The Beast By Areej Shah is the latest episode-wise novel, Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer. The Beast By Areej Shah Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. The Beast By Areej Shah is a Forced Marriage and rude hero based novel that our society loves to read.
The Beast By Areej Shah is the latest episode-wise novel, Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer. The Best Novel By Areej Shah Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. The Best By areej Shah is a Forced Marriage and rude hero based novel that our society loves to read.
The Beast By Areej Shah
Areej Shah has written many famous Romantic novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.
The Beast Novel By Areej Shah
The Beast By Areej Shah Complete Novel you can Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer. there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download The Beast By Areej Shah pdf to click on the link given below,
The Beast By Areej Shah Pdf
↓ Download link: ↓
If the link doesn’t work then please refresh the page.
The Beast Novel by Areej Shah PDF Ep 1 to Last
Read Online The Beast By Areej Shah
Episode 1 to 5
Episode 6 to 10
Episode 11 to 16
Episode 17to 20
Episode 21 to 25
Episode 26 to 28
Episode 29 to 36
Episode 37 to 44
جاناں جان کولے کر سیدھی ہسپتال آئی تھی اور اس وقت ڈاکٹر اس کے ہاتھ پر پٹی باندھ رہا تھا اس کے چہرے پر درد کے کوئی تاثرات نہیں تھے
جیسے وہ اس تکلیف سے گزر رہا ہی نہ ہو ۔ہاں لیکن یہ بات تو کلیئر ہو چکی تھی کہ اب جاناں ایسی غلطی دوبارہ کبھی نہیں کرے گی
اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ جان کو تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ سکتی ۔جان کو یقین ہوگیا تھا کہ اب وہ کبھی بھی دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گی جو جان کے غصے کو ہوا دے ۔اور نہ ہی جاناں اپنے اور جان کے اس سے کو خراب کرنے کے بارے میں سوچ سکتی تھی۔
ڈاکٹر کے پاس سے ہو کر وہ سیدھے گھر واپس آئے تھے گھر آ کر بھی جان کا موڈ آف تھا شاید وہ اتنی آسانی سے اسے معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اورنہ وہ اس سے بات کر رہا تھا
اس کی نارضگی جاناں کو بے چین کر رہی تھی۔ جاناں نے میز پر کھانا لگاتے ہوئے اسے کھانے کے لئے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا
مجھے بھوک نہیں ہے تم کھا کر سو جاؤاس کے لہجے میں اب بھی غصہ تھا
وہ بے چین سی اس کے پاس آئی تھی ۔ایم سوری جان میں دوبارہ ایسی حکت نہیں کروں گی میں تمہیں بتائے بغیر کبھی بھی کہیں نہیں جاؤں گی ۔پلیز تم میرے ساتھ اس طرح روڈ لی بہیوومت کرو مجھ سے تمہارا یہ رویہ برداشت نہیں ہوتا جان
تم مجھ پر غصہ ہو جاؤ ناراضگی دکھاؤ سب کچھ ٹھیک ہے میں سب کچھ سہ لوں گی لیکن اس طرح مجھ سے بات کرنا مت چھوڑو پلیز جان میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ۔پلیز مجھے معاف کردو جان میں دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گی میں تمہیں ہر بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن بابا نے تمہارے بارے میں اتنی عجیب بات کی کہ مجھے ان سے ملنے جانا پڑا وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھانے لگی
جب میں تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتا تو چکا ہوں جاناں تو پھر تم کسی اور سے میرے بارے میں پوچھنے کیوں گئی انہوں نے میرے بارے میں ایک بات کہی اور تم ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہوئے ان کے پاس چلی گئی اگر تمہیں مجھ پر یقین ہوتا تو ایسا کبھی نہیں کرتی
جان مجھے تم پر یقین ہے اور میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی بلکہ میں تو تمہیں تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی
بس ایک بار مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی جان اس کی آنکھوں کی نمی کو دیکھتے ہوئے جان نے ایک ہی لمحے میں اسے تھام کر اپنے سینے میں بھیج لیا تھا
میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جاناں کہ تم آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ کرو ۔کیوں کہ اب اگر تم نے میری اور اپنے رشتے میں اس بے یقینی کو لایا تو میں اپنا ہاتھ نہیں کاٹوں گا بلکہ اپنے آپ کو کاٹ دوں گا اس کے لہجے میں شدت بھی جاناں نے ترپ کر اس کے حصار سے نکلنا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی وہ اس کی باہوں میں صرف قید ہو کر رہ گئی ۔
°°°°°°°°
اس کے بار بار سرنامیں لانے کے باوجود بھی آریان نے نرمی سے اس کے بال بنائے اور پھر پیار سے اسے ناشتہ کرواتے ہوئے ملازمہ کے آ جانے کے بعد ہی اپنے کام پر گیا
جب سے وہ پریگنیٹ ہوئی تھی آریان تو بالکل اس کا سایہ بن گیا تھا
وہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے اکیلے نہیں چھوڑتا تھا ہر وقت اس کے آس پاس رہتا اس کا خیال رکھتا اور اس نے ملازمہ بھی بالکل اپنے جیسی ہی ڈھونڈتی تھی
وہ بھی کسی ربورٹ کی طرح اس کے سر پر سوار رہتی ایک لمحے کے لیے بھی اسی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی ۔آریان کے آتے ہی اس کی شکایت تو کا لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا
اور وہ ملازمہ کی اشاروں ہی اشاروں میں اسے اتنی شکایت لگاتی لیکن آریان صرف مسکراتا رہتا یہ بھی الگ بات تھی جب سے وہ پریگنیٹ ہوئی تھی اور آریان کو اس کا ہر انداز اچھا لگتا تھا
اس کے اشارہ کرنا اپنی بات سمجھانا آریان کو سب کچھ الگ سا لگنے لگا تھا
اس کے چہرے پر آئی ممتا کی رونق آریان کو حد سے زیادہ محسوس ہونے لگی تھی ایک وقت تھا جب وہ سوچتا تھا کہ ایک دن ہوگا اس کی بھی فیملی ہوگی بیوی ہوگی بچے ہوں گے اور اب جب سے پتہ چلا تھا کہ اریشفہ پریگنٹ ہے اس کے تو پاوں جیسے زمین پر نہیں ٹھہر رہے تھے ۔اس کا خواب سچ ہو رہا تھا اس کی خواہش پوری ہونے لگی تھی
وہ اپنے آنے والے بچے کو لے کر بہت زیادہ ایکسائٹڈ تھا جسے ابھی آنے میں آٹھ ماہ باقی تھے ۔ایسے میں اگر وہ سب سے زیادہ کوئی کام کر رہا تھا تو وہ تھا ار یشفا کا خیال رکھنا وہ ا سے زمین پر پیر اتارنے کی بھی اجازت نہیں دیتا تھا ۔
اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر لمحے اس کے ساتھ رہے اس کے ایک ایک موومنٹ کو انجوائے کرے لیکن یہ بھی اس کی مجبوری تھی کہ کام بھی بہت ضروری تھا
جس کی وجہ سے اسے اپنی ارشی سے دور جانا پڑتا لیکن زیادہ دیر کے لئے نہیں صبح نو بجے وہ اپنے کام پر جاتا تو شام پانچ بجے تک وہ کسی بھی حالت میں گھر واپس آ جاتا تھا اور پھر اس کے جانے کے بعد ہی ملازمہ اپنے گھر جاتی تھی۔
جس کی وجہ سے ان کی راہ میں بیٹھے دشمن ان پر حملہ آور نہیں ہو پا رہے تھے وہ کتنے دنوں سے ان کے گھر کے باہر پہرا دے رہا تھا
لیکن اس کے ہاتھ ایسا کوئی وقت نہیں آیا جس میں وہ انسپیکٹر آریان کی کمزوری کا فائدہ اٹھا سکے وہ کسی بھی طرح اس لڑکی تک پہنچنا چاہتے تھے
اور پھر انسپکٹر آریان نے وہیں کرنا تھا جو وہ کہتے وہ آریان کو اپنے ہاتھ کی کتھ پتلی بنا کر استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس یہ اتنا آسان ثابت نہیں تھا جتنا وہ لوگ سمجھ رہے تھے آریان ان کے لئے ایک بہت مشکل ٹاکس تھا
۔اس نے اپنی کمزوری کو سامنے ضرور رکھا تھا لیکن اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
اس کا باس بھی اب اس سے تنگ آ چکا تھا آئے دن اس سے اپنی بےعزتی کروا کر وہ غصے کی حالت میں یہاں آتا کہ آج کسی بھی طرح ان کے گھر میں گھس کر ان کی بیوی کو کڈنیپ کر لے گا لیکن ہر روز اس کے ہاتھوں میں سوائے ناکامی کے کچھ نہیں آرہا تھا
°°°°°°°°
بیسٹ کی بھیجی ہوئی لسٹ دن بدن چھوٹی ہوتی چلی جا رہی تھی
اب صرف سولہ لوگ باقی تھے جو بیسٹ کے ہاتھوں موت کا شکار ہونے جا رہے تھے ۔
بیسٹ نے بہت جلد ان تک پہنچ کر ان کا کام بھی تمام کر دینا تھا
اور یہ لوگ کون تھے کہاں تھے کیا کرتے تھے اور بیسٹ سے ان کا کیا واسطہ تھا اس سب کے بارے میں وہ لوگ کچھ نہیں جانتے تھے
بیسٹ کب کہاں کیسے مارنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور یہ سب ان کے لئے سوائے ایک سوالیہ نشان کے اور کچھ نہیں تھا ۔
دن بدن یہ کیس مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا تھا ۔بیسٹ ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا ابھی تک وہ لوگ صر بیسٹ کے صرف نام سے ہی واقف تھے کسی نے بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا عائشہ کے شک کی بنا پر انہیں بھی جان پر کچھ حد تک شک ہوا تھا
لیکن جان پر کچھ وقت تک نظر رکھنے کے بعد انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ایک عام سی سپورٹ کمپنی میں کام کرتا ہے
جہاں اس کا ایک پارٹنر ہے اور ان کا کام پورٹس کی اشیاء کو ایک ملک سے دوسرے ملک ٹرانسفر کرنا ہے
اور اب وہ جان کو اس کے حال پر چھوڑ کر ایک بار پھر سے بیسٹ کیس میں مصروف ہو چکے تھے ائے دن کہیں نہ کہیں سے بدترین موت کی خبر ملتی رہتی
بیسٹ کہاں تھا کس شہر میں تھا ان لوگوں کی سمجھ سے باہر تھا ۔
اور جن لوگوں کا نام لیسٹ مِیں آ رہا تھا ان کے تو نام سے بھی وہ واقف نہیں تھے انہیں ڈھونڈتے کیسے ان سے ملتے کیسے اور وقت رہتے ان کی جان بچاتے کیسے یہ انسپکٹر آریان کی زندگی کا سب سے مشکل کیس تھاآپ جیسے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ سلجھانے میں نہ کامیاب رہا تھا
°°°°°°°°
عائشہ نے ایک سٹور میں قدم رکھا تو سامنے وال پر اسے سوری بڑے بڑے الفاظ میں لکھا دیکھائی دیا ۔وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سامان خریدنے آگے بڑھی تو سامنے پیکٹ پر بھی سوری لکھا نظر آیا
ایسے ہی سوری کے کارڈ اسے کچھ دن سے موصول ہورہے تھے جسے وہ سرے سے نظر انداز کیے ہوئے تھی ۔وہ آگے بھرنے لگی ہر چیز کو نظر انداز کئے وہ اپنے آپ کو پتھر دل ثابت کر رہی تھی لیکن اسٹور کے باہر شیشے سےے وہ اسے دیکھتے ہوئے صرف مسکرا رہا تھا یہ لڑکی اپنا ناک اونچا دکھانے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی
وہ اپنا سامان خرید کر سٹور سے باہر نکلی تو سامنے ہی بینر پر اسے بہت بڑا بڑا سوری لکھا نظر آیا اس کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ کھلی تھی جسے وہ اگلے ہی لمحے چھپاتی تیزی سے آگے بڑھ گئی
جب ایک بچہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور بنا کچھ بولے ایک پھول اس کی طرف بڑھایا پھول پر ایک چھوٹی سی چٹ تھی جس پر سوری لکھا ہوا تھا ۔اس نے آگے پیچھے ہر طرف دیکھا لیکن طہ اسے کہیں نظر نہیں آیا اگلے ہی لمحے اس نے غصے سے پھول کو دیکھا اور پھر اسے تروڑ مروڑ کے وہیں زمین پر پھینک دی آگے بڑھ گئی
اس کی حرکت پر بچے نے منہ بسور کر اسٹور کے اوپر کی طرف دیکھا جو بچے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا لیکن شاید بچے کو آنٹی کی حرکت پسند نہیں آئی تھی اسی لیے پیر پٹکتا وہاں سے بھاگ نکلا ۔
ابھی تھوڑی ہی آگے بھری تھی جب اسے دو موٹرسائیکل کے بیج میں ایک بڑا سا کپڑا نظر آیا اس نے غور سے پڑھنا چاہا تو اس سفید کپڑے پر بڑا بڑا سوری لکھا ہوا تھا اور دونوں موٹر سائیکل سوار نے اس کپڑے کے سروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا ۔
وہ نفی میں سر ہلاتی اپنا رستہ ہی بدل گئی ۔
تو یہ تہہ ہے عائشہ خان کے تم مجھے معاف نہیں کرنے والی اور یہ بھی تہہ ہے کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرتی میں تم سے ایسے ہی معافی مانگتا رہونگا وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گیا
کیونکہ اب عائشہ کو مزید تنگ کرنے کا ارادہ وہ کل پر ملتوی کر چکا تھا
°°°°°°°°°°
جان اور جاناں میں سب کچھ نارمل ہو چکا تھا جو بھی ہوا جان ا سے ایک بلا وقت سمجھ کر چکا تھا اس کے بعد جان نے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا ۔
اب اس نے صاف الفاظ میں کہا تھا تمہیں جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کرو جو بھی پوچھنا ہے مجھ سے پوچھو تمہارے دل میں جو بھی سوال ہے تم مجھ سے کرو گی میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھنا تو میں اپنے بارے میں سب کچھ میں خود بتاؤں گا اور اس کے بعد سے لے کر جاناں ہر بات اسی سے کر رہی تھی اس کے دماغ میں جو بھی بات ہوتی وہ سیدھی اسی سے کرتی تھی تاکہ ان دونوں کا رشتہ خراب نہ ہو
اور ایسا ہی ہوا تھا اس کے ہر سوال کا جواب وہ بہت محبت سے دیتا جس میں کوئی جھوٹ کوئی دکھاوا کوئی فریب نہ ہوتا وہیں سے سب کچھ سچ بتاتا تھا
جان تمہارے پاس میری ماما کی کوئی تصویر ہے دو دن پہلے اس نے جاناں کو بتایا تھا نہ صرف جاناں کی ماں جان کی سگی پھوپو ہیں بلکہ اس کی ماں کے ساتھ بھی جان کا ایسا ہی تعلق ہے ۔جاناں نےکبھی اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا اسی لئے سوچا کہ ہو سکتا ہے جان کے پاس ان کی کوئی تصویر ہو
یہاں پر تو نہیں ہے ہاں مگر پاکستان والے گھر پہ ہے میں جلد ہی پاکستان جانے والا ہوں آتے ہوئے تمہارے لیے تمہاری ماں کی تصویر لے آؤں گا وہ اس کا سر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے محبت سے کہنے لگا ۔
اچھا لیکن پھوپھو کی تصویر تو ہوگی نہ تمہارے پاس مجھے دیکھنا ہے جان وہ کیسی دیکھتی تھی ۔جان میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمہاری شکل ان سے ملتی ہے یا ماموں جان سے پلیز مجھے دکھاؤ نا ان کی تصویر وہ بچوں سےانداز میں بولی
نہیں میرے پاس میری ماں کی کوئی تصویر نہیں ہے اس کا لہجہ بہت روکھا تھا
ارے ایسی کوئی تصویر نہیں ہے تمہارے پاس تمہاری ماں کی کوئی تصویر تو ہونی چاہیے نہ جان میرے پاس نہیں ہے کیونکہ میں اپنے ماں کی کبھی پاس ہی نہیں رہی میں تو بابا سے بھی اتنی دور رہی ہوں
لیکن تم تو اپنے ماں باپ کے پاس تھے نا تو تمہارے پاس ان کی تصویر کیوں نہیں ہے ۔تمہارے پاس میری اتنی ساری تصویر ہیں پھوپھو کی ایک تصویر نہیں ہے تمہارے پاس وہ جیسے بدمزہ ہوئی تھی
ہاں میرے پاس اس عورت کی کوئی تصویر نہیں ہے کیونکہ میں اس عورت کی کوئی بھی تصویر اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتا تھا آج تم نے اس بارے میں بات کی ہے آئندہ اس عورت کو لے کر مجھ سے کوئی بات مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا وہ ایک جھٹکے سے خود سے الگ کرتے ہوئے کمرے میں بند ہوگیا
جاناں کو تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اسے ہوا کیا ہے بھلا اپنی ہی ماں کو کوئی اس طرح سے مخاطب کیسے کر سکتا تھا جان کے لہجے میں اپنی ہی ماں کے لیے اتنی نفرت کیوں تھی جاناں صرف سوچ کر رہ گئی آخر ایسی کونسی وجہ تھی کہ جان اپنی ہی ماں کو لے کر اتنا روڈ ہو رہا تھا کہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا
ایک خبر کے تحت آج آریان کو پتہ چلا تھا کہ بیسٹ کا اگلا شکار کون ہے اور وہاں اسے بچانے کے لئے دوپہر میں ہی نکل چکا تھا
سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے ملازمہ کو فون کر کے کہا تھا مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی تم گھر پر ہی رہنا
اور اریشفہ کو اکیلے بالکل بھی نہیں چھوڑنا
اور ملازمہ نے بھی اسے یقین دلایا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے وہ کہیں نہیں جائے گی ۔تو آریان بھی بے فکر ہو کر اپنے کام پر چلا گیا تھا
لیکن یہ دھیان اریشفہ پر ہی لگا ہوا تھا وہ اس کے دیر سے آنے پر آجکل پریشان ہوجاتی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ پریشان ہو کر اپنی صحت خراب کرے۔
اسی لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کرکے گھر جلدی واپس آ جائے کا لیکن اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کام اتنا زیادہ بھر جائے گا
ایک تو سفر اچھا خاصا لمبا تھا اور یہاں پر ایسا کچھ نہیں تھا جیسا ان لوگوں نے سوچ رکھا تھا
یہ ایک غلط معلامات ثابت ہوئی تھی یہاں نہ تو بیسٹ تھا اور نہ ہی بیسٹ کا کوئی نام و نشان اور نہ ہی اس آدمی کے بارے میں انہیں پتہ چلا تھا
جو بیسٹ کا اگلا شکار ہونے جا رہا تھا بلکہ یہاں تو اس نام کا کوئی شخص کبھی تھا ہی نہیں ان لوگوں نے اس لسٹ میں موجود ہر نام کی مکمل معلومات لیں
لیکن اس علاقے میں ان میں سے کوئی بھی شخص نہیں تھا انہیں مایوسی سے واپسی کی راہ لینی پڑی ۔
بیسٹ کیس پر وہ لوگ کام کر رہے ہیں اس بات کو بہت کم لوگ جانتے تھے اور اس لسٹ کے بارے میں بھی لوگوں کو بہت کم بتایا تھا اس لسٹ میں کتنے نام تھے اور کتنے لوگوں کو اس بارے میں پتا تھا ان کی پرسنل ملامات تھی جو وہ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے تھے
لیکن جس یقین سے اس خبری نے اس شخص کا نام لیا جو ان کی لسٹ میں اگلا نام تھا تو انہیں مجبوراً اس جگہ جانا پڑا
ایک بات تو انہیں کلیئر ہو گئی تھی وہ خبری جو کوئی بھی تھا ان کے بارے میں خاص معلومات رکھتا تھا اور بیسٹ کیس کے ساتھ بھی اس کا گہرا تعلق تھا
ورنہ اتنے یقین سے وہ لسٹ میں موجود اگلا نام کیسے لے سکتا تھا ۔
لیکن اس وقت یہ سب کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا وہ صرف گھر واپس جانا چاہتا تھا اریشفہ کے پاس اس وقت اس کے دل و دماغ میں سوائے اریشفہ کے اور کچھ بھی نہیں تھا.
آج صبح اس کا کام پر آنے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا نہ جانے کیوں آج اس کا دل بے چین سا تھا وہ اریشفہ کو اکیلے چھوڑ کر آنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن ضروری کام کی وجہ سے آنا پڑ گیا اسی لئے وہ جلد سے جلد واپس جانا چاہتا تھا ۔
لیکن اسے احساس تھا کہ اسے واپس پہنچنے میں ابھی بھی تقریبا تین گھنٹے آسانی سے لگ جائیں گے
°°°°°°°°
اریان کو جھوٹی انفارمیشن دے کر وہ شہر سے باہر بھیج چکے تھے
تاکہ اس کی غیر موجودگی میں آسانی سے اپنا کام سرانجام دے سکیں
پوری تیاری کے ساتھ وہ گھر کے اندر چھت کے راستے داخل ہوا سامنے ہی کچن میں ملازمہ کھڑی اسے کام کرتی نظر آئی
جبکہ اریشفہ اپنے کمرے میں تھی وہ دبے پاؤں ملازمہ کے پیچھے آکر ایک رومال پیچھے سے اس کے منہ پے رکھا ایک منٹ وہ پھڑپھڑانے کے بعد اسے دیکھنے کی کوشش کرنے میں نا کامیاب ہوتے زمین پر جا گری اور اگلے ہی لمحے بے ہوش ہوگئی
پہلا کام وہ بہت آسانی سے سر انجام دے چکا تھا اب اسے دوسرے کام کی طرف بھرنا تھا ۔
اریشفہ کو یہاں سے غائب کرنا تھا آہستہ آہستہ بنا آواز بھی یہ سیڑھیاں چڑ رہا تھا وہ اریشفہ کو کسی بھی قسم کی ہوشیاری کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا اس کا انداز بالکل غیر محسوس کرتا تھا
اس نے آواز کیےبنا دروازہ کھولا تو سامنے اریشفہ کو بیڈپر بیٹھے کچھ پڑھتے پایا اریشفہ بھی کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے دروازے پر کھڑے اس انجان شخص کو دیکھ کر بوکھلا گئی اس نے گھبرا کر اٹھنا چاہا لیکن اگلے ہی لمحے وہ شخص اپنے پیچھے سے پستول نکال کر اس پر تان چکا تھا ۔
اریشفہ کے معاملے میں وہ کسی بھی قسم کا رسک لینے کو تیار نہ تھا
وہ یہاں صرف اپنا کام سر انجام دینے آیا تھا یہ لڑکی ان کے لیے بہت اہم تھی بس یہی ایک لڑکی راستہ تھی انسپکٹر آریان سے اپنا کام نکلوانے کے لیے
کوئی بھی ہوشیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ چہرے پر ماکس لگائے پستول اس پرتانے اسے اچھا خاصہ ڈرا چکا تھا وہ آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگا جب جب کہ اریشفہ پیچھے کی طرف قدم اٹھانے لگی
وہیں رک جاؤ بے وقوف لڑکی اگر تم نے کسی بھی قسم کی ہوشیاری کی تو نقصان کی ذمہ دار خودہو گی وہ ے مزید دھمکا رہا تھا
یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ وہ بول نہیں سکتی ہو یہاں آنے سے پہلے تمام ہوم ورک کرکے آیا تھا اور اتنے دنوں سے وہ صرف اور صرف ایک موقع کی تلاش میں تھا اور آج اسے وہ موقع مل چکا تھا
اس نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے رومال اس کے چہرے پر رکھنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی کوئی جارحانہ انداز میں اس کا ہاتھ تھام چکا تھا
اس نے گھبرا کر سامنے کھڑے شخص کی طرف دیکھا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پستول کی مدد سے اسے گولی مارنی چاہیی لیکن اس آدمی نے ایسا نہ ہونے دیا پستول پر زور دینے کی وجہ سے ایک گولی چل کر سامنے لگی وال پر جالگی جس کی وجہ سے اریشفہ کی گھبر آہٹ میں مزید اضافہ ہو چکا تھا لیکن سامنے کھڑا شخص اس کا مسیحا تھا
اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسے کسی کو تو بھیج دیا تھا اس کی حفاظت کے لیے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے کھڑا شخص جسے وہ فرشتہ سمجھ رہی ہیں وہ ایک درندہ ہے
لیکن اس بات کا اندازہ بھی اسی جلد ہی ہو گیا
جب سامنے والے لڑکے نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے مسیحا نے درندے کا روپ دھارتے ہوئے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور اس کے سینے کے آر پار کر دیا ۔اور پھر وہ شخص ر کا نہیں بلکہ اس کاہاتھ پھر چلتا گیا اور اس انسان کا سینہ چھیرتا گیا منظر دیکھ کر اریشفہ نے چیکنا چاہا چلا نا چاہا یہ منظر اس کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا لیکن وہ نہ تو چلاسکتی تھی اور نہ ہی کسی کو پکار سکتی تھی
بس کھلی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔
زمین خون سے لت پت تھی اور وہی کچھ فاصلے پر ایک لاش پڑی تھی اس شخص کی لاش اب وہ شخص بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا ۔
تمہارے شوہر کو میرے بارے میں غلط انفرمیشن دی گئی اور اسے ایک جگہ بلایا گیا جب کہ وہاں تو میرا کوئی کام بھی نہیں تھا
جس سعودزاہد کو لوگ ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو یہ تھا اس نے مرے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
مجھے کہنا نہیں چاہیے لیکن تمہارےشوہر کے پاس اپنا دماغ نہیں ہے کیا جب جانتا ہے کہ اس نے ان لوگوں کا اتنا نقصان کیا ہے اور اب وہ خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے
کوئی نہ کوئی کھیل کھیلیں گے تمہیں اس طرح اکیلے چھوڑ کر کیوں چلا گیا جب کہ وہ جانتا بھی ہے کہ اس شخص کی کمزوری صرف تم ہو اور وہ تمہارا استعمال کر سکتے ہیں
آج میں یہاں نہیں آتا تو تم جانتی ہو کیا کرتا ہے یہ شخص تمہیں کڈنیپ کر لیتا اور پھر انسپکٹر آریابن سے مقصد پورا کرتا
خیر جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا میں یہ سب کچھ تمہارے سامنے نہیں کرنا چاہتا تھا ۔وہ اس کے ڈرے سہمے گھبرآئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بلکل لاپروا سے انداز میں کہہ رہا تھا
جیسے یہاں کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہ ہو
جیسے یہاں کوئی واردات ہوئی ہی نہ ہو
وہ اس لاش کے پاس اس طرح سے بیٹھا تھا جیسے وہ خون نہیں بلکہ پانی ہو اور وہ کوئی لاش نہیں بلکہ کوئی شخص اپنی نیند پوری کر رہا ہو۔
اریشفہ کو اپنی سہیلی کی زندگی پر ترس آنے لگا تھا ڈر سے اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی
کچھ نہیں کہہ سکتی تھی بس وہی دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے کچھ یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ شخص اسے جاتا ہوا نظر آیا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے حواس برقرار نہیں رکھ پائی تھی
°°°°°°
آریان کے اپنے شہر کی حدود میں داخل ہوئے تھے کہ سے فون پر کسی نے بتایا کہ اس کے گھر پر حملہ ہوا ہے اور ایک لاش بھی برآمد ہوئی ہے
جس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے دیکھا تک نہیں جا سکتا
جبکہ اس کی بیوی اور ملازمہ گھرمیں بے ہوش پڑی ملی ہے آریان کو سیدھا ہسپتال میں ہی بلایا گیا تھا وہ پریشان تھا صبح سے وہ جانا بھی نہیں چاہتا تھا اس کا ڈر سہی ثابت ہوا تھا آخر ان لوگوں نے اپنے مقصد کے لئے اس کی بیوی کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی
وہ جانتا تھا کہ اتنی آسانی سے اسے جانے نہیں دیں گے کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور نکالیں گے اپنے غیر قانونی مال کو اس سے نکلوانے کے لیے
بس اگلے ہی ہفتے کو سارا سامان سرکاری سامان میں شفٹ کر دیا جانا تھا اس سے پہلے اس پر حملہ بھی ہوسکتا تھا اس کی کمزوری کو استعمال بھی کیا جاسکتا تھا اسی لیے اسے اریشفہ کا ڈر تھا لیکن وہ اپنا کام چھوڑ نہیں سکتا تھا
یہ اس کی مجبوری تھی لیکن ملازمہ کی موجودگی میں گھر پر کسی کا حملہ کرنا اور پھر اسی کی تلاش ملنا اور پھر لاش کے ساتھ بیسٹ کا ٹگ بھی تھا لاش کے ماتھے پر بڑا بڑا بیسٹ لکھا تھا
سر آپ کی بیوی ہوش میں آئے تو ہم ان سے پوری معلومات حاصل کرتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے بیسٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی غیر موجودگی میں انسپیکٹر راحت اس کیس کو ہینڈل کر رہا تھا
نہیں فی الحال نہیں اس کی طبیعت بہت خراب ہے میں خود اس سے معلومات لے لوں گا کسی اور کو اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے
وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ چشم دید گواہ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کے لئے اس طرح کی کوئی بھی انکوائری برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
سر ٹرسٹ می میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کی وائف ہیں میں بہت احتیاط سے کیس کو ہینڈل کروں گا آپ مجھے میرا کام کرنے دیں اس نے سمجھانا چاہا
میں نے تمہیں جتنا کہا ہے راحت تم اتنا کرو یہ میرا کام ہے میں اسے دیکھ لوں گا
اس نے غصے سے کہا تھا
لیکن راحت کی دی گئی اگلی انفارمیشن اسے پریشان کر گئی تھی
سر لیسٹ میں اگلا نام سعود زاہد تھا اور اتفاق سے اس شخص کا نام بھی سعود زاہد ہء اور اس کا اس گینگ سے گہرا تعلق ہے جن کا پہلا قتل ہوا ہے اس نے تفصیل بتائی
سر یہ سب ان لوگوں نے پلان کیا تھا یہ لوگ آپ کے گھر پر حملہ کرنے کے لیے پوری پلاننگ کر چکے تھے اسی لیے پہلے آپ کو ایک جھوٹی خبر دی گئی تھی
جس کی وجہ سے آپ شہر سے دور چلے گئے اور پیچھے آپ کی وائف کو کڈنیپ کرنے کی کوشش کی اور بیسٹ نے آکر اپنا کام کر دیا آج تو آپ کو بیسٹ کا احسان مند ہونا چاہیے جس نے آپ کی بیوی کی جان بچائی ہے ور نہ نجانے کیا ہوتا ہے
اور یہ سچ ہی تو تھا کہ آج اسے واقعہ ہی بیسٹ کا احسان مند ہونا چاہیے ورنہ وہ اپنی بیوی کو کیسے بچاتا وہ لوگ پوری پلاننگ کے ساتھ اسے شہر سے باہر بھیج چکے تھے آج بیسٹ نے اس کے بچے اور بیوی کی جان بچائی تھی اور یہ احسان کوئی چھوٹا سا احسان نہیں تھا اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ احسان چکاتا
°°°°°°°°
اسے ہوش آیا تب بھی وہ بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی
اورآریان اس کے پاس ہی تھا اسے ہوش میں آتا دیکھ کر فوراً اس کے قریب آیا اور اس کا نازک سا وجود تھام کر اپنی باہوں میں بھیج لیا
ارشی میری جان گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں آگیا ہوں سب ٹھیک ہے
میں ہوں تمہارے پاس ایم سوری مجھے تو میں اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا یہ سب کچھ میری لاپروائی کا نتیجہ ہے اب میں تمہیں ایک لمحے کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا وہ اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھا
ج کے ارشی اس کے سینے میں اپنا آپ چھپایا یے اس میں چھپ جانا چاہتی تھی جیسے ہر مصیبت سے ہر پریشانی سے دور چلے جانے کا ارادہ ہو جیسے اس منظر کو آنکھوں سے ہٹا دینا چاہتی ہوں لیکن وہ منظر اس کی آنکھوں سے نہیں ہٹا رہا تھا اس کے بیڈروم میں خون پھیلا ہوا تھا فرش پر خون ہی خون تھا اس کے سامنے اس نے کتنی بار اس کے سینے میں چاقو اتارا
اور وہ کوئی غیر نہیں تھا اس کی بیسٹ فرینڈ کا شوہر تھا کچھ دن پہلے کی تو بات تھی جب اس نے کہا تھا کہ اسے خون سے خوف محسوس ہوتا ہے اس کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اور کیسے آج وہ اپنے چاروں طرف خون پھیلائے بیچ میں بیٹھ کر سگریٹ سلگا رہا تھا
اس کی سوچوں کے سارے دھاگے اس وقت جان کے ساتھ بندھے ہوئے تھے جب انسپیکٹر عمران اور انسپکٹر رضی اندر داخل ہوئے
اسلام علیکم بھابی کیسی طبیعت ہے آپ کی عمران نے پہل کی
لیکن اس وقت شاید اس وقت کسی سے نہیں بات کرنا چاہتی تھی وہ اریان کے سینے سے لگی کسی کو کوئی جواب نہیں دے رہی تھی بس خاموشی سے چاروں طرف وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اریشفہ گھبرائی ہوئی ہے
عمران اور رضی نے بھی اس وقت ان دونوں کو اکیلے چھوڑنا بہتر سمجھا اور ان کو خدا حافظ کہتے ہیں باہر چلے گئے ۔
Episode 45 to 53
Episode 54 to Last
وہ نازکت سے چلتا ہوا ایک گھر کے سامنے آیا اور اپنے ہاتھ کو لہراتے ہوئے گھنٹی پر رکھ دیا اور پھر بجاتا ہی چلا گیا
۔اوہ خدایا کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
کیوں اتنی جلدی میں ہو بھئی ۔۔۔۔۔۔۔
آرہی ہوں میں۔۔۔
اندر سے کسی لڑکی کی ترکش میں آواز آئی
اب وہ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے دروازہ کھول چکی تھی
کون ہو تم ۔۔۔!
اور میرے گھر میں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔!
اسے دیکھتے ہی وہ کھٹک گئی شاید اس نے اس طرح کی عورت کبھی نہیں دیکھی ہوگی
۔کتنا وقت لگا دیا دروازہ کھولنے میں میرے تو پیروں میں درد ہو گیا یہاں کھڑے کھڑے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ نازک انداز میں کہتا لڑکی کو دھکا مارتا خود گھر کے اندر داخل ہو گیا
کون ہو تو ۔۔۔۔۔!اور اس طرح سے میرے گھر میں میری ہی اجازت کے بغیر کیسے آ رہی ہو۔۔۔!
نکلو میرے گھر سے تم اس طرح میرے گھر میں نہیں آسکتی۔۔۔
لڑکی تیزی سے کہتی اس کے پیچھے آئی تھی
جب کہ دروازہ بند کرنے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی اور یقیناً یہ بھی نہیں دیکھ پائی تھی کہ جس دروازے کو کھلا چھوڑ آئی ہے وہاں کوئی اور بھی ہے
جو اب گھر کے اندر قدم رکھ کر دروازہ بند کر چکا ہے
دروازہ بند ہونے کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا
کون ہو تم ۔۔۔۔؟
کون ہو تم لوگ ۔۔وہ جان اور اس کی طرف اشارہ کرتی پوچھنے لگی
تمہارے دوست تو ہو نہیں سکتے جان اسی کے انداز میں کہتا چاقو لیے اس کی طرف بڑھا تھا
وہ جلد ہی اس کی حقیقت کو سمجھ چکی تھی
بیسٹ۔۔ تم بیسٹ ہو۔۔۔! اسے یقین تھا کہ بہت جلد اس کی موت اس کے سر پر کھڑی ہوگی
بیسٹ کی لسٹ میں اپنا نام وہ کہیں بار سن چکی تھی
۔صحیح پہچانا۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیرچاقو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا
۔جنت کے قابل تو پتہ نہیں ہو تم کہ نہیں لیکن میں پھر بھی تمہارے لئے دعا کروں گی ہمارا اللہ بہت بے نیاز ہے ہو سکتا ہے بائس سال کی زندگی میں کوئی ایک آدھ نیک کام کیا ہو تم نے ٹائر معصومیت سے کہتا اس کے بالوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ چکا تھا
۔فکر مت کرو ہم پہلے تمہیں موت دیں گے پھر تمہارے سر پر سے وہ چیپ نکالیں گے
ہمیں پتا ہے بہت تکلیف ہوتی ہے
اسی لیے تمہیں زیادہ تکلیف سے نہیں گزاریں گے
جان نے کہتے ہوئے ایک بار پھر سے چاقو اس کے سینے سے آر پار کیا اور بہت جلد زونی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی
ٹائر جلدی سے اس کے بال کاٹ اور بوڈی کے پیس کر کے ضروری اجزا ہوسپٹل میں بھجوا دینا
میں جا رہا ہوں جاناں کے پاس یہ نہ ہو کے انسپکٹر آریان مجھ سے پہلے وہاں پہنچ جائے اس نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا
۔وہ آفسر نکماہے کسی کام کا نہیں پتہ نہیں کس نے اسے پولیس میں بھرتی کر دیا
ہر جگہ دیر سے پہنچتا ہے
ٹائر کی بات پر جان نے بھرپور مردانہ قہقہ لگاتے ہوئے کہا تو ٹائر بھی ہنس دیا اور اس سے وہی چھوڑ کر خود جاناں کو لینے چلا گیا
°°°°°°°°°°
جاناں ابھی بھی پٹرول پمپ کے قریب آریان کا انتظار کرنے لگی
ابھی تک آریان کو آ جانا چاہیے تھا
لیکن نہ جانے کیا وجہ ہوئی کہ وہ ابھی تک نہ پہنچا ۔
بس ایک بار وہ آ جائے وہ ساری حقیقت آریان کو بتا دے گی
پتہ نہیں آریان کو آنے میں کتنا وقت لگے گا فون کیے ہوئے تو ایک گھنٹے سے اوپر کا وقت گزر چکا تھا ۔
جاناں خوفزدہ بھی تھی کہ اب تک جان کو اس کی غیر موجودگی کا پتہ چل چکا ہوگا
اب تک یقین جان اسے ڈھونڈ نے میں لگ چکا ہوگا
اب وہ اتنی آسانی تو اسے جانے نہیں دے گا اور آریان تک تو وہ اسے کبھی بھی پہنچنے نہیں دے گا
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اریان بہت ایماندار آفیسر ہے
۔اور اپنے فرض کے لیے اپنی جان بھی لوٹا سکتا ہے
وہ جان جیسے خطرناک مجرم کو اس طرح نہیں چھوڑے گا
۔اور یقیناً جان بھی یہ بات جانتا ہوگا تبھی وہ اسے آریان سے رابطہ نہیں کرنے دے رہا
۔شاید وہ آریان سے ڈرتا تھا جاناں نے سوچا
لیکن اتنا خطرناک مجرم بلا کہاں کسی سے ڈرتا ہوگا ۔
لیکن جان یہ سب کچھ کیوں کر رہا تھا آخر کیا وجہ تھی۔۔۔۔۔۔؟
کیوں وہ اتنےاچھے انسان سے ایک قاتل بن گیا۔۔۔۔۔؟
اس کے دل و دماغ میں کہیں سوال تھے ۔جو جان سے جاننا چاہتی تھی
لیکن حقیقت بدل نہیں سکتی تھی جان ایک قاتل تھا
وجہ جو بھی ہو جو بھی مجبوری ہو سچ یہی تھا کہ جان اب ایک عام انسان نہیں بلکہ ایک خطرناک ترین قاتل تھا
ایک بیسٹ تھا جس کی تلاش پورے ملک کی پولیس کر رہی تھی
اور اب جاناں اس کی حقیقت کو انسپکٹر آریان کے سامنے رکھ کر اپنا فرض نبھائے گی
۔بس ایک بار انسپکٹر اریان یہاں آ جائے
وہ پٹرول پمپ کے باہر ایک جگہ پر چھپ کر بیٹھی تھی
کیوں کہ آریان نے اسے وہاں سے نکلنے سے منع کیا تھا وہ سامنے نہیں آ سکتی تھی
اسے ڈر تھا کہ جان اس کا پیچھا کرتے کہیں یہاں نہ آ جائے
اسی لیے وہ پیٹرول پمپ کے باہر چھوٹی سی جگہ پر چھپ گئی لیکن اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی آریان نہیں آیا تھا
پتا نہیں اس کا انتظار کب ختم ہوگا
وہ انہی سوچوں میں تھی جب دور سے اسے ایک آدمی آتا نظر آیا
اندھیرے میں آدمی کو پہچاننا تقریباً نا ممکن تھا
اس جگہ کوئی لائٹ کوئی روشنی بالکل نہیں تھی وہ کافی دیر سے پہچانے کی کوشش کرتی رہی
لیکن اس اندھیرے میں اسے پہچاننا ناممکن سا تھا
وہ آدمی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بالکل اس جگہ پر آکر رکا جہاں وہ چھپ کر بیٹھی تھی
اسے لگا کے وہ آریان ہے
وہ بنا کچھ بولے پنجوں پر بیٹھ کر اس چھوٹی سی جگہ میں جھانکنے لگا پھر بولا
۔بہت ہوگئی لکا چھپی اب گھر چلے ڈارلنگ وہ بہت محبت سے بولا
اس کی آواز پہچاننے میں جاناں کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا
وہ بھاگ نہیں سکتی تھی یہ جگہ بہت کم تھی
جان نے اس کا بازو تھاما اور بنا اس کی طرف دیکھے اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا
مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ تم قاتل ہو نفرت ہے مجھے تم سے چھوڑو مجھے وہ مسلسل چلا رہی تھی اپنے ناخوں سے اسے زخمی کررہی تھی لیکن جان تو جیسے آج بہرہ ہو گیا تھا یا بے حس وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر لے گیا اور جاناں چلاتی رہی روتی رہی
- •••••••••
چھوڑ دو مجھے جان
نہیں رہنا مجھے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔
نفرت ہے مجھے تم سے گھٹن ہوتی ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔
کیا لگتا ہے تمیں اس طرح تم مجھے قید کر کے رکھو گے
تو میں چپ کر کے بیٹھ جاؤں گی
ایسا سوچنا بھی نہیں میں بہت جلد تمہیں تمہارے انجام تک پہنچ جاؤں گی
وہ دن دور نہیں جب تم جیل کی چار دیواروں کے پیچھے ہو گئے
میں انسپکٹر اریان کو سب کچھ بتا دوں گی
اتنے گناہ کر کے تم اس طرح آزاد نہیں گھوم سکتے
میں انسپکٹر آریان سے بات کر چکی ہوں
وہ جلد ہی مجھے ڈھونڈتے یہاں تک آ جائیں گے
اور پھر تم بھی اپنے انجام کے لیے تیار رہنا وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولیج
ان اس کی مکمل بات سن کر نرمی سے مسکرا دیا
لیکن اس کی مسکراہٹ جاناں طنزیہ لگی
اس سے پہلے میں تمہیں نہ ختم کردوں جاناں اس کا انداز دھمکیلا تھا
کر دو بے شک کر دو اور میں ایسا ہی کرنا چاہیے
اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم مجھے مار دینے کی دھمکی دوگے اور میں بالکل خاموش ہو جاؤں گی تو اس غلط فہمی کو دور کر لو
میں تم سے نہیں ڈرتی
اور تم جیسے خطرناک مجرم کا مجھے ڈر ہے بھی نہیں
تم جیسے انسان کو تو جینے کا حق نہیں اور یہاں تم آزادی سے گھوم رہے ہو
میں تم سے کی آزادی چھین لوں گی
بہت جلد تمہیں جیل پہنچ جاؤں گی
تم جیسے مجرم کی اصل جگہ وہی ہے جاناں نے بنا ڈرو خوف کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا
اس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی ڈر نہیں تھا اور نہ ہی لہجے میں کسی قسم کی لڑکڑاہٹ
آج اس کی ہمت کی داد دینی پڑے گی
یقیناً یہ ہمت آریان سے بات کرنے کے بعد ہی آئی ہوگی
تقریر اچھی کرتی ہو جان من لیکن اس وقت مجھے بہت نیند آ رہی ہے
صبح کے پانچ بج رہے ہیں اور تمہاری بھاگ دوڑ ختم نہیں ہو رہی
اب آرام سے پڑی رہو جب تک میری نیند پوری نہیں ہوجاتی
میں نے دروازہ بند کر دیا ہے
اور چابی یہ میرے تکیے کے نیچے ہے
وہ چابی کو تکیہ کے نیچے اسے دکھا کر رکھتے ہوئے بولا
تم اس کے آس پاس بھی مت آنا
کیونکہ اگر تم بیڈ کے پاس آئی تو میں اس کا کچھ اور مطلب نکالوں گا
وہ شرارت سے آنکھ دباتا اسےنظر چرانے پر مجبور کر گیا
گھٹیا انسان صرف وصول بکنا آتا ہے اسے وہ غصے سے بڑبڑا تے کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ جان اب آرام سے بیڈ پر لیٹ کر اپنی نیند پوری کرنے کا ارادہ رکھتا تھا
اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ جان اس کے تکیے کے نیچے سے چابی نکالنے کی کوشش ضرور کرے گی
°°°°°°°°°
وہ جس طرح آہستہ آہستہ گیا تھااسی طرح واپس آ چکا تھا
کمرے میں قدم رکھا تو اریشفہ کو نماز میں مصروف پایا
وہ بنا آواز کیے واش روم میں چلا گیا
آرام سے اپنی ساری چیزیں سنبھال کر الماری میں رکھ دی
نیند سے برا حال ہو رہا تھا آج کی رات تو بالکل بھی نہیں سو پایا تھا
ان کا آخری شکار ان کے بالکل قریب تھا اکبر خان ان کی لسٹ کا آخری نام جسے جان نے تڑپا تڑپا کر مارنے کی قسم کھا رکھی تھی
جلد وہ اپنے باپ کے قاتل کو اس کے انجام تک پہنچانے والا تھا
جلد اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد پورا ہونے جارہا تھا
وہ کیس کو بہت کامیابی سے آگے بڑھا رہے تھے
ِبیسٹ کے خلاف جتنے بھی ثبوت ملے تھے آریان نے بہت ہوشیاری سے مٹا دیے تھے
ساڑھے چار سال لگا دیے اس نے پہلے پاکستان سے اپنی پوسٹنگ ترکی لگانے میں یہاں کے لوگوں کا اعتبار جیتنے میں
اور پھر اس نے یہاں ایک گھر بھی لے لیا
شادی اس کی پلاننگ کا حصہ نہیں تھی لیکن اریشفہ اس کی محبت ہی نہیں بلکہ اس کا سکون بن چکی تھی
ڈی ایس پی کی بیٹی سے شادی کر کے وہ یہ سب کام اور بھی کامیابی سے کر سکتا تھا لیکن شاید آئمہ کبھی اریشفہ کی جگہ نہیں آ سکتی تھی
اور ڈی ایس پی سر جیسے نیک انسان کی بیٹی کو دھوکا دینے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا
اس لیے اس نے شادی بھی اسی سے کی جس سے وہ محبت کرتا تھا
اور وہ اپنے اس فیصلے پر بہت خوش بھی تھا اورپر سکون بھی
اریشفہ بھی کے ساتھ بہت خوش تھی
لیکن اسے ایک چیز سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ تائی امی کو واپس کیسے بھیجے
جو ان کی زندگی میں بری طرح سے انٹر فیر کر رہی تھیں
وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں
وہ بچپن میں جیل گیا تھا
اس نے قتل کیا تھا یہ ساری باتیں وہ ڈی ایس پی سر کو بتا چکا تھا
اور اس کے بعد اتنی محنت کر کے وہ پولیس لائن میں آیا تھا
سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ عورت اس کی ذات کو کھولنے میں لگی تھیں
اور فی الحال وہ اپنا کوئی بھی رازاریشفہ پر نہیں کھولنا چاہتا تھا
لیکن پھر بھی اس نے اریشفہ کو اپنے بارے میں سب سچ بتا دیا
کیونکہ جس پاکیزہ رشتے میں وہ لوگ بندے تھے اس میں اس طرح کے راز کوئی اہمیت نہیں رکھتے
اور اریشفہ بھی بہت محبت سے اسے قبول کر چکی تھی
°°°°°°°°°°°°
عائشہ ابھی تک اپنی ضد پر قائم تھی
وہ اب بھی اسی بینچ پر سوتی تھی
طہٰ کو غصہ تو بہت آتا تھا لیکن اس معاملے میں وہ بے بس تھا
اس سے بہت سمجھانے کے باوجود بھی وہ اس کی بات سمجھنے کو تیار نہیں تھی
لیکن طہٰ اس کے اس بچپنے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا
اسی لئے اب اس نے عائشہ کو مخاطب کرنا چھوڑ دیا
اس کا یوں نظر انداز کرنا عائشہ نے بھی نوٹ کر لیا تھا
وہ دو دنوں سے اسے بالکل بات نہیں کروا رہا تھا ۔
صبح اٹھ کر اپنے کام پر چلا جاتا اور پھر شام کو اس کی واپسی ہوتی اس دوران عائشہ اسی کے گھر کے باہر ہی رہتی
اور رات بھی ایسے ہی گزر جاتی
لیکن اس طرح سے تو ساری زندگی نہیں گزاری جا سکتی تھی
عائشہ کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا
طہٰ کو سمجھنا اور سمجھانا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ اپنے آپ میں ہی احساس کمتری کا شکار تھا ۔
ابھی تک عائشہ نے اس ٹوپک پر کھل کر اس سے بات نہیں کی تھی ۔
ہاں لیکن وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں اب تک جو کچھ بھی ہوا اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے
یہ سب تقدیر کا لکھا تھا ۔ جس کو خود پر حاوی کرکے طہٰ اپنے آپ کو سزا دے رہا ہے ۔ اور اپنی زندگی کھل کر جینے کی کوشش نہیں کر رہا
لیکن عائشہ اسے خود سے لڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی
آخر اسے بھی جینے کا حق تھا
اسے بھی خوش رہنے کا حق تھا
ایک گھٹیا اور ذلیل شخص کی غلاظت کی وجہ سے اس کی ذات سوالیہ نشان بن کر رہ گئی تھی
۔وہ بچپن سے اتنا کچھ فیس کرتا آیا تھا
کہ اب اس نے خود کو اپنے آپ میں قید کر لیا تھا ۔
وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا شاید اس لیے اتنا کچھ فیس کرنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہارا
۔لیکن پھر بھی وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا
وہ اپنی زندگی کو ایک موقع نہیں دینا چاہتا تھا یا شاید وہ عائشہ کو موقع نہیں دینا چاہتا تھا ۔
وہ عائشہ کو اپنی ذات میں گم کرکے اس کی ذات کو بے نشان نہیں کرنا چاہتا تھا
عائشہ ایک زندہ دل لڑکی ہے جو کسی بھی لڑکے کا آئیڈیل ہو سکتی ہے
اورایک ایسی لڑکی کو اپنے لئے برباد ہوتے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا
اسی لئے عائشہ سے وہ جتنا دور رہے ان دونوں کے لیے بہتر تھا
لیکن عائشہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی تھی
یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی
محبت پیچھے ہٹنے کا نہیں بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا نام ہے
اس نے مڑ کر دیکھا تو اریان کو بیڈ پر لیٹا ہوا تھا
اریان مسکرا کر ہاتھ آگے بڑھایا
تو بھی نرمی سے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھ گئی
اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ وہ کہاں تھا۔۔۔۔
کیوں کہ جب وہ جاگی تب آریان اس کے آس پاس نہیں تھا
میں کہاں جا سکتا ہوں میری جان بس یہی گیا تھا ٹہلنے کے لئے
آنکھ جلدی کھل گئی تھی پہلے سوچا تمہیں تنگ کرتا ہوں۔۔۔ پھر یہ سوچا کہ تمہاری تائی امی آج کل یہ فریضہ بہت اچھے سے سر انجام دے رہی ہیں
اسی لیے تمہیں تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا پھر زرا واک کرنے کے لیے باہر نکل گیا
لیکن اگر تمہاری اجازت ہو تو اب تم ہی تھوڑا سا تنگ کر ہی لیتا ہوں
وہ مسکرا کر کہتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے بیڈ پر لٹا گیا
اس کے چہرے کو اوپر کیا جبکہ وہ بیڈ پر لیٹی شرمیلی کی نظروں سے دیکھ رہی تھی
آرہان نے نرمی سے اس تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا اور اس کا معصوم چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیا
جبکہ فوکس اس کے لبوں پر تھا
وہ اس کے لبوں پر انگلی پھیرتے ہوئے ذرا سا مسکرایا
اجازت ہے وہ آنکھ دبا کر شرارت سے بولا بلکہ میں سوچ رہا ہوں بھاڑ میں ڈالو اجازت کو ۔۔۔اب کیا اپنی چیزوں کے لئے بھی اجازت مانگوں۔ ۔۔خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے اس کے لبوں کو اپنے دسترس میں لے چکا تھا
اور اس کی قربت پر ہمیشہ کی طرح اریشفہ بوکھلا کر رہ گئی
اس کے ہاتھ بے اختیار ہی اس کی شرٹ کے کالر کو تھام چکے تھے
جتنی شدت آریان کے انداز میں تھی اتنی ہی شدت سے اس کی کالر تھام رکھی تھی ۔
اس کے ہونٹوں پر ترس کھاتے ہوئے وہ اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کی گردن پر جھکا تھا
اور اب مکمل بہہ رہا تھا
جب اچانک دروازہ کھلا اور تائی ا می اندر داخل ہوئی
انہیں ایک دوسرے کے اتنے قریب دیکھ کر وہ شرمندہ تو ہوئیں
لیکن جلد ہی وہ اپنے آپ کو سنبھال چکی تھیں
جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوکر اب کھڑے ہو چکے تھے ۔
معاف کرنا بیٹا دروازہ کھلا تھا تو میں اندر آ گئیںں
۔وہ ان کو دیکھتے ہوئے بولیںں
یہ دروازہ کھلا نہیں تھا تائی امی آپ کھول کر آئی ہیں ہیں اور یقین کریں اس سے زیادہ بری حرکت اور کوئی نہیں لگتی
پلیز آئندہ غور کیجئے گا
یہ ہسبنڈ وائف کا کمرہ ہے آپ کا اس طرح سے یہاں آنا زیب نہیں دیتا
وہ غصے سے انہیں گھورتے ہوئے واش روم میں بند ہوگیا
اور دروازہ اتنے زور سے بند کیا تھا تائی امی اپنی جگہ سے اچھل کر رہ گئیںں
۔اور اب ہ ریشفہ کو دیکھ رہی تھیں جس کے شوہر نے صبح صبح ان کی اچھی خاصی انسلٹ کردی تھی
فریش ہو کر آ جانا کیچن میں وہ سختی سے کہتی باہر نکل گئیںں
جبکہ اسے تو اپنے شوہر کی پریشانی کھائی جا رہی تھی جس کا موڈ بری طرح سے بگڑ گیا
°°°°°°°°°°
اسے یقین ہو گیا کہ وہ سو چکا ہے
تو وہ کمرے میں داخل ہوئی
اسے پتہ تھا کہ چابی تکیے کے نیچے ہے
وہ اسے اٹھانا اپنے آپ میں ایک مشکل ترین کام تھا
جو کہ آج جاناں کو کسی بھی حال میں کرنا تھا
وہ بنا آواز کیے پہلے کی طرح اس کی تکیے کے قریب آئی اور چابی ٹوٹلنے کی کوشش کرنے لگی
اسے ٹھینڈے پیسینے بھی آرہے تھے
اگر جان کی آنکھ کھل جاتی تو اب اس میں کوئی لحاظ نہیں کرنا تھا
کہیں نہ کہیں وہ دھمکی بھی اثر کر رہی تھی جو جان نے سونے سے پہلے اسےدی تھی اس کے شرارتی انداز یاد کرتے ہی جاناں کے ہاتھ میں تیزی آگئی
اب تو اور بھی زیادہ شدت سے چابی تلاش کرنے لگی تھی
کیوں کے اب تو وہ جان کے ساتھ ایک لمحہ نہیں گزارنا چاہتی تھی
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انسپکٹر آریان سب کچھ جاننے کے بعد وہاں آئے یا نہیں
اب تک یقین انہیں پتہ چل چکا ہوگا کہ وہ جاناں کو زبردستی اپنے ساتھ لے آیا ہے
اس حساب سے انہیں اب تک ان کے گھر پہ آ جانا چاہیے تھا
لیکن وہ ابھی تک یہاں نہیں آئے مطلب کے ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں اسے تلاش کر رہے ہو کیوں کہ انہوں نے اس سے کہا تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے پٹرول پمپ سے مت نکلنا
اس کا وہاں سے نکلنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا
لیکن جان اسے زبردستی یہاں لے آیا تھا
اور وہ ایک بار پھر قید ہو کر رہ گئی تھی
وہ اس غلطی پر پچھتا رہی تھی
اس نے انسپکٹر آریاِن کے سامنے جان کا نام نہیں لیا تھا
یہ واقعی ایک بہت بڑی غلطی تھی
انہیں بیسٹ کا اصل نام بتا دینا چاہیے تھا
لیکن تب اسے خیال ہی نہیں آیا
کہیں یہ نہ سوچ رہے ہو جاناں اپنے شوہر کے سیو ہے
اور وہ شوہر نہ جانے کتنے لوگوں کو بے دردی سے مارتا چلا جائے
یہ خیال آتے ہی اس کا ہاتھ تکیے سے ذرا زیادہ نیچے چلا گیا
اور اس سے جان کی آنکھ کھل گئی اور اب جاناں کی جان پر بنی تھی
میں نے منع کیا تھا نہ جان جاناں بیڈ کے پاس مت آنا
لیکن تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی
اب تو میں اس کا وہی مطلب نکال لوں گا جو میں نکالنا چاہتا ہوں
تمہیں بیڈ کے اتنے پاس نہیں آنا چاہیے تھا
وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنےبے حد نزدیک کر چکا تھا
اور اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر لیا جاناں پھڑپھراکر رہے گئی
لیکن جان کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔
وہ اس کے لبوں پر بے تحاشہ تشدد کرنے کے بعد وہ اسے خود سے دور کر چکا تھا
اور آزادی ملتے ہی جاناں اس سے ایسے دوڈ بھاگی تھی جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو پورے کمرے میں جان کا مردانہ قہقہ گوجا جیسے جاناں نے سنوا اور غصے سے لب بھیج کر رہ
گئی
°°°°°°°°°°
وہ فریش ہو رہا تھا
جب باہر سے دروازہ کھٹکھٹانے کی زور سے آواز آئی
جیسے کوئی بہت غصے میں دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو
اسے لگا کے شاید کوئی بہت ضروری کام کے لیے یہاں آیا ہے
لیکن دروازہ کھولنے پر سامنے عاِئشہ کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔!وہ اسےدیکھتے ہوئے پوچھنے لگا
کیا کر رہی ہوں کا کیا مطلب ہے طہٰ تم مجھے اگنور کر رہے ہو
تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو
اسے پتا تھا کہ عائشہ زیادہ دیر خاموش بیٹھنے والی لڑکی نہیں ہے آج نہیں تو کل صبح وہ اس سے جواب مانگنے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی
ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی ہیں ٹپکی تھی
جب میں تم سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتاتو تم سے خوشگوار انداز میں بات کیسے کروں ۔۔۔۔؟
جب میں تمہارے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ ہی نہیں رکھنا چاہتا تو تمہیں اگنور کیوں نہ کروں۔ ۔۔۔۔۔؟
تم زبردستی میرے گلے پر رہی ہوں عائشہ اور میں زبردستی کے رشتے نبھانے کا قائل نہیں ہوں
وہ آج بہت صاف اور کلیر بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا
میں تم سے محبت کرتی ہوں طہ ۔اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا
اسے امید نہیں تھی کہ طہ اس کے ساتھ اس طرح بے رخی بڑتے گا
مجھے تمہاری محبت نہیں چاہیے ۔
اور نہ ہی میں کبھی تم سے محبت کروں گا عائشہ
اب بھی وقت ہے اپنے راستے بدل لو یہاں تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا
۔شاید آج وہ اس کا دل توڑنے کا ارادہ رکھتا تھا
پلیز ایسا مت کہوطہ ۔میں سچ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں
میں نہیں رہ سکتی تمہارے بنا ۔تم اس ہول سے باہر نکلو جو تم نے اپنی چاروں طرف بنا کر رکھا ہے
تم صرف اپنا وقت برباد کر رہی ہو ۔۔۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر بولا
جاؤ یہاں سے عائشہ تمہیں یہاں کچھ حاصل نہیں ہوگا
اگر تمہیں لگتا ہے کہ میرے گھر کے باہر پڑےرہنے سے مجھے تم سے محبت ہو جائے گی اس غلط فہمی کو دور کر لو
میری نظروں میں یہ چیزیں کوئی ویلیو نہیں کرتی۔۔۔۔۔"
میں کیا ہوں کیا نہیں یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا
آئندہ یہاں مت آنا
ہم اچھے دوست بن کر رہ سکتے ہیں
تمہیں بار بار انسلٹ کرنا مجھے بھی اچھا نہیں لگتا ۔وہ اسے باہر کا رستہ دکھاتے ہوئے بہت بےرخی سے بولا
عائشہ کو لگا کہ جیسے اس کے الفاظ ختم ہو گئے ہیں
طہ اس کی کوئی بات سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھا
آج پہلی بار عائشہ کو ایسا لگا کہ وہ سچ میں یہاں صرف اپنا وقت برباد کر رہی ہے
وہ جس طرح سے آئی تھی اسی طرح وہاں سے نکل گئی
لیکن اس بار باہر نہیں بلکہ اپنے گھر گئی تھی
اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہاں باہر وہ صرف اپنی محبت کی قیمت کو کم کر رہی ہے
°°°°°°°°
طہ کو خود غصہ آ رہا تھا
کتنی آسانی سے اس نے عائشہ کو ہرٹ کر دیا تھا
وہ جانتا تھا کہ اب وہ دوبارہ اس کے راہ میں نہیں آئے گی
اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا اخر عائشہ کو سمجھا دیا کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے غلط ہے
اس سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا
لیکن پھر بھی اس کا دل اتنا بے چین کیوں تھا۔۔۔۔۔!
کیوں کھل کر خوش نہیں ہو پا رہا تھا وہ۔ ۔۔۔۔۔؟
کیوں کھول کر سانس نہیں لے پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟
اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کیا جسے عائشہ نہیں بلکہ اس کی ہر خوشی اس سے روٹھ کر چلی گئی ہے اس سکون اس سے روٹھ کر چلا گیا ہے
وہ بے چینی سے دائیں بائیں گھوم رہا تھا
اسے ایک پرسکون نہیں آرہا تھا
عائشہ کاجانا اسے بری طرح پریشان کر گیا تھا
ہاں وہ چلی گئی تھی اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے وہ سچ میں چلی گئی تھی
اس کی محبت سے ہار کر لیکن جانے سے پہلے اسے بتا گئی تھی کہ وہ اس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے ۔کیا اسے ایساکرنا چاہیے تھا کیا عائشہ کا دل دکھا کر اس نے اچھا کیا تھا۔۔۔۔۔!
کیا ایسا کر لینے سے اس کی پریشانیاں ختم ہو گئی تھی ۔۔۔۔!
۔نہیں۔۔۔۔۔"
اس کی ساری پریشانیاں اب بھی وہی تھی
۔عائشہ کے چلے جانے کے بعد بھی اس کے دکھ اس کی بے چینیاں وہی تھی
۔ہاں بس عائشہ کے ہوتے ہوئے وہ اپنے غم اپنی تکلیف بھول جاتا تھا
لیکن آج اس کے جانے کے بعد وہ سب بھی یاد آ گیا تھا جو وہ کبھی یاد ہی نہیں کرنا چاہتا تھا
اس کا بچپن۔۔۔۔۔"
لوگوں کے طعنے ۔۔۔۔۔۔۔"
وہ لوگوں کے پتھر مارنا ۔۔۔۔۔۔۔"
بے اختیار ہی اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا جسے اس نے اپنے ہاتھ سے صاف کردیا تم اچھی ہو عائشہ بہت اچھی ہو
لیکن میں اچھا نہیں ہوں یہ دنیا مجھے قبول نہیں کرتی میں تمہارے قابل نہیں ہوں اور مجھے کوئی حق نہیں بنتا کہ میں تمہاری زندگی برباد کروںں
تم خوش رہو ایسے ہی شاید میرے تمہاری زندگی میں آ جانے سے تم سے خوشیاں ہی چھین جائے
وہ کیسے چھین لیتا اس سے اس کی ساری خوشیاں۔۔۔۔
وہ کیسے اپنی بے نشان ذات کے ساتھ اس کی زندگی برباد کر دیتا ۔۔۔۔۔؟
وہ کیسے اسے ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور کردیتا ہے جس میں سوائے ذلالت کے اور کچھ نہیں تھا
وہ جی رہا تھا پچھلے 27 سال سے وہ ایک ایسی زندگی جی رہا تھا جس میں اسے خود آج تک کوئی خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی
وہ عائشہ کو کیسے کہتا کے اس کے ساتھ سوائے اندھیروں کے اور کچھ نہیں ہے
کیسےہیں آپ ڈی ایس پی سرزیمہ کیسی ہے۔۔۔۔ ؟
جی جی ائمہ بالکل ٹھیک ہے۔۔
ماشاءاللہ سے یہاں آنے کے بعد بہت خوش بھی ہے اس تائی امی نےبہت نرم لہجے میں کہا
وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے بیگم آپ بھی واپس گھر آ جائے آپ کے گھر کو آپ کی ضرورت ہے
آپ تو اریشفہ کے گھر ایسی جا کر رکھی ہیں کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی
اریشفہ کا خیال رکھنے کے لیے آئمہ کو وہیں چھوڑ آئیں
لیکن آپ واپس آجائیں
ہماری آئمہ بہت لائق ہے وہ اریشفہ کا خیال رکھ سکتی ہے
ڈی ایس پی سر نے سمجھانے والے انداز میں کہا
نہیں ڈی ایس پی صاحب اریشفہ اور آئمہ دونوں بچیاں ہیں وہ بھلا کیسے ۔۔۔۔۔
اپ وہ کریں جو میں آپ کو کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں بحث مت کیا کریں گھر واپس آ جائیں آپ ان کا لہجہ سخت ہو گیا
لیکن ڈی ایس پی صاحب تائی امی نے کچھ کہنا چاہا
لیکن ویکن کچھ نہیں آج شام کی بس سے آپ واپس آجائیں آئمہ کو ابھی کچھ دنوں ہی رہنے دیں
وہ کہہ کر فون بند کر چکے تھے جبکہ ناشتے کی ٹیبل پر کھانا لاتے پر اریشفہ نے ایک نظر ان کو دیکھا
میں آج شام کی گاڑی سے واپس جا رہی ہو آئمہ کچھ دن یہاہی پر رہے گی وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہنے لگیں
ایمہ تو خوشی سے چہک اٹھی
جب کہ آریان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ چکی تھی
آپ فکر نہ کریں تائی امی میں آپ کو وقت پر چھوڑ آؤں گا ۔بس تک اگر مجھے ضروری کام نہیں ہوتا تو میں آپ کو گھر تک بھی چھوڑا تھا
اس کا انداز جان چھڑانے والا تھا
کوئی بات نہیں بیٹا میں چلی جاؤں گی میں کونسا پہلی بار جا رہی ہوںں
آئمہ اریشفہ کا خیال رکھنا اور تم بھی میری باتوں پر غور کرنا یہ کو چائے بنائی ہے نہ تم نے بالکل بھی سواد ہے اس طرح سے چائے بنائی جاتی ہے اریشفہ بہت نالائق ہو تم آئمہ بیٹا کل صبح سے آریان کے لئے چائے تم بنانا
نہیں نہیں تائی امی اس کی ضرورت نہیں ہے میں چائے کچھ خاص پسند نہیں کرتا وہ تو اریشفہ پیتی ہے تو میں اس کا ساتھ دینے کے لئے پی لیتا ہوں
اور اس کے ہاتھ کی چائے مجھے اچھی بھی بہت لگتی ہے
سچ کہوں تو شادی سے پہلے تو میں نے کبھی چائے کو ٹیسٹ بھی نہیں کیا تھا تم رہنے دو ائمہ مجھے تو میری بیوی کے ہاتھ کی چائے ہی پسند ہے اس سے پہلے کہ ائمہ کچھ جواب دیتی آریان بول پڑا
آپ اپنا بیگ پیک کر لیں میں آپ کو بس اسٹیشن چھوڑ آؤں گا بارش کا موسم بن جا رہا ہے یہ نہ ہو کہ شام تک بارش شروع ہو جائے پھر آپ کا جانا مشکل ہو جائے گا آریان نے اٹھتے ہوئے کہا
کل ہی ڈی ایس پی سرکوفون کیا تھا اور کہا تھا کہ تائی امی کا رویہ آئمہ سے ٹھیک نہیں لگ رہا
اور اس کی پوری بات سن کر ڈی ایس پی سر نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنی بیگم کو واپس بلوا لیں گے
°°°°°°°°°°
اسے یقین تھا کہ عائشہ کبھی اس کے راستے میں نہیں آئے گی
لیکن عائشہ کو اپنے کلب کے باہر دیکھ کر وہ پریشان ضرور ہوا تھا اس کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ رو کرآئی ہے
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟
وہ کلب کے اندر جانے کے بجاۓ اس کے پاس آیا تھا اس کا دل اس کی طرف کھنچتا چلا جا رہا تھا
تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں
میرے ایک سوال کا جواب دے دو پھر میں یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلی جاؤں گی میں نے اپنی امی کو بتا دیا ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتی ہوں وہ بھی میرے ساتھ جانے والی ہیں ہم کل صبح کی فلائٹ سے یہاں سے چلے جائیں گے لیکن جانے سے پہلے میں ایک سوال تم سے پوچھنا چاہتی ہوں
تمہیں جو بھی پوچھنا ہے جلدی پوچھو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مجھے اندر جانا ہے میرے دوست انتظار کر رہے ہیں اس کے جانے کا سن کر اسے دکھ تو ہوا تھا پر وہ اپنے چہرے سے کچھ بھی شو نہیں کرنا چاہتا تھا
کیا میری محبت سے انکار کر دینے سے تمہاری ماں کو انصاف مل جائے گا۔۔۔؟
تم۔ ۔۔طہ نے کچھ کہنا چاہا
پلیز طہٰ میری بات ختم نہیں ہوئی
کیا تمہارے ماتھے پر لگاناجائز کاٹیگ اتر جائے گا۔۔۔۔!
اگر تمہارے باپ نے تمہیں قبول نہیں کیا تھا اس میں تمہاری کیا غلطی ہے طہ۔ ۔۔۔!
اگر اس شخص نے تمہاری ماں کو برباد کیا تو اس میں تمہاری کیا غلطی ہے۔۔۔۔۔۔؟
تم اپنے آپ کو سزا کیوں دے رہے ہو ۔۔۔۔؟
کیوں اپنی ذات کو بے نام و بے نشان کر رہے ہو۔۔۔۔۔؟
کیا تم میں خود سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔۔؟
اگر نہیں ہے تو واقع ہی میں نے غلط شخص سے محبت کی
تم سچ میں میری محبت کے قابل نہیں ہو
تم تو اپنے لئے نہیں لڑ سکتے میرے لئے کیا لڑو گے
تم خود سے لڑ رہے ہو خود سے جیت ہے وہ خود ہی ہار رہے ہو۔۔۔
وہ شخص مر چکا ہے طہٰ
تمہاری ماں مر چکی ہیں۔۔۔۔۔
اب ختم ہو چکا ہے سب کچھ بدل چکا ہے
غور سے دیکھو تو کافی کچھ ٹھیک ہو چکا ہے
کچھ ٹھیک نہیں ہوا عائشہ سب غلط ہے میری ماں یا اس ذلیل انسان کے مر جانے سے میرے سر سے ایک ریپ چلڈ ہونے کا ٹیگ نہیں اترا
میں آج بھی گٹر کی پیدائش ہوں
میری ماں جو بارہ سال میرے لیے لڑیی رہی مجھے باپ کا نام دینے کے لیے اس کےپیر پکڑتی رہی
مجھے میری ماں کے آنسو نہیں بھولتے عائشہ
مجھے نہیں بھولتے وہ بارہ سال اور وہ میری ماں کی تڑپ اور وہ میری ماں کی آخری الفاظ کہ طہ تم ایک ناجائز بچے ہو ایک ایسے بچے جس کا کوئی باپ نہیں ہوتا میری پاکدامن ماں بارہ سال خود کو انصاف اور مجھے میرے باپ کا نام دلانے کے لیے لڑتی رہی
اور مجھے کچھ نہیں دے سکی
سوائے دنیا کے طانوں اور اس آدمی کی پستول سے نکلی گولی کے
میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا عائشہ میں خود سے لڑتا ہو ہارتا ہوں میں ہارا ہوا انسان ہوں نہیں ہوں میں تمہارے قابل پلیز میرے سامنے مت آنا جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلی جاو وہ اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے جا چکا تھا عائشہ نے اسےکلب کے اندر جاتے ہوئے دیکھا اور اس کے قدموں میں جان نہیں تھی وہ لوٹ جائے
اج اس نے اس موضوع پر اس سے کھل کر بات کی تھی
آریان نے اسے بتایا تھا کہ تھا وہ ایک ریپ چلڈ ہے
اس کی ماں کا ریپ ہوا تھا
کسی حیوان نے ان کی عزت کو تار تار کردیا تھا اس کے نتیجے میں وہ طہٰ کی ماں بن گئی لیکن اسے کبھی باپ کا نام نہ دلآپائی
وہ اپنے آپ میں ہی الجھی ہوئی تھی جب اسے زوردار دھماکے کی آواز آئی
سامنےکلب کو آگ لگ چکی تھی
ہرطرف بم بلاسٹ ہونے کی پکار سنائی دے رہی تھی
اس نے بھاگ کر وہاں پر جانا چاہا لیکن کوئی بھی اس طرف جانے نہیں دے رہا تھا
تھوڑی ہی دیر میں وہاں پولیس اکٹھی ہو چکی تھی اب وہ لوگ وہاں سے لاشیں نکال رہے تھے
کسی کا صرف ہاتھ کسی کے صرف پیر لاشوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ دیکھا تک نہیں جا رہا تھا
°°°°°°°°°°
اس کی آنکھ کھلی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے
جاناں دوبارہ اس کے پاس نہیں آئی تھی
چابی اس کے تکیہ کے نیچے ہی تھی
اس نے مسکرا کرچابی سنبھالی اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔"
آج اس سفر کی منزل ملی تھی ۔۔۔۔۔۔"
آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔"
یقیناً جاناں اب بھی اس سے غصہ ہو گی
کوئی بھی لڑکی ایک ایسے شخص کا ساتھ قبول کیوں کرے گی جو قاتل ہو
لیکن اسے یقین تھا جب جاناں کو سب کچھ پتہ چلے گا وہ اس کے ہر فیصلے میں اس کا ساتھ دے گی۔۔۔۔۔
لسٹ میں آخری نام بچا تھا
جسے وہ ختم کرنے والا تھا آج وہ بےحد خوش تھا
کیوں کہ آج وہ اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے والا تھا پندرہ سال پہلے اس شخص نے اس کے باپ کو جان سے مار ڈالا اور آج اسی تاریخ پر کہیں اور راز کھلنے والے تھے ۔۔۔
وہ فریش ہو کر باہر آیا تو جاناں کو صوفے پر لیٹے پایا
کتنے دنوں سے وہ بے چینی نیند سو رہی تھی
اتنے دنوں سے اس نے ایک دن بھی سکون سے نہیں گزارا تھا
لیکن اب اور یہ سب نہیں ہوگا
جان اپنا آپ کھو ل کر اس کے سامنے رکھنے والا تھا
بس ایک دن اور۔۔۔۔۔۔صرف آج کا یہ دن اور پھر وہ جاناں کو ساری حقیقت بتا دینے والا تھا
وہ سمجھ چکا تھا کہ جاناں سے یہ سب کچھ چھپانے کا کوئی مقصد نہیں وہ اس کی زندگی کی ساتھی ہے اور اگر تو اس سے اپنا آپ چھپایا کر رکھے گا تو بعد میں ان کی زندگی اور مشکل ہو جائے گی
اور اب تو حالات ایسے بن چکے تھے کی جاناں کو سب کچھ بتا کر ہی کچھ بھی ہو سکتا تھا
پہلے جیسا ہو سکتا تھا اور جان سب کچھ پہلے جیسا کرنا چاہتا تھا
اسے جاناں کی محبت کی عادت ہو چکی تھی اب جاناں کا یہ انداز اسے تکلیف دے رہا تھا
اسے جاناں کی محبت اس کی فکر مندی واپس چاہیے تھی
اس کی جاناں واپس چاہیے تھی
وہ اپنی ماہی کے بنا ادھورا تھا اور ان دنوں اپنی ماہی کو بہت مس کر رہا تھا
بس تھوڑا سا وقت اور یہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا وہ پیار سے جاناں کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا پھر آہستہ سے اس کے قریب آیا اور کمبل کو اس کے اوپر ڈالتے ہوئے اسے کور کیا
جاناں جو سردی کی وجہ سے خود میں سمٹی ہوئی تھی کمبل کوخود پر محسوس کرتے ہوئے مزید اس میں سمٹ گئی
اور اس کرم نوازی پر یہ بھی نہ سوچا کہ یہ احسان کس نے کیا ہے
بس اس کی نیند آسان ہوگئی تھی
جان نےمسکرا کر نرمی سے اس کا ماتھا چوما اورخاموشی سے گھر سے نکل گیا
اسے یقین تھا آج کا یہ سفر اس مقصد کا آخری سفر ہے
اس کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہونے والا تھا
اسے پتہ تھا باپ کی موت پرجاناں کو دکھ ہوگا
لیکن اسے یقین تھا کہ جاناں کو سمجھ لے گا
اپنے پیار اپنی محبت سے وہ اس شخص اور اس کی ذات کو اس کی زندگی سے نکال دے گا اور اپنی جاناں کے ساتھ وہ زندگی کی شروعات کرے گا
°°°°°°°°°°°°
عائشہ بری طرح سے تڑپ رہی تھی
سسک سسک کر رو رہی تھی
کوئی اسے اندر نہیں جانے دے رہا تھا
اس جگہ کو پوری طرح پولیس کور کر چکی تھیں
نہ جانے کتنی لاشوں کے پارٹس نکالے جا چکے تھے
کوئی بھی لاش پہچانا ناممکن سا لگ رہا تھا
اس وقت اندر آٹھ لوگ تھے کیوں کہ ان لوگوں کے حساب سے وہ آٹھ لوگوں کی لاشیں تھیں
اور انہی میں سے ایک وہ بھی تھا اتنی جلدی وہ اپنی محبت ہار گئی
اتنا جلدی وہ اس سے روٹھ کر چلا گیا
وہ اس کے پاس جانا چاہتی تھی اس سے اپنے الفاظ کی معافی مانگنا چاہتی تھی
لیکن شاید اب تو وہ رہا ہی نہیں تھا
پولیس نے انہیں اس جگہ سے دور ہٹنے کے لیے کہہ دیا تھا
وہ بے جان ہارے قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی
جب سڑک کے سامنے پار اسے بلیک ہڈ پہنے جان نظر آیا
وہ بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے تھی
اور پھر اس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آج جو نقصان ہوا تھا وہ ان دونوں کے لیے عام نہیں تھا وہ ان دونوں کے لیے جان سے عزیز تھا
°°°°°°°°°°°
جاناں کی آنکھ کھلی تو خود کو صوفے پر کمبل میں لپتے پایا
اسے یاد تھا کہ رات کمبل تو لے کر نہیں آئی تھی
تو یقینا یہ جان نے ہی دیا ہوگا
کمبل کو ایک طرف رکھ کر فوراً دروازہ کو دیکھنے لگی جو بند کر کے وہ چلاگیا تھا ۔
مطلب کے روز کی طرح آج بھی اسے قید کر کے چلا گیا تھا
اسے غصہ تو بہت آیا لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی
وہ خاموشی سے واپس آ کر اسی صوفے آ بیٹھی
جب بیٹھے بیٹھے اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا
جب شروع میں یہاں آئی تھی تب جان نے اسے بتایا تھا گھر کے سب دروازوں کی ایکسٹرا چابی وہ کہیں پر رکھتا ہے
تب جاناں نے اتنا غور نہیں کیا تھا پھر بعد میں اسے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی
لیکن آج اس نے اس چابی کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی تھی
اور اب وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ جان کے آنے سے پہلے وہ ان چابیوں کو ڈھونڈ کر رہے گی اور یہاں سے نکل جائے گی
یہ مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں
اب اسے کسی بھی حال میں انسپکٹر آریان تک پہنچنا تھا
تاکہ وہ ان کو جان کی حقیقت بتا سکے
اسے یقین تھا کہ انسپکٹر آریان اس کا ساتھ ضرور دیں گے
وہ جانتی تھی کہ وہ آجکل بیسٹ کیس پر کام کر رہے ہیں
اور وہ اس معاملے میں ان کی بہت مدد کر سکتی تھی
وہ جلدی سے کمرے میں آکر چابیاں ڈھونڈنے لگی تھوڑی دیر میں اس نے سارے دراز اور الماریاں دیکھ لی تھی جان کی الماری لاک تھی اسے یقین تھا کہ چابیاں اس میں ہیں
اس لیے اس نے الماری کا لاک تھوڑنے کافیصلہ کیا اور کچن سے جا کر ہتھوری لےکر آئی
اپنے اناڑی پن سے تھوڑی ہی دیر میں وہ پوری الماری کا ستیاناس کر چکی تھی
لیکن اسے پرواہ کہاں تھی وہ بہت تیزی سے جان کا سامان الماری سے نیچے پھینکنے لگی جب اچانک عائشہ کی ڈائری اس کی الماری سے نیچے گری
یہ تو عائشہ کی ہے یہ جان کی الماری میں کیسے گئی۔۔۔۔ ۔ اس کے ہاتھ رک گئے تھے کیونکہ اسی ڈائری سے ایک تصویر باہر کو نکلی پڑی تھی جو کسی اور کی نہیں بلکہ جاناں کے اپنے بچپن کی فوٹو تھی جاناں نے اٹھائی
اور اس کے پہلے پیج پر جان ابراہیم کا نام پڑھ کر الجھ کر رہ گئی
اگر یہ ڈائری جان کی ہے تق عائشہ نے اسے کیوں دی سنبھالنے کے لیے اس نے سوچا
اور پھر اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ڈائری کا اگلا پیج کھولا
ماضی
°°°°°°
سریہ سب کب تک چلے گا
سات سال ہو گئے ہیں
میں نے اب تک آفیسر ابراہیم کو خود پر شک نہیں ہونے دیا
لیکن اب پانی سر کے اوپر سے جا چکا ہے
میرے لیے یہ سب کچھ دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے
مجھے لگ رہا ہے کہ ابراہیم کو مجھ پر شک ہوگیا ہے
آج کل مجھ سے کافی کھیچے رہتے ہیں اور ان کا رویہ بھی کافی عجیب ہے
آج کل کچھ زیادہ ہی غصے میں رہنے لگے ہیں اگر انہیں مجھ پر شک ہوگیا تو میں بری طرح سے پھس جاؤں گی ۔
جان کو گہری نیند سوتے دیکھ کر وہ ٹیلی فون اٹھا کر کسی سے بات کرنے لگی
ایسا کچھ نہیں ہے
اسے تم پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے
میں ان سب باتوں کا دھیان رکھ رہا ہوں
اگر اسے تم پر شک ہوا تومیں بہت آسانی سے بچا لوں گا اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں
اور تم سات سال کی بات کر رہی ہو مجھے میرے بھائی سے بچھڑے 15 سال ہو چکے ہیں جب تک بلیک بیسٹ پاکستان کی جیل سے آزاد نہیں ہو جاتا تب تک یہ کیس یوں ہی چلتا رہے گا
اور تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑے گا
لیکن سر میں اپنی زندگی کے سات سال برباد کر چکی ہوں ۔وہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگی
شاید تم بھول رہی ہو کہ تم اپنی زندگی کا ایک ایک سیکنڈ بلیک ٹیسٹ کو بیچ چکی ہو
اور یہی حقیقت ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی اب فون بند کرو یہ نہ ہو کہ کسی کو شک ہو جائے فلحال تمہیں کسی قسم کی بیوقوفی کی اجازت نہیں دیتے ہم
وہ اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے فون بند کر چکے تھے ۔
°°°°°°°°°°
واوا بیگم کیا کھانا بنایا ہے آج بہت دنوں کے بعد ابراہیم کا موڈ اچھا تھا
شکر ہے آپ کو بھی کچھ اچھا لگا سومیہ منہ پھولا کر بولی
ارے میری جان آپ کے ہاتھ کی بنی ہر چیز لیزیز ہوتی ہے وہ اس کا موڈ دیکھتے ہوئے بہت محبت سے کہنے لگے
اتنے دنوں سے تو آپ کو شاید یہ بات یاد نہیں رہی تھی وہ شاید پچھلے دنوں ان کے خراب موڈ کی طرف اشارہ کر رہی تھی
نہیں یار ایک کیس میں بری طرح سے الجھ گیا تھا
کون سا نیا کیس آ گیا بیزاری سے کہنے لگی
وہی بلیک ٹیسٹ ۔۔۔۔۔امریکہ کے گروپ نے مجھے آفر کی ہے
بہت سارے روپے پیسے کی
وہ لوگ مجھے امریکا کے کسی بڑے گروپ میں شامل کرنا چاہتے ہیں
جہاں زندگی کی کسی بھی چیز کے لئے ترس نہیں پڑے گا
جہاں ہم اپنی مرضی سے زندگی گزاریں گے
عیش و عشرت دولت شہرت ہر چیز ہمارے قدموں میں ڈھیر ہو گی وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس انداز میں کہہ رہے تھے جیسے وہ اسے آزما رہے ہوں
مجھے کیوں بتا رہے ہیں یہ سب کچھ کیا میں آپ کو نہیں جانتی
آپ کے لیے اپنے ملک سے زیادہ عزیز کچھ نہیں ہے
یہ ساری آفرز تو آپ کو تب سے آرہی ہیں جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے
۔کون سا آپ نے ان آفرز پر نظر ثانی کی ہے یا نہیں قبول کرلیا ہے آپ کے لئے یہ ساری چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی
چاہے بیوی پڑوسیوں کے طعنے سنتی رہے یا اولاد سرکاری سکول میں پڑھتی رہے
آپ کو ان سب چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کو بس اپنے ملک سے وفا بنانی ہے وہ بھگرے موڈ میں کہتی برتن اٹھانے لگی جبکہ ان کے انداز پر ابراہیم شاہ قہقہ بلند ہوا
ماشاءاللہ کتنے اچھے سے جانتی ہیں آپ اپنے شوہر کو بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے تم نے ان گھٹیا لوگوں کی گھٹیا آفر کو منہ پر مار کر آیا ہوں
چلو چھوڑو ان فضول باتوں کو یہ بتاؤ میرا جانِ جگر کہاں ہے
اب وہ اپنے جان سے عزیز بیٹے کا ذکر کرنے لگے
کہاں ہو گا وہ باہر نقلی بندوق لئے سرحد پر ملک کے دشمنوں کو حلاق کر رہا ہے
۔سومیہ نے ایک نظر باہر کی جانب دیکھا جہاں کھڑکی سے باہر جان نقلی بندوق پکڑے ادھر سے ادھر دوڑ لگاتے ہوئے دشمنوں کو ان کے انجام تک پہنچا رہا تھا
ابراہیم مسکراتے ہوئے بیوی کا خفاخفا سا چہرہ دیکھ کر باہر جان کے پاس چلے گئے ۔
ُ°°°°°°°°°°°°°
وہ ابھی ابھی یاسر اور یاور کو سلا کر کمرے میں آئی تھی تو دیکھا اکبر ابھی تک جاگ رہے ہیں
آپ ابھی تک سوئےنہیں مجھے تو لگا تھا کہ اس وقت تک نید میں اتر چکے ہوں گے زینت مسکراتے ہوئے آئی
ارے نیوز سن رہا ہوں آپ کا بھائی تو چھایا ہوا ہے ماشاء اللہ ہر چینل پر اسی کی خبریں چل رہی ہیں
جی ہاں بھائی پر جان لیوا حملہ ہوا ہے
وہ جو آج کل کیس چل رہا ہے اسی کو لے کر کسی قیدی کو دوسری جیل میں شفٹ کرتے ہوئے بہت خطرناک قیدی ہے 15 سال سے جیل میں قید ہے
اور اس کے قیدی کو آزاد کرنے کے لئے بھائی کو ایسی ایسی آفرز ملی ہے کے عام انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا لیکن میرے بھائی کبھی اپنے ملک کے ساتھ غداری نہیں کریں گے زینت کے چہرے پر ایک فخر تھا جس سے اکبر نے بہت محسوس کیا
دولت کے سامنے ایک نہ ایک دن سب ہار جاتے ہیں
تمہارا بھائی بھی ایک دن ہار جائے گا کھیر لائٹ آف کر دو مجھے نیند آرہی ہے
بھائی کبھی نہیں ہار سکتے دولت ہو یا اس سے بھی بڑی کوئی چیز میرے بھائی کو ملک سے غداری کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی
اس کے لہجے میں اب بھی وہی فخربول رہا تھا ۔جو اکبر کو تو بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا
لیکن وہ بنا بحث کی یہ اب سونا چاہتے تھے
°°°°°°°°°°°°
بس دیکھ لیا آپ نے اپنی محبِ وطنی کا نتیجہ یہی چاہتے ہیں نا آپ آج گولی لگی ہے کل اللہ نہ کرے کچھ برا ہو جائے
سومیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کچھ بھی کر کے ان سے اپنی بات منوا لے ۔
بس کر دو بیگم اتنی بھی زیادہ چوٹ نہیں لگی یہ رونا دھونا بند کرو فوجیوں کی بیویوں کو یہ رونا دھونا زیب نہیں دیتا وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولے
نہیں براہیم تمہیں سومیہ کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے
وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے
آج تمہیں گولی لگی ہے کل اس سے بھی برا ہو سکتا ہے
ہم سب جانتے ہیں کہ تم اپنے ملک سے بے انتہا محبت کرتے ہو
لیکن صرف ایک مجرم کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دینا بیوقوفی ہے بلیک بیسٹ آخر تمہارا اکھاڑ کیا جا سکتا ہے
اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے آزاد کر چکا ہوتا
جس کی وجہ سے میری بیوی بچے سکون میں نہیں ہیں
اکبر نے سمجھانا چاہا
یہی تو بات ہے اکبر تم میری جگہ نہیں ہو
اور یہی میرے لئے فخر کی بات ہے میں اپنی بیوی بچوں کے سکون کے لیے کبھی اپنے وطن کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا
۔چاہے مجھے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے
لیکن بلیک بیسٹ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
پندرہ سال سے وہ شخص میری قید میں ہے اور اپنی آخری سانس تک اسی طرح قید میں رہے گا
میں اپنے وطن کے دشمنوں کو اس طرح آزاد گھومنے ہرگز نہیں دوں گا ابراہیم کا لہجہ مضبوط تھا ۔
جو دل میں آئے وہ کرو میرا فرض تھا تمہیں سمجھانا
اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا
اکبر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا لیکن لہجے میں اس کے لیے فکرمندی ظاہر کی
°°°°°°°°
سر میں بہت کوشش کر چکا ہوں لیکن وہ شخص بہت پکا ہے
اس سے انفارمیشن لینا ایک ناممکن کام ہے اکبر نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
مجھے نہیں پتہ یہ ساری باتیں جو کہہ چکا ہوں اس پر عمل کرو آٹھ سال ہو چکے ہیں
تمہیں اس شخص کے ساتھ ابھی تک تم اس کو نہیں سمجھ پائے
مت بھولو کہ اس کی بہن تمہاری بیوی ہے
تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اس کو جا کر کہو کے اپنی ضد چھوڑ دے
سر میری بیوی بھی اپنے بھائی کو صحیح اور مجھے غلط کہتی ہے
وہ کبھی میری بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتی
۔میں ہر ممکن کوشش کر چکا ہوں یہ دونوں بہن بھائی بہت تیز ہیں
تبھی تو آٹھ سال سے ایک دن تنکے جتنی معلومات ہم ان سے حاصل نہیں کر سکیں
اکبر نے سمجھانا چاہا لیکن اسے سمجھنا کون چاہتا تھا
مجھے یہ ساری باتیں نہیں سنیں
اور ہاں ایک بات مت بھولو تمہاری سانس سانس میری خریدی ہوئی ہے تمہیں کسی بھی حال میں بلیک بیسٹ کو چھڑوانا ہی ہوگا چاہے اس کے لیے تمہیں اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانے پڑے
جی سر میں اپنی بھرپور کوشش کروں گا اس کا موڈ بھگرتے دیکھ کر اکبر نے فورا کہا
°°°°°°°°°
ابراہیم تمہارا آئیڈیا تو بہت کمال کا ہے
اگر ہم اس پر عمل کرتے ہیں پم بلیک بیسٹ کے بھائی اور اس کے تمام گینگ کو اپنی حراست میں لے سکتے ہیں معید نے اس کی بات پر رضامندی ظاہر کی
پھر ٹھیک ہے معید اب سے یہ میرا اور تمہارا سیکرٹ ہے
یہ باہر نہیں جانا چاہیے
ہم اس پر عمل کریں گے میں کل ہی یہ خبر پھیلا دوں گا کہ بلیک بیسٹ جیل سے بھاگتے ہوئے مارا گیا
لیکن جب تک وہ سارے راز نہ اگل دے تب تک اس سے مرنے نہیں دیں گے
ہاں لیکن ہمیں زیادہ احتیاط کرنی ہوگی کیونکہ اب یہ کیس پولیس سے نکل کر ہمارے ہاتھ میں آجائے گا اور یہ بہت مشکل بھی ہوگا
ہاں یہ تو ہے لیکن ہم بلیک بیسٹ کو اپنے ملک میں کسی قسم کی کوئی تباہی مچانے نہیں دیں گے بلیک بیسٹ اور اس کے بھائی اور اس کے تمام گینگز کو ہم بہت جلد انجام تک پہنچا دیں گے
ان شاءاللہ معید نے سچے دل سے دعا کی
کیا لگا تھا لوگوں کو کہ
کوئی بھی دو ٹکے کا گینگسٹر یوں اٹھ کر میرے ملک کے خلاف سازشیں کرے گا اور میں اسے اس طرح سے چھوڑ دوں گا یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہے معید پندرہ سال سے وہ شخص میری قید میں ہے اور نہ جانے آگے کتنے سال تک رہے گا لیکن میری ایک بات یاد رکھنا ابراہیم شاہ کی قید سے اس کی لاش تو جا سکتی ہے لیکن وہ زندہ واپس نہیں جا سکتا
ابراہیم شاہ نے مضبوط لہجے میں کہا ان کے لفظ لفظ میں وطن کے لیے ان کی محبت بیان ہو رہی تھی
ان شاءاللہ بہت جلد ہم اس شخص کے بھائی اور اس کے گینگ تک بھی پہنچ جائیں گے جو لوگ ہمارے ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انہیں جینے کا کوئی حق نہیں افسوس تو اس بات کا ہے ابراہیم کے ہمارے ہی ملک کے لوگ دولت کے لیے اپنے ہی ملک کی جڑیں کاٹنے پر لگے ہیں وہ دولت کے لیے اپنا آپ بیچ چکے ہیں اپنا دین ایمان فروخت کر چکے ہیں ۔
ہم بہت جلد ان لوگوں تک بھی پہنچ جائیں گے جلد یہ بیسٹ کیس اپنے اختتام تک پہنچے
گا اور نہ جانے کتنے لوگ اور ہونگے جو اپنے انجام تک پہنچیں گے
یہ سب لوگ جو ہمارے آگے پیچھے گھومتے ہیں ہمارے ساتھ رہتے ہیں اندر سے بھیکے ہوئے ہیں ان کا ضمیر مر چکا ہے افسوس کی بات ہے کہ ہم ان کو جانتے نہیں اور جس دن میں انہیں جان گیا نامعید اس دن میں ان کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں گا
°°°°°°°°°°
بہت دنوں کے بعد آپ آئیں معید بھائی بہت خوشی ہوئی بھابھی کو بھی لے آتے ۔سو میہ بہت خوش دلی سے اس کے سامنے لوزاومات رکھ رہی تھی
جی بھابی ارادہ تو تھا آنے کا لیکن آج کل کام بھی بہت زیادہ ہے کہیں آنے جانے کا وقت نہیں ملتا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے معید نے احترام سے جواب دیا
یہ تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں خیر سے آج کل کون سے کیس پر اتنے مصروف ہیں کہ ہمارے شوہر کو بھی گھر بار کا ہوش ہی نہیں تقریبا چھ ماہ سے بلیک بیسٹ کی ہر قسم کی خبر ختم ہو چکی تھی بس پتا تھا تو اتنا کہ بلیک بیسٹ انکاؤنٹر میں مارا گیا
جی بھابی وہی کیس چل رہا ہے پندرہ سال پرانا معید نے ساختہ جواب دیا ابراہیم اسے گھور کر رہ گئے
میرا مطلب ہے کہ وہ بیسٹ کیس تو ختم ہو گیا آج کل ایک اقر کہس پر کام کر رہے ہیں اس کی گھوری کا مطلب سمجھے بغیر معید نے بات بدل دی تھی
یہ بات ان دونوں کی تھی ان کا سیکرٹ تھا اس میں کسی کو شامل نہیں کرنا تھا مطلب ابراہیم نے اس بارے میں اپنی فیملی کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا ۔معید اس کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ چکا تھا
چلے جو بھی کیس ہے اسے جلدی جلدی ختم کرے ماشاءاللہ سے میرے بچے کی سالگرہ آنے والی ہے خدارا اس بار اس کے لیے کوئی اچھے سے تحفہ لائیے گا نہ کہ بندوق اور پستول سومیہ خود پر شک نہیں ہونے دے سکتی تھی اس لیے بات بدلتے ہوئے بولی
ارے بھابھی جی کھیلنے دیجئے اسے انہی سب چیزوں سے آخر کل کو ہماری طرف فوج میں ہی آئے گا ان شاءاللہ بہت کامیابی ملے گی اسے
فوج میں ہرگز نہیں میں اپنے بچے کو ہرگز فوج میں نہیں جانے دوں گی اس کو تو میں ڈاکٹر بناؤں گی سومیہ نے اپنا ارادہ بتایا
میں اپنے بچے کو ملک کا محافظ بناؤں گا ۔
ایک ایسا محافظ جیسے اپنے وطن سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں ہوتا
نہ اپنا آپ اور نہ ہی اپنی ذات سے ُجڑی کوئی اور شے
اُسے صرف اپنے ملک کی پرواہ ہوتی صرف اپنے وطن سے مطلب ہوتا ہے۔اپنے ملک پر جان لٹانے کے لیے بھی ہروقت تیار ہوتا ہے انتظار ہوتا ہے تو بس ایک اشارے کا.اور میرا جان اسی اشارے کا انتظار کرے گا ابراہیم نے سومیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
میرے خیال میں اس موضوع پر لڑائی کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے شہزادے سے ہی پوچھ لیں کہ وہ کیا بنے گا ان دونوں کی بحث ہوتے یکھ معید نے جان کی جانب دیکھا تھا
چاچو جو بابا کہیں گے میں وہی کروں گا میں فوج میں جاؤں گا اور بابا کی طرح سارے دشمنوں کو ڈیشو ڈیشو کر کے ختم کر دوں گا
جان اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کو مکے کی شکل دیتے ہوئے کہنے لگا تو ابراہیم شاہ کا اختیار قہقہ بلند ہوا ہے
شاباش میرے شیر یہ کی نہ شیروں والی بات ان کا انداز جہاں بہت خوشگوار تھا وہی سومیہ کا موڈ بری طرح سے آف ہوگیا
وہ بنا کچھ بولے وہاں سے اندر چلی گئی جبکہ ابراھیم شاہ ان کے اس ناراض انداز کو اپنے لیے محبت سمجھتے تھے
لیکن ان کے توہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ جو عورت آٹھ نو سال سے ان کے نکاح میں ان کے ساتھ محبتوں کے رشتے نبھا رہی ہے وہ اصل میں ان ہی میں سے ایک ہے جن سے وہ انتہا کی نفرت کرتے ہیں
ان میں سے ایک ہے جو آپنے وطن کو غدار و کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں ان میں سے ایک جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہتے ہیں
ایک غدارایک دھوکے باز جو ان کے جان سے پیارے وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنا آپ بیچ چکی ہے
ان کی شادی ایک پلیننگ تھی
یہ سب بلیک بیسٹ کا بنایا ہوا جال تھا
ابراہیم شاہ نے بلیک بیسٹ کو پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے پکڑا اور اس کا گینگ اور بھائی اسے چھڑوانے کے لیے پچھلے پندرہ سال سے سازشیں کر رہے تھے
ان سازشوں میں ایک سازش یہ بھی تھی کہ بلیک بیسٹ کے آدمی کا رشتہ ابراہیم شاہ کی بہن کے لئے آیا اور اس کو بھی پوری پلاننگ کی تیار کیا گیا
اکبر خان کے رشتے میں ایسا کچھ بھی نہ تھا جس سے وہ اس رشتے سے انکار کر دیتے اکلوتی بہن کو ہمیشہ خوش رکھنے کے لیے جب اکبر نے اپنی بہن کا رشتہ ان کے لیے رکھا تو وہ ایک بار بھی انکار کیے بغیر شادی کے لیے تیار ہوگئے
لیکن ان آٹھ نو سالوں میں بھی سومیہ آج تک ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائی تھی وہ ایک بند کتاب تھے وہ کسی کے سامنے بھی نہیں کھلتے تھے اپنی شریک حیات کے سامنے بھی نہیں
جان آٹھ کا ہو چکا تھا اور اور کافی کچھ سمجھنے لگا تھا۔۔۔
خاص کر سب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں ہے
ہم جس گھر میں رہتے ہیں اسے سجاتے ہیں سنوارتے ہیں خوبصورت بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں
تو ہمیں اپنے آپ ہی اس جگہ سے محبت ہو جاتی ہے
اس گھر سے ہمارے جذبات جڑ جاتے ہیں
ہمیں ہمارا گھر بے حد عزیز ہوتا ہے
تو پھر اس جگہ سے محبت کیوں نہ ہو جہاں ہم ستے ہیں ہم سانس لیتے ہیں جو ہماری پہچان ہوتی ہے
ابراہیم کی طرح جان کو بھی اپنا ملک بے حد عزیز تھا اور یہ بات اب سو میہ بھی سمجھنے لگی تھی
°°°°°°°
ماما آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ۔۔۔!جان سکول سے واپس آیا تو سومیہ کے سینے سے لگ کر بہت لاڈ سے پوچھنے لگا
ہاں میری جان کون سی ماں ہو گی جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرے گی ۔۔۔سومیا نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے محبت سے جواب دیا
توپھر ماموں سے کہیں نا کے ماہیر مجھے دے دیں میں اس کا بہت خیال رکھوں گا بہت پیار کروں گادو ماہ ہو چکے تھے ما ہی کو پیدا ہوئے اور تب سے ہی جان کبھی دیوانہ ہو چکا تھا وہ زیادہ وقت ان کے گھر گزارتا تھا
ابھی وہ اس سے بات کر رہی تھی کہ اس کی گفتگو باہر سے آتے ابراہیم اور اکبر نے بھی سن لی
ہاں بھائی یہ تو بہت اچھی بات ہے
تم ماہیر کو ہمیشہ کے لئے لے جانا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے
تم ماہیر کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھ لینا
اکبر نے مسکراتے ہوئے کہا تو جان چہک اٹھا
سچی ماموں آپ ماہی کو مجھے دے دیں گے وہ بے یقین سا ہوا
ہاں بھئی کیوں نہیں دیں گے ضرور دیں گے بس تم تھوڑے سے بڑے ہو جاؤ جب تک ماہی بھی تھوڑی بڑی ہوجائے گی اور پھر ہم اسے دلہن بنا کر ہمیشہ کے لئے تمہارے ساتھ رخصت کردیں گے ۔کیوں ابراھیم بھائی میں نے کچھ غلط تو نہیں کہانہ وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بہت عاجزی سے ابراہیم کو دیکھنے لگے
وہ جو صرف اپنی 2 ماہ کی بیٹی کے بارے میں یہ بات کر رہے تھے ابراہیم حیرانگی سے ان کی شکل دیکھنے لگے بلا اس طرح کون سا باپ اپنی دوماہ کی بیٹی پیش کرتا ہے لیکن وہ اپنی ناگواری چھپا گئے
بھائی صاحب میرے خیال میں ابھی یہ باتیں ہمیں نہیں کرنی چاہیے ابھی شاید وقت نہیں ہے وقت آنے پر یہ سارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ابراہیم نے بات ہی ختم کرنا چاہی
بالکل بھی نہیں یہ بات آج ہی ہوگی مجھے جان ہمیشہ سے بہت پسند ہے اور میں اس کے لئے ہمیشہ سے یہ خواب دیکھتا رہا ہوں بلکہ میں تو اللہ سے بیٹی کے لیے دعائیں مانگتا رہا ہوں اور اب جب مجھے بیٹی ملی ہے تو میں اپنی اکلوتی بہن کی اکلوتے بیٹے کے لیے خواہش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو
ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔بلکہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ گھر کی بچی گھر میں آجائے گی سومیہ نے فورا کہا
کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ ابراہیم اس موضوع پر بے زارہو چکے ہیں
یقیناً وہ فی الحال یہ ساری باتیں نہیں کرنا چاہتے ہوں گے
بس ٹھیک ہے ہم جلد ہی ان دونوں کا نکاح کر دیتے ہیں تاکہ ہمارا رشتہ اور مضبوط ہو جائے اکبر نے ایک نظر ابراہیم کو دیکھتے ہوئے اپنی بہن کو سینے سے لگایا
نہیں اتنی جلدی مچانے کی ضرورت نہیں ہے
ابھی تو جان بچہ ہے
فی الحال بہت وقت ہے ان سب چیزوں میں اور ماہی تو بہت چھوٹی سی بچی ہے
میرا نہیں خیال کے ماہی کو اس طرح سے کسی کے ساتھ باندھ دینا چاہیے ابھی بچی ہے بڑے ہو کر اپنے فیصلے خود کرے گی
اور اکبر بھائی اصل بات کچھ ایسی ہے کہ میں بچپن کے رشتوں کو مانتا بھی نہیں ہوں
بچپن کے نکاح بہت کم چلتے ہیں ہم دونوں کی بات کر لیتے ہیں بات پکی کر دیتے ہیں ماہی کو انگوٹھی بھی پہنا دیتے ہیں لیکن بچی کو اتنا حق تو ہونا چاہئے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کو خود چنے ابراہیم نے سمجھانا چاہا
نہیں بہن بھائی ہمارے خاندانوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہمارے خاندانوں میں وہیں بچی سر جھکاتی ہے جہاں اس کا باپ کہتا ہے ۔
اور میری بچی کا فیصلہ میں خود کروں گا اور کر چکا ہوں کہ میں تو کچھ ہی دنوں میں ماہی اور جان کا نکاح کروں گا اگر آپ کو اعتراض ہے تو صاف بات کریں اب ان کا اندازہ خفا خفا سا تھا
ان سے کسی بات پر لڑ جگر کر وہ اپنی بہن کو تکلیف نہیں دے سکتے تھے پہلے بھی وہ ذرا سی بات پر اکثر زینت سے لڑائی کرتا تھا اور وہ ایسا نہیں چاہتے تھے
ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن ماہیر کو دستخط کے لائق ہو جانے دیجئے تو بہت چھوٹی ہے ابراہیم نے بات ڈالتے ہوئے کہا ۔
ان کا ارادہ اس ٹوپک کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا تھا
انہیں خود بھی ماہیر اور جان کے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔
لیکن ماہیر ابھی بہت چھوٹی تھی اور اتنی چھوٹی بچی کو اس مضبوط رشتے میں باندھنا سراسر زیادتی تھی
°°°°°°
ماہیر چار سال کی ہو چکی تھی
اکبر اور سومیہ ابھی تک اپنی ضد پر قائم تھے
چار سال سے وہ ہر ممکن کوشش سے انہیں ٹال رہے تھے
لیکن اب یہ سب کچھ ان کے بس سے باہر ہو چکا تھا سومیا دو ماہ سے ان سے ناراض تھی اور جان بھی ۔
جان کو سومیا نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ تمہاری ماہی تمہارے گھر آئے اسی بات کی وجہ سے جان بھی ان سے ناراض ہو گیا کیونکہ سومیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر جان ان سے ضد کرے گا تو وہ ماہی کو ان کے گھر لے آئیں گے
اور یہ سچ تھا کہ جان جب تک ان سے بات نہ کریں انہیں نیند نہیں آتی تھی وہ جان کو منانے کی بہت کوشش کر چکے تھے
لیکن اس کے دماغ میں بس ایک ہی بات تھی کہ اگر وہ راضی ہوگیا تو وہ کبھی اس کی بات نہیں مانیں گے جب کہ اپنے باپ کے بنا جان خود بھی اداس تھا اور پھر جان کی ضد کے آگے وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے
°°°°°°
چھوٹی سی ماہی دلہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھی
جبکہ 12 سالہ جان دلہا بنا بہت پیارا لگ رہا تھا بہت ساری تصویریں لی گئی بہت بڑا فنکشن کیا گیا
جس میں ماہی اور جان کا نکاح ہوا
اپنے بیٹے کی خوشی کے لے جہاں وہ نکاح پر خوش تھے
وہی وہ اتنی چھوٹی بچی کے نکاح کے حق میں بھی نہیں تھے
لیکن جان کی ضد کے آگے انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا
جبکہ ان کا رشتہ اکبر سے اب اور بھی مضبوط ہوگیا اکبر کے مطابق
لیکن ان کا یہ رشتہ کتنا مضبوط ہوا تھا یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا
کیونکہ اکبر اس بات سے باخبر تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے ابراہیم کے لئے ملک سے زیادہ عزیز ہے اور کچھ نہیں ہے
°°°°°°
وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن اکبر اور سومیہ اب بھی خالی ہاتھ تھے
بلیک بیسٹ کو ابراہیم اور اس کی ٹیم نے اس طرح سے غائب کیا تھا کہ اس کا اب تک کوئی نام و نشان نہ ملا
لیکن بلیک پوسٹ کے بھائی کو اب تک یقین تھا کہ اس کا بھائی زندہ ہے
پاکستان آرمی اتنی آسانی سے بلیک بیسٹ کو ختم نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کے پاس بہت ساری انفارمیشن تھی اور اگر وہ لوگ بلیک بیسٹ کو ختم کرتے تھے
تو ساری انفارمیشن بھی بلیک بیسٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جانی تھی اور ایسا تو وہ کبھی نہیں ہونے دے سکتے تھے
اسے یقین تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے بلیک بیسٹ کبھی ان کے پلان کو برباد نہیں کرے گا ان کے لیے اپنے باس کا ہونا اہم تھا جیسے آزاد کرنے لے لیے وہ بیس سال کوشش کر رہے تھے
اور وہ ذندہ تھا
اور وہ لوگ اس کا پلان جانے بغیر اسے نہیں مار سکتے تھے
وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتے تھے ۔اور کافی حد تک ہو بھی چکے تھے وہ ڈرگز کی بڑی مقدار پاکستان میں لا چکے تھے
جن میں بہت سارے پاکستانی بھی شامل تھے
اور یہ نشہ نوجوان نسل میں تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا ۔
اور نشےمیں انسان ہر فرق بھول جاتا ہے ۔یہ لوگ بھی اپنی زندگی کو کسی نشے میں ڈبو کر خود کو برباد کر رہے تھے ۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ نشے میں انسان زندہ ہو یا مرا ہوا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو شخص اپنا وجود اپنی ذمہ داریاں اپنے رشتے بھلا کر اس ناپاک چیز کو اپناتا ہے اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے
امریکہ نے پاکستان میں بڑی مقدار میں نشے کو پھیلا دیا تھا ۔
جو اچھے سے اچھے انسان کو بری طرح سے ڈبو رہا تھا
اس کھیل کی شروعات بیس سال پہلے بلیک بیسٹ نے کی تھی ۔اور بیس سال سے ابراہیم کی قید میں تھا جب تک ابراہیم اس سے پوری معلومات نکال نکلوا نہ لے تب تک وہ اسے چھوڑنے والا تو ہرگز نہیں تھا
اس کے علاوہ بلیک بیسٹ کی ٹیم پاکستان میں جگہ جگہ دھماکے کر رہی تھی بڑی بڑی جگہوں پر بم بلاسٹ ہور ہے اس کے علاوہ ہر بڑے گناہ میں بلیک بیسٹ کا نام شامل تھا ۔
اور ایسے میں ابراہیم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار تھا
ابراہیم ان کے راستے میں اتنی بڑی رکاوٹ بن چکا تھا ان لوگوں کو اس کے خلاف کتنا بڑا ایکشن لینا پڑا
°°°°°
ان سب کے لئے سب سے پہلے انہیں ایک خاندان کے دو لوگ خرید نے پڑے
جنہں مطلب تھا صرف پیسے اور آزادی سے پیسہ اور بلیک بیسٹ کا ڈر ان پر اتنا حاوی تھا کہ وہ اپنی سانس سانس کو گروی رکھ چکے تھے
سومیا اور اکبر دونوں بہن بھائی پچھلے 13 سال سے ان کے ہاتھوں کی کھ پتلی بنے ہوئے تھے ۔
اکبر کا رشتہ آتے ہی ابراہیم نے اس رشتے کی جانچ کی جس کے بعد ہر طرف سے اچھا جواب ملا بہن کی رضامندی دیکھتے ہوئے اکبر کو اپنا بہنوئی بنا لیا
اکبر کا تعلق کسی کپڑے کی کمپنی سے تھا یہ رشتہ ان کے لئے ایک مناسب رشتہ تھا پھر کچھ عرصے کے بعد اکبر کی بہن سومیہ نے براہیم میں دلچسپی دیکھائی یہ سب ایک پلیئنگ کا حصہ تھا
وہ ابراہیم سے اپنا رشتہ گہرا کرنے کے لئے اور اس سے انفارمیشن نکالنے کے لئے اپنی بہن کو ابراہیم کے سامنے پیش کر چکا تھا
ابراہیم جیسے بندے کا جسے شادی یا پھر فیملی کی طرف بالکل رو جان نہیں تھا ۔
لیکن بہن کی خواہش پر اس نے مسکراتے ہوئے سومیہ کا ہاتھ تھام لیا ۔شروع شروع میں سومیہ نے اس کے کام کی طرف کافی دلچسپی ظاہر کی
لیکن پھر ابراہیم کا انداز اس معاملے میں تھوڑا سخت دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی ۔
لیکن وہ اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی تھی وہ بلیک بیسٹ کے کیس کے علاوہ اور بہت سارے کیسز کی خبریں باہر تک پہنچانے لگی
جسے ابراہیم کو بہت نقصان بھی ہوا لیکن شک سومیہ پر ہرگز نہ گیا
ایک سال بعد ان کے ہاں ایک پیارا سا بیٹا پیدا ہوا۔جو ابراہیم کی جان تھا اسی لیے اس نے اس کا نام بھی جان ہی رکھا
دیکھتے ہی دیکھتے ابراہیم کے لئے اس کے جینے کی وجہ بن چکا تھا ۔اور یہ واحد رشتہ تھا جو جومیہ اور ابراہیم کو ایک دوسرے سے جوڑ رہا تھا ۔
اس کے لیے دولت عزیز تھی لیکن جان کی ماں بننے کے بعد جان کے ساتھ اس کی محبت بھی مثالی تھی
لیکن پھر بات وہیں پر آکر ختم ہو رہی تھی کہ وہ دولت روپیہ پیسے کیلئے اس نے 13 سال پہلے اپنا آپ بیچ دیا تھا ۔
اس نے ایک پیپر پر سائن کیا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ جب تک بلیک بیسٹ آزاد نہیں ہو جاتا اسے ابراہیم کی بیوی بننا پڑے گا ۔
اور بلیک بیسٹ کے آزاد ہوتے ہی وہ بھی آزاد ہو جائے گی اس کیس کے بعد وہ کیا کرتی ہے کیا نہیں بیسٹ گینگ اس سے کچھ نہیں کہہ سکتا وہ خود اپنی زندگی کی مالک ہو گی ۔
اور ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ ہے پچھلے 13سال سے اس شخص کے ساتھ رہتے ہوئے وہ بھی اس کی محبتوں کے حصار میں قید ہو چکی تھی ۔
اب وہ براہیم سے محبت کرنے لگی تھی
اس نے ایک دو بار منع کردیا کے اب وہ ابراہیم کو مزید دھکا نہیں دے گی لیکن بلیک بیسٹ کے بھائی کا کہنا تھا کہ اگر تو وہ اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹی تو وہ ابراہیم کو ساری حقیقت بھیج دیں گے وہ سے بتا دیں گے کہ اس کی ملک کی تباہی میں ایک ہاتھ سومیہ کا بھی ہے
ان لوگوں نے جان کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہا ان کا ارادہ تھا کہ وہ جان کو اغوا کر لیں گے اور اس کے بعد ابراہیم کو مجبور کر دیں گے اور اگر وہ پھر بھی نہ مانا تو وہ جان کو قتل کر دیں گے
لیکن یہاں آکر ایک ماں کا کلیجہ پھٹنے لگا
وہ غدار تھی بے وفا تھی بھیکی ہوئی تھی لیکن تو ایک ماں اپنی نسوں کو کٹتے کیسے دیکھتی
اس نے کہہ دیا کہ ابراہیم کو جان سے کوئی خاص لگاؤ نہیں اسے صرف اور صرف اپنے ملک سے مطلب ہے ۔
اور پھر ایسی ہی نہ جانے کتنی دلائل دے کر اس نے جان کو اس کیس سے ہٹایا تھا
ورنہ اب تک تو وہ جان کو بھی ختم کر چکے ہوتے
سومیہ جلد سے جلد یہ سب ختم لونا چاہتی تھی اسے ملک سے کوئی مطلب نہ تھا وہ بس اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ ایک پیاری سی زندگی گزرنا چاہتی تھی اور ایسا تب ہی ممکن تھا جب بلیک بیسٹ آزاد ہوتا اور ایسا ابراہیم نے ہونے نہیں دینا تھا
ماما اب تو ما ہی میری ہے تو ہم اسے اپنے گھر کیوں نہیں لے کر آتے جاتے۔۔۔۔؟
اب تو وہ میری بیوی بن چکی ہے نہ تو
اسے میرے ساتھ یہاں رہنا چاہیے
جب سے اس کا نکاح ماہی کے ساتھ ہوا تھا ابراہیم اس سے زیادہ اس طرف نہیں جانے دیتے تھے
جس کی وجہ سے وہ ماہی کو بہت زیادہ مس کرتا تھا
اسی لیے ہر روز کوئی نہ کوئی بات لے کر ماں کے پاس آ جاتا سومیہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا
میری جان ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ماہی بڑی ہو جائے گی
تو ہم اسے تمہاری دلہن بنا کر دھوم دھام سے یہاں لائیں گے سو میہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
لیکن ماما آپ نے تو کہا تھا کہ اگر بابا راضی ہوگئے تو ہم ماہی کو اپنے گھر لے آئیں گے
وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان نے اسے اس کا وعدہ یاد کروایا ۔اور ابراہیم کی جانب دیکھا
ہاں میری جان میں نے کہا تھا لیکن وہ اب کی نہیں بلکہ بعد کی بات ہے
جب تم بڑے ہو جاؤ گے
فلحال تو ماہیر خود بہت چھوٹی سی ہے سومیہ نے محبت سے سمجھایا
جب کے پاس بیٹھے ابراہیم خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے
لیکن مامااگروہ اتنی سی چھوٹی تھی تو آپ نے اتنی جلدی کیوں کیا یہ اس کو بڑے ہو جانے دیتے جان نے اپنی سمجھ کے مطابق سوال کیا جس پر سو میہ نے ایک نظر ابراہیم کی جانب دیکھا
جو جتلاتی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے
جسے کہہ رہے ہوں کہ جواب دو اس کے سوالوں کا ۔
بس جان بہت ہوگئی ہے ساری باتیں چلو اب اپنے پیپر کی تیاری کرو
کل تمہارا پیپر ہے سومیہ نے بات بدلتے ہوئے کہا
جان خاموشی سے ان کے قریب سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا
اسی لیے میں کہہ رہا تھا کہ فی الحال نکاح پر زور مت دو لیکن تم سنتی کہاں ہو میری
ابراہیم بھی ان کے قریب سے اٹھتے ہوئے کہنے لگے
ہاں اس گھر میں صرف میں ہی غلط ہوں میں ہی ضد کرتی ہوں ساری غلطی میری ہے وہ غصے سے کہتی پیر پٹکتی اٹھ کر کچن میں چلی آئی
ارادہ ابرا ہیم سے ناراضگی ظاہر کرنا تھا
لیکن فی الحال ابراہیم کے پاس انہیں منانے کا وقت نہیں تھا
معید نے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ بلیک بیسٹ اس قید میں رہ رہ کر تھک چکا ہے
اسے پتہ چل چکا ہے کہ اس کی ٹیم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی
پچھلے بیس سال سے وہ آزادی کا انتظار کر رہا ہے
اور اب وہ انہیں اپنے سارے کالے کارنامے بتانے کو تیار ہے
بلکہ اپنی ٹیم کو بھی پھسانا چاہتا ہے
کیوں کہ جو لوگ بیس سال سے اس کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے وہ آگے بلا کیا کرتے
اس لیے بلیک بیس نے آزادی کی خاطر کی ڈیل کی تھی
وہ ابراہیم کو سب کچھ بتا دے گا اور بدلے میں آزادی حاصل کر لے گا
جب کہ ابراہیم کے ارادے کچھ اور ہی تھے
ابراہیم اس سے ساری معلومات لینے کے بعد اس کی جان لینا چاہتے تھے
کیوں کہ ایسے شخص کو کھلے عام چھوڑ دینا ان کی نظر میں کوئی عقلمندی نہیں تھی
وہ پہلے دن ہی فیصلہ کر چکے تھے کے ساری انفارمیشن لینے کے بعد وہ بلیک بیسٹ کا نام و نشان ختم کر دیں گے کیونکہ دنیا کی نظروں میں وہ پہلے ہی مر چکا تھا
اور اب وہ اسے حقیقت میں مار دینا چاہتے تھے
سومیہ نے دیکھا کہ ابراہیم اس کے پیچھے نہیں آئے تو باہر آ کر انہیں ڈھونڈنے لگی
لیکن وہ اپنے کمرے میں کسی سے فون پر بات کر رہے تھے ۔
معید تم تب تک ایک کیمرے کا انتظام کرو تاکہ جب بلیک بیسٹ جرم قبول کرے ہمارے پاس ایک ایک سیکنڈ کا ثبوت محفوظ ہو
وہ ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے
سومیہ ان کی بات سن کر الٹے قدموں واپس آگئی
مطلب کے بلیک ٹیسٹ اپنا جرم قبول کرنے والے ہے
یقینا وہ آدمی سب کو پھسادے گا
وہ ہمارے خلاف سارے ثبوت ان کے حوالے کردے گا اور میں بھی پھنس جاؤں گی
نہیں مجھے کچھ کرنا ہوگا کچھ تو کرنا ہوگا
میں اپنے بچے اور شوہر سے دود نہیں رہوں گی
ابراہیم کو سچ بتا نہیں چلنے دوں گی چاہے جو بھی ہو جائے
میں اپنا گھر برباد نہیں ہونے دوں گی
۔مجھے باس سے بات کرنی چاہیے
وہی اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں
ورنہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا
سب کچھ برباد ہو جائے گا میرا گھر برباد ہو جائے گا
میرا بچہ مجھ سے دور ہو جائے گا میں ایسا نہیں ہونے دوں گی وہ ابراہیم کے گھر سے جانے کا انتظار کرنے لگی ۔اب اسے اپنا گھر بار بچانے کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھا
°°°°°
ڈوبنے والا ڈوبنے سے پہلے ہاتھ پمیر ارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے
سومیہ بھی اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی
وہ کبھی ایک تو کبھی دوسرے کو فون کر رہی تھی
لیکن یہ خبر ہی سب کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی کہ بلیک بیسٹ ان سب کی حقیقت سے پردہ اٹھانے والا ہے
سب یہی سوچ کر پریشان ہو چکے تھے کہ بلیک بیسٹ کہیں ان کا نام نہ لے لے
بہت سارے نام تو ایسے بھی تھے جو پاکستان میں رہ کر پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے تھے
اس میں سیاست کے کہیں ناموارہیستیاں کے علاوہ بہت بڑے بڑے بزنس مینزبھی شامل تھے
اور اب جب حقیقت کھلی تھی تو وہ ان کی زندگیاں برباد ہو جانی تھی
بہت سارے لوگوں نے تو پاکستان چھوڑنے کا ارادہ کر لیا
جبکہ کچھ لوگ تو راتوں رات غائب ہو چکے تھے
اور کچھ لوگ اپنی پہچان ہی بدل چکے تھے
بس اس ڈر سے کے اگر بلیک بیسٹ میں ان کا نام لے لیا تو ان کی زندگیاں تباہ ہوجائیں گی ۔
اور ایسے میں سو میہ بھی جلے پیر کی بلی بنی گھوم رہی تھی ۔
اسے پتہ لگ چکا تھا کہ بلیک بیسٹ کا بھائی بھی پاکستان چھوڑ کر نہ جانے کہاں جا بسا ہے
۔وہ بے حد پریشان تھی اور اکبر کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا
اس وقت بھی وہ اسی کے پاس بیٹھا پریشانی سے سر پکڑے ہوئے تھا
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا اکبر ابراہیم اپنی پرسنل چیزوں کو چھونے کی اجازت نہیں دیتے مجھے اور اگر ان کی اتنی اہم چیز غائب ہوگئی تو قیامت آجائے گی
۔ارے میری بیوقوف بہنا قیامت تو تب آئے گی جب ہماری حقیقت کھلے گی
ابراہیم کی ٹیم اس کہس پر کام کر رہی ہے ۔ایسے میں تم اپنے آپ کو کوئی بڑی چوٹ دے دو ابراہیم سارا کام ٹیم پر چھوڑ کر تمہارے پاس آ جائے گا ۔
اور بلیک بیسٹ کی ویڈیوز اور وہ ساری فائل وہ گھر پر پہنچا دیں گے
اور یقیناً بلیک بیسٹ کو ختم کر دیں گے
اسے زندہ چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
فائلز اور ویڈیوز گھر آ جائیں گے تو تم آسانی سے انہیں غائب کر سکتی ہو بتا دینا گھر میں چوری ہو گئی یا کچھ بھی اور بہانہ بنا دینا
وہ لوگ یقیاًبلیک بیسٹ کو ختم کر دیں گے اور اگر بلیک بیسٹ زندہ بچے گا ہی نہیں تو وہ تو دوبارہ ثبوت تیار کیسے کریں گے ۔۔۔۔؟
ویسے بھی ہمیں پیسہ ملنے والا ہے ۔ڈیل کے مطابق وہ کافی سارا پیسہ ہمیں دے چکے ہیں
میرے تین بچے ہیں ایک وفادار سلیقہ شعور بیوی ہے
تمہارا بچہ ہے شوہر ہے
اگر ہمارا نام کیس سے نکل گیا نا تو سمجھو ہم ایک بہترین زندگی گزار سکیں گے
بس تھوڑی سی ہمت کرو
۔اس وقت ابراہیم اسلام آباد کے سفر پر نکل چکا ہے
۔اس سے پہلے کہ وہ اسلام آباد پہنچے ہم اسے واپس بلانا ہو گا
۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا اور جتنی بات سومیہ کو سمجھ آئی تھی وہ یہ تھی کہ اسی طریقے سے وہ اپنا گھر بار بچا سکتی ہے
وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا مطلب کے اس کا پلان کامیاب رہا تھا
وہ سومیہ کو اپنے باتوں میں لگا چکا تھا ۔
کل رات اسے بلیک بیسٹ کے بھائی کا فون آیا تھا
جس نے کہا تھا کہ اگر وہ اس کا نام لیسٹ سے ہٹا دے
تو وہ نہ صرف اسے اپنا پارٹنر بنا لے گا بلکہ اپنی دولت کا آدھا حصہ بھی اسے دے گا ۔
اسے ہمیشہ کے لیے ایک بہترین زندگی دے گا ۔
کیوں کہ اکبر جانتا تھا کہ اگر اس کا نام لسٹ میں آبھی جائے تو پاکستان سے بھاگ کر وہ ایک آسان زندگی گزار سکتا ہے
اس سب سے اکبر کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو رہا تھا
ہاں لیکن فائدہ بہت برا ہو رہا تھا اور اس فائدے کے لیے وہ اپنی بہن کو بھی استعمال کرنے کے لئے تیار تھا
اپنی بات اسے مکمل سمجھانے کے بعد اکبر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا
جبکہ سو میہ پریشانی سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی
سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔۔۔۔
اسے یقین تھا کہ بلیک بیسٹ زندہ ہے لیکن ابراہیم نے اسلام آباد میں قید رکھا ہے یہ بات کسی کو پتا نہیں تھی ۔اکبر اسے جو کچھ بتا کر گیا تھا سو میہ کو اپنا گھر بچانے کے لیے سب سہی لگا ۔
اسے صرف اپنے شوہر اور بچے سے مطلب تھا
اور۔جو کام وہ کرنے جا رہی ہے اس کے بعد اس کے ملک کو کتنا نقصان ہوگا اسے کوئی مطلب نہیں تھا
وہ ان لوگوں میں سے ہی نہیں تھی جو اپنے ملک کے لیے کچھ کریں ۔
°°°°°
درد کی شدت سے اس کی جان نکل رہی تھی
جان پاس بیٹھا رو رہا تھا
جبکہ ابراہیم آدھے راستے سے ہی واپس آ گئے تھے
کچن میں کام کرتے ہوئے اس کے دوپٹے کو آگ لگ گئی جس سے کچن میں بھی آگ لگ گئی اور کچن میں آگ پھیل جانے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکی
جس کے نتیجے میں اس کی پیٹھ پوری طرح آگ میں جھلس گئی
۔اکبر اور زینت بھی ہسپتال میں ہی موجود تھے ۔
سب لوگ بہت پریشان تھے ڈاکٹر نے حالت بہت نازک بتائی
اکبر کو یقین تھا کہ اس کی بہن سب ٹھیک کر لے گی
اپنا گھر بار بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک چلی جائے گی
لیکن خود کو اتنی بڑی چوٹ لگانا واقعی ہمت کی بات تھی اس میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی ۔لیکن سومیہ کو اپنا گھر بار بچانا تھا جس کے لیے اپنی جان جانے کا بھی ڈر نہ تھا
اسے پتہ تھا کہ ابراہیم آسانی سے یا چھوٹی موٹی چوٹ کا سن کر کبھی واپس نہیں آئیں گے
اس لیے اس نے خود کو بڑی ضرب لگائی تھی ۔
ابراہیم اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر اس کے لئے واپس آ گئے تھے
کیونکہ ان کے مطابق اب یہ کیس حل ہوچکا تھا
انہوں نے کہا تھا کہ وہ کل ہی اسلام آباد پہنچ جائیں گے اور اپنے ہاتھوں سے بلیک بیسٹ کو ختم کریں گے
یہ تو ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کے ہر دشمن کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارے پر ایسا موقع وہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے
اسی لیے انہوں نے اپنی ٹیم سے کہا تھا
باقی سارا کام ٹیم کر لے لیکن بلیک ٹیسٹ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کریں گے ۔
وہ جلدی واپس جانے کا ارادہ رکھتے تھے
لیکن سومیہ کی حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے جلدی واپس نہ جا سکے
۔اس وقت ان کی بیوی کو ان کی ضرورت تھی
جب کہ ان کی ٹیم اپنا کام ختم کرکے ایک فائل اور کچھ ویڈیوز ان کے گھر پہنچ چکی تھی
اور سومیا جانتی تھی کہ یہ وہی ثبوت تھے جو اسے برباد کر سکتے ہیں
بس اب یہ فائل اور ویڈیوز کیسے بھی اپنے بھائی تک پہنچانی تھی یا ضائع کردینی تھی اکبر نے اس سے کہا تھا کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ لسٹ میں کتنے لوگوں کا نام ہے
اس لیے یہ سب کچھ تک پہنچایا جائے لیکن سومیا نے یہ سب کچھ ضائع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا
وہ مزید کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی
°°°°°
بابا آپ نہیں جائیں نہ کل میری سالگرہ ہے
جان نے ان کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے لاڈ سے کہا
میری جان میں وعدہ کرتا ہوں میں سالگرہ سے پہلے پہنچ جاؤں گا واپس بس مجھے روکنا مت جانے دووہ اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگے ۔
ٹھیک ہے آپ کل میری برتھ ڈے شروع ہونے سے پہلے آ جائیے گا
لیکن جانے سے پہلے مجھے کوئی کام دے کر جائے جیسے کہ میرے وطن کا کوئی کام جان کی لگن پاکستان کے لئے بڑھتی چلی جا رہی تھی
جیسے لے کر بہت خوش تھے ۔
ہاں میری جان کیوں نہیں یہ بوکس دیکھ رہے ہو تمیں اس کی حفاظت کرنی ہے
جب تک میں واپس نہیں آجاتا
وہ فائل اور سی ڈیز کے باکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے
اوکے سر میں آپ کے باکس کا خیال رکھوں گا
اور اسے بہت سنبھال کر رکھوں گا ۔
جان نے کسی فوجی کی طرح وعدہ کیا ۔
اور یہی انداز ان کے لئے ان کی خوشی تھا
یہی چیز تو وہ دیکھنا چاہتے تھے اپنے بچے میں ۔
جان میری ایک بات یاد رکھنا ہم فوجی ہیں اور ہم لوگوں کے لئے اپنے وطن سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں نہ رشتے ناطے ناعزیزوجان سب سے پہلے ہمارا وطن باقی سب کچھ بعد میں آتا ہے ۔ہمارے لئے ہمارا ملک ہی سب کچھ ہے اور اگر اس ملک کے لیے ہمیں جان دینے کا موقع ملے تو یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے ۔وہ بہت محبت سے اسے سمجھا رہے تھے
یس بابا پاکستان سے زیادہ اہم اور کچھ بھی نہیں
اور جب میں بڑا ہو جاؤں گا اور فوج میں چلا جاؤں گا تو پاکستان کے سب دشمنوں کو چن چن کر مار دوں گا ان شاءاللہ جان کا حوصلہ مضبوط اور ارادہ چٹانی تھا
جسے محسوس کرتے ہوئے ابراہیم کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا
°°°°°
ابراہیم اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے تھے
جب کہ سومیہ کی حالت اتنی خراب تھی کہ اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا ۔
لیکن بات وہی ختم ہو رہی تھی کہ اسے اپنا آپ بچانا تھا ۔
وہ جیسے تیسے ابراہیم کے پرسنل روم میں آئی تھی
۔جہاں جان بیٹھا کچھ کر رہا تھا
ابراہیم آج صبح اسلام آباد کے لیے نکل چکے تھے یقینا ان کو آج بلیک بیسٹ کا نام و نشان ختم کرنا تھا ۔
ماما آپ یہاں کیوں آئیں۔۔۔!
آپ کو تو بابا نے ریسٹ کرنے کے لئے بولا تھا ۔۔۔۔؟
ہاں بیٹا میں لیٹ لیٹ کر تھک گئی ہوں
جاؤ ذرا میرے لیے پانی لے آؤ وہ باکس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی
جسے جان نے اپنے بالکل پاس رکھا ہوا تھا
جان فورن پانی لینے جا چکا تھا
جبکہ سومیہ بوکس میں سے فائلز اور ڈی وی ڈیز نکالنے لگی
ماما یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔۔۔۔؟
بابا نے یہ مجھے دی ہیں سنبھالنے کے لیے
اس روم سے لے جانے کے لیے بھی منع کیا ہے سومیہ کو یہ چیزیں باہر لے جاتے دیکھ جان نے فوراً کہا تھا
۔جوہ ان وہ۔ ۔۔۔ہاں آپ کے بابا کا فون آیا ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے یہ سب کچھ لانے کے لئے
میں یہ سب کچھ ان ہی کے پاس لے کر جا رہی ہوں ۔آپ یہیں پر رہو میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گی
سومیہ سے گھبراہٹ میں کوئی ڈھنگ کا بہانہ بھی نہ بنا
۔لیکن جان کو ہینڈل اس کے لئے مشکل نہیں تھا
یہ سب کچھ ختم کرنے کے بعد اس نے جان کے سامنے کوئی بھی بہانہ کر لینا تھا ۔
جان کیلئے اتنا ہی کافی تھا کہ یہ سب کچھ اس کے باپ نے منگوایا ہے
لیکن وہ چھوٹا سا معصوم بچہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس وقت اس کے سامنے اس کی ماں نہیں بلکہ اس کے ملک کی غداری کھڑی ہے
تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو....
میں تمہیں انفارمیشن دے چکا ہوں
اب آزاد کر دو مجھے بلیک بیسٹ نے کہا
۔آزاد کرنے ہی لایا ہوں تمہیں یہاں پر ابراہیم نے اسے دیکھتے ہوئے ۔
تم مجھے یہاں جان سے مارنے لائے ہو نہ بلیک بیسٹ خوف سے بولا
بہت ہوشیار ہو آخر تمہیں دنیا میں ایسے ہی بلیک بیسٹ نہیں کہتی ہو گئی
وہ مسکرائے تھے
۔نہیں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ابراہیم میں نے تمہیں ساری انفارمیشن دی ہے
سب کچھ بتایا ہے تمہیں
اب تم اپنے وعدے سے مکر نہیں سکتے ۔
میں اپنے وطن کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں
اور تم تو پہلے دن سے میری نظر میں تھے
بیس سال ضائع کیے ہیں میں نے تمہارے لیے
یہ دھوکہ ہے تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے
تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے میں نے تمہاری ہر بات مانی ہے
۔میری ساری باتیں اپنے وعدے کے مطابق پوری ہیں بلیک بیسٹ
تمہیں آزادی چاہیے تھی مجھے انفارمیشن۔۔۔۔
تم نے انفارمیشن مجھے دے دی اور اب میں تمہیں آزادی دے رہا ہوں
زندگی سے۔۔۔۔
اس کے بعد ابراہیم نے اسے بولنے کا موقع نہ دیا
تھوڑی دیر تڑپنے کے بعدوہ زندگی کی بازی ہار گیا
دنیا کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر نچانے والا جلد ہی بے جان ہو چکا تھا
یہ لوگوں کے قتل کرنے والے نوجوان نسل کو تباہ کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کو بھی ایک دن مرنا ہے ان کے لیے بھی حساب کا دن مقرر ہے
ابراہیم کے لوگ اس باڈی کو ٹکانے لگا رہے تھے
کیونکہ دنیا کے سامنے وہ پہلے ہی مر چکا تھا ۔
سر آپ نے وہ لسٹ دیکھی ان کے ایک ٹیم ممبر نے پوچھا
نہیں یار میں وہ لسٹ نہیں دیکھ سکا میں آج ہی اس پر کام شروع کروں گا
دراصل اس لسٹ میں ۔۔۔عارف کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔
عارف بولو اس میں ایسا کیا ہے تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔۔؟
اس کی پریشانی کو وہ بھی محسوس کر چکے تھے
سر مجھے کنفرم تو نہیں ہے لیکن اس لسٹ میں آپ کے سالے کا نام بھی موجود ہے
میں نہیں جانتا ہی اکبر خان وہی ہے یا کوئی اور لیکن وہ بلیک بیسٹ کے بھائی کے خاص آدمی میں سے ایک ہے ۔عارف جھجکتے ہوئے کہا
جبکہ اس کی اس بات نے ابراہیم کو بھی اچھا خاصہ پریشان کردیا تھا
ابراہیم نے فوراً اپنے گھر پر فون کیا تھا کیونکہ اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں اٹھا سکتے تھے اس کیس کے لیے وہ اپنی زندگی کے 20 سال ضائع کر چکے تھے اب مزید نہیں کر سکتے تھے
°°°°
ابراہیم جلدی سے اپنے فلیٹ میں پہنچے تھے
اس سے پہلے کہ کچھ برا ہو جائے وہ سب کچھ بھی کر دینا چاہتے تھے
انکا سالہ انہیں اتنا بڑا دھوکا دے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے
اور نہ ہی وہ اپنے رشتوں سے اس طرح کی کوئی امید رکھتے تھے
ان کی نظروں میں اکبر ایک عام سا کاروبار کرنے والا شخص تھا لیکن اکبر کیا نکلا تھا
وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اکبر ملک کے خلاف اتنے بڑے پلین کا حصہ بھی ہوسکتا ہے
ان کی ماتھے کی رگیں باہر آئی ہوئی تھی بار بار فون کرنے کی کوشش کے باوجود بھی فون نہ لگا.
یہ فون کیوں نہیں لگ رہا وہ پریشانی سے دوبارہ فون کرنے لگے
جب انہیں محسوس ہوا کہ کوئی ان کے پیچھے کھڑا ہے
پلٹ کر دیکھا تو بے یقینی تھی اکبرکو مسکرا پایا اور ہاتھ میں فون وار تھی ابراہیم نے غصے سے فون پٹخ دیا تم اتنے بےغیرت نکلوگے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا
وہ سارا احترام بھول چکے تھے
ہاں میں اتنا ہی بے غیرت ہوں ابھی تو میں نے تو میں اپنی بے غیرتی دکھائی ہی نہیں اکبر کہتے ہوئے اپنی جیب سے پستول نکال کر ان پرتان چکا تھا
تم نے میرا کام کم کردیا بلیک بیسٹ کو زندگی سے آزاد کردیا
اس کے بھائی نے اسے مارنے کا پلان بنا لیا تھا
کیونکہ اس کے لیے اس کا بھائی اب کسی کام کا نہیں تھا
تمہیں انفارمیشن دے کر ویسے بھی اسے مارنے والا تھا اور اگر تمہیں کوئی انفارمیشن نہ دیتا تو بھی وہ مارا جاتا کیونکہ اب اس کے بھائی کو بلیک بیسٹ کا مقام چاہیے تھا
جو حاصل کرنے سے پہلے تم نے اسے ختم کر دیا
اور اب ہمارے راستے میں رکاوٹ بس تم ہی ہو اگر تمہیں مار دیا جائے تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا
اسی لیے فیوچر بلیک فیس نے مجھے یہاں بھیجا ہے تمہیں ختم کرنے کے لئے
اب تمہیں مار کر یہاں سے چلا جاوں تو بلیک بیسٹ مجھے اتنا پیسہ دے گا کہ میری زندگی عش میں گزرے گی اسی لیے تمہیں تو اب مرنا ہوگا
اور مرنے سے پہلے میرے لئے تھوڑا کام آسان کرنے کا شکریہ
واقعی بلیک بیسٹ کو تمہاری قید سے نکال کرختم کرنا بہت مشکل تھا
اب تک تو سومیا سارے ثبوت بھی مٹا چکی ہوگی جن میں ہمارے نام ہیں
ویسے اتنی بڑی گیم کھیلیں نہ ہم نے تمہارے ساتھ جسے تم سمجھ میں نہیں پائے
13 سال سے چل رہا تھا تمہاری ناک کے نیچے ڈرامہ اور تم کتنے بے وقوف نکلے
آج تو کچھ سمجھ ہی نہیں پائے
سچ ہی کہتے ہیں لوگ رشتوں میں لپٹے دھوکے کو پہچاننا آسان نہیں ہوتا سمجھ سکتا ہوں یقین کرنا مشکل ہو گا
لیکن یہی حقیقت ہے تمہاری محنت ضائع ہو چکی ہے
تمہارے اتنے سالوں کی محنت سب کچھ برباد ہو چکا ہے
ابراہیم سب کچھ ختم ہو چکا ہے
سب کچھ ہار گئے ہو تم
اپنے بیس سال کا انتظار بھی اور آج اپنی زندگی بھی میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا تھا تم بہت اچھے انسان ہو
لیکن مجھے ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے تمہیں مار نہ ہوگا
وہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے گولی چلا چکا تھا
گولی ان کے سینے کے بیچوں بیچ لگی۔ابراہیم نے آگے بڑھ کر اسے دھکا دیا اپنا پستول نکالنے کی کوشش کرنے لگے لیکن اس سے پہلے ہی اکبر ان پر دوبارہ وار کر چکا تھا اس بار گولی ان کی پیٹھ پر لگی تھی وہ زمین پر بیٹھ گئے
ابراہیم کے پاس جیسے الفاظ ہی ختم ہو چکے تھے اتنا بڑا دھوکا وہ بھی اپنے سے۔
وہ خاموشی سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے
جو گولی پر گولی چلا کر انہیں گھائل کر چکا تھا
وہ اپنے بچاؤ کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا نہ ہی یہاں پر اتنی جگہ تھی کہ وہ اسے دھکا دے کر اپنے بچاؤ کے لیے کچھ کر پاتے
لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارے وہاں سے سمجھانا چاہتے تھے کہ وہ اپنے ملک کو برباد کر رہا ہے
اکبر تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو اب بھی وقت ہے
میں تمہیں سزاسے بچاؤں گا توبہ کرلو
اپنے ملک کے ساتھ ایسا مت کرو غداری گناہ ہے
کون سا ملک ۔۔۔؟ اس ملک نے دیا کیا ہے مجھے جو میں اس کو کچھ دوں
مجھے پیسہ چاہے ۔پیسے کے لئے بہت کچھ کیا ہے میں نے اپنی بہن تمہیں دے دیا ہے اپنی بیٹی کو تمہارے بیٹے کے نکاح میں دے دیا
صرف پ پیسے کے لئے اور اب وہ پیسہ مجھے مل چکا ہے ۔
غیرت دکھاؤ شرم کرو اپنی بہن اور بچی کے لئے ایسے الفاظ مت استعمال کرو تمہاری بچی میرے بیٹے کے نکاح میں ہے تاحیات رہے گی
کبھی نہیں میں ابھی تمہارے گھر جاؤں گا اور اپنی بیٹی کو اس سے سے آزاد کروں گا ۔تمہارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا مجھے
یہ سب ایک کھیل تھا
ایک گیم تھی
میں نے یہ سب کچھ صرف روپے پیسے کے لیے کیا تھا جو مجھے مل چکا ہے
تمہارے ساتھ جڑے ہو کسی رشتے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
اور نہ ہی میری بیٹی کو تم سے کوئی رشتہ رکھنا ہے
اور آج تمہیں ختم کر کے میں یہ قصہ تمام کر دوں گا
بوئے کوئی گولی ان پر چلاتے ہوئے بولا
اور اس بار ابراہیم کا حوصلہ جواب دے گیا ان کی آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگی
وہ درد میں تڑپ نہیں رہے تھے
کیونکہ جو دھوکا انہیں ملا تھا وہ اس درد سے کہیں بڑا تھا ۔
تم میری اچھی یادوں میں رہو گے پیارے بہنوئی وہ انہیں مرا ہوا سمجھ کرخاموشی سے وہاں سے نکل چکا تھا ۔
جب کہ ابراہیم نے اس کے جاتے ہی اپنی آنکھیں کھول دیں
کیونکہ وہ اس ثبوت کو ضائع نہیں کر سکتے تھے
جو ان کی 20 سال کی محنت کا صلہ تھا
وہ اپنی تمام تر جمع کر کے اٹھے بولو اور وہ وار فون کے ساتھ لگائی
انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اب یہاں سے زندہ نکلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے
اسی لیے انہوں پہلے معید کو فون کیا اور اپنے گھر جانے کا کہا
اس کی حالت کا سوچ کر معید رو پڑا لیکن انہیں معید کے آنسو نہیں بلکہ وطن سے وفا کی امید جس پر معید نے کھڑا اترنا تھا۔
معید سے بات کرنے کے بعد انہوں نے گھر فون کیا
ان کا فون جان نے اٹھایا تھا اب ہمت جواب دے چکی تھی
اس درد میں اپنے بیٹے سے بات کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا
°°°°°
کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔جان وہ اپنی آواز کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے
ٹھیک ہوں بابا بٹ آپ نے ماما کو کیوں کام بولا
آپ کو پتہ ہے ان کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے
مجھے یہ کام بتانا چاہیے تھا
میں آپ کے پاس وہ فائل اور ویڈیو چھوڑ جاتا
آپ ہیں کہاں پہلے مجھے یہ بتائیں اور گھر کب تک آئیں گے ۔وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا ۔
جان تمہاری ماں کو ۔۔۔۔۔گئے ۔۔کتنا۔۔۔۔ وقت ہوا ہے ۔انہیں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی جان خود ہی ساری بات ان کے سامنے رکھ چکا تھا
ان کو گئے ہوئے تو پانچ سات منٹ گزر چکے ہیں لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔؟
آپ کو پتہ ہے کہ وہ کتنی مشکل سے واک کر رہی تھی ۔۔۔جان کچھ کہہ رہا تھا جب انہوں نے بات کاٹ دی گئی
میری ۔۔۔۔بات کان کھول۔۔۔۔۔ کر سنو جان
تمہیں۔۔۔۔ یاد ہے نا میں۔۔۔۔۔ نے تمہیں کیا ۔۔۔۔۔سیکھا تھا
چاہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔ بھی سامنے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔نہ ہو لیکن ملک۔۔۔۔۔۔ سے عزیز کچھ۔۔۔۔۔ نہیں تمہیں یاد ہے ۔۔۔۔۔نا جان ہم ۔۔۔۔۔۔ملک کے رکھوالے۔۔۔۔۔۔ ہیں ملک کی۔۔۔۔۔۔ حفاظت کرنے ۔۔۔۔۔۔والے ہمارے ۔۔۔۔۔۔لئے اپنے ۔۔۔۔۔ملک سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔عزیز کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں نہ رشتے ۔۔۔۔۔۔نہ لاتے نہ اپنے ہمارے۔۔۔۔۔۔ لئے سب۔۔۔۔۔ سے پہلے ۔۔۔۔۔ہمارا ملک آتا ہے ۔۔۔۔ہم غداروں۔۔۔۔ سے نفرت۔۔۔۔۔۔ کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔ چاہے وہ۔۔۔۔۔ غد دار ہمارے۔۔۔۔۔ اپنے ہی ۔۔۔۔کیوں نہ ہوں۔
کی پاپا مجھے سب یاد ہے لیکن آپ کی ساری باتیں کیوں بتا رہے ہیں
میں اپنی ذمہ داری تمہارے کندھوں پر لگا رہا ہوں اچھی جو کام میرا تھا وہ تم کروگے تم میں وہ سب کچھ کرنا ہے جو میں کہتا ہوں
تو میں اپنے ملک کا محافظ بنا ہے جان
اور ایک اور اہم۔۔۔۔۔ بات میری خواہش۔۔۔۔ ہے کہ ماہی۔۔۔۔۔ میرے گھر کی۔۔۔۔۔ بہو بنے اور چاہے ۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی ہو جائے تو۔۔۔۔۔ میں ماہی۔۔۔۔۔ کو چھوڑنا نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس معصوم کو اپنے ۔۔۔۔۔باپ کے کیے کی۔۔۔۔۔۔۔ سزا نہیں ملنی چاہیے۔۔۔۔۔ اور تمہاری ماں۔۔۔۔۔ نے ہمارے ساتھ غداری ۔۔۔۔۔۔کی ہے اس نے اپنا۔۔۔۔۔ آپ نہیں بلکہ ہمارا ملک بیھچا ہے ۔
مطلب آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ماما اور ماموں نے ہمیں دھوکا دیا ہے ۔جان جیسے ان کی بات کی تہ تک پہنچ چکا تھا تبھی دروازہ کھلا معید اندر داخل ہوا۔
جان تم ٹھیک ہو میری جان تمہاری ماں کہاں ہے کیا لے کر گئی ہے وہ یہاں سے مجھے جلدی سے بتاؤ وہ ایک کمرہ چیک کرنے لگا ۔
فون پر کس سے بات کر رہے ہو تم وہ جلدی سے باہر آیا
بابا سے۔۔۔۔ جان نے معید کو دیکھتے ہوئے کہا
جان اب ۔۔۔۔سے معید تمہارا۔۔۔۔۔ خیال رکھے ۔۔۔۔۔۔۔گا وہ جو کہیں ۔۔۔۔۔گا تمہیں۔۔۔۔ وہی کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔اس نے ۔۔۔۔مجھ سے وعدہ۔۔۔۔۔۔ کیا ہے ۔۔۔۔۔کہ وہ تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس قابل بنائے ۔۔۔۔۔گا کہ تم میری ساری۔۔۔۔ زمداری اٹھا سکو۔
آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں
۔۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہیں نہ بابا وہ بے چین ہونے لگا۔
تم وعدہ کرو ۔۔۔۔۔۔کہ ملک کے۔۔۔۔۔ غداروں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔چن چن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔مارو گے
اپنے ملک کو دھوکہ۔۔۔۔۔ نہیں دو گے۔۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے۔۔۔۔۔۔ باپ کے قتل کا ۔۔۔۔۔حساب چکانا ۔۔۔۔۔۔ہوگا جان ۔۔۔۔چاہے تمہارے سامنے۔۔۔۔۔۔ تمہاری سگی ۔۔۔۔۔۔ماں ہی ۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہ ۔۔۔۔۔۔۔ہو وعدہ کرو۔۔۔۔۔ مجھ سے ۔۔۔وعدہ کرو مجھ سے جان ۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس زیادہ۔۔۔۔۔ وقت نہیں ہے میں۔۔۔۔ تمہیں چھوڑ۔۔۔۔۔ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔اپنے ملک کو۔۔۔۔۔ تمہارے حوالے۔۔۔۔۔ اور تمیں اپنے ملک کے ۔۔۔۔۔حوالے سے۔۔۔۔ چھوڑ کر ۔۔۔۔جا رہا ہوں
ان کی باتیں جان کی آنکھوں میں آنسو لے آئی معید اس کے پاس آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔
میں وعدہ کرتا ہوں بابا میں آپ کے ملک کی حفاظت کروں گا
میں کسی بھی غددار کو نہیں چھوڑوں گا ۔
آپ کا چھوڑا ادھورا کام میں پورا کروں گا
یہ میرا خواب نہیں میرا مقصد ہے ۔
شاباش میرے۔۔۔۔۔۔ بچے اب یہ۔۔۔۔۔ میرا ملک ۔۔۔۔۔تمہارے حوالے۔۔۔۔ میری محنت۔۔۔۔ کے بیس سال اس۔۔۔۔۔ پر لگے ہیں۔۔۔۔ شاید تمہاری۔۔۔۔۔ پوری زندگی لگ ۔۔۔۔۔جائیں ہمت ۔۔۔۔مت ہارنا یاد رکھنا ۔۔۔۔کہ یہ تمہارے۔۔۔۔ باپ کی آخری۔۔۔۔ خواہش ہے
بابا میں وعدہ کرتا ہوں میں آپ کی ہر خواہش پوری کروں گا وہ روتے ہوئے کہنے لگا
لیکن دوسری جانب سے کوئی آواز نہیں آئی
جان کے رونے میں شدت آگئی
معیدکتنی دیر اسے اپنے سینے سے لگائے خود بھی روتا رہا ۔
پھر جان نے فون رکھا اور اپنے آنسو صاف کیے
چاچو چلے ماما ماموں کے گھر گئی ہوں گی ہمیں کسی بھی حال میں وہ ثبوت واپس لانے ہیں
مجھے اپنے بابا کی آخری خواہش پوری کرنی ہے
اس کام میں بابا کے بیس سال لگے چاہے میری پوری زندگی ہی کیوں نہ لگ جائے لیکن میں بابا کا خواب پورا کر کے رہوں گا
وہ ہمت سے بولا معید نے ایک نظر اس کے حوصلے کو دیکھا تھا
اپنا باپ کھونے کے بعد بھی وہ اتنی ہمت دکھا رہا تھا تومعید تو صرف ایک دوست تھا ۔اور دوست ہونے سے پہلے ملک کا رکھوالا ۔اس نے ایک نظر جان کو دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ تھام لیا
اب جان نے ہی اس سے لوگوں تک پہنچانا تھا ۔
اور جان کی ذمہ داری بھی اٹھانی تھی
اس نے آپنے مر تے دوست سے وعدہ کیا تھا وہ جان کی حفاظت کرے گا اس کی پرورش کرے گا اسے اس مقام تک پہنچ جائے گا جہاں اس کا باپ تھا اور ابراہیم کا آخری خواب پورا کرنے میں اس کی مدد کرے گا
اس نے گھر میں قدم رکھا تو زینت کو کسی کام میں مصروف پایا
بھابھی بھائی کہاں ہے اس نے پوچھا
آو سومیہ شکر ہے تمہیں بھی فرصت ملی کیوں گھوڑے پر سوار ہو۔۔۔؟
۔اتنی جلدی کیا ہے اور کس کے ساتھ آئی ہو ابھی تمہیں بیڈ ریسٹ کرنا چاہیے
تمہاری طبیعت ابھی مکمل ٹھیک نہیں ہوئی ۔۔۔
نہیں بھابھی میں بالکل ٹھیک ہوں اور پلیز ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے مجھے بھائی سے بہت اہم کام ہے
پلیز بتائے وہ کہاں ہیں
دوسرے شہر گئے ہیں کل تک واپس آجائیں گے
تم آؤ بیٹھو زینت نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں بھابھی میں بیٹھ نہیں سکتی مجھے جانا ہے بہت کام تھا
ہاں میں سمجھ سکتی ہوں کل جان کی سالگرہ ہے نا
میں بھی ابھی بازار ہی جا رہی تھی
اس کے لئے کوئی تحفہ خریدنے
زینت اس کی بے چینی کو بالکل بھی سمجھ نہیں پائی تھی
مطلب کے ابراہیم کے واپس آنے سے پہلے مجھے ان ثبوتوں کو ضائع کر دینا چاہیے پتا نہیں بھائی کو یہ ثبوت کیوں چاہیے
لیکن یہ میں براہیم کے ہاتھ لگنے نہیں دے سکتی
ورنہ سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا
اسےمجبور اً زنیت کے پاس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھنا پڑا لیکن وہ جلد ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی
زینت نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی
لیکن فی الحال وہ اپنی سوچوں کی کشمکش میں تھی
اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا
اور نہ ہی اپنے درد کی خبر تھی
اسے بس اتنا پتہ تھا کہ وہ اپنا گھر بچا سکتی ہے
اور یہ اس کے پاس آخری موقع ہے
وہ وہاں سے نکل کر وہ گھر جانے کی بجائے ایک سنسان جگہ کی طرف جا رہی تھی
جہاں وہ ان سب چیزوں کو ضائع کر سکے ۔اس نے ایک دوکان پر کھڑے ہوکر ماچس خریدی
اور پھر ایک کھلے میدان کی طرف آگئی یہ علاقہ کافی سنسان تھا
اور کچھ لوگوں کے پھیلائی ہوئی خبریں یہ تھی کہ یہ جگہ خطرناک ہے اس لیے یہاں بہت لوگ کم لوگوں کی آمدورفت تھی
۔لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ کوئی ہے جو اس کا پیچھا کر رہا ہے
اس کے ایک ایک موو منٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں
°°°°°
معید چاچو آپ یہاں کیوں روکے ہیں وہ سب ضائع کر دیں گی
انہوں نے ماچس خریدی یقینا وہ ساری چیزیں جلانا چاہتی ہیں
میرے بابا نے وہ چیزیں بہت محنت سے جمع کی ہیں وہ میرے بابا کے بیس سال کی محنت ہے
جسے میں ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا ۔
صبر کر جاؤ جان ہم پبلک پلیس میں اس طرح اس پر اٹیک نہیں کر سکتے اور اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ ثبوت کو ہم سے دور کر دے ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے
وہ اسے سمجھا رہا تھا
جب کہ سومیا اب ایک کھلے میدان کی طرف بڑھ گئی
معید آہستہ آہستہ اپنی گاڑی اس کے پیچھے میں میدان کی طرف لے کر آیا اور باہر ہی روک دی
چلیں چاچو جلدی چلیں اس سے پہلے کہ ہم ان ثبوتوں کو برباد کر دیں
ہمیں انہیں بچانا ہوگا
ہاں جان تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن یہ میدان کافی بڑا ہے
جب تک ہم اس تک پہنچیں گے وہ سب برباد کر دے گی
اسی لیے ہمیں ہوشیاری سے کام لینا ہوگا
تو یہیں پر رکو اور میں اندر جاکر وہ ثبوت اس سے لینے کی کوشش کرتا ہوں
اگر ثبوت نہ ملا تو میں اس کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کروں گا اور تم وہاں سے ثبوت غائب کروگے
تم سمجھ رہے ہو نہ معید اسے مکمل بات سمجھانے کے بعد پوچھنے لگا
جس پر جان نے فوراً ہاں میں سر ہلایا تھا وہ اس کا کندھا تھپتھپاتا اندر کی جانب چلا گیا
°°°°°°°
ارے بھابھی جی آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔؟
وہ تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی جب اسے پیچھے سے معید کی آواز سنائی تھی
اس کے ہاتھوں بری طرح سے کانپ کر رہے گئے اور وہ کھلا کر اٹھ گئی
اور ثبوتوں کو اپنے پیچھے چھپانے لگی
کچھ نہیں معید بھائی یہاں سے گزر رہی تھی لیکن کوئی بھی گاڑی یارکشہ نہیں مل رہا تھا تو اکبر بھائی کو فون کیا
کہ مجھے یہاں سے لے جائیں
انہوں نے مجھے یہاں میدان میں رکھنے کے لئے کہا تھا
تو یہاں اندر آ گئی خیر سے آپ یہاں کیا کر رہے ہیں
وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو کرتے ہوئے نارمل انداز میں پوچھنے لگی۔
کچھ نہیں مجھے یہاں میدان میں کچھ کام تھا
آپ کے ہاتھ میں کیا ہے وہ اس کا پیچھے چھپا یا ہوا ہاتھ دیکھ کر کہنے لگا
اور اس کی باتوں نے سومیا کو اچھا خاصہ نروس کر دیا تھا
کچھ نہیں بس میری کچھ چیزیں ہیں کل جان کی سالگرہ ہے
تو وہی سامان لینے آئی تھی
وہ ان چیزوں کو مزید اپنے ہاتھ میں چھپاتے ہوئے دوپٹہ ڈال چکی تھی
۔آپ کی طبیعت اتنی خراب ہے فی الحال آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے دیجئے مجھے اٹھا لیتا ہوں اور آئیے میں آپ کو گھر ڈراپ کر آتا ہوں معید نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تو وہ اس سے کہیں فٹ کے فاصلے پر چلی گئی
نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اپنی چیزیں خود اٹھا سکتی ہوں اس کا لہجہ کافی سخت تھا ۔
جبکہ معید کے لیے مزید ڈرامہ کرنا مشکل تھا اسی لیے اپنی جیب سے پستول نکالتے ہوئے اس پر تن گیا۔
بس بہت ہوگیا ڈرامہ وہ چیزیں میرے حوالے کر دو
تمہارا راز اب راز نہیں رہا سومیا
سب کچھ بدل چکا ہے بلیک بیسٹ کے خلاف یہ ثبوت اب مزید چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
تم یہ ضائع نہیں کر سکتی
ویسے کتنی مکار عورت ہو تم تمہارا شوہر بیس سال سے دن رات محنت کرکے یہ جمع کر رہا تھا اور تم کتنی آسانی سے انہیں برباد کرنے آ گئی
شاید جن لوگوں کے ضمیرمرے ہوئے ہوتے ہیں ان لوگوں کے لئے یہ بات کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی
ان چیزیوں کو میرے حوالے کر دو معید نے اپنا دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا ۔
جبکہ سو میہ بھی اس کی پوری بات سننے کے بعد سمجھ چکی تھی کہ اب بچنا آسان نہیں ہے
اسی لئے وہ بھی مزید اسے صفائیاں دینے کا ڈرامہ کرنے کے بجائے اپنا ریوالور نکال چکی تھی
۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں نے واقعی زندگی میں بہت ساری غلطیاں کی
لیکن مزید کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی
اگر میرے بارے میں جان گئے ہوں تو میرے بارے میں اور بھی بہت کچھ جان چکے ہوں گے
اگر میں کوئی عام لڑکی ہوتی تو بلیک بیسٹ کبھی مجھے اپنی ٹیم میں نہیں رکھتا
اور نہ ہی میرے سامنے ابراہیم کی بیوی بننے کی شرط رکھتا میں نے پیسے کے لئے بہت کچھ کیا ہے یہاں تک کہ اپنا آپ برباد کر دیا
لیکن اب مجھے اس پیسے کا لالچ نہیں ہے
۔۔میں اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتی ہوں
میں جان اور ابراہیم کے ساتھ ایک بہترین زندگی گزارنا چاہتی ہوں
۔لیکن میں جانتی ہوں کہ تم اب ایسا کبھی نہیں ہونے دوگے
کیونکہ تم میری حقیقت جان چکے ہو ۔اور میں اپنی شادی شدہ زندگی میں کسی بھی قسم کی کوئی پرابلم نہیں چاہتی
اور اب ان ثبوتوں کو ابراہیم تک بھی پہنچنے دوں گی اور نہ ہی تمہیں اب یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ میرے ہاتھوں مرنا پسند کرو گے یا مجھے اپنی گولی کا نشانہ نہ بناؤ گے
اس کے لہجے میں کسی بھی قسم کا ڈر اور خوف نہیں تھا ۔
وہ اسے مارنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔وہ ایک اچھا انسان تھا ۔
لیکن فی الحال اسے صرف اور صرف اپنے گھر بار کی پروا تھی
لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ سے کسی نے کچھ لیا ہے
پلٹ کر دیکھا تو جان نہ صرف اس کے ہاتھ سے چیزیں چھین چکا تھا بلکہ معید کی طرف بھی پھینک چکا تھا ۔چاچو ان چیزوں کو لے کر چلے جائیں یہاں سے وہ چلایا تھا ۔
جبکہ سومیا تو سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ اچانک ہوا
کیا وہ بے چینی سے معید کی جانب بڑھ رہی تھی
جب جان نے اسے دھکا دیا اور وہ معید کو اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے جانے کا کہہ رہا تھا
میری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے سومیہ لیکن تم میرے ملک کے دشمن ہو تم کبھی بھی مجھے اتنی گھٹیا نہیں لگی تھی
تمہارے اندر ہر چیز ہے لیکن وفا نام کی کوئی چیز نہیں
تم نےاپنے ملک کو اپنے شوہر کو اپنی اولاد کو دھوکا دیا ہے
شاید اسی لیے آج تمہاری اولاد میں تمہارا ساتھ نہیں دے رہی
اور اب یہ ثبوت یہاں سے سیدھے کورٹ جائیں گے اور یہ سب لوگ جیل میں تیار رہنا تم بھی انہی میں سے ایک ہو
بہت کم وقت ہے تمہارے پاس اپنی پہچان بدل لو یا پھر یہاں سے بھاگ جاؤ
لیکن ہماری پہنچ سے دور نہیں جاؤ گی وہ جان کو چلنے کا اشارہ کرتے ہیں اسے جیسے آزاد چھور چکا تھا ۔
ان کے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہی سومیہ کو جیسے ہوش آیا تھا
جان تو اس کی اولاد تھا وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی
لیکن معید وہ اس کا گھر برباد کر رہا تھا
ہاں وہ ایک مطلبی عورت تھی
اسے صرف اپنے آپ سے مطلب تھا
اس کی نظر میں جان ایک بچہ تھا اور وہ اس کی ماں ہے
وہ اسے جو کہتی جان اسی بات پر عمل کرتا
لیکن معید کے ہاتھ میں اس کی بربادی کی سندتھی
۔اس نے بنااپنے انجام کی پرواہ کیے معید پر گولی چلائی مجو عید کی پیٹھ پر لگی تھی لمحے میں وہ زمین پر جا گرا
جان بے یقینی سے آپ کی ماں کو دیکھنے لگا
یہ آپ نے کیا کیا ماماآپ نےچاچو پر گولی چلائی معید کا بہتا ہوا خون دیکھ کر وہ بوکھلا چکا تھا
جان یہ سب لوگ پاگل ہو گۓ ہیں یہ مجھے پھسانا چاہتے ہیں
تمہاری ماں کو پھسانا چاہتے ہیں اسی لیے مجھے مجبوری میں ایسا کرنا پڑا یہ تمہارے چاچو بالکل بھی اچھے انسان نہیں ہیں
یہ تمہارے بابا کی محنت کو برباد کرنا چاہتے ہیں
اسی لیے میں اسے لے کر تمہارے بابا کے پاس جا رہی تھی
جھوٹ بول رہی ہیں آپ دھوکے باز معید چاچو نہیں بلکہ آپ خود ہیں
آپ نے دھوکا دیا ہے بابا کو
جان میرے بچے میرے پاس تمہیں سمجھانے کا وقت نہیں ہے وہ جان کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی اتنے میں معید نے ایک بار پھر سے اپنا پستول اٹھانے کی کوشش کی
لیکن اس بار سومیہ نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے گولی اس کے سینے کے بیچوں بیچ چلائی تھی اور اس بار جیسے معید بے جان ہو گیا
جان فلحال میں یہاں سے جا رہی ہوں
لیکن میں جلد ہی واپس آؤں گی
تمہیں لینے کے لیے یاد رکھنا تمہاری ماں تم سے بہت پیار کرتی ہے
وہ ثبوت اٹھاتے ہوئے جان کو دیکھ کر کہنے لگی جبکہ معید اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتا جان کو امید سے دیکھ رہا تھا
وہ ماں تھی ہر حد سے گزر سکتی تھی لیکن بیٹے کو نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی یہ معید کا یقین تھا ۔
اور جان ہر حد سے گزرسکتا تھا لیکن آپنے بابا کا خواب ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتا تھا
۔اس نے ایک نظر بھاگتی ہوئی ماں کی جانب دیکھا اور پھر زمین پر پڑے اپنے چاچو کو اگلے ہی لمحے اس کے ننھے ذہن نے کیا فیصلہ کیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا
ہاں لیکن معید کی پستول میں جتنی گولیاں تھیں وہ اس نے سومیا پر چلا دی تھی کتنی گولیاں اسے لگی اور کتنی نہیں وہ بالکل بے خبر تھا
اس کے ہاتھ سے چلتی بندوق کتنی وزنی تھی
اور اس کو چلاتے ہوئے اپنی کتنی جان صرف کر رہا تھا اسے بالکل ہوش نہیں تھا
سومیا زمین پر خون سے لت پت پڑی تھی
وہ اس کے پاس آیا اس کے دل میں اپنی ماں کے لیے کسی قسم کا کوئی رحم یا ہمدردی موجود نہیں تھی اس وقت وہ صرف اس کے لئے اس کے وطن کی دشمن تھی
جان نے اس کے پاس سے وہ ثبوت اٹھائے اور تھوڑے فاصلے پر زمین میں ایک گڈھا کھود کر انہیں چھپانے لگا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے باباکی ٹیم کے علاوہ یہ یہ چیزیں کسی اور کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے
۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ چیزیں کس چیز کی ہے
وہ اپنی ماں کو ختم کر چکا تھا لیکن اس کی آنکھ میں ایک آنسو نہ آیا
وہ اتنا بے حس کبھی نہیں تھا لیکن اسے اپنی ماں کی موت کا کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا ۔
پولیس کو خبر کس نے دی پولیس وہاں کیسے پہنچی
ان سب باتوں کا اسے ہوش نہیں تھا ثبوت وہ چھپاچکا تھا اس کا وہ چاچا جو اس کی زندگی کی حفاظت کرنے والا تھا اس کے سامنے ہی شاید دم توڑ گیا ۔
سیکرٹ ایجنٹ ہونے کی وجہ سے معید کو بہت کم لوگ جانتے تھے
اگر پتا تھا تو بس اتنا کہ اس بچے کے ہاتھوں اپنی ہی ماں کا قتل ہوا ہے جان کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ بوڈیزکو پاس مارٹم کے لیے ۔
°°°°°
اس جیل میں رہتے ہوئے اور تیسرا دن تھا
کوئی اس سے ملنے نہیں آیا یہاں تک کہ اس کی پھوپو زینت بھی نہیں وہ جانتا تھا کہ اس کے بابا شہید چکے ہیں اور اپنی ماں کو خود ہی ختم کر کے آیا تھا
وہ بالکل خاموش تھا تین دن ایک ہفتے میں گزر گئے اور پھر وہ ایک ہفتہ ایک ماہ میں بدل گیا
کل اسے دوسری جگہ شفٹ کر دیا جانا تھا شاید اب اس کی زندگی اسی جیل کی کال کوٹھری میں گزرنے والی تھی وہ بالکل خاموش تھا جیسے الفاظ ختم ہو چکے ہو
پھر ایک دن کوئی اس سے ملنے آیا جس کا چہرہ دیکھ کر وہ ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
اسے یقین تھا کہ معید مر چکا ہے لیکن وہ زندہ تھا
وہ ایک ماہ سے کوما میں تھا وہ جان کو اپنے سینے سے لگا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا کہ وہ اپنے ہی دوست کی آخری امانت کا خیال نہ رکھ سکا
جان میرے پاس تمہیں بچانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن میں تمہیں جیل سے نکالوں گا کل تمیہں یہاں سے دوسری جگہ شفٹ کر دیا جائے گا
تمہیں وہاں تین دن گزارنے ہیں
اور تمہیں وہاں بچوں کی جیل میں رکھا جائے گا وہاں پر ایک راستہ ہے جو بہت پہلے انگریزوں نے بنایا تھا لیکن تم وہاں سے چھپ کر بھاگ سکتے ہو
میرے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس سے میں تمہیں لیگل طور پر جیل سے باہر نکال سکوں
ہمارے پاس سومیہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے وہ گناہ گار ثابت ہو سکے
اس لیے تو میں غیر قانونی طریقے سے جیل سے بھاگناہوگا تم وہاں کسی سے بات نہیں کرو گے اور پھر ہم اپنے طریقے سے اس کیس پر کام کریں
لیکن وہ ثبوت کہاں چلا گیا اس جگہ پر ایسی کوئی چیز نہیں تھی کیا پولیس والوں نے اس ثبوت کو ضائع کردیا بلیک بیسٹ کے ہاتھوں کتنے لوگ بھیکے ہیں میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے وہ ثبوت ۔۔۔۔۔
وہ ثبوت میرے پاس ہے میں اسے چھپا کے آیا تھا چاچو آپ نے کہا تھا نہ کہ وہ ثبوت کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے بس اسی لیے میں نے ان چیزوں کو چھپا دیا جان نے اس سے پوری بات بتائی تومعید نے اسے ایک بار پھر سے خود میں بھیج لیا ۔
صرف بارہ سال کا بچہ بھی اپنے ملک کے لیے اپنی محبت دکھا چکا تھا ۔بس اب اسے جیل سے کیسے بھی نکالنا تھا
تین دن گزر چکے تھے
وہ سارا راستہ دیکھ چکا تھا
اسے پتہ چل چکا تھا کہ یہاں واقعی میں ایک راستہ ہے یہ بہت پہلے انگریزوں نے یہاں سے بھاگنے کے لیے بنایا تھا
اور اب وہ یہ راستہ استعمال کرکے بہت آسانی سے یہاں سے بھاگ سکتا ہے
کیونکہ انہیں بچوں کی جیل میں رکھا گیا تھا اور اس سیکشن کو بچوں کے لیے ہی الگ کر دیا گیا تھا
تاکہ بچے اس بات کو سمجھ ہی نہ سکیں گے کہ یہاں سے وہ آسانی سے بھاگ سکتے ہیں
جان بالکل خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا
اسے یقین تھا کہ معید اسے آسانی سے نکال لے گا
اسے آج ہی پتہ چلا تھا کہ اس کی جیل میں کچھ اور لڑکوں کو لایا جارہا ہے
آج کچھ قیدی اور آنے والے ہیں ۔اتنے وقت سے جیل میں رہنے کے بعد وہ کافی باتیں سمجھ چکا تھا
جو ایک بارہ سالہ بچے کی سمجھ سے کہیں زیادہ بڑی باتیں تھیں
۔جیل میں موجود لوگ انتہائی گھٹیا گفتگو کرتے ہوئے
اکثر ایک دوسرے سے اپنی ایسی باتیں شیئر کرتے جو نہ چاہتے ہوئے بھی جان سنتا رہتا
کبھی کبھی تو ان کی باتیں اخلاق سے اتنی گر جاتی کہ جان کے لیے وہاں بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا
لیکن پھر بھی پچھلے ایک ماہ سے وہیں تھا
کیونکہ وہ کہیں جا نہیں سکتا تھا ان لوگوں کو سننا اور برداشت کرنا اس کی مجبوری تھی ۔
°°°°°
شام تک اور لوگ آچکے تھے
اس کے ساتھ اسی کے عمر کے دو اور لڑکے تھے
جو اسے کافی اچھے گھر کے لگ رہے تھے
لیکن اسے کچھ ہی دیر میں پتہ چل گیا کہ ایک لڑکا جو دوسرے کڑکے سے پہلے لایا گیا ہے وہ خواجہ سرا ہے
جب کہ دوسرا لڑکا کون ہے اور کیسا ہے اس نے بالکل بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی
لیکن وہ خود ہی اس سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا
وہ اپنی ماں اور چچا کا قتل کر کے یہاں آیا تھا
اور اسےوجہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی جان یہاں ایک مہینے سے اس طرح کی ہر وجہ کو اچھے سے سمجھ چکا تھا
اسی لئے آریان کی باتیں سن کر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا
جبکہ وہ اچھا حاصل شرمندہ ہو گیا تھا ۔
پھر اس لڑکے نے اس سے کوئی بات نہیں کی حاموش ہی رہا
جبکہ تھوڑی دیر میں ایک جیلر ان کے کمرے کے اندر جھانکنے لگا
اور پھر اس کی تھوڑی ہی دیر میں تیسرے لڑکے جو کہ خواجہ سرا تھا اس کو اٹھا کر لے گئے
ہاں وہ ایک مہینے سے یہاں رہ کر اس چیز کی وجہ بھی سمجھ چکا تھا
جہاں وہ اس سے پہلے رہتا تھا وہاں وہی جیلراکثر لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا
اور شاید آج اس معصوم کی باری تھی جان صرف ترس کھا سکتا تھا
لیکن غصہ حد سے بھر چکا تھا
اس نے قسم کھائی تھی کہ جیل سے نکلنے کے بعد سب سے پہلے وہ اس شخص کو اس کے انجام تک ضرور پہنچائے گا
کافی دیر چیخ و پکار کی آواز آتی رہی ہے
اور دوسرا لڑکا بے چینی سے اس سے سوال کرتا رہا
پھر وہ خواجہ سرا کو پھینک کر چلے گئے اور آریان پاگلوں کی طرح اس سے بچانے کے لیے کوشش کر رہا تھا لیکن وہ معصوم بھی تو اسی کی طرح تھا وہ کیا سمجھتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔
اسے آریان میں اپنا آپ نظر آیا ۔نہ جانے کیا سوچ کر اس نے آریان کو وہاں سے بھاگنے کی آفر کی لیکن اسے اپنے آہ سے زیادہ اس لڑکے میں دلچسپی تھی
وہ اپنے آپ سے پہلے اسے بچانا چاہتا تھا
جان نے اسے منع کرنا چاہا کیونکہ وہ ایک زخمی لڑکے کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتا تھا
اور اس کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ زندہ نہیں بچے گا
لیکن آریان باضد تھا اسی لئے جب وہ لوگ وہاں سے بھاگے تو آریان نے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا
جان وہاں سے اسے اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا لیکن آریان کی بے چینی نے اسے مجبور کر دیا
ایک ایسا لڑکا جو سے تھوڑی ہی دیر پہلے ملا تھا
اس کی جان بچانے کے لیے آریان کچھ بھی کرنے کو تیار تھا
اسی جذبے نے جان کو اسے اپنے کندھوں پر اٹھانے پر مجبور کر دیا
کیونکہ آریان کے لیے اسے اٹھا کر بھاگنا بہت مشکل تھا
آریان نے بار بار اس سے اس کا نام پوچھنے کی کوشش کی لیکن جان نے اسے اپنا نام نہ بتایا جبکہ اس خواجہ سر اکو ٹائر کہہ کر اسے ایک نام دے دیا
لیکن تھوڑے ہی آگے جاکر گولی چلنے کی آواز آئی جان کو لگا کہ گولی آریان لگی ہے لیکن گولی اس کے کندھے پر ماجود خواجہ سرا کو لگی تھی
اور اس کی زندہ بچنے کی تھوڑی سی امید تھی وہ بھی ختم ہوگئی
خون اس کے پوری شرٹ کو بھی بگھو چکا تھا لیکن وہ پھر بھی رکے نہیں بھاگتے ہی چلے گئے شاید اب روکنا ان کے مقدر میں لکھا ہی نہیں تھا
اسے بار بار لگا کہ اسے آریان کو بتا دینا چاہیے
کہ شاید اب اس لڑکے کو بچانا ناممکن ہے
لیکن وہ خود میں اتنا حوصلہ ہی نہیں پا رہا تھا
آریان کا جذبہ اس کی محبت وہ بھی ایک انجان انسان کے لیے
وہ اس کی امیدوں کو توڑنا نہیں چاہتا تھا
اسی لئے اس کے ساتھ ساتھ بھاگتا چلا گیا
دوسری گولی نے آریان کو جیتنے پر مجبور کر دیا
کیونکہ وہ گولی اس کے بازو کو چھو کر گزری تھی
°°°°
جان میں نے تمہیں کسی سے بھی بات کرنے سے منع کیا تھا
یہ تم یہاں کس کو اٹھا لائے ہو
دیکھو جان ہمارا مقصد بہت بڑا ہے
جان ہم کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتے
جہاں جان کو دیکھ کر معید بہت خوش ہو گیا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں
وہیں اس کے ساتھ دو لڑکے دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا تھا
۔ان میں سے ایک لڑکا بہت بری طرح زخمی تھا اسے پیٹھ پر گولی لگی تھی
اس کا بہت سارا خون ضائع ہو چکا تھا
جبکہ دوسرا لڑکا بھی زخمی تھا اسے گولی چھو کرگرزی تھی ۔اسے بھی گہرا زخم آیا تھا جب کہ جان بلکل تھیک تھا
چاچو پلیز یہ میرے دوست ہیں
ان کی جان بچائیں ان کا بہت خون بہہ رہا ہے اس سے پہلے کہ انہیں کو کچھ ہو جائے
پلیز بچا لے ان کو جان نے منت بھرے انداز میں کہا
تو وہ بھی اسے دیکھ کر رہ گیا
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اس طرح سے تو یہ کیس بہت لمبا ہو سکتا تھا
۔اور وہ پھنس بھی سکتے تھے
ایسے میں صرف اس کا ایک ڈاکٹر دوست ہی اس کی مدد کر سکتا تھا
جو کہ خفیہ طور پر پہلے ہی ایک بارہ سالہ لڑکے کا علاج کر رہا تھا
اور یقینا وہ اس بچے کا بھی علاج کر دیتا ہے وہ بارہ سالہ بچہ اس کی کزن کا بیٹا تھا اس کی کزن کر ریپ ہوا تھا جس کے نتیجے میں وہ بچہ اس دنیا میں بے نام گھوم رہا تھا
اس شخص نے اسے بچے کو اپنا نام دینے کی بجائے گولی مار دی تھی اور پچھلے تین مہینے سے وہ قوما میں تھا اور وہ اس کا علاج کر رہا تھا ۔کیونکہ وہ خود اس لڑکی ے محبت کرتا تھا اور وہ اس کی منگیتر بھی تھی لیکن شادی ہونے سے پہلے ہی اس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا
اور وہ پورے تیرہ سال اپنی اولاد کے لئے لڑتی رہی لیکن اسے انصاف نہ ملا
اب اس بچے کا دنیا میں کوئی نہیں تھا تو وہ خود ہی اس بچے کا علاج کرنے کی کوشش کر رہا تھا مڈر کیس پر لمبے کیسے چلتے ہیں اسی لئے وہ خفیہ طور پر یہ کام کر رہا تھا
یقینا اس کے لئے بھہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا
اب وہ خواجہ سرا بچے کو ہی لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
لیکن وہ آریان اور جان کو بھی اس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اس لئے وہ ان دونوں کو بھی اپنے ساتھ اس کے گھر لے گیا
°°°°°
معید میں تیری مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن تو جانتا ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے
اگر میں اس بچے کو اپنے گھر پہ رکھ بھی لوں تو مجھے بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہوگی
جہاں تک مجھے لگ رہا ہے اس بچے کا ریپ ہوا ہے
اور دوسری بات یہ کہ جتنے اچھے سے اس کا علاج ایک ہوسپٹل میں ہو سکتا ہے اتنے اچھے سے گھر پر نہیں کرتا ہوگا
یہ جیل سے بھاگے ہوئے قیدی ہیں اگر میں پکڑا گیا تو میرا ڈاکٹری لائسز چھین لیا جائے گا
میں برباد ہو کر رہ جاؤں گا یار ۔
وہ اسے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کافی پریشان لگ رہا تھا
معید بھی اس کی مجبوری کو اچھے سے سمجھ رہا تھا لیکن یہاں مسئلہ ایک بچے کی جان بچانا تھا
تو مجھے بس یہ بتا کہ تو مجھے کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی
میں کیسے بھی ارینج کر لوں گا
لیکن پلیز یار اس بچے کی جان بچا لے یہ بہت معصوم ہے اور اوپر سے اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے
یار میں تجھے کچھ دے نہیں پاؤں گا لیکن اللہ تجھے بہت کچھ دے گا
اس معصوم کی جان بچا لی یار
اریان کی پٹی باندھ کر اسے اور جان کو کچھ فاصلے پر کرسی پر بٹھایا گیا
جب کہ وہ اپنی بحث میں مصروف تھے
اس نے اچھے سے ٹائر کو چیک کر لیا تھا وہ سب سمجھ چکا تھا ۔
لیکن وہ اس کی مدد کیسے کریں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا مطلب کہ وہ یہ چاہتا تھا کہ وہ گھر میں ہی اس کا بھی علاج کرے جس طرح سے وہ طہٰ کا کر رہا ہے
یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ٹھیک ہے میں اس بچے کو یہاں اپنے گھر رکھ لیتا ہوں
۔لیکن اس بچے کے لئے تجھے ہر وقت یہی پر رہنا ہوگا
مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت پڑسکتی ہے
اس کے علاج میں اچھا خاصہ وقت اور پیسہ چاہے اور ابھی تو میرے پاس نہیں ہے ڈاکٹرزاہد نے اسے اپنی مجبوری بتائی
ہاں ٹھیک ہے میں ہر وقت یہی پر رہوں گا تو بالکل فکر مت کر تجھے جس چیز کی ضرورت ہو گی میں تجھےلا کر دوں گا اس نے زائد کو یقین دلایا ۔تووہ اس کا علاج کرنے پر راضی ہو گیا
°°°°°
ڈاکٹر زاہد اپنی پوری کوشش کر رہا تھا
اور اس انجان بچے کی جان معید بچانا چاہتا تھا
وہ آریان اور جان کو لے کر اسی کے پاس رہنے لگا
یہاں دو بچوں کا علاج چل رہا تھا ۔
طہب چارے کو تو اتنی گولیاں لگی تھی اور ڈاکٹر زاہد کو یقین تھا کہ وہ اسے بچا نہیں پائے گا لیکن وہ پھر بھی کوشش کر رہا تھا
اور ایسی ہی ایک کوشش کو ٹائر کے لیے بھی کر رہا تھا جس کا سارا جسم بے جان ہو چکا تھا ایک ہفتے سے وہ خود کو ماتھا
صرف اس کا دل کام کر رہا تھاباقی اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کام نہیں کر رہا تھا
جبکہ دوسری طرف طہ کا یہ حال تھا کہ دل پر لگنے والی گولی کی وجہ سے اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار دن بدن کم ہوتی جا رہی تھی کسی بھی پل اس کی دھڑکن رک جانی تھی
ڈاکٹر زاہد دونوں کے لئے ایک جیسی جذبات رکھتا تھا وہ ان دونوں بچوں کو بچا لینا چاہتا تھا ۔لیکن ایسا ممکن نہیں تھا ۔
°°°°
وہ دونوں سارا وقت ہی ٹائر کے پاس بیٹھے رہتے ۔
پرسوں ہی ٹائر کو ہوش آیا تھا ۔
وہ ان دونوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو نہ وہ اپنا ہاتھ ہلاتا نہ پیر اور نہ ہی اس سے کچھ کھایا پیا جا رہا تھا
اس کی ریڑھ کی ہڈی بالکل بے جان ہو چکی تھی
زاہد اس کی جان بچانے میں کامیاب تو رہا تھا ۔
لیکن اس کی زندگی کسی کام کی نہیں تھی ۔اب اس نے ساری زندگی یوں ہی معذوری میں گزار نی تھی ۔
اس کے سونے کے بعد جان اور آریان دونوں باہر چلے گئے
جبکہ معید زاہد کا شکریہ ادا کرنے کمرے میں آیا تو اس کی نظر طہ کے بے جان وجود پر پڑی
کیا اس کی حالت میں کوئی سودار نہیں ہے اس نے ہمدردی سے پوچھا تو زاہد نے نہ میں سر ہلایا
نہیں یار اس کا دل بالکل کام کرنا چھوڑ چکا ہے
کبھی بھی اس کی موت ہو سکتی ہے
۔مجھے افسوس ہے میں حمیرا کو انصاف نہیں دلا پایا میں نے سوچا تھا کہ میں اس کے بچے کی جان بچا لوں گا لیکن دیکھو نہ میں نا کامیاب رہا
13 سال پہلے ہماری شادی ہونے والی تھی
میں اور حمیرا دونوں بہت خوش تھے ۔
اور اس حادثے کے بعد اس نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا وہ ماں بننے والی تھی پورے خاندان نے اسے چھوڑ دیا تب بھی میں اس سے شادی کے لئے تیار تھا
لیکن اس بچے کی خاطر اس نے مجھے چھوڑ دیا
میں نے اس سے کہا تھا اس بچے کو دنیا میں مت لاؤ یہ بے نام و بے نشان ہے لیکن اس نے میری بات نہیں مانی
اس نے کہا کہ یہ بچہ بے گناہ ہے یہ اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے
اور وہ تحفے کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گی
اور پھر وہ خود ختم ہوگئی اور آج اللہ کا دیا یہ تحفہ بھی ضائع ہو رہا ہے زاہد کے لہجے میں دکھ تھا تکلیف تھی اپنی محبت کے کھو جانے کا افسوس تھا ۔
زاہد شاید اللہ نے اس کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی معید نے اسے حوصلہ دیا
ہاں شاید لیکن میں تم سے ایک بات شیئر کرنا چاہتا ہوں پلیز میری بات ہے غلط مطلب نکالا
ہاں ہاں بتاؤ تم کیا کہنا چاہتے ہو معید نے کہا
پتہ نہیں تم کیا سوچو گے لیکن میں صرف ایک بات کہہ رہا ہوں ۔یہ جو بچہ ٹائر ہے وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا نہیں ہو سکتا
اس کا جسم پوری طرح بے جان ہو چکا ہے صرف اس کا دل کام کر رہا ہے
اور اس حالت میں وہ بھی زیادہ وقت تک جی بھی نہیں سکے گا لیکن اگر ہم اس کا دل ٹرانسفر کرکے طہ کو دے دیں تو ہم ایک بچے کی جان بچا پائیں گے
میرا مطلب ہے دونوں کو کھونے سے بہتر ہے کہ ہم ایک کی جان بچا لیں۔
خیر یہ بات صرف میں نے سوچی ہے اور میں صرف تم سے اپنے دل کی بات شیئر کر رہا ہوں
پلیز غلط مطلب مت نکالنا میں جانتا ہوں یہ بچہ تمہارے لئے بہت اہم ہے او باہر چلتے ہیں بچے انتظار کر رہے ہوں گے ۔معید کے اچانک خاموش ہوجانے پر زاہد نے بات بدل دی
اوراسے لے کر باہر چلا گیا
جب آہستہ سے ٹائر نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے ساتھ ہی دوسرے بیڈ پر لیٹے اس وجود کو دیکھا ۔
جو کہ ایک مکمل وجود تھا اس کی طرح ادھورا نہیں
اسے تو یہ دنیا یہ معاشرہ ایسے بھی مار ہی دے گا ۔تو کیوں نہ وہ مرنے سے پہلے اسے ایک زندگی دے دے
وہ تو بے کار تھا نکارا ھا لیکن اس کا دل کسی دوسرے کے سینے میں دھڑک ر سکتا تھا کسی دوسرے کی جان بچا سکتا تھا وہ اپنی ہی سوچوں ایک نظر طہٰ کو دیکھ کر مسکرایا
ہاں جو دل میں آئے وہ کرو
ہمارا ہی دماغ خراب تھا جو تمہیں بچا کر یہاں لے آئے ۔
اس لیے تمہیں نہیں بچایا تھا ہم نے کہ یہاں آ کر شہنشاہ ایران بن جاؤ
بے وقوف انسان ہر انسان کے پاس ایک ہی دل ہوتا ہے
اور اگر وہ بھی اس سے لے لیا جائے تو وہ انسان مر جاتا ہے
جان غصے سے کہتا اسے مسلسل سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
اسے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ٹائر نے خود چاچو سے یہ بات کی ہے
میں جانتا ہوں جان کے ہر انسان کے پاس بس ایک ہی دل ہوتا ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا
اور اس وقت وہ طہ کے پاس نہیں ہے جو میں اسے دینا چاہتا ہوں ۔وہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن اسے سمجھنا کون چاہتا تھا
نہیں ہے تو ہم کیا کریں
ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا ہم نے بس اب کوئی فضول بکواس نہیں کرے گا تُو چاچو کے سامنے
وہ ڈاکٹر انکل کا کچھ لگتا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور تم زندہ بچ گئے ہو بہت جلد تم ٹھیک ہو جاؤ گے
آریان نے اسے سمجھانا چاہا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو آریان میں زندہ بچ گیا ہوں اور شاید کبھی نہ کبھی ٹھیک بھی ہو جاؤں گا
لیکن میں اپنے اندر کی اس کمزوری کا کیا کروں گا جو کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔
طہ میرے جیسا نہیں ہے وہ الگ ہے وہ تم لوگوں کی طرح ہے میں زندہ بچ بھی گیا تو یہ معاشرہ مجھے اپنی باتوں سے اپنے رویوں سے مار دے گا
لیکن اسے نہیں ۔۔۔طہ میرے دل کے ساتھ ایک بہت خوبصورت زندگی جیے گا ۔اپنے ملک اپنے وطن کے لیے کچھ کرے گا
میرا یہ دل میرے کسی کام کا نہیں ہے ۔
لیکن میرا یہ دل طہ کے کام آ سکتا ہے ۔اور اس کے لیے مجھے تم دونوں کی اجازت کی ضرورت ہے تم دونوں نے میری زندگی بچائی ہے مجھے یہاں تک لائے ہو میری جان پر مجھ سے زیادہ تم لوگوں کا حق ہے
اسی لیے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں تم دونوں کی اجازت مانگنا چاہتا ہوں
میں نے ڈاکٹر انکل اور معیدانکل سے بات کر لی ہے اور انہیں سمجھا بھی لیا ہے وہ دونوں میری مجبوری کو سمجھ چکے ہیں
تم لوگ بھی سمجھو
کیسے سمجھیں ہم ہاں بتاؤ کیسے سمجھیں تمہیں پتا ہے جب انسان مر جاتا ہے وہ دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اس کا نام و نشان نہیں رہتا اس کے بات پر آریان تو تڑپ ہی اٹھا
ایک ہفتہ پہلے جب انہیں پتہ چلا تھا کہ ٹائرٹھیک ہو جائے گا وہ زندہ بچ گیا ہے کتنے خوش تھے وہ دونوں اوراب وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لینے پر تلاتھا۔
کیوں نہیں رہے گا میرا نام و نشان کیا تم لوگ مجھے یاد نہیں رکھو گے کیا بھول جاؤ گے تم دونوں مجھے ۔
اگر آج میں یہاں مر گیا تو کیا تم لوگ مجھے کبھی یاد نہیں کرو گے میرا کوئی نہیں ہے جان جو مجھے یاد کرے مجھ سے پیار کرے مجھے پیار تم دونوں نے دیا ہے آریان
اور مجھے پتا ہے اگر میں مر گیا نا تو بھی تم لوگ مجھے بھولو گے نہیں
مجھے یقین ہے کہ تم لوگ زندگی کے ہر قدم پر مجھے یاد رکھو گے
رکھو گے نہ ۔۔۔۔! وہ ایک امید سے پوچھنے لگا ۔
آریان وہی وینٹیلیٹر پراس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جبکہ جان جو اپنے آپ کو بہت مضبوط ظاہر کر رہا تھا اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔
ہم تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے ٹائر تم کبھی بھی ہماری زندگی سے دور نہیں رہو گے
ہماری خوشیوں میں ہمارے غم میں تم ہر چیز میں شامل رہو گے یہ وعدہ ہے ہمارا جان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے اسے اجازت دی تھی
جبکہ آریان کے آنسو اب بھی رکے نہیں تھے
آریان وعدہ کرو مجھ سے کے میرے دل کا بہت خیال رکھو گے وہ بھی ہماری طرح ہے یتیم و بے سہارا ہے
اس کا بھی تم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا میری طرح
تم دونوں اس کا خیال رکھو گے نا ۔۔۔۔؟میرے دل کا خیال رکھو گے نہ تم دونوں۔۔۔۔؟
وہ ان دونوں سے سوال کر رہا تھا جس پر جان اور آریان دونوں نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے آنسو صاف کیے
اور یہ ان کی آخری ملاقات تھی
اس کے بعد وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا
لیکن طہہ کی صورت میں ان کے پاس بھی تھا۔
ان لوگوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ٹائر کو کبھی خود سے الگ نہیں کریں گے وہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں گے اور وہ ساتھ تھا
ہاں ٹائر اس کہانی کا وہ کردار تھا جس کا کوئی وجود نہیں
°°°°°
ٹائر چلا گیا لیکن تھا ہمیشہ کے لئے لیکن اب ان کے پاس طہ آ گیا
وہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا اپنے باپ کا نام چاہتا تھا لیکن وہ جلد ہی سمجھ چکا تھا کہ اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا
اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اس شخص کو جان سے مار دے جو اس کی ماں کو برباد کرنے کے بعد اسے اپنا نام دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھا
لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا معید نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنی پہچان بنا سکتا ہے اسے اس شخص کے نام کی ضرورت نہیں ہے
وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر کے بھی اپنا نام بنا سکتا ہے
معیدنے ہی اس کے دل میں یہ جذبہ جگایا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرے اور پھر اسے ٹائر کا خواب بھی پورا کرنا تھا
جس کا دل اس کے سینے میں دھڑک رہا تھا
جو اس کے دل کا اصل مالک تھا
وہ اس کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کے کردار کو ہمیشہ زندہ رکھے گا
چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا
°°°°
°وہ اپنی پھوپھو سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ جان چکا تھا کہ اس کی پھوپھو اب اس دنیا میں نہیں رہی
وہ پھوپھو جو اس پر جان چھڑکتی تھیں اتنی جلدی اسے چھوڑ کر چلی گئی
اور اسے یقین تھا وہ مری نہیں ہے بلکہ ماری گئی ہے ۔
وہ ایک نا ایک دن اکبر تک پہنچ کر اپنی پھوپھو کی حقیقت جان جائے گا
اسے یقین تھا لیکن اس کی ماہی۔۔۔۔؟ اکبر نے ماہی کو کہیں غائب کر دیا تھا ۔
کورٹ میں جب جان کو اپنی ہی ماں کے قتل کی سزا سنائی جا رہی تھی اکبر وہی تھا اور اس نے اکبر کو کہا تھا
وہ چاہے کہیں بھی چلا جائے لیکن ماہی کو اس سے دور نہیں جانے دے گا
اس نے اپنے مرتے باپ سے وعدہ کیا ہے کہ ماہی اس کی دلہن بنے گی
وہ اس کے نکاح میں ہے اور وہ کیسے بھی اسے ڈھونڈ نکالے گا چاہے وہ ماہی کو دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپا لے اور اکبر نے ایسا ہی کیا تھا
وہ ماہی کو سریا بھیج چکا تھا اور اپنے ہی ڈرائیور کی بیٹی بنا کر اس کی پہچان بھی بدل چکا تھا ۔
اس نے اس دن جان کی آنکھوں میں ایک جنون دیکھا تھا اگر وہ اپنی ماں کی جان لے سکتا تھا تو ماہی کو پانا بھی اس کے لئے مشکل نہیں تھا
ہاں یہ سچ تھا کہ اس دن وہ ہٹا کٹا آدمی ایک چھوٹے سے بچے کے جنون سے ڈر گیا تھا
اکبر نے قسم کھائی تھی چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے لیکن وہ کبھی بھی اپنی بیٹی جان کے حوالے نہیں کرے گا ۔
جب کہ جان نے اپنے مرتے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ماہی کو حاصل کرکے ہی دم لے گا ۔
اب وہ دن رات اس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب وہ اکبر کو ہرا کر اسے موت کے گھاٹ اتارے گا ۔
°°°°°
وقت گزر رہا تھا معید نے سب سے پہلے ان تینوں کی پڑھائی پر توجہ دی تھی جو کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے سب سے اہم تھی ۔
ڈاکٹر زاہدطہٰ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن طہٰ کا مقصد کچھ اور تھا وہ اپنی ایک پہچان چاہتا تھا اور اس کے مقصد کے لیے ہی ڈاکٹر زاہد نے اسی جانے کی اجازت دے دی ۔
وہ تینوں ایک اسکول ایک کالج ایک ہی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھ رہے تھے۔
معید پر مسلسل کام کر رہا تھا ۔
وہ سی ڈی جس میں بلیک بیسٹ میں اپنے سارے کالے کام قبول کی تھی وہ سی ڈی خراب ہو چکی تھی
ایک مہینے سے زیادہ وقت زمین اور مٹی میں رہنے کی وجہ سے معید بہت کوشش کے باوجود اسے ٹھیک نہ کر سکا ۔
وہ فائل بھی بری طرح سے تباہ ہو چکی تھی ۔
ہاں لیکن اس فائل میں ان سب لوگوں کے نام موجود تھے اور اسے ٹھیک کرنے میں کو وہ لوگ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے
اس لسٹ میں جتنے بھی لوگ تھے جن کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا بڑی بڑی ہستیاں بڑے بڑے کروڑپتی لوگ چاہا کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے ۔
اور ان کی ٹیم پر طرف جا رہی تھی ۔بلیک بیسٹ کی لسٹ میں اور نام شامل ہو رہے تھے
قانون کے کچھ محافظ ایماندار لوگ انہیں روکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔لیکن کب تک وہ مضبوط بیگراونڈ رکھتے تھے
پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہو رہی تھی ۔
ایسے میں بلیک بیسٹ جیسے درندے کو ختم کرنے کے لئے بھی ایک بیسٹ کی ضرورت تھی ۔اور اب معید جان کو وہ بیسٹ بننے کی ٹریننگ دے رہا تھا ۔
جس میں طہٰ اور آریان بھی شامل تھے ۔ان لوگوں کا سب سے بڑا گینگ اور ملنے کی جگہ ترکی میں تھے ۔اسی لئے ان لوگوں نے شروعات بھی ترکی سے ہی کی آریان اپنا ٹرانسفر کروا کے ترکی چلا گیا جبکہ طہ بھی ترکی کی سڑکوں پر بانسری بجانے لگا ۔
جان کے ہاتھوں نے ہتھیار چلانا سیکھ سکتے ہی سب سے پہلے اپنے ٹائر کو انصاف دلایا تھاوہ 21 سال کا تھا جب اچانک ایک رات جان کہیں چلا گیا واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں معید کی گن تھی ۔
اور اس نے سر اٹھا کر معید کو بتایا تھا کہ وہ ٹائر کا بدلہ لے کر آیا ہے
°°°°°
ان لوگوں کا انصاف کا سفر شروع ہو چکا تھا تین سال پہلے بلیک بیسٹ کا قتل کرکے جان ایک بیسٹ کے وجود میں ان لوگوں کی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا
اور اب ایک ایک کرکے انہیں ختم کر رہا تھا
اب بلیک بیسٹ کا گینگ 20 یا30 لوگوں پر مشتمل نہیں تھا ۔
یہ ساڑھے چار سو لوگوں کا ایک گینگ تھا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ایسے ہی کہیں ملکوں کو تباہ کر رہے تھے ۔
اور آہستہ آہستہ وہ ان سب کو ختم کر رہا ہے
اس کے قتل کرنے کا طریقہ بہت ہی بیانک تھا ۔
وہ لوگوں کے جسم سے ان کے ضروری حصے نکال کر اپنی بنائی ہوئی ایک ٹرسٹ جس کا نام دوست فاؤنڈیشن تھامیں دیتا تھا
اور یہ فاؤنڈیشن اس نے اپنے دوست ٹائر کی یاد میں بنائی تھی ۔
تائر نے مرنے سے پہلے اپنا دل تحفہ دے کر اس کی جان بچائی تھی اور جان بھی ایسا ہی کرتا تھا وہ جس کی بھی جان لینے جاتا اس کے جسم کے ضروری حصے نکال کر اپنے پاس محفوظ کر لیتا تاکہ اس سے کسی اور کی جان بچائی جا سکے ایک ایسے انسان کی جان جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے کچھ بننا چاہتا ہے نہ کہ دنیا کو برباد کرنا چاہتا ہے
اور پھر آریان نے اپنی پاور یوز کرکے انفارمیشن کے تحت پتا لگایا کہ ان کی تمام ٹیم آپ کے پاس کوئی نہ کوئی چپپ موجود ہے
جو ان کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے ۔
اور وہ چیپ یا تو ان کے سر کے بالوں کے درمیان موجود ہے یا پھر پیر کے ساتھ آپریشن کرکے جوڑی گئی ہے
یہی وجہ تھی کہ کبھی کباڑ اسے ان کو گنجا کر لے مارنا پڑتا ہاں وہ ترس نہیں کھاتا اس کے ملک کا دشمن لڑکا ہے یا لڑکی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا
اور پھر جب وہ ترکی چلاآیا تو اسے یہاں ایک عام شہری بن کر رہنا تھا ۔
یہاں وہ طہٰ کو جانتا تھا اور نہ ہی آریان کو اسی لئے وہ اکثر اس سے ٹائر کے روپ میں آکر ملتے ۔جہاں وہ تین نہیں بلکہ چار دوست مل کر باتیں کرتے انجوائے کرتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کی پلاننگ کرتے ۔
°°°°
بیس سال کی عمر میں اسے پتہ چل چکا تھا کہ ماہی کہاں ہے ۔
اکبر نے اسے دور کرنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جان نہ صرف اس تک پہنچ چکا تھا بلکہ وہ تو ہر رات اس سے ملنے جاتا تھا
اکبر کے وجود سے بے پناہ نفرت کرنے کے باوجود بھی وہ ماہی سے نفرت نہیں کر پایا تھاکیونکہ اگر اس سارے قصے میں کوئی بے قصور تھا تو وہ صرف اور صرف ما ہی تھی وہ اکبر کی نہیں بلکہ اس کی پھوپھو کی بیٹی تھی وہ پھوپھو جو اس سے جان سے زیادہ چاہتی تھی اس نے اپنے ہاتھ پر ماہی کے نام کا ایک ٹیٹو بنوایا تھا
وہ ہر لمحہ ماہی کے ساتھ رہتا تھا ایک انجان سائے کی طرح ماہی کو کبھی محسوس بھی نہ ہوا کہ کوئی اس کے اتنے قریب ہے
اور پھر اس نے اپنی ماہی کو پا لیا اور اب وہ اپنے مقصد میں کامیابی کے بہت قریب آ چکا تھا اس کی لسٹ میں صرف ایک نام بچا تھا اور وہ نام تھا اکبر خان کا جسے وہ سب سے زیادہ دردناک موت دینا چاہتا تھا ۔
وہ ڈائری لکھنے کا شوقین نہیں تھا لیکن لیکن وہ لکھتا تھا اپنی زندگی کے کچھ اہم پہلو کے بارے میں اپنے احساسات بیان کئے تھے اور جو دنیا سے چھپا کر رکھا تھا وہ لفظوں میں اس نے اپنی ڈائری سے شیئر کیا تھا
وہ لمحہ جب اس نے پہلی بار اپنے باپ کی وردی پہن کر اس احساس کو محسوس کیا کہ وہ ایک پاکستانی ہے
وہ لمحہ جب وہ کامیاب ہوا اور ایک سیکرٹ ایجنٹ بن گیا
وہ انکوانٹر سپیشلسٹ تھا ۔ایک انڈر کور آفیسر جس سے اجازت حاصل تھی کہ وہ اپنے ملک کے کسی بھی دشمن کو بنا دوسری سانس لینے کا موقعہ دیے ختم کردے
اس ڈائری میں الفاظ کی بہت کمی تھی
لیکن ان چند لفظوں میں ہی ماہی اس کی زندگی کی ساری حقیقت سمجھ گئی تھی
وہ کہتا تھا جب تمہیں سچ پتہ چلے گا تم فخر کرو گی مجھے پے خود پے لیکن جاناں کیا فخر کرتی اسے تو شرم آ رہی تھی کہ وہ اکبر جیسے غدار کی بیٹی ہے
اور جان وہ خودکو اس سے نظر ملانے لے قابل نہیں سمجھتی تھی وہ آنسو بہاتی زمین پر بیٹھی تھی جب وہ دراوزہ کھول کر اندر داخل ہوا
°°°°°
اس نے سامنے دیکھا تو جاناں زمین پر بیٹھے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا
صبح سے یہی بیٹھی ہویا کچھ کھایا پیا بھی ہے۔۔۔۔؟
دیکھو ڈارلنگ تمہارا غصہ مجھ پر جائز ہے لیکن کھانا پینا چھوڑ دینا بے وقوفی ہے اور پھر تم مجھے چیلنج بھی کر چکی ہو کے تم مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجو گی
اور اس کے لیے تمہیں محنت کرنی پڑے گی لڑائی کرنی پڑے گی اتنی آسانی سے تو تم مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج پاؤ گی
میرے گناہ ثابت کرنے کے لئے تم نے بہت محنت کرنی ہے اور اس کے لئے تمہارے اندر طاقت ہونا چاہیے سو کھانا کھا لو پھر لڑائی جھگڑا شروع کر دینا
میں تمہارے لیے کھانا بنا کر گیا تھا لیکن یقیناً تم نے کچھ نہیں کھایا تمہاری شکل بتا رہی ہے وہ اس طرح سے روتے دھوتے تم میرا کچھ اکھاڑ نہیں سکتی آئی میری بات سمجھ میں وہ مسکرا کر بہت محبت سے اس سے بات کر رہا تھا
یقینا اس سے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی ڈائری کو پڑھ چکی ہے
اٹھو زمین سے یہ اوپر صوفے پر بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کے لئے لاتا ہوں وہ اس کا بازو تھام کر کسی صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔
وہ بنا کچھ بولے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی
کیا بات ہے آج میری شیرنی بالکل بھی لڑائی کے موڈ میں نہیں لگ رہی ۔کیا آج آپنے جان کو اپنی آواز بھی نہیں سناؤگی ۔وہ جیسے منت کر رہا تھا
تم بہت برے ہو جان
آئی ہیٹ یو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی کبھی تمہیں پیار نہیں کروں گی اور تمہارے ساتھ ہنی مون پر بھی نہیں جاؤنگی
تم بہت بہت زیادہ برے ہو رہے ہو
اتنا کچھ اکیلے سہتے رہے مجھ سے اپنی تکلیف تک شئر نہیں کی تم نے
کیا میں اس قابل بھی نہیں تھی کہ تم مجھے اپنے دکھ اپنے درد کا حصہ سمجھتے
وہ اس کے سینے پہ اپنے نازک ہاتھوں کے مکے مارتی اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
جان پہلے حیرانگی سے سنتا رہا پھر اس کی نظر زمین پر پڑی اپنی ڈائری پر گئی اور وہ سب سمجھ گیا ۔
تم موقع ہی نہیں دے رہی تھی کیسے بتا تا تمہیں
جاناں میں تمہیں اپنی زندگی کے کسی بھی پل سے انجان نہیں رکھنا چاہتا تھا یہ میری مجبوری تھی
جسے آج میری ڈائری پر کہ تم نے ختم کر دیا
اس ڈائری میں میں نے اپنی زندگی کے چند اہم لمحات لکھے تھے لیکن اس ڈائری کے آخری صفحے پر تم نے جو پڑھا ہے وہ سچ ہے میری زندگی کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اکبر خان کو اس کی زندگی سے رہائی دینا ہے
جتنی نفرت میں تمہارے باپ سے کرتا ہوں اتنی مجھے شاید دنیا میں کسی سے نہیں ہے وہ شخص قاتل ہے میرے باپ کا اور میری پھپھو کا ۔اس شخص نے مار دیا ہے تمہاری ماں کو اور اب میں اس سے بدلہ لوں گا اپنے باپ کا بھی اور تمہاری ماں کا بھی اور اس میں تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا میرا ساتھ دو گی نہ جاناں۔وہ بہت آس سے پوچھ رہا تھا
میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں جان لیکن اس شخص کو بار بار میرا باپ کہہ کر مجھے مزید شرمندہ نہ کرو وہ صرف میرے ملک کا غدار ہے وہ باپ کہلانے کے لائق نہیں
اور جتنے نفرت تم اس سے کرتے ہو شاید اتنی ہی مجھے بھی اس سے ہوگئی ہے اس نے تمہارے بابا اور میری ماما کو اس لئے مار دیا کیونکہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتے تھے اپنے ملک کو بیچ نہیں سکتے تھے اس کے جیسے ۔اور پھر مجھے تم سے دور کردیا انہوں نے کبھی مجھے احساس نہیں دلایا کہ وہ میرے بابا ہیں
جان میں کبھی اس شخص کو سمجھ ہی نہیں پائی ۔لیکن میں اللہ کی بہت شکر گزار ہوں جس نے وقت رہتے ہیں میری آنکھیں کھول دیں ۔
اور اب میں تمہارا ساتھ دوں گی
تم اپنے آپ کو تنہا مت سمجھنا میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں ۔تم جو کہو گے وہی کروں گی لیکن ایک سوال میرے دماغ میں ہے جو مجھے بہت کنفیوز کر رہا ہے جان وہ کچھ کہتے کہتے اچانک بات بدل گئی
ہاں بتاؤ کون سی بات کرنی یوز کر رہی ہے میری جان کو آج تمہاری ہر پریشانی ختم کر دوں گا
جان مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تمہاری یہ ڈائری عائشہ کے پاس کیسے گئی اور عائشہ یہ ڈائری سنبھالنے کے لیے مجھے کیوں دے گئی اور ہاں اریشفہ اور عائشہ نے تمہیں قتل کرتے ہوئے دیکھا تو ان لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم ہی بیسٹ ہو۔
ملک کی محبت جاناں یہ بڑے بڑے انسان کو بدل دیتی ہے کہنے کو عائشہ اور اریفشہ اس ملک کی پیدائش ہیں لیکن ان کے سینوں میں پاکستان کا دل دھڑکتا ہے
میں عائشہ کے سامنے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ خبیث انسان اس وقت عائشہ کے فلیٹ میں تھا جو کہ میرا اگلا شکار تھا اور اسے اسی رات ختم کرنا میرا مقصد تھا اس رات مجھے عائشہ کے سامنے وہ سب کچھ کرنا پڑا
لیکن تب میں نے ماکس پہنا ہوا تھا عائشہ نے مجھے پہچانا نہیں پھر وہ تمہارے ساتھ میرے فلیٹ میں آئی مجھ سے ملنے کے لیے اس دن اسے مجھ پر شک ہوگیا تھا اور پھر اس کا شک یقین میں بدل گیا جب میں اسے ڈرانے تمہارے ہوسٹل چلا گیا
اس دن میں بس یہ چاہتا تھا کہ تم کسی بھی طرح مجھ سے دور نہ چلی جاوبس اسی لئے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑے گا ورنہ تمہاری دوست کو ڈرانا میرے کام میں شامل نہیں تھا لیکن عائشہ بہت بہادر تھی وہ ڈرنے کے بجائے میرے پیچھے آنے لگی میرے لیے ثبوت اکٹھا کرنے لگے یہاں تک کہ ایک دن عائشہ اپنے ایک دوست کے ساتھ میرے فلیٹ میں اور تمہیں پتا ہے اس دن وہ میری ڈائری شروع کر لے گئی تھی
اور تمہیں پتا ہے اس دن اس کے ساتھ آنے والا کون تھا میرا یار طہ میرے دوست نے اس کی مدد کی تھی وہ ڈائری چرانے میں
کیونکہ میں عائشہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے حقیقت بتاؤں گا آ اس میں میرے اور تمہارے نکاح کے بارے میں سب لکھا ہے اور اس کے بعد میرے میشن کے بارے میں بھی عائشہ کو پتہ چل چکا تھا کہ میں ایک سکریٹ ایجنٹ ہو اور یہاں کسی مشن پر کام کر رہا ہوں
پھر کیا تھا ملک کی محبت نے انگڑائی لی اور عائشہ نے سب کچھ اپنے سینے میں دفن کر لیا ۔لیکن اسے ڈر تھا کہ یہ نہ ہو کے وہ ڈائری طہ اور آریان کے ہاتھ لگ جائے اسی لیے وہ ڈائری چھپانا سب سے بہتر اسے تمہارے پاس لگا
اور وہ ڈائری تمہارے حوالے کر گئی جبکہ اس بات کی تو اسے خبر بھی نہیں تھی کہ آریان اور طہ دونوں میرے دوست اور اس کیس کا اہم ترین حصہ ہیں
جان نے مسکراتے ہوئے بتایا تو جان اسے دیکھ کر رہ گئی جب کہ اس کی حیرانگی پر جان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی تھی۔
مطلب کے آریان بھائی بھی تمہارے اس کیس کے بارے میں جانتے تھے اسی لئے اس رات مجھے پیٹرول پمپ کے نکلنے سے منع کر رہے تھے تاکہ وہاں تم آ جاؤ اور مجھے واپس لے جاؤ اور میں آریان بھائی پر یہ سوچ کر یقین کر رہی تھی کہ وہ میرا ساتھ دیں گے اور اریشفہ وہ جانتی تھی۔۔۔۔؟ جاناں اپنی بیوقوفی پر پریشان ہوتی اس سے پوچھنے لگی
نہیں وہ معصوم بالکل بے گناہ ہے
وہ لوگ اپنے نقصان پر آریان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے وہ اپنا غیرقانونی مال واپس چاہتے تھے جس کی وجہ سے وہ ارشفہ پر اٹیک کرنے کا سوچ رہے تھے یہ بات مجھے پتہ چل گئی
اور پھر جو شخص میرا اگلا شکار تھا
وہی اریشفہ پر حملہ کرنے والا تھا تو مجھے یہ کام اس کے سامنے کرنا پڑا اور اس کے لئے میں بہت پچھتایا کیونکہ اس سے اریشفہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اور اس چیز کی مجھے بہت شرمندگی بھی ہے
اگر اس دن اسے کو کچھ ہو جاتا تو شاید میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاتا جانا وہ سچ میں بہت شرمندہ تھا
اور اس کے بعد عائشہ نے یہاں بھی میری مدد کی اریشفہ کو سب سچ بتایا اور اس کے بعد اس نے بھی میرا ساتھ دیا
اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو تم نہیں جانتی اور وہ یہ ہے کہ طہ کو دیکھ کر تمیں لگا کے تم نے اسے کہیں پہلے بھی دیکھا ہے لیکن تم ٹائر اور طہ میں کبھی فرق نہیں کر پائی خیر یہ باتیں بات تمہاری سہیلیاں بھی نہیں جانتی وہ مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا جب کہ جاناں کو تو جھٹکا ہی لگا وہ کافی دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی
مطلب صرف یہی ایک بات تھی جو وہ نہیں جانتی صرف میں ہی تھی جو ان سب باتوں سے انجان تھی یہاں تک کہ میرے دوستوں کو بھی سب پتہ تھا صرف میں ہی بے وقوف تھی وہ تو بڑے مزے سے سارے کارنامے میں بتا رہا تھا اس کی خاموشی پر اسے دیکھنے لگا اور پھر جب وہ بولی جان کا بھی قہقا بلند ہوا
اور اس کے یوں منہ پھاڑ کے ہنسنے پر جاناں کو اچھا خاصہ غصہ دلآگیا اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھی
اور اندر جانے لگی جب اچانک جان نے اس کا بازو تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا
ارے میری جان من تو ناراض ہو گئی ۔
جانو میں تمہیں پہلے دن ہی بتانا چاہتا تھا لیکن میری مجبوریوں اس کو سمجھنے کی کوشش کرو
۔عائشہ کی عزت اور اریشفہ کی جان کو خطرے میں نہ ہوتی تو یہ بات کبھی وہ لوگ بھی نہیں جان پاتیں
اور جہاں تک بات تماری ہے تو تم تک کسی خطرے کو پہنچنے سے پہلے اسے جان کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔
تم تک کسی مصیبت کو نہیں آنے دونگا لیکن فی الحال تو اس مصیبت کو جھیلوجسے اتنے دنوں سے خود سے دور کر رکھا ہے وہ کہتے ہوئے بنا اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے اس کے لبوں پر جھکا تھا اور اس کے ل وں کو اپنی سخت دسترس میں لیا
اس کے انداز میں اتنی شدت تھی کہ جاناں بوکھلا کر رہ گئی بے اختیار ہی جاناں کے ہاتھ اس کی شرٹ پر مضبوط ہوئے ۔
جاناں کی سانس روکنے لگی لیکن جان شاید پچھلے تمام دنوں کا حساب بے باک کر رہا تھا جاناں کی حالت کی پروا کیے بغیر وہ اپنی تشنگی مٹا رہا تھا
اس کی دیوانگی سے گھبرا کر جاناں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور کرنا چاہا لیکن یہ بھی ممکن نہیں تھا وہ جاناں کو مزید خود کے قریب لے آیا ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا
اس کے جنون کے آگے جاناں بےبس سی ہوگئی اسے لگا شاید اب وہ دوسری سانس نہیں لے سکے گی پھر اچانک جان اس سے الگ ہو گیا۔
میں تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا لیکن پچھلے کچھ دن سے میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہا تھا جاناں اسے غصے سے دیکھتی گہری گہری سانسس لے رہی تھی
وہ نرمی سے ایک بار پھر اس کے لبوں پر جھکا لیکن اس بار انداز میں شدت نہ تھی ۔وہ بہت محبت سے اس کے لبوں کی نرماہٹ کو محسوس کر رہا تھا جب جاناں اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کچھ فاصلے پر ہوئی وہ مدہوشی سے پھر اس کی جانب آیا
جب جاناں نے اسے دور رہنے کا اشارہ کیا
وہی رک جاو سانس لینے دو مجھے
سامنے والے پر ترس بھی کھایا جاتا ہے کیا جان لو گے میری وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولی تو جان مسکرایا
سوری ڈارلنگ اتنے دنوں کے بعد قریب آیاہوں تو ہوش نہیں رہا بٹ ڈونٹ وری آگے اختیاط سے کروں گا وہ شرارتی انداز میں بولا
آگے سے کیا مراد ہے تمہاری ۔۔۔؟ جاناں نے گھورا۔
اب اتنی بھی کاکی نہیں ہو تم کہ ایک ایک بات کا مطلب سمجھوں
چلو کوئی بات نہیں کمرے میں چلو ایک عد کلاس دے ہی دیتا ہوں وہ سنجیدگی سے کہا ہوا اس کی مذاحمت کی پراہ کیے بغیر اٹھا کر لے گیا۔
اور اب وہ سچ میں اسے اپنی باتوں کا مطلب بہت اچھے سے سمجھا رہا تھا جاناں ہمیشہ کی طرح بے بس سی اس کی باہوں میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہی تھی
اور جان اپنے تمام دنوں کی تھکاوٹ مٹاتا اپنے آنے والے وقت اور مقصد کو فراموش کیے صرف اور صرف اپنی جاناں کو پیار کررہا تھا
ان تینوں میں ایک ساتھ تہہ خانے میں مقدم رکھا
۔یہ ایک بہت ویران اور پرسرار سے جگہ تھی ۔
وہ تینوں ایک ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ اندر آ رہے تھے ۔
سامنے ہی ایک آدمی کرسی پر باندھا بہت بری حالت میں تھا
۔اس کے جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جس کے زخم نہ ہو
۔شاید نہیں یقینا اس وقت وہ خدا سے اپنی موت کے لئے دعا کر رہا ہوگا ۔
تین دن سے بھوکا پیاسا وہ اسی حالت میں یہاں باندھا ہوا تھا ۔
وہ تینوں آگے بڑھے جب ان میں سے ایک لڑکے نے ایک اسٹول اٹھا کر اس کے سامنے رکھا جس پر اس نے دوسرے لڑکے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
کیسے ہو اکبر خان یہاں کیسا محسوس کر رہے ہو ۔۔۔۔؟
یقینا تم خوش ہو گئے بلکے نہیں میں غلط بول گیا تم نہیں تمہاری روح بہت خوش ہو گی
جسے آج تمہارے جیسے گھٹیا شخص کے وجود سے آزادی مل رہی ہے
۔ہاں ٹھیک سنا تم نے آج تمہاری زندگی کا آخری دن ہے تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں تین دن سے زندہ کیوں رکھا ہوا تھا
تاکہ تم محسوس کرو ان لوگوں کا درد جنہیں اپنا مقصد پورا نہ ہونے پر تم اسی تکلیف سے دوچار کرتے ہو ۔
خیر احساس نام کی کوئی چیز تو تمہارے اندر ہے نہیں تو سوچا کیوں نہ تمہیں وہی تکلیف دے کر میں تمہیں بتا سکوں کہ دوسروں کو وہ تکلیف کس طرح سے محسوس ہوتی ہے ۔
ویسے تمہیں زندہ رکھنے کی ایک اور وجہ بھی تھی ۔
بارڈر پر ہماری فوج کے ایک نوجوان کو گولی لگ گئی تھی
گولی دل پر لگنے کی وجہ سے اس کا دل کام کرنا چھوڑ رہا تھا
ڈاکٹر اس کا دل ٹرانسفارم کرنا چاہتے تھے اور اس کا باڈی سسٹم تمہارے باڈی سسٹم سے کافی زیادہ میچ کر رہا تھا
میں نے سوچا بچارے کا بلا ہو جائے گا لیکن اتفاق سے اس شخص کو پہلے ہی پتہ چل گیا کہ تم اس کے ملک کے غدار ہو
اور تمہارے جیسے ذلیل اور گھٹیا انسان کا دل لینے کی بجائے اس نے موت کو قبول کرنا بہتر سمجھا
اس حساب سے اب تم میرے کسی کام کے نہیں ہو تو تمہیں زندہ رکھنا بھی میرے لیے کوئی اہم نہیں تو اب تم تیار ہو جاؤ کیوں کہ میں تمہاری موت بن کر تمہارے سامنے کھڑا ہوں
نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے جان
جاناں تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی
بھولو مت جان میں تمہارا ماموں ہوں میں تمہاری جاناں کاباپ ہوں
جان مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی
پلیز مجھے معاف کر دو کیا مجھے مار کر جاناں کے سامنے جا پاؤ گے۔۔۔!
اسے کبھی بتاؤ گے کہ تم نے اس کے باپ کا قتل کر دیا وہ اسے ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔جب جان ذرا سا اس کے سامنے جھکا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ۔
میری جاناں نے مجھ سے کہا ہے کہ میرے ملک کے ایک بھی غدار کو دوسری سانس لینے کا موقع مت دینا ۔چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اسے زندہ مت چھوڑنا
اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی میں اپنی بیوی کوتمہارے لیے ناراض ہیں کر سکتا اور تمہارے بارے میں بھی وہ سب کچھ جانتی ہے
اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ہے کہ تمہاری موت کی خبر میں اسے نہ دوں اس لیے نہیں کہ اسے تکلیف ہوگی بلکہ تمہارے جیسے گھٹیا شخص کی بیٹی کہلاتے ہوئے اسے شرمندگی ہوتی ہے ۔
اور یہ پہلا موقع تھا جب اکبر اپنی نظریں جھکا گیا
میرے خیال میں بہت باتیں ہو گئی جان اب ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے آریان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو جان نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنا چاقو نکالا
میری خواہش تھی کہ میں تمہیں دردناک موت دوں پچھلے پندرہ سال سے ایک ایک پل میں یہی سوچتا رہا کہ تمہاری موت کو اذیت ناک بنا دوں گا ۔
لیکن میں تم سے اتنی نفرت کرتا ہوں اکبر خان کی میرا دل ہی نہیں کر رہا تم سے بات کرنے کا
تم اس قابل نہیں ہو کہ میرے ہاتھوں مرو لیکن یہاں مجھے اپنا فرض سر انجام دینا ہے
ان ہاتھوں سے تم نے میرے بابا کی جان لی تھی نا آج ان ہاتھوں کو میں کاٹ دوں گا ۔اکبر خان کی چیخ کو پکار درد اور التجاؤں کی پرواہ کیے بغیر وہ اس کے دونوں ہاتھ اس کے جسم سے الگ کر چکا تھا ۔
اور پھر یہ چیخ و پکار بڑھتی چلی گئی ۔
تہہ خانے میں شور برپا تھا
اس کی التجاوں نے شدت پکڑلی
اور پھر خاموشی۔ ۔۔۔۔
ہر طرف خاموشی کا راج تھا
°°°°°
اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ تینوں جس خاموشی سے آئے تھے اسی خاموشی سے باہر چلے گئے
طہ اس جگہ کی صفائی اس انداز میں کرنا کے پتہ بھی نہ چلے گئے یہاں کوئی قتل ہوا ہے آریان نے باہر نکلتے ہوئے کہا تو طہ نے اسے گھور کر دیکھا
ابھی میں ٹھیک نہیں ہوں مجھے بہت ساری چوٹیں لگی ہیں اور صفائی کا کام میں نہیں کر سکتا
مجھے کراہت ہوتی ہے کچھ دن پہلے بھی تم نے مجھ سے کروایا تھا تمہیں اندازہ بھی ہے بعد میں جسم سے کتنی اسمیل آتی ہے اس بلڈ کی
ہزار بار نہانا پڑتا ہے پھر بھی دس دن کے بعد میں ختم ہوتی ہے یہ بدبو وہ اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے لگا
دیکھ بھائی ہم دونوں شادی شدہ بندے ہیں اب کیا بیوی کے پاس خون کی بدبو لے کر جائیں گے کنوارا تُو ہی ہے اسی لیے یہ کام تیرا جب تک تو شادی نہیں کرتا آریان نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا
اگر ایسی بات ہے تو میں بھی شادی کرنے والا ہوں مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا
مجھے پہلے ہی پتہ تھا یہ بندہ عائشہ پہ فدا ہے آریان نے مسکرا کر کہا انداز شرارت سے بھرپور تھا
ارے میں نہیں عائشہ بچاری مجھ پر مرتی ہے اب دیکھو نہ پچھلے ایک ہفتے سے میری موت کو سوچ سوچ کر روئے جارہی ہے حامت یکھی ہے اس کی مجھے ترس آتا ہے اس بیچاری پر اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ اب میں اسے مزید تکلیف نہیں دوں گا کیا یاد کرے گی طہ نے سخی پن کا مظاہرہ کیا۔
بس اب زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے سب کو پتہ ہے کہ تم عائشہ کو چاہتے ہو اب اسے مذیدتکلیف پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچنا شادی کر لو اس سے گھر بساؤ مجھے یقین ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی ثابت ہو گے جان میں حوصلہ افزائی کی
ہاں بس عائشہ اب شادی کے لیے مان جائے ساری حقیقت جاننے کے بعد آریان نے لقمہ دیا
ارے وہ بچاری پاگل ہے میرے پیچھے ایک اشارہ کروں گا تو بھاگتی چلی ائے گی طہ نے روعب سے کہا
پہلے جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ تو زندہ ہے اور صرف مرنے کا ڈرامہ کر رہا ہے تو سب سے پہلے وہ تیری بینڈ بجائے گی اور پھر شادی اس نے کرنی ہے یہ نہیں یہ وہ خود سوچنے گی ۔لیکن تو عائشہ کے سامنے جانے کے لیے تیار ہو جاؤ
ہاں جلدی سے جلدی عائشہ سے ملاقات کرو تمہاری وجہ سے میری جاناں پریشان ہے اپنے دوست کے دکھ میں پاگل ہوئی جارہی ہے کھانا تک نہیں کھا رہی ٹھیک سے اور میں اپنی جاناں کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتا ۔
اس لئے جتنا جلدی ہو سکے اپنا میٹر سیٹ کرو ۔جان کا انداز ذرا سخت تھا
وہ اپنی ماہی کو ہر مسئلے سے دور رکھنا چاہتا تھا لیکن آج کل وہ عائشہ کی وجہ سے بہت پریشان تھی اور عائشہ کی پریشانی کی وجہ طہ تھا
°°°°°°
عائشہ کو لگ رہا تھا کہ اس بم بلاسٹ میں طہ کی موت ہو چکی ہے جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ لوگوں کا آخری ٹھکانہ تھا
جس کا نام و نشان مٹانے کی ڈیوٹی طہ کے سر پر لگائی گئی تھی طہ بم سیٹنگ کے بعد قلب سے نکل تو گیا لیکن وہ صرف باہر تک ہی اب آیا تھا کہ بلاسٹ ہو گیا۔شاید عائشہ سے بات کرنے کے چکر میں وہ ٹائم سیٹنگ سے نہیں کر پایا تھا
بلا سٹ جلدی ہو جانے کی وجہ سے طہ کو بہت ساری چوٹیں آئی تھی اور وہ دو دن ہسپتال میں بھی رہا
جس کی وجہ سے اکبر کو مارنے میں بھی انہیں تھوڑا وقت لگ گیا
اور اب وہ اپنا یہ مشن مکمل کرنے کے بعد معید کے پاس پاکستان جانا چاہتے تھے تاکہ وہ اسے بتا سکے کہ وہ اپنا سب سے بڑا مشن حل کر چکے ہیں
جان اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر چکا ہے
اور اب وہ تینوں اس کی خوشی اس شخص کے ساتھ منانا چاہتے تھے جس نے ان کا سب سے زیادہ ساتھ دیا جو ان لوگوں کو وجود میں لے کر آیا
اور سب سے زیادہ اس نے طہ کا ساتھ دیا تھا وہ جو اپنے آپ کو بے نام و بے نشان کہتا تھا اس نے دو چیزوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا ایک اپنے باپ کا نام حاصل کرنا دوسرا اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا
لیکن معید چاہتا تھا کہ اس کے دل میں ایک ھی خواھش ہو اپنے ملک کے لئے سب کچھ لوٹا دینا اسی لیے معید نے اسے اپنا نام دیا تھا ۔
اس کے تمام سرٹیفکیٹس پر باپ کے نام کی جگہ معید بخاری کا نام لکھا تھا
بلاسٹکے دوسرے دوسرے دن اسے پتہ چلا تھا کہ جسٹس حفیظ کرپشن کیس میں بیس سال کے لیے اندر جا چکا ہے
اس کی اولاد دوست کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں
پاکستان میں جسٹس حفیظ کا نام آج کل ایک گالی سے زیادہ اور کچھ نہ تھا
اور طہ کوتھا اس کے علاوہ دنیا کے سامنے اپنے ہی ملک کو بیچنے والے شخص کا بیٹا نہیں ہے
وہ دنیا کے لئے ایک ایسے شخص کا بیٹا تھا جو اپنے ملک کے لیے اپنی جان دینے کو تیار تھا اس شخص نے اپنی آرمی تیار کی تھی
جان آریان اور طہ کے ساتھ مل کر اس نے ان تینوں کو اپنے بچے بنا کر پالا تھا اور ان تینوں کو اس شخص کے بیٹے کہلانے پر فخر تھا
°°°°
آریان سرمجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے
اگر آپ مصروف نہ ہوں تو رضی کو وہ کافی دن سے دیکھ رہا تھا وہ اس سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر ڈٹل جاتا اکثر وہ اس کے گھر بھی آتا تھا
وہ بھی بنا کسی وجہ کے آریان کو اس پر شک تو ہونے لگا تھا کہ وہ آئمہ کو پسند کرتا ہے لیکن فی الحال وہ خاموش تھا اسی لیے آریان نے بھی کوئی بات نہ چھیڑا
اسے رضی پسند تھا اسے ایک اچھا شخص تھا ۔اور ائمہ کیلئے ایک بہترین ہمسفر ثابت ہو سکتا تھا
رضی میں منتظر ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو رضی کو پھر سے حخاموش پا کر آریان نے مسکراتے ہوئے کہا وہ اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا
سر وہ دراصل بات کچھ پرسنل ہے رضی نے تمہید باندھی لیکن وہ پھر سے خاموش ہوگیا آریان نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
حد ہے بے وقوف آدمی میری سالی کا رشتہ مانگنا چاہتے ہو اور مجھ سے ہی ٹھیک سے بات نہیں کر سکتے
وہ میری سالی بعد میں ہے میں تمہارا دوست پہلے ہوں تم اپنی کوئی بھی بات کھل کر کر سکتے ہو
تم رشتہ لے آنا ڈی ایس پی سر سے میں خود بات کر لوں گا بے فکر رہو انکار نہیں ہوگا وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھ کر یقین سے بولا تو رضی بے اختیار مسکراتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گیا
مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا آپ سے اس طرح سے بات کرنا وہ آپ کی سالی آپ کی بہنوں جیسی ہے ۔مجھے لگا آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے
اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے تم ایک بہترین انسان ہو اور یقین کرو تمہیں اپنا سنڈوبناتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہوگی
آریان نے مسکرا کر کہا اور اسے یقین دلایا کہ وہ رشتہ لے آئے انکار نہیں ہوگا اب اسے ڈی ایس پی سر سے بات ہوئی تھی اسے پتہ تھا کہ تائی امی اتنی آسانی سے یہ رشتہ نہیں ہونے دیں گیں
°°°°°
ارے دو کمرے کا مکان بنایا ہے اس نے کوئی محل نہیں بنا لیا
کہ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ اسے دے دیں
مجھے تو وہ لڑکا پہلے ہی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا ارے میرے ہوتے ہوئے اتنی بار آیا ہے میرے بعد تو نہ جانے کتنے چکر لگائے ہوں گے
میں پہلے ہی کہہ رہی تھی اس لڑکی کے پاس میری بیٹی کو مت رہنے خود تو عشقیاں لڑاکے کرلی شادی اور میری بیٹی کو بھی بگاڑ دیا
جب سے آریان نے رشتے کے بعد کی تھی تب سے تائی امی کا پارا ہائی ہو رہا تھا وہ فورا آئمہ کو بھی گھر بلا چکی تھیں
بس خاموش اب ایک لفظ نہیں کہنا میری بیٹی کے بارے میں وہ ایسی ہرگز نہیں ہے یہ شادی میری مرضی سے ہوئی ہے میری پسند سے ہوئی ہے بہت بکو اس کر لی تم نے میری بیٹی کے بارے میں ساری زندگی تم نے اسے صرف اور صرف تکلیف دی ہے تمہاری ان رویوں کی وجہ سے میں نے اسے خود سے دور کر دیا ورنہ میں اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنے سینے سے لگا کے رکھتا ۔
تمہاری نفرتوں کی وجہ سے اس نے گھر سے زیادہ ہوسٹل میں رہنا بہتر سمجھا بات بات پر اسے گونگے ہونے کے طعنے تم نے دیے اس نے اپنی اس کمی کو اتنا محسوس نہیں کیا ہوگا جتنا تم نے طعنے دے کر محسوس کروایا ہے
یہاں تک کہ شادی کے دن تم نے اس کی شادی توڑنی چاہئہ تم نے اریان کو نہیں بتایا اس کی محرومی کے بارے میں اور اب بھی وہاں جانے کے بعد تمہارا اس کے ساتھ کیسا رویہ رہا ہے میں سب جانتا ہوں اور مجھے بتانے والا آریان نہیں بلکہ ائمہ تھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری بیٹیوں کے سینے میں تمہارے جیسی جاھل عورت کا دل نہیں ہے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ دو دو بیٹیوں کی ماں ہوکر تم تیسری بیٹی جیسی بچی کے ساتھ ایسا رویہ کیسے اختیار کر سکتی ہو
تمہارے ان ناجائز رویوں کی وجہ سے میں نے کتنی بار کیا خود کو سخت الفاظ کہنے سے روکا لیکن آج نہیں اگر تم نے اس رشتے میں کسی بھی قسم کی کوئی مخالفت کی تھی یاد رکھنا کہ میں تمہیں اپنی زندگی سے اتار کر پھینک دوں گا نہیں ہے ضرورت مجھے ایسی عورت کی جو نہ تو اپنی اولاد کی پرورش کرسکے اور نہ ہی کسی دوسرے کی اولاد کو محبت کے تو بول دے سکے
میں تو تمہیں اسی دن اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دینے والا تھا جب تم نے پہلی بار اریشفہ پے ہاتھ اٹھایا لیکن اس تیرا سال کی بچی نے مجھ سے کہا کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی لیکن میری تائی امی کو کچھ نہ کہیں اس کے پاس الفاظ نہیں تھے لیکن احساس تھا یاد رکھو بیگم اگر آج اریشفہ نہیں ہوتی تو تم بھی نہیں ہوتی تم اس گھر میں اپنی اولاد اپنے شوہر پر راج کر رہی ہو تو صرف اور صرف اسی یتیم بچی کی وجہ جس سے تم نے ہمیشہ نفرت کی ہے
وہ انتہائی سخت انداز میں کہتے اٹھ کر باہر چلے گئے جب کہ تائی امی کے پاس تو جیسے الفاظ کی ختم ہوگئے یہ ساری باتیں انہیں کیسے پتہ چلی اس کا مطلب اریشفہ کی شادی کے بارے میں وہ شادی کے دن سے سب جانتے تھے لیکن پھر بھی خاموش رہے صرف اپنی بچیوں کی خوشیوں کے لیے ۔
اور اگر ایسے میں وہ کوئی سخت فیصلہ کردیں تو اس عمر میں وہ کہاں جاتیں پچھلے دنوں ہی ان کی سہیلی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی اپنے تین بچوں کے ساتھ وہ ایک کمرے کے چھوٹے سے فلیٹ میں گزارا کر رہی تھی اسے دیکھ کر ان کے دل میں کوئی نرمی ہے کوئی احساس نہیں جاگے تھے
ہاں لیکن آج وہ اس عورت کی جگہ خود کو سوچتی کانپ کر رہ گئیں دور کسی مسجد سے اذان کی آواز آئی تو آج اس آواز نے انہیں اٹھنے پر مجبور کر دیا وہ سجدے میں گر کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں ۔اتنی خطا کار ہونے کے باوجود بھی اللہ نے اپنی رحمت کا سایہ آپ پر بنایا ہوا تھا
°°°°°°
پچھلے ایک ہفتے سے سوائے رونے کے اس میں اور کچھ نہیں کیا تھا ۔
طہ کے سامنے بولے گئے سخت الفاظ اسے آج بھی یاد آتے تو آنکھیں اپنے آپ بھیگنے لگتی ایسے میں اس کے دونوں سہلیاں اس کا سایہ بنیں اس کے ساتھ ساتھ تھی اس کو سنبھال رہی تھی اس کی تکلیف میں اس کا ساتھ دے رہی تھی
وہ اسے باہر لے کر جاتی ۔اس سے انٹرٹین کرنے کی کوشش کرتی تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی لیکن اسے طہ یادوں سے نکالنے کی کوشش کرتی
ان دونوں کے ساتھ وہ خود کو کافی مطمئن ظاہر کرتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہیں ۔
ماں اور ان دو دوستوں کے علاوہ اس کی زندگی میں اب تھا ہیں کون ۔۔۔!
جاناں اس سے کل سے باہر چلنے کو بول رہی تھی اور جب اس نے اس کی بات نہیں مانی تو جاناں نے کسی ہوٹل میں ٹیبل بک کرا کر اسے میسج سینڈ کر دیا ابھی سے جانا پڑ رہا تھا ماما کے بار بار ضد کرنے پر مجبور ہوگئی
لیکن جس ہوٹل کا ایڈریس جاناں نے اسے سینڈ کیا تھا وہ ہوٹل پوری طرح بند تھا وہ کچھ سوچ کر واپس جانے کا سوچ رہی تھی لیکن پلٹتے ہی اس ہوٹل میں اس کے سامنے ایک الگ ہی نظارہ پیش کر دیا تھا
ہر طرف لائٹنگ ہوئی تھی ۔رنگوں سے بھری لائٹس میں الگ ہی ماحول بنا دیا تھا ۔اس کے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ آئی کیونکہ اب سامنے سے چلتی لائٹ آئی لو یو عائشہ شو کر رہی تھی
کتنی پیاری تھی اس کی سہلیاں اسے چند پل کی خوشی دینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی تھی اسے اختیار جاناں اور اریشفہ پر پیار آیا ۔
پھر اچانک ساری لائٹس آف ہوگئی اسے سامنے سے ایک سایہ اپنی طرف آتا نظر آیا مطلب شاید جاناں یا اریشفہ ہو گی لیکن وہ کوئی آدمی تھا وہ پریشان ہوئی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی
وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھی وہ وہی تھا جسے وہ سوچ رہی تھی وہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے آچکا تھا اس جگہ اب بھی اندھیرا تھا
پھر اچانک ساری لائٹس اون ہوگئی وہ گھٹنے کو فولڈکرتے ہوئے اپنا سارا وزن اس پر ڈالتا زمین پر بیٹھ چکا تھا
ایک ہاتھ سے اس نے عائشہ کا نازک ہاتھ تھاما جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈائمنڈ رنگ تھی
میں طہ معید بخاری آج اس بات کو قبول کرتا ہوں کہ میں تم سے پاگلوں کی طرح محبت کرتا ہوں اور تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی کروانے کے لیے تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی ۔
کیا تم مجھے اپنی محبت کے راستے کا ہم سفر بناؤ گی ۔مجھ سے شادی کروں گی عائشہ ۔وہ زمین پر بیٹھا یقین سے پوچھ رہا تھا جبکہ عائشہ حیرانگی سے اسے دیکھے جا رہی تھی ۔
وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تو طہ زمین سے اٹھ کر اس کے سامنے آگیا شاید وہ اس کی بے یقینی کو سمجھ رہا تھا اسی لیے مسکراتے ہوئے ایک قدم مزید اس کی طرف بڑھایا
چٹاخ ۔۔۔۔ تھپڑ کی گونج نے حال میں شور برپا کیا اور پھر سناٹا چھا گیا طہ نے بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا اب اسے سے امید تو ہرگز نہیں تھی ۔
طہ نے ایک نظرپلر کے پیچھے چھپے آریان کو دیکھا تھا کیونکہ اسے پیچھے سے قہقے لگانے کی آواز آ رہی تھی
جہاں جاناں آریشفہ اور جان سیریس انداز میں اس کی زندگی کا فیصلہ ہوتے دیکھ رہے تھے وہی آریان کے کنٹرول میں نہیں آرہے تھے جبکہ طہ اسے انتہائی غصے سے گھورے جا رہا تھا
اس نے ایک نظر گھور کر آریان کو دیکھا
دل تو چاہ رہا تھا کہ جس طرح عائشہ کے تھپڑ سے اس کا گال گرم ہو چکا ہے
ایسا ہی ایک جھاپڑ وہ آریان کے منہ پر بھی لگا دےلیکن اس وقت زیادہ ضروری عائشہ کو منانا تھا
جس نے اس کی عزت کا فالودہ بنا دیا تھا
اس کے سارے ارمان چکناچور ہوگئے تھے
وہ جو سوچ رہا تھا کہ عائشہ اس کے ایک اشارے پر بیٹھی ہے اس کی ساری غلط فہمیاں دور ہو چکی تھی
عائشہ یار تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر ۔۔۔۔۔
چٹاخ۔ ۔
اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ عائشہ کا ہاتھ ایک بار پھر سے اٹھا اور اس بار اس کا گال گرم ہونے کے ساتھ ساتھ لال بھی ہو چکا تھا
بس بہت ہوا میں تمہیں پرپوز کرنے آیا تھا اپنے گال کاپوسٹ مارٹم کروانے نہیں آریان کی بتیسی دیکھتا ہوا وہ اچھا خاصا بگڑا
پرپوز کی ایسی کی تیسی ۔۔۔تمہیں تو میں پرپوز کرواتی ہوں وہ اپنا جوتا نکالتے ہوئے اس کی بات کاٹ گئی
اب ہوٹل کا نظارہ کچھ ایسا تھا کہ عائشہ طہ کے پیچھے اور طہ آگے آگے اس سے بچنے کے لیے بھاگ رہا تھا آریان قہقے پر قہقے لگا رہا تھا
جان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جبکہ جاناں اوراریشفہ اپنی سہیلی کی بے وقوفی پر پریشان
اریشفہ کوآریان کا یوں منہ پھاڑ کر ہنسنا بالکل اچھا نہیں لگا تھا
اسی لئے آریان کا بازو پکڑ کر اسے زور سے چٹکی کاٹی
آریان اپنا بازو سہلاتے ہوئے اسے گھور کر دیکھنے لگا
شاید وہ اسے ضرورت سے زیادہ ہی معصوم سمجھے ہوئے تھا کیونکہ سہیلیوں کے سامنے تو اکثر وہ بھی شیرنی بن جاتی تھی
اب وہ اشارے سے کہہ رہی تھی کہ کیوں آپ عائشہ کی بے وقوفی میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں
اسے سمجھئیں کہ وہ اپنی بیوقوفی چھوڑے ایسا چاہنے والا روز روز نہیں ملتا
اور اس کی بات سے جاناں بھی سو فیصد ایگری کرتی تھی
۔وہ تو یہ سوچ کر بہت خوش تھی کہ طہ بلکل ٹھیک ہے اور آج شام و عائشہ کو پرپوز کرنے والا ہے ۔
یہ بات اس کے لیے اتنی بڑی خوشخبری تھی کہ اس کی سہیلی کی زندگی میں خوشیاں آجائیں گی لیکن یہاں تو الٹا ہی ہوچکا تھا
عائشہ کا تو مانودماغ خراب ہو گیا تھا ۔
اریشفہ جاناں جان اور آریان صبح سے اس جگہ کو سجا رہے تھے
تاکہ ان کی یہ پہلی ڈیٹ بہت اچھی رہے
لیکن عائشہ نے تو اس کا بیڑہ غرق کر دیا تھا اب بھی وہ طہ کے پیچھے بھاگتے ہوئے ساری لائٹس کا ستیاناس کر چکی تھی
اور وہ پھول جو اس نے عائشہ کے راستے میں سجائے تھے ان کا تو بیڑا غرق ہو چکا تھا
اور ابھی تک عائشہ اس کے پیچھے اپنا جوتا لے کر بھاگ رہی تھی
نہ جانے کتنی بار تو اس کا جوتا طہ کا کندھا شہید کر چکا تھا
میں بتا رہا ہوں عائشہ شادی کے بعد میں تمہیں کبھی ہیل نہیں بننے دونگا ۔وہ اس کے ہاتھوں مار کھاتا دھمکی پر اتر آیا
تم روکو گے مجھے میرے پسند کے جوتے پہننے سے ۔۔۔!تمہیں ساتھ لے کر جایا کروں گی دکان پر اور جو سب سے زیادہ تمہارے سر پر سوراخ کرے گا وہ لے کر آیا کروں گی اس کی دھمکی کو نظر انداز کرتی الٹا اسی کو دھمکی دینے لگی
مطلب شادی تو کرو گی نا ۔۔۔وہ اپنے مطلب کی بات پر اتر آیا
شکل دیکھی ہے اپنی بندر جیسی مجھے کسی بندر سے شادی نہیں کرنی
میری طرف سے انکار سمجھو وہ جوتا زمین پر پھینک کر اسے ہری جھنڈی دکھا گئی
ایسے کیسے انکار سمجھوں
کتنا خرچہ ہوا ہے میرا اس ہوٹل پہ یہ لائٹنگ لگائی ہے میرے مہینے کی تنخواہ سے زیادہ لگ گیا ہے
اوراگر انکار ہی کرنا ہے تو ابھی نکالو میرے سارے خرچے کے پیسے ۔اس کی بات پر جہاں عائشہ کا منہ کھل گیا ۔وہی آریان کے قہقے کو بھی بے ساختہ بریک لگی تھی
وہ اس سے اس کی بات کی امید نہیں رکھتا تھا
ہاں پتا ہے مجھے بھیک مانگے یہی اوقات ہے تمہاری
اس بندے سےابھی سے میری کافی کا خرچہ نہیں اٹھایا جاتا تو شادی کے بعد خاک اٹھائے گا ۔وہ غصے سے کہتےہوئے اپنی جیب سے پیسے نکالنے لگی اور اب وہ اس کے منہ پر بھی مار چکی تھی ۔
اور طہ نے بے شرموں کی طرح سارے پیسے گنے اور پھر بولا
یہ تو صرف دو ہزار ہے میرے ساڑھے بائیس لگے ہیں ۔
دے دونگی تمہارے پیسے لے کر بھاگ نہیں رہی ۔وہ پیر پٹکتے غصے سے بولی
اچھا چھوڑو یہ سارے حساب کتاب ہم شادی کے بعد کریں گے ۔فی الحال مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں مجھے زندہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے نہیں ۔
آریان اور جان کی سخت گھوری نے اسے بات بدلنے پر مجبور کر دیا
ہاں بہت خوشی ہوئی اتنی خوشی ہوئی کہ اب دل کر رہا ہے کہ تمہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں عائشہ غصے سے بھنا کر بولی
ہاں وہ سب کچھ تم لوگ شادی کے بعد دیکھ لینا فی الحال ہمیں بتاؤ کہ ہم لوگ رشتہ لے کر کب آئے ۔جان نے ان دونوں کے درمیان آ کر ان کے مکالمے کو ختم کیا
۔اور ہمیشہ کی طرح اس کا انداز اتنا سخت تھا کیا عاشی دو قدم پیچھے ہٹ گئی
عاشی اب جانتی تھی کہ وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے اور جو بھی کر رہا تھا اپنے وطن کے لئے کر رہا تھا لیکن جو پہلی دفعہ ڈر اس کے سینے میں بیٹھا تھا وہ آج بھی وہیں موجود تھا ۔
وہ ایک دوسرے کے سامنے نارمل رہتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی عائشہ اس سے ڈرتی ہے جان جانتا تھا اور عائشہ بہت چاہنے کے باوجود بھی اس ڈرکو کم نہیں کر پائی تھی اس کا وہ پہلا روعب اب بھی موجود تھا
اور طہ کو یقین تھا کہ وہ جان سے اتنا ڈرتی ہے کہ اس کے سامنے وہ کچھ نہیں بولے گی ہاں لیکن بعد میں اس کی بینڈ ضرور جائے گی
میرے خیال میں ہمہیں کل ہی چلنا چاہیے کیونکہ آج شام میں چاچو یہاں پہنچ جائیں گے آریان نے کہا
گریٹ تو پھر ہم سب کل ملتے ہیں عائشہ کے گھر پر وہ مسکرا کر عائشہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔جاناں اور اریشفہ مسکرا کر اسے مبارکباد دینے لگی
جب کہ وہ طہ کو گھورتے ہوئے ان کی مبارکباد کو موصول کر گئی
°°°°°
سب کچھ اتنا جلدی اتنا آسانی سے ہو جائے گا طہ اور عائشہ دونوں نے ہی نہیں سوچا تھا
معید چاچو نے آکر نہ صرف رشتہ پکا کیا تھا بلکہ عائشہ کے ہاتھ میں طہ کے نام کی انگوٹھی بھی پہناچکے تھے ۔عائشہ جو اندر سے بے حد خوش تھی اوپر سے بہت ڈرامے کر رہی تھی
اور اس کی یہی سارے ڈرامے بالکل نظر انداز کیے ہوئے
۔جیسے اس کے روٹھنے یا ناراض ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
لیکن عائشہ نے بھی قسم کھا رکھی تھی شادی کے بعد وہ اس کے ساتھ وہ کرے گی جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا
وہ اس کی زندگی حرام کرنے کی پوری پلاننگ کر چکی تھی
جتنا اس نے اسے ستایا تھا عائشہ اتنی آسانی سے ہرگز معاف نہیں کرنے والی تھی
۔منگنی کی رسم ادا ہوئی اور ساتھ ہی جمعہ کے دن دونوں کا نکاح بھی رکھ دیا گیا
ماما کی تو مانو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی
۔وہ تو بس اپنی بیٹی کو ہنسی خوشی بستے دیکھنا چاہتی تھی۔
جہاں اس جمعہ ان دونوں کے نکاح کی تیاری شروع ہوئی تھی وہی ہفتے کے دن رضی اور ائمہ کی نکاح کی بھی خبری آ چکی تھی
۔ اور ان دنوں اریشفہ آریان کے ساتھ ساتھ اپنی اور اس کی شاپنگ کروا رہی تھی اور آریان ہمیشہ کی طرح اس کی پسند کی ہوئی ہر چیز پر یس بولتا ساری دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھا
۔جب کہ جان اور جاناں بھی ان دونوں صرف اور صرف شاپنگ پر فوکس کر رہے تھے۔
°°°°°
جان آج تو میرا برتھ ڈے نہیں ہے تم نے میری آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ہے
وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی گھر کے اندر داخل ہوئی
اس کا ایک ہاتھ جان نے مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا تھا
جبکہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی
جان اسے کوئی سرپرائز دینے والا تھا ۔اس نے گھر کے اندر قدم رکھا اور اسے اپنے ساتھ ساتھ ایک جگہ پر لے کر گیا یقیناًوہ اس کے گھر کا سیٹنگ ایریا تھا
جاناں نے ایک اندازے سے سوچا اور پھر آہستہ سے جان نے اس کی آنکھوں سے پٹی کھول دی
جاناں ان تینوں کو اپنے سامنے دیکھ کر واقعی ہی سرپرائز ہو گئی تھی
وہ آگے بڑھنے کی بجائے جان کو حیرت سے دیکھنے لگی جو مسکرا کر اسے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر رہا تھا
جاناں اپنے بھائیوں سے نہیں ملو گی یاور نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے بازو پھیلائے
میں جانتا ہوں جاناں تم مجھ سے جب بھی ملی ہو بابا کے ہوتے ہوئے ملی ہو
لیکن یقین کرو بابا کے سارے کالے کاموں میں میں ان کے ساتھ نہیں تھا بلکہ میں نے تو جان کی مدد کی ہے میں نے ہی اسے بتایا ہے کہ اس شخص میں ہماری ماں کو کس بے دردی سے قتل کیا تھا
یاسر نے آگے بڑھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
یاور ان کے بارے میں تو کچھ نہیں جانتا تھا سوائے اس کے کہ ایک دن اپنے بابا سے لڑائی کرکے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر واپس نہیں آیا جبکہ یاسر اکبر کے سارے کالے کارناموں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی خاموش تھا
جان نے اس سے بہت بار وران کیا تھا کہ اپنے باپ کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے ملک کا ساتھ دے اور پھر اس نے ایسا ہی کیا
جبکہ ولی ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔
اپنے ماں باپ کو کھونے کے بعد اب یہ بھائی ہی اس کا سہارا تھے لیکن آج اتفاق سے اسے یہ پتہ چلا تھا کہ ان کی ایک بہن بھی ہے ۔
جان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے یاسر اور یاور کا ساتھ دیا
جاناں ہم بہت برے بھائی ہیں بہت چاہنے کے باوجود بھی ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکے بابا نے تو تمہیں مجھ سے بھی چھپا کر رکھا تھا یارو نے اپنے باپ کی بے حسی کا بتایا
اور میں جانتا بھی تھا کہ تم کہاں ہو کیسی ہو لیکن پھر بھی بابا مجھے تم سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے تھے بابا نے میرے ہاتھ باندھ رکھے تھے جاناں میں بہت چاہنے کے باوجود بھی تم تک نہیں آ سکا یاسر نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا
اتنے برسوں کے بعد اپنے اپنوں سے مل کر جاناں بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
جبکہ جان اسے ان دونوں کے پاس چھوڑتا خود ولی کے پاس آ روکا تھا کیا ہوا تمہیں جاناں پسند نہیں آئی کیا وہ اس کے سامنے بیٹھا ہوا پوچھنے لگا
بیوٹیفل تو ہے بٹ روتی بہت ہے اس نے ناک چرا کر کہا
جبکہ یاسر ہنستے ہوئے اسے دیکھنے لگا
جب بہنیں روتی ہیں تو بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ چپ کروائیں نہ کہ کھڑے ہو کر نظارہ دیکھے یاسر کے کہنے پر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا جاناں کے پاس آیا
مجھے بہتی ناک والی بہن نہیں چاہیے
وہ منہ بنا کر کہتا جاناں کو اپنے ناک پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر گیا
اور اس کی شرارت پر سب لوگ ہنسنے لگے
جبکہ جاناں نے بنا اس کے نخروں کی پرواہ کیے اسے خود میں بھیج لیا
°°°°°°
اس نے کمرا عروسی میں قدم رکھا تو وہ سامنے ہی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھی تھی چہرے پر کسی قسم کی کوئی شرم و حیا نہیں تھی
عائشہ تم میرے ساتھ ٹھیک نہیں کر سکتی
ٹھیک ہے میں نے تمہیں نخرے دکھائے
تمہارے پرپوزل کو قبول نہیں کیا
تم میرے لئے پاگل تھی میرے ایک اشارے پر بیٹھی تھی
لیکن میں نے تمہیں بالکل بھاؤ نہیں دیا ۔
بس بس بہت اڑ لیاآسمانوں پہ اب زمین پر آ جاؤ عائشہ نے بریک لگائی
تو کیا میں ٹھیک نہیں کہہ رہا ہوں کیا تم نہیں تھی میرے پیچھے پاگل کیا تم میرے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں تھی
کیا تم چار راتیں میرے گھر کے باہر نہیں رکی
ہاں میں نے یہ سب کچھ کیا لیکن بدلے میں تم نے کیا کیا مجھے دھوکہ دیا مجھ سے جھوٹ بولا میرے سامنے مرنے کا ڈرامہ کیا مجھ سے محبت کرتے ہوئے بھی تم نے میری محبت سے منہ پھیر لیا
تم جانتے ہوطہ اس دن میں کتنا روئی اپنے آپ کو کتنا نیچے گرا ہوا محسوس کیا تم میری محبت کو ٹھکرا کر چلے گئے
عائشہ میری ذمہ داریوں نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے تھے میں تمہیں ایک بہت خوبصورت حسین زندگی دینا چاہتا تھا لیکن میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا ۔مجھے لگتا تھا کہ یہ ساری خوشیاں میرے لیے نہیں ہیں
لیکن اس دن تمہیں وہاں چھوڑ کر جب میں اندر گیا تب میری یہی سوچ تھی کہ میں نے بہت بڑی غلطی کردی اور میں وہاں بم فٹ کرنے کے بعد واپس آنے والا تھا
لیکن میں اسی کا شکار ہوگیا اس سے پہلے کہ میں مین گیٹ تک جاتا ٹائم ٹھیک سے سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بلاسٹ ہوگیا وہ تو شکر ہے کہ میں نے بم بیسمنٹ میں سیٹ کیا تھا ۔
کیونکہ ان لوگوں کا سارا گینگ نیچے بیسمنٹ میں اپنا کام کر رہا تھا ۔اس لئے میں نے وہیں پرسیٹنگ کرتے ہوئے وہاں سے نکلنا چاہا
اور یقین کرو میں واپس باہر تمہارے پاس ہی آنے والا تھا میں خود تھک چکا تھا ان سب چیزوں سے میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے لیکن میں پھر بھی سوائے معافی مانگنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا تم چاہو تو ساری زندگی مجھ سے انتقام لیتی رہنا پلیز مجھے معاف کر دو پلیز پلیز وہ دونوں کان پکڑے اس کے سامنے زمین پر بیٹھا معافی مانگنے لگا
اور عائشہ جو اسے بہت سارا ستانے کا ارادہ رکھتی تھی اس کے انداز کے سامنے ہار گئی وہ بہت کوشش کے بعد بھی اپنی مسکراہٹ کو چھپا نہیں پائی تھی
تم بہت برے ہوطہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی
میں تمہیں ساری زندگی ستاتی رہوں گی
وہ اس کے ہاتھ تھامےا سے کھڑا کرتے ہوئے کہنے لگی
جب کہ طہ کو تو بس موقع چاہیے تھا وہ اس کا وہی ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔
تم ساری زندگی مجھے ستاتی رہنا تمہارا ہر انداز سر آنکھوں پر وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے اس کے ایک ایک نقش کو لبوں سے چومتا اپنی محبت کا یقین دلانے لگا ۔جبکہ عائشہ بھی کی محبت کے سامنے ہار مانتے ہوئے اس کی باہوں میں سما چکی تھی
وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا گھر کے اندر داخل ہوا
اس نے اریشفہ کو ڈھونڈا تو وہ ہمیشہ کی طرح کچن میں نظر آئی
آج بہت عرصے کے بعد اس نے بلو کلر پہننا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کلر میں آریان کا دل دھڑکنے لگا
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بالکل اس کے پاس آرکا شاید گرمی بہت زیادہ ہو رہی تھی تبھی تو اریشفہ کی گردن پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے
اس نے غیر محسوس انداز میں اس کی گردن پر ہلکی سی پھونک ماری ۔وہ گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی آریان نے اسے اپنی باہوں میں قید کر لیا
کتنی بار کہا ہے اس طرح سے گھبر آیا مت کرو میرے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ایسی گستاخی اس کی گردن پہ لب رکھتا وہ اس کا دل دھڑکانے لگا ۔
وہ کل ہی گھر سے واپس آئی تھی تائی امی نے اس سے معافی مانگی تھی اور ان کا رو رو کر معافی مانگنا اریشفہ کی آنکھیں بھی نم کر گیا اس نے اپنے دل کی تمام گہرائیوں سے ان کی ساری غلطیاں اور زیادتیاں معاف کر دی تھی جبکہ اریان شادی ختم ہونے سے پہلے ہی گھر واپس آ گیا تھا اسے یہاں بہت سارے کام تھے
لیکن آئمہ اور زئمہ اریشفہ کو روک لیا تھا ۔جس پر وہ پریشان ہو گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ آریان کو یہ پسند نہیں ہے لیکن پھر آریان نے اس کی خوشی کی خاطر اسے وہاں رکنے کی اجازت دے دی
کل وہ کافی تھک تھکا ہوا گھر واپس آیا تھا اسے دیکھ کر اس کا موڈ کافی بہتر ہو گیا لیکن اتنے لمبے سفر میں اریشفہ کی تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے دل کی خواہشات کو دل میں ہی دبا گیا لیکن آج ایسا نہیں تھا
اب تو وہ اپنی تمام تر تھکاوٹ اس کے وجود سے مٹانا چاہتا تھا
اسی لیے بنا اس کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کی پرواہ کیے دیوانہ وار اس پر اپنی محبت برساتا اسے پور پور چومتا اپنی محبت میں شرم آنے پر مجبور کر گیا
°°°°°
جان گھر داخل ہوا تو ماہی اسے کہیں نظر نہیں آئی
اور ہر روز کی طرح وہ اب بھی زور زور سے آوازیں دیتا اسے پورے گھر کے کونے کونے میں ڈھونڈنے لگا
ماہی اگر تم مجھے بیڈروم میں ملی نہ تو اپنی خیر منا لینا ۔وہ شرارتی انداز میں کہتا بیڈروم میں قدم رکھ چکا تھا
اور کمرے میں آتے ہی وہ پردے کے پیچھے اس کے پیر بھی دیکھ چکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا بیڈ پر پھولوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیپر نظر آیا
جس پر باقاعدہ اس کا نام بھی لکھا تھا اور وہ بھی جاناں کی طرف سے اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ آئی
میری بیوی نے مجھے لو لیٹر لکھا ہے وہ مسکراتے ہوئے بیڈ سے اس کاغذ کو اٹھا چکا تھا جاناں کی شرمیلی ہنسی اس کے کانوں میں گونجتی تھی
اور اب وہ اس کاغذ کو کھول کر آہستہ آہستہ پڑھنے لگا یہ کسی ہسپتال کی رپورٹ تھی اس نے محسوس کیا کہ جاناں آہستہ آہستہ چلتی اس کے بالکل پاس آ رہی ہے وہ بے یقینی سے اس پیپر کو ہاتھ میں پکڑے جاناں کی جانب دیکھنے لگا
ماہی کیا یہ سچ ہے وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا
ماہی نے شرماتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا
میں باپ بننے والا ہوں
تم ماں بننے والی ہو
ہمارے گھر ایک چھوٹا سا بےبی آنے والا ہے
ماہی ہمارا بچہ میرابچہ میرے وجود کا حصہ خوشی کے مارے جان سے اپنے جذبات لفظوں میں بیان نہیں ہو رہے تھے
اس نے بے اختیار ہی جاناں کو خود میں بھنج لیا
ماہی میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ میرا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے میں اس کا نام ابراہیم رکھوں گا اپنے بابا کے نام پر ۔وہ میرا بچہ ہو گا میں اسے بہت پیار دوں گا اور ان شاءاللہ میں اسے اپنے ملک سے محبت کرنا سیکھ آونگا ماہی میرا بچا یہاں نہیں ہو گا میرا بچہ میرے ملک میں ہوگا
میں اسے ایک ایسا انسان بناؤں گا جو اپنے ملک کے لیے کچھ بھی کرے گا ۔جان اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اسے خود سے لگائے کسی اور ہی دنیا میں کھو چکا تھا
جبکہ جان اس کے سینے پر سررکھے اس کی ہر لفظ پر ان شاءاللہ کہتی بے انتہا خوش تھی
وہ بھی جان سے یہی بات کرنا چاہتی تھی کہ ان کا بچہ ایک غیر ملک میں پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنے بچے کو اپنے ملک میں لے کر جائیں گے تاکہ وہاں اسے دنیا میں آنے پر ویلکم کر سکے
°°°°°
پانچ سال بعد
زندگی بدل چکی تھی بہت کچھ بدل چکا تھا
وہ تینوں ایک بار پھر سے پاکستان آ چکے تھے
یہاں سب سے اپناآپ اپنی پہچان چھپا چکے تھے
طہ دنیا کی نظروں میں ایک کیفے چلاتا تھا جس میں عائشہ اس کی مدد کرتی تھی جبکہ اس کے دشمن زیرک اس کا بس ایک ہی کام تھا اس کا ہر کام بھگڑنا وہ ڈھائی سال کا ہوچکا تھا اور اتنا ہی فیشن ایبل تھا جتنی کہ اس کی ماں طہ کو تو سمجھ نہیں آتا تھا اس کی ماں کی خرچے زیادہ تھے یا پھر اس کے بیٹے کے
عائشہ نے تو اس سے وہ بدلے نکالے تھے جو وہ ساری زندگی نہ بھلاتا
ہاں اس نے سچ میں ہی اس کی زندگی کا بیڑہ غرق کر دیا تھا
اپنی ساری جائیداد وہ اپنی ماں کے نام کرکے دبئی سے پاکستان آئے گی اور ویسے بھی جو جائیداد خان نے اس کے نام کی تھی اس پر وہ اپنا کوئی حق نہیں سمجھتی تھی
یہاں آ کر اس نے طہ کا وہ حال کیا کہ طہ کو لگا کے اپنی جاب چھوڑ کر اب چوری ڈاکے والے کام کرنے پڑیں گے
لیکن پھر عائشہ نے ہی اسے آئیڈیا دیا کہ کیوں نہ وہ دونوں مل کر ایک کیفے اوپن کرے ۔
جان اور آریان کے لحاظ سے بھی یہ ایک بہت اچھا آئیڈیا تھا کیونکہ وہ یہ ان کے لیے ایک بہت اچھا طریقہ تھا اپنی پہچان کو چھپا کر رکھنے کا
دنیا کے سامنے وہ ایک کیفے میں کام کرنے والا عام سا انسان تھا جس کی ایک فیملی تھی ایک چھوٹا سا بچہ تھا
اس نے کیفے میں قدم رکھا تو سامنے ہی عائشہ کاؤنٹر پر کھڑی تھی جس کے ساتھ چھوٹے سے بینچ پر وہ آرام سے بیٹھا ہوا تھا اسے یقین تھا یہ طوفان سے پہلے والی خاموشی ہے ورنہ اس کا لاڈلا آرام سے بیٹھ جائے ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا
کیا ہوا زیرک تم اس طرح اسے کیوں بیٹھے ہو دیکھو یہ شریف تم پر بالکل سوٹ نہیں کرتی وہ اس کے دونوں گال چومتا ہوا محبت سے بولا ۔
ماما دندی اے دانتامدیے (ماما گندی ہے ڈانٹا مجھے )وہ ماں کو گھورتے ہوئے منہ پھلا کر شکایت کرنے لگا
کیوں ڈانٹا میرے بیٹے کو وہ عائشہ کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگا اب بیٹے کے سامنے اپنا تھوڑا بہت روعب تو جمانا ہی تھا
کیوں کہ تمہارے بیٹے نے تمہارے جیسے چھچھوڑے کام شروع کر دیے ہیں ایک لڑکی یہاں سے گزری اس کو کہتا ہے ڈرالنگ آپ کتنے خوبصورت ہیں میرے ساتھ ڈیٹ پر چلیں گی وہ تو شکر ہے کہ اس لڑکی کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی ورنہ یقینا یہ کیفے بند کروا کر چلی جاتی عائشہ نے بیٹے کا کارنامہ سنایا ۔
طہ کو بھی اپنے ڈھائی سالہ بیٹے سے ایسی امید تو ہرگز نہیں تھی ۔لیکن عائشہ نے کہا تھا تمہارے جیسے چھچھوڑے کام شروع کر دئیے ہیں ۔
دیکھو یہ میرا بیٹا ہے ۔مجھے دیکھ کر ہی سیکھے گا لیکن میں چھچھوڑے جو بھی کام کرتا ہوں اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہوں ۔اور اگر میرا بیٹا تمہارے لئے بہو ڈھونڈ رہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے ۔تم بھی پسند کر لو آخرپندرہ بیس سال میں اس کی بھی شادی کرنی ہے ۔طہ ڈھیٹ پن سے کہتا زیرک کو اٹھا کر اندر لے گیا
میری عمر کی لڑکی تھی اب کیا میں اپنی عمر کی بہو لاؤں گی وہ کہتے ہوئے اس کے پیچھے آئی اس کی بات پر طہ قہقہ لگا کر ہستاتھا اور اب آپ کو اس طرح منہ پھاڑ کر ہنستے دیکھ کر زیرک بھی کھل اٹھا ۔جبکہ عائشہ ان دونوں کے منہ پھاڑ کر ہنسنے پر پیر پٹکتی جیسے اندر آئی تھی ویسے ہی باہر واپس چلی گئی
°°°°°°
اریشفہ نے آنکھ کھولی تو ہرروز کی طرح آریان کے بالکل اس کے قریب اس کی باہوں میں سو رہی تھی ۔ آریان بہت نرمی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھو رہا تھا وہ محبت سے اس کے گال پر جھک کر اپنے لب رکھےآہستہ اس کی گردن کی طرف آ رہا تھا اریشفہ نے آنکھیں کھول لیں اور ایک نظر پیچھے کی جانب دیکھا جہاں اس کا بیٹابڑے مزے سے بیڈ پر لیٹا ہاتھ پیر مارنے میں مصروف تھا وہ فی الحال صرف چار ماہ کا تھا
آریان نے اس کی نظروں کا تعاقب سمجھتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھے
بے فکر رہو میری جان تمہارا لاڈلا پیٹ پوجا کر چکا ہے اور میری لاڈلی اسکول جا چکی ہے وہ اس کے فکر مارنا انداز پر مسکرا کر کہنے لگا اریشفہ کو موسمی بخار تھا جس کی وجہ سے آریان نے سے نہیں جگایا
اریشفہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا
کیسا تھا یہ شخص آج بھی پہلے دن جیسا بے پناہ چاہنے والا
بے انتہا محبت کرنے والا ۔آریان کی سنگت میں گزرے یہ ساڑھے پانچ سال اس نے کبھی خود کو اپنی محرومی کو محسوس نہیں کیا تھا اور نہ ہی آریان نے کبھی محسوس ہونے دیا تھا ۔
اس نے سچ میں اس سے محبت کی تھی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ بول نہیں سکتی اور یہ کمی شاید اللہ نے اس کے لیے اس لیے رکھی تھی تاکہ اس کا شوہر سے بے پناہ محبت کرے ۔
اگر وہ ٹھیک ہوتی تو شاید تب بھی آریان اس سے اتنا ہی پیار کرتا تھا یا پھر اس سے تھوڑا کم یا پھر شاید زیادہ آریان کی محبت سمندر جیسی تھی جیسے ماپنا ایک بہت مشکل کام تھا
مرش اور زارب نے ان کی زندگی حسین بنا دی تھی ۔
اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہو چکے تھے
°°°°°
اریشہ کب سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے بیٹھی چپس کھا رہی تھی جب کہ وہ جاناں سے آئسکریم پر لے جانے کی ضد کر رہی تھی
وہ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی اور ایک پرزور دار تھپڑ رکھ کر اس کے منہ پر لگایا
اریشہ جو برے مزے سے بیٹھی چپس کھا رہی تھی اس تھپڑ پر منہ پھاڑ کر رونے لگی۔
جاناں بوکھلا کر اس کے رونے پر باہر کی طرف بھاگ گئی تھی ۔
اریشہ میری جان کیا ہوگیا کیوں رو رہی ہو ۔۔۔؟کیا ہوا ہے اسے مزیشہ وہ بے چینی سے اپنے ساڈھے تین سالہ بیٹی کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی ۔
ماما اس سے نہ پوچھیں میں آپ کو بتاتا ہوں اس نے میرے سامنے ابھی اریشہ کو تھپڑ مارا ہے ناد نے بڑے بھائی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے فوراً اسے شکایت کردی
مزیشہ بہت شرارتی ہوتی جا رہی ہو تم اب تم میرے ہاتھ وں مار کھاو گی کیوں مارا بہن کو کیوں کرتی ہو گندے بچوں جیسی حرکتیں
وہ اس کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ سرخ سرخ پھولے ہوئے گال مزید پھولا اس سے روٹھ کر بیٹھ گئی ۔
اس کے اس طرح سے باہر بیٹھنے کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ اب وہ اپنے باپ کے آنے کا انتظار کر رہی ہے
اور جان کے آتے ہی اس نے وہ ولولہ مچایا کی جاناں بوکھلا کر رہ گئی
اریشہ اور مزیشہ دونوں جڑواں تھی جبکہ ناد کو وہ دونوں اپنی محبت کی نشانی کہا کرتے تھے ۔
مزیشہ غصے کی تیز اور کچھ سخت مزاج تھی جبکہ اریشہ بہت سویٹ نرم مزاج پیاری سی بچی تھہ ۔لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کو کچھ خاص پسند نہیں کرتی تھی ۔جس کی وجہ سے ابھی سے ہی ان دونوں میں کافی زیادہ لڑائیاں شروع ہو گئی تھی ۔
لیکن ایسے میں ناد بڑے بھائی ہونے کا فرض انجام دیتا ان دونوں کو اچھی خاصی کوٹ لگاتااور جاناں کاتو وہ اتنی لاڈلا تھا کہ جان کو اس سے اونچی آواز میں بات کرنے کی بھی اجازت نہ تھی
اور ایسا میں وہ اپنی بیٹوں کاساتھ نبھاتا وہ بھی ان پر کسی کو غصہ نہیں کرنے دیتا تھا لیکن ناد کے ساتھ اس کی محبت بے پناہ تھی
ان کی تینوں اولادوں اریشہ بہت شرارتی اور شیطان کی قسم کی بچی تھی لیکن سچ تھا کہ وہ ان کے گھر کی رونق تھی
اور اب ان کی اس رونق نے جان کے گھر آتے ہی ایسی رونق لگائی تھی کہ کوئی حد نہیں جس کے نتیجے میں جاناں کو ہی ہار مان کر اسے اسپیشل آئسکریم پر لے جانا پڑا اور پھر جا کر کہیں جنابہ کا موڈ ان ہوا تھا ۔
جبکہ جان نے اسے ایک دن پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ سنڈے کو اسے آئس کریم پر لے کر چلے گا جو کہ وہ بھول گیا تو یہ اریشہ کا ایک طریقہ تھا اپنے بابا کو اپنے کیے ہوئے وعدے یاد کروانے کا
°°°°°
♥ Download More:
⇒ Cousin Rude Hero Based romantic novels
آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں گے
Copyright Disclaimer:
We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.