Rehnuma Tu Mera By Sahar Nisar

Rehnuma Tu Mera By Sahar Nisar

Rehnuma Tu Merat is the latest novel by Sahar Nisar. She has written many novels and beautifully expressed the feelings of all human beings. This novel expresses the complete face of our society. Two-faced people, difficulties, love, luck and many more.

↓ Download  link: 

[mks_button size=”medium” title=”Rehnuma Tu Mera By Sahar Nisar” style=”rounded” url=”http://raboninco.com/QQyi” target=”_self” bg_color=”#eaeaea” txt_color=”#ba903d” icon=”fa-download” icon_type=”fa” nofollow=”0″]

 

↓ Read Online 

 

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 13
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode 17
Episode 18
Episode 19
Episode 20
Episode 21
Episode 22
Episode 23
Episode 24
Episode 25
Episode 26
Episode 27
Episode 28
Episode 29
Episode 30
Episode 31
Episode 32
Episode 33
Episode 34
Episode 35
Episode 36
Episode 37
Episode 38
Episode 39
Episode 40
Episode 41
Episode 42
Episode 43
Episode 44
Episode 45
Episode 46
Episode 47
Episode 1

 

حمدان

حمدان ۔

۔حمدان ۔۔"

"حمدان یس۔۔۔۔۔۔"

یو کین ڈو اٹ۔۔۔۔۔"

گراونڈ کے چاروں طرف سے یہی آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔

بلیک جینس پہ بلیک ہی لیڈر کی جیکٹ پہنے اسپورٹس بائک پہ بیٹھے چہرہ کو ہیلمیٹ سے کور کئے فل کانفینڈنس کے ساتھ وہ مقابلے کےلئے تیار تھا ۔۔۔۔۔٣۔۔٢۔۔١ ۔کے ساتھ ہی ریس اسٹارٹ ہوئی ۔۔اور ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ اپنے مسمرائسنگ پرسینیلٹی کے ساتھ چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔اور اس بار کا فاتح بھی اور کوئ نہیں حمدان شیرازی ہی تھا

___________________________

""او شٹ دس مسڈ کالز ۔۔۔۔آج تو سچ میں گیا""

ابھی وہ بیڈروم میں آیا تھا اور اب نہا کر جیسے ہی باہر آیا تھا اپنے موبائل کی طرف نظر پڑتے ہی اسنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔۔ ۔۔

"کیا ہوا بوس۔۔۔۔۔"

اسی اثناء میں سعد کھانے کو ٹرے میں سجائے بیڈروم میں داخل ہوا تھا ۔۔۔

'کچھ نہیں گھر سے کالز ہیں یار"

حمدان نے موبائل بیڈ پہ واپس اچھال کر صوفے پہ رکھی ہاف آہستیں کی ٹی شرٹ جس کا رنگ سیاہ تھا۔۔۔ٹی شرٹ اٹھا کے اپنے کسرتی جسم پہ پہنی تھی۔۔

ہاہاہاہاہا۔۔۔

ڈیٹس ویری نائس برو۔۔۔

مطلب آج بھی ساری کالز مسڈ ہوگئیں ہیں۔۔۔۔"

۔سعد کھانے کھنے ٹرے بیڈ پہ رکھتا ہوا اپنی بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا. . ۔

"سعد کیا پاگل ہو گئے ہو ایسے کیوں ہنس رہے ہو ۔۔۔۔۔""؟

ہمیشہ غلطی سے ہی مسڈ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔"

حمدان کو سعد کا ہنسنا سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔ جب ہی وہ منہ کے زاویے بگاڑ کے بولا تھا۔۔۔ یہ سچ تھا کہ اسکے امپارٹنٹ کالز اکثر مسڈ ہوجاتے تھے لیکن وہ یہ سب جان بوجھ کے بلکل نا کرتا تھا۔۔

"you are an excellent bike rider ,good cooker ..included in top 10 ."...saad replied

لڑکیاں جس کے ایک اشارے کی دیوانی ہیں، اس سے دوستی کے بڑھائے ہوئے ہاتھ کے انتظار میں ہیں۔۔وہ الگ بات ہے تم کسی کو گھاس نہیں ڈالتے ۔۔۔۔۔۔وہ حمدان بھی کال مسڈ ہونے سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"

سعد کھانا پلیٹوں میں ڈالتا ہوا ہنسی ضبط کرکے بولا تھا۔۔۔یہ ہی وقت تھا جب حمدان کو غصہ آیا تھا۔۔

 

"'ادھر آ بتاتا ہوں ۔۔کہ کتنا ڈرتا ہوں میں'"

۔۔حمدان اپنی ازلی انداز میں کہتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا۔۔۔

""نہ نہ میں یہاں ہی اچھا لگ رہا ہوں ""۔۔۔۔۔سعد بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بول تھا۔۔ ۔۔

""You know ...its not fear ..its a respect for my parents ...for my family...،saad" ...hamdan replied in serious way ...""

"ہاں سمجھ گیا ۔۔۔میں تو مذاق کر رہا تھا بس ۔۔اچھایار اب۔۔ Dont show me your angry man face "

اور پلیز کھانا کھالے اس سے پہلے ٹھنڈا ہو جائے ۔اپنے آپ کو بعد میں سنوار لینا۔۔پھر بڑی ماما سے بات بھی کرنی ہے "۔۔۔

۔۔۔سعد حمدان کو دراز شیشے کے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔۔جس طرح وہ تیار ہورہا تھا سعد کو پتہ تھا کہ وہ کافی دیر لگائے فا

""ایک منٹ کیا میں تجھے گھاس سپلائر والا لگتا ہوں"" ۔۔۔۔حمدان سعد کی بات یاد کرتا ہوا کہتا ہے ۔۔

"نہیں حمدان" ۔۔۔۔۔سعد نے نارمل انداز میں کہا تھا۔۔۔

""تو یہ کیوں کہا کہ میں گھاس نہیں ڈالتا ""۔۔۔حمدان سعد کے قریب آکر اسے ایکمکا جڑتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔

"اوئے ہاتھ ہے یا ہتھوڑا اتنی زور کا مارتا یے ۔۔یہ مجھ معصوم پہ ظلم کرنے کے لئے اس شخص نے مارشل آرٹس سیکھے تھے" ۔۔۔۔۔۔۔سعد اپنا بازو سہلاتا ہوا غصے سے بولا تھا ۔۔

""شروع ہوگئ ڈرامہ بازیاں معصوم اور سعد شیرازی ""۔حمدان کا موڈ اب بہتر ہوگیا تھا ۔۔جب ہی اسنے سعد کی ٹون میں کہا تھا۔۔

 

"ہاں تو" ۔۔۔سعد معصوم سے شکل بنا کر رہ گیا تھا۔

""اچھا بس بس ۔۔اب کھانا اسٹارٹ کرتے ہیں۔۔۔۔۔پھر گھر کال کرنی ہے ""۔۔۔حمدان نے بات روکنا یہیں مناسب سمجھا ورنہ سعد کو روکنا تو ۔۔۔۔اففف۔۔۔۔

-------------------------------

پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ جہاز سازی بیڈ پہ ایک وجود چادر خود پہ ڈھانپے میٹھی نیند میں گم تھا ۔۔۔۔۔یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا ۔۔۔جسکا تھیم ڈارک اینڈ لائٹ پرپل تھا ۔۔۔دروازے سے اندر آو تو ایک سایہ سامنے موجود کھڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔جہاں سے پردے اب ہٹ چکے تھے ۔۔جس سے سورج کی روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی تھی۔۔۔

دوسرے سائڈ وال پہ ایک بڑی سی انلارج تصویر لگی تھی ۔۔۔جو یقینا اسی سوے ہوئے وجود کی تھی ۔۔۔۔اور اس ہیولا کا سایہ بھی اب اس تصویر پہ نظر آرہا تھا۔۔۔۔

وہ ہیولا اب اس وجود کے طرف بڑھ رہا تھا اور اب اسکے منہ سے اس نے چادر ہٹائی تھی ۔۔۔۔۔اور ایک چیز اس سوئے ہوئے وجود کے کانوں پہ سرسرائی تھی ۔۔۔۔

اممممیییی "۔۔۔۔۔اور اچانک ہی وہ وجود اب بیڈ سے اچھل کر چیخنے کے ساتھ کانپنے میں بھی مصروف تھی۔۔۔۔۔۔۔اس چیخ نے ہیولا کو اپنے کان پہ ہاتھ رکھنے پہ مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔۔

""بس بھی کرو لڑکی پورے گھر کو اوپر بھیجنا ہے ۔۔اتنی خوفناک چیخ۔۔۔افف""۔۔۔۔اس شخص نے تیز آواز میں کہا تھا۔۔

مرتضی ۔۔"۔تم" ۔۔۔

"ایسے جگاتا ہے کوئ نیند سے "۔۔۔

مجھے ہارٹ اٹیک آجاتا تو ۔۔۔۔۔۔"

 

اپنا سانس بہال کرکے بولنے کے ساتھ ساتھ اس نے بیڈ پہ پڑا تکیہ اس کو دے مارا تھا ۔۔جسے مرتضی نے بر وقت سائڈ ہو کر خود کو بچایا ۔۔۔۔۔۔۔

"اب بندہ ایسے گھوڑے ہاتھی بیچ کر سوئے گا تو ایسے ہی اٹھایا جاتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ہیولا (مرتضی)نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔

""جی نہیں بس ایک تم ہی ہو جو جان بوجھ کر اس طرح اٹھاتے ہو"

۔۔آخری دفعہ بھی مرتضی نے یخ ٹھنڈا پانی ڈال کر اسے نیند سے بیدار کیا تھا ۔۔۔۔۔۔پورے گھر میں مرتضی اسکے پیچھے پڑا رہتا تھا کہ کس طرح اسے پریشان اور تنگ کرنا ہے۔۔

 

۔۔۔۔""۔ایک تو ماما بھی پتہ نہیں اسے کیوں بھیج دیتی ہیں"" ۔۔۔۔۔امل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا تھا اور اپنے نازک سفید گداز پاووں میں دو پٹی کی سلیپر ڈالی تھیں۔

 

ہاہاہاہا ۔۔۔""

قسم سے ایسی میسنی شکل بناتے ہوے تم پوری چوہیا لگ رہی ہو ""۔۔۔۔مرتضی امل کو جلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا ۔۔ویسے بھی وہ اتنی نازک سی کسی گڑیا کی طرح تھی کبھی وہ چوہیا، تو کبھی دیوار پہ چپکی چھپکلی کہتا تھا.

 

آں۔۔۔""

"مرتضی اگر تم دو منٹ میں سے یہاں سے دفع نہیں ہوئے نہ تو شامت دیکھنا تم اپنی بس" ۔۔۔۔

میرے خیال سے بڑے پاپا تو آج گھر پہ ہیں ۔۔۔۔۔"

ڈوپٹہ اپنے گلے میں ڈال کر امل نے دھمکی سے کام چلایا تھا اس طرح تو وہ جانے والا نا تھا۔۔ ۔۔

"اچھا اچھا نہیں کہ رہا کچھ ۔۔نیچے آجاو ۔۔ بڑی امی بلا ری ہیں ناشتے پہ۔۔۔تمہاری وجہ سے ہمیں بھی انتظار کرنا پڑتا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتضی نے کہتے ہوئے اس کا پھینکا ہوا تکیہ اسے مارا تھا جو پورا امل کے چہرے پہ ٹھیک نشانے پہ۔لگا تھا۔۔۔ ۔۔بدلہ لینا تو اسکا حق تھا۔۔

"اللّہ ۔۔۔کرے۔۔۔

اللّہ ۔۔کرے۔۔مرتضی تم۔۔۔۔

تم فیل ہوجاو۔۔۔۔۔"

تکیہ اپنے چہرے سے ہٹاتی وہ روہانسی انداز میں بولی تھی۔۔کیونکہ یہ روئی سے بھرا تکیہ بھی ضرور اسکے چہرے کو نقصان کو پہنچا چکا ہوگا۔۔۔

"کتنا لال چہرہ ہوگیا ہے"

تکیہ ہٹا کر اسنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تھا۔۔۔۔جو سرخ ہورہا تھا۔۔۔۔۔

"تم سے تو مرتضی بعد میں بدلہ لونگی"

وہ ارادہ بناتی باتھروم کی طرف چل دی تھی۔۔

______________________________

یہ ہیں مس امل سدا کی ڈرپوک ۔۔۔۵ فٹ ٢ انچ ہائٹ گوری رنگت۔ گلابی ہونٹ۔ ہیزل آنکھیں ۔ کمر سے ایک انچ اوپر تک لمبے برائون بال ۔نازک سراپہ۔ معصوم سی خواہشات رکھنے والی ۔چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈر جانے والی ۔۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوجانے والی ۔۔۔دنیا کی چالاکیوں سے دور ۔۔۔گھر والوں کی لاڈلی۔۔شیرازی ولا کی جان و رونق ۔۔۔۔۔گھر میں شیرنی اور باہر بھیگی بلی ۔۔۔جسکا یونی میں پہلا سال ہے ۔۔اور جو کہ آجکل اپنے فرسٹ سیمسٹر کے پیپر دینے میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔

_____________________________

سعد اور حمدان دونوں ایک سے نائٹ ڈریس پہنے کونیوں کے بل الٹے لیٹے لیپٹوپ کی طرف متوجہ تھے۔۔جہاں انکی امی جان سکرین پہ نظر آرہی تھیں۔۔۔۔

""حمدان مجھے مزید کچھ نہیں سننا ۔۔تم اب پاکستان آ رہے ہو ۔۔۔۔بیس سالوں سے دور ہوں تم سے ۔۔اب مزید نہیں""

یہ کہتے ہوئے انکے آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے تھے۔۔

"تم یہاں بھی بزنس اسٹارٹ کر سکتے ہو ۔۔۔۔۔بلکہ اسٹارٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے یہاں تمہارے بابا کا اپنا بزنس ہے تم وہ چلانا" ۔۔۔۔۔۔۔

"ماما پلز روئیں تو نہیں ۔۔۔۔اچھا میں کچھ سوچتا ہوں اس بارے میں " ۔۔۔۔۔حمدان کو اپنی ماں کا رونا بلکل اچھا نا لگا تھا۔۔۔۔وہ بہلاتے ہوئے بولا۔تھا۔۔۔

"بڑی ماما میں تو اس لنگور کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ چلتے ہیں پاکستان ۔۔

لیکن یہ اور میری سن لے ۔"

۔کبھی وہ دن آئے گا یا نہیں یا میں نے بڈھا ہی ہو جانا ہے اس خیال میں کہ کب پاکستان جا کر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سوونگا۔۔۔۔"۔

۔۔سعد جو کب سے خاموش بیٹھا ان دونوں کو سن رہا تھا ۔۔اس سینٹی ماحول کو ختم کرنے کیلئے اس نے ایسا کہا۔۔۔۔جس سے امی جان کے لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہے ۔۔۔۔وہ خود پاکستان جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔اپنے ماں باپ کو وہ بہت مس کرتا تھا۔

لیکن وہ ہنسی فوراً غائب کرکے وہ حتمی انداز میں یہ کہہ کر لائن کٹ کر دیتی ہیں کہ اب حمدان جب پاکستان آنے کےلئے مان جائو گے جبہی بات ہوگی ۔۔۔۔اور حمدان تو ارے ارے کر کے ہی رہ گیا تھا۔۔۔ماں کا یہ رویہ تو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔اور سعد حمدان کی خود پہ گڑھی نظروں کو جانچتے ہوئے کمرے سے یہ جا وہ جا ۔۔کیوں کہ جو گوہر افشانی اس نے کچھ دیر پہلے کی تھی حمدان نے اسکا کرارہ جواب تو دینا تھا نہ ۔۔۔۔لیکن قسمت اچھی تھی جو بچ گیا ۔۔۔۔۔

اور حمدان بھی کسی سوچ میں گم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Episode 2

حمدان اور سعد بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ کزنز بھی تھے ۔۔۔۔سعد حمدان سے ایک سال چھوٹا تھا لیکن دونوں کلاس فیلو تھے ۔دونوں اپنی ابتدائئ تعلیم مکمل کرکے لندن آگئے تھے ۔۔دونوں پڑھنے کے ساتھ ساتھ جوب بھی کر رہے تھے

لندن میں وہ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں جو تھا تو چھوٹا لیکن ہر طرح کی آرائش سے مکمل اور رہنے والوں کی ذوق کا گواہ ۔۔۔

ان کی پڑھائ تو مکمل ہو چکی تھی ۔لیکن انہوں نے اپنی جاب continue رکھی تھی

۔دونوں نے بزنس ایڈمینسٹریشن میں اپنی ڈگری مکمل کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب یہاں ہی بزنس سیٹ کرنے کی کوشش میں مبتلا تھے۔۔

___________________________

حمدان شیرازی ۔۔۵ فٹ ١٠ انچ ہائٹ بھوری آنکھیں۔ ایک جاذب نظر شخصیت کا مالک ۔۔مضبوط اعصاب ۔۔سرخ و سپید رنگت ۔۔ فرینچ داڑھی ۔۔گھنی مونچھوں تلے پیوست لب ۔۔ سنجیدہ طبعیت غصہ تو ہمیشہ ناک پہ ۔۔ لڑکیاں جسکی دیوانی لیکن وہ ان سب سے بے پرواہ ۔۔۔۔جسکا ایک ایم ہے ایک گول ہے ۔۔۔۔ایک سعد ہی ہے صرف جو اس سے اتنا فری ہوکر بات کرلیتا ہے ۔۔۔ورنہ کسی میں اتنی ہمت نہیں ۔۔۔۔۔۔

سعد شیرازی ۵ فٹ ١٠ انچ ہائیٹ۔ٹھنڈا مزاج شوخ طبیعت کا مالک تھا۔۔۔گڈ لکنگ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حد سے زیادہ کئرنگ بھی تھا۔۔لیکن حمدان کو زچ کرنے کا کوئ موقع جانے نہیں دیتا تھا۔۔یہاں بھی وہ حمدان کا خیال بلکل چھوٹے بچوں کی طرح رکھتا تھا اسکے کپڑوں سے لے کر کھانے کا خیال وہ کرتا تھا۔۔۔

 

_________________________________

وہ کسی خیالوں کے تحت مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر آئی تھی جب سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے ایک زور دار تصادم ہونے کے باعث اسکا وجود ان بیلنس ہوا تھا۔۔ ۔مقابل اگر اسے بازو سے پکڑ کر نہ سنبھالتا تو امل تو بل کھاتی سیڑھی سے نیچے جاتی ۔۔۔۔

امل کے بال کھلے ہوئے تھے جو کہ مقابل کے شرٹ کے بٹن میں الجھ گئے تھے ۔۔۔۔

""یہ جو دو آنکھیں ہیں کبھی انکا صحیح استعمال بھی کر لیا کرو ۔۔۔۔ایسے تو بہت جاسوسی ہوتی ہے تم سے۔۔""

اگلا بندہ تو فل تپہ وا تھا اسکے بال نکالنے کے ساتھ ساتھ وہ اسے سنانے میں بھی مصروف تھا۔۔

"""۔اذہان تم ہر وقت مرچیں کیوں چبائے رہتے ہوں ۔۔کبھی تحمل سے بات کر لیا کرو اگر مجھے نظر نہیں آیا تو تمھیں کونسا آگیا ۔۔""

۔درد ہونے کی وجہ سے امل اسکے قریب تھی ۔۔۔امل کو اسکے اتنے قریب ہونے پر عجیب لگ رہا تھا اپنی جھینپ مٹانے کے لئے اسنے اسے الٹا ہی جواب دیا ۔۔

۔۔"اور تم تو بغیر چبائے ہی مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرتی رہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔"

مقابل نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں وی تھیں ۔۔

۔۔۔امل کوئ جواب دیتی اذہان اسکے بال نکال کر یہ کہ کر آگے بڑھ گیا کہ اسکا ابھی لڑنے کا کوئی موڈ نہیں ہے ۔اسکا اٹیٹیوڈ دیکھ کر تو وہ چونک سی گئی تھی۔۔اسکے سامنے سے وہ اس طرح سے کیسے جاسکتا ہے۔

۔جیسے امل تو ہمیشہ اس سے لڑتی ہی رہتی ہے ۔۔۔

"تم سے تو ازہان ، تم سے بھی ایک ایک حساب برابر کرونگی ۔۔

اب صرف مرتضی ہی نہیں تم سے بھی حساب لینا ہے"

۔امل نےبھی سیڑھیوں سے لاونج میں آنے تل بعد میں بدلہ لینے کا ارادہ تہیہ کرلیا تھا

۔ یہ منظر دو آنکھوں نے بڑے غور سے دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکرادیا ۔۔۔۔

امل نیچے آئی تو بی جان لائونج میں صوفے پہ بیٹھی تھیں ۔۔

"ارے میری بی جان کیا ہو رہا ہے "۔۔۔۔۔امل بھی کہتی ہوئی انکے برابر میں آکر بیٹھ گئ ۔تھی۔۔۔

 

"کچھ نہیں میری گڑیا ادھر آ بالوں میں تیل لگائوں ۔۔اتنے روکھے ہو رہے ہیں" ۔۔۔آسیہ(ملازمہ) کو آواز دے کر انھوں نے تیل منگوایا ۔۔۔

 

۔۔پاس بیٹھی شانزہ بیگم بھی دادی پوتی کے پیار کو دیکھ کر مسکرادی ۔۔۔اور ہمیشہ اس گھر کی خوشیوں کےلئے دل میں دعا کی لیکن ہر گھڑی قبولیت کی تو نہیں ہوتی ۔۔

۔۔۔۔۔

"بی جان رائمہ آنی کب آئنگی ؟؟ اتنے دن ہوگئے ہیں" ۔۔۔۔امل نے بالوں میں تیل لگواتے پوچھا ۔۔۔۔

 

"ہاں بیٹا دن تو ہوگئے ہیں اس ویکنڈ آئے" ۔۔۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بی جان بول کر دوبارہ مالش کرنے میں مصروف ہوجاتی ہیں ۔۔

_______________________________

سعد کچن کے کام نبٹا کر کمرے میں آیا تو حمدان کو سوچوں میں گم دیکھتا ہوا اسکے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔۔

۔۔۔"کیا سوچتا رہتا ہے تو ہر وقت کہیں کوئ بم شم بنانے کا توارادہ نہیں ہے" ۔۔۔۔۔

"سعد تو کبھی سیرئس بھی ہو جایا کر "

۔حمدان سعد کو سنجیدہ لہجے میں کہتا ہے۔۔۔۔ابھی وہ واقعی ہی سوچوں میں مصروف تھا

"اچھا بتاو کیا ہوا ۔۔"

کن سوچوں میں گھم ہو۔۔۔"

۔سعد نے اسکی سنجیدہ شکل دیکھی تو بولاکن سوچوں میں گم تھا

۔۔اب وہ بلکل سیرئس ہوگیا تھا لیکن آنکھوں میں شرارت صاف جھلک رہی تھی ۔۔

۔۔"یار مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ پاکستان جاوں یا نہیں ۔۔۔۔۔

ماما بھی ناراض ہو گئ ہیں اور میں یہاں سے جانا بھی نہیں چاہتا""

۔۔۔۔ حمدان نے اسے جواب دیا تھا۔

""تو ایک کام کر وہ جو لڑکیاں نہیں کرتی گلاب کے پھول کی پتیوں کے ساتھ he likes me or not ? تو بھی وہی کرلے میں پاکستان جاو یا نہیں ۔۔کہو تو گلاب لے آو ۔۔۔۔۔۔""

سعد سے تو سیدھی بات کی توقع کر ہی نہیں سکتا تھا حمدان ۔۔۔

"سعد اگر تو میرے پیارے پیارے ہاتھوں سے پٹنا چاہتا ہے تو سیدھا بولدے ۔۔ویسے بھی بڑی خارش ہو رہی ہے ۔۔۔""حمدان نے سعد کو بلکل سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔

۔حمدان عمل کرتا اس سے پہلے سعد بول پڑا ""اوکے بی سیرئس حمدان تمہارا جو بھی فیصلہ ہو یہاں یا پاکستان رہنے کا میں تمھارے ساتھ ہوں "۔۔۔۔۔۔

"ویسے کہوں تو پاکستان جانے کا میرا بھی دل ہے ۔۔۔اپنوں سے بہت دور ہیں ہم" ۔۔۔۔

 

"ہاں دل تو میرا بھی کر رہا ہے ۔۔کچھ سوچتے ہیں" ۔۔۔۔۔۔حمدان نے مسکرا کے کہا تھا۔۔

"اب آپکے اینگری فیس پہ مسکراہٹ آ ہی گئی ہے تو پلیز ایک کپ کافی بنا کے لے آو میرے لیے"

سعد زرا آگے کو جھک کر بیڈ کی ڈراز سے اپنا لیپ ٹاپ نکالتا ہوا بولا تھا۔۔. .

"میں کوئی کافی نہیں بنارہا اور نا ہی میں کچن میں جارہا"

حمدان اپنے موبائل پہ فوراً ہی گھم ہوگیا تھا۔

"واٹ دا ہیل حمدان۔۔۔

میں صبح سے لے کر شام تک سوری رات تک تمہارے سارے نخرے اٹھاتا ہوں اب بھی میں. نے ڈنر ریڈی کیا تمہیں کھلایا ، اب کچن چمکا کر آیا ہوں، تم میرے لیے ایک کپ کافی نہیں بناسکتے"

 

اسنے جو لیپ ٹاپ کی سکریں کھولی تھی حمدان کے جواب پہ فوراً پٹک کے دے ماری تھی۔۔اپنا پیش و قیمت کا لیپ ٹاپ سعد نے اس غصے سے بند کیا تھا کہ حمدان تو حیران رہ گیا تھا۔۔۔

 

"برو۔۔۔کول۔۔۔۔کام داون۔۔۔

ہم دونوں کے لیے میں کافی بناتا ہوں۔۔۔

سوری بے بی۔۔۔۔۔بس فائٹ منٹ دو مجھے"

 

حمدان لیٹے سے اٹھ بیٹھا تھا اور اسکا احساس کرتا ہوا اسکا غصے سے دھواں دار چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تھا سعد کو وہ کبھی کبھار ہی تیز آواز میں بات کرتے سنتا تھا۔۔

 

"ہاں دفع ہوجاو یہاں سے۔۔۔مجھے سلائیڈز ریڈی کرنی ہیں، پین کلر بھی لانا ساتھ سر میں درد ہے مجھے"

 

وہ۔واپس لیپ ٹاپ کی سکرین اٹھاتا ہوا سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔جبکہ حمدان موبائل کو ساتھ لیے کمرے سے نکل گیا تھا۔۔

 

"پیار سے تو سنتا نہیں ہے۔۔۔

سالہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کچن میں گیا ہے اب گھنٹے بعد آئے گی میری کافی۔۔۔۔"

 

وہ اب انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پہ چلاتا ہوا خود سے بولا تھا۔۔

 

۔حمدان اور سعد پچپن سے یہاں تھے لیکن کوئی بری عادت نہیں تھی ان میں ۔۔۔۔۔ ۔۔حمدان کا ماننا تھا بندے کو ڈیپینڈینٹ نہیں انڈیپینڈنٹ ہونا چاہئیے ۔۔

اسی لئے اس نے جوب بھی شروع کردی تھی ۔۔۔۔

جس میں سعد بھی اس سے متفق تھا ۔۔۔۔

 

________________________

 

ہاشم (آغا جان) اپنے کمرے میں کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جب امل ان کےلئے چائے لےکر آتی ہے

۔"۔آغاجان چائے "۔۔۔۔رات کے کھانے کے بعد وہ اکثر چائے پیتے تھے ۔۔۔۔۔

"ارے میرا پیارا بچہ "۔۔۔۔۔۔۔آغا جان امل کو نظر اٹھا کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں تو امل انکے گلے لگ جاتی ہے ۔۔۔

 

"میری گڑیا کے امتحان کیسے جا رہے ہیں ۔۔۔؟"آغا جان امل کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔

 

"آغا جان بہت اچھے آپ سب کی دعائیں ہیں ۔۔ابھی تو ایک ہی پیپر ہوا ہے"" ۔۔۔امل پاس رکھی کرسی پہ بیٹھتی ہوئی کہتی ہے ۔۔

 

"اچھا جاو اب سو جاو ۔۔۔پڑھنے نہ بیٹھ جانا ۔۔۔۔۔اتنی کمزور ہو گئ ہو "۔۔آغا جان امل سے کہتے ہیں ۔۔

۔۔۔۔"میرے پیارے آغاجان ۔۔۔آپ کو میں ہمیشہ کمزور لگتی ہوں ۔۔۔۔۔یہ دیکھیں میں بلکل ٹھیک ہوں "۔۔امل انھیں گھوم کر دیکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور کھلکھلا کر ہنستی ہے

۔۔اور امل کی یہیں مسکراہٹ تو ہاشم شیرازی کی جان

ہے ۔۔۔۔

امل کے جانے کے بعد سامنے دیوار پہ لگی تصویر( جس میں وہ کرسی پہ بیٹھے وے ہیں اور امل انکے گلے میں ہاتھ ڈالیں کھڑی وی ہے) ۔۔۔۔کو دیکھتے ہوئے اٹھارا سال پیچھے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ہاسپیٹل کے کاریڈور میں ہاشم شیرازی اور باقی گھر والے بھی بےچینی اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے ۔۔۔

۔اندر آپریشن تھیٹر میں انکی بہو زندگی اور موت سے لڑ رہی تھی۔۔

۔۔۔ڈاکٹر نے ماں اور بچے کی کنڈیشن سیرئس بتائی تھی

۔۔اور یہ کہ دونوں کا بچنہ مشکل ہے ۔۔۔۔۔

 

لیکن اللہ نے ان پر کرم کیا ۔۔۔۔اور انھیں ایک ننھی پری سے نوازا اور ماں اور بچے دونوں کو صحتیاب رکھا

۔۔۔ہاشم شیرازی کی سالوں کی خواہش اور تڑپ کو آج قرار ملا تھا

۔۔۔۔انکی اپنی کوئ بیٹی نہیں تھیں اور نہ ہی بہن ۔۔۔

 

۔انھیں لگتا تھا کہ اللہ ان سے ناراض ہے جبہی انکے یہاں اپنی رحمت نہیں بھیجی ۔۔

۔۔۔اسی لے انھوں نے ایک بیٹی کو adopt کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔جسکا نام رائمہ رکھا تھا ۔۔۔

۔۔انھیں لگا آج اللہ ان سے راضی ہو گیا ہے

۔۔۔۔اور انھوں نے اللہ کا شکرادا کیا اور اس ننھی پری کا نام امل رکھا ۔۔۔

جوانکے سب سے چھوٹے بیٹے کی اولاد تھیں اور شادی کے ۵ سال بعد ہوئ تھی ۔۔۔۔۔۔اور اس دن سے امل ہاشم ولا کی آنکھوں کا تارا اور سبکی جان بن گئی تھی۔۔۔۔۔????

ہاشم شیرازی ایک مہزب اور سلجھے ہوئے شخص تھے ۔۔۔۔۔اور انکی بیگم فرزانہ بیگم بھی انھی کی طرح سلجھی ہوئ تھی ۔۔۔۔۔انکا اپنا بزنس تھا۔۔۔۔۔۔۔

انکے تین بیٹے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بڑا بیٹا حماد شیرازی جسکی بیوی انعمتہ اور دوسرا بیٹا حارث شیرازی جسکی بیوی شانزہ ہیں ۔۔۔۔۔ان دونوں بیٹوں کی شادی ساتھ ہوئی تھی ۔۔۔۔اور ان دونوں میں ایک سال کا ہی فرق تھا ۔۔۔۔۔حماد صاحب کے دو بیٹے ہیں ۔۔بڑا بیٹا حمدان شیرازی اور چھوٹا بیٹا مرتضی شیرازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن دونوں بھائیوں کے مزاج ایک دوسرے سے بلکل الٹ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حارث شیرازی کے بھی دو بیٹے ہیں ۔۔۔۔۔بڑا بیٹا سعد شیرازی اور اور چھوٹا بیٹا اذہان شیرازی

حمدان جب آٹھ اور سعد جب چھ سال کا تھا تو یہ دونوں لندن چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاشم شیرازی کی تیسرے اور سبسے چھوٹے بیٹے حنین شیرازی جو اپنے دونوں بھائیوں سے ۴ سال چھوٹے ہیں ۔۔انھوں نے اپنی کلاس فیلو صدف سے شادی کی تھی ۔۔۔۔انکی ایک ہی بیٹی امل شیرازی ہے ۔۔

جو کی انکی شادی کے ۵ سال بعد ہوئی تھی ۔

امل ویسے تو مرتضی اور اذہان سے ٧ سال چھوٹی ہے ۔۔لیکن امل انھیں نام سے ہی پکارتی تھی۔۔۔بچپن سے اسکے عادت نام لینے کی تھیں آغا جان نے بھائی بلوایا بھی تو وہ نام ہی لیتی تھی جو عادت اسکی اب تک ہی ہے ۔

۔مرتضی اور امل ایک دوسرے سے لڑتے بھی بہت ہیں لیکن ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے ۔

ہاشم شیرازی نے اپنے تینوں بیٹوں کے بیچ محبت قائم رکھی تھی اور یہ تینوں بھائی ایک ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔

۔حماد صاحب کے غصے اور رعب سے گھر میں سب ڈرتے تھے خاص طور پہ مرتضی اور اذہان ۔۔۔ سوائے امل کے کیونکہ یہ تو سبکی لاڈلی تھی ۔۔۔۔۔

مرتضی اور اذہان کے اب آفس جوائن کرنے سے حماد صاحب اب گھر میں رہتے تھے

 ۔لیکن حارث اور حنین شیرازی آفس جاتے تھے ۔۔

ہاشم شیرازی کو سب" آغاجان" ۔۔اور فرزانہ شیرازی کو سب" بی جان" کہتے تھے۔

حماد صاحب کو سب بچے" بڑے پاپا" اور انعمتہ بیگم کو "بڑی ماما" ۔۔اسی طرح حارث صاحب کو" بڑے ابو "اور شانشزہ بیگم کو بڑی امی" کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حنین صاحب کو سب" چھوٹے ابو" اور صدف بیگم کو "چھوٹی امی" کہتے تھے ۔۔۔۔

 

Episode 3
حماد صاحب آج آفس جانے کے ارادے سے تیار ہو رہے تھے جب انعمتہ بیگم انہیں کوٹ پہناتے ہوئے کہا ۔۔"آپنے حمدان سے بات کی وہ آرہا ہے پاکستان" ۔۔۔۔۔۔
""میں نے بات کی ہے اسکا وہی رہنے کا ارادہ ہے تو میں زبردستی نہیں کرسکتا ۔۔وہ بچہ نہیں ہے ۔شروع سے وہاں رہا ہے تو اسکا آگے کا کیا پلین ہے میں اس میں اپنا مشورہ دے سکتا ہوں زبرستی نہیں کر سکتا یا اپنی مرضی تو نہیں تھوپ سکتا ۔۔ماشاءاللٰہ سے وہ سمجھ دار ہے اسکا فیصلہ ٹھیک ہی ہوگا "
حماد صاحب نے تحمل سے جواب دیا تھا
"آپ باپ ہیں اسکے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن میں نہیں وہ پاکستان آئے گا واپس میں نے کہ دیا ہے "
انہوں نے حتمی انداز اپنایا
"آپ بات کو سمجھنے کی کوشش کریں وہ اب میچیور ہے ہماری انگلی پکڑ کر تو اب نہیں چلے گا نہ آپ ضد نہ کریں کہیں وہ بدظن ہی ہوجائے "
انہیوں نے سمجھاتے ہوئے کہا
انعمتہ بیگم کو تو غصہ ہی آگیا تھا وہ اتنی کوشش کر رہی تھی اور حماد جی تو ساری کوشش پہ پانی پھیر رہے تھے ۔۔اور وہ ایک غصیلی نظر ڈال کر بغیر کچھ کہے ایک آستین پہنائے بغیر ہی کمرے سے چلی گئی تھی
""ارے بیگم کوٹ ہی مکمل پہنائ جاتی" ۔۔۔۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ بھی اپنے بیٹے سے دور رہ سکتے تھے لیکن ضد بھی نہیں کر سکتے تھے انہیں پہلے اپنے بیٹے کی خوشی عزیز تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
--------------------------------------
حارث اور شانزہ بیگم تو حمدان کے ضدی اور غصے سے واقف تھے اور انہیں سعد کا پتہ تھا اگر حمدان نہیں آئے گا تو وہ بھی کھبی نہیں آئے گا کیونکہ وہ دو جسم ایک جان تھے اس لئے وہ خاموش ہی تھے اور فیصلہ ان پہ ہی چھوڑا تھا
_________________________
"صدف آپ نے ہمارے کپڑے استری کروادئیے"
حنین صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے تو اپنی بیگم کو سوچوں میں گم پایا ۔۔انہوں نے صدف کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انکو اپنی طرف متوجہ کرایا
"ہاں۔۔۔ آپ کب آئے "۔۔۔۔؟ انہوں نے چونکتے ہوئے کہا
"جب آپ میرے خیالوں میں گم تھی" ۔۔۔۔حنین نے انہیں،۔۔۔ انکی بات کا جواب دیا ۔۔۔۔۔
لیکن ان کو پریشان دیکھ کر انہیوں نے صدف کو کندھوں سے تھام کر اپنی طرف موڑا اور کہا
" اتنے سال گزار لئے آپ کےساتھ ۔۔آپ کو آپ سے ذیادہ جانتا ہوں" ۔۔"اب بتائیں کیا بات ہے "۔۔۔۔؟
"کچھ خاص نہیں میں بس امل کے بارے میں سوچ رہی تھی"
وہ پریشان لہجے میں کہتی ہے
"امل کے بارے میں ایسا کیا سوچ رہی ہے جو اتنی فکرمند ہیں آپ" اب تو حنین صاحب کو بھی فکرمندی لاحق ہوگئی تھی
"وہ بہت معصوم اور سادہ ہے دنیا کی بےرحمی نہیں جانتی اسنے ہمیشہ محبت دیکھی ہے کبھی اکیلی باہر نہیں گئ ایک پل بھی ہمارے بغیر نہیں رہی ہمیشہ تو اچھلتی کودتی رہتی ہے کل کو اگر اسکی شادی ہوتی ہے تو کیسے رہے گی"" ۔۔۔۔۔۔۔
صدف نے فکر مندی سے حنین سے کہا
""یہ اچانک امل کی شادی کہاں سے آگئی " انہیں بات سمجھ نہیں آئی تھی
"آج صبح ایسی ذکر نکل گیا تھا اسکی شادی کے متعلق وہ تو روہانسی سی ہوگئی تھی بعد میں اسے بہلایا لیکن آج نہیں تو کل اسکی شادی تو ہونی ہے " صدف بیگم نے دور کی سوچتی یہ بات کہی
"آپ فکر کیوں کرتی ہیں جو ہوگا اچھا ہوگا انشاللہ جب اسکی شادی ہونی ہوگی تو دیکھی جائے گی اب ہی تو ویسے بھی پڑھ رہی ہے ۔۔سبکی فکر ہے صرف میری نہیں ہےکبھی ہماری حالت بھی دیکھ لیا کریں""
حنین نے بات کا رخ موڑتے ہوئے انکو دل بہلانے کے لئے بیچاری سی شکل بنا کر کہا
"کیا ہوا آپکو" وہ ایک دم سب بھلائے اپنے شوہر کی جانب متوجہ ہوگئیں اور انکے قریب بھی ہو گئیں تھی جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے صدف کو اپنے گھیرے میں قید کر لیا اور کہا مجھے نہ vitamin you کی کمی ہوگئ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جب تک صدف کو انکی چالاکی سمجھ آئی جب تک تو انکی گرفت مضبوط ہو گئی تھی
"یہ کونسی مووی دیکھ لی ہے آپ نے جو یہ ڈائیلوگ بازی ہورہی ہے " حنین صاحب سے انہیں اس طرح کی بات کی امید نہیں تھی
"کیا بیگم اتنا اچھا موڈ ہے اور آپ کو ڈائیلاگ لگ رہا ہے سب پتہ لگ جاتا ہے "
اپنا حصار توڑتے انہوں نے کہا
"کیونکہ میں جانتی ہوں کہ یہ آپکا ڈائیلگ نہیں ہے " انہوں نے جتاتی انداز میں کہا
"ابھی ایل ای ڈی پہ پتہ نہیں کوئی شو تھا یا مووی اس پہ دیکھا " وہ اٹھتے کہتے ہیں کیونکہ انہیں آفس کے لئے دیر ہو رہی تھی
اور وہ اپنے مقصد میں تو کامیاب ہوگئے تھے صدف بیگم کا ذہن واقعی منتشر ہوگیا تھا
---------------------------------------------
امل یونی پہنچ کر متلاشی نظروں سے ادھر ادھر اپنی ایک اکلوتی دوست پلس ہمدرد سویرا کو ڈھونڈ رہی تھی جو کہ رائمہ کی نند بھی تھی
جب امل کی آنکھوں پہ اچانک پیچھے سے کوئی اپنی انگلیاں رکھتا ہے جسے وہ محسوس کرکے فورا سمجھ جاتی ہے کہ یہ سویرا ہے ۔۔۔۔۔
"سویرا یہ کیا تم ہر وقت ڈراتی رہتی ہو ۔۔۔ہر وقت ایک نئے انداز سے سامنے آتی ہو" ۔۔۔۔۔امل نے اسکا ہاتھ اپنی آنکھوں پر سے ہٹاتی ہوئے کہا۔۔
"کیونکہ جاناں میں آپکا ڈر ختم کرنا چاہتی ہوں میری کپ کیک" ۔۔۔سویرا امل کو پیار سے کپ کیک کہتی تھی
"ہاں ڈرا کر کب سے ڈر کرنے ختم ہونے لگ گیا کونسی کتاب میں لکھا یہ ہے "
امل نے دونوں ہاتھ باندھ کر بنھویں اچکا کر پوچھا
"میری کتاب میں لکھا ہے اور کہاں لکھا ہو سکتا ہے " اس نے امل کے پھولے گال کھینچتے ہوا کہا
"آپ تو بہت بڑی مصنفہ ہیں کتاب بھی ہے جسکا بندے کو رہنے دو فرشتے تک کو علم نہیں ہوگا " امل نے اپنا گال سہلایا جو کہ ہلکا سرخ ہوگیا تھا
"یار تم میری اس طرح آنلائن بےعزتی نہیں کر سکتی تم مجھے underestimate کر رہی ہو لڑکی " سویرا نے منہ بنا کر کہا
"اب بندہ خود ہی اپنی بے عزتی کروانا چاہ رہا ہے تو کیا کرا جائے " امل نے اپنے ہاتھوں کو گھماتے کہا
""دیکھنا تمہاری بھی باری آئی گی اور میں بھی ٹھیک بدلہ لوں گی ۔۔امل تمہارے پیچھے ۔۔۔۔۔۔۔
سویرا کہتی کہتی رک گئی تھی اور چہرے کے ایکسپریشن بھی ایک دم بدل گیا تھا
"کی۔۔۔کیا۔۔۔ہ۔۔۔۔ہے پی۔۔۔۔۔۔پیچھے "؟ امل اپنی جگہ فریز ہو گئی تھی
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔"حالت دیکھوں اپنی ڈر نہیں لگتا شکل ایسی بن گئی جیسے سچ میں کوئی ڈریکولا سامنے آگیا ہو" سویرا اپنی ہنسی کو بریک لگایا
"سویرا تم اب بچ کو دیکھاو مجھ سے میرا سانس اٹک گیا تھا " امل نے اسکے جانب بڑھتے کہا
"اوکے آئی ایم سیلینڈر " سویرا نے پیچھے ہوکر دونوں ہاتھ اوپر رکھ کر کہا
"پتہ ہے تمہیں اس وقت تم کسی ڈریکولا سے کم نہیں لگ رہی ہو " امل نے حساب چکتا کیا
"یہ غلط بات ہے امل اتنی پیاری شکل ہے میری تم کس سے ملا رہی ہو " سویرا کو بلکل یہ بات پسند نہیں آئی تھی
"ہاں تو تم بھی نہ ڈرایا کرو " امل ابھی بھی کچھ ڈری ہوئی تھی بلکہ اسنے تو پیچھے مڑ کر تصدیق بھی کی تھی
" میں تو تمہارا ڈر ختم کرنا چاہتی ہوں لائف میں بہت کچھ اکیلے بھی فیس کرنا پڑتا ہے کیسے کرو گی ہھر ہمیشہ کوئی ساتھ نہیں ہوتا " سویرا نے اسکو سمجھاتے کہا
"تم جانتی ہوں سویرا میری طاقت گھر والے ہیں مجھے بہت ڈر لگتا ہے سب سے میں کبھی اکیلی نہیں رہی ہمیشہ اذہان مرتظی کوئی نہ کوئی ہوتا ہے یہاں بھی تم ہو نہ میرے ساتھ " ۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے دھیمے لہجے میں کہا
"اچھا چلو کلاس کا ٹائم ہوگیا ہے اس بارے میں بعد میں بات کرتے ہیں "کیونکہ امل اداس ہوگئی تھی
وہ امل کا ہاتھ پکڑتی کلاس کی جانب بڑھی
امل کو کہیں بھی اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی وہ
یونی بھی ڈرایئور کے ساتھ آتی جاتی تھی ۔۔اور آج تک نہ وہ شاپنگ یا گھومنے اکیلے گئ۔۔ مرتظی اذہان یا گھر کا کوئی نہ کوئی میمبر ہوتا یہی وجہ تھی کہ اسکی کوئی دوست بھی نہیں تھی ۔کیونکہ جو گروپ تھا وہ اکثر آوٹنگ پہ جاتا اور امل منع کردیتی ۔۔اور وہ امل کو ممی گرل کہ کر مذاق اڑاتے تھےاور کہتے جاو "" بےبی فیڈر پیو "" ۔۔۔۔لیکن سویرا نے انکو اچھا سبق سکھایا اور وہ امل کے ساتھ ہی رہتی تھی ویسے بھی سویرا اور امل ایک دوسرے کے لئے کافی تھے
ہاشم صاحب کوئ نیرو مائینڈ انسان نہ تھے بس امل کے بارے میں حد سے حساس تھے ۔۔۔۔
----------------------------------------------
اذہان کال پہ بات کر رہا تھا جب مرتظی اسکے کیبن میں فایئل لےکر آیا تھا اور اذہان کے بات کرنے کہ انداز سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی لڑکی سے بات کر رہا ہے
ایک شدید اشتعال کی لہر اسکے اندر دوڑی جسے وہ ضبط کرگیا
کال کٹ ہونے پر اسکرن پہ لڑکی نمبر ١٠ کا نام جھلملتا دیکھ کر جسکا ابھی میسج آیا تھا وہ مزید چونک گیا تھا اور اپنا غصہ کنڑول کرنا اب مشکل تھا
"اذہان تمہیں کب سمجھ آیئگی یہ جو لڑکیوں کے جزبات سے کھیلتے ہو ٹھیک نہیں کرتے ہماری بھی ایک بہن امل ہے اگر اسکے ساتھ "۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی کہتے کہتے رک گیا تھا
۔۔۔"امل کہاں سے آگئی وہ ان جیسی لڑکیوں کی طرح نہیں ہے خبردار جو تم نے انکے ساتھ امل کو ملایا اور رہی بات ان لڑکیوں اگر کسی دن میں کال یا بات نہ کروں تو نا جانے کتنی بار میرا موبائیل بجتا یے"" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کا نام سن کر وہ غصے سے بولا تھا۔۔
"اذہان ہر لڑکی ایک جیسی نہیں ہوتی تم اگر سبکے ساتھ ٹائم پاس کر رہے ہو ضروری نہیں ہے کہ ہر لڑکی بھی یہں کر رہی ہو کیا پتہ کسی کے جذبات سچے ہوں اور انکی آہیں برداشت نہیں کر پاو گے"
مرتظی نے اسء ٹھیک ٹھاک سنایا
"کیا مطلب ہیں بد دعا کا میں کچھ غلط نہیں کرتا بس وقت گزاری کرتا کوں اور وہ بھی یہی کرتی ہیں "
اذہان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا
"تم کوئی نجومی ہو جسے ہر لڑکی کا پتہ ہے وہ وقت گزاری کر رہی ہے یا نہیں " مرتظی کو اذہان کی بات بلکل پسند نہیں آئی تھی
پلز سنبھل جاو اذہان لیکن تمہیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔وقت سمجھایا گا نہ جب تو روتے ہوئے میرے پاس آو گے اور یاد رکھنا میرا کندھا ہمیشہ میسر رہے گا "۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے مرتظی اسکے کیبن سے جانے کے لئے مڑا تھا
جب اذہان اسکے رستے میں آیا اور کہا
""میں نہ باہر جا رہا ہوں تم سنبھال لینا یار بڈی ہے نہ میرا "
اور ہمیشہ کی طرح مرتظی کا جواب سنے بغیر واک آوٹ کر گیا تھا
مرتظی چاہتا تو گھر پہ بتا سکتا تھا لیکن اس سے اذہان کی آزادی ختم ہو جاتی اور سنبھلنا اسے پھر بھی نہ تھا اسلیئے اسنے وقت پر چھوڑ دیا کیونکہ کچھ لوگوں کو جبتک سبق نہ ملے وہ نہیں سنبھلتے اور اذہان بھی ان میں سے ہی تھا
---------------------------------------------------------
"آج تو تھکا دیا اوپر سے جیب بھی خالی کروادی پوری مارکیٹ لینے کا ارادہ ہے اتنے گھنٹے تو عورتیں بھی شاپنگ میں نہیں لگاتی جتنا تم لگاتے ہو بندہ کیا کیا نہ کرلے کم از کم کچھ نہیں تو میری نیند ہی پوری ہو جاتی پتہ نہیں اس بیچاری کا کیا ہوگا جو اسکی قسمت میں ہوگی ۔۔۔
تم نہ ایک کام کرنا شادی بیرو کھولنا اور لڑکی پسند کرنا لیکن اسکا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا پسند جبتک تمہیں کوئی آے گا میرج بیرو بند ہی ہو جانا ہے ۔۔۔۔
۔میری جیب میں تو کچھ نہیں بچہ اب کھانا کھلا اچھا سا۔food court کی طرف بڑھتے ہوئے سعد کی دہایئاں عروج پہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان تو اس ناٹک باز کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا ساری شاپنگ حمدان نے اپنے جیب سے کی اور سارے بیگز بھی اسے کے ہاتھ میں تھے ڈرایئو وہ کر کے آیا سعد تو بس بیٹھ کر اور چل کر تھک گئے ۔۔۔۔
سعد کی قسمت اچھی تھی کہ حمدان کے ہاتھ فری نہیں تھے ورنہ آج تو سعد کو سبنے پٹتا ہوا دیکھنا تھا ۔۔۔۔
""میری چھوڑ اپنا سوچ مجھے تو ابھی سے اس پہ ترس آرہا ہے جو تیرے ساتھ اپنی قسمت پھوڑی گی بیچاری کو اتنا کنجوس اور سست انسان ملے گا"" ۔۔۔۔۔۔حمدان نے اپنی جگہ سنبھالتی ہوئی بات مکمل کی
آفس جانے کےلئے جبتک حمدان سعد پہ پانی نہ ڈالیں وہ اٹھتا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
""اوو correct the sentence اسکی تو قسمت ہی کھل جایئگی سعد شیرازی جیسا ہینڈسم بندہ اسکو ملے گا یہ کیا کم یے"" ۔۔۔
اس نے کہا
"ہاں اس نے تمہارے ہینڈسم ہونے پہ ہی فدا ہوجانا ہے یہ کم۔نہیں بہت ذیادہ ہے بھلے ہی تم سست ہو کاہل ہو لیزی ہو کنجوس ہو یہ سب کوئی میٹر نہیں کرتا بس ہینڈسم ہونا ضروری ہے " حمدان نے مصنوئی طنز کیا
"تم یہ کہو میرے looks سے جل رہے ہو تم " سعد اپنی بے عزتی کہاں کرواسکتا تھا بولنے کے ساتھ اسکی ہنسی بھی چھوٹ گئی تھی
حمدان نے سعد کو اس طرح سے دیکھا کہ اس نے اپنی ہنسی کو بریک لگایا اور کہا "" بیکار تھا ""
"جی پہلی والے سے بھے ذیادہ بیکار تھا مجھے جلنے کے لئے اور کچھ نہیں ملا تیری لکس سے جلوں گا " حمدان نے اپنا موبائیل نکالتے کہا جہاں کچھ مس کالز تھیں جو وہ پھر مس کر چکا تھا
"تو کس سے جلے گا پھر وہی بتا دے" سعد نے اپنی فضول گوئی جاری رکھی تھی
"اتنا تو عورتیں بھی نہیں بولتیں جتنا تم بولتے ہو زبان کو تھوڑا آرام دو اور کانوں کو سکون دینا چاہیئے میرا پیٹ تمہاری بک بک سے بھر گیا ہے اور ابھی کسی کو بھوک لگ رہی تھی شاید میرے خیال سے اب نہیں لگ رہی گھر چلنا چاہیئے ""
حمدان نے جوابی کاروائی کی ۔۔۔۔
ارے میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو سیرئس ہوجاتے ہو" ۔۔۔۔۔سعد نے ایک پل بھی دیر کئے بغیر ویٹر کو آواز دی ورنہ حمدان کا کیا پتہ واقع میں ہی گھر چلا جائے اور کھانا سعد کو بنانا پڑ جائے
""اچھا تم نے فلائیٹ بک کرادی تھی " حمدان نے موبائیل پہ ٹائیپنگ کرتے ہوئے کہا تھا
ہاں کرادی تھی ۔۔۔سعد نے کہتے ہوئے ویٹر کو آرڈر دیا
"بل تم پے کرو گے حمدان " سعد نے حمدان کو پہلے ہی بتانا ضروری سمجھا تھا
""اوکے" حمدان نے نارمل انداز میں جواب دیا
حمدان کا اتنے آرام سے راضی ہوجانا سعد کو کھل رہا تھا کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی
جب ویٹر بل لینے آیا تو حمدان نے بڑے مزے سے سعد کے والٹ سے پیسے نکال کر ویٹر کو دئیے اور سعد صرف شکل دیکھتا رہ گیا
"ڈیش انسان تو نے والٹ کب نکالا یہ میرا ہی ہے نہ " سعد نے اپنی پاکٹ چیک کری والٹ نہیں تھا کیونکہ حمدان کے پاس اسکا ہی والٹ تھا
"جب تم اپنی بک بک میں مشغول تھے میں نے نکال لیا تھا " حمدان نے اسکے فیس ایکسپریشن انجوائے کرتا ہوا اپنا کارنامہ بتایا
""یاد رکھنا میں بھولا گا نہیں یہ بدلہ لے کر رہوں گا " سعد اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر حمدان کو انگلی دیکھا کر سارے بیگز چھوڑ کر واک آوٹ کرگیا
جب حمدان نے بھی جلدی سے سارا سامان اٹھایا اور اسکے ہم قدم ہوا اور کہا "" میں نے سہی کہا تھا تو کنجوس ہے ""
سعد کو رہ رہ کر دکھ ہورہا تھا کیونکہ اس نے اچھا خاصا آرڈر کیا تھا ۔۔
__________________________
""آج تو تھک گئی میں سارے کلاسس آج ہونی ہوتی ہیں " سویرا نے مین گیٹ کی طرف چلتے چلتے کہا
""ہاں " امل نے بھی اسکا ساتھ دیا
"وہ دیکھو امل تمہیں آج اذہان بھائی لینے آئیں ہیں کتنے اچھے لگ رہے ہیں اوو تم دونوں کی تو سیم میچنگ بھی یے کچھ پروگرام ہے کیا " سویرا نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
امل نے سامنے دیکھا جہاں اذہان گلاسس لگائے بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا وہ کار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا تھا
""اس نے اپنی نظر آس پاس دوڑائیں لیکن اسے ڈرائیور کہیں نظر نہیں آیا " اسکا موڈ آف ہوگیا تھا
""نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے کوئی پروگرام نہیں اور اتنا غور نہ کیا کرو اتفاق سے ہوگئی ہوگی اور یہ آج تمہیں کیوں اچھا لگ رہا ہے ہمیشہ سے ایسا ہی نظر آتا یے " امل نے سویرا کی طرف گھوم کر کہا
"کیا ہوگیا امل میں تو ویسی ہی کہ رہی تھی تمہیں برا لگ رہا ہے انہیں اچھا کہنا یا میں کہ رپی ہوں تو برا لگ رہا ہے " سویرا نے اپنی آنکھیں گھماتے کہا
"مجھے کیوں برا لگے گا کوئی کچھ بھی کہے۔۔۔۔۔
"اوکے سی یو کل ملتے ہیں "امل سویرا سے الوداعی کلمات ادا کر کے کار کی طرف مڑی تھی جہاں اذہان کھڑا ہوا تھا
امل کو قریب آتا دیکھ کر اس نے موبائیل سائیلینٹ میں لگاکر اپنی کوٹ کی پاکٹ میں رکھا اسکا ارادہ تو لڑکی نمبر دس سے ملنے کا تھا لیکن وہ اپنا ارادہ ترک کرتا ہوا خان بابا کو منع کرتا ہوا یونی آگیا تھا کیونکہ اسے امل سے بات کرنی تھی
"کیوں آئے ہو تم لینے مجھے اور خان بابا کیوں نہیں آئے " امل نے اذہان سے کہا
"کیوں میں نہیں آسکتا کیا " اذہان نے اپنے گلاسس اتارے اور امل کو پہناتے ہوا کہا
"مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا " امل نے اپنا منہ دوسری طرف کرکے کہا
""کیوں نہیں جانا میرے ساتھ " اذہان نے اسکا چہرہ اپنی طرف گھمایا
امل نے اسکا ہاتھ جھٹکا اور کہا " کہہ دیا نہ "
اذہان کو اسکا ہاتھ جھٹکنا برا لگا تھا اور اس نے کار کا گیٹ کھولا اور سخت لہجے میں کہا "" بیٹھو""
امل ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی
Episode 4
" امل اگر تم دس سیکنڈ تک نہیں بیٹھی تو میں خود بیٹھادوں گا جو یقیناً پسند نہیں آئے گا تمہیں " اذہان نے دھمکی سے کام چلایا
" امل اسکو ہٹاتی بیٹھی اور زور سے دروازہ بند کیا ""
اذہان بھی ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور اسٹئیرنگ سنبھالا
"کہاں جارہے ہو ازہان۔۔۔یہ گھر کا راستہ تو نہیں"
اذہان کو جب امل نے دوسرے راستے پہ موڑ لیتے دیکھا تو اس سے کہا تھا۔۔""
امل کو بہت سارے راستوں کا تو نہیں لیکن یونی سے اپنے گھر تک کا راستہ اچھی طرح معلوم تھا جو یہ تو ہر گز نہیں تھا
اذہان نے امل کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ کار ایسے چلا رہا تھا جیسے اسکے ساتھ دوسرا کوئی وجود نہیں ہے
امل کو غصہ آگیا تھا کہ وہ اسے اگنور کر رہا ہے وہ غصے میں اسٹئیرنگ پکڑ کر گھمانے لگ گئی تھی جس سے گاڑی ڈس بیلنس ہوگئی تھی
اذہان نے اسٹئیرنگ سنبھالتا کار کو سائیڈ پہ کر کے اچانک ایک جھٹکے سے بریک لگایا جس سے امل کا سر ڈش بورڈ سے لگتا کیونکہ اس نے غصے میں سیٹ بیلٹ نہیں لگائی تھی لیکن اذہان اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ڈش بورڈ پہ رکھا اور اسے محفوظ کرلیا تھا
""یہ کیا حرکت ہے امل اگر ایکسیڈینٹ ہوجاتا تو " اذہان نے غصے سے کہا
"" تمہارے ساتھ کیا مسلہ ہے اذہان " امل نے بھی غصے میں کہا
یہ تو مجھے پوچھنا ہے کہ کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ یوں اگنور کیوں کر رہی ہوں مجھے کیا کیا ہے میں نے بتانا پسند کریں گی " اذہان نے اپنا لہجہ نارمل رکھا تھا کیونکہ امل ڈر گئی تھی جو ابھی ہوا تھا
اذہان نے سوچا تھا کہ وہ کسی ہوٹل جاکر آرام سے امل بات کرے گا اس سے وجہ جانے گا لیکن جو اس نے کیا ابھی اسکے بعد اس نے ارادہ ترک کردیا تھا لیکن بات تو کرنی تھی اب اسے
"مجھے گھر جانا ہے " امل نے مدھم لہجے میں کہا
"پہلے اپنے رویہ کی وجہ بتاو پھر گھر جائیں گے ناراض مجھے ہونا چاہئیے پھنسایا تم نے تھا اور ہو خود گئی ہو " اذہان نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا
""تم نے مجھے جاسوس کہا پھر چڑیل پھر مینڈک کی طرح ٹر ٹر کرتی ہوں یہ آنکھیں ہے کسی کام کی نہیں ہے کیونکہ میں انکا سہی استعمال نہیں کرتی " امل منہ پھلا کر انگلی پہ گن گن کر اذہان کی غلطیاں گنوا رہی تھی
اذہان تو امل کی شکایتیں سن کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا وہ پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا اور بات کیا تھی
""افف لڑکی ڈرادیا تم نے تو ٹھیک ہے اگر میں نے یہ سب کہا تو تم نے بھی تو بدلہ لیا پورا حساب برابر کیا ہے اور ویسے ہی گال اتنے پھولے ہوئے ہیں انکو مزید غبارے کی طرح پھلا لیا ہے تم نے"
اذہان نے امل کے گال کھینچتے کہا تھا
میرے گالوں کو کچھ نہ کہا کرو ۔۔۔امل اپنا گال سہلاتی ہے دن میں نہ جانے وہ کتنی بار اپنے گالوں پہ یہ ظلم برداشت کرتی تھی
"ہاں تمہارے بالوں کو کچھ نہ کہو تمہارے گالوں کو کچھ نہ کہو تو پھر بتادوں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں " اذہان نے سیٹ سے ٹیک لگاتا کہا ہے اسکا موبائیل وابرئیٹ ہونے لگا تھا جسے اس نے اگنور کیا ہوا تھا
ہاں تو میرے بالوں کو چڑیل سے مشابہت دو گے تو میں کہوں گی نہ اور ہاں تم نے آغا جان کو صبح یہ کیوں کہا کہ میں کہیں نہیں جاو گی پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہے ہونگے تمہاری باتوں پہ مسکرا رہے تھے اور گھور بھی رہے تھے تمہیں "" امل نے یاد آنے پہ کہا
"اب ایسا کیا کہ دیا اور آغا جان کیا سوچ رہے ہونگے تم نہیں جانا چاہتی نہ تو میں نے تمہارا ساتھ دیا ہے " اذہان کو امل کی بات سمجھ نہیں آئی تھی
""کچھ نہیں چھوڑو اسے اور سوری کہو مجھے ان سب کے لئے جو کہا ہے " امل نے بات کو ٹالا اسے نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ اذہان کو کیسے سمجھائے
""پھر تو تم بھی کہوں گی چھپکلی " اذہان نے اس کے دبلا پتلا ہونے پہ چوٹ کیا تھا
اذہان ۔۔۔۔۔۔امل نے اسکا نام کچکچا کر لیا تھا
""اچھا سوری "" ازہان نے امل کے دونوں کانوں پکڑ کر کہا اسکی عادت تھی جب بھی وہ امل کو مناتا سوری اسے کے کان پکڑ کر کہتا تھا
"صرف سوری سے کام نہیں چلے گا تم مجھے چاکلیٹ بھی دلاو" امل نے لاڈ سے کہا
""اتنی چاکلیٹ کھاو گی تو اسی کے جیسا رنگ ہوجائے گا پھر تو واقع میں کوئی اپنے گھر لیکر نہیں جائے گا ساری زندگی ہمارے پیسوں پہ عیش کروں گی " اذہان نے دکھی انداز میں کہا
""ہاں تو میں کہیں نہیں جاونگی اور تمہارے پیسے خرچ نہیں ہوتے بابا کے ہوتے ہیں " امل نے اسکو یاد دلایا
"ہاں تو وہ میرے چھوٹے ابو ہیں " اذہان نے بھی اسکو یاد کرایا
""ہاں تو میرے وہ بابا ہیں " امل نے بھی اسکو باور کرایا
"لیکن تمہارے بابا بعد میں پہلے میرے چھوٹے ابو بنے ہیں "" اب بولو جواب دو چپ کیوں ہوگئی اور ابھی چاکلیٹ آپ میرے پیسوں کی کھائیں گی اذہان نے اسکو چڑاتے ہوئے کہا تھا
امل کے پاس اسکا جواب نہیں تھا تو اس نے اذہان کے بازو میں اپنی کونی ماری
""آہ ظالمہ اتنی زور سے ماری ہے گوشت تو ہے نہیں صرف ہڈیاں ہیں " اذہان نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا
"جیسے تم تو ننھے چوزے ہوں جو ذرا سی چوٹ بردا شت نہیں کر سکتے " امل نے بھی اسکو اسکے جیسا جواب دیا
"وہ تو تم ہوں " اذہان نے کار مین روڈ میں لاکر کہا
اذہان۔۔۔۔۔۔۔امل نے چبا کر اسکا نام لیا تھا
"اچھا بابا سوری " اذہان نے ایک ہاتھ اسٹیرنگ پہ رکھ کر ایک ہاتھ سے امل کا کان پکڑتا کہا تھا
انکی نوک جھونک چلتی رہنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"خان بابا جلدی گاڑی نکالیں" ۔۔۔۔
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے آواز بھی دی
اس وقت اسنے بلیک کلر کی پلین فراک پہ لال رنگ کا حجاب کور کیا ہوا تھا
"امل آرام سے" ۔۔۔۔۔
صدف بیگم نے اپنی تیزی سے سیڑھیاں اترتی بیٹی کو دیکھ کر کہا
"افف میری پیاری امی جان "۔۔کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔
I am getting late
امل نے انکے گلے میں اپنے ہاتھ ڈال کر کہا
اچھا کم از کم یہ دودھ پیتی جاو
انہوں نے امل کے سامنے دودھ کا گلاس رکھا
۔۔۔۔۔۔امییییی۔۔۔۔
امل کو دودھ خاص پسند نہیں تھا جب ہی اس نے نفی میں اپنا سر ہلایا
No arguments ..finish it hurry up
انہوں نے امل کی ایک نہیں سنی
""امل بٹیا پی لے ورنہ تمہاری ماں جانے نہیں دیگی "
بی جان جو چائے پی رہی تھی امل کو دیکھ کر انہوں نے کہا
""بی جان یہ غلط ہے آپ اپنی پارٹی بدل لیتی ہیں میری ٹیم میں ہیں یا ماما کی "
امل نے روٹھے پن سے کہا
"امل جلدی ختم کرو خان بابا انتظار کر رہے ہیں "
صدف بیگم نے امل کو ٹوکا
اوکے" ۔۔۔ جلدی سے ایک ہی سانس میں سارا دودھ ختم کرکے وہ تیزی سے مین ڈور کی طرف بھاگی ۔۔۔
آآاآآں۔ں""سامنے سے آتے شخص سے ایک زور دار ٹکر سے امل کو تو جیسے دن میں تارے نظر آگئے۔۔۔۔
اس نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو ایک اجنبی شخص کو اپنے گھر دیکھ کر اسے حیرت ہوئی
جبکہ وہ شخص اسکو دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے میں جٹا ہوا تھا
?"...who are you"
اس لئے اس نے اپنا ماتھا سہلاتے کہا
"If the same questions i ask to you ."..
اس شخص نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے ہوئے اپنے ازلی انداز میں پوچھا۔۔
میں ۔"۔؟امل نے اپنے طرف اشارہ کرکے پوچھا
یقینا آپ مجھ سے مخاطب ہیں تو میں بھی آپ سے ہی ہوں ""۔۔۔اس شخص نے اپنے رعبدار لہجے میں کہا
"what do you mean by that ."..
"یہ میرا گھر ہے ۔۔۔اور آپ یہاں کیا رہے ہیں" ۔۔۔امل نے اسکا دماغ ٹھکانے لگانا ضروری سمجھا ۔۔
یہ بھی میرا ہی گھر ہے" ۔۔۔اس شخص نے کہا ۔۔
کیییییا "۔۔۔یہ آپکا گھر کیسے ہو سکتا ہے ۔۔۔کیا ثبوت ہے ۔۔
کوئ غلط فہمی ہوئی ہے یقینا آپکو" ۔۔۔امل نے جواب دیا۔۔
اوو ۔۔۔ثبوت ۔۔۔""۔آپکے پاس کیا ثبوت ہے ۔۔کہ یہ آپکا گھر ہے ""
۔وہ شخص اسے اسکی ہی باتوں میں پنسھا رہا تھا ۔۔۔
"میں آپ کو کیوں ثبوت دوں"" ۔۔۔۔امل نے جنجھلا کر کہا
"تو میں بھی آپکو ثبوت دینے کا پابند نہیں ہوں ۔۔۔۔got it"
اس شخص نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھ کر کہا ۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک الگ چمک تھی ۔۔امل اس سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہی تھی اسے اپنا آپ لاجواب ہوتا محسوس ہوااوپر سے اسکا کانفیڈنس اب امل کو ڈر لگنے لگا تھا زبان تو اسکی ویسے بھی مرتظی اور اذہان کے سامنے چلتی تھی
امل نے دیری کا سوچتے ہوئے اور یہ کہ گھر میں اور بھی لوگ ہیں جو ڈیل کر لیں گے
۔۔"کوئی شرم ہی نہیں ہے ایسے ہی منہ اٹھا کر کسی کے بھی گھر گھس آئیں ۔۔اور اس پر سے سینہ زوری تو دیکھو"" ۔۔۔
۔یہ بڑبڑاتی ہوئی وہ اسکو نظر انداز کرتے ہوئے جھٹ سے گاڑی میں آکر بیٹھ گئ ۔
اور یہ اس شخص کے کانوں سے مخفی نہ رہ سکی اس سے پہلے کہ وہ اسکے گوہ افشانی کا کوئی جواب دیتا گاڑی فراٹے بھرتی ہوئ آگے بڑھ گئ ۔۔
"ہائے اللٰہ جی یہ کیسے ہوگیا " امل نے جب اپنا سانس بحال کر کر سامنے شیشے میں دیکھا تو دنگ رہ گئی
اس کے جلدی دودھ پینے کی وجہ سے مونچھ بن گئی تھی
جلدی سے اس نے ٹشو پیپر نکال کر اسے صاف کیا اور کہا "" جب ہی وہ ہنس رہا تھا امل تم نے تو اپنا مزاق بنوالیا
______________________________________
کیا ہوا حمدان ایسے کیوں کھڑے ہو اور یہ رنگ کیوں بدلہ ہوا ہے
سعد نے اندر آتے ہوئے حمدان کا سرخ چہرہ دیکھ کر کہا
"نہیں کچھ نہیں آو اندر چلیں" ۔۔۔۔حمدان کہتا ہوا اندر کی جانب بڑھا تھا
اصل میں اس کو اپنی اگنورنس اور یہ ترکی پہ ترکی جواب دینا پسند نہیں آیا تھا اسے لگا کہ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نے اس کی بے عزتی کردی یے
سعد گاڑی سے سامان نکالنے میں گم تھا جبہی وہ امل اور حمدان کی ملاقات سے انجان تھا۔۔۔۔۔
_____________________________
حمدان اور سعد نے پاکستان آکر سبکو surprise کردیا تھا بی جان تو ان دونوں کی بلائیں لیے جا رہی تھی
سعد اور حمدان باری باری ساری خواتین سے گلے ملے
انعمتہ بیگم نے انہیں کہا کہ بتا کر آتے تاکہ ہم سب تیاری کرکے رکھتے
جس کہ جواب میں سعد نے کہا" اگر بتا کر آتے تو اتنی خوشی کیسے دیکھتے "۔
حمدان اور سعد کو اپنی سر زمین پہ آکر اور سب سے مل کر انکے دلوں کو سکون ملا تھا
آج اتفاق سے مرتظی اور اذہان گھر پہ تھے اور سارے مرد آفس گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے فورا حارث صاحب کو کال ملائی اور خوشی کی نوید سنائی
مرتظی اور اذہان بھی بہت خوش تھے اور دونوں نے ایک ساتھ کہا
۔۔۔۔۔""ہیلو برادرز ""۔۔۔۔۔۔
مرتظی پہلے سعد اود پھر حمدان کے گلے لگا اور کہا . . "" بھائی کہنے کی کوئی امید نہ رکھنا دو ہی سال بڑے ہو ""۔۔۔۔۔۔۔اور حمدان تو یہی سوچتا رہ گیا تھا ایک سعد کم تھا جو دوسرا بھی آگیا ۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی کی سعد سے تو کئ دفعہ بات ہوئی تھی لیکن حمدان سے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد اور حمدان تھے تو بھائی لیکن ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے حمدان بلکل آغا جان کی طرح تھا جبکہ مرتظی انعمتہ بیگم سے ملتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"آو تم دونوں کو کمرہ دکھاو ۔۔فریش ہو جاو ۔۔۔۔۔so follow me" مرتظی یہ کہ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور خواتین بھی انکے پسند کے کھانا بنانے میں جٹ گئی تھی
___________________________
حمدان کمرے میں داخل ہوا تو اس نے ہر چیز کو ستائیشی نظروں سے دیکھتا
ہر چیز سلیقے سے سیٹ تھی پورا کمرہ اسکے پسند کا تھا ۔۔۔۔۔۔بلو اور گرے تھیم میں ایک طرف گلاس ڈور تھا جہاں بالکنی تھی اور بیڈ کے سامنے والے وال پہ لکڑی کا خوبورت سہ شیلف بنا ہوا تھا جسکے بیچ میں led اور باقی سایئڈ پہ مختلف قسم کے شوپیس کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی تھی اور جسکے برابر میں ڈریسنگ روم تھا ۔۔۔۔۔۔
حمدان کو ایک پل بھی نہیں لگا یہ سمجھنے میں کہ یہ کام سعد کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہے اور حمدان نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا جسے سعد نے مسکرا کر سر کو خم دےکر قبول کیا۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے مرتظی کو کہ کر اپنے اور حمدان کا روم سیٹ کرایا تھا سعد حمدان کی choosy nature سے اچھی طرح واقف تھا کیونکہ اسے کوئی بھی چیز اتنی آسانی سے پسند نہیں آتی تھی ۔۔
___________________
امل یونی سے آئی تو گھر میں ہلچل دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔وہ مین دروازے سے اندر آئی تو سب لوگ لاوئنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔
حمدان اور سعد کی پشت امل کی طرف تھی تو امل انہیں نہیں دیکھ پائی اور اپنا بیگ اچھال کر وہ آغا جان کے سامنے ٹیبل پہ بیٹھ کر اپنی دن کی روداد سنانے لگی اور وہ بیگ حمدان کے منہ پہ لگتے لگتے بچا
"آپ کو پتہ ہے آغا جان آج کا دن بلکل اچھا نہیں تھا پہلے دیر سے آنکھ کھلی پھر ماما نے دودھ پلایا اور آج لیب تھی آپکو پتہ ہے لیب میں سر ہمارے گروپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ لوگ صحیح طرح سے سلائیڈ پکڑے فلیم کے قریب کریں نہیں تو میں آپکو آوٹ اسٹینڈینگ کردوں گا اور اس outstanding کا مطلب پتہ ہے آپکو کیا ہے لیب سے باہر کھڑا کردینا اور ہماری مس وہ کہتی ہیں مجھے لگتا یے آپ لوگ مجھ سے ڈرتے نہیں ہیں حالانکہ وہ اتنی جلاد ہیں سب کو ڈرا کر رکھتی ہیں " امل ایک ہی سانس میں بولے جارہی تھی اپنے ٹیچر کی وہ نقل اتارنے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو پائی تھی اور اسکے عجیب و غریب آواز پہ لاونج میں برجمان سب ہی نفوذ کی ہنسی چھوٹ گئی تھی سوائے حمدان کے
""افف کتنا بولتی ہے یہ پٹر پٹر کر رہی ہے جب سے اتنا تو کوا بھی کائیں کائیں نہیں کرتا ہوگا جتنا یہ لڑکی بول رہی ہے کسی نے ٹیپ آن کردیا ہے جسکا آف کا بٹن ہی نہیں ہے اور جب fuel ختم ہوگا یا ریل پھنسی گی تو یہ بند ہوگا "
حمدان کو یہ شور شرابہ اچھا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ لندن میں وہ اور سعد اکیلے رہتے تھے تو ایک سکون ہوتا تھا یہاں اس کے برعکس تھا تو حمدان کو اچھا نہیں لگ رہا تھا جو وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جانا تھا اوپر سے امل کی باتوں نے اسکے سر میں درد کر دیا تھا اور اس نے اپنے دل میں یہ سب کہا
""آغا جان ایک بات تو بتانا ہی بھول گئی آپکو پتہ ہے آج ہمارے گھر کوئی ایڈیٹ آگیا تھا" ۔۔۔۔۔ امل حمدان کی مزید تعریف کرتی اس سے پہلے صدف بیگم نے اسے کندھوں سے تھام کر پھیچے موڑا اور کہا ۔۔۔
"امل سانس لےلو اور دیکھو کون آیا یے "۔۔۔۔
صدف بیگم نے سعد اور حمدان کا تعارف کرایا
امل جانتی تو تھی کہ اسکے دو کزن ہیں لیکن کھبی دیکھا نہیں تھا ۔۔۔،۔
حمدان کو دیکھ کر امل کی تو آنکھیں کھلی رہ گئی تھی اور اسکی چلتی زبان کو بھی ایکدم بریک لگا تھا۔۔۔۔
اس وقت تو جو منہ میں آیا کہ دیا تھا اور اب اسکے ہوش ہی اڑ گئے تھے"اوپر سے حمدان کا تاثر ایسا تھا کہ اب بھی چاہیئے کوئی ثبوت یا آگیا یقین" ۔۔۔۔
حمدان نے امل پہ ایک جتاتی نظر ڈالی ۔۔۔
حمدان کا تاثر تو نارمل تھا کیونکہ وہ سب گھر والوں سے امل کے بارے میں سن چکا تھا اور سیڑھیوں کے پاس وال پہ لگی تصویروں میں بھی امل کو دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے بھی امل کی بچپن کی کچھ تصویر سرسری سی دیکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امل شکل کیا دیکھ رہی ہو سلام کرو "۔۔۔
صدف بیگم نے اسے یوں ہکا بکا کھڑیا دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔
"اسلام و علیکم" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے سلام اتنے آرام سے کیا کہ بمشکل ہی ان دونوں نے سنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔
اور فریش ہونے کا کہ کر فورا ہی وہاں سے چلی گئی کیونکہ حمدان اسے ابھی ایک شیر لگ رہا تھا جو اسکے شکار کی تلاش میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔۔
سعد کو اپنی یہ کزن کیوٹ اور تھوڑی عجیب لگی جو ابھی تو اتنا بول رہی تھی اور ان دونوں کو دیکھ کر تو ایسی چپ لگ گئی کہ کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔۔
______________________________
Episode 5
ڈائینگ ٹیبل پہ سب موجود تھے آج کا سارا کھانا حمدان اور سعد کی پسند کا بنا تھا۔۔۔۔
جب حماد صاحب نے حمدان کو مخاطب کرکے کہا
"آگے کا کیا پلان ہے اپنا بزنس ہی کرو گے یا فیملی بزنس جوائن کروگے "۔۔۔۔۔
جسکے جواب میں حمدان نے کہا ۔۔
""ماں باپ کے پیسوں پہ سبہی عیش کرتے ہیں ۔۔بندہ خود کچھ کرے تو بات ہو میں اپنا بزنس کروں گا "۔۔۔۔۔
جس میں اسکا مزید ساتھ دیتے ہوئے سعد نے کہا
""میں نے اور حمدان نے چار سالوں میں جوب کرکے اچھی سیونگ کرلی ہے بڑے پاپا" ۔۔۔۔۔
حماد صاحب کو اپنے بیٹےکی سوچ پہ مزید فخر ہوا تھا ۔۔۔۔
آغا جان کو بھی اپنا یہ خوبرو پوتا بہت عزیز تھا ۔۔۔۔
حماد صاحب نے ایک کڑی نگاہ مرتظی اور اذہان پہ ڈالی
جسے سمجھ کر وہ دونوں پلیٹ پہ جھک گئے تھے
حماد صاحب کی سختی کے بعد ان دونوں نے آفس جوائن کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل تو کھانے میں اتنی مصروف تھی کہ اس سے ذیادہ اہم کام اور کوئی ہے نہیں اور وہ جلدی جلدی نوالے لے رہی تھی تاکہ جلدی سے جائے
"امل آرام سے کھانا کھاو اتنی جلدی کیوں کھا رہی ہوں کھانے کے آداب میں ہے کھانا آرام سے اور چبا چبا کر کھانا چاہیئے"
اذہان جو کہ امل کے برابر میں بیٹھا تھا اس نے تھوڑا تیز ہی کہ دیا تھا جس سے سب ہی متوجہ ہوگئے تھے
"امل آرام سے کہو جلدی کس بات کی ہے "حنین صاحب نے بھی امل کو ٹوکا
امل کا دل چاہ رہا تھا کھانے کے بجائے اذہان کو کھا جائے آداب کی بات تو ایسے کرہا ہے جیسے کہیں کا مولوی ہو نمبر بڑھانے ہیں بڑے پاپا کے سامنے بس امل تو جل بھن کر رہ گئی تھی اس نے اپنا پیر اذہان کے پیر میں زور سے مارا لیکن اذہان نے بھی اسکی چال اس پر الٹ دی تھی امل کے اس پیر کو اپنے پیر میں پھنسا کر لاک کردیا اور اس کو دیکھ کر آنکھ ماری جو حمدان کے آنکھ سے مخفی نہ رہ سکی
امل نے اپنا پیر چھڑانی کی کوشش کی لیکن نہ چھڑا پائی تو پاس پڑا پانی کے جگ کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکیں اور اس نے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس طرح سے اٹھایا کہ سارا پانی اذہان کے اوپر گرا اور وہ بھیگ گیا
ایک جھٹکے سے اذہان اٹھا اور تیز آواز میں کہا ""یہ کیا کرا ہے تم نے امل "
حمدان نے بھی امل کی یہ حرکت دیکھ لی تھی اسے تو وہ بلکل immature اور ننھی لگی اوٹ پٹانگ حرکت کرنے والی
"میں نے کچھ نہیں کیا غلطی سے گر گیا یے مجھ پہ الزام لگا رہا ہے بڑے ابو "امل نے حارث صاحب کو بھی گھسیٹا
"کیا ہوگیا ہے اذہان اتنا ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو غلطی سے گر گیا ہوگا جان بوجھ کر کیوں کرے گی "
حارث صاحب نے اسے کول کیا
"اتنا زیادہ بھی نہیں گرا ہے اب چینج کر لینا " شانزہ بیگم نے بھی اسے کہا
""بعد میں دونوں مل کر بدلہ لیں گیں ابھی کول ہوجا ویسے بھی جن سے انصاف مانگ رہا ہے ان سے ملنا نہیں ہے " مرتظی جو اذہان کے برابر میں بیٹھا تھا اس نے اذہان کے کان میں سرگوشی کی
""میں میٹھا لاتی ہوں وہ تو بوا لائی نہیں "
امل کہ کر کچن کی جانب مڑی
""چھوٹی ماما میں تو کہ رہا ہوں آپ امل کا بینڈ باجا بجادیں " مرتظی نے دور جاتی امل کو چھیڑا
"اس کے سامنے نہ کہنا شرما جائے گی " بی جان نے کہا
بی جان اس دن والے واقع سے انجان تھی
""وہ اور شرمائے گی پتہ نہیں کس کی شامت آئے گی جو بیچارہ اس سے شادی کرے گا وہ تو روئے گا نخرے ہی اتنے ہیں میڈم کے آپ لوگ نہ لڑکوں والوں سے کہ دیجئے گا کہ ایک دفع دی ہوئی چیز واپس نہیں ہوگی no exchange no return ویسے مرتظی ہماری لائف میں کتنا سکون آجائے گا نہ روز روز کی چک چک سے بچت ہوجائیگی "
اذہان نے مرتظی کو بھی اپنے ساتھ ملایا
"لیکن مجھے آپکے بچنے کے چانسز کم نظر آرہے ہیں بیٹا جی " شانزہ بیگم نے اذہان کو کہا
"کیوں مام وہ تو چلی جائے گی نہ سسرال "
ازہان کو سمجھ نہیں آیا تھا
"لیکن اذہان تو کہاں جائے گا ابھی اسکا نہیں پتہ نہ "
مرتظی نے بھی اذہان کو کہا
"کیا پہیلی میں بول رہے ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے صاف صاف بولو " اذہان کو سمجھ نہیں آیا تھا
"اپنا سر ذرا ترچھا کرنا " انعمتہ بیگم نے اذہان کو کہا
اس نے منہ گھمایا تو امل کو خود کو تکتا پایا " وہ ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔ام۔۔۔۔امل ۔۔ای۔۔۔ایسی
امل ایک ناراض بھری نظر ڈال کر چلی گئی تھی
"امل بات تو سنو۔۔۔۔۔۔آپ لوگ بتا نہیں سکتے تھے وہ پیچھے کھڑی یے مرتظی تجھے بڑا مزہ آتا ہے نہ پھنسانے میں بچوں والی حرکت ہے یہ"
اذہان تو اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا
"بچے آپ بھی نہیں ہے کیا ضرورت تھی اسکو چڑانے کی جانتے ہوں دکھی ہوجاتی ہے وہ اب جاکر مناو "
حارث صاحب نے اذہان کو جواب دیا
"ابھی نہیں بعد میں مناو گا شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا ہے ابھی "اذہان نے اپنا ماتھا مسلتے کہا
سعد تو اس فیملی میلو ڈرامے کو خوب انجوائے کر رہا تھا
____________________________
حمدان اور سعد نے سبکو انکے لائے گٙئے تحفے دیئے
حمدان کے ذہن میں امل کا بچپن کا والا ہی روپ تھا تو وہ teddy bear لایا تھا اسکےلئے جو اس نے صدف کو دے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
"پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو ہر دفعہ فضول بکواس کرتا ہے ملو تم اذہان کے بچے چھوڑو گی نہیں"
امل نے غصے میں بڑبڑا کر اپنا دوپٹہ اتار کر پھینکا تھا جو اندر آتے اذہان کے منہ پہ لگا تھا
"اوئےےےے کیا کر رہی ہے ابھی میں گر جاتا تو "
اذہان نے اندر آتے ہوئے کہا
"بہت اچھا ہوتا گر جاتے تو ساری ہڈیاں ٹوٹ جاتیں کیوں آئے ہوں تم یہاں جاو یہاں سے "
امل نے واپس دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانوں پہ ڈالا
"یار تمہارے لئے ہی آیا ہوں آئیسکریم پہ ہاتھ لگوانے "
اذہان نے امل کے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا اسکے ہاتھ میں دو آئیسکریم کے پیالے تھے
"لیکن تم تو اتنی گرم ہورہی ہو کہ آئیسکریم ٹچ کرو گی تو یہ ملک شیک بن جائے گی "
اذہان نے اسکے غصے سے تپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا
"بکواس ختم ہوگئی ہے جاو اب یہاں سے اپنا کام کرو ہر وقت فارغ نہ رہا کرو "
امل نے اپنی کمر میں ہاتھ ٹکا کر اسے کہا
"کام ہی تو کر رہا ہوں وہ بھی سخت ترین تجھے منانا کوئی معرکہ سر کرنے سے کم نہیں ہے "
اذہان نے اٹھتے کہا
"جاو یہاں سے " امل نے اسکا ہاتھ پکڑتے کہا
"کیا کر رہی ہو آئسکریم گر جائے گی " اذہان نے اپنے ہاتھ کھینچتے کہا
امل نے اسے ایک سخت گھوری سے نوازا
"اچھا نہ سوری دل سے سوری پکا والا سوری میں تو نیچے مزاق کر رہا تھا سچ میں تم تو فوراً دل پہ لے لیتی ہو " اسے پکڑو
اذہان نے پیالے آگے کرتے ہوئے کہا
کیوں ؟؟ امل نے غصے سے کہا
"کان پکڑنے ہیں لیکن اس دفعہ اپنے پکڑوں گا " اذہان نے اسکے غصے سے پھولتے چہرے کو دیکھ کر کہا
امل نے آئسکریم کے پیالے پکڑے تو اذہان نے اپنے کان پکڑ کر سوری کہا
"کیا چاہ رہے ہو تم اذہان " امل نے اسی ٹون میں ہی کہا
"میں چاہتا ہوں تم یہ آئسکریم کھالو " اذہان نے اسکو کندھے سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا
اور خود اسکے برابر میں بیٹھ کر اسکے کندھے پہ اپنا ایک ہاتھ رکھ کر کہا " کھالو بہت پیار سے لایا ہوں پلز "
لیکن امل کو اسی پوزیشن میں دیکھ کر اس نے اسکے ہاتھ سے دونوں پیالے لئے اور ایک میں آئسکریم کرنے لگا اور کہا "ٹھیک ہے نہ کھاو اب اس طرح ضائع تو نہیں کروں گا نہ تم نے ٹائم ویسٹ کردیا " اور اس نے آئسکریم سے بھرا ایک اسپون اپنے منہ میں ڈالا
امل جو آئیسکریم کو چھوڑ نہیں سکتی تھی اس نے اسکے ہاتھ سے پیالہ کھینچا اور دوسرا چمچ لیا اور پھولے منہ کے ساتھ کھانے لگ گئی
اذہان بھی مسکرادیا یہی تو چاہتا تھا اور وہ بیڈ پہ پیر لٹکا کر امل کی طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا کہ امل اسکے گھیرے میں تھی اور کہا
"چاکلیٹ فلیور ہے تمہاری فیورٹ اتنی دور سے لایا ہوں صرف تمہارے لئے "
ہاں مسکے نہ مارو اب تم " امل نے کھانے کے درمیان کہا
"کیا کروں تمہاری طرح پنچ تو مار نہیں سکتا ورنہ دیورا میں چھپکلی کی طرح چپکی نظر آو گی" ہاہاہاہاہا
اذہان کا کہنے کے ساتھ ایک فلک شگاف قہقہ گونجا
امل کی گھورتی شکل کو دیکھ کر اس نے اپنی ہنسی کو بریک لگایا اور کہا " پسند نہیں آیا "
اذہان انتہائی فضول تھا " امل نے اسکو مکہ جڑتے کہا
"اچھا سوری "" اذہان نے اسکے گال کھینچتے کہا
"اچھا اب جاو امل نے اسکو بازو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ نازک امل کے نازک طاقت سے کہاں اٹھتا بلکہ وہ تو سامنے کھڑے حمدان کو دیکھ کر ایک دم اٹھا اور ساتھ میں امل بھی اٹھ کھڑی ہوئی
حمدان کی آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے اور اسے لگ رہا تھا کہ کسی نے اسکی آنکھوں میں مرچیاں ڈال دی ہیں پتہ نہیں کیوں اسے اتنا برا لگ رہا تھا وہ تو گھر کا سروے کر رہا تھا تو یہاں نظر پڑ گئی
"ارے حمدان وہاں کیوں کھڑے ہوں اندر آو " اذہان نے کہنے کےساتھ امل کے ہاتھ سے آئسکریم کا پیالہ اسکے سامنے کیا
اذہان کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اس شیر کو خود ہی دعوت دے رہے ہو آ شیر مجھے مار اللٰہ پوچھے تمہیں اذہان""
امل دل میں اذہان کو کوس رہی تھی
حمدان کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر اذہان نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے اذہان کو اسکی پرسینیلٹی کے آگے اپنی personality کچھ نہیں لگ رہی تھی جبکہ اذہان بھی کافی ہینڈسم تھا
"حمدان تم امل سے گپ شپ کرو مجھے ایک کام یاد آگیا میں آتا ہوں " اذہان نے کہتے ہوئے امل کو حمدان کی طرف پش کیا اور آئسکریم کا پیالہ ہاتھ میں لے کر چلا گیا
حمدان کو ابھی اذہان کی بات سمجھ نہیں آئی تھی اور
امل بھی اس عمل کے لئے تیار نہیں تھی کسی نازک شاخ کی طرح حمدان کی طرف ڈھلکی اور اسکے سینے سے ٹکرا کر گرنے والے تھی کہ حمدان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے سیف کیا
"حمدان اور امل دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے" امل کی تو سانس اٹک گئیں تھی اسے لگا وقت آگیا ہے اب شیر اپنا شکار کرے گا اذہان شیر کے شکنجے میں اسے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا
کال کی رنگ ٹون دونوں کو حقیقت کی دنیا میں لائی اور حمدان نے اسے اسکے پیر پر کھڑا کیا اور اپنےموبائیل پہ متوجہ ہوگیا
امل تو گویا سانس لینا بھول گئی تھی وہ مجسمہ بنی اپنی جگہ فریز تھی اور نظریں حمدان پر ساکت اور دماغ اسے خطرے کا سائرن دے رہا تھا
حمدان نے جب موبائیل واپس رکھا تو امل کو خود کو تکتا پایا اس نے ایک نظر سامنے دیکھ کر اپنے قدم امل کی جانب بڑھائے اور امل نے بھی بے ساختہ اپنے قدم پیچھے لئے یہاں تک کہ وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل سے جا لگی تھی اسکا دل چاہا کوئی جادو ہو اور وہ حمدان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے
حمدان نے جب موبائیل واپس رکھا تو امل کو خود کو تکتا پایا اس نے ایک نظر سامنے دیکھ کر اپنے قدم بڑھائے اور امل نے بھی بے ساختہ اپنے قدم پیچھے لئے یہاں تک کہ وہ اپنی اسٹڈی ٹیبل سے جا لگی تھی اسکا دل چاہا کوئی جادو ہو اور وہ حمدان کی نظروں سے اوجھل ہوجائے
حمدان ہلکا سہ امل کی جانب جھکا اور امل کو لگا اب وہ گئی لیکن حمدان نے میز پہ گرے واز کو جو کہ الٹا پڑا اپنی بے قدری کو رو رہا تھا اسے سیدھا کیا اور جب امل کو دیکھا تو وہ گھوم کر دوسری طرف آگئی تھی
حمدان نے ایک نظر اس کے کمرے میں چاروں طرف گھمائی جو کہ کافی بکھرا ہوا تھا
امل کو جب غصہ آتا تھا وہ چیزیں بکھیر دیتی تھی اور اسکے غصے کی وجہ اور کوئی نہیں اذہان اور مرتظی ہوتے تھے اب بھی اس نے اذہان کی باتوں کی وجہ سے کمرہ پھیلا دیا تھا اور حمدان کو گندگی اور بے ترتیبی بلکل پسند نہیں تھی
حمدان نے واپس نظروں کا رخ امل کی جانب موڑا اور اپنی سیدھی ہاتھ کی دو انگلی کو امل کے ماتھے پہ سائیڈ پہ رکھا اور کہا
""صفائی نصف ایمان ہے "" سنا یا پڑھا تو ہوگا کبھی پٹر پٹر کرنے کے بجائے اس پہ بھی دھیان دیا کرو ""
حمدان نے کہنے کے ساتھ اپنی انگلی ہٹائی اور امل تو آنکھیں پھاڑے اسکو تک رہی تھی
""اگر گھورنا سے دل بھر ہوگیا ہو تو راستہ دینا پسند کریں گی" حمدان نے اپنے رعبدار آواز میں کہا کیونکہ امل جب گھومی تو وہ جانے کے راستے میں کھڑی ہوگئی تھی
حمدان کی بات پہ اسکا چہرہ سرخ ہوا اور اس نے فورا اپنی نظریں جکھائیں اور سوری کہتی ہوئی راستے سے ہٹی
حمدان بھی ایک پل کے لئے تھم گیا کیونکہ امل کا سوری کہنے کا انداز بلکل الگ تھا امل کی عادت تھی اسکی غلطی ہوتی تو وہ فوراً مان لیتی تھی اسے بھی اپنے آپ پر غصہ آیا کہ وہ کیوں اس طرح حمدان کو گھور رہی تھی جیسے کھبی کوئی لڑکا دیکھا ہی نہیں ہے
حمدان بھی شایان شان چلتے ہوئے باہر کی جانب بڑھا اور کان میں امل کا سوری گنگنا رہا تھا اور اسکا چہرہ جو پل میں سرخ ہوا تھا اس نے آج تک بہت لڑکیاں دیکھی تھی اس کی شاندار personality کی بدولت لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی ایک نظر ضرور دیکھتے اور کچھ لڑکیاں تو اسے ڈھیٹوں کی طرح دیکھتی تھی اسکی سختی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تھا لیکن امل نے فوراً اپنی نظریں جھکا لی تھیں ۔۔۔۔۔
حمدان کے جانے کا اطمینان کر کے امل نے اپنا رکا سانس بحال کیا
دیو۔۔۔۔ ہٹلر۔۔۔۔ اکڑو۔۔۔۔ جن ۔۔۔۔کھڑوس ۔۔۔۔بھوت بنگلے میں تو اچھی جوب ملی گی ڈرانے کا ہنر خوب آتا ہے
امل نا جانے اور کیا کیا حمدان کو القابات سے نوازتی اپنا بکھرا کمرہ سمیٹنے لگ گئی تھی وہ خود بھی نفاست پسند تھی
""سنو تم مجھے یوں حیرت زدہ آنکھوں سے نہ دیکھو
کچھ سنبھل جاتے ہیں سب مر نہیں جاتے ""
__________________________________
آج رات امل نے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا اور وجہ اذہان تھا اور جو آئیسکریم وہ لایا تھا وہ بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا
اب بھوک سے اسکا برا حال تھا
وہ جلے توے پہ روٹی کی طرح ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی
"کیا کروں بھوک بھی لگ رہی ہے "
وہ چلتے چلتے بولتی بھی جارہی تھی گھڑی پہ اس نے نظر دوڑائی جو ٢ کے ہندسے کے قریب تھی سب تو سو گئے ہونگے
آخر کار اپنی بھوک کا خیال کرتی اپنے بڑے سے دوپٹے کو شانوں پہ ڈال کر بالوں کا جوڑا بناتی ہمت جٹا کر اس نے کچن کی جانب رخ کیا
اسنے اپنی چہرے پہ آتی لٹ کو پیچھے کر کے فریج میں جھانکا تو مطلب کا اسے کچھ نہ ملا بگڑے موڈ کے ساتھ اسنے کافی بنانے کا سوچا کیونکہ ایک کافی ہی ہے جو وہ اچھے سے بنا سکتی تھی اور تو کچھ اسے آتا نہیں تھا
کچن میں رکھے چھوٹے سے ٹیبل کے پاس رکھی کرسی کو کھینچ کر وہ بیٹھ کر کافی پھیٹنے لگ گئی اس نے ہلکی سے گردن موڑی تو لاونج میں صوفے پہ اسے کوئی نظر آیا کالی چادر میں لپٹا ڈر اب اس پر حاوی ہونے لگا تھا
اس نے اپنا گردن گھما کر دیکھا تو کوئی اسے اب نظر نہیں آیا
وہ درود پاک کا ورد کرنے لگی اور اللٰہ کا نام لینے لگی اسکا ہاتھ بھی اب کانپنے لگ گیا تھا جب ہی اس کے پیچھے سے آکر کسی نے "ہوووووووووو "" کرا
اور امل کی بھی چیخ اس کے ساتھ بلند ہوئی ""آہ ہ۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ۔ں۔ں۔ں۔ں""!!!!!!
وہ بند آنکھوں سے چیخنے میں مصروف تھی
""اوئے ۔۔۔شششششش ۔۔چپ ۔۔۔۔میں ہوں مرتظی "
اس نے امل کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا
مانوس آواز سن کر اس نے اپنی آنکھ کھولی اور سامنے مرتظی کو دیکھا
""مرتظی " کانپتی آواز میں اس نے نام لیا
"ریلکس۔۔۔کول ۔۔۔۔
اس نے ہنستے کہا
"ریلکس کے بچے میں آج تمہاری جان لے لوں گی "
امل نے غصے میں کہا آج تو امل کی شامت آئی ہوئی تھی
"میری جان لو گی ابھی کچھ پل پہلے تو تمہاری خود کی جان نکلی ہوئی تھی " اللٰہ پاک اللٰہ جی
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی نے اسکا مزاق اڑایا
"تم۔۔۔۔۔۔۔۔تم میرا مذاق بنا رہے ہو آج نہیں چھوڑو گی میں تمہیں "
کہتے ساتھ امل مرتظی پہ لپکی
مرتظی بھی اپنے گرد لپٹی چادر کو پھینک کر بھاگا اور امل اسکے پیچھے بھاگی
مرتظی کا تو سانس پھول گیا تھا بھاگ بھاگ کر
وہ پلٹ کر رکا اور لمبے سانس لینے کے درمیان اس نے امل سے کہا " میں تفریح کر رہا تھا یار "
لیکن وہ بھاگتی اس کے قریب آرہی تھی اس نے آج ٹھان لیا تھا کہ اس نے آج نہیں چھوڑنا ہے اسے
"مرتظی بھاگتا سیڑھیاں چڑھتا اوپر گیا جہاں اسے حمدان فرشتے بنا کاریڈور میں نظر آیا وہ ایک دو جمپ لگا کر حمدان کے پیچھے
چھپا اور کہا """حمدان بچا لے اس چڑیل سے مجھے ""
مرتظی نے حمدان کو ڈھال بنا لیا تھا اور حمدان کو لئے ادھر سے ادھر موو کر رہا تھا
امل کا جوڑا بھی کھل گیا تھا اور سارے بال اسکی پشت پہ لہرا رہے تھے دوپٹہ بھی پھسل کر اسکے ہاتھ میں آگیا تھا اور آدھا زمین کی زینت بنا ہوا تھا
"حمدان کو لگ رہا تھا جیسے وہ نمونوں کی دنیا میں آگیا ہے وہ کس کام کے لئے روم سے باہر آیا تھا وہ یہ تک بھی بھول گیا تھا
امل کو تو بس مرتظی کو پکڑنے کا جنون سوار تھا وہ لپک لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی یہاں تک حمدان کی موجودگی بھی اسے یاد نہیں تھی وہ کھبی حمدان کے دائیں جانب ہوتی کھبی بائیں جانب
مرتظی نے کارویڈر کے لٹکے پردوں کو دیکھ کر اسے حمدان کے گرد گھمایا تاکہ امل کو گمراہ کرسکے لیکن امل بھی عین اسے وقت مرتظی پہ لپکی اور حمدان کے ساتھ وہ بھی پردے میں لپٹ گئی دونوں پردے میں بری طرح الجھ گئے تھے مرتظی تو جان بچا کر بھاگ گیا تھا
امل اور حمدان کو بس ایک دوسرے کی سانسوں کی آواز اور تپش محسوس ہو رہی تھی وہ اتنے قریب تھے کہ ایک دوسرے کو بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے امل نے پردے کے ٹرنز کھولنے کی کوشش کی تو وہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ رہا تھا
حمدان کو اب غصہ آنے لگ گیا تھا اس نے اپنا زور لگا کر پردے کو کھینچا تو وہ اسکے بل تو کھلے نہیں البتہ پردہ پائپ سمیت امل کے اوپر گرا اور امل کے ایک کراہتی آواز کے ساتھ پردہ اسکے پیر میں اٹکا اور وہ اور حمدان بل کھاتے فرش پہ گرے حمدان نیچے اور امل اسکے اوپر تھی
پردے نے دونوں کو اب بھی قید کیا ہوا تھا
امل کے کچھ کھلے بال حمدان کے شرٹ کے بٹن میں اٹک گئے تھے کچھ اسکے گھڑی کے پٹے میں الجھ گئے تھے
حمدان نے اسکے بال نکالنے کی کوشش کی تو وہ امل کی ایک درد بھری سسکی نکلی ویسے ہی پائپ اسکی کمر پہ زور سے لگا تھا اوپر سے اسکے بال کھینچ رہے تھے حمدان گھڑی سے بال نکالنے کی کوشش کرتا تو شرٹ میں پھنسے بال پہ کھینچاو بڑھتا امل کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی تھی وہ بہت بے بس محسوس کر رہی تھی خود کو
حمدان نے امل کی آنکھوں میں دیکھا جو نمکین پانی سے بھر رہی تھی اس نے کچھ سوچ کر سب سے پہلے تو امل کے اوپر سے پائپ ہٹایا اور اسے فلپ کیا جس سے وہ اوپر آگیا تھا اور امل نیچے اس طرح اسے اپنا کام کرنے میں تھوڑی آسانی محسوس ہوئی اس نے پہلے شرٹ سے بالوں کو الگ گیا جس میں امل کے کافی بال ٹوٹ گئے تھے اور ریسٹ واچ میں الجھے بالوں کو تو اس نے کھینچ ہی دیا تھا جس سے امل کی ایک درد بھری سسکی نکلی اسکے ناجانے کتنے بال ٹوٹ گئے تھے اس نے امل کے سارے بالوں کو سمیٹا
آخر میں حمدان نے امل کو پکڑ کر خود کو فرش پہ تین سے چار مرتبہ رول کیا تاکہ پردہ کے بل کھلے اور وہ آزاد ہوں ۔۔۔۔
امل کو ہاتھ دےکر اس نے اٹھایا امل کے چہرے سے وہ اسکے درد کا اندازہ لگا سکتا تھا کہ پائپ گرنے کی وجہ سے اسکی چوٹ لگ گئی ہے ۔۔مرتظی کا دماغ درست کرنے کا تو اس نے سوچ لیا تھا اسے غصہ امل پہ بھی تھا کہ رات کے اس پہر وہ دونوں کونسا سرکس کر رہے تھے لیکن امل کی چوٹ نے اسے حمدان کے قہر سے بچایا لیا تھا
امل نے اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھائے تو درد کی ایک شدید لہر اسے اپنے اندر محسوز کوئی اور وہ لڑکھڑا گئی بر وقت حمدان نے اسے کندھے سے تھاما اور ایک ہاتھ کندھے کے گرد اور دوسرے ہاتھ سے اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اسے اسکے روم تک لایا اور کہا
Ointement لازمی لگا لینا "
امل نے بس اپنا سر ہاں میں ہلایا

Episode 6
سعد کروٹ بدل بدل کر تھک گیا تھا نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔۔
یہی حال حمدان کا بھی تھا اسکی نیند تو ابھی رونما ہونے والے واقع کی وجہ سے غائب ہوگئی تھی
لندن میں وہ دونوں ایک ساتھ ہی سوتے تھے اور ابھی الگ کمرے میں دونوں کو ایک دوسرے کی کمی محسوس ہورہی تھی
اور اگلے پل حمدان کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا
۔۔۔۔۔
حمدان نے دروازہ کھولا اور سعد ہوگا یہ اسے یقین تھا دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے گلے لگ گئے تھے
اور دھپ کرکے بستر پہ گرے تھے
__________________________
صبح کی روشنی اپنے چاروں اور پھیل گئی تھی رات کا اندھیر اب غائب ہوچکا تھا اور صبح کی روشنی غالب آگئی تھی
امل نیچے آئی تو خاموشی دیکھ کر صوفے پہ بیٹھی بی جان کو دیکھ کر اس نے کہا
"یہ اتنی خاموشی کیوں ہے اور ماما وغیرہ کہاں ہیں "۔۔۔۔۔۔
"مرتظی اور اذہان ۔۔۔۔۔ حماد، حارث ،حنین کے ساتھ صبح ہی چلے گئے تھے ۔۔۔۔
اور وہ سب تو کچن میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آغا جان اپنے کمرے میں ہیں" ۔۔۔۔بی جان نے اسے تفصیلی جواب دیا
اتنے میں شانزہ بیگم بھی لاونج میں آئیں۔۔۔
"امل اچھا ہوا تم آگئیں" ۔۔حمدان اور سعد ابھی تک اٹھے نہیں ہیں دن چڑھ گیا ہے سفر کی تھکن بھی تھی ۔۔میں اٹھانے ہی جا رہی تھی انہیں ۔۔۔۔۔جاو تم اٹھادو اب" ۔۔۔۔۔۔
"بڑی امی میں "۔۔۔۔امل کی تو ہوائیاں اڑ گئی تھی کل رات کے واقع کے بعد اس میں حمدان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بیٹا جاو جلدی سے جاو جب تک میں کچن کا کام دیکھ لوں" ۔۔۔۔
اور امل کو تو ایک قدم اٹھانا بھی مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کے یوں مردہ قدم دیکھ کر بی جان نے اسے ٹوکا
"یہ کچھوے کی طرح کیوں چل رہی ہو امل "
"وہ ۔۔۔۔۔بی۔۔۔۔۔بی جان کچھ نہیں ہونہی اسکی کمر کا درد تو اب کافی بہتر تھا اتنا ذیادہ نہیں تھا کہ وہ اب چل پھر ہی نہ سکے
______________________.
امل نے تیز دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے کا لاک کھولا ہے تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔
وہ مرتظی اور اذہان کے کمرے میں بھی ایسے چلی جاتی تھی تو بے دھیانی میں یہاں بھی ناک کرنا اسکے ذہن میں نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان شرٹ لیس آئینہ کے سامنے کھڑا تھا وہ ابھی ہی شاور لے کر نکلا تھا دروازے کی آواز سنکر پلٹ کر اس نے دیکھا تو امل کو دیکھ کر اسکی تو غصے سے رگیں تن گئیں تھی۔۔۔۔۔۔
اور امل بھی اسکو شرٹ لیس دیکھ کر فورا پلٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔
حمدان نے ایک بھی پل ضائع کئے بغیر بیڈ پہ پڑی شرٹ پہنی اور امل کا بازو پکڑ کر ایک جھٹکے سے اسے موڑا تو وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔۔۔۔۔
حمدان کو اتنے غصے میں دیکھ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹی
""تمہارے اندر تمیز ہے یا نہیں ۔۔۔۔کچھ ethics ہے یا نہیں یا دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے ۔۔۔۔ کسی کے کمرے میں بغیر نوک کئے آنا اخلاق کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔۔۔پتہ ہے یا نہیں"" ۔۔۔۔۔
حمدان دھاڑتا ہوا آگے بڑھتا جا رہا تھا اور امل پیچھے ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ وہ دیوار سے جا لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان لندن میں رہ کر بھی لڑکیوں سے فاصلے پہ رہتا تھا اور آجتک اس سے کسی نے inquiry نہیں کی اور امل اس سے ثبوت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
کچھ کل رات کا واقع بھی اسے یاد آگیا تھا جس نے اسکے غصہ کو مزید بڑھا دیا تھا اور اوپر سے شرٹ لیس اسکا امل سے سامنا ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کی تو سانس ہی اٹک گئی تھی اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی جنہیں بہنے سے وہ بار بار روک رہی تھی
آج تک اس سے کسی نے غصے میں بات نہیں کری تھی اور حمدان کا اتنے سرد رویہ اور غصہ سے امل کی زبان تو تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
حمدان اور اسکے بیچ ایک انچ کا فاصلہ بھی بمشکل تھا۔۔۔۔۔۔۔
بولو "جواب دو ۔۔۔۔۔ویسے تو بڑی زبان چلتی ہے" ۔۔۔۔۔۔
اب چپ کیوں ہوں" ۔۔۔۔۔۔
۔حمدان نے اتنی زور سے کہا کہ امل نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں اور خوف سے کانپنے لگ گئی ۔۔
اور اپنی پوری ہمت جٹا کر ۔۔۔۔"آئی ایییییییییممم ۔۔۔۔سوررررری" ۔۔۔۔اٹک اٹک کر اس نے کہا ۔۔۔۔۔
کیوں آئیں تھی تم" ۔۔۔۔۔۔اس نے اپنا اگلا سوال کیا
"بی۔۔۔۔۔۔جا۔۔۔۔جان ۔۔بلا ۔۔۔۔ر۔۔۔۔۔ہی۔۔۔ ہیں" ۔۔۔۔۔امل نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کری اور حمدان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ اور بھی کوئی سوال کرنا ہے
حمدان کو اپنی اور اسکی پوزیشن کا احساس ہوا تو فورا پیچھے ہٹا۔۔۔۔
اور امل سے کہا "جاو ۔۔۔۔۔۔۔۔
آرہے ہیں ہم ۔۔۔۔۔۔تم جاو"
امل بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آئی اور اس نے دروازہ بند کرا اور اپنی اٹکی ہوئی سانس کو بحال کیا ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوں کو رگڑ کر صاف کیا لیکن وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور وہ اپنے بیڈ پہ الٹا لیٹ گئی تھی اور روتے روتے نیند کی وادی
میں دوبارہ گم ہو گئی تھی نیچے جانے کی اس میں فلحال سکت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
ادھر حمدان نے اپنے اشتعال کو کم کرنے کے لئے ایک نظر سعد کو نیند میں گم دیکھ کر دیوار پہ زور سے مکہ مارا ۔۔۔
۔
اسے اب گلٹ محسوس ہورہا تھا وہ اوور ہوگیا تھا ۔۔۔۔امل کی غلطی اب اتنی بڑی بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔
_________________________
شام کا وقت تھا
گھر کے سبہی بڑے لان میں بیٹھے تھے جب حماد صاحب نے آغا جان کو کہا کہ
""کیوں نہ حمدان اور سعد کی آنے کی خوشی میں ایک گرینڈ پارٹی رکھ لے" ۔۔۔۔
جسکے جواب میں آغاجان نے کہا ۔
""ہاں یہ اچھا آئیڈیا ہے امل کی سالگرہ بھی دو دن بعد ہے تو وہ بھی کرلیں گے celebrate ""......
جس سے سب متفق تھے ۔۔۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی لیکن کہا انہوں نے کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔
امل سے تو وہ بہت پیار کرتی تھی لیکن کبھی انہیں امل کو ہر معاملے میں اتنی اہمیت دینا پسند نہیں آتا تھا اور گھر کی بڑی بہو کی حیثیت سے انہیں اپنی اہمیت کم لگتی ۔۔۔۔۔
جبکہ ایسا نہیں تھا ۔۔۔۔۔اور نہ جانے یہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی جلن اور حسد کیا رنگ لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
""امل تم حمدان اور سعد کو جگانے کے بعد کہاں غائب ہوگئی تھی ناشتے پہ نہیں آئی پھر کھانا بھی اپنے کمرے میں منگویا طبعیت ٹھیک ہے "
شانزہ بیگم نے امل کو مخاطب کر کے کہا
جی ٹھیک ہے بڑی امی وہ بس ایسی دل نہیں چاہ رہا تھا میرا "امل نے کافی پھینٹتے جواب دیا "
___________________
امل مرتظی کے لئے کافی لےکر اسکے کمرے میں جا رہی تھی ۔کیونکہ مرتظی کو امل کی ہاتھ کی کافی پسند تھی اور اکثر وہ اسکےلئے بناتی تھی۔۔۔۔۔
اور حمدان مرتظی کے کمرے سے نکلنے کےلئے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا وہ مرتظی کا دماغ ٹھکانے لگانے آیا تھا کہ وہ بچہ نہیں ہے جو بچوں والی حرکت کرتا یے
۔۔۔۔۔
حمدان کو یوں اچانک سے دیکھ کر امل کے ہاتھوں سے کپ چھوٹ گیا تھا اور ساری کافی فرش پہ گر گئی تھی
جس پر پیر رکھنے سے حمدان پھسل گیا تھا اور خود کو بچاتے ہوئے امل کو بھی ساتھ لے گرا
حمدان نیچے اور امل اسکے اوپر تھی ۔۔۔۔۔
امل کی تو گویا سانس ہی اٹک گئی تھی امل اورحمدان ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔
حمدان کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ اچانک ہوا کیا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
مرتظی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتا ہوا فورا امل کو اپنا ہاتھ دیکر اٹھایا
امل کے اٹھتے ہی حمدان بھی فورا اٹھا اور امل پہ ایک غصیلی نظر ڈال کر کمرے سے چلا گیا۔۔وہ تو شکر تھا کپ کے ٹکڑوں سے کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔۔
"یوز یور آئیز کائنڈلی۔۔۔۔
مرتضی پلیز۔۔۔۔۔واٹ دا ہیل شی از۔۔۔۔؟
لیکن جاتے جاتے اپنے جلے کٹے جملوں کے تیر چلانا نا بھولا تھا۔۔
امل تو حمدان کے کہے گئے جملے سن کر سن ہی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
"کوئی بات نہیں امل تم جاو اپنے کمرے میں یہ صاف کرادیتا ہوں" ۔۔۔۔۔۔۔۔
Be calm .....
مرتضی نے گم سم امل کو مخاطب کیا تھا جو کچھ دیر پہلے کے منظر میں کھوئی ہوئی تھی۔۔
"تمہاری وجہ سے سب ہوا ہے نہ تم مجھے ڈراتے نہ کل رات کچھ ہوتا لیکن تمہیں تو اپنے فن کی ہوتی ہر دفعہ خود تو کل رات بھاگ گئے اور مجھے اپنے جلاد بھائی کی حوالے کردیا ""
امل کو بھی مرتظی پہ غصہ تھا وہ کافی دینے بھی اسی لئے آئی تھی کہ مرتظی کو اسکی غلطی کا احساس دلائے لیکن سب الٹا ہوگیا تھا
مرتظی بھی اپنے کان سہلانے لگ گیا تھا پہلے حمدان نے اچھی خاصی سنائی اب امل کا بھی اضافہ ہوگیا تھا
________________________________________
امل اور حمدان کا اس دن کے بعد سے کوئی سامنا نہیں ہوا تھا ۔۔حمدان بزنس کے معاملات میں اتنا مصروف تھا کہ صبح جاتا تو رات گھر آتا تھا۔۔۔۔۔۔
___________________
رات کے بارہ بج رہے تھے۔۔
وہ دونوں دبے پاوں آہستہ آہستہ اسکے جانب بڑھ رہے تھے ایک نے اسکے کان میں باجا بجایا تھا جس سے وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی
اور دوسرا نے فوراً ہی اس پر snow spray کیا تھا بلکہ اسے ہورا ڈھک دیا تھا
اور مرتظی اور اذہان نے امل کو ایک ساتھ ایک آواز میں happy birthday sista کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھبی سیدھے طریقے سے بھی وش کرلیا کرو ۔۔۔۔
امل نے اپنے بال اور چہرے سے اسپرے کی جھاگ صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالانکہ امل نے آج خصوصی طور پر گیٹ کا لاک چیک کیا تھا اور کھڑکیاں بھی بند کری تھیں لیکن یہ دونوں پھر بھی ڈپلیکیٹ کی کے ذریعے آگئے تھے
سیدھا طریقہ وہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ہمیں تو یہی آتا ہے ۔۔۔۔دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔۔۔۔۔
امل نے دونوں کو کشن کھینچ کر مارا "
جاو یہاں سے ورنہ میں بتاتی ہوں سیدھا طریقہ" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ دونوں اسے دوبارہ وش کرتے ہوئے اسکا پھینکا کشن اسے مارتے گئے پھر کچھ یاد آنے پہ پلٹے اور اپنی جیب سے ڈھیر سارے کلر فل شیٹس اسکے اوپر پھنک کر گئے ۔۔۔۔۔
امل نے جب وہ چٹس پڑھنا شروع کی تو ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی ایک پہ لکھا تھا
Needless to ask what you need as a birthday present, dear churail. Since you are obsessed with chocolate, I’ve invited the chocolate company to your birthday, so that you can have over-doze of it. Best birthday wishes to a lovely churail
From..IZhaan …
How was the chocolate company joke
____
I promise I won’t reveal your age to anyone at the party, but we should probably light your cake outdoors in case the candles catch fire.
______
Happy Birthday to you! Happy Birthday to you! You look like a monkey and you belong in a zoo! There ya go, little sister. I hope your birthday is absolutely bananas!
__________
Congratulations on your Birthday! If someone says that you’re getting old, don’t listen to him and throw your yellow teeth set or hit with your knubble Anyway, my dear lovely churail sis! Happy B-Day!
__________
ایسے بے شمار عجیب و غریب وشز تھے امل نے بہت تو پڑھے نہیں اور اس نے اپنے موبائیل پہ بجتی رنگٹون دیکھا جہاں سویرا کے بہت سے وشز اسکے منتظر تھے۔۔۔۔
اور وہ مسکرا کر انکا ریپلائی دے کر سو گئی تھی ۔۔۔۔۔
______________________
امل صبح سے سب سے وشز قبول کر رہی تھی۔۔"۔آج ہونی سے بھی اسنے آف کیا تھا"۔۔۔۔۔۔
حمدان اور سعد کی آج بزنس کی سائیٹ کے لئے ڈیلینگ تھی تو وہ دونوں صبح سویرے ہی چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی اور سعد بھی آجکی پارٹی کے انتظامات میں مصروف تھے کیونکہ سارے کام انکے ذمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئی تھی اور مہمان آنا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔
_________________
""یار آج تو تھک گیا میں " سعد نے حمدان کی طرف دیکھتے کہا جو سنجیدگی سے سامنے دیکھتا ہوا ڈرائیو کر رہا تھا البتہ سعد نے ریلکس ہو کر دونوں پاوں کو آپس میں فولڈ کر کے سیٹ کے اوپر کیا ہوا تھا
"میں تو کوئی اور مخلوق ہوں جو تھکتا نہیں ہوں "
حمدان نے سنجیدگی سے ہی کہا
"تو دوسری مخلوق نہیں ہے بس کچھ سسٹم انسٹال الٹ ہوگئے ہیں یو نو mutation "
سعد نے لقمہ دیا
حمدان نے بغیر جواب دئے کار کی اسپیڈ اچھی خاصی بڑھادی
ابے اووو اسپیڈ سلو کر تجھے اس فانی دنیا سے کوچ کرنے کی جلدی ہوگی مجھے نہیں ہے ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے میرے پیارے پیارے میری طرح معصوم بچوں کو بھی آنا ہے "
سعد کا ٹیپ آن ہوگیا تھا
لیکن حمدان نے اب بھی جواب دینے کے بجائے ایک خطرناک موڑ لیا کہ سعد پورا اپنی جگہ سے ہل گیا تھا اور پاوں فورا سیٹ کے نیچے کرے
""کیا چاہئے تجھے " سعد نے کہا
حمدان نے بس اسے ایک نظر دیکھا جیسے سعد تو جانتا نہیں تھا
""اوکے میں خاموش ہوگیا " سعد نے اپنے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر کہا
حمدان نے ایک گفٹ شاپ پہ گاڑی روکی اور باہر نکلا
"یہاں کیوں آیا ہے گھر جانا ہے نہ پارٹی بھی ہے تیار بھی ہونا یے "
سعد کو حمدان کا یہاں آنا سمجھ نہیں آیا
میرے خیال سے ایک عدد برتھڈے پارٹی بھی ہے
حمدان نے اسے یاد دلایا
""اوو ہاں کیا نام ہے اپن کی کزن کا اسی کا ہے نہ " سعد نے اپنا ماتھا مسلتے کہا
"امل"حمدان نے اپنی نظریں گھماتے کہا
او ہو " کیا بات ہے نام بھی یاد ہوگیا " واہ بھی کچھ گڑ بڑ تو نہیں ہے
سعد نے اسے چھیڑا
""سعد تم انتہائی فضول بولتے ہوں اور رہی بات میں تمہاری طرح نکمہ نہیں ہوں اور نہ ہی اتنی یاداشت کمزور یے میری "
حمدان نے شاپ کیپر کو ایک جیولری آئیٹم کی طرف اشارہ کیا
بتانے کا شکریہ کہ بہت اچھا کہتا ہوں یہ تو میری اسکلز ہیں "
سعد نے اپنی تعریف قبول کی
""سر یہ بہت ذیادہ expensive ہے " اور یہ بک بھی ہے
دکاندار نے حمدان کو کہا
مہنگا ہے تو کیا ہوا اور جب بک ہے تو اشتہار کیوں لگایا ہے " حمدان کو تپ چڑھ گئی تھی
"مجھے یہی چاہئیے اب جو پسند آجائے مجھے میں اسے چھوڑتا نہیں پھر اب تو آپکو دینا پڑے گا "
دکاندار نے بھی کچھ سوچ کر حامی بھر لی
"سعد صرف ا منٹ کا وقت ہے جو لینا ہے جلدی لو ورنہ میں جا رہا ہوں "
سعد نے بھی جلدی سے جو سامنے نظر آیا پیک کرایا
__________________________
Episode 7
گلابی ہونٹوں پہ پنک لپسٹک لگا کر وہ مزید پنک ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ پلکوں پہ مسکارا لگاکر انہیں مزید گھنا کر لیا گیا تھا اور لائیٹ سے میکپ میں بلیک نیٹ کی ڈبل گھیر کی شارٹ فراک پہنے ۔۔۔بالوں کو کرل کئے ۔۔۔۔۔۔۔بلیک ہی دوپٹہ کندھوں میں ڈالے ۔۔اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ ۔۔۔۔۔امل بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------
مہرون کوٹ پینٹ پہ بلیک شرٹ اور براون ٹائی لگائے بالوں کو جیل سے سیٹ کرکے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیفٹ ہینڈ میں قیمتی واچ پہنے ۔۔۔۔۔۔خود پہ پرفیوم کا اسپرے کرتے ہوئے ایک نظر آئینہ میں خود پہ ڈال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔..برینڈیڈ شوز پہن کر اپنے تمام تر وجاہت کے ساتھ حمدان بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلو جینس کی پینٹ پہ وائیٹ ٹی شرٹ پہ بلو کوٹ پہنے ۔۔۔۔فل کٹ شٹ میں ۔۔۔۔ سعد ڈیشنگ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی اور اذہان دونوں نے سیم پارٹی ڈریسنگ کی تھی جس میں وہ دونوں کول لگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
_____________________
امل کال پہ بات کرتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جب حمدان کی نظر اس پر پڑی ۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد وہ آج امل کو دیکھ رہا تھا
اس نے آج تک امل کو سادہ ہلیہ میں دیکھا تھا اسکو آج اسطرح سے تیار دیکھ کر حمدان کچھ پل کےلئے مسمرائز ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔اور نظریں پلٹنا ہی بھول گئیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کال پہ بات کرتے ہوئے اسکی مسکراہٹ میں حمدان کھو گیا تھا ۔۔۔۔۔اسنے آج امل کو غور سے دیکھا تھا ۔۔۔۔اس سے پہلے تو وہ اسے بس تنقیدی نظروں سے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔اور آج نظروں کا انداز الگ تھا تو دل نے بھی انداز بدل لیا تھا
آج تو حمدان کا دل ایک الگ ساز ہی میں دھڑک رہا تھا جس کی اسکو کچھ خبر نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم ۔۔"۔اہم ۔۔۔اہم" ۔۔۔۔سعد کی کنکھارنے کی آواز پہ وہ حقیقت میں واپس آیا۔۔۔۔۔۔۔
"چلی گئی ہینڈسیم وہ ۔۔۔۔۔۔۔بس کردے" ۔۔۔۔۔۔سعد نے اسے امل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جو باہر لان میں جا رہی تھی
""ک۔۔۔کییا ۔۔کیا۔۔۔۔۔مطلب ہے" ۔۔۔۔حمدان تو اپنی چوری پکڑے جانے پہ گڑبڑا ہی گیا تھا۔۔۔۔۔۔"میں تو بس ویسے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا گھور رہے ہوں سعد" ۔۔۔۔۔۔۔
"کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔چل آ باہر چلتے ہیں ۔۔وہاں کرلینا دیدار" ۔۔۔۔۔۔۔سعد نے حمدان کو کہا
"سعد تو پٹ جائے گا مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔یہ کہ کر حمدان آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔"گلیشئیر لگتا ہے پگھل رہا یے" بڑبڑاتے ہوئے حمدان کے ساتھ سعد بھی گیا تھا
_____________________
سارا انتظام گھر کے لان میں کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
پورا لان برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔۔اور ہر آنے جانے والا ستائیشی نظروں سے دیکھ رہا تھا
ایک طرف ٹیبل پہ ایک بڑا سا دو منزلہ کیک رکھا تھا اور سائیڈ پہ ربن لگی ہوئی چھری رکھی تھی ۔۔۔۔
۔جس پہ خوبصورتی سے happy birthday amal لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ٹیبل کے چاروں طرف وائیٹ غبارے لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------------
فون کلر کی شارٹ کرتی پہ مہرون بڑے سے دوپٹے کو سائیڈ پہ ڈالے۔ ۔۔۔۔ ہلکے میکپ میں۔۔اسٹیپ کٹنگ بالوں کو کھولے ہوئے ۔۔۔۔۔ ایک ہاتھ میں بڑا سہ باکس لئے دوسرے سے دوپٹے کو سنبھالتے ہوئے جنجھٹ کا شکار سویرا بہت دلکش لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل سب سے مل رہی تھی اپنے ازلی دھیمے انداز میں۔۔۔۔۔۔
صدف بیٹا"" امل کی نظر اتاروں آج تو میری پرنسس بہت جچ رہی ہے"" ۔۔۔۔۔۔
آغا جان نے امل کو خود سے لگاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلیک کلر امل کی گوری رنگت پہ جچ رہا تھا
""آنی یہ سویرا کہاں رہ گئی کہاں بھی تھا جلدی آنا ""۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اپنی نظریں دوڑاتے ہوئے کہا
"گڑیا اسے کچھ کام تھا ۔۔۔۔بس آتی ہوگی" ۔۔۔۔
ارسلان رائمہ کا شوہر نے امل کو جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔
"وہ دیکھو آگئی سویرا" ۔۔۔۔۔۔رائمہ نے امل کی توجہ entrance سے آتی سویرا پہ دلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل فورا اسکی جانب بڑھی تھی ۔۔
_________________________
سب کی تالیوں اور وشز کے ساتھ امل نے کیک کاٹا اور سب سے پہلے آغا جان اور پھر باری باری سبکو کیک کھلایا
جب آغا جان نے امل کو کہا کہ "
حمدان اور سعد کو بھی کھلاو" ۔۔۔۔۔
امل نے سعد کو تو کھلا دیا لیکن حمدان کو کھلاتے ہوئے اسے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی
اور کپکپاتے ہاتھوں سے کیک کھلاتے ہوئے حمدان کی ہونٹوں پہ بھی تھوڑا کیک لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل کو اسوقت حمدان باقی دنوں سے بہت چینج لگا ۔۔۔۔۔کرختگی اور غصہ اسکے چہرے پہ اسے ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
امل کے اسطرح دیکھنے سے حمدان نے اسے آئی برو اچکا کر دیکھا تو امل نے فورا اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔۔
اور حمدان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔۔۔۔۔۔
اور جبہی اذہان کے اشارے پہ مرتظی نے امل کے چہرے پہ پورا کیک چپکا دیا تھا جو اسنے الگ سے چھوٹا کیک آرڈر پہ بنوایا تھا۔۔۔۔۔۔
حمدان کو امل اسوقت بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور اس نے چھپکے سے اپنے کیمرے کا فلش آن کیا تھا
امل کے تیور دیکھ کر مرتظی نے دوڑ لگائی تھی ۔۔۔۔
اور امل بھی اسکے جانب بھاگی تھی
بھاگتے ہوئے امل کا دوپٹہ حمدان کے اوپر سے لہراتا ہوا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسکے لبوں پہ ایک دھیمی سی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔۔۔جسے اس نے فوراً ہی گم کردی تھی اور اس نے امل کی چھپکے سے ایک پکچر کلک کی تھی
__________________________
سویرا اسکا چہرہ ٹشوں سے صاف کر رہی تھی اور وہ دونوں اپنی باتیں بھی کر رہی تھی۔۔۔
جب سعد کی نظر سویرا پہ پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔
سعد کو اپنی نگاہیں ہٹانا بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔اور اسکا دل اسے بہت تیز دھڑکتا محسوس ہوا ۔۔۔۔اور وہ ٹکٹکی باندھ کر سویرا کو دیکھنے لگ گیا تھا۔۔۔
امل کو بی جان نے آواز دی تو وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔
جب سویرا کی نظر سعد پہ پڑی جوکہ اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔سویرا کا تو ہٹلر موڈ اون ہو گیا تھا اور وہ سعد کی جانب بڑھی تھی اور اسکے نظروں کے سامنے ہاتھ ہلاکر سعد کو ہوش میں لایا تھا اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
""او مسٹر کھبی حسین لڑکی نہیں دیکھی کیا جو یوں گھورے جا رہے ہو یہ جو تمہاری مینڈک جیسی آنکھیں ہے نہ نکال دوں گی میں انہیں"" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔ٹھرکی" ۔۔لڑکی دیکھی نہیں اور اترانے لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا تو اسے سنا کر چلی گئی تھی ۔۔۔
جبکہ سعد تو اسکے اپنی آنکھوں کے القاب پہ صدمے میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں حمدان کے مطابق اسکی آنکھوں کا کٹ بہت پیارا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"واہ سعد تمہیں تو تمہاری جیسی ملی ہے" ۔۔۔۔۔سعد بالوں میں ہاتھ پھیرتا سویرا کا جلالی روپ سوچتے ہوئے ۔۔۔۔مسکرا کر اس طرف بڑھا تھا ۔۔جہاں وہ دشمن جان گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________
سعد نے سویرا کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے حمدان کو کہا
۔۔۔"حمدان مجھے نہ something something فیل رہا ہو رہا ہے "
جسے حمدان نے یہ سمجھ کر کہ یہاں کا کھانا اسے سوٹ نہیں آیا اور اسکا پیٹ خراب ہوگیا ہے اسے واشروم جانے کا مشورہ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان کیا کہ رہا ہے" ۔۔۔۔۔
سعد نے حیران ہو کر سویرا پر سے نظریں ہٹا کر حمدان کو دیکھا تھا
"ہاں سعد یہاں کچھ نہ کرنا "۔۔۔۔حمدان نے اپنی طرف سے سمجھ کر کہا
جب سعد کو اسکی بات سمجھ آئی تو وہ " آخ تھو کرکے رہ گیا تھا " ۔۔ وہ کیا کہ رہا ہے اور حمدان کیا سمجھ رہا ہے ۔۔۔حمدان تو اسکی محبت کا بھرتا بنانے کےکئے تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان تم اپنا کام کرو کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہ کر سعد وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اور حمدان نے بھی اپنے کندھے اچکا دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________
آغا جان نے حمدان کو اپنے کچھ جاننے والوں سے ملوا رہے تھے۔۔اور حمدان بھی اپنی چھا جانے والی پرسینیلٹی کے ساتھ سب سے اپنے ازلی انداز میں مل رہا تھا۔۔۔ہر کوئی اسکی personality سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حمدان کی نظر ایک لڑکے پہ پڑی جو کہ آغا انڈسٹری کے بزنس ڈیلر میں سے کوئی بندہ تھا۔۔
جوکہ امل کو دیکھ رہا تھا اور امل ادھر ادھر سے بے نیاز سویرا سے باتوں میں مشغول تھی۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان کی غصے سے رگیں تن گئی تھی اور اس نے اپنی مٹھی زور سے بند کری تھی جسے حمدان تو محسوس نہیں کیا تھا نہ ہی کسی اور نے لیکن سعد نے دیکھ لیا تھا اور اسکے چہرے کے اتار چڑھاو کو محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔
اور حمدان امل کے آگے کچھ اسطرح سے کھڑا ہوگیا تھا کہ امل پوری کور ہو گئی تھی اور اسے نظر نہیں آرہی تھی اور ایک کڑی نظر اس نے اس شخص پر ڈالی جو امل کو دیکھ رہا تھا جسے وہ شخص محسوس کرکے نو دو گیارہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا نے امل کی توجہ حمدان کی طرف دلائی تو اس نے نظرہں اٹھا کر دیکھا تو حمدان اسے دیکھ رہا تھا امل کے دیکھنے پر حمدان اپنی نظروں کا زاویہ فورا بدلا آج امل کو حمدان کا انداز الگ ہی لگ رہا تھا ۔۔اور باقی دن کی طرح اسے اتنا برا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"او میڈم نظریں پلٹ اور تعارف کرا کہ یہ ہینمڈسم بندہ کون ہے "
سویرا نے امل کے سامنے چٹکی بجائی
تو امل نے حمدان کے ساتھ سعد کا بھی تعارف کرادیا
___________________________
ایک خوشگوار ماحول میں فنکشن کا اختتام ہوا تھا امل اپنے مختلف گفٹس کو کھول کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
جب حمدان اپنی پاکٹ سے ایک rectangular باکس نکالا جو اس نے گھر واپس آتے وقت لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
امل" ۔۔۔۔حمدان کی بھاری آواز جب امل کے کانوں میں پڑی تو اسکا گفٹ کھولتا ہاتھ رک گیا تھا اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پلٹی تو حمدان اسی کے جانب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"Happy birthday Amal ...Many Many happy returns of the day "...............
اور وہ باکس اسنے اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔۔۔
جسے امل نے ججھکتے ہوئے " شکریہ "کہتے ہوئے لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چاہ کر بھی کچھ کہ نہیں پائی تھی
____________________________
سب اپنے کمروں میں چلے گئے تھے امل بھی اپنے روم کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
جب سعد نے امل کو آواز دے کر روکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"Hey sista .......janam din mubarak ......khush raho ........."
اور اس نے امل کو وش کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
'اب تو میری برتھڈے ختم ہونے والی ہے' ۔۔۔۔۔امل نے بہت آہستہ اور آرام سے کہا۔۔۔۔
"ابھی ختم تو نہیں ہوئی نہ۔۔۔
میں جب سے یہاں آیا ہوں تم سے سہی سے بات ہی نہیں ہو پائی ۔۔۔۔۔۔بزی اتنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور موقع بھی نہیں ملا وش کرنے کا ۔۔۔۔اور ہاں یہ گفٹ ۔۔۔۔۔۔۔for you ".....سعد نے تفصیلی جواب دیا
"گفٹ کی کیا ضرورت تھی ".........امل نے فارمل انداز اپنایا
Don't be formal" .......سعد نے امل کو جواب دیا
تم مرتظی اور اذہان کی طرح مجھے بھی نام سے بلا سکتی ہو۔۔۔۔۔مینے دیکھا تم کتنے حق سے ان سے گفٹ کا تقاضہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ویسے بھی its your right
"میں اگر آپکو بھائی کہوں تو" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اپنی خواہش کو زباں پہ لایا
بلکل تمہے جو ٹھیک لگے وہ کہو ۔۔۔۔۔
۔"then we are friends from today ".....
سعد اسکے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا کر کہا۔۔۔۔۔۔
جسے امل نے مسکراتے ہوئے ملا لیا ۔۔ اور اس نے کہا "فرینڈز "۔۔۔
اسے اپنا یہ کزن اچھا لگا تھا اس جلاد سے تو اچھا ہی تھا
تو "اسی بات یہ تحفہ قبول کرلو" ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد نے اپنا گفٹ آگے کیا
جسے امل نے شکریہ کہ کر قبول کر لیا تھا
"بھائی بھی کہ رہی ہو اور شکریہ بھی ادا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔not good "....سعد نے مسکراتے ہوئے کہا اسے اپنی یہ کزن بہت بھلی لگی تھی ۔
اوکے "i take my thank you back.".......۔۔۔۔امل نے مسکراتے ہوئے کہا
"تمہاری کوئی فرینڈ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی کو دیکھا" ۔۔۔۔۔سعد نے بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہا ۔۔۔۔۔۔
جی "میری بس ایک ہی فرینڈ ہے" ۔۔۔۔۔۔۔وہ کافی ہے میرے لئے ۔۔۔۔۔اسے لگا سعد نے اسکا مذاق اڑایا
"ارے میں تو ایسی کہ رہا تھا میں ہوں نہ تمہارا دوست دس کے برابر "۔۔۔۔۔۔ویسے وہ جو دوست ہے تمہاری
رائمہ آنی کی نند بھی ہے نہ وہ کیا نام ہے ۔۔۔
سعد کو لگا اس نے الٹا کہ دیا
اسکا نام سویرا ہے "۔۔۔۔امل نے سعد کو بتادیا
"اوو اچھا ۔۔۔۔۔چلو اب سو جاو کافی وقت ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔گڈ نائیٹ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعد امل کے گال کھینچتے کہا جوش میں ذیادہ ہی زور سے اس نے کھینچ دیا تھا اسکا مقصد جو پورا ہوگیا تھا
اور امل اپنے گالوں پہ ہوتا ظلم دیکھتی رہی
اور سعد نے کمرے میں آکر یاہو کا نعرہ لگایا۔۔۔۔۔
"اوووو تو مس سویرا ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مسز سعد ٹو بی ۔۔۔۔۔میری زندگی میں سویرا لانے کا ارادہ کرلیں" ۔۔۔۔
اور سعد سویرا کو سوچتے ہوئے نیند کی وادی میں گم ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت نے ایک پل میں اسے اپنا اسیر کر لیا تھا
_______________________
آلارم کی آواز سے کسمندی سے اس نے کروٹ بدلی اور مندی مندی آنکھیں کھول کر گھڑی میں وقت دیکھا جو 7 بجے کا پتہ دے رہی تھی" Hayeeee میں پہلے ہی آلارم پہ اٹھ گئی" ۔۔۔۔ خوش ہوتے ہوئے اس نے کہا
جبکہ عموما آلارم کئی دفعہ بج بج کر بند ہو جاتا تھا لیکن مقابل پہ اثر نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید سونے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے امل شاور لینے کے ارادے سے اٹھ گئی اور الماری سے ایک لان کا پرنٹڈ سوٹ پہننے کےلئے انتخاب کرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________
لندن میں بھی وہ صبح سویرے اٹھنے کا عادی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی عادت کے مطابق جوکنگ کے بعد بلیک ٹراوزر پہ سلیو لیس سینڈو پہنے جس میں سے اسکے مضبوط بازو صاف واضح ہورہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔پشپز کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Episode 8
امل شاور لینے کے بعد خود کو بہت فریش محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اپنے بالوں کو ڈرائیر کرتے ہوئے اسکی نظر اس باکس پہ پڑی جو کل رات اسے حمدان نے دیا تھا اور وہ سوچنے لگ گئی کل رات کے بارے میں جب حمدان نے اسے وش کیا اود تحفہ دیا تو وہ بہت چینج لگا اور حمدان کی آنکھوں کا تاثر ایسا تھا کہ امل مہربانی کی وجہ بھی نہیں پوچھ پائی نہ گفٹ لینے سے انکار ۔۔شکر ہے کہ شکریہ کہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور ساتھ میں سعد کا دیا ہوا گفٹ بھی رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔جس کو وہ بعد میں کھولنے کے ارادے سے وہاں رکھ کر سو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے اسے پرفیوم دیا تھا۔۔۔جسکی fragrance اسے پسند آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کا گفٹ کھولتے ہوئے نہ جانے اسکے ہاتھ کیوں کپکپا رہے تھے۔۔۔باکس کے اندر ایک خوبصورت سا بریسلیٹ تھا جو اسکی نازک کلائی کی طرح نازک تھا ۔۔۔۔۔۔۔alternate چھوٹے چھوٹے سے پتے بنے ہوئے تھے ۔۔۔اور ان پر نگ جڑیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کو اسکی choice بہت پسند آئی تھی ۔۔۔۔
اور پھر پلٹ کر اس نے teddy bear کو دیکھا جو اسنے اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔اسکے لبوں پہ ایک دھیمی مسکان آگئی تھی۔۔۔۔۔۔
"ویسے یہ شخص اتنا برا بھی نہیں ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔خود سے کہتے ہوئے اس نے پردے ہٹا کر کھڑکی کھولی اور ہوا کا ایک تازہ جھونکا اسکے چہرے کو چھوکر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب اسکی نظر حمدان پہ پڑی ۔۔لان کا یہ حصہ امل کے کمرے سے نظر آتا تھا ۔۔۔۔۔جہاں حمدان پشپز کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"امل بے اختیار اسے دیکھتی چلی گئی اسکی شخصیت میں کچھ ایسا سحر تھا امل کو اپنا آپ جکڑتا ہوا محسوس ہورہا تھا"۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے خود پہ نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا تو اسکی نظر اوپر کھڑی امل پہ پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کے دیکھنے سے امل فورا سائیڈ پہ ہوگئی لیکن کھڑکی کے کھلے ہونے نے حمدان کے یقین کو اور پختہ کر دیا تھا لیکن نہ جانے کیوں اسے غصہ نہیں آیا
اور وہ مدھم سہ مسکراتے ہوئے سائیڈ پہ رکھی شرٹ پہن کر ایک نظر اوپر دیکھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرے پر رکھ لیا تھا جیسے کہ وہ چھپ گئی ہے اور لمبی سانسیس لینے لگ گئی تھی
"افف امل کیا ہو گیا تھا ۔۔۔ اسطرح سے کون دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہونگیں وہ میرے بارے میں ۔۔۔۔۔کسطرح کی لڑکی سمجھ رہے ہونگے ۔۔۔۔میں ایک نامحرم کو اس طرح سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔اللہ پاک سوری میں اب کھبی نہیں دیکھوں گی" ۔۔۔۔۔وہ بہت معصومیت سے منہ اوپر کرکے بول رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________________
""وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ڈانس کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔اس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا تو وہ شرما کر اسی کے سینے میں چھپ گئی تھی چاروں طرف ایک پیاری اور میٹھی سی دھند بج رہی تھی۔۔۔۔۔۔ہر طرف لائیٹنگ تھی ڈانس کے آخری اسٹیپ پہ اس نے اسے بانہوں میں بھرا اور وہ دونوں دنیا جہاں سے بے خبر ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آں" ۔۔۔۔۔۔۔
سعد ہڑبڑا کر اٹھا کیونکہ حمدان نے ہمیشہ کی طرح اپنی انرجی اسے اٹھانے میں ویسٹ کرنے کے بجائے اس پہ ٹھنڈا پانی ڈال دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے دماغ کا اسکرو ڈھیلا ہوگیا ہے اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا تونے سارا مزہ کرکرا کر دیا" ۔۔۔۔۔۔
۔۔"میں اور وہ "۔۔۔۔۔سعد ٹرانس کی کیفیت میں دوبارہ اپنے خواب میں گم گیا ۔۔۔۔۔۔۔
جب حمدان کا ایک زوردار مکہ اسے اپنے بازو پہ محسوس ہوا ۔۔۔
"آں ظالم ". . . . . . . . " تیری بیوی آئیگی نہ لیگی تجھ سے وہ چن چن کر بدلے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد تو اپنے خواب ٹوٹ جانے پر سخت بد مزہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔
"ابھی تو میری زندگی میں سویرا ۔۔۔۔۔۔۔سویرا بن کر آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔میری اندھیری زندگی میں سویرا بن کر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد بڑبڑایا
"سعد رات کیا بھانگ پی کر سویا تھا کیسی بہکی باتیں کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دماغ سہی ہے یا ہل گیا ہے" ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے آجتک کھبی سعد کے منہ سے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی تو وہ فکرمند ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور یہ سویرا کون ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے کہا
سویرا "۔۔۔۔سعد نے بہت نرمی سے نام لیا
ہاں سویرا ۔۔۔۔۔کل میں بتا رہا تھا ۔۔۔لیکن تو تو پتہ نہیں کہاں پہنچ گیا تھا "۔۔۔۔۔۔۔
سعد تیری طبعیت تو ٹھیک ہے" ۔۔حمدان نے سعد کا ماتھا چھو کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عشق کا فطور ہے تو نہیں سمجھے گا ابھی تیرے بس کی بات نہیں ہے" ۔۔۔۔۔۔
سعد نے اٹھتے ہوئے کہا
"میرے بس میں بہت کچھ ہے ٹریلر دیکھاو ۔۔۔ابھی "۔۔۔
حمدان اور اپنی بے عزتی کروالے ۔۔نو
حمدان" i felt in love ....with saweraa"......سعد نے حمدان کو سیدھے طرح سے بتا دیا تھا آخر یہ اسکی محبت کی بات تھی کوئی مذاق نہیں تھا
سعد حمدان کو بلکل سیرئس لگ رہا تھااور اسکی آنکھوں میں ایک الگ ہی رنگ نظر آرہا تھا جب ہی وہ یقین کرنے کےلئے دوبارہ بولا
"are you sure saad" ??????
"یسس حمدان ۔۔۔۔آفکورس ۔"۔۔۔۔رائمہ آنی کی نند یے ۔۔۔۔وہ ۔۔۔
"Ohh my gawwwwdd saad ..i can't beleive that .......
Is she know her" .....?? hamdan replied
"نہیں ابھی کہاں" سعد کا چہرہ اداس ہوگیا تھا لیکن جلد ہی اسے اپنا بنالوں گا ۔۔۔۔۔۔سعد نے ایک عزم سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے سعد کو گلے لگا کر کہا
"۔ابھی سے پورا مجنوع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جا جا کر فریش ہوجا ۔۔۔۔۔۔تیری جو حرکتیں ہیں نہ خواب ہی میں ملاقات کرنا" ۔۔۔۔۔۔۔۔
"تجھے کوئی گھاس جو نہیں ڈالتا ۔۔۔۔۔۔۔جبہی جل رہا مجھ سے" ۔۔۔۔۔۔۔سعد نے حمدان کو کہا
ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔"جیسے تجھے تو بڑا لفٹ کروایا ہے اس نے" ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان بھی پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں تھا
"ہاں تو سعد شیرازی مل رہا ہے اسے ۔۔۔۔۔۔لفٹ تو کروانا ہی پڑے گا ۔۔۔نہیں تو ہمیں بھی حربے آتے ہیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تیرا فطور جب سے چڑھ گیا رے ۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا فطورررررررر "۔۔۔۔۔سعد کنگناتا ہوا فریش ہونے گیا۔۔۔۔۔۔۔
حمدان اسکی خوشی میں خوش تھا اور دل سے اسکے لئے دعا گو ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
___________________________
"اذہان یہ تم اتنا تیار شیار ہوکر کہاں جا رہے ہو آفس تو اسطرح نہیں جاتے "۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی اسے بلانے کےلئے آیا تو اذہان کو اتنے کٹ شٹ میں دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں" ۔۔۔۔۔۔اذہان نے خود پہ پرفیوم اسپرے کرتا ہوئے کہا
"اور یہ ضروری کام میں سمجھ گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔ڈیٹ پہ جارہا ہے نہ تو پھر کسی لڑکی کےساتھ" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی نے اذہان سے تصدیق کے لئے پوچھا
"تم کتنا سمجھتے ہو مجھے مرتظی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔اذہان نے مرتظی کے گال کھینچتے کہا
"تو باز نہیں آئے گا اذہان۔"۔۔۔۔۔۔مرتظی نے اپنا گال سہلایا
"تم سنمبھال لینا آفس کا کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جا رہا "۔۔۔۔اذہان اسکے بال بگاڑتا چلا گیا
ہاں میں اسی کام کے لئے رہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کوئی جواب نہیں دوں گا بڑے ابو کو ہر وقت بچانہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔
لیکن اذہان تو اسکو ان سنی کرتے جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اور مرتظی افسوس سے سر جھٹک کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔
_____________________________________
رائمہ کے شوہر ارسلان (جو کہ ڈاکٹر بھی تھا )کو ایک اچھی آفر اسلامآباد کے ایک ہاسپٹل سے ملی تھی اور وہ اسے avail کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبہی رائمہ اور ارسلان نے اسلامآباد شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلئے وہ آج ہاشم ولا آئے ہوئے تھے ۔۔۔دو دن بعد انکی فلائیٹ جو تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
سب گھر والے ایک طرف خوش بھی تھے کہ ارسلان کی promotion ہو رہی ہے اور ایک طرف اداس بھی کیونکہ انکی بیٹی دور جو جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا جان نے رائمہ کو پیار کرنے کےساتھ بہت ساری دعائیں دیں۔۔۔۔
بابا جان" آپ پریشان نہ ہوں میں آپ سے روز بات کیا کروں گی ۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی میرا بیٹا" ۔۔۔۔۔آغا جان نے اپنی بیٹی کو تسلی کرائی
"امل آپی آپنے وعدہ کیا تھا جب میں یہاں آو گا تو آپ میرے ساتھ کھیلیں گی چلیں نہ لان میں پھر اندھیرا ہوجائے گا "
یہ ارحم تھا رائمہ کا بیٹا ۔۔۔۔
"اچھا بابا چلو اب تو تم جا رہے ہو سہی سے انجواے کرتے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔lets go۔۔
امل ہامی بھرتی ہوئی ارحم کے ساتھ لان کی جانب بڑھی
پہلے ارحم اور امل فٹ بال کھیلا پھر پکڑم پکڑائی ۔۔۔۔۔۔۔
آپی اب ہم نیا گیم کھیلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
آپ اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھے پھر مجھے پکڑیے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم نے امل کا دوپٹہ اسکی آنکھوں پہ باندھا اور اسے گول گھما کر کہا ڈھونڈیں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے چاروں طرف چل چل کر دیکھا لیکن ارحم اسکی پکڑ میں نہیں آرہا تھا امل چلتے چلتے کار پورچ کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
""افف ارحم تم کہاں چھپ گئے ہو یہ تو چیٹنگ ہے"" ۔۔۔۔۔
امل تقریبا ١٠ منٹ سے ارحم کو ڈھونڈ رہی تھی اب وہ جنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک امل نے ایک وجود کو سینے سے پکڑا اور ہنستے ہوئے کہا
" مینے پکڑ لیا ".۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اسے محسوس ہوا کہ اسنے کوئی لمبا اور کسی سخت چیز کو پکڑا ہوا ہے جو کہ ارحم تو ہرگز نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے فورا اپنی ْآنکھوں سے پٹی ہٹائی اور دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی اسکی آنکھیں کھلی ہی رہ گئی تھی کیونکہ اسنے کسی اور کو نہیں حمدان کو پکڑا ہوا تھا جو ابھی ہی آفس سے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں گم تھے جب ارحم کی چنگھارتی ہوئی آواز انکے کانوں میں پڑی تو وہ دونوں ہوش میں آئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپی آپ ہار گئیں ۔۔۔۔میں جیت گیا ۔۔۔۔یاہوو" ۔۔۔۔۔
ارحم نے اچھلتے کہا
امل نے فوراً حمدان پر سے اپنے ہاتھ ہٹائے اور فاصلے پہ ہوئی
امل نے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے کہا
"ہاں چھوٹے جونئیر تم جیتے میں ہار گئی اب چلو اندر بہت دیر ہو گئی ہے " اور حمدان کو دیکھے بغیر فورا سے اندر چلی گئی ۔۔۔۔
ادھر حمدان اپنی فیلنگ سمجھنے سے قاصر تھا اپنا ماتھا مسل کر وہ بھی اندر کی جانب بڑھا
__________________________
ایک خوشگوار ماحول میں رات کے کھانے کے بعد رائمہ اور ارسلان کو رخصت کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
امل کی آنکھیں نم تھی اور اپنی آنی کے گلے لگ کر اس نے کہا
"۔I miss you alot "آپ دونوں اپنا بہت خیال رکھئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کو امل کی نم ْآنکھیں بلکل اچھی نہیں لگ رہی تھی اسے الگ سی بےچینی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
__________________________
آج ویکنڈ تھا
آغا جان کے کمرے میں گھر کے تمام افراد تھے اور اہم موضوع پر بحث ہو رہی تھی
"حنین تم بتاو تمہارا ذیادہ حق ہے کیا کرنا چاہئیے "
حماد صاحب نے براہ راست پوچھا
"بھائی صاحب میں کیا کہوں آپ لوگ بڑے ہیں وہ آپکی بھی بیٹی ہے مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ اتنی بڑی ہوگئی اب اسکے رشتے کی بات بھی آگئی یے "
انہوں نے جواب دیا
"ویسے رشتہ تو اچھا ہے "
حارث صاحب نے اپنی رائے دی
دروازے کے کونے میں کھڑی امل کے آنکھیں آنسو سے لبالب بھر گئیں تھی جسے اذہان نے دیکھ لیا تھا
"میری شہزادی کسی اور گھر کی شہزادی بن جائے گی "
آغا جان نے بھی بات میں حصہ لیا
امل وہاں سے چلی گئی تھی اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل لگ رہا تھا
"آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے امل نہیں چاہتی ایسا کچھ جلدی کیا ہے ابھی وہ کتنی بڑی ہوئی ہے ہم پر بوجھ نہیں یے آپ منع کردیں ان لوگو کو" ۔۔۔۔
اذہان جو کب سے یہ سب سن رہا تھا امل کو جاتا ہوا بھی اس نے دیکھ لیا تھا تو وہ بول پڑا
"کیا ہوگیا ہے اذہان اتنا ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو بات ہو رہی یے ابھی بس "
حارث صاحب کو اذہان کی مداخلت بڑوں کے معاملے میں پسند نہیں آئی
جبکہ شانزہ بیگم کو کچھ اور لگ رہا تھا وہ آنکھوں آنکھوں میں حارث صاحب سے کہنے کی کوشش کر رہی تھی
"ہاں بیٹا اتنے غصے کی کیا بات ہے امل سے پوچھے بغیر کوضی فیصلہ نہیں ہوگا "
حماد صاحب نے اسے ٹھنڈا کیا
"جی بڑے پاپا وہ میں بس اس لئے کہ وہ ہرٹ ہوگئی ہے "
اذہان نے بھر پور امل کی سائیڈ لی
"اسے کیوں آگ لگ رہی یے امل کے رشتے سے یہ اتنا بیچ میں کیوں بول رہا ہے شاید ایک طرح سے اچھا کرا ہے "
حمدان کو اذہان اس وقت سخت زہر لگ رہا تھا
"جو بھی ہے اذہان اسکی شادی تو ہونی ہے نہ ایک نہ ایک دن اس میں اتنا رونے دھونے کی کیا بات ہے بیکار کا واویلا"
انعمتہ بیگم کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی
"ہم ویسے بھی امل کی شادی ابھی نہیں کرنا چاہتے وقت کے ساتھ وہ تیار ہوجائیگی ابھی بات ختم کی جائے "
آغا جان نے اپنی کپکپاتی آواز میں بات کو ختم کی جو کہ بڑھی جا رہی تھی
____________________________
"چھوٹی امی آپ نے امل کو دیکھا ہے "
اذہان نے گلاس میں پانی انڈیلتے کہا
"ہاں بیٹا بچپن سے دیکھا ہے "
صدف بیگم نے اپنی جھلی بیٹی کا سوچتے کہا
""افف چھوٹی ماما ابھی کا پوچھا ہے ابھی دیکھا ہے آپنے کمرے میں بھی نہیں ہے پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے "
اذہان نے ہنستے کہا
"یہی ہوگی اس کے سر پہ بم جو گرا ہے شادی کا جب سے اداس ہے "
شانزے بیگم نے اسے کہا
"میں نے ٹیرس پہ جاتے ہوئے دیکھا تھا دیکھ لوں وہی ہوگی شاید "
انعمتہ بیگم نے ہانڈی میں چمچ چلاتے ہوئے کہا
___________________
""یہ چاند تاروں کو کیوں ڈرا رہی ہو اپنی شکل دکھا کر آرام کرنے دو انہیں "
اذہان نے امل کے برابر میں کھڑے ہوکر باونڈری وال سے ٹیک لگا کر کہا
امل نے ایک نظر اسے دیکھا پھر نظریں پلٹ لیں وہ اس وقت بہت اداس تھی
"کیا ہوگیا ہے امل آو اندر چلو رات کا وقت ہورہا ہے "
اذہان نے اسے بہلایا
"مجھے اس وقت اکیلا چھوڑ دو کوئی بات نہیں کرنی مجھے جاو "
امل نے اداس لہجے میں کہا اپنا چہرہ آسمان پہ ٹکایا ہوا تھا اس نے
"جن لوگوں سے خطرے کا خدشہ ہو اسے اکیلے نہیں چھوڑنا چاہئیے " اذہان نے پتے کی بات کہی
"امل نے ایک سخت گھوری سے نوازا "
"اچھا اب نو مذاق نو فن "
اذہان نے اسے دیکھتے کہا
"مذاق کے علاوہ آتا کیا ہے تمہیں ہر وقت تمہیں اور مرتظی کو مذاق سوجھتا رہتا یے یہاں تک کہ میری شادی کی بات بھی میں کیا فیل کر رہی ہوں تم اندازہ نہیں کرسکتے اچھا ہوگا چلی جاو گی نہ یہاں سے پھر کھبی نہیں ملوں گی جب پتہ چلے گا میری یاد آئی گی "
امل نے اداسی سے کہا
""کیوں نہیں ملو گی تم کیا مسٹر انڈیا بن جاو گئی یا تمہارا شوہر کوئی جادو گر ہوگا جو تمہیں غائب کردے گا اور ساتھ میں خود بھی غائب ہوجائے گا "
اذہان کو امل کا دماغ سینس میں نہ لگا
"ارے ہم کیوں نہیں ملے گیں پیاری چڑیل میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے ہم دونوں بھی تمہارے ساتھ چلیں گے بوڈی گارڈ بن کر تمہارے سسرال ان کو بتا دینا ہم دونوں جہیز کے ساتھ ملیں ہیں "
مرتظی جو ابھی یہاں آیا تھا امل کی آخری بات اس نے سنی تھی تو اس نے بھی بات میں حصہ ڈالا
امل کو اب غصہ آنے لگ گیا تھا
"اچھا نہ سوری کیا ہوگیا ہے یار کچھ نہیں ہوگا جب تک تمہاری مرضی نہیں ہوگی تم ذیادہ ری ایکٹ کر رہی ہو صرف بات ہوئی ہے اور کچھ نہیں جسٹ ریلکس یار "
مرتظی نے امل کو calm down کرنا چاہا
"تم دونوں کا یہی ایک کام ہے مذاق سوری سامنے والے کی کوئی فیلنگز نہیں یے کوئی فرق نہیں پڑھتا کھبی فن سے باہر آجایا کرو تم دونوں کا سوری بھی تمہارے مذاق کی طرح ہوتا ہے میری شادی کی بات یہ ہے کوئی مذاق نہیں "
امل کہتی ہوئی جانے لگی تھی جب اذہان نے اسکی کلائی پکڑی تھی اور مرتظی اسکے راہ میں حائل ہوا تھا
"امل تمہیں لگتا یے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑھتا تمہاری پریشانی سے اس چیز سے جو تمہیں ہرٹ کر رہی یے ہمیں نہیں فرق پڑتا ہم مذاق جان بوجھ کر کرتے ہیں "
مرتظی نے بات مکمل کری تو اذہان نے اس کی بات کو بڑھایا
اگر تمہاری شادی ہوگئی تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا تم اپنا سب سے ذیادہ وقت کس کے ساتھ گزارتی ہو ہمارے ساتھ کون ہر وقت تمہیں پکارتا رہتا ہے اپنی ہر بات بتاتا ہے وہ ہم ہیں اور کس کا گزارا نہیں ہے تمہارے بنا وہ ہم دونوں ہیں "
اذہان بول کر چپ ہوا تو مرتظی نے کہا
"سب سے ذیادہ فرق ہم دونوں کو پڑے گا اگر تم چلی گئی امل تمہیں ہماری ضرورت نہ ہو لیکن ہمیں ہے سب سے ذیادہ اہم ہو تم ہمارے لئے تمہیں تو یاد نہیں ہے ہم تمہیں گود میں اٹھائے پورا پورا دن لئے رہتے تھے تمہارا رونا برداشت نہیں ہوتا تھا ہم سے "
اب اذہان نے کہا
"تم وہ ہو جو ہماری غلطیوں پہ پردہ ڈالتی ہو ہمیں بڑے پاپا کے قہر سے بچاتی ہوں اور ہمیں فرق نہیں پڑے گا تم ہو جو ہمیں سمجھتی ہو ہمارا خیال رکھتی ہو ہمارے بگڑے کام سنوارتی ہو "
جب ان دونوں نے اپنی بات مکمل کری تو امل کا چہرہ جھک گیا تھا وہ سہی تو کہ رہے تھے وہ ذیادہ کہ گئی تھی
"سووووووو رررر ی ی ی ی ۔۔۔۔"
ہچکیوں نے درمیان اس نے کہا
""امل نو میرا بچہ ششش روتے نہیں ہمارا مقصد رلانا ہرگز نہیں ہے "
مرتظی نے امل کو اپنے سینے سے لگایا اور اسکے بالوں پہ بوسہ دیا
ارے یہ بن موسم برسات کیوں شروع ہوگئی ہے اذہان نے امل کو کندھوں سے تھام کر سیدھا کیا اور اپنی دونوں ہتھیلی سے اسکے آنسو صاف کریں
"آو ہم ludo کھیلتے ہیں " اذہان نے سینٹی ماحول کو کم کرنا چاہا
مرتظی تم سعد کو لے کر آو چاروں مل کر کھیلیں گیں کہتے ہوئے اذہان امل کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کی جانب بڑھا
Episode 9
وہ چاروں اوپر والے فلور کے لیونگ روم میں ludo کھیل رہے تھے جہاں سے ایک کمرہ چھوڑ کر حمدان کا روم تھا
کھیلنے کے ساتھ ساتھ انکی مستیاں بھی جاری تھیں ایک دوسروں کو چھیڑنا
""اوئے ہر جگہ اپنی ہٹلر گری نہ دیکھایا کرو "
اذہان کی گوٹی پٹی تو اس نے امل سے کہا
"ہاں تو پٹی گی تو مارو گی نہ " امل نے بھی ویسا ہی جواب دیا
"مرتظی کی بھی پٹ رہی تھی اس کی نہیں ماری "
اسے غصہ آیا
"میری مرضی میرا دل چاہا تمہاری گوٹی پیٹنے کا تو پیٹ دی ۔۔۔تم مجھ سے کھیلنا سیکھو اور یہ دیکھو مرتظی کی بھی پٹ گئی یہ دماغ والوں کا کھیل ہے تمہیں چاہئیے مجھ سے ٹپس لو "
امل نے مرتظی کی پٹی گوٹ کے جانب اسے متوجہ کرایا
""اوووو ہلکے میں رہو میں نے سکھایا ہے یہ گیم کھیلنا اور مجھے ہی ٹپس بانٹیں گی میڈم "
اذہان نے بھی کرارا جواب دیا
""ہاں وہی تو جو تم بھول گئے ہو جب ہی تو ہار رہے ہو "
امل نے اس کو چڑایا
"ایک بات کہوں " سعد نے کھیل کے دوران کہا
امل کی یہ جو دادا گیری ہے ہم پر ہی چلتی ہے اپنے ان کے سامنے تو یہ بھیگی بلی بن جائے گی
""کون ان "" مرتظی نے کہا
"وہی جس کا رشتہ آیا ہے وہی architecture "
اذہان نے نے یاد دلایا
"بکواس نہ کرو تم ذیادہ " امل نے آنکھوں سے گھورا
"ویسے امل یہ جو تم آنکھیں دکھاتی ہو نہ ہمیں ہی دکھا سکتی ہو اس کے سامنے تو زبان کو قفل لگ جائے گا وہ کہے گا رات ہے تو رات دن ہے تو دن وہ کہے گا امل بیٹھ جاو تو تم بیٹھ جاو گی وہ کہے گا کھڑے ہوجاو تو کھڑی ہوجاو گی "
سعد نے اپنے بھائی کا پورا پورا ساتھ دیا
""اوئے ہوئے سعد کیا بات کہی ہے تو نے اب لگ رہا نہ میرا بھائی تو۔۔ لاکھ روپے کی بات کہی ہے "
اذہان نے کہتے ہوئے سعد کے ہاتھ پہ تالی ماری
"سعددد بھائی آپ نے بھی پارٹی بدل لی بہت غلط بات ہے "
امل کو صدمہ لگ گیا تھا
"تو تم چڑتی کیوں ہو جب ہی ہم چڑاتے ہیں "
مرتظی نے اپنی چال چلتی کہی
"ہاں تو چڑنے والے کام کرتے ہو اور چڑوں نہ میں دیکھنا تم لوگ تمہاری بیویوں سے چن چن کر بدلے لوں گی میں گن گن کر یاد رکھنا "
امل نے پہلے ہی وارن کرایا
بیوی کے نام پر سعد کو سویرا یاد آگئی جس سے اسکے لب مسکرانے لگے
"ویسے مرتظی لڑکیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے ابھی کچھ دیر پہلے تو یہ رو رہی تھی اور اب دیکھو کیسی بتیسی نکل رہی ہے "
اذہان نے امل کا خوشگوار موڈ دیکھ کر اسے سلگانا ضروری سمجھا
"ہاں بھی لڑکیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے سمجھ ہی نہیں آتا کیا چاہتی ہیں مجھے تو لگتا ہے سائنسدان بھی نہہں سمجھ پائے ہیں "
سعد نے جواب دیا
"تو کر رہا ہے لڑکیوں کو نہ سمجھنے کی بات "
مرتظی نے اسکو یاد کرایا
"مرتظی تو گیم پہ دھیان دے یہ چڑیل جیت رہی ہے "
اذہان نے بات بدلی
""یاہوووووو میں جیت گئی ""
امل نے بھنگڑے بھی ڈالنا شروع کردئے جب اسکی نظر اذہان کے ہاتھ پہ پڑی
""اووو فرینڈشپ بینڈ کہاں ہے جو میں نے دیا تھا "
امل نے سیریئس انداز میں کہا
""ارے ہاں کہاں گیا کل تک تو تھا کدھر گیا اذہان ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا تھا "
امل نے مرتظی کی جانب دیکھا تو اس نے اپنے ہاتھ فوراً آگے کئے کہ میرے پاس ہے
""اوئے ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو تم نے اتار تو نہیں دیا یا کہیں گرادیا تو نہیں دیا " امل نے اذہان کو تھوڑی سے پکڑ کر اسکا چہرہ گھمایا
""نہیں میں کھبی نہیں اتارتا یہی کہیں ہوگا تو تو ہٹ دیکھنے دے مجھے یہاں تو نہیں گر گیا "
اذہان جنجھلا گیا تھا
"یہاں ۔۔۔۔مجھے تو نہیں دکھ رہا ہے مرتظی سعد بھائی آپکو آرہا ہے نظر کتنے پیار سے دیا تھا میں نے گھما دیا اس نے اسے کوئی چیز نہیں دینی چاہئیے "
امل کو شدید صدمہ ہوا تھا
ششششش ۔۔۔۔۔ریلکس ۔۔۔آرام سے ۔۔سانس لو امل ۔۔۔۔مل جائے گا یہی ہوگا کہاں جائے گا
اذہان نے خود بھی اسے سانس لے کر دکھایا
""نہ ملا تو دیکھنا تم اذہان "
امل نے اسکی ایک بات نہیں سنی
""کتنا چیختی ہو تم ایک تو تمہارے اس خوفناک چیخ سے وہ اور نہیں مل رہا ہے دن ہی خراب ہے آج کا "
اذہان بھی اب چڑ گیا تھا
"ہاں تم اب بہانے بناو صبح سے غائب ہو تم جبکہ ویکنڈ ہے آج رات کے وقت کچھ دیر پہلے آئے ہو "
امل نے اسے یاد کرایا
"میری گاڑی خراب ہوگئی تھی جب ہی لیٹ گھر آیا ہوں پیدل تو نہیں آسکتا تھا نہ "
اذہان نے مرتظی کو آنکھ مار کر کہی کہ بچالے ورنہ وہ تو آج دو تین ڈیٹس اٹینڈ کر کے آیا تھا
"مرتظی کو تو مزہ آرہا تھا اذہان پھنسا تھا
""کیا بہانہ ہے تمہارا میں نے میسج کیا تھا چاکلیٹ لانا میرے لئے تم وہ بھی نہیں لائے بھول گئے تھے ۔۔۔صاف کہو نہ کہ لڑکیوں کو امپریس کر رہے تھے "
امل نے تکہ صحیح لگا لیا تھا
امل کی لڑکی والی بات پہ مرتظی کو پھندا لگ گیا تھا تو سعد نے اسکی پیٹ تھپکی
"مروائے گا یہ مرتظی کا بچہ "
اذہان نے دل میں سوچا
""او ہیلو میں امپریس نہیں کرتا لڑکیوں کو لڑکیاں خود ہی امپریس ہوتی ہیں مجھ سے "
اذہان نے فخریہ کالر جھاڑے
"میں تو نہیں ہوئی " امل نے اپنے دونوں ہاتھ باندھے
"میں نے لفٹ کب کرائی تمہیں "
اذہان نے بھی اسے کہا
"اچھا بچپن میں سائیکل پہ اپنے ساتھ بٹھاتا کون تھا اس دن یونی کون پک کرنے آیا یہ لفٹ ہی ہے سچ یہ ہے کہ میں نے گھاس نہیں ڈالی "
امل نے اسکی طبعیت صاف کی
"چل بینڈ تو دیا تھا نہ " اذہان نے اپنا ہاتھ لہرایا امل کے سامنے
"یہی تو غلطی ہوئی ہے تمہیں دینا نہیں چاہئیے تھا گھما دیا میرا بینڈ ایک نمبر کے لاپروا کام چور انسان ہو تم ۔۔کسی چیز کے لائق نہیں ہو "
امل نے اسکے ماتھے پہ مکا مارتے کہا
""امیییییی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔
اذہان نے اپنے ہاتھ کا مکا بنایا تو امل دو قدم پیچھے ہوئی
ایک تو تمہارا ٹیپ اب تک وہی اٹکا ہوا ہے ڈھونڈنے دو گی تو ملے گا نہ "
اذہان نے اپنی نظریں دوڑائیں
"میرے چپ رہنے سے مل جاتا یے تو ڈھونڈو ایک چیز تو سمنبھالی نہیں گی "
امل کا خاموش ہونا ناممکن تھا
""یار مرتظی منہ بند کر اسکا "
اذہان نے مرتظی کو کہا
سعد کو تو یہ نوک جھونک بہت پسند آرہی تھی وہ ایک مووی کی طرح انجوائے کر رہا تھا
""یہ لڑکی کہاں سے ہے ہٹلر ہے پوری آفت "
اذہان نے بھی اسے جواب دیا
"اذہان اب تم بچو مجھ سے امل نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اذہان پہ مکہ برسانے شروع کردئیے
""آہ۔۔۔۔۔چڑیل چھوڑ اپنے ناخن چبھا رہی ہے اسکا مذاق نہ کیا کر "
اذہان نے ہاتھ کا دفاع بنایا ہوا تھا
امل نے نظریں اٹھائیں تو جلاد عرف حمدان کو خونخوار نظروں سے دیکھتا پایا اس کے ہاتھ فوراً رکے اور وہ پیچھے ہوئی
""یہ کیا ہورہا ہے پاگل ہوگئے ہو اتنا چیخ رہے ہو پورے گھر میں آواز گونج رہی ہے اسکا تو دماغ ہلا ہوا ہے حمدان نے امل کی جانب اشارہ کیا
اذہان تمہارا ہم عمر نہیں ہے جو اس طرح مار پیٹ رہی ہو اور تم مرتظی تماشہ بنا دیکھ رہے ہو روک نہیں سکتے تم ہو ہاتھی بلے بنے ہوئے ہو اور سعد آپ بھی ہیں یہاں۔۔ تمہارا بھی دماغ جگہ سے کھسک گیا ہے اندر آو اور پریزینٹیشن میں مدد کرواں ۔۔بچے بن گئے ہیں سارے ""
حمدان نے لائین سے سب کو لتاڑا
حمدان کے جانے کے بعد ان چاروں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی اور کب سے ضبط ہوا انکا قہقہ بلند ہوا
حمدان نے پلٹ کر ایک نظر انہیں گھورا تو وہ سیدھے ہوئے
" مرتظی تمہارا بھائی اور سعد بھائی آپکے دوست ایک نمبر کے جلاد ہیں "
امل کو اس دفعہ حمدان سے ڈر نہیں لگا شاید سب موجود تھے جب ہی ۔۔ورنہ اسکی آواز نکل ہی نہ جائے
____________________________
امل تتلی کی طرح منڈلاتی کوریڈور میں گھوم رہی تھی جب اسے حمدان کی ہنسی کی آواز آئی
"یہ جلاد ہنستا بھی ہے" تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے اپنے قدم دائیں جانب موڑیں لیکن دروازہ تو بند تھا تو اس نے دروازے سے ٹیک لگا کر اپنا کان لگایا
""سعد تو کب سے ٹھونسے جا رہا ہے مجھے بھی دے یہ پزا تیرے منہ میں جگہ نہیں بچی ہے اب "
حمدان سعد کے پیچھے پیچھے گھومتا جا رہا تھا
""ہاہاہا میں نے کہا تھا نہ میں تجھ سے بدلہ لوں گا "
سعد نے حمدان کا والٹ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا اور بائٹ پہ بائٹ لئے جارہا تھا
""سعد میرا بھائی ہے نہ کھلا مجھے بھی "
حمدان نے اسے جال میں پھنسانا چاہا
سعد کو ہنوز خود کو تکتا پایا تو اس نے بولا
"یہ ایسے نہ دیکھا کر میں تیری بیوی نہیں ہوں "
"تو سوچ پھر بیوی کو کیسے دیکھوں گا "
سعد نے آئی برو اچکائی
"میں کیوں سوچو ۔۔۔تو سوچ ۔۔۔ویسے جس طرح تو دیکھے گا نہ بیچاری نے نظروں سے ہی شرما جانا ہے تجھے اور کچھ نہیں کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔
حمدان نے پزا پہ نظریں گڑاتے کہا
""چل یہ لے ۔۔۔سعد نے حمدان کے آگے ایک ٹکڑا کیا
یہ کیا ہے۔۔۔۔حمدان کو غصہ آیا
کیونکہ اسے ٹکڑا کہنے بھی غلط ہوگا وہ اتنا چنا سہ پیس تھا کہ ایک ننھے منھے سے بچے کے منہ کا نوالہ ہو
""سعد تو بچ کر دکھا "
حمدان اس کے پیچھے بھاگا
دونوں کی ہنسی کمرے میں گونج رہی تھی
سعد نے بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا اور خود تو سائیڈ پہ ہوگیا تاکہ حمدان بھاگنے کی فلو میں آگے بڑھ جائے اور وہ موقع پاتے ہی دروازہ بند کردیں
امل جس نے دروازے سے ٹیک لگایا ہوا تھا دھڑام گری حمدان کی بانہوں میں اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی اور " امییییی" چیخی
حمدان نے خود کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ امل کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے بھی بچایا
"چپ بلکل گری نہیں ہو "
حمدان جو خود بھی آدھا جھکا ہوا تھا اسکے چیخنے پہ اسے لگا کہ اس کا کان ہی سن ہوگیا ہے
"امل نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں تو حمدان کا چہرہ اپنے بے حد قریب پایا
امل اپنی سانس روکے حمدان کی دھڑکن اور اسکی گرم سانسوں کی تپش محسوس کر رہی تھی
""اوووو اپنا سین کہیں اور جا کر آن کرو میں شریف بچہ ہوں بگڑ سکتا ہوں"
سعد نے اپنے آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر کہا
حمدان نے امل کو سیدھا کیا امل کے ہاتھ حمدان کے گرد بندھے ہوئے تھے اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور حمدان نے پھر سعد کی گردن دبوچی ""اب بول شریف اور معصوم بچہ جیسے میں تو جانتا نہیں ہوں "
سعد کی اتنی بے شرمی والی بات میں امل کو حیا آگئی تھی اور وہ جانے کے لِئے پلٹی جب اسے اپنی پشت سے آواز آئی ""رکو لڑکی "
امل نے اللٰہ کا نام لے کر خود کو پلٹا تو حمدان اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا
"ویسے آئی کیوں تھی تم یہاں "
"میں " ۔۔امل نے اس طرح سے سانس لی کہ اسکی گلٹی ابھری
"نہیں تمہارے invisible angels "
حمدان نے بھی اسکا جیسا جواب دیا
سعد اپنی گردن چھڑوانے کی تگودو میں تھا
"امل اس پل کو کوس رہی تھی جب وہ یہاں آئی اور اپنی شامت کو دعوت دی ۔۔کیا ضرورت تھی امل تمہیں شیر کے گھر میں جانے کی "
دل میں وہ سوچتی ورد بھی کرتی جارہی تھی
""بولو ۔۔۔۔حمدان کا لہجہ ایک دم تیز ہوا
امل اپنی جگہ سے اچھل گئی ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔می۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔می۔۔۔۔میں۔۔۔۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
"کیا میں میں لگا رکھی ہے بکری ہو "
حمدان نے اسے ٹوکا
سعد بھائی ۔۔۔۔۔امل نے حمدان کی توجہ سعد کی جانب کرائی جو اسکی گرفت سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا
حمدان سعد کی جانب لپکا تو امل بھی بوتل کی جن کی طرح نو دو گیارہ ہوئی
آج اسکی شامت آتے آتے بچی تھی
______________________________
امل لاونج میں بیٹھی اپنا statistics کا assignment مکمل کر رہی تھی اسے کچھ questions سمجھ نہیں آرہے تھے تو وہ سامنے سے آتے مرتظی کو روک کر اس نے کہا۔۔۔۔۔
"میری help کردو" ۔۔۔۔۔۔۔
چندا مجھے ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے میں رات میں آکر سمجھا دیتا ہوں" ۔۔۔
مرتظی جلدی میں کہتا ہوا آگے بڑھ گیا
.."اوکے کوئی بات نہیں جاو تم لیکن
امل نے جواب دیا
اسے یہ assignment کل ہی sumbit کرانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد جس نے یہ باتیں سن لی تھی وہ امل کے پاس صوفے پہ بیٹھا اور کہا
،"would you like to take my help" ....?
سعد بھائی" آپ واقع میں میری مدد کردینگے ۔۔۔۔۔۔پلز کردیں یہ questions تو سر پر سے گزر رہے ہیں میرے" ۔۔۔۔۔۔۔
امل کو اپنی ٹینشن دور ہوتی محسوس ہوئی
اور سعد اسے questions solve کروانے لگا ویسے حمدان کی میتھس بہت اچھی ہے ۔۔۔سعد نے امل کو بتایا
"یہ جو آپکے دوست ہے نہ پلس بھائی ہیرو بننے کا شوق ہے لیکن ولن کے رول کے بھی لائق نہیں ہے" ۔۔
امل کو حمدان کی تعریف بلکل پسند نہیں آئی ہر وقت تو غصہ سوار رہتا ہے
سعد حمدان کی تعریف پہ کھل کر ہنسا
"ایسا نہیں ہے بہنا "۔۔۔
ایسا ہی ہے" ۔۔۔امل بھی ہنستی کوئی اپنے کام پہ متوجہ گئی
نیچے سے آتے ہوئے حمدان کی نظر ان دونوں پہ پڑی ہے جو کہ ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔
امل نے بالوں کو رول کرکے کیچر لگایا تھا اور کچھ لٹیں اسکے چہرے پہ بار بار آرہی تھی جو اسے disturbed کر رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعد نے امل کے بالوں کو پکڑ کر کان کے پھیچے کرکے اس میں پینسل اٹکادی تو اس طرح سے بال اسکے منہ پہ اب نہیں آرہے تھے۔۔۔
سعد اور امل میں گزرتے دن کے ساتھ کافی frankness ہو گئی تھی جس میں سعد کا ذیادہ ہاتھ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ حمدان سے امل کی تھوڑی بہت بات ہوجاتی تھی ۔۔۔
حمدان کو یہ دیکھ کر پتہ نہیں کیوں جلن محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمدان کی برداشت اب یہی تک ختم تھی ۔۔۔۔۔سعد پر اسکو پورا بھروسہ تھا ۔۔۔وہ سعد کو غلط نہیں سمجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی یہ ۔۔۔۔
حمدان سے مزید برداشت نہ ہوا تو اسنے سعد کو آواز لگائی ۔۔۔۔
امل بھی حمدان کی آواز پہ چونک گئی ۔۔۔۔۔۔
سعد نے کہا "حمدان کیا ہوا "۔۔۔۔۔۔
حمدان سے کوئی جواب نہ بنا تو اسنے کہا
"ہاں وہ تم جو project کی فائیل بنا رہے تھے اسکا کیا ہوا "۔۔۔۔۔۔
کل تک بن جائیگی ۔۔۔۔"کیوں کیا ہوا" ۔۔۔۔۔سعد کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔
"نہیں کچھ نہیں ۔۔میرا مطلب کام pending پہ نہیں رکھنا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔تم کام مکمل کرلو ۔۔۔کچھ مسلہ ہوا تو sort out ہو جائے گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے سعد کو کہا
سعد کو حمدان کچھ change لگا اسنے اپنا خیال جھٹکتے ہوئے کہا ۔۔۔
""ہاں میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔دو تین questions رہ گئے ہیں امل کو بتادوں "
نہیں ۔۔۔"میرا مطلب ہے ۔۔۔میں فری ہوں ۔۔۔۔تم جاو اپنا کام کرلو میں بتادیتا ہوں امل کو" ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اپنا لہجہ بہت نارمل رکھا تھا کہ سعد کو ذرا بھی شک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔
اوکے "۔۔۔۔سعد بھی کہتا ہوا آگے بڑھ گیا
حمدان اب سعد کی جگہ بیٹھ کر امل کو سمجھانے لگا۔۔۔۔۔اسکے سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا ۔۔۔۔۔۔امل کو اسنے questions ایزی اسٹیپ میں حل کرادیئے تھے ۔۔۔۔۔امل نے دل میں کہا واقع انکی میتھس اچھی ہے
شکریہ ۔۔"مجھے آگیا سب سمجھ ۔۔۔۔میں اپنے کمرے میں اسے complete کر لیتی ہوں "۔۔۔۔۔۔
امل یہ کہتی ہوئی تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
اسے حمدان کی قربت میں گھبراہٹ ہورہی ہوتی ہے لیکن کچھ الگ سی ۔۔۔۔۔۔۔
Episode 10
حمدان اپنے کمرے میں آکر ادھر ادھر ٹہل رہا تھا ۔۔۔۔وہ اپنی فیلنگ سمجھنے سے قاصر تھا یہ مجھے کیا ہورہا ہے کیوں مینے ایسا ری ایکٹ کیا ۔۔۔
جب اسے آئینہ میں اپنا روپ نظر آیا ہے جو اس سے کہ رہا تھا ۔۔۔۔
""تمہیں محبت ہوگئی ہے"" ۔۔حمدان شیرازی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے" ۔۔۔۔
۔حمدان اپنے ضمیر کی آواز کو ان سنی کیا
محبت اجازت لیکر کب ہوتی ہے یہ تو ہوجاتی ہے بسس ۔۔۔۔۔۔اور حمدان کو بھی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
محبت ایک دن اپنا آپ منوانا کر ہی دم لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔
حمدان یہ سب نظر انداز کرتے ہوئے واشروم میں فریش ہونے کی غرض سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
_______________________
بی جان کی اکلوتی بہن کا انتقال ہوگیا تھا تو سب گھر والوں کو لاہور جانا پڑھ رہا تھا امل کے کچھ important test تھے تو وہ نہیں جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
"امل بٹیا آج تک اکیلی نہیں رہی کیسے رہی گی" ۔۔۔بی جان اپنی جان سے عزیز پوتی کےلئے فکر مند تھیں ۔۔۔۔
"حمدان بیٹا میں آپکو گھر کی ذمہداری سونپ رہا ہوں اور مرتظی اور اذہان تم دونوں مستیوں میں نہ لگ جانا بزنس کا دھیان رکھنا "۔۔۔۔۔۔سعد کا بھی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی کم چلبلا نہیں ہے ۔۔اسی لئے انہیں ساری امید حمدان سے تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کا خاص خیال رکھنا ۔۔۔
ہمیں شاید دو تین دن لگ جائیں ۔۔۔۔۔۔
فلائیٹ تو جبہی بک کرالی تھی جب وہاں سے کال آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
۔حماد صاحب تینوں کو ایک ساتھ کہا جس پہ حمدان نے انہیں تسلی کرائی۔۔۔۔۔
"امل بیٹا میری جان اپنا خیال رکھئیے گا"۔۔۔۔۔۔
حنین صاحب امل کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں سارے گھر والے رخصت ہوگئے تھے سارےyongsters ۔گھر پہ تھے۔۔
___________________________
اذہان کو تو کھلی چھوٹ مل گئی تھی لڑکیوں کے ساتھ آرام سے ڈیٹ مارنے کی ۔۔۔۔
اور گھر پہ مرتظی سعد اور اذہان مل کر ادھم مچاتے ۔۔۔۔۔۔
آج انکا پلان مووی دیکھنے کا بنا مرتظی اور اذہان کے کمرے سے تو حماد صاحب نے led ہٹوادی تھی سعد کے کمرے میں تھی ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔
حمدان کے روم کے led کا کچھ مسلہ تھا تو انہوں نے کہا امل کا کمرہ کس دن کام آئے گا اور امل کے کمرہ پہ آج انہوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
سعد حمدان کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا تھا سعد کو انکار اسکے بس میں کہاں تھا اور جو مووی انہوں لگائی تھی وہ حمدان کو پسند تھی تو اس وہ اس وجہ سے وہ بھی دیکھنے بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________________
امل آج نیچے ہی پڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھی تو مزید پڑھائی کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھی
لیکن یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ اسکے کمرے پر تو قبضہ ہوا وا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کشن ادھر ادھر پڑے ہوئے پوپکورن جوس کھانے کی بےشمار چیزیں کھا کر ریپرز وہی چھوڑ دئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔یہ تم دونوں کا کام ہے نہ مرتظی اذہان ۔۔۔فورن نکلو ۔۔۔۔مجھے سونا ہے "۔۔۔۔۔۔
امل نے ایل ای ڈی کے سامنے کھڑے ہوکر کہا
لیکن ان دونوں پر انکا کوئی اثر نہیں ہوا سور انہوں نے نو لفٹ کا بورڈ لگادیا ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے کچھ کہنا چاہا لیکن ان تینوں نے اسے بھی چپ کروادیا ۔۔۔..
"امل تم جاو میرے کمرے میں سوجاو "۔۔۔۔
مرتظی نے امل کو کہا کیونکہ وہ پہلے بھی اسکے کمرے پہ قابض ہو چکے تھے اور امل مرتظی کے کمرے میں سوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل پیر پٹخ کر چلی گئی کیونکہ اسے پتہ تھا فائدہ کچھ نہیں ہونا پہلے دو سے تو مقابلہ کر نہیں پاتی تھی اب چار سے کیا کری گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند کی شدت سے دوچار اوپر سے ان چاروں پہ غصہ امل بے دھیانی میں بجائے مرتظی کے حمدان کے کمرے میں چلی گئی تھی حمدان اور مرتظی کے کمرے تھے بھی ارابر برابر میں تو اسکا دھیان نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
ان تینوں کا تو آج ہی ساری مووی دیکھنے کا ارادہ تھا حمدان ان سب سے excuse کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو وہاں امل کو سوتا دیکھ کر ٹٹھک گیا تھا
اسے برا نہیں لگا لیمپ کی مدھم روشنی میں اسکا چہرہ روشن لگ رہا تھا ایک ہاتھ اسکا بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور وہ بلکل کونے میں سو رہی تھی اگر بائیں طرف کروٹ لیتی تو نیچے گرتی
وہ یک ٹک اسے دیکھتا جا رہا تھا سوتے ہوئے وہ جاگنے سے بھی ذیادہ معصوم لگ رہی تھی اس نے اسکے چہرے پہ آئے بالوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پیچھے ہٹایا
لمس محسوس کرتے اس نے ماتھے پہ ہاتھ مار کر نیند میں کروٹ بدلی تو وہ نیچے کرنے لگی کہ حمدان نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا اسے یہی خدشہ ابھی لگ رہا تھا اور یہ ہو بھی گیا
اس نے امل کو نیڈ پہ لٹایا اور اس پر کمفرٹر جو اسنے آدھا اوڑھا ہوا تھا اس پر ڈال کر اسکے سراپے کو اپنی نظروں میں قید کرکے سعد کے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی دل کی کیفیت سے انجان بن رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کب تک ۔۔۔۔
_____________________________
امل کی صبح آنکھ کھلی تو خود کو حمدان کے کمرے میں موجود پایا چاروں طرف نظر دوڑانے سے اسے حمدان کہیں بھی نظر نہیں آیا تو اسے سکون ملا ۔۔میں بھی کتنی پاگل ہوں یہاں آگئی ۔۔۔۔۔۔
وہ فورا اپنے کمرے کی جانب بھاگی ۔۔۔۔۔
_______________________
"بوا میرا ناشتہ بنادے جلدی سے مجھے لیٹ ہورہا ہے "
امل نے کچن میں داخل ہوتی ہوئی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جی بٹیا آپ باہر ٹیبل پر جائیں میں لاتی ہوں "۔۔۔۔۔
امل جیسے ہی کچن سے باہر نکلنے کےلئے مڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زور چیخ اسکے منہ سے خارج ہوئی۔۔۔۔۔"مااااااماااااا"
حمدان اور مرتظی جوکہ باہر لاونج میں تھے ۔۔۔۔۔۔
امل کی چیخ سن کر فورا کچن کی طرف آئیں۔۔۔۔۔
"امل کیا ہوا ۔۔۔۔کیوں ڈر رہی ہو کانپ کیوں رہی ہو" ۔۔۔۔
مرتظی کو اسکی فکر ہونے لگ گئ تھی کہ نہ جانے کیا ہوگیا ۔۔۔۔
""نیچے دیکھو ""امل کی ڈر سے بھرپور آواز نکلی ۔۔۔۔۔۔
جب حمدان اور مرتظی اسکے تعاقب میں دیکھا تو دونوں کا فلک شگاف قہقہ گونجا کیونکہ نیچے مسٹر کاکروچ تھے۔جوکہ کچن سے باہر جانے کی راستے میں حائل تھے
کاکروچ کو بھی امل کو ڈرانے میں مزہ آرہا تھا اور وہ اسی کی طرف موو کر رہا تھا۔۔۔
اتنے میں سعد اور اذہان بھی آگئے اور situation کو سمجھتے ہوئے انکی بھی ہنسی چھوٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
امل کی روتی شکل کو دیکھتے ہوئے مرتظی امل کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔۔
"امل میرا ہاتھ پکڑو اور آو ۔۔اس سے کون ڈرتا ہے" ۔۔۔۔۔۔ہم سمجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔
امل ڈر ڈر کر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی اسی وقت کاکروچ کو بھی مستی سوجھی اور اس نے اپنا antenna امل کی جانب کیا
امل چیختی ہوئی اپنی سائیڈ پہ کھڑے حمدان کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور اسکو زور سے پکڑ کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔۔
جبکہ کاکروچ تو دوسری جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
مرتظی نے امل کو کہا
" امل آنکھیں کھولو اور حمدان کو چھوڑو چلا گیا کاکروچ "۔۔۔۔
امل نے حمدان کی شرٹ اتنی زور سے پکڑی ہوئی تھی کہ اس پر شکن پڑ گئی تھی۔۔۔۔۔
امل نے اپنی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں تو اسے کاکروچ کہیں نظر نہیں آیا اور اسکی جان میں جان میں آئی
جب ان چاروں کی شکل کو دیکھا تو سب کے دانت نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
ابھی ہنس رہے ہو نہ لیکن دیکھنا اب رو گے ۔۔
امل غصے سے کہتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کو وہ غصے میں بہت کیوٹ لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________________
اذہان کے شیطانی دماغ میں امل کے ڈر کو دیکھتے ہوئے ایک آیئڈیا آیا جسکو اس نے مرتظی اور سعد کو بتایا تو شروع میں تو ان دونوں نے منع کرا پھر مان گئے کہ enjoyment ہو جائیگی لیکن انکا یہ مزہ انکا adventure نہ بن جائیں
۔۔۔۔۔۔انہیں بس اب رات کا انتظار تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_______________________________
حارث صاحب نے سعد کو کال کر کے گھر کی خیریت دریافت کرتی تو سعد انہیں مطمئن کردیا کہ سب ٹھیک ہے
=================
امل اپنے کمرے میں پڑھائی کر رہی تھی آجکل اسکے ٹیسٹ ہورہے تھے جسکی وجہ سے وہ لیٹ نائیٹ تک پڑھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک پڑھتے پڑھتے اسکی نظر کھڑکی پر پڑی جہاں اسے ایک سایہ گزرتا ہوامحسوس ہوا وہ اسے وہم سمجھ کر بک پہ متوجہ ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اسے ایک آواز آئی جیسے کچھ گرا ہو اس نے کمرے سے نکل کر دیکھا تو کوریڈور میں ٹیبل پہ رکھا پھولوں کا نقلی گلدستہ فرش کی زینت بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اسے اٹھا کر اسکی جگہ پہ رکھا واپس کمرے میں آئی تو اسکے کمرے کی کھڑکی اسے کھلی نظر آئی جسے اس نے خود بند کیا تھا اب اسے ڈر لگنا شروع ہوگیا تھا کیونکہ موسم بھی بلکل نارمل تھا تو واز کیسے نیچے گرگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے قدم کھڑکی کی جانب بڑھائے تو اسے گیلری میں کوئی بھی نظر نہیں آیا چاروں طرف نظر دوڑانے کے بعد وہ کھڑی بند کر کے واپس مڑی ۔۔۔۔ابھی وہ دو قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ کھڑکی پھر سے کھل گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے اب سہی معنوں میں ہوش اڑ گئے تھے اب اسے کچھ عجیب سہ ڈراونا music سنائی دیا ڈر کے مارے اسکی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی وہ اپنی جم گئی تھی جیسے کسی نے ایلفی لگا کر اسے چپکادیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہمت کر کے پلٹی تو ایک عجیب و غریب شکل والا اسے کوئی نظر آیا امل کی ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکلی۔۔۔۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے دوبارہ کھولیں تو اسے کوئی بھی نظر نہیں آیا اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔۔۔ اچانک اسے اپنے کندھے پہ کسی کا ہاتھ کا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ پلٹ کر دیکھے ۔۔۔۔۔۔امل کی حالت تو اب گرنے والی ہو رہی تھی اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا جب اسے ایک اور ہیولا سامنے نظر آیا جو اسکی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
مر۔۔۔۔۔۔۔مرتظی ۔۔۔۔۔۔۔اذ۔۔۔۔۔اذہان چلاتی ہوئی اس نے کمرے سے دوڑ لگائی اسے اپنے آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں تھا بس بھاگنا تھا سے یہاں سے وہ کئی دفعہ اپنے دوپٹے میں اٹکتے اٹکتے بچی ۔۔۔۔۔۔
جب وہ سیڑھیوں کے پاس سے پہنچی تو اسے سیڑھی کی ریلنگ پہ ایک خوفناک شکل والا بھوت نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
اور اگلے ہی پل امل کی فلک شگاف چیخ نکلی اور وہ بل کھاتی سیڑھیوں سے نیچے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریلنگ پہ کھڑے شخص نے ایک پل بھی ضائع کئے بغیر اپنا ماسک اتار پھینکا اور امل کے پاس جاکر اسکا سر اپنی گود میں رکھا ۔۔۔۔"امل open your eyes" .....
وہ اسکا گال مسلسل تھپتھپا رہا تھا لیکن وہ تو حوش کی دنیا سے بے خبر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سعد ۔۔۔۔مرتظی۔۔۔۔ اذہان۔۔۔۔ گاڑی نکالو فورا "۔۔۔۔۔۔
حمدان اتنی زور سے گرجا کہ وہ تینوں بھی ایک پل کے لئے ڈر گئے تھے حمدان نے امل کو اپنی گود میں اٹھا کر پورچ کی جانب بڑھا جہاں سعد ڈرائیور سیٹ پہ سنبھالے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو پیچھے لٹا کر خود بھی بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھا
حمدان جوکہ ریلنگ پہ تھا اسکی آنکھوں کے سامنے امل نیچے گری تھی اور وہ اسے نہیں بچا پایا تھا
________________________
ہاسپٹل کے کاریڈور میں وہ تینوں بےچینی اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے جبکہ حمدان ایک پیر دیوار پہ رکھ کر اسکے سہارے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے حمدان کو اینڈ موقع پہ اپنے واسطے دے کر منایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو سرے سے انکا پلان سن کر انکار کر دیا تھا بلکہ انہیں بھی منع کیا تھا لیکن ان تینوں نے ملکر اسے منالیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ghost outfit اسنے اسیوقت اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر ہی پہن لیا تھا جسے اسنے اتار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔وہ تو بس امل کے ساتھ مذاق کرنا چاہتے تھے لیکن انکا مذاق ان پر اتنا بھاری پڑ جائے گا انہیں اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں تو فل تیاری میں تھے۔۔۔۔
ان تینوں نے ابھی تک وہی Outfits پہنے ہوئے تھے گزرتے لوگ انہیں عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے لیکن انہیں کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔
_______________________
ڈاکٹر نے باہر نکل کر ان کو اپنے روم میں بلایا حمدان کی سب سے پہلے فکرمند سی آواز نکلی ۔۔۔۔۔
"Is alright everything dr" ........?
ان سبکے دل گھبرا رہے تھے
"yes everything is undercontrol .........there is a slight fracture on patients right leg .....and a severe injury on head ..................
After few days she will be alright ......
I give you some medicines .......give her properly ..........and she took a severe stress of something ...........
I have to do some test ....in case of some interior injury .....whether it is or not ........in 5 to 6 hrs ...she will be back in her conscious "...........
ڈاکٹر کی آواز سن کر وہ سب سکون میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔

ساری رات ان چاروں نے جاگ کر کاٹی تھی امل کو
فجر کے وقت ہوش آیا تھا وہ ابھی بھی اس پل کے زیر اثر تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اسکے ہوش میں آتے ہی مرتظی فورا امل کے پاس آیا سعد اور اذہان کی آنکھ لگ گئی تھی وہ روم میں رکھے کاوچ پر سر ٹکا کر سو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
امل مرتظی کے گلے فورا لگی ۔۔۔۔
"مر۔۔۔تظی ۔۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔میر۔۔۔۔۔ے کممم۔۔۔۔رے ۔کمرے میں ۔۔۔ ۔۔۔۔کو۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ۔۔۔تھ. . . تھا" ۔
اسکے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہورہے تھے آواز رندھی ہوئی تھی
"امل چندا کوئی نہیں تھا کچھ نہیں تھا سب بھول جاو" ۔۔۔۔۔۔۔مرتظی اسے خود سے لگا کر اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اسے پرسکون کر رہا تھا ۔۔۔
لیکن امل مرتظی کی بات سے مسلسل انکار کر رہی تھی۔
"امل میری طرف دیکھو وہ ہم سب تھے ہم نے ملکر کیا تھا کوئی بھوت نہیں تھا دیکھو وہاں سعد اور اذہان کی طرف "
مرتظی نے اسے خود پہ اور ان دونوں کی طرف متوجہ کرایا
امل نے جب وہاں اور مرتظی کو دیکھتا تو اسے یقین آیا تھا کیونکہ وہ سب اسی ghost outfit میں تھے
"آپ لوگ ۔۔۔۔ اگر مجھے" ۔۔۔اس سے آگے اس سے کچھ کہا نہیں گیا
امل فورا مرتظی سے الگ ہوئی اور کروٹ لے کر لیٹ گئی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اسکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
حمدان جو دوائی اور جوس وغیرہ لینے گیا تھا امل اور مرتظی کی باتیں سن کر وہ بہت ذیادہ شرمندہ ہوگیا تھا اسے خود پہ غصہ آرہا تھا اس نے ایسا کیوں کیا جبکہ اسنے صبح ہی امل کا ڈر دیکھا تھا۔
 
امل ڈسچارج ہوکر جب گھر آگئی تھی وہ کسے سے بھی بات نہیں کر رہی تھی۔۔
وہ چاروں بھی اپنے مذاق پہ بےحد شرمندہ تھے
 
__________________________
Episode 11
سعد کمرے میں آیا تو حمدان کے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا آئینہ کا کانچ ٹوٹ کر بکھرا ہوا تھا جس کو اسنے مکہ مار کر توڑ دیا تھا ۔اور خود بھی زخمی ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حمدان یہ کیا کرا ہے تونے ہم سب کی غلطی تھی تو خود کو کیوں سزا دی" ۔۔۔۔۔۔۔۔
ّوہ اسکے ہاتھوں میں پٹی باندھتے ہوئے کہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
""i am sorry ...میں نے تمہیں انسسٹ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔""
سعد "پلز ابھی چلے جاو حمدان کی آنکھیں خطرناک حد تک سرخ ہو رہی تھی اور ہاں میں تم سے ناراض نہیں ہو تم نے صرف کہاں تھا میں نے بات مانی تھی تم جاووووو ""۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے بھی بعد میں بات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا اسے اپنی شامت نہیں لانی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
سعد امل کو دیکھنے اسکے کمرے میں آیا تو وہ دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی وہ جانے کے لئے پلٹا تو امل کا فون رنگ ہوا جس پہ سویرا کالنگ جگمگا رہا تھا اس دن کے بعد سے سعد اور سویرا کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سعد نے کال recieve کری
"امل کہاں تھی کب سے کال کر رہی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔
سویرا کی آواز سن کر سعد کو محسوس ہوا کہ اسکی ساری ٹینشن ختم ہورہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم اہم "۔۔۔اپنی ہی ہانکتی جاو گی یا مقابل کی بھی کچھ سنو گی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے سویرا کو ٹوکا
"آپ کون؟ اور امل کہاں ہے ؟امل کا فون آپ کے پاس کیا
کر رہا ہے ؟ اور کسی کا فون استعمال کرنا اچھی بات نہیں ہوتی ۔۔۔۔چپ کیوں ہو جواب دو ۔۔۔۔اب "۔۔۔۔
سویرا ایک ہی سانس میں سب کچھ کہتی چلی گئی
"آرام سے لڑکی تم خاموش ہوگی تو کچھ کہوں گا نا "
سعد کو موقع ملا تو اس نے اپنی بات کہی
ہاں کہو ۔۔۔
اس نے احسان کیا
میں سعد ہوں" ۔۔۔۔
ابھی سعد مزید کچھ کہتا کہ سویرا پھر سے شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سعد" ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
"بندہ دل دے بیٹھا ہے اور یہ کہ رہی ہے کون سعد "
یہ اس نے دل میں کہا ورنہ وہ تو سعد کو فون سے نکل کر ہی مار ڈالتی ۔۔۔۔
"میں وہی بتا رہا ہوں آپ کچھ بولنے کا موقع دینگی تو کچھ کہوں گا نہ مسز میرا مطلب یے مس سویرا" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے چبا چبا کر کہا
"اووووو تم وہ ٹھرکی ہوں جو اس دن" ۔۔۔۔۔۔
سویرا پھر شروع ہوتی اس سے پہلے ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکی بات کاٹتے ہوئے امل کا بتایا ۔۔۔۔۔۔۔
""کیا ہوا امل کو کیسی ہو اب وہ ۔۔۔۔۔۔اور اب بتا رہے ہو ۔۔۔۔پہلے نہیں بتا سکتے تھے۔۔۔میں نے کال کی تو پتہ چلا ۔۔۔۔ورنہ تو اندھیرے میں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ابھی آرہی ہوں" ۔۔۔۔۔
"میں کیسے بتاتا مجھے تو جیسے نمبر دیا ہوا ہے ابھی خود ہی کہ رہی تھی کہ کسی کا فون استعمال نہیں کرنا چاہیئے تو فرشتے لاکر دیتے نمبر" ۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے بولا
لیکن سویرا تو اپنی سنا کر فون کٹ کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افف سعد کیا ہو گا تیرا ۔۔دل بھی کہاں لگایا لیکن خیر اب تو لگالیا ۔۔۔۔۔۔۔
____________________
کچھ ہی دیر میں سویرا امل کے پاس تھی
"امل یہ کیسے ہوگیا ۔کیا حالت بنالی ہے تم نے"
"میں ٹھیک ہوں سویرا بس معمولی سی چوٹ ہے" ۔۔۔۔۔۔
امل نے سویرا کو کہا
"ہاں نظر آرہا ہے کتنی معمولی ہے ۔۔میں ابھی تمہارے لئے سوپ بنا کر لاتی ہوں کتنی کمزور ہوگئی ہو یہ تمہارے نکمے کزن تو کچھ خیال نہیں کرتے ہونگے "
سویرا نے کہا
"نکمے نہیں ہیں یار وہ "
امل نے سب کی سائیڈ لی
"لیکن تمہارا ایک کزن ٹھرکی ضرور ہے جو بات ہے "
سویرا سے سعد کی تعریف بلکل نہیں سنی گئی
""ٹھرکی کون " امل کو تجسس ہوا
وہ سعددددددد ۔۔
سویرا نے دانتوں کے بیچ کچکچا کر اسکا نام لیا
"سعد بھائی میں نہیں مان سکتی " امل کو یقین نہیں آیا
"رہنے دو اس بات کو بات طویل ہوگی اور کچھ نہیں "
وہ کہتی ہوئی کچن میں گئی
سویرا کے آنے سے امل کا موڈ بہتر ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
_____________________________
سویرا کچن میں سوپ بنا رہی تھی جب سعد وہاں آ ٹپکتا تھا
سویرا سعد کے آنے سے confuse ہو گئی تھی سعد بظاہر تو فریج سے پانی نکال رہا تھا لیکن دیکھ اسی ہی رہا تھا سویرا اسکی نظروں سے پزل ہورہی تھی وہ دیکھ ہی ایسے رہا تھا
""ٹھرکی انسان ایسے دیکھ رہا ہے جیسے ایکسرے مشین ہو "
سویرا نے بڑبڑانے کے ساتھ اپنا دوپٹہ بھی درست کیا
اسے سعد کی آنکھوں میں کچھ الگ رنگ نظر آرہے تھے کام کرتے ہوئے اسکے ہاتھ میں لرزش آگئی تھی
"میری لئے بھی ایک کپ چائے بنادو" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نےخ اپنے لہجے میں چاشنی لاکر کہا ۔۔۔۔۔۔
"کیوں میں تمہاری نوکر ہوں جو تمہارا کہنا مانوں"
سویرا نے ہاتھ میں پکڑی چھری آگے کرتے کہا
نہیں نوکر بننا ضروری نہیں ہے اس کے لئے بیوی بن کر بھی ہو جائے کا کام
سعد نے اسے نظروں کے فوکس میں رکھ کر کہا
سعد کے اتنی معنی خیز بات پہ سویرا کا دل چاہا پاس پڑی پلیٹ اٹھا کر اسے دے مارے لیکن پھر کچھ سوچ کر حامی بھر لی کیونکہ سعد سے بحث فضول تھی اس معاملے میں تو وہ جیت نہیں سکتی تھی لیکن بدلہ بھی تو لینا تھا ۔۔۔
______________________
امل کو سوپ پلانے کے بعد وہ سعد کو چائے دینے آئی جو لاونج میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے چائے کا ایک سپ لیا اور اگلے پل اسکے منہ سے فوارے کی طرح چائے نکلی وہ کھانسنے لگ گیا تھا
" یہ کیا ملایا ہے تمنے نمک کون ڈالتا ہے"
سویرا کی مسکراتی شکل دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔
"اور گھورو مجھ سے پنگا نہ لینا اب ورنہ اگلی بار اس سے بھی برا ہوگا ابھی تو بخش دیا ہے " ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہ کر وہ امل کے کمرے کی طرف چلی گئی آج رات اسکا امل کے پاس رکنے کا ارادہ تھا ۔۔۔۔
"بدلہ میں لونگا پٹاخہ "
سعد نے تہیہ کرتے ہوئے کچن میں گیا
________________________
سب لوگ جب گھر آئے تو امل کی حالت دیکھ کر انکا دل کٹ گیا وہ امل کو کس حال میں چھوڑ کر گئے تھے اور اب جب واپس آئے تو کیا ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔
امل کے کمرے میں سب گھر والے تھے ان چاروں کا تو سر ہی جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
حماد صاحب جانتے تھے کہ مرتظی اور اذہان سے کچھ پوچھتے تو ان دونوں نے گول مول کرنا تھا ۔۔۔۔
اس لئے انہوں نے حمدان سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔
"یہ سب کیسے ہوا ۔۔۔۔تم نے ہمیں بتایا بھی نہیں" ۔۔۔
حمدان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے ۔۔۔۔۔۔
امل جو صدف بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی
حمدان کچھ کہتا کہ امل نے کہا
"" بڑے پاپا ان میں ان سب کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔۔۔۔۔میرا ہی دیھان نہیں تھا ۔۔۔۔۔پیر پتہ نہیں کیسے سلپ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ لوگ پریشان ہوجاتے اس لئے نہیں بتایا"" ۔۔۔
امل جانتی تھی کہ اگر سب کو سچ پتہ چل گیا تو ان سب کی شامت نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ سب اپنے گلٹ میں اور مبتلا ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرا بچہ آپنے دیہان سے رہنا تھا کتنی چوٹ لگ گئی یے"
حنین صاحب نے امل کو محبت سے دیکھتے ہوئے فکر مندی سے کہا
"امل کو آرام کرنے دو سب چلو "۔۔۔۔
آغا جان کے کہنے پہ سب نے اپنی اپنی راہ لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی وہ سب سفر سے تھک گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
___________________
"امل کا بخار اب کیسا ہے" ۔۔۔۔
حنین صاحب نے اپنی بیگم سے پوچھا ان کے لہجے میں امل کے لئے پیار ہی پیار تھا
"اب کافی بہتر ہے" ۔۔۔۔
صدف بیگم نے امل کے ماتھے پہ پٹی رکھ کر کہا۔۔۔۔۔
"آپ جائیں آرام کر لیں ۔۔۔۔۔میں ہوں امل کے پاس ۔"۔۔۔۔۔۔
"میں جا رہا ہوں لیکن آپ بھی آرام کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔صدف" ۔۔۔
وہ کہ کر باہر کی جانب بڑھیں
_________________________
"امل بٹیا آپکو باہر لان میں آغا جان بلا رہے ہیں "۔۔۔۔۔
آسیہ نے امل کو آکر کہا۔۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے میں آتی ہوں آغا جان اسوقت لان میں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
امل نے سوچتے ہوئے اپنے پیروں میں چپل پہنی
امل کی چوٹ اب کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی پاوں کا plaster بھی اتر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل لان میں آئی تو لان کا منظر دیکھ کر حیران ہو گئی
بیچ میں ایک ٹیبل پہ
we Are Really sorry Amal
لکھا ہوا تھا جسکے چاروں طرف پنک اینڈ وائیٹ غبارے لگے ہوئے تھے امل کا نام لائیٹ سے جگمگا رہا تھا اور اسکا favorite chocolate cake بھی رکھا تھا جس پہ بھی sorry لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اسی اثناء میں اسے اہنے پیچھے سے ان چاروں کی آواز آئی
۔۔۔۔۔we are apologizing to you" .....
ان چاروں نے اپنے کان پکڑ کر کہے۔۔۔۔۔۔۔۔
امل تو سب کچھ بھول چکی تھی ویسے بھی اور یہ سب دیکھ کر اسے بہت اچھا لگا تھا امل ویسے بھی ان سے کہاں ناراض ہوسکتی تھی ذیادہ دیر تک ۔۔۔۔۔۔
""ایسے نہیں مانوں گی میں کچھ سزا تو ملنی چاہئیے""۔۔۔۔۔
امل نے بھی انکے ساتھ تھوڑا ڈرامہ کرنا چاہا
کیسی سزا۔۔۔۔؟؟
حمدان تو خاموش تھا ان تینوں نے اسے کہا ۔۔۔۔۔۔
"You have to do 50 times ..ups and down ....."
کیا ۔۔۔۔۔۔۔امل کچھ اور سزا دے دو ۔۔۔
ان تینوں نے ایک ساتھ کہا
"سزا تو یہی ہے اب سوچ لیں معافی چاہئیے یا نہیں "۔۔۔۔۔
امل نے اپنی آنکھیں گھما کر کہا
ان چاروں نے عجیب سی شکلیں بنا کر ups and down کریں
امل کو انکی شکل دیکھ کر ہنسی آرہی تھی اس نے انہیں ١٠ پہ ہی روک دیا تھا
امل کو منانا کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ تو پیار کے دو بولوں سے ہی سرشار ہوجاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ان سب نے ملکر کیک کاٹا وہ تینوں کیک کھانے میں بزی تھے
جب حمدان نے امل کو چاکلیٹ دی جس پہ ایک چٹ بھی لگی تھی ۔۔۔جس پہ
" i am sorry ...i never meant to hurt you"
لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
its okk .".میں کسی سے ناراض نہیں ہوں "۔۔۔۔۔۔
امل نے حمدان کو ریلکس کرا
"لیکن مجھے اچھا نہیں لگا میری وجہ سے تم ہرٹ ہوئی" ۔۔۔
حمدان نے اسے جواب دیا
امل کو حمدان کے آنکھوں میں اسکے لہجے میں اپنے لئے فکر دیکھائی دی تھی جسے اس نے اپنا خیال سمجھ کر جھٹکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تو آپ نے کردیا نہ سوری اور یہ سب بھی" ۔۔۔۔۔
امل نے حمدان سے کہا ویسے بھی حمدان امل کو ایک مسٹری لگتا تھا اس پر آج حیرت کے پہاڑ ٹوٹے کہ حمدان نے سوری کہا اور اوپر سے اپس ڈاون بھی کرے
ہاں چلو وہاں بینچ پہ بیٹھ جاتے ہیں کھڑی کھڑی تھک جاو گی ۔۔۔ابھی چوٹ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی ہے" ۔۔۔۔۔
وہ کہتا آگے بڑھا
اب وہ دونوں ایسی ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گئے تھے
امل اور حمدان میں اب کافی حد تک اجنبیت کی دیوار ختم ہوگئی تھی ۔۔امل تھوڑی بہت بات کر لیتی تھی ضرورت کے تحت
___________________________________
امل اپنے بال سلجھا رہی تھی جب مرتظی اسکے کمرے میں ناک کرتے ہوئے داخل ہوا
وہ جانتا تھا امل نے ناراضگی دور کردی ہو سب سے لیکن اس سے نہیں کری ہے اس لئے وہ آیا تھا
"ناراض ہو "
اس نے حد درجہ معصومیت اپنائی
"جانے کا کیا لوگے تم وہ بتاو "
امل نے گنجائش کی جگہ ہی نہیں چھوڑی
ایک مسکراہٹ "
اس نے بھی اپنی قیمت بتائی
"ٹھیک ہے میں ہی چلی جاتی ہوں پھر "
امل نے ایک قدم بڑھایا
مرتظی نے اسے کلائی سے پکڑا
""ِیار جانتا ہوں غلطی تھی مجھ پر بھروسہ تھا تمہیں سب سے ذیادہ "
"وہ دونوں تو ابھی آئے ہیں اور اذہان سے تو ہر الٹے کام کی ہی امید ہے لیکن تم سے نہیں تھی "
امل نے سنجیدگی اپنائی
مرتظی کا سر جھک گیا تھا
"اچھا اب ایسی بندر جیسی شکل نہ بناو مجھے ہنسی آجائے گی اور صرف سوری سے کام نہیں چلے گا تمہیں مووی دیکھانی پڑی گی پراواز ہے جنون "
امل نے اپنے مطلب کی بات کہی
"یہ مووی تو میں اور اذہان دیکھ چکے ہیں کوئی اور بتاو "
مرتظی بدمزہ ہوا
"مجھے یہی دیکھنی ہے "
امل بھی اٹل رہی
اوکے کل شام میں چلیں گے ہم سب تیار رہنا ویسے بھی اسکی کہاں چلنی تھی "
وہ امل کے گال کھینچتے گیا
__________________________
امل دوڑتی بھاگتی کار میں آکر بیٹھی ۔۔وہ ہانپنے لگ گئی تھی
"آپ نے کہا تھا کہ شام میں جائیں گے اور صبح پروگرام بنالیا اور مجھے اتنی جلدی بتایا ہے "
امل نے لمبے سانس لینے کے دوران کہا
"بس بن گیا پلین آج کا پورا دن ہم فل انجوائے کریں گے ٹوٹل دھمال مچائیں گیں"
مرتظی نے اسے ارجنٹ بیسس پہ جلدی تیار ہونے کی اطلاع دی تھی
ڈرائونگ سیٹ پہ مرتظی اور برابر میں حمدان بیٹھا تھا جبکہ پیچھے سعد پھر اذہان اور اسکے برابر میں امل آکر بیٹھی تھی
""تم نے اپنی دوست کو بلایا لیا تھا "
سعد نے تصدیق کرنا چاہی
"جی میں نے اسے ابھی بتایا ہے وہ مال میں ہی ہمیں جوائن کری گی "
امل نے موبائیل پہ سویرا کو اپڈیٹ دیتے ہوئے کہا
"جب اذہان نے امل کی چٹکی کاٹی "
امل نے بھی اسے کونی ماری
ان دونوں کی نوک جھونک اسٹارٹ تھی ۔۔حمدان کب سے فرنٹ مرر میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر جل رہا تھا
اذہان نے امل کو دھکا دیا تو وہ کار کے دروازے سے لگی اور دروازہ جلدی میں اس نے لاک نہیں کیا تھا صحیح سے وہ کھلا اور وہ گرتی لیکن اذہان نے بروقت اسے خود پہ کھینچ کر بچایا
حمدان کی برداشت یہاں اینڈ تھی
کیا پاگل ہوگئے ہو تم دونوں ایڈیٹ کہیں کے وہ تو شکر ہے کہ گاڑی ابھی مین روڈ پہ نہیں ہے اور امل کے تو اندر تو عقل ہے نہیں لیکن تم بھی عقل سے پیدل ہو اذہان گیٹ لاک کرو
اذہان نے ہاتھ بڑھا کر گیٹ لاک کیا
امل نے اٹھنے کی کوشش کری تو اسکی چین اذہان کے شرٹ میں اٹک گئی تھی اور وہ الگ نہیں کر پا رہی تھی
حمدان کو رہ رہ کر غصہ چڑھ رہا تھا امل کا اذہان کے قریب ہونا اسے تڑپا رہا تھا اس نے خود ہی اپنے آپ کو اپنی سیٹ پہ الٹا کیا اور ہاتھ بڑھا کر چین ایک جھٹکے سے کھینچی جو ٹوٹ گئی تھی
امل اپنے چین کو دیکھتی رہ گئی جو بیچ سے ٹوٹ گئی تھی اور وہ کچھ کہ بھی نہیں پائی شیر کے منہ میں ہاتھ نہیں ڈالنا تھا اس نے اذہان نے پر ایک ناراضگی بھری نظر ڈال کر اپنا رخ کھڑکی کی جانب کر لیا
______________________________
وہ سب پہلے شاپنگ مال آئے تھے ۔۔۔
سویرا بھی اپنے لئے نیکلس پسند کر رہی تھی جب سعد بھی موقع دیکھ کر اسکے پاس آیا
"یہ اچھا نہیں لگے گا تم پر "
سعد نے اسکی پسند کو ریجیکٹ کیا
سویرا جو مرر میں خود پہ نیکلس لگا کر دیکھ رہی تھی اپنے پیچھے سعد کو دیکھ کر اسے غصہ چڑھا کب سے وہ اسے گھورے جا رہا تھا اور تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہا تھا
"مجھے پتہ ہے مجھ پر کیا اچھا لگے گا کیا نہیں تم سے نہیں پوچھا ہے "
سویرا نے تنک کر جواب دیا
"لیکن میں نے کہا ہے کہ یہ تم پر اچھا نہیں لگے گا "
سعد نے اسکے ہاتھ سے نیکلیس لیتے ہوئے ایک اپنی پسند کا نیکلیس اس کے آگے کیا اور دکاندار کو کہا یہ پیک کردو
"بلکل نہیں یہ آپ پیک نہیں کریں "سویرا نے انکار کیا
آپ یہ پیک کریں ۔۔۔سعد بھی اڑا رہا
نہیں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ہاں۔۔۔
Episode 12
دکاندار بھی تنگ آگیا تھا اس نے کہا جب آپ دونوں فیصلہ کرلیں تو بتادیجئے گا میں تب تک دوسرے کسٹمرز کو دیکھ لوں
"دیکھیں میں کوئی تماشہ نہیں چاہتی آپ بیکار کی ضد نہ کریں "
سویرا نے ضبط سے کام لیا
"ضد تو تم کر رہی ہو مسز مطلب مس سویرا "
سعد نے کہا
"آپ جو بھی کر لیں مجھے یہ نہیں لینا تو نہیں لوں گی "
سویرا بھی اب اڑ گئی تھی
"ٹھیک ہے "
سعد نے کہتے ہوئے اپنے جیب سے رومال نکالا اور سویرا کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دئیے اس کے مزحمت کو نظر انداز کرکے
اور اس نیکلس کو اس کے گلے کی زینت بنا کر اپنے دانت سے ٹائیڈ لاک کیا کہ وہ چاہ کر بھی نہ کھول پائے
دیکھنے والوں کو لگ رہا تھا کہ کتنی محبت ہے دونوں میں
سعد کا لمس محسوس کر کے اس نے اپنی کونی ماری اسے
""لمٹ میں رہو ٹھرکی انسان "
"تم لمٹ کراس کرنے کہاں دیتی ہو یارر"
سعد کہتا پیچھے ہٹا اور اسکے ہاتھ کھول کر پیمنٹ کری
""چھچھورا ٹھرکی دو نمبر انسان "
سویرا اس کو نت نئے لقب سے پکارتی امل کی جانب بڑھی
_____________________
شاپنگ کرنے کے بعد وہ سب تھک گئے تھے تو انہوں نے کچھ کھانے پینے کا سوچا اس مقصد کے لئے وہ سب لفٹ کی جانب بڑھے کیونکہ فوڈ کورٹ اوپر والی منزل پر تھا
لفٹ میں پہلے سے چند افراد تھے ان کے گینگ کے آجانے سے لفٹ کچھ اور فل اپ ہوگئی تھی
لیکن لوگوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی تھی امل ایک سائیڈ پہ دیوار کی سہارے ترچھی کھڑی ہوئی تھی اور حمدان جبکہ بیک وال پہ کھڑا ہوا تھا امل اسکے سامنے تھی اور باقی سب بھی ادھر ادھر تھے
لفٹ آل موسٹ فل تھی کہ ایک موٹا ترین شخص بھی اس میں گھس آیا جس کی وجہ سے ایک دھکا امل کو لگا اور وہ حمدان کی جانب موو ہوگئی اس نے اپنے دونوں ہاتھ وال پہ جما کر خود کو حمدان سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی
اس کے باوجود بھی وہ کافی حد تک اسکے قریب تھی حمدان کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پہ پڑتی محسوس ہورہی تھی وہ اسکی نظروں میں تاب نہیں لا پارہی تھی ذرا سی نظریں اوپر کرتی تو حمدان بلکل اسے اپنے سامنے نظر آتا اسے اپنا عکس حمدان کی آنکھوں میں نظر آرہا تھا
اوپر سے اسکے بالوں میں سے ناجانے ایک لٹ کہاں سے اسکے منہ پر آگئی تھی مرتظی نے جانے سے کچھ پل پہلے بتایا تھا جس سے وہ حجاب کور نہیں کر پائی تھی بس دوپٹے کو سر پہ پن اپ کرلیا تھا
اگر وہ ہاتھ سے اپنی لٹ ہٹاتی تو حمدان سے ٹکراتی کیونکہ اسکے دائیں بائیں سب جگہ لوگ تھے وہ بال کی ایک لٹ اسکی آنکھوں میں چھبن پیدا کر رہی تھی اس نے اپنا پورا چہرہ ہلایا جب بھی وہ واپس آگئی تھی بے بس ہوگئی تھی وہ
حمدان اسکے اتار چڑھاو کو کب سے نوٹ کر رہا تھا اس لٹ نے اسکے کام میں بھی خلل پیدا کردیا تھا وہ مدھم سہ مسکرایا اور ایک لمبی پھونک مار کر اسکی لٹ کو اوپر کیا
امل ساکت ہوگئی تھی اسے لگا کہ حمدان نے پھونک کے ذریعے اپنا لمس اس پر چھوڑا ہے وہ یک ٹک حمدان کی ْآنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور حمدان بھی اسے یہاں تک کہ لفٹ بند ہو چکی تھی اور لوگ اتر رہے تھے لیکن انہیں خبر نہیں تھی
مرتظی جس نے ان دونوں کو رش ختم ہونے پہ دیکھا تو انکے سامنے اس نے چٹکی بجائی تو امل سحر سے نکلی اور پیچھے ہوئی
_______________________
مووی دیکھنے کے بعد جب وہ لوگ سینیما سے باہر آئے تو دوپہر کا وقت گزر گیا تھا
"یار سی سائیڈ پہ چلتے ہیں "
سعد نے آئیڈیا دیا
جس پر سب راضی ہوگئے لیکن سویرا نے معزرت کرلی کیونکہ لیٹ ہوگیا تھا وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ واپس چلی گئی ویسے بھی سعد سے لڑنا اس کے بس میں اب نہیں تھا
______________________
ایک لمبی ڈرائیو کے بعد وہ ٹرٹل بیچ پہنچ گئے تھے
پانی کی لہریں انکے پیروں سے چھو چھو کر جارہی تھی
امل کو اونچی لہروں سے ڈر لگ رہا تھا
اذہان اسے زبردستی اپنے ساتھ تھوڑے آگے لے گیا تھا اور اچانک ہی ایک اونچی لہر آئی اور امل ڈرتی اذہان سے چپک گئی تھی
دور کھڑے حمدان کی نظر ان دونوں پر ہی تھی وہ ٹھنڈے پانی میں موجود ہو کر بھی آگ میں جلتا محسوس کر رہا تھا
امل نے اذہان کے اوپر پانی کے چھینٹے مارے تو اذہان نے بھی اسے مارے اور وہ ہنستے ایک دوسرے میں مگن تھے
جبکہ مرتظی اور اذہان تو پانی میں غوطے لگانے میں مگن تھے وہ اپنا فن کر رہے تھے
امل اور اذہان ایک ساتھ ہاتھ پکڑے گیلی ریت پر چل رہے تھے انکا مذاق بھی جاری تھا جب اذہان نے گھوڑے کو دیکھا
"ارے آو horse riding کرتے ہیں "
"نہیں ہر گز نہیں وہ شکل سے اتنا خوفناک لگ رہا ہے مجھے نہیں کرنی تم ہی کرو "
امل نے الٹے قدم لئے
لیکن اذہان نے بھی اسے ان سنا کر کے رائیڈنگ کی بات کرلی
"میں اکیلے تو نہیں بیٹھو گی "
امل نے حامی بھرتے کہا
"میں بیٹھ جاتا ہوں تمہارے ساتھ ویسے یہ بھی گھوڑا کافی صحتمند ہے دو کا وزن برداشت کر لے گا تم تو ہو بھی بلی جتنی "
حمدان اذہان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی خود بول پڑا
اذہان بھی اب کیا کہتا وہ اپنے گھوڑے کی طرف بڑھ گیا
امل بیٹھ تو گئی تھی اسکے پیچھے حمدان بیٹھا تھا
لیکن گھوڑے کو اچانک پتہ نہیں کیا ہوا وہ بدک گیا تھا اور اپنی پوری رفتار سے دوڑنے لگ گیا تھا شاید یہ بھی حمدان سے ڈر گیا تھا
امل کو گھوڑے سے ذیادہ حمدان سے ڈر لگ رہا تھا وہ آلتو جلال تو آ بلا کو ٹالتو تو کا ورد کر رہی تھی اور ساتھ میں چیخ بھی رہی تھی ""روکو اسے "
گھوڑے بھاگتے بھاگتے دو ٹانگوں پہ کھڑا ہوگیا تھا اور حمدان امل کے ساتھ بل کھاتے نیچے مٹی میں گرا تھا
اذہان کو کب سے امل کی چیخ اور گھوڑے کے رکنے کا انتظار کر رہا تھا ان دونوں کو گرتے دیکھ کر بری طرح ہنس رہا تھا
امل کی دل کہ دھڑکن نے سو کی رفتار پکڑ لی تھی امل نے ڈرتے ڈرتے حمدان کی آنکھوں میں جھانکا جو کہ نے تاثر تھیں وہ اٹھی تو حمدان اٹھا اور دونوں نے اپنے کپڑے جھاڑے
"بہت دیر ہوگئی ہے گھر چلو بابا کی بھی کال آرہی ہے "
حمدان نے ایک نظر امل کو دیکھتے واپس جانے کا کہا
___________________
سعد ڈرائیو کر رہا تھا مرتظی برابر والی سیٹ پہ بیٹھا تھا
کیونکہ بیچ جاتے وقت اذہان نے ڈرائیو کی تھی تو وہ پیچھے بیٹھا موبائیل میں مصروف تھا
امل حمدان اور اذہان کے بیچ میں بیٹھی تھی اور اسکا سر اذہان کی طرف ڈھلک گیا تھا کیونکہ وہ تھک گئی تھی تو نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی تھی
اذہان نے ایک نظر امل کو دیکھا تو اسکا سر اپنے کندھے پہ ٹکادیا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا
حمدان کی آنکھ سے یہ مخفی نہ رہ سکا تھا اس نے امل کو اپنی جانب اس طرح کھینچا کہ اس نے جیسے نیند میں ہی موو کیا ہو اور اسکا سر حمدان کے شانوں پہ ڈھلک گیا تھا
""اوئے مرتظی اٹھا اسے "
اذہان نے امل کی جانب اشارہ کیا
""اووو اس کو نیند سے جگانے سے بہتر ہے بندہ پہاڑ پر چڑھ جائے جانتا نہیں ہے کیا جب یہ چڑیل سوتی ہے تو ٹھنڈا پانی بھی ڈال دو جب بھی بیدار نہیں ہوتی "
مرتظی نے باہر نکلتے کہا
"میرا مطلب ہے اسے گود میں اٹھا لے اب کندھے کا سہارا سے لے کر جائے گا تو اس سے بہتر ہے "
اذہان نے کہا
"میں نہیں اٹھا رہا ہوں غوطے لگا لگا کر بازو دکھ گئے میرے "
مرتظی نے سرے سے انکار کیا
"میں اٹھا لیتا ہوں "
حمدان نے کہتے امل کو اپنے بازو میں اٹھایا
"حمدان تم "
اذہان کو جھٹکا لگا تھا
"کیوں میں نہیں اٹھا سکتا کیا اس طرح سے کیا دیکھ رہے ہو "
حمدان نے اذہان کی بات پکڑ لی تھی
سعد تو کال پہ بات کرتے ہوئے اندر بڑھ گیا تھا
"حمدان اذہان کا یہ مطلب نہیں ہے تم لے جاو اسے "
مرتظی نے کہتے ہوئے اذہان کو آنکھیں دکھائیں
______________________
انعمتہ بیگم نے اپنے ہاتھوں پہ لوشن لگاتے ہوئے کہا
"حماد آج انعم کی کال آئی تھی انوشے کی شادی ہے تو لڑکا کراچی میں رہتا ہے تو آنا جانا تو مشکل ہوگا یہاں سے لاہور تو ۔۔۔۔۔شادی میں تو آنا جانا لگا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔
وہ یہاں ہوٹل میں اسٹے کا کہ رہی تھی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کو چاہیئے تھا کہ انہیں یہاں کی آفر کریں ہوٹل میں ٹھرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
حماد صاحب نے جواب دیا
"ہاں مینے یہی کہا تھا ایک ہی تو میری بہن ہے ۔۔۔۔کہ رہی تھی کہ جنید انعم کا شوہر نہیں مانے گا ۔۔۔۔۔۔۔
"آپ سبکو گھر میں بتادے میں جنید سے بات کرلوں گا بہت خوددار ہے وہ"
حماد صاحب نے کہا
انعمتہ اور انعم دو ہی بہنیں تھیں انعم کی دو بیٹیاں تھی
بڑی انوشے جسکی شادی ہو رہی تھی اور چھوٹی آبرو ۔۔۔۔۔۔
میں یہ بھی کہ رہی تھی کہ۔۔۔
"جی کہیئے ہم تو آپ کے کہنے کے منتظر ہیں" ۔۔۔۔۔
حماد صاحب نے انکی بات کو بیچ میں سے اچکتے ہوئے کہا
" کہ ہمیں اب حمدان کا بھی سوچنا چاہئیے اسکی شادی بھی ہوجانی چاہئیے ٢٨ کا ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماشاءاللّه سے "
انہوں نے اٹھتے کہا
"ہاں کچھ سوچتے ہیں ابھی تو اسنے بزنس اسٹارٹ کیا ہے تھوڑا رن ہو جائے"
انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا
"آپ کو آبرو کیسی لگتی ہے ۔۔۔میرا مطلب ہے حمدان کے لئے "۔۔۔۔۔۔انعمتہ بیگم انکی رائے لینا چاہتی تھی جب ہی پوچھا
آبرو ۔۔"مجھے نہیں لگتا آبرو حمدان کو آئیگی پسند"
حماد صاحب نے حمدان کی پسند کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا
"میں نے حمدان کا نہیں پوچھا میں حمدان سے خود ہی بات کر لوں گی ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا
لیکن انعمتہ"
حماد صاحب کچھ کہتے مزید کہ انعمتہ بیگم بول پڑیں
کیا لیکن میں آبرو کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں" ۔۔۔۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے حمدان سے پوچھے بغیر کچھ نہیں کرئیے گا آپ " یہ کہ کر وہ ایک سوچ میں گم ہو گئے
___________________________________
انعم کی فیملی کے ہاشم ولا آجانے سے ایک رونق لگ گئی تھی ۔۔۔۔۔
حماد بھائی آپ نے زحمت کرلی ہم ہوٹل میں رک جاتے" ۔۔۔۔۔۔
جنید نے ان سے کہا
"یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کوئی زحمت کی بات نہیں اسی بھی اپنا گھر سمجھے اپنے ہوتے کس لئے ہیں" ۔۔۔
۔حماد صاحب نے انکی بات کا جواب دیا
ہاں اور ویسے بھی انوشے ہمارے بیٹی کی طرح ہے زحمت کیسے" ۔۔۔۔۔۔
حارث صاحب نے مزید بات میں اضافہ کرا
سب لوگ ایک ساتھ ہی بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
آبرو اور انوشے سب بڑوں سے مل چکی تھیں ۔۔۔۔
اب وہ youngester سے مل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
آبرو نے ٹائیڈ جینس پہ شارٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جسکا گلہ بھی ڈیپ تھا دوپٹہ کا تو نام ونشان نہیں تھا اس کے مقابلے میں انوشے کی ڈریسنگ بہت اچھی تھی ۔۔۔
آبرو سب سے ہاتھ ملا کر ملی
سعد مرتظی اور اذہان نے تو ہاتھ ملا لیا تھا لیکن حمدان نہیں ملایا تھا۔۔۔۔۔
حمدان کو اپنی یہ over confident اور حد سے ذیادہ بولڈ کزن ایک آنکھ نہیں بھائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان سے ملتے اس نے کہا
what a handsome man you are ...hamdan .......
حمدان نے اسکی فضول بکواس کا کوئی جواب نہیں دیا
اس وقت حمدان نے گرے اپر پہ جینس پہنی ہوئی تھی اور وہ واقع بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
حمدان اسے کوئی لفٹ نہیں کرا رہا تھا لیکن وہ پھر بھی حمدان سے باتوں میں مشغول تھی اور کوئی نہ کوئی بات نکال رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ حمدان کے ساتھ ہی صوفے پہ اسکے برابر میں بیٹھ گئی تھی
حمدان کو اس سے شدید کوفت ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل کو سعد مرتظی اذہان بات بات پہ تنگ کر رہے تھے
حمدان بھی جسے انجوئے کر رہا تھا
""اس امل سے تو بڑا مسکرا مسکرا کر بات ہورہی ہے اور مجھ سے تو سیدھے منہ بات نہیں کر رہا لیکن میں بھی دیکھتی ہوں کب تک ۔""۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبرو نے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوئے دل میں سوچتے ہوئے کہا
اور وہ بال حمدان کی منہ پہ آ لگے جس سے حمدان کو تو غصہ آگیا کب سے وہ لحاظ کر رہا تھا ۔۔۔۔
"تمہارے اندر کچھ ethics ہے یا نہیں ۔۔۔اپنے بالوں کو سنبھال کر رکھو یا گنجی ہو جاو نہیں سنبھل رہے تو ""۔
یہ کہ کر حمدان غصے سے وہاں سے چلا گیا
سعد مرتظی اور اذہان کے چہروں پہ دبی دبی مسکراہٹ دیکھ کر آبرو جل گئی تھی اور ہنہ کہ کر وہاں سے چلی گئی تھی
_____________________________
Episode 13
ماما میرے پاس تو بارات کے event کے لئے کوئی ڈریس نہیں ہے میں کیا پہنوں گی آپ shopping پہ لے چلیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے کچن میں داخل ہو کر صدف بیگم کی گلے میں ہاتھ ڈال کر کہاجو سالاد کےلئے پیاز کھیرے وغیرہ کاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور شانزہ اور انعمتہ بیگم بھی دیگر کاموں میں مصروف تھی
"امل کل مایوں کی رسم ہے اتنے سارے کام ہیں اور اس دن گئی تھی نہ سارے سمپل ڈریسس لائی ہو تم "
صدف نے امل کو کہا
"حمدان تو آج گھر پہ ہے امل اسکے ساتھ چلی جاو "۔۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے کہا
حمدان کے نام پہ امل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
"ارے حمدان تو یہیں آگیا ابھی تمییں ہی یاد کر رہے تھے ہم حمدان" ۔۔۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے کہا ۔۔۔۔۔
"کیا ہوا کچھ کام ہے بڑی امی"۔۔۔
حمدان نے انہیں جواب دیا
ہاں اگر فری ہو تو امل کو لے جاو شاپنگ پہ اسے ڈریس لینا ہے ۔۔۔امل ہمیشہ سمپل جو رہتی ہے اسکے بعد ہیوی ڈریسس ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جی بڑی امی میں فری ہوں میں گاڑی نکالتا ہوں تم آجاو امل" ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو مخاطب کرکے کہا
جی بسس آئی۔۔۔۔میں ۔۔۵ منٹ ۔۔۔۔
امل کہ کر چلی گئی انکار کیسے کرتی اسے سمجھ نہیں آیا
امی میں یہ کہنے آیا تھا آپ میرے لئے chinese rice بنا دے آج دل کر رہا ہے کھانے کا "۔۔۔۔
حمدان جس کام کے لئے آیا تھا وہ اس نے کہا
اوکے بیٹا
انعمتہ بیگم نے اسے جواب دیا
"حمدان تمہاری اور میری پسند کتنی ملتی ہے مجھے بھی یہ ڈش پسند ہے" ۔۔۔۔۔۔
آبرو جو یہی آرہی تھی حمدان کی بات سن کر اس نے کہا
جس پہ حمدان پھیکا سہ مسکرا دیا
آبرو بیٹا میں تمہارے لئے بھی بنادیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ خالہ جان ۔۔۔۔۔۔۔۔
آبرو نے انعمتہ بیگم کو جواب دیا
_________________________
امل نے گرے کلر کی کرتی پہ بکو اسکارف کور کیا ہوا تھا اور حمدان نے براون جینس پہ وائیٹ شرٹ پہنی تھی
حمدان ابھی کار اسٹارٹ ہی کر رہا تھا کہ آبرو بھی وہاں آگئی تھی اور کہا کہ
" حمدان مجھے خالہ نے بتایا تم شاپنگ پہ جا رہے ہو مجھے بھی لے جاو مجھے بھی کچھ لینا ہے ۔"۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیٹھنے ہی لگی تھی کہ حمدان نے اسے روکا
"ایک منٹ آبرو مجھے نہ ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے میں امل کو بھی سویرا کی طرف چھوڑ رہا ہوں یہ سویرا کہ ساتھ جائے گی
اور تم بور ہوجاو گی اگر انکے ساتھ جاو گی تو "۔۔۔۔۔
امل تو حیران ہوگئی کہ یہ کب ہوا وہ تو لاتعلق سی بیٹھی ہوئی تھی وہ تو چاہ رہی تھی کہ آبرو ساتھ ہی چلے
امل نے کچھ کہنا چاہا لیکن حمدان نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے کہا "آبرو تم online shopping کر لینا تم کہاں مارکیٹ گھوموں گی تمہاری بہن کی مایوں ہے تمہیں تو آگے آگے رہنا ہے تھک جاو گی میں کرادوں گا online شاپنگ"
حمدان نے اسکو اتنا لاجواب کر دیا کہ مجبورا اسے پیچھے ہٹنا پڑا ""اوکے حمدان ۔""۔۔۔۔۔
وہ کہتی ہوئی اندر چلی گئی
آبرو کے جانے کے بعد امل نے حمدان سے کہا
"آپ نے مجھے بتایا نہیں آپکی میٹنگ یے سویرا کیسے جاسکتی یے وہ تو گھر پہ ہی نہیں ہے آپ کی بات ہوئی یے اس سے"
"تم سویرا کے ساتھ نہیں امل میرے ہی ساتھ جا رہی ہوں"
حمدان نے کار ریورس کرتے ہوئے جواب دیا
لیکن آپ تو ابھی "۔۔۔۔
"میں جھوٹ کہ رہا تھا مجھے اس چپکو کو کباب میں ہڈی نہیں بنانا"
حمدان امل کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول پڑا
جی۔۔۔۔۔۔۔؟
امل تو شاکڈ ہی رہ گئی تھی حمدان کی باتوں سے
"میرا مطلب ہے امل تمہیں ڈریس لینا ہے نا تو چپ کر کے بیٹھ جاو"
اس سے کوئی جواب نہیں بنا تو اس نے امل کو سختی سے کہا جس سے امل نے چپ ہوکر منہ کھڑکی کی طرف کر لیا
حمدان کو اسکا پھولا ہوا منہ اچھا لگا تھا آج اسکا موڈ بہت اچھا تھا وہ امل کے ساتھ پہلی دفعہ اکیلے ٹائم اسپینڈ کر رہا تھا اور اس نے fm میں song play کیا
______________________________
باجی میں اندر آجاوں"
انعم نے انعمتہ بیگم کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا
۔""۔ہاں آجاو ""انعمتہ بیگم نے اجازت دی
وہ میں کہ رہی تھی کہ آپ نے رائمہ کے گھر شادی کا کارڈ بجھوادیا" ۔۔۔۔۔۔۔۔
"رائمہ تو اسلامآباد شفٹ ہوگئی ہے لیکن مینے اسکی ساس کے گھر مرتظی کے ہاتھ کارڈ بجھوادیا ہے اور کال بھی کردی ہے تم بے فکر ہوجاو "۔۔۔۔۔۔۔
انعم کی بات سمجھ کر انہوں نے جواب دیا
"وہ مجھے آپ سے کچھ اور بھی کہنا تھا" ۔۔۔۔۔
انعم کہتی کہتی رک گئی تھی
"کیا کہنا ہے کہو تم بلا ججھک کچھ بھی کہ سکتی ہو"
انعمتہ بیگم نے حوصلہ دیتیے ہوئے کہا
آپنے آبرو کے بارے میں" ۔۔۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے اسکی بات کا مطلب سمجھ کر کہا
"مجھے یاد ہے۔۔ آبرو میرے حمدان کی بہو بنے گی میں نے بات کی ہے حماد سے ۔۔۔۔حمدان کا تو ابھی بزنس اسٹارٹ ہوا ہے ۔۔جبہی میں رک گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔تم پریشان نہ ہو" ۔۔۔۔۔۔
"وہ تو آپکی بات ٹھیک ہے آپ حمدان سے بات کرلیں میں چاہ رہی تھی کہ کم از کم منگنی کی رسم ہی ادا ہوجائے میں آبرو کی طرف سے بھی بے فکر ہوجاو گی" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پہ کھڑی آبرو جو انعم کو ڈھونڈنے آئی تھی انکی باتیں سنکر خوشی سے سرشار ہوگئی تھی اور شرماتی ہوئی چلی گئی تھی
_____________________________________
امل کچھ ڈریسس دیکھ رہی تھی اور حمدان دوسری جانب کال پہ بات کر رہا تھا بات کرکے جب وہ پلٹا تو ایک لڑکے کو امل کو گھورتا ہوا پایا اسکی تو غصے سے رگیں تنگ گئی تھی وہ چاہتا تو اسے اچھا سبق سکھا سکتا تھا لیکن وہ کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا
وہ اپنے غصے پہ قابو پاتے ہوئے امل کی جانب بڑھا اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اس شخص پہ ایک کڑی نظر ڈال کر اسے بہت کچھ باور کرادیا تھا
جبکہ امل ان سب سے بے نیاز کپڑوں کی جانب متوجہ تھی
حمدان کا یہ اچانک عمل اسے سمجھ نہیں آیا اس نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا تو حمدان کی گرفت اور مضبوط ہوگئی تھی
"یہاں سے چلو اچھے ڈیزائن نہیں ہے "
حمدان کی آواز میں ایک کرختگی تھی امل ایک پل کے لئے ڈر گئی تھی
چلتے چلتے حمدان کی نظر ڈمی میں لگے ایک ڈریس پہ پڑی جو اسے پسند آیا تھا اور اس نے بغیر امل سے پوچھے اسے خرید لیا
وہ ایک لیمن کلر کی پاوں تک گھیردار فراک تھی جسکی بوڈی پہ گولڈن کام اور گھیر پہ لال کلر کی ڈیزائینگ تھی ۔۔۔۔۔
امل نے بھی اس ڈریس کو ستائیشی نظروں سے دیکھتا امل اسے اپنے ساتھ لایا ہوا credit card دیا بل pay کے لئے لیکن حمدان کے ایک نظر دیکھنے سے اس نے اسے واپس رکھ لیا
حمدان نے اسکا ہاتھ پکڑے ڈریس کی میچنگ کی دیگر اشیاء دلائی اور اسے food court لے کر گیا
ایک کونے کی سیٹ اس نے ریسرو کری
جہاں اس نے اپنے لئے بٹر اسکاچ اور امل کے لئے چاکلیٹ آئسکریم کا آرڈر دیا اسکا موڈ اب بلکل نارمل ہوگیا تھا
امل نے دل میں سوچا ابھی تو اتنے غصے میں لگ رہے تھے اور اب تو مسکرا ریے ہیں پل میں کچھ پل میں کچھ ۔۔۔۔۔۔
"آپ کو کیسے پتہ مجھے چاکلیٹ آئیسکریم پسند ہے "
امل کب سے جو سوچ رہی ہوتی ہے آخر پوچھ ہی لیا
"مجھے تو اور بھی بہت کچھ معلوم ہے تمہاری پسند نہ پسند کے بارے میں "
حمدان نے جزبات سے چور لہجے میں امل کو جواب دیا
امل اپنی پلکیں جھکانے پہ مجبور ہوگئی تھی
حمدان کو اسوقت وہ اپنے دل کے بہت قریب لگی
امل کو پزل ہوتا دیکھ کر اس نے کہا
"یہاں پاس میں ایک اچھا سا restaurant ہے اسکے بعد وہاں سے کھانا کھا کر گھر چلیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھانا کیوں ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ کیا ضرورت یے اور گھر میں بھی سب انتظار کر رہے ہونگے
امل نے جواب دیا وہ اب نروس فیل کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
مینے پوچھا نہیں بتایا ہے اور رہی بات گھر کی تو تم اسکی فکر نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اسے دو جملوں میں بہت کچھ باور کرا دیا تھا
____________________
وہ دونوں مال سے باہر جا رہے تھے جب کوئی سامنے سے آتے ہوئے امل سے اس طرح ٹکرایا کہ اسکا شخص کا کندھا امل کے کندھے سے لگا
حمدان نے امل کو اپنی دوسری جانب کیا اور اس شخص کو دیکھا اور ایک پل بھی نہ لگا اسے پہچاننے میں کہ یہ وہ ہی ہے جو امل کو کچھ وقت پہلے تاڑ رہا تھا حمدان کی گھوری کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا
حمدان کی آنکھیں لال ہوگئی تھی وہ شخص جان بوجھ کر ٹکرایا تھا غصہ برداشت کرنا اب اسکے بس سے باہر تھا اس نے اس شخص کا کالر پکڑ کر ایک مکہ اسے جڑا وہ شخص دو قدم پیچھے ہوا
اس شخص نے بھی اپنے قدم حمدان کی جانب بڑھائے تو حمدان نے اسکا وار اس پہ الٹا کیا
"How Dare You To Touch Her "
حمدان کا غصہ پہ قابو پانا اسکے بس میں نہیں تھا اس نے ایک حد تک اگنور کیا تھا اب نہیں کر سکتا تھا
"اگر اتنی قیمتی ہے تو تجوری میں بند کر رکھنا تھا کیوں لے کر آیا ہے اس میٹھی بلبل کو "
وہ شخص اب بھی باز نہیں آرہا تھا
اس بات نے تو حمدان کا دماغ گھمادیا تھا اور اس نے ایک زوردار پنج اسے رسید کرا اس شخص نے بھی اپنے دفاع میں ایک مکہ حمدان کو مارا جس سے حمدان کی ناک سے خون بہنے لگا کیونکہ اس نے انگھوٹی پہنی ہوئی تھی وہ اس کے لگ گئی تھی
امل کو کچھ سجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا
حمدان اس شخص کو پے درپے مکوں کی بارش کر رہا تھا لوگ اسے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس پر جنون سوار تھا
بڑی مشکل سے ان دونوں کو الگ کیا گیا تھا
حمدان نے چھوڑتے چھوڑتے بھی ایک لات اسکے پیٹ میں مار کر چھوڑا اور امل کا ہاتھ سختی سے تھامے وہاں سے نکلا اسکا موڈ سخت خراب ہوگیا تھا
امل دریا کے بہتے پانی کی طرح اسکے ساتھ جا رہی تھی
_________________
حمدان نے اپنا کوٹ اتار پھینکا تھا اور شرٹ کے اوپری دو بٹن کھول کر خود کو ریلکس کیا تھا اور اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا
سگنل پہ جب حمدان کو گاڑی روکنا پڑا اس نے ایک مکہ اسٹیرئینگ پہ مارا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا جب ایک پھول بیچنے والا بچہ آیا
"۔صاحب یہ پھول لےلو بہت جچے گیں آپ کی مسز پہ اللہ آپ دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ""۔۔۔۔۔۔۔
امل نے تو یہ سنکر شرم سے سر ہی جکھا لیا تھا اور اب اسکا ڈر مزید بڑھ گیا تھا کیونکہ حمدان خطرناک حد تک سنجیدہ تھا اس نے حمدان کی جانب دیکھنے کی بھی غلطی نہیں کی تھی
حمدان کے لبوں پہ غصے کے باوجود ایک دھیمی مسکراہٹ آگئی تھی جسے اس نے ہونٹوں کو آپس میں پیوست کر کے روک دی تھی اتفاق سے اس بچے کے پاس ایک پنک گلاب بھی تھا جسے حمدان نے اس سے لیا اور اس بچے کو پیسے دیئے.
"صاحب یہ تو بہت سارے پیسے ہیں آپ نے تو بس ایک ہی پھول لیا ہے
جس پہ حمدان نے کہا " رکھ لو "
اور وہ بچہ بھی ان دونوں کو دعائیں دیتا ہوا چلا گیا
حمدان نے امل کی جانب وہ پھول بڑھایا
امل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"قبول کرو گی تو اچھا لگے گا وہ بچہ ایک آس سے آیا تھا "
حمدان نے پھول اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
حمدان کا رویہ امل کی سمجھ سے باہر تھا وہ کچھ اخذ نہیں کر پارہی تھی وہ گلاب لیتے ہوئے بہت کنفیوز تھی حمدان کی آنکھیں کچھ اور کہتی تھی اور لہجہ کچھ اور
____________________________
Episode 14
جب امل اور حمدان گھر آئے تو انعمتہ اور آبرو لاونج میں ہی ٹہل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کے آتے ہی انعمتہ بیگم نے اسے کہا
"اتنی دیر لگادی کہاں رہ گئے تھے میں کب سے کال کر رہی ہوں تم receive نہیں کر رہے تھے میں کھانا لگاو ۔۔۔اور یہ کیسے ہوا انہوں نے حمدان کی ناک دیکھتے کہا ؟
اور آبرو نے حمدان کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز دیکھتے ہوئے کہا
""حمدان تم تو کہ رہے تھے تمہاری میٹنگ ہے پھر یہ سب"" ۔۔۔۔۔
امل تو ان سب معاملے میں خاموش تھی
"امل تم جاو یہ بیگز لےکر اوپر "
حمدان نے اسے کہا جسکی تابعداری میں امل تو فورا اوپر چلی گئی تھی
ماما میرا موبائیل سائیلینٹ پہ تھا تو پتہ نہیں چلا آپکی کال کا جبہی اور یہ معمولی چوٹ ہے کچھ نہیں ہوا اور کھانا میں کھا کر آیا ہوں لیکن میں شام میں آپکے ہاتھ کا بنا chinese ضرور کھاوں گآ میں فریش ہونے جا رہا ہوں
حمدان نے اپنا لنچ والا پراگروام کینسل نہیں کیا تھا اور آبرو کی بات کا اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔
حمدان کے جانے کے بعد آبرو نے انعمتہ سے کہا
"یہ امل شکل سے جتنی معصوم ہے نہ اندر سے اتنی شاطر ہے حمدان کی کوئی میٹنگ نہیں تھی اور اس امل کے ساتھ یہ اتنی دیر تک سیر سپاٹے کرکے آیا یے ۔۔
آہستہ کہو اس گھر میں امل کے خلاف ایک لفظ بھی کوئی بول تو کیا سن بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔so be careful انعمتہ بیگم نے اسے ٹوکا انہیں بھی حمدان کا رویہ اچھا نہیں لگا تھا
____________________________
امل چھت پہ ٹہل رہی تھی اور کتاب اسکے ہاتھ میں تھی نیچے اتنا شور شرابہ ہورہا تھا جب ہی وہ یہاں آگئی تھی کہ بک ریڈ کر سکے
وہ ٹہلتے ٹہلتے پڑھ بھی رہی تھی جب اس نے اذہان کو لنگڑاتے ہوئے آتے دیکھا وہ چاروں طرف نظریں گھماتا آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے چھپ کر جارہا ہو
اذہان اپنے کمرے میں آکر اپنے پیر لٹکا کر بیڈ پہ گرا
"اس چوٹ کو بھی آج لگنی تھی "
بڑبڑاتے اس نے اپنا ماتھا کھجایا
"کیا ہوا اذہان لنگڑا کر کیوں آرہے تھے "
امل نے آتے کہا
"تو تم نے دیکھ لیا ہے اتنا چھپ کر آیا ہوں جبکہ لیکن ہاں میں تو بھول گیا تھا تم چڑیل ہو تمہاری نظروں سے کیسے بچا جا سکتا ہے "
اذہان نے اپنے پیچھے تکیہ سے ٹیک لگا کر کہا پاوں اب بھی لٹکائے ہوئے تھے
"اذہان مجھے فکر ہو رہی یے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے دیکھاو کیا ہوا ہے "
امل نے کہتے ساتھ اسکے پاوں میں سے جوتے علیحدہ کرنے چاہے
"اوئے کیا کر رہی ہے "
اذہان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر خود جوتے الگ کریں اور پاوں بیڈ پر رکھیں
""کہیں تم نے اپنا پیر تو نہیں توڑوالیا ہے اور سب سے چھپ کر کیوں آرہے تھے
امل نے تشویش ناک لہجہ اپنایا
"بس موچ آگئی ہے ذرا سی ٹھیک ہوجائے گا اور چھپ کر اس لئے آیا ہوں کیونکہ میری خیریت کوئی نہیں پوچھتا بلکہ کیسے لگی ؟؟کہاں تھے ؟؟ نظر نہیں آرہا تھا ؟؟ دیکھ کر چلتا ہے انسان ؟؟ سہی ہوا ہے تمہارے ساتھ تو ؟؟
اذہان نے درد میں مسکراتے نقل اتاری
"یہ سوال تو میں پوچھنے والی ہوں بتاو کیسے لگی کہاں دھیان تھا کس لڑکی کی طرف دیکھ رہے تھے تم ہاں"
امل نے اسکے پیر کا معائنہ کرتے کہا جو سوجھ گیا تھا
""لگ گئی بس "
اب کیا بتاو تمہیں کہ لڑکی نمبر ٨ سے ملنے گیا تھا اور نظر آگئی ۵ اس سے بچنے کے چکر میں نیچے پڑے پتھر سے ٹکرایا گیا ایک تو اسکو ہر بات کا علم ہوجاتا ہے
یہ بات اس نے دل میں کہی تھی
اور تم مجھے ڈانٹنے آئی ہو یا درد کا علاج کرنے کوئی بام وام لاکر دو مجھے "
اذہان نے کہا
""درد ہو رہا ہے "
امل نے معومیت سے سوال کیا
""نہیں امل بہت سکون مل رہا ہے میرا دل چاہ رہا ہے کہ دوسرے پیر بھی میں لگ جاتی "
اذہان نے جلتے کہا بندہ درد سے کراہ رہا ہے اور انکا سوال دیکھو
امل نے سائیڈ دراز سے بام نکال کر اسے لگایا تو اذہان کی اوو آہ ہ ۔۔۔ممی کی آواز نکلی
"ممی یاد آرہی ہیں تمہیں تو نانی یاد آنی چاہئیے"
امل نے آہستہ آہستہ لگاتے کہا لیکن جب اسکے چہرے پہ درد کے تاثر دیکھے تو کہا ""ذیادہ درد ہورہا ہے "
ہاں امل ۔۔
اذہان نے اپنا سر ہلایا
"میں برف لے کر آتی ہو "
امل نے کہا
"برف کس لئے "
اذہان کو سمجھ نہیں آیا
"قلفی جمانے کے لئے بیوقوف انسان تمہارا پیر سوجھ رہا ہے اس پر لگاوں گی "
امل نے ہنستے کہا
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو نہیں لگانا تو نہیں لاتی "
امل نے اسے تکتا پاکر کہا
"ارے نہیں مطلب لگادوں یار تم چاہتی ہوں میرا پیر جلدی سے ٹھیک ہوجائے"
اذہان نے اسے دیکھتے کہا
"نہیں میں چاہتی ہوں تمہارا پیر نہ ہاتھی کی طرح سوجھ جائے ۔۔۔۔جیسے جانتی نہیں ہوں میں اگر اسی طرح رہے تم پیر کا پتہ نہیں منہ ضرور سوجھ جائے گا کیونکہ باہر جو نہیں جا پاو گے "
امل بام مکس کرتے کہ رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے اتنی زور دار آواز آئی کہ وہ اچھل گئی
"حمدان تم "
اذہان نے بھی اپنے پیر سائیڈ کرتے کہا
"کیا ہورہا ہے یہ"
حمدان نے اپنا ٹون دھیما کیا کیونکہ اس نے ذیادہ زور سے امل کو پکارا تھا
"کچھ نہیں وہ بس ذرا سی موچ آگئی تھی تو امل بام لگا رہی تھی کیا ہوا "
حمدان کا رویہ اذہان کے سر کے اوپر سے گزرا
"میرا مطلب ہے کہ امل سے کیا ہوگا یہ کونسی ڈاکٹر ہے خود تو ہے یہ چیونٹی جیسی یہ کیا کرے گی تم بڑی امی کو بلاتے "
حمدان کو رہ رہ کر غصہ چڑھ رہا تھا
امل تو چیونٹی سن کر صدمے میں چلی گئی تھی
وہ کوئی جواب دیتا شانزہ بیگم بھی آگئی
"کیا ہوا یہ شور کیوں ہورہا ہے اذہان کیا ہوا "
"کچھ نہیں بڑی امی ذرا سی موچ ہے میں بام لگا رہی تھی بس "
امل فکر مند تھی
"اذہان کیسے لگ گئی دیکھاو "
شانزے بیگم آگے بڑھی
میں برف لاتی ہوں
امل نے اپنے قدم آگے بڑھائے
"کوئی ضرورت نہیں ہے میرا مطلب ہے میں بھجوا دیتا ہوں بڑی امی لگا دینگی تم اپنا کام کر لو معمولی چوٹ ہے کوئی بچہ نہیں ہے اذہان جو برداشت نہیں کر سکتا"
حمدان نے بات بنا کر کہی
شانزہ بیگم بہت گہری نظروں سے یہ سب نوٹ کر رہی تھی
_________________________
""ایک تو آپ ہر وقت آفس کا کام کرتے رہتے ہیں چھوڑیں اسے اور میری بات غور سے سنیں "
شانزہ بیگم نے حارث صاحب کے ہاتھوں سے فائیل لیتے کہا
ارے میں اہم کام کر رہا تھا
انہوں نے واپس فائیل لی
"افف آپ کا یہ کام ۔۔میں نے آپ سے کہا تھا اذہان اور امل کے بارے میں مجھے تو دال کالی لگ رہی ہے "
شانزہ بیگم نے ان سے کہا
"آپ سن رہے ہیں مجھے "
انہوں نے واپس فائیل لی
"آپ کو پھر یہ بات یاد آگئی کیا ہوا ہے ایسا "
انہوں نے بات کرنا ہی بہتر سمجھا ورنہ وہ سکون سے کام نہیں کر سکتے تھے
"ابھی میں نے نوٹ کیا ہے ان دونوں کو آپ بات کریں حنین بھائی سے میری کوئی بیٹی نہیں ہے امل ہے میں نہیں چاہتی وہ اس گھر سے کہی جائے "
انہوں نے انکی آنکھوں میں دیکھا
"اذہان نے کہا ہے کچھ کیا وہ تو شروع سے ایسے رہتے ہیں آپ کو غلط فہمی نہ ہوئی ہو "
انہوں نے سوال کیا
"میں موقع ملتے ہی بات کرتی ہوں اذہان سے ہوسکتا ہے وہ ہچکچا رہا ہوں "
وہ بولیں
"پہلے آپ اذہان سے بات کر لیں پھر دیکھتا ہوں "
انہوں نے حامی بھری
"آپ تو ایسے ڈر رہے ہیں جیسے حنین بھائی چھری چاقو لے کر آپ پر حملہ کردیں گے کہ تم نے یہ کیسے کہ دیا"
شانزہ بیگم کو غصہ آگیا تھا انکی بات کو سیرئیس ہی نہیں لیا جارہا تھا
"اچھا ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں "
انہوں نے اپنی فائیل واپس لی
"میں خود ہی کرلوں گی صدف سے بات آپ سے نہ ہوگا "
وہ کہتی کمرے سے واک آوٹ کر گئیں excitement میں وہ بھول گئی تھی کہ انہیں اپنے بیٹے کو ہلدی والا دودھ دینا ہے
_____________________________
امل گھر کے entrance gate کے پاس کھڑی باہر لان میں آج کے ہونے والے فنکشن کی decoration دیکھ رہی تھی جب اسے اپنے عقب سے آواز سنائی دی وہ پلٹی تو اسے ایک اجنبی شخص دیکھائی دیا جو اسکا نام بھی جانتا تھا امل نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا تو وہ شخص خود ہی دو قدم آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرنے لگا
hy myself kashan siddiqui .....You don't know me but i know you well ....you are a daughter of hunain uncle am i right ? We have a very good business relationship with your family ....i also came in your birthday party ...i think you didn't remember ....
وہ شخص اسے تفصیلی جواب دےکر خاموش ہوا امل کو اسکی نظریں خود پہ آرپار گزرتی محسوس ہورہی تھی اور اس نے اسکی تمام باتوں کا یک لفظی جواب "اچھا" دیا
امل یہاں سے جانا چاہ رہی تھی لیکن وہ شخص بات سے بات نکالے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
will we be friends Amal ..??
امل تو اسکی دیدا دلیری پہ حیران رہ گئی میں کیوں دوستی کروں گی امل تو پھنس ہی گئی تھی وہ اسے سخت جواب دینا چاہ رہی تھی
گیٹ سے اندر آتے ہوئے حمدان کی نظر ان دونوں پہ پڑی اس شخص کی پشت حمدان کی جانب تھی
حمدان کو تجسس ہوا کہ وہ کس سے بات کر رہی یے وہ آگے بڑھا اور اسی شخص کو دیکھ کر جو اس دن پارٹی میں بھی امل کو گھور رہا تھا اسکے غصے کا harmone stimulate ہونے لگا حمدان کو یہ شخص پہلی نظر میں ہی اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔
امل تم جاو تمہیں بلا رہی ہیں چھوٹی امی ۔۔۔
حمدان کی آواز پہ امل اپنی سوچ سے باہر آئی اور حمدان کو تشکرانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی یہ جا وہ جا ۔۔۔۔۔
hello .. I am kashan....the son of Asad siddiqui .....
کاشان نے امل کو جاتے دیکھتے حمدان سے کہتے ہوئے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے حمدان اتنی سختی سے پکڑا تھا کہ کاشان کو لگا کہ اگر اسکی انگلیاں ٹوٹی نہ بھی توچٹخ ضرور جانی ہے لیکن اسکے باوجود بھی وہ اپنے حرکتوں سے باز نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔
ہاں میں جانتا ہوں بہت اچھے سے ملا تھا تمہارے والد سے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ تم انکے بیٹے ہوگے
حمدان نے دانت پیس کر اسے کہا
""اوو یہ تو اچھا ہے ویسے بھی اب تو ملاقات ہوتی رہی گی وہ کیا ہے نہ تمہاری کزن کا رشتہ میرے بھائی سے جو طے ہوا ہے میں تو کچھ چیزیں دینے آیا تھا بٹ یہاں آکر تو surprise ہی مل گیا ۔۔۔۔۔۔
حمدان اچھے سے اسکے سرپرائز کا مطلب سمجھ گیا تھا ۔۔
کہ اسکا اشارہ امل کی طرف ہے ۔۔
مجھے ایک ضروری کام ہے مجھے اپنا بیکار وقت یوں ضائع کرنا پسند نہیں ہے پھر ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔
حمدان نے یہ کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑتا آگے بڑھا جس سے کاشان اپنی جگہ سے ہل گیا اور ایک مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے چلا گیا
Episode 15
حمدان نے امل کو الماری میں گم دیکھ کر اسکا کمرے کا دروازہ نوک کیا جس سے امل چونک گئی
آپ ۔۔۔!!!!!
کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔۔۔؟حمدان نے دروازے سے ٹیک لگاتا کہا
جی آجائیں ۔۔۔۔
دل میں اس نے کہا" کہ نہ کہوں گی تو کونسا چلیں جائیں گے ویسے آئے کیوں ہیں افف اللٰہ جی "
حمدان نے اندر آکر بہت سے بکھرے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے ایک ڈریس امل کی جانب بڑھایا یہ پہن لینا
امل تو یہی سوچتی رہ گئی کہ مینے تو کچھ کہا بھی نہیں اور یہ سمجھ بھی گئے لیکن مہربانی کیوں کر رہے ہیں
یہ ایک سیگرین کلر کی فراک تھی جس پی پیلے رنگ کی embroidery تھی جو مایوں کی فنکشن کے حساب سے suitable تھا ۔
وہ تم سے کیا کہ رہا تھا "
حمدان نے اچانک امل سے پوچھا
کون؟؟ امل نے بے خودی میں کہا
میرے خیال سے اتنی ویک میموری تو نہیں ہے
حمدان کا لہجہ اچانک سخت ہو گیا تھا
و۔۔۔۔۔وہ ک۔۔۔۔۔کچھ خ۔۔۔۔خاص۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔بسس ۔۔۔وہ ۔۔۔۔
امل نے بات سمجھ آنے پر کہا یہ تفتیش کے لئے آئیں ہیں
آئیندہ کے بعد اسکے آس پاس بھی نظر نہ آو سمجھی
حمدان نے اسے وارن کیا
لیکن میں تو اسکے پاس نہیں"" ۔۔۔۔۔
میں نے صفائی نہیں مانگی
حمدان نے امل کی بات کاٹی
کیا ہو رہا ہے guyzz
آبرو کی چہکتی ہوئی آواز آئی حمدان کو بہت غصہ آیا کہ وہ ایسے ہی آگئی کچھ چیزوں میں حمدان ethics کا بہت خیال رکھتا تھا۔۔۔
حمدان کے ہاتھ میں ڈریس دیکھتے ہوئے آبرو تو کڑ ہی گئی ۔۔۔۔۔
نظر نہیں آرہا ہے تمہیں ۔۔۔۔۔
حمدان نے خود پہ قابو پاتا کہا
اوو ڈریس selection ہو رہی ہے
اس نے انکے پاس آکر جواب دیا
ہاں اور جب دو لوگ بات کر رہے ہوں تو اس طرح بیچ میں مداخلت نہیں کرنا چاہیئے ۔۔۔۔۔
حمدان یہ کہتے ہوئے امل کو ڈریس پکڑاتے ہوئے کمرے سے چلا گیا
امل نے آبرو کو کہا
""آو آبرو بیٹھو تم کھڑی کیوں ہو "
you just shut up
آبرو یہ کہتی ہوئی غصے سے پھنکارتی ہوئی گئی
""میں نے کیا کیا ہے. دونوں کزن ہی سٹیاوے ہیں "
وہ بڑبڑاتی اپنا ڈریس استری کےلئے آسیہ کو دینے چلی گئی
___________________________
آئرن اسٹینڈ پہ ہینگ کئے ہوئے امل کے ڈریس کو آبرو ایسے گھور رہی تھی جیسے وہ ڈریس نہیں امل ہو اور وہ اسے سالم نگل جائی گی ۔۔
اپنا کام مکمل کرکے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے آبرو جن کی بوتل کی طرح غائب ہوگئی تھی ۔۔۔۔
__________________________
حمدان اور سعد نے وائیٹ شلوار پہ کاہی رنگ کی قمیض پہنے ایک ساتھ کھڑے محفل کی جان لگ رہے تھے
مرتظی اور سعد کی بھی سیم یہی ڈریسنگ تھی
سعد نے آبرو کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے اسکے تعریفی پل باندھتے ہوئےکہا
حمدان بے آبرو کو دیکھا ہے تو نے
بے آبرو ۔۔
حمدان نے چونک کر کہا
"ہاں بے آبرو تیری چپکو کزن بغیر ایلفی کے بھی کیا چپکتی ہے" سعد نے حمدان کو کہا
""سعد ایسے نام نہیں بگاڑتے ""
حمدان نے سعد کو ٹوکا
"میں کہاں نام بگاڑ رہا ہوں میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ اسکا نام بے آبرو ہونا چاہئیے کیوں کہ حرکتیں تو بےآبرو کرنے والی ہیں" ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکے سلیو لیس فٹ چھوٹی قمیض پہ چوٹ کرتے کہا ۔جس میں اسکی figure بہت واضح ہورہی تھی اور دوپٹہ گلے میں رسی کی طرح نام کرنے کےلئے ڈالا ہوا تھا۔۔۔۔۔
ایسا لگ رہا ہے کارنفلور کے پیکٹ میں منہ ڈال کر آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔حمدان نا چاہتے ہوئے بھی سعد کی باتوں پہ ہنس پڑا۔۔۔۔
سامنے کھڑی آبرو یہ سمجھ کر شرما گئی کہ وہ دونوں اسکے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہیں
""سعد اگر تعریفی کلمات آبرو نامہ میں مکمل ہوگیا ہے تو ذرا لیفٹ مڑنا""۔۔۔۔
حمدان نے سعد کی توجہ مبزول کرائی
"او تیری خیر حمدان کے بچے بتا نہیں سکتا تھا پہلے کہ میری زندگی کا سویرا یہی دیکھ رہی یے ۔۔۔۔۔
سعد نے حمدان کو دانت پیس کر کہا
For your kind information
میرے ابھی بچے نہیں ہیں
حمدان نے سعد سے کہا
ہاں ""جتنا تو سلو موشن ہے تیرے بچے ہونے بھی نہیں ہیں اتنی جلدی ۔۔۔میرے ہونے والوں بچوں کے لئے کیوں رکاوٹ بن رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
سعد تو یہ کہ کر وہاں سے کھسک گیا کیونکہ سویرا اسے گھورتی ہوئی نظر سے دیکھ کر چلی گئی تھی
پتہ نہیں کیا بنے گا اسکا "
کہتے ہوئے حمدان متلاشی نظروں سے کسی کو ڈھونڈنے لگا تھا
________________________________
سویرا پھولوں کا ٹوکرا لیکر آرہی تھی جب سعد اسکے راستے میں حائل ہوا
سویرا نے اپنا رخ دوسری طرف کرا تو اتفاق سے سعد بھی اسی جانب ہوا
سویرا پھر رائیٹ پہ ہوئی تو سعد بھی رائیٹ پہ ہوا
سویرا کو اب سمجھ آگیا تھا کہ اب سعد جان بوجھ کر یہ کررہا ہے پھر سویرا کچھ سوچ کر ایک طرف ہوئی اسی جانب سعد بھی ہوا اور سویرا نے جب ہی اسکی راہ میں اپنی ٹانگ اڑائی جس سے سعد منہ کے بل گرا
سعد کے بروقت زمین پہ ہاتھ رکھنے سے اسکا سر زمین پہ لگنے سے بچ گیا تھا
""مسٹر نکل گئی ہیرو پنتی یا ابھی بھی کچھ بچا ہے آیا بڑا ٹھرکی ۔۔اپنا ٹھرک پن کہیں اور جا کر دیکھانا "۔۔۔۔۔۔
سویرا یہ کہ کر آگے بڑھی اسے بھی تو اپنا بدلہ لینا تھا اتنا ٹائیڈ لاک کرا تھا نیکلیس کی وہ اس سے کھلا نہیں تھا
حمدان جوکہ سعد کو ڈھونڈنے ہی آیا تھا سارا واقع اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور اسکا چھت پھاڑ قہقہ گونجا تھا
اور اس نے سویرا کا جملہ
نکل گئی"" ہیرو پنتی"" ۔۔دہرایا
ہنس لے ہنس لے یہ نہیں کہ بھائی گر گیا ہے اٹھا دے اسے سعد حمدان کو کوستا ہوا دل میں سویرا سے بدلے لینے کے ارادے کر رہا تھا
گرا یے یا گراگیا ہے سہی ملی ہے تجھے ۔۔تجھے سہی ٹریک پہ لائی گی ۔۔۔
حمدان نے سعد کو ہاتھ دیتے ہوئے کہا
"چل اب اتنی سڑی سی شکل نہ بنا باہر چل "۔۔۔۔
حمدان نے سعد کے کندھے پہ ہاتھ کا حصار باندھتے ہوئے اسے باہر کی طرف لے کر گیا
________________________
یہ میرا ڈریس کیسے جل گیا ۔۔۔
امل اپنے ڈریس کو جلا دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی
ایک تو ویسے ہی دیر ہوگئی ہے
ہوا یوں کہ امل جب شاور لینے گئی تو اسکے نل میں پانی آنا بند ہوگیا اچانک امل نے ٹب میں جمع کئے ہوئے پانی کا استعمال کرا تو کچھ دیر بعد پانی خود آنے لگا
""اب یہ مصیبت"" ۔۔۔
بوا سے بھی پوچھ کر کیا کروں گی وہ تو خود اتنی مصروف ہیں ۔۔۔
امل نے دوسروں کپڑوں کو دیکھتی ہوئی خود کلامی کری
""امل کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو"" ۔۔۔۔۔
آبرو نے امل کے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی کہا
"اوو یہ ڈریس کیسے جل گیا تمہارا اب کیا پہنو گی تم"" ۔۔۔ویسے میری آفر ابھی بھی یے۔تم چاہو تو وہ ڈریس پہن سکتی ہو ویسے بھی ہم سب نے ایک ہی اسٹائیل کے ڈریسس پہنے ہیں قسمت بھی یہی چاہتی ہے تم یہی پہنو ۔۔
آبرو نے امل کو ایک ڈریس آفر کی تھی جسکی آستین چھوٹی سی تھی اور پیچھے کا گلہ کافی بڑا تھا اور اس پر ڈوری بھی لگی تھی۔۔۔۔
امل کو وہ ڈریس نامناسب لگا تھا لیکن اسلئیے اس نے انکار کر دیا تھا
اب آبرو پھر اسے وہی بات کر رہی تھی
""نہیں آبرو میں کچھ اور پہن لوں گی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔امل نے عام سے لہجے میں انکار کرا
"امل تم میری ایک اتنی سی بات نہیں مان سکتی "
آبرو نے ایسے کہا جس پہ امل نے کچھ سوچ کر حامی بھر لی
امل نے اس ڈریس پہ ایک بڑا سا دوپٹہ لیکر اسے دونوں شانوں پہ لیکر پن سے کور کرلیا کہ اسکا بیک چھپ گیا اور اس نے بالوں کا میسی جوڑا بنائے ہلکے سا میکپ کرکے پھولوں کے زیور پہن کر باہر کی راہ لی
________________________
""اوووو تم یہ کیا زردے کی دیگ بنی بیٹھی ہو صبح بھی ہلدی کا ڈبہ بنی ہوئی تھی "
اذہان جو اندر کسی کام سے آیا تھا امل کو اس طرح خود میں الجھتا دیکھ کر کہا
""اذہان تمہیں میں زردے کی دیگ لگ رہی ہوں یہ کلر ہی ایسا یے "
امل اپنا مسلہ بھول کو اسے سنانے میں لگ گئی تھی
"تو ایسا کلر کیوں پہنا ہے میں تو اب یہ ہی کہوں گا "
اذہان نے بھی اسے چڑایا
"اور تم جانتے ہو کہ تم کیا لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔تم ۔۔۔وہ ۔۔۔
امل کو سمجھ نہیں آرہا تھا
""ہاں میں۔۔ بولو چپ کیوں ہوگئی ہو "
اذہان نے آئی آبرو اچکائی
""تم ہاں ۔۔۔پانی کے ٹینک میں جمی ہوئی کائی (الجی ) لگ رہے ہو"
امل نے بھی حساب برابر کرا کیونکہ اذہان نے کاہی کلر کا کرتا ہوا پہنا ہوا تھا
"امل بچ کے دیکھاو "
اذہان کہتا آگے بڑھا تو وہ پیچھے ہوئی اور لڑکھڑا گئی
""اوئے سنبھل کر اپنا پیر بھی اب نہ توڑوالینا "
اذہان نے اسے کلائی سے تھاما
"وہ میری سینڈل کی اسٹرپس کھل گئی تھی اسے ہی تو باندھ رہی تھی کہ تم آ ٹپکے "
امل نے کہا
"تو سینڈل پہننے کی کیا ضرورت ہے سلیپر پہن لیتی باہر گر گرا گئی تو غبارے جیسی تو ہو یوں ہی ادھر ادھر ہوجاو گی "
اذہان نے فکر کرتے کہا
"جب تمہیں لڑکیوں کے فیشن کے بارے میں نہیں پتا ہے تو نہ بولا کرو "
امل کو اسکا فلسفہ پسند نہیں آیا تھا
"تم سے بحث میں نہیں جیت سکتا بندہ ادھر دیکھاو میں بند کردوں "
اذہان کہتا پنجوں کے بل بیٹھا
"میں کر لوں گی " امل نے انکار کیا
"جب غلام حاضر ہے تو کیوں کر رہی ہو محنت "
اذہان نے سر کو خم دیتے کہا
"کیا بات ہے آج بڑے موڈ میں ہیں اذہان شیرازی "
امل نے اسکا پورا نام لیا
""میں تو ہمیشہ موڈ میں ہوتا ہوں تمہیں ہی نہیں لگتا "
اذہان نے اسٹرپس باندھتے کہا
"ویسے کتنی لڑکیوں کے سینڈل کے اسٹریپس باندھ چکے ہو اب تک "
امل نے آدھے منٹ میں اس کا کام ختم ہونے پہ کہا
ہاہاہا " پہلی تم ہو چڑیل آخری بھی تم ہوگی اور میں اذہان ہوں ہر کسی کے آگے نہیں جھکتا اور جس کے آگے جھک جاو سمجھو وہ بہت خاص ہے"
اذہان نے اپنی اہمیت بتائی
"" او مائے گاڈ ۔۔۔۔۔تو کیا اپنی بیوی کے نہیں باندھوں گے اسٹرپس "امل نے پوچھا
""بیوی ۔۔۔وہ تو ابھی نہیں ہے جب ہوگی تو دیکھ لیں گے اسے بھی ابھی تو تم ہو نہ "
اذہان نے کہتے اسکا ہاتھ پکڑا
امل نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
""ایسے کیا دیکھ رہی ہو زینہ آئے گا ابھی گر گرا گئی تو ہماری لئے ہی پریشانی ہوگی تم نے اپنی ہیلز کی لینتھ دیکھی ہے اور ہمیشہ کے لئے نہیں تھاما ہے کہو تو تھام لوں کیا "
اذہان نے اس نے گال کھینچتے کہا
اج تو اسکا انداز ہی الگ تھا
""بہت ہی بھونڈا مذاق ہے اذہان "
امل نے اس کے گال پہ اپنا مکہ نرمی سے رکھا اور وہ دونوں آگے بڑھے
حمدان جو اپنا موبائیل لینے آیا تھا یہ منظر اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے محسوس ہوا کہ اسے کسی نے ننگے پیر تپتے صحرا میں لا چھوڑا ہے
_____________________________
Episode 16

 

سعد اذہان مرتضی اور کاشان نے ملکر مایوں کے سونگ پہ ڈانس کررہے تھے حمدان کو یہ سب پسند نہیں تھا تو وہ پیچھے ہی تھا
مایوں کا فنکشن اپنے عروج پہ تھا جب سامنے کا منظر دیکھ کر حمدان کا غصہ ساتوں آسمانوں کو چھو گیا تھا
امل کا دوپٹہ سرک گیا تھا کب اسے خبر نہیں ہوئی تھی اور کاشان نے اس منظر کا سہی سے فائدہ اٹھا رہا تھا اور اپنی آنکھوں کو وہی ٹکایا ہوا تھا
حمدان نے امل کو ایک جھٹکے سے موڑا امل جو کہ اس عمل کے لئے تیار نہیں تھی اسکے سینے سے آلگی تھی
حمدان نے اسکے دوپٹے کو ٹھیک کرکے اسکو کور کرتے ہوئے
کھینچتے ہوئے لے کر گیا جس سے امل کی ہاتھ کہ کئی چوڑیاں ٹوٹ کر اسکے ہاتھ میں چبھ گئی تھی
حمدان کو اس وقت کسی کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی اسوقت کیا سوچ رہا ہے یا نہیں ۔۔۔
آبرو کے چہرہ پہ ایک جاندار مسکراہٹ تھی ۔۔۔
حمدان نے امل کو اسکے کمرے کے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لاکر چھوڑا
""یہ کیا بدتمیزی ہے آپ مجھے اسطرح کیوں لائے""
امل کو غصہ آرہا تھا کہ وہ اسے یوں کیوں لایا اس طرح سب کے سامنے سے سب نہ جانے کیا سوچ رہے ہونگے
حمدان کو امل کی بات نے اور غصہ دلایا لیکن کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اسے ہلکا سا موڑا اور اپنا چہرہ موڑ لیا
امل اپنا آپ آئینہ میں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگئی تھی کیونکہ اسکا بیک پورا نمایاں ہو رہا تھا
حمدان نے کبھی بھی امل کو اسطرح کی ڈریسنگ میں نہیں دیکھا تھا اسے ذیادہ غصہ کاشان پہ تھا
حمدان نے امل کو ایک معقول ڈریس الماری سے نکال کر دیا
"جاو ابھی کے ابھی اسے چینچ کرو٢ منٹ ہیں تمہارے پاس بس "
حمدان کا لہجہ دھیما مگر حد سے ذیادہ سرد تھا
امل کو اس سے خوف آنے لگ گیا تھا
حمدان اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر ٹہلتے ہوئے خود کو کول کر رہا تھا جب امل ڈریسنگ روم سے نکلی
اسکا سر جھکا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ حمدان کی جانب بڑھی اور دھیمے لہجے میں کہا
"میں نے جان بوجھ کر نہیں وہ"
"تم نے وہ ڈریس وئیر کیوں نہیں کیا تھا جو میں نے سیلیکٹ کیا تھا "
حمدان نے اپنے غصے پہ قابو کیا ہوا تھا
"وہ۔۔۔۔۔۔ج ۔۔۔۔۔جل ۔۔۔۔گی۔۔۔۔۔گیا۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔تھ۔۔۔۔۔تھا"
امل نے رندھی آواز میں کہا
"کیا مطلب جل گیا کیسے جل گیا تھا اگر جل گیا تھا تو یہی ڈریس ملا تھا اور یہ تمہارا تو نہیں لگ رہا ہے "
حمدان نے اسے خوف سے کانپتے دیکھ کر اپنا لہجہ کچھ نرم کیا
و۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔م۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔نے ۔۔۔۔آبرو ۔۔اس ۔۔۔ن۔۔۔نے ۔۔۔۔د۔۔ی۔۔۔۔دیا۔۔۔ت۔۔۔تھا۔۔۔
امل رک رک کر کہ رہی تھی سر مزید جھک گیا تھا
شششش ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھی
حمدان آبرو کا نام سنکر ہی سارا ماجرا سمجھ گیا تھا اس ڈریس کے پیچھے آبرو کا ہاتھ تھا اس سے تو اس بات کی توقع کی بھی جاسکتی تھی حمدان کو وہ شروع دن سے اچھی نہیں لگی تھی
حمدان کی نظر امل کے ہاتھ پہ پڑی جس پہ اسکے انگلیوں کے نشان تھے اور کچھ چوڑیوں کے چبھنے کی وجہ سے اسکا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا
حمدان کو افسوس ہوا وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا
حمدان نے امل کو کندھوں سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا اور کہا
" یہاں بیٹھو ۔۔میں ابھی آیا"" ۔۔۔۔۔
جب حمدان واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں first aid box تھا وہ بیڈ کے نیچے پنجوں کے بل بیٹھا اور بہت نرمی سے امل کے ہاتھ سے چوڑیاں نکال کر اسکے ہاتھ پہ مرہم لگایا جیسے اسے تکلیف ہو رہی تھی اور پھر اس نے احتیاط سے سنی پلاسٹ لگایا
امل کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
""امل ادھر دیکھو میری طرف""
حمدان نےاسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا۔۔۔۔۔۔
""امل اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے بس تم بہت معصوم ہو اور یہ دنیا نہیں ہمیں کسی کی ہر بات بھی نہیں ماننی چاہئیے اور مان بھی رہے ہیں تو سوچ سمجھ کر ماننا چاہئیے لوگوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ہمیں نہیں پتہ ہوتا کون ہمدرد ہے کون نہیں اس لئے احتیاط سے کام لینا چاہئیے تم نے آبرو کی بات مان لی اس لئے کہ اسے برا نہ لگے اور کچھ سوچا نہیں تم نے لیکن ہم ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے اور اسکے اس کام کے پیچھے نہ جانے کیا مقصد تھا"" ۔۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کو بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا
اس نے اپنا رومال امل کو دیا
" اپنے آنسو صاف کرو ورنہ کچھ دیر میں واقع چڑیل بن جاو گی"
حمدان کی بات پہ دونوں کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی تھی
"باہر آجانا اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے "
حمدان یہ کہ کر چلا گیا
حمدان کے جانے کے بعد سویرا فوراً امل کے پاس آئی اسے صدف بیگم نے بیجھا تھا کہ کیا ہوا ہے
"امل آر یو اوکے کیا ہوا ہے اور تم رو ہوئی ہو حمدان بھائی نے ڈانٹا ہے "
سویرا نے اسکے ہاتھ سے ٹشو لے کر اسکا پھیلا ہوا لائینر صاف کیا
"تم کھبی تحمل کا مظاہرہ کر سکتی ہو "
امل نے اسے ٹوکا
"نہیں کر سکتی اب بتاو کیا ہوا ہے
حمدان بھائی تمہیں اس طرح سے کیوں لے کر آئیں ہیں اور تم نے اپنا ڈریس چینج کردیا "
"ایک ساتھ اتنے سوال کرتی ہوں تم ۔۔۔۔۔
انہوں نے نہیں ڈانٹا ہے میری غلطی تھی میں نے لاپرواہی برتی تھی اور اس ڈریس میں انکمفرٹیبل فیل کر رہی تھی تو چینج کیا ہے اور کوئی سوال ہے تو پوچھ لو "
امل نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنا میکپ ٹھیک کرنے لگ گئی جو کہ کافی خراب ہوگیا تھا
""اوو ہو انہوں نے "
سویرا نے اس لفظ پر زور دیا
"کیا مطلب ہے تمہارا"
امل نے ڈارئیکٹ سوال کیا
"مطلب بہت سمپل ہے ابھی مجھے کیسے ڈانٹ رہی تھی اور انکا نام آیا تھا تو اتنی نرمی آگئی ہے لہجے میں اور شیریں پن تو دیکھو "
سویرا نے چھیڑا
"ایسی کوئی بات نہیں یے وہ بڑے ہیں اس لئے بس "
امل نے صفائی دی
""او ہیلو بڑے تو مرتضی اور اذہان بھائی بھی ہیں انہیں تو نہیں بولتی ایسا کچھ یہاں بات الگ ہے کچھ اسپیشل والی ہے نہ "
سویرا باز نہیں آئی تھی
"بات الگ ہے لیکن کوئی اسپیشل نہیں کیا کہنا چاہ رہی ہو"
امل نے سوال کیا
"میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ انکی آنکھوں میں میں نے دیکھا ہے وہ تمہیں جس طرح دیکھتے ہیں نہ وہ کوئی عام نظر نہیں ہے کچھ اور ہے "
سویرا نے اسکے کان میں سرگوشی کری
"سویرا تم پٹ جاو گی تم یہ بات پھر سے کہ رہی ہو میں نے منع کیا تھا نہ ۔۔۔تمہیں چاہئیے کورس کی کتابوں کے بجائے آنکھیں پڑھا کرو سب کی "
امل لاپروا بنی
"تم مانو یا نہ مانو بات یہی ہے "
سویرا نے اپنی لپسٹک ڈارک کرتے ہوئے کہا
"دیکھو سویرا کھبی کھبار ہمیں غلط بھی نظر آرہا ہوتا یے ہوسکتا ہے ایسا کچھ نہ ہو انکا انداز ہی ایسا ہو انکا اسٹائیل ہو یہ اور میں بیکار کی خوش فہمیاں پال لوں "
امل نے ایک نظر آئینہ میں دیکھا
""خوش فہمی کیا بات ہےمطلب تم چاہتی ہو ایسا کہ کچھ ویسے خوش فہمی اچھی چیز ہے بندہ مطمئن سہ رہتا ہے "
سویرا نے اسے کہنی مار کر چھیڑا
""صحیح کہا ہے کسی نے محبت ہوتی نہیں ہے لیکن تم جیسی دوستیں بول بول کو زبردستی انڈیل دیتی ہیں "
چپ کر کے باہر چلو اس سے پہلے کوئی یہی آجائے
امل نے باہر کی راہ لی
_________________________
فنکشن کے اینڈ میں سارے youngester گیم کھیل رہے تھے
انتاخشری بہت کھیل لیا اب کچھ اور کھیلتے ہیں "
سعد نے کہا اسے اب مزید گانے نہیں آرہے تھے تو اس نے بوریت کا اظہار کیا
guessing gameکھیلتے ہیں
آبرو نے کہا
جس پہ سب نے ایکا کرا
یوں دو دو ممبرز کی ٹیم بنے گی ایک guess کرے گا اور دوسرا اسے اشاروں میں سمجھائے گا ۔۔۔۔
سعد ۔۔ آبرو ۔۔اور سویرا ۔۔مرتظی ۔۔۔حمدان ۔۔امل اور کاشان اور اذہان پاٹنر بنے تھے
ابرو اور سعد کا تو موڈ ہی آف ہو گیا تھا کیونکہ انہیں انکی پسند کے پارٹنر نہیں ملے تھے
کاشان کی نظر امل پہ اور حمدان کی کاشان پہ تھی
سب سے آخر میں امل اور حمدان کی ٹرن آئی تھی
۔حمدان نے guess کرنے کا فیصلہ کیا تھا
امل نے جو پرچی اٹھائی تھی وہ آبرو نے اپنے لئے رکھی تھی وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اور حمدان ہی پارٹنر بنے گے لیکن ایسا ہوا نہیں ۔۔۔۔
پرچی پہ جو لکھا تھا امل کے گال حیاء سے لال ہوگئے تھے اسے پڑھ کر ۔۔۔
" I and you are together bind in love ".....
امل کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ یہ کیسے بتائے خفت سے اسکا چہرہ سرخ پڑھ رہا تھا
امل نے کہا "یہ چٹ تبدیل نہیں ہوسکتی کیا "
""نو امل جو آگیا یے آگیا اب یہی بتانا ہے تمہیں "
مرتضی نے صاف ہری جھنڈی دیکھائی
امل نے ایک گہرا سانس لے کر اپنی انگلی کا اشارہ پہلے اپنی طرف کیا پھر حمدان کی طرف
جسے حمدان you and iکہ کر guess کر لیا تھا
امل نے اب اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا جسے حمدان نے together bind کہ کر guess بہت آرام سے کر لیا تھا
پھر امل نے ایک مرتبہ پھر لمبی سانس لی اور اپنے ہاتھ کا دل بنایا جسے حمدان نے کہا Heart ....
امل نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کچھ اور ۔۔۔
حمدان سمجھ نہیں پارہا تھا
پھر امل کی ایک دو کوششوں کے بعد حمدان نے فائنیلی love کہ دیا تھا
I and you are together bind in love ..
حمدان نے لفظوں کو ترتیب دے کر روانگی سے کہا اور پھر جب مطلب سمجھ آیا تو بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگ گیا تھا اسے محسوس ہوا ٹھنڈے پانی کی پھوار اس پر برس رہی ہو
امل تو فورا ہی نیند کا بہانہ بناکر بھاگ گئی تھی
مرتظی نے آج پہلی بار امل کےلئے حمدان کو سوچا تھا اور اسے یہ بہت اچھا لگا تھا اسطرح اسکی بہن ہمیشہ اسکے پاس رہ سکتی تھی
اور پھر سب نے اپنی اپنی راہ لے لی اور ایک خوبصورت رات کا اختتام ہوا تھا
_________________________________
Episode 17
آج انوشے کی برات تھی تو گھر میں ایک افراتفری کا عالم تھا ۔۔۔سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔
"سویرا بیٹا یہ سیڑھیوں سے اوپر جو تیسرا روم ہے نہ وہاں یہ ڈریس رکھ آو گی بیٹا مجھے حارث بلا رہے ہیں میں ذرا دیکھ لوں انہیں اب نکلنا ہے تو انہیں کام یاد آرہا ہے "
شانزہ بیگم نے اوپر جاتی سویرا کو روک کر کہا جو امل کے پاس جا رہی تھی۔۔۔۔۔
"جی میں رکھ آتی ہوں" ۔۔۔۔
سویرا ان سے ڈریس لےکر انکے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی
سویرا نے اسوقت پرپل کلر کی فراک پہنی تھی جس پہ براوئن کلر کا ہلکا سا کام ہوا وا تھا بالوں کا جوڑا بنائے ہلکے میکپ میں وہ ایونٹ کےلئے تیار تھی
سویرا نے روم کا دروازہ نوک کیا تو کوئی جواب نہیں آیا تو پھر وہ اندر چلی گئی اور دروازے کے لوک کا بٹن پریس تھا جو اب بند ہونے سے وہ لوک ہو گیا تھا
صوفے پہ ڈریس رکھ کر وہ کمرے کا جائزہ لیتی بیڈ کے پاس آگئی تھی جب اچانک اسے کسی نے اپنے حصار میں لیا تھا اور وہ جب پلٹی تو سعد نے اسے تولیہ کے حصار میں قید کر لیا تھا اور ایک دلکش انداز میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ ابھی ہی نہا کر آیا تھا اسکے سر سے پانی کی ننھی ننھی بوندیں ٹپک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے اپنے اور سویرا کے بیچ فاصلہ قائم رکھا تھا لیکن سویرا کو اسکے باوجود بھی گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔
"سعد یہ کیا حرکت ہے ۔۔۔۔ہٹائیں اسے"" ۔۔
سویرا نے سعد کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
لیکن سعد نے تولیہ کے دونوں سروں کو اتنا ہلکا بھی نہیں پکڑا تھا کہ سویرا اسے چھڑا سکے
سعد "۔۔۔ایک بار پھر سے نام لو نہ" ۔۔۔۔۔
سعد کی تو لوٹری ہی نکل گئی تھی محبوب انکے قدموں میں بغیر کسی محنت کے ہی آگیا تھا
سعد کو تو اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا اسکے دلکش سراپے میں
""دیکھو اپنا یہ ٹھرکی پنا بند کرو ورنہ میں تمہارا منہ توڑ دونگی"
سویرا کو اسکی قربت میں گھبراہٹ ہو رہی تھی اوپر سے اسکا شوخا انداز سویرا نے انگلی اٹھاتے ہوئے اپنے لہجے کو تیز کر کے کہا اس بار سعد کا نام لینے سے پرہیز ہی برتا
""منہ توڑ دینا ۔دی اجازت اتنی بسس دل نہ توڑنا جانم ""
سعد تو آج فل موڈ میں تھا ۔۔۔۔۔
""دیکھو کوئی آجائے گا بات کو سمجھو اور ذرا تمیز سے یہ چھچھورا پن اپنا اپنے پاس رکھو میں کوئی جانم وانم نہیں ہوں تمہاری ۔۔۔۔۔۔""
سویرا نے سعد کو لتاڑتے ہوئے کہا
"تو بن جاو گی بنانے میں کتنا ٹائم لگے گا کہو تو ابھی نکاح خواہ آئے گا انوشے کے نکاح کے ساتھ اپنا بھی کر لیتے ہیں "
سعد نے نظروں کے حصار میں اسے رکھتے کہا
سویرا کو ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی آ نہ جائے مجھے کیا ضرورت تھی اس کمرے کا معائنہ کرنے کی اب اس ٹھرکی سے کیسے جان چھڑاو ۔۔۔
سویرا نے دل میں کہا
"کیا ہوا جانم کہاں گم ہو گئی کہیں اپنے نکاح کے بارے میں تو نہیں سوچ رہی ""
سعد نے اسکے سامنے چٹکی بجائی
سعععععدددددد ۔۔۔۔۔
سویرا نے سعد کا نام چبا جبا کر لیا
"دیکھو مجھے جانے دو پلز بات کو سمجھو "
"ایسے تو نہیں جانے دونگا "
آخر سعد کو بھی تو اپنا بدلہ لینا تھا ۔۔۔۔اس دن گرایا تھا ۔۔۔پھر اس سے پہلے نمکین چائے پلائی تھی ۔۔۔سعد کو تو آج اچھا موقع مل گیا تھا ۔۔۔۔۔
"تو پھر کیسے جانے دو گے ""
اس نے تھک کر کہا
"ایک سوری ایک سوری قیمت ہے ۔۔۔بس۔۔کہو سعد آئی ایم رئیلی سوری "
سوری کس لئے ۔۔۔؟؟سویرا کو تپ ہی چڑ گئی تھی ۔۔۔۔
""اب یہ بھی میں بتاو ۔۔۔۔اس دن گرایا کس نے تھا ۔۔۔وہ نمک کی چائے کس نے پلائی تھی ""
سعد نے عجیب سہ منہ بنا کر کہا
سویرا کو تو ہنسی آگئی تھی لیکن اس نے اپنے ہونٹوں کو دبا کر ہنسی کو روکا اس وقت اسے یہاں سے نکلنا تھا ۔۔۔۔۔
"اوکے آئی ایم سوری ۔۔۔اب چھوڑو"۔۔۔۔سویرا نے کہا
"ایسے نہیں تھوڑا پیار سے بولو ""
سعد کو مزا نہیں آیا تھا
سویرا کچھ کہتی کہ اچانک دروازہ بجا جس سے سویرا ڈر کے مارے ایک دم پیچھے ہوئی اور بیڈ کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے وہ بیڈ کے اوپر گری سعد جس نے تولیہ کا سرا پکڑا ہوا تھا تولیہ کھینچنے کی وجہ سے وہ بھی دھڑام بیڈ پہ گرا
سویرا کی چیخ نکلتی اس سے پہلے سعد نے بروقت اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اس کا گلہ گھونٹا
کون ہے ؟سعد نے تیز آواز میں کہا
""میں ہوں حمدان سعد کہاں رہ گیا ہے نیچے آبھی جا کتنا ٹائم لگے گا لڑکی ہے کیا"
"ہاں تو جا میں بس آرہا ہوں ١٠ منٹ میں "
سعد نے حمدان کو کہا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اسے لڑکی کہنے پر صحیح سے بتاتا
"تو یہ گیٹ کیوں لوک کیا ہوا یے "
حمدان نے لاک گھماتے ہوئے کہا لیکن وہ کھلا نہیں تھا
"لوک تھا پہلے سے تو جا میں آتا ہوں "
سعد حمدان کو بھیجنا چاہتا تھا
سویرا کی تو رہی سہی بولڈنیس اب تو بلکل ہی گم ہوگئی تھی ۔سعد اور سویرا کے بیچ ایک انچ کا فاصلہ بھی بمشکل تھا ۔۔۔۔۔۔اسکی پلکیں تک جھک گئی تھی
سعد سویرا کے چہرے پہ حیاء کے رنگ دیکھنے میں گم تھا کہ ۔اسے سویرا کا "امممم "کرنا بھی سنائی نہیں دیا تھا
سعد کا ہاتھ ابھی تک اسکے منہ پہ جو تھا ۔۔۔۔۔۔
سویرا نے اسے چٹکی کاٹی تو سعد ہوش میں آیا اور اس پر سے اپنا منہ ہٹایا
ہٹو پیچھے
سویرا نے اسکے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلا لیکن ہاے رے قسمت سویرا کے گلے کا necklace سعد کے شرٹ کے اوپر والے بٹن میں اٹک گیا تھا یہ وہی نیکلس تھا جو سعد نے اسے پہنایا تھا
سویرا اسے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن گھبراہٹ کی وجہ سے وہ مزید پھنس گیا تھا
سویرا کی چلتی دھڑکنوں نے اسپیڈ پکڑ لی تھی اسے یہ ہی ڈر تھا کہ اگر کسی نے یوں اسطرح دیکھ لیا ہوتا تو اسکے عزت پہ کوئی حرف آجاتا وہ بال بال بچ گئی ۔
سعد کو اسکی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھی اور اسکا گریز بھی سمجھ آرہا تھا لیکن وہ بھی سعد تھا اسے خود سے پہلے سویرا کی عزت کا خیال تھا ۔۔۔۔۔۔
""پہلے سوری کہو پھر چھوڑ بھی دونگا اور یہ نکال بھی دونگا ۔۔۔۔کیونکہ تم جسطرح نکال رہی ہو صبح ہوجانی ہے یا پھر تم ایسی ہی رہنا چاہتی ہوں""
سعد نے شرارتی پن سے اسکے necklace الگ کرتے کہا
"سعد آئی ایم رئیلی سوری ۔۔۔پلز اب جانے دو "
سویرا نے اس بار اپنے لہجے کو نارمل رکھا اور نرمی سے کہا
سعد نے بھی سویرا کو نروس دیکھتے ہوئے مزید اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے Necklace الگ کرا اور فورا الگ ہوا اور سویرا کو اپنا ہاتھ دیا اٹھنے کے لئے جسے سویرا نے تھوڑا ججھکتے ہوئے تھام لیا
اور نکلنے کےلئے آگے بڑھی کہ سعد نے اسے روکا
' ایک منٹ' ۔۔۔۔۔
سعد نے گیٹ کھول کر پہلے آگے پیچھے دیکھا پھر سویرا کو جانے کو کہا
سویرا کو خوشی محسوس ہوئی کہ سعد نے اسکی عزت کا خیال رکھا اور مسکراتی ہوئی چلی گئی تھی
سعد بھی جلدی جلدی ریڈی ہوا اور صوفے پہ رکھے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر کہا
"۔مسز سعد ابھی سے ہی اپنی ذمہ داریاں سہی انجام دے رہی ہیںکچھ کرنا پڑے گا یہ دل تو اب قابو میں نہیں رہتا اب یہ دل اپنا نہ رہا اب بات آگے بڑھانی پڑے گی "
سعد مسکراتے ہوئے خود سے کلام کرتے ہوئے جلدی جلدی تیار ہورہا تھا ۔۔۔۔
_________________________
"کیوں بلا رہے تھے آپ حارث میں سارے کام چھوڑ کر آئی ہوں "۔شانزہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
"وہ آپ نے میرا سوٹ کہا رکھا ہے "
"وہ دیکھیں وہاں رکھا ہے بس بہانہ چاہیئے آپکو مجھے پاس رکھنے کا "
سوٹ اٹھاتے وہ بولیں
"ہاں تو آپ نے اتنا چھپا کر رکھا یے مجھے نظر ہی نہیں آیا اور ویسے بھی جب نظروں میں ہر وقت آپ رہی گی تو کہاں کچھ نظر آئے گا "
انہوں نے اپنا ڈریس لیتے ہوئے کہا
""اتنے بڑا بیٹا ہوگیا ہے انکا romance ختم نہیں ہوتا
میں باقی سب چیزیں بھی نکال دیتی ہوں ورنہ وہ بھی نہیں ملیں گی "
"اچھا ادھر تو آئیں نظر بھر کر دیکھ ہی لوں دور کی نظر کمزور لگ رہی ہے حارث صاحب آج موڈ میں تھے"
"آپ اپنی تیاری پہ نظر رکھیں ورنہ میں چلی جاو گی پھر خود ہی ڈھونڈتے رہیئے گا "
شانزہ بیگم نے انہیں دھمکی دی
""اچھا اچھا میں کچھ نہیں کہ رہا آپ کریں کام اپنا
یہ جو دور کا دیدار میسر ہے وہ بھی نہ رہے اس سے پہلے""
"میں کل صدف سے موقع دیکھ کر بات کروں گی حارث ٹھیک ہے نہ "
انہوں نے اپنی سوچ سے انہیں آگاہ کیا
""آپ جلد بازی نہیں کر رہی ہیں میرا مطلب ہے کہ حمدان اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہے پہلے اسکا سوچنا چاہئیے ""
انہوں نے پر فیوم اسپرے کرتے ہوئے کہا
تو حماد بھائی اور بھابھی ہیں نہ انہوں نے کچھ نہ کچھ سوچا ہوگا "
شانزہ بیگم نے انکے سلیپرز نکالتے کہا
"یہ بھی ٹھیک ہے لیکن ہمارا بڑا بیٹا سعد ہے اسکا سوچنا چاہئے پہلے ہمیں "
انہوں نے پھر ایک نئی بات کہی
""افف حارث کیا ہوگیا آپکو آپ تو ایسے کہ رہے ہیں جیسے میں کل ہی نکاح پڑھانے لگی ہوں اور ساتھ میں ہی رخصتی "
انکو تپ چڑھ گئی تھی
"آپ بھی ہتھیلی میں سرسوں جمانے والی بات کر رہی ہیں "
انہوں نے چپل پیر میں ڈالتے کہا
شانزہ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا
__________________________
"کن سوچوں میں گم ہیں آپ تیار ہوں جلدی "
حماد صاحب نے اپنی ہمسفر کو دیکھتے ہوئے کہا
کہیں نہیں
انعمتہ بیگم نے کان میں بالی ڈالتے کہا
"جلدی کریں اپنی تیاری ہمیں جلدی نکلنا ہے آپ اتنا لیٹ کریں گی تو کہیں میرا ارادہ نہ بدل جائے اور پھر میں آپکو بھی کہیں جانے نہ دوں "
حماد صاحب نے کہا
"افف حماد ہورہی ہوں تیار خبردار جو الٹا سیدھے کچھ ارادے کئے انکے موڈ کا بھی کچھ پتہ نہیں "
انعمتہ بیگم سب بھلائے جلدی جلدی تیار ہونے لگی
__________________________
"اتنی دیر تو عورتیں بھی نہیں لگاتیں جتنا آپ لگا رہے ہیں ""
صدف بیگم نے حنین صاحب کےواسکوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا
"اب آپ اتنے کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آگے پیچھے گھومی گیں تو دھیان کیسے کہیں جائے "
انہوں نے کہا
""بس باتیں بنوالیں آپ سے
میں جا رہی ہوں امل کو دیکھنے آپ ہوتے رہیں تیار ""
ارے بیگم کہاں جا رہی ہیں
انہوں نے روکنا چاہا
صدف بیگم رکی نہیں تھی لیکن
_____________________________
حمدان کے پسند کے ڈریس میں بیچ مانگ نکال کر فرنٹ سے twist کرکے باقی بالوں کو کھلا چھوڑے بندیا لگائے امل حمدان کو اپنے دل کی بہت قریب لگی ۔۔۔۔۔
حمدان کا دل و دماغ آج اسکے بس میں نہیں تھا نظریں بار بار امل کی جانب اٹھ رہی تھیں جوکہ امل کو کنفیوز کر رہی تھی دل بار بار امل کو پکار رہا تھا جسے حمدان ان سنی کر رہا تھا مگر کب تک آخر
حمدان نے سوچا ہوا تھا کہ آج اگر کاشان نے کچھ کرا تو وہ اسے چھوڑے گا نہیں آبرو بہت غور سے حمدان کی نظریں نوٹ کر رہی تھی جو امل کی جانب ہی تھی اور اسنے کاشان کا امل کو دیکھنا بھی نوٹ کر لیا تھا اور بہت کچھ سوچنے لگ گئی تھی ۔۔۔
________________________
سعد کی نظریں تو آج بس سویرا پہ ہی ٹکی تھی اور سویرا اسے گھوریوں سے نواز رہی تھی
""افف اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ایسے گھورو گی تو بندہ تو ویسے ہی فدا ہے ان میں ڈوب ہی جائے گا ""
سعد نے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا
سعد نے سویرا کو دیکھتے ہوئے اسے آنکھ مارا جس سے سویرا فورا گڑبڑا گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی
اور سعد کو نظر انداز کرتے ہوئے مرتضی سے مخاطب ہوئی
"مرتضی بھائی مجھے میٹھا لادیں گے پلزز"
جی بہنا لا دیتا ہوں جانتا ہوں کہ کتنا پسند ہے آپکو میٹھا
وہ کہتا ہوا میٹھا لانے گیا
سعد جسکی نظر ذہن سب سویرا پر تھی اس نے یہ سب بھی سن لیا تھا اور مرتظی کو ٹوپی کراتا اس سے میٹھا خود لے لیا تھا اور اس میں ایک اور اسپون ڈال کر اسکی جانب بڑھا تھا
اور سویرا کی جانب پلیٹ بڑھائی
آپ ۔"میں نے مرتضی بھائی سے منگوایا تھا یہ "
سویرا کو غصہ آیا
""کچھ ٹائم بعد تمہارے سارے کام مجھے اور میرے تمہیں کرنے ہیں تو ابھی سے پریکٹس سہی ""
سعد کی اتنے کھلے انداز پہ تو سویرا نے اپنی نظروں کا زاویہ ہی بدل لیا کیونکہ سعد کو جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اسنے الٹا ہی جواب دینا تھا
""اب میٹھا کھانا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔؟؟یا میں کھالوں ۔۔۔۔بہت مزے کا ہے ""
سعد کہتا ہوا کھانے بھی لگا تھا
میٹھا جو سویرا کی کمزوری تھی سعد کے باتوں سے اسکے منہ میں پانی آنے لگا تھا اس لئے اس نے سعد کے ہاتھوں سے پلیٹ لینی چاہی لیکن سعد کی گرفت مضبوط تھی
" کھانا ہے تو ایسے ہی کھاو میرے ہاتھ میں ہی رہی گی پلیٹ"
سعد نے اپنے منہ میں میٹھا ڈالتے ہوئے کہا
سعد اور سویرا کونے میں تھے تو اس طرف اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی کوئی انکی جانب متوجہ تھا
________________________
Episode 18
سعد اور سویرا کونے میں تھے تو اس طرف اتنا رش نہیں تھا اور نہ ہی کوئی انکی جانب متوجہ تھا
سویرا نے بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر سعد کو گھورتی ہوئی ابھی میٹھا اس نے منہ میں ڈالا تھا کہ سعد کی آواز اسکے کان میں پڑی
ویسے میں تو چاہ رہا تھا کہ ایک ہی چمچہ ہو میں اور تم ہوں اور یہ میٹھا ہو تم مجھے کھلاو اور پھر میں بھی اسی چمچے سے تمہیں کھلاو ""
سعد کی اتنی ذو معنی بات پہ سویرا کے گلے پہ میٹھا اٹک گیا تھا اور وہ کھانسنے لگی تھی
سعد نے فورا سے اسے پانی دیا جسے پینے کے بعد اس نے سعد سے کہا
"اگر تم نے مزید فضول کچھ بولا نہ تو میں یہی میٹھا تمہارے اوپر ڈال دونگی "
سویرا اس کو اسکے حال پہ چھوڑتی اس پہ لعنت بھیجتی خود ہی میٹھا لے کر کھانے کے ارادے سے چلی گئی تھی
"سویرا اتنا گھبرا کیوں رہی ہو اور کہاں تھی میں کب سے
ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ کھانا کھایا؟"
امل نے سویرا کو کہا جو اسے کب سے ڈھونڈ رہی تھی
سویرا سعد سے بچتی ہوئی تیز چل رہی تھی کیونکہ وہ بار بار اسکے پیچھے پیچھے آکر اسے تنگ کر رہا تھا
"نہیں ۔۔میں ٹھیک ہوں امل۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔ نہیں کھایا کھانا آو ساتھ کھاتے ہیں "
سویرا نے امل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
کھانا کھاتے ہوئے امل کی نظر سامنے اٹھی تو حمدان اسی کو دیکھ رہا تھا اسکے اشاروں کا مطلب سمجھتے ہوئے اس اپنے ہونٹوں پہ انگلی پھیری
حمدان سر نہیں میں ہلاتا ہوا چلتے ہوئے اپنی جیب سے رومال نکالتا ہوا کب امل کے قریب آکر اسکے ہونٹوں پہ لگے چاول کے دانے کو صاف کیا اسے پتہ ہی نہیں چلا یہ سب اتنی جلدی ہوا تھا
امل نے ادھر ادھر فورا دیکھا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں
کسی کا نہ دیکھنے کا یقین کرکے وہ پرسکون ہوئی جب سویرا نے اسے یوں دیکھ کر ہاتھ ہلایا
""کیا ہوا "" اس نے کہا
"کچھ نہیں تم لے آئی میٹھا "
امل نے اسکے ہاتھ سے پلیٹ لی
آبرو کی آنکھوں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا اور وہ جل بھن گئی تھی
__________________________
دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی ایک طرف کاشان اور اسکے کزنز تھے دوسری طرف آبرو اور اسکے کزنز ۔۔۔۔۔
اور رسما بحث ہو رہی تھی
اسی بھگدڑ میں حمدان کا ناخن کاشان کے آنکھ میں لگ گیا تھا اور لگا بھی اتنا برا تھا کہ اسکی آنکھوں میں سے خون کی چند بوندیں چھلک کر اس میں جم گیا تھا
کاشان کو بہت جلن ہورہی تھی
اوپس"" i am really sorry "
کاشان مجھے پتہ ہی نہیں چلا کیسے انگلی چلی گئی""
حمدان نے پشیمان لہجہ اپناتے کہا
"سعد کچھ ointment لے کر آوجلدی "
حمدان اندر ہی اندر مسکرا رہا تھا
""انہی آنکھوں سے دیکھ ریے تھے نہ امل کو اب بھگتو اب دیکھتا ہوں کیسے دیکھ پاتے ہوں ""
___________________________
حمدان لیپٹوپ پہ کچھ کام کر رہا تھا جب انعمتہ بیگم اسکے پاس آئی تھی
آج میرا بیٹا آفس نہیں گیا
انہوں نے محبت سمائے لہجے میں کہا
"جی ماما وہ آج کچھ خاص کام نہیں تھا اسی لئے اور سعد گیا ہے ویسے بھی "
اس نے لیپٹوپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا تھا
"اچھا حمدان مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے اگر فری ہو تو ۔۔۔۔
"جی ماما آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لئے میرا فری دیکھنا لازمی نہیں ہے "
۔۔۔۔۔حمدان نے جواب دیا
"میں تمہاری شادی کا سوچ رہی تھی "
انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا
شادی؟؟ حمدان کے سامنے امل کی پرچھائی آئی تھی ۔جسے اس نے جھٹک کر کہا
"ابھی میرا کوئی پلان نہیں ہے اس بارے میں "
حمدان نے جواب دیا
"لیکن میرا تو ہے نہ حمدان میرے بہت سے ارمان ہیں اور میں نے تو لڑکی بھی پسند کر لی ہے "۔۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے ایک بم پھوڑا
لڑکی ۔۔۔
حمدان کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔
"ہاں ظاہر ہے لڑکی ہی پسند کرو گی نہ "
انہوں نے جواب دیا
کس۔۔۔کسے۔۔پسند کیا ہے ۔۔۔
حمدان نے رکتے رکتے کہا
آبرو۔۔ آبرو کو پسند کیا ہے ۔۔۔۔۔
انہوں نے بتایا
کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
حمدان نے اتنی زور سے کہا "
ماما کیا سوچ کر آپ نے اسے پسند کیا یے میں اس سے کھبی بھی شادی نہیں کروں گا ۔۔۔
کیوں ۔۔آخر برائی کیا ہے اس میں ۔۔۔۔۔
وہ ڈر گئیں تھی اپنے بیٹے کیے لہجے کو دیکھ کر جو ایک دم بدل گیا تھا
برائی ۔۔۔۔آپ اگر پوچھتی اچھائی کیا ہے تو شاید گنوا بھی دیتا آپ اسے کسطرح پسند کر سکتی ہیں کیا آپکو میری پسند کا اندازہ نہیں ۔۔۔۔
وہ سخت چڑ گیا تھا
"بیٹا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا تم اسے اپنے رنگ میں رنگ لینا اور ویسے بھی تم تو لندن سے رہ کر آئے ہو وہاں تو یہ سب عام ہے "
انہوں نے حمدان کو سمجھاتے ہوئے کہا
نہیں کھبی بھی نہیں ماما وہ میرے رنگ میں کھبی نہیں ڈھل سکتی ۔۔۔۔اور میں کوئی ٹیپیکل مرد نہیں ہوں جو چاہو گا جو لڑکی میری زندگی میں آئے وہ میرے رنگ میں خود کو ڈھالے لندن میں رہ کر آیا ہوں اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ میں اس سے شادہ کروں ۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اور ویسے بھی میں ۔۔۔۔۔۔
حمدان کہتے کہتے رک گیا تھا
کیا حمدان ۔۔کسی اور کو پسند کرتے ہو ۔۔۔?
انعمتہ بیگم کو یہی لگا تھا
نہیں ماما ۔۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔ ۔۔
حمدان کی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی
تو پھر بیٹا ایک دفعہ سوچو تو سہی میں نے تو انعم سے اس بارے میں بات بھی کر لی ہے
وہ بم پہ بم پھوڑ رہی تھی
کیا ۔۔۔ماما آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر اتنی بڑی بات کیسے کردی میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا ہوں نہ سوچ آپکو خالہ جان کو مجھ سے پوچھے بغیر ایسا کچھ نہیں کہنا چاہئیے تھا
i am very really sorry mama
میں آپکی یہ بات نہیں مان سکتا ۔۔۔۔پلز ۔۔۔۔مجھے آپ کی بات سے انکار اچھا کرنا اچھا نہیں لگ رہا ہے لیکن میں یہ نہیں کرسکتا
حمدان یہ کہ کر کمرے سے ہی walk out کر گیا تھا
اور انعمتہ بیگم یہ سوچتی رہ گئی تھی کہ انعم کو کیا جواب دیں گی وہ
_____________________________
اولاد کو والدین کا فرمانبردار ہونا چاہئیے لیکن
کچھ معاملوں میں والدین کو بھی اولاد کی مرضی پوچھے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ انہیں انعمتہ بیگم کی طرح شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔۔۔
______________________________
شادی کے بعد سفیر اپنی بیوی انوشے کو ہاشم ولا سب سے ملوانے لایا تھا جب سارے بچوں نے آوٹنگ کا پروگرام بنالیا ۔۔۔۔
"تم سب بچے جاو تم لوگوں کے دن ہیں ہم نے اپنا وقت گزار لیا ہے "
آغا جان کی کپکپاتی آواز گونجی جو کہ انکا بوڑھے ہونے کا پتہ دے رہی تھی
سویرا کل رات ہی اپنے گھر چلی گئی تھی جس سے سعد تھوڑا سہ اداس ہو گیا تھا کہ وہ نہیں جائے گی ابھی
"ٹھیک ہے پھر لنچ کے بعد ہم سب چلیں گیں"
آبرو کی چہکتی ہوئی آواز آئی
---------------------------
امل آوئیٹنگ پہ جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی جب صدف بیگم اس کے کمرے میں آئیں
"میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے "
صدف بیگم نے دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری
""ماما آپ "
امل نے حجاب کرتے ہوئے کہا
"بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی بلکہ پوچھنا تھا کہ اگر ہم تمہارے لئے کوئی فیصلہ کریں تو تمہیں کوئی اعتراض ہوگا"
"کیسا فیصلہ اور آپ کا بابا کا جو بھی فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہو گا "
امل کو دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی
"ہم نے سوچا ہے تمہارا ہاتھ اذہان کے ہاتھ میں دے دیں "
انکی بات پہ امل جو اپنے حجاب میں پن لگا رہی تھی اسکے ایک دم چھبا تھا
""ماما ۔۔۔۔اذ۔۔۔۔اذہان ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ میں نے کھبی بھی اس طرح سے کچھ نہیں سوچا اس کے بارے میں "
امل نے اپنی بات سمجھانی چاہی
"امل تمہیں باہر نہیں کرنی شادی ہم نے مان لی اب تو تم اسی گھر میں رہو گی اب کیا مسلہ ہے تمہیں اور ہم سب بھی تمہیں انجانے لوگوں میں بھیجنا نہیں چاہتے "
صدف بیگم نے اسے سمجھایا
"جی ۔۔ماما۔۔۔پر۔۔۔۔"
امل اس نئے انکشاف پر کیسا ری ایکٹ کرے سب سمجھ سے باہر تھا
"ہم سب نے کل اس بارے میں بات کری ہے آغا جان نے کہا ہے کہ پہلے تم دونوں سے پوچھ لیا جائے پھر بات آگے بڑھائے گیں"
صدف بیگم نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا
"تو کیا آپ نے اذہان سے پوچھ لیا ہے اس نے کیا کہا ہے "
امل نے اپنا سوال کیا
"اس سے پوچھ رہی ہوگی ابھی شانزہ اور ویسے بھی وہ انکار کیوں کرے گا تم اپنا بتاو بات کو گول مول نہ کرو امل تمہیں ہمارے فیصلے سے کوئی اعتراض ہے "
صدف بیگم دوبارہ اپنی بات پہ آئی
"نہیں ۔۔۔ماما۔۔۔ایسی ۔۔۔بات ۔۔۔نہیں ۔۔۔ہے ۔۔۔۔میرے لئے اس سے اچھا کیا ہوگا کہ میں یہی رہوں گی "
امل نے گھبراتے دل کے ساتھ کہا یہ نئی بات اسکا دل و دماغ قبول نہیں کر پا رہا تھا
"خوش رہو ہمیشہ مجھے تم سے اسی فرمانبرداری کی امید تھی"
صدف نے امل کا ماتھا چومتے کہا
"اور ہاں اسکو اب تم سے نہیں آپ سے مخاطب کرنا
صدف بیگم نے ایک اور حکم دیا
امل جی کہتی کمرے سے بھاگی
"لگتا ہے شرما گئی "
صدف بیگم کہتی اسکی بکھری چیزوں کو سمیٹنے لگی
______________________
Episode 19
"اذہان کچھ جواب تو دو یہ ہونقوں جیسے شکل کیوں بنائی ہوئی یے"
شانزہ بیگم اسکا ارادہ اخذ نہیں کر پا رہی تھی
"ماما آپ کی دماغ میں یہ خیال کہاں سے آگیا ہے ۔۔۔مطلب میں اور وہ چڑیل ۔۔۔مطلب امل ہم دونوں ۔۔۔۔۔کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں نے شادی جیسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں سوچا اور نہ میرا ارادہ ہے یہ آزادی مجھے ذیادہ پسند ہے اور امل کے بارے میں تو میں نے سوچا بھی نہیں ہے اس نظر سے اسے کھبی نہیں دیکھا ہے"
اذہان نے ایک لمبی بات کہ کر سانس لی
"ہاں تو اب دیکھ لو اس میں برائی کیا ہے وہ ہمیشہ یہی رہے گی غیروں میں جانے سے بہت بہتر ہے یہ اور میں کونسا کل ہی اسے تمہارے ساتھ باندھ رہی جو اتنا ری ایکٹ کر رہے ہو "
انکی بات نرالی تھی
"لیکن ماما ہم تو ہر وقت لڑتے رہتے ہیں ٹام اینڈ جیری کی طرح "
اذہان نے اپنا خدشہ ظاہر کرا
"تو کیا ہوا جہاں لڑائی ہوتی ہے پیار بھی وہی ہوتا ہے
انکی الگ منطق تھی
"اچھا۔۔۔۔میں کچھ سوچتا ہوں ۔۔۔"
اذہان نے انہیں انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا
"امل کے لئے تمہیں سوچنا پڑ رہا ہے امل جیسی نہیں ملی گی تمہیں ابھی جواب دو کیا سوچنا "
شانزہ بیگم کو کچھ ذیادہ ہی جلدی تھی
"اچھا بابا جو آپ کو ٹھیک لگے لیکن میں پہلے بتا رہا ہوں شادی کے چکر میں ابھی نہیں پڑھنا چاہتا اور میں ابھی باہر جا رہا ہوں "
اذہان نے اپنے بالوں میں کنگھا پھیرا
"کیوں تم سب کے ساتھ آوٹینگ پہ نہیں جا رہے ہو "
شانزہ بیگم نے دریافت کیا
"نہیں مجھے ایک کام ہے وہاں جا رہا ہوں میں "
اس اپنی ماں کا ماتھا چومتے باہر کی راہ لی
__________________________
امل جو کہ صدف بیگم کی باتوں کو سوچتی ہوئی تیزی سے باہر جا رہی تھی سامنے سے آتے اذہان سے ٹکرائی
""سووورری ی ۔سورری ۔۔آپکو لگی تو نہیں "
امل نے گھبراتے پوچھا
اذہان نے چکرانے کی ایکٹنگ کری
"کیا ہوا لگ گئی کیا "
امل کو ڈر محسوس ہوا
"مر گیا میں چکر آرہے ہیں "
اذہان نے چکرانے کی بھر پور ایکٹنگ کی ساتھ اپنی انگلیوں سے اپنا ماتھا بھی مسلہ
""لگی تو نہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔آپکو ۔۔۔ہوکیا گیا ہے دماغ ٹھیک ہے تیرا اتنی عزت کہاں سے آگئی ہے اچانک پاگل واگل تو نہیں ہوگئی ہو کیا امل تم"
اذہان کو تو ایسا ہی کچھ لگا
"چلو ٹھیک ہے پھر میں تھوڑا بے عزت کردوں عزت راس جو نہیں آرہی یے "
امل واپس اپنی ٹون میں آگئی تھی
""اووووو چپ کر آئیں بڑی بے عزت کروں "
اذہان نے اسکی نقل اتاری
امل بغیر کچھ کہے شرما کر جانے لگی
تو اذہان نے اسکا کندھے پہ لٹکا دوپٹہ پکڑ کر روکا
"Hey Are You Blushing..Is exactly this what my eye sees???
اذہان کے بات کا امل نے کوئی جواب دیا نہیں دیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے تو گریز ہی برتا
اذہان نے اسے کندھے سے تھاما اور اپنے دونوں ہاتھ سے اسکے کندھے تھامتے کہا
"Hey Look Into My Eyes..we Have A Very Beautiful Relationship Before Any Kind Of Relationship and that is of friendship ..You Are My bestie ..My Buddy My Friend …So Please Don't Shy .You look good When You Are Smiling ..okkay ..Understood ???"
اذہان نے اسکے شرمائے روپ کو دیکھتے کہا وہ سمجھ گیا تھا یہ بات اس سے بھی پوچھی گئی ہے
جس پر امل نے بس اپنا سر ہلانے پہ اکتفا کیا اور جانے کے لئے مڑ گئی وہ اس وقت اپنے جزبات کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھی یا شاید یہ فطری احساس تھا
امل کے جانے کے بعد اذہان نے بھی اپنی راہ لی تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ایک جست میں آگے بڑھا
Hamdan your hand is bleeding ..Bandage it ..How it Happend ?….
"اذہان نے نظریں گھمائی تو دیکھا کہ نیچے گلاس چکنا چور پڑا تھا جسے حمدان نے دباو ڈال کر توڑ دیا تھا اور خود بھی زخمی ہوگیا تھا "
حمدان نے آگ برساتی نظروں سے اسے دیکھا اور بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا
"عجیب بندہ ہے "
اذہان نے بھی شانے اچکا کر ملازمہ کو آواز دی اور اپنے منزل کی جانب بڑھا
________________________
امل سعد اور مرتضی ایک گاڑی میں آبرو انوشے سفیر اور کاشان ایک گاڑی میں تھے ۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے سعد کو ٹیکسٹ کردیا تھا کہ وہ بعد میں آئے گا
یہ سب ایک مشہور کلب آئے تھے جہاں پہ بہت سے گیمز وغیرہ تھے
سب لوگ مزے کر رہے تھے آبرو تو ڈانس اسٹیج کے سائیڈ چلی گئی تھی ۔۔۔
امل ایک جانب کھڑی آس پاس کا منظر دیکھ رہی تھی جب کاشان اسکے پیچھے آیا تھا اور اسکے کان کے تھوڑا قریب ہوکر اسے اپنے ساتھ اسے ڈانس کی آفر کری امل فورا دو قدم پیچھے ہوئی تھی
لیکن کاشان نے بھی آج موقع گنوانا نہیں تھا "
اوو۔۔امل یار اتنا شرماو مت چلو نہ تمہیں بہت مزہ آئے گا "
امل تو ایکدم خوفزدہ ہوگئی تھی
حمدان جو کہ ابھی کچھ منٹ پہلے آیا تھا اور سعد سے باتوں میں مشغول تھا سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھ کی اتنی سخت مٹھی بنائی تھی کہ اسکی ہاتھ کی نسیں صاف واضح ہورہی تھی لیکن اسکے چہرے کے expression سے کچھ بھی اخذ کرنا مشکل تھا بلکہ اسکے لبوں پہ تو دھیمی سی مسکان تھی
سعد نے بھی حمدان کے نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو کاشان کا حال سوچ کر اس کے لئے عافیت کی دعا مانگی
کاشان نے اسکا ہاتھ خود ہی پکڑ کر اسے ڈانس فلور کی جانب صرف ایک قدم ہی آگے بڑھایا تھا کہ اسکے منہ پہ ایک زور دار مکا پڑا تھا جس سے وہ اپنی جگہ سے ہل گیا تھا اور امل کا ہاتھ بھی چھوٹ گیا تھا اور وہ کسی کا نہیں بلکہ حمدان کا تھا
اس نے کاشان کا وہی ہاتھ جس سے اسنے امل کو پکڑا تھا
پیچھے موڑا جس سے کاشان کی ایک چیخ نکلی حمدان کے سر پہ گویا جنون سوار تھا وہ اسے گھونسوں مکوں سے مار رہا تھا ۔
ویسے بھی کاشان ایک نارمل جسامت کا شخص تھا حمدان جبکہ ایک مضبوط جسامت کا اور اوپر سے اسکی مارشل آرٹس کی ٹریننگ کاشان کو اسکے دو چار مکوں سے ہی دن میں تارے نظر آگئے تھے ۔۔۔۔
حمدان کا جنون دیکھ کر تو کوئی آگے ہی نہیں بڑھ رہا تھا امل نے تو اپنے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کا گلہ گھونٹا ہوا تھا اور پھٹی پھٹی نظروں سے وہ سن کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔
سعد اور مرتضی نے بہت مشکل سے حمدان کو روکا تھا ورنہ حمدان کا ارادہ تو آج شاید کاشان کو ابدی نیند سلانے کا تھا ۔۔
حمدان نے کاشان کو ایک دھکے سے چھوڑا تھا جس سے کاشان کا سر پیچھے ٹیبل سے لگا تھا اور اسکا سر پھٹ گیا تھا
حمدان کے ہاتھوں سے بھی تیزی سے خون نکل رہا تھا اسکا ہاتھ پہلے سے زخمی تھا
چھوڑو مجھے ۔۔۔
حمدان اتنی زور سے چیخا کہ اسکو پکڑے ہوئے سعد مرتضی بھی دہل گئے تھے
سفیر تو فورا کاشان کو ہاسپیٹل لےکر گیا اسے اصل بات کا کچھ معلوم نہیں تھا وہ انوشے میں جو گم تھا ۔۔۔
حمدان نے سن کھڑی امل کو دیکھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر سب کے سامنے سے اسے لے کر گیا تھا اسکے غصہ کا پارہ اسوقت ١٠٠ کو بھی کراس کر رہا تھا ۔۔۔
اب تو امل تھر تھر کانپنے لگی تھی اور حمدان کےساتھ کھینچتی ہوئی چلی جارہی تھی
حمدان نے کار کا دروازہ کھول کر اسے بیٹھایا یہ سوچ ہی کہ کاشان نے امل کا ہاتھ ۔۔حمدان کے غصے کو بھڑکانے کا کام کررہی تھی ہے
ڈر اور خوف سے امل سے سیٹ بیلٹ بھی نہیں لگ رہی تھی۔حمدان جو غور سے امل کو ہی دیکھ رہا تھا
امل کی سیٹ کے تھوڑا آگے جھک کر خود سیٹ بیلٹ باندھنے لگا تھا جس سے امل اور حمدان کافی قریب آگئے تھے اور دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملی تھی امل کو حمدان کی آنکھوں میں کیا کچھ نظر نہیں آرہا تھا
حمدان سیٹ بیلٹ لگا کر ہٹا تو امل نے اپنی تمام ہمت جٹا کر اس سے مخاطب ہوئی
"پلزز آپ کا ہاتھ ۔۔۔۔۔"
امل نے ڈرتے ڈرتے حمدان کی جانب دیکھا
اور اپنی جیب سے رومال نکال کر اسے پکڑایا اور اپنا ہاتھ آگے کرا
امل نے ڈرتے اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے اسکی خون آلود پٹی ہٹائی اور اس کو پھر رومال سے ٹائیڈ باندھا
حمدان نے اسکے بعد اتنی رش ڈرائیونگ کری کہ امل کا سر سیٹ بیلٹ کے باوجود بھی ڈش بورڈ سے لگتے لگتے بچا تھا
گھر کے پورچ میں آکر حمدان کی گاڑی کو بریک لگا تھا ورنہ اس نے تو آج ہوائی جہاز کو بھی مات دینا چاہی تھی
____________________________
حمدان کا اتنا شدید غصہ آج مرتضی نے پہلی دفعہ دیکھا تھا مرتظی کو امل کی فکر ہو رہی تھی ۔۔
سعد نے ڈرائیو کرتے ہوئے اسے تسلی کرائی کہ امل سیف ہے حمدان کیساتھ ۔۔سو ڈونٹ وری ۔۔۔۔۔۔
سعد نے سوچ لیا تھا کہ وہ گھر جاکر آج حمدان سے دو ٹوک بات کرے گا ۔۔۔
____________________________
انعم"۔میں بہت شرمندہ ہوں تم سے ۔۔میری تو یہی خواہش تھی کہ آبرو میری بہو بنے لیکن حمدان نے انکار کردیا
آبرو مرتضی کے ساتھ بھی جڑ سکتی ہے
انعمتہ بیگم نے انعم کے سامنے حمدان کی کہی گئی بات کا جواب دیا کیونکہ حمدان نے تو انہیں حتمی فیصلہ سنا دیا تھا ۔۔۔
باجی ۔آپ شرمندہ نہ ہو ۔۔یہ حمدان کی زندگی ہے اسکا فیصلہ ہے ۔۔اسے پورا حق ہے ۔۔وہ جس لڑکی کا بھی نصیب ہوگا وہ خوش قسمت ہی ہوگی ۔آپ کو حمدان سے پہلے پوچھنا چاہئیے تھا خیر کوئی بات نہیں جو ہونا تھا وہ ہوگیا ۔۔شکر ہے کہ جنید کو کچھ نہیں معلوم ۔۔۔پلز آپ نے ابھی بھی مرتضی سے پوچھے بغیر اپنی رائے دےدی ۔۔۔آپ کو پہلے مرتضی سے پوچھنا چاہئیے ۔۔۔ میری بیٹی کا جو بھی نصیب ہوگا وہ اسے مل جائے گا ۔۔۔آپ شرمندہ نہ ہو
انعم انکا گلٹ ختم کرنے کےلئے انہیں تسلی بخش جواب دیا
ہاں تم ٹھیک کہ رہی ہو میں ابھی پھر شاید غلط کر رہی ہو ابھی انعمتہ بیگم مزید کچھ کہ رہی تھی کہ انعم کی نظر آبرو پہ پڑی آبرو تم۔یہاں ۔۔۔۔
آبرو رکو۔۔۔۔۔۔!!!
انعم نے اسے روکا لیکن وہ انہیں ان سنا کرکے چلی گئی تھی
باجی آپ پریشان نہ ہو میں دیکھتی ہوں
اور نیچے سے آوازیں سنکر انعمتہ بیگم بھی نیچے کی راہ لی
_____________________________________
آبرو میری بات سنو بیٹا
۔انعم کمرے کا دروازہ بند کرتی آبرو سے مخاطب ہوئیں
پلزز موم آپ اپنی بہن کی سائیڈ نہ لیں وہ کون ہوتا ہے مجھے ریجیکٹ کرنے والا ۔۔۔اسکی اتنی ہمت ۔۔آبرو کو لگ رہا تھا کہ اسکی بہت بےعزتی ہوئی ہے۔۔۔۔میں نہیں چھوڑو گی اسے ۔۔سب سمجھ آرہا ہے مجھے ۔۔یہ سب وہ اس امل کی وجہ سے کر رہا یے ۔۔۔ایسے تو میں نہیں چھوڑو گی تمہیں اسکی سزا تو بھگتنی پڑی گی
آبرو بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔
لیکن آبرو نے تو انہیں ان سنی کرتی واشروم میں جاکر اس نے دروازہ دھڑام بند کردیا
انعم نے بھی اسکو اسکے حال پہ چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیگی ۔۔۔
____________________________
لاونج میں سبہی بڑے برجمان تھے جب کاشان کے والد نے حماد صاحب کو مخاطب کرکے کہا
میرے آپ سے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔۔۔حماد ۔۔
ایسا کیا ہوگیا تھا کہ حمدان نے اسطرح سے کاشان کو مارا ۔۔یہ جاننا تو میرا حق ہے ۔۔۔
یہ آپ اپنے بیٹے سے پوچھے تو ذیادہ بہتر ہوگا ۔۔۔
حمدان نے اپنے لہجے کو سخت کرنے سے روکا ہوا تھا
حمدان تحمل سے بھی بات ہو سکتی یے
سعد نے حماد صاحب کو مختصر کر کے بات بتادی تھی ۔۔۔
پاپا "مینے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی میں شرمندہ ہوں اپنے کئے پہ" ۔۔
حمدان یہ کہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا
حماد صاحب اپنے بیٹے کے غصیلے طبعیت سے اچھی طرح واقف تھے اور انہیں بھی کاشان پہ غصہ تھا لیکن ہر بات کا حل لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا یہ انکے صاحبزادے کو کون سمجھائے ۔۔۔
حماد صاحب نے کاشان کے والد کو سارا ماجرا سمجھاتے ہوئے ہیں بات کو رفع دفع کرا کاشان کے والد آئے تو بڑے غرور سے تھے لیکن جاتے ہوئے انکا سر جھک گیا تھا ۔۔۔
_____________________________
Episode 20
سعد کمرے میں آیا تو ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی تھی جوکہ حمدان کے غصہ کا اثر تھا ۔۔۔۔۔
حمدان ۔۔۔
سعد نے حمدان کو پکارا جو کھڑکی سے باہر دیکھنے میں محو تھا
"تم کیوں آئے ہو سعد یہاں ۔۔اگر تم بھی یہ کہنے آئے ہو کہ میں غلط ہوں تو چلے جاو "
حمدان نے بغیر مڑے کہا
میں ایسا کچھ بھی کہنے نہیں آیا میں صرف پوچھنے آیا ہوں کہ کیوں خود سے جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔
سعد نے حمدان کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا
کیا مطلب یے تمہاری اس بات کا سعد
حمدان نے گھومتے ہوئے کہا
"میرا مطلب بہت صاف ہے ۔۔کاشان نے امل کا صرف ہاتھ پکڑا تھا ۔۔ہم سب کو بھی وہ ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔لیکن ہاتھ تو تم بھی سب کے سامنے اسکا پکڑ کر لے گئے تھے کس حق سے "
"سعد کیا بکواس کر رہے ہو وہ کاشان اسکی نیت ٹھیک نہیں تھی اور نہ وہ امل کو اچھی نظروں سے دیکھ رہا تھا "
سعد کی باتوں نے حمدان کا میٹر شارٹ کردیا تھا اس نے اونچی آواز میں کہا
"ہاں حمدان تم ٹھیک کہ رہے ہو اسکی نیت خراب تھی لیکن تمہاری تو نیک ہے نہ پھر کیوں نہیں اقرار کر رہے ہو کہ تمہیں امل سے محبت ہوگئی ہے تمہارے آج کا reaction چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ حمدان شیرازی تمہیں محبت ہوگئی ہے محبت کرنا جرم نہیں ہے لیکن محبت کو رسوا کرنا بھی غلط ہے ۔۔۔۔حمدان "
سعد نے حمدان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں کہا
"نہیں ہے محبت مجھے ۔۔یہ سب بس attraction ہے ۔۔۔میں نے آج تک لندن میں بہت سی لڑکیوں کو دیکھا یے امل ان سب سے مختلف ہے شاید اسی لئے میں تھوڑا inspire ہو گیا ہوں ۔۔مجھے محبت نہیں ہے ۔۔۔میرا ایک ایم ہے ۔۔مجھے بزنس کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنانا ہے ۔۔۔اس جھنجھٹ میں ابھی نہیں پڑنا چاہتا ۔۔۔۔نہیں یے محبت "
کہتے کہتے حمدان کی آواز مدھم پڑ گئی تھی پتہ نہیں وہ خود کو سمجھا رہا تھا یا سعد کو ۔۔
"جھوٹ بلکل جھوٹ ہے یہ سب حمدان آخر کب تک محبت کو جھٹلاتے رہو گے ۔۔تمہاری آنکھیں ۔۔تمہارا لہجہ ۔۔تمہارا ہر عمل جو تمہارا امل سے تعلق رکھتا یے ۔۔وہ چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ تم امل سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔اور رہی بات بزنس کی تو وہ تمہاری محبت کی راہ میں کبھی نہیں آئیگی ۔۔۔تم اپنی محبت کے ساتھ ساتھ بھی بزنس میں کامیاب ہو سکتے ہو
تم جتنا اپنی محبت سے بھاگ لو وہ پیچھے آکر ہی رہی گی اور تم نے کچھ غلط نہیں کیا محبت اپنا آپ چیخ چیخ کر منوا ہی لیتی ہے محبت وہ جزبہ ہے جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے یہ تو بس ہو جاتی ہے یہ تو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتر جاتی ہے بس محسوس کرنے کی بات ہے
اور تمہیں بھی ہوگئی ہے ۔۔۔بس تم۔محسوس نہیں کر رہے ہو ایک بات یاد رکھنا اگر امل کے ساتھ کچھ غلط ہوا نہ تو اچھا نہیں ہوگا بہن مانا ہے میں نے اسے اور یہ نہ ہو کہ یہ جس محبت سے تم بھاگ رہے ہو یہ ہی بھاگ جائے پھر افسوس اور پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا تم اسے نظر انداز کر رہے ہو بعد میں یہ بھی کردے
ایک گہری سانس لو اپنی آنکھیں بند کرو اور اس محبت کو فیل کرو دیکھو کسکا چہرہ آتا ہے کیا امل کے بغیر رہ سکتے ہو سوچنا اس بارے میں "
سعد حمدان کی طبعیت صاف کرکے کمرے کا دروازہ بند کرکے چلا گیا تھا اسے اکیلے رہنے کی ضرورت تھی
کیا مجھے واقع محبت ہوگئی ہے
حمدان یہ سوچنے لگ گیا تھا
___________________________
سعد شانزہ بیگم کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا
اور شانزہ بیگم اپنے پیارے بیٹے کے بالوں میں انگلی پھیر رہی تھی
آج وہ اپنے جان سے عزیز بھائی اور جگر کو بہت کچھ سناکر آیا تھا لیکن یہ اس کے لئے بہت ضروری تھا اسے یقین تھا کہ صبح تک اسکی عقل ٹھکانے آجائے گی یہ سوچ اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آئی تھی
"کیا سوچ سوچ کر مسکرا رہا ہے میرا بیٹا "
انہوں نے اسکو مسکراتا دیکھ کر کہا
"ماما مجھے محبت ہوگئی ہے "
سعد نے ساری مروت کو بلائے طاق رکھ کر کہا
کس سے ۔۔؟ وہ بولیں
سویرا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد نے انہیں فورا ہی جواب دیا
رائمہ کی نند ؟؟ شانزہ بیگم تو شاکڈ ہی ہوگئی تھی
"جی ماما اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کل ہی یہ بات کریں آپ انکے گھر جاکر اور صرف بات ہی نہیں بلکہ آپ نے نکاح کی بات کرنی ہے ساتھ ۔۔ "
"بیٹا جی ۔۔بریک لگایئے ۔۔ابھی بات ہوئی نہیں ہے ۔۔رضامند ہوئے نہیں وہ ۔۔اور آپ نکاح تک پہنچ گئے "
وہ سعد کو روکتی بولیں
"ہاں تو آپ کے بیٹے کو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا اتنا خوبرو داماد مل رہا ہے انہیں انکار کا تو سوال ہی نہیں ہے "
وہ یقین سے بولا
"کیا بات ہے اور اگر انکار کر دیا تو ۔۔۔"
شانزہ بیگم کو اپنے بیٹے کی پسند پہ فخر ہوا تھا سویرا انہیں بھی پسند تھی لیکن شانزہ بیگم نے سعد کو تھوڑا تنگ کرنا چاہا ۔۔۔
"نہیں کرینگے انکار دیکھ لئے گا "۔۔۔۔سعد کا لہجہ حتمی تھا
لیکن بیٹا حمدان آپ سے بڑا ہے اسکا کچھ ہونا چاہئیے ۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے حارث صاحب کی بات کہی
"حمدان کا بھی جلد ہی ہوجائے گا کچھ آپ فکر نہ کریں آپ ابھی اپنی بہو کا سوچے "۔۔۔
سعد نے شانزہ بیگم کی توجہ سویرا کی جانب کرائی
"کیا ہو رہا ہے آج تو ماں بیٹے کا سین آن ہے "
حارث صاحب نے آفس سے آتے ہوئے کہا
"آپکے صاحبزادے کو عشق ہوگیا ہے "
شانزہ بیگم اپنے بیٹے کی عشق کے بارے میں بتایا
"ارے واہ بھئی اور کون ہے وہ جسکی قسمت پھوٹ رہی ہے"
حارث صاحب نے سیرئس انداز میں کہا
پاپا آپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔سعد تو بگڑ ہی گیا تھا
"کیوں تنگ کر رہے آپ میرے بیٹے کو "
شانزہ بیگم نے انہیں ساری بات بتائی
"آپ سیرئیس ہیں سعد اس معاملے میں "
حارث صاحب نے تصدیق چاہی
"جی پاپا میں سیرئس ہوں "
حارث صاحب کو سعد سیرئیس لگا
"تو پھر ٹھیک ہے نیک کام میں دیری کیسی کل ہی چلتے ہیں وہاں۔۔ میں حماد بھائی سے بھی بات کرلیتا ہوں لیکن نکاح کی اتنی جلدی کیوں یے "
بات کے آخر میں وہ بولیں
"پاپا دراصل حمدان اور مجھے کچھ ٹائم بعد لندن جانا ہے کچھ documents کا مسلہ ہے میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے میرا نکاح ہوجائے رخصتی جب وہ چاہیں "
سعد نے یہ بات اپنے دل پہ پتھر رکھ کر کہی تھی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔۔
حارث صاحب نے کہا
سعد یاہو کرتے ہوئے حارث صاحب کے گلے لگ گیا تھا
اسی اثناء میں اذہان بھی آیا تھا
"آو برخوردار آو گھر یاد آگیا ہے "۔۔۔۔۔حارث صاحب نے اسے کہا
"پاپا ایسی بات نہیں ہے ". اذہان نے انہیں جواب دیا
" وہی تو کیسی بات ہے یہی تو پتہ کرنا یے اکثر گھر دیر سے آنا ۔آفس سے غائب ہوجانا یہ سب اب بند کرو اب تم ایک رشتے میں بندھنے جا رہے ہو اور اس معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا یاد رکھنا امل مجھے سب سے ذیادہ اہم ہے "
اذہان تو گڑبڑا گیا تھا اسکا باپ اتنا بے خبر نہیں تھا اس سے
سعد کو بھی اذہان کی حرکتیں کچھ مشکوک لگتی تھی لیکن اسنے اگنور کردیا تھا۔۔۔لیکن اسے ابھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی اور امل کا ذکر کہاں سے آیا یہ دل میں سوچتے ہوئے اس نے سوال کیا
"کیا مطلب ہے پاپا کون سہ رشتہ "
"آپ نے سعد کو نہیں بتایا ۔۔آپ کی ماما آپ دونوں کی کشتی ایک ساتھ پار لگانے کی تیاری میں ہے "
حارث صاحب نے اسے کہا
"کیا مطلب " ۔۔۔۔۔اسے اب بھی سمجھ نہیں آیا تھا
"ہم نے اذہان کے لئے امل کا ہاتھ مانگا ہے اور اب خیر سے تم بھی سویرا سے منسلک ہونا چاہتے ہو تم دونوں کا ایک ساتھ ہی کچھ کردیں گے "
شانزہ بیگم نے سعد کو بتایا
سعد جو حارث صاحب کے برابر میں بیٹھ گیا تھا ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا اور اسکا رنگ فق ہوا تھا وہ ابھی حمدان کو آئینہ دکھا کر آیا تھا اور اب یہ سب اسکا دماغ سن ہوگیا تھا
اذہان نے جب سعد کا بھی سنا تو خوش کر سعد کے گلے لگ کر اسے مبارکباد دی " مبارک ہو برو ہم دونوں کی آزادی ختم ہونے کا وقت آگیا ہے "
"تمہیں بھی مبارک ہو "
اس نے غائب دماغی سے کہا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ خوش ہو یا اداس ایک طرف اسکا سگا بھائی تھا تو دوسری طرف وہ تھا جو اسے سگے بھائی سے بھی بڑھ کر تھا
سعد حمدان کو بتانے کےلئے بہت بےچین تھا کہ وہ اسے اپنے بارے میں بتائے گا لیکن ابھی اسے دور رہنا ٹھیک لگ رہا تھا
________________________________
حمدان کو بھوک لگ رہی تھی اسنے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا تو اس غرض سے وہ کچن میں آیا تھا ویسے بھی لندن میں اس نے بہت دفعہ کوکنگ کی تھی تو کافی کچھ وہ بنا لیتا تھا
امل کو کروٹ بدل بدل کر بھی نیند نہیں آرہی تھی
پیاس محسوس کر کے سائیڈ ٹیبل پہ خالی جگ کو دیکھ کو وہ نیچے گئی تو حمدان کو چولہے پہ جھکا دیکھ کر چونک گئی تھی
اس نے اپنے قدم واپس پلٹنے چاہے آج جو اس نے حمدان کے تیور دیکھے تھے وہ پہلے سے بھی ذیادہ ڈرنے لگی تھی لیکن جب تک حمدان نے اسکو دیکھ لیا تھا
"امل تم اب تک سوئی نہیں "
حمدان کا لہجہ بلکل نارمل تھا
"و۔۔۔۔وہ نی۔۔۔۔۔نیند نہ۔۔۔۔۔۔نہیں آ۔۔۔۔۔۔رہی تھی "
اور امل نے پانی کا جگ بھی سامنے رکھا
"اب آگئی ہو تو آو یہ کھا کر بتاو کیسا بنا ہے میں نے پاستہ بنایا ہے کھا کر پانی پی لینا "
حمدان نے اسے پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا
آپ نے ۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔امل کو یقین نہیں آیا تھا
"کیا ہوا اتنی حیران کیوں ہو اتنا برا شیف نہیں ہوں ٹیسٹ کرکے دیکھو "
امل کے لئے تو حمدان کا یہ روپ حیران کن تھا وہ ساکت کھڑی تھی
حمدان امل کو اسی طرح دیکھ کر پاستے سے بھرا چمچہ خود ہی اس کے منہ میں ڈالنے لگا تھا
جب تالیاں بجاتی ہوئی آبرو اندر داخل ہوئی "
واہ یہاں تو پورا سین چل رہا یے میں نے تو خلل ڈال دیا "
"آبرو یہ کیا بکواس ہے "
حمدان اسے دبے دبے غصے سے کہا
"بکواس۔۔ میں بکواس کر رہی ہوں تو تم دونوں کیا کر رہے ہو سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر رنگ رنگلیاں منا ریے ہو "۔۔
آبرو جو اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی کہ کیا کرے
تازہ ہوا لینے کی خاطر باہر لان میں جا رہی تھی جب کچن میں کھٹ پھٹ کی آواز سے آئی تھی
سارے گھر والے تو چلے گئے تھے لیکن آبرو یہی رک گئی تھی
آبرو یہ تم کیا کہ رہی ہو "
امل نے آبرو کو کہا
"تم بلکل چپ ایک لفظ نہیں کہنا شکل سے تو اتنی شریف لگتی ہو سب کی زبان پہ بس امل امل اور امل کے کرم تو دیکھو رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر یہ حرکتیں ہو رہی ہیں چیپ لڑکی ۔۔۔بدکردار ۔۔ تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو اپنے معصوم شکل اور باتوں سے لڑکوں کو پھنساتی ہیں بلکہ ایک ساتھ کتنے کو پھنسایا ہوا ہے بات کسی اور سے طے کی ہوئی یے اور مزے کسی اور کے ساتھ ہو رہے ہیں (یہ اس نے اذہان کے لئے کہا تھا ) جو حمدان تو نہیں سمجھ پایا تھا لیکن امل سمجھ گئی تھی اور کاشان کو بھی ایک طرف لائن میں لگایا ہوا ہے "
حمدان جو کب سے امل کے بارے میں بکواس سنے جا رہا تھا جب برداشت سے باہر ہوا تو وہ حلق کے بل چلایا کہ امل اور آبرو تو کیا درو دیوار تک دہل گئے تھے
" just shut your mouth ....if you say anything against to amal ..i will rip your toungue ....think so many times before saying anything for amal ....
i will wreck you in pieces ...How dare you to say her such things ...۔۔۔۔i will cut you ..hold your tounge ....i warn you ...then no one one can not stop me or escape ...what i will do with you ...i controled myself just because you are a women ..otherwise i tell that who i am ...
حمدان نے اتنی گرجدار میں آواز میں آبرو کو بولا کہ آبرو سہم گئی تھی اور امل تو چار قدم پیچھے ہوئی تھی اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
Episode 21
آبرو نے دوسرے لمحے خود کو سنبھال کر کہا
"تو تم دونوں رات کے اس وقت یہاں کر رہے ہو کس حق سے تم اسے یہ پاستا کھلا ریے تھے "
اس بار آبرو نے تھوڑا آرام سے کہا
You have no right to ask me any questions .....and the right that i have on amal ...soon you will know ........
You know.. you are a inferior girl and such types of rots talking can expect from your type of girl ..no more even one word i will not listen about amal Now get lost from here......Make Your Appearance Vanish….….
حمدان چلتا ہوا آبرو سے ایک قدم دور رکا اور انگلی اٹھا کر آبرو کو کہا اسکے لہجے میں حد سے ذیادہ سختی تھی اور آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھی جو اسکے ضبط کرنے کا پتہ بتا رہی تھی اور کہتے ساتھ ہی حمدان نے پاس بڑا شیشے کا گلاس اٹھا کر زمین پر دے مارا اور آبرو کو دھکا دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اگر مزید رکتا تو کچھ الٹا اس نے کر دینا تھا
امل بھی روتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھی آج تک اس کے کردار پہ اس طرح کسی نے بات نہیں کی اور آبرو نے اسے کیا کچھ نہ کہ دیا تھا
وہ بھاگتی ہوئی اپنے روم میں جارہی تھی جب مرتضی نے امل کواسطرح روتا ہوا دیکھ لیا تھا اور اس نے حمدان کو بھی غصے میں جاتا ہوا اسکے کمرے میں دیکھا تھا
"حمدان نہیں۔۔ یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا میں اپنے بےعزتی نہیں بھولوں گی امل کو اس کا جواب دینا ہوگا امل کی وجہ سے تم نے یہ کیا ہے نہ میں امل کو اس لائق ہی نہی چھوڑوں گی اس بےعزتی کا خمیازہ بھگتنا ہی ہوگا تیار ہو جاو امل اپنی زندگی کی الٹی گنتی گننے کے لئے
آبرو بھی اپنے دماغ میں آگے کا پلان طے کرتی ہوئی اپنے کمرے میں گم ہوگئی تھی
_____________________________________
امل اپنے کمرے میں بیڈ کا سہارا لےکر فرش پہ بیٹھ گئی تھی بے آواز آنسو اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے مرتضی اور اذہان سے وہ بہت ذیادہ فری تھی لیکن کبھی بھی اس نے کوئی لیمیٹ کراس نہیں کری تھی آج اسکی کردار کشی ہوگئی تھی سوچ سوچ کر اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔۔!!!
مرتظی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پکارا
اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھیں تو مرتضی کو اپنا منتظر پایا مرتظی کو دیکھ کر اسکے آنسووں میں روانگی آگئی تھی
Amal ..what happened .why are you weeping ...plzz don't weeping ..its hurting me chanda ...please tell me the reason ..is Hamdan behind all this ???
امل نے اپنا سر نفی میں ہلایا
"تو پھر کیا ہوا ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرتظی کو یہی لگا تھا کہ امل اور حمدان کے بیچ کچھ ہوا ہے
Am i characterless?
امل نے ہچکیوں کے درمیان کہا
"یہ کیا کہ رہی ہو امل کیا بکواس ہے ۔۔۔پلز بتاو ہوا کیا ہے"
"مرتضی آپ میرے سب سے اچھے دوست ہیں نہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے پھر آبرو ایسے کیسے بغیر کسی ثبوت کے اسطرح کسی کی بھی کردار کشی کرسکتی ہے وہ بھی تو ایک لڑکی ہے ایک دوسری لڑکی کےساتھ اسطرح کیسے کرسکتی ہے ۔۔۔"
وہ رندھی آواز میں کہ رہی تھی
آبرو ۔۔۔۔۔۔
مرتظی آبرو کی نام پہ ٹھٹک گیا تھا اسے آبرو شروع دن سے ہی مشکوک لگتی تھی ۔۔۔
"کیا کیا ہے اسنے میں اسے چھوڑو گا نہیں جس نے میری بہن کے آنکھوں میں آنسو لائے ہیں"
"امل نے اسے مختصر کرکے ساری بات بتائی تھی مجھے سمجھ نہیں آتا آخر آپ کے بھائی کیا چاہتے ہیں کبھی انکا لہجہ انکا عمل انکے اشارے کچھ اور کہتے ہیں کبھی کچھ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے آج شام جو ہوا پھر ابھی میرے سب سمجھ سے باہر ہے وہ کیوں آئے ہیں پاکستان لندن میں تھے تو اچھا تھا"
امل کے رونے میں اور تیزی آگئی تھی
مرتضی کو بھی حمدان کی آنکھیں کچھ اور بولتی نظر آتی تھی۔اور آج جو کچھ بھی ہوا مرتظی کو بھی لگا تھا کہ حمدان کے جزبات کچھ اور ہیں لیکن کبھی کبھی اقرار بھی بہت ضروری ہوتا ہے جو حمدان نے اب تک نہیں کیا تھا
اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ امل کی طرف متوجہ ہوا
"امل اس بارے میں ذیادہ نہ سوچوں جو ہوگا تمہارے لئے بہتر ہوگا اسطرح رو کر خود کو ہلکان نہ کرو چھوٹی امی اسطرح دیکھیں گی تو کتنی تکلیف ہوگی اور جب تم نے کچھ نہیں کیا ہے کوئی بھی تمہارے کردار کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا بہت رات ہوگئی ہے سب بھول جاو اور سوجاو "
مرتظی نے امل کو فرش سے اٹھا کر بیڈ پہ لاکر اس پہ کمفرٹر اڑا کر سائیڈ لیمپ بند کرکے ایک پیار سے بھرپور نظر ڈال کر جانے کے کئے بڑھا تھا
"مرتضی کسی کو کچھ نہ بتانا جو ابھی ہوا اور آبرو کو بھی کچھ نہ کہنا میں نہیں چاہتی بات بڑھے "
امل نے اسے روک کر کہا
وہ اپنا سر ہاں میں ہلا کر اس کو ریلکس کرکے خود تھوڑا سہ فکرمند ہوگیا تھا
_______________________________
حمدان اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا
"میں کیوں نہیں سن پایا امل کے خلاف کچھ بھی میں کیوں برداشت نہیں کرپایا جب کاشان نے امل کا ہاتھ پکڑا مجھے کیوں برا لگ رہا تھا اسے درد ہوا تو تکلیف مجھے کیوں محسوس ہورئی کیا سعد ٹھیک کہ رہا تھا یہی محبت ہے "
حمدان نے اپنی آنکھیں بند کرکے سعد کا دیا ہوا مشورہ اپنایا تو اسے امل کے بغیر اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا اور ایک جھٹکے سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اسکا پورا چہرہ پسینے سے شرابور تھا
"ہاں یہی محبت ہے ۔۔یہی محبت یے ۔"
محبت نے حمدان کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردئیے تھے محبت نے اپنا آپ منوالیا تھا
حمدان اب خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا اس نے بیڈ پہ دیکھا جہاں سعد سوتا تھا لیکن آج سعد نے اپنے کمرے کو ترجیح دی تھی ۔۔۔
"ؐکوئی بات نہیں میں تجھے کل منالوں گا بڈی "
حمدان اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا تھا اور اب تک کے امل اور اپنے ٹکراو کو یاد کرنے لگا تھا امل تم نے حمدان شیرازی کو اپنا اسیر بنالیا ہے ۔۔۔
________________________
سعد آفس کے لئے تیار اپنے شوز کے لیس باندھ رہا تھا جب حمدان اسکے کمرے میں آیا تھا حمدان کو ایک نظر دیکھ کر وہ اپنے کام میں پھر سے مصروف ہوگیا تھا اسکی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسکا سامنا کرے
"روٹھے ہوئے ایسے بلکل بندر کی شکل جیسے لگ رہے ہو"
حمدان آج سعد کا لہجہ اپناتے ہوئے شوخ ہوا تھا
سعد نے ہنوز اپنے کام جاری رکھا تھا ۔۔وہ کیا کہے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
"سعد کب تک ناراض رہے گا یار ٹھیک کہ رہا تھا تو ۔۔ہاں مجھے ہے امل سے محبت ۔۔میں حمدان شیرازی اپنے ہوش وحواس میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھے امل سے بےپناہ محبت ہے یہ دل اب میرا نہیں اسکا ہوگیا ہے ۔۔اسنے بغاوت کرلی ہے ۔۔۔"
حمدان کا پورا وجود اسکے ایک ایک لفظ کی نشاندہی کر رہا تھا ۔۔
حمدان کے اقرار نے اس مزید پشیمان کردیا تھا
اور سعد سب چھوڑ چھاڑ کے حمدان کے زور سے گلے لگ گیا تھا
"آرام سے اپنا سارا ١٠٠ کلو کا وزن مجھ پہ ڈال دیا ہے "
حمدان نے سعد کے اتنے ٹائیڈ ہگ پہ کہا
لیکن حمدان کی اس بات پر بھی اس نے کوئی رسپونس نہیں دیا
"اووو خوش تو تم ایسے ہو جیسے مجھے نہیں تمہیں تمہاری محبت مل گئی ہے "
حمدان نے کہتے ہوئے اسے الگ کیا
سعد اپنے ہاتھوں اپنے لخت جگر کو اتنا بڑا زخم نہیں دے سکتا تھا وہ نہیں بتا سکتا تھا وہ ایسا کھبی نہیں کر سکتا تھا
"سعد کیا ہوا ہے اتنا خاموش کیوں یے کچھ بول کیوں نہیں رہا ہے
ایسے تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتا رہتا ہے ابھی میں نے اتنی بڑی بات کہی یے کیا ہوا ہے "
حمدان نے آج سے پہلے سعد کو اتنا خاموش اور چپ نہیں دیکھا تھا
سعد نے اپنے ٹون میں آنا بہتر سمجھا ورنہ حمدان کو شک ہوجاتا
"I have a surprise for you ...mama and papa went to sawera's house to ask my hand for sawera and may be we will bind in a holy relationship ."
,"سعد اپنی بات کہ کر پھر چپ ہوگیا تھا
"سعد تو سچ کہ رہا ہے اور تم اب مجھے یہ بتارہے ہو بہت ہی تیز ہے تو "
حمدان نے اسے گلے لگاتے کہا
"ہاں تو اور کیا کل سے تو دیوداس بنا گھوم رہا تھا تو کیا بتاتا ویسے تو بھی اپنا کچھ کرلے کیا پتہ میرے بچے تجھے تایا کہنے کے بجائے چاچو کہ رہے ہوں کیونکہ تیری service ہے ہی اتنی سلو "
سعد نے اسکے گلے لگتے خود پہ قابو پاتے اپنے لہجے کو شوخ کیا تھا ورنہ اسکا دل بہت زخمی تھا اپنے دوست کے لئے جب اسے یہ پتہ چلے گا
"سعد تو بچ کہ دکھا اب مجھ سے "
اور سعد آگے اور حمدان پیچھے تھا اور دونوں کے قہقہے
لیکن سعد کی ہنسی پہلی دفعہ کھوکلی تھی
________________________
شام کا وقت تھا امل اور اذہان racket کھیل رہے تھے
جب سعد بھی آگیا تھا انکے ساتھ کھیلنے اب وہ تینوں لان میں ایک ساتھ کھیل رہے تھے
۔
حمدان اپنے کمرے کی بالکنی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا پہلے اسے جلن محسوس ہورہی تھی لیکن سعد کے آنے کے بعد اس میں کچھ کمی آئی تھی اس نے سوچ لیا تھا آج رات کھانے کے بعد وہ حماد صاحب سے بات کرے گا
وہ امل کو دیکھنے میں گم تھا جب مرتضی نے اسکے نظروں کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ ہوش میں آیا
مرتضی۔۔ ۔تم کب آئے ۔۔؟
حمدان نے اپنی نظریں وہاں سے ہٹا کر کہا
جب آپ امل کو دیکھنے میں کھوئے ہوئے تھے
مرتضی ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!حمدان نے اسے آنکھیں نکال کر کہا
"تو میں کیا جھوٹ بول رہا ہوں دیکھ رہے تھے نہ آپ "
آج وہ ڈرنا نہیں چاہتا تھا
مرتضی کی باتوں پہ حمدان مسکراتا ہوا بغیر کچھ کہے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا ۔۔۔
""hayeee یہ عشق ۔۔۔۔"
مرتظی نے حمدان کو چھیڑا
""مرتضی پٹ جاو گے "
حمدان نے اسے پیار بھری دھمکی دی
"اوکے نہیں کر رہا تنگ ویسے میں بہت خوش ہو امل ہمیشہ یہی رہی گی ۔۔۔ I am so happy for you ..""
مرتضی کہتے ہوئے حمدان کے گلے لگ گیا تھا
______________________________________
Episode 22
رات کے دس بج رہے تھے گھر کے تمام افراد ڈائینگ ٹیبل پر موجود تھے اور اللٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے
"امل کہاں ہے آج کھانے پہ موجود نہیں ہے ٹھیک ہے وہ "
اذہان نے امل کو موجود نہ پا کر کہا
"وہ اسکی کچھ طبعیت نہیں ٹھیک۔۔۔ کہ رہی تھی سر میں درد ہورہا ہے کھانے کھا کر دوائی لے کر سورہی ہے وہ "
صدف بیگم نے جواب دیا
امل کی غیر موجودگی حمدان کو بھی تڑپا رہی تھی وہ بھی بہت شدت سے اسکی کمی محسوس کررہا تھا محبت آشکار ہوئی تھی تو شدت بے چینی میں اور اضافہ ہوگیا تھا
"کیا ہو تم امل دن میں نہ جانے کتنی بار تمہیں دیکھتا ہوں پھر بھی میری نظروں کو دیدار حسرت محسوس رہی ہے "
امل کو سوچتے ہوئے حمدان کے لبوں پہ تبسم پھیل گیا تھا اور اس نے اسے چھپایا بھی نہیں تھا
"میں کہ رہا تھا کہ سعد کے نکاح کے ساتھ اذہان اور امل کی بھی منگنی کی رسم ادا کردیتے ہیں"
حماد صاحب نے سب کو دیکھتے ہوئے اپنی بات کہی
انکی بات سے سب رضامند ہی تھے لیکن حمدان کو لگا اسکے کانوں نے کچھ غلط سنا ہے
اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا اور کھانا جو وہ کھا رہا تھا وہ اسکے گلے میں پھنس گیا تھا اور اتنا برا پھندا لگا تھا کہ گھر والے بھی ڈر گئے تھے
سعد مسلسل اسکی پیٹ تھپک رہا تھا مرتضی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسے پانی پلایا یہ خبر مرتضی پہ بھی بجلی بن کر گری تھی
حمدان کو لگ رہا تھا کہ اسکے گلے میں کھانا نہیں اٹکا بلکہ سانس اٹک گئی ہے اسکا پورا چہرہ پسینے میں شرابور ہوگیا تھا اور آنکھیں حد درجہ سرخ ہوگئی تھی
وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اپنے روم کی جانب بڑھا
کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک اسے کیا ہوا ہے
"میں دیکھتا ہوں اسے آپ لوگ پریشان نہ ہوں "
سعد کہتا ہوا اسکے پیچھے بھاگا
"امل اور اذہان کی منگنی۔۔ کب ہوا یہ سب مجھے کسے نے بتایا تک نہیں "
مرتضی نے شاکڈ کی کیفیت میں پوچھا
"ابھی کل رات میں تو بات ہوئی ہے وہی تو بتا رہے تھے ہم ابھی "
انعمتہ بیگم کو مرتضی کا مطلب سمجھ نہیں آیا
ان سب سے بے نیاز آبرو کھانے سے لطف اندوز ہورہی تھی
"شکر ہے کانٹا تو نکلا حمدان تم میرے نہیں تو کسی اور کے نہیں "
آبرو نے کھانا منہ میں ڈالتے دل میں کلام کیا
مرتضی نے ایک ناراضگی بھری نظر اذہان پہ ڈال کر چلا گیا
"مرتضی کہاں جا رہے ہو کھانا تو مکمل کرو"
حماد صاحب نے اسے ٹوکا
"بابا جو سرپرائز ملا ہے اس سے میرا پیٹ کیا حلق تک فل ہوگیا ہوں"
مرتضی کہتے ہوئے واک آوٹ کر گیا تھا
_____________________
"مرتضی کیا ہوا تمہاری بتی کیوں گل ہوگئی ہے بم تو میرے سر پہ پھٹا ہے اور اثر تجھ پہ ہوا ہے خیریت تو ہے "
اذہان نے اسکے کمرے میں آکر کہا جو بے چینی سے ادھر سے ادھر منڈلا رہا تھا
"اذہان تو بک بک نہ کر اس وقت میرا دماغ بلکل گھوما ہوا ہے میں کچھ الٹا کہ دونگا"
مرتضی کا لہجہ سخت تھا جو اسکی شخصیت کا خاصہ نہیں تھا کیونکہ وہ تو ہر وقت کول رہتا تھا اور دل اسکا انتہائی نرم تھا
"اتنی بڑی بات ہوگئی یے تم نے مجھے بتایا تک نہیں ہم نے آج تک ایک دوسرے سے کچھ نہیں چھپایا ہے "
مرتضی صدمے میں تھا۔۔۔اگر اسے پہلے پتہ ہوتا تو آج شام میں وہ حمدان سے اتنی بڑی بات نہیں کرتا کیا کچھ نہیں کہا تھا اس نے حمدان کو اور حمدان نے بھی جسے قبول کیا تھا اس وقت حمدان کی کیا حالت تھی وہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا
"کیا ہوگیا ہے مرتضی تم اتنا کیوں چڑ رہے ہو منگنی کا مجھے بھی نہیں معلوم تھا اور ماما نے کل رات ہی مجھ سے یہ بات کہی تھی اور کل میں لیٹ گھر آیا تھا اور صبح سے آفس کے کاموں میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ موقع ہی نہ ملا ورنہ میں کیوں چھپاوں گا تم سے "
اذہان سخت چڑ گیا تھا لیکن اس نے پھر بھی صفائی دی
"اور ان سب کا کیا ہوگا"
مرتضی نے یاد آنے پہ کہا
"کون سب "۔۔۔۔۔۔۔۔اذہان انجان بنا
"جیسے تم تو جانتے نہیں ہوں میں تمہاری ان شونو مونو کی بات کر رہا ہوں"
مرتضی نے اپنا بدترین خدشہ ظاہر کیا
"یار وہ سب تو رنگین تتلیاں ہیں جیسے تتلی کا رنگ کچا ہوتا ہے نہ انکا بھی ہے وقت کے ساتھ مائل ہوجاتا ہے "
اذہان نے ہوا میں بات اڑائی "دیکھو ذرا تم نے نام لیا اور ایک تتلی اڑتی ہوئی آبھی گئی" اس نے اپنا موبائیل سامنے کیا
مرتضی نے اسکا موبائیل چھین کر بیڈ پہ اچھالا اورا ذہان کا کلر پکڑ کر اس کے آنکھوں میں جھانکا
"آج مجھے شرم آرہی ہے تو میرا بھائی ہے اذہان ایک بات یاد رکھنا بات اب کسی اور کی نہیں امل کی ہے اور وہ کوئی تتلی نہیں ہے اسے اتنی سی بھی (مرتضی نے اپنی انگلی کو انگھوٹے سے ملایا ) تکلیف آئی نہ میں تمہارا وہ حال کروں گا تو سوچ بھی نہیں سکتا اور بہت جلد ان سب خرافات سے جان چھڑالے ورنہ میں کوئی لحاظ نہیں کروں گا جاکر بڑے ابو کو سب بتادوں گا ایک عورت سب برداشت کرسکتی ہے شاید لیکن یہ نہیں اور امل تو ویسے بھی بہت نازک ہے اس پر اثر بہت جلدی ہوتا ہے"
اذہان مرتضی کا یہ روپ دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا
"ریلکسسسسس ۔۔۔۔کوووووووول ۔۔۔۔۔یہ حمدان کا روپ کہاں سے آگیا یے تم میں اور تو بتا کر دیکھا کسی کو بھی میں پھر چھوڑوں گا نہیں تمہیں اور کیا ہوگیا یے کہ میں کسی کے ساتھ کوئی سچ مچ میں ریلیشن میں نہیں ہوں اور تجھے جتنی امل کی فکر ہے اتنی مجھے بھی ہے میں بھی اتنا ہی جانتا ہوں جتنا تو جانتا ہے اور رہی بات ان تتلیوں کی تو کیوں فکر کرتا یے وقت آنے پہ ان سے پیچھا چھڑالوں گا ظاہر ہے اب معاملہ امل کا ہے "
اذہان نے بھی مرتضی کی ٹون میں جواب دیا
اور یار میں تجھے منانے آیا تھا۔۔ تیرا لیکچر سننے نہیں جا رہا ہوں میں۔۔ سب میرے پیچھے پڑ گئے ہیں
اذہان بھی درشتگی سے کہتا اپنا موبائیل اٹھا کر چلا گیا تھا اور مرتضی کے دماغ میں فکروں کا جال بنا کر
_________________________________
"حمدان یار دروازہ کھول "
سعد کب سے اسکا دروازہ بجا رہا تھا لیکن جب کوئی جواب نہ آیا تو اسے خدشہ لاحق ہوا اس نے اپنے ساتھ کچھ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ اس نے ڈپلیکیٹ کی سے روم کا لوک کھولا اور چاروں طرف نظریں دوڑائیں حمدان اسے کہیں نظر نہیں آیا لیکن پانی بہنے کی مسلسل آواز آرہی تھی
"حمدان آر یو دئیر ۔۔۔۔آر یو لسٹنگ می ؟؟؟؟یارر پلززززززز دروازہ کھول ایسے نہ کر "
سعد باتھ روم کا دروازہ پیٹتے مسلسل بول رہا تھا
"ٹھیک ہے ۔۔تو نہیں بول رہا ہے نہ کچھ اور نہ باہر آرہا ہے مجھے تمہاری قسم کہ میں ایک انچ بھی یہاں سے ہلا ایسے ہی کھڑا رہوں گا جب تک تو اندر رہے گا "
سعد نے بھی ٹھان لیا تھا اگر حمدان ڈھیٹ یے تو وہ بھی ماہا ڈھیٹ یے وہ اپنے دوست کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ اسکے پاس نہ ہو کر بھی اسکے پاس تھا
وہ شاور کے نیچے کھڑا اپنے اندر کی آگ کو بجھانا چاہ رہا تھا اسکا دل بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اسکی دھڑکنیں اس سے روٹھ بیٹھی تھیں
"وہ اسکی کیسے ہوسکتی یے وہ اسکے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے کیا اسے میرا پیار میری محبت نظر نہیں آئی "
آتی بھی کیسے وہ مجھے پسند نہیں کرتی ہے میں نے اس سے کب نرمی سے بات کری یے میں نے اسے احساس کب دلایا ۔۔۔میں اندر بہت سی اچھائیاں ہیں لیکن میں اچھا نہیں ہوں بس
میں اس سے بے تحاشہ محبت کرتا ہوں لیکن میری محبت سب کی طرح نہیں ہے۔۔۔ میری محبت عام نہیں ہے۔۔۔ مجھے کسی کو اپنی محبت شو آف نہیں کرانی لیکن اس پر تو نچھاور کرنی ہے نہ جس سے ہے ورنہ اسے کیسے پتہ چلے گا شاید میری محبت حاکمیت پسند ہے شدت پسند ہے جنون پسند ہے انا پسند ہے شاید پاگل پن ہے یہ
اور میری اس انا پسند محبت نے میری شدت اور جنون کو پست کردیا ہے
وہ خود ہی سوال کر رہا تھا اور خود ہی جواب دے رہا تھا
ٹھنڈے پانی سے نہا کر وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال رہا تھا اسکا سارا غصہ اشتعال بہ رہا تھا اب بس محبت تھی اور وہ تھا
اس کا دماغ اس وقت سوچوں کا آمجگا بنا ہوا تھا اسی سوچ کے ساتھ وہ تولیہ اسٹینڈ سے تولیہ نکال کر اپنے بالوں کو خشک کرتا ہوا باہر نکلا وہ سعد کو کھبی پریشان نہیں کرسکتا تھا خود کی وجہ سے
"حمدان ۔۔۔۔۔۔!!!!!! تم ٹھیک ہو "
اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جس میں خون اترا ہوا تھا اور چہرہ لال انگارہ ہورہا تھا وہ ضبط کی انتہا پہ تھا
حمدان نے ایک نظر سعد کو دیکھ کر اپنی بھیگی شرٹ اتار کر دوسری چڑھاتے ہوئے اسکے بٹن بند کرتا آئینہ کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا اس نے آئینہ میں اپنے عکس کو دیکھا اور بالوں میں ہاتھ پھیر کر انہیں سیٹ کیا اور اپنی مونچھوں اور پھر گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا جو اسکی وجاہت میں اضافہ کرتی تھی وہ شاید خود کو کمپئیر کر رہا تھا اذہان سے اور ہر طرح سے حمدان کا ہی پلہ بھاری تھا
سعد غور سے اسکی ہر حرکت نوٹ کر رہا تھا جب برداشت نہ ہوا تو بول پڑا
""دیکھ حمدان خود کو سنبھال کھبی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی نے ہمارے ساتھ ناانصافی کری ہے تم اللٰہ پر یقین رکھتے ہو نہ لیکن پھر بھی ہم کھبی اس یقین کے ساتھ بھی بےسکون رہتے ہیں ۔۔۔جانتے ہو کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی کو نا ماننے کی وجہ سے یہ بےسکونی قائم رہتی ہے اور اگر ہم بے سکون ہے نہ تو مطلب ہے کہ ہم یقین نہیں رکھتے رونا غلط نہیں ہے چاہے مرد کیوں نہ ہو اسکے بھی احساسات ہوتے ہیں جزبات ہوتے ہیں تھکنا بھی برا نہیں ہوتا مرد عورت سے ذیادہ طاقتور ہوتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ تھک نہیں سکتا اور نہ ہی گرنا برا ہے بس یہ جو مایوسی ہوتی ہے نہ یہ برا ہے یہ ہمارا ایمان کمزور کردیتی یے
تمہیں بھروسہ ہے نہ مایوس نہ ہو اگر وہ تمہارے نصیب میں ہے تو تمہیں ملی گی اور نہیں یے تو نہیں ملے گی "
سعد نے اپنی طرف سے پوری کوشش کری تھی اسے سمجھانے کی
"تجھے لگتا یے میں مایوس ہوگیا ہوں ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔عقلمند لوگ کہتے ہیں مایوس انسان گمراہ ہوجاتا یے اور ہر طرف مایوسی کو منتشر کردیتا یے اور تم جانتے ہو نہ کہ معجزہ بھی ایک چیز ہے مایوسی سے ہٹ کر۔۔۔۔۔ معجزے ہمارے نبیوں کو بھی ملے ہیں فرشتوں کی انکی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمیں ہوتی ہے اور اللٰہ پاک نے میرے دل میں اس کے لئے محبت ڈالی یے نہ تو اس نے سوچ رکھا ہوگا کہ وہ مجھے کب ملنا ہے اور اگر دور کردیا یے تو کوئی مصلحت ہوگی شاید میری محبت کا امتحان ہے یہ اور جب اللٰہ کچھ دور کرتا یے تو دو گناہ بڑھ کر بھی نوازتا یے وہ ہم سے بہتر ہمارا بھلا جانتا یے وہ کھوئی ہوئی چیز بھی لوٹا سکتا یے اور نہیں بھی اور مایوسی کفر ہے مجھے اسکی رحمتوں پر بھروسہ رکھنا چاہیئے میری محبت کی شدت اسے میرا کرے گی "
حمدان نے دھیمے انداز میں سعد کو کہا
"میں اتنا کمزور نہیں ہوں اور امل اذہان کی کھبی نہیں ہوسکتی تو پریشان نہ ہو "
حمدان اسکو ریلکس کرتے اپنے ذہن میں تانے بانے جوڑنے لگ گیا
"کیا مطلب ہے حمدان کچھ غلط نہ کرنا "
سعد کو اب ڈر لگ رہا تھا
"ڈرو نہیں میں کچھ بھی ایسا نہیں کروں گا "
حمدان نے اسکا ڈر دور کرنا چاہا
سعد حمدان کے گلے لگ گیا تھا وہ تو اپنے دونوں بھائیوں کے بیچ پھنس گیا تھا
_____________________________
شانزہ بیگم اور حارث صاحب نے سویرا کے والدین کو نکاح کے لئے بھی راضی کر ہی لیا تھا اور رخصتی سویرا کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد
سویرا کے والدین آج سے نہیں کافی سالوں سے ہاشم ولا کو جانتے تھے تو انکار کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن انہوں نے کہا تھا کہ ایک بار وہ سویرا سے پوچھ لیں تو پھر نکاح کی ڈیٹ فکس کردینگیں
سویرا بھی سعد کے دل میں اپنے لئے جزبات سے واقف تھی سعد نے بھی اسے یہ باور کرایا تھا
____________________________
"ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تمہارا جو فیصلہ ہوگا وہی ہوگا "
سویرا کےوالدین نے اس سے پوچھا تو سویرا نے اپنے والدین کے پوچھنے پہ ایک اچھی بیٹی کی طرح فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا تھا
"خوش رہو اور آرام کرو ۔۔سوجاو بہت رات ہوگئی یے "
وہ اسکا سر پہ ہاتھ رکھتے چلے گئے تھے
انکے جانے کے بعد وہ لیمپ آف کرکے کروٹ کے بل لیٹ گئی تھی اور دو دن کے پہلے کو واقع کو سوچنے لگ گئی تھی جب سعد اس سے ملنے یونی آیا تھا
آج امل نہیں آئی تھی تو وہ بور ہورہی تھی اور اسنے گھر جانے کے ارادے سے ڈرائیور کو کال کری تو اس نے آدھے گھنٹے ویٹ کا کہا
تو اپنے ڈیمارٹیمنٹ کے باہر بنے ایک بینچ پہ جاکر بیٹھ گئی تھی جب اسے سامنے سے سعد آتا ہوا دیکھائی دیا
اس نے سعد کو دیکھ کر بھی اسے اگنور کیا اور اپنے گلاسس لگاتی ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی تھی
""ایسے نظریں تو نہیں چراو بندہ دل و جان سے فدا ہے شرم پسند ہے تمہاری لیکن اتنا بھی نہ شرماو کہ مجھے نظر انداز کرنا پڑے"
سعد نے اسکے پاس آتے اپنا ایک پیر بینچ پہ ٹکا کر اس کی جانب تھوڑا جھک کر کہا
"شرماو گی۔۔ وہ بھی میں اور تم سے غالب دل بہلانے کو یہ خیال اچھا یے ۔۔۔میری جوتی شرماتی یے تم سے "
سویرا نے اسے لفٹ ہی نہیں کرائی
" جوتی کا کیا کرنا مجھے وہ بھلے شرمالے اور رہی بات تمہاری یہ تو اچھا یے کہ تم نہیں شرماتی فیوچر میں آسانی ہوگی مجھے ٹائم برباد ہوگا اس شرمانے ورمانے کے جھنجھٹ میں تو اچھا ہے اچھا یے یہ "
سعد نے اپنے سن گلاسس اتارتے ہوئے کہا
"ٹھرکی انسان اپنا ٹھرک پن دیکھانا شروع کردیا کرو بس کوئی موقع نہ چھوڑا کرو اور اپنی لیمٹ میں رہو"
سویرا نے اپنے آپ کو بینچ کی دوسری جانب گھسیٹا
سعد نے اسکو دور جاتا دیکھ کر مسکراہٹ دبائی اور اس بینچ پر بیٹھ گیا
"تم کیا ہر وقت لمٹ کی بات کرتی رہتی ہو ابھی تو میں لمٹ میں ہی رہتا ہوں ابھی تم نے کہاں دیکھا یے لمٹ سے باہر آنا جب دیکھو گی نہ جب کہنا اور ٹھرک پن کی بات جو ہے وہ بھی ابھی تک نہیں دیکھا ہے تم نے جب دیکھنا تو بولنا "
سعد نے اسے آنکھ مارتے جواب دیا
Episode 23
سویرا اٹھ کر جانے لگی کیونکہ وہ شخص اپنی باتوں سے اسے ہمیشہ لاجواب کردیتا تھا
سعد فوراً اسکی راہ میں حائل ہوا اور اپنے مطلب پر آیا
"دیکھو میں ایک فئیر بندہ ہوں سیدھی بات ہے تم پسند آگئی ہو اس دل کو تمہیں اب یہ اپنا کرنا چاہتا ہے آسان لفظوں میں بولے تو قبول ہے قبول ہے قبول ہے والا رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے "
سعد نے کہتے ہوئے اسکے گلاسس اتار کر اسکے سر پہ رکھا اس طرح سے کہ اسکا ہاتھ ٹچ نہ ہو
اسکی لو دیتی نظروں کی وہ تاب نہیں لا پارہی تھی وہ اسے اتنی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ اپنے آپ کو گم ہوتا محسوس کر رہی تھی
"یہ کیسا اظہار ہے محبت کا "
سویرا نے اپنی نظریں نیچے ہی رکھتے ہوئے کہا
"میری دسترس میں آجاو پھر جیسا چاہو گی ویسا اظہار کردونگا عملاً شملاً بھی "
سعد ہنوز اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
"ٹھرکی انسان میں کہ رہی ہوں کہ یہ کونسا وقت ہے کونسی جگہ ہے اتنی دھوپ ہو رہی ہے اور یہ تعلیمی ارادہ ہے جسے تم نے لو پوائینٹ بنالیا ہے "
سویرا نے اپنی بات کا مطلب سمجھایا
"یہ سعد شیرازی کی محبت ہے یہ بندہ رئیر ہے تو اسکا اسٹائیل بھی الگ یے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھو مسز۔۔۔مطلب ہونے والی میں ابھی تم سے نکاح تو نہیں کرسکتا لیکن ہاں نکاح عشق تو کرسکتا ہوں نہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔۔مجھے تم سےمحبت یے۔۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہے ۔۔۔۔۔"
اسکے پروپوز کا اسٹائیل بھی اسکی طرح انوکھا تھا
اسکا شرمایا روپ سعد کو اکسا رہا تھا کہاں وہ ابھی نہ شرمانے کی بات کر رہی تھی اور کہاں ابھی لال ٹماٹر ہوگئی تھی کچھ دھوپ کی حدت تھی کچھ سعد کی نظروں کا کمال
"میری محبت پہ بھورسہ ہے نہ "
سعد تھوڑا کنفیوز تھا
سویرا سوچنے لگ گئی تھی۔۔۔سعد بھی سیرئیس ہوگیا تھا
"شاید " اس نے یک لفظی جواب دیا
"تو اسکا مطلب میں پسند بھی ہوں یو نو لووو شووو"
سعد پھر سے اپنی ٹون میں آیا
"ایسا کب کہاں میں نے ۔۔۔۔ہلکے میں رہو ٹھرک۔۔۔۔۔مطلب مسٹر سعد شیرازی "
سویرا کا کانفیڈنس کچھ بحال ہوا تھا
"نہیں ہے " سعد نے سوال کیا
سویرا نے اپنا سر نفی میں ہلایا
"ٹھیک ہے ۔۔۔اچھا یہ بتاو آج بدھ ہے ؟؟
سعد نے اس سے پوچھا
سویرا کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسا سوال ہے
"افکورس ہاں ہے " اس نے جواب دیا
ابھی دوپہر ہے ؟ سوال میں ردو بدل ہوا
"ہاں ہے "۔۔۔۔۔۔اس نے قبول کیا
"امل تمہاری بیسٹ فرینڈ ہے "؟ ایک نیا سوال اس نے پوچھا
ہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس نے اقرار کیا
تمہیں میٹھا پسند ہے ؟؟ سوال تبدیل ہوا
ہاں ہے ۔۔۔۔۔اس نے حامی بھری
"تمہیں سیلفیز لینا بے حد پسند ہے "؟؟
"ہاں ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ روانگی میں کہنے لگ گئی تھی
""تمہیں مجھ سے محبت ہے "؟؟؟؟؟سوال بلکل تبدیل ہوا تھا
"""ہاں ہاں ہاں ہے """"۔۔۔۔۔۔۔اس نے تنگ آکر اسے فلو میں ہی جواب دیا تھا
جب سعد کی مسکراتی شکل دیکھی تو اپنی زبان دانتوں تلے دبائی کیوں اس دفعہ اس نے تنگ آکر ایک نہیں بلکہ تین دفعہ کہ دیا تھا
""یہ چیٹنگ ہے سراسر "
سویرا نے کچھ ججھکتے کہا
""کوئی چیٹنگ نہیں ہے ۔۔۔میں نے تو سوال کیا تھا تم نے خود اقرار کیا ہے انکار بھی کرسکتی تھی "
سعد نے گلاسس چڑھاتے کہا
"مجھے گھر جانا ہے "۔۔۔۔۔۔سویرا نے بات تبدیل کی اسکی نظروں کی تپش میں وہ پگھل رہی تھی
""کیسے جاو گی "_______سعد نے سوال کیا
"کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے روز پک اپ اینڈ ڈراپ کی سروس تم دیتے تھے اور آج نہیں دے سکتے "
سویرا نے ادھر ادھر دیکھتے کہا
"تو کہو تو آج دے دیتا ہوں "۔۔۔اس نے آفر کی
""جی نہیں ۔۔مجھے نہیں چاہئیے"۔۔۔اس نے انکار کیا
"تو پھر کیا چاہئیے ۔۔۔۔میں ؟؟؟۔۔۔سعد نے اپنی طرف اشارہ کیا
""ہاااااں۔۔ ں۔۔۔۔۔سویرا نے حیرت کی زیادتی سے کہا
""اتنا بے صبراً پن اچھا نہیں ہے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے تھوڑا سہ انتظار کرو میں مل جاو گا وہ بھی ہمیشہ کے لئے "
اس نے بات کو اپنے رنگ میں ڈھالا
""میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔تم نہ سچ میں ٹھرکی انسان ہو ہر بات کا رخ اپنے ذوق کے مطابق ڈھال لیتے ہو "
سویرا نے خفت سے کہا اور جانے لگی کیونکہ اسکا ڈرائیور بھی آنے والا تھا
سعد اسکے راہ میں دوبارہ حائل ہوا اور کہا
""سنتی تو جاو۔۔۔۔۔۔ ماما بابا آئیں گیں تمہارے گھر میرے لئے تمہیں مانگنے اقرار کردینا "
سویرا دھیما سہ مسکراتی ہوئی اپنی منزل کی جانب چل پڑی ویسے بھی کیا بولتی اس نے تو الفاظ ختم کردیئے تھے
سعد کو سوچتی وہ نیند کہ وادی میں گم ہوگئی تھی
__________________________________
دھکتے سر درد کے ساتھ اسکی آنکھ کھلی تھی پاوں میں چپل اڑستی اس نے باتھ روم کی راہ لی تھی منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر اس نے خود کو فریش کیا تھا
ابھی وہ باہر ہی نکلی تھی کہ اچانک لائیٹ چلی گئی تھی اور اندھیرا اسکے ڈرنے والے عوامل میں سے ایک تھا
"لائیٹ کیسے چلی گئی"۔۔۔اسکا تنفس بڑھنے لگ گیا تھا
ذہن پہ زور ڈالتے اس نے اپنے قدم ڈریسنگ ٹیبل کے جانب بڑھائے تاکہ موبائیل کا فلش آن کرسکے
ابھی اندھیرے میں وہ راستہ ٹٹولتی ڈریسنگ ٹیبل تک پہنچی تھی جب کسے نے اسکےکندھے پہ ہاتھ رکھا ایک چیخ اسکی بلند ہوتی جب کسی نے اسے گھما کر ڈریسنگ ٹیبل سے لگایا اور اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسکی چیخ کا دم توڑا
""" شششششش۔۔۔۔۔۔۔۔آواز نہیں ۔۔۔۔۔۔میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں چیخنا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔اسکے کان میں سرگوشی کی گئی اس شخص کی سانسوں کی گرمائش اسے اپنے کان کی لو پہ پڑتی محسوس ہوئیں
خوف کے مارے وہ یہ تک نہیں پہچان پائی کہ یہ آواز کس شخص کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کانپنے لگ گئی تھی ۔۔۔۔جب اس شخص نے اپنی جیب سے لائیٹر نکال کر اسے جلایا اس کے اور اس شخص کے بیچ بس لائیٹر جتنا فاصلہ تھا
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔!!!!اپنے سامنے حمدان کو دیکھ کر خوف سے اسکی آنکھیں کھل گئیں تھی
"ہاں میں ۔۔پسند نہیں آیا میرا یہاں آنا تمہارے پاس۔۔۔ مائے بےبی انجیل "
حمدان کا انداز لہجہ بلکل الگ تھا
خوف سے اس سے کچھ بھی کہا نہیں گیا
"چلو میں یہ مشکل آسان کردیتا ہوں ۔۔۔۔میں اتنا بےچین ہو تو تھوڑا تو تمہیں بھی ہونا چاہئیے نہ ۔۔۔۔منگنی سے انکار کردو ۔۔۔"
حمدان اپنی بات کے مدعے پہ آیا
"کیا۔۔۔۔۔۔!!!! ۔۔۔۔۔امل کو لگا اسکا دماغ ہل گیا ہے
"میں کیوں کرونگی انکار ۔۔۔میں نہیں کرو گی "
وہ کیسے کہ سکتی تھی جبکہ وہ حامی بھر چکی تھی اور انکار کا کوئی ایک بھی جواز نہیں تھا اسکے پاس
"اگر تم نے انکار نہیں کیا تو بہت برا ہوگا پھر "
اس نے ڈرانا چاہا
"کی۔۔۔کیا ۔۔۔۔کہ۔۔۔کہوں ۔۔۔گی ۔۔۔۔۔۔؟ آپ کا دماغ ٹھیک ہے
امل کو ہمت سے کام لینا تھا
"کہ دینا تم اسے پسند نہیں کرتی ۔۔کسی اور کو یعنی صرف اور صرف حمدان شیرازی کو کرتی ہو ۔۔۔۔"
حمدان خودغرض بن رہا تھا یا شاید محبت نے بنادیا تھا
"میں کیوں کہو جبکہ ایسا کچھ نہیں یے "
ڈر پہ قابو پاتے اس نے کہا
"Baby Angel I Love You From The Core Of My Heart "
You Have To Beleive This …….And I Think Its Enough For Refusing ""…….
حمدان نے خمار آلود لہجے میں کہا جس نے اسے چہرہ جھکا دینے پہ مجبور کردیا
"کیا سمجھا ہوا ہے آپ نے مجھے۔۔ کوئی کھیل نہیں ہے جب چاہا انکار کردیا جب چاہا اقرار ۔۔۔بہت جلدی آپکو خیال نہیں آگیا کہ آپکو محبت یے ۔۔۔۔۔یہ محبت نہیں یے ۔۔۔۔تو آپکے کردیں نہ انکار جا کر سب کو کہ دیں کہ آپ نہیں چاہتے ایسا کچھ کیونکہ آپکو سو کالڈ محبت ہے۔۔۔ رات کے اس پہر آپ یہ خرافات لے کر آئیں ہیں پلزززز جائیں یہاں سے میرا کردار مشکوک نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔"
امل نے اپنی تمام ہمت جمع کر کے بغیر اس سے نظریں ملائیں کہا
"حمدان نے اسکی لب پر اپنی انگلی رکھی ۔۔۔۔۔"
خبردار جو تم نے میری محبت کو سو کالڈ کہا یا میری محبت تمہارا کردار مشکوک کرسکتی ہے کھبی نہیں کر سکتی "
حمدان کا لہجہ انتہائی سرد تھا
حمدان نے لائیٹر بند کرکے اپنے دونوں ہاتھوں کو ڈریسنگ ٹیبل کے سائیڈ پہ رکھ کر اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھے
"تم نہیں کرو گی نہ منع اب پھر میں جو کروں گا اس سے مجھے نہیں روک سکتی تم "
حمدان اپنی بات مکمل کر وہاں سے چلا گیا تھا
اس نے اپنے لمس کے ذریعے اپنی بےچینی ، آگ اور تڑپ کو اسکے اندر بھی منتقل کر دیا تھا
______________________________
حمدان کے جانے کے بعد لائیٹ بھی آگئی تھی
اسکا تنفس اس نئے انکشاف پہ بلکل بگڑ گیا تھا وہ اسے سنبھالتی بےحال ہو رہی تھی حمدان کا ہر روز ایک نیا روپ اسکے سامنے آتا تھا۔۔۔۔اس نے اپنے ماتھے پہ اپنا ہاتھ رگڑ کر اسکا لمس مٹانا چاہا اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر اس نے اپنے ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے تو اسے کچھ گرنے کی آواز آئی اس نے پلٹ کر دیکھا تو پرفیوم کی بوٹل ڈھلک گئی تھی اس نے اسے سیدھا کیا تو اسکی نظر وہاں رکھے ایک نوٹ پر پڑی اس سے تجسس کی بناء پر اسے اٹھایا تو اس پر کچھ لکھا ہوا تھا
Your Sparkling Eyes
Your warmth Skin
Your Heart beat Voice
Your Deep Breathe
Your Hand Touch
your Hair Smell
Your Kindness Smile
Your Staring Strength
Your Body Near Mine
Your Strokes touches
Your Voice Sweetness
Your Innocence Face
Your Claming Presence
Your Quiver Lips
These All Feelings Inside Me Shiver Within
AH…..
پڑھنے کے ساتھ ساتھ خفت اور شرم وحیاء سے اسکی رنگت گلابی پڑگئی تھی "اے ایچ " پڑھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ حمدان نے لکھا یے
" کیا ہے یہ شخص انتہا کا کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
غصے سے کہتے ہوئے اس نے اس کے کئی پرزے کردئیے تھے اور فوراً فلش کیا تھا اسکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یہ کس موڑ پہ اسکی زندگی آگئی تھی اسے آگے کھائی اور پیچھے کنواں نظر آرہا تھا
ہاتھوں کے پشت سے اپنے آنسو رگڑتی خود کو کمفرٹر میں ڈھانپ کر وہ ان فکروں سے فیلحال آزادی چاہتی تھی
___________________________________
سعد آف وائیٹ کلر کے کرتے شلوار میں واسکوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے قیمتی گھڑی پہنے پاوں میں برینڈیڈ چپل پہنے چہرے پہ شاندار مسکراہٹ کےساتھ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا اور لگتا بھی کیوں نہیں آج سعد کا نکاح جو تھا
"آج تو بڑا چمک رہا ہے بھئی "
حمدان دل سے اپنے جگری دوست کےلئے دعاگو تھا حمدان بھی آج آف وائیٹ کلر کے کرتے شلوار میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا
اج اسکے یار کا اتنا اہم دن تھا اسکا دن وہ اپنی وجہ سے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا ویسے بھی حمدان ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اپنے دکھ اور غم کا اشتہار لگائیں
وہ جانتا تھا کہ سعد سویرا کو کس حد تک چاہتا ہے اور کتنا شدید جھکاو اسکا سویرا کی جانب ہے
شانزہ بیگم نے اپنے بیٹے کی نظر اتاری تھی حارث صاحب نے اپنے بیٹے کے ماتھے پہ بوسہ دیا تھا
اذہان بھی شلوار قمیض پہنے اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ ڈیشنگ لگ رہا تھا اسکا بھی تو آج اہم دن تھا
"مبارک ہو بڈی آج سے تمہاری آزادی ختم "
اذہان نے اسے گلے لگا کر کہا
"تمہیں بھی بہت مبارک ہو "
سعد نے اسے بھی کہا
"جلدی کرو سب ہمیں وہاں جانا ہے نکاح کے ساتھ منگنی بھی یے "
حماد صاحب کی آواز گونجی تو سب لوگوں نے باہر کی راہ لی
سویرا کے گھر کے لان میں ہی نکاح اور منگنی کے پروگرام کا احتمام کیا گیا تھا
حمدان کی نظریں بار بار اس دشمن جان کو ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ ہوتی تو نظر آتی لیکن اس پاگل دل کو کون سمجھائے جو دیدار یار کے لئے بےچین تھا
امل تو صبح ہی سے سویرا کے گھر چلی گئی تھی سویرا کے لئے آج اتنا خاص دن تھا اور امل اسکے پاس نہ ہوتی ایسا نہیں ہوسکتا تھا ۔۔۔
_____________________________
Episode 24
سویرا وایئٹ کلر کے ڈریس میں جس پہ ریڈ کلر کی ہلکی embroidery ہوئی تھی بالوں کا جوڑا بنائے لائیٹ سے میکپ میں ہاتھوں میں لال چوڑیاں پہنے سر پہ لال چنری اوڑھے نروس سی لگ رہی تھی
کیونکہ کسی بھی لڑکی کےلئے یہ لمحہ بہت خاص اور حساس ہوتا ہے اسکے تمام جملہ حقوق کسی اور کے سپرد ہو جاتے ہیں ۔۔اسکا سر نیم بدل جاتا یے ۔۔۔
"سویرا سعد بھائی بہت اچھے ہیں انکے آنکھوں میں تمہارے لئے میں نے جزبات دیکھیں ہیں ۔۔بہت خوش رہوگی "۔۔۔۔
امل نے سویرا کا ہاتھ تھامتے کہا جس پہ ہلکی سی لرزش تھی
سعد کے نام پہ سویرا کی دھڑکنوں میں انتشار برپا ہوگیا تھا اور اسکا چہرہ گلنار ہوگیا تھا
"اووووو بلشنگ ۔۔۔۔سویرا بھی شرماتی ہیں ۔۔آج پتہ چلا ۔۔۔"
امل کو بھی آج اچھا موقع ملا تھا سویرا کو تنگ کرنے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
"امل ۔۔۔۔۔۔تمہارا بھی آئے گا وقت سارے بدلے لوں گی"
سویرا بھی کہاں بخشنے والی تھی ۔۔
"اووو میڈم آپ دلہن ہے تو ذرا آرام سے رہیں یوں پٹر پٹر نہ کریں "
امل نے ایک نظر خود کو آئینہ میں دیکھتے ہوئے کہا
"میرے خیال سے میڈم آپ بھی دلہن یے ۔۔۔منگنی ہی ہے لیکن یے تو نہ "۔۔۔۔۔۔۔میں صحیح سے تنگ بھی نہیں کرسکتی "
سویرا کا اپنا ہی صدمہ تھا
""اور تم کتنی چھپی رستم ہو ۔۔اذہان بھائی کے ساتھ یہ سب اور مجھے کچھ بتایا تک نہیں ۔۔۔میں تو سمجھ رہی تھی کہ حمد۔۔۔۔۔"
سویرا ابھی بول ہی رہی تھی کہ امل نے اسے چپ کرایا ۔۔حمدان کے نام پہ اسکا دل تیز دھڑکنے لگ گیا تھا اسے ڈر لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کر نہ دے
"سویرا پلززز وہ جو نظر تمہیں آرہا تھا ایسا کچھ نہیں ہے اور اب میں اذہان سے جڑنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔میں کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔"اور اذہان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سوچا تھا یہ سب تو اچانک ہوا ہے میں تو ابھی تک خود شاکڈ ہوں کہ میری زندگی اتنی تبدیل ہوگئی یے "
امل نے ڈر پہ قابو پاتے کہا
"ارے امل میں تو بس ویسے ہی خیر چھوڑ اس بات کو یہ بتا اگر تمہاری طرف سے کچھ نہیں تھا تو کیا انکی طرف سے تھا "
سویرا نے پھر اسے چھیڑا
"پتہ نہیں ۔۔۔۔۔میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کچھ سوچتے ہونگیں انکی طرف سے بھی ارینج ہی ہے اور تم اپنا دماغ ذیادہ نہ لگاو چپ کر کے بیٹھو لگ رہا ہے کہیں سے اس لڑکی کا نکاح ہے کچھ وقت بعد "
امل نے اسے چپ کرایا
""اووو انکی طرف سے بھی ۔۔۔۔۔۔۔ ارینج ہے "
ہائے اللٰہ جی میں بے ہوش ہی نہ ہوجاو ۔۔۔۔۔ان ۔۔۔۔۔
سویرا باز نہیں آئی تھی
""سویییییییییرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امل نے اسے گھورا "
تو پریشان نہ ہو ہو ارینج کو لو میں تبدیل کردینا تم ۔۔۔۔مجھ سے ٹپز لے لینا "
سویرا نے اسکا پیارا مکھڑا دیکھتے ہوئے کہا
"انہی ٹپز کا استعمال کر کے تم نے سعد بھائی کو اپنا گرویدہ کیا ہے نہ "
امل نے اب اسکی ٹانگ کھینچی
"وہ پہلے سے ہی فلیٹ ہیں مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے" سویرا نے انکشاف کیا
""اب جو تم کہ رہی ہو۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اسکا کیا "۔۔۔۔امل نے بات پکڑی
"اب میں نے سوچا بندہ خوش ہوجائے گا تھوڑی عزت دے دیتی ہوں ورنہ وہ تو ایک نمبر کا ٹھرک۔۔۔۔۔۔۔"
وہ کہتے چپ ہوگئی تھی ورنہ امل نے اسکی دھلائی کرنی تھی اسکے بھائی کے خلاف جو بول رہی ہے وہ
"افف لڑکی اب چپ ہوجاو ۔۔۔تم سے باتوں میں کوئی نہیں جیت سکتا ۔۔۔۔مجھے لگتا یے نکاح خواہ آرہے ہیں"
امل نے اسے چپ کرایا اور خود بھی خاموشی سے اسکے پاس بیٹھ گئی
_____________________________
نکاح کے تمام مراحل طے ہوگئے تھے اور سویرا ہمیشہ کے لئے سعد کے بندھن میں بندھ گئی تھی
ہر کوئی سعد کو آکر مبارک باد دے رہا تھا جسے وہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے قبول کر رہا تھا
سویرا کو سعد کے ساتھ باہر لاکر بیٹھایا گیا تھا
"یار حمدان یہ گھونگٹ کیوں ڈالا ہے کچھ کلئیر نظر نہیں آرہا ہے"
سعد نے سویرا کو (جو برابر میں بیٹھی ہوئی تھی) نظروں کے حصار میں رکھ کر کہا
"مجھے کیا پتہ کوئی رسم ہوگی ویسے اچھا ہی یے تو گھونگٹ میں بھی ویسے ہی گھور رہا ہے ۔۔۔گھونگٹ نہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا کرتا ۔۔۔آس پاس کا خیال کرلے تھوڑا تیری ہی ہے دیکھتے رہنا گھورے ہی جا رہا ہے "
حمدان نے سعد کو لتاڑا
"اور تیرے بارے میں کیا خیال ہے یہ جو تیری نظریں بار بار امل کی جانب اٹھ رہی ہیں ۔۔۔کیا یہ مجھے نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔شرم کرلے تھوڑی ابھی ہوئی ہے نہیں امل تیری ۔۔اور ابھی سے اسکو گھور رہا ہے ۔۔۔"
سعد نے سخت الفاظ کہنے سے پرہیز کیا تھا
"بہت ہی کوئی سعد تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔اپنی والی پہ نظر رکھ میرے اوپر نہ رکھ جلد ہی اسے میں اپنے نام کرلوں گا اور ویسے بھی کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے روک سکے اسے دیکھنے سے "
حمدان کا جنون دیکھ کر سعد تو ایک پل کے لئے حیران ہوگیا تھا اور اپنے پیارے دوست کی دائمی خوشیوں کے لئے اور ساتھ میں اپنے بھائی کے لئے بھی دعاگو ہوا تھا
ویسے بھی امل لائیٹ پنک کلر کی میکسی میں بالوں کا جوڑا بنائے سر پہ دوپٹہ ٹکائے لایئٹ سی جیولری میں لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ حمدان کی نظریں ہٹ ہی نہیں رہی تھی
اسکی منگنی کی رسم بھی بس ادا ہونے والی تھی
"افف کچھ کرنا پڑے گا بہت جلد اور پھر امل تم سے اپنے ایک ایک جزبے اور تڑپ کا حساب لوں گا "
حمدان اپنے دل میں امل سے مخاطب ہوا
امل جو سویرا کے ساتھ تھی خود پہ نظروں کی تپش محسوس کر کے اس نے سامنے دیکھا تو حمدان اسے دیکھ رہا تھا
وہ کب سے اس سے چھپتی پھر رہی تھی ابھی بھی وہ باہر نہیں آنا چاہتی تھی لیکن سویرا اسے زبردستی لے آئی تھی
"یہ مجھے کیوں اسطرح دیکھ رہے ہیں کیا ہوگیا انہیں کوئی نشہ تو نہیں کرلیا آس پاس کا ہی بندہ تھوڑا خیال کرلے ۔۔ڈھیٹوں کی طرح دیکھے جا رہے ہیں۔۔۔۔پتہ نہیں کیا کرینگے میں کس مشکل میں پھنس گئی ہوں "
امل نے اس سے نظریں چراتے کہا
________________________________
چاروں طرف سے تالیوں کو شور تھا۔۔۔۔۔۔۔اور ہوٹینگ کی آواز
"ایک طرف امل کے پاس مرتضی تھا تو دوسری طرف اذہان کے پاس سعد"
رائمہ نے اپنے ہاتھ میں ایک تھال پکڑی ہوئی تھی جس کو خوبصورتی سے سجا کر اس میں دو رنگز رکھے ہوئے تھے
اذہان امل کو رنگ پہنانے کی کوشش کرتا تو مرتضی اسے پیچھے کھینچ لیتا ۔۔۔امل کو تو بے حد گھبراہٹ ہورہی تھی اس نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑا ہوا تھا مرتضی بہت ہی آرام سے اسے پیچھے کر رہا تھا اس شخص کی جھلسا دینے والی تپش وہ خود پہ محسوس کر رہی تھی لیکن وہاں دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی
""اذہان یو کین ڈو اٹ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاروں طرف سے اذہان کا حوصلہ بڑھایا جا رہا تھا
"تین سے چار کوششوں کے بعد بالآخر اس نے امل کا ہاتھ سختی سے تھام کر اسے رنگ پہنائی تھی ورنہ مرتضی نے تو آج قسم کھائی تھی کہ یہ نہ ہونے دیگا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگ پہناتے ساتھ اس نے امل کے ہاتھ کے پشت پہ بوسہ بھی دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔امل کو ایکدم کرنٹ سہ لگا تھا
اذہان کے رنگ پہناتے چاروں طرف سے" ہوووووووووووووووو " کی آواز گونجی تھی اور ساتھ تالیوں کی آواز بھی
اب امل کی باری تھی ۔۔۔۔وہ جب کوشش کرتی سعد اذہان کو پیچھے کھینچ لیتا وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن رائمہ نے مرتضی اور اسے انجوائے مینٹ کےلئے یہ کرنے کےلئے کہا تھا وہ انکار تو اب نہیں کر سکتا تھا
اذہان کا ہاتھ بار بار امل کی گرفت سے نکل رہا تھا اذہان نے تو سختی دیکھائی تھی وہ کیسے دیکھاتی
امل کا بھی حوصلہ بڑھانے کے لئے چاروں طرف سے "امل۔۔۔۔ امل۔۔۔ امل۔۔۔۔۔ امل ۔۔۔۔کی آواز آرہی تھی
آخر میں اذہان نے اسکی مشکل آسان کری اور پیچھے ہونے کے باوجود بھی اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور امل نے بھی جھٹ سے اپنے قدم آگے بڑھا کر اسے رنگ پہنائی ۔۔۔۔۔۔۔
ہوٹنگ کی آواز ایک بار پھر گونجی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رائمہ نے قینچی سے ان دونوں کی رنگز کو الگ کیا جو ربن کے ذریعے جڑی ہوئی تھی
یہ انہوں نے ویسٹرن انداز اپنایا تھا
سارے گھر والوں نے باری باری آکر ان دونوں کو مبارکباد دی تھی
اب وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے اور انکے سامنے ایک بڑا سہ کیک رکھا تھا اور اس پر Got Engaged لکھا ہوا تھا
اذہان اور امل نے مل کر ایک دوسرے کر ہاتھ پکڑ کر وہ کیک کاٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اذہان نے کیک کا ذرا سہ ٹکڑا امل کے گال پہ لگا کر اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔۔۔۔۔
Happy Engagement….….
I Choose You And I Will be Choosing You
Over And Over…..Without Pause ..Without A Doubt In A HeartBeat I Will Keep Choosing You 
امل نے مسکراتے ہوئے اسے بھی کہا تھا "آپکو بھی مبارک ہو"
اذہان نے ایک بار پھر بغیر کسی کی پرواہ کئے امل کے ہاتھ پہ بوسہ لیا تھا ۔۔۔۔۔
امل نے جھٹکے سے ہاتھ کھینچا تھا فطری شرم و حیاء اس پر غالب ہو رہی تھی
حمدان دور کھڑا جلتی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔وہ اس منگنی کو تو چاہ کر بھی نہیں روک پایا تھا لیکن بات اس سے آگے وہ بڑھنے نہیں دیگا یہ اس نے سوچ لیا تھا
اپنی آنکھوں سے اپنے محبوب کو کسی اور کا ہوتا دیکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ اس وقت کوئی حمدان سے پوچھتا
ایک کیک سعد اور سویرا نے بھی مل کر کاٹا تھا سب کی ہوٹنگ اور تالیوں کی گونج میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thanks For Coming In My Life ….You Are My Soulmate My Betterhalf….You Mean The Whole World To Me ……You Are My Halal Love ….
Congratulations Misses Saad….…...
اس کے کان میں سرگوشی کرتے اس نے اسکی کان کی لو بھی چوم لی تھی ۔۔۔۔ویسے بھی سویرا کا گھونگٹ اب ہٹ چکا تھا
سعد کا لمس محسوس کرتے اس کے اندر سنسنی سی دوڑ گئی تھی اس نے آہستہ سے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن سعد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی گرفت مضبوط کردی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ہی اپنی اپنی باتوں کے ساتھ کھانے کے مزے لوٹ رہے تھے تو انکی جانب کوئی متوجہ نہیں تھا
سعد اور سویرا کے photo session کے بعد امل سویرا کو اسکے کمرے میں لے گئی تھی
اسکا فوٹو شوٹ بھی اس وقت ہی ہوگیا تھا
________________________________
""Many Many Happy Returns Of The Day "
امل نے سویرا کے گلے لگتے کہا
"Same To You My Dear Cup Cake "
سویرا نے اسکے گال کھینچتے ہوئے کہا جو بلشن لگانے کی وجہ سے مزید پنک ہوگئے تھے
"آو ہم سیلفیز لیتے ہیں ۔۔ایک بھی نہیں لی اب تک "
سویرا نے امل کے ساتھ دھڑا دھڑ تصویریں کلک کرنا شروع کردیں
کافی پکس لینے کے بعد وہ بیڈ پہ بیٹھ گئی تھی
"امل کچھ میٹھا کھلادو میٹھائی تو آئی ہوگی یقیناً "
سویرا دونوں پیر بیڈ پہ رکھے امل سے مخاطب تھی ۔۔
"سویرا یہ تم ہی ہو ابھی نکاح سے پہلے تو اتنا گھبرا رہی تھی
اور اب تو اسکا شبہ تک نہ تھا ۔۔۔۔۔
امل حیران ہوئی تھی
ہاں "اب تو ہوگیا نکاح ویسے گھبرانا تو سعد کو چاہئیے
مجھ سے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا یار لادے نہ میٹھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے منت کی
"میں کیوں لاوں ۔۔۔۔۔۔میری بھی منگنی ہوئی ہے اور مجھ سے کام کروا رہی ہو تم ناٹ فئیر ۔۔۔۔۔۔۔"
امل نے لاڈپن سے کہا
""اووو ہلکی ہوجاو ۔۔۔۔۔۔میں اب تمہاری جیٹھانی ہوں اور تم دیورانی تو رشتے میں بڑی ہوں میں تم سے تو میرا آرڈر مانے آپ "
سویرا نے بیڈ کراون سے ٹیک لگاتے کہا
"میں رانی ہوں ۔۔۔۔دیو ۔۔۔کو چھوڑو ۔۔۔۔۔اور تم رانی سے کام کرواو گی کتنی غلط بات یے "
امل نے اسکے پاس آکر کہا
""کہاں کی رانی ۔۔۔۔۔۔۔دیو کو چھوڑ کر تم نوک لگا لو ۔۔۔مطلب نوکرانی ۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔
سویرا اپنے پرانے موڈ میں واپس آگئی تھی۔۔۔۔۔
"میں لاکر دے رہوں ہوں ۔۔بیٹھی رہو ایسی ۔۔۔۔۔"
امل نے روٹھے پن سے کہا
""اچھا نہ میری کپ کیک لادو نہ ۔۔۔۔۔اللٰہ تمہاری شادی جلد کرادے اور تمہارے ڈھیر سارے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔
سویرا اسے پچکارتی ہوئی آخر میں شوخ ہوئی
""اوووووو بریک لگاو ۔۔۔۔۔۔۔۔بسسسس ۔۔۔۔۔۔"
لا رہی ہوں میں نوٹنکی باز ۔۔۔۔
امل نے اسے روکنا مناسب سمجھا ورنہ کونسی کونسی دعائیں دینا وہ شروع ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل میسج کی ٹیون پہ کچھ سمجھ کر سویرا کو کہتی باہر گئی
اور اسکے بعد سویرا اپنی سیلفیاں لینے میں مصروف ہوگئی تھی اچانک اسکی نظر سامنے پڑی
تم ۔۔۔۔۔۔تم یہاں کیسے آئے ۔؟؟؟
سویرا سعد کو اپنے روم میں دیکھ کر حیران ہوگئی تھی
سعد امل کی مدد لیکر سویرا سے ملنے آیا تھا اب اسے واپس اپنے گھر جانا تھا اور دیدار کرے بغیر وہ جا نہیں سکتا تھا ۔۔۔امل کو منانا اسکے لئے مشکل نہ تھا۔۔۔۔۔
"میرے خیال سے انسان ہوں تو پیروں سے چل کر ہی آو گا "
سعد سیدھا جواب دے دے ایسا ہو سکتا تھا بھلا ۔۔۔
"اور کیا اکیلے اکیلے سیلفی لے رہی ہو ۔۔آو ساتھ لیتے ہیں ۔۔۔
سعد نے سویرا کے ہاتھ سے اسکا موبائیل لےکر اسکو کندھوں سے تھام کر اپنی اور اسکی کئی پکچرز لینےلگ گیا تھا
سویرا کی تو آنکھیں پھٹی رہ گئی تھی
"جانم ایسے کیا دیکھ رہی ہوں ۔۔عشق ہوگیا ہے کیا ۔۔تمہارا ہی ہوں دیکھتی رہنا ۔
سعد نے کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی اور سویرا کی چند پکچر اور لیں یے اور اپنے نمبر پہ whatsapp بھی کریں
سویرا تو اسکی دیدادلیری دیکھتی رہ گئی تھی
"میں کیوں دیکھوں گی ۔۔تمہیں ۔۔تم کوئی کہیں کے راجا ہو"
سویرا نے اپنی جھینپ مٹاتے کہا ۔۔۔ابھی تک سعد کا پرانا لمس وہ بھول نہیں پائی تھی 
امل کہاں ہو جلدی آو ۔۔۔۔دل میں وہ امل کو پکار رہی تھی
"کہیں کا نہیں پر تمہارے دل کا تو ہوں "
سعد نے سویرا کو ایک جھٹکے سے اسکی کمر سے تھام کر اسے اپنے قریب کیا
سویرا اس عمل کے کئے تیار نہیں تھی سعد کے سینے سے آلگی تھی اسکو سعد سے اتنے بیباکی کی امید نہیں تھی ۔۔۔۔
سویرا کی ساری شوخی ہوا ہوگئی تھی پلکیں حیاء سے جھک گئی تھی سعد کے اتنے قریب اور اسکا لمس اپنی کمر پر محسوس کرکے اسکے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئی تھی اور اسکا چہرہ لال انار ہوگیا تھا جیسے سارا خون چہرہ ہر آگیا ہو
سعد کو بھی سویرا کے چہرے پہ حیاء کے رنگ کو دیکھتے ہوئے اپنا آپ کنڑول کرنا مشکل لگ رہا تھا ایک تو میکپ سے سویرا کے حسن کو مزید نکھار دیا گیا تھا اوپر سے جائز رشتے کا استحاق سعد کے دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی ۔۔۔۔
" یہ کیا ٹھرکی پنا ہے ۔۔چھوڑو مجھے ۔۔"۔
سویرا نے ہمت کرکے سعد سے کہا اور اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کری لیکن سعد کی گرفت اس کے مزحمت کرنے سے اور مضبوط ہوگئی تھی
"ٹھرکی پن تو ابھی تک میں نے دیکھایا ہی نہیں ہے مسز سعد اور ابھی سے یہ لقب دے دیا ابھی کچھ کروں گا تو کیا دو گی پھر "
اس نے اسکے لبوں پہ انگلی پھیرتے کہا
یہ سنکر تو سویرا اندر تک کانپ گئی تھی سعد کی آنکھوں میں جزبات کا ایک سمندر تھا وہ سعد کی آنکھوں میں نہیں دیکھ پا رہی تھی اسکا چہرہ شرم سے مزید جھک گیا تھا
سعد اسکو کمر سے تھامے آگے بڑھ رہا تھا اور سویرا پیچھے ہوتی جارہی تھی حتی کہ وہ دیوار سے جا لگی تھی
سویرا خود کو دیوار سے جتنا چپکا سکتی تھی چپک گئی تھی ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکے چہرے پہ اپنی انگلیاں پھیری اور پھر اپنے ماتھے کو اسکے ماتھے سے ٹکرا کر جزبوں کی شدت سے بھرپور آواز میں اہنے دل کی بات کہی
On our special day i want to say something to make you feel so special ...When you can not look on the bright side .i will sit on the dark ..when you are sad..i will kiss you ..when you cry .i will make you smile ..whenever you fell down ..i will make your support ...I keep loving you till the end of my life ......
I have you is the more precious present for me that i ever recieved .......you are my soulmate .my life my 1st love and also my last ....i will always be with you even at your wrost ...seeing you pleased make me pleased also .....i love you alot misses Saad ....
یہ کہتے ہوئے کئی بار سعد کے لب سویرا کے لب سے مس ہوئے تھے ۔
سعد کا لمس اور اسکا خوبصورت انداز میں اقرار عشق نے سویرا کو اندر تک سن کردیا تھا
سویرا کی آنکھیں بند تھیں
سعد نے اپنا ماتھا اسکے ماتھے سے ہٹاکر اپنے منہ زور جزبوں کو عملی جامعہ پہناتے ہوئےجھک کر اپنے لب پہلے سویرا کے دائیں گال پھر بائیں گال اور اسکے ماتھے پہ رکھ کر اپنی محبت کی پہلی مہر ثبت کری تھی
اور کب کمرے سے چلا گیا تھا سویرا کو خبر نہیں تھی اسکا لمس وہ اب تک اپنے گال پہ محسوس کر رہی تھی اسکے جانے کا یقین کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھی
"افف سعد تم بہت برے ہو۔"
سویرا نے یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھ لیئے تھے اور اسکا چہرہ بلکل لال انار جیسا ہورہا تھا
"تم اس حد تک چاہتے ہو مجھے اندازہ نہیں تھا "
سعد کے کہے گئے الفاظ اسکو اب بھی اپنے کان میں گونجتے محسوس ہو رہے تھے ۔
 
Episode 25
وہ بے حد تھک گئی تھی آج ۔۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی رکھ کر اپنا دوپٹہ اتار کر وہ اپنے جوڑے کی پنز نکال رہی تھی اور ساتھ میں سوچ بھی رہی تھی
"حمدان نے کچھ نہیں کیا ہے انکی ضد ختم ہوگئی ہے یا پھر یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے میں کیوں اتنی بے سکون ہوں کیا کروں "
وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے کندھے پہ کسی کے ہاتھ محسوس ہوئے اور پھر آئینہ میں اسکا عکس
وہ حمدان کو دیکھ کر ایک دم اٹھی تھی اور مڑی تھی
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔کی۔۔۔۔کیسے ؟؟ اس نے دروازے کی جانب دیکھا وہ لاک تھا پھر اسکی نظر کھڑی کے کھلے پٹ پر پڑی جہاں سے وہ آیا تھا
"تم نے انکار نہیں کیا نہ ۔۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔اب جو میں کرونگا نہ وہ تم بس دیکھنا ۔۔۔تم یا مجھے اب کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔میں جو بھی کرونگا اب اسکی ذمہ دار بس تم ہوگی یہ تو بس منگنی یے اگر نکاح بھی ہوا ہوتا نہ وہ بھی توڑوادیتا کیونکہ تم صرف اور صرف میری ہو حمدان کی بےبی اینجل "
اسکا لہجہ انتہائی سرد اور سفاک تھا
امل ڈر سے کرسی سے چپک گئی تھی ۔۔۔ایک لفظ بھی وہ نہیں کہ پا رہی تھی اسکا دل دماغ سن ہوگیا تھا وہ منجمد ہوگئی تھی اپنی جگہ ۔۔۔۔۔
اسے خاموش پاکر اس نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکی ہاتھ سے چوڑیوں کو کھینچتے ہوئے نکالا اور پھینکتا گیا ۔۔۔۔۔
"یہ سجنا سورنا تمہیں اس کے لئے زیب نہیں دیتا ۔۔۔۔۔
بولتے ساتھ اس نے اسکی ہونٹوں پہ لگی لپسٹک کو اپنے انگھوٹے کی مدد سے صاف کیا جس سے اسکے سرخ ہونٹ گلابی ہوگئے تھے
ایک جھٹکے سے اسکے بالوں کا جوڑا کھینچا جس سے اسکا جوڑا ڈھیلا ہو کر اسےکی پشت پر بکھر گیا تھا
""یہ تیار ہونا ۔۔۔۔یہ پروڈکس لگانا ۔۔۔۔صرف میرے لئے کر سکتی ہو تم اور کسی کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔"
"یہ لاپا پوتی تم نے اس کے لئے کی یے نہ "
اس نے ایک نظر اسکی نمکین بھری آنکھوں میں دیکھا اور اگلے پل اپنی ہتھیلی کی پشت سے اسکا پورا لائینر پھیلا دیا
وہ مزحمت تک نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔وہ مسلسل اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس نے نرمی سے اپنے انگھوٹے کی مدد سے اسکے لبوں کو آزادی دلائی اور اسکے لب سہلاتے اس نے اپنا چہرہ اسکے قریب کیا اور کہا ۔۔۔۔"" نو ۔۔۔بےبی اینجل ۔۔۔یہ ظلم میں برداشت نہیں کرونگا ان لبوں پر "۔۔۔۔۔۔۔۔
"آ۔۔۔آپ ک۔۔۔۔۔کیوں ۔۔ک۔۔۔۔کر ر۔۔۔۔۔رہے ہی۔۔۔۔ہیں ی۔۔۔۔یہ س۔۔۔سب ۔۔۔۔۔"
اپنی منتشر دھڑکنوں کے ساتھ اس نے اٹکتے اٹکتے کہا
"میرے بس میں نہیں ہے یہ سب ۔۔۔یہ تو خودبخود ہورہا ہے تم کسی اور کی نہیں ہوسکتی "
اس نے بے بسی سے کہا
""دیکھیں اسے "۔۔۔۔۔اس نے اپنی رنگ دیکھائی ۔۔۔" میں کسی اور کی ہوگئی ہوں اور میرا نام بھی بہت جلد بدل جائے گا "
اس نے پیچھے ہٹتے کہا
اس بات نے حمدان کے غصے کو ہوا دی لیکن اس نے اپنا رخ امل پر سے ہٹا کر اپنے غصے پہ قابو کیا
"ایک بات یاد رکھو تم ۔۔میں کسی اور کا تمہیں ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔میں مانتا ہوں مجھے اقرار کرنے میں دیر ہوگئی یے لیکن ابھی پانی سر کے اوپر سے نہیں گزرا "
اس نے سمجھاتے ہوئے ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چہرہ تھامنا چاہا
اس نے ایک جھٹکے سے اسکے ہاتھوں کو پرے کیا ۔۔۔
"کیا سمجھا ہوا ہے نہ آپ نے خود کو ۔۔مجھے ۔۔یہ محبت کی باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن اسے نبھانا اتنا مشکل ہے ۔۔کہنا بہت آسان یے لیکن نبھانا اتنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔کوئی گیم نہیں ہے یہ ایک دفعہ ہار آگئے تو اگلی بار کوشش کر کے ونر کا مقام حاصل کر لیں گے"
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔۔۔۔۔
""پلززز جائیں یہاں سے ۔۔۔۔کسی نے دیکھ لیا تو میں ہی بری ثابت ہونگی ۔۔۔یہ محبت نہیں یے ۔۔یہ بیکار کی ضد اور پاگل پن ہے بسسس اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔پلززز۔۔۔۔جائییییییییییییییییں ۔۔۔۔۔۔۔۔""
وہ اسکے سامنے اپنے ہاتھ جوڑ کر چیخی تھی اور باہر کی راہ دیکھائی تھی ۔۔۔آنسوں بل بل اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ آنسو تو اسکی کمزوری تھی وہ یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا لیکن پھر بھی دے رہا تھا ۔۔۔۔
"تم مانو یا مانو میں بے حد بے انتہاء تمہیں چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اتنا کوئی نہیں چاہ سکتا ۔۔۔۔اذہان بھی نہیں ۔۔۔اس نے تو ابتداء کی یے ابھی اور میں نے انتہا سے ابتداء کی ہے "
حمدان نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے لال آنکھوں سمیت دروازے کھول کر باہر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ غصے میں یہ بھول گیا تھا کہ وہ آیا کھڑکی سے تھا اور جا دروازے سے رہا تھا
حمدان کے جانے بعد وہ فرش پہ ہی بیٹھ گئی تھی اسکی آنسووں میں روانگی آگئی تھی وہ بار بار ہاتھ کی پشت سے اسے رگڑ رہی تھی لیکن ہر بار پہلے سے ذیادہ آنسو نکل پڑتے یہ آنسو ہی تو ہوتے ہیں جو ہمارے ہر اچھے اور برے وقت میں ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔
جب رو رو کر وہ تھک گئی تھی تو اس نے دھکتے سر درد کے ساتھ باتھ روم کی راہ لی تو آئینہ میں خود کو دیکھ کر ایک پل کے لئے وہ بھی ڈر گئی تھی
حمدان نے اسے چڑیل بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی بکھرے بال ۔۔۔مٹا مٹا میکپ ۔۔پھیلی لپسٹک ۔۔۔ادھورا لائینر ۔۔۔۔آنسو کے نشان ۔۔۔۔۔وہ کہیں سی بھی کچھ وقت پہلی والی امل نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو اس بھاری کپڑے سے آزاد کر کے اس نے لان کا سوٹ وئیر کیا اور اچھی طرح خود کو کمفرٹر میں ڈھانپتی وہ لیٹ گئی تھی اور روتے روتے سو گئی تھی وہ ۔۔۔۔۔۔
__________________________
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے کمرے میں جا کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا
آبرو جو جلے پیر کے بلی کی طرح گھوم رہی تھی اس نے حمدان کو امل کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تھا
"یہ کانٹا ابھی تک اٹکا ہوا ہے اس کو نکالنا بہت ضروری ہوگیا ہے "
غصے میں بڑبڑاتی آبرو نے اپنے کمرے میں جا کر اس نے کسی کو فون کال ملائی مسلسل ہونٹوں کو چباتی ادھر سے ادھر منڈلاتی وہ دوسری جانب سے کال پک ہونے کا انتظار کر رہی تھی لیکن مقابل شاید گھوڑے گدھے بیچ کر سویا تھا جو کال پک نہیں کر رہا تھا
اس کو ایک دم غصہ آیا ۔۔۔۔۔"ریلکس ۔۔تحمل ۔۔۔صبر ۔۔۔۔"۔خود کو کول کرتے ایک لمبی سانس لے کر اس نے کسی نمبر پہ ٹیکسٹ کیا اور فون بیڈ پہ اچھالتی خود بھی لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________
اپنے کمرے میں آکر اس نے خود کو بیڈ پہ گرالیا تھا پیر اسکے نیچے لٹک رہے تھے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر اس نے تکیہ بنایا ہوا تھا اور سرخ آنکھیں چھت کو گھور رہی تھی
""میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا ۔۔۔تم سے کئی ذیادہ اذیت میں میں ہوں ۔۔۔میری محبت جھوٹی نہیں ہے پاک ہے۔۔۔۔۔ تم میرے دل و دماغ پر کب قابض ہوگئی پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔میں نے خود کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن یہ سن ہی نہیں رہا یے نہ دل راضی ہورہا ہے نہ دماغ ۔۔۔یہ بس تمہیں چاہتا یے۔۔۔ تمہیں اپنا کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔تمہیں بے چین کر کے میں خود کونسا سکون میں ہوں ۔۔۔۔۔تمہیں اس طرح دیکھ کر میں بھی اتنا بے چین ہوں۔۔۔۔۔۔۔"
دل میں حمدان امل سے مخاطب اسکو سوچ رہا تھا اسکی رات آنکھوں میں کٹی تھی نیند کا آجانا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔
_____________________________
صبح کے اجالے نے اندھیروں کو مات دے دی تھی اور چاروں طرف اپنی روشنی بکھیرے غالب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
""آرام سے اذہان دیکھ کر اتنی ہڑبڑی میں کہاں جا رہے ہوں "
شانزہ بیگم نے اسے ٹوکا
""اوو ہو موم میں کہیں جا نہیں بلکہ آرہا ہوں جاکنگ سے "
اذہان نے جوس گلاس میں انڈیل کر لبوں سے لگاتے ہوئے کہا
"وہ پیاری چڑیل نظر نہیں آرہی ہے ابھی تک اٹھی نہیں ہے کیا وہ "
اذہان نے پوچھا
"اذہان۔۔۔۔!!!! صحیح سے نام لو ۔۔۔۔۔
شانزہ بیگم نے اسے ٹوکا
"میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں اور یہی کہوں گا ۔۔۔۔ابھی تک سورہی ہے کیا "
اس نے خالی گلاس ٹیبل پر رکھا
"ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے سورہی ہے اب تک ورنہ اب تک تو نیچے آجاتی آج تو یونی بھی جانا تھا اس نے "
صدف بیگم نے اسے جواب دیا
"یا یہ بھی ہوسکتا یے کہ وہ رات بھر تمہارے لئے میٹھے میٹھے خواب دیکھ رہی ہو یا کسی اور کے مطلب کچھ بھی اپنا فیوچر کہ کسکے ساتھ ہو ۔۔۔۔اور جبھی اب تک سورہی ہوگی کیونکہ رات بھر بزی جو تھی "
آبرو جو نیچے ہی آرہی تھی اس نے انکی بات سن کر کہا
""میں جگا کر آتا ہوں ۔۔۔صبح صبح اسکا مکھڑا نہ دیکھو تو عجیب لگتا ہے ورنہ تو روز صبح اپنا ٹیپ آن کر کے یہاں بیٹھی ہوتی ہے "
اس نے آبرو کی باتوں کو اگنور کرتے اپنی بات کہتے ہوئے اوپر کی راہ لی ۔۔۔۔۔
"میں بھی اسے دیکھنے ہی جارہی تھی ابھی "
صدف بیگم نے روٹی پلٹتے ہوئے کہا
اذہان کچھ سوچ کر لان کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک سرخ گلاب توڑ کر اس نے اوپر کی راہ لی ۔۔۔۔۔۔
___________________________
اسکے کمرے کے پاس آکر اس نے دروازہ ناک کیا ۔۔۔۔۔
"امل ۔۔۔۔
اس نے دوبارہ آواز دی ۔۔۔۔۔۔امل ۔۔۔۔۔
لیکن نو رسپونس ۔۔۔۔۔۔
اس نے لوک گھمایا تو وہ دروازہ انلوک تھا جو کھل گیا تھا
اس نے اندر جھانکا تو وہ اسے میٹھی نیند میں گم نظر آئی
""واہ بھائی میں ساری رات Excitement میں سو نہیں پایا اور یہ مزے سے گھوڑے بیچ کر سورہی ہے ۔۔۔ابھی بتاتا ہوا"
وہ کہتا ہوا آگے بڑھا اور اس گلاب کو اس چہرے پر پھیرا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی
اس نے اسے آواز دی لیکن جب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا
""ااووو امل چڑیل اٹھ جا ۔۔۔۔اتنا بھی نہ سو اب ۔۔کتنا سو گی "
اس نے اسے کندھے سے ہلاتے کہا
لیکن وہ ہنوز سو رہی تھی
"کمال ہے اتنا بھی اب نہیں سوتی ۔۔آج کیا سارے ریکارڈ توڑنے کا ارادہ یے طبعیت تو ٹھیک ہے "
اس نے کہتے اسکے چہرے پہ ہاتھ رکھا تو فوراً سے اپنے ہاتھ ہٹائیں ۔۔۔۔
وہ بخار میں تپ رہی تھی اذہان کو لگا اس نے گرم توے کو چھو لیا ہے
"اسے تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے "
کہتے ہوئے اس نے امل کو جنجھوڑا ۔۔۔۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔امل۔۔۔۔امل ۔۔۔امل . . .
کسمندی سے اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں
ہاں۔۔۔۔۔اس نے جلتی آنکھوں سے کہا
"تمہیں اتنا تیز بخار ہو رہا ہے یار امل "۔۔۔۔۔۔وہ فکر میں مبتلا تھا
"پتہ نہیں شاید رات سے ہے" ۔۔۔۔ اس نے لیٹے ہی کہا اٹھنے کی ہمت نہیں تھی اس میں
"کیا پتہ نہیں ۔۔کسی کو بلانا چاہئیے تھا نہ تمہیں کل رات ہی "
اس نے دوبارہ اسکا بخار چیک کیا
"میں نیند میں تھی کیسے بلاتی اور ابھی ہی اٹھی ہوں میں۔۔۔۔"
اس نے پھر اپنی آنکھیں بند کرلیں تھی
"بہت اچھا کیا ہے ۔۔۔تم نہ بلاو ۔۔۔میں بلا رہا ہوں سب کو "
وہ غصے سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا
اذہان۔۔۔۔۔رکو ۔۔۔۔۔اس نے اسے روکنے کی کوشش کی اور ہمت کر کے بیٹھی اور پیچھے تکیہ سے ٹیک لگایا ۔۔۔۔۔۔
تب اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے نوٹ پر پڑی ۔۔۔۔۔
اس نے اسے اٹھایا تو اس پر کچھ لکھا ہوا تھا
I Have Just One Wish That Is When I Get Up In Every Morning I Will. Feel The Sound Of Your Heartbeat And Breathe On My Neck And The Touch Of Your Lips On My Cheeks And Touch Of Your Hands On My Face …………And That Feeling I Could not Found With Any Other …….
Baby Angel ……
پڑھ کر اس نے اپنی خوفزدہ نظریں ادھر ادھر دوڑائیں شکر اذہان باہر تھا اور سب کو پکار رہا تھا یہ سب پڑھ کر اسے اپنے اندر خوف پھیلتا محسوس ہوا یہ سب کیا ہورہا تھا یہ ٹھیک نہیں ہے یہ غلط ہے یہ نہیں ہونا چاہیئے میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ غم و غصے سے اسکے اندر اشتعال کی ایک لہر دوڑی اور اس نے اس کاغذ کو اپنی مٹھی میں دبالیا تھا وہ غصے سے اپنی بند مٹھی کو دیکھ کر رہی تھی جب سب ہی گھر والے اسکے کمرے میں آئیں
"امل کیا ہوا میرا بچہ کیسا ہے "
صدف بیگم نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چھوا جو واقع تپ رہا تھا
اذہان نے انہیں تھرمامیٹر دیا جس سے انہوں نے بخار چیک کیا
"مجھے لگتا ہے اسے کل رات نظر لگ گئی یے لگ بھی اتنی پیاری رہی تھی میں ابھی اتارتی ہوں اسکی نظر "
شانزہ بیگم خود سے اخذ کرتیں نیچے کو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔
ارے شانزہ یہ نظر کچھ نہیں ہوتا ڈاکٹر کو بلاو ۔۔۔۔
بی جان نے امل کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
صدف بیگم نے تھرمامیٹر نکال کر اذہان کو دیا تو اس نے ابھی دیکھنا ہی چاہا تھا کہ حمدان جو شور سن کر یہاں آیا تھا اس نے اسکے ہاتھ سے تھرمامیٹر لیا اور خود چیک کیا
"اوو مائی گاڈ اسے تو ایک تو تین ڈگری بخار ہے "
حمدان کا یہ ردعمل اذہان نے بہت غور سے نوٹ کیا تھا ۔۔۔اس نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ اسے سب نے مبارکباد دی تھی لیکن اس نے نہیں دی تھی لیکن اس نے یہ سب نظر انداز کیا تھا وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا نہیں سوچتا تھا
اس نے اپنی سوچوں کو جھٹک کر کہا فوراً ڈاکٹر کو بلانا پڑے گا اس نے اپنا موبائیل نکالنا چاہا لیکن اس نے دیکھا جب تک حمدان ڈاکٹر کو کال ملا چکا تھا
اس نے اپنی توجہ امل کی جانب کی جو اسکے سامنے ہی بیٹھا ہوا تھا اور کہا " اگر کل رات بتادیتی تو کوئی گولی وغیرہ بندہ دے دیتا بخار اتنا تو نہیں بڑھتا نہ "
اذہان کے غصے میں بھی فکر جھلک رہی تھی
"ماما آپ اسکو دیکھ رہی ہیں میری طبعیت ٹھیک نہیں ایک تو اور یہ ڈانٹ رہا ہے "
امل نے روٹھے پن سے کہا
"جیسے تم نو ایک نیا ملک فتح کیا ہے نہ جو داد دونگا "
اذہان نے اسکی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں کی
"اذہان۔۔۔۔۔۔امل نے بند آنکھوں سے اسے پکارا
"ٹھیک کہ رہا ہوں میں بلکل اگر بتادیتی تو کیا ہوجاتا تمہاری ناک کٹ جاتی کیا ۔۔۔ہاں نی تو ۔۔۔اب ذیادہ بولو نہیں ۔۔۔۔چپ کر کے لیٹی رہو ۔۔۔۔آرام کرو"
اذہان نے اسے پھر سے بولتے دیکھا تو اسے خاموش کرایا
اذہان نے اسکا ہاتھ سہلانا شروع کردیا تھا اور جب تک حمدان بھی نیچے سے ٹھنڈے پانی کی پٹی لے آیا تھا
اس نے ایک نظر اذہان کے ہاتھ کو دیکھا اور برداشت کرتے ہوئے اس نے برف کا پیالہ صدف بیگم کو دیا
"اذہان نیچے دیکھ کر آجاو شاید ڈاکٹر آگیا ہو تو لے آنا اوپر "
حمدان نے بلکل عام سہ انداز اپناتے ہوئے اذہان کو کہا
وہ بھی فوراً نیچے گیا اسے امل کی بے حد فکر ہورہی تھی
صدف بیگم کو اذہان پہلے بھی عزیز تھا اب مزید ہوگیا تھا
_____________________________
کیوں بلایا ہے تم نے مجھے ۔۔۔؟؟
میں گھما کر بات نہیں کروں گی ۔۔۔تمہے امل چاہئیے اور مجھے حمدان ۔۔میرے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہے جس سے تم بھی اپنا بدلہ لے سکتے ہوں اور میں بھی ۔۔۔اس کے لئے تمہیں بس میرا ساتھ دینا ہوگا ۔۔۔۔آبرو کے چہرے پہ ایک شیطانی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔
سامنے بیٹھا کاشان جس کے آنکھوں پہ اب بھی ایک گہرے کٹ کا نشان تھا جو حمدان کی عنایت تھی غور سے اسے سن رہا تھا
ہاں حمدان سے تو بدلہ لینا ہے مجھے۔۔ اس کےلئے کچھ بھی کرنا پڑے کروں گا ۔۔بہت غلط کیا ہے اسنے یہ ۔۔۔
بدلہ حمدان سے نہیں امل سے لینا چاہئیے کیونکہ امل کی وجہ سے حمدان نے یہ سب تمہارے ساتھ کیا ۔۔آبرو نے اپنی چال چلتی کہی
ہاں ٹھیک کہ رہی ہو امل کو تو ایسے نہیں جانے دونگا بہت اکڑ رہی ہے نہ اسکی ساری اکڑ نکالوں گا ۔۔بہت پارسا بنتی ہے ساری پارسائی نکالوں گا ۔۔۔
پلین کیا ہے ۔۔؟؟ کاشان نے کہا
آبرو نے کاشان کو اپنا پلان بتایا بس مجھے سہی موقع کا انتظار ہے ۔۔۔میں جب بھی کال کروں تم اپنا بندہ بھیج دینا ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔۔اس نے حامی بھری
"کل رات اتنی کال کی میں نے اٹھایا کیوں نہیں تم نے "
آبرو نے اس سے پوچھا
"کیونکہ میں الو نہیں ہوں جو جاگتا پھروں گا "
اس نے جب صبح کال دیکھی تو اچھی خاصی رات گزر گئی تھی جب اس نے کال کی تھی
دونوں کے چہروں پہ ایک شاطر مسکراہٹ تھی
اب چلتی ہوں میں ۔۔۔۔۔
آبرو نے یہ کہتے ہوئے ایک ادا سے گئی تھی
اسکے بعد کاشان نے ریکارڈنگ آف کری
۔۔ہاہاہا ۔۔۔آبرو بی بی خود کو بہت اوور اسمارٹ سمجھتی ہے۔۔اگر کھبی مکر گئی تو ثبوت ہونا چاہئیے ۔۔۔
اس نے سفاکی سے ہنستے ہوئے کہا
_________________________________
Episode 26
صبح سے وہ اپنے کمرے میں بند تھی اسکا بخار اب کافی حد تک بہتر تھا اسکا دل گھبرا رہا تھا تو وہ لاونج میں آگئی تھی
دوپہر کا وقت تھا سب اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے
اس نے موبائیل دیکھا تو سویرا کی کچھ مسڈ کالز تھیں تو
اس نے سویرا کو کال ملائی تو بیل ہو رہی تھی لیکن کالز ریسیو نہیں ہو رہی تھی پھر کچھ پل بعد ہی کال ریسیو ہوگئی تھی ۔۔
"ہیلو ۔۔۔۔ہیلو ۔۔۔۔سویرا ۔۔۔۔۔۔آر یو دئیر ۔۔۔۔یو لسٹنگ می ؟؟؟؟
اس نے ناجانے کتنے سوال کر ڈالے تھے
"اب بولو بھی کچھ "۔۔۔۔۔وہ چیخی تھی ۔۔۔
"آرام سے کیا کان کے پردے پھاڑوں گی "۔۔۔۔۔اس نے اسپیکر پرے ہٹاتے کہا
"تو تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہو ۔۔۔"
امل نے اسے کہا
"کال ریسیو ہوگئی ہے اسکا مطلب ہے سن رہی ہوں نہ کیا بولو۔۔۔۔"
اس نے اپنی کتاب بند کرتے کہا
"تمہیں ہوا کیا ہے ایسا کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو اگنور کر رہی ہو تم "۔۔۔۔۔
امل نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
"چلو فیل تو ہوا کہ اگنور کر رہی ہوں میں ۔۔۔۔مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا کتنے کالز کریں ہیں میں نے صبح سے نہ تم یونی آئی اور نہ کچھ بتایا میں کتنا بور ہوئی آج"
اس نے اپنی شکایتوں کی لائن لگوادی تھی
"میری طبعیت نہیں ٹھیک تھی۔۔ میں سو رہی تھی ابھی جاگی ہوں یار ۔۔۔اور ہاں آج کی لیب بھی مس ہوگئی اس چکر میں ۔۔۔"
امل نے اسے صفائی دی ۔۔۔۔
"کیا ہوا تمہاری طبعیت کو ۔۔۔۔کل تک تو ٹھیک تھی ۔۔۔۔؟
اسے یقین نہیں آیا ۔۔۔۔
"تو آپ گھر پہ کسی کو کال کر لیتی اور پوچھ لیتی وجہ بلکہ کسی کو کیا سعد بھائی کو کر لیتی ۔۔۔۔۔"
امل نے اسے چھیڑا
سعد کے نام اسکا چہرہ بلش کرنے لگ گیا تھا اور ساتھ میں اسے یہ بھی یاد آیا تھا کہ وہ ناراض ہوگیا یے کیونکہ اس نے آج ملنے کا کہا تھا اور سویرا نے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اسکا موڈ آج اتنا خراب تھا ۔۔۔۔۔
"کہاں گئی۔۔۔۔۔"۔۔۔۔جب جواب نہ آیا تو اس نےسوال کیا ۔۔۔۔
"ان سے کیوں پوچھو۔۔کیا تمہیں نہیں پتہ کہ میرا دل نہیں لگتا تمہارے بغیر ۔۔۔۔۔"
سویرا نے بات بدلی ۔۔۔
"ؓمیرے بغیر یا ان کے بغیر "۔۔۔۔۔اس نے ان پر زور دیا ۔۔۔۔
"میرا دل کیا اب تو دماغ بھی وہاں ہی لگا رہتا ہے وہ ہو یا نہ ہو پاس"۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اقرار کیا
"او مائی گوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔"امل نے ایک اسٹائیل سے کہا
"مجھے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ میں کاٹ رہی ہوں کال "۔۔۔وہ دھمکی پہ اتر آئی تھی ۔۔۔۔
"اچھا بابا نہیں کرتی تنگ "۔۔۔۔۔۔۔امل نے ہنستے کہا
اسی طرح چند باتیں اور کر کے وہ کال ڈراپ کر چکی تھی سویرا سے بات کرکے اسے کافی اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔
اس نے سامنے دیکھا تو اسے ٹیبل پر اپنی کتاب رکھی نظر آئی تو اس نے پڑھنے کے ارادے سے اسے اٹھالیا اور اسے پڑھتے پڑھتے وہ نیند میں گم ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________________
اپنی سیٹ پہ بیٹھ کر پیپر ویٹ گھماتے وہ مسلسل امل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔دل تو اسکا صبح آفس آنے کا نہیں کر رہا تھا وہ اس حال میں چھوڑ کر کیسے جا سکتا تھا لیکن اس کے پاس رک کر بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا وہ جانتا تھا کہ امل کی خراب طبعیت کی وجہ وہ ہے دو تین بار وہ فون کر کے امل کی خیریت بھی دریافت کرچکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے موبائیل اور کار کی چابی اٹھائیں اپنی شرٹ کی آستینوں کو اس نے کہنیوں تک فولڈ کئے اور چئیر پہ ہینگ کئے ہوئے اپنے کوٹ کو بازو میں ڈالا اور سعد کو انفارم کرتا اس نے پارکنگ ایریا کی راہ لی ۔۔۔۔۔
تھکن اسکے چہرے سے صاف واضح تھی کل پوری رات وہ سویا نہیں تھا نیند پوری نہ ہونے کی وجہ اسے آنکھوں میں گلابی ڈورے نظر آرہے تھے ۔۔۔۔
گھر آکر اس نے کار کو لوک کرتے اندر کی راہ لی تو وہ دشمنِ جان اسے صوفے پر ہی نظر آئی تو اسکے قدم خود بخود ہی وہاں بڑھے وہ کتاب گود میں رکھے دونوں ہاتھوں کو اس پر جمائے نیند میں گم تھی اسکا سکون برباد کر کے وہ پرسکون نیند سو رہی تھی یا شاید نہیں وہ بھی اتنی ہی بے سکون تھی ۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنا لیپ ٹوپ بیگ نیچے رکھا اور اس صوفے کے ساتھ والے صوفے پہ ایک ٹانگ پہ دوسروں کو جمائے اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی بناکر اسے اپنی ٹھوڑی پہ ٹکا کر وہ اسے یک ٹک دیکھنے لگ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک پل کو اسکا دل چاہا کہ وہ اسے چھو کر محسوس کرے لیکن وہ ابھی ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا تو اس نے بس دیکھنے سے کام چلایا
خود پہ نظروں کی تپش محسوس کر کے اس نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولیں تو حمدان کو تکتا پایا۔۔۔۔۔۔
وہ جو ٹیک لگا کر سورہی تھی ایک دم اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔اسے جی بھر کر غصہ آیا تھا ۔۔۔۔اسے غصے سے گھورتی وہ اٹھ کر جانے لگی تھی کہ دوپٹے پر دباو پڑنے سے اسے رکنا پڑا اس نے اپنے دوپٹے کا سرا پکڑ کر اسے مزید سرکنے سے روکا ۔۔۔۔۔
"کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑیں ۔۔۔۔"
وہ شخص اسکا امتحان لینے ہر وقت تیار رہتا تھا
ؐلیکن کوئی جواب نہ آنے پر وہ شدید زچ ہوئی تھی اس نے اپنا زور لگا کر دوپٹہ کھینچا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔۔۔۔۔
وہ غصے میں پلٹی اسے کچھ سنانے والی تھی جب اس نے اپنی آنکھوں کو گھما کر اسکی توجہ اس جانب دلائی جہاں اسکا دوپٹہ ٹیبل پہ لگی کیل میں اٹک گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ اسی طرح بیٹھا اسے گھور رہا تھا بس نظریں اب گھوم گئیں تھی ۔۔۔۔
اسے ایک اسے پل شرمندگی ہوئی لیکن پھر غصہ غالب ہوگیا اور اس نے اپنا دوپٹہ نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا عین اسی وقت حمدان نے بھی اس کا اٹکا دوپٹہ نکالنا چاہا تو امل کے ہاتھ کے اوپر حمدان نے اپنے ہاتھ رکھے تھے۔۔۔۔۔۔
امل نے اسکے ہاتھ کو جو اسکے اوپر تھا اسے دیکھا پھر اسے ۔۔۔۔
وہ اتنی خاموشی سے دیکھ رہا تھا کہ امل کا دل بےساختہ دھڑک اٹھا تھا گھبرا کر اس نے اپنی پلکیں جکھائیں اور اپنا ہاتھ کھینچا
حمدان نے بھی اسکا دوپٹہ الگ گیا اور اس نے بھاگنے کے انداز میں اپنے قدم بڑھائیں لیکن اگلے ہی پل حمدان کے رکھے لیپ ٹوپ بیگ سے ٹکراتی وہ لڑکھڑائی تھی اور زمین بوس ہوتی کہ اس کے پلک جھپکتے ہی وہ اسکے مضبوط حصار میں قید تھی
وہ اسے گرنے کیسے دے سکتا تھا کھبی نہیں ۔۔۔۔۔
ایک بار پھر انکی نظریں مل گئی تھیں ۔۔۔بھلے ہی وہ دونوں خاموش تھے لیکن حمدان کی خاموش نظریں بھی اسے بہت کچھ کہ رہی تھیں شاید یہ خاموشی بھی محبت کی ایک ادا تھی جسے اسکا دل محسوس بھی کر رہا تھا وہ اسکی بانہوں میں قید دنیا سے بے خبر تھی اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل ساکت ہوگیا یے اور وہ اپنی سانس سے نہیں بلکہ حمدان کی گرم سانسوں کی تپش جو اسکے چہرے پر پڑ رہیں تھیں ان سے سانس لے رہی ہے
اسے حمدان کی دھڑکنوں کا شور ڈھول کی آواز کی طرح سنائی دے رہا تھا ۔۔۔اس نے حمدان کی شرٹ کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا کیونکہ اسے محسوس ہورہا تھا کہ اگر اس نے اسے چھوڑا تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر زمین بوس ہوجائیگی
وہ یک ٹک مجسمہ بنی حمدان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی امل کو اسکی آنکھوں میں بہت سے رنگ نظر آرہے تھے وہ رنگ جو اس نے اذہان کی آنکھوں میں فیل نہیں کیا تھا ان دونوں پر جیسے کسی نے سحر طاری کردیا تھا حمدان کی شدت بھری نظروں کی حدت سے وہ گلابی پڑ گئی تھی
جبہی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز نے ان دونوں پہ چھائے سحر کو توڑا اور اس نے حمدان کی قید سے خود کو آزاد کرکے ججھک کر دو قدم پیچھے ہوئی اور فاصلہ قائم کیا
اسکے ساکت دل نے تیز رفتاری سے دھڑکنا شروع کردیا تھا اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نظریں اٹھائیں تو اذہان اور آبرو کو متوجہ پایا اذہان کو دیکھ کر اسکے ماتھے پہ پسینے کی ننھے ننھے قطرے نمودار ہوگئے تھے وہ ایکدم نروس ہوئی تھی
اذہان جو کہ امل کا خیال کرتے اسکے لئے اسکی فیورٹ آئیسکریم اور چاکلیٹ لایا تھا یہ سب وہ الجھن بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور آبرو جو کاشان سے ملنے کے بعد گھومتے پھرتے شاپنگ کے بعد اب گھر آئی تھی تو اذہان کو ساکت کھڑا دیکھ کر اس نے سامنے دیکھا تو اس پر بھی سکتہ طاری ہوگیا تھا اس کے اندر لاوا ابلنے لگا تھا
امل بغیر کچھ کہے اپنے کمرے کی جانب بھاگی تھی اس وقت وہ اپنے ہوش میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے ان دونوں کو اس طرح سے تکتہ پایا تو خود ہی آگے بڑھا اور صفائی دی حالانکہ دل تو اسکا نہیں چاہ رہا تھا لیکن کوئی امل کو غلط سمجھے وہ یہ افورڈ نہیں کرسکتا تھا
"تمہیں تو پتہ ہے ہر وقت تو غیر سنجیدہ رہتی ہے اچھلتی کودتی رہتی ہے تو بس اسی چکر میں گرنے لگی تھی تو میں نے بچالیا"
حمدان اذہان کا کندھا تھتھپاتے اپنا لیپٹوپ بیگ اٹھاتے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا
"جو بھی ہو امل کو تھوڑا خیال کرنا چاہئیے یہ اچھا تو نہیں لگتا نہ پہلے کی بات اور تھی اب کچھ اور ہے اب اس نے تمہارے نام کی انگھوٹی پہنی ہے اتنی بچی بھی نہیں ہے وہ جو یوں گرتی پڑے "
آبرو نے اذہان کے دل میں پہلی کیل ٹھوک کر دراڑ پیدا کرنا چاہی تھی
اذہان نے بھی اپنی سوچوں کو جھٹک کر کچن کی راہ لی تھی
_________________________________
Episode 27
السلام و عليكم ۔۔۔۔کیسی ہیں آپ ۔۔۔"
سعد سویرا کی والدہ سے مخاطب تھا
"وعلیکم السلام ۔۔۔میں ٹھیک ہوں آپ بتاو۔۔۔۔بیٹا آپ کیسے ہو اور کیسے آنا ہوا۔۔۔۔"
انہوں نے جواب دیا
"جی بس وہ سویرا کو آوٹنگ پہ جانا تھا میں نے سوچا کہ میں لے جاتا ہوں "۔۔۔۔سعد نے سویرا کو نظروں کے فوکس میں رکھتے ہوئے کہا
""سویرا۔۔۔۔۔۔"
"ماما میں نے نہیں کہا کچھ بھی "۔۔۔۔اس نے صفائی دی
"ٹھرکی انسان یوں بدلہ رہے ہوں مجھ سے "
ّسویرا نے کڑھتے دل میں کہا
"آنٹی بس آپکی اجازت چاہئیے "۔۔۔۔۔۔سعد نے اپنی ہنسی روکتے کہا ورنہ سویرا کی شکل دیکھ کر اسے بہت ہنسی آرہی تھی
"اجازت کی کیا ضرورت ہے اب تو تم حق رکھتے ہو لے جانا لیکن ایسی تو نہیں جانے دونگی کچھ کھا پی کر جانا آفس سے تھکے ہوئے آئے ہو "۔۔۔۔۔
انہوں نے تکلفاً کہا
اس کی کوئی ضرورت نہیں یے" وہ فارمل ہوا
لیکن وہ اسکو ان سنی کرتے کچن کی جانب بڑھی اور ملازمہ کو ہدایت دینے لگیں
انکے جانے کے بعد سعد نے سویرا کو اپنے پاس بلایا ۔۔۔۔۔اس نے پہلے ادھر ادھر دیکھا پھر اس سے تھوڑا فاصلے پر آکر بیٹھی گئی
سعد نے اسے کھینچ کر اپنے قریب کیا اور منہ پھیر لیا گویا ناراضگی کا اظہار تھا
"میں جانتی ہوں آپ مجھ سے ناراض ہے لیکن اسوقت کیسے جاسکتی تھی آپکے ساتھ میرا مطلب یے یونی سے "
اس نے اسکے شرٹ کے بٹن پہ انگلی پھیرتے کہا
"ناراض وہ بھی تم سے کس نے کہا میں تم سے…. ناراض کہاں رہ سکتا ہوں تم سے میں کیونکہ تم ۔۔۔۔۔وہ ایک پل کو رکا ۔۔۔۔
"کیونکہ میں ۔۔۔۔۔سویرا نے بےساختہ کہا
"کیونکہ تم ہو ہی اتنی سوئیٹ اتنی اچھی اوررر اتنی سلم سمارٹ"
اس نے سر تا پیر اسے دیکھتے کہا ۔۔
اس کے اس طرح دیکھنے پر سویرا نے اسے آنکھیں دکھائیں اور تھوڑا پیچھے ہوئی اور نامحسوس انداز میں اپنا دوپٹہ سیٹ کیا
سعد نے مسکراتے اپنی ادھوری بات کہنا شروع کی۔۔۔" اور سب سے بڑھ کر اس دل کو اتنی عزیز ہو "
"یہ اس ٹھرکی انسان کو ہو گیا ہے اتنا سوئیٹ کیسے بن گیا "
اس نے دل میں سوچا
"تم سوچ رہی ہوگی کہ میں اتنا اچھا کیسے بن گیا ہوں ۔۔۔لیکن کیا کروں تم سے یہ دل ناراض کہاں رہ سکتا یے ۔۔۔
سعد نے اسکی دل کی بات پڑھتے اپنے دل کو ہی جواب دیا
جب سویرا کی والدہ بھی آگئی تھی ۔۔۔سعد نے فارنیلیٹی نبھاتے تھوڑا بہت کھایا اور سویرا کو چلنے کے لئے کہا
سعد نے سویرا کی طرف اپنا بازو بڑھایا تو اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر مسکراتی اسکے بازو میں اپنا ہاتھ ڈالا اور وہ دونوں قدم سے قدم ملاتے ایک دوسرے کے سنگ بڑھ رہے تھے
___________________________
سعد ایک ہاتھ سے ڈرائیو کر رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اس نے سویرا کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
"یہ نہ موقع پہ چانس نہ مارا کریں سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں"
خود پہ سعد کی گڑتی نظروں کا سامنے کرتے ہوئے اس نے کہا
"اب تو موقع ہی موقع ہیں اور چانس کیا میں تو چانسزز ماروں گا اب "
سعد نے اسکے ہاتھ پہ اہنے لب رکھتے کہا
"سعد سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔۔۔مجھے تو لگ رہا ہے آج ہم اوپر جائیں گیں ۔۔۔۔۔"
اس نے سعد کی توجہ ڈرائیونگ پہ دلائی۔۔۔۔۔
سعد نے بھی اسکو بعد میں تنگ کرنے کا سوچتے ہوئے ڈرائیونگ پہ توجہ دی ۔۔۔
سویرا اب سعد کو دیکھنے لگ گئی تھی اسکی زندگی کتنی خوبصورت ہوگئی تھی ۔۔اتنا چاہنے والا شوہر ملا تھا جو اسکی خوشی کا کتنا خیال رکھتا تھا
"یہ تم بہت غلط کر رہی ہو سہی فائدہ اٹھا رہی ہو میری مصروفیت کا "
سعد نے اسے خود کو دیکھتے پایا تو بولا ۔۔۔۔۔۔
سویرا اسکی باتوں پہ مسکراتی خود میں سمٹ گئی تھی
_____________________________
"یہ ہم کہاں آئیں ہیں سعد۔۔۔۔"
سویرا نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔
"تھوڑا آگے چلو پتہ چل جائے گا "۔۔۔۔۔سعد نے کہتے اسکی آنکھوں پہ اپنے ہاتھ رکھیں ۔۔۔
"سعد یہ کیا یے "۔۔اس نے اپنے ہاتھ سعد کے ہاتھ پر رکھے
سعد نے اسکی بات کا جواب دئیے بغیر اس کا ہاتھ پکڑے کچھ قدم بڑھائے اور پھر اسکی آنکھوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا
سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔
سعد نے اسکو اتنا پیارا سرپرائیز دیا تھا
چاروں طرف لائیٹ پنک کلر کے پردوں سے چار دیواری بنائی گئی تھی اور چھت پر ایک گول سی رنگ پردوں سے لگی تھی جس میں بے شمار لالٹین والی لائیٹز لگیں تھیں بیچ میں ایک ٹیبل رکھا تھا جہاں دو کرسیاں بھی تھی اس ٹیبل پر گلاب کی پتیاں رکھی تھیں اور فرش میں لال غبارے بکھرے ہوئے تھے دور سے یہ منظر جتنا ہیارا لگ رہا تھا قریب سے اس بھی ذیادہ لگ رہا تھا
"سعد یہ کتنا پیارا لگ رہا ہے "
سویرا نے چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا تھا
"پیارا ہے لیکن مجھے تو اس سے ذیادہ کچھ اور لگ رہا ہے "
سعد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"کون "۔۔۔۔اس نے اپنی نظریں وہاں ہی رکھتے کہا
"تم "۔۔۔۔۔یک لفظی جواب آیا
سعد کی لو دیتی نظروں کی وہ تاب نہیں لا پارہی تھی اس نے سعد کا ہاتھ پکڑ کر اس چار دیواری میں قدم رکھا
اسے یہ سب کچھ اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ بے ساختہ حد سے ذیادہ خوشی میں اس نے سعد کے گال چوم لئے تھے
اور جب احساس ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے تو وہ فوراً گھومی تھی اسکا دھڑکنوں نے رفتار پکڑ لی تھی ۔۔۔
سعد پہلے تو حد سے ذیادہ حیران ہوا پھر مسکراتے اپنے گال پہ ہاتھ رکھتے اس نے سویرا کی کلائی پکڑی
سعد کے لمس سے اسکا دھڑکتا دل بے قابو ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ مڑی نہیں تھی ۔۔۔
سعد نے اسے کلائی سے پکڑ کر گھمایا اور اسکے دونوں کندھے تھامے اسکی نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی ۔۔۔۔
"ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔۔۔سعد نے سوال کیا
"نہیں ۔۔۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے ہی کہا
سعد نے اسکے لبوں پہ اپنا انگھوٹا پھیرتے کہا "اب "
سویرا کو لگا اسکا دل نکل کر باہر آجائے گا لیکن وہ پھر بھی اپنی بات پہ قائم رہی اور کہا "نہ۔۔۔۔نہی۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔
اس بار اسکی آواز میں لرزش تھی
سعد نے اپنا ایک ہاتھ اسکے کمر میں ڈالا اور دوسرے سے اسکا چہرہ اوپر کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا "اب بھی نہیں لگ رہا یے "
سویرا کو لگا وہ اب گئی۔۔۔ اسکی شکنجے میں وہ قید ہوگئی ہے اور بچنے کا کوئی راستہ نہیں یے ۔۔۔۔۔
بس وہ تھے اور انکے دھڑکنوں کا شور جو ایسا لگ رہا تھا ایک جسم کی ہی دھڑکن دھڑک رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد نے باری باری اسکے دونوں آنکھوں میں اپنے لب رکھے ۔۔۔۔۔۔
سعد کی گستاخی بڑھتی سویرا نے اسکے سینے ہر ہاتھ جما کر اسے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
""پلززززززز "۔۔۔۔۔۔۔وہ بے بس ہوگئی تھی
"فرار ہونا چاہ رہی ہو "۔۔۔۔اس نے اسکی کوششوں کو دیکھتے کہا
"نہیں ۔۔۔۔میں کہاں فرار ہوسکتی ہوں اب ۔۔۔"
اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا
گڈ گرل ۔۔۔۔سعد نے کہتے اپنی ناک اسکی ناک سے مس کی ۔۔۔۔
سویرا کو لگا اب وہ زمین بوس ہوجائے گی اسکی ٹانگیں کانپنے لگیں تھیں۔۔۔۔۔۔
سعد نے اسکی غیر ہوتی حالت کو دیکھتے اسے خود سے تھوڑا دور کیا اور اسکے کندھے ہاتھ رکھتے اسکی نظر دور کھڑے اسٹالز کی جانب دلوائی ۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ دیکھو "۔۔۔۔اس نے انگلی سے اشارہ کیا
جہاں گول گپے ، چاٹ ،گنے کے جوس کے اسٹالز تھے اور یہ سب چیزیں سویرا کو بے حد پسند تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"چلو وہاں چلتے ہیں "۔۔۔۔سعد نے اسکا ہاتھ تھامے رکھا تھا ورنہ وہ تو گر ہی جاتی وہ ابھی تک اس پل میں جکڑی ہوئی تھی
سب سے پہلے سعد نے گنے کے جوس کا آرڈر دیا جو اسکو بلکل پسند نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب اس نے امل سے پوچھا تھا اور امل کے ہر انکشاف پہ اسکا سڑا ہوا منہ بنا تھا کیونکہ سویرا کو ہر وہ الٹی چیز پسند تھی جو اسے نہیں تھی ۔۔۔۔۔
"سویرا مزے سے چسکیاں لیتی جوس پی رہی تھی "
"یہ تم کیسے پی رہی ہو ویسے بڑی کیوٹ لگ رہی ہو "
سعد کی باتوں پہ سویرا کو پھندا لگا تھا ۔۔۔۔
" یہ جو گلابی گال ہوگئے ہیں نہ یہ بھی بڑے اچھے لگ رہے ہیں اور تم مجھے کھانستے ہوئے بھی اچھی لگ رہی ہو ۔۔۔۔۔"
سویرا ہونک بنی اسکی شکل دیکھ رہی تھی
"پانی دو ٹھرکی انسان ۔۔۔کیا بولے جا رہے ہو ۔۔۔"۔
سویرا نے اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا
"میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ تم آج مجھے ہر روپ میں اچھی لگ رہی ہو۔"۔۔۔
سعد نے اسکی چوڑیوں پہ انگلی پھیرتے کہا
"سعد یہ پبلک پلیس ہے "۔۔۔۔اس نے اسکی بڑھتی جسارتوں کو روکتے کہا
"لیکن مجھے تو کوئی پبلک نظر آرہی سوائے ان چند دکانداروں کے"
سعد نے بھی اسے باور کرایا ۔۔۔۔۔۔
وہ جان بوجھ کر ایسی جگہ آیا تھا جہاں رش انتہائی کم ہو ۔۔
سویرا نے جلدی سے گنے کا جوس ختم کیا جس سے اسکی ہلکی سی مونچھ بن گئی تھی ۔۔۔
سعد نے اپنا موبائیل نکالا اور جھٹ سے اسکی پکچر کلک کی اور اسکے بعد اپنے انگھوٹے سے اسکی مونچھ کو مٹایا
"سعد اس پک کو ڈیلیٹ کریں "۔۔۔۔۔سویرا نے سمجھ آنے پر کہا
لیکن سعد نے اسے ٹھینگا دکھادیا
"آپ کیوں نہیں پی رہیں بہت مزے کا ہے "۔۔۔۔سویرا نے اس سے پوچھا
"مجھے خاص پسند نہیں ہے تم پیو ۔۔۔اس نے برا سہ منہ بنایا
"ایسے کیسے نہیں پئیں گیں آپ اس نے اس گلاس اسکے منہ پہ لگایا "
سعد اب کیسے نہ پیتا آخر سویرا اسے اپنے ہاتھوں سے پلا رہی تھی جبکہ
اب سعد اسے گول گپوں کے اسٹال پہ لے آیا تھا
اس نے سویرا کے منہ میں پہلے گپا ڈالا پھر سویرا نے اسکے ۔۔۔۔۔
سعد اسے واپس اسی جگہ پہ لے آیا تھا جہاں میز پہ اب چند ڈشز کا اضافہ ہوگیا تھا
سعد نے ڈش پلیٹ میں نکال کر اسے اپنے ہاتھ سے کھلایا
"سعد مجھے یہ سب خوبصورت خواب لگ رہا ہے "
سویرا نے آس پاس کا منظر اپنی نظروں میں حفظ کرتے کہا
"یہ خواب نہیں مسز حقیقت یے ۔۔اور میرے سنگ یہ ملتے رہیں گیں ایسی کھلی آنکھوں سے دیکھنے والے خواب "
سعد نے اسے محبت لٹاتی نظروں سے دیکھا
"ایسے کیا دیکھ رہیں آپ ۔۔۔کھانا کھائیں ۔۔۔۔"
سویرا نے مسکراتے کہا
"تمہاری آنکھوں کو دیکھ رہا ہوں۔۔تمہارے اس پیارے چہرے کو دیکھ رہا ہوں اور تمہارے ان حسین لبوں کو ۔۔۔۔۔"
سعد اینڈ میں پٹری سے اترا تھا
سویرا کی زباں کا تو تالا لگ گیا تھا ۔۔۔وہ مسکراتی آنکھوں سے سعد کو دیکھ رہی تھی
"تمہاری آنکھیں بہت گہری ہیں ۔۔۔۔جب یہ میری آنکھوں سے ٹکراتیں ہیں تو کہنا مشکل ہوجاتا یے اور تمہاری مسکراہٹ اس سے بھی پیاری میں بہکنے لگتا ہوں ۔۔۔۔"
"سعد بس کردیں اب کتنی فلمی باتیں کر رہے ہیں کچھ بعد کے لئے بچا کر رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔"
سویرا نے اسے ٹوکا
"تمہارے بارے میں کچھ بھی کہنے کے لئے الفاظ ختم نہیں ہوتے"
سعد تو آج واقعی میں مجنوع بن گیا تھا
"اچھا اب گھر چلتے ہیں دیر ہو رہی ہے "
سویرا اسکی بےباک نظروں کا مقابلہ مزید نہیں کر سکتی تھی
"چلتے ہیں یہ کھانا تو فنش کرلیں ۔۔۔"
سعد نے کہتے ہوئے کھانا کھانے لگ گیا تھا
_____________________________
سویرا کے گھر کے سامنے لا کر اس نے کار روکی تھی اور اس پر ایک بھر پور نظر ڈالی تھی
"شکریہ تو بنتا ہے کتنا یادگار دن بنایا ہے میرا "
سویرا نے دل میں کہا
سعد نے اسکا ہاتھ پکڑ اس پہ بوسہ دیا
سویرا نے اسے تھینکس کہا ۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے ایسا تھینکس نہیں چاہئیے منہ سے کہنے والا یہ تو ہم سب کو کہتے ہیں نہ میں اسپیشل ہوں تو اسپیشل تھینکس چاہئیے"
سعد نے ضد کی
"میری زندگی میں آکر اسے حسین بنانے کا شکریہ ۔۔ ویسے تو یہ تین گھنٹے تھے لیکن مجھے لگا کہ میں کسی الگ دنیا میں ہوں"
سویرا کہتی سعد کے گال پہ اپنے لب رکھتی جلدی سے کار کا گیٹ کھول کر بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اور کچھ دور جا کر رکی تو سعد مسکراتا وہیں دیکھ رہا تھا
سویرا نے بائے کے لئے اپنے ہاتھ ہلائیں تو سعد نے اسے فلائینگ کس دی
سویرا جھٹ سے اندر بھاگی تھی
"آج تو مسز کے رنگ روپ ہی الگ تھے شاکڈ پہ شاک واہ سعد شیرازی تمہارا رنگ چڑھ رہا ہے خوب زورو شور سے "
سعد نے کہتے ہوئے دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کری
_______________________________
Episode 28
شام کا وقت تھا ٹھنڈی کے ہوا کے جھونکے چل رہے تھے
امل گھر کی بیک سائیڈ پہ لگی کرسیوں میں سے ایک پہ پہ بیٹھی تھی اور اپنے موبائیل پہ مصروف تھی جب اذہان بھی اسے دیکھتا وہاں آگیا تھا
"یہ تم مجھے آجکل اگنور کیوں کر رہی ہوں بھاو نہیں کھانے لگ گئی ہو ذیادہ "
اذہان نے دوسری چئیر پہ بیٹھتے کہا
"نہیں میں کیوں کرونگی اگنور اور تم چیز کیا ہو ۔۔۔میں دیکھتی بھی نہیں ہوں ۔۔اگنور تو دور کی بات ہے"
امل نے مکمل اسکی جانب متوجہ ہوکر کہا
امل کا کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا جسے اذہان سمجھ رہا تھا اذہان بات کو الگ رخ سے سوچ رہا تھا
"اوو چڑیل۔۔۔۔ میں چیز بڑی مست ہوں ۔۔اور ہاں یہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے تم مجھے دیکھ نہیں رہی ہو آجکل نظروں میں کوئی اور برجمان ہے "
اذہان کا طنز بھی امل نہیں سمجھ پائی تھی کیونکہ اذہان نے طنز کے انداز میں کہا ہی نہیں تھا
"امل کسی کو نہیں دیکھتی ۔۔امل کو دیکھنے کے لئے لوگ بےتاب رہتے ہیں ۔۔"
امل کا موڈ بہتر تھا تو وہ اسکا انداز بھی الگ تھا
"خوش فہمی ہے بہت بڑی "
اذہان نے ہنکار بھرا
"بس تم جلتے رہنا یہ بتاو کہ مرتضی کہاں یے آجکل نظر نہیں آرہا ہے "
امل نے کہا
"وہ موصوف تو آجکل لڑکی امپریس کے چکر میں ہیں ۔یہی وجہ ہے آفس سے لیٹ آنے کی کیونکہ لڑکی آفس کی جو یے۔"
اذہان نے اسکا راز بتایا
""واہ یہ مرتضی صاحب بڑے چھپے رستم نہیں نکلیں ۔۔۔۔"
امل نے سوچا تھا اس سے بدلہ لے گی
"لیکن بچارہ ابھی تک امپریس نہیں کرپایا ہے ۔۔۔میں نے اس سے کہا تھا کہ مجھ سے کچھ ٹپز لے لو کام آسان ہوجائے گا"
اذہان نے اپنے پیر دوسری چیئر پہ پھیلاتے ہوئے کہا
"تمہارے طریقے تمہارے ہی طرح ہیں اسے لڑکی کو انسپائیر کرنا ہے بھگانا نہیں یے تمہارے لوفر طریقوں سے بہتر ہے وہ اپنے حربے آزمائیں ۔۔۔۔"
امل نے اس کی آنلائن بے عزتی کی تھی۔۔۔۔۔
"تم میری صلاحیتوں کو یوں underestimate نہیں کرسکتی "
اذہان کو بلکل یہ بات پسند نہیں آئی تھی
"ہاہاہاہا۔۔۔۔اذہان بلکل بچوں جیسی شکل بنا لی یے "
امل کو ہنسی آرہی تھی
""اووووو ذیادہ فنٹر بننے کی کوشش نہ کرو ۔۔صبح تو اٹھا نہیں جا رہا تھا تم سے۔۔میرا احسان مانو میں آیا اور پھر پتہ چلا کہ اس چڑیل نے تو واقع سب کو ڈرادیا یے "
اذہان کو کہنے کے ساتھ بھی یاد آیا کہ اسکی طبعیت نہیں ٹھیک
اس نے امل کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر چیک کیا
"بخار اب نہیں یے "
"تو تم کیا چاہتے ہو ۔۔میں بخار میں رہتی "
امل نے اسے کہا
"کیسی باتیں کر رہی ہو میں کیوں چاہوں گا اور ہاں آج نہ جلدی سوجانا ورنہ تمہیں ہی مسلہ ہوگا مجھے اٹھانے میں "
اذہان نے اسے کہا
"میں کیوں اٹھاو گی "
امل نے ایکدم پوچھا
"تو کون اٹھائے گا ۔۔کل مجھے جلدی اٹھنا ہے ۔۔۔کوئی گڑبڑ نہ کرنا اٹھا دینا ٹائم سے "
اذہان نے پیر نیچے رکھتے کہا
"آلارم لگا کر سونا ۔۔۔۔جب بھی جلدی اٹھنا ہوتا یے تو میں ہی اٹھاتی ہوں ۔۔کل خود ہی اٹھنا میں نہیں اٹھاو گی خود اٹھنے کی عادت بناو ۔۔میری نیند کے دشمن بن جاتے ہو۔۔۔"
امل نے صاف ہری جھنڈی دیکھائی تھی
"امل کیا بول رہی ہو چپ چاپ آجانا اٹھانے ۔۔۔۔کچھ ذیادہ بھاو کھانے لگ گئی ہو ۔۔"
اذہان نے بھی فل تیور کیساتھ کہا
"ہاں کھا رہی ہوں بھاو ۔۔۔وہ بھی بہت سارا۔۔۔۔۔۔"
امل نے بھی اسے سلگایا
"تم آجانا شرافت سے اگر لیٹ اٹھا نہ میں تودیکھنا "
اذہان نے دھمکی دی
"یہ تم جیسے ہوتے ہیں جو خود تو Irresponsible ہوتے ہیں اور دوسروں پہ ٹوپی ڈالتے ہیں ۔۔۔"
امل نے بھی ٹھانا ہوا تھا کہ وہ کل نہیں اٹھائی گی
"تم اب دیکھنا بس۔۔۔"
اذہان نے کہتے اپنا منہ موڑ لیا تھا
امل کی شرارتی رگ پھڑکی تھی ۔۔اس نے سامنے رکھی ہانی کی باٹل کو دیکھا جو اذہان اپنے ساتھ لایا تھا اور اس نے وہ یخ ٹھنڈا پانی اذہان کے اوپر ڈال دیا تھا اور فوراً بھاگی تھی
اذہان بھی امل کے پیچھے بھاگا تھا
"امل بچ کے دیکھاو تم مجھ سے آج ۔۔۔"
امل ہنستی ہوئی بغیر آگے دیکھے تیزی سے بھاگ رہی تھی
حمدان جو کہ پول کے کنارے کھڑا کال پہ مصروف تھا امل کے ٹکرانے سے ڈسبیلنس ہوا تھا اور پول میں جاگرا تھا اور حمدان کے گرنے کی وجہ سے امل بھی دھڑام پول میں گری تھی
حمدان کو تو swimming آتی تھی تو خود کو اس نے بیلنس کرلیا تھا لیکن امل جسکو swimming نہیں آتی تھی اوپر سے پول کا پانی بھی گہرا تھا ڈوبنے لگی تھی
حمدان نے امل کو فوراً کمر سے پکڑ کر کھینچا تھا اور امل ایک نازک شاخ کی طرح حمدان کی طرف آئی تھی۔۔ امل کے منہ میں پانی چلے جانے کی وجہ سے وہ کھانسنے لگی تھی
امل are you okkay ?
حمدان نے امل کو کندھے سے تھام رکھا تھا نہیں تو وہ پھر پانی میں ڈوب جاتی ۔۔۔۔۔
امل نے کھانسنے کے دوران اپنا سر ' ہاں' میں ہلایا تھا
اسکی جان پہ بن آئی تھی جتنا وہ حمدان سے بچنا چاہ رہی تھی اتنا ہی اسکے سامنے آرہی تھی
امل کو اپنے اندر خوف سرائیت کرتا محسوس ہوا جس سے اسکا پیر پانی میں ہلکا سہ سلپ ہوا تھا اس نے حمدان کے بازو کو پکڑ کر خود کو سنبھالا تھا
اسے پول کے گہرے پانی سے بہت ڈر لگتا تھا اور اوپر سے حمدان کا خوف الگ اور شام کا وقت تھا تو پانی بھی ٹھنڈا تھا وہ کانپنے لگی تھی
حمدان امل کو ہاتھ سے پکڑ کر پول کے کنارے تک لایا تھا
اور پہلے خود باہر نکلا تھا
جب اذہان نے امل کو اپنا ہاتھ دیا تھا
یہ دیکھ کر حمدان کی ْآنکھوں کا رنگ بدل گیا تھا
امل پول کا کنارہ سختی سے تھامے دونوں کو دیکھ رہی تھی
حمدان میں آنکھوں میں اتنا سرد تاثر تھا کہ اذہان نے خود ہی اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تھا اور حمدان نے امل کو اپنا ہاتھ دیا
امل کھبی حمدان کے ہاتھ کو دیکھتی کھبی اذہان کی شکل وہ مشکل میں پھنس گئی تھی حمدان نے اسکے ہاتھ پر ذرا سہ زور دیا جس سے وہ اپنی جگہ سے ہل گئی تھی اس نے فوراً حمدان کا ہاتھ تھاما تھا ورنہ وہ شاید اسے پول میں واپس گرادیتا
امل کا گھائل کردینا والا حسن اوپر سے اسکا بھیگا سراپہ حمدان کو بہکا رہا تھا حمدان نے اپنا آپ کسطرح ۔کنٹرول کیا ہوا تھا یہ وہی جانتا تھا ۔۔۔
حمدان کو اذہان کی موجودگی غصہ دلا رہی تھی اس نے فوراً اپنا کوٹ اتار کر امل کو دیا تھا اور کہا تھا
"اسے پہنو اور جاو چینج کرو "
حمدان نے امل پر سے اپنی نظریں ہٹائیں تھی
امل کو حمدان کا لہجہ تھوڑا سخت لگا تھا اسے بھی یوں حمدان کے سامنے اسطرح awkward لگ رہا تھا اور سب سے بڑھ کر ڈر اذہان نہ جانے کیا سوچ رہا ہوگا جبہی وہ تیزی سے آگے بڑھی تھی اور اسکا پیر مڑا تھا اور وہ نیچے گری تھی
"آہ ہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
امل کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔حمدان ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر امل کے پاس آیا تھا اور اسکا پیر کا معائنہ لیا تھا جس پہ موچ آْگئی تھی ۔۔۔۔
اذہان بھی امل کے پاس آنا چاہ رہا تھا لیکن حمدان برق رفتای سے امل کے پاس گیا تھا
حمدان نے امل کا پیر موڑا تو ایک درد بھری سسکی امل کے منہ سے نکلی تھی
حمدان نے اسے اپنا ہاتھ دیکر اٹھایا تھا اور پھر خود ہی ایک جتاتی نظر اذہان پہ ڈال کر اسے کندھے سے تھام کر اندر کی طرف بڑھا تھا
"امل کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو ایک بار میری بن جاو اپنی تشنگی دیوانگی ۔۔۔تمہیں اپنا بنا کر تم پہ لٹادوں گا ۔۔۔۔کیونکہ میری راہیں صرف تم تک ہیں ۔۔۔۔۔"
حمدان دل میں امل سے مخاطب تھا
"افف یہ کیوں ہر وقت میری راہ میں آجاتے ہیں یا میں کیوں بار بار انکی راہ میں آجاتی ہوں ۔۔۔ٹکرانا بھی انہی سے تھا ہماری راہیں کیوں مل جاتی ہیں "
امل بھی اپنے دل میں مخاطب تھی
"مجھے تم پر افسوس ہورہا ہے ساتھ میں ترس بھی آرہا ہے "
آبرو جو اپنے روم کی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہی تھی فوراً نیچے آئی تھی
"کیا مطلب ہے تمہارا "۔۔۔۔۔۔اذہان ویسے ہی غصے میں تھا اور آبرو اسکو اور بھڑکا رہی تھی
"اب تم اتنے بچے نہیں ہو جو تمہیں سمجھانا پڑے ۔۔۔امل کو یہ نہیں کرنا چاہئیے تھا اسے تمہیں ترجیح دینی چاہئیے تھی پہلے کی بات اور تھی اب وہ تمہاری منگیتر یے لیکن وہ تمہیں نظر انداز کر رہی ہے اسکی فرسٹ priority تمہیں ہونا چاہئیے لیکن وہ تو تمہیں ایسے ٹریٹ کرتی ہے جیسے اب بھی تم اسکے کزن ہی ہو یا جو انسان دودھ میں پڑی مکھی کے ساتھ کرتا ہے ویسے۔۔۔۔سوچنا ضرور میری باتوں کو ۔۔"
آبرو چہرے پہ شاطر مسکراہٹ سجائے وہاں سے گئی تھی
۔۔۔
"امل تمہارا تو میں وہ حال کرونگی کہ تم یاد رکھو گی ہمیشہ"
دل میں کہتی وہ آگے بڑھ رہی تھی
آبرو کی باتوں سے اذہان سخت الجھن کا شکار ہوگیا تھا غصے میں اس نے پول میں جانے اور آنے کے لئے جو اسٹیرئیز تھیں اس پہ زوردار لات ماری تھی
____________________________________
Episode 29
کمرے میں آکر امل نے حمدان سے اپنے ہاتھ چھڑوائے تھے
"آخر مسلہ کیا ہے آپکے ساتھ کیا چاہتے ہیں یہ سب جو ابھی آپ نے کیا کیا مقصد تھا آپکا "
امل نے غصے سے کہا
امل کی باتوں نے حمدان کو غصہ دلایا دیا تھا لیکن صبر کا دامن تھام کر اس نے اسکا کبرڈ کھولا اور ایک ڈریس نکال کر امل کو دیا
"چینج کرو اسے پھر بات کرتے ہیں ۔۔تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں یے بیمار پڑ جاو گی "
"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے آپ جائیں یہاں سے اور مجھے چینج کرنا ہوگا میں کر لونگی "
امل نے اپنے کپڑے پھینکتے ہوئے کہا
"تمہیں پیار کی بات سمجھ نہیں آتی ہے نہ زبردستی ضرور کرنا پڑتی یے "
حمدان نے کہتے ہوئے اسکا ڈریس اٹھایا اور اسے بازو سے پکڑ کر ڈریسنگ روم کی جانب کیا
"تم کیا چاہتی ہو میں چینج کرواو ۔۔۔۔ویسے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تمہیں ضرور ہوگا "
حمدان کی اس شرمناک بات پہ امل ایکدم سرخ پڑی تھی اور اسکی ہاتھ سے اس نے جھپٹنے کے انداز میں کپڑے چھینے تھے اور روم میں بند ہوئی تھی۔۔۔۔۔
"میری بےبی انجیل تو آج جنگلی بلی بن گئی ہے "
حمدان نے اپنے ہاتھ دیکھیں جو امل کے ناخن لگنے سے ہلکا سہ سرخ ہوگیا تھا
وہ فوراً اپنے کمرے کی جانب بڑھا کہ جب تک امل واپس آئی گی وہ بام لے آئے گا
_______________
امل جب چینج کر نکلی تو حمدان کو ٹہلتا پایا اس نے بھی چینج کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کیوں برے سایہ کی طرح ہر وقت میرے سر پہ منڈالیتے رہتے ہیں "
امل شدید زچ ہوئی تھی
"یہ محبت کا سایہ ہے برا سایہ نہیں ہے اور یہ سر پہ نہیں دل پہ اثر کرتا ہے"
حمدان نے اسے کندھے سے تھام کر بیڈ پہ بٹھانا چاہا
اس نے حمدان کے ہاتھ جھڑک دئیے تھے
"ڈونٹ ٹچ می "۔۔۔۔۔۔۔
حمدان کو غصہ آیا تھا لیکن وہ پھر یہ سوچ کر کہ وہ کونسا ابھی کوئی حق رکھتا ہے صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا
حمدان نے اسے نظر انداز کرتے بیڈ کے نیچے بیٹھا اور امل کے پیر زبردستی اپنے گھٹنے پہ رکھے اور اس پہ بام لگانے لگا
امل نے بھی مزحمت چھوڑ دی تھی اور یہ سوچنے لگ گئی کہ اذہان بعد میں تو آسکتا تھا لیکن نہیں آیا اسے حمدان کی آنکھوں میں شدت نظر آتی تھی اور جبکہ اذہان اسے نارمل ہی ٹریٹ کرتا تھا
حمدان نے بام لگا کر اپنے ہینڈز واش کئے اور امل سے کہا
"پہن کلر لے لینا ورنہ درد بڑھ سکتا ہے "
"آپکو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں یے "
امل کو اس وقت سب کچھ بہت برا لگ رہا تھا
"میری تمام ضرورتیں تم سے منسلک ہیں اب "
حمدان نے خود کو کول کرتے ہوئے کہا
"آپ زبردستی محبت نہیں کراسکتے مجھ سے"
امل کو اسوقت نفرت محسوس ہورہی تھی
"میں زبردستی کب کر رہا ہوں اگر زبردستی ہی کرنی ہوتی نہ مجھے تو میں محبت نہیں کرواتا بلکہ تم سے نکاح پڑواتا "
حمدان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"آپ کے دماغ میں یہ سب چل رہا ہے ۔۔آپ کونسا گیم کھیل رہیں ہیں ۔۔۔۔۔ایک بات یاد رکھیے گا آپ مجھ سے یوں زبردستی نہیں کرسکتے ہیں ۔۔اگر آپ نے نکاح کرا نہ زبردستی تو مجھے حاصل کر کے بھی حاصل نہیں کر پائیں گیں میری روح تک کھبی نہیں پہنچ ہائیں گیں آپ کی بس ہوس پوری ہوسکتی یے "
امل نے اٹھتے کہا ۔۔۔۔۔
حمدان کو اب شدید غصہ آگیا تھا اس نے امل کا ہاتھ موڑ کر اسکی کمر کے پیچھے کیا اور غصے سے اسے گھورا
"یوں ہرٹنگ می "۔۔۔۔۔۔امل نے درد سے کراہتے کہا
حمدان نے اسکی آنکھ میں آنسو دیکھے تو اپنی گرفت نرم کردی لیکن چھوڑا نہیں اور اسے پیچھے کرتے دیوار سے لگا دیا تھا
"اور جو میں ہرٹ ہورہا ہوں تمہاری باتوں سے اسکا کیا۔۔میں کتنا تڑپتا ہوں جب تمہیں اذہان کے ساتھ دیکھتا ہوں یا وہ تمہیں دیکھتا یے ۔۔۔تمہیں کچھ اندازہ نہیں ہے اور میں کوئی گیم نہیں کھیل رہا ہوں اور مجھے ہوس نہیں ہے سمجھی تم میں آخری بار کہ رہا یوں میری محبت کو رسوا نہ کرو "
حمدان نے بے بسی سے دیوار پہ مکہ مارتے کہا
"چھوڑیں مجھے آپ کیا کر رہیں ہیں "۔۔۔۔امل نے خود کو چھڑانا چاہا
"چھوڑ ہی تو نہیں سکتا میں تمہیں "۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے اپنی لال آنکھوں سمیت کہا
"آپ کوئی حق نہیں رکھتے مجھے پکڑنے کا "
امل نے خود کو چھڑانے کی کوشش جاری رکھی تھی
تو وہ اذہان حق رکھتا یے ۔۔۔ اسکا چھونا بہت اچھا لگتا ہے "
حمدان نے اپنا ہاتھ دیوار سے ہٹا کر امل کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اسکا چہرہ قریب کیا اسکے پکڑ میں دوبارہ سختی آگئی تھی
"میں نے کہا چھوڑیں مجھے آپ ہرٹ کر رہیں ہیں مجھے پلزززز چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔امل نے اپنا پورا زور لگا کر کہا
حمدان نے جھٹکے سے اسے چھوڑا اور کہا۔۔۔"چھوڑدیا لیکن صرف فیلحال "
حمدان کہتا ہوا سرخ آنکھیں لے کر اسکے کمرے سے گیا تھا
اذہان جس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تھا تو وہ امل کو دیکھنے آیا تھا حمدان کو غصے سے جاتا ہوا اس نے دیکھ لیا تھا اور فوراً امل کے کمرے میں آیا تھا
امل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ امل کے پاس آیا تو اسکی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر رہے تھے اسکا ہاتھ بھی سرخ تھا
"کیا ہوا ہے "۔۔۔۔ اس نے سوال کیا
"جاو یہاں سے مجھے ابھی کسی سے کوئی بات نہیں کرنی جسٹ گو فرام ہیئر "
امل اپنی آنکھیں مسلتے اذہان پہ چیخی تھی
"امل کیا ہوا ہے مجھ پر کیوں چیخ رہی ہو ۔۔۔۔آو ہم لانگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں "
اذہان نے امل کے بگڑتے موڈ کو دیکھ کر اسکا ہاتھ پکڑتے کہا
"مجھے کہیں نہیں جانا ہے ۔۔۔بس تم جاو یہاں سے مجھے اکیلا رہنا ہے مجھے نیند آرہی ہے جاو۔"
امل نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کی جانب دھکیلا
"ارےےےےے ۔۔۔امل ۔۔بات تو سنو ۔۔کیا ہوا ہے اچانک "
اذہان باہر جاتے جاتے بھی پوچھ رہا تھا
امل کو اسوقت کچھ سمجھ نہیں آریا تھا کہ وہ کیا بول رہی ہے
امل نے اذہان کو باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا تھا
"امل ۔۔۔اذہان نے دورازہ پیٹا۔۔۔۔
"حد ہوگئی ہے میں جتنا پیار سے بات کر رہا ہوں تم اتنا روڈ ہو رہی ہو اور حمدان جو ابھی گیا تھا یہاں سے اسے بھی اسی طرح نکالتی نہ اس سے تو سہی بات کر رہی تھی تم اور نہیں کرنی بات تو نہ کرو مجھے بھی نہیں کرنی رہو اکیلی سڑو ۔۔۔۔ "
اذہان کو بھی غصہ آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
امل دروازے سے ٹیک لگا کر ہی بیٹھ گئی تھی
"یہ سب کیا ہورہا ہے "
سوچ سوچ کو اسکا دماغ سن ہورہا تھا ۔۔۔وہ دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی اور بے آواز آنسو بہانے لگ گئی تھی
________________________________
"چھوٹی ماما آپ اس وقت کچن میں خیر تو یے "
حمدان نے صدف بیگم کو دیکھتے کہا
"کیا بتاو بیٹا یہ لڑکی اپنا خیال کہاں رکھتی یے خود سے بلکل لاپروا ہے کیا بنے گا اسکا اچھا خاصہ بخار اتر گیا تھا لیکن میں نے ابھی دیکھا ہے تو ١٠٠ ڈگری ہوگیا ہے ۔۔۔
میں نے پوچھا تو کہ رہی تھی کہ شام میں پول میں گر گئی ہے بس اسی کو یہ گرم دودھ دینے جا رہی ہوں "
صدف بیگم نے حمدان کو تفصیلی جواب دیا
"آپ مجھے دے دیں ۔۔۔میں دے دیتا ہوں ۔۔۔"
حمدان نے ان سے کہا ویسے بھی وہ امل سے بہت سختی سے پیش آیا تھا اس کی تو کوئی غلطی نہیں تھی بس وہ مجبور ہوگیا تھا اپنی محبت کے آگے اسے یہ اچھا موقع لگا تھا امل سے excuse کرنے کا ۔۔۔۔
"تمہیں زحمت ہوگی حمدان میں دے دونگی "
صدف بیگم نے اسکا خیال کرتے کہا
"زحمت کیسی میں اوپر اپنے روم میں ہی جا رہا ہوں اور امل کا کمرہ پہلے پڑتا ہے میں دے دونگا کوئی زحمت نہیں ہے ویسے بھی آپکا روم نیچے یے آپ کا اوپر نیچے کا چکر ہوجائے گا"
حمدان بہت تحمل سے بات کر رہا تھا
"چلو ٹھیک ہے بیٹا لے جاو اور خوش رہو "
صدف بیگم نے اسے دعائیں دیں ۔۔۔۔انہیں حمدان بہت پسند تھا اور دل میں انہوں نے امل کے لئے حمدان کو سوچا تھا لیکن وہ خود سے کیسے کہ سکتی تھی اور جب شانزہ بیگم نے ان سے امل کا ہاتھ مانگآ تو وہ انکار بھی کیسے کرتیں ۔۔۔۔
یہ سوچتی وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی
"آپ آگئی امل کے پاس سے "
حنین صاحب نے ان سے کہا
"حمدان نیچے ہی تھا تو وہ لے گیا ہے اسے دے دیگا "
انہوں نے جواب دیا
"اچھا آپ لائیٹ آف کردیجئے گا ذرا"
حنین صاحب نے لیٹتے ہوئے کہا
وہ بھی لائیٹ آف کر کے انکے برابر میں آکر لیٹ گئی تھیں
"حنین ۔۔۔انہوں نے آواز دی
"جی ۔۔۔انہوں نے صدف بیگم کی طرف کروٹ لیتے کہا
"کتنا اچھا ہوتا نہ اگر امل حمدان سے منصوب ہوجاتی میرا مطلب ہے کہ حمدان کا کتنا سلجھا ہوا سنجیدہ بچہ ہے mature ہے ۔۔۔ذمہدار ہے۔۔۔۔۔ اذہان تھوڑا غیر سنجیدہ ہے لاپرواہ ہے نہ اور امل بھی تو لاپروا ہے اپنا ہوش کہاں ہوتا یے اسے "
انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا
"کہ تو آپ ٹھیک رہیں ہیں لیکن کہا جاتا یے نہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں شاید امل کا نصیب اذہان ہوگا ۔۔۔۔خیر وقت کے ساتھ وہ ٹھیک ہوجائے گا آپ پریشان نہ ہو اور سو جائیں ۔۔۔
حنین صاحب نے انہیں مطمئن کیا
وہ بھی قسمت پہ چھوڑتی لیٹ گئی تھیں
__________________________________
حمدان نے امل کا کمرہ ناک کیا تھا اور انتظار یار میں کھڑا ہوگیا تھا
"اس وقت کون آگیا "امل بالوں کا جوڑا بناتی دروازے کھولنے کے لئے بڑھی تھی
"آپ ۔۔۔!!!
امل نے حمدان کو دیکھتے دروازہ دوبارہ بند کرنے کی کوشش تھی لیکن حمدان نے اپنا پیر آڑا کر اسکی کوشش کو ناکام بنایا تھا
"امل چھوٹی امی نے تمہارے لئے دودھ بھیجا ہے اسے تو لے لو "
حمدان نے اسے کہا
امل نے اسکے ہاتھ سے دودھ کا گلاس لیا اور پھر دروازہ بند کرنے لگی تھی لیکن حمدان اندر آگیا تھا
"اب کیا مسلہ ہے آپکے ساتھ۔۔۔ جائیں یہاں سے۔۔۔۔"
امل سخت کوفت کا شکار تھی
"یہ دودھ پی لو میں چلا جاو گا "
حمدان نے نرم لہجے میں کہا
"میں پی لوں گی آپ جائیں ۔۔۔۔امل نے دوبارہ کہا
"ہاں تو تم اسے پی لو میں چلا جاوں گا "۔۔۔حمدان نے اپنی بات دہرائی
"کتنے ضدی انسان ہیں آپ "۔۔۔۔۔امل نے گلاس لبوں سے لگاتے کہا
"یہی تو الجھن ہیں ہمارے درمیان امل کہ مجھے تمہیں پانے کی ضد ہے اور تمہیں میری ضدوں سے نفرت ہوگئی یے "
حمدان نے بھاری لہجے میں کہا
امل حمدان کو دیکھنے لگ گئی تھی وہ اپنا آپ ہارتا محسوس کر رہی تھی یہ دل تو پہلے سے حمدان کے جزبات کو جانتا تھا بس اقرار سننا چاہتا تھا لیکن جب اس نے اقرار کیا تو دیر ہوگئی تھی
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو دودھ ختم کرو یا تم چاہتی ہو کہ میں نہ جاوں "
حمدان نے امل کو کہا
امل نے کنفیوز ہو کر نظریں نیچے کریں اور ہوش میں آکر سارا دودھ ایک سانس میں ختم کیا
"می۔۔۔۔میں ن۔۔۔۔نے پ۔۔۔۔پی ل۔۔۔۔۔لیا ہے۔۔۔۔ ا۔۔۔۔اب آ۔۔۔پ جائ۔۔۔جائیں "
امل نے ہکلاتے کہا ورنہ حمدان کی نظروں نے اسکا تنفس تیز کردیا تھا
لیکن حمدان جانے کے بجائے اسکی جانب بڑھ رہا تھا
امل نے اسے خود کی جانب بڑھتا دیکھا تو اپنے قدم پیچھے لئے "آ۔۔۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔می۔۔۔میرے ۔۔۔پا۔۔۔۔پاس۔۔۔۔نہی.۔۔نہیں ۔۔آٙی۔۔۔آئیں۔۔۔
امل کو ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔حمدان نے اسے ڈرتا دیکھا تو خود کو وہیں روک کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر کر لئے
"امل مجھ سے ڈرو نہیں میں کوئی لٹیرا نہیں ہوں ۔۔۔ریلکس میں نہیں آرہا ہوں تمہارے پاس میں نہ ہی تمہیں ٹچ کر رہا ہوں اچھے سے جانتا ہوں کہ کوئی حق نہیں رکھتا تم پر ابھی ۔۔۔
تم جانتی ہوں میں نے خود سے عہد کیا ہے اب تمہارے نزدیک جب تک نہیں آوں گا جب تک تم پر حق نہیں رکھتا اپنی محبت کو یوں پامال نہیں کرسکتا اس پاک رشتے کا تقدس جانتا ہوں"
بس تم اپنی مونچھیں صاف کرلو ۔۔۔۔
حمدان نے مسکراہٹ روکتے کہا۔۔۔۔اسے اپنی اور امل کی پہلی ملاقات یاد آگئی تھی
"امل نے بگڑتے موڈ کےساتھ جھٹ اسے صاف کیا اور اچانک ایک قدم پیچھے لیا تو بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے ٹکرائی تھی اسکے پیر میں جھٹکا آیا اور وہ کراہتی بیڈ پر بیٹھی تھی
حمدان فوراً اسکے پاس آیا لیکن کچھ فاصلہ پر رک گیا
"تم نے پین کلر نہیں لی ہے نہ "۔۔۔۔حمدان کو نہ چاہتے ہوئے بھی غصہ آیا تھا لیکن ابھی غصے نہیں بلکہ اسے دوائی دینا ذیادہ اہم تھا۔۔۔۔
امل نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اپنا سر جھکالیا تھا
"صحیح کہتی ہیں چھوٹی امی تمہیں اپنا ذرا خیال نہیں ہے بلکل بچی ہو تم "۔۔۔۔۔۔
حمدان کے انداز میں اس کے لئے فکر جھلک رہی تھی
"یہ لو کھاو اسے ابھی "۔۔۔۔۔۔۔حمدان نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا
"آپ ہر وقت اینگری مین کیوں بنے رہتے ہیں لگتا یے لندن میں صرف مرچیں ہی کھائیں ہیں ۔۔جب دیکھو تھیکا کہتے ہیں ۔۔۔"
امل نے بلکل بچوں کی طرح منہ پھلایا لیا تھا
امل کے اس انداز میں حمدان مسکرائے بنا نہ رہ سکا
"تو تم کام ہی ایسا کرتی ہوں کہ مجھے غصہ آجاتا یے اور میٹھا بولو تو تمہیں پسند نہیں آتا تھیکا کہنے پہ بھی اعتراض ہے اور یقیناً کڑوا کہوں گا تو وہ بھی پسند نہیں آئے گا۔۔۔"
حمدان کا لہجہ انتہائی نرم تھا
ہاہاہا۔۔۔۔امل اسکے انداز میں ہنس پڑی تھی ۔۔۔۔
"یہ کھانے کی ڈشز نہیں ہے جو کڑوا یا میٹھا ہوگا ۔۔۔۔۔"
امل نے مسکراتے کہا
اور حمدان اسکی مسکراہٹ میں کھو گیا تھا
امل نے اسے یوں دیکھا تو اسکی ہنسی ایکدم غائب ہوئی اور وہ ہوش میں آئی
"اب آپ جائیں ۔۔۔کوئی آ نہ جائیں اور غلط سمجھ نہ سمجھے آپ میرا کردار مشکوک کر رہے ہیں "
امل نے اسے باہر کی راہ دکھائی
"میں کردار مشکوک کر رہا ہوں میں یہاں بس تم سے excuse کرنے آیا تھا میں ہارش ہوگیا تھا تم سے اس وقت لیکن میں ہر گز ایسا نہیں چاہتا تھا"
حمدان نے اسے دیکھتے کہا
"آپ نہیں چاہتے جب تو کیوں کر رہے ہیں ایسا آپ کو پتہ یے آبرو مجھے کس طرح دیکھتی ہے جیسے میں نے اس کی کوئی چیز چرالی یے اسکی وجہ آپ ہے اور آپ اذہان کے سامنے ایسا پیش آتے ہیں جیسے ہمارے درمیان کچھ یے "
امل نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوئی تھی
"کچھ تو ہے امل ہمارے درمیان اور رہی بات آبرو کی تو تم اسکو ذیادہ سوار نہ کرو وہ خود عجیب لڑکی یے "
حمدان چلتے چلتے امل سے دو قدم دور کھڑا ہوگیا تھا
"تم جانتی ہو امل یہ جو محبت ہوتی ہے نہ یہ انسان کو مجبور کردیتی یے کہ وہ صرف اور صرف اپنی محبت کے بارے میں سوچے شراکت برداشت نہیں یے اسے میں جب تم سے دور ہوتا ہوں ہر لمحہ ہر پل تمہیں ہی سوچتا ہوں کھبی جو تمہاری یاد سے غافل ہوجاوں ایسا نہیں ہوسکتا میرا دل تمہارے معاملے میں شدت پسند ہے جو میرا ہے وہ مجھے مکمل چاہئیے اور میں جانتا ہوں میں یہ جو یہ سب کر رہا ہوں تم ہرٹ ہو رہی ہوں لیکن میں بھی تڑپ رہا ہوں میں بھی بے چین ہوں "
حمدان بھاری لہجے میں کہ رہا تھا
امل سن کھڑی سامنے دیکھ رہی تھی حمدان نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اذہان کو کھڑا پایا ۔۔۔۔۔
"حمدان تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟
اذہان نے اس سے پوچھا
وہ ناجانے کیا سن چکا تھا امل کچھ اخذ نہیں کر پارہی تھی
"یہی سوال میں اگر میں تم سے کروں تو "؟؟
حمدان نے الٹا سوال کیا
"میں کمرے کی جلتی لائیٹ دیکھ کر آیا تھا "
اذہان نے اسے بتایا
"تو دیکھ لی لائیٹ "
حمدان نے اس سے کہا
"حمدان تم بات کو گھماو نہیں میرے سوال کا جواب دو جو یہ ہر گز نہیں ہے "۔۔۔۔۔۔۔۔اذہان نے اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ملاتے جواب دیا
"میں یہاں ۔۔۔ہاں میں امل کو کمپنی دینا آیا تھا "
حمدان نے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھتے جواب دیا
"کمپنی آدھی رات کا پہر گزرنے والا ہے اس وقت کمپنی یہ کونسا وقت یے "
اذہان نے ایک نظر حمدان کو دیکھا پھر امل کو
امل کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا کہا ہے حمدان نے ابھی اتنی جلدی گرگٹ بھی رنگ نہیں بدلتا جتنی جلدی حمدان نے بدلا ہے
"اذہان۔۔۔۔۔۔میں نے نہیں بلایا انہیں ۔۔۔۔۔۔۔امل نے بس ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ حمدان نے اسکی بات کاٹ کر کہا
"کیا ہوگیا یے اذہان میں تو امل کو اکثر کمپنی دیتا ہوں بس آج تم نے ڈسٹرب کردیا یے "
حمدان نے امل سے نظر چراتے کہا
"تو میں نے ڈسٹرب کردیا یے اووو سوری میں پھر چلا جاتا ہوں ۔۔۔You keep carry on
اذہان کہتا کمرے سے واک آوٹ کرگیا تھا ۔۔۔۔۔۔حمدان بھی اسکے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔۔۔
امل نے اپنا سر پکڑ لیا تھا یہ کیا کیا ہے حمدان نے
آپ یہ کیسے کرسکتے ہیں ۔۔۔۔کس گناہ میں شراکت دار بنادیا ہے جو میں نے کیا نہیں یے "
سوچ سوچ کو وہ پاگل ہورہی تھی
__________________________________
Episode 30
"اذہان ۔۔۔۔"
حمدان اسکے پیچھے آیا تھا
"تم یہاں کیوں آئے ہو ؟؟۔۔۔۔۔۔۔اذہان نے اسے جواب دیا
"تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو جیسے میں کوئی ملزم ہوں خیر مجھے صفائی کا ایک موقع تو ملنا چاہئیے"
حمدان نے اس سے کہا
"تم امل کو پسند کرتے ہو۔۔۔۔؟؟اذہان نے براہراست سوال کیا کیونکہ وہ آخر کے چند جملے سن چکا تھا
"اگر میں کہوں ۔۔"ہاں "۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔حمدان نے کہا
"اذہان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے حمدان مذاق کر رہا تھا یا سنجیدہ تھا اسے اندازہ لگانا مشکل لگ رہا تھا
اذہان کے چہرے پہ ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا
"کیا ہوا یہ چہرے کا رنگ کیوں اڑ گیا یے "۔۔۔حمدان نے اس سے کہا
اذہان نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔
"مجھے چھوڑو تم بتاو تمہیں امل سے محبت کرتے ہوں "؟؟
حمدان نے سوال کیا
"پتہ نہیں ۔۔۔۔محبت کیا ہوتی یے مجھے نہیں معلوم اور امل سے محبت شاید ابھی تو نہیں یے میرا اس سے رشتہ الگ سہ ہے ہم لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں پھر ناراض ہوجاتے ہیں پھر بات کرنے کے لئے ترستے ہیں وہ مجھ سے منسلک ہے تو میرے تک محدود رہیں اب شاید یہی ہوتی ہے محبت "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذہان نے اس سے کہا
"آو میرے اسٹڈی روم میں چلتے ہیں وہاں کرتے ہیں بات "
حمدان اسے کندھے سے تھام کر اسٹڈی روم کی جانب لے کر گیا رھا جہاں وہ اپنے آفس کا کام کرتا تھا
"تم جانتے ہو محبت اس دنیا کی سب سے خوبصورت اور نہایت پیاری چیز یے جسے نہ تو دیکھا جاسکتا ہے نہ محسوس کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے دل میں محسوس کیا جاتا یے …….
یہ وہ احساس ہے جو لامحدود ہوتا ہے یہ آپکو اندر سے خوش کرتا ہے جب آپ کسی کو چاہتے ہو آپ کو اس کے گرد سکون اور آرام ملتا ہے اسکی تکلیف ہمیں محسوس ہوتی ہے ہمارا دل ایک الگ ساز میں دھڑکتا ہے وہ جب ہم سے دور ہوتا ہے تو ہم بےچین بےتاب رہتے ہیں ۔۔۔۔۔
اگر آپ کسی کو چاہتے ہو اسے ہمیشہ چاہتے ہو اور وقت کے ساتھ یہ چاہت بڑھتی ہی ہے یہ جاننے کے باوجود بھی کہ وہ آپکو اس نظر سے نہیں دیکھتا۔۔۔ آپ اس سے محبت کرتے ہو کیونکہ آپکا دل چاہتا ہے اس لئے نہیں کہ آپکو امید ہو کہ کچھ دن بعد وہ بھی آپکو چاہے گا آپ اسے چاہتے ہو کیونکہ آپ کے احساسات اس کے کئے بلکل پاک سچے اور گہرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"
آیا سمجھ کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟تم کیا ایسا محسوس کرتے ہوں امل کےلئے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔حمدان نے اپنی بات کی آخر میں سوال کیا۔۔۔۔۔
اذہان کے سر کے اوپر سے گزری تھی یہ باتیں ۔۔۔۔۔
"ایک راز کی بات بتاوں ۔۔۔۔"حمدان اسکے قریب آیا
"کیا "۔۔۔۔۔وہ بے ساختہ بولا ۔۔۔۔۔۔
"ایسا ہی کچھ امل اور میرے درمیان ہے"۔۔۔۔۔حمدان نے اسکے کان میں سرگوشی کی
"مطلب ۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔اذہان سخت الجھ گیا تھا
"میرے خیال سے امل کنفیوز یے مطلب تم میں اور مجھ میں وہ الجھن کا شکار ہے اسکا دماغ ڈبل مائینڈ ہوگیا ہے وہ مجھے پسند کرتی ہے ۔۔۔۔۔وہ ایک پل کےلئے رکا تھا لیکن مان نہیں رہی ہے یا شاید تمہیں کرتی ہوگی ۔۔۔۔۔
حمدان فائیل الٹ پلٹ کر کے کہ رہا تھا
"تمہارے اور امل کے درمیان آخر چل کیا رہا ہے حمدان ۔۔کیوں پہیلیوں میں بات کر رہے ہو صاف صاف کہو "
اذہان کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا
"یہ میں بھی نہیں جانتا کوئی نام وام ہی نہیں ہے اسکا کچھ۔۔ سب سے بڑھ کر کوئی ثبوت نہیں ہے "
حمدان اسکو الجھانے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا
"جھوٹ کہ رہے ہو تم "۔۔۔۔۔اذہان نے کہا
"میں تمہیں یہ کھبی نہیں بتاتا لیکن میں کیا کروں وہ ہم دونوں کے درمیان بٹ گئی ہے اسے ایک طرف ہونا ہوگا لیکن وہ اب مکر رہی ہے"
حمدان نے دوسری فائیل اٹھاتے کہا
"اسے مکرنے کی کیا ضرورت ہے وہ منع کرسکتی ہے اختیار ہے اسکے پاس"۔۔۔۔
اذہان حمدان کی باتوں میں بہت حد تک آچکا تھا
"ڈر رہی ہوگی وہ کہنے سے ۔۔۔۔وہ ہم دونوں کو بےوقوف بنا رہی ہے ہمارے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے مجھے تو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے سو کنفیوزڈ ہوں میں ۔۔۔۔"
حمدان اذہان کے گرد گھومتا کر کہ رہا تھا
"وہ ایک مشرقی لڑکی ہے نہ کیسے کہے گی وہ لیکن ہم دونوں کے ساتھ بھی تو یوں نہ کریں نہ وہ "
اس نے اپنی بات جاری رکھی
"لیکن اس نے کہا تھا کہ آپ خود گئے تھے اس کے کمرے میں وہ جھوٹ کیوں بولی گی"
اذہان ہلکا سہ چیخا تھا
"تمہیں غصہ آرہا ہے نہ۔۔۔۔ مجھے اس سے بھی ذیادہ آتا یے وہ مجھے جب دیکھتی ہے میں بے خود ہوجاتا ہوں اپنا ہوش نہیں رہتا اور جب اسکے پاس جاتا ہوں تو وہ دور بھاگتی ہے مجھ سے ۔۔۔۔۔۔
وہ نہ اصل میں فیصلہ نہیں کر پارہی ہے میں یا تم "
حمدان نے اپنے گھومتے قدموں کو روک کر اس پہ انگلی کا اشارہ کرتے کہا
"آپ اسے اپنالے "۔۔۔۔۔اذہان کو یہ کہنے میں کچھ بھی درد محسوس نہیں ہوا تھا
"کیسے اپنا لوں وہ تم سے منگنی توڑے جب اپناوں گا نہ پھر اس بات کی ضمانت بھی تو دے وہ کہ میری بن کر رہیگی مجھے سوچے گی "۔۔۔۔۔۔۔
حمدان نے دوبارہ فائیل اٹھا لی تھی اور اچانک اسکے ہاتھ سے فائیل گری تھی
اذہان بھی جھکا تھا اسے اٹھانے لیکن امل کی تصویر کو دیکھ کو چونک گیا تھا جو اس میں سے گری تھی وہ کچھ کہتا حمدان نے جلدی سے فائیل اٹھالی تھی اور اسکی طرف دیکھ کر ہلکا سہ مسکرایا تھا
وہ جو دیکھانا چاہتا تھا وہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔
"تم سوچنا ضرور اس بارے میں کیا تم اسطرح رہ سکتے ہوں
You know what am i trying to saying
ایک بٹے ہوئے ذہن یا منتشر دماغ کے ساتھ "
حمدان نے اسکا کندھا تھتھپاتے کہا
"میں چلتا ہوں ابھی ۔۔۔"
اذہان بغیر کچھ کہے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا
اور کمرے میں آکر سب چیزیں بکھیر دیں تھی
"امل کیا کر رہی ہو یہ سب تم ایسی تو نہیں ہو ۔۔۔۔۔مجھے ایک مرتبہ اس سے بات کرنا چاہئیے ۔۔۔۔"
اذہان سوچتا کمرے کی بالکنی میں آگیا تھا اس وقت اسکا ذہن میں حمدان کی بات آبرو کی بات گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________________
"امل یہ سب کہ کر مجھے بے انتہاء تکلیف ہوئی ہے میں بھی ایک اذیت سے گزرا ہوں لیکن میرا وعدہ ہے تم سے کہ میں سب ٹھیک کردونگا ابھی محبت کی تقدس کی بات کر رہا تھا اور ابھی سب پر پانی پھیر دیا ہے "
حمدان بڑبڑاتا اپنے کمرے میں گیا تھا ۔۔جہاں سعد نیند میں مدہوش اپنی آنکھوں کو مسلتا اٹھ بیٹھا تھا
"حمدان کہاں گئے تھے میں کب سے انتظار کر رہا ہوں میں ابھی آنے والا تھا تمہیں دیکھنے"
سعد نے اس سے کہا
"وہ میں ۔۔۔بس۔۔۔ وہ۔۔۔" حمدان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے
"کیا بول رہا ہے چھوڑ اسے اور میری سن ۔۔۔تجھ سے ٹھیک سے بات ہی نہیں ہو پارہی ہے آجکل تم پتہ نہیں کہاں غائب رہتے ہو اس کی وجہ امل تو نہیں ہے "
سعد نے آخر میں تشویش ناک لہجہ اپنایا
"تمہیں کیا بات کرنی ہے وہ بولو "۔۔۔۔حمدان نے سعد کی طرف سے اپنا رخ تبدیل کرتے ہوئے کہا
"میں یہ کہ رہ تھا کہ ہمیں لندن جانا یے یاد یے نہ تجھے کب جانا یے میں ٹکٹس بک کرواوں ۔۔۔۔۔۔اور کچھ آفس کے معاملات ڈسکس کرنے تھے لیکن تو تو پتہ نہیں کونسی دنیا میں رہتا ہے "
سعد نے جمائی لیتے کہا
"تم ایک کام کرو تین دن بعد جو فلائٹ ملے اسے بک کرادو "
حمدان نے اپنے موبائیل پہ میسج ٹائپ کرتے کہا
"میرے کام کا کیا بنا جو کہا تھا "
میسچ سینڈ کرنے کے بعد وہ سعد کی جانب متوجہ ہوگیا تھا
"ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں کل پھر اور تم بھی سوجاو اتنی رات ہوگئی یے "
سعد نے واپس لیٹتے ہوئے کہا
"ہاں میں بھی سو رہا ہوں "۔۔۔۔۔وہ سعد کو جواب دیتا دوبارہ موبائیل پہ متوجہ ہوگیا تھا
میسج کی ٹون بجی تو حمدان نے فوراً انبکس آن کیا
"سر کام ہوگیا یے آپکا۔۔۔ میری نظر عقاب کی طرح یے اس پر ۔۔بس مجھے موقع کا انتظار یے "
میسج پڑھ کر ایک دلفریب مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھوئی تھی اور وہ بھی لیٹ گیا تھا لیکن نیند روٹھی ہوئی تھی اس نے ناجانے آج کیا کیا امل کے بارے میں کہا تھا ۔۔۔نیند کیسے آسکتی تھی اسے
_____________________________
"اذہان تم اس وقت جاگنگ کرنے گئے تھے "
شانزہ بیگم نے اسے پسینے میں شرابور دیکھا تو کہا
"وہ موسم اچھا تھا اس وجہ سے ابھی گیا ہوں "
اس نے انکی جانب دیکھتے کہا
"یہ کیا وجہ ہوئی صبح اچھا لگتا ہے یہ سب دس بج رہے ہیں اور تم اسوقت جاگنگ پہ گئے تھے تمہاری آنکھ نہیں کھلی ہے نہ۔۔۔۔امل تم نے اٹھایا نہیں اسے آج جلدی اٹھنا تھا "
شانزہ بیگم نے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اذہان کو جب جلدی اٹھنا ہوتا تو امل ہی اٹھاتی تھی
"وہ ۔۔۔۔۔"۔۔۔۔۔۔۔
امل جو مرتضی کے لئے کافی بنا رہی تھی لیکن اسکی سارے اٹینشن اذہان پر ہی تھی اچانک بات کا رخ اسکی جانب مڑا تو وہ گڑبڑا گئی تھی
"رہنے دیں ماما مجھے کسی ضرورت کی نہیں یے اٹھنے کے لئے "
اذہان نے تڑخ کر کہا
شانزہ بیگم اسکی سنجیدہ شکل غور سے دیکھنے لگ گئی تھی
مرتضی جو کاونٹر پہ لگی چئیر پہ بیٹھا ہوا تھا امل کو دیکھ کر کہا۔۔"ایک دن اٹھایا نہیں تم نے تو اسکا حال دیکھو "
امل مرتضی کی بات پہ مسکرا بھی نہ سکی
"بوا میرے لئے ذرا ملک شیک بنادے "
اذہان نے لاونج میں صوفے پہ نیم دراز ہوتے ہوئے کہا
بوا نے ہارلکس کے ڈپے کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر بولیں "بیٹا ہمیں تو یہ ماڈرن دودھ کا شربت بنانا نہیں تھا "
امل بٹیا تم بنادوں ۔۔۔۔۔۔بوا نے امل کی جانب ڈبہ بڑھایا تو امل نے جھٹ سے لیا
اذہان جو یہی دیکھ رہا تھا فوراً آیا اور امل کے ہاتھ سے ڈبہ لیا اور خود بنانے کے لئے آگے بڑھا۔۔۔
"بوا اسے بنانا بہت آسان ہے کچھ نہیں کرنا ہوتا بس ایک گلاس میں پانی ڈالتے ہیں "۔۔۔۔کہتے ساتھ اس نے ڈالا بھی اور پھر یہ
اس نے ہارلکس نکال کر ڈارئیکٹ پانی میں مکس کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔
امل اسے روکنا چاہ رہی تھی لیکن اسکا سرد تاثر دیکھ کر وہ کچھ کہ نہیں پائی
مرتضی کافی کے گھونٹ حلق میں اتارتا غور سے ان دونوں کے ایکسپریشن ملاحظہ فرما رہا تھا
"دیکھا بوا بن گیا کتنا سمپل ہے "۔۔۔۔۔۔کہتے ساتھ اذہان نے گلاس لبوں سے لگایا تو اسکو اندر اپنے اندر کڑوا پن گھلتا نظر آیا
اسکی شکل عجیب سی بن گئی تھی لیکن انا آڑے آرہی تھی تو اس نے کسی طرح سے اسے اپنے اندر اتارا اور ایک جتاتی نظر امل پہ ڈالی کہ وہ اسکے بغیر بھی کچھ کرسکتا یے
"لوگ سمجھتے ہیں مرتضی کہ انکے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا واٹ آ جوک ۔۔۔۔"
اذہان نے مرتضی کو دیکھتے کہا
خیر میں آتا ہوں فریش ہوکر جاتے وقت وہ اپنے ساتھ پانی کی باٹل لے جانا نہیں بھولا تھا
"امل تم آج یونی نہیں گئی "۔۔۔۔انعمتہ بیگم نے پوچھا
"بڑی ماما آج لیٹ جانا یے "۔۔۔اس نے جواب دیا
"تو کیسے جاو گی ڈرائیور تو صبح چلا گیا ہے "
شانزہ بیگم نے کہا
"اذہان کے ساتھ چلی جانا تم "۔۔۔۔۔انعمتہ بیگم نے اسکی مشکل حل کی ۔۔۔
سیڑھیوں سے اوپر جاتے اذہان نے یہ سن لیا تھا لیکن اس نے کہا کچھ نہیں تھا کیونکہ وہ امل سے بات کرنا چاہتا تھا
"یہ اذہان کو کیا ہوا ہے "۔۔۔۔مرتضی نے امل سے کہا
"مجھے کیا پتہ "۔۔۔۔امل نے اپنے ہاتھ جھاڑے
"تم کچھ چھپا رہی ہوں نہ امل "۔۔مرتضی نے نوٹ کیا تھا وہ کچھ دنوں سے خاموش رہنے لگی ہے پہلے کی طرح مستیاں ہی نہیں کرتی تھی اب
"میں کچھ نہیں چھپا رہی ہوں ۔۔۔چھپایا تو تم نے ہے ۔۔۔"
امل نے اسکی حیران شکل دیکھی تو خود ہی مشکل آسان کی "وہ آفس والی لڑکی کا کیا سین ہے "
"اووو تو اس اذہان کے بچے نے بتادیا ایک نمبر کا گھنا ہے کوئی بات پیٹ میں نہیں رکھ سکتا درد اٹھتے رہتے ہیں وقفے وقفے سے "
مرتضی اس کے تعریفی کلمات کے پل باندھنے لگ گیا تھا
امل کی شکل دیکھی تو بریک لگایا ۔۔۔۔" یار ابھی کچھ سیٹ ہی نہیں ہوا ہے ابھی تو new appoint ہوئی ہے وہ اگر اتنی مہربانیاں ابھی سے کرنے لگ گیا تو کیا پتہ بھاگ ہی جائے غلط نہ سمجھے اس لئے بس "۔۔۔۔مرتضی نے بیچاری شکل بنائی
"اچھا "۔۔۔امل نے بس یہی کہا
"امل تم واقع کچھ چھپا رہی ہو نہ مجھ سے "۔۔۔۔مرتضی نے اسکی شکل پڑھنا چاہی
"ہر وقت میرے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو کھبی اپنے بھائی کی بھی کوئی خبر لے لیا کرو ۔۔"
امل نے غصے سے تلملاتے کہا
"حمدان ۔۔۔۔۔۔"اس نے چونک کر کہا
حمدان کے ذکر پر اسے یاد آیا تھا کہ وہ امل کو پسند کرتا یے اس نے سوچا تھا کہ وہ حمدان سے بات کرے گا لیکن یہ سوچ کر خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا تھا ہوسکتا ہے وہ بھلانا چاہ رہا ہو اور وہ اسکے زخم ادھیڑ دے پھر سے اسے ہرا نہ کردے اس لئے وہ خاموش تھا
لیکن ابھی امل کے منہ سے حمدان کے ذکر پہ وہ شدید چونک گیا تھا
"کچھ کہا ہے حمدان نے تم سے امل کیا ہوا ہے "
مرتضی ایکدم فکر مند ہوا تھا
"وہ کہتے نہیں ہیں عمل کرتے ہیں ۔۔"۔۔۔۔درشتگی سے کہتے وہ واک آوٹ کر گئی تھی
______________
جاری ہے
Episode 31
مرتضی بھی وہاں سے اٹھ کر لاونج میں میں آگیا تھا
جہاں تینوں خواتین اور آبرو بھی انعمتہ بیگم سے چپکی بیٹھی تھی
"بے آبرو تم ابھی تک یہی ہوں کیا ہمارے گھر کو تم نے دارالامان سمجھ رکھا ہے یا تمہارے گھر والوں نے تمہیں رکھنے سے انکار کردیا یے "
مرتضی کو آج موقع ملا تھا اس کی ٹانگ کھینچنے کا تو ضائع تو نہیں کرتا وہ
"تم نے میرا کیا نام لیا یے خالہ جانی دیکھیں اسے کیا بول رہا ہے اور میں تمہارے گھر میں نہیں رہتی ہوں یہ میری خالہ جانی کا گھر ہے "
وہ تلملاتی بولی تھی
"اووو میں نے کیا بولا ہے جو نام ہے تمہارا وہی کہا ہے۔۔ آبرو کہا ہے۔۔۔ لگتا ہے تمہارے کان خراب ہوگئے ہیں لاعلاج مرض تو نہیں ہوگیا انہیں ۔۔۔ہائے تم بہری ہوجاو گی یا وقت سے پہلے ہی اونچا سننے لگ جاو گی میری بات مانو تو جاکر چیکپ کرالو "
"مرتضی "۔۔۔۔۔۔صدف بیگم نے اسے آنکھیں دکھائیں
لیکن مرتضی نے انہیں دیکھ کر آنکھ ماری
آبرو بھی مرتضی پہ لعنت بھیجتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی "اوکے خالہ جانی میں چلتی ہوں اور میرے لئے نہ آپ چکن منچورین بنوائیں گا آج ۔۔آسیہ بڑے اچھے بناتی ہے "
آبرو ایک ادا سے کہتی آگے بڑھی تھی لیکن مرتضی کی آواز پہ تڑخ کر پلٹی تھی
"اووو ذرا ہلکی میں رہو یہاں کوئی فنڈ نہیں کھلا ہوا ہے اپنے گھر کا رستہ ناپو مفتا توڑتی رہتی ہیں جب دیکھو"
"ہاں تو میں تمہارا نہیں کھاتی تو تمہیں کیوں مرچیں لگ رہی ہیں "۔۔۔۔۔۔۔آبرو نے بھی جلتے بھنتے جواب دیا
"میرا باپ کا تو کھاتی ہو نہ "
مرتضی بھی کہاں باز آنے والا تھا
"مرتضی ۔۔۔انعمتہ بیگم نے اسے ٹوکا" ایسے نہیں کہتے ہیں انہوں نے پہلے مرتضی کو ڈانٹا پھر آبرو کی طرف مڑیں
"بیٹا یہ مذاق کر رہا ہے ۔۔۔تم جاو کہاں جارہی تھی "
انعمتہ بیگم نے آبرو کو ٹھنڈا کیا
"وہ میں سیلون جا رہی تھی ۔۔۔"اس نے جواب دیا
"تمہیں سیلون کی جانے کی کیا ضرورت ہے آٹا گھر میں ہے اسی میں اپنا منہ ڈال لو کیونکہ تم ایسے ہی لگوں گی تمہارا خرچہ بچے گا فائدہ کی بات بتا رہا ہوں "
مرتضی کی رگ پھر پھڑکی تھی
"خالہ جانیییییی۔۔۔۔"۔۔۔ وہ اندر تک جل گئی تھی
"آبرو تم جاو بیٹا ۔۔۔اسے چھوڑو ۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے اسے بھیجنا مناسب سمجھا کیونکہ مرتضی باز نہیں آرہا تھا
آبرو بھی مرتضی پہ لعنت بھیجتی آگے بڑھی تھی مرتضی جسکی نظر اس پر ہی تھی فرش پہ پڑا پانی دیکھ کر اسکو شرارت سوجھی تھی وہ اچھے سے جانتا تھا کہ آبرو اپنے دھن میں جا رہی یے اسے پانی نظر نہیں آئے گا
ملازمہ نے ابھی پوچھا لگایا تھا جسکی وجہ سے کچھ پانی جم گیا تھا ایک جگہ
مرتضی چیتا کی چال چلتا آبرو کے راستے میں حائل ہوا تھا اور اسے کمر سے پکڑا تھا اگر وہ دیر کرتا تو وہ سلپ ہوتی
"چھوڑو مجھے جنگلی انسان "۔۔۔۔آبرو نے مرتضی کے بازو میں اپنے ناخن گڑائیں تھے
"پکا چھوڑ دوں "۔۔۔۔مرتضی نے ایک بار کنفرم کیا
"ہاں نہ اب کیا اسٹیمپ پیپر پر لکھ کر دوں ۔۔۔"
"اوکے"۔۔۔۔۔مرتضی نے کہتے ساتھ اسے چھوڑا تو وہ دھڑام سلپ ہوتی گری تھی
"آہ ۔۔۔۔زہریلے انسان ۔۔۔۔"۔۔۔۔میری کمر توڑ دی ۔۔۔۔
"زہریلا میں نہیں ہوں بلکہ تمہارے اندر خون کی جگہ زہر دوڑتا ہے جبہی ہر کوئی تمہیں زہریلا لگتا یے زہریلی ناگن ۔۔۔۔۔۔ذرا دھیان سے کہیں یہ زہر تم پر ہی اثر نہ کردے"
اور ہاں ارادہ تو منہ توڑنے کا تھا لیکن پھر ترس کھا لیا تم پر "۔
مرتضی اپنے ہاتھ جھاڑتا وہاں سے گیا تھا
آخر اس نے اسکی بہن کو رلایا تھا بدلہ تو لینا تھا وہ کب سے موقع کی تلاش میں تھا جو آج فراہم ہوا تھا اسے ۔۔۔۔مرتضی کو اندر تک سکون ملا تھا
آبرو کراہتی کھڑی ہوئی تھی جب اذہان بھی اسی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔
"تمہیں کیا ہوا "۔۔۔۔اذہان نے اسے کہتے آسیہ کو آوآز لگائی "امل کو اوپر سے بلا لاو یونی جانا ہے نہ اس نے "
"امل تو چلے گئی ہے حمدان کے ساتھ "
آبرو نے ہوا میں تیر چلایا ورنہ اسے کچھ پتہ نہیں تھا
"چلی گئی ہے ۔۔۔حمدان کے ساتھ ۔۔۔۔"
اذہان کا چہرہ سرخ ہوا تھا وہ اپنی بے عزتی فیل کر رہا تھا
"کیوں اسے تمہارے ساتھ جانا تھا کیا "۔۔۔۔آبرو اپنا درد بھلائے اسکی جانب متوجہ ہوئی تھی
اذہان کیا کہتا کوئی جواب نہیں تھا اسکے پاس
"تو اسے تمہارے ساتھ جانا تھا لیکن گئی حمدان کے ساتھ کمیٹمینٹ تمہارے ساتھ یے اور گھومتی اسکے ساتھ ہے کیا بات ہے تمہاری تو کوئی احصیت نہیں ہے یہ اچھا ہے ایک وقت میں دو دو مردوں کے ساتھ ۔۔۔واہ بھئی ۔۔۔۔۔"
آبرو آگ میں تیل کا کام کرکے لنگڑاتی اندر گئی تھی
"امل بی بی تمہیں تو میں اس گھر سے نکال پھینکو گی "
وہ حسد اور جلن کی انتہا کو پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اذہان بھی سرخ چہرے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے اسے زن سے بھگا لے گیا تھا
__________________________
"آسیہ بوا آپ کہ رہی تھی اذہان باہر ہے لیکن وہ کیا اسکی تو گاڑی تک نہیں یے "
امل باہر سے ناکامی پاکر واپس اندر آئی تھی
"مجھے نہیں معلوم اذہان بابا نے ہی آپکو بلانے بھیجا تھا "
بوا نے جواب دیا
"اچھا "۔۔۔۔امل مایوس لوٹ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی اسے حمدان پہ بے حد غصہ تھا
______________________
"بھابھی آپ بھی حمدان کا کچھ سوچیں "
شانزہ بیگم نے انعمتہ بیگم سے کہا
"آپ نے کوِئی لڑکی پسند کی یے کیا یا اسے کوئی پسند ہے"
صدف بیگم نے بھی بات میں حصہ ڈالا
"شادی کی بات کی تھی تو یہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا تھا میں آج ہی حماد کو کہتی ہوں اسکا کچھ کریں آجکل پتہ نہیں کونسی دنیا میں گم رہتا یے نہ ٹھیک سے بات کر رہا یے گھر بھی دیر سے آرہا ہے اور مرتضی کی بھی کلاس لگواوں گی بیچاری بچی کو کیا کیا کہ رہا تھا "
انعمتہ بیگم نے اپنی بات مکمل کی ۔۔۔۔۔
"بھابھی مرتضی تو مذاق کر رہا تھا اس سے تو ہی رونق یے "۔۔۔۔۔۔شانزہ بیگم نے مرتضی کی سائیڈ لی ۔۔۔
"آپ ٹھیک کہ رہیں ہیں حماد بھائی ہی سہی بات کریں گے ماشاءاللٰہ سے سعد اور اذہان دونوں ہی سیٹ ہوگئے ہیں حمدان کو بھی ہوجانا چاہئیے ۔۔۔۔"
صدف بیگم نے بھی اپنی رائے دی ۔۔۔
ان خواتین کی ناختم ہونے والی باتیں شروع ہوگئی تھی
___________________________
"بابا آپ نے بلایا تھا "۔۔۔۔۔حمدان نے کمرے کا دروازہ نوک کرتے ہوئے کہا اسکے ساتھ مرتضی بھی کھڑا تھا
"ہاں ۔۔۔۔۔آو بیٹھو ۔۔۔۔"حماد صاحب نے انہیں اندر آنے کی دعوت دی ۔۔۔۔۔
وہ دونوں بھی فرمانبرداری سے بیٹھ گئے تھے
"مرتضی میں یہ سب کیا سن رہا ہوں ۔۔۔۔۔مہمان اللٰہ کی رحمت ہوتے ہیں آئندہ ایسا کچھ نہ سنوں میں ۔۔۔۔۔"
حماد صاحب نے اسے سختی سے کہا تھا
"جی بابا "۔۔۔۔۔مرتضی نے معصومیت کی ریکارڈ توڑے تھے
اور حمدان تم کہاں غائب رہتے ہو ؟؟؟۔۔۔آجکل نظر نہیں آتے اور شادی کا کچھ سوچا ہے یا نہیں یا ایسے ہی رہنا یے"
اب انکی توپوں کا رخ حمدان کی جانب گھوما تھا
"بابا آفس کے کاموں میں الجھا ہوا ہوں آجکل بس ۔۔۔اور مجھے ابھی شادی نہیں کرنی بزنس رن ہوجائے پھر سوچوں گا ۔۔۔۔"
حمدان نے کانفیڈنس کے ساتھ کہا
"بیٹا جی یہ بزنس ہے اس میں دن دگنی رات چگنی محنت کرنا پڑتی ہے اور آہستہ آہستہ ہوجائے گا رن اس معاملے میں تمہاری کچھ نہیں سنوں گا تمہاری ماں ٹھیک کہ رہی یے اگر شادی نہیں بھی کرنی ابھی ۔۔تو بات طے کی جاسکتی یے کم ازکم "
حماد صاحب نے اس سے کہا
"آپ ہی پوچھیں چاہتا کیا ہے ۔۔آبرو کےلئے انکار کردیا ہے۔۔۔ اسے کوئی پسند نہیں یے اور ہماری پسند سے کرنا نہیں چاہتا ہے "
انعمتہ بیگم جو کب سے خاموش بیٹھی تھی بول پڑیں ۔۔۔۔
آبرو کے نام پہ مرتضی کو پھندا لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر شکر ادا کئے تھے اور حمدان کے کان میں سرگوشی کی تھی
"بھائی تو بال بال بچ گیا یے "۔۔۔۔۔۔
"حمدان جواب دو "۔۔۔۔حماد صاحب نے اسے خاموش پایا تو اپنی بات دوبارہ کہی ۔۔۔۔۔۔
"بابا میں ابھی کچھ وقت چاہتا ہوں ویسے بھی مجھے ابھی لندن جانا یے وہاں سے آکر اس بارے میں سوچتا ہوں"
حمدان نے انہیں مطمئن کیا ۔۔۔۔۔۔
"ٹھیک ہے لیکن جلد ہی کوئی فیصلہ کرو اس بارے میں" ۔۔۔۔۔حماد صاحب مان گئے تھے
جی۔۔۔۔وہ کہتا اٹھا تھا ۔۔مرتضی بھی اسکے پیچھے گیا تھا
"حمدان تم کہاں جا رہے ہو؟؟؟۔۔۔مرتضی نے سوال کیا "
میں باہر جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔حمدان کہتا آگے بڑھا تھا۔۔۔۔۔۔
مرتضی بھی شانے اچکاتا اپنی راہ پہ گامزن ہوا تھا
______________________
"باہر لان میں آو ۔۔۔مجھے تم سے بات کرنی ہے "۔۔۔
میسج پڑھتے امل پاوں میں چپل پہنتی نیچے بھاگی تھی کہ سامنے کھڑے وجود سے ٹکرائی تھی
"اٹز گڈ کہ رات ہے تو اندھیرا ہے۔۔۔ گہری خاموشی ہے میں اپنی بات آسانی سے کہ سکتی ہوں۔۔میں جانتی تھی کی آپ ایک دفعہ میری بات ضرور سنیں گیں مجھ پہ یقین کریں گیں میرا بے گناہ ہونے کا یقین ہوگا آپکو ۔۔کیسے نہ ہوتا آپ مجھے جانتے ہیں یہ ہمارا رشتہ یے جو کھینچ لایا یے آپکو ۔۔۔انہوں نے آپکو ورغلانہ چاہا ہے لیکن آپ اب میرے ساتھ ہیں نہ سب ٹھیک ہوجائے گا اب ہم اب ساتھ رہیں گیں تو کوئی ہمارے درمیان نہیں آسکتا یے کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے آپکو یقین ہے نہ مجھ پہ "
وہ اس وجود سے لگی اپنے تمام تر باتیں بغیر سانس لئے بولیں جارہی تھی
"امل ۔۔۔۔"۔۔۔۔مقابل نے اسے خود سے دور کیا
"آ۔۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔آں۔۔۔آں۔۔۔آں۔۔۔۔۔ امل نے سامنے کھڑے حمدان کو دیکھ کر اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔ڈرتے اس نے اپنی آنکھیں ترچھی کی تو اذہان سن کھڑا سب سن رہا تھا امل کو دیکھ کر اس نے اپنا سر نفی میں ہلاتے اپنے قدم موڑے تھے ۔۔۔۔۔امل اسکے ہیچھے بھاگی تھی
حمدان خود شاکڈ تھا کیا کہا ہے امل نے اس سے وہ تو کھلی فضاء میں اپنے اندر بھر جانے والے دھوئیں کو خارج کرنے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔امل اس سے لگی کیا بول رہی تھی وہ خود سن کھڑا سن رہا تھا۔۔۔ہوش میں آکر وہ کچھ دور کھڑا ہوگیا تھا اسے اذہان کی باتیں تو سنائیں نہیں دے رہیں تھی لیکن امل کی بگڑتی حالت دیکھ کر وہ اندازہ کرسکتا تھا
"اذہان میری بات سنیں ۔۔۔۔۔۔"امل نے اسکے راستے میں حائل ہوتے کہا ۔۔۔۔
"کیا سنوں سب کچھ سن تو چکا تھا آج اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ہے سب کچھ کلئیر ہے ساری کنفیوزن ختم "
اذہان نے اس سے کہا
"جو سنا آپ نے ابھی وہ میں آپ سے کہ رہی تھی مجھے لگا آپ ہیں ۔۔۔۔"
امل نے اٹکتے اٹکتے کہا تھا
"واہ کیا بات ہے ۔۔۔۔۔تمہیں مجھ میں اور حمدان میں فرق نظر نہیں آتا ۔۔۔۔امل میں نے تم سے کہا تھا کہ کسی بھی رشتے سے پہلے ہم دوست ہیں تم مجھ سے بلا ججھک کچھ بھی کہ سکتی ہو ایک دفعہ ہمت کر کے کہ دیتی میں خود انکار کردیتا تم حمدان کے سنگ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہو ایک مرتبہ منہ سے پھوٹتی تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ گیم کیوں کھیلا پتہ نہیں کب تک کھیلنے کا ارادہ تھا وہ تو اچھا ہوا آج میں نے سب دیکھ لیا ہے اور حمدان کی زبانی سن بھی لیا تھا۔۔۔تمہاری آنکھوں میں حمدان کے لئے جگنو چمکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خیر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یے میں خود ہی سب ختم کردوں گا یہ منگنی کا دی اینڈ جو کہ نام کی تھی بس ۔۔کوئی معنی نہیں تھا اس کا ۔۔ بےمطلب تھی تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہارا نام نہیں لوں گا "۔۔۔۔۔اذہان نے اپنے ہاتھ سے انگھوٹی نکال کر امل کے ہاتھ میں دی تھی
اور وہ امل کو ان سنی کرتا کار میں بیٹھتا گاڑی زن سے بڑھا لے گیا تھا ۔۔۔۔
امل اسکے پیچھے آئی تھی لیکن سب بےسود تھا ۔۔۔روتے روتے وہ وہیں زمین پہ بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔
اذیان کب سے جانتا تھا لیکن پھر بھی وہ دو جملوں سے بہک گیا تھا
حمدان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں تھی اسے اذہان پہ بے حد غصہ آرہا تھا اسکا دل کر رہا تھا اڑ کر امل کے پاس جائیں لیکن اس نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا تھا وہ اگر اس وقت امل کے پاس جاتا تو امل بپھر سکتی تھی ۔۔۔۔اس نے فوراً مرتضی کو کال ملا کر نیچے آنے کا کہا
"حمدان کیا ہوا اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے "
اسنے آتے ساتھ کہا
"امل کو سنبھالو اسے اسکے کمرے میں لیکر جاو اور نیند کی دوائی دے دینا ورنہ وہ پوری رات بے چین رہے گی "
حمدان کی حالت بھی امل سے کم نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔
"آخر ہوا کیا یے "۔۔۔۔اسے کچھ بہت برا محسوس ہوا تھا
"یہ وقت اس بات کا نہیں ہے تم جاو ابھی فوراً اسکے پاس تمہیں سمجھ نہیں آرہا یے میں کیا کہ رہا ہوں "
حمدان آخر میں چیخا تھا ۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔"آئی ایم گوئنگ "۔۔۔وہ کہتا امل کی جانب بھاگا تھا
وہ امل کو کسی طرح سے بھی بہلا کر اسکے کمرے تک لےکر آیا تھا زبردستی اسے نیند کی گولی دی تھی کیونکہ حمدان بھی بھلے دور سہی لیکن سب دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل کے سونے کا یقین کرکے وہ حمدان کے پاس آیا تھا ۔۔۔۔"بھائی ہوا کیا ہے آخر "۔۔۔۔۔
مرتضی نے اس سے پوچھا ۔۔۔
"ذیادہ سوال نہ کرو میں ابھی بہت الجھن میں ہوں کل پتہ لگ جائے گا تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔"
حمدان کرختگی سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا
وہ بھی الجھنوں کا جال کے کر اپنے کمرے میں گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________
امل نے صبح تک خود کو سنبھال لیا تھا ۔۔۔وہ آج یونی آئی تھی کیونکہ اسکی بہت اہم لیب تھی کچی نیند سے بیدار ہونے کی وجہ سے اسکے سر میں بےحد درد تھا ۔۔۔۔
آج اتفاق سے سویرا بھی نہیں آئی تھی اسکی لیب مس ہوگئی تھی
وہ دکھتے سر درد اور بے دلی کی کیفیت سے ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔لیکن اس نے سامنے دیکھا تو سعد نظر آیا جو اسے لینے آیا تھا۔۔۔۔۔۔
سعد کو حمدان نے بھیجا تھا کہ وہ امل کو پک کرے اور اسکی خیریت بتائے ۔۔۔۔جب امل کار میں آکر بیٹھ گئی تھی تو اس نے کھڑکی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں تھی ۔۔۔۔
حمدان جو سعد سے بلو ٹوتھ سے کنکٹ تھا سعد سے پوچھا تو سعد نے سرگوشی نما آواز میں کہا ۔۔۔۔"ٹھیک یے ۔۔۔بس چپ یے پریشان نہ ہو میں دیکھتا ہوں ۔۔"
اس نے رابطہ منقطع کیا اور امل کی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔
"امل تم ٹھیک ہو ۔۔۔؟؟؟اس نے چابی انجیکشن میں لگاتی کہی
امل نے سعد کے پکارنے پہ آنکھیں کھولیں اور ہاں میں بس سر ہلایا
"ہم مال چلتے ہیں۔۔۔؟؟۔۔سعد کی آواز پہ اس نے جھٹ اپنی کھولیں اور سوال کیا ۔۔"کیوں"
اسکا ابھی کہیں جانے کا دل نہیں تھا
"بس ایسی ہی مجھے ایک چیز پک کرنی تھی اور ہم وہاں کچھ کھا پی لیں گیں ۔۔اگر تم نہیں چاہتی تو کوئی بات نہیں گھر چلتے ہیں"
سعد کے اتنے خلوص پر امل اسے انکار نہیں کر پائی اس لئے اس نے حامی بھر لی تھی ۔۔۔۔۔
_____________________
"بےبی میری بات سمجھنے کی کوشش کرو یہ منگنی میرے گھر والوں نے زبردستی کرائی یے میں انکار نہیں کرسکتا تھا "
اذہان اس لڑکی کا ہاتھ تھامے اسے بہلانے کی مکمل کوشش کر رہا تھا
"دیکھو اذہان تم بس میرے ہو یہ جو بھی ہے اسکا پتہ کاٹو"
وہ لڑکی ماننے کے لئے تیار نہیں تھی
"یہی تو بتانے آیا ہوں کہ اب شاید بات ختم ہی ہوجائے "
اذہان نے اس امید کی کرن دیکھائی ۔۔
"ایک بات یاد رکھنا اذہان میں تمہارے ہر افئیر کے بارے میں جانتی ہوں لیکن تم مجھے چاہتے ہوں مجھے پتہ ہے اسلئے میں نے اس سب کو نظر انداز کیا یے لیکن یہ منگنی اسے ہرگز برداشت نہیں کروں گی نہیں تو تم جانتے ہو میں تمہارے گھر بھی آسکتی ہوں اور تمہارے سارے راز افشاں کرسکتی ہوں مجھ سے پیچھا چھڑانے کی سوچنا بھی مت "
اس لڑکی نے اسے اپنی اہمیت بتائی کہ وہ اسے بلکل بھی ہلکا نہ لے
"ایک تو بےبی تم بھی نہ فوراً غصہ ہوجاتی ہو "۔۔۔
اذہان نے اسکے گال پہ اپنے ہاتھ رکھے
" آو چلو میں تمہیں کچھ شاپنگ کراوں ویسے یہ اس علاقے کا سب سے اچھا مال ہے "۔۔۔اذہان اسے بہلاتا اسکی توجہ اسکی کمزوری یعنی شاپنگ کی جانب کرائی تھی
اس لڑکی نے اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دےکر اسکے ساتھ چل رہی تھی۔۔۔۔
"اذہان ایسے تو نہیں پسند ہونہ تم مجھے یوں نو نہ ہاو مچ آئی لو یو مائے ڈالرنگ "
وہ لڑکی لاڈ پن سے اسے کہتی اسکے گال کھینچ چکی تھی
"مہمام بےبی آئی آلسو لو یو ۔۔۔۔"
اس بار اذہان نے اسے اسکے نام سے مخاطب کیا تھا
______________________________
Episode 32
"امل تم دو منٹ یہاں ویٹ کرو میں ابھی آیا "
سعد نے امل کو ایک جگہ رکنے کے کئے کہا تھا اسے ایک اہم کال اٹینڈ کرنی تھی اور شور کے باعث اسے تھوڑا آگے جانا پڑا تھا
امل ادھر ادھر دیکھنے میں مصروف ہوگئی تھی جب اپنے عقب سے اسے آواز سنائی دی جس سے اس پر خوف طاری ہوا تھا
"زہے نصیب آج تو بڑا اچھا دن یے کسکا دیدار ہوگیا یے "
کاشان اسکے سامنے کھڑا اسے ایکسرے کرتی نظروں سے دیکھ رہا تھا
امل نے اپنے قدم جانے کےلئے بڑھائے تو وہ اسکی راہ میں آگیا تھا
اسکے چہرے پہ مکرہ ہنسی تھی
"پتہ ہے آج طوطے سے فال نکلوایا تھا اس میں کیا آیا تھا جاننا چاہو گی " ۔۔۔۔اس نے امل کا گال چھونا چاہا ۔۔۔
امل پیچھے ہوتی شاپ کے گلاس وال سے جالگی تھی
کاشان نے بھی اپنے ایک پیر کو بڑھا کر اسکا راستہ روک رکھا تھا
امل دل ہی دل میں سعد کو پکار رہی تھی
"چلو میں خود ہی بتا دیتا ہوں۔۔۔ اس میں آیا تھا کہ آج ایک حسین دو شیزہ سے ٹکراو ہوگا اور میں نے کہا تم ایسے ہی کہتے ہو ۔اسی چکر میں پیسے بھی نہیں دئیے تھے لیکن اسکی بات تو سچ ثابت ہوگئی ۔۔۔۔۔"
وہ مکار چہرے کے ساتھ بول رہا تھا
"میرا راستہ چھوڑیں مجھے جانے دیں۔۔۔۔۔"امل نے سخت لہجہ اپنانے کی کوشش کی ساتھ میں امل نے اسکی ٹانگ کو پھلانگتے نکلنا چاہا ۔۔۔۔۔
"ہاہاہا ۔۔۔۔اچانک کاشان کے چہرے سے ہنسی غائب ہوئی تھی
"جتنا اڑنا یے اڑ لو پھڑپھڑانا ہے پھڑپھڑا لو لیکن یاد رکھنا میں اپنی بےعزتی بھولا نہیں ہو اس حمدان کو اسکا خامیازہ بھگتنا پڑے گا اور تمہاری بھی ساری اکڑ نکالو اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاو گا وہ حمدان بہت اچھلتا یے نہ تم پر بڑی محبت ہے اسے تم سے سب پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہوجائے گا"
سفاکی سے وہ ایک ایک لفظ کہ رہا تھا۔۔۔۔اور امل دم سادھے سب سن رہی تھی اسے کاشان کے ارادے بہت خطرناک لگ رہے تھے
سامنے کا منظر دیکھ کر اذہان کو غصہ چڑھا تھا وہ جو مہمام کے ساتھ ہنستا مسکراتا آرہا تھا سامنے کاشان کو امل کے ساتھ دیکھ کر اسے سخت غصہ آیا تھا اس دن کاشان نے جو کیا تھا مرتضی نے اسے بتایا تھا
"مہمام تم یہی رکو میں آبھی آیا "۔۔۔۔وہ اسے کہتا آگے بڑھا تھا اور کاشان کو گریبان سے پکڑا تھا
امل کو سامنے اذہان کو دیکھ کر کچھ دھارس ہوئی تھی
کاشان نے اپنے گریبان اس سے چھڑایا تھا اور یہ کہتا آگے بڑھا تھا "کہ تھوڑا غصہ بعد کے لئے بچا کر رکھو ابھی سارا ختم کردو گے تو بعد کے لئے کیا بچے گا "
"امل تم یہاں کیا کر رہی ہو اور کسکے ساتھ آئی ہو"۔۔۔؟
اذہان کے امل سے سخت اختلافات سہی لیکن وہ اسکی کزن تھی اسکے گھر کی عزت تھی
امل کچھ کہتی کہ مہمام وہاں آٹپکی تھی
"ڈارلنگ یہ آئیٹم کون ہے آج سے پہلے اسے تو نہیں دیکھا کھبی "
مہمام کے اس انداز سے کہنے پہ امل کو غصہ آیا تھا اور ساتھ میں وہ شدید چونکی تھی ایک لڑکی کو اذہان کے ساتھ دیکھ کر
"میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ "تم وہی رہو پھر یہاں کیوں آئی ہو"
اذہان کو بھی امل کو اس طرح سے مخاطب کرنا پسند نہیں آیا تھا
"تم مجھے وہاں چھوڑ کر اس لڑکی کے پاس آئے ہو اور میں وہاں کھڑی ہوکر تماشہ دیکھتی رہوں سیدھے طریقے سے بتادو کون ہے یہ لڑکی کونسے نمبر والی ہے "
وہ جیلس کا شکار ہوکر کہ رہی تھی
"یہ میری کزن یے "۔۔۔۔اذہان نے اسے آنکھیں دکھائیں
"جھوٹ مت بولو مجھے تو کوئی اور ہی لگ رہی ہے اتنا اچھا مال یے یہ اور یہ تمہاری کزن یے تم مجھے بیوقوف بنا رہے ہو نہ اذہان تم لیکن یاد رکھنا میں اتنی آسانی سے تمہیں چھوڑو گی نہیں کیپ دز ان یور مائینڈ "
وہ کہتی غصے سے پھنکارتی وہاں سے گئی تھی
امل اس نئے انکشاف پہ سن ہوگئی تھی وہ اذہان کو کیا سمجھتی تھی اور وہ کیا نکلا ۔۔۔۔
"امل میری بات ۔۔۔۔۔"اذہان کچھ کہتا جب تک سعد وہاں آگیا تھا
"اذہان تم یہاں ۔۔۔۔"۔۔سعد حیران ہوا تھا
"تمہیں کچھ اندازہ یے سعد اگر میں ابھی وقت پر یہاں نہیں آتا تو کیا ہوجاتا وہ کاشان امل کے ساتھ نہ جانے کونسے کلام کر رہا تھا اگر تم اسے لائے ہو تو ذمہداری بھی اٹھانی تھی "
اذہان سعد پہ گرجا تھا
"کاشان"___سعد زیرِ لب بڑبڑایا
امل کی شکل دیکھی تو واقع خوف کے زیرِاثر تھی
"میں صرف کچھ منٹ کے لئے گیا تھا اور یہ سب ہوگیا ہے اور اذہان تم مجھ پر نہ چیخو یہ سب گھر والوں کی غلطی ہے امل کو شروع سے اتنا ڈرا سہما کر رکھا یے یہ کہیں اکیلی نہیں جاتی یہ اسکا اپنا ملک اپنا شہر ہے لیکن یہ یہاں اتنے لوگوں کے درمیان بھی ڈر گئی ہے کیونکہ ہمارے بڑوں نے اسکا سارا کانفیڈنس ختم کردیا یے ۔۔۔"
سعد اذہان کو سناتا امل کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے گیا تھا اور اذہان بھی مہمام کے پیچھے بھاگا تھا ۔۔۔۔۔
__________________
سعد کا غصہ کچھ کم ہوا تو اس نے امل کو دیکھا جو بلکل خاموش اور مقنطیس بنی سیٹ سے چپکی بیٹھی تھی وہ گم سم تھی ۔۔۔۔۔
"امل"۔۔۔۔۔دیکھو اتنا ڈرنا نہیں چاہئیے ہمیں کبھی بولڈنیس اور ہمت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا یے زندگی میں بہت سے اپس اینڈ ڈاون آتے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ ہمیشہ ہمارے اپنے ہوں کھبی خود ہی سب کچھ کرنا پڑتا یے اور کاشان نے کیا کہا تھا"
بات کی آخر میں اس نے کاشان کا بھی پوچھا ایسا بھی کیا کہ دیا تھا اس نے کہ امل اتنا ڈر گئی یے
امل نے مختصر کرکے اسے ساری بات بتائی ۔۔۔۔
"اس کاشان کی تو ۔۔۔۔۔اسکی صرف شیخ چلی کی طرح باتیں ہیں اور کچھ نہیں وہ سنا ہے نہ تم نے جو گرجتے ہیں برستے نہیں اسکا بھی یہی حال یے بس تم ڈرو نہیں ۔۔۔۔"
سعد نے اسے ریلکس کیا
"اور ہاں پلزز حمدان کو کچھ نہ بتانا آج جو ہوا تمہیں اسکے غصے کا پتہ یے نہ۔۔۔۔"
امل نے بس سر ہاں میں ہلایا
"ورنہ اس کاشان سے پہلے وہ میری فلائیٹ لینڈ کردے گا کہ میں اسکی جانم کو چھوڑ کر کیسے گیا "
یہ جملہ سعد نے اپنے دل میں کہا تھا
"امل گڑیا ڈرو نہیں ۔۔۔"۔۔۔سعد سمجھ رہا تھا کہ وہ ابھی بھی ڈری ہوئی یے لیکن وہ ڈر کی وجہ سے خاموش نہیں بلکہ اذہان کی وجہ سے تھی
"اذہان کتنی آسانی سے تم نے اپنے کرم میرے سر پہ ڈال دئیے۔۔ میں نے کیا سمجھا تھا تمہیں اور کیا نکلے تم ۔۔مجھے اچھی طرح سے جانتے ہو پھر بھی مجھ ہر الزام لگایا تم نے بھلے مجھے تم سے محبت نہیں یے لیکن میں اسے نبھانا چاہتی تھی"
وہ بہت سی باتیں سوچتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔.
___________________________
Episode 33
اذہان مہمام کو منانے کے بعد ڈائیرکٹ شانزہ بیگم کے پاس آیا تھا اسے آج ہی یہ قصہ ختم کرنا تھا
"ماما مجھے آپ سے ضروری بات کرنی یے "
اذہان نے عجلت میں کہا
"ہاں میں سن رہی ہوں بولو ۔۔۔انہیں حیرت ہوئی تھی اذہان کے آج جلدی آجانے پر
"وہ ۔۔۔۔۔۔ماما میں امل سے منگنی توڑنا چاہتا ہوں ہم اس رشتے میں ساتھ نہیں چل سکتے "
وہ پہلے ایک پل کے لئے رکا تھا پھر ایک سانس میں اپنی بات مکمل کی تھی
شانزہ بیگم کا کپڑے تہ کرتا ہوا ہاتھ رکا تھا اور وہ ایکدم پلٹی تھی
"اذہان کیا کہ رہے ہو دماغ ٹھیک ہے تمہارا "
انہیں تو یہی لگا تھا
"ماما میں ٹھیک کہ رہا ہوں آپ بس انکار کردیں"
اذہان نے اپنی بات دہرائی
"وجہ ۔۔۔۔"انہوں نے سوال کیا
"میں وجہ نہیں بتا سکتا ہوں "۔۔۔اس نے کہا
"میں کیا کہوں گی کیسے منع کروں گی تم دونوں کی بیچ کوئی لڑائی ہوئی ہے ایسے بات نہیں بگاڑتے "
انہوں نے سمجھایا ۔۔۔۔۔
"یہ کیا انکار کرے گا میں خود اس رشتے سے انکار کرتا ہوں "
حارث صاحب نے درشتگی سے کہتے اذہان کے منہ پہ چماٹ مارا تھا
"حارث" ۔۔۔۔۔شانزہ بیگم نے اپنے دل ہہ ہاتھ رکھ لیا تھا
اذہان نے بے یقینی کی کیفیت میں رہ کر اپنا چہرہ اوپر کیا
"میں نے کہا تھا امل کے بارے میں اتنی سی بھی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا تو کیا ہے یہ سب شک تو مجھے پہلے سے تھا اور آج یقین ہوگیا ہے "
حارث صاحب نے دھاڑتے اذہان کے منہ پر تصویریں اچھالیں تھی
یہ تصویریں اسکی اور مہمام کی آج کی تھی جو حارث صاحب کو پارسل ہوئی تھی جب وہ آفس میں تھے یہ دیکھ کر وہ غصے سے بے قابو ہوتے عجلت میں گھر آئے تھے
ان تصویروں میں کہیں اذہان نے اس لڑکی کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا کہیں گال پہ کہیں ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہیں مسکراتا اسے دیکھ رہا تھا
سبہی گھر والے شور سن کر وہاں آگئے تھے
"کیا ہوا ہے حارث اس طرح کیوں چیخ رہے ہو "
حماد صاحب نے آتے ہوئے کہا
"تو اور کیا کروں آپ سنیں گیں تو آپ بھی یہی کہیں گیں دیکھیں یہ"
حارث صاحب نے تصوریں انکی جانب بڑھائیں
صدف بیگم بھی جسے دیکھ کر حیران ہوگئیں تھی
امل اور سعد بھی جب تک آگئے تھے سعد معاملے کی نزاکت کو سمجھتا ہوا اندر گیا تھا لیکن امل کمرے کے باہر ہی کھڑی تھی
"کیا یے یہ سب بتانا پسند کرو گے "۔۔حماد صاحب نے بھی غصے سے کہا
اذہان کیا کہتا اسکا سر جھک گیا تھا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا
حمدان بھی جب تک آگیا تھا آخر آگ جو اسکی لگائی ہوئی تھی سب جلتے ہوئے تو دیکھنا تھا اس نے
"بابا یہ کیا جواب دیگا اور یہ تو بس ایک ہی ہے ناجانے اور کتنوں کے ساتھ اسکا چکر یے "۔۔۔۔۔۔۔حمدان نے کہا
سب ایک پل کے لئے حمدان کی جانب متوجہ ہوگئے تھے
"یہ امل کے لائق نہیں ہے جو کسی کی چند جھوٹی باتوں میں آسکتا ہے وہ اسکا کیا ساتھ دے گا زندگی بھر"
حمدان نے اپنی بات جاری رکھی اور چل کر اذہان کے قریب آیا اور اسکے کان میں کہا
"بچپن سے جانتے ہو تم امل کو اور اسکے خلاف کسی نے دو جملے کیا کہے بجائے اسکے کہ تم اسکا منہ توڑتے تم تو اسکی باتوں میں ہی آگئے "
حمدان کا اشارہ اپنی ہی جانب تھا
"امل سے ہم اذہان کی منگنی توڑتے ہیں "۔۔۔۔۔آغا جان نے کہا
"اذہان یہ جو بھی کچھ چل رہا ہے نہ اسے جلد ختم کرو اگر پسند کرتے ہو تو عزت کے ساتھ رشتہ لےکر جاو یہ سب نہیں چلے گا یہ آخری وارننگ ہے "
حماد صاحب نے اذہان سے کہا
"اذہان میری نظروں سے دور ہوجاو "۔۔۔۔۔حارث صاحب نے اذہان سے منہ پھیرتے ہوئے کہا
"بابا۔۔۔اذہان آگے بڑھا لیکن مرتضی اسے پکڑ کے لے گیا تھا
"اب اس بات کو یہی ختم کیا جائے "۔۔۔۔حماد صاحب نے کہتے باہر کی راہ لینی چاہی ۔۔۔۔۔
"آغا جان "۔۔۔حماد صاحب آگے بڑھے ان کی طبعیت بگڑنے لگی تھی یہ سب سنکر ۔۔۔۔
حماد صاحب آغا جان کوسہارا دے کر انکے کمرے میں لے کر گئے تھے
سب لوگ ہی آہستہ آہستہ چلے گئے تھے
"حارث یہ سب کیا ہوگیا یے اذہان نے کیا کرا ہے ہم کیسے سامنا کریں گیں سب کا "
سب کی جانے کے بعد شانزہ بیگم حارث صاحب سے مخاطب ہوئی تھی
حارث صاحب اپنا سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے
"ماما بابا پانی پئیں آپ لوگ اور یوں ٹینشن نہ لیں اس سب میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے آپ کا سر کیوں جھکے گا میں ہوں نہ آپکا سر اونچا کرنے کے لئے "
سعد انہیں اپنی باتوں سے تسلی کرارہا تھا اسے اندازہ تھا کہ اسکے ماں باپ کتنے ہرٹ ہوگئے تھے
____________________________
"اذہان میں نے تم سے کہا تھا یہ سب چھوڑ دینا لیکن تم باز نہیں آئے نہ "
مرتضی کمرے میں آنے کے بعد اذہان پہ برس رہا تھا
"میں اسے ٹوپی کرانے گیا تھا جونک کی طرح مجھ سے چمٹ گئی یے وہ جیسے مدھو مکھی نہیں ہوتی جب تک اپنا شکار نہ کرلیں ہیچھے پڑی رہتی یے"
اذہان نے انگلیاں بالوں میں اٹکاتی کہیں ۔۔۔۔
"میرے خیال سے تم لاسٹ ویک بھی گئے تھے کسی لڑکی سے ملنے"۔۔۔۔مرتضی نے ایک اور انکشاف کیا
"وہ تو میں اسے ٹاٹا بائے کرنے گیا تھا " اس نے منمناتے کہا
"ٹوٹ گئی منگنی سکون مل گیا نہ تمہیں بہت اچھا ہوا ہے میں امل کے ساتھ یہ ناانصافی برداشت بھی نہیں کرسکتا تھا"
اسکو خاموش دیکھ کر وہ پھر بولا
"امل بھی نہیں چاہتی یے اس منگنی کو قائم رکھنا "
اذہان نے اسے بتایا
"کیا مطلب ہے اس بات کا "۔۔۔مرتضی نے اس سے پوچھا
تو اذہان نے اسے ساری بات بتادی جو حمدان نے کہی تھی اور جو اسکے اور امل کے درمیان بات ہوئی تھی
"واہ ۔۔گریٹ ۔۔۔آپ کو تو آسکر آوارڈ ملنا چاہئیے کتنا عظیم کام کیا ہے "
مرتضی تالیاں بجاتے کہ رہا تھا
تو امل کے اس حالت کے پیچھے تمہارا ہاتھ تھا تم نے کیا سوچ کر امل کو یہ سب کہا تمہیں اندازہ ہے کہ وہ کتنی ہرٹ ہوئی ہوگی جیسے کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا ویسے ہی ادا کئے گئے الفاظ واپس نہیں لے سکتے آپ۔۔ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو آپ کی تکلیف کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور مرہم بھی"
اور حمدان نے یہ سب کہا اس نے بہت غلط کہا ہے لیکن وہ ایسا امل کے بارے میں نہیں سوچتا ہے وہ سچی محبت کرتا ہے اس سے اس نے جو بھی کہا یے وہ تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا وہ آج سے نہیں اس منگنی سے پہلے سے محبت کرتا ہے اور امل تو جانتی بھی نہیں یے یا شاید اب جان گئی یے "
مرتضی کی بات پر اذہان خاموش ہوگیا تھا
" میں خوش ہوں کہ امل تم سے منسلک نہیں رہی اب اپنے آپکو سدھار لو اذہان "
مرتضی نے آخر میں اسے سمجھایا
"میں نے وہ سب جان بوجھ کر نہیں کہا یے میں بہت طرح الجھ گیا تھا ان سب میں۔۔ میں ابِھی کوئی ریلیشن شپ قائم نہیں رکھنا چاہتا تھا بس اسی لئے یہ سب ہوگیا یے۔۔۔۔۔۔اور تم مجھے لیکچر نہ دو میں ویسے ہی بہت ہریشان ہوں"
اذہان نے کہتے اسے کمرے سے نکال کر دروازہ بند کرلیا تھا
________________________________
"آغا جان آپکی طبعیت اب کیسی ہے "
حماد صاحب کے لہجے میں اپنے بابا کے لئے فکر تھی
"ابھی جو کچھ بھی ہوا یے آپ اسکے بارے میں ذیادہ نہ سوچیں سب ٹھیک ہوجائے گا"
انہوں نے دوائی دیتے ہوئے کہا
"بیٹا بس چل رہی زندگی میری تو مجھے ایک خاص بات کرنی یے حمدان کا اتنا سخت ری ایکشن بہت کچھ باور کرا رہا تھا میری تو یہ ازل سے خواہش ہے کہ حمدان کی شادی امل سے ہو تم سب نے اذہان سے جوڑنا چاہا تھا تو میں کیا کہتا اب میں چاہتا ہوں کہ تم حمدان سے بات کرلو مجھے لگتا ہے سہی وقت ہے یہ۔۔ امل کے لئے وہ بہتر یے"
انہوں نے اپنی خواہش کو زباں پہ لایا
"جی آغا جان میری بھی یہی خواہش ہے میں ابھی حمدان سے اس بارے میں بات کرتا ہوں "
حماد صاحب نے کہا
___________________________
"بابا آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں ۔اندر آجائیں "
حمدان نے حماد صاحب کو دروازے پہ کھڑا دیکھ کر کہا
آپ مصروف تو نہیں ہیں ۔۔۔؟ انہوں نے کہا
"نہیں بابا آپ کہیں کوئی خاص کام ہے "
حماد صاحب کبھی حمدان کے کمرے میں اسطرح نہیں آئے تھے ۔اسلئیے حمدان کو تھوڑا عجیب لگا
"کام تو خاص ہے سعد بھی خیر سے نکاح کے بندھن میں بندھ گیا ہے یہ بزنس تو چلتا رہے گا میں نے کہا تھا کہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کیجئے اور آپ نے مہلت مانگی تھی لیکن میں چاہتا ہوں امل میری بہو بنے لیکن کوئی زور زبردستی نہیں ہے جو بھی فیصلہ ہوگا سوچ کر جواب دے دینا اگر تم راضی نہیں ہو تو امل کے لئے کچھ اور سوچ لیا جائے گا آج جو کچھ ہوا یا امل اذہان سے منسلک تھی اس سے ہٹ کر سوچنا"
حماد صاحب اپنے بیٹے کے جزبات سے کچھ کچھ واقف تھے جبہی اسطرح کہا ۔۔۔
امل کسی اور کی ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔حمدان اس سے آگے سوچ نہیں سکتا تھا ۔۔۔فورا کہا تھا اس نے
"بابا آپکا جو فیصلہ ہے مجھے منظور یے"
وہ خود یہ بات آج ہی کرنے والا تھا لیکن اس کے کہنے سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا یے اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا
"اگر کچھ وقت چاہیے تو لےلو "۔۔۔۔حماد صاحب نے کہا
"نہیں بابا میرا مطلب ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپکے فیصلے سے "
اس نے جھٹ کہا
"چلو ٹھیک ہے لندن سے واپس آجاو تو اس معاملے کو آگے بڑھاتے ہیں جبتک میں حنین سے بھی بات کر لیتا ہوں ویسے لندن سے کب تک واپس آو گے
حماد صاحب نے حمدان کو کہا
جی بابا ٹھیک یے مجھے بھی لندن ضروری جانا یے کیونکہ اب تو permanent pakistan رہنا ہے تو وہاں apartment sale کرنے کا سوچ رہا تھا ۔۔اور میری sports bike بھی یے اور کچھ documents issue بھی ہے تو اسی لئے چار سے پانچ دن لگ جائیں گے
"چلو ٹھیک ہے تم آرام کرو میں چلتا ہوں" وہ کہ کر چلے گئے تھے
سعد جو دروازے سے کان لگا کر سب سن رہا تھا فورا اندر آیا تھا ""او فرمانبرداری تو چیک کرو جیسے خود کی کوئی مرضی شامل ہی نہیں ہے لڈو پھوٹ رہے ہیں دل میں اور جی بابا جیسے آپکی مرضی ""
"سعد تو پٹ جائے گا " حمدان نے اس سے کہا
سعد کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ امل اذہان سے جڑیں وہ اچھے سے جانتا تھا حمدان کے جزبات کو اور یہ بھی کہ امل حمدان کے ساتھ ذیادہ خوش رہ سکتی ہے
"ہاہاہا شکل اتنی معصوم بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ہے تو گھنا میسنا فرمانبردار آیا بڑا ۔۔"
سعد نے اسے چھیڑنا جاری رکھا
سعععععععددد ۔۔۔۔۔۔۔
۔سعد نیچے اور حمدان اسکے اوپر تھا اور انکی Pillow fighting start تھی ۔۔۔۔
Episode 34
"کہاں رہ گئے تھے آپ "۔۔۔انعمتہ بیگم نے حماد صاحب سے سوال کیا
"میں حمدان کے پاس گیا تھا میں چاہتا ہوں کہ امل اور حمدان۔ایک بندھن میں بندھ جائیں اور حمدان کو بھی کوئی اعتراض نہیں یے"
حماد صاحب نے اپنی کتاب کھولتے کہا
"کیا۔۔۔۔۔۔۔حمدان اور امل اور وہ مان گیا ۔۔کیسے ۔۔یقیناً آپ نے اسے فورس کیا ہوگا ابھی کل تک تو وہ شادی کے لئے مان ہی نہیں رہا تھا "
انعمتہ بیگم کو بلکل یقین نہیں آیا تھا اور انہیں یہ رشتہ پسند بھی نہیں آیا تھا
"میں نے کوئی زبردستی نہیں کی ہے مجھے بھی پتہ ہے کس بات کو کس طرح سے کرنی ہے میں باپ ہوں اسکا اسکے ایکسپریشن سے اندازہ لگایا ہے میں نے اور میں یہی چاہتا ہوں"
حماد صاحب نے کہا
"لیکن جو بھی ہے آخر اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو امل اور اذہان کی منگنی ٹوٹی ہے اور آپ نے حمدان سے فوراً جوڑ دیا لوگ کیا کہیں گیں "
انعمتہ بیگم نے بات بنانے کی کوشش کری
"لوگو کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے انکا کام صرف باتیں بنانا یے دو دن تک بولیں گیں پھر بھول جائیں گیں اور ویسے بھی امل اور اذہان کا کوئی میچ نہیں ہے امل لاپرواہ ناسمجھ امیچیور یے اور اذہان تو ماشاءاللٰہ اس سے بڑھ کر ہے اس لئے حمدان بلکل ٹھیک رہے گا اسکے ساتھ اور میں نے کہ دیا یے اب کوئی بحث نہیں کرنی ہے مجھے کتاب پڑھنے دیں "
حماد صاحب نے بات ختم کی تھی
______________________________
"پیکنگ کر رہے ہو "۔۔مرتضی نے حمدان کے کمرے میں آکر کہا
"ہاں رات میں فلائیٹ ہے " حمدان نے اپنا کام جاری رکھتے کہا اسے چھوٹے موٹے کام دوسروں سے کروانے کی عادت نہیں تھی
"خوش ہیں اب آپ "۔۔۔مرتضی نے کہا
"مطلب " اس نے سر اٹھا کر کہا
"مطلب کہ امل اور اذہان کی منگنی ٹوٹ گئی یے اور آپ امل سے محبت کرتے ہیں نہ اسی لئے "
مرتضی نے اسے بتایا
" خوشی بہت چھوٹا لفظ ہے جو میں محسوس کررہا ہوں ابھی تمہیں پتہ یے بابا آئیں تھے امل کا ہاتھ مجھے تھمانا چاہتے ہیں "
یہ کہ کر حمدان مرتضی کے گلے لگ گیا تھا اور مرتضی بھی گرم جوشی سے اس سے ملا تھا وہ بھی بہت خوش تھا
"لیکن حمدان تم نے ایسا کیوں کیا پھر اذہان کو امل کے خلاف کیوں بھڑکایا "
مرتضی نے اذہان کی کہی بات حمدان سے کہی
"میں نے بھڑکایا نہیں یے میں بس اسے آزمانا چاہ رہا رھا کہ وہ امل سے کتنا honest ,fair ہے لیکن میں نے اسکی آنکھوں میں نہ وہ آگ دیکھی نہ وہ تڑپ۔۔ اسے امل سے محبت نہیں ہے مجھے لگا تھا کہ میں زیادتی کر رہا ہوں اسکے ساتھ کیونکہ ضروری نہیں یے کہ جسے آپ چاہتے ہوں وہ ملے بھی ضرور اسکی خوشی ذیادہ اہم ہوتی ہے میں شاید ہیچھے ہٹنا چاہ رہا تھا لیکن ایک دفعہ کنفرم کرنے کے بعد وہ امل کو ڈیسرو نہیں کرتا اور میں مانتا ہوں کہ وہ جو بھی کہا بہت ذیادہ غلط تھا لیکن یہ کہتے ہوئے مجھے بھی بہت تکلیف ہوئی تھی ایک اذیت سے گزرا تھا میں امل سے معافی بھی مانگوں کا اپنی کہے گئے الفاظ کا ازالہ اس پر اپنی محبت نچھاور کر کے کروں گا "
حمدان کا انگ انگ امل کے نام کی مالا پڑھ رہا تھا
اور حمدان کچھ کہتا کہ اسکی نظر سامنے پڑی تو امل کھڑی ہوئی تھی اور اس نے ان دونوں کی تمام باتیں سن لیں تھی
"مرتضی تم جاو مجھے تمہارے بھائی سے بات کرنی یے "
امل نے اندر آتے ہوئے کہا
"امل "۔۔۔۔حمدان نے اسے پکارا
"آج آپ چپ رہیں گیں اور میں بولوں گی
آپ مجھ تک دیر سے پہنچیں آپ کو بعد میں احساس ہوا یہ میری غلطی ہے سب گھر والوں نے میری اذہان سے منگنی کرائی انکی رضامندی تھی تو اس رشتے کے تحت مجھے اس کے ساتھ فئیر رینا تھا میں کوئی بےایمانی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ یہ دنیا کا دستور یے کیا یہ سب میں نے بنایا یے کیا میری غلطی ہے یہ سب اور آپ نے اس منگنی کو توڑوانے کے لئے اتنا کچھ کہا "
امل کی آواز رندھ گئی تھی آنکھیں چھلکنے کےلئے بےتاب تھی
"امل میں نے وہ سب کہا لیکن جان بوجھ کر کہا تھا وہ تمہیں ڈیسرو نہیں کرتا میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو مجھ سے گلہ ہے تمہیں لیکن پلزززز بےرخی نہ برتنا تم مجھے بتاو میں کس طرح مناو تمہیں یہ بتا کر احسان کردو ۔۔۔۔"
"میری ہر منزل تم تک ختم یے مجھے اس تک پہنچادو مجھے اچھے نہیں لگ رہیں ہیں تمہارے آنکھوں میں یہ آنسو تمہارے ان نرم ہونٹوں پہ یہ شکایتیں تم مسکراتی ہوں تو میرا دل بھی مسکراتا ہے اور جب تم اداس ہوجاتی ہوں تو میرا دل مجھ سے روٹھ جاتا یے۔۔"
"اگر میرا ہیار تمہیں جرم لگ رہا یے تو میں انتہائی مطلوب مجرم بننا چاہوں گا "
حمدان امل سے کچھ دور کھڑا اسکے کان میں رس گھول رہا تھا قطرہ قطرہ اپنی محبت کو اسکے اندر انڈیلنا چاہ رہا تھا
امل کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا بس اسے صرف حمدان کی دھڑکنیں اور اسکی گرم سانسوں کی تپش اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہی تھی
حمدان نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کچھ قدم بڑھا کر ایک سرخ گلاب لایا تھا جو وہ کچھ دیر پہلے گارڈن سے توڑ کر لایا تھا اور امل کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اسکے کان میں اسے اٹکادیا تھا
" جانتی ہوں یہ جو گلاب ہوتا ہے یہ پیار کی زبان کہتا ہے اور اسے بس دل ہی جانتا یے یہ میرے دل کی بات بھی تمہارے دل تک پہنچا دے گا
حمدان نے اسکے سامنے کھڑے ہوکر کہا اسکی ساری شکایتیں دم توڑ گئیں تھی اسکی محبت اسکا عشق اسکی شکایتوں پہ بھاری پڑ رہا تھا
"میں آج لندن جارہا ہوں واپس آکر تمہیں اپنا بنالوں گا میرا انتظار کرو گی "
حمدان نے کہتے ہوئے اسکے ہاتھ سے اذہان کی پہنائی ہوئی رنگ نکالی اور اپنی جیب سے نکال کر ایک خوبصورت رنگ اسکے سامنے کری اور اجازت طلب نظروں سے دیکھا امل نے اپنا سر جھکا لیا تھا اسکی ٹانگیں کانپنے لگ گئی تھی تنفس بگڑ گیا تھا دھڑکنیں منتشر ہوگئیں تھی ۔۔۔۔۔
حمدان نے وہ رنگ اسکے ہاتھ میں پہنائی جس پہ ایچ بھی لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔
"میں چاہتا ہوں لوگ تمہیں میرے نام سے پہچانیں ۔۔۔۔"
وہ بھاری گھمبیر لہجے میں کہ رہا تھا
"جواب نہیں دیا بےبی انجیل انتظار کروں گی "
اس نے ایک امید سے سوال کیا
"شا۔۔۔۔۔شاید ۔۔۔۔"۔۔۔۔اس نے بہت ہلکے اور نرم لہجے میں کہا تھا
حمدان نے لبوں پہ تبسم پھیل گیا تھا
""The Day when I Saw You I was Mersmerized By Your Innocence After That Your Shinning Hair Your Glamour Face your Sweet Smile Always remains in my Mind but i denied from all that but now i am realized You Meant to me a moonlight You meant to me a apple of my eyes I can't describe in words That How Much I Adore You I want you To be live Together From Now on To Forever """
حمدان ایک بار پھر اسکے کانوں میں امرت گھول رہا تھا
"آپ.۔۔ آپکی ۔۔۔ام۔۔۔اما۔۔۔امانت ۔۔۔"
ہکلاتے اس نے کہا وہ یہ تک بھول گئی تھی کہ وہ یہاں کیوں آئی تھی وہ شخص اسے اسیر کرنا جانتا تھا اسے تسخیر کرنے کا ہنر آتا تھا۔۔۔۔۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے حمدان کا کوٹ اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔۔
"میں اپنی امانت تو یہاں چھوڑ کر جارہا ہوں "
حمدان نے بھاری لہجے میں اسکی انکھوں میں دیکھتے کہا ایک پل کے لئے انکی آنکھیں ملیں تھیں پھر امل نے اپنی پلک جھپکا لیں تھی
"بے بی انجیل تم تو ابھی سے ڈرنے لگ گئی صرف چند لفظوں سے میری محبت کی شدت کیسے جھیلوں گی
"Have A Safe Journey "
امل نے کہتے ہوئے باہر کی راہ لی
"سنو۔۔۔۔"
حمدان کی آواز پہ وہ رک ضرور گئی تھی لیکن پلٹی نہیں تھی
"بی بی انجیل اپنی خاص حفاظت کرنا بے شک یہ سانسیں تمہاری ہیں لیکن جان تو تم میری ہو نہ"
ناجانے کس احساس کے تحت حمدان نے یہ کہا تھا
امل بغیر کچھ کہے کمرے سے چلی گئی تھی اور حمدان بھی اپنی داڑھی اور مونچھوں پہ ہاتھ پھیرتا سرشار سہ مسکرایا تھا
_______________________
امل کی عادت تھی روز صبح سب سے پہلے آغاجان سے ملتی تھی
آج اسکی آنکھ دیر سے کھلی تھی
فریش ہونے کے بعد وہ آغا جان کے پاس گئی تھی
"میری گڑیا ۔۔آج اتنی دیر سے اٹھی "
آغا جان نے امل کے ماتھے پہ پیار کرتے ہوئے کہا
"جی وہ بس آنکھ نہیں کھلی آپ کیسے ہیں اپنا بلکل خیال نہیں رکھتے آپکی طبعیت بھی نہیں ٹھیک "
امل نے آغا جان کا ہاتھ چومتے کہا
"اپنی گڑیا کو دیکھ لیا ہے ٹھیک ہو گیا ہوں"
آغا جان کے لہجے میں امل کے لئے پیار ہی پیار تھا ۔۔۔
______________________
"خالہ جان میں کچھ نہیں جانتی آپ کو میری بات ماننی ہوگی اگر حمدان مجھے نہ ملا تو میں جان لے لوں گی اپنی اور اسکی ذمہدار آپ ہونگی "
آبرو نے اپنے نقلی آنسو بہاکر اپنے ڈرامے بازی کو جاری رکھا ہوا تھا
"آپ کی بھی تو یہی خواہش ہے نہ کہ میں آپکی بہو بنو اور امل کی وجہ سے آپکو آج تک وہ مقام نہ ملا جو آپکو ملنا چاہئیے تھا وہ اتنی چالاک ہے کہ کیسے اذہان کا پتہ صاف کرکے حمدان سے جڑ گئی
حمدان لندن جا چکا ہے یہ بہت اچھا موقع ہے امل نام کا کانٹا اپنی زندگی سے نکال پھینکیں ۔یہ صحیح وقت ہے "
انعمتہ بیگم کو اپنے جال میں پھنستا دیکھ کر آبرو اندر ہی اندر مسکرا رہی تھی
"کیا آپ چاہتی ہیں کہ امل کی شادی حمدان سے ہوجائے نہیں نہ تو پھر اتنا سوچنا کیا "
"ہاں ٹھیک کہ رہی ہو آبرو تم لیکن ہم کیا کرینگے "
انکا دل تذبذب کا شکار تھا
"میں آپکو بتاتی ہوں "
آبرو نے انہیں اپنا پلان بتایا
"ٹھیک ہے آبرو میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن ۔۔۔۔"
اندر سے انعمتہ بیگم کا دل گھبرا رہا تھا ۔۔۔۔
آغاجان کے بوڑھے کانوں نے یہ سب سن لیا تھا اور انکے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی تھی اور وہ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر مردہ چال چلتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھے تھے
انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ انکی بہو امل کے ساتھ اسطرح کچھ کر سکتی ہے اور یہ سوچتے وہ اچانک ایک طرف ڈھ گئے تھے
________________________
بی جان آغاجان کو یوں عجیب طرح سے لیٹا دیکھ کر چونکی تھی پھر قریب جاکر انہیں آواز بھی دی لیکن انکا جسم بلکل ساکت تھا اور وہ ٹھنڈے ہو رہے تھے ۔۔۔۔
بی جان نے ایک انجان خدشے کے ساتھ سب کو آواز دی آغا جان کو اسپتال لےکر سب بڑے گئے تھے
لیکن بہت دیر ہوچکی تھی انکا آخری وقت آگیا تھا اور وہ سب کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔
سعد اور حمدان نے بہت کوشش کری تھی لیکن انہیں فلائیٹ نہیں ملی تھی
گھر میں ایک کہرام سا برپا ہوگیا تھا سب کی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھی کسی کو یقین نہیں آرہا تھا آغاجان کی اتنی اچانک موت کا ۔۔۔۔۔
امل ایک کونے میں بلکل سن بیٹھی تھی اسکی آنکھیں رو رو کر سوجھ چکی تھی لیکن آنسو اسکے باوجود بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اس پہ جان چھڑکنے والے آغاجان آج جا چکے تھے اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔
اسکی اجڑی حالت ۔۔اسکے چہرے پہ آنسووں کے نشان ۔۔۔بخار کی حدت سے اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا
یہ سب اسکی غم کا پتہ دے رہی تھی کل تک اسکے آغاجان اسے جان لٹاتی نظروں سے دیکھ ریے تھے لیکن آج یہ کیا ہوگیا تھا
____________________________
آبرو انعمتہ بیگم کو کھینچ کر ایک کمرے میں لائی تھی اور کہا تھا کہ یہی صحیح موقع ہے اپنے پلان پہ عمل کرنے کا
آپکو میں جو کہ رہی ہوں وہ بس آپ کریں ۔۔۔۔
اسکے بعد آبرو نے ایک نمبر ڈائل کرا اور کہا جب میں کال کروں اپنا بندہ بھیج دینا ۔۔۔۔
انعمتہ بیگم نے امل کو زبرددستی جوس پلایا تھا جس میں انہوں نے نیند کی دوائی ملائی تھی اور اسے باہر والے گیسٹ روم میں آرام کرنے کی غرض سے لے آٙئیں تھیں
امل کو تو ویسے بھی کوئی ہوش نہیں تھا کچھ ہی پل میں وہ ہوش سے بیگانہ نیند کی وادی میں گم ہوگئی تھی
آبرو نے اسکے آستین کا کچھ حصہ پھاڑ دیا تھا دوپٹہ اسکی پہنچ سے دور کر دیا تھا امل کی ہاتھوں میں چند کانچ کی چوڑیوں کو توڑ ڈالا تھا اور بکھیر دیا تھا کمرے کی چیزیں ادھر ادھر کر دی تھی
اور منظر کچھ ایسا کردیا تھا جو امل کےساتھ ذیادتی کا پتہ دے رہی تھی
اپنا کام مکمل کرکے انعمتہ اور آبرو کمرے کا دروازہ بند کرکے نکل گئیں تھیں اور بس انہیں اب ایک موقع کا انتظار تھا
________________________
Episode 35
سارے مرد حضرات آغاجان کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے گئے ہوئے تھے
گھر میں تمام خواتین رشتہ دار محلے داروں کا رش تھا جب
اچانک ہی سامنے والے گیسٹ روم سے ایک لڑکا تیزی سے بھاگتا ہوا سب کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا سب ہی نے اس انجان شخص کو اس طرح دیکھ کر تھوڑا عجیب فیل کیا تھا
امل نے کسمساتی ہوئی اپنی آنکھیں کھولیں تھی اسے اپنا سر بہت بھاری محسوس ہورہا تھا
"یہ کون ہے اور یہ چوروں کی طرح کیوں بھاگا اس کمرے میں تو امل تھی "
امل ۔۔۔ْآبرو نے تیز آواز میں سب کو سنا کر کہا
امل اپنا چکراتا سر سنبھالتی ہوئی اسی حلیہ میں باہر آئی تھی اسے اپنا دماغ سن ہوتا لگ رہا تھا
"اوو امل کیا ہوا تمہارے ساتھ "
سب ہی امل کی اس حالت کو دیکھ کر چونکے تھے
"امل کی ایسی حالت اور وہ لڑکا بھی ابھی اسی کمرے سے بھاگا ہے امل تم میں ذرا شرم نہیں ہے تمہارے دادا کو مرے ہوئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے اور تم نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنا راتیں رنگین کرنے کا سوچا شرم آنی چاہئیے"
آبرو نے تیز آواز میں کہا
رائمہ نے فوراً اٹھ کر امل کے وجود کو شال سے ڈھکا تھا اور کہا تھا
"امل کیا ہوا ۔۔بتاو ۔۔ڈرو نہیں ۔۔ہم سب ساتھ ہیں "
امل تو خود یہی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کیا ہوا ہے ۔وہ کیا جواب دیتی وہ جتنا سوچنے کی کوشش کر رہی تھی اتنا ہی اسکے سر میں درد ہورہا تھا اور یاد کچھ بھی نہیں آرہا تھا ۔۔کون لڑکا"۔۔۔۔اس نے پوچھا
عورتیں بھی امل کی خاموشی دیکھ کر سمجھ رہی تھی کہ اسکے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے
"کیسی لڑکی ہے توبہ یہ بھی لحاظ نہیں کیا کہ دادا ابھی مرا ہے اور اپنے عاشق کو بلالیا کیسی کرم جلی ہے ایسی لڑکی سے تو بہتر ہے کسی کی لڑکی ہی نہ ہو "
کچھ عورتوں نے کہنا شروع کیا تھا
ان سب کی بکواس میں آبرو ایک میں دو لگا کر کہ رہی تھی اور انعمتہ بیگم بھی تھوڑا تھوڑا جسکا ساتھ دے رہی تھی
"اس کو گھر سے نکال دینا چاہئیے ایسی لٰڑکی کو شریف محلے میں رہنے کا کوئی حق نہیں نکالو اسے"
آبرو کی کہی گئی بات پہ سب نے حامی بھری تھی
صدف بیگم تو چکرا کر گر گئی تھی اور شانزہ بیگم انہیں سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی
"ایک منٹ آپ لوگ بغیر کسی تصدیق کے اس طرح کسی پہ بھی بہتان کیسے لگا سکتے ہیں آپکے گھر میں بھی بیٹی ہے کچھ خدا کا خوف کریں "
سویرا نے امل کے حق میں کہا
رائمہ نے جسکا بھرپور ساتھ دیا
آبرو کو اپنا پلان فلاپ ہوتا نظر آرہا تھا
"یہ سویرا اور رائمہ تو سارے کئے پہ پانی ڈال دینگی اور ایسا میں نہیں ہونے دونگی "
آبرو نے دل میں کہتے سب کی نظروں سے بچ کر سویرا کو دھکا دیا جس سے وہ میز سے ٹکرائی تھی اور اسکا سر تھوڑا سہ پھٹ گیا تھا
"اوو سویرا ۔۔پتہ نہیں کیسے ۔۔۔۔۔سوری ۔۔رائمہ آنی آپ سویرا کو لےکر جائیں ۔۔اسکے سر سے خون نکل رہا ہے ۔۔۔میں دیکھتی ہوں یہاں "
آبرو نے دونوں کی توجہ یہاں سے ہٹادی تھی
آبرو نے انعمتہ بیگم کو اشارہ کیا جس کا مطلب سمجھ کو انہوں امل کو گھر سے نکال دیا تھا امل ایک نازک ڈال کی طرح ایک روبوٹ کی طرح انعمتہ بیگم کے ساتھ چلی جارہی تھی
امل کے جب تک کچھ سمجھ میں آتا اور وہ اپنی صفائی میں کچھ کہتی اسے تو گھر سے نکال دیا گیا تھا۔۔
امل کی تو یہ سب سمجھ سے باہر تھا اسکے کانوں میں بس لوگوں کے زہریلے الفاظ گونج رہے تھے اور وہ اپنے ہوش میں نہیں تھی ۔۔وہ اپنے گھر سے کچھ قدم آگے آئی تھی کہ اسکا سر چکرانے لگا تھا آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تھی اور کچھ دوائی کا بھی اثر تھا ۔۔۔۔امل اگلے ہی لمحے زمین بوس ہوئی تھی
وہ سایہ جو اسکے ہی تعاقب میں تھا اپنے پلان مکمل ہونے کی صورت میں اسکے لبوں میں ایک زہریلی مسکراہٹ تھی وہ امل کو اٹھاتا منظر سے غائب ہوگیا تھا
_________________________
گھر کے سارے مرد جب واپس آئے تو سارا ماجرا سنکر انکا دماغ ہی سن ہوگیا تھا
"انعمتہ آپ یہ کیسے کر سکتی ہیں کیا آپکو امل پہ یقین نہیں یے ۔۔۔کہاں چلی گئی ہے وہ "
حماد صاحب انعمتہ بیگم سے مخاطب تھے
"میں نے کچھ نہیں کیا حماد وہ سب اتنی باتیں بول رہے تھیں ۔مجھے غصہ آگیا میں نے بس اسے دروازے تک نکالا تھا پتہ نہیں کہاں چلی گئی میں سب کے پریشر میں آگئی تھی"
انعمتہ بیگم نے ڈرتے ڈرتے کہا
"جی خالو جان خالہ ٹھیک کہ رہی ہے ۔۔امل نے اس لڑکے کو خود ہی بلایا تھا ہم سب نے دیکھا تھا"
آبرو نے بھی انعمتہ کا ساتھ دیتے ہوئے کہا
"چپ بلکل چپ ایک لفظ امل کے خلاف نہیں سنا تم نے زبان گدی سے کھینچ لوں گا اور تم میں ذرا بھی تمیز ہے جب دو بڑے بات کر رہے ہوں تو بیچ میں مداخلت نہیں کرتے "
مرتظی اس پر چیخا تھا
"حنین۔۔ امل ۔۔۔میری بچی ۔۔وہ بہت بھولی ہے اس نے کچھ نہیں کیا ۔سب الزام ہے ۔۔میری بچی کو لائیں "
صدف بیگم نیم بیہوشی کی عالم میں امل کو پکار رہی تھی ۔۔۔۔حنین انکے سرہانے بیٹھے انہیں تسلی دے رہے تھے جب کہ انکا اپنا دل خود بہت کانپ رہا تھا ۔۔۔
"بابا میں اور اذہان ڈھونڈتے ہیں امل کو آپ لوگ پریشان نہ ہوں "۔مرتظی سب کو تسلی کراتا اذہان کے ساتھ امل کو ڈھونڈنے گیا تھا
حماد صاحب تو اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے انہیں انعمتہ سے اس بےوقوفی کی امید نہیں تھی
مرتظی اور اذہان آس پاس کی سب جگہ تلاش کرکے پوچھ کر کے مایوس لوٹ آئیں تھے
سب کی سمجھ سے باہر تھا کہ امل کو کہاں تلاش کریں پولیس میں بدنامی کے ڈر سے اطلاع نہیں کی گئی تھی اس طرح دو دن گزر گئے تھے
حارث صاحب کا کہنا تھا کہ کہیں امل کیڈنیپ تو نہیں ہوگئی
جس کے جواب میں حماد صاحب نے کہا "
٢ دن ہو گئے ہیں اسے غائب ہوئے اگر کڈنیپنگ کیس ہوتا تو کوئی کال تو آتی
غرض کے ہر فرد پریشان تھا ۔۔۔اور سب امل کے لئے دعاگو ۔۔وہ سب اپنے ذرائع کا استعمال کر کے امل کو تلاش رہے تھے
_________________________
بلو جینس پہ بلیک ٹی شرٹ پہ بلیک ہی جیکٹ پہنے ماتھے پہ بےترتیبی سے بکھرے بال ۔۔آنکھوں پہ سن گلاسس لگائے حمدان تقریبا نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا لیکن وہ سب سے بے نیاز ایک شاہانہ چال چلتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا تھا
سعد بھی سیم ڈریسنگ میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔
حمدان کا دل بےچین تھا امل کو ایک نظر دیکھنے کےلئے ایک ہفتے سے وہ مختلف کاموں میں پھنسا ہوا تھا ایک طرف آغا جان کی موت کا بےحد افسوس تھا تو دوسری طرف امل کو دیکھنے کا اشتیاق ۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھے اپنے نئے موبائیل میں امل کی بے شمار تصویروں کو مہبوت ہوکر دیکھ رہا تھا جو اس نے اب تک امل کے ناآشنائی میں لی تھی پرانا موبائیل تو اس دن پول میں گر گیا تھا اور خراب ہوگیا تھا اور وہ خود سے مخاطب تھا "
کیا ہو تم امل کوئی جادوگرنی جس نے مجھ جیسے شخص کو اپنے قابو میں کرلیا ہے ۔۔۔اب نہیں ۔۔اب بس تم میری بننے کے لئے تیار ہوجاو ۔۔۔پھر یہ حمدان شیرازی تمہیں اپنے دل میں ہمیشہ کے لئے قید کرکے گا "
اور سعد بھی اپنی منکوحہ کو دیکھنے کے لئے بےتاب تھا
_________________________
حمدان اور سعد نے گھر آکر سب سے پہلے بی جان کو حوصلہ
دیا تھا اور پھر سب کو حمدان کی متلاشی نظر امل کو ڈھونڈ رہی تھی اسے بہت عجیب لگا تھا گھر کے سبہی لوگ ہیں سوائے امل کے کہیں اسکی طبعیت تو نہیں خراب وہ تھی بھی تو آغاجان سے بہت attached
دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر حمدان نے امل کے بارے میں پوچھا لیکن سب کے لبوں پہ ایسی چپ تھی گویا کہ ٹیپ لگا کر بند کر دیا ہو
ایک انجانہ سہ خدشہ حمدان کو اپنے گرد منڈلاتا نظر آیا
"امل تو منہ کالا کرکے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی "
آبرو نے آخر کار اپنا منہ کھولا جوکہ حمدان کا دماغ گھما گئی تھی
"کیا بکواس ہے ایک لفظ کیا حرف تک نہیں نکالنا ورنہ بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے تو اپنے منہ پہ ٹیپ لگالو "
حمدان بولا نہیں دھاڑا تھا آبرو تو اسکے تیور دیکھ کر ڈر کے چپ ہی ہوگئی تھی
لیکن سب خاموش تھے
"کچھ ہوچھ رہا ہوں میں آپ سب سے کیوں خاموش ہیں آپ لوگ "
وہ پھر چیخا تھا
مرتظی نے آگے بڑھ کر حمدان کو ساری بات بتائی
لیکن حمدان تو لفظ دو دن پہ اٹک گیا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ سب چھوڑ چھاڑ باہر کی جانب بھاگا تھا سعد بھی حمدان کے پیچھے بھاگا تھا
حمدان اور سعد نے hospital edhi homes welfare centre جن جگہوں کا بھی انہیں شبہ تھا سب جگہ معلوم کر لیا تھا لیکن امل ہوتی تو ملتی نہ
واپسی پہ حمدان نے مرتظی کا دوست جو کہ پولیس میں تھا اس کی مدد لیکر ریپورٹ درج کرائی تھی
حمدان پہ گویا ایک جنون سوار تھا سعد اسے بہت مشکل سے زبردسرتی گھر واپس لایا تھا
سب گھر والے حمدان کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے لیکن حمدان نے سب کو ان سنی کرکے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا تھا
"آیا بڑا مجنوع دیکھتی ہوں کتنی دن رہتا ہے یہ عشق کا بھوت ۔۔۔۔آبرو نے ہنکار بھرتے ہوئے کہا
__________________________
Episode 36
سعد ڈپلیکیٹ کی لےکر حمدان کے کمرے کا لاک کھول کر آیا تو پورے کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اور حمدان ایک کونے میں سکڑا ہوا بیٹھا تھا
حمدان کی حالت دیکھ کر سعد کا دل کٹ کے رہ گیا بکھرے بال ۔آنکھیں لال انگارہ جیسی یہ وہ حمدان تو نہیں تھا
"سعد ۔۔۔امل ۔۔و۔۔وہ مج ۔۔۔۔مجھے چھ۔۔۔چھوڑ کر چلللل۔۔۔چلی گئی ابھی توووو۔۔۔ میں نے اعتراف کیا تھا بس اس سے اپنی محبت کا اسے یہ بتانا تھا ابھی کہ میں اس سے محبت نہیں عشق کرنے لگا ہوں کب وہ میری دل کی دھڑکن بن گئی ۔۔میری آنکھوں کا قرار بن گئی ۔۔۔میری سوچوں کا مرکز بن گئی ۔۔میرے وجود کا حصہ بن گئی اسے یہ سب بتانا ہے مجھے ۔۔۔۔وہ بغیر سنے ہی چلی گئی ۔۔وہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے ۔۔میں کیسے رہوں گا اسکے بغیر ۔۔۔میرا دل بند ہو جائے گا"
حمدان نے سعد کا ہاتھ اپنے دل پہ رکھ کر کہا
"یہ دھڑکنا نہیں چاہ رہا۔۔امل کی ضرورت ہے اسے ۔۔۔کیا اسے میری تڑپ نظر نہیں آرہی ۔۔۔ابھی تو میں نے خواب دیکھے تھے ۔۔ابھی انہیں پورا ہونا ہے ۔۔وہ مجھے یوں چھوڑ کر نہیں جاسکتی ۔۔۔سعععععددددد ۔۔۔۔۔امل کو ڈھونڈو ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں رہ سکتا اسکے بغیر ۔۔۔۔
کہتے کہتے حمدان کی آنکھوں سے نا چاہتے ہوئے بھی آنسو کا ایک ننھا قطرہ چھلک پڑا تھا
سعد نے اسے زبردستی نیند کی گولی کھلا کر سلایا تھا سعد سے حمدان کی یہ حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی
سعد نے حمدان کو ٹچ کیا تو اسکا پورا جسم تپ رہا تھا
سعد کو اپنا یہ جگر آج بہت بےبس لگا وہ اسے اپنے حواسوں میں محسوس نہیں ہوا ۔۔نیند کے عالم میں بھی وہ امل کو پکار رہا تھا
سعد حمدان کو بیڈ تک لایا اور پوری رات حمدان کے سر پہ پٹی رکھتا رہا تھا
___________________________
حماد آپ مجھ سے ناراض ہیں میں نے کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا وہ سب اتنا بول رییں تھی کہ میں کیا کرتی میرے کچھ سمجھ نہیں آیا میں الجھ گئی تھی میں نے بس اسے گیٹ تک نکالا تھا گھر سے نہیں نکالا پتہ نہیں کہاں چلی گئی "
انعمتہ بیگم اپنی صفائی کے چکر میں بات کو طویل کر رہی تھی
"نہیں میں آپ سے ناراض نہیں ہوں شاید آپکا عمل فطری تھا بس دعا کریں امل مل جائے حمدان اسکے بغیر نہیں رہ سکتا پتہ نہیں کونسی آزمائش ہے "
انہوں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا
انعمتہ بیگم نے بھی ایک پل کے لئے حمدان کی حالت دیکھ کر سوچا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط تو نہیں کردیا
______________________
"پانی ڈالوں دو دن سے نیند کے مزے لوٹ رہی ہے "
امل کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھلی تھی اسے لگ رہا تھا کہ اسکی آنکھوں پہ کسی نے بہت سہ وزن رکھا ہو دو دن سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا جسکی وجہ سے وہ نقاہت فیل کر رہی تھی ۔
ہیوی ڈوز کی وجہ سے وہ دو دن تک بےہوش تھی ۔۔۔آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھول کر جب وہ اپنے حوش میں آئی تو دو انجان عورتوں کو اپنے سامنے پایا ایک تو ان میں عمر رسیدہ خاتون تھی اور دوسری میکپ سے لدی ہوئی بےہودہ لباس زیب تن کئے تھی
اور اسے وہ بوڑھی عورت بانو کے نام سے پکار رہی تھی امل پہ ایک گہری نظر ڈال کر اس نے کہا
" کیا مال ہے ۔۔سونے کی چڑیا ۔۔میری تو لوٹری ہی کھل جائے گی منہ مانگی قیمت لونگی اس کی تو میں ۔۔ایسا حسن تو دیکھا نہیں ہے وہ امل کی گوری رنگت نازک سراپے اور کم عمری دیکھتی ہوئی متاثر ہوئیں تھیں آج رات ہی کوئی مرغا پھنساتی ہوں "
امل کو انکی باتیں بہت عجیب لگ رہی تھی
"بوا اسے کچھ کھلا دے اور رات کے لئے تیار بھی کرنا ہے اور نگرانی کرنا سمجھی اور ہوشیاری نہیں ۔۔۔سمجھ آئی نہ ۔"
"جی بانو بیگم جو حکم "
اس بوڑھی عورت نے سر جھکا کر انکے سامنے انکی حکم کی تعمیل کری تھی
بانو بیگم کے جانے کے بعد امل نے بوا سے کہا
"میں کہاں ہوں یہ کونسی جگہ ہے میں یہاں کیسے آئی میں تو اپنے گھر "
امل نے سوچا تو اسے ان عورتوں کی زہریلی باتیں یاد آئیں ۔۔۔
بوا کو امل بہت بھولی لگی اور شکل وصورت سے اچھے گھرانے کی ۔۔لیکن قسمت کی ماری
"بیٹا تم اسلام آباد کے ایک کوٹھے پہ ہو میں نہیں جانتی کہ تم یہاں کیسے آئی ۔۔کون لایا ۔۔۔تم مجھے بے ہوشی کے عالم میں ملی ہو "
بوا نے کہا
"ک۔۔۔کووٹ۔۔۔۔ٹھا ۔۔۔ن۔۔۔نہ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔آپ پلز میری مدد کریں مجھے یہاں سے نکالیں ۔۔میں اسلام آباد کیسے آگئی ۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ۔میں نے کچھ نہیں کیا "
امل روتی کہ رہی تھی
"اب یہاں سے نہیں نکل سکتی تم یہاں وہی ہوتا ہے جو بانو بیگم چاہتی ہیں تم یہ کھانا کھالو "
بوا نے کہا
"نہیں آپ ایسے نہیں جاسکتی پلز میری بات سنیں "
وہ روتی کہ رہی تھی
لیکن بوا تو دروازہ لاک کرکے چلی گئی تھی
امل دروازہ پیٹتی رہ گئی تھی دروازہ کھولیں کوئی ہے نکالوں مجھے یہاں سے ۔
جب وہ چیخ چیخ کر تھک گئی تو روتے روتے وہ دروازے کے ساتھ ہی لگ کر بیٹھ گئی تھی
ایک کے بعد ایک آنسو کی لڑیاں اسکی آنکھوں سے بہ رہی تھی . "آغاجان آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گٙئے آپ نے میرا ہاتھ چھوڑا اس دنیا نے میرے ساتھ کیا کردیا ۔۔آپ جانتے ہیں نہ آپکی امل کتنی ڈرپوک ہے ۔۔آپ کیوں چھوڑ گئے ۔۔میرا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔مجھے اپنی صفائی میں کچھ کہنے نہ دیا گیا ۔۔۔کون لڑکا میں نہیں جانتی "
امل اپنے دماغ میں زور ڈالتی سب یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔مجھے بڑی ماما نے جوس پلایا اور اسکے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کیا ہوا میں یہاں کیسے آگئی میں تو اپنے گھر کے پاس تھی مجھے کسی نے اٹھایا تھا۔۔۔۔کون تھا ۔۔۔میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ۔۔ماما پاپا ۔۔۔۔۔باہر سے گانوں کی آوازیں پایل کی چھنک اسے اپنے کانوں میں زہر گھولتی لگ رہی تھی ۔۔۔
"میری عزت کی حفاظت کرنا میرے مالک ۔۔مجھے صبر دے یہ کیسی آزمائیش ہے "
روتے روتے امل کی ہچکیاں بندھ گئی تھی ۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں سوجھ چکی تھی ۔۔بخار کی تپش سے اسکا چہرہ اب بھی سرخ ہورہا تھا ۔۔روتے روتے نہ جانے کب وہ دوبارہ نیند کی وادی میں گم ہوگئی تھی
________________
امل کے کمرے کا دروازے کا کھلا تھا اور ایک عجیب وغریب مسٹنڈہ، مونچھوں والا شخص عجیب حلیہ میں امل کو وحشیانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا امل جتنا پیچھے جا رہی تھی وہ اتنا قریب آرہا تھا ۔۔
"می۔۔۔۔میرے ق۔۔۔۔قریب م۔۔۔مت آ۔۔۔۔آو"
امل کی آنکھوں میں وحشت خوف وحراس آنسو کیا کچھ نہ تھا ۔۔۔۔
"بلبل سیراب تو ہونے دے پھر دور بھی ہوجاو گا "
وہ شخص امل کو خباثت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔
امل میں نہ جانے اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی پاس پڑا واز اٹھا کر اس نے اس بندے کے سر پہ دے مارا ۔۔۔
"آہ ۔۔یہ کیا کیا ۔۔کس پاگل لڑکی کے پاس بھیج دیا میری سارے پیسے ضائع کردئیے ۔۔۔چھوڑو گا نہیں اس بانو کو مجھے جھانسے میں لاکر پاگل لڑکی کے سپرد کردیا "
وہ اپنا سر پکڑتا باہر گیا تھا
امل ڈر کے مارے کانپ رہی تھی ہمت جمع کرکے اس نے واز تو مار دیا تھا لیکن اب ڈر غالب آگیا تھا
امل کو اپنا سر گھومتا محسوس ہوا اور وہ چکراتی ہوئی ایک طرف گری تھی۔
بانو بیگم غصے سے پھنکارتی ہوئی امل کے ہوش ٹھکانے لگانے آئی تھی اور اپنے ساتھ لائی بیلٹ سے کئی دفعہ اسے مار چکی تھی اور اسے بےہوش پاکر انہیں مزید غصہ آیا تھا لیکن بہت کوشش کی بعد بھی وہ ہوش میں نہیں آئی تو انہیں مجبوراً ڈاکٹر کو بلانا پڑا
"اس کا تو نروس بریکڈاون ہوگیا ہے ۔۔۔کمزوری بھی بہت ہے ۔۔ہاسپیٹل کی ضرورت یے "
ڈاکڑر نے پروفیشنل انداز میں کہا
"ہاسپیٹل ۔۔ہرگز نہیں ۔۔ذیادہ سیانہ پنتی نہیں ۔۔جو کرنا ہے یہی کر ۔۔اسے ٹھیک کر ۔۔بات یاد رکھنا تیرے سارے راز ہیں تیرے سارے جعلی کام کا پتہ ہے مجھے۔"
بانو بیگم نے کہا
ڈاکٹر کی کمزوری جو تھی تو وہ بولا
"ٹھیک آپ جیسا کہیں ۔۔یہ ڈرپ چڑھ رہی ہے ۔۔ہوش آنے میں ایک دن تو لگ جائے گا اسٹریس بہت ذیادہ ہے "
اس نے کہا
__________________________
امل ۔۔۔۔صدف بیگم اپنی بیٹی کو پکارتی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی تھی "کیا ہوا صدف آپ ٹھیک ہیں "حنین بھی نیند سے جاگ گئے تھے
"میری بچی ۔۔وہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔وہ تکلیف میں ہے پکار رہی ہے مجھے ۔۔۔۔"
وہ انکا پکڑ کر کہ رہی تھی
"سب ٹھیک ہے ۔۔آپ نے کوئی برا خواب دیکھا ہے پانی پئیں "
حنین صاحب نے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر انہیں پلایا
"آرام کریں سب ٹھیک ہو جائے گا "۔۔انہوں نے بہلایا
"نہیں میں نماز پڑھوں گی ۔۔دعا کروں گی "
صدف بیگم بیڈ سے اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھی تھی
"یہ کیسی آزمائیش ہے ہمیں صبر عطا فرما میری بچی کو اپنے حفظ وامان میں رکھنا"
حنین صاحب بھی اپنی بیٹی کے لئے دعا گو تھے
_____________________
رائمہ تو واپس اسلامآباد چلی گئی تھی ۔۔
سویرا اور اسکے والدین آج ہاشم ولا آئے تھے ۔۔
سعد سویرا کو لندن سے واپس آنے کے بعد آج دیکھ رہا تھا
اسے سویرا آج خاموش خاموش سی لگی پہلی والی شوخی نظر نہیں آرہی تھی ۔۔
"بس دعا کریں کہ امل مل جائیں کوشش تو سب کر رہے ہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہاں چلی گئی "
شانزہ بیگم سویرا کی والدہ سے مخاطب تھیں۔۔
"انشاءاللہ ۔۔اللہ اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے بہت اچھی بچی ہے "۔۔۔سعدیہ(سویرا کی والدہ) نے شانزہ بیگم کو جواب دیا تھا
سعد سویرا کی پیچھے امل کی کمرے میں آیا تھا تو وہ امل کی لگی تصویروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔
سویرا ۔۔۔۔۔۔اس نے پکارا
سعد کو دیکھتے ہی سویرا کا ضبط ٹوٹ گیا تھا اور وہ بےخودی کی کیفیت میں سعد کے سینے پہ سر رکھے رونے کا شغل فرمانے لگی تھی
"سعد وہ بہت معصوم ہے۔۔پتہ نہیں وہ کہاں ہے کیسی ہے ۔۔کس حال میں ہے ۔۔مجھے اسکی بہت فکر ہورہی ہے ۔۔۔۔"
سعد مسلسل ایک ہاتھ سے اسکے بالوں کو سہلا رہا تھا ۔۔
اور دوسرے ہاتھ سے اسکے گرد گھیرا کیا ہوا تھا ۔۔
"سویرا پلز ایسے رونے سے کچھ نہیں ہوگا ۔۔مجھے امید ہے وہ مل جائے گی ۔۔واپس ہمارے پاس آجائیگی ۔۔پریشان ہونے اور رونے سے کچھ نہیں ہوگا ۔۔دعا کرو ۔۔"
ہاں ۔۔۔۔۔اچانک ہی سویرا کو اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو وہ ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر سعد سے دور ہوئی تھی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی تھی
"سعد تم بہت برے ہو ۔۔۔کوئی موقع نہیں چھوڑتے "
سعد اسکا گریز سمجھ گیا تھا
"واہ بھئی ۔۔میں پاس آیا یا تم ۔۔آئی خود ہی پھر میری شرٹ بھی گندی کی ۔۔جبکہ میں تو تمہے۔ ہمت دے رہا ہوں ۔۔اور برا بھی میں ہی ۔۔نیکی کا تو زمانہ نہیں ہے ۔۔سہی کہا ہے نیکی کر دریا میں ڈال ۔۔۔۔۔"
سعد کی ڈرامہ بازی دیکھ کر اس غم میں بھی سویرا کے لبوں پہ ایک دھیمی مسکان آگئی تھی
سعد نے سویرا کے قریب جاکر اسکے آنسووں کو اپنے انگلیوں کے پوروں سے صاف کرا اور کہا
" رو نہیں میں نے کہا تھا ہر چیز میں تمہارا ساتھ دونگا لیکن مجھے تو رونا ہی نہیں آرہا ہے یہ چیٹنگ ہے تم میرا وعدہ توڑوانا چاہ رہی ہو"
سعد بھی امل کے لئے بہت پریشان تھا اور اس سے ذیادہ حمدان کےلئے فکرمند لیکن رونے اور ٹینشن لینے سے تو امل نہی مل سکتی نہ اس لئے سویرا کو ہنسانے کے لئے اس نے ایسا کہا
"بس ڈرامے کروالو آپ سے صرف " سویرا سعد کی شرٹ پہ اپنی ناک رگڑتی کہ رہی تھی
"آہاں ۔۔۔آپ ۔۔کیا میرے کانوں نے سہی سنا ہے جہاں تک یاد ہے آخری ملاقات تک تو میں تم تھا ۔"
سعد اسکے بالوں میں اپنی انگیاں چلا رہا تھا اور پھر اس نے اسکے بالوں پہ بوسہ دیا تھا
"سعد میں چلی جاو گی اگر آپ نے تنگ کیا تو "۔۔۔۔سویرا نے اس سے دور ہونے کی کوشش کی لیکن سعد نے اسکی کمر میں اپنے بازو ڈال دئیے تھے
"کہاں جاو گی تمہاری ساری راہیں مجھ تک ہیں "
سعد نے سویرا کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور کہا "تنگ کرنے کی بات جہاں تک ہے تو اسکا permit ہے اب میرے پاس "
کہتے اس نے سویرا کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے
سویرا کو اب شرم آنے لگ گئی تھی تھوڑی گھبراہٹ بھی سعد اچانک کیا کردے کچھ پتہ نہیں
یہ چوٹ کیسے لگی"
سعد نے سویرا کے ماتھے پہ لگے سنی پلاسٹ کو دیکھ کر کہا
"بس لگ گئی "۔۔۔۔۔اس نے کہا
اب سعد کا لہجہ بدل گیا تھا
"کیا مطلب لگ گئی یہ بات یاد رکھنا سویرا اب تم تم نہیں رہی میری ہوگئی ہو ۔۔آج معاف کیا آخری بار ۔۔۔آج کے بعد سے اپنا سوچ کر نہیں میرا سوچ کر خیال رکھنا اب ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئیے ۔۔۔۔۔۔۔سعد کے لہجے میں حکمرانی تھی
سویرا کو آپ اپنا آپ بہت معتبر لگا اور اس کے آنسو دوبارہ چھلک پڑے ۔۔۔۔
"سویرا تمہارے رونے سے مجھے بھی تکلیف ہورہی ہے کہاں سے لاتی ہوں اتنے آنسووں اور تم اداس ہو تو میں کیسے خوش رہ سکتا ہوں تم اتنی بہادر ہو ۔۔اس طرح رونے سے کچھ نہیں ہوگا ہم۔کوشش کر رہے ہیں ۔۔بس تم دعا کرو ۔۔پرامس کرو اب نہیں رو گی "
سعد نے اس کے چہرے کو اونچا کیا
جی۔۔پرامس ۔۔
سویرا اپنی نظروں کو جکھا کر ہی کہا اسکی آنکھوں میں تو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔
"سعد مجھے لگتا ہے یہ کوئی سازش ہے " ۔۔۔اس نے کہا
"سازش کیا مطلب ہے سویرا تمہاری بات کا"۔۔وہ الجھا
"میرا مطلب ہے کہ امل ایسی نہیں ہے ہم۔سب اسے جانتے ہیں اور وہ جو بھی لڑکا تھا آج تک اسے نہیں دیکھا ۔۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آیا "
وہ سعد کے حصار میں قید کہ رہی تھی
"لیکن امل کی کیا دشمنی کسی سے ۔۔۔کون کرے گا ۔۔؟؟سعد نے کہا
"پتہ نہیں ۔۔اور ۔حمدان بھائی کیسے ہیں "
سویرا بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا
"اگر کسی کی سازش ہے تو بچ نہیں سکتا ایک دن آہی جائے گا سامنے اور حمدان ٹھیک ہے "
حمدان تو جا نہیں رہا ہے اسکی حالت ہی ایسی نہیں ہے مجھے آفس جانا ہے ایک ضروری میٹنگ ہے اپنا خیال رکھنا "
اور اچانک سعد نے کہتے ہوئے اپنے دہکتے لب سویرا کے گال پہ رکھے تھے اور کچھ سیکنڈ کے بعد زور سے چوم کر ہٹا تھا
سویرا تو سن ہی ہوگئی تھی
"مسز سعد یاد کریں کیا کہا تھا میں نے جب اداس ہوگی تو یہی کروں گا تو آئندہ اداس ہونے سے پہلے سوچ لینا ۔۔۔یہ تو ٹریلر تھا ۔۔بات اس سے آگے بھی جاسکتی ہے اب "
"سعد تم جاو ورنہ ۔۔۔ہاں یہ جو پرفیوم کی بوتل ہے سویرا ڈریسن ٹیبل سے اٹھا کر لائی تھی یہ تمہارے ان لبوں پہ ہی ماروں گی "
ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔سویرا اپنے معصوم شوہر کو مارو گی بہت ہی غلط بات ہے ۔۔۔۔
سعد سویرا کے خونخوار تیور دیکھتے ہوئے کہ وہ سچ میں ہی عمل نہ کردے چلا گیا تھا
سویرا نے اپنے ہاتھ گال پہ رکھ کر کہا تھا "ٹھرکی چھچھورا"
__________________________
Episode 37
"حمدان اس طرح سے کیوں ٹہل رہا ہے "
سعد شرٹ چینج کر کے جب آفس جارہا تھا تو حمدان کو دیکھ کر کمرے میں آیا تھا اور حمدان کو اس طرح سے بےچینی سے ٹہلتا دیکھ کر کہا تھا
"میں کچھ سوچ رہا ہوں بلکہ تجزیہ کرنا چاہ رہا ہوں
امل ایسا کچھ نہیں کرسکتی وہ لڑکا جو بھی تھا آج تک کسی نے اسے نہیں دیکھا ۔۔وہ گھر میں کیسے آیا ۔۔اگر غلط نیت سے آیا تھا تو جیسے چھپ کر آیا ویسے ہی چھپ کر جاتا سب کی نظروں کے سامنے سےکیوں آیا اور سب کے مطابق امل اپنے حواسوں میں نہیں تھی اگر گہری نیند سے بھی سو رہی تھی تو اتنی بے خبر نہیں ہوتی ۔۔نہ اسکی چیخنے کی کوئی آواز آئی ۔۔اسکا مطلب ہے وہ بےہوش تھی ۔۔بغیر تفتیش کئے اسے گھر سے نکال دیا ۔۔ماما ایسی کر سکتی ہیں ۔۔مجھے یقین نہیں آرہا ہے ۔۔یہ سب کچھ پری پلان لگ رہا ہے ۔۔لیکن کون کرسکتا ہے اتنی نیچ حرکت ۔۔کسی کو یوں رسوا کرنا ۔سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹ رہا ہے ۔۔اور سمجھ کچھ نہیں آرہا ہے "
حمدان کے سر میں شدید درد ہونے لگ گیا تھا سوچ سوچ کر
"حمدان یہ بات سویرا بھی کہ رہی تھی لیکن پریشان نہ ہو اگر کسی نے کیا ہے تو ذیادہ دن تک یہ بات چھپ نہیں سکتی سامنے آجائے گی میں آفس جا رہا ہوں تو خود کو سنبھال "
سعد نے اسے ریلکس کیا
"میں ٹھیک ہوں بس ایک بار پتہ چل جائے چھوڑوں گا نہیں کسی کو میں "
حمدان غصے اور پریشانی میں ٹہلنے لگ گیا تھا دوبارہ
_____________________
"اذذہان یہ کون ہے "
شانزہ بیگم نے حیرانی سے اذہان کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر کہا
ماما یہ مہمام ہے آپکی بہو
"ہیلو آنٹی "
مہمام نے شانزہ بیگم کو کہا جس نے ٹوپ پہ جینس اور گلے میں اسٹالر ڈالا ہوا تھا ہلکے میکپ اور بالوں کا اونچا جوڑا بنائے وہ انہیں ماڈل ہی لگی
"اتنی جلدی کیا تھی اور اس طرح بغیر بتائے کسی رسم ورواج کی کیا ضرورت آن پڑی تھی جو تم نے ایسا کرا کیا گھر کے ماحول کے بارے میں نہیں جانتے تم ہم سب کتنے پریشان ہیں "
انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا تھا
اذہان کو لگا مرتضی کی بات سچ ہوگئی ہے وہ جو آج تک لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتا تھا اس کا سزا امل کو مل گئی ہے یہی سوچ کر اس نے مہمام نامی لڑکی جس سے وہ آجکل رابطے میں تھا اس سے شادی کرلی پچھلی لڑکیوں کا تو اسے پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور مہمام بھی اذہان کے کافی پیچھے پڑی ہوئی تھی بلکل جونک کی طرح اذہان سے ضد کرکے اس نے کورٹ میرج کی تھی ورنہ اذہان تو نہیں مان رہا تھا
لیکن ضروری نہیں ہے کہ اولاد کی کئے کی سزا والدین کو اور والدین کی سزا اولاد کو ملے انسان خود بھی اپنی غلطی کا خامیازہ بھگتا ہے
مہمام ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی اسکا کام لڑکوں کو پھنسا کر ان سے پیسے ہڑپنا تھا
اذہان سے شادی کا مقصد بھی صرف اذہان کی دولت تھی اذہان سمجھتا تھا کہ وہی لڑکیوں کے ساتھ کھیل سکتا ہے لیکن بہت جلد اسکی یہ غلط فہمی دور ہونے والی تھی ۔۔۔
اذہان کے پاس شانزہ کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا
"ماما میں جا رہا ہوں اپنے روم میں ۔۔آو مہمام
میری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی ہے حارث ۔۔۔
پاس بیٹھے حارث صاحب بھی اذہان کی اس حرکت سے افسردہ ہوگئے تھے حارث صاحب کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے ۔۔اذہان کی اس حرکت نے انکا سر جھکا دیا تھا
_________________________
"بابا اس میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے ۔۔انکی موت اسی طرح لکھی تھی ۔۔۔چھوٹے امی اور ابو کو اسی طرح جانا تھا انکا اتنا ہی وقت تھا ۔۔۔آپ خود کو قصور وار نہ ٹھرائیں"
حمدان مسلسل حماد صاحب کو سمجھا رہا تھا
اس دس دن میں گھر میں تین موت ہوگئی تھی اور سب بے حد افسردہ اور غمگین ہوگئے تھے
"میں نے انہیں بھیجا تھا ۔۔(صدف اور حنین کو حماد صاحب نے ایک دعوت پہ بھیجا تھا تاکہ انکا موڈ بہتر ہوجائے لیکن واپس آتے ہوئے حنین صاحب کو کال پہ امل کے بارے میں جو خبر ملی کہ وہ کھوٹے پہ ہے اس صدمے کے زیر اثر وہ سامنے سے آتے ہوئے لوری کو نہیں دیکھ پائیں اور ایک زبردست تصادم سے وہ دونوں اسی وقت اپنا دم توڑ گئے اس خبر نے ہاشم ولا میں اور ویرانی کردی تھی ۔۔
حمدان نے خود کو کافی حد تک سنبھال لیا تھا لیکن وہ پہلے سے بھی ذیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا ۔۔وہ پورا دن خود کو آفس میں مصروف رکھتا
بی جان تو پہلے شوہر پھر پوتی اور اب بیٹے اور بہو کے غم۔میں نڈھال ہوگئی تھی اور بستر سے جا لگی تھیں ۔۔۔
حماد صاحب بہت خاموش اور چپ سے ہوگئے تھے ۔۔۔
انعمتہ بیگم اب گلٹ محسوس کرنے لگ گئی تھیں ۔۔۔وہ ذیادہ تر اپنے کمرے میں رہتی تھی ۔
شانزہ بیگم پہ گھر کی ساری ذمہداری آگئی تھی ۔۔
حارث صاحب مرتظی کےساتھ آفس کے معاملات سنبھال رہے تھے ۔۔
سعد بھی حمدان کےساتھ ہر پل تھا ۔۔حمدان نے اوپر سے تو خود کو مضبوط کیا تھا لیکن اندر سے وہ ٹوٹ گیا تھا امل کے بغیر ۔۔۔
اذہان تو مہمام کے ساتھ ہر وقت لڑائی میں ہی مصروف رہتا تھا ۔۔۔۔
_______________________________
"یہ تم اتنا بن سنور کر کہاں جا رہی ہو"
اذہان نے مہمام کو اتنا سنورا ہوا دیکھ کر کہا
"کیا مطلب ہے میں تمہیں اب ہر جگہ بتا کر تو نہیں جاونگی میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں "
مہمام نے تڑخ کر جواب دیا
"لیکن ابھی چھوٹے ابو اور امی کی ڈیتھ ہوئی ہے تھوڑا تو خیال کرلو ۔"
"کیا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا وہ تمہارے ریلیٹیو ہے اور ویسے بھی مرنے والے تو چلے گئے اور اب کیا ساری زندگی سوگ مناتے رہیں ۔مجھ سے تو یہ امید نہ رکھنا تمہیں منانا ہے تو مناو "
اس نے اپنی اصلیت دو دن میں ہی دیکھانی شروع کردی تھی
"مہمام تمیز سے اور تم کہیں نہیں جا رہی ہو "
اذہان نے اونچی آواز میں کہا
"تم اپنی آواز آہستہ رکھو سمجھے مجھے روک ٹوک کرنے والے مرد بلکل پسند نہیں میری مرضی میں جو بھی کروں میں جہاں جاو "
وہ اذہان پہ چیختی بولی تھی
"تم ایسی تو نہیں تھیں مہمام "۔۔۔اذہان حیران تھا وہ پہلے کتنا میٹھا کہتی تھی
تم بھی ایسے نہیں تھے خیر میں جارہی ہوں بےبی میرا موڈ بہت اچھا ہے میں کوئی بحث نہیں چاہتی ۔۔۔۔see you
مہمام اذہان کو flying kisss دیتی ہوئی چلی گئی تھی
"میں نے کیا کوئی غلطی کردی مہمام کو پہچاننے میں "
اذہان بڑبڑاتا رہ گیا
_______________________
حمدان جائے نماز پہ بیٹھا امل کے لئے دعاگو تھا اسکی آنکھوں سے اشک بہ رہے تھے ۔۔۔
"امل تم کہاں ہو میں ٹوٹ رہا ہوں مجھے جوڑ لو حمدان تمہارے بغیر کچھ نہیں میں نے غلطی کی ہے تو معافی مانگتا ہوں مجھے اتنی بڑا سزا نہیں دو بارہ دن ہوگئے ہیں لیکن مجھے یہ بارہ سال لگ رہے ہیں "
____________________
آج حمدان آفس نہیں گیا تھا ساری رات جاگ کر اس نے امل کےلئے دعا کی تھی اس لئے وہ ابھی تک سورہا تھا سعد نے بھی اسے اٹھایا نہیں تھا
ایک انجانہ سہ لمس محسوس کر کے حمدان نے اپنی آنکھیں کھولیں تو آبرو کو خود کے پاس دیکھا وہ حمدان کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی
حمدان ایک جھٹکے سے اٹھا تھا اور آبرو کو خود سے پرے کیا تھا "تمہارے اندر اتنی سی بھی شرم ہے یا نہیں تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی اور یوں میرے قریب آنے کی "
حمدان آبرو کا بازو سختی سے پکڑے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا غرایا تھا
"حمدان تمہیں کیوں نظر نہیں آرہا میں محبت کرتی ہوں تم سے ۔اتنے دن ہو گئے ہیں تمہارا سوگ ختم نہیں ہورہا یے امل اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے تم قبول کیوں نہیں کر لیتے اس بات کو ۔"
وہ کہ رہی تھی
ایک زوردار تھپڑ حمدان نے آبرو کے گال پہ مارا تھا اسکی برداشت سے اب باہر تھا وہ کھبی کسی عورت پہ ہاتھ اٹھانے کا سوچ نہیں سکتا تھا لیکن آبرو نے اسے مجبور کیا تھا
"بکواس بند ۔۔۔آخری دفعہ کہ رہا ہوں امل کے خلاف کچھ نہیں سنوں گا وہ ہمیشہ میرے دل میں تھی ۔۔ہے۔۔اور رہی گی ۔۔محبت کا مطلب سمجھو پہلے پھر کرنا باتیں ۔۔ اور نکلو یہاں سے اپنے گھر جاو بہت کر لئے تم نے ڈرامے اور میں نے بہت دیکھ لیا ۔۔اب نکلو ۔۔۔مجھے کل تم اپنے گھر میں نظر نہ آو ۔۔ورنہ کیا انجام کروں گا تم سوچ بھی نہی۔ سکتی "
حمدان نے آبرو کو دھکے دےکے اپنے کمرے سے نکالا تھا اور اسکی منہ پہ دروازہ بند کرا تھا
حمدان نے آبرو کو نکالنے کے بعد ایک نمبر ڈائل کیا تھا رابطہ ہوتے ہی حمدان بےچینی سے پوچھا تھا " کچھ پتہ چلا "
نہیں حمدان لیکن میں کوشش کر رہا ہوں
اگلے کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ حمدان نے رابطہ منقطع کر دیا تھا اور فون بستر پہ اچھال دیا تھا
اور ٹہلنے لگا تھا
_____________________
Episode 38
آبرو کیا ہوا۔۔۔
انعمتہ بیگم نے آبرو کے گال پہ نشان دیکھتے ہوئے کیا
"یہ آپکے بیٹے کا کرم ہے آج تک میری اتنی بےعزتی نہیں ہوئی کبھی جتنی حمدان کرتا ہے امل کا بھوت اتر ہی نہیں رہا یے اسکے سر سے پتہ نہیں کیا جادو کیا اس جادوگرنی نے چلی گئی ہے لیکن حمدان نہیں بھولا اسے اس سے اچھا میں اسے یہاں سے بھیجنے کے بجائے اوپر پہنچادیتی ۔۔غلطی کردی "
"کیا کہ رہی ہو آبرو مجھے لگتا یے ہم نے غلط کردیا امل کے ساتھ اسے گھر سے نکال دیا جھوٹا الزام لگا کر یہ سب ہم نے جس لئے کیا تھا وہ تو ہوا نہیں حمدان کی دیوانگی میں تو اور ذیادہ اضافہ ہوگیا ہے وہ ٹھیک ہے تم نے کیا کیا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔کہاں ہے وہ "
انعمتہ بیگم مزید کہتہی کہ ٹھا کی آواز سے دروازہ کھلا تھا
حم . . . . حمد۔۔۔۔حمدان ۔۔۔
انعمتہ اور آبرو کے چہرے کا رنگ اڑگیا تھا
حمدان سر درد کی وجہ سے انعمتہ بیگم سے گولی لینا آیا تھا لیکن یہاں تو اسے اتنا بڑا سرپرائیز مل گیا تھا
حمدان نے ایک اور تھپڑ آبرو کے گال پہ مارا تھا اور اتنی شدت سے مارا تھا کہ وہ منہ کے بل گری تھی اور اسکا ہونٹ بھی پھٹ گیا تھا
ان دونوں کی وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ انکا پلان اسطرح کسی کے سامنے آسکتا ہے
حمدان۔۔۔انعمتہ بیگم نے حمدان کو روکا
"حمدان انکا ہاتھ جھٹکے سے دور کریا
"نام نہیں لیں میرا ۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ ایسا کر سکتی تھی ۔۔آپ ۔۔۔۔وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ ۔۔۔بلکہ مجھے تو چھوڑیں ۔۔امل جسے آپ نے اپنے ہاتھوں سے پالا بڑا کیا اسکی تربیت کی ۔۔اسی کے ساتھ اتنا بڑا کھیل کھیلا ۔۔۔کیوں ۔۔۔۔۔"
حمدان نے اتنا تیز کہا کہ پورا ہاشم ولا دہل گیا تھا اسکی آنکھیں شعلہ برسا رہی تھی
لیکن گھر میں اسوقت کوئی نہیں تھا سب لوگ آفس اور شانزہ بیگم grocery کے لئے گئی ہوئی تھی
"بیٹا مجھے معاف کردو میں بہک گئی تھی ۔۔مجھے لگتا تھا امل کی وجہ سے میری وہ اہمیت نہیں ہے جو ہونی چاہئیے میں اسے اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا اس طرح اسکی اہمیت اور بڑھ جائے گی"
انعمتہ بیگم کہتی ہوئی حمدان کی قریب آئی تھی
"مججھے بیٹا نہ کہیں۔۔۔نہ میرے پاس آئیں ۔۔۔۔معافی ۔۔ بہک گئی تھی ۔۔واہ ۔۔۔ایک بار بھی سوچا ہے کہ کتنا بڑا گناہ کیا ہے ۔۔۔کسی معصوم پہ بہتان لگادیا ۔۔صرف اپنی بلاوجہ کی حسد جلن اور جھوٹی احساس کمتری کی وجہ سے ۔۔۔ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ کہاں جائے گی
آپ نے اپنی تربیت پہ خود داغ لگایا ہے ۔۔اپنے ہاتھوں سے اپنے پیر پہ کلہاڑی مار دی یے ۔۔ساری زندگی اب آپ اسی طرح گلٹ میں رہیں گی
اور دعا کریں امل مل جائیں۔۔۔اگر اس نے معاف کردیا تو میں بھی کردوں شاید ۔۔اور میرے پاس نہیں آئیں گا ورنہ میں کچھ ایسا کردوں گا جو شاید مجھے نہیں کرنا چاہئیے اور ہاں میں بابا کو نہیں بتاوں گا کچھ کیونکہ میرے اندر اتنی ہمت نہیں یے کہ اہنی ماں کے بارے میں برے الفاظ ادا کر سکوں "
حمدان کی آواز میں دکھ افسوس غصہ کیا کیا نہیں تھا
"آبرو جو حمدان کے تیور دیکھ کر بھاگنے کے چکر میں تھی
حمدان نے اسے بازو سے پکڑ کر خود کے مقابل کھڑا کیا تھا
" آبرو بی بی اب بچ نہیں سکتی بہت کھیل لیا اب میری باری تو تیار ہوجاو ۔۔بہت بھاگ لیا اب تھوڑا آرام ملنا چاہئیے "
حمدان اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا تھا وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی بہت کوشش کررہی تھی لیکن حمدان کی گرفت بہت مضبوط تھی آبرو کو تو اپنی موت نظر آرہی تھی
انعمتہ بیگم زمین پہ بیٹھتی چلی گئی تھی اور آنسو انکے آنکھوں سے مسلسل بہ رہے تھے
اب انکے پاس افسوس اور پچھتاوے کے کچھ بھی نہیں بچا تھا جو دوسروں کے لئے کھڈا کھودتے ہیں وہ خود اسی میں گر جاتے ہیں حمدان اگر معاف بھی کردے جب بھی وہ پہلے کی طرح نظریں نہیں ملا پائی گی ساری زندگی وہ اسی ندامت کے بوجھ تلے دبی رہیں گیں
انسان اگر ایک بار سوچ لے کہ وہ جو کر رہا صحیح ہے یا غلط تو اسے بعد میں افسوس نہ کرنا پڑے
حمدان نے آبرو کو گاڑی میں لا پٹخا تھا آبرو مستقل چیخ رہی تھی جسکی وجہ سے حمدان نے اسکے منہ پہ پٹی باندھی تھی اور ہاتھوں اور پیروں کو بھی باندھ دیا تھا اور گاڑی کا دروازہ لوک کرکے ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا تھا اور فل اسپیڈ میں ڈرائیو کررہا تھا
حمدان کی آنکھیں غضب کی سرخ ہو رہی تھیں اسٹئیرنگ پہ گرفت اتنی سخت تھی کہ اسکی نسیں صاف واضح تھیں چہرے پہ بلا کی کرختگی تھی کہ ۔مقابل دیکھ کر ڈر جائے
___________________________
"آج رات تیرے کوئی نخرے نہیں چلے گیں بہت موج کرلیا تونے شرافت سے خود ہی یہ لباس پہن کر تیار ہوجانا ورنہ سیدھا کرنا مجھے خوب آتا ہے سمجھی نہ چھمک چھلو "
بانو بیگم امل کا منہ اپنے ہاتھوں میں دبوچ کر اس سے مخاطب تھیں
امل نے ایک نظر اس ڈریس کو دیکھا اس نے یہاں سے نکلنے کی بہت کو شش کی لیکن کوئی راستہ نہ ملا یہ ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا جس میں نہ ہی کوئی کھڑکی تھی نہ روشندان ایک گیٹ ہی تھا جس سے امل واپس جاسکتی تھی لیکن وہ ہیمیشہ لاک ہی ہوتا
اپنی بےبسی پہ وہ شدت سے رونے لگی نہ اسے دن کا پتہ تھا نہ رات کا بس جب گانوں اور شور شرابے کی آواز آتی تھی جب وہ اندازہ لگاتی تھی کہ رات ہوگئی ہے اور شو شروع ہوگیا ہے
"مجھے یہاں سے جانا ہے میرا دم گھٹ جائے گا ۔۔ماما بابا ۔۔مرتظی کوئی تو آجاو ۔۔۔۔
امل اپنا سر گھٹنوں میں دے کر شدت سے رو پڑی تھی
____________________
انعمتہ بیگم کو آبرو کا خیال آیا تو انہوں نے سعد کو کال کری
"سعد حمدان پتہ نہیں آبرو کو لے کر کہاں چلا گیا ہے وہ بہت غصے میں تھا"
انعمتہ بیگم کی آواز میں صاف پریشانی چھلک رہی تھی
"بڑی ماما آپ پریشان نہ ہو میں کچھ کرتا ہوں لیکن ایسا کیا ہوا تھا جو وہ اس طرح لے گیا "
سعد کی اس بات کا انکے کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
"پتہ نہیں سعد مجھے وہ بس بہت غصے میں تھا "
انہوں نے کہ کر رابطہ منقطع کیا
سعد نے حمدان کو کئی کال کری لیکن ایک بھی کال ریسیو نہیں ہوئی تھی سعد کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کہاں سے حمدان کا پتہ کرے اسکا یہاں کوئی دوست بھی نہیں ہے وہ آبرو کو کہاں لےکر جاسکتا ہے یہ سعد کی سمجھ سے باہر تھا
______________________
"مہمام اب ہمیں سارے اختلافات بھلا کر آگے بڑھنا چاہئیے اب ہمارے گھر ایک نیا مہمان آنے والا ہے "
اذہان ہر روز کے جھگڑے سے تنگ آگیا تھا اب بات کچھ اور تھی تو اس نے مہمام کو سمجھانا چاہا
اسے تھوڑا عجیب فیل ہوا تھا کیونکہ انکی شادی کو ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا خیر اس نے اس بات کو ذیادہ نہ سوچا تھا
"دیکھو اذہان اس سب کی اتنی جلدی کیا ہے ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے ساری زندگی ہے میں ابھی ایسا کچھ نہیں چاہتی میں Abbort کرالوں گی "
اس نے کہا
"کیا ۔۔۔۔دماغ ٹھکانے پہ ہے یا نہیں اگر ایسا کچھ سوچا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا گھر میں رہو گی اب تم کہیں نہیں جاو گی اور کمرے سے نکلو سب سے ملو یہ اب تمہارا گھر یے "
اذہان نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لہجے کو سخت کیا تھا
"اور تمہیں لگتا ہے میں تمہاری بات اتنی آسانی سے مان جاو گی تو یہ تمہاری بھول ہے میں کوئی غلام نہیں ہوں جو ہر حکم مانو گی میں نے تم سے شادی کی ہے اس گھر والوں سے نہیں مجھ سے نہیں ہوتا یہ میل جول میری جو مرضی میں وہ ہی کروں گی ۔میری آزادی کی راہ میں جو بھی آئے گا میں اسے جڑ سے کاٹ کر پھینک دوں گی چاہے وہ کوئی بھی ہو اور جس خون پہ تم اتنا اچھل رہے ہو یہ تمہارا خون نہیں یے
مہمام یہ بات اذہان کو نہیں بتانا چاہتی تھی لیکن اس نے سوچا کہ دیتی ہوں کیونکہ یہ جاننے کے بعد وہ اسے نہیں روکے گا
مہمام کی بات نے اذہان کا دماغ گھما دیا تھا وہ شدید چونکا تھا اس نے یہ کہا ہے لیکن اسکے لہجے کی پختگی یہ کہ رہی تھی کہ وہ سچ کہ رہی ہے لیکن اذہان نے اسے اپنا مان لیا تھا تو وہ انکار نہیں کرنا چاہتا تھا وہ اسکا خون ہو یا نہ ہو لیکن ہے تو ایک جان نہ
اس نے ایک تھپڑ نمرہ کو رسید کیا تھا
"اگر تم نے ایسا کچھ کیا تو سوچ لینا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا "
How dare you to slap me ..??
"تم ایک ٹیپیکل سوچ رکھنے والے ٹیپیکل مرد ہو میں نے سوچا تھا کہ میں جیسے چاہوں گی رہ لوں گی لیکن تم تو مجھے قید کر کے اپنی فیملی کے پلو سے باندھنا چاہتے ہو "
مہمام یہ کہتی ہوئی پاس پڑی جو چیزیں اسے نظر آئی تھی سب پھینکنے لگی تھی اور غصہ پھر بھی کم نہیں ہوا تو اذہان کا گریبان پکڑ کر اس نے کہا
"میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا ۔۔جنگلی ایڈیٹ ۔۔انسان"
مہمام اذہان پہ ایک قہر برساتی نظر ڈال کر چلی گئی تھی اور اذہان اسے روک بھی نہیں پایا تھا
شانزہ بیگم جو شور سن کر آئی تھی اذہان پہ ایک جتاتی نظر انہوں نے ڈالتی تھی جسکا مفہوم سمجھ کر اذہان نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا
__________________________
حمدان آبرو کو اپنے آفس کے پیچھے کے راستے سے ایک روم میں لاتیا تھا جو اکثر بند ہی رہتا تھا
اور اسے ایک کرسی پہ باندھ دیا تھا اور اسکا منہ اتنی سختی سے دبایا تھا کہ آبرو کو اپنا جبڑا ٹوٹتا محسوس ہوا تھا
"بتاو امل کہاں ہے "
حمدان نے اپنی لال آنکھیں اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا
"مجھے نہیں پتہ ۔۔امل۔کہاں ہے "۔۔وہ ڈھیٹ بنی رہی
"تو تم ایسی نہیں بتاو گی"
حمدان نے کھینچ کر تھپڑ اسکے گال پہ جڑا تھا
"آخری بار پوچھ رہا ہوں اور کون شامل ہے تمہارے ساتھ اس میں" حمدان کو یقین تھا کہ آبرو یہ کام اکیلے نہیں کرسکتی
"تم نہیں بتا رہی ٹھیک ہے "
حمدان نے آبرو کا منہ پکڑ کر اسکی زبان پہ اس طرح سے کٹ لگایا تھا کہ دیکھنے والو کو یہ نہ لگے کہ کسی نے ایسا کیا ہے اسکی زبان لہو لہان ہوگئی تھی
آبرو کو درد کی ایک شدید لہر محسوس ہوئی تھی
"اس زبان سے امل کے خلاف زہر اگلا تھا نہ "
اور پھر حمدان کرسی کو دھکا دیا تھا جس سے آبرو کا سر زمین پہ لگ کر پھٹ گیا تھا "اس دماغ سے سوچا تھا نہ امل کے خلاف "
"میں تین تک گنتی گنوں گا اگر تم نے بولنا شروع نہیں کیا
تو پھر میں ذرا لحاظ نہیں کروں گا وہاں پہنچاو گا کہ کوئی ڈھونڈ بھی نہیں پائے کہ آبرو کہاں ہے اسکا کوئی وجود بھی ہے یا نہیں "
حمدان گھٹنوں کے بل آبرو کے پاس بیٹھا تھا ۔۔اور ١۔۔۔۔۔۔۔٢۔۔۔۔۔۔۔کہا تھا تین سے پہلے ہی اس نے زبان کھولی تھی
می۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔ب۔۔۔بتا۔۔۔۔تی ہو۔۔۔۔۔ہوں ۔۔۔۔
آبرو نے بہت مشکل سے اٹک اٹک کر کہا تھا اسکی زبان کافی زخمی ہوگئی تھی
می۔۔۔میں ۔۔۔ن۔۔۔۔نے ۔او۔۔۔اور ۔کا۔۔۔۔شا۔۔۔۔شان ۔۔۔ن۔۔۔نے مل۔۔۔۔۔۔ک . . کر یہ ۔۔پل۔۔۔پلان ۔۔۔بن۔۔۔۔بنایا ۔۔۔تھا ۔۔۔
کا۔۔۔۔شا۔۔۔شان ۔۔۔نے ۔۔۔۔امل کو ۔۔اسلام . . . . . . . . آباد ۔۔ایک ۔۔۔۔۔کھوٹھے ۔۔پہ بھیجنے کا بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم۔۔۔۔۔۔اس۔۔۔۔۔اسے۔۔۔۔ت۔۔۔تم۔۔۔۔س۔۔۔سے ۔۔کا۔۔۔۔کافی ۔۔۔دو۔۔۔دور ۔۔۔کر . ۔۔کرنا ۔۔۔چا۔۔۔چاہتے ۔۔۔تھے ۔۔۔۔او۔۔۔اور ۔۔کاشان ۔۔۔اسلام۔۔۔آباد ۔۔جائے گا اب۔۔۔۔۔۔امل۔۔۔۔۔س۔۔۔سے بد۔۔۔۔بدلہ ۔۔۔۔لینے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔پہلے اس ۔۔لئے ۔۔نہیں ۔۔گیا ۔۔۔ک۔۔کہ ۔۔کس۔۔۔کسی ۔۔۔کو۔ش۔۔۔شک ۔۔نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تم۔۔۔۔سے ۔۔۔امل ۔۔۔کے ۔۔۔ذریعے ۔۔۔۔بد۔۔۔لہ لینا ۔۔چاہتا ۔۔۔۔ہے۔۔
اور۔۔۔اس۔۔۔۔ کھوٹے۔۔۔۔۔کا۔۔۔۔پتہ ۔۔۔۔۔یہ ہے -----------------------
اور وہ لڑکا کون تھا ۔۔جو اس دن آیا تھا ۔۔۔؟؟
و۔۔۔وہ ۔۔کا۔۔۔شان۔۔۔۔ک۔۔۔کا ۔۔مل۔۔۔ملاز۔۔۔ملازم۔۔تھا ۔۔میں ۔۔۔نے ۔۔او۔۔۔۔اور ۔۔۔اس۔۔۔۔ن۔۔نے ۔۔۔پلا۔۔۔پلان۔۔بنا۔۔۔کر ۔۔امل کو ۔۔گ۔۔۔۔گھر ۔۔سے ۔۔نکلوایا ۔تھا ۔۔اسکے ۔۔۔ب۔۔۔بعد ۔وہ ۔۔۔امل ۔۔کو۔۔۔لے گیا ۔۔تھا ۔۔۔
آبرو نے اسے ساری بات بتائی تھی اس سے سانس نہیں لی جا رہی تھی بولنے کے بعد اسے اور ذیادہ درد محسوس ہونے لگا تھا
حمدان نے ایک قہر برساتی نگاہ اس پہ ڈالی تھی اس نے اسے ایک نیند کا انجیکشن لگایا جو اس نے اپنی ایک ملازم سے منگوایا تھا ۔اور اسے رسیوں سے جکڑ کر نکل گیا تھا
______________________
حمدان اپنے روم کی جانب ہی جا رہا تھا جب اسکی ٹکر سعد سے ہوئی تھی
"حمدان تو کہاں تھا کب سے کال کر رہا ہوں بڑی ماما پریشان ہے اور یہ آبرو کا کیا چکر ہے "
حمدان نے سعد کو اپنے روم۔میں لاکر ساری بات بتائی تھی
سعد وہ ایک کھوٹے۔۔۔۔حمدان سے اس سے آگے بولا ہی نہیں گیا
سعد کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ بڑی ماما ایسا کرسکتی یے اور انہوں نے اپنے گھر آستین کا سانپ رکھا ہوا تھا آبرو کی صورت میں اور کاشان بدلے کی آگ میں اس قدر گر جائے گا
" اب کیا کرنا ہے ۔۔۔حمدان ۔۔۔"
سعد نے کہا
"میں جارہا ہوں اسد کے پاس اب بلکل بھی دیر نہیں کروں گا "
حمدان نے کہا
"میں بھی ساتھ چلتا ہوں "۔۔سعد بھی اسکے ساتھ گیا
_________________
اسد ڈی ایس پی تھا ۔مرتظی کا بہت اچھا دوست حمدان کی اسد سے دوستی بھی مرتظی کے ذریعے ہوئی تھی
حمدان نے اسد کو ساری situation بتائی تھی
"حمدان تم فکر نہ کرو میں آج ہی اس ایریا کے قریبی تھانے سے بات کرتا ہوں اور وہاں ریٹ پڑواں گا"
اسد نے کیا
"اور ایک اور بات امل سامنے نہیں آنی چاہئیے میں اسکو خود ہی لے جاو گا "۔۔۔۔۔حمدان نے کیا
"ہاں حمدان ٹھیک ہے میں بھی اس سے ایک دو بار ملا ہوں اور مرتظی سے تو بہت بار اسکا سنا ہے وہ میری بہن ہے تم اس بات سے بلکل بےفکر رہو آج رات ہی یہ ماجرا ختم کردوں گا "
اس نے حمدان کو تسلی کرائی
_____________________
Episode 39
حمدان اسد سے ملنے کے بعد کاشان کے آفس گیا تھا لیکن وہاں سے پتہ چلا کہ وہ آج آفس نہیں آیا یے اسکے بعد اس نے انوشہ کو کال ملا کر کاشان کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو اپنے دوستوں کےساتھ ٹرپ پہ گیا ہوا ہے اور کہاں گیا ہے وہ یہ نہیں جانتی
حمدان نے غصے سے ایک زور دار ٹانگ زمین پہ ماری تھی لیکن اسے مایوس نہیں ہونا تھا آخر کاشان اب کب تک بچ سکتے ہو تم اسے بس اب رات کا انتظار تھا
______________
پولیس کی ٹیم اس کھوٹے پہ پہنچ گئی تھی ڈی ایس پی اسد نے اسلامآباد کی پولیس ٹیم سے ملکر ساری تیاری کرلی تھی
بے حیائی اور بےہودگی یہاں عام تھی
سارے پولیس نے اس کھوٹے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور بانو بیگم کو سب سے پہلے پکڑا تھا آج رات ان کے لئے چودھویں کی چاند جیسی رات تھی لیکن انکا زوال بھی تھا اسی رات ۔۔۔وہاں بہت سی لٰڑکیوں اور بچیوں کو برآمد کیا گیا تھا جن میں سے کچھ کی ابتر حالت تھی انہیں فوراً ریسکیو کیا گیا تھا
حمدام بیچینی سے چاروں طرف گھوم رہ تھا نیچے والے فلور کے اس نے بہت سے روم کو دیکھ لیا تھا وہ ہر جگہ امل کو تلاش کر رہا تھا بالاخر جب وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو اسے امل کی چیخ سنائی دی تھی اور اسکی آواز تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا اس نے فوراً اس آواز کا تعاقب کیا
"چھوڑوووو مجھے"
خود کو چھڑانے کے لٸے اس نے پورا زور لگایا ہوا تھا لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی،وہ نازک سی لڑکی اس توانا مرد کے سامنے کچھ نہ تھی، ایک کمینگی سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پہ تھی اسکے منہ سے آتی بو سے امل کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا اس نے امل کے چہرے پہ اپنی انگلی پھیری جس کی وجہ سے امل نے اپنا منہ دوسری طرف جانب کرلیا تھا اور اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تھا جیسے یہ منظر غائب ہوجائے
اس شخص نے ایک نظر اپنے مضبوط بازوں کے شکنجے میں قید امل پر ڈالی بھول پن اسکے چہرے کا خاصہ تھا، سرخ وسپید رنگت پر لال رنگ کا ڈریس جو زبردستی بانو نے اسے پہنایا تھا خوب جچ رہا تھا، اسکی آنکھیں جن میں خوف و نفرت صاف دکھاٸی دے رہی تھی ناک رونے سے سرخ ہورہی تھی جبکہ گلابی لب سختی سے باہم پیوست تھے اسکے باوجود بھی امل کو اسکی نظریں خود کے اندر گڑتی محسوس ہو رہی تھی
وہ بنا پلک جھپکاٸے کاشان کو قہربار نگاہوں سے گھور رہی تھی امل کو کاشان کا یہاں ہونا بہت کچھ سمجھا رہا تھا کہ وہ یہاں کیسے آئی
"چھوڑو مجھے، تم ایک نمبر کے ڈرپوک گھٹیا نیچ انسان ہو یہ انتہائی اوچھا طریقہ یے بدلہ لینے کا کچھ تو اچھا کرتے"
وہ تلخی سے اسے دیکھتی بولی تھی
ایک دل جلادینے والی مسکراہٹ کاشان کے لبوں پر تھی وہ چاہتا تو پہلے بھی آسکتا تھا لیکن سب امل کو ڈھونڈ ریے تھے اور اس نے کھلے عام دھمکی دی تھی اس لئے اس پر شک کیا جاسکتا تھا منظر سے غائب ہونے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسلئیے وہ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے انتظار میں تھا آج پندرہ دن بعد وہ یہاں آیا تھا
وہ خوف و حراس کے باوجود بھی اسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی " یہ ٹھیک نہیں کر رہے بہت غلط ہے "
کاشان نے بمشکل اپنے کندھے تک آتی اس چھوٹی سی لڑکی کو بغور دیکھا اور اسکی کلاٸیاں اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کردیں۔اور اسکے گلے سے دوپٹہ نکال کر دور پھینکا اور اسکا بازو پکڑ کر جھٹکے سے اسے سامنے کیا اس نے امل کی آنکھوں میں دیکھتے اسے خود سے مزید قریب کیا امل کو اپنا چہرہ اسکی آنکھوں میں صاف دکھاٸی دے رہا تھا وہ اسکے اس قدر قریب تھی،
وہ ذرا اسکی طرف جھکا تو امل کو لگا وہ اپنا اگلا سانس نہیں لے پائی گی اسکی غلیظ نظریں اسے اپنے اندر پیوست ہوتی محسوس ہو رہی تھیں ڈر سے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور اللہ کا نام لیا تھا ۔۔۔
"امل تم بہت اڑ رہی تھی نہ اب دیکھو کیسے میری قید میں پھڑپھڑا رہی ہو حمدان کو بہت ناز ہے نہ خود پہ اسکا سارا غرور توڑونگا آج تمہاری عزت پامال کرکے لیکن افسوس آج تمہیں کوئی مجھ سے نہیں بچا سکتا مجنوع بنا پھر رہا ہے تمہارے عشق میں کہاں کہاں نہیں مارا پھر رہا ہے تمہیں ڈھونڈنے کیلئے لیکن اسکے وہم وگمان میں نہیں ہے کہ تم کہاں ہو بہت محبت کرتا ہے وہ تم سے لیکن اسنے اچھا نہیں کیا نہ مجھے مارا میں اپنی بےعزتی اتنی آسانی سے نہیں بھولا گا ویسے قسم سے تم بہت ہاٹ ہو ایک تیر سے دو شکار ہوجائے گا "
وہ کمینگی سے کہ رہا تھا
امل نے اپنا سارا زور لگا کر اسے دھکا دیا کاشان نے بھی اسے مضبوطی سے امل کو پکڑا ہوا تھا جس سے امل کی آستین پھٹ گئی تھی اور امل کاشان سے جتنا دور ہو سکتی تھی ہوگئی تھی
"میرے پاس نہیں آو " وہ اپنے پاس کوئی ایسی چیز تلاش کر رہی تھی جس سے وہ اپنا دفاع کرسکے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔
امل جتنا پیچھے ہو رہی تھی کاشان اتنا ہی آگے آرہا تھا
کاشان نے ایک جھپٹے سے امل کو اپنی گرفت میں لیا تھا امل کی ایک زوردار چیخ نکلی تھی
اس سے پہلے کاشان مزید آگے بڑھتا دروازے کے ایک جھٹکے سے کھلنے کی وجہ نے اسکے بڑھتے قدموں کو روک دیا تھا
کاشان حمدان کو اپنے سامنے دیکھ کر شاکڈ ہوگیا تھا اس کے سر پر جیسے بجلی گری تھی حمدان یہاں تک پہنچ سکتا ہے اسکے وہم و گمان بھی نہیں تھا حمدان کی آنکھیں اس وقت لہو ٹپک رہی تھی چہرہ حد سے ذیادہ سرخ ہورہا تھا ۔۔۔
امل نے بس ایک نظر حمدان کو دیکھا تھا اور اگلے پل ہی وہ حوش سے بیگانہ ہوگئی تھی کاشان نے بھی امل کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا جس سے وہ ڈریسنگ ٹیبل پہ گری تھی اور اسکا کونہ لگنے سے اسکا سر بھی پھٹ گیا تھا
کاشان حمدان کو دھکا دے کر اپنی پوری قوت سے بھاگا تھا سعد بھی جب تک یہاں پہنچ گیا تھا
"سعد تو امل کو سنبھال میں جب تک اس کمینے کو دیکھتا ہوں ۔آج اسکا آخری دن ہے "
حمدان اتنی زور سے گرجا تھا کہ سعد تک ہل گیا تھا اور کاشان کا کیا حال کرے گا حمدان یہ سوچ نے اسکے رونگٹے کھڑے کر دئیے تھے
سعد نے فورا امل کا دوپٹہ اٹھا کر اسکے اوپر ڈالا تھا امل کی حالت نے سعد کے آنکھوں میں آنسو لا دیئے تھے جسے وہ کمال ضبط سے پی گیا تھا اس نے فورا امل کو اٹھا کر پیچھے کے راستے سے گاڑی میں ڈالا تھا اور حمدان کا انتظار کرنے لگا تھا اور جب تک امل کو ہوش میں لانے کی کوشش بھی کر رہا تھا
________________________________
کاشان بہت تیز بھاگ رہا تھا لیکن حمدان سے آج نہیں بچ سکتا تھا حمدان نے آخر کار اسکو پکڑ لیا تھا
"You rascal ..bastard how dare you to do all that ..you invited your death ..i will rip you into pieces ..no one can save you from me..i will make you such that ..no one can recognize you Be Ready For Your Funeral ".
حمدان اپنا غصہ اور اشتعال اپنی زبان اور پےدرپے مکوں اور گھنسوں سے اتار رہا تھا حمدان کے ذہن میں بار بار وہ لمحہ ْآرہا تھا جب امل اس کاشان کے شکنجے میں تھی اگر حمدان نے کچھ دیر کردی ہوتی تو ۔۔۔۔۔یہ سوچ اسکے غصہ میں جلتی کا کام کر رہی تھی ۔۔۔۔
مار مار کر حمدان نے کاشان کو آدھ مرا کر دیا تھا لیکن پھر بھی اسکو سکون نہیں مل رہا تھا
حمدان نے جب محسوس کیا کہ اسکے جسم میں کوئی جنبش نہیں ہورہی ہے تو اس نے اسے پیٹنا چھوڑا
تمہیں اتنہی آسانی سے موت کے گھاٹ نہیں اتارو گا ایک پل کا حساب دینا ہوگا
حمدان اسے کھینچتے ہوئے گاڑی تک لایا تھا اور کاشان کو ڈگی میں ڈالا تھا اور سعد سے نیند کا انجیکشن لیا تھا اور اسے لگایا تھا ساتھ میں اسے رسی سے بھی جکڑا تھا اور منہ پر ٹیپ بھی لگایا تھا اس کا ارادہ اسے ابھی پولیس کے حوالے کرنے کا نہیں تھا اس نے کچھ سوچ کر رکھا تھا
امل کا سر اس نے اپنی گود میں رکھا تھا اور سعد کو ڈرائیونگ کا کہا تھا
"رائمہ آنی کے گھر چلو ہاسپیٹل لیکر جانا سہی نہیں ہے"
حمدان نے امل کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تھا وہ کہیں سے بھی اسے وہ امل نہیں لگی زرد پڑتا رنگ ۔۔آنکھوں کے گرد حلقے ۔۔اجڑے بال ۔۔چہرے پہ آنسووں کے نشان ۔۔سر پہ جمع ہوا خون ۔۔۔۔حمدان کا دل کٹ جاگیا تھا
ساتھ میں اس نے انہیں کال بھی کی تھی تاکہ وہ تیاری کر کے رکھے
حمدان نے امل کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا تھا
" امل میری جان پلز آنکھیں کھولو ۔۔کچھ نہی ہوگا ۔۔میں کچھ نہیں ہونے دونگا اب "
حمدان کو لگا اسکی جلتی آنکھوں کو ٹھنڈک مل گئی ہے اسکی بےترتیب دھڑکنوں کو ترتیب مل گئی ہے ۔۔
اسکی سوچوں کو منزل مل گئی ہے ۔۔
اسکی سانسوں کو سہارا مل گیا ہے ۔۔
اسکی تڑپ کو قرار مل گیا ہے ۔۔۔
__________________________
Episode 40
"ارسلان بھائی امل کیسی ہے "
حمدان کو انکو پھوپھا بولنا اچھا نہیں لگتا تھا تو وہ سب بھائی ہی کہتے تھے حمدان نے بےچینی سے امل کے بارے میں پوچھا تھا
"ہاسپیٹل کی نیڈ ہے میں فورا ہاسپیٹل ایڈمٹ کرواتا ہوں تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوجائے گا میں نے ڈرپ لگادی ہے اور بینڈج بھی کردی ہے ڈپریشن اور اسٹریس کی وجہ سے یہ حال ہے اور کمزوری بہت ذیادہ ہے باقی پراپر چیکپ سے پتہ چل جائے گا "
ارسلان نے تفصیلی جواب دیا
"میں امل کو یہاں لے آیا آپ بھی پریشان ہوگئے ہونگے "
حمدان نے مروت سے کہا
"پریشانی کیسی ۔۔امل بلکل میری لئے سویرا جیسی ہے ۔۔اللہ کا شکر ہے مل گئی"
ارسلان نے حمدان کی بات کا جواب دیا
"حمدان اب مجھے بتاو سب "
رائمہ امل کے کپڑے چینج کرواکر آئی تو حمدان سے پوچھنے لگی
پھر حمدان نے سارا ماجرا بتایا سوائے انعمتہ بیگم کا معاملہ چھپا کر وہ کیسے اپنی ماں کےخلاف کہ سکتا تھا اسکا دل کانپ رہا تھا وہ چاہ کر بھی نہیں کہ پایا تھا اور سعد نے بھی کچھ نہیں کہا تھا اسے رازوں پہ پردہ رکھنا آتا تھا اور راز بھی حمدان کا ہو تو ۔ وہ جانتا تھا کہ حمدان نے کس کیفیت میں اسے بتایا تھا اگر وہ سعد کو نہ بتاتا تو یہ روگ اسے اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگتا
"کاشان اور آبرو ۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی امل نے جانے کیا کیا سہا ہوگا تم انہیں چھوڑنا نہیں حمدان سخت سے سخت سزا دلوانا "
رائمہ بھی حیران ہوگئی تھی
"جی آنی انکا حشر تو میں بہت کروں گا ۔۔۔یاد رکھیں گے دونوں "
حمدان نے عزم سے کہا
"حمدان تم جاو فریش ہو اور سعد تم بھی کچھ کھالو پہلے "۔ارسلان نے ان دونوں کو کہا
حمدام کی شرٹ پہ جگہ جگہ خون کے دھبے تھے جو کاشان کو مارتے ہوئے اسکی شرٹ پہ اسکا خون لگ گیا تھا
سعد اور حمدان کمرے میں آئیں تو سعد نے حمدان سے کہا
"گھر میں بتادیا ہے یا میں بتادوں "
"نہیں ابھی کسی کو نہیں بتانا ۔۔میں نے بھی نہیں بتایا ہے امل کی طبعیت کچھ بہتر ہوجائے پھر ابھی وہ پریشان ہی ہوجائیں گیں"
حمدان نے کہا
سعد نے پھر کہا
"ٹھیک ہے لیکن کاشان کا کیا کرنا ہے "
کاشان کے نام پہ ایک بار پھر حمدان کو غصہ آیا تھا
"ابھی تو بےہوش ہے اتنی جلدی ہوش نہیں آئے گا ابھی امل کو میری ضرورت ہے اسکو بعد میں دیکھوں گا "
"جو کہا تھا وہ کردیا "
حمدان نے اپنی شرٹ اتارتے ہوئے کہا
"ہاں میں نے اسکی رسیاں چیک کرلیں ہیں اور منہ پہ بھی ٹیپ لگادیا ہے تم فکر نہ کرو لیکن حمدان کیا یہ ٹھیک ہے میرا مطلب ہے تمہیں اسے قانون کے حوالے کرنا چاہئیے تم کسی مسلئے میں نہ پھنس جاو "
سعد حمدان کے لئے فکر مند تھا
"مجھے پتہ ہے سعد مجھے کیا کرنا ہے تم پریشان نہ ہو جانتا ہوں بہت فکر ہے تجھے "
حمدان نے سعد کو محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا
"ایسے نہ دیکھ میں تیری ہیروئن نہیں ہوں لیکن پھر بھی شرم آرہی ہے یار "۔۔۔۔سعد نے شرمانے کی ایکٹنگ کی
"سعد تو کھبی نہیں سدھر سکتا "
حمدان یہ کہتا ہوا فریش ہونے چلا گیا تھا
________________________
حمدان نے فریش ہونے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کرے تھے پھر کھانا کر امل سے ملنے ہاسپیٹل گیا تھا ارسلان نے اسے ہاسپیٹل منتقل کردیا تھا
امل دوائیوں کے زیرِاثر سورہی تھی حمدان نے امل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اسکے ایک ایک نقش کو اتنے غور سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی سبق ہو اور کل اسکا ٹیسٹ
"امل تمہارے ساتھ ہوئے ظلم کے ایک ایک پل کا حساب لوں گا ۔بس تم ٹھیک ہوجاو پھر تمہیں بتاو گا کہ حمدان تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہے اب تمہیں کہیں نہیں جانے دونگا ایک پل خود سے دور نہیں کروں گا "
حمدان نے امل کا ہاتھ کی پشت پہ ہولے سے اپنے لب رکھ کر اسکو ایک نظر دیکھ کر چلا گیا تھا
______________________________
سویرا سونے کے ارادے سے نائیٹ بلب بندھ کر لیٹی ہی تھی کہ اسکا موبائیل رنگ کرنے لگا تھا
اسکرین پہ hubby کالنگ جگمگاتا دیکھ کر اسے اپنا نکاح کا دن یاد آیا تھا جب سعد نے کتنے استحاق سے اسکے موبائیل میں اپنا نمبر سیو کیا تھا اور پکس whatsapp کی تھی یہ سوچ کو وہ مسکرانے لگی تھی
فون بندھ ہو کر دوبارہ رنگ ہونے لگا تھا
ُ آج سے پہلے سعد نے اسے اتنی رات گئے کال ہی نہیں کی تھی
کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے کہا
ہیلو ۔۔اسلام وعلیکم ۔۔۔
"ہیلو کی بچی کب سے کال کر رہا ہوں ۔۔ریسیو کیوں نہیں کر رہی تھی "
سعد چھوٹتے ہی بولا تھا
"سلام کا جواب بھی دیں فوراً شروع ہوگئے ہیں "
سویرا اٹھ کر بیٹھ گئی تھی
سعد نے سلام کا جواب دیکر دوبارہ اپنا سوال دہرایا
وہ ۔۔۔۔میری مرضی سویرا کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا ۔سویرا نے تکیہ سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
"مرضی۔۔میرے دسترس میں آو پھر بتاتا ہوں کس کی مرضی ہے ۔۔سعد نے سویرا کو ٹہلتے ہوئے جواب دیا
"اگر آپ نے اس فضول گفتگو کےلئے کال کی ہے تو میں کال کٹ کر رہی ہوں مجھے نیند آرہی ہے "
سویرا نے مسکراتی ہوئے کہا
"ٹھیک ہے ابھی کرلو اپنی ساری نیند پوری کیونکہ جب میرے پاس آجاو گی تو سونے نہیں دونگا "
سعد بھی جانتا تھا کہ اسے تسخیر کیسے کرنا ہے
سعد کی معنی خیز بات پہ اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا
"کیا ہوا مسز سعد بولتی کیوں بند ہوگئی "۔۔۔۔سعد نے کہا
"میں کال کٹ رہی ہوں خود تو فارغ ہیں مجھے بھی سمجھا ہوا ہے "
سویرا نے سعد کو جواب دیا
"رکو۔۔کہاں فارغ رہتا ہوں تمہاری سوچ ہر وقت میرے ذہن پہ غالب رہتی ہے اچھا خاصا تھا بندہ کام کا ۔۔ایک سویرا نے آکر اسے نکمہ کردیا "
سعد نے سویرا کو کہا
"کیا۔۔۔۔۔میں نے کیا یے یہ تو ٹھیک ہے کیوں کی ہے کال ۔۔آپ نے کی ہے نہ اب کریں آپ مجھ سے بات "
سویرا نے یہ کہ کر کال کٹ کردی تھی
آیا بڑا ۔۔۔۔
سعد کی کال اب تو ریسیو ہونی نہیں ہونی تھی تو اس نے میسج کیا
"ایک ضروری بات بتانی ہے امل کے بارے میں "
جسے پڑھ کر ساری ناراضگی ایک سائیڈ پہ رکھ کر اس نے اسے کال کری
جسے اگلے ہی لمحے ریسیو کرلیا گیا تھا اور سویرا نے ایک ہی سانس میں سب کہا تھا
"امل کے بارے میں کیا پتہ چلا ہے ۔۔بولو ۔۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے "
"امل مل گئی ہے ۔۔وہ ابھی ہاسپیٹل میں ہے ۔۔ہم۔اسلامآباد میں ہیں"
سعد نے سویرا کی بےچینی کو دیکھتے ہوئے اس کو تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرکے کہا تھا
"آپ سچ کہ رہے ہیں ۔۔امل کیسی ہے ۔۔اسلامآباد ۔۔کیسے مطلب اسلامآباد میں تھی وہ۔۔۔کیسے ملی ۔۔کہاں سے ملی ۔۔۔"
اسکے سوال دوبارہ شروع تھے
سانس تو لو ۔۔۔۔۔
سعد نے امل کو مختصر کرکے ساری بات بتائی
"مجھے تو یہ آبرو شروع دن سے ہی چڑیل لگتی تھی سہی کیا حمدان بھائی نے ان دونوں کے ساتھ "
اس نے کہا
"تم یہ ابھی کسی کو نہیں بتانا کہ امل مل گئی یے ابھی اوکے"
سعد کے سیرئیس انداز کو دیکھتے ہوئے سویرا نے بغیر کچھ کہے اسکی بات مان لی تھی
"ویسے کوئی ناراض تھا سعد کو یہ آبرو کے قصیدے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جبہی اس نے بات گھمائی
"کیا یاد کرو گے معاف کیا ویسے بھی اتنی اچھی نیوز سنائی ہے"۔سویرا کا موڈ اچھا ہوگیا تھا
"میں منانے کا سوچ رہا تھا چلو اچھا ہے انرجی بچ گئی ہے "
سعد نے سویرا کو کہا
"میں دوبارہ ناراض ہوجاتی ہوں "
سویرا نے آئیڈیا دیا
" وہ آفر محدود وقت کےلئے تھی اب ختم ہوگئی ہے جاناں لیکن نئی آفر ہے "
سعد نے اپنا ٹریک چینج کرتے ہوئے کہا
"مجھے نہیں سننی کوئی آفر تمہارا لوفر پنا شروع ہوگیا ہے میں کل اسلام آباد آو گی۔۔۔ امل کو ضرورت ہے ہماری "
سویرا نے یہ کہ کر کال کٹ کردی تھی اور "گڈ نائیٹ " کا میسج کیا تھا
افف جھلی ۔۔سعد سویرا کو تصور کرکے مسکرایا تھا
_______________________
صبح کا افق چاروں طرف پھیل گیا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے پرندے اپنے رب کی حمدو ثناء میں ۔۔۔۔۔
رائمہ نے سعد کو اکیلے ڈائینگ ٹیبل پہ آتا دیکھا تو حمدان کا پوچھا
"آنی وہ کل رات کراچی کے کئے نکل گیا تھا "
سعد نے موبائیل میں جھکے جواب دیا
"اچھا ۔۔۔اتنی رات کو چلا گیا ۔۔چلو تم ناشتہ کرلو میں بھی امل سے ملنے ہاسپیٹل جاوگی "
رائمہ سعد سے کہ کر اسے ناشتہ سرو کرنے لگی تھی
__________________________
چھوڑو مجھے ۔۔۔۔
امل اچانک چیختی ہوئی اٹھی تھی
رائمہ فورا ً امل کے پاس آئی تھی
"امل ۔۔۔امل ہوش میں۔آو ۔۔کوئی نہیں ہے دیکھو میں ہوں آنی"
رائمہ نے امل کو کندھوں سے ہلا کر اسے ہوش دلایا
امل کے حواس کام کرنا شروع ہوئے تو آس پاس کا منظر دیکھ کر سامنے رائمہ کو دیکھ کر اسکے سینے سےلگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونی لگی تھی اسکے آنسووں میں درد تھا تڑپ تھی
"میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔وہاں کچھ اچھا نہیں تھا ۔۔وہ مجھے نہیں چھوڑے گا ۔۔۔بچالیں مجھے ۔۔۔"
امل ہچکیوں کے درمیان سب کہ رہی تھی
رائمہ مسلسل امل کی پیٹھ سہلا کر اسے اپنے ہونے کا احساس دلارہی تھی
"امل سب ٹھیک ہے اب کچھ نہیں ہوگا"
لیکن روتے روتے امل نیند کی وادی میں گم ہوگئی تھی
_____________________
حمدان نے کاشان پہ گرم پانی ڈال کر اسے بیدار کیا تھا وہ بہت ذیادہ تو گرم نہیں تھا لیکن اتنا تھا کہ اسکا جسم اور چہرہ سرخ ہوگیا تھا اور جلن ہورہی تھی
حمدان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کردے اسکے ساتھ لیکن وہ قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لےسکتا تھا
"جانتے ہو میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تمہارا وہ حشر کرو کہ سب یاد رکھیں "
حمدان نے یہ کہتے ہوئے کاشان کے ہاتھ میں بلیڈ سے کٹس لگائے تھے جس سے اسکی چیخ بلند ہوئی تھی
"اسی ہاتھ سے تم نے میری جان کو چھوا تھا نہ "
کہتے اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور ایک زبردست مکا جڑا
"اسی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا نہ لیکن تمہیں مار کر اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں تمہارے انجام تک تو ضرور پہنچاو گا "
کاشان کی حالت پہلی ہی پٹ کر کافی خراب تھی اب اس میں مزید سکت نہیں تھی
حمدان نے کاشان اور آبرو کو پولیس اسٹیشن لاکر اسد کے حوالے کیا
"یہ اب تمہارے مجرم ہیں میں چاہتا ہوں ان کو کڑی سے کڑی سزا۔ملنی چاہئیے "
"حمدان تم فکر نہ کرو کاشان کی investigation کی ہے اسکی کئی اور غلط کام سامنے آئیں ہیں وہ ویسے بھی بچ نہیں سکتا اور آبرو پہ کچھ کیس ڈال کو اسے اندر کردوں گا "
اس ڈی ایس پی نے پورا ساتھ دیا تھا
"میں چاہتا ہوں ۔۔وہ کاشان ۔۔encounter ہوجائے "
حمدان نے سرد لہجے میں کہا
"ایسا کچھ دیکھتا ہوں شاید ایسا ممکن ہو "
اسد نے اسے ٹھنڈا کیا
حمدان امل کا نام تو ان سب معاملے میں کسی بھی صورت نہیں لاسکتا تھا ۔۔
حمدان پہ اگر کوئی خون معاف ہوتا تو وہ کاشان کو ابدی نیند سلانے میں وقت ضائع نہیں کرتا
"بہت شکریہ تمہارا اسد پھر ملاقات ہوتی ہے "
حمدان اسد سے مصافحہ کرکے نکل گیا تھا
وہ ویسے بھی امل سے ملنے کے بعد رات گئے ہی ڈرائیو کرکے کراچی آیا تھا اب وہ کافی حد تک تھک چکا تھا
اسکا ارادہ گھر جانے کا تھا
ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر اس نے سعد کو کال کی
"ہاں سعد کیسا ہے ۔۔اور امل کیسی ہے ۔۔۔اسے ہوش آیا ۔"
حمدان کے ایک ایک لہجے سے امل کےلئے محبت ٹپک رہی تھی
"تم اتنے فکرمند نہ ہو امل کو ہوش آیا تھا وہ ابھی اس واقع سے باہر نہیں نکلی اسے اس trauma سے باہر نکلنے کے لئے کچھ وقت لگے گا لیکن وہ پہلے سے بہت بہتر ہے ۔۔ان سب چکروں میں تونے اپنا آپ بلکل اگنور کیا ہوا ہے حمدان اپنا بھی خیال رکھ"
سعد بلکل ماوْں والے انداز میں کہ رہا تھا
"ہاں ابا جی ٹھیک ہے میں اپنا خیال رکھوں گا "
امل کی طبعیت کا سن کر اسکو سکون ملا تھا
"کیا تم اسلامآباد آو گے "؟سعد نے حمدان سے پوچھا
"آو گا لیکن by air ابھی تو پولیس اسٹیشن سے گھر جارہا ہوں ۔ان دونوں کو انکی جگہ پہنچا دیا ہے پھر فلائیٹ چیک کرتا ہوں ۔آفس بھی دیکھنا ہے "
"اوکے اپنا خیال رکھنا ۔"
سعد نے کہتے ہوئے کال کٹ کری تھی
آج حمدان کا موڈ بہت خوشگوار تھا وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا اسکی daily life routine اسکے track سے ہٹ گئی تھی وہ اسے پھر سے اسی ٹریک پہ لانا چاہتا تھا
گھر پہنچ کر فریش ہوکر Jogging exercise کرکے حمدان خود کو بہت ہشاش بشاش فیل کر رہا تھا
______________________
حمدان نے گھر کے سبہی افراد کو خوشی کی نوید سنائی تھی "آپ لوگ فکر نہ کریں نہ ہی پریشان ہو وہ ٹھیک ہے میں اسے خود کراچی لے آوں گا صبح کی فلاٙیٹ سے میں اسلامآباد جا رہا ہوں "
اور امل کہاں کیسے ملی یہ سوال تو لازمی پوچھا جانا تھا تو حمدان انکے ہوچھنے سے پہلے ہی خود ہی بتادیا تھا
گھر کی سبہی فرد کی ْآنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے لیکن انعمتہ بیگم کی آنکھوں میں ندامت کے
"بابا لوگ جتنے بھی چالاک بن جائیں کسی کے خلاف کچھ غلط سوچیں یا کرنے کی کوشش کریں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے "
حمدان نے اپنی ماں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
"ہاں بیٹا ٹھیک کہ رہے ہو جو دوسروں کےلئے برا سوچتا ہے یا کرتا یے اسنکے ساتھ ہی غلط ہوجاتا ہے تم جلدی سے امل کو لے آو میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کےلئے ترس گیا ہوں "
حماد صاحب نے حمدان کو اسکی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا
حمدان یہ سب انعمتہ بیگم کے لئے کہ رہا تھا جسے سب آبرو اور کاشان کے لئے سمجھ رہے تھے نہ حمدان نے انعمتہ بیگم کو مخاطب کیا تھا نہ ان میں سکت تھی کہ وہ حمدان سے کچھ کہ سکے اب تو بس انہیں امل سے معافی مانگنی تھی
____________________
Episode 41
سویرا شام کی فلائیٹ سے اسلامآباد پہنچ کر سب سے پہلے ہاسپیٹل امل سے ملنے آئی تھی
جب وہ امل کے روم میں داخل ہوئی تو امل ساکت چھت کو گھورنے میں مگن تھی سویرا کو اسکی آنکھیں بلکل ویران اور خالی لگیں اسے امل پہ بہت پیار آیا کچھ ہی دنوں میں کیا حالت ہوگئی تھی امل کی
سویرا نے امل کو قریب جاکر اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ کر اسے پکارا
امل نے صرف اپنی نظروں کو گھما کر دیکھا پھر ویسے ہی ٹرن ہوگئی تھی
کیسی ہو میری کپ کیک ۔۔؟؟
ٹھیک ۔۔۔امل نے یک لفظی جواب دیا وہ بھی اتنی دھیما کہا تھا کہ بمشکل ہی سویرا نے سنا تھا
سویرا نے سے کندھوں سے تھام کر بٹھایا تھا اور امل اپنا آپ کھوتے ہوئے اسکے کندھے پہ سر رکھ کر رو پڑی تھی سویرا نے بھی اسے رونے دیا تھا کہ ان آنسووں کے ذریعے وہ اپنا دکھ غم سب بہادے
جب رو رو کے امل تھک گئی تھی تو سویرا نے اس سے کہا
"امل جو کچھ ہوا وہ سب بھلانا آسان نہیں ہے بہت مشکل ہے لیکن ناممکن تو نہیں ہے نہ تمہیں خود کو سنبھالنا ہوگا یہ آزماٙش تھی تمہاری جو ختم ہوگئی ہے تم اس میں کامیاب رہی جو اللٰہ کے قریب ہوتے ہیں اللّٰہ ان سے آزمائش لیتا ہے تم اتنا وقت وہاں رہی لیکن تم محفوظ ہو کچھ غلط نہیں ہوا سوچو اس بارے میں ۔۔ان کےلئے سب بھول جاو جو تم سے اتنا پیار کرتے ہیں جنہیں فکر ہے تمہاری ان سوچوں سے نکلو میں جانتی ہوں ذہن بار بار چلا جاتا ہے لیکن اس کو پرے کر کے اپنوں کے بارے میں سوچو جو تم سے محبت کرتے ہیں برے دنوں کو یاد کرکے اچھے دنوں کو خراب نہیں کرتے چندا تم خود کو جتنا جلدی سنبھالو گی اتنی جلدی ان سب سے باہر آجاو گی اور آبرو اور کاشان کو انکے کئے کی سزا مل گئی ہے "
آبرو ۔۔۔۔امل کو کاشان کا پتہ تھا ۔۔لیکن آبرو ۔۔۔جب ہی امل بری طرح چونکی تھی
"ہاں آبرو بھی ان سب میں ملوث تھی اور وہ سب پروپیگنڈہ بھی ان دونوں کا ہی تھا خیر برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور سچ سامنے آہی جاتا ہے وہ دونوں اب مل کر جیل میں چکی پیسیں گیں ۔۔ہاہاہاہاہا اچھا اب پرامس کرو وہ سب بھول جاو گی "
سویرا نے اپنا ہاتھ امل کے سامنے کرا جسے امل نے کچھ پل کے بعد تھام لیا تھا
گڈ گرل" سویرا نے امل کے گالوں کو کھینچ کر کہا تھا جو کہ اب تھوڑے پچک گئے تھے
میں اسلامآباد میں ہوں ۔۔؟امل نے سویرا سے سوال کیا تھا
"جی ۔۔۔ابھی ہم اسلامآباد میں ہیں لیکن بہت جلد کراچی چلیں گے تم بس جلدی سے ٹھیک ہوجاو میرے خیال سے گھر میں سے کوئی جب ہی نہیں آیا کہ تم خود کراچی چلی جانا "
سویرا نے اسے کہا
"گھر میں سب کیسے ہیں ۔۔ماما ۔۔بابا ۔۔۔بہت پریشان ہونگے نہ "
امل کی اس بات پہ سویرا بھی ایک پل کےلئے ڈگمگا گئی تھی
"ہاں سب ٹھیک ہیں امل ۔۔بہت یاد کرتے ہیں تمہیں ۔۔فلحال صدف اور حنین صاحب کی بات اس نے ٹال دی تھی
"امل تم نے اب تک جتنی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے صبر کیا ہے آگے بھی اسے طرح قائم رہنا کوئی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا سب کو جانا ہوتا ہے تم صبر کا دامن نہ چھوڑنا زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے ابھی "
امل کو سویرا کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن سویرا اسے آنے وقت کے لئے تیار کر رہی تھی
"سمجھ رہی ہو نہ امل میری بات "۔۔۔سویرا نے اسکے ہاتھ پہ زور دیا
ہاں ۔۔۔۔۔۔۔امل بس ہاں کہنے پہ ہی اکتفا کیا تھا
"اب اسی بات میں مسکرا کر دیکھاو "
سویرا امل کو بہلانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئی تھی ۔
نا چاہتے ہوئے امل نے دھیما سہ مسکرا دیا تھا
"اور کیا تم یہ بستر سی لگی ہوئی ہو میں ابھی ارسلان بھائی سے بات کرتی ہوں کہ discharge کریں"
ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟۔۔۔۔اس نے امل کی بھی مرضی جاننی چاہی
"امل نے اپنا سر ہاں میں ہلایا اسے بھی یہاں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
That's my brave girl ....
سویرا نے امل کو کہتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا تھا جب ہی ارسلان آیا تھا "اوو لگتا ہے غلط وقت پہ آگیا "
"جی بھائی آپ غلط وقت پہ آگئے ہیں"
سویرا نے ہنستے ہوئے کہا
"امل گڑیا کیسی ہو "
ارسلان نے سویرا کو پوچھتے ہوئے امل سے کہا
جی ٹھیک ہوں "۔۔۔۔اس نے مدھم لہجے میں کہا
"بھائی امل کو discharge کریں ورنہ میں اسے ایسی ہی یہاں سے لے جاونگی امل بلکل ٹھیک ہے کیونکہ میں جو آگئی ہوں ہے نہ امل ۔۔۔سویرا نے ساتھ ساتھ امل سے پوچھا جس پہ امل نے ہاں کہا
ارسلان کو بھی امل بہتر لگی گھر میں رہ کر بھی اسکی کئیر ہوسکتی تھی اس لئے ارسلان بھی اسے discharge کر دیا تھا
"بھائی میں ابھی امل کو اپنے ساتھ لے جارہی ہوں ہم سب سے پہلے پارلر جائیں گے "۔۔۔۔۔سویرا نے خوش ہوتے کہا
"پارلر ۔۔۔کس لئے "۔۔۔۔ارسلان نے کہا
"بھائی آپکو نہیں پتہ لڑکیوں کے سیکریٹس ہیں یہ "۔۔۔سویرا نے کہا
"لیکن بچہ آپکو یہاں کے راستے کا نہیں پتہ ادھر ادھر نہیں جانا ابھی امل مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی یے "
اس نے منع کیا
"اوو بھائی کچھ نہیں ہوتا میں ابھی راستے میں ایک پارلر دیکھتی ہوئی آئی ہوں اور مجھے نہیں پتہ لیکن آپکے ڈرائیور کو تو سب پتہ ہے نہ انہی کے ساتھ جاوگی "
سویرا امل کو اپنے ساتھ لے گئی تھی اور ارسلان نے بھی احتیاطاً اپنے ڈرائیور کو باور کرادیا تھا کہ کہیں اور لیکر نہیں جانا ورنہ سویرا کا کب کہاں کا موڈ بن جائیں کچھ پتہ نہیں چلتا
پارلر میں جاکر سویرا نے امل کی cleansing facial eyebrow manicure pedicure hair trimmings سب کروائی تھی
جس سے امل میں کافی چینچ آیا تھا اور امل نکھری نکھری سی ہوگئی تھی امل کو بھی اپنا آپ بہت اچھا لگا تھا
ڈرائیور کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ دونوں گھوم پھر کر تھوڑی شاپنگ کرکے کھا پی کر گھر واپس گئے تھے
اور کافی دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے سے بات کرتے رہے تھے رات کافی ہوگئی تھی امل بھی باتیں کرتے کرتے سوگئی تھی۔دوائیوں کا بھی اثر تھا
سویرا نے امل کو کمفرٹر اڑا کر لاٙیٹ آف کرکے اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر کچھ دیر باہر واک کرنے کے ارادے سے گئی تھی
جب کوریڈور میں کسی نے اسے کھینچا تھا لیکن جب تک وہ سمجھ پاتی کچھ اس شخص نے اسے دیوار سے لگا کر دونوں طرف ہاتھ رکھ کے فرار کے سارے راستے بند کردیئے تھے
سویرا تو ڈر ہی گئی تھی لیکن سعد کو سامنے دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی تھی
" آپ کوئی کام سیدھے طریقے سے کر سکتے ہیں"
سویرا نے کافی حد تک خود پہ قابو پاکر کہا تھا
"نہیں وہ کیا ہے نہ سیدھا طریقہ مجھے آتا نہیں ہے "
سعد کا لہجہ کافی پرجوش تھا
"کچھ شرم کرلیں اور چھوڑیں مجھے "
سویرا نے خود کو چھڑواتے ہوئے کہا
"وہ کیا نہ بہت اچھی سیل لگی تھی تو میں نے اپنی شرم بیچ کر وہ خرید لیا اور رہی بات چھوڑنے کی تو وہ کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا " سعد نے اسکے بالوں کو اپنی انگلی میں لپیٹتے کہا سعد کی لو دیتی نظریں اور محبت لٹاتا لہجے سے سویرا کو اب سہی مانو میں گھبراہٹ ہونے لگ گئی تھی پلکیں حیاء سے جھک گئی تھی
"کوئی آگیا تو " سویرا نے بہت ہی آرام سے کہا
"سب سورہے ہیں کوئی نہیں آئے گا اور آ بھی گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا بیوی ہو تم میری جائز حق رکھتا ہوں "
سعد نے سویرا کے چہرے پہ آتی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا
سویرا اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس نے باہر نکلنے کا سوچا تھا سعد اسکے اتنے قریب تھا کہ وہ اسکی دھڑکنوں کا شور باآسانی سن سکتا تھا
"آپ کوئی موقع نہیں چھوڑتے چھچھورا پن کرنے کا "
سویرا نے نظریں جھکا کر ہی کہا
"کوئی پاگل ہی ہوگا جو موقع چھوڑے گا اور چھچھورا پن تو میں نے ابھی کچھ کیا ہی نہیں ہے مسز سعد "
سعد نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکے کان کی لو پہ اپنے لب رکھے تھے
"ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے اگر آپ کو یاد ہوتو ۔۔۔"
سویرا کو لگا سعد بھول گیا ہے
رخصتی نہیں ہوئی ہے جبہی یہاں ہو تم اور میں بس چھوٹی موٹی جسارتیں کر رہا ہوں ورنہ وہاں ہوتی "
سعد نے بیڈ کی جانب اشارہ کرکے برا سہ منہ بناکر کہا اور اسکی کمر کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھ کو آپس میں ملا کر اسے اپنے قریب کیا
سعد کہ باتوں کا مطلب سمجھ کر سویرا کے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی تھی اسے اپنے قدموں پہ کھڑے رہنا محال لگ رہا تھا لیکن وہ تو سعد کی شکنجے میں تھی
"پلز جانے دیں آپ مجھے "
سویرا نے روتی شکل بناکر کہا
"ایک شرط پہ جانے دونگا "
سعد نے سویرا کو نظروں کے فوکس میں رکھ کر کہا
کیسی شرط ۔۔۔۔۔سویرا کو یہاں سے جانے کے لئے ہر شرط قبول تھی
"کہو ۔۔آئی لو یو سعد"۔۔۔۔۔۔۔سعد نے کہتے اسکا دایاں گال چوما تھا
سویرا نے ایک دم سے اپنی پلکیں اوپر اٹھائی تھی اور اگلے ہی پل واپس جھکا لی تھی
"کہنا ضروری ہے کیا نظر نہیں آرہا ہے"
سویرا نے مدھم آواز میں کہا
سعد نے اسے جھٹکا دے کر اسے اپنے تھوڑا قریب کیا اور کہا
"جی کہنا ضروری ہے ورنہ مجھے مسلہ نہیں ہے ہم یہاں رات اسٹے کر سکتے ہیں " ۔۔۔۔۔۔۔اس نے اسکا بایاں گال چومتے ہوئے کہا
"بہت برے ہیں آپ "۔۔۔۔۔سعد کی بڑھتی جسارتوں کو وہ روک بھی نہیں پارہی تھی وہ پوری کانپنے لگ گئی تھی اسکا تنفس بگڑ گیا تھا دل کی دھڑکنوں میں شور مچ گیا تھا
"برا ہوں ٹھرکی ہوں چھچھورا ہوں اب تو بس تمہارا ہوں تم نہ وقت ضائع کر رہی ہوں یا جانا ہی نہیں چاہتی "
سعد نے بھی سویرا کے انداز میں جواب دیا اور اپنی ناک اسکی ناک سے مس کی
نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔نہییں م۔۔۔۔میں ک۔۔۔کہ۔۔۔۔کہہتی ہوں آئی ۔۔۔سویرا نے رک رک کر کہا ۔۔۔لو۔۔۔۔۔۔۔۔"
سعد تو سویرا کے ان لفظوں میں کھو گیا تھا اور اسکی گرفت بھی ہلکی پڑی تھی
جسکا سویرا نے فائدہ اٹھا کر" i love my county "کہ کر حصار توڑ کر بھاگ گئی تھی اور کمرے میں جاکر ہی رکی تھی اور اپنی اٹکی سانس کو بحال کیا تھا اور تنفس کو نارمل کرنے کی کوشش
سعد تو ہکا بکا رہ گیا تھا
"کہاں تک بھاگو گی مسز آنا تو میرے پاس ہی ہے اب دور نہیں رہ سکتا کچھ کرتا ہوں تمہارا "
سعد نے مسکرا کر حمدان کو text کیا تھا
What's up buddy ..??
اگلے ہی پلReply آیا تھا
How is amal ???
"عشق نے نکمہ کردیا ہے تجھے ٹھیک ہے تیری امل بلکل ۔۔دوست بھی یہاں ہے اسکا حال بھی پوچھ لے بندہ لیکن نہیں بھئی تو نہ ایک کام کر اسلامآباد نہ آ سویرا بھی ہے میں اور وہ امل کو لے آئیں گے"
سعد نےحمدان کو تنگ کیا
"کیا مطلب یے تیرا میری ذمہداری بن جائے گی وہ بعد میں تو میں ابھی سے اپنے فرض انجام دینا چاہتا ہوں "
حمدان نے سنجیدہ لہجے میں ریپلائے دیا تھا
"ابھی بنی نہیں ہے یہ کہنا کہ اسکے بغیر رہا نہیں جاتا "
سعد نے حمدان کو تنگ کیا
"سعد تو پٹ جائے گا ذیادہ اوور نہ ہو اور سو جاکر اور مجھے بھی سونے دے "
حمدان نے کہا
سعد کے ہاہاہاہاہا کے reply سے حمدان اپنا فون ہی رکھ دیا تھا ۔ڈیش انسان ۔۔۔۔۔۔وہ بڑبڑایا تھا
_________________________
Episode 42
اذہان نے اپنے کمرے میں ایک نظر ڈالی تھی ہر چیز ادھر ادھر بکھری ہوئی تھی جب سے مہمام آئی تھی کمرے کا یہی حال رہتا تھا اسے گھومنے سے فرصت ملے تو وہ کچھ دھیان دے ابھی بھی وہ گھر سے غائب تھی
اذہان سب کو چھوڑ کر کبرڈ سے اپنا نائیٹ ڈریس ڈھونڈنے لگا تھا جب اس میں سے ایک لفافہ گرا تھا اور اس نے اسے جب دیکھا تو غصے سے اسکا برا حال ہوگیا تھا اس نے مہمام کو کال کری تو نمبر switched off تھا
جب مہمام واپس آئی تو اذہان نے اسے ایک زور تھپڑ لگایا اور وہ لفافہ اسکے منہ پہ پھینکا تھا
"میں نے منع کیا تھا کہ تم ایسا کچھ نہیں کروں گی اسکے باوجود بھی تم نے اپنے بچے کو قتل کردیا"
"میں نے تم سے کہا تھا میں کروں گی یہ اور میں نے کرلیا تمہارے اندر کیوں آگ جل رہی ہے تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں تھا اور تم ہر وقت ہاتھ اٹھا کر خود کو کیا ثابت کرنا چاہتے ہوں ہاں ۔۔میں اب تمہارے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہوں گی میں جا رہی ہوں اور divorce مجھے بجھوادینا ورنہ میں تمہارا جینا حرام کردونگی "
وہ پوری طاقت سے چلائی تھی
"کہاں جا رہی ہو کہیں نہیں جاوگی تم یہی سڑو گی "
اذہان نے اسے بیڈ پہ دھکا دیتے ہوئے کہا
"تم جیسے جاہل کے ساتھ میں اب نہیں رہوں گی ویسے بھی مہمام کو یہاں سے کچھ نہیں ملا تھا ایک پیسہ تک نہیں۔۔ تو وہ یہاں کیوں رہتی اور اسے اب نیا مرغا مل گیا تھا تو یہاں رہنے کا تو جواز ہی نہیں بنتا تھا وہ تو ایک موقع کی تلاش میں تھی
"تم مجھے روک نہیں سکتے اور کس حق سے روکو گے خود تو تم کسی کام کے نہیں ہو ہزاروں لڑکیوں کے ساتھ تمہارا افئیر یے تمہارے والدین تم سے خفا ہیں اور تم مجھے روکو گے پہلے اپنے آپ کو دیکھو کتنے پانی میں ہوں پھر کہنا مجھے "
اس نے اذہان کو آئینہ دکھایا تھا
مہمام نے اپنا سارا سامان پیک کرکے کیب کو بلا کر اذہان کو دھکا دےکر وہ چلی گئی تھی ویسے بھی رات جتنی بھی ہوگئی ہو اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا "
اذہان نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ نہیں رکی تھی اور وہ روکتا بھی کس منہ سے"
اذہان نے مہمام کے جانے کے بعد کمرے کی بکھری چیزوں کو مزید بکھیر دیا تھا اور بالکنی میں جاکر سیگریٹ پینے لگ گیا تھا
مرتضی جس نے سب دیکھ لیا تھا اس نے اذہان کے ہاتھ سے سیگریٹ لے کر اپنے بوٹ تلے مسلہ تھا
"اذہان یہ سیگریٹ سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں کر سکتی اسے جانا تھا وہ چلی گئی تم نے جزبات میں آکر ایک بار پھر غلط فیصلہ کیا ہے تم آج تک لڑکیوں کے جزبات سے کھیلتے آئے ہو آج ایک لڑکی تمہارے ساتھ کھیل گئی کیسا محسوس ہو رہا ہے "
مرتضی نے اسے حقیقت دکھائی تھی
"مرتضی میں غلط تھا ۔۔میرا بچہ ۔۔"
اس سے آگے اذہان سے کہا نہیں گیا
اس نے اسے اپنا مان لیا تھا وہ بھلے ہی اسکا خون نہیں تھا
"اسے اپنے غلطی کی سزا سمجھ لو اچھا انسان وہی ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھ کر توبہ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے تم بڑی امی اور بڑے ابو سے معافی مانگ لو انکا دل دکھایا ہے تم نے ۔۔۔
"تم جانتے ہوں نہ کہ نیک مردوں کے لئے نیک عورت اور نیک عورت کے لئے نیک مرد ہے "
"تو تم کیا ہو نیک یا برے کہ تمہیں وہ ملی جو نیک تو نہیں تھی اپنے سب گناہوں کی توبہ کرلو جو آج تک تم نے لڑکیوں کے جزبات سے کھیلا ہے اور خود کو ایک نئی پہچان دو اور نئے اذہان کو جنم دو اور پرانے کو ختم کردو "
"مرتضی اذہان کو اپنے گلے لگا کر اسے سمجھا رہا تھا اسکی شادی کو بس دس ہی دن ہوئے تھے اور اس دن نے اسکی زندگی کا رخ موڑ دیا تھا اسے اسکی تلخ حقیقت سے آشنا کردیا تھا
"اب کسی لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا "
مرتضی اسکی پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا
"نہیں ۔۔کبھی بھی ۔۔نہیں ۔۔میں بہت غلط تھا "
اذہان نے روتی شکل کے ساتھ جواب دیا
"اب یہ لڑکیوں کی طرح رونا بند کر اور کمرہ صاف کر میں اکیلے نہیں کروں گا "
مرتضی نے اسے کہا
"یاد ہے ہم جب بھی اپنا کمرہ بکھیرتے تھے اسے امل ہی صاف کرتی تھی اور ابھی شدت سے اسکی یاد آرہی یے "
اذہان نے بیڈ شیٹ جھاڑتی کہی
کل امل آرہی ہے نہ واپس اپنے گھر ہمیں اسکے استقبال کے لئے کچھ پلان کرنا چاہئیے "
مرتضی نے کہا
"یہ اچھا آئیڈیا ہے "۔۔۔۔۔اذہان نے حامی بھری
"اوو تجھے پتہ ہے میں آج اسد کے پاس گیا تھا کہ کر آیا ہوں اس سے کہ بے آبرو کی ٹھیک ٹھاک کٹ لگانا اور اسکی چیخوں کی ریکارڈنگ مجھے سنانا بہت سکون ملے گا مجھے "
مرتضی نے اپنا کارنامہ بتایا
"ہاں یہ تو ہے لیکن تمہاری خالہ اور خالو کتنے دکھی ہوگئے ہونگے "
اذہان نے صفائی کرتے ہوئے کہا
"ؐلیکن کیا کیا جا سکتا ہے اب سب کو تو خوش نہیں کیا جاسکتا"
مرتضی نے کپڑے سمیٹتے کہا
"ہاں کہ تو تم ٹھیک رہے ہو ویسے بہت بےتاب ہوں میں امل سے ملنے کےلئے اس سے بھی تو معافی مانگنی ہے "
اذہان سب بھول کر امل کو ویلکم کرنے کے بارے میں سوچنے لگ گیا تھا
"اسے تو یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم نے اسے ایسا کچھ کہا تھا اسے اسکی فیورٹ چاکلیٹ دے دینا وہ مان جائیگی "
مرتضی امل کے لِے محبت سمائے کہ رہا تھا
___________________________
رائمہ کمرے میں آئی تو امل اور سویرا دونوں ٹن تھے
"کب تک سوتے رہو گے اٹھ جاو رات بھر جاگتے رہے ہو نہ"
رائمہ نے پردوں کو ہٹاتی ہوئٙے دونوں کو اٹھایا
دن چڑھ گیا ہے جلدی اٹھو اور باہر آو ناشتے کے لئے
امل باتھ لے کر خود کو بہت فریش محسوس کر رہی تھی بالوں میں برش کرتے ہوئے وہ سویرا کی باتوں کو سوچ رہی تھی
"سویرا ٹھیک ہی تو کہ رہی ہے میرے اللہ نے مجھے محفوظ رکھا میں اپنوں کے پاس آ گئی ہوں جو الزام لگا تھا اس پر سے بھی پردہ ہٹ گیا ہے میں اپنے آپ کو ایک جگہ نہیں روک سکتی یہ زندگی تو چلتی رہے گی اور میں رک بھی گئی تو جب بھی یہ چلتی زندگی مجھے دھکا دے کر اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھادی گی "
امل نے خود کو بہت حد تک پرسکون کر لیا تھا اب وہ اپنی فیملی سے ملنے کے لئے بےتاب تھی
امل اور سویرا جب فریش ہوکر باہر آئے تو سب ڈائینگ ٹیبل پہ سب موجود تھے حمدان بھی اسلام آباد آگیا تھا امل کو دیکھ کر اسکے دل کو اطمینان ملا تھا حمدان کو امل کافی پرکشش لگی ۔اسے وہ پہلی جیسی ہی لگی زدر پڑتی رنگت کافی حد تک مائل ہوگئی تھی ڈارک سرکل ختم ہوگئے تھے گال بھی تھوڑے بھر گئے تھی بس تھوڑی کمزور لگی تھی
امل حمدان کو دیکھ کر ایک پل کےلئے چونکی تھی لیکن اگلے پل خود کو سنبھال لیا تھا
یہ تو میرے محسن تھے امل کو وہ منظر یاد آیا جب کاشان اسکے ساتھ غلط کرنے جا رہا تھا تو حمدان ہی تو آیا تھا اور اسے کاشان کی باتیں یاد آنے لگیں تھی حمدان تم سے محبت کرتا ہے تمہارے عشق میں مجنوع ہوگیا ہے سویرا کی بات بھی یاد آئی جو کل رات اس نے کہی تھی مجھے لگتا ہے حمدان بھائی تمہیں پسند کرتے ہیں وہ بہت پریشان تھے تمہاری گمشدگی سے سب سے ذیادہ اور آبرو کا بھی بہت برا حال کیا ہے انہوں نے مجھے سعد نے بتایا تھا
یہ ساری باتیں امل کے ذہن میں گونج رہی تھی اور بہت سے سوال آئے تھے کہ کیا اب بھی وہ محبت کرتے ہیں یا ہمدردی تھی ۔۔یا سچ میں ایسا ہے امل حمدان کو دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی
حمدان نے امل کو یوں ٹکٹکی باندھ کر خود کو دیکھتے ہوئے اسے دیکھا لیکن جب بھی وہ ویسی ہی دیکھ رہی تھی حمدان کو وہ اپنے حواس میں نہیں لگی
سویرا نے امل کو ہلایا تو وہ ہوش میں آئی
"کہاں گم ہو ناشتہ کرو حمدان بھائی کو ایسے کیوں گھور رہی ہو "
"ہاں ۔۔۔۔۔۔نہیں بس ویسے ہی ۔۔"۔
امل نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور ناشتے پہ متوجہ ہوئی تھی
سویرا نے سعد کو بلکل اگنور کیا ہوا تھا کل رات اتنا زچ کیا تھا سعد نے اسے لیکن سعد کو بلکل بھی یہ اگنورنس اچھی نہیں لگ رہی تھی جب ہی اس نے سویرا کو مخاطب کر کے کہا
" میری لئے چائے بنادو "
سویرا نے چائے بناتے ہوئے سب کی نظروں سے بچ کو اچھی خاصی چینی اس میں ڈال دی تھی
سعد نے ایک ہی سپ لیا تھا اور اسکے منہ سے فوارے کی طرح چائے نکلی تھی اور وہ بری طرح کھانسنے لگا تھا
سویرا نےاسے پانی دیا
"سعد کیا ہوا ٹھیک ہیں آپ " سویرا نے آنکھ مار کر کہا
سعد نے اسکو گھور کر دیکھا اشارہ ایسا تھا بچ کر دکھانا
_____________________
حمدان اور امل کی سیٹ ایک ساتھ تھی جبکہ سویرا اور سعد کی سویرا تو سعد کو فل اگنور کر کے کانوں میں ہیڈ فونس لگائے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی
سعد کو غصہ آرہا تھا سویرا اس سے ناراض ہے جبکہ ناراض اسے ہونا چاہئیے ۔۔۔۔سعد نے اسکے کان سے ہیڈفونس نکالے
"کیا ہے ۔۔۔؟؟اگر آپ نے مجھے تنگ کیا نہ تو میں اپنی سیٹ چینج کرالوں گی "
" یہاں سے ہل کر تو دکھاو سیٹ چینج کروں گی "
سعد کا لہجہ بلکل سنجیدہ تھا سویرا بھی چپ ہوگئی تھی اور سعد نے زبردستی اپنا سر سویرا کے کندھے پہ رکھ لیا تھا
سویرا بس سعد ہی کرتی رہ گئی تھی
"حمدان بھائی کا ہی خیال کرلیں آپ کم از کم "
"حمدان کو چھوڑو اسکی نظریں ایک ہی جگہ فکس رہی گی یہاں تو غلطی سے بھی نظر نہیں ڈالے گا "
سعد نے آنکھیں بند کئے ہی کہا تھا
امل سے نہ کار کی سیٹ بیلٹ لگتی تھی نہ اب ایروپلین میں لگ رہی تھی حمدان نے خود ہی آگے ہوکر سیٹ بیلٹ لگایا تھا جب اسکا ہاتھ امل کی کمر سے ٹچ ہوا تھا امل کے جسم۔کرنٹ سہ دوڑا تھا
حمدان بھی فوراً ہیچھے ہٹا تھا
امل کے فیس ایکسپریشن سے لگ رہا تھا اسے ڈر لگ رہا ہے یہ اسکی لائف کا پہلا ہی سفر تھا کبھی ایسا موقع ہی نہیں آیا کہ وہ ہوائی جہاز کا سفر کرتی ۔۔۔۔announcements کے بعد تو امل کا ڈر بڑھ گیا تھا حمدان نے امل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اسے دبایا تھا اور آنکھوں سے اسے اشارہ کیا تھا
امل نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھی اور حمدان اس میں کھو گیا تھا
__________________________
امل کراچی آکر سب سے پہلے بی جان سے ملی تھی اور انکے گلے ناجانے کتنے لمحے لگی رہی تھی اپنے گھر کی دہلیز پہ واپس آکر اسکی آنکھیں پھر سے بھیگ گئیں تھی
سب امل سے بہت گرم جوشی سے ملے تھے مرتضی اور اذہان امل کو ہنسانے کی بھر پور کوشش میں تھے بی جان کو محسوس ہورہا تھا انکی مردہ دل میں جان سی آگئی ہو
امل متلاشی نظروں سے اپنے ماں باپ کو ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ اسی کہیں نظر نہیں آئے جو کہ اسے بہت عجیب لگا تھا آخر کار اس نے انکا پوچھا اسلامآباد میں اسکی کال پہ سب سے بات ہوئی تھی سوائے اپنے ماں باپ کے اس وقت اس نے اتنا محسوس نہیں کیا تھا لیکن اب تو اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی
امل کے اس سوال پہ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دیں
حمدان نے امل کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھوں کو تھاما تھا آج نہیں تو کل امل کو پتہ لگ ہی جانا تھا آخر کب تک چپھایا جاسکتا تھا
"امل تمہیں ہمت سے کام لینا ہے صبرو استقامت کا مظاہرہ کرنا یے تم بہادر ہو نہ ہر کوئی ہمیشہ کے لئے نہیں آتا "
حمدان بہت تحمل سے امل سے کہ رہا تھا
آپ ۔۔آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔۔امل نے بہت دھیما کہا
"چھوٹے بابا اور ماما نہیں رہیں اب اس دنیا میں "
حمدان نے آخرکار ہمت جمع کر کے کہا تھا
آ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔جھ۔۔۔۔جھو۔۔۔۔جھوٹ ۔۔۔ب۔۔۔۔بو۔۔۔۔۔بول ۔۔۔رہ۔۔۔رہے ۔۔۔۔ہی۔۔۔ہیں ۔۔۔
بڑے پاپا آپ بتائیں ۔۔مرتضی ۔ اذہان ۔۔امل باری باری سب کے پاس گئی تھی
سب کی خاموشی اس بات کی تصدیق کررہی تھی اور پھر امل۔اتنی شدت سے روئی تھی کہ سب کو اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا اور اچانک وہ سب کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے کمرے کی جانب بھاگی تھی
شانزہ بیگم اسکے پیچھے گئیں تو حمدان انہیں یہ کہ کر روک دیا تھا
"بڑی امی اسے کچھ وقت اکیلا رہنے دے "
جبکہ امل کی تکلیف اسے بھی بہت تکلیف دے رہی تھی
________________________
Episode 43
امل کی طبعیت کیسی ہے اب حارث صاحب نے شانزہ بیگم سے پوچھا تھا
"ٹھیک ہے بخار ہورہا ہے دوائی دے کر آئی ہوں آرام کر رہی ہے وہ اب
شانزہ بیگم نے حارث صاحب کے ساتھ بیٹھتے ہوئے جواب دیا
جب اذہان انکے کمرے میں آیا تھا اور انکے سامنے بیٹھا تھا
" ماما بابا مجھے معاف کردیں میں نے آپ دونوں کا دل دکھایا میں آپ دونوں سے بہت شرمندہ ہوں جب تک آپ لوگ معاف نہیں کریں گیں آللّہ بھی نہیں کرے گا مہمام چلی گئی ہے مجھے چھوڑ کر اس نے ہمارے بچے کو جس کا ابھی وجود بھی نہیں بنا تھا ختم کردیا میں نے طلاق کے پیپرز بنوانے دیئے ہیں وہ نہیں رہنا چاہتی ہے اب "
اذہان نے بھیگے لہجہ میں کہا اسکہ لہجہ کافی حد تک ندامت میں ڈوبا ہوا تھا
شانزہ بیگم حارث کی جانب دیکھا تھا اور اذہان سے منہ موڑ لیا تھا
"سہی انسان وہی ہے جو اپنی غلطی سدھار لے اگر تمہیں شادی کرنی تھی تو ہمیں بتاتے ہم تمام رسم ورواج کے ساتھ کرتے خیر تم نادم ہو جو ہوا وہ بہت برا ہو شاید یہ سزا تھی اور جب سزا مل گئی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ناراض رہنے والے امید کرتا ہوں آئندہ ایسی کوئی غلطی نہیں دہراو گے "
حارث صاحب کہتے ہوئے اذہان کا کندھا تھپتھپایا تھا
شانزہ بیگم نے بھی اسکے سر پہ ہاتھ رکھا تھا
انہیں پہلے دن ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ شادی نہیں چل سکتی تھی لیکن اتنی جلدی اسکا خاتمہ ہو جائے گا یہ وہ نہیں جانتی تھی
___________________
امل اپنے کمرے میں اپنی، حنین اور صدف بیگم کی تصویر کو دیکھ رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور وہ اس تصویر پہ ہاتھ پھیر کر انہیں محسوس کر رہی تھی
امل ابھی تک کیوں جاگ رہی ہو ۔۔؟؟ امل نے اپنی نظریں سامنے اٹھائیں تو انعمتہ بیگم کو منتظر پایا
"نیند نہیں آرہی "امل نے تصویر پہ نظریں جمائے کہا تھا
انعمتہ بیگم کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ امل سے کس طرح بات کریں ۔۔
امل ۔۔۔۔۔۔۔۔انعمتہ بیگم نے اپنی ساری ہمت جمع کرکے اسے پکارا تھا
جی بڑی ماما ۔۔۔امل بہت دھیمے انداز میں کہا تھا
"بیٹا مجھے معاف کردو میں نے بہت غلط کیا میں بھٹک گئی تھی۔آبرو کا ساتھ میں نے دیا تھا تمہارے ساتھ وہ سب کرنے میں۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں "
انعمتہ بیگم نظریں جھکائیں امل سے کہ رہی تھی اور انکی آنکھوں سے بھی اشک بہ رہے تھے وہ بہت نادم تھیں
امل اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ کر بےیقینی کی کیفیت میں تھی اسے اپنی سماعت پہ یقین نہیں آرہا تھا
امل۔۔۔انعمتہ بیگم امل کی جانب بڑھی تھی
امل فوراً بیڈ سے اتری تھی
"۔پلززززز ۔۔جائیں یہاں سے مجھے کچھ نہیں سننا "
امل نے چیختے ہوئے کہا تھا
امل نے اپنے کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر دی تھی مرتضی اور اذہان نے جو اس کےلئے کمرہ سجایا تھا سب کا برا حال ہوگیا تھا
"کیوں کیا میرا ساتھ ایسا میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا پہلے آبرو نے یہ سب کچھ کیا بڑی ماما آپ نے پھر۔آپ میری ماں کی طرح ہیں میں نے کبھی آپ میں اور ماما میں کوئی فرق نہیں کیا ماما بابا مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گئے آآآآآپ پ پ پ پ آپ اسے پھر سے وہ سب یاد آنے لگ گیا تھا کاشان کا خود کو چھونا وہ غلیظ نظریں وہ بیتے دن "
وہ چیخنے لگ گئی تھی
امل کو اپنے اندر ایک آگ جلتی محسوس ہورہی تھی اور یہ کسی طرح کم نہیں ہورہی تھی ویسے بھی بخار کی وجہ سے اسکا پورا جسم تپ رہا تھا اور جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو باتھروم میں جاکر شاور ،نل کھول کر اسکے نیچے کھڑی ہوگئی تھی اور اپنا آپ دھونے لگ گئی تھی
_________________________
ایک ایمرجنسی میٹینگ کی وجہ سے حمدان کچھ دیر بعد چلا گیا تھا اور اتنا مصروف ہوگیا تھا کہ اب گھر آیا تھا فریش ہونے کے بعد پہلا خیال اسے امل کا آیا
اس نے گھڑی میں وقت دیکھا جو ١٢ کا ہندسہ پار کر رہی تھی
"کیا وہ سو گئی ہوگی پتہ نہیں اسکی طبعیت کیسی ہے رات بھی ہوگئی ہے کافی "
لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے اسکے کمرے کا رخ کیا اور ٹیبل سے میڈیسن کا باکس بھی اٹھایا جو وہ واپسی پہ امل کے لئے لایا تھا
وہ کمرے میں آیا تھا اور، اسکے ویل فرنشڈ بیڈروم کے چاروں اطراف نگاہیں دوڑانے کے بعد بھی امل اسے کہیں نظر نہیں آئی تھی لیکن کمرے میں بکھری ہوئی چیزیں ، اسکے۔میک اپ پراڈلٹس، شو پیس ، کشنز، اور نا جانے کیا کیا. اسے فکر میں مبتلا کررہیں تھے۔۔۔
"امل "
بیڈروم کے بیچ و بیچ کھڑے ہو کر اس نے امل کو آواز دی تھی
"کہاں ہو مسسز*
اس نے اپنے بھورے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پریشانی سے دل میں کہا تھا
واشروم سے مسلسل پانی کے گرنے کی آواز سے وہ اس جانب متوجہ ہوا تھا بھاگتا ہوا وہ باتھ روم کی جانب بڑھا تھا باتھ روم کا ان لاکڈ دروازہ پہلے اس نے ناک کیا، جواب نا ملنے پہ اس نے تشویش کے عالم میں ناچاہتے ہوئے بھی خود کو بہت روکنے کے باوجود بھی دروازہ کھول کے اندر نگاہ دوڑائی لیکن پھر اسکی نظریں وہیں منجمد ہوگئی تھیں۔۔ اتنی سردی میں امل کو شاور کے نیچے بھیگتا ہوا دیکھ کے اسکا دماغ سن ہوگیا تھا
۔
"امل دماغ خراب ہے اتنی رات میں یہ کیا کر رہی ہو بیمار ہوجاوگی ویسے ہی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔"
وہ آگے بڑھ کر ٹیپ بند کرنے لگا تھا کہ امل اسے روکنے کی کوشش کری تھی جس چکر میں حمدان بھی کافی بھیگ گیا تھا
حمدان نے امل کو کندھے سے پکڑ کر کے اپنے سامنے کرا تھا اسکا بھیگا ہوا چہرہ، آنسووں اور پانی سے تر گال دیکھ کے وہ پشیمان سا ہوتا ہے۔۔
"ا۔۔۔امل۔۔۔۔۔۔"
وہ اسکی حالت دیکھ کر چونک سا گیا تھا ۔۔۔۔ایسی تو نا تھی وہ ، اسنے تو اسے ہنستا مسکراتا کھیلتے کودتے گاتے دیکھا تھا۔۔۔
"۔۔۔ک۔۔۔کیوں۔۔۔۔کیوں۔آئیں ہیں۔۔۔۔۔آ۔۔۔آپ یہاں میری بےبسی کا تماشہ دیکھنے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔می۔۔مر۔۔۔میرے اپنوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ۔۔۔کی۔۔۔کیا۔۔۔بگا۔۔۔بگاڑا ۔۔۔تھا میں ۔۔۔نے ۔۔۔۔"
وہ ہچکیوں کے درمیان کہ رہی تھی
اس نے اپنے جھکے ہوئے ہاتھ کو اٹھا کر روتے روتے حمدان کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا اور اپنا سر اسکے سینے پہ رکھ کے اور تیزی سے رونے لگی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیوں کررہی ہے ایسا۔۔۔ ۔۔اگر امل ہوش میں ہوتی تو یقیناً ایسا کچھ نہیں کرتی
"امل۔۔۔ ہوش میں آو"
حمدان اسے ہٹانے کی کوشش میں اسے کندھوں سے پکڑ کے الگ کرنے لگا تھا لیکن امل نے اس قدر سختی سے اپنے ہاتھ اسکے گرد پھیلائے ہوئے تھےکہ وہ ایسا بلکل نا کرسکا تھا۔ ۔۔
حمدان نے امل کے کندھے پہ ایک ہاتھ رکھ کر دوسرا اسکی کمر پہ حصار بنا کر اسے بیڈ تک لایا تھا امل کا سارا وزن تقریبا حمدان پہ تھا حمدان نے اسے بیڈ پہ لیٹانا چاہا لیکن امل کے کھینچنے پر وہ بھی ساتھ گرا تھا اسکے جسکی وجہ سے وہ دونوں بےحد قریب ہوگئے تھے حمدان اسکے بھیگے سراپے میں مدہوش ہورہا تھا اپنا آپ کنڑول کرکے اس سے الگ ہو کر وہ ایک فیصلہ کر کے کمرے سے گیا تھا
"بہت امتحان لیتی ہو مسز حمدان ٹو بی "
حمدان ابھی کمرے سے نکلا ہی تھا کہ شانزہ بیگم سے اسکا سامنا ہوا تھا
"حمدان تم اس وقت امل کے کمرے میں کیا کر رہے تھے اور یہ بھیگ کیسے گئے "
شانزہ بیگم کا لہجہ تشویش ناک تھا
"وہ میں امل کو میڈیسن دینے گیا تھا تو وہ شاور کے نیچے کھڑی تھی بس اسی میں بھیگ گیا میں آپکے پاس ہی آرہا تھا آپ اسکے کپڑے چینج کروادیں کہیں بیمار نہ ہوجائے ویسے ہی طبعیت نہیں ٹھیک اسکی "
حمدان کسی کو اپنی صفائی دینا ضروری نہیں سمجھتا تھا لیکن۔یہاں معاملہ امل کا تھا تو جبہی اس نے اتنا تفصیل سے بتایا
"ہاں میں۔دیکھتی ہوں اسے میں امل کے پاس ہی یہ دودھ دینے جا رہی تھی تم بھی سوجاو"
شانزہ بیگم کہتی ہوئی امل کے پاس گئی تھیں
________________
حمدان چینج کر کے حماد صاحب کے پاس گیا تھا وہ اسٹڈی روم میں کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے
"بابا مجھے آپ سے بات کرنی یے میں امل سے نکاح کرنا چاہتا ہوں کل ہی "
حمدان نے بغیر لگی لپٹی کہا تھا
"وہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنی جلدی اور یوں اچانک سب ٹھیک ہے نہ" حماد صاحب کو حمدان بہت سنجیدہ لگا وہ کتاب بند کر کے پوری طرح سے حمدان کی جانب متوجہ ہوگئے تھے
"بابا پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے میں مزید دیر نہیں چاہتا "
حمدان نے اٹل انداز میں کہا
"ٹھیک ہے لیکن امل کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ابھی وہ اسٹریس سے گزر رہی ہے اسے ٹھیک ہونے دو اسکا صدمہ ابھی بہت گہرا ہے اور ساری رسم و رواج کے ساتھ ہم شادی کریں گے "
حماد صاحب نے اسکی باتوں کا جواب دیا
"بابا میں امل کو اس اسٹریس سے ہی تو نکالنا چاہتا ہوں اسکی ہمت بننا چاہتا ہوں جو میں کسی مضبوط رشتے کے بغیر نہیں کر سکتا جب تک ہم اسے ہونہی چھوڑ دیں گیں تو وہ اور ذیادہ اس صدمے میں جائی گی بجائے نکلنے کے اور رہی بات رسم و رواج کی وہ بعد میں ہوجائیں گے پہلے میں نکاح چاہتا ہوں اور کل ہی یہ میرا آخری فیصلہ ہے "
حمدان نے پہاڑ بن کر اپنی بات پہ کھڑا ہوگیا تھا
حماد صاحب نے بھی بیٹے کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔اور ویسے بھی حمدان کی بات انہیں ٹھیک لگی تھی اسکے ساتھ ہی حمدان نے پیچھے ہٹنا بھی نہیں تھا اسکا لہجہ بہت اٹل تھا
تھینکیو سو مچ بابا "
حمدان نے حماد صاحب کے گلے لگ کر کہا تھا
"بابا کا شکریہ ادا نہیں کرتے خوش رہو "
حماد صاحب بھی اسکی خوشی میں خوش تھے اور اپنے فیصلے پہ بے حد مطمئن انہیں آج بھی حنین کی وہ بات یاد تھی جب حماد صاحب نے ان سے امل کا ہاتھ مانگا تھا
"بھائی صاحب یہ تو میرے لئے بہت خوشی کی بات ہوگی اگر امل حمدان سے جڑی گی تو وہ ہمیشہ یہی رہی گی اس سے ذیادہ میرے لئے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے "
________________
حماد صاحب نے سب کو آج نکاح کے بارے میں بتادیا تھا کسی کی اتنی جرات نہیں تھی کہ انکے فیصلے سے انکار کرے
امل نے بھی اپنا سر انکے سامنے جھکا دیا تھا حماد صاحب کے خلوص کے آگے وہ منع نہیں کر پائی اسے لگ رہا تھا یہ سب کچھ حماد صاحب کی خواہش پہ ہورہا ہے جس طرح وہ انہیں کچھ نہیں کہ پائی حمدان بھی نہیں کہ پایا ہوگا
ویسے بھی کچھ بھی تو اسکی مرضی سے نہیں ہورہا ہے جسکا جو دل چاہ رہا ہے وہ اسکے ساتھ کر رہا ہے
______________
"کیا آپکو حمدان شیرازی ولد حماد شیرازی حق مہر ١٠ لاکھ اپنے نکاح میں قبول ہے "
امل کو اس وقت اپنے والدین شدت سے یاد آرہے تھے شانزہ بیگم اسکے کندھے پہ دباو ڈالا تھا تو رک رک اس نے قبول ہے کہا تھا
نکاح نامے پہ سائن کرتے وقت اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے
تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد امل شانزہ بیگم کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی
ّکوئی اور وقت ہوتا تو سویرا اسے خوب تنگ کرتی لیکن ابھی یہ مناسب نہیں لگا اسے
حمدان وائیٹ کلر کے کرتے شلوار میں چہرے پہ مسکراہٹ لئے پورے ماحول پہ چھایا ہوا تھا اسکی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔آخر کار امل اسکی ہوگئی تھی ایک طویل مشکلات اور آزمائشوں کے بعد وہ سب سے اپنی ازلی انداز میں مبارکباد قبول کر رہا تھا
مرتضی اور اذہان سے بھی وہ گرم جوشی سے ملا تھا اسکی اذہان سے کوئی دشمنی تو تھی نہیں اور اب تو امل اسکی ہوگئی تھی تو وہ کیوں پھر اس سے کتراتا
کب سویرا امل کو حمدان کی پاس لائی تھی اسی کچھ خبر نہیں تھی حمدان کو امل وائیٹ ڈریس میں جو وہ خود ہی پسند کر کے لایا تھا لال چنری اوڑھے اپنے دل کے بے انتہا قریب لگی دل نے اسے دیکھنے کی شدت سے خواہش کی لیکن افف یہ گھونگٹ
"تو کیا کہا جا رہا تھا اس دن ہاں ۔۔ صبر کر لے تیری ہی ہے گھونگھٹ میں بھی تاڑ رہا ہے " تو بیٹا جی اب تو بھی صبر کر "
سعد نے موقع ملتے ہی حمدان کو چھیڑا تھا
"تو پٹ جائے گا اپنی چونچ بند رکھ تو نے تو دیکھ لیا تھا بعد میں جی بھر کر میرے زخم پہ نمک نہ چھڑک مجھے تو ملنے کا کوئی چانس ہی نہیں لگتا "
حمدان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔سعد کا ایک جاندار قہقہ گونجا تھا
"سعد اگر تونے اپنے یہ دانت اندر نہیں کئے نہ تو پھر دیکھنا کیا حال کروں گا "
حمدان کہ کر امل کی جانب ٹرن ہوا تھا جو اسے تھکی تھکی لگ رہی تھی اسکا سر ضرورت سے ذیادہ ہی جھکا ہوا تھا
حمدان نے اسکا خیال کرتے ہوئے سویرا کو کہ کر اسے اندر روم میں بجھوادیا تھا اس کے لئے امل کی صحت سب سے ضروری تھی
_____________________
حمدان سب کے سونے کا یقین کر کے امل کے کمرے میں آہستگی سے آیا تھا ویسے تو اسے کوئی ڈر نہیں تھا اب لیکن وہ امل سے بات کرنا چاہتا تھا اسے لگا تھا امل اس سی کھینچی کھینچی ہے یوں اچانک نکاح کا فیصلہ اس پر کیسے اثر انداز کیا ہوگا اسلئیے وہ اس پاک بندھن میں بننے کے بعد اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتا تھا
لیکن حمدان کے توقع کے برعکس امل تو میٹھی نیند میں گم تھی "واہ یہاں تو میرے دل کی تاریں چھیڑ کر محترمہ نیند میں گم ہیں "
حمدان غور سے اسکے ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا امل نے ابھی بھی نکاح کا سوٹ ہی پہنا ہوا تھا حمدان کو اپنا آپ تو اپنا کنڑول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا
دیکھتے ہوئے حمدان کی نظر امل کے گردن کے نیچے نقطہ نما تل پہ پڑی تھی اس تل کو حمدان نے پہلے بھی ایک دفعہ دیکھا تھا ۔دل شدت سے اسے چھونے کی خواہش کررہا تھا لیکن وہ اسکی بےخبری میں کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا بہت صبر کراتی ہو تڑپاتی بھی ہو
حمدان نے امل کو نظروں کے فوکس میں رکھتے ہوئے کہا تھا لیکن
چھوٹی موٹی تو جسارت کی جاسکتی ہے حمدان نے اپنی دل کے جزباتوں اور امل کے دوشیدہ حسن سے محو ہوکر امل کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے جس سے امل نے کسمسا کر اسکی جانب کروٹ بدلی تھی اور اسکے بال اسکے منہ پہ آئے تھے اور حمدان سے اسکا پردہ کردیا تھا
حمدان کو اس وقت یہ بال اپنے دشمن لگے تھے اس نے ان بالوں کو اپنی انگلیوں کی مدد سے ہٹانا چاہا تھا لیکن جب امل کی آنکھ کھلی تھی خود پہ حمدان کو جھکا دیکھ کر وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی
"کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔میرے سونے کا فائدہ اٹھا ریے تھے کیا کیا ہے آپ نے "
امل نے خود پہ کمفرٹر ڈھانپتے ہوئے کہا
امل کی بات نے حمدان کو غصہ دلایا تھا لیکن اس نے خود پہ قابو پایا تھا وہ اس نازک لڑکی کو مزید کوئی دکھ نہیں دےسکتا تھا حمدان اسکے قریب جانے لگا تو وہ اٹھ کر بیڈ سے ہی اتر گئی تھی
حمدان کو اسکا یہ گریز انتہائی بچوں والا لگا حمدان نے اس بلا وجہ کے فاصلے کو منٹوں میں مٹایا تھا اور اس کے پاس گیا تھا اور اسکے فرار کے راستے بند کردئیے تھے امل جو دیوار سے چپک گئی تھی حمدان کے اتنے قریب آنے پر وہ اندر تک کانپ گئی تھی
__________________________
Episode 44
"آپ کیوں آئیں ہیں ۔۔۔"اس نے اٹک اٹک کر کہا اور خود میں سمٹ گئی تھی وہ
دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اس نے آپس میں پیوست کرلیں تھی وہ حد درجہ نروس تھی
"میں تو بس اپنی بےبی اینجیل کو دیکھنے آیا تھا اس سے چند باتیں کرنی تھی لیکن تم نے اب جاگ کر خود ہی مجھے دعوت دی یے کہ۔۔۔۔۔۔۔"
وہ کہتا رک گیا تھا ۔۔۔اس نے امل کے صاف شفاف چہرے پہ اپنی انگلی پھیری تھی۔۔۔۔۔
"آپ نے کیا کیا یے میرے ساتھ ۔۔۔"۔۔۔۔امل کے تنفس میں بری طرح بگاڑ پیدا ہوگیا تھا حمدان کی گرم سانیں اسے اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہی تھی اور اسکا دل بلکل ساکت ہوگیا تھا وہ جتنا اپنے آپ کو سنبھالنا چاہ رہی تھی اتنی ہی بے حال ہورہی تھی
"میں نے بس یہی کیا تھا اب تک تو "
کہتے حمدان نے اسکے لٹوں کو کان کے پیچھے کیا اور اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیکر اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا
میں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا اور اگر مجھے فائدہ ہی اٹھانا یے تو وہ میں اب بھی اٹھا سکتا ہوں اسکے لئے تمہارا سونا میرے لِئے اہم نہیں یے "
حمدان نے جھک کر اسکی کان میں سرگوشی کی تھی اور اسکی کان کی لو کو اپنے دانتوں کے بیچ ہلکا سہ دبایا تھا اور پھر اس پر اپنے لب رکھے تھے
امل اسکے لمس پہ کانپنے لرزنے لگی تھی اور اسکے سینے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی
"آپ نے اس لئے مجھ سے نکاح کیا ہے "؟؟؟؟؟؟
"شششششش۔۔۔"ایک لفظ نہیں ۔۔اس نے اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھتے ہوئے کہا وہ اس سے اس حد تک بدگمان ہوگئی تھی
"میں نے تم سے نکاح اس لئے کیا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے میرے دل کو میری دھڑکنوں کو میری سانسوں کو تمہاری قربت کی ضرورت ہے میں مزید دور نہیں رہ سکتا ہوں اپنی بےبی انجیل سے میرا دل مریض بن گیا یے اور اسکی دوا بس تم ہو "
اسکی لبوں پہ انگلی پھیرتا وہ خمار آلود لہجے میں کہ رہا تھا وہ اپنا آپ اس میں گم ہوتا محسوس کر رہی تھی اس نے اپنی پلکیں اٹھائیں لیکن اگلے ہی پل جھکا لیں اسے لگا وہ ان گہری آنکھوں میں ڈوب جائے گی
"You Give me Happiness EveryDay Is More Than Any Words Can Say …..
The Pleasure That You give me Is More Than
Can Ever Be Seen…..
Happiness Goes And Happiness Comes But My Love For You Just Grow More & More By Each Passing Day…...
And The Reason Is That I Love You Because Without You I would not live….…...
"اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر وہ بھاری لہجے میں کہتے اس پر کوئی سحر طاری کر رہا تھا ۔۔۔وہ اپنی نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو اسکے ہاتھ میں دیکھ رہی تھی آنسو اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ اسکے ہاتھ پہ گر رہے تھے اور اسے لگ رہا تھا کہ یہ آنسو اسکے ہاتھ پہ نہیں بلکہ اس کے دل پہ گر رہیں ہیں
اسکا دل مسلسل اسے بے باکی کرنے پر اکسا رہا تھا ،بہکا رہا تھا لیکن اس نے اس معصوم لڑکی کے چہرے پہ بکھرے تکلیف کے رنگ کو دیکھتے ہوئے خود پہ قابو پایا تھا اور اپنے جزبات کو تھپکی دے کر سلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
امل کو لگ رہا تھا یہ سب ایک خوبصورت خواب ہے اسکے پلک جھپکتے ہی سب ختم ہوجائے گا اسکی محبت میں کیا واقع اتنی شدت ہے کہ جو گزرے دنوں اسکے ساتھ ہوا اسکے بعد بھی وہ محبت قائم ہے یہ سب سوچتے اس نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنا چاہا لیکن اسکی گرفت اور ذیادہ مضبوط ہوگئی تھی اور اسکے آنسو میں روانگی بھی وہ لمبے لمبے سانس لینے لگ گئی تھی
""آ۔۔۔۔۔آ۔۔۔آپ م۔۔۔مج۔۔۔۔مججھے چ۔۔۔چھ۔۔۔۔چھوڑ۔۔۔۔ت۔۔۔تو۔۔۔۔نہ۔۔۔نہیں۔۔۔دی۔۔۔۔دینگے ۔۔۔م۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔با۔۔۔۔۔بابا ۔۔۔ک۔۔۔۔کی ۔۔۔ط۔۔۔۔۔طر۔۔۔۔طرح ۔۔۔"
بھیگے لہجے میں کہتے اسنے اپنے بدترین خدشے کا اظہار کیا تھا اور اس کے یوں کہنے پر اس نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ سے آزاد کیا تھا اور اسے کندھے سے تھاما تھا
"بھلا سانس لینا کوئی چھوڑ سکتا ہے کیا ۔۔نہیں نہ بلکل اسی طرح تمہیں چھوڑنا مطلب سانس چھوڑ دینے کے مترادف یے "
اسکا چہرہ اوپر کر کے وہ جزبات سے چور لہجے میں بولا تھا اور اسکے آنسووں کو اس نے اپنے ہتھیلی کی پشت سے صاف کیا تھا اسکی تکلیف کا اندازہ وہ اسکے چہرے سے کرسکتا تھا
"بےبی انجیل پلززززز میری جان اب چپ ہوجاوں ۔۔۔"۔۔۔کہتے حمدان نے اسے اپنے سینے سے لگایا لیا تھا
اسکے سینے سے لگتے اسکے آنسووں میں روانگی آگئی تھی
"ما ۔ماما ۔۔بابا ۔۔۔نے بھی کہا تھا وہ ہمییشہ ساتھ رہیں گیں میرے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہچکیوں کے درمیان وہ اتنا ہی کہ پائی تھی ۔۔۔۔۔
حمدان مسلسل اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے پرسکون کر رہا تھا ۔۔۔۔"میں کھبی نہیں چھوڑو گا میری بےبی انجیل میں یہ کر ہی نہیں کرسکتا اس بات کو اپنے دل سے نکال کر پھینک دو کہ حمدان شیرازی کھبی بھی اپنی بےبی انجیل کو چھوڑ سکتا ہے تم صرف اور صرف میری ہو بس اسے یاد رکھو اور سب بھول جاو"
اب وہ اسکی پیٹھ بھی تھپکنے لگ گیا تھا اسکی سینے سے لگی وہ سسکیاں بھرتی آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں جارہی تھی اور وہ بھی اپنے پیار کا اظہار کرتے اسکے بالوں میں منہ چھپائے مسلسل اپنی انگلیوں کو اسکے بالوں میں موو کرتے اسے تھپکی دے رہا تھا
جب اسکی سسکیوں کے بجائے اسے اسی گرم سانسسں کی تپش سنائی دی تو اس نے اسے دھیرے سے الگ کیا اور اسے اپنی بانہوں میں اٹھاتے اسے بیڈ تک لایا تھا اور نرمی سے کسی نازک پھول کی طرح اسے لٹایا تھا اور امل کو کمفرٹر ٹھیک سے اوڑھاتے ہوئے اس کی ایک تصویر لےکر واک آوٹ ہوگیا تھا لیکن جاتے ہوئے حمدان نے ایک پیپر پر اپنے دل کے لفظوں کو لکھتا ہوا سائیڈ ٹیبل پر رکھنا نہ بھولا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
______________________
امل۔کی آنکھ کھلی تو گھڑی ١٠بجا رہی تھی
"کل کیا تھی میری زندگی اور آج کیا ہوگئی امل حنین سے امل حمدان بن گئی "
یہ سوچتے ہوئے وہ لائیٹ بلو کلر کا ڈریس نکال کر فریش ہونے گئی تھی نکاح کی چوڑیاں جو سوتے وقت اس نے اتار کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی تھی انہیں پہننے کی غرض سے وہ ٹیبل کے پاس گئی تھی تو اس پیپر پر اسکی نظر پڑی تھی جسے تجسس کی بناء پر وہ پڑھنے لگی تھی
Just to say I love you
never seems enough
I can say it so many times but
I am afraid you won’t understand
what I really mean when I say it.
How can so much feeling
so much adoration possibly fit into
those three little words.
But until i find some other
way of saying what i feel, then
“I Love You” will have to do.
So no matter how many times I say it,
never take it lightly, for you are my life,
and my only love.
I love you now more
than ever before
Hamdan ??
حمدان کا نام پڑھ کر اسکا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اسے کل رات حمدان کی یہاں موجودگی بھی یاد آئی تھی " ہائے اللّہ جی میں تو سو گئی تھی تو بیڈ تک کیسے آئی کیا وہ لے کر آئے تھے میں اتنی بے خبر ہوگئی تھی"
وہ یہ سب بڑبڑا رہی تھی جب پیچھے سے اسے کسی نے ہگ کیا تھا وہ ایک دم ڈری تھی اور اسکے کان کے پاس کسی نے سرگوشی کری تھی "اب تو بےخبر نہیں ہو نہ "
حمدان کی آواز سنکر اسکے ہاتھ سے وہ پیپر چھوٹ کر نیچے گرا تھا اور وہ گھبرانے لگی تھی دل سوکھے پتے کی مانند آواز کر رہا تھا
"میں نے اتنی محنت سے لکھا ہے یہ بےبی اینجیل تم نے اسے یوں گرادیا " ۔۔۔۔۔۔۔حمدان نے امل سے کہا
جبکہ امل کا بیک پورا حمدان سے ٹچ تھا اسکے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی
"آپ ۔۔یہاں کیوں آئے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔
امل نے اتنا دھیما کہا تھا کہ وہ اتنا قریب ہونے کے باوجود بھی بمشکل سن پایا تھا
"کیوں میں نہیں آسکتا کیا "
حمدان نے شوخ لہجے میں کہا
"نہیں "۔۔۔۔۔گھبراہٹ میں امل نے الٹا ہی جواب دے دیا تھا
"نہیں کا کیا مطلب ہے میری بیوی جہاں۔۔ میں بھی وہی آوں گا نہ "۔حمدان نے امل کو گھما کر سیدھا کرا تھا اور اسکے کمر کے گرد حصار قائم رکھا تھا اور اسکے بالوں کو کیچر سے آزاد کیا تھا جو اسکی پشت پہ بکھر گئے تھے
"انہیں کھلا رہنے دو اچھے لگ رہیں ہیں "
امل تو اسکے لمس سے سن ہوگئی تھی پلکیں سجدہ ریز ہوئی تھی اپنا آپ چھڑانے کی وہ پوری کوشش کررہی تھی لیکن اس مضبوط گرفت کے آگے وہ کمزور سی جان کیا کرسکتی تھی
تو مجبوراً روتی شکل بنا کر کہا
"آپ یہ کیا کر رہے ہیں چھوڑے مجھے "
حمدان کو امل بہت ہی دلکش لگی آج وہ امل کو کافی قریب سے بغیر ڈرے دیکھ رہا تھا دیکھا تو پہلے بھی تھا لیکن پہلے اور اب میں فرق تھا
"چھوڑنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا بےبی انجیل "
حمدان نے محبت سے پرلہجے میں کہا
امل کو اسکا شوخ لہجہ بہت حیران کن لگا اس نے کھبی حمدان کے منہ سے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی
"آپ پہلے تو کھبی اس طرح کی بات نہی کرتے تھے "
امل نے تھوڑا جھجھک کر کہا
"تو پہلے تم میری بھی تو نہیں تھی "
حمدان نے اسکی چہرے پہ نظریں جمائے کہا جو گلابی پڑ گیا تھا
امل کو قدموں کی چاپ سنائی دی تو اسکے ریے سہی اوسان بھی خطا ہوگئے تھے
"پلزز چھوڑے مجھے آپ۔۔ کوئی آرہا ہے"۔۔۔۔۔۔امل نے گھبراتے ہوئے کہا
حمدان کے دل نے شدت سے امل کے منہ سے اپنا نام سننے کی خواہش کی اس نے آج تک امل کے منہ سے اپنا نام کہا سنا تھا
"پہلے کہو حمدان لیو می جب چھوڑو گا "
حمدان نے دل کی خواہش کو زباں پہ لاتے ہوئے کہا تھا
امل کو قدموں کی چاپ اب قریب سے سنائی دینے لگی تھی تو جھٹ سے اس نے کہا "hamdan leave me."
.
لیکن حمدان بھی اسکے گال پہ اپنے لب کر پیچھے ہٹا تھا
ویسے ہی شانزہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھی
"حمدان تم بھی یہاں ہو میں ناشتے کے لئے بلانے آئی تھی نیچے آجاو "
امل کانپ گئی تھی وہ لمبے لمبے سانس لے کر خود کو نارمل کرنا چاہ رہی تھی۔۔ سارا خون چہرے پہ آکر جم گیا تھا
"کیا ہوا امل اتنی لال کیوں ہو رہی ہو طبعیت ٹھیک ہے "انہوں نے کہا
"جی بڑی امی ٹھیک ہے "
دل میں حمدان کو پتہ نہیں کون کون سے القابات سے نوازتے اس نے کہا تھا ۔۔۔۔۔
اب انہیں کون بتائے یہ حمدان کے عشق کا رنگ تھا جو اتنی وقت کے ساتھ اترنے کے بجائے چڑھتا ہی رہے گا
آج سب ایک ساتھ بہت ٹائم بعد بیٹھے یوں ناشتہ کر رہے تھے ۔حنین اور صدف کی کمی تو ہمیشہ ہی کھلی گی لیکن یہ تو زندگی کا دستور ہے
امل اپنی کرسی پہ جس پہ وہ ہمیشہ بیٹھا کرتی تھی وہاں ہی بیٹھ رہی تھی لیکن شانزہ بیگم نے اسے حمدان کی ساتھ والی کرسی پہ بٹھایا تھا وہ کسی بات کو دل پہ لگا کر رکھنے والی عورت نہیں تھی بلکہ وہ ذیادہ خوش تھی کہ امل حمدان کے ساتھ جڑ گئی ہے
امل حمدان کی پرشوخ نظریں خود میں پیوست ہوتی محسوس کر رہی تھی لیکن یوں منع نہیں کر سکتی تھی تو مجبوراً اسے حمدان کے برابر میں آکر بیٹھنا پڑا تھا ۔۔۔۔
امل کو اپنے ہی گھر میں گھبراہٹ ہورہی تھی اسے یہ سسرال لگ رہا تھا میکہ نہیں ۔۔۔۔۔وہ شدید نروس تھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لے۔۔۔۔۔
"امل آلو کا پراٹھا لو نہ تمہیں پسند ہے نہ "۔۔۔۔شانزہ بیگم نے کہا
"جی۔۔۔۔۔۔"۔۔۔۔امل نے کہتے ہاتھ بڑھایا تھا کہ عین اسی وقت مرتضی نے بھی اپنا ہاتھ اسی پراٹھے پر رکھا تھا
"یہ میں لوں گا "۔۔۔۔مرتضی نے کہا اتفاق سے وہ پراٹھا بس ایک ہی بچا تھا
"یہ میں لوں گی ۔۔۔۔" امل نے بھی کہا
میں کھاوں گا اسے ۔۔۔۔۔میں کھاوں گی ۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے سے چھیننے لگ گئے تھے
گھر والے حیرانی سے دیکھ رہے تھے "مرتضی امل کو دے دو یہ تمہارے لئے بنوا دیتے ہیں "
حماد صاحب نے کہا
"نہیں بابا مجھے تو یہی چاہئیے جو مزہ چھین کر کھانے میں ہے وہ ایسے ہی کھانے میں کہاں ہے "۔۔۔۔کہتے مرتضی نے زور لگایا تھا اور امل نے بھی اپنا زور لگایا تھا " چھوڑو اسے "
لیکن نتیجا یہ ہوا کہ وہ کمزور سہ پراٹھا انکا ظلم نہ سہ پایا اور آدھا پراٹھا امل کے ہاتھ میں آیا تھا اور آدھا مرتضی کہ ۔۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگ گئے تھے پھر گھر والوں کی ۔۔۔۔پھر خاموشی سے اپنی پلیٹ پر جھک گئے تھے
ابھی امل نے ایک بائیٹ ہی لیا تھا جب اسے حمدان کی ٹانگ اپنی ٹانگ سے مس ہوتی محسوس ہوئی جس سے وہ کانپ گئی تھی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا کانٹا نیچے گرا تھا
"میں اٹھا دیتا ہوں "۔۔۔۔۔۔۔حمدان نے مسکراہٹ دبا کر کہا
لیکن اب امل حمدان کی انگلیاں اپنی پنڈلیوں پہ محسوس کر رہی تھی امل نے اپنی سانس روکی ہوئی تھی ابھی وہ کچھ دیر پہلے والے عمل سے باہر نہیں آئی تھی اور حمدان پھر شروع ہوگیا تھا
جب حمدان واپس اٹھا تو امل کی جان میں جان میں آئی تھی اس نے حمدان کو ایک سخت گھوری سے نوازا تھا جس کا مقابل پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا بلکہ امل کو اس نے آنکھ ماری تھی
"بے شرمی کی حد ہوتی ہے لیکن ان صاحب نے تو ہر حد کو پار کردیا یے پتہ نہیں کونسی روح گھس آئی ہے ویسے تو ہر وقت سنجیدہ غصہ میں رہتے تھے یہ اچانک اب کیا ہوگیا ہے "
امل دل میں کہتی ہوئی جلدی جلدی ناشتہ ختم کررہی تھی تاکہ یہاں سے جا سکے کیونکہ حمدان بار بار اسے تنگ کرنے کا موقع نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔کبھی اپنی کونی اسکی کونی سے ٹکرا رہا تھا ۔۔کبھی کچھ ۔۔
____________________
گھر میں زوروشور سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھی غم کے بادل چھٹ چکے تھے اور ہر طرف خوشیاں تھیں
سعد نے بھی ضد کر کے سویرا کے گھر والوں کو منالیا تھا یہ کہ کر وہ شادی کے بعد بھی آرام سے پڑھ سکتی ہے امل بھی تو اب شادی کے بعد ہی پڑھی گی نہ تو سویرا بھی پڑھ سکتی ہے
یوں اسطرح گھر میں دو دو شادی کی تیاریاں عروج پہ تھی ۔۔
_____________________
امل لان میں بیٹھی ہوئی جو کچھ ہوا اور ہو رہا تھا اسکے بارے میں سوچ رہی تھی ہوا کے جھونکیں اسکے چہرے پہ آتی لٹوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔
حمدان اوپر اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے دیکھتا ہوا نیچے آیا تھا
حمدان کو اپنی جانب آتا دیکھ کر امل فوراً اٹھ کر جانے لگی تھی لیکن حمدان نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے روکا تھا اور جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کیا تھا جس سے امل حمدان سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی
"بھاگ کیوں رہی تھی مجھ سے "
حمدان نے امل کے چہرے پہ آتی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا
حمدان کا ہاتھ جھٹک کر امل نے پیچھے قدم لئے تھے
امل کی اس حرکت نے حمدان کے غصے کو ہوا دی تھی
"یہ کیا حرکت ہے امل "۔۔۔۔۔۔۔حمدان نے اپنا لہجے کو نارمل رکھ کر پوچھا
"پوچھنا تو مجھے بھی ہے یہ سب کیا ہے آپکا یہ پیار لٹاتا انداز یہ اچانک مجھ سے نکاح کرنا بڑے پاپا کے کہنے پہ آپ نے مجھ سے نکاح کیا ہے نہ ترس کھا رہے ہیں آپ مجھ پر ہمدردی کر رہے ہیں ۔مجھے یہ آپکا احسان نہیں چاہئیے کیوں کر رہے آپ یہ سب"
امل جو ان سب باتوں سے الجھن کا شکار تھی تیز آواز میں اس نے حمدان کو کہا
حمدان نے امل کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا
"کیا کہا ہے تم نے دوبارہ دہرانا "
حمدان کا لہجہ کافی سخت ہوگیا تھا اسکی آنکھیں بھی لال ہوگئی تھی امل کو خوف و ڈر لگنے لگا تھا
"سچ ہی کہا ہے میں نے " امل نے کہتے ہوئے اپنا منہ موڑ لیا تھا
اس بات نے حمدان کا میٹر شارٹ کردیا تھا وہ امل سے محبت نہیں عشق کر بیٹھا تھا لیکن وہ اسے کیا سمجھ رہی تھی حمدان کو لگتا تھا وہ اس سے بدگمان ہے لیکن اس حد تک
حمدان نے اسے جھٹکا دے کر اپنے قریب کیا تھا "میری آنکھوں میں دیکھ کر بولو جو کہا ہے "
حمدان نے سرد لہجے میں کہا
"آپ مجھ سے دور رہیں ۔۔۔"امل نے اپنا پورا زور لگایا تھا اور اسکا حصار توڑا تھا وہ لرزنے کانپنے لگی تھی
"امل ۔۔۔۔"۔۔۔کہتے اس نے اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے
"دور رہیں ۔۔۔۔"۔۔وہ پیچھے ہوتی جارہی تھی اسکی ہچکیاں بندھنے لگیں تھی اسے حمدان سے اب خوف آنے لگا تھا
"نہیں رہوں تو "۔۔۔۔۔۔
حمدان نے آگے بڑھ کر امل کو اپنے کندھے پہ اٹھالیا تھا آج امل کا دماغ اس نے درست کرنے کا سوچا تھا
حمدان امل کو اندر کی جانب لے جارہا تھا حمدان کی اس حرکت پر امل بپھر گئی تھی اور بھر پور مزاہمت کرنے لگی تھی پے درپے اسکی پیٹھ پہ مکے مار رہی تھی اور آگے سے اپنی ٹانگ اور مسلسل چلاتی کہ رہی تھی
" اتاریں مجھے یہ کیا حرکت ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو"
لیکن حمدان پہ اسکے نازک مکوں کا کوئی اثر نہیں پڑرہا تھا
حمدان نے امل کو اسکے کمرے میں لاکر دروازہ اپنی ٹانگ سے دھکا دے کر بند گیا تھا اور اسے صوفے پہ پٹخا تھا اور اسکے دونوں جانب اپنے ہاتھ رکھ کر اس پہ تھوڑا جھکا تھا
"کیا کہا تم نے میں تم سے ہمدردی کر رہا ہوں ترس کھا رہا ہوں ۔تمہیں میری محبت ہمدردی لگ رہی ہے آج سے نہیں ناجانے کب سے میں تم سے محبت کرنے لگاہ ہوں میں خود بھی نہیں جانتا اب تو یہ محبت عشق میں تبدیل ہوگئی ہے ۔۔دیوانگی کی حدوں کو چھو رہی ہے جب تم یہاں نہیں تھی ایک ایک دن تمہاری یاد میں تڑپا ہوں پل پل مرا ہوں اور جیا ہوں میں نے بابا کی کہنے پہ نہیں اپنی مرضی سے اپنے دل کے کہنے پر تم سے نکاح کیا ہے بےوقوف لڑکی ۔۔۔۔۔"
حمدان نے شدید غصے میں کہتے ہوئے امل کو بھی اٹھایا تھا اور اپنے مقابل کھڑا کیا تھا "کیا تمہیں میری آنکھوں میں اپنے لئے جزبات نظر نہیں آرہیں ۔۔دیکھو میری آنکھوں میں "
امل نے حمدان کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے وہاں جزباتوں کا ایک سمندر امڈتا ہوا نظر آیا اس نے اپنی نظریں جھکا لی تھیں
"کیا تمہیں میری دھڑکنوں کا شور محسوس نہیں ہورہا جب تم۔پاس ہوتی ہو میرے "
حمدان نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے امل کا ہاتھ اپنے دل پہ رکھا تھا امل کو اسکا دل تیز رفتار سے دھڑکتا محسوس ہوا
"I love you so much damn "
حمدان کہتا اسکے چہرے پہ اپنی محبت کی چھاپ چھوڑنے لگا تھا اور بوند بوند کر کے اسکی ساری بدگمانیوں کو ، وہم کو ،شک کو، ڈر کو پینا لگا تھا ۔۔۔۔امل بلکل ساکت ہوگئی تھی کچھ دیر پہلے وہ جو چیخ رہی تھی اب خاموشی طاری ہوگئی تھی اور دھڑکنوں میں انتشار برپا ہوگیا تھا امل نے حمدان کی شرٹ کو اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا تھا اسکی ٹانگیں کانپنے لگیں تھی اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا اسے محال لگ رہا تھا
حمدان نے امل کو اپنے سینے سے لگا کر اسے اپنے حصار میں سختی سے بند کرلیا تھا اور دھیمے لہجے میں کہتا ہوا امل کے کانوں میں رس گھول رہا تھا
I want to tell you amal how much i love you ..i don't know from when my heart has beaten for you ..your bright eyes your mersmerizing smile has made me crazy ..i love with your polite voice your innocence your fear
Everyday there is something thats make me love you even more than before ..my love is now turned into ishq ...i am in love with all that moments that i spent with you ...you are the most prettiest for me than any one ..i wish i could show you that how much i love you .i want to share my remaining life with you ..i want to hold you in my arms like this ...i can't live even a second without you...i want to love you ever and forever ..you made me complete you are my life line .my heart beat. my calm .my eyes coolness .my mind thoughts..My destiny ..and the most important my love ..
i don't love you i ishq you amal from the core of my heart ...???
امل سن اسکے سینے سے لگی وہ سب سن رہی تھی اس نے حمدان کی پشت پہ اپنے دونوں ہاتھ باندھ لئے تھے حمدان کی محبت کا پتہ تو اسے تھا لیکن اسے بلکل یقین نہیں آرہا تھا حمدان اس سے اتنی شدت سے چاہتا ہے حمدان کے سینے سے لگے نہ جانے امل کے کتنے آنسو حمدان کی شرٹ میں جزب ہوگئے تھے وہ دونوں ایک دوسرے میں گم تھے
جب حمدان کو ہوش آیا تو تو اس نے امل کا سر ہٹا کر اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اسکے گردن پر اور انگھوٹا اسکے رخسار پہ رکھ کر اسکے آنسو صاف کریں اور امل کے ماتھے پر پورے حق سے اپنے لب نہ جانے کتنی دیر تک رکھے
امل اپنی آنکھیں بند کر کے اسکے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔اور پھر حمدان نے اسے بیڈ تک لے کر گیا ورنہ وہ گر ہی جاتی اسے سن چھوڑتا وہ کمرے سے چلا گیا تھا اسے اپنا آپ سنبھالنا مشکل لگ رہا تھا
امل ابھی تک اسکے لمس کو اسکے اقرار محبت کو محسوس کر رہی تھی اور شرماتے ہوئے کمفرٹر منہ تک ڈھک کر سونے کی کوشش کرنے لگی تھی لیکن نیند کہاں آنی تھی آج۔۔۔۔
________________
Episode 45
جب سے حمدان کی محبت امل پر آشکار ہوئی تھی وہ حمدان سے چھپتی پھر رہی تھی اسکا دل ایک الگ ہی انداز میں دھڑکنے لگا تھا کچھ نکاح کے دو بولوں کا اثر تھا یا اثر ہی اس پاک بندھن کا تھا
آج گھر پہ ڈیزائینر آیا ہوا تھا تو سب ہی گھر والے لاونج میں ڈریسس پسند کر رہے تھے دو دن بعد مایوں تھی تو امل اور سویرا کے لئے ڈریس پسند کیا جارہا تھا
امل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
حمدان جو نیچے ہی آرہا تھا امل کو یوں الجھتا دیکھ کر اس نے خود ہی ایک ڈریس پسند کر کے سب کے سامنے امل کو دیا تھا "تم یہ پہنو گی"
یہ ایک اورنج کلر کی فراک تھی جس کا دوپٹہ آتشی پنک تھا ۔امل کو ڈھیروں شرم آئی تھی حمدان کے سب کے سامنے یوں کہنے سے اور وہ سویرا کے پیچھے چھپ گئی تھی
حمدان کو اسکی ادا پہ ٹوٹ کے پیار آیا تھا
"بڑی امی میرے لئے ایک کپ چائے بجھوادے میں اوپر اپنے روم میں ہوں ۔۔"حمدان نے شانزہ بیگم کو مخاطب کیا تھا اپنی ماں سے اس دن کے بعد سے وہ بات تو کیا دیکھ بھی نہیں رہا تھا یہ بات سب نے نوٹ کی تھی لیکن کسی نے ذیادہ غور نہیں کیا تھا حمدان کی عادت تھی وہ اپنے تمام کام خود ہی کرتا تھا جو نہیں کرسکتا تھا اسکے لئے بھی وہ آجکل انعمتہ بیگم کو مخاطب نہیں کر رہا تھا
"جی بیٹا میں بجھواتی ہوں ۔۔۔۔" انہوں نے کہا تھا حمدان ایک نظر امل کو دیکھتا ہوا چلا گیا تھا
سعد نے واز میں رکھے پھولوں میں سے ایک پھول نکال کر سویرا کو مارا تھا جو اسے لگ بھی گیا تھا لیکن اسکے باوجود بھی سویرا نے دیکھ کر اگنور کرا تھا اسے سعد پہ غصہ تھا اتنی جلدی شادی کرنے پر لیکن دوسری جانب وہ بہت خوش بھی تھی
سعد دیدار سے ہی خوش ہوجا موڈ بگڑا ہوا لگتا ہے خیر کب تک بچو گی مسز سعد۔۔۔
سعد نے خود سے کہا تھا اور اسے پھر سے پھول مارا تھا تب سویرا نے اسے گھور کر دیکھا تھا
تو سعد اسے ایک ڈریس کی جانب اشارہ کرا تھا کہ یہ لینا سویرا نے شرما کر دوسری جانب منہ کر لیا تھا یہ گرین اور پیلے رنگ کے combination کا ڈریس تھا جو سویرا کو بھی پسند آیا تھا
امل نے انعمتہ بیگم کو بہت خاموش پایا تو اسے وہ سب یاد آنے لگا تھا وہ انعمتہ بیگم سے بات کرنا چاہ رہی تھی جب شانزہ بیگم نے اسے مخاطب کیا
"امل یہ چائے کا کپ ذرا اوپر حمدان کو دے آو "
"می۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔"۔۔۔۔یہ سن کر ہی امل کے دل نے تیز دھڑکنا شروع کردیا تھا
"ہاں بیٹا جاو دے آو اسے آفس جانا ہے نہ "
انہوں نے کپ بڑھایا اس نے کانپتے ہاتھوں سے کپ تھاما تھا اور رفتہ رفتہ اپنی اسپیڈ بڑھائی تھی
اس کے کمرے کے پاس پہنچ کر امل نے ایک لمبی سانس لی تھی
اس نے دروازہ نوک کیا تو حمدان جو ٹائی باندھ رہا تھا اس نے اسے دیکھا اور اسکے لبوں پہ دھیمی سی مسکان آگئی تھی
اس نے اسے سر کے اشارے سے اندر آنے کی اجازت دی امل نے اندر آکر صوفے کے پاس رکھی میز پہ کپ رکھا جب تک حمدان بھی آگیا تھا وہاں امل نے جانے کی راہ لی تو حمدان نے اسکے آگے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکا راستہ روک دیا تھا اور اسکا ہاتھ تھاما تھا
"کیا ہوا۔۔۔"امل نے پوچھا
"بےبی انجیل تمہیں یہاں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے جس طرح تم میرے دل میں میری زندگی میں بغیر دستک دیئے آگئی ہو اور پوری طرح سے برجمان ہوگئی ہو بلکل اسی طرح اس کمرے میں بھی آسکتی ہو "
اپنے ازلی انداز میں کہتے اس نے اسے جھٹکا دے کر خود کے قریب کیا تو امل نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر خود کو سنبھالا اور حمدان نے اسکی کمر پہ اپنی گرفت مضبوط کی
حمدان کی اس حرکت نے اسکا تنفس پھر بگاڑ دیا تھا دل کی تاریں بری طرح سے چھڑ گئیں تھی اسکی پلکیں حیاء سے جھک گئیں تھی
"جانتی ہوں جب سے ہماری شادی کی تیاریاں چل رہیں ہیں اور تم میری دسترس میں مکمل طور پر آجاو گی اس احساس نے میرے اندر ایک الگ سی بےچینی مچائی ہوئی ہے لیکن اس بےسکونی میں بھی ایک سکون ہے "
بھاری لہجے میں کہتے وہ اس پر سحر طاری کر رہا تھا
امل نے ہچکچاتے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو حمدان کے کندھے پہ تھا اس نے فوراً اپنے ہاتھ ہٹائے
"آپ کو دیر ہورہی ہے نہ آفس جانا یے نہ آپکو "
امل نے ہکلاتے کہا حمدان کے سامنے اسکی بولتی ہمیشہ سے ہی بند ہی ہوجاتی تھی
"لیکن میرا اب دل نہیں چاہ رہا ہے جانے کا "
حمدان نے اپنے لہجے میں محبت سمائے کہا
"جائیں ۔۔۔۔۔"۔۔۔امل نے حصار توڑنا چاہا
"یہ حمدان شیرازی کی گرفت یے اسکو چھڑانا ناممکن میں سے ہے خاص طور پر تمہارے لئے بےبی انجیل "
حمدان کی بات پہ وہ بلش ہوئی تھی چہرہ اسکا گلنار ہوا تھا
"بےبی انجیل تم اتنا بلش کیوں ہوجاتی ہوں اور پھر میں بہکنے لگتا ہوں "۔۔۔۔اسکے گلابی ہوتے گالوں کو اس نے اپنے انگلیوں سے چھوا
"حم۔۔۔۔حمد۔۔۔۔حمدان۔۔۔۔۔۔۔" اسکا نام لیتی وہ جھینپ گئی تھی اور حمدان کو اپنے گرد تتلیاں منڈلاتی نظر آئی
"جی جانِ حمدان ۔۔۔۔۔"۔۔۔جزبات سے چور لہجے میں اس نے سرگوشی کی اسکی گرفت اب ختم ہوچکی تھی
"آپ کی چائے ٹھنڈی ہوگئی ہوگی اب تک "۔۔۔۔امل نے کپ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
"اب اتنی بھی دیر نہیں ہوئی ہے ویسے بےبی انجیل تم بس ایک کپ ہی لائی ہو تمہارا کپ کہاں ہے "؟؟
حمدان نے اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنے لب رکھتے ہوئے کہا
"میں نے چائے صبح پی لی تھی یہ آپکی یے "
امل نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد نہیں کرایا تھا نہیں تو اسکا بیسٹ موڈ آن ہوتے دیر نہیں لگتی
"کوئی بات نہیں اب دوبارہ پیوں گی تم میرے ساتھ "
کہتے حمدان نے اسے کندھے سے تھام کر صوفے پہ بٹھایا اور خود بھی برابر میں بیٹھ گیا
"کیا مطلب میں کیسے ۔۔۔ایک کپ میں ۔۔۔۔"امل تو نہ جانے کیا سوچنے لگ گئی تھی
حمدان نے چائے کو پرچ میں نکالا اور اپنے امل اور کے بیچ میں کیا اور اشارہ کیا پینے کے لئے اور ایک سائیڈ سے وہ خود پینے لگا تھا
اسکی گھوری کو دیکھتے ہوئے پرچ کی دوسری سائیڈ سے وہ بھی چائے پینے لگی تھی
"تم کیا سمجھ رہی تھی بےبی انجیل میں کس طرح سے چائے کو شئیر کرنے والا ہوں" حمدان نے اسے نظروں میں سمائے رکھا تھا
"ک۔۔۔۔کچ۔۔۔۔۔کچھ ۔۔۔۔ب۔۔۔۔بھی ۔۔۔۔۔نہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔"
اسکے لہجے کی چاشنی میں وہ اپنا آپ کھو رہی تھی اور خود پہ قابو پاتے وہ حمدان کی قید سے راہ فرار پاکر بھاگی تھی اور دروازے پہ جاکر رک کر پلٹ کر کہا تھا "خدا حافظ"
_____________________
حمدان کے آفس جانے کے بعد امل اپنے روم کی کھڑکی سے باہر مایوں کے فنکشن کے ہونے والے پروگرام تیاریاں دیکھ رہی تھی جو ایک دن پہلے سے شروع ہوگئی تھی
جب امل کے کان میں کس نے موبائیل رکھا تھا جس میں تیز آواز
میں کوئی شادی کا سونگ چل رہا تھا
امل نے ایک جھٹکے سے اسے دور کیا تھا
"آہ۔۔۔۔۔۔کان کے پردے پھاڑو گے کیا
"ہماری بہنا کی شادی میں ہے باقی بس دو دن پھر یہ ہمیں بھول جائیں گی "
مرتضی نے گانے کے سر میں گایا
"مرتضی اتنا بےسرا گا رہے ہو تم قسم سے اس سے اچھا یے کہ تم اپنا ٹیپ بند کرلو ۔۔۔۔"
امل نے اسے ایک مکہ جڑتے کہا
"تم کونسا بڑا اچھا گاتی ہو کہ singing competition میں جانے کا چانس ملے گا "
مرتضی کو بھی اپنی بے عزتی کہاں برداشت تھی
"What A Stupid Joke "
بلکل بھی ہنسی نہیں آئی۔۔۔۔۔امل نے کہا
"ہنسی کہاں آئیگی اب تو بس شرم ہی آتی یے تجھے "
مرتضی نے آئی ابرو اچکا کر پوچھا حمدان کے سامنے یا اسکےذکر پہ اسکا شرمانا مسکرانا اس نے نوٹ کیا تھا
"مرتضی سدھر جاو تم "۔۔۔۔۔امل کو اس کے کہنے پہ ایک بار ہھر سے شرم آنے لگی تھی
"یہ تمہارا فون کیوں بند تھا میں کال کر رہی تھی "
امل نے بات تبدیل کی تھی
"وہ میرا فون نہیں تو کوئی بند نہیں تھا "۔۔۔۔۔۔۔
مرتضی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
"بند تھا "۔۔۔۔۔امل نے اسکی شکل دیکھتے کہا
"اچھا ۔۔۔وہ ۔تو ۔۔۔مرتضی سوچنے لگا تھا
"سوچ لو آرام سے لیکن بہانہ سولیڈ بنانا کیوں کہ جھوٹ تو تم سے بولا نہیں جاتا ڈھنگ سے "
امل نے کہا
اوو میں جھوٹ اس لئے نہیں بولتا کیوں کہ میں فئیر بندہ ہوں تعریف کرنی چاہئیے تمہیں "
مرتضی نے فخریہ کالر جھاڑے
"اوو ۔۔تم کہیں اس آفس والی کے ساتھ تو بزی نہیں تھے "
امل نے اسکی کونی پہ اپنی کونی ماری
نہیں ۔۔۔۔۔۔مرتضی گڑبڑایا لیکن امل کی شکل دیکھی تو بولا "یار میری ایکٹنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جھٹ سے جان لیتی ہوں "
امل نے مسکراتے اسکی بات کو قبول کیا
جب اذہان بھی وہاں آیا تھا
"یہ تم دونوں مجھے بھول گئے ہو نہ۔۔۔میں باہر اکیلے کام کر رہا ہوں اور تم یہاں مستیاں کر ریے ہو "
اذہان نے مرتضی کو لتاڑا
"اووو تجھے پتہ نہیں ہے کہ تو نہ پچھلے جنم میں ماسہ پیدا ہوا تھا تو یہی کام تجھے سوٹ کرتا یے کیوں امل "
مرتضی نے کہتے امل کے ہاتھ پہ تالی ماری
اذہان نے اسکی گدی پہ ایک مکہ رسید کیا اور امل کی جانب گھوما " امل مجھے معاف کردو میں نے تمہارے بارے میں وہ سب بولا میں حمدان کی باتوں میں وہ "۔۔۔۔اذہان کے لہجے میں ندامت جھلک رہی تھی
"پلز اذہان امل نے اسے ہاتھ دکھا کر اسے روکا میں سب بھول گئی ہوں اور کچھ یاد نہیں رکھا میں نے تم بھی بھول جاو جو ہوا میں حمدان کے ساتھ خوش ہوں تو اس بات کو اب ختم کردو ۔۔۔"
امل پہ حمدان کی محبت کا رنگ چڑھ گیا تھا
"کیا سینٹی ماحول بنایا ہوا ہے دو دن میں تو پیاء کی ہوجائیگی یہ اسی خوشی میں ایک سرپرائیز ہے آج کا دن ہم تمہارے ساتھ گزاریں گیں اسی لئے آفس بھی نہیں گئے جلدی سے نیچے آو میں اور اذہان ویٹ کر رہے ہیں "
مرتضی نے امل کو کہا اور اذہان کے ساتھ نیچے بڑھا
______________________
مرتضی نے امل کی آنکھوں پہ پٹی باندھی ہوئی تھی جو اس نے اب کھولی تھی امل نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے چہرے پہ الگ سی خوشی تھی
وہ دونوں اسے پارک لائے تھی جہاں وہ بچپن میں آیا کرتے تھے اور کھیلا کرتے تھے
"مرتضی اذہان یہ سب ابھی تک ویسا ہی تھوڑا بہت تبدیل ہوا ہے واہ ۔۔۔۔ہم یہاں اب کیوں نہیں آتے"
امل نے چمکتی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا
"کیونکہ چڑیل تم دماغ سے تو بچی ہی ہو مانتے ہیں ہم لیکن ہم اب بڑے ہوگئے ہیں یہاں ْکر کیا کرتے "
اذہان نے اسکے سر پہ ہاتھ مارا
"تم بس کیک کاٹنا ہمیشہ میرا "
امل نے بدلے میں اسے بھی مارا
"کام ہی یہی ہیں تمہارے " ۔۔۔۔اذہان نے اسے چڑایا
"ویسے اچھا ہے امل کہیں اور نہیں جارہی ہے یہی رہی گی ورنہ ہمیں اٹھاتا کون صبح ہمارا کمرہ کون صاف کرتا کافی کون پلاتا ہمارے ساتھ مستیاں کون کرتا ہمارے الٹے کام کون سیدھے کرتا "
مرتضی سب گن گن کر کہ رہا تھا
امل نے اسکے بازو میں ایک مکہ جڑا ۔۔۔"ہاو سیلفش یو آر مرتضی تمہیں بس اپنی کام کی پڑی ہے میری نہیں "
مرتضی نے اسکے زور سے گال کھینچے ۔۔۔۔۔۔مذاق تھا "
امل زور س ہنس پڑی ۔۔۔۔مرتضی اور اذہان پہلے سے بھی اسکا ذیادہ خیال رکھنے لگ گئے تھی وہ اسے ذرا سہ بھی اداس نہیں کرنا چاہتے تھے اب
اب کیا یہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے ۔۔امل چلو وہاں اس جھولے کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔"اذہان نے کہا
امل کو یہ جھولا بہت پسند تھا ۔۔۔وہ جھولے پہ بیٹھی تو پیچھے سے مرتضی نے اور آگے سے اذہان بھی دھکا دے رہا تھا
"ویسے مرتضی تجھے یاد ہے بچپن میں کتنی چیٹر تھی یہ چکمہ دے کر خود جھولے پہ بیٹھ جاتی تھی پہلے " ۔۔۔اذہان نے کہا
"اووو میں چیٹر نہیں اسمارٹ تھی "امل نے بھی کہا
"کیا دن تھے یار بچپن کے کتنا مزہ آتا تھا " مرتضی نے بچپن کا وقت یاد کرتے ہوئے کہا
"تو بچپن میں کیا کہتا تھا کہ میں سپر مین بنوں گا اور ہم دونوں کو آسمانوں کی سیر کرائے گا کتنی اسٹوپیڈ باتیں کرتے تھے ہم "
اذہان نے بھی کہا
"تو بھی کیا کہتا تھا کہ میں تو اسپیس شپ پڑھوں گا اور چاند تاروں کو لاوں گا "۔۔۔۔مرتضی نے بھی کہا
"اور یہ چڑیل کیا کہتی تھی کہ میں سرجن بنوں گی اور ہم دونوں کا دماغ ٹھیک کرے گی جسکا اپنا کھسکا ہوا ہے اور سارے نٹ اسکرو ڈھیلے ہیں ہمارا کرے گی وہ "
اذہان کہتا بھاگا تھا۔۔۔۔امل بھی جھولے سے اترتی اسکے پیچھے بھاگی تھی "اذہان رکو ۔۔۔۔بچ کر دکھاو میرا دماغ کھسکا ہوا ہے تم رکو تو سہی ذرا بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔"
بھاگتے بھاگتے دونوں کا سانس پھول گیا تھا لیکن وہ پھر بھی بھاگ رہے تھے امل کے نظروں سے اچانک اذہان اوجھل ہوا تھا ۔۔۔"اذہان کے بچے کہاں چھپ گئے ہو تم یہی کرتے ہوں چھپ جاتے ہوں ۔۔چلتے چلتے امل کا پاوں پتھر پہ پڑا تو وہ لڑکھڑاتی نیچے گری تھی لیکن گھاس کی وجہ سے اسے چوٹ نہیں لگی تھی لیکن ناٹک شروع تھا ۔۔۔
مرتضی جو ان دونوں کے پیچھے ہی بھاگ رہا تھا امل کے پاس آیا تھا اور مسکراتا دیکھ رہا تھا "اذہان نکل جا درخت کے پیچھے سے"
اذہان بھی نکل کر آگیا تھا بچپن میں وہ بھاگتے بھاگتے ایسے ہی چھپ جاتا تھا اور جب امل اسے ڈھونڈ نہیں پاتی تھی تو وہ گرنے کا ناٹک کرتی تھی
اور بچپن کی طرح ایک ہاتھ اسے مرتضی نے دیا تھا اور دوسرا اذہان نے اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسے اٹھایا تھا
انکی بچپن کی یاد تازہ ہوگئی تھی اسی طرح کھاتے پیتے مستیاں کرتے وہ گھر گئے تھے
_________________________
Episode 46
امل گھر آنے کے بعد انعمتہ بیگم کے کمرے میں گئی تھی تو وہ امل کو دیکھ کر چونک گئی تھی
میں اندر آجاوں ۔۔؟؟امل نے اجازت لی
ہاں بہٹا کیوں نہیں آو ۔۔۔۔۔انہوں نے اجازت دی
امل نے اندر آکر انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں بیڈ پہ بٹھایا
"پتہ ہے بڑی ماما میں نے آپکو ہمیشہ اپنی ماما ہی سمجھا ہے بڑی امی اور آپ میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا میں آپکی بیٹی ہوں نہ بیٹی اپنی مائیں سے ناراض اچھی نہیں لگتی میں نے آبرو اور کاشان بھائی کو بھی معاف کردیا ہے ۔۔آپکو بھی کردیا ہے ۔۔آپ یوں اداس اچھی نہیں لگ رہی ہیں "
امل کا دل نرم تھا
انعمتہ بیگم روتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا تھا
"میری بچی میں نے بہت غلط کیا ہے مائیں بھی تو ایسا نہیں کرتی نہ میں بھٹک گئی تھی میری بیٹی ہو تم ۔۔لیکن میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ یہ کیا کردیا "
وہ روتی کہ رہی تھی
"پلز بڑی ماما نہ روئیں سب بھول جائیں جو ہو چکا ہے سب بھول جائیں "۔۔۔امل نے انکے آنسو صاف کئے
"بیٹا حمدان سے کہو وہ مجھے معاف کردے جب تک تم معاف۔نہیں کرو گی وہ بھی نہیں کرے گا "
اس دن کے بعد سے حمدان نے ان سے پلٹ کر بات تک نہیں کی تھی
"میں کہو گی ان سے ۔۔آپ رونا بند کریں اور باہر چلیں سب کے ساتھ بیٹھیں "
امل انہیں اپنے ساتھ باہر لے کر آئی تھی جہاں سارے کزنز وغیرہ گانا گانے اور شوروغل میں مصروف تھے
امل نے اپنے اللہ کا دل سے شکر ادا کرا تھا جس نے اسے ہر مصیبت سے بچائے رکھا اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے اسکی آنکھ سے آنسو گرا تھا جسے اس نے اپنی انگلی کی پور سے صاف کرا تھا اسے رونا نہیں تھا بلکہ انہیں یاد کر کے ان کےلئے دعا کرنی تھی
جب مرتضی نے اسے آواز دی "امل ادھر آو
امل اسکے پاس گئی جہاں اذہان اور مرتضی گیندیں کی لڑیاں لگا رہے تھے گھر کی اندر کی سجاوٹ وہ دونوں کر رہے تھے
""اووو میڈم تمہاری شادی ہے اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم آرام فرماو گی اور ہم کام چلو شاباش یہ لڑیاں لگاو میں تھک گیا ہوں "
مرتضی نے ٹیبل سے اترتے اسے کہا تھا
امل بھی شوق میں ٹیبل پہ چڑھی تھی اور لڑیاں لگانے لگی تھی اذہان نے کچھ لڑیاں امل کے گلے میں ڈال دیں تھی
"مرتضی اس ٹیبل کو پکڑ کر رکھو یہ ڈسبیلنس ہے "
امل نے لڑیاں لگاتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔امل بار بار لڑکھڑا رہی تھی ۔۔۔۔
اذہان نے مرتضی کو آواز دی تو وہ ادھر متوجہ ہوا اور ٹیبل پر سے گرفت اسکی ہٹی جسکی وجہ سے ٹیبل ڈسبیلنس ہوئی اور امل لڑکھڑاتی نیچے گرتی لیکن حمدان نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا اور کچھ پھول حمدان کے اوپر بھی آگئے تھے
امل نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو خود کو حمدان کی گود میں پایا ۔۔۔۔۔"آپ۔۔۔۔"امل نے آس پاس نظریں گھمائیں تو مرتضی اور اذہان شرارتی نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہے تھے اور حمدان امل کے چہرے کو تکنے میں گم تھا امل نے اسے چٹکی کاٹی تو وہ ہوش میں آیا
حمدان نے اسے نیچے اتارا تو اس نے اپنے اور حمدان سے گلے سے پھولوں کو الگ کیا اور شرماتی اپنے کمرے کی جانب بھاگی تھی ۔۔۔۔۔
"تم دونوں میری گرل سے کام کروا رہے ہوں خبردار جوآئیندہ اس سے کام کروانے کا سوچا "
حمدان نے ان دونوں کو مصنوعی غصے سے کہا
آور پھر وہ تینوں ہی مسکرا دئیے تھے اور حمدان بھی فریش ہونے چلا گیا تھا اور وہ دونوں اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے
___________________
آج مایوں کی رسم تھی پورا گھر گیندے اور بیلی سے سجا ہوا تھا ایک افراتفری ہر طرف چھائی ہوئی تھی
امل کے ایک طرف مرتضی اور دوسری طرف اذہان تھا دونوں نے امل کا ایک ایک ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور امل آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی
اسٹیج کی جانب بڑھ رہی تھی جہاں پہ حمدان بیٹھا تھا اور دوسرے اسٹیج پہ سعد بیٹھا تھا جبکہ انکی دوسری سائیڈ پہ انکی دلہنیں بیٹھی تھیں حمدان کے ہتھیلی پہ امل کی ہتھیلی تھی اور اسکے اوپر ایک بڑا سہ پتہ رکھا ہوا تھا جس پر سب باری باری آکر ابٹن لگا کر رسم ادا کر رہے تھے اور سعد اور سویرا کے ساتھ بھی یہی سین تھا تو دوسری طرف مرتظی اور اذہان نے خوب بنگھڑے ڈالے تھے
ْ"آج بھی گھونگٹ یہ تو بہت غلط ہے "
سعد نے موقع پاتے ہی حمدان کے کان میں سرگوشی کری
"کیا کرسکتے ہیں ہم "حمدان نے سعد کو کہتے ہوئے ایک نظر برابر میں بیٹھی امل پہ ڈالی جو بلکل خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی
سعد اور حمدان دونوں کے موڈ سخت بگڑے ہوئے تھے اور انہیں جب یہ پتہ چلا کہ اب شادی کے بعد ہی وہ اپنی بیگمات کو دیکھ سکتے ہیں تو سعد تو پھر بھی صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا لیکن حمدان وہ تو روز ہی امل کو دیکھتا تھا کیسے رہتا
رسموں کہ ادائیگی کے بعد سویرا تو اپنے گھر چلی گئی تھی
______________________
امل آج بہت تھک گئی تھی اوپر سے ہیوی ڈریس سے اسے الجھن ہو رہی تھی ڈریس چینج کرنے کی غرض سے اس نے ابھی ڈریسنگ روم کا گیٹ کھولا تھا کہ آہٹ کی آواز پہ وہ پلٹی تھی تو اپنے سامنے حمدان کو کھڑے دیکھ کر اسکی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی تھی
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟ امل نے اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپاتے ہوئے کہا
تمہیں دیکھنے آیا تھا اور یہ ابٹن لگانے میں نے تو لگایا ہی نہیں ہے" حمدان کہتا ہوا آگے بڑھا تھا
"نہیں آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے اور خبردار جو آپ نے مجھے ہاتھ لگایا سب نے ابٹن لگا لگا کر مجھے ابٹن کا پیالہ بنادیا ہے"
امل کہتی پیچھے قدم لیتی جارہی تھی اور ڈریسنگ روم سے ہوتی وہ باتھ روم کے اندر جانے لگی تھی
"کوئی بھی مجھے روک نہیں سکتا تمہیں دیکھنے سے یا یہ لگانے سے "حمدان کہتا ہوا امل کو رکنے کا کہ رہا تھا
لیکن امل رکی نہیں تھی
"بےبی انجیل رک جاو ورنہ بعد میں مجھے نہ کہنا کہ روکا نہیں "۔حمدان امل کو روکنے کی پوری کوشش کر رہا تھا
لیکن امل حمدان کے ڈر سے پیچھے ہو رہی تھی اور باتھ ٹب سے ٹکرانے سے وہ الٹا ٹب میں گری تھی جو کہ پانی سے فل تھا وہ پورا بھیگ گئی تھی
حمدان کا ایک جاندار قہقہ گونجا تھا "میں کہ رہا تھا رک جاو لیکن تم نے تو سنی نہیں نہ میری بات "
پانی کے قطرے اسکے بالوں سے گرتے چہرے پر سے پھسل رہے تھے جسے اس نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا تھا وہ پہلے بھی حمدان کے سامنے بھیگے روپ میں تھی لیکن پہلے اور اب میں بہت فرق تھا ۔جس سے امل کو شرم آرہی تھی
"حمدان آپ جائیں یہاں سے مجھے بہت ساری شرم آرہی ہے "
امل نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھتے ہوئے دھیمے انداز میں کہا تھا
"میں صدقے جاو اپنی جان کے اس شرم پہ پوری اسٹرابیری جیسی لگ رہی ہو " حمدان نے محبت سے چور لہجے میں کہا
"اسٹرابیری " ۔۔۔۔۔امل نے چونکتے ہوئے کہا
"ہاں نہ یہ ٹماٹر انار پرانے ہوگئے کچھ نیا لانا چاہئیے اور ویسے بھی مجھے اسٹرابیری بہت پسند ہے " حمدان کہتا ہوا خود بھی ٹب میں آگیا تھا
امل تو لرز گئی تھی حمدان کے اس افتادہ سے
حمدان نے امل کے چہرے سے دونوں ہاتھ ہٹائیں تھے جو اسنے پھر سے رکھ لئے تھے حمدان کو امل ایک کھلا ہوا گیندے کا پھول لگی جس نے حمدان کے اندر ایک روشنی کردی تھی حمدان مہبوت ہوکر امل کو دیکھ رہا تھا اور امل کو شرم آرہی تھی وہ ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی خفت و حیاء سے وہ گلابی ہوگئی تھی
"حمدان جائیں آپ یہاں سے بہت بے شرم ہیں آپ "
امل نے حمدان کو بازو سے پکڑ کر اسے باہر کی راہ دکھائی تھی
"میں اس سے بھی ذیادہ بےشرم ہوں عملاً بتاو"
حمدان نے آنکھوں میں شرارت لئے سوال کرا تھا
امل کے ہاتھ پاوں پھولنے لگے تھے اور وہ بہت ذیادہ گھبرا گئی تھی
حمدان اسکی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے ٹب سے نکل کر اسے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا جسے امل نے ججھکتے پکڑا تھا اور باہر نکلی تھی حمدان نے ابٹن کا پیالہ جو اس نے سائیڈ پہ رکھ دیا تھا وہ لیا اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنے دونوں گال پہ لگایا
"یہ آپ کیا کر رہے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔امل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور حمدان اسکی جانب بڑھنے لگا تھا امل بھی پیچھے کھسکتی دیوار سے جا لگی تھی حمدان نے اسکے دونوں اطراف اپنے ہاتھ رکھے تھے اور جھک کر اپنے دائیں گال کو امل کے بائیں گال سے ملایا تھا پھر اپنے بائیں گال کو امل کے دائیں گال سے ملایا تھا
"تم نے کہا تھا نہ بےبی انجیل کہ ہاتھ نہ لگاوں تو پھر یہی کرنا پڑا جبکہ امل کی زبان کنگ ہوگئی تھی اور وہ دیوار سے چپک گئی تھی اور نظریں نیچے جھکائے سن کھڑی تھی
حمدان نے امل کا چہرہ ٹھوڑی سے اوپر کر کے کہا "میں کل کچھ نہیں سنو گا کل تمہیں اظہار محبت کرنا ہے میکپ یور مائینڈ "۔حمدان امل کے ماتھے اپنے لب رکھ کر چلا گیا تھا
اور امل تو سوچ کر ہی جی جان سے لرز گئی تھی
________________________
سویرا خود کو ریلکس کرکے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی بار بار فون پہ نظر بھی مار رہی تھی فون کے رنگ ہوتے ہی ایک ہی بار میں کال ریسیو کر لی تھی اس نے
"مسز سعد لگتا ہے میرا ہی کال کا شدت سے انتظار تھا ایک ہی بیل پہ کال ریسیو کرلی "
سعد نے سویرا کے اتنی جلدی کال ریسیو کرنے پہ کہا
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو میں ۔۔۔۔ہاں موبائیل یوز کر رہی تھی تو آپکی کال آگئی "
سویرا نے اپنی چوری پکڑے جانے پہ بات کو گھمایا
"چلو مان لیتا ہوں ایسا ہی کچھ ہے ۔۔۔
میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں چلو اپنی آج کی پکچرز سینڈ کرو ۔سعد نے سویرا کو کہا
"کیوں آپ کا مجھ سے پردہ ہے تو انتظار کیجئے "
سویرا نے سعد کو ہری جھنڈی دکھائی
اگر دو منٹ میں تصویریں نہیں آئی نہ تو میں اوپر آجاوں گا "۔۔سعد نے دو ٹوک لہجے میں بات ختم کری
اوپر ۔۔۔۔۔۔۔۔سویرا نے فوراً کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا تو سعد گاڑی سے ٹیک لگائے اوپر ہی دیکھ رہا تھا
آپ نہ بہت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سویرا کہتے رک گئی تھی
"میں یہ جو بہت ہوں نہ یہ عملاً بتاو گا اس لئے ابھی اسے بچا کر رکھو " سعد نے سویرا کی بات کاٹ کر خود ہی کہا
سویرا سعد کو گھور کر ہی رہ گئی تھی
سعد نے اپنی ایک ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو انگھوٹے سے ملا کر سرکل بنایا تھا اور باقی تین اگلیاں سیدھی کرکے اپنا ہاتھ اوپر کیا تھا اور سویرا کو فلائینگ کس دیتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اسکا سویرا کو دیکھنے کا مقصد جو پورا ہوگیا تھا سویرا بھی پردے برابر کرتی سونے کی تیاری کرنے لگی تھی
________________________
Episode 47
حمدان نے بلیک اور سعد نے فون کلر کی شیروانی پہنی ہوئی تھی جس کے بس ڈیزائن کا فرق تھا اپنی متاع جان کا بے صبری سے وہ دونوں انتظار کر رہے تھے
امل کو( بلڈ ریڈ کلر کے شرارے میں ہیوی برائیڈل میکپ میں جس سے اسکے نقش کھل کر سامنے آگئے تھے )میں دیکھ کر حمدان statute ہوگیا تھا جبکہ دوسری جانب سعد کا بھی سویرا کو مہرون شرارے میں دیکھ کر کچھ ایسا ہی حال تھا سعد کا دل بلیوں کی طرح اچھل رہا تھا ۔۔۔۔
رائمہ کے ہلانے پہ حمدان نے ہوش میں آکر امل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسٹیج پہ اپنے ساتھ بٹھایا تھا اور اسکا ہاتھ پھر چھوڑا ہی نہیں تھا امل کا ہاتھ بلکل برف کی طرح سرد تھا وہ جتنا چھڑاتی حمدان اتنی ہی مضبوطی سے پکٰٰڑتا پھر امل نے تھک کر کوشش ہی چھوڑ دی تھی
حمدان کی نظریں پلٹ پلٹ کر امل کی جانب جا رہی تھی امل ان نظروں سے کنفیوز ہو کر خود میں سکڑ سی گئی تھی
سعد اپنے چھچھورے پن سے باز نہیں آرہا تھا تو سویرا نے اپنی ہیل اسکے پاوں میں ماری تھی کھوسہ ہونے کی وجہ سے وہ سعد کو تھوڑا تیز لگا تھا
سعد نے دل ہی دل میں اس سے بعد میں بدلہ لینے کا پروگرام بنایا تھا
فوٹو شوٹ میں حمدان نے اس طرح کے پوز بنوائے تھے کہ امل کی شرم سے نظریں نہیں اٹھ رہی تھی
فوٹو گرافر بھی ایک پل لے لئے سوچتا رہ گیا تھا کہ میں فوٹو گرافر ہوں یا حمدان
سعد کو جو پوز پسند آ رہا تھا وہ سویرا کو نہیں آرہا تھا اور جو سویرا کو وہ سعد کو نہیں ۔۔۔۔۔اور انکی نوک جھونک کے ساتھ اس طرح اس فنکشن کا اختتام ہوا تھا
____________________
سعد کے کمرے کے دروازے پہ اذہان جبکہ حمدان کے مرتظی کھڑا ہوا تھا دونوں بہنوں کے فرائض بھر پور انجام دے رہے تھے
سعد نے اذہان کو چکمہ دینے کی کوشش کری تھی لیکن مقابل آج مکمل تیاری سے کھڑا تھا سعد کو اپنی جیب خالی کرنی پڑی
حمدان نے بھی مرتظی کو بلینک چیک دے دیا تھا کیونکہ آج وہ بہت خوش تھا
_________________
دروازہ کھلنے کی آواز پہ سویرا کا دل جو ویسے بھی اسپیڈ میں بھاگ رہا تھا اس میں مزید تیزی آگئی تھی
سعد چلتا ہوا اسکے کافی قریب آکر بیٹھا تھا اور سویرا کا جھکا ہوا سر اٹھا کر اپنی آنکھوں کو سکون بخشا تھا
سعد نے اسکی ہاتھوں میں ایک بہت ہی خوبصورت رنگ پہنائی تھی اور اسکے ہاتھ کی پشت کو اپنے لبوں سے چوما تھا
"میری زندگی میں آکر مجھے مکمل کرنے کا شکریہ سویرا "
سعد نے کہتے ہوئے سویرا کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا سویرا کا یخ ٹھنڈا پڑتا وجود سعد کو اچھے سے محسوس ہو رہا تھا لیکن آج وہ رعایت کے موڈ میں نہیں اپنی محبت بکھیرنے کے موڈ میں تھا
اجازت ہے مسز سعد ۔۔۔؟؟ سعد نے سویرا کی کان کی لو کو چومتے ہوئے سرگوشی کری تھی
سعد کے اس معنی خیز بات کا مطلب سمجھتے ہوئے سویرا سعد کے سینے میں مزید چھپ گئی تھی
_____________________
حمدان کمرے میں آیا تو امل کو بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگاتا دیکھ کر فورا اسکے پاس پہنچا تھا
امل are you okk ؟ حمدان فکر مندی سے اسکا ماتھا چھوتے ہوئے پوچھا
"پتہ نہیں چکر آرہے ہیں "امل نے دھیمے لہجے میں جواب دیا
"تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے ؟"۔۔۔۔۔
حمدان نے امل کی حالت پہ غور کرتے ہوئے کہا
امل نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور اتنی معصومیت سے کہا کہ "میں نے بس جوس پیا تھا " حمدان کو غصے کے بجائے پیار آیا تھا اس پر
امل نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اس سے کچھ بھی کھایا نہیں گیا تھا حمدان کی باتیں سوچ سوچ کر اسے گھبرایٹ ہورہی تھی
حمدان فوراً نیچے جاکر اسکے لئے گلوکوز بناکر لایا تھا اور کھانے کو اسنیکس لایا تھا اور وہ اسے کھلایا اور پلایا تھا امل کی جیولری اور دوپٹہ کی پنیں کھولنے میں اسکی مدد کری تھی
"جانِ حمدان یہ بہت غلط کیا ہے مجھ سے راہ فرار کا اچھا راستہ ڈھونڈا ہے لیکن یاد رکھنا اب میں ڈبل بدلہ لونگا "
امل حمدان کی حالت دیکھ کر مسکرا کر رہ گئی تھی
حمدان نے امل کو کندھے سے پکڑ کر اسکے ہوش اڑانے والے حسن سے نظریں چرا کر اسے ڈریسنگ روم کی گیٹ تک لایا تھا تاکہ وہ چینج کرسکے امل کا سر ابھی بھی گھوم رہا تھا اور کمزوری بھی ہو رہی تھی
میں اندر چلو ؟ حمدان نے امل کو دیکھتے ہوئے کہا امل کی گھوری پہ اس نے اپنی بات جاری رکھی "مدد کرنے ویسے ہی گر پڑ رہی ہو اگر بے ہوش ہوگئی تو "
حمدان کا انداز اس وقت بلکل سیرئیس تھا
"میں ٹھیک ہوں ابھی آپ نے گلوکوز پلایا ہے بہتر فیل کر رہی ہوں آپ ذیادہ فری نہ ہوں "
امل بھی ایک پل بھی ضائع کئے بغیر اندر گئی تھی
"اچھا گیٹ لاک نہیں کرنا میں اندر نہیں آرہا ہوں "
حمدان نے امل کو تسلی کرائی کیونکہ اسے امل کے بےحد فکر ہورہی تھی
امل جب باہر آئی تو حمدان شرٹ لیس صرف بنیان میں بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا
حمدان کو دیکھ کر شرم سے اسکی پلکیں جھک گئی تھی حمدان نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ جھجھکتی ہوئی بیڈ کے ایک سائیڈ پہ لیٹی تھی
حمدان نے امل کو کھینچ کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھا تھا امل کے مزحمت کرنے پر اس نے اسے ایک سخت گھوری سے نوازا تھا ۔"بےبی انجیل ابھی تو میں نے کچھ نہیں کیا ہے مجھے مجبور نہ کرو میرے سوئے ہوئے جزبات جاگ جائیں "
امل نے فورا کبوتر کی طرح ساری مزحمت ترک کرکے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھی کہیں حمدان اپنے کہے پہ عمل نہ کردے اور حمدان بھی امل کو اپنے بازو کے گھیرے میں لیتے ہوئے میٹھی نیند میں گم ہوگیا تھا
_______________________
صبح امل کی آنکھ کھلی تو بڑی مشکل سے خود کو حمدان کے حصار سے نکالا تھا حمدان نے کافی مضبوطی سے امل کو پکڑا ہوا تھا
امل فریش ہو کر آئینہ کے پاس کھڑی ہوکر بال سلجھا رہی تھی جب حمدان بھی نیند سے بیدار ہوگیا تھا اور امل کو دیکھا تھا امل حمدان کو شیشے میں جو دیکھ رہی تھی اس نے فورا نظریں نیچے کریں تھی آگے بھی شیشے میں حمدان نظر آرہا تھا پیچھے تو وہ قدم بڑھاتا ہوا اسکی جانب آرہا تھا
حمدان کو قریب آتا دیکھ کر اسکا بالوں میں برش چلاتا ہاتھ کپکپانے لگا تھا
"آ۔۔۔۔۔۔آپ ی۔۔۔۔یہ ک۔۔۔۔کیا ک۔۔۔۔کرر ر۔۔۔۔رہے ہی۔۔۔۔ہیں "امل نے اس سے نظریں ملائے بغیر پوچھا تھا امل کے اندر ایک کرنٹ دوڑنے لگا تھا جبکہ وہ سارے کام اتنی احتیاط سے کر رہی تھی کہ حمدان جاگ نہ جائے لیکن پھر بھی کچھ فائدہ نہ ہوا
"کیا تمہیں نہیں پتہ میں کیا کرنے جا رہا ہو اتنی معصوم تو ہو نہیں "
حمدان نے اتنی معنی خیزی سے کہا کہ امل کی زبان تو کنگ ہوگئی تھی اور سے اپنے پیروں میں کھڑا رہنا دشوار لگ رہا تھا وہ اب تب زمین بوس ہونے والی تھی کہ حمدان نے امل کو پیچھے سے ہگ کر کے اسے خود میں سما لیا تھا امل پوری طور پہ حمدان کے رحم و کرم پہ تھی ۔۔
امل کا لرزنا کپکپانا حمدان کو اور ذیادہ بہکا رہا تھا
حمدان نے امل کے بالوں کو آگے کر کے وہ باکس جو ابھی دراز سے نکال کر لایا تھا اس میں سے پینڈینٹ نکال کر امل کو پہنایا تھا ۔"یہ کل دینا تھا لیکن تم نے تو فکر میں مبتلا کردیا تھا "
امل نے اپنے ہاتھ سے اس پینڈینٹ کو چھو کر دیکھا تھا وہ بہت نازک سہ تھا دو دل تھے ایک سیدھا جس میں باریک نگ جڑے ہوئے تھے اور دوسرا ترچھا جس میں a and h لکھا ہوا تھا
حمدان نے امل کے گال پہ اپنے لب رکھے تھے تو وہ کانپ گئی تھی اگر ڈریسنگ ٹیبل اور حمدان کا سہارا نہ ہوتا تو وہ یقینا بے ہوش ہوجاتی حمدان کی جسارتیں بڑھنے لگیں تھی وہ امل کے بالوں سے آتی شیمپو کے بھینی بھینی خوشبو میں مدہوش ہو رہا تھا اور اس نے امل کے بالوں میں اپنا منہ چھپا لیا تھا امل نے اپنا پورا زور لگا کر حمدان کو دھکیلا تھا اور تیز تیز سانسیں لینے لگی تھی
"آپ فریش ہوکر نیچے آئیں سب انتظار کر رہے ہونگے "
امل گھبراتی شرماتی نیچے کو بھاگی تھی
حمدان کا بھی سارا نشہ اڑن چھو ہوا تھا اور وہ بھی باتھ لینے گیا تھا
_______________________
سعد کو سوتا دیکھ کر اسے ایک شرارت سوجھی تھی اس نے اپنے نم بالوں کو سعد کے اوپر جھڑکا تھا لیکن سعد شاید جاگ گیا تھا ایک جھٹکے سے اسے کھینچ کر خود پہ گرایا تھا
سعد نے اسکے نم بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا تھا
"آہاں ۔۔مسز سعد کو مستی سوج رہی ہے "
سویرا نے اسے پھر سے مدہوش ہوتا دیکھ کر اسکے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے اسے کرا تھا اور اٹھی تھی
"اپنا یہ چھچھورا پن بند کریں اور نیچے چلیں "
"کیا یار تم واپس ادھر آو میرا نیچے جانے کا کوئی موڈ نہیں "۔سعد تو ابھی بھی کل رات میں ہی گم تھا
لیکن سویرا نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا پانی کا جگ پورا اس پہ الٹ دیا تھا
"سعد جی رات سے باہر نکلیں اور دیکھیں صبح ہوگئی ہے اٹھ جائیں "
سعد اس سے پہلے اسے پکڑتا وہ دروازہ کھول کر بھاگ گئی تھی
"کہاں تک بھاگو گی مسز سعد آنا تو میرے پاس ہی ہے "
سعد بھی کہتا فریش ہونے گیا تھا
______________________
ناشتے کے بعد سویرا امل کے کمرے میں آگئی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی منہ دکھائی دیکھا رہی تھی ۔۔۔۔
"حمدان بھائی تجھ سے بہت پیار کرتے ہیں
He is so loving and caring "
سویرا امل سے کہ رہی تھی اور امل شرمانے کا شغل فرما رہی تھی
ابھی ناشتے میں اس نے دیکھا تھا کہ حمدان ایک ایک نوالہ خود سے پہلے امل کو کھلا رہا تھا اور اسکے ہر ایک موومینٹ میں امل کے لئے محبت فکر تھی ۔۔۔۔
"تم بہت لکی ہوں جو حمدان بھائی ملیں انکی جیسی محبت تم سے کوئی نہیں کرسکتا یے "۔۔۔۔۔۔
سویرا نے اسے پھر چھیڑا
"لکی تو ہوں میں ۔۔۔۔امل نے شرماتے ہوئے کہا
""آہاں بلشنگ ۔۔۔"۔۔سویرا نے اسے چھیڑا اور پھر امل بھی اسے چھیڑنا شروع ہوگئی تھی
"اوئے تمہیں پتہ ہے اذہان بھائی نے شادی کری تھی لیکن دس دن میں ہی دی اینڈ ہوگیا سب "
سویرا نے یاد آنے پہ کہا
"میں سب جانتی ہوں مرتضی نے بتایا تھا سب مجھے اور انجام بھی اذہان کو اس کئے کی سزا مل گئی یے اور وہ نادم بھی یے تو بات کی کھال کھینچنے کا کیا فائدہ تم بھی اس چیپٹر کو بند کردو "
امل کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ ایک بات کو رائی کا پہاڑ بنایا جائے
"ٹھیک کہ رہی ہو انٹیلیجنٹ ہوگئی ہو حمدان بھائی کی صحبت میں "۔۔۔۔سویرا نے کہا
امل نے گھوری سے نوازا تھا اسے
"مسز سعد اگر یاد ہو تو آپکا ایک عدد شوہر بھی ہے اور جس کے کمرے میں قبضہ کیا ہوا یے وہ بھی نیولی میرڈ کپل ہیں تو چلیں ہم "
سعد نے اندر آتے سویرا کو آنکھوں سے گھورتے لیکن لہجے میں ہیار گھولتے کہا
"تو سب کو پتہ ہے ہماری کل ہی شادی ہوئی ہے اور شوہر ایک عدد ہی ہوتا ہے "
سویرا نے بھی اسی ٹون میں کہا
سعد اسے خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر باہر لےکر گیا تھا
امل بھی مسکراتی اٹھتی ڈریسنگ ٹیبل کی چیزوں کو ادھر ادھر کرنے لگی تھی اس نے شانوں پہ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا وہ ڈھلک کر آدھا زمین کو چھو رہا تھا جب حمدان نے اسے پیچھے سے اپنی حصار میں قید کیا تھا
"کیا کہ رہی تھی سویرا "۔۔۔۔۔۔حمدان نے اسکے گال پہ لب رکھتے ہوئے کہا
"وہ۔۔۔۔۔کہ ۔۔رہی تھی۔۔۔کہ ۔۔۔۔۔میں ۔۔لکی ۔۔ہوں۔۔۔۔۔جو آپ ۔۔۔ملیں۔۔"
امل نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی
"یہ تو سویرا کہ رہی تھی نہ میں چاہتا ہوں کہ اب تم مجھے عملاً بتاو کہ میں کتنا لکی ہوں "
حمدان نے اسکا رخ اپنی جانب موڑتے کہا
"مطلب ۔۔۔۔"۔۔۔۔امل نے کہا
"مطلب یہ کہ حمدان نے اپنے ہونٹ پہ انگلی رکھی یہاں مجھے اظہارِ محبت کا ثبوت چاہئیے "
حمدان نے اسکے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔
امل کا تنفس منتشر ہوگیا تھا دل کی دھڑکنوں میں روانگی آگئی تھی ۔۔۔۔۔
امل نے کچھ سوچ کر حمدان کے منہ پہ اپنا ہاتھ رکھا تھا اور اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے ہاتھ پہ پھر اپنے لب رکھے تھے اور تیزی سے بھاگی تھی کہ حمدان نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے روکا تھا وہ مڑی نہیں تھی لیکن رک ضرور گئی تھی حمدان نے ایک جھٹکے سے اسے کھینچا تھا تو اسکا پیر اسکے دوپٹے میں اٹکا تھا اور حمدان نے اسکے گرد حصار بنایا تھا اور اس نے حمدان کے دونوں کو مضبوطی سے تھام کر خود کو بچایا تھا
"اگر میں ابھی گر جاتی تو "۔۔۔۔۔امل نے لمبے سانس لینے کے دوران کہا
"بے بی انجیل کیا ایسا ہوسکتا یے کہ میں تمہیں گرنے دیتا "
حمدان نے بھاری لہجے میں کہا
امل نے اپنا سر نفی میں ہلایا کیونکہ حمدان نے اسے خود سے قریب کر لیا تھا اور اب بولنے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔۔
"Baby Angel By Choosing You I Choose Happiness for My Life ….You Are The Best Thing Happend To Me …Beyond You There Is Nothing I Can See"
حمدان امل کو اپنے حصار میں قید کئے اسے اپنی دل کی بات بتا رہا تھا اور سن کھڑی سب سن رہی تھی ۔۔۔۔۔
"آپ مجھے سے ہر روز اظہار کیوں کرتے ہیں ۔۔۔"
امل نے نظریں جھکائیں جواب دیا
"کیونکہ بےبی انجیل میری زندگی کا اکلوتا عشق ہو تم اکلوتے کے بڑی اہمیت ہوتی ہے اور میرا دل چاہتا یے ہر دن ایک نئے طرح سے تم پہ اپنی محبت آشکار کروں ہر دن ایک الگ انداز میں "
گھمبیر لہجے میں کہتے اس نے امل کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے تھے جس میں عقیدت، احترام ،مان، عزت، چاہت ، خلوص کیا کچھ نہ تھا امل آنکھیں بند کر کے حمدان کو محسوس کر رہی تھی
You Are My Happiness
My Future
My Love
My Warmth
My Headache
My Frown
My Smile
My Pain
My Wrong My Right
My Baby Angel
And In One Thing You Are My Every thing
کہتے حمدان نے اسکے دونوں گالوں کو چوما تھا اور امل گلابی پڑی تھی حمدان کی جسارتیں بڑھتیں کہ فون کا نے اسکے کام میں مداخلت کی تھی امل بھی حصار توڑتی پیچھے ہوئی تھی
حمدان نے سخت چڑتے کال ریسیو کری تھی اور بات کرنے لگا تھا
امل نے موقع پاتے ہی بھاگنا چاہا تھا جب حمدان نے اسے اپنے حصار میں قید کیا تھا اور فون ہولڈ پہ رکھ کر اسے کان میں آہستے سے کہا تھا "رات میں سونا نہیں ایک سرپرائیز یے تمہارے لئے "۔۔۔۔
حمدان نے کہتے حصار توڑا تھا اور امل کمرے سے بھاگی تھی اور حمدان بھی کال میں مصروف ہوگیا تھا کیونکہ یہ اہم کال تھی
___________________
سعد سویرا کو کمرے میں لایا تھا
"سعد کیا یے آپ مجھے ایسے کیوں لائے ہیں "
سویرا نے آتے کہا اور ادھر ادھر نظریں گھمائیں تو الماری پوری الٹی باہر پڑی تھی
"یہ آپ نے کیا کیا یے میں نہیں کروں گی یہ صاف آپ خود ہی کریں گیں میں ایک چیز بھی نہیں اٹھاوں گی "
سویرا کو دیکھ کر حول اٹھ رہے تھے
"تم نہیں کروگی ٹھیک ہے سعد نے کہتے سویرا کے گلے سے دوپٹہ نکال کر پھینکا تھا تم اسے بھی نہیں اٹھانا اب سعد نے بیڈ شیٹ بھی کھینچی تھی تم اسے بھی نہ اٹھانا"
"سعد کیا کر رہے آپ کیوں پھیلا رہے ہیں روم " سویرا نے کہتے اپنا دوپٹہ اٹھانے کی کوشش کری لیکن سعد نے اسے پہلے ہی اٹھالیا تھا
"سعد دیں ۔۔۔"۔۔سویرا نے دوپٹہ لینا چاہا لیکن سعد نے اپنے ہاتھ اوپر کر لئے تھے سویرا نے اچک کر لینا چاہا لیکن ناکام رہی "سعد دیں ۔۔۔۔۔"۔۔۔مسلسل کہتی وہ ادھر سے ادھر ہو رہی تھی اور سعد بھی ادھر سے ادھر ہورہا تھا سویرا اسکے پیچھے بھاگتی اپنا دوپٹہ لینا چاہ رہی تھی کئی دفعہ سعد کے گھیرے میں آکر نکلی تھی ۔۔۔۔۔"سعد کیا یے ۔۔۔۔"۔۔۔سویرا بھی کہتی بیڈ پہ چڑھی تھی جہاں سعد بھی کھڑا تھا "سعد دیں " سویرا نے دوبارہ لینے کی کوشش کری لیکن اس چھینا چھپٹی میں وہ دونوں الجھتے بیڈ پہ گرے تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
سویرا نیچے اور سعد اسکے اوپر تھا ۔۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ ریے تھے سعد نے اسکے چہرے پہ آتے بالوں کو بیچھا کیا تھا سعد اس میں گم ہوتا جب آواز پہ وہ دونوں ہوش میں آتے ایک دوسرے سے دور ہوئے تھے
"اوووو سوری سوری میں بھول گیا تھا کہ تو تو سنگل سے ڈبل ہوگیا ہے دروازہ نوک کرنا چاہئیے تھا "
اذہان نے آنکھوں میں شرارت لئے کہا تھا
سویرا کے پاس اسکا دوپٹہ نہیں تھا تو وہ فوراً سعد کے پیچھے چھپی تھی اور سعد بھی اسکے آگے ہوا تھا کیونکہ دوپٹہ اب بھی سعد کی گرفت میں ہی تھا
"نوک نہیں لاک نہیں کیا ۔۔۔لاک کرنا چاہئیے تھا وہ بھول گیا میں لیکن لوگو کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ جسٹ میرڈ کپل کا روم یے لیکن نہیں ایسے ہی آجاتے ہیں "
سعد نے بھی اذہان کے ٹون میں جواب دیا آخر اسکا ہی بھائی تھا
"جارہا ہوں ۔۔۔"۔۔۔اذہان کہتا باہر گیا تھا ۔۔
سویرا سعد کے سامنے آئی تھی "آپ نے اذہان بھائی کو شرمندہ کردیا "
"وہ شرمندہ ہونے والا نہیں بلکہ دوسروں کو کرنے والا یے "
سعد نے کہتے دوپٹے کو سویرا کے سر پہ اوڑھایا
"دیکھتا ہوں میں اسے پتہ نہیں کیوں آیا تھا رنگ میں بھنگ ڈالنے " کہتے سعد نے باہر کی راہ لی تھی
اور سویرا بھی کمرہ سمیٹنے میں جٹ گئی تھی