حمدان
حمدان ۔
۔حمدان ۔۔"
"حمدان یس۔۔۔۔۔۔"
یو کین ڈو اٹ۔۔۔۔۔"
گراونڈ کے چاروں طرف سے یہی آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔
بلیک جینس پہ بلیک ہی لیڈر کی جیکٹ پہنے اسپورٹس بائک پہ بیٹھے چہرہ کو ہیلمیٹ سے کور کئے فل کانفینڈنس کے ساتھ وہ مقابلے کےلئے تیار تھا ۔۔۔۔۔٣۔۔٢۔۔١ ۔کے ساتھ ہی ریس اسٹارٹ ہوئی ۔۔اور ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ اپنے مسمرائسنگ پرسینیلٹی کے ساتھ چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔اور اس بار کا فاتح بھی اور کوئ نہیں حمدان شیرازی ہی تھا
___________________________
""او شٹ دس مسڈ کالز ۔۔۔۔آج تو سچ میں گیا""
ابھی وہ بیڈروم میں آیا تھا اور اب نہا کر جیسے ہی باہر آیا تھا اپنے موبائل کی طرف نظر پڑتے ہی اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔۔ ۔۔
"کیا ہوا بوس۔۔۔۔۔"
اسی اثناء میں سعد کھانے کو ٹرے میں سجائے بیڈروم میں داخل ہوا تھا ۔۔۔
'کچھ نہیں گھر سے کالز ہیں یار"
حمدان نے موبائل بیڈ پہ واپس اچھال کر صوفے پہ رکھی ہاف آہستیں کی ٹی شرٹ جس کا رنگ سیاہ تھا۔۔۔ٹی شرٹ اٹھا کے اپنے کسرتی جسم پہ پہنی تھی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔
ڈیٹس ویری نائس برو۔۔۔
مطلب آج بھی ساری کالز مسڈ ہوگئیں ہیں۔۔۔۔"
۔سعد کھانے کھنے ٹرے بیڈ پہ رکھتا ہوا اپنی بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا. . ۔
"سعد کیا پاگل ہو گئے ہو ایسے کیوں ہنس رہے ہو ۔۔۔۔۔""؟
ہمیشہ غلطی سے ہی مسڈ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔"
حمدان کو سعد کا ہنسنا سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔ جب ہی وہ منہ کے زاویے بگاڑ کے بولا تھا۔۔۔ یہ سچ تھا کہ اسکے امپارٹنٹ کالز اکثر مسڈ ہوجاتے تھے لیکن وہ یہ سب جان بوجھ کے بلکل نا کرتا تھا۔۔
"you are an excellent bike rider ,good cooker ..included in top 10 ."...saad replied
لڑکیاں جس کے ایک اشارے کی دیوانی ہیں، اس سے دوستی کے بڑھائے ہوئے ہاتھ کے انتظار میں ہیں۔۔وہ الگ بات ہے تم کسی کو گھاس نہیں ڈالتے ۔۔۔۔۔۔وہ حمدان بھی کال مسڈ ہونے سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
سعد کھانا پلیٹوں میں ڈالتا ہوا ہنسی ضبط کرکے بولا تھا۔۔۔یہ ہی وقت تھا جب حمدان کو غصہ آیا تھا۔۔
"'ادھر آ بتاتا ہوں ۔۔کہ کتنا ڈرتا ہوں میں'"
۔۔حمدان اپنی ازلی انداز میں کہتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا۔۔۔
""نہ نہ میں یہاں ہی اچھا لگ رہا ہوں ""۔۔۔۔۔سعد بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بول تھا۔۔ ۔۔
""You know ...its not fear ..its a respect for my parents ...for my family...،saad" ...hamdan replied in serious way ...""
"ہاں سمجھ گیا ۔۔۔میں تو مذاق کر رہا تھا بس ۔۔اچھایار اب۔۔ Dont show me your angry man face "
اور پلیز کھانا کھالے اس سے پہلے ٹھنڈا ہو جائے ۔اپنے آپ کو بعد میں سنوار لینا۔۔پھر بڑی ماما سے بات بھی کرنی ہے "۔۔۔
۔۔۔سعد حمدان کو دراز شیشے کے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔۔جس طرح وہ تیار ہورہا تھا سعد کو پتہ تھا کہ وہ کافی دیر لگائے فا
""ایک منٹ کیا میں تجھے گھاس سپلائر والا لگتا ہوں"" ۔۔۔۔حمدان سعد کی بات یاد کرتا ہوا کہتا ہے ۔۔
"نہیں حمدان" ۔۔۔۔۔سعد نے نارمل انداز میں کہا تھا۔۔۔
""تو یہ کیوں کہا کہ میں گھاس نہیں ڈالتا ""۔۔۔حمدان سعد کے قریب آکر اسے ایکمکا جڑتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔
"اوئے ہاتھ ہے یا ہتھوڑا اتنی زور کا مارتا یے ۔۔یہ مجھ معصوم پہ ظلم کرنے کے لئے اس شخص نے مارشل آرٹس سیکھے تھے" ۔۔۔۔۔۔۔سعد اپنا بازو سہلاتا ہوا غصے سے بولا تھا ۔۔
""شروع ہوگئ ڈرامہ بازیاں معصوم اور سعد شیرازی ""۔حمدان کا موڈ اب بہتر ہوگیا تھا ۔۔جب ہی اسنے سعد کی ٹون میں کہا تھا۔۔
"ہاں تو" ۔۔۔سعد معصوم سے شکل بنا کر رہ گیا تھا۔
""اچھا بس بس ۔۔اب کھانا اسٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔۔۔پھر گھر کال کرنی ہے ""۔۔۔حمدان نے بات روکنا یہیں مناسب سمجھا ورنہ سعد کو روکنا تو ۔۔۔۔اففف۔۔۔۔
-------------------------------
پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ جہاز سازی بیڈ پہ ایک وجود چادر خود پہ ڈھانپے میٹھی نیند میں گم تھا ۔۔۔۔۔یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا ۔۔۔جسکا تھیم ڈارک اینڈ لائٹ پرپل تھا ۔۔۔دروازے سے اندر آو تو ایک سایہ سامنے موجود کھڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔جہاں سے پردے اب ہٹ چکے تھے ۔۔جس سے سورج کی روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی تھی۔۔۔
دوسرے سائڈ وال پہ ایک بڑی سی انلارج تصویر لگی تھی ۔۔۔جو یقینا اسی سوے ہوئے وجود کی تھی ۔۔۔۔اور اس ہیولا کا سایہ بھی اب اس تصویر پہ نظر آرہا تھا۔۔۔۔
وہ ہیولا اب اس وجود کے طرف بڑھ رہا تھا اور اب اسکے منہ سے اس نے چادر ہٹائی تھی ۔۔۔۔۔اور ایک چیز اس سوئے ہوئے وجود کے کانوں پہ سرسرائی تھی ۔۔۔۔
اممممیییی "۔۔۔۔۔اور اچانک ہی وہ وجود اب بیڈ سے اچھل کر چیخنے کے ساتھ کانپنے میں بھی مصروف تھی۔۔۔۔۔۔۔اس چیخ نے ہیولا کو اپنے کان پہ ہاتھ رکھنے پہ مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔۔
""بس بھی کرو لڑکی پورے گھر کو اوپر بھیجنا ہے ۔۔اتنی خوفناک چیخ۔۔۔افف""۔۔۔۔اس شخص نے تیز آواز میں کہا تھا۔۔
مرتضی ۔۔"۔تم" ۔۔۔
"ایسے جگاتا ہے کوئ نیند سے "۔۔۔
مجھے ہارٹ اٹیک آجاتا تو ۔۔۔۔۔۔"
اپنا سانس بہال کرکے بولنے کے ساتھ ساتھ اس نے بیڈ پہ پڑا تکیہ اس کو دے مارا تھا ۔۔جسے مرتضی نے بر وقت سائڈ ہو کر خود کو بچایا ۔۔۔۔۔۔۔
"اب بندہ ایسے گھوڑے ہاتھی بیچ کر سوئے گا تو ایسے ہی اٹھایا جاتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ہیولا (مرتضی)نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔
""جی نہیں بس ایک تم ہی ہو جو جان بوجھ کر اس طرح اٹھاتے ہو"
۔۔آخری دفعہ بھی مرتضی نے یخ ٹھنڈا پانی ڈال کر اسے نیند سے بیدار کیا تھا ۔۔۔۔۔۔پورے گھر میں مرتضی اسکے پیچھے پڑا رہتا تھا کہ کس طرح اسے پریشان اور تنگ کرنا ہے۔۔
۔۔۔۔""۔ایک تو ماما بھی پتہ نہیں اسے کیوں بھیج دیتی ہیں"" ۔۔۔۔۔امل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا تھا اور اپنے نازک سفید گداز پاووں میں دو پٹی کی سلیپر ڈالی تھیں۔
ہاہاہاہا ۔۔۔""
قسم سے ایسی میسنی شکل بناتے ہوے تم پوری چوہیا لگ رہی ہو ""۔۔۔۔مرتضی امل کو جلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا ۔۔ویسے بھی وہ اتنی نازک سی کسی گڑیا کی طرح تھی کبھی وہ چوہیا، تو کبھی دیوار پہ چپکی چھپکلی کہتا تھا.
آں۔۔۔""
"مرتضی اگر تم دو منٹ میں سے یہاں سے دفع نہیں ہوئے نہ تو شامت دیکھنا تم اپنی بس" ۔۔۔۔
میرے خیال سے بڑے پاپا تو آج گھر پہ ہیں ۔۔۔۔۔"
ڈوپٹہ اپنے گلے میں ڈال کر امل نے دھمکی سے کام چلایا تھا اس طرح تو وہ جانے والا نا تھا۔۔ ۔۔
"اچھا اچھا نہیں کہ رہا کچھ ۔۔نیچے آجاو ۔۔ بڑی امی بلا ری ہیں ناشتے پہ۔۔۔تمہاری وجہ سے ہمیں بھی انتظار کرنا پڑتا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتضی نے کہتے ہوئے اس کا پھینکا ہوا تکیہ اسے مارا تھا جو پورا امل کے چہرے پہ ٹھیک نشانے پہ۔لگا تھا۔۔۔ ۔۔بدلہ لینا تو اسکا حق تھا۔۔
"اللّہ ۔۔۔کرے۔۔۔
اللّہ ۔۔کرے۔۔مرتضی تم۔۔۔۔
تم فیل ہوجاو۔۔۔۔۔"
تکیہ اپنے چہرے سے ہٹاتی وہ روہانسی انداز میں بولی تھی۔۔کیونکہ یہ روئی سے بھرا تکیہ بھی ضرور اسکے چہرے کو نقصان کو پہنچا چکا ہوگا۔۔۔
"کتنا لال چہرہ ہوگیا ہے"
تکیہ ہٹا کر اسنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تھا۔۔۔۔جو سرخ ہورہا تھا۔۔۔۔۔
"تم سے تو مرتضی بعد میں بدلہ لونگی"
وہ ارادہ بناتی باتھروم کی طرف چل دی تھی۔۔
______________________________
یہ ہیں مس امل سدا کی ڈرپوک ۔۔۔۵ فٹ ٢ انچ ہائٹ گوری رنگت۔ گلابی ہونٹ۔ ہیزل آنکھیں ۔ کمر سے ایک انچ اوپر تک لمبے برائون بال ۔نازک سراپہ۔ معصوم سی خواہشات رکھنے والی ۔چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈر جانے والی ۔۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوجانے والی ۔۔۔دنیا کی چالاکیوں سے دور ۔۔۔گھر والوں کی لاڈلی۔۔شیرازی ولا کی جان و رونق ۔۔۔۔۔گھر میں شیرنی اور باہر بھیگی بلی ۔۔۔جسکا یونی میں پہلا سال ہے ۔۔اور جو کہ آجکل اپنے فرسٹ سیمسٹر کے پیپر دینے میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔
_____________________________
سعد اور حمدان دونوں ایک سے نائٹ ڈریس پہنے کونیوں کے بل الٹے لیٹے لیپٹوپ کی طرف متوجہ تھے۔۔جہاں انکی امی جان سکرین پہ نظر آرہی تھیں۔۔۔۔
""حمدان مجھے مزید کچھ نہیں سننا ۔۔تم اب پاکستان آ رہے ہو ۔۔۔۔بیس سالوں سے دور ہوں تم سے ۔۔اب مزید نہیں""
یہ کہتے ہوئے انکے آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے تھے۔۔
"تم یہاں بھی بزنس اسٹارٹ کر سکتے ہو ۔۔۔۔۔بلکہ اسٹارٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے یہاں تمہارے بابا کا اپنا بزنس ہے تم وہ چلانا" ۔۔۔۔۔۔۔
"ماما پلز روئیں تو نہیں ۔۔۔۔اچھا میں کچھ سوچتا ہوں اس بارے میں " ۔۔۔۔۔حمدان کو اپنی ماں کا رونا بلکل اچھا نا لگا تھا۔۔۔۔وہ بہلاتے ہوئے بولا۔تھا۔۔۔
"بڑی ماما میں تو اس لنگور کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ چلتے ہیں پاکستان ۔۔
لیکن یہ اور میری سن لے ۔"
۔کبھی وہ دن آئے گا یا نہیں یا میں نے بڈھا ہی ہو جانا ہے اس خیال میں کہ کب پاکستان جا کر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سوونگا۔۔۔۔"۔
۔۔سعد جو کب سے خاموش بیٹھا ان دونوں کو سن رہا تھا ۔۔اس سینٹی ماحول کو ختم کرنے کیلئے اس نے ایسا کہا۔۔۔۔جس سے امی جان کے لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے ۔۔۔۔وہ خود پاکستان جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔اپنے ماں باپ کو وہ بہت مس کرتا تھا۔
لیکن وہ ہنسی فوراً غائب کرکے وہ حتمی انداز میں یہ کہہ کر لائن کٹ کر دیتی ہیں کہ اب حمدان جب پاکستان آنے کےلئے مان جائو گے جبہی بات ہوگی ۔۔۔۔اور حمدان تو ارے ارے کر کے ہی رہ گیا تھا۔۔۔ماں کا یہ رویہ تو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔اور سعد حمدان کی خود پہ گڑھی نظروں کو جانچتے ہوئے کمرے سے یہ جا وہ جا ۔۔کیوں کہ جو گوہر افشانی اس نے کچھ دیر پہلے کی تھی حمدان نے اسکا کرارہ جواب تو دینا تھا نہ ۔۔۔۔لیکن قسمت اچھی تھی جو بچ گیا ۔۔۔۔۔
اور حمدان بھی کسی سوچ میں گم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان اور سعد بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ کزنز بھی تھے ۔۔۔۔سعد حمدان سے ایک سال چھوٹا تھا لیکن دونوں کلاس فیلو تھے ۔دونوں اپنی ابتدائئ تعلیم مکمل کرکے لندن آگئے تھے ۔۔دونوں پڑھنے کے ساتھ ساتھ جوب بھی کر رہے تھے
لندن میں وہ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں جو تھا تو چھوٹا لیکن ہر طرح کی آرائش سے مکمل اور رہنے والوں کی ذوق کا گواہ ۔۔۔
ان کی پڑھائ تو مکمل ہو چکی تھی ۔لیکن انہوں نے اپنی جاب continue رکھی تھی
۔دونوں نے بزنس ایڈمینسٹریشن میں اپنی ڈگری مکمل کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب یہاں ہی بزنس سیٹ کرنے کی کوشش میں مبتلا تھے۔۔
___________________________
حمدان شیرازی ۔۔۵ فٹ ١٠ انچ ہائٹ بھوری آنکھیں۔ ایک جاذب نظر شخصیت کا مالک ۔۔مضبوط اعصاب ۔۔سرخ و سپید رنگت ۔۔ فرینچ داڑھی ۔۔گھنی مونچھوں تلے پیوست لب ۔۔ سنجیدہ طبعیت غصہ تو ہمیشہ ناک پہ ۔۔ لڑکیاں جسکی دیوانی لیکن وہ ان سب سے بے پرواہ ۔۔۔۔جسکا ایک ایم ہے ایک گول ہے ۔۔۔۔ایک سعد ہی ہے صرف جو اس سے اتنا فری ہوکر بات کرلیتا ہے ۔۔۔ورنہ کسی میں اتنی ہمت نہیں ۔۔۔۔۔۔
سعد شیرازی ۵ فٹ ١٠ انچ ہائیٹ۔ٹھنڈا مزاج شوخ طبیعت کا مالک تھا۔۔۔گڈ لکنگ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حد سے زیادہ کئرنگ بھی تھا۔۔لیکن حمدان کو زچ کرنے کا کوئ موقع جانے نہیں دیتا تھا۔۔یہاں بھی وہ حمدان کا خیال بلکل چھوٹے بچوں کی طرح رکھتا تھا اسکے کپڑوں سے لے کر کھانے کا خیال وہ کرتا تھا۔۔۔
_________________________________
وہ کسی خیالوں کے تحت مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر آئی تھی جب سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے ایک زور دار تصادم ہونے کے باعث اسکا وجود ان بیلنس ہوا تھا۔۔ ۔مقابل اگر اسے بازو سے پکڑ کر نہ سنبھالتا تو امل تو بل کھاتی سیڑھی سے نیچے جاتی ۔۔۔۔
امل کے بال کھلے ہوئے تھے جو کہ مقابل کے شرٹ کے بٹن میں الجھ گئے تھے ۔۔۔۔
""یہ جو دو آنکھیں ہیں کبھی انکا صحیح استعمال بھی کر لیا کرو ۔۔۔۔ایسے تو بہت جاسوسی ہوتی ہے تم سے۔۔""
اگلا بندہ تو فل تپہ وا تھا اسکے بال نکالنے کے ساتھ ساتھ وہ اسے سنانے میں بھی مصروف تھا۔۔
"""۔اذہان تم ہر وقت مرچیں کیوں چبائے رہتے ہوں ۔۔کبھی تحمل سے بات کر لیا کرو اگر مجھے نظر نہیں آیا تو تمھیں کونسا آگیا ۔۔""
۔درد ہونے کی وجہ سے امل اسکے قریب تھی ۔۔۔امل کو اسکے اتنے قریب ہونے پر عجیب لگ رہا تھا اپنی جھینپ مٹانے کے لئے اسنے اسے الٹا ہی جواب دیا ۔۔
۔۔"اور تم تو بغیر چبائے ہی مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرتی رہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔"
مقابل نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں وی تھیں ۔۔
۔۔۔امل کوئ جواب دیتی اذہان اسکے بال نکال کر یہ کہ کر آگے بڑھ گیا کہ اسکا ابھی لڑنے کا کوئی موڈ نہیں ہے ۔اسکا اٹیٹیوڈ دیکھ کر تو وہ چونک سی گئی تھی۔۔اسکے سامنے سے وہ اس طرح سے کیسے جاسکتا ہے۔
۔جیسے امل تو ہمیشہ اس سے لڑتی ہی رہتی ہے ۔۔۔
"تم سے تو ازہان ، تم سے بھی ایک ایک حساب برابر کرونگی ۔۔
اب صرف مرتضی ہی نہیں تم سے بھی حساب لینا ہے"
۔امل نےبھی سیڑھیوں سے لاونج میں آنے تل بعد میں بدلہ لینے کا ارادہ تہیہ کرلیا تھا
۔ یہ منظر دو آنکھوں نے بڑے غور سے دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکرادیا ۔۔۔۔
امل نیچے آئی تو بی جان لائونج میں صوفے پہ بیٹھی تھیں ۔۔
"ارے میری بی جان کیا ہو رہا ہے "۔۔۔۔۔امل بھی کہتی ہوئی انکے برابر میں آکر بیٹھ گئ ۔تھی۔۔۔
"کچھ نہیں میری گڑیا ادھر آ بالوں میں تیل لگائوں ۔۔اتنے روکھے ہو رہے ہیں" ۔۔۔آسیہ(ملازمہ) کو آواز دے کر انھوں نے تیل منگوایا ۔۔۔
۔۔پاس بیٹھی شانزہ بیگم بھی دادی پوتی کے پیار کو دیکھ کر مسکرادی ۔۔۔اور ہمیشہ اس گھر کی خوشیوں کےلئے دل میں دعا کی لیکن ہر گھڑی قبولیت کی تو نہیں ہوتی ۔۔
۔۔۔۔۔
"بی جان رائمہ آنی کب آئنگی ؟؟ اتنے دن ہوگئے ہیں" ۔۔۔۔امل نے بالوں میں تیل لگواتے پوچھا ۔۔۔۔
"ہاں بیٹا دن تو ہوگئے ہیں اس ویکنڈ آئے" ۔۔۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بی جان بول کر دوبارہ مالش کرنے میں مصروف ہوجاتی ہیں ۔۔
_______________________________
سعد کچن کے کام نبٹا کر کمرے میں آیا تو حمدان کو سوچوں میں گم دیکھتا ہوا اسکے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔۔
۔۔۔"کیا سوچتا رہتا ہے تو ہر وقت کہیں کوئ بم شم بنانے کا توارادہ نہیں ہے" ۔۔۔۔۔
"سعد تو کبھی سیرئس بھی ہو جایا کر "
۔حمدان سعد کو سنجیدہ لہجے میں کہتا ہے۔۔۔۔ابھی وہ واقعی ہی سوچوں میں مصروف تھا
"اچھا بتاو کیا ہوا ۔۔"
کن سوچوں میں گھم ہو۔۔۔"
۔سعد نے اسکی سنجیدہ شکل دیکھی تو بولاکن سوچوں میں گم تھا
۔۔اب وہ بلکل سیرئس ہوگیا تھا لیکن آنکھوں میں شرارت صاف جھلک رہی تھی ۔۔
۔۔"یار مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ پاکستان جاوں یا نہیں ۔۔۔۔۔
ماما بھی ناراض ہو گئ ہیں اور میں یہاں سے جانا بھی نہیں چاہتا""
۔۔۔۔ حمدان نے اسے جواب دیا تھا۔
""تو ایک کام کر وہ جو لڑکیاں نہیں کرتی گلاب کے پھول کی پتیوں کے ساتھ he likes me or not ? تو بھی وہی کرلے میں پاکستان جاو یا نہیں ۔۔کہو تو گلاب لے آو ۔۔۔۔۔۔""
سعد سے تو سیدھی بات کی توقع کر ہی نہیں سکتا تھا حمدان ۔۔۔
"سعد اگر تو میرے پیارے پیارے ہاتھوں سے پٹنا چاہتا ہے تو سیدھا بولدے ۔۔ویسے بھی بڑی خارش ہو رہی ہے ۔۔۔""حمدان نے سعد کو بلکل سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔
۔حمدان عمل کرتا اس سے پہلے سعد بول پڑا ""اوکے بی سیرئس حمدان تمہارا جو بھی فیصلہ ہو یہاں یا پاکستان رہنے کا میں تمھارے ساتھ ہوں "۔۔۔۔۔۔
"ویسے کہوں تو پاکستان جانے کا میرا بھی دل ہے ۔۔۔اپنوں سے بہت دور ہیں ہم" ۔۔۔۔
"ہاں دل تو میرا بھی کر رہا ہے ۔۔کچھ سوچتے ہیں" ۔۔۔۔۔۔حمدان نے مسکرا کے کہا تھا۔۔
"اب آپکے اینگری فیس پہ مسکراہٹ آ ہی گئی ہے تو پلیز ایک کپ کافی بنا کے لے آو میرے لیے"
سعد زرا آگے کو جھک کر بیڈ کی ڈراز سے اپنا لیپ ٹاپ نکالتا ہوا بولا تھا۔۔. .
"میں کوئی کافی نہیں بنارہا اور نا ہی میں کچن میں جارہا"
حمدان اپنے موبائل پہ فوراً ہی گھم ہوگیا تھا۔
"واٹ دا ہیل حمدان۔۔۔
میں صبح سے لے کر شام تک سوری رات تک تمہارے سارے نخرے اٹھاتا ہوں اب بھی میں. نے ڈنر ریڈی کیا تمہیں کھلایا ، اب کچن چمکا کر آیا ہوں، تم میرے لیے ایک کپ کافی نہیں بناسکتے"
اسنے جو لیپ ٹاپ کی سکریں کھولی تھی حمدان کے جواب پہ فوراً پٹک کے دے ماری تھی۔۔اپنا پیش و قیمت کا لیپ ٹاپ سعد نے اس غصے سے بند کیا تھا کہ حمدان تو حیران رہ گیا تھا۔۔۔
"برو۔۔۔کول۔۔۔۔کام داون۔۔۔
ہم دونوں کے لیے میں کافی بناتا ہوں۔۔۔
سوری بے بی۔۔۔۔۔بس فائٹ منٹ دو مجھے"
حمدان لیٹے سے اٹھ بیٹھا تھا اور اسکا احساس کرتا ہوا اسکا غصے سے دھواں دار چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تھا سعد کو وہ کبھی کبھار ہی تیز آواز میں بات کرتے سنتا تھا۔۔
"ہاں دفع ہوجاو یہاں سے۔۔۔مجھے سلائیڈز ریڈی کرنی ہیں، پین کلر بھی لانا ساتھ سر میں درد ہے مجھے"
وہ۔واپس لیپ ٹاپ کی سکرین اٹھاتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔جبکہ حمدان موبائل کو ساتھ لیے کمرے سے نکل گیا تھا۔۔
"پیار سے تو سنتا نہیں ہے۔۔۔
سالہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کچن میں گیا ہے اب گھنٹے بعد آئے گی میری کافی۔۔۔۔"
وہ اب انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پہ چلاتا ہوا خود سے بولا تھا۔۔
۔حمدان اور سعد پچپن سے یہاں تھے لیکن کوئی بری عادت نہیں تھی ان میں ۔۔۔۔۔ ۔۔حمدان کا ماننا تھا بندے کو ڈیپینڈینٹ نہیں انڈیپینڈنٹ ہونا چاہئیے ۔۔
اسی لئے اس نے جوب بھی شروع کردی تھی ۔۔۔۔
جس میں سعد بھی اس سے متفق تھا ۔۔۔۔
________________________
ہاشم (آغا جان) اپنے کمرے میں کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جب امل ان کےلئے چائے لےکر آتی ہے
۔"۔آغاجان چائے "۔۔۔۔رات کے کھانے کے بعد وہ اکثر چائے پیتے تھے ۔۔۔۔۔
"ارے میرا پیارا بچہ "۔۔۔۔۔۔۔آغا جان امل کو نظر اٹھا کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں تو امل انکے گلے لگ جاتی ہے ۔۔۔
"میری گڑیا کے امتحان کیسے جا رہے ہیں ۔۔۔؟"آغا جان امل کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔
"آغا جان بہت اچھے آپ سب کی دعائیں ہیں ۔۔ابھی تو ایک ہی پیپر ہوا ہے"" ۔۔۔امل پاس رکھی کرسی پہ بیٹھتی ہوئی کہتی ہے ۔۔
"اچھا جاو اب سو جاو ۔۔۔پڑھنے نہ بیٹھ جانا ۔۔۔۔۔اتنی کمزور ہو گئ ہو "۔۔آغا جان امل سے کہتے ہیں ۔۔
۔۔۔۔"میرے پیارے آغاجان ۔۔۔آپ کو میں ہمیشہ کمزور لگتی ہوں ۔۔۔۔۔یہ دیکھیں میں بلکل ٹھیک ہوں "۔۔امل انھیں گھوم کر دیکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور کھلکھلا کر ہنستی ہے
۔۔اور امل کی یہیں مسکراہٹ تو ہاشم شیرازی کی جان
ہے ۔۔۔۔
امل کے جانے کے بعد سامنے دیوار پہ لگی تصویر( جس میں وہ کرسی پہ بیٹھے وے ہیں اور امل انکے گلے میں ہاتھ ڈالیں کھڑی وی ہے) ۔۔۔۔کو دیکھتے ہوئے اٹھارا سال پیچھے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ہاسپیٹل کے کاریڈور میں ہاشم شیرازی اور باقی گھر والے بھی بےچینی اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے ۔۔۔
۔اندر آپریشن تھیٹر میں انکی بہو زندگی اور موت سے لڑ رہی تھی۔۔
۔۔۔ڈاکٹر نے ماں اور بچے کی کنڈیشن سیرئس بتائی تھی
۔۔اور یہ کہ دونوں کا بچنہ مشکل ہے ۔۔۔۔۔
لیکن اللہ نے ان پر کرم کیا ۔۔۔۔اور انھیں ایک ننھی پری سے نوازا اور ماں اور بچے دونوں کو صحتیاب رکھا
۔۔۔ہاشم شیرازی کی سالوں کی خواہش اور تڑپ کو آج قرار ملا تھا
۔۔۔۔انکی اپنی کوئ بیٹی نہیں تھیں اور نہ ہی بہن ۔۔۔
۔انھیں لگتا تھا کہ اللہ ان سے ناراض ہے جبہی انکے یہاں اپنی رحمت نہیں بھیجی ۔۔
۔۔۔اسی لے انھوں نے ایک بیٹی کو adopt کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔جسکا نام رائمہ رکھا تھا ۔۔۔
۔۔انھیں لگا آج اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے
۔۔۔۔اور انھوں نے اللہ کا شکرادا کیا اور اس ننھی پری کا نام امل رکھا ۔۔۔
جوانکے سب سے چھوٹے بیٹے کی اولاد تھیں اور شادی کے ۵ سال بعد ہوئ تھی ۔۔۔۔۔۔اور اس دن سے امل ہاشم ولا کی آنکھوں کا تارا اور سبکی جان بن گئی تھی۔۔۔۔۔????
ہاشم شیرازی ایک مہزب اور سلجھے ہوئے شخص تھے ۔۔۔۔۔اور انکی بیگم فرزانہ بیگم بھی انھی کی طرح سلجھی ہوئ تھی ۔۔۔۔۔انکا اپنا بزنس تھا۔۔۔۔۔۔۔
انکے تین بیٹے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بڑا بیٹا حماد شیرازی جسکی بیوی انعمتہ اور دوسرا بیٹا حارث شیرازی جسکی بیوی شانزہ ہیں ۔۔۔۔۔ان دونوں بیٹوں کی شادی ساتھ ہوئی تھی ۔۔۔۔اور ان دونوں میں ایک سال کا ہی فرق تھا ۔۔۔۔۔حماد صاحب کے دو بیٹے ہیں ۔۔بڑا بیٹا حمدان شیرازی اور چھوٹا بیٹا مرتضی شیرازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن دونوں بھائیوں کے مزاج ایک دوسرے سے بلکل الٹ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حارث شیرازی کے بھی دو بیٹے ہیں ۔۔۔۔۔بڑا بیٹا سعد شیرازی اور اور چھوٹا بیٹا اذہان شیرازی
حمدان جب آٹھ اور سعد جب چھ سال کا تھا تو یہ دونوں لندن چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاشم شیرازی کی تیسرے اور سبسے چھوٹے بیٹے حنین شیرازی جو اپنے دونوں بھائیوں سے ۴ سال چھوٹے ہیں ۔۔انھوں نے اپنی کلاس فیلو صدف سے شادی کی تھی ۔۔۔۔انکی ایک ہی بیٹی امل شیرازی ہے ۔۔
جو کی انکی شادی کے ۵ سال بعد ہوئی تھی ۔
امل ویسے تو مرتضی اور اذہان سے ٧ سال چھوٹی ہے ۔۔لیکن امل انھیں نام سے ہی پکارتی تھی۔۔۔بچپن سے اسکے عادت نام لینے کی تھیں آغا جان نے بھائی بلوایا بھی تو وہ نام ہی لیتی تھی جو عادت اسکی اب تک ہی ہے ۔
۔مرتضی اور امل ایک دوسرے سے لڑتے بھی بہت ہیں لیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے ۔
ہاشم شیرازی نے اپنے تینوں بیٹوں کے بیچ محبت قائم رکھی تھی اور یہ تینوں بھائی ایک ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔
۔حماد صاحب کے غصے اور رعب سے گھر میں سب ڈرتے تھے خاص طور پہ مرتضی اور اذہان ۔۔۔ سوائے امل کے کیونکہ یہ تو سبکی لاڈلی تھی ۔۔۔۔۔
مرتضی اور اذہان کے اب آفس جوائن کرنے سے حماد صاحب اب گھر میں رہتے تھے
۔لیکن حارث اور حنین شیرازی آفس جاتے تھے ۔۔
ہاشم شیرازی کو سب" آغاجان" ۔۔اور فرزانہ شیرازی کو سب" بی جان" کہتے تھے۔
حماد صاحب کو سب بچے" بڑے پاپا" اور انعمتہ بیگم کو "بڑی ماما" ۔۔اسی طرح حارث صاحب کو" بڑے ابو "اور شانشزہ بیگم کو بڑی امی" کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حنین صاحب کو سب" چھوٹے ابو" اور صدف بیگم کو "چھوٹی امی" کہتے تھے ۔۔۔۔
حماد صاحب آج آفس جانے کے ارادے سے تیار ہو رہے تھے جب انعمتہ بیگم انہیں کوٹ پہناتے ہوئے کہا ۔۔"آپنے حمدان سے بات کی وہ آرہا ہے پاکستان" ۔۔۔۔۔۔
""میں نے بات کی ہے اسکا وہی رہنے کا ارادہ ہے تو میں زبردستی نہیں کرسکتا ۔۔وہ بچہ نہیں ہے ۔شروع سے وہاں رہا ہے تو اسکا آگے کا کیا پلین ہے میں اس میں اپنا مشورہ دے سکتا ہوں زبرستی نہیں کر سکتا یا اپنی مرضی تو نہیں تھوپ سکتا ۔۔ماشاءاللٰہ سے وہ سمجھ دار ہے اسکا فیصلہ ٹھیک ہی ہوگا "
حماد صاحب نے تحمل سے جواب دیا تھا
"آپ باپ ہیں اسکے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن میں نہیں وہ پاکستان آئے گا واپس میں نے کہ دیا ہے "
انہوں نے حتمی انداز اپنایا
"آپ بات کو سمجھنے کی کوشش کریں وہ اب میچیور ہے ہماری انگلی پکڑ کر تو اب نہیں چلے گا نہ آپ ضد نہ کریں کہیں وہ بدظن ہی ہوجائے "
انہیوں نے سمجھاتے ہوئے کہا
انعمتہ بیگم کو تو غصہ ہی آگیا تھا وہ اتنی کوشش کر رہی تھی اور حماد جی تو ساری کوشش پہ پانی پھیر رہے تھے ۔۔اور وہ ایک غصیلی نظر ڈال کر بغیر کچھ کہے ایک آستین پہنائے بغیر ہی کمرے سے چلی گئی تھی
""ارے بیگم کوٹ ہی مکمل پہنائ جاتی" ۔۔۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بھی اپنے بیٹے سے دور رہ سکتے تھے لیکن ضد بھی نہیں کر سکتے تھے انہیں پہلے اپنے بیٹے کی خوشی عزیز تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------
حارث اور شانزہ بیگم تو حمدان کے ضدی اور غصے سے واقف تھے اور انہیں سعد کا پتہ تھا اگر حمدان نہیں آئے گا تو وہ بھی کھبی نہیں آئے گا کیونکہ وہ دو جسم ایک جان تھے اس لئے وہ خاموش ہی تھے اور فیصلہ ان پہ ہی چھوڑا تھا
_________________________
"صدف آپ نے ہمارے کپڑے استری کروادئیے"
حنین صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے تو اپنی بیگم کو سوچوں میں گم پایا ۔۔انہوں نے صدف کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انکو اپنی طرف متوجہ کرایا
"ہاں۔۔۔ آپ کب آئے "۔۔۔۔؟ انہوں نے چونکتے ہوئے کہا
"جب آپ میرے خیالوں میں گم تھی" ۔۔۔۔حنین نے انہیں،۔۔۔ انکی بات کا جواب دیا ۔۔۔۔۔
لیکن ان کو پریشان دیکھ کر انہیوں نے صدف کو کندھوں سے تھام کر اپنی طرف موڑا اور کہا
" اتنے سال گزار لئے آپ کےساتھ ۔۔آپ کو آپ سے ذیادہ جانتا ہوں" ۔۔"اب بتائیں کیا بات ہے "۔۔۔۔؟
"کچھ خاص نہیں میں بس امل کے بارے میں سوچ رہی تھی"
وہ پریشان لہجے میں کہتی ہے
"امل کے بارے میں ایسا کیا سوچ رہی ہے جو اتنی فکرمند ہیں آپ" اب تو حنین صاحب کو بھی فکرمندی لاحق ہوگئی تھی
"وہ بہت معصوم اور سادہ ہے دنیا کی بےرحمی نہیں جانتی اسنے ہمیشہ محبت دیکھی ہے کبھی اکیلی باہر نہیں گئ ایک پل بھی ہمارے بغیر نہیں رہی ہمیشہ تو اچھلتی کودتی رہتی ہے کل کو اگر اسکی شادی ہوتی ہے تو کیسے رہے گی"" ۔۔۔۔۔۔۔
صدف نے فکر مندی سے حنین سے کہا
""یہ اچانک امل کی شادی کہاں سے آگئی " انہیں بات سمجھ نہیں آئی تھی
"آج صبح ایسی ذکر نکل گیا تھا اسکی شادی کے متعلق وہ تو روہانسی سی ہوگئی تھی بعد میں اسے بہلایا لیکن آج نہیں تو کل اسکی شادی تو ہونی ہے " صدف بیگم نے دور کی سوچتی یہ بات کہی
"آپ فکر کیوں کرتی ہیں جو ہوگا اچھا ہوگا انشاللہ جب اسکی شادی ہونی ہوگی تو دیکھی جائے گی اب ہی تو ویسے بھی پڑھ رہی ہے ۔۔سبکی فکر ہے صرف میری نہیں ہےکبھی ہماری حالت بھی دیکھ لیا کریں""
حنین نے بات کا رخ موڑتے ہوئے انکو دل بہلانے کے لئے بیچاری سی شکل بنا کر کہا
"کیا ہوا آپکو" وہ ایک دم سب بھلائے اپنے شوہر کی جانب متوجہ ہوگئیں اور انکے قریب بھی ہو گئیں تھی جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے صدف کو اپنے گھیرے میں قید کر لیا اور کہا مجھے نہ vitamin you کی کمی ہوگئ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جب تک صدف کو انکی چالاکی سمجھ آئی جب تک تو انکی گرفت مضبوط ہو گئی تھی
"یہ کونسی مووی دیکھ لی ہے آپ نے جو یہ ڈائیلوگ بازی ہورہی ہے " حنین صاحب سے انہیں اس طرح کی بات کی امید نہیں تھی
"کیا بیگم اتنا اچھا موڈ ہے اور آپ کو ڈائیلاگ لگ رہا ہے سب پتہ لگ جاتا ہے "
اپنا حصار توڑتے انہوں نے کہا
"کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہ آپکا ڈائیلگ نہیں ہے " انہوں نے جتاتی انداز میں کہا
"ابھی ایل ای ڈی پہ پتہ نہیں کوئی شو تھا یا مووی اس پہ دیکھا " وہ اٹھتے کہتے ہیں کیونکہ انہیں آفس کے لئے دیر ہو رہی تھی
اور وہ اپنے مقصد میں تو کامیاب ہوگئے تھے صدف بیگم کا ذہن واقعی منتشر ہوگیا تھا
---------------------------------------------
امل یونی پہنچ کر متلاشی نظروں سے ادھر ادھر اپنی ایک اکلوتی دوست پلس ہمدرد سویرا کو ڈھونڈ رہی تھی جو کہ رائمہ کی نند بھی تھی
جب امل کی آنکھوں پہ اچانک پیچھے سے کوئی اپنی انگلیاں رکھتا ہے جسے وہ محسوس کرکے فورا سمجھ جاتی ہے کہ یہ سویرا ہے ۔۔۔۔۔
"سویرا یہ کیا تم ہر وقت ڈراتی رہتی ہو ۔۔۔ہر وقت ایک نئے انداز سے سامنے آتی ہو" ۔۔۔۔۔امل نے اسکا ہاتھ اپنی آنکھوں پر سے ہٹاتی ہوئے کہا۔۔
"کیونکہ جاناں میں آپکا ڈر ختم کرنا چاہتی ہوں میری کپ کیک" ۔۔۔سویرا امل کو پیار سے کپ کیک کہتی تھی
"ہاں ڈرا کر کب سے ڈر کرنے ختم ہونے لگ گیا کونسی کتاب میں لکھا یہ ہے "
امل نے دونوں ہاتھ باندھ کر بنھویں اچکا کر پوچھا
"میری کتاب میں لکھا ہے اور کہاں لکھا ہو سکتا ہے " اس نے امل کے پھولے گال کھینچتے ہوا کہا
"آپ تو بہت بڑی مصنفہ ہیں کتاب بھی ہے جسکا بندے کو رہنے دو فرشتے تک کو علم نہیں ہوگا " امل نے اپنا گال سہلایا جو کہ ہلکا سرخ ہوگیا تھا
"یار تم میری اس طرح آنلائن بےعزتی نہیں کر سکتی تم مجھے underestimate کر رہی ہو لڑکی " سویرا نے منہ بنا کر کہا
"اب بندہ خود ہی اپنی بے عزتی کروانا چاہ رہا ہے تو کیا کرا جائے " امل نے اپنے ہاتھوں کو گھماتے کہا
""دیکھنا تمہاری بھی باری آئی گی اور میں بھی ٹھیک بدلہ لوں گی ۔۔امل تمہارے پیچھے ۔۔۔۔۔۔۔
سویرا کہتی کہتی رک گئی تھی اور چہرے کے ایکسپریشن بھی ایک دم بدل گیا تھا
"کی۔۔۔کیا۔۔۔ہ۔۔۔۔ہے پی۔۔۔۔۔۔پیچھے "؟ امل اپنی جگہ فریز ہو گئی تھی
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔"حالت دیکھوں اپنی ڈر نہیں لگتا شکل ایسی بن گئی جیسے سچ میں کوئی ڈریکولا سامنے آگیا ہو" سویرا اپنی ہنسی کو بریک لگایا
"سویرا تم اب بچ کو دیکھاو مجھ سے میرا سانس اٹک گیا تھا " امل نے اسکے جانب بڑھتے کہا
"اوکے آئی ایم سیلینڈر " سویرا نے پیچھے ہوکر دونوں ہاتھ اوپر رکھ کر کہا
"پتہ ہے تمہیں اس وقت تم کسی ڈریکولا سے کم نہیں لگ رہی ہو " امل نے حساب چکتا کیا
"یہ غلط بات ہے امل اتنی پیاری شکل ہے میری تم کس سے ملا رہی ہو " سویرا کو بلکل یہ بات پسند نہیں آئی تھی
"ہاں تو تم بھی نہ ڈرایا کرو " امل ابھی بھی کچھ ڈری ہوئی تھی بلکہ اسنے تو پیچھے مڑ کر تصدیق بھی کی تھی
" میں تو تمہارا ڈر ختم کرنا چاہتی ہوں لائف میں بہت کچھ اکیلے بھی فیس کرنا پڑتا ہے کیسے کرو گی ہھر ہمیشہ کوئی ساتھ نہیں ہوتا " سویرا نے اسکو سمجھاتے کہا
"تم جانتی ہوں سویرا میری طاقت گھر والے ہیں مجھے بہت ڈر لگتا ہے سب سے میں کبھی اکیلی نہیں رہی ہمیشہ اذہان مرتظی کوئی نہ کوئی ہوتا ہے یہاں بھی تم ہو نہ میرے ساتھ " ۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے دھیمے لہجے میں کہا
"اچھا چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں "کیونکہ امل اداس ہوگئی تھی
وہ امل کا ہاتھ پکڑتی کلاس کی جانب بڑھی
امل کو کہیں بھی اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی وہ
یونی بھی ڈرایئور کے ساتھ آتی جاتی تھی ۔۔اور آج تک نہ وہ شاپنگ یا گھومنے اکیلے گئ۔۔ مرتظی اذہان یا گھر کا کوئی نہ کوئی میمبر ہوتا یہی وجہ تھی کہ اسکی کوئی دوست بھی نہیں تھی ۔کیونکہ جو گروپ تھا وہ اکثر آوٹنگ پہ جاتا اور امل منع کردیتی ۔۔اور وہ امل کو ممی گرل کہ کر مذاق اڑاتے تھےاور کہتے جاو "" بےبی فیڈر پیو ""
۔۔۔۔لیکن سویرا نے انکو اچھا سبق سکھایا اور وہ امل کے ساتھ ہی رہتی تھی ویسے بھی سویرا اور امل ایک دوسرے کے لئے کافی تھے ہاشم صاحب کوئ نیرو مائینڈ انسان نہ تھے بس امل کے بارے میں حد سے حساس تھے ۔۔۔۔
----------------------------------------------
اذہان کال پہ بات کر رہا تھا جب مرتظی اسکے کیبن میں فایئل لےکر آیا تھا اور اذہان کے بات کرنے کہ انداز سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی لڑکی سے بات کر رہا ہے
ایک شدید اشتعال کی لہر اسکے اندر دوڑی جسے وہ ضبط کرگیا
کال کٹ ہونے پر اسکرن پہ لڑکی نمبر ١٠ کا نام جھلملتا دیکھ کر جسکا ابھی میسج آیا تھا وہ مزید چونک گیا تھا اور اپنا غصہ کنڑول کرنا اب مشکل تھا
"اذہان تمہیں کب سمجھ آیئگی یہ جو لڑکیوں کے جزبات سے کھیلتے ہو ٹھیک نہیں کرتے ہماری بھی ایک بہن امل ہے اگر اسکے ساتھ "۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی کہتے کہتے رک گیا تھا
۔۔۔"امل کہاں سے آگئی وہ ان جیسی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے خبردار جو تم نے انکے ساتھ امل کو ملایا اور رہی بات ان لڑکیوں اگر کسی دن میں کال یا بات نہ کروں تو نا جانے کتنی بار میرا موبائیل بجتا یے"" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کا نام سن کر وہ غصے سے بولا تھا۔۔
"اذہان ہر لڑکی ایک جیسی نہیں ہوتی تم اگر سبکے ساتھ ٹائم پاس کر رہے ہو ضروری نہیں ہے کہ ہر لڑکی بھی یہں کر رہی ہو کیا پتہ کسی کے جذبات سچے ہوں اور انکی آہیں برداشت نہیں کر پاو گے"
مرتظی نے اسء ٹھیک ٹھاک سنایا
"کیا مطلب ہیں بد دعا کا میں کچھ غلط نہیں کرتا بس وقت گزاری کرتا کوں اور وہ بھی یہی کرتی ہیں "
اذہان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا
"تم کوئی نجومی ہو جسے ہر لڑکی کا پتہ ہے وہ وقت گزاری کر رہی ہے یا نہیں " مرتظی کو اذہان کی بات بلکل پسند نہیں آئی تھی
پلز سنبھل جاو اذہان لیکن تمہیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔وقت سمجھایا گا نہ جب تو روتے ہوئے میرے پاس آو گے اور یاد رکھنا میرا کندھا ہمیشہ میسر رہے گا "۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے مرتظی اسکے کیبن سے جانے کے لئے مڑا تھا
جب اذہان اسکے رستے میں آیا اور کہا
""میں نہ باہر جا رہا ہوں تم سنبھال لینا یار بڈی ہے نہ میرا "
اور ہمیشہ کی طرح مرتظی کا جواب سنے بغیر واک آوٹ کر گیا تھا
مرتظی چاہتا تو گھر پہ بتا سکتا تھا لیکن اس سے اذہان کی آزادی ختم ہو جاتی اور سنبھلنا اسے پھر بھی نہ تھا اسلیئے اسنے وقت پر چھوڑ دیا کیونکہ کچھ لوگوں کو جبتک سبق نہ ملے وہ نہیں سنبھلتے اور اذہان بھی ان میں سے ہی تھا
---------------------------------------------------------
"آج تو تھکا دیا اوپر سے جیب بھی خالی کروادی پوری مارکیٹ لینے کا ارادہ ہے اتنے گھنٹے تو عورتیں بھی شاپنگ میں نہیں لگاتی جتنا تم لگاتے ہو بندہ کیا کیا نہ کرلے کم از کم کچھ نہیں تو میری نیند ہی پوری ہو جاتی پتہ نہیں اس بیچاری کا کیا ہوگا جو اسکی قسمت میں ہوگی ۔۔۔
تم نہ ایک کام کرنا شادی بیرو کھولنا اور لڑکی پسند کرنا لیکن اسکا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا پسند جبتک تمہیں کوئی آے گا میرج بیرو بند ہی ہو جانا ہے ۔۔۔۔
۔میری جیب میں تو کچھ نہیں بچہ اب کھانا کھلا اچھا سا۔food court کی طرف بڑھتے ہوئے سعد کی دہایئاں عروج پہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان تو اس ناٹک باز کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا ساری شاپنگ حمدان نے اپنے جیب سے کی اور سارے بیگز بھی اسے کے ہاتھ میں تھے ڈرایئو وہ کر کے آیا سعد تو بس بیٹھ کر اور چل کر تھک گئے ۔۔۔۔
سعد کی قسمت اچھی تھی کہ حمدان کے ہاتھ فری نہیں تھے ورنہ آج تو سعد کو سبنے پٹتا ہوا دیکھنا تھا ۔۔۔۔
""میری چھوڑ اپنا سوچ مجھے تو ابھی سے اس پہ ترس آرہا ہے جو تیرے ساتھ اپنی قسمت پھوڑی گی بیچاری کو اتنا کنجوس اور سست انسان ملے گا"" ۔۔۔۔۔۔حمدان نے اپنی جگہ سنبھالتی ہوئی بات مکمل کی
آفس جانے کےلئے جبتک حمدان سعد پہ پانی نہ ڈالیں وہ اٹھتا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
""اوو correct the sentence اسکی تو قسمت ہی کھل جایئگی سعد شیرازی جیسا ہینڈسم بندہ اسکو ملے گا یہ کیا کم یے"" ۔۔۔
اس نے کہا
"ہاں اس نے تمہارے ہینڈسم ہونے پہ ہی فدا ہوجانا ہے یہ کم۔نہیں بہت ذیادہ ہے بھلے ہی تم سست ہو کاہل ہو لیزی ہو کنجوس ہو یہ سب کوئی میٹر نہیں کرتا بس ہینڈسم ہونا ضروری ہے " حمدان نے مصنوئی طنز کیا
"تم یہ کہو میرے looks سے جل رہے ہو تم " سعد اپنی بے عزتی کہاں کرواسکتا تھا بولنے کے ساتھ اسکی ہنسی بھی چھوٹ گئی تھی
حمدان نے سعد کو اس طرح سے دیکھا کہ اس نے اپنی ہنسی کو بریک لگایا اور کہا "" بیکار تھا ""
"جی پہلی والے سے بھے ذیادہ بیکار تھا مجھے جلنے کے لئے اور کچھ نہیں ملا تیری لکس سے جلوں گا " حمدان نے اپنا موبائیل نکالتے کہا جہاں کچھ مس کالز تھیں جو وہ پھر مس کر چکا تھا
"تو کس سے جلے گا پھر وہی بتا دے" سعد نے اپنی فضول گوئی جاری رکھی تھی
"اتنا تو عورتیں بھی نہیں بولتیں جتنا تم بولتے ہو زبان کو تھوڑا آرام دو اور کانوں کو سکون دینا چاہیئے میرا پیٹ تمہاری بک بک سے بھر گیا ہے اور ابھی کسی کو بھوک لگ رہی تھی شاید میرے خیال سے اب نہیں لگ رہی گھر چلنا چاہیئے ""
حمدان نے جوابی کاروائی کی ۔۔۔۔
ارے میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو سیرئس ہوجاتے ہو" ۔۔۔۔۔سعد نے ایک پل بھی دیر کئے بغیر ویٹر کو آواز دی ورنہ حمدان کا کیا پتہ واقع میں ہی گھر چلا جائے اور کھانا سعد کو بنانا پڑ جائے
""اچھا تم نے فلائیٹ بک کرادی تھی " حمدان نے موبائیل پہ ٹائیپنگ کرتے ہوئے کہا تھا
ہاں کرادی تھی ۔۔۔سعد نے کہتے ہوئے ویٹر کو آرڈر دیا
"بل تم پے کرو گے حمدان " سعد نے حمدان کو پہلے ہی بتانا ضروری سمجھا تھا
""اوکے" حمدان نے نارمل انداز میں جواب دیا
حمدان کا اتنے آرام سے راضی ہوجانا سعد کو کھل رہا تھا کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی
جب ویٹر بل لینے آیا تو حمدان نے بڑے مزے سے سعد کے والٹ سے پیسے نکال کر ویٹر کو دئیے اور سعد صرف شکل دیکھتا رہ گیا
"ڈیش انسان تو نے والٹ کب نکالا یہ میرا ہی ہے نہ " سعد نے اپنی پاکٹ چیک کری والٹ نہیں تھا کیونکہ حمدان کے پاس اسکا ہی والٹ تھا
"جب تم اپنی بک بک میں مشغول تھے میں نے نکال لیا تھا " حمدان نے اسکے فیس ایکسپریشن انجوائے کرتا ہوا اپنا کارنامہ بتایا
""یاد رکھنا میں بھولا گا نہیں یہ بدلہ لے کر رہوں گا " سعد اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر حمدان کو انگلی دیکھا کر سارے بیگز چھوڑ کر واک آوٹ کرگیا
جب حمدان نے بھی جلدی سے سارا سامان اٹھایا اور اسکے ہم قدم ہوا اور کہا "" میں نے سہی کہا تھا تو کنجوس ہے ""
سعد کو رہ رہ کر دکھ ہورہا تھا کیونکہ اس نے اچھا خاصا آرڈر کیا تھا ۔۔
__________________________
""آج تو تھک گئی میں سارے کلاسس آج ہونی ہوتی ہیں " سویرا نے مین گیٹ کی طرف چلتے چلتے کہا
""ہاں " امل نے بھی اسکا ساتھ دیا
"وہ دیکھو امل تمہیں آج اذہان بھائی لینے آئیں ہیں کتنے اچھے لگ رہے ہیں اوو تم دونوں کی تو سیم میچنگ بھی یے کچھ پروگرام ہے کیا " سویرا نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
امل نے سامنے دیکھا جہاں اذہان گلاسس لگائے بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا وہ کار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا تھا
""اس نے اپنی نظر آس پاس دوڑائیں لیکن اسے ڈرائیور کہیں نظر نہیں آیا " اسکا موڈ آف ہوگیا تھا
""نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے کوئی پروگرام نہیں اور اتنا غور نہ کیا کرو اتفاق سے ہوگئی ہوگی اور یہ آج تمہیں کیوں اچھا لگ رہا ہے ہمیشہ سے ایسا ہی نظر آتا یے " امل نے سویرا کی طرف گھوم کر کہا
"کیا ہوگیا امل میں تو ویسی ہی کہ رہی تھی تمہیں برا لگ رہا ہے انہیں اچھا کہنا یا میں کہ رپی ہوں تو برا لگ رہا ہے " سویرا نے اپنی آنکھیں گھماتے کہا
"مجھے کیوں برا لگے گا کوئی کچھ بھی کہے۔۔۔۔۔
"اوکے سی یو کل ملتے ہیں "امل سویرا سے الوداعی کلمات ادا کر کے کار کی طرف مڑی تھی جہاں اذہان کھڑا ہوا تھا
امل کو قریب آتا دیکھ کر اس نے موبائیل سائیلینٹ میں لگاکر اپنی کوٹ کی پاکٹ میں رکھا اسکا ارادہ تو لڑکی نمبر دس سے ملنے کا تھا لیکن وہ اپنا ارادہ ترک کرتا ہوا خان بابا کو منع کرتا ہوا یونی آگیا تھا کیونکہ اسے امل سے بات کرنی تھی
"کیوں آئے ہو تم لینے مجھے اور خان بابا کیوں نہیں آئے " امل نے اذہان سے کہا
"کیوں میں نہیں آسکتا کیا " اذہان نے اپنے گلاسس اتارے اور امل کو پہناتے ہوا کہا
"مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا " امل نے اپنا منہ دوسری طرف کرکے کہا
""کیوں نہیں جانا میرے ساتھ " اذہان نے اسکا چہرہ اپنی طرف گھمایا
امل نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور کہا " کہہ دیا نہ "
اذہان کو اسکا ہاتھ جھٹکنا برا لگا تھا اور اس نے کار کا گیٹ کھولا اور سخت لہجے میں کہا "" بیٹھو""
امل ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی
" امل اگر تم دس سیکنڈ تک نہیں بیٹھی تو میں خود بیٹھادوں گا جو یقیناً پسند نہیں آئے گا تمہیں " اذہان نے دھمکی سے کام چلایا
" امل اسکو ہٹاتی بیٹھی اور زور سے دروازہ بند کیا ""
اذہان بھی ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور اسٹئیرنگ سنبھالا
"کہاں جارہے ہو ازہان۔۔۔یہ گھر کا راستہ تو نہیں"
اذہان کو جب امل نے دوسرے راستے پہ موڑ لیتے دیکھا تو اس سے کہا تھا۔۔""
امل کو بہت سارے راستوں کا تو نہیں لیکن یونی سے اپنے گھر تک کا راستہ اچھی طرح معلوم تھا جو یہ تو ہر گز نہیں تھا
اذہان نے امل کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ کار ایسے چلا رہا تھا جیسے اسکے ساتھ دوسرا کوئی وجود نہیں ہے
امل کو غصہ آگیا تھا کہ وہ اسے اگنور کر رہا ہے وہ غصے میں اسٹئیرنگ پکڑ کر گھمانے لگ گئی تھی جس سے گاڑی ڈس بیلنس ہوگئی تھی
اذہان نے اسٹئیرنگ سنبھالتا کار کو سائیڈ پہ کر کے اچانک ایک جھٹکے سے بریک لگایا جس سے امل کا سر ڈش بورڈ سے لگتا کیونکہ اس نے غصے میں سیٹ بیلٹ نہیں لگائی تھی لیکن اذہان اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ڈش بورڈ پہ رکھا اور اسے محفوظ کرلیا تھا
""یہ کیا حرکت ہے امل اگر ایکسیڈینٹ ہوجاتا تو " اذہان نے غصے سے کہا
"" تمہارے ساتھ کیا مسلہ ہے اذہان " امل نے بھی غصے میں کہا
یہ تو مجھے پوچھنا ہے کہ کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ یوں اگنور کیوں کر رہی ہوں مجھے کیا کیا ہے میں نے بتانا پسند کریں گی " اذہان نے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا کیونکہ امل ڈر گئی تھی جو ابھی ہوا تھا
اذہان نے سوچا تھا کہ وہ کسی ہوٹل جاکر آرام سے امل بات کرے گا اس سے وجہ جانے گا لیکن جو اس نے کیا ابھی اسکے بعد اس نے ارادہ ترک کردیا تھا لیکن بات تو کرنی تھی اب اسے
"مجھے گھر جانا ہے " امل نے مدھم لہجے میں کہا
"پہلے اپنے رویہ کی وجہ بتاو پھر گھر جائیں گے ناراض مجھے ہونا چاہئیے پھنسایا تم نے تھا اور ہو خود گئی ہو " اذہان نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
""تم نے مجھے جاسوس کہا پھر چڑیل پھر مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرتی ہوں یہ آنکھیں ہے کسی کام کی نہیں ہے کیونکہ میں انکا سہی استعمال نہیں کرتی " امل منہ پھلا کر انگلی پہ گن گن کر اذہان کی غلطیاں گنوا رہی تھی
اذہان تو امل کی شکایتیں سن کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا وہ پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا اور بات کیا تھی
""افف لڑکی ڈرادیا تم نے تو ٹھیک ہے اگر میں نے یہ سب کہا تو تم نے بھی تو بدلہ لیا پورا حساب برابر کیا ہے اور ویسے ہی گال اتنے پھولے ہوئے ہیں انکو مزید غبارے کی طرح پھلا لیا ہے تم نے"
اذہان نے امل کے گال کھینچتے کہا تھا
میرے گالوں کو کچھ نہ کہا کرو ۔۔۔امل اپنا گال سہلاتی ہے دن میں نہ جانے وہ کتنی بار اپنے گالوں پہ یہ ظلم برداشت کرتی تھی
"ہاں تمہارے بالوں کو کچھ نہ کہو تمہارے گالوں کو کچھ نہ کہو تو پھر بتادوں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں " اذہان نے سیٹ سے ٹیک لگاتا کہا ہے اسکا موبائیل وابرئیٹ ہونے لگا تھا جسے اس نے اگنور کیا ہوا تھا
ہاں تو میرے بالوں کو چڑیل سے مشابہت دو گے تو میں کہوں گی نہ اور ہاں تم نے آغا جان کو صبح یہ کیوں کہا کہ میں کہیں نہیں جاو گی پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہے ہونگے تمہاری باتوں پہ مسکرا رہے تھے اور گھور بھی رہے تھے تمہیں "" امل نے یاد آنے پہ کہا
"اب ایسا کیا کہ دیا اور آغا جان کیا سوچ رہے ہونگے تم نہیں جانا چاہتی نہ تو میں نے تمہارا ساتھ دیا ہے " اذہان کو امل کی بات سمجھ نہیں آئی تھی
""کچھ نہیں چھوڑو اسے اور سوری کہو مجھے ان سب کے لئے جو کہا ہے " امل نے بات کو ٹالا اسے نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ اذہان کو کیسے سمجھائے
""پھر تو تم بھی کہوں گی چھپکلی " اذہان نے اس کے دبلا پتلا ہونے پہ چوٹ کیا تھا
اذہان ۔۔۔۔۔۔امل نے اسکا نام کچکچا کر لیا تھا
""اچھا سوری "" ازہان نے امل کے دونوں کانوں پکڑ کر کہا اسکی عادت تھی جب بھی وہ امل کو مناتا سوری اسے کے کان پکڑ کر کہتا تھا
"صرف سوری سے کام نہیں چلے گا تم مجھے چاکلیٹ بھی دلاو" امل نے لاڈ سے کہا
""اتنی چاکلیٹ کھاو گی تو اسی کے جیسا رنگ ہوجائے گا پھر تو واقع میں کوئی اپنے گھر لیکر نہیں جائے گا ساری زندگی ہمارے پیسوں پہ عیش کروں گی " اذہان نے دکھی انداز میں کہا
""ہاں تو میں کہیں نہیں جاونگی اور تمہارے پیسے خرچ نہیں ہوتے بابا کے ہوتے ہیں " امل نے اسکو یاد دلایا
"ہاں تو وہ میرے چھوٹے ابو ہیں " اذہان نے بھی اسکو یاد کرایا
""ہاں تو میرے وہ بابا ہیں " امل نے بھی اسکو باور کرایا
"لیکن تمہارے بابا بعد میں پہلے میرے چھوٹے ابو بنے ہیں "" اب بولو جواب دو چپ کیوں ہوگئی اور ابھی چاکلیٹ آپ میرے پیسوں کی کھائیں گی اذہان نے اسکو چڑاتے ہوئے کہا تھا
امل کے پاس اسکا جواب نہیں تھا تو اس نے اذہان کے بازو میں اپنی کونی ماری
""آہ ظالمہ اتنی زور سے ماری ہے گوشت تو ہے نہیں صرف ہڈیاں ہیں " اذہان نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا
"جیسے تم تو ننھے چوزے ہوں جو ذرا سی چوٹ بردا شت نہیں کر سکتے " امل نے بھی اسکو اسکے جیسا جواب دیا
"وہ تو تم ہوں " اذہان نے کار مین روڈ میں لاکر کہا
اذہان۔۔۔۔۔۔۔امل نے چبا کر اسکا نام لیا تھا
"اچھا بابا سوری " اذہان نے ایک ہاتھ اسٹیرنگ پہ رکھ کر ایک ہاتھ سے امل کا کان پکڑتا کہا تھا
انکی نوک جھونک چلتی رہنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"خان بابا جلدی گاڑی نکالیں" ۔۔۔۔
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے آواز بھی دی
اس وقت اسنے بلیک کلر کی پلین فراک پہ لال رنگ کا حجاب کور کیا ہوا تھا
"امل آرام سے" ۔۔۔۔۔
صدف بیگم نے اپنی تیزی سے سیڑھیاں اترتی بیٹی کو دیکھ کر کہا
"افف میری پیاری امی جان "۔۔کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔
I am getting late
امل نے انکے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال کر کہا
اچھا کم از کم یہ دودھ پیتی جاو
انہوں نے امل کے سامنے دودھ کا گلاس رکھا
۔۔۔۔۔۔امییییی۔۔۔۔
امل کو دودھ خاص پسند نہیں تھا جب ہی اس نے نفی میں اپنا سر ہلایا
No arguments ..finish it hurry up
انہوں نے امل کی ایک نہیں سنی
""امل بٹیا پی لے ورنہ تمہاری ماں جانے نہیں دیگی "
بی جان جو چائے پی رہی تھی امل کو دیکھ کر انہوں نے کہا
""بی جان یہ غلط ہے آپ اپنی پارٹی بدل لیتی ہیں میری ٹیم میں ہیں یا ماما کی "
امل نے روٹھے پن سے کہا
"امل جلدی ختم کرو خان بابا انتظار کر رہے ہیں "
صدف بیگم نے امل کو ٹوکا
اوکے" ۔۔۔ جلدی سے ایک ہی سانس میں سارا دودھ ختم کرکے وہ تیزی سے مین ڈور کی طرف بھاگی ۔۔۔
آآاآآں۔ں""سامنے سے آتے شخص سے ایک زور دار ٹکر سے امل کو تو جیسے دن میں تارے نظر آگئے۔۔۔۔
اس نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو ایک اجنبی شخص کو اپنے گھر دیکھ کر اسے حیرت ہوئی
جبکہ وہ شخص اسکو دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے میں جٹا ہوا تھا
?"...who are you"
اس لئے اس نے اپنا ماتھا سہلاتے کہا
"If the same questions i ask to you ."..
اس شخص نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے اپنے ازلی انداز میں پوچھا۔۔
میں ۔"۔؟امل نے اپنے طرف اشارہ کرکے پوچھا
یقینا آپ مجھ سے مخاطب ہیں تو میں بھی آپ سے ہی ہوں ""۔۔۔اس شخص نے اپنے رعبدار لہجے میں کہا
"what do you mean by that ."..
"یہ میرا گھر ہے ۔۔۔اور آپ یہاں کیا رہے ہیں" ۔۔۔امل نے اسکا دماغ ٹھکانے لگانا ضروری سمجھا ۔۔
یہ بھی میرا ہی گھر ہے" ۔۔۔اس شخص نے کہا ۔۔
کیییییا "۔۔۔یہ آپکا گھر کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔کیا ثبوت ہے ۔۔
کوئ غلط فہمی ہوئی ہے یقینا آپکو" ۔۔۔امل نے جواب دیا۔۔
اوو ۔۔۔ثبوت ۔۔۔""۔آپکے پاس کیا ثبوت ہے ۔۔کہ یہ آپکا گھر ہے ""
۔وہ شخص اسے اسکی ہی باتوں میں پنسھا رہا تھا ۔۔۔
"میں آپ کو کیوں ثبوت دوں"" ۔۔۔۔امل نے جنجھلا کر کہا
"تو میں بھی آپکو ثبوت دینے کا پابند نہیں ہوں ۔۔۔۔got it"
اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھ کر کہا ۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک الگ چمک تھی ۔۔امل اس سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہی تھی اسے اپنا آپ لاجواب ہوتا محسوس ہوااوپر سے اسکا کانفیڈنس اب امل کو ڈر لگنے لگا تھا زبان تو اسکی ویسے بھی مرتظی اور اذہان کے سامنے چلتی تھی
امل نے دیری کا سوچتے ہوئے اور یہ کہ گھر میں اور بھی لوگ ہیں جو ڈیل کر لیں گے
۔۔"کوئی شرم ہی نہیں ہے ایسے ہی منہ اٹھا کر کسی کے بھی گھر گھس آئیں ۔۔اور اس پر سے سینہ زوری تو دیکھو"" ۔۔۔
۔یہ بڑبڑاتی ہوئی وہ اسکو نظر انداز کرتے ہوئے جھٹ سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئ ۔
اور یہ اس شخص کے کانوں سے مخفی نہ رہ سکی اس سے پہلے کہ وہ اسکے گوہ افشانی کا کوئی جواب دیتا گاڑی فراٹے بھرتی ہوئ آگے بڑھ گئ ۔۔
"ہائے اللٰہ جی یہ کیسے ہوگیا " امل نے جب اپنا سانس بحال کر کر سامنے شیشے میں دیکھا تو دنگ رہ گئی
اس کے جلدی دودھ پینے کی وجہ سے مونچھ بن گئی تھی
جلدی سے اس نے ٹشو پیپر نکال کر اسے صاف کیا اور کہا "" جب ہی وہ ہنس رہا تھا امل تم نے تو اپنا مزاق بنوالیا
______________________________________
کیا ہوا حمدان ایسے کیوں کھڑے ہو اور یہ رنگ کیوں بدلہ ہوا ہے
سعد نے اندر آتے ہوئے حمدان کا سرخ چہرہ دیکھ کر کہا
"نہیں کچھ نہیں آو اندر چلیں" ۔۔۔۔حمدان کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھا تھا
اصل میں اس کو اپنی اگنورنس اور یہ ترکی پہ ترکی جواب دینا پسند نہیں آیا تھا اسے لگا کہ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نے اس کی بے عزتی کردی یے
سعد گاڑی سے سامان نکالنے میں گم تھا جبہی وہ امل اور حمدان کی ملاقات سے انجان تھا۔۔۔۔۔
_____________________________
حمدان اور سعد نے پاکستان آکر سبکو surprise کردیا تھا بی جان تو ان دونوں کی بلائیں لیے جا رہی تھی
سعد اور حمدان باری باری ساری خواتین سے گلے ملے
انعمتہ بیگم نے انہیں کہا کہ بتا کر آتے تاکہ ہم سب تیاری کرکے رکھتے
جس کہ جواب میں سعد نے کہا" اگر بتا کر آتے تو اتنی خوشی کیسے دیکھتے "۔
حمدان اور سعد کو اپنی سر زمین پہ آکر اور سب سے مل کر انکے دلوں کو سکون ملا تھا
آج اتفاق سے مرتظی اور اذہان گھر پہ تھے اور سارے مرد آفس گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے فورا حارث صاحب کو کال ملائی اور خوشی کی نوید سنائی
مرتظی اور اذہان بھی بہت خوش تھے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا
۔۔۔۔۔""ہیلو برادرز ""۔۔۔۔۔۔
مرتظی پہلے سعد اود پھر حمدان کے گلے لگا اور کہا . . "" بھائی کہنے کی کوئی امید نہ رکھنا دو ہی سال بڑے ہو ""۔۔۔۔۔۔۔اور حمدان تو یہی سوچتا رہ گیا تھا ایک سعد کم تھا جو دوسرا بھی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی کی سعد سے تو کئ دفعہ بات ہوئی تھی لیکن حمدان سے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد اور حمدان تھے تو بھائی لیکن ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے حمدان بلکل آغا جان کی طرح تھا جبکہ مرتظی انعمتہ بیگم سے ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"آو تم دونوں کو کمرہ دکھاو ۔۔فریش ہو جاو ۔۔۔۔۔so follow me" مرتظی یہ کہ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور خواتین بھی انکے پسند کے کھانا بنانے میں جٹ گئی تھی
___________________________
حمدان کمرے میں داخل ہوا تو اس نے ہر چیز کو ستائیشی نظروں سے دیکھتا
ہر چیز سلیقے سے سیٹ تھی پورا کمرہ اسکے پسند کا تھا ۔۔۔۔۔۔بلو اور گرے تھیم میں ایک طرف گلاس ڈور تھا جہاں بالکنی تھی اور بیڈ کے سامنے والے وال پہ لکڑی کا خوبورت سہ شیلف بنا ہوا تھا جسکے بیچ میں led اور باقی سایئڈ پہ مختلف قسم کے شوپیس کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی تھی اور جسکے برابر میں ڈریسنگ روم تھا ۔۔۔۔۔۔
حمدان کو ایک پل بھی نہیں لگا یہ سمجھنے میں کہ یہ کام سعد کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہے اور حمدان نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا جسے سعد نے مسکرا کر سر کو خم دےکر قبول کیا۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے مرتظی کو کہ کر اپنے اور حمدان کا روم سیٹ کرایا تھا سعد حمدان کی choosy nature سے اچھی طرح واقف تھا کیونکہ اسے کوئی بھی چیز اتنی آسانی سے پسند نہیں آتی تھی ۔۔
امل یونی سے آئی تو گھر میں ہلچل دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔وہ مین دروازے سے اندر آئی تو سب لوگ لاوئنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔
حمدان اور سعد کی پشت امل کی طرف تھی تو امل انہیں نہیں دیکھ پائی اور اپنا بیگ اچھال کر وہ آغا جان کے سامنے ٹیبل پہ بیٹھ کر اپنی دن کی روداد سنانے لگی اور وہ بیگ حمدان کے منہ پہ لگتے لگتے بچا
"آپ کو پتہ ہے آغا جان آج کا دن بلکل اچھا نہیں تھا پہلے دیر سے آنکھ کھلی پھر ماما نے دودھ پلایا اور آج لیب تھی آپکو پتہ ہے لیب میں سر ہمارے گروپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ لوگ صحیح طرح سے سلائیڈ پکڑے فلیم کے قریب کریں نہیں تو میں آپکو آوٹ اسٹینڈینگ کردوں گا اور اس outstanding کا مطلب پتہ ہے آپکو کیا ہے لیب سے باہر کھڑا کردینا اور ہماری مس وہ کہتی ہیں مجھے لگتا یے آپ لوگ مجھ سے ڈرتے نہیں ہیں حالانکہ وہ اتنی جلاد ہیں سب کو ڈرا کر رکھتی ہیں " امل ایک ہی سانس میں بولے جارہی تھی اپنے ٹیچر کی وہ نقل اتارنے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو پائی تھی اور اسکے عجیب و غریب آواز پہ لاونج میں برجمان سب ہی نفوذ کی ہنسی چھوٹ گئی تھی سوائے حمدان کے
""افف کتنا بولتی ہے یہ پٹر پٹر کر رہی ہے جب سے اتنا تو کوا بھی کائیں کائیں نہیں کرتا ہوگا جتنا یہ لڑکی بول رہی ہے کسی نے ٹیپ آن کردیا ہے جسکا آف کا بٹن ہی نہیں ہے اور جب fuel ختم ہوگا یا ریل پھنسی گی تو یہ بند ہوگا "
حمدان کو یہ شور شرابہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ لندن میں وہ اور سعد اکیلے رہتے تھے تو ایک سکون ہوتا تھا یہاں اس کے برعکس تھا تو حمدان کو اچھا نہیں لگ رہا تھا جو وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جانا تھا اوپر سے امل کی باتوں نے اسکے سر میں درد کر دیا تھا اور اس نے اپنے دل میں یہ سب کہا
""آغا جان ایک بات تو بتانا ہی بھول گئی آپکو پتہ ہے آج ہمارے گھر کوئی ایڈیٹ آگیا تھا" ۔۔۔۔۔ امل حمدان کی مزید تعریف کرتی اس سے پہلے صدف بیگم نے اسے کندھوں سے تھام کر پھیچے موڑا اور کہا ۔۔۔
"امل سانس لےلو اور دیکھو کون آیا یے "۔۔۔۔
صدف بیگم نے سعد اور حمدان کا تعارف کرایا
امل جانتی تو تھی کہ اسکے دو کزن ہیں لیکن کھبی دیکھا نہیں تھا ۔۔۔،۔
حمدان کو دیکھ کر امل کی تو آنکھیں کھلی رہ گئی تھی اور اسکی چلتی زبان کو بھی ایکدم بریک لگا تھا۔۔۔۔
اس وقت تو جو منہ میں آیا کہ دیا تھا اور اب اسکے ہوش ہی اڑ گئے تھے"اوپر سے حمدان کا تاثر ایسا تھا کہ اب بھی چاہیئے کوئی ثبوت یا آگیا یقین" ۔۔۔۔
حمدان نے امل پہ ایک جتاتی نظر ڈالی ۔۔۔
حمدان کا تاثر تو نارمل تھا کیونکہ وہ سب گھر والوں سے امل کے بارے میں سن چکا تھا اور سیڑھیوں کے پاس وال پہ لگی تصویروں میں بھی امل کو دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے بھی امل کی بچپن کی کچھ تصویر سرسری سی دیکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امل شکل کیا دیکھ رہی ہو سلام کرو "۔۔۔
صدف بیگم نے اسے یوں ہکا بکا کھڑیا دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔
"اسلام و علیکم" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے سلام اتنے آرام سے کیا کہ بمشکل ہی ان دونوں نے سنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔
اور فریش ہونے کا کہ کر فورا ہی وہاں سے چلی گئی کیونکہ حمدان اسے ابھی ایک شیر لگ رہا تھا جو اسکے شکار کی تلاش میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔۔
سعد کو اپنی یہ کزن کیوٹ اور تھوڑی عجیب لگی جو ابھی تو اتنا بول رہی تھی اور ان دونوں کو دیکھ کر تو ایسی چپ لگ گئی کہ کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔۔
______________________________
ڈائینگ ٹیبل پہ سب موجود تھے آج کا سارا کھانا حمدان اور سعد کی پسند کا بنا تھا۔۔۔۔
جب حماد صاحب نے حمدان کو مخاطب کرکے کہا
"آگے کا کیا پلان ہے اپنا بزنس ہی کرو گے یا فیملی بزنس جوائن کروگے "۔۔۔۔۔
جسکے جواب میں حمدان نے کہا ۔۔
""ماں باپ کے پیسوں پہ سبہی عیش کرتے ہیں ۔۔بندہ خود کچھ کرے تو بات ہو میں اپنا بزنس کروں گا "۔۔۔۔۔
جس میں اسکا مزید ساتھ دیتے ہوئے سعد نے کہا
""میں نے اور حمدان نے چار سالوں میں جوب کرکے اچھی سیونگ کرلی ہے بڑے پاپا" ۔۔۔۔۔
حماد صاحب کو اپنے بیٹےکی سوچ پہ مزید فخر ہوا تھا ۔۔۔۔
آغا جان کو بھی اپنا یہ خوبرو پوتا بہت عزیز تھا ۔۔۔۔
حماد صاحب نے ایک کڑی نگاہ مرتظی اور اذہان پہ ڈالی
جسے سمجھ کر وہ دونوں پلیٹ پہ جھک گئے تھے
حماد صاحب کی سختی کے بعد ان دونوں نے آفس جوائن کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل تو کھانے میں اتنی مصروف تھی کہ اس سے ذیادہ اہم کام اور کوئی ہے نہیں اور وہ جلدی جلدی نوالے لے رہی تھی تاکہ جلدی سے جائے
"امل آرام سے کھانا کھاو اتنی جلدی کیوں کھا رہی ہوں کھانے کے آداب میں ہے کھانا آرام سے اور چبا چبا کر کھانا چاہیئے"
اذہان جو کہ امل کے برابر میں بیٹھا تھا اس نے تھوڑا تیز ہی کہ دیا تھا جس سے سب ہی متوجہ ہوگئے تھے
"امل آرام سے کہو جلدی کس بات کی ہے "حنین صاحب نے بھی امل کو ٹوکا
امل کا دل چاہ رہا تھا کھانے کے بجائے اذہان کو کھا جائے آداب کی بات تو ایسے کرہا ہے جیسے کہیں کا مولوی ہو نمبر بڑھانے ہیں بڑے پاپا کے سامنے بس امل تو جل بھن کر رہ گئی تھی اس نے اپنا پیر اذہان کے پیر میں زور سے مارا لیکن اذہان نے بھی اسکی چال اس پر الٹ دی تھی امل کے اس پیر کو اپنے پیر میں پھنسا کر لاک کردیا اور اس کو دیکھ کر آنکھ ماری جو حمدان کے آنکھ سے مخفی نہ رہ سکی
امل نے اپنا پیر چھڑانی کی کوشش کی لیکن نہ چھڑا پائی تو پاس پڑا پانی کے جگ کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکیں اور اس نے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس طرح سے اٹھایا کہ سارا پانی اذہان کے اوپر گرا اور وہ بھیگ گیا
ایک جھٹکے سے اذہان اٹھا اور تیز آواز میں کہا ""یہ کیا کرا ہے تم نے امل "
حمدان نے بھی امل کی یہ حرکت دیکھ لی تھی اسے تو وہ بلکل immature اور ننھی لگی اوٹ پٹانگ حرکت کرنے والی
"میں نے کچھ نہیں کیا غلطی سے گر گیا یے مجھ پہ الزام لگا رہا ہے بڑے ابو "امل نے حارث صاحب کو بھی گھسیٹا
"کیا ہوگیا ہے اذہان اتنا ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو غلطی سے گر گیا ہوگا جان بوجھ کر کیوں کرے گی "
حارث صاحب نے اسے کول کیا
"اتنا زیادہ بھی نہیں گرا ہے اب چینج کر لینا " شانزہ بیگم نے بھی اسے کہا
""بعد میں دونوں مل کر بدلہ لیں گیں ابھی کول ہوجا ویسے بھی جن سے انصاف مانگ رہا ہے ان سے ملنا نہیں ہے " مرتظی جو اذہان کے برابر میں بیٹھا تھا اس نے اذہان کے کان میں سرگوشی کی
""میں میٹھا لاتی ہوں وہ تو بوا لائی نہیں "
امل کہ کر کچن کی جانب مڑی
""چھوٹی ماما میں تو کہ رہا ہوں آپ امل کا بینڈ باجا بجادیں " مرتظی نے دور جاتی امل کو چھیڑا
"اس کے سامنے نہ کہنا شرما جائے گی " بی جان نے کہا
بی جان اس دن والے واقع سے انجان تھی
""وہ اور شرمائے گی پتہ نہیں کس کی شامت آئے گی جو بیچارہ اس سے شادی کرے گا وہ تو روئے گا نخرے ہی اتنے ہیں میڈم کے آپ لوگ نہ لڑکوں والوں سے کہ دیجئے گا کہ ایک دفع دی ہوئی چیز واپس نہیں ہوگی no exchange no return ویسے مرتظی ہماری لائف میں کتنا سکون آجائے گا نہ روز روز کی چک چک سے بچت ہوجائیگی "
اذہان نے مرتظی کو بھی اپنے ساتھ ملایا
"لیکن مجھے آپکے بچنے کے چانسز کم نظر آرہے ہیں بیٹا جی " شانزہ بیگم نے اذہان کو کہا
"کیوں مام وہ تو چلی جائے گی نہ سسرال "
ازہان کو سمجھ نہیں آیا تھا
"لیکن اذہان تو کہاں جائے گا ابھی اسکا نہیں پتہ نہ "
مرتظی نے بھی اذہان کو کہا
"کیا پہیلی میں بول رہے ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے صاف صاف بولو " اذہان کو سمجھ نہیں آیا تھا
"اپنا سر ذرا ترچھا کرنا " انعمتہ بیگم نے اذہان کو کہا
اس نے منہ گھمایا تو امل کو خود کو تکتا پایا " وہ ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔ام۔۔۔۔امل ۔۔ای۔۔۔ایسی
امل ایک ناراض بھری نظر ڈال کر چلی گئی تھی
"امل بات تو سنو۔۔۔۔۔۔آپ لوگ بتا نہیں سکتے تھے وہ پیچھے کھڑی یے مرتظی تجھے بڑا مزہ آتا ہے نہ پھنسانے میں بچوں والی حرکت ہے یہ"
اذہان تو اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا
"بچے آپ بھی نہیں ہے کیا ضرورت تھی اسکو چڑانے کی جانتے ہوں دکھی ہوجاتی ہے وہ اب جاکر مناو "
حارث صاحب نے اذہان کو جواب دیا
"ابھی نہیں بعد میں مناو گا شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا ہے ابھی "اذہان نے اپنا ماتھا مسلتے کہا
سعد تو اس فیملی میلو ڈرامے کو خوب انجوائے کر رہا تھا
____________________________
حمدان اور سعد نے سبکو انکے لائے گٙئے تحفے دیئے
حمدان کے ذہن میں امل کا بچپن کا والا ہی روپ تھا تو وہ teddy bear لایا تھا اسکےلئے جو اس نے صدف کو دے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
"پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو ہر دفعہ فضول بکواس کرتا ہے ملو تم اذہان کے بچے چھوڑو گی نہیں"
امل نے غصے میں بڑبڑا کر اپنا دوپٹہ اتار کر پھینکا تھا جو اندر آتے اذہان کے منہ پہ لگا تھا
"اوئےےےے کیا کر رہی ہے ابھی میں گر جاتا تو "
اذہان نے اندر آتے ہوئے کہا
"بہت اچھا ہوتا گر جاتے تو ساری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں کیوں آئے ہوں تم یہاں جاو یہاں سے "
امل نے واپس دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانوں پہ ڈالا
"یار تمہارے لئے ہی آیا ہوں آئیسکریم پہ ہاتھ لگوانے "
اذہان نے امل کے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا اسکے ہاتھ میں دو آئیسکریم کے پیالے تھے
"لیکن تم تو اتنی گرم ہورہی ہو کہ آئیسکریم ٹچ کرو گی تو یہ ملک شیک بن جائے گی "
اذہان نے اسکے غصے سے تپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا
"بکواس ختم ہوگئی ہے جاو اب یہاں سے اپنا کام کرو ہر وقت فارغ نہ رہا کرو "
امل نے اپنی کمر میں ہاتھ ٹکا کر اسے کہا
"کام ہی تو کر رہا ہوں وہ بھی سخت ترین تجھے منانا کوئی معرکہ سر کرنے سے کم نہیں ہے "
اذہان نے اٹھتے کہا
"جاو یہاں سے " امل نے اسکا ہاتھ پکڑتے کہا
"کیا کر رہی ہو آئسکریم گر جائے گی " اذہان نے اپنے ہاتھ کھینچتے کہا
امل نے اسے ایک سخت گھوری سے نوازا
"اچھا نہ سوری دل سے سوری پکا والا سوری میں تو نیچے مزاق کر رہا تھا سچ میں تم تو فوراً دل پہ لے لیتی ہو " اسے پکڑو
اذہان نے پیالے آگے کرتے ہوئے کہا
کیوں ؟؟ امل نے غصے سے کہا
"کان پکڑنے ہیں لیکن اس دفعہ اپنے پکڑوں گا " اذہان نے اسکے غصے سے پھولتے چہرے کو دیکھ کر کہا
امل نے آئسکریم کے پیالے پکڑے تو اذہان نے اپنے کان پکڑ کر سوری کہا
"کیا چاہ رہے ہو تم اذہان " امل نے اسی ٹون میں ہی کہا
"میں چاہتا ہوں تم یہ آئسکریم کھالو " اذہان نے اسکو کندھے سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا
اور خود اسکے برابر میں بیٹھ کر اسکے کندھے پہ اپنا ایک ہاتھ رکھ کر کہا " کھالو بہت پیار سے لایا ہوں پلز "
لیکن امل کو اسی پوزیشن میں دیکھ کر اس نے اسکے ہاتھ سے دونوں پیالے لئے اور ایک میں آئسکریم کرنے لگا اور کہا "ٹھیک ہے نہ کھاو اب اس طرح ضائع تو نہیں کروں گا نہ تم نے ٹائم ویسٹ کردیا " اور اس نے آئسکریم سے بھرا ایک اسپون اپنے منہ میں ڈالا
امل جو آئیسکریم کو چھوڑ نہیں سکتی تھی اس نے اسکے ہاتھ سے پیالہ کھینچا اور دوسرا چمچ لیا اور پھولے منہ کے ساتھ کھانے لگ گئی
اذہان بھی مسکرادیا یہی تو چاہتا تھا اور وہ بیڈ پہ پیر لٹکا کر امل کی طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا کہ امل اسکے گھیرے میں تھی اور کہا
"چاکلیٹ فلیور ہے تمہاری فیورٹ اتنی دور سے لایا ہوں صرف تمہارے لئے "
ہاں مسکے نہ مارو اب تم " امل نے کھانے کے درمیان کہا
"کیا کروں تمہاری طرح پنچ تو مار نہیں سکتا ورنہ دیورا میں چھپکلی کی طرح چپکی نظر آو گی" ہاہاہاہاہا
اذہان کا کہنے کے ساتھ ایک فلک شگاف قہقہ گونجا
امل کی گھورتی شکل کو دیکھ کر اس نے اپنی ہنسی کو بریک لگایا اور کہا " پسند نہیں آیا "
اذہان انتہائی فضول تھا " امل نے اسکو مکہ جڑتے کہا
"اچھا سوری "" اذہان نے اسکے گال کھینچتے کہا
"اچھا اب جاو امل نے اسکو بازو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ نازک امل کے نازک طاقت سے کہاں اٹھتا بلکہ وہ تو سامنے کھڑے حمدان کو دیکھ کر ایک دم اٹھا اور ساتھ میں امل بھی اٹھ کھڑی ہوئی
حمدان کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے اور اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے اسکی آنکھوں میں مرچیاں ڈال دی ہیں پتہ نہیں کیوں اسے اتنا برا لگ رہا تھا وہ تو گھر کا سروے کر رہا تھا تو یہاں نظر پڑ گئی
"ارے حمدان وہاں کیوں کھڑے ہوں اندر آو " اذہان نے کہنے کےساتھ امل کے ہاتھ سے آئسکریم کا پیالہ اسکے سامنے کیا
اذہان کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اس شیر کو خود ہی دعوت دے رہے ہو آ شیر مجھے مار اللٰہ پوچھے تمہیں اذہان""
امل دل میں اذہان کو کوس رہی تھی
حمدان کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر اذہان نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے اذہان کو اسکی پرسینیلٹی کے آگے اپنی personality کچھ نہیں لگ رہی تھی جبکہ اذہان بھی کافی ہینڈسم تھا
"حمدان تم امل سے گپ شپ کرو مجھے ایک کام یاد آگیا میں آتا ہوں " اذہان نے کہتے ہوئے امل کو حمدان کی طرف پش کیا اور آئسکریم کا پیالہ ہاتھ میں لے کر چلا گیا
حمدان کو ابھی اذہان کی بات سمجھ نہیں آئی تھی اور
امل بھی اس عمل کے لئے تیار نہیں تھی کسی نازک شاخ کی طرح حمدان کی طرف ڈھلکی اور اسکے سینے سے ٹکرا کر گرنے والے تھی کہ حمدان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سیف کیا
"حمدان اور امل دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے" امل کی تو سانس اٹک گئیں تھی اسے لگا وقت آگیا ہے اب شیر اپنا شکار کرے گا اذہان شیر کے شکنجے میں اسے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا
کال کی رنگ ٹون دونوں کو حقیقت کی دنیا میں لائی اور حمدان نے اسے اسکے پیر پر کھڑا کیا اور اپنےموبائیل پہ متوجہ ہوگیا
امل تو گویا سانس لینا بھول گئی تھی وہ مجسمہ بنی اپنی جگہ فریز تھی اور نظریں حمدان پر ساکت اور دماغ اسے خطرے کا سائرن دے رہا تھا
حمدان نے جب موبائیل واپس رکھا تو امل کو خود کو تکتا پایا اس نے ایک نظر سامنے دیکھ کر اپنے قدم امل کی جانب بڑھائے اور امل نے بھی بے ساختہ اپنے قدم پیچھے لئے یہاں تک کہ وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل سے جا لگی تھی اسکا دل چاہا کوئی جادو ہو اور وہ حمدان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے حمدان نے جب موبائیل واپس رکھا تو امل کو خود کو تکتا پایا اس نے ایک نظر سامنے دیکھ کر اپنے قدم بڑھائے اور امل نے بھی بے ساختہ اپنے قدم پیچھے لئے یہاں تک کہ وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل سے جا لگی تھی اسکا دل چاہا کوئی جادو ہو اور وہ حمدان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے
حمدان ہلکا سہ امل کی جانب جھکا اور امل کو لگا اب وہ گئی لیکن حمدان نے میز پہ گرے واز کو جو کہ الٹا پڑا اپنی بے قدری کو رو رہا تھا اسے سیدھا کیا اور جب امل کو دیکھا تو وہ گھوم کر دوسری طرف آگئی تھی
حمدان نے ایک نظر اس کے کمرے میں چاروں طرف گھمائی جو کہ کافی بکھرا ہوا تھا
امل کو جب غصہ آتا تھا وہ چیزیں بکھیر دیتی تھی اور اسکے غصے کی وجہ اور کوئی نہیں اذہان اور مرتظی ہوتے تھے اب بھی اس نے اذہان کی باتوں کی وجہ سے کمرہ پھیلا دیا تھا اور حمدان کو گندگی اور بے ترتیبی بلکل پسند نہیں تھی
حمدان نے واپس نظروں کا رخ امل کی جانب موڑا اور اپنی سیدھی ہاتھ کی دو انگلی کو امل کے ماتھے پہ سائیڈ پہ رکھا اور کہا
""صفائی نصف ایمان ہے "" سنا یا پڑھا تو ہوگا کبھی پٹر پٹر کرنے کے بجائے اس پہ بھی دھیان دیا کرو ""
حمدان نے کہنے کے ساتھ اپنی انگلی ہٹائی اور امل تو آنکھیں پھاڑے اسکو تک رہی تھی
""اگر گھورنا سے دل بھر ہوگیا ہو تو راستہ دینا پسند کریں گی" حمدان نے اپنے رعبدار آواز میں کہا کیونکہ امل جب گھومی تو وہ جانے کے راستے میں کھڑی ہوگئی تھی
حمدان کی بات پہ اسکا چہرہ سرخ ہوا اور اس نے فورا اپنی نظریں جکھائیں اور سوری کہتی ہوئی راستے سے ہٹی
حمدان بھی ایک پل کے لئے تھم گیا کیونکہ امل کا سوری کہنے کا انداز بلکل الگ تھا امل کی عادت تھی اسکی غلطی ہوتی تو وہ فوراً مان لیتی تھی اسے بھی اپنے آپ پر غصہ آیا کہ وہ کیوں اس طرح حمدان کو گھور رہی تھی جیسے کھبی کوئی لڑکا دیکھا ہی نہیں ہے
حمدان بھی شایان شان چلتے ہوئے باہر کی جانب بڑھا اور کان میں امل کا سوری گنگنا رہا تھا اور اسکا چہرہ جو پل میں سرخ ہوا تھا اس نے آج تک بہت لڑکیاں دیکھی تھی اس کی شاندار personality کی بدولت لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی ایک نظر ضرور دیکھتے اور کچھ لڑکیاں تو اسے ڈھیٹوں کی طرح دیکھتی تھی اسکی سختی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تھا لیکن امل نے فوراً اپنی نظریں جھکا لی تھیں ۔۔۔۔۔
حمدان کے جانے کا اطمینان کر کے امل نے اپنا رکا سانس بحال کیا
دیو۔۔۔۔ ہٹلر۔۔۔۔ اکڑو۔۔۔۔ جن ۔۔۔۔کھڑوس ۔۔۔۔بھوت بنگلے میں تو اچھی جوب ملی گی ڈرانے کا ہنر خوب آتا ہے
امل نا جانے اور کیا کیا حمدان کو القابات سے نوازتی اپنا بکھرا کمرہ سمیٹنے لگ گئی تھی وہ خود بھی نفاست پسند تھی
""سنو تم مجھے یوں حیرت زدہ آنکھوں سے نہ دیکھو
کچھ سنبھل جاتے ہیں سب مر نہیں جاتے ""
__________________________________
آج رات امل نے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا اور وجہ اذہان تھا اور جو آئیسکریم وہ لایا تھا وہ بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا
اب بھوک سے اسکا برا حال تھا
وہ جلے توے پہ روٹی کی طرح ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی
"کیا کروں بھوک بھی لگ رہی ہے "
وہ چلتے چلتے بولتی بھی جارہی تھی گھڑی پہ اس نے نظر دوڑائی جو ٢ کے ہندسے کے قریب تھی سب تو سو گئے ہونگے
آخر کار اپنی بھوک کا خیال کرتی اپنے بڑے سے دوپٹے کو شانوں پہ ڈال کر بالوں کا جوڑا بناتی ہمت جٹا کر اس نے کچن کی جانب رخ کیا
اسنے اپنی چہرے پہ آتی لٹ کو پیچھے کر کے فریج میں جھانکا تو مطلب کا اسے کچھ نہ ملا بگڑے موڈ کے ساتھ اسنے کافی بنانے کا سوچا کیونکہ ایک کافی ہی ہے جو وہ اچھے سے بنا سکتی تھی اور تو کچھ اسے آتا نہیں تھا
کچن میں رکھے چھوٹے سے ٹیبل کے پاس رکھی کرسی کو کھینچ کر وہ بیٹھ کر کافی پھیٹنے لگ گئی اس نے ہلکی سے گردن موڑی تو لاونج میں صوفے پہ اسے کوئی نظر آیا کالی چادر میں لپٹا ڈر اب اس پر حاوی ہونے لگا تھا
اس نے اپنا گردن گھما کر دیکھا تو کوئی اسے اب نظر نہیں آیا
وہ درود پاک کا ورد کرنے لگی اور اللٰہ کا نام لینے لگی اسکا ہاتھ بھی اب کانپنے لگ گیا تھا جب ہی اس کے پیچھے سے آکر کسی نے "ہوووووووووو "" کرا
اور امل کی بھی چیخ اس کے ساتھ بلند ہوئی ""آہ ہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ں۔ں۔ں۔ں""!!!!!!
وہ بند آنکھوں سے چیخنے میں مصروف تھی
""اوئے ۔۔۔شششششش ۔۔چپ ۔۔۔۔میں ہوں مرتظی "
اس نے امل کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا
مانوس آواز سن کر اس نے اپنی آنکھ کھولی اور سامنے مرتظی کو دیکھا
""مرتظی " کانپتی آواز میں اس نے نام لیا
"ریلکس۔۔۔کول ۔۔۔۔
اس نے ہنستے کہا
"ریلکس کے بچے میں آج تمہاری جان لے لوں گی "
امل نے غصے میں کہا آج تو امل کی شامت آئی ہوئی تھی
"میری جان لو گی ابھی کچھ پل پہلے تو تمہاری خود کی جان نکلی ہوئی تھی " اللٰہ پاک اللٰہ جی
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی نے اسکا مزاق اڑایا
"تم۔۔۔۔۔۔۔۔تم میرا مذاق بنا رہے ہو آج نہیں چھوڑو گی میں تمہیں "
کہتے ساتھ امل مرتظی پہ لپکی
مرتظی بھی اپنے گرد لپٹی چادر کو پھینک کر بھاگا اور امل اسکے پیچھے بھاگی
مرتظی کا تو سانس پھول گیا تھا بھاگ بھاگ کر
وہ پلٹ کر رکا اور لمبے سانس لینے کے درمیان اس نے امل سے کہا " میں تفریح کر رہا تھا یار "
لیکن وہ بھاگتی اس کے قریب آرہی تھی اس نے آج ٹھان لیا تھا کہ اس نے آج نہیں چھوڑنا ہے اسے
"مرتظی بھاگتا سیڑھیاں چڑھتا اوپر گیا جہاں اسے حمدان فرشتے بنا کاریڈور میں نظر آیا وہ ایک دو جمپ لگا کر حمدان کے پیچھے
چھپا اور کہا """حمدان بچا لے اس چڑیل سے مجھے ""
مرتظی نے حمدان کو ڈھال بنا لیا تھا اور حمدان کو لئے ادھر سے ادھر موو کر رہا تھا
امل کا جوڑا بھی کھل گیا تھا اور سارے بال اسکی پشت پہ لہرا رہے تھے دوپٹہ بھی پھسل کر اسکے ہاتھ میں آگیا تھا اور آدھا زمین کی زینت بنا ہوا تھا
"حمدان کو لگ رہا تھا جیسے وہ نمونوں کی دنیا میں آگیا ہے وہ کس کام کے لئے روم سے باہر آیا تھا وہ یہ تک بھی بھول گیا تھا
امل کو تو بس مرتظی کو پکڑنے کا جنون سوار تھا وہ لپک لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی یہاں تک حمدان کی موجودگی بھی اسے یاد نہیں تھی وہ کھبی حمدان کے دائیں جانب ہوتی کھبی بائیں جانب
مرتظی نے کارویڈر کے لٹکے پردوں کو دیکھ کر اسے حمدان کے گرد گھمایا تاکہ امل کو گمراہ کرسکے لیکن امل بھی عین اسے وقت مرتظی پہ لپکی اور حمدان کے ساتھ وہ بھی پردے میں لپٹ گئی دونوں پردے میں بری طرح الجھ گئے تھے مرتظی تو جان بچا کر بھاگ گیا تھا
امل اور حمدان کو بس ایک دوسرے کی سانسوں کی آواز اور تپش محسوس ہو رہی تھی وہ اتنے قریب تھے کہ ایک دوسرے کو بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے امل نے پردے کے ٹرنز کھولنے کی کوشش کی تو وہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ رہا تھا
حمدان کو اب غصہ آنے لگ گیا تھا اس نے اپنا زور لگا کر پردے کو کھینچا تو وہ اسکے بل تو کھلے نہیں البتہ پردہ پائپ سمیت امل کے اوپر گرا اور امل کے ایک کراہتی آواز کے ساتھ پردہ اسکے پیر میں اٹکا اور وہ اور حمدان بل کھاتے فرش پہ گرے حمدان نیچے اور امل اسکے اوپر تھی
پردے نے دونوں کو اب بھی قید کیا ہوا تھا
امل کے کچھ کھلے بال حمدان کے شرٹ کے بٹن میں اٹک گئے تھے کچھ اسکے گھڑی کے پٹے میں الجھ گئے تھے
حمدان نے اسکے بال نکالنے کی کوشش کی تو وہ امل کی ایک درد بھری سسکی نکلی ویسے ہی پائپ اسکی کمر پہ زور سے لگا تھا اوپر سے اسکے بال کھینچ رہے تھے حمدان گھڑی سے بال نکالنے کی کوشش کرتا تو شرٹ میں پھنسے بال پہ کھینچاو بڑھتا امل کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی تھی وہ بہت بے بس محسوس کر رہی تھی خود کو
حمدان نے امل کی آنکھوں میں دیکھا جو نمکین پانی سے بھر رہی تھی اس نے کچھ سوچ کر سب سے پہلے تو امل کے اوپر سے پائپ ہٹایا اور اسے فلپ کیا جس سے وہ اوپر آگیا تھا اور امل نیچے اس طرح اسے اپنا کام کرنے میں تھوڑی آسانی محسوس ہوئی اس نے پہلے شرٹ سے بالوں کو الگ گیا جس میں امل کے کافی بال ٹوٹ گئے تھے اور ریسٹ واچ میں الجھے بالوں کو تو اس نے کھینچ ہی دیا تھا جس سے امل کی ایک درد بھری سسکی نکلی اسکے ناجانے کتنے بال ٹوٹ گئے تھے اس نے امل کے سارے بالوں کو سمیٹا
آخر میں حمدان نے امل کو پکڑ کر خود کو فرش پہ تین سے چار مرتبہ رول کیا تاکہ پردہ کے بل کھلے اور وہ آزاد ہوں ۔۔۔۔
امل کو ہاتھ دےکر اس نے اٹھایا امل کے چہرے سے وہ اسکے درد کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ پائپ گرنے کی وجہ سے اسکی چوٹ لگ گئی ہے ۔۔مرتظی کا دماغ درست کرنے کا تو اس نے سوچ لیا تھا اسے غصہ امل پہ بھی تھا کہ رات کے اس پہر وہ دونوں کونسا سرکس کر رہے تھے لیکن امل کی چوٹ نے اسے حمدان کے قہر سے بچایا لیا تھا
امل نے اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھائے تو درد کی ایک شدید لہر اسے اپنے اندر محسوز کوئی اور وہ لڑکھڑا گئی بر وقت حمدان نے اسے کندھے سے تھاما اور ایک ہاتھ کندھے کے گرد اور دوسرے ہاتھ سے اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اسے اسکے روم تک لایا اور کہا
Ointement لازمی لگا لینا "
امل نے بس اپنا سر ہاں میں ہلایا
سعد کروٹ بدل بدل کر تھک گیا تھا نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔۔
یہی حال حمدان کا بھی تھا اسکی نیند تو ابھی رونما ہونے والے واقع کی وجہ سے غائب ہوگئی تھی
لندن میں وہ دونوں ایک ساتھ ہی سوتے تھے اور ابھی الگ کمرے میں دونوں کو ایک دوسرے کی کمی محسوس ہورہی تھی
اور اگلے پل حمدان کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا
۔۔۔۔۔
حمدان نے دروازہ کھولا اور سعد ہوگا یہ اسے یقین تھا دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے گلے لگ گئے تھے
اور دھپ کرکے بستر پہ گرے تھے
__________________________
صبح کی روشنی اپنے چاروں اور پھیل گئی تھی رات کا اندھیر اب غائب ہوچکا تھا اور صبح کی روشنی غالب آگئی تھی
امل نیچے آئی تو خاموشی دیکھ کر صوفے پہ بیٹھی بی جان کو دیکھ کر اس نے کہا
"یہ اتنی خاموشی کیوں ہے اور ماما وغیرہ کہاں ہیں "۔۔۔۔۔۔
"مرتظی اور اذہان ۔۔۔۔۔ حماد، حارث ،حنین کے ساتھ صبح ہی چلے گئے تھے ۔۔۔۔
اور وہ سب تو کچن میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آغا جان اپنے کمرے میں ہیں" ۔۔۔۔بی جان نے اسے تفصیلی جواب دیا
اتنے میں شانزہ بیگم بھی لاونج میں آئیں۔۔۔
"امل اچھا ہوا تم آگئیں" ۔۔حمدان اور سعد ابھی تک اٹھے نہیں ہیں دن چڑھ گیا ہے سفر کی تھکن بھی تھی ۔۔میں اٹھانے ہی جا رہی تھی انہیں ۔۔۔۔۔جاو تم اٹھادو اب" ۔۔۔۔۔۔
"بڑی امی میں "۔۔۔۔امل کی تو ہوائیاں اڑ گئی تھی کل رات کے واقع کے بعد اس میں حمدان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بیٹا جاو جلدی سے جاو جب تک میں کچن کا کام دیکھ لوں" ۔۔۔۔
اور امل کو تو ایک قدم اٹھانا بھی مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کے یوں مردہ قدم دیکھ کر بی جان نے اسے ٹوکا
"یہ کچھوے کی طرح کیوں چل رہی ہو امل "
"وہ ۔۔۔۔۔بی۔۔۔۔۔بی جان کچھ نہیں ہونہی اسکی کمر کا درد تو اب کافی بہتر تھا اتنا ذیادہ نہیں تھا کہ وہ اب چل پھر ہی نہ سکے
امل نے تیز دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے کا لاک کھولا ہے تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔
وہ مرتظی اور اذہان کے کمرے میں بھی ایسے چلی جاتی تھی تو بے دھیانی میں یہاں بھی ناک کرنا اسکے ذہن میں نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان شرٹ لیس آئینہ کے سامنے کھڑا تھا وہ ابھی ہی شاور لے کر نکلا تھا دروازے کی آواز سنکر پلٹ کر اس نے دیکھا تو امل کو دیکھ کر اسکی تو غصے سے رگیں تن گئیں تھی۔۔۔۔۔۔
اور امل بھی اسکو شرٹ لیس دیکھ کر فورا پلٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔
حمدان نے ایک بھی پل ضائع کئے بغیر بیڈ پہ پڑی شرٹ پہنی اور امل کا بازو پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے موڑا تو وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔۔۔۔۔
حمدان کو اتنے غصے میں دیکھ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹی
""تمہارے اندر تمیز ہے یا نہیں ۔۔۔۔کچھ ethics ہے یا نہیں یا دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے ۔۔۔۔ کسی کے کمرے میں بغیر نوک کئے آنا اخلاق کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔۔۔پتہ ہے یا نہیں"" ۔۔۔۔۔
حمدان دھاڑتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا اور امل پیچھے ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ وہ دیوار سے جا لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان لندن میں رہ کر بھی لڑکیوں سے فاصلے پہ رہتا تھا اور آجتک اس سے کسی نے inquiry نہیں کی اور امل اس سے ثبوت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
کچھ کل رات کا واقع بھی اسے یاد آگیا تھا جس نے اسکے غصہ کو مزید بڑھا دیا تھا اور اوپر سے شرٹ لیس اسکا امل سے سامنا ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کی تو سانس ہی اٹک گئی تھی اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی جنہیں بہنے سے وہ بار بار روک رہی تھی
آج تک اس سے کسی نے غصے میں بات نہیں کری تھی اور حمدان کا اتنے سرد رویہ اور غصہ سے امل کی زبان تو تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
حمدان اور اسکے بیچ ایک انچ کا فاصلہ بھی بمشکل تھا۔۔۔۔۔۔۔
بولو "جواب دو ۔۔۔۔۔ویسے تو بڑی زبان چلتی ہے" ۔۔۔۔۔۔
اب چپ کیوں ہوں" ۔۔۔۔۔۔
۔حمدان نے اتنی زور سے کہا کہ امل نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں اور خوف سے کانپنے لگ گئی ۔۔
اور اپنی پوری ہمت جٹا کر ۔۔۔۔"آئی ایییییییییممم ۔۔۔۔سوررررری" ۔۔۔۔اٹک اٹک کر اس نے کہا ۔۔۔۔۔
کیوں آئیں تھی تم" ۔۔۔۔۔۔اس نے اپنا اگلا سوال کیا
"بی۔۔۔۔۔۔جا۔۔۔۔جان ۔۔بلا ۔۔۔۔ر۔۔۔۔۔ہی۔۔۔ ہیں" ۔۔۔۔۔امل نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کری اور حمدان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ اور بھی کوئی سوال کرنا ہے
حمدان کو اپنی اور اسکی پوزیشن کا احساس ہوا تو فورا پیچھے ہٹا۔۔۔۔
اور امل سے کہا "جاو ۔۔۔۔۔۔۔۔
آرہے ہیں ہم ۔۔۔۔۔۔تم جاو"
امل بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور اس نے دروازہ بند کرا اور اپنی اٹکی ہوئی سانس کو بحال کیا ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوں کو رگڑ کر صاف کیا لیکن وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور وہ اپنے بیڈ پہ الٹا لیٹ گئی تھی اور روتے روتے نیند کی وادی
میں دوبارہ گم ہو گئی تھی نیچے جانے کی اس میں فلحال سکت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
ادھر حمدان نے اپنے اشتعال کو کم کرنے کے لئے ایک نظر سعد کو نیند میں گم دیکھ کر دیوار پہ زور سے مکہ مارا ۔۔۔
۔
اسے اب گلٹ محسوس ہورہا تھا وہ اوور ہوگیا تھا ۔۔۔۔امل کی غلطی اب اتنی بڑی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔
_________________________
شام کا وقت تھا
گھر کے سبہی بڑے لان میں بیٹھے تھے جب حماد صاحب نے آغا جان کو کہا کہ
""کیوں نہ حمدان اور سعد کی آنے کی خوشی میں ایک گرینڈ پارٹی رکھ لے" ۔۔۔۔
جسکے جواب میں آغاجان نے کہا ۔
""ہاں یہ اچھا آئیڈیا ہے امل کی سالگرہ بھی دو دن بعد ہے تو وہ بھی کرلیں گے celebrate ""......
جس سے سب متفق تھے ۔۔۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی لیکن کہا انہوں نے کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔
امل سے تو وہ بہت پیار کرتی تھی لیکن کبھی انہیں امل کو ہر معاملے میں اتنی اہمیت دینا پسند نہیں آتا تھا اور گھر کی بڑی بہو کی حیثیت سے انہیں اپنی اہمیت کم لگتی ۔۔۔۔۔
جبکہ ایسا نہیں تھا ۔۔۔۔۔اور نہ جانے یہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی جلن اور حسد کیا رنگ لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
""امل تم حمدان اور سعد کو جگانے کے بعد کہاں غائب ہوگئی تھی ناشتے پہ نہیں آئی پھر کھانا بھی اپنے کمرے میں منگویا طبعیت ٹھیک ہے "
شانزہ بیگم نے امل کو مخاطب کر کے کہا
جی ٹھیک ہے بڑی امی وہ بس ایسی دل نہیں چاہ رہا تھا میرا "امل نے کافی پھینٹتے جواب دیا "
___________________
امل مرتظی کے لئے کافی لےکر اسکے کمرے میں جا رہی تھی ۔کیونکہ مرتظی کو امل کی ہاتھ کی کافی پسند تھی اور اکثر وہ اسکےلئے بناتی تھی۔۔۔۔۔
اور حمدان مرتظی کے کمرے سے نکلنے کےلئے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا وہ مرتظی کا دماغ ٹھکانے لگانے آیا تھا کہ وہ بچہ نہیں ہے جو بچوں والی حرکت کرتا یے
۔۔۔۔۔
حمدان کو یوں اچانک سے دیکھ کر امل کے ہاتھوں سے کپ چھوٹ گیا تھا اور ساری کافی فرش پہ گر گئی تھی
جس پر پیر رکھنے سے حمدان پھسل گیا تھا اور خود کو بچاتے ہوئے امل کو بھی ساتھ لے گرا
حمدان نیچے اور امل اسکے اوپر تھی ۔۔۔۔۔
امل کی تو گویا سانس ہی اٹک گئی تھی امل اورحمدان ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
حمدان کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ اچانک ہوا کیا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
مرتظی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتا ہوا فورا امل کو اپنا ہاتھ دیکر اٹھایا
امل کے اٹھتے ہی حمدان بھی فورا اٹھا اور امل پہ ایک غصیلی نظر ڈال کر کمرے سے چلا گیا۔۔وہ تو شکر تھا کپ کے ٹکڑوں سے کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔۔
"یوز یور آئیز کائنڈلی۔۔۔۔
مرتضی پلیز۔۔۔۔۔واٹ دا ہیل شی از۔۔۔۔؟
لیکن جاتے جاتے اپنے جلے کٹے جملوں کے تیر چلانا نا بھولا تھا۔۔
امل تو حمدان کے کہے گئے جملے سن کر سن ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
"کوئی بات نہیں امل تم جاو اپنے کمرے میں یہ صاف کرادیتا ہوں" ۔۔۔۔۔۔۔۔
Be calm .....
مرتضی نے گم سم امل کو مخاطب کیا تھا جو کچھ دیر پہلے کے منظر میں کھوئی ہوئی تھی۔۔
"تمہاری وجہ سے سب ہوا ہے نہ تم مجھے ڈراتے نہ کل رات کچھ ہوتا لیکن تمہیں تو اپنے فن کی ہوتی ہر دفعہ خود تو کل رات بھاگ گئے اور مجھے اپنے جلاد بھائی کی حوالے کردیا ""
امل کو بھی مرتظی پہ غصہ تھا وہ کافی دینے بھی اسی لئے آئی تھی کہ مرتظی کو اسکی غلطی کا احساس دلائے لیکن سب الٹا ہوگیا تھا
مرتظی بھی اپنے کان سہلانے لگ گیا تھا پہلے حمدان نے اچھی خاصی سنائی اب امل کا بھی اضافہ ہوگیا تھا
________________________________________
امل اور حمدان کا اس دن کے بعد سے کوئی سامنا نہیں ہوا تھا ۔۔حمدان بزنس کے معاملات میں اتنا مصروف تھا کہ صبح جاتا تو رات گھر آتا تھا۔۔۔۔۔۔
___________________
رات کے بارہ بج رہے تھے۔۔
وہ دونوں دبے پاوں آہستہ آہستہ اسکے جانب بڑھ رہے تھے ایک نے اسکے کان میں باجا بجایا تھا جس سے وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی
اور دوسرا نے فوراً ہی اس پر snow spray کیا تھا بلکہ اسے ہورا ڈھک دیا تھا
اور مرتظی اور اذہان نے امل کو ایک ساتھ ایک آواز میں happy birthday sista کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھبی سیدھے طریقے سے بھی وش کرلیا کرو ۔۔۔۔
امل نے اپنے بال اور چہرے سے اسپرے کی جھاگ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالانکہ امل نے آج خصوصی طور پر گیٹ کا لاک چیک کیا تھا اور کھڑکیاں بھی بند کری تھیں لیکن یہ دونوں پھر بھی ڈپلیکیٹ کی کے ذریعے آگئے تھے
سیدھا طریقہ وہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ہمیں تو یہی آتا ہے ۔۔۔۔دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔۔۔۔
امل نے دونوں کو کشن کھینچ کر مارا "
جاو یہاں سے ورنہ میں بتاتی ہوں سیدھا طریقہ" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ دونوں اسے دوبارہ وش کرتے ہوئے اسکا پھینکا کشن اسے مارتے گئے پھر کچھ یاد آنے پہ پلٹے اور اپنی جیب سے ڈھیر سارے کلر فل شیٹس اسکے اوپر پھنک کر گئے ۔۔۔۔۔
امل نے جب وہ چٹس پڑھنا شروع کی تو ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی ایک پہ لکھا تھا
Needless to ask what you need as a birthday present, dear churail. Since you are obsessed with chocolate, I’ve invited the chocolate company to your birthday, so that you can have over-doze of it. Best birthday wishes to a lovely churail
From..IZhaan …
How was the chocolate company joke
I promise I won’t reveal your age to anyone at the party, but we should probably light your cake outdoors in case the candles catch fire.
Happy Birthday to you! Happy Birthday to you! You look like a monkey and you belong in a zoo! There ya go, little sister. I hope your birthday is absolutely bananas!
Congratulations on your Birthday! If someone says that you’re getting old, don’t listen to him and throw your yellow teeth set or hit with your knubble Anyway, my dear lovely churail sis! Happy B-Day!
__________
ایسے بے شمار عجیب و غریب وشز تھے امل نے بہت تو پڑھے نہیں اور اس نے اپنے موبائیل پہ بجتی رنگٹون دیکھا جہاں سویرا کے بہت سے وشز اسکے منتظر تھے۔۔۔۔
اور وہ مسکرا کر انکا ریپلائی دے کر سو گئی تھی ۔۔۔۔۔
______________________
امل صبح سے سب سے وشز قبول کر رہی تھی۔۔"۔آج ہونی سے بھی اسنے آف کیا تھا"۔۔۔۔۔۔
حمدان اور سعد کی آج بزنس کی سائیٹ کے لئے ڈیلینگ تھی تو وہ دونوں صبح سویرے ہی چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی اور سعد بھی آجکی پارٹی کے انتظامات میں مصروف تھے کیونکہ سارے کام انکے ذمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئی تھی اور مہمان آنا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔
_________________
""یار آج تو تھک گیا میں " سعد نے حمدان کی طرف دیکھتے کہا جو سنجیدگی سے سامنے دیکھتا ہوا ڈرائیو کر رہا تھا البتہ سعد نے ریلکس ہو کر دونوں پاوں کو آپس میں فولڈ کر کے سیٹ کے اوپر کیا ہوا تھا
"میں تو کوئی اور مخلوق ہوں جو تھکتا نہیں ہوں "
حمدان نے سنجیدگی سے ہی کہا
"تو دوسری مخلوق نہیں ہے بس کچھ سسٹم انسٹال الٹ ہوگئے ہیں یو نو mutation "
سعد نے لقمہ دیا
حمدان نے بغیر جواب دئے کار کی اسپیڈ اچھی خاصی بڑھادی
ابے اووو اسپیڈ سلو کر تجھے اس فانی دنیا سے کوچ کرنے کی جلدی ہوگی مجھے نہیں ہے ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے میرے پیارے پیارے میری طرح معصوم بچوں کو بھی آنا ہے "
لیکن حمدان نے اب بھی جواب دینے کے بجائے ایک خطرناک موڑ لیا کہ سعد پورا اپنی جگہ سے ہل گیا تھا اور پاوں فورا سیٹ کے نیچے کرے
""کیا چاہئے تجھے " سعد نے کہا
حمدان نے بس اسے ایک نظر دیکھا جیسے سعد تو جانتا نہیں تھا
""اوکے میں خاموش ہوگیا " سعد نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر کہا
حمدان نے ایک گفٹ شاپ پہ گاڑی روکی اور باہر نکلا
"یہاں کیوں آیا ہے گھر جانا ہے نہ پارٹی بھی ہے تیار بھی ہونا یے "
سعد کو حمدان کا یہاں آنا سمجھ نہیں آیا
میرے خیال سے ایک عدد برتھڈے پارٹی بھی ہے
حمدان نے اسے یاد دلایا
""اوو ہاں کیا نام ہے اپن کی کزن کا اسی کا ہے نہ " سعد نے اپنا ماتھا مسلتے کہا
"امل"حمدان نے اپنی نظریں گھماتے کہا
او ہو " کیا بات ہے نام بھی یاد ہوگیا " واہ بھی کچھ گڑ بڑ تو نہیں ہے
سعد نے اسے چھیڑا
""سعد تم انتہائی فضول بولتے ہوں اور رہی بات میں تمہاری طرح نکمہ نہیں ہوں اور نہ ہی اتنی یاداشت کمزور یے میری "
حمدان نے شاپ کیپر کو ایک جیولری آئیٹم کی طرف اشارہ کیا
بتانے کا شکریہ کہ بہت اچھا کہتا ہوں یہ تو میری اسکلز ہیں "
سعد نے اپنی تعریف قبول کی
""سر یہ بہت ذیادہ expensive ہے " اور یہ بک بھی ہے
دکاندار نے حمدان کو کہا
مہنگا ہے تو کیا ہوا اور جب بک ہے تو اشتہار کیوں لگایا ہے " حمدان کو تپ چڑھ گئی تھی
"مجھے یہی چاہئیے اب جو پسند آجائے مجھے میں اسے چھوڑتا نہیں پھر اب تو آپکو دینا پڑے گا "
دکاندار نے بھی کچھ سوچ کر حامی بھر لی
"سعد صرف ا منٹ کا وقت ہے جو لینا ہے جلدی لو ورنہ میں جا رہا ہوں "
سعد نے بھی جلدی سے جو سامنے نظر آیا پیک کرایا
__________________________
گلابی ہونٹوں پہ پنک لپسٹک لگا کر وہ مزید پنک ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ پلکوں پہ مسکارا لگاکر انہیں مزید گھنا کر لیا گیا تھا اور لائیٹ سے میکپ میں بلیک نیٹ کی ڈبل گھیر کی شارٹ فراک پہنے ۔۔۔بالوں کو کرل کئے ۔۔۔۔۔۔۔بلیک ہی دوپٹہ کندھوں میں ڈالے ۔۔اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ ۔۔۔۔۔امل بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------
مہرون کوٹ پینٹ پہ بلیک شرٹ اور براون ٹائی لگائے بالوں کو جیل سے سیٹ کرکے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیفٹ ہینڈ میں قیمتی واچ پہنے ۔۔۔۔۔۔خود پہ پرفیوم کا اسپرے کرتے ہوئے ایک نظر آئینہ میں خود پہ ڈال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔..برینڈیڈ شوز پہن کر اپنے تمام تر وجاہت کے ساتھ حمدان بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلو جینس کی پینٹ پہ وائیٹ ٹی شرٹ پہ بلو کوٹ پہنے ۔۔۔۔فل کٹ شٹ میں ۔۔۔۔ سعد ڈیشنگ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی اور اذہان دونوں نے سیم پارٹی ڈریسنگ کی تھی جس میں وہ دونوں کول لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
_____________________
امل کال پہ بات کرتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جب حمدان کی نظر اس پر پڑی ۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد وہ آج امل کو دیکھ رہا تھا
اس نے آج تک امل کو سادہ ہلیہ میں دیکھا تھا اسکو آج اسطرح سے تیار دیکھ کر حمدان کچھ پل کےلئے مسمرائز ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔اور نظریں پلٹنا ہی بھول گئیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کال پہ بات کرتے ہوئے اسکی مسکراہٹ میں حمدان کھو گیا تھا ۔۔۔۔۔اسنے آج امل کو غور سے دیکھا تھا ۔۔۔۔اس سے پہلے تو وہ اسے بس تنقیدی نظروں سے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔اور آج نظروں کا انداز الگ تھا تو دل نے بھی انداز بدل لیا تھا
آج تو حمدان کا دل ایک الگ ساز ہی میں دھڑک رہا تھا جس کی اسکو کچھ خبر نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم ۔۔"۔اہم ۔۔۔اہم" ۔۔۔۔سعد کی کنکھارنے کی آواز پہ وہ حقیقت میں واپس آیا۔۔۔۔۔۔۔
"چلی گئی ہینڈسیم وہ ۔۔۔۔۔۔۔بس کردے" ۔۔۔۔۔۔سعد نے اسے امل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جو باہر لان میں جا رہی تھی
""ک۔۔۔کییا ۔۔کیا۔۔۔۔۔مطلب ہے" ۔۔۔۔حمدان تو اپنی چوری پکڑے جانے پہ گڑبڑا ہی گیا تھا۔۔۔۔۔۔"میں تو بس ویسے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا گھور رہے ہوں سعد" ۔۔۔۔۔۔۔
"کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔چل آ باہر چلتے ہیں ۔۔وہاں کرلینا دیدار" ۔۔۔۔۔۔۔سعد نے حمدان کو کہا
"سعد تو پٹ جائے گا مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔یہ کہ کر حمدان آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔"گلیشئیر لگتا ہے پگھل رہا یے" بڑبڑاتے ہوئے حمدان کے ساتھ سعد بھی گیا تھا
سارا انتظام گھر کے لان میں کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
پورا لان برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔۔اور ہر آنے جانے والا ستائیشی نظروں سے دیکھ رہا تھا
ایک طرف ٹیبل پہ ایک بڑا سا دو منزلہ کیک رکھا تھا اور سائیڈ پہ ربن لگی ہوئی چھری رکھی تھی ۔۔۔۔
۔جس پہ خوبصورتی سے happy birthday amal لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ٹیبل کے چاروں طرف وائیٹ غبارے لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------------
فون کلر کی شارٹ کرتی پہ مہرون بڑے سے دوپٹے کو سائیڈ پہ ڈالے۔ ۔۔۔۔ ہلکے میکپ میں۔۔اسٹیپ کٹنگ بالوں کو کھولے ہوئے ۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں بڑا سہ باکس لئے دوسرے سے دوپٹے کو سنبھالتے ہوئے جنجھٹ کا شکار سویرا بہت دلکش لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل سب سے مل رہی تھی اپنے ازلی دھیمے انداز میں۔۔۔۔۔۔
صدف بیٹا"" امل کی نظر اتاروں آج تو میری پرنسس بہت جچ رہی ہے"" ۔۔۔۔۔۔
آغا جان نے امل کو خود سے لگاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلیک کلر امل کی گوری رنگت پہ جچ رہا تھا
""آنی یہ سویرا کہاں رہ گئی کہاں بھی تھا جلدی آنا ""۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اپنی نظریں دوڑاتے ہوئے کہا
"گڑیا اسے کچھ کام تھا ۔۔۔۔بس آتی ہوگی" ۔۔۔۔
ارسلان رائمہ کا شوہر نے امل کو جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔
"وہ دیکھو آگئی سویرا" ۔۔۔۔۔۔رائمہ نے امل کی توجہ entrance سے آتی سویرا پہ دلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل فورا اسکی جانب بڑھی تھی ۔۔
_________________________
سب کی تالیوں اور وشز کے ساتھ امل نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے آغا جان اور پھر باری باری سبکو کیک کھلایا
جب آغا جان نے امل کو کہا کہ "
حمدان اور سعد کو بھی کھلاو" ۔۔۔۔۔
امل نے سعد کو تو کھلا دیا لیکن حمدان کو کھلاتے ہوئے اسے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی
اور کپکپاتے ہاتھوں سے کیک کھلاتے ہوئے حمدان کی ہونٹوں پہ بھی تھوڑا کیک لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل کو اسوقت حمدان باقی دنوں سے بہت چینج لگا ۔۔۔۔۔کرختگی اور غصہ اسکے چہرے پہ اسے ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
امل کے اسطرح دیکھنے سے حمدان نے اسے آئی برو اچکا کر دیکھا تو امل نے فورا اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔۔
اور حمدان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔۔۔۔۔
اور جبہی اذہان کے اشارے پہ مرتظی نے امل کے چہرے پہ پورا کیک چپکا دیا تھا جو اسنے الگ سے چھوٹا کیک آرڈر پہ بنوایا تھا۔۔۔۔۔۔
حمدان کو امل اسوقت بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور اس نے چھپکے سے اپنے کیمرے کا فلش آن کیا تھا
امل کے تیور دیکھ کر مرتظی نے دوڑ لگائی تھی ۔۔۔۔
اور امل بھی اسکے جانب بھاگی تھی
بھاگتے ہوئے امل کا دوپٹہ حمدان کے اوپر سے لہراتا ہوا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسکے لبوں پہ ایک دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔۔۔جسے اس نے فوراً ہی گم کردی تھی اور اس نے امل کی چھپکے سے ایک پکچر کلک کی تھی
__________________________
سویرا اسکا چہرہ ٹشوں سے صاف کر رہی تھی اور وہ دونوں اپنی باتیں بھی کر رہی تھی۔۔۔
جب سعد کی نظر سویرا پہ پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔
سعد کو اپنی نگاہیں ہٹانا بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔اور اسکا دل اسے بہت تیز دھڑکتا محسوس ہوا ۔۔۔۔اور وہ ٹکٹکی باندھ کر سویرا کو دیکھنے لگ گیا تھا۔۔۔
امل کو بی جان نے آواز دی تو وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔
جب سویرا کی نظر سعد پہ پڑی جوکہ اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔سویرا کا تو ہٹلر موڈ اون ہو گیا تھا اور وہ سعد کی جانب بڑھی تھی اور اسکے نظروں کے سامنے ہاتھ ہلاکر سعد کو ہوش میں لایا تھا اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
""او مسٹر کھبی حسین لڑکی نہیں دیکھی کیا جو یوں گھورے جا رہے ہو یہ جو تمہاری مینڈک جیسی آنکھیں ہے نہ نکال دوں گی میں انہیں"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ٹھرکی" ۔۔لڑکی دیکھی نہیں اور اترانے لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا تو اسے سنا کر چلی گئی تھی ۔۔۔
جبکہ سعد تو اسکے اپنی آنکھوں کے القاب پہ صدمے میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں حمدان کے مطابق اسکی آنکھوں کا کٹ بہت پیارا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"واہ سعد تمہیں تو تمہاری جیسی ملی ہے" ۔۔۔۔۔سعد بالوں میں ہاتھ پھیرتا سویرا کا جلالی روپ سوچتے ہوئے ۔۔۔۔مسکرا کر اس طرف بڑھا تھا ۔۔جہاں وہ دشمن جان گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________
سعد نے سویرا کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے حمدان کو کہا
۔۔۔"حمدان مجھے نہ something something فیل رہا ہو رہا ہے "
جسے حمدان نے یہ سمجھ کر کہ یہاں کا کھانا اسے سوٹ نہیں آیا اور اسکا پیٹ خراب ہوگیا ہے اسے واشروم جانے کا مشورہ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان کیا کہ رہا ہے" ۔۔۔۔۔
سعد نے حیران ہو کر سویرا پر سے نظریں ہٹا کر حمدان کو دیکھا تھا
"ہاں سعد یہاں کچھ نہ کرنا "۔۔۔۔حمدان نے اپنی طرف سے سمجھ کر کہا
جب سعد کو اسکی بات سمجھ آئی تو وہ " آخ تھو کرکے رہ گیا تھا " ۔۔ وہ کیا کہ رہا ہے اور حمدان کیا سمجھ رہا ہے ۔۔۔حمدان تو اسکی محبت کا بھرتا بنانے کےکئے تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان تم اپنا کام کرو کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہ کر سعد وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اور حمدان نے بھی اپنے کندھے اچکا دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________
آغا جان نے حمدان کو اپنے کچھ جاننے والوں سے ملوا رہے تھے۔۔اور حمدان بھی اپنی چھا جانے والی پرسینیلٹی کے ساتھ سب سے اپنے ازلی انداز میں مل رہا تھا۔۔۔ہر کوئی اسکی personality سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حمدان کی نظر ایک لڑکے پہ پڑی جو کہ آغا انڈسٹری کے بزنس ڈیلر میں سے کوئی بندہ تھا۔۔
جوکہ امل کو دیکھ رہا تھا اور امل ادھر ادھر سے بے نیاز سویرا سے باتوں میں مشغول تھی۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان کی غصے سے رگیں تن گئی تھی اور اس نے اپنی مٹھی زور سے بند کری تھی جسے حمدان تو محسوس نہیں کیا تھا نہ ہی کسی اور نے لیکن سعد نے دیکھ لیا تھا اور اسکے چہرے کے اتار چڑھاو کو محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
اور حمدان امل کے آگے کچھ اسطرح سے کھڑا ہوگیا تھا کہ امل پوری کور ہو گئی تھی اور اسے نظر نہیں آرہی تھی اور ایک کڑی نظر اس نے اس شخص پر ڈالی جو امل کو دیکھ رہا تھا جسے وہ شخص محسوس کرکے نو دو گیارہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا نے امل کی توجہ حمدان کی طرف دلائی تو اس نے نظرہں اٹھا کر دیکھا تو حمدان اسے دیکھ رہا تھا امل کے دیکھنے پر حمدان اپنی نظروں کا زاویہ فورا بدلا آج امل کو حمدان کا انداز الگ ہی لگ رہا تھا ۔۔اور باقی دن کی طرح اسے اتنا برا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"او میڈم نظریں پلٹ اور تعارف کرا کہ یہ ہینمڈسم بندہ کون ہے "
سویرا نے امل کے سامنے چٹکی بجائی
تو امل نے حمدان کے ساتھ سعد کا بھی تعارف کرادیا
___________________________
ایک خوشگوار ماحول میں فنکشن کا اختتام ہوا تھا امل اپنے مختلف گفٹس کو کھول کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
جب حمدان اپنی پاکٹ سے ایک rectangular باکس نکالا جو اس نے گھر واپس آتے وقت لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
امل" ۔۔۔۔حمدان کی بھاری آواز جب امل کے کانوں میں پڑی تو اسکا گفٹ کھولتا ہاتھ رک گیا تھا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پلٹی تو حمدان اسی کے جانب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"Happy birthday Amal ...Many Many happy returns of the day "...............
اور وہ باکس اسنے اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔۔۔
جسے امل نے ججھکتے ہوئے " شکریہ "کہتے ہوئے لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی کچھ کہ نہیں پائی تھی
____________________________
سب اپنے کمروں میں چلے گئے تھے امل بھی اپنے روم کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
جب سعد نے امل کو آواز دے کر روکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"Hey sista .......janam din mubarak ......khush raho ........."
اور اس نے امل کو وش کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
'اب تو میری برتھڈے ختم ہونے والی ہے' ۔۔۔۔۔امل نے بہت آہستہ اور آرام سے کہا۔۔۔۔
"ابھی ختم تو نہیں ہوئی نہ۔۔۔
میں جب سے یہاں آیا ہوں تم سے سہی سے بات ہی نہیں ہو پائی ۔۔۔۔۔۔بزی اتنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور موقع بھی نہیں ملا وش کرنے کا ۔۔۔۔اور ہاں یہ گفٹ ۔۔۔۔۔۔۔for you ".....سعد نے تفصیلی جواب دیا
"گفٹ کی کیا ضرورت تھی ".........امل نے فارمل انداز اپنایا
Don't be formal" .......سعد نے امل کو جواب دیا
تم مرتظی اور اذہان کی طرح مجھے بھی نام سے بلا سکتی ہو۔۔۔۔۔مینے دیکھا تم کتنے حق سے ان سے گفٹ کا تقاضہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ویسے بھی its your right
"میں اگر آپکو بھائی کہوں تو" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اپنی خواہش کو زباں پہ لایا
بلکل تمہے جو ٹھیک لگے وہ کہو ۔۔۔۔۔
۔"then we are friends from today ".....
سعد اسکے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا کر کہا۔۔۔۔۔۔
جسے امل نے مسکراتے ہوئے ملا لیا ۔۔ اور اس نے کہا "فرینڈز "۔۔۔
اسے اپنا یہ کزن اچھا لگا تھا اس جلاد سے تو اچھا ہی تھا
تو "اسی بات یہ تحفہ قبول کرلو" ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد نے اپنا گفٹ آگے کیا
جسے امل نے شکریہ کہ کر قبول کر لیا تھا
"بھائی بھی کہ رہی ہو اور شکریہ بھی ادا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔not good "....سعد نے مسکراتے ہوئے کہا اسے اپنی یہ کزن بہت بھلی لگی تھی ۔
اوکے "i take my thank you back.".......۔۔۔۔امل نے مسکراتے ہوئے کہا
"تمہاری کوئی فرینڈ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی کو دیکھا" ۔۔۔۔۔سعد نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔
جی "میری بس ایک ہی فرینڈ ہے" ۔۔۔۔۔۔۔وہ کافی ہے میرے لئے ۔۔۔۔۔اسے لگا سعد نے اسکا مذاق اڑایا
"ارے میں تو ایسی کہ رہا تھا میں ہوں نہ تمہارا دوست دس کے برابر "۔۔۔۔۔۔ویسے وہ جو دوست ہے تمہاری
رائمہ آنی کی نند بھی ہے نہ وہ کیا نام ہے ۔۔۔
سعد کو لگا اس نے الٹا کہ دیا
اسکا نام سویرا ہے "۔۔۔۔امل نے سعد کو بتادیا
"اوو اچھا ۔۔۔۔۔چلو اب سو جاو کافی وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔گڈ نائیٹ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعد امل کے گال کھینچتے کہا جوش میں ذیادہ ہی زور سے اس نے کھینچ دیا تھا اسکا مقصد جو پورا ہوگیا تھا
اور امل اپنے گالوں پہ ہوتا ظلم دیکھتی رہی
اور سعد نے کمرے میں آکر یاہو کا نعرہ لگایا۔۔۔۔۔
"اوووو تو مس سویرا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مسز سعد ٹو بی ۔۔۔۔۔میری زندگی میں سویرا لانے کا ارادہ کرلیں" ۔۔۔۔
اور سعد سویرا کو سوچتے ہوئے نیند کی وادی میں گم ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت نے ایک پل میں اسے اپنا اسیر کر لیا تھا
_______________________
آلارم کی آواز سے کسمندی سے اس نے کروٹ بدلی اور مندی مندی آنکھیں کھول کر گھڑی میں وقت دیکھا جو 7 بجے کا پتہ دے رہی تھی" Hayeeee میں پہلے ہی آلارم پہ اٹھ گئی" ۔۔۔۔ خوش ہوتے ہوئے اس نے کہا
جبکہ عموما آلارم کئی دفعہ بج بج کر بند ہو جاتا تھا لیکن مقابل پہ اثر نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید سونے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے امل شاور لینے کے ارادے سے اٹھ گئی اور الماری سے ایک لان کا پرنٹڈ سوٹ پہننے کےلئے انتخاب کرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________
لندن میں بھی وہ صبح سویرے اٹھنے کا عادی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی عادت کے مطابق جوکنگ کے بعد بلیک ٹراوزر پہ سلیو لیس سینڈو پہنے جس میں سے اسکے مضبوط بازو صاف واضح ہورہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔پشپز کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان اپنے کمرے میں آکر ادھر ادھر ٹہل رہا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی فیلنگ سمجھنے سے قاصر تھا یہ مجھے کیا ہورہا ہے کیوں مینے ایسا ری ایکٹ کیا ۔۔۔
جب اسے آئینہ میں اپنا روپ نظر آیا ہے جو اس سے کہ رہا تھا ۔۔۔۔
""تمہیں محبت ہوگئی ہے"" ۔۔حمدان شیرازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے" ۔۔۔۔
۔حمدان اپنے ضمیر کی آواز کو ان سنی کیا
محبت اجازت لیکر کب ہوتی ہے یہ تو ہوجاتی ہے بسس ۔۔۔۔۔۔اور حمدان کو بھی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
محبت ایک دن اپنا آپ منوانا کر ہی دم لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔
حمدان یہ سب نظر انداز کرتے ہوئے واشروم میں فریش ہونے کی غرض سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
_______________________
بی جان کی اکلوتی بہن کا انتقال ہوگیا تھا تو سب گھر والوں کو لاہور جانا پڑھ رہا تھا امل کے کچھ important test تھے تو وہ نہیں جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
"امل بٹیا آج تک اکیلی نہیں رہی کیسے رہی گی" ۔۔۔بی جان اپنی جان سے عزیز پوتی کےلئے فکر مند تھیں ۔۔۔۔
"حمدان بیٹا میں آپکو گھر کی ذمہداری سونپ رہا ہوں اور مرتظی اور اذہان تم دونوں مستیوں میں نہ لگ جانا بزنس کا دھیان رکھنا "۔۔۔۔۔۔سعد کا بھی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی کم چلبلا نہیں ہے ۔۔اسی لئے انہیں ساری امید حمدان سے تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کا خاص خیال رکھنا ۔۔۔
ہمیں شاید دو تین دن لگ جائیں ۔۔۔۔۔۔
فلائیٹ تو جبہی بک کرالی تھی جب وہاں سے کال آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
۔حماد صاحب تینوں کو ایک ساتھ کہا جس پہ حمدان نے انہیں تسلی کرائی۔۔۔۔۔
"امل بیٹا میری جان اپنا خیال رکھئیے گا"۔۔۔۔۔۔
حنین صاحب امل کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں سارے گھر والے رخصت ہوگئے تھے سارےyongsters ۔گھر پہ تھے۔۔
___________________________
اذہان کو تو کھلی چھوٹ مل گئی تھی لڑکیوں کے ساتھ آرام سے ڈیٹ مارنے کی ۔۔۔۔
اور گھر پہ مرتظی سعد اور اذہان مل کر ادھم مچاتے ۔۔۔۔۔۔
آج انکا پلان مووی دیکھنے کا بنا مرتظی اور اذہان کے کمرے سے تو حماد صاحب نے led ہٹوادی تھی سعد کے کمرے میں تھی ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔
حمدان کے روم کے led کا کچھ مسلہ تھا تو انہوں نے کہا امل کا کمرہ کس دن کام آئے گا اور امل کے کمرہ پہ آج انہوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
سعد حمدان کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا تھا سعد کو انکار اسکے بس میں کہاں تھا اور جو مووی انہوں لگائی تھی وہ حمدان کو پسند تھی تو اس وہ اس وجہ سے وہ بھی دیکھنے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________________
امل آج نیچے ہی پڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھی تو مزید پڑھائی کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھی
لیکن یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ اسکے کمرے پر تو قبضہ ہوا وا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کشن ادھر ادھر پڑے ہوئے پوپکورن جوس کھانے کی بےشمار چیزیں کھا کر ریپرز وہی چھوڑ دئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔یہ تم دونوں کا کام ہے نہ مرتظی اذہان ۔۔۔فورن نکلو ۔۔۔۔مجھے سونا ہے "۔۔۔۔۔۔
امل نے ایل ای ڈی کے سامنے کھڑے ہوکر کہا
لیکن ان دونوں پر انکا کوئی اثر نہیں ہوا سور انہوں نے نو لفٹ کا بورڈ لگادیا ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان تینوں نے اسے بھی چپ کروادیا ۔۔۔..
"امل تم جاو میرے کمرے میں سوجاو "۔۔۔۔
مرتظی نے امل کو کہا کیونکہ وہ پہلے بھی اسکے کمرے پہ قابض ہو چکے تھے اور امل مرتظی کے کمرے میں سوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل پیر پٹخ کر چلی گئی کیونکہ اسے پتہ تھا فائدہ کچھ نہیں ہونا پہلے دو سے تو مقابلہ کر نہیں پاتی تھی اب چار سے کیا کری گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند کی شدت سے دوچار اوپر سے ان چاروں پہ غصہ امل بے دھیانی میں بجائے مرتظی کے حمدان کے کمرے میں چلی گئی تھی حمدان اور مرتظی کے کمرے تھے بھی ارابر برابر میں تو اسکا دھیان نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
ان تینوں کا تو آج ہی ساری مووی دیکھنے کا ارادہ تھا حمدان ان سب سے excuse کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو وہاں امل کو سوتا دیکھ کر ٹٹھک گیا تھا
اسے برا نہیں لگا لیمپ کی مدھم روشنی میں اسکا چہرہ روشن لگ رہا تھا ایک ہاتھ اسکا بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور وہ بلکل کونے میں سو رہی تھی اگر بائیں طرف کروٹ لیتی تو نیچے گرتی
وہ یک ٹک اسے دیکھتا جا رہا تھا سوتے ہوئے وہ جاگنے سے بھی ذیادہ معصوم لگ رہی تھی اس نے اسکے چہرے پہ آئے بالوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پیچھے ہٹایا
لمس محسوس کرتے اس نے ماتھے پہ ہاتھ مار کر نیند میں کروٹ بدلی تو وہ نیچے کرنے لگی کہ حمدان نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا اسے یہی خدشہ ابھی لگ رہا تھا اور یہ ہو بھی گیا
اس نے امل کو نیڈ پہ لٹایا اور اس پر کمفرٹر جو اسنے آدھا اوڑھا ہوا تھا اس پر ڈال کر اسکے سراپے کو اپنی نظروں میں قید کرکے سعد کے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی دل کی کیفیت سے انجان بن رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کب تک ۔۔۔۔
_____________________________
امل کی صبح آنکھ کھلی تو خود کو حمدان کے کمرے میں موجود پایا چاروں طرف نظر دوڑانے سے اسے حمدان کہیں بھی نظر نہیں آیا تو اسے سکون ملا ۔۔میں بھی کتنی پاگل ہوں یہاں آگئی ۔۔۔۔۔۔
وہ فورا اپنے کمرے کی جانب بھاگی ۔۔۔۔۔
"بوا میرا ناشتہ بنادے جلدی سے مجھے لیٹ ہورہا ہے "
امل نے کچن میں داخل ہوتی ہوئی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جی بٹیا آپ باہر ٹیبل پر جائیں میں لاتی ہوں "۔۔۔۔۔
امل جیسے ہی کچن سے باہر نکلنے کےلئے مڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زور چیخ اسکے منہ سے خارج ہوئی۔۔۔۔۔"مااااااماااااا"
حمدان اور مرتظی جوکہ باہر لاونج میں تھے ۔۔۔۔۔۔
امل کی چیخ سن کر فورا کچن کی طرف آئیں۔۔۔۔۔
"امل کیا ہوا ۔۔۔۔کیوں ڈر رہی ہو کانپ کیوں رہی ہو" ۔۔۔۔
مرتظی کو اسکی فکر ہونے لگ گئ تھی کہ نہ جانے کیا ہوگیا ۔۔۔۔
""نیچے دیکھو ""امل کی ڈر سے بھرپور آواز نکلی ۔۔۔۔۔۔
جب حمدان اور مرتظی اسکے تعاقب میں دیکھا تو دونوں کا فلک شگاف قہقہ گونجا کیونکہ نیچے مسٹر کاکروچ تھے۔جوکہ کچن سے باہر جانے کی راستے میں حائل تھے
کاکروچ کو بھی امل کو ڈرانے میں مزہ آرہا تھا اور وہ اسی کی طرف موو کر رہا تھا۔۔۔
اتنے میں سعد اور اذہان بھی آگئے اور situation کو سمجھتے ہوئے انکی بھی ہنسی چھوٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
امل کی روتی شکل کو دیکھتے ہوئے مرتظی امل کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔۔
"امل میرا ہاتھ پکڑو اور آو ۔۔اس سے کون ڈرتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ہم سمجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔
امل ڈر ڈر کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی اسی وقت کاکروچ کو بھی مستی سوجھی اور اس نے اپنا antenna امل کی جانب کیا
امل چیختی ہوئی اپنی سائیڈ پہ کھڑے حمدان کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور اسکو زور سے پکڑ کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔۔
جبکہ کاکروچ تو دوسری جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی نے امل کو کہا
" امل آنکھیں کھولو اور حمدان کو چھوڑو چلا گیا کاکروچ "۔۔۔۔
امل نے حمدان کی شرٹ اتنی زور سے پکڑی ہوئی تھی کہ اس پر شکن پڑ گئی تھی۔۔۔۔۔
امل نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں تو اسے کاکروچ کہیں نظر نہیں آیا اور اسکی جان میں جان میں آئی
جب ان چاروں کی شکل کو دیکھا تو سب کے دانت نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
ابھی ہنس رہے ہو نہ لیکن دیکھنا اب رو گے ۔۔
امل غصے سے کہتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کو وہ غصے میں بہت کیوٹ لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________
اذہان کے شیطانی دماغ میں امل کے ڈر کو دیکھتے ہوئے ایک آیئڈیا آیا جسکو اس نے مرتظی اور سعد کو بتایا تو شروع میں تو ان دونوں نے منع کرا پھر مان گئے کہ enjoyment ہو جائیگی لیکن انکا یہ مزہ انکا adventure نہ بن جائیں
۔۔۔۔۔۔انہیں بس اب رات کا انتظار تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_______________________________
حارث صاحب نے سعد کو کال کر کے گھر کی خیریت دریافت کرتی تو سعد انہیں مطمئن کردیا کہ سب ٹھیک ہے
=================
امل اپنے کمرے میں پڑھائی کر رہی تھی آجکل اسکے ٹیسٹ ہورہے تھے جسکی وجہ سے وہ لیٹ نائیٹ تک پڑھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک پڑھتے پڑھتے اسکی نظر کھڑکی پر پڑی جہاں اسے ایک سایہ گزرتا ہوامحسوس ہوا وہ اسے وہم سمجھ کر بک پہ متوجہ ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اسے ایک آواز آئی جیسے کچھ گرا ہو اس نے کمرے سے نکل کر دیکھا تو کوریڈور میں ٹیبل پہ رکھا پھولوں کا نقلی گلدستہ فرش کی زینت بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اسے اٹھا کر اسکی جگہ پہ رکھا واپس کمرے میں آئی تو اسکے کمرے کی کھڑکی اسے کھلی نظر آئی جسے اس نے خود بند کیا تھا اب اسے ڈر لگنا شروع ہوگیا تھا کیونکہ موسم بھی بلکل نارمل تھا تو واز کیسے نیچے گرگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے قدم کھڑکی کی جانب بڑھائے تو اسے گیلری میں کوئی بھی نظر نہیں آیا چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد وہ کھڑی بند کر کے واپس مڑی ۔۔۔۔ابھی وہ دو قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ کھڑکی پھر سے کھل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے اب سہی معنوں میں ہوش اڑ گئے تھے اب اسے کچھ عجیب سہ ڈراونا music سنائی دیا ڈر کے مارے اسکی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی وہ اپنی جم گئی تھی جیسے کسی نے ایلفی لگا کر اسے چپکادیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہمت کر کے پلٹی تو ایک عجیب و غریب شکل والا اسے کوئی نظر آیا امل کی ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکلی۔۔۔۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں تو اسے کوئی بھی نظر نہیں آیا اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔۔۔ اچانک اسے اپنے کندھے پہ کسی کا ہاتھ کا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ پلٹ کر دیکھے ۔۔۔۔۔۔امل کی حالت تو اب گرنے والی ہو رہی تھی اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا جب اسے ایک اور ہیولا سامنے نظر آیا جو اسکی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
مر۔۔۔۔۔۔۔مرتظی ۔۔۔۔۔۔۔اذ۔۔۔۔۔اذہان چلاتی ہوئی اس نے کمرے سے دوڑ لگائی اسے اپنے آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں تھا بس بھاگنا تھا سے یہاں سے وہ کئی دفعہ اپنے دوپٹے میں اٹکتے اٹکتے بچی ۔۔۔۔۔۔
جب وہ سیڑھیوں کے پاس سے پہنچی تو اسے سیڑھی کی ریلنگ پہ ایک خوفناک شکل والا بھوت نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
اور اگلے ہی پل امل کی فلک شگاف چیخ نکلی اور وہ بل کھاتی سیڑھیوں سے نیچے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلنگ پہ کھڑے شخص نے ایک پل بھی ضائع کئے بغیر اپنا ماسک اتار پھینکا اور امل کے پاس جاکر اسکا سر اپنی گود میں رکھا ۔۔۔۔"امل open your eyes" .....
وہ اسکا گال مسلسل تھپتھپا رہا تھا لیکن وہ تو حوش کی دنیا سے بے خبر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سعد ۔۔۔۔مرتظی۔۔۔۔ اذہان۔۔۔۔ گاڑی نکالو فورا "۔۔۔۔۔۔
حمدان اتنی زور سے گرجا کہ وہ تینوں بھی ایک پل کے لئے ڈر گئے تھے حمدان نے امل کو اپنی گود میں اٹھا کر پورچ کی جانب بڑھا جہاں سعد ڈرائیور سیٹ پہ سنبھالے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو پیچھے لٹا کر خود بھی بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھا
حمدان جوکہ ریلنگ پہ تھا اسکی آنکھوں کے سامنے امل نیچے گری تھی اور وہ اسے نہیں بچا پایا تھا
ہاسپٹل کے کاریڈور میں وہ تینوں بےچینی اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے جبکہ حمدان ایک پیر دیوار پہ رکھ کر اسکے سہارے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے حمدان کو اینڈ موقع پہ اپنے واسطے دے کر منایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو سرے سے انکا پلان سن کر انکار کر دیا تھا بلکہ انہیں بھی منع کیا تھا لیکن ان تینوں نے ملکر اسے منالیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ghost outfit اسنے اسیوقت اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر ہی پہن لیا تھا جسے اسنے اتار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔وہ تو بس امل کے ساتھ مذاق کرنا چاہتے تھے لیکن انکا مذاق ان پر اتنا بھاری پڑ جائے گا انہیں اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں تو فل تیاری میں تھے۔۔۔۔
ان تینوں نے ابھی تک وہی Outfits پہنے ہوئے تھے گزرتے لوگ انہیں عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن انہیں کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے باہر نکل کر ان کو اپنے روم میں بلایا حمدان کی سب سے پہلے فکرمند سی آواز نکلی ۔۔۔۔۔
"Is alright everything dr" ........?
ان سبکے دل گھبرا رہے تھے
"yes everything is undercontrol .........there is a slight fracture on patients right leg .....and a severe injury on head ..................
After few days she will be alright ......
I give you some medicines .......give her properly ..........and she took a severe stress of something ...........
I have to do some test ....in case of some interior injury .....whether it is or not ........in 5 to 6 hrs ...she will be back in her conscious "...........
ڈاکٹر کی آواز سن کر وہ سب سکون میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات ان چاروں نے جاگ کر کاٹی تھی امل کو
فجر کے وقت ہوش آیا تھا وہ ابھی بھی اس پل کے زیر اثر تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اسکے ہوش میں آتے ہی مرتظی فورا امل کے پاس آیا سعد اور اذہان کی آنکھ لگ گئی تھی وہ روم میں رکھے کاوچ پر سر ٹکا کر سو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
امل مرتظی کے گلے فورا لگی ۔۔۔۔
"مر۔۔۔تظی ۔۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔میر۔۔۔۔۔ے کممم۔۔۔۔رے ۔کمرے میں ۔۔۔ ۔۔۔۔کو۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ۔۔۔تھ. . . تھا" ۔
اسکے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہورہے تھے آواز رندھی ہوئی تھی
"امل چندا کوئی نہیں تھا کچھ نہیں تھا سب بھول جاو" ۔۔۔۔۔۔۔مرتظی اسے خود سے لگا کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے پرسکون کر رہا تھا ۔۔۔
لیکن امل مرتظی کی بات سے مسلسل انکار کر رہی تھی۔
"امل میری طرف دیکھو وہ ہم سب تھے ہم نے ملکر کیا تھا کوئی بھوت نہیں تھا دیکھو وہاں سعد اور اذہان کی طرف "
مرتظی نے اسے خود پہ اور ان دونوں کی طرف متوجہ کرایا
امل نے جب وہاں اور مرتظی کو دیکھتا تو اسے یقین آیا تھا کیونکہ وہ سب اسی ghost outfit میں تھے
"آپ لوگ ۔۔۔۔ اگر مجھے" ۔۔۔اس سے آگے اس سے کچھ کہا نہیں گیا
امل فورا مرتظی سے الگ ہوئی اور کروٹ لے کر لیٹ گئی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اسکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
حمدان جو دوائی اور جوس وغیرہ لینے گیا تھا امل اور مرتظی کی باتیں سن کر وہ بہت ذیادہ شرمندہ ہوگیا تھا اسے خود پہ غصہ آرہا تھا اس نے ایسا کیوں کیا جبکہ اسنے صبح ہی امل کا ڈر دیکھا تھا۔
امل ڈسچارج ہوکر جب گھر آگئی تھی وہ کسے سے بھی بات نہیں کر رہی تھی۔۔
وہ چاروں بھی اپنے مذاق پہ بےحد شرمندہ تھے
__________________________
سعد کمرے میں آیا تو حمدان کے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا آئینہ کا کانچ ٹوٹ کر بکھرا ہوا تھا جس کو اسنے مکہ مار کر توڑ دیا تھا ۔اور خود بھی زخمی ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان یہ کیا کرا ہے تونے ہم سب کی غلطی تھی تو خود کو کیوں سزا دی" ۔۔۔۔۔۔۔۔
ّوہ اسکے ہاتھوں میں پٹی باندھتے ہوئے کہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
""i am sorry ...میں نے تمہیں انسسٹ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔""
سعد "پلز ابھی چلے جاو حمدان کی آنکھیں خطرناک حد تک سرخ ہو رہی تھی اور ہاں میں تم سے ناراض نہیں ہو تم نے صرف کہاں تھا میں نے بات مانی تھی تم جاووووو ""۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے بھی بعد میں بات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا اسے اپنی شامت نہیں لانی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
سعد امل کو دیکھنے اسکے کمرے میں آیا تو وہ دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی وہ جانے کے لئے پلٹا تو امل کا فون رنگ ہوا جس پہ سویرا کالنگ جگمگا رہا تھا اس دن کے بعد سے سعد اور سویرا کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سعد نے کال recieve کری
"امل کہاں تھی کب سے کال کر رہی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔
سویرا کی آواز سن کر سعد کو محسوس ہوا کہ اسکی ساری ٹینشن ختم ہورہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم اہم "۔۔۔اپنی ہی ہانکتی جاو گی یا مقابل کی بھی کچھ سنو گی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے سویرا کو ٹوکا
"آپ کون؟ اور امل کہاں ہے ؟امل کا فون آپ کے پاس کیا
کر رہا ہے ؟ اور کسی کا فون استعمال کرنا اچھی بات نہیں ہوتی ۔۔۔۔چپ کیوں ہو جواب دو ۔۔۔۔اب "۔۔۔۔
سویرا ایک ہی سانس میں سب کچھ کہتی چلی گئی
"آرام سے لڑکی تم خاموش ہوگی تو کچھ کہوں گا نا "
سعد کو موقع ملا تو اس نے اپنی بات کہی
ہاں کہو ۔۔۔
اس نے احسان کیا
میں سعد ہوں" ۔۔۔۔
ابھی سعد مزید کچھ کہتا کہ سویرا پھر سے شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
"بندہ دل دے بیٹھا ہے اور یہ کہ رہی ہے کون سعد "
یہ اس نے دل میں کہا ورنہ وہ تو سعد کو فون سے نکل کر ہی مار ڈالتی ۔۔۔۔
"میں وہی بتا رہا ہوں آپ کچھ بولنے کا موقع دینگی تو کچھ کہوں گا نہ مسز میرا مطلب یے مس سویرا" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے چبا چبا کر کہا
"اووووو تم وہ ٹھرکی ہوں جو اس دن" ۔۔۔۔۔۔
سویرا پھر شروع ہوتی اس سے پہلے ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکی بات کاٹتے ہوئے امل کا بتایا ۔۔۔۔۔۔۔
""کیا ہوا امل کو کیسی ہو اب وہ ۔۔۔۔۔۔اور اب بتا رہے ہو ۔۔۔۔پہلے نہیں بتا سکتے تھے۔۔۔میں نے کال کی تو پتہ چلا ۔۔۔۔ورنہ تو اندھیرے میں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ابھی آرہی ہوں" ۔۔۔۔۔
"میں کیسے بتاتا مجھے تو جیسے نمبر دیا ہوا ہے ابھی خود ہی کہ رہی تھی کہ کسی کا فون استعمال نہیں کرنا چاہیئے تو فرشتے لاکر دیتے نمبر" ۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے بولا
لیکن سویرا تو اپنی سنا کر فون کٹ کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افف سعد کیا ہو گا تیرا ۔۔دل بھی کہاں لگایا لیکن خیر اب تو لگالیا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________
کچھ ہی دیر میں سویرا امل کے پاس تھی
"امل یہ کیسے ہوگیا ۔کیا حالت بنالی ہے تم نے"
"میں ٹھیک ہوں سویرا بس معمولی سی چوٹ ہے" ۔۔۔۔۔۔
امل نے سویرا کو کہا
"ہاں نظر آرہا ہے کتنی معمولی ہے ۔۔میں ابھی تمہارے لئے سوپ بنا کر لاتی ہوں کتنی کمزور ہوگئی ہو یہ تمہارے نکمے کزن تو کچھ خیال نہیں کرتے ہونگے "
سویرا نے کہا
"نکمے نہیں ہیں یار وہ "
امل نے سب کی سائیڈ لی
"لیکن تمہارا ایک کزن ٹھرکی ضرور ہے جو بات ہے "
سویرا سے سعد کی تعریف بلکل نہیں سنی گئی
""ٹھرکی کون " امل کو تجسس ہوا
وہ سعددددددد ۔۔
سویرا نے دانتوں کے بیچ کچکچا کر اسکا نام لیا
"سعد بھائی میں نہیں مان سکتی " امل کو یقین نہیں آیا
"رہنے دو اس بات کو بات طویل ہوگی اور کچھ نہیں "
وہ کہتی ہوئی کچن میں گئی
سویرا کے آنے سے امل کا موڈ بہتر ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
_____________________________
سویرا کچن میں سوپ بنا رہی تھی جب سعد وہاں آ ٹپکتا تھا
سویرا سعد کے آنے سے confuse ہو گئی تھی سعد بظاہر تو فریج سے پانی نکال رہا تھا لیکن دیکھ اسی ہی رہا تھا سویرا اسکی نظروں سے پزل ہورہی تھی وہ دیکھ ہی ایسے رہا تھا
""ٹھرکی انسان ایسے دیکھ رہا ہے جیسے ایکسرے مشین ہو "
سویرا نے بڑبڑانے کے ساتھ اپنا دوپٹہ بھی درست کیا
اسے سعد کی آنکھوں میں کچھ الگ رنگ نظر آرہے تھے کام کرتے ہوئے اسکے ہاتھ میں لرزش آگئی تھی
"میری لئے بھی ایک کپ چائے بنادو" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نےخ اپنے لہجے میں چاشنی لاکر کہا ۔۔۔۔۔۔
"کیوں میں تمہاری نوکر ہوں جو تمہارا کہنا مانوں"
سویرا نے ہاتھ میں پکڑی چھری آگے کرتے کہا
نہیں نوکر بننا ضروری نہیں ہے اس کے لئے بیوی بن کر بھی ہو جائے کا کام
سعد نے اسے نظروں کے فوکس میں رکھ کر کہا
سعد کے اتنی معنی خیز بات پہ سویرا کا دل چاہا پاس پڑی پلیٹ اٹھا کر اسے دے مارے لیکن پھر کچھ سوچ کر حامی بھر لی کیونکہ سعد سے بحث فضول تھی اس معاملے میں تو وہ جیت نہیں سکتی تھی لیکن بدلہ بھی تو لینا تھا ۔۔۔
______________________
امل کو سوپ پلانے کے بعد وہ سعد کو چائے دینے آئی جو لاونج میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے چائے کا ایک سپ لیا اور اگلے پل اسکے منہ سے فوارے کی طرح چائے نکلی وہ کھانسنے لگ گیا تھا
" یہ کیا ملایا ہے تمنے نمک کون ڈالتا ہے"
سویرا کی مسکراتی شکل دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔
"اور گھورو مجھ سے پنگا نہ لینا اب ورنہ اگلی بار اس سے بھی برا ہوگا ابھی تو بخش دیا ہے " ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہ کر وہ امل کے کمرے کی طرف چلی گئی آج رات اسکا امل کے پاس رکنے کا ارادہ تھا ۔۔۔۔
"بدلہ میں لونگا پٹاخہ "
سعد نے تہیہ کرتے ہوئے کچن میں گیا
سب لوگ جب گھر آئے تو امل کی حالت دیکھ کر انکا دل کٹ گیا وہ امل کو کس حال میں چھوڑ کر گئے تھے اور اب جب واپس آئے تو کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔
امل کے کمرے میں سب گھر والے تھے ان چاروں کا تو سر ہی جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
حماد صاحب جانتے تھے کہ مرتظی اور اذہان سے کچھ پوچھتے تو ان دونوں نے گول مول کرنا تھا ۔۔۔۔
اس لئے انہوں نے حمدان سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔
"یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔۔تم نے ہمیں بتایا بھی نہیں" ۔۔۔
حمدان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے ۔۔۔۔۔۔
امل جو صدف بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی
حمدان کچھ کہتا کہ امل نے کہا
"" بڑے پاپا ان میں ان سب کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔۔۔۔۔میرا ہی دیھان نہیں تھا ۔۔۔۔۔پیر پتہ نہیں کیسے سلپ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ لوگ پریشان ہوجاتے اس لئے نہیں بتایا"" ۔۔۔
امل جانتی تھی کہ اگر سب کو سچ پتہ چل گیا تو ان سب کی شامت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ سب اپنے گلٹ میں اور مبتلا ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرا بچہ آپنے دیہان سے رہنا تھا کتنی چوٹ لگ گئی یے"
حنین صاحب نے امل کو محبت سے دیکھتے ہوئے فکر مندی سے کہا
"امل کو آرام کرنے دو سب چلو "۔۔۔۔
آغا جان کے کہنے پہ سب نے اپنی اپنی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی وہ سب سفر سے تھک گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________
"امل کا بخار اب کیسا ہے" ۔۔۔۔
حنین صاحب نے اپنی بیگم سے پوچھا ان کے لہجے میں امل کے لئے پیار ہی پیار تھا
"اب کافی بہتر ہے" ۔۔۔۔
صدف بیگم نے امل کے ماتھے پہ پٹی رکھ کر کہا۔۔۔۔۔
"آپ جائیں آرام کر لیں ۔۔۔۔۔میں ہوں امل کے پاس ۔"۔۔۔۔۔۔
"میں جا رہا ہوں لیکن آپ بھی آرام کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔صدف" ۔۔۔
وہ کہ کر باہر کی جانب بڑھیں
_________________________
"امل بٹیا آپکو باہر لان میں آغا جان بلا رہے ہیں "۔۔۔۔۔
آسیہ نے امل کو آکر کہا۔۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے میں آتی ہوں آغا جان اسوقت لان میں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
امل نے سوچتے ہوئے اپنے پیروں میں چپل پہنی
امل کی چوٹ اب کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی پاوں کا plaster بھی اتر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل لان میں آئی تو لان کا منظر دیکھ کر حیران ہو گئی
بیچ میں ایک ٹیبل پہ
we Are Really sorry Amal
لکھا ہوا تھا جسکے چاروں طرف پنک اینڈ وائیٹ غبارے لگے ہوئے تھے امل کا نام لائیٹ سے جگمگا رہا تھا اور اسکا favorite chocolate cake بھی رکھا تھا جس پہ بھی sorry لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اسی اثناء میں اسے اہنے پیچھے سے ان چاروں کی آواز آئی
۔۔۔۔۔we are apologizing to you" .....
ان چاروں نے اپنے کان پکڑ کر کہے۔۔۔۔۔۔۔۔
امل تو سب کچھ بھول چکی تھی ویسے بھی اور یہ سب دیکھ کر اسے بہت اچھا لگا تھا امل ویسے بھی ان سے کہاں ناراض ہوسکتی تھی ذیادہ دیر تک ۔۔۔۔۔۔
""ایسے نہیں مانوں گی میں کچھ سزا تو ملنی چاہئیے""۔۔۔۔۔
امل نے بھی انکے ساتھ تھوڑا ڈرامہ کرنا چاہا
کیسی سزا۔۔۔۔؟؟
حمدان تو خاموش تھا ان تینوں نے اسے کہا ۔۔۔۔۔۔
"You have to do 50 times ..ups and down ....."
کیا ۔۔۔۔۔۔۔امل کچھ اور سزا دے دو ۔۔۔
ان تینوں نے ایک ساتھ کہا
"سزا تو یہی ہے اب سوچ لیں معافی چاہئیے یا نہیں "۔۔۔۔۔
امل نے اپنی آنکھیں گھما کر کہا
ان چاروں نے عجیب سی شکلیں بنا کر ups and down کریں
امل کو انکی شکل دیکھ کر ہنسی آرہی تھی اس نے انہیں ١٠ پہ ہی روک دیا تھا
امل کو منانا کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ تو پیار کے دو بولوں سے ہی سرشار ہوجاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ان سب نے ملکر کیک کاٹا وہ تینوں کیک کھانے میں بزی تھے
جب حمدان نے امل کو چاکلیٹ دی جس پہ ایک چٹ بھی لگی تھی ۔۔۔جس پہ
" i am sorry ...i never meant to hurt you"
لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
its okk .".میں کسی سے ناراض نہیں ہوں "۔۔۔۔۔۔
امل نے حمدان کو ریلکس کرا
"لیکن مجھے اچھا نہیں لگا میری وجہ سے تم ہرٹ ہوئی" ۔۔۔
حمدان نے اسے جواب دیا
امل کو حمدان کے آنکھوں میں اسکے لہجے میں اپنے لئے فکر دیکھائی دی تھی جسے اس نے اپنا خیال سمجھ کر جھٹکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تو آپ نے کردیا نہ سوری اور یہ سب بھی" ۔۔۔۔۔
امل نے حمدان سے کہا ویسے بھی حمدان امل کو ایک مسٹری لگتا تھا اس پر آج حیرت کے پہاڑ ٹوٹے کہ حمدان نے سوری کہا اور اوپر سے اپس ڈاون بھی کرے
ہاں چلو وہاں بینچ پہ بیٹھ جاتے ہیں کھڑی کھڑی تھک جاو گی ۔۔۔ابھی چوٹ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی ہے" ۔۔۔۔۔
وہ کہتا آگے بڑھا
اب وہ دونوں ایسی ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے تھے
امل اور حمدان میں اب کافی حد تک اجنبیت کی دیوار ختم ہوگئی تھی ۔۔امل تھوڑی بہت بات کر لیتی تھی ضرورت کے تحت
___________________________________
امل اپنے بال سلجھا رہی تھی جب مرتظی اسکے کمرے میں ناک کرتے ہوئے داخل ہوا
وہ جانتا تھا امل نے ناراضگی دور کردی ہو سب سے لیکن اس سے نہیں کری ہے اس لئے وہ آیا تھا
"ناراض ہو "
اس نے حد درجہ معصومیت اپنائی
"جانے کا کیا لوگے تم وہ بتاو "
امل نے گنجائش کی جگہ ہی نہیں چھوڑی
ایک مسکراہٹ "
اس نے بھی اپنی قیمت بتائی
"ٹھیک ہے میں ہی چلی جاتی ہوں پھر "
امل نے ایک قدم بڑھایا
مرتظی نے اسے کلائی سے پکڑا
""ِیار جانتا ہوں غلطی تھی مجھ پر بھروسہ تھا تمہیں سب سے ذیادہ "
"وہ دونوں تو ابھی آئے ہیں اور اذہان سے تو ہر الٹے کام کی ہی امید ہے لیکن تم سے نہیں تھی "
امل نے سنجیدگی اپنائی
"اچھا اب ایسی بندر جیسی شکل نہ بناو مجھے ہنسی آجائے گی اور صرف سوری سے کام نہیں چلے گا تمہیں مووی دیکھانی پڑی گی پراواز ہے جنون "
امل نے اپنے مطلب کی بات کہی
"یہ مووی تو میں اور اذہان دیکھ چکے ہیں کوئی اور بتاو "
مرتظی بدمزہ ہوا
"مجھے یہی دیکھنی ہے "
امل بھی اٹل رہی
اوکے کل شام میں چلیں گے ہم سب تیار رہنا ویسے بھی اسکی کہاں چلنی تھی "
وہ امل کے گال کھینچتے گیا
__________________________
امل دوڑتی بھاگتی کار میں آکر بیٹھی ۔۔وہ ہانپنے لگ گئی تھی
"آپ نے کہا تھا کہ شام میں جائیں گے اور صبح پروگرام بنالیا اور مجھے اتنی جلدی بتایا ہے "
امل نے لمبے سانس لینے کے دوران کہا
"بس بن گیا پلین آج کا پورا دن ہم فل انجوائے کریں گے ٹوٹل دھمال مچائیں گیں"
مرتظی نے اسے ارجنٹ بیسس پہ جلدی تیار ہونے کی اطلاع دی تھی
ڈرائونگ سیٹ پہ مرتظی اور برابر میں حمدان بیٹھا تھا جبکہ پیچھے سعد پھر اذہان اور اسکے برابر میں امل آکر بیٹھی تھی
""تم نے اپنی دوست کو بلایا لیا تھا "
سعد نے تصدیق کرنا چاہی
"جی میں نے اسے ابھی بتایا ہے وہ مال میں ہی ہمیں جوائن کری گی "
امل نے موبائیل پہ سویرا کو اپڈیٹ دیتے ہوئے کہا
"جب اذہان نے امل کی چٹکی کاٹی "
ان دونوں کی نوک جھونک اسٹارٹ تھی ۔۔حمدان کب سے فرنٹ مرر میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر جل رہا تھا
اذہان نے امل کو دھکا دیا تو وہ کار کے دروازے سے لگی اور دروازہ جلدی میں اس نے لاک نہیں کیا تھا صحیح سے وہ کھلا اور وہ گرتی لیکن اذہان نے بروقت اسے خود پہ کھینچ کر بچایا
حمدان کی برداشت یہاں اینڈ تھی
کیا پاگل ہوگئے ہو تم دونوں ایڈیٹ کہیں کے وہ تو شکر ہے کہ گاڑی ابھی مین روڈ پہ نہیں ہے اور امل کے تو اندر تو عقل ہے نہیں لیکن تم بھی عقل سے پیدل ہو اذہان گیٹ لاک کرو
اذہان نے ہاتھ بڑھا کر گیٹ لاک کیا
امل نے اٹھنے کی کوشش کری تو اسکی چین اذہان کے شرٹ میں اٹک گئی تھی اور وہ الگ نہیں کر پا رہی تھی
حمدان کو رہ رہ کر غصہ چڑھ رہا تھا امل کا اذہان کے قریب ہونا اسے تڑپا رہا تھا اس نے خود ہی اپنے آپ کو اپنی سیٹ پہ الٹا کیا اور ہاتھ بڑھا کر چین ایک جھٹکے سے کھینچی جو ٹوٹ گئی تھی
امل اپنے چین کو دیکھتی رہ گئی جو بیچ سے ٹوٹ گئی تھی اور وہ کچھ کہ بھی نہیں پائی شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا تھا اس نے اذہان نے پر ایک ناراضگی بھری نظر ڈال کر اپنا رخ کھڑکی کی جانب کر لیا
______________________________
وہ سب پہلے شاپنگ مال آئے تھے ۔۔۔
سویرا بھی اپنے لئے نیکلس پسند کر رہی تھی جب سعد بھی موقع دیکھ کر اسکے پاس آیا
"یہ اچھا نہیں لگے گا تم پر "
سعد نے اسکی پسند کو ریجیکٹ کیا
سویرا جو مرر میں خود پہ نیکلس لگا کر دیکھ رہی تھی اپنے پیچھے سعد کو دیکھ کر اسے غصہ چڑھا کب سے وہ اسے گھورے جا رہا تھا اور تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہا تھا
"مجھے پتہ ہے مجھ پر کیا اچھا لگے گا کیا نہیں تم سے نہیں پوچھا ہے "
سویرا نے تنک کر جواب دیا
"لیکن میں نے کہا ہے کہ یہ تم پر اچھا نہیں لگے گا "
سعد نے اسکے ہاتھ سے نیکلیس لیتے ہوئے ایک اپنی پسند کا نیکلیس اس کے آگے کیا اور دکاندار کو کہا یہ پیک کردو
"بلکل نہیں یہ آپ پیک نہیں کریں "سویرا نے انکار کیا
آپ یہ پیک کریں ۔۔۔سعد بھی اڑا رہا
نہیں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ہاں۔۔۔
ماما میرے پاس تو بارات کے event کے لئے کوئی ڈریس نہیں ہے میں کیا پہنوں گی آپ shopping پہ لے چلیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے کچن میں داخل ہو کر صدف بیگم کی گلے میں ہاتھ ڈال کر کہاجو سالاد کےلئے پیاز کھیرے وغیرہ کاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور شانزہ اور انعمتہ بیگم بھی دیگر کاموں میں مصروف تھی
"امل کل مایوں کی رسم ہے اتنے سارے کام ہیں اور اس دن گئی تھی نہ سارے سمپل ڈریسس لائی ہو تم "
صدف نے امل کو کہا
"حمدان تو آج گھر پہ ہے امل اسکے ساتھ چلی جاو "۔۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے کہا
حمدان کے نام پہ امل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
"ارے حمدان تو یہیں آگیا ابھی تمییں ہی یاد کر رہے تھے ہم حمدان" ۔۔۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے کہا ۔۔۔۔۔
"کیا ہوا کچھ کام ہے بڑی امی"۔۔۔
حمدان نے انہیں جواب دیا
ہاں اگر فری ہو تو امل کو لے جاو شاپنگ پہ اسے ڈریس لینا ہے ۔۔۔امل ہمیشہ سمپل جو رہتی ہے اسکے بعد ہیوی ڈریسس ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جی بڑی امی میں فری ہوں میں گاڑی نکالتا ہوں تم آجاو امل" ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو مخاطب کرکے کہا
جی بسس آئی۔۔۔۔میں ۔۔۵ منٹ ۔۔۔۔
امل کہ کر چلی گئی انکار کیسے کرتی اسے سمجھ نہیں آیا
امی میں یہ کہنے آیا تھا آپ میرے لئے chinese rice بنا دے آج دل کر رہا ہے کھانے کا "۔۔۔۔
حمدان جس کام کے لئے آیا تھا وہ اس نے کہا
اوکے بیٹا
انعمتہ بیگم نے اسے جواب دیا
"حمدان تمہاری اور میری پسند کتنی ملتی ہے مجھے بھی یہ ڈش پسند ہے" ۔۔۔۔۔۔
آبرو جو یہی آرہی تھی حمدان کی بات سن کر اس نے کہا
جس پہ حمدان پھیکا سہ مسکرا دیا
آبرو بیٹا میں تمہارے لئے بھی بنادیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ خالہ جان ۔۔۔۔۔۔۔۔
آبرو نے انعمتہ بیگم کو جواب دیا
_________________________
امل نے گرے کلر کی کرتی پہ بکو اسکارف کور کیا ہوا تھا اور حمدان نے براون جینس پہ وائیٹ شرٹ پہنی تھی
حمدان ابھی کار اسٹارٹ ہی کر رہا تھا کہ آبرو بھی وہاں آگئی تھی اور کہا کہ
" حمدان مجھے خالہ نے بتایا تم شاپنگ پہ جا رہے ہو مجھے بھی لے جاو مجھے بھی کچھ لینا ہے ۔"۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ حمدان نے اسے روکا
"ایک منٹ آبرو مجھے نہ ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے میں امل کو بھی سویرا کی طرف چھوڑ رہا ہوں یہ سویرا کہ ساتھ جائے گی
اور تم بور ہوجاو گی اگر انکے ساتھ جاو گی تو "۔۔۔۔۔
امل تو حیران ہوگئی کہ یہ کب ہوا وہ تو لاتعلق سی بیٹھی ہوئی تھی وہ تو چاہ رہی تھی کہ آبرو ساتھ ہی چلے
امل نے کچھ کہنا چاہا لیکن حمدان نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے کہا "آبرو تم online shopping کر لینا تم کہاں مارکیٹ گھوموں گی تمہاری بہن کی مایوں ہے تمہیں تو آگے آگے رہنا ہے تھک جاو گی میں کرادوں گا online شاپنگ"
حمدان نے اسکو اتنا لاجواب کر دیا کہ مجبورا اسے پیچھے ہٹنا پڑا ""اوکے حمدان ۔""۔۔۔۔۔
وہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی
آبرو کے جانے کے بعد امل نے حمدان سے کہا
"آپ نے مجھے بتایا نہیں آپکی میٹنگ یے سویرا کیسے جاسکتی یے وہ تو گھر پہ ہی نہیں ہے آپ کی بات ہوئی یے اس سے"
"تم سویرا کے ساتھ نہیں امل میرے ہی ساتھ جا رہی ہوں"
حمدان نے کار ریورس کرتے ہوئے جواب دیا
"میں جھوٹ کہ رہا تھا مجھے اس چپکو کو کباب میں ہڈی نہیں بنانا"
حمدان امل کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول پڑا
جی۔۔۔۔۔۔۔؟
امل تو شاکڈ ہی رہ گئی تھی حمدان کی باتوں سے
"میرا مطلب ہے امل تمہیں ڈریس لینا ہے نا تو چپ کر کے بیٹھ جاو"
اس سے کوئی جواب نہیں بنا تو اس نے امل کو سختی سے کہا جس سے امل نے چپ ہوکر منہ کھڑکی کی طرف کر لیا
حمدان کو اسکا پھولا ہوا منہ اچھا لگا تھا آج اسکا موڈ بہت اچھا تھا وہ امل کے ساتھ پہلی دفعہ اکیلے ٹائم اسپینڈ کر رہا تھا اور اس نے fm میں song play کیا
______________________________
باجی میں اندر آجاوں"
انعم نے انعمتہ بیگم کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا
۔""۔ہاں آجاو ""انعمتہ بیگم نے اجازت دی
وہ میں کہ رہی تھی کہ آپ نے رائمہ کے گھر شادی کا کارڈ بجھوادیا" ۔۔۔۔۔۔۔۔
"رائمہ تو اسلامآباد شفٹ ہوگئی ہے لیکن مینے اسکی ساس کے گھر مرتظی کے ہاتھ کارڈ بجھوادیا ہے اور کال بھی کردی ہے تم بے فکر ہوجاو "۔۔۔۔۔۔۔
انعم کی بات سمجھ کر انہوں نے جواب دیا
"وہ مجھے آپ سے کچھ اور بھی کہنا تھا" ۔۔۔۔۔
انعم کہتی کہتی رک گئی تھی
"کیا کہنا ہے کہو تم بلا ججھک کچھ بھی کہ سکتی ہو"
انعمتہ بیگم نے حوصلہ دیتیے ہوئے کہا
آپنے آبرو کے بارے میں" ۔۔۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے اسکی بات کا مطلب سمجھ کر کہا
"مجھے یاد ہے۔۔ آبرو میرے حمدان کی بہو بنے گی میں نے بات کی ہے حماد سے ۔۔۔۔حمدان کا تو ابھی بزنس اسٹارٹ ہوا ہے ۔۔جبہی میں رک گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔تم پریشان نہ ہو" ۔۔۔۔۔۔
"وہ تو آپکی بات ٹھیک ہے آپ حمدان سے بات کرلیں میں چاہ رہی تھی کہ کم از کم منگنی کی رسم ہی ادا ہوجائے میں آبرو کی طرف سے بھی بے فکر ہوجاو گی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پہ کھڑی آبرو جو انعم کو ڈھونڈنے آئی تھی انکی باتیں سنکر خوشی سے سرشار ہوگئی تھی اور شرماتی ہوئی چلی گئی تھی
_____________________________________
امل کچھ ڈریسس دیکھ رہی تھی اور حمدان دوسری جانب کال پہ بات کر رہا تھا بات کرکے جب وہ پلٹا تو ایک لڑکے کو امل کو گھورتا ہوا پایا اسکی تو غصے سے رگیں تنگ گئی تھی وہ چاہتا تو اسے اچھا سبق سکھا سکتا تھا لیکن وہ کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا
وہ اپنے غصے پہ قابو پاتے ہوئے امل کی جانب بڑھا اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اس شخص پہ ایک کڑی نظر ڈال کر اسے بہت کچھ باور کرادیا تھا
جبکہ امل ان سب سے بے نیاز کپڑوں کی جانب متوجہ تھی
حمدان کا یہ اچانک عمل اسے سمجھ نہیں آیا اس نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا تو حمدان کی گرفت اور مضبوط ہوگئی تھی
"یہاں سے چلو اچھے ڈیزائن نہیں ہے "
حمدان کی آواز میں ایک کرختگی تھی امل ایک پل کے لئے ڈر گئی تھی
چلتے چلتے حمدان کی نظر ڈمی میں لگے ایک ڈریس پہ پڑی جو اسے پسند آیا تھا اور اس نے بغیر امل سے پوچھے اسے خرید لیا
وہ ایک لیمن کلر کی پاوں تک گھیردار فراک تھی جسکی بوڈی پہ گولڈن کام اور گھیر پہ لال کلر کی ڈیزائینگ تھی ۔۔۔۔۔
امل نے بھی اس ڈریس کو ستائیشی نظروں سے دیکھتا امل اسے اپنے ساتھ لایا ہوا credit card دیا بل pay کے لئے لیکن حمدان کے ایک نظر دیکھنے سے اس نے اسے واپس رکھ لیا
حمدان نے اسکا ہاتھ پکڑے ڈریس کی میچنگ کی دیگر اشیاء دلائی اور اسے food court لے کر گیا
ایک کونے کی سیٹ اس نے ریسرو کری
جہاں اس نے اپنے لئے بٹر اسکاچ اور امل کے لئے چاکلیٹ آئسکریم کا آرڈر دیا اسکا موڈ اب بلکل نارمل ہوگیا تھا
امل نے دل میں سوچا ابھی تو اتنے غصے میں لگ رہے تھے اور اب تو مسکرا ریے ہیں پل میں کچھ پل میں کچھ ۔۔۔۔۔۔
"آپ کو کیسے پتہ مجھے چاکلیٹ آئیسکریم پسند ہے "
امل کب سے جو سوچ رہی ہوتی ہے آخر پوچھ ہی لیا
"مجھے تو اور بھی بہت کچھ معلوم ہے تمہاری پسند نہ پسند کے بارے میں "
حمدان نے جزبات سے چور لہجے میں امل کو جواب دیا
امل اپنی پلکیں جھکانے پہ مجبور ہوگئی تھی
حمدان کو اسوقت وہ اپنے دل کے بہت قریب لگی
امل کو پزل ہوتا دیکھ کر اس نے کہا
"یہاں پاس میں ایک اچھا سا restaurant ہے اسکے بعد وہاں سے کھانا کھا کر گھر چلیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھانا کیوں ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ کیا ضرورت یے اور گھر میں بھی سب انتظار کر رہے ہونگے
امل نے جواب دیا وہ اب نروس فیل کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
مینے پوچھا نہیں بتایا ہے اور رہی بات گھر کی تو تم اسکی فکر نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اسے دو جملوں میں بہت کچھ باور کرا دیا تھا
____________________
وہ دونوں مال سے باہر جا رہے تھے جب کوئی سامنے سے آتے ہوئے امل سے اس طرح ٹکرایا کہ اسکا شخص کا کندھا امل کے کندھے سے لگا
حمدان نے امل کو اپنی دوسری جانب کیا اور اس شخص کو دیکھا اور ایک پل بھی نہ لگا اسے پہچاننے میں کہ یہ وہ ہی ہے جو امل کو کچھ وقت پہلے تاڑ رہا تھا حمدان کی گھوری کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا
حمدان کی آنکھیں لال ہوگئی تھی وہ شخص جان بوجھ کر ٹکرایا تھا غصہ برداشت کرنا اب اسکے بس سے باہر تھا اس نے اس شخص کا کالر پکڑ کر ایک مکہ اسے جڑا وہ شخص دو قدم پیچھے ہوا
اس شخص نے بھی اپنے قدم حمدان کی جانب بڑھائے تو حمدان نے اسکا وار اس پہ الٹا کیا
"How Dare You To Touch Her "
حمدان کا غصہ پہ قابو پانا اسکے بس میں نہیں تھا اس نے ایک حد تک اگنور کیا تھا اب نہیں کر سکتا تھا
"اگر اتنی قیمتی ہے تو تجوری میں بند کر رکھنا تھا کیوں لے کر آیا ہے اس میٹھی بلبل کو "
وہ شخص اب بھی باز نہیں آرہا تھا
اس بات نے تو حمدان کا دماغ گھمادیا تھا اور اس نے ایک زوردار پنج اسے رسید کرا اس شخص نے بھی اپنے دفاع میں ایک مکہ حمدان کو مارا جس سے حمدان کی ناک سے خون بہنے لگا کیونکہ اس نے انگھوٹی پہنی ہوئی تھی وہ اس کے لگ گئی تھی
امل کو کچھ سجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا
حمدان اس شخص کو پے درپے مکوں کی بارش کر رہا تھا لوگ اسے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس پر جنون سوار تھا
بڑی مشکل سے ان دونوں کو الگ کیا گیا تھا
حمدان نے چھوڑتے چھوڑتے بھی ایک لات اسکے پیٹ میں مار کر چھوڑا اور امل کا ہاتھ سختی سے تھامے وہاں سے نکلا اسکا موڈ سخت خراب ہوگیا تھا
امل دریا کے بہتے پانی کی طرح اسکے ساتھ جا رہی تھی
_________________
حمدان نے اپنا کوٹ اتار پھینکا تھا اور شرٹ کے اوپری دو بٹن کھول کر خود کو ریلکس کیا تھا اور اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا
سگنل پہ جب حمدان کو گاڑی روکنا پڑا اس نے ایک مکہ اسٹیرئینگ پہ مارا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا جب ایک پھول بیچنے والا بچہ آیا
"۔صاحب یہ پھول لےلو بہت جچے گیں آپ کی مسز پہ اللہ آپ دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ""۔۔۔۔۔۔۔
امل نے تو یہ سنکر شرم سے سر ہی جکھا لیا تھا اور اب اسکا ڈر مزید بڑھ گیا تھا کیونکہ حمدان خطرناک حد تک سنجیدہ تھا اس نے حمدان کی جانب دیکھنے کی بھی غلطی نہیں کی تھی
حمدان کے لبوں پہ غصے کے باوجود ایک دھیمی مسکراہٹ آگئی تھی جسے اس نے ہونٹوں کو آپس میں پیوست کر کے روک دی تھی اتفاق سے اس بچے کے پاس ایک پنک گلاب بھی تھا جسے حمدان نے اس سے لیا اور اس بچے کو پیسے دیئے.
"صاحب یہ تو بہت سارے پیسے ہیں آپ نے تو بس ایک ہی پھول لیا ہے
جس پہ حمدان نے کہا " رکھ لو "
اور وہ بچہ بھی ان دونوں کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا
حمدان نے امل کی جانب وہ پھول بڑھایا
امل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"قبول کرو گی تو اچھا لگے گا وہ بچہ ایک آس سے آیا تھا "
حمدان نے پھول اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
حمدان کا رویہ امل کی سمجھ سے باہر تھا وہ کچھ اخذ نہیں کر پارہی تھی وہ گلاب لیتے ہوئے بہت کنفیوز تھی حمدان کی آنکھیں کچھ اور کہتی تھی اور لہجہ کچھ اور
____________________________
جب امل اور حمدان گھر آئے تو انعمتہ اور آبرو لاونج میں ہی ٹہل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کے آتے ہی انعمتہ بیگم نے اسے کہا
"اتنی دیر لگادی کہاں رہ گئے تھے میں کب سے کال کر رہی ہوں تم receive نہیں کر رہے تھے میں کھانا لگاو ۔۔۔اور یہ کیسے ہوا انہوں نے حمدان کی ناک دیکھتے کہا ؟
اور آبرو نے حمدان کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز دیکھتے ہوئے کہا
""حمدان تم تو کہ رہے تھے تمہاری میٹنگ ہے پھر یہ سب"" ۔۔۔۔۔
امل تو ان سب معاملے میں خاموش تھی
"امل تم جاو یہ بیگز لےکر اوپر "
حمدان نے اسے کہا جسکی تابعداری میں امل تو فورا اوپر چلی گئی تھی
ماما میرا موبائیل سائیلینٹ پہ تھا تو پتہ نہیں چلا آپکی کال کا جبہی اور یہ معمولی چوٹ ہے کچھ نہیں ہوا اور کھانا میں کھا کر آیا ہوں لیکن میں شام میں آپکے ہاتھ کا بنا chinese ضرور کھاوں گآ میں فریش ہونے جا رہا ہوں
حمدان نے اپنا لنچ والا پراگروام کینسل نہیں کیا تھا اور آبرو کی بات کا اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔
حمدان کے جانے کے بعد آبرو نے انعمتہ سے کہا
"یہ امل شکل سے جتنی معصوم ہے نہ اندر سے اتنی شاطر ہے حمدان کی کوئی میٹنگ نہیں تھی اور اس امل کے ساتھ یہ اتنی دیر تک سیر سپاٹے کرکے آیا یے ۔۔
آہستہ کہو اس گھر میں امل کے خلاف ایک لفظ بھی کوئی بول تو کیا سن بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔so be careful انعمتہ بیگم نے اسے ٹوکا انہیں بھی حمدان کا رویہ اچھا نہیں لگا تھا
____________________________
امل چھت پہ ٹہل رہی تھی اور کتاب اسکے ہاتھ میں تھی نیچے اتنا شور شرابہ ہورہا تھا جب ہی وہ یہاں آگئی تھی کہ بک ریڈ کر سکے
وہ ٹہلتے ٹہلتے پڑھ بھی رہی تھی جب اس نے اذہان کو لنگڑاتے ہوئے آتے دیکھا وہ چاروں طرف نظریں گھماتا آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے چھپ کر جارہا ہو
اذہان اپنے کمرے میں آکر اپنے پیر لٹکا کر بیڈ پہ گرا
"اس چوٹ کو بھی آج لگنی تھی "
بڑبڑاتے اس نے اپنا ماتھا کھجایا
"کیا ہوا اذہان لنگڑا کر کیوں آرہے تھے "
امل نے آتے کہا
"تو تم نے دیکھ لیا ہے اتنا چھپ کر آیا ہوں جبکہ لیکن ہاں میں تو بھول گیا تھا تم چڑیل ہو تمہاری نظروں سے کیسے بچا جا سکتا ہے "
اذہان نے اپنے پیچھے تکیہ سے ٹیک لگا کر کہا پاوں اب بھی لٹکائے ہوئے تھے
"اذہان مجھے فکر ہو رہی یے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے دیکھاو کیا ہوا ہے "
امل نے کہتے ساتھ اسکے پاوں میں سے جوتے علیحدہ کرنے چاہے
"اوئے کیا کر رہی ہے "
اذہان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر خود جوتے الگ کریں اور پاوں بیڈ پر رکھیں
""کہیں تم نے اپنا پیر تو نہیں توڑوالیا ہے اور سب سے چھپ کر کیوں آرہے تھے
امل نے تشویش ناک لہجہ اپنایا
"بس موچ آگئی ہے ذرا سی ٹھیک ہوجائے گا اور چھپ کر اس لئے آیا ہوں کیونکہ میری خیریت کوئی نہیں پوچھتا بلکہ کیسے لگی ؟؟کہاں تھے ؟؟ نظر نہیں آرہا تھا ؟؟ دیکھ کر چلتا ہے انسان ؟؟ سہی ہوا ہے تمہارے ساتھ تو ؟؟
اذہان نے درد میں مسکراتے نقل اتاری
"یہ سوال تو میں پوچھنے والی ہوں بتاو کیسے لگی کہاں دھیان تھا کس لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے تم ہاں"
امل نے اسکے پیر کا معائنہ کرتے کہا جو سوجھ گیا تھا
""لگ گئی بس "
اب کیا بتاو تمہیں کہ لڑکی نمبر ٨ سے ملنے گیا تھا اور نظر آگئی ۵ اس سے بچنے کے چکر میں نیچے پڑے پتھر سے ٹکرایا گیا ایک تو اسکو ہر بات کا علم ہوجاتا ہے
یہ بات اس نے دل میں کہی تھی
اور تم مجھے ڈانٹنے آئی ہو یا درد کا علاج کرنے کوئی بام وام لاکر دو مجھے "
اذہان نے کہا
""درد ہو رہا ہے "
امل نے معومیت سے سوال کیا
""نہیں امل بہت سکون مل رہا ہے میرا دل چاہ رہا ہے کہ دوسرے پیر بھی میں لگ جاتی "
اذہان نے جلتے کہا بندہ درد سے کراہ رہا ہے اور انکا سوال دیکھو
امل نے سائیڈ دراز سے بام نکال کر اسے لگایا تو اذہان کی اوو آہ ہ ۔۔۔ممی کی آواز نکلی
"ممی یاد آرہی ہیں تمہیں تو نانی یاد آنی چاہئیے"
امل نے آہستہ آہستہ لگاتے کہا لیکن جب اسکے چہرے پہ درد کے تاثر دیکھے تو کہا ""ذیادہ درد ہورہا ہے "
ہاں امل ۔۔
اذہان نے اپنا سر ہلایا
"میں برف لے کر آتی ہو "
امل نے کہا
"برف کس لئے "
اذہان کو سمجھ نہیں آیا
"قلفی جمانے کے لئے بیوقوف انسان تمہارا پیر سوجھ رہا ہے اس پر لگاوں گی "
امل نے ہنستے کہا
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو نہیں لگانا تو نہیں لاتی "
امل نے اسے تکتا پاکر کہا
"ارے نہیں مطلب لگادوں یار تم چاہتی ہوں میرا پیر جلدی سے ٹھیک ہوجائے"
اذہان نے اسے دیکھتے کہا
"نہیں میں چاہتی ہوں تمہارا پیر نہ ہاتھی کی طرح سوجھ جائے ۔۔۔۔جیسے جانتی نہیں ہوں میں اگر اسی طرح رہے تم پیر کا پتہ نہیں منہ ضرور سوجھ جائے گا کیونکہ باہر جو نہیں جا پاو گے "
امل بام مکس کرتے کہ رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے اتنی زور دار آواز آئی کہ وہ اچھل گئی
"حمدان تم "
اذہان نے بھی اپنے پیر سائیڈ کرتے کہا
"کیا ہورہا ہے یہ"
حمدان نے اپنا ٹون دھیما کیا کیونکہ اس نے ذیادہ زور سے امل کو پکارا تھا
"کچھ نہیں وہ بس ذرا سی موچ آگئی تھی تو امل بام لگا رہی تھی کیا ہوا "
حمدان کا رویہ اذہان کے سر کے اوپر سے گزرا
"میرا مطلب ہے کہ امل سے کیا ہوگا یہ کونسی ڈاکٹر ہے خود تو ہے یہ چیونٹی جیسی یہ کیا کرے گی تم بڑی امی کو بلاتے "
حمدان کو رہ رہ کر غصہ چڑھ رہا تھا
امل تو چیونٹی سن کر صدمے میں چلی گئی تھی
وہ کوئی جواب دیتا شانزہ بیگم بھی آگئی
"کیا ہوا یہ شور کیوں ہورہا ہے اذہان کیا ہوا "
"کچھ نہیں بڑی امی ذرا سی موچ ہے میں بام لگا رہی تھی بس "
امل فکر مند تھی
"اذہان کیسے لگ گئی دیکھاو "
شانزے بیگم آگے بڑھی
میں برف لاتی ہوں
امل نے اپنے قدم آگے بڑھائے
"کوئی ضرورت نہیں ہے میرا مطلب ہے میں بھجوا دیتا ہوں بڑی امی لگا دینگی تم اپنا کام کر لو معمولی چوٹ ہے کوئی بچہ نہیں ہے اذہان جو برداشت نہیں کر سکتا"
حمدان نے بات بنا کر کہی
شانزہ بیگم بہت گہری نظروں سے یہ سب نوٹ کر رہی تھی
_________________________
""ایک تو آپ ہر وقت آفس کا کام کرتے رہتے ہیں چھوڑیں اسے اور میری بات غور سے سنیں "
شانزہ بیگم نے حارث صاحب کے ہاتھوں سے فائیل لیتے کہا
ارے میں اہم کام کر رہا تھا
انہوں نے واپس فائیل لی
"افف آپ کا یہ کام ۔۔میں نے آپ سے کہا تھا اذہان اور امل کے بارے میں مجھے تو دال کالی لگ رہی ہے "
شانزہ بیگم نے ان سے کہا
"آپ سن رہے ہیں مجھے "
انہوں نے واپس فائیل لی
"آپ کو پھر یہ بات یاد آگئی کیا ہوا ہے ایسا "
انہوں نے بات کرنا ہی بہتر سمجھا ورنہ وہ سکون سے کام نہیں کر سکتے تھے
"ابھی میں نے نوٹ کیا ہے ان دونوں کو آپ بات کریں حنین بھائی سے میری کوئی بیٹی نہیں ہے امل ہے میں نہیں چاہتی وہ اس گھر سے کہی جائے "
انہوں نے انکی آنکھوں میں دیکھا
"اذہان نے کہا ہے کچھ کیا وہ تو شروع سے ایسے رہتے ہیں آپ کو غلط فہمی نہ ہوئی ہو "
انہوں نے سوال کیا
"میں موقع ملتے ہی بات کرتی ہوں اذہان سے ہوسکتا ہے وہ ہچکچا رہا ہوں "
وہ بولیں
"پہلے آپ اذہان سے بات کر لیں پھر دیکھتا ہوں "
انہوں نے حامی بھری
"آپ تو ایسے ڈر رہے ہیں جیسے حنین بھائی چھری چاقو لے کر آپ پر حملہ کردیں گے کہ تم نے یہ کیسے کہ دیا"
شانزہ بیگم کو غصہ آگیا تھا انکی بات کو سیرئیس ہی نہیں لیا جارہا تھا
"اچھا ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں "
انہوں نے اپنی فائیل واپس لی
"میں خود ہی کرلوں گی صدف سے بات آپ سے نہ ہوگا "
وہ کہتی کمرے سے واک آوٹ کر گئیں excitement میں وہ بھول گئی تھی کہ انہیں اپنے بیٹے کو ہلدی والا دودھ دینا ہے
_____________________________
امل گھر کے entrance gate کے پاس کھڑی باہر لان میں آج کے ہونے والے فنکشن کی decoration دیکھ رہی تھی جب اسے اپنے عقب سے آواز سنائی دی وہ پلٹی تو اسے ایک اجنبی شخص دیکھائی دیا جو اسکا نام بھی جانتا تھا امل نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا تو وہ شخص خود ہی دو قدم آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرنے لگا
hy myself kashan siddiqui .....You don't know me but i know you well ....you are a daughter of hunain uncle am i right ? We have a very good business relationship with your family ....i also came in your birthday party ...i think you didn't remember ....
وہ شخص اسے تفصیلی جواب دےکر خاموش ہوا امل کو اسکی نظریں خود پہ آرپار گزرتی محسوس ہورہی تھی اور اس نے اسکی تمام باتوں کا یک لفظی جواب "اچھا" دیا
امل یہاں سے جانا چاہ رہی تھی لیکن وہ شخص بات سے بات نکالے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
will we be friends Amal ..??
امل تو اسکی دیدا دلیری پہ حیران رہ گئی میں کیوں دوستی کروں گی امل تو پھنس ہی گئی تھی وہ اسے سخت جواب دینا چاہ رہی تھی
گیٹ سے اندر آتے ہوئے حمدان کی نظر ان دونوں پہ پڑی اس شخص کی پشت حمدان کی جانب تھی
حمدان کو تجسس ہوا کہ وہ کس سے بات کر رہی یے وہ آگے بڑھا اور اسی شخص کو دیکھ کر جو اس دن پارٹی میں بھی امل کو گھور رہا تھا اسکے غصے کا harmone stimulate ہونے لگا حمدان کو یہ شخص پہلی نظر میں ہی اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔
امل تم جاو تمہیں بلا رہی ہیں چھوٹی امی ۔۔۔
حمدان کی آواز پہ امل اپنی سوچ سے باہر آئی اور حمدان کو تشکرانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی یہ جا وہ جا ۔۔۔۔۔
hello .. I am kashan....the son of Asad siddiqui .....
کاشان نے امل کو جاتے دیکھتے حمدان سے کہتے ہوئے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے حمدان اتنی سختی سے پکڑا تھا کہ کاشان کو لگا کہ اگر اسکی انگلیاں ٹوٹی نہ بھی توچٹخ ضرور جانی ہے لیکن اسکے باوجود بھی وہ اپنے حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔
ہاں میں جانتا ہوں بہت اچھے سے ملا تھا تمہارے والد سے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ تم انکے بیٹے ہوگے
حمدان نے دانت پیس کر اسے کہا
""اوو یہ تو اچھا ہے ویسے بھی اب تو ملاقات ہوتی رہی گی وہ کیا ہے نہ تمہاری کزن کا رشتہ میرے بھائی سے جو طے ہوا ہے میں تو کچھ چیزیں دینے آیا تھا بٹ یہاں آکر تو surprise ہی مل گیا ۔۔۔۔۔۔
حمدان اچھے سے اسکے سرپرائز کا مطلب سمجھ گیا تھا ۔۔
کہ اسکا اشارہ امل کی طرف ہے ۔۔
مجھے ایک ضروری کام ہے مجھے اپنا بیکار وقت یوں ضائع کرنا پسند نہیں ہے پھر ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔
حمدان نے یہ کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑتا آگے بڑھا جس سے کاشان اپنی جگہ سے ہل گیا اور ایک مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے چلا گیا
حمدان نے امل کو الماری میں گم دیکھ کر اسکا کمرے کا دروازہ نوک کیا جس سے امل چونک گئی
کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔۔۔؟حمدان نے دروازے سے ٹیک لگاتا کہا
جی آجائیں ۔۔۔۔
دل میں اس نے کہا" کہ نہ کہوں گی تو کونسا چلیں جائیں گے ویسے آئے کیوں ہیں افف اللٰہ جی "
حمدان نے اندر آکر بہت سے بکھرے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے ایک ڈریس امل کی جانب بڑھایا یہ پہن لینا
امل تو یہی سوچتی رہ گئی کہ مینے تو کچھ کہا بھی نہیں اور یہ سمجھ بھی گئے لیکن مہربانی کیوں کر رہے ہیں
یہ ایک سیگرین کلر کی فراک تھی جس پی پیلے رنگ کی embroidery تھی جو مایوں کی فنکشن کے حساب سے suitable تھا ۔
وہ تم سے کیا کہ رہا تھا "
حمدان نے اچانک امل سے پوچھا
کون؟؟ امل نے بے خودی میں کہا
میرے خیال سے اتنی ویک میموری تو نہیں ہے
حمدان کا لہجہ اچانک سخت ہو گیا تھا
و۔۔۔۔۔وہ ک۔۔۔۔۔کچھ خ۔۔۔۔خاص۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔بسس ۔۔۔وہ ۔۔۔۔
امل نے بات سمجھ آنے پر کہا یہ تفتیش کے لئے آئیں ہیں
آئیندہ کے بعد اسکے آس پاس بھی نظر نہ آو سمجھی
حمدان نے اسے وارن کیا
لیکن میں تو اسکے پاس نہیں"" ۔۔۔۔۔
میں نے صفائی نہیں مانگی
حمدان نے امل کی بات کاٹی
کیا ہو رہا ہے guyzz
آبرو کی چہکتی ہوئی آواز آئی حمدان کو بہت غصہ آیا کہ وہ ایسے ہی آگئی کچھ چیزوں میں حمدان ethics کا بہت خیال رکھتا تھا۔۔۔
حمدان کے ہاتھ میں ڈریس دیکھتے ہوئے آبرو تو کڑ ہی گئی ۔۔۔۔۔
نظر نہیں آرہا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔
حمدان نے خود پہ قابو پاتا کہا
اوو ڈریس selection ہو رہی ہے
اس نے انکے پاس آکر جواب دیا
ہاں اور جب دو لوگ بات کر رہے ہوں تو اس طرح بیچ میں مداخلت نہیں کرنا چاہیئے ۔۔۔۔۔
حمدان یہ کہتے ہوئے امل کو ڈریس پکڑاتے ہوئے کمرے سے چلا گیا
امل نے آبرو کو کہا
""آو آبرو بیٹھو تم کھڑی کیوں ہو "
you just shut up
آبرو یہ کہتی ہوئی غصے سے پھنکارتی ہوئی گئی
""میں نے کیا کیا ہے. دونوں کزن ہی سٹیاوے ہیں "
وہ بڑبڑاتی اپنا ڈریس استری کےلئے آسیہ کو دینے چلی گئی
___________________________
آئرن اسٹینڈ پہ ہینگ کئے ہوئے امل کے ڈریس کو آبرو ایسے گھور رہی تھی جیسے وہ ڈریس نہیں امل ہو اور وہ اسے سالم نگل جائی گی ۔۔
اپنا کام مکمل کرکے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے آبرو جن کی بوتل کی طرح غائب ہوگئی تھی ۔۔۔۔
__________________________
حمدان اور سعد نے وائیٹ شلوار پہ کاہی رنگ کی قمیض پہنے ایک ساتھ کھڑے محفل کی جان لگ رہے تھے
مرتظی اور سعد کی بھی سیم یہی ڈریسنگ تھی
سعد نے آبرو کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے اسکے تعریفی پل باندھتے ہوئےکہا
حمدان بے آبرو کو دیکھا ہے تو نے
بے آبرو ۔۔
حمدان نے چونک کر کہا
"ہاں بے آبرو تیری چپکو کزن بغیر ایلفی کے بھی کیا چپکتی ہے" سعد نے حمدان کو کہا
""سعد ایسے نام نہیں بگاڑتے ""
حمدان نے سعد کو ٹوکا
"میں کہاں نام بگاڑ رہا ہوں میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ اسکا نام بے آبرو ہونا چاہئیے کیوں کہ حرکتیں تو بےآبرو کرنے والی ہیں" ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکے سلیو لیس فٹ چھوٹی قمیض پہ چوٹ کرتے کہا ۔جس میں اسکی figure بہت واضح ہورہی تھی اور دوپٹہ گلے میں رسی کی طرح نام کرنے کےلئے ڈالا ہوا تھا۔۔۔۔۔
ایسا لگ رہا ہے کارنفلور کے پیکٹ میں منہ ڈال کر آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔حمدان نا چاہتے ہوئے بھی سعد کی باتوں پہ ہنس پڑا۔۔۔۔
سامنے کھڑی آبرو یہ سمجھ کر شرما گئی کہ وہ دونوں اسکے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہیں
""سعد اگر تعریفی کلمات آبرو نامہ میں مکمل ہوگیا ہے تو ذرا لیفٹ مڑنا""۔۔۔۔
حمدان نے سعد کی توجہ مبزول کرائی
"او تیری خیر حمدان کے بچے بتا نہیں سکتا تھا پہلے کہ میری زندگی کا سویرا یہی دیکھ رہی یے ۔۔۔۔۔
سعد نے حمدان کو دانت پیس کر کہا
For your kind information
میرے ابھی بچے نہیں ہیں
حمدان نے سعد سے کہا
ہاں ""جتنا تو سلو موشن ہے تیرے بچے ہونے بھی نہیں ہیں اتنی جلدی ۔۔۔میرے ہونے والوں بچوں کے لئے کیوں رکاوٹ بن رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
سعد تو یہ کہ کر وہاں سے کھسک گیا کیونکہ سویرا اسے گھورتی ہوئی نظر سے دیکھ کر چلی گئی تھی
پتہ نہیں کیا بنے گا اسکا "
کہتے ہوئے حمدان متلاشی نظروں سے کسی کو ڈھونڈنے لگا تھا
________________________________
سویرا پھولوں کا ٹوکرا لیکر آرہی تھی جب سعد اسکے راستے میں حائل ہوا
سویرا نے اپنا رخ دوسری طرف کرا تو اتفاق سے سعد بھی اسی جانب ہوا
سویرا پھر رائیٹ پہ ہوئی تو سعد بھی رائیٹ پہ ہوا
سویرا کو اب سمجھ آگیا تھا کہ اب سعد جان بوجھ کر یہ کررہا ہے پھر سویرا کچھ سوچ کر ایک طرف ہوئی اسی جانب سعد بھی ہوا اور سویرا نے جب ہی اسکی راہ میں اپنی ٹانگ اڑائی جس سے سعد منہ کے بل گرا
سعد کے بروقت زمین پہ ہاتھ رکھنے سے اسکا سر زمین پہ لگنے سے بچ گیا تھا
""مسٹر نکل گئی ہیرو پنتی یا ابھی بھی کچھ بچا ہے آیا بڑا ٹھرکی ۔۔اپنا ٹھرک پن کہیں اور جا کر دیکھانا "۔۔۔۔۔۔
سویرا یہ کہ کر آگے بڑھی اسے بھی تو اپنا بدلہ لینا تھا اتنا ٹائیڈ لاک کرا تھا نیکلیس کی وہ اس سے کھلا نہیں تھا
حمدان جوکہ سعد کو ڈھونڈنے ہی آیا تھا سارا واقع اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور اسکا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھا
اور اس نے سویرا کا جملہ
نکل گئی"" ہیرو پنتی"" ۔۔دہرایا
ہنس لے ہنس لے یہ نہیں کہ بھائی گر گیا ہے اٹھا دے اسے سعد حمدان کو کوستا ہوا دل میں سویرا سے بدلے لینے کے ارادے کر رہا تھا
گرا یے یا گراگیا ہے سہی ملی ہے تجھے ۔۔تجھے سہی ٹریک پہ لائی گی ۔۔۔
حمدان نے سعد کو ہاتھ دیتے ہوئے کہا
"چل اب اتنی سڑی سی شکل نہ بنا باہر چل "۔۔۔۔
حمدان نے سعد کے کندھے پہ ہاتھ کا حصار باندھتے ہوئے اسے باہر کی طرف لے کر گیا
________________________
یہ میرا ڈریس کیسے جل گیا ۔۔۔
امل اپنے ڈریس کو جلا دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی
ایک تو ویسے ہی دیر ہوگئی ہے
ہوا یوں کہ امل جب شاور لینے گئی تو اسکے نل میں پانی آنا بند ہوگیا اچانک امل نے ٹب میں جمع کئے ہوئے پانی کا استعمال کرا تو کچھ دیر بعد پانی خود آنے لگا
""اب یہ مصیبت"" ۔۔۔
بوا سے بھی پوچھ کر کیا کروں گی وہ تو خود اتنی مصروف ہیں ۔۔۔
امل نے دوسروں کپڑوں کو دیکھتی ہوئی خود کلامی کری
""امل کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو"" ۔۔۔۔۔
آبرو نے امل کے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی کہا
"اوو یہ ڈریس کیسے جل گیا تمہارا اب کیا پہنو گی تم"" ۔۔۔ویسے میری آفر ابھی بھی یے۔تم چاہو تو وہ ڈریس پہن سکتی ہو ویسے بھی ہم سب نے ایک ہی اسٹائیل کے ڈریسس پہنے ہیں قسمت بھی یہی چاہتی ہے تم یہی پہنو ۔۔
آبرو نے امل کو ایک ڈریس آفر کی تھی جسکی آستین چھوٹی سی تھی اور پیچھے کا گلہ کافی بڑا تھا اور اس پر ڈوری بھی لگی تھی۔۔۔۔
امل کو وہ ڈریس نامناسب لگا تھا لیکن اسلئیے اس نے انکار کر دیا تھا
اب آبرو پھر اسے وہی بات کر رہی تھی
""نہیں آبرو میں کچھ اور پہن لوں گی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔امل نے عام سے لہجے میں انکار کرا
"امل تم میری ایک اتنی سی بات نہیں مان سکتی "
آبرو نے ایسے کہا جس پہ امل نے کچھ سوچ کر حامی بھر لی
امل نے اس ڈریس پہ ایک بڑا سا دوپٹہ لیکر اسے دونوں شانوں پہ لیکر پن سے کور کرلیا کہ اسکا بیک چھپ گیا اور اس نے بالوں کا میسی جوڑا بنائے ہلکے سا میکپ کرکے پھولوں کے زیور پہن کر باہر کی راہ لی
""اوووو تم یہ کیا زردے کی دیگ بنی بیٹھی ہو صبح بھی ہلدی کا ڈبہ بنی ہوئی تھی "
اذہان جو اندر کسی کام سے آیا تھا امل کو اس طرح خود میں الجھتا دیکھ کر کہا
""اذہان تمہیں میں زردے کی دیگ لگ رہی ہوں یہ کلر ہی ایسا یے "
امل اپنا مسلہ بھول کو اسے سنانے میں لگ گئی تھی
"تو ایسا کلر کیوں پہنا ہے میں تو اب یہ ہی کہوں گا "
اذہان نے بھی اسے چڑایا
"اور تم جانتے ہو کہ تم کیا لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔تم ۔۔۔وہ ۔۔۔
امل کو سمجھ نہیں آرہا تھا
""ہاں میں۔۔ بولو چپ کیوں ہوگئی ہو "
اذہان نے آئی آبرو اچکائی
""تم ہاں ۔۔۔پانی کے ٹینک میں جمی ہوئی کائی (الجی ) لگ رہے ہو"
امل نے بھی حساب برابر کرا کیونکہ اذہان نے کاہی کلر کا کرتا ہوا پہنا ہوا تھا
"امل بچ کے دیکھاو "
اذہان کہتا آگے بڑھا تو وہ پیچھے ہوئی اور لڑکھڑا گئی
""اوئے سنبھل کر اپنا پیر بھی اب نہ توڑوالینا "
اذہان نے اسے کلائی سے تھاما
"وہ میری سینڈل کی اسٹرپس کھل گئی تھی اسے ہی تو باندھ رہی تھی کہ تم آ ٹپکے "
امل نے کہا
"تو سینڈل پہننے کی کیا ضرورت ہے سلیپر پہن لیتی باہر گر گرا گئی تو غبارے جیسی تو ہو یوں ہی ادھر ادھر ہوجاو گی "
اذہان نے فکر کرتے کہا
"جب تمہیں لڑکیوں کے فیشن کے بارے میں نہیں پتا ہے تو نہ بولا کرو "
امل کو اسکا فلسفہ پسند نہیں آیا تھا
"تم سے بحث میں نہیں جیت سکتا بندہ ادھر دیکھاو میں بند کردوں "
اذہان کہتا پنجوں کے بل بیٹھا
"میں کر لوں گی " امل نے انکار کیا
"جب غلام حاضر ہے تو کیوں کر رہی ہو محنت "
اذہان نے سر کو خم دیتے کہا
"کیا بات ہے آج بڑے موڈ میں ہیں اذہان شیرازی "
امل نے اسکا پورا نام لیا
""میں تو ہمیشہ موڈ میں ہوتا ہوں تمہیں ہی نہیں لگتا "
اذہان نے اسٹرپس باندھتے کہا
"ویسے کتنی لڑکیوں کے سینڈل کے اسٹریپس باندھ چکے ہو اب تک "
امل نے آدھے منٹ میں اس کا کام ختم ہونے پہ کہا
ہاہاہا " پہلی تم ہو چڑیل آخری بھی تم ہوگی اور میں اذہان ہوں ہر کسی کے آگے نہیں جھکتا اور جس کے آگے جھک جاو سمجھو وہ بہت خاص ہے"
اذہان نے اپنی اہمیت بتائی
"" او مائے گاڈ ۔۔۔۔۔تو کیا اپنی بیوی کے نہیں باندھوں گے اسٹرپس "امل نے پوچھا
""بیوی ۔۔۔وہ تو ابھی نہیں ہے جب ہوگی تو دیکھ لیں گے اسے بھی ابھی تو تم ہو نہ "
اذہان نے کہتے اسکا ہاتھ پکڑا
امل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
""ایسے کیا دیکھ رہی ہو زینہ آئے گا ابھی گر گرا گئی تو ہماری لئے ہی پریشانی ہوگی تم نے اپنی ہیلز کی لینتھ دیکھی ہے اور ہمیشہ کے لئے نہیں تھاما ہے کہو تو تھام لوں کیا "
اذہان نے اس نے گال کھینچتے کہا
اج تو اسکا انداز ہی الگ تھا
""بہت ہی بھونڈا مذاق ہے اذہان "
امل نے اس کے گال پہ اپنا مکہ نرمی سے رکھا اور وہ دونوں آگے بڑھے
حمدان جو اپنا موبائیل لینے آیا تھا یہ منظر اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے محسوس ہوا کہ اسے کسی نے ننگے پیر تپتے صحرا میں لا چھوڑا ہے
_____________________________
سعد اذہان مرتضی اور کاشان نے ملکر مایوں کے سونگ پہ ڈانس کررہے تھے حمدان کو یہ سب پسند نہیں تھا تو وہ پیچھے ہی تھا
مایوں کا فنکشن اپنے عروج پہ تھا جب سامنے کا منظر دیکھ کر حمدان کا غصہ ساتوں آسمانوں کو چھو گیا تھا
امل کا دوپٹہ سرک گیا تھا کب اسے خبر نہیں ہوئی تھی اور کاشان نے اس منظر کا سہی سے فائدہ اٹھا رہا تھا اور اپنی آنکھوں کو وہی ٹکایا ہوا تھا
حمدان نے امل کو ایک جھٹکے سے موڑا امل جو کہ اس عمل کے لئے تیار نہیں تھی اسکے سینے سے آلگی تھی
حمدان نے اسکے دوپٹے کو ٹھیک کرکے اسکو کور کرتے ہوئے
کھینچتے ہوئے لے کر گیا جس سے امل کی ہاتھ کہ کئی چوڑیاں ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں چبھ گئی تھی
حمدان کو اس وقت کسی کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی اسوقت کیا سوچ رہا ہے یا نہیں ۔۔۔
آبرو کے چہرہ پہ ایک جاندار مسکراہٹ تھی ۔۔۔
حمدان نے امل کو اسکے کمرے کے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لاکر چھوڑا
""یہ کیا بدتمیزی ہے آپ مجھے اسطرح کیوں لائے""
امل کو غصہ آرہا تھا کہ وہ اسے یوں کیوں لایا اس طرح سب کے سامنے سے سب نہ جانے کیا سوچ رہے ہونگے
حمدان کو امل کی بات نے اور غصہ دلایا لیکن کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اسے ہلکا سا موڑا اور اپنا چہرہ موڑ لیا
امل اپنا آپ آئینہ میں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی کیونکہ اسکا بیک پورا نمایاں ہو رہا تھا
حمدان نے کبھی بھی امل کو اسطرح کی ڈریسنگ میں نہیں دیکھا تھا اسے ذیادہ غصہ کاشان پہ تھا
حمدان نے امل کو ایک معقول ڈریس الماری سے نکال کر دیا
"جاو ابھی کے ابھی اسے چینچ کرو٢ منٹ ہیں تمہارے پاس بس "
حمدان کا لہجہ دھیما مگر حد سے ذیادہ سرد تھا
امل کو اس سے خوف آنے لگ گیا تھا
حمدان اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر ٹہلتے ہوئے خود کو کول کر رہا تھا جب امل ڈریسنگ روم سے نکلی
اسکا سر جھکا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ حمدان کی جانب بڑھی اور دھیمے لہجے میں کہا
"میں نے جان بوجھ کر نہیں وہ"
"تم نے وہ ڈریس وئیر کیوں نہیں کیا تھا جو میں نے سیلیکٹ کیا تھا "
حمدان نے اپنے غصے پہ قابو کیا ہوا تھا
"وہ۔۔۔۔۔۔ج ۔۔۔۔۔جل ۔۔۔۔گی۔۔۔۔۔گیا۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔تھ۔۔۔۔۔تھا"
امل نے رندھی آواز میں کہا
"کیا مطلب جل گیا کیسے جل گیا تھا اگر جل گیا تھا تو یہی ڈریس ملا تھا اور یہ تمہارا تو نہیں لگ رہا ہے "
حمدان نے اسے خوف سے کانپتے دیکھ کر اپنا لہجہ کچھ نرم کیا
و۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔م۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔نے ۔۔۔۔آبرو ۔۔اس ۔۔۔ن۔۔۔نے ۔۔۔۔د۔۔ی۔۔۔۔دیا۔۔۔ت۔۔۔تھا۔۔۔
امل رک رک کر کہ رہی تھی سر مزید جھک گیا تھا
شششش ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھی
حمدان آبرو کا نام سنکر ہی سارا ماجرا سمجھ گیا تھا اس ڈریس کے پیچھے آبرو کا ہاتھ تھا اس سے تو اس بات کی توقع کی بھی جاسکتی تھی حمدان کو وہ شروع دن سے اچھی نہیں لگی تھی
حمدان کی نظر امل کے ہاتھ پہ پڑی جس پہ اسکے انگلیوں کے نشان تھے اور کچھ چوڑیوں کے چبھنے کی وجہ سے اسکا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا
حمدان کو افسوس ہوا وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا
حمدان نے امل کو کندھوں سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا اور کہا
" یہاں بیٹھو ۔۔میں ابھی آیا"" ۔۔۔۔۔
جب حمدان واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں first aid box تھا وہ بیڈ کے نیچے پنجوں کے بل بیٹھا اور بہت نرمی سے امل کے ہاتھ سے چوڑیاں نکال کر اسکے ہاتھ پہ مرہم لگایا جیسے اسے تکلیف ہو رہی تھی اور پھر اس نے احتیاط سے سنی پلاسٹ لگایا
امل کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
""امل ادھر دیکھو میری طرف""
حمدان نےاسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا۔۔۔۔۔۔
""امل اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے بس تم بہت معصوم ہو اور یہ دنیا نہیں ہمیں کسی کی ہر بات بھی نہیں ماننی چاہئیے اور مان بھی رہے ہیں تو سوچ سمجھ کر ماننا چاہئیے لوگوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ہمیں نہیں پتہ ہوتا کون ہمدرد ہے کون نہیں اس لئے احتیاط سے کام لینا چاہئیے تم نے آبرو کی بات مان لی اس لئے کہ اسے برا نہ لگے اور کچھ سوچا نہیں تم نے لیکن ہم ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے اور اسکے اس کام کے پیچھے نہ جانے کیا مقصد تھا"" ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا
اس نے اپنا رومال امل کو دیا
" اپنے آنسو صاف کرو ورنہ کچھ دیر میں واقع چڑیل بن جاو گی"
حمدان کی بات پہ دونوں کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی تھی
"باہر آجانا اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے "
حمدان یہ کہ کر چلا گیا
حمدان کے جانے کے بعد سویرا فوراً امل کے پاس آئی اسے صدف بیگم نے بیجھا تھا کہ کیا ہوا ہے
"امل آر یو اوکے کیا ہوا ہے اور تم رو ہوئی ہو حمدان بھائی نے ڈانٹا ہے "
سویرا نے اسکے ہاتھ سے ٹشو لے کر اسکا پھیلا ہوا لائینر صاف کیا
"تم کھبی تحمل کا مظاہرہ کر سکتی ہو "
امل نے اسے ٹوکا
"نہیں کر سکتی اب بتاو کیا ہوا ہے
حمدان بھائی تمہیں اس طرح سے کیوں لے کر آئیں ہیں اور تم نے اپنا ڈریس چینج کردیا "
"ایک ساتھ اتنے سوال کرتی ہوں تم ۔۔۔۔۔
انہوں نے نہیں ڈانٹا ہے میری غلطی تھی میں نے لاپرواہی برتی تھی اور اس ڈریس میں انکمفرٹیبل فیل کر رہی تھی تو چینج کیا ہے اور کوئی سوال ہے تو پوچھ لو "
امل نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنا میکپ ٹھیک کرنے لگ گئی جو کہ کافی خراب ہوگیا تھا
""اوو ہو انہوں نے "
سویرا نے اس لفظ پر زور دیا
"کیا مطلب ہے تمہارا"
امل نے ڈارئیکٹ سوال کیا
"مطلب بہت سمپل ہے ابھی مجھے کیسے ڈانٹ رہی تھی اور انکا نام آیا تھا تو اتنی نرمی آگئی ہے لہجے میں اور شیریں پن تو دیکھو "
سویرا نے چھیڑا
"ایسی کوئی بات نہیں یے وہ بڑے ہیں اس لئے بس "
امل نے صفائی دی
""او ہیلو بڑے تو مرتضی اور اذہان بھائی بھی ہیں انہیں تو نہیں بولتی ایسا کچھ یہاں بات الگ ہے کچھ اسپیشل والی ہے نہ "
سویرا باز نہیں آئی تھی
"بات الگ ہے لیکن کوئی اسپیشل نہیں کیا کہنا چاہ رہی ہو"
امل نے سوال کیا
"میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ انکی آنکھوں میں میں نے دیکھا ہے وہ تمہیں جس طرح دیکھتے ہیں نہ وہ کوئی عام نظر نہیں ہے کچھ اور ہے "
سویرا نے اسکے کان میں سرگوشی کری
"سویرا تم پٹ جاو گی تم یہ بات پھر سے کہ رہی ہو میں نے منع کیا تھا نہ ۔۔۔تمہیں چاہئیے کورس کی کتابوں کے بجائے آنکھیں پڑھا کرو سب کی "
امل لاپروا بنی
"تم مانو یا نہ مانو بات یہی ہے "
سویرا نے اپنی لپسٹک ڈارک کرتے ہوئے کہا
"دیکھو سویرا کھبی کھبار ہمیں غلط بھی نظر آرہا ہوتا یے ہوسکتا ہے ایسا کچھ نہ ہو انکا انداز ہی ایسا ہو انکا اسٹائیل ہو یہ اور میں بیکار کی خوش فہمیاں پال لوں "
امل نے ایک نظر آئینہ میں دیکھا
""خوش فہمی کیا بات ہےمطلب تم چاہتی ہو ایسا کہ کچھ ویسے خوش فہمی اچھی چیز ہے بندہ مطمئن سہ رہتا ہے "
سویرا نے اسے کہنی مار کر چھیڑا
""صحیح کہا ہے کسی نے محبت ہوتی نہیں ہے لیکن تم جیسی دوستیں بول بول کو زبردستی انڈیل دیتی ہیں "
چپ کر کے باہر چلو اس سے پہلے کوئی یہی آجائے
امل نے باہر کی راہ لی
_________________________
فنکشن کے اینڈ میں سارے youngester گیم کھیل رہے تھے
انتاخشری بہت کھیل لیا اب کچھ اور کھیلتے ہیں "
سعد نے کہا اسے اب مزید گانے نہیں آرہے تھے تو اس نے بوریت کا اظہار کیا
guessing gameکھیلتے ہیں
آبرو نے کہا
جس پہ سب نے ایکا کرا
یوں دو دو ممبرز کی ٹیم بنے گی ایک guess کرے گا اور دوسرا اسے اشاروں میں سمجھائے گا ۔۔۔۔
سعد ۔۔ آبرو ۔۔اور سویرا ۔۔مرتظی ۔۔۔حمدان ۔۔امل اور کاشان اور اذہان پاٹنر بنے تھے
ابرو اور سعد کا تو موڈ ہی آف ہو گیا تھا کیونکہ انہیں انکی پسند کے پارٹنر نہیں ملے تھے
کاشان کی نظر امل پہ اور حمدان کی کاشان پہ تھی
سب سے آخر میں امل اور حمدان کی ٹرن آئی تھی
۔حمدان نے guess کرنے کا فیصلہ کیا تھا
امل نے جو پرچی اٹھائی تھی وہ آبرو نے اپنے لئے رکھی تھی وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اور حمدان ہی پارٹنر بنے گے لیکن ایسا ہوا نہیں ۔۔۔۔
پرچی پہ جو لکھا تھا امل کے گال حیاء سے لال ہوگئے تھے اسے پڑھ کر ۔۔۔
" I and you are together bind in love ".....
امل کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ یہ کیسے بتائے خفت سے اسکا چہرہ سرخ پڑھ رہا تھا
امل نے کہا "یہ چٹ تبدیل نہیں ہوسکتی کیا "
""نو امل جو آگیا یے آگیا اب یہی بتانا ہے تمہیں "
مرتضی نے صاف ہری جھنڈی دیکھائی
امل نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی انگلی کا اشارہ پہلے اپنی طرف کیا پھر حمدان کی طرف
جسے حمدان you and iکہ کر guess کر لیا تھا
امل نے اب اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا جسے حمدان نے together bind کہ کر guess بہت آرام سے کر لیا تھا
پھر امل نے ایک مرتبہ پھر لمبی سانس لی اور اپنے ہاتھ کا دل بنایا جسے حمدان نے کہا Heart ....
امل نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کچھ اور ۔۔۔
حمدان سمجھ نہیں پارہا تھا
پھر امل کی ایک دو کوششوں کے بعد حمدان نے فائنیلی love کہ دیا تھا
I and you are together bind in love ..
حمدان نے لفظوں کو ترتیب دے کر روانگی سے کہا اور پھر جب مطلب سمجھ آیا تو بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگ گیا تھا اسے محسوس ہوا ٹھنڈے پانی کی پھوار اس پر برس رہی ہو
امل تو فورا ہی نیند کا بہانہ بناکر بھاگ گئی تھی
مرتظی نے آج پہلی بار امل کےلئے حمدان کو سوچا تھا اور اسے یہ بہت اچھا لگا تھا اسطرح اسکی بہن ہمیشہ اسکے پاس رہ سکتی تھی
اور پھر سب نے اپنی اپنی راہ لے لی اور ایک خوبصورت رات کا اختتام ہوا تھا
_________________________________
آج انوشے کی برات تھی تو گھر میں ایک افراتفری کا عالم تھا ۔۔۔سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔
"سویرا بیٹا یہ سیڑھیوں سے اوپر جو تیسرا روم ہے نہ وہاں یہ ڈریس رکھ آو گی بیٹا مجھے حارث بلا رہے ہیں میں ذرا دیکھ لوں انہیں اب نکلنا ہے تو انہیں کام یاد آرہا ہے "
شانزہ بیگم نے اوپر جاتی سویرا کو روک کر کہا جو امل کے پاس جا رہی تھی۔۔۔۔۔
"جی میں رکھ آتی ہوں" ۔۔۔۔
سویرا ان سے ڈریس لےکر انکے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی
سویرا نے اسوقت پرپل کلر کی فراک پہنی تھی جس پہ براوئن کلر کا ہلکا سا کام ہوا وا تھا بالوں کا جوڑا بنائے ہلکے میکپ میں وہ ایونٹ کےلئے تیار تھی
سویرا نے روم کا دروازہ نوک کیا تو کوئی جواب نہیں آیا تو پھر وہ اندر چلی گئی اور دروازے کے لوک کا بٹن پریس تھا جو اب بند ہونے سے وہ لوک ہو گیا تھا
صوفے پہ ڈریس رکھ کر وہ کمرے کا جائزہ لیتی بیڈ کے پاس آگئی تھی جب اچانک اسے کسی نے اپنے حصار میں لیا تھا اور وہ جب پلٹی تو سعد نے اسے تولیہ کے حصار میں قید کر لیا تھا اور ایک دلکش انداز میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ ابھی ہی نہا کر آیا تھا اسکے سر سے پانی کی ننھی ننھی بوندیں ٹپک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے اپنے اور سویرا کے بیچ فاصلہ قائم رکھا تھا لیکن سویرا کو اسکے باوجود بھی گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔
"سعد یہ کیا حرکت ہے ۔۔۔۔ہٹائیں اسے"" ۔۔
سویرا نے سعد کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
لیکن سعد نے تولیہ کے دونوں سروں کو اتنا ہلکا بھی نہیں پکڑا تھا کہ سویرا اسے چھڑا سکے
سعد "۔۔۔ایک بار پھر سے نام لو نہ" ۔۔۔۔۔
سعد کی تو لوٹری ہی نکل گئی تھی محبوب انکے قدموں میں بغیر کسی محنت کے ہی آگیا تھا
سعد کو تو اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا اسکے دلکش سراپے میں
""دیکھو اپنا یہ ٹھرکی پنا بند کرو ورنہ میں تمہارا منہ توڑ دونگی"
سویرا کو اسکی قربت میں گھبراہٹ ہو رہی تھی اوپر سے اسکا شوخا انداز سویرا نے انگلی اٹھاتے ہوئے اپنے لہجے کو تیز کر کے کہا اس بار سعد کا نام لینے سے پرہیز ہی برتا
""منہ توڑ دینا ۔دی اجازت اتنی بسس دل نہ توڑنا جانم ""
سعد تو آج فل موڈ میں تھا ۔۔۔۔۔
""دیکھو کوئی آجائے گا بات کو سمجھو اور ذرا تمیز سے یہ چھچھورا پن اپنا اپنے پاس رکھو میں کوئی جانم وانم نہیں ہوں تمہاری ۔۔۔۔۔۔""
سویرا نے سعد کو لتاڑتے ہوئے کہا
"تو بن جاو گی بنانے میں کتنا ٹائم لگے گا کہو تو ابھی نکاح خواہ آئے گا انوشے کے نکاح کے ساتھ اپنا بھی کر لیتے ہیں "
سعد نے نظروں کے حصار میں اسے رکھتے کہا
سویرا کو ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے مجھے کیا ضرورت تھی اس کمرے کا معائنہ کرنے کی اب اس ٹھرکی سے کیسے جان چھڑاو ۔۔۔
سویرا نے دل میں کہا
"کیا ہوا جانم کہاں گم ہو گئی کہیں اپنے نکاح کے بارے میں تو نہیں سوچ رہی ""
سعد نے اسکے سامنے چٹکی بجائی
سعععععدددددد ۔۔۔۔۔
سویرا نے سعد کا نام چبا جبا کر لیا
"دیکھو مجھے جانے دو پلز بات کو سمجھو "
"ایسے تو نہیں جانے دونگا "
آخر سعد کو بھی تو اپنا بدلہ لینا تھا ۔۔۔۔اس دن گرایا تھا ۔۔۔پھر اس سے پہلے نمکین چائے پلائی تھی ۔۔۔سعد کو تو آج اچھا موقع مل گیا تھا ۔۔۔۔۔
"تو پھر کیسے جانے دو گے ""
اس نے تھک کر کہا
"ایک سوری ایک سوری قیمت ہے ۔۔۔بس۔۔کہو سعد آئی ایم رئیلی سوری "
سوری کس لئے ۔۔۔؟؟سویرا کو تپ ہی چڑ گئی تھی ۔۔۔۔
""اب یہ بھی میں بتاو ۔۔۔۔اس دن گرایا کس نے تھا ۔۔۔وہ نمک کی چائے کس نے پلائی تھی ""
سعد نے عجیب سہ منہ بنا کر کہا
سویرا کو تو ہنسی آگئی تھی لیکن اس نے اپنے ہونٹوں کو دبا کر ہنسی کو روکا اس وقت اسے یہاں سے نکلنا تھا ۔۔۔۔۔
"اوکے آئی ایم سوری ۔۔۔اب چھوڑو"۔۔۔۔سویرا نے کہا
"ایسے نہیں تھوڑا پیار سے بولو ""
سعد کو مزا نہیں آیا تھا
سویرا کچھ کہتی کہ اچانک دروازہ بجا جس سے سویرا ڈر کے مارے ایک دم پیچھے ہوئی اور بیڈ کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے وہ بیڈ کے اوپر گری سعد جس نے تولیہ کا سرا پکڑا ہوا تھا تولیہ کھینچنے کی وجہ سے وہ بھی دھڑام بیڈ پہ گرا
سویرا کی چیخ نکلتی اس سے پہلے سعد نے بروقت اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اس کا گلہ گھونٹا
کون ہے ؟سعد نے تیز آواز میں کہا
""میں ہوں حمدان سعد کہاں رہ گیا ہے نیچے آبھی جا کتنا ٹائم لگے گا لڑکی ہے کیا"
"ہاں تو جا میں بس آرہا ہوں ١٠ منٹ میں "
سعد نے حمدان کو کہا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اسے لڑکی کہنے پر صحیح سے بتاتا
"تو یہ گیٹ کیوں لوک کیا ہوا یے "
حمدان نے لاک گھماتے ہوئے کہا لیکن وہ کھلا نہیں تھا
"لوک تھا پہلے سے تو جا میں آتا ہوں "
سعد حمدان کو بھیجنا چاہتا تھا
سویرا کی تو رہی سہی بولڈنیس اب تو بلکل ہی گم ہوگئی تھی ۔سعد اور سویرا کے بیچ ایک انچ کا فاصلہ بھی بمشکل تھا ۔۔۔۔۔۔اسکی پلکیں تک جھک گئی تھی
سعد سویرا کے چہرے پہ حیاء کے رنگ دیکھنے میں گم تھا کہ ۔اسے سویرا کا "امممم "کرنا بھی سنائی نہیں دیا تھا
سعد کا ہاتھ ابھی تک اسکے منہ پہ جو تھا ۔۔۔۔۔۔
سویرا نے اسے چٹکی کاٹی تو سعد ہوش میں آیا اور اس پر سے اپنا منہ ہٹایا
ہٹو پیچھے
سویرا نے اسکے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلا لیکن ہاے رے قسمت سویرا کے گلے کا necklace سعد کے شرٹ کے اوپر والے بٹن میں اٹک گیا تھا یہ وہی نیکلس تھا جو سعد نے اسے پہنایا تھا
سویرا اسے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن گھبراہٹ کی وجہ سے وہ مزید پھنس گیا تھا
سویرا کی چلتی دھڑکنوں نے اسپیڈ پکڑ لی تھی اسے یہ ہی ڈر تھا کہ اگر کسی نے یوں اسطرح دیکھ لیا ہوتا تو اسکے عزت پہ کوئی حرف آجاتا وہ بال بال بچ گئی ۔
سعد کو اسکی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھی اور اسکا گریز بھی سمجھ آرہا تھا لیکن وہ بھی سعد تھا اسے خود سے پہلے سویرا کی عزت کا خیال تھا ۔۔۔۔۔۔
""پہلے سوری کہو پھر چھوڑ بھی دونگا اور یہ نکال بھی دونگا ۔۔۔۔کیونکہ تم جسطرح نکال رہی ہو صبح ہوجانی ہے یا پھر تم ایسی ہی رہنا چاہتی ہوں""
سعد نے شرارتی پن سے اسکے necklace الگ کرتے کہا
"سعد آئی ایم رئیلی سوری ۔۔۔پلز اب جانے دو "
سویرا نے اس بار اپنے لہجے کو نارمل رکھا اور نرمی سے کہا
سعد نے بھی سویرا کو نروس دیکھتے ہوئے مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے Necklace الگ کرا اور فورا الگ ہوا اور سویرا کو اپنا ہاتھ دیا اٹھنے کے لئے جسے سویرا نے تھوڑا ججھکتے ہوئے تھام لیا
اور نکلنے کےلئے آگے بڑھی کہ سعد نے اسے روکا
' ایک منٹ' ۔۔۔۔۔
سعد نے گیٹ کھول کر پہلے آگے پیچھے دیکھا پھر سویرا کو جانے کو کہا
سویرا کو خوشی محسوس ہوئی کہ سعد نے اسکی عزت کا خیال رکھا اور مسکراتی ہوئی چلی گئی تھی
سعد بھی جلدی جلدی ریڈی ہوا اور صوفے پہ رکھے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر کہا
"۔مسز سعد ابھی سے ہی اپنی ذمہ داریاں سہی انجام دے رہی ہیںکچھ کرنا پڑے گا یہ دل تو اب قابو میں نہیں رہتا اب یہ دل اپنا نہ رہا اب بات آگے بڑھانی پڑے گی "
سعد مسکراتے ہوئے خود سے کلام کرتے ہوئے جلدی جلدی تیار ہورہا تھا ۔۔۔۔
_________________________
"کیوں بلا رہے تھے آپ حارث میں سارے کام چھوڑ کر آئی ہوں "۔شانزہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
"وہ آپ نے میرا سوٹ کہا رکھا ہے "
"وہ دیکھیں وہاں رکھا ہے بس بہانہ چاہیئے آپکو مجھے پاس رکھنے کا "
سوٹ اٹھاتے وہ بولیں
"ہاں تو آپ نے اتنا چھپا کر رکھا یے مجھے نظر ہی نہیں آیا اور ویسے بھی جب نظروں میں ہر وقت آپ رہی گی تو کہاں کچھ نظر آئے گا "
انہوں نے اپنا ڈریس لیتے ہوئے کہا
""اتنے بڑا بیٹا ہوگیا ہے انکا romance ختم نہیں ہوتا
میں باقی سب چیزیں بھی نکال دیتی ہوں ورنہ وہ بھی نہیں ملیں گی "
"اچھا ادھر تو آئیں نظر بھر کر دیکھ ہی لوں دور کی نظر کمزور لگ رہی ہے حارث صاحب آج موڈ میں تھے"
"آپ اپنی تیاری پہ نظر رکھیں ورنہ میں چلی جاو گی پھر خود ہی ڈھونڈتے رہیئے گا "
شانزہ بیگم نے انہیں دھمکی دی
""اچھا اچھا میں کچھ نہیں کہ رہا آپ کریں کام اپنا
یہ جو دور کا دیدار میسر ہے وہ بھی نہ رہے اس سے پہلے""
"میں کل صدف سے موقع دیکھ کر بات کروں گی حارث ٹھیک ہے نہ "
انہوں نے اپنی سوچ سے انہیں آگاہ کیا
""آپ جلد بازی نہیں کر رہی ہیں میرا مطلب ہے کہ حمدان اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہے پہلے اسکا سوچنا چاہئیے ""
انہوں نے پر فیوم اسپرے کرتے ہوئے کہا
تو حماد بھائی اور بھابھی ہیں نہ انہوں نے کچھ نہ کچھ سوچا ہوگا "
شانزہ بیگم نے انکے سلیپرز نکالتے کہا
"یہ بھی ٹھیک ہے لیکن ہمارا بڑا بیٹا سعد ہے اسکا سوچنا چاہئے پہلے ہمیں "
انہوں نے پھر ایک نئی بات کہی
""افف حارث کیا ہوگیا آپکو آپ تو ایسے کہ رہے ہیں جیسے میں کل ہی نکاح پڑھانے لگی ہوں اور ساتھ میں ہی رخصتی "
انکو تپ چڑھ گئی تھی
"آپ بھی ہتھیلی میں سرسوں جمانے والی بات کر رہی ہیں "
انہوں نے چپل پیر میں ڈالتے کہا
شانزہ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا
__________________________
"کن سوچوں میں گم ہیں آپ تیار ہوں جلدی "
حماد صاحب نے اپنی ہمسفر کو دیکھتے ہوئے کہا
کہیں نہیں
انعمتہ بیگم نے کان میں بالی ڈالتے کہا
"جلدی کریں اپنی تیاری ہمیں جلدی نکلنا ہے آپ اتنا لیٹ کریں گی تو کہیں میرا ارادہ نہ بدل جائے اور پھر میں آپکو بھی کہیں جانے نہ دوں "
حماد صاحب نے کہا
"افف حماد ہورہی ہوں تیار خبردار جو الٹا سیدھے کچھ ارادے کئے انکے موڈ کا بھی کچھ پتہ نہیں "
انعمتہ بیگم سب بھلائے جلدی جلدی تیار ہونے لگی
__________________________
"اتنی دیر تو عورتیں بھی نہیں لگاتیں جتنا آپ لگا رہے ہیں ""
صدف بیگم نے حنین صاحب کےواسکوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا
"اب آپ اتنے کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آگے پیچھے گھومی گیں تو دھیان کیسے کہیں جائے "
انہوں نے کہا
""بس باتیں بنوالیں آپ سے
میں جا رہی ہوں امل کو دیکھنے آپ ہوتے رہیں تیار ""
ارے بیگم کہاں جا رہی ہیں
انہوں نے روکنا چاہا
صدف بیگم رکی نہیں تھی لیکن
_____________________________
حمدان کے پسند کے ڈریس میں بیچ مانگ نکال کر فرنٹ سے twist کرکے باقی بالوں کو کھلا چھوڑے بندیا لگائے امل حمدان کو اپنے دل کی بہت قریب لگی ۔۔۔۔۔
حمدان کا دل و دماغ آج اسکے بس میں نہیں تھا نظریں بار بار امل کی جانب اٹھ رہی تھیں جوکہ امل کو کنفیوز کر رہی تھی دل بار بار امل کو پکار رہا تھا جسے حمدان ان سنی کر رہا تھا مگر کب تک آخر
حمدان نے سوچا ہوا تھا کہ آج اگر کاشان نے کچھ کرا تو وہ اسے چھوڑے گا نہیں آبرو بہت غور سے حمدان کی نظریں نوٹ کر رہی تھی جو امل کی جانب ہی تھی اور اسنے کاشان کا امل کو دیکھنا بھی نوٹ کر لیا تھا اور بہت کچھ سوچنے لگ گئی تھی ۔۔۔
________________________
سعد کی نظریں تو آج بس سویرا پہ ہی ٹکی تھی اور سویرا اسے گھوریوں سے نواز رہی تھی
""افف اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ایسے گھورو گی تو بندہ تو ویسے ہی فدا ہے ان میں ڈوب ہی جائے گا ""
سعد نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا
سعد نے سویرا کو دیکھتے ہوئے اسے آنکھ مارا جس سے سویرا فورا گڑبڑا گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی
اور سعد کو نظر انداز کرتے ہوئے مرتضی سے مخاطب ہوئی
"مرتضی بھائی مجھے میٹھا لادیں گے پلزز"
جی بہنا لا دیتا ہوں جانتا ہوں کہ کتنا پسند ہے آپکو میٹھا
وہ کہتا ہوا میٹھا لانے گیا
سعد جسکی نظر ذہن سب سویرا پر تھی اس نے یہ سب بھی سن لیا تھا اور مرتظی کو ٹوپی کراتا اس سے میٹھا خود لے لیا تھا اور اس میں ایک اور اسپون ڈال کر اسکی جانب بڑھا تھا
اور سویرا کی جانب پلیٹ بڑھائی
آپ ۔"میں نے مرتضی بھائی سے منگوایا تھا یہ "
سویرا کو غصہ آیا
""کچھ ٹائم بعد تمہارے سارے کام مجھے اور میرے تمہیں کرنے ہیں تو ابھی سے پریکٹس سہی ""
سعد کی اتنے کھلے انداز پہ تو سویرا نے اپنی نظروں کا زاویہ ہی بدل لیا کیونکہ سعد کو جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اسنے الٹا ہی جواب دینا تھا
""اب میٹھا کھانا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔؟؟یا میں کھالوں ۔۔۔۔بہت مزے کا ہے ""
سعد کہتا ہوا کھانے بھی لگا تھا
میٹھا جو سویرا کی کمزوری تھی سعد کے باتوں سے اسکے منہ میں پانی آنے لگا تھا اس لئے اس نے سعد کے ہاتھوں سے پلیٹ لینی چاہی لیکن سعد کی گرفت مضبوط تھی
" کھانا ہے تو ایسے ہی کھاو میرے ہاتھ میں ہی رہی گی پلیٹ"
سعد نے اپنے منہ میں میٹھا ڈالتے ہوئے کہا
سعد اور سویرا کونے میں تھے تو اس طرف اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی کوئی انکی جانب متوجہ تھا
________________________
سعد اور سویرا کونے میں تھے تو اس طرف اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی کوئی انکی جانب متوجہ تھا
سویرا نے بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سعد کو گھورتی ہوئی ابھی میٹھا اس نے منہ میں ڈالا تھا کہ سعد کی آواز اسکے کان میں پڑی
ویسے میں تو چاہ رہا تھا کہ ایک ہی چمچہ ہو میں اور تم ہوں اور یہ میٹھا ہو تم مجھے کھلاو اور پھر میں بھی اسی چمچے سے تمہیں کھلاو ""
سعد کی اتنی ذو معنی بات پہ سویرا کے گلے پہ میٹھا اٹک گیا تھا اور وہ کھانسنے لگی تھی
سعد نے فورا سے اسے پانی دیا جسے پینے کے بعد اس نے سعد سے کہا
"اگر تم نے مزید فضول کچھ بولا نہ تو میں یہی میٹھا تمہارے اوپر ڈال دونگی "
سویرا اس کو اسکے حال پہ چھوڑتی اس پہ لعنت بھیجتی خود ہی میٹھا لے کر کھانے کے ارادے سے چلی گئی تھی
"سویرا اتنا گھبرا کیوں رہی ہو اور کہاں تھی میں کب سے
ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ کھانا کھایا؟"
امل نے سویرا کو کہا جو اسے کب سے ڈھونڈ رہی تھی
سویرا سعد سے بچتی ہوئی تیز چل رہی تھی کیونکہ وہ بار بار اسکے پیچھے پیچھے آکر اسے تنگ کر رہا تھا
"نہیں ۔۔میں ٹھیک ہوں امل۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔ نہیں کھایا کھانا آو ساتھ کھاتے ہیں "
سویرا نے امل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
کھانا کھاتے ہوئے امل کی نظر سامنے اٹھی تو حمدان اسی کو دیکھ رہا تھا اسکے اشاروں کا مطلب سمجھتے ہوئے اس اپنے ہونٹوں پہ انگلی پھیری
حمدان سر نہیں میں ہلاتا ہوا چلتے ہوئے اپنی جیب سے رومال نکالتا ہوا کب امل کے قریب آکر اسکے ہونٹوں پہ لگے چاول کے دانے کو صاف کیا اسے پتہ ہی نہیں چلا یہ سب اتنی جلدی ہوا تھا
امل نے ادھر ادھر فورا دیکھا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں
کسی کا نہ دیکھنے کا یقین کرکے وہ پرسکون ہوئی جب سویرا نے اسے یوں دیکھ کر ہاتھ ہلایا
""کیا ہوا "" اس نے کہا
"کچھ نہیں تم لے آئی میٹھا "
امل نے اسکے ہاتھ سے پلیٹ لی
آبرو کی آنکھوں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا اور وہ جل بھن گئی تھی
__________________________
دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی ایک طرف کاشان اور اسکے کزنز تھے دوسری طرف آبرو اور اسکے کزنز ۔۔۔۔۔
اسی بھگدڑ میں حمدان کا ناخن کاشان کے آنکھ میں لگ گیا تھا اور لگا بھی اتنا برا تھا کہ اسکی آنکھوں میں سے خون کی چند بوندیں چھلک کر اس میں جم گیا تھا
کاشان کو بہت جلن ہورہی تھی
اوپس"" i am really sorry "
کاشان مجھے پتہ ہی نہیں چلا کیسے انگلی چلی گئی""
حمدان نے پشیمان لہجہ اپناتے کہا
"سعد کچھ ointment لے کر آوجلدی "
حمدان اندر ہی اندر مسکرا رہا تھا
""انہی آنکھوں سے دیکھ ریے تھے نہ امل کو اب بھگتو اب دیکھتا ہوں کیسے دیکھ پاتے ہوں ""
___________________________
حمدان لیپٹوپ پہ کچھ کام کر رہا تھا جب انعمتہ بیگم اسکے پاس آئی تھی
آج میرا بیٹا آفس نہیں گیا
انہوں نے محبت سمائے لہجے میں کہا
"جی ماما وہ آج کچھ خاص کام نہیں تھا اسی لئے اور سعد گیا ہے ویسے بھی "
اس نے لیپٹوپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا تھا
"اچھا حمدان مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے اگر فری ہو تو ۔۔۔۔
"جی ماما آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لئے میرا فری دیکھنا لازمی نہیں ہے "
۔۔۔۔۔حمدان نے جواب دیا
"میں تمہاری شادی کا سوچ رہی تھی "
انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا
شادی؟؟ حمدان کے سامنے امل کی پرچھائی آئی تھی ۔جسے اس نے جھٹک کر کہا
"ابھی میرا کوئی پلان نہیں ہے اس بارے میں "
حمدان نے جواب دیا
"لیکن میرا تو ہے نہ حمدان میرے بہت سے ارمان ہیں اور میں نے تو لڑکی بھی پسند کر لی ہے "۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے ایک بم پھوڑا
لڑکی ۔۔۔
حمدان کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔
"ہاں ظاہر ہے لڑکی ہی پسند کرو گی نہ "
انہوں نے جواب دیا
کس۔۔۔کسے۔۔پسند کیا ہے ۔۔۔
حمدان نے رکتے رکتے کہا
آبرو۔۔ آبرو کو پسند کیا ہے ۔۔۔۔۔
انہوں نے بتایا
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
حمدان نے اتنی زور سے کہا "
ماما کیا سوچ کر آپ نے اسے پسند کیا یے میں اس سے کھبی بھی شادی نہیں کروں گا ۔۔۔
کیوں ۔۔آخر برائی کیا ہے اس میں ۔۔۔۔۔
وہ ڈر گئیں تھی اپنے بیٹے کیے لہجے کو دیکھ کر جو ایک دم بدل گیا تھا
برائی ۔۔۔۔آپ اگر پوچھتی اچھائی کیا ہے تو شاید گنوا بھی دیتا آپ اسے کسطرح پسند کر سکتی ہیں کیا آپکو میری پسند کا اندازہ نہیں ۔۔۔۔
وہ سخت چڑ گیا تھا
"بیٹا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا تم اسے اپنے رنگ میں رنگ لینا اور ویسے بھی تم تو لندن سے رہ کر آئے ہو وہاں تو یہ سب عام ہے "
انہوں نے حمدان کو سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں کھبی بھی نہیں ماما وہ میرے رنگ میں کھبی نہیں ڈھل سکتی ۔۔۔۔اور میں کوئی ٹیپیکل مرد نہیں ہوں جو چاہو گا جو لڑکی میری زندگی میں آئے وہ میرے رنگ میں خود کو ڈھالے لندن میں رہ کر آیا ہوں اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ میں اس سے شادہ کروں ۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اور ویسے بھی میں ۔۔۔۔۔۔
حمدان کہتے کہتے رک گیا تھا
کیا حمدان ۔۔کسی اور کو پسند کرتے ہو ۔۔۔?
انعمتہ بیگم کو یہی لگا تھا
نہیں ماما ۔۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ ۔۔
حمدان کی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی
تو پھر بیٹا ایک دفعہ سوچو تو سہی میں نے تو انعم سے اس بارے میں بات بھی کر لی ہے
وہ بم پہ بم پھوڑ رہی تھی
کیا ۔۔۔ماما آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر اتنی بڑی بات کیسے کردی میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا ہوں نہ سوچ آپکو خالہ جان کو مجھ سے پوچھے بغیر ایسا کچھ نہیں کہنا چاہئیے تھا
i am very really sorry mama
میں آپکی یہ بات نہیں مان سکتا ۔۔۔۔پلز ۔۔۔۔مجھے آپ کی بات سے انکار اچھا کرنا اچھا نہیں لگ رہا ہے لیکن میں یہ نہیں کرسکتا
حمدان یہ کہ کر کمرے سے ہی walk out کر گیا تھا
اور انعمتہ بیگم یہ سوچتی رہ گئی تھی کہ انعم کو کیا جواب دیں گی وہ
_____________________________
اولاد کو والدین کا فرمانبردار ہونا چاہئیے لیکن
کچھ معاملوں میں والدین کو بھی اولاد کی مرضی پوچھے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ انہیں انعمتہ بیگم کی طرح شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔۔۔
______________________________
شادی کے بعد سفیر اپنی بیوی انوشے کو ہاشم ولا سب سے ملوانے لایا تھا جب سارے بچوں نے آوٹنگ کا پروگرام بنالیا ۔۔۔۔
"تم سب بچے جاو تم لوگوں کے دن ہیں ہم نے اپنا وقت گزار لیا ہے "
آغا جان کی کپکپاتی آواز گونجی جو کہ انکا بوڑھے ہونے کا پتہ دے رہی تھی
سویرا کل رات ہی اپنے گھر چلی گئی تھی جس سے سعد تھوڑا سہ اداس ہو گیا تھا کہ وہ نہیں جائے گی ابھی
"ٹھیک ہے پھر لنچ کے بعد ہم سب چلیں گیں"
آبرو کی چہکتی ہوئی آواز آئی
---------------------------
امل آوئیٹنگ پہ جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی جب صدف بیگم اس کے کمرے میں آئیں
"میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے "
صدف بیگم نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری
""ماما آپ "
امل نے حجاب کرتے ہوئے کہا
"بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی بلکہ پوچھنا تھا کہ اگر ہم تمہارے لئے کوئی فیصلہ کریں تو تمہیں کوئی اعتراض ہوگا"
"کیسا فیصلہ اور آپ کا بابا کا جو بھی فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہو گا "
امل کو دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی
"ہم نے سوچا ہے تمہارا ہاتھ اذہان کے ہاتھ میں دے دیں "
انکی بات پہ امل جو اپنے حجاب میں پن لگا رہی تھی اسکے ایک دم چھبا تھا
""ماما ۔۔۔۔اذ۔۔۔۔اذہان ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ میں نے کھبی بھی اس طرح سے کچھ نہیں سوچا اس کے بارے میں "
امل نے اپنی بات سمجھانی چاہی
"امل تمہیں باہر نہیں کرنی شادی ہم نے مان لی اب تو تم اسی گھر میں رہو گی اب کیا مسلہ ہے تمہیں اور ہم سب بھی تمہیں انجانے لوگوں میں بھیجنا نہیں چاہتے "
صدف بیگم نے اسے سمجھایا
"جی ۔۔ماما۔۔۔پر۔۔۔۔"
امل اس نئے انکشاف پر کیسا ری ایکٹ کرے سب سمجھ سے باہر تھا
"ہم سب نے کل اس بارے میں بات کری ہے آغا جان نے کہا ہے کہ پہلے تم دونوں سے پوچھ لیا جائے پھر بات آگے بڑھائے گیں"
صدف بیگم نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا
"تو کیا آپ نے اذہان سے پوچھ لیا ہے اس نے کیا کہا ہے "
امل نے اپنا سوال کیا
"اس سے پوچھ رہی ہوگی ابھی شانزہ اور ویسے بھی وہ انکار کیوں کرے گا تم اپنا بتاو بات کو گول مول نہ کرو امل تمہیں ہمارے فیصلے سے کوئی اعتراض ہے "
صدف بیگم دوبارہ اپنی بات پہ آئی
"نہیں ۔۔۔ماما۔۔۔ایسی ۔۔۔بات ۔۔۔نہیں ۔۔۔ہے ۔۔۔۔میرے لئے اس سے اچھا کیا ہوگا کہ میں یہی رہوں گی "
امل نے گھبراتے دل کے ساتھ کہا یہ نئی بات اسکا دل و دماغ قبول نہیں کر پا رہا تھا
"خوش رہو ہمیشہ مجھے تم سے اسی فرمانبرداری کی امید تھی"
صدف نے امل کا ماتھا چومتے کہا
"اور ہاں اسکو اب تم سے نہیں آپ سے مخاطب کرنا
صدف بیگم نے ایک اور حکم دیا
امل جی کہتی کمرے سے بھاگی
"لگتا ہے شرما گئی "
صدف بیگم کہتی اسکی بکھری چیزوں کو سمیٹنے لگی
______________________
"اذہان کچھ جواب تو دو یہ ہونقوں جیسے شکل کیوں بنائی ہوئی یے"
شانزہ بیگم اسکا ارادہ اخذ نہیں کر پا رہی تھی
"ماما آپ کی دماغ میں یہ خیال کہاں سے آگیا ہے ۔۔۔مطلب میں اور وہ چڑیل ۔۔۔مطلب امل ہم دونوں ۔۔۔۔۔کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں نے شادی جیسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں سوچا اور نہ میرا ارادہ ہے یہ آزادی مجھے ذیادہ پسند ہے اور امل کے بارے میں تو میں نے سوچا بھی نہیں ہے اس نظر سے اسے کھبی نہیں دیکھا ہے"
اذہان نے ایک لمبی بات کہ کر سانس لی
"ہاں تو اب دیکھ لو اس میں برائی کیا ہے وہ ہمیشہ یہی رہے گی غیروں میں جانے سے بہت بہتر ہے یہ اور میں کونسا کل ہی اسے تمہارے ساتھ باندھ رہی جو اتنا ری ایکٹ کر رہے ہو "
انکی بات نرالی تھی
"لیکن ماما ہم تو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں ٹام اینڈ جیری کی طرح "
اذہان نے اپنا خدشہ ظاہر کرا
"تو کیا ہوا جہاں لڑائی ہوتی ہے پیار بھی وہی ہوتا ہے
انکی الگ منطق تھی
"اچھا۔۔۔۔میں کچھ سوچتا ہوں ۔۔۔"
اذہان نے انہیں انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا
"امل کے لئے تمہیں سوچنا پڑ رہا ہے امل جیسی نہیں ملی گی تمہیں ابھی جواب دو کیا سوچنا "
شانزہ بیگم کو کچھ ذیادہ ہی جلدی تھی
"اچھا بابا جو آپ کو ٹھیک لگے لیکن میں پہلے بتا رہا ہوں شادی کے چکر میں ابھی نہیں پڑھنا چاہتا اور میں ابھی باہر جا رہا ہوں "
اذہان نے اپنے بالوں میں کنگھا پھیرا
"کیوں تم سب کے ساتھ آوٹینگ پہ نہیں جا رہے ہو "
شانزہ بیگم نے دریافت کیا
"نہیں مجھے ایک کام ہے وہاں جا رہا ہوں میں "
اس اپنی ماں کا ماتھا چومتے باہر کی راہ لی
__________________________
امل جو کہ صدف بیگم کی باتوں کو سوچتی ہوئی تیزی سے باہر جا رہی تھی سامنے سے آتے اذہان سے ٹکرائی
""سووورری ی ۔سورری ۔۔آپکو لگی تو نہیں "
امل نے گھبراتے پوچھا
اذہان نے چکرانے کی ایکٹنگ کری
"کیا ہوا لگ گئی کیا "
امل کو ڈر محسوس ہوا
"مر گیا میں چکر آرہے ہیں "
اذہان نے چکرانے کی بھر پور ایکٹنگ کی ساتھ اپنی انگلیوں سے اپنا ماتھا بھی مسلہ
""لگی تو نہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔آپکو ۔۔۔ہوکیا گیا ہے دماغ ٹھیک ہے تیرا اتنی عزت کہاں سے آگئی ہے اچانک پاگل واگل تو نہیں ہوگئی ہو کیا امل تم"
اذہان کو تو ایسا ہی کچھ لگا
"چلو ٹھیک ہے پھر میں تھوڑا بے عزت کردوں عزت راس جو نہیں آرہی یے "
امل واپس اپنی ٹون میں آگئی تھی
""اووووو چپ کر آئیں بڑی بے عزت کروں "
اذہان نے اسکی نقل اتاری
امل بغیر کچھ کہے شرما کر جانے لگی
تو اذہان نے اسکا کندھے پہ لٹکا دوپٹہ پکڑ کر روکا
"Hey Are You Blushing..Is exactly this what my eye sees???
اذہان کے بات کا امل نے کوئی جواب دیا نہیں دیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے تو گریز ہی برتا
اذہان نے اسے کندھے سے تھاما اور اپنے دونوں ہاتھ سے اسکے کندھے تھامتے کہا
"Hey Look Into My Eyes..we Have A Very Beautiful Relationship Before Any Kind Of Relationship and that is of friendship ..You Are My bestie ..My Buddy My Friend …So Please Don't Shy .You look good When You Are Smiling ..okkay ..Understood ???"
اذہان نے اسکے شرمائے روپ کو دیکھتے کہا وہ سمجھ گیا تھا یہ بات اس سے بھی پوچھی گئی ہے
جس پر امل نے بس اپنا سر ہلانے پہ اکتفا کیا اور جانے کے لئے مڑ گئی وہ اس وقت اپنے جزبات کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھی یا شاید یہ فطری احساس تھا
امل کے جانے کے بعد اذہان نے بھی اپنی راہ لی تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ایک جست میں آگے بڑھا
Hamdan your hand is bleeding ..Bandage it ..How it Happend ?….
"اذہان نے نظریں گھمائی تو دیکھا کہ نیچے گلاس چکنا چور پڑا تھا جسے حمدان نے دباو ڈال کر توڑ دیا تھا اور خود بھی زخمی ہوگیا تھا "
حمدان نے آگ برساتی نظروں سے اسے دیکھا اور بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا
"عجیب بندہ ہے "
اذہان نے بھی شانے اچکا کر ملازمہ کو آواز دی اور اپنے منزل کی جانب بڑھا
________________________
امل سعد اور مرتضی ایک گاڑی میں آبرو انوشے سفیر اور کاشان ایک گاڑی میں تھے ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے سعد کو ٹیکسٹ کردیا تھا کہ وہ بعد میں آئے گا
یہ سب ایک مشہور کلب آئے تھے جہاں پہ بہت سے گیمز وغیرہ تھے
سب لوگ مزے کر رہے تھے آبرو تو ڈانس اسٹیج کے سائیڈ چلی گئی تھی ۔۔۔
امل ایک جانب کھڑی آس پاس کا منظر دیکھ رہی تھی جب کاشان اسکے پیچھے آیا تھا اور اسکے کان کے تھوڑا قریب ہوکر اسے اپنے ساتھ اسے ڈانس کی آفر کری امل فورا دو قدم پیچھے ہوئی تھی
لیکن کاشان نے بھی آج موقع گنوانا نہیں تھا "
اوو۔۔امل یار اتنا شرماو مت چلو نہ تمہیں بہت مزہ آئے گا "
امل تو ایکدم خوفزدہ ہوگئی تھی
حمدان جو کہ ابھی کچھ منٹ پہلے آیا تھا اور سعد سے باتوں میں مشغول تھا سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھ کی اتنی سخت مٹھی بنائی تھی کہ اسکی ہاتھ کی نسیں صاف واضح ہورہی تھی لیکن اسکے چہرے کے expression سے کچھ بھی اخذ کرنا مشکل تھا بلکہ اسکے لبوں پہ تو دھیمی سی مسکان تھی
سعد نے بھی حمدان کے نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو کاشان کا حال سوچ کر اس کے لئے عافیت کی دعا مانگی
کاشان نے اسکا ہاتھ خود ہی پکڑ کر اسے ڈانس فلور کی جانب صرف ایک قدم ہی آگے بڑھایا تھا کہ اسکے منہ پہ ایک زور دار مکا پڑا تھا جس سے وہ اپنی جگہ سے ہل گیا تھا اور امل کا ہاتھ بھی چھوٹ گیا تھا اور وہ کسی کا نہیں بلکہ حمدان کا تھا
اس نے کاشان کا وہی ہاتھ جس سے اسنے امل کو پکڑا تھا
پیچھے موڑا جس سے کاشان کی ایک چیخ نکلی حمدان کے سر پہ گویا جنون سوار تھا وہ اسے گھونسوں مکوں سے مار رہا تھا ۔
ویسے بھی کاشان ایک نارمل جسامت کا شخص تھا حمدان جبکہ ایک مضبوط جسامت کا اور اوپر سے اسکی مارشل آرٹس کی ٹریننگ کاشان کو اسکے دو چار مکوں سے ہی دن میں تارے نظر آگئے تھے ۔۔۔۔
حمدان کا جنون دیکھ کر تو کوئی آگے ہی نہیں بڑھ رہا تھا امل نے تو اپنے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کا گلہ گھونٹا ہوا تھا اور پھٹی پھٹی نظروں سے وہ سن کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔
سعد اور مرتضی نے بہت مشکل سے حمدان کو روکا تھا ورنہ حمدان کا ارادہ تو آج شاید کاشان کو ابدی نیند سلانے کا تھا ۔۔
حمدان نے کاشان کو ایک دھکے سے چھوڑا تھا جس سے کاشان کا سر پیچھے ٹیبل سے لگا تھا اور اسکا سر پھٹ گیا تھا
حمدان کے ہاتھوں سے بھی تیزی سے خون نکل رہا تھا اسکا ہاتھ پہلے سے زخمی تھا
چھوڑو مجھے ۔۔۔
حمدان اتنی زور سے چیخا کہ اسکو پکڑے ہوئے سعد مرتضی بھی دہل گئے تھے
سفیر تو فورا کاشان کو ہاسپیٹل لےکر گیا اسے اصل بات کا کچھ معلوم نہیں تھا وہ انوشے میں جو گم تھا ۔۔۔
حمدان نے سن کھڑی امل کو دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر سب کے سامنے سے اسے لے کر گیا تھا اسکے غصہ کا پارہ اسوقت ١٠٠ کو بھی کراس کر رہا تھا ۔۔۔
اب تو امل تھر تھر کانپنے لگی تھی اور حمدان کےساتھ کھینچتی ہوئی چلی جارہی تھی
حمدان نے کار کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھایا یہ سوچ ہی کہ کاشان نے امل کا ہاتھ ۔۔حمدان کے غصے کو بھڑکانے کا کام کررہی تھی ہے
ڈر اور خوف سے امل سے سیٹ بیلٹ بھی نہیں لگ رہی تھی۔حمدان جو غور سے امل کو ہی دیکھ رہا تھا
امل کی سیٹ کے تھوڑا آگے جھک کر خود سیٹ بیلٹ باندھنے لگا تھا جس سے امل اور حمدان کافی قریب آگئے تھے اور دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملی تھی امل کو حمدان کی آنکھوں میں کیا کچھ نظر نہیں آرہا تھا
حمدان سیٹ بیلٹ لگا کر ہٹا تو امل نے اپنی تمام ہمت جٹا کر اس سے مخاطب ہوئی
"پلزز آپ کا ہاتھ ۔۔۔۔۔"
امل نے ڈرتے ڈرتے حمدان کی جانب دیکھا
اور اپنی جیب سے رومال نکال کر اسے پکڑایا اور اپنا ہاتھ آگے کرا
امل نے ڈرتے اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے اسکی خون آلود پٹی ہٹائی اور اس کو پھر رومال سے ٹائیڈ باندھا
حمدان نے اسکے بعد اتنی رش ڈرائیونگ کری کہ امل کا سر سیٹ بیلٹ کے باوجود بھی ڈش بورڈ سے لگتے لگتے بچا تھا
گھر کے پورچ میں آکر حمدان کی گاڑی کو بریک لگا تھا ورنہ اس نے تو آج ہوائی جہاز کو بھی مات دینا چاہی تھی
____________________________
حمدان کا اتنا شدید غصہ آج مرتضی نے پہلی دفعہ دیکھا تھا مرتظی کو امل کی فکر ہو رہی تھی ۔۔
سعد نے ڈرائیو کرتے ہوئے اسے تسلی کرائی کہ امل سیف ہے حمدان کیساتھ ۔۔سو ڈونٹ وری ۔۔۔۔۔۔
سعد نے سوچ لیا تھا کہ وہ گھر جاکر آج حمدان سے دو ٹوک بات کرے گا ۔۔۔
____________________________
انعم"۔میں بہت شرمندہ ہوں تم سے ۔۔میری تو یہی خواہش تھی کہ آبرو میری بہو بنے لیکن حمدان نے انکار کردیا
آبرو مرتضی کے ساتھ بھی جڑ سکتی ہے
انعمتہ بیگم نے انعم کے سامنے حمدان کی کہی گئی بات کا جواب دیا کیونکہ حمدان نے تو انہیں حتمی فیصلہ سنا دیا تھا ۔۔۔
باجی ۔آپ شرمندہ نہ ہو ۔۔یہ حمدان کی زندگی ہے اسکا فیصلہ ہے ۔۔اسے پورا حق ہے ۔۔وہ جس لڑکی کا بھی نصیب ہوگا وہ خوش قسمت ہی ہوگی ۔آپ کو حمدان سے پہلے پوچھنا چاہئیے تھا خیر کوئی بات نہیں جو ہونا تھا وہ ہوگیا ۔۔شکر ہے کہ جنید کو کچھ نہیں معلوم ۔۔۔پلز آپ نے ابھی بھی مرتضی سے پوچھے بغیر اپنی رائے دےدی ۔۔۔آپ کو پہلے مرتضی سے پوچھنا چاہئیے ۔۔۔ میری بیٹی کا جو بھی نصیب ہوگا وہ اسے مل جائے گا ۔۔۔آپ شرمندہ نہ ہو
انعم انکا گلٹ ختم کرنے کےلئے انہیں تسلی بخش جواب دیا
ہاں تم ٹھیک کہ رہی ہو میں ابھی پھر شاید غلط کر رہی ہو ابھی انعمتہ بیگم مزید کچھ کہ رہی تھی کہ انعم کی نظر آبرو پہ پڑی آبرو تم۔یہاں ۔۔۔۔
آبرو رکو۔۔۔۔۔۔!!!
انعم نے اسے روکا لیکن وہ انہیں ان سنا کرکے چلی گئی تھی
باجی آپ پریشان نہ ہو میں دیکھتی ہوں
اور نیچے سے آوازیں سنکر انعمتہ بیگم بھی نیچے کی راہ لی
_____________________________________
آبرو میری بات سنو بیٹا
۔انعم کمرے کا دروازہ بند کرتی آبرو سے مخاطب ہوئیں
پلزز موم آپ اپنی بہن کی سائیڈ نہ لیں وہ کون ہوتا ہے مجھے ریجیکٹ کرنے والا ۔۔۔اسکی اتنی ہمت ۔۔آبرو کو لگ رہا تھا کہ اسکی بہت بےعزتی ہوئی ہے۔۔۔۔میں نہیں چھوڑو گی اسے ۔۔سب سمجھ آرہا ہے مجھے ۔۔یہ سب وہ اس امل کی وجہ سے کر رہا یے ۔۔۔ایسے تو میں نہیں چھوڑو گی تمہیں اسکی سزا تو بھگتنی پڑی گی
آبرو بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔
لیکن آبرو نے تو انہیں ان سنی کرتی واشروم میں جاکر اس نے دروازہ دھڑام بند کردیا
انعم نے بھی اسکو اسکے حال پہ چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیگی ۔۔۔
____________________________
لاونج میں سبہی بڑے برجمان تھے جب کاشان کے والد نے حماد صاحب کو مخاطب کرکے کہا
میرے آپ سے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔۔۔حماد ۔۔
ایسا کیا ہوگیا تھا کہ حمدان نے اسطرح سے کاشان کو مارا ۔۔یہ جاننا تو میرا حق ہے ۔۔۔
یہ آپ اپنے بیٹے سے پوچھے تو ذیادہ بہتر ہوگا ۔۔۔
حمدان نے اپنے لہجے کو سخت کرنے سے روکا ہوا تھا
حمدان تحمل سے بھی بات ہو سکتی یے
سعد نے حماد صاحب کو مختصر کر کے بات بتادی تھی ۔۔۔
پاپا "مینے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی میں شرمندہ ہوں اپنے کئے پہ" ۔۔
حمدان یہ کہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا
حماد صاحب اپنے بیٹے کے غصیلے طبعیت سے اچھی طرح واقف تھے اور انہیں بھی کاشان پہ غصہ تھا لیکن ہر بات کا حل لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا یہ انکے صاحبزادے کو کون سمجھائے ۔۔۔
حماد صاحب نے کاشان کے والد کو سارا ماجرا سمجھاتے ہوئے ہیں بات کو رفع دفع کرا کاشان کے والد آئے تو بڑے غرور سے تھے لیکن جاتے ہوئے انکا سر جھک گیا تھا ۔۔۔
_____________________________
سعد کمرے میں آیا تو ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی تھی جوکہ حمدان کے غصہ کا اثر تھا ۔۔۔۔۔
حمدان ۔۔۔
سعد نے حمدان کو پکارا جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں محو تھا
"تم کیوں آئے ہو سعد یہاں ۔۔اگر تم بھی یہ کہنے آئے ہو کہ میں غلط ہوں تو چلے جاو "
حمدان نے بغیر مڑے کہا
میں ایسا کچھ بھی کہنے نہیں آیا میں صرف پوچھنے آیا ہوں کہ کیوں خود سے جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔
سعد نے حمدان کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا
کیا مطلب یے تمہاری اس بات کا سعد
حمدان نے گھومتے ہوئے کہا
"میرا مطلب بہت صاف ہے ۔۔کاشان نے امل کا صرف ہاتھ پکڑا تھا ۔۔ہم سب کو بھی وہ ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔لیکن ہاتھ تو تم بھی سب کے سامنے اسکا پکڑ کر لے گئے تھے کس حق سے "
"سعد کیا بکواس کر رہے ہو وہ کاشان اسکی نیت ٹھیک نہیں تھی اور نہ وہ امل کو اچھی نظروں سے دیکھ رہا تھا "
سعد کی باتوں نے حمدان کا میٹر شارٹ کردیا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا
"ہاں حمدان تم ٹھیک کہ رہے ہو اسکی نیت خراب تھی لیکن تمہاری تو نیک ہے نہ پھر کیوں نہیں اقرار کر رہے ہو کہ تمہیں امل سے محبت ہوگئی ہے تمہارے آج کا reaction چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ حمدان شیرازی تمہیں محبت ہوگئی ہے محبت کرنا جرم نہیں ہے لیکن محبت کو رسوا کرنا بھی غلط ہے ۔۔۔۔حمدان "
سعد نے حمدان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں کہا
"نہیں ہے محبت مجھے ۔۔یہ سب بس attraction ہے ۔۔۔میں نے آج تک لندن میں بہت سی لڑکیوں کو دیکھا یے امل ان سب سے مختلف ہے شاید اسی لئے میں تھوڑا inspire ہو گیا ہوں ۔۔مجھے محبت نہیں ہے ۔۔۔میرا ایک ایم ہے ۔۔مجھے بزنس کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنانا ہے ۔۔۔اس جھنجھٹ میں ابھی نہیں پڑنا چاہتا ۔۔۔۔نہیں یے محبت "
کہتے کہتے حمدان کی آواز مدھم پڑ گئی تھی پتہ نہیں وہ خود کو سمجھا رہا تھا یا سعد کو ۔۔
"جھوٹ بلکل جھوٹ ہے یہ سب حمدان آخر کب تک محبت کو جھٹلاتے رہو گے ۔۔تمہاری آنکھیں ۔۔تمہارا لہجہ ۔۔تمہارا ہر عمل جو تمہارا امل سے تعلق رکھتا یے ۔۔وہ چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ تم امل سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔اور رہی بات بزنس کی تو وہ تمہاری محبت کی راہ میں کبھی نہیں آئیگی ۔۔۔تم اپنی محبت کے ساتھ ساتھ بھی بزنس میں کامیاب ہو سکتے ہو
تم جتنا اپنی محبت سے بھاگ لو وہ پیچھے آکر ہی رہی گی اور تم نے کچھ غلط نہیں کیا محبت اپنا آپ چیخ چیخ کر منوا ہی لیتی ہے محبت وہ جزبہ ہے جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے یہ تو بس ہو جاتی ہے یہ تو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتر جاتی ہے بس محسوس کرنے کی بات ہے
اور تمہیں بھی ہوگئی ہے ۔۔۔بس تم۔محسوس نہیں کر رہے ہو ایک بات یاد رکھنا اگر امل کے ساتھ کچھ غلط ہوا نہ تو اچھا نہیں ہوگا بہن مانا ہے میں نے اسے اور یہ نہ ہو کہ یہ جس محبت سے تم بھاگ رہے ہو یہ ہی بھاگ جائے پھر افسوس اور پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا تم اسے نظر انداز کر رہے ہو بعد میں یہ بھی کردے
ایک گہری سانس لو اپنی آنکھیں بند کرو اور اس محبت کو فیل کرو دیکھو کسکا چہرہ آتا ہے کیا امل کے بغیر رہ سکتے ہو سوچنا اس بارے میں "
سعد حمدان کی طبعیت صاف کرکے کمرے کا دروازہ بند کرکے چلا گیا تھا اسے اکیلے رہنے کی ضرورت تھی
کیا مجھے واقع محبت ہوگئی ہے
حمدان یہ سوچنے لگ گیا تھا
___________________________
سعد شانزہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا
اور شانزہ بیگم اپنے پیارے بیٹے کے بالوں میں انگلی پھیر رہی تھی
آج وہ اپنے جان سے عزیز بھائی اور جگر کو بہت کچھ سناکر آیا تھا لیکن یہ اس کے لئے بہت ضروری تھا اسے یقین تھا کہ صبح تک اسکی عقل ٹھکانے آجائے گی یہ سوچ اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آئی تھی
"کیا سوچ سوچ کر مسکرا رہا ہے میرا بیٹا "
انہوں نے اسکو مسکراتا دیکھ کر کہا
"ماما مجھے محبت ہوگئی ہے "
سعد نے ساری مروت کو بلائے طاق رکھ کر کہا
سویرا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد نے انہیں فورا ہی جواب دیا
رائمہ کی نند ؟؟ شانزہ بیگم تو شاکڈ ہی ہوگئی تھی
"جی ماما اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کل ہی یہ بات کریں آپ انکے گھر جاکر اور صرف بات ہی نہیں بلکہ آپ نے نکاح کی بات کرنی ہے ساتھ ۔۔ "
"بیٹا جی ۔۔بریک لگایئے ۔۔ابھی بات ہوئی نہیں ہے ۔۔رضامند ہوئے نہیں وہ ۔۔اور آپ نکاح تک پہنچ گئے "
وہ سعد کو روکتی بولیں
"ہاں تو آپ کے بیٹے کو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا اتنا خوبرو داماد مل رہا ہے انہیں انکار کا تو سوال ہی نہیں ہے "
وہ یقین سے بولا
"کیا بات ہے اور اگر انکار کر دیا تو ۔۔۔"
شانزہ بیگم کو اپنے بیٹے کی پسند پہ فخر ہوا تھا سویرا انہیں بھی پسند تھی لیکن شانزہ بیگم نے سعد کو تھوڑا تنگ کرنا چاہا ۔۔۔
"نہیں کرینگے انکار دیکھ لئے گا "۔۔۔۔سعد کا لہجہ حتمی تھا
لیکن بیٹا حمدان آپ سے بڑا ہے اسکا کچھ ہونا چاہئیے ۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے حارث صاحب کی بات کہی
"حمدان کا بھی جلد ہی ہوجائے گا کچھ آپ فکر نہ کریں آپ ابھی اپنی بہو کا سوچے "۔۔۔
سعد نے شانزہ بیگم کی توجہ سویرا کی جانب کرائی
"کیا ہو رہا ہے آج تو ماں بیٹے کا سین آن ہے "
حارث صاحب نے آفس سے آتے ہوئے کہا
"آپکے صاحبزادے کو عشق ہوگیا ہے "
شانزہ بیگم اپنے بیٹے کی عشق کے بارے میں بتایا
"ارے واہ بھئی اور کون ہے وہ جسکی قسمت پھوٹ رہی ہے"
حارث صاحب نے سیرئس انداز میں کہا
پاپا آپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد تو بگڑ ہی گیا تھا
"کیوں تنگ کر رہے آپ میرے بیٹے کو "
شانزہ بیگم نے انہیں ساری بات بتائی
"آپ سیرئیس ہیں سعد اس معاملے میں "
حارث صاحب نے تصدیق چاہی
"جی پاپا میں سیرئس ہوں "
حارث صاحب کو سعد سیرئیس لگا
"تو پھر ٹھیک ہے نیک کام میں دیری کیسی کل ہی چلتے ہیں وہاں۔۔ میں حماد بھائی سے بھی بات کرلیتا ہوں لیکن نکاح کی اتنی جلدی کیوں یے "
بات کے آخر میں وہ بولیں
"پاپا دراصل حمدان اور مجھے کچھ ٹائم بعد لندن جانا ہے کچھ documents کا مسلہ ہے میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے میرا نکاح ہوجائے رخصتی جب وہ چاہیں "
سعد نے یہ بات اپنے دل پہ پتھر رکھ کر کہی تھی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔۔
حارث صاحب نے کہا
سعد یاہو کرتے ہوئے حارث صاحب کے گلے لگ گیا تھا
اسی اثناء میں اذہان بھی آیا تھا
"آو برخوردار آو گھر یاد آگیا ہے "۔۔۔۔۔حارث صاحب نے اسے کہا
"پاپا ایسی بات نہیں ہے ". اذہان نے انہیں جواب دیا
" وہی تو کیسی بات ہے یہی تو پتہ کرنا یے اکثر گھر دیر سے آنا ۔آفس سے غائب ہوجانا یہ سب اب بند کرو اب تم ایک رشتے میں بندھنے جا رہے ہو اور اس معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا یاد رکھنا امل مجھے سب سے ذیادہ اہم ہے "
اذہان تو گڑبڑا گیا تھا اسکا باپ اتنا بے خبر نہیں تھا اس سے
سعد کو بھی اذہان کی حرکتیں کچھ مشکوک لگتی تھی لیکن اسنے اگنور کردیا تھا۔۔۔لیکن اسے ابھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی اور امل کا ذکر کہاں سے آیا یہ دل میں سوچتے ہوئے اس نے سوال کیا
"کیا مطلب ہے پاپا کون سہ رشتہ "
"آپ نے سعد کو نہیں بتایا ۔۔آپ کی ماما آپ دونوں کی کشتی ایک ساتھ پار لگانے کی تیاری میں ہے "
حارث صاحب نے اسے کہا
"کیا مطلب " ۔۔۔۔۔اسے اب بھی سمجھ نہیں آیا تھا
"ہم نے اذہان کے لئے امل کا ہاتھ مانگا ہے اور اب خیر سے تم بھی سویرا سے منسلک ہونا چاہتے ہو تم دونوں کا ایک ساتھ ہی کچھ کردیں گے "
شانزہ بیگم نے سعد کو بتایا
سعد جو حارث صاحب کے برابر میں بیٹھ گیا تھا ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا اور اسکا رنگ فق ہوا تھا وہ ابھی حمدان کو آئینہ دکھا کر آیا تھا اور اب یہ سب اسکا دماغ سن ہوگیا تھا
اذہان نے جب سعد کا بھی سنا تو خوش کر سعد کے گلے لگ کر اسے مبارکباد دی " مبارک ہو برو ہم دونوں کی آزادی ختم ہونے کا وقت آگیا ہے "
"تمہیں بھی مبارک ہو "
اس نے غائب دماغی سے کہا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ خوش ہو یا اداس ایک طرف اسکا سگا بھائی تھا تو دوسری طرف وہ تھا جو اسے سگے بھائی سے بھی بڑھ کر تھا
سعد حمدان کو بتانے کےلئے بہت بےچین تھا کہ وہ اسے اپنے بارے میں بتائے گا لیکن ابھی اسے دور رہنا ٹھیک لگ رہا تھا
________________________________
حمدان کو بھوک لگ رہی تھی اسنے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا تو اس غرض سے وہ کچن میں آیا تھا ویسے بھی لندن میں اس نے بہت دفعہ کوکنگ کی تھی تو کافی کچھ وہ بنا لیتا تھا
امل کو کروٹ بدل بدل کر بھی نیند نہیں آرہی تھی
پیاس محسوس کر کے سائیڈ ٹیبل پہ خالی جگ کو دیکھ کو وہ نیچے گئی تو حمدان کو چولہے پہ جھکا دیکھ کر چونک گئی تھی
اس نے اپنے قدم واپس پلٹنے چاہے آج جو اس نے حمدان کے تیور دیکھے تھے وہ پہلے سے بھی ذیادہ ڈرنے لگی تھی لیکن جب تک حمدان نے اسکو دیکھ لیا تھا
"امل تم اب تک سوئی نہیں "
حمدان کا لہجہ بلکل نارمل تھا
"و۔۔۔۔وہ نی۔۔۔۔۔نیند نہ۔۔۔۔۔۔نہیں آ۔۔۔۔۔۔رہی تھی "
اور امل نے پانی کا جگ بھی سامنے رکھا
"اب آگئی ہو تو آو یہ کھا کر بتاو کیسا بنا ہے میں نے پاستہ بنایا ہے کھا کر پانی پی لینا "
حمدان نے اسے پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا
آپ نے ۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔امل کو یقین نہیں آیا تھا
"کیا ہوا اتنی حیران کیوں ہو اتنا برا شیف نہیں ہوں ٹیسٹ کرکے دیکھو "
امل کے لئے تو حمدان کا یہ روپ حیران کن تھا وہ ساکت کھڑی تھی
حمدان امل کو اسی طرح دیکھ کر پاستے سے بھرا چمچہ خود ہی اس کے منہ میں ڈالنے لگا تھا
جب تالیاں بجاتی ہوئی آبرو اندر داخل ہوئی "
واہ یہاں تو پورا سین چل رہا یے میں نے تو خلل ڈال دیا "
"آبرو یہ کیا بکواس ہے "
حمدان اسے دبے دبے غصے سے کہا
"بکواس۔۔ میں بکواس کر رہی ہوں تو تم دونوں کیا کر رہے ہو سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر رنگ رنگلیاں منا ریے ہو "۔۔
آبرو جو اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی کہ کیا کرے
تازہ ہوا لینے کی خاطر باہر لان میں جا رہی تھی جب کچن میں کھٹ پھٹ کی آواز سے آئی تھی
سارے گھر والے تو چلے گئے تھے لیکن آبرو یہی رک گئی تھی
آبرو یہ تم کیا کہ رہی ہو "
امل نے آبرو کو کہا
"تم بلکل چپ ایک لفظ نہیں کہنا شکل سے تو اتنی شریف لگتی ہو سب کی زبان پہ بس امل امل اور امل کے کرم تو دیکھو رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر یہ حرکتیں ہو رہی ہیں چیپ لڑکی ۔۔۔بدکردار ۔۔ تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو اپنے معصوم شکل اور باتوں سے لڑکوں کو پھنساتی ہیں بلکہ ایک ساتھ کتنے کو پھنسایا ہوا ہے بات کسی اور سے طے کی ہوئی یے اور مزے کسی اور کے ساتھ ہو رہے ہیں (یہ اس نے اذہان کے لئے کہا تھا ) جو حمدان تو نہیں سمجھ پایا تھا لیکن امل سمجھ گئی تھی اور کاشان کو بھی ایک طرف لائن میں لگایا ہوا ہے "
حمدان جو کب سے امل کے بارے میں بکواس سنے جا رہا تھا جب برداشت سے باہر ہوا تو وہ حلق کے بل چلایا کہ امل اور آبرو تو کیا درو دیوار تک دہل گئے تھے
" just shut your mouth ....if you say anything against to amal ..i will rip your toungue ....think so many times before saying anything for amal ....
i will wreck you in pieces ...How dare you to say her such things ...۔۔۔۔i will cut you ..hold your tounge ....i warn you ...then no one one can not stop me or escape ...what i will do with you ...i controled myself just because you are a women ..otherwise i tell that who i am ...
حمدان نے اتنی گرجدار میں آواز میں آبرو کو بولا کہ آبرو سہم گئی تھی اور امل تو چار قدم پیچھے ہوئی تھی اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
آبرو نے دوسرے لمحے خود کو سنبھال کر کہا
"تو تم دونوں رات کے اس وقت یہاں کر رہے ہو کس حق سے تم اسے یہ پاستا کھلا ریے تھے "
اس بار آبرو نے تھوڑا آرام سے کہا
You have no right to ask me any questions .....and the right that i have on amal ...soon you will know ........
You know.. you are a inferior girl and such types of rots talking can expect from your type of girl ..no more even one word i will not listen about amal Now get lost from here......Make Your Appearance Vanish….….
حمدان چلتا ہوا آبرو سے ایک قدم دور رکا اور انگلی اٹھا کر آبرو کو کہا اسکے لہجے میں حد سے ذیادہ سختی تھی اور آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھی جو اسکے ضبط کرنے کا پتہ بتا رہی تھی اور کہتے ساتھ ہی حمدان نے پاس بڑا شیشے کا گلاس اٹھا کر زمین پر دے مارا اور آبرو کو دھکا دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اگر مزید رکتا تو کچھ الٹا اس نے کر دینا تھا
امل بھی روتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھی آج تک اس کے کردار پہ اس طرح کسی نے بات نہیں کی اور آبرو نے اسے کیا کچھ نہ کہ دیا تھا
وہ بھاگتی ہوئی اپنے روم میں جارہی تھی جب مرتضی نے امل کواسطرح روتا ہوا دیکھ لیا تھا اور اس نے حمدان کو بھی غصے میں جاتا ہوا اسکے کمرے میں دیکھا تھا
"حمدان نہیں۔۔ یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا میں اپنے بےعزتی نہیں بھولوں گی امل کو اس کا جواب دینا ہوگا امل کی وجہ سے تم نے یہ کیا ہے نہ میں امل کو اس لائق ہی نہی چھوڑوں گی اس بےعزتی کا خمیازہ بھگتنا ہی ہوگا تیار ہو جاو امل اپنی زندگی کی الٹی گنتی گننے کے لئے
آبرو بھی اپنے دماغ میں آگے کا پلان طے کرتی ہوئی اپنے کمرے میں گم ہوگئی تھی
_____________________________________
امل اپنے کمرے میں بیڈ کا سہارا لےکر فرش پہ بیٹھ گئی تھی بے آواز آنسو اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے مرتضی اور اذہان سے وہ بہت ذیادہ فری تھی لیکن کبھی بھی اس نے کوئی لیمیٹ کراس نہیں کری تھی آج اسکی کردار کشی ہوگئی تھی سوچ سوچ کر اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔۔!!!
مرتظی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پکارا
اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھیں تو مرتضی کو اپنا منتظر پایا مرتظی کو دیکھ کر اسکے آنسووں میں روانگی آگئی تھی
Amal ..what happened .why are you weeping ...plzz don't weeping ..its hurting me chanda ...please tell me the reason ..is Hamdan behind all this ???
امل نے اپنا سر نفی میں ہلایا
"تو پھر کیا ہوا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی کو یہی لگا تھا کہ امل اور حمدان کے بیچ کچھ ہوا ہے
Am i characterless?
امل نے ہچکیوں کے درمیان کہا
"یہ کیا کہ رہی ہو امل کیا بکواس ہے ۔۔۔پلز بتاو ہوا کیا ہے"
"مرتضی آپ میرے سب سے اچھے دوست ہیں نہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے پھر آبرو ایسے کیسے بغیر کسی ثبوت کے اسطرح کسی کی بھی کردار کشی کرسکتی ہے وہ بھی تو ایک لڑکی ہے ایک دوسری لڑکی کےساتھ اسطرح کیسے کرسکتی ہے ۔۔۔"
وہ رندھی آواز میں کہ رہی تھی
آبرو ۔۔۔۔۔۔
مرتظی آبرو کی نام پہ ٹھٹک گیا تھا اسے آبرو شروع دن سے ہی مشکوک لگتی تھی ۔۔۔
"کیا کیا ہے اسنے میں اسے چھوڑو گا نہیں جس نے میری بہن کے آنکھوں میں آنسو لائے ہیں"
"امل نے اسے مختصر کرکے ساری بات بتائی تھی مجھے سمجھ نہیں آتا آخر آپ کے بھائی کیا چاہتے ہیں کبھی انکا لہجہ انکا عمل انکے اشارے کچھ اور کہتے ہیں کبھی کچھ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے آج شام جو ہوا پھر ابھی میرے سب سمجھ سے باہر ہے وہ کیوں آئے ہیں پاکستان لندن میں تھے تو اچھا تھا"
امل کے رونے میں اور تیزی آگئی تھی
مرتضی کو بھی حمدان کی آنکھیں کچھ اور بولتی نظر آتی تھی۔اور آج جو کچھ بھی ہوا مرتظی کو بھی لگا تھا کہ حمدان کے جزبات کچھ اور ہیں لیکن کبھی کبھی اقرار بھی بہت ضروری ہوتا ہے جو حمدان نے اب تک نہیں کیا تھا
اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ امل کی طرف متوجہ ہوا
"امل اس بارے میں ذیادہ نہ سوچوں جو ہوگا تمہارے لئے بہتر ہوگا اسطرح رو کر خود کو ہلکان نہ کرو چھوٹی امی اسطرح دیکھیں گی تو کتنی تکلیف ہوگی اور جب تم نے کچھ نہیں کیا ہے کوئی بھی تمہارے کردار کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا بہت رات ہوگئی ہے سب بھول جاو اور سوجاو "
مرتظی نے امل کو فرش سے اٹھا کر بیڈ پہ لاکر اس پہ کمفرٹر اڑا کر سائیڈ لیمپ بند کرکے ایک پیار سے بھرپور نظر ڈال کر جانے کے کئے بڑھا تھا
"مرتضی کسی کو کچھ نہ بتانا جو ابھی ہوا اور آبرو کو بھی کچھ نہ کہنا میں نہیں چاہتی بات بڑھے "
امل نے اسے روک کر کہا
وہ اپنا سر ہاں میں ہلا کر اس کو ریلکس کرکے خود تھوڑا سہ فکرمند ہوگیا تھا
_______________________________
حمدان اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا
"میں کیوں نہیں سن پایا امل کے خلاف کچھ بھی میں کیوں برداشت نہیں کرپایا جب کاشان نے امل کا ہاتھ پکڑا مجھے کیوں برا لگ رہا تھا اسے درد ہوا تو تکلیف مجھے کیوں محسوس ہورئی کیا سعد ٹھیک کہ رہا تھا یہی محبت ہے "
حمدان نے اپنی آنکھیں بند کرکے سعد کا دیا ہوا مشورہ اپنایا تو اسے امل کے بغیر اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اور ایک جھٹکے سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اسکا پورا چہرہ پسینے سے شرابور تھا
"ہاں یہی محبت ہے ۔۔یہی محبت یے ۔"
محبت نے حمدان کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردئیے تھے محبت نے اپنا آپ منوالیا تھا
حمدان اب خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا اس نے بیڈ پہ دیکھا جہاں سعد سوتا تھا لیکن آج سعد نے اپنے کمرے کو ترجیح دی تھی ۔۔۔
"ؐکوئی بات نہیں میں تجھے کل منالوں گا بڈی "
حمدان اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا تھا اور اب تک کے امل اور اپنے ٹکراو کو یاد کرنے لگا تھا امل تم نے حمدان شیرازی کو اپنا اسیر بنالیا ہے ۔۔۔
سعد آفس کے لئے تیار اپنے شوز کے لیس باندھ رہا تھا جب حمدان اسکے کمرے میں آیا تھا حمدان کو ایک نظر دیکھ کر وہ اپنے کام میں پھر سے مصروف ہوگیا تھا اسکی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسکا سامنا کرے
"روٹھے ہوئے ایسے بلکل بندر کی شکل جیسے لگ رہے ہو"
حمدان آج سعد کا لہجہ اپناتے ہوئے شوخ ہوا تھا
سعد نے ہنوز اپنے کام جاری رکھا تھا ۔۔وہ کیا کہے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
"سعد کب تک ناراض رہے گا یار ٹھیک کہ رہا تھا تو ۔۔ہاں مجھے ہے امل سے محبت ۔۔میں حمدان شیرازی اپنے ہوش وحواس میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھے امل سے بےپناہ محبت ہے یہ دل اب میرا نہیں اسکا ہوگیا ہے ۔۔اسنے بغاوت کرلی ہے ۔۔۔"
حمدان کا پورا وجود اسکے ایک ایک لفظ کی نشاندہی کر رہا تھا ۔۔
حمدان کے اقرار نے اس مزید پشیمان کردیا تھا
اور سعد سب چھوڑ چھاڑ کے حمدان کے زور سے گلے لگ گیا تھا
"آرام سے اپنا سارا ١٠٠ کلو کا وزن مجھ پہ ڈال دیا ہے "
حمدان نے سعد کے اتنے ٹائیڈ ہگ پہ کہا
لیکن حمدان کی اس بات پر بھی اس نے کوئی رسپونس نہیں دیا
"اووو خوش تو تم ایسے ہو جیسے مجھے نہیں تمہیں تمہاری محبت مل گئی ہے "
حمدان نے کہتے ہوئے اسے الگ کیا
سعد اپنے ہاتھوں اپنے لخت جگر کو اتنا بڑا زخم نہیں دے سکتا تھا وہ نہیں بتا سکتا تھا وہ ایسا کھبی نہیں کر سکتا تھا
"سعد کیا ہوا ہے اتنا خاموش کیوں یے کچھ بول کیوں نہیں رہا ہے
ایسے تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتا رہتا ہے ابھی میں نے اتنی بڑی بات کہی یے کیا ہوا ہے "
حمدان نے آج سے پہلے سعد کو اتنا خاموش اور چپ نہیں دیکھا تھا
سعد نے اپنے ٹون میں آنا بہتر سمجھا ورنہ حمدان کو شک ہوجاتا
"I have a surprise for you ...mama and papa went to sawera's house to ask my hand for sawera and may be we will bind in a holy relationship ."
,"سعد اپنی بات کہ کر پھر چپ ہوگیا تھا
"سعد تو سچ کہ رہا ہے اور تم اب مجھے یہ بتارہے ہو بہت ہی تیز ہے تو "
حمدان نے اسے گلے لگاتے کہا
"ہاں تو اور کیا کل سے تو دیوداس بنا گھوم رہا تھا تو کیا بتاتا ویسے تو بھی اپنا کچھ کرلے کیا پتہ میرے بچے تجھے تایا کہنے کے بجائے چاچو کہ رہے ہوں کیونکہ تیری service ہے ہی اتنی سلو "
سعد نے اسکے گلے لگتے خود پہ قابو پاتے اپنے لہجے کو شوخ کیا تھا ورنہ اسکا دل بہت زخمی تھا اپنے دوست کے لئے جب اسے یہ پتہ چلے گا
"سعد تو بچ کہ دکھا اب مجھ سے "
اور سعد آگے اور حمدان پیچھے تھا اور دونوں کے قہقہے
لیکن سعد کی ہنسی پہلی دفعہ کھوکلی تھی
شام کا وقت تھا امل اور اذہان racket کھیل رہے تھے
جب سعد بھی آگیا تھا انکے ساتھ کھیلنے اب وہ تینوں لان میں ایک ساتھ کھیل رہے تھے
۔
حمدان اپنے کمرے کی بالکنی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا پہلے اسے جلن محسوس ہورہی تھی لیکن سعد کے آنے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی تھی اس نے سوچ لیا تھا آج رات کھانے کے بعد وہ حماد صاحب سے بات کرے گا
وہ امل کو دیکھنے میں گم تھا جب مرتضی نے اسکے نظروں کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ ہوش میں آیا
مرتضی۔۔ ۔تم کب آئے ۔۔؟
حمدان نے اپنی نظریں وہاں سے ہٹا کر کہا
جب آپ امل کو دیکھنے میں کھوئے ہوئے تھے
مرتضی ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!حمدان نے اسے آنکھیں نکال کر کہا
"تو میں کیا جھوٹ بول رہا ہوں دیکھ رہے تھے نہ آپ "
آج وہ ڈرنا نہیں چاہتا تھا
مرتضی کی باتوں پہ حمدان مسکراتا ہوا بغیر کچھ کہے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا ۔۔۔
""hayeee یہ عشق ۔۔۔۔"
مرتظی نے حمدان کو چھیڑا
""مرتضی پٹ جاو گے "
حمدان نے اسے پیار بھری دھمکی دی
"اوکے نہیں کر رہا تنگ ویسے میں بہت خوش ہو امل ہمیشہ یہی رہی گی ۔۔۔ I am so happy for you ..""
مرتضی کہتے ہوئے حمدان کے گلے لگ گیا تھا
______________________________________
رات کے دس بج رہے تھے گھر کے تمام افراد ڈائینگ ٹیبل پر موجود تھے اور اللٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے
"امل کہاں ہے آج کھانے پہ موجود نہیں ہے ٹھیک ہے وہ "
اذہان نے امل کو موجود نہ پا کر کہا
"وہ اسکی کچھ طبعیت نہیں ٹھیک۔۔۔ کہ رہی تھی سر میں درد ہورہا ہے کھانے کھا کر دوائی لے کر سورہی ہے وہ "
صدف بیگم نے جواب دیا
امل کی غیر موجودگی حمدان کو بھی تڑپا رہی تھی وہ بھی بہت شدت سے اسکی کمی محسوس کررہا تھا محبت آشکار ہوئی تھی تو شدت بے چینی میں اور اضافہ ہوگیا تھا
"کیا ہو تم امل دن میں نہ جانے کتنی بار تمہیں دیکھتا ہوں پھر بھی میری نظروں کو دیدار حسرت محسوس رہی ہے "
امل کو سوچتے ہوئے حمدان کے لبوں پہ تبسم پھیل گیا تھا اور اس نے اسے چھپایا بھی نہیں تھا
"میں کہ رہا تھا کہ سعد کے نکاح کے ساتھ اذہان اور امل کی بھی منگنی کی رسم ادا کردیتے ہیں"
حماد صاحب نے سب کو دیکھتے ہوئے اپنی بات کہی
انکی بات سے سب رضامند ہی تھے لیکن حمدان کو لگا اسکے کانوں نے کچھ غلط سنا ہے
اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا اور کھانا جو وہ کھا رہا تھا وہ اسکے گلے میں پھنس گیا تھا اور اتنا برا پھندا لگا تھا کہ گھر والے بھی ڈر گئے تھے
سعد مسلسل اسکی پیٹ تھپک رہا تھا مرتضی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسے پانی پلایا یہ خبر مرتضی پہ بھی بجلی بن کر گری تھی
حمدان کو لگ رہا تھا کہ اسکے گلے میں کھانا نہیں اٹکا بلکہ سانس اٹک گئی ہے اسکا پورا چہرہ پسینے میں شرابور ہوگیا تھا اور آنکھیں حد درجہ سرخ ہوگئی تھی
وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اپنے روم کی جانب بڑھا
کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک اسے کیا ہوا ہے
"میں دیکھتا ہوں اسے آپ لوگ پریشان نہ ہوں "
سعد کہتا ہوا اسکے پیچھے بھاگا
"امل اور اذہان کی منگنی۔۔ کب ہوا یہ سب مجھے کسے نے بتایا تک نہیں "
مرتضی نے شاکڈ کی کیفیت میں پوچھا
"ابھی کل رات میں تو بات ہوئی ہے وہی تو بتا رہے تھے ہم ابھی "
انعمتہ بیگم کو مرتضی کا مطلب سمجھ نہیں آیا
ان سب سے بے نیاز آبرو کھانے سے لطف اندوز ہورہی تھی
"شکر ہے کانٹا تو نکلا حمدان تم میرے نہیں تو کسی اور کے نہیں "
آبرو نے کھانا منہ میں ڈالتے دل میں کلام کیا
مرتضی نے ایک ناراضگی بھری نظر اذہان پہ ڈال کر چلا گیا
"مرتضی کہاں جا رہے ہو کھانا تو مکمل کرو"
حماد صاحب نے اسے ٹوکا
"بابا جو سرپرائز ملا ہے اس سے میرا پیٹ کیا حلق تک فل ہوگیا ہوں"
مرتضی کہتے ہوئے واک آوٹ کر گیا تھا
_____________________
"مرتضی کیا ہوا تمہاری بتی کیوں گل ہوگئی ہے بم تو میرے سر پہ پھٹا ہے اور اثر تجھ پہ ہوا ہے خیریت تو ہے "
اذہان نے اسکے کمرے میں آکر کہا جو بے چینی سے ادھر سے ادھر منڈلا رہا تھا
"اذہان تو بک بک نہ کر اس وقت میرا دماغ بلکل گھوما ہوا ہے میں کچھ الٹا کہ دونگا"
مرتضی کا لہجہ سخت تھا جو اسکی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا کیونکہ وہ تو ہر وقت کول رہتا تھا اور دل اسکا انتہائی نرم تھا
"اتنی بڑی بات ہوگئی یے تم نے مجھے بتایا تک نہیں ہم نے آج تک ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپایا ہے "
مرتضی صدمے میں تھا۔۔۔اگر اسے پہلے پتہ ہوتا تو آج شام میں وہ حمدان سے اتنی بڑی بات نہیں کرتا کیا کچھ نہیں کہا تھا اس نے حمدان کو اور حمدان نے بھی جسے قبول کیا تھا اس وقت حمدان کی کیا حالت تھی وہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا
"کیا ہوگیا ہے مرتضی تم اتنا کیوں چڑ رہے ہو منگنی کا مجھے بھی نہیں معلوم تھا اور ماما نے کل رات ہی مجھ سے یہ بات کہی تھی اور کل میں لیٹ گھر آیا تھا اور صبح سے آفس کے کاموں میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ موقع ہی نہ ملا ورنہ میں کیوں چھپاوں گا تم سے "
اذہان سخت چڑ گیا تھا لیکن اس نے پھر بھی صفائی دی
"اور ان سب کا کیا ہوگا"
مرتضی نے یاد آنے پہ کہا
"کون سب "۔۔۔۔۔۔۔۔اذہان انجان بنا
"جیسے تم تو جانتے نہیں ہوں میں تمہاری ان شونو مونو کی بات کر رہا ہوں"
مرتضی نے اپنا بدترین خدشہ ظاہر کیا
"یار وہ سب تو رنگین تتلیاں ہیں جیسے تتلی کا رنگ کچا ہوتا ہے نہ انکا بھی ہے وقت کے ساتھ مائل ہوجاتا ہے "
اذہان نے ہوا میں بات اڑائی "دیکھو ذرا تم نے نام لیا اور ایک تتلی اڑتی ہوئی آبھی گئی" اس نے اپنا موبائیل سامنے کیا
مرتضی نے اسکا موبائیل چھین کر بیڈ پہ اچھالا اورا ذہان کا کلر پکڑ کر اس کے آنکھوں میں جھانکا
"آج مجھے شرم آرہی ہے تو میرا بھائی ہے اذہان ایک بات یاد رکھنا بات اب کسی اور کی نہیں امل کی ہے اور وہ کوئی تتلی نہیں ہے اسے اتنی سی بھی (مرتضی نے اپنی انگلی کو انگھوٹے سے ملایا ) تکلیف آئی نہ میں تمہارا وہ حال کروں گا تو سوچ بھی نہیں سکتا اور بہت جلد ان سب خرافات سے جان چھڑالے ورنہ میں کوئی لحاظ نہیں کروں گا جاکر بڑے ابو کو سب بتادوں گا ایک عورت سب برداشت کرسکتی ہے شاید لیکن یہ نہیں اور امل تو ویسے بھی بہت نازک ہے اس پر اثر بہت جلدی ہوتا ہے"
اذہان مرتضی کا یہ روپ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا
"ریلکسسسسس ۔۔۔۔کوووووووول ۔۔۔۔۔یہ حمدان کا روپ کہاں سے آگیا یے تم میں اور تو بتا کر دیکھا کسی کو بھی میں پھر چھوڑوں گا نہیں تمہیں اور کیا ہوگیا یے کہ میں کسی کے ساتھ کوئی سچ مچ میں ریلیشن میں نہیں ہوں اور تجھے جتنی امل کی فکر ہے اتنی مجھے بھی ہے میں بھی اتنا ہی جانتا ہوں جتنا تو جانتا ہے اور رہی بات ان تتلیوں کی تو کیوں فکر کرتا یے وقت آنے پہ ان سے پیچھا چھڑالوں گا ظاہر ہے اب معاملہ امل کا ہے "
اذہان نے بھی مرتضی کی ٹون میں جواب دیا
اور یار میں تجھے منانے آیا تھا۔۔ تیرا لیکچر سننے نہیں جا رہا ہوں میں۔۔ سب میرے پیچھے پڑ گئے ہیں
اذہان بھی درشتگی سے کہتا اپنا موبائیل اٹھا کر چلا گیا تھا اور مرتضی کے دماغ میں فکروں کا جال بنا کر
_________________________________
"حمدان یار دروازہ کھول "
سعد کب سے اسکا دروازہ بجا رہا تھا لیکن جب کوئی جواب نہ آیا تو اسے خدشہ لاحق ہوا اس نے اپنے ساتھ کچھ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ اس نے ڈپلیکیٹ کی سے روم کا لوک کھولا اور چاروں طرف نظریں دوڑائیں حمدان اسے کہیں نظر نہیں آیا لیکن پانی بہنے کی مسلسل آواز آرہی تھی
"حمدان آر یو دئیر ۔۔۔۔آر یو لسٹنگ می ؟؟؟؟یارر پلززززززز دروازہ کھول ایسے نہ کر "
سعد باتھ روم کا دروازہ پیٹتے مسلسل بول رہا تھا
"ٹھیک ہے ۔۔تو نہیں بول رہا ہے نہ کچھ اور نہ باہر آرہا ہے مجھے تمہاری قسم کہ میں ایک انچ بھی یہاں سے ہلا ایسے ہی کھڑا رہوں گا جب تک تو اندر رہے گا "
سعد نے بھی ٹھان لیا تھا اگر حمدان ڈھیٹ یے تو وہ بھی ماہا ڈھیٹ یے وہ اپنے دوست کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ اسکے پاس نہ ہو کر بھی اسکے پاس تھا
وہ شاور کے نیچے کھڑا اپنے اندر کی آگ کو بجھانا چاہ رہا تھا اسکا دل بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اسکی دھڑکنیں اس سے روٹھ بیٹھی تھیں
"وہ اسکی کیسے ہوسکتی یے وہ اسکے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے کیا اسے میرا پیار میری محبت نظر نہیں آئی "
آتی بھی کیسے وہ مجھے پسند نہیں کرتی ہے میں نے اس سے کب نرمی سے بات کری یے میں نے اسے احساس کب دلایا ۔۔۔میں اندر بہت سی اچھائیاں ہیں لیکن میں اچھا نہیں ہوں بس
میں اس سے بے تحاشہ محبت کرتا ہوں لیکن میری محبت سب کی طرح نہیں ہے۔۔۔ میری محبت عام نہیں ہے۔۔۔ مجھے کسی کو اپنی محبت شو آف نہیں کرانی لیکن اس پر تو نچھاور کرنی ہے نہ جس سے ہے ورنہ اسے کیسے پتہ چلے گا شاید میری محبت حاکمیت پسند ہے شدت پسند ہے جنون پسند ہے انا پسند ہے شاید پاگل پن ہے یہ
اور میری اس انا پسند محبت نے میری شدت اور جنون کو پست کردیا ہے
وہ خود ہی سوال کر رہا تھا اور خود ہی جواب دے رہا تھا
ٹھنڈے پانی سے نہا کر وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال رہا تھا اسکا سارا غصہ اشتعال بہ رہا تھا اب بس محبت تھی اور وہ تھا
اس کا دماغ اس وقت سوچوں کا آمجگا بنا ہوا تھا اسی سوچ کے ساتھ وہ تولیہ اسٹینڈ سے تولیہ نکال کر اپنے بالوں کو خشک کرتا ہوا باہر نکلا وہ سعد کو کھبی پریشان نہیں کرسکتا تھا خود کی وجہ سے
"حمدان ۔۔۔۔۔۔!!!!!! تم ٹھیک ہو "
اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جس میں خون اترا ہوا تھا اور چہرہ لال انگارہ ہورہا تھا وہ ضبط کی انتہا پہ تھا
حمدان نے ایک نظر سعد کو دیکھ کر اپنی بھیگی شرٹ اتار کر دوسری چڑھاتے ہوئے اسکے بٹن بند کرتا آئینہ کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا اس نے آئینہ میں اپنے عکس کو دیکھا اور بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں سیٹ کیا اور اپنی مونچھوں اور پھر گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا جو اسکی وجاہت میں اضافہ کرتی تھی وہ شاید خود کو کمپئیر کر رہا تھا اذہان سے اور ہر طرح سے حمدان کا ہی پلہ بھاری تھا
سعد غور سے اسکی ہر حرکت نوٹ کر رہا تھا جب برداشت نہ ہوا تو بول پڑا
""دیکھ حمدان خود کو سنبھال کھبی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی نے ہمارے ساتھ ناانصافی کری ہے تم اللٰہ پر یقین رکھتے ہو نہ لیکن پھر بھی ہم کھبی اس یقین کے ساتھ بھی بےسکون رہتے ہیں ۔۔۔جانتے ہو کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی کو نا ماننے کی وجہ سے یہ بےسکونی قائم رہتی ہے اور اگر ہم بے سکون ہے نہ تو مطلب ہے کہ ہم یقین نہیں رکھتے رونا غلط نہیں ہے چاہے مرد کیوں نہ ہو اسکے بھی احساسات ہوتے ہیں جزبات ہوتے ہیں تھکنا بھی برا نہیں ہوتا مرد عورت سے ذیادہ طاقتور ہوتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ تھک نہیں سکتا اور نہ ہی گرنا برا ہے بس یہ جو مایوسی ہوتی ہے نہ یہ برا ہے یہ ہمارا ایمان کمزور کردیتی یے
تمہیں بھروسہ ہے نہ مایوس نہ ہو اگر وہ تمہارے نصیب میں ہے تو تمہیں ملی گی اور نہیں یے تو نہیں ملے گی "
سعد نے اپنی طرف سے پوری کوشش کری تھی اسے سمجھانے کی
"تجھے لگتا یے میں مایوس ہوگیا ہوں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔عقلمند لوگ کہتے ہیں مایوس انسان گمراہ ہوجاتا یے اور ہر طرف مایوسی کو منتشر کردیتا یے اور تم جانتے ہو نہ کہ معجزہ بھی ایک چیز ہے مایوسی سے ہٹ کر۔۔۔۔۔ معجزے ہمارے نبیوں کو بھی ملے ہیں فرشتوں کی انکی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں ہوتی ہے اور اللٰہ پاک نے میرے دل میں اس کے لئے محبت ڈالی یے نہ تو اس نے سوچ رکھا ہوگا کہ وہ مجھے کب ملنا ہے اور اگر دور کردیا یے تو کوئی مصلحت ہوگی شاید میری محبت کا امتحان ہے یہ اور جب اللٰہ کچھ دور کرتا یے تو دو گناہ بڑھ کر بھی نوازتا یے وہ ہم سے بہتر ہمارا بھلا جانتا یے وہ کھوئی ہوئی چیز بھی لوٹا سکتا یے اور نہیں بھی اور مایوسی کفر ہے مجھے اسکی رحمتوں پر بھروسہ رکھنا چاہیئے میری محبت کی شدت اسے میرا کرے گی "
حمدان نے دھیمے انداز میں سعد کو کہا
"میں اتنا کمزور نہیں ہوں اور امل اذہان کی کھبی نہیں ہوسکتی تو پریشان نہ ہو "
حمدان اسکو ریلکس کرتے اپنے ذہن میں تانے بانے جوڑنے لگ گیا
"کیا مطلب ہے حمدان کچھ غلط نہ کرنا "
سعد کو اب ڈر لگ رہا تھا
"ڈرو نہیں میں کچھ بھی ایسا نہیں کروں گا "
حمدان نے اسکا ڈر دور کرنا چاہا
سعد حمدان کے گلے لگ گیا تھا وہ تو اپنے دونوں بھائیوں کے بیچ پھنس گیا تھا
_____________________________
شانزہ بیگم اور حارث صاحب نے سویرا کے والدین کو نکاح کے لئے بھی راضی کر ہی لیا تھا اور رخصتی سویرا کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد
سویرا کے والدین آج سے نہیں کافی سالوں سے ہاشم ولا کو جانتے تھے تو انکار کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن انہوں نے کہا تھا کہ ایک بار وہ سویرا سے پوچھ لیں تو پھر نکاح کی ڈیٹ فکس کردینگیں
سویرا بھی سعد کے دل میں اپنے لئے جزبات سے واقف تھی سعد نے بھی اسے یہ باور کرایا تھا
____________________________
"ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تمہارا جو فیصلہ ہوگا وہی ہوگا "
سویرا کےوالدین نے اس سے پوچھا تو سویرا نے اپنے والدین کے پوچھنے پہ ایک اچھی بیٹی کی طرح فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا تھا
"خوش رہو اور آرام کرو ۔۔سوجاو بہت رات ہوگئی یے "
وہ اسکا سر پہ ہاتھ رکھتے چلے گئے تھے
انکے جانے کے بعد وہ لیمپ آف کرکے کروٹ کے بل لیٹ گئی تھی اور دو دن کے پہلے کو واقع کو سوچنے لگ گئی تھی جب سعد اس سے ملنے یونی آیا تھا
آج امل نہیں آئی تھی تو وہ بور ہورہی تھی اور اسنے گھر جانے کے ارادے سے ڈرائیور کو کال کری تو اس نے آدھے گھنٹے ویٹ کا کہا
تو اپنے ڈیمارٹیمنٹ کے باہر بنے ایک بینچ پہ جاکر بیٹھ گئی تھی جب اسے سامنے سے سعد آتا ہوا دیکھائی دیا
اس نے سعد کو دیکھ کر بھی اسے اگنور کیا اور اپنے گلاسس لگاتی ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی تھی
""ایسے نظریں تو نہیں چراو بندہ دل و جان سے فدا ہے شرم پسند ہے تمہاری لیکن اتنا بھی نہ شرماو کہ مجھے نظر انداز کرنا پڑے"
سعد نے اسکے پاس آتے اپنا ایک پیر بینچ پہ ٹکا کر اس کی جانب تھوڑا جھک کر کہا
"شرماو گی۔۔ وہ بھی میں اور تم سے غالب دل بہلانے کو یہ خیال اچھا یے ۔۔۔میری جوتی شرماتی یے تم سے "
سویرا نے اسے لفٹ ہی نہیں کرائی
" جوتی کا کیا کرنا مجھے وہ بھلے شرمالے اور رہی بات تمہاری یہ تو اچھا یے کہ تم نہیں شرماتی فیوچر میں آسانی ہوگی مجھے ٹائم برباد ہوگا اس شرمانے ورمانے کے جھنجھٹ میں تو اچھا ہے اچھا یے یہ "
سعد نے اپنے سن گلاسس اتارتے ہوئے کہا
"ٹھرکی انسان اپنا ٹھرک پن دیکھانا شروع کردیا کرو بس کوئی موقع نہ چھوڑا کرو اور اپنی لیمٹ میں رہو"
سویرا نے اپنے آپ کو بینچ کی دوسری جانب گھسیٹا
سعد نے اسکو دور جاتا دیکھ کر مسکراہٹ دبائی اور اس بینچ پر بیٹھ گیا
"تم کیا ہر وقت لمٹ کی بات کرتی رہتی ہو ابھی تو میں لمٹ میں ہی رہتا ہوں ابھی تم نے کہاں دیکھا یے لمٹ سے باہر آنا جب دیکھو گی نہ جب کہنا اور ٹھرک پن کی بات جو ہے وہ بھی ابھی تک نہیں دیکھا ہے تم نے جب دیکھنا تو بولنا "
سعد نے اسے آنکھ مارتے جواب دیا
سویرا اٹھ کر جانے لگی کیونکہ وہ شخص اپنی باتوں سے اسے ہمیشہ لاجواب کردیتا تھا
سعد فوراً اسکی راہ میں حائل ہوا اور اپنے مطلب پر آیا
"دیکھو میں ایک فئیر بندہ ہوں سیدھی بات ہے تم پسند آگئی ہو اس دل کو تمہیں اب یہ اپنا کرنا چاہتا ہے آسان لفظوں میں بولے تو قبول ہے قبول ہے قبول ہے والا رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے "
سعد نے کہتے ہوئے اسکے گلاسس اتار کر اسکے سر پہ رکھا اس طرح سے کہ اسکا ہاتھ ٹچ نہ ہو
اسکی لو دیتی نظروں کی وہ تاب نہیں لا پارہی تھی وہ اسے اتنی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ اپنے آپ کو گم ہوتا محسوس کر رہی تھی
"یہ کیسا اظہار ہے محبت کا "
سویرا نے اپنی نظریں نیچے ہی رکھتے ہوئے کہا
"میری دسترس میں آجاو پھر جیسا چاہو گی ویسا اظہار کردونگا عملاً شملاً بھی "
سعد ہنوز اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
"ٹھرکی انسان میں کہ رہی ہوں کہ یہ کونسا وقت ہے کونسی جگہ ہے اتنی دھوپ ہو رہی ہے اور یہ تعلیمی ارادہ ہے جسے تم نے لو پوائینٹ بنالیا ہے "
سویرا نے اپنی بات کا مطلب سمجھایا
"یہ سعد شیرازی کی محبت ہے یہ بندہ رئیر ہے تو اسکا اسٹائیل بھی الگ یے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو مسز۔۔۔مطلب ہونے والی میں ابھی تم سے نکاح تو نہیں کرسکتا لیکن ہاں نکاح عشق تو کرسکتا ہوں نہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔۔مجھے تم سےمحبت یے۔۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہے ۔۔۔۔۔"
اسکے پروپوز کا اسٹائیل بھی اسکی طرح انوکھا تھا
اسکا شرمایا روپ سعد کو اکسا رہا تھا کہاں وہ ابھی نہ شرمانے کی بات کر رہی تھی اور کہاں ابھی لال ٹماٹر ہوگئی تھی کچھ دھوپ کی حدت تھی کچھ سعد کی نظروں کا کمال
"میری محبت پہ بھورسہ ہے نہ "
سعد تھوڑا کنفیوز تھا
سویرا سوچنے لگ گئی تھی۔۔۔سعد بھی سیرئیس ہوگیا تھا
"شاید " اس نے یک لفظی جواب دیا
"تو اسکا مطلب میں پسند بھی ہوں یو نو لووو شووو"
سعد پھر سے اپنی ٹون میں آیا
"ایسا کب کہاں میں نے ۔۔۔۔ہلکے میں رہو ٹھرک۔۔۔۔۔مطلب مسٹر سعد شیرازی "
سویرا کا کانفیڈنس کچھ بحال ہوا تھا
"نہیں ہے " سعد نے سوال کیا
سویرا نے اپنا سر نفی میں ہلایا
"ٹھیک ہے ۔۔۔اچھا یہ بتاو آج بدھ ہے ؟؟
سعد نے اس سے پوچھا
سویرا کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسا سوال ہے
"افکورس ہاں ہے " اس نے جواب دیا
ابھی دوپہر ہے ؟ سوال میں ردو بدل ہوا
"ہاں ہے "۔۔۔۔۔۔اس نے قبول کیا
"امل تمہاری بیسٹ فرینڈ ہے "؟ ایک نیا سوال اس نے پوچھا
ہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے اقرار کیا
تمہیں میٹھا پسند ہے ؟؟ سوال تبدیل ہوا
ہاں ہے ۔۔۔۔۔اس نے حامی بھری
"تمہیں سیلفیز لینا بے حد پسند ہے "؟؟
"ہاں ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ روانگی میں کہنے لگ گئی تھی
""تمہیں مجھ سے محبت ہے "؟؟؟؟؟سوال بلکل تبدیل ہوا تھا
"""ہاں ہاں ہاں ہے """"۔۔۔۔۔۔۔اس نے تنگ آکر اسے فلو میں ہی جواب دیا تھا
جب سعد کی مسکراتی شکل دیکھی تو اپنی زبان دانتوں تلے دبائی کیوں اس دفعہ اس نے تنگ آکر ایک نہیں بلکہ تین دفعہ کہ دیا تھا
""یہ چیٹنگ ہے سراسر "
سویرا نے کچھ ججھکتے کہا
""کوئی چیٹنگ نہیں ہے ۔۔۔میں نے تو سوال کیا تھا تم نے خود اقرار کیا ہے انکار بھی کرسکتی تھی "
سعد نے گلاسس چڑھاتے کہا
"مجھے گھر جانا ہے "۔۔۔۔۔۔سویرا نے بات تبدیل کی اسکی نظروں کی تپش میں وہ پگھل رہی تھی
""کیسے جاو گی "_______سعد نے سوال کیا
"کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے روز پک اپ اینڈ ڈراپ کی سروس تم دیتے تھے اور آج نہیں دے سکتے "
سویرا نے ادھر ادھر دیکھتے کہا
"تو کہو تو آج دے دیتا ہوں "۔۔۔اس نے آفر کی
""جی نہیں ۔۔مجھے نہیں چاہئیے"۔۔۔اس نے انکار کیا
"تو پھر کیا چاہئیے ۔۔۔۔میں ؟؟؟۔۔۔سعد نے اپنی طرف اشارہ کیا
""ہاااااں۔۔ ں۔۔۔۔۔سویرا نے حیرت کی زیادتی سے کہا
""اتنا بے صبراً پن اچھا نہیں ہے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے تھوڑا سہ انتظار کرو میں مل جاو گا وہ بھی ہمیشہ کے لئے "
اس نے بات کو اپنے رنگ میں ڈھالا
""میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔تم نہ سچ میں ٹھرکی انسان ہو ہر بات کا رخ اپنے ذوق کے مطابق ڈھال لیتے ہو "
سویرا نے خفت سے کہا اور جانے لگی کیونکہ اسکا ڈرائیور بھی آنے والا تھا
سعد اسکے راہ میں دوبارہ حائل ہوا اور کہا
""سنتی تو جاو۔۔۔۔۔۔ ماما بابا آئیں گیں تمہارے گھر میرے لئے تمہیں مانگنے اقرار کردینا "
سویرا دھیما سہ مسکراتی ہوئی اپنی منزل کی جانب چل پڑی ویسے بھی کیا بولتی اس نے تو الفاظ ختم کردیئے تھے
سعد کو سوچتی وہ نیند کہ وادی میں گم ہوگئی تھی
__________________________________
دھکتے سر درد کے ساتھ اسکی آنکھ کھلی تھی پاوں میں چپل اڑستی اس نے باتھ روم کی راہ لی تھی منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر اس نے خود کو فریش کیا تھا
ابھی وہ باہر ہی نکلی تھی کہ اچانک لائیٹ چلی گئی تھی اور اندھیرا اسکے ڈرنے والے عوامل میں سے ایک تھا
"لائیٹ کیسے چلی گئی"۔۔۔اسکا تنفس بڑھنے لگ گیا تھا
ذہن پہ زور ڈالتے اس نے اپنے قدم ڈریسنگ ٹیبل کے جانب بڑھائے تاکہ موبائیل کا فلش آن کرسکے
ابھی اندھیرے میں وہ راستہ ٹٹولتی ڈریسنگ ٹیبل تک پہنچی تھی جب کسے نے اسکےکندھے پہ ہاتھ رکھا ایک چیخ اسکی بلند ہوتی جب کسی نے اسے گھما کر ڈریسنگ ٹیبل سے لگایا اور اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسکی چیخ کا دم توڑا
""" شششششش۔۔۔۔۔۔۔۔آواز نہیں ۔۔۔۔۔۔میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں چیخنا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔اسکے کان میں سرگوشی کی گئی اس شخص کی سانسوں کی گرمائش اسے اپنے کان کی لو پہ پڑتی محسوس ہوئیں
خوف کے مارے وہ یہ تک نہیں پہچان پائی کہ یہ آواز کس شخص کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کانپنے لگ گئی تھی ۔۔۔۔جب اس شخص نے اپنی جیب سے لائیٹر نکال کر اسے جلایا اس کے اور اس شخص کے بیچ بس لائیٹر جتنا فاصلہ تھا
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔!!!!اپنے سامنے حمدان کو دیکھ کر خوف سے اسکی آنکھیں کھل گئیں تھی
"ہاں میں ۔۔پسند نہیں آیا میرا یہاں آنا تمہارے پاس۔۔۔ مائے بےبی انجیل "
حمدان کا انداز لہجہ بلکل الگ تھا
خوف سے اس سے کچھ بھی کہا نہیں گیا
"چلو میں یہ مشکل آسان کردیتا ہوں ۔۔۔۔میں اتنا بےچین ہو تو تھوڑا تو تمہیں بھی ہونا چاہئیے نہ ۔۔۔۔منگنی سے انکار کردو ۔۔۔"
حمدان اپنی بات کے مدعے پہ آیا
"کیا۔۔۔۔۔۔!!!! ۔۔۔۔۔امل کو لگا اسکا دماغ ہل گیا ہے
"میں کیوں کرونگی انکار ۔۔۔میں نہیں کرو گی "
وہ کیسے کہ سکتی تھی جبکہ وہ حامی بھر چکی تھی اور انکار کا کوئی ایک بھی جواز نہیں تھا اسکے پاس
"اگر تم نے انکار نہیں کیا تو بہت برا ہوگا پھر "
اس نے ڈرانا چاہا
"کی۔۔۔کیا ۔۔۔۔کہ۔۔۔کہوں ۔۔۔گی ۔۔۔۔۔۔؟ آپ کا دماغ ٹھیک ہے
امل کو ہمت سے کام لینا تھا
"کہ دینا تم اسے پسند نہیں کرتی ۔۔کسی اور کو یعنی صرف اور صرف حمدان شیرازی کو کرتی ہو ۔۔۔۔"
حمدان خودغرض بن رہا تھا یا شاید محبت نے بنادیا تھا
"میں کیوں کہو جبکہ ایسا کچھ نہیں یے "
ڈر پہ قابو پاتے اس نے کہا
"Baby Angel I Love You From The Core Of My Heart "
You Have To Beleive This …….And I Think Its Enough For Refusing ""…….
حمدان نے خمار آلود لہجے میں کہا جس نے اسے چہرہ جھکا دینے پہ مجبور کردیا
"کیا سمجھا ہوا ہے آپ نے مجھے۔۔ کوئی کھیل نہیں ہے جب چاہا انکار کردیا جب چاہا اقرار ۔۔۔بہت جلدی آپکو خیال نہیں آگیا کہ آپکو محبت یے ۔۔۔۔۔یہ محبت نہیں یے ۔۔۔۔تو آپکے کردیں نہ انکار جا کر سب کو کہ دیں کہ آپ نہیں چاہتے ایسا کچھ کیونکہ آپکو سو کالڈ محبت ہے۔۔۔ رات کے اس پہر آپ یہ خرافات لے کر آئیں ہیں پلزززز جائیں یہاں سے میرا کردار مشکوک نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔"
امل نے اپنی تمام ہمت جمع کر کے بغیر اس سے نظریں ملائیں کہا
"حمدان نے اسکی لب پر اپنی انگلی رکھی ۔۔۔۔۔"
خبردار جو تم نے میری محبت کو سو کالڈ کہا یا میری محبت تمہارا کردار مشکوک کرسکتی ہے کھبی نہیں کر سکتی "
حمدان کا لہجہ انتہائی سرد تھا
حمدان نے لائیٹر بند کرکے اپنے دونوں ہاتھوں کو ڈریسنگ ٹیبل کے سائیڈ پہ رکھ کر اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے
"تم نہیں کرو گی نہ منع اب پھر میں جو کروں گا اس سے مجھے نہیں روک سکتی تم "
حمدان اپنی بات مکمل کر وہاں سے چلا گیا تھا
اس نے اپنے لمس کے ذریعے اپنی بےچینی ، آگ اور تڑپ کو اسکے اندر بھی منتقل کر دیا تھا
______________________________
حمدان کے جانے کے بعد لائیٹ بھی آگئی تھی
اسکا تنفس اس نئے انکشاف پہ بلکل بگڑ گیا تھا وہ اسے سنبھالتی بےحال ہو رہی تھی حمدان کا ہر روز ایک نیا روپ اسکے سامنے آتا تھا۔۔۔۔اس نے اپنے ماتھے پہ اپنا ہاتھ رگڑ کر اسکا لمس مٹانا چاہا اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر اس نے اپنے ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے تو اسے کچھ گرنے کی آواز آئی اس نے پلٹ کر دیکھا تو پرفیوم کی بوٹل ڈھلک گئی تھی اس نے اسے سیدھا کیا تو اسکی نظر وہاں رکھے ایک نوٹ پر پڑی اس سے تجسس کی بناء پر اسے اٹھایا تو اس پر کچھ لکھا ہوا تھا
Your Sparkling Eyes
Your warmth Skin
Your Heart beat Voice
Your Deep Breathe
Your Hand Touch
your Hair Smell
Your Kindness Smile
Your Staring Strength
Your Body Near Mine
Your Strokes touches
Your Voice Sweetness
Your Innocence Face
Your Claming Presence
Your Quiver Lips
These All Feelings Inside Me Shiver Within
AH…..
پڑھنے کے ساتھ ساتھ خفت اور شرم وحیاء سے اسکی رنگت گلابی پڑگئی تھی "اے ایچ " پڑھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ حمدان نے لکھا یے
" کیا ہے یہ شخص انتہا کا کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
غصے سے کہتے ہوئے اس نے اس کے کئی پرزے کردئیے تھے اور فوراً فلش کیا تھا اسکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یہ کس موڑ پہ اسکی زندگی آگئی تھی اسے آگے کھائی اور پیچھے کنواں نظر آرہا تھا
ہاتھوں کے پشت سے اپنے آنسو رگڑتی خود کو کمفرٹر میں ڈھانپ کر وہ ان فکروں سے فیلحال آزادی چاہتی تھی
___________________________________
سعد آف وائیٹ کلر کے کرتے شلوار میں واسکوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے قیمتی گھڑی پہنے پاوں میں برینڈیڈ چپل پہنے چہرے پہ شاندار مسکراہٹ کےساتھ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا اور لگتا بھی کیوں نہیں آج سعد کا نکاح جو تھا
"آج تو بڑا چمک رہا ہے بھئی "
حمدان دل سے اپنے جگری دوست کےلئے دعاگو تھا حمدان بھی آج آف وائیٹ کلر کے کرتے شلوار میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا
اج اسکے یار کا اتنا اہم دن تھا اسکا دن وہ اپنی وجہ سے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ویسے بھی حمدان ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اپنے دکھ اور غم کا اشتہار لگائیں
وہ جانتا تھا کہ سعد سویرا کو کس حد تک چاہتا ہے اور کتنا شدید جھکاو اسکا سویرا کی جانب ہے
شانزہ بیگم نے اپنے بیٹے کی نظر اتاری تھی حارث صاحب نے اپنے بیٹے کے ماتھے پہ بوسہ دیا تھا
اذہان بھی شلوار قمیض پہنے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ ڈیشنگ لگ رہا تھا اسکا بھی تو آج اہم دن تھا
"مبارک ہو بڈی آج سے تمہاری آزادی ختم "
اذہان نے اسے گلے لگا کر کہا
"تمہیں بھی بہت مبارک ہو "
سعد نے اسے بھی کہا
"جلدی کرو سب ہمیں وہاں جانا ہے نکاح کے ساتھ منگنی بھی یے "
حماد صاحب کی آواز گونجی تو سب لوگوں نے باہر کی راہ لی
سویرا کے گھر کے لان میں ہی نکاح اور منگنی کے پروگرام کا احتمام کیا گیا تھا
حمدان کی نظریں بار بار اس دشمن جان کو ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ ہوتی تو نظر آتی لیکن اس پاگل دل کو کون سمجھائے جو دیدار یار کے لئے بےچین تھا
امل تو صبح ہی سے سویرا کے گھر چلی گئی تھی سویرا کے لئے آج اتنا خاص دن تھا اور امل اسکے پاس نہ ہوتی ایسا نہیں ہوسکتا تھا ۔۔۔
_____________________________
سویرا وایئٹ کلر کے ڈریس میں جس پہ ریڈ کلر کی ہلکی embroidery ہوئی تھی بالوں کا جوڑا بنائے لائیٹ سے میکپ میں ہاتھوں میں لال چوڑیاں پہنے سر پہ لال چنری اوڑھے نروس سی لگ رہی تھی
کیونکہ کسی بھی لڑکی کےلئے یہ لمحہ بہت خاص اور حساس ہوتا ہے اسکے تمام جملہ حقوق کسی اور کے سپرد ہو جاتے ہیں ۔۔اسکا سر نیم بدل جاتا یے ۔۔۔
"سویرا سعد بھائی بہت اچھے ہیں انکے آنکھوں میں تمہارے لئے میں نے جزبات دیکھیں ہیں ۔۔بہت خوش رہوگی "۔۔۔۔
امل نے سویرا کا ہاتھ تھامتے کہا جس پہ ہلکی سی لرزش تھی
سعد کے نام پہ سویرا کی دھڑکنوں میں انتشار برپا ہوگیا تھا اور اسکا چہرہ گلنار ہوگیا تھا
"اووووو بلشنگ ۔۔۔۔سویرا بھی شرماتی ہیں ۔۔آج پتہ چلا ۔۔۔"
امل کو بھی آج اچھا موقع ملا تھا سویرا کو تنگ کرنے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
"امل ۔۔۔۔۔۔تمہارا بھی آئے گا وقت سارے بدلے لوں گی"
سویرا بھی کہاں بخشنے والی تھی ۔۔
"اووو میڈم آپ دلہن ہے تو ذرا آرام سے رہیں یوں پٹر پٹر نہ کریں "
امل نے ایک نظر خود کو آئینہ میں دیکھتے ہوئے کہا
"میرے خیال سے میڈم آپ بھی دلہن یے ۔۔۔منگنی ہی ہے لیکن یے تو نہ "۔۔۔۔۔۔۔میں صحیح سے تنگ بھی نہیں کرسکتی "
سویرا کا اپنا ہی صدمہ تھا
""اور تم کتنی چھپی رستم ہو ۔۔اذہان بھائی کے ساتھ یہ سب اور مجھے کچھ بتایا تک نہیں ۔۔۔میں تو سمجھ رہی تھی کہ حمد۔۔۔۔۔"
سویرا ابھی بول ہی رہی تھی کہ امل نے اسے چپ کرایا ۔۔حمدان کے نام پہ اسکا دل تیز دھڑکنے لگ گیا تھا اسے ڈر لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کر نہ دے
"سویرا پلززز وہ جو نظر تمہیں آرہا تھا ایسا کچھ نہیں ہے اور اب میں اذہان سے جڑنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔میں کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔"اور اذہان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سوچا تھا یہ سب تو اچانک ہوا ہے میں تو ابھی تک خود شاکڈ ہوں کہ میری زندگی اتنی تبدیل ہوگئی یے "
امل نے ڈر پہ قابو پاتے کہا
"ارے امل میں تو بس ویسے ہی خیر چھوڑ اس بات کو یہ بتا اگر تمہاری طرف سے کچھ نہیں تھا تو کیا انکی طرف سے تھا "
سویرا نے پھر اسے چھیڑا
"پتہ نہیں ۔۔۔۔۔میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کچھ سوچتے ہونگیں انکی طرف سے بھی ارینج ہی ہے اور تم اپنا دماغ ذیادہ نہ لگاو چپ کر کے بیٹھو لگ رہا ہے کہیں سے اس لڑکی کا نکاح ہے کچھ وقت بعد "
امل نے اسے چپ کرایا
""اووو انکی طرف سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ارینج ہے "
ہائے اللٰہ جی میں بے ہوش ہی نہ ہوجاو ۔۔۔۔۔ان ۔۔۔۔۔
سویرا باز نہیں آئی تھی
""سویییییییییرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اسے گھورا "
تو پریشان نہ ہو ہو ارینج کو لو میں تبدیل کردینا تم ۔۔۔۔مجھ سے ٹپز لے لینا "
سویرا نے اسکا پیارا مکھڑا دیکھتے ہوئے کہا
"انہی ٹپز کا استعمال کر کے تم نے سعد بھائی کو اپنا گرویدہ کیا ہے نہ "
امل نے اب اسکی ٹانگ کھینچی
"وہ پہلے سے ہی فلیٹ ہیں مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے" سویرا نے انکشاف کیا
""اب جو تم کہ رہی ہو۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اسکا کیا "۔۔۔۔امل نے بات پکڑی
"اب میں نے سوچا بندہ خوش ہوجائے گا تھوڑی عزت دے دیتی ہوں ورنہ وہ تو ایک نمبر کا ٹھرک۔۔۔۔۔۔۔"
وہ کہتے چپ ہوگئی تھی ورنہ امل نے اسکی دھلائی کرنی تھی اسکے بھائی کے خلاف جو بول رہی ہے وہ
"افف لڑکی اب چپ ہوجاو ۔۔۔تم سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا ۔۔۔۔مجھے لگتا یے نکاح خواہ آرہے ہیں"
امل نے اسے چپ کرایا اور خود بھی خاموشی سے اسکے پاس بیٹھ گئی
_____________________________
نکاح کے تمام مراحل طے ہوگئے تھے اور سویرا ہمیشہ کے لئے سعد کے بندھن میں بندھ گئی تھی
ہر کوئی سعد کو آکر مبارک باد دے رہا تھا جسے وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے قبول کر رہا تھا
سویرا کو سعد کے ساتھ باہر لاکر بیٹھایا گیا تھا
"یار حمدان یہ گھونگٹ کیوں ڈالا ہے کچھ کلئیر نظر نہیں آرہا ہے"
سعد نے سویرا کو (جو برابر میں بیٹھی ہوئی تھی) نظروں کے حصار میں رکھ کر کہا
"مجھے کیا پتہ کوئی رسم ہوگی ویسے اچھا ہی یے تو گھونگٹ میں بھی ویسے ہی گھور رہا ہے ۔۔۔گھونگٹ نہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا کرتا ۔۔۔آس پاس کا خیال کرلے تھوڑا تیری ہی ہے دیکھتے رہنا گھورے ہی جا رہا ہے "
حمدان نے سعد کو لتاڑا
"اور تیرے بارے میں کیا خیال ہے یہ جو تیری نظریں بار بار امل کی جانب اٹھ رہی ہیں ۔۔۔کیا یہ مجھے نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔شرم کرلے تھوڑی ابھی ہوئی ہے نہیں امل تیری ۔۔اور ابھی سے اسکو گھور رہا ہے ۔۔۔"
سعد نے سخت الفاظ کہنے سے پرہیز کیا تھا
"بہت ہی کوئی سعد تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔اپنی والی پہ نظر رکھ میرے اوپر نہ رکھ جلد ہی اسے میں اپنے نام کرلوں گا اور ویسے بھی کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے روک سکے اسے دیکھنے سے "
حمدان کا جنون دیکھ کر سعد تو ایک پل کے لئے حیران ہوگیا تھا اور اپنے پیارے دوست کی دائمی خوشیوں کے لئے اور ساتھ میں اپنے بھائی کے لئے بھی دعاگو ہوا تھا
ویسے بھی امل لائیٹ پنک کلر کی میکسی میں بالوں کا جوڑا بنائے سر پہ دوپٹہ ٹکائے لایئٹ سی جیولری میں لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ حمدان کی نظریں ہٹ ہی نہیں رہی تھی
اسکی منگنی کی رسم بھی بس ادا ہونے والی تھی
"افف کچھ کرنا پڑے گا بہت جلد اور پھر امل تم سے اپنے ایک ایک جزبے اور تڑپ کا حساب لوں گا "
حمدان اپنے دل میں امل سے مخاطب ہوا
امل جو سویرا کے ساتھ تھی خود پہ نظروں کی تپش محسوس کر کے اس نے سامنے دیکھا تو حمدان اسے دیکھ رہا تھا
وہ کب سے اس سے چھپتی پھر رہی تھی ابھی بھی وہ باہر نہیں آنا چاہتی تھی لیکن سویرا اسے زبردستی لے آئی تھی
"یہ مجھے کیوں اسطرح دیکھ رہے ہیں کیا ہوگیا انہیں کوئی نشہ تو نہیں کرلیا آس پاس کا ہی بندہ تھوڑا خیال کرلے ۔۔ڈھیٹوں کی طرح دیکھے جا رہے ہیں۔۔۔۔پتہ نہیں کیا کرینگے میں کس مشکل میں پھنس گئی ہوں "
امل نے اس سے نظریں چراتے کہا
________________________________
چاروں طرف سے تالیوں کو شور تھا۔۔۔۔۔۔۔اور ہوٹینگ کی آواز
"ایک طرف امل کے پاس مرتضی تھا تو دوسری طرف اذہان کے پاس سعد"
رائمہ نے اپنے ہاتھ میں ایک تھال پکڑی ہوئی تھی جس کو خوبصورتی سے سجا کر اس میں دو رنگز رکھے ہوئے تھے
اذہان امل کو رنگ پہنانے کی کوشش کرتا تو مرتضی اسے پیچھے کھینچ لیتا ۔۔۔امل کو تو بے حد گھبراہٹ ہورہی تھی اس نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑا ہوا تھا مرتضی بہت ہی آرام سے اسے پیچھے کر رہا تھا اس شخص کی جھلسا دینے والی تپش وہ خود پہ محسوس کر رہی تھی لیکن وہاں دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی
""اذہان یو کین ڈو اٹ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں طرف سے اذہان کا حوصلہ بڑھایا جا رہا تھا
"تین سے چار کوششوں کے بعد بالآخر اس نے امل کا ہاتھ سختی سے تھام کر اسے رنگ پہنائی تھی ورنہ مرتضی نے تو آج قسم کھائی تھی کہ یہ نہ ہونے دیگا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ پہناتے ساتھ اس نے امل کے ہاتھ کے پشت پہ بوسہ بھی دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔امل کو ایکدم کرنٹ سہ لگا تھا
اذہان کے رنگ پہناتے چاروں طرف سے" ہوووووووووووووووو " کی آواز گونجی تھی اور ساتھ تالیوں کی آواز بھی
اب امل کی باری تھی ۔۔۔۔وہ جب کوشش کرتی سعد اذہان کو پیچھے کھینچ لیتا وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن رائمہ نے مرتضی اور اسے انجوائے مینٹ کےلئے یہ کرنے کےلئے کہا تھا وہ انکار تو اب نہیں کر سکتا تھا
اذہان کا ہاتھ بار بار امل کی گرفت سے نکل رہا تھا اذہان نے تو سختی دیکھائی تھی وہ کیسے دیکھاتی
امل کا بھی حوصلہ بڑھانے کے لئے چاروں طرف سے "امل۔۔۔۔ امل۔۔۔ امل۔۔۔۔۔ امل ۔۔۔۔کی آواز آرہی تھی
آخر میں اذہان نے اسکی مشکل آسان کری اور پیچھے ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور امل نے بھی جھٹ سے اپنے قدم آگے بڑھا کر اسے رنگ پہنائی ۔۔۔۔۔۔۔
ہوٹنگ کی آواز ایک بار پھر گونجی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائمہ نے قینچی سے ان دونوں کی رنگز کو الگ کیا جو ربن کے ذریعے جڑی ہوئی تھی
یہ انہوں نے ویسٹرن انداز اپنایا تھا
سارے گھر والوں نے باری باری آکر ان دونوں کو مبارکباد دی تھی
اب وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے اور انکے سامنے ایک بڑا سہ کیک رکھا تھا اور اس پر Got Engaged لکھا ہوا تھا
اذہان اور امل نے مل کر ایک دوسرے کر ہاتھ پکڑ کر وہ کیک کاٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اذہان نے کیک کا ذرا سہ ٹکڑا امل کے گال پہ لگا کر اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔
Happy Engagement….….
I Choose You And I Will be Choosing You
Over And Over…..Without Pause ..Without A Doubt In A HeartBeat I Will Keep Choosing You
امل نے مسکراتے ہوئے اسے بھی کہا تھا "آپکو بھی مبارک ہو"
اذہان نے ایک بار پھر بغیر کسی کی پرواہ کئے امل کے ہاتھ پہ بوسہ لیا تھا ۔۔۔۔۔
امل نے جھٹکے سے ہاتھ کھینچا تھا فطری شرم و حیاء اس پر غالب ہو رہی تھی
حمدان دور کھڑا جلتی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔وہ اس منگنی کو تو چاہ کر بھی نہیں روک پایا تھا لیکن بات اس سے آگے وہ بڑھنے نہیں دیگا یہ اس نے سوچ لیا تھا
اپنی آنکھوں سے اپنے محبوب کو کسی اور کا ہوتا دیکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ اس وقت کوئی حمدان سے پوچھتا
ایک کیک سعد اور سویرا نے بھی مل کر کاٹا تھا سب کی ہوٹنگ اور تالیوں کی گونج میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thanks For Coming In My Life ….You Are My Soulmate My Betterhalf….You Mean The Whole World To Me ……You Are My Halal Love ….
Congratulations Misses Saad….…...
اس کے کان میں سرگوشی کرتے اس نے اسکی کان کی لو بھی چوم لی تھی ۔۔۔۔ویسے بھی سویرا کا گھونگٹ اب ہٹ چکا تھا
سعد کا لمس محسوس کرتے اس کے اندر سنسنی سی دوڑ گئی تھی اس نے آہستہ سے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن سعد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی گرفت مضبوط کردی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ہی اپنی اپنی باتوں کے ساتھ کھانے کے مزے لوٹ رہے تھے تو انکی جانب کوئی متوجہ نہیں تھا
سعد اور سویرا کے photo session کے بعد امل سویرا کو اسکے کمرے میں لے گئی تھی
اسکا فوٹو شوٹ بھی اس وقت ہی ہوگیا تھا
________________________________
""Many Many Happy Returns Of The Day "
امل نے سویرا کے گلے لگتے کہا
"Same To You My Dear Cup Cake "
سویرا نے اسکے گال کھینچتے ہوئے کہا جو بلشن لگانے کی وجہ سے مزید پنک ہوگئے تھے
"آو ہم سیلفیز لیتے ہیں ۔۔ایک بھی نہیں لی اب تک "
سویرا نے امل کے ساتھ دھڑا دھڑ تصویریں کلک کرنا شروع کردیں
کافی پکس لینے کے بعد وہ بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی
"امل کچھ میٹھا کھلادو میٹھائی تو آئی ہوگی یقیناً "
سویرا دونوں پیر بیڈ پہ رکھے امل سے مخاطب تھی ۔۔
"سویرا یہ تم ہی ہو ابھی نکاح سے پہلے تو اتنا گھبرا رہی تھی
اور اب تو اسکا شبہ تک نہ تھا ۔۔۔۔۔
امل حیران ہوئی تھی
ہاں "اب تو ہوگیا نکاح ویسے گھبرانا تو سعد کو چاہئیے
مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا یار لادے نہ میٹھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے منت کی
"میں کیوں لاوں ۔۔۔۔۔۔میری بھی منگنی ہوئی ہے اور مجھ سے کام کروا رہی ہو تم ناٹ فئیر ۔۔۔۔۔۔۔"
امل نے لاڈپن سے کہا
""اووو ہلکی ہوجاو ۔۔۔۔۔۔میں اب تمہاری جیٹھانی ہوں اور تم دیورانی تو رشتے میں بڑی ہوں میں تم سے تو میرا آرڈر مانے آپ "
سویرا نے بیڈ کراون سے ٹیک لگاتے کہا
"میں رانی ہوں ۔۔۔۔دیو ۔۔۔کو چھوڑو ۔۔۔۔۔اور تم رانی سے کام کرواو گی کتنی غلط بات یے "
امل نے اسکے پاس آکر کہا
""کہاں کی رانی ۔۔۔۔۔۔۔دیو کو چھوڑ کر تم نوک لگا لو ۔۔۔مطلب نوکرانی ۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔
سویرا اپنے پرانے موڈ میں واپس آگئی تھی۔۔۔۔۔
"میں لاکر دے رہوں ہوں ۔۔بیٹھی رہو ایسی ۔۔۔۔۔"
امل نے روٹھے پن سے کہا
""اچھا نہ میری کپ کیک لادو نہ ۔۔۔۔۔اللٰہ تمہاری شادی جلد کرادے اور تمہارے ڈھیر سارے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا اسے پچکارتی ہوئی آخر میں شوخ ہوئی
""اوووووو بریک لگاو ۔۔۔۔۔۔۔۔بسسسس ۔۔۔۔۔۔"
لا رہی ہوں میں نوٹنکی باز ۔۔۔۔
امل نے اسے روکنا مناسب سمجھا ورنہ کونسی کونسی دعائیں دینا وہ شروع ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل میسج کی ٹیون پہ کچھ سمجھ کر سویرا کو کہتی باہر گئی
اور اسکے بعد سویرا اپنی سیلفیاں لینے میں مصروف ہوگئی تھی اچانک اسکی نظر سامنے پڑی
تم ۔۔۔۔۔۔تم یہاں کیسے آئے ۔؟؟؟
سویرا سعد کو اپنے روم میں دیکھ کر حیران ہوگئی تھی
سعد امل کی مدد لیکر سویرا سے ملنے آیا تھا اب اسے واپس اپنے گھر جانا تھا اور دیدار کرے بغیر وہ جا نہیں سکتا تھا ۔۔۔امل کو منانا اسکے لئے مشکل نہ تھا۔۔۔۔۔
"میرے خیال سے انسان ہوں تو پیروں سے چل کر ہی آو گا "
سعد سیدھا جواب دے دے ایسا ہو سکتا تھا بھلا ۔۔۔
"اور کیا اکیلے اکیلے سیلفی لے رہی ہو ۔۔آو ساتھ لیتے ہیں ۔۔۔
سعد نے سویرا کے ہاتھ سے اسکا موبائیل لےکر اسکو کندھوں سے تھام کر اپنی اور اسکی کئی پکچرز لینےلگ گیا تھا
سویرا کی تو آنکھیں پھٹی رہ گئی تھی
"جانم ایسے کیا دیکھ رہی ہوں ۔۔عشق ہوگیا ہے کیا ۔۔تمہارا ہی ہوں دیکھتی رہنا ۔
سعد نے کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی اور سویرا کی چند پکچر اور لیں یے اور اپنے نمبر پہ whatsapp بھی کریں
سویرا تو اسکی دیدادلیری دیکھتی رہ گئی تھی
"میں کیوں دیکھوں گی ۔۔تمہیں ۔۔تم کوئی کہیں کے راجا ہو"
سویرا نے اپنی جھینپ مٹاتے کہا ۔۔۔ابھی تک سعد کا پرانا لمس وہ بھول نہیں پائی تھی
امل کہاں ہو جلدی آو ۔۔۔۔دل میں وہ امل کو پکار رہی تھی
"کہیں کا نہیں پر تمہارے دل کا تو ہوں "
سعد نے سویرا کو ایک جھٹکے سے اسکی کمر سے تھام کر اسے اپنے قریب کیا
سویرا اس عمل کے کئے تیار نہیں تھی سعد کے سینے سے آلگی تھی اسکو سعد سے اتنے بیباکی کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔
سویرا کی ساری شوخی ہوا ہوگئی تھی پلکیں حیاء سے جھک گئی تھی سعد کے اتنے قریب اور اسکا لمس اپنی کمر پر محسوس کرکے اسکے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئی تھی اور اسکا چہرہ لال انار ہوگیا تھا جیسے سارا خون چہرہ ہر آگیا ہو
سعد کو بھی سویرا کے چہرے پہ حیاء کے رنگ کو دیکھتے ہوئے اپنا آپ کنڑول کرنا مشکل لگ رہا تھا ایک تو میکپ سے سویرا کے حسن کو مزید نکھار دیا گیا تھا اوپر سے جائز رشتے کا استحاق سعد کے دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی ۔۔۔۔
" یہ کیا ٹھرکی پنا ہے ۔۔چھوڑو مجھے ۔۔"۔
سویرا نے ہمت کرکے سعد سے کہا اور اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کری لیکن سعد کی گرفت اس کے مزحمت کرنے سے اور مضبوط ہوگئی تھی
"ٹھرکی پن تو ابھی تک میں نے دیکھایا ہی نہیں ہے مسز سعد اور ابھی سے یہ لقب دے دیا ابھی کچھ کروں گا تو کیا دو گی پھر "
اس نے اسکے لبوں پہ انگلی پھیرتے کہا
یہ سنکر تو سویرا اندر تک کانپ گئی تھی سعد کی آنکھوں میں جزبات کا ایک سمندر تھا وہ سعد کی آنکھوں میں نہیں دیکھ پا رہی تھی اسکا چہرہ شرم سے مزید جھک گیا تھا
سعد اسکو کمر سے تھامے آگے بڑھ رہا تھا اور سویرا پیچھے ہوتی جارہی تھی حتی کہ وہ دیوار سے جا لگی تھی
سویرا خود کو دیوار سے جتنا چپکا سکتی تھی چپک گئی تھی ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیری اور پھر اپنے ماتھے کو اسکے ماتھے سے ٹکرا کر جزبوں کی شدت سے بھرپور آواز میں اہنے دل کی بات کہی
On our special day i want to say something to make you feel so special ...When you can not look on the bright side .i will sit on the dark ..when you are sad..i will kiss you ..when you cry .i will make you smile ..whenever you fell down ..i will make your support ...I keep loving you till the end of my life ......
I have you is the more precious present for me that i ever recieved .......you are my soulmate .my life my 1st love and also my last ....i will always be with you even at your wrost ...seeing you pleased make me pleased also .....i love you alot misses Saad ....
یہ کہتے ہوئے کئی بار سعد کے لب سویرا کے لب سے مس ہوئے تھے ۔
سعد کا لمس اور اسکا خوبصورت انداز میں اقرار عشق نے سویرا کو اندر تک سن کردیا تھا
سویرا کی آنکھیں بند تھیں
سعد نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ہٹاکر اپنے منہ زور جزبوں کو عملی جامعہ پہناتے ہوئےجھک کر اپنے لب پہلے سویرا کے دائیں گال پھر بائیں گال اور اسکے ماتھے پہ رکھ کر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کری تھی
اور کب کمرے سے چلا گیا تھا سویرا کو خبر نہیں تھی اسکا لمس وہ اب تک اپنے گال پہ محسوس کر رہی تھی اسکے جانے کا یقین کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھی
"افف سعد تم بہت برے ہو۔"
سویرا نے یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھ لیئے تھے اور اسکا چہرہ بلکل لال انار جیسا ہورہا تھا
"تم اس حد تک چاہتے ہو مجھے اندازہ نہیں تھا "
سعد کے کہے گئے الفاظ اسکو اب بھی اپنے کان میں گونجتے محسوس ہو رہے تھے ۔
وہ بے حد تھک گئی تھی آج ۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی رکھ کر اپنا دوپٹہ اتار کر وہ اپنے جوڑے کی پنز نکال رہی تھی اور ساتھ میں سوچ بھی رہی تھی
"حمدان نے کچھ نہیں کیا ہے انکی ضد ختم ہوگئی ہے یا پھر یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے میں کیوں اتنی بے سکون ہوں کیا کروں "
وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے کندھے پہ کسی کے ہاتھ محسوس ہوئے اور پھر آئینہ میں اسکا عکس
وہ حمدان کو دیکھ کر ایک دم اٹھی تھی اور مڑی تھی
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔کی۔۔۔۔کیسے ؟؟ اس نے دروازے کی جانب دیکھا وہ لاک تھا پھر اسکی نظر کھڑی کے کھلے پٹ پر پڑی جہاں سے وہ آیا تھا
"تم نے انکار نہیں کیا نہ ۔۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔اب جو میں کرونگا نہ وہ تم بس دیکھنا ۔۔۔تم یا مجھے اب کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔میں جو بھی کرونگا اب اسکی ذمہ دار بس تم ہوگی یہ تو بس منگنی یے اگر نکاح بھی ہوا ہوتا نہ وہ بھی توڑوادیتا کیونکہ تم صرف اور صرف میری ہو حمدان کی بےبی اینجل "
اسکا لہجہ انتہائی سرد اور سفاک تھا
امل ڈر سے کرسی سے چپک گئی تھی ۔۔۔ایک لفظ بھی وہ نہیں کہ پا رہی تھی اسکا دل دماغ سن ہوگیا تھا وہ منجمد ہوگئی تھی اپنی جگہ ۔۔۔۔۔
اسے خاموش پاکر اس نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکی ہاتھ سے چوڑیوں کو کھینچتے ہوئے نکالا اور پھینکتا گیا ۔۔۔۔۔
"یہ سجنا سورنا تمہیں اس کے لئے زیب نہیں دیتا ۔۔۔۔۔
بولتے ساتھ اس نے اسکی ہونٹوں پہ لگی لپسٹک کو اپنے انگھوٹے کی مدد سے صاف کیا جس سے اسکے سرخ ہونٹ گلابی ہوگئے تھے
ایک جھٹکے سے اسکے بالوں کا جوڑا کھینچا جس سے اسکا جوڑا ڈھیلا ہو کر اسےکی پشت پر بکھر گیا تھا
""یہ تیار ہونا ۔۔۔۔یہ پروڈکس لگانا ۔۔۔۔صرف میرے لئے کر سکتی ہو تم اور کسی کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔"
"یہ لاپا پوتی تم نے اس کے لئے کی یے نہ "
اس نے ایک نظر اسکی نمکین بھری آنکھوں میں دیکھا اور اگلے پل اپنی ہتھیلی کی پشت سے اسکا پورا لائینر پھیلا دیا
وہ مزحمت تک نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔وہ مسلسل اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے نرمی سے اپنے انگھوٹے کی مدد سے اسکے لبوں کو آزادی دلائی اور اسکے لب سہلاتے اس نے اپنا چہرہ اسکے قریب کیا اور کہا ۔۔۔۔"" نو ۔۔۔بےبی اینجل ۔۔۔یہ ظلم میں برداشت نہیں کرونگا ان لبوں پر "۔۔۔۔۔۔۔۔
"آ۔۔۔آپ ک۔۔۔۔۔کیوں ۔۔ک۔۔۔۔کر ر۔۔۔۔۔رہے ہی۔۔۔۔ہیں ی۔۔۔۔یہ س۔۔۔سب ۔۔۔۔۔"
اپنی منتشر دھڑکنوں کے ساتھ اس نے اٹکتے اٹکتے کہا
"میرے بس میں نہیں ہے یہ سب ۔۔۔یہ تو خودبخود ہورہا ہے تم کسی اور کی نہیں ہوسکتی "
اس نے بے بسی سے کہا
""دیکھیں اسے "۔۔۔۔۔اس نے اپنی رنگ دیکھائی ۔۔۔" میں کسی اور کی ہوگئی ہوں اور میرا نام بھی بہت جلد بدل جائے گا "
اس نے پیچھے ہٹتے کہا
اس بات نے حمدان کے غصے کو ہوا دی لیکن اس نے اپنا رخ امل پر سے ہٹا کر اپنے غصے پہ قابو کیا
"ایک بات یاد رکھو تم ۔۔میں کسی اور کا تمہیں ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔میں مانتا ہوں مجھے اقرار کرنے میں دیر ہوگئی یے لیکن ابھی پانی سر کے اوپر سے نہیں گزرا "
اس نے سمجھاتے ہوئے ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چہرہ تھامنا چاہا
اس نے ایک جھٹکے سے اسکے ہاتھوں کو پرے کیا ۔۔۔
"کیا سمجھا ہوا ہے نہ آپ نے خود کو ۔۔مجھے ۔۔یہ محبت کی باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن اسے نبھانا اتنا مشکل ہے ۔۔کہنا بہت آسان یے لیکن نبھانا اتنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔کوئی گیم نہیں ہے یہ ایک دفعہ ہار آگئے تو اگلی بار کوشش کر کے ونر کا مقام حاصل کر لیں گے"
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔۔۔۔۔
""پلززز جائیں یہاں سے ۔۔۔۔کسی نے دیکھ لیا تو میں ہی بری ثابت ہونگی ۔۔۔یہ محبت نہیں یے ۔۔یہ بیکار کی ضد اور پاگل پن ہے بسسس اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔پلززز۔۔۔۔جائییییییییییییییییں ۔۔۔۔۔۔۔۔""
وہ اسکے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ کر چیخی تھی اور باہر کی راہ دیکھائی تھی ۔۔۔آنسوں بل بل اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ آنسو تو اسکی کمزوری تھی وہ یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا لیکن پھر بھی دے رہا تھا ۔۔۔۔
"تم مانو یا مانو میں بے حد بے انتہاء تمہیں چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اتنا کوئی نہیں چاہ سکتا ۔۔۔۔اذہان بھی نہیں ۔۔۔اس نے تو ابتداء کی یے ابھی اور میں نے انتہا سے ابتداء کی ہے "
حمدان نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے لال آنکھوں سمیت دروازے کھول کر باہر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ غصے میں یہ بھول گیا تھا کہ وہ آیا کھڑکی سے تھا اور جا دروازے سے رہا تھا
حمدان کے جانے بعد وہ فرش پہ ہی بیٹھ گئی تھی اسکی آنسووں میں روانگی آگئی تھی وہ بار بار ہاتھ کی پشت سے اسے رگڑ رہی تھی لیکن ہر بار پہلے سے ذیادہ آنسو نکل پڑتے یہ آنسو ہی تو ہوتے ہیں جو ہمارے ہر اچھے اور برے وقت میں ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔
جب رو رو کر وہ تھک گئی تھی تو اس نے دھکتے سر درد کے ساتھ باتھ روم کی راہ لی تو آئینہ میں خود کو دیکھ کر ایک پل کے لئے وہ بھی ڈر گئی تھی
حمدان نے اسے چڑیل بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی بکھرے بال ۔۔۔مٹا مٹا میکپ ۔۔پھیلی لپسٹک ۔۔۔ادھورا لائینر ۔۔۔۔آنسو کے نشان ۔۔۔۔۔وہ کہیں سی بھی کچھ وقت پہلی والی امل نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو اس بھاری کپڑے سے آزاد کر کے اس نے لان کا سوٹ وئیر کیا اور اچھی طرح خود کو کمفرٹر میں ڈھانپتی وہ لیٹ گئی تھی اور روتے روتے سو گئی تھی وہ ۔۔۔۔۔۔
__________________________
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے کمرے میں جا کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا
آبرو جو جلے پیر کے بلی کی طرح گھوم رہی تھی اس نے حمدان کو امل کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا
"یہ کانٹا ابھی تک اٹکا ہوا ہے اس کو نکالنا بہت ضروری ہوگیا ہے "
غصے میں بڑبڑاتی آبرو نے اپنے کمرے میں جا کر اس نے کسی کو فون کال ملائی مسلسل ہونٹوں کو چباتی ادھر سے ادھر منڈلاتی وہ دوسری جانب سے کال پک ہونے کا انتظار کر رہی تھی لیکن مقابل شاید گھوڑے گدھے بیچ کر سویا تھا جو کال پک نہیں کر رہا تھا
اس کو ایک دم غصہ آیا ۔۔۔۔۔"ریلکس ۔۔تحمل ۔۔۔صبر ۔۔۔۔"۔خود کو کول کرتے ایک لمبی سانس لے کر اس نے کسی نمبر پہ ٹیکسٹ کیا اور فون بیڈ پہ اچھالتی خود بھی لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
اپنے کمرے میں آکر اس نے خود کو بیڈ پہ گرالیا تھا پیر اسکے نیچے لٹک رہے تھے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر اس نے تکیہ بنایا ہوا تھا اور سرخ آنکھیں چھت کو گھور رہی تھی
""میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔۔۔تم سے کئی ذیادہ اذیت میں میں ہوں ۔۔۔میری محبت جھوٹی نہیں ہے پاک ہے۔۔۔۔۔ تم میرے دل و دماغ پر کب قابض ہوگئی پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔میں نے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن یہ سن ہی نہیں رہا یے نہ دل راضی ہورہا ہے نہ دماغ ۔۔۔یہ بس تمہیں چاہتا یے۔۔۔ تمہیں اپنا کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔تمہیں بے چین کر کے میں خود کونسا سکون میں ہوں ۔۔۔۔۔تمہیں اس طرح دیکھ کر میں بھی اتنا بے چین ہوں۔۔۔۔۔۔۔"
دل میں حمدان امل سے مخاطب اسکو سوچ رہا تھا اسکی رات آنکھوں میں کٹی تھی نیند کا آجانا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔
_____________________________
صبح کے اجالے نے اندھیروں کو مات دے دی تھی اور چاروں طرف اپنی روشنی بکھیرے غالب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
""آرام سے اذہان دیکھ کر اتنی ہڑبڑی میں کہاں جا رہے ہوں "
شانزہ بیگم نے اسے ٹوکا
""اوو ہو موم میں کہیں جا نہیں بلکہ آرہا ہوں جاکنگ سے "
اذہان نے جوس گلاس میں انڈیل کر لبوں سے لگاتے ہوئے کہا
"وہ پیاری چڑیل نظر نہیں آرہی ہے ابھی تک اٹھی نہیں ہے کیا وہ "
اذہان نے پوچھا
"اذہان۔۔۔۔!!!! صحیح سے نام لو ۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے اسے ٹوکا
"میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں اور یہی کہوں گا ۔۔۔۔ابھی تک سورہی ہے کیا "
اس نے خالی گلاس ٹیبل پر رکھا
"ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے سورہی ہے اب تک ورنہ اب تک تو نیچے آجاتی آج تو یونی بھی جانا تھا اس نے "
صدف بیگم نے اسے جواب دیا
"یا یہ بھی ہوسکتا یے کہ وہ رات بھر تمہارے لئے میٹھے میٹھے خواب دیکھ رہی ہو یا کسی اور کے مطلب کچھ بھی اپنا فیوچر کہ کسکے ساتھ ہو ۔۔۔۔اور جبھی اب تک سورہی ہوگی کیونکہ رات بھر بزی جو تھی "
آبرو جو نیچے ہی آرہی تھی اس نے انکی بات سن کر کہا
""میں جگا کر آتا ہوں ۔۔۔صبح صبح اسکا مکھڑا نہ دیکھو تو عجیب لگتا ہے ورنہ تو روز صبح اپنا ٹیپ آن کر کے یہاں بیٹھی ہوتی ہے "
اس نے آبرو کی باتوں کو اگنور کرتے اپنی بات کہتے ہوئے اوپر کی راہ لی ۔۔۔۔۔
"میں بھی اسے دیکھنے ہی جارہی تھی ابھی "
صدف بیگم نے روٹی پلٹتے ہوئے کہا
اذہان کچھ سوچ کر لان کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک سرخ گلاب توڑ کر اس نے اوپر کی راہ لی ۔۔۔۔۔۔
___________________________
اسکے کمرے کے پاس آکر اس نے دروازہ ناک کیا ۔۔۔۔۔
"امل ۔۔۔۔
اس نے دوبارہ آواز دی ۔۔۔۔۔۔امل ۔۔۔۔۔
لیکن نو رسپونس ۔۔۔۔۔۔
اس نے لوک گھمایا تو وہ دروازہ انلوک تھا جو کھل گیا تھا
اس نے اندر جھانکا تو وہ اسے میٹھی نیند میں گم نظر آئی
""واہ بھائی میں ساری رات Excitement میں سو نہیں پایا اور یہ مزے سے گھوڑے بیچ کر سورہی ہے ۔۔۔ابھی بتاتا ہوا"
وہ کہتا ہوا آگے بڑھا اور اس گلاب کو اس چہرے پر پھیرا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی
اس نے اسے آواز دی لیکن جب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا
""ااووو امل چڑیل اٹھ جا ۔۔۔۔اتنا بھی نہ سو اب ۔۔کتنا سو گی "
اس نے اسے کندھے سے ہلاتے کہا
لیکن وہ ہنوز سو رہی تھی
"کمال ہے اتنا بھی اب نہیں سوتی ۔۔آج کیا سارے ریکارڈ توڑنے کا ارادہ یے طبعیت تو ٹھیک ہے "
اس نے کہتے اسکے چہرے پہ ہاتھ رکھا تو فوراً سے اپنے ہاتھ ہٹائیں ۔۔۔۔
وہ بخار میں تپ رہی تھی اذہان کو لگا اس نے گرم توے کو چھو لیا ہے
"اسے تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے "
کہتے ہوئے اس نے امل کو جنجھوڑا ۔۔۔۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔امل۔۔۔۔امل ۔۔۔امل . . .
کسمندی سے اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں
ہاں۔۔۔۔۔اس نے جلتی آنکھوں سے کہا
"تمہیں اتنا تیز بخار ہو رہا ہے یار امل "۔۔۔۔۔۔وہ فکر میں مبتلا تھا
"پتہ نہیں شاید رات سے ہے" ۔۔۔۔ اس نے لیٹے ہی کہا اٹھنے کی ہمت نہیں تھی اس میں
"کیا پتہ نہیں ۔۔کسی کو بلانا چاہئیے تھا نہ تمہیں کل رات ہی "
اس نے دوبارہ اسکا بخار چیک کیا
"میں نیند میں تھی کیسے بلاتی اور ابھی ہی اٹھی ہوں میں۔۔۔۔"
اس نے پھر اپنی آنکھیں بند کرلیں تھی
"بہت اچھا کیا ہے ۔۔۔تم نہ بلاو ۔۔۔میں بلا رہا ہوں سب کو "
وہ غصے سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا
اذہان۔۔۔۔۔رکو ۔۔۔۔۔اس نے اسے روکنے کی کوشش کی اور ہمت کر کے بیٹھی اور پیچھے تکیہ سے ٹیک لگایا ۔۔۔۔۔۔
تب اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے نوٹ پر پڑی ۔۔۔۔۔
اس نے اسے اٹھایا تو اس پر کچھ لکھا ہوا تھا
I Have Just One Wish That Is When I Get Up In Every Morning I Will. Feel The Sound Of Your Heartbeat And Breathe On My Neck And The Touch Of Your Lips On My Cheeks And Touch Of Your Hands On My Face …………And That Feeling I Could not Found With Any Other …….
Baby Angel ……
پڑھ کر اس نے اپنی خوفزدہ نظریں ادھر ادھر دوڑائیں شکر اذہان باہر تھا اور سب کو پکار رہا تھا یہ سب پڑھ کر اسے اپنے اندر خوف پھیلتا محسوس ہوا یہ سب کیا ہورہا تھا یہ ٹھیک نہیں ہے یہ غلط ہے یہ نہیں ہونا چاہیئے میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ غم و غصے سے اسکے اندر اشتعال کی ایک لہر دوڑی اور اس نے اس کاغذ کو اپنی مٹھی میں دبالیا تھا وہ غصے سے اپنی بند مٹھی کو دیکھ کر رہی تھی جب سب ہی گھر والے اسکے کمرے میں آئیں
"امل کیا ہوا میرا بچہ کیسا ہے "
صدف بیگم نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چھوا جو واقع تپ رہا تھا
اذہان نے انہیں تھرمامیٹر دیا جس سے انہوں نے بخار چیک کیا
"مجھے لگتا ہے اسے کل رات نظر لگ گئی یے لگ بھی اتنی پیاری رہی تھی میں ابھی اتارتی ہوں اسکی نظر "
شانزہ بیگم خود سے اخذ کرتیں نیچے کو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔
ارے شانزہ یہ نظر کچھ نہیں ہوتا ڈاکٹر کو بلاو ۔۔۔۔
بی جان نے امل کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
صدف بیگم نے تھرمامیٹر نکال کر اذہان کو دیا تو اس نے ابھی دیکھنا ہی چاہا تھا کہ حمدان جو شور سن کر یہاں آیا تھا اس نے اسکے ہاتھ سے تھرمامیٹر لیا اور خود چیک کیا
"اوو مائی گاڈ اسے تو ایک تو تین ڈگری بخار ہے "
حمدان کا یہ ردعمل اذہان نے بہت غور سے نوٹ کیا تھا ۔۔۔اس نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ اسے سب نے مبارکباد دی تھی لیکن اس نے نہیں دی تھی لیکن اس نے یہ سب نظر انداز کیا تھا وہ چھوٹی چھوٹی با