Sakoon E Qalb By Areeba Shahid

Sakoon E Qalb By Areeba Shahid

Sakoon E Qalb By Areeba Shahid

Sakoon E Qalb By Areeba Shahid is a Heart touching novel. Numerous writers demonstrate to us the stories and reality which are around us They have such capacity to manage us through their words and stories. She has composed numerous stories and has countless fans waiting for her novels she has written in the digest.

Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 1
ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔، آگ کے دہکتے ہوئے شعلے ہر ایک چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔۔۔۔ننگے پیر جلتے گرم فرش پر وہ کبھی اپنا ایک پیر اوپر اٹھاتی تو دوسرے میں جلن کا احساس ہونے لگتا دوسرا اٹھاتی تو پہلے میں۔۔۔۔پسینے میں شرابور وہ گرم فرش پر بمشکل چل رہی تھی۔۔۔۔"
"بچاؤ۔۔۔۔۔وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی ہوئی مشکل سے بول پائی تھی۔۔۔۔۔"
"تکلیف کی وجہ سے اس پر غشی طاری ہورہی تھی۔۔۔۔وہ ہمت ہارتے ہوئے وہی پر گر گئی۔۔۔۔"
"آآا۔۔۔۔ اس کو اپنا پورا بدن جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔"
"پیاس کی شدت سے گلے میں کانٹے چبھنے لگے۔۔۔۔"
"وہ ایک بار پھر ہمت کرتے ہوئے اٹھی۔۔۔۔اور چلنے لگی۔۔۔"
"بال پورے چہرے پر بکھرے ہوئے، ننگے پیر، ننگے سر۔۔۔وہ روتی ہوئی چلتی جارہی تھی۔۔۔۔"
"اااا۔۔۔۔۔تکلیف تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔۔۔اس نے رک کر اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالی جو جلے ہوئے تھے۔۔۔۔اور گوشت نظر آرہا تھا۔۔۔وہ ہاتھ جو کبھی سفید نرم ملائم ہوا کرتے تھے آج اس میں سے چربی تک نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اس کی آنسوں تیزی سے بہنے لگے۔۔۔۔"
"اس نے اپنے پیروں پر نظر ڈالی تو ان کی بھی وہی حالت تھی۔۔۔۔"
"اسے گرمی کا احساس پہلے سے زیادہ شدت سے ہوا تو اس نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو سامنے ایک بڑا سا گول دائرہ سا تھا جس میں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔۔۔اس نے خوف کے مارے پیچھے جانا چاہا لیکن پیچھے کا راستہ ختم ہوتا جارہا تھا۔۔۔۔"
"آاااا۔۔۔۔اسے شدت سے جلن کا احساس ہوا۔۔۔۔"
"وہاں کی زمین بھی پھٹی اور وہ اس دائرے میں گرگئی۔۔۔۔"
"اااااااا۔۔۔۔۔ایک ذور دار چیخ مارتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔"
"پورا کمرہ تاریخی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔وہ پسینے میں شرابور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔۔۔۔"
"آج پھر سے وہی خواب۔۔۔۔"
"وہ گہری سانس لیتی ہوئی بولی۔۔۔۔"
"ایسے خواب کیوں آتے ہیں مجھے۔۔۔۔؟؟
"وہ سوچ میں پڑگئی۔۔۔۔"
"اس نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ جلایا تو کمرے کے کا کچھ حصہ روشن ہوگیا۔۔۔۔سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس نے پانی پیا۔۔۔۔اور کمبل پرے کرکے بیڈ سے نیچے اتر گئی۔۔۔۔"
"نیند تو اب اسے آنی نہیں تھی۔۔۔۔ایسا اس کے ساتھ کافی عرصے سے ہورہا تھا۔۔۔وہ اس طرح کے خواب دیکھتی اور ڈر کر اٹھ جاتی اس کے بعد باقی رات جاگ کر گزارتی۔۔۔۔"
"نینا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس آگئی اور کھڑکی کھول کر وہی کھڑی ہوکر چاند کو دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"نینا تم بہت خوش قسمت ہو۔۔۔۔"
"پوجا کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔"
"میں خوش قسمت تو نہیں ہوں۔۔۔۔پھر سب ایسا کیوں کہتے ہیں۔۔۔میں تو اتنی بد قسمت ہوں کہ میں سکون کی نیند سو بھی نہیں سکتی۔۔۔ناجانے کتنی راتیں مجھے اور اس طرح گزارنی پڑے گی۔۔۔۔کیوں ہوتا ہے میرے ساتھ ایسا کیوں میں سکون سے نہیں سو سکتی۔۔۔۔کیوں آتے ہیں مجھے اس طرح کے خواب۔۔۔کیوں مجھ سے میری راتوں کی نیندیں روٹھ گئی ہیں۔۔۔۔؟
"وہ چاند کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی۔۔۔۔"
"کسی سوچ کے تحط وہ پیچھے مڑی اور کمرے کی ساری لائٹس آن کردی۔۔۔"
"پورا کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔۔۔"
"کمرے کی دیواروں پر لائٹ پرپل کلر کا پینٹ کیا گیا تھا۔۔بڑی بڑی کھڑکیاں پر سفید رنگ کے پردے جھول رہے تھے۔۔۔کمرے کی سینٹر میں بیڈ رکھا ہوا تھا۔۔کمرے کی دائیں جانب بہت ساری پینٹنگز رکھی ہوئی تھی کچھ مکمل اور کچھ ادھوری۔۔۔۔۔کمرے کی دیواروں پر بھی جگہ جگہ لگی ہوئی پینٹگز لگی اس بات کی گواہ تھی کہ اسے پینٹگ بہت پسند ہے۔۔۔۔بیڈ کے سامنے والی دیوار پر نینا کی ایک بڑی سی پینٹ کی ہوئی تصویر لگی ہوئی تھی۔۔۔۔"
"نینا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے کے دائیں جانب والے حصے میں آگئی۔۔۔"
"بالوں کو جوڑے میں مقید کرکے اس نے پینٹ برش اور کلر اٹھائے اور اپنی ادھوری پینٹنگ میں رنگ بھرنے لگی۔۔۔۔"
⁩⁦⁩⁦⁩
"ویشال کومار انڈیا کے ایک بڑے بزنس مین تھے۔۔۔ویشال اور سندھیا کی ایک ہی بیٹی تھی۔۔۔۔"نینا۔۔۔"
(سفید رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، گھنی پلکیں، لمبے کمر تک آتے سلکی ڈارک براؤن بال اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔۔۔۔)
"نینا میں ان دونوں کی جان بستی تھی۔۔۔جو وہ مانگتی تھی ویشال صاحب وہ چیز اس کے قدموں میں رکھ دیتے تھے۔۔۔نینا کو پینٹنگ کرنے کا بہت شوق تھا۔۔۔اور وہ اپنے اس شوق کو دل و جان سے پورا کررہی تھی۔۔۔ اپنے اسی شوق کو پروان چڑھانے اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے وہ ترکی آئی ہوئی تھی۔۔۔ترکی میں پڑھنا اس کی بڑی خواہشات میں سے ایک خواہش تھی لیکن وہ خوش نہیں تھی۔۔۔۔اور خوش کیوں نہیں تھی اس کی وجہ وہ خود نہیں جانتی تھی۔۔۔۔کچھ سالوں سے اس کے ساتھ کچھ عجیب ہورہا تھا جو اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔"
⁦⁩
"پینٹنگ کرنے کے باوجود بھی اسے سکون نہیں ملا تو وہ اٹھ کر واپس بیڈ پر آگئی اور گہری سانس لیتے ہوئے بیڈ پر گرنے والے اندز میں لیٹ گئی۔۔۔۔"
"کیا کروں کیوں سکون نہیں آرہا ہے مجھے۔۔۔۔؟؟
"اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کو جکڑ لیا۔۔۔"
"سکون کی تلاش میں ہو۔۔۔۔؟
"سکون کی تلاش میں ہو تو پھر اللہ کو تلاش کرو اللہ کا پتہ مل جائے گا تو سکون اپنے آپ مل جائے گا۔۔۔ "
"نینا کے کانوں میں اس فقیر کی آواز گونجی۔۔۔۔"
"اللہ۔۔۔۔
"نینا اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔اور اب اسے شدت سے صبح کا انتظار تھا۔۔۔۔"
⁩⁦⁩⁦
"نینا ادھر ادھر دیکھتی ہوئی جارہی تھی۔۔جب کسی سے اس کی ٹکر ہوئی اور ان کے ٹوکری کے پھل زمین پر بکھر گئے۔۔۔۔"
"آئی ایم سوری۔۔۔۔آئی ایم رئیلی سوری۔۔۔۔"
"نینا پھل سمیٹ کر ٹوکری میں ڈالتی ہوئی شرمندگی سے بولی۔۔۔"
"کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔۔"
"وہ ترکش زبان میں بولے۔۔۔"
"نینا نے ان کی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔۔"
"(درمیانہ قد، ہلکی ہلکی سفید داڑھی، آنکھوں کے کنارے پر جھریاں تھی جب وہ مسکراتے تو آنکھیں چھوٹی چھوٹی سی ہوجاتی۔۔۔چہرے پر ایک الگ سا سکون۔۔۔۔ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔")
"نینا نے سب پھل سمیٹ کر ٹوکری ان کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔۔ویسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو کیا۔۔۔؟
"وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگے۔۔۔۔"
"شاید۔۔۔۔"
"نینا نے ایک گہری سانس لی۔۔۔"
"مجھے بتاؤ شاید میں مدد کرسکوں۔۔۔"
"وہ مسکرا کر بولے۔۔۔"
"نینا سوچنے لگی۔۔۔"
"کس کی تلاش میں ہو۔۔۔۔؟
"نینا کو خاموش پاکر انہوں نے پوچھا۔۔۔۔"
"اللہ کی۔۔۔۔"
"نینا کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔۔"
"اپنے دل میں جھانکو۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔۔"
"لیکن کیوں۔۔۔۔؟
"وہ تعجب سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔"
"وہ تمہارے اندر ہے۔۔۔"
"انہیں نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔"
"لیکن میں تو مسلمان نہیں۔۔۔۔"
"نینا نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔۔"
"لیکن وہ سب کے دل میں موجود ہے۔۔۔"
"لبوں پر پھر ایک بار مسکراہٹ آئی۔۔۔"
"وہ کیسے۔۔۔؟
"نینا پل پل حیران ہورہی تھی۔۔۔"
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
(سورۃ ق آیت نمبر 16)
"انہوں نے تلاوت کی۔۔۔۔"
"اس کا مطلب۔۔۔؟؟
"نینا نے پوچھا۔۔۔"
"اور ہم تمہاری شہہ رگ سے بھی قریب ہیں۔۔۔"
"وہ مسکرا کر بتانے لگے۔۔۔"
"انہوں نے یہ خود آپ کو بتایا ہے کیا۔۔۔؟؟
"نینا حیران ہوئی۔۔۔"
"ہاں۔۔۔۔"
"وہ نرم لہجے میں بولے۔۔۔۔"
"آپ ان سے ملے ہیں۔۔۔"
"نینا نے تجسس سے پوچھا۔۔۔"
"کہہ سکتی ہو بلکہ میں روز ملتا ہوں۔۔۔"
"وہ دلچسپی سے بتانے لگے۔۔۔"
"کیسے۔۔۔۔؟
"نینا نے حیرت سے پوچھا۔۔۔"
"اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔"
"چاروں طرف عصر کی اذان کی آواز گونج اٹھی۔۔۔۔"
"آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔؟
"نینا انہیں جاتا دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔۔ "
"اللہ سے ملنے۔۔۔۔"
"انہوں نے مڑتے ہوئے کہا چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ تھی۔۔۔"
"نینا ان کے چہرے پر چھایا سکون دیکھا تھا۔۔۔"
"انہوں نے ایک نظر نینا پر ڈالی اور واپس مڑ گئے۔۔۔"
"نینا انہیں جاتا دیکھنے لگی۔۔۔۔"
⁩⁦⁩⁦
"ہائے نینا۔۔۔آجاؤ تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔۔"
"پوجا نے نینا کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔"
"میرا انتظار وہ کیوں کوئی خاص بات ہے کیا۔۔۔؟
"نینا نے بیگ سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ ۔"
"مجھے تمہیں کسی سے ملوانا ہے اندر آجاؤ۔۔۔۔"
"پوجا اسے کھینچی ہوئی اپنے کمرے میں لے گئی۔۔۔"
"نینا یہ ہے میری نئی دوست ایلا اور ایلا یہ ہے جس کے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا نینا۔۔۔۔"
"پوجا نے دونوں تعارف کروایا۔۔۔"
"خوش آمدید۔۔ "
"ایلا نے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"خوش آمدید۔۔۔"
"جواباً نینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"نینا میں نے اسے تمہاری پینٹنگز کے بارے میں بتایا تھا تو یہ تمہاری پینٹنگز دیکھنا چاہ رہی تھی اس لیے میں اسے یہاں لے آئی۔۔۔۔"
"پوجا نے بتایا۔۔۔"
"ہاں پوجا تمہاری پینٹنگز کی بہت تعریف کرتی ہے مجھے بھی دیکھاؤ۔۔۔۔"
"ایلا نے پرجوش ہوکر کہا۔۔۔"
"تم ہندوستان سے ہو۔۔۔؟
"نینا اسے ہندی بولتے دیکھ حیران ہوئی۔۔۔"
"نہیں میری ماما پاکستانی تھی۔۔۔"
"ایلا نے بتایا۔۔۔"
"اوہ اچھا۔۔۔۔آجاؤ۔۔۔"
"نینا کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔"
"پوجا اور ایلا بھی اس کے پیچھے کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔"
"نینا نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آگئی۔۔۔۔"
"واؤ یہ سب تم نے بنائی ہیں۔۔۔؟
"ایلا دیوار پر لگی پینٹنگز دیکھ کر بولی۔۔۔"
"ہممم۔۔۔۔"
"نینا نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔"
"انہیں چھوڑو یہ دیکھو۔۔۔"
"پوجا اسے پینٹگز ایریا میں لے آئی۔۔۔"
"واقع یہ سب بہت پیاری ہیں۔۔۔۔امیزینگ جتنی تعریف پوجا نے کی تھی اس سے کئی زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔"
"ایلا پینٹنگز دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔۔"
"نینا مسکرائی۔۔۔۔"
"تم انہیں بیچتی ہو۔۔۔؟
"ایلا نے پوچھا۔۔۔"
"نہیں اب تک تو نہیں بیچی۔۔۔"
"نینا نے بتایا۔۔۔"
"اگر کوئی خریدنا چاہے تو کیا بیچو گی۔۔۔۔؟
"ایلا نے پوچھا۔۔۔"
"ابھی تک سوچا نہیں اس بارے میں۔۔۔۔"
"نینا نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اگر بیچنے کا ارادہ بناؤ تو مجھے ضرور بتانا۔۔۔"
"ایلا ذور دیتی ہوئی بولی۔۔۔"
"ضرور۔۔۔"
"نینا مسکرا دی۔۔۔۔"
"کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ایلا چلی گئی۔۔۔۔"
⁩⁦⁩⁦
"تپتی دھوپ میں پسینے میں شرابور وہ ریت پر چل رہی تھی۔۔۔۔بھوک پیاس سے نڈھال ایک قدم بھی اٹھانا مشکل لگ رہا تھا۔۔۔"
"دور کہیں اسے پانی نظر آیا خوشی سے پانی کی طرف دوڑنے لگی تھی کہ پیر مڑا اور وہ وہی گر گئی۔۔۔۔"
"نینا اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ اندر دبتی جارہی تھی۔۔۔"
"اسے یہ سمجھنے میں کچھ ہی وقت لگا تھا کہ وہ کسی ریت کی دلدل میں کرگئی ہے۔۔۔"
"بچاؤ۔۔۔۔کوئی۔۔۔ہے۔۔نکالو۔۔۔۔مجھے۔۔۔یہاں۔۔۔سے۔۔۔۔"
"وہ نکلنے کی ناکام کوششیں کرتی ہوئی چلانے لگی۔۔۔۔لیکن دور دور تک اس کی مدد کے لیے وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔"
"بچاؤ۔۔۔۔چیخ مارتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ "
"آس پاس نگاہ دوڑائی تو وہ اپنے کمرے میں موجود تھی۔۔۔۔، گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اس نے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ بڑھایا اور لیمپ آن کرکے پانی کی بوتل اٹھائی۔۔۔۔"
"اور پانی پینے لگی۔۔۔۔"
"پانی کی بوتل جگہ پر رکھ کر وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔گھڑی پر نظر پڑی جو رات کے ڈھائی بجا رہی تھی۔۔۔۔۔"
"نینا اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔۔۔"
"چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور خود کو شیشے میں دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"وہ بلکل اجڑی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔آنکھوں کے نیچے پڑتے سیاہ ہلکے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ کئی راتوں سے سو نہیں سکی ہے۔۔۔۔"
"نینا نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا اور پھر سر جھٹک کر باہر آگئی۔۔۔ "
"تولیے سے منہ صاف کرتی ہوئی بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔۔۔ "
"اپنے دل میں جھانکو۔۔۔"
"نینا کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔۔۔۔"
"وہ آنکھیں بند کرکے بیڈ پر لیٹ گئی۔۔"
"وہ اسے کیوں کہہ رہے تھے۔۔۔ان کی باتوں نے مجھے اور الجھا دیا ہے لیکن مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میری ان تمام الجھنوں کو وہ سلجھا سکتے ہیں۔۔۔ "
"نینا آنکھیں بند کیے خود سے ہمکلام تھی۔۔۔"
"مجھے ان سے پھر ملنا چاہیے۔۔۔"
"اس نے ارادہ کیا۔۔۔"
"لیکن۔۔میں تو ان کا نام بھی نہیں جانتی ان کو کس طرح ڈھونڈں گی۔۔۔؟
"وہ خود سے سوال کرنے لگی۔۔۔۔۔"
"مجھے پھر سے اسی جگہ جانا چاہیے شاید وہ مجھے وہ وہی مل جائے۔۔۔۔"
"نینا اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔"
"ہاں میں کل پھر سے جاؤں گی۔۔۔وہاں۔۔۔شاید میرے مسئلے کا حل ہو ان کے پاس۔۔۔۔"
"نینا نے پکا ارادہ کیا۔۔۔"
⁩⁦⁩⁦
"اگلے دن یونیورسٹی سے فری ہوکر نینا اسی جگہ آگئی لیکن وہاں آس پاس ڈھونڈنے کے اور کافی انتظار کرنے کے بعد بھی جب اسے وہ نہیں ملے تو وہ واپس گھر چلی گئی اور اپنی ادھوری پینٹنگ کو پورا کرنے لگی۔۔۔۔۔"
"نینا پینٹنگ کرنے میں مگن تھی۔۔۔جب اس کے کانوں میں آذان کی آواز گونجی۔۔۔۔"
"آذان۔۔۔"
"نینا کے منہ سے فقط ایک لفظ نکلا۔۔۔۔"
"آپ کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔؟
"اللہ سے ملنے۔۔۔۔"
"نینا کے ذہن میں ان سے کل ہونے والی گفتگو کی آوازیں گونجنے لگی۔۔۔۔۔"
"اوہ ہاں۔۔۔۔شاید میں جانتی ہوں وہ مجھے کہاں ملے گے۔۔۔"
"وہ پینٹ برش رکھتی ہوئی تیزی سے کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔"
 
Episode 2
"نینا واپس اسی جگہ آئی جہاں ان سے وہ پہلی بار ملی تھی اور وہاں کی سب سے قریب مسجد کے باہر جا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔اور ان کے نکلنے کا انتظار کرنے لگی نجانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کو یہی ملے گے۔۔۔ "
"اللہ حافظ اسحاق صاحب۔۔۔۔اللہ نے چاہا تو ان شاءاللہ پھر ملے گے۔۔۔۔۔آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔۔۔"
"ایک آدمی ان سے ہاتھ ملاتا ہوا بولا۔۔۔۔"
"ان شاءاللہ ضرور۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"
"وہ مسکراتے ہوئے مسجد کی سیڑھیاں اترنے لگے۔۔۔۔"
"انکل۔۔۔۔"
" نینا کی نظر ان پر پڑی تو اس نے خوش ہوتے ہوئے انہیں آواز دی۔۔۔ "
"وہ الجھ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔۔۔۔"
"انکل ادھر۔۔۔۔"
"وہ قریب گئی۔۔۔۔"
"بیٹا آپ۔۔۔۔؟
"وہ حیران ہوئے۔۔۔"
"کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔۔۔اگر۔۔۔اگر آپ فری ہو تو۔۔۔۔؟
"نینا نے پوچھا۔۔۔۔"
"کیوں نہیں۔۔۔چلو۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔۔"
"نینا ان کو لے کر ایک کیفے میں آگئی۔۔۔۔"
"بولو بیٹا کیا بات کرنی ہے۔۔۔؟؟
"وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگے۔۔۔"
"میں جو بھی آپ کو بتانے لگی ہوں شاید آپ سب جان کر مجھے پاگل کہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے آپ میری مدد کرسکتے ہیں۔۔۔"
"نینا لب کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔"
"جی بیٹا آپ کہو کیا کہنا چاہتی ہو۔۔میں ضرور مدد کروں گا اگر کرسکا تو۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔"
"میرا نام نینا ہے اور میں ہندوستان سے ہوں ابھی یہاں پڑھنے آئی ہوں۔۔۔میرے پاس سب ہے سب کچھ ماما ہے بابا ہے اچھا گھر ہے پیسہ ہے سب کچھ ہے میری خواہش تھی میں ترکی آکر پڑھو انہوں نے وہ بھی پوری کی مجھے یہاں بھیج دیا میری تمام خواہشات پوری ہوتی آئی ہے لیکن مجھے پھر بھی کچھ خالی پن محسوس ہوتا ہے ایک عجیب سا خالی پن مجھے ایسا لگتا ہے ابھی بھی کمی ہے میں نے سب کیا جس سے مجھے لگا کہ یہ کمی دور ہوجائے گی لیکن نہیں ہوئی کچھ ضرور ہے کوئی تو ہے کوئی ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے کوئی عجیب سی کشش ہے۔۔۔۔مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی مجھے بلا رہا ہے میرے اندر کوئی ہے مجھے آواز آتی ہے۔۔۔۔"
مجھے ایک پل بھی سکون نہیں آتا ہے میں برے برے خواب دیکھتی ہوں۔۔۔بہت عجیب۔۔۔دن بہ دن یہ بے چینی بڑھتی ہی جارہی ہے مجھے نہیں سمجھ آتا ہے میں کہاں جاؤں۔۔۔۔ مجھے ایک فقیر نے کہا تھا اللہ کو ڈھونڈو وہ تمہاری یہ کمی پوری کردے گا جب سے میں اللہ کی تلاش میں ہوں لیکن وہ مجھے ملتا نہیں ہے میرے پاس اس کا کوئی پتا بھی نہیں ہے کیا آپ کو پتا ہے۔۔۔۔؟؟
"نینا پریشانی سے ایک سانس میں بولتی ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔"
"میں نے ہماری پہلی ملاقات میں اللہ کا پتا دیا تھا۔۔۔"
"وہ دھیمے لہجے میں بولے۔۔۔"
"میں پھر بھی نہیں پہنچ پائی اس تک میں اور الجھ گئی ہوں آپ کی باتوں سے۔۔۔۔"
"نینا نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔"
"پھر مجھ سے کیا چاہتی ہو۔۔۔؟
"انہوں نے پوچھا۔۔۔"
"مجھے لگتا ہے آپ کے پاس میرے مسئلے کا حل ہے۔۔۔"
"وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔"
"تم پینٹنگ کرتی ہو۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے اس کے ہاتھوں اور چہرے پر رنگ کے نشان دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔"
جی لیکن آپ کو کیسے پتہ۔۔۔؟
"نینا حیران ہوئی۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔"
"اوہ ہاں۔۔۔میں آپ کے پاس آنے سے پہلے پینٹ ہی کررہی تھی تب لگ گیا ہوگا۔۔۔"
"وہ رنگ صاف کرتی ہوئی بولی۔۔۔"
"کیا پینٹ کرتی ہو۔۔۔؟
"انہوں نے پوچھا۔۔۔"
"بہت کچھ۔۔۔"
"نینا نے بولی۔۔۔۔"
"جاندار چیزوں کی تصویریں بھی بناتی ہو۔۔۔؟
"انہوں نے پوچھا۔۔۔۔"
"نینا ان کے سوالوں پر حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔ "
"جی۔۔۔۔"
"اس نے جواب دیا۔۔۔۔"
"تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نا کہ تم بےسکون کیوں ہو۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔"
"نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔"
"یہ ہے تمہاری بےسکونی کی وجہ۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔"
"پینٹنگ کا میری بےسکون ہونے سے کیا تعلق۔۔۔؟
"وہ الجھی۔۔۔"
"بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے میز پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔"
"کیسے۔۔۔؟
"وہ تعجب پوچھنے لگی۔۔۔۔"
"کسی جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے۔۔۔۔ اللہ کو یہ کام نہیں پسند۔۔۔۔اگر واقع سکون چاہتی ہو تو چھوڑ دو اسے۔۔"
"اسحاق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔"
"لیکن یہ میرا شوق ہے۔۔۔میری زندگی میں بہت اہم ہے یہ۔۔میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں اسے۔۔۔"
"نینا فوری بولی۔۔۔"
"اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے اپنی سب سے قیمتی شے کو قربان کرنے کا بہت ثواب ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے ٹہر ٹہر کر بتایا۔۔۔"
"لیکن میں تو اللہ کو نہیں جانتی ہوں۔۔۔"
"نینا بولی۔۔۔"
"لیکن وہ تو تمہیں جانتا ہے نا۔۔۔"
"اسحاق صاحب نرم لہجے میں بولے۔۔۔۔"
"نینا کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔۔۔"
"تم نے کہا نا کہ کوئی کمی ہے کوئی خالی پن محسوس کرتی ہو تم۔۔۔کوئی کشش ہے جو تمہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔۔۔اور ایسا لگتا ہے کوئی آواز دے رہا ہے بلا رہا ہے۔۔۔یہ تمہاری روح ہے جو بے سکون ہے۔۔۔اور روح کا سکون اللہ کے پاس ہے۔۔۔تمہاری روح پیاسی ہے اللہ کے ذکر کی۔۔۔اور جس چیز سے تم اس کی پیاس بجھانا چاہ رہی ہو وہ اس کی غذا نہیں ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔"
"نینا اپنے ہاتھوں میں لگے پینٹ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔"
"اگر میں پینٹنگ چھوڑ دوں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔؟
"وہ معصومیت سے پوچھنے لگی۔۔۔"
"اس سے روح کا وہ غذا ملنی تو بند ہوجائے گی جو تم اسے دے رہی ہو لیکن جو اس کی اصل غذا ہے وہ پھر بھی اسے نہیں مل پائے گی۔۔۔اور وہ یونہی مرجھاتی رہے گی۔۔۔اور تم یونہی بےچین رہو گی۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے کہا۔۔۔"
"تو پھر اس سب کا کیا حل ہے۔۔۔۔میں بہت پریشان ہوں۔۔۔میں راتوں کو سو نہیں پاتی ہوں۔۔۔برے برے خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہوں۔۔۔کہیں سکون نہیں ملتا ہے۔۔۔کہیں بھی نہیں۔۔۔۔"
"نینا بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔"
"اللہ کی طرف آجاؤ۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کے لبوں پر مدھم مسکراہٹ سی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔"
"نینا تم نے کبھی سوچا ہے یہ سب تمہارے ساتھ کیوں ہورہا ہے دنیا میں بہت سے لوگ ہیں ان کے ساتھ تو نہیں ہوتا۔۔۔اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اس دنیا میں گزاری ہے اور بہت سے لوگوں سے ملا ہوں۔۔۔۔ کچھ تھے۔۔۔جو خدا کی راہ سے غافل بھی تھے۔۔۔۔بھٹکے ہوئے تھے۔۔۔لیکن پھر بھی بےفکر تھے۔۔۔۔۔"
اور کچھ تھے جو بلکل تم جیسے تھے۔۔۔"
"بےسکون، بےچین، ڈرے ہوئے۔۔۔"
"ان سب کو دیکھ کر میں نے ایک بات سیکھی تھی۔۔۔کہ اللہ ہر ایک کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔۔۔وہ کسی خاص کو چنتا ہے اپنی عبادت کے لیے۔۔۔جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا نا میں سمجھ گیا تھا۔۔۔کہ تمہیں بھی اللہ نے چن لیا ہے۔۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا کہ اللہ جنہیں اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ لوگ نایاب ہوتے ہیں۔۔۔"
"اسحاق صاحب نرم لہجے میں ٹہر ٹہر کر اسے سمجھانے لگے۔۔۔۔"
"انکل مجھے کچھ وقت چاہیے اس سب کو سمجھنے میں۔۔۔۔"
"نینا الجھی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔"
"بیٹا جتنا چاہے وقت لے لو۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔"
"شکریہ میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔میرے لیے آپ نے اپنا قیمتی وقت نکالا اس کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔۔"
"نینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"کوئی بات نہیں۔۔۔اللہ کی بندوں کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔"
"نینا سر اثبات میں ہلاتی ہوئی کیفے سے نکل گئی۔۔۔۔"
 
"کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔"
"نینا تم نے کبھی سوچا ہے یہ سب تمہارے ساتھ کیوں ہورہا ہے دنیا میں بہت سے لوگ ہیں ان کے ساتھ تو نہیں ہوتا۔۔۔اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اس دنیا میں گزاری ہے اور بہت سے لوگوں سے ملا ہوں۔۔۔۔ کچھ تھے۔۔۔جو خدا کی راہ سے غافل بھی تھے۔۔۔۔بھٹکے ہوئے تھے۔۔۔لیکن پھر بھی بےفکر تھے۔۔۔۔۔"
اور کچھ تھے جو بلکل تم جیسے تھے۔۔۔"
"بےسکون، بےچین، ڈرے ہوئے۔۔۔"
"نینا کے دماغ میں اسحاق صاحب کی باتیں گردش کررہی تھی۔۔۔"
"نینا گہری سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔"
"سوچتے سوچتے وہ وہی صوفے پر سوگئی۔۔۔۔"
 
"ہائے۔۔۔نینا۔۔۔ہائے پوجا۔۔۔"
"ایلا نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا۔۔۔"
"ہائے۔۔۔"
"دونوں ساتھ میں بولیں۔۔۔"
"میٹ مائے کزن ذوالقرنین۔۔۔۔"
"ایلا نے برابر میں کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔"
"مرحبا۔۔۔"
"ذوالقرنین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"
(لمبا قد، کسرتی جسم، براؤن بال، سبز رنگ آنکھیں جو ہر ایک کی توجہ اپنی طرف کھینچتی تھی۔۔۔۔)
"اینڈ نین یہ ہیں میری نیو فرینڈز نینا اینڈ پوجا۔۔۔۔"
"ایلا نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔"
"ہائے۔۔۔
"دونوں مسکرا دی۔۔۔"
"کہیں چلیں اگر تم لوگوں کا کوئی اور پلان نہیں ہے تو۔۔۔؟
"ایلا نے پوچھا۔۔۔"
"نہیں میرا تو کوئی پلان نہیں ہے۔۔۔باقی نینا کا پتہ نہیں۔۔۔"
"پوجا نے شانے اچکائے۔۔۔"
"آئی ایم سوری گائز میں چلتی مگر مجھے لائبریری سے کچھ کتابیں لینی ہیں۔۔۔اور اسائمنٹ بھی مکمل کرنا ہے اس لیے میں نہیں چل سکتی۔۔۔۔"
"نینا نے معذرت کی۔۔۔"
"اوکے کوئی بات نہیں۔۔۔۔"
"ایلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اب میں چلتی ہوں تم لوگ اینجوئے کرو۔۔۔۔بائے۔۔۔"
"نینا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔"
"کافی دن اس بارے میں سوچنے کے بعد اس نے ایک فیصلہ کیا اور اسحاق صاحب سے ملنے چلی آئی۔۔۔"
"آج بھی وہ وہی مسجد کے باہر کھڑی ان کا انتظار کررہی تھی۔۔۔اسحاق صاحب باہر آئے تو اسے اپنا منتظر پا کر مسکرا دیے۔۔۔"
"میں جانتا تھا تم ضرور آؤگی۔۔۔۔"
"انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔"
"وہ کیسے۔۔۔آپ کو اللہ نے بتایا۔۔۔؟
"وہ ان کے ساتھ چلنے لگی۔۔۔"
"ہاں ایسا ہی سمجھو میرا دل کہتا تھا تم ضرور آؤگی۔۔اور دل میں تو اللہ رہتا ہے نا۔۔۔"
"وہ نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے گویا ہوئے۔۔۔"
"اوہ تو میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔۔"
"نینا نے سڑک پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔۔۔"
"کیسا فیصلہ۔۔۔؟
"انہوں نے رک کر بغور اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔"
"آپ نے کہا تھا نا کہ اللہ مجھے جانتا ہے۔۔۔"
"نینا بولی۔۔۔"
"بے شک وہ جانتا ہے۔۔۔"
"انہوں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔"
"تو پھر میں بھی اللہ کو جاننا چاہتی ہوں۔۔۔کیا آپ اس میں میری مدد کریں گے۔۔۔؟
"نینا نے امید سے پوچھا۔۔۔"
"ضرور مجھے خوشی ہوگی۔۔۔"
"انہوں نے کھلے دل سے کہا۔۔۔"
"آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔"
"نینا خوشی سے بولی۔۔۔"
"چائے پیو گی۔۔۔؟
"انہوں نے رک کر پوچھا۔۔۔"
"نینا ان کے اچانک کے سوال پر چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"میرا گھر آگیا۔۔۔"
"وہ ہنسے۔۔۔"
"اوہ آپ یہاں رہتے ہیں۔۔۔"
"نینا سامنے لکڑی کے خوبصورت گھر کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔"
"انہوں نے سر اثبات میں ہلایا۔۔"
"میرا گھر بھی یہی اگلی گلی میں ہے۔۔۔"
"نینا بولی۔۔۔"
"اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔چلو۔۔۔۔"
"وہ کہتے ہوئے گھر کے اندر جانے لگے۔۔۔"
"نینا نے کچھ پل سوچا اور پھر ان کے پیچھے چلی گئی۔۔۔"
 
 
Episode 3
"اسحاق صاحب اسے لاؤنج میں بیٹھا کر خود چائے بنانے چلے گئے تھے۔۔۔"
"ہم سب کا رب کون ہے۔۔۔؟؟
"نینا ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔جب اس کے کانوں سے کسی آواز ٹکرائی۔۔۔۔"
"اللہ۔۔۔۔
"پھر بہت سے بچوں کی یکجا آواز سنائی دی۔۔۔۔"
"چائے۔۔۔"
"نینا ان سب کو سننے میں محو تھی کہ اسحاق صاحب کی آواز پر ایک دم سے چونک گئی۔۔۔"
"یہ کون ہے۔۔۔؟
"نینا نے کہ تھامتے ہوئے کہا۔۔۔ اس کا اشارہ اندر سے آتی آواز کہ طرف تھا۔۔۔"
"میرا بھانجا ہے۔۔۔۔روز یونیورسٹی سے واپس آکر محلے کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا ہے۔۔۔۔"
"وہ مسکرا کر بتانے لگے۔۔۔۔"
"اچھا۔۔۔۔
"نینا نے چائے کا ایک سیپ لیتے ہوئے کہا۔۔۔"
ہاں تو تم اللہ کو جاننا چاہتی تھی نا۔۔۔"
"انہوں نے کہا۔۔۔"
"نینا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔۔"
"میں بتاتا ہوں وہ کون ہے۔۔۔اور بتانے لگے۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔۔"
"نینا غور سے انہیں سننے لگی۔۔۔"
 
أَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِیم
 میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالٰی کی
شیطان مردود کے شر سے بچنے کیلئے 
 ﺑِﺴْﻢِ اللهِ ٱﻟﺮَّﺣْﻤﻦِ ٱﻟﺮَّﺣِﻴﻢِ 
 اللہ کے نام سے شروع جو نہائت مہربان اور ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
سورۃ اخلاص مکیہ 
________آیت نمبر ١_______
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔۔۔(1)
_______تفسیر______ 
1:۔ یہ قرآن کریم کے لفظ ” احد “ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ” ایک “ کا لفظ اس کے پورے معنی ظاہر نہیں کرتا۔ ” ہر لحاظ سے ایک “ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس طرح ایک ہے کہ اس کے نہ اجزاء ہیں، نہ حصے ہیں، اور نہ اس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے، اور اپنی صفات میں بھی۔۔۔۔"
"قل" میں اشارہ ہے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی نبوت اور رسالت کیطرف کہ انکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا حکم ہو رہا ہے۔۔۔۔"
اللہ اس ذات کا نام ہے جو واجب الوجود ہے اور تمام کمالات کا جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے۔۔۔۔"
"بعض کافروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے ؟ اس کا حسب نسب بیان کر کے اس کا تعارف تو کرائیے۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی (روح المعانی بحوالہ بیہقی و طبرانی وغیرہ)
یہ آیت جواب ہے ان لوگوں کے سوال کا جو اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھتے تھے کہ کس چیز سے بنا ہے. اس ایک مختصر جملے میں ذات و صفات پر کئے گئے سارے اشکال کا جواب آگیا اور لفظ قل میں نبوت و رسالت بھی بیان ہوگئ.
________آیت نمبر ٢________
اللَّهُ الصَّمَدُ
اللہ بے نیاز ہے (٢)
_______تفسیر______ 
2: یہ قرآن کریم کے لفظ ” اَلصَّمَدُ “ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ” صمد “ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لیے رجوع کرتے ہوں، اور سب اس کے محتاج ہوں، اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ” بےنیاز “ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اس میں نہیں آتا کہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس لیے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔"
________آیت نمبر ٣________
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا (٣)
_______تفسیر______ 
3: یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔۔۔"
________آیت نمبر 4________
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور اسکا کوئ ہمسر نہیں (4)
_______تفسیر______ 
4: لفظ (کفو) کے لفظی معنی مثل اور مماثل کے ہیں، معنی اس آیت کے یہ ہیں کے نہ کوئی اسکا مثل ہے نہ کوئی اس سے مشاکلت اور مشابہت رکھتا ہے۔۔۔۔یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اس کی برابری یا ہمسری کرسکے۔۔۔۔"
_______خلاصہ فسیر______ 
اس سورة کی ان چار مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی آیت میں ان کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خداؤں کے قائل ہیں، دوسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کار ساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں، تیسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے ہیں، اور چوتھی آیت میں ان لوگوں کا ردّ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں ۔۔۔
اس سورۃ میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی ہے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنے والے منکرینِ توحید کی دنیا میں مختلف اقسام ہوئی ہیں. سورۃ اخلاص نے ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کرکے مکمل توحید کا سبق دیا ہے کیونکہ منکرین توحید میں ایک گروہ تو خود اللہ کے وجود ہی کا منکر ہے بعض وجود کے تو قائل ہیں مگر وجوب وجود کے منکر ہیں بعض دونوں کے قائل ہیں مگر کمال صفات کے منکر ہیں. بعض یہ سب مانتے ہیں مگر پھر بھی عبادت میں غیراللہ کو شریک ٹھراتے ہیں، ان سب خیالات باطلہ کا رد "" اللہ اَحد "" میں ہوگیا ، بعض لوگ عبادت میں بھی کس کو شریک نہیں کرتے مگر حاجت روا اور کارساز اللہ کے سوا دوسروں کو بھی سمجھتے ہیں ان کے خیال کا ابطال لفظ (صمد) میں ہوگیا، بعض لوگ اللہ کے لیئے اولاد کے قائل ہیں ان کا رد (لم یلد) میں ہوگیا۔۔۔
مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے، اسی طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دیکر خالص توحید ثابت کی ہے، اس لئے اس سورت کو سورة اخلاص کہا جاتا ہے، اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے : توحید، رسالت اور آخرت اور اس صورت نے ان میں توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے، اس سورة کی تلاوت کے بھی احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔۔۔۔۔"
"بیٹا جب لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے کوئی کہتا کہ اللہ تعالی کا نسب اور خاندان کیا ہے؟
"اس نے ربوبیت کس سے میراث میں پائی ہے؟
"اور اس کا وارث کون ہوگا؟
"کسی نے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالی سونے کا ہے یا چاندی کا؟ لوہے کا ہے یا لکڑی کا؟
"کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالی کیا کھاتا پیتا ہے؟
"ان سوالوں کے جواب میں اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قل ھو اللہ نازل فرمائی۔۔۔"
"اور اپنی ذات وصفات کا واضح بیان فرما کر اپنی معرفت کی راہ روشن کردی اور کفار کے جاہلانہ خیالات واوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات وصفات کے نورانی بیان سے دور فرما دیا۔۔۔"
(تفسیر۔خزائن العرفان،ص١٠٨٦.پ،٣،اخلاص:١)
"اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر اسے بتا رہے تھے اور نینا مہبوت سے سب سن رہی تھی۔۔۔۔"
"کچھ سمجھ آیا۔۔۔؟
"انہوں نے بتا کر پوچھا۔۔۔۔"
"میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔۔۔"
"نینا نے پوچھا۔۔۔"
"جی پوچھو۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اللہ نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔؟
"نینا الجھی ہوئی تھی۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب مسکرانے لگے۔۔۔"
"آپ مسکرا کیوں رہے ہیں۔۔.؟
"وہ انہیں مسکراتا دیکھ کر الجھی۔۔۔"
"ایک قصہ یاد آگیا۔۔۔۔سننا چاہو گی۔۔۔؟
"انہوں سوال کیا۔۔۔"
"جی ضرور۔۔۔"
نینا غور سے ان کی ایک ایک بات سن رہی تھی اسلام میں اس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔۔۔اس کا دل کررہا تھا کہ یہ باتیں کبھی ختم نہ ہو وہ اللہ کی باتیں بتاتے رہے اور وہ سنتی رہے۔۔۔۔اللہ کی کشش اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔۔۔۔لیکن شاید وہ اپنے دل کی آواز کو سمجھ نہیں پا رہی تھی شاید وہ اس بات سے بے خبر تھی۔۔۔لیکن اللہ باخبر کروا ہی دیتا ہے ایک دن۔۔۔۔۔"
"ایک غیر مسلم مسلمان سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دے دو تو میں مسلمان ہوجاؤنگا۔۔۔"
سوال نمبر 1
"جب سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو تم لوگ انسان کو کیوں ذمے دار ٹھہراتے ہو۔۔؟
سوال نمبر 2
"جب شیطان آگ کا بنا ہوا ہے تو اس پر آگ کیسے اثر کرے گی۔۔؟
سوال نمبر 3
"جب اللہ تعالیٰ تمہیں نظر نہیں آتا تو تم لوگ اسے مانتے کیوں ہو۔۔؟
"مسلمان نے جواب میں ایک پاس پڑا ہوا مٹی کا ڈیلا اس کو دے مارا۔۔۔"
"اس کو بہت غصہ آیا اور اس نے عدالت میں مسلمان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔۔۔"
"عدالت نے مسلمان کو بلایا اور پوچھا تم نے اس کے سوال کے جواب میں مٹی کا ڈیلا اسے کیوں مارا۔۔؟
"مسلمان نے کہا یہ اس کے تینوں سوالوں کے جواب ہیں!!
"عدالت نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے جواب دیا۔۔ "
"پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے ڈیلا اسے اللہ کی مرضی سے مارا ہے تو اس کا ذمے دار یہ مجھے کیوں ٹھہراتا ہے۔۔؟
"دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان تو مٹی کا بنا ہوا ہے تو اس پر مٹی کے ڈیلے نے کس طرح اثر کیا۔۔۔؟
"تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب اس کو درد نظر نہیں آتا تو محسوس کیوں ہوتا ہے۔۔؟
"غیر مسلم اپنے تینوں سوالوں کے جواب سن کر فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے سارا قصہ سنا دیا۔۔۔"
"سمجھی اب۔۔۔کہ اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔"
"وہ دل پر ہاتھ رکھے آنکھوں کو بند کیے بول رہے تھے۔۔۔۔"
"نینا نے انہیں دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی دیوانے سے باتیں کررہی ہے۔۔۔"
"شاید وہ دیوانے ہی تھے اللہ کے دیوانے جو اس کا ذکر کرتے ہوئے جھوم اٹھتے ہیں۔۔ "
"ابھی تو میں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا اس سورۃ کی تفسیر اگر تمہیں سارا دن بھی بتاتا رہوں تو ختم نہیں ہوگی۔۔۔"
"انہوں نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔۔۔"
"وہ کیوں۔۔۔۔؟
"وہ حیران ہوئی۔۔۔۔"
"کیونکہ بیٹا اللہ کی ایک بات میں ہزار مطلب چھپے ہیں۔۔۔
"وہ اپنی ایک بات میں ہزار باتیں کہہ جاتا ہے۔۔۔۔انسان کو بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔"
"انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔"
"نینا ان سب باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔"
"چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔۔۔"
"انہوں نے چائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اوہ ہاں۔۔۔"
"اس نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔۔ "
"اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔۔
"مغرب کی اذانوں کی آواز گونج اٹھی۔۔۔"
"اسحاق صاحب اذان کا جواب دینے لگے نینا بغور انہیں دیکھ کر رہی تھی اور حیران ہورہی تھی کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔"
"اب میں چلتی ہوں۔۔۔اجازت دیں۔۔۔"
"نینا جانتی تھی کہ وہ اب نماز پڑھنے جائے گے اسی لیے وہ احتراماً کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔"
"آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔کیا کل میں یہاں آسکتی ہوں۔۔۔؟
"نینا جاتے جاتے مڑتے ہوئے بولی۔۔۔"
"ضرور جب دل چاہے تمہارا تم آسکتی ہو۔۔۔"
"وہ کھلے دل سے بولے۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔"
"نینا مسکراتی ہوئی چلی گئی۔۔۔"
"کوئی آیا تھا ماموں جان۔۔۔؟
"اس نے کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھا۔۔۔"
"ہاں۔۔۔۔میری نئی شاگرد آئی تھی۔۔۔۔اچھا چلو نماز کے چلو دیر ہورہی ہے۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور باہر نکل گئے۔۔۔"
"جو پڑھایا ہے کل یاد ہونا چاہیے میں سب سے پوچھوں گا اب جلدی کرو نماز پڑھنے جانا ہے نا۔۔۔؟
"وہ بچوں کی جانب مڑتا ہوا سب سے پوچھنے لگا۔۔۔"
"جی۔۔۔۔"
"سب بچے ذور سے بولے۔۔۔۔"
"چلو پھر۔۔۔"
"وہ مسکراتا ہوا باہر چلا گیا اور بچے بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔۔۔"
Episode 4
"بیٹا جب لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے کوئی کہتا کہ اللہ تعالی کا نسب اور خاندان کیا ہے؟
"اس نے ربوبیت کس سے میراث میں پائی ہے؟
"اور اس کا وارث کون ہوگا؟
"کسی نے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالی سونے کا ہے یا چاندی کا؟ لوہے کا ہے یا لکڑی کا؟
"کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالی کیا کھاتا پیتا ہے؟
"ان سوالوں کے جواب میں اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قل ھو اللہ نازل فرمائی۔۔۔"
"اور اپنی ذات وصفات کا واضح بیان فرما کر اپنی معرفت کی راہ روشن کردی اور کفار کے جاہلانہ خیالات واوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات وصفات کے نورانی بیان سے دور فرما دیا۔۔۔"
(تفسیر۔خزائن العرفان،ص١٠٨٦.پ،٣،اخلاص:١)
"اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر اسے بتا رہے تھے اور نینا مہبوت سے سب سن رہی تھی۔۔۔۔"
"کچھ سمجھ آیا۔۔۔؟
"انہوں نے بتا کر پوچھا۔۔۔۔"
"میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔۔۔"
"نینا نے پوچھا۔۔۔"
"جی پوچھو۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اللہ نظر کیوں نہیں آتا۔۔۔؟
"نینا الجھی ہوئی تھی۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب مسکرانے لگے۔۔۔"
"آپ مسکرا کیوں رہے ہیں۔۔.؟
"وہ انہیں مسکراتا دیکھ کر الجھی۔۔۔"
"ایک قصہ یاد آگیا۔۔۔۔سننا چاہو گی۔۔۔؟
"انہوں سوال کیا۔۔۔"
"جی ضرور۔۔۔"
نینا غور سے ان کی ایک ایک بات سن رہی تھی اسلام میں اس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔۔۔اس کا دل کررہا تھا کہ یہ باتیں کبھی ختم نہ ہو وہ اللہ کی باتیں بتاتے رہے اور وہ سنتی رہے۔۔۔۔اللہ کی کشش اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔۔۔۔لیکن شاید وہ اپنے دل کی آواز کو سمجھ نہیں پا رہی تھی شاید وہ اس بات سے بے خبر تھی۔۔۔لیکن اللہ باخبر کروا ہی دیتا ہے ایک دن۔۔۔۔۔"
"ایک غیر مسلم مسلمان سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دے دو تو میں مسلمان ہوجاؤنگا۔۔۔"
سوال نمبر 1
"جب سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو تم لوگ انسان کو کیوں ذمے دار ٹھہراتے ہو۔۔؟
سوال نمبر 2
"جب شیطان آگ کا بنا ہوا ہے تو اس پر آگ کیسے اثر کرے گی۔۔؟
سوال نمبر 3
"جب اللہ تعالیٰ تمہیں نظر نہیں آتا تو تم لوگ اسے مانتے کیوں ہو۔۔؟
"مسلمان نے جواب میں ایک پاس پڑا ہوا مٹی کا ڈیلا اس کو دے مارا۔۔۔"
"اس کو بہت غصہ آیا اور اس نے عدالت میں مسلمان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔۔۔"
"عدالت نے مسلمان کو بلایا اور پوچھا تم نے اس کے سوال کے جواب میں مٹی کا ڈیلا اسے کیوں مارا۔۔؟
"مسلمان نے کہا یہ اس کے تینوں سوالوں کے جواب ہیں!!
"عدالت نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے جواب دیا۔۔ "
"پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے ڈیلا اسے اللہ کی مرضی سے مارا ہے تو اس کا ذمے دار یہ مجھے کیوں ٹھہراتا ہے۔۔؟
"دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان تو مٹی کا بنا ہوا ہے تو اس پر مٹی کے ڈیلے نے کس طرح اثر کیا۔۔۔؟
"تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب اس کو درد نظر نہیں آتا تو محسوس کیوں ہوتا ہے۔۔؟
"غیر مسلم اپنے تینوں سوالوں کے جواب سن کر فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اسے سارا قصہ سنا دیا۔۔۔"
"سمجھی اب۔۔۔کہ اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔"
"وہ دل پر ہاتھ رکھے آنکھوں کو بند کیے بول رہے تھے۔۔۔۔"
"نینا نے انہیں دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی دیوانے سے باتیں کررہی ہے۔۔۔"
"شاید وہ دیوانے ہی تھے اللہ کے دیوانے جو اس کا ذکر کرتے ہوئے جھوم اٹھتے ہیں۔۔ "
"ابھی تو میں نے تمہیں کچھ نہیں بتایا اس سورۃ کی تفسیر اگر تمہیں سارا دن بھی بتاتا رہوں تو ختم نہیں ہوگی۔۔۔"
"انہوں نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔۔۔"
"وہ کیوں۔۔۔۔؟
"وہ حیران ہوئی۔۔۔۔"
"کیونکہ بیٹا اللہ کی ایک بات میں ہزار مطلب چھپے ہیں۔۔۔
"وہ اپنی ایک بات میں ہزار باتیں کہہ جاتا ہے۔۔۔۔انسان کو بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔"
"انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔"
"نینا ان سب باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔"
"چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔۔۔"
"انہوں نے چائے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اوہ ہاں۔۔۔"
"اس نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔۔ "
"اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔۔۔
"مغرب کی اذانوں کی آواز گونج اٹھی۔۔۔"
"اسحاق صاحب اذان کا جواب دینے لگے نینا بغور انہیں دیکھ کر رہی تھی اور حیران ہورہی تھی کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔"
"اب میں چلتی ہوں۔۔۔اجازت دیں۔۔۔"
"نینا جانتی تھی کہ وہ اب نماز پڑھنے جائے گے اسی لیے وہ احتراماً کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔"
"آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔۔۔کیا کل میں یہاں آسکتی ہوں۔۔۔؟
"نینا جاتے جاتے مڑتے ہوئے بولی۔۔۔"
"ضرور جب دل چاہے تمہارا تم آسکتی ہو۔۔۔"
"وہ کھلے دل سے بولے۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔"
"نینا مسکراتی ہوئی چلی گئی۔۔۔"
"کوئی آیا تھا ماموں جان۔۔۔؟
"اس نے کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھا۔۔۔"
"ہاں۔۔۔۔میری نئی شاگرد آئی تھی۔۔۔۔اچھا چلو نماز کے چلو دیر ہورہی ہے۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور باہر نکل گئے۔۔۔"
"جو پڑھایا ہے کل یاد ہونا چاہیے میں سب سے پوچھوں گا اب جلدی کرو نماز پڑھنے جانا ہے نا۔۔۔؟
"وہ بچوں کی جانب مڑتا ہوا سب سے پوچھنے لگا۔۔۔"
"جی۔۔۔۔"
"سب بچے ذور سے بولے۔۔۔۔"
"چلو پھر۔۔۔"
"وہ مسکراتا ہوا باہر چلا گیا اور بچے بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔۔۔"
 
جب چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو حضرت بلال نے پوچھا کہ تم کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں رکھ رہے ہو۔۔۔؟
"جب آپ نے اپنے بارے میں بتایا تو وہ آپ پر ایمان لے آئے اور اسلام قبول کرلیا۔۔۔۔"
"حضرت بلال رضی اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔۔۔وہ حبشی نسل کے غلام تھے۔۔۔اسلام کے پہلے مُوّذن تھے۔۔۔حضرت بلال کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے کفار نے ان پر بہت سے ظلم ڈھائے۔۔۔ سیدنا بلال حبشی امیہ بن خلف کے غلام تھے جو مسلمانوں کا سخت دشمن تھا وہ بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھالٹاکر ان کے سینہ پرپتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مرجائیں اور زندگی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حالت میں بھی اَحد اَحدکہتے تھے۔۔۔رات کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہو کر اسلام سے پھر جائیں یا تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔۔۔عذاب دینے والے اُکتا جاتے۔۔۔۔ کبھی ابو جہل کا نمبر آتا۔۔۔کبھی امیہ بن خلف کا، کبھی اوروں کا، اور ہر شخص اس کی کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔۔۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اس حالت میں دیکھا تو اُن کو خرید کر آزاد فرمایا۔۔۔۔"
"حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں نہ رہ سکے۔ کیسے رہتے ، مسجد نبوی کا ہر گوشہ ، انھیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد دلاتا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم کی تاب نہ لاسکے اور آخر کار مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے ملک شام کے شہر حِلب چلے گئے ۔تقریباََ ایک سال بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمارہے ہیں اے بلال ؓ تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا ہے ، کیا تمہارا دل ہم سے ملنے کو نہیں چاہتا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔"
"اضطراب بڑھ گیا لبیک یا سیدی ﷺ کہتے ہوئے اٹھے اور راتوں رات مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔مدینہ پنہچتے ہی سیدھے مسجد نبوی ﷺ پہنچے اور روضہ انور پر حاضر ہوئے اور اتنا روئےکہ روتے روتے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت غم سے بے ہوش ہوگئے ،مدینہ منورہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد کا شہرہ ہوچکا تھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب ہوش آیا تو دیکھا ہر طرف لوگوں کا ہجوم ہے ۔لوگ التجائیں کررہے تھے، اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ پھر وہی اذان سنا دو جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سناتے تھے۔۔۔لوگوں نے بہت ہی اصرار کیا مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کے لئے راضی نہیں ہوئے۔اتنے میں جناب حسن رضی اللہ تعالیٰ اور جناب حسین رضی اللہ تعالیٰ مسجد میں تشریف لائے اور سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ سے درخواست کیاے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج ہمیں وہی اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا کرتے تھے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیارے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھا لیا اور کہا ”تم تو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم
کے جگر کے ٹکڑے ہو تم جو کہو گے وہی ہوگا۔ اگر میں نے انکار کردیا اور کہیں تم روٹھ گئے ، تو روضہ انور میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم بھی رنجیدہ ہوجائیں گے۔ مہینوں کے بعد جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کی پرسوز آواز مدینہ کی فضاﺅں میں گونجی تو اہلِ کی فضاﺅں میں گونجی تو اہلِ مدینہ کے دل ہل گئے لوگ روتے ہوئے بے تابانہ مسجد نبوی کی طرف دوڑ پڑے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس وقت ”اشہد ان محمد رسول اللہ“ زبان سے ادا کیا ، ہزارہا چیخیں ایک ساتھ فضا میں بلند ہوئیں۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نظریں بے اختیار منبر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اُٹھ گئیں۔ آہ! منبر خالی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار نہ ہوسکا، بے چینی بڑھ گئی،ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور بے ہوش ہوگئے۔اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے رخصت ہوئے اور واپس شام چلے گئے،جہاں 20ہجری (641ئ) کو آپؓ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ آپ ؓ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا۔۔۔۔"
"قصہ سناتے ہوئے نین کی آنکھیں نم ہوگئی تھی۔۔۔"
"نینا نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے ہیں وہ اپنے رونے کی وجہ جان نہ سکی۔۔۔"
"یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابی ءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔۔۔۔"
"وہ بلال جو ایک دن اذان نہ دے تو خدا تعالی سورج کو طلوع ہونے سے روک دیتا ہے، اس نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔۔۔"
"نین نے آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔"
"بچے مہبوت سے نین کو سن رہے تھے۔۔۔۔"
"میرے قلب کو بھی نصیب ہو تیری ذات کی وہ نصبتیں۔۔"
"جو عظمتیں تھی اویس کی جو رابطے تھے بلال کے۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا تو وہ وہی پیچھے کھڑے مسکرا رہے تھے۔۔۔۔"
"خوش آمدید ماموں جان آپ کب آئے۔۔۔۔؟
"نین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔"
"بس ابھی کچھ دیر پہلے جب تم عاشق رسول کا قصہ سنارہے تھے۔۔۔"
"اسحاق صاحب کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔۔۔"
"آپ چائے پیئے گے۔۔۔؟۔۔۔۔۔نین نے پوچھا۔۔۔"
"نہیں بیٹا ابھی تو نہیں پینی ہوگی میں بنا لوں گا تم فکر نہیں کرو۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔"
"نین نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔"
"تم اپنے شاگردوں کو پڑھاؤ میں اپنی شاگرد کو پڑھاتا ہوں۔۔۔"
"انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"نین بھی مسکرا دیا۔۔۔"
"آجاؤ بیٹا۔۔۔"
"انہوں نے نینا کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا کر کھڑی ہوگئی اور ان کے ساتھ باہر آگئی۔۔۔۔"
"سوری بیٹا مجھے دیر ہوگئی۔۔۔"
"اسحاق صاحب بولے۔۔۔"
"کوئی بات نہیں۔۔۔"
"نینا مسکرا دی۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔اور اسے لے کر لاؤنج میں آگئے۔۔۔"
"انکل آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا۔۔۔۔"
"نینا نے اسحاق صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا جو بوک شیلف سے بوک نکال رہے تھے۔۔۔"
"جی جی پوچھو۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے بنا مڑے جواب دیا۔۔۔"
"انکل محمد کون ہیں۔۔۔میں نے کل آپ کو دیکھا تھا کہ اذان کے وقت جب بھی محمد کا نام آتا آپ اپنے انگھوٹوں کو چوم کر آنکھیں سے لگا رہے تھے۔۔۔۔اور آج نین بھی ان کے بارے میں بچوں کو بتا رہے تھے۔۔۔"
"نینا کی نظریں اسحاق صاحب پر تھی۔۔۔"
"حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے محبوب ہیں۔۔۔اور ان کا نام ادب سے لینا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔۔۔ان کا احترام کرنا اور ان کی سنت پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے۔۔۔جہاں اللہ کا ذکر ہو اور اس کے محبوب کا نہ ہو ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔۔۔۔تو پھر وہ اذان میں اس کا نام اپنے نام ہے ساتھ کیوں نہ شامل کرتا۔۔۔اس نے تو کلمے میں بھی اپنے محبوب کے نام کو شامل کیا ہے۔۔۔اس کے محبوب کا نام لیے بغیر ہماری نماز ادھوری ہے کیونکہ دورد پاک میں ان کا نام ہے۔۔۔۔اللہ کو وہ اتنے عزیر ہیں کہ اللہ نے ان سے ملاقات کے لیے عرش کو سجوایا تھا۔۔۔ساتوں آسمان سجائے گئے تھے۔۔۔اور وقت کو روک دیا تھا۔۔بے شک میرا رب ہر شئے پر قادر ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے مڑ کر مسکرا کر کہا۔۔۔"
"عرش پر۔۔۔۔؟
"نینا حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔"
"جی عرش پر۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب اس کے حیران ہونے پر مسکرائے۔۔۔۔"
"وہ کتنے خوش نصیب تھے نہ اللہ نے ان سے خود ملاقات کی۔۔۔"
"نینا پرجوش ہوکر بولی۔۔۔"
"خوش نصیب تو میں بھی ہوں۔۔۔۔اور عنقریب تم بھی ہو جاؤں گی۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے کتاب کو میز پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی بات پر نینا نے الجھ کر انہیں دیکھا۔۔۔"
"میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں اس کے محبوب کا امتی ہوں۔۔۔۔اس سے بڑھ کر خوش نصیبی ایک مسلمان کے لیے اور کیا ہوگی۔۔۔کہ جس نبی کی وہ امت سے ہے وہ نبی سجدوں میں صرف اپنی امت کے لیے دعا کرتے تھے۔۔۔"
"اسحاق صاحب پرمسرت لہجے میں بولے۔۔۔"
"نینا پل پل حیران ہورہی تھی۔۔۔۔"
"معراج کا قصہ سننا چاہو گی۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے کتاب اٹھاتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔۔۔"
"مطلب۔۔۔؟
"نینا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔۔۔۔"
"اللہ نے جب اپنے محبوب کو عرش پر بلایا تھا وہ قصہ سننا چاہو گی۔۔۔؟
"انہوں نے پوچھا۔۔۔"
"ضرور آپ سنائے گے مجھے۔۔۔؟
"نینا خوشی سے بولی۔۔۔"
"ضرور۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔۔"
Episode 5
واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو چشم زدن میں بظاہر رونما ہوا لیکن حقیقت میں اس میں کتنا وقت لگا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔
 
ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے: اے فرشتو! آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو میری حمدو تقدیس کرنا بند کردو آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل! میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کے لئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کے لئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔۔۔۔
 
کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے۔۔۔۔خلد بریں کی روحوں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کے محلوں کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات (شب معراج) میرے محبوب حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار ہوجاؤ۔
(معارج النبوۃ)
 
چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا۔ حکم ربی ہوا: اے جبرائیل! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔ حکم الہٰی سن کر جبریل امین علیہ السلام سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔
ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں۔ جہاں ماہ نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں۔ آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔
 
حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردیئے۔
یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله.
’’یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلئے زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (معراج النبوۃ)
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
 
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شب معراج حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا۔ چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔
(معارج النبوة، صفحة: 601)
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔
 
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔
(معارج النبوة، ص606)
 
فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔
(بنی اسرائيل،17: 1)
 
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔
 
نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
 
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)

آفتاب نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہورہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کئے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔

 

درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔

 

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا

تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔

اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمد ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔

(درمنشور، جلد6، ص126)
 
اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔
 
اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔
(روح البيان، جلد خامس، صفحة: 221)
 
حضور تاجدار انبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo
(النجم: 6، 7)
’’پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)‘‘۔
(عرفان القرآن)
 
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔
 
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حریم الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
 
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo
(النجم:8، 9)
 
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔
(عرفان القرآن)
 
صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان)
جب حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰی.
(النجم: 10)
 
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
(عرفان القرآن)
 
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر رازو نیاز کی گفتگو ہوئی۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
 
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم: 11)
 
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
 
اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکات الہٰی دیکھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے:
 
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم:17)
Episode 6
 
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
اس آیت کریمہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہٰی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھی۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے:
 
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
(النجم: 18)
 
’’بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
اس آیت مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہوگیا۔
(روح البيان)
 
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها...
’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘۔
(مشکوٰة شريف صفحة: 28)
 
ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے:
رايت ربی بعينی وقلبی
’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔
(مسلم شريف)
 
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قائل ہوں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
 
فخر دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا
 
وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
 
اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہ الہٰی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
 
’’اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا‘‘۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32)
 
اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے اور اس کارخانہ عالم کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کے لئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا، اس کا اندازہ ہم نہیں لگاسکتے۔ اللہ تعالیٰ جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کردیا سوائے اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان چیزوں کے جنہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متحرک پایا۔
 
باقی تمام کائنات کو ٹھہرادیا، چاند اپنی جگہ ٹھہر گیا، سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹھہر گئی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچی تھی وہیں رک گئی، جو سویا تھا سوتا رہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہوگئی۔
 
جب سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر کرکے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الہٰی پھر چلنے لگا۔ ہر شے از سر نو مراحل کو طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی۔
غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں۔ بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی۔ حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔
(روح البيان، جلد5، صفحه، 125)
 
حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔
 
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرہ کو سن کر کفارو مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل بولا، کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔
 
انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتایئے! اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یکا یک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس واقعہ کو سچا نہ مانا۔
 
جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہوکر کہنے لگے مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتایئے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک قافلہ مقام روحاء پر گزرا، ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا۔ وہ لوگ اسے تلاش کررہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کرکے پالان کی طرف واپس آئے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا نہیں؟
 
انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں فلاں قافلے پر بھی گزرا۔ دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔
(تفسير مظهری)
 
"اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی مگر ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تو نے سنا کہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے
 
اگر میرے آقا(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکر تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو؟ اس عاسق صادق نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں۔ (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا۔۔۔۔۔"
Episode 7
 
"اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر اسے سارا قصہ سنا رہے تھے۔۔۔اور نینا بغور انہیں سن رہی تھی۔۔۔۔ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ سچا ہے اس بات کی گواہی اس کا دل دے رہا تھا۔۔۔۔"
 
"کتنا حسین ہوگا نہ وہ منظر۔۔۔۔"
"نینا آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔"
"بے حد حسین۔۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب مسکرائے۔۔۔۔"
"اللہ نے ان کے علاوہ کبھی کسی سے ملاقات نہیں کی۔۔۔؟
"نینا نے پوچھا۔۔۔"
 
"اللہ نے اپنے محبوب سے عرش پر ملاقات کی اور محبوب کو تحفے میں نماز دی تاکہ محبوب کا ہر امتی اس سے ملاقات کرسکے محبوب کی عرش پر ملاقات ہوئی تو ان کی امت کی فرش پر۔۔۔۔نماز اللہ پاک سے ملاقات کا واحد ذریعہ ہے۔۔۔۔۔ نماز کے وقت ہم اللہ کے بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔۔۔جب کوئی فقیر کسی نیک بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور کچھ مانگتا ہے تو بادشاہ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا یہ تو دنیا کا بادشاہ تھا۔۔۔۔جسے اللہ نے یہ مقام دیا لیکن سوچو جو پوری کائنات کا بادشاہ ہے جس بادشاہ نے سب کچھ بنایا ہے تم اس کے دربار میں حاضر ہوگے تو کیا وہ تمہیں خالی ہاتھ لوٹائے گا
 
وہ بادشاہ جس کے لیے سب مکمن ہے جو ہر شئے پر قادر ہے۔۔۔جو ہم سے بہتر ہمیں جانتا ہے پھر بھی ہماری سنتا ہے۔۔۔۔ہم کتنے ہی گناہ کرکے اس کی دربار میں جا کر کچھ مانگے دل سے مانگے تو وہ ہمیں سب دے دیتا ہے کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے اس نے کہا ہے کہ مانگو مجھ سے میں تمہیں دونگا۔۔۔۔ تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔"
 
"میرا اللہ بہت رحیم ہے پہاڑوں جتنے گناہ کرکے بھی تم اس کے پاس جاکر دو آنسو سچے دل سے بہا کر توبہ کروگے نا وہ معاف کردے گا۔۔۔وہ معاف کردے گا۔۔۔کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے۔۔۔۔۔وہ واحد ہے جو ہم گناہگاروں کے بھی لاڈ اٹھاتا ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔۔۔۔"
"نینا کے دل کی کیفیت عجیب ہونے لگی تھی آنسو راونی سے بہنے لگے۔۔۔۔دل موم ہونے لگا۔۔۔۔"
"نین کمرے سے نکلا تو نینا کو روتے دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔۔۔۔"
"م۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔۔اااذان بھی ہونے والی ہے۔۔۔۔۔"
"نینا آنکھوں کے کنارے صاف کرتی ہوئی اٹھی۔۔۔۔"
"نینا کا دل کیا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلی جائے ابھی کہ جہاں کوئی نہ ہو۔۔۔۔وہ اپنے دل کی کیفیت کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔خود کو اور دل کو سمجھانے کے لیے ابھی اسے کچھ وقت درکار تھا۔۔۔"
 
"اللہ کے امان میں جاؤ۔۔۔۔"
 
"اسحاق صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔"
"نینا آنسو پیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔"
"یہ رو کیوں رہی تھی۔۔۔۔؟
"نینا کے جاتے ہی نین اسحاق صاحب کے قریب آیا۔۔۔"
 
"دل کی سیاہی آنسوؤں سے ہی مٹتی ہے۔۔۔اور اللہ اس کے دل سے سیاہی مٹا رہا ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے اٹھتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔"
 
"نین ان کی بات سن کر کچھ پل کے لیے تو حیران رہ گیا لیکن اگلے ہی پل اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔۔۔پھر اس نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر نینا کے لیے دعا کی۔۔۔۔"
 
کمرے میں داخل ہوتے ہی نینا کی نظر اپنی بنائی ہوئی تصویریں پر پڑی تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔۔۔۔"
"نینا نے جیکیٹ کی پوکیٹ سے موبائل نکال کر بیڈ پر پھینکا اور کمرے کا دروازہ بند کرکے واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔"
"نینا شاور لے کر باہر آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔"
"تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔"
"میرا اللہ بہت رحیم ہے پہاڑوں جتنے گناہ کرکے بھی تم اس کے پاس جاکر دو آنسو سچے دل سے بہا کر توبہ کروگے نا وہ معاف کردے گا۔۔۔وہ معاف کردے گا۔۔۔کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے۔۔۔۔۔وہ واحد ہے جو ہم گناہگاروں کے بھی لاڈ اٹھاتا ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی باتیں مسسلسل اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔۔۔۔"
"جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا نا میں سمجھ گیا تھا۔۔۔کہ تمہیں بھی اللہ نے چن لیا ہے۔۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا کہ اللہ جنہیں اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ لوگ نایاب ہوتے ہیں۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔"
کیا واقع اللہ نے مجھے چن لیا ہے۔۔۔۔؟
"نینا خود سے سوال کرنے لگی۔۔۔
"کیا واقع اللہ ہے۔۔۔۔؟۔۔۔۔کیا واقع واحد ہے۔۔۔۔؟؟
"نینا الجھن کا شکار تھی۔۔۔"
"اپنے دل میں جھانکو۔۔۔"
"وہ تمہارے اندر ہے۔۔۔۔"
"اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کی باتیں اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔۔"
"نینا نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اس کا دل اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ وہ ہے وہ ہے اور واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ اس کے دل میں ہے وہ ایک احساس ہے ایک خوبصورت احساس۔۔۔۔"
"نینا کی آنکھوں سے آنسوں تیزی سے بہنے لگے۔۔۔۔وہ اپنے رونے کی وجہ نہیں جانتی تھی آج کل وہ بے مقصد رونے لگتی تھی۔۔۔۔وہ لڑکی جو کبھی نہیں روتی تھی۔۔۔۔"
"ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں پوجا کا خیال آتے ہی اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔"
 
"اگلے دن نینا اسحاق صاحب کے گھر جارہی تھی جب اسے راستے میں ایلا نظر آئی۔۔۔۔ایلا کو دیکھ کر اس کے ذہن میں کئی سوال اٹھے تھے۔۔۔۔خیر وہ سر جھٹکتی ہوئی اسحاق صاحب کے گھر کے لیے نکل گئی۔۔۔۔"
"نینا نے گھر کے باہر پہنچ کر بیل بجائی۔۔۔۔"
"مرحبا۔۔۔۔
"نین نے دروازہ کھولتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔۔"
"مرحبا۔۔۔۔
"نینا نے بھی جواباً مسکرا کر کہا۔۔۔"
"نین نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔۔"
"انکل کہاں ہیں۔۔۔۔؟
"نینا اندر آتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔۔"
"وہ اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔"
"نین دروازہ بند کرتا ہوا بولا۔۔۔۔"
"اچھا۔۔۔۔"
"نینا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔"
"آئیں میں آپ کو ان کے پاس لے کر چلتا ہوں۔۔۔۔"
"نین نے اسحاق صاحب کے کمرے کی جانب قدم بڑھا دیے۔۔۔"
"نینا اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔۔"
"کیا ہوا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا۔۔۔؟
"نینا نے اسحاق صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔۔۔۔"
"کچھ نہیں بیٹا بس عمر کا تقاضہ ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔"
"آپ ایک بار ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لیں۔۔۔"
"نینا فکرمند ہوئی۔۔۔۔"
"بیٹا بیماری تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور بیماری بھی انسان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونہ جب انسان بیمار پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہی ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑ جاتے ہیں۔۔۔ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے نا تو اسے جو تکلیف محسوس ہوتی ہے نا اس کے بدلے میں اللہ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔۔۔بے شک وہ واحد ہے جو سب کو معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔۔۔۔"
 
"اسحاق صاحب کے چہرے پر ابھی بھی ایک اطمینان تھا۔۔ ایک سکون تھا۔۔۔جو بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا۔۔۔۔"
"نینا ان کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر حیران ہورہی تھی۔۔۔۔اس کے ذہن میں یہی سوال بار بار آرہا تھا کہ واقع آج بھی ایسے لوگ ہیں دنیا میں جو اپنے رب کی رضا میں راضی ہیں۔۔۔۔"
"آپ کو کچھ چاہیے۔۔۔؟
"نین نے پوچھا۔۔۔"
"نہیں بیٹا بچے آگئے ہوگے تم جاؤ میں ٹھیک ہوں پریشان مت ہو۔۔۔"
"انہوں نے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔۔۔"
"نین اثبات میں سر ہلاتا ہوا باہر چلا گیا۔۔۔"
"تمہیں میں ایک قصہ سناتا ہوں حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش کا۔۔۔۔یہ سننے کے بعد تم کہو گی کہ میری آزمائش تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔"
"اسحاق نے مسکراتے ہوئے کہا تو نینا اپنی تمام توجہ ان کی طرف مرکوز کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔"
"حضرت ایوب علیہ السلام انبیاء کی جماعت میں سے وہ ہستی ہیں کہ اللہ نے صبر کے معاملے میں بطور خاص ذکر فرمایا ہے لوگوں کے لیے ایک مثال اور نمونہ ٹھہرایا ہے۔۔۔۔"
"حضرت ایوب ؑ اسرائیلی نہ تھے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں سے تھے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے:
 
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 84؀ۙ
 
"اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔"
 
"آپ ؑ کا قیام سر زمین عوص میں تھا جو عرب کے شمال ومغرب میں ار فلسطین کی مشرقی سرحد سے متصل ہے ۔۔۔۔"
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣؀ۚ
 
(اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس اسی طرح وحی بھیجی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کے پاس بھیجی تھی، اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کے پاس، اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔ (سورۃ النساء 163)
 
"اللہ تعالیٰ نے ان سب انبیاء کی طرف وحی بھیجی حضرت ایوب علیہ السلام بھی ان رسولوں میں سے ایک ہیں۔ اللہ نے آپ ؑ کو قوم حوران کی طرف مبعوث فرمایا یہ قوم ملک شام میں رہائش پذیر تھی ۔ آپؑ بہت زیادہ مالدار تھے اللہ نے آپ کو بہت زیادہ نعمتوں سے نوازاتھا۔ آپ علیہ السلام کے پاس بے شمار مویشی۔لاتعداد ، نوکر چاکر اورزرعی زمینیں تھیں۔۔۔۔ آپ ؑ تاجر بھی تھے۔ تجارت کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اللہ نے آپ کو کثیر اولاد عطا فرمائی۔ آپ ؑ خود بھی سحت مند اور طاقتور تھے۔ اصحاب کی تعداد بھی کافی تھی ۔آپ ؑ کے صحیفے “سفر ایوب ” میں ہے :
 
” آپ علیہ السلام امیر کبیر اور بڑے صاحب ثروت تھے عہد عتیق میں ہے عوص کی سر زمین میں ایوب نامی ایک شخص تھا اور وہ شخص کامل اور صادق تھا اور خدا سے ڈرنا اور بری سے دور رہتاتھا۔ا س کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں اس کے مال میں سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سوجوڑے بیل اور پانچ سو گدھیاں تھیں اور اس کے نوکر چاکر بہت تھے ایسا کہ اہل مشرق میں ایسا مالدار کوئی نہ تھا۔” ( ایوب : 1۔2۔10)
 
"حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش:۔
 
"اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمانا چاہا تاکہ بعدمیں آنے والوں کے لیے آپ علیہ السلام صبر کی مثال بن جائیں۔۔۔۔۔آخر آزمائش کا مرحلہ شروع ہوا۔۔۔۔۔آپ علیہ السلام کا سب مال ومتاع چھین گیا۔ تمام اولاد اللہ پیاری ہوگئی تمام مال مویشی پلاک ہوگئے آپ ؑ شدید مرض میں مبتلا ہوگئے بیماری اس قدر شدید تھی کہ آپ ؑ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے آپ کی آزمائش انتہاء کو پہنچ گئی آپ کے ملنے والے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے صرف آپ کی بیوی خدمت کے لیے رہ گئیں وہ بہت وفادار تھیں ان تمام مصیبتوں مشکلات اور بیماریوں کے باوجود آپ ؑ نہایت صابر وشاکر رہے اوردن رات اللہ کا ذکر کرتے رہے۔۔۔۔"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام تیرہ برس تک مصائب کے امتحان میں مبتلا رہے۔۔۔.
آپ ؑ کا تمام مال ومتاع ختم ہوگیا تو آپ ؑ کی صالح بیوی اجرت پر لوگوں کا کام کر کے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت کرتی رہیں۔۔۔۔"
 
"حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انہیں کوئی سخت بیماری لاحق تھی لیکن وہ کیا بیماری تھی ؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ علیہ السلام کی بیماری سے متعلق بہت سی روایتیں مشہور ہیں کہ آپ علیہ السلام کو ایسی بیماری تھی کہ لوگ آپ ؑ سے گھن کھانے لگے اور آپ ؑ کو کچرے میں بٹھادیا یہ تمام باتیں مستند نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نبیوں میں کوئی عیب یا بیماری پیدا نہیں فرماتے جس سے لوگ دور بھاگے۔۔۔۔"
 
"شیطان آپ علیہ السلام کے صبر سے بہت حسد کرتا تھا بہت کوشش کے باوجود وہ آپ علیہ السلام کے صبر کو نہ تور سکا آخر ایک د وہ آپ ؑ کی بیوی کے پاس انسانی شکل میں آیا حکیم کے روپ میں اور کہا کہ کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارا مردصحت یاب ہوجائے میں اسے شفا دےسکتا ہوں ۔اگر کوئی پوچھے تو اسے کہنا کہ اسے میں ( حکیم ) نے شفا دی ہے ۔ بیوی نے یہ بات حضرت ایوب علیہ السلام کو بتائی ۔ آپ ؑ پریشان ہوگئے کہ شیطان ان کے گھر تک کیسے پہنچ گیا آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور قسم کھائی جب میں صحت یاب ہوجاؤں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی :
 
وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ 41؀ۭ (ص)
 
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو، جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ : شیطان مجھے دکھ اور آزار لگا گیا ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں التجا :۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
 
"آپ ؑ کی بیماری میں تمام ملنے والے آپ ؑ کو چھوڑ گئے سوائے دو ساتھی کے۔۔۔۔"
ایک مرتبہ وہ آپ کے پاس آئے اور ایک نے دوسرے سے کہا: "توجانتا ہے کہ اللہ کی قسم ! شاید ایوب ؑ جیسا گناہ جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔۔۔۔"
ساتھی نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟
تو اس نے کہا : دیکھو اتنے عرصے سے بیماری دور نہیں ہوئی اور اللہ نے رحم کیا اگر ایسی بات نہ ہوئی تو رب اس کی بیماریوں کودور فرمادیتا ۔ یہ بات جب حضرت ایوب علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو آپ ؑ نے اللہ سے دعا کی۔۔۔۔"
 
وَاَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 83؀ښ
 
" اور ایوب کو دیکھو ! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ : مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے، اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔۔۔۔۔"
 
شفا یابی:
اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ ۚ ھٰذَا مُغْتَسلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ 42؀
 
(ہم نے ان سے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مارو، لو ! یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لیے بھی اور پینے کے لیے بھی۔۔۔۔۔"
"حضرت ایوب علیہ السلام کو حک خداوندی ہوا : اپنا پاؤ ں زمین پر مارو ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی ۔ ایک چشمہ جاری ہوگیا جس میں انہوں نے غسل کیا تو جسم کی ظاہری بیماری دور ہوگئی اس کے بعد دوبارہ پاؤں زمین پر مارا دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انہوں نے اس کا پانی پیا تو جسم کے اندر سے مرض دور ہوگیا اورآپ علیہ السلام مکمل صحت یاب ہوگئے ۔ آپ ؑ اللہ کا شکر بجالائے ۔ آپ علیہ السلام کی بیوی اس حالت میں دیکھ کر پہچان نہ سکی جب حقیقت آشکار ہوئی تو اللہ کا شکر بجالائیں۔۔۔۔"
انعامات ربانی :
 
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ 43؀
 
اور (اس طرح) ہم نے انہیں ان کے گھر والے بھی عطا کردیے۔ اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی۔ (٢٢) تاکہ ان پر ہماری رحمت ہو، اور عقل والوں کے لیے ایک یادگار نصیحت۔۔۔۔۔"
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت ایو ب علیہ السلام غسل فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سونے کی چند ٹڈیاں ان پر برسائیں ۔ایوب ؑ نے ان کو دیکھا تو مٹھی بھر کر کپڑے میں رکھنے لگے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑکو پکارا : ایوب ! کیا ہم نے تم کو یہ سب دولت دے کر غنی بنادیا ؟ حضرت ایوب ؑ نے کہا : کیوں نہیں میرے پروردگار مگر تیری برکتوں سے کب کوئی بے پرواہ ہوسکتا ہے ۔ ( بخاری کتاب الانبیاء )
 
حضرت ایوب علیہ السلام نے ہرآزمائش پر صبر کیا اورصرف اللہ سے ثواب کی توقع رکھی تو اللہ نے ان کی تمام پریشانیوں کو دور کردیا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مال ودولت اور اہل وعیال سے نواز دیا۔۔۔۔"
 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :اللہ نے ان کی بیوی کو وفاداری اورصبر کے صلے میں پہلے سے کہیں زیادہ جوانی عطا فرمائی یہاں تک کہ پھر ان سے حضرت ایوب علیہ السلام کے چھبیس لڑکے ہوئے۔۔۔"
 
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ 84؀
 
"پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور انہیں جو تکلیف لاحق تھی، اسے دور کردیا اور ان کو ان کے گھر والے بھی دیے، اور ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ اور بھی تاکہ ہماری طرف سے رحمت کا مظاہرہ ہو، اور عبادت کرنے والوں کو ایک یادگار سبق ملے۔۔۔۔"
قسم کا کفارہ:
 
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْــنَثْ ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ 44؀
 
اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو، اور اس سے مار دو، اور اپنی قسم مت توڑو۔ (٢٣) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندے تھے، واقعہ وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔"
 
",حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں اپنی بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھائی تھی کہ جب صحت یاب ہوجاؤں گا تو بیوی کو سو کوڑے ماروں گا ۔ جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو صھے یابی عطا فرمائی تو آپ ؑ پریشان ہوئے کہ اتنی وفا شعار بیوی کی وفاداری کا یہ صلہ دینا مناسب نہیں ہے ۔ تب اللہ نے ان کے لیے آسانی کا راستہ کھول دیا اور قسم پورا کرنے کے لیے یہ ترکیب بتائی کہ ایک کھجور کا خوشہ لے لو جس میں سو شاخیں ہوں اور تمام کو اکھٹا مارو تویہ کوڑوں کا بدل ہوجائے گا ۔ اورقسم پوری ہوجائے گی۔۔۔"
( قصص الانبیاء ص 415)
 
"بیٹا ضروری نہیں ہے یہ کہ اگر کوئی شخص بیماری میں مبتلا ہے تو وہ گناہگار ہے بیماری اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے۔۔۔۔وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے طرح طرح کے طریقوں سے وہ اپنے بندے کا صبر دیکھنا چاہتا ہے اس کا اس پر توکل دیکھنا چاہتا ہے حضرت ایوب علیہ السلام جب بیماری میں مبتلا ہوئے تو لوگوں نے ان سے ملنا چھوڑ دیا اور طرح طرح کی باتیں بنائی لیکن وہ صبر کرتے رہے۔۔۔۔اور ان کا صبر دنیا والوں کے سامنے ایک مثال بن گیا۔۔۔ ایک بار جب آپ کی بیوی کو خدمت کرتے طویل زمانہ گزر گیا، تو ایک مرتبہ حضرت ایّوبؑ سے کہا’’ اگر آپؑ اپنے پروردگار سے دُعا کریں،
 
تو وہ آپؑ کو ان مصائب سے رہائی عطا فرمائے گا‘‘، اس پر آپؑ نے حیرت انگیز جواب دیا کہ’’ مَیں ستّر سال تک صحیح سالم رہا، تو کم از کم اللہ کے لیے ستّر سال تو صبر کر لوں۔‘‘ یہ سُن کر بیوی خاموش ہوگئیں اور خدمت جاری رکھی۔۔۔۔۔"
"ایسے ہی اللہ نے اپنے اور انبیاء کرام کو بھی آزمائش میں ڈالا تھا۔۔۔۔مسلمان کے لیے یہ بات فخر کی ہونی چاہیے کہ اس کا رب اسے آزمائش کے قابل سمجھتا ہے۔۔۔۔۔"
"وہ ٹہر ٹہر کر بتا رہے تھے۔۔۔ان کے چہرے پر ایک سکون تھا ایک ایسا سکون جس کی چاہ ہمیشہ سے نینا کو تھی۔۔۔جب بھی وہ اللہ کا یا اس کے کسی نبی کا ذکر کرتے تھے تو کبھی تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں جاتی تھی۔۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کے ذکر میں ایک سکون محسوس کررہے ہیں۔۔۔۔"
"آپ سے ایک پوچھوں۔۔۔۔؟
"نینا نے اجازت چاہی۔۔۔"
"ضرور۔۔۔"
"وہ مسکرائے۔۔۔۔"
"آپ ہمیشہ اتنے پرسکون کیسے رہتے ہیں۔۔۔؟
"نینا حیرت سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔۔"
"یہ تو میرے اللہ کی شان ہے کہ اس نے مجھے پرسکون رکھا ہوا ہے۔۔۔۔مجھے سکونِ قلب جیسی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔۔۔۔یہ سب میرے رب کی شان ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔"
"آپ دعا کریں نا پھر کہ وہ مجھے بھی اس نعمت سے نواز دے۔۔۔
"نینا نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"تم خود دعا کرو اس سے وہ ضرور تمہاری سنے گا۔۔۔"
"اسحاق صاحب نینا کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔"
"وہ میری نہیں سنے گا۔۔۔اسے سننی ہوتی تو بہت پہلے سن چکا ہوتا۔۔۔۔"
"نینا رونے کے قریب تھی۔۔۔۔"
"تم نے کبھی اس سے دعا کی۔۔۔۔؟
"وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔"
"نینا خاموش ہوگئی کیونکہ اس نے تو کبھی یہ دعا ہی نہیں کی تھی کہ اسے سکون میسر ہو۔۔۔۔"
"تم نے کبھی اس سے ہی نہیں دعا کی ہوگی۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا تمہیں کہ وہ اس کی بھی سنتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا۔۔۔۔تو پھر وہ تمہاری کیوں نہیں سنے گا بیٹا وہی تو ہے جس سب کی سنتا ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔"
"نینا خاموش ہوگئی۔۔۔۔۔"
"کیا ہوا۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے اسے خاموش پاکر پوچھا۔۔۔۔"
"کچھ نہیں۔۔۔۔آپ آرام کریں۔۔۔میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔۔"
"نینا کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔"
"اللہ کے امان میں جاؤ۔۔۔۔"
"انہوں نے اسے دعا دی۔۔۔۔۔"
"نینا مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔۔"
Episode 8
"نینا میری جان تمہیں کیا ہوگیا ہے تم ایسی تو نہیں تھی۔۔۔ نہ ہنستی ہو۔۔۔نہ کچھ بولتی ہو۔۔۔خود میں ہی کہیں کھوئی رہتی ہو کیا سوچتی رہتی ہو سارا دن پلیز شئیر کرو مجھ تم مجھ پر بھروسہ کرسکتی ہو۔۔۔۔پریشانی ہے کیا کوئی یا پھر طبعیت ٹھیک نہیں ہے تمہاری کچھ تو بتاؤ پلیز۔۔۔۔۔"
"پوجا نینا کے ہاتھ تھامے پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔"
"تمہارے پاس میرے درد کی دوا ہی نہیں ہے میں تمہیں بتا کر کیا کرونگی۔۔۔۔"
"نینا نے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔"
"کس درد کی بات کررہی ہو۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔کچھ تو بتاؤ ہوسکتا ہے میں تمہارے کام آجاؤں۔۔۔۔"
"پوجا اس کے جواب پر الجھ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔"
"کچھ نہیں۔۔۔۔"
"نینا نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔"
"پوجا تاسف سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"میں تمہیں کیا بتاؤں پوجا کہ میں ہر پل کا اذایت سے گزرتی ہوں۔۔۔تمہارے پاس میرے درد کی دوا نہیں ہے۔۔۔۔"
"نینا چھت کو تکتے ہوئے بولی۔۔۔۔"
"تم نے کبھی اس سے ہی نہیں دعا کی ہوگی۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا تمہیں کہ وہ اس کی بھی سنتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا۔۔۔۔تو پھر وہ تمہاری کیوں نہیں سنے گا بیٹا وہی تو ہے جس سب کی سنتا ہے۔۔۔۔"
"نینا کے کانوں میں اسحاق صاحب کی باتیں گونجنے لگی۔۔۔۔"
"نینا نے گہری سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔"
"یا اللہ مجھے سکونِ قلب عطا فرما۔۔۔۔"
"نینا کے لبوں نے حرکت کی اور بے اختیار آنسو اس کی آنکھوں سے تیزی سے بہنے لگے۔۔۔۔۔"
"مجھے سکونِ قلب عطاء فرما۔۔۔۔۔"
"آنسوؤں نے اور شدت اختیار کرلی۔۔۔"
"سکونِ قلب عطاء فرما۔۔۔۔۔"
"اب کی بار اس کی ہچکیوں بندھ چکی تھی۔۔۔۔۔"
"روتے روتے وہ کب سوئی اسے خبر نہیں ہوئی۔۔۔۔۔"
 
"اگلی صبح نینا کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔۔۔۔"
"گھڑی میں ٹائم دیکھا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھی۔۔۔نینا حیران تھی۔۔۔کہ نہ تو آج اسے کوئی برا خواب آیا تھا اور نہ ہی وہ چونک کر رات کے آخری پہر اٹھ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔"
"تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔"
"ابھی وہ اسی سوچ میں گھم تھی کہ اسحاق صاحب کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔"
"نینا کے لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔۔۔۔۔"
"اس میں اور اللہ میں اب کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔۔۔۔شاید اس نے اللہ کو ڈھونڈ لیا تھا۔۔۔۔لیکن کیا اس کی تلاش یہی پر ختم ہوگئی تھی یا پھر سفر ابھی باقی تھا۔۔۔۔"
"نینا خوشی سے جھومتی ہوئی اٹھی اور کھڑکی کھول کر صبح کی خوبصورتی دیکھنے لگی۔۔۔۔"
"آج سے خوبصورت صبح اسے کوئی نہیں لگی تھی۔۔۔۔"
 
"بابا کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟
"ایلا نے پوچھا۔۔۔۔"
"بہتر ہے پہلے سے۔۔۔۔"
"نین نے سادے سے انداز میں کہا۔۔۔۔"
"ہممم۔۔۔۔
"اس نے گہری سانس لی۔۔۔"
"کیا تم ان سے ملنے نہیں آؤ گی۔۔۔۔؟
"نین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔"
"ہمم آؤنگی۔۔۔۔ٹائم ملا تو۔۔۔۔"
"وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔۔۔"
"ٹائم ملا تو۔۔۔؟
"اس نے تعجب سے پوچھا۔۔۔"
"ہمم۔۔۔۔
"ایلا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔"
"وہ تمہیں کچھ غلط تو نہیں کہتے ایلا۔۔۔۔تم انہیں کیوں نہیں سمجھتی۔۔۔۔؟
"نین دکھ سے پوچھنے لگا۔۔۔"
"مجھے کچھ کام ہے میں جاتی ہوں۔۔۔۔"
"وہ بات بدلتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔"
"نین تاسف سے اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔۔"
 
"یہ آپ کے لیے۔۔۔۔"
"نینا نے تازے پھولوں کا گلدستہ اسحاق صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔۔۔ویسے آج تو بڑی ہی خوش نظر آرہی ہو کیا وجہ ہے اس خوشی کی۔۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے گلدستہ لیتے ہوئے نینا کے چہرے کو دیکھا جہاں خوشی کے کئی رنگ تھے۔۔ "
"جی آج واقع میں بہت خوش ہوں آپ جانتے ہیں آج نہ تو میں نے کوئی برا خواب دیکھا اور نہ ہی میں رات کو چونک کر اٹھی اور جب میری صبح آنکھ کھلی تو اذان ہورہی تھی۔۔۔آپ جانتے ہیں آج کا دن میرے لیے بہت خاص ہے۔۔۔۔۔"
"نینا خوشی سے انہیں بتانے لگی۔۔۔۔"
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔اس کا مطلب اللہ نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا۔۔۔۔کیا اب تم پرسکون ہو۔۔۔؟
"وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔۔۔"
"آپ کو کیسے معلوم ہوا ہے کہ میں نے اللہ سے دعا کی تھی۔۔۔۔کیا اللہ نے یہ بھی آپ کو بتا دیا۔۔۔؟
"وہ کسی معصوم بچے کی طرح سوال کررہی تھی۔۔۔"
"نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہے اللہ نے مجھے نہیں بتایا لیکن بس مجھے ایسا لگا کہ تم نے اللہ سے دعا مانگی۔۔۔"
"اسحاق صاحب اس کی بات سن کر مسکرا دیے۔۔۔۔"
"اچھا۔۔مگر شاید ابھی میری دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ ابھی میں مکمل طور پر پرسکون نہیں ہوں لیکن میں خوش ہوں کیونکہ مجھے وہ برے خواب نہیں آئے کل رات آپ جانتے ہیں میں وہ خواب دیکھ کر کافی ڈر جایا کرتی تھی۔۔۔"
"وہ بچوں کی طرح بتانے لگی۔۔۔"
"ہر دعا کے قبولیت کا ایک وقت مقرر ہے تم اس وقت کا انتظار کرو دعا ضرور قبول ہوگی۔۔۔"
"انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔۔"
"مجھے انتظار رہے گا اس وقت کا۔۔۔۔اور آپ جانتے ہیں میں نے صبح تو کئی بار ہوتے دیکھی ہے لیکن اس صبح میں کچھ خاص تھا۔۔پہلے تو چاروں طرف اندھیرا تھا اور پھر جب سورج طلوع ہونے لگا نا تو وہ آہستہ آہستہ اندھیرے کو مٹاتا جارہا تھا میں ساکت سی کھڑی سب دیکھ رہی تھی اور آپ جانتے ہیں وہ دیکھ کر مجھے خیال آیا۔۔۔۔"
"نینا مسکراتے ہوئے بتانے لگی۔۔۔۔"
"کیا۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے تعجب سے پوچھا۔۔۔"
"وہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ آپ بھی میری زندگی میں سورج کی طرح آئے اور مجھے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔۔۔۔بلکل اسی طرح جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو آسمان سے سارے اندھیروں کو چھاٹ دیتا ہے۔۔۔میں آسمان تو نہیں ہوں لیکن آپ میری زندگی میں سورج کی وہ روشنی ہیں جیسے آپ نور کہتے ہیں۔۔۔میں جانتی ہوں ابھی میں مکمل طور پر روشن نہیں ہوئی ہوں لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ ایک دن مجھے مکمل طور پر ان اندھیروں سے نکال لیں گے۔۔۔۔"
"نینا محبت سے بول رہی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں اسحاق صاحب کے لیے احترام اور محبت تھی۔۔۔۔"
"تم مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کرتی ہو۔۔۔۔؟
"اسحاق صاحب تعجب سے پوچھنے لگے۔۔۔"
"میں نہیں جانتی۔۔۔۔لیکن مجھے لگتا ہے ایسا میرا دل کہتا ہے کہ آپ مجھے اندھیروں سے نکال کر میری منزل تک پہنچا دیں گے۔۔۔۔"
"نینا پرمسرت لہجے میں بولی۔۔۔۔"
"خوش رہو۔۔۔۔۔"
"انہوں نے نینا کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔"
"اوہ میں تو پوچھنا ہی بھول گئی آپ کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔؟
"نینا یاد آنے پر بولی۔۔۔"
"اللہ کا کرم ہے پہلے سے بہتر ہوں۔۔۔۔"
"وہ مسکرانے لگے۔۔۔۔"
"یہ کس نے لکھا ہے۔۔۔۔؟
"نینا نے کمرے کی دیوار پر ایک کیلیگرافی لگی دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔جس پر بڑے بڑے حرفوں میں اللہ لکھا ہوا تھا۔۔۔"
"یہ میری بیٹی ایلا اور اس کی ماں نے لکھا تھا۔۔۔۔۔"
"وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولے تھے جیسے ماضی کی کئی یادیں تازہ ہوگئی ہو۔۔"
"آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟
"نینا نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔"
"ضرور۔۔۔"
"اسحاق صاحب حال میں واپس آتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔"
"ایلا آپ کی بیٹی ہے لیکن آپ سے اتنی الگ کیوں ہے وہ۔۔۔؟
"نینا نے پوچھا۔۔۔۔"
"تم اس سے ملی ہو کیا۔۔۔؟
"انہوں نے الٹا سوال کیا۔۔۔"
"جی میری ملاقات ہوتی رہتی ہے ہم ایک ہی یونی میں ہیں۔۔۔"
"نینا نے بتایا۔۔۔"
"اچھا۔۔۔"
"اسحاق صاحب سر ہلاتے ہوئے بولے۔۔۔"
"آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔"
"نینا نے انہیں دیکھا جو خاموش بیٹھے تھے۔۔۔"
"بیٹا اللہ نے ہر ایک کی شخصیت کو دوسرے سے مختلف رکھا ہے ہر ایک کا نظریہ دوسرے بندے سے الگ ہوتا ہے۔۔۔کوئئ بھی مکمل طور پر کسی کے جیسا نہیں ہوتا۔۔۔"
"اسحاق صاحب نے عادتاً دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔"
 
"لیکن پھر بھی وہ بلکل الگ ہے۔۔۔آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے کہا تھا کہ جانداروں کی تصویر بنانا آپ کے مذہب میں حرام ہے اللہ کو یہ نہیں پسند لیکن ایلا کو میری بنائی ہوئی تصویریں بہت آئی تھیں۔۔۔وہ ان سے بہت متاثر تھی اس کے علاوہ وہ کبھی بھی آپ کی طرح بات نہیں کرتی میں نے ہمیشہ آپ کو اللہ کی بات کرتے سنا ہے۔۔۔اور ایلا کو کبھی نہیں جب کے میرا اور پوجا کا اکثر وقت ایلا کے ساتھ گزرتا ہے۔۔۔۔جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ آپ کی بیٹی ہے تو بہت حیران ہوئی تھی۔۔۔کیونکہ وہ مکمل طور پر آپ سے الگ ہے۔۔۔"
"نینا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔"
 
"وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔۔۔اپنی ماں کے جانے کے بعد ایسی ہوگئی ہے۔۔۔جب اس کی ماں اس دنیا سے گئی تو ایلا زیادہ بڑی نہیں تھی۔۔۔اسے اپنی ماں کے جانے کا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔۔۔اسے لگتا ہے کہ اللہ نے اس کی ماں کو اس سے چھین لیا ہے۔۔۔۔غلطی میری بھی ہے اس میں میں نے سوچا تھا بچی ہے ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ابھی عقل نہیں ہے۔۔لیکن میں غلط تھا۔۔۔اگر میں اس وقت اسے سنبھال لیتا تو بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔۔
۔جب وہ اپنی حدود میں سے نکلنے لگی اللہ کی قائم کردہ حدود سے نکلنے لگی تو میں نے اسے سمجھایا کہ تم غلط کررہی ہو یہ سب اچھا نہیں ہے اللہ نے عورت کو سات پردوں میں بنایا ہے اسے پردے میں رہنے کا کہا ہے۔۔۔سر پر سے دوپٹے کو سرکنے مت دو یہ تمہاری حفاظت کرتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے۔۔۔ لیکن وہ باغی ہوگئی اسے میری باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں اسے میرا ٹوکنا پسند نہیں تھا وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی اور پھر ایک وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔۔
 
"کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ بچے چھوٹے ہوں تب ہی سے انہیں صحیح راستہ دیکھانا چاہیے کیونکہ چھوٹے بچے کسی نرم ٹہنی کے مانند ہوتے ہیں جیسے چاہو انہوں موڑ لو لیکن جب وہی ٹہنی شاخ بن جاتی ہے تو اسے موڑنے کی چاہ میں ہم اسے توڑ بیٹھتے ہیں۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ وہ اللہ کو مانتی نہیں ہے مانتی ہے وہ بھی وہ جانتی ہے وہ ہے۔۔لیکن وہ اس سے بدگمان ہوگئی اس کی بدگمانی نے اسے اللہ سے دور کردیا ہے۔۔۔۔"
 
"تم جانتی ہو میں پہلے ایسا نہیں تھا میں بھی غافل لوگوں میں سے تھا۔۔۔۔مجھے سیدھے راستے پر لانے کے لیے اللہ نے پاکیزہ کو وسیلا بنایا۔۔۔ایلا کی ماں نے میری دنیا بدل دی مجھے اللہ سے ملوا دیا۔۔۔وہ اپنے نام کی طرح پاکیزہ تھی۔۔۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اس جیسی عورت سے نہیں ملا۔۔۔اب بس دعا ہے جیسے تمہارے لیے اللہ نے مجھے وسیلا بنایا ہے ایسے ہی میں چاہتا ہوں کہ اللہ میری بیٹی کے لیے بھی کوئی وسیلا بنا دے ورنہ میں محشر میں پاکیزہ کو کیا جواب دوں گا وہ اسے میرے پاس چھوڑ کر گئی تھی اسے راستہ دیکھانا میرا کام تھا لیکن میری ایک غلطی نے اسے غلط راہ دیکھا دی۔۔۔"
"یہ بتاتے ہوئے اسحاق صاحب کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔۔"
"تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا کہ اللہ کسی کسی کو اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ ہر کسی کو ہدایت نہیں دیتا اب شاید تمہیں میری بات سمجھ آگئی ہوگی کہ میں نے یہ کیوں کہا تھا کیونکہ مثال تمہارے سامنے ہیں ایلا میری بیٹی ہے لیکن پھر بھی اللہ سے دور ہے میں اسے نہیں سمجھا سکا۔۔۔یہ معاملات اللہ کے ہیں اگر وہ چاہے گا تو ضرور وہ بھی براہ راست پر آجائے گی اور مجھے اس دن کا انتظار ہے۔۔۔۔"
"نینا نے انہوں نے دیکھا جو باقی دنوں سے مختلف نظر آرہے تھے۔۔۔۔"