دروازے کو لگ رہا تھا کوئ بجا نہيں رہا بلکہ توڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ جو تکيے ميں منہ دے کر پڑی تھی۔ سر اٹھا کر مندی مندی آنکھوں سے اردگرد ديکھا۔ چند لمحے لگے اسے اردگرد کے ماحول سے مانوس ہونے ميں۔
"کيا ہے؟" اسکے علاوہ يہاں جو دوسرا شخص تھا يقينا اسی کی يہ حرکت تھی۔ رات والا غصہ پھر سے واپس آيا۔ چلا کر بولی۔
"بی بی يونيورسٹی نہيں جانا کيا؟ نو سے اوپر وقت ہوچکا ہے" مارج کی باادب آواز سنائ دی۔ اسکا دل کيا باہر نکل کر اسکا گلا دبا دے۔ مگر يہ پہلے والا مارج نہيں تھا۔ جسے ذليل کرنے ميں وہ پل کی دير نہيں لگاتی تھی۔ کل سے تو اسکے رنگ ہی نرالے تھے۔
اپنا چکراتا سر تھامے وہ بمشکل بيڈ سے اتری۔ غصے سے دروازہ کھولا۔
"نہيں جانا" دھڑ سے دروازہ بند کرکے رات والا بدلہ اتارا۔
مارج کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ رينگ گئ۔ وہ جانتا تھا جب تک وہ دوسرے سے اسی انداز ميں بدلہ نہ لے لے۔ اسے چين نہيں ملتا تھا۔ وہ اسکے مزاج کے بہت سے رنگوں سے واقف تھا۔
دوبارہ اسی اطمينان سے دروازہ بجايا۔
"کيا ہے۔۔۔ مارج کيوں مجھے يہ محسوس کروانا چاہتے ہو کہ ميں دنيا ميں نہيں جہنم ميں ہوں" اب کی بار دروازہ کھول کر وہ بے بسی سے بولی۔
اسکی بات پر مارج ہولے سے چوکھٹ سے ٹيک لگا کر اسکی جانب جھکا۔
اسکے انداز پر پہلے تو وہ بھونچکا رہ گئ۔ اس سے نظر نہ ملانے والا يوں پزل کرتی نظروں سے ديکھ رہا تھا کہ نشرہ کو لگا اسکا دل اچھل کر حلق ميں آگيا ہو۔
آنکھيں پھيليں۔ مگر اپنی جگہ سے ہٹنے کی ہمت اس ميں نہ ہوئ۔ وہ مارج نہيں کوئ ساحر لگا تھا۔
"دنيا ميں اگر ساری زندگی صرف آسائشيں، سکون، آرام اور خوشياں ہی ملتی رہيں تو پھر جنت اور دنيا ميں کوئ فرق نہيں بی بی۔
اللہ نے يہ دنيا بنائ ہی اسی لئے ہے کہ جنت اور جہنم دونوں کا تھوڑا سامزہ ہم يہيں چکھ ليں۔ سمجھ ليں اب دنيا ميں ہی جہنم کا تھوڑا سا مزہ آپ کو بھی چکھنا ہے۔ يہاں تياری کريں گی تو وہاں کی تياری بھی ہوگی" ٹہر ٹہر کر بولتا وہ نشرہ کو نجانے کيا سمجھا رہا تھا۔ وہ تو بس اس ساحر کے ہلتے ہونٹوں کو ديکھ رہی تھی۔
اسکے سحر ميں جکڑتی جارہی تھی۔
"آجائيں۔ آج تو ميں نے ناشتہ بنا ديا ہے۔ کل سے آپ اپنے سب کام خود کريں گی۔ کيونکہ بدقسمتی سے آپ ميری بيوی ہيں اور آپکے اباسائيں کی طرح ميں امير کبير نہيں کہ نوکر افورڈ کروں۔ سو کل سے آپ اپنا کام کريں گی اور ميں اپنا" مزے سے چوکھٹ چھوڑتے سيدھا ہوا۔
"اور ہاں اب يہ کہہ کر کہ مجھے تمہارا يہ احسان نہيں چاہئيے۔ اس رزق کو لات مت مارئيے گا۔ کيونکہ بہرحال آپ کو 'اس وقت' اس 'احسان' کی اشد ضرورت ہے۔ فريش ہو کر آجائيں" اپنی مونچھوں کو مخصوص انداز ميں دائيں ہاتھ کی دو انگليوں سے سنوارتے وہ جيسے اسکے اندر تک اتر گيا تھا۔
نشرہ حيران تھی کہ وہ کيسے جان گيا کہ وہ يہی کہنے والی تھی۔ آخر جذباتی جو ہوئ۔
فريش ہو کر باہر آئ ليکن ابھی بھی يونيورسٹی کے لئے تيار نہيں تھی۔
لاؤنج ميں سينٹر ٹيبل پر آمليٹ، بريڈ اور چاۓ رکھی تھی۔
نشرہ کو يہ سادہ سا ناشتہ بھی اس وقت نعمت ہی لگا۔ کل صبح کے ناشتے کے بعد سے اس نے کچھ نہيں کھايا تھا۔ اس وقت پيٹ ميں شديد چوہے دوڑ رہے تھے۔
خاموشی سے ٹيبل کے قريب رکھے فلور کشن پر بيٹھ کر کھانا شروع کر ديا۔
مارج شايد ناشتہ کر چکا تھا۔ اس وقت اسکے سامنے صوفے پر بيٹھا بس چاۓ کے مگ سے چسکياں لے رہا تھا۔
"ميں آج يونيورسٹی نہيں جاؤں گی" سر نيچے کئے ہی اس نے اپنا فيصلہ سنايا۔
"بہتر۔ ميں پھر کچھ کام سے باہر جارہا ہوں۔ شام تک آجاؤں گا۔ آپ دروازہ اندر سے لاک ہی رکھئے گا" يہ پہلی نارمل بات ان دونوں کے درميان کل سے اب تک ہوئ تھی۔
"سنو۔۔۔۔" وہ جو چاۓ کا مگ رکھ کر سينٹر ٹيبل سے چابياں اور موبائل اٹھا کر قميض کی جيب ميں ڈال رہا تھا اسکی جانب متوجہ ہوا۔
"واپسی پہ زرناب کو ليتے آؤگے؟" وہ اسے حکم دے رہی تھی يا اسکی رائے مانگ رہی تھی مارج سمجھا نہيں سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔
"مطلب۔۔ کيا اسے لانا پاسبل ہے۔ يونيورسٹی تين بجے آف ہوجاۓ گی۔ ميں اسے کال کرديتی ہوں کہ وہ ہاسٹل نہ جاۓ تم يونی سے اسے پک کرلينا" وہ اسے پورا پروگرام بتانے لگی۔
"ٹھيک ہے۔ آپ اسے فون کرکے بتا ديجئے گا ميں ليتا آؤں گا" وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"سنو۔۔۔" ابھی وہ لاؤنج سے نکل بھی نہيں پايا تھا جب دوبارہ اسکی آواز سنائ دی۔
"جی" اب کے مڑے بنا بولا۔ لہجہ ميں جھنجھلاہٹ تھی۔
"مم۔۔ ميں دوپہر کو کيا کھاؤں گی؟" مارج نے مڑ کر اسکی جانب ايسے ديکھا جيسے کہہ رہا ہو کتنا بڑا مسئلہ بيان کيا ہے۔ جو اس لمحے اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔
"خود ہی تو تم نے کہا تھا اب سے آپ اپنا کام خود کريں گی اور ميں خود۔۔ تو فريج ميں کچھ ہوگا تو ہی ميں اپنے لئے بناؤں گی نا اور پھر زرناب بھی آئے گی اسکے لئے بھی بنانا پڑے گا" مارج نے اسکے انداز پر ہنسی دبائ۔
کس قدر گھريلو سی لگ رہی تھی۔ الجھی الجھی يہ سب باتيں کرتی۔ مارج نے نظريں زمين پر گاڑھيں مبادا آنکھيں اسکے عہد کو توڑ کر گستاخی کی مرتکب نہ ہوجائيں۔
"آپ فکر نہيں کريں۔ يہ اصول کل سے لاگو ہوگا۔ ويسے بھی اپنی بہن کی خاطر مدارت کے لئے ميں کچھ نہ کچھ لے آؤں گا۔ آپ ريليکس ہوجائيں" ہاتھ پشت پر باندھے بولتا وہ اسے زہر لگا۔ دل کيا دھاڑيں مار کر روئے يعنی بہن کے لئے مٹھاس اور محبت اور اسکے لئے صرف اجنبيت۔ مگر ان ميں ايسا رشتہ ہی کب تھا کہ وہ اسے کوئ اميد دلاتا، کوئ دل کو خوش کرنے والی بات کرتا، يا اسکا احساس کرتا۔
نشرہ اسے روبوٹ کہتی تھی۔ وہ روبوٹ اب يکدم سے انسان کيسے بن جاتا ۔ احساسات تو انسانوں ميں ہوتے ہيں روبوٹ ميں نہيں۔
يہ اسکے ساتھ کيا ہورہا تھا۔ اسے يوں ہی خاموش ديکھ کر وہ مڑا۔
پھر دوبارہ اسکی جانب رخ کيا۔
"اور کوئ مسئلہ" بھنويں اچکا کر پوچھا۔ کہيں پھر نہ روک لے۔ وہ اپنی حالت کے پيش نظر محض سر ہلا کر رہ گئ۔ سوچيں تو نجانے کہاں بھٹکنے لگيں تھيں۔
مارج دھيرے سے سر ہلا کر چلا گيا۔
"مجھے کيا ہورہا ميں کيوں اس سے اميد باندھ رہی ہوں کہ وہ ميرے لئے کسی اور طرز ميں سوچے کسی اور لہجے ميں بات کرے" وہ الجھی پريشان سی وہيں بيٹھ کر سر تھام گئ۔
محبت نے بڑا کارا وار کيا تھا۔
_________________________
پیريڈ اوور ہوتے ہی وہ دونوں اسکے سامنے اسکے آفس ميں موجود تھے۔
"آپ باہر جائيں ميں احتشام سے بات کرلوں۔ پھر آپ اندر آئيے گا" نشرہ کو بھی احتشام کے پيچھے اپنے آفس ميں آتے ديکھ کر اس نے باہر کی جانب اشارہ کيا۔ وہ چپ چاپ باہر نکل گئ۔
اپنی سيٹ سنبھال کر اب اسکا رخ احتشام کی جانب تھا۔
"جی تو کيا مسئلہ تھا آپکا۔۔ کيوں تياری نہيں تھی۔ اور اگر تياری نہيں تھی تو مجھے صاف بتاتے۔۔ يہ تماشا کرنے کی کيا ضرورت تھی" وہ کڑے تيوروں سے اسے آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔
"سر ايک ہی سوال پوچھا تھا نا۔ باقی تو۔۔۔" احتشام بڑا اٹھلا کر ايسے بولا جيسے وريد کا چہيتا اسٹوڈنٹ ہو۔
"ايک پوچھا چاہے دس۔۔۔۔۔ آئندہ يہ ہوا تو آپ ون ويک کے لئے کلاس سے آؤٹ کردئيے جائيں گے۔ اور آئندہ" اسکی بات کاٹ کر وہ دبے دبے لہجے ميں چلايا۔
"آئندہ نار کے آس پاس مجھے نظر نہ آئيں" وہ انجانے ميں اپنی کمزوری اسکے ہاتھ پکڑا گيا۔
احتشام نے کسی قدر اچنبھے سے اسکی جانب ديکھا۔
"سوری سر۔ آئندہ ايسا نہيں ہوگا" منہ لٹکا کر بولا۔
"يو مے گو ناؤ" ہاتھ کی انگلی سے اسے دروازے کی جانب جانے کا اشارہ کيا۔
اسکے نکلتے ہی زرناب اندر داخل ہوئ۔
"سوری سر۔ " اندر آتے ہی اس نے وضاحت دينی چاہی جب اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروايا۔
سامنے ٹيبل پر رکھی فائل کھولی جس ميں سب ٹيسٹس موجود تھے۔ اس ميں سے زرناب کا ٹيسٹ نکالا۔
"لاسٹ کوئسچن آتا ہے؟" اسکے سوال پر وہ لمحہ بھر کو حيران ہوئ۔
"جی جی۔ سر سارا ٹيسٹ آتا تھا" وہ پھر سے وضاحت دينے لگی۔
"اوکے يہ پکڑيں۔ اور يہاں بيٹھ کر ٹيسٹ مکمل کريں" اسکی مہربانی پر وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔
حواس بحال رکھتے ٹيسٹ تھاما۔ اسکے سامنے رکھی کرسی پر خاموشی سے بيٹھ کر بيگ سے پين نکالا۔
اسکی نظريں ٹيسٹ پر اور وريد کی نطريں اس پر ٹکی تھيں۔ دونوں کہنياں کرسی کے ہتھوں پر رکھے۔ ہاتھوں کو باہم پيوست کئے۔ شہادت کی انگليوں کو ملاۓ ہونٹوں پر رکھے وہ مسلسل اسے نظروں کے فوکس ميں لئے ہوۓ تھا۔
زرناب جانتی تھی اسکی نظريں مسلسل اسکا طواف کررہی ہيں۔ جو آتا تھا لگتا تھا وہ بھی بھول جاۓ گی۔ سر اٹھا کر لحظہ بھر کو اسکی جانب ديکھا۔
اسکے يوں ديکھنے پر بھی اسکی پوزيشن ميں کوئ ردوبدل نہيں ہوئ۔
زرناب نے گھبرا کر آنکھيں پھر سے ٹيسٹ پر جمائيں۔
So I didn't see you at all this year
But I still think I know you well
And it's not what your mind is saying
Yet, I don't care at all, no
But now you're facin' away
Are you sad?
Can you really think about it? No
And you fall outside your head
And you're back
And you never knew about it, no, oh-oh
And you wander away
Still being quiet, can you call me?
And the urge you're fightin'
Still lying to your heart
'Cause I better be the one that steps for you
Do you even care at all?
And you made it up just to mess with me
Faking the way you fall
And the worst will go eventually
The lie, you won't see at all
And you'll come and we'll make up afterwards, afterwards
Are you ever gonna stay?
I'm holdin' on
Can we talk about it? No
When you feel like flyin' away
I'm losing it
And I never really cared
آخر زرناب نے ہمت مجتمع کرکے اسکی محويت کو پھر سے ديکھا۔
"سر ميں وہاں بيٹھ کر ٹيسٹ کرلوں؟" لہجہ سرسری سا رکھتے اس نے دائيں جانب موجود صوفے کی جانب اشارہ کيا۔
وريد کے چہرے پر پل بھر کو مسکراہٹ آئ۔
"جی ضرور" لہجے ميں شيرينی گھلی تھی۔
وہ گہرا سانس خارج کرتی وہاں سے اٹھ کر صوفے پر جا بيٹھی۔
وريد نے اب کی بار توجہ سامنے موجود ٹيسٹس کی فائل کی جانب مبذول کی۔
اسی لمحے دروازہ ناک ہوا۔
"يس کم ان" اسکی اجازت ملتے ہی ايک طرح دار سی لڑکی اندر آئ۔
"وريد؟" سر کا صيغہ استعمال کرنے کی بجاۓ آنے والی نے صرف اسکا نام لينے پر اکتفا کيا۔
وريد نے کچھ چونک کر اسے ديکھا۔
ٹائيٹ بليو جينز پر گرے اور پرپل ٹاپ پہنے دوپٹے سے آزاد بالوں کو کيچر سے باندھے۔ ايک جانب بيگ ڈالے دوسرے ہاتھ ميں ايک رجسٹر تھامے ہاتھوں ميں بيش بہا انگوٹھياں پہنے۔ وريد کو گمان ہوا جيسے وہ کسی ماڈلنگ کے لئے آئ ہے۔
وريد کو يک ٹک اپنی جانب ديکھتے پا کر وہ ايسے مسکرائ جيسے پہلی ہی نظر ميں گويا اسے گھائل کرليا ہو۔
"جی۔ آپ کی تعريف؟" وريد نے ايک نظر دائيں جانب ٹيسٹ کرتی زرناب پر ڈالی۔ ايسے جيسے کوئ چوری اس نے پکڑ لی ہو۔
"اندر آنے کو نہيں کہيں گے؟" اسکی بے تکلفی قابل ديد تھی۔
وريد نے ہاتھ سے کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ زرناب ان دونوں سے بے خبر ٹيسٹ کرنے ميں مگن تھی ايسے جيسے وہ آفس ميں اکيلی ہو۔ ايک بار بھی سر اٹھا کر ان دونوں کو نہيں ديکھا۔
"تھينک يو" ايک ادا سے بيٹھتے انگريزی طرز تخاطب اپنانے کی ناکام کوشش کی۔
وريد نے مٹھی ہونٹوں پر جما کر مسکراہٹ روکی۔
"ميں ضوفشاں۔۔۔ آپکی منگيتر ٹو بی" ہاتھ اٹھا کر اسکی جانب اشارہ کرتے پھر سے عجيب و غريب انداز ميں کہا۔
اسکی بات پر اب کی بار زرناب نے ايک نظر اٹھا کر ان دونوں پر ڈالی۔ پھر افسوس سے سر ہلايا۔
وريد نے دائيں آنکھ کی ابرو اچکا کر اسے ايسے ديکھا جيسے کہہ رہا ہو 'کيا واقعی'۔
"آپکی مدر نے بتايا نہيں آپ کو" وريد کے اس قدد ٹھنڈے ٹھار انداز پر وہ کچھ خفت زدہ ہوئ۔
"جی بتايا تھا مگر آپ کی تصوير وغيرہ کچھ نہيں بھيجی ورنہ شايد آپ کو پہچاننے ميں اتنی دير نہ لگاتا۔" مٹھی نيچے کرتے وہ اپنے ہی شاہانہ انداز ميں اسے خاطر ميں لائے بغير بولا۔
"نار ٹيسٹ چل رہا ہے؟" ضوفشاں کو نظر انداز کرتے وہ زرناب کی جانب متوجہ ہوا۔
"جی سر کروس چيک کررہی ہوں" وہ بھی سرسری انداز ميں بولی۔
"ميں ابھی بزی ہوں۔ پھر آپ سے ملاقات ہوگی" وريد کو اسکی موجودگی پر شديد الجھن ہورہی تھی۔ اسکے انداز پر ضوفشاں کو شديد سبکی محسوس ہوئ۔ وہ جو سمجھی تھی کہ وہ اسے متاثر کرنے ميں کامياب ہوگئ ہےاپنی سوچ پر لعنت بھيجتی تن فن کرتی اٹھ کر اسکے آفس سے واک آؤٹ کرگئ۔
اسکے نکلنے کا نوٹس لئے بغير۔ وريد اپنی جگہ سے اٹھ کر زرناب کے پاس آيا۔
"يہ ليں سر" ايک آخری نگاہ ٹيسٹ پر ڈال کر اس نے وريد کی جانب بڑھايا۔ اپنا بيگ اٹھايا۔
"اس بے چاری کو آپ نے ايسے ہی نکال ديا۔ ميں تو جانے ہی والی تھی" اسکے مقابل کھڑے ہوتے محظوظ ہونے والے انداز ميں اس نے گويا وريد کی ٹانگ کھينچی۔
ٹيسٹ کو ديکھتے اسی پوزيشن ميں جھکے سر کے اٹھاۓ بنا بس آنکھيں اٹھا کر ايک گھوری اس پر ڈالی۔ جو يقينا نقاب ميں مسکرا رہی تھی۔
"ويسے مبارک ہو سر" وہ پھر سے تير چلانا نہيں بھولی۔
"ابھی مبارکباد اپنے پاس رکھيں۔ جلد کسی اور انداز ميں لوں گا" اسکی بات پر محظوظ ہونے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ذومعنی انداز ميں بولا۔
زرناب کی آنکھوں ميں سوال ابھرے۔
"جائيے۔ نيکسٹ پيريڈ شروع ہوچکا ہوگا" مڑ کر اپنی سيٹ کی جانب آتے اسے وہاں سے جانے کا کہا۔
وہ کندھے اچکا کر نکل گئ۔ يہ تو اسے يقين تھا کہ وريد اسے ہر گز اور کبھی بھی پہچان نہيں سکتا۔
_________________________
وہ آخری پيريڈ کے لئے جارہی تھی جب اسکے سيل پر نشرہ کی کال آئ۔
"کيسی ہو بے مروت۔ صبح سے اتنے فون کئے۔ اب تمہيں ميری ياد آئ" چھوٹتے ہی اس سے شکوہ کيا۔
"بس يار طبيعت ٹھيک نہيں تھی۔ کل يہاں آتے آتے بھی دير ہوگئ۔ بس شديد تھکاوٹ تھی" وہ بے زار سے لہجے ميں اپنی روداد سنانے لگی۔
"اسی لئے آج يونی بھی نہيں آئيں" وہ مزيد گويا ہوئ۔
"ہاں نا۔ اچھا سنو۔ لاسٹ پيريڈ کے بعد ہاسٹل مت جانا مارج تمہيں لينے يونی آئے گا۔ شام تک ميرے ساتھ رہنا۔ بہت اداسی ہورہی ہے يہاں" اسکی بے چاری سی آواز پر زرناب کو شديد ترس آيا۔
"اچھا ٹھيک ہے" وہ فورا مان گئ۔
"ميں تمہيں مارج کا نمبر ديتی ہوں۔ وہ کال کرے گا تو اٹھا لينا۔ اسے تمہارا نمبر دے ديا تھا" وہ پھر سے ہدايات دينے لگی۔
"ٹھيک ہے"
آخری پيريڈ کے بعد مارج کے نمبر سے کال آئ۔ زرناب نے بنا ہچکچائے فون اٹھا ليا۔
"جی بھائ" آواز ميں محبت گھلی تھی۔
"ميں مين گيٹ پہ ہوں آجاؤ" اس کی بات سنتے ہی اسکے قدم مين گيٹ کی جانب بڑھے۔
زرناب کو آتا ديکھ کر مارج نے فورا دروازہ کھولا۔ زرناب اسے دھيرے سے سلام کرتی بيٹھ گئ۔ اسکے دروازہ بند کرتے ہی اس نے گاڑی آگے بڑھائ۔
دو آنکھوں نے بڑی سلگتی نگاہ سے انہيں ديکھا۔
وہ ان دونوں سے اتنی دور نہيں کھڑا تھا۔ اپنی گاڑی کی جانب آتے اس نے زرناب کو گيٹ کی جانب جاتے ديکھ ليا تھا۔ وہ يوں ہی اس پر نظر جمائے کھڑا تھا۔ جب بليک پجيرو ميں اسے بيٹھتے ديکھا۔ پجيرو کا نمبر فورا نوٹ کيا۔
يوں تو اسکے کوئ رشتے دار نہيں تو يہ پھر کون ہے۔
وريد نے کچھ سوچ کر موبائل نکال کر نمبر ڈائل کيا۔
دوسری جانب سے فون اٹھاتے ہی اس نے بغير سلام دعا کے اپنی ہی بات کہی۔
"ايک گاڑی کا نمبر بھيج رہا ہوں۔ پتہ کرکے بتاؤ يہ کس کے نام پر ہے۔ اور اس بندے کا بائيو ڈيٹا بھی مجھے ايک دو دن ميں بھجواؤ۔" تحکم سے کہتے ساتھ ہی فون بند کيا۔ گاڑی کا نمبر اسی نمبر پر سينڈ کرکے گاڑی ميں بيٹھ کر زن سے مين گيٹ کی جانب بڑھائ۔
_______________________________
"آپ نشرہ کے ساتھ ٹھيک نہيں کررہے" گاڑی ميں بيٹھتے ہی اس نے بھائ سے شکوہ کيا۔
"ميں تو کچھ نہيں کررہا ۔۔۔ يہ تو انکی قسمت کررہی ہے" وہ مبہم سا مسکرا کر بولا۔
"آپ اتنے لاتعلق کيوں بن رہے ہيں اس سے" وہ دوست کی وکالت کرنے لگی۔ ان چند دنوں ميں ہی اس نے ديکھ ليا تھا کہ ان دونوں کے درميان کھچا کھچا تعلق ہے۔
"تم اسے چھوڑو يہ بتاؤ صبح ناشتے مين کيا کھايا تھا" وہ ذمہ دار بھائ کی طرح پوچھنے لگا۔ اصل ميں اس ٹاپک سے ہٹايا تھا۔ جس کے اوراق پر لکھی کہانی کيا سے کيا کرنے والی تھی وہ خود بھی اس سے انجان تھا۔
"آپ بات بدل رہے ہيں" وہ اسے گھور کر بولی۔
"يہی سمجھ لو" وہ بھی ہتھيار ڈالتے ہوۓ بولا۔
"بھائ۔۔ کيا۔۔ کيا آپ واقعی ميرے مطلب۔۔۔۔ بابا سائيں کے بيٹے ہيں۔ اور ميرے بھائ ہيں" اس کی ہمت نہ ہوئ اسے سوتيلا بھائ کہنے کی۔
مارج نے مسکرا کر سر ہلايا۔
"کيا ميں اس حقيقت سے واقف ہوسکتی ہوں؟" اسکے سوال پر وہ لب بھينچ کر رہ گيا۔
"تمہيں يہ بتايا کس نے ؟" وہ جانتا تو تھا پھر بھی اس سے پوچھنے لگا۔
"نشرہ نے" اپنا اندازہ سچ ہونے پر وہ محض سر ہلا کر رہ گيا۔
"يہ کبھی نہيں سدھريں گی۔ بی بی سی کہيں کی" بڑبڑايا۔ مگر زرناب نے اسکی بڑبڑاہٹ بڑے آرام سے سن لی۔
"بری بات بيوی کو ايسے نہيں کہتے" بڑے بوڑھوں کی طرح اسے ٹوکا۔
"وہ بيوی نہيں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کيا کہوں تمہاری پياری دوست کے بارے ميں " کچھ برا کہتے کہتے بڑی مشکل سے چپ ہوا۔
"کچھ حقيقتوں پر پردہ پڑا ہی رہے تو بہتر ہے۔" وہ چاہ کر بھی بتا نہيں پا رہا تھا۔
"پليز بھائ پليز۔۔ پہلی بار کسی بات کی خواہش کی ہے" اسکی بات پر وہ اموشنل ہو ہی گيا۔
"مگر وعدہ کرو تم کسی کو بھی نہيں بتاؤ گی۔ اپنی پياری دوست کو بھی نہيں" وہ اس سے وعدہ لينے لگا۔
"مجھے پتہ ہے ميری دوست بہت پياری ہے۔ بار بار پياری کہہ کر آپ لگتا ہے اپنے دل کی بات کہہ رہے ہيں" وہ شرارت سے بولی۔ اسے اندازہ نہ ہوا وہ دو بار اسے پياری کہہ گيا ہے۔
زرناب کے شرير انداز پر اسے گھوری سے نوازا۔
"اچھا اچھا سوری" وہ بمشکل ہنسی روک کر بولی۔
مارج نے آہستہ آہستہ سب رازوں سے پردا ہٹايا۔
"بابا سائيں نے مرتے دم تايا سائيں سے وعدہ ليا تھا کہ وہ يہ حقيقت کسی کو نہيں بتائيں گے۔ انکے مطابق انہوں نے زندگی ميں تو ايسے کوئی اچھے کام نہيں کئیے۔ لہذا وہ چاہتے تھے کہ انکی وفات کے بعد لوگ انہيں برے الفاظ ميں ياد نہ کريں۔ خاص طور سے تمہاری اماں سائيں کا اعتبار وہ مرتے مرتے توڑ جاتے۔ اور يہ انہيں گوارا نہيں تھا" اسکی بات ختم ہوتے کتنے ہی دير گاڑی ميں خاموشی چھائ رہی۔
"انسان ، انسانوں سے کتنا خوفزدہ رہتا ہے۔ انکے سامنے اپنا اميج خراب نہيں کرنا چاہتا مگر اس سب ميں اسے يہ ڈر اور خوف کيوں نہيں ہوتا کہ يہ تو سب مٹی ہوجائيں گے۔ اس اللہ کے سامنے اپنا کيا منہ لے کر جائيں گے۔ اسکے سامنے اميج خراب ہونے کی فکر کيوں نہيں ہوتی" اسکی بات پر مارج ايک گہرا سانس بھر کر رہ گيا۔
"يہ سب بتانے کا مطلب يہ نہيں کہ تم انکے بارے ميں برا سوچو" وہ اسے تنبيہہ کرنے لگا۔
"آپ کی ماں يقينا بہت اچھی عورت ہوں گی۔ آپ مجھے بابا سائين کا پرتو نہيں لگتے۔ تو يقينا آپ اپنی امی جيسے ہوں گے۔ کتنی خوش نصيب ہيں وہ۔ جن کی اولاد آپ جيسی ہے۔ ساری عمر لوگوں کے سامنے سواليہ نشان بننے کو تيار ہيں۔ ليکن جنہوں نے آپ کو اپنايا نہيں انکے لئے برا نہيں سننا چاہتے" وہ رشک سے اسے ديکھ رہی تھی۔
"ايسے نہيں کہتے زرناب۔ ہم سب نے اپنے اپنے اعمال کا حساب خود دينا ہے۔ انہون نے جو کيا اسکا حساب اللہ ان سے لے لے گا۔ ميں بلاوجہ ان سے نفرت کروں۔ جبکہ وہ اس دنيا ميں ہيں بھی نہيں تو مجھے کيا فائدہ۔ وہ ہوتے بھی تو ميں ان سے نفرت نہ کرتا۔ اگر ہم لوگوں کی جگہ خود کو رکھ کر انکے مسائل کو سمجھنے لگ جائيں تو شايد ہم لوگوں سے شکوے کرنے چھوڑ ديں۔ نجانے وہ کتنے مجبور ہوں گے کہ وہ مجھے اپنا نہيں سکے۔" اسکا دھيما لہجہ زرناب کے دل مين اسکا مقام اور بلند کرگيا۔
"پتہ ہے کيا ميں نے کبھی شکوہ نہيں کيا کہ ميرے دنيا ميں آنے کی وجہ کيا تھی۔ کيونکہ اس مين ميرا ہاتھ نہيں تھا۔ اور اللہ تو جانتا ہے نہ۔ جب مين اسکے آگے سرخرو ہوں تو مجھے انسانوں کے کہے جانے والے لفظ ناجائز پر تکليف محسوس نہيں ہوتی۔ لوگ اپنی پست ذہنيت کے مطابق بات سوچتے ہيں۔ ميری ذات پر فرق نہيں پڑتا کيونکہ اللہ نے مجھے انہی کے گھر ميں پال پوس کر بڑا کروايا۔ تايا سائيں کی بيش بہا محبت مجھے ملی۔ مين کسی آسائش اور نعمت کے لئے ترسا نہيں، پڑھ لکھ ليا، اپنا کاروبار کر رہا ہوں۔ بس يہی بہت ہے ميرے لئے۔ " اسکی باتوں نے زرناب کو خود کا محاسبہ کروايا۔
"ہم دونوں بہن بھائيون کی قسمت ايک سی ہے بے نشاں" آنسو اسکے گالوں پر لڑھکے۔
"ايسے نہيں کہتے۔ ہم اس اللہ کے بندے ہيں اور اتنی بڑی شناخت بہت ہے۔ مسلمان ہيں۔ کيا يہ کافی نہيں۔ اس حسب نسب ميں کيا رکھا ہے" مارج نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سر پر تھپتھپايا۔ روتے روتے مسکرا کر اس نے بھائ کی جانب ديکھا۔
"آئندہ ايسے نہيں کہنا" وہ اسکا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔
_____________________________
رنگ و بو کا سيلاب تھا۔ مقررہ وقت سے گھنٹہ ليٹ وہ فخر کے آفس کے فنکشن ميں موجود تھا۔
ايک مشہور ہوٹل کے لان ميں سب انتظام تھا۔ وہ بھی سب کے درميان کب سے موجود کسی خاص کو ڈھونڈنے ميں مگن تھا۔
"کسے تلاش کررہے ہو بھئ" فخر نے بھی اسکی بے چينی بھانپ لی تھی۔
"کسی کو نہيں۔ بس ايسے ہی ديکھ رہا تھا" وہ بات بنا کر بولا۔
"ميں نے ڈيڈی کو ہاں کردی ہے" فخر کی بات پر اس نے عجيب سے تاثرات سے اسے ديکھا ايسے جيسے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کررہا ہو کہ وہ کيا کہنا چاہ رہا ہے۔
"ارے يار وہی نار احسان سے شادی کرنے والی بات پر" وہ اسکے تاثرات سے سمجھ گيا کہ وہ يقينا بھول چکا ہے۔
وريد کچھ دير چپ ہی رہ گيا۔ وہ واقعی بھول چکا تھا کہ فخر نے اسکے لئے پسنديدگی اور شادی کرنے کا کچھ دن پہلے ہی اظہار کيا تھا۔
"يہاں واش روم کس سائيڈ پر ہے" اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ اس نے کچھ اور ہی کہا۔
"ہاں وہ اس طرف ہے۔ " اسکے اتنے روڈ انداز پر فخر کو عجيب سا محسوس ہوا۔
بجائے خوش ہونے يا کوئ اچھی بات کرنے کے اس دن بھی وہ وہاں سے بھاگ گيا تھا۔ اور آج بھی وہ اسکی بات کو نظر انداز کرگيا۔ اس نے ايک جانب اشارہ کيا۔
وريد سر ہلا کر اس سمت چل پڑا۔ جب اندر کی جانب بڑھتے سامنے سے آتے وجود سے تصادم ہوتے ہوتے بچا۔
وريد نے يکدم قدموں کو روک کر خود کو سامنے سے آتی لڑکی سے ٹکرانے سے بچايا۔
سامنے والی بھی عجلت ميں نقاب درست کرتے آرہی تھی۔ جب اندر آنے والے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
نقاب سيٹ کرتا ہاتھ الجھا۔
نقاب يک لخت چہرے سے گرا۔ وريد جو سوری کرنے کے لئے سامنے والی کی جانب نگاہ اٹھا چکا تھا۔
سامنے کھڑے وجود کی آنکھوں سے تو نجانے کب سے آشنا تھا۔
مگر اپنے سامنے اس مکمل حسن کو آج پہلی بار ديکھ کر اسے محسوس ہوا تھا جيسے شايد ہی آج سے پہلے اتنا مکمل حسن ديکھا ہو۔ وہ کوئ اور نہيں زرناب اور وريد کے لئے نار احسان تھی۔
وہ جو کب سے اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ اندازہ نہيں تھا آج يوں قسمت اسکے روبرو لائے گی کہ وہ اس چاند کی چمک سے آنکھوں کو خيرہ ہونے سے نہيں بچا سکے گا۔
اسے نہيں معلوم تھا کہ وہ حقيقت ميں اتنی ہی حسين تھی يا اسکی نظروں نے اسے حسن کے سنگھا سن پر بٹھا ديا تھا۔ زرناب نے اسے ساکت کھڑے ديکھ کر جلدی سے نقاب کيا۔
چند لمحوں کے اس کھيل ميں دونوں ہار گئے تھے۔ وہ دل کے ہاتھوں اور زرناب قسمت کے ہاتھوں۔
اسے ديکھنے کے بعد اب وريد کو کوئ اور چہرہ وہاں دل کو نہيں بھارہا تھا۔
کچھ ہی دير بعد وہ پھر سے سب ميں موجود تھا۔ زرناب بھی موجود تھی۔ دونوں بہت بار آمنے سامنے آئے بھی۔
زرناب تو بھرپور اجنبيت کا تاثر ہی دئيے ہوئے تھی۔ مگر وريد وہ اب اس اجنبيت کو برقرار نہيں رکھ سکتا تھا۔
اسے اب وہ چاہئيے تھی۔ وہ جو اتنے دنوں سے اپنی کيفيت سے انجان تھا۔
اب جان گيا تھا يہ محبت کا اعجاز تھا جو اسے اپنی لپيٹ ميں لے رہا تھا۔ اور وہ اس آکٹوپس کے شکنجے سے نکلنے کو تيار نہيں تھا۔
اسکی خوبصورتی کو آنکھوں ميں بسائے وہ گھر سرشار سا واپس لوٹا تھا۔
گھر آيا تو سامنے ہی ماں اور باپ دونوں موجود تھے۔
"ارے آپ لوگ کب آئے؟ بتا تو ديتے کہ آنا ہے؟" وہ ان دونوں کو سامنے ديکھ کر اور بھی خوش ہوا۔
"او پتر ۔۔۔ ہم کون سا مہمان ہيں۔ اپنے بيٹے کے پاس آئے ہيں" وجاہت چوہدری نے اسکی پيٹھ تھپتھاتے خوشدلی سے کہا۔
"ہم تو تيری منگنی کی تياری کرنے آئے ہيں۔ تجھے ساتھ لے کر جانا ہے۔ ہفتے والے دن تيری منگنی رکھی ہے۔ او ميرے شيرا" وہ مسکراتے ہوۓ اسے خوشخبری سنا رہے تھے۔ مگر اسکے لئے يہ خوشخبری ہر گز نہيں تھی۔
"ميں نے آپ لوگوں سے بات کرنی ہی تھی آج۔ اچھا ہوا کہ آپ آگئے۔ ميں اس لڑکی سے شادی نہيں کرسکتا۔" انکے سامنے صوفے پر بيٹھتے وہ مضبوط لہجے ميں اپنا فيصلہ سنا چکا تھا۔
"دماغ خراب ہے تمہارا" اسکی بات سنتے ہی وجاہت چوہدری آپے سے باہر ہوگئے۔
"چوہدری صاحب۔ اسکی پوری بات تو سن ليں" صغراء بيگم نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہيں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
"کيا پوری بات سنوں۔۔ اور پوری بات ہے ہی کيا؟" وہ مزيد غصہ ہوۓ۔ غصيلی نظروں سے سامنے ديکھا جہاں اسکا اطمينان قابل ديد تھا۔
"ملا ہوں ميں آپکی پسند کی ہوئ لڑکی سے۔ اسے کسی فلم ميں ہئيروئن ہونا چاہئے۔ ميری بيوی کی حيثيت نہيں مل سکتی اسے" اسی اطيمنان سے وہ انہيں مزيد آگ بگولا کرگيا۔
"تو ۔۔۔ تم اندر جاؤ" وہ کچھ کہتے کہتے رکے۔ صغراء بيگم کو سامنے کمرے ميں جانے کا اشارہ کيا۔
"اماں سائيں يہيں بيٹھيں گی۔ جو بات ہوگی انکے سامنے ہوگی" وہ ماں کو آنکھوں سے نہ اٹھنے کا اشارہ کر گيا۔
"تو کھولوں تمہارے کرتوت اسکے سامنے" وہ منہ سے جھاگ اڑانے لگے۔
"کيا کرتوت ہيں ميرے۔۔ ميں نے وہی کچھ کيا ہے جو ہميشہ سے اپنے خاندان کے مردوں کو کرتے ديکھتا آيا ہون۔ اگر آپ ميرے افئيرز کی بات کررہے ہيں۔ تو پھر يہاں کرتوت سبھی کے کھليں گے۔ آپ سميت" وہ بھی نڈر انداز ميں باپ کے دوبدو ہوا۔
"يہ۔۔ يہ تميز ہے تمہاری۔۔۔ يہ کہتی ہے تمہاری تعليم" اپنے پہ بات آتے ديکھ کر وہ آگ بگولہ ہوئے۔ وہ ہميشہ سے منہ پھٹ تھا اور يہ سب جانتے تھے۔ پھر چاہے سامنے والا اسکا باپ ہو يا باپ کا باپ۔۔ ہاں مگر ماں کے ساتھ وہی بدتميزی کبھی نہيں کرتا تھا۔
"ميری تعليم نے مجھے يہی سکھايا ہے کہ سچ چاہے دوسرے کے متعلق ہو يا اپنے متعلق بولنے ميں عار محسوس نہيں کرنی چاہئيے۔ ميں تو مانتا ہوں کہ ميں عورتوں کے ساتھ افئير چلاتا ہوں۔ شراب پيتا ہوں۔ کيونکہ ميں نے بچپن سے اس گھر کے مردوں کو يہ سب کرتے ديکھا ہے۔ اگر يہ اتنا ہی برا ہے تو آپ کيوں کرتے رہے۔۔ آپ نے ايک عورت پہ اکتفا کيوں نہيں کيا۔ کيا اماں سائيں بے خبر ہيں؟
نہيں۔۔۔ ہر گز نہيں۔۔۔۔ اور اگر يہ سب اتنا ہی جرم تھا تو جب پہلی بار آپ کو ميرے شراب پينے۔، سگريٹ پينے اور کسی نامحرم لڑکی کی جانب راغب ہونے کا علم ہوا تھا تب مجھے کيوں نہيں روکا۔۔ ميں نے تو ہميشہ آپ کو يہی کہتے سنا۔۔ يہ تو مرد کی شان ہے۔۔۔ تو اپنی مرضی کی عورت کے ساتھ شادی کرنا کيوں گناہ ہے" وہ بولا تو پھر بنا رکے بولتا چلا گيا۔
"مجھے آپکی پسند کی لڑکی اپنے لئے اچھی نہيں لگی۔ سمپل۔ اس ميں تعليم، تربيت اور کرتوت کہاں سے آگئے؟" وہ آج انہيں رگيدنے لگا تھا۔
"آپ بتائيں ماں سائيں۔ کيا يہ گناہ ہے؟" اسکا رخ اب ماں کی جانب تھا جن کے سامنے وہ اپنے باپ کے سب کرتوت کھول چکا تھا جن پر آواز اٹھانے کی اس کی ماں کو اجازت نہيں تھی۔
"بيٹے ايسا نہين ہے۔ اچھا بتاؤ کون ہے وہ لڑکی؟" دھميے لہجے ميں شوہر کے پاس سے اٹھ کر وہ بيٹے کے قريب صوفے پر بيٹھيں۔ محبت سے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"تمہاری مرغے کی پھر وہی ايک ٹانگ۔۔ ارے ميں ان لوگوں کو ہاں کرچکا ہوں۔۔۔ تم جانتی نہيں کيا ہوگا ميرے ساتھ" وہ دونوں ماں بيٹا کو گھور کر بولے۔
"کيا ہوگا جس سيٹ کے لئے آپ ان کے پيچھے پيچھے پھر رہے ہيں اسمبلی ميں وہ سيٹ نہيں ملے گی۔"
وہ بھی وجاہت چوہدری کا بيٹا تھا باپ کی ايک ايک رمز سے واقف۔
"ميری شادی ميری زندگی کی خوشی کے لئے ہے۔ آپ کے سياسی مفادات اور سودا بازی کے لئے نہيں۔
اور جس لڑکی کو آپ ميرے لئے پسند کرچکے ہيں۔ وہ دو بار ابارشن کروا چکی ہے۔ اور ظاہر ہے شادی تو اس نے ابھی تک کی نہيں" اس کے اس طرح کھلم کھلا سب حقيقتيں بتانے پر صغراء بيگم نظريں چرا گئيں۔
"معذرت کے ساتھ۔ ہم چوہدريوں کا مسئلہ يہ ہے کہ باہر منہ مارنے کے لئے ہميں ہر طرح کی عورت پسند ہے۔ ليکن گھر کے اندر اور اپنی نسل بڑھانے کے لئے ہميں صرف پيور عورت چاہئیے۔ مجھے بھی کچھ ايسا ہی مرض لاحق ہے" وہ دھيمے لہجے ميں ايک سے بڑھ کر ايک وار کررہا تھا۔
"جو لڑکی مجھے پسند ہے۔ افسوس اسکا کوئ خاص حسب نسب نہيں۔ ماں باپ مر چکے ہين۔ کسی رشتے دار کے ہاں پلی بڑھی۔ اور پھر ايک خاص عمر ميں ہاسٹلز ميں رہنا شروع ہوگئ۔ اب اپنا کماتی کھاتی ہے۔ اور بدقسمتی سے آپکے بيٹے کو گھاس نہيں ڈالتی۔ مگر آپ کا بيٹا صرف اسی کی چاہ رکھتا ہے" وہ صاف گوئ سے سب بتاتا چلا گيا۔
"يہ لڑکا مجھے پاگل کردے گا" وہ غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر چکرکمرے ميں چکر لگانے لگے۔
"آپ ٹينشن نہ ليں۔ صبح تفصيل سے بات ہوگی۔ ميرا خيال ہے اتنا ہی شاک کافی ہے آپکے لئے" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوۓ ماں کے ماتھے پر بوسہ دے کر بولا۔
"آپ لوگ بھی ريسٹ کريں۔ ميں بھی تھک گيا ہوں" ان پر ايک نظر ڈال کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
"ديکھ رہی ہو اس بے لگام کو" وہ قہر برساتی نظروں سے اسے اندر جاتے ديکھ رہے تھے۔
"قصور اس کا نہيں۔ وہ سچ کہتا ہے جو ديکھا ہے ويسا ہی کررہا ہے" وہ سادے لہجے ميں بھی بہت گہرا وار کر گئيں۔
"چلئے صبح بات کريں گے" ان سے پہلے وہ سامنے موجود کمرے کی جانب مڑگئيں۔
_______________________
"ارے واہ بھئ ميرے پيچھے سے تو يہاں کا ماحول ہی بدل گيا" وہ تينوں اس وقت کيفے ميں بيٹھيں تھين۔
دو دن سے نشرہ بھی يونيورسٹی آرہی تھی۔ وريد سے وہ ابھی تک صرف غائبانہ متعارف تھی مگر اب اس کو ديکھ کر وہ بھی اسکی تعريف کئے بنا نہ رہ سکی۔
"کيوں تم نے ايسا کيا ديکھ ليا" زرناب اس وقت بک پر جھکی کچھ مارک کررہی تھی۔
"ارے يار سر وريد کيا کسی ہالی ووڈ ہيرو سے کم ہيں" نشرہ کی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔
"ہاں نا يہ تو ہے ہی آدم بيزار" ذروہ نے بھی اسکی ہاں مين ہاں ملائ۔
"اگر سر وريد نامہ بند ہوگيا ہے تو کام کرليں" وہ کتاب ٹيبل ميں رکھتی ان دونوں سے بولی۔
"ويسے مين نے سنا ہے سر وريد نے تمہارا ٹيسٹ پہلے کينسل کرديا تھا پھر تمہيں آفس بلا کر ٹيسٹ کروا ديا" نشرہ کی بات پر اس نے ايک لمحہ کے لئے اسکی جانب ديکھا۔
"ہاں نا۔۔ جب احتشام نے کنفيس کرليا کے چيٹنگ وہ کررہا تھا تو اسے وارننگ دينے کے بعد سر نے مجھے پوچھا ٹيسٹ کے باقی سوال آتے ہين۔ ميں نے کہا آتے ہيں۔ تو سر نے دے ديا يہ کہہ کر کہ آئندہ يہ حرکت نہ ہو" آخری بات کا اضافہ اس نے اپنی جانب سے کيا۔ وريد کا اپنی جانب جھکاؤ وہ اچھے سے محسوس کرچکی تھی۔
اسکی بات پر نشرہ نے محض سر ہلايا۔
آخری پيريڈ کے بعد زرناب نے اسے روکا۔
"کيا ہوا۔ مارج آچکا ہے۔ جلدی نہ پہنچی تو غصہ کرے گا۔ ویسے بھی وہ مکمل طور پر شوہر بن چکا ہے" وہ منہ بنا کر بولی۔
"اچھا ہے نا تمہيں ٹھيک کرکے رکھ دين گے بھائ" وہ اسکی حالت پر مسکرائ۔
"ہاں ہاں تم ہنس لو۔۔۔ جلدی بولو۔۔ بلکہ ايسا کرو ساتھ ہی چلو۔ شام ميں مارج تمہيں ہاسٹل ڈراپ کردے گا" وہ اسکی سنے بنا اپنا ہی پروگرام بنانے لگی۔
"نہيں نشرہ ايسے برا لگتا ہے روز روز جانا۔ تمہاری اور بھائ کی پرائيويسی ڈسٹرب ہوتی ہے" وہ اسے سہولت سے منع کرنے لگی۔
"ہا۔۔۔۔ پرائيويسی۔۔۔ ہم ميں کوئ پرائيويسی نہيں" وہ برا سا منہ بنا گئ۔
"چلو نا" وہ اسے اپنے ساتھ گھسيٹنے لگی۔
"کيسی ہو؟"وہ جو پجيرو سے ٹيک لگاۓ کھڑا تھا۔ ان دونوں کو ساتھ آتے ديکھ چکا تھا۔
زرناب کے قريب آکر سلام کرتے اسکی خيريت پوچھی۔
"ٹھيک ہوں آپ کيسے ہيں؟" مسکراتے لہجے ميں پوچھا۔
پچھلی سيٹ کا دروازہ کھولنے لگی جب نشرہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اگلی سيٹ کی جانب دھکيلا۔
"تم آگے بيٹھ جاؤ" سرگوشی مين کہتے ہی وہ پچھلی سيٹ سنبھال چکی تھی۔
زرناب نے خفت سے مارج کو ديکھا۔ جو کندھے اچکا کر رہ گيا۔
زرناب دانت پيستی اگلی سيٹ پر مارج کے ہمراہ بيٹھی۔
انہيں فليٹ پر اتارتے ہی مارج اپنے کسی کام سے جا چکا تھا۔
"کيا حرکت تھی يہ؟" زرناب نے اسے آڑے ہاتھوں ليا۔
"کيا؟" وہ جان بوجھ کر انجان بنتی چادر اتار کر کچن کی جانب بڑھی۔
"يہی مجھے اگلی سيٹ پر بٹھانے والی۔ وہ تمہاری جگہ ہے نشرہ" وہ اس کسی ناصح کی طرح سمجھا رہی تھی۔
نشرہ نے فريج سے جوس نکال کر گلاس ميں ڈالتے اسکے سامنے رکھا۔
"وہ ميری جگہ نہيں ہے۔ زبردستی مجھے اس پر بٹھايا گيا ہے۔ " اسکے لہجے مين يکدم سنجيدگی اتری۔
"کبھی کبھی کچھ لوگوں کی زندگيوں ميں داخل ہونے کے لئے زبردستی کرنی پڑتی ہے۔ اپنا مقام خود آگے بڑھ کر بنانا پڑتا ہے" وہ دونوں لاؤنج ميں فلور کشنز پر آمنے سامنے بيٹھی تھيں۔
"تمہارا بھائ بہت واضح انداز ميں بتا چکا ہے کہ ميں اسکی پسند نہيں۔۔۔ اور مجھ جيسی لڑکياں اسکی پسند کبھی بھی نہيں رہيں" وہ ياسيت بھرے لہجے ميں سر جھکا کر بولی۔
زرناب کو اسکی آواز ميں نمی کی آميزش محسوس ہوئ۔
" تو کيا ہوا ۔۔۔ نہيں رہی تو اب ہوجاۓ گی۔ تم کوشش تو کرو" وہ اسکے گود ميں رکھے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر گويا اسے حوصلہ دينے لگی۔
"کيسے کوشش کروں۔۔ وہ موقع ہی نہيں ديتا۔ جب واپس آتا ہے تو بس اپنے کمرے ميں گم ہوجاتا ہے۔ کمرے سے باہر آتا ہے کھانا پينا کيا۔ اور پھر اندر بند۔۔ مجھے تو جھوٹے منہ پوچھتا بھی نہيں۔۔ اور وہ وہ ديکھو۔ ايک ديگچی ميں اپنے لئے بنا کر گيا ہے۔ اور دوسری ميں ميں نے اپنا بنايا ہے۔ اس نے آتے ہی کہہ ديا تھا اپنے سب کام ہم خود کريں گے۔ کوئ کسی کا کام نہيں کرے گا" پلکوں سے نمی صاف کرتے کچن مين موجود چولہوں پر رکھی ديگچيوں کی طرف اشارہ کيا۔
"تو تم بھائ کے بنا کہے انکے کام کرديا کرو۔ کم از کم انہيں محسوس تو ہوگا نا کہ تم انکی جانب راغب ہورہی ہو" اسکی بات پر نشرہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے ديکھا۔
"لڑکی اچھی لگتی ہے اظہار ميں پہل کرتی"
"محبت کرنے ميں پہل کرلی تو اظہار ميں کيا ممانعت ہے اور پھر تم انکی بيوی بھی ہو۔ جائز رشتوں ميں يہ نہيں سوچتے محبت ميں کس نے پہل کرنی ہے۔ سودے بازی تھوڑی ہے۔ کہ کوئ کچھ دے تو ہی ہم نے بھی دينا ہے۔ مياں بيوی کے رشتے کی تو خوبصورتی ہی يہی ہے کبھی ايک اظہار کرے اور کبھی دوسرا" زرناب کی بات پر وہ کھوئ کھوئ نظروں سے اسے ديکھنے لگی۔
"بہت پيارا رشتہ ہے يہ نشرہ۔ اسے يوں اپنے اپنے مفروضوں ميں خراب مت کرو۔ اگر بھائ سے محبت ہوگئ ہے تو ضروری نہيں اسکے سامنے جا کر 'آئ لو يو" بولو۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا احساس کرو۔ وہ خود تمہاری جانب متوجہ ہوں گے۔ جن لوگوں نے محروميوں ميں زندگی بسر کی ہوتی ہے نا۔ انہيں رشتوں اور محبتوں کو محسوس کرنے کے لئے کچھ وقت چاہئيے ہوتا ہے۔
مجھے پوری اميد ہے اگر تم سچے دل سے انکی جانب بڑھو گی تو وہ بھی تمہاری طرف متوجہ ہوں گے۔ وہ اوپر سے ہی روبوٹ ٹائپ بنتے ہيں ورنہ بہت احساس کرنے والے ہيں" وہ کتنی جلدی مارج کو سمجھ گئ تھی۔
"تمہيں نہيں پتہ بہت خونخوار ہے وہ۔۔ اففف ۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا غصہ ہے اور ايسے غصے کی مار بڑی زيادہ ہوتی ہے۔ آگ جيسے غصے کو تو پانی کی بوندوں سے بجھايا جاسکتا ہے برف پر تو پانی بھی اثر نہيں کرتا" وہ جھرجھری لے کر بولی۔
"اب تم کہو کہ وہ ايک دم ہی تمہيں بيوی بنا ليں۔ تمہارے آگے پيچھے پھريں تو ايسا کيسے ہوسکتا ہے۔ احساسات ابھی تمہارے بدلے ہيں۔ انہيں تو محسوس کروانا ہے" وہ ہنس کر بولی۔
"ہائے کيوں ہوگئ مجھے ايسے سخت بندے سے محبت۔۔۔ پتہ نہيں کيوں ايکدم اتنا اچھا لگنے لگ گيا ہے" وہ بے چارگی سے بولی۔
"يہی تو نکاح کی تاثير ہے۔۔" وہ محبت سے اسے ديکھتے ہوۓ بولی۔
"ارے ہاں تم نے کوئ بات بتانی تھی" يکدم اپنے مسئلوں سے الجھتے اسے خيال آيا۔
"ميں جس آفس ميں کام کرتی ہوں۔ وہ سر بہت اچھے ہيں۔ مطلب ميرے باس کے فادر۔ صفورہ خالہ کے داماد کے جاننے والے ہيں۔ انہی کی مدد سے مجھے يہ جاب ملی تھی" وہ تمہيد باندھنے لگی۔ نشرہ توجہ سے اسے سن رہی تھی۔
"وہ کم کم آفس آتے ہيں۔ زيادہ تر سر فخر ہی ہوتے ہيں۔ ليکن کل وہ آفس آئے اور انہوں نے مجھے اپنے آفس بلوايا" وہ تفصيل بتانے لگی۔
"پھر؟" نشرہ متجسس ہوئ۔
"وہ چاہتے ہيں کہ انکے بيٹے سے ميں شادی کرلوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صفورہ خالہ کے داماد فيروز بھائ سے ميرے رشتے کی بات کرنا چاہتے ہيں۔ تو مجھے تو کوئ اعتراض نہيں" اس نے بات ختم کرکے نشرہ کی جانب ديکھا۔
"تو تم نے کيا کہا؟" وہ پرجوش ہوئ۔
"يار ميں کيا کہتی ميں نے کہا جيسے آپ کو مناسب لگے"
"ليکن زرناب تم تو ۔۔ ونی ہو۔۔ ميرا مطلب ہے کہ تمہارا نکاح" وہ ہچکچائ جانتی تھی يہ موضوع اسکے لئے بہت تکليف دہ ہے۔
"ميں ونی ضرور ہوئ تھی مگر ايک تو وہ شخص جب اٹھارہ کا ہوا تو اس ملک ميں نہيں تھا اور ميں اسکے آنے سے پہلے وہاں سے بھاگ چکی تھی۔ لہذا نکاح تو ہوا ہی نہيں" اسکی بات پر نشرہ يکدم چونکی۔
"تمہيں کيسے پتہ کے اسکی واپسی ہوگئ ہے؟" اس نے فورا زرناب کی بات ميں سے ايک بات اچک لی۔
"ارے مجھے کہاں سے پتہ ہوگا۔ ميرا کہنے کا مطلب ہے شايد وہ واپس آيا ہو يا نہيں۔ بہرحال ميں تو نکل آئ" اس نے بڑی مشکل سے بات بنائ۔
وہ ہرگز بھی نشرہ کو يہ نہيں بتانا چاہتی تھی کہ جس سر وريد کی تعريفوں ميں وہ آج دنيا جہان ايک کررہی ہے وہ اصل ميں وہی ہے جس کی وہ ونی ہے۔
"ہاں پھر تو رشتہ ہوسکتا ہے۔ ويسے وہ ہے کيسا؟" نشرہ نے اشتياق سے پوچھا۔
"کون؟" زرناب ابھی اسکے پہلے سوال ميں ہی الجھی ہوئ تھی۔ اچھنبے سے پوچھا۔
"ارے يار تمہارا باس۔ فخر۔۔ ويسے ميرے خيال ميں تمہيں مارج سے بات کرنی چاہئيے۔ تمہارے گھر والے ہم ہيں۔ ميرے خيال سے انہيں ہم ہی سے بات کرنی چاہئے" نشرہ کی بات پر وہ لمحہ بھر کو چپ رہ گئ۔
"عجيب لگے گا ميں بھائ سے ايسی بات کروں۔۔ کيا تم بتا سکتی ہو انہيں؟" اس نے مدد طلب نظروں سے نشرہ کو ديکھا۔
"يار۔۔۔۔۔۔ اچھا چلو ميں بات کرتی ہوں" انکار کرتے کرتے وہ حامی بھر گئ۔
____________________________
دو دن ہوگئے تھے صغراء بيگم اور وجاہت چوہدری کو اسکے ساتھ سر کھپاتے مگر اسکی ناں، ہاں ميں بدل ہی نہيں رہی تھی۔ شام کے پہر وہ تينوں لان کی کرسيوں پر بيٹھے چاۓ پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ اسے سمجھانے کا کام بھی کررہے تھے۔
"آپ لوگ کيوں نہيں سمجھ رہے۔ مجھے وہ لڑکی کسی بھی طرح منظور نہيں" وہ جھنجھلايا ہوا تھا۔
"مگر تمہاری پسند کردہ لڑکی کے ساتھ بھی ميں کسی صورت تمہاری شادی نہيں کروا سکتا ہم کيا منہ دکھائيں گے لوگوں کو۔ کہ گاؤں کے چوہدری کسی غريب اور يتيم کے ساتھ اپنے بيٹے کا بياہ کروا رہے ہيں" وہ سخت کبيدہ نظروں سے اسے ديکھ کر بولے۔
"ايک تو مجھے يہ سمجھ نہيں آتی ۔ زندگی ہماری ہے مگر ہميں پرواہ لوگوں کی کرنی ہے" وہ سر جھٹک کر بولا۔
"بيٹے، ہم اس معاشرے سے کٹ کر تو نہيں نہ رہ سکتے" صغراء بيگم نے اسے سمجھانا چاہا۔
"ميں۔۔" اس سے پہلے کے وہ کوئ جواب ديتا کہ اسکا موبائل بول پڑا۔
"ميں ابھی آتا ہوں" ان دونوں کی جانب دیکھ کر وہ وہاں سے اٹھ گيا۔
"سمجھ نہيں آرہی کون ہے۔ جس نے يوں جادو کرديا ہے اس پر" وجاہت چوہدری مونچھوں کو تاؤ ديتے بگڑے ہوۓ لہجے ميں بولے۔
صغراء بيگم خاموش ہی رہيں۔ انہيں تو کوئ اعتراض نہيں تھا وريد کی پسند کردہ لڑکی سے اسکی شادی کروانے پر۔
____________________________
شام ميں مارج گھر آچکا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے زرناب کی ہدايات پر عمل کرتے۔ اپنے اور مارج کے لئے چاۓ بنائ۔
چاۓ کے دونوں کپ ٹرے ميں رکھ کر سينٹر ٹيبل پر رکھتے۔ ہمت مجتمع کرکے اسکے کمرے کے دروازے پر ناک کيا۔
کچھ ہی دير بعد دروازے ميں مارج نمودار ہوا۔
"جی" نظريں جھکی ہوئ تھين۔
"وہ ميں نے ۔۔۔ تمہارے اور اپنے لئے۔۔ چاۓ بنائ ہے پی لو۔۔ کچھ بات بھی کرنی ہے" توڑ توڑ کر بمشکل جملہ پورا کيا۔
مارج نے کسی قدر حيرت سے اپنے سامنے اورنج اور پنک رنگوں کے امتزاج کا سوٹ پہنے اپنی شريک حيات کو ديکھا۔ وہ اس پر نظر بھی بڑی احتياط سے ڈالتا تھا۔ جانتا تھا کہ اسکے قريب بھڑکتا ہوا شعلہ موجود ہے۔ مگر وہ اس شعلے کو تھامنے کی غلطی نہيں کرنا چاہتا تھا۔ راکھ بننے سے ڈرتا تھا۔
"آپ نے ايسے ہی زحمت کی ميں آہی رہا تھا اپنے لئے چاۓ بنانے" سادہ سے لہجے ميں کہی گئ اسکی بات نشرہ کو اتنی بھی سادہ نہ لگی۔
"بيوی ہوں تمہاری اگر ميرے ہاتھ کی بنی کوئ چيز کھا پی لوگے تو مر نہيں جاؤ گے" سب شرم جھجھک بالآئے طاق رکھ کر وہ اسے کھری کھری سنا گئ۔
"مر تو ويسے ہی رہا ہوں روز۔ آپکے تيور ديکھ کر" نچلا لب دانتوں ميں دبا کر مسکراہٹ روکتا وہ اسے پھر سے زچ کررہا تھا۔
"ديکھو مارج" انگلی اٹھا کر کڑے تيوروں سے اسے ديکھا۔
"ديکھنا نہيں چاہتا" ہاتھ سينے پر باندھ کر چوکھٹ سے ٹيک لگائ۔
"کم بخت کے سٹائل ۔۔ اس قدر جان ليوا ہيں" چور نظروں سے اپنے سامنے آف وائيٹ شلوار قميض پہنے ميں فرصت سے کھڑے مارج کو ديکھ کر دل ہی دل ميں بڑبڑائ۔
"ميں چاہتی ہوں کہ ہم يوں دشمنوں کی بجاۓ۔ دوست بن کے بھی تو رہ سکتے ہيں۔ اب زندگی تو ساتھ گزارنی ہی ہے جيسے تيسے بھی صحيح تو کيا ضروری ہے لڑ جھگڑ کر گزاری جاۓ۔ کہيں تم ڈھل جاؤ کہيں ميں ڈھل جاؤں گی" مارج نے اب کی بار اپنی گہری بولتی سياہ آنکھوں سے اسکی جانب ديکھا۔
جيسے يقين کررہا ہو کہ يہ وہی ہے جو حويلی والون ميں سے سب سے زيادہ اسکے خلاف بولتی تھی۔ اسے حقير جانتی تھی۔
"خير سوچتے ہيں۔ آپکی بنائ چاۓ ٹھنڈی ہوجاۓ گی۔ اور آپ کو کچھ بات بھی کرنی ہے مجھ سے" اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ وہ اپنی جگہ چھوڑتا سامنے موجود صوفے کی جانب بڑھا۔
نشرہ بھی گہرا سانس لے کر اپنا مگ ہاتھ ميں لے کے اسکے سامنے فلور کشن پر بيٹھ گئ۔
مارج نے نوٹس کيا تھا وہ جب سے يہاں آئے ہيں۔ وہ اسکے سامنے زيادہ تر نيچے فلور کشن پر بيٹھتی ہے بجاۓ اسکے ساتھ صوفے پر بيٹھنے کے۔ کيونکہ بدقسمتی سے وہاں ايک ہی صوفہ تھا جس پر زيادہ تر مارج ہی بيٹھتا تھا۔
"مجھے زرناب کے حوالے سے تم سے بات کرنی ہے" وہ سنجیدہ لہجے ميں بولی۔
"کيوں کيا ہوا ہے؟" وہ يکدم بری طرح چونکا۔
"جس آفس ميں وہ جاب کرتی ہے وہاں کے باس چاہتے ہيں کہ وہ انکے بيٹے سے شادی کرے۔ وہ زرناب کا رشتہ لے کر آنا چاہتے ہيں" اسکی بات پر وہ کچھ حيران ہوا۔
"يہاں لے کر آنا چاہتے ہيں؟" اس نے مزيد حيرت کا مظاہرہ کيا۔
"يہاں کيسے لے کر آئيں گے۔ انہيں کيا پتہ ميں اور تم اسکے بھائ اور بھابھی ہيں" وہ تيزی ميں پھر سے اس سے جڑے رشتے کا بڑے آرام سے اظہار کرگئ۔
"ميرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔" مارج کی آنکھوں ميں بکھرتے تبسم سے اندازہ ہوا کہ وہ پھر سے بڑے دھڑلے سے اسکے اور اپنے مابين رشتے کا اظہار کرگئ ہے۔
"ہنسنا بند کرو" اپنی خفت مٹانے کو اس پر رعب جھاڑا۔
"ميں کب ہنسا ہوں؟" اس نے حيرانی سے اسکا الزام سنا۔ اسکے لب نہيں مسکرائے تھے مگر آنکھيں۔۔۔۔
"مجھے ڈی ٹريک کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔۔۔۔ اصل بات پر فوکس کرو" وہ پھر سے اس پر چڑھ دوڑی۔
"صاف چھپتے بھی نہيں
سامنے آتے بھی نہيں
خير وہ کہاں رشتہ لے جانا چاہتے ہيں" اس پر گہرا وار کرکے وہ بات سميٹ کر بولا۔
اسکی بات پر وہ بھی تفصيل سے بتانے لگی۔
"ہممم۔۔۔ زرناب کی کس حد تک مرضی ہے" چائے کے مگ کے کناروں پر ہاتھ پھيرتے اس سے بولا۔
"ميرا خيال ہے اسے کوئ اعتراض نہيں ہے۔ ويسے بھی وہ بہت پريکٹيکل بندی ہے۔ محبت وحبت نہيں ہے اسے" مارج جانتا تھا وہ بے باک ہے اور بغير جھجھکے آرام سے ہر بات کرديتی ہے۔
مگر مارج کو اسکا بے جھجھک انداز کچھ کھلا۔ اس نے صرف مرضی جانی تھی وہ محبت کے مسائل بھی بھيچ ميں لے آئ۔
"ميں تايا سائيں سے بات کرلوں پھر ديکھتے ہيں"
"ايک بات پوچھوں؟" وہ کچھ رازداری سے بولی۔
"جی۔۔ مگر سوال ميری ذات سے متعلق نہ ہو؟" وہ پہلے ہی حد بندی قائم کرگيا۔ مبادا اب اسے سے محبت کے حوالے کوئ بے باک سوال کرليتی۔
"اتنے بھی تم اہم نہيں کہ ہر وقت تمہاری ہی باتيں کرتی رہوں" وہ مزے سے اسے چڑا کر بولی۔
"شکر ہے" مارج نے جان بوجھ کر مگ ٹيبل ہر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر شکر ادا کيا۔
"تم جانتے ہو اس لڑکے کو جس سے زرناب ونی ہوئ تھی؟" نشرہ کی بات پر ايک تکليف دہ سايہ اسکے چہرے پر لہرايا۔
"آپ نے کيا کرنا ہے يہ جان کر؟" وہ اسکے سوال پر سوال کرگيا۔
"کيا انہيں کوئ غرض نہيں کہ زرناب کہاں گئ؟ ديکھو نہ ونی يوں بھاگ جاۓ تو يہ کوئ عام بات نہيں ہے" وہ اس سے اپنی حيرت شئير کرنے لگی۔
"اچھا ہے انہيں غرض نہ ہو۔ کم از کم ہماری بہن تو سکون کی زندگی گزارے گی نا" اسکی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئ۔
___________________
"ہاں کيا پتہ چلا" دوسری جانب سے آنے والی ہيلو کے جواب مين اس نے پوچھا۔
"گاڑی کے مالک کا نام مارج ملک ہے" دوسری جانب سے اسے اطلاع دی گئ۔
"اور کچھ"
"جی وہ ملک اياز کا خاص بندہ ہے۔ اور شايد ملک سرفراز کے بھی خاص بندوں ميں اسکا شمار ہوتا تھا۔
ويسے تو گاؤں ميں رہتا تھا۔ مگر حال ہی ميں اسکی شادی ملک اياز کی بيٹی سے ہوئ ہے اور اب يہاں اپنے اپارٹمنٹ ميں بيوی کے ساتھ رہتا ہے" پوری تفصيل سن کر وريد کو بہت کچھ ياد آيا تھا۔
وہ جو نار احسان کے چکروں ميں زرناب ملک کو بھول چکا تھا۔
ملکوں کا نام سنتے ہی اسے دوبارہ اپنا بدلہ ياد آيا۔
"ٹھيک ہے۔ ايک کام کرو پتہ کرو کہ ايک لڑکی نار احسان اسکی بيوی کی دوست ہے۔ اسکے علاوہ اس کا مارج ملک يا اياز ملک سے کيا رشتہ ہے۔ کيونکہ وہ محض اسکی بيوی کی دوست نہيں لگتی" وہ جو دو بار اسے اکيلے مارج کے ساتھ ديکھ چکا تھا۔
وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ نار احسان محض نشرہ ملک کی دوست نہيں۔
"ٹھيک ہے ميں پتہ کرواتا ہوں۔ اور ايک اور بات" وہ جو فون بند کرنے لگا تھا پھر سے فون کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہاں بولو" دوسری جانب موجود شخص کو مزيد بولنے کی اجازت دی۔
"چوہدری صاحب آپکی ونی لڑکی کے ساتھ صفورہ خالہ کے علاوہ ايک اور ملازمہ بھی ہمہ وقت رہتی تھی۔
وہ اب بھی حويلی ميں کام کرتی ہے۔ اس کا نام شاداں ہے۔ شايد وہ بھی اس لڑکی کے بارے ميں کچھ جانتی ہو" وہ کافی دنوں سے حويلی ميں موجود معلومات اکٹھی کررہا تھا۔
"ٹھيک ہے۔ ميں اس ويک اينڈ پر آرہا ہوں۔ ميں آکر اس سے خود اگلواؤں گا۔" آنکھيں سکيڑ کر غير مرئ نقطے کو ديکھ کر بولا۔
"کچھ تو تمہارا کنيکشن ہے ملکوں سے" اسے يکدم نار احسان کی شخصيت پر اسرار سی لگی۔ اور اس شخصيت کے پيچھے کيا اسرار تھا وہ اب اسے ہر حال ميں جاننا تھا۔
"وہ زرناب تک پہنچ چکا ہے" نشرہ کو يونيورسٹی ڈراپ کرکے وہ سيدھا ملک اياز کے پاس پہنچا تھا۔
انہيں شہر کے قريب کے ايک قصبے ميں بلايا تھا جہاں ان کا فارم ہاؤس تھا۔
"وہ نار احسان تک پہنچا ہے زرناب تک نہين" وہ اسکی تصحيح کرتے ہوۓ بولے۔
"اور آجکل وہ زرناب کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ ميری گاڑی کا نمبر بھی پتہ کروا چکا ہے" وہ نہ صرف زرناب سے باخبر تھا بلکہ اسکے دشمن سے بھی اتنا ہی باخبر تھا۔
"تو پہنچنے دو۔ وہ کچھ نہيں کرسکتا" انہوں نے اسکے اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کی۔
"وہ بہت گھٹيا شخص ہے اگر اسے معلوم ہوگيا تو کہيں وہ اسے نقصان نہ پہنچائے" اسکے چہرے سے پريشانی واضح ٹپک رہی تھی۔
"زرناب کا ہاسٹل ميں رہنا ٹھيک نہيں ہے۔ " وہ اپنے خدشات بيان کررہا تھا۔
"وہ جتنا بھی گھٹيا ہو وہ نار احسان کو نقصان نہيں پہنچاۓ گا" سگار کا کش ليتے وہ اطمينان سے بولے۔
کيسے ہوسکتا تھا کہ کل کا بچہ (مارج) تو اپنی بہن سے باخبر ہو اور وہ اپنی بيٹی سے باخبر نہ رہيں۔
ہميشہ ملک سرفراز سے بڑھ کر اسے چاہا تھا۔ وہ انہوں اپنی پرسکون اور تنگ نہ کرنے والی طبيعت ہے باعث ويسے ہی بہت پياری تھی۔ اسکے ونی ہونے پر وہ بہت روۓ تھے۔
مگر اس وقت وہ اتنے بے بس تھے کہ ايسی رسم کے خلاف نہيں بول سکتے تھے۔
انکی اپنی بيوی ونی ہوکر آئيں تھيں۔ وہ الگ بات تھی کہ انہوں نے انہيں بيوی کا درجہ ديا تھا۔ باقاعدہ نکاح کيا تھا۔ ليکن جب وہ ونی لے کر آئے تھے تو کيسے ونی کی رسم کو تب روک پاتے۔
"آپ کيا کہنا چاہ رہے ہيں" وہ سمجھ کر بھی انکی بات سمجھنا نہيں چاہتا تھا۔ دل کہہ رہا تھا يہ جھوٹ ہو جو وہ سوچ رہے ہيں۔
"وہ اپنے ماں باپ کے سامنے زرناب عرف نار احسان سے شادی کا کہہ چکا ہے۔ نہ صرف کہہ چکا ہے بلکہ لڑ رہا ہے" وہ مسکراتے ہوۓ اسے ديکھنے لگے۔
"مجھے وريد کی ايک عادت بہت پسند ہے۔۔۔۔ وہ جتنا بھی برا صحيح۔۔ شرابی۔۔۔ اور عورتوں کے پيچھے والا صحيح مگر جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو پوری جی جان سے کرتا ہے۔ چاہے پھر وہ اسکی ماں ہی کيوں نہ ہو يا نار احسان" وہ ششدر انکی باتيں سن رہا تھا۔
"آپ يہ سب کيسے جانتے ہيں؟" اس نے تو اپنے کچھ خاص بندے اسکے پيچھے لگا رکھے تھے۔ مگر تايا سائيں اس سے بھی زيادہ باخبر کيسے تھے۔
"وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔ اسے ابھی اس عشق کی آگ ميں جلنے دو۔ يہ ميرا دعوی ہے کہ وہ نار احسان کو کبھی کوئ نقصان نہيں پہنچاۓ گا۔ اور جہاں مجھے ذرا سا بھی شک گزرا۔۔۔ تم سے پہلے ميری بندوق کی گولی سے وہ مرے گا" انکے لہجے ميں يک لخت چٹانوں کی سی سختی در آئ۔
"اور جب وہ زرناب کے بارے ميں جان لے گا۔۔ آپ کيوں چاہتے ہيں کہ وہ زرناب تک پہنچ جائے" اسکا بس نہيں چل رہا تھا کہ زرناب کو وريد کی نظروں سے کہيں چھپا لے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ انسان نہيں درندہ تھا جس نے دس سال کی عمر ميں اسے مارنے سے دريغ نہين کيا تھا ۔۔۔۔ اب توانا مرد بن کر وہ کيسے اسے نقصان نہ پہنچاتا۔
مگر ملک اياز نجانے يہ بات کيوں نہيں سمجھ رہے تھے۔
"کيونکہ يہ زرناب کی خواہش ہے۔۔ کہ وہ اپنی پوری کوشش کرے اور پھر اس تک پہنچے۔۔ اس ميں اسکی کيا مصلحت ہے ميں بھی تمہاری طرح انجان ہوں۔ ميری بيٹی نے آج تک مجھ سے کچھ نہيں مانگا مگر يہ خواہش اس نے بڑی چاہ سے کی ہے" ان کی بات پر وہ حق دق انکا چہرہ ديکھ رہا تھا۔
يعنی زرناب نے اس سب کے بارے ميں براہ راست ملک اياز سے بات کی تھی۔
"زرناب نے جيسے ہی اسے پہچانا تھا اس نے مجھے فون کرکے سب بتا ديا تھا" وہ اب ايک راز سے پردہ ہٹا رہے تھے مگر ابھی بہت سے راز جاننے باقی تھے۔
وہ جانتا تھا کہ جب ملک اياز کی مرضی ہوگی تبھی وہ بتائيں گے۔ لہذا انہيں کريدنا بے وقوفی ہے۔ اسی لئے وہ چپ چاپ ان سے اجازت لے کر چلا گيا۔
___________________________
وہ کچھ دير پہلے ہی کلاس لے کر اپنے آفس آيا تھا جب کچھ دير بعد وہ بھی اسکے پيچھے اسکے آفس ميں موجود تھی۔
اس رات کے فنکشن کے بعد آج وہ دونوں آمنے سامنے ہوۓ تھے۔ وريد تو اس دن کے بعد سے اسکے چہرے کے سحر سے باہر نہ آسکا تھا۔
"مے آئ کم ان سر" دروازہ ناک کرکے وہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔
اسکی مترنم آواز وريد کے دل پر پھوار کی صورت برسی تھی۔
"يس پليز" اندرآنے کی اجازت ملتے ہی وہ اسکی ٹيبل کے سامنے آکر کھڑی ہوئ۔
انداز کچھ لڑنے کا سا تھا۔
"کيا ميں پوچھ سکتی ہوں اس دن احتشام کو آپ نے کيا کہا تھا؟" وريد نے کچھ ناسمجنے والے انداز ميں اسکی خوبصورت آنکھوں کی جانب ديکھا جو نقاب سے نظر آتيں اسکے دل کو روز ايک نئے ہی انداز سے گھائل کرتی تھيں۔
"کس دن؟" وہ تو اسے روبرو ديکھ کر ہر چيز فراموش کرجاتا تھا۔ پھر احتشام کيونکر ياد رہتا۔
"جس دن ٹيسٹ کے دوران آپ نے اسے چيٹنگ کرتے پکڑا تھا اور آفس بلوايا تھا" وہ زور دے کر بولی۔
"کچھ بھی نہيں بس يہی کہا تھا کہ آئندہ ايسا نہ ہو" اسے بس اتنا ہی ياد رہا تھا۔
"نہيں سر۔۔ آپ نے صرف يہ نہيں کہا تھا۔ آپ نے اسے مجھ سے دور رہنے کا کہا تھا۔ کيا ميں پوچھ سکتی ہون کہ کيوں۔۔ اور کس حوالے سے آپ نے اسے يہ وارننگ دی" اسکی آواز اونچی نہيں تھی۔ مگر سخت لہجہ اسکے شديد غصے کا پتہ دے رہا تھا۔
"وہ اچھا انسان نہيں ہے۔۔ کچھ خاص اچھی کمپنی نہيں ہے اسکی اسی لئے وارن کيا تھا" وہ کرسی کے ساتھ ٹيک لگا کر فرصت سے اسے ديکھ رہا تھا۔
"تو پھر يہ بات آپ کو اسے سب لڑکيوں کے حوالے سے کہنی چاہئيۓ تھی۔۔۔ آپ نے ميرا نام لے کر مجھے اسکينڈلائز کر ديا ہے" يکدم وريد کو اسکی آنکھوں ميں نمی دکھائ دی۔
اسکے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے۔
"کہاں ہے وہ؟" مٹھياں بھينچے وہ غصے سے کھڑا ہوا۔
"پليز بہت مہربانی آپ کی مزيد ميرے لئے کچھ اچھا مت کيجئے گا۔ ميں صرف يہ کہنے آئ ہوں کہ مجھے کسی کے ساتھ بھی يوں آئندہ مت گھسيٹئيے گا۔ جيسے وہ کلاس کی سب لڑکيوں سے بات کرتا ہے ويسے ہی اس نے مجھ سے بھی کرلی۔ آپ کا يہ سب کہنا بنتا نہيں تھا۔" وہ آنسو پيتی اسے بہت کچھ سمجھا گئ۔
"اور اگر مين ايسا نہ کروں؟" اسے مڑتے ديکھ کر وہ سوال اٹھا گيا۔
"ميرے اور اپنے درميان اس استاد اور شاگرد کے رشتے کے تقدس کا تو خيال کرليں" وہ تلخی سے بولی۔
"کہاں لکھا ہے کہ ايک استاد اپنی شاگرد سے شادی نہيں کرسکتا" اسکی بات پر وہ جو اسکی جانب ذرا سا رخ کئے بول رہی تھی پوری کی پوری اسکی جانب مڑی۔
"آئ وانٹ ٹو ميری يو؟" بغير کوئ دوسری بات کئے وہ اسکے سر پر بم پھوڑ چکا تھا۔
"ہاؤ ڈئير يو" وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے ديکھ رہی تھی۔
"واٹ ڈو يو مين بائ دس۔۔۔۔ کسی سے شادی کا اظہار کرنے ميں کيا برائ ہے۔۔۔ يا گناہ ہے؟" اسکا انداز وريد کو ناگوار گزرا۔
"ايکسکيوزمی سر۔۔۔ آپکے دوست سر فخر کا رشتہ ميرے لئے آچکا ہے۔ اور بہت جلد مين اسکے لئے ہاں بھی کرنے والی ہوں" وہ بڑے اطمينان سے اب اسکے سر پر بمباری کر رہی تھی۔
"آپ ايسا کچھ نہيں کريں گی" وہ جبڑے بھينچ کر بمشکل خود پر ضبط کرتا بولا۔
"اور ميں ايسا کيون نہيں کروں گی" اسکی آنکھيں اسے خود کا مذاق اڑاتی لگيں۔
"اسی لئے کہ وہ آپکے ساتھ سنسئير نہيں ہے۔ وہ مجھے بتا چکا ہے۔ وہ کہيں سے بھی آپ کو سوٹ نہيں کرتا" وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
"احتشام برا لڑکا ہے۔ سر فخر برے ہيں۔۔۔ نہ وہ مجھے سوٹ کرتے ہيں نا يہ۔۔۔ تو کيا آپ اتنے ہی اچھے انسان ہيں کہ آپ مجھے سوٹ کرتے ہيں؟" نقاب سے جھانکتی آنکھيں اسکا امتحان لے رہی تھيں۔
"جی۔۔۔ کيونکہ وہ دونوں آپ سے محبت کے دعوے دار نہيں اور ان ميں اور مجھ ميں يہی سب بڑا فرق ہے کہ ميں آپ سے محبت کرتا ہوں" چند قدم اٹھا کر وہ اسکے مقابل آيا۔ دونوں بازو سينے پر باندھے۔
"کتنے دن کے لئے؟" وہ بھی زرناب تھی۔ اسے پوری طرح جانتی تھی۔
"ميری اب تک کی جو بھی زندگی تھی ميں اسے چھوڑنے کو تيار ہوں" بڑے مزے سے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کيا۔
"آپ مجھے اس وقت ايسے شخص کی طرح لگ رہے ہيں جو کسی مسلمان عورت سے شادی کرنے کے لئے خود کو مسلمانوں کے روپ ميں ڈھال ليتا ہے۔ اور جب وہ مل جاۓ تو واپس اپنا چولا پہن ليتا ہے۔۔۔ خود پر جبر مت کريں۔۔ ميں آپ کے قابل نہيں۔۔ آپ اپنے جيسی لڑکی ڈيزرو کرتے ہيں" استہزائيہ انداز ميں اسے آئينہ دکھا کر مڑنے لگی۔
جب اس کا بازو وريد کی گرفت ميں آگيا۔
غصے سے بازو چھڑوايا۔
"آئم سوری" وہ اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا۔
"يو شوڈ بی" وہ دانت پيس کر بولی۔
"پليز ميری بات تحمل سے سن لو۔۔۔ پليز نار" وہ ملتجی انداز ميں بولا۔
کيا يہ وہی وريد تھا جو بچپن ميں اسکے وجود کو اتنا مارتا تھا کہ وہ ادھ موئ ہوجاتی تھی۔ اور آج وہ اسکے آگے گڑگڑا رہا تھا۔ کيا خوب انصاف کيا تھا اللہ نے۔ وہ يہی ديکھنا چاہتی تھی۔ اسی لئے اس نے ملک اياز سے کہا تھا کہ اسکی اصليت اسکے سامنے آئے۔ اور پھر وہ ديکھے کہ جس نار احسان سے وہ محبت کا دعوے دار ہے زرناب کو ديکھتے ہی کيا کرے گا۔
ابھی اسکی ايک خواہش پوری ہوئ تھی۔ وريد چوہدری کو اپنے سامنے گڑگڑاتے ديکھنے کی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے محبت کر بيٹھا ہے۔ وہ اسی لئے فخر والے رشتے کے لئے حامی بھر رہی تھی۔ کہ ساری زندگی وہ اسے تڑپاۓ۔۔۔ جب جب وہ فخر سے ملے۔۔ اسکی بيوی کی حيثيت سے نار احسان کو ديکھ کر شعلوں کی زد ميں آئے۔
"آپ ميرے بارے ميں جانتے ہی کيا ہيں۔ جو اتنا بڑا دعوی کر رہے ہيں" وہ اسکی حالت پر محظوظ ہوئ۔
"سب کچھ جانتا ہوں تمہارے بارے ميں اور مجھے تمہارے بيک گراؤںڈ سے کوئ مسئلہ نہيں۔۔ تمہارا ميری طرح اونچا خاندان نہيں ہے مجھے اس سے بھی کوئ فرق نہيں پڑتا مجھے صرف تم چاہئيے ہو" وہ کسی بھی صورت اسے منا لينا چاہتا تھا۔
اپنے احساسات اس تک پہنچا دينا چاہتا تھا کہ وہ بھی اس آنچ کو محسوس کرے۔
"پليز سر۔۔۔ اپنے مقام سے اتنے نيچے مت آئيں۔ يہ آپ کو سوٹ نہيں کرتا مجھ سے دور رہيں تو بہتر ہے ورنہ کہيں پچھتانا نہ پڑے" اسکی راز سموئے گہری سوگوار نظريں وريد کو منجمد کرگئيں۔
اسکی مزيد کچھ بھی سنے بنا وہ اسکے آفس سے جا چکی تھی۔
_________________________________
اسکے آفس سے باہر نکل کر وہ روتے ہوۓ سيڑھياں اتر کر يونيورسٹی کے قدرے خاموش اور کم رش والے حصے کی جانب آئ۔
وہ اس وقت کسی کا سامنا نہيں کرسکتی تھی۔ اور اس طرح روتے ہوۓ تو کبھی بھی نہيں۔
اسے لگا تھا اسکے ايک ايک زخم پر وريد کے لفظوں نے پھاۓ رکھے ہوں۔ اسکا ہر گڑگڑاتا لفظ۔۔۔
اسکے لئے ترستا ہر احساس۔۔
اسکے زخموں کو سی گيا تھا۔
کيا عجيب تھا زخم دينے والا ہی مسيحا بنا تھا۔
نقاب گراۓ وہ چہرہ ہاتھوں ميں دئيے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اس نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ وہ شخص ايک بار اسکی زندگی ميں اسکے سامنے آئے اور وہ اس سے بدلہ لے سکے۔
اور اس سے بہترين بدلہ کيا تھا کہ وہ جو اسے اپنی نفرت کا نشانہ بناتا رہا تھا۔
آج اس کی محبت کے لئے کاسہ پھيلاۓ بھيک مانگ رہا تھا۔
کيا خوب انصاف کيا تھا اللہ نے۔
مگر نہيں ابھی وہ صرف نار احسان کے سامنے گڑگڑايا تھا۔
يہ سوچ آتے ہی وہ روتے روتے خاموش ہوئ۔ اپنے آنسو سختی سے گالوں سے رگڑے
"اب تمہيں زرناب کے آگے بھی يوں ہی گڑگڑانا ہوگا۔۔ ابھی ميرا بدلہ پورا نہيں ہوا وريد چوہدری۔
تکليف اور اذيت تم نے زرناب کو دی تھی۔۔ تو معافی بھی اسی سے ملے گی۔ محبت اور دھتکارنے کا حق بھی زرناب کو ہے نار احسان کو نہيں۔۔ يہ ۔۔۔ يہ نار تو کٹھ پتلی ہے۔ اصل کردار کے سامنے تمہيں آنا ہوگا۔" آنسو صاف کرتے وہ سفاکی سے سوچ رہی تھی۔ وريد چوہدری سے مخاطب تھی۔
"مگر اتنی جلدی نہيں۔۔ ابھی نہيں۔۔ ابھی تم اور تڑپو نار احسان کی محبت ميں۔۔ پھر زرناب کے عشق ميں تڑپتا ہوا تمہيں ديکھوں گی۔ تو کہيں اس دل اور وجود کی اذيتيں کم ہوں گی۔۔۔ تم بے رحم تھے تو ميں بھی اب بے رحم ہوں۔
تمہی سے يہ گر سيکھا ہے" وہ سامنے ديکھتے مسلسل اسکے ہيولے سے مخاطب تھی۔
اور پھر کبھی کبھی کسی سے ملنے والے دکھ اس قدر جان ليوا ہوجاتے ہيں کہ انسان پتھر بن جاتا ہے۔ شايد زرناب بھی پتھر بن چکی تھی۔ جس پر وريد کی محبت شايد کبھی اثرانداز نہيں ہونے والی تھی۔ اور يہی شايد وريد کی سزا تھی۔
_________________________
رات ہی وہ وريد کے بارے ميں آگاہ ہوا تھا۔ اپنی پريشانی ميں صبح اپنا کھانا بنانا ياد نہ رہا۔
ملک اياز سے ملنے کے بعد نشرہ کو يونيورسٹی سے پک اور پھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ واپس اپنے آفس جا چکا تھا۔
کوئ نہيں جانتا تھا کہ ملک اياز نے بہت پہلے مارج کو ملک سرفراز کے حصے ميں سے کچھ جائيداد دے دی تھی۔
جسے بيچ کر وہ شہر ميں اپنا کاروبار شروع کرچکا تھا۔ اب وہ ملک اياز کا محتاج نہيں تھا۔
مگر وہ پھر بھی انکے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ کچھ دن وہ شہر ميں اس اپارٹمنٹ ميں بہت عرصے سے رہ رہا تھا۔
اور کچھ دن وہ ملک اياز کے پاس انکی حويلی رہتا تھا۔ اپنے بيٹوں سے زيادہ اپنے معاملات کے لئے وہ اس پر انحصار کرتے تھے۔ وہ بھی انہيں باپ کا سا مان ديتا تھا۔
رات ميں جس وقت وہ اپنے اپارٹمنٹ واپس آيا۔ نشرہ اسکے اور اپنے لئے کھانا بنانے ميں مگن تھی۔
کچن کے قريب آکر اسے سلام کيا۔
"تم چينج کرلو۔ کھانا ريڈی ہے" وہ مصروف سے انداز ميں بولی۔
مارج نے چونک کر اسے ديکھا۔
"آپ نے کيوں بنايا ميرے لئے؟" اسکی بات پر نشرہ نے غصے سے ديگچی کا ڈھکن واپس رکھا۔ مڑ کر کڑے تيور لئے اسکے قريب آئ۔
"اگر ميں چيزوں کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں تو تمہيں کيا مصيبت ہے" دونوں ہاتھ کمر کے دائيں بائيں رکھے وہ اس سے پوچھ گچھ کررہی تھی۔
"مجھے اتنی عنايتوں کی عادت نہيں بی بی" وہ صبح سے ڈسٹربڈ تھا اس لمحے اسے تنگ يا زچ نہيں کرنا چاہ رہا تھا۔ سادے سے لہجے ميں اپنا مسئلہ بيان کيا۔
"مجھے بھی يہ سب کرنے کی عادت نہيں تھی مگر کر رہی ہوں۔۔۔ اس دن بھی کہا تھا کچھ تم ڈھلو کچھ ميں ڈھل جاؤں گی۔ زندگی آسان ہوجاۓ گی۔ ميں اتنی بری نہيں مارج۔۔جتنا تم مجھے سمجھتے ہو" اپنی صفائ ديتے آنکھيں نم ہوئيں۔ جنہيں اس بے حس سے چھپانے کے لئے وہ نظريں جھکا گئ۔
"يہی پوچھ رہا ہوں آپ کيوں ڈھل رہی ہيں۔ مين آپکا معيار نہيں ہوں بی بی۔ نہ کبھی ہو سکتا ہوں۔ ميں اس حقيقت سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ آپ خود کو يوں ہلکان مت کريں۔ اپنی پڑھائ کريں۔ پھر جس سے چاہيں گی۔ ميں خود آپکی شادی کرواؤں گا۔ اس وقت صرف اسی لئے چپ ہوں کہ آپ اپنی پڑھائ مکمل کرليں۔ اور ملک سائيں کو بھی ابھی ميں کسی اذيت سے گزرانا نہيں چاہتا۔
کچھ عرصے بعد آپ کو چھوڑنے اور آپکی شادی کہيں اور کروانے کے لئے ميں انہيں قائل کر لوں گا" وہ حيرت سے منہ کھولے اسکے نادر خيالات سن رہی تھی۔
"تم۔۔۔۔" غصے سے اسکے بازو پر ہاتھ مار کر اسے خاموش کروايا۔
"تم اس قابل نہيں کہ تمہارے لئے انسان کچھ سوچۓ۔۔ تم کيا سمجھتے ہو۔ اگر مجھے کسی اور سے شادی کرنی ہوگی تو تمہارے لئے يوں خوار ہوں گی" وہ چيخی۔
"ميں نے اسی لئے آج آپ کو سب بات کلئير کردی ہے۔ اگر آپ يہ سمجھتی ہيں کہ ملک سائيں کی وجہ سے آپ مجبور ہيں۔ تو ميں مجبور نہيں ہوں۔ ميں آپ کی ہر طرح کی مدد کے لئے تيارہوں" وہ بے چارگی سے بولا۔
کيسے سمجھاۓ اسے کہ وہ اپنی اوقات جانتا ہے۔ اور اس سے باہر نکلنے کا وہ سوچ بھی نہيں سکتا۔ وہ کيسے اسے
بيوی بنالے جس نے اپنے لفظوں سے ہميشہ اسے گھائل کيا ہے۔
ابھی شايد وہ اس تنہائ اور اس رشتے کے زير اثر اسے وہ مقام دے دے۔ مگر کيا گارنٹی ہے جب اس نام نہاد محبت کا خمار اترے تو وہ واپس اسے زمين پر لا پٹخے۔
"تم جيسے مرد نا۔۔ مرد کہلانے کے لائق نہيں۔۔ جو اپنی عورتوں کو دوسروں کو دينے کے لئے تيار بيٹھے ہوں" وہ غصے ميں اسکی غيرت کو نشانہ بنا گئ۔
"بی بی" مارج دھاڑا۔
"تمہيں نظر نہيں آرہا ميں يہ سب کيوں کررہی ہوں۔۔ تم بدلے لينے چاہتے ہونا مجھ سے۔ ميں جو تمہيں ہر لمحہ ذليل کرتی تھی۔ تم اس سب کا بدلہ لے رہے ہونا مجھ سے ۔۔۔ تم جانتے ہو کہ ميں محبت کربيٹھی ہوں تم سے۔۔ تم جان بوجھ کر مجھے اور نيچا کرنے چاہتے ہونا" يکدم وہ شدت گريہ سے رو پڑی۔
"ايسا نہيں ہے بی بی۔۔ آپ سمجھ نہيں رہيں۔۔ آپ جسے محبت کہہ رہی ہيں۔ وہ شايد انسيت ہے جو دو لوگوں کو ايک ساتھ رہتے ہو جاتی ہے۔۔ جب اس محبت کی پٹی آپکی آنکھوں سے اترے گی۔ تب ميں آپ کو وہی مارج نظر آؤں گا۔
آپکے باپ کے ٹکڑوں پر پلنے والا ناجائز مارج" وہ وہی الفاظ دہرا رہا تھا جو وہ کبھی اسکے لئے استعمال کرتی تھی۔
"محبت کی پٹی۔۔۔ مقصد کيا ہے تمہاری اس بکواس کا"آنسو پونچھے وہ اسکا اور بھی امتحان لے رہی تھی۔
وہ اسے کيسے بتاتا نکاح نے اسکے دل پر بھی اثر کيا ہے۔ مگر وہ اس اثر کے زير اثر زيادہ دير رہ کر اسے حاصل نہيں کرنا چاہتا تھا۔ اپنی حد و قيود سے نکلنا نہيں چاہتا تھا۔ اور وہ تھی کہ امتحان بنی اسکے نزديک سے نزديک تر ہوتی جارہی تھی۔
کہيں دل کی دھڑکنوں ميں وہ بسنے لگی تھی۔ مگر وہ دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کروا رہا تھا۔
"تم سمجھتے ہو تم کوئ بہت خوبصورت انسان ہو کہ تمہاری خوبصورتی سے متاثر ہو کر ميں تمہارے عشق ميں پاگل ہوچکی ہے" نشرہ اپنی محبت کی يہ توہين برداشت نہ کرپائ۔
"ہاں ميں مانتی ہوں کہ ميری جانب سے تمہيں سب سے زيادہ تکليف پہنچی۔ مجھے حقيقت کا علم نہيں تھا۔ اسی لئے پھوپھو سائيں اور دادی اور اردگرد کے لوگوں سے جو سنا اسے سچ سمجھ بيٹھی ليکن۔۔۔ جب حقيقت کھلی تو جانا کہ انسان کو اسکے انسان ہونے پر برتنا چاہئے۔ اسکے خاندان اور حسب نسب پر نہيں۔ ميں بھی ان سطحی لوگوں ميں سے تھی جن کے لئے خاندان،، اسٹيٹس يہی سب اول درجہ رکھتے ہيں۔
مگر اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ يہ سب تو کہيں بعد ميں آتا ہے۔ تم بحيثيت انسان بے حد اچھے ہو۔ اور تمہاری اس اچھائ نے مجھے تمہاری جانب راغب کيا ہے ۔
تم نے ايک بار بھی مجھے صائم کے حوالے سے کوئ طعنہ نہيں ديا۔ کسی مرد کے لئے يہ بات ہی عزت بے عزتی سے کم نہيں ہوتی کہ وہ ايسی عورت سے شادی کرے جو کسی اور کے نام سے کبھی بدنام ہوئ ہو۔
مگر تم نے يہ سب برداشت کيا۔
تمہاری اسی بات نے مجھے تمہارا گرويدہ بنايا۔ حالانکہ صائم سے مجھے کو عشق اور محبت نہيں ہوئ تھی۔ وہ تو صرف اس بزدل کی باتوں کی سچائ کو جانچنے کے لئے اسکے گھر جا پہنچی۔ يہ سوچے سمجھے بغير کہ اس حرکت سے ميری ذات پر کيا حرف آچکا ہے۔
مگر تمہيں ميری اتنی بڑی خامی سے کوئ فرق نہيں پڑا۔" مارج خاموش اسے سن رہا تھا۔ اسے يہ يقين کرنے ميں دقت محسوس ہورہی تھی۔ کہ نشرہ بی بی اسکی اچھائياں اسکے سامنے گنوا رہی تھيں۔
"ميں جانتی ہوں تم نے اباسائيں کی محبتوں کا قرض اتارا ہے مجھ سے شادی کرکے۔ مگر مرد قرض اتار کر بھی لوگوں پر احسان جتانا نہيں بھولتے۔ تم کس مٹی سے بنے ہو مارج۔۔ روز مجھے اپنا ايک نيا روپ دکھاتے ہو۔ روز گرويدہ بناتے ہو۔۔ تم جادوگر ہو۔۔ مجھے اپنے بس ميں کرکے مزہ لينا چاہتے ہونا ميری تڑپ کا" غصے سے اسکے چوڑے سينے پر مکے مارے۔ آنکھوں سے جل تھل رواں تھی۔
"بی بی" وہ آگے بڑھ کر اسکے آنسو پونچھنا چاہتا تھا۔ مگر خود کو پھر کيسے معاف کرتا جو نشرہ کو محبت کی اس تکليف سے دوچار نہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ نہيں چاہتا تھا اسے چھوڑنا مارج کے لئے تکليف دہ ہو۔ اس نے زندگی ميں بہت سی تکليفيں ديکھيں تھيں۔ مگر محبت کے اس ناسور سے وہ دور ہی رہنا چاہتا تھا۔
اپنی ماں کو اس تکليف ميں دن رات مرتے ديکھا تھا۔ تبھی سے خود سے عہد کرليا تھا کہ خود کو کبھی محبت کےقريب بھی پھٹکنے نہيں دے گا۔
ان بادشاہون کا کيا ہے۔ کسی کو تکليف ميں مبتلا کرکے يہ چھوڑ جاتے ہيں۔ وہ نہيں چاہتا تھا کہ کل کو جب نشرہ کو اپنی محبت غلطی لگے تو وہ اسے بھی ايسے ہی چھوڑ جاۓ جيسے اسکے ماں کو اسکا باپ چھوڑ گيا تھا۔
"دفع ہوجاؤ تم ۔۔۔ تم اس قابل نہيں کے ميں تمہارے لئے اس انداز سے سوچو" روتےبکھرتے بھی جب اسے اپنی جگہ جمے ديکھا تو منہ موڑ کر سينک کے قريب گئ۔ منہ پر چھينٹے مار کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ مگر محبت کی يہ آگ کب کسی کو پرسکون ہونے ديتی ہے۔
مارج نے آگے بڑھ کر چولہا بند کيا۔
ڈش ميں بريانی نکالی جو وہ اسکے اور اپنے لئے بنا چکی تھی۔
نشرہ نے مڑ کر اسکی جانب نگاہ غلط بھی نہيں ڈالی۔
ڈش لے جا کر ٹيبل پر رکھی۔ پليٹيں اور چمچ وہ پہلے ہی رکھ چکی تھی۔
آہستہ روی سے چلتا اسکی پشت پر جا کھڑا ہوا۔
بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کيا۔
وائيٹ اور بلو رنگوں کے امتزاج کا نيٹ کا سوٹ پہنے سوجی آنکھيں اور بکھرا حليہ لئے وہ اسے گھور رہی تھی۔
"ميں نے کبھی نہيں چاہا تھا آپ مجھ سے ايسا کوئ تعلق جوڑيں۔ ميں نے کبھی ايسی کوشش نہيں کی کہ آپ مجھ سے محبت ميں مبتلا ہوں۔ آہاں۔۔۔۔۔ مجھے کہنے ديں" اسے منہ کھولتا ديکھ کر وہ اسکے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر بولا۔
اس لمس سے وہ جی جان سے کانپ گئ۔ اسکا گلنار چہرہ ديکھ کر مارج نے فورا انگلی ہٹائ۔
اسکے ہونٹوں کا ااپنی انگلی کی پور پر ابھرتا لمس اسکے لئے بھی جان ليوا ہی تھا۔
"ميں اس محبت کے واقعی قابل نہيں۔۔۔ ابھی کچھ وقت گزرنے ديں۔ خود کو پرکھيں۔۔۔ ميں يکدم اس رشتے کو نہيں بڑھا سکتا۔ اتنا مضبوط اعصاب کا مالک نہيں۔ ابھی تو آپکے نام کے ساتھ اپنا نام جڑا ديکھ کر ہی دل اس سب پر يقين کرنے کو تيار نہيں۔۔ آپکی محبت کا بار نہيں سنبھال سکتا۔
ہاں يہ کوشش کرسکتا ہوں کہ آپ اور ميں دوستوں کی طرح رہيں۔۔ مگر ميں ٹہرا پتھر دل۔۔ اسی لئے ابھی اس پتھر کو موم ہوتے وقت لگے گا۔ تب تک صرف اتنی سی درخواست ہے۔ خود پر ظلم نہ کريں۔
آپ بری نہيں ہيں۔ آپ کو ہميشہ محبت اور اعتماد ہی اتنی ملی کہ آپ نے بس اسکا ناجائز فائدہ اٹھا ليا۔ ورنہ آپکی شرافت پر کوئ شک نہيں۔
ميں جانتا ہوں صائم والا معاملے ميں آپ اتنی قصوروار نہيں ہيں۔ اسی لئے ميں نے ہی ملک سائيں کو بتايا جانتا تھا کہ آپ صرف اسکی چکنی چپڑی باتوں ميں آگئيں ہيں۔
ورنہ آپکا معيار دس لڑکيوں کو بھگتايا ہوا شخص نہيں ہوسکتا تھا۔ اسی لئے آپ کو ٹھوکر لگنے سے پہلے بچانے کی ادنی سی کوشش کی اور آپکی نفرت کا رخ اپنی جانب موڑ ليا" دھيمے لہجے ميں بولتا وہ نشرہ کی دل کی دھڑکنيں بڑھا رہا تھا۔
اور پھر آنکھوں کا نرم گرم تاثر۔۔۔ وہ اسکی محبت ميں مبتلا نہ ہوتی تو کیا کرتی۔
تير چلانے کے گر رکھتے ہوۓ بھی وہ معصوم بنتا تھا کہ اس نے اسے محبت ميں مبتلا کرنے کی کوئ کوشش نہيں کی۔
"خير۔۔ ميں کم ظرف مرد نہيں جو آپ کو ايسے گھٹيا طعنے دوں۔۔۔ ميں اپنا مقام اچھے سے جانتا ہوں۔
بس آپ سے درخواست ہے ميرے لئے يوں خود پر ظلم نہ کريں۔۔۔ آپ کو يوں تکليف ميں ديکھ کر يقين جانيں ميں بھی پرسکون نہيں رہ پاتا" اسکے بازو کو تھامے وہ اسے خود سے دور رہنے کے سبق سکھا رہا تھا۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اسکی پلکوں کی نمی کو انگليوں کی پوروں پر چنا۔ پھر يکدم ہاتھ کھينچا۔
"اب سب کچھ چھوڑ کر فی الحال کھانا کھائيں۔۔ بريانی لگتا ہے بہت دل سے بنائ ہے آپ نے آئيں کھاتے ہيں۔ پھر چائے مين بناؤں گا" ہولے سے مسکراتے اسکا ہاتھ تھامے ٹيبل تک لايا۔
نشرہ تو اسکے ہاتھ ميں دبے اپنے ہاتھ کو ہی حسرت سے ديکھ رہی تھی۔ ابھی بازو اور آنکھوں پر ابھرتا اسکا لمس کيا کم تھا جو ہاتھ بھی اس نے قيد ميں کرليا تھا۔
کھانے کے دوران وہ ادھر ادھر کی باتيں پوچھتا اسے نارمل کرگيا تھا۔
All of the thoughts we waste
Under the weight of the world
All of the time we spend
with the weight of the world
Don't miss you ways
Don't miss your leaving
Love live my pain
Long live my feelings
Blind and childish
I won't fight it
Here I hide
Underneath my innocence
So Grow,
All of the lies we bent
Under the weight of the world
Caught beaten by the edge
Of the weight of the world
Don't need t
o change
Need to believe in
"ميں گاؤں جا رہا ہوں۔ مارج ملک کے فليٹ کا جائزہ ليتے رہنا۔ کوئ بھی غير معمولی حرکت ہو تم نے مجھے فورا آگاہ کرنا ہے" وہ کپڑے بيگ ميں رکھنے کے ساتھ ساتھ فون پر کسی سے محو گفتگو تھا۔
اپنے باپ کی پسند کردہ لڑکی تو وہ ريجيکٹ کرچکا تھا اور اپنے فيصلے ميں بھی اٹل تھا۔
اسی لئے وجاہت چوہدری کو اسکے آگے گھٹنے ٹيکنے ہی پڑے۔
اس وقت وہ ان دونوں کو واپس چھوڑنے بھی جارہا تھا۔
اور زرناب کا معلوم کرنے کے لئے بھی۔ اپنی ہی حويلی کی ايک اور ملازمہ جو صفورہ خالہ کے ساتھ ہوتی تھی اسکی اس نے نشاندہی کر لی تھی۔
اب وہ اسی سے پوچھ گچھ کے لئے گاؤں جارہا تھا۔
"جی صاحب آپ بے فکر ہوکر جائيں۔ يہاں کوئ بھی غيرمعمولی حرکت ہوگی ۔ ميں فورا آپ کو مطلع کروں گا" سمير نے اسے مطمئن کيا۔
"ٹھيک ہے پھر۔ اللہ حافظ" بيگ کی زپ بند کرتے اس نے فون بھی بند کيا۔
بيگ اٹھاۓ کمرے سے باہر گيا۔
________________________
اسے يونيورسٹی سے لے کر واپس آکر وہ اپنے کمرے ميں بند ہوچکا تھا۔
يہ پہلی بار ہوا تھا۔ ورنہ اسے فليٹ کی بلڈنگ کے آگے اتارتے ہی وہ کسی کام کے لئے نکل جاتا تھا۔
نشرہ نہيں جانتی تھی کہ روز وہ کيا کرنے اور کہاں جاتا ہے۔
نہ اس نے کبھی بتايا تھا۔
کچھ دير بعد ہی وہ کمرے سے برآمد ہوا۔ نشرہ چاۓ بنا کر ٹيبل پر رکھتے اسے بلانے کا سوچ ہی رہی تھی جب وہ باہر آگيا۔
"چائے پی لو" دوستانہ انداز ميں اسے باہر نکلتے ديکھ کر کہا۔
"تھينکس" وہ بھی شکريہ ادا کرتے کپ لئے صوفے پر بيٹھ گيا۔
کچھ دير خاموشی سے سپ ليتا رہا۔
"بی بی آپ يہاں بيٹھ جايا کريں۔۔ مجھے يوں عجيب سا لگتا ہے" وہ جو فلور کشن پر بيٹھی تھی اسکی بات سن کر ہولے سے مسکرائ۔
مارج نے اسکے چہرے پر کھلتی خوبصورت مسکراہٹ سے نظر چرائ۔ مبادا دل کسی گستاخی کے لئے اکساتا۔ وہ تو ابھی دوستی کا ہی رشتہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس سے آگے نہيں۔
"مجھے يہاں زيادہ ريليکس ہو کر بيٹھتی ہوں۔۔ تم آج مجھے چھوڑ کر کہيں گئے نہيں۔۔ ويسے روز کہاں جاتے ہو؟" اسے اپنی مرضی بتا کر آخر آج پوچھ ہی ليا کہ وہ روزانہ اتنے گھنٹوں کے لئے کہاں غائب ہوجاتا ہے۔
"ميں آفس جاتا ہوں" اس نے سادے سے انداز ميں سچ بتايا۔
نشرہ نے بمشکل چاۓ کا گھونٹ حلق ميں اتار کر اسے حيران نظروں سے ديکھا۔
"تم آفس۔۔ کس کے آفس؟" اسکی بات پر اب کے مارج کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔
"اپنے آفس بی بی۔۔۔۔" مزے سے اسے بتايا۔
"کيا کام کرتے ہو۔؟" وہ مزيد کريدنے لگی۔
"گاڑيوں کا شوروم ہے" اسکے جواب پر نشرہ کے ہونٹ واؤ کے انداز ميں ہلے۔
"کب سے؟" اپنے شوہر کے بزنس کا اسے آج پتہ چلا تھا۔
"يہی کوئ چھ سات سال ہوگئے ہيں" نشرہ نے ہولے سے سر ہلايا۔
"اچھا ايک ضروری بات کہنی تھی" اسے يکدم کچھ ياد آيا۔
"گآؤں ميں نہر کی زمينوں پر جھگڑا چل رہا ہے۔ مجھے آج ضروری وہاں جانا ہے۔ رات کو ميں نہيں آسکوں گا۔
تو ايسا ہے کہ ميں زرناب کو آپکے پاس چھوڑ جاتا ہوں۔ کل کی آپ دونوں چھٹی کرليں۔ کل دوپہر تک ان شاء اللہ ميری واپسی ہوجاۓ گی" وہ اپنا پروگرام بتانے لگا۔
"تو ہم دونوں اکيلی کيسے رہيں گی؟" وہ حيرانی سے سوال کرنے لگی۔
"تو پھر آپ اپنا کوئ جوڑا رکھ ليں۔ ميں آپ کو زرناب کے پاس اسکے ہاسٹل چھوڑ آتا ہوں۔۔ ويسے يہاں سب سيف ہے۔ سيکورٹی کا کوئ ايشو نہيں۔ اور ميں نے سی سی ٹی وی کيمرہ بھی لگوايا ہوا ہے۔ کوئ ڈر کی بات نہيں" اس نے نشرہ کی تسلی کروائ۔
"چلو ٹھيک ہے پھر زرناب کو چھوڑ جاؤ۔۔ ايک رات کی تو بات ہے" وہ مطمئن ہوگئ۔
ہاسٹل جانے کا اسکا موڈ نہيں تھا۔
"ٹھيک ہے ميں زرناب کو پک کرکے يہاں چھوڑ جاتا ہوں" چائے کا خالی کپ ٹيبل پر رکھتے اٹھا۔
"اور ميں کانٹيکٹ کرتا رہوں گا۔ آپ پريشان نہيں ہوئے گا" موبائل اور والٹ قميض کی پاکٹس ميں رکھتا وہ اسے اور بھی تسلی دينے لگا۔ نشرہ کے چہرے پر اس کے اتنے کئيرنگ انداز پر مسکراہٹ بکھری۔
"مارج ميں اتنی ڈرپوک نہيں ہوں" ہنستے ہوۓ اسے جتايا۔
اسکی بات پر وہ سيدھا ہوتا اسے ديکھتے خود بھی مسکرايا۔
"جی آپ ڈراتی ہيں ڈرتی نہيں" ہولے سے اپنا ہاتھ اسکے بازو پر تھپتھپا کر گويا جانے کا عنديہ ديا۔
اسکے لمس پر ايک خوبصورت احساس اسکے ساتھ لپٹا۔
وہ خاموش اسے دورازے سے نکلتا ديکھتی رہی۔
__________________________
شام ميں سب سے مل کر وہ پھر سے کہيں جانے کو تيار تھا۔
"اب کہاں جارہے ہو تم؟" صغراء بيگم نے اسے تيار ديکھ کرپوچھا وہ تو اسکے لئے رات کے کھانے ميں اہتمام کروا رہيں تھيں۔
"ميں آج رات فارم ہاؤس پر رہوں گا۔۔ مجھے کچھ کام ہے وہاں۔ ايک دو ملازمين کو بھيج ديں" وہ جو اسکے کمرے ميں اسکے پيچھے آئيں تھيں۔ اسکی بات سن کر مايوس سی ہوئيں۔
"بس ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہو۔ آخر کب ميرے پاس بھی چند گھڑيوں کے لئے سکون سے رہو گے؟" اسکے وجيہہ چہرے پر ہاتھ پھيرتے ممتا کا مجبور سا لہجہ لئے بوليں۔
"آپ دعا کرين۔ کچھ کاموں کو نمٹا لوں پھر کچھ عرصہ فرصت سے آپکے پاس رہوں گا۔" اپنے چہرے پر رکھا انکا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں تھام کر اسکی پشت پر بوسہ ديتے محبت سے لبريز لہجے ميں بولا۔
"کيسی ہے وہ لڑکی؟" انہيں ابھی تو اس بارے مين بات کرنے کا موقع ملا تھا۔
"بالکل آپ کا پرتو۔۔ اپنے فيصلوں ميں اٹل۔۔ آپکے بيٹے کو ابھی ملی نہيں۔ اور آپکا بيٹا سدھرنے لگ گيا ہے۔ سوچيں مل گئ تو پھر تو بالکل ہی سيدھا تک ہوجاؤں گا"ہولے سے ہنستے وہ انہيں اس لمحے بہت الگ سا وريد لگا۔
جيسا وہ اسے ديکھنا چاہتی تھيں۔ دھيما۔۔ اور برائيوں سے پاک۔
"پھر تو ميری دعا ہے وہی تمہارا نصيب بنے" ہنستے ہوۓ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں ميں اسکی نظر اتاری۔
"آمين" اس نے سچے دل سے آمين کی۔
"اچھا آپ ايسا کريں۔ شاداں کو بھجوا ديں۔ فارم ہاؤس کی کچھ صفائ کروانی ہے اگلے ہفتے شايد ميرے دوست آئيں ميرے ساتھ شکار کے لئے" ان کا ہاتھ چھوڑ کر وہ عجلت بھرے انداز ميں بولا۔
"تو اگلے ہفتے ميں تمہارے آنے سے پہلے وہاں کی صفائ کروادوں گی" پروگرام اگلے ہفتے کا تھا اسے اب صفائ کروانی تھی۔ وہ کچھ حيران سی ہوئيں۔
"نہيں مجھے کچھ سيٹنگ بھی چينج کروانی ہے۔ وہ پرانی يہان کام کرنے والی ہے اسے کافی بہتر چیزوں کا اور ہماری پسند کا اندازہ ہے" انہيں بازو کے گھيرے ميں لئے وہ کمرے سے باہر آيا۔
"اچھا مين کہہ ديتی ہوں" اسکے بازو کے حصار سے نکلتيں وہ تيزی سے بڑے کمرے سے نکلتيں ملازموں کے کوارٹرز کی جانب بڑھيں۔
_______________________
زرناب کے آتے ہی اسے لگا فليٹ ميں رونق آگئ ہو۔
"تمہارے حالات کيسے چل رہے ہيں بھائ کے ساتھ؟" دونوں اس وقت پاسٹا بنانے ميں مصروف تھيں۔ ساتھ ساتھ ڈھيروں باتيں بھی چل رہی تھيں۔
"تھوڑی سی دوستی ہوہی گئ ہے۔ تمارے مشوروں پر عمل کرکے ميں نے ہی اسکی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھايا۔
مگر کچھ پس و پيش کے بعد اس نے بھی ہاتھ تھام ہی ليا" وہ وائيٹ ساس بناتی اپنی اور مارج کی دوستی کی روداد بيان کرنے لگی۔
"ارے واہ تو بات يہاں تک پہنچ گئ" زرناب نے شرارت سے اسکی ہاتھ تھامنے والی بات پر اسے چھيڑا۔
کچھ لمحے توقف کے بعد اسے زرناب کی شرارت سمجھ ميں آئ۔
"بدتميز" نچلا ہونٹ دانتوں ميں دباۓ وہ اپنی شرميلی مسکان اس سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
مگر چہرے پر کھلی لالی اور نظريں چرانے کے انداز نے زرناب کو بہت کچھ بتا ديا۔
"ميں کہتی تھی نا بھائ بس اوپر سے سخت بننے کی کوشش کرتے ہيں"
"ہاں يار دل کا اچھا ہے۔۔۔ بس وہی بات کے ابھی وہ محبت پر يقين کرنے سے ڈرتا ہے" نشرہ بھی اسکی تائيد کرنے لگی۔
"اچھا يہ ريڈی ہوگئے ہيں۔۔ بتاؤ کس ميں ڈالوں" پاستا ابل چکا تھا وہ ادھر ادھر چھلنی ڈھونڈتے ہوۓ نشرہ سے بولی۔
اسی لمحے اسکے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز آئ۔
نشرہ اسے چھلنی پکڑا کر موبائل کی جانب متوجہ ہوئ۔ مارج کالنگ لکھا ديکھ کر اسکا دل زور سے دھڑکا۔
"اٹھا بھی لو۔۔ يا ابھی تک سکتے ميں ہو کہ بھائ نے کال کی ہے" زرناب بھی اسکے موبائل پر مارج کالنگ ديکھ چکی تھی۔
"دوسری بات سچ ہے" وہ مزے سے اپنی کيفيت بتاتے ہوئے يس کر چکی تھی۔
"السلام عليکم" اسکی بھاری بوجھل آواز اسپيکر سے ابھری۔
نشرہ کو اسکی آواز آج تک اتنی خوبصورت نہيں لگی جتنی آج لگی تھی۔ شايد محبت نے ہر احساس ہی بدل ديا تھا۔
"وعليکم سلام" وہ موبائل لئے مارج کے ہی کمرے ميں چلی آئ۔ اب تک دوسری بار اسکا کمرہ ديکھ رہی تھی۔
ہر چيز ميں اسکا احساس جاگ رہا تھا۔ اسکے بيڈ پر بيٹھ کر اسکے تکيے پر ہاتھ پھيرتے وہ اپنی ہی کيفيت پر مسکرائ۔ يقينا محبت ايسے ہی انسان کو بے خود کرديتی ہے۔
"ٹھيک ہيں آپ دونوں؟" اسے سمجھ نہ آئ کہ کيا با کرے۔ فون تو کرديا تھا ليکن اب۔۔۔۔۔
"ہاں ٹھيک ہيں" اسے بھی سمجھ نہيں آئ کيا بات کہے۔
"کيا کررہيں تھيں بی بی" لفظ بی بی سن کر وہ جل بھن گئ۔ سب احساسات پر اس نے پانی بہا ديا۔
"ايک تو تم ۔۔۔۔ آج کے بعد مجھے يہ بی بی نہيں کہو گے" وہ تڑخ کے بولی۔
مارج ہنسا۔۔۔ اسکی ہنسی کی آواز اتنی ضرور تھی کہ نشرہ سن سکے۔
"تو پھر کيا کہوں؟" متبسم شرير لہجے ميں پوچھا گيا۔
"کچھ بھی۔۔۔" وہ چڑ گئ۔
"کچھ بھی ۔۔۔۔ تو بہت عجيب سا نام ہے" اسے تنگ کرنے ميں مزہ آتا تھا۔ مارج ڈرائيونگ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے چڑانے کا کام بھی تندہی سے کررہا تھا۔
"کچھ بھی۔۔ سے مراد ہے بی بی کے علاوہ کچھ اور کہا کرو۔۔۔" وہ بھی زچ ہوچکی تھی ہميشہ کی طرح۔۔۔۔
"بی بی نہيں تو بيوی بہتر ہے۔۔ آپکا کيا خیال ہے" لہجہ اور بھی شرير ہوا۔ اور آواز مزيد بوجھل۔
نشرہ کی دھڑکنيں تيز ہوئيں۔
"نشرہ کہا کرو۔ سب کی طرح" وہ رعب سے بولی۔ مقصد اسکی شرارت کا اثر زائل کرنا تھا۔
"مگر ميں سب تو نہيں" محبت کی آنچ اسکے لہجے ميں بھی شامل ہورہی تھی۔
"اچھا بس يہی بونگياں مارنے کے لئے فون کيا ہے" وہ اس کا دھيان ہٹانے لگی۔
"نہين آپکی خيريت پوچھنی تھی۔۔۔ کيونکہ ميرے فليٹ سے نکلتے ہوۓ کوئ ڈر رہا تھا" جاتے وقت اس کا ڈرا سا چہرہ تصور ميں لاتے بولا۔
"ميں نہيں ڈرتی ورتی۔ اور جلدی کام ختم کرو۔۔ تم پہنچ گئے ہو گاؤں؟" اسے جھٹلانے لگی۔
"جی بس حويلی پہنچنے والا ہوں" وہ اپنے کچھ گارڈز فليٹ کی بلڈنگ کے باہر کھڑے کروا آيا تھا۔
اسی لئے بھی مطمئن تھا۔
"ٹھيک ہے سب کو ميرا سلام کہنا" وہ بات سميٹتے ہوۓ بولی۔
"اور کوئ حکم" وہ مودب انداز ميں بولا۔
"نہيں بس اتنا ہی کافی ہے۔ باقی کے حکم پھر کبھی" وہ ناز سے بولی۔
"اوکے اپنا خيال رکھئيے گا" وہ بھی بات سميٹ کر فون بند کر گيا۔
_________________________
"بتاؤ کہاں ہيں صفورہ خالہ؟" کچھ دير پہلے ہی وہ شاداں اور کچھ اور ملازمين کے ساتھ فارم ہاؤس پہنچا تھا۔ باقيوں کو کام پر لگا کر شاداں کو لئے ايک کمرے ميں آيا۔ دروازہ لاک کيا۔ وہ گھبرائ۔
"کيا کررہے ہيں صاحب؟" وہ عمر ميں وريد سے چند ايک سال ہی بڑی تھی۔
اسکے سوال پر وہ آہستہ سے چلتا اسکے مقابل آيا۔ اسکے سوال کو نظر انداز کرکے جو وريد نے کہا اس پر شاداں کے چہرے پر بدحواسی سی پھيلی۔
"مم۔۔ مجھے کيا پتہ۔ وہ تو شايد مر چکی ہيں" اسکے لہجے کی لڑکھڑاہٹ ہی وريد کو بہت کچھ بتا گئ۔
"ديکھو۔ ميں شرافت سے تم سے پوچھ رہا ہوں۔ کہ صفورہ خالہ کہاں ہيں۔۔۔۔ مجھے جھوٹ سے اور جھوٹوں سے سخت نفرت ہے۔ ميں تم پر کوئ سختی نہيں کرنا چاہتا۔ لہذا آرام سے مجھے انکے بارے ميں بتادو" آنکھيں نکال کر ہر لفظ چبا چبا کر بولا۔
"ميں۔ سچ کہہ رہی ہوں صاحب۔۔۔۔"ابھی اسکی بات پوری نہيں ہوئ تھی کہ اسکا منہ وريد کے ہاتھ کی سخت گرفت ميں آچکا تھا۔
"کيا بکواس کررہا ہوں ميں" وہ دبے دبے لہجے ميں چيخا۔
"مم۔۔ صاحب مين" وہ تکليف سے بلبلائ۔
"جھوٹ نہيں" وہ اب کی بار دھاڑا۔
"وہ جی۔۔ وہ سوات کے قريب ايک گاؤں ہيں وہاں اپنی بيٹی اور داماد کے ساتھ رہتی ہيں" وہ ايک ہی جھٹکے ميں سب اگل گئ۔
"مگر وہاں معلوم کرنے پر وہ کہہ رہے ہيں کہ وہ تو وہاں سے کہيں اور چلے گئے ہيں" اسکا منہ چھوڑتا اب اس نے اسے بازو سے تھام کر سيدھا کھڑا کيا۔ جو منہ آزاد ہوتے ہوئ تکليف سے دوہری ہوئ تھی۔
"صاحب وہ وہيں ہيں۔۔۔ جھوٹ بولا ہوگا۔ ابھی کچھ دن پہلے ميں اس سے مل کر آئ ہوں" اس کی بات پر وريد کی آنکھوں ميں خون اترا۔
"ان کی بيٹی کے خدوخال کيسے ہيں؟" اسکے سوال پر اس نے کچھ نقشہ بتايا۔
"رکو" وريد نے ايک ہاتھ سے اسے روک کر اپنا والٹ نکالا۔ قميض کی جيب سے ايک پينسل نکالی۔
والٹ سے ايک تہہ شدہ کاغذ نکالا۔۔ اسے سيدھا کيا۔
"بيٹھو اور بتاتی جاؤ۔۔۔۔ انکے داماد کو ديکھا ہے کبھی؟" اسے ايک صوفے پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔ کمرے ميں موجود دوسرے صوفے پر خود بيٹھا۔ اسکے آگے ٹيیبل رکھا تھا اس پر وہ کاغذ رکھتے اس سے سوال کيا۔
"نہيں جی۔۔ ہم مردوں کو نہيں ديکھتے ہيں" وہ کچھ برا منا کر بولی۔
"اچھا چلو۔ انکی بيٹی کا نقشہ بتاؤ" اسکی بات پروہ اسکا نقشہ بتاتی گئ اور وہ اسکيیچ بناتا گيا۔
"جس لڑکی کو ميرے ساتھ ونی کيا تھا۔ وہ بھی وہيں ہوتی ہے؟" اسکيچ کو تہہ کرتے سرسری سا پوچھا۔
"اسکا معلوم نہيں صاحب۔۔۔ ميں نے اسے وہاں کبھی نہيں ديکھا۔"
"تو صفورہ خالہ کے مرنے کا کيوں مشہور کيا ہوا ہے؟" اس نے ابرو اچکا کر پھر سے سوال کيا۔
"پتہ نہيں خالہ نے ہی کہا تھا کہ حويلی ميں بتا دينا کہ ميں مرگئ ہوں" اس کی بات ميں اس بار صداقت لگی۔
"ٹھيک ہے۔ ميں نے يہاں جو کچھ تم سے پوچھا ہے وہ اگر اس کمرے کو پار کرنے کے بعد کسی کو باہر پتہ چلا۔
تو تم سوچ سکتی ہوکہ ميں تمہارے ساتھ کيا کروں گا۔ ابھی ميں نے مار پيٹ نہيں کی۔ بہت سستے ميں تمہيں بخشا ہے۔ ليکن اگر تم نے اتنی سی بھی بات صفورہ خالہ يا حويلی مين کسی کو بتائ۔ تو ميرے پالے ہوۓ جانوروں کو تمہيں کھانے ميں کوئ عار محسوس نہيں ہوگا" سفاک لہجے ميں اسے وارننگ دی۔
"جج۔۔۔ جی ۔۔ جی صاحب کبھی نہيں" اسکی بات سن کر ہی دہشت سے اسکی آنکھيں باہر آنے کو بے تاب ہوئيں۔
"شاباش۔۔ صفائ کرو" اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کمرے سے باہر چلا گيا۔
"تم اور بھائ الگ الگ کمروں ميں ہی رہتے ہو؟" کھانا کھانے کے بعد چاۓ کے مگ لئے وہ دونوں نشرہ کے ہی کمرے ميں موجود تھيں۔
"ظاہر ہے ابھی اتنی فرينکنيس نہيں ہوئ۔ اچھا تم مجھے چھوڑو يہ بتاؤ کہ فخر والے معاملے کا کيا بنا۔ ميں نے تمہارے بھائ سے پوچھا تھا۔ مگر اس نے کوئ خاطر خواہ رسپانس نہيں ديا" نشرہ کو يکدم ياد آيا۔
"ميری بات ہوگئ تھی بھائ سے۔ وہ کہہ رہے ہيں کہ ميں انکی صفورہ خالہ اور انکے داماد سے ملاقات کروا دوں۔"
اسکی بات پر نشرہ نے چند لمحے اسکے چہرے پر کوئ احساس کھوجا ليکن ناکام رہی۔
"ايک بات پوچھوں؟" بيڈ کے ساتھ ٹيک لگائ۔
"ہاں پوچھو"
"تمہاری کتنی خوشی شامل ہے اس رشتے ميں؟" اسکی بات پر زرناب چند لمحے کچھ کہہ نہ پائ۔ پھر پھيکا سا مسکرائ۔
"اس ميں خوشی کا کيا تعلق ہے۔ شادی تو کرنی ہی ہے۔ آج يا کل کسی کے ساتھ تو ہونی ہی ہے" کوئ گڑگڑاتا ہوا تصور ميں آيا۔ اس نے سر جھٹک کر گويا اسکے تصور سے جان چھڑائ۔
"شادی کا تعلق ہی خوشی سے ہوتا ہے ورنہ تو وہ ايک کاروبار ہی ہے۔ جيسے ہم باقی کے کاروبار کرتے ہيں۔ شادی خالصتا اپنی ذات کی خوشی کا معاملہ ہے"
"تم بھی تو اپنی شادی پر خوش نہيں تھيں۔ پھر سب ٹھيک ہوگيا۔ شايد ميرا دل بھی آمادہ ہوجاۓ" اب کی بار وہ نشرہ کو چپ کروا گئ۔
"کيسا انسان ہے وہ؟" نشرہ اسکی پسند سے بہت حد تک واقف تھی۔
"پتہ نہيں۔۔۔ کبھی اسکے بارے ميں اتنا غور نہيں کيا" وہ سادگی سے بولی۔
"ايک ہی عورت پر اکتفا کرنے والا ہے۔ اب يہ مت کہنا يہ بھی نہيں پتہ۔ اتنا تو بندے کو اردگرد کی باتوں سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے" نشرہ کی بات پر وہ ہولے سے مسکرائ۔ مگر بے حد پژمردہ مسکراہٹ تھی۔
"نہيں۔۔۔ نہ ہی وہ شايد کبھی ايک لڑکی پر اکتفا کرے گا" اسکے بات نشرہ کو کسی انکشاف سے کم نہيں لگی۔
"اور ايسا شخص تمہاری چوائس ہے؟" وہ حيرت سے منہ کھولے اسے تک رہی تھی۔
"وہ ميری چوائس نہيں ہے۔ بس يہ کہہ لو اسکے علاوہ اور کوئ چوائس نہيں ہے" اسکی باتيں نشرہ کو شديد الجھن ميں مبتلا کررہی تھيں۔
"تم پاگل ہو کيا؟" وہ اب تک بے يقينی سے اسے ديکھ رہی تھی۔ جو اس سب پہ انتہائ نارمل بی ہيو کررہی تھی۔
"شادی کيا پاگل کرتے ہيں؟" ہنسی ميں اسکی بات اڑانی چاہی۔
"ليکن کنويں ميں پاگل ہی گرتے ہيں۔۔۔۔ ميں ہر گز تمہيں يہ بے وقوفی نہيں کرنے دوں گی" وہ برہم ہوئ۔
"مجھے تو اندازہ ہی نہيں تھا۔۔۔۔ مارج کو معلوم ہے اسکی حرکتوں کا؟" نشرہ کے لہجے سے واضح ناگواری جھلک رہی تھی۔
"پتہ نہيں ميں نے کبھی پوچھا نہيں" وہ پھر سے سادگی سے بولی۔
"يہ آجاۓ ذرا۔۔ ميں بات کرتی ہوں۔۔ تم تو پاگل ہو۔۔۔ عجيب بے وقوف ہو" وہ مسلسل شاک کی سی کيفيت مين تھی۔
"تم ايسا کچھ نہيں کروگی" زرناب اب کی بار سنجيدہ ہوتے اسے منع کرنے لگی۔
"تم اب چپ کرجاؤ" اسے سمجھ نہيں آرہا تھا آخر اسے کيا پڑی ہے ايسے شخص سے شادی کی۔
"چلو اب سوجاؤ۔۔ صبح کے اٹھے ہوۓ ہيں" نشرہ کو اس سے مزيد بات کرنا فضول لگا۔ لہذا وہيں پر بات ختم کرتے
خالی مگ لئے کچن ميں رکھنے چلی گئ۔
کچھ ہی دير بعد دونوں لائٹس آف کرکے دروازوں اور کھڑکيوں کے لاک اچھی طرح چيک کرکے نشرہ کے ہی کمرے ميں بيڈ پر ليٹی۔ بچپن کی باتيں ياد کرتے کرتے سوچکی تھيں۔
___________________________
"ہيلو" پرسکون سا فخر کے باپ کو فون کئے ٹانگ پر ٹانگ رکھے وہ بڑا مطمئن تھا۔
"ہيلو۔ جی آپ کون؟" انہوں نے فون اٹھاتے ہی دوسری جانب سے بولتے شخص کو پہچاننا چاہا۔ مگر ناکام رہے۔
"ميں آپکے بيٹے کے حوالے سے آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں" اسکی بات پر شہباز حسن يکدم چوکنا ہوئے۔
"جی ليکن آپ کون؟" فخر تو گھر پر ہی موجود تھا پھر يہ کون تھا۔
"ميں آپ کا خير خواہ۔ اصل ميں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے بيٹے کی کہيں اور شادی کروانا چاہتے ہيں" وہ جو کوئ بھی تھا شہباز حسن کو پريشان کررہا تھا۔
"مگر آپ ہيں کون؟" اب کی بار وہ سخت لہجے مين بولے۔
"کہا نا آپکا خير خواہ۔ آپکا بيٹا کہيں اور کميٹڈ ہے اور نہ صرف کميٹڈ ہے بلکہ لڑکی پريگننٹ بھی ہے۔ يقين نہيں آرہا تو ميں ابھی آپکے نمبر پر اس کی پريگننسی رپورٹ بھيج چکا ہوں جہاں آپکے بيٹے نے خود کو اسکا ہزبينڈ شو کيا ہے۔ اب ميں نہين جانتا وہ شادی کرچکا ہے يا نہيں۔۔۔ مگر رپورٹ بالکل درست ہے۔۔ کسی اور کی بيٹی زندگی خراب کرنے سے بہتر ہے آپ اپنے بيٹے کی پسند کو فوقيت ديں۔ اللہ حافظ" کچھ دير پہل ہی فخر نے يہ رپورٹ اور پريشان زدہ فون کرکے اپنے افئير کا رزلٹ بتايا تھا۔
وہ تو اپنی پريشانی بيان کررہا تھا مگر اسکی پريشانی نے وريد کا راستہ آسان کرديا تھا۔
وہ يہ رپورٹ کسی اور نمبر سے شہباز حسن کو اور اپنے نمبر سے زرناب کو بھيج چکا تھا۔
ہنستے ہوۓ اس نے فون بند کيا۔
يہ نئ سم اسکے نام پر تھی بھی نہيں۔ اسی لئے پکڑے جانے کا اسے کوئ ڈر نہيں تھا۔
ابھی کچھ دير ہی ہوئ تھی اسے اپنا کارنامہ انجواۓ کرتے کہ اسکے اپنا نمبر گنگنايا۔ وہ سمجھا نار احسان ہوگی۔ مگر اسکے خاص بندے کا فون تھا۔
"ہيلو۔۔ ہاں کيا رپورٹ ہے؟"
"سر مارج ملک آج گھر پر نہيں ہے۔ اور شام ميں نار احسان کو وہ اپنے فليٹ پر بيوی کے پاس چھوڑ گيا۔ وہ ابھی بھی مارج ملک کے فليٹ پر ہی ہے" اسکی بات پر وريد نے کچھ سوچتے ہوۓ سر ہلايا۔
"ٹھيک ہے احتياط سے فليٹ کے اندر جاکر پتہ کرو کہ آخر اسکا مارج ملک کے ساتھ کيا تعلق ہے۔ دونوں کو ڈرا کر صرف اگلوانا ہے۔۔۔ دونوں ميں سے کسی ايک کو بھی ہاتھ لگايا نا۔۔ تو ہاتھ توڑ کر رکھ دوں گا۔ اور نظروں کو قابو ميں رکھنا۔ سمجھے" کڑک انداز ميں اسے بہت کچھ سمجھايا۔
"جی۔ جی صاحب سمجھ گيا" وہ بھی جانتا تھا وريد چوہدری کی خلاف ورزی کی تو وہ پاتال ميں دھکيل دے گا۔
"گڈ"
_______________________
گہری نيند ميں ہونے کے باوجود نجانے کس احساس کے تحت اسکی آنکھ کھلی۔ گردن گھما کر دائيں جانب ديکھا۔
نشرہ منہ پرايک بازو رکھے گہری نيند ميں تھی۔
کچھ دير وہ يوں ہی ليٹی رہی تھوڑی دير گزرنے کے بعد سائيڈ ٹيبل پر رکھا موبائل اٹھا کر ٹائم ديکھا۔رات کے ڈھائ بج رہے تھے۔ ٹائم کے ساتھ ساتھ وريد کا نام بھی جگمگا رہا تھا۔
واٹس ايپ پہ کوئ ميسج آيا ہوا تھا۔ پہلے تو موبائل واپس رکھ ديا۔
پھر کچھ سوچ کر دوبارہ اٹھايا۔ تھوڑا سا اٹھ کر کمر بيڈ کی پشت سے ٹکائ۔
موبائل ان لاک کرکے جوں ہی واٹس ايپ پہ موجود تصوير کھولی وہ کسی پريگننسی ٹيسٹ کی تھی۔
مندی مندی آنکھيں اب کے پوری طرح کھل چکی تھيں۔
رپورٹ پر فضا کے ساتھ ساتھ جس شخص کا شوہر کی کيٹگری ميں نام تھا وہ زرناب کو بری طرح چونکا گيا۔
کچھ مزيد ميسجز بھی تھے۔ زرناب نے پڑھنے شروع کئے۔
"بہت بہترين چوائس ہے آپکی۔"
"شادی سے پہلے ہی آپ کو ايک اوران آفيشل بيوی اور بچے کا تحفہ بھی آپکا ہزبينڈ ٹو بی 'فخر شہباز' دينے کا ارادہ رکھتا ہے"
"مبارک ہو۔۔ اب ڈيسائيڈ کرليجئے گا سوتن آپ بنيں گی کے وہ۔۔۔۔ ويسے مبارک ہو۔۔ کيا خوب بندہ چنا ہے شادی کے لئے"
زرناب کا دماغ بھک سے اڑ چکا تھا۔
ابھی وہ اسی صدمے کے زير اثر تھی کہ نشرہ کے کمرے کی پچھلی جانب بنی بالکونی ميں کسی کے کودنے کی آواز آئ۔
اسکا دل سکڑ کر حلق ميں آگيا۔
"نشرہ" آہستہ آواز سے نشرہ کو آواز دی۔
"نشرہ" پردے کے قريب سايہ لہرايا۔
اب کی بار اسے زور سے جھنجھوڑا۔
"کيا ہے يار" شکر تھا کہ وہ آہستہ آواز ميں ہی بولی۔
"نشرہ باہر بالکونی ميں کوئ ہے" اب کی بار اسکے کان کے قريب آہستہ سے کہا۔
نظريں اسکی بالکونی کے پردے پر لہناتے سائے پر جميں تھيں۔
"کيا" اس سے پہلے کے نشرہ کے منہ سے چيخ برآمد ہوتی۔ زرناب نے فورا اسکے منہ پر ہاتھ رکھا۔
"پاگل ہو۔۔۔ چيخ کيوں رہی ہو" وہ دبی دبی آواز ميں غرائ۔
کچھ دير بعد کھڑکی پر دوبار ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ ہی گرل کھل چکی تھی۔
نشرہ نے تيزی سے دماغ چلاتے۔ موبائل پر مارج کا نمبر ڈائل کرکے بہت احتياط سے وہ ہاتھ اپنی کمر کے پيچھے کرليا۔
دونوں نے تيزی سے دوپٹے اوڑھے۔
نشرہ کو دوپٹے کے اندر موبائل والا ہاتھ چھپانے ميں آسانی ہوگئ۔
چند لمحوں ميں کوئ نقاب ميں دونوں کے سامنے موجود تھا۔
گن والا ہاتھ انکے سامنے تھا۔
"کک کون ہو تم۔۔ کيا چاہئے" زرناب نے نشرہ کو اپنے پيچھے کيا۔ نشرہ خود بھی اسکے پيچھے رہنا چاہتی تھی تاکہ آنے والے کو اس پر شک نہ ہو کہ وہ موبائل کے ذريعے کسی کے ساتھ رابطے ميں ہے۔
"تم دونوں کا آپس ميں کيا رشتہ ہے؟" آنے والے نے اسکا سوال نظر انداز کرکے عجيب سا سوال کيا۔
"ديکھو۔۔ ہمارے پاس اس وقت کوئ خاص رقم نہيں ہے۔ تم تلاشی لے سکتے ہو فليٹ کی۔ وہ ميرا بيگ ہے۔۔ اس ميں چند ہزار روپے ہيں" زرناب کے کندھے سے جھانکتے وہ تيزی سے بولی۔
"جو بکواس کی ہے اسکا جواب دو" وہ دھاڑا۔۔
"کيا۔۔ کيا بکواس کی ہے؟" نشرہ کی بات پر آنے والے کا دل کيا اپنا ماتھا پيٹ لے۔
"کيا لگتی ہے يہ تمہاری؟" اسکے سوال دہرانے پر اب کی بار زرناب کا دماغ تيزی سے گھوم کر وريد کی جانب گيا۔
کيسی عجيب بات ہے کوئ چور آۓ اور وہ چوری کی بجاۓ يہ پوچھے کے گھر کے مکينوں کا آپس مين کيا تعلق ہے۔
اسکا مطلب ہے وہ ان سے کچھ نہ کچھ واقف تھا۔ اور کسی کے کہنے پر بس بھيجا گيا تھا۔
"دوست ہيں ہم؟" اب کی بار زرناب کا خوف کچھ کم ہوا۔
"مارج ملک کے ساتھ تمہارے کيا تعلق ہے؟" اسکے دوسرے سوال پر نشرہ بھی چونکی۔
کون تھا يہ۔ چور نہيں تھا
"اسکا شوہر ہے"اگلا جواب پھر زرناب کی جانب سے آيا۔
"وہ مجھے بھی معلوم ہے۔ مگر تمہارا کيا لگتا ہے؟" اس نے آنکھيں نکاليں۔
"ميں اسے بھائ کہتی ہون۔ بس اور وہ بھائ ہونے کا حق نبھا رہا ہے" زرناب نے اب کی بار گھما پھرا کر جواب ديا۔
"سچ کہہ رہی ہے يہ؟" اسکا رخ نشرہ کی جانب تھا۔
نشرہ نے تيزی سے سر ہلايا۔
"جھوٹ بولا تو يہ بھيجے ميں اتار دوں گا" وہ پھر سے غرايا۔
"سچ کہہ رہے ہيں۔۔۔ بتاؤ نا زرن۔۔۔۔۔" نشرہ اسکی گن والا ہاتھ اپنے مزيد نزديک آتے ديکھ کر جلدی سے بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ زرناب کا نام ليتی۔ زرناب اسکی بات کاٹ گئ۔
"ہاں ہاں۔۔۔ کتنی بار کہيں کے صحيح کہہ رہے ہيں۔ يہ صرف ميری دوست ہے" زرناب نے ہولے سے کہنی اسکی پسلی ميں ماری۔
نشرہ کشمکش ميں مبتلا تھی کہ يہ کون رات کے اس پہر ان سے پوچھ گچھ کرنے آگيا ہے۔
"اگر ايک لفظ بھی جھوٹ ہوا۔ تو تم دونوں اپنے اس مارج ملک سميت زندہ نہيں بچو گی" وہ کہتے ساتھ ہی تيزی سے پردے کے پيچھے گم ہوگيا۔
نشرہ نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ باہر نکالا۔ جہاں مارج کال پر موجود تھا۔
"ہہ۔۔۔ ہيل۔۔۔ ہيلو مارج" آہستہ آواز ميں ڈرتے ڈرتے بولی۔
"گھبرائيں نہيں۔ ميں شہر ہی آرہا ہوں۔۔۔ زندہ نہيں چھوڑوں گا اسے جس کسی نے مارج ملک کے فليٹ کی جانب رخ کيا ہے۔ آپ گھبرائيں نہيں۔۔۔ ميں آپکے پاس پہنچنے تک کال پر ہی ہوں" وہ جو رات ميں جلدی کام ختم ہوجانے پر رات رکنے کی بجاۓ شہر واپسی کے راستے پر تھا۔ رات کے ڈھائ بجے نشرہ کے نمبر سے کال آتے ديکھ کر کچھ پريشان ہوا۔
فون اٹھانے پر اسکے خدشات سچ ثابت ہوۓ۔ کسی نے اسکے فليٹ پر آنے کی شديد حماقت کی تھی۔ اور باتوں سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وريد چوہدری کا بندہ ہے۔ جو زرناب کی تلاش يا پھر نار احسان کے سچ کو جاننے کی کوشش ميں تھا۔
گاڑی کی اسپيڈ اس وقت وہ جتنی تيز کر سکتا تھا کر چکا تھا۔
شکر تھا کہ انہيں کوئ بھی نقصان پہنچاۓ بنا وہ جاچکا تھا۔ ليکن اپنی کم بختی کو آواز دے دی تھی۔
_________________________
"ہيلو" وہ کب سے انتظار ميں تھا۔
زرناب ميسجز پڑھ چکی تھی۔ مگر فی الحال وہ اسے کال يا مزيد ميسج نہيں کرنا چاہتا تھا۔
"کيا معلوم ہوا؟" اپنے بندے کے فون کا وہ بے تابی سے انتظار کررہا تھا۔
"صاحب وہ انکی محض دوست ہے۔ دونوں کا بيان ايک جيسا تھا" اس نے مايوسی سے کہا۔
"ٹھيک ہے۔ تم اب اپنے اڈے پر جاؤ پھر بات ہوگی" وريد نے کچھ سوچ کر فون بند کيا۔
اگلے دن اس نے سوات کے لئے نکلنا تھا۔
اس وقت ايک پرسکون نيند کی اسے اشد ضرورت تھی۔
مگر موبائل پر آنے والے ميسج نے اسکی ساری نيند پھر سے اڑا دی۔
"فخر اگر ايسا ہی ہوا۔ تب بھی ميری چوائس کوئ اور شخص ہوگا مگر آپ کبھی نہيں۔۔" زرناب کی جانب سے آنے والے ميسج نے اس کا سکون بری طرح غارت کيا۔
"عموما بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو اپنے ہی دعوؤں کا بھگتان بھرتے ديکھا ہے۔۔ اسی لئے سوچ سمجھ کر دعوی کرو" اپنی ساری کھولن ميسج ميں نکال کر مسکرايا۔ گويا اسے چڑانے ميں کامياب ہوگيا ہو۔
"پھر تو آپ اس قسمت کے چکر مين مجھ سے پہلے آنے والے ہيں۔ ديکھتے ہيں کس کے دعوے اسکے سامنے آتے ہيں ميرے يا آپکے" اسکی ذومعنی بات وريد کو پھر سے ورطہ حيرت ميں ڈال گئ۔
وہ کيا کہنا چاہتی تھی؟ اسے سمجھ نہيں آئ۔