ اگر مہرنگار نے انہيں قسم نہ دی ہوتی تو وہ ضرور اس وقت ملک سرفراز کو اس بات کا اچھے سے جواب ديتے۔
"يہ خوب کہی آپ نے۔۔۔ ايسے کيسے ہم کسی بھی ايرے غيرے کو اپنے گھر ميں رکھ ليں۔ کيا آپ اپنی روايات بھول چکے ہيں۔ يہاں ہماری بيٹياں بھی ہيں۔ جنہوں نے کل کو جوان ہونا ہے۔۔ ايک ايسے لڑکے کو ہم کيسے يہاں رہنے کی اجازت دے سکتے ہيں جس کا نہ آگا پتہ نہ پيچھا۔۔ کيوں اماں غلط کہا کيا ميں نے" اس نے رعونيت سے کہتے ماں کو بھی بھيچ ميں گھسيٹا اور وہ تو ہميشہ اسکی اچھی بری بات کی تائيد کرتی تھيں۔ اسی لئے تو وہ بگڑا تھا۔
"سرفراز ٹھيک کہہ رہا ہے۔ بيٹے ہماری يہاں بچياں غيروں سے پردہ کرتی ہيں۔ کل کو يہ اسی کے ساتھ يہاں بڑی ہوں گی۔ہم کيسے لوگوں کو جواب ديتے پھريں گے۔ تم کسی يتيم خانے ميں اسے بھجواؤ" انہوں نے بھی سفاکی سے کہا۔
"جن کا آگا پيچھا ہو۔۔ کرتوت تو کبھی کبھی انکے بھی ٹھيک نہيں ہوتے۔ خاندان اور حسب نسب سے اگر شرافت آنی ہوتی تو عزت دار لوگ کبھی کوٹھوں پر نہ جاتے" ملک اياز نے اب کی بار اپنی سنجيدہ نظريں بھائ کی آنکھوں ميں گاڑتے جيسے اسے کچھ باور کروايا۔ ملک سرفراز کی زبان يکدم تالو سے چپک گئ۔ وہ کس بات کا حوالہ دے رہے تھے۔
کچھ چونک کر اس نے "مارج" کی جانب ديکھا۔ اس چہرے نے کسی کی ياد بڑی شدت سے دلائ۔ رنگت اتنی صاف نہيں تھی مگر آنکھيں۔۔ ہو بہو وہی تھيں۔
عشرت بيگم کے دل ميں مارج کے حوالے سے شک آچکا تھا وہ اسے رکھنے کو تيار نہيں تھيں۔
بہت دير ملک اياز اور ان ميں بحث چلتی رہی۔ ملک سرفراز تو ايسا چپ ہوا۔ کہ کچھ دیر بعد وہاں سے چلا ہی گيا۔
رات ميں جس وقت ملک اياز اپنی خواب گاہ ميں آئے زرينہ کو بيڈ پر گم سم سا بيٹھے ديکھا۔ آہستہ روی سے چلتے وہ بيڈ پر انکے مقابل بيٹھے۔
زرينہ کی محويت ٹوٹی۔
"کيا آپ کو بھی مجھ پرشک ہے؟" ان کے لہجے ميں ايک آس تھی۔
زرينہ ہولے سے مسکرائيں۔
"کيا آپ کا يہ سوال کرنا بنتا ہے۔ کيا اتنے سالوں ميں اتنا ہی جاناہے مجھے" انکے چہرے کا اطمينان ديکھ کر انہيں ڈھارس ملی۔
"بندہ بشر ہيں۔ لوگوں کی باتوں ميں آبھی سکتی ہيں" انکے چہرے پر بھی آسودہ مسکراہٹ بکھری۔
"اگر يہ آپکی بھی اولاد ہوتی تو مجھے اس بچے سے کوئ پرخاش نہيں تھی۔ ہر انسان اپنے کئے کا ذمہ دار خود ہے۔ اگر آپ گناہ کے مرتکب ہوتے تو اللہ ہی آپکے لئے کافی ہے۔ ہم انسان اپنے اعمال کے ذمہ دار ہيں۔ دوسروں کے نہيں۔ بس مجھے يہ تکليف ہورہی ہے کہ لوگ گناہ کا رشتہ بناتے يہ کيوں بھول جاتے ہيں جو جان اس سب کی پاداش ميں دنيا ميں آتی ہے وہ کن تکليفوں سے گزرتی ہے۔ ميں کوشش کروں گی کہ مارج کو ميری جانب سے ايسی کوئ تکليف سہنی نہ پڑے۔ مگر باقيوں کا ميں کچھ نہيں کہہ سکتی" وہ زرينہ کی سمجھداری اور خود سے محبت سے بہت اچھے سے واقے تھے۔ آج بھی انہوں نے اپنے شوہر کو مايوس نہيں کيا تھا۔
"دعا کرو ميں اسے پڑھا لکھا کر اس قابل کردوں کہ وہ ہمارا محتاج نہ رہے۔۔" انہوں نےصدقے دل سے شوہر کی بات پر آمين کہا۔
"پوچھو گی نہيں۔ اس بچے کی اصل حقیقت کيا ہے؟" انکے ہاتھ تھامتے انہوں نے فہمائشی انداز ميں پوچھا۔
"کچھ حقیقتيں معلوم نہ ہوں تو ہی بہتر ہوتا ہے۔ لوگوں کے اصل چہرے اگر نظر آجائيں تو اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ميں چاہون گی کہ آپ سرفراز بھائ کے اس راز کو کبھی فاش نہ کريں۔ اللہ بہترحساب لينے والا ہے" زرينہ کی بات سن کر وہ گنگ رہ گئے۔
"آپ کی کوٹھے والی بات پر سرفراز بھائ کا چپ ہونا شايد اور کسی کو محسوس نہ ہوا ہو۔ مگر ميں نے اس خاموشی سے بہت کچھ اخذ کرليا تھا" نظريں اٹھا کر انہوں نے شوہر کی حيران نظروں ميں جھانکا۔
وہ واقعی بہت جہانديدہ عورت تھيں۔ آج ملک اياز کو اس بات کا يقين ہوگيا تھا۔
"آپ اللہ کا انعام ہيں ميرے لئے" بے اختيار انہيں خود ميں سموتے وہ سرگوشی نما آواز ميں بولے۔
"اللہ سب کی پردہ پوشی کرے" انکے سينے پر سر رکھتے زرينہ نے سچے دل سے دعا مانگی۔
__________________________
جوں ہی اسکی پجيرو حويلی کے پارکنگ ايريا ميں رکی۔ سب لڑکياں ہولے سے اپنی اپنی چادريں سنبھالتيں اتريں۔
اندرونی حصے سے دو تين ملازمائيں ان کا سامان گاڑی سے نکالنے لگيں۔
نشرہ بھی اپنی جانب کا دروازہ کھول کر اتری۔
ڈرائيونگ سيٹ سے اتر کر مارج گاڑی کے قريب کھڑا اسکے اترنے کا منتظر تھا۔
"سنو۔۔ ميں نے يہ چپل پہن لی ہے ميری ہيلز گاڑی ميں رکھی ہيں ميرے کمرے ميں لے کر جاؤ" گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب اشارہ کرتے وہ تحکم سے مارج سے مخاطب ہوتی اندر کی جانب بڑھنے لگی۔
"اماں نذيرہ۔۔۔ بی بی کے کمرے ميں انکی جوتياں پہنچا ديں" اس کے حکم کے جواب ميں مارج نے پاس کھڑی اماں ںذيرہ کو آواز دی۔
اپنی حکم عدولی پر وہ بھنا کر مڑی۔ اور اسکے قريب پہنچ کر اسکے سینے پر انگلی رکھی۔
"تم لے کر آؤ گے ميرے کمرے ميں۔۔ سمجھے" مغرور لہجے ميں اسے اسکی حيثيت باور کروانے لگی۔
اسکی بات اور حرکت پر وہ زچ کرنے والی مسکراہٹ اس پر اچھال کردائيں ہاتھ سے گلاسز اتار کر قميض کی اگلی جيب ميں رکھتے۔ ايسے مصروف تھا جيسے وہ اس سے نہيں کسی اور سے مخاطب ہو۔
مسکراتی نظروں سے ايک نظر اپنے مقابل غصے سے لال چہرہ لئے نشرہ کو ديکھا۔
"کاش کے ميں اماں نذيرہ ہوتا آپ کا حکم بجا لانے ميں ايک سيکنڈ کی بھی تاخير نہ کرتا۔ ويسے آج ملک صاحب سے پوچھ ليتا ہوں کہ آج سے بی بی کے ہر کام آپ ميرے ذمہ لگا ديں۔ حتی کے گاڑی ميں بٹھانے اور گاڑی سے اتار کر انکے کمرے تک پہنچانے کا عمل بھی کہيں تو ميں اپنے ان ناتواں بازو سے انجام دے ليا کروں۔ تاکہ بی بی کو پير زمين پر رکھنے کی بھی زحمت نہ کرنی پڑے۔ پھر آپکے کمرے کی صفائ بھی ميں اپنے ذمہ لگوا ليتا ہوں۔ اور اگر کہتی ہيں تو جب جب آپ راتوں کو ڈر کر اماں نذيرہ کو اپنے کمرے ميں سلواتی ہيں وہ خدمت بھی ميں ہی انجام دے ليتا ہوں۔
اور ہاں۔ رکئے۔ آپکے بالوں ميں برش بھی آج سے ميں ہی کرديا کروں۔ اور جب آپ واش۔۔۔۔"
"بند کرو اپنی بکواس" وہ جو نجانے کيا کيا خدمتوں کو اپنے نام لکھوانے کے در پر ہورہا تھا۔ نشرہ کو اسکی گل افشانيون کو ٹوکنا ہی پڑا۔
وہ چہرہ جو کچھ دير پہلے غصے سے لال ہو رہا تھا اب حيا کی لالی بکھر گئ تھی۔
Will post next epi on Monday
اسے اندازہ نہيں تھا نکاح نامے پر سائن کرتے ہی وہ اس سے اس قدر بے باک گفتگو کرنے لگے گا۔
"آئندہ سوچ سمجھ کر مجھے ميری حيثيت باور کروائيے گا۔ وہ کيا ہے نا کہ وقت نے بہت کچھ بدل ديا ہے۔" ايک گہری نگاہ اس پر ڈال کر ہولے سے مسکراتے مونچھوں کو تاؤ ديتے وہ اسے مزيد آگ بگولا کرکے يہ جا وہ جا۔
"اماں ميرے جوتے لے کر آئيں" اپنی لڑکھڑاتی آواز پر بمشکل قابو پاتے مردان خانے کی جانب جاتے مارج کی پشت کو گھورتی وہ چادر جھٹکتے زنان خانے کی جانب بڑھی۔
"سر آپ يقينا ہماری يونيورسٹی کی ترقی ميں چار چاند لگا ديں گے" پرنسپل کے آفس ميں بيٹھا وہ بہت دير سے داد و تحسين وصول کررہا تھا۔
"سر وريد کوئ بھی مسئلہ ہو آپ نے بے جھجھک ہميں کہہ دينا ہے" سب اسکے آگے پيچھے بچھ رہے تھے۔ اور کيوں نہ بچھتے۔ باہر کی يونيورسٹی چھوڑ کر وہ يہاں اپنے ملک ميں نوکری کرنے آيا تھا۔ اور پھر اس قدر ٹيلنٹڈ استاد انہيں شايد ملتا۔ نہ صرف ٹيلنٹڈ تھا بلکہ غضب کا وجيہہ اور ينگ بھی تھا۔ چودھريوں کا غرور اس ميں بھرا پڑا تھا۔
ابھی بھی کب سے بيٹھا کسی کو خاطر ميں نہيں لا رہا تھا۔
"ميں اپنے مسائل خود زيادہ بہتر طريقے سے حل کر ليتا ہوں۔ آپ پريشان مت ہوں" شستہ انگريزی اور غيرملکی لہجے ميں اپنی بات کہہ کر وہ انہیں مزيد امپريس کررہا تھا۔
پرنسپل نے فخر سے مسکراتےوہاں موجود سب اساتذہ کو ايسے ديکھا جيسے کہہ رہے ہوں" ديکھا ميری چوائس کيا گوہر ناياب ڈھونڈ کر لايا ہوں۔"
"کل سے ميں اپنی کلاس سے انٹرو کے ساتھ جہاں سے آپکے پرانے ٹيچر نے چھوڑا تھا وہيں سے شروعات کرلوں گا۔ آپ سب بکس اور ميٹيريل مجھے مہيا کرديجئے" ايسا محسوس ہورہا تھا وہ اپنی تعريفوں سے اب بے زار ہوچکا ہو۔
کل ہی وہ گاؤں سے شہر آيا تھا۔ شہر ميں ان کی کوٹھی موجود تھی۔ جو بھی پڑھنے کی غرض سے يہاں آتا تھا اس کا قيام اسی کوٹھی ميں ہوتا تھا۔ اب سے وہ کوٹھی وريد کے زير استعمال ہونے والی تھی۔
آج اس کا سٹاف سے ملاقات کا دن تھا اور کل سے اس نے جوائننگ دينی تھی۔
اسے روپے پيسے کی کمی نہيں تھی۔ اسی لئے اسے اس چيز سے غرض نہين تھی کہ وہ کہاں پڑھاتا۔ بس اسے اپنا يہ پروفيشن بنانا تھا۔ اس کا ارادہ اپنا کالج بنانے کا تھا۔ مگر اس سے پہلے وہ ايکسپيرينس لے کر سب باريکيوں کو مد نظر رکھنا چاہتا تھا۔
کالج کی زمين وہ بہت پہلے ہی لے چکا تھا جب وہ ابھی پی ايچ ڈی کررہا تھا۔ بس کچھ سال يونی ميں جاب کے ساتھ ساتھ اس کا ارادہ کالج تعمير کروانے کا تھا۔
اس کا خيال تھا کہ اسی يونی سے وہ ہونہار طالبعلموں کو بھی چن کر اپنے کالج پڑھانے کی آفر کرے گا۔
بہت کچھ سوچ کر وہ يونی آيا تھا۔ توقع کے عين مطابق ہر کوئ اس سے مرعوب نظر آرہا تھا۔ ايک تو اسکی اپنی شخصيت پھر باہر کی ڈگری کا ٹيگ دونوں نے مل کر اسے ان سب ميں نماياں کرديا تھا۔ يہاں آکر چند ايک پرانے سکول کے دوستوں سے رابطہ بھی کيا تھا۔ وہ سب اس سے ملنے کو بے تاب تھے۔ اگلے دن يونيورسٹی کلاسز کے بعد اس نے دوستوں سے گيٹ ٹوگيدر کا فيصلہ کيا تھا۔
کچھ ہی دير بعد پرنسپل کے آفس سے اٹھ کر سر زکريا کے ہمراہ وہ اپنے آفس کی جانب بڑھ گيا۔
________________________
بہت دير سے وہ اسے ايک لڑکے کے ساتھ ہنستے ديکھ کر پيچ و تاب کھا رہا تھا۔ غصيلی نظريں نقاب ميں چھپے چہرے کو بری طرح گھور رہی تھيں۔
جيسے ہی وہ لڑکا يونی کے اندر کی جانب بڑھا وہ تيزی سے گاڑی گھما کر اسکے سامنے لے آيا۔ يوں اچانک گاڑی سامنے آنے پر وہ ڈر کر دو قدم پيچھے ہٹی۔
اچنبھے سے گاڑی ميں موجود مارج کو ديکھا۔ وہ سن گلاسز آنکھوں پر لگاۓ منہ پر سنجيدہ تاثرات بکھيرے سامنے کی جانب ديکھ رہا تھا۔
اپنے مخصوص ملکوں والے حليے شلوار قميض پر چادر ڈالے وہ نار کو حيران کررہا تھا۔
اسے سمجھ نہيں آرہی تھی کہ وہ يہاں کيوں ہے۔
"آپ کل ہی تو نشرہ اور باقی سب کو حويلی لے کر گئے ہيں" اسکے عجيب پراسرارانداز پر آخر اسے ہی آگے بڑھ کر اسے ياد کروانا پڑا۔
"گاڑی ميں بيٹھو" اسکی بات کے جواب ميں اسکا حکم نار کی سمجھ سے باہر تھا۔
"کيا کہہ رہے ہيں آپ؟" وہ حيرت زدہ سی پوچھنے لگی۔
"کم سنائ ديتا ہے۔ اس گدھے کی باتيں تو بڑی آرام سے تمہيں سمجھ آرہی تھيں۔ ميری باتيں کيا اتنی پيچيدہ ہيں کہ انہيں سمجھنے کے لئے باقاعدہ کو معمہ حل کرنا پڑے۔" اسکا پھنکارتا بے لچک لہجہ نار کو اب پريشان کر گيا۔ وہ جو آج تک کبھی مخاطب نہيں ہوا تھا۔ آج کيسے حق جتا رہا تھا۔
"ايکسکيوزمی مجھے سمجھ نہيں آرہی آپ يہاں کرنے کيا آئے ہيں اور مجھ پر يہ رعب کس خوشی مين جھاڑ رہے ہين" وہ بھی لہجے کو سخت بنا کر بولی۔ آنکھوں سے ناگواری واضح جھلک رہی تھی۔
"تم اچھی طرح جانتی ہو ميں کيوں اور کس لئے تمہيں مخاطب کررہا ہوں۔ گاڑی ميں بيٹھو لوگ متوجہ ہورہے ہين" آخر اسے نار کو اردگرد کا احساس دلانا پڑا۔
"ہاسٹل چھوڑ دوں گا"مزيد گويا ہوا۔
وہ بھی اردگرد ايک نظر ڈال کر گاڑی کا دروازہ کھول کر بيٹھ گئ۔ بہت سے لوگ اپنی اپنی مطلوبہ بس کے انتظار مين کھڑے يہ منظر بڑے شوق سے ديکھ رہے تھے۔ نار کو آخر مارج کی بات مانتے ہی بنی۔
"آئندہ تم مجھے يوں کسی لڑکے سے بات کرتی نظر نہ آؤ۔ سن لو پہلے" اسے بولنے کے لئے منہ کھولتا ديکھ کر وہ ہاتھ سے روک گيا۔
"ميں جانتا ہوں وہ صرف کلاس فيلو تھا۔ مگر يونی کی ڈسکشن يونی کے اندر ہی ٹھيک لگتی ہے يوں پبلک سپاٹ پر کھڑی ہو کر وہ يوں بے تکلفی سے بات کررہا تھا۔ يہ بالکل مناسب نہيں" اسکا انداز اسے جتنا حيران کرتا کم تھا۔ وہ ايسے بول رہا تھا جيسے بہت قريبی تعلق يا بے تکلفی ہو۔
"آپ کون ہوتے ہيں مجھے يہ سب کہنے والے" اپنی گھور آنکھيں اسکے سنجيدہ چہرے پر ڈالتے وہ تلخی سے بولی۔
"کيا مجھے بتانے کی ضرورت ہے کہ ميں کون ہوں؟" اسکی جانب ايک نظر ديکھتے وہ رک رک کر آخری تین الفاظ پر زور ڈال کر بولتا نار کو ہقا بقا کرگيا۔ تو کيا وہ جان گيا تھا۔
اسکی حيرانگی پر موڑ کاٹتے ايک نظر اسے ديکھ کر وہ مبہم سا مسکرايا۔
"تم بہت اہم ہو ميرے لئے اور يہ بات تم جانتی ہو" وہ اسے کيا کچھ باور کروا گيا تھا۔
"اب کيا فائدہ يہ سب بتانے کا" وہ بمشکل چہرہ موڑ کر اپنے آنسو ضبط کرنے لگی۔
"بہت دير ہو چکی ہے" وہ لڑکھڑاتے لہجے پر بمشکل قابو پاکر بولی۔
"بالکل بھی دير نہيں ہوئ۔ ميرے خيال ميں اب ہی تو اصل وقت آيا ہے۔ تم جيسے کہوگی ميں ويسا ہی کروں گا۔ اعتبار کرو مجھ پر"وہ اسے يقين دلاتا ہوا بولا۔
"کسی پر يقين نہین۔۔ اب کسی پر اعتبار نہيں۔" وہ نفی مين سر ہلاتے بولی آنسو ٹوٹ کر اسکے نقاب ميں جذب ہورہے تھے۔ لہجے ميں برسوں کو مسافت تھی۔
"ميں تمہارا يقين اور مان کبھی نہيں توڑوں گا۔۔" وہ ہر ممکن طريقے سے اسے يقين دلانا چاہتا تھا۔
"مجھ سے دور رہيں آپ" وہ لہجہ سخت کرکے بولی۔
"يہ ناممکن ہے" وہ بھی اٹل لہجے ميں بولا۔
"کيا بتائيں گے کسی کو۔۔ کون ہوں ميں آپ کی؟" وہ اسے چيلنج کرنے والے انداز ميں بولی۔
"جو حقيقت ہے وہ بتا دوں گا۔ ڈرتا نہيں ميں کسی سے۔ اور اتنے عرصے ميں اس بات کا تو اندازہ ہوگيا ہوگا تمہيں" وہ بھی اسکا چيلنج قبول کرتے بولا۔
"نہيں ميں آپ کو کھو نہيں سکتی۔ پليز دوبارہ ميرے راستے ميں مت آئيے گا" ہاسٹل کے قريب گاڑی روکتے اس نے ايک نظر بھر کر اسے ديکھا۔ کتنا خوف تھا اسکے اندر۔ وہ متاسف ہوا۔
"اس کا فيصلہ تم نے نہيں ميں نے کرنا ہے۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ اور اپنا خيال رکھو۔ ميں ہر لمحہ تمہارے آس پاس ہی ہوں"اسے يقين دلاتا وہ اسے جانے کا اشارہ کرنے لگا۔ نار نے بے بس نظروں سے اسے ديکھا۔ وہ ضدی تھا يہ تو وہ جانتی تھی۔ خاموشی سے گاڑی سے اتر کر مرے مرے قدموں سے اندر جانے لگی۔ کتنا چاہا تھا اس نے کہ وہ اس سے يہ سب چھپا لے مگر وہ ناکام رہی تھی۔
اب اسے نشرہ کی فکر ہو رہی تھی۔ اگر جو اسے يہ سب معلوم ہوجاۓ۔ اس کا ری ايکشن کيا ہوگا۔
____________________
"کس نے بتايا بھائ صاحب کو ميرے اور مہرنگار کے بارے ميں" وہ اپنے تمام خاص ملازمين کو لائن حاضر کرچکا تھا۔ غصے سے دھاڑتا وہ پاگل ہورہا تھا۔ اسکی ايک اور کمزور اسکے بھائ کے ہاتھ لگ گئ تھی۔
"صاحب۔۔۔ صاحب ميری اطلاع کے مطابق ۔۔مہرنگار نے خود بڑے ملک کو فون کيا تھا" شيرو نے ڈرتے ڈرتے اسے اطلاع دی۔
"تو تب مجھے بتا نہيں سکتے تھے تم سب۔۔ اتنے سال چھپا کر رکھا۔ اور اب وہ سنپوليا۔۔۔ يہاں اس حويلی تک پہنچ گيا ہے۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔ (گالی) خود کہاں ہے؟" وہ پھنکارتے ہوۓ بولا۔ چہرہ لال سرخ ہورہا تھا۔ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
"وہ۔۔ صاحب۔۔ وہ۔۔ مرگئ ہے" اس نے پھر سے ہولے سے بولتے گويا ايسے کہا جيسے اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہو۔
"اچھا ہوا۔۔ اسے بھی اب مرجانا چاہئيے" غصے سے اسکے ناک کے نتھنے بری طرح پھولے ہوۓ تھے۔ بس نہيں چل رہا تھا مارج کو ابھی کے ابھی مار ديتا۔
"اسے کل سے باڑے کی رکھوالی کے لئے رکھو۔ آگے کا کام ميں خود کروں گا" کچھ سوچ کر اس نے باقی ملازمين کو جانے کا اشارہ کيا۔ شيرو کو پاس بلا کر سرگوشی کے سے انداز ميں کہا۔
"صاحب جی بڑے ملک صاحب نے اس بچے سے ايسے کوئ بھی کام لينے سے منع کيا ہے" وہ پھر خوف سے تھرتھراتے ہوۓ بولا۔
"ٹھيک ہے کل ميں شکار پر جارہا ہوں وہ بھی ميرے ساتھ جاۓ گا۔ اور اس بار ميں کوئ نا۔۔۔ نہ سنوں۔۔ جيسے بھی بندوبست کرسکتے ہو کرو" اپنی غصيلی نگاہيں شيرو پر جماتا وہ ايک ايک لفظ پر زور دے کر بولا۔
"جی سرکار ميں کچھ کرتا ہوں" جانتا تھا اسکی بات نہ ماننے کا کيا نتيجہ ہو سکتا تھا۔ اسی لئے شيرو کو مانتے ہی پڑی۔
اگلے دن جيسے تيسے ملک اياز کو منا کر شيرو نے ملک سرفراز کے ہمراہ بھيجا۔
دو ملازمين کے ساتھ مارج بھی تھا۔
وہ جانتا تھا کہ ملک سرفراز اسکا باپ ہے۔ اسکی ماں نے اس سے کچھ نہيں چھپايا تھا حتی کے اسکی حقيقت بھی۔ ابھی وہ ناجائز لفظ کے معنی سمجھنے کی عمر ميں نہيں تھا ہاں مگر يہ ضرور جانتا تھا کہ اس کا باپ اسکے لئے دل ميں کوئ احساس اور جذبہ نہيں رکھتا۔ مگر اتنی نفرت رکھتا ہے يہ اندازہ اسے آج ہوجانا تھا۔
جنگل ميں کچھ دور ہی ابھی وہ پہنچے تھے کہ ملک سرفرازنے دونوں ملازمين کو گنز دے کر ايک مخصوص جگہ پر رکنے کا کہا۔
"تم لوگ يہيں انتظار کرو۔ ميں اگے جاکر شکار کرکے آتا ہوں" وہ دونوں حکم کے غلام تھے۔ لہذا جيسا مالک نے کہا ويسے ہی کيا۔
"چلو تم ميرے ساتھ" مڑ کر گاڑی ميں بيٹھے مارج کو بادل نخواستہ مخاطب کرتے گاڑی سے اترنے کا اشارہ کيا۔ وہ چپ چاپ گاڑی سے اتر گيا۔
اسے لئے وہ کافی آگے آچکا تھا۔ مارج کو سمجھ نہيں آرہی تھی کہ آخر يہ کس قسم کا شکار ہے جس ميں وہ دونوں بس چلتے ہی چلے جارہے ہيں۔
"وہ آگے ايک پہاڑی سے ہی بھاگ کر ديکھ کر آؤ وہاں مرغابياں موجود ہيں يا نہيں۔۔اگر ہو تو مجھے بتانا ميں آکر وہاں ان کا شکار کروں گا" ايک جگہ رکتے اس نے سامنے موجود ٹيلے نما پہاڑی کی جانب اشارہ کرتے مارج کو مخاطب کيا۔ وہ سر ہلاتا ايک جانب دوڑنے لگا۔ ملک سرفراز نے اسے دوڑتے ديکھ کر اپنی گن نکال کر اسکی ٹانگ کا نشانہ ليا۔ ابھی وہ اتنی تيز نہيں بھاگ سکتا تھا کہ پل ميں اسکی نظروں سے اوجھل ہوجاتا وہ بڑے سکون سے اسکا نشانہ لے چکا تھا۔
ٹھاہ کی آواز کے ساتھ اسے مارج گر کر روتا نظر آيا۔
اسکی بلبلاہٹ پر وہ زہرخند مسکراہٹ گھنی مونچھوں تلے لبوں پر سجاۓ وہاں سے ہٹ چکا تھا۔
_____________________
نجانے کيوں شيرو کو ملک سرفراز کے تيور ٹھيک نہيں لگے تھے۔ مارج کو اسکے ساتھ بھيج تو ديا تھا مگر اندر سے وہ خوفزدہ تھا۔
ڈرتے ہوۓ وہ ملک اياز کے پاس گيا۔
"جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کرنی ہے" ہاتھ جوڑے وہ ملک اياز سے مخاطب ہوا۔ جو مردان خانے ميں موجود منشی کو پاس بٹھاۓ زمينوں کا حساب کتاب کرنے ميں مصروف تھے۔ ايک نظر شيرو کو ديکھ کر منشی کو وہاں سے جانے کا کہا۔
شيرو ان کا وفادار بندہ تھا۔ ملک سرفراز کے بہت سے کالے کاموں سے وہ انہيں آگاہ کرتا تھا۔ اس طرح کہ اس کا نام کبھی نہيں آيا تھا۔
"کہو" گلے ميں موجود چادر ٹھيک کرتے وہ اس سے گويا ہوۓ۔
"چھوٹے ملک صاحب کے تيور ٹھيک نہيں لگتے۔ وہ اس بچے کو لے تو گئے ہين مگر مجھے ڈر ہے کہ" وہ اپنا انديشہ انہيں بتانے لگا ساتھ ہی ساتھ اس دن کی گفتگو بھی من و عن سنائ۔
"تو تمہی نے اسکی سفارش کی تھی۔ کہ اسے لے جانے ديں" وہ ايک کڑی نگاہ اس پر ڈال کر بولے۔
"جی اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہورہا ہے۔ نجانے کيوں دل کہہ رہا ہے وہ اس بچےکے ساتھ کچھ برا کرنے والے ہيں" اس کا خوفزدہ لہجہ انکی بھی پيشانی پر تفکرات کی لکيريں کھينچ گيا۔
"ميری جيپ نکالو" کچھ سوچ کر وہ يکدم اٹھے۔
کچھ ہی دير ميں وہ دونوں چند اور گارڈز کے ساتھ اسی جنگل ميں پہنچ چکے تھے۔
سامنے ہی ملک سرفراز کو مرغابياں پکڑ کر گاڑی ميں رکھتے ہوۓ ديکھا۔ مارج انہيں کہيں بھی نظر نہيں آيا۔
"مارج کہاں ہے؟" اسے نہ پا کر وہ غصے سے ملک سرفراز کی جانب بڑھے۔ جو کچھ گڑبڑاتا ہوا نظر آيا۔
"ي ۔۔۔۔ہيں ک۔۔۔کہيں تھا۔ شايد کھيلتے کھيلتے آگے نکل گيا ہو" اسے ہکلاتے ديکھ کر انہيں اندازہ ہوگيا کہ شيرو کا شک سچ ميں بدل چکا ہے۔
"شيرو۔۔ صفدر۔۔وجاہت۔۔ سب پھيیل جاؤ اس جنگل ميں جب تک مارج نہيں ملے گا کوئ اس جنگل سے ايک قدم باہر نہيں نکالے گا" ملک سرفراز پر ايک تيکھی نظر ڈالتےوہ چلاۓ۔
کچھ ہی دير بعد شيرو کے بازوؤں ميں خون سے لت پت بے ہوش مارج کو ديکھ کر ان کا دل کيا ملک سرفراز کو يہيں زمين ميں گاڑھ ديں۔
"ملک صاحب اسے گولی لگی ہے بہت خون بہہ چکا ہے" وہ ہانپتا ہوا ان تک پہنچا۔
اتنے سے بچے کا يہ حال ديکھ کر ملک اياز آگے بڑھ کر سب ملازماؤں کی پرواہ کئے بغير ايک زور دار تھپڑ ملک سرفراز کے دائيں گال پر جڑ چکے تھے۔
ايک ہاتھ سے ششدر ملک سرفراز کا گريبان پکڑا۔
"تم باپ نہيں۔۔۔ وہ سانپ ہو جو اپنے مطلب کے لئے اپنی اولاد کو نگلنے سے بھی دريغ نہيں کرتا۔ دعا کرنا يہ بچ جاۓ نہيں تو اپنے انجام کی فکر کرنا۔۔۔۔ " سرگوشی نما آواز ميں اسے اچھی طرح باور کرواديا کہ مارج انکے نزديک کيا حيثيت رکھتا ہے۔ ملازمين کی وجہ سے انکی آواز اتنی دھيمی تھی کہ ان دونوں کے علاوہ کوئ اور اس سچ کو نہ سن سکے۔ جھٹکے سے اس کا گريبان چھوڑ کر شيرو کو گاڑی ميں بيٹھنے کا اشارہ کرتے وہ خود بھی جيت ميں سوار ہوتے۔۔۔ ملک سرفراز کے منہ پر دھول اڑاتے وہاں سے نکلے۔
_______________________
"سنا ہے ہمارے اس سمسٹر ميں نئے سر آئے ہيں۔ فارن کواليفائيڈ ہيں۔ اور باہر کی يونی کی جاب کو لات مار کر يہاں پڑھانے کے لئے آئے ہيں" وہ دونوں اس وقت کيفے ميں بيٹھی تھيں۔ جب زروہ نے اسے اطلاع دی۔
"اچھی بات ہے يار ہمارا ٹيلنٹ ہميں فائدہ پہنچاۓ نہ کہ باہر والوں کو۔" وہ ہميشہ کی طرح نقاب ميں ملبوس تھی۔ اس وقت بھی دونوں نوٹس بنانے کے ساتھ ساتھ باتيں بھی کر رہی تھيں۔
"نشرہ کی واپسی کا کيا سين ہے؟" وہ جانتی تھی کہ نشرہ اسکے زيادہ کلوز ہے۔
"يار رات کو بات ہوئ تھی۔ کہہ رہی تھی اسی ويک اينڈ پر اسکے بھائ کی شادی کے فنکشنز شروع ہوجائيں گے۔ لہذا اگلے پندرہ دن تک تو وہ نہيں آئے گی" نار کی بات پر وہ منہ بنا کر رہ گئ۔
"تو اتنے دنوں کی چھٹی مل گئ کيا اسے؟" وہ کچھ حيرانگی سے بولی۔ انہيں تو سب ٹيچرز دو دن کی چھٹيوں پر جھاڑ کر رکھ ديتے تھے۔
"وہ ہماری جيسی نہيں ہے۔ اس کا ابا سائيں يہاں پر ڈونيشن ديتے ہيں۔ ان کے بچوں کو فيور نہيں ملے گی تو کسے ملے گی" نار کی بات پر وہ چپ رہ گئ۔
کچھ ہی دير بعد دونوں نئے ٹيچر کی کلاس اٹينڈ کرنے پہنچ چکی تھيں۔
ور‌زشی جسم والا لمبا چوڑا سنجيدہ سا وريد تمام سٹوڈنٹس کو اپنا گرويدہ بنا گيا۔
کالی شلوار قيمض پہنے کہنيوں تک کف فولڈ کئے وہ وجاہت کا شاہکار تھا۔
"رول نمبر دوسوايک۔۔۔۔ پندرہ دن کی ليو۔۔۔ کيوں؟ کيا آپ ميں سے کوئ انکی اتنی لمبی غير حاضری کی وجہ جانتا ہے؟" وريد ايک طائرانہ نگاہ سامنے بيٹھے سٹوڈنٹس پر ڈال کر بولا۔ آج اس کا يہاں کلاس کے ساتھ پہلا دن تھا۔
اپنے انٹرو کے بعد اس نے اٹينڈينس لگانی شروع کی۔
نقاب ميں موجود ايک لڑکی نے ہاتھ کھڑا کيا۔
"جی" اس نے اسے بتانے کا اشارہ کيا۔
"سر وہ گاؤں گئيں ہيں۔ انکے بھائ کی شادی ہے" اسکی بات پر وہ سر ہلا کر رہ گيا۔
"بھائ کی شادی پر اتنی لمبی چھٹی اپنی شادی پر کيا کريں گی" اسکی بات پر کلاس ميں قہقہہ لگا۔ نار کو اسکی بات ناگوار گزری۔ آنکھوں سے چھلکتی ناگواری وريد کی زيرک نگاہ سے چھپی نہيں رہی۔
"بيٹھ جائيں" اس نے اگنور کرتے اسے بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
تھوڑی دير بعد وہ تمام کلاس سے ان کا انٹروڈکشن لے رہا تھا۔
"ميرا نام نار احسان ہے۔ " اتنے مختصر تعارف پر وريد نے دائيں آنکھ کی ابرو اٹھا کر ايسے ديکھا جيسے کہا ہو "يہ کيا تھا"
"بس؟" اپنی حيرت کو الفاظ پہناۓ۔
"جی سر ميری ذات ہی ميرا تعارف ہے اس سے زيادہ تعارف فی الحال ميرا نہيں ہے" اسکی بات نے وريد کو مخمصے ميں ڈالا۔ وہ لڑکی اسے عجيب سا معمہ لگی۔
کندھے اچکاۓ۔
"کوئ امبيشنز نہيں آپکی زندگی ميں۔ اس ڈگری کے بعد کيا کريں گی؟" نجانے کيوں اس سے بات کرنے کو دل کيا۔
"ابھی سب سے بڑا امبيشن يہ ڈگری ہے۔ اور نوے فی صد پاکستانيوں کی طرح ڈگری کے بعد اچھی نوکری اہم گول ہے زندگی ميں" اسکی بات پر متاثر کن مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھری۔
"مطلب آپ حقيقت پسند ہيں۔۔اچھی بات ہے" وہ متاثر ہوۓ بغير نہ رہا۔ نقاب ميں موجود کم ہی لڑکيوں کو اتنا کانفيڈينٹ اس نے ديکھا تھا۔ ورنہ عموما گھبرائ ہوئ ہوتيں تھيں۔ اب کی بار اس نے ايک گہری نگاہ اسکی کالی سياہ گھور آنکھوں پر ڈالی۔ نار نے سرعت سے نگاہوں کا زاويہ بدلا۔
"حقيقت پسند ہونے سے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ اور اميديں نہيں بندھتيں نہ ٹوٹتی ہيں نہ تکليف ہوتی ہے" سب مزے سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
"گڈ۔۔ اچھا لگا يہ جان کر کہ ميری کلاس ميں اتنے فلاسفر موجود ہيں" نجانے اس نے تعريف کی تھی کہ مذاق اڑايا تھا۔ کچھ لوگ دبا دبا ہنس رہے تھے۔۔ نار کو تو ايسا ہی لگا کہ يہ تعريف نہيں مذاق اڑانا تھا۔ اب کی بار وہ خاموش ہی رہی۔ اسی خاموشی سے اپنی سیٹ پر بيٹھ گئ۔
"عجيب ال مينرڈ ہيں۔ بھئ بات کا جواب ديا ہے اس پر مذاق اڑانے کی کيا بات ہے" سرگوشی نما آواز ميں وہ زروہ سے مخاطب ہوئ۔
"ارے نہيں انہوں نے ويسے ہی کہا ہے" وہ بات ٹالنے والے انداز ميں بولی۔
"تم ابھی سے ان کی چمچہ گيری کرنے لگيں۔ ايک آنکھ نہيں بھايا مجھے يہ بندہ" وہ خشمگيں نگاہوں سے اسے ديکھ کر بولی۔
"تو کس نے کہا ايک آنکھ سے ديکھو۔ دونوں سے ديکھو بھا جاۓ گا۔۔۔" وہ اسے نارمل کرنے کے لئے مزاحيہ انداز ميں بولی۔
"ويسے تمہيں بھانے سے کيا غرض۔۔ تمہيں کون سا" اس سے پہلے کے اسکے منہ سے کوئ عظيم بات نکلتی نار نے اسے زور سے کہنی مارکر خاموش کروايا۔
_________________________
"مجھے شاپنگ کرنے شہر جانا ہے" وہ مزے سے زرينہ کی گود ميں سر رکھے ليٹی ناز اٹھوا رہی تھی۔
"اچھا شہاب سے کہتی ہوں تمہيں لے جاۓ" وہ اسکے بال سنوارتے ہوۓ بوليں۔
"کيوں اب ميں مارج کی ذمہ داری ہوں۔۔۔ وہی لے کر جاۓ گا مجھے" وہ مزے سے انہيں ٹوک کر بولی۔ زرينہ نے ايک زور دار تھپڑ سے اسکے کندھے کی سيوا کی۔
"کيا ہے ماں؟" وہ کندھا سہلا کر بولی۔
"شرم کر۔۔۔ بے شرم کہيں کی۔۔۔ پتہ نہيں نشرہ تجھے کب عقل آئے گی۔ کيسے منہ پھاڑ کے شوہر کا ذکر کررہی ہے۔ اور اسکے ساتھ سير سپاٹے کے پروگرام بنا رہی ہے" زرينہ کا کم کم ہی ضبط جواب ديتا تھا۔ اگر ديتا تھا تو نشرہ کے ہاتھوں۔ وہ خوب اکلوتی بيٹی ہونے کے فائدے اٹھاتی تھی۔ اور شايد اسی وجہ سے بگڑی ہوئ تھی۔ ورنہ ان کے بيٹے اس قدر بے راہ روی کا شکار نہ تھے۔
"آپ بس مجھ پر تشدد کرتی رہا کريں۔ ايک تو آپ سب کی وجہ سے اس ناجائز۔۔"وہ تيزی سے اٹھ کر بيٹھتی انکے سامنے ہوتے دوبدو بولی۔ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی زرينہ نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر آنکھيں نکاليں۔
"آئندہ مارج کے لئے کوئ بکواس کی تو زبان کھينچ دوں گی۔ اپنی دادی اور پھوپھيوں کی زبان مت بولو۔ ميں نے تمہيں کتنی بار سمجھايا ہے۔ اور تم کون ہوتی ہو اسے يہ طعنہ دينے والی۔۔ "ان کا بس نہيں چل رہا تھا اسکا منہ تھپڑوں سے لال کرديتيں۔
"بہت اچھا کيا تمہارے بابا سائيں نے جو تمہارا نکاح مارج سے کرديا۔ ميں تو کہتی ہوں جلد رخصتی بھی کرديں۔ جان چھوٹے ميری تمہاری اتنی بے باک اور نڈر گفتگو سے۔ کبھی اپنے بھائيوں کو ديکھا ہے مارج کے ساتھ ايسی کوئ بات کرتے۔ ان سے سبق سيکھو۔ ہم اپنے کئے کے ذمہ دار خود ہيں۔ کوئ اور نہيں۔ لہذا دوسروں کی باتوں ميں آکر اسے غلط جج مت کرو" وہ اسے اچھی طرح لتاڑ رہی تھيں۔
"اب وہی لے کر جاۓ گا تمہيں بازار۔۔۔ بالکل صحيح کرتا ہے وہ تمہيں کسی خاطر نہ لا کر۔" وہ اچھے سے جانتی تھيں مارج کو اور اسکی شرافت کو۔ وہی تو تھا جس نے صائم کے ساتھ اسکے چکر چلنے کا ملک اياز کو بتايا تھا۔
يونيورسٹی جاتے ہی اسے تو گويا پر لگ گئے تھے۔ اپنے کلاس فيلو صائم کو پسند کرنے لگی۔ وہ بھی اسکی خوبصورتی سے متاثر ہوا۔ ايک دو بار مارج شہر کسی کام سے آيا وہيں اس نے کسی ريسٹورينٹ ميں اسے صائم کے ساتھ ديکھ کر بڑے سبھاؤ سے ملک اياز کو بتايا کہ وہ بھڑکيں نہيں۔
يہاں ملک اياز نے نشرہ سے بات کی۔ وہيں وہ اس سب کا کچھ اور مطلب نکالتے ضد ميں آکر ايک رات سب چھوڑ چھاڑکر صائم کے گھر جا پہنچی کے اس سے نکاح کرلے۔ وہ سب کو اسکے لئے چھوڑ آئ ہے۔
صائم اس سے صرف وقت گزاری کے لئے دوستی قائم رکھے ہوۓ تھا۔ اتنی آگے کا تو اسکے وہم و گمان ميں بھی نہ تھا۔ اس کے ماں باپ ملک اياز کو اچھے سے جانتے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے بيٹے کو اچھا لتاڑا۔ اور فورا ملک اياز کو فون ملا ديا۔
ان کے فون سے پہلے ہی مارج نے يہ اطلاع ان کو پہنچا دی تھی کہ نشرہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئ ہے۔
اس نے کچھ دنوں سے اپنے کچھ بندے اسکے پيچھے لگاۓ ہوۓ تھے۔ جو اسکی ايک ايک رپورٹ مارج کو ديتے تھے۔ وہ حويلی کی سبھی لڑکيوں کے لئے اتنا ہی حساس تھا۔ مگر يہ سب کرتے اسکے بھی وہم و گمان ميں نہ تھا کہ نشرہ کو صائم جيسے آوارہ صفت لڑکے سے بچاتے بچاتے وہ خود پھنس جاۓ گا۔
ملک اياز اسی رات غصے ميں نشرہ کو حویلی لے کر آئے اور آتے ہی اس کا نکاح مارج سے کرنے کا فيصلہ کيا۔
زرينہ تو کسی حد تک مطمئن ہوگئيں۔ مگر خاندان کے باقی سب لوگوں نے اعتراض کيا کہ جس لڑکے کو بچپن سے وہ ناجائز بچے کے حوالے سے جانتے تھے يوں حويلی کی لڑکی اسے کيسے دے ديں۔ مگر ملک اياز کے فيصلے کے سامنے کوئ چوں بھی نہيں کرتا تھا۔
اور يوں سب کے اعتراضات کے باوجود نشرہ اور مارج کا نکاح ہو کر رہا۔ تب سے نشرہ نے اس سے اور بھی بير باندھ ليا۔
"صفورہ خالہ يہ۔۔ يہ چھوٹے چوہدری مجھ پر اتنا غصہ کيوں کرتے ہيں" کچھ دير پہلے ہی وہ اسکے کمرے ميں صفائ کے لئے بھيجی گئ تھی۔ اسکی کتابيں دیکھ کر وہ انکی جانب ابھی بڑھی ہی تھی کہ پيچھے سے کوئ تيزی سے کمرے ميں آيا۔
اور آنے والا بھی کوئ اور نہيں کمرے کا مالک تھا۔
"تم ۔۔۔ تم يہاں کيا کررہی ہو" اول تو وہ اسے اپنے کمرے ميں ديکھ کر ہی بھنا گيا تھا اور اس پر مستزاد وہ اسکی بک ريک کے قريب کھڑی اشتياق سے اسکی کتابيں ديکھ رہی تھی۔
"مم۔۔ ميں۔۔ ميں تو۔۔ يہاں صفائ کے لئے" اسے اپنی جانب خونخوار نظروں سے ديکھ کر وہ ہکلاتے ہوۓ بولی۔
"اوہ شٹ اپ۔۔ ميری کتابوں کا صفايا کرنے آئيں تھيں۔۔ بتاؤکيا چرايا ہے يہاں سے ۔۔ بولو" اسے اس لمحے وہ پاگل ہی لگا تھا۔ جو بنا سوچے سمجھے بس اس پر غصہ اتارنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔
"صاحب ميں نے کچھ نہيں چرايا" روتے ہوۓ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اسکے سامنے جوڑتے وہ بے بس تھی شديد بے بس۔ کب سوچا تھا زندگی ميں کبھی ايسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نازونعم ميں پلنے والی آج يوں رل رہی تھی۔
"دفع ہوجاؤ ميرے کمرے سے" اسکے دولوں گالوں پر پہ در پہ تھپڑوں کی برسات کرتے وہ بھول گيا تھا کہ جو غصہ وہ اس پر نکال رہا ہے۔ وہ اس کی حقدار نہيں۔
وہ ہانتپی کانپتی وہاں سے بھاگتی سيدھی ملازموں کے بنے ہوۓ حصے کی جانب آئ۔
صفورہ خالہ اس کا لال چہرہ ديکھ کر سمجھ گئيں کہ وہ پھر سے چھوٹے چوہدری سے مار کھا کر آئ ہے۔
"تو کيوں گئيں وہاں" ايک وہی يہاں اسکے دکھ سميٹنے والی تھيں۔ ورنہ تو کسی کو کوئ فرق نہيں پڑتا تھا۔
"مجھ۔۔ مجھے بڑی بيگم چوہدرائن نے بھيجا تھا ان کا کمرہ صاف کرنے کے لئے" وہ روتے روتے خود پر بيتی روداد بتا رہی تھی۔
دوسری جانب صغراء بيگم اپنے بيٹے کو ايسا درندہ صفت ديکھ کر اسے ٹوکے بنا نہ رہ سکيں۔
"کيوں تم اسے يوں بے دردی سے مارتے ہو۔ انسان ہے وہ" اس بچی کے نکلتے ہی وہ اسکے کمرے ميں موجود تھيں۔
"اماں سائيں مت اسکی سائيڈ ليا کريں" وہ اپنی عمر سے کہيں بڑا انہيں لگا۔
"ميں نے۔۔ ميں نے خون ميں نہايا اپنا بھائ ديکھا تھا آپ نے نہيں" وہ اپنی لہو چھلکاتی آنکھوں سے ايک نظر انہيں ديکھ کر رہ گيا۔
"وہ ميرا بھی بيٹا تھا۔ ميں نے معاف کرديا سب کو" وہ روتے ہوۓ اسے کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بوليں۔
"کيسے کر سکتی ہيں آپ۔۔ انہيں معاف۔۔ کيسے۔۔۔۔ ميں نہيں کرسکتا" وہ انکے ہاتھ جھٹک کر دور ہوا۔
وہ ايسا ہی سفاک تھا۔
"بس کردو وريد يہ میرے ہاتھ جڑے ہيں۔ وہ بچی مر جاۓ گی۔ روز تم اسے مارتے ہو۔ يہی سيکھ رہے ہو اپنی پڑھائ سے" وہ اب کی بار اسے غصے سے ڈانٹنے لگيں۔
"ہاں ہاں بزدل بنا دے اسے۔۔ اپنی طرح" نجانے کس لمحے رقيہ بيگم کمرے ميں آئيں انہيں پتہ نہيں چلا۔
"اللہ کے قہر سے ڈريں" وہ دبی دبی آواز ميں بوليں۔ کب ہمت تھی کہ انکے سامنے اعتراض کر پاتيں۔
"وہ ناہنجار ڈرا اللہ سے ميرے بچے کو گاڑی کے نیچے روندتے" وہ دھاڑيں۔
"اور تو۔۔ بالکل صحيح کررہا ہے تو اسکے ساتھ۔۔ " وہ اسے مزيد شير بنا کر چلی گئيں۔ صغراء نے افسوس سے انہيں ديکھا۔
___________________________
When I woke up
I was shakin
I was confused
In a day’s in
I was twisted round a fence back on the hill and home again
I was there
You were there
I could see there
You were starin
You look different
But this thing is so hard to explain
And it felt that for a second you arrived there
In the flesh yeah0 I was hoping it was real but it wasn’t
Shoot me down to pin me back off
Show me plastic drownin instead
Pack my bag to punch in my love
يونيورسٹی سے آنے کے بعد وہ بہت دير سے خاموش کمرے ميں بيٹھا۔ راکنگ چئير کا رخ کھڑکی کی جانب تھا۔ لايعنی سوچوں نے گھيرا کر رکھا تھا۔
"کيسے ڈھونڈوں تمہيں؟" ہاتھ کی مٹھی بنا کر ماتھے کو ہولے ہولے ٹھونک رہا تھا۔
اسی لمحے موبائل بجا۔
اسکے خاص بندے کا فون تھا۔
"ہاں کچھ پتہ چلا" اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
"آپ کے جانے کے بعد بھی اس کا زيادہ تر وقت صفورہ بيگم کے ساتھ گزرتا تھا"
"صفورہ بی بی کہاں ہيں اب؟" وہ حويلی ميں چند دن رہا تھا مگر صفورہ اسے کام کرتی نظر نہيں آئيں تھيں۔ وہ حويلی کے اہم ملازمين ميں سے ايک تھيں۔ وہ يہی سمجھا کہ شايد وہ مر چکی ہيں۔
"اسکی گم شدگی کے چند دن بعد ہی وہ اپنی بيٹی کے گھر ہميشہ کے لئے چلی گئيں تھيں۔ کيونکہ اس کا شوہر کسی ايکسيڈنٹ ميں مر گيا تھا۔ تو صفورہ بيگم کو وہاں مجبورا جانا پڑا" وريد کو يہ نجانے کيوں کہانی ميں جھول لگا۔
"پتہ کرو وہ اب کہاں ہيں۔ ان کا ايڈريس مجھے بھجواؤ" کچھ سوچ کر اس نے اسے ايک نيا کام ديا۔
"جيسے آپ کا حکم سرکار" وہ مؤرب انداز ميں بولا۔
ابھی فون بند کيا ہی تھا کہ ايک بار پھر فون کی بيل بجی۔
"کہاں ہے يار؟" دوسری جانب فخر تھا۔
"کہيں نہيں گھر پہ ہی ہوں" ايک لمبی سانس خارج کرکے بولا۔
"تو آجا۔۔ تجھے ايک فرينڈ سے ملواؤ" اسکے لہجے ميں موجود کھنک سن کر اسکے چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئ۔ وہ پلے بوائے تھا نجانے اتنے دن بھی کسی لڑکی کے بغير کيسے گزار دئيے تھے۔
"آتا ہوں" فون بند کرکے تيزی سے تيار ہونے چل پڑا۔
کچھ دير بعد ہی وہ فخر کے سامنے موجود تھا۔ جو پہلے سے ہی کسی طرح دار لڑکی سے باتيں کرنے ميں مصروف تھا۔ تينوں شہر کے مہنگے ہوٹل ميں اس وقت موجود تھے۔
"يہ ميرا بہت پيارا دوست وريد ہے حال ہی ميں باہر سے پڑھ کر آيا ہے اور اب يہاں بھی پڑھاۓ گا۔ ساتھ ہی ساتھ موٹيويشنل اسپيکر ہے بہت سے ملکوں ميں سيمينارز کر چکا ہے۔ مگر اب پاکستان ميں اپنی خدمات پيش کرنے آگيا ہے" اسکی باپ پر مقابل لڑکی متاثر کن انداز ميں وريد کو دیکھنے لگی۔
"اور يہ ردا ہيں۔ ميری يونی فيلو۔۔۔۔۔سوچا آج تم سے ملوا ؤں " اسکی بات پر دونوں نے ايک دوسرے کو ديکھ کر خير مقدمی مسکراہٹ دی۔
"ان کا اتنا لمبا چوڑا تعارف اور ميرا بس اتنا سا" وہ ايک ادا سے برا منا کر بولی۔
"تم اپنا تعارف خود کرواؤ۔۔۔۔ ميرے خيال سے تم زيادہ اپنے بارے ميں بتا سکتی ہو۔ اچھا گائز مجھے ذرا ضروری کال آگئ ہے ميں پھر کسی دن تم دونوں کو جوائن کروں گا" وہ تيزی سے وہاں سے اٹھتا ہوا بولا۔
کچھ دير فخر کو وہاں سے جاتا ديکھنے کے بعد اس نے اپنی مقناطيسی سحر زدہ نگاہيں اس کے چہرے پر گاڑھيں۔
"جی تو آپ اپنا مکمل تعارف کروانا پسند کريں گی" کرسی کی پشت سے ٹيک لگاۓ آرام دہ انداز ميں بيٹھے ہوۓ کرسی کی ہتھی پر کہنی ٹکائے دائيں ہاتھ کی بند مٹھی ہونٹ اور ٹھوڑی پر ٹکاۓ وہ ردا کو قدرت کا شاہکار ہی لگا۔
بليک ڈريس پينٹ پر لائيٹ گرے شرٹ پہنے فارمل سے حليے ميں گھنے بالوں کو جيل سے سيٹ کئے۔ وہ ايک شاندار مرد تھا۔ داڑھی اور گھنی مونچھيں اسکی وجاہت کو چار چاند لگا رہی تھيں۔ ستواں ناک۔ تنی ہوئ بھنويں غرور چھلکاتی آنکھيں۔ سب بے حد پرفيکٹ تھا۔
وہ خود اس وقت پرپل سليوليس ٹاپ اور وائٹ ٹائٹس پر خوبصورتی سے تيار ہوئ کسی کا بھی ايمان متنزلزل کرنے کی صلاحيت رکھتی تھی۔
"اتنی جلدی کيا ہے ملتے نہيں گے تو مزيد کھل کر ايک دوسرے کے سامنے آئيں گے۔" شولڈر کٹ بالوں کو ناز سے جھٹکتے ہوۓ وہ مقابل کو اپنے سحر ميں جکڑ چکی تھی۔
"ويل سيڈ۔۔۔ ٹاپ اچھا لگ رہا ہے آپکا۔۔" وہ ايسی لڑکيوں کو قابو کرنے کے گر سے واقف تھا۔ کچھ دير بعد جب وہ وہاں سے اٹھے تو نمبرز ايکسچينج کرچکے تھے۔ بے تکلفی خاصی بڑھ گئ تھی۔
_____________________________
"مجھے پہلے ہاسٹل جانا ہے" جيپ ميں بيٹھتے ہی وہ حکم صادر کرکے بولی۔
مارج نے ايک نظر بيک ويو مرر سے چادر سے چہرہ چھپاۓ نشرہ کو ديکھا۔
"آپ نے بازار جانے کا کہا تھا لہذا گاڑی سيدھا بازار ہی جاۓ گی" وہ بے لچک انداز ميں بولا۔
"تم۔۔ تم سمجھتے کيا ہو خود کو" وہ بمشکل غصہ ضبط کرکے بولی۔ ہر بات پر اسکی نفی۔
"جو سمجھتا ہوں وہ حيثيت آپ ماننے کو تيار نہيں۔ " مسکراہٹ دباتا وہ اس لمحے اسے شديد زہر لگا۔
"اپنی يہ لکس مجھے دکھانے کی ضرورت نہيں" اسکے پرکشش چہرے سے بمشکل نظريں چھڑائيں۔ ورنہ دل نے وارادات شروع کردی تھی۔
"اب مجھے اپنی سب لکس صرف آپ کو اور آپ کو اپنی سب لکس صرف مجھے ہی دکھانے کی ضرورت ہے" وہ کہاں ہارنے والا تھا۔ بھرپور جوابی کاروائ کررہا تھا۔
"پتہ نہيں کس لمحے تمہارے ساتھ آنے کا کہہ ديا" اب اسے اپنی غلطی کا شديد احساس ہوا۔ اس نے تو سارے راستے اس کا بی پی ہائ کروا دينا تھا۔
"اسی لئے کہتے ہيں کچھ فيصلے سوچ سمجھ کے کرنے چاہئيے ورنہ پچھتاوا ہی ہاتھ آتا ہے" وہ ناصح بنا اسے سمجھا رہا تھا۔
"اچھا تم سے مشورہ نہيں مانگا" وہ تڑخ کر بولی۔
"مانگ ليتيں تو اچھا ہوتا" بيک ويو مرر سے ايک بار پھر اسکی براؤن آنکھوں کو ديکھا۔
نشرہ اب کی بار خاموش رہی۔ وہ اسے زير کرنے لگا تھا اور يہ اسکے لئے خطرناک تھا۔ وہ يوں اسے خود پر حاوی نہيں ہونے دے سکتی تھی۔ يہ ناممکن تھا اسکے لئے۔
اسکی پرسوچ نظريں دور تلک کھيتوں ميں الجھ رہی تھيں۔
وہ جتنا اسے زچ کرنے کی کوشش کرتی اس سے زيادہ خود ہوجاتی تھی۔
"سنو۔۔ تمہيں کوئ لڑکی پسند ہے کيا؟" نجانے دماغ ميں کيا سمائ کچھ دير بعد پھر سے بھيڑوں کے چھتے کو چھيڑا۔
"ہوئ بھی تو آپ سے کوئ بے تکلفی نہيں کہ آپ سے شئير کرتا پھروں" اسکی بات پر ماتھے پر بل واضح نمودار ہوۓ۔
"ديکھو اگر ہے تو مين تمہاری شادی کروادوں گا۔۔ سيريسلی ۔۔ مذاق نہيں کررہی" وہ ہر طرح سے اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔
"بی بی آپ کا اور ميرا مذاق ہے بھی نہيں۔ بہتر ہوگا جو فاصلے شروع سے قائم ہيں وہ قائم ہی رہيں" اب کی بار وہ اسے شٹ اپ کال دے رہا تھا۔
"تو ۔۔ تو اس نکاح مصيبت کا ميں کيا کروں" وہ جھنجھلائ۔
"اتنے مقدس رشتے کے ساتھ ايسے الفاظ لگانے مناسب نہيں۔" وہ اسے ٹوک کر بولا۔
"اچھا استاد صاحب" وہ سر جھٹک گئ۔
يہ تو مارج بھی نہيں جانتا تھا کہ انکے اس رشتے کا انجام کيا ہوگا۔ اس نے تو ملک اياز کے احسانوں کا بدلا چکانے کی چھوٹی سی
کوشش کی تھی۔
_________________________
پچھلے دو گھنٹے سے وہ ہاسپٹل ميں موجود تھے۔ اب تک اسکی حالت نہيں سنبھلی تھی۔
"بڑے ملک صاحب آپ حوصلہ رکھيں۔ اللہ بہتر کرے گا" وہ مسلسل ان کا حوصلہ بنا ان کے ساتھ موجود تھا۔
"اگر اسے کچھ ہوا۔ ميں اسکی ماں کو قيامت کے دن کيا منہ دکھاؤں گا۔ اس سے وعدہ کيا تھا کہ ميں اسے ہر مصيبت اور آفت سے بچا کر رکھوں گا۔ کيا پتہ تھا اسکا اپنا باپ اسکی جان لينے کے در پہ آجاۓ گا۔ صحيح کہتے ہيں گناہوں کی دلدل انسان ميں ہر تميز ختم کرديتی ہے۔ دل کالا ہونے لگ جاتا ہے" وہ مضطرب سے ادھر ادھر چکر کاٹتے پھر چند لمحوں کے لئے کاريڈور ميں رکھے بينچ پر بيٹھ جاتے مگر سکون نہيں مل رہا تھا۔
کچھ ہی دير بعد ڈاکٹر آپريشن تھيٹر سے باہر آيا۔
"گولی تو نکال دی ہے۔ مگر بچے کا خون بہت بہہ گيا ہے۔ اور اسکے لئے خون کی بوتليں لگائ گئ ہيں۔ دعا کريں معذوری نہ ہوجاۓ اس ميں کوئ" ڈاکٹرکی بات پر وہ ڈھ سے گئے۔
"ہڈی بری طرح متاثر ہوئ ہے۔ مگر کوشش کريں گے کے بچہ ٹھيک ہو جاۓ" ڈاکٹر کی بات پر انکے چہرے پر پريشانی کے سائے لہراۓ۔
"جتنا بھی مہنگا علاج ہو کچھ بھی ہو۔۔ آپ پليز اسے معذوری سے بچا ليں۔ ميں پانی کی طرح پيسہ لگا دوں گا" ملکوں کو يوں بے بس اس ڈاکٹر نے پہلی بار ديکھا تھا۔
"بس بچے کو ہوش آجاۓ اور ايکسرے رپورٹس اجائيں پھر ہی کچھ بہتر کہا جاسکتا ہے۔ يہاں علاج ممکن نہ بھی ہوسکا تو آپ اسے شہر لے جائيے گا وہاں يقينا بہترانداز ميں ڈاکٹر آپ کی مدد کريں گے۔ باقی سب اللہ کے ہاتھ ميں ہے۔" ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرکے چلا گيا۔
"فکر نہ کريں بڑے ملک صاحب۔۔ اللہ بہتر کرے گا" اور پھر واقعی انہوں نے بے دريغ پيسہ لٹايا۔
________________________
"مجھ پر مجھ پر۔۔ اتنے ملازموں کے سامنے ميرے بھائ نے ہاتھ اٹھايا۔۔ چھوڑوں گا نہيں ميں کسی کو" ڈرائيور کو باہر نکال کر وہ اکيلا ہی غصے سے پاگل ہوتے جنگل سے نکلا۔
اتنی ريش ڈرائيونگ اس نے زندگی ميں کبھی نہيں کی تھی۔
مگر اس لمحے وہ آپے ميں نہيں تھا۔ ڈيش بورڈ کے ايک خفيہ خانے سے شراب کی بوتل نکال کر آدھی ايک ہی سانس ميں خالی کی۔
"سمجھتا کيا ہے يہ۔۔۔ يہاں کا بڑا بن گيا تو ہم سب کا خدا بن بيٹھا۔
جيسا کہے گا جو کہے گا ہم کرتے چلے جائيں گے۔ غلط فہمی ہے اسکی ميں۔۔ ميں ايسا جال بچھاؤں گا کہ سب مرتبہ اور مقام چھين لوں گا اس سے " غصے نے اسکے ہوش و حواس سلب کردئيے تھے۔
تيز رفتاری سے وہ پگڈنڈی پر جيپ دوڑا رہا تھا۔
نشے ميں دھت سامنے سے آتے بچے کو وہ ديکھ ہی نہيں پايا۔ گاڑی کے ساتھ ساتھ وہ اسے بھی اڑا لے گيا۔
ساتھ ہی باغ ميں کھيلتے اسکے بھائ دوڑتے ہوۓ اسکے قريب آئے۔ مگر وہ خون ميں نہاچکا تھا۔
بچے کے ٹکرانے پر اس نے جيپ روکی۔
بوکھلا کر گاڑی سے باہر جھانکا۔۔۔ وہ کوئ اور نہيں چوہدريوں کا پوتا تھا۔ اسکے گارڈ بھی آچکے تھے۔ حالات بگڑتے ديکھ کر گاڑی مزيد روکنے کی بجاۓ وہ بھگا لے گيا۔
"پکڑو اسے" وريد بھائ کی لاش ديکھ کر چلا رہا تھا۔ دس سال کا وريد رو رہا تھا چلا رہا تھا۔
"فريد آنکھيں کھولو" گارڈز فورا انہيں لئے گاڑی ميں بيٹھے۔ جيپ کی پچھلی سيٹ پر بھائ کا سر گود ميں رکھے وہ مسلسل اسے پکار رہا تھا مگر فريد زندہ ہوتا تو سنتا۔
ہاسپٹل پہنچنے پر ڈاکٹڑ نے مايوسی کا اظہار کرتے اسکے ايکسپائر ہونے کی تصديق کی۔
وريد نے رو رو کر پورا ہاسپٹل سر پر اٹھا ليا تھا۔
"جی سر آپ نے بلايا مجھے" انہيں ايک ہفتہ ہو چکا تھا وريد سے پڑھتے ہوۓ۔ بہت سے اسٹوڈنٹس تو اس سے بے تکلف بھی ہو چکے تھے۔ جن ميں بڑی تعداد لڑکيوں کی تھی۔ چند ايک کو چھوڑ کر باقی سبھی وريد کی گرويدہ تھيں۔
"جی نار آئيے پليز" وہ مصروف سے انداز ميں اپنے آفس ميں بيٹھا بہت سی فائلز اپنے آگے پھیلاۓ اسکا منتظر بھی تھا۔
"يہ کل کے ليکچر کے نوٹس ہيں۔ ميں نے ساری کلاس کے لئے کاپيز نکلوا ليں ہيں۔ آپ سب ميں ڈسٹريبيوٹ کرديں۔ اور انہيں بتا بھی ديں کہ نيکسٹ ويک اسی ميں سے ٹيسٹ آئے گا" کاغذوں کا ايک پلندہ اسکی جانب بڑھاتے وہ سادہ سے انداز ميں بولا۔
"ليکن سر ميں کلاس کی سی آر نہيں ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ انہيں کو يہ کام ديں" وہ اندر آکر يوں ہی کھڑی تھی اسکے اشارہ کرنے کے باوجود بيٹھی نہيں تھی۔
اسکے دو ٹوک انداز پر وريد کا اسائنمنٹس چيک کرتا ہاتھ رکا۔ کرسی کے ساتھ ٹيک لگا کر فرصت سے اسے ديکھا۔
اسکے نگاہوں کے گہرے ارتکاز پر وہ جز بز ہوئ۔ نظريں جھکی ہوئ اسکی ٹيبل پہ موجود پيپرز پر تھيں۔
"کيا ميں نے آپ سے پوچھا کہ کلاس کا سی آر کون ہے۔ اور کيا ايک ہفتے بعد بھی آپ کو ايسا لگتا ہے کہ مجھے يہ معلوم نہيں ہوگا کہ 'سی آر' کون ہے؟" وہ سی آر پر زور ديتے طنزيہ انداز ميں بولا۔
"تو سر مجھے يہ کام دينے کا مقصد" اس نے بہت سے ٹيچرز کے بارے ميں سن رکھا تھا جو عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوۓ اپنی اسٹوڈنٹس پر ڈورے ڈالتے ہيں۔ بہت سوں سے تو وہ واقف بھی تھی۔ اسی لئے کچھ ٹيچرز کے پاس وہ کبھی اکيلی نہيں جاتی تھيں۔ ہميشہ نار۔ نشرہ اور ذروہ اکٹھے ہی جاتی تھيں۔ مگر آج دونوں ہی يونی نہيں آئيں تھيں۔
لہذا اسے مجبورا اکيلے آنا پڑا۔
"آپ ميری اسٹوڈنٹ ہے اور يہ ميری مرضی ہے کہ ميں کسی بھی اسٹوڈنٹ کو کوئ بھی کام دے لوں۔ از ديٹ کلئير۔ " اب کی بار وہ ناگواری سے بولا۔ اسے ڈيکٹيٹ کرنے والے لوگ برے لگتے تھے۔ تو اسے وہ کيسے برداشت کرتا۔
"اور آئندہ ٹيچرز سے بحث مت کيجئے گا۔ ميں عمر ميں آپ سے بہت بڑا نہ سہی بحرحال ٹيچر ہوں۔ ڈونٹ ٹريٹ می لائيک يور کلاس فيلوز۔ اور آپ ايسی حور پری نہيں جن کے ديدار کے لئے ميں نے انہيں اپنے روم ميں بلايا ہے۔ ٹيک اٹ اينڈ يو مے گو ناؤ" وہ اچھی طرح اسکی طبيعت صاف کرچکا تھا۔ اسے لڑکيوں کی کمی تھی۔ کيا سوچ کر وہ اسے يوں باتيں سنا گئ تھی۔
نقاب ہونے کے باعث وہ اسکے چہرے پر اپنے الفاظ کی خفت نہيں ديکھ سکا۔ مگر اسکی نظروں کی بڑھتی ناگواری کو وہ اچھی طرح محسوس کرگيا۔ اسے وہ لڑکی پہلے دن سے خود کو اونچی چيز سمجھتی لگی تھی يا اسی کے ساتھ ايسے بی ہيو کررہی تھی۔ باقی ٹيچرز سے اس نے اسکی کافی تعريف سنی تھی۔
مگر پہلے دن سے وہ جيسے حد بندياں قائم کررہی تھی وريد کو ايک آنکھ نہيں بھائ۔ عجيب خودپسند لگی تھی۔
نار خاموشی سے پيپرز پکڑ کر باہر نکل گئ۔
___________________
"کيسی ہو تم؟" وہ کچھ دير پہلے ہی ہاسٹل آئ تھی۔ آج کا دن ہی برا تھا۔ صبح وريد سے جھاڑ سننے کے بعد اسکے دو ٹيسٹ انتہائ برے ہوۓ۔
"زندہ ہوں بس۔" اسکے پھاڑ کھانے والے انداز پر نشرہ حيران ہوئ۔
"ہوا کيا ہے۔۔ اتنی غصے ميں کيوں ہو؟" وہ حيرت سے بولی۔
"وہ جو نئے سر آئيں ہيں۔" وہ تمہيد باندھنے لگی۔
"ہاں کيا ہوا انہيں" وہ بھی دلچسپی سے سننے لگی۔
"عجيب گھمنڈی انسان ہے۔ اب تم بتاؤ کلاس کو ٹيسٹ کے بارے ميں انفارم کرنا ۔۔ نوٹس دينا ميرا کام تو نہيں ۔۔ سی آر کيوں بنايا ہوا ہے کلاس ميں۔۔ يہ اسکا کام ہے نا" وہ اسکی تائيد چاہنے لگی۔
"ہاں نا۔۔ سی آر بنانے کا مقصد ہی يہی ہے کہ وہی ٹيچرز کے سب کام اسٹوڈنٹس تک پہنچائے" نشرہ نے اسکی ہاں ميں ہاں ملائ۔
"وہی نا۔۔ سر نے آفس بلايا اور کہا نوٹس بچوں کو دے کر ٹيسٹ کا انفارم کريں۔ تو يہی بات ميں نے انہيں سمجھائ۔ الٹا مجھے ڈانٹے لگے" اسکی وضاحت پر نشرہ گہری سانس بھر کر رہ گئ۔
"يار دفع کرو۔ کہتے ہين تو کرليا کرو۔ تمہيں پتہ ہے نا يونی ميں کسی ٹيچر سے بگاڑنے کا مطلب يہ ہے کہ آپ اپنے گريڈز سے ہاتھ دھو ليں۔ اب تم بلاوجہ اپنی گريڈنگ مت خراب کروا لينا۔ ايسے ہی تمہارے پيچھے نہ پڑ جائيں" وہ اسے سمجھانے لگی۔
"کيوں بھئ۔۔ ميرا ماما لگتا ہے کہ اسکی ہر بات مانوں۔ آئندہ يوں آفس ميں بلايا ميں تو سنا دوں گی مزيد۔ باقی سب جو چمچياں آگے پيچھے پھرتی ہيں ان سے کام لے" وہ اس وقت کچھ بھی سننے کو تيار نہيں تھی۔
"اچھا پليز ميرے آنے تک کوئ پھڈے مت کرنا۔ ايک تو تمہيں عادت ہے سچ جھوٹ کا پرچار کرنے کی" وہ اسے ٹوک کر بولی۔
"ہاں تو لوگوں کو صحيح غلط کی تميز ہونی چاہئيے ورنہ بہت سے لوگ بھگتان بھگتے ہيں۔" وہ ياسيت بھرے لہجے ميں بولی۔
"تم بتاؤ بھائ کی شادی کی تيارياں کہاں تک پہنچيں۔" وہ بات بدل گئ۔
"ان تياريوں کو چھوڑو تم اپنی تياری رکھو۔ تم نے مہندی والے دن آنا ہے" وہ اسے ياد دلانے لگی۔
"يار سچ ميں تمہاری شادی مین آجاؤن گی۔ ليکن ايسے بھائ کی شادی ميں آنا عجيب لگتا ہے" وہ وہاں جانے سے کترا رہی تھی۔ اور وجہ بتا بھی نہيں سکتی تھی۔
"ميں کچھ نہيں سن رہی۔ سمجھی تم۔۔ بے وفا ۔۔ پہلے تو کہہ رہی تھيں ہاں ہاں جب بلاؤ گی آجاؤں گی۔ اور اب بہانے بنا رہی ہو" وہ خفا سے لہجے میں بولی۔
"اچھا آجاؤں گی" وہ ہار ماننے والے انداز ميں بولی۔
_________________________
"سر اس رپورٹ پر صابر انڈسٹريز نے فيڈ بيک ديا ہے۔ آپ فری ہوجائيں تو ميں آپ کو ای ميل کرديتی ہوں"فخر کے سامنے اس وقت اسکی آپريشن مينجر کسی نئے پراجيکٹ کو ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ ايک پرانے پراجيکٹ کے بارے ميں مطلع کررہی تھی۔
"ٹھيک ہے مس احسان آپ يہ والے پراجيکٹ کی ڈيل فائنل سمجھيں۔ گيتی سے کہيں ايک ای ميل انہيں ہمارے رسپانس اور ميٹنگ کی کردے جس ميں ہم پراجيکٹ پر سائن کريں گے۔ اور صابر انڈسٹريز کے ايشوز کے متعلق رپورٹ مجھے بھجوائيں تاکہ انہيں بھی جلد ہی ديکھا جاۓ۔ کيونکہ آدھی پے منٹ وہ ہميں کر چکے ہيں۔ ہمارا کلائنٹ خراب نہيں ہونا چاہئيے۔" ايک ہاتھ سے مسلسل ہونے والے فون کو اٹھا کر ريسيور کان سے لگاتے وہ اسے ضروری ہدايات دے رہا تھا۔
"ٹھيک ہے سر" وہ اسے مصروف ديکھ کر اٹھنے ہی والی تھی جب دوسری جانب بات کرتے اس نے اسے بيٹھے رہنے کا اشارہ کيا۔ وہ چپ چاپ بيٹھ کر اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
"جی گيتی" دوسری جانب اسکی سیکرٹری تھی۔
"سر کوئ وريد صاحب آپ سے ملنے آئے ہيں۔ آپ کے ساتھ اپائنٹمنٹ تو نہيں ہے مگر وہ بضد ہين کہ آپ سے ملنا ہے۔ شايد آپکے دوست ہيں" گيتی پروفيشنل انداز ميں اسے بتا رہی تھی۔
"ارے بھيجيں انہيں۔ اور انکی شکل ياد کرليں۔ ميں جتنا بھی مصروف ہوں۔ ميری اپائنٹمنٹ ہو نہ ہو۔ اس بندے کو آفس ميں آتے ہی آپ نے سيدھا ميرے آفس بھيج دينا ہے" وہ خوشگوار لہجے ميں بولا۔
نار کو اتنا اندازہ ہو گيا تھا کہ وہ جس کسی کے بھی بارے ميں بات کررہا ہے يقينا کوئ بہت پرانا دوست ہے۔
"جی مس احسان۔ وہاں جو ريڈ والی فائل ہے وہ ابھی لے کر جائيں۔ اور سب ڈيزائنز کو اچھے سے ديکھ کر آج ہی فائنل کريں۔ دو دن سے يہ کام بھی پينڈنگ ہے۔" اپنے روم ميں لگی فائلز کی شيلف کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولا۔
"سر نمبر بتائيں۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ بولی۔ کيونکہ وہاں دس بارہ کی تعداد ميں لال رنگ کی فائلز تھيں۔
"113 کوڈ نمبر ہے" وہ اپنے سامنے موجود فائل سے ديکھتے ہوۓ بولا۔ جہاں سب فائلز کے نمبر اور ان کی ڈيٹيلز موٹے موٹے الفاظ ميں لکھی ہوئ تھيں۔ وہ سر ہلاتے شيلف کی جانب بڑھی۔
اسی لمحے کوئ ہلکا سا ناک کرکے اندر داخل ہوا۔ نار کی دروازے کی جانب پشت تھی۔
"آئيے آئيے چوہدری صاحب۔۔۔ آج ميرے آفس کو رونق کيسے بخشی" نار کا فائل پر رکھا ہاتھ لمحہ بھر کے لئے تھما۔
چوہدری کے لفظ پر اسکی يادداشت کے پردے پہ بڑی تکلف دہ تصاوير ابھريں۔ سر جھٹک کر وہ اپنے کام ميں مصروف رہی۔
"بالکل ٹھيک تم سناؤ" نار کو آواز جانی پہچانی لگی۔ فائل نکال کر مڑ کر ايک نظر آںے والے کو ديکھا۔
کريم کلر کے کرتا شلوار ميں مخصوص انداز سے بالوں کو جيل سے سيٹ کئے۔ اپنے مغرور نقوش کے ساتھ وہاں آنے والا کوئ اور نہيں اسکے سر وريد تھے۔ اسکا حلق تک کڑوا ہوگيا۔
"سر يہی ہے" وريد فخر سے بغلگير ہونے کے بعد اسکی ٹيبل کے سامنے رکھی کرسيوں ميں سے ايک پر ٹک رہا تھا کہ دائيں جانب سے آنے والی نسوانی آواز سن کر ٹھٹھکا۔ کرسی پر بيٹھتے بيٹھتے نظريں گھما کر اس جانب ديکھا۔
نقاب ميں موجود لڑکی کو متحير نظروں سے ديکھا۔ آواز اسے سنی ہوئ محسوس ہوئ۔
نہ صرف آواز بے تاثر اور ہر طرح کے احساس سے عاری نظريں اسے چونکا گئيں۔
اسکی نظريں خود پر محسوس کرکے وہ اور جز بز ہوئ۔
"جی مس احسان يہی فائل ہے" وہ بھی نار کی موجودگی وہاں فراموش کرچکا تھا۔
"ٹھيک ہے سر آپ جب فری ہوجائيں تب بتا ديجئے گا ميں تب تک باقی لوگون سے ڈسکس کرکے اس کو فائنل کرتی ہوں" وريد کو بھرپور انداز ميں نظر انداز کرکے اعتماد سے بولتی وہ کوئ اور نہيں نار ہی تھی۔ وريد کو اب کسی بھی شک کی گنجائش نہيں تھی۔ وہ چہرہ موڑ چکا تھا۔ کسی قسم کی جان پہچان کا تاثر دئيے بغير۔
"ٹھيک ہوگيا ميم۔۔ تھينکس اور گيتی سے کہئيے گا کچھ اچھا سا بھجواۓ" وہ بھی شايد اسے وہاں سے بھيجنے کی جلدی ميں تھا۔
وہ سر ہلا کر وہاں سے نکلنے لگی۔ جب دروازے سے گزرتے اپنے پيچھے وريد کی آواز سنی۔
"تمہارے آفس ميں نقاب پوش حسينائيں بھی ہوتی ہيں" وريد کی بات پر لاحول پڑھتی وہ باہر نکلی جبکہ پيچھے ان دونوں کا قہقہہ گونجا۔
"بس يار ۔۔ بہت اچھی ورکر ہيں۔ اسی لئے انکے حليے پر کمپرومائز کرنا پڑھا۔ بائ داوے تمہاری ہی يونی ميں ہوتی ہيں"وہ کچھ ياد آنے پر بولا۔
"جی اور يہ نک چڑھی ميڈم ميری اسٹوڈنٹ بھی ہوتی ہيں" وہ منہ بنا کر بولا۔
"نہ کر يار۔۔ تو کيا اس نے تجھے پہچانا نہيں يا تو نے اسے" وہ حيرت سے بولا کيونکہ دونوں نے اجنبيوں والے تاثرات ہی دئيے تھے۔
"دونوں نے پہچان ليا تھا مگر اس پہچان کا اظہار کرنے کی دونوں طرف خواہش نہيں تھی" اسکے منہ بگاڑ کر کہنے پر وہ اب بھی حيران تھا۔
"وہ کيوں؟" فخر اب کی بار الجھا۔
"شايد ميڈم خود کو توپ چيز سمجھتی ہيں۔ اب لڑکياں ميرے آگے پيچھے پھرتی ہيں تو اس ميں ميرا کيا قصور۔ مگر ان ميڈم کا کہنا ہے کہ يہ کوئ لوفر قسم کا ٹيچر ہے۔۔ بھئ تم اپنی شرافت رکھو اپنے پاس ۔۔ اور اچار ڈالو اس کا۔ نہ ميں نے تمہيں گھاس ڈالی نہ ايسا کوئ ارادہ ہے۔۔ خوامخواہ کے ايٹی ٹيوڈ دکھاتی ہے" آج ہی جب وہ کلاس کی کسی لڑکی سے کاريڈور ميں کھڑا بات کررہا تھا تب نار کے يہ ناياب الفاظ اسکے کانوں ميں پڑے۔
"يار يہ فاريہ کو ديکھا ہے ہر وقت سر وريد کے آگے پيچھے پھرتی رہتی ہے"ذروہ اور وہ ان سے کچھ فاصلے پر کاريڈور ميں نيچے بيٹھيں ديوارسے ٹيک لگاۓ نوٹس بنانے ميں مصروف تھيں۔ ساتھ ايک نظر انہيں بھی ديکھا۔
"ايسے لوفر ٹيچرز ہوں گے تويونی کا يہی ماحول ہوگا" وہ دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
اسکی آواز اتنی اونچی ضرور تھی کہ وريد تک پہنچ جاتی وہ اپنی جگہ جل کر رہ گيا۔
"تم سچ مين اپنے گريڈز خراب کرواؤ گی" ذروہ اسے ٹوک کر بولی۔
"اگر ٹيچرز کی خوشامديں کرکے ہی گريڈز لينے ہين۔ تو اس سے بہتر ميں ڈی گريڈ ميں ہی ماسٹرز کروں۔ ويسے بھی ميں اپنی ورتھ بڑھانے کے لئے يہ ڈگری لے رہی ہوں۔ ورنہ تم جانتی ہو کہ مجھے اسکی ضرورت نہيں" وہ صاف گوئ سے بولی۔
"ہاہاہاہا۔۔۔ يعنی تيری اسٹوڈنٹ تجھے لوفر سمجھتی ہيں۔۔ انٹرسٹنگ"اسکی پوری بات سن کر فخر اپنا قہقہہ نہ روک سکا۔
"تو جانتا ہے مجھے ايسے لوگ سخت برے لگتے ہيں جو خود کو الگ ظاہر کرنے کے چکروں ميں رہتے ہيں۔ چار ميٹھے بول اس سے بولوں تو يہ ميڈم بھی اور لڑکيوں کی طرح آگے پيچھے پھرتی نظر آئيں۔ وہ الگ بات ہے کہ ايسيوں کو ميں منہ ہی نہيں لگاتا" وہ رعونت بھرے انداز ميں بولا۔
"اتنا بڑا بول نہيں بولتے آگے آجاتا ہے" فخر نے نجانے اسے نصيحت کی تھی يا مذاق ميں کہا تھا وہ سر جھٹک کر رہ گيا۔
"ويسے کب سے ميڈم کام کر رہی ہيں يہاں؟" وہ پوچھے بغير نہيں رہ سکا۔
"يار اصل ميں بابا کے کسی دوست کی جاننے والی ہيں۔ تو بابا نے ہی اسے دو سال پہلے يہاں رکھا ہے۔ ماں باپ ہيں نہيں۔ ہاسٹل ميں رہتی ہے۔ بس اور اس سے زيادہ کچھ نہيں پتہ اسکے بارے ميں۔ محنتی بہت ہيں۔ اور ٹيلنٹڈ بھی" اسکی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گيا۔ اسے کوئ خاص دلچسپی نہيں تھی۔
"اور تو سنا تيرے حالات کہاں تک پہنچے" وہ جس جانب اشارہ کررہا تھا اسے سمجھ کر وہ مبہم سا مسکرايا۔
"بہت فاسٹ لڑکی ہے بھئ۔ کل تو ميرے گھر آنے پر تيار ہوگئ تھی۔ مين نے ہی روکا کہ ذرا حوصلہ کرو۔۔ بيڈروم تک بھی لے جاؤں گا" وہ تفصيل بتانے لگا۔
"آئ ٹولڈ يو۔۔۔۔ بندی بہت فٹ ہے" وہ اسے آنکھ مار کر بولا۔ دونوں کا قہقہہ بھرپور تھا۔
_____________________________
"يہ کيا کرديا تم نے" کچھ دير پہلے ہی وہ مارج کو شہرے کے ہاسپٹل چھوڑ کر حويلی آئے تھے۔ شيرو کو وہ مارج کے پاس ہی چھوڑ آئے تھے تاکہ وہ ان کی غير موجودگی ميں اسکا دھيان کرے۔
مگر حويلی آتے ہی ايک نئ مصيبت انکی منتظر تھی۔
"مجھے سمجھ ہی نہيں آئ وہ کب گاڑی کے آگے آگيا" نشے سے چور لہجہ ہی ملک اياز کو سمجھا گيا کہ وہ کس وجہ سے اس بچے کو ديکھ نہيں پايا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا انہيں ڈر تھا۔
شام سے پہلے پہلے جرگے کے معززين انکے گھر موجود تھے۔
"آپکے بھائ نے بالکل اچھا نہيں کيا۔ کل اس بچے کے قل ہيں۔ پرسوں جرگہ بيٹھے گا۔ اگر اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو کفارہ آپ کو بھرنا پڑے گا" انکی بات پر تفکر کی لکيريں انکے ماتھے پر نمودار ہوئيں۔
"آپ فکر مت کريں۔ ميں اور چھوٹے ملک جرگے ميں آئيں گے۔ جو فيصلہ بھی چوہدريوں کی جانب سے آئے گا ہميں منظور ہوگا" انکی بات پر وہ سب کچھ دير بيٹھنے کے بعد اٹھ گئے۔
"اب کيا ہوگا"
جرگے کے لوگوں کے جاتے ہی عشرت بيگم نے پوچھا۔ ان سب کو ہی اندازہ تھا کہ اب کيا ہوسکتا ہے۔ يا تو خون کے بدلے خون يا پھر ونی۔
"مجھے کيا پوچھ رہی ہيں۔ اس کو پوچھيں جو نشے ميں دھت گاڑی چلا رہا تھا" وہ بھی دھاڑے۔
سب عورتيں زنان خانے ميں موجود تھيں۔
"ميں ميں۔۔ نشے ميں نہيں غصے ميں دھت تھا۔ بھول گئے کيا کيا تھا آپ نے" وہ بھی غرا کر بولا۔
"کيا کيا تھا ميں نے۔۔ ہاں بولو۔۔ ايک معصوم پر گولی چلاتے شرم نہيں آئ تمہيں" وہ بھی دوبدو ہوۓ۔
"ايک کمی کمين کے لئے آپ نے مجھے ملازموں کے ساتھ مارا۔۔ ميرا گريبان پکڑا۔۔ اور کہہ رہے ہيں کيا کيا ہے ميں نے" وہ بدلحاظی سے بولا۔
"بس کر دو تم دونوں" عشرت بيگم زور سے بوليں۔
"يہ پرسوں جرگے جاۓ گا۔ اور اگر اس بار آپ نے اسکے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی۔ تو اچھا نہيں ہوگا" وہ ماں کو تنبيہہ کرکے غصے سے ملک سرفراز کو ديکھتے وہاں سے نکل گئے۔
______________________
"سنو" وہ زنان خانے کے قريب سے گزر رہا تھا جب نشرہ کی آواز سن کر رکا۔ پشت پہ ہاتھ باندھ کر نظريں جھکاۓ کھڑا رہا۔
"کتنے شريف لگتے ہو اس طرح کھڑے ہوۓ۔۔ معصوم سے جس کے منہ ميں زبان بھی نہ ہو" اس لمحے يوں کھڑا وہ اسے واقعی بڑا معصوم سا لگا۔
مارج کے چہرے پر مخصوص سی مبہم مسکراہٹ ابھری۔ جو باقيوں کو تو بے حد اچھی لگتی تھی مگر نشرہ کو آگ لگا ديتی تھی۔
"کيا ميری تعريفيں کرنے کے لئے آپ نے مجھے روکا ہے۔ پليز جتنی بھی کرنی ہيں ذرا جلدی کريں۔ مجھے ضروری کام ہے" اسکے چڑانے کا کوئ موقع وہ ہاتھ سے جانے نہيں ديتا تھا۔
"اتنے ہی تم کرس ايونز" وہ منہ بگاڑ کر بولی۔
"اوہ يعنی انڈينز مويز کے بعد اب آپ نے ہالی ووڈ کی موويز بھی ديکھنا شروع کردی ہيں" وہ جانتا تھا اب وہ مزيد بھڑکے گی۔
"ہاں ديکھوں گی۔ اور شايد ايک دن فلموں ميں کام بھی کرنے لگوں۔۔ تمہيں کيا تکليف ہے" جس بات کے لئے روکا تھا وہ تو اب کہيں پيچھے رہ گئ تھی۔ دونوں کی ازلی دشمنی شروع ہوچکی تھی۔
اسکے جواب پر اب کی بار مارج کے چہرے پر ناگوار تاثرات ابھرے۔ نظريں اٹھا کر سلگتی نظروں سے اسکے حسين مکھڑے کو ديکھا۔
"اب آپ صرف ملک اياز کی بيٹی نہيں۔ ميری منکوحہ بھی ہيں۔ سوچ سمجھ کر بولا کريں" گہرا سنجيدہ سرد لہجہ اور نظريں اسکی ريڑھ کی ہڈی ميں پھريری سی دوڑا گئيں۔
"اوہ۔۔۔ بڑی خوش فہمياں نہيں ہوگئيں تمہيں" وہ اسکا مذاق اڑا کر بولی
"اگر اس کاغذ کے ٹکڑے پر سائن کرنے کے بعد بھی آپ کو يہ غلط فہمی ہے کہ آپ اب جو چاہيں کريں گی اور آپ کو پوچھنے والا کوئ نہيں ہوگا تو بہتر ہے کہ اسکا علاج کرليں" ہولے سے اسکے نزديک ہو کر اسکی جانب جھکتے وہ اسے بہت کچھ باور کرواگيا۔
نشرہ تو چند لمحے اسکے لہجے کی گھمبيرتا پر چپ ہی رہ گئ۔
"تم۔۔ تم مجھے اس پيپر کی بنياد پر بليک میل نہيں کرسکتے" اسکے لہجے کا سحر توڑ کر اس سے پيچھے ہوتے کمزور لہجے ميں بولی۔
مارج ايسے مسکرايا جيسے کسی بچے کی بات پر مسکرايا جاۓ۔
"جائز رشتے بليک میل نہيں کرتے۔ يہ لولی لنگڑی بيساکھياں ناجائز رشتوں کو چاہئے ہوتی ہيں" پيچھے ہٹ کر کھڑے ہوتے اسکی نظريں دوبارہ جھک چکی تھيں۔
"خير يہ سب تو مجھے ڈيسائيڈ کرنا ہے کہ جس رشتے کو لے کر تم ميرے سر پر چڑھنے کی کوشش کررہے ہو۔ اسے کب اور کس لمحے توڑنا ہے۔ فی الحال تمہيں يہاں روکنے کا مقصد اتنا تھا کہ کل ميری دوست نار کو شہر سے لے آنا۔ بھائ کی شادی وہ اٹينڈ کرے گی" اپنے دل ميں پنپنتے بہت سے جوابات کو دل ميں رکھتے وہ اصل بات کی جانب آئ جس وجہ سے وہ اسے روکنے کی غلطی کرچکی تھی۔
"جو حکم آپ کا" وہ تابعداری سے بولا۔
"يہی تابعداری اس وقت بھی مجھے چاہئيے ہوگی جب يہ رشتہ ميں ختم کروں گی" وہ جاتے جاتے بھی اسے اپنی حيثيت جتلانا نہيں بھولی۔
"شوہر سے اتنی توقعات نہيں لگانی چاہئيے۔ ضروری نہيں وہ ہر اميد پر پورا اترے" مسکراہٹ ہونٹوں پر روکتے نظر اٹھا کر اسے چيلنج کرتی نگاہوں سے ديکھتا وہ اسے ہميشہ کی طرح بے حد برا لگا۔
"شوہر مائ فٹ" وہ غصے سے مٹھياں بھينچ کر بولی۔
"نا نا۔۔۔۔ اتنا غصہ نہيں کرتے ديکھيں آپکے حسين چہرے پر جھرياں پڑ جائيں گی" نچلا ہونٹ دانتوں ميں دباتا وہ پھر سے اس پر چوٹ کرکے يہ جا وہ جا۔
وہ غصے سے پيیچ و تاب کھاتی اسکی پشت کو گھورتی رہی۔

"سر مے آئ کم ان" اسے دو دن کے لئے چھٹی چاہئيے تھی۔ باقی سب ٹيچرز کو تو وہ انفارم کرچکی تھی اور ان سے چھٹی اپروو کروالی تھی مگر سب کی طرح اسے وريد کے آفس بھی جانا تھا۔
"يس کم ان" مصروف سے انداز ميں وہ اسے اندر آنے کا عنديہ دے چکا تھا۔
فخر کے آفس ميں اسے ديکھ لينی والی بات کا حوالہ اس نے اگلے کسی بھی دن اسے نہيں ديا۔ نار ريليکس تھی کہ اس نے اس بارے ميں کسی قسم کی کوئ بات نہيں کی۔
"جی فرمائيں" چند پل کے لئے ليپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر اس نے سامنے موجود نار احسان کو ہميشہ کی طرح سر سے پاؤں تک ديکھا۔
وہ سٹپٹائ۔ ايسا لگتا تھا اتنی بڑی چادر کے اندر تک اسکی نظريں گھس رہی ہوں۔ يا پھر وہ کسی کھوج ميں ہو۔
اسے تو ايسا ہی محسوس ہورہا تھا جب سے حقيقت معلوم ہوئ تھی۔
وہ اب اور بھی اسے اگنور کرتی تھی۔ مگر استاد ہونے کے ناطے کس حد تک اگنور کرسکتی تھی۔
"فرمائيں يا آج يہيں اسی حالت ميں سونے کا ارادہ ہے" اسکی مسلسل خاموشی پر وہ تڑخ کر بولا۔ پريزينٹشن تيار کرتے وہ مخل ہوئ تھی۔ کل اس نے ايک سيمينار اٹينڈ کرنا تھا اور اس ميں پريزينٹ بھی کرنا تھا۔ ابھی بھی وہ اسی پر کام کررہا تھا۔
"سر وہ مجھے دو دن کی ليو چاہئيے۔ منڈے کو ميں آجاؤں گی۔" وہ تيزی سے بولتے ساتھ ہی ہاتھ ميں تھامی درخواست فارم سے نکلا ايک پيپر اسکے سامنے رکھا۔ سب ٹيچرز اپنے اپنے دستخط کر چکے تھے۔
اب صرف وہی رہ گيا تھا۔
"کيوں؟" درخواست ہاتھ ميں پکڑ کر اس پر ايک نظر ڈالنے کے بعد اب اسکی کھوجتی نظريں اسکے چہرے پر ٹکيں۔
"سر وہ گاؤں جانا ہے ميرے کزن کی شادی ہے" اس نے جھوٹ کا سہارا ليا۔
"ميری اطلاع کے مطابق آپکی کوئ فيملی نہيں ہے" وہ فخر سے لی جانے والی رپورٹ کے مطابق اسے جتا کر بولا۔
وہ لمحہ بھر کے لئے چپ ہوئ۔
"آپ ميرے بارے ميں انفارميشن اکٹھے کرتے پھر رہے ہيں؟" وہ بھی ہر جھجھک بالائے طاق رکھ کر اسکی گہری بولتی آنکھوں ميں ديکھ کر بولی۔
"جی بالکل اتنی ہی اہم شخصيت ہيں نا آپ جن کے بارے ميں ۔۔ ميں۔۔ يعنی ميں وريد چوہدری پتہ کرواتا پھروں گا" وہ استہزائيہ انداز ميں بولا۔ اب تو کسی شک کی گنجائش نہيں تھی۔
اسکی نظروں کا رنگ بدلا۔
"کيا پتہ ضرورت پڑ ہی گئ ہو۔ يا عنقريب پڑ جاۓ" اب کی بار اسے نار کی نظريں بے خوف لگيں۔
"ايکسکيوزمی" وہ الجھا۔
"نتھنگ۔ ميری دوست کے بھائ کی شادی ہے جو گاؤں گئ ہوئ ہے۔ اسی کی شادی پر جارہی ہوں۔" اب کی بار اس نے صاف گوئ سے کام ليا۔
"تو جھوٹ بولنے کی کيا ضرورت تھی" وہ لمحوں ميں اسکی نظروں کے اس بے خوف تاثر کے سحر سے باہر نکلا۔
"کيونکہ ٹيچرز اتنی آسانی سے پھر ليو نہيں ديتے" وہ لہجے کو بہت حد تک متوازن کرچکی تھی۔
"اور اگر ميں اب ليو نہ دوں" پين ہاتھ ميں پکڑتے اسے گھمايا۔
"پھر ميں يہی سمجھوں گی کہ جھوٹ کی وقعت سچ سے زيادہ ہے" اسکے جواب وريد کو اسکے بارے ميں سوچنے پر مجبور کرديتے تھے۔ عجيب جگسو پزل لڑکی تھی۔ ايسی گہری بات کرديتی کہ وہ کتنے ہی پل اسکی گہرائ کو ناپنے ميں لگا رہتا۔
"نہيں خير اب ايسا نہيں۔ آپ نے سچ بولا اسی لئے آپ کو ليو دے ديتا ہوں۔ کيا ياد رکھيں گی" وہ مزاح کے عنصر ميں بولا۔
"ياد تو واقعی رکھا ہے آپ کو" وہ ہولے سے بڑبڑائ۔
"کچھ کہا آپ نے " اسکی تيز سماعتيں اسکا پورا جملہ تو نہ سن سکيں مگر کچھ الفاظ پلے پڑے مگر وہ بھی ادھورے اور ادھوری باتيں ہميشہ الجھا ديتی ہيں جيسے وريد کو اس لمحے مزيد الجھا گئيں۔
"نہيں سر تھينکس بولا تھا" وہ بات بنا کر بولی۔ اس سے درخواست لے کر اسے ايڈمنز آفس ميں جمع کروانا تھا۔
درخواست پکڑتے ہی وہ اسکے آفس سے تيزی سے باہر نکلی۔
وہ کتنی ہی دير اسکے سحر ميں جکڑا رہا۔ پھر سر جھٹک کر خود کو اسکی سوچ سے باہر نکالا۔
________________________
اس لمحے وہ کسی بھی بارڈی گارڈ کے بغير اکيلا اسے لينے آيا تھا۔
نشرہ اسے فون کرکے اسے بتا چکی تھی کہ وہ تياری کرلے شام ميں مارج اسے لينے آئے گا۔
وہ جھجھکتے ہوۓ ہاسٹل سے نکلی۔ وارڈن سے مل کر مارج اسے بلوا کر خود باہر آکر گاڑی ميں بيٹھ چکا تھا۔
فرنٹ سيٹ کا دروازہ اسکے لئے کھول رکھا تھا۔
وہ خاموشی سے بيگ تھامے باہر آکر گاڑی ميں بيٹھ گئ۔
"السلام عليکم" گاڑی ميں بيٹھتے ہی اس نے سلام کيا۔
"وعليکم سلام" جواب ديتے ساتھ ہی اس نے اسکے ہاتھ سے بيگ لے کر پچھلی سيٹ پر رکھا۔
"کيسی ہو؟" گاڑی سٹارٹ کرتے اسکے چہرے پر ايک نظر دوڑائ۔
"ميں ٹھيک ہوں آپ کيسے ہيں" ہچکچاتے ہوۓ پوچھا۔
"الحمداللہ بالکل ٹھيک" وہ خوشدلی سے بولا۔
"نشرہ ٹھيک ہے؟" اسکے سوال پر چھم سے اسکی شبيہہ ذہن کے پردے پر لہرائ۔ ابھی نکلنے سے پہلے وہ اسے دالان ميں نظر آئ تھی۔
اس پر پڑنے والی ايک نظر ميں ہی وہ اسکا بھرپور جائزہ لے گيا تھا۔
پيلے اور گلابی جوڑے ميں ملبوس نيٹ کا دوپٹہ شانوں پر ٹکاۓ کسی کزن سے لڑتی ہوئ نظر آئ۔
"ٹھيک ہيں بی بی بھی" اسکا لہجہ سادہ تھا۔
"وہ بہت بے وقوف ہے۔ جانتی ہی نہيں کہ اسکا بھلا کس ميں ہے"نجانے وہ کيوں اس سے يہ سب کہہ رہی تھی۔
"نہيں خير اب اتنی بھی بے وقوف نہيں ہیں۔ خير انکا ذکر چھوڑو اس وقت صرف اپنی بات کرو" وہ اسے ٹوک گيا۔
"آپ۔۔۔۔ آپ کو ميرے بارے ميں کيسے پتہ چلا" وہ حيران تھی۔ وہ جو ساری دنيا سے چھپ چکی تھی۔ مارج نے اسے کيسے پاليا تھا۔
"تم سے تو کبھی غافل رہا ہی نہيں" اسکے لہجے ميں نار کے لئے محبت ہی محبت تھی۔ وہ لمحہ بھر کو چپ رہ گئ۔
کچھ دير بعد ہی اسکی گاڑی ايک مہنگے ہوٹل کے سامنے رکی۔
"ہم يہاں کيون آئے ہيں؟" وہ حيران سی اسکی جانب ديکھنے لگی۔
"پھر نجانے کب يہ موقع ملے۔ سوچا تمہارے ساتھ ايک کپ چاۓ پی لی جاۓ۔ پہلی بار تم يوں اکيلی ميرے ساتھ موجود ہو۔ ايک چھوٹی سی ٹريٹ تو بنتی ہے نا۔" اس کی بات پر نار کی آنکھوں ميں بے اختيار آنسو آئۓ۔ کب سوچا تھا کہ زندگی ميں اب کبھی کوئ اپنا ملے گا۔
"ميں تو نقاب ميں ہوں۔ آپ کو کسی نے ايسے ميرے ساتھ ديکھ ليا تو؟" وہ اپنا ڈر بيان کرگئ۔
"مجھے تو کبھی بھی اس بات سے ڈر نہيں لگا کہ اگر ہمارا رشتہ ڈس کلوز ہوگيا تو کيا ہوگا۔۔تم اپنے اس بے معنی ڈر کو پس پشت ڈالو۔ اور اس وقت کو انجواۓ کرو" وہ اسے سمجھانے والے انداز ميں بولا۔ اسکے لہجے کا مان نار کو مزيد کچھ کہنے سے روک گيا۔
"چلو" اسے اترنے کا اشارہ کيا۔
تھوڑی ہی دير بعد وہ دونوں ہوٹل کے اندر موجود دو کرسيوں والی ٹيبل پر آمنے سامنے بيٹھے تھے۔
چاۓ کے ساتھ سينڈوچز کا آرڈر دے کر وہ دونوں ادھر ادھر کی باتيں کرنے لگے۔
_________________________
"خيريت آج بڑے دنوں بعد تم نے ياد کيا" نجانے کيوں يونی سے آنے کے بعد ايک پل کو بھی وہ نظريں اسکے ذہن سے نہيں ہٹيں تھيں۔
کيوں دل اسکی جانب کھںچ رہا تھا اسے سمجھ نہيں آرہی تھی۔
کسی آنکھوں پر وہ يوں دل ہار جاۓ گا۔ اسکے کبھی وہم و گمان ميں بھی نہ تھا۔
آخر تنگ آ کر اس نے ردا کو فون کیا۔
"ہاں سوچا آج شام کی چاۓ تمہارے ساتھ پی جاۓ" اسکی بات پر وہ کھل سی اٹھی۔
"صرف چاۓ؟" اسکے سوال پر وہ بيزار سا ہوا۔
"نہيں مطلب آج کی تمام شام" اس نے تصحيح کی۔
"اوکے وقت اور مقام بتا دو۔ ميں آجاؤں گی" وہ فورا تيار ہوئ
کچھ ہی دير بعد سٹائلش سی بليک شلوار قميض ميں بالوں کو جيل سے سيٹ کئے نک سک سا وہ تيار تھا۔
دونوں مقررہ وقت پر پہنچ چکے تھے۔
"تم شلوار قميض اتنی کيوں پہنتے ہو؟" ہيلو ہاۓ کے بعد وہ اس سے سوال کئے بنا نہ رہ سکی۔ گو کہ اسے يہ لباس بہت آکورڈ لگتا تھا مگر وريد پر ايسا جچتا تھا کہ وہ سراہے بنا نہ رہتی تھی۔
"ميرا پسنديدہ لباس ہے۔ کچھ ہم فيوڈل لارڈز کتنے بھی پڑھ لکھ جائيں۔ کچھ چيزيں ہمارے خمير ميں پيوست ہوجاتی ہيں۔ جنہيں چاہ کر بھی ہم چھوڑ نہيں سکتے۔ تم يہی سمجھ لو۔ ان ميں سے ايک چيز ميرا شلوار قميض پہننا بھی ہے۔" وہ وضاحت دينے کے ساتھ ساتھ ايک طائرانہ نگاہ اردگرد بھی ڈال رہا تھا۔
جب ايک مخصوص آواز نے اسے اپنی جانب ديکھنے پر مجبور کيا۔
انکی ٹيبل کے دائيں جانب دو کرسيوں والی ٹيبل پر اسی کی عمر کے لگ بھگ مرد کے ساتھ وہ کوئ اور نہيں وہی موجود تھی جس نے صبح سے اسے تنگ کررکھا تھا۔
مارج کی پشت اسکی جانب تھی جبکہ نقاب ميں موجود وہ آنکھيں وريد کو پھر سے اپنی جانب کھينچنے لگيں۔ نار بھی اسے ديکھ چکی تھی۔ مگر ہميشہ کی طرح نظروں ميں اجنبی تاثر موجود تھا جو وريد کو کھولا کر رکھ گيا۔
"کيا ہوا؟" اسے مسلسل خاموشی سے دائيں جانب ٹکٹکی باندھ کر ديکھنے پر وہ ٹوک گئ۔ ردا نے کچھ چونک کر ساتھی والی ٹيبل پر موجود نقاب والی لڑکی کو ديکھا۔
وہ يہ سوچنا بھی نہيں چاہتی تھی کہ ايسی کوئ بيک ورڈ لڑکی ميں وريد دلچسپی لے سکتا ہے۔
"کچھ نہيں" کہنی کرسی کی ہتھی پر ٹکاۓ مٹھی ٹھوڑی اور ہونٹ پر ٹکائے اپنے مخصوص شاہانہ انداز ميں بيٹھے ردا کی پکار پر وہ جيسے ہوش ميں آيا۔
"تم آرڈر کرو" اب کی بار سيدھا ہو کر بيٹھا۔ دونوں بازو ٹيبل پر ٹکا کر مينيو کارڈ اپنے سامنے کيا۔
ردا بھی سر جھٹک کر مينيو کارڈ کی جانب متوجہ ہوئ۔ وريد نے اسے مصروف ديکھ کر ايک بار پھر دائيں جانب نظر دوڑائ۔ وہ دونوں اب اٹھ رہے تھے۔
مرد نے اسکے گرد بازو پھيلا کر گويا اسے اپنے حصار ميں ليا۔
وريد کے گويا تن بدن ميں آگ سی لگ گئ۔
'کون ہے آخر يہ۔ جو اس قدر استحقاق جتا رہا ہے۔ اسکے مطابق تو آج وہ نشرہ کے بھائ کی شادی اٹينڈ کرنے جارہی تھی۔ پھر يوں ايک مرد کے ساتھ' اس نے شعلہ بار نگاہوں سے ان دونوں کی پشت کو گھورا۔
"ٹھيک ہے يہ مينيو" ردا شايد اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔
"ہاں۔۔ ہاں ٹھيک ہے" وہ چونک کر اسکی جانب متوجہ ہوا۔
"مجھے تمہاری طبيعت کچھ ٹھيک نہيں لگ رہی" اسے مسلسل گومگو کی کيفيت ميں ديکھ کر آخر اسے کہنا پڑا۔
"نہيں ميں ٹھيک ہوں" پيشانی رگڑتے وہ اسے ٹالنے والے انداز ميں بولا۔
فوراّ خود کو کمپوز کيا
______________________________
اس دن کے بعد سے صغراءبيگم کی کوشش رہی کہ وہ بچی دوبارہ وريد کے سامنے نہ آئے۔ انہی دنوں اس کو پڑھنے کے لئے باہر بھيج ديا گيا تاکہ نہ وہ يہاں رہے نہ مزيد کسی گناہ کا مرتکب ہو۔
"ميں نے بات کرلی ہے تم باہر ماموں کے پاس پڑھنے جارہے ہو" ويک اينڈ پہ جب وہ ہاسٹل سے حويلی آيا وہ اسے اطلاع دينے لگيں۔
"ٹھيک ہے" اس نے ماں کی بات کو نارمل انداز ميں ليا۔
"مجھے فون پر اسکے بارے ميں اپ ڈيٹ کرتی رہئيے گا" وہ اپنی کتابيں سامنے پھيلائے بولا۔
صغراء نے کچھ الجھ کر اسے ديکھا کہ وہ کس بارے ميں بات کررہا ہے۔
"وہی جو ميرے لئے ونی ہو کر آئ ہے" اس نے سر اٹھا کر ماں کو نہيں ديکھا تھا مگر اسکا لہجہ انہيں بری طرح لرزا گيا۔
"تم ان باتوں سے دور رہو" اسکے کپڑے الماری ميں ٹھيک کرتے نظريں چرا کر اسے ٹوک گئيں۔
"کيوں۔۔۔۔۔ ميرا تو بہت گہرا تعلق ہے ان باتوں سے" وہ واقعی اپنی عمر کی نسبت بہت بڑی باتيں کرتا تھا۔ اس لمحے بھی انہيں دس گيارہ سال کا وريد نہيں لگا۔
"تم اپنی پڑھائ پر توجہ دو بس" وہ پھر سے سپاٹ لہجے ميں بوليں۔
"مجھے واپس آکر وہ يہيں نظر آنی چاہئيے" اب کی بار ماں کی پشت کو ديکھ کر وہ ايک ايک لفظ پر زور ديتے ہوۓ بولا۔
"وہ يہيں ہے۔ کہيں نہيں جارہی نہ جاسکتی ہے۔" وہ چڑ کر مڑيں۔ غصے سے اسکی جانب ديکھا۔
وہ سر جھٹک کر اپنی کتاب کھول چکا تھا۔
_______________________
جرگہ فيصلہ کرنے کے لئے تيار بيٹھا تھا۔
ايک جانب ملک کے لوگ بيٹھے تھے تو دوسری جانب چوھدری۔
آمنے سامنے بيٹھے چوہدری ملک سرفراز کو گھور رہے تھے۔
"تو آپ لوگوں کا کيا فيصلہ ہے؟" آخر جرگے کے معززين ميں سے ايک نے چوہدريوں سے سوال کيا۔
"آپ جانتے ہی ہيں کہ يہ سب واقع کيسے اور کس طرح پيش آيا" انکی جانب سے ايک بندے نے تمہيد شروع کی۔
"جی ميرا خيال ہے سب دہرانے کا فائدہ نہيں۔ ہم سب آپکے دکھ ميں برابر کے شريک ہيں۔
اس وقت ہم سب صرف آپ کا فيصلہ سننے کے لئے بيٹھے ہيں۔ آپ نے صلح مشورے سے جو بھی فيصلہ کيا ہے ملکوں کو وہ قبول کرنا ہوگا"
انہوں نے ايک تيکھی نظر ملک سرفراز اور ملک اياز پر ڈالی۔
ملک ايازنے سر ہلا کر انکے فيصلے کی گويا تائيد کی۔
"ہم خون بہا نہيں چاہتے" چوہدری وجاہت کی بات پر ملک سرفراز نے جھٹکے سے سر اٹھايا۔
ملک اياز کی آنکھوں ميں بھی خوف کے سائے لہرائے۔
"ہميں ملک سرفراز کی بڑی بيٹی زرناب ۔۔ اپنے بيٹے وريد چوہدری کے لئے ونی ميں چاہئيے۔" ملک سرفراز کے خوف سے سفيد پڑتے چہرے کو طنزيہ نظروں سے ديکھتے وجاہت علی چوہدری نے اپنا فيصلہ سنايا۔
"ليکن يہ ۔۔ وہ۔۔ وہ بے قصور ہے؟" ملک سرفراز کو شايد پہلی بار کسی تکليف کا احساس ہوا تھا۔ پہلی بار اسکے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔ اپنی چار سالہ بيٹی زرناب کا چہرہ نظروں ميں لہرايا۔ اسے تو معلوم بھی نہيں تھا ايسی گندی رسومات کا۔
"بے قصور تو ميرا بيٹا بھی تھا۔۔۔" وہ غرائے۔
"ہم نے اپنا فيصلہ سنا ديا ہے۔۔ اور آپ نے ہی کہا تھا کہ ملکوں کو ہمارے فيصلے پر اعتراض نہيں ہوگا۔ ابھی تو شکر کريں۔ ايک ہی بچی ونی کے لئے مانگی ہے دو نہيں" اسکے سفاک انداز پر ملک سرفراز بھڑک گيا۔
"بکواس بند کرو۔۔ منہ توڑ دوں گا ميں تمہارا" وہ غصے سے چلايا۔ ملک اياز نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شانت کيا۔
"غصے سے کام مت لو۔۔ ہميں آپ کا فيصلہ منظور ہے" اس وقت يہاں جنگ و جدل کرنے کا مطلب حالات مزيد بگاڑنا تھے۔
"آپکی بيٹی نہيں ہے نا وہ اسی لئے تکليف نہيں ہورہی" وہ انکا ہاتھ جھٹک کر پھنکارا۔
"اولاد چاہے اپنی ہو يا کسی اور کی۔۔۔ تکليف ايک سی محسوس ہوتی ہے۔۔ تم تو اپنی عياشيوں ميں گم تھے۔ تمہاری اولاد کو بھی تمہارے حصے کا پيار ميں نے ديا ہے" انکی آواز ميں موجود نمی محسوس کرکے وہ خاموش ہوگيا۔
"شايد کسی کی آہ لگی ہے" چہرہ نيچے کئے وہ اعتراف کئے بنا نہ رہ سکا۔ آنکھيں بند کرتے ہی مہرنگار اور مارج کی شبيہہ لہرائ۔
رات تک زرناب ونی بن کر چوہدريوں کی حويلی ميں انکے عتاب سہنے پہنچ چکی تھی۔
جبکہ ملکوں کی حويلی ميں آج ماتم کا سا سماں تھا۔
_________________________
ردا کے ساتھ پوری شام گزارنے کے بعد بھی وہ نارمل نہيں ہو پا رہا تھا۔
"کيوں ميں اسے سر پر سوار کر رہا ہوں" کمرے ميں نيم تاريکی کئے بيڈ پر بے چين سا سر ہاتھوں پر گراۓ بيٹھا تھا۔ بيڈ کے سامنے موجود ايل ای ڈی پر گانوں کا کوئ چينل لگا رکھا تھا۔
کسی چيز ميں سکون نہيں مل رہا تھا۔
"ہے ہی کيا اس ميں جو مجھے بے چين کررہا ہے؟" غصے سے خود سے سوال جواب کررہا تھا۔
"وہ ميرا اسٹينڈرڈ نہيں ہے" خود کو جيسے ياد دلا رہا تھا۔
I finally figured it out
We're all the same
Quit rushing me now
We're both to blame
It don't mean nothing
This crack in the road
I'm down by the beach now
I'm just taking it slow
Unfortunate love
How I liked it, I'm allowed to
Flown from the stop
I won't hide it, I don't have to
Sorry, my love
I was tied up, never showed up even
For what it's worth
This is all right, wasn't done yet
You finally move on
To something great
I know where it's from now
This ain't no mistake
It don't mean nothing
This hole in my head
It just needs filling up
Filling up with all the good that's left
اسکے دماغ ميں چلتی سوچوں کی يلغار کا خاتمہ موبائل پر اسکے خاص بندے کی آنے والی کال سے ہوا۔
"ہيلو۔۔ کيا خبر ہے؟" وہ گھمبير آواز ميں بولا۔
"سر صفورہ خالہ کی بيٹی کے گھر کا پتہ چل گيا ہے۔"اسکی اطلاع پر اسکی آنکھيں ميں الگ ہی چمک ابھری۔
"شاباش" گھنی مونچھوں تلے بھرے بھرے ہونٹوں پر بڑی محظوظ کن مسکراہٹ رينگی۔
"سوات کے قريب ايک گاؤں ہے اسلام پور وہيں ان کا گھر ہے" اس نے تفصيل بتائ۔
"تم ايک چکر لگا کر آؤ۔ پھر ميں خود جاؤن گا" اس نے مزيد ہدايت تھی۔
"جيسے آپکا حکم چوہدری صاحب" وہ حکم بجا لايا۔
وہ جانتا تھا صفورہ خالہ پٹھان ہيں۔ اسکی دادی ايک بار اپنی جوانی ميں سوات گئيں۔ وہيں صفورہ خالہ انہيں مليں۔ اور وہ انکے ماں باپ کو راضی کرکے انہيں اپنے ساتھ حويلی لے آئيں۔ يہيں انکی شادی کی مگر انہوں نے اپنی بيٹی کی شادی اپنی برادری ميں کی تھی۔
وہ اکثر سوات آتی جاتی رہتی تھيں۔
"تمہيں تو ڈھونڈ کے رہوں گا" وہ زرناب کے ہيولے سے مخاطب ہوا۔ تخيل ميں وہی چھوٹی بچی تھی۔
اس دن ان دونوں کی آنکھ مچولی کا کھيل نشرہ بھول چکی تھی۔ ليکن آج مارج کو اکيلے نار کو لاتے ديکھ کر وہ پھر سے شک ميں پڑ چکی تھی۔
ان سب کو لانے پر بھی وہ اپنے ساتھ بارڈی گارڈز لے کر جاتا تھا۔ تو پھر اسکی دوست کے لئے يہ الگ سا رويہ کيوں؟
اندرونی حصے سے نکل کر وہ ڈرائيو وے کے قريب آئ جہاں مارج نے پجيرو کو روکا۔
اس ميں سے نکلتے مارج اور نار نے نشرہ کو نہيں ديکھا تھا۔
مارج کے چہرے پر بڑی مسحور کن مسکراہٹ تھی۔ ايسی مسکراہٹ تو نشرہ نے بہت کم اسکے چہرے پر ديکھی تھی۔
آخر ايسا کيا تعلق پنپ رہا تھا ان کے بيچ کے حالات اس حد تک آگئے تھے اور نار۔۔۔۔ اگر وہ مارج کو پسند کرتی تھی تو اس نے نشرہ سے يہ بات کيوں چھپائ۔
اور مارج۔۔۔ اگر وہ اسے پسند کرتا تھا تو اسکے ساتھ نکاح کا ڈرامہ کيوں۔
نار کے آنے پر خوش ہونے کی بجاۓ وہ غم و غصے کی تصوير بن گئ تھی۔
مارج نے نار کو اسکا بيگ تھما کر جوں ہی مڑ کر زنان خانے سے ملازمہ کو آواز دينی چاہی۔ اندرونی حصے کی جانب جانے والی سيڑھيوں پر نشرہ کو ساکن ديکھ کر وہ پل بھر کے لئے ٹھٹھکا۔ نار کا وجود مارج کے لمبے چوڑے وجود کے پيچھے تھا۔ اسی لئے وہ بھی نشرہ کو ديکھ نہيں پائ۔
"بی بی يہ آپکی دوست" ہاتھ باندھ کر اپنے مخصوص انداز ميں سر نيچے کرکے نظريں جھکاتے وہ نار کے آگے سے ہٹا۔
نار اسے ديکھ کر تيزی سے اسکی جانب بڑھی۔
مارج بھی انکے قريب سے گزر کر مردان خانے کی جانب بڑھنے لگا۔
"لگتا ہے آج ہر خوف و خطر سے آزاد ہو کر ميری دوست کو لينے گئے تھے۔ کوئ گن مين ساتھ نہيں" اسکے طنز پر مارج بری طرح ٹھٹھکا۔
نار بھی اسکا ليے دئيے والا انداز ديکھ کر کچھ چونکی۔
"گن مين کے بغير ہی باحفاظت آپکی دوست کو پہنچا ديا ہے" وہ وضاحت سی دينے لگا۔
"وہی تو۔۔۔۔ خير تم سے بعد ميں بات کروں گی۔ نار چلو تمہيں باقی سب سے ملواؤں۔ مارج کو تو اچھے سے جان ہی گئ ہو" اسے بازو سے تھامے وہ اندر کی جانب بڑھی۔ مگر ايک اور گہرا وار کرنا نہيں بھولی۔
مارج نے بمشکل مٹھياں بھيںچ کر اپنا غصہ کنٹرول کيا۔ وہ يقينا اپنی کم عقلی کے باعث ان دونوں کے بارے ميں کچھ اور ہی سمجھ بيٹھی تھی۔
"نان اسينس" مارج دل ہی دل مين اسکی عزت افزائ کرچکا تھا۔
_____________________
اندر بڑھتے کيا کيا ياد نہيں آيا تھا۔
"اماں سائيں يہ مارج کو ميں بھائ کہہ لوں" بچوں سی آواز ميں وہ اشتياق سے بولی۔
"ہاں مگر دادی سائيں کے سامنے نہ کہنا انہيں اچھا نہيں لگے گا" ماں نے ٹوکا وہ اپنی دو پونيوں والا سر ہلا کر بولی۔
آنکھيں نم ہوئيں ايسا لگا وہ منظر ابھی تو يہيں کہيں تھا جب اس نے پہلی بار مارج کو تايا سائيں کے ہمراہ اس حويلی ميں آتے ديکھا تھا۔
"چلو نا نشرہ۔۔ مارج بھائ کو بھی اپنی گڑيا کی شادی ميں بلاتے ہيں" وہ دونوں اپنے گڈے گڑيا کی شادی کرنے ميں مصروف تھيں۔
"ہشت۔۔۔ دادی سائيں اور پھوپھو سائيں کہتی ہيں وہ گندا لڑکا ہے۔۔ ہم کيوں اسے اس شادی ميں بلائيں" وہ ناک چڑھا کر بولی۔ زرناب منہ بنا کر رہ گئ۔
وہ آج بھی مارج کے بارے ميں يہی رائے رکھتی تھی۔
"مارج بھائ۔۔ يہ شربت پی ليں" وہ اپنا گلاس چپ کرکے گرمی ميں بيٹھ کر کتاب پڑھتے مارج کے پاس لے کر آئ۔
"گڑيا تم نے پی ليا" روز کی طرح اس نے وہی سوال دہرايا۔ يہ اسکی سوتيلی بہن تھی۔ مگر مارج کی طرح وہ بھی اسکی جانب کھچی چلی آتی تھی۔
"ہاں نا۔۔" وہ جھٹ سے اپنی دو پونيوں والا سر ہلا کر بولی۔
"آپ ميرے بھائ ہو نا" اسے بھائ کا بہت شوق تھا۔ جيسے نشرہ کے بڑے بھائ اسيد بھائ اور صابر بھائ تھے۔
"ہاں ميں تمہارا ہی تو بھائ ہوں" وہ اسکے پاس بيٹھی مزے سے باتيں کرنے ميں مصروف تھی۔
"نشرہ کے بھائ مت بننا بس ميرے بھائ بننا" وہ فہمائشی انداز ميں بولی۔
مارج اسکی تنبيہہ پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
"نہيں ميں اس نک چڑھی کا بھائ کبھی بھی نہيں بن سکتا۔ ميں تو اپنی اس پری جيسی نار کا ہی بھائ بنوں گا" اسکی فرمائش پوری کرتے اس نے اسے پيار کا نام بھی دے ديا۔ زرناب خوشی سے پھولے نہ سمائ۔
اور چند دن بعد ہی مارج کو علم ہوا اسکے باپ کی غفلت کے باعث وہ پياری سی گڑيا ونی ہو چکی ہے۔
اس رات وہ اپنی ماں کے مرنے کے بعد دوسری بار شدت سے رويا تھا
"کيا ميرا ہر رشتہ مجھ سے يوں چھين ليں گے" دوسری بار اس نے اللہ سے شکوہ کيا تھا۔
چند دن ہی گزرے تھے جب اس نے دل ميں مصمم ارادہ کيا اور چوہدریوں کی حويلی کا پتہ کرتا اپنی گڑيا کو ديکھنے کی چاہ ميں وہاں پہنچ چکا تھا۔
"کيا چاہئيے؟" دروازے کے باہر کھڑے گارڈز نے پوچھا۔
"کھانے کو کچھ ہے" وہ فقير نہيں تھا مگر بہن کی جھلک کے لئے سائل بن گيا۔
"ٹہرو ميں اندر سے لے کر آتا ہوں تم ادھر ہی رہنا" اسکی بات پر يکدم اس نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما
"بہت دور سے چل کر آرہا ہوں۔ کيا کچھ دير کے لئے اندر بيٹھ سکتا ہوں" اسے سمجھ نہيں آئ وہ کيسے اندر جاۓ لہذا بہانہ بنايا۔
بچہ سمجھ کر اس چوکيدار نے بھی اندر بلا ليا۔
وہ بڑے سے باغ کے ايک جانب جامن کے بڑے سے درخت کے ساتھ ٹيک لگا کر ادھر ادھر ديکھنے لگا۔ کچھ ہی دير بعد بائيں جانب اسے ملازموں کے کوارٹر ميں سے ايک عورت اور اسکے ساتھ زرناب روتی ہوئ نظر آئ۔ وہ عورت اسے بہلاتی ہوئ کوارٹرز کی جانب لے گئ۔
مارج کے دل کو گويا کسی نے مٹھی ميں جکڑا۔
ماں اور تايا کے بعد ايک وہی تو تھی جو سچے دل سے اسکی جانب بڑھی تھی۔ اسے محبت دی تھی۔ رشتے کا مان ديا تھا اور وہ آج اسکے لئے کچھ نہ کرسکتا تھا۔
بھاری دل لئے وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گيا۔
مگر دل ميں مصمم ارادہ کرليا کہ اسکی خبر گيری کرتا رہے گا۔ پھر اکثر ہی وہ اس حويلی کے آس پاس رہنے لگا۔
چند دن ميں ہی ملک اياز کو اس بارے ميں معلوم ہوگيا۔ ا
انہوں نے اسے اپنے کمرے ميں بلوايا۔
"کيوں بار بار اسکے پاس جارہے ہو" کوئ بھی تمہيد باندھے بنا وہ سيدھا اصل بات کی جانب آئے۔
"وہ بہن ہے ميری" وہ ان سے ہر طرح کی بات کرليتا تھا۔
"اگر کسی کو معلوم ہوگيا کہ تم اس حويلی سے آتے ہو تو وہ اسکا جينا اور حرام کرديں گے۔ ونی کی خبر گيری نہيں کی جاتی" وہ اسے سمجھانے والے انداز ميں بولے۔
"ميں ايسی کسی رسم کو نہيں مانتا۔ وہ ميری بہن ہے اور مجھے ہر حال ميں اس کی خبر رکھنی ہے۔" وہ پہلی بار ان کے سامنے يوں ضد لگا کر بيٹھا تھا۔
آخر انہيں اسکی ضد کے سامنے ہارنا ہی پڑا۔
اور يوں وہ چوری چھپے وہاں جانے لگا۔ چند ايک بار دن کے اجالے ميں جاکر حويلی کے اندر کے راستوں سے واقف ہوگيا۔
بارہ سالہ زرناب کو جب صفورہ خالہ نے اس حويلی سے نکالا وہ تب بھی اسکے ہمراہ موجود تھا مگر ايسے کہ کوئ جان نہيں پايا۔
جس گاڑی ميں سفر کرکے وہ سوات پہنچی تھی مارج بھی اس گاڑی ميں موجود تھا۔
اور پھر صفورہ خالہ کی بيٹی کو پيسے دے کر اسکے بارے ميں وقتا فوقتا مطلع کرنے کا کہا۔
وہ کب وہاں سے شہر کے سکول اور پھر کالج پڑھنے کے لئے گئ وہ ايک ايک بات سے واقف تھا۔ نہ صرف يہ بلکہ کئ بار اسکی مدد کے لئے پيسے تک صفورہ خالہ کی بيٹی کو دئيے۔ اسکے ہوسٹل کا استظام تک اس نے کرکے ديا۔ مگر ايسے کہ کوئ نہيں جان سکا۔
اس نے حقيقت ميں اسکا بھائ ہونے کا حق ادا کيا تھا۔
____________________________
اسے تو گويا حویلی آکر چپ سی لگ گئ تھی۔
ابھی تک وہ اپنی ماں سے نہيں ملی تھی۔ اسکی جڑواں بہنيں تو اسی ہوسٹل ميں رہتی تھيں۔ ان سے کئ بار مل چکی تھی۔
"آؤ تمہيں اباسائيں سے ملواؤں" اسکا ہاتھ تھامے وہ مردان خانے کی جانب بڑھی۔ ايک وہی تھی جو يوں بے دھڑک کہين بھی چل پڑتی تھی۔
مردان خانے کی جانب جاتے دو کام والے سامنے سے آتے نظر آئے۔ شادی کا گھر تھا بہت سے کاموں کے لئے لوگ بلوائے ہوۓ تھے۔
انہيں ديکھ کر وہ يکدم چہرے جھکاۓ واپس مڑے۔
بيٹھک سے نکلتا مارج لائيٹ والوں کو واپس آتا ديکھ کر حيران ہوا۔
"خيريت ہے؟" وہ يہی سمجھا انہوں نے کوئ اور بات کہنی ہے۔
"صاحب وہ" وہ دونوں اب کہہ بھی نہيں سکتے تھے کہ کاريڈور ميں آپکے گھر کی زنانياں ہيں۔ انہيں ہچکچاتے ديکھ کر وہ خود ہی دروازہ پار کرکے جوں ہی باہر نکلا۔
نشرہ مزے سے زرناب کا ہاتھ تھامے کمرے کے قريب آتی دکھائ دی۔
وہ قہر برساتی نظروں سے اسے ديکھنے لگا۔ شکر تھا کہ سر پر دوپٹہ لے رکھا تھا۔
"آپ يہاں کيا کررہی ہيں؟" سرد لہجے ميں بولا۔
"اباسائيں سے ملنا ہے" وہ اسے کسی خاطر ميں نہ لاتے ہوۓ بولی۔
"آپ مردان خانے ميں کيا کررہی ہيں؟" اب کی بار وہ دبی دبی آواز ميں غرايا۔
"يہ تمہاری نہيں ميری حويلی ہے جہاں چاہے جاؤں" وہ پہلے ہی اس پر تپی ہوئ تھی لگ رہا تھا وہ غصے کو مزيد ہوا دے رہا ہے
"آپ جائيں ملک صاحب کچھ دير ميں اپنے کمرے ميں جائيں گے وہيں مل لی جئے گا" فورا اسے وہاں سے چلتا کيا۔
"ميں نے تم سے نہيں پوچھا کہ مجھے يہ بتاؤ کہ مجھے کيا کرنا چاہئيے کيا نہيں" وہ آنکھيں نکال کر بولی۔
"کيا کررہی ہو نشرہ کچھ دير بعد مل ليں گے" زرناب مارج کے غصے سے ڈری۔ مگر نشرہ زرناب نہيں تھی لہذا اکڑ کے کھڑی رہی۔
"تم چپ کرو۔۔ اور زيادہ اسکی چمچی بننے کی ضرورت نہيں۔" اسے بھی بری طرح جھڑکا۔
"آپ يہاں سے جارہی ہيں کہ نہيں" اب کی بار اسکا لہجہ بے لچک تھا۔ نظريں بھی اٹھی ہوئ اسکے چہرے کا غصے سے طواف کرتی چنگارياں برسا رہی تھيں۔
"نہيں" وہ ترکی بہ ترکی۔
اب کی بار مارج کے لئے اسکا دماغ ٹھکانے لگانا ضروری ہوگيا۔ اسے کچھ بھی سمجھے کا موقع دئيے بنا مضبوطی سے اپنے دائيں ہاتھ کے شکنجے ميں اسکا باياں بازو تھام کر تيزی سے رخ گھما کر اسے کھينچتا ہوا اپنے ساتھ چلانے لگا۔
"کيا کررہے ہو يہ تم۔۔۔ تمہاری ہمت مجھے ہاتھ لگانے کی" وہ بری طرح سٹپٹائ تھی۔
زنان خانے کے بيرونی حصے کی جانب لا کر ہی اسکا بازو چھوڑا۔
"آئندہ مجھ سے بے فضول بحث مت کيجئے گا۔ " اسکا بازو چھوڑتے اسکی جانب جھکتے بھاری لہجے ميں کی جانے والی تنبيہہ اسے ششدر کر گئ وہ کبھی اتنے کھردرے لہجے مين اس سے مخاطب نہيں ہوا تھا۔
"اگر دوبارہ ايسا کچھ ہوا تو مجھ سے نرمی کی اميد مت رکھئے گا" انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا تيزی سے مڑکر مردان خانے کی جانب چلا گيا۔
"تم کيوں اتنی ضدی ہو؟" زرناب بے چارگی سے اسے ديکھ کر رہ گئ۔
وہ مارج کے رويے پر ابھی تک شديد حيرت کا شکار تھی۔ وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھی کہ وہ کبھی يوں تحکمانہ انداز ميں اس سے مخاطب ہوگا۔
______________________
اگلا دن بھی جلوہ گر ہو کر اب غروب ہونے کے قريب تھا مگر اسے کسی کل چين نہيں تھا۔
'آخر وہ کس کے ساتھ تھی' کل سے يہ خیال اسے کھاۓ جارہا تھا۔
کچھ سوچ کر موبائل کھولا۔ کلاس کے سی آر نے ہر ٹيچر کے ساتھ ايک واٹس ايپ گروپ بنا رکھا تھا جن ميں سب اسٹوڈنٹس کو بھی ايڈ کيا تھا۔
وريد نے وہ کھول کر اس ميں سے زرناب کا نمبر ڈھونڈ نکالا۔
کچھ سوچ کر يہ ٹين ايجرز والی حرکت کی۔
اسکا نمبر ڈائل کيا۔ کچھ ہی دير بعد دوسری جانب سے فون اٹھا ليا گيا۔
"ہيلو" اسکی رس گھولتی آواز سن کر وريد کو يک گونہ سکون ملا۔ اپنی کيفيت پر وہ خود حيران تھا۔
"ہيلو۔ نار احسان سے بات ہوسکتی ہے" جذبات کے برعکس الفاظ انتہائ کھردرے تھے۔
"جی ميں بات کررہی ہوں" دوسری جانب اسی کے ہونے پر اس نے گہرا سانس خارج کيا۔
"ميں وريد چوہدری بات کررہا ہوں" اپنا تعارف اسی اکھڑ انداز ميں کروايا۔
"جی سر۔ آپ نے مجھے کال کيوں کی؟" اب کی بار دوسری جانب بھی لہجہ ميں کھردراپن در آيا۔
"آپ کو کچھ نوٹس دئيے تھے سفيان نے آپ نے وہ مجھے ريٹرن کرنے تھے جو کہ آپ کئے بغير چلی گئيں" وہ لہجے ميں اجنبی پن سمو کے بولا جيسے بس يہی کہنا تھا۔
"اوہ سوری سر۔ ميں فريحہ کو کہتی ہوں وہ ميرے روم سے لے کر آپ کو کل دے دے گی" اسے حقيقت ميں بھول گيا تھا کہ وہ نوٹس اسے وريد کو واپس کرنے ہيں۔
"چليں ٹھيک ہے۔ ويسے۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ فون رکھتی وہ مزيد گويا ہوا۔
"شادی کا بہانہ کرکے آپ تو ٹی پارٹيز کررہی ہيں۔۔مجھے تو اب بھی يقين نہيں کہ آپ نے اپنی ليو کی جو وجہ بتائ وہ صحيح بھی ہے يہ مزيد کوئ جھول ہے" اسکی اتنی پرسنل بات پر وہ سيخ پا ہوگئ۔ وہ سمجھ گئ وہ کل کا حوالہ دے رہا ہے جب اس نے اسے مارج کے ساتھ ديکھا تھا۔
"ايکسکيوزمی سر۔ ميں اپنے پرسنل ميٹرز نہ کسی کے ساتھ شئير کرتی ہوں نہ کسی کو اجازت ديتی ہوں کہ ان ميں دخل اندازی کريں" وہ اسکی ٹھيک ٹھاک عزت افزائ کرگئ۔
"اور آپ پہلے بھی ايک بار پرسنل ہوچکے ہيں" اس کی بات وريد کو طيش دلا گئ۔
"آپ جيسے سٹوڈنٹس پر چيک رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ہمارے ہی ادارے کا نام خراب ہوگا کہ يہاں آپ جيسی لڑکياں پڑھتی ہيں جو شادی کے بہانے بنا کر لڑکوں کے ساتھ ڈيٹس۔۔۔۔۔" ابھی اسکی بات پوری نہيں ہوئ تھی جب وہ چلائ۔
"آپ ہوتے کون ہيں مجھ پر ايسے رکيک الزام لگانے والے۔ بہتر ہے کہ پہلے اپنی تربيت کريں پھر دوسروں کو سبق پڑھائيں" وہ بھی اسے بے نقط سنا کر فون بند کر گئ۔
"گھٹيا انسان ۔۔۔ ايسے لوگ کبھی نہيں بدلتے" فون بند کرکے بڑبڑائ۔
اگلے دن شام ميں مہندی سے پہلے وہ اسے اپنے ساتھ لئے ملک اياز کے کمرے ميں ملوانے پہنچی۔
"ميں آجاؤں اباسائيں؟" دروازے پر ناک کرکے اندر آنے کی کی اجازت ملتے ہی دروازہ وا کرکے اندر جانے سے پہلے پوچھا۔
"آجاؤ بيٹے" بھاری مردانہ آواز پر نشرہ کے پيیچھے کھڑی زرناب کا دل بھر آيا۔ کاش اس کا باپ بھی آج زندہ ہوتا تو وہ کم از کم اسے ديکھ تو پاتی۔
آنسو پيتے نشرہ کا ہاتھ تھام کر وہ اندر داخل ہوئ۔
"اباسائيں۔ ہماری دوست نار آئ ہے آپ سے ملنے" اسے انکے سامنے کرتی بولی۔
وہ جو مہندی کے لئے تيار ہو کر اب خود کو آئينے ميں ناقدانہ نگاہوں سے ديکھ رہے تھے۔ نشرہ کے اندر آتے ہی آئينے کے سامنے سے ہٹے۔
نار نے جھکی نظريں اٹھا کر انکے شفيق چہرے پر ڈالی۔
سفيد اور سياہ مونچھيں اور داڑھی انکی شخصيت ميں رعب کے ساتھ ساتھ ايک الگ ہی شفقت بھرا احساس جگارہی تھيں۔
انکی نظريں بھی اپنے بھائ کی کم نصيب بيٹی کو ديکھ کر اشکبار ہوئيں۔
اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ياد آئے جو اکثر وہ اپنی فرمائش پوری ہونے پر انکے بھاری ہاتھوں کو تھام کر ان پر پيار کرتی تھی۔
دوپونيوں والی زرناب اب حسين لڑکی کی شکل اختيار کرچکی تھی۔
حسن انکے خاندان کا خاصہ تھا۔ اور زرناب بھی انہی ميں سے ايک تھی کہ جسے بندہ ديکھے تو پھر ٹھٹھک کر رک جاۓ۔
اسکے سلام کرنے پر انہوں نے آگے بڑھ کر اسکا چہرہ ہاتھوں ميں تھاما۔
وہ گھبرائ۔ جبکہ نشرہ ششدر انہيں اپنی کسی دوست کے ساتھ ايسے کرتے ديکھ رہی تھی۔ پیار کرنے کا يہ مخصوص انداز صرف اس خاندان کی بچيوں کے ساتھ اپنايا جاتا تھا۔
يکدم جھک کر انہوں نے اسکے ماتھے پر لب رکھے۔
اس انداز پر زرناب کا دل کيا ہر مصلحت بالائے طاق رکھ کر انکے پرشفيق چوڑے سينے پر سر رکھ کر اپنی ہر تکليف بہا دے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ وہ ايسا کچھ نہيں کرسکتی تھی۔ بمشکل آنسو پئے۔
"ماشاءاللہ بہت پياری بچی ہے" محبت انکے لہجے سے ہی عياں ہورہی تھی۔
نشرہ تو ساکت کھڑی تھی۔ انہوں نے کبھی اسکی کسی دوست کو سر پر ہاتھ پھيرنے کے علاوہ ايسا کوئ عمل نہيں کيا تھا۔
'تو کيا مارج انہيں نار کے لئے اپنی پسنديدگی بتا چکا ہے' اسکی ذہنی رو کہيں اور ہی بہک رہی تھی۔
'کيا ميرا باپ ميرے کئے کی يہ سزا دے گا کہ مجھ پر سوتن لائے گا؟' وہ اپنی پراگندہ سوچوں ميں مگن کھڑی تھی۔
"آپ جب فارغ ہوں تب مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے" يکدم کچھ سوچتے ملک اياز سے مخاطب ہوئ۔
"فنکشن کے بعد تم ميرے کمرے ميں آجانا" پيچھے ہٹتے اسے ديکھ کر بولے۔
"جی بہتر۔ چلو" انہيں جواب ديتے وہ زرناب سے مخاطب ہوئ۔
مہندی کے فنکشن ميں عورتيں اور مرد الگ الگ تھے۔
ڈھولک کا اہتمام کيا گيا تھا۔
زرناب اپنی ہی دو بہنوں اور باقی کزنز کے ساتھ سب انجواۓ کررہی تھی جبکہ نشرہ چپ چپ سی تھی۔ اسے کيوں نار اور مارج کو اکٹھے سوچنا برا لگ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہيں آرہی تھی۔
"ميں آتی ہوں" اسے لگا اب مزيد انہيں سوچا تو اسکا دم گھٹ جاۓ گا۔
مايا سے کہتی وہ اٹھ کر پچھلے باغ کی جانب آئ۔ اس وقت وہاں کوئ نہيں تھا۔ مردان خانے ميں اسيد کے دوست اور گھر کے مرد تھے جبکہ عورتوں نے مہندی کا فنکشن حويلی کے رہائشی حصے کے سامنے والے باغ ميں کر رکھا تھا۔
وہ خاموشی سے چلتی باغ ميں موجود مصنوعی آبشار کی جانب آئ۔ جس کے اردگرد برقی قمقمے لگے تھے۔
منہدی اورگلابی رنگ کے شرارے اور گھٹنوں تک آتی شرٹ پر گوٹے کا بے حد نفيس کام ہوا تھا۔ کمر تک آتے بالون کو چٹيا ميں گوندھ کر اس پر گيندے کے پھول لگاۓ ہوۓ تھے۔
مانگ ميں بنديا اور سبز موتيوں والے جھکمے ، ہاتھوں ميں چوڑياں اور پاؤں ميں ہمر رنگ کھسہ پہنے دوپٹے کو گلے ميں ڈالے وہ خطرناک حد تک حسين لگ رہی تھی۔
مردان خانے کا ايک دروازہ پچھلے باغ ميں کھلتا تھا۔
اسيد کا دوست مہران فون کے سگنل خراب ہونے کی وجہ سے پچھلے دروازے سے باہر نکلا۔
"ہاں يار اب آواز آرہی ہے" ايک فون کان سے لگاۓ دوسرے سے سگريٹ کے کش لگاتے يکدم اسکی نظر بائيں جانب آبشار کے قريب لڑکی پر پڑی۔ برقی قمقموں کی روشنی ميں اسکے چہرے سے بھی روشنی پھوٹ رہی تھی۔
"ہاں کيا کہا" اس اپسرا کو ديکھ کر وہ دوسری جانب سے آنے والی آواز کو فراموش کرچکا تھا۔
"ميں تجھ سے بعد ميں بات کرتا ہوں" اپنی پرشوق نظريں اس پر ٹکاۓ وہ فون بند کرچکا تھا۔
اس سے پہلے کے اسکے قدم نشرہ کی جانب اٹھتے۔ پيیچھے سے کندھے پر پڑنے والے بھاری ہاتھ نے اسے بے اختيار رکنے پر مجبور کيا۔
مڑ کر ديکھا مارج سرد تاثرات لئے اسکے پيچھے کھڑا تھا۔ وہ اسے اسيد کے والد کے خاص بندے کی حيیثيت سے جانتا تھا۔
"کھانا کھل چکا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اندر تشريف لے جائيں" اسکے مڑتے ہی اسکے سرد الفاظ نے اسے لمحہ بھر کو خفت زدہ کيا۔ اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹا کر پھر سے ہاتھ پشت پر باندھے
"وہ موبائل کے سگنل ٹھيک نہيں تھے تو اسی لئے ميں يہاں آگيا" وہ خفت مٹانے کو وضاحت دينے لگا۔
"بہتر ہے کہ جتنے دن آپ يہاں ہيں۔ موبائل کے سگنل نہ بھی آئيں تب بھی آپ ان کمروں سے باہر نہ آئيں۔ ورنہ ہر طرح کے سگنل بند کرنے ميں مجھے ايک پل نہيں لگے گا" اسکا جتلاتا انداز مہران کا حلق خشک کرگيا۔
ايک ہاتھ سے اسے اندر جانے کا اشارہ کيا۔
وہ سر جھکاۓ تيزی سے اندر کی جانب بڑھا۔ اسکے اندر جانے تک مارج کی نظروں نے اسکا پيچھا کيا آيا کہ پيچھے مڑ کر اس مورت کو نہ ديکھ لے۔ جيسے ہی وہ اندر گم ہوا۔ اب کی بار اس نے گردن موڑ کر خشمگيں نظروں سے نشرہ کو ديکھا۔ جو اپنے حليے سے بے پرواہ يہاں کھڑی تھی۔ کچھ سوچ کر قدم اسکی جانب بڑھائے۔
"آپ يہاں کيا کررہی ہيں؟" سرد لہجہ اب بھی برقرار تھا۔
اسکی آواز سن کر وہ فورا پلٹی۔
ڈارک گرين شلوار اور کرتے مين شانوں پر کالی چادر ڈالے مارج کو ديکھا۔
اس قدر حسن ديکھ کر مہران کا ٹھٹھکنا بنتا تھا۔
مگر وہ مارج تھا۔۔ نفس کو اسکی انتہا پر آزمانے والا۔اسکے حسن نے بھی دل پر کوئ واردات نہيں کی تھی۔
"اب کيا کہيں کھڑی بھی تمہاری مرضی سے ہوں" وہ جو پہلے ہی اسکی وجہ سے منتشر سوچيں لئے بد دل ہو رہی تھی۔ اسے سامنے ديکھ کر گويا پھٹ پڑی۔
"زنان خانے ميں جو مرضی کريں۔ اس پر مجھے کيا کسی کو کوئ اعتراض نہيں مگر اس جانب مردان خانے کا دروازے ہے کوئ بھی کسی بھی وقت آسکتا ہے" اسکی بات کے جواب ميں بڑے تحمل سے اسے سمجھايا۔
"جانتی ہوں۔ دودھ پيتی بچی نہيں ہوں" دانت چبا کر بولی۔
"کاش کے آپ جانتی اور سمجھتی ہوتيں۔ تو يوں مجھے آپ پر وقت ضائع نہيں کرنا پڑتا" وہ بھی تڑخا۔
"تو کس نے کہا ہے وقت ضائع کرو۔۔ ابھی تمہاری دسترس ميں نہيں آئ کے ايسے حکم نامے جاری کرتے پھرتے ہو۔ ايک نکاح کيا ہوگيا تم تو ميرے کل مختار بن بيٹھے ہو" وہ اس سے مزيد الجھ رہی تھی۔
"مياں بيوی کے درميان سب سے اہم يہ نکاح ہی ہوتا ہے۔ باقی سب تو دنيا کے تقاضے ہيں" اپنے مخصوص انداز ميں ہولے سے مسکراتے وہ اسے اور بھی پتنگے لگا گيا۔
"اس بکواس کا مقصد ۔۔۔ کہنا کيا چاہتے ہو۔۔ محبتيں کسی اور سے اور بشری تقاضے کہيں اور پورے کرنا چاہتے ہو۔۔ واہ مارج واہ" اسکے طنز پر مارج کے مسکراتے لب سکڑے۔
"پہلے بھی کہا تھا سوچ سمجھ کر بولا کريں" لہجہ سنجيدہ ہوا۔
"ہاں ہم ہر کام سوچ سمجھ کر کريں۔۔ اور تم جہاں دل چاہے منہ مارتے پھرو" وہ آپے سے باہر ہورہی تھی۔
"کہاں منہ مارا ہے ميں نے؟" آنکھيں سکيڑ کے غصے سے جبڑے بھينچے۔
"اتنے ہی تم ننھے۔۔۔ تمہارا کيا خيال ہے مجھے نہيں معلوم تمہارے اور نار کے بيچ کيا چل رہا ہے۔۔ اور آگئے مجھ پر پابندياں لگانے" وہ چٹخی۔
"بی بی" بھاری آواز ميں وہ چلايا۔ نشرہ نے پہلی بار اسکی گھن گرج سنی تھی دل سہم گيا۔ آنکھوں کی پتلياں پھيليں۔
"شکر کريں کہ ميں مارج ہوں۔۔ عام مرد نہيں ورنہ اس گھٹيا بات کا جواب بہت اچھی طرح ديتا آپ کو۔۔" ايک ايک لفظ چبا چبا کر بولتا وہ نشرہ کو خوفزدہ کرگيا۔ غصے سے آنکھيں لال ہو رہی تھيں۔
"ايک منٹ سے پہلے آپ يہاں سے چلی جائيں۔" چٹکی بجا کر اسے زنان خانے کی جانب جانے کا اشارہ کيا۔
نشرہ اسکے غصے سے خوفزدہ ہوتی زنان خانے کی جانب بھاگی۔
پيچھے وہ مٹھياں بھينچ کر بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا۔
________________________
"کچھ معلوم ہوا" وہ صبح سے اپنے خاص بندے کی کال کے انتظار ميں بيٹھا تھا۔
"چوہدری صاحب وہ کہہ رہے ہيں کہ انکی بيٹی تو يہاں سے بہت عرصہ پہلے کسی اور شہر چلی گئيں تھيں" اسکی بات سن کر وہ سلگ گيا۔
"کيا مطلب ہے اس بکواس کا۔۔ کہاں گئ وہ" وہ پھنکارا۔
"صاحب وہ نہيں جانتے" وہ منمنايا۔
"يہ پتہ کروايا ہے تم نے اتنے دن لگا کر ۔۔۔ ناکام انسان" وہ دھاڑا۔
وہ جو کب سے اس انتظار ميں تھا کہ اب اپنی منزل کے نزديک ہے۔ جلد ہی وہ اس لڑکی کو اسکے کئے کی سزادے گا۔ اب بھی وہيں کا وہيں کھڑا تھا۔
"صاحب ميں پھر سے پتہ کرتا ہوں" وہ بے چارگی سے بولا جانتا تھا اب وريد چوہدری اس کا کيا حشر کرے گا۔
"تم رہنے دو۔۔ کرليا تم نے پتہ ميں حويلی جا کر خود ہی کچھ کرتا ہوں۔۔ اور تم بھی اگلے ہفتے حويلی پہنچو" وريد کی دھمکی پر اسے اپنی متوقع حالت کا اندازہ ہوگيا تھا کہ اسکے ساتھ حويلی پہنچنے پر کيا سلوک ہوگا۔
"صاحب آپ مجھے ايک اور موقع ديں" وہ گڑگڑيا۔
"اگلے ہفتے تک تمہارے پاس موقع ہے۔ جو کچھ پتہ کروا سکتے ہو کرواؤ" اسکے سرد لہجے ميں چھپی تنبيہہ کو وہ بہت اچھے سے سمجھ گيا۔
غصے سے فون بند کيا۔
"کہاں چھپی ہوئ ہو تم۔۔ " غصے سے ايک ہاتھ کا مکہ بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھيلی پر مارا۔
اسی لمحے فون پھر سے گنگنايا۔
بيزار ہو کر فون اٹھايا۔ دوسری جانب صغراء بيگم تھيں۔
"کيسا ہے ميرا چاند" لہجے ميں شديد محبت تھی۔
"ٹھيک ہوں۔ آپ بتائيں" بمشکل اپنے غصے پر قابو پايا۔
اس وقت وہ جس قدر ڈسٹربڈ تھا کسی سے بات نہيں کرنا چاہتا تھا۔ مگر ماں کا فون ديکھ کر اٹھا ہی ليا۔
"ميں بھی ٹھيک ہی ہوں۔ اچھا ميں نے تيرے لئے رشتہ ديکھا ہے" انکے اشتياق بھرے لہجے پر چھم سے نقاب سے جھانکتی دو آنکھيں اسکی نظروں کے سامنے لہرائيں۔
"کيا جلدی ہے آپ لوگوں کو" وہ اکتايا۔
"ديکھ وريد تيرے بڑے دونوں بھائيوں کی شادياں کب کی ہوگئيں۔ اور تو ايسے ہی پھر رہا ہے" ان کے لہجے ميں جیسے دکھ تھا۔
"تو انکی شادياں جلدی ہونے کا مقصد يہ ہے کہ ميں بھی اسی روش کو برقرار رکھوں" وہ اکھڑے لہجے ميں بولا۔
"ابھی صرف رشتہ پکا کرديتے ہيں۔ جب تو کہے گا شادی کرديں گے" وہ اسے منانے لگيں۔
"آپ جانتی ہيں۔۔ ايک اور بھی ميرے نام کے ساتھ جڑی ہے۔ پہلے اسے ڈھونڈ لوں" وہ اس حقيقت کو جھٹلا نہيں سکتا تھا اور نہ ہی کوئ اور۔
اسکی بات پر صغراء بيگم لمحہ بھر کو چپ رہ گئيں۔
"وہ ونی تھی بيٹا اور ونی سے نسليں نہيں چلائ جاتيں" وہ دکھی لہجے ميں حقيقت کہنے لگيں۔
"تو ميں کب اسے بيوی سمجھتا ہوں۔۔ مجھے اسے ڈھونڈ کر اسکی اس جرات کی سزا دينی ہے جو اس نے ميرے پيچھے سے حويلی سے بھاگنے کی کی ہے" اسکے لہجے کا سرد پن انہيں پريشان کرگيا۔
"بيٹے چھوڑ دو اسے اسکے حال پر" انہوں نے اسے اپنے ارادے سے ہٹانے کی کمزور سی کوشش کی۔
"آپ تياری کريں۔ ميری منگنی کی۔۔ مگر مجھے اپنے ارادے سے ہٹانے کی کوشش مت کیجئے گا" وہ اجنبی لہجے ميں بولا۔
"لڑکی کون ہے؟" يکدم خيال آنے پر پوچھا۔
"ميرے چچا کی نواسی ہے۔۔ باپ ايم پی اے ہے شہر ميں ہی ہوتی ہے۔ شايد تمہاری يونيورسٹی ميں پڑھتی ہے" انہوں نے تفصيل بتائ۔
"نام وغيرہ سب بتائيں ميں پتہ کرواتا ہوں" اس کے مان جانے پر ہی وہ خوش ہو کر اسے مزيد بتانے لگيں۔
______________________
"ہيلو" ابھی مہندی کا فنکشن ختم ہوا ہی تھا۔ وہ کمرے ميں آکر کپڑے تبديل کرکے سونے کی تياری کررہی تھی جب انجان نمبر سے کال آئ۔
کچھ سوچ کر فون اٹھا ليا دوسری جانب فريحہ تھی۔
"خيريت۔۔ تم نے اتنی ليٹ کال کی" سامنے گھڑی ايک بجا رہی تھی۔
"ہاں يار اصل ميں ميرا بيلنس نہيں ہے اور گھر کا وائ فائ بھی خراب ہے۔ ميں سر کو کال کرکے بتانا چاہ رہی تھی کہ انکے نوٹس ميں نے سر باقر کو دے دئيے تھے۔ کيونکہ سر آج يونی سے جلدی چلے گئے تھے۔ تو ميں چاہ رہی تھی انہيں انفارم کردوں مگر بھائ کے نمبر سے شايد کال کررہی ہوں اور انون نمبر ديکھ کر شايد وہ پک نہيں کررہے" فريحہ نے اسے فون کرنے کی وجہ بيان کی۔
"تو اب تم ايسا کرو کہ سر کو کال کرکے بتا دو کے سر باقر سے نوٹس لے ليں۔ يا اگر لے لئے ہيں تو کنفرم کرديں" وہ مزيد گويا ہوئ۔
"تو يار منڈے کو پوچھ ليں گے" وہ اس شخص کو فون نہيں کرنا چاہتی تھی۔
"يار کل سر کا سيمينار ہے۔ تمہيں ياد نہيں انہوں نے کہا تھا انہيں وہ نوٹس اسکے لئے چاہئيں۔۔ اور اگر ان تک نہ پہنچے تو تمہارا اور ميرا حشر کرديں گے" سب ہی وريد کی انسلٹ کرنے کی عادت سے ڈرتے تھے۔ وہ بہت بری طرح بے عزت کرتا تھا۔
"اچھا يار ديکھتی ہوں" وہ منہ بنا کر بولی۔ اس ناپسنديدہ شخص سے بات کرنا اسے امتحان لگتا تھا۔
"پليز يار" وہ ملتجی ہوئ۔
"اچھا ٹھيک ہے" پھر سے گھڑی ميں وقت ديکھتے حامی بھری۔
اسکا فون بند ہوتے ہی اس نے وريد کا فون ملايا۔
تيسری ہی بيل پر فون تو اٹھا ليا گيا مگر آگے سے کسی نسوانی آواز پر وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوئ۔
"کون ہے بھئ" تيکھے لہجے ميں پوچھا گيا۔
"وہ سر وريد سے بات ہوسکتی ہے" وہ اپنی حيرت چھپاتی بولی۔
"ويٹ" دوسری جانب سے بيزار لہجے ميں کہا گيا۔
"کون ہے؟" اسے وريد کی آواز سنائ دی۔۔
"تمہاری کوئ اسٹوڈنٹ ہے شايد۔۔۔ عجيب ہيں۔ اتنے مينرز نہيں کہ کسی کے پرسنل ٹائم ميں اسے ڈسٹرب نہيں کرتے" فون کو ہالڈ کرنے کی زحمت کئے بنا وہ جو کوئ بھی تھی اپنے نادر خيالات کا اظہار کررہی تھی۔
"کيا اس نے شادی کرلی؟" جس استحقاق سے اس لڑکی نے فون اٹھايا تھا اور جو ذومعنی بات کہی تھی اس سے تو زرناب کو يہی اندازہ ہوا۔ اس جيسی لڑکی يہ سوچ نہيں سکتی تھی کہ مياں بيوی کے رشتے کے بغير بھی لڑکا لڑکی اس استحقاق کے ساتھ اس لمحے ايک دوسرے کے ساتھ رات کے ہس پہر موجود ہوسکتے ہيں۔
"ہيلو" کچھ ہی دير بعد اسکی بھاری سحر بھکراتی آواز فون ميں ابھری۔
"ہيلو۔ سوری سر۔ ميں نے اس وقت آپ کو ڈسٹرب کيا۔ اصل ميں فريحہ نے آپکے نوٹس سر باقر کو دے دئيے تھے۔ کيا انہوں نے آپ کو دے دئيے ہيں؟" اس نے سيدھے سادھے انداز ميں پوچھا۔
وريد کے وہم وگمان ميں نہيں تھا اس لمحے وہ اسے فون کرے گی جس کے خيالوں سے پيچھا چھڑانے کو وہ ردر کو شام ميں ہی اپنے ساتھ گھر لے آيا تھا اور اس وقت وہی اسکے ساتھ موجود تھی۔
وہ واش روم ميں گيا ہی تھا جب اسکا فون بجا۔ ردا نے بنا اجازت اسکا فون اٹھا ليا تھا۔
واش روم سے باہر آتے اسکے ہاتھ ميں اپنا فون ديکھتے اسے ناگوار گزرا۔
مگر فون پر ابھرتی آواز سن کر اسکی ساری ناگواريت کہيں جاسوئ تھی۔ يہ کيا ہورہا تھا اسکے ساتھ؟ وہ پريشان ہو کر رہ گيا تھا۔
"نہيں انہوں نے مجھے کوئ نوٹس نہيں دئيے۔ انتہائ غير ذمہ دار آپ ہيں اور آپ کی دوستيں بھی۔ جس وقت ميں يونی ميں تھا تب اس نے مجھے نوٹس کيوں نہيں دئيے" نجانے کس بات کا غصہ نکالتے وہ اس پر الٹ پڑا تھا۔
"ايکسکيوزمی سر۔ آپ اس طرح مجھے انسلٹ نہيں کرسکتے" اسے شديد سبکی محسوس ہوئ۔
"اور اس وقت اب آپ فون کرکے اپنے مزيد غير ذمہ دار ہونے کا ثبوت دے رہی ہيں" اسکا غصہ کم ہونے کا نام نہيں لے رہا تھا۔ شايد يہ غصہ زرناب کے لئے اسکے دل ميں پيدا ہونے والی حيثيت کا اثر زائل کرنے کے لئے تھا۔
"فريحہ کا کوئ ايشو تھا وہ آپ کو کال نہيں کرپائ اسی لئے اس نے مجھے کہا۔ خير آپکی وائف سے بھی اس وقت کال کرنے پر ايکسکيوز کرچکی ہون۔ آپ سے بھی کرليتی ہوں" اسے خود بھی اس وقت فون کرنا اچھا نہيں لگ رہا تھا۔
پتہ ہوتا وہ اتنی بے عزتی کرے گا کبھی بھی کال نہ کرتی۔
"وائف؟" اس نے اسی کا لفظ حيرت سے دہرايا۔
"جی ابھی آپکی وائف ہی تھيں نا" وہ بھی اسکی حيرت پر متحير ہوئ۔
"نان سينس" وہ پھر سے اسے رگيد گيا۔ فون اٹھا کر بالکونی ميں جا کھڑا ہوا۔ ردا نے چبھتی نگاہوں سے اسکا اجنبی انداز ديکھا۔
"وہ ميری بيوی نہيں ہے" وہ نہيں جانتا تھا وہ اسے يہ وضاحت کيوں دے رہا ہے۔
"تو پھروہ اس وقت۔۔۔۔" وہ اپنی حيرت چھپا نہيں پائ اور بے تکی بات کہہ گئ۔ جيسے ہی اپنی بات سمجھ آئ خود ہی خاموش ہوگئ۔
"صرف دوست ہے وہ" وہ مزيد وضاحت دينے لگا۔
"مجھے کيا وہ آپکی جو بھی ہوں۔ آپ مجھے کيوں وضاحت دے رہے ہيں۔خير مجھے آپ کو انفارم کرنا تھا بس۔۔۔" وہ جلدی سے بات سميٹنے لگی۔
"مجھے کيا ضرورت ہے آپ کو وضاحت دينے کی" وہ بات کو طول دے رہا تھا۔
"مجھے بھی جاننے ميں انٹرسٹ نہيں ہے" وہ جھنجھلائ۔
"اور مجھے بھی ہر گز انٹرسٹ نہيں آپ کو بتانے ميں"وہ بھی جھنجھلايا۔
"اوکے سر بائے" اس نے اب کی بار مزيد کوئ بات کرنے سے اجتناب کرتے فون بند کيا۔
'اففف يہ اس قسم کے ہيں" فون بند کرتے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
ميسج کی بپ پر فون کی جانب چونکی۔
"واقعی ال مينرڈ ہيں۔ آپ ۔۔۔۔ اگلی جانب سے بھی گريٹنگز سننے کے بعد فون رکھتے ہيں۔" اسکی ہدايت پر وہ استہزائيہ مسکرائ۔
"عجيب انسان ہيں۔ ميری کوئ بہت رشتے داری ہے کہ ميں پوری فارميلٹی کے ساتھ فون بند کروں" وہ ہونہہ کرکے رہ گئ۔
"رشتہ تو ہے؟" دل کے کسی کونے سے آواز آئ۔
___________________________
"جی ابا سائيں" انکے پيغام بھيجنے پر وہ ان کے کمرے ميں موجود تھی۔
"جی بيٹا آپ کو کوئ بات کرنی تھی" اس نے کمر ےپہ نظر دوڑائ ماں ابھی موجود نہيں تھيں۔
اس نے سکھ کا سانس ليا۔ يعنی وہ آسانی سے ان سے بات کرلے گی۔
"مجھے آپ سے مارج کے بارے ميں بات کرنی ہے" وہ جو سامنے بيڈ کے دائيں جانب اپنے مخصوص صوفے پر بيٹھے تھے۔ اسکی جانب پوری طرح متوجہ ہوئ۔
"بيیٹھو" اپنے سامنے بيڈ پر اسے بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
وہ ميکانکی انداز ميں انکے سامنے بيڈ پر ٹک گئ۔ نظريں جھکی ہوئ تھيں۔
"کہو" اسے بولنے کا عنديہ ديا۔
"مارج کسی ميں انٹرسٹڈ ہے" اس نے گويا انہيں بہت بڑی خبر دی۔
"اور يہ مارج نے آپ کو خود بتايا ہے" چند لمحوں بعد انہوں نے گويا سوال نہيں کيا اسے بساط پر پيچيدہ چال ميں گھسيٹا۔
"نہيں مگر ميں آنکھيں رکھتی ہوں اور دماغ بھی۔ ان دونوں کا استعمال کرکے مجھے اندازہ ہوا ہے" وہ بڑے اعتماد سے بولی۔ اور يہ اعتماد ہی اسکی شخصيت کا خاصہ تھا۔
"اندازے اور مفرضوں پر قائم کی جانے والی رائے کبھی کبھار شديد پچھتاوے کا باعث بھی بنتی ہے" انہوں نے گويا اسے وارن کيا کہ کچھ غلط نہ بولے۔
"مجھے يقين ہے۔ کہ اس کا ميری دوست کے ساتھ کوئ چکر چل رہا ہے۔ وہ اسے يہاں بغير کسی باڈی گارڈ کے لے کر آيا۔ نہ صرف يہ بلکہ مسکرا بھی رہا تھا اور ميری دوست جو اجنبيوں سے بات کرنا توہين سمجھتی ہے وہ بڑے مزے سے اسکے ساتھ فرنٹ سيٹ پر بيٹھ کر آگئ۔ اگر ان دونوں کا آپس ميں انٹرسٹ ہے۔ تو مجھے کوئ اعتراض نہيں۔۔ مگر ميری اس مجبوری کے رشتے سے جان چھڑوا ديں" اسکے بولتے چلے جانے پر وہ الجھے۔
"آپ کس کی بات کررہی ہيں؟" اسکے انداز پر اور اشاروں پر وہ بری طرح چونکے۔
"وہی ميری دوست نار جس سے شام ميں ملوايا تھا۔ وہ اور مارج کا چکر۔۔۔۔" ابھی اسکی بات منہ ميں ہی تھی جب ملک اياز کی دھاڑ پر وہ بھونچکا رہ گئ۔
"ضرورت سے زيادہ آگے کی سوچنے والے عقل مند نہيں۔۔ حد سے زيادہ بے وقوف ہوتے ہيں اور مجھے افسوس ہے۔ آپ ايسے لوگوں ميں سے ہيں" وہ بمشکل اپنی آواز پر قابو پا کر بولے۔
"بہتر ہے کہ آپ کسی کے بارے ميں رائے قائم کرنے کی بجاۓ اپنے کام سے کام رکھيں" وہ اسے دو ٹوک انداز ميں خاموش کرواگئے۔ مگر وہ کہاں خاموش بيٹھنے والی تھی۔
"اباسائيں۔۔ گستاخی معاف ليکن ميں چيز برداشت نہيں کرون گی۔۔۔۔ آپ کو جھوٹ لگتا ہے بلائيں مارج کو پوچھيں اس سے ابھی" وہ کسی طور ٹلنے کو تيار نہيں تھی۔
اب کی بار ان کی شعلہ برساتی نظروں نے اسے گھور کر ديکھا۔
پاس رکھا فون اٹھايا۔
کسی کو کال ملائ۔
"مارج بيٹے فورا ميرے کمرے ميں آئيں" انکی بات سن کر وہ مسرور ہوئ۔
"اب پتہ چلے گا۔ مجھے بے وقوف بنا رہے تھے۔ جان چھوٹے گی اس سے" وہ دل ہی دل ميں اپنے اس اقدام پر خوش ہوئ۔
کچھ ہی دير بعد وہ دروازہ ناک کرکے اندر داخل ہوچکا تھا۔
اسے وہاں موجود ديکھ کر لمحے بھر کو ٹھٹھکا۔
"آؤ بيٹے" ملک اياز کے لہجے ميں ذرا بھر برہمی نہيں تھی۔ جسے محسوس کرکے وہ جز بز ہوئ۔
"ايسی بات پر اسکے لتے لينے چاہئيں تھے۔۔ پر ابا سائيں بھی نا" اسے چور نظروں سے ديکھ کر وہ تلملائ۔
"جی ملک سائيں" اپنے مخصوص انداز ميں انکے قريب آکر انکے ہاتھ پر بوسہ ديا۔
پيچھے ہٹ کر ہاتھ آگے باندھ کر ادب سے کھڑا ہوا۔ نظريں نيچی تھيں۔
"کل اسيد کی دلہن کی رخصتی کے ساتھ ساتھ۔۔ نشرہ کو تمہارے ساتھ رخصت کررہا ہوں۔ انتظام اسکے مطابق کرلو" وہ جو توجہ سے انکی بات سن رہی تھی۔ بھونچکا رہ گئ۔
"ابا سائيں" گہرے صدمے سے وہ بس اتنا ہی بول سکی۔
"جسے تم اسکينڈلائز کرتی پھر رہی ہو۔۔۔ وہ اس گھر کی بيٹی زرناب ہے۔۔۔ اور اسکی بہن ہے۔۔۔۔ سوتيلی۔۔۔ اس سے آگے تمہيں جاننے کی ضرورت نہيں اور نہ مجھے بتانے کی خواہش ہے۔ يہ مارج اس گھر کا خون ہے۔۔ معذرت بيٹے ميں اس سے زيادہ اس سچ کو چھپا نہيں سکتا تھا۔ کيونکہ اب بات دو لوگوں کے کردار پر آگئ ہے"مارج کو ديکھ کر انہوں نے معذرت خواہانہ انداز ميں کہا جو بے بسی سے انہيں سچ بولتے ديکھ رہا تھا۔
اور وہ حيرت کی تصوير بنی۔ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر واويلا کرنے کی بجاۓ اب اس نئے انکشاف پر شدید حيرت زدہ تھی۔
"آپ جا کر اپنی رخصتی کی تياری کريں" اسے متحير اور خاموش ديکھ کر انہوں نے اسے وہاں سے نکالا۔
وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ گئ۔
"مارج تم يہيں بيٹھو" اسی کی چھوڑی جگہ پرمارج کو بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
وہ احتجاج بلند کئے بنا چپ چاپ وہاں سے جا چکی تھی۔
اگلا دن ساری حويلی کے لئے حيرت کا دن تھا۔ رات تک سب کو صرف اسيد کی بارات کا علم تھا۔ صبح اٹھے تو اسکے ساتھ ساتھ نشرہ کی رخصتی کی خبر بھی پوری حويلی ميں جنگل کی آگ کی طرح پھيل گئ۔
"اتنا بڑا فيصلہ يکدم" زرينہ نے بھی ان سے سوال پوچھا۔
"کيا آپ کو اعتراض ہے؟" موبائل پر نمبر ملاتا ان کا ہاتھ رکا۔ آنکھيں پل کے پل اٹھا کر انکی جانب ديکھا۔
جو بيڈ پر انکے سامنے براجمان تھيں۔ چہرے پر حيرانی تھی يا پريشانی انہيں سمجھنا مشکل تھا۔
"ميں نے اعتراض نہيں اٹھايا۔ مگر اچانک ۔۔۔۔ نشرہ اس سب کے لئے شايد تيار نہ ہو۔" انہوں نے جھجھک کر کہا۔
"مارج بے وقوف اور کم عقل نہيں ہے۔ وہ ہر رشتے کے تقاضوں کو بہت اچھے سے جانتا ہے۔ زبردستی کسی پر مسلط نہيں ہوتا۔ بے فکر رہيں۔ وہ اسے سنبھال لے گا۔ ہم سے بہتر اسے معلوم ہے کہ آپکی بيٹی کے اسکے ساتھ کيسے تعلقات ہيں۔ جذباتی بچہ نہيں ہے۔ طبيعت ميں ٹہراؤ ہے اسی لئے مجھے يہ فيصلہ کرنے ميں ہچکچاہٹ نہيں ہوئ۔" انہوں نے تفصيلی جواب ديا۔
"ميرا خيال ہے آپ کی تسلی ہوگئ ہوگی۔ جو کام کچھ ماہ بعد ہونا تھا اچھا ہوا کے ابھی ہوگيا ہے۔ سب اکٹھے ہيں۔ دونوں کی ذمہ داری سے ابھی فارغ ہوجائيں گے" موبائل پر مسلسل کچھ ديکھتے وہ انہيں بھی جواب دے رہے تھے۔
"مگر رخصتی کے بعد کيا وہ ہاسٹل اور مارج يہاں۔۔ تو پھر فائدہ کيا ہوا؟" انکی ابھی بھی تسلی نہيں ہوئ تھی۔
"آپ سے کس نے کہا کہ نشرہ اب ہاسٹل ميں رہے گی۔ ميرا شہر والا اپارٹمنٹ ميں نے ان دونوں کو دے ديا ہے۔ مارج اسے رخصت کروا کر وہيں لے کر جاۓ گا۔ وليمہ ہم کچھ عرصے بعد رکھيں گے" اب کی بار وہ انکی جانب پوری طرح متوجہ ہوۓ۔ موبائل ايک سائيڈ پر رکھ کر انکی جانب ديکھ کر جواب ديا۔
زرينہ کے بھی چہرے پر اطمينان کے سائے لہراۓ۔ اپنی بيٹی کی اکھڑ مزاجی سے واقف تھيں۔ ڈر تھا کہ ہاسٹل گئ تو کوئ انتہائ قدم نہ اٹھا لے۔
"ٹھيک ہے۔۔ آپ نے بہتر فيصلہ کيا" اٹھنے سے پہلے وہ انکے فيصلے کو سراہے بنا نہيں رہ سکيں۔ مارج کی سمجھداری پر تو کوئ شک تھا ہی نہيں۔
_______________________
"کہا تھا نا تمہاری شادی پر حويلی آؤں گی۔" سب لڑکيوں کو جيسے ہی معلوم ہوا سب اسے مبارک دينے چلی آئيں۔
زرناب سب ميں پيش پيش تھی۔
نشرہ نے خالی نگاہوں سے اسکی جانب ديکھا۔
"کيا ہوا؟" نشرہ کی متوحش حالت ديکھ کر وہ ٹھٹھکی۔ سب کے کمرے سے نکلتے ہی وہ اسکے قريب آئ۔
"کيا تم اس فيصلے پر خوش نہيں ہو" اسکے سوال پر بھی اسکی حالت ميں کوئ کمی نہ آئ۔
جلول سے حليے مين بيڈ پر بيٹھی وہ اداسی کی تصوير بنی ہوئ تھی۔
زرناب اسکے سامنے بيٹھتے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں ميں لے گئ۔
"تم زرناب ہو؟" کچھ دير بعد اسکے منہ سے نکلا بھی تو کيا۔
زرناب بری طرح چونکی۔
"تت۔۔ تم۔۔ کون زرناب" بڑی مشکل سے لفظوں کو جوڑ توڑ کرکے خود کو انجان ظاہر کرنا چاہا۔
"مجھے معلوم ہوچکا ہے۔ مزيد مت چھپاؤ" وہ اسکے ہاتھوں میں دبے ہاتھوں کو جھٹکا دے کر بولی۔
يکدم ہاتھ اسکے ہاتھوں سے نکالتے اسکے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بنا کر اسکے کندھے پر ٹھوڑی ٹکاۓ آنسو کو بہنے ديا۔ نجانے کس کس بات پر آنسو بہا رہی تھی۔ زرناب کی حالت کچھ مختلف نہيں تھی۔
"تم سے يونيورسٹی ميں جس دن ملاقات ہوئ۔ اسی دن جب تم نے اپنے گاؤں ۔۔ حويلی اور تايا سائيں کا بتايا۔ ميں اسی دن جان گئ تھی کہ تم ميری وہی دوست ہو جس نے بچپن ميں ہر دکھ سکھ ميں ميرا ساتھ ديا تھا۔ بس پھر تمہارے نزديک ہوتی گئ۔ تمہارے توسط سے اپنی بہنوں سے ملی" وہ روتے روتے سب حقيقت اسے بتانے لگی۔
"ونی ہونے کے بعد بھی تم کيسے۔۔ شہر ميں ہو۔۔ پڑھ کيسے رہی ہو" اپنے آنسوؤں پر بند باندھتے پيچھے ہو کر اب وہ اس سے ايک ايک بات پوچھنا چاہتی تھی۔ وہ بھول چکی تھی کہ آج اسکی رخصتی ہے۔
ياد تھا تو بس اتنا کہ بہنوں سے بڑھ کر دوست اسکے سامنے ہے۔ جس کی تکليف پر کئ بار اس نے آنسو بہاۓ تھے۔
چھوٹے ہوتے ونی کا بس اتنا علم تھا کہ ونی ہونے والی لڑکياں دوبارہ کبھی اپنے گھر واپس نہيں آسکتيں۔ مگرشعور کی منزليں طے کرتے معلوم ہوا کہ ونی صرف گھر اور اپنے پيارے چھوڑ کر نہيں جاتی بلکہ انسانيت سوز سلوک ہوتا ہے اسکے ساتھ۔ ايسا سلوک کے انسان اور وحشی ميں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بس اس دن کے بعد وہ اکثر زرناب کو ياد کرکے روتی اور اسکے لئے دعائيں کرتی۔
"بس وہاں ايک کام کرنے والی تھيں۔ انہوں نے مجھے وہاں سے نکالنے ميں مدد دی۔ انکی بيٹی سوات کے قريب ايک گاؤں ميں رہتی ہيں۔ انہوں نے اپنے خاص آدمی کے ساتھ مجھے وہيں بھجوا ديا۔ اور پھر وہاں کچھ عرصہ رہنے اورپڑھنے کے بعد انہوں نے مجھے پنجاب بھجوايا۔ يہاں شہر ميں ہاسٹل ميں داخل کروايا۔ بس پھر کالج کے ساتھ ساتھ جاب ڈھوںڈی اس ميں بھی انہی لوگوں نے مدد کی اور انکے ريفرنس سے مجھے يہ جاب ملی۔" اس نے تقصيل سے بتايا۔
"تو تم جو ہر مہينے دو دن کے لئے کہيں جاتی ہو تو کيا وہ سوات جاتی ہو؟" نشرہ نے ايک اور سوال اٹھايا۔
"ہاں ميں انہی سے ملنے جاتی ہوں۔ وہی تو ہيں ميرے اپنے" وہ ياسيت بھرے لہجے مين بولی۔
"نہيں اب سے ہم بھی تمہارے اپنے ہيں" آنسو پونچھ کر مسکرا کر اسے ديکھا۔ دونوں ہولے سے مسکرائيں۔
"بہت ياد کيا تمہيں۔ بہت دعائيں کيں تمہارے لئے" نم آواز اور محبت بھرے لہجے پر زرناب کو کوئ شک نہيں تھا۔
"ابا سائيں اور مارج واقف تھے تم سے؟" نجانے وہ سوال کررہی تھی يا خود سے مخاطب تھی۔
"ميں جب يہاں سے ونی ہوکر گئ تھی۔ مارج بھائ تب سے ملکوں کی حويلی آکر ميری خبر گيری کر رہے تھے۔ ميرے وہاں سے نکلنے، سوات جانے اور پھر وہاں سے پنجاب، جاب غرض وہ ايک ايک چيز سے واقف ہيں۔" اسکے لہجے ميں مارج کے لئے عقيدت ہی عقيدت تھی۔
"تم جانتی ہو۔۔ تم اسکی سوتيلی بہن ہو" اسکی اطلاع پر زرناب کتنے ہی لمحے بے يقينی سے اسے ديکھے گئ۔
"کک۔۔ کيا۔۔ کہنا چاہتی ہو۔۔ تمہيں کس نے کہا؟" وہ شديد حیرت ميں مبتلا تھی۔
"کل رات ہی کچھ غلط فہمی کی بناء پر مارج کے بارے ميں ابا سائيں سے بات کرنے گئ تھی۔ وہيں انہوں نے تمہارے بارے ميں اور مارج کے بارے ميں بتايا۔۔ مگر ميں نہيں جانتی چچا سائيں نے دوسری شادی کب کی اور اگر کی تھی تو مارج کو قبول کيوں نہيں کيا؟" زرناب کو بتا کر اسے مايوسی ہوئ کيونکہ وہ تو بالکل ہی لاعلم تھی۔
"مارج بھائ۔۔ ميرے اپنے بھائ ہيں" اسکے لئے تو يہ انکشاف ايک انعام ہی تھا۔ ساری عمر يہی سوچتی رہی کہ کاش بھائ ہوتا تو شايد وہ اسے اس گرداب سے نکال ليتا۔ مگر مارج نے جس طرح اسکے بارے ميں ہر لمحہ خبر رکھی وہ بھی اسکے لئے بہت تھا۔
'مگر اسکے باپ کی دوسری شادی کا يہاں کسی کو کيوں نہيں پتہ تھا اور اسکے باپ نے مرتے دم تک اس سے نفرت کيوں قائم رکھی۔ اور پھر تايا سائيں کا بھی اسکی حقيت سے پردہ نہ اٹھانا۔ کچھ تو ايسا تھا جو ابھی بھی مارج کے بارے ميں کوئ نہيں جانتا تھا سواۓ تايا سائيں کے' وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں ميں غلطاں تھيں۔
مگر دونوں کی سوچوں کا محور ايک ہی شخص تھا۔ 'مارج'
________________________________
"ہاں بھئ خيريت بڑی جلدی ميں مجھے بلوايا ہے" وہ اس وقت فخر کے گھر پر اسکے کمرے ميں موجود تھا۔
دونوں ايک ہی صوفے پر آمنے سامنے بيٹھے تھے۔
"ہاں يار کچھ ڈسکس بھی کرنا تھا تم سے اور مشورہ بھی لينا تھا" وريد کو وہ کچھ الجھا سا لگا۔
"خيريت۔۔ معاملہ گھمبير لگتا ہے" وہ خوشگوار انداز ميں اسکی ٹينشن کم کرنے کے لئے بولا۔
"تمہارے خيال ميں کيسی لڑکی سے شادی کرنی چاہئيے؟" اسکا سوال بہت ہی غير متوقع تھا۔
"ميرے خيال سے جو دل کو بھائے" کچھ توقف کے بعد وريد نے جواب ديا۔
"نہيں ميرا مطلب ہے کہ جن کے ساتھ ہم دوستياں رکھتے ہيں انکے ساتھ يا پھر ان سے ہٹ کر؟" فخر کی بات پر اس نے بھنويں سکيڑيں
" يار يہ جو دوستی ٹائپ کی لڑکياں ہوتی ہيں۔ يہ صرف وقت گزاری کے لئے ہوتی ہيں۔ ہماری برادری ميں ايسيوں سے دوستی تو کی جا سکتی ہے مگر شادی تو کسی شريف اور ايسی لڑکی سے ہی کرتے ہيں جسے ايک زمانے نے نہ ديکھ رکھا ہو" وہ اپنے مخصوص مغرور انداز ميں بولا۔
"يار تمہارے گاؤں ميں تو ونی کی رسم بھی ہے نا؟" فخر کی ذہنی رو بھٹک کر کہيں سے کہيں پہنچ گئ۔
"ہمم" اس نے محض ہنکارا بھرا۔
"اور تمہارے ساتھ بھی کسی کو ونی کيا تھا؟" وہ پھر سے اسی سے متعلق سوال کرنے لگا۔
"تم اپنا مسئلہ بتاؤ۔۔ مجھے چھوڑو" اسے فخر کا يوں پوچھ تاچھ کرنا بہت ناگوار گزرا۔
"يار ڈيڈی نے ايک لڑکی کو ميرے لئے پسند کيا ہے۔" اب وہ اصل مدعے پر آيا۔
"تو اچھی بات ہے کون ہےوہ؟" وريد متجسس ہوا۔
"تم جانتے ہو اسے۔ تمہاری اسٹوڈنٹ بھی ہے"فخر کا لہجہ سرسری تھا مگر اسکی بات سن کر وريد کو دو سو چاليس والٹ کا جھٹکا لگا۔
"کيا مطلب ميری اسٹوڈنٹ؟" اب کی بار اسکا لہجہ کچھ ترش تھا۔
"يار وہی نار احسان۔ ميری کمپنی ميں جو کام کرتی ہيں۔ اس دن تم نے ہی تو بتايا تھا کہ تمہاری اسٹوڈنٹ بھی ہے۔ بہت ہی باوقار لڑکی ہے" اس کے منہ سے زرناب کی تعريف سن کر نجانے کيوں وريد کا دل کيا اسکی آواز يہيں پر دبا دے۔
"اور تم۔۔ تمہيں پسند ہے وہ" اب کی بار اس نے لہجہ اجنبی ہی رکھا مگر وہ جانتا تھا وہ اس معاملے ميں اجنبيت نہيں دکھا پائے گا۔
"آفکورس يار۔۔۔ ايسی باپردہ عورت کسے پسند نہيں ہوگی۔ اور تم ہی نے تو ابھی کہا ہے کہ شادی کے لئے ايسی لڑکی ہونی چاہئيے شريف" اسکے جواب پر وريد کو يکدم اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔
"ميرا خيال ہے مجھے ڈيڈی کو ہاں کردينی چاہئيے۔ اب ديکھو نا ہم جتنے بھی موڈ ہوجائيں ايسی لڑکی کو قبول نہيں کرسکتے جو بيک وقت چار چار لڑکوں سے عشق و عاشقياں لڑا رہی ہو۔ جبکہ ہميں بھی معلوم ہوتا ہے کہ ايسی کسی ايک کے ساتھ سنسير نہيں ہوتيں" اسکی بات سن کر وہ استہزائيہ مسکرايا۔
"اور تم ۔۔۔ کيا تم اس ايک کے ساتھ سنسئير ہو لو گے؟" اب کے اس نے فخر کو کٹہرے ميں لا کھڑا کيا۔
"ارے يار يہ باہر کے کام تو چلتے رہتے ہيں۔ ليکن گھر کے اندر تو جينوئن پيس ہونا چاہئيے۔ ان چھوا" ايک آنکھ دبا کر وہ خباثت سے ہنسا۔
"چلو جو تمہيں بہتر لگتا ہے کرو۔ مجھے ذرا ضروری کام سے جانا ہے۔ پھر ملتے ہيں" اسکی باتوں پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے وہ يکدم اٹھا۔
"ارے ايسے کيسے۔۔۔ کھانا آج ميرے ساتھ ہی کھاؤ" وہ بھی اسکے اچانک اٹھنے پر حيران ہوا۔ حالانکہ جب اس نے وريد کو فون کرکے بلايا تھا تب تک اس نے يہی کہا تھا کہ آج وہ بالکل فری ہے۔
"ہاں پہلے پلين تھا ليکن پھر ياد آگيا۔ اماں سائيں نے کچھ کام کہا تھا۔ وہی کرنے جارہا ہوں" اس نے بات بنائ۔
"اچھا چل ٹھيک ہے پھر تو کيا کہتا ہے۔ ميں ہاں کردوں؟" وہ بھی آج اسے زچ کرنے پر تلا تھا۔
"يار زندگی تجھے گزارنی ہے جو بہتر لگتا ہے کرلينا" اس نے جان چھڑائ۔
"اچھا بدھ کی شام آفس ميں پارٹی ہے۔ تو بھی انوائيٹڈ ہے۔۔ ضرور آنا۔ پليز" وہ محض سر ہلا کر فورا وہاں سے نکلا مزيد کچھ ديروہاں رہتا تو شايد وہ سچ عياں کرديتا جو وہ ابھی خود سے بھی چھپا رہا تھا۔
نار احسان سے محبت کا تعلق شروع ہوچکا تھا۔
____________________________
ملک اياز کے حکم پر نشرہ کو رخصت کروا کر وہ سيدھا شہر جارہا تھا۔ اپنے اور اسکے فليٹ پر جو آج ہی ملک اياز نے ان دونوں کے نام کيا تھا۔
جيپ فراٹے بھرتی سڑک پر رواں دواں تھی۔
نشرہ جو بڑی سے بڑی بات پر بھی روتی نہيں تھی۔ اس وقت مسلسل اپنی قسمت پر ماتم کررہی تھی۔
ايک ايسا شخص جسے ساری عمر ملازم سمجھا، ناجائز تصور کيا۔ يکدم وہ اسی خاندان کا حصہ نکلا۔
ايک ايسا شخص جس کے لئے دل ميں ہميشہ سے نفرت کے سوا کوئ اور جذبہ پيدا نہيں ہوا۔ وہ اب اسکے ساتھ ساری عمر کا ساتھی بن بيٹھا۔ وہ روتی نہ تو اور کيا کرتی۔
مارج خود پر کڑے پہرے بٹھاۓ بالکل خاموش تھا۔ گاڑی ميں صرف نشرہ کی سوں سوں کی آواز آرہی تھی۔
سرخ لہنگے ميں دلہن کا پورا روپ اوڑھے بھی وہ مارج کے دل کے تار بجانے ميں ناکام ثابت ہوئ تھی۔
وہ جانتا تھا يہ رشتہ مجبوری کا ہے۔ اور مجبوری کے رشتوں ميں کبھی کبھی گنجائش بڑی مشکل سے نکالنی پڑتی ہے۔ جو اسے ملک اياز کی وجہ سے نکالنی پڑی۔ ورنہ اتنی بے باک اور خودسر لڑکی شريک حيات کے لئے اسکی چوائس کبھی نہيں رہی تھی۔
اسے ہميشہ دھيمے مزاج کی شرم اور بھرم رکھنے والی لڑکياں اچھی لگتی تھيں۔
مگر وائے قسمت اسکے حصے ميں يہ نادر پيس ہی لکھا تھا۔
اسکی سوں سوں کی آواز پر ايک اچٹتی نگاہ اس پر ڈال کر ہٹا ليتا۔
چادر ميں لپٹی اپنے حليے اور آپسی رشتے سے بے نياز وہ بس رونے ميں مصروف تھی۔
"اگر انسان عقل کا اسعتمال کرلے تو ايسے ناپسنديدہ حالات سے نہ گزرنا پڑے" آخر کار مارج کی سرد برف سی آواز گاڑی ميں گونجی۔
"تمہارے مشورے نہيں چاہئيں" وہ بھی تڑخی۔ اس کا وہ حال تھا رسی جل گئ مگر بل نہيں گئے۔
"آپ کو مشورہ دينے کا شوق مجھے ہے بھی نہيں۔۔۔ مگر ايسے ماتم کرنے کا فائدہ" وہ سر جھٹک کر بولا۔
"ميں ماتم کروں يا جو بھی۔۔ تم سے مطلب" رونا دھونا بھول کر اب وہ اس سے لڑنے کو تيار ہوئ۔
چادر چہرے سے سرکا کر اپنا ہوش ربا روپ اسکی جانب کيا۔
مارج نے ايک نظر اسکے دلہنوں والے روپ پر ڈالی۔
دھڑکنوں ميں کہيں تھوڑا سا ارتعاش برپا ہوا مگر وہ خود کو جلدہی اپنے خول ميں سميٹ لايا۔
"چادر چہرے پر ڈاليں" اسکی بات کے جواب ميں تحکم سے کہا۔
"نہيں ڈالتی ۔۔۔ يہ لو" باقی کی بھی اتار کر گولا سا بنا کر پچھلی سيٹ پر پھينکتے درشت اور کسی قدر گستاخانہ لہجے ميں بولی۔
"ميں اسيد اور صابر نہيں اور نہ ہی آپ کے اباسائيں ہوں۔ جو آپکی بدتميزی برداشت کريں۔ چادر پکڑيں اور فورا اوڑھيں۔" ايک ناگوار نظر اسکے سجے دھجے سراپے پر ڈال کر وہ پھر سے دبے دبے چٹختے لہجے ميں بولا۔
"نہيں پہنوں گی۔۔ کيا کرلوگے" وہ اسے چيلنج کرنے والے انداز ميں بولی۔
مارج نے گہری سانس خارج کرتے بمشکل خود کو نارمل رکھا۔ ورنہ دل تو کررہا تھا ايک تھپڑ مار کر اسکی اکڑ نکالے مگر وہ عورت پر ہاتھ اٹھانے کا کبھی بھی قائل نہيں رہا تھا۔
لہذا کچھ سوچ کر گاؤں کی کچی سڑک پر گاڑی روکی۔
تيزی سے اپنی جانب کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ ٹھاہ کی آواز سے دروازہ بند کيا۔
نشرہ دم سادھے اسکے جارحانہ تيور ديکھ رہی تھی۔ دل سہما۔
گاڑی کے سامنے سے چکر کاٹ کر وہ اسکی جانب آيا۔
زور سے دروازہ کھول کر ہاتھ تھام کر اسے باہر نکالا۔
وہ کسی بے جان شے کی طرح اسکے ساتھ کھينچتی ہوئ باہر آئ۔
"يہاں کھڑی ہو کر صبح تک جس جس کو اپنا آپ دکھانا ہے دکھا ديجئے گا۔ ميں جارہا ہوں۔۔ جب شوق پورا ہوجاۓ کال کرکے بلوا ليجئے گا" رات کے گيارہ بجے اس سنسان سڑک پر وہ اسے يوں تنہا چھوڑ کر جارہا تھا۔
اسکا بيگ اسکے قدموں کے پاس پھينکا۔ اسکا بازو چھوڑ کر اپنی سيٹ کی جانب بڑھا۔
وہ جو کب سے خاموش اور حواس باختہ کھڑی تھی اسے گاڑی سٹارٹ کرتے ديکھ کر يکدم ہوش ميں آئ۔
"مارج۔۔ مارج" وہ چلائ۔
اس پہر وہ اکيلی يہاں کھڑی رہتی تو اسکے ساتھ کيا کچھ ہوسکتا تھا۔ وہ سوچ کر ہی کانپ گئ۔
"دروازہ کھولو" وہ اپنی جانب والی سيٹ کا دروازہ بجانے لگی۔ کيونکہ وہ اندر سے گاڑی لاک کرچکا تھا۔
تھوڑی دير وہ يوں ہی گاڑی سٹارٹ کئے کھڑا رہا۔ اور وہ بے بسی سے روتے دروازہ بجاتی رہی۔
"اب کچھ نہيں کرتی۔۔ پليز دروازہ کھولو۔۔ تم مجھے يوں چھوڑ کر نہيں جاسکتے" روتے ہوئے وہ چيخ رہی تھی۔
خود پر ضبط کرتے مارج نے ہاتھ بڑھا کر لاک کھولا وہ تيزی سے دروازہ کھولتی بيگ تھامے اندر بيٹھی۔
"تمہيں ذرا شرم نہيں آتی يوں رات کے اندھيرے ميں مجھے يہاں چھوڑ کے جاتے" وہ اسے شرم دلا رہی تھی۔
"اور آپ کو شرم نہيں آرہی اپنے حليے پر۔۔ يوں دلہن بنی آپ ميرے ساتھ فرنٹ سيٹ پر بيٹھی يہاں سے گزرتے ہر بندے کو اپنا آپ دکھانا چاہتی ہيں۔ چادر ميں آپ کو آپکے باپ نے ميرے ساتھ بٹھايا تھا۔ اس چادر کا تقدس پامال کرتے کيا آپ کو شرم آئ" وہی ٹھنڈا ٹھار لہجہ جو مقابل کو منجمد کردے۔
"ميں ڈسٹربڈ ہوں" اب کی بار وہ منمنائ۔
"تو ميں تو جيسے ڈھول تاشے بجا کر آپ کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔ ميں آپ سے زيادہ ڈسٹربڈ ہوں۔۔ اب کيا جو دل ميں آئے کرتا پھروں" گاڑی کو پھر سے سڑک پر ڈالتے وہ اس سے سوال کرنے لگا۔ جو پچھلی سيٹ سے چادر اٹھا کر خود پر لپيٹ رہی تھی۔
"يہ سب جتنا آپکے لئے غير متوقع ہے اس سے زيادہ ميرے لئے ہے۔ کيونکہ شادی کے لئے آپ جيسی بدتہذيب اور بدتميز لڑکی ميری چوائس کبھی نہيں رہی۔ مجھے مجبوری ميں آپ کو جھيلنا پڑ رہا ہے" اسکی صاف گوئ نشرہ کو پھر سے پتنگے لگا گئ۔
"تو انکار کيوں نہيں کيا" وہ ناک پھلا کر بولی۔
"آپ سے کہيں بے بس ميں ہوں۔ ميں ملک سائيں کے احسان کا بدلا اگر يوں آپکو خود کا نام دے کر چکا سکتا ہوں تو مجھے اس رشتے پر کوئ اعتراض نہيں۔ مگر اس رشتے کو ميں صرف ايک کاغذ کی حيیثيت سے زيادہ کچھ نہيں دے سکتا" وہ اسے بہت کچھ صاف صاف جتا گيا۔
"ہاں ميں تو مری جارہی ہوں تمہاری محبتيں پانے کے لئے" وہ تڑخی۔
"نہيں مجھے ايسی کوئ غلط فہمی نہيں۔ نہ ميں ايسی باتيں سوچتا ہون۔ اور آپ سے۔۔۔ ہونہہ" وہ پھر سے اسے جلتے کوئلوں پر گھسيٹ گيا۔
يعنی وہ اسکے نزديک کيا تھی کہ وہ اس سے رشتہ بنانے کا سوچنا بھی نہيں چاہتا تھا۔ نشرہ نے مٹھياں بھينچ کر بمشکل خود کو کچھ اور کہنے سے باز رکھا۔ وہ تو آج اسکی ذات کے بخيے ادھيڑنے پر لگا تھا۔
'تمہيں خود سے محبت نہ کروادی تو کہنا' وہ دل ميں کچھ اور ہی ارادے باندھ رہی تھی۔ يہ جانے بغير کہ اس سے زيادہ وہ خود اسکی محبت ميں گرفتار ہونے والی ہے۔
آدھی رات وہ دونوں اپنے اپارٹمنٹ پہنچے۔
اس کے بعد سے ابھی تک ان دونوں کے مابين مزيد کوئ بات نہيں ہوئ تھی۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں ميں الجھے ہوۓ تھے۔
مارج نے اسے کوئ رعايت نہيں دی تھی۔ وہ اپنا بيگ خود گھسيٹتی اسکے پيچھے چل رہی تھی۔ شکر تھا کہ اس نے لفٹ سے اوپر جانے کا فيصلہ ليا تھا۔ ورنہ تو اسے محسوس ہورہا تھا آج اگلے پچھلے سارے بدلے نکال کے رہے گا۔ کوئ پتہ نہ تھا کہ سيڑھيوں سے چلتا۔
ليکن يہاں اس نے نشرہ پر تھوڑا رحم کھايا تھا۔
اپارٹمنٹ کے سامنے کھڑے ہوتے کی ہول ميں چابی گھمائ۔
چھوٹی سی لابی سے گزر کر لاؤنج ميں داخل ہوا۔ آگے بڑھ کر دائيں ہاتھ پر موجود سوئچ بورڈ پر لگے مختلف بٹن آن کئے پورا لاؤنج اور لابی جگمگا اٹھے۔
اندر آتے اسے پرواہ نہيں تھی کہ وہ اسکے پيچھے آرہی ہے کہ نہيں۔ ايسا محسوس ہورہا تھا وہ اکيلا ہے۔
نشرہ نے سلگتی نظروں سے اسکی پشت ديکھی۔
وہ ابھی تک دروازے پر کھڑی تھی۔ اسے آج علم ہوگيا تھا 'مارج' کس بلا کا نام ہے۔
وہ جو اب تک لوگوں کو اپنے آگے پيچھے پھرتے ديکھتی رہی تھی۔ اسکے ناز نخرے پل پل اٹھاۓ جاتے تھے۔
آج سب ايک خواب بن گيا تھا۔
اسکے باپ نے يقينا اس رات کا بدلہ نکالا تھا مارج سے اسکا نکاح کرکے جب اس نے اپنی باپ کی عزت مٹی ميں رولتے ہوۓ صائم کے گھر اپنے قدم رکھے تھے۔
رونا پھر سے عود کر آيا تھا۔
وہ اپنا بيگ گھسيٹتی مرے مرے قدموں سے اندر داخل ہوئ۔
"يہ سامنے دو کمرے ہيں۔ ان ميں سے دائيں والا ميرا ہے اور آپ بائيں والے مين چلی جائيں" اسکی جانب ديکھے بنا اسے ہدايتيں ديتا داخلی دروازے کی جانب مڑا۔ اسے بند کرکے اچھی طرح لاک کيا۔
نشرہ کو ايک دم احساس ہوا کہ وہ اسکے ساتھ اس اپارٹمنٹ ميں اکيلی ہے۔
"اس رخصتی کے بعد بھی آپ ميرے لئے بی بی ہی ہيں۔۔۔ اس سے زيادہ تعلق ميں آپکے ساتھ بنانا نہيں چاہتا لہذا بے فکر ہوکر رہيں۔ صبح آپ کو يونی چھوڑنے جانا ہے۔ لہذا ميں تو سونے جارہا ہوں۔ آپ کا جب صدمہ کم ہوجاۓ تو آپ بھی سوجائيے گا" وہ اچھی طرح اسے اسکی حيثيت جتلا چکا تھا۔
"يہ تم بار بار مجھے کيا جتانے کی کوشش کرتے ہو۔۔ ميں نے کيا محبت کی شادی کی ہے تمہاری ساتھ جو تم مجھے قبول نہ کرکے مجھے ميری حيثيت بتا رہے ہو" اپنے کمرے کی جانب جاتے اس نے نشرہ کی بپھری آواز سنی۔
"نہيں۔۔۔ ميں بار بار اپنی حيثيت خود کو ياد دلاتا ہوں" مڑ کر اسکے سجے سنورے روپ کو ديکھا۔ آنکھيں تو رو رو کر وہ صاف کرچکی تھی مگر ہونٹوں پر اب بھی لال سرخی اپنی چھب دکھلا رہی تھی۔
"ہونہہ۔۔ حيثيت ياد رکھتے تو يوں مجھے نيچے سے اپنا بيگ يہاں نہ لانا پڑتا" اسکے ہاتھوں نے پہلی بار اتنا بوجھ اٹھايا تھا۔ اسکا کرلانا بنتا تھا۔
اسکے روہانسی لہجے پہ مارج اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ وہ واقعی شايد پہلی بار يوں بے بس ہوئ تھی۔ اسکی حالت مارج کو مزہ دلا گئ۔
"چچ۔۔۔۔ وہ کيا ہے کہ اب نہ چاہتے ہوۓ حيثيت تو بدل ہی گئ ہے۔ ميرے چاہنے نہ چاہنے سے کيا ہوتا ہے" اپنی زچ کرنے والی مسکراہٹ اس پر اچھال کر وہ کمرے ميں بند ہوگيا۔ يہ ديکھے بنا کہ وہ مزيد رونے کے لئے لاؤنج ميں موجود صوفے پر قبضہ کرچکی تھی۔
_____________________
کچھ دير روتے رہنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اس وقت لاؤنج ميں تن تنہا ہے۔
اپنا بکھرا وجود سميٹے وہ کھڑی ہوئ۔ بيگ گھسيٹتی اس کمرے کی جانب آئ جس کی طرف مارج نے اشارہ کيا تھا۔
دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئ۔ ہاتھ مار کر دروازے کے قريب سوئچ بورڈ ٹٹولا۔
سب بٹن دبا دئيے۔ کمرہ روشن ہوا۔ ايک طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈال کر تسلی ہوئ کہ کمرہ پرآسائش تھا۔ دروازہ کھلتے ساتھ ہی
بيڈ لگا تھا۔ بيڈ کے سامنے ديوار گير الماری، اسکے ساتھ ڈريسنگ اور اسکے بالکل سامنے دو صوفے رکھے تھے۔ وہ مطمئن ہوتی بيگ سے آرام دہ لباس نکالنے لگی۔
الماری کے سامنے چھوٹی سی لابی بنی تھی۔ وہيں واش روم بنا تھا اور اسکے سامنے کھڑکی بنی تھی۔ جس پر دبيز پردے پڑے تھے۔
نشرہ لباس لے کر واش روم ميں بند ہوگئ۔
کچھ دير بعد باہر نکلی سر شديد درد کررہا تھا۔ کچھ سوچ کر باہر آئ۔ لاؤنج کے ساتھ ہی اوپن کچن تھا۔ فريج کھولا۔ خالی فريج اسے منہ چڑا رہا تھا۔ غصے سے بند کرکے مارج کے کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی۔
دروازہ بجايا نہيں دھڑ دھڑايا۔
وہ جو کچھ دير پہلے ہی ليٹا تھا ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ دروازہ پر طبل جنگ بجنے کی آواز محسوس ہوئ۔
'نہ خود چين ليں گی نہ دوسرے کو لينے ديں گی' وہ بڑبڑا کر اٹھا۔
لائیٹ جلا کر دروازہ جھٹکے سے کھولا۔
"جی فرمائيں۔ مزيد کتنی لڑائ باقی ہے" اسکا پرسکون مگر طنز بھرا انداز نشرہ کو جلا کر رکھ گيا۔
"مجھے کوئ ضرورت نہيں تم سے لڑنے کی۔ مجھے چائے پينی ہے۔ سر درد سے پھٹ رہا ہے" سبز اور ہرے رنگ کے امتزاج کا سوٹ پہنے ، چہرہ دھوۓ، بالوں کی ڈھيلی سی چوٹی باندھے، دوپٹہ ايک کندھے پر ڈالے وہ واقعی ايمان خراب کردينے والا حسن اور لاپرواہی رکھتی تھی۔
مارج نے ايک نظر ديکھ کر، نظريں پھيريں۔ مگر اسکے سوال پر پھر سے نظريں اسکی جانب گھما کر کسی قدر حيرانی سے ديکھا۔
"ميں آپکے لئے ابھی چاۓ بناؤں؟" حيرت کا اظہار بھی کيا۔
ابھی وہ اسے بتا چکا تھا کہ اسکا تعلق اب اس سے ملازم والا نہيں رہا اور وہ پھر بھی رعب جھاڑنے چلی آئ۔
"جانتی ہوں ايسی اميد تم سے رکھنی اب عبث ہے۔۔۔ دودھ نہيں ہے فريج ميں اور مجھے چاۓ پينی ہے" وہ بيزار لہجے ميں بولی۔
"ميں فرہاد ہر گز نہيں کہ اس وقت آپکے لئے دودھ کی نہر کھودوں" وہ اسے جس قدر زچ کرسکتا تھا کر رہا تھا۔ نشرہ نے دانت پيسے۔
"بازار سے جا کر لاؤ" وہ پھاڑ کھانے والے انداز ميں بولی
مارج نے مڑ کرسامنے ديوار پر لگی گھڑی پر وقت ديکھا۔ تين بج چکے تھے۔
"اس وقت ميرے کسی رشتے دار نے دکان نہيں کھولی ہوگی۔ صبح ہوگی تو ميں سب چيزيں لا دوں گا۔ پين کلر کھائيں" وہ مزے سے اسے مشورہ دے کر اسکے منہ پر دروازہ بند کرگيا۔
نشرہ حيرت سے منہ کھولے اسکا مشورہ سنتی اسکی بے رخی پر پھر سے رونے بيٹھ گئ۔ پير پٹختے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ روتے روتے کس لمحے آنکھ لگی اسے اندازہ نہيں ہوا۔
_________________________
"شکر ہے يار تم آگئيں۔ آج سر وريد کا ٹيسٹ ہے" فريحہ اسے ديکھ کر بے اختيار بولی۔ زرناب نشرہ کی رخصتی ہوتے ہی ملک اياز سے اجازت لے کر نکل آئ تھی۔ انہوں نے اپنے خاص ڈرائيور اور چند باڈی گارڈز کے ہمراہ اسے ہاسٹل بھجوايا تھا۔
"ہاں يار صبح اٹھ کر تياری کرلی تھی" اس نے ايک بار پھر سامنے موجود نوٹس پر نظر دوڑائ۔
"نشرہ کب تک آئے گی؟" فريحہ کی بات پر اسے کل کی رات ياد آئ۔
"يار اسکی بھی رخصتی تھی کل رات۔ ويسے تو وہ شہر آگئ ہے ليکن پتہ نہيں آج آتی ہے کہ نہيں" آخر سب کو معلوم تو ہونا ہی تھا نا۔ اس کی اطلاع پر فريحہ کا منہ کھل گيا۔
"ارے اتنی اچانک؟ اور کس کے ساتھ" زرناب کے علاوہ اسکے نکاح کے بارے ميں کوئ نہيں جانتا تھا۔
"ہاں وہ اسکے کزن کے ساتھ اسکا نکاح ہو چکا تھا تو بس سب کے لئے ہی سرپرائز تھا۔ مگر اسکے ابا سائيں نے پہلے سے ہی سوچ رکھا تھا کہ اسکے بھائ کی بارات کے ساتھ اسکی رخصتی بھی کرديں گے" اس نے فورا بات بنائ۔
"واؤ يار ايسے اچانک شادياں بھی کتنی رومانٹک ہوتی ہيں" وہ اپنے ہی راگ الاپ رہی تھی۔ يہ تو نشرہ اور زرناب ہی جانتی تھيں کہ يہ سب کتنا رومانٹک تھا۔
صبح بھی وہ اسکے موبائل پر فون کرتی رہی کہ پوچھ کيا حالات رہے مگر اس نے بھی فون نہيں اٹھايا۔
زرناب پريشان ہوئ۔
"چلو يار سر کی کلاس کا ٹائم ہوگيا ہے" وہ اسے سوچوں سے باہر نکالتے بولی۔
"ہاں چلو" زرناب نے بھی سب سميٹا۔
وريد نے کلاس ميں آتے ہی ايک طائرانہ نگاہ سب اسٹوڈنٹس پر ڈالی۔ چوتھی رو ميں موجود نقاب سے جھانکتی دو آنکھوں نے اسے يک گونہ سکون پہنچايا۔
وہ اپنی بدلتی کيفيت سے سخت خائف تھا۔
بنا ديکھے صرف آنکھوں اور شخصيت پر دل ہار جانا اسکا وطيرہ نہيں تھا۔
يہ پہلی بار تھا اور يہ پہلی بار ہی بہت جان ليوا تھا۔
"نار احسان آپکی تياری ہے آج کے ٹيسٹ کی " اٹينڈينس لینے کے بعد وہ براہ راست اس سے مخاطب ہوا۔
"جی سر۔ ميں نے فريحہ سے پوچھ ليا تھا۔ انہوں نے مجھے ٹيسٹ کی اطلاع دے دی تھی۔ ميں تياری کرکے آئ ہوں" يہ پہلی بار تھا کہ زرناب نے اسے سيدھا جواب ديا تھا۔
"ٹھيک ہے۔۔ پھر ميں پانچ منٹ دے رہا ہوں۔ جلدی سے ريوائز کريں سب۔ پھر ميں ٹيسٹ شروع کرتا ہوں" اس نے ايک نظر سب کو ديکھا پھر ہاتھ مين بندھی گھڑی پر وقت ديکھتے ان سب سے مخاطب ہوا۔
ٹيسٹ لينے سے پہلے اس نے سب لڑکے اور لڑکيوں کی سيٹس بدل ديں۔
ٹيسٹ شروع ہوچکا تھا سب مگن ٹيسٹ دينے ميں مصروف تھے۔
وہ چلتے چلتے کبھی ايک رو ميں جاتا کبھی دوسری رو ميں۔
ہر بار چند لمحوں کے لئے زرناب کے قريب کھڑا ہو کر اسکے ٹيسٹ پر ايک نظر ڈالتا۔
ابھی وہ اس کے پاس سے گزر کر آگے ہی بڑھا تھا کہ زرناب کے پيچھے بيٹھے لڑکے کی سرگوشی نما آواز سنائ دی۔
"نار۔۔ مس نار۔۔۔ نار صاحبہ" دو تين بار بھی اسے بلانے پر زرناب نے مڑ کر نہ ديکھا۔
"احتشام ۔۔۔۔۔" مڑے بنا ہی وريد کی زوردار آواز کلاس ميں گونجی۔
"کيا مسئلہ ہے آپ کو؟" مڑ کر غصے سے اسے گھورا جو اب سيدھا بيٹھا نفی ميں سر ہلا رہا تھا۔
"مجھے دوبارہ آپکی آواز نہ آئے" ايک تو وہ لڑکا چيٹنگ کی کوشش کررہا تھا اور دوسرا 'نار احسان' کو مسلسل تنگ کررہا تھا۔ وريد کو يہ ہرگز گوارا نہ تھا۔
ابھی وہ چکر کاٹ کر دوسری رو ميں گيا ہی تھا کہ پھر سے اسے احتشام کی آواز سنائ دی۔
"نار۔۔ يہ تيسرے کا آپشن بتا دو يار" نار احسان کے ساتھ اس بے تکلفی سے مخاطب ہونے والے کو وريد بخشتا بھی تو کيونکر اور کيسے۔
مڑ کر پھر سے تيز نظروں سے ان دونوں کی جانب ديکھا۔ جہاں زرناب جان چھڑانے کے لئے اسے ہاتھ سے دو کا اشارہ کررہی تھی۔ يعنی دوسرا آپشن۔۔
کيا ساری دشمنی، تلخی اور بے زاری اسی کے لئے رہ گئ تھی۔ وريد کا اسے يوں کسی کو اہميت دينا کھلا۔
"آپ دونوں کھڑے ہو جائيں" اسکی بات پر زرناب نے ايک لحظہ کو اسکی جانب ديکھا جو شرر بار نگاہوں سے اسے گھوررہا تھا۔
"سر ميں بھی" اس نے کچھ ہچکچکا کر اپنی جانب اشارہ کيا۔
"جی آپ بھی" وريد نے اپنی بات پر زور ديا۔
"ٹيسٹ ديں۔۔ اينڈ آؤٹ" ان کی جانب بڑھ کر غصے سے ان دونوں کے ہاتھوں سے ٹيسٹ کی شيٹس کھينچيں۔
"سر ميں نے کچھ نہيں کيا" وہ اپنی صفائ دينے کی کوشش کررہی تھی۔
"مجھے جھوٹ بولنے والے نہايت برے لگتے ہيں" انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دیتا اسکی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالے اسے گھورا۔
"اسے دو کا اشارہ کون کررہا تھا۔ آپکے ماموں کا بيٹا ہے جسے اشاروں ميں آپ جواب بتا رہی ہيں" پوری کلاس کے سامنے اس نے کوئ لحاظ نہيں رکھا تھا۔ اور يہ تو سبھی جانتے کہ وريد چوہدری بے عزتی کرتے کوئ لحاظ نہيں کرتا۔ اور اس وقت تو معاملہ 'نار احسان ' کا تھا۔
جو اسے کبھی خاطر ميں نہيں لاتی تھی۔
"سر ميں بولی تو نہيں نا" اس نے توجيہہ پيش کرنے کی کوشش کی۔
"ہاں تو اشاروں ميں سارا ٹيسٹ کرواديں آپ۔۔۔۔ مجھے تو آج معلوم ہوا کہ نقل اسے ہی کہتے ہيں جو بول کر کروائ جاۓ۔۔ جو اشاروں ميں پيپر کروايا جاۓ وہ تو ثواب ہوتا ہے نا" آج اسے زرناب کی طبيعت صاف کرنے کا بھر پور موقع ملا تھا۔
"سر يہ مجھے بہت دير سے تنگ کررہا تھا ميں نے صرف جان چھڑانے کے لئے بتايا تھا۔ " وہ بے چارگی سے بولی۔ معاملہ نمبرز کا نہ ہوتا تو وہ اس سے بحث نہ کرتی۔ مگر وريد ٹيسٹ سے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ اسکے مارکس انکے فائنل پيپر ميں شامل کئے جائيں گے۔
"نار احسان اتنی بے بس تو کبھی نہيں ہوئيں۔ آپ کو وہ ڈسٹرب کررہا تھا آپ مجھے بتاتيں"
"خير باقی کلاس کا ٹائم ويسٹ مت کريں۔۔ اور آپ دونوں کلاس سے باہر تشريف لے جائيں۔ ميں اس پيريڈ کے بعد آپ دونوں سے آفس ميں ملوں گا۔ ناؤ آؤٹ" آخر ميں وہ دھاڑا۔
زرناب نے کھاجانے والی ايک نظر احتشام پر ڈالی جس کی وجہ سے نہ صرف اس کی انسلٹ ہوئ تھی بلکہ ٹيسٹ کا آخری سوال بھی مس ہوگيا تھا۔ وہ بيگ اٹھا کر تن فن کرتی کلاس سے نکل گئ۔

دروازے کو لگ رہا تھا کوئ بجا نہيں رہا بلکہ توڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ جو تکيے ميں منہ دے کر پڑی تھی۔ سر اٹھا کر مندی مندی آنکھوں سے اردگرد ديکھا۔ چند لمحے لگے اسے اردگرد کے ماحول سے مانوس ہونے ميں۔
"کيا ہے؟" اسکے علاوہ يہاں جو دوسرا شخص تھا يقينا اسی کی يہ حرکت تھی۔ رات والا غصہ پھر سے واپس آيا۔ چلا کر بولی۔
"بی بی يونيورسٹی نہيں جانا کيا؟ نو سے اوپر وقت ہوچکا ہے" مارج کی باادب آواز سنائ دی۔ اسکا دل کيا باہر نکل کر اسکا گلا دبا دے۔ مگر يہ پہلے والا مارج نہيں تھا۔ جسے ذليل کرنے ميں وہ پل کی دير نہيں لگاتی تھی۔ کل سے تو اسکے رنگ ہی نرالے تھے۔
اپنا چکراتا سر تھامے وہ بمشکل بيڈ سے اتری۔ غصے سے دروازہ کھولا۔
"نہيں جانا" دھڑ سے دروازہ بند کرکے رات والا بدلہ اتارا۔
مارج کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ رينگ گئ۔ وہ جانتا تھا جب تک وہ دوسرے سے اسی انداز ميں بدلہ نہ لے لے۔ اسے چين نہيں ملتا تھا۔ وہ اسکے مزاج کے بہت سے رنگوں سے واقف تھا۔
دوبارہ اسی اطمينان سے دروازہ بجايا۔
"کيا ہے۔۔۔ مارج کيوں مجھے يہ محسوس کروانا چاہتے ہو کہ ميں دنيا ميں نہيں جہنم ميں ہوں" اب کی بار دروازہ کھول کر وہ بے بسی سے بولی۔
اسکی بات پر مارج ہولے سے چوکھٹ سے ٹيک لگا کر اسکی جانب جھکا۔
اسکے انداز پر پہلے تو وہ بھونچکا رہ گئ۔ اس سے نظر نہ ملانے والا يوں پزل کرتی نظروں سے ديکھ رہا تھا کہ نشرہ کو لگا اسکا دل اچھل کر حلق ميں آگيا ہو۔
آنکھيں پھيليں۔ مگر اپنی جگہ سے ہٹنے کی ہمت اس ميں نہ ہوئ۔ وہ مارج نہيں کوئ ساحر لگا تھا۔
"دنيا ميں اگر ساری زندگی صرف آسائشيں، سکون، آرام اور خوشياں ہی ملتی رہيں تو پھر جنت اور دنيا ميں کوئ فرق نہيں بی بی۔
اللہ نے يہ دنيا بنائ ہی اسی لئے ہے کہ جنت اور جہنم دونوں کا تھوڑا سامزہ ہم يہيں چکھ ليں۔ سمجھ ليں اب دنيا ميں ہی جہنم کا تھوڑا سا مزہ آپ کو بھی چکھنا ہے۔ يہاں تياری کريں گی تو وہاں کی تياری بھی ہوگی" ٹہر ٹہر کر بولتا وہ نشرہ کو نجانے کيا سمجھا رہا تھا۔ وہ تو بس اس ساحر کے ہلتے ہونٹوں کو ديکھ رہی تھی۔
اسکے سحر ميں جکڑتی جارہی تھی۔
"آجائيں۔ آج تو ميں نے ناشتہ بنا ديا ہے۔ کل سے آپ اپنے سب کام خود کريں گی۔ کيونکہ بدقسمتی سے آپ ميری بيوی ہيں اور آپکے اباسائيں کی طرح ميں امير کبير نہيں کہ نوکر افورڈ کروں۔ سو کل سے آپ اپنا کام کريں گی اور ميں اپنا" مزے سے چوکھٹ چھوڑتے سيدھا ہوا۔
"اور ہاں اب يہ کہہ کر کہ مجھے تمہارا يہ احسان نہيں چاہئيے۔ اس رزق کو لات مت مارئيے گا۔ کيونکہ بہرحال آپ کو 'اس وقت' اس 'احسان' کی اشد ضرورت ہے۔ فريش ہو کر آجائيں" اپنی مونچھوں کو مخصوص انداز ميں دائيں ہاتھ کی دو انگليوں سے سنوارتے وہ جيسے اسکے اندر تک اتر گيا تھا۔
نشرہ حيران تھی کہ وہ کيسے جان گيا کہ وہ يہی کہنے والی تھی۔ آخر جذباتی جو ہوئ۔
فريش ہو کر باہر آئ ليکن ابھی بھی يونيورسٹی کے لئے تيار نہيں تھی۔
لاؤنج ميں سينٹر ٹيبل پر آمليٹ، بريڈ اور چاۓ رکھی تھی۔
نشرہ کو يہ سادہ سا ناشتہ بھی اس وقت نعمت ہی لگا۔ کل صبح کے ناشتے کے بعد سے اس نے کچھ نہيں کھايا تھا۔ اس وقت پيٹ ميں شديد چوہے دوڑ رہے تھے۔
خاموشی سے ٹيبل کے قريب رکھے فلور کشن پر بيٹھ کر کھانا شروع کر ديا۔
مارج شايد ناشتہ کر چکا تھا۔ اس وقت اسکے سامنے صوفے پر بيٹھا بس چاۓ کے مگ سے چسکياں لے رہا تھا۔
"ميں آج يونيورسٹی نہيں جاؤں گی" سر نيچے کئے ہی اس نے اپنا فيصلہ سنايا۔
"بہتر۔ ميں پھر کچھ کام سے باہر جارہا ہوں۔ شام تک آجاؤں گا۔ آپ دروازہ اندر سے لاک ہی رکھئے گا" يہ پہلی نارمل بات ان دونوں کے درميان کل سے اب تک ہوئ تھی۔
"سنو۔۔۔۔" وہ جو چاۓ کا مگ رکھ کر سينٹر ٹيبل سے چابياں اور موبائل اٹھا کر قميض کی جيب ميں ڈال رہا تھا اسکی جانب متوجہ ہوا۔
"واپسی پہ زرناب کو ليتے آؤگے؟" وہ اسے حکم دے رہی تھی يا اسکی رائے مانگ رہی تھی مارج سمجھا نہيں سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔
"مطلب۔۔ کيا اسے لانا پاسبل ہے۔ يونيورسٹی تين بجے آف ہوجاۓ گی۔ ميں اسے کال کرديتی ہوں کہ وہ ہاسٹل نہ جاۓ تم يونی سے اسے پک کرلينا" وہ اسے پورا پروگرام بتانے لگی۔
"ٹھيک ہے۔ آپ اسے فون کرکے بتا ديجئے گا ميں ليتا آؤں گا" وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"سنو۔۔۔" ابھی وہ لاؤنج سے نکل بھی نہيں پايا تھا جب دوبارہ اسکی آواز سنائ دی۔
"جی" اب کے مڑے بنا بولا۔ لہجہ ميں جھنجھلاہٹ تھی۔
"مم۔۔ ميں دوپہر کو کيا کھاؤں گی؟" مارج نے مڑ کر اسکی جانب ايسے ديکھا جيسے کہہ رہا ہو کتنا بڑا مسئلہ بيان کيا ہے۔ جو اس لمحے اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔
"خود ہی تو تم نے کہا تھا اب سے آپ اپنا کام خود کريں گی اور ميں خود۔۔ تو فريج ميں کچھ ہوگا تو ہی ميں اپنے لئے بناؤں گی نا اور پھر زرناب بھی آئے گی اسکے لئے بھی بنانا پڑے گا" مارج نے اسکے انداز پر ہنسی دبائ۔
کس قدر گھريلو سی لگ رہی تھی۔ الجھی الجھی يہ سب باتيں کرتی۔ مارج نے نظريں زمين پر گاڑھيں مبادا آنکھيں اسکے عہد کو توڑ کر گستاخی کی مرتکب نہ ہوجائيں۔
"آپ فکر نہيں کريں۔ يہ اصول کل سے لاگو ہوگا۔ ويسے بھی اپنی بہن کی خاطر مدارت کے لئے ميں کچھ نہ کچھ لے آؤں گا۔ آپ ريليکس ہوجائيں" ہاتھ پشت پر باندھے بولتا وہ اسے زہر لگا۔ دل کيا دھاڑيں مار کر روئے يعنی بہن کے لئے مٹھاس اور محبت اور اسکے لئے صرف اجنبيت۔ مگر ان ميں ايسا رشتہ ہی کب تھا کہ وہ اسے کوئ اميد دلاتا، کوئ دل کو خوش کرنے والی بات کرتا، يا اسکا احساس کرتا۔
نشرہ اسے روبوٹ کہتی تھی۔ وہ روبوٹ اب يکدم سے انسان کيسے بن جاتا ۔ احساسات تو انسانوں ميں ہوتے ہيں روبوٹ ميں نہيں۔
يہ اسکے ساتھ کيا ہورہا تھا۔ اسے يوں ہی خاموش ديکھ کر وہ مڑا۔
پھر دوبارہ اسکی جانب رخ کيا۔
"اور کوئ مسئلہ" بھنويں اچکا کر پوچھا۔ کہيں پھر نہ روک لے۔ وہ اپنی حالت کے پيش نظر محض سر ہلا کر رہ گئ۔ سوچيں تو نجانے کہاں بھٹکنے لگيں تھيں۔
مارج دھيرے سے سر ہلا کر چلا گيا۔
"مجھے کيا ہورہا ميں کيوں اس سے اميد باندھ رہی ہوں کہ وہ ميرے لئے کسی اور طرز ميں سوچے کسی اور لہجے ميں بات کرے" وہ الجھی پريشان سی وہيں بيٹھ کر سر تھام گئ۔
محبت نے بڑا کارا وار کيا تھا۔
_________________________
پیريڈ اوور ہوتے ہی وہ دونوں اسکے سامنے اسکے آفس ميں موجود تھے۔
"آپ باہر جائيں ميں احتشام سے بات کرلوں۔ پھر آپ اندر آئيے گا" نشرہ کو بھی احتشام کے پيچھے اپنے آفس ميں آتے ديکھ کر اس نے باہر کی جانب اشارہ کيا۔ وہ چپ چاپ باہر نکل گئ۔
اپنی سيٹ سنبھال کر اب اسکا رخ احتشام کی جانب تھا۔
"جی تو کيا مسئلہ تھا آپکا۔۔ کيوں تياری نہيں تھی۔ اور اگر تياری نہيں تھی تو مجھے صاف بتاتے۔۔ يہ تماشا کرنے کی کيا ضرورت تھی" وہ کڑے تيوروں سے اسے آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔
"سر ايک ہی سوال پوچھا تھا نا۔ باقی تو۔۔۔" احتشام بڑا اٹھلا کر ايسے بولا جيسے وريد کا چہيتا اسٹوڈنٹ ہو۔
"ايک پوچھا چاہے دس۔۔۔۔۔ آئندہ يہ ہوا تو آپ ون ويک کے لئے کلاس سے آؤٹ کردئيے جائيں گے۔ اور آئندہ" اسکی بات کاٹ کر وہ دبے دبے لہجے ميں چلايا۔
"آئندہ نار کے آس پاس مجھے نظر نہ آئيں" وہ انجانے ميں اپنی کمزوری اسکے ہاتھ پکڑا گيا۔
احتشام نے کسی قدر اچنبھے سے اسکی جانب ديکھا۔
"سوری سر۔ آئندہ ايسا نہيں ہوگا" منہ لٹکا کر بولا۔
"يو مے گو ناؤ" ہاتھ کی انگلی سے اسے دروازے کی جانب جانے کا اشارہ کيا۔
اسکے نکلتے ہی زرناب اندر داخل ہوئ۔
"سوری سر۔ " اندر آتے ہی اس نے وضاحت دينی چاہی جب اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروايا۔
سامنے ٹيبل پر رکھی فائل کھولی جس ميں سب ٹيسٹس موجود تھے۔ اس ميں سے زرناب کا ٹيسٹ نکالا۔
"لاسٹ کوئسچن آتا ہے؟" اسکے سوال پر وہ لمحہ بھر کو حيران ہوئ۔
"جی جی۔ سر سارا ٹيسٹ آتا تھا" وہ پھر سے وضاحت دينے لگی۔
"اوکے يہ پکڑيں۔ اور يہاں بيٹھ کر ٹيسٹ مکمل کريں" اسکی مہربانی پر وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔
حواس بحال رکھتے ٹيسٹ تھاما۔ اسکے سامنے رکھی کرسی پر خاموشی سے بيٹھ کر بيگ سے پين نکالا۔
اسکی نظريں ٹيسٹ پر اور وريد کی نطريں اس پر ٹکی تھيں۔ دونوں کہنياں کرسی کے ہتھوں پر رکھے۔ ہاتھوں کو باہم پيوست کئے۔ شہادت کی انگليوں کو ملاۓ ہونٹوں پر رکھے وہ مسلسل اسے نظروں کے فوکس ميں لئے ہوۓ تھا۔
زرناب جانتی تھی اسکی نظريں مسلسل اسکا طواف کررہی ہيں۔ جو آتا تھا لگتا تھا وہ بھی بھول جاۓ گی۔ سر اٹھا کر لحظہ بھر کو اسکی جانب ديکھا۔
اسکے يوں ديکھنے پر بھی اسکی پوزيشن ميں کوئ ردوبدل نہيں ہوئ۔
زرناب نے گھبرا کر آنکھيں پھر سے ٹيسٹ پر جمائيں۔
So I didn't see you at all this year
But I still think I know you well
And it's not what your mind is saying
Yet, I don't care at all, no
But now you're facin' away
Are you sad?
Can you really think about it? No
And you fall outside your head
And you're back
And you never knew about it, no, oh-oh
And you wander away
Still being quiet, can you call me?
And the urge you're fightin'
Still lying to your heart
'Cause I better be the one that steps for you
Do you even care at all?
And you made it up just to mess with me
Faking the way you fall
And the worst will go eventually
The lie, you won't see at all
And you'll come and we'll make up afterwards, afterwards
Are you ever gonna stay?
I'm holdin' on
Can we talk about it? No
When you feel like flyin' away
I'm losing it
And I never really cared
آخر زرناب نے ہمت مجتمع کرکے اسکی محويت کو پھر سے ديکھا۔
"سر ميں وہاں بيٹھ کر ٹيسٹ کرلوں؟" لہجہ سرسری سا رکھتے اس نے دائيں جانب موجود صوفے کی جانب اشارہ کيا۔
وريد کے چہرے پر پل بھر کو مسکراہٹ آئ۔
"جی ضرور" لہجے ميں شيرينی گھلی تھی۔
وہ گہرا سانس خارج کرتی وہاں سے اٹھ کر صوفے پر جا بيٹھی۔
وريد نے اب کی بار توجہ سامنے موجود ٹيسٹس کی فائل کی جانب مبذول کی۔
اسی لمحے دروازہ ناک ہوا۔
"يس کم ان" اسکی اجازت ملتے ہی ايک طرح دار سی لڑکی اندر آئ۔
"وريد؟" سر کا صيغہ استعمال کرنے کی بجاۓ آنے والی نے صرف اسکا نام لينے پر اکتفا کيا۔
وريد نے کچھ چونک کر اسے ديکھا۔
ٹائيٹ بليو جينز پر گرے اور پرپل ٹاپ پہنے دوپٹے سے آزاد بالوں کو کيچر سے باندھے۔ ايک جانب بيگ ڈالے دوسرے ہاتھ ميں ايک رجسٹر تھامے ہاتھوں ميں بيش بہا انگوٹھياں پہنے۔ وريد کو گمان ہوا جيسے وہ کسی ماڈلنگ کے لئے آئ ہے۔
وريد کو يک ٹک اپنی جانب ديکھتے پا کر وہ ايسے مسکرائ جيسے پہلی ہی نظر ميں گويا اسے گھائل کرليا ہو۔
"جی۔ آپ کی تعريف؟" وريد نے ايک نظر دائيں جانب ٹيسٹ کرتی زرناب پر ڈالی۔ ايسے جيسے کوئ چوری اس نے پکڑ لی ہو۔
"اندر آنے کو نہيں کہيں گے؟" اسکی بے تکلفی قابل ديد تھی۔
وريد نے ہاتھ سے کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ زرناب ان دونوں سے بے خبر ٹيسٹ کرنے ميں مگن تھی ايسے جيسے وہ آفس ميں اکيلی ہو۔ ايک بار بھی سر اٹھا کر ان دونوں کو نہيں ديکھا۔
"تھينک يو" ايک ادا سے بيٹھتے انگريزی طرز تخاطب اپنانے کی ناکام کوشش کی۔
وريد نے مٹھی ہونٹوں پر جما کر مسکراہٹ روکی۔
"ميں ضوفشاں۔۔۔ آپکی منگيتر ٹو بی" ہاتھ اٹھا کر اسکی جانب اشارہ کرتے پھر سے عجيب و غريب انداز ميں کہا۔
اسکی بات پر اب کی بار زرناب نے ايک نظر اٹھا کر ان دونوں پر ڈالی۔ پھر افسوس سے سر ہلايا۔
وريد نے دائيں آنکھ کی ابرو اچکا کر اسے ايسے ديکھا جيسے کہہ رہا ہو 'کيا واقعی'۔
"آپکی مدر نے بتايا نہيں آپ کو" وريد کے اس قدد ٹھنڈے ٹھار انداز پر وہ کچھ خفت زدہ ہوئ۔
"جی بتايا تھا مگر آپ کی تصوير وغيرہ کچھ نہيں بھيجی ورنہ شايد آپ کو پہچاننے ميں اتنی دير نہ لگاتا۔" مٹھی نيچے کرتے وہ اپنے ہی شاہانہ انداز ميں اسے خاطر ميں لائے بغير بولا۔
"نار ٹيسٹ چل رہا ہے؟" ضوفشاں کو نظر انداز کرتے وہ زرناب کی جانب متوجہ ہوا۔
"جی سر کروس چيک کررہی ہوں" وہ بھی سرسری انداز ميں بولی۔
"ميں ابھی بزی ہوں۔ پھر آپ سے ملاقات ہوگی" وريد کو اسکی موجودگی پر شديد الجھن ہورہی تھی۔ اسکے انداز پر ضوفشاں کو شديد سبکی محسوس ہوئ۔ وہ جو سمجھی تھی کہ وہ اسے متاثر کرنے ميں کامياب ہوگئ ہےاپنی سوچ پر لعنت بھيجتی تن فن کرتی اٹھ کر اسکے آفس سے واک آؤٹ کرگئ۔
اسکے نکلنے کا نوٹس لئے بغير۔ وريد اپنی جگہ سے اٹھ کر زرناب کے پاس آيا۔
"يہ ليں سر" ايک آخری نگاہ ٹيسٹ پر ڈال کر اس نے وريد کی جانب بڑھايا۔ اپنا بيگ اٹھايا۔
"اس بے چاری کو آپ نے ايسے ہی نکال ديا۔ ميں تو جانے ہی والی تھی" اسکے مقابل کھڑے ہوتے محظوظ ہونے والے انداز ميں اس نے گويا وريد کی ٹانگ کھينچی۔
ٹيسٹ کو ديکھتے اسی پوزيشن ميں جھکے سر کے اٹھاۓ بنا بس آنکھيں اٹھا کر ايک گھوری اس پر ڈالی۔ جو يقينا نقاب ميں مسکرا رہی تھی۔
"ويسے مبارک ہو سر" وہ پھر سے تير چلانا نہيں بھولی۔
"ابھی مبارکباد اپنے پاس رکھيں۔ جلد کسی اور انداز ميں لوں گا" اسکی بات پر محظوظ ہونے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ذومعنی انداز ميں بولا۔
زرناب کی آنکھوں ميں سوال ابھرے۔
"جائيے۔ نيکسٹ پيريڈ شروع ہوچکا ہوگا" مڑ کر اپنی سيٹ کی جانب آتے اسے وہاں سے جانے کا کہا۔
وہ کندھے اچکا کر نکل گئ۔ يہ تو اسے يقين تھا کہ وريد اسے ہر گز اور کبھی بھی پہچان نہيں سکتا۔
_________________________
وہ آخری پيريڈ کے لئے جارہی تھی جب اسکے سيل پر نشرہ کی کال آئ۔
"کيسی ہو بے مروت۔ صبح سے اتنے فون کئے۔ اب تمہيں ميری ياد آئ" چھوٹتے ہی اس سے شکوہ کيا۔
"بس يار طبيعت ٹھيک نہيں تھی۔ کل يہاں آتے آتے بھی دير ہوگئ۔ بس شديد تھکاوٹ تھی" وہ بے زار سے لہجے ميں اپنی روداد سنانے لگی۔
"اسی لئے آج يونی بھی نہيں آئيں" وہ مزيد گويا ہوئ۔
"ہاں نا۔ اچھا سنو۔ لاسٹ پيريڈ کے بعد ہاسٹل مت جانا مارج تمہيں لينے يونی آئے گا۔ شام تک ميرے ساتھ رہنا۔ بہت اداسی ہورہی ہے يہاں" اسکی بے چاری سی آواز پر زرناب کو شديد ترس آيا۔
"اچھا ٹھيک ہے" وہ فورا مان گئ۔
"ميں تمہيں مارج کا نمبر ديتی ہوں۔ وہ کال کرے گا تو اٹھا لينا۔ اسے تمہارا نمبر دے ديا تھا" وہ پھر سے ہدايات دينے لگی۔
"ٹھيک ہے"
آخری پيريڈ کے بعد مارج کے نمبر سے کال آئ۔ زرناب نے بنا ہچکچائے فون اٹھا ليا۔
"جی بھائ" آواز ميں محبت گھلی تھی۔
"ميں مين گيٹ پہ ہوں آجاؤ" اس کی بات سنتے ہی اسکے قدم مين گيٹ کی جانب بڑھے۔
زرناب کو آتا ديکھ کر مارج نے فورا دروازہ کھولا۔ زرناب اسے دھيرے سے سلام کرتی بيٹھ گئ۔ اسکے دروازہ بند کرتے ہی اس نے گاڑی آگے بڑھائ۔
دو آنکھوں نے بڑی سلگتی نگاہ سے انہيں ديکھا۔
وہ ان دونوں سے اتنی دور نہيں کھڑا تھا۔ اپنی گاڑی کی جانب آتے اس نے زرناب کو گيٹ کی جانب جاتے ديکھ ليا تھا۔ وہ يوں ہی اس پر نظر جمائے کھڑا تھا۔ جب بليک پجيرو ميں اسے بيٹھتے ديکھا۔ پجيرو کا نمبر فورا نوٹ کيا۔
يوں تو اسکے کوئ رشتے دار نہيں تو يہ پھر کون ہے۔
وريد نے کچھ سوچ کر موبائل نکال کر نمبر ڈائل کيا۔
دوسری جانب سے فون اٹھاتے ہی اس نے بغير سلام دعا کے اپنی ہی بات کہی۔
"ايک گاڑی کا نمبر بھيج رہا ہوں۔ پتہ کرکے بتاؤ يہ کس کے نام پر ہے۔ اور اس بندے کا بائيو ڈيٹا بھی مجھے ايک دو دن ميں بھجواؤ۔" تحکم سے کہتے ساتھ ہی فون بند کيا۔ گاڑی کا نمبر اسی نمبر پر سينڈ کرکے گاڑی ميں بيٹھ کر زن سے مين گيٹ کی جانب بڑھائ۔
_______________________________
"آپ نشرہ کے ساتھ ٹھيک نہيں کررہے" گاڑی ميں بيٹھتے ہی اس نے بھائ سے شکوہ کيا۔
"ميں تو کچھ نہيں کررہا ۔۔۔ يہ تو انکی قسمت کررہی ہے" وہ مبہم سا مسکرا کر بولا۔
"آپ اتنے لاتعلق کيوں بن رہے ہيں اس سے" وہ دوست کی وکالت کرنے لگی۔ ان چند دنوں ميں ہی اس نے ديکھ ليا تھا کہ ان دونوں کے درميان کھچا کھچا تعلق ہے۔
"تم اسے چھوڑو يہ بتاؤ صبح ناشتے مين کيا کھايا تھا" وہ ذمہ دار بھائ کی طرح پوچھنے لگا۔ اصل ميں اس ٹاپک سے ہٹايا تھا۔ جس کے اوراق پر لکھی کہانی کيا سے کيا کرنے والی تھی وہ خود بھی اس سے انجان تھا۔
"آپ بات بدل رہے ہيں" وہ اسے گھور کر بولی۔
"يہی سمجھ لو" وہ بھی ہتھيار ڈالتے ہوۓ بولا۔
"بھائ۔۔ کيا۔۔ کيا آپ واقعی ميرے مطلب۔۔۔۔ بابا سائيں کے بيٹے ہيں۔ اور ميرے بھائ ہيں" اس کی ہمت نہ ہوئ اسے سوتيلا بھائ کہنے کی۔
مارج نے مسکرا کر سر ہلايا۔
"کيا ميں اس حقيقت سے واقف ہوسکتی ہوں؟" اسکے سوال پر وہ لب بھينچ کر رہ گيا۔
"تمہيں يہ بتايا کس نے ؟" وہ جانتا تو تھا پھر بھی اس سے پوچھنے لگا۔
"نشرہ نے" اپنا اندازہ سچ ہونے پر وہ محض سر ہلا کر رہ گيا۔
"يہ کبھی نہيں سدھريں گی۔ بی بی سی کہيں کی" بڑبڑايا۔ مگر زرناب نے اسکی بڑبڑاہٹ بڑے آرام سے سن لی۔
"بری بات بيوی کو ايسے نہيں کہتے" بڑے بوڑھوں کی طرح اسے ٹوکا۔
"وہ بيوی نہيں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کيا کہوں تمہاری پياری دوست کے بارے ميں " کچھ برا کہتے کہتے بڑی مشکل سے چپ ہوا۔
"کچھ حقيقتوں پر پردہ پڑا ہی رہے تو بہتر ہے۔" وہ چاہ کر بھی بتا نہيں پا رہا تھا۔
"پليز بھائ پليز۔۔ پہلی بار کسی بات کی خواہش کی ہے" اسکی بات پر وہ اموشنل ہو ہی گيا۔
"مگر وعدہ کرو تم کسی کو بھی نہيں بتاؤ گی۔ اپنی پياری دوست کو بھی نہيں" وہ اس سے وعدہ لينے لگا۔
"مجھے پتہ ہے ميری دوست بہت پياری ہے۔ بار بار پياری کہہ کر آپ لگتا ہے اپنے دل کی بات کہہ رہے ہيں" وہ شرارت سے بولی۔ اسے اندازہ نہ ہوا وہ دو بار اسے پياری کہہ گيا ہے۔
زرناب کے شرير انداز پر اسے گھوری سے نوازا۔
"اچھا اچھا سوری" وہ بمشکل ہنسی روک کر بولی۔
مارج نے آہستہ آہستہ سب رازوں سے پردا ہٹايا۔
"بابا سائيں نے مرتے دم تايا سائيں سے وعدہ ليا تھا کہ وہ يہ حقيقت کسی کو نہيں بتائيں گے۔ انکے مطابق انہوں نے زندگی ميں تو ايسے کوئی اچھے کام نہيں کئیے۔ لہذا وہ چاہتے تھے کہ انکی وفات کے بعد لوگ انہيں برے الفاظ ميں ياد نہ کريں۔ خاص طور سے تمہاری اماں سائيں کا اعتبار وہ مرتے مرتے توڑ جاتے۔ اور يہ انہيں گوارا نہيں تھا" اسکی بات ختم ہوتے کتنے ہی دير گاڑی ميں خاموشی چھائ رہی۔
"انسان ، انسانوں سے کتنا خوفزدہ رہتا ہے۔ انکے سامنے اپنا اميج خراب نہيں کرنا چاہتا مگر اس سب ميں اسے يہ ڈر اور خوف کيوں نہيں ہوتا کہ يہ تو سب مٹی ہوجائيں گے۔ اس اللہ کے سامنے اپنا کيا منہ لے کر جائيں گے۔ اسکے سامنے اميج خراب ہونے کی فکر کيوں نہيں ہوتی" اسکی بات پر مارج ايک گہرا سانس بھر کر رہ گيا۔
"يہ سب بتانے کا مطلب يہ نہيں کہ تم انکے بارے ميں برا سوچو" وہ اسے تنبيہہ کرنے لگا۔
"آپ کی ماں يقينا بہت اچھی عورت ہوں گی۔ آپ مجھے بابا سائين کا پرتو نہيں لگتے۔ تو يقينا آپ اپنی امی جيسے ہوں گے۔ کتنی خوش نصيب ہيں وہ۔ جن کی اولاد آپ جيسی ہے۔ ساری عمر لوگوں کے سامنے سواليہ نشان بننے کو تيار ہيں۔ ليکن جنہوں نے آپ کو اپنايا نہيں انکے لئے برا نہيں سننا چاہتے" وہ رشک سے اسے ديکھ رہی تھی۔
"ايسے نہيں کہتے زرناب۔ ہم سب نے اپنے اپنے اعمال کا حساب خود دينا ہے۔ انہون نے جو کيا اسکا حساب اللہ ان سے لے لے گا۔ ميں بلاوجہ ان سے نفرت کروں۔ جبکہ وہ اس دنيا ميں ہيں بھی نہيں تو مجھے کيا فائدہ۔ وہ ہوتے بھی تو ميں ان سے نفرت نہ کرتا۔ اگر ہم لوگوں کی جگہ خود کو رکھ کر انکے مسائل کو سمجھنے لگ جائيں تو شايد ہم لوگوں سے شکوے کرنے چھوڑ ديں۔ نجانے وہ کتنے مجبور ہوں گے کہ وہ مجھے اپنا نہيں سکے۔" اسکا دھيما لہجہ زرناب کے دل مين اسکا مقام اور بلند کرگيا۔
"پتہ ہے کيا ميں نے کبھی شکوہ نہيں کيا کہ ميرے دنيا ميں آنے کی وجہ کيا تھی۔ کيونکہ اس مين ميرا ہاتھ نہيں تھا۔ اور اللہ تو جانتا ہے نہ۔ جب مين اسکے آگے سرخرو ہوں تو مجھے انسانوں کے کہے جانے والے لفظ ناجائز پر تکليف محسوس نہيں ہوتی۔ لوگ اپنی پست ذہنيت کے مطابق بات سوچتے ہيں۔ ميری ذات پر فرق نہيں پڑتا کيونکہ اللہ نے مجھے انہی کے گھر ميں پال پوس کر بڑا کروايا۔ تايا سائيں کی بيش بہا محبت مجھے ملی۔ مين کسی آسائش اور نعمت کے لئے ترسا نہيں، پڑھ لکھ ليا، اپنا کاروبار کر رہا ہوں۔ بس يہی بہت ہے ميرے لئے۔ " اسکی باتوں نے زرناب کو خود کا محاسبہ کروايا۔
"ہم دونوں بہن بھائيون کی قسمت ايک سی ہے بے نشاں" آنسو اسکے گالوں پر لڑھکے۔
"ايسے نہيں کہتے۔ ہم اس اللہ کے بندے ہيں اور اتنی بڑی شناخت بہت ہے۔ مسلمان ہيں۔ کيا يہ کافی نہيں۔ اس حسب نسب ميں کيا رکھا ہے" مارج نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سر پر تھپتھپايا۔ روتے روتے مسکرا کر اس نے بھائ کی جانب ديکھا۔
"آئندہ ايسے نہيں کہنا" وہ اسکا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔
_____________________________
رنگ و بو کا سيلاب تھا۔ مقررہ وقت سے گھنٹہ ليٹ وہ فخر کے آفس کے فنکشن ميں موجود تھا۔
ايک مشہور ہوٹل کے لان ميں سب انتظام تھا۔ وہ بھی سب کے درميان کب سے موجود کسی خاص کو ڈھونڈنے ميں مگن تھا۔
"کسے تلاش کررہے ہو بھئ" فخر نے بھی اسکی بے چينی بھانپ لی تھی۔
"کسی کو نہيں۔ بس ايسے ہی ديکھ رہا تھا" وہ بات بنا کر بولا۔
"ميں نے ڈيڈی کو ہاں کردی ہے" فخر کی بات پر اس نے عجيب سے تاثرات سے اسے ديکھا ايسے جيسے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہو کہ وہ کيا کہنا چاہ رہا ہے۔
"ارے يار وہی نار احسان سے شادی کرنے والی بات پر" وہ اسکے تاثرات سے سمجھ گيا کہ وہ يقينا بھول چکا ہے۔
وريد کچھ دير چپ ہی رہ گيا۔ وہ واقعی بھول چکا تھا کہ فخر نے اسکے لئے پسنديدگی اور شادی کرنے کا کچھ دن پہلے ہی اظہار کيا تھا۔
"يہاں واش روم کس سائيڈ پر ہے" اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ اس نے کچھ اور ہی کہا۔
"ہاں وہ اس طرف ہے۔ " اسکے اتنے روڈ انداز پر فخر کو عجيب سا محسوس ہوا۔
بجائے خوش ہونے يا کوئ اچھی بات کرنے کے اس دن بھی وہ وہاں سے بھاگ گيا تھا۔ اور آج بھی وہ اسکی بات کو نظر انداز کرگيا۔ اس نے ايک جانب اشارہ کيا۔
وريد سر ہلا کر اس سمت چل پڑا۔ جب اندر کی جانب بڑھتے سامنے سے آتے وجود سے تصادم ہوتے ہوتے بچا۔
وريد نے يکدم قدموں کو روک کر خود کو سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرانے سے بچايا۔
سامنے والی بھی عجلت ميں نقاب درست کرتے آرہی تھی۔ جب اندر آنے والے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
نقاب سيٹ کرتا ہاتھ الجھا۔
نقاب يک لخت چہرے سے گرا۔ وريد جو سوری کرنے کے لئے سامنے والی کی جانب نگاہ اٹھا چکا تھا۔
سامنے کھڑے وجود کی آنکھوں سے تو نجانے کب سے آشنا تھا۔
مگر اپنے سامنے اس مکمل حسن کو آج پہلی بار ديکھ کر اسے محسوس ہوا تھا جيسے شايد ہی آج سے پہلے اتنا مکمل حسن ديکھا ہو۔ وہ کوئ اور نہيں زرناب اور وريد کے لئے نار احسان تھی۔
وہ جو کب سے اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ اندازہ نہيں تھا آج يوں قسمت اسکے روبرو لائے گی کہ وہ اس چاند کی چمک سے آنکھوں کو خيرہ ہونے سے نہيں بچا سکے گا۔
اسے نہيں معلوم تھا کہ وہ حقيقت ميں اتنی ہی حسين تھی يا اسکی نظروں نے اسے حسن کے سنگھا سن پر بٹھا ديا تھا۔ زرناب نے اسے ساکت کھڑے ديکھ کر جلدی سے نقاب کيا۔
چند لمحوں کے اس کھيل ميں دونوں ہار گئے تھے۔ وہ دل کے ہاتھوں اور زرناب قسمت کے ہاتھوں۔
اسے ديکھنے کے بعد اب وريد کو کوئ اور چہرہ وہاں دل کو نہيں بھارہا تھا۔
کچھ ہی دير بعد وہ پھر سے سب ميں موجود تھا۔ زرناب بھی موجود تھی۔ دونوں بہت بار آمنے سامنے آئے بھی۔
زرناب تو بھرپور اجنبيت کا تاثر ہی دئيے ہوئے تھی۔ مگر وريد وہ اب اس اجنبيت کو برقرار نہيں رکھ سکتا تھا۔
اسے اب وہ چاہئيے تھی۔ وہ جو اتنے دنوں سے اپنی کيفيت سے انجان تھا۔
اب جان گيا تھا يہ محبت کا اعجاز تھا جو اسے اپنی لپيٹ ميں لے رہا تھا۔ اور وہ اس آکٹوپس کے شکنجے سے نکلنے کو تيار نہيں تھا۔
اسکی خوبصورتی کو آنکھوں ميں بسائے وہ گھر سرشار سا واپس لوٹا تھا۔
گھر آيا تو سامنے ہی ماں اور باپ دونوں موجود تھے۔
"ارے آپ لوگ کب آئے؟ بتا تو ديتے کہ آنا ہے؟" وہ ان دونوں کو سامنے ديکھ کر اور بھی خوش ہوا۔
"او پتر ۔۔۔ ہم کون سا مہمان ہيں۔ اپنے بيٹے کے پاس آئے ہيں" وجاہت چوہدری نے اسکی پيٹھ تھپتھاتے خوشدلی سے کہا۔
"ہم تو تيری منگنی کی تياری کرنے آئے ہيں۔ تجھے ساتھ لے کر جانا ہے۔ ہفتے والے دن تيری منگنی رکھی ہے۔ او ميرے شيرا" وہ مسکراتے ہوۓ اسے خوشخبری سنا رہے تھے۔ مگر اسکے لئے يہ خوشخبری ہر گز نہيں تھی۔
"ميں نے آپ لوگوں سے بات کرنی ہی تھی آج۔ اچھا ہوا کہ آپ آگئے۔ ميں اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا۔" انکے سامنے صوفے پر بيٹھتے وہ مضبوط لہجے ميں اپنا فيصلہ سنا چکا تھا۔
"دماغ خراب ہے تمہارا" اسکی بات سنتے ہی وجاہت چوہدری آپے سے باہر ہوگئے۔
"چوہدری صاحب۔ اسکی پوری بات تو سن ليں" صغراء بيگم نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہيں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
"کيا پوری بات سنوں۔۔ اور پوری بات ہے ہی کيا؟" وہ مزيد غصہ ہوۓ۔ غصيلی نظروں سے سامنے ديکھا جہاں اسکا اطمينان قابل ديد تھا۔
"ملا ہوں ميں آپکی پسند کی ہوئ لڑکی سے۔ اسے کسی فلم ميں ہئيروئن ہونا چاہئے۔ ميری بيوی کی حيثيت نہيں مل سکتی اسے" اسی اطيمنان سے وہ انہيں مزيد آگ بگولا کرگيا۔
"تو ۔۔۔ تم اندر جاؤ" وہ کچھ کہتے کہتے رکے۔ صغراء بيگم کو سامنے کمرے ميں جانے کا اشارہ کيا۔
"اماں سائيں يہيں بيٹھيں گی۔ جو بات ہوگی انکے سامنے ہوگی" وہ ماں کو آنکھوں سے نہ اٹھنے کا اشارہ کر گيا۔
"تو کھولوں تمہارے کرتوت اسکے سامنے" وہ منہ سے جھاگ اڑانے لگے۔
"کيا کرتوت ہيں ميرے۔۔ ميں نے وہی کچھ کيا ہے جو ہميشہ سے اپنے خاندان کے مردوں کو کرتے ديکھتا آيا ہون۔ اگر آپ ميرے افئيرز کی بات کررہے ہيں۔ تو پھر يہاں کرتوت سبھی کے کھليں گے۔ آپ سميت" وہ بھی نڈر انداز ميں باپ کے دوبدو ہوا۔
"يہ۔۔ يہ تميز ہے تمہاری۔۔۔ يہ کہتی ہے تمہاری تعليم" اپنے پہ بات آتے ديکھ کر وہ آگ بگولہ ہوئے۔ وہ ہميشہ سے منہ پھٹ تھا اور يہ سب جانتے تھے۔ پھر چاہے سامنے والا اسکا باپ ہو يا باپ کا باپ۔۔ ہاں مگر ماں کے ساتھ وہی بدتميزی کبھی نہيں کرتا تھا۔
"ميری تعليم نے مجھے يہی سکھايا ہے کہ سچ چاہے دوسرے کے متعلق ہو يا اپنے متعلق بولنے ميں عار محسوس نہيں کرنی چاہئيے۔ ميں تو مانتا ہوں کہ ميں عورتوں کے ساتھ افئير چلاتا ہوں۔ شراب پيتا ہوں۔ کيونکہ ميں نے بچپن سے اس گھر کے مردوں کو يہ سب کرتے ديکھا ہے۔ اگر يہ اتنا ہی برا ہے تو آپ کيوں کرتے رہے۔۔ آپ نے ايک عورت پہ اکتفا کيوں نہيں کيا۔ کيا اماں سائيں بے خبر ہيں؟
نہيں۔۔۔ ہر گز نہيں۔۔۔۔ اور اگر يہ سب اتنا ہی جرم تھا تو جب پہلی بار آپ کو ميرے شراب پينے۔، سگريٹ پينے اور کسی نامحرم لڑکی کی جانب راغب ہونے کا علم ہوا تھا تب مجھے کيوں نہيں روکا۔۔ ميں نے تو ہميشہ آپ کو يہی کہتے سنا۔۔ يہ تو مرد کی شان ہے۔۔۔ تو اپنی مرضی کی عورت کے ساتھ شادی کرنا کيوں گناہ ہے" وہ بولا تو پھر بنا رکے بولتا چلا گيا۔
"مجھے آپکی پسند کی لڑکی اپنے لئے اچھی نہيں لگی۔ سمپل۔ اس ميں تعليم، تربيت اور کرتوت کہاں سے آگئے؟" وہ آج انہيں رگيدنے لگا تھا۔
"آپ بتائيں ماں سائيں۔ کيا يہ گناہ ہے؟" اسکا رخ اب ماں کی جانب تھا جن کے سامنے وہ اپنے باپ کے سب کرتوت کھول چکا تھا جن پر آواز اٹھانے کی اس کی ماں کو اجازت نہيں تھی۔
"بيٹے ايسا نہين ہے۔ اچھا بتاؤ کون ہے وہ لڑکی؟" دھميے لہجے ميں شوہر کے پاس سے اٹھ کر وہ بيٹے کے قريب صوفے پر بيٹھيں۔ محبت سے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"تمہاری مرغے کی پھر وہی ايک ٹانگ۔۔ ارے ميں ان لوگوں کو ہاں کرچکا ہوں۔۔۔ تم جانتی نہيں کيا ہوگا ميرے ساتھ" وہ دونوں ماں بيٹا کو گھور کر بولے۔
"کيا ہوگا جس سيٹ کے لئے آپ ان کے پيچھے پيچھے پھر رہے ہيں اسمبلی ميں وہ سيٹ نہيں ملے گی۔"
وہ بھی وجاہت چوہدری کا بيٹا تھا باپ کی ايک ايک رمز سے واقف۔
"ميری شادی ميری زندگی کی خوشی کے لئے ہے۔ آپ کے سياسی مفادات اور سودا بازی کے لئے نہيں۔
اور جس لڑکی کو آپ ميرے لئے پسند کرچکے ہيں۔ وہ دو بار ابارشن کروا چکی ہے۔ اور ظاہر ہے شادی تو اس نے ابھی تک کی نہيں" اس کے اس طرح کھلم کھلا سب حقيقتيں بتانے پر صغراء بيگم نظريں چرا گئيں۔
"معذرت کے ساتھ۔ ہم چوہدريوں کا مسئلہ يہ ہے کہ باہر منہ مارنے کے لئے ہميں ہر طرح کی عورت پسند ہے۔ ليکن گھر کے اندر اور اپنی نسل بڑھانے کے لئے ہميں صرف پيور عورت چاہئیے۔ مجھے بھی کچھ ايسا ہی مرض لاحق ہے" وہ دھيمے لہجے ميں ايک سے بڑھ کر ايک وار کررہا تھا۔
"جو لڑکی مجھے پسند ہے۔ افسوس اسکا کوئ خاص حسب نسب نہيں۔ ماں باپ مر چکے ہين۔ کسی رشتے دار کے ہاں پلی بڑھی۔ اور پھر ايک خاص عمر ميں ہاسٹلز ميں رہنا شروع ہوگئ۔ اب اپنا کماتی کھاتی ہے۔ اور بدقسمتی سے آپکے بيٹے کو گھاس نہيں ڈالتی۔ مگر آپ کا بيٹا صرف اسی کی چاہ رکھتا ہے" وہ صاف گوئ سے سب بتاتا چلا گيا۔
"يہ لڑکا مجھے پاگل کردے گا" وہ غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر چکرکمرے ميں چکر لگانے لگے۔
"آپ ٹينشن نہ ليں۔ صبح تفصيل سے بات ہوگی۔ ميرا خيال ہے اتنا ہی شاک کافی ہے آپکے لئے" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ ماں کے ماتھے پر بوسہ دے کر بولا۔
"آپ لوگ بھی ريسٹ کريں۔ ميں بھی تھک گيا ہوں" ان پر ايک نظر ڈال کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
"ديکھ رہی ہو اس بے لگام کو" وہ قہر برساتی نظروں سے اسے اندر جاتے ديکھ رہے تھے۔
"قصور اس کا نہيں۔ وہ سچ کہتا ہے جو ديکھا ہے ويسا ہی کررہا ہے" وہ سادے لہجے ميں بھی بہت گہرا وار کر گئيں۔
"چلئے صبح بات کريں گے" ان سے پہلے وہ سامنے موجود کمرے کی جانب مڑگئيں۔
_______________________
"ارے واہ بھئ ميرے پيچھے سے تو يہاں کا ماحول ہی بدل گيا" وہ تينوں اس وقت کيفے ميں بيٹھيں تھين۔
دو دن سے نشرہ بھی يونيورسٹی آرہی تھی۔ وريد سے وہ ابھی تک صرف غائبانہ متعارف تھی مگر اب اس کو ديکھ کر وہ بھی اسکی تعريف کئے بنا نہ رہ سکی۔
"کيوں تم نے ايسا کيا ديکھ ليا" زرناب اس وقت بک پر جھکی کچھ مارک کررہی تھی۔
"ارے يار سر وريد کيا کسی ہالی ووڈ ہيرو سے کم ہيں" نشرہ کی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔
"ہاں نا يہ تو ہے ہی آدم بيزار" ذروہ نے بھی اسکی ہاں مين ہاں ملائ۔
"اگر سر وريد نامہ بند ہوگيا ہے تو کام کرليں" وہ کتاب ٹيبل ميں رکھتی ان دونوں سے بولی۔
"ويسے مين نے سنا ہے سر وريد نے تمہارا ٹيسٹ پہلے کينسل کرديا تھا پھر تمہيں آفس بلا کر ٹيسٹ کروا ديا" نشرہ کی بات پر اس نے ايک لمحہ کے لئے اسکی جانب ديکھا۔
"ہاں نا۔۔ جب احتشام نے کنفيس کرليا کے چيٹنگ وہ کررہا تھا تو اسے وارننگ دينے کے بعد سر نے مجھے پوچھا ٹيسٹ کے باقی سوال آتے ہين۔ ميں نے کہا آتے ہيں۔ تو سر نے دے ديا يہ کہہ کر کہ آئندہ يہ حرکت نہ ہو" آخری بات کا اضافہ اس نے اپنی جانب سے کيا۔ وريد کا اپنی جانب جھکاؤ وہ اچھے سے محسوس کرچکی تھی۔
اسکی بات پر نشرہ نے محض سر ہلايا۔
آخری پيريڈ کے بعد زرناب نے اسے روکا۔
"کيا ہوا۔ مارج آچکا ہے۔ جلدی نہ پہنچی تو غصہ کرے گا۔ ویسے بھی وہ مکمل طور پر شوہر بن چکا ہے" وہ منہ بنا کر بولی۔
"اچھا ہے نا تمہيں ٹھيک کرکے رکھ دين گے بھائ" وہ اسکی حالت پر مسکرائ۔
"ہاں ہاں تم ہنس لو۔۔۔ جلدی بولو۔۔ بلکہ ايسا کرو ساتھ ہی چلو۔ شام ميں مارج تمہيں ہاسٹل ڈراپ کردے گا" وہ اسکی سنے بنا اپنا ہی پروگرام بنانے لگی۔
"نہيں نشرہ ايسے برا لگتا ہے روز روز جانا۔ تمہاری اور بھائ کی پرائيويسی ڈسٹرب ہوتی ہے" وہ اسے سہولت سے منع کرنے لگی۔
"ہا۔۔۔۔ پرائيويسی۔۔۔ ہم ميں کوئ پرائيويسی نہيں" وہ برا سا منہ بنا گئ۔
"چلو نا" وہ اسے اپنے ساتھ گھسيٹنے لگی۔
"کيسی ہو؟"وہ جو پجيرو سے ٹيک لگاۓ کھڑا تھا۔ ان دونوں کو ساتھ آتے ديکھ چکا تھا۔
زرناب کے قريب آکر سلام کرتے اسکی خيريت پوچھی۔
"ٹھيک ہوں آپ کيسے ہيں؟" مسکراتے لہجے ميں پوچھا۔
پچھلی سيٹ کا دروازہ کھولنے لگی جب نشرہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اگلی سيٹ کی جانب دھکيلا۔
"تم آگے بيٹھ جاؤ" سرگوشی مين کہتے ہی وہ پچھلی سيٹ سنبھال چکی تھی۔
زرناب نے خفت سے مارج کو ديکھا۔ جو کندھے اچکا کر رہ گيا۔
زرناب دانت پيستی اگلی سيٹ پر مارج کے ہمراہ بيٹھی۔
انہيں فليٹ پر اتارتے ہی مارج اپنے کسی کام سے جا چکا تھا۔
"کيا حرکت تھی يہ؟" زرناب نے اسے آڑے ہاتھوں ليا۔
"کيا؟" وہ جان بوجھ کر انجان بنتی چادر اتار کر کچن کی جانب بڑھی۔
"يہی مجھے اگلی سيٹ پر بٹھانے والی۔ وہ تمہاری جگہ ہے نشرہ" وہ اس کسی ناصح کی طرح سمجھا رہی تھی۔
نشرہ نے فريج سے جوس نکال کر گلاس ميں ڈالتے اسکے سامنے رکھا۔
"وہ ميری جگہ نہيں ہے۔ زبردستی مجھے اس پر بٹھايا گيا ہے۔ " اسکے لہجے مين يکدم سنجيدگی اتری۔
"کبھی کبھی کچھ لوگوں کی زندگيوں ميں داخل ہونے کے لئے زبردستی کرنی پڑتی ہے۔ اپنا مقام خود آگے بڑھ کر بنانا پڑتا ہے" وہ دونوں لاؤنج ميں فلور کشنز پر آمنے سامنے بيٹھی تھيں۔
"تمہارا بھائ بہت واضح انداز ميں بتا چکا ہے کہ ميں اسکی پسند نہيں۔۔۔ اور مجھ جيسی لڑکياں اسکی پسند کبھی بھی نہيں رہيں" وہ ياسيت بھرے لہجے ميں سر جھکا کر بولی۔
زرناب کو اسکی آواز ميں نمی کی آميزش محسوس ہوئ۔
" تو کيا ہوا ۔۔۔ نہيں رہی تو اب ہوجاۓ گی۔ تم کوشش تو کرو" وہ اسکے گود ميں رکھے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر گويا اسے حوصلہ دينے لگی۔
"کيسے کوشش کروں۔۔ وہ موقع ہی نہيں ديتا۔ جب واپس آتا ہے تو بس اپنے کمرے ميں گم ہوجاتا ہے۔ کمرے سے باہر آتا ہے کھانا پينا کيا۔ اور پھر اندر بند۔۔ مجھے تو جھوٹے منہ پوچھتا بھی نہيں۔۔ اور وہ وہ ديکھو۔ ايک ديگچی ميں اپنے لئے بنا کر گيا ہے۔ اور دوسری ميں ميں نے اپنا بنايا ہے۔ اس نے آتے ہی کہہ ديا تھا اپنے سب کام ہم خود کريں گے۔ کوئ کسی کا کام نہيں کرے گا" پلکوں سے نمی صاف کرتے کچن مين موجود چولہوں پر رکھی ديگچيوں کی طرف اشارہ کيا۔
"تو تم بھائ کے بنا کہے انکے کام کرديا کرو۔ کم از کم انہيں محسوس تو ہوگا نا کہ تم انکی جانب راغب ہورہی ہو" اسکی بات پر نشرہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے ديکھا۔
"لڑکی اچھی لگتی ہے اظہار ميں پہل کرتی"
"محبت کرنے ميں پہل کرلی تو اظہار ميں کيا ممانعت ہے اور پھر تم انکی بيوی بھی ہو۔ جائز رشتوں ميں يہ نہيں سوچتے محبت ميں کس نے پہل کرنی ہے۔ سودے بازی تھوڑی ہے۔ کہ کوئ کچھ دے تو ہی ہم نے بھی دينا ہے۔ مياں بيوی کے رشتے کی تو خوبصورتی ہی يہی ہے کبھی ايک اظہار کرے اور کبھی دوسرا" زرناب کی بات پر وہ کھوئ کھوئ نظروں سے اسے ديکھنے لگی۔
"بہت پيارا رشتہ ہے يہ نشرہ۔ اسے يوں اپنے اپنے مفروضوں ميں خراب مت کرو۔ اگر بھائ سے محبت ہوگئ ہے تو ضروری نہيں اسکے سامنے جا کر 'آئ لو يو" بولو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا احساس کرو۔ وہ خود تمہاری جانب متوجہ ہوں گے۔ جن لوگوں نے محروميوں ميں زندگی بسر کی ہوتی ہے نا۔ انہيں رشتوں اور محبتوں کو محسوس کرنے کے لئے کچھ وقت چاہئيے ہوتا ہے۔
مجھے پوری اميد ہے اگر تم سچے دل سے انکی جانب بڑھو گی تو وہ بھی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے۔ وہ اوپر سے ہی روبوٹ ٹائپ بنتے ہيں ورنہ بہت احساس کرنے والے ہيں" وہ کتنی جلدی مارج کو سمجھ گئ تھی۔
"تمہيں نہيں پتہ بہت خونخوار ہے وہ۔۔ اففف ۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا غصہ ہے اور ايسے غصے کی مار بڑی زيادہ ہوتی ہے۔ آگ جيسے غصے کو تو پانی کی بوندوں سے بجھايا جاسکتا ہے برف پر تو پانی بھی اثر نہيں کرتا" وہ جھرجھری لے کر بولی۔
"اب تم کہو کہ وہ ايک دم ہی تمہيں بيوی بنا ليں۔ تمہارے آگے پيچھے پھريں تو ايسا کيسے ہوسکتا ہے۔ احساسات ابھی تمہارے بدلے ہيں۔ انہيں تو محسوس کروانا ہے" وہ ہنس کر بولی۔
"ہائے کيوں ہوگئ مجھے ايسے سخت بندے سے محبت۔۔۔ پتہ نہيں کيوں ايکدم اتنا اچھا لگنے لگ گيا ہے" وہ بے چارگی سے بولی۔
"يہی تو نکاح کی تاثير ہے۔۔" وہ محبت سے اسے ديکھتے ہوۓ بولی۔
"ارے ہاں تم نے کوئ بات بتانی تھی" يکدم اپنے مسئلوں سے الجھتے اسے خيال آيا۔
"ميں جس آفس ميں کام کرتی ہوں۔ وہ سر بہت اچھے ہيں۔ مطلب ميرے باس کے فادر۔ صفورہ خالہ کے داماد کے جاننے والے ہيں۔ انہی کی مدد سے مجھے يہ جاب ملی تھی" وہ تمہيد باندھنے لگی۔ نشرہ توجہ سے اسے سن رہی تھی۔
"وہ کم کم آفس آتے ہيں۔ زيادہ تر سر فخر ہی ہوتے ہيں۔ ليکن کل وہ آفس آئے اور انہوں نے مجھے اپنے آفس بلوايا" وہ تفصيل بتانے لگی۔
"پھر؟" نشرہ متجسس ہوئ۔
"وہ چاہتے ہيں کہ انکے بيٹے سے ميں شادی کرلوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صفورہ خالہ کے داماد فيروز بھائ سے ميرے رشتے کی بات کرنا چاہتے ہيں۔ تو مجھے تو کوئ اعتراض نہيں" اس نے بات ختم کرکے نشرہ کی جانب ديکھا۔
"تو تم نے کيا کہا؟" وہ پرجوش ہوئ۔
"يار ميں کيا کہتی ميں نے کہا جيسے آپ کو مناسب لگے"
"ليکن زرناب تم تو ۔۔ ونی ہو۔۔ ميرا مطلب ہے کہ تمہارا نکاح" وہ ہچکچائ جانتی تھی يہ موضوع اسکے لئے بہت تکليف دہ ہے۔
"ميں ونی ضرور ہوئ تھی مگر ايک تو وہ شخص جب اٹھارہ کا ہوا تو اس ملک ميں نہيں تھا اور ميں اسکے آنے سے پہلے وہاں سے بھاگ چکی تھی۔ لہذا نکاح تو ہوا ہی نہيں" اسکی بات پر نشرہ يکدم چونکی۔
"تمہيں کيسے پتہ کے اسکی واپسی ہوگئ ہے؟" اس نے فورا زرناب کی بات ميں سے ايک بات اچک لی۔
"ارے مجھے کہاں سے پتہ ہوگا۔ ميرا کہنے کا مطلب ہے شايد وہ واپس آيا ہو يا نہيں۔ بہرحال ميں تو نکل آئ" اس نے بڑی مشکل سے بات بنائ۔
وہ ہرگز بھی نشرہ کو يہ نہيں بتانا چاہتی تھی کہ جس سر وريد کی تعريفوں ميں وہ آج دنيا جہان ايک کررہی ہے وہ اصل ميں وہی ہے جس کی وہ ونی ہے۔
"ہاں پھر تو رشتہ ہوسکتا ہے۔ ويسے وہ ہے کيسا؟" نشرہ نے اشتياق سے پوچھا۔
"کون؟" زرناب ابھی اسکے پہلے سوال ميں ہی الجھی ہوئ تھی۔ اچھنبے سے پوچھا۔
"ارے يار تمہارا باس۔ فخر۔۔ ويسے ميرے خيال ميں تمہيں مارج سے بات کرنی چاہئيے۔ تمہارے گھر والے ہم ہيں۔ ميرے خيال سے انہيں ہم ہی سے بات کرنی چاہئے" نشرہ کی بات پر وہ لمحہ بھر کو چپ رہ گئ۔
"عجيب لگے گا ميں بھائ سے ايسی بات کروں۔۔ کيا تم بتا سکتی ہو انہيں؟" اس نے مدد طلب نظروں سے نشرہ کو ديکھا۔
"يار۔۔۔۔۔۔ اچھا چلو ميں بات کرتی ہوں" انکار کرتے کرتے وہ حامی بھر گئ۔
____________________________
دو دن ہوگئے تھے صغراء بيگم اور وجاہت چوہدری کو اسکے ساتھ سر کھپاتے مگر اسکی ناں، ہاں ميں بدل ہی نہيں رہی تھی۔ شام کے پہر وہ تينوں لان کی کرسيوں پر بيٹھے چاۓ پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ اسے سمجھانے کا کام بھی کررہے تھے۔
"آپ لوگ کيوں نہيں سمجھ رہے۔ مجھے وہ لڑکی کسی بھی طرح منظور نہيں" وہ جھنجھلايا ہوا تھا۔
"مگر تمہاری پسند کردہ لڑکی کے ساتھ بھی ميں کسی صورت تمہاری شادی نہيں کروا سکتا ہم کيا منہ دکھائيں گے لوگوں کو۔ کہ گاؤں کے چوہدری کسی غريب اور يتيم کے ساتھ اپنے بيٹے کا بياہ کروا رہے ہيں" وہ سخت کبيدہ نظروں سے اسے ديکھ کر بولے۔
"ايک تو مجھے يہ سمجھ نہيں آتی ۔ زندگی ہماری ہے مگر ہميں پرواہ لوگوں کی کرنی ہے" وہ سر جھٹک کر بولا۔
"بيٹے، ہم اس معاشرے سے کٹ کر تو نہيں نہ رہ سکتے" صغراء بيگم نے اسے سمجھانا چاہا۔
"ميں۔۔" اس سے پہلے کے وہ کوئ جواب ديتا کہ اسکا موبائل بول پڑا۔
"ميں ابھی آتا ہوں" ان دونوں کی جانب دیکھ کر وہ وہاں سے اٹھ گيا۔
"سمجھ نہيں آرہی کون ہے۔ جس نے يوں جادو کرديا ہے اس پر" وجاہت چوہدری مونچھوں کو تاؤ ديتے بگڑے ہوۓ لہجے ميں بولے۔
صغراء بيگم خاموش ہی رہيں۔ انہيں تو کوئ اعتراض نہيں تھا وريد کی پسند کردہ لڑکی سے اسکی شادی کروانے پر۔
____________________________
شام ميں مارج گھر آچکا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے زرناب کی ہدايات پر عمل کرتے۔ اپنے اور مارج کے لئے چاۓ بنائ۔
چاۓ کے دونوں کپ ٹرے ميں رکھ کر سينٹر ٹيبل پر رکھتے۔ ہمت مجتمع کرکے اسکے کمرے کے دروازے پر ناک کيا۔
کچھ ہی دير بعد دروازے ميں مارج نمودار ہوا۔
"جی" نظريں جھکی ہوئ تھين۔
"وہ ميں نے ۔۔۔ تمہارے اور اپنے لئے۔۔ چاۓ بنائ ہے پی لو۔۔ کچھ بات بھی کرنی ہے" توڑ توڑ کر بمشکل جملہ پورا کيا۔
مارج نے کسی قدر حيرت سے اپنے سامنے اورنج اور پنک رنگوں کے امتزاج کا سوٹ پہنے اپنی شريک حيات کو ديکھا۔ وہ اس پر نظر بھی بڑی احتياط سے ڈالتا تھا۔ جانتا تھا کہ اسکے قريب بھڑکتا ہوا شعلہ موجود ہے۔ مگر وہ اس شعلے کو تھامنے کی غلطی نہيں کرنا چاہتا تھا۔ راکھ بننے سے ڈرتا تھا۔
"آپ نے ايسے ہی زحمت کی ميں آہی رہا تھا اپنے لئے چاۓ بنانے" سادہ سے لہجے ميں کہی گئ اسکی بات نشرہ کو اتنی بھی سادہ نہ لگی۔
"بيوی ہوں تمہاری اگر ميرے ہاتھ کی بنی کوئ چيز کھا پی لوگے تو مر نہيں جاؤ گے" سب شرم جھجھک بالآئے طاق رکھ کر وہ اسے کھری کھری سنا گئ۔
"مر تو ويسے ہی رہا ہوں روز۔ آپکے تيور ديکھ کر" نچلا لب دانتوں ميں دبا کر مسکراہٹ روکتا وہ اسے پھر سے زچ کررہا تھا۔
"ديکھو مارج" انگلی اٹھا کر کڑے تيوروں سے اسے ديکھا۔
"ديکھنا نہيں چاہتا" ہاتھ سينے پر باندھ کر چوکھٹ سے ٹيک لگائ۔
"کم بخت کے سٹائل ۔۔ اس قدر جان ليوا ہيں" چور نظروں سے اپنے سامنے آف وائيٹ شلوار قميض پہنے ميں فرصت سے کھڑے مارج کو ديکھ کر دل ہی دل ميں بڑبڑائ۔
"ميں چاہتی ہوں کہ ہم يوں دشمنوں کی بجاۓ۔ دوست بن کے بھی تو رہ سکتے ہيں۔ اب زندگی تو ساتھ گزارنی ہی ہے جيسے تيسے بھی صحيح تو کيا ضروری ہے لڑ جھگڑ کر گزاری جاۓ۔ کہيں تم ڈھل جاؤ کہيں ميں ڈھل جاؤں گی" مارج نے اب کی بار اپنی گہری بولتی سياہ آنکھوں سے اسکی جانب ديکھا۔
جيسے يقين کررہا ہو کہ يہ وہی ہے جو حويلی والون ميں سے سب سے زيادہ اسکے خلاف بولتی تھی۔ اسے حقير جانتی تھی۔
"خير سوچتے ہيں۔ آپکی بنائ چاۓ ٹھنڈی ہوجاۓ گی۔ اور آپ کو کچھ بات بھی کرنی ہے مجھ سے" اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ وہ اپنی جگہ چھوڑتا سامنے موجود صوفے کی جانب بڑھا۔
نشرہ بھی گہرا سانس لے کر اپنا مگ ہاتھ ميں لے کے اسکے سامنے فلور کشن پر بيٹھ گئ۔
مارج نے نوٹس کيا تھا وہ جب سے يہاں آئے ہيں۔ وہ اسکے سامنے زيادہ تر نيچے فلور کشن پر بيٹھتی ہے بجاۓ اسکے ساتھ صوفے پر بيٹھنے کے۔ کيونکہ بدقسمتی سے وہاں ايک ہی صوفہ تھا جس پر زيادہ تر مارج ہی بيٹھتا تھا۔
"مجھے زرناب کے حوالے سے تم سے بات کرنی ہے" وہ سنجیدہ لہجے ميں بولی۔
"کيوں کيا ہوا ہے؟" وہ يکدم بری طرح چونکا۔
"جس آفس ميں وہ جاب کرتی ہے وہاں کے باس چاہتے ہيں کہ وہ انکے بيٹے سے شادی کرے۔ وہ زرناب کا رشتہ لے کر آنا چاہتے ہيں" اسکی بات پر وہ کچھ حيران ہوا۔
"يہاں لے کر آنا چاہتے ہيں؟" اس نے مزيد حيرت کا مظاہرہ کيا۔
"يہاں کيسے لے کر آئيں گے۔ انہيں کيا پتہ ميں اور تم اسکے بھائ اور بھابھی ہيں" وہ تيزی ميں پھر سے اس سے جڑے رشتے کا بڑے آرام سے اظہار کرگئ۔
"ميرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔" مارج کی آنکھوں ميں بکھرتے تبسم سے اندازہ ہوا کہ وہ پھر سے بڑے دھڑلے سے اسکے اور اپنے مابين رشتے کا اظہار کرگئ ہے۔
"ہنسنا بند کرو" اپنی خفت مٹانے کو اس پر رعب جھاڑا۔
"ميں کب ہنسا ہوں؟" اس نے حيرانی سے اسکا الزام سنا۔ اسکے لب نہيں مسکرائے تھے مگر آنکھيں۔۔۔۔
"مجھے ڈی ٹريک کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔۔۔۔ اصل بات پر فوکس کرو" وہ پھر سے اس پر چڑھ دوڑی۔
"صاف چھپتے بھی نہيں
سامنے آتے بھی نہيں
خير وہ کہاں رشتہ لے جانا چاہتے ہيں" اس پر گہرا وار کرکے وہ بات سميٹ کر بولا۔
اسکی بات پر وہ بھی تفصيل سے بتانے لگی۔
"ہممم۔۔۔ زرناب کی کس حد تک مرضی ہے" چائے کے مگ کے کناروں پر ہاتھ پھيرتے اس سے بولا۔
"ميرا خيال ہے اسے کوئ اعتراض نہيں ہے۔ ويسے بھی وہ بہت پريکٹيکل بندی ہے۔ محبت وحبت نہيں ہے اسے" مارج جانتا تھا وہ بے باک ہے اور بغير جھجھکے آرام سے ہر بات کرديتی ہے۔
مگر مارج کو اسکا بے جھجھک انداز کچھ کھلا۔ اس نے صرف مرضی جانی تھی وہ محبت کے مسائل بھی بھيچ ميں لے آئ۔
"ميں تايا سائيں سے بات کرلوں پھر ديکھتے ہيں"
"ايک بات پوچھوں؟" وہ کچھ رازداری سے بولی۔
"جی۔۔ مگر سوال ميری ذات سے متعلق نہ ہو؟" وہ پہلے ہی حد بندی قائم کرگيا۔ مبادا اب اسے سے محبت کے حوالے کوئ بے باک سوال کرليتی۔
"اتنے بھی تم اہم نہيں کہ ہر وقت تمہاری ہی باتيں کرتی رہوں" وہ مزے سے اسے چڑا کر بولی۔
"شکر ہے" مارج نے جان بوجھ کر مگ ٹيبل ہر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر شکر ادا کيا۔
"تم جانتے ہو اس لڑکے کو جس سے زرناب ونی ہوئ تھی؟" نشرہ کی بات پر ايک تکليف دہ سايہ اسکے چہرے پر لہرايا۔
"آپ نے کيا کرنا ہے يہ جان کر؟" وہ اسکے سوال پر سوال کرگيا۔
"کيا انہيں کوئ غرض نہيں کہ زرناب کہاں گئ؟ ديکھو نہ ونی يوں بھاگ جاۓ تو يہ کوئ عام بات نہيں ہے" وہ اس سے اپنی حيرت شئير کرنے لگی۔
"اچھا ہے انہيں غرض نہ ہو۔ کم از کم ہماری بہن تو سکون کی زندگی گزارے گی نا" اسکی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔
___________________
"ہاں کيا پتہ چلا" دوسری جانب سے آنے والی ہيلو کے جواب مين اس نے پوچھا۔
"گاڑی کے مالک کا نام مارج ملک ہے" دوسری جانب سے اسے اطلاع دی گئ۔
"اور کچھ"
"جی وہ ملک اياز کا خاص بندہ ہے۔ اور شايد ملک سرفراز کے بھی خاص بندوں ميں اسکا شمار ہوتا تھا۔
ويسے تو گاؤں ميں رہتا تھا۔ مگر حال ہی ميں اسکی شادی ملک اياز کی بيٹی سے ہوئ ہے اور اب يہاں اپنے اپارٹمنٹ ميں بيوی کے ساتھ رہتا ہے" پوری تفصيل سن کر وريد کو بہت کچھ ياد آيا تھا۔
وہ جو نار احسان کے چکروں ميں زرناب ملک کو بھول چکا تھا۔
ملکوں کا نام سنتے ہی اسے دوبارہ اپنا بدلہ ياد آيا۔
"ٹھيک ہے۔ ايک کام کرو پتہ کرو کہ ايک لڑکی نار احسان اسکی بيوی کی دوست ہے۔ اسکے علاوہ اس کا مارج ملک يا اياز ملک سے کيا رشتہ ہے۔ کيونکہ وہ محض اسکی بيوی کی دوست نہيں لگتی" وہ جو دو بار اسے اکيلے مارج کے ساتھ ديکھ چکا تھا۔
وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ نار احسان محض نشرہ ملک کی دوست نہيں۔
"ٹھيک ہے ميں پتہ کرواتا ہوں۔ اور ايک اور بات" وہ جو فون بند کرنے لگا تھا پھر سے فون کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہاں بولو" دوسری جانب موجود شخص کو مزيد بولنے کی اجازت دی۔
"چوہدری صاحب آپکی ونی لڑکی کے ساتھ صفورہ خالہ کے علاوہ ايک اور ملازمہ بھی ہمہ وقت رہتی تھی۔
وہ اب بھی حويلی ميں کام کرتی ہے۔ اس کا نام شاداں ہے۔ شايد وہ بھی اس لڑکی کے بارے ميں کچھ جانتی ہو" وہ کافی دنوں سے حويلی ميں موجود معلومات اکٹھی کررہا تھا۔
"ٹھيک ہے۔ ميں اس ويک اينڈ پر آرہا ہوں۔ ميں آکر اس سے خود اگلواؤں گا۔" آنکھيں سکيڑ کر غير مرئ نقطے کو ديکھ کر بولا۔
"کچھ تو تمہارا کنيکشن ہے ملکوں سے" اسے يکدم نار احسان کی شخصيت پر اسرار سی لگی۔ اور اس شخصيت کے پيچھے کيا اسرار تھا وہ اب اسے ہر حال ميں جاننا تھا۔
"وہ زرناب تک پہنچ چکا ہے" نشرہ کو يونيورسٹی ڈراپ کرکے وہ سيدھا ملک اياز کے پاس پہنچا تھا۔
انہيں شہر کے قريب کے ايک قصبے ميں بلايا تھا جہاں ان کا فارم ہاؤس تھا۔
"وہ نار احسان تک پہنچا ہے زرناب تک نہين" وہ اسکی تصحيح کرتے ہوۓ بولے۔
"اور آجکل وہ زرناب کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ ميری گاڑی کا نمبر بھی پتہ کروا چکا ہے" وہ نہ صرف زرناب سے باخبر تھا بلکہ اسکے دشمن سے بھی اتنا ہی باخبر تھا۔
"تو پہنچنے دو۔ وہ کچھ نہيں کرسکتا" انہوں نے اسکے اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کی۔
"وہ بہت گھٹيا شخص ہے اگر اسے معلوم ہوگيا تو کہيں وہ اسے نقصان نہ پہنچائے" اسکے چہرے سے پريشانی واضح ٹپک رہی تھی۔
"زرناب کا ہاسٹل ميں رہنا ٹھيک نہيں ہے۔ " وہ اپنے خدشات بيان کررہا تھا۔
"وہ جتنا بھی گھٹيا ہو وہ نار احسان کو نقصان نہيں پہنچاۓ گا" سگار کا کش ليتے وہ اطمينان سے بولے۔
کيسے ہوسکتا تھا کہ کل کا بچہ (مارج) تو اپنی بہن سے باخبر ہو اور وہ اپنی بيٹی سے باخبر نہ رہيں۔
ہميشہ ملک سرفراز سے بڑھ کر اسے چاہا تھا۔ وہ انہوں اپنی پرسکون اور تنگ نہ کرنے والی طبيعت ہے باعث ويسے ہی بہت پياری تھی۔ اسکے ونی ہونے پر وہ بہت روۓ تھے۔
مگر اس وقت وہ اتنے بے بس تھے کہ ايسی رسم کے خلاف نہيں بول سکتے تھے۔
انکی اپنی بيوی ونی ہوکر آئيں تھيں۔ وہ الگ بات تھی کہ انہوں نے انہيں بيوی کا درجہ ديا تھا۔ باقاعدہ نکاح کيا تھا۔ ليکن جب وہ ونی لے کر آئے تھے تو کيسے ونی کی رسم کو تب روک پاتے۔
"آپ کيا کہنا چاہ رہے ہيں" وہ سمجھ کر بھی انکی بات سمجھنا نہيں چاہتا تھا۔ دل کہہ رہا تھا يہ جھوٹ ہو جو وہ سوچ رہے ہيں۔
"وہ اپنے ماں باپ کے سامنے زرناب عرف نار احسان سے شادی کا کہہ چکا ہے۔ نہ صرف کہہ چکا ہے بلکہ لڑ رہا ہے" وہ مسکراتے ہوۓ اسے ديکھنے لگے۔
"مجھے وريد کی ايک عادت بہت پسند ہے۔۔۔۔ وہ جتنا بھی برا صحيح۔۔ شرابی۔۔۔ اور عورتوں کے پيچھے والا صحيح مگر جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو پوری جی جان سے کرتا ہے۔ چاہے پھر وہ اسکی ماں ہی کيوں نہ ہو يا نار احسان" وہ ششدر انکی باتيں سن رہا تھا۔
"آپ يہ سب کيسے جانتے ہيں؟" اس نے تو اپنے کچھ خاص بندے اسکے پيچھے لگا رکھے تھے۔ مگر تايا سائيں اس سے بھی زيادہ باخبر کيسے تھے۔
"وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔ اسے ابھی اس عشق کی آگ ميں جلنے دو۔ يہ ميرا دعوی ہے کہ وہ نار احسان کو کبھی کوئ نقصان نہيں پہنچاۓ گا۔ اور جہاں مجھے ذرا سا بھی شک گزرا۔۔۔ تم سے پہلے ميری بندوق کی گولی سے وہ مرے گا" انکے لہجے ميں يک لخت چٹانوں کی سی سختی در آئ۔
"اور جب وہ زرناب کے بارے ميں جان لے گا۔۔ آپ کيوں چاہتے ہيں کہ وہ زرناب تک پہنچ جائے" اسکا بس نہيں چل رہا تھا کہ زرناب کو وريد کی نظروں سے کہيں چھپا لے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ انسان نہيں درندہ تھا جس نے دس سال کی عمر ميں اسے مارنے سے دريغ نہين کيا تھا ۔۔۔۔ اب توانا مرد بن کر وہ کيسے اسے نقصان نہ پہنچاتا۔
مگر ملک اياز نجانے يہ بات کيوں نہيں سمجھ رہے تھے۔
"کيونکہ يہ زرناب کی خواہش ہے۔۔ کہ وہ اپنی پوری کوشش کرے اور پھر اس تک پہنچے۔۔ اس ميں اسکی کيا مصلحت ہے ميں بھی تمہاری طرح انجان ہوں۔ ميری بيٹی نے آج تک مجھ سے کچھ نہيں مانگا مگر يہ خواہش اس نے بڑی چاہ سے کی ہے" ان کی بات پر وہ حق دق انکا چہرہ ديکھ رہا تھا۔
يعنی زرناب نے اس سب کے بارے ميں براہ راست ملک اياز سے بات کی تھی۔
"زرناب نے جيسے ہی اسے پہچانا تھا اس نے مجھے فون کرکے سب بتا ديا تھا" وہ اب ايک راز سے پردہ ہٹا رہے تھے مگر ابھی بہت سے راز جاننے باقی تھے۔
وہ جانتا تھا کہ جب ملک اياز کی مرضی ہوگی تبھی وہ بتائيں گے۔ لہذا انہيں کريدنا بے وقوفی ہے۔ اسی لئے وہ چپ چاپ ان سے اجازت لے کر چلا گيا۔
___________________________
وہ کچھ دير پہلے ہی کلاس لے کر اپنے آفس آيا تھا جب کچھ دير بعد وہ بھی اسکے پيچھے اسکے آفس ميں موجود تھی۔
اس رات کے فنکشن کے بعد آج وہ دونوں آمنے سامنے ہوۓ تھے۔ وريد تو اس دن کے بعد سے اسکے چہرے کے سحر سے باہر نہ آسکا تھا۔
"مے آئ کم ان سر" دروازہ ناک کرکے وہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔
اسکی مترنم آواز وريد کے دل پر پھوار کی صورت برسی تھی۔
"يس پليز" اندرآنے کی اجازت ملتے ہی وہ اسکی ٹيبل کے سامنے آکر کھڑی ہوئ۔
انداز کچھ لڑنے کا سا تھا۔
"کيا ميں پوچھ سکتی ہوں اس دن احتشام کو آپ نے کيا کہا تھا؟" وريد نے کچھ ناسمجنے والے انداز ميں اسکی خوبصورت آنکھوں کی جانب ديکھا جو نقاب سے نظر آتيں اسکے دل کو روز ايک نئے ہی انداز سے گھائل کرتی تھيں۔
"کس دن؟" وہ تو اسے روبرو ديکھ کر ہر چيز فراموش کرجاتا تھا۔ پھر احتشام کيونکر ياد رہتا۔
"جس دن ٹيسٹ کے دوران آپ نے اسے چيٹنگ کرتے پکڑا تھا اور آفس بلوايا تھا" وہ زور دے کر بولی۔
"کچھ بھی نہيں بس يہی کہا تھا کہ آئندہ ايسا نہ ہو" اسے بس اتنا ہی ياد رہا تھا۔
"نہيں سر۔۔ آپ نے صرف يہ نہيں کہا تھا۔ آپ نے اسے مجھ سے دور رہنے کا کہا تھا۔ کيا ميں پوچھ سکتی ہون کہ کيوں۔۔ اور کس حوالے سے آپ نے اسے يہ وارننگ دی" اسکی آواز اونچی نہيں تھی۔ مگر سخت لہجہ اسکے شديد غصے کا پتہ دے رہا تھا۔
"وہ اچھا انسان نہيں ہے۔۔ کچھ خاص اچھی کمپنی نہيں ہے اسکی اسی لئے وارن کيا تھا" وہ کرسی کے ساتھ ٹيک لگا کر فرصت سے اسے ديکھ رہا تھا۔
"تو پھر يہ بات آپ کو اسے سب لڑکيوں کے حوالے سے کہنی چاہئيۓ تھی۔۔۔ آپ نے ميرا نام لے کر مجھے اسکينڈلائز کر ديا ہے" يکدم وريد کو اسکی آنکھوں ميں نمی دکھائ دی۔
اسکے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے۔
"کہاں ہے وہ؟" مٹھياں بھينچے وہ غصے سے کھڑا ہوا۔
"پليز بہت مہربانی آپ کی مزيد ميرے لئے کچھ اچھا مت کيجئے گا۔ ميں صرف يہ کہنے آئ ہوں کہ مجھے کسی کے ساتھ بھی يوں آئندہ مت گھسيٹئيے گا۔ جيسے وہ کلاس کی سب لڑکيوں سے بات کرتا ہے ويسے ہی اس نے مجھ سے بھی کرلی۔ آپ کا يہ سب کہنا بنتا نہيں تھا۔" وہ آنسو پيتی اسے بہت کچھ سمجھا گئ۔
"اور اگر مين ايسا نہ کروں؟" اسے مڑتے ديکھ کر وہ سوال اٹھا گيا۔
"ميرے اور اپنے درميان اس استاد اور شاگرد کے رشتے کے تقدس کا تو خيال کرليں" وہ تلخی سے بولی۔
"کہاں لکھا ہے کہ ايک استاد اپنی شاگرد سے شادی نہيں کرسکتا" اسکی بات پر وہ جو اسکی جانب ذرا سا رخ کئے بول رہی تھی پوری کی پوری اسکی جانب مڑی۔
"آئ وانٹ ٹو ميری يو؟" بغير کوئ دوسری بات کئے وہ اسکے سر پر بم پھوڑ چکا تھا۔
"ہاؤ ڈئير يو" وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے ديکھ رہی تھی۔
"واٹ ڈو يو مين بائ دس۔۔۔۔ کسی سے شادی کا اظہار کرنے ميں کيا برائ ہے۔۔۔ يا گناہ ہے؟" اسکا انداز وريد کو ناگوار گزرا۔
"ايکسکيوزمی سر۔۔۔ آپکے دوست سر فخر کا رشتہ ميرے لئے آچکا ہے۔ اور بہت جلد مين اسکے لئے ہاں بھی کرنے والی ہوں" وہ بڑے اطمينان سے اب اسکے سر پر بمباری کر رہی تھی۔
"آپ ايسا کچھ نہيں کريں گی" وہ جبڑے بھينچ کر بمشکل خود پر ضبط کرتا بولا۔
"اور ميں ايسا کيون نہيں کروں گی" اسکی آنکھيں اسے خود کا مذاق اڑاتی لگيں۔
"اسی لئے کہ وہ آپکے ساتھ سنسئير نہيں ہے۔ وہ مجھے بتا چکا ہے۔ وہ کہيں سے بھی آپ کو سوٹ نہيں کرتا" وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
"احتشام برا لڑکا ہے۔ سر فخر برے ہيں۔۔۔ نہ وہ مجھے سوٹ کرتے ہيں نا يہ۔۔۔ تو کيا آپ اتنے ہی اچھے انسان ہيں کہ آپ مجھے سوٹ کرتے ہيں؟" نقاب سے جھانکتی آنکھيں اسکا امتحان لے رہی تھيں۔
"جی۔۔۔ کيونکہ وہ دونوں آپ سے محبت کے دعوے دار نہيں اور ان ميں اور مجھ ميں يہی سب بڑا فرق ہے کہ ميں آپ سے محبت کرتا ہوں" چند قدم اٹھا کر وہ اسکے مقابل آيا۔ دونوں بازو سينے پر باندھے۔
"کتنے دن کے لئے؟" وہ بھی زرناب تھی۔ اسے پوری طرح جانتی تھی۔
"ميری اب تک کی جو بھی زندگی تھی ميں اسے چھوڑنے کو تيار ہوں" بڑے مزے سے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کيا۔
"آپ مجھے اس وقت ايسے شخص کی طرح لگ رہے ہيں جو کسی مسلمان عورت سے شادی کرنے کے لئے خود کو مسلمانوں کے روپ ميں ڈھال ليتا ہے۔ اور جب وہ مل جاۓ تو واپس اپنا چولا پہن ليتا ہے۔۔۔ خود پر جبر مت کريں۔۔ ميں آپ کے قابل نہيں۔۔ آپ اپنے جيسی لڑکی ڈيزرو کرتے ہيں" استہزائيہ انداز ميں اسے آئينہ دکھا کر مڑنے لگی۔
جب اس کا بازو وريد کی گرفت ميں آگيا۔
غصے سے بازو چھڑوايا۔
"آئم سوری" وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا۔
"يو شوڈ بی" وہ دانت پيس کر بولی۔
"پليز ميری بات تحمل سے سن لو۔۔۔ پليز نار" وہ ملتجی انداز ميں بولا۔
کيا يہ وہی وريد تھا جو بچپن ميں اسکے وجود کو اتنا مارتا تھا کہ وہ ادھ موئ ہوجاتی تھی۔ اور آج وہ اسکے آگے گڑگڑا رہا تھا۔ کيا خوب انصاف کيا تھا اللہ نے۔ وہ يہی ديکھنا چاہتی تھی۔ اسی لئے اس نے ملک اياز سے کہا تھا کہ اسکی اصليت اسکے سامنے آئے۔ اور پھر وہ ديکھے کہ جس نار احسان سے وہ محبت کا دعوے دار ہے زرناب کو ديکھتے ہی کيا کرے گا۔
ابھی اسکی ايک خواہش پوری ہوئ تھی۔ وريد چوہدری کو اپنے سامنے گڑگڑاتے ديکھنے کی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے محبت کر بيٹھا ہے۔ وہ اسی لئے فخر والے رشتے کے لئے حامی بھر رہی تھی۔ کہ ساری زندگی وہ اسے تڑپاۓ۔۔۔ جب جب وہ فخر سے ملے۔۔ اسکی بيوی کی حيثيت سے نار احسان کو ديکھ کر شعلوں کی زد ميں آئے۔
"آپ ميرے بارے ميں جانتے ہی کيا ہيں۔ جو اتنا بڑا دعوی کر رہے ہيں" وہ اسکی حالت پر محظوظ ہوئ۔
"سب کچھ جانتا ہوں تمہارے بارے ميں اور مجھے تمہارے بيک گراؤںڈ سے کوئ مسئلہ نہيں۔۔ تمہارا ميری طرح اونچا خاندان نہيں ہے مجھے اس سے بھی کوئ فرق نہيں پڑتا مجھے صرف تم چاہئيے ہو" وہ کسی بھی صورت اسے منا لينا چاہتا تھا۔
اپنے احساسات اس تک پہنچا دينا چاہتا تھا کہ وہ بھی اس آنچ کو محسوس کرے۔
"پليز سر۔۔۔ اپنے مقام سے اتنے نيچے مت آئيں۔ يہ آپ کو سوٹ نہيں کرتا مجھ سے دور رہيں تو بہتر ہے ورنہ کہيں پچھتانا نہ پڑے" اسکی راز سموئے گہری سوگوار نظريں وريد کو منجمد کرگئيں۔
اسکی مزيد کچھ بھی سنے بنا وہ اسکے آفس سے جا چکی تھی۔
_________________________________
اسکے آفس سے باہر نکل کر وہ روتے ہوۓ سيڑھياں اتر کر يونيورسٹی کے قدرے خاموش اور کم رش والے حصے کی جانب آئ۔
وہ اس وقت کسی کا سامنا نہيں کرسکتی تھی۔ اور اس طرح روتے ہوۓ تو کبھی بھی نہيں۔
اسے لگا تھا اسکے ايک ايک زخم پر وريد کے لفظوں نے پھاۓ رکھے ہوں۔ اسکا ہر گڑگڑاتا لفظ۔۔۔
اسکے لئے ترستا ہر احساس۔۔
اسکے زخموں کو سی گيا تھا۔
کيا عجيب تھا زخم دينے والا ہی مسيحا بنا تھا۔
نقاب گراۓ وہ چہرہ ہاتھوں ميں دئيے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اس نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ وہ شخص ايک بار اسکی زندگی ميں اسکے سامنے آئے اور وہ اس سے بدلہ لے سکے۔
اور اس سے بہترين بدلہ کيا تھا کہ وہ جو اسے اپنی نفرت کا نشانہ بناتا رہا تھا۔
آج اس کی محبت کے لئے کاسہ پھيلاۓ بھيک مانگ رہا تھا۔
کيا خوب انصاف کيا تھا اللہ نے۔
مگر نہيں ابھی وہ صرف نار احسان کے سامنے گڑگڑايا تھا۔
يہ سوچ آتے ہی وہ روتے روتے خاموش ہوئ۔ اپنے آنسو سختی سے گالوں سے رگڑے
"اب تمہيں زرناب کے آگے بھی يوں ہی گڑگڑانا ہوگا۔۔ ابھی ميرا بدلہ پورا نہيں ہوا وريد چوہدری۔
تکليف اور اذيت تم نے زرناب کو دی تھی۔۔ تو معافی بھی اسی سے ملے گی۔ محبت اور دھتکارنے کا حق بھی زرناب کو ہے نار احسان کو نہيں۔۔ يہ ۔۔۔ يہ نار تو کٹھ پتلی ہے۔ اصل کردار کے سامنے تمہيں آنا ہوگا۔" آنسو صاف کرتے وہ سفاکی سے سوچ رہی تھی۔ وريد چوہدری سے مخاطب تھی۔
"مگر اتنی جلدی نہيں۔۔ ابھی نہيں۔۔ ابھی تم اور تڑپو نار احسان کی محبت ميں۔۔ پھر زرناب کے عشق ميں تڑپتا ہوا تمہيں ديکھوں گی۔ تو کہيں اس دل اور وجود کی اذيتيں کم ہوں گی۔۔۔ تم بے رحم تھے تو ميں بھی اب بے رحم ہوں۔
تمہی سے يہ گر سيکھا ہے" وہ سامنے ديکھتے مسلسل اسکے ہيولے سے مخاطب تھی۔
اور پھر کبھی کبھی کسی سے ملنے والے دکھ اس قدر جان ليوا ہوجاتے ہيں کہ انسان پتھر بن جاتا ہے۔ شايد زرناب بھی پتھر بن چکی تھی۔ جس پر وريد کی محبت شايد کبھی اثرانداز نہيں ہونے والی تھی۔ اور يہی شايد وريد کی سزا تھی۔
_________________________
رات ہی وہ وريد کے بارے ميں آگاہ ہوا تھا۔ اپنی پريشانی ميں صبح اپنا کھانا بنانا ياد نہ رہا۔
ملک اياز سے ملنے کے بعد نشرہ کو يونيورسٹی سے پک اور پھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ واپس اپنے آفس جا چکا تھا۔
کوئ نہيں جانتا تھا کہ ملک اياز نے بہت پہلے مارج کو ملک سرفراز کے حصے ميں سے کچھ جائيداد دے دی تھی۔
جسے بيچ کر وہ شہر ميں اپنا کاروبار شروع کرچکا تھا۔ اب وہ ملک اياز کا محتاج نہيں تھا۔
مگر وہ پھر بھی انکے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ کچھ دن وہ شہر ميں اس اپارٹمنٹ ميں بہت عرصے سے رہ رہا تھا۔
اور کچھ دن وہ ملک اياز کے پاس انکی حويلی رہتا تھا۔ اپنے بيٹوں سے زيادہ اپنے معاملات کے لئے وہ اس پر انحصار کرتے تھے۔ وہ بھی انہيں باپ کا سا مان ديتا تھا۔
رات ميں جس وقت وہ اپنے اپارٹمنٹ واپس آيا۔ نشرہ اسکے اور اپنے لئے کھانا بنانے ميں مگن تھی۔
کچن کے قريب آکر اسے سلام کيا۔
"تم چينج کرلو۔ کھانا ريڈی ہے" وہ مصروف سے انداز ميں بولی۔
مارج نے چونک کر اسے ديکھا۔
"آپ نے کيوں بنايا ميرے لئے؟" اسکی بات پر نشرہ نے غصے سے ديگچی کا ڈھکن واپس رکھا۔ مڑ کر کڑے تيور لئے اسکے قريب آئ۔
"اگر ميں چيزوں کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تو تمہيں کيا مصيبت ہے" دونوں ہاتھ کمر کے دائيں بائيں رکھے وہ اس سے پوچھ گچھ کررہی تھی۔
"مجھے اتنی عنايتوں کی عادت نہيں بی بی" وہ صبح سے ڈسٹربڈ تھا اس لمحے اسے تنگ يا زچ نہيں کرنا چاہ رہا تھا۔ سادے سے لہجے ميں اپنا مسئلہ بيان کيا۔
"مجھے بھی يہ سب کرنے کی عادت نہيں تھی مگر کر رہی ہوں۔۔۔ اس دن بھی کہا تھا کچھ تم ڈھلو کچھ ميں ڈھل جاؤں گی۔ زندگی آسان ہوجاۓ گی۔ ميں اتنی بری نہيں مارج۔۔جتنا تم مجھے سمجھتے ہو" اپنی صفائ ديتے آنکھيں نم ہوئيں۔ جنہيں اس بے حس سے چھپانے کے لئے وہ نظريں جھکا گئ۔
"يہی پوچھ رہا ہوں آپ کيوں ڈھل رہی ہيں۔ مين آپکا معيار نہيں ہوں بی بی۔ نہ کبھی ہو سکتا ہوں۔ ميں اس حقيقت سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ آپ خود کو يوں ہلکان مت کريں۔ اپنی پڑھائ کريں۔ پھر جس سے چاہيں گی۔ ميں خود آپکی شادی کرواؤں گا۔ اس وقت صرف اسی لئے چپ ہوں کہ آپ اپنی پڑھائ مکمل کرليں۔ اور ملک سائيں کو بھی ابھی ميں کسی اذيت سے گزرانا نہيں چاہتا۔
کچھ عرصے بعد آپ کو چھوڑنے اور آپکی شادی کہيں اور کروانے کے لئے ميں انہيں قائل کر لوں گا" وہ حيرت سے منہ کھولے اسکے نادر خيالات سن رہی تھی۔
"تم۔۔۔۔" غصے سے اسکے بازو پر ہاتھ مار کر اسے خاموش کروايا۔
"تم اس قابل نہيں کہ تمہارے لئے انسان کچھ سوچۓ۔۔ تم کيا سمجھتے ہو۔ اگر مجھے کسی اور سے شادی کرنی ہوگی تو تمہارے لئے يوں خوار ہوں گی" وہ چيخی۔
"ميں نے اسی لئے آج آپ کو سب بات کلئير کردی ہے۔ اگر آپ يہ سمجھتی ہيں کہ ملک سائيں کی وجہ سے آپ مجبور ہيں۔ تو ميں مجبور نہيں ہوں۔ ميں آپ کی ہر طرح کی مدد کے لئے تيارہوں" وہ بے چارگی سے بولا۔
کيسے سمجھاۓ اسے کہ وہ اپنی اوقات جانتا ہے۔ اور اس سے باہر نکلنے کا وہ سوچ بھی نہيں سکتا۔ وہ کيسے اسے
بيوی بنالے جس نے اپنے لفظوں سے ہميشہ اسے گھائل کيا ہے۔
ابھی شايد وہ اس تنہائ اور اس رشتے کے زير اثر اسے وہ مقام دے دے۔ مگر کيا گارنٹی ہے جب اس نام نہاد محبت کا خمار اترے تو وہ واپس اسے زمين پر لا پٹخے۔
"تم جيسے مرد نا۔۔ مرد کہلانے کے لائق نہيں۔۔ جو اپنی عورتوں کو دوسروں کو دينے کے لئے تيار بيٹھے ہوں" وہ غصے ميں اسکی غيرت کو نشانہ بنا گئ۔
"بی بی" مارج دھاڑا۔
"تمہيں نظر نہيں آرہا ميں يہ سب کيوں کررہی ہوں۔۔ تم بدلے لينے چاہتے ہونا مجھ سے۔ ميں جو تمہيں ہر لمحہ ذليل کرتی تھی۔ تم اس سب کا بدلہ لے رہے ہونا مجھ سے ۔۔۔ تم جانتے ہو کہ ميں محبت کربيٹھی ہوں تم سے۔۔ تم جان بوجھ کر مجھے اور نيچا کرنے چاہتے ہونا" يکدم وہ شدت گريہ سے رو پڑی۔
"ايسا نہيں ہے بی بی۔۔ آپ سمجھ نہيں رہيں۔۔ آپ جسے محبت کہہ رہی ہيں۔ وہ شايد انسيت ہے جو دو لوگوں کو ايک ساتھ رہتے ہو جاتی ہے۔۔ جب اس محبت کی پٹی آپکی آنکھوں سے اترے گی۔ تب ميں آپ کو وہی مارج نظر آؤں گا۔
آپکے باپ کے ٹکڑوں پر پلنے والا ناجائز مارج" وہ وہی الفاظ دہرا رہا تھا جو وہ کبھی اسکے لئے استعمال کرتی تھی۔
"محبت کی پٹی۔۔۔ مقصد کيا ہے تمہاری اس بکواس کا"آنسو پونچھے وہ اسکا اور بھی امتحان لے رہی تھی۔
وہ اسے کيسے بتاتا نکاح نے اسکے دل پر بھی اثر کيا ہے۔ مگر وہ اس اثر کے زير اثر زيادہ دير رہ کر اسے حاصل نہيں کرنا چاہتا تھا۔ اپنی حد و قيود سے نکلنا نہيں چاہتا تھا۔ اور وہ تھی کہ امتحان بنی اسکے نزديک سے نزديک تر ہوتی جارہی تھی۔
کہيں دل کی دھڑکنوں ميں وہ بسنے لگی تھی۔ مگر وہ دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کروا رہا تھا۔
"تم سمجھتے ہو تم کوئ بہت خوبصورت انسان ہو کہ تمہاری خوبصورتی سے متاثر ہو کر ميں تمہارے عشق ميں پاگل ہوچکی ہے" نشرہ اپنی محبت کی يہ توہين برداشت نہ کرپائ۔
"ہاں ميں مانتی ہوں کہ ميری جانب سے تمہيں سب سے زيادہ تکليف پہنچی۔ مجھے حقيقت کا علم نہيں تھا۔ اسی لئے پھوپھو سائيں اور دادی اور اردگرد کے لوگوں سے جو سنا اسے سچ سمجھ بيٹھی ليکن۔۔۔ جب حقيقت کھلی تو جانا کہ انسان کو اسکے انسان ہونے پر برتنا چاہئے۔ اسکے خاندان اور حسب نسب پر نہيں۔ ميں بھی ان سطحی لوگوں ميں سے تھی جن کے لئے خاندان،، اسٹيٹس يہی سب اول درجہ رکھتے ہيں۔
مگر اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ يہ سب تو کہيں بعد ميں آتا ہے۔ تم بحيثيت انسان بے حد اچھے ہو۔ اور تمہاری اس اچھائ نے مجھے تمہاری جانب راغب کيا ہے ۔
تم نے ايک بار بھی مجھے صائم کے حوالے سے کوئ طعنہ نہيں ديا۔ کسی مرد کے لئے يہ بات ہی عزت بے عزتی سے کم نہيں ہوتی کہ وہ ايسی عورت سے شادی کرے جو کسی اور کے نام سے کبھی بدنام ہوئ ہو۔
مگر تم نے يہ سب برداشت کيا۔
تمہاری اسی بات نے مجھے تمہارا گرويدہ بنايا۔ حالانکہ صائم سے مجھے کو عشق اور محبت نہيں ہوئ تھی۔ وہ تو صرف اس بزدل کی باتوں کی سچائ کو جانچنے کے لئے اسکے گھر جا پہنچی۔ يہ سوچے سمجھے بغير کہ اس حرکت سے ميری ذات پر کيا حرف آچکا ہے۔
مگر تمہيں ميری اتنی بڑی خامی سے کوئ فرق نہيں پڑا۔" مارج خاموش اسے سن رہا تھا۔ اسے يہ يقين کرنے ميں دقت محسوس ہورہی تھی۔ کہ نشرہ بی بی اسکی اچھائياں اسکے سامنے گنوا رہی تھيں۔
"ميں جانتی ہوں تم نے اباسائيں کی محبتوں کا قرض اتارا ہے مجھ سے شادی کرکے۔ مگر مرد قرض اتار کر بھی لوگوں پر احسان جتانا نہيں بھولتے۔ تم کس مٹی سے بنے ہو مارج۔۔ روز مجھے اپنا ايک نيا روپ دکھاتے ہو۔ روز گرويدہ بناتے ہو۔۔ تم جادوگر ہو۔۔ مجھے اپنے بس ميں کرکے مزہ لينا چاہتے ہونا ميری تڑپ کا" غصے سے اسکے چوڑے سينے پر مکے مارے۔ آنکھوں سے جل تھل رواں تھی۔
"بی بی" وہ آگے بڑھ کر اسکے آنسو پونچھنا چاہتا تھا۔ مگر خود کو پھر کيسے معاف کرتا جو نشرہ کو محبت کی اس تکليف سے دوچار نہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ نہيں چاہتا تھا اسے چھوڑنا مارج کے لئے تکليف دہ ہو۔ اس نے زندگی ميں بہت سی تکليفيں ديکھيں تھيں۔ مگر محبت کے اس ناسور سے وہ دور ہی رہنا چاہتا تھا۔
اپنی ماں کو اس تکليف ميں دن رات مرتے ديکھا تھا۔ تبھی سے خود سے عہد کرليا تھا کہ خود کو کبھی محبت کےقريب بھی پھٹکنے نہيں دے گا۔
ان بادشاہون کا کيا ہے۔ کسی کو تکليف ميں مبتلا کرکے يہ چھوڑ جاتے ہيں۔ وہ نہيں چاہتا تھا کہ کل کو جب نشرہ کو اپنی محبت غلطی لگے تو وہ اسے بھی ايسے ہی چھوڑ جاۓ جيسے اسکے ماں کو اسکا باپ چھوڑ گيا تھا۔
"دفع ہوجاؤ تم ۔۔۔ تم اس قابل نہيں کے ميں تمہارے لئے اس انداز سے سوچو" روتےبکھرتے بھی جب اسے اپنی جگہ جمے ديکھا تو منہ موڑ کر سينک کے قريب گئ۔ منہ پر چھينٹے مار کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ مگر محبت کی يہ آگ کب کسی کو پرسکون ہونے ديتی ہے۔
مارج نے آگے بڑھ کر چولہا بند کيا۔
ڈش ميں بريانی نکالی جو وہ اسکے اور اپنے لئے بنا چکی تھی۔
نشرہ نے مڑ کر اسکی جانب نگاہ غلط بھی نہيں ڈالی۔
ڈش لے جا کر ٹيبل پر رکھی۔ پليٹيں اور چمچ وہ پہلے ہی رکھ چکی تھی۔
آہستہ روی سے چلتا اسکی پشت پر جا کھڑا ہوا۔
بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کيا۔
وائيٹ اور بلو رنگوں کے امتزاج کا نيٹ کا سوٹ پہنے سوجی آنکھيں اور بکھرا حليہ لئے وہ اسے گھور رہی تھی۔
"ميں نے کبھی نہيں چاہا تھا آپ مجھ سے ايسا کوئ تعلق جوڑيں۔ ميں نے کبھی ايسی کوشش نہيں کی کہ آپ مجھ سے محبت ميں مبتلا ہوں۔ آہاں۔۔۔۔۔ مجھے کہنے ديں" اسے منہ کھولتا ديکھ کر وہ اسکے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر بولا۔
اس لمس سے وہ جی جان سے کانپ گئ۔ اسکا گلنار چہرہ ديکھ کر مارج نے فورا انگلی ہٹائ۔
اسکے ہونٹوں کا ااپنی انگلی کی پور پر ابھرتا لمس اسکے لئے بھی جان ليوا ہی تھا۔
"ميں اس محبت کے واقعی قابل نہيں۔۔۔ ابھی کچھ وقت گزرنے ديں۔ خود کو پرکھيں۔۔۔ ميں يکدم اس رشتے کو نہيں بڑھا سکتا۔ اتنا مضبوط اعصاب کا مالک نہيں۔ ابھی تو آپکے نام کے ساتھ اپنا نام جڑا ديکھ کر ہی دل اس سب پر يقين کرنے کو تيار نہيں۔۔ آپکی محبت کا بار نہيں سنبھال سکتا۔
ہاں يہ کوشش کرسکتا ہوں کہ آپ اور ميں دوستوں کی طرح رہيں۔۔ مگر ميں ٹہرا پتھر دل۔۔ اسی لئے ابھی اس پتھر کو موم ہوتے وقت لگے گا۔ تب تک صرف اتنی سی درخواست ہے۔ خود پر ظلم نہ کريں۔
آپ بری نہيں ہيں۔ آپ کو ہميشہ محبت اور اعتماد ہی اتنی ملی کہ آپ نے بس اسکا ناجائز فائدہ اٹھا ليا۔ ورنہ آپکی شرافت پر کوئ شک نہيں۔
ميں جانتا ہوں صائم والا معاملے ميں آپ اتنی قصوروار نہيں ہيں۔ اسی لئے ميں نے ہی ملک سائيں کو بتايا جانتا تھا کہ آپ صرف اسکی چکنی چپڑی باتوں ميں آگئيں ہيں۔
ورنہ آپکا معيار دس لڑکيوں کو بھگتايا ہوا شخص نہيں ہوسکتا تھا۔ اسی لئے آپ کو ٹھوکر لگنے سے پہلے بچانے کی ادنی سی کوشش کی اور آپکی نفرت کا رخ اپنی جانب موڑ ليا" دھيمے لہجے ميں بولتا وہ نشرہ کی دل کی دھڑکنيں بڑھا رہا تھا۔
اور پھر آنکھوں کا نرم گرم تاثر۔۔۔ وہ اسکی محبت ميں مبتلا نہ ہوتی تو کیا کرتی۔
تير چلانے کے گر رکھتے ہوۓ بھی وہ معصوم بنتا تھا کہ اس نے اسے محبت ميں مبتلا کرنے کی کوئ کوشش نہيں کی۔
"خير۔۔ ميں کم ظرف مرد نہيں جو آپ کو ايسے گھٹيا طعنے دوں۔۔۔ ميں اپنا مقام اچھے سے جانتا ہوں۔
بس آپ سے درخواست ہے ميرے لئے يوں خود پر ظلم نہ کريں۔۔۔ آپ کو يوں تکليف ميں ديکھ کر يقين جانيں ميں بھی پرسکون نہيں رہ پاتا" اسکے بازو کو تھامے وہ اسے خود سے دور رہنے کے سبق سکھا رہا تھا۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسکی پلکوں کی نمی کو انگليوں کی پوروں پر چنا۔ پھر يکدم ہاتھ کھينچا۔
"اب سب کچھ چھوڑ کر فی الحال کھانا کھائيں۔۔ بريانی لگتا ہے بہت دل سے بنائ ہے آپ نے آئيں کھاتے ہيں۔ پھر چائے مين بناؤں گا" ہولے سے مسکراتے اسکا ہاتھ تھامے ٹيبل تک لايا۔
نشرہ تو اسکے ہاتھ ميں دبے اپنے ہاتھ کو ہی حسرت سے ديکھ رہی تھی۔ ابھی بازو اور آنکھوں پر ابھرتا اسکا لمس کيا کم تھا جو ہاتھ بھی اس نے قيد ميں کرليا تھا۔
کھانے کے دوران وہ ادھر ادھر کی باتيں پوچھتا اسے نارمل کرگيا تھا۔
All of the thoughts we waste
Under the weight of the world
All of the time we spend
with the weight of the world
Don't miss you ways
Don't miss your leaving
Love live my pain
Long live my feelings
Blind and childish
I won't fight it
Here I hide
Underneath my innocence
So Grow,
All of the lies we bent
Under the weight of the world
Caught beaten by the edge
Of the weight of the world
Don't need t

o change
Need to believe in
"ميں گاؤں جا رہا ہوں۔ مارج ملک کے فليٹ کا جائزہ ليتے رہنا۔ کوئ بھی غير معمولی حرکت ہو تم نے مجھے فورا آگاہ کرنا ہے" وہ کپڑے بيگ ميں رکھنے کے ساتھ ساتھ فون پر کسی سے محو گفتگو تھا۔
اپنے باپ کی پسند کردہ لڑکی تو وہ ريجيکٹ کرچکا تھا اور اپنے فيصلے ميں بھی اٹل تھا۔
اسی لئے وجاہت چوہدری کو اسکے آگے گھٹنے ٹيکنے ہی پڑے۔
اس وقت وہ ان دونوں کو واپس چھوڑنے بھی جارہا تھا۔
اور زرناب کا معلوم کرنے کے لئے بھی۔ اپنی ہی حويلی کی ايک اور ملازمہ جو صفورہ خالہ کے ساتھ ہوتی تھی اسکی اس نے نشاندہی کر لی تھی۔
اب وہ اسی سے پوچھ گچھ کے لئے گاؤں جارہا تھا۔
"جی صاحب آپ بے فکر ہوکر جائيں۔ يہاں کوئ بھی غيرمعمولی حرکت ہوگی ۔ ميں فورا آپ کو مطلع کروں گا" سمير نے اسے مطمئن کيا۔
"ٹھيک ہے پھر۔ اللہ حافظ" بيگ کی زپ بند کرتے اس نے فون بھی بند کيا۔
بيگ اٹھاۓ کمرے سے باہر گيا۔
________________________
اسے يونيورسٹی سے لے کر واپس آکر وہ اپنے کمرے ميں بند ہوچکا تھا۔
يہ پہلی بار ہوا تھا۔ ورنہ اسے فليٹ کی بلڈنگ کے آگے اتارتے ہی وہ کسی کام کے لئے نکل جاتا تھا۔
نشرہ نہيں جانتی تھی کہ روز وہ کيا کرنے اور کہاں جاتا ہے۔
نہ اس نے کبھی بتايا تھا۔
کچھ دير بعد ہی وہ کمرے سے برآمد ہوا۔ نشرہ چاۓ بنا کر ٹيبل پر رکھتے اسے بلانے کا سوچ ہی رہی تھی جب وہ باہر آگيا۔
"چائے پی لو" دوستانہ انداز ميں اسے باہر نکلتے ديکھ کر کہا۔
"تھينکس" وہ بھی شکريہ ادا کرتے کپ لئے صوفے پر بيٹھ گيا۔
کچھ دير خاموشی سے سپ ليتا رہا۔
"بی بی آپ يہاں بيٹھ جايا کريں۔۔ مجھے يوں عجيب سا لگتا ہے" وہ جو فلور کشن پر بيٹھی تھی اسکی بات سن کر ہولے سے مسکرائ۔
مارج نے اسکے چہرے پر کھلتی خوبصورت مسکراہٹ سے نظر چرائ۔ مبادا دل کسی گستاخی کے لئے اکساتا۔ وہ تو ابھی دوستی کا ہی رشتہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس سے آگے نہيں۔
"مجھے يہاں زيادہ ريليکس ہو کر بيٹھتی ہوں۔۔ تم آج مجھے چھوڑ کر کہيں گئے نہيں۔۔ ويسے روز کہاں جاتے ہو؟" اسے اپنی مرضی بتا کر آخر آج پوچھ ہی ليا کہ وہ روزانہ اتنے گھنٹوں کے لئے کہاں غائب ہوجاتا ہے۔
"ميں آفس جاتا ہوں" اس نے سادے سے انداز ميں سچ بتايا۔
نشرہ نے بمشکل چاۓ کا گھونٹ حلق ميں اتار کر اسے حيران نظروں سے ديکھا۔
"تم آفس۔۔ کس کے آفس؟" اسکی بات پر اب کے مارج کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔
"اپنے آفس بی بی۔۔۔۔" مزے سے اسے بتايا۔
"کيا کام کرتے ہو۔؟" وہ مزيد کريدنے لگی۔
"گاڑيوں کا شوروم ہے" اسکے جواب پر نشرہ کے ہونٹ واؤ کے انداز ميں ہلے۔
"کب سے؟" اپنے شوہر کے بزنس کا اسے آج پتہ چلا تھا۔
"يہی کوئ چھ سات سال ہوگئے ہيں" نشرہ نے ہولے سے سر ہلايا۔
"اچھا ايک ضروری بات کہنی تھی" اسے يکدم کچھ ياد آيا۔
"گآؤں ميں نہر کی زمينوں پر جھگڑا چل رہا ہے۔ مجھے آج ضروری وہاں جانا ہے۔ رات کو ميں نہيں آسکوں گا۔
تو ايسا ہے کہ ميں زرناب کو آپکے پاس چھوڑ جاتا ہوں۔ کل کی آپ دونوں چھٹی کرليں۔ کل دوپہر تک ان شاء اللہ ميری واپسی ہوجاۓ گی" وہ اپنا پروگرام بتانے لگا۔
"تو ہم دونوں اکيلی کيسے رہيں گی؟" وہ حيرانی سے سوال کرنے لگی۔
"تو پھر آپ اپنا کوئ جوڑا رکھ ليں۔ ميں آپ کو زرناب کے پاس اسکے ہاسٹل چھوڑ آتا ہوں۔۔ ويسے يہاں سب سيف ہے۔ سيکورٹی کا کوئ ايشو نہيں۔ اور ميں نے سی سی ٹی وی کيمرہ بھی لگوايا ہوا ہے۔ کوئ ڈر کی بات نہيں" اس نے نشرہ کی تسلی کروائ۔
"چلو ٹھيک ہے پھر زرناب کو چھوڑ جاؤ۔۔ ايک رات کی تو بات ہے" وہ مطمئن ہوگئ۔
ہاسٹل جانے کا اسکا موڈ نہيں تھا۔
"ٹھيک ہے ميں زرناب کو پک کرکے يہاں چھوڑ جاتا ہوں" چائے کا خالی کپ ٹيبل پر رکھتے اٹھا۔
"اور ميں کانٹيکٹ کرتا رہوں گا۔ آپ پريشان نہيں ہوئے گا" موبائل اور والٹ قميض کی پاکٹس ميں رکھتا وہ اسے اور بھی تسلی دينے لگا۔ نشرہ کے چہرے پر اس کے اتنے کئيرنگ انداز پر مسکراہٹ بکھری۔
"مارج ميں اتنی ڈرپوک نہيں ہوں" ہنستے ہوۓ اسے جتايا۔
اسکی بات پر وہ سيدھا ہوتا اسے ديکھتے خود بھی مسکرايا۔
"جی آپ ڈراتی ہيں ڈرتی نہيں" ہولے سے اپنا ہاتھ اسکے بازو پر تھپتھپا کر گويا جانے کا عنديہ ديا۔
اسکے لمس پر ايک خوبصورت احساس اسکے ساتھ لپٹا۔
وہ خاموش اسے دورازے سے نکلتا ديکھتی رہی۔
__________________________
شام ميں سب سے مل کر وہ پھر سے کہيں جانے کو تيار تھا۔
"اب کہاں جارہے ہو تم؟" صغراء بيگم نے اسے تيار ديکھ کرپوچھا وہ تو اسکے لئے رات کے کھانے ميں اہتمام کروا رہيں تھيں۔
"ميں آج رات فارم ہاؤس پر رہوں گا۔۔ مجھے کچھ کام ہے وہاں۔ ايک دو ملازمين کو بھيج ديں" وہ جو اسکے کمرے ميں اسکے پيچھے آئيں تھيں۔ اسکی بات سن کر مايوس سی ہوئيں۔
"بس ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہو۔ آخر کب ميرے پاس بھی چند گھڑيوں کے لئے سکون سے رہو گے؟" اسکے وجيہہ چہرے پر ہاتھ پھيرتے ممتا کا مجبور سا لہجہ لئے بوليں۔
"آپ دعا کرين۔ کچھ کاموں کو نمٹا لوں پھر کچھ عرصہ فرصت سے آپکے پاس رہوں گا۔" اپنے چہرے پر رکھا انکا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں تھام کر اسکی پشت پر بوسہ ديتے محبت سے لبريز لہجے ميں بولا۔
"کيسی ہے وہ لڑکی؟" انہيں ابھی تو اس بارے مين بات کرنے کا موقع ملا تھا۔
"بالکل آپ کا پرتو۔۔ اپنے فيصلوں ميں اٹل۔۔ آپکے بيٹے کو ابھی ملی نہيں۔ اور آپکا بيٹا سدھرنے لگ گيا ہے۔ سوچيں مل گئ تو پھر تو بالکل ہی سيدھا تک ہوجاؤں گا"ہولے سے ہنستے وہ انہيں اس لمحے بہت الگ سا وريد لگا۔
جيسا وہ اسے ديکھنا چاہتی تھيں۔ دھيما۔۔ اور برائيوں سے پاک۔
"پھر تو ميری دعا ہے وہی تمہارا نصيب بنے" ہنستے ہوۓ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں ميں اسکی نظر اتاری۔
"آمين" اس نے سچے دل سے آمين کی۔
"اچھا آپ ايسا کريں۔ شاداں کو بھجوا ديں۔ فارم ہاؤس کی کچھ صفائ کروانی ہے اگلے ہفتے شايد ميرے دوست آئيں ميرے ساتھ شکار کے لئے" ان کا ہاتھ چھوڑ کر وہ عجلت بھرے انداز ميں بولا۔
"تو اگلے ہفتے ميں تمہارے آنے سے پہلے وہاں کی صفائ کروادوں گی" پروگرام اگلے ہفتے کا تھا اسے اب صفائ کروانی تھی۔ وہ کچھ حيران سی ہوئيں۔
"نہيں مجھے کچھ سيٹنگ بھی چينج کروانی ہے۔ وہ پرانی يہان کام کرنے والی ہے اسے کافی بہتر چیزوں کا اور ہماری پسند کا اندازہ ہے" انہيں بازو کے گھيرے ميں لئے وہ کمرے سے باہر آيا۔
"اچھا مين کہہ ديتی ہوں" اسکے بازو کے حصار سے نکلتيں وہ تيزی سے بڑے کمرے سے نکلتيں ملازموں کے کوارٹرز کی جانب بڑھيں۔
_______________________
زرناب کے آتے ہی اسے لگا فليٹ ميں رونق آگئ ہو۔
"تمہارے حالات کيسے چل رہے ہيں بھائ کے ساتھ؟" دونوں اس وقت پاسٹا بنانے ميں مصروف تھيں۔ ساتھ ساتھ ڈھيروں باتيں بھی چل رہی تھيں۔
"تھوڑی سی دوستی ہوہی گئ ہے۔ تمارے مشوروں پر عمل کرکے ميں نے ہی اسکی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھايا۔
مگر کچھ پس و پيش کے بعد اس نے بھی ہاتھ تھام ہی ليا" وہ وائيٹ ساس بناتی اپنی اور مارج کی دوستی کی روداد بيان کرنے لگی۔
"ارے واہ تو بات يہاں تک پہنچ گئ" زرناب نے شرارت سے اسکی ہاتھ تھامنے والی بات پر اسے چھيڑا۔
کچھ لمحے توقف کے بعد اسے زرناب کی شرارت سمجھ ميں آئ۔
"بدتميز" نچلا ہونٹ دانتوں ميں دباۓ وہ اپنی شرميلی مسکان اس سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
مگر چہرے پر کھلی لالی اور نظريں چرانے کے انداز نے زرناب کو بہت کچھ بتا ديا۔
"ميں کہتی تھی نا بھائ بس اوپر سے سخت بننے کی کوشش کرتے ہيں"
"ہاں يار دل کا اچھا ہے۔۔۔ بس وہی بات کے ابھی وہ محبت پر يقين کرنے سے ڈرتا ہے" نشرہ بھی اسکی تائيد کرنے لگی۔
"اچھا يہ ريڈی ہوگئے ہيں۔۔ بتاؤ کس ميں ڈالوں" پاستا ابل چکا تھا وہ ادھر ادھر چھلنی ڈھونڈتے ہوۓ نشرہ سے بولی۔
اسی لمحے اسکے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز آئ۔
نشرہ اسے چھلنی پکڑا کر موبائل کی جانب متوجہ ہوئ۔ مارج کالنگ لکھا ديکھ کر اسکا دل زور سے دھڑکا۔
"اٹھا بھی لو۔۔ يا ابھی تک سکتے ميں ہو کہ بھائ نے کال کی ہے" زرناب بھی اسکے موبائل پر مارج کالنگ ديکھ چکی تھی۔
"دوسری بات سچ ہے" وہ مزے سے اپنی کيفيت بتاتے ہوئے يس کر چکی تھی۔
"السلام عليکم" اسکی بھاری بوجھل آواز اسپيکر سے ابھری۔
نشرہ کو اسکی آواز آج تک اتنی خوبصورت نہيں لگی جتنی آج لگی تھی۔ شايد محبت نے ہر احساس ہی بدل ديا تھا۔
"وعليکم سلام" وہ موبائل لئے مارج کے ہی کمرے ميں چلی آئ۔ اب تک دوسری بار اسکا کمرہ ديکھ رہی تھی۔
ہر چيز ميں اسکا احساس جاگ رہا تھا۔ اسکے بيڈ پر بيٹھ کر اسکے تکيے پر ہاتھ پھيرتے وہ اپنی ہی کيفيت پر مسکرائ۔ يقينا محبت ايسے ہی انسان کو بے خود کرديتی ہے۔
"ٹھيک ہيں آپ دونوں؟" اسے سمجھ نہ آئ کہ کيا با کرے۔ فون تو کرديا تھا ليکن اب۔۔۔۔۔
"ہاں ٹھيک ہيں" اسے بھی سمجھ نہيں آئ کيا بات کہے۔
"کيا کررہيں تھيں بی بی" لفظ بی بی سن کر وہ جل بھن گئ۔ سب احساسات پر اس نے پانی بہا ديا۔
"ايک تو تم ۔۔۔۔ آج کے بعد مجھے يہ بی بی نہيں کہو گے" وہ تڑخ کے بولی۔
مارج ہنسا۔۔۔ اسکی ہنسی کی آواز اتنی ضرور تھی کہ نشرہ سن سکے۔
"تو پھر کيا کہوں؟" متبسم شرير لہجے ميں پوچھا گيا۔
"کچھ بھی۔۔۔" وہ چڑ گئ۔
"کچھ بھی ۔۔۔۔ تو بہت عجيب سا نام ہے" اسے تنگ کرنے ميں مزہ آتا تھا۔ مارج ڈرائيونگ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے چڑانے کا کام بھی تندہی سے کررہا تھا۔
"کچھ بھی۔۔ سے مراد ہے بی بی کے علاوہ کچھ اور کہا کرو۔۔۔" وہ بھی زچ ہوچکی تھی ہميشہ کی طرح۔۔۔۔
"بی بی نہيں تو بيوی بہتر ہے۔۔ آپکا کيا خیال ہے" لہجہ اور بھی شرير ہوا۔ اور آواز مزيد بوجھل۔
نشرہ کی دھڑکنيں تيز ہوئيں۔
"نشرہ کہا کرو۔ سب کی طرح" وہ رعب سے بولی۔ مقصد اسکی شرارت کا اثر زائل کرنا تھا۔
"مگر ميں سب تو نہيں" محبت کی آنچ اسکے لہجے ميں بھی شامل ہورہی تھی۔
"اچھا بس يہی بونگياں مارنے کے لئے فون کيا ہے" وہ اس کا دھيان ہٹانے لگی۔
"نہين آپکی خيريت پوچھنی تھی۔۔۔ کيونکہ ميرے فليٹ سے نکلتے ہوۓ کوئ ڈر رہا تھا" جاتے وقت اس کا ڈرا سا چہرہ تصور ميں لاتے بولا۔
"ميں نہيں ڈرتی ورتی۔ اور جلدی کام ختم کرو۔۔ تم پہنچ گئے ہو گاؤں؟" اسے جھٹلانے لگی۔
"جی بس حويلی پہنچنے والا ہوں" وہ اپنے کچھ گارڈز فليٹ کی بلڈنگ کے باہر کھڑے کروا آيا تھا۔
اسی لئے بھی مطمئن تھا۔
"ٹھيک ہے سب کو ميرا سلام کہنا" وہ بات سميٹتے ہوۓ بولی۔
"اور کوئ حکم" وہ مودب انداز ميں بولا۔
"نہيں بس اتنا ہی کافی ہے۔ باقی کے حکم پھر کبھی" وہ ناز سے بولی۔
"اوکے اپنا خيال رکھئيے گا" وہ بھی بات سميٹ کر فون بند کر گيا۔
_________________________
"بتاؤ کہاں ہيں صفورہ خالہ؟" کچھ دير پہلے ہی وہ شاداں اور کچھ اور ملازمين کے ساتھ فارم ہاؤس پہنچا تھا۔ باقيوں کو کام پر لگا کر شاداں کو لئے ايک کمرے ميں آيا۔ دروازہ لاک کيا۔ وہ گھبرائ۔
"کيا کررہے ہيں صاحب؟" وہ عمر ميں وريد سے چند ايک سال ہی بڑی تھی۔
اسکے سوال پر وہ آہستہ سے چلتا اسکے مقابل آيا۔ اسکے سوال کو نظر انداز کرکے جو وريد نے کہا اس پر شاداں کے چہرے پر بدحواسی سی پھيلی۔
"مم۔۔ مجھے کيا پتہ۔ وہ تو شايد مر چکی ہيں" اسکے لہجے کی لڑکھڑاہٹ ہی وريد کو بہت کچھ بتا گئ۔
"ديکھو۔ ميں شرافت سے تم سے پوچھ رہا ہوں۔ کہ صفورہ خالہ کہاں ہيں۔۔۔۔ مجھے جھوٹ سے اور جھوٹوں سے سخت نفرت ہے۔ ميں تم پر کوئ سختی نہيں کرنا چاہتا۔ لہذا آرام سے مجھے انکے بارے ميں بتادو" آنکھيں نکال کر ہر لفظ چبا چبا کر بولا۔
"ميں۔ سچ کہہ رہی ہوں صاحب۔۔۔۔"ابھی اسکی بات پوری نہيں ہوئ تھی کہ اسکا منہ وريد کے ہاتھ کی سخت گرفت ميں آچکا تھا۔
"کيا بکواس کررہا ہوں ميں" وہ دبے دبے لہجے ميں چيخا۔
"مم۔۔ صاحب مين" وہ تکليف سے بلبلائ۔
"جھوٹ نہيں" وہ اب کی بار دھاڑا۔
"وہ جی۔۔ وہ سوات کے قريب ايک گاؤں ہيں وہاں اپنی بيٹی اور داماد کے ساتھ رہتی ہيں" وہ ايک ہی جھٹکے ميں سب اگل گئ۔
"مگر وہاں معلوم کرنے پر وہ کہہ رہے ہيں کہ وہ تو وہاں سے کہيں اور چلے گئے ہيں" اسکا منہ چھوڑتا اب اس نے اسے بازو سے تھام کر سيدھا کھڑا کيا۔ جو منہ آزاد ہوتے ہوئ تکليف سے دوہری ہوئ تھی۔
"صاحب وہ وہيں ہيں۔۔۔ جھوٹ بولا ہوگا۔ ابھی کچھ دن پہلے ميں اس سے مل کر آئ ہوں" اس کی بات پر وريد کی آنکھوں ميں خون اترا۔
"ان کی بيٹی کے خدوخال کيسے ہيں؟" اسکے سوال پر اس نے کچھ نقشہ بتايا۔
"رکو" وريد نے ايک ہاتھ سے اسے روک کر اپنا والٹ نکالا۔ قميض کی جيب سے ايک پينسل نکالی۔
والٹ سے ايک تہہ شدہ کاغذ نکالا۔۔ اسے سيدھا کيا۔
"بيٹھو اور بتاتی جاؤ۔۔۔۔ انکے داماد کو ديکھا ہے کبھی؟" اسے ايک صوفے پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ کمرے ميں موجود دوسرے صوفے پر خود بيٹھا۔ اسکے آگے ٹيیبل رکھا تھا اس پر وہ کاغذ رکھتے اس سے سوال کيا۔
"نہيں جی۔۔ ہم مردوں کو نہيں ديکھتے ہيں" وہ کچھ برا منا کر بولی۔
"اچھا چلو۔ انکی بيٹی کا نقشہ بتاؤ" اسکی بات پروہ اسکا نقشہ بتاتی گئ اور وہ اسکيیچ بناتا گيا۔
"جس لڑکی کو ميرے ساتھ ونی کيا تھا۔ وہ بھی وہيں ہوتی ہے؟" اسکيچ کو تہہ کرتے سرسری سا پوچھا۔
"اسکا معلوم نہيں صاحب۔۔۔ ميں نے اسے وہاں کبھی نہيں ديکھا۔"
"تو صفورہ خالہ کے مرنے کا کيوں مشہور کيا ہوا ہے؟" اس نے ابرو اچکا کر پھر سے سوال کيا۔
"پتہ نہيں خالہ نے ہی کہا تھا کہ حويلی ميں بتا دينا کہ ميں مرگئ ہوں" اس کی بات ميں اس بار صداقت لگی۔
"ٹھيک ہے۔ ميں نے يہاں جو کچھ تم سے پوچھا ہے وہ اگر اس کمرے کو پار کرنے کے بعد کسی کو باہر پتہ چلا۔
تو تم سوچ سکتی ہوکہ ميں تمہارے ساتھ کيا کروں گا۔ ابھی ميں نے مار پيٹ نہيں کی۔ بہت سستے ميں تمہيں بخشا ہے۔ ليکن اگر تم نے اتنی سی بھی بات صفورہ خالہ يا حويلی مين کسی کو بتائ۔ تو ميرے پالے ہوۓ جانوروں کو تمہيں کھانے ميں کوئ عار محسوس نہيں ہوگا" سفاک لہجے ميں اسے وارننگ دی۔
"جج۔۔۔ جی ۔۔ جی صاحب کبھی نہيں" اسکی بات سن کر ہی دہشت سے اسکی آنکھيں باہر آنے کو بے تاب ہوئيں۔
"شاباش۔۔ صفائ کرو" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے سے باہر چلا گيا۔
"تم اور بھائ الگ الگ کمروں ميں ہی رہتے ہو؟" کھانا کھانے کے بعد چاۓ کے مگ لئے وہ دونوں نشرہ کے ہی کمرے ميں موجود تھيں۔
"ظاہر ہے ابھی اتنی فرينکنيس نہيں ہوئ۔ اچھا تم مجھے چھوڑو يہ بتاؤ کہ فخر والے معاملے کا کيا بنا۔ ميں نے تمہارے بھائ سے پوچھا تھا۔ مگر اس نے کوئ خاطر خواہ رسپانس نہيں ديا" نشرہ کو يکدم ياد آيا۔
"ميری بات ہوگئ تھی بھائ سے۔ وہ کہہ رہے ہيں کہ ميں انکی صفورہ خالہ اور انکے داماد سے ملاقات کروا دوں۔"
اسکی بات پر نشرہ نے چند لمحے اسکے چہرے پر کوئ احساس کھوجا ليکن ناکام رہی۔
"ايک بات پوچھوں؟" بيڈ کے ساتھ ٹيک لگائ۔
"ہاں پوچھو"
"تمہاری کتنی خوشی شامل ہے اس رشتے ميں؟" اسکی بات پر زرناب چند لمحے کچھ کہہ نہ پائ۔ پھر پھيکا سا مسکرائ۔
"اس ميں خوشی کا کيا تعلق ہے۔ شادی تو کرنی ہی ہے۔ آج يا کل کسی کے ساتھ تو ہونی ہی ہے" کوئ گڑگڑاتا ہوا تصور ميں آيا۔ اس نے سر جھٹک کر گويا اسکے تصور سے جان چھڑائ۔
"شادی کا تعلق ہی خوشی سے ہوتا ہے ورنہ تو وہ ايک کاروبار ہی ہے۔ جيسے ہم باقی کے کاروبار کرتے ہيں۔ شادی خالصتا اپنی ذات کی خوشی کا معاملہ ہے"
"تم بھی تو اپنی شادی پر خوش نہيں تھيں۔ پھر سب ٹھيک ہوگيا۔ شايد ميرا دل بھی آمادہ ہوجاۓ" اب کی بار وہ نشرہ کو چپ کروا گئ۔
"کيسا انسان ہے وہ؟" نشرہ اسکی پسند سے بہت حد تک واقف تھی۔
"پتہ نہيں۔۔۔ کبھی اسکے بارے ميں اتنا غور نہيں کيا" وہ سادگی سے بولی۔
"ايک ہی عورت پر اکتفا کرنے والا ہے۔ اب يہ مت کہنا يہ بھی نہيں پتہ۔ اتنا تو بندے کو اردگرد کی باتوں سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے" نشرہ کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائ۔ مگر بے حد پژمردہ مسکراہٹ تھی۔
"نہيں۔۔۔ نہ ہی وہ شايد کبھی ايک لڑکی پر اکتفا کرے گا" اسکے بات نشرہ کو کسی انکشاف سے کم نہيں لگی۔
"اور ايسا شخص تمہاری چوائس ہے؟" وہ حيرت سے منہ کھولے اسے تک رہی تھی۔
"وہ ميری چوائس نہيں ہے۔ بس يہ کہہ لو اسکے علاوہ اور کوئ چوائس نہيں ہے" اسکی باتيں نشرہ کو شديد الجھن ميں مبتلا کررہی تھيں۔
"تم پاگل ہو کيا؟" وہ اب تک بے يقينی سے اسے ديکھ رہی تھی۔ جو اس سب پہ انتہائ نارمل بی ہيو کررہی تھی۔
"شادی کيا پاگل کرتے ہيں؟" ہنسی ميں اسکی بات اڑانی چاہی۔
"ليکن کنويں ميں پاگل ہی گرتے ہيں۔۔۔۔ ميں ہر گز تمہيں يہ بے وقوفی نہيں کرنے دوں گی" وہ برہم ہوئ۔
"مجھے تو اندازہ ہی نہيں تھا۔۔۔۔ مارج کو معلوم ہے اسکی حرکتوں کا؟" نشرہ کے لہجے سے واضح ناگواری جھلک رہی تھی۔
"پتہ نہيں ميں نے کبھی پوچھا نہيں" وہ پھر سے سادگی سے بولی۔
"يہ آجاۓ ذرا۔۔ ميں بات کرتی ہوں۔۔ تم تو پاگل ہو۔۔۔ عجيب بے وقوف ہو" وہ مسلسل شاک کی سی کيفيت مين تھی۔
"تم ايسا کچھ نہيں کروگی" زرناب اب کی بار سنجيدہ ہوتے اسے منع کرنے لگی۔
"تم اب چپ کرجاؤ" اسے سمجھ نہيں آرہا تھا آخر اسے کيا پڑی ہے ايسے شخص سے شادی کی۔
"چلو اب سوجاؤ۔۔ صبح کے اٹھے ہوۓ ہيں" نشرہ کو اس سے مزيد بات کرنا فضول لگا۔ لہذا وہيں پر بات ختم کرتے
خالی مگ لئے کچن ميں رکھنے چلی گئ۔
کچھ ہی دير بعد دونوں لائٹس آف کرکے دروازوں اور کھڑکيوں کے لاک اچھی طرح چيک کرکے نشرہ کے ہی کمرے ميں بيڈ پر ليٹی۔ بچپن کی باتيں ياد کرتے کرتے سوچکی تھيں۔
___________________________
"ہيلو" پرسکون سا فخر کے باپ کو فون کئے ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ بڑا مطمئن تھا۔
"ہيلو۔ جی آپ کون؟" انہوں نے فون اٹھاتے ہی دوسری جانب سے بولتے شخص کو پہچاننا چاہا۔ مگر ناکام رہے۔
"ميں آپکے بيٹے کے حوالے سے آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں" اسکی بات پر شہباز حسن يکدم چوکنا ہوئے۔
"جی ليکن آپ کون؟" فخر تو گھر پر ہی موجود تھا پھر يہ کون تھا۔
"ميں آپ کا خير خواہ۔ اصل ميں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے بيٹے کی کہيں اور شادی کروانا چاہتے ہيں" وہ جو کوئ بھی تھا شہباز حسن کو پريشان کررہا تھا۔
"مگر آپ ہيں کون؟" اب کی بار وہ سخت لہجے مين بولے۔
"کہا نا آپکا خير خواہ۔ آپکا بيٹا کہيں اور کميٹڈ ہے اور نہ صرف کميٹڈ ہے بلکہ لڑکی پريگننٹ بھی ہے۔ يقين نہيں آرہا تو ميں ابھی آپکے نمبر پر اس کی پريگننسی رپورٹ بھيج چکا ہوں جہاں آپکے بيٹے نے خود کو اسکا ہزبينڈ شو کيا ہے۔ اب ميں نہين جانتا وہ شادی کرچکا ہے يا نہيں۔۔۔ مگر رپورٹ بالکل درست ہے۔۔ کسی اور کی بيٹی زندگی خراب کرنے سے بہتر ہے آپ اپنے بيٹے کی پسند کو فوقيت ديں۔ اللہ حافظ" کچھ دير پہل ہی فخر نے يہ رپورٹ اور پريشان زدہ فون کرکے اپنے افئير کا رزلٹ بتايا تھا۔
وہ تو اپنی پريشانی بيان کررہا تھا مگر اسکی پريشانی نے وريد کا راستہ آسان کرديا تھا۔
وہ يہ رپورٹ کسی اور نمبر سے شہباز حسن کو اور اپنے نمبر سے زرناب کو بھيج چکا تھا۔
ہنستے ہوۓ اس نے فون بند کيا۔
يہ نئ سم اسکے نام پر تھی بھی نہيں۔ اسی لئے پکڑے جانے کا اسے کوئ ڈر نہيں تھا۔
ابھی کچھ دير ہی ہوئ تھی اسے اپنا کارنامہ انجواۓ کرتے کہ اسکے اپنا نمبر گنگنايا۔ وہ سمجھا نار احسان ہوگی۔ مگر اسکے خاص بندے کا فون تھا۔
"ہيلو۔۔ ہاں کيا رپورٹ ہے؟"
"سر مارج ملک آج گھر پر نہيں ہے۔ اور شام ميں نار احسان کو وہ اپنے فليٹ پر بيوی کے پاس چھوڑ گيا۔ وہ ابھی بھی مارج ملک کے فليٹ پر ہی ہے" اسکی بات پر وريد نے کچھ سوچتے ہوۓ سر ہلايا۔
"ٹھيک ہے احتياط سے فليٹ کے اندر جاکر پتہ کرو کہ آخر اسکا مارج ملک کے ساتھ کيا تعلق ہے۔ دونوں کو ڈرا کر صرف اگلوانا ہے۔۔۔ دونوں ميں سے کسی ايک کو بھی ہاتھ لگايا نا۔۔ تو ہاتھ توڑ کر رکھ دوں گا۔ اور نظروں کو قابو ميں رکھنا۔ سمجھے" کڑک انداز ميں اسے بہت کچھ سمجھايا۔
"جی۔ جی صاحب سمجھ گيا" وہ بھی جانتا تھا وريد چوہدری کی خلاف ورزی کی تو وہ پاتال ميں دھکيل دے گا۔
"گڈ"
_______________________
گہری نيند ميں ہونے کے باوجود نجانے کس احساس کے تحت اسکی آنکھ کھلی۔ گردن گھما کر دائيں جانب ديکھا۔
نشرہ منہ پرايک بازو رکھے گہری نيند ميں تھی۔
کچھ دير وہ يوں ہی ليٹی رہی تھوڑی دير گزرنے کے بعد سائيڈ ٹيبل پر رکھا موبائل اٹھا کر ٹائم ديکھا۔رات کے ڈھائ بج رہے تھے۔ ٹائم کے ساتھ ساتھ وريد کا نام بھی جگمگا رہا تھا۔
واٹس ايپ پہ کوئ ميسج آيا ہوا تھا۔ پہلے تو موبائل واپس رکھ ديا۔
پھر کچھ سوچ کر دوبارہ اٹھايا۔ تھوڑا سا اٹھ کر کمر بيڈ کی پشت سے ٹکائ۔
موبائل ان لاک کرکے جوں ہی واٹس ايپ پہ موجود تصوير کھولی وہ کسی پريگننسی ٹيسٹ کی تھی۔
مندی مندی آنکھيں اب کے پوری طرح کھل چکی تھيں۔
رپورٹ پر فضا کے ساتھ ساتھ جس شخص کا شوہر کی کيٹگری ميں نام تھا وہ زرناب کو بری طرح چونکا گيا۔
کچھ مزيد ميسجز بھی تھے۔ زرناب نے پڑھنے شروع کئے۔
"بہت بہترين چوائس ہے آپکی۔"
"شادی سے پہلے ہی آپ کو ايک اوران آفيشل بيوی اور بچے کا تحفہ بھی آپکا ہزبينڈ ٹو بی 'فخر شہباز' دينے کا ارادہ رکھتا ہے"
"مبارک ہو۔۔ اب ڈيسائيڈ کرليجئے گا سوتن آپ بنيں گی کے وہ۔۔۔۔ ويسے مبارک ہو۔۔ کيا خوب بندہ چنا ہے شادی کے لئے"
زرناب کا دماغ بھک سے اڑ چکا تھا۔
ابھی وہ اسی صدمے کے زير اثر تھی کہ نشرہ کے کمرے کی پچھلی جانب بنی بالکونی ميں کسی کے کودنے کی آواز آئ۔
اسکا دل سکڑ کر حلق ميں آگيا۔
"نشرہ" آہستہ آواز سے نشرہ کو آواز دی۔
"نشرہ" پردے کے قريب سايہ لہرايا۔
اب کی بار اسے زور سے جھنجھوڑا۔
"کيا ہے يار" شکر تھا کہ وہ آہستہ آواز ميں ہی بولی۔
"نشرہ باہر بالکونی ميں کوئ ہے" اب کی بار اسکے کان کے قريب آہستہ سے کہا۔
نظريں اسکی بالکونی کے پردے پر لہناتے سائے پر جميں تھيں۔
"کيا" اس سے پہلے کے نشرہ کے منہ سے چيخ برآمد ہوتی۔ زرناب نے فورا اسکے منہ پر ہاتھ رکھا۔
"پاگل ہو۔۔۔ چيخ کيوں رہی ہو" وہ دبی دبی آواز ميں غرائ۔
کچھ دير بعد کھڑکی پر دوبار ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ ہی گرل کھل چکی تھی۔
نشرہ نے تيزی سے دماغ چلاتے۔ موبائل پر مارج کا نمبر ڈائل کرکے بہت احتياط سے وہ ہاتھ اپنی کمر کے پيچھے کرليا۔
دونوں نے تيزی سے دوپٹے اوڑھے۔
نشرہ کو دوپٹے کے اندر موبائل والا ہاتھ چھپانے ميں آسانی ہوگئ۔
چند لمحوں ميں کوئ نقاب ميں دونوں کے سامنے موجود تھا۔
گن والا ہاتھ انکے سامنے تھا۔
"کک کون ہو تم۔۔ کيا چاہئے" زرناب نے نشرہ کو اپنے پيچھے کيا۔ نشرہ خود بھی اسکے پيچھے رہنا چاہتی تھی تاکہ آنے والے کو اس پر شک نہ ہو کہ وہ موبائل کے ذريعے کسی کے ساتھ رابطے ميں ہے۔
"تم دونوں کا آپس ميں کيا رشتہ ہے؟" آنے والے نے اسکا سوال نظر انداز کرکے عجيب سا سوال کيا۔
"ديکھو۔۔ ہمارے پاس اس وقت کوئ خاص رقم نہيں ہے۔ تم تلاشی لے سکتے ہو فليٹ کی۔ وہ ميرا بيگ ہے۔۔ اس ميں چند ہزار روپے ہيں" زرناب کے کندھے سے جھانکتے وہ تيزی سے بولی۔
"جو بکواس کی ہے اسکا جواب دو" وہ دھاڑا۔۔
"کيا۔۔ کيا بکواس کی ہے؟" نشرہ کی بات پر آنے والے کا دل کيا اپنا ماتھا پيٹ لے۔
"کيا لگتی ہے يہ تمہاری؟" اسکے سوال دہرانے پر اب کی بار زرناب کا دماغ تيزی سے گھوم کر وريد کی جانب گيا۔
کيسی عجيب بات ہے کوئ چور آۓ اور وہ چوری کی بجاۓ يہ پوچھے کے گھر کے مکينوں کا آپس مين کيا تعلق ہے۔
اسکا مطلب ہے وہ ان سے کچھ نہ کچھ واقف تھا۔ اور کسی کے کہنے پر بس بھيجا گيا تھا۔
"دوست ہيں ہم؟" اب کی بار زرناب کا خوف کچھ کم ہوا۔
"مارج ملک کے ساتھ تمہارے کيا تعلق ہے؟" اسکے دوسرے سوال پر نشرہ بھی چونکی۔
کون تھا يہ۔ چور نہيں تھا
"اسکا شوہر ہے"اگلا جواب پھر زرناب کی جانب سے آيا۔
"وہ مجھے بھی معلوم ہے۔ مگر تمہارا کيا لگتا ہے؟" اس نے آنکھيں نکاليں۔
"ميں اسے بھائ کہتی ہون۔ بس اور وہ بھائ ہونے کا حق نبھا رہا ہے" زرناب نے اب کی بار گھما پھرا کر جواب ديا۔
"سچ کہہ رہی ہے يہ؟" اسکا رخ نشرہ کی جانب تھا۔
نشرہ نے تيزی سے سر ہلايا۔
"جھوٹ بولا تو يہ بھيجے ميں اتار دوں گا" وہ پھر سے غرايا۔
"سچ کہہ رہے ہيں۔۔۔ بتاؤ نا زرن۔۔۔۔۔" نشرہ اسکی گن والا ہاتھ اپنے مزيد نزديک آتے ديکھ کر جلدی سے بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ زرناب کا نام ليتی۔ زرناب اسکی بات کاٹ گئ۔
"ہاں ہاں۔۔۔ کتنی بار کہيں کے صحيح کہہ رہے ہيں۔ يہ صرف ميری دوست ہے" زرناب نے ہولے سے کہنی اسکی پسلی ميں ماری۔
نشرہ کشمکش ميں مبتلا تھی کہ يہ کون رات کے اس پہر ان سے پوچھ گچھ کرنے آگيا ہے۔
"اگر ايک لفظ بھی جھوٹ ہوا۔ تو تم دونوں اپنے اس مارج ملک سميت زندہ نہيں بچو گی" وہ کہتے ساتھ ہی تيزی سے پردے کے پيچھے گم ہوگيا۔
نشرہ نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ باہر نکالا۔ جہاں مارج کال پر موجود تھا۔
"ہہ۔۔۔ ہيل۔۔۔ ہيلو مارج" آہستہ آواز ميں ڈرتے ڈرتے بولی۔
"گھبرائيں نہيں۔ ميں شہر ہی آرہا ہوں۔۔۔ زندہ نہيں چھوڑوں گا اسے جس کسی نے مارج ملک کے فليٹ کی جانب رخ کيا ہے۔ آپ گھبرائيں نہيں۔۔۔ ميں آپکے پاس پہنچنے تک کال پر ہی ہوں" وہ جو رات ميں جلدی کام ختم ہوجانے پر رات رکنے کی بجاۓ شہر واپسی کے راستے پر تھا۔ رات کے ڈھائ بجے نشرہ کے نمبر سے کال آتے ديکھ کر کچھ پريشان ہوا۔
فون اٹھانے پر اسکے خدشات سچ ثابت ہوۓ۔ کسی نے اسکے فليٹ پر آنے کی شديد حماقت کی تھی۔ اور باتوں سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وريد چوہدری کا بندہ ہے۔ جو زرناب کی تلاش يا پھر نار احسان کے سچ کو جاننے کی کوشش ميں تھا۔
گاڑی کی اسپيڈ اس وقت وہ جتنی تيز کر سکتا تھا کر چکا تھا۔
شکر تھا کہ انہيں کوئ بھی نقصان پہنچاۓ بنا وہ جاچکا تھا۔ ليکن اپنی کم بختی کو آواز دے دی تھی۔
_________________________
"ہيلو" وہ کب سے انتظار ميں تھا۔
زرناب ميسجز پڑھ چکی تھی۔ مگر فی الحال وہ اسے کال يا مزيد ميسج نہيں کرنا چاہتا تھا۔
"کيا معلوم ہوا؟" اپنے بندے کے فون کا وہ بے تابی سے انتظار کررہا تھا۔
"صاحب وہ انکی محض دوست ہے۔ دونوں کا بيان ايک جيسا تھا" اس نے مايوسی سے کہا۔
"ٹھيک ہے۔ تم اب اپنے اڈے پر جاؤ پھر بات ہوگی" وريد نے کچھ سوچ کر فون بند کيا۔
اگلے دن اس نے سوات کے لئے نکلنا تھا۔
اس وقت ايک پرسکون نيند کی اسے اشد ضرورت تھی۔
مگر موبائل پر آنے والے ميسج نے اسکی ساری نيند پھر سے اڑا دی۔
"فخر اگر ايسا ہی ہوا۔ تب بھی ميری چوائس کوئ اور شخص ہوگا مگر آپ کبھی نہيں۔۔" زرناب کی جانب سے آنے والے ميسج نے اس کا سکون بری طرح غارت کيا۔
"عموما بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو اپنے ہی دعوؤں کا بھگتان بھرتے ديکھا ہے۔۔ اسی لئے سوچ سمجھ کر دعوی کرو" اپنی ساری کھولن ميسج ميں نکال کر مسکرايا۔ گويا اسے چڑانے ميں کامياب ہوگيا ہو۔
"پھر تو آپ اس قسمت کے چکر مين مجھ سے پہلے آنے والے ہيں۔ ديکھتے ہيں کس کے دعوے اسکے سامنے آتے ہيں ميرے يا آپکے" اسکی ذومعنی بات وريد کو پھر سے ورطہ حيرت ميں ڈال گئ۔
وہ کيا کہنا چاہتی تھی؟ اسے سمجھ نہيں آئ۔

کچھ ہی دير ميں وہ فليٹ پر موجود تھا۔
دروازہ کھول کر تيزی سے اندر کی جانب بڑھا۔
وہ دونوں پريشان سی نشرہ کے کمرے ميں موجود کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھيں۔
"ٹھيک ہيں آپ دونوں" اسکے قدموں کی تيز آواز پر وہ مڑيں۔
"مارج" اسے اپنے سامنے ديکھ کر دونوں نے سکون کا سانس ليا۔
يکدم دونوں جذباتی سہارے کے لئے اسکی جانب بڑھيں۔
وہ بھی انہيں اپنے سامنے سلامت ديکھ کر يک گونہ سکون ميں آيا۔
ہاتھ بڑھا کر دونوں کو خود سے لگايا۔
"ڈونٹ وری ميں آگيا ہوں" زرناب تو کچھ دير بعد اس سے الگ ہوچکی تھی مگر نشرہ۔۔۔۔ وہ زرناب کی نسبت زيادہ ڈر گئ تھی۔
"ارے آپ تو اتنی بہادر ہيں۔۔ مجھے تو ڈر تھا زرناب زيادہ ڈرپوک ہے مگر يہاں تو الٹا حساب لگ رہا ہے" اسے خود سے الگ کرنا چاہا جو اس سے الگ ہونے کو تيار نہيں تھی۔
"اگر وہ اپنی گن چلا ديتا۔" اسکے کندھے کے ساتھ لگے لگے ہی اس نے خوف سے زرناب کو اور پھر ايک نظر سر اٹھا کر مارج کو ديکھا۔
"ايسے کيسے چلا ديتا" مارج کے ماتھے پر شکنيں نمودار ہوئيں۔
"وہ ہميں مارنے کے ارادے سے نہيں آيا تھا" زرناب کی بات سن کر وہ مارج سے الگ ہوتی اب اسکے قريب گئ۔
"تم نے اس وقت بھی مجھے کہنی ماری تھی۔ جب مين تمہيں زرناب کہنے لگی تھی۔ اور پھر مارج سے تمہارے تعلق کو اس نے پوچھا۔ ہمارے درميان موجود رشتے کو۔۔۔۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ چوری کی نيت سے نہيں۔۔۔ صرف ہمارا آپسی تعلق پوچھنے آيا تھا" وہ اب کڑی سے کڑی ملا رہی تھی۔
ان دونوں کے چہروں پر اتنی پريشانی نہيں جھلک رہی تھی جتنی پريشان وہ تھی۔
"تم دونوں کيا واقف ہو کہ وہ کون تھا۔۔۔ بلکہ کس کا بندہ تھا" اب کے اس نے مشکوک نظروں سے ان دونوں کو ديکھا۔
جن کی چپ اسکی بات کی تصديق کررہی تھی۔
"کون ہے وہ؟" اس نے باری باری دونوں کو ديکھا جو ايک دوسرے کو خاموش نظروں سے ديکھ رہے تھے۔
"وريد چوہدری ۔۔۔ آپکا سر اور وہ شخص جس کے ساتھ زرناب ونی ہوئ تھی" مارج نے مضطرب انداز ميں بالوں ميں ہاتھ پھيرتے ہوۓ بتايا۔
پھر ان سے ہٹ کر بالکونی کی جانب بڑھا۔
يعنی وہ شخص واقف تھا کہ مارج کے بندے فرنٹ سائيڈ پر کھڑے ہيں۔ اور دوسری اور اہم بات وہ يہ بھی جانتا تھا کہ پچھلی جانب کيمرہ نصب نہيں تھا۔
ملک اياز نے ٹھيک کہا تھا وہ نار احسان کو کوئ نقصان نہيں پہنچاۓ گا۔
جن سے محبت کی جائے انکی مشکلات اور مصيبتوں کو کم کيا جاتا ہے۔ انکے لئے مسائل پيدا نہيں کئے جاتے۔
وريد بھی نار سے ايسی ہی محبت کرچکا تھا۔
______________________
ان دونوں کو مطمئن کروا کر انہيں سونے کے لئے بھيجا۔
خود وہ ابھی بھی پريشان تھا۔ جب وريد پر يہ حقيقت کھلی کہ زرناب ہی نار ہے پھر تو وہ اسے کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کيا گارنٹی تھی کہ نفرت پر محبت حاوی آئے يہ محبت پر نفرت۔ آنے والے کل کا تو کسی کو نہيں پتہ تھا۔
کچھ سوچ کر ٹائم ديکھا۔ فجر کا وقت قريب تھا۔ يعنی ملک اياز تہجد کے لئے اٹھ چکے ہوں گے۔
کچھ سوچ کر اس نے ان کا نمبر ڈائل کيا۔
وہ لاؤنج ميں ہی موجود تھا۔
"خيريت بيٹے اس وقت فون کيا ہے۔۔ شہر پہنچ چکے ہو؟" وہ حقيقتا اسکی کال سے پريشان ہوۓ۔
"جی ميں کچھ دير پہلے ہی شہر پہنچا ہوں۔ آپ کو ايک اہم بات بتانی تھی" آہستہ آہستہ اس نے کچھ دير پہلے کا تمام واقعہ انکے گوش گزار کيا۔
"اب پانی سر سے اونچا ہورہا ہے۔ کل وہ سوات پہنچ جاۓ گا۔ اور اگر انکی حقيقت کھل گئ تو وہ زرناب کو کوئ بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسکی جرآت کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ اسکی ہمت کيسے ہوئ ميرے فليٹ تک رسائ حاصل کرنے کی" وہ شديد غصے ميں تھا۔
جن کی عزتوں کو غير نظر بھر کر ديکھنے کی جرات نہيں کرسکتے۔ اسکی بيوی اور بہن کو کوئ آدھے گھنٹے تک ديکھتا رہا۔ وہ بھی اتنے قريب سے۔ مارج کا بس نہيں چل رہا تھا اس شخص کی آنکھيں نکال لے۔
"تم وريد تک ابھی نہيں پہنچو گے۔۔۔۔ ہاں جس نے تمہارے فليٹ تک آنے کی ہمت کی ہے۔ اسکی چاہو تو آنکھيں نکال دو۔۔۔ ہاتھ توڑ دو۔۔ اپاہج کردو۔ مجھے کوئ مسئلہ نہيں۔۔ ليکن تم اپنے غصے کو ابھی وريد تک نہيں پہنچنے دو گے۔" انہوں نے بڑ ے تحمل سے اسکے غصے کو کم کيا۔
"ليکن۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا انہوں نے اسے چپ کرواديا۔
"ميں نے کہا ہے نا۔۔۔۔ ابھی نہيں۔۔۔۔۔ اسکا ظلم زرناب نے اکيلے سہا تھا۔ تو اسکا بدلہ بھی مجھ سے اور تم سے پہلے اسے لينے کا حق ہے۔ زرناب سے کہو تياری کرے کل وہ سوات ميں موجود ہونی چاہئے۔ اب وقت آگيا ہے کہ وہ اسکی ونی کی حيثيت سے اسکے سامنے جاۓ۔ ميں اپنے کچھ بھروسے کے بندے بھجوا رہا ہوں۔ گاڑی سميت زرناب انکے ہمراہ صفورہ بی کے پاس جاۓ گی" انکی بات پر بحث کرنے کی کوئ گنجائش نہيں تھی نہ ہی وہ کوئ گنجائش چھوڑتے تھے۔
"جی بہتر" ہميشہ کی طرح فرمانبرداری سے اس نے انکی ہاں ميں ہاں ملائ۔
"شاباش۔۔ نماز پڑھ کر تم بھی سوجاؤ۔ کل بات کريں گے" اسے ہدايت ديتے وہ فون بند کرچکے تھے۔
______________________
اور اگلے دن وہ اپنے باڈی گارڈز کے ہمراہ اس گھر کے آگے موجود تھا جہاں صفورہ خالہ کی موجودگی کا اسے کامل يقين تھا۔
"تم لوگوں نے يہيں رہنا ہے ميں کچھ دير ميں آتا ہوں" اپنے گارڈز کو گھر کے کچھ قريب رکنے کا کہتے وہ اس گھر کے قريب گيا۔ اچھا ڈبل سٹوری گھر تھا۔۔ بہت پرتعيش نہيں مگر بہرحال اس علاقے کے حساب سے کافی بہتر حالت ميں تھا۔ جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ انکا داماد اچھی آمدن رکھتا تھا۔
"جی صاحب کس سے ملناہے؟" وہ جو گھر کو ديکھتے ابھی بيل دينے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ايک نوجوان لڑکا اس کے قريب آکراس سے دريافت کرنے لگا۔
"مجھے فيروز خان سے ملنا ہے۔" اس نے اپنے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ بيان کی۔
"آپ کون؟" اس لڑکے نے غور سے اسے سرتا پاؤں ديکھا۔
"مجھے شاداں نے بھيجا ہے۔ کچھ ضروری پيغام دینا تھا صفورہ خالہ کو۔۔" اس نے فورا سوچی سمجھی اسکيم کے تحت ادھر ادھر ديکھتے راز داری سے کہا۔
اس لمحے وہ اپنے مخصوص کڑکتے شاندار شلوار قميض کی بجاۓ۔ عام سی شلوار قميض پر چادر لئے۔ عام سے حليے ميں موجود تھا۔ تاکہ وہاں کے مکينوں کو شک نہ ہو۔
صفورہ خالہ نے اسے کبھی بچپن ميں ہی ديکھا تھا۔ اسکے بعد سے وہ اس سے انجان ہی تھيں۔ وہ کون سا اسے پہچان ليتيں۔
"يہ خط بھی دينا ہے شاداں کی جانب سے انہيں" اس نے ہاتھ ميں موجود ايک لفافے کی جانب اشارہ کيا جس ميں شايد کوئ کاغذ تہہ کرکے رکھا ہوا تھا۔
"اچھا آجاؤ" اسکی اسکيم کامياب ہوئ تھی۔
کيونکہ شاداں کے علاوہ حويلی کا اور کوئ بندہ نہيں جانتا تھا کہ صفورہ خالہ اور انکی بيٹی وہيں رہتے ہيں۔
اس لڑکے نے جيب سے چابی نکال کر دراوزے کے لاک ميں ڈال کر گھمايا۔
دروازہ کھلتے ہی وہ اسکے پيچھے چلتا اندر داخل ہوا۔ پورچ ميں گاڑی بھی کھڑی تھی۔
گاڑی کے پاس سے گزر کر اس نے ايک کمرے کا دروازہ کھولا جو يقينا ڈرائنگ روم تھا۔
چند صوفوں اور ايک سينٹر ٹيبل پر مشتمل سامان والا سادے سے ڈرائينگ روم ميں وہ کھڑا تھا۔
"آپ بيٹھے ميں نانو کو بھيجتا ہوں" يعنی وہ لڑکا صفورہ خالہ کا نواسا تھا۔
وريد نے سر ہلايا۔
دماغ تيزی سے چل رہا تھا۔
کچھ دير بعد ايک مرد بيساکھی سے چلتا ہوا ڈرائينگ روم ميں داخل ہوا۔ اسے اندر آتے ديکھ کر وريد اپنی جگہ سے کھڑا ہوا
"سلام لالے۔۔" اندر آکر وہ وہاں کے مقامی انداز ميں بولا۔
"والسلام لالے۔۔ ميں ٹھيک ہوں آپ کيسے ہيں؟" اس سے مصافحہ کرکے اسکے اشارہ کرنے پر وہ واپس وہيں بيٹھ گيا۔
"شاداں بہن کيا لگتی ہے تمہاری؟" اب ايک اور بندہ پوچھ گچھ شروع کرچکا تھا۔
"ميری چچا زاد ہے" وريد نے فورا جواب ديا۔
"تم کيا کرتے ہو؟" وہ کھوجتی نظروں سے اسے ديکھ رہا تھا۔
"ميں شہر ميں ہوتا ہوں جی۔۔۔ وہاں نوکری کرتا ہوں" لہجے کو تھوڑا عجيب سا بنايا تاکہ تلفظ اور پڑھے لکھے انداز پر وہ شک ميں مبتلا نہ ہوجاۓ۔
"لاؤ لاؤ" وہی لڑکا کچھ دير بعد وہاں کا مخصوص قہوہ لے کر اندر آيا۔
"ارے لالے يہ آپ کن تکلفات ميں پڑ گئے۔ بس خالہ سے ملنا ہے۔ وہ گھر پر ہيں؟" صفورہ خالہ کی غير حاضری پر وريد تھوڑا بے زار بھی ہوا اور کسی گڑ بڑ کا احساس بھی ہوا۔
"ہاں ہاں خالہ نہا رہی تھيں۔ بس آتی ہی ہوں گی" اسکی بات پر وہ تھوڑا مطمئن ہوا۔
"آپ تب تک قہوہ پيو" اس نے پيالی اسکی جانب بڑھائ۔
تھوڑی ہی دير بعد صفورہ خالہ چادر ميں لپٹيں ڈرائينگ روم ميں داخل ہوئيں۔ اپنے مخصوص انداز ميں چہرہ چادر ميں چھپا رکھا تھا بس جھريوں زدہ آنکھيں نظر آرہيں تھيں۔
"سلام خالہ" کھڑے ہوتے انہيں مودب انداز ميں سلام کيا۔
"وعليکم سلام۔۔ بيٹھو بيٹا" نحيف سی آواز ميں انہوں نے جواب ديا۔
"شاداں ٹھيک ہے؟" دائيں جانب موجود صوفے پر بيٹھتے انہون نے محبت سے پوچھا۔
"جی خالہ۔۔ وہ يہ خط دينا تھا۔ شاداں نے ديا تھا۔ آپ پڑھ ليں" جيب سے وہی خط نکال کر انکی جانب بڑھايا۔
"ارے بيٹا مجھے کہاں نظر آتا ہے۔۔ فيروز بيٹے يہ خط پڑھ کر سنانا" ان کے کہنے پہ اس نے وہ خط فيروز کو تھمايا۔
"سلام خالہ۔
اميد ہے آپ خيريت سے ہوں گی۔ خالہ مجھے کچھ تين چادريں منگوانی تھيں۔ ميں اپنے تايا زاد کے ہاتھ پيسے بھجوا رہی ہوں۔ يہ کل تک يہيں رہے گا۔ آپ چادريں خريد کر اسکے ہاتھ دے دينا۔ اور ہاں خالہ ايک اور ضروری بات کہنی تھی۔ وريد چوہدری صاحب واپس آگيا ہے۔ اور زرناب کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ اپنے بندوں کو بھی بار بار کبھی شہر اور کبھی کہيں بھيج کر پتہ کروا رہا ہے۔ ميں نے اپنے تايا زاد کو اسی لئے بھيجا ہے کہ اگر ابھی تک آپ نے اسکی شادی کہيں نہيں کروائ۔ تو اسے ديکھ لو۔ اچھا لڑکا ہے کھاتا کماتا ہے۔ آپ کو پسند آئے گا۔
چپ کروا کے اسکے ساتھ نکاح کروا دو۔ کسی کو کانوں کان خبر نہيں ہوگی۔ آگے آپکی مرضی۔
آپکی دعاؤں کی طلبگار
شاداں" فيروز نے شروع کی چند لائنيں اونچی اور باقی کی تمام لائنيں صفورہ خالہ کے قريب بيٹھ کر آہستہ آواز ميں انہيں سنائيں۔
"چلو ديکھتے ہيں۔ لڑکا تو ٹھيک ہی لگ رہا ہے۔ آج شايد زرناب آرہی ہے۔ وہ آتی ہے تو اس سے بات کرتی ہوں۔ تم کل دوپہر ميں اسے آنے کا کہہ دو۔۔ تب تک ميں چادريں بھی لے لوں گی۔ اور ايک خط شاداں کو اسکے جواب ميں بھيج دوں گی۔ تب تک ہم سوچ ليتے ہيں کہ کيا کرنا ہے" وہ دونوں مقامی زبان ميں ايک دوسرے سے بات کررہے تھے تاکہ وريد کو معلوم نہ ہو کہ کيا کہہ رہے ہيں۔
مگر افسوس وہ وہاں کی زبان سے واقف تھا۔ `خاموشی سے کوئ تاثر دئيے بنا سنتا رہا۔
"يعنی آج وہ يہاں موجود ہوگی" دل ہی دل ميں اس سے مخاطب ہوا۔
"تو آج رات ملاقات کے لئے تيار رہيں ميڈم۔۔۔۔ " جبڑے بھينچے۔
"ٹھيک ہے بيٹا ۔۔ کل تم دوپہر ميں کھانا ہمارے ساتھ ہی کھاؤ۔ اور چادريں لے جانا" صفورہ خالہ نے اپنی باتيں ختم کرکے اسے اگلے دن آنے کا کہا ساتھ دعوت بھی دے ڈالی۔
"ٹھيک ہے خالہ ميں پھر اب چلتا ہوں" وہ مودب انداز ميں فورا کھڑا ہوا۔ انکے آگے جھک کر پيار ليتا۔ فيروز خان سے مصافحہ کيا۔
انکے گھر سے نکلتا کافی دور پيدل ہی چلتا رہا۔ تاکہ اگر کوئ اسکے پيچھے آئے تو انہيں شک نہ ہو کہ وہ ۔۔ وہ نہيں جوابھی بن کر انکے سامنے موجود تھا۔
____________________
ملک اياز کے حکم کے مطابق اگلے دن صبح ہی مارج نے زرناب کو انکا پيغام دے کر اسے وہاں سے روانہ کيا۔
نشرہ نے اسے وہ سارا دن کہيں جانے نہ ديا۔
"اس شخص کا اتنے آرام سے مقابلہ کرکے۔۔۔ اپنی حاضر دماغی سے مجھے کال ملا کر اب آپ ڈر رہی ہيں۔" وہ جو کھانا بنانے ميں مگن تھی مارج کی بات پر مڑ کر اسے ايک گھوری سے نوازا۔۔
"آپ کا وہ حال ہے گھر کے شير باہر والوں کے سامنے گيدڑ بن جاتے ہيں" وہ پھر سے اسے چھيڑنے لگا۔
صوفے پہ آرام دہ انداز ميں بيٹھا اسے نظروں کے حصار ميں لئے ہوۓ تھا۔
"ہاں تو بس اس وقت يہی ذہن مين تھا کہ اگر اس بندے نے گولی چلادی اور ہم مر مرا گئيں تو کم از کم تم کسی طرح تو ہمارے قاتل تک پہنچ سکو گے" مزے سے اس کا دل دہلا گئ۔
"بس فضول باتوں کے علاوہ کچھ اور آتا ہے آپ کو" اسکی بات پر مارج نے شديد ناگواری کا اظہار کيا۔
آنچ ہلکی کرکے وہ کچن سميٹ کر چاۓ کے مگ لئے مارج کے پاس صوفے پر بيٹھی۔
مارج نے اسکی يہ تبديلی شدت سے نوٹ کی۔
"تم سے ايک بات ڈسکس کرنی ہے۔ اس سے پہلے لڑائ بھی کرنی ہے" کچھ کہتے کہتے اسے ياد آيا تو ناراضگی کا بھی اظہار کر ڈالا۔
"تم دونوں نے مجھ سے وريد والی بات چھپائ؟" منہ پھلا کر صوفے کے ساتھ ٹيک لگائ۔
"آپ کو بتانے سے کيا ہوتا" وہ اپنا مگ تھامے مزے سے اسے اور تپا گيا۔
"اور مجھ سے چھپا کے کيا ملا؟" وہ بھی دوبدو ہوئ۔
"آپ کا کيا پتہ۔۔ آپ اسکے سر چڑھ جاتيں لڑنے کے ميری دوست کو کيوں مارتے تھے۔ اس پر ظلم کيوں کرتے تھے۔ " وہ اسکی مرنے مارنے والی عادت پر چوٹ کر گيا۔
"ہاں تو۔۔۔۔ سچ مين پتہ چل جاتا نا۔۔ تو۔۔۔ دو دو ہاتھ کرتی۔۔۔ خير اب بھی کروں گی" وہ تصور ميں جيسے وريد چوہدری سے لڑنے پہنچ چکی تھی۔
"نہيں۔۔۔ آپ ايسی کوئ حرکت نہيں کريں گی" وہ سنجيدہ ہوتے اسے تنبيہہ کرنے لگا۔
"اچھا ديکھتے ہيں۔۔ اب دوسری بات پہ آؤ" تھوڑا سا آگے ہوئ۔ مارج اسکی لاپرواہ طبيعت پر عش عش کراٹھا۔
محترمہ کو اندازہ ہی نہيں تھا وہ اپنی اس بے خبری اور لاپرواہ طبيعت کے باعث کتنی بار اسکے نزديک آکر اسے امتحان سے دو چار کر ديتی ہيں۔
"جی" وہ سنبھل کر بيٹھا۔
"يہ زرناب کے باس فخر۔۔ وہی جس کے ابا اسکا رشتہ لے کر جانا چاہتے ہيں۔۔ تم نے اس لڑکے کے بارے ميں پتہ کروايا ہے؟" اسکے سوال پر مارج نے بھنويں سکيڑيں۔
"کس قسم کا پتہ؟" وہ اسکا سوال نہ سمجھ سکا۔
"ارے بھئ ۔۔۔ کہ وہ ہماری زرناب کے قابل ہے بھی کے نہيں۔۔ اسکی باتوں سے تو وہ مجھے ايک نمبر کا کوئ ٹھرکی اور لڑکيوں کے پيچھے رہنے والا لگتا ہے۔۔۔ اب ايسے شخص کو ہم اپنی زرناب کس لئے ديں" غصے اور جوش ميں وہ ہميشہ کی طرح سوچے سمجھے بنا بولتی چلی گئ۔
اسکے ٹھرکی کہنے پر مارج نے لاحول پڑھی۔
"ميں نے ايک دو بندے لگواۓ ہوئے ہيں اس کام پر۔۔ مجھے بھی اسکی کوئ اتنی اچھی ريپوٹيشن نہيں لگتی۔ ملک سائيں سے بات کرتا ہوں" مارج کی بات پر اسے کچھ تسلی ہوئ۔
"وہی نا۔۔ اب زرناب کو اسکی خراب ريپويٹيشن کا پتہ ہے۔۔ ميرے سمجھانے پہ وہ بے وقوف کہتی ہے تو کيا ہوا۔۔۔تمہيں کون سا شادی کے ٹائم بھائ سے محبت تھی۔۔ مجھے بھی بعد ميں ہوجاۓ گی" اپنی ہی رو ميں اور اپنی عادت سے مجبور وہ کيا اعتراف کس کے سامنے کر گئ۔ اسے علم ہی نہيں ہوا۔
اسکی بات پہ آخری گھونٹ بھرتے مارج کو شديد اچھو لگا۔
"کيا ہوا" معصوميت سے اس سے پوچھا۔
"ابھی بھی کچھ ہونا باقی ہے" وہ الٹا اس سے بولا۔ سامنے رکھے ٹشو باکس سے ٹشوز لے کر منہ صاف کيا۔ اٹھ کر کچن کی جانب گيا۔ تاکہ اسکے انکشافات کو کچھ بريک لگے۔
____________________
ابھی اسکی شام کی حرکتوں کو مارج نے بمشکل اگنور کيا تھا کہ رات ميں جس وقت مارج سونے کے لئے اپنے کمرے ميں گيا۔ کچھ دير بعد اسکے کمرے کا دروازہ ناک کرکے اپنا تکيہ لئے مزے سے وہ اسکے کمرے ميں موجود تھی۔
"اب تم مجھے بے شرم کہو۔۔۔ بدتميز۔۔ بے باک۔۔۔ يا کچھ بھی۔۔ مگر مين سوں گی تمہارے کمرے ميں۔۔ مجھے اکيلے کمرے ميں نہيں سونا" اپنا تکيہ اسکے قريب رکھ کر اسکے قريب رکھا تکيہ اسکے اور اپنے درميان ميں رکھ کر وہ مزے سے اسکے بيڈ پر اسکے قريب ليٹ چکی تھی۔ مارج حق دق اسکے کارنامے ديکھ رہا تھا۔
"آپ کيوں چاہتی ہيں کہ مجھے چھوٹا موٹا ہارٹ اٹيک آج ہو ہی جاۓ" وہ جو اسکے قريب ہی نيم دراز تھا اسکی جانب رخ موڑ کر بولا۔
وہ رخ موڑے ليٹی تھی اسکی بات پر سيدھی ہوتی سيدھا اسکے سينے پر ايک مکا جڑا۔
"اگر ميں فضول باتيں کرتی ہوں نا ۔۔۔ تو تم مجھ سے بھی زيادہ فضول باتوں کے ريکارڈ توڑتے ہو۔۔۔" وہ بری طرح دہل گئ تھی۔
چہرے کی اڑی رنگت مارج کو اچھی طرح اسکی اب اسکی زندگی ميں حيثيت بہت اچھی طرح اسے سمجھا گئ تھی۔
کتنا خوبصورت احساس تھا کہ وہ اسے چاہنے لگی تھی۔۔ اب اسکے مرنے پر بھی کوئ رونے والا تکليف محسوس کرنے والا ہوگا۔ وہ جو بے نام اور بغير رشتوں کے زندگی گزار رہا تھا۔ کوئ اسکے دل کے قريب آنے اور اس دل ميں رہنے کا خواہاں تھا۔
"کيا ہے اب؟" اسے ٹکٹکی باندھ کے خود کو ديکھتا پا کر اسکے ماتھے پر شکنيں نمودار ہوئيں۔
"کچھ نہيں۔۔ ميں نے تو کچھ نہيں کہا" اسکی ناگواری پر وہ حيران ہوا۔
"تو يوں گھور کيوں رہے ہو۔۔۔ نہيں ڈرنے والی ميں تمہارے غصے سے ۔۔ سوؤں گی تو يہيں" اٹل انداز ميں کہتی اسکے پيار سے اسے ديکھنے کو کچھ اور ہی سمجھ کر بولی۔
"محبت کرنے کا پتہ ہے محسوس کرنا بھی سيکھيں۔۔۔" اسکے پيار سے ديکھنے کو وہ گھور کر ديکھنا سمجھ رہی تھی۔
"پتہ نہيں کيا کہہ رہے ہو" ہاتھ اٹھا کر گويا مکھی اڑائ۔
کروٹ لے کر پھر سے ليٹ گئ۔
"اپنی مرتبہ معصوميت کے ريکارڈ توڑتے اظہار کريں۔۔۔ اور ميری دفعہ آپ کو نہيں پتہ مين کيا کہہ رہا ہوں" سر ہلاتے اسکی بے نيازی پہ وہ داد دئيے بنا نہيں رہا۔
اسکی جانب سے کوئ بمباری نہيں ہوئ۔ جس کا مطلب تھا وہ سو بھی چکی ہے۔ پچھلی رات کی ٹينشن کے باعث اسکی نيند بہت بری طرح خراب ہوئ تھی۔ لہذا اب سونے ميں ايک سيکنڈ بھی نہيں لگايا۔
مارج کچھ دير اسکی پشت کو ديکھتا رہا۔ گھنے سياہ بالوں کو کھول کے سونے کی عادت تھی۔ جو اس لمحے مارج کو نہايت گراں گزر رہی تھی۔ شکر تھا کہ دوپٹے کو اپنے اوپر پھيلا رکھا تھا۔
دوبار اسکے وجود سے نظر چرائ۔ آخر تيسری بار دل کے مجبور کرنے پر آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں کی نرماہٹ کو محسوس کيا۔
"آج کمرے اور بيڈ پر بھی قابض ہوگئ ہيں۔ کل کو پورے دل کو قبضے مين کرليں گی۔۔۔" ہولے سے اسکے سوتے وجود سے مخاطب ہوا۔ اسکے جاگتے ہوۓ وہ ايسا کوئ اظہار اس سے کرنے کی ہمت نہيں رکھتا تھا۔
مسکرا کر اسکے بالوں سے ہاتھ نکالا۔ اٹھ کر لائيٹ آف کی واپس اپنی جگہ پر ليٹا۔ پھر نجانے کيا سوچ کر ايک ہاتھ آہستہ سے اسکے بازو پر رکھا۔ شايد وہ خود بھی کل رات کے واقع سے ڈر گيا تھا۔ اگر ان دونوں ميں سے کسی کو وہ شخص کوئ نقصان پہنچاتا۔
بہن تو عزيز تھی ہی ۔۔۔۔ نشرہ بھی اب تو جان سے بڑھ کر عزيز ہوگئ تھی۔ مگر يہ بات ابھی وہ اسے بتانے کا حوصلہ نہيں رکھتا تھا۔
____________________
"ميں صدقے ميں قربان ميری دھی اتنے دنوں بعد آئ ہے" صفورہ خالہ محبت سے اسے خود سے لپٹاۓ بوليں۔ شام ميں وہ سوات پہنچی تھی۔
اس وقت سب اسکے اردگرد موجود تھے۔ وہ اس سب کو بہت عزيز تھی۔
"ميں ٹھيک ہوں خالہ آپ کيسی ہيں" وہ بھی محبت سے انکے ساتھ لپٹی ہوئ تھی۔
"بس بيٹا زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔۔ تمہيں کسی مضبوط ہاتھوں ميں دے جاؤں تو سکون سے مر سکوں" وہ ياسيت سے بوليں۔
"ايسا نہ کہيں۔۔ آپ ہی تو ميرا سب کچھ ہيں" وہ محبت سے انکے گرد بازو لپيٹ کر بولی۔
ابھی تک اس نے انہيں ملک اياز، مارج اور نشرہ سے ملنے کے بارے ميں نہيں بتايا تھا۔ اسی کشمکش ميں تھی کہ انہيں بتاۓ کہ نہيں۔
"اچھا چل۔۔ منہ ہاتھ دھو کر آ۔۔ تھوڑا آرام کرلے رات کو خوب باتيں کريں گے" اسکے چہرے پر ہاتھ رکھ کر پيار سے کہا۔
"جی خالہ ضرور" وہ اٹھ کر واش روم ميں جا چکی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد سب ابھی صفورہ خالہ کے کمرے ميں جمع باتيں کررہے تھے کہ بيل بجی۔
"اس وقت کون ہوسکتا ہے" فيروز خان نے گھڑی پر وقت ديکھا نو بج رہے تھے۔
"بابا مين ديکھتا ہوں" مہروز بولا۔
کچھ ہی دير بعد وہ واپس کمرے ميں آيا۔
"شاداں کا رشتہ دار آيا ہے۔ وہی جو دن ميں بھی آيا تھا۔۔۔ خالہ آپ سے ملنا چاہ رہا ہے۔ " مہروز نے اطلاع دی۔
"اس وقت اسے تو کل آنے کو کہا تھا" فيروز خان بھی حيران ہوا۔
"ميں بھی چلتا ہوں" اپنی بيساکھياں لئے وہ بھی صفورہ خالہ کے پيچھے چل پڑا۔ زرناب اور ماہ گل (صفورہ خالہ کی بيٹی) بھی ڈرائينگ روم کے دروازے پر پہنچيں۔ مگر اسکی اوٹ ميں کھڑی رہيں۔
"خيريت بيٹا اس وقت؟" خالہ اندر جاکر پريشان سے لہجے مين بوليں۔
"زرناب کہاں ہے؟" کوئ بھی دوسری بات کہے بنا وہ سيدھا اپنے مطلب کی بات پر آيا۔
"تت۔۔ تم کيوں پوچھ رہے ہو؟" خالہ کو اسکا لہجہ عجيب سا لگا۔ زرناب اس آواز پر چونکی يہ آواز۔۔ يہ لہجہ تو وہ ہزاروں ميں پہچان سکتی تھی۔
"وہی زرناب جسے لے کر آپ بھاگ آئيں ہيں۔۔ ميری ونی۔۔۔ وريد چوہدری کی ونی۔۔ کيا سمجھا تھا آپ نے ميں کبھی اسے ڈھونڈوں گا نہيں" صفورہ خالہ کو غصے سے گھورتے بولا۔
فيروز خان اس کا بے ادب لہجہ سن کر غصے ميں آيا۔
"تم نے ہم سے جھوٹ بولا"
"تم نے بھی تو جھوٹ بولا تھا۔ جب ميرا بندہ يہاں پتہ کرنے آيا تھا ۔۔۔ تمہی نے کہا تھا نا کہ صفورہ خالہ اب زندہ نہہيں اور انکی بيٹی اور داماديہاں نہيں رہتے" اسکا بس نہيں چل رہا تھا اس شخص کو يہيں زمين ميں گاڑھ دے۔
"يہی ہے نا تمہاری بيوی" ايک تہہ شدہ کاغذ اسکے سامنے کيا۔ جس پر اسکی بيوی کا اسکيچ موجود تھا۔
"تم ہماری غيرت کو للکار رہے ہو اب" وہ غصے ميں بھرا آگے بڑھا۔
"تم نے ميری غيرت کو اپنے پاس چھپا رکھا ہے۔۔ اس کا کيا" زرناب کو معاملہ اب خطرناک حد تک سنجيدہ ہوتا لگا۔
اسکے محسن اسکی وجہ سے کيوں کسی نقصان سے گزريں۔ اب اسکا سامنے آنا ضروری تھی۔
چہرے کو نقاب ميں چھپاۓ وہ اندر بڑھی۔ ماہ گل اسے روکتی رہ گئيں،
"ميں ہوں زرناب۔۔۔ مجھ سے بات کرو" صفورہ خالہ کے پيچھے موجود دروازے سے ايک لڑکی ڈرائينگ روم ميں داخل ہوئ۔۔۔
وہ جو غصے سے فيروز کو ديکھ رہا تھا۔ اس آواز۔۔ انداز اور آنکھوں نے اسے منجمد کرديا۔
"ديکھتے ہيں کس کے دعوے اسکے سامنے آتے ہيں۔۔ آپکے يا ميرے۔" کسی کے الفاظ اسکی نظروں کے سامنے گھومے۔۔۔ دنيا گول ہے اور اس بات کا يقين آج وريد چوہدری کو بڑی بری طرح ہوا تھا۔
I can only speak for those that do not know me
I can only write the words that would not show me
I will never quite explain what I've been doing
I am you and you are me but we are nothing
My heart broke and rose to go but I'm not going
'Cause I loved you long before the day I told you
And it's you and it's me
And it's time on our side
Tonight I want you to be my safety rope
And she said that I want my innocence man
I want my confidence back
I don't wanna feel like this no more
"تت۔۔۔ تم۔۔ نار۔۔ نار احسان" سرگوشی کے سے انداز ميں بمشکل يہ چند الفاظ اسکے ہونٹوں سے برآمد ہوۓ۔ وہ جو پورے زمانے ميں اسے ڈھونڈتا رہا۔۔ وہ تو کب سے اسکے سامنے تھی۔
وہ دشمن۔۔۔ جس سے بدلہ لينا تھا۔۔ جسے سبق سکھانا تھا۔۔ وريد چوہدری کی دسترس سے بنا اجازت بھاگنے پر اسے جرمانہ بھرنا تھا۔۔۔ وہ يوں اسکے سامنے رہ کر اسے ہی سبق سکھا گئ۔
"نار احسان نہيں۔۔ زرناب ملک۔۔۔" اسکا مضوط لہجہ بے خوف نظريں اور اعتماد۔۔۔۔ وريد چوہدری کا غرور تو کب کا پاش پاش کرچکا تھا۔
وہ سمجھا کيوں نہيں۔۔۔ وہ جانا کيوں نہيں۔۔۔ اسکی ذومعنی باتوں کے مفہوم۔ اسکا مارج ملک اور نشرہ ملک سے تعلق۔۔
وہ جو خود کو عقل کل سمجھتا تھا۔۔۔ وہ تو دنيا کا چغد ترين شخص نکلا۔
يا شايد غرور انسان کو ايسے ہی اندھا کرکے قسمت کی لاٹھی سے ايسا وار کرتا ہے کہ وہ پھر اٹھ نہيں سکتا۔
وہ جسے نفرت کرتا تھا شديد نفرت۔۔۔۔ قسمت نے ايسا پلٹا کھايا کہ اسی کی چاہ لئے در در پر بھٹکنے لگا۔
اور قسمت کی ستم ظريفی کے اسکے آگے گڑگڑايا۔
"تم جانتی تھيں؟" سب خاموش تماشائ بنے ان دونوں کو ديکھ رہے تھے۔
اب ہی تو وقت کی طنابيں زرناب کے ہاتھوں مين تھيں۔۔
اب ہی تو وہ پتلی بنا اسکے سامنے کھڑا تھا جسے وہ جہاں چاہے موڑ ديتی۔
"ہاں۔۔۔ مگر افسوس آپ مجھے يہاں وہاں ڈھونڈتے رہے۔۔۔ آج ديکھيں۔۔۔ قسمت نے کيسا انصاف کيا ہے۔۔
جہاں بہت سال پہلے ميں بے بس کھڑی تھی۔۔ آج وہيں آپ بے بس ہيں اور ميں کل مختار۔۔۔ مگر آپ جيسی ظالم نہيں بنوں گی۔۔۔۔ نہ آپکی طرح طاقت دکھاؤں گی" وہ انگلی اٹھا کر اسکی آنکھوں ميں ديکھتی اسے وہ وقت ياد کروا رہی تھی۔ جسے اس لمحے وريد اپنی زندگی کے اوراق سے پھاڑ کر مسل دينا چاہتا تھا۔
"تم نے مجھے بتايا کيوں نہيں" اسکی نظروں ميں بے بسی تھی۔۔۔ محبت کرلا رہی تھی۔
دشمنی تو نجانے کہاں جاسوئ تھی۔۔۔ اندر باہر۔۔۔ پورا وجود بے بسی کی تصوير بنا کھڑا تھا۔
"تو کيا کرتے۔۔۔ مارتے۔ تکليف ديتے۔۔۔ فائدہ اٹھاتے ميرا۔۔ بوليں۔۔۔۔ آپکی طاقت اور ہے ہی کيا" وريد نے تو اسے جسمانی تکليف پہنچائ تھی۔۔ مگر وہ ۔۔۔ وہ تو لفظوں کے تيروں سے اسکا وجود چھلنی کررہی تھی۔۔ جس پر کوئ پھايہ۔۔ کوئ مرہم اثر نہيں کرتی۔۔
"تم ۔۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔ زرناب کوئ اور ہے نا" ايک آخری اميد کے تحت اس نے کپکپاتی آواز ميں پوچھا۔
زندگی نے اسے يوں بھی کبھی لاچار کرنا تھا۔۔ زرناب ہولے سے ہنسی۔۔۔
"نہيں۔۔۔۔ زرناب اور نار ايک ہی ہستی کے دو رخ ہيں۔۔ آپ جيسے درندے نے مجھے ميری پہچان ختم کرنے پر مجبور کيا۔۔ تاکہ ميں کبھی يہ ياد نہ کرسکوں کہ زرناب ملک بھی کوئ تھی۔۔۔ وہ تو آپکی بڑی سی حويلی ميں ہی مر گئ تھی۔۔ سسک سسک کر مر گئ تھی۔۔ وہ بچی جسے ونی کا مطلب بھی نہيں پتہ تھا۔۔ جسے يہ تک نہيں معلوم تھا کہ وہ کس گناہ کی پاداش ميں يوں مار کھاتی ہے کہ اسکی تکليف پر مرہم رکھنے والے کو بھی تکليف سے دوچار کيا جاتا ہے۔۔۔" اسکے چہرے سے نظر ہٹا کر اس نے اپنی ڈبڈباتی آنکھوں پر بمشکل بندھ باندھے۔
"آپکے سامنے نار احسان کھڑی ہے۔۔ جس نے آپکی حويلی سے نکل کر دنيا کا مقابلہ کيا۔۔۔ اپنی ايک نئ پہچان بنائ۔ اپنوں کے ہوتے ہوۓ۔۔۔ يتيم زندگی گزاری۔۔۔ اور آج آپ آگئے اس سے مزيد بدلے لينے۔ " اسکی کڑی نظروں نے وريد کے شل ہوتے وجود پر ايک ترحم بھری نظر ڈالنا بھی ضروری نہ سمجھی۔
"کھڑی ہوں ميں آپکے سامنے۔۔ لائيں اپنا کوئ نيا ہتھيار۔۔ کريں ميرے وجود کو پھر سے زخمی۔۔ ماريں مجھے۔۔
يہی طاقت ہے نا آپکی۔۔۔ کريں مظاہرہ اپنی طاقت کا۔۔۔" وہ چںد قدم چل کراسکے مقابل کھڑی ہوئ۔
"زرناب" صفورہ خالہ نے ڈری ڈری آواز ميں اسے پکارا مبادا وريد چوہدری کے اندر کا جانور پھر سے باہر آجاتا۔
"نہيں خالہ۔۔۔۔ آج نہيں ۔۔۔ اب نہيں۔۔۔۔ مين بھی ديکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ جس تعليم کو يہ لوگوں ميں بانٹتے پھرتے ہيں اس نے ان کو وہی وحشی اور درندہ بنائے رکھا ہے يا پھر يہ ڈگرياں۔۔ يہ عقل ۔۔ يہ سمجھ فقط لوگوں کو دھوکہ دينے کے لئے ہے۔۔۔ ماريں مجھے۔۔۔ اور تم۔۔۔" اسکی آنکھوں ميں آنکھيں ڈالے وہ ہر خطرے سے بے بہرہ اسے آزما رہی تھی۔
مڑ کر مہروز کو ديکھا۔
"اس واقع کی ويڈيو بنانا۔۔ تاکہ انکے چاہنے والوں کو معلوم ہو کہ وريد چوہدری۔ پروفيسر اور موٹيوشنل اسپيکر اپنی طاقت کا نشہ ايک بے بس لڑکی پر نکال کر جشن مناتا ہے" اسکا ايک ايک لفظ وريد کو پاگل کررہا تھا۔
"اور اگر ميں آج ابھی اسی لمحے ہر بدلے سے۔۔ ہر نفرت سے دستبردار ہو جاؤں" اسکی نظريں ايک لمحے کو بھی اس پر سے نہيں ہٹيں تھيں۔۔۔
آنکھوں سے لپکتے جذبے نفرت پر فوقيت لے گئے تھے۔ اسے معلوم ہو گيا تھا کہ شديد محبت کبھی کبھی شديد نفرت پر حاوی آجاتی ہے۔
"ارے اتنی سی دھمکی پر ہی اپنی نفرت سے دستبردار ہوگئے۔ يہ تو وريد چوہدری کے شايان شان نہيں" اسکی بات پر وہ لمحہ بھر کے لئے ساکت ہوئ تھی۔ پھر طنز سے بھرپور وار کيا۔
"تم ميری ونی ہو يہ مت بھولو" اب کی بار اسکے لہجے ميں سختی در آئ۔
"ونی ہوں۔۔ بيوی نہيں۔۔۔ شايد ياد ہو آپ کو ہمارا کبھی بھی نکاح نہيں ہوا۔ لہذا آپ مجھ پر کسی قسم کا حق نہيں جتا سکتے" ابرو اچکا کر اسے بہت کچھ باور کروايا۔
"ہوا نہيں تو ابھی اسی وقت ہو تو سکتا ہے" وہ بھی وريد چوہدری تھا ہارنے والا کہاں تھا۔
اسکی بات پر فيروز خان نے يک لخت آگے بڑھ کر زرناب کو بازو سے پکڑ کر وريد سے فاصلے پر کيا۔
وريد نے نہايت ناگواری سے اسکا ہاتھ زرناب کے بازو پر دھرا ديکھا۔ تيزی سے آگے بڑھ کرفيروز خان کا ہاتھ جھٹکے سے اسکے بازو سے الگ کيا۔
"اگر ميں تمہيں ہاتھ لگانے کا حق نہيں رکھتا تو کوئ اور بھی يہ حق نہيں رکھتا۔۔۔ سمجھا دينا ان سب کو۔۔۔ اور تم سے دستبردار تو اب ميں مر کر ہی ہوں گا۔۔۔ آج جس حقيقت کو جان ليا ہے اسکے بعد اتنی آسانی سے تمہيں چھوڑوں گا تو نہيں" اسکے روبرو آکر اپنی بے خوف و خطر نظريں اسکی ششدر آنکھوں ميں گاڑھيں۔
"مجھے زرناب عرف نار چاہئے۔ ہر قيمت پر" ايک ايک لفظ چبا چبا کر بولا۔
"ميری کوئ قيمت نہيں۔۔ سمجھے آپ" وہ غرائ۔
"تمہاری کوئ قيمت ہو بھی نہيں سکتی۔۔۔ بہت انمول ہو تم۔۔۔ آخر وريد چوہدری کی محبت ہو" سب کے سامنے يہ اعتراف زرناب کو
شرم سےپانی پانی کر گيا۔
"معلوم ہوگيا آج آپ کو کہ زرناب کون ہے۔ تو بہتر ہے کہ اب آپ يہاں سے تشريف لے جائيں" اسکی بات کو بری طرح نظر انداز کرکے وہ کڑے لہجے ميں بولی۔
"ابھی کہاں۔۔ ابھی تو اصل کہانی شروع ہوئ ہے۔۔۔ اب ونی کو نکاح ميں لانا ہے۔۔۔۔ آج تو ميں يہاں سے جارہا ہوں۔۔ مگر اس محبت اور نفرت کا ابھی دی اينڈ نہيں ہوا۔۔۔" نظروں سے چنگارياں نکالتا اسے وارن کرتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گيا۔
"اب کيا ہوگا؟" صفورہ خالہ اسکی دھمکی پر دل تھام کر رہ گئيں۔
"کچھ نہيں ہوگا خالہ۔۔ جو ميری قسمت ميں لکھا ہے وہی ہوگا۔ اور ميری قسمت ميں اس بار يہ شخص ہر گز نہيں ہوگا" وہ بھی اٹل لہجے ميں بولی۔
________________________
"گاڑی شہر ميرے گھر کی جانب موڑو" گاڑی ميں بيٹھتے زوردار دھماکے کی آواز سے دروازہ بند کيا۔
اسکے سامنے تو اپنا بھرم رکھ آيا تھا۔ مگر اس وقت اکيلے ہوتے ہی اسکا دل کيا تھا دنيا کو تہس نہس کردے۔
کس ہوشياری سے اس لڑکی نے اسے بے وقوف بنايا تھا۔
وہ اسکے سامنے تھی۔۔۔ اسکی محبت کا مذاق بھی اڑاتی ہو گی۔ اور يہ سوچ آتے ہی وريد کا دل کيا گاڑی واپس موڑے اور اسے بتائے کہ وريد کتنا درندہ ہے۔
مگر نہيں۔۔۔ اب اسے حاصل کرنا تھا اور اسکے لئے اسے نفرت نہيں اس بار زرناب کو محبت کی مار مارنی تھی۔
اسے خود سے قريب کرنا تھا دور نہيں۔۔۔
مضطرب انداز ميں ہاتھ بالوں ميں پھيرا۔
محبت تو اسے تھی زرناب کو نہيں۔ پھر وہ کيونکر اسے اپنا آپ سونپے گی۔
دنيا کو تسخير کرنے والا۔۔۔ آج صنف نازک کے سامنے بے بس ہوگيا تھا۔ وہ اسے کيسے تسخير کرتا۔
جو ناقابل تسخير بنی پل پل اسکا امتحان لے رہی تھی۔
صبح کے قريب وہ گھر پہنچا۔ ايک لمحے کے لئے بھی آنکھ نہ لگی تھی۔ بچپن سے اب تک کے تمام واقعات ايک فلم کی طرح چلتے رہے تھے۔
گاڑی پورچ ميں کھڑی ہوتے ہی وہ اندر کی جانب بڑھا۔
وہ کھولن جس پر وہ اب تک قابو کئے بيٹھا تھا۔ آخر تو اسے نکالنا تھا۔
کمرے ميں آتے ہی پورا کمرہ تہس نہس کرديا۔۔۔
"کيسے۔۔۔۔۔ کيسے تم نے مجھے بے وقوف بنا ديا" وہ چلا رہا تھا۔
محبت يوں تکليف سے دوچار کرے گی اسے اندازہ نہ تھی۔۔ کب کيسے وہ اس آکٹوپس ميں جکڑا گيا۔
"بہت برا بدلہ ليا ہے تم نے۔۔۔۔۔ بہت برا۔۔۔۔ تم اب کسی صورت ميری زندگی سے نہيں نکل سکتيں۔۔۔ چاہے جو بھی کرلو۔۔۔۔" وہ اسکے تصور سے مخاطب تھا۔۔۔
واش روم ميں جاکر واش بيسن کا نل کھول کر پانی کے چھينٹے چہرے پر مارے۔۔۔ اندر کی تپش کم ہونے کا نام نہيں لے رہی تھی۔۔۔
يہی محبت کا کمال تھا کہ اسکی نفرت کی آگ کو صبر سے بجھا رہی تھی۔ اور اصل محبت ہی يہی ہے جو بدل دے۔۔۔۔ محبت اسے بدل رہی تھی ورنہ کيا مشکل تھا اس دھان پان سی لڑکی کو دھنک کر رکھ دينا۔
اپنی طاقت اور زور بازو پر اپنے گارڈز کی مدد سے اسے وہاں سے اٹھوا لينا۔۔ مگر نہيں۔۔
اس نے اسے ہاتھ تک نہيں لگايا تھا۔۔۔ محبت نے اسکی درندگی ختم کردی تھی۔۔ اسکا غرور ختم کرديا تھا۔۔
وہ تو وريد چوہدری نہيں فقط زرناب کا محبوب تھا۔ جسے وہ سب ماہ و سال بھول گئے تھے جو اس نے اس لڑکی سے بدلہ لينے کی چاہ ميں گزارے تھے۔۔
محبت کے سامنے نہ اسے وہ سال ياد تھے نہ ہی کوئ بدلہ بس ياد تھی تو زرناب۔۔ جسے اب اپنی زندگی ميں شامل کرنا تھا۔
_______________________
صبح ہوتے ہی نشرہ کو اپنا بازو کسی کی مضبوط گرفت ميں جکڑا محسوس ہوا۔
حيران ہوتے کروٹ مارج کی جانب لی۔
وہ اسکے قريب ہی تکيہ پر بازو دھرے بائيں ہاتھ سے اسکے بازو کو جکڑے سو رہا تھا۔
نشرہ کا دل بری طرح دھڑکا۔۔
چند پل اسے يہ يقين کرنے ميں لگے کہ آج پہلی بار مارج نے کوئ پيش قدمی کی ہے۔
ورنہ تو اسے محسوس ہورہا تھا وہ ساری زندگی اسی آس ميں گزار دے گی کہ وہ کبھی تو اسکی جانب متوجہ ہو۔
وہ تھا بھی تو بس اپنے آپ ميں رہنے والا۔
وہ اپنی سوچوں کے تانے بانے بننے ميں ہی مصروف تھی کہ اسی لمحے مارج کے موبائل کی ٹون بجی۔ مگر وہ بھی شايد دو راتوں کا تھکا ہوا تھا۔ موبائل کی آواز خاصی اونچی تھی مگر وہ پھر بھی نہيں اٹھا۔
نشرہ نے آہستہ سے اپنا بازو اسکے فولادی ہاتھ کے شکنجے سے نکالا۔
"مارج" دو تين بار اسے آواز دی مگر بے سدھ۔
اب کے نشرہ اٹھ کر بيٹھی۔
"مارج اٹھ بھی جاؤ" زچ ہوکر بولی۔ آخر جھجھکتے ہوۓ کندھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے ہلايا۔
"سارا دن بھی آندھی طوفان بنی رہتی ہيں اور اٹھاتی بھی جکھڑ کی طرح ہيں" اسکے زور زور سے ہلانے پر وہ بالآخر اٹھ گيا۔
مگر نيند سے جاگتے بھی حاضر جوابی غضب کی تھی۔ وہ واقعی مضبوط اعصاب کا تھا نہيں تو ہڑبڑا ضرور جاتا۔
"فون بج رہا ہے کب سے ۔۔۔ اٹھاؤ" اسکے بيڈ سے اٹھتے دوپٹہ درست کرتی اٹھی۔ ايک سرسری سی نظر اس پر ڈالی۔ جو سيدھا ہوتے نيند کے خمار سے لال ہوتی آنکھوں سے اسے ابھی بھی گھورنے ميں مصروف تھا۔
"رات سے گھورے جارہے ہو۔۔۔ ماروں گی اب" وہ اسکی گہری بولتی نظروں سے خفا ہوتی منہ پھلا کر اسکے پاس سے گزری۔
"آپ کو کوئ بے وقوف ہی گھورنے کی غلطی کرسکتا ہے۔۔۔۔ اور ميں بے وقوف ہر گز نہيں" اسکا ذومعنی لہجہ اب کے اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کرگيا۔
اسکی تيزی ديکھ کر وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
نشرہ کے کمرے سے جاتے ہی اس نے سائيڈ ٹيبل پر رکھا موبائل اٹھايا۔ زرناب کی کال تھی۔
فورا کال بيک کی۔
"ہيلو۔۔ تم ٹھيک ہو" وہ جانتا تھا رات وريد اس سے زرناب کی حيثيت سے مل چکا ہے۔ ملک اياز کے بندے مسلسل فيروز خان کے گھر کے آس پاس تھے۔ تاکہ کسی بھی غلط صورتحال کے پيدا ہونے سے پہلے حالات کو قابو ميں رکھ سکيں۔
مارج کو سب سے زيادہ ڈر اس بات کا تھا کہ کہيں وہ زرناب کو وہاں سے اٹھوا کرنا لے جاۓ۔ مگر اسکے سب خدشات محض خدشات ہی رہے۔
زرناب نے ساری روداد بيان کی۔
"تم اب ہاسٹل نہيں جاؤ گی" اس نے دو ٹوک انداز ميں کہا۔
"بھائ وہ مجھے کوئ نقصان نہيں پہنچاۓ گا۔۔ پہنچانا ہوتا تو کل رات ہی ميری اصليت سے واقف ہونے پر پہنچاتا" وہ اسے قائل کرنے لگی۔
"تمہيں ايسے لوگوں کا نہيں پتہ وہ کوئ اور چال چلے گا اور ميں کوئ رسک نہيں لے سکتا" وہ اسے سمجھانے لگا۔
"محفوظ تو ميں آپکے فليٹ پر بھی نہيں" اسکی بات پر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔
"ميں تايا سائيں کی وجہ سے خاموش تھا۔ ورنہ بہت پہلے وريد کے سامنے آچکا ہوتا تو يہ فليٹ والا واقعہ ہرگز نہ ہوتا۔۔ خير اسکا وہ بندہ جب نابينا ہو کر اسکے پاس پہنچے گا تب اسے معلوم ہوگا کہ اس نے مارج ملک کی عزت کی جانب نگاہ اٹھوا کر بہت غلط کيا ہے" وہ جبڑ ے بھينچ کر بولا۔
غصے سے ماتھے کی رگ ابھر آئ۔
"ميں آج واپس آرہی ہوں۔ اور فی الحال ميں ہاسٹل ميں ہی رہوں گی" وہ اپنا فيصلہ بتانے لگی۔
"زرناب۔۔۔۔" وہ اسکی ضد کے آگے زچ ہوا۔
"اوکے ليکن تم آج سے بارڈی گارڈز کے انڈر رہو گی" وہ بھی آخر اسکا بھائ تھا۔
"اور اس سے آگے تم ضد نہيں کروگی۔ اور ويک ايںڈز پر تم ہمارے پاس رہو گی" وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
"اچھا ٹھيک ہے" اسے آخر مارج کی بات مانتے ہی بنی۔
"گڈ گرل" محبت سے کہتے اس نے فون بند کيا۔
"اب تم سے ملاقات کا وقت ہوگيا ہے" فون بند کرکے وہ وريد کے تصور سے مخاطب ہوا۔
"مارج ناشتہ کرلو" نشرہ کی آواز اسے خيالوں سے باہر لائ۔

آج وہ يونيورسٹی نہيں گيا تھا۔ ذہن شديد منتشر تھا۔ ايسی حالت ميں فی الحال وہ کسی اور کو فيس نہيں کرنا چاہتا تھا۔
کچھ دير پہلے اسے اپنے اس بندے کے اٹھاۓ جانے کی خبر ملی تھی جو اس رات مارج ملک کے فليٹ پر گيا تھا۔
اس وجہ سے بھی وہ کچھ بپھرا بيٹھا تھا۔
"صاحب۔۔۔ مارج ملک آيا ہے آپ سے ملنے" وہ جو لاؤنج ميں ٹی وی ديکھ کم اور اپنی سوچوں ميں زيادہ مگن بيٹھا کافی پی رہا تھا اپنے ملازم کے اندر آکر اطلاع دينے پر چونکا۔
اپنے مخصوص لباس سفيد شلوار قميض ميں ملبوس ٹانگ پر ٹانگ رکھے بيٹھا تھا۔
"بھيج دو" ہاتھ سے اسے مارج کو لانے کا اشارہ کيا۔
"جی صاحب" وہ الٹے پاؤں باہر روانہ ہوا۔
کچھ ہی دير بعد مضبوط بھاری قدموں کی دھمک لاؤنج کے دروازے پر ابھری۔
گردن موڑ کر اس نے آنے والے کو ديکھا۔ جس کا چہرہ پرسکون مگر آنکھوں سے شعلے لپک رہےتھے۔
"آؤ بھئ" اسے دروازے کے ہی قريب کھڑے ديکھ کر اندر آنے کا اشارہ کيا۔ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔
ستائشی نظروں سے وريد نے سياہ شلوار قميض ميں ملبوس اونچے لمجے مارج کو ديکھا۔
دونوں کے قد ايک جتنے ہی تھے۔
وہ چلتا ہوا اسکے مقابل کھڑا ہوا۔
"اچھا کيا تم آگئے۔ ورنہ بہت جلد ميں تم تک آنے والا تھا" دونوں پشت پر ہاتھ باندھے ايک دوسرے کو ديکھ رہے تھے۔
وريد کے چہرے پر محظوظ کن مسکراہٹ تھی جبکہ مارج کا چہرہ انتہائ سنجيدہ تھا۔
"اپنے بندے کی خبر تو مل ہی گئ ہوگی تمہيں" اسکی بات پر وريد ہولے سے ہنسا انداز زچ کرنے والا تھا مگر مقابل بھی مارج تھا۔۔ برف کی مانند ٹھنڈے مزاج کا۔
"بالکل۔۔ تمہاری پھرتی کی داد دينی چاہئيے" وہ ہولے ہولے سر ہلاتا گويا اسے سراہ رہا تھا۔
"اور تمہاری ہمت کی بھی۔ کہ ميری بہن تک پہنچنے کی غلطی کی" مارج کی بات پر اسکے مسکراتے لب سکڑے۔
"الفاظ کا استعمال درست کرو۔۔ غلطی نہيں۔۔۔ تمہاری بہن کی بہتری کے لئے پہنچا۔ ورنہ وہ تو فخر جيسے شخص سے شادی کرنے چلی تھی۔۔۔ جو اسے عام مردوں کی طرح صرف ايک شو پيس بنا کر رکھتا" اسکی آنکھوں ميں آنکھيں گاڑے وہ اسے جتا کر بولا۔
"اسکے لئے دنيا ميں ايک وہی اور ايک تم ہی نہيں رہ گئے۔۔۔" دائيں آنکھ کی ابرو اٹھا کر وہ بھی اسے جتاۓ بغير نہ رہا۔
"مگر ميرے لئے ايک وہی ہے۔۔۔ يہ بات خود بھی سمجھ جاؤ اور اپنے بڑوں کو بھی سمجھا دو۔ بہت جلد ميرے گھر والے رشتہ لے کر آئيں گے" اسکی بات پر مارج کے پتھريلے تاثرات ميں دراڑ پڑی۔ ہلکا سا قہقہہ اسکے منہ سے برآمد ہوا۔
"ونی ہوئ لڑکی کے لئے رشتہ نہيں لے کر جايا جاتا۔۔۔۔ ہاں دستبردار ضرور ہوا جاتا ہے" بات ختم کرنے تک اسکی آنکھوں ميں سختی در آئ۔
"دستبردار ہونے کے لئے ميرا اس دنيا ميں نہ ہونا ضروری ہے۔۔ اور ابھی مجھے تمہاری بہن کے ساتھ ايک لمبی عمر گزارنی ہے۔۔ اپنے بچوں سميت۔۔۔" اسے چيلنج کرتے وہ اسکے چہرے کی متغير حالت پر محظوظ ہوا۔
"يہ بات پہلے اپنے خاندان ميں کرو۔۔۔ پھر ہم تک اپنے نادر خيالات پہنچانا۔۔ ميری بہن تک اب دوبارہ تم پہنچے تو ياد رکھنا آج تمہارے بندے کو اٹھايا ہے۔۔ کل تمہيں اٹھا کر اس دنيا سے بھيجنے ميں مجھے کوئ دکھ محسوس نہيں ہوگا۔
مائنڈ اٹ" انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گيا۔
وريد نے غصے ميں ايک ہاتھ کا مکا دوسرے ہاتھ کی ہتھيلی پر مارا۔
وہ جانتا تھا اسکے گھر والوں کو راضی کرنا ہی جان جوکھم کا کام ہے۔ ونی کے لئے وہ کہاں اپنی روايات ختم کريں گے۔
اسکے لئے کچھ مشکل نہيں تھا زرناب کو اٹھوا لينا۔ مگر دل نے جب سے محبت کا مزہ چکھا تھا۔
اپنے محبوب کی عزت کی پامالی پر وہ آمادہ نہيں تھا۔
اور محبت کی يہ سچائ سمجھنے کے لئے کوئ تيار نہيں تھا۔
_______________________
"تو وہ تم تک پہنچ بھی گيا" وہ دونوں اس وقت يزنيورسٹی کے قدرے کم رش والے گراؤنڈ ميں بيٹھيں تھيں۔
زرناب نے اس دن کا سب واقعہ اسے سنايا۔
"ہاں نا۔۔ تبھی تو تايا سائيں نے مجھے سوات بھجوايا تھا۔۔ خوب کلاس لی ميں نے اسکی" گھاس اکھاڑتے وہ سر جھٹک کر بولی۔
"جناب مجھ سے محبت کے دعويدار ہيں" زرناب نے مذاق اڑانے والے انداز ميں کہا۔
"محبت کرنے والوں کا يوں مذاق نہيں اڑاتے" وہ تو خود اسکی اسير تھی۔۔۔ اس سے بہتر کون جانتا تھا محبت کی تڑپ کيا ہوتی ہے۔
"محبت کرنے والا بھی سچا ہونا۔۔۔ وہ کپڑوں کی طرح محبت بدلتا ہے" اسکے لہجے ميں حقارت تھی۔
"زرناب کيا پتہ وہ سچ ميں تم سے محبت کرتا ہو۔۔ ديکھو نا۔۔ محبت انا کو توڑ ديتی ہے۔۔ اس ميں انا ہوتی تو وہ تمہيں يوں چھوڑتا۔۔۔ تمہاری مرضی سنتا۔۔ تمہيں چوائس ديتا۔۔" نشرہ نے اسکی بہت سی باتون کی جانب توجہ دلائ۔
"تم نے وہ دکھ نہيں سہا نا ميری جان۔۔۔۔۔ ميں آج بھی ان تھپڑوں کی ۔۔ پاؤں کی ٹھوکروں کی تکليف اپنے جسم پر محسوس کرتی ہوں۔۔۔ کيا ميں ايسے شخص کی سچی جھوٹی محبت محسوس کرسکتی ہوں۔ نہيں نشرہ۔۔۔۔ معاف کرنا اتنا آسان نہيں۔۔ اور پھر ايسے شخص کو جس نے ميری دوسری شناخت سے محبت کی۔۔ ميری اصل شناخت کو تو وہ مٹانے ہی آيا تھا نا۔۔ اسکی بدقسمتی کے آگے ميں تھی" وہ استہزائيہ ہنسی۔ آنکھوں ميں ہنسی ميں شديد درد تھا۔
"ميں مانتی ہوں اس نے جو بھی کيا وہ غلط تھا۔۔ مگر ہم بہت بار ايسا ہی کرتے ہيں کہ برتر شخص اپنے سے کم تر پر اپنا غصہ اور اپنی کھولن نکالتا ہے۔ مگر تم يہ بھی تو ديکھو کے وہ بدل گيا ہے۔ اس نے تمہاری اصل شناخت ہوتے ہی تم سے بدلہ نہيں ليا۔بلکہ وہ اپنی نفرت سے دستبردار ہوگیا۔۔۔ يہ کتنا بڑا انصاف کيا اللہ نے۔۔۔ وہ جو تمہيں تکليف سے دوچار کرتا رہا ۔۔۔۔ تمہارے ہی سامنے تمہاری محبت کی بھيک مانگنے لگا۔۔ وہ تو شاہ سے گدا بن گيا۔۔۔ کيا ايسا بدلہ بھی کسی کے ساتھ قسمت نے ليا ہوگا۔" اسکے ہاتھ تھامے وہ اسے سمجھا رہی تھی جو اسکی بات ماننے کو تيار نہيں تھی۔
"تم سوچو ۔۔۔ اگر اسے تمہارے دوسرے روپ سے محبت نہ ہوئ ہوتی تو کيا کرليتيں تم۔۔۔۔ کيسے اسکے مقابل کھڑے ہوکر اسے نيچا دکھاتيں" وہ اسے حقيقت بتلانے لگی۔
"تو تمہارا کيا خيال ہے ايسے بدلے لينے والی بيمار ذہن کے شخص کے ساتھ ميں شادی کرلوں۔۔ اس سے محبت کرنے لگوں۔۔ نہيں نشرہ يہ محبت صرف تبھی تک ہے جب تک ميں اسکی دسترس ميں نہيں۔۔ عادتيں بدلی جاسکتی ہيں خصلتيں نہيں۔ اور ايسے لوگوں کی خصلت ميں دوسروں کو نيچا دکھانا ہے۔ کيا گارنٹی ہے کہ ميں اس سے شادی کرلوں اور شادی کے بعد وہ شخص اپنے غصے پہ قابو پالے۔۔ کيا گارنٹی ہے کہ بچپن کی طرح وہ اپنی کھولن مجھے مار پيٹ کرنہ نکالے ۔۔۔ اس نے بچپن سے اپنے گھر يہی ديکھا ہے۔۔ وہ کيسے بدل سکتا ہے نشرہ۔۔ يہ تو آنکھيں بند کرکے کبوتر بننے والی بات ہے" اسکا ايک ايک لفظ صحيح تھا۔ نشرہ اسے ايسی کوئ گارنٹی نہيں ديے سکتی تھی۔ وہ جانتی ہی کتنا تھی وريد کو۔
______________________
رات ميں اس نے حويلی فون کيا۔
"کيسے ہو؟ مل گئ تمہيں وہ؟" ماں نے حال چال پوچھتے ہی اس سے سوال کيا۔
"کون؟" انکے سوال پر وہ يکدم چونکا۔ وہ تو کسی کو بتا کر نہيں گيا تھا کہ وہ زرناب کو ڈھونڈنے جارہا ہے۔
"نار احسان" ان کی بات پر اسکے تنے اعصاب ڈھيلے پڑے۔
"نار احسان نہيں۔۔۔ زرناب ملک" وہ انکی تصحيح کرنے لگا۔
"کيا مطلب؟" وہ چونکيں۔
وريد نے سب حقيقت انہيں کہہ سنائ۔
"کيسی ہے وہ بچی؟" انکے لہجے کی کپکپاہٹ اس سے چھپی نہ رہ سکی۔
وہ جانتا تھا اسکی ماں زرناب کے لئے نرم گوشہ رکھتيں تھيں۔ جب وہ ونی ہو کر آئ تھی تب بھی وہ اس سے نفرت کرنے والوں ميں شامل نہيں تھيں۔ بلکہ کئ بار اسے وريد کے اعتاب سے بچايا تھا۔
"بچی نہيں رہی وہ۔۔ شيرنی بن گئ ہے" وريد کے چہرے پر ايک خوش نما مسکراہٹ رينگی۔ايسے جيسے وہ سامنے ہی ہو۔
"ميرے بيٹے کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئ۔۔ يقينا بہت خاص ہوگئ ہے وہ" انہوں نے اسکی خوشگوار مسکراہٹ۔۔ مسکراتے لہجے سے بھانپ لی۔
"آپکے بيٹے کو کل بھی وہ چاہئے تھی اور آج بھی چاہئے ہے" وہ سنجيدہ ہوتے اپنے مطلب کی بات پر آيا۔
"تو وہ تو ونی ہے نا تمہاری" وہ کچھ الجھيں۔
"مگرميرے نکاح ميں تو نہيں ہے نا ماں" وہ بے بسی سے بولا۔
صغراء بيگم اسکے لہجے کی بے بسی پر جتنا حيران ہوتيں کم تھا۔ وہ تو کبھی کسی چيز کے لئے بے بس نہيں ہوا تھا۔
کچھ ملتا نہيں تھا تو وہ چھين ليتا تھا۔ مگر يہاں معاملہ چيز کا نہيں ايک جيتے جاگتے انسان کا تھا۔
"آپ اور بابا ملکوں کی حويلی ميرا رشتہ لے کر جائيں گے" اس نے خواہش کا اظہار نہيں کيا تھا گويا انکے پاؤں تلے سے زمين کھينچ لی تھی۔
"وريد کيا کرتے پھر رہے ہو بيٹا۔۔ پچھلی بار تو تمہارے باپ نے تمہيں بخش ديا تھا۔ ليکن مجھے ڈر ہے اس بار وہ تمہيں زندہ نہيں چھوڑيں گے۔۔۔ بيٹے۔۔۔ يہ آسان نہيں تم کيوں نہيں اس لڑکی کا خيال دل سے نکال ديتے" وہ بے چارگی سے بوليں۔
"خيال" انکی بات پر وہ ہنسا۔۔۔۔
"اسکا خيال نہيں وہ پوری کی پوری ميرے دل پر قابض ہوچکی ہے۔۔۔ اب وہ اس دل سے کبھی نہيں نکل سکتی۔۔ مگر ميں اسے کسی غلط طريقے سے اپنی زندگی ميں شامل نہيں کرسکتا۔۔ پليز اماں سائيں مجھے آپ کی مدد چاہئے" وہ ماں کو منانے لگا۔
"ميں تمہارے بابا سائيں سے ايسی کوئ بات نہيں کروں گی" وہ قطعيت بھرے لہجے ميں بوليں۔
"بات ميں خود کرلوں گا۔۔ آپ کو صرف ميرا ساتھ دينا ہے۔۔ " وہ لجاجت بھرے انداز ميں بولا۔
"اللہ ہی جانے کيا ہوگا اب" انکی آواز ميں جھنجھلاہٹ کے ساتھ ساتھ شديد پريشانی تھی۔
_______________________
رات ميں مارج ليپ ٹاپ پہ کسی کام ميں مصروف تھا اور وہ بيڈ پر اسکے قريب بيٹھی کتابيں پھيلائے نوٹس بنانے ميں مصروف تھی۔
"کيا ہوا؟" وہ کب سے کسی پوائنٹ پہ اٹکی ہوئ تھی۔ کبھی ايک کتاب کھولتی کبھی دوسری ۔ پھر ماتھے پر ہاتھ مارتی۔۔ پھر پيپرز پہ جھکتی۔۔ پھر سيدھی ہو کر بيٹھ جاتی
"يہ کوئسچن سمجھ ہی نہيں آرہا" روہانسی آواز ميں بولی۔
"شادی کا شوق رکھنے کی بجاۓ۔۔ پڑھائ کا شوق رکھتيں تو آج يہ دن نہ ديکھنے پڑتے" اسکے آگے سے پيپرز اٹھاتے۔ معنی خيز انداز ميں کہتا مسکراہٹ دبا کر بولا۔
"ارے۔۔۔ مجھے شادی کا شوق چڑھا تھا يا ابا سائيں کو تم میں سرخاب کے پر نظر آئے تھے۔ اور وہ بھی ايسے کہ ميری ايک نہ سنی" وہ منہ پھلا کر بولی۔
"اتنا آسان؟" کوئسچن ديکھ کر اس نے ليپ ٹاپ سائيڈ پر رکھا۔ اور رخ اسکی جانب کيا۔
"تم نے پڑھا کيا ہوا ہے" اسے تيزی سے کوئسچن سوالو کرتے ديکھ کر وہ ٹھوڑی کے نيچے ہاتھ اور کہنی گھٹنے پر رکھ کر بولی۔
"ايم بی اے؟" وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ مارج پڑھ رہا ہے۔ مگر يہ معلوم نہيں تھا کہ ايم بی اے کر رکھا ہے۔
"اسی لئے ميں ايم اکنامکس کو آسانی سے پڑھا سکتا ہے" چہرہ اٹھا کر شرير نظروں سے اسے ديکھا۔
"تبھی اتنی جلدی جلدی حل کر رہے ہو" وہ بھی امپريس ہوئ۔ اور خوش بھی کہ اسکا شريک حيات پڑھا لکھا تھا۔
"يہ ليں" سوال حل کرکے اسکے سامنے کيا۔ پھر سنجيدگی سے اسے سمجھانے لگا۔
"افف۔۔۔۔ يہاں پر ميں اسٹيپ غلط کررہی تھی تبھی سمجھ نہيں آرہا تھا" وہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی۔
"پڑھنے سے زيادہ مجھ پر توجہ رکھيں گی تو يہی ہوگا" مزے سے اسے چوٹ کرکے بولا۔
اور يہ صحيح بھی تھا۔ وہ آفس کی فائل کھول کر بيٹھا تھا۔
اور وہ پانچ چھ بار تھوڑا سا آگے ہو کر ديکھتی تھی کہ وہ کيا کررہا ہے؟ مارج محسوس تو کرچکا تھا ليکن ہميشہ کی طرح بنا تاثر کے اسکی حرکت نوٹ کررہا تھا۔
"ہاں اتنے ہی تم شہزادہ گلفام کے بس تمہيں ہی ديکھتی رہوں" اسکے چڑنے پہ وہ کھل کے مسکرايا۔
"ویسے تم فيس بک، انسٹا ، ٹوئٹر استعمال کرتے ہو؟" اب مزے سے وہ باقی سارے سوال حل کررہی تھی اور مارج اپنا ليپ ٹاپ پھر سے لے کر بيٹھا کام کررہا تھا۔
"نہيں۔۔ ان فضوليات کا شوق نہيں" وہ صاف گوئ سے بولا۔
"آپ يوز کرتی ہيں؟" کچھ سوچ کر اس سے پوچھا۔
"ہاں بس فيس بک۔۔ انسٹا کا کيا کرون گی۔ کون سا اپنی پکس اپ لوڈ کرسکتی ہون" اسکی بات پر مارج نے ايک تيز نظر اس پر ڈالی۔
"کبھی پوسٹ کرئيے گا بھی نہيں" اسے تببيہہ کی۔
"ہاں دنيا تو جيسے مجھے ہی ديکھنے کے لئے بيٹھی ہے" وہ ہنسی ميں اسکی بات اڑا گئ۔
"دنيا کو آپ دکھنی بھی نہيں چاہئيں" اسکا گھمبير سنجيدہ لہجہ نشرہ کو پل بھر کو گنگ کر گيا۔
کچھ دير انکے مابين خاموشی رہی۔
"تم جانتے ہو۔ زرناب سر وريد سے مل چکی ہے" اس نے اس سے پوچھا يا اطلاع دی اسے سمجھ نہيں آيا۔
"جی" مختصر جواب ديا۔
"سر وريد اس سے محبت کرتے ہيں" وہ یکدم جوش مين کتابيں پرے کرتے اسکی جانب آئ جيسے وہ اس بات پر خوشی سے جھوم اٹھے گا۔
ليپ ٹاپ سے نظريں ہٹا کر سنجيدہ مگر تيز نظروں سے اسے ديکھا۔
"چينج دا ٹاپک بی بی" اسکی بات پر نشرہ کا منہ حيرت سے کھلا۔
"ارے۔۔۔۔ مين تمہارا اٹرويو لے رہی ہوں۔۔ جو يہ کہہ رہے ہو" ماتھے پر بل آئے۔ ہونہہ کرے واپس اپنی جگہ پر بيٹھی۔
"دونوں بہن بھائ سڑيل ہيں" نوٹس پکڑ کر بڑبڑائ
"کچھ کہا آپ نے؟" اسکی تيز سماعتوں سے اسکی بڑبڑاہٹ چھپی نہ رہی۔
"ہاں۔۔ يہ کہا ہے کہ آئندہ بی بی نہ کہنا۔۔ کتنی بار کہوں تمہيں۔۔ نشرہ نام ہے ميرا۔ مسز نشرہ مارج ملک۔۔۔" مزے سے اسے واضح کيا۔
"اتنا لمبا نام۔۔ کچھ شارٹ ہو سکتا ہے" وہ سر کھجا کر بولا۔
"ہوسکتاہے۔۔۔ نشرہ۔۔ اتنا بھی لے لو۔ تو کوئ مسئلہ نہيں" وہ شان بے نيازی سے بولی۔
"يہ مجھ سے نہيں ليا جاۓ گا" وہ مايوسی سے بولا۔
"کيوں کانٹے ہيں ميرے نام ميں" وہ تڑخی۔
"نہيں۔۔ مين خود کو اس قابل نہيں سمجھتا کہ آپکا نام لوں" سادے سے لہجے ميں بولا۔
"افف مارج۔۔ بس کرو يہ سيلف پٹی۔۔۔۔ خبردار آئندہ ايسے کيا۔۔ مجھے تمہارا رعب جھاڑے والا انداز پسند ہے بس" مزے سے اسکی تعريفيں کيں۔۔۔ وہی بے نيازی جو مارج کو حد بندياں توڑنے پہ مجبور کرتی تھی۔
"آپ کو سچ ميں اپنے کہے کا اندازہ نہيں ہوتا يا آپ ميری شرافت آزماتی ہيں" ليپ ٹاپ بند کرکے اسے گہری نظروں سے ديکھا۔
"اب اگر شوہر کی تعريف نہ کروں تو کسی غير کی کروں" ہاتھ اٹھا کر بولی۔
"بالکل کريں مگر آپکے انداز بہت جان ليوا ہيں" اسکے بوجھل لہجے پر اسکے ہاتھوں کے طوطے اڑے۔۔
"اچھا صبح مجھے جلدی نکلنا ہے۔۔ ايک اسائنمنٹ فوٹو اسٹيٹ کروانی ہے" وہ فورا اسکا دھيان ہٹانے لگی۔
"جو حکم" اسکا متبسم شرير لہجہ اسے بہت اچھے سے سمجھا گيا کہ وہ اسکے بات بدلنے کو جان گيا ہے۔
"يہ لڑکا ميرا دماغ خراب کرکے چھوڑے گا۔۔ پتہ نہيں کيوں آگيا واپس۔ وہيں دفع رہتا تو بہتر تھا" کچھ دير پہلے ہی وريد کا فون آيا تھا۔ اور اسکی خواہش سن کر وجاہت چوہدری کا بھڑکنا فطری تھا۔
"کچھ۔۔۔۔ کچھ غلط ۔ ۔۔ بھی نہيں کہا اس نے" وہ بيڈ پر بيٹھيں انہيں کمرے ميں ادھر سے ادھر چکر کاٹتے ديکھ رہی تھيں۔
"کيا بکواس کی تم نے" يکدم مڑ کر آنکھيں نکالتے وہ انکی جانب آئے۔
"مم۔۔ ميں ۔۔ کہہ رہی ہوں۔۔ کہ اگر وہ ايسا چاہتا ہے۔ تو حرج ہی کيا ہے" انکی سرخ آنکھوں سے ڈرنے کے باوجود وہ بيٹے کے فيصلے کی طرفداری کررہی تھيں۔
"تمہيں نے تو پٹی نہيں پڑھائ اسے" وہ دھاڑے ۔۔۔
"نہيں نہيں۔۔۔ ميں تو خود حيران ہوئ تھی اسکی بات سن کر" وہ فورا صفائ پيش کرنے لگيں۔
"سوچنا بھی مت۔۔ اور اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔۔۔۔ اوقات کيا ہے تمہاری" ہاتھ پشت پر باندھے قہر بھری نظروں سے انہيں ديکھا۔
"اوقات تو عورت کی واقعی کوئ نہيں۔۔۔" درد بھرے لہجے ميں قيمض کے دامن پر ہاتھ پھيرتے انہوں نے ضبط سے اپنے آنسو باہر آنے سے روکے۔
"ہاں تو جب نہيں ہے۔ تو فضول ميں اسکی حمايت کرکے اسے سر چڑھانے کی ضرورت نہيں ہے۔۔۔ لگتا ہے اس لڑکی کا کچھ کرنا پڑے گا۔۔ اندھا کرديا ہے ميرے شيروں جيسے بيٹے کو۔۔۔ ارے عورت کے لئے پاگل ہورہا ہے" وہ جيسی ذہنيت رکھتے تھے ويسی ہی بات کی۔
صغراءبيگم نے سر اٹھا کر تاسف بھری نگاہوں سے انہيں ديکھا۔
اور دل ميں شکر ادا کيا کہ ان کے بيٹے کی زندگی ميں ايسی لڑکی آئ ہے جس نے اپنے عورت ہونے کو منوايا ہے۔
تہہ دل سے دعا کی " اے اللہ! اگر ميرا بيٹا اس لڑکی کے سنجيدہ ہے۔ اور اسے مان اور عزت دے سکتا ہے۔ تو اس لڑکی کا نصيب ميرے بيٹے سے جوڑ دے۔۔ تاکہ ان فرسودہ رسموں کا کہيں تو خاتمہ ہو۔۔ کوئ تو عورت ہو جو يہ دکھاۓ کہ وہ کتنی طاقتور ہے" باپ بيٹے کی پسند کو نيچا دکھانے کے منصوبے بنا رہا تھا اور ماں اسکی پسند پر شکر مناتی دعائيں مانگ رہی تھی۔
اور پھر ماں کی دعا کب اللہ نے رد کی ہے۔
________________________
آج دو دن بعد وہ يونيورسٹی جانے کے لئے تيار ہورہا تھا۔ تياری زيادہ خاص تھی۔
اب تو محبوب سامنے تھا۔۔ اسے ديکھنے، اپنے اردگرد محسوس کرنے کی تو اب بات ہی اور تھی۔
مسکراتے ہوۓ بالوں ميں جيل لگا کر بال سيٹ کئے۔ اپنے مخصوص لباس ڈارک گرے شلوار قميض پر لائيٹ گرے چادر لئے۔ اپنی وجاہت پر چار چاند لگواتا وہ پوری طرح محبوب کو زير کرنے کے لئے تيار تھا۔
آئينے ميں ديکھ کر ايسے مسکرايا جيسے سامنے اسکی شبيہہ نہيں زرناب کی شبيہہ ہو۔
"ديکھتے ہيں۔۔ آپ کب تک جھٹلاتی ہيں ہميں" اسکے عکس سےمخاطب ہوا۔
اسی لمحے موبائل بجا۔
برش رکھ کر ڈريسنگ پر رکھ موبائل اٹھايا۔ باپ کی کال تھی۔
"يقينا ميرے خيالات جان کر کل رات آپ کی نيند اڑ چکی ہوگی" وہ بھی ان کا باپ تھا۔ انکی رگ رگ سے واقف۔
"ديکھو بيٹے ميں نے ساری رات بہت سوچا۔۔
تمہيں وہ لڑکی چاہئے نہ۔۔ تو کيا ضروری ہے کہ تم اسے بيوی ہی بناؤ۔۔ ارے ايسے لڑکيوں کو اٹھوانا کيا مشکل ہے ميں کل ہی اسے تمہارے پاس پہنچوادوں گا۔ جتنے دن رکھنا ہے رکھو پھر مار مور کے پھينک دو" کڑے ضبط سے گزرتے اس نے باپ کی انتہائ نيچ بات تحمل سے سنی۔
"وہ ميری محبت ہے۔۔۔۔ اور ميری محبت کی ايسی توہين آپکے منہ سے سننے کے بعد مجھے اب اس بات کی خواہش ہی نہيں کے آپ ميرا رشتہ لے کر انکے گھر جائيں۔۔ اگر يہی سب مجھے کروانا ہوتا تو ميرے لئے کچھ مشکل نہيں تھا۔ مگر آپ يہ نہيں سمجھيں گے۔ کيونکہ آپ نے ہميشہ عورت کی توہين ہی کی ہے۔۔ مگر ميں اپنی محبت کی يہ توہين برداشت نہيں کرسکتا۔ آج تو آپکے يہ الفاظ ميں نے سن لئے ہيں۔۔ مگر آئندہ نہ تو سنوں گا اور نہ اتنے تحمل کا مظاہرہ کروں گا۔۔۔
آپ جيسے ہی مرد ہيں جنہوں نے مرد ذات کو بدنام کررکھا ہے۔۔ افسوس ہے ميں آپکی اولاد کيوں ہوں۔۔ اور شکر ہے کہ آپ جيسا نہيں بنا" جبڑے بھينچے وہ بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کررہا تھا۔
فون بند کرکے بيڈ پر پھينک کر وہ خود بھی بيڈ پر گرنے کے سے انداز ميں بيٹھا۔ سر ہاتھوں پر گراۓ وہ بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا۔ اسے گھن آرہی تھی خود سے اپنے باپ سے۔ اس وقت سے جب جب وہ بھی عورت کو ٹشوپیپر کی طرح برت چکا تھا۔
اور شايد اسی بات کی اسے سزا مل رہی تھی کہ آج ايک پاکدامن عورت اسکا وہ چہرہ تک ديکھنے کی روادار نہيں تھی جس پر وہ غرور کرتا تھا۔
_____________________
"مجھے تو لگتا ہے سر وريد نے يونيورسٹی چھوڑ دی ہے؟" ذروہ کی بات پر وہ دونوں جو اسکے ساتھ لائبريری ميں بيٹھيں تھيں ايک دوسری کی جانب محض دیکھ کر رہ گئيں۔
مگر انکا يوں ايک دوسرے کو ديکھنا ذروہ نے نوٹ کر ليا تھا۔
"تم دونوں کو کچھ معلوم ہے انکے بارے ميں کيا؟" اس نے مشکوک نظروں سے ان دونوں کو ديکھا۔
"نہيں يار" نشرہ اسے ٹالنے والے انداز ميں بولی۔
"پھر تم دونوں کو کيوں کوئ حيرت نہيں" وہ بھی بال کی کھال اتارنے لگی۔
"اس ميں حيرت کی کيا بات ہے۔ انسان کو سو کام ہوسکتے ہيں۔۔ نہيں آسکے ہوں گے وہ یونی۔۔ اور بھی تو ٹيچرز چھٹياں کرہی ليتے ہيں نا" اب کی بار زرناب آہستہ آواز ميں بولی۔
"ہاں مگر انکا پتہ چل جاتا ہے۔ ليکن سر کے بارے ميں کوئ نہيں جانتا کہ وہ کہاں ہيں" وہ جو مختلف ٹيچرز اور ايڈمن سے پوچھ چکی تھی اور سب نے لاعلمی کا مظاہرہ کيا تھا۔ اس بات پر وہ حيران تھی۔
"اور اگر چھوڑ بھی دی ہے يونی تو اچھی بات ہے۔۔۔" زرناب يکدم سر جھٹک کر بولی۔ اسی لمحے لائبريری کا دروازہ کھول کر کوئ عجلت ميں اندر آيا۔
"شکر سر آگئے ہين" ذروہ کا دروازے کی جانب رخ تھا۔ اسے اندر آتا دیکھ کر وہ خوشی سے بولی۔
وہ لائبريرين کے پاس کھڑا کچھ بات کررہا تھا۔ زرناب نے بے اختيار گردن موڑ کر دیکھا۔
گرے شلوار قميض پر موسم کے حساب سے چادر لئے وہ واقعی ايک شاندار مرد تھا۔ مگر افسوس زرناب اسکی اندرونی بدصورتی سے واقف تھی۔
"لو اب سکون کرلو تم" نشرہ کی بات پر ذروہ ہولے سے ہنسی۔
"ويسے کہيں تم بھی انہی لڑکيوں کی فہرست ميں شامل تو نہيں جنہيں سر پر کرش ہے" نشرہ کی بات پر ايک خوبصورت رنگ ذروہ کے چہرے پر آکر ٹہرا۔ زرناب نے حيرت اور افسوس سے اسے ديکھا۔
"ہر چمکتی چيز سونا نہيں ہوتی نجانے کب ہمارے ملک کی لڑکيوں کو يہ بات سمجھ آئے گی" زرناب نے افسوس سے سر ہلاتے کہا۔
"جب تک آپ جيسی لڑکياں اس ملک کے نوجوانوں کو سمجھانے کے لئے پيش پيش نہيں ہوں گی" اسکی آہستہ آواز ميں کہی بات اسکی تيز سماعتوں نے بڑی آسانی سے سن لی۔
اسے جو بک چاہئيے تھی وہ انہی کی ٹيبل پر موجود تھی۔ لائبريرين کے بتانے پر وہ انکی ٹيبل کی جانب بڑھا۔ زرناب کا سر جھکا تھا اسی لئے وہ اپنی ٹيبل کی جانب آتا ديکھ نہيں پائ۔ جھٹکے سے سر اٹھا کر ديکھا جو سامنے ہی اپنی جان ليوا مسکراہٹ ہونٹوں پر لئے۔۔۔ پرشوق نظروں سے اسے ديکھ رہا تھا۔
"کيسے ہيں آپ سر"ذروہ جوش سے بولی۔
"آہستہ يہ لائبريری ہے۔۔ پکنک پوائنٹ نہيں۔۔ جو ہم يہاں ڈسکشن کريں۔۔ اور ويسے سر باہر ہی جا رہے ہيں۔۔ تم انکے ساتھ جا کر تفصيل سے انکی خيريت پتہ کرو۔۔۔ کہيں ويک اينڈ پر طبيعت زيادہ خراب نہ ہو۔۔
لگتا ہے ۔۔ کسی معرکے ميں شکست کھا کر آئے ہيں" زرناب نے اسکی پرشوق نظروں کو نظر انداز کرتے ذروہ اور اسے دونوں کو ايک ہی بار اچھی خاصی سنا دی۔
اسکی بات پر وہ نشرہ کے قريب رکھی کرسی گھسيٹ کر وہيں بيٹھ گيا۔
نشرہ نے تھوک نگلی۔۔ اگر جو مارج کو معلوم ہوجاتا کہ وہ ان دونوں کے قريب آيا ہے۔
آنکھوں سے زرناب کو چپ رہنے کا اشارہ کيا۔
"اتنے چھوٹے معرکوں ميں ۔۔ ميں شکست نہيں کھاتا۔۔ ابھی تو منزل کی جانب جانے کے لئے پہلا قدم سيڑھی پر رکھا ہے۔ ابھی تو چند قدم اور چلنا ہے۔۔۔ مجھے اپنی صلاحيتوں پر پورا يقين ہے۔۔ کہ جلد ہی منزل تک پہنچ جاؤں گا۔۔ ليکن شرط يہ ہے کہ آپ جيسے ہمدرد وہاں ميری حوصلہ افزائ کے لئے موجود ہوں۔۔ پھر جشن منانے ميں بھی مزہ آئے گا۔" ہولے سے بازو ٹيبل پر رکھتا وہ پوری طرح زرناب کی جاب متوجہ تھا۔
"ارے سر يہ ايسے ہی بکواس کررہی ہے۔۔ آپ کس کی باتوں کو سيريس لے رہے ہيں" نشرہ نے معاملہ گھمبير ہوتے ديکھ کر بات آئ گئ کرنے کی کوشش کی۔ کيونکہ ذروہ حيران اور پريشان سی يہ مکالمے سن رہی تھی۔
"اب تو معاملہ بھی اور معاملہ بنانے والی دونوں کو سيريس لے ليا ميں نے۔۔۔ اب تو آپ کی ان حد بنديوں کا کوئ فائدہ نہيں۔" چہرہ نشرہ کی جانب موڑ کر مسکراتی نظروں سے پہلے اسے اور پھر زرناب کو ديکھا ۔، وہ دونوں ذروہ کی موجودگی فراموش کرچکے تھے۔
"حد بنديوں کو توڑنے والوں کا منہ بھی ميں اچھے سے توڑنا جانتی ہوں" زرناب اسکی گہری نظروں سے الجھتی پھنکار کر بولی۔
"منہ تڑوانے کے لئے ہم تيار ہيں بشرطيکہ آپ کا منہ نظر آئے۔۔۔ " اس پر مسکراہٹ اچھالتا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ مطلوبہ کتاب اسکے ہاتھ ميں تھی۔
"آئيے ذروہ" جاتے جاتے بھی جان بوجھ کر اسے تپانا ضروری سمجھا۔
ذروہ حيران پريشان سی ان دونوں کو دیکھتی اپنی سيیٹ سے اٹھ کر اسکے پيچھے چل دی۔
"گھٹيا انسان" ذروہ کے ساتھ باتيں کرتے اسے جاتا ديکھ کر وہ غصے سے پيچ و تاب کھاتی بولی۔
"پاگل ہوگئ ہو تم۔۔۔ يوں اسکی باتوں پر چڑ کر اپنا تماشا لگوانا ہے" نشرہ دبے دبے انداز ميں غصے سے بولتی اسکی کلاس لينے لگی۔
"اسے کيا ضرورت تھی ميرے منہ لگنے کی" وہ بمشکل خود پر قابو پاتی بولی۔
"اور تمہيں کيا ضرورت تھی اسکے منہ لگنے کی۔۔۔ اگر اس شخص کو اپنی زندگی سے نکالنا ہے تو بہتر ہے اسکے ساتھ کوئ تعلق مت رکھو۔۔۔ چاہے وہ نفرت کا ہی کيوں نہ ہو۔۔ ورنہ يہ نفرت وريد کی طرح محبت ميں نہ بدل جاۓ۔۔۔ کوز يو نيور نو۔۔۔۔ قسمت نے کيا سے کيا لکھا ہو" کندھے اچکاتی اب کی بار وہ زرناب کو خاموش ہونے پر مجبور کرگئ۔
____________________
"ايکسکيوزمی نشرہ" کلاس ختم ہوتے ہی وہ باہر نکليں جب اپنے پيچھے سے آتی وريد کی آواز پر وہ مڑ کر اسے ديکھنے لگی۔ زرناب ابھی کلاس ميں ہی تھی۔ شايد اسی لئے وريد نے اسے مخاطب کرليا تھا۔
"کيا ہم کچھ دير کے لئے بات کرسکتے ہيں" اس درخواست گزار انداز پر وہ ايک نظر کلاس ميں چيزيں سميٹتی زرناب کو ديکھ کر سر ہلاتی اسکے ساتھ ہولی۔
"معذرت مجھے آپ کو ايسے الگ بلانا نہيں چاہئے تھا۔ مگر مجھے اسکے علاوہ کوئ حل نظر نہيں آرہا " قدرے پرسکون کاريڈور ميں اس لے جاکر وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا۔
"مارج کو معلوم ہوگيا تو وہ ميرا قيمہ کردے گا" وہ بھی ڈری ڈری آواز ميں بولی۔
"مارج آپکا بزبينڈ ہے نا؟" اس نے تصديق چاہی۔
"جی"
"ميں نے معلوم کروايا ہے مگر زرناب کا تو کوئ بھائ نہيں ہے۔ پھر يہ مارج؟" کل ہی اسکے بندے کے کہنے پر اسے معلوم ہوا تھا کہ زرناب کے علاوہ سرفراز ملک کی دو بيٹياں اور بھی ہيں مگر بيٹا کوئ نہيں ہے۔ وہ الجھا اور اسی الجھن کو رفع کرنے کے لئے وہ نشرہ سے مخاطب ہوا تھا۔ کچھ وہ اسکا انداز آج صبح ديکھ کر سوچ بيٹھا تھا کہ زرناب تک پہنچنے کے لئے کيوں نا اسے ہموار کيا جاۓ۔
"بلکہ يہ مارج تو آپکے بابا سائيں کا خاص بندہ ہے۔۔ پھر آپکی شادی اور اسکا زرناب کو بہن کہنا" نشرہ نے ايک نظر بس اسکی جانب ديکھا۔
"يہ ہمارا پرسنل معاملہ ہے۔۔ بس اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ مارج زرناب کو بہن سمجھتا اور مانتا ہے" نشرہ نے محتاط انداز ميں اسے بتايا۔
"کيا زرناب اور مارج کی طرح آپ بھی سمجھتی ہيں کہ ميں اب زرناب کے قابل نہيں" اسکا ٹوٹا سا لہجہ نشرہ کو اسکی تکليف سمجھا گيا۔
"ميرے سمجھنے سے کيا ہوتا ہے۔ جس کو سمجھنا چاہئے کيا آپ نے اسے يہ سب سمجھنے کے لئے گنجائش چھوڑی ہے" نشرہ کی بات پر ايک تکليف دہ مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھری۔
"ميں نے اپنے گھر ميں مردوں کو عورتوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہی دیکھا ہے۔ جب زرناب ونی ہو کر آئ وہ تو نہيں مگر ميں يہی جانتا تھا کہ ونی بدلہ ہوتی ہے۔ اور اسے مارنا اور ايذا پہنچانا۔۔ ثواب کا کام ہے" وہ اسے وہ وقت اور وہ جذبات بتانے لگا۔
"اور اب۔۔۔ اب آپ کيسے جان گئے کہ ونی بھی انسان ہوتی ہے" وہ طنز کرتے ہوۓ بولی۔
"کئ بار اللہ غرور توڑ کے آپ کو بہت کچھ سمجھا ديتا ہے ميرا بھی غرور ٹوٹا ہے۔۔۔" وہ شکست خوردہ لہجے ميں بولا۔
"پہلی بار کسی سے محبت کی اور وہ بھی کون جس سے بدلہ لينا تھا" وہ خود اپنی قسمت پر ہنسا۔
نشرہ نے کچھ لمحے اسے ديکھا۔
"آپ کس حد تک اسکے ساتھ سنجيدہ ہيں؟" اسکے سوال پر اس نے حيرت سے اسکی جانب ديکھا۔
"ميرا شکست خوردہ چہرہ اور اسکے لئے شدت ديکھ کر آپ کو ابھی بھی اندازہ نہيں ہوا کہ ميں اسکے لئے کس حد تک سنجيدہ ہوں؟" وہ الٹا اسی سے سوال کرنے لگا۔
"ميں اسکے لئے اپنے باپ تک کے دوبدو ہوچکا ہوں۔۔ کيا اب بھی کوئ گنجائش بچتی ہے ميری شدتوں پر يقين نہ کرنے کی؟" اس نے ايک اور سوال اٹھايا۔
"کيا گارنٹی ہے کہ اسکے حصول کے بعد آپ اس سے پھر کبھی وہ سلوک نہيں کريں گے؟" اس لمحے وہ زرناب کی سوچ کی ترجمانی کررہی تھی۔
"کيا يہ گارنٹی کافی نہيں کہ ميں ان دنوں کو کسی بھيانک خواب کی طرح ہميشہ کے لئے بھول جانا چاہتا ہون جب ميں نے بے خبری ميں اس پر ظلم کيا۔۔۔ کسی بوسيدہ کتاب کے صفحات کی طرح ان دنوں کو اپنی زندگی کی کتاب سے پھاڑ دينا چاہتا ہوں۔۔ کيا يا گارنٹی کافی نہيں کہ آج صبح جب ميرے باپ نے اسے اٹھوانے کا اور بغير نکاح کے ساتھ رکھنے کا آپشن رکھا۔ تب مجھے اپنے باپ سے گھن آئ۔ کيا يہ گارنٹی کافی نہيں کہ طاقت رکھنے کے باوجود ميں اتنا کمزور ہوں کہ ميں اسے اسکی اجازت کے بغير چھونا تک نہيں چاہتا۔۔۔ مجھے اپنی اس شناخت سے نفرت ہوتی ہے جس نے اسے مجھ سے دور کيا" اسکا ايک ايک لفظ درد ميں ڈوبا ہوا تھا۔
نشرہ کا دل پسيج گيا۔
"ميں آپکے لئے صرف دعا کرسکتی ہوں۔۔ کہ آپ اگر اتنے ہی سچے ہيں تو اسکا دل آپکے لئے پگھل جاۓ" وہ بے بسی سے بولی۔ اسکے ہاتھ ميں تو کچھ نہيں تھا۔ نہ مارج اسکی بات سنتا تھا نہ زرناب۔
"بس آپ کی دعا بھی بہت ہے ۔۔۔ شايد کسی کی دعا مجھے لگ ہی جاۓ" ہولے سے ايسے مسکرايا جيسے اپنی بے بسی پر اپنا ہی مذاق اڑايا ہو۔
"خير بہت شکريہ وقت دينے کا۔۔ ہوسکے تو زرناب کو سمجائيے گا" وہ اسی درخواست کے لئے اسے يہاں تک لايا تھا۔
"ميں کوشش کروں گی" وہ اسے دلاسا ينے والے انداز ميں بولی۔
______________________
محبت يوں بھی ہونی تھی تم سے
ترس کھاتی
کاسہ پھيلاتی
تمہاری نظروں کی منتظر
تمہاری بھيک کی آس لئے
محبت يوں بھی ہونی تھی
خود کی نفی کرتی
انا کا بت جھکاتی
خود کو مٹی کرتی
محبت تمہی سے ہونی تھی
اور محبت
يوں ہی ہونی تھی
(از انا الياس)
وہ جو پڑھنے ميں مگن تھی موبائل کی ٹون پر اسکی جانب متوجہ ہوئ۔
سر وريد کا نمبر ديکھ کر غصے سے ميسج پڑھ کر ڈيليٹ کرنا چاہا۔
جب دوسری جانب سے اسکے پڑھنے کی تصديق کرکے واٹس ايپ پر اسکے نام کے نيچے ٹائيپنگ لکھا آيا۔
"کيا معافی مانگنے سے تمہاری تسکين ہوگی۔۔ کيا تب تمہارے ملنے کی اميد ہوگی" لفظ لفظ ميں شدت تڑپ رہی تھی۔
"آپ ميرا پيچھا کيوں نہيں چھوڑ ديتے۔۔ ہزاروں لڑکياں ہے۔۔ کسی سے بھی شادی کرليں۔۔۔" وہ جان چھڑانے والے انداز ميں بولی۔
"ہزاروں ہوں۔۔ لاکھوں ہوں۔۔ يا کروڑوں۔۔۔ زرناب ملک ان ميں سے ايک بھی نہيں ہے" اسکی بات پر وہ چند لمحے گنگ رہ گئ۔
"لڑکيوں کو بے وقوف بنانے کے حربے مجھ پر مت آزمائيں۔۔ بدلہ لينا تھا لے ليا آپ نے۔۔ يہ جھوٹ بولنے کا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے۔۔ مگر افسوس ميں اس جال ميں نہيں پھنس سکی۔۔ بس اب يہی بات تڑپا رہی ہے آپ کو" وہ خوب کاری وار کرگئ۔
"بے وقوف ہوتيں تو وريد چوہدری تمہارے پيچھے کبھی خوار نہ ہوتا۔۔۔ صرف ايک موقع دے دو۔۔" ايک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے ٹائپ کيا۔
"مجھے افسوس ہے کہ آپکا ہر نيا ڈائيلاگ ميرے لئے کوئ حيثيت نہيں رکھتا" وہ سر جھٹک کر آخر اسکا نمبر بلاک کر گئ۔
وريد نے جوابی ميسج کرنا چاہا مگر جيسے ہی معلوم ہوا وہ بلا ک کرچکی ہے۔ موبائل غصے سے سائيڈ ميز پر پٹخا۔
______________________
"آج کچھ بنايا نہيں آپ نے" شام ميں وہ يوں ہی کچن ميں پانی پينے آيا جب چولہوں پر ايک بھی ہانڈی نہ ديکھ کر پہلے فريج کھولا۔ اس ميں بھی کوئ ايسی قابل ذکر چيز نہيں تھی کہ جسے وہ رات ميں کھاتے۔۔۔
نشرہ لاؤنج ميں بيٹھی کوئ اسائنمنٹ بنا رہی تھی اسکی بات پر ايک نظر اسے ديکھا۔۔
"کل پريزينٹيشن ہے ميری۔۔۔۔ اور پرسوں سے ايگزمز شروع ہورہے ہيں۔۔ اچھے نمبرز نہ لئے تو تمہی طعنے دو گے۔۔ کہ شادی کا شوق تھا آپ کو يہ تو ہونا ہی تھا" منہ بگاڑ کر نان اسٹاپ بولی۔
اسکی بات پر مارج اپنا قہقہہ نہ روک پايا۔
نشرہ نے پہلی بار اسے قہقہہ لگاتے سنا اور ديکھا تھا۔ اور کاش وہ اس لمحے اسے نہ ديکھتی۔۔
اسے لگا اسے عشق ہوجاۓ گا اب اس سڑيل روح سے۔ بے اختيار ماشاءاللہ کہتی نظريں پھيريں۔
مارج اسکی کيفيت سے بے خبر اب بی اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کررہا تھا۔
"آپکی يادداشت اور صحيح وقت پر طعنہ دينے کی عادت سے ميں بہت امپريس ہوں" مسکراتے لہجے ميں کچن کاؤنٹر سے ٹيک لگاۓ اسے نظروں کے حصار ميں ليا۔
گرين، ميرون اور زرد رنگوں کے امتزاج کا لينن کا سوٹ پہنے۔۔ بالوں کو کيچر سے آزاد کئے کچھ الجھاۓ ايک کندھے پر ڈالے۔ فلور کشن پر بيٹھی نوٹس سامنے پھيلاۓ۔ ليپ ٹاپ گود ميں دھرے تيزی سے ٹائيپنگ کرنے ميں مصروف تھی۔ مارج نے اسے بہت کم چہرے پر کوئ ميک اپ استعمال کرتے ديکھا تھا۔
اس وقت بھی دھلے چہرے کے ساتھ بھی وہ مارج کے دل ميں اتر رہی تھی۔ کانوں ميں سونے کے گول سے ٹاپس ہمہ وقت پہنے رکھتی تھی۔ گلے ميں باريک سی چين ہوتی تھی۔ بس يہ اس کی کل سج دھج ہوتی تھی۔
مارج کو کھلے بالوں ميں بھی وہ کسی حسينہ سے کم نہيں لگتی تھی۔ اب يہ محبت کا اعجاز تھا يا کچھ اور۔۔۔
"ہاں تو انسان کو حاضر جواب ہونا چاہئے" انگلياں ليپ ٹاپ پر چلنے کے ساتھ ساتھ زبان بھی فراٹے سے چل رہی تھی۔
"چليں۔۔ آج آپ ريسٹ کريں۔۔ بلکہ پيپرز ہونے تک ريسٹ کريں۔۔ تب تک کچن کی ذمہ داری ميرے سر" وہ سينے پر ہاتھ رکھ کر فريج کھول کر کچھ پکانے کے لئے سوچ رہا تھا۔
"کبھی اتنا نہ ہوا کہ بندہ کوئ ڈنر ہی کروادے۔۔ کنجوس۔۔ پتہ نہيں کون سی کمپنی چلاتے ہو۔۔ يا پيسے ڈبو رہے ہو" وہ پھر سے ترکش ميں تير تيز کرچکی تھی۔
"اٹھيں پھر۔۔ چادر اوڑھيں۔۔۔ آج آپ کو کينڈل لائيٹ ڈنر کرواتے ہين" اسکی بات پر حيرت سے اور خوشی سے نشرہ نے اسے ديکھا۔
"ہاۓ سچی۔۔ کتنے اچھے ہو تم مارج" خوشی سے تالی بجاتے۔۔ جھٹ پٹ ليپ ٹاپ بند کيا۔۔
"يہ سب ميں واپس آکر سميٹ لون گی" اسکی نظريں اپنی کتابوں پر ديکھ کر وہ لجاجت بھرے انداز ميں بولی۔
"افف اتنی ايگزاسٹ ہوچکی تھی۔۔ دل کر رہا تھا باہر جانے کو کيا پتہ تھا تم يوں دل خوش کردو گے۔۔ ميری بات مان کر" اسے بچوں کی طرح خوش ديکھ کر کچن سے باہر آکر اسکی کتابيں سميٹنے لگا۔
"رہنے دو نا۔۔ ميں آکر کرلوں گی" وہ اسے اپنی چيزيں سميٹتا ديکھ کر کمرے ميں جاتے جاتے پلٹ کر بولی۔
"کوئ بات نہيں۔۔۔ اتنا سا کام کرنے سے کون سا ميں گھس جاؤں گا۔ آپ چادر لے کر آئيں" اپنی کئير کے لئے وہ پر اثر الفاظ اسعتمال نہيں کرپاتا تھا۔ مگر کيا کسی کے انداز کافی نہيں ہوتے۔۔۔۔
نشرہ کو تو اسکے بن کہے خيال رکھنے کے ان انوکھے رويوں سے بھی شديد محبت تھی۔ ايک محبت بھری نظر اس پر ڈال کر وہ کمرے کی جانب بڑھی۔
کچھ دير بعد دونوں گاڑی ميں بيٹھے نشرہ کے پسنديدہ ريسٹورنٹ کی جانب جارہے تھے۔
"تمہاری گاڑی ميں گانے لگ سکتے ہيں" ادھر ادھر ہاتھ مارتے سسٹم کو چيک کرنے لگی۔
"آپکے ميری زندگی ميں آنے کے بعد وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو پہلے کبھی نہيں ہوا" اسکی بات پر نشرہ نے ہاتھ روک کر ترچھی نظر سے اسے ديکھا۔ جو دل موہ لينے والی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ ايک نظر اسے ديکھ کر پھر سامنے ديکھنے لگا۔
"يہ تم مجھ پر طنز کررہے ہو۔۔ يا شکر کرنے کا کوئ نيا طريقہ ہے" وہ بھی نشرہ تھی۔
"آپکی دوسری بات درست ہے" موڑ کاٹتے اس کی جانب مسکراتی نظر ڈالی۔
"مگر تمہيں تعريف کرنے کا ڈھنگ نہيں آيا" وہ اسکی گہری نظروں کو بہت آسانی سے خود پر محسوس کرتی تھی اب۔
"آپکی سنگت ميں وہ بھی سيکھ ہی جاؤں گا" گدی سہلا کر بولا۔
اسکے جواب پر نشرہ کے دل کی دھڑکنوں نے لے بدلی۔
"تن ميں جو
تن من بازی لاگے رے
دھن دھن مورے بھاگ بازی لاگے رہے
لاگی لاگی سب کہيں
لاگی لگی تا انگ
لاگی تو جب جانيں
جب رہيں گرو کے سنگ
مولا۔۔ ہو جی مولا
خسرو رين سہاگ کی
جو ميں جاگی پی کے سنگ
خسرو بازی پريم کی
جو ميں کھيلی پی کے سنگ
جيت گئی تو پيا مورے
جو ميں ہاری پی کے سنگ"
نشرہ نے جوں ہی ريکارڈر آن کيا۔ گاڑی ميں گونجنے والے الفاظ دونوں کو اپنے سحر ميں جکڑ گئے۔
آخری لائن پر مارج نے نظر بھر کر اسے ديکھا جو نقاب کئے کھڑکی سے باہر دیکھتی شايد اپنی دھڑکنيں شمار کررہی تھی۔
ہاتھوں کی انگلياں اضطراب يا گھبراہٹ ميں مروڑ رہی تھی۔
مارج نے آہستہ سے باياں ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ اپنی مضبوط گرفت ميں لئے۔
نشرہ نے چونک کر اسکی جانب حيرت سے ديکھا۔ اسے ذرا اميد نہيں تھی۔ مارج خود سے کبھی يوں پيش قدمی کرے گا۔
"پتہ نہيں کب آپ نے دل ميں جگہ بنائ۔۔۔ شايد شادی کی پہلی رات جب سر درد لئے چاۓ کی فرمائش کرتيں آپ ميرے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھيں۔۔
يا شايد تب جب آپ نے روتے ہوۓ مجھے پتھر کہا تھا۔۔۔
شروع سے يہی سمجھتا تھا کہ آپ بے باک ہيں۔۔ روايات کو توڑنے واليں۔۔۔
مگر آپ کے ساتھ رہتے معلوم ہوا آپ بس پراعتماد ہيں۔ اور اس ميں کبھی کبھی آپ اس اعتماد کا اسعتمال غلط کرجاتی ہيں۔۔ ورنہ آپ وہ سب نہيں ہيں۔۔ جو تاثر مجھے اتنے سال ديتی رہی ہيں۔" وہ پہلی بار وہ يوں اس پر اپنا آپ آشکار کررہا تھا۔ اور نشرہ کو اور اسير کررہا تھا۔
" ميں نے سوچ رکھا تھا کبھی زندگی ميں کسی کو اپنے اتنے قريب آنے ہی نہيں دوں گا کہ وہ مجھ سے دھوکا کرے يا ميرا اعتبار مٹی ميں ملائے تو ميں اپنی ماں کی طرح تکليف سے دوچار ہوں۔۔ محبت۔۔ پيار يہ سب ميری زندگی ميں کہيں نہيں تھا" ايک گہری سانس لے کر اس نے پھر سے ايک نظر نشرہ پر ڈالی جو آنکھيں کھولے اسکے انکشاف سن رہی تھی۔
"ليکن آپ نے ميرے سب ارادوں پر پانی پھير ديا" مصنوعی تاسف سے سرہلاتے وہ ملامتی نگاہ اس پر ڈال کر پھر سے ونڈ اسکرين کے پار ديکھنے لگا۔
"يہی تو ميری خوبی ہے۔۔" وہ مزے سے گردن اکڑا کر بولی۔
"خوبی نہيں يہ آپکی دھونس ہے" وہ اسکی تصحيح کرنے لگا۔
نشرہ منہ بنا گئ۔
"ميری کبھی کمزوری مت بنئے گا۔۔۔ آپ نے مجھے طاقت اور جو مان بخشا ہے ميں اميد کرتا ہوں يہ کبھی نہ ٹوٹے۔۔ ميں اپنی ماں جيسی اذيت برداشت نہيں کرنا چاہتا۔" اسکے لہجے ميں جو دکھ دھاڑيں مار رہا تھا نشرہ کا دل بھی اس تکليف کو محسوس کرنے لگا۔
"ہم مان اور اعتبار بھرا رشتہ بنائيں گے" اسکے ہاتھوں ميں دبے اپنے ہاتھ کو زور سے بھينچتے وہ اسے اپنا اعتبار سونپ گئ۔
"تھينکس" اسکے لئے فقط اتنا ہی بہت تھا کہ وہ اپنے خول سے باہر تو آيا۔ اسکی حيثيت تو قبول کی۔
اس رات نہ صرف مارج نے اسے ڈنر کروايا بلکہ شاپنگ بھی کروائ۔
"اب آپ کو يقين آگيا ہوگا کہ آپکا شوہر ايک کامياب بزنس مين ہے" گھر کی جانب گاڑی کا رخ موڑتے وہ اسے چھيڑنے لگا۔
"ہاں اگر تم ہفتے ميں ايک بار اس قسم کی شاہ خرچی کرليا کرو تو مجھے ہميشہ کے لئے اس بات پر يقين آجاۓ گا" نشرہ بھی شان بے نيازی سے بولتی ہنس پڑی۔
"بندہ آپکے حکم کا غلام" سينے پر ہاتھ رکھے اپنے مخصوص انداز ميں بولتا۔ وہ بھی اسکی ہنسی کا ساتھ دينے لگا۔
وہ کب سے اسے ديکھ رہا تو جو آنکھوں ميں پريشان تاثر لئے پيپر کو گھور رہی تھی۔
جب سے اس نے وريد کا نمبر بلاک کيا تھا اس نے پھر دوبارہ اسے تنگ نہ کيا۔ نہ ہی يونی ميں براہ راست مخاطب کيا۔
گھر پر اسکی کوششيں تيز تر ہوچکيں تھيں۔ مگر وجاہت چوہدری اور اب تو اسکی دادی دونوں کسی صورت اس رشتے کے لئے تيار نہيں تھے۔
وہ بری طرح بے بس ہوچکا تھا۔ زرناب سے براہ راست اپنے ہر رويے کی معافی مانگنا چاہتاتھا مگر وہ بھی کوئ سرا ہاتھ ہی نہيں آنے دے رہی تھی کہ وہ اسے پکڑے اس تک آتا۔
آہستہ روی سے چلتا وہ اسکی چئير کے قريب آيا۔ اسکے پيپر پر نظر ڈالتے اس سوال کو ديکھا جہاں وہ کب سے اٹکی ہوئ تھی۔
دو آپشنز کو پنسل سے منتخب کرچکی تھی۔ مگر دونوں ميں سے درست کونسی تھی اسی کشمکش مين وہ پچھلے بيس منٹ سے بيٹھی ہوئ تھی۔ آدھی کلاس پيپر دے کر جا بھی چکی تھی۔ اسکا بھی پيپر مکمل تھا مگر يہ آخری سوال اٹک گيا تھا۔ وريد نے درست آپشن پر انگلی رکھی۔ گويا اسکی خاموش مدد کی۔
زرناب اپنے پيپر ميں اتنی مگن تھی کہ اسکا اپنے قريب آنا اور رکنا نوٹ نہ کرسکی۔ کچھ دير بعد جب پيپر پر ايک مردانہ انگلی آکر ٹہری وہ بری طرح چونکی۔
سر اٹھا کر اپنے قريب کھڑے وريد کو ديکھا۔ جس کی نظريں ہميشہ کی طرح اسے الجھاۓ ہوۓ تھيں۔
زرناب نے دانت پیسے۔ اسکے اپنی جانب ديکھتے ہی وريد سيدھا ہوا۔ ہاتھ ہٹا کر مڑ گيا۔
زرناب نے دونوں دائرے مٹا کر غلط والے آپشن کو پين سے ٹک کيا۔ اپنی سيٹ سے کھڑی ہوکر وريد کی جانب آئ۔
جو روسٹرم کے قريب کھڑا اسے ہی اپنے قريب آتے ديکھ رہا تھا۔
"اسٹوڈنٹس کو نقل کرواتے شرم آنی چاہئيے آپ کو؟" اسے پيپر پکڑاتے بھينچے لہجے مين بولی۔
"اسٹوڈنٹس نہيں۔ صرف ايک اسٹوڈنٹ۔۔ جو صرف اسٹوڈنٹ نہيں۔۔۔ اس سے بڑھ کر ہے ميرے لئے" اسکی نظروں کی بڑھتی جسارتوں نے زرناب کو نگاہيں جھکانے پر مجبور کيا۔
"مجھے آپکا يہ احسان نہيں چاہئيے تھا" اسے واضح کروايا کہ اسکی مدد کی ضرورت نہيں تھی۔
"ميں احسان نہيں محبت کرتا ہوں۔۔۔ اور محبت بہت کچھ کرنے پر مجبور کرديتی ہے۔ ايسے بہت سے کام جو انسان کو نہيں کرنے چاہئۓ" ايک جانب سے چنگارياں بھڑک رہيں تھيں۔ تو دوسری جانب سے اتنے ہی ٹھنڈے ٹھار گولوں کی برسات جاری تھی۔
"مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے" اسکے مڑ کر جانے سے پہلے ہی اسکی آواز پر وہ رکی۔
"مگر مجھے کسی بھی غير سے کوئ بات نہيں کرنی۔۔" اسکی بات کا ٹکا سا جواب دے کر وہ باہر جا چکی تھی۔
وريد اسے ايگزام ہال سے باہر جاتا تک ديکھتا رہا۔
بمشکل اپنے غصے پر قابو پا کر اسکے پيپر پر نظر پڑی۔ اس سوال پر وريد کی بتائ ہوئ آپشن کی بجاۓ دوسری آپشن کو ٹک کرکے وہ اسے مزيد بتا گئ کہ اسکے نزديک اسکی کيا اہميت ہے۔
"بے وقوف۔۔۔۔ اپنا کئيرئير خراب کرنے پر تلی ہے" وريد کو اسکی حرکت پر شديد غصہ آيا۔
کچھ دير بعد اسکے آفس ميں زرناب کی حاضری تھی۔
"جی سر" وہ مارے باندھے اسکے آفس آئ تھی۔
"مجھے نيچا دکھا کے تم کيا ثابت کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔" اسکے سامنے ٹيبل پيپر پر پٹخا۔
وہ اسکی ٹيبل کے دوسری جانب کرسی کے قريب کھڑی تھی۔
اسکی دھاڑ پر لمحہ بھر کو گھبراتی پيپر پر نظر ڈالی۔ وہی سوال ريڈ پين سے ہائ لائيٹ کيا گيا تھا۔
"مجھے آپ کو نيچا دکھانے کا شوق نہيں صرف يہ بتانا چاہتی تھی کہ کسی ايک اسٹوڈنٹ کو يہ فيور دے کر آپ فيورٹزم کررہے ہيں۔ اور ميں اس ميں آپکا ساتھ بالکل نہيں دے سکتی" جی کڑا کرکے بولی۔ ورنہ اسکی خشونت بھری نظريں ديکھ کر دل گھبرا ضرور رہا تھا۔
"تو پھر کس چيز ميں آپ ميرا ساتھ دے سکتی ہيں؟" اسکے چہرے کے تنے زاويے يک لخت بدلے۔۔ آنکھوں ميں مخصوض چمک نماياں تھی۔ جو زرناب کو زير کرنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔
"بس اتنی ہی بات کرنی تھی آپ نے؟" اس نے مکمل طور پر اسکی جذبے لوٹاتی آنکھوں کے تاثر کو نظر انداز کيا۔
"نہيں بہت سی باتيں کرنی ہيں۔ اگر تم مجھے موقع دو" وہ پھر سے اپنے مقصد پر آيا۔
"اور مين آپ کو کہہ چکی ہوں کہ اس حوالے سے مين آپکی کوئ بات نہيں سنوں گی۔" وہ قطعيت بھرے لہجے ميں بولی۔
"تم ابھی جاب کررہی ہو۔ فخر کے پاس؟" اسکی بات کے جواب ميں وہ پھر سے پرسنل ہوا۔
زرناب کے ماتھے پر بل پڑے۔
"اس سے آپکا کوئ تعلق نہيں" اسے صاف جواب دے کر وہ مڑی۔
"ميرا تمہارے ہر معاملے سے تعلق ہے۔ ابھی سے نہيں بہت سالوں سے" فخر کی نوکری تو اسکی اصليت معلوم ہوتے ہی وہ چھوڑ چکی تھی۔ کچھ ملک اياز اور مارج نے زور ديا تھا کہ اب اسے يہ نوکری کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔ ملک اياز نے اسکا خرچہ پانی سب اٹھا ليا تھا۔ شايد بہت جلد وہ اسے حويلی لے جا کر اسکی اصل حقيقت بھی سب کو بتانے کا ارادہ رکھتے تھے۔
مگر مسئلہ اسکے ونی والے معاملے کا تھا۔
اگر پنچائيت کو خبر ہوجاتی کہ ونی ہوئ لڑکی وہاں سے بھاگنے کے بعد زندہ سلامت ہے۔ تو وہ کبھی بھی اسے ملک اياز کے پاس سکون سے رہنے نہ ديتے۔ اسی لئے ابھی وہ مصلحتا خاموش تھے۔ مگر زرناب کی اب پوری طرح سے خبر رکھتے تھے۔
"ميں ايسے کسی تعلق کو نہيں مانتی۔۔ جو زبردستی کے جوڑے جائيں۔۔۔۔" وہ پھر سے اسکی نفی کرتی اب کی بار مڑے بغير وہاں سے نکلتی چلی گئ۔
_______________________
"ايک بات پوچھوں؟" وہ دونوں اس وقت بالکونی ميں بيٹھے موسم کی خنکی انجواۓ کررہے تھے۔ ساتھ ساتھ کافی بھی پی رہے تھے۔
نشرہ کب سے پڑھائ ميں مگن تھی۔۔ کھانا بھی پيپر کی تياری کرتے ہوۓ کھايا تھا۔۔
آخر مارج نے اسے تھوڑی دير فريش کرنے کے لئے کافی بنائ اور اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود اسکا ہاتھ تھام کر اسے لاؤنج سے اسکی مخصوص جگہ فلور کشن سے اٹھايا۔
"اتنا پڑھ کر کيا کريں گی۔۔ سارا سمسٹر پڑھا ہوتا تو ايک رات ميں تياری کی ٹينشن نہ ہوتی" ہميشہ کی طرح اپنی باتوں سے اسکا دل جلا رہا تھا۔
"تم کچھ زيادہ مجھے انڈر اسٹيیميٹ کررہے ہو۔۔ اسائنمنٹس اور پريزينٹيشنز ميں ٹاپ اسٹوڈنٹس ميں نام ہے ميرا" وہ آنکھيں سکيڑے اسکے شرارتی انداز ديکھ رہی تھی۔
دونوں اس وقت کين کی کرسيوں پر ساتھ ساتھ بيٹھے چاند کی روشنی کو ديکھنے کے ساتھ ساتھ کافی پيتے ايک دوسرے کو جلانے مين مصروف تھے۔
"اور ميں ان نکمے اسٹوڈنٹس ميں سے نہيں جو ايک رات ميں تياری کريں" وہ ہميشہ کی طرح اسکی غير سنجيدہ باتوں پر سنجيدہ ہوگئ۔
"آپ کو اسی لئے يہاں لے کر آيا ہوں۔ کہ دماغ کو تھوڑا فريش کريں۔۔ مسلسل پڑھ پڑھ کر بھی کبھی کبھار پيپرز اچھے نہيں ہوتے۔ کيونکہ ہم اتنا لوڈ لے ليتے ہيں کہ ايگزاسٹ ہوجاتے ہيں۔۔۔ کہ پيپر ميں سب گڈمڈ ہوجاتا ہے" خيال رکھنے کا وہی انوکھا انداز۔۔۔
"تمہارے منہ ميں خاک۔۔" اسکی محبت پر متاثر ہوتے ہوۓ بھی وہ اسکی بات سے پيپر اچھا نہ ہونے والی بات اچک کر صدمے ميں جا چکی تھی۔
"نہيں ابھی تو ميرے منہ ميں يہ کافی جارہی ہے۔۔ خاک فی الحال نہيں آسکتی" وہ بھی اسکی بات کا برا منائے بغير مزے سے اسکا تلملانا انجواۓ کررہا تھا۔
نشرہ نے منہ بگاڑا۔ پھر کچھ سوچ کر اس سے سوال کيا۔
"جی ضرور پوچھيں۔۔ مگر يہ مت پوچھئيے گا کہ ميرا پيپر کل کيسا ہوگا کيونکہ ميں عامل بابا ہر گز نہيں" نشرہ اسکی بات پر سر پر ہاتھ مار کر رہ گئ۔ کيونکہ پريزينٹيشن کی تياری کے دوران اسے سناتے اس نے مارج سے غلطی سے پوچھ ليا تھاکہ اسکے مطابق اسکی پريزينٹيشن کو کتنا ريٹ کرنا چاہئے۔ اور پھر جو جو فرمودات مارج نے بتاۓ اسکے بعد نشرہ نے کانوں کو ہاتھ لگا ليا تھا کہ آئندہ اس سے ايسی کوئ بات نہيں پوچھے گی۔
"جی ميں جانتی ہوں۔۔ اور تم نے ميرا دل جلانے کے لئے کوئ فضول ترين بات کرنی ہے۔ اور ميں ہر گز نہيں چاہتی کہ تمہاری کوئ فضول بات سن کر بدشگونی کرواؤں" وہ سر جھٹک کر بولی۔
"اچھا اچھا پوچھيں" اسے برا مناتے ديکھ کر وہ ہنسی روکتے ہوۓ بولا۔
"اگر کوئ شخص اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر معافی مانگے تو کيا ہميں سب بھول نہيں جانا چاہئيے" کپ کے سرے پر انگلی پھيرتے وہ سامنے آسمان کی جانب ديکھتے پوچھنے لگی۔
"اگر آپ مجھ سے معافی مانگنا چاہتی ہيں۔ تو اسکی ضرورت نہيں۔۔ مين بہت سخی ہوں ميں نے آپکی ہر بری بات فراموش کردی ہے"کچھ دير سنجيدگی سے سوچنے کے بعد جو وہ بولا نشرہ کو بھڑکا گيا۔
"تم کچھ سنجيدگی سے جواب دے سکتے ہو" اسکے مضبوط کندھے پر اپنا نازک ہاتھ تھپڑ کے انداز سے مارتی وہ پيچ وتاب کھانے لگی۔
"آپ اپنے ہتھيار قابو ميں کريں۔۔ ميں سنجيدہ ہوجاتا ہوں" اسکے لمجے ناخن اسے شرٹ کے اندر سے بھی چبھے تھے۔ مزے سے اسکا ہاتھ پکڑ کر ناخن آگے کرتے اس پر چوٹ کرنے لگا۔
"تمہيں ہی نوچنے کے لئے رکھے ہيں" وہ اسکے ہاتھ ميں دبے ہاتھ کی انگليوں کو موڑ کر بولی۔
"رات ميں آپکے يہ ہتھيار کاٹوں گا" وہ اسے دھمکی دينے لگا۔ ہاتھ ابھی بھی اسکے ہاتھ ميں تھا جسے دونوں ہاتھوں ميں دبائے وہ محبت بھرا لمس بخش رہا تھا۔ نشرہ کی دھڑکنيں منتشر ہورہی تھيں۔
"خبردار۔۔ ميرے نيلز کاٹے۔۔ تمہيں گنجا کردوں گی نہيں تو" وہ خونخوار بنی اسکے لمس کا اثر زائل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
"مارج پليز بتاؤ نے" اسکے ہاتھوں سے ہاتھ کھينچا۔
"آپ کيوں ان خوبصورت لمحات ميں ايک بالکل بے مقصد ٹاپک چھيڑنا چاہتی ہيں؟" اسکے ہاتھ چھوڑ کر اسکی کرسی کے پشت پر بازو ٹکاتے مخمور نظروں سے اسکے چہرے کا طواف کيا۔
اسکی بات پر وہ ششدر سی چند پل آنکھيں کھولے اسے ديکھتی رہی۔ وہ کس قدر اسے جاننے لگ گيا تھا۔
لگتا تھا اسکی نس نس ميں بسنے لگا ہو جيسے۔
"معاف کردو تم اور زرناب اسے" وہ سمجھ گيا تھا وہ وريد کا ذکر کررہی ہے۔
"آپ آئندہ اسکی کوئ بات نہيں سنيں گی" وہ يہ تک کيسے جان گيا تھا۔
"تم۔۔ تمہيں کيسے پتہ؟" اس نے اسی حيرانی سے پوچھا۔
"آپ اور زرناب يونی ميں ہوتے ہوۓ بھی ميری نظروں ميں رہتی ہيں" اب اسے کيا بتاتا کہ اسکے بندے وہاں ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ وہ يہ تک جانتا تھا کہ کب اور کتنی بار وريد نے زرناب کو اپنے آفس بلوايا ہے۔
"ميں تو سمجھی تھی تمہيں پتہ چلا تو ميرا قيمہ بنا دو گے" وہ اپنا ڈر اس پہ واضح کرنے لگی۔
"چليں آئيں پھر آپکا قيمہ بناؤں" اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں ميں مصنوعی غصہ لاتے اسے گھور کے بولا۔
"جی نہيں" نشرہ نے ڈر کر اپنے کندھے سے اسکے ہاتھ ہٹاۓ۔ اور کرسی بھی گھسيٹ کر اس سے فاصلے پر کی۔
اسکے ڈر پر مارج کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"اتنا ڈرتی ہيں آپ مجھ سے ۔۔۔۔ اتنا خوفناک تو نہيں" آنکھوں ميں نرم سا تاثر لئے اسے ديکھتا اپنی جگہ سے اٹھا۔
"ديکھو مارج۔۔ خبردار جو مجھے مارنے وارنے کی کوشش کی" وہ حقيقت مين اسکے غصے سے ڈرتی تھی۔
انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے کرسی کی ہتھی کو مضبوطی سے تھاما۔
مارج پنجوں کے بل اسکے سامنے بيٹھا۔ نظريں مسلسل اس پر ٹکی تھيں۔ ان سے لپکتے جذبے نشرہ کو خيرہ کئے دے رہے تھے۔
اس نے نظر جھکا لی۔
"مجھ پر اتنا ہی اعتبار ہے؟" ہاتھ اسکے بازوؤں پر رکھ کر پوچھا۔
وہ تو اسکے ذرا سے ديکھنے پر پگھل جاتی تھی کجا کے يہ قربت۔ سانسيں ناہموار ہوئيں۔
"تم پر اعتبار ہے۔ مگر تم زرناب والے معاملے ميں جتنے ٹچی ہو۔۔ اس حساب سے کچھ بھی کرسکتے ہو" وہ بھی صاف گوئ سے بولی۔
"اتنا بھی ٹچی نہيں کے آپ پر ہاتھ اٹھاؤں۔۔۔ ميں ايسا مرد نہيں۔۔۔ اتنا تو جان ہی گئيں ہوں گی آپ" اسکے کلون سے اٹھتی مہک نشرہ کے حواسوں پر سوار ہورہی تھی۔
"آئندہ اس معاملے ميں کوئ بات ہمارے درميان نہيں ہوگی۔۔ جسے معاف کرنا چاہئيے۔ اور جس کا وہ اصل قصوروار ہے۔ اگر وہ معاف نہيں کرے گی تو ميں بھی کبھی اسے معاف نہيں کروں گا۔ يہ کوئ فلم يا کہانی نہيں کہ ولن کو ہيرو بنا ديا جائے۔ اس نے جتنا برا زرناب کے ساتھ کيا۔۔ زرناب جو کچھ اسکے ساتھ کررہی ہے وہ کچھ بھی نہيں اس تکليف کے آگے جو اس نے سہی ہے۔ آپ ميرے مارنے پر خوفزدہ ہوگئيں۔۔ سوچيں اس نے اسکی مار سہی ہے۔
باقی دلوں کے حال اللہ جانتا ہے۔ اگر اس سب سے اسے عقل آچکی ہے تو اچھی بات ہے۔۔ ليکن آخری فيصلہ زرناب کا ہے۔ اور ميں ہميشہ اسکے ساتھ ہوں۔۔۔ وريد جيسے مردوں کا انجام اس سے بھی بھيانک ہونا چاہئيے۔ جو عورت کو کمزور سمجھ کر اپنی طاقت ايسی گھٹيا مردانگی کی صورت دکھاتے ہيں" دھيمے انداز ميں بولتا وہ اسکے دل ميں اتر رہا تھا۔
نشرہ نے سر اٹھا کر اسے ديکھا۔
"مردانگی عورت کو تحفظ دينے ميں ہے۔۔ اسکی سانسيں چھين کر اسے بے سروساماں کرنے ميں نہيں۔
مردانگی عورت سے محبت کرنے ميں۔۔ اسے موم کی گڑيا کی طرح ٹريٹ کرنے ميں ہے۔
جانور يا بے جان شے سمجھ کر اسے ايذا پہنچانے ميں نہيں۔
دنیا کے سرد و گرم سے بچانے کے لئے ہے نا کہ خود سے خوفزدہ کرنے میں.
اپنی ناکاميوں کا بدلہ عورت سے لو۔۔۔ اپنے معاملات الجھيں تو گھر کی عورت کو دھنک کر رکھ دو۔۔ اللہ نے عورت کو اسی لئے مرد کی کفالت ميں نہيں ديا۔
نجانے ہمارے يہاں کفالت کا مطلب يہ کيوں سمجھتے ہيں کہ عورت کے ساتھ جو مرضی کرو۔۔۔ اسکی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔
اگر اسکا بھائ مرا تھا۔۔ ميرے باپ کی وجہ سے تو اس ميں زرناب کا کيا قصور تھا۔ مردانگی تو يہ ہوتی کہ وہ ميرے باپ کو سولی پر لٹکاتے۔۔ يہ کہاں کا انصاف تھا کہ انکی بيٹی کو لے جاکر تکليف دے کر يہ سمجھتے رہے کہ ميرا باپ تکليف ميں رہے گا۔۔۔ کيا وہ زندہ رہے اس تکليف کو محسوس کرنے کے لئے؟ نہيں تو کيا فائدہ ہوا؟ انہوں نے اپنے اعمال خراب کروائے۔۔۔" وہ لمحہ بھر کو رکا۔
نشرہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ يقينا وہ بہترين مردوں ميں سے ايک تھا۔
"اب وہ زرناب سے معافی کا خواہاں ہے۔۔ تو کيا فائدہ ہے۔۔۔۔ اس نے تو بے قصور تکليف سہی۔" اسکے لہجے ميں شديد تکليف تھی۔
"تم بہت اچھے ہو مارج" وہ بے اختيار بولی۔ چہرے پر اسکے لئے محبت ہی محبت تھی۔
"نہيں ميں اتنا اچھا نہيں۔۔ بس انسان کو انسان سمجھتا ہوں۔ چاہے وہ عورت ہو يا مرد۔ اسی لئے کبھی ميرے بارے ميں ايسا مت سوچئے گا۔ مجھے پل بھر کے لئے اپنے مرد ہونے پر افسوس ہوا تھا۔ جس سے ميری بيوی ڈرتی ہے۔ ميں کبھی بھی آپ پر ہاتھ نہيں اٹھا سکتا۔ نہ اٹھاؤں گا۔۔" اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ ميں تھام کر پھر سے تسلی دی۔
چند پل اسکی آنکھوں ميں ديکھتا رہا۔ پھر بڑھ کر اسکے ماتھے پر محبت بھرا ما ن بخشا۔
نشرہ اسکی حرکت پر ساکت رہ گئ۔ ماتھے پر آج انوکھا ہی احساس جاگا۔
"عورت بہت خاص ہوتی ہے مرد کے لئے چاہے وہ ماں کی صورت ہو، بہن، بيوی يا بيٹی۔۔۔ اور آپ بہت خاص ہيں ميرے لئے۔ ميری زندگی ميں رنگ ہی آپکی بدولت ہيں۔ آپ سے پہلے مجھے نہيں معلوم تھا روٹھنا، منانا، چڑانا۔ اور محبت کرنا کيا ہوتا ہے۔ يہ سب رنگ آپکے دم سے ہيں" اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکاۓ بوجھل آواز ميں وہ نشرہ کے حواسوں پر چھا رہا تھا۔
"ميرے لئے يہ لفظ بہت خاص ہيں۔۔۔ ہر تعريف سے بڑھ کر" آنکھيں بند کرکے وہ ہولے سے مسکرائ۔
On the way to my heart
You tried your best to tell me things
To make me feel so beautiful
On the way to my heart
You tried to hide the fact you are insecure
But I saw right through you
I think I might be falling, falling for you
Stumbling over your words
But I ain’t going no where love, so take your time
I’m holding on to all the hope you are giving me so go easy cause
I think I might be falling, falling for you
_______________________
"جی تو آج ہمارے ساتھ وريد چوہدری موجود ہيں۔ وہ آجکل کی اکانومی کے حالات اور ان کو بہتر کرنے کے کچھ خاطر خواہ طريقے ہمارے ساتھ شئير کريں گے۔ يقينا آپ ميں سے بہت سے نوجوان مہنگائ اور بے روزگاری سے تنگ ہيں۔ وريد صاحب آپ سب کے لئے ايک نئ موٹيويشن لے کر آج ہمارے درميان ہيں۔ اپنی بھرپور تاليوں ميں ميں انہيں دعوت دوں گا کہ وہ بہت سے حقائق ہمارے سامنے رکھيں۔ اور ان سب پر ہم کيسے قابو پا سکتے ہيں وہ بھی بيان کريں" وہ جو اپنی پريزينٹشين اچھی سی تيار کرکے آيا تھا اس سمينار کے لئے اسکے ہمراہ اسٹيج پر آيا۔
"بہت شکريہ آپ سب نے مجھے اتنی عزت سے يہاں بلوايا۔ تو ميں کچھ امپورٹنٹ چيزيں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ کن وجوہات کی بناء پر ہمارے ملک کی اکانومی خراب ہوئ" پروجيکٹر کے ساتھ اپنا ليپ ٹاپ سيٹ کرتے وہ ساتھ ساتھ وہاں بيٹھے بہت سارے اسٹوڈنٹس سے مخاطب تھا۔
دو تين بار پريزينٹشين ميں شامل ہونے والے سوالات کو اس نے بے توجيہی سے سنا۔ اور يہ آج نہيں پچھلے تين دن سے اسکا سيمنارز کا اسکيجوئل تھا اور تين دنوں سے وہ مسلسل غير حاضر دماغی کا شکار تھا۔
دو تين بار سوال کچھ تھے اور جواب اس نے کچھ دئيے۔
لوگوں کے چہروں سے اسے اندازہ ہو گيا کہ وہ بے ربط باتيں کررہا ہے۔
"ہم کچھ دير کا بريک ليتے ہيں۔۔ پھر يہين سے سلسلہ شروع کريں گے" ميزبان نے سيمينار کے درميان ميں يکدم بريک لی۔ وريد کو اپنے ساتھ لئے ہال کے ساتھ بنے کمرے ميں آيا۔
"سر آپ ڈسٹرب لگ رہے ہيں" وريد وہاں موجود کرسی پر سر تھام کر بيٹھا تھا۔
"ميں شايد کچھ ايگزاسٹ ہوگيا ہوں۔ بہت معذرت آپکا سيمينار ميری وجہ سے خراب ہوا" معذرت خواہانہ لہجے پر وہ ميزبان حيرت کا شکار ہوا۔ وريد چوہدری تو کسی سے کبھی معذرت نہيں کرتا تھا۔ آخر اتنا ٹوٹا بکھرا کیوں لگ رہا تھا۔
"نہيں سر کوئ مسئلہ نہيں۔ ہم آپکی کسی مجبوری کا کہہ کر اس کو ابھی ختم کروا ديتے ہيں" وہ اسکی منتشر حالت پر تشويش کا شکار ہوا۔
"نہيں آپ بن دس منٹ ديں۔ ميں سيمينار مکمل کرکے ہی جاؤن گا" اس نے دس منٹ کے لئے اسے اکيلے رہنے کی درخواست کی۔
"جی جی سر ضرور" وہ فورا کمرے سے باہر نکلا۔
اسکے جاتے ہی کمرے ميں خاموشی کا راج ہوا۔
"مت کرو ميرے ساتھ ايسا" پچھلے تين دن سے نہيں بلکہ بہت دنوں سے وہ اس بے توجيہی کا شکار تھا۔ يہ محبت اسے رفتہ رفتہ اندر سے کھوکھلا کرتی جارہی تھی۔ ہر لمحہ ذہن ميں بس وہی رہتی تھی۔
اسے لگتا تھا وہ خالی ہوچکا ہے۔۔ وريد چوہدری اب کہيں نہيں تھا۔۔۔ اسکے اندر باہر۔۔ اردگرد ہر جگہ بس زرناب تھی۔
اسکی محبت اسکا عشق۔
اسکی اپنی پہچان ختم ہورہی تھی۔۔۔۔ وہ بے بسی سے ماتھا مسل رہا تھا۔
وہ اس سے کسی صورت کوئ بات کرنے کو تيار نہيں تھی۔ وہ اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔ شايد يہ کرکے ہی اسکا جينا سہل ہو جاۓ۔ مگر اس نے بھی بڑا کڑا بدلہ ليا تھا۔
اسے معافی کے لئے گڑگڑانے کا موقع تک نہيں دے رہی تھی۔ اور يہی سوچ۔۔ يہی دھتکارنا اسے پاگل کر رہا تھا۔
"تو پھر ميں دعا کرتی ہوں کہ تم بھی اس جذبے کا مزہ چکھو اور ايسے کہ کسی دن ميری جگہ تم ہو اور کوئ تمہارے اس جذبے کا ايسے ہی مذاق اڑاۓ" جينی کے بہت پہلے کہے الفاظ اسے دن رات کچوکے لگاتے تھے۔
"ديکھو آج ميں اس جذبے سے گزر رہا ہوں۔ اس تکليف سے دوچار ہورہا ہوں۔۔ تمہاری بددعا مجھے بہت بری طرح لگی ہے جينی۔۔۔" اسکی آنکھيں نم ہوئيں۔ محبت کی يہ تکليف بڑی دردرناک ہوتی ہے۔
اور آج اس نے يہ محسوس کرلی تھی۔ بڑی شدت سے محسوس کی تھی۔
"کيسے ہو بيٹا؟" وہ ايک ضروری ميٹنگ ختم کرکے فارغ ہوا تھا کہ ملک اياز کی کال آگئ ۔
"جی سائيں ميں ٹھيک ہوں۔ آپ سنائيں؟" انکا بہت کم اسکے آفس ٹائم ميں فون آتا تھا۔
"الحمداللہ بيٹے ميں ٹھيک ہوں۔ رضيہ کی طبيعت ٹھيک نہيں ہے۔ ميں اسے لے کر شہر ہاسپٹل ميں آيا ہوں۔ ليکن ابھی واپس جانا ضروری ہے۔ تم بچيوں سے ذکر مت کرنا۔ ہاسپٹل کا چکر لگا لو۔ ويسے تو زرينہ بھی ہيں يہاں۔ ليکن ميں چاہ رہا تھا تم آجاؤ۔۔" انکی بات پر وہ پريشان سا ہوا۔ جو بھی تھا وہ اسکے باپ کی بيوی تھيں۔ وہ مارج کی حقيقت سے تو انجان تھيں۔ مگر بچپن سے اب تک زرينہ کی طرح انہوں نے بھی اسے پيار اور محبت دی تھی۔
نرم دل والی رضيہ اسے حويلی کے اور لوگوں کی طرح بے حد عزيز تھيں۔
"کيا انہيں زرناب کا بتا دينا چاہئيے۔ جو بھی ہے۔ انہوں نے اسکا غم بھی دل پر ليا ہے" وہ جانتا تھا کہ وہ ماں تھيں۔ کيسے اپنی بيٹی کو بھولتيں۔
"ابھی وقت نہيں آيا۔ ان شاء اللہ جلد بتادوں گا۔ تم بس پہنچو" انہوں نے سہولت سے ابھی انکار کيا
"جی ميں گھنٹے تک پہنچتا ہوں۔ آپ ہاسپٹل کا نام بتا ديں" اس نے ہامی بھرتے ہوۓ کہا۔
فون بند کرکے انہوں نے ہاسپٹل کا نام اسے سينڈ کيا۔
وہ تيزی سے اپنا باقی کا کام نمٹانے لگا۔
کچھ دير بعد ڈرائيور کو فون کيا۔ آج جمعہ تھا اور زرناب کو انکے پاس آکررہنا تھا۔ مارج کے کہنے پر ہر ويک اينڈ پر وہ انکے پاس آکے رہتی تھی۔
"بی بی کو فليٹ پر چھوڑ ديا ہے؟"
"جی صاحب ابھی چھوڑ کر آپکی جانب آرہا ہوں" اسکی بات پر اسے تسلی ہوئ۔
اسکا فون بند کرکے نشرہ کو کال کی۔
_____________________
وہ کافی بنا کر زرناب کو کپ تھما کر ابھی اپنا کپ لے کر ہی بيٹھی تھی کہ فون گنگنايا۔
"السلام عليکم" مارج بہت کم آفس سے فون کرتا تھا۔ حيران ہوتے فون اٹھايا۔
"وعليکم سلام کيسی ہيں؟" اس نے سادے سے لہجے مين پوچھا۔
"جيسی صبح تھی" وہ مزے سے بولی۔
"صبح تو آپ نيند ميں تھيں۔۔۔ کيا ابھی بھی نيند ميں ہيں" اسکی مسکراتی آواز پر نشرہ ٹھنکی۔
"ہاں تو تم مجھے جگا ديتے۔ اب ساری رات تياری کروں گی۔ تو صبح تو سوئ ہوں گی ہی نا" وہ جو اپنی تعريف سننے کے چکرون ميں تھی۔ اميد لگائ بھی تھی تو کس سے۔ جو کبھی اسکی تعريف نہيں کرتا تھا۔
اسکی باتوں پر وہ ہميشہ کی طرح اس ٹينس سچويشن ميں بھی ہلکا پھلکا ہوچکا تھا۔
"اچھا يہ بتائيں زرناب آگئ ہے؟" اس سے تصديق کی۔
"اوہ تو يہ کہو بہن کے لئے فون کيا ہے۔۔ ميں ايسے ہی خوش فہم ہورہی تھی کہ ميرے شوہر نامدار نے مجھے آج ياد کرليا" زرناب کو ديکھ کر مصنوعی تاسف سے بولی۔ وہ اسکی لن ترانيوں پر مسکرائے بغير نہ رہ سکی۔ اپنے بھائ کے حال پر رحم بھی آرہا تھا جو اس ريڈيو کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔
"شکر آپ کی غلط فہمی دور ہوئ" وہ بھی مارج تھا اتنی آسانی سے اسکی باتوں ميں آنے والا نہيں تھا۔
"تم آؤ ذرا آج۔۔۔ اپنے ہتھيار تيز رکھوں گی" اپنے ناخنوں کو ديکھ کر دانت پيس کر بولی۔
مارج قہقہہ لگاۓ بغير نہ رہ سکا۔
"آپکے ہتھياروں پر قربان جاؤن۔۔۔ جنہيں تھام لوں تو آپکی جان ہوا ہوجاتی ہے" وہ بھی جانتا تھا وہ اسکی قربت سے کتنا گھبراتی ہے۔
"اچھا۔۔ بس ۔۔۔ مطلب کی بات کرو" فورا حد بندی لگائ۔ زرناب کے سامنے شرمانے کا اسے کوئ شوق نہيں تھا۔۔ پتہ تھا وہ بعد ميں ريکارڈ لگاۓ گی۔
"مجھے کچھ ضروری کام ہے۔ ايک فارن ڈيلی گيشن آيا ہوا ہے۔ تو ميں شايد آج ليٹ آؤں" وہ جو اسکی باتوں ميں سب قراموش کرچکا تھا يکدم ياد آنے پر بولا۔
ملک اياز نے منع کيا تھا لہذا وہ ان دونوں کو ابھی رضيہ بيگم کے بارے ميں بتانا نہيں چاہتا تھا۔
"اچھا ٹھيک ہے۔ کھانا تو گھر آکر کھاؤ گے نا" اسکی فکر پر وہ محبت سے مسکرايا۔
"کچھ کہہ نہيں سکتا۔۔۔ اگر نہ آنا ہوا تو انفارم کردوں گا۔ اپنا خيال رکھئيے گا" محبت بھرا لہجہ نشرہ کی دھڑکن کو ہميشہ کی طرح اپنے بس ميں کرگيا۔
"تم بھی" محبت بھری مسکان نے اسکے چہرے کا احاطہ کيا۔
_____________________
"حوصلہ ہے ميرے بھائ کا" جيسے ہی اس نے فون بند کيا زرناب اسے چھيڑنے لگی۔
"کيوں ميں کيا جلاد ہوں" وہ تنک کر بولی۔
"کم بھی نہيں" زرناب اسے چڑانے لگی۔
"اور يہ ہتھيار کون سے ہيں؟" وہ جو مزے سے انکی باتيں سن رہی تھی۔ اسی کی بات کا حوالہ دے کر پوچھنے لگی۔
"تمہيں کيوں بتاؤن۔۔۔۔۔ ہماری پرسنل بات ہے" وہ بات گھما گئ۔۔ اب اتنی رومانٹک باتيں وہ زرناب سے تو شئير نہيں کرسکتی تھی۔
"او ہو۔۔۔۔۔۔ يعنی پرائيويسی بھی ہونے لگ گئ" وہ اسے چھيڑنے لگی۔ پھر يکدم اسکے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھ کر اسے زور سے خود ميں بھينچا۔ دونوں لاؤنج ميں فلور کشنز پر آمنے سامنے بيٹھيں تھيں۔
"ميں بہت خوش ہوں تم دونوں کے لئے۔۔۔ دونوں مجھے پيارے ہو۔۔ " اس سے الگ ہو کر محبت سے بولتی چٹا چٹ اسکے گالوں پر پيار کيا۔
اسکی محبت پر نشرہ مسکرائ۔
"اس مين ميرا نہيں۔۔۔ مارج کا زيادہ ہاتھ ہے۔" اسکے لہجے ميں مارج کے لئے محبت کے ساتھ ساتھ عجيب سا احترام تھا۔
"پتہ نہيں کس مٹی سے بنا ہے۔۔۔۔ بس محبت ہی محبت ہے اس ميں۔۔۔ يقينا اسکی امی بھی ايسی ہی ہوں گی۔۔ بہت دل کرتا ہے کہ کاش وہ زندہ ہوتيں۔۔ تو ہم ان سے مل سکتے۔۔۔" وہ پرتاسف لہجے ميں بولی۔
"تم جانتی ہو زرناب اس بندے نے مجھے کبھی صائم کے حوالے سے کوئ طعنہ نہيں ديا۔۔ ميں جو ہميشہ اسے ناجائز ہونے کے طعنے ديتی رہی۔ اس نے کبھی وہ سب باتيں پلٹا کر ميرے منہ پر نہيں ماری۔۔ اس نے کبھی اپنی مردانگی کا رعب مجھ پر نہيں جھاڑا وہ سراپا محبت ہے۔ اور ايک اور وصف مجھے اسکا بے حد پسند ہے" مارج کے بارے ميں محبت سے بولتے وہ زرناب کو بہت پياری لگی۔ محبت انسان کو کتنا بدل ديتی ہے۔ يہ وہی نشرہ تھی جسے مارج کبھی دنيا کا سب سے برا انسان لگتا تھا اور آج وہ پور پور اسکی محبت ميں ڈوبی تھی۔
"کيا" اشتياق سے پوچھا۔
"وہ معاف کرنا جانتا ہے۔ وہ تلخيوں کو ۔۔ تکليفوں کو بھولنا جانتا ہے۔ اور يہ ہر کسی کے بس کی بات نہيں۔۔ اس نے ميری نفرت کو بھی پورے دل سے قبول کيا تھا اور اب ميری محبت کو بھی پورے دل سے قبول کيا ہے۔ وہ بہت خاص ہے۔ شايد ہم سب کے لئے اللہ کی جانب سے بھيجا ايسا بندہ جس کی اوصاف ہميں بھی اختيار کرنے چاہئيں" زرناب کا ہاتھ تھامے وہ مارج کا ذکر کرتے آخر اپنے مقصد کی بات پر آرہی تھی۔
"زرناب۔۔۔ جسمانی تکليف سے کہيں بڑھ کر روح کی تکليف ہوتی ہے۔ کيا تم مانتی ہو اس بات کو؟" اسکی بات پر نشرہ نے ہولے سے سر ہلايا۔
"ميرے الفاظ نے ہر لمحہ اسکی روح چھلنی کی۔ مگر وہ ان تکليفوں کو بھی بھول گيا۔ اس نے مجھ سے بدلہ نہيں ليا۔ اس نے مجھے معاف کيا۔۔۔۔ کيا تم وريد کو معاف نہيں کرسکتيں۔۔۔ ميں بھی تو اسی کی جگہ کھڑی ہوں۔ کبھی ميں بھی اسی کی طرح سفاک تھی۔ ميں بھی پگھلی ۔۔۔ اللہ نے ميرا بھی غرور توڑا۔۔ ايسے ہی وريد کا بھی غرور ٹوٹا ہے۔۔ تم مارج کی بہن ہو تو تم ويسے اوصاف کيوں نہيں اپنا سکتی۔ تم نے بہت خوب اس سے بدلہ لے ليا ہے۔ کيا تمہيں نہيں لگتا۔۔ ميری طرح وہ بھی تمہاری محبت ميں مبتلا ہو کر اب رل گيا ہے۔ کيا اسکی آزمائش ختم نہيں ہونی چاہئيے" زرناب نے سر جھکا ليا۔ يکدم آنکھوں ميں آنسو اکٹھے ہوۓ۔
"مارج کے پاس کيا يقين تھا کہ ميں ويسی ہی نہيں ہوجاؤں گی۔ جيسی پہلے تھی۔ مگر اس نے مجھ پر يقين کيا۔ اور ميں نے اسکے يقين کا مان رکھا۔ زرناب اللہ نے اس سے بدلہ لے ليا ہے۔ اور ميرا نہيں خيال اللہ کے بدلے کے بعد تمہيں مزيد بدلہ لينا چاہئے" وہ دھيرے دھيرے اسکے دل کے بند دروازے کھول رہی تھی۔
"نشرہ ميں تو اللہ کے کرم سے بچ گئ۔۔ وريد بھی ميری محبت ميں مبتلا ہوگيا۔ شايد ميں اسے ايک چانس دے بھی دوں تو وہ جس محبت کا دعويدار ہے اسے پورا بھی کرے۔ مگر کيا گارنٹی ہے کہ ونی کی اس رسم ميں ہر لڑکی کی قسمت مجھ جيسی ہوگی۔ تمہيں نہيں لگتا اب ايسی رسومات کا خاتمہ ہونا چاہئيے۔ جس ميں عورت کی اتنی تذليل کی جاتی ہے۔ کہ وہ بے گناہ ہوتے تکليف سہتی ہے۔ کيا کسی مرد کو اللہ نے يہ حکم ديا ہے کہ وہ مرد ہونے کے برتے پہ کسی بھی عورت کو يوں استعمال کرے۔ " اسکا ايک ايک لفظ درست تھا۔
"مگر يہ سب ميرے اور تمہارے ہاتھ ميں نہيں۔ ان رسموں کو ميں اور تم ختم نہيں کرسکتے" وہ بے چارگی سے بولی۔
"تو يہ مرد تو کرسکتے ہيں نا۔۔۔" اسکی بات پر نشرہ نے الجھ کر اسے ديکھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی ڈور بيل بجی۔
___________________________
مارج نے تو رات کو آنے کا کہا تھا۔ اور پھر اسکے پاس تو چابی ہوتی تھی وہ خود ہی اندر آجاتا تھا۔
اسے ٹينشن نہيں تھی کيونکہ کی ہول سے وہ بآسانی ديکھ سکتی تھی۔
اٹھ کر دروازے کی جانب جا ہی رہی تھی کہ موبائل بجا۔
موبائل اٹھا کر وہ خود بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئ۔
موبائل پر "سر وريد" کالنگ ديکھ کر وہ لمحہ بھر کو وہيں کھڑی رہی۔
"ہيلو" فون اٹھايا۔
"السلام عليکم" دوسری جانب سے سلامتی بھيجی گئ۔
"وعليکم سلام خيريت" ايک نظر مڑ کر زرناب کو دیکھا جو سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔
"ميں آپکے فليٹ کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ زرناب آپکے پاس ہے۔ کيا ميں اس سے چند منٹس کے لئے بات کرسکتا ہوں۔ ميں جانتا ہوں آپکے علاوہ اس لمحے ميں اور کسی کو مدد کے لئے نہيں پکار سکتا۔ وہ مجھے کوئ بات کہنے کا موقع نہيں دے رہی۔ مجھے اس سے معافی مانگنی ہے۔ مجھے اميد ہے آپ ميری مدد کريں گی۔ پليز نشرہ انکار مت کرئيے گا۔ سمجھيں ايک مرتے انسان کی آخری خواہش پوری کررہيں ہيں۔ ميں بہت تکليف ميں ہوں" اسکی آواز کی نمی نشرہ سے چھپی نہ رہ سکی۔
"جی ميں آتی ہوں" زرناب کو ايک نظر ديکھ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی۔
دروازہ کھولا۔ اسے ديکھ کر چند پل نشرہ شاکڈ رہ گئ۔ پرشکن لائيٹ گرين شلوار قمیض ميں بڑھی ہوئ شيو کے ساتھ وہ نک سک سے تيار سر وريد کے حلیے سے یکسر مختلف نظر آرہا تھا۔
نيکسٹ پيپر کے لئے انہيں چار چھٹياں تھيں۔ اسی لئے دو دن سے وہ يونی بھی نہيں گئيں تھيں۔ ورنہ اسکا يہ حليہ پہلے ہی نظر ميں آجاتا۔
"آئيے سر" دل کڑا کرکے اسے اندر آنے کا کہا۔ وہ اس وقت صرف ايک بے بس انسان کی مدد کررہی تھی۔ جانتی تھی مارج کو معلوم ہوا تو وہ بہت غصہ کرے گا۔ ليکن وہ منا لے گی اسے۔
"ليکن پليز ميں زيادہ دير آپ کو يہاں رکھ نہيں سکتی" اسے صاف گوئ سے بتايا۔
"ميں زيادہ وقت نہيں لون گا" وہ تشکر بھری نظروں سے اسے ديکھتا بولا۔
"آئيے" اسے اپنے پيچھے آنے کا کہتی آگے بڑھی۔
"کون ہے۔ نشش" نشرہ کو ديکھتے جيسے ہی اسکی نظر اسکے پيچھے اٹھی وہ کتنے ہی لمحے ساکت رہ گئ۔
"پليز زرناب۔۔۔ آج مجھے موقع دے دو" اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ لاچاری سے بولا۔ ٹوٹا بکھرا لہجہ اور کچھ نشرہ کی کچھ دير پہلے کی کہی باتيں۔ وہ بس ايک نطر اسے ديکھ کر رہ گئ۔
وہ اسکے سامنے فلور کشن پر بيٹھ گيا۔
"سر آپ پليز صوفے پر بيٹھيں" نشرہ کو اسکا يوں بيٹھنا اچھا نہيں لگا۔ فورا آگے بڑھ کر بولی۔
"پليز" اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ اور کہنے سے منع کيا۔
سر جھکاۓ وہ زرناب کے روبرو تھا۔
نشرہ اسکے پيچھے کھڑی زرناب کو اسکی بات سننے کی درخواست کررہی تھی۔
"کہاں سے شروع کروں" آواز ميں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
"جس لمحے ميرا بھائ تمہارے باباسائيں کی گاڑی سے ٹکرايا۔ ميں اسکے ساتھ ہی کھيل رہا تھا۔ اسے خون ميں لت پت ميں ہی گارڈز کے ہمراہ ہاسپٹل لے کر گيا تھا۔ ميرا بس نہيں چلتا تھا کے اسکے مارنے والے کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کروں۔ ميں وہ بچہ تھا جسے نہ صرف باپ بلکہ دادا دادی۔غرض خاندان کے سبھی لوگوں نے سر پر بٹھا رکھا تھا۔ ميں شروع سے ذہين تھا۔ اور ماں کی نسبت باپ کے زيادہ قريب تھا۔ ہمارے خاندان ميں لڑکوں کو بچپن سے يہی بتايا جاتا ہے کہ تم مرد ہو۔۔ تم عورت کے ساتھ کسی بھی طرح کا سلوک کرو تو وہ تمہارا حق ہے۔ ميں نے ماں کو بھی اپنے باپ سے مارے کھاتے ديکھا ہے۔ جب بھائ کی موت پر ميں رويا تب بھی ميرے باپ نے يہی کہا کہ تم مرد ہو۔ اب تمہيں بدلہ لينا ہے۔۔۔ اور بس يہی بات دماغ ميں گھر کرگئ۔
جب تم وہاں ونی ہو کر آئ ۔۔۔ ميرے دماغ ميں دن رات يہی بات ڈالی گئ کہ تم بدلہ ہو ميرے بھائ کا تمہيں مارنا ثواب کا کام ہے۔ اور ميں بنا سوچے سمجھے وہی کرتا گيا" لب بھينچ کر وہ لمحہ بھر کورکا جيسے بہت مشکل سے ان تکليف دہ دنوں کو ياد کررہا ہو۔
"ميں اس بات کو يہ کہہ کر جسٹيفائ نہيں کرون گا کہ ميں بچہ تھا۔۔۔ کيونکہ يہ سوچ ميری تب تک نہيں بدلی جب تک تم سے محبت نہيں ہوگئ۔ ہاں ميں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں۔ وريد چوہدری جو عورت کو صرف نفس کی ضرورت سمجھتا تھا۔ آج جان گيا ہے کہ عورت بھی مرد کی ہی طرح انسان ہے۔ جيتی جاگتی انسان۔ جو مرد سے بھی زيادہ چٹانوں جيسا نہ صرف حوصلہ رکھتی ہے بلکہ کسی بات کا ارادہ کرکے اس پر ڈٹ جاۓ تو مرد کو بھی گھٹنے ٹيکنے پر مجبور کرديتی ہے۔" پہلی بار اس نے سر اٹھا کر لمحہ بھر کو زرناب کی جانب ديکھا اور پھر نظريں اپنی گود ميں دھرے اپنے ہاتھوں پر جمائيں۔
"ميں جو اپنی خوبصورتی پر غرور کرتا تھا۔ آج اسی خوبصورتی سے چڑ ہے جس نے کتنی ہی لڑکيوں کو اسی برتے پر استعمال کيا۔۔ ہاں ميں يقينا بدترين مردوں ميں سے ايک ہوں۔۔۔ ميں اس قابل نہيں کہ تم ميری محبت پر يقين کرو۔ مگر ميں اللہ سے پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ اسکی وہ آيت مجھ پر پوری نہ آئے۔
جس ميں اللہ کہتا ہے" بدکار مردوں کے لئے بدکار عورتيں" بھرائ آواز ميں اس نے آيت کا حوالہ ديا۔
"ميں اپنی نسل بدکار عورت سے نہيں چلا سکتا۔ ميں مانتا ہوں۔۔ اسکے لئے ميں اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔ ميں تم سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔ ميں نے تم پر جتنی بار ہاتھ اٹھايا ۔۔۔ جتنی بار تمہيں تکليف دی۔ مجھے معاف کردو۔۔ مجھے کسی چيز کا ہوش نہيں۔ تين دن سے ميرے سب سيمنارز خراب ہورہے ہيں۔ مجھے يونی سے بھی وارننگ مل چکی ہے۔ ميں نے کلاس کے سب پيپرز غلط چيک کئے ہيں۔ ميں کسی ميٹنگ ميں ايکٹيو نہيں۔۔۔ مجھے دن رات تمہاری محبت کے آکٹوپس نے جکڑ ليا ہے۔ " وہ ہاتھ باندھے اپنے آنسوؤں پر اختيار نہ رکھ سکا۔ نشرہ ديوار کو تھامے اس اونچے لمبے مغرور مرد کو زرناب کے سامنے ہاتھ جوڑے حيرت سے آنکھيں کھولے ديکھ رہی تھی۔
کم حيران زرناب بھی نہيں تھی۔ آنکھيں کھولے وہ حيرت سے اسکی باتيں سن رہی تھی۔ اسکا ندامت سے پر چہرہ ديکھ رہی تھی۔
"مجھے معافی دے دو۔۔ بے شک اپنی محبت مت دو۔ ميری يہی سزا ہونی چاہئے۔ مگر مجھے معاف کردو۔ شايد يہ معافی مجھے کچھ پرسکون کرسکے۔ ميں اتنے دنوں سے تم سے اسی لئے بات کرنے کا متمنی تھا کہ شايد تمہاری معافی ميرے گناہوں کو دھو دے۔ تم اللہ سے کہو وہ بھی مجھے معاف کردے" اسکا ہر اشک اس بات کا ثبوت تھا کہ اللہ نے اسے اسکی غلطيوں کا احساس دلا ديا ہے۔
عشق پہلے تھا يا عاشق پہلے
آئے معشوق تو عاشق پہلے
عشق کے ہاتھ لگے ہيں جب سے
ايسے مدہوش پھريں ہيں تب سے
عشق دل کے در پہ يوں آيا تھا
ہاں آيا تھا عشق آيا تھا
ہائے رے ہم صدقے تمہارے
عشق کا ايک ہی ورد ہے
عشق معشوق کے گرد ہے
کيوں ہے بے چين يہ طبيعت
عشق ہے يا يہ درد ہے
اس طرح آج ملے ہيں سب سے
ڈھونڈتے ہيں کيا ہم ايسا جگ سے
عشق دل کے در پر يوں آيا تھا
سو ہم نظر اتاريں
"ميں آپ کو معاف کرنے کو تيار ہوں" اتنی دير سے خاموش زرناب نے لب کھولے۔ اسکا لہجہ متوازن تھا اور چہرے پر کچھ انوکھی چمک تھی۔
وہ جو آنکھيں جھکاۓ بيٹھا تھا جھٹکے سے نظريں اسکے چہرے پر ڈالی۔
دائيں ہاتھ سے آنسو صاف کئے۔ بےيقينی سے اسے ديکھا
"مگر ميری ايک شرط ہے" اسکی بات پر وريد نے تيزی سے سر ہلايا۔
"تمہاری ہر شرط منظور ہے۔۔۔" اسکی بات سننے سے پہلے ہی اس نے اپنی رضامندی کی مہر ثبت کی۔
"آپ کو پوری پنچائيت کے سامنے مجھے ونی کے اس گندے تعلق سے آزاد کرنا ہوگا۔ آپ کو يہ کہنا ہوگا۔ کہ يہ رسم آج کے بعد آپکے علاقے ميں پروان نہيں چڑے گی۔ آپ کو اپنے خاندان والوں کے سامنے مجھ سے دستبردار ہونا ہوگا۔ ميں بھی ان سب کے سامنے آنے کے لئے تيار ہوں۔ مگر اس سے پہلے اس کريہہ رسم کا خاتمہ آپ کو کرنا ہوگا۔ اس سے کم پر ميں آپکی معافی قبول نہيں کروں گی" اسکا لفظ لفظ ايک عزم لئے ہوۓ تھا۔
يہی موقع زرناب کو غنيمت لگا۔
"ميں نہيں چاہتی ميرے بعد وہاں کوئ اور لڑکی اس تکليف دہ رسم کی صعوبتوں سے گزرے" آنکھيں نم ہوئيں۔
"ميں يہ سب کرنے کو تيار ہوں" وريد کے مثبت جواب پر نشرہ نے شکر کا سانس ليا۔
"مگر پھر ميری بھی ايک ادنی سی گزارش ہے" زرناب اور نشرہ نے بيک وقت چونک کر اسکی جانب دیکھا۔
بيسمنٹ ميں ہونے کی وجہ سے اسکا موبائل مل نہيں رہا تھا۔
"سر کو کيسے بتاؤں کہ وريد چوہدری انکے فليٹ ميں موجود ہے" اسکا بندہ باہر کھڑا کب سے مارج کو فون کرکے بتانا چاہتا تھا کہ اس نے ابھی وريد کو انکے فليٹ ميں جاتے ہوۓ ديکھا ہے۔
وہ يہ جگہ چھوڑ کر نہيں نکل سکتا تھا۔ ورنہ خود اسکے آفس جاکر اسے بتاتا۔ مارج نے انہيں بس اتنا بتايا تھا کہ آج وہ گھر لیٹ آئے گا۔ لہذا انہيں اپنی آنکھيں کھلی رکھنی ہيں۔ پچھلی بار کی طرح اس بار وريد چوہدری کا کوئ بندہ اسکی بيوی اور بہن تک پہنچا تو وہ انہيں زندہ نہيں چھوڑے گا۔
اور آج وريد چوہدری کا بندہ نہيں بلکہ وہ خود ان تک پہنچ چکا تھا۔
__________________
"السلام عليکم تايا سائيں" آج ہفتے بعد اسکا فون آيا تھا۔ کل ہی وہ رضيہ کو لے کر واپس آئے تھے۔ زندگی بھر اس نے پريشانياں سميٹی تھيں۔ اسی لئے دل اب کمزورہوگيا تھا۔
ہفتہ ٹريٹمنٹ کروانے کے بعد وہ اسکے گھر لے آئے تھے۔ مارج نے اس تمام وقت ميں باقاعدگی سے ہاسپٹل کے تمام کام کئے تھے۔ مگر نشرہ اور زرناب کو ان ميں سے کسی نے ہوا تک نہيں لگنے دی تھی تاکہ وہ سکون سے اپنے پيپرز دے سکيں۔ کل ہی ان کا آخری پيپر ہوا تھا اور آج زرناب کا انہيں فون آگيا تھا۔
"وعليکم سلام! ميرا بچہ کيسا ہے؟" وہ محبت سے بولے۔
"ميں ٹھيک ہوں۔۔ مجھے گاؤں آنا ہے۔ اور آپ سے ايک اہم بات بھی کرنی ہے" بہت کچھ سوچ کے اس نے انہيں فون کيا تھا۔
"جب کہو بيٹے۔ ميں ويسے بھی آپکے پيپرز ختم ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ ميں سب کے سامنے آپ کو آپکی اصل حيثيت کے ساتھ اب لانا چاہتا ہوں" وہ بھی اسے اپنے ارادے بتانے لگے۔
"ميں بھی اب اپنی اصل حيثيت سے آنا چاہتی ہوں۔ وريد چوہدری نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے" اسکی بات پر وہ لمحہ بھر کو گنگ رہ گئے۔
"ميرے لئے يہ آسان نہيں تھا مگر ميں نے ايک شرط پر اسے معاف کيا ہے" وہ انہيں تفصيل بتانے لگی۔
"کيا؟" وہ متجسس ہوئے۔
"ميں نے اسے کہا ہے کہ وہ پنچائيت بلائے۔ اس پنچائیت ميں اسکے گھر کے مرد۔ ہمارے يہاں کے مرد، ميں اور وہ ہم بھی موجود ہوں گے۔ اور وہ سب کے سامنے مجھ سے ونی کی حيثيت سے دستبردار ہوگا" اسکی آواز اور لہجے کی پختگی پر انکی آنکھيں لمحہ بھر کو نم ہوئيں۔
کبھی کبھی ہم جسے کمزور سمجھتے ہيں وہ ايسا طاقتور نکلتا ہے کہ دنيا کو ششدر کرديتا ہے۔
انہيں فخر تھا کہ انکے خاندان کی بيٹی اتنی مضبوط ثابت ہوئ تھی کہ اس نے ايک کريہہ رسم کے خلاف آواز بلند کی تھی جسے مرد ختم نہ کرسکے وہ بچی اپنی طاقت کے بل پر ختم کروانے چلی تھی۔
"آئم پراؤڈ آف يو۔ ميرے بچے" نم لہجے ميں وہ اسے سراہے بغير نہ رہ سکے۔
"دعا کريں کہ وہ دن پوری آب و تاب سے ہماری زندگيوں ميں آئے۔ اور جيسا ميں نے سوچا ہے۔ وريد چوہدری اپنے کہے پر پورا اترے" اس کی بات پر انہوں نے صدق دل سے آمين کہا۔
"ميں آج ہی گاڑی بھجواتا ہوں۔ آپ اور نشرہ دونوں آجاؤ۔ کچھ دن رہ لو" انکے اگلے سمسٹر شروع ہونے سےپہلے انہيں ايک ہفتے کی چھٹی تھی۔ اور اسی ايک ہفتے ميں وعدے کے مطابق وريد نے يہ سب کرنا تھا۔
_______________________
کچھ دنوں سے وہ اسے ديکھ رہی تھی کہ وہ خاموش سا تھا۔ وہ شوخی اور شرارت جو ان دونوں کے درميان شروع ہوچکی تھی اب وہ نظر نہيں آرہی تھی۔
کچھ وہ خود اپنے پيپرز ميں مصروف تھی کہ وہ اس سے ڈھنگ سے کوئ بات نہ کرسکی۔
کل ہی پيپرز ختم ہوۓ تھے۔ سارا دن سونے کے بعد شام ميں اٹھ کر اس نے اچھا سا ڈنر اپنے اور مارج کے لئے تيار کيا۔
اسکے آنے سے پہلے خود بھی اچھے سے تيار ہوئ۔
رات ميں آٹھ بجے وہ آفس سے واپس آيا۔
گھر ميں چکن اسٹيکس، گرلڈ ويجيز اور پاستا کی خوشبو پھيلی ہوئ تھی۔
لاؤنج ميں سينٹر ٹيبل پر کينڈلز جلائ گئيں تھيں۔
لاؤنج سے ہوتی اسکی نظر کچن ميں چمکتی دمکتی نشرہ پر پڑی۔
ہلکے چاکليٹ براؤن رنگ کا سلک کا ہلکے کام والا سوٹ پہنے ۔۔ بالوں کو سٹائلش سے ميسی جوڑے ميں جکڑے۔ کانوں ميں خوبصورت سے آويزے پہنے ہلکے سے ميک اپ ميں وہ اسکا سکون اچھا خاصا برباد کرچکی تھی۔
"السلام عليکم!" کھانے کی پليٹرز بناتے قدموں کی چاپ پر اس نے مڑ کر ديکھا۔ کانوں ميں سنہری بالياں اور ان ميں جڑا پينڈنٹ ہلکورے ليتے مارج کی سب توجہ اپنی جانب مرکوز کر چکے تھے۔ وہاں سے ہوتی اسکی نظريں نشرہ کی آنکھوں پر لگے لائنر اور پھر ہونٹوں پر لگی لائيٹ سی لپ اسٹک پر گئيں۔
مارج نے بمشکل نظريں اسکے جگمگاتے چہرے سے موڑيں۔ ليپ ٹاپ کا بيگ صوفے پر رکھا۔
"آج کوئ خاص بات ہے؟" آخر وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
"ہاں نا ميرے پيپرز ختم ہوئۓ ہيں۔۔ اس سے زيادہ خاص کيا ہوسکتا ہے" وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔
"تم فريش ہو آؤ۔ تب تک ميں يہ ريڈی کرلوں" پليٹرز کاؤنٹر پر رکھتی اب وہ کافی پھينٹنے ميں مصروف تھی۔
مارج کی بھٹکتی ہوں نظريں ايک بار پھر اسکی جانب اٹھيں۔
جو اسکے دل کی نيا تہہ و بالا کرکے خود سکون سے کام کرنے ميں مگن تھی۔
اتنی سج دھج کے وہ خود نارمل تھی اور مارج کی دھڑکنوں کو ابنارمل کررہی تھی۔ وہ اٹھ کر کچن کی جانب بڑھا۔
نشرہ کی اسکی جانب پشت تھی وہ چينی کا جار کھولنے ميں مصروف تھی جب کمر پر مارج کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔
ہاتھ، دھڑکنيں اور وہ خود سب پل بھر ميں ساکت ہوگيا۔ وہ سانس روکے اسکی سانسوں کی مہک اپنے بائيں کان پر محسوس کررہی تھی۔
"فريش تو ميں آپ کو ديکھتے ہی ہوگيا ہوں۔۔۔ اور خاص بات يہ ہے کہ آج آپ نے يوں ميرے لئے تيار ہوکر۔۔۔ خود کو سجا کر۔۔۔۔۔ اپنے لئے مشکليں بڑھا دی ہيں" اسکی جذبات سے بوجھل آواز پر نشرہ کی گھبراہٹ سوا ہوئ۔
اسکی انگلياں اسکے بالوں ميں سرائيت کيں اس سے پہلے کہ وہ اسے بالوں ميں لگی جوڑے کی پنيں کھولتا نشرہ نے اپنی کمر سے اسکے ہاتھ ہٹا کر سائيڈ پر نکلتے فاصلہ قائم کيا۔
"فضول باتيں نہيں کرو۔۔۔ جاؤ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے" اپنی آواز کی لرزش پر بمشکل قابو پاتے اپنے سامنے ڈارک بلوشلوار قميض ميں ملبوس مارج کے سينے پر ہاتھ رکھ کے اسے پيچھے دھکيلا۔
مارج نے انہی ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے۔
"ميری نيت خراب کرکے اب آپ کو اپنی بھوک کی سوجھ رہی ہے" اسکی گہری آنکھوں کا تاثر محسوس کرتے وہ بڑی مشکل سے اسکے سامنے کھڑی تھی۔ نظريں اٹھا کر اس کو گھورنے کی کوشش کی جس کی پرشوق نظروں نے پھر سے اسے نظريں جھکانے پہ مجبور کيا۔
"اگر تم نہيں گئے۔ تو کھانا نہيں ملے گا۔۔ سمجھ آئ" رعب جھاڑنے کی ناکام کوشش کی۔
وہ جو مسکراہٹ دباۓ کھڑا تھا اسکی حالت سے محظوظ ہوتے کھل کر ہنسا۔
"اتنی ظالم آپ ہر گز نہيں ۔۔۔ يہ تو مجھے پکا يقين ہے" اسکے ہاتھ ابھی بھی اسکے ہاتھوں ميں تھے۔
"اور اتنے چھچھورے تم ہرگز نہيں مجھے بھی پکا يقين ہے" وہ بھی اسی کے انداز ميں بولی۔
مارج نے مصنوعی گھوری ڈالی۔
"يہ چھچھورا ہونا نہيں رومانٹک ہونا ہے۔۔۔۔ کينڈل لائيٹ ڈنر تو بنا ديا۔۔ مگر اس ڈنر ميں رومانس کا عنصر ہوتا ہے يہ نہيں پتہ۔۔۔" وہ مصنوعی تاسف سے سر ہلانے لگا۔ اسکے کپکپاتے ہاتھوں کو چھوڑ کر سيدھا ہوا۔
"تم اپنا رومانس اپنے پاس رکھو۔۔ جاؤ نا مارج تنگ نہيں کرو" وہ بے چارگی سے بولتی اس لمحے اسے اور بھی پياری لگی۔ کہاں پتہ تھا کبھی يوں اسے زير کرسکتا ہے۔ غصے نہيں اپنی محبت سے۔
"چينج کرکے آتا ہوں پھر آپ کو کينڈل لائيٹ ڈنر پر پوری ڈکٹيشن دوں گا تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ اس ڈنر ميں کھانے کے علاوہ کيا کچھ شامل ہوتا ہے" اپنی شوخ آواز سے اسکی دھڑکنيں بے ترتيب کرتا وہ کمرے کی جانب بڑھا۔
نشرہ کو اپنی تياری پہ غصہ آيا۔
کھانا اس نے نہايت شرافت سے کھايا۔ کافی کا مگ لئے دونوں بالکنی ميں چلے آئے۔
"ايک بات پوچھوں؟" وہ کافی دير سے نوٹ کررہی تھی کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہيں پارہا۔
"اگر کوئ فضول بات کی تو اب ماروں گی" وہ روہانسی آواز ميں بولی۔
مارج ہولے سے ہنسا۔
"نہيں ايسی کوئ بات نہيں۔۔۔۔ کچھ دن پہلے ہمارے فليٹ ميں کوئ آيا تھا۔ جس دن زرناب يہاں تھی؟" مگ کے کنارے پر انگلی پھيرتے نيیچی نظروں کو آہستہ سے اٹھا کر اسکے چہرے پر سچائ کھوجنی چاہی۔ وہ ااسی رات اپنے بندے کا ميسج پڑھ چکا تھا۔ مگر اس رات اور اگلے دنوں ميں بھی نشرہ نے اسے وريد کے وہاں آنے کے بارے ميں کچھ نہيں بتايا۔
وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اسے وريد کے آنے کا مقصد بتائے۔ مگر نشرہ اس جانب سے مکمل خاموش تھی۔
مارج کو اتنے دنوں سے يہی بات چبھ رہی تھی۔
اسکی بات پہ لمحہ بھر کے لئے نشرہ نے کچھ سوچا پھر جھماکا سا ہوا۔
"بتا تو دوں۔۔۔ ليکن تم ڈانٹو گے نہيں" اسکے چہرے پر ڈر واضح نظر آيا۔
"آپ بتائيں" اس کے چہرے سے نظريں ہٹا کر سامنے نظر آتی خاموش سڑک پر ٹکائيں۔
"ور۔۔۔۔ وريد۔۔ وريد آيا تھا" اس نے ہکلاتے ہوۓ کہا۔
"کيا کرنے آيا تھا" اب کی بار ايک تيز نظر اسکے حواس باختہ چہرے پر ڈالی۔
"اور آپ نے اسے اندر کيوں آںے ديا" يکدم اسکے لہجے ميں سختی در آئ۔
"مارج وہ معافی مانگنا چاہتا تھا" کرسی کے ہتھے پر رکھے اسکے بازو پر اپنا نرم گداز ہاتھ رکھتے گويا اپنے لمس سے اسے شانت کرنا چاہا۔
"ميں نے آپ کو منع کيا تھا نا کہ آپ اور زرناب مجھے اسکے قريب بھی نہ نظر آئيں" جبڑے بھينچے بولتا وہ نشرہ کو خوفزدہ کررہا تھا۔
" وہ زرناب سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اور وہ اسکی بات نہيں سن رہی تھی" وہ اپنی صفائ دينے لگی۔
"اور آپ نے اسے يہ موقع فراہم کيا" اس نے تمسخر اڑايا۔
"ديکھو مارج۔۔۔ اگر ايک شخص شرمندہ ہو تو اسے مزيد شرمندہ نہيں کرتے"
"اور اگر وہ آپ ميں سے کسی کو کوئ نقصان پہنچا ديتا" اسکی بات پہ نشرہ کا دل کيا اپنا ماتھا پيٹ لے۔
"کيوں ہم نے اسکی بھينس چرائ تھی جو وہ گن اٹھاۓ ہميں مارنے آگيا" جھنجھلاتے ہوۓ بولتی ايسی بے کار مثال ديتی مارج کے اعصاب ڈھيلے کرنے ميں کامياب ہوگئ۔ غصہ ہونے کے باوجود وہ بے اختيار ہنس پڑا۔
"بہت ہی کوئ بے تک بات کرتی ہيں آپ" وہ اسکی مثال پر بولا۔
"ہاں تم تو بہت تک کی بات کرتے ہو۔۔ وہ رو رہا تھا۔۔۔ زرناب سے معافی مانگی ہے اس نے" وہ آہستہ آہستہ اسے سب گفتگو بتانے لگی۔
"ايسوں کے آنسوؤں پر يقين نہيں کرنا چاہئے" ساری بات سن کر اسکا غصہ کچھ کم ہوا۔
"بری بات مارج۔۔۔۔ اللہ بھی انسان کو ايک موقع ديتا ہے۔۔۔ ہم تو پھر انسان ہين۔۔۔" وہ مگ سامنے موجود کين کی ٹيبل پر رکھتے ہوۓ اسے سرزنش کرگئ۔
مارج نے گردن موڑ کر اسے ديکھا۔ جو ايک پھانس تھی وہ نکل گئ تھی۔
بے اختيار ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں سے پن نکالی۔ نشرہ نے منہ بنا کر اسکی حرکت کو ديکھا۔
"اتنی عقل کی باتيں آپ کو کب سے آ گئيں؟" غلط فہمی دور ہوئ تو وہ بھی اپنے موڈ ميں واپس آيا۔
"ميں ہوں ہی بہت عقل مند۔۔ تم نے مجھے ہميشہ انڈر اسٹيميٹ کيا ہے" گردن اونچی کرکے وہ ناز سے بولی۔
مارج نے ہاتھ بڑھا کر اسکے کندھے پر رکھتے اسے خود سے قريب کيا۔ نشرہ کی بولتی وہيں بند ہوگئ۔
"يقينا يہ ميرے ساتھ رہنے کا اثر ہے۔۔ تو کيوں نا کچھ رومانس کی بھی کلاسز ميں آپ کو دے دوں" اسکی بھاری بوجھل آواز نشرہ کے اوسان خطا کررہی تھی۔
"چپ کرو۔ تم۔۔۔" اسکا بازو کندھے سے ہٹاتے فاصلے پر ہوئ۔ مارج نے ہاتھ بڑھا کر اسکے بال اپنے ہاتھوں ميں تھام کر الجھاۓ۔
"بابا سائيں کی کال آئ تھی۔ کل وہ گاڑی بھجوا رہے ہيں۔ ميں اور زرناب کچھ دنوں کے لئے گاؤں جارہے ہيں" وہ اپنی دھڑکنوں کو ہموار کرتے ہوۓ بولی۔
"مجھے اکيلا چھوڑ کر" وہ خمار آلود لہجے ميں بولا۔
"کيوں تم کون سا اکيلے ميں ڈرتے ہو" وہ اسکے ہاتھ اپنے بالوں ميں سے ہٹاتے ہوۓ بولی۔
"تمہارے بغير سب ہوتا ہے جاناں
بس ميرا گزارہ نہيں ہوتا" اسکی بات کے جواب ميں اسکی جذبوں سے چور آواز نشرہ کو پھر سے گھبراہٹ ميں مبتلا کر گئ۔
"ميں کچھ کھانے بنا کر فريز کرجاؤں گی۔ تم آکر گرم کرلينا" اسکی آواز کے بوجھل پن اور محبت بھرے تاثر کا اثر مٹانے کو وہ کچھ اور ہی بول گئ۔
مارج اسکے بہلاوے پر قہقہہ لگاۓ بغير نہ رہ سکا۔
"ضرورتيں بہت سی ہیں مگر
تم ان ميں اول ہو" يکدم ہاتھ بڑھا کر اسے خود ميں بھينچا۔
"اب آپ سے الگ رہنا بہت مشکل لگتا ہے" محبت بھرا لمس اسکے چہرے پر جابجا جگا گيا۔
"ميں خود آپ دونوں کو لينے آؤں گا" اسے زور سے خود ميں بھينچتے وہ جيسے اسے خود سے دور نہيں کرنا چاہتا تھا۔
اسکی شدتوں پر نشرہ جتنا ناز کرتی کم تھا۔
"اتنی خاص کيوں بنتی جارہی ہيں آپ ميرے لئے؟" اسکا چہرہ اوپر کرتے بے بسی سے پوچھا۔
"اتنی محبت کيوں کرتے جارہے ہو تم مجھ سے؟" اسکی داڑھی کو ديکھتے پھر نظريں اٹھا کر اسکی محبت بھری نظروں سے ملاتے اسی کے انداز ميں بولی۔
مارج نے مسکرا کر محبت سے اسکا ماتھا چوما۔۔
"واپس آئيں تو اسکا جواب دوں گا" نشرہ نے آسودہ ہو کر اسکے کندھے پر سر رکھتے۔ اپنی نازک بازوؤں کا حصار اسکے گرد کھينچا۔
________________________
"بات کی تم نے اپنے باباسائيں سے" چند دن پہلے ہی زرناب نے اسکا نمبر ان بلاک کيا تھا۔
صبح ڈرائيور اور گارڈز نے انہيں لينے آنا تھا۔ وہ چند جوڑے بيگ ميں رکھ رہی تھی جب واٹس ايپ پر وريد کا ميسج آيا۔
"ہاں ميں نے آج صبح ان سے بات کرکے سب بتا ديا تھا۔ کل ميں اور نشرہ گاؤں جارہے ہيں" اس نے تيزی سے ٹائپ کرکے موبائل واپس بيڈ پر رکھا۔ واش روم ميں جا کر وضو کيا۔
باہر آئ پھر سے اسکرين چمک رہی تھی۔
"ميں بھی کل گاؤں جارہا ہوں" وريد کو بھی ايک ہفتے کی يونی سے آف تھی۔ انہوں نے اسی موقع کو غنيمت سمجھا۔
"اچھی بات ہے۔۔ بس آپ نے جو وعدہ کيا ہے اسے بھولئے گا مت" وہ اسے يقين دہانی کروانے لگی۔
"کبھی نہيں" اس نے بھی يقين پر مہر لگانے ميں پل بھر کی دير نہيں کی۔
"ميں آپکی گزارش مان چکی ہوں۔ اور اللہ کے بعد آپ پر بھروسہ کررہی ہوں کہ جيسا چاہتی ہوں ويسا ہی ہوگا" اس نے سنجيدگی سے پھر اسے بہت کچھ باور کروايا۔
"ميں تمہارے اس يقين کو کبھی ٹوٹنے نہيں دوں گا۔ تم سے نفرت بھی ڈنکے کی چوٹ پر کی تھی۔ اب محبت بھی ڈنکے کی چوٹ پر نبھاؤں گا" اسکی جانب سے آنے والے ميسج کو پڑھ کر لمحہ بھر کے لئے زرناب کی دھڑکنوں نے لے بدلی۔
مگر فورا ہی وہ سب فراموش کرگئ۔
"بس مجھے آپکی جانب سے مثبت رويہ ہی چاہئۓ" وہ بات بدل گئ۔
"اور تمہاری جانب سے مثبت رويے کی ميں کب اميد رکھوں؟" وہ اپنے مطلب کی بات پر آيا۔
"ميرا خيال ہے ميں نے آپ کو کہا تھا کہ ہم مين ايسی کوئ بات نہيں ہوگی" وہ برا منا گئ۔
"سنو۔۔۔ تھوڑی سی گنجائش رکھ لو" وہ آس سے بولا۔
"جتنی گنجائش نکالنی تھی ميں نکال چکی ہوں۔ آپ مجھے پريشرائز کررہے ہيں" وہ لب بھينچ گئ۔
ميسج پڑھ کر وريد نے موبائل کو زور سے بھينچا۔
"نہيں ميں تمہيں پريشرائز نہيں کررہا۔۔۔ بس پتھر پر قطرہ قطرہ اپنی محبت ٹپکا رہا ہوں۔۔ شايد کبھی اس ميں سوراخ ہوجاۓ" وہ باتوں ميں الجھانے کا ماہر تھا۔
"اب سمجھ آيا کيسے لڑکيوں کو اپنے پيچھے لگا ليتے ہيں" وہ طنز سے بولی۔
"ابھی تو ايک ہی لڑکی کو لگا لوں تو بڑی بات ہے" اسکے طنز پر بھی وہ مسکرائے بغير نہ رہ سکا۔ شوخ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ ميسج کيا۔
"مجھے نماز پڑھنی ہے" وہ دامن چھڑانے لگی۔
"ايک دعا کرو گی ميرے لئے" وہ پھر سے درخواست کرنے والے لہجے ميں بولا۔
"آپکی گزارشيں اور دعائيں پوری کرنے کے چکروں ميں ميرا نقصان ہوۓ جارہا ہے" وہ ٹھنکی۔
وريد اسکی شکايت پر کھل کر مسکرايا۔
"اللہ سے کہنا ان کا ايک گناہ گار بندہ ہے۔ اسکی معافی قبول کرکے اسکی محبت کو پور پور اسکا بنا ديں" اسے اندازہ تھا کوئ اسی قسم کی دعا ہوگی۔
"گڈ نائيٹ" اسکی بات کو خاطر ميں لائے بغير تيزی سے ميسج کرکے موبائل رکھا۔ اور نماز کے لئے اٹھ کھڑی ہوئ۔
دعا مانگتے دھيان اسی مجنوں کی جانب گيا۔
"بے وقوف" سر جھٹک کر اسکے تصور سے جان چھڑائ۔
____________________
"آپ کو آج شام ميرے ساتھ جرگے کے پاس جانا ہے۔ بھائ اور چچاؤں کو بھی" اسکی بات پر وجاہت چوہدری بری طرح چونکے۔
آج صبح ہی وہ آيا تھا۔ زرناب سے شادی والی بات کا کوئ حوالہ نہ ديا تھا۔ وہ خوش تھے کہ بھوت سر سے اترا۔ مگر انہيں نہيں معلوم تھا يہ بھوت اسکے پورے وجود کو جکڑ چکا ہے۔
"خيريت ہے؟" انہوں نے کسی خدشے کے پيش نظر پوچھا۔
"جی کچھ اہم معاملات ڈسکس کرنے ہيں" وہ چاۓ پيتا سرسری انداز ميں بولا۔
"کون سے اہم معاملات ہيں" وليد بولا۔
"کچھ ہيں۔۔۔ جس نے چلنا ہے وہ چلے۔ يہ وہيں جا کر آپ کو بتاؤں گا۔ بلکہ آپکے سامنے بھی آئے گا کہ مجھے کيا ڈسکس کرنا ہے" اسکی بات ميں عجيب پراسراريت چھپی تھی۔
"تم ہميں ابھی بتا دو تاکہ ہم بھی تمہارا ساتھ ديں" وجاہت چوہدری نے اس سے اگلوانے کی کوشش کی۔
"آپ نے جانا ہے يا نہيں" کپ سامنے موجود ٹيبل پر رکھ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھتے اب وہ براہ راست ان کی جانب ديکھتے سرد تاثرات آنکھوں ميں لئے بولا۔
"اچھا ٹھيک ہے۔۔ ہم چلتے ہيں چچاؤں کو لينے کی کيا ضرورت ہے" انہوں نے ہامی بھری۔
"جب مين کہہ رہا ہون کہ ضرورت ہے تو ضرورت ہے" وہ اپنی بات پر زور دے کر بولتا وہاں سے اٹھ کر اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔
"پتہ نہيں اب کون سا نيا گل کھلانے لگا ہے" وہ سر تھام کر بيٹھ گئے۔ اسکی ضدی طبيعت سے واقف تھے۔
شام ميں وہ سب جرگے ميں موجود تھے۔ گاؤں کے معززين بھی وہاں موجود تھے۔
"ہاں تو بيٹے بات شروع کريں" معززين ميں سے ايک نے اسے بولنے کا اشارہ کيا۔
"صرف دو منٹ انتظار کرليں" اس نے موبائل ديکھتے ہوۓ کہا۔ سب بڑے بڑے پلنگوں پر آمنے سامنے بيٹھے تھے۔
کچھ دير بعد ملک اياز اپنے بيٹوں اور زرناب کے ہمراہ وہاں داخل ہوئے۔
"السلام عليکم!" اندر آتے ہی اپنی بھاری آواز ميں انہوں نے سلام کيا۔ انہيں اندر آتے ديکھ کر وريد کی نظريں صرف اسی ايک وجود پر ٹکی تھيں۔ جو کالی چادر ميں خود کو چھپائے اسکے روبرو تھی۔
زرناب نے نظر اٹھا کر سامنے ديکھا۔
سفيد شلوار قميض پر کالی چادر لئے۔ دھوپ کے باعث گاگلز لگاۓ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر ملک اياز، اسيد اور صابر اور انکے ہمراہ آئے کچھ اور لوگوں سے اس نے مصافحہ کيا۔ زرناب کو اندازہ تھا ان سب سے ملتے بھی اسکی نظريں اسی پر ہوں گی۔ ملک اياز نے مارج کو بھی بلوايا تھا مگر اسکی کچھ اہم ميٹنگز تھيں جس کی وجہ سے وہ کسی اور شہر گيا ہوا تھا۔ اسی لئے وہ معذرت کر گيا۔
حالانکہ اس دن کے لئے وہ بھی اپنی بہن کی ہی طرح بہت پرجوش تھا۔
وجاہت چوہدری جو ملک اياز کو ديکھ کر ہی ٹھٹھک گئے تھے۔ وريد کا انکے ساتھ يہ انداز ديکھ کر غصے سے پيچ و تاب کھا رہے تھے۔ کم غصے سے برا حال وليد اور انکے ساتھ آئے باقی لوگوں کا بھی نا تھا۔ سب کڑے تيور لئے وريد کو گھور رہے تھے۔
"آج اس جرگے کو بلانے کا مقصد يہ ہے کہ بہت سال پہلے ميرے بھائ کی موت ملک اياز کے بھائ ملک سرفراز کی گاڑی سے ہوئ۔ اس وقت ميں اتنا چھوٹا تھا کہ بہت سے اہم فيصلوں کو نہ تو سمجھنے کی اہليت رکھتا تھا اور نہ سمجھ سکا تھا۔ اس لمحے ميرے والد نے بجاۓ خون کے بدلے خون کا فيصلہ کرنے کے ملک سرفراز کی بيٹی کو ونی کے طور پر ميرے ساتھ نتھی کيا تھا" سب خاموش تھے صرف اسکی آواز وہاں گونج رہی تھی۔
"وہ لڑکی کچھ سال پہلے ہماری حویلی سے بھاگ گئ ۔۔ قسمت کا ہير پھير ديکھيں يا ميری خوش قسمتی کہ ميں اس لڑکی کی تلاش کے لئے واپس پاکستان آيا۔ يہاں کہا جاتا ہے کہ ونی غيرت ہوتی ہے۔ اگر وہ بھاگ جاۓ اور وہ شخص جس کے ساتھ وہ ونی ہوئ تھی اسے نہ ڈھونڈ پائے تو يہ اسکی بے غيرتی سمجھی جاتی ہے۔ مجھے بھی ايسے بہت سے گھٹيا اور غير اخلاقی سبق پڑھائے گئے۔ اور ميں بھی يہاں آکر اسکی تلاش کرتا رہا۔ خير کہانی کا خلاصہ يہ کہ وہ لڑکی مجھے مل گئ۔ مگر اس انداز ميں کہ اللہ نے مجھے بہت کچھ سمجھا ديا۔" زرناب کی جانب ايک نظر ديکھ کر وہ خاموش ہوا۔ جو ملک اياز کے ساتھ بيٹھی اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔
"زرناب ملک اس وقت ہمارے سامنے ، ہمارے درميان موجود ہے۔ ميں اس کچھ عرصے ميں زندگی کی بہت سی حقيقتوں کو سمجھ کر آج اس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ ميں آج اس جرگے کے سامنے ان دونوں خاندانوں کے سامنے زرناب ملک کو ونی کی اس کريہہ رسم سے آزاد کرتا ہوں" بہت سی باتوں کو وہ ہدف کرتے اصل مدعے پہ آيا۔
اسکی بات پر وجاہت چوہدری اور اسکے خاندان کے سبھی لوگوں نے حيرت اور غصے سے آنکھيں کھول کر اسکی جانب ديکھا۔
"پاگل ہوگئے ہو تم" وجاہت چوہدری بھڑک اٹھے۔
"نہيں پہلے پاگل تھا شايد۔۔ آج ميں پورے ہوش و حواس ميں بيٹھا يہ فيصلہ سنا رہا ہوں" وہ مضبوط لہجے ميں بولا۔
"اور ميں يہ بھی يقين دلاتا ہون کہ ميرے خاندان ميں آئندہ ايسی کوئ گںدی رسم پروان نہيں چڑھے گی۔ ورنہ ميں خود کو اس خاندان سے الگ کرلوں گا" آخری بات متوازن لہجے ميں کہتے اس نے پھر سے زرناب کی جانب ديکھا جس کے چہرے پر پرسکون تاثرات ديکھ کر اسکا اپنا دل پرسکون ہوگيا۔ ايک دھيمی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر بکھری۔
زرناب نے ہولے سے بنا آواز کے اسے 'تھينک يو' کہا۔ وريد کے لئے يہ شکريہ بھی اس لمحے کسی ميڈل سے کم نہيں تھا۔
"اس بکواس کے لئے تم ہميں يہاں ذليل کرنے لائے ہو" وجاہت چوہدری تن فن کرتے اٹھے۔
"نہيں اگر آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچيں تو آپ کی عزت اور وقار بڑھايا ہے" وہ انہيں جھٹلانے لگا۔
"بہت شکريہ بيٹے" ملک اياز نے اپنے لوگوں کو کھڑے ہونے کا اشارہ کيا۔
"مجھے خوشی ہے کہ تم نے ايک غلط رسم کا خاتمہ کرکے آںے والی نسلوں کو بہت بڑی تکليف سے بچا ليا ہے۔ ميں بھی کم و بيش يہی اعلان کرتا ہوں کے ہمارے خاندان ميں بھی آئندہ اس رسم کو کبھی ترجيح نہيں دی جائے گی" ملک اياز نے بھی اپنا فيصلہ سنايا۔
"بہت معذرت اس وقت ميری عمر ايسی تھی کہ مجھے صحيح غلط کی پہچان نہ تھی" اپنے باپ کو نظر انداز کئے وہ کھڑا ہو کر ان
سے مصافحہ کرنے لگا۔
جرگے کے معززين بھی اسکے فيصلے کو سراہنے لگے۔
"اٹھو ۔۔۔ يہاں سے" وجاہت چوہدری اپنے باقی دونوں بيٹوں اور خاندان کے لوگوں کو لے کر غصے سے وہاں سے نکل گئے۔
"ہم دعا کرتے ہيں کہ تم جيسے ہی بچے ان روايات کا خاتمہ کريں" معززين ميں سے ايک جو بہت عرصے سے خود بھی اس رسم کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اپنی جگہ سے اٹھا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فخر کرتے ہوۓ بولے۔
"اس فيصلے ميں ميرا کمال نہيں۔ اس اللہ نے مجھ سے کسی کے توسط سے فيصلہ کروايا ہے" ان کا ہاتھ تھام کر اس پر بوسہ دیتے اس نے بتاتے ساتھ ہی گردن موڑ کر زرناب کی جانب ديکھا۔ جو ملک اياز کے بيٹوں کے ہمراہ وہاں سے نکل رہی تھی۔
"خوش رہو۔۔۔"انہوں نے سچے دل سے اسے دعا دی۔ سبھی اسکے فيصلے پر خوش تھے۔ سوائے اسکے خاندان کے لوگون کے۔ مگر اسے پرواہ نہيں تھی۔
ملکوں کی حويلی ميں آج جشن کا سا سماں تھا۔
"نجانے کیوں تجھے اسيد کی شادی پر ديکھتے ہی ايسا لگا تھا جيسے برسوں سے جانتی ہوں" رضيہ زرناب کو لپٹاۓ محبت سے اسکا ايک ايک نقش چھو کر ديکھ رہیں تھيں۔
فيصلہ ہونے سے پہلے تک ملک اياز نے عورتوں کو نہيں بتايا تھا کہ نشرہ کی دوست نار احسان انکی زرناب ہے۔ ہاں مردان خانے ميں يہ بات پھيل چکی تھی۔
اسيد اور صابر نے بھی محبت سے اسکے سر پر ہاتھ پھيرا۔
"مجھے آج ايک اور حقيقت بھی آپ سب کو بتانی ہے۔" اس وقت گھر کے سبھی بڑے اور بچے بڑے ہال ميں موجود تھے۔
سب زرناب سے مل رہے تھے۔ آنسو اور خوشی دونوں اس لمحے انہيں گھيرے ہوئے تھيں۔
"کہو بيٹے" عشرت بيگم نے بيٹے کو اجازت دی۔ آج وہ بھی بے حد خوش تھيں۔ ملک سرفراز کے بعد يہ پہلی خوشی تھی جس پر وہ آج پورے دل سے آسودہ تھيں۔
"مارج اسی گھر کا بچہ ہے" انکے انکشاف پر سوائے زرناب، نشرہ اور زرينہ بيگم کے باقی سبھی حيرت سے دوچار تھے۔
"کيا مطلب بھائ صاحب؟" رضيہ نے لب کشا کئے۔
"سرفراز نے شہر ميں ايک شادی کررکھی تھی۔ مارج اسی عورت کا بيٹا ہے۔ وہ اب زندہ نہيں ہے۔ مگر مارج کو اس نے ميرے حوالے کر ديا تھا۔ سرفراز اسے اپنی کفالت ميں لينے کو تيار نہيں تھا۔ اور اس نے مجھ سے وعدہ ليا تھا کہ ميں يہ حقيقت يہاں کسی کو نہ بتاؤں۔ مگر مجھے لگتا ہے يہ اس بچے کے ساتھ زيادتی ہوگی۔
اسی لئے وہ شروع سے ميرے قريب ہے۔ کيونکہ اسکی اصليت اور حقيقت سے ميں واقف تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آج ايسا موقع ہے کہ اگر ميں اس حقيقت سے بھی پردہ اٹھا دوں تو يہاں کسی کو کوئ مسئلہ نہيں ہوگا" ان کی بات پر عشرت اور زرينہ دونون ہی بے اختيار رو پڑيں۔ اور وہ سب جو اسے ناجائز بچہ سمجھ کر حقير جانتے تھے وہ بھی آج شرمندہ نظر آئے۔
"بھائ صاحب آپ کو يہ پہلے بتا دينا چاہئے تھا ناحق اسکے ساتھ ناانصافی ہوئ" شمائلہ بيگم جو اس گھر کی بڑی بيٹی تھيں وہ بھائ سے شکوہ کرگئيں۔
"ہاں مجھے بھی احساس ہوا کہ يہ حقيقت مجھے پہلے بتا دينی چاہئے تھی" انہوں نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کيا۔
"خير دير آئے درست آئے۔ ميرے خيال ميں ان دو خوشيوں کے موقع پر کيوں نا آج صدقہ کريں اور ميلاد کروا ليا جائے" زرينہ بيگم کی بات کی سب نے تائيد کی۔
کچھ ہی دير ميں وہاں ميلاد کا انعقاد کيا گيا۔ صدقہ اور خيرات ديا گيا۔
________________________
"کس وہ اتنی مصروفيت ميں بھی اس لمحے اسے کال کررہا تھا۔
دو تين کلائنٹس کے ساتھ ميٹنگ کی مختلف ٹائمنگز ارينج کی ہوئيں تھيں۔ بھيچ ميں بريک آئ تو اس نے نشرہ کو فون ملايا۔
صبح سے دل پريشان تھا کہ نجانے وريد اپنے کہے کو پورا کرے گا يا نہيں۔
"کيسی ہيں؟" سلام دعا کے بعد اس نے خيريت جانی۔
"بہت اچھی اور بہت خوش" سفيد نيٹ کی شلوار قميض پہنے وہ شيشے کے سامنے کھڑی خود کو ديکھ رہی تھی ساتھ ساتھ اس سے فون پر بات بھی کررہی تھی۔
"تو فيصلہ زرناب کے حق ميں ہوا" اسکے چہکتے لہجے سے ہی وہ جان گيا کہ وريد نے اپنا وعدہ پورا کيا ہے۔
تشکر بھری سانس خارج کی۔
"الحمداللہ اور ايک اور بات کی بھی خوشی ہے" اس کے مسکراتے لہجے ميں کچھ انوکھا پن تھا۔
"وہ کون سی؟" اس نے حيران ہو کر پوچھا۔
"بابا سائيں نے سب کو بتا ديا ہے کہ آپ جناب اسی گھر کے چشم و چراغ ہيں" اسکی بات پر وہ ساکت ہوا۔
"ميری ماں کی حقيقت بتا دی" اسکی آواز جيسے کسی گہری کھائ سے آئ ہو۔
"نہيں۔۔ بابا سائيں نے کہا ہے کہ چچا سائيں نے شہر ميں شادی کررکھی تھی" اسکی بات سنتے ہی مارج نے آنکھيں بند کرکے اس شفيق انسان کو دل سے ڈھيروں دعائيں ديں۔ جنہوں نے واقعی کبھی اسے باپ کی کمی محسوس نہيں ہونے دی تھی۔
"ہيلو ۔۔۔ مارج۔۔۔ فون پہ ہو" اسکی طويل ہوتی خاموشی پر وہ ٹھٹھکی۔
"جی جی۔۔۔۔ اسکی آواز ميں نمی گھلی۔
"ڈونٹ ٹيل می کے تم رو رہے ہو" وہ حيران ہوئ۔
"جی نہيں۔۔۔ رونے کی اس ميں کيا بات ہے" اس نے اپنی آواز پر قابو پاکر کہا۔
"شکر ۔۔ ميں تو بہت خوش ہوں۔۔ اب کوئ يہاں تمہيں ٹيڑھی آنکھ سے نہيں ديکھ سکتا" وہ اپنی خوشی اسکے ساتھ شئير کرنے لگی۔
"خير ٹيڑھی آنکھ سے ديکھنے کی ہمت تو پہلے بھی نہيں تھی۔۔۔ چھوٹی سائين ٹھيک ہيں۔۔ خوش ہيں وہ زرناب کے ملنے پر؟" اس نے رضيہ کا پوچھا۔
"چچی سائيں کے تو پاؤں زمين پر نہيں ٹک رہے۔۔ انکا بس نہيں چل رہا زرناب کو گود ميں لے کر پھريں" وہ کھلکھلاتے ہوۓ بولی۔
"اولاد چيز ہی ايسی ہے" وہ تصور کرسکتا تھا انکی خوشی۔
"اور تم مجھے ايک بات بتاؤ۔۔۔ پچھلے دنوں چچی سائيں کی طبيعت ٹھيک نہيں تھی۔ اور وہ ہاسپٹلائزڈ ہوئيں وہ بھی شہر ميں۔۔۔ جناب نے دن رات تيمارداری کی۔ اور بيوی کو بتانا بھی گوارا نہيں کيا" کچھ ياد آنے پر وہ شکوہ کرنے لگی۔ اسے اور زرناب کو حويلی آکر معلوم ہوا تھا کہ رضيہ انکے پيپر کے دنوں ميں بيمار تھيں۔ نہ صرف وہ شہر ميں ہاسپٹل ميں رہيں بلکہ زرينہ کے ساتھ ساتھ مارج نے انکی خوب خدمت کی۔
"نيکی کے کاموں کی تشہير کرنا کوئ اچھی بات ہے" وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔ جانتا تھا ابھی پھٹ پڑے گی اور وہی ہوا۔
"اچھا بچو۔۔۔۔ ميں کوئ بات چھپاؤں تو تم بے اعتباری بيچ ميں لے آتے ہو۔۔ اور اپنی دفع تشہير نہيں کرنی۔۔ بيوی کو بتانا تشہيرکرنا ہوتا ہے۔ ۔۔ بس اب مين بھی تمہيں کوئ بات نہيں بتاؤں گی۔ ديکھنا تم" ايک ہاتھ سے دوپٹہ سر پر سيٹ کيا۔ مارج نے بے ساختہ اسکے چڑنے پر قہقہہ لگايا۔
اسی لمحے زرينہ اسکے کمرے ميں آئيں۔
"تمہاری ابھی تک تياری مکمل نہيں ہوئ" اندر آتے ہی اسے ڈانٹا۔
"ميں تيار ہوں۔۔ آپکا داماد ہی فون کرکے تنگ کررہا ہے" وہ مزے سے بولی۔ مارج فون ميں سے آتی ہوئ زرينہ کی آواز بآسانی سن لی تھی۔
"کس چيز کی تياری کہيں جارہی ہيں؟" اس نے اچھنبے سے پوچھا۔
"ہاں ميلا۔۔۔۔۔ ميں کيوں تمہيں بتاؤں" مزے سے بتاتی پھر ٹھنک گئ۔
"ايسے بات کرتے ہيں شوہر سے تو تڑاخ کرکے" وہ جو اسکے کمرے کی بکھری چيزيں سميٹ رہيں تھيں۔ اسکے پاس آتيں ايک ہتھڑ اسکے بازو پر لگا کر آنکھيں نکال کر بوليں۔
"آپ مار ليں مجھے۔۔ شادی شدہ ہوں اب۔۔۔" وہ بيک وقت زرينہ اور مارج دونوں کو نپٹا رہی تھی۔
"چچ چچ چچ۔۔۔۔ کسی معصوم کو يوں تنگ نہيں کرتے۔ ديکھيں سزا مل گئ ہے آپ کو" وہ تصور کرسکتا تھا کہ اس وقت زرينہ نے اسکے ساتھ کيا سلوک کيا ہے۔
"تم تو بات ہی مت کرو اب مجھ سے۔۔۔۔" وہ ناراض ہوتی فون کاٹ گئ۔
"تمہيں کچھ کہتا نہيں مارج۔۔۔ خبردار آئندہ ميں تمہيں اسکے ساتھ تو تڑاخ کرتے ديکھا" وہ ابھی بھی اسکے پاس کھڑيں اسے گھور رہيں تھيں۔۔
"مجھ سے نہيں آپ آپ کيا جاتا۔۔ اور تو تڑاخ تو نہيں کررہی تھی۔ تم کہہ رہی تھی" وہ اپنا بازو سہلا کر بولی۔
"ہاں تو تم ميں کون سا ادب ہے۔ شوہر ہےتمہارا۔۔ اس طرح رعب جھاڑ رہی ہو۔۔۔ کبھی ديکھا ہے مجھے ۔۔ ميں تمہارے بابا سائيں سے ايسے بولتی ہوں" اسے سمجھايا۔
"افف اماں سائيں۔۔۔۔ ايک تو اس نے غصہ دلايا ہے اور اب آپ شروع ہوجائيں ۔۔ ميں جارہی ہوں نيچے" وہ ہاتھ جھلاتی کمرے سے نکلی۔ زرينہ اسکی حرکت پر افسوس کے سوا کچھ نہيں کرسکتيں تھيں۔
___________________________
چوہدريوں کی حويلی ميں کہرام برپا تھا۔
"پاگل ہوگيا ہے يہ اس لڑکی کے پيچھے" وريد جس لمحے واپس آيا وجاہت چوہدری اور سبھی مرد اسے لعن طعن کرنے کو تيار بيٹھے تھے۔
وہ جانتا تھا اسکے فيصلے کو يہاں سراہنے والا کوئ نہيں تھا۔ اسے اپنی يہ جنگ تنہا لڑنی تھی۔
"ہاں ميں پاگل ہوا ہوں۔۔۔ اسی پاگل پن ميں انسانيت بھرے فيصلے کررہا ہوں۔۔ کيسی عجيب بات ہے نا کہ ميں عورت کے پيچھے لگ کر اپنا دين ۔۔ ايمان بيچنے کی بجائے۔ اپنی آخرت سنوارنے کی تياری کررہا ہوں۔ اگر آپ اسے پاگل پن کہتے ہيں تو بالکل ٹھيک کہتے ہيں۔۔" اسکا اٹل لہجہ وجانت چوہدری کے غصے کو اور بھی ہوا دے رہا تھا۔
"اسی دن کے لئے آپ نے اسے اتنا پڑھايا لکھايا تھا کہ يہ يوں سارے گاؤں کے سامنے ہماری ناک کٹوائے" اسکے پھپھا کرامت چوہدری غصے سے اسے گھورتے ہوۓ وجاہت چوہدری سے بولے۔
"کسی معصوم کوايسی گندی رسم ميں بغير وجہ کے اپنے گھر لانے اور اس پر مار پيٹ کرنے سے آپکی ناک نہيں کٹتی کيا" وہ تو جيسے وہ وريد ہی نہيں تھا جس کی سفاکی کو وہ سب جانتے تھے۔
"تم جانتے ہو اسکی پاداش ميں ۔۔۔ ميں تمہارے ساتھ کيا کرسکتا ہوں" وجاہت چوہدری نے کڑی نظروں سے اسے ديکھا۔
"مجھے رتی برابر فرق نہيں پڑتا۔ آپ نے جو کچھ مجھے عنايت کيا ہے۔ آپ سو بار واپس لے ليں۔ مجھے عاق کرديں۔ مجھے فرق نہيں پڑتا۔ شايد اسی دن کے لئے ميں اتنا پڑھ لکھ گيا ہوں کہ اپنے زور بازو پر کما کر خود کو کھلا سکتا ہوں" اسکے پاس انکی ہر بات کا جواب تھا۔
"جس گھر ميں ميں رہتا ہوں۔۔ ميں وہاں واپس نہيں جاؤں گا۔ ميں نے کچھ دن پہلے ہی اپنے پيسوں سے اپنا اپارٹمنٹ خريد ليا تھا۔ جو گاڑی آپ نے مجھے گفٹ کی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی اسکے پيسے آپکے اکاؤنٹ ميں ٹرانسفر کروا دئيے ہيں۔ اب يہ گاڑی ميری ہی ملکيت ہے۔ باقی اور کچھ مجھے نہيں چاہئے۔ " وہ تو جيسے سب فيصلے کرکے آيا تھا۔
"تم بہت پچھتاؤ گے۔ جو کالک آج تم نے ملکوں کے سامنے ميرے منہ پر ملی ہے اسکا بدلہ ميں بہت جلد لوں گا" وہ اس لمحے انکی اولاد کی کيٹگری سے نکل کر انکا حريف بن گيا تھا۔
وہ غصے کی زيادتی سے آنکھيں پھاڑے اسے گھور رہے تھے۔
"مبارک ہو۔۔ آپ ميری اميدوں پر پورا اترے ہيں۔۔ مجھے اس سب کا علم تھا۔ کہ آپ اس فيصلے پر نہ صرف مجھ پر غصہ ہوں گے بلکہ ہر طرح کا تعلق اور لحاظ بھی بھلا ديں گے۔۔۔۔ مجھے ذرا بھی افسوس نہيں۔۔ زندگی ميں ہر رشتہ زندگی کے ہرموڑ پر آپکے ساتھ نہيں ہوتا۔۔۔ ميں نے جہاں آدھی زندگی آپ سب سے الگ گزاری ہے۔ باقی کی بھی گزاردوں گا۔۔۔ مگر دعا کروں گا۔ اللہ آپ کو بھی ہدايت دے۔۔۔ اگر اولاد کی نافرمانی ماں باپ کو تکليف ديتی ہے۔ تو اولاد کو بھی ماں باپ کی اللہ سے کی جانے والی نافرمانی اتنی ہی تکليف ديتی ہے۔ اللہ نے مجھے تو راہ راست پرڈال ديا ہے۔ دعا کرتا ہوں آپ سب کو بھی اس راستے پر چلنے کی توفيق دے۔۔۔۔ ميں اپنی ماں سے مل کر ابھی يہاں سے چلا جاؤں گا" وہ کسی کو بھی کچھ اور کہنے کا موقع دئيے بغير اپنی باتوں سے ساکت کرتا وہاں سے جاچکا تھا۔
اتنا بڑا فيصلہ کرنے کے باوجود اسکے دل ميں موہوم سی اميد تھی کہ شايد بحث و مباحثے کے بعد اسکا باپ اسکے فيصلے کو قبول کرلے۔ ليکن ان کے چہرے پر موجود سختی اور لہجے ميں کوئ لچک نہ ديکھ کر اسے وہاں سے جانا ہی بہتر لگا۔
زنان خانے ميں بھی اسکی ماں کے سوا سبھی غصے سے بھری بيٹھيں تھيں۔
"ايک زنانی کے ہاتھوں بے وقوف بن گيا۔۔ پاگلا نہ ہوئے تے" اسکی دادی غصے سے بھری بيٹھی تھيں۔ اسے اندر آتے ديکھ کر پھٹ پڑيں۔
"اماں سائيں کيا ميں اکيلے ميں آپ سے کچھ بات کرسکتا ہون" سب کو نظر انداز کرتے وہ صغراء بيگم سے مخاطب ہوا۔
وہ سب سے نظر چراتيں اٹھيں۔۔ اسے لئے دالان کی جانب آئيں۔
"کيا آپ بھی ميرے فيصلے پر ناخوش ہيں؟" انکا چہرہ دونوں ہاتھوں ميں لئے اس نے آس سے پوچھا۔
"نہيں ميری جان۔۔ ميں ہميشہ اور ہر لمحہ تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔" اپنے چہرے پر رکھے اسکے ہاتھ تھامتے محبت سے چومتے اسکے فيصلے کو سراہا۔
"بس مجھے اور کسی کی حمايت کی ضرورت نہيں۔ ميں يہاں سے جارہاہوں۔ پتہ نہيں دوبارہ کبھی يہاں آپاؤں کہ نہيں ليکن آپ نے مجھ سے ہميشہ رابطے ميں رہنا ہے۔۔" انہيں خود سے لپٹاتے وہ طمانيت بھرے لہجے ميں بولا۔
"ميں ہميشہ تمہارے ساتھ ہوں" انکی بات پر وہ سرشاری سے مسکرايا۔
"کيا وہ تمہاری ہمسفر بننے کو تيار ہے؟" انکے سوال پر اس نے انہيں خود سے الگ کرکے کندھوں کو تھاما۔
"آپکی دعا ميرے ساتھ رہی تو وہ ميری ہمسفر بن جائے گی۔۔۔ بس آپ نے ميرے لئے دعا کرتے رہنا ہے کہ جس عورت نے مجھے زندگی کی اصل حقيقت سمجھائ۔۔ اسے اللہ ميرے نصيب ميں لکھ کر ميری نسل سنوار دے" اسکے لہجے ميں درخواست کے ساتھ ساتھ ايک عزم تھا۔
"يقينا ۔۔۔ اس عورت سے پہلے آپکی دعاؤں نے مجھے سنوارا ہے۔ ميں خوش نصيب ہوں کہ ميں ايک بہترين عورت کی گود ميں پروان چڑھا" آج سے پہلے ايسی محبت کا اظہار اس نے کبھی ان سے نہيں کيا تھا وہ بے اختيار رو پڑيں۔ وہ انہيں ہميشہ سے اپنی اولاد ميں سب سے زيادہ پيارا تھا۔ انہوں نے شکر کيا کہ وہ راہ راست پر آگيا۔
"اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو" انہوں نے صدق دل سے اسے دعا دی۔
"ان شاءاللہ" ايک بار پھر انہيں ساتھ لگا کر انکے ماتھے پر بوسہ ديا۔ ہاتھ تھام کر عقيدت سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔
آج اسے اپنی ماں کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوا تھا کہ وہ کس قدر اچھی عورت تھيں۔
"ميرے لئے دعا گو رہئے گا" ايک آخری نگاہ ان پر ڈال کر نم آنکھيں صاف کرکے وہ مڑ گيا۔ وہ دور تک اسے جاتا ديکھتيں رہيں۔
غم ہونے کے ساتھ ساتھ انہيں خوشی تھی کہ وہ بہترين منزل کی جانب محو سفر ہے
_________________________
شديد مصروفيت کے باعث اسکے لئے نشرہ اور زرناب کو جاکر واپس لانا مشکل تھا۔
رات ميں ہی اس نے ملک اياز کو کال کرکے اپنی مصروفيت کا بتاديا تھا اور وعدہ بھی کيا تھا کہ کام کا لوڈ ختم ہوتے ہی وہ گاؤں کا چکر لازمی لگاۓ گا۔
انہوں نے صابر کے ساتھ چند گارڈز کو بھی نشرہ اور زرناب کو شہر چھوڑ کے آنے کے لئے روانہ کيا۔
ابھی وہ گاؤں کی حدود سے نکل نہيں پائے تھے کہ يکدم گاڑی کے ٹائر برسٹ ہوۓ۔
"يہ کيا ہوا ہے۔۔ کسی نے کيليں بچھا رکھيں ہيں۔۔۔" صابر جو فون پر مصروف تھا يکدم گاڑی کے ڈانوا ڈول ہوتے ہی ڈرائيور سے مخاطب ہوتے راستے کی جانب متوجہ ہوا۔
زرناب اور نشرہ بھی پريشان سی اسکی جانب متوجہ ہوئيں۔ ڈرائيور نے فورا بريک مار کر گاڑی روکی۔
"صاحب کچھ خطرہ لگ رہا ہے" ڈرائيور کی بات ابھی منہ ميں ہی تھی جب جھاڑيوں کے پيچھے سے يکدم انکی گاڑی پر فائرنگ ہوئ۔
"سيٹوں کے درميان ہوجاؤ تم دونوں" صابر پيچھے منہ کرکے چلايا۔
وہ دونوں اپنے نقاب سنبھاليتيں فورا سيٹوں کے درميان بيٹھيں۔
اونچی اونچی جھاڑيوں کے باعث صابر اور اسکے گارڈز کے لئے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کس جانب سے گولياں برس رہی ہيں۔ مگر پھر بھی وہ اپنی پوزيشنز سنبھالتے جوابی فائرنگ کررہے تھے۔
اسی لمحے دو گارڈز کے ساتھ ساتھ صابر کی بھی بازوؤں ميں گولياں پيوست ہوئيں۔
نشرہ اور زرناب جو شديد حواس باختہ يہ سب ديکھ رہيں تھيں۔ يکدم چلائيں۔
"بھائ" صابر نے تکليف برداشت کرتے انہيں خاموش رہنے کا کہا۔
ان دونوں کی وجہ سے وہ گاڑی چھوڑ کر باہر بھی نہيں نکل سکتا تھا۔
اسی لمحے انکی گاڑی کے پيچھے تين چار گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئ۔
"نکال کر لاؤ اس حرام زادی کو" آنے والوں ميں سے ايک کی دھاڑ خاصی بلند تھی۔
چاروں جانب سے اسکے بندوں نے ان کی گاڑی کو گھير ليا۔
"خبردار ميرے گھر کی کسی عورت کو ہاتھ لگايا" صابر اپنی زخمی بازو کے ہمراہ گاڑی سے نکل کر آنے والوں کا مقابلہ کررہا تھا۔
اسکے زخمی گارڈز بھی آنے والے بندوں کا خوب مقابلہ کررہے تھے۔
مگر پچاس بندوں کے سامنے وہ سات بندے زياد دير مقابلہ جاری نہ رکھ سکے۔ گن کے بٹ مار کر اسکے ايک بندے نے صابر کو شديد زخمی کرديا۔
باقيوں کو بھی اٹھا کر وہ گاڑيوں ميں ڈال چکے تھے۔
"کيا کريں" نشرہ کو معاملہ ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوا۔
"دروازہ کھول کر جھاڑيوں ميں دوڑ لگاؤ" زرناب کی بات پر اس نے سر اٹھايا۔ سبھی آپس ميں گتھم گتھا تھے۔ ان دونوں نے آہستہ سے گاڑی سے نکلتے جيسے ہی قدم اٹھانے چاہے دو بندے چيلوں کی طرح ان پر جھپٹے۔
"بھاگنے لگی تھی۔ حرام خور" ايک نے چادر سميت زرناب کے بالوں کو مٹھی ميں جکڑا۔ جھٹکے سے اسکا نقاب کھينچا۔
"زرناب کون ہے تم ميں سے" دونوں کو بے نقاب کئے وہ کرخت آواز ميں بولے۔
اس سے پہلے کہ نشرہ بے وقوفی ميں کچھ کہتی۔ زرناب نے جی کڑا کرکے اپنی جانب اشارہ کيا۔
"اٹھا اسے" وہ بالوں سے گھسيٹتے ہوۓ زرناب کو ايک گاڑی کی جانب لے گيا۔
"چھوڑو اسے" نشرہ چلاتے ہوۓ پھڑپھڑائ
"پھينک اس سالی کواسکے بھائ کے پاس" دوسرے نے ايک زوردار تھپڑ نشرہ کے منہ پر مارا ۔۔۔ وہ الٹ کر کچی سڑک پر گری۔
"چھوڑ دو۔۔ کون ہو تم لوگ۔۔ چھوڑو زرناب کو" وہ پھر سے ہمت مجتمع کرتی اٹھ کر گاڑيون کی جانب آئ۔ جو ايک ايک کرکے وہاں سے نکلنے لگيں۔
نشرہ روتی چلاتی کچھ دير ہانپتی ہوئ انکے پيیچھے بھاگتی رہی مگر وہ زن سے آنکھوں سے دور ہوتی گئيں۔
تھک ہار کر وہ روتی بلکتی واپس آئ۔ صابر کو ہلايا جلايا مگر وہ شديد زخمی تھا۔
بمشکل اسے اٹھا کر گاڑی تک لائ۔
اپنا بيگ ٹٹولا۔ سيٹوں کے درميان نيچے ہی گرا مل گيا۔ روتے ہوۓ۔ اس ميں سے موبائل نکالا۔
تيزی سے ملک اياز کا نمبر ملايا۔
وہ انگيج جارہا تھا۔
"يا اللہ مدد کردے۔" وہ پھپھک کر روئ۔
اسيد کا نمبر ڈائل کيا وہ بند تھا۔
آخر کپکپاتے ہاتھوں سے آخری اميد کے طور پر مارج کا نمبر ملايا۔
________________________
وہ ابھی فيکٹری سے نکل کر اپنے آفس کی جانب جارہا تھا۔ آج گھر جلدی جانا تھا تاکہ زرناب اور نشرہ کو صحيح سے ويلکم کرسکے۔ ايک ہفتے بعد اسے ديکھنا تھا۔
دل کی حالت ہی اور تھی۔
آفس ميں داخل ہوتے موبائل پر نشرہ کا نمبر ديکھتے اسکے ہونٹوں پر خودبخود ايک خوبصورت سی مسکان بکھری۔
"کيسی ہيں جناب۔۔۔ کب تک پہنچ رہی ہيں"خوشگوار سے لہجے ميں استفسار کيا۔
"مم۔۔ ما۔۔ مارج" اسکی روتی بلکتی آواز سن کر وہ ٹھٹھک گيا۔ کسی خطرے کی گھنٹی بجی
"کيا ہوا ہے؟" لہجے ميں شديد پريشانی تھی۔
"وہ لے گئے۔ اسے۔۔۔۔" وہ بلک بلک کر رودی۔
"نشرہ۔۔ کہاں ہيں۔۔ کيا ہوا۔ ہے۔۔۔ کس کو لے گئے۔ آپ کہاں ہيں" اس نے پہلی بار اسے نام سے مخاطب کيا بھی تو اس لمحے جب نشرہ اسکے منہ سے اپنا نام سن کر خوش بھی نہيں ہوسکتی تھی۔
"ہم۔۔ ہم شہر آرہے تھے۔۔ وہ بہت سے لوگ آئے۔ ۔۔ پتہ نہيں کون تھے۔۔ فائرنگ کی صابر بھائ کو زخمی کيا۔ سب گارڈز کو مار پيٹ کر زرناب کو لے کر چلے گئے" وہ چلاتے ہوۓ خود پر گزرا ستم بيان کررہی تھی۔
"باباسائيں۔ اور اسيد بھائ ۔۔ کوئ کوئ۔۔ بھی ميرا فون اٹينڈ نہيں کررہا ميں۔۔ ميں صابر بھائ کو لے کر ہاسپٹل جارہی ہو۔۔مارج تم آجاؤ۔۔۔ ميں بہت اکيلی ہوں" اسے خود پر بيتی رواداد بتاتے وہ جيپ سٹارٹ کررہی تھی۔ اسے گاڑی چلانا آتی تھی مگر سيکيورٹی کے پيش نظر زيادہ تر ڈرائيور کے ساتھ ہی وہ آتی جاتی تھيں۔
"آپ پريشان نہ ہوں۔۔ ميں جانتا ہوں کس نے يہ گھٹيا حرکت کی ہے۔ اعتماد کے نام پر ہمارےی پيٹھ ميں چھرا گھونپا ہے۔ميں نکل رہا ہوں گاؤں کے لئے" اسے تسلی ديتے بولا۔
اپنے مينجر کو ايمرجنسی کا بتاتے وہ گاڑی کا رخ وريد کے فليٹ پر موڑ چکا تھا۔ اسکی پوری خبر رکھتا تھا۔
______________________
کل نيا سمسٹر شروع ہونا تھا۔ وہ يونی سے آکر سوگيا تھا۔ اس وقت شام کی چائے بنا کر اپنے چھوٹے سے مگر پرآسائش فليٹ کے لاؤنج ميں ليپ ٹاپ لئے صوفے پر بيٹھا تيزی سے کل کی سلائيڈز تيار کررہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ چائے کے سپ بھی لے رہا تھا۔
ابھی اسے کام کرتے زيادہ وقت نہيں ہوا تھا جب ڈور بيل بجی۔ چائے کا کپ سامنے موجود ٹيبل پر رکھ کر ليپ ٹاپ صوفے پر رکھ کر وہ دروازے کی جانب بڑھا۔
کی ہول سے ديکھا مارج ملک کھڑا نظر آيا۔
وہ کچھ چونکا۔
کچھ سوچ کر دروازہ کھولا۔
"تم يہاں۔۔۔۔" ابھی اسکی بات منہ ميں ہی تھی کہ وہ اس پر جھپٹ پڑا۔
غصے سے اسکا گريبان تھامے اسے گھسيٹتا ہوا اندر لايا۔
"بول کہاں ہے ميری بہن" ايک زوردار تھپڑ اسکے منہ پر جڑا۔
وريد اس سب کے لئے ہر گز تيار نہيں تھا۔ وہ مزاحمت بھی نہ کرپايا۔ اسکے جاندار تھپڑ پر وہ لڑکھڑايا۔
"کيا بکواس ہے" وہ غرايا۔
"بکواس نہيں۔۔۔ بولو۔۔ کہاں ہے زرناب۔۔ اس سے معافی مانگ کر پورے گاؤں کو بے وقوف بنا کر ميری بہن اٹھوا لی ہے اب تم نے" اسکی بات پر وہ آنکھيں پھاڑے اسے ديکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کے مارج کا ايک اور تھپڑ اسکے منہ پر پڑتا وہ چوکنا ہوتے اسکا ہاتھ روک گيا۔
"پاگل ہوگئے ہو تم۔۔۔ ميں ۔۔ ميں کيوں۔۔۔ زرناب اغوا ہو گئ ہے" صدمے سے بولتا وہ مارج کو اس لمحے شديد زہر لگا۔
"زيادہ ايکٹنگ کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔۔ ميں نے ہی بے وقوفی کی۔ مجھے ملک سائيں کی باتوں ميں آکر تم جيسے سانپ کو نہيں چھوڑنا چاہئے تھا۔ وہی کہتے تھے تم زرناب کو نقصان نہيں پہنچاؤگے۔ جب تم ميرے فلیٹ ميں آئے تھے مجھے تبھی تمہاری ٹانگيں توڑ دينی چاہئيں تھیں۔۔ ليکن ملک سائيں کو يقين تھا کہ تم نے سچے دل سے معافی مانگی ہے ارے تم جيسے لوگ کبھی نہيں سدھر سکتے۔۔۔" اسکے ہاتھ سے اپنی کلائ جھٹک کر وہ لال انگارہ آنکھوں سے اسے گھورتا اسکے چيتھڑے اڑا رہا تھا۔
"مجھے کيا پڑی ہے زرناب کو اغوا کرنے کی۔۔۔۔ بيوی ہے وہ ميری" اسکے الزامات پر اب کی بار وہ غصے سے چلايا۔
دونوں آنکھوں ميں خون لئے ايک دوسرے کو گھور رہے تھے۔
اسکی بات پر مارج کی آنکھيں سکڑيں۔۔۔ ششدر اسکی جانب ديکھا۔
"ہاں۔۔ بيوی۔۔ نکاح کيا ہے مين نے اس سے اسکی رضامندی سے۔۔۔ يقين نہ آئے تو اپنی بيوی سے پوچھو۔۔ وہ عينی شاہد ہيں ۔۔۔۔ کہاں سے اغوا ہوئ ہے زرناب" مارج پر حيرتوں کے پہاڑ ٹوٹے۔ اسکی اتنی خبرگيری رکھنے کے باوجود يہ کب ہوا۔
فليش بيک۔۔۔۔
"کہيں؟" اسکی گزارش کی بات سن کر کچھ پل زرناب خاموش رہی پھر جی کڑا کرکے بولی۔
"تم اسے ميری خودغرضی سمجھو۔۔۔ مجھے نفس پرست کہو۔۔ يا جو بھی۔۔۔ مجھے فرق نہيں پڑتا۔۔۔ ميں تمہاری ہر بات مانوں گا۔۔ تم بس ميرے نکاح ميں آجاؤ" اسکی گزارش سن کر زرناب تو زرناب۔۔ نشرہ بھی بری طرح چونکی۔
"دماغ خراب ہے آپ کا؟" وہ دبے دبے انداز ميں چيخی۔
"ہاں ۔۔۔۔ پاگل ہوں ميں۔۔۔ اور پاگل اپنی مرضی کئے بغير نہيں رہتے۔۔۔ مجھے تمہارے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑنا ہے۔۔۔ تم ميری محبت نہيں ميرا جنون بن چکی ہو۔ اور جنونی انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ مگر پھر بھی ميں تمہارے آگے ہتھيار ڈالتے تم سے صرف اتنی سی گزارش کررہا ہوں کہ تم ميرے نکاح ميں آجاؤ۔۔۔ بھلے ميرے ساتھ مت رہو۔۔ مجھے ساری زندگی تشنہ رکھو۔۔۔ مگر صرف مجھ سے نکاح کرلو" اسکی جانب تھوڑا سا کھسکتا وہ اس لمحے زرناب کو ديوانہ لگا۔
"ميں سب کے سامنے تم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کو بھی تيار ہوں۔۔۔ مگر مجھے صرف اتنا سا مان بخش دو" زرناب لب بھينچ گئ۔۔۔
آنکھيں بند کرکے جيسے ہمت مجتمع کی۔
"ميں تيار ہوں" ايک گہرا سانس خارج کرتے آنکھيں کھول کر اسکی جانب ديکھے بنا بولی۔
نشرہ منہ کھولے اسکا اقرار سن رہی تھی۔
"تم پاگل ہو۔۔ " وہ يکدم بڑھ کر اسکی جانب آئ۔
"نہيں۔۔۔ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔۔ مجھے ہر حال ميں آنے والی نسل کو ايسی رسومات سے بچانا ہے۔ اور ويسے بھی انقلاب لانے کے لئے جان سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔۔ يہ تو پھر ايک رشتہ ہے۔۔ ميں آپکے ساتھ نکاح کے لئے تيار ہوں۔۔ ليکن ميں کبھی بھی آپکے ساتھ نہيں رہوں گی۔ نہ ہی اس رشتے کو آپ کبھی ميرے اور اپنے درميان لا کر مجھے کسی بھی طرح بليک ميل کرنے کی کوشش کريں گے۔ ميری زندگی آپ سے الگ ہی گزرے گی۔
ميری طرف سے آپ دو شادياں کريں چاہے چار۔۔ مگر مجھ سے آپ کسی قسم کی فرمائش اور اميد نہيں رکھيں گے۔
ميرا اور آپکا تعلق اجنبيوں سے زيادہ نہيں ہوگا" وہ اسکی جانب ديکھنے سے گريز کرتے اسے اپنی شرائط سے آگاہ کررہی تھی۔
"مجھے منظور ہے" اسے جيسی ہفت اقليیم کی دولت مل گئ۔
نشرہ وريد کو ديکھ کر رہ گئ کوئ اتنا بھی ديوانہ ہوسکتا ہے۔ وہ اسے اس لمحے ديوانہ ہی لگا تھا ايسا ديوانہ جسے اپنے نفع نقصان سے واقعی کوئ غرض نہيں تھی۔
"تم ميرا ساتھ دوگی؟" اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قريب آتے اس نے آس سے نشرہ سے پوچھا۔
مارج کی ہر دھمکی وہ اس لمحے فراموش کردينا چاہتی تھی۔ اس وقت وہ صرف اسکی دوست تھی۔
"ہاں۔۔۔ سر يہاں يہ سب ممکن نہيں ہوسکے گا۔ نہ ہم آپ کے ساتھ کہيں جاسکتے ہيں۔ مارج کے بندے ہر وقت اور ہمہ وقت ہمارا اور آپکا پيچھا کرتے ہيں۔۔" وہ وريد کو اطلاع دينے لگی۔ وہ بھی اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"يونيورسٹی تک مين اسکے بندے موجود ہوتے ہيں" اسکی بات پر وہ بھی الجھا۔
"مگر ميرے آفس ميں تو اسکے کوئ بندے موجود نہيں ہوتے نا۔۔۔ يا وہاں بھی اس نے کوئ خفيہ کيمرہ لگوايا ہوا ہے" وہ لمحہ بھر کو مارج کے سيکيورٹی سے متاثر ہوا۔
"نہيں وہاں ايسا کچھ نہيں ہے" نشرہ نے اسے پريقين لہجے ميں کہا۔
"تو ٹھيک ہے کل آپ دونوں ميرے آفس ميں آجائيے گا۔ وقت مين آپ کو بتا دوں گا۔ باقی کی کاروائ ميرے ذمے ہے" کچھ سوچتے اس نے فورا سے سب معاملات ترتيب دئيے۔
"ٹھيک ہے۔ آپ اب جائيں يہاں سے۔۔ ويسے بھی مارج کو معلوم ہوگيا ہوگا کہ آپ يہاں ہيں۔۔ پتہ نہيں وہ کيا حال کرے گا" نشرہ کوئ اب گھبراہٹ ہوئ۔
"ميں آپ ميں سے کسی کو نقصان تو پہنچانے نہيں آيا"
"خیر۔۔۔ کل آپ دونوں کا يونی ہونا ضروری ہے" اس کی بات پر دونوں نے سر ہلايا۔
مطمئن ہوتے وہ وہاں سے چلا گيا۔
"تم ايک بار پھر سوچ لو۔۔ تم ٹھيک کررہی ہونا" نشرہ نے اسے کسی بھی پريشانی ميں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ايک بار پھر پوچھا۔
"جب دريا ميں چھلانگ لگا دی۔ تو موجوں سے کيا گھبرانا۔ بس خود کو بچانے کے جتن کرنے ہيں اب۔۔ ہاتھ پاؤں مارنے ہيں"اسکی بات پر وہ لحظہ بھر کے لئے گم صم ہوگئ۔
اور اگلے دن انہيں اسپيشل ليکچر کے لئے اس نے اپنے آفس ميں بلوايا۔ ان کا پيپر نہيں تھا مارج کو يہی بتايا کہ کچھ اہم کتب لينے کے لئے انہيں يونی جانا ہے۔ اور وريد سے کچھ سمجھنا بھی ہے۔ وہ جانتا تھا وہ ان کا استاد بھی ہے لہذا منع کرنے کا جواز نہيں تھا۔
اسکے آفس مين آٹھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ کچھ اسی کے اپنے خاص باڈی گارڈ اور چند ايک اسکے بہت قريبی لوگ۔ ساتھ ميں ايک مولوی بھی موجود تھا۔
وہ سب ايسا ہی تاثر پيش کرکے اسکے آفس آئے جيسے وہ کسی اور يونی کے بندے ہيں اور وريد کے مہمانوں کی حيثيت سے اس سے ملنے آئے ہيں۔
"نکاح نامہ آپ فل کرچکے ہيں" سر پر دوپٹہ لئے وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ اسکے سوال پر مولوی نے حيرانی سے دلہن کو ديکھا۔ جو دھلے منہ کے ساتھ شکل پر کوئ بھی تاثر دئيے سامنے موجود کرسيوں ميں سے ايک پہ موجود تھی۔ کچھ لوگ کھڑے تھے اور باقی صوفوں پر براجمان تھے۔
"طلاق والا خانہ کٹا ہوا نہ ہو۔ وہ حق مجھے چاہئے" زرناب کی بات پر وہ ہولے سے مسکرايا۔
"ابھی نام جڑا نہيں تم الگ کرنے کی پہلے سے بات کررہی ہو" عجيب ياسيت بھری کھوکھلی ہنسی تھی اسکی۔
"يہ جيسے کہتی ہيں ويسے ہی اس نکاح نامے کو فل کرديں" مسکراہٹ سميتے مولوی سے مخاطب ہوتے اس نے کہا۔
دس منٹ کے اندر فارم فل ہوتے ہی۔ کسی ربوٹ کی طرح اس نے قبول ہے قبول ہے کہا۔ سائن کئے۔ اور اگلے مزيد دس منٹ ميں وہ دونوں ايک دوسرے کے ساتھ ايک نئے رشتے ميں جڑ چکے تھے۔
جس کی اہميت وريد کے لئے کسی خزانے سے کم نہ تھی۔ اور زرناب اس نے ايسے نکاح نامے پر سائن کئے جيسے کوئ پرچہ حل کررہی ہو۔ جس کے نتائج کی اسے کوئ پرواہ نہ ہو۔ جس خاموشی کے ساتھ وہ آئيں تھيں۔ اسی خاموشی کے ساتھ وہ دونوں اسکے آفس سے جا چکی تھيں۔
________________________
"ميرے پاس اس وقت اتنا وقت نہيں کہ مين تمہيں اس نکاح کا ماجرا بتاؤن۔۔ مجھے ابھی نکلنا ہوگا۔۔۔" اپنا ليپ ٹاپ بند کرتے۔۔ موبائل اٹھاتے وہ مارج سے مخاطب ہوا جو کب سے ساکت کھڑا تھا۔
"کيا تم جانتے ہو وہ کہاں ہوگی؟" پاس سے گزرتے وريد کا بازو تھام کر اسے روکا۔ مارج کے پڑنے والے زوردار تھپڑ سے اسکا منہ سوج چکا تھا۔
اسکے سامنے آيا۔
"ميں يقين سے نہيں کہہ سکتا۔ مگر مجھے شک ہے۔۔ اور نجانے کيوں لگتا ہے يہ شک درست ہے۔۔ ميں وقت سے پہلے تمہيں کچھ نہيں بتا سکتا" اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ دوستانہ انداز ميں بولا۔
يہ وريد کا انوکھا ہی روپ تھا۔ اپنے ساتھ ايسا سلوک کرنے والے کو وہ زندہ نہيں چھوڑتا تھا۔ مگر عشق نے ايسا بے بس کرديا تھا۔ کہ آج وہ بھول چکا تھا کہ ابھی تھوڑی دير پہلے مارج نے کس بری طرح اسے مارا ہے۔ اسکا گريبان تک پکڑا ہے۔ وہ اپنے محبوب کے بھائ کو معاف کئے اس لمحے اسے تسلی دے رہا تھا۔ اسکے ساتھ نرم انداز ميں بات کررہا تھا۔
"اگر تمہارے گھر والوں کی يہ حرکت ہوئ تو ياد رکھنا وريد ميں تمہارا خاندان برباد کردوں گا" اسکا ہاتھ جھٹک کر اپنی سرخ ہوتی آنکھون سے اسے وارن کيا۔
"اگر يہ ميرے گھر والوں کا کام ہوا۔ تو يقين جانو تم سے پہلے ميں انہيں برباد کردوں گا۔۔ وہ تمہاری ہی نہيں ميری بھی عزت ہے اب۔۔۔ بس اتنا جان لو۔۔ وہ وريد کے لئے اتنی اہم ہے جيسے کہ سانس۔۔ ميں خود کو ختم کرلوں گا مگر اس پر کوئ آنچ نہيں آںے دوں گا" اسکی آنکھوں ميں پنہاں سچائ اور محبت ديکھ کر مارج کے تاثرات يکدم بدلے۔ اسکی آنکھوں ميں حيرت سی در آئ۔
"يقين کرلو دوست۔۔۔ زرناب کے ساتھ ايسا کرنے والے کو ميں زندہ نہيں چھوڑوں گا۔۔ تم سے رابطے ميں رہوں گا جيسے ہی معلوم ہوا۔۔ تمہيں سب سے پہلے فون کرکے بلاؤں گا۔ ميں جانتا ہوں وہ تمہارے لئے بہت اہم ہے" اسکے کندھے کو تھپتھپاتے وہ صرف زرناب کا عاشق مارج کے سامنے کھڑا تھا۔
مارج نے سر ہلا کر واپسی کی راہ لی۔ وہ بھی اسکے پيچھے اپنا فليٹ لاک کرتا تيزی سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔
مارج کی گاڑی نکلنے سے پہلے وہ زن سے اپنی گاڑی نکال کر لے گيا۔
"ہيلو۔۔ وريد چوہدری کا پيچھا کرو" اپنے بندے کو فون ملا کر اس نے ہدايات ديں۔ اسے اب نشرہ کے پاس جانا تھا۔
_______________________
وہ گاڑی بھگاتا اس ہاسپٹل ميں پہنچا جہاں نشرہ صابر کو لے کر پہنچی تھی۔ اسکے پہنچنے سے پہلے ملک اياز اور زرينہ وہاں موجود تھے۔ انکے چند اہم باڈی گارڈز بھی انکے آس پاس تھے۔
انہيں سلام کرتا ايک قہر برساتی نظر اس نے نشرہ پر ڈالی جو بينچ پر بيٹھی کچھ پڑھنے ميں مصروف تھی۔ چہرہ نقاب مين پوشيدہ تھا۔
"کيسی طبيعت ہے اب صابر کی؟" اس نے ملک اياز سے پوچھا۔
"ابھی گولياں نکال رہے ہيں۔۔ سر پر گن کے بٹ متعدد بار مارنے کی وجہ سے اسے ہوش نہيں آرہا۔" وہ فکر مند لہجے ميں بولے۔
"اللہ بہتر کرے گا۔۔ زرناب کا کچھ پتہ چلا" اسکے لہجے ميں شديد فکرمندی تھی۔
"نہيں بندے لگائے ہيں۔۔۔ پيچھے۔ مجھے وجاہت چوہدری کے علاوہ اور کسی کا کام نہيں لگتا" وہ اپنا شک بتانے لگے۔
"اسيد اسی سلسلے ميں مصروف ہے" انہون نے مزيد بتايا۔
مارج نے سر ہلايا۔
نشرہ اسی کی جانب ديکھ رہی تھی۔ اس نے اسے سلام کرنا بھی ضروری نہيں سمجھا تھا۔
"تم وريد کے پاس گئے تھے۔ کچھ پتہ چلا" وہ اٹھ کر اسکی جانب آئ۔ مارج نے کوئ جواب نہيں ديا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ آپ باہر آئيں گی" اسکا سپاٹ اور بے لچک لہجہ نشرہ کو عجيب سا لگا۔ وہ سر ہلاتی۔ اسکے ساتھ باہر کی جانب آئ۔
ہاسپٹل کے باہر کے احاطے ميں ايک جانب قدرے خاموشی تھی۔ وہ اسے لئے وہاں آيا۔
"کيا وريد اور زرناب کا نکاح ہوچکا ہے؟" وہ دانت پيس کر اس سے بولا۔ نشرہ کو اسکے غصے کی وجہ اب سمجھ آئ۔
"مارج ميری بات سنو" وہ اسے شانت کرنے کے لئے تمہيد باندھنے لگی۔
"ہاں يا ناں" اسے بازو سے پکڑ کر قريب کرتے اپنی آنکھوں سے نکلتی چنگاريوں سے اسے جھلسايا۔
"ہاں" اسکا تنفس بڑھا۔
يکدم اسے جھٹکے سے خود سے دور دھکيلتا۔ ہاتھ کا مکا بنا کر سامنے ديوار پر زور سے مارا۔
نشرہ اسکی حرکت پر اچھل کر رہ گئ۔ خوف سے اسے ديکھا۔ جو ضبط کے کڑے مرحلوں سے گزر رہا تھا۔
"آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا" اسے اپنے سامنے آتے ديکھ کر وہ دانت پر دانت جما کر بولا۔
"آپ نے اس دن مجھے آدھی بات بتائ تھی۔۔ پوری نہيں۔۔ تو يہ جھوٹ ہی ہوا نا"وہ اسے ياد دلانے لگا
"وريد اور زرناب کے نکاح کا۔ سچ کيا ہے۔۔گڑھ ديں اب کوئ اور بہانہ۔۔" يکدم اس کا بازو اپنے ہاتھوں کی سخت گرفت ميں ليتے اسے جھنجھوڑا
"مجھے سچ جاننا ہے يہ نکاح کب اور کيسے ہوا"
نشرہ تھوک نگلتے اسے ايک ايک بات بتانے لگی
"کس قدر خودغرض ہيں آپ۔۔۔ اسے موت کے منہ ميں دھکيل ديا ہے" وہ دبے دبے لہجے ميں چيخا۔
"کيا کہہ رہے ہو۔ مارج۔۔ مين نے ايسا کچھ نہيں کيا۔۔ صرف اسکا ساتھ ديا تھا۔" وہ اسکی اپنے بازوؤں پر بڑھتی ہوئ سخت گرفت پر روہانسی ہوئ۔
"کيا ميری زندگی کو برباد کرکے بھی آپ کو سکون نہيں ملا جو ميری بہن کی زندگی بھی برباد کردی آپ نے ۔۔ اس نے آپ پر بھروسہ کيا۔۔۔ مين نے آپ پر بھروسہ کيا۔۔ يہ صلہ ديا آپ نے۔۔۔ ميں نے آپ کو کہا تھا نشرہ۔۔ کبھی مجھے دھوکہ مت ديجئے گا۔۔ مگر ميری بے وقوفی تھی کہ آپ پر اندھا اعتماد کيا" وہ اسے جھنجھوڑتے اسکی روح کو گھائل کررہا تھا۔ آنسو اسکی آنکھوں ميں ٹہر گئے۔ وہ بے يقينی سے اس کے غصے سے بھرا چہرہ ديکھ رہی تھی۔
"شکر کريں ميں عام مرد نہيں۔۔۔ ميں نے آپ کو کہا تھا ميں کبھی عورت پر ہاتھ نہيں اٹھا سکتا ۔۔۔۔ اور نہ کبھی اٹھاؤن گا۔۔ ليکن آپ کوشش کيجئے گا آئندہ ميرے سامنے نہ آئيں۔۔ محبت اور اعتماد کے نام پر آپ نے جو وار کيا ہے وہ ميں اتنی آسانی سے بھلا نہيں سکتا" جبڑے بھينچ کر اسکی آنکھوں کے تاثرات سے انجان وہ اسکی کانوں ميں صور پھونک رہا تھا۔
"کيا کيا ہے۔ ميں نے۔۔۔ بتاؤ۔۔ کيا گناہ کيا ہے۔۔ کسی کی مدد کرنا تمہارے نزديک اگر گناہ ہے۔ تو ہاں ميں نے يہ گناہ کيا ہے۔ انسانيت کے ناطے کسی کی مدد کرنا۔۔ گناہ ہے تو ہاں ميں نے يہ گناہ کيا ہے۔۔۔۔ ميں نے تم سے اسی لئے چھپايا کيونکہ تم وريد پر اعتبار نہيں کرتے تھے۔۔ تمہيں معلوم ہوتا تو تم زرناب کو ڈانٹتے۔۔ شايد وريد کو بھی نقصان پہنچاتے۔۔ وہ شخص صرف اس سے محبت کرنے کی غلطی کربيٹھا ہے۔ جسے تم نہيں سمجھ سکتے۔ اسی لئے کہ تم نے مجھ سے کبھی کوئ محبت کی ہی نہيں۔۔۔ تم نے صرف فرض ادا کيا ہے ۔۔۔ احسان چکايا ہے باباسائيں کا۔۔۔" اسکی سخت گرفت سے خود کو چھڑاتے وہ بلک بلک کر روئ۔
"ميں نے کہا تھا نا تم زرناب کے لئے بہت ٹچی ہو۔۔ ميں نے غلط نہيں کہا تھا۔۔۔" وہ اپنے اندازے کے صحيح ہونے کا اسے بتانے لگی۔
"کيوں آپ نے مجھے اس بات کے بارے ميں نہيں بتايا۔۔ ميں کسی اور طرح اسکی حفاظت کرواتا۔آپکی وجہ سے آج وہ کہاں ہے ۔۔۔ ہم ميں سے کسی کو نہيں پتہ۔۔ کس حال ميں ہے کسی کو نہيں معلوم" وہ پھر سے اسے مورد الزام ٹہرانے لگا۔
" ميری وجہ سے۔۔۔۔ کيا ميں نے اسے اغوا کروايا ہے" وہ تاسف اور حيرانی سے اسے دیکھتے بولی۔
"کاش يہ پتہ چل جائے ۔۔۔۔ تو زندہ نہيں چھوڑون گا اسے۔ مگر يہ بات اب اٹل ہے کہ آپ کا اور ميرا اب کوئ تعلق نہيں" کتنی آسانی سے وہ اسکی ذات کو اپنی زندگی سے نکال گيا۔
"ميں ساری زندگی ايک جھوٹی عورت کے ساتھ نہيں گزار سکتا۔۔ جو مجھ سے باتيں چھپائے اور زندگی کو بار بار اس موڑ پر لے آئے جہاں مجھے اس سے محبت کرنے پر شرمندگی ہو" نشرہ آنکھيں کھولے اسکے منہ سے نکلتا زہر اپنے لئے سن رہی تھی۔
"بہت بڑی بات کہہ رہے ہو تم مارج" غم و غصے سے بے حال وہ نجانے کيا کہہ رہا تھا وہ واقعی نہيں جانتا تھا۔
اسکی جانب ايک خاموش مگر سرد نگاہ ڈال کر وہ اندر کی جانب بڑھ گيا۔
اسيد پوليس کو لئے اس سڑک پر موجود تھا جہاں سے زرناب کو اغوا کيا گيا تھا۔
پوليس والے نے گولی کا خول اٹھا کر اسيد کو تھمايا۔
"يہ تو ايمو کی گولياں ہيں" وہ چونکا۔ يہ سب سے مہنگی پسٹل تھی جسے بڑے بڑے لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کو رکھنے کی اوقات ہی نہيں ہوتی۔ اسيد کے پاس اس کا لائسنس تھا۔ اسکے علاوہ انہی دنوں وريد کے بڑے بھائ وليد نے بھی اس پسٹل کا لائسنس ليا تھا۔
اسيد اسی لئے جانتا تھا کہ ايک ہی دن دونوں کو يہ لائسنس ايشو ہوا تھا اور دونوں منسٹری آف انٹيرئیر کے آفس ميں موجود تھے۔ ان کے علاوہ يہاں دور دور تک گاؤں کے کسی اور بندےکے پاس ايمو موجود نہيں تھا۔
"يہ وليد چوہدری کی گن سے نکلی ہوئ گولياں ہيں۔۔ وجاہت چوہدری کا بيٹا" وہ غصے سے بولا۔
"يہ اسی خبيث کا کام ہے۔ آپ اسکے خلاف پرچہ کاٹيں" اسکی بات پر پوليس آفيسر کشمکش ميں نظر آيا۔
"ميں بکواس کررہا ہوں کيا؟" وہ جھنجھلا کر بولا۔
"ليکن وجاہت چوہدری پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہيں ہے سر" وہ ہچکچايا۔
"کتنے پيسے چاہيئيں۔۔۔ ميں دينے کو تيار ہوں۔۔ دوسری بات اگر يہ گن وليد چوہدری کے پاس موجود نہ ہوئ تو ميں پرچہ واپس لينے کو تيار ہوں" وہ خود اعتمادی سے بولا۔
"جی سر جيسے آپ کہتے ہيں" پوليس والے کو مانتے ہی بنی۔
______________
شام تک صابر کو ہوش آچکا تھا مگر بہت خون بہنے کی وجہ سے اسے خون کی بوتليں لگائ جارہی تھيں۔
ملک اياز کے کہنے پر نشرہ کو جو خراشيں آئيں تھيں۔ انکے ٹريٹمنٹ کے بعد اسے گھر بھيج ديا گيا تھا۔
اس تلخی کے بعد مارج اور وہ دونوں ايک دوسرے کو ايسے نظر انداز کررہے تھے جيسے ايک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں۔ اسکے حويلی واپس جانے پر مارج نے سکھ کا سانس ليا۔
اس نے زندگی ميں خود کو اتنا بے بس کبھی محسوس نہيں کيا تھا جتنا اب کررہا تھا۔
وہ سمجھتا تھا اب سب ٹھيک ہونے لگا ہے۔ ان سب کی زندگی نارمل ہوجائے گی۔ مگر کيا پتہ تھا ايک فيصلے کی پاداش ميں اسکی بہن کو اتنا بڑا بھگتان بھگتنا پڑے گا۔
اسے معلوم ہوجاتا کہ زرناب اپنی زندگی يوں داؤ پر لگانے لگی ہے تو وہ کبھی اسے وريد سے نکاح نہيں کرنے ديتا۔
ايک رسم ختم کرنے کے لئے وہ ساری زندگی ايک ناپسنديدہ بندے سے جڑی رہے گی۔ جس کے ساتھ رہنے۔۔ جس سے تعلق جوڑنے کو وہ تيار نہيں يہ عقل کی بات تھی يا کم عقلی کی۔
اسے نشرہ پر بھی اسی لئے شديد غصہ آيا کہ اگر وہ پہلے بتا ديتی۔ اسے اعتماد ميں لے ليتی تو وہ زرناب کو ہر ممکن کوشش کرکے ايسا کچھ بھی کرنے سے روک ديتا۔
مگر اب۔۔۔ اب تو وہ نجانے کہاں تھی۔
وہ شديد اضطراب کے عالم ميں ہاسپٹل ميں موجود تھا۔ کس برتے پہ وہ چوہدريوں کی حويلی جا کر انہيں للکارتا۔ کوئ ثبوت اسکے پاس نہيں تھا کہ اسی نے زرناب کو اغوا کروايا ہے۔
"ہيلو سر" ابھی وہ اپنی ہی سوچوں ميں گم ہاسپٹل ميں بينچ پر بيٹھا تھا کہ اسکے بندے کا فون آيا جسے اس نے وريد کے پيچھے لگايا تھا۔
"کچھ معلوم ہوا وہ کہاں گيا ہے؟" نجانے کيوں اسے ابھی بھی وريد پر شک تھا کہيں اسی نے کوئ گيم نہ کھيلی ہو۔
"سر وہ اپنی حويلی ہی آيا ہے۔ " اسکی بات سن کر وہ خاموش ہوا۔ اگر اسے اغوا کيا ہوگا تو حويلی تو نہيں رکھے گا۔
"تم وہيں پر موجود رہو۔ جب تک وہ باہر نہ آئے۔ اور مسلسل اس کا پيچھا کرو" وہ ابھی بھی کسی نتيجے پر نہيں پہنچا تھا۔
اسکا فون بند کرتے ہی اس نے اسيد کو فون کيا۔
"کچھ معلوم ہوا" اسکے لہجے ميں ايک آس تھی۔ اسيد نے گولی کے خول والا سب معاملہ اسے بتايا۔
"ميں چھوڑوں گا نہيں اسے" اسکی بات سن کر لحظہ بھر ميں اسکا چہرہ سرخ ہوا۔
"ابھی ہم صرف الزام کی بنياد پر اسے انوالو کررہے ہيں۔ ابھی پورا ثبوت ہمارے پاس نہيں۔۔ اسی لئے کوئ بے وقوفی مت کرنا مارج" اسيد نے اسے سمجھايا۔
"ابھی ان کی حويلی رخ کرنے کی ضرورت نہيں" اسيد نے اسے تنبيہہ کی۔
"جی" وہ فقط اتنا ہی کہہ پايا۔
اٹھ کر صابر کے روم کی جانب بڑھا جہاں ملک اياز موجود تھے۔
انہيں سارا قصہ بتايا۔
"اگر يہ ان چوہدريوں کی ہی حرکت ہے تو يہ بچيں گے نہيں اس بار" انکے نرم چہرے پر بھی اس لمحے غصے کے تاثرات تھے۔
____________________
وہ اس لمحے شديد تکليف ميں مبتلا تھی۔
اسے يہاں چار گھنٹے پہلے لايا گيا تھا۔ گاڑی ميں بٹھايا بھی بالوں سے کھينچ کر تھا۔ اور گاڑی سے اتارا بھی اسی وحشيانہ انداز ميں تھا۔
ابھی وہ اپنے سر ہو سہلا رہی تھی کہ نقاب ميں ايک ڈيل ڈول رکھنے والا مرد اندر آيا اور اسے تھپڑوں اور گھونسوں سے مار مار کر ادھ موا کرديا۔ وہ ابھی اپنا قصور سمجھنے سے قاصر تھی کہ آنے والے کی پھنکار پر سب سمجھ ميں آگيا۔
"کيا سمجھتی تھی تو۔۔ ميرے بھائ کو پاگل بنا کر جو چاہے گی کروا لے گی۔۔
وہ پاگل بنا تھا ہم نہيں۔۔۔۔ بڑی خواہش ہے تجھے ونی کی رسم ختم کرنے کی۔۔ اب تو اپنی اس خواہش پر نہ صرف پچھتائے گی۔ بلکہ تو ہمارے سامنے روئے گی گڑگڑائے گی۔۔۔ مگر تو پھر بھی ہمارے قہر سے بچ نہيں پائے گی۔۔ يہاں سے بھاگ گئ تھی۔۔ کيا سوچ کے بھاگی تھی تجھے کبھی پکڑ نہيں سکيں گے" وہ شخص اسکا سوجا منہ اپنے سخت ہاتھوں کی گرفت ميں پکڑ کر اسکے منہ کو متعدد بار جھٹک رہا تھا۔
زرناب کو لگ رہا تھا اب اسکے جبڑے چٹخ جائيں گے۔
"ميں جانتی ہوں انقلاب لانا اور ان گندی رسموں کو مسخ کرنا اتنا آسان نہيں۔ تمہاری ۔۔ بھی يہ خواہش۔۔ خواب بن کر رہ جائے گی کہ ميں تمہارے سامنے گڑگڑاؤں گی۔۔۔" اسکے پپوٹے تک اس مرد کے بھاری ہاتھ کی مار کھا کر سوج گئے تھے۔ کن پٹی کے ايک جانب سے جلد پھٹ چکی تھی جہاں سے خون رس رہا تھا۔
"تم ميرے ٹکڑے کرکے بھی کہين پھينک دوگے تو ميں تمہارے آگے نہيں گڑگڑاؤں گی" وہ اسکا تمسخر اڑاتی ہنسی ہنستی اسکے غصے کو اور للکار گئ۔
اسکے پر عزم انداز پر وہ بپھر گيا۔ اسے تب تک مارتا پيٹتا رہا جب تک وہ بے دم نہيں ہوگئ۔
"کمينی۔۔۔ " نکلنے سے پہلے بھی اپنے جوتے کی نوک اسکے بے سدھ وجود پر مارنا نہيں بھولا۔
کمرے سے نکل کر دروازہ لاک کرتا اسے اسی حال ميں چھوڑ کر جا چکا تھا۔
_______________________
"تم۔۔۔ کيا کرنے آئے ہو تم" اسے مردان خانے ميں آتے ديکھ کر وہ اسے گھور کر بولے ۔
"زرناب کہاں ہے؟" غصے سے مٹھياں بھينچے وہ انکے سامنے تن کر کھڑا تھا۔
"کون۔۔ کون زرناب" وہ انجان بنے۔
"اتنے بچے نہيں آپ۔۔ اور نہ آپکی يادداشت اتنی کمزور ہے۔ کہ جس لڑکی کے باعث بھرے مجمع ميں آپکے بيٹے نے بقول آپکے ۔۔۔ آپکی ناک کٹوائ تھی اسکا نام اتنی جلدی آپ فراموش کر جائيں۔ ابھی ہفتہ بھر بھی نہيں ہوا اس واقعے کو ذہن پر زور ديں۔۔ آپ کو اچھی طرح ياد آجائے گا ميں کس زرناب کی بات کررہا ہوں" مفصل جواب ديتے وہ شديد تلخ ہوا تھا۔
"مجھے کيا معلوم کہاں ہے۔۔ تم تو دے آئے تھے اسے اسکے خاندان ميں۔۔ تو اب يہاں کيا کرنے آئے ہو۔ ملکوں کی حويلی جاؤ اور ان سے پوچھو" وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے رعونت سے بيٹھے اپنی مونچھوں اور داڑھی کو انگليوں سے سہلاتے۔ ايک ابرو اچکا کر اپنے سامنے کھڑے وريد کو تيز نظروں سے ديکھ رہے تھے۔
"وہ صبح تک وہيں تھيں۔۔ اسے راستے سے آپ نے اغوا کيا ہے" وہ چلا کر بولا۔
"ارے واہ۔۔۔ خوب الزام لگايا ہے۔۔۔ کسی يار کے ساتھ۔۔۔"
"باباسائيں" انکی بات پوری بھی نہ ہوئ تھی کہ اسکی دھاڑ پر وہ خشونت بھرے انداز ميں اسے ديکھنے۔
"بيوی ہے وہ ميری" دانت پر دانت جما کر بولتے اس نے انکے سر پر دھماکا کيا۔
"تو ۔۔۔ تو پاگل ہے" ٹانگ يکدم نيچے رکھتے وہ کھڑے ہو کر اس پر جھپٹے۔ اس نے جھٹکے سے خود کو ان سے چھڑوايا۔
"ميری بيوی ميرے حوالے کريں۔۔ ورنہ جو لحاظ ميں برقرار رکھنا چاہتا ہوں وہ نہيں رکھ پاؤں گا" انکی سرخ آنکھوں ميں اپنی غصيلی نظريں گاڑھے وہ جس انداز ميں بولا انہيں لرزا گيا۔
"ديکھو ميں واقعی نہيں جانتا وہ کہاں ہے" اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ اسے شانت کرنے لگے۔
وريد نے ايک بار پھر انکے ہاتھ اپنے کندھوں سے جھٹکے۔
"ميں اس وقت صرف زرناب کا شوہر ہوں۔۔ مجھے ميری بيوی ابھی اور اسی وقت چاہئيے۔۔۔۔ کہاں رکھی ہے۔۔ مجھے بتائيں ميں خود جاؤں گا اسکے پاس" وہ قطعی انداز ميں بولا۔
"ميں نہيں جانتا وہ کہاں ہے؟" انہوں نے نظريں چرائيں۔۔۔
"ميں آخری بار پوچھ رہا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔ اسکے بعد جو کچھ اس حويلی مين ہوگا وہ ايک عبرت بن جائے گا" وہ پھنکارا۔
اسی لمحے سينٹر ٹيبل پر دھرا ان کا موبائل بجا۔
اس سے پہلے کے وہ فون اٹھاتے وريد نے ان سے بھی پہلے جھپٹ کر ان کا فون اٹھايا۔ دوسری جانب وليد تھا۔
"ايسا مارا ہے اس انقلاب کی بچی کو کہ کتنے ہی دن وہ اٹھ نہيں پائے گی۔۔۔ يا شايد مر ہی جائے۔۔ اگر ڈھيٹ نہ ہوئ تو" وہ جوش ميں اپنی جانب سے وجاہت چوہدری کو اپنا کارنامہ بتا رہا تھا اس بات سے انجان کے دوسری جانب اسکی اپنی موت کھڑی ہے۔
"تو پھر ياد رکھنا۔۔ اس سے کہيں زيادہ مين تجھے ايسا ماروں گا کہ تو موقع پہ ہی دم توڑے گا۔۔۔ کہاں ہے تو۔۔۔ بول رزيل انسان۔۔۔ کہاں رکھا ہے ميری بيوی کو" وہ چلايا۔۔۔
"کک۔۔۔ کون" وليد کا چہرہ لمحہ بھر کو فق ہوا۔ اسکے باپ کے فون سے تو وريد کی آواز آرہی تھی۔
"تيری موت۔۔۔۔ وليد اگر ميری بيوی کو کچھ ہوا تو ۔۔۔ ياد رکھنا۔۔۔ تو زندہ نہيں بچے گا ميرے ہاتھوں۔۔ بول خبيث کہاں ہے ميری بيوی۔۔ نہيں تو تيری بيوی اور بچے ميری تحويل ميں ہيں" اس کے اندر سے آج وہی سفاک وريد پھر سے جاگا تھا جسے زرناب کے عشق نے تھپک تھپک کر سلا ديا تھا۔ مگر اس لمحے معاملہ اسکے عشق کا تھا۔
"ديکھ وريد ميری بيوی اور بچوں پر نظر تک نہيں ڈالنا۔۔" وہ خوف سے کپکپاتے لہجے ميں بولا۔
وہ فون تھامے فوراد زنان خانے کی جانب تيز قدموں سے بڑھا۔
وجاہت چوہدری اسکے پيچھے پيچھے اسے روکنے کے لئے بڑھے۔
وريد اس لمحے غصے سے پاگل ہورہا تھا۔
"بھابھی کہاں ہيں" سامنے ہال ميں موجود اپنی ماں سے پوچھا۔
وريد کو يوں اس وقت غصے ميں آتے ديکھ کر وہ جتنا حيران ہوتيں کم تھا۔
"وريد مريم کو کچھ نہيں کہو گے تم" وجاہت چوہدری چلاتے ہوۓ اسکے پيچھے آرہے تھے۔
"کيوں۔۔ کيوں کچھ نہ کہوں۔۔ آپ ميری بيوی کو اٹھوائيں۔۔ ميرا سو کالڈ بھائ۔۔ اسے جانوروں کی طرح پيٹے اور ميں اسکے بيوی بچوں کو کچھ نہ کہوں" وہ دھاڑا۔ مڑ کر وجاہت چوہدری کو خونخوار نظروں سے ديکھا۔
"ميں ميں بتاتا ہوں تمہيں وہ کہاں ہے" وہ اسکا راستہ روک کر بولے۔
"شہر کے قريب فارم ہاؤس ميں ہے" انکی بات پر اس نے موبائل والا ہاتھ ميکانکی انداز ميں نيچے کيا۔۔۔ پھر پوری قوت سے ان کا موبائل سامنے ديوار پر دے مارا۔
"دعا کيجئے گا ميری بيوی بچ جائے۔ نہيں تو ميں يہاں خون کی ندياں بہانے ميں ايک سيکنڈ کی تاخير نہيں کروں گا۔" انکی جانب انگلی اٹھا کر انہیں وارن کرتے وہ وہاں سے بھاگنے کے سے انداز ميں نکلا۔
گاڑی ميں بيٹھتے ہی موبائل ہاتھ ميں ليتے تيزی سے نمبر ملايا۔
___________________
مارج اس وقت اسيد کے ساتھ پوليس اسٹيشن ميں موجود وليد چوہدری کے خلاف ايف آئ آر کٹوا رہا تھا۔
سارے معاملات ابھی طے پا رہے تھے۔ کہ اسکے موبائل پروريد کا نمبر جگمگانے لگا۔ اسکے فليٹ سے نکلتے وہ دونوں ايک دوسرے کو اپنے نمبر ايکسچينج کرچکے تھے۔
"ہيلو" وہ ايکسکيوز کرتا پوليس آفسر کے کمرے سے باہر آيا۔
"وريد بات کررہا ہوں۔۔ وليد چوہدری کی گاڑی کا نمبر ميں تمہيں بھيج رہا ہوں اور ساتھ ہی اسکا موبائل نمبر بھی۔ جتنی جلدی ہوسکے اسے ٹريس کرکے ۔۔۔ اسکے چيتھڑے اڑادو۔۔۔"انتہائ ريش انداز ميں گاڑی کو فارم ہاؤس جانے والے راستے پر ڈالتا وہ ساتھ ساتھ مارج سے بھی بات کررہاتھا۔ اسکا بس نہيں چل رہا تھا کہ وليد کو خود اپنے ہاتھوں سے موت دے۔۔ مگر اس وقت کسی بھی صورت اسے زرناب کے پاس پہلے پہنچنا تھا۔ اور اس کا بدلہ لينے کے لئے وريد کے علاوہ بھی ايک شخص منتظر تھا اور وہ مارج کے علاوہ بھلا اور کون ہوسکتا تھا۔
"تم اسے جان سے مارو۔۔ چاہے سسکا سسکا کر۔۔ چاہے اسے الٹا لٹکا دو۔۔۔ جتنا برا اسکے ساتھ کرسکتے ہو۔ کرو۔۔ وہی زرناب کا مجرم ہے۔۔ مجھے نہيں معلوم اس نے زرناب کو مار مار کر کن حالوں تک پہنچا ديا ہے۔ ميرا اس وقت زرناب کے پاس جانا ضروری ہے۔ تم وليد چوہدری تک پہنچو۔۔ " اس نہيں معلوم تھا اتنی کچڑی سڑک اور پگڈنڈيوں پر وہ کيسے اڑاتا ہوا گاڑی لے جارہا تھا۔ اسکے ہاتھون کی گرفت اسٹئيرنگ پر سخت سے سخت تر ہوتی جارہی تھی۔
"ميرے پاس اسکی گاڑی کا نمبر اور اسکا فون نمبر دونوں موجود ہيں۔۔۔" مارج کسی کو بھی بتائے بغير پوليس اسٹيشن سے فوری نکل کھڑا ہوا۔ اسکا فون بند کرکے تيزی سے ايک اور نمبر ڈائل کيا۔
"وليد چوہدری کا موبائل نمبر ٹريس کرو۔ وہ کہاں ہے۔۔ جلدی اور پانچ منٹ کے اندر اندر بتاؤ" اپنی گاڑی اسٹارٹ کرتے اس نے چوہدريوں کے علاقے کی جانب گاڑی دوڑائ۔ وہ يہيں کہيں ہوگا۔۔ اسکے فارم ہاؤس کا بھی وہ پتہ اچھے سے جانتا تھا۔
تھوڑی ہی دير ميں اسے پوری لوکيشن شئير ہو چکی تھی۔
وہ وہيں ايک قريبی علاقے ميں بنے اپنے گھوڑوں کے اصطبل ميں موجود تھا۔
وريد کے غصے کے باعث فی الحال اس نے وہاں قيام کرنا ضروری سمجھا۔ ورنہ اسکی موت وريد کے ہاتھوں يقينی تھی۔
مارج کی گاڑی فراٹے بھرتی وجاہت چوہدری کے اصطبل کی جانب جا رہی تھی۔
ساتھ ساتھ مسلسل وہ کچھ اور لوگوں کو بھی وہاں پہنچنے کی ہدايت کررہا تھا۔

 

 

Another Novels by Ana Alyas are:

 

 

♥ Download More:

 Areej Shah Novels

 Zeenia Sharjeel Novels

 Famous Urdu novel List

 Romantic Novels List

 Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.