The Beast By Areej Shah | Read Online The Beast Novel By Areej Shah

The Beast By Areej Shah is the latest episode-wise novel,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer.  The Beast By Areej Shah Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. The Beast By Areej Shah is a Forced Marriage and rude hero based novel that our society loves to read.

The Beast By Areej Shah is the latest episode-wise novel,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer.  The Best Novel By Areej Shah Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. The Best By areej Shah is a Forced Marriage and rude hero based novel that our society loves to read.

The Beast By Areej Shah 

The Beast by areej shah

Areej Shah has written many famous  Romantic novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

The Beast Novel By Areej Shah

The Beast By Areej Shah Complete Novel you can Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer. there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download The Beast By Areej Shah pdf to click on the link given below,

The Beast By Areej Shah Pdf 

 

↓ Download  link: 

If the link doesn’t work then please refresh the page.

The Beast Novel by Areej Shah PDF Ep 1 to Last

 

 

Read Online The Beast By Areej Shah

وہ یہاں پہنچ چکا تھا اسے بے دردی سے ایک تہہ خانے میں پھینک دیا گیا جہاں پہلے ہی کچھ لوگ موجود تھے یہ تین کمرے تھے اسے سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ یہ بھی ایک جیل تھی ایک کمرا بالکل خالی تھا جبکہ دوسرے کمرے میں چار شخص ماجود تھے اور تیسرے کمرے میں دو شاید اسی کی عمر کے لڑکے ۔
اسے اسی بچوں والے کمرے میں پھینک دیا گیا ۔ایک لڑکا بالکل خاموش تھا جب کہ دوسرا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔جبکہ ایک سائیڈ دیوار کے ساتھ لگ کے بیٹھا تھا جبکہ دوسرا دوسری دیوار کے ساتھ وہ بھی خاموشی سے تیسری دیوار کے ساتھ اپنی جگہ بناتا بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا
پھر ان میں سے ایک لڑکا ذرا سا مسکرایا اس کے انداز سے سمجھنا مشکل نہ تھا کہ وہ ان دو لڑکوں کی طرح عام لڑکا نہیں بلکہ ایک خواجہ سرا ہے اس کے مسکرانے پر وہ بھی مسکرا دیا
جب کہ دوسرا لڑکا انتہائی سنجیدگی سے زمین کے کسی کونے کو گھور رہا تھا ۔توتو بڑا پیارا ہے یہاں کیسے آیا ۔۔۔!اسی لڑکے نے سوال کیا
وہ لوگ اس وقت جہلم کی ایک جیل میں تھے کل ان سب کو اڈیالہ شفٹ کیا جا رہا تھا یہ تقریبا سات لوگ تھے جو قتل اور ایسے ہی بڑے بڑے گناہوں کی سزا پانے اپنے مقام پر جا رہے تھے
میں نے قتل کیا ہے وہ ٹھہر کر بولا لہجے میں انتہا کی نفرت تھی جب کہ اس کے اس بار بولنے پر دوسرا بچہ بھی اسے دیکھ کر ذرا سا مسکرایا ۔
ہائے ہائے کس کا قتل کیا ہے تو نے وہ بچہ تقریب بھاگتے ہوئے اس کے پاس آ بیٹھا جبکہ دوسرا لڑکا بھی شاید اس کے جواب کا منتظر تھا
اپنی ماں اور چچا کا اس نے جواب دیا ۔
بچہ بتائے گا کیا۔ ۔۔! لڑکے نے پوچھا ۔
جب اس نے نا میں سر ہلایا ۔
تم یہاں کیسے آئے اس نے اس بچے سے پوچھا
میرے ابانے مجھے گھر سے نکال دیا وہ کہتا ہے کہ میں اس کا بچہ نہیں ہوں میری ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھی لیکن چھپا کے رکھتی تھی سب سے اور پھر ایک دن ابا نے مجھے بہت مار کر گھر سے باہر نکال دیا ایک بڑے صاحب نے مجھے اپنے ساتھ کام پر رکھا مجھے کھانے کے لیے بہت پیسے بھی دیئے لیکن نہ جانے کیوں چھوٹے سے پیکٹ میں آٹا بنا کر میری جیب میں آٹا ڈال دیا لیکن وہی آٹا
جب پولیس والوں نے دیکھا مجھے بہت مارا اور جیل میں ڈال دیا میں نے کچھ نہیں کیا وہ بچہ اگلے ہی لمحے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنی حقیقت بیان کرنے لگا اسے اس پر ترس سا آنے لگا تھا ۔
کیسے کسی نے اپنے مطلب کے لئے اس کا استعمال کیا تھا ۔
اور تم یہاں کیوں آئے ہو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے مخاطب کر بیٹھا ۔
میں نے اپنے باپ کو مار ڈالا لیکن فکر نہ کر وجہ تیرے والی نہیں تھی وہ مسکراتے ہوئے بولا جب کہ نہ جانے کیوں اس کی مسکراہٹ اس بچے کو شرمندہ کر گئی تھی وہ کیسے جان گیا تھا وجہ کہ اس نے اپنے ماں اور چچا کا قتل کیوں کیا ۔
تم لوگ کتنے دنوں سے یہاں ہو۔۔۔!وہ اس بچے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے سے پوچھنے لگا
ہم تو چار دن سے یہاں ہیں آج کوئی دوسرا صاحب آنے والا تھا نئے قیدیوں کے ساتھ ہم اس کے ساتھ کل اڈیالہ والی جیل میں جائیں گے ۔
مطلب جو صاحب ہمارے ساتھ آئے ہیں ان کے ساتھ ہم لوگ صبح جائیں گے اس نے پھر سے سوال کیا جس پر بچے نے ہاں میں سر ہلا دیا
پھر وہ بچہ بھی اسی کے ساتھ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا دوسرے بچے کو تو اس نے پھر دیکھنے کی بھی غلطی نہیں کی تھی عجیب پرسرار سا لڑکا تھا
°°°°°°°°
کتنے لوگ ہیں جیل میں افسر نے پوچھا ۔۔۔۔
سر سات لوگ ہیں صبح انھیں دوسری جیل میں شفٹ کر دیا جائے گا
کوئی عورت ہے بڑے صاحب کے پوچھنے کا انداز ایسا تھا کہ سامنے والا بات کی گہرائی تک پہنچ گئے
جی نہیں سرچار مردہیں تین بچے ہیں ۔وہ اس نے فوراً جواب دیا ہے اسے ایسے مرد اچھے نہ لگتے تھے جو ان قیدیوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے تھے نہ جانے کتنی ہی معصوم عورتیں اور لڑکیاں اس جیل سے دوسری جیل جانے سے پہلے اس شخص کے سامنے برباد ہو چکی تھی ۔
کیا یار موڈ خراب کر دیا کوئی لڑکی عورت نہیں ہے کیا ۔۔۔! اس نے پھر سے سوال کیا
نہیں صاحب کوئی عورت نہیں ہے کوئی لڑکی نہیں ہے تین بچے ہیں اور چار مرد ہیں
لیکن میں نے تو سنا تھا کہ ایک خواجہ سرا بھی ہے ان سب میں اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور اس کے انداز پر افسر کا دل چاہا کہ اس کا منہ توڑ سے
صاحب وہ بچہ ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بولا ۔
ہاں اس بچے کو لے آؤ وہی تیسرے کمرے میں کون ہے اس کا پوچھنے والا وہ اٹھتے ہوئے بولا جبکہ افیسر کانپ کر رہ گیا ۔
صاحب بچہ ہے مر جائے گا وہ جانتا بھی نہیں ہے کہ آپ کیا کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے التجاً بولا تھا ۔
مرتا ہے تو مر جائے کون ہے اس کا پوچھنے والا خواجہ سرا ہے ان کا کوئی نہیں ہوتا وہ بچوں والے کمرے میں آیا جہاں وہ تینوں سونے کے لئے لیٹے ہوئے تھے
وہ ایک ہی سیکنڈ میں سمجھ چکا تھا کہ ان تینوں میں وہ الگ بچہ کون ہے وہ اگلے ہی لمحے اسے بازو سے پکڑ کر تے ہوئے تقریبا اپنے ساتھ لے گیا
جبکہ اپنے پر ہونے والے اس اچانک حملے پر وہ بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیخ اٹھا اور اس کی چیخ کے ساتھ سارے قیدی جاگ چکے تھے
کہاں لے کر جا رہے ہو اسے چھوڑ دو اس کو صاحب وہ بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے آیا اے چل دروازہ لاک کر وہ چلاتے ہوئے اسے گھور کر بولا
اور دوسرا افسر نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں دروازہ لاک کر چکا تھا اور پوری ہی دیر میں تیسرے کمرے سے آنے والی درد ناک چیخوں کی آواز نے ان کے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے
°°°°°°°°
سنو کیا وہ لوگ اسے مار رہے ہیں اس کی درد ناک چیخوں کی آواز کافی دیر تک آتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی
نہیں ۔۔۔وہ ایک لفظی جواب دیتے ہوئے خود پر کمبل لیتے ہوئے بولا
تو پھر وہ چیخ کیوں رہا ہے اس نے پھر سے سوال کیا ۔اور دوسری جیل کی سب لوگ توبہ توبہ کیوں کر رہے ہیں شاید اس کی خاموش رہنے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن سامنے لیٹا بچہ اس کے سوالوں سے پریشان ہو چکا تھا
تھوڑی دیر میں لے آئیں گے اسے یہاں پر اگر زندہ ہوا تو پوچھ لینا وہ کروٹ لیتے ہوئے بولا جبکہ اس کے کروٹ لینے کے بعد اب وہ اس بچے اور پولیس والے کا انتظار کر رہا تھا
اور اس کے کہنے کے مطابق تھوڑی ہی دیر بعد وہ اس بےجان وجود کو جیل کے اس کمرے میں پھینک کر چلے گئے۔
وہ بے چینی سے اسے دیکھ رہا تھا نہ تو وہ سن رہا تھا اور نہ ہی بات کر رہا تھا نہ جانے اسے کیا ہوا تھاوہ اس کے قریب بیٹھا اس سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگا
سنو وہ مر رہا ہے بچاؤ اسے وہ لوگ اسے پھینک کر چلے گئے ہیں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے بچے کو اٹھانے لگا تو میں کیا کروں مرتا ہے تو مر جائے مجھے کیوں تنگ کر رہے ہو وہ اپنا ہاتھ جھٹکتا اس سے دور ہوا
تم انسان نہیں ہوکیا اس کا حال دیکھو ۔وہ ایک بار پھر سے جگانے کی کوشش کرنے لگا جب اس نے اٹھ کر آگے پیچھے دیکھا اس بچے کو دیکھنے کے بجائے وہ ہر طرف دیکھ رہا تھا
یہاں سے بھاگنا چاہتے ہو ۔۔۔۔! اس نے سوال کیا ۔۔
کیا تم اسے بچانے میں میری مدد کرو گے اس کے سوال کے جواب میں بھی ایک سوال آیا تھا ۔۔۔
اس کی زندگی کو چھوڑو اپنی زندگی کے بارے میں سوچو اگر زندہ بچنا چاہتے ہو تو یہاں سے بھاگ چلتے ہیں میں پچھلے چار دن سے یہاں سے ایک راستہ نکال رہا ہوں اور کامیاب ہو گیا ہوں تمہیں پتا ہے ہمیں اس جیل میں کیوں رکھا جاتا ہے کیونکہ ہم بچے ہیں ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یہاں سے باہر جانے کا ایک راستہ ہے اس نے کمرے کے کونے کی طرف اشارہ کیا جہاں پانی کا ایک مٹکا رکھا گیا تھا
کیا وہاں یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ ہے کیا اس کی جان بچ سکتی ہے وہ بے چینی سے پوچھنے لگا جبکہ سامنے کھڑے لڑکے کا دل چاہا کہ اس لڑکے کو جان سے مار دے وہ اس کی زندگی بچانے کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے آزادی دینے کے بارے میں سوچ رہا تھا جبکہ اس سے صرف اور صرف اس لڑکے کی زندگی کی پڑی تھی
میں تمہارے بارے میں بات کر رہا ہوں یہ یہی پر رہے گا یہ ہمارے ساتھ بھاگنے کے قابل نہیں ہے اور ویسے بھی اب یہ افسر کی نظر میں آ چکا ہے مجھے نہیں لگتا کہ وہ اسے یہاں سے سینٹرل جیل جانے دے گا ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے ہمارے پاس یہاں سے بھاگنے کا ایک موقع ہے وہ اسے سمجھا رہا تھا
نہیں میں یہاں سے تب تک نہیں چلوں گا تمہارے ساتھ جب تک تم اس بچے کو ہمارے ساتھ لے کر نہیں جاتے اور ایک اور بات یاد رکھو اگر تم نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو میں اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی پھسا دوں گا ۔
وہ اسے دھمکی نہیں دینا چاہتا تھا لیکن وہ اتنا سنگدل پتھر دل انسان تھا کہ اسے اس مرتے ہوئے انسان کی پرواہ ہی نہیں تھی اس نے مجبور ہو کر ایسا کہا
میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر ہم دونوں کے بھاگنے میں یہ یا تم مارے گئے تو یہ امید مت رکھنا کہ میں بچانے آؤنگا اور راستہ کھولتے ہوئے بولا ۔
جبکہ اس کے مان جانے پر اگلے ہی لمحے کمبل اس بچے پر ڈالتے ہوئے اسے اپنے کندھوں پر اٹھانے لگا ۔
اب جلدی چلو کیا ساری زندگی یہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے وہ انتہائی غصے سے گھورتے ہوئے بولا کہ اس کے دھاڑنے پر وہ فورا اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آیا تھا اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر بھاگنا اس کے لیے آسان نہیں تھا لیکن وہ اسے یوں مرنے بھی نہیں دے سکتا تھا
°°°°°°°°
یا اللہ جانے وہ بچہ زندہ بھی ہوگا یا مر چکا ہوگا وہ بھاگتے ہوئے جیل میں آیا تھا لیکن یہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا مٹکا ایک سائیڈ پر تھا وہاں سے پردہ ہٹا دیا گیا تھا انسپکٹر فوراآیا اور کمبل اس جگہ سیدھا کرکے مٹکا دوبارہ اسی جگہ پر رکھنے لگا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ بچے پکڑے جائیں گے ہاں وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس ستم گر کا نشانہ ایک بار پھر سے بنے
یا اللہ ان بچوں کی جان کی حفاظت کرنا ۔۔وہ دعائیں مانگتے ہوئے واپس جیل سے باہر جانے لگا
جب باہر لگے ہوئے ایک ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنائی دی وہ فورا اس کی طرف آیا دو بچے باہر کی طرف بھاگ رہے تھے جلدی سے سب کو خبر کرو میں ان کے پیچھے جا رہا ہوں باہر کھڑے کانسٹیبل نے کہا
ہاں تم پکڑنے کی کوشش کرومیں سب کو خبر کرتا ہوں اس نے ٹیلی فون واپس اپنی جگہ پر رکھا ہے لیکن کسی کو بھی خبر کیا بنا باہر کی طرف چلا گیا
°°°°°°
جلدی بھاگو تم سے تو بھاگابھی نہیں جا رہا لاؤ اسے میرے کندھے پر رکھو وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس پر ترس کھانے لگا
تم اتنے بھی برے نہیں ہوتے جتنے کے بنتے ہو ۔۔۔
بکواس بند کرو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے وہ اس کے کندھے سے بچے کو اپنے کندھے پر لیتے ہوئے غصے سے دھارا تھا جبکہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرا بچہ مسکرا دیا مجھے اپنا نام تو بتا دو
یہاں سے نکلنے کے بعد میرا تم سے اور تمہارے اس دوست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا بہتر ہے ہم ایک دوسرے کو اپنے نام بھی نہ بتائیں وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے بول رہا تھا جبکہ پیچھے سے حولدار کی آواز آ رہی تھی جسے وہ دونوں اگنور کیے ہوئے تھے
میرا نام آریان ہے اس نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔
میں اپنا نام تمہیں نہیں بتانا چاہتا ہوں لیکن اس بیٹری کا نام ٹائر ہوگا ۔وہ تیزی سے بات کرتے ہوئے اونچی آواز میں بولا تھا جبکہ اس کے مزاق پر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہنس دیا جب اچانک پیچھے سے ایک گولی سے آریان کی ایک دردناک چیخ بلند ہوئی
°°°°°°°°
اگلے ہی لمحے اس کی آنکھ کھلی تھی وہ پسینے سے شرابور بیڈ سے اٹھ کر آئینے کے سامنے جا کر رکا اس کے بازو اور سینے کے بیچو بیچ گولیوں کے تین نشان تھے اس نے اپنے سینے کو گھور کر دیکھا تھا
پھر ایک گہرا سانس لیا وقت گزر چکا تھا نہ تو وہ دوبارہ ملا اور نہ ہی اسے اپنا دوست ٹائر ۔۔نجانے وہ دونوں آج کہاں ہوں گے زندہ بھی ہوں گے یا مر چکے ہوں گے اکثر صبح اس کی آنکھیں اسی خواب کے ساتھ کھلتی تھی اس کا فون بجا
ڈی ایس پی کا فون آرہا تھا آج رات ان کے گھر پر اس نے ڈنر کرنا تھا وجہ تو وہ جانتا تھا ان کی دوجوان بیٹیاں تھیں جن کا ذکر وہ کہیں بار اس کے سامنے کر چکے تھے ۔وہ خود بھی اب شادی کر لینا چاہتا تھا اگر ان دونوں میں سے اس سے کوئی بھی لڑکی پسند آتی ہے تو وہ شادی کے لیے تیار تھا اب خود بھی اکیلے رہ رہ کر وہ تھک چکا تھا وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا تھا اپنا گھر بسانا چاہتا تھا
°°°°°°°°
بابا کیا اس بار میں گھر آ سکتی ہوں اس نے معصومیت سے پوچھا ۔وہ کتنے دنوں سے ان کے فون کا انتظار کر رہی تھی لیکن ان کا فون نہ آنے کی وجہ سے آج مجبور ہو کر اس نے خود فون کر لیا تھا
آخر وہ اس کے بابا تھے اس کے لیے عزیز تھےلیکن شاید وہ ان کے اتنی عزیز نہیں تھی تبھی تو انہیں اس کی یاد بھی نہیں آتی تھی
جاناں میں تمہیں کتنی بار سمجھا چکا ہوں کہ تم گھر نہیں آ سکتی میری بات تمھیں سمجھ کیوں نہیں آتی بابا کی آواز میں کہیں نہ کہیں غصہ شامل تھا
بابا میری ساری کلاس فیلوز اپنے اپنے گھر جا رہی ہیں صرف میں یہاں رہ کر کیا کروں گی وہ پریشانی سے بتانے لگی۔
پورا ہوسٹل تو نہیں جا رہا نہ گھر دوسری کلاس کی لڑکیاں ہیں نہ وہاں بہتر ہے وہیں رہو ۔جب مجھے لگے گا کہ تمہیں گھر بلا لینا چاہیے میں خود بلا لوں گا اور ہر بار فضول باتیں کرنے کے لیے فون مت کیا کرو بیزی ہوتا ہوں میں اکبر صاحب نے غصے سے کہا
بابا میری روم میٹس بھی اپنے گھر جا رہی ہیں وہ پھر سے بتانے لگی ۔
جاناں تمہیں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کتنی بار سمجھاؤں۔ کہ تم گھر نہیں آ سکتی مطلب نہیں آ سکتی۔
اب فون رکھ رہا ہوں میں تمہاری فضول باتوں کے لئے وقت نہیں ہے میرے پاس مجھے لگا تھا کہ تمہیں کوئی بہت ضروری کام ہوگا چیک بھجوا دوں گا تمہارا جو چاہے شاپنگ کرنا ۔اپنے فرینڈ کے ساتھ انجوائے کرنا
بابا مجھے پیسے نہیں چاہیے آپ کو چیک بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ نہیں کہہ سکی تھی کہ اسے اپنے باپ کی توجہ چاہیے تھی اسے ان کی محبت کی ضرورت تھی ان کی ضرورت تھی ۔
نہیں ضرورت پڑ سکتی ہے اور تم ہوسٹل سے باہر نکلتی ہی نہیں ہو۔جایا کرو آگے پیچھے اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے فرنیڈز کے ساتھ شاپنگ کیا کرو انجوائے کیا کرو خود کو اپنے آپ کو ایک ہوسٹل کے کمرے تک تم نے خود محدود کیا ہوا ہے
جاناں باہر نکلا کر وہاں سے لوگوں سے ملا کرو کیوں اپنے آپ کو قید رکھتی ہو ۔
تمہارے پیپرز ہونے والے ہیں ان کی تیاری کرو خوش رہو اور اس بار مجھے بہت اچھا رزلٹ چاہیے پچھلی بار بھی تمہارا رزلٹ قابل قبول نہیں تھالیکن میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا
میں جلد تم سے ملنے آؤں گا نہیں تو تمہاری عینی آنٹی کو بھیج دوں گا
نہیں بابا اس کی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہوں میرے پیپرزہونے والے ہیں میں نہیں چاہتی کہ فی الحال میرا دھیان کسی بھی طرح سے بٹھکے میں اپنے پیپرز پر دھیان دینا چاہتی ہوں وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اسے اپنے باپ کی ضرورت ہے سوتیلی ماں کی نہیں
لیکن بابا کے سامنے عینی آنٹی کو کچھ بھی کہنےسے بابا ناراض ہو سکتے تھے اور اگر بابا ناراض ہو جاتے تو مطلب صاف تھا جو فون ایک ماہ کے بعد آتا تھا وہی شاید چھ ماہ کے بعد آئے
عینی آنٹی کی وجہ سے ہی تو آج وہ اپنے بابا سے اتنی دور تھی ۔ صرف چھ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ سے اتنی دور آ گئی تھی اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس کی پرھائی بابا کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتی تھی تو بابا نے اسے لندن یا امریکا کیوں نہیں بھجوایا
ترکی میں ایک ایسی جگہ پر جہاں لوگ بھی بہت کم ہیں اور پڑھائی بھی باقی کالجز کی بانست پر اتنی قابل تعریف نہیں ہے ۔
اس کے بابا تو اتنے امیر تھے ہر ماہ اسے اتنی بڑی رقم بجھتے تھے اینی دولت سے تو وہ کچھ بھی کر سکتے تھے تو کیا وہ اپنی بیٹی کے لیے اسے اچھے کالج میں داخلہ نہیں دلوا سکتے تھے بچپن سے لے کر جوانی تک وہ نہ جانے کتنے ہی ملک میں گم نام زندگی گزار رہی تھی
اور اب پچھلے دو سال سے وہ ترکی کے ایک ہوسٹل میں رہتی تھی جہاں شاید وہ سب سے امیر باپ کی بیٹی تھی کیونکہ اس کالج میں بہت غریب اور کالجز کی فیس نہ ادا کر پانے والے اسٹوڈنٹ تھے
اسے پاکستان سے بے تحاشہ محبت تھی وہ دس سال کی عمر میں آخری بار پاکستان گئی تھی ۔اس کے بعد سے لے کر اب تک وہ کیسی زندگی گزار رہی تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔
بچپن میں اس کا نام کچھ اور تھا جب وہ پاکستان سے سریا گئی تھی لیکن وہاں کے سکول میں اسے جاناں کے نام سے متعارف کروایا گیا اور اس کے باپ نے منع کردیا کہ اس کا نام وہ بھی اپنی زبان سے نہ لے ۔
خیر اب تو وہ اپنا نام بھی بھول چکی تھی
اسے سکول میں داخل کروانے کے لیے بھی ڈرائیورانکل آئے تھے ۔وہ کیوں تھی اتنی گم نام کیوں اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اس کو جانے جب کہ اس کے دو بڑے بھائیوں کو تو ساری دنیا جانتی تھی ۔
لیکن وہ خود ٹھیک سے اپنے بھائیوں تک کو نہیں جانتی تھی ۔ایک دو بار اس نے اپنے بابا کے ساتھ ان دو بھائیوں کو دیکھا تھا جو اس کے اپنے بھائی تھے اور انہوں نے بھی اس سے کبھی ملنے کی کوشش نہیں کی ۔
کیوں بابا اسے دنیا سے چھپا کے رکھتے تھے وہ پاکستان جانا چاہتی تھی لیکن بابا ایسا نہیں چاہتے تھے اسے پتہ تھا کہ ان تینوں کے علاوہ بھی ان کا ایک اور بھائی ہے لیکن ابھی تک وہ اس سے بھی نہیں ملی تھی ۔
°°°°°°°°
تم بھی اپنے گھر جا رہی ہو یار تم تو رک جاؤ میں کیسے رہوں گی یہاں اکیلے وہ عائشہ اور اریشفہ دونوں کو ہی جاتے دیکھ کر پریشان تھی ۔
پورے کالج میں بس دو ہی لڑکیوں کو جانتی تھی اور یہ دونوں اس کی بیسٹ فرینڈ تھی ۔بابا نے اس سے کہا تھا کہ وہ جسے چاہے اپنا دوست بنا سکتی ہے لیکن جھوٹی پہچان کے ساتھ اور یہی وجہ تھی کہ وہ لوگوں سے ملنے سے بات کرنے سے گھبراتی تھی ۔
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ جس سے بھی بات کرے گی اسے اپنی جھوٹی پہچان دے گی ۔
اگر عائشہ اور اریشفہ اس کی کلاس میں نہ ہوتی تو شاید وہ کبھی ان کی بھی دوست نہیں بن پاتی ۔
پچھلے دو سال سے وہ یہاں رہ رہی تھی اور یہ دونوں اس کی بہترین دوست تھی وہ اس کی ہر بات کو سمجھتی تھی۔
اس کی پریشانی دیکھتے ہوئے اریشفہ اس کے پاس آ بیٹھی
اور اشاروں کی مدد سے اس سے باتیں کرنے لگی
ایسا بھی کیا ضروری ہے تمہارا وہاں جانا تمہاری کزن کی شادی کیا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی اور ابھی تو صرف وہ تمہاری کزن کو دیکھنے آ رہے ہیں
ویسے بھی تو تمہاری تائی تمہیں پسند نہیں کرتی تو تم یہیں رک جاؤ نا اس نے اریشفہ کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔
لیکن وہ نفی میں سر ہلاتے اشاروں کی مدد سے پھر اسے اپنی اگلی بات بتانے لگی
یہ کیا بات ہوئی ۔ویسے تو تمہیں یہاں خود سے دور رکھا ہوا ہے اور جب رشتےدار بلادری کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں بلا کر جھوٹی محبت جتانے لگتے ہیں
۔ کیا فائدہ اس سب کا اگر وہ تم سے محبت نہیں کرتے تو یہ ڈرامے کیوں کرتے ہیں ۔جاناں کو غصہ آنے لگا جس پر اریشفہ مسکرا دی
اب وہ بیچاری اسے کیا بتاتی ۔یہ تو اس کے تایا کا احسان تھا کہ وہ یہاں اس کالج میں پڑھ رہی تھی ۔ورنہ اگر اس کی تائی کا بس چلتا تو وہ کبھی بھی اس سے اس چار دیواری سے باہر نکلنے دیتیں۔ اور اب ان کا حکم تھا کہ آج ان کی بیٹی کو دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے والے ہیں جس کے لئے اسے ہر حالت میں گھر واپس جانا تھا
کیونکہ اس کے تایا اسے ہر خوشی میں شامل کوتے تھے ۔اور تائی نے بھی تایا کی نظروں میں اپنے نمبر بھرنے تھے اسے شامل کر کے انہیں یہ بتانا تھا کہ وہ اسے بھی اپنی بیٹوں کی طرح عزیر رکھتیں ہیں
۔ویسے تو وہ ہر سنڈے ہی اپنے گھر جاتی تھی ۔لیکن جب سے جاناں کو پتہ چلا تھا کہ وہ دو ہفتوں کے لیے جا رہی ہے جاناں بہت پریشان تھی
اور عائشہ بھی اپنے گھر جا رہی تھی اپنے پیپرز سے پہلے اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے کیوں کہ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیپرز میں بیزی ہونے والی تھی ۔
اور اب اسے اس کمرے میں اکیلے رہنا تھا اور وہ دونوں ہی جانتی تھی کہ جاناں بہت بزدل ہے ۔
لیکن وہ دونوں ہی مجبور تھی ان کا گھر جانا بہت ضروری تھا ایسے میں جاناں کو اکیلے چھوڑنا نہیں بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
اس کی فیملی پرابلم تو وہ دونوں نہیں جانتی تھی ہاں لیکن اتنا جانتی تھی کہ اس کے بابا نہیں چاہتے کہ وہ گھر واپس آئے ۔ اور ویسے بھی ان دونوں کی طرح اس کا گھر ترکی میں نہیں تھا
وہ یہ تو جانتی تھی کہ اس کے بابا ایک بہت بڑی شخصیت ہیں لیکن وہ اسے کیوں چھپا کر رکھتے تھے یہ بات ان دونوں کے لئے بھی ایک راز تھی
۔ °°°°°°°°°°°
لاش کی حالت کیسی ہے انسپکٹر آریان نے پوچھا ۔
سر بہت بری حالت ہے دیکھا تک نہیں جا رہا انسپیکٹر رضی نے جواب دیا ۔
سر دونوں آنکھیں نکال دی ہیں لڑکی کی اور ساری انگلیاں بھی کاٹ دی ہیں ۔بہت ظلم انسان ہے سر خوفِ خدا تو نام کا بھی نہیں رضی نے پریشان یسے کہا
سر پر ایک بال تک نہیں چھوڑا اس طرح سے کھینچ کر بال اکھاررے ہیں کہ اسپیکٹر رضی بولتے بولتے خاموش ہوگیا ۔
بالکل ٹھیک کیا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے ایسی گھٹیا لڑکیوں کے ساتھ ۔انسپیکٹر عمران نے کہا ۔
سر یہ وہی لڑکیوں کا گینگ ہے جنہوں نے سڑک پر سے یتیم بچوں کو اٹھا کر انلیگل طریقے سے یورپ بھجوآیا پھر ان کی انگلیاں اور آنکھیں نکال کر انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا تھا ۔
سر یہ 128 لوگوں کا گروپ ہے اب اس گروپ میں کون کون لوگ شامل ہیں ہم نہیں جانتے ۔
سوائے اس کے ان کے سر کے بالوں کے بیچ میں سرجری سے ایک کارڈ لوڈ کیا گیا ہے ۔
سر یہ قاتل جو کوئی بھی ہے اپنے ہر قتل کے بعد ایک چھوٹا سا کارڈ چھوڑتا ہے جس کے اوپر "دا بیسٹ "لکھا ہوتا ہے ۔
اور لاشوں کی حالت ایسی ہوتی ہے کے دیکھا تک نہیں جا سکتا ۔
لیکن سر جتنی بھی لاشیں ملی ہیں ان سب لڑکیوں کے بال اکھاڑ کروہ چپ نکال لی گئی ہے ۔اور پھر سر وہی چپ کسی نہ کسی ایماندار آفیسر کے پاس جاتی ہے
انسپکٹر عمران نے بتایا توانسپیکٹر آریان کو کل رات والا پارسل یاد آیا جس میں سے ایک چپ ملی تھی ۔
سراب اس لاش کے اندر سے جو چپ نکلی ہے ضرور کس نے کسی ایماندا روافیسر کو سینڈ کرے گا ۔
مطلب کے یہ جو بیسٹ ہے یہ اچھا کام کرتا ہے میرا مطلب ہے ایک قسم کی وہ ہماری مدد کر رہا ہے انسپیکٹر رضی نے کہا۔
انسپکٹر رضی کے کہنے پر انسپیکٹر آریان نے اسے گھور کر دیکھا
سر میرا مطلب ہے
نفرت گناہ سے کرنی چاہیے گناہ گار سے نہیں ۔
مجھے گناہ سے بھی نفرت ہے اور گناہگار سے بھی ۔آریان کھا جانے والے انداز میں بولا ۔
وہ بے شک ہماری مدد کر رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ گناہگار نہیں ہے ۔
قانون کی نظروں میں وہ گناہگار ہے پر بہت جلدی میرا ہاتھ اس کی گردن تک پہنچ جائے گا ۔
وہ گناہ گار ہونے کے باوجود بھی گناہ گاروں کے لیے بیسٹ ہوگا ۔
لیکن ایسے بیسٹ کے اوپر بھی ایک بیسٹ ہوتا ہے جسے لوگ انسپیکٹر آریان کہتے ہیں ۔آریان غصے سے ان دونوں کو گھورتا اس لڑکی کی لاش کی طرف چلا گیا جسے دیکھنا بھی عام انسان کے بس سے باہر تھا.
لاش کو فورنسک لیب لےجاؤ اس نے آرڈر دیتے ہوئے اپنا موبائل نکالا جہاں ڈی ایس پی کی کال دوبارہ آ رہی تھی
جی سر میں بس نکلنے والا ہوں ایک کیس کی جانچ کر رہا تھا ۔آج کا ڈنر اس کے دماغ سے بالکل نکل چکا تھا کہ آج وہ ڈی ایس پی کے گھر پر ڈنر کرنے والا ہے
کوئی بات نہیں برخودار ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں انہوں نے مسکراتے ہوئے فون بند کیا جبکہ اس نے ایک طرف اپنے قریب کھڑے انسپکٹرز کو دیکھا
تم لوگ گاڑی لے جاؤ میں بس سے چلا جاؤں گا وہ سمجھ چکا تھا کہ اگر وہ اپنی گاڑی لے کر چلا گیا تو ان لوگوں کا واپس جانا مشکل ہو جائے گا ۔ کیونکہ اس وقت وہاں صرف وہی تین تھے باقی ٹیم باڈی لے لر جا چکی تھی
نہیں سر آپ گاڑی لے جائیں ہم فون کر کے دوسری گاڑی منگوا ۔۔۔۔۔
ان دونوں کو بناکچھ کہنے کا موقع دیے وہ بس کی تلاش میں نظر پھیرتا جلد ہی بس کا مسافر بن چکا تھا ۔
بس میں داخل ہوتے ہوئے اس نے آگے پیچھے ہر طرف اپنے لئے ایک جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بھی اپنے آپ میں ایک بہت مشکل کام تھا کیونکہ بس مسافروں سے بھری ہوئی تھی ۔
اسےسب سے آخر میں ایک خالی سیٹ نظر آئی ۔ اور سیٹ کے ساتھ نیلے رنگ کا دوپٹہ یقیناً کوئی پاکستانی ہی تھی ۔وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آ بیٹھا
جو اپنے چہرے کو پوری طرح سے نقاب میں چھپائے دنیا جہان سے انجان آنکھیں بند کیے بس کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے شاید سو رہی تھی
--------------------
°°°°°°°°
آریان بہت غور سے نقاب سے چھپے اس چہرے کو دیکھ رہا تھا جس کی آنکھیں بند ہونے کے باوجود بھی اتنی پر کشش تھی کہ وہ اس سے اپنی نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا
ترکی جیسے آزاد خیال ماحول میں یہ نقاب پوش کون تھی اس کا دل اس سے سوال کر رہا تھا اس کا دل خود با خود متجسس ہو رہا تھا
وہ بار بار نظر چڑا کر آگے پیچھے دیکھنے کی کوشش کرتا لیکن دل بار بار اسے اس کی طرف متوجہ کرتا جیسے ضد کر رہا ہو کہ اپنی نظریں نہ ہٹا نا
آریان اپنے دل کی صداؤں کو اگنور کرتے ہوئے ایک بار پھر سے آگے پیچھے دیکھنے لگا وہ رشتہ دیکھنے جا رہا تھا اور اس سے پہلے کسی اور کو اس نگاہ سے دیکھتے ہوئے یا اپنے دل کی سننا اسے بالکل غلط لگ رہا تھا
اس کے جذبے صرف اور صرف اس کی ہمسفر کے لیے تھے
وہ آگے پیچھے دیکھتے ہوئے مکمل طور پر اسے نظر انداز کر گیا جب اچانک بس کو دھکا لگا اور وہ سویا ہوا وجود اس کی پناہوں میں آ گیا۔جھٹکا کافی شدید تھا
اگلے ہی لمحے وہ اٹھ کر کھڑی ہو چکی تھی شاید اس کی منزل آ چکی تھی اس نے ایک نظر اسے دیکھا سحر آنکھوں میں عجیب دلکش تاثر تھا وہ شرمندہ سی لگ رہی تھی شاید اس کے بازوؤں میں گرنے کی وجہ سے لیکن بنا کچھ بھی بولے اسے نظر انداز کرتی ڈرائیور کو پیسے دینے لگی۔اور وہاں سے نکلنے لگی
آریان کی بھی منزل یہی تھی وہ بھی اسی اسٹاپ پر اتر گیا لیکن جب تک وہ ڈرائیور کو پیسے دیتا تب تک وہ غائب ہوچکی تھی نہ جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی اور کہاں کو جانا تھا
جہاں اس کے غائب ہونے پر دل اداس ہو گیا تھا وہیں آریان کو تھوڑا سکون ملا تھا کیونکہ وہ کسی اور سے رشتہ جوڑنے جا رہا تھا ایسے میں پہلے ہی وہ اپنے جذبات کا سودا ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا
لیکن اس کا دل اسے کسی پل چین نہیں لینے دے رہا تھا نگاہیں بار بار ان خالی راستوں کی طرف جا رہی تھی
اس نے اپنے دل کو سنبھالا کیونکہ اس سے آگے بھرنا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر ہی ڈی ایس پی کا گھر تھا وہ پہلے یہاں کبھی نہیں آیا تھا لیکن پھر بھی اسے گھر کے کچھ فاصلے پر لگے بورڈ سے پتہ چل چکا تھا کہ وہ یہی کہیں فاصلے پر ہی رہتے ہیں اس نے راستے میں ایک انسان سے پوچھ لیا
جو خود خوش ہوتے ہوئے اسے اس رہنمائی انسان کے گھر لے گیا تھا نرم دل نرم گو سے انسان اپنی نرم طبیعت سے سب کی رہنمائی کرتے تھے اور یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ انھیں تکلیف دینے کی ذرا سی بھی وجہ بنے
اس کے ساتھی تمام آفیسرز کہتے تھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو کے سر تمہیں اتنا پسند کرتے ہیں اور یہ ان کی پسندیدگی کی ہی علامت تھی کہ انہوں نے باتوں ہی باتوں میں کہیں بار اسے جتایا تھا کہ وہ اس کو اپنا بیٹا بنانا چاہتے ہیں ۔
شاید وہ جانتے تھے کہ آریان کا کوئی بھی نہیں ہے نہ ماں باپ نہ کوئی دوست نہ بھائی شاید اسی لئے وہ خود ہی اس کے لیے رشتہ لے کر آئے تھے وہ بھی کسی غیر کا نہیں بلکہ اپنی بڑی بیٹی کا ۔
ویسے تو آریان نے بھی ہاں کردی تھی ہاں اسے کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سر کی طرح ان کی بیٹی بھی ایک بہت اچھے اور پیارے سے دل کی مالک ہوں گی
اور آج نہیں تو کل تو اسے گھر بسانا ہی ہے وہ بھی تنہا رہ رہ کر تھک چکا تھا وہ بھی چاہتا تھا کہ جب وہ شام کو تھک ہار کر گھر جائے تو اس کی پیاری سی بیوی اس کا انتظار کر رہی ہو
وہ اسے اپنے سارے دن کی روٹین بتائے جس پر وہ مسکراتے ہوئے اس کے مسئلے کا حل بتا کر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اس کے سارے مسائل حل کر دے اور مسائل بھی حل نہ کر پائے تو پیار کی دو میٹھی باتیں جو اس کی تھکاوٹ کو بھلا دیں اس کے لئے بہت تھی
اپنی محنت اور قابلیت سے وہ نہ صرف اپنا گھر لے چکا تھا بلکہ اس قابل بھی تھا کہ وہ اپنا گھر بسا سکے کہیں بار نہ جانے کتنے رشتے دیکھنے بھی جا چکا تھا لیکن کوئی بھی اسے اس قابل نہ لگی جسے وہ اپنے دل میں بسا سکے ۔
لیکن سر کی بیٹی سے وہ کہیں ساری امیدیں جوڑ کر جا رہا تھا جب یہ دل اس سے بغاوت کرنے لگا صرف ایک بار ہی تو دیکھا تھا اسے اتنی پاس بیٹھی تھی وہ کیوں پاگلوں کی طرح جا کر اس کے پاس بیٹھ گیا اگر دل کا حال سمجھتا تو یقیناً وہ نہ جاتا اسے کیا پتا تھا کہ اس کا دل یوں بے لگام ہو جائے گا ۔
کے اب ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا ۔
ابھی ایک گھنٹہ پہلے تو دل بھی نارمل تھا بس یہ نیلے ڈوپٹے والی بے چین کر گئی
اس نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سر خود اسے رسیو کرنے باہر تک آئے تھے
بہت دیر لگا دی برخودار میں تو کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگایا جب کہ وہ بنا کچھ کہیں خاموشی سے ان کے ساتھ اندر آ گیا تھا ۔
تائبہ آئمہ میری جان جلدی سے کھانا لگاؤ پھر مل کر باتیں کرتے ہیں انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جب کہ آریان ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے باہر نکل گیا تھا جہاں ایک چھوٹے سے باغیچے میں انہوں نے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا ان کا گھر زیادہ بڑا نہیں تھا
لیکن اپنی محنت سے بنا یہ آشنانہ انہیں بہت عزیز تھا
یہ ہے میری بیگم اور یہ میری بیٹیاں تائبہ اور یہ آئمہ ہیں ۔انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تعارف کروایا ۔وہ دونوں جینس پر لونگ جمپر پہنے اسکاف سے چہرہ کور کیے بہت پیاری لگ رہی تھی مسکرا کر اسے ہیلو کہتی سامنے بیٹھ چکی تھی
ارے میرے ارشی آگئی ہے اسے بھی کہو کہ آ کر کھانا کھا لےانہوں نے مسکراتے ہوئے کہا لہجے میں بے حد محبت تھی جیسے وہ اپنی عزیزِ جان کا نام لے رہے ہوں
جس پر نہ جانے کیوں ان کی بیگم کا موڈ بری طرح سے آف ہو گیا تھا
وہ تھک گئی ہے ابھی ابھی تو آئی ہے آرام کرنے دیں اسے بیگم نے سختی سے کہا
ارے آرام بعد میں کر لے گی پہلے بلاؤ اسے کھانا تو کھا لے بنا کھانا کھائے سو جائے گئی ۔
ان دونوں کے علاوہ میری ایک اور بیٹی بھی ہے میری بتیجی اریشفہ ابھی پڑھ رہی ہے ہوسٹل میں رہتی ہے یہاں سے اس کا کالج بہت دور پڑ جاتا ہے نہ اس لئے آج ہی واپس آئی ہے دو ہفتے یہی پر رہے گی شادی وغیرہ کے بعد ہی واپس جائے گی میں نے تو سب کو بتا دیا کہ تمہیں شادی کی جلدی ہے ۔
اور ہمیں بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہم فرض شناس لوگ ہیں ہمیں سارے کام جلدی جلدی کر لینے چاہیے کہ نا جانے کب بلاوا آ جائے وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولے جب کہ آریان کو اتنی جلدی ان سب چیزوں کی امید نہیں تھی اب وہ ہاں کرکے شاید نہیں یقیناً انہیں جلد بازی کا ثبوت دے چکا تھا
کچھ دن پہلے جب سر نے پوچھا کہ تمہیں ایک اچھی سی لڑکی مل جائے تو کیا شادی کر لو گے تو آریان نے کہا سر کوئی لڑکی ملے تو میں فورا سے شادی کر لوں گا اور اس کا مطلب صحیح معنوں میں اسے اب پتہ چل رہا تھا
آپ بھی کن باتوں میں لگ گئے ہیں بچے کو کھانا تو کھا نے دیں بیگم نے ایک بار پھر سے سختی سے کہا مطلب صاف تھا کہ اس سب کے بیچ میں وہ اس کا ذکر نہیں سننا چاہتی تھی۔
تائبہ بیٹا کھانا دو اسے انہوں نے تائبہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ فوراً ہاں میں سر ہلا کر اسے سرو کرنے لگی ۔
کھانا پرسکون سے ماحول میں کھایا گیا
اور تھوڑی ہی دیر میں اس نے جانے کے لیے کہا جس پر سر نے اسے چائے کے لیے روکنا چاہا لیکن نہ جانے کیوں اس ماحول میں خود کو مس فٹ محسوس کر رہا تھا اس کے دوسرے بار کہنے پر شاید سر بھی اس کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دے چکے تھے
°°°°°°°°
تم میری بیٹی سے مل چکے ہو بیٹا اب آگے تمہاری مرضی سچ کہوں تو میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا تھا اسی لیے یہ سب کچھ اتنی جلدی جلدی کر رہا ہوں تمہارے جیسا قابل انسان میرا بیٹا بن جائے اس سے زیادہ اور خوشی کی کون سے بات ہو سکتی ہے میرے لیے
میری بیٹی میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں ہے یہ میں ایک باپ ہونے کے ناطے فخر سے کہتا ہوں وہ تمہارے ساتھ ایک کامیاب خوش حال زندگی گزار سکتی ہے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ میری بیٹی تمہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دے گی ۔اور مجھے یقین ہے کہ تم بھی کبھی مجھے شکایت کا موقع نہیں دو گے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
جی سر میں پوری کوشش کروں گا نہ جانے کیوں اس کا دل اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا
تم کچھ چھپا رہے ہو مجھ سے انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں سر ایسا تو کچھ نہیں ہے بس ۔۔۔
بس بس کیا برخودار تم مجھے اپنا دوست سمجھ کر بتا سکتے ہو یہ مت سوچنا کہ اگر میری بیٹی تمہیں پسند نہیں آئی تو میں تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی کروں گا ایسا ہرگز نہیں ہے بیٹا
۔تم آرام سے سوچ سمجھ کر جواب دو ۔انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کندھے کو تھپتھپایا
سر در اصل میں آپ سے کچھ چھپنا نہیں چاہتا یہاں سے آپ کے گھر آتے ہوئے میں نے ایک بس لی تھی اور وہاں میں نے ایک لڑکی کو دیکھا نہ جانے کیوں سراس لڑکی کو دیکھتے ہی جیسے میرا دل دھڑکنا بھول گیا نہ جانے وہ کون تھی میں نے اسے نظر انداز کرنے کی مکمل کوشش کی لیکن نہیں کر پایا نہ جانے کیوں میرے دل کا ہرٹکڑا میرے ساتھ بغاوت کر رہا تھا ۔
میں مکمل بے بس ہو گیا تھا اس لڑکی کو سوچے ہی میرا دل بہت زور زور سے دل دھڑکنے لگا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ابھی کچھ گھنٹے پہلے کی بات ہے سر آپ مجھے جانتے ہیں میں اس طرح کا انسان نہیں ہوں بٹ یہاں آکے میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہوں
سر بس یہی وجہ ہے کہ میں تائبہ کے لئے شیور نہیں ہو پا رہا سر پلیز یقین کریں آج سے پہلے کوئی نہیں تھی میری زندگی میں لیکن نہ جانے اس لڑکی کو دیکھتے ہی مجھے کیا ہوگیا ہے شایدمیں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا اسی لئے اس کی طرح سے بے بس ہو رہا ہوں سر وہ ایک دوست کی طرح اپنی بے چینی بیان کرنے لگا جس پر وہ مسکرائے
تو یہ بات ہے برخودار تمہیں پہلی نظر کی محبت ہو گئی ہے تمہارا تو وہی حساب ہوگیا جو تمہاری انٹی اور میرا ہوا تھا بس انہیں دیکھتے ہی دل مچل اٹھا اور سارے ارمان جاگ اٹھے محبت کی پہلی نظر میں ایسے ہی حالات ہوتے ہیں نہ دل ساتھ دیتا ہے نہ دماغ کچھ سوچ پاتا ہے
تم بے فکر ہو جاؤ اب آرام سے جاؤ اور اس لڑکی کے بارے میں پتہ کرواؤ کون ہے کہاں سے آئی ہے اس کے بارے میں سوچو ان شاءاللہ اگر وہ تمہارا نصیب ہوئی تو تمہیں ضرور ملے گی اور ایک بات یاد رکھنا اللہ ایسے شخص کی محبت کو کبھی دل میں جگہ نہیں بنانے دیتا جو آپ کا نصیب نہ ہو اگر تم محبت کا شکار ہوئے ہو تو وہ تمہارا نصیب ضرور بنے گی
جاؤ اور اسے تلاش کرو ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے اسکا کندھاتھپتھپایا
جبکہ ان کی زندہ دلی پر وہ پریشان ہو گیا تھا
لیکن سر اندر تائبہ اور آپ کی بیگم اس نے پریشانی سے کہا جس پر وہ کھل کر مسکرائے
میری بیٹی اور میری بیوی کی وجہ سے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں سنبھال لوں گا لیکن کبھی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کروں گا
آریان بیٹا یہ تو نصیبوں کے کھیل ہیں میری خواہش ہے تمہیں اپنا داماد بنانے کے تو ہو سکتا ہے تمہارے نصیب میری بچی کے ساتھ ہی لکھا ہو ۔
اللہ تمہیں خوش رکھے اگر میری مدد کی ضرورت ہو تو ضرور کہنا اور رشتہ لینے میں خود جاؤں گا تم بس میری بہو کو تلاش کرو انہوں نے ہنستے ہوئے سے گلے لگایا جبکہ آریان یہ سوچ رہا تھا کہ اس دنیا میں ایسے شخص کی بہت کمی ہے اگر ہر انسان ان کی طرح سوچنے لگے تو یہ دنیا بہت بدل جائے
°°°°°°
آریان کو دروازے تک چھوڑنےکے بعد وہ گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی اور انہیں دیکھتے ہی بھاگتے ہوئے ان کے سینے سے آ لگی
میری بیٹی اتنی خفا کیوں ہے لگتا ہے ابھی تک اس نے کھانا نہیں کھایا وہ اس کے چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے بولے جس پر وہ ہاں میں سرہلا کو ان کا ہاتھ تھام کر ٹیبل پر بیٹھنے لگی مطلب صاف تھا کہ انہیں بھی اس کے ساتھ ہی کھانا کھانا ہوگا
اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آریان اور اپنی بیٹیوں اور بیگم کے ساتھ پیٹ بر کر کھانا نہیں کھایا تھا کیونکہ پیٹ بھر کر کھانا تو وہ اپنی لاڈلی اریشفہ کے ساتھ کھاتے تھے
تائبہ لگاو کھانا ہم دونوں باپ بیٹی کو بہت بھوک لگی ہے وہ مسکر کر تائبہ کو آواز دینے لگے
جبکہ ان دونوں کے پیار کو دیکھ کر جہاں تائبہ مسکراتے ہوئے ان کے سامنے کھانا رکھ رہی تھی وہی تھوڑے فاصلے پر ان کی بیگم ناگواری سے ان کی محبت کو دیکھ رہی تھی جو ہر کوشش کرنے کے باوجود بھی آج تک کم نہیں ہوئی تھی
ان کی سب ناگواری اور نفرت صرف تایا ابو کی غیر ماجودگی میں تھی ورنہ تایا کی ماجودگی میں وہ اس پر سخت نگاہ بھی نہیں ڈال سکتی تھی
°°°°°°°
°°°°°°°°
کیا ہوا جاناں تمہیں ڈر لگ رہا ہے اگر ایسا ہے تو تم ہمارے کمرے میں آ سکتی ہو اور عائشہ میری منتیں کر کے گئی ہےکہ تمہیں اکیلے کمرے میں نہ رہنے دوں
تم وہاں ڈر جاؤگی دوسری کلاس کی لڑکیاں جو اس کے کمرے کے ساتھ ہی بنے کمرے میں رہتی تھی اس کے پاس آ کر کہنے لگی عائشہ نے جانےسے پہلے ان کے ساتھ ایک گھنٹے کی میٹنگ کی تھی اب وجہ سمجھ آئی تھی لیکن وہ عائشہ اور اریشفہ کے ساتھ جیتنے سکون سے رہتی تھی اتنی ان لوگ کے ساتھ ہرگز پرسکون نہیں تھی
نہیں میں ٹھیک ہوں تم لوگ جاؤ میں رہ لوں گی یہاں جاناں نے کہا جب کے سچ تو یہ تھا کہ اسے واقعی بہت ڈر لگ رہا تھا
لیکن وہ دوسرے کمرے میں نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ دوسرے کمرے میں ان لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ اور لڑکیاں رہتی تھی ان کے بارے میں مشہور تھا کہ رات کو ان سے ملنے کے لیے یہاں لڑکے آتے ہیں ۔اور جاناں کبھی بھی خود پر ایسا گھٹیا اور بے بنیاد الزام برداشت نہیں کرسکتی تھی
اور پھر بابا کا غصہ یاد آنے پر تو اس کی جان پر بن آتی تھی
عجیب بولڈ بے حیا لڑکیاں تھیں وہ کتنی بار تو ان لڑکیوں کی وجہ سے یہ معصوم بھی بد نام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی
جو ان کے کمرے میں رہتی تھی لیکن ان کی مجبوری تھی کہ انہیں یہیں پر رہنا تھا کیونکہ وہ تو پھر صرف اپنے گھر سے دور تھی ان بیچاریوں کے پاس تو ماں باپ جیسی نعمت بھی نہیں تھی
کل ہمارے پیپرز ہیں ہم ساری رات تیاری کرنے والے ہیں اگر تمہیں کچھ بھی ضرورت ہو تو تم ہمیں کہہ سکتی ہو اس کی کلاس کی دوسری لڑکی نے اس سے کہا
ہاں اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں تم لوگوں کو بتا دوں گی اس نے مسکرا کر کہا اور مسکراتے ہوئے اس کے گال کا معصوم سا ڈمپل ان سب کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا
ٹھیک ہے پھر تم آرام کرو وہ تینوں کہتے ہوئے اس کے کمرے سے باہر نکل گئی ۔جبکہ جاناں اب کوئی کتاب پرھنے کے بارے میں سوچ رہی تھی پھر اپنے آپ کو اکیلا سوچ کر فوراً کتاب پڑھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے کمبل کو ٹھیک سے اپنے گرد لیپٹ لیا
سونا سب سے بیسٹ ایکشن تھا اس کے لیے کیوں کہ اس وقت اکیلے میں اسے بہت ڈر لگتا تھا سب سے زیادہ جان تو اس کی اندھیرے میں جاتی تھی یہ نہ ہو کہ لائٹ چلی جائے اکثر ہوسٹل کی لائٹ چلی جاتی تھی اور پھر ساری رات واپس نہیں آتی تھی اور آج تو اتفاق سے باہر بارش بھی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے ہر تھوڑی دیر کے بعد باہر بجلی کڑک رہی تھی جس کی وجہ سے جاناں کی جان پر بنی ہوئی تھی ۔
ارشی عاشی تم لوگ واپس آؤ میں تم سے کبھی بات نہیں کرنے والی پکی والی ناراض ہو جاؤں گی وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے خود سے وعدہ کرتے بولی۔
جب اس کے پاس پڑا موبائل فون بجا جس پر ارشی کا میسج آرہا تھا گڈ نائٹ ود سمائلی امیوجی جاناں مسکرائی
اس کی سہلیاں اسے کبھی بھی خود سے ناراض نہیں ہونے دیتی تھی بس اب اسے ایک بار نیند آجائے اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کبھی نہ کھولنے کی قسم کھاتے ہوئے سونے کی کوشش کی
لیکن نیند تھی جو آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی کبھی اس طرف کروٹ لیتی تو کبھی دوسری طرف لیکن شاید آج نیند بھی اس سے روٹھے بیٹھی تھی
پلیز آجاؤ ۔یہ نہ ہو کہ لائٹ چلی جائے پھر مجھے بہت ڈر لگے گا ابھی وہ بول ہی رہی تھی جب اس کی چیخ بلند ھوئی کیونکہ لائٹ جا چکی تھی اور کمرے میں بالکل اندھیرا چھا چکا تھا ۔
کیا ہوا جاناں تم ٹھیک تو ہو دوسرے کمرے سے لڑکی بھاگ کر اس کے کمرے کی طرف آئی تھی ۔ہاتھ میں ایک کیلنڈر اور ماچس تھی جو اس کے قریب رکھ کر جلانے لگی جب کے دوسرے ہاتھ میں روشنی کے لئے لائٹ موبائل پکڑ رکھا تھا
وہ لائٹ چلی گئی نہ اسی لیے یہ میری چیخ نکل گئی آئی ایم سوری میری وجہ سے تم لوگ ڈسٹرب ہو گئی وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولی
کوئی بات نہیں جاناں تم ہماری دوست ہو کیا ہم تمہارے لئے اتنا نہیں کرسکتے وہ اس کے قریب کینڈل جلاتے ہوئے محبت سے بولی
تمہارا بہت بہت شکریہ اب تم جاؤ جا کر پڑھائی کرو میں ٹھیک ہوں میں سو جاؤں گی وہ اسے یقین دلانے لگی جس پر وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھ کر باہر چلی گئی
سنو تم اپنا دروازہ کھلا رہنے دو ہمارے کمرے کا بھی دروازہ کھلا ہے اگر تمہیں زیادہ ڈر لگے تو وہاں آ جانا وہ دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے بولی جس پر جاناں نے ہاں میں سر ہلا کر ایک بار پھر سے سونے کی کوشش کی
ایک تو اندھیرے میں ویسے ہی اس کی جان جا رہی تھی دوسری بارش کی وجہ سے بادل چمکنے گرجنے سے آوازیں پیدا کر رہے تھے وہ ہر ممکن طریقے سے سونے کی کوشش کر رہی تھی خود کو پوری طرح سے بلینکیٹ میں چھپائے وہ کوئی معصوم چھوٹی سے بچی لگ رہی تھی ۔
عاشی اور ارشی تو اسے ویسے بھی معصوم گڑیا ہی کہتی تھی ۔لیکن پھر بھی وہ اپنی معصوم گڑیا کو اکیلے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی اس نے منہ بسور کر کہا
تم دونوں بہت بری ہو میں تم سے بات نہیں کروں گی وہ ایک بار پھر سے اپنے خیالوں میں ان دونوں سے مخاطب تھی ۔
کاش اس کے بھی ماں باپ اسے اپنے پاس بلا لیتے
کاش وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ رہتی
کاش وہ بھی ان سے ملنے جایا کرتی ۔
کیا کوئی والدین کوئی بھائی اپنی بہن کو اپنی بیٹی کو خود سے دور رکھ سکتے ہیں ۔
کیا وہ اتنی بری تھی کہ اس کے اپنے اسے خود سے دور کر چکے تھے نہ جانے کیوں ہر رات کی طرح یہ سب سوال اس کے دماغ میں پھر سے آنے لگے ۔اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
کیوں وہ اپنے گھر نہیں جا سکتی تھی کیوں اپنے ماں باپ سے نہیں مل سکتی تھی کیوں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی کیوں وہ یہاں اتنے انجان ملک میں ہے
پچھلے 14 سالوں سے وہ نہ جانے کون کون سے ملک میں جا چکی تھی کبھی ایک جگہ جاتی تو کبھی دوسری جگہ پر تھوڑے عرصے کے بعد اسے وہاں سے بھی کسی دوسرے ملک میں شفٹ کر دیا جاتا ترکی اس کا 11 واں ملک تھا
اس کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہوئی تھی ۔لیکن یہ کیوں تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اگر پتہ تھا تو بس اتنا کہ وہ کبھی اپنے ملک میں نہیں جا سکتی کبھی اپنے اپنوں کے پاس نہیں جا سکتی
وہ انہی سوچوں میں گم بیڈ پر لیٹ نہ جانے کہاں تک جا چکی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگی
شکر ہے کہ اس بار نیند اس پر مہربان ہو چکی تھی ۔
ورنہ شاید آج کی یہ رات تو ڈرتے ڈرتے ہی گزر جاتی اور اسے ساری رات نیند نہ آتی ۔
°°°°°°
دوسرے کمرے کی لڑکیاں ہر تھوڑی دیر کے بعد اس کے کمرے میں آ کر اسے دیکھ کر جاتی جو گہری نیند میں سو رہی تھی کیونکہ دوسری طرف انہیں ہر تھوڑی دیر کے بعد اریشفہ اور عائشہ کے میسج رسیو ہو رہے تھے
کہ وہ اس کا خیال رکھیں وہ دونوں اپنے اس پیاری سی سہیلی کو لے کر ہمیشہ فکر مند رہتی تھی وہ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ ان دونوں کو اس سے دور جانا پڑا
اریشفہ تو ہر ہفتے اپنے تایا سے ملنے کے لئے گھر واپس ضرور جاتی تھی لیکن عائشہ کا اس بار جانا ایک ماہ بعد ہوا تھا وہ بہت کم ہی اپنے گھر جاتی تھی کیونکہ اس کے بابا اسے بچپن میں ہی چھوڑ چکے تھے وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی لیکن اب اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تھی اور اس کا سوتیلا باپ اسے زیادہ پسند نہیں کرتا تھا ۔
یہی وجہ تھی کہ وہ بہت کم کم ہی اپنے گھر جایا کرتی تھی صرف اپنی ماں سے مل کر جلد واپس آ جاتی ۔
وہ تینوں ہی کہیں نہ کہیں اپنوں کے ستم کا شکار تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان تینوں میں دوستی بھی کمال کی تھی
اریشفہ پیدایشی گویائی سے محروم تھی وہ کبھی بول نہیں پائی تھی لیکن جاناں اور عائشہ اس کی آواز تھی وہ اسے کبھی بھی اس محتاجی کو محسوس نہ کرنے دیتی
۔اور یہی وجہ تھی کہ عاشی ہر وقت ان دونوں کے ساتھ رہتی کیونکہ وہ واحد سہیلیاں تھیں جو اس کی بے بسی کا مذاق نہیں آتی تھی
°°°°°°
جنوری کی سرد رات میں وہ معصوم سی شہزادی اپنے بیڈ پر اپنے خوابوں کی دنیا میں مدہوش سارا جہاں بھلائے ہوئی تھی
جب کوئی کھڑی کود کر آہستہ آہستہ چلتا اس کے بالکل پاس آیا اس کے بائیں ہاتھ میں ایک ٹیٹو تھا جس سے آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا ۔
ماہی ۔۔۔شاید کسی بہت عزیز ہستی کا نام تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس شہزادی کے بالکل پاس آکر زمین پر بیٹھ گیا
ساری دنیا سے بے خبر کینڈل کی روشنی میں دمکتے چہرے کے ساتھ پرسکون نیند لے رہی تھی وہ محبت پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھتا آہستہ آہستہ اس کے بال سہلانے لگا ۔
لیکن اس کا انداز اتنا نرم تھا کہ وہ نیند میں اسے محسوس نہیں کر پا رہی تھی یا اگر محسوس کر بھی رہی تھی تو بھی اسے اپنا کوئی عزیز جان کر اس کے لیے یہ لمس انجان نہیں تھا ۔
میری جاناں ۔۔۔۔میری ماہی ۔۔۔آئی لو یو میری جان میری پرنسز میں بہت جلد تمہیں لے جاؤں گا ان سب سے دور میری دنیا میں جہاں کوئی نہیں ہوگا جان اور اس کی جاناں اس کی شہزادی ۔
میری دنیا میں چلو گی نہ شہزادی ۔تمہارا بیسٹ تمہیں لینے آئے گا ۔
تمہیں اس دنیا سے چھپا لے گا اور جنہیں لگتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے چھپا پائیں گے ۔ان کو بھی پتا نہیں چلنے دوں گا ۔
وہ بے وقوف لوگ تو جانتے ہی نہیں ہیں کہ جس سے وہ تم کو چھپا رہے ہیں وہ تمہارے اتنے قریب ہے اتنے قریب کے تمہاری آتی جاتی سانسوں کی خوشبو کو محسوس کرسکتا ہے وہ اس کے بالکل قریب اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے نرمی سے بولا ۔
ماہی میں جانتا ہوں تمہیں پیار کی ضرورت ہے ان لوگوں نے میری ماہی کو اکیلا کر دیا میری جان کو مجھ سے دور کرنے کے لیے اتنی اذیت دی لیکن اب میں تمہیں ڈھونڈ چکا ہوں میں تمہیں لے جاؤں گا میری جان ۔
لیکن میں تمہیں تمہاری مرضی کے بغیر نہیں لے کر جا سکتا تمہیں ان سب کو بتانا ہوگا کہ تم میری ہو ۔تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔پھر ہمیں کوئی الگ نہیں کر پائے گا ۔الگ تو ہم اب بھی کوئی نہیں کر سکتا جاناں۔ لیکن میں تمہیں تمہاری مرضی سے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں ۔
تمہیں میرے لئے میری محبت کے لئے ان لوگوں کو چھوڑنا ہوگا ان لوگوں سے بغاوت کرنی ہوگی ان لوگوں کو کیا لگا تھا یہ لوگ تمہیں مجھ سے الگ کر دیں گے
تمہارا نام بدل کر تمہارا ملک بدل کر تمہاری آئیڈنٹٹی بدل کر یہ لوگ تمہیں مجھ سے دور کر دیں گے میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا تم میری ہو اور میری رہو گی
جان تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ سکتا ہے سب کو ختم کر سکتا ہے وہ اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے بولا جب اچانک جاناں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سائیڈ پر رکھنا چاہا اس سے پہلے ہی وہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام چکا تھا
وہ گہری نیند میں اپنا ہاتھ کینڈل پر رکھنے والی تھی ۔اس نے غصے سے ایک نظر کی جلتی موم بتی کو دیکھا جو اپنے آتش نما وجود کے ساتھ اپنا کام سرانجام دے رہی تھی لیکن نہ جانے کیوں اسے غصہ آگیا
تم میری جان کو نقصان پہنچانے والی تھی
تم میری جاناں کو تکلیف دینے والی تھی میری جان کو ۔۔تم نے ایسا کیوں کیا کیوں کیا ۔۔۔! وہ انتہائی غصے سے کینڈل سے پوچھ رہا تھا جب اگلے ہی لمحے وہ اسے اپنی مٹھی میں دبوچتے ہوئے زمین پر پھینکتا اپنے پیروں سے کچھلنے لگا جیسے وہ کوئی زندہ شخص ہو اور اسے جاناں کو تکلیف پہنچانے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی ہو ۔
جو چیز میری ماہی کو تکلیف پہنچائی گئی میں اسے دنیا سے مٹا دوں گا ۔وہ انتہائی غصے سے کینڈل کو مزید کچلتا ایک نظر جاناں کی طرف دیکھنے لگا جب کہ اندھیرے میں سوائے سیاہی کے اور کچھ نہیں تھا
لیکن شاید وہ اپنی جان کو اندھیرے میں بھی دیکھنے کا فن جانتا تھا وہ مسکرایا ۔
ماہی میں کل پھر آؤں گا تم سے ملنے کے لیے ویسے ہی جیسے روز آتا ہوں تمہیں دیکھے بنا مجھے چین نہیں آتا وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتا خاموشی سے جس راہ پہ آیا تھا اسی راہ واپس نکل گیا
جب کہ روز کی طرح آج بھی جاناں اپنے خیالوں کی دنیا میں مدہوش کسی اور ہی شہزادے کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ کہاں جانتی تھی کہ اس شہزادی کے انتظار میں ایک بیسٹ بھی ہے
°°°°°°°°°°
اس کی آنکھ کھلی تو وارڈن صفائی کر رہی تھی اس نے مسکرا کر انہیں سلام کیا ۔ جس کا جواب دے کر وہ باہر جانے لگی لیکن ایک سیکنڈ کے لئے مڑی۔
جاناں تمہارے کلاس کی دوسری دو لڑکیاں کہاں ہیں۔۔۔۔۔! جو یہاں تمہارے ساتھ ہوتی ہیں ۔وہ کیا اپنے اپنے گھر گئی ہیں۔۔۔۔۔! تم اس بار بھی نہیں گئی ۔۔۔۔! کیا تمہیں اپنے گھر والوں کی یاد نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔!وہ ترکش میں اس سے پوچھنے لگی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے دراصل بابا گھر پہ تو ہوتے نہیں ہیں وہ کبھی ایک کنٹری تو کبھی دوسری کنٹری چلے جاتے ہیں ۔ اور آپ کو تو پتہ ہی ہے میرے بابا کے علاوہ میرا اور کوئی نہیں ہے ۔بابا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اس بار وہ آئیں گے تو مجھے اپنے ساتھ لے کر جائیں گے وہ چاہ کر بھی کسی کو نہیں بتا سکتی تھی کہ اس کی ایک سوتیلی ماں کے ساتھ تین تین بھائی بھی ہیں ۔
تم بھی کہیں گھوم پھر آؤ بہت وقت ہوگیا تم کہیں گئی نہیں نہ ہی تمہارے بابا تم سے ملنے آئے ہیں ۔اب تمہارے ایگزامز ہونے والے ہیں اس سے پہلے پہلے تم بھی کہیں انجوائمنٹ کر آؤ فریش ہو جاؤ گی ۔انہوں نے مشورہ دیا
جی ان شاءاللہ میں بھی جلد ہی جانے والی ہوں اس نے مسکرا کر انہیں مطمئن کیا ۔اور اٹھ کر فریش ہونے لگی لیکن پہلے موبائل دیکھا جہاں میسیجز کا کوئی شمار نہ تھا ۔اس نے مسکرا کر دونوں کو گڈ مارننگ وش کیا ۔ اور فریش ہونے چلی گئی ۔
°°°°°°
آریان نے گھر آتے ہی سب سے پہلے وہ پارسل دیکھا تھا۔ جس میں کچھ لاشوں کی تصویریں تھیں جن کی حالت اتنی بگڑی ہوئی تھی جتنی کے آج کی لاش کو دیکھ کر آیا تھا
تصویروں کے علاوہ اس میں ایک چپ تھی اور اس کے علاوہ ایک کاغذ جس پر 122 لوگوں کے نام لکھے تھے ۔لیکن صرف نام لکھے تھے نام کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ان میں سے کچھ لوگوں کو وہ جان چکا تھا شاید یہی لوگ مارے گئے تھے
ان میں سے کہیں لوگوں کی لاشیں تصویروں سمیت انہیں مل چکی تھی
لیکن وہ صرف ناموں کے سہارے ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا ان میں سے 33ناموں پر ٹک لگی تھی مطلب کے وہ اپنے عبرتناک انجام تک پہنچ گئے تھے ۔
آخری نام عیلا جابر کا تھا جس کی لاش انہیں کل رات ہی ملی تھی اور اسی لسٹ میں جن ناموں پر ٹک لگی تھی ان کی لاشیں موصول ہو چکی تھی ۔
یعنی کے بیسٹ کا اگلا شکار اسی لسٹ میں موجود اگلا نام صنم بسیل تھا اب یہ صنم بسیل کون تھی اور سے کہاں ملنی تھی اس کا اس کیس سے کیا تعلق تھا ۔یہ بات تو کلیئر تھی کہ کہیں نہ کہیں یہ لڑکی بھی گناہوں کی دنیا میں شامل تھی۔ اور اگلی موت بیس کے ہاتھوں کسی کی ہونے والی تھی لیکن وہ اسے کیسے بچائے گا یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا آج تک اس نے یہ نام نہیں سنا تھا
وہ اس لڑکی تک کیسے پہنچے گا کیسے بتائے گا کہ اس کی جان خطرے میں ہے لیکن وہ کوئی اچھی لڑکی نہیں تھی کیونکہ بیسٹ کو جتنا وہ جان چکا تھا یہ اس کی سمجھ میں آ چکا تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کو مارتا ہے جو غلط کام کرتے ہیں ۔
ضرور عیلا جابرسے اس لڑکی کا کوئی نہ کوئی کنیکشن ضرور ہوگا ۔سب سے پہلے تو اس کا بائیو ڈیٹا نکالنا پڑے گا ۔ہو سکتا ہے بیسٹ سے پہلے میں اس لڑکی تک پہنچ کر اس کی جان بچا سکوں۔
آریان یہ بات تو سمجھ چکا تھا کہ بیسٹ جو بھی کر رہا ہے وہ غلط نہیں ہے ۔ لیکن اس کا طریقہ بہت غلط تھا یہ قانون کا کام تھا اور بیسٹ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے رہا تھا ۔ اس سے پہلے بھی بہت سارے آفیسر یہ کام چھوڑ چکے تھے بیسٹ کو ایک سائیکو کلر کا نام دے کر
اور پھر آفیسرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیسٹ کچھ غلط نہیں کر رہا وہ ہمارا کام کر رہا ہے لیکن آریان کو اپنا کام کسی اور کو کروانا ہرگز پسند نہیں تھا ۔
آریان کو اس نام بیسٹ سے اسے الگ ہی چڑ ہوتی جا رہی تھی ایک شخص جو 33 قتل یہاں ترکی میں کر چکا ہے اس سے پہلے بھی یہ نام کہیں نہ کہیں کیسز میں شامل ہی رہا تھا
بیسٹ یہ سب کچھ اپنے لیے کر رہا تھا یا سب کچھ کوئی کروا رہا تھا لیکن وہ ایک کلر تھا ایک گناہ گار تھا اور آریان کا کام گناہ گاروں کو ان کے انجام تک پہنچانا تھا ۔
آریان کو فرق نہیں پڑتا تھا کہ بیسٹ کتنا اچھا ہے اور کتنے اچھائی کے لئے کام کر رہا ہے اسے بس اپنا فرض نبھانا تھا اور اس کے فرض میں بس اس سائیکو کلر کو ڈھونڈ کر شوٹ ایٹ سائٹ کرنا تھا۔
کیونکہ انسانیت کے اس طرح سے حیوانوں کی طرح جان لینے والوں کا اور کوئی انجام نہیں تھا ۔اس نے چپ لگائی جو اس سامان میں شامل تھی۔ اس میں ایک ویڈیو تھی
لیکن اس ویڈیو کو بھی سمجھنا اس کے بس سے بالکل ہی باہر تھا یہ کوئی بہت پرانی اور غار نما جگہ تھی جو کافی زیادہ پرانی اور ٹوٹی پھوٹی تھی لیکن یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ وہ ترکی کا ہی کوئی علاقہ تھا ۔
کیونکہ اس ویڈیو میں ایک بورڈ تھا جو کافی پرانا تھا لیکن وہاں پر ترکی لکھا تھا پیچھے کیا لکھا تھا پڑھنا آسان نہیں تھا ۔کیونکہ دھول اور مٹی سے وہ جگہ پوری طرح سے کور تھی۔
اس سے پہلے جس آفیسر کو ایسا پارسل ملا تھا اس میں بھی ایک جگہ کا ویڈیو تھا اور کل انہیں وہیں لاش ملی تھی ۔مطلب کے اگلی لاش انہیں اس جگہ پر ملنے والی تھی ۔ آریان اس کلو سے یہی اندازہ لگا پایا ۔
لیکن پھر بھی وہ سب واردات سے پہلے وہاں جانا چاہتا تھا وہ اس جگہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا ۔
°°°°°°°°°°
تین گلیاں چھوڑ کے کالج تھا وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن یہاں ہوسٹل میں بور ہونے سے بہتر تھا کہ وہیں لائبریری میں بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کرلیتی۔
دوسری کلاس کی تو لڑکیاں اپنے روم میں ہی بیٹھ کر تیاری کر رہی تھی لیکن اس کا ماننا تھا کہ جتنی اچھی تیاری کالج میں ہو سکتی ہے اتنی یہاں نہیں ہو سکتی
لیکن یہ علاقہ کافی ویران تھا پچھلے کالج کی پچھلی طرف بہت کم لوگوں کی آمدورفت تھی کیونکہ یہاں گرلز ہوسٹل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور یہ علاقہ بھی کافی زیادہ ویران تھا کالج کا مین ڈور آگے کی طرف تھا جبکہ پیچھے کی طرف کوئی دروازہ نہیں تھا کالج کے اندر داخل ہونے کا بس وہی ایک راستہ تھا
جوان لڑکیوں کے لئے کافی لمبا پر جاتا تھا
وہ اپنی ہی دھن میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کالج کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسے سامنے سے کچھ لڑکے آتے دکھائی دیے ۔ان لڑکوں کے بارے میں کافی مشہور تھا کہ لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں اور رات میں ہوسٹل میں آنا جانا بھی انہیں تھا ۔
آج سے پہلے وہ کبھی بھی اکیلے اس طرف نہیں آئی تھی ہمیشہ سے اریشفہ اور عائشہ کے ساتھ ہی آتی تھی لیکن آج اتفاق سے وہ اکیلے میں آئی تو یہ لڑکے بھی راستے میں سے دکھائی دیے وہ دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتی آہستہ سے ان کے قریب سے گزر گئی وہ لڑکے عجیب نظروں سے اسے دیکھتے رہے ۔
لیکن بولے کچھ نہیں ان کی گھٹیا مسکراہٹ اور عجیب انداز میں اس کے ایکسرے کرنا اسے اچھا خاصا غصہ دلا چکا تھا لیکن اس جگہ وہ اپنا غصہ نکالنے کی جرات نہیں کر سکتی تھی نہ جانے یہ نشائی لڑکے اس کے ساتھ کیا سے کیا کر دیں۔
یہ تو شکر تھا کہ ان لوگوں نے اسے بلایا نہیں بات کرنے کی کوشش نہیں کی اور راستہ نہیں روکا ورنہ اس کی تو کھڑے کھڑے ہی جان نکل جانی تھی ۔
اللہ کرے ان لوگوں کے پیچھے کتے لگ جائیں ۔
کتے نہیں بلکہ شیر لگ جائے ۔
یہ تو اتنے بڑے بڑے ہیں یہ تو کتوں سے ڈرتے ہی نہیں ہوں گے ۔
شیر لگیں گے تو لگ پتا جائے گا سارا نشہ اتر جائے گا ۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے کالج کے اندر داخل ہوئی بہت کم لوگ آئے تھے ۔جب سے پیپرز کی اناؤنسمینٹ ہوئی تھی کالج میں اسٹوڈنٹس کا آنا جانا بند ہوگیا تھا
صرف وہی لوگ آتے تھے جو اپنی پڑھائی کو لے کر کچھ حد تک سیریز تھے یا جن کو اس کی طرح ہوسٹل میں بیٹھ کر پڑھنا نہیں آتا تھا
وہ خاموشی سے بنا کسی کو بھی مخاطب کیے آ کر لائبریری میں بیٹھ کر اپنی کورس کی بک پڑھنے لگی ۔یہاں کے لوگوں سے وہ کم ہی بات چیت کرتی تھی ۔وہ خود میں محدود رہنے والی لڑکی تھی اسی لیےلوگ خود بھی اس سے بات نہیں کرتے تھے ۔
°°°°°°°°
عائشہ کو یہاں آتے ہی سب سے زیادہ ٹینشن جاناں کی تھی وہ اکیلی کیسے رہے گی ۔ لیکن یہاں آ کر اسے یہ پتہ چلا تھا کہ اس کی ماں نے اسے یہاں اس کی شادی کے لئے بلایا ہے کوئی لڑکا ہے جو اسے دیکھنا چاہتا ہے اور اتفاق سے وہ لڑکا اسی کے سوتیلے باپ کے دوست کا بیٹا ہے ۔
اپنے سوتیلے باپ سے تو پہلے دن ہی نفرت کرتی تھی جس نے آتے ہی اس سے اس کی ماں کو چھین لیا تھا اسے اس کی ماں سے دور کردیا تھا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ماں سے اتنی دور ہوسٹل میں رہتی تھی
ماما آپ نے مجھ سے ایک بار پوچھا تک نہیں کہ میں شادی کے لیے تیار بھی ہوں یا نہیں ابھی تو میری پڑھائی بھی مکمل نہیں میں کچھ بننا چاہتی ہوں اگر میں نے شادی کرلی تو یہ سب ممکن نہیں ہے نہ خیر ان سب باتوں کو چھوڑیں میں شادی کے لیے تیار نہیں ہوں آپ ان لوگوں کو منع کردیں اس نے ایک ہی بار میں بات ختم کرنا چاہی ۔
دیکھو بیٹا تمہارے بابا نے تمہارے لئے بہت اچھا رشتہ ڈھونڈا ہے لڑکا بہت اچھا ہے مجھے بہت پسند ہے ماما نے سمجھانے کی کوشش کی
اوو پلیز ماما وہ میرے بابا نہیں ہیں میرے بابا فوت ہو چکے ہیں اور وہ کبھی میرے بابا ہو بھی نہیں سکتے جو اولاد کو اس کی ماں سے دور کر دے وہ شخص کبھی باپ نہیں بن سکتا ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ بار بار آپ اس شخص کو میرا باپ نہ کہے ۔وہ انتہائی غصے سے بولی جب وہ شخص کمرے کے اندر داخل ہوا
بند کرو یہ سارے ڈرامے اسی لیے تمہیں نہیں بلآیا یہاں آ کر اپنی بے زبانی اور بد اخلاقی کی مثالیں قائم کرو ۔ میرے دوست کے بیٹے نے تمہیں پسند کر لیا ہے اور وہ بہت اچھا شخص ہے اور اس شادی کے بدلے میں مجھے بہت بری ڈیل دے رہا ہے اگر تم نے اس شادی سے انکار کیا ۔۔۔
اب میں سمجھی تو یہ شادی آپ لوگ مجھے بیچ کر کر رہے ہیں تاکہ آپ کو وہ ڈیل مل جائے لیکن میں یہ شادی نہیں کروں گی میں اپنی مرضی کی مالک ہوں اور کوئی بھی میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا۔اگر آپ نے میرے ساتھ ذرا بھی زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں پولیس میں جاؤں گی کمزور مت سمجھیے گا مجھے ۔صبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جاؤں گی ۔
وہ انتہائی غصے سے کہتی کمرے سے باہر نکل گئی جب سامنے ہی کھڑا لڑکا کافی دلچسپ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے نفرت سے اسے دیکھا اور آگے بڑھ گئی یقینا یہ وہی لڑکا تھا جس کے ساتھ اس کا باپ سے بیچنے کے لیے ڈیل طے کر چکا تھا
انکل آپ اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں بس ایک پر آپ میری شادی اس سے کروا دیں میں خود اسے کنٹرول کر لوں گا وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس آکر کھڑا ہوا انہوں نے شرمندگی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔
بیٹا یہ اپنی ماں کی ڈیل کی وجہ سے اتنی بھگڑ گئی ہے اگر میں اسے سنبھال رہا ہوتا تو اب تک تیر کی طرح سیدھی ہوتی وہ انتہائی غصے سے بولے تھے جبکہ اس کی ماں نے ایک نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر نظر جھکا گئی ۔
°°°°°°
واپسی انہی راستوں پر ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی واپس آرہی تھی اس وقت بھی وہ بالکل تنہا تھی اس ویران سے علاقے میں ۔
لیکن ایک چیز تھی جو اسے گھبرانے پر مجبور کر گئی صبح جہاں وہ لڑکے کھڑے تھے اس وقت وہاں بے تحاشہ خون پھیلا ہوا تھا ۔
یااللہ کیا ان میں سے کسی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے
کہیں سچ میں تو ان لوگوں کے پیچھے شیر تو نہیں لگ گیا کہیں سچ میں میری بدعا قبول نہیں ہوگی اللہ جی پلیز میرا اعمال نامہ خراب مت ہونے دیجیے گا
میں نے تو بس مذاق مذاق میں کہہ دیا تھا کہ ان کے پیچھے شیر لگا دیں آپ نے کہیں سچ میں تو ان کے پیچھے شیر نہیں لگا دیا یا اللہ جی پلیز ان لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا وہ پریشانی سے خون کو دیکھتی آگے کی طرف بڑھ رہی تھی کیونکہ اتنا خون دیکھنا بھی اس کے بس سے باہر تھا
°°°°°°°°

°°°°°°°°
جاناں کالج سے سیدھا ہوسٹل واپس آئی تھی ویسے بھی وہ آگے پیچھے کہاں جاتی تھی اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا بیڈ پے انتہائی خوبصورت پھولوں کا بکے دیکھا
یہ کون رکھ گیا ۔۔۔۔۔!
اس نے کنفیوز ہوتے ہوئے آگے قدم بڑھائے اور پھولوں کو اٹھا دیکھنے لگی جلد ہی اسے مطلوبہ چٹ مل گئی
پھولوں پر اسی کا نام لکھا تھا جان کی جاناں ۔۔۔۔۔۔یہ کون تھا اور اسے پھول کیوں بھیجے آج تک اس کے لئے تو اس طرح کبھی کوئی بھی پارسل نہیں آیا تھا اور اب یہ پھول ۔۔۔۔!
بےحد خوبصورت خوشبو دار پھول جاناں کی بچپن سے ہی کمزوری تھے اسی پھول حد سے زیادہ پسند تھے اور اب اسے کوئی پھول دے گیا
ترکی کے جس علاقے میں وہ رہتی تھی یہاں اس پھولوں کی کوئی شاپ نہیں تھی تو پھول کہاں سے آئے اس کے لیے یہ پھول کون چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔! اور کیوں
جاناں نے کنفیوز ہو کر پھولوں کے ساتھ ملی پرچی کو پھر سے چیک کیا جس پہ صرف جان کی جاناں ہی لکھا تھا
اب یہ جان کون تھا اور پھول اسے کیوں بھیجے تھے
ہوسکتا ہے بابا کا کوئی جاننے والا ہو یا بابا نے ہی بھیجے ہوں اس کا دل تھوڑی دیر کے لئے خوش ہو گیا لیکن پھر اپنے بابا کے مزاج کو سوچتے ہوئے وہ اس سوچ پر بھی قائم نہیں رہ سکی
نہیں بابا یہ پھول نہیں بھیج سکتے بابا نے تو پہلے بھی کبھی نہیں بھیجے اور وہ پھول کیوں بھیجیں گے مجھے وہ بھی کسی اور کے نام پر ۔۔۔۔لیکن یہ کون ہو سکتا ہے آخر اس نے مجھے کیوں پھول بھیجے ہیں جاناں بری طرح سے الجھ گئی تھی
کیا مجھے اس بارے میں کسی کو بتانا چاہیے وہ پھولوں کا بکے ہاتھ میں لیے کنفیوز سی خود سے سوال کرنے لگی۔
ہاں بتانا چاہیے ہو سکتا ہے کسی اور کے پھول ہوں غلطی سے کوئی میرے کمرے میں رکھ گیا ہو وہ کہتے ہوئے باہر آ کے وارڈن سے پوچھنے لگی کہ یہ پھول کس نے دیے ہیں
لیکن ان کا بھی یہی جواب تھا کہ کوئی دروازے پر رکھ گیا اس ہوسٹل میں جاناں تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں اسی لئے تمہارے کمرے میں چھوڑ آئیں ۔
واڈن کی بات سن کر وہ واپس اپنے روم میں آ گئی تھی ہوسٹل میں اس کے علاوہ جاناں اور کسی کا بھی نام نہیں تھا ۔
لیکن پھر بھی اس کا سوال وہی تھا کہ اس کے لئے بلا یہ پھول کون بھیجے گا
ارشی اور عائشہ نے پہلے کبھی ایسی شرارت نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ ان دونوں سے اس طرح کی کسی شرارت کی امید رکھ سکتی تھی وہ بھی تب جب وہ ہوسٹل میں اکیلی ہے اور وہ دونوں ہی جانتی ہیں کہ جاناں کتنی ڈرپوک ہے
یقیناٰ یہ پھول میرے لئے نہیں آئے لیکن جس کے لئے بھی آئے ہیں بہت خوبصورت ہے وہ پھولوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے محبت سے بولی۔
لیکن اچانک ہی گلاب کی ایک ٹہنی کے ساتھ لگا کانٹا اس کے ہاتھ کی انگلی میں کھب گیا
شسس۔ ۔۔انگلی پر ننھا ساخون کا قطرہ تھا جسے اس نے اپنی دوسری انگلی سے دبا کر بند کر دیا جہاں اس کے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی وہیں کسی دوسرے کی آنکھوں میں یہ منظر کسی کانٹے کی طرح چھبا تھا
°°°°°°°°
ارشی جلدی چلو یہ نہ ہو کہ سیل آفر ختم ہو جائے پھر میری پسند کی ڈریس یہیں رہ جائے گی تائبہ اسے اپنے ساتھ بھگاتے ہوئے کہہ رہی تھی جب کہ ارشی سے جتنا تیز ہو سکے اتنا چلنے کی کوشش کر رہی تھی
کیوں کہ وہ بھی جانتی تھی کہ تائبہ شاپنگ کے لیے کتنی پاگل ہے اور جہاں اسے سیل نظر آجائے وہاں تو وہ بالکل ہی پاگل ہو جاتی تھی اور اب وہ مہینہ شروع ہوتے ہی مہینے کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی کہ اسے اچھی سیل پر اچھی چیزیں مل جائیں گی
ائمہ کا تو کہنا تھا کہ اسے اپنی بہن کے ساتھ بازار جاتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے اور ایسا ہی کچھ کہنا اس کی ماں کا بھی تھا اس کا باپ اتنا بڑا ڈی ایس پی تھا اور ان کی بیٹی سیل کے لیے پاگل ہوئی پھرتی تھی بس یہی وجہ تھی کہ ارشی کو ہی اپنی قربانی دینی پڑتی تائبہ کے ساتھ آکر
آخرکار بھاگ بھاگ کر وہ دونوں سیل پر سب سے پہلے آ پہنچیں تھیں فی الحال یہاں کوئی نہیں آیا تھا اور سیل شروع ہونے میں بھی ابھی دس منٹ باقی تھے
جہاں تائبہ یہ جان کر خوش ہوگئی تھی وہی ارشی کو یہ جان کر دورہ پڑ رہا تھا کہ اسے دس منٹ مزید بازار میں رکنا ہوگا ابھی وہ انہیں سب سوچوں میں گم تھی جب اسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بہت قریب سے مگر بہت غور سے اسے گھور رہا ہے اس نے اس طرف مڑ کر دیکھا تو ایک آدمی فل یونیفارم میں اسے ہی دلچسپی نظروں سے دیکھ رہا تھا
اس نے چہرے پر نقاب لیا ہوا تھا لیکن پھر بھی عجیب آدمی تھا جو نقاب میں بھی اسے گھورے جا رہا تھا اوپر سے یہ محافظ تھا یونیفارم پہنے ہوئے اور پھر ایسی حرکتیں ارشی نے نفرت سے چہرہ پھیر لیا لیکن پھر بھی اپنے عقب میں اس کی نظروں کی تپش کو محسوس کر رہی تھی
تھوڑی دیر میں رش ہوگیا سیل پر لوگوں کی بھرمار تھی تائبہ تو سب سے آگے اور پہلے پہلے لینے کی کوشش میں تھی جب کہ تھوڑے سے فاصلہ پر کھڑی ہو کر اسے دیکھنے لگی لیکن اس کے باوجود بھی اپنے آپ کو کسی کی نظروں کے حصار میں ہی پایا
آگے پیچھے نظریں دہرائی تو اس پھر وہی پولیس والا اس کے پیچھے کی طرف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اس نے انتہائی گھور کر اسے دیکھا لیکن سامنے والے کی نظروں میں مزید دلکشی پھیل چکی تھی جیسے وہ اس کی اس حرکت سے لطف اندوز ہوا ہو
عجیب ڈھیٹ انسان تھا اس کے چہرے پے نقاب ہوا تھا لیکن پھر بھی گھورے جا رہا تھا
اس کا اس طرح سے دیکھنا ارشی کو اتنا کنفیوز کر رہا تھا جیسے وہ بغیر نقاب کے کھڑی ہو
°°°°°°°°°
عمران کو پاکستان جانا تھا وہ خود تو ترکی میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کے دادا اور دادی پاکستان میں رہتے تھے جن کے لیے وہ اکثر ہی شاپنگ کر کے بہت ساری چیزیں لے کے جاتا تھا اریان کو ان سب چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن عمران کے لئے اسے یہاں آنا پڑا تھا کیونکہ عمران کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی آریان ہی اسے صبح اور شام گھر چھوڑتا اور لینے جاتا تھا
آج اس نے یہ فرمائش کر ڈالی کہ وہ کچھ دنوں میں پاکستان جانے والا ہے تو آپنے دادا دادی کے لئے گفٹ لے کر جانے ہیں بس اسی لئے آریان کو بھی اس کے ساتھ شاپنگ پر آنا پڑا لیکن یہاں اس مہ جبین کو دیکھ کر ایک پل کے لئے اس کی نظریں ہی رک سی گئی
وہ اتنا بے اختیار تو کبھی بھی نہیں تھا لیکن اس لڑکی کو دیکھتے ہی نہ جانے اسے کیا ہو جاتا تھا کہ وہ اپنا عہدہ تک بھول جاتا تھا اس وقت مکمل یونیفارم میں اسے پاگلوں کی طرح گھورے جا رہا تھا اپنی اس حرکت پر اسے خود بھی بہت غصہ آ رہا تھا لیکن سامنے والے کے ایکسپریشن اسے مزید لطف اندوز کر رہے تھے
وہ کبھی اسے سخت نظروں سے گھورتی تو کبھی آنکھوں میں غصہ لیے دیکھتی اور پھر جب کسی چیز پر زور نہیں چلتا تو اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگے پیچھے دیکھنے لگتی وہ اس کی آنکھوں سے ہی اندازہ لگا چکا تھا کہ اس کے گھورنے کی وجہ سے وہ کس حد تک کنفیوز ہے
لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں کی یہ خیر پھیر اسے پاگل کر رہی تھی جیسے وہ اس کی خوبصورت آنکھیں نہیں بلکہ پورا چہرہ دیکھ رہا ہو۔
پھر آخر ہمت جواب دے ہی گئی وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا اس سے اس کا ایڈریس معلوم کر کے رشتہ بیچنا چاہتا تھا اسے اپنی زندگی میں شامل کر لینا چاہتا تھا
جیسے اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہو
جیسے اسے دوسری بار نہیں بلکہ نہ جانے کتنی بار دیکھ چکا ہو
جیسے وہ اس کی زندگی کا حصہ ہو
جیسے آریان اپنی زندگی میں جس کمی کو پورا کرنا چاہتا ہو وہ کمی یہیں لڑکی ہو
بس یہ لڑکی اسے چاہیے تھی کسی بھی قیمت پر ہو اس کی آنکھوں کا دیوانہ ہو گیا تھا اس کی شرم و حیا اس کا خود سیمٹ کے رہنا اپنے آپ کو چھپا کر رکھنا اسے پاگل کر رہا تھا
بس اب اور نہیں وہ اس کے قریب بالکل قریب آکر رکا
تمہارا نام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بنا کسی تہمہید کے اس سے پوچھنے لگا جب کہ وہ کنفیوز سی دوسری طرف کسی کو ڈھونڈنے لگی شاید جس کے ساتھ آئی ہو وہ اندر لڑکیوں کی بھرمار تھی
آریان سمجھ چکا تھا کہ وہ اس جگہ جسی کے ساتھ آئی ہے اسے ڈھونڈ رہی ہے
اسے بعد میں دیکھ لینا نام بتاؤ اپنا وہ اسے اس طرح سے ڈرتے دیکھ کر بے حد نارمل انداز میں سمجھانے لگا ۔ لیکن شاید مجرموں کے ساتھ باتیں کرنے کا اس کا انداز ہی ایسا اکھڑ اور سرد مزاج تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی اس سے ڈر گئی تھی
وہ کبھی سامنے کھڑے اس آدمی کو دیکھتی تو کبھی شاپ کے اندر اپنی بہن کو جو نجانے بھرمار میں کہاں کھو گئی تھی
دیکھو پلیز تم اس طرح سے ڈرو نہیں میں بس تم سے تمہارے نام ہی تو پوچھ رہا ہوں وہ اس کے پیچھے ہٹنے اور ڈرنے پر سمجھانے والے انداز میں بولا لیکن شاید سامنے کھڑی لڑکی کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے اسے دھکا دیتے ہوئے اس شاپ کے اندر گھس گئی
اس کے اس طرح سے اچانک دھکا مارنے پر آریان خود ہی پچھے ہو چکا تھا شاید اس کے اچانک اس حرکت کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے
یار مجھے اس طرح سے اس سے نام نہیں پوچھنا چاہیے تھا میں بھی پاگل ہوگیا ہوں وہ بلا انجان انسان کو اپنا نام کیوں بتائے گی وہ اپنی عقل پر ماتم کرتے ہوئے پیچھے ہٹا جہاں عمران اپنے دادا دادی کی شاپنگ کر کے اب اسے باہر آنے کا اشارہ کر رہا تھا
آریان اس طرف جانے کی بجائے اس کی جگہ آیا تھا جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ لڑکی کھڑی تھی
شاید وہ اپنے لئے ان سب میں سے کوئی حجاب پسند کر رہی تھی اس نے ان ڈمیز پر لگے حجاب کو دیکھتے ہوئے سوچا اور پھر اسی حجاب کو چھوا جسے وہ چھوا کر چیک کر رہی تھی اس پے پٹی لگی تھی شاید اس حجاب کی قیمت لکھی تھی وہ مسکرایا
اب وہ اس کی قیمت دیکھ کر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ لڑکی اس طرح سے اس حجاب کو چھوڑ کر کوئی عام سا حجاب کیوں چوز کرنے لگی تھی ۔
اس کا انداز ہی اسے بتا چکا تھا کہ شاید مہنگا ہونے کی وجہ سے اس نے اسے نہیں خریدہ ۔آریان نے وہ حجاب خریدا اور شاپ کپر کو کچھ سمجھا کر عمران کے ساتھ واپسی کی راہ لی
°°°°°°°°°
وہ صبح سے اس کمرے میں بند تھی اس کے باپ نے بس اتنا ہی کہا تھا جب تک سو ہم نہ آجائے تو اس کمرے سے باہر نہیں نکل سکتی
اور اب وہ اسے سوہم کے ساتھ زبردستی ڈنر پر بھیج رہا تھا ایک تو اسے وہ لڑکا زہر لگ رہا تھا اوپر سے اپنے باپ سے اسے بے تحاشہ نفرت تھی جو اسے ایک ڈیل کی وجہ سے بیچ رہا تھا
اس نے فیصلہ کر لیا تھا وہ کبھی بھی اس شخص کے ساتھ ڈنر پر نہیں جائے گی اور وہ بھی ایسی بے ہودا ڈریس پہن کر تو ہرگز نہیں جو بیڈ پر پڑی ہوئی تھی اور اسے کوئی غیر نہیں بلکہ اس کی ماں اس کے حوالے کر کے گئی تھی کہ رات سوہم کے ساتھ ڈنر پر یہ گھٹیا ڈریس پین کر جاؤگی
اسے غصہ اپنی ماں پے آتا تھا جو اس شخص سے ڈر کر اس سے یہ سب کچھ کرواتی تھیں اور کہیں نہ کہیں تو اس کی ماں بھی اس میں شامل تھی وہ بھی تو چاہتی تھی کہ سوہم کے ساتھ اس کی شادی ہو جائے اور شادی سے پہلے سوہم اسے چیک کرنا چاہتا تھا
مطلب کے وہ اس کے ساتھ بنا کسی رشتے کے ایک کمرے میں رہنا چاہتا تھا اور یہ بات اسے ہرگز بھی برداشت نہیں تھی
ترکی اتنا آزاد خیال ملک ہرگز نہیں تھا جہاں یہ سب کچھ ہو یہ لوگ بے شک ویسٹرن کلچر کو فالو کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں زیادہ تر مسلمان تھے جو مسلم کلچر کو بھی فالو کرتے تھے
سو ہم خود کو مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اتنی گھٹیا حرکت سے پرہیز نہیں کر رہا تھا اور اس کے باپ کو تو جیسے صرف اور صرف ان پیسوں سے مطلب تھا
جو اسے اس ڈیل سے ملنے تھے وہ اپنے آپ کو کیسے محفوظ کرے کہاں جائے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کوئی کمزور یہ نادان لڑکی ہرگز نہیں تھی وہ جانتی تھی وہ کسی بھی طرح یہاں سے نکل جائے گی لیکن فی الحال وہ کیا کرے اس کا باپ اسے اندر بند کر گیا تھا وہ پولیس سے بھی کونٹیکٹ نہیں کر پا رہی تھی
°°°°°°°°°
وہ نہا کر باہر نکلی تو بیڈ پر پھولوں کا حشر بگڑا ہوا تھا وہ فورا بیڈ پر آکر پھولوں کو دیکھنے لگی جس کے ایک ایک پتے کو ہاتھوں سے مسلہ گیا تھا
کسی نے انتہائی نفرت سے ان خوبصورت پھولوں کا جنازہ نکال دیا تھا جاناں کو دکھ ہوا کتنے خوبصورت پھول تھے اور کسی نے ان کا کتنا برا حال کر دیا صرف اور صرف وہ کارڈ ہی موجود تھا جو ان کے ساتھ آیا تھا
یااللہ پھولوں کا یہ حال کس نے کیا وہ سوچنے لگی پھر خیال آیا دوسری کلاس کی لڑکیاں جو اکثر ہی عائشہ کے ساتھ لڑتی جھگڑتی رہتی تھی وہ اکثر عائشہ کی چیزیں برباد کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتی
شاید روم میں کسی کو نہ پا کر انہوں نے ہی ایسی واحیات حرکت کی ہے ۔ پہلے اس نے سوچا کہ وارڈن کو شکایت لگائی لیکن پھر صرف پھولوں کے لیے وہ ان کو شکایت لگا نہیں سکتی تھی کیونکہ کمرے کی ساری چیزیں ویسی کی ویسی ہی پڑی تھی اور اگر دیکھا جائے تو اس کے ساتھ ان لڑکیوں کی کوئی دشمنی نہیں تھی بس عائشہ کے ساتھ ہی بولتی تھی
کیونکہ عائشہ کو اپنے اور اپنی ہم دونوں سہیلیوں کے حق میں لڑنے کی عادت تھی اسے تو اس گروپ کا ڈون بھی کہا جاتا تھا
°°°°°°°°°
وہ سونے کی کوشش کر رہی تھی رات کو نہ جانے کون سا وقت تھا جب اس کے موبائل پر ایک ان نون نمبر سے کال آنے لگی
پہلے تو اس نے دو تین بار اگنور کرنے کی کوشش کی لیکن پھر مجبوراً اسے فون اٹھانا یہ پڑا کیوں کہ پتا نہیں فون کرنے والا ڈھیٹ تھا یا کوئی ضروری کام تھا جو فون بند کرنے کا نام نہیں لے رہا تھا
اس نے مجبور ہوکر فون اٹھایا
دو تین بار ہیلو ہیلو کرنے کے بعد بھی کوئی نہیں بولا تو جاناں نے فون رکھ دیا ایک نظر کھڑی کی طرف دیکھا نو بج رہے تھے اوپر سے اسے نیند بھی آ رہی تھی اور تھوڑی دیر میں اسے ڈر لگنا بھی شروع ہو جانا تھا اس سے پہلے پہلے وہ سونا چاہتی تھی
اور نہ جانے کون تھا جو فون کرکے بار بار اسے ڈسٹرب کر رہا تھا
اب کرتے رہو فون میں بھی نہیں اٹھاؤں گی وہ موبائل سے کہتے ہوئے موبائل کو ایک طرف رکھ کر سونے لگیں وہ نہ تو موبائل سائلینٹ پر لگا کے سونے کی عادی تھی اور نہ ہی بند کرنے کی کیونکہ بابا کبھی بھی فون کر سکتے تھے
اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ بند ہونے یا موبائل سائلنٹ پر ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بابا سے بات نہ کر سکے ۔ہو سکتا ہے کوئی رونگ نمبر ہو اس نے خود سے ہی اندازہ لگاتے ہوئے دوبارہ سونے کی کوشش کی
لیکن تھوڑی ہی دیر میں موبائل ایک بار پھر سے بچنے لگا اس نے گھور کر غصے سے فون کو دیکھا جس نے اس کی نیند برباد کی تھی اس نے فون اٹھا کر دوبارہ کان سے لگایا لیکن ہمیشہ کی طرح نرم لہجے میں بولی اس کی عادت تھی وہ سختی سے تو کسی سے بات کر ہی نہیں سکتی تھی ۔
بار بار ہیلو کر کے وہ تھک گئی لیکن دوسری طرف تو جیسے کوئی تھا ہی نہیں
دیکھو تم جو کوئی بھی ہو پلیز بات کر لو کچھ بھی بول دو لیکن اس طرح سے بار بار فون کر کے میری نیند خراب نہ کرو ۔مجھے بہت سخت نیند آ رہی ہے وہ التجا کرنے والے انداز میں بولی جبکہ دوسری طرف کسی کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ میں پہرا جمایا تھا
ماہی۔۔۔ کسی کے لبوں میں لرزش ہوئی ۔
کون ۔۔۔۔! جاناں نے پریشانی سے کہا ۔
تمہارا اور صرف تمہارا جان ۔۔۔۔۔ انداز میں بلا کی دلکشی تھی
ایک پل کے لیے جاناں اس آواز کے سحر میں کھو سی گئی
کون جان میں تو کسی جان کو نہیں جانتی وہ الجھتے ہوئے بولی جبکہ اس کے انداز پر وہ مسکرایا تھا
ابھی نہیں جانتی لیکن جان جاؤ گی بہت جلد آخر میں تمہیں تو ڈھونڈ رہا ہوں تمہارے لیے ہی تو آیا ہوں یہاں ۔ اب سو جاؤ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں نہ کوئی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ جب تک تمہارا جان تمہارے آس پاس ہے ۔کوئی ہوا بھی تمہیں چھو کر نہیں گزر سکتی
اس کے انداز میں ایک عجیب سا جنون بول رہا تھا جسے سوچ کر جاناں بھی ایک پل کے لئے گھبرا گئی تھی ۔
لیکن وہ اس شخص سے الجھنا نہیں چاہتی تھی شاید کوئی رونگ نمبر ہو ۔ شاید وہ کسی اور سے بات کرنا چاہتا ہو ۔لیکن وہ تو اسی کا نام لے رہا تھا ۔ صبح جو پھول آئے تھے وہ بھی اسی کے نام کے تھے اور اس پر بھی تو جان کا نام ہی لکھا تھا ۔
کہیں سچ میں تو اس کے پیچھے کوئی عشق وغیرہ نہیں لگ گیا ۔وہ پریشانی سے فون کان سے لگائے سوچے جارہی تھی جب اس کے کان میں سرگوشی نما آواز گونجی
۔
اپنے دماغ سے ہر سوچ کو نکال دو گڈنائٹ ماہی اپنا خیال رکھنا میرے لیے ۔۔اور اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا
جب کہ وہ اسی فون کے بارے میں سوچتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گئی نہ جانے کب اس کی آنکھ بند ہوئی اور وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی
°°°°°°°°
آریان اس چپ کے بارے میں سب کچھ معلوم کرا چکا تھا اسے پتہ چل چکا تھا کہ وہ ویڈیو تقریبا 20 سال پرانی ہے کیونکہ جس جگہ کا ایڈریس تھا اس وقت وہاں ایک بہت ہی بڑی بلڈنگ تعمیر ہو چکی تھی جو کہ شہر کی سب سے بڑی بلڈنگ میں سے ایک تھی
یعنی کہ اس کیس کا راز کہیں نہ کہیں بیس سال کے عرصے سے تعلق رکھتا ہے کچھ تو ایسا ہے جو 20 سال پہلے ہوا ہے یا شاید اس جگہ پر کچھ ایسا ہوا ہے اس شخص نے اسے بری طرح سے الجھا دیا تھا ۔
اگر وہ بیسٹ ان لوگوں کی مدد ہی کر رہا تھا تو یہ کون سا طریقہ تھا مدد کرنے کا وہ سیدھی طرح سے اسے کچھ بھی بتا سکتا تھا لیکن اس طرح کی ایک ویڈیو بھیجنا جو بیس سال پہلے ریکارڈ کی گئی ہو
اور لیسٹ کا اگلا نام صنم اس لڑکی کا جس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا نہ جانے وہ کون تھی اور کس حال میں تھی۔ اسے پتہ تھا تو صرف اور صرف اتنا کے بہت جلد اس لڑکی کی موت ہونے والی ہے اور بہت کوشش کی باوجود بھی وہ نہ تو اسے ڈھونڈ پا رہا تھا اور نہ ہی اس چپ سے کوئی خاص ثبوت اس کے ہاتھ لگا تھا
اور دوسری طرف آریان کے دماغ سے وہ لڑکی نہیں نکل رہی تھی کہ جانے سے پہلے نہ تو اسے اپنا نام بتا کر گئی اور نہ ہی اسے کوئی اچھی امید لگا کر گئی جس طرح اسے وہ اس سے ڈر رہی تھی آریان کو تو اپنا آپ ہی برا لگا۔
لیکن اس میں آریان اپنی غلطی سمجھتا تھا اسے لگا رہا تھا کہ اس طرح سے بات کرنے سے وہ لڑکی اس سے بہت خوف زدہ ہوگئی تھی لیکن اس نے اتنا اچھا موقع گنوا دیا ۔ لڑکی کا ایڈریس تو بتا کر سکتا تھا اس کا پیچھا کر کے یا اس کے ساتھ موجود دوسرے انسان سے پوچھ کر وہ تو اس سب میں اس دوسری لڑکی کو بھی نہیں دیکھ پایا تھا جس کے ساتھ وہ آئی تھی ۔اب اسے پھر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرنی تھی
°°°°°°°°°
بہت منع کرنے کے باوجود بھی وہ سوہم کے ساتھ ہی باہر آئی تھی وہ اسے ڈنر کروانے کے لئے اسے ایک شاندار ہوٹل میں لے کر آیا تھا
عائشہ اسے بُری طرح سے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ڈنر میں اس طرح سے مصروف تھی جیسے اس سے ضروری اور کام اس نے آج تک نہ کیا ہو
سو ہم اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ وہ تو ساری دنیا کو بھلائے صرف اور صرف اپنے کھانے میں مصروف تھی
عائشہ لگتا ہے تم نے کبھی اتنا اچھا کھانا نہیں کھایا وہ زیادہ دیر برداشت نہ رہ سکا اس لیے طنز کرتے ہوئے بولا
نہیں سوہم کھانا تو میں نے بہت اچھا کھایا ہے لیکن کیا ہے نا جب آپ کے پاس کوئی ضروری کام نہ ہو تو آپ کو سب سے پہلے اپنے کھانے پر دھیان دینا چاہیے ۔عائشہ نے اسے غیر ضروری قرار دیا تھا
مطلب تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میرا ہونا یا نہ ہونا تمہارے لئے ایک برابر ہے سو ہم کو آگ لگی تھی
تم بہت سمجھدار ہو سو ہم ۔ لیکن پھر بھی میرے باپ جیسے انسان کے چکر میں پھنس گئے ۔تمہیں پتا ہے وہ میری شادی تمہارے ساتھ صرف اور صرف پیسوں کے لیے کروانا چاہتا ہے وہ اس کی آنکھیں کھولنا چاہتی تھی جب کہ وہ اس کے انداز پر مسکرایا
لائف ایک ڈیل ہے عائشہ ڈارلنگ ہر کوئی اپنے متعلق ڈیل کرتا ہے ۔تمہارے باپ کو وہ پروجیکٹ چاہیے ۔اور مجھے تم ۔تمہارے باپ نے اس ڈیل کے بدلے میری تمہارے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ لیکن سچ تو یہ تھا کہ اگر تمہارے لئے مجھے اپنی ساری دولت بھی دینی پڑتی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔
تم ایک انمول نگینہ ہو جس کو میں اپنی زندگی میں شامل کروں گا ۔وہ فتح یاب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
میں کوئی نگینہ نہیں ہوں انسان ہوں سو ہم پہلے ایک انسان اور ایک شے میں فرق سمجھو ۔ اور دوسری بات مجھے میری مرضی کے بغیر کوئی بھی تمہاری زندگی میں شامل نہیں کر سکتا ۔اس کے لئے تمہیں میری اجازت کی ضرورت ہے اور میں تم سے شادی کرنے سے صاف انکار کر چکی ہوں
کوئی بھی میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا یہ مت سوچنا کہ میں اپنے باپ کے کہنے پر آئی ہوں۔ یہاں میں اپنی مرضی سے آئی ہوں اور اپنی مرضی سے ہی یہاں سے واپس جاؤں گی ۔مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا وہ ٹیشو سے اپنے لپس صاف کرتے ہوئے ٹیبل سے اٹھی تھی جب اچانک سوہم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اندر کی طرف لے جانے کی کوشش کی
سو ہم ہاتھ چھوڑ دو میرا وہ انتہائی غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس پر تو جیسے کوئی جنون سوار تھا وہ اسے گھستے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگا
نو عائشہ ڈارلنگ تم میری ہو اور تمیں اس طرح سے مجھ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا کر سکتا ہوں ۔وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے کی کوشش کر رہا تھا جب اچانک عائشہ نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے ایک زوردار طماچہ اس کے منہ پر دے مارا ۔
تمہیں لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے جا کر پہلے اپنے ماں باپ سے مینرز سیکھو اور پھر کسی کو ڈنر پر لے کے آنا ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے نکل گئی جبکہ سو ہم انتہائی غصے سے ہوٹل کے لوگوں کو دیکھ رہا تھا جن کی توجہ کا مرکز وہ اکیلا تھا
اتنا بڑا بزنس مین اور ترکی کا جانا پہچانا بیچلر سب کے سامنے یوں ایک لڑکی سے تھپڑ کھاتے ہوئے اچھا خاصہ شرمندہ ہو گیا تھا ۔
یہ تم نے اچھا نہیں کیا عائشہ میں تمہیں آسان طریقے سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن اب تم نے اپنی راہ خود ہی مشکل کرلی ہے یہ تھپڑ تمہیں بہت بھاری پڑے گا
°°°°°°°°°°
صبح جاناں کی آنکھ کھلی تو اس کے بیڈ پر ایک پارسل پرا تھا
وہ ڈور لاک کرکے نہیں سوتی تھی آج سنڈے تھا تو یقیناً کسی نے بیڈ پر ہی چھوڑ دیا ہوگا
لیکن اس کے دماغ میں بس یہی سوال تھا کہ اسے کوئی پارسل کیوں بھیجے گا اور اگر بابا نے کچھ بھیجا ہوتا تو وہ تو فون کرکے بتا دیتے اور بابا نے تو کبھی اس کے لیے سوائے پیسوں کے کچھ بھیجاہی نہیں تھا ۔
اس نے جلدی سے پارسل کھولا جس میں بہت ساری تصویریں تھیں اور ساری تصویریں کل کی تھی ۔اور یہ ساری تصویریں کسی اور کی نہیں بلکہ اس کی اپنی تھی ۔
کل اس کا اس روم میں تیار ہونا۔
پھر باہر جانا ۔
ان لڑکوں کے پاس سے گزرنا ۔
کالج پہنچنا ۔
وہاں لائبریری میں جانا ۔
وہاں پر بیٹھ کر بکس پڑھنا ۔
کینٹین میں لینچ کرنا
انہی راستوں سے واپس آنا
سڑک پر ان لڑکوں کا خون دیکھنا۔
وہاں سے واپس ہوسٹل آنا ۔
چینج کرنا۔
اسٹوری پڑھنا۔
موبائل پر عائشہ سے بات کرنا ۔
یہاں تک کہ رات کو اپنے بیڈ پر سونا۔
ایک ایک موومیٹ کی بے شمار تصویریں یعنی کوئی تھا جو اس پر نظر رکھے ہوئے تھا کوئی تھا جو اس کے پل پل کی خبر رکھتا تھا
لیکن کون اور کیوں اب جاناں سچ مچ میں گھبرا گئی تھی ۔
اس نے جلدی سے تصویروں کے پارسل سے گرے ہوئے کاغذ کو اٹھایا اور پڑھنے لگی ۔
دیکھو اپنے آپ کو خود تمہارا ایک ایک انداز کتنا خوبصورت ہے ۔ دیکھو اپنے آپ کو جب تم بات کرتی ہو جب تم چلتی ہو جب مسکراتی ہوکتنی پیاری لگتی ہو ایک بار اپنی آپ کو میری نظر سے دیکھو تمہیں خود اپنے آپ سے محبت کی جائے گی ۔
کوئی مجھ سے پوچھے اس دنیا میں سب سے خوبصورت کیا ہے تم میں کہوں گا میری ماہی ۔
آئی لو یو ماہی ۔۔ میں آگیا ہوں تمہیں لینے کے لیے تمہارا اور صرف تمہارا جان ۔
اس نے کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھی ۔ کون تھا یہ شخص ہے اور اسے اس طرح سے تصویریں کیوں بھیج رہا تھا ۔ یقینا وہ پھول بھی کسی نہیں بھیجے ہوں گے ۔
مجھے عاشی اور ارشی کو سب کچھ بتا دینا چاہیے اس بارے میں یہ نہ ہو کہ میں کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاؤں ۔ اس نے سوچتے ہوئے اپنا موبائل اٹھایا
لیکن اس سے پہلے کہ وہ عائشہ کو فون کرتی اس کی موبائل پر میسج آیا تھا ۔
"ایک بار آئینے میں اپنے آپ کو میری نظر سے دیکھو تمہیں خود سے محبت ہو جائے گی " میسج پڑھتے ہی بے ساختہ اس کی نظر سامنے آئینے کی طرف اٹھی تھی ۔ کیا آپ سچ میں اتنی خوبصورت تھی کہ کسی کو یوں اس سے محبت ہو جائے ۔اس کے دل نے اس سے سوال کیا تھا ۔
جب اچانک روم کھول کر دوسرے کمرے کی لڑکی اس کے پاس آئی ۔ جاناں ہم سامنے آئس کریم کھانے چل رہے ہیں چلو آؤ تم بھی چلو تم اکیلی یہاں روم میں کیا کرو گی ۔ وہ لڑکی بنا اسے بات کرنے کا موقع دیئے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے آئی ۔میری جاناں کو بھی مجبور اس کے ساتھ آنا پڑا
°°°°°°°°°°
وہ سوہم کو تھپڑ مار تو آئی تھی لیکن ان بوڈی گارڈ کا کیا کرتی جو اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے وہ جتنا تیز چلتی وہ بھی اتنی ہی تیزی سے قدم اٹھانے لگتے وہ جہاں جاتی وہ 5 فٹ کی دوری پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں یقینا اسی سوہم نے اس کے پیچھے لگائے تھے
دوسری طرف غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا وہ چاہ کر بھی ان لوگوں کو منع نہیں کر پا رہی تھی اور نہ ہی ان سے دور ہو پا رہی تھی۔
ان لوگوں سے بھاگنے کے چکر میں وہ جیسے ہی دوسری گلی کی طرف مڑی اسے ایک بے کاری زمین پر بیٹھا ہوا نظر آیا جو کہ اپنے آپ کو پوری طرح سے چادر نما کمبل میں کور کئے ہوئے تھا وہ بھی اسی کے ساتھ بیٹھ کر اسی کی چادر کو زبردستی اپنے گرد پھیلا کر اس چادر میں چھپ گئی
جب کہ دوسرے آدمی کو بولنے کا موقع دیئے بغیر اس کے ہاتھوں میں چند نوٹ پکڑا دیے
پلیز خاموشی سے بیٹھے رہو میرے پیچھے کچھ لوگ لگے ہیں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے میں ان سے چھپ رہی ہوں پلیز خاموش رہو کچھ مت بولنا یہ پیسے تمہارے ہیں وہ ترکش میں اس سے کہنے لگی
جبکہ دوسرا آدمی بھی خاموشی سے اسے دیکھ کر بیٹھ گیا جیسے اس کا کام ہو گیا ہوجب کہ اس دئے پیسے اپنے ہاتھ میں دبا لیے تھے
تھوڑی ہی دیر میں وہ بوڈی گارڈ ہر طرف اسے تلاش کرنے لگے اور پھر اس کے قریب سے گزر کر آگے چلے گئے جیسے انھیں یقین تھا وہ یہ بیک تو ہرگز نہیں مانگے گیی
خدا کا شکر ہے جان چھوٹی ان کمینوں سے وہ اردو بڑبڑائی
ان کے جاتے ہی اسے جھٹکا لگا تھا کیونکہ وہ شخص نے اسے دھکا مار کے خود سے دور کیا تھا اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا لیکن یہ کیا یہاں ایک بیکاری کی جگہ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان اس کے سامنے کھڑا تھا شاید ہی اس سے پہلے اس نے اس قدر حسین جو ان دیکھا ہوگا
جب کے اگلے ہی پل وہ اس کے پیسے اس کے منہ پر مار چکا تھا ۔
اوئے تمہیں تمیز نہیں ہے کیا تم نے مجھے دھوکہ دیا تو دیا کیسے وہ انتہائی اسے ترک زبان میں بولی ۔وہ اس کی سحر انگیز پرسنیلٹی سے فورا نظریں چرا چکی تھی
اپنی بکواس بند کرو مجھے اردو آتی ہے وہ بھی تم سے بہتر اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس طرح سے میر ےکبمل میں گھسنے کی وہ انتہائی غصے سے اسی پر چڑھ دوڑا
جب کہ وہ جو پہلے ہی اس کی پرسنیلٹی کو دیکھ رہی تھی اس کی اردو زبان پر تو بالکل ہی حیران ہوگئی۔
لیکن وہ بھولی نہیں تھی کہ یہ ایک بے کاری ہے
اووو ہیلو تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس طرح سے بات کرنے کی بیکاری کہیں گے تمہیں تمہاری قیمت دے چکی ہوں اگر اور چاہیے تو بتاؤ میں تمہیں میں ایسے ہزاروں کبمل خرید سکتی ہوں مجھے مدد کی ضرورت تھی اس لئے تمہارے کمبل کو لے لیا ورنہ تو میں ایسی گندی چیزوں کو چھوتی تک نہیں
اسے لگا کہ اس جگہ اپنی حیثیت بتانا بہت ضروری ہے یہ بے کاری خود کو کوئی بہت توپ چیز سمجھ رہا تھا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بھکاری کہنے کی اگر میں سڑک پر سوتا ہوں تو کیا تم مجھے بھکاری کہو گی ہو گی تم بہت امیر ہوگی لیکن مدد کے لیے تمہیں یہی کمبل کام آیا نہ وہ تمہارے ہزار کمبل جو تم خرید سکتی ہو وہ تو نہیں آئیں اپنے پیروں پر چل کر تمہاری مدد کرنے کے لئے بڑی آئی مجھے بھکاری کہنے والی اٹھاؤ یہ اپنے نوٹوں کے بنڈل اور نکلو یہاں سے ایک مدد کی اوپر سے گلے پر رہی ہے
وہ انتہائی غصے سے کہتا ہے اسے مزید چڑا گیا تھا ۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کی بدتمیزی کا منہ توڑ جواب دیتی وہ بوڈی گارڈ واپس اسی طرف آ رہے تھے اسے اس پاگل انسان کی مدد لینی تھی ۔
دیکھو ہم بعد میں لڑیں گے پہلے پلیز میری مدد کرو ذرا سا کمبل دے دو مجھے میں اس میں چھپ جاتی ہوں
دیکھو پلیز مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اگر تم میری مدد کرو گے تو میں تمہیں بہت سارے پیسے دوں گی میرا وعدہ ہے تم اس سے وہ ایسی لالچ دیتے ہوئے بولی جب کہ وہ اس کے کمبل میں چھپنے کی کوشش کی تھی
اپنے پیسے رکھو اپنے پاس مجھے نہ تو تمہاری مدد کرنی ہے اور نہ ہی مجھے تمہارے پیسوں کی ضرورت ہے وہ تو کسی طرح اس کی مدد کو تیار نہ تھا۔
پلیز میری مدد کرو وہ اب مینتوں پر اتر آئی تھی ۔
یہ طریقہ ہے مدد مانگا اب میں تمہاری مدد کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں لیکن اس سے پہلے تمہیں مجھے سوری بولنا ہوگا وہ دلکشی سے مسکراتے ہوئے بولا
ایک پل کے لیے تو اسکے چہرے کے نقوش میں کھو سی گئی وہ شخص اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے اس کے ذہن میں پھر سے ایک سوال آیا ضرور پٹھان ہوگا اس نے دل ہی دل میں کہا
آئی ایم سوری میری مدد کرو وہ بولی جیسے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو
اسے کہتے ہیں ضرورت کے وقت گدے کو باپ بنانا ۔ بڑبڑاتے ہوئے کمبل اس پر پھینک چکا تھا جبکہ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ ان کے پاس سے گزر کر آگے بڑھ گئے جیسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکے ہوں
ان کے جاتے ہی اس نے سکون کا سانس لیا اور کمبل کو پھینکتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئی
جس کبمل کو پھینک کر اٹھی ہو اس سے ٹھیک سے لپیٹ کر فولڈ کر کے رکھو یہ تمہارے باپ کے پیسوں سے نہیں بلکہ میرے پیسوں سے آیا ہے اور میں نے وہ پیسے بہت محنت سے کمائے ہیں وہ جیسے اس سے اس چیز کی اہمیت کا احساس دلانا رہا تھا ۔
جب کے عائشہ کو تو اس کی باتوں پر مزید غصہ آ رہا تھا اللہ نے جتنی پیاری شکل دی تھی وہ زبان سے اتنا ہی زہر اگلتا تھا اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے بھی پیسے ہاتھ سے اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے
مدد کے لئے شکریہ ناؤ ڈونٹ ویسٹ مائی ٹائم تمہاری تقریریں سننے کے لیے نہیں کھڑی ہوں میں یہاں وہ غصے سے کہتے ہوئے سے دھکا دے کر جانے لگی لیکن سامنے والا شاید اتنی آسانی سے اسے بخشنے کے موڈ میں نہیں تھا تبھی تو اس کا ہاتھ تھام کر زمین سے کمبل اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا
میری مدد کی قیمت ہے کہ تم جس چیز کو استعمال کرو اس کی اہمیت کو جانو اور اسے صحیح جگہ پر رکھو اب اسے فولڈ کرو اور جہاں سے اٹھایا تھا وہی رکھو اور یہ پیسوں کا روب کسی اور پر جمعنا اٹھاؤ اپنے پیسے یہاں سے تمہیں شاید ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوگا لیکن یہ پیسے تمہارے باپ نے شاید بہت محنت سے کمائے ہیں ۔
لیسن تمہیں میرے باپ کا زیادہ ہمدرد بننے کی ضرورت نہیں ہے اور تمہاری ملازم گری کرنے کے لئے میرے پاس ٹائم نہیں ہے اور نہ ہی عائشہ چوہدری نے کبھی یہ کام کیے ہیں ۔سو گڈ بائے اپنا ہاتھ چڑھاتے ہوئے اپنے ازلی ایٹیوٹ انداز میں بولی ۔
اگر عائشہ چوہدری نے کبھی یہ کام نہیں کیئے تو طہٰ بخاری نے بھی بہت لوگوں کو سیدھا کیا ہے عائشہ چوہدری کو بھی کر دے گا بہت ڈھیٹ لوگ دیکھے ہیں تم بھی ان میں سے ایک ہو لیکن اس وقت تمہارا ڈھیٹ پن ختم کرنے کا میرے پاس ٹائم نہیں ہے کیونکہ مجھے بہت ضروری کام ہے دوبارہ ملاقات ہوگی اور میرا یہ احسان تم پر قرض ہے اور میں قرض واپس ضرور لیتا ہوں ۔
وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اپنے دونوں کمبل خود ہی لپیٹ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا جب کہ عائشہ کے دیے ہوئے پیسے وہیں زمین پر پڑے تھے ۔
عجیب آدمی ہے ۔ عائشہ غصے سے کہتی زمین پر پڑے اپنے پیسے اٹھانے لگی لیکن وہی پاس بانسری پڑی دیکھی یقینا اس آدمی کی تھی ۔
تو جناب بانسری بجاتے ہیں اور ایٹیٹیوڈ تو ایسا ہے جیسے شہزادہ چارلس ہو۔
کیا کہا تھا تم نے قرض تمہارا یہ قرض تو میں جکا ہی دوں گی تمہاری یہ بانسری واپس کر کے مسٹر طہٰ بخاری ۔
°°°°°°°°
پچھلے تین دن سے مسلسل پار سل رسیو ہو رہے تھے اور ہرپارسل میں بے شمار تصویریں ہوا کرتی تھی شروع شروع میں وہ جان سے خوفزدہ رہتی تھی لیکن اب نہیں نہ جانے کیوں اس کے خط کو پڑھنے کے لئے بے چین رہتی ۔
ہر خط میں بے شمار چاھتوں کا اظہار ہوتا ۔ غیر ارادی طور پر بھی جان کے پارسل کا انتظار کرتی تھی وہ صبح کالج جاتی تو کالج میں ایک پارسل ملتا شام واپس ہوسٹل آتی تو ہوسٹل میں ایک پارسل ہوتا
وہ کوئی بہت حسیں لڑکی تو نہ تھی کہ کوئی اس طرح سے دیوانہ ہو جائے ۔
°°°°°°°°
جاناں نے جیسے ہی کالج میں قدم رکھا پیون نے بھاگتے ہوئے آ کر ایک پارسل پکڑ آیا اس پارسل کو لیتے ہی وہ پریشان ہو چکی تھی کیونکہ یہ بھی بالکل ویسا ہی تھا جیسا جان اس کے لئے بھیجتا تھا تو یقینا یہ پارسل بھی اسی نے بھیجا ہوگا اس نے جلدی سے پارسل کھولا اور روز کی طرح آج بھی اس میں بے شمار تصویریں دیکھی کبھی اس کے روم کی کبھی کوئی کتاب پڑھتے ہوئے کبھی موبائل یوز کرتے ہوئے اس کے ہر مومنٹ کی بے شمار تصویریں اور ہر بار کی طرح اس بار اس میں بھی ایک خط وجود تھا۔
ماہی میری جاناں
میں اپنا نام دیکھنے کے بعد تمہارے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہوں نہ کہ ڈری ہوئی جاناں میں کوئی غیر نہیں ہوں جاناں میں تمہارا اپنا ہوں تمہارا جان
میں بے تحاشا چاہتا ہے تمہیں دیوانوں کی طرح پیار کرتا ہے تمہارے لیے ہر حد پار کر سکتا ہوں جاناں میں تمہارا جان ہوں پلیز مجھ سے اس طرح سے خوفزدہ مت ہو تمہارے چہرے پر یہ ڈر یہ خوف دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے
میں تو اپنے نام سے آئی ہوئی مسکراہٹ کو تمہارے چہرے پر دیکھنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں جہاں میرا نام آئے میری جاناں خوش ہوجائے
اس کے گال کا وہ پیارا سا ڈمپل میرے نام پر کھلے
پلیز جاناں مجھ سے اس طرح سے مت ڈرو میں تمہیں بے انتہا چاہتا ہوں اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو تمہیں میرے جتنی محبت کر سکے تو میں میری جتنی چاہت دے سکے ّّ
صرف اور صرف تمہارا جان ہی تمہیں وہ پیار و محبت سے سکتا ہے جس کی تم حقدار ہو ۔
میں بہت جلد آونگا تم سے ملنے کے لیے مجھ سے ملو گی نہ جاناں ۔۔۔۔! وہ اس کی تحریر پڑھتی چلی جا رہی تھی خوبصورت الفاظ میں ہر جگہ اس کا نام تھا اس کے خط سے ہی وہ اس کی محبت کا اندازہ لگا رہی تھی
تو کیا میں بیکار میں اس سے خوف زدہ ہوں وہ تو صرف مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہے اس میں کچھ غلط نہیں ہر انسان کو اپنی پسند کا اظہار کرنے کی حق ہے اس کے دل نے کہا
ہاں بالکل ہے لیکن چھپ چھپا کر نہیں اگر وہ مجھ سے پیار کرتا ہے تو میرے سامنے آئے اس کا دل کچھ اور تو دماغ کچھ اور کہہ رہا تھا
میں تم سے خوفزدہ نہیں ہوں جان میں بس تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں ۔
میں اس چھپن چھپائی سے تھک چکی ہوں جان میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں تم سے ملنا چاہتی ہوں تم کون ہو اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے سامنے آؤ
محبت بھلا اس طرح سے چھپ چھپا کر تھوڑی نہ ہوتی ہے
وہ آہستہ آہستہ لائبریری کی طرف جاتی مسلسل جان کو ہی سوچ رہی تھی جب کہ وہ جو ہر ایک پل اسی پر نظر رکھے ہوئے تھا اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگوں کو دیکھ کر مسرور تھا کیونکہ یہ آتے جاتے رنگ صرف اور صرف اسی کے نام کے تھے
°°°°°°°°
آریان اس وقت ایک قلب میں موجود تھا
اب تک جتنے بھی لوگوں کی موت ہوئی تھی ان سب کا تعلق کہیں نہ کہیں اس کے قلب سے جڑا ہوا تھا اور یہ وہی قلب تھا جہاں پر بیس سال پہلے صرف اور صرف ایک ویران کھنڈر تھا اور یہ وہی قلب تھا جس کی ویڈیو اسے بیسٹ نے بھیجی تھی
یہ تو سمجھ چکا تھا کہ جو بھی ہونا ہے وہ اسی ہوٹل کے اسی قلب میں ہی ہوگا اور اس لڑکی کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں اسی جگہ سے ہے اگلا نام صنم کا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ لڑکی اسے یہی پر ملے گی
لیکن بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اس لڑکی صنم تک نہیں پہنچ پایا جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا کیونکہ وہ اس کے چہرء سے نا واقف تھا
رات کے 2 بجے ہر طرف شور شرابا تھا کیونکہ اوپر کے ایک کمرے میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی جس کا نام صنم تھا
اور اس لڑکی کی حالت بھی اتنی ہی نہ کابل دید تھی جتنی کے پہلی لڑکی کی
مطلب کے بیسٹ اپنا کام کرکے جا چکا تھا
لڑکی کی ایک آنکھ نکالی گئی تھی جبکہ ہاتھ کی ساری انگلیوں کو الگ الگ کاٹ کر رکھا گیا تھا ۔یقینا اس شخص میں رحم میں کوئی چیز نہیں تھی اگر ہوتی تو لاش کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی
کوئی جانور کو بھی اس طرح سے زبح نہیں کرتا جتنی بری طرح سے اس لڑکی کا گلا کاٹا گیا تھا
مسٹر بیسٹ میری نظر میں یہ لوگ گناہگار نہیں اصل گناہگار تم ہو جو رحم نامی چیز سے بے خبر ہے
اب سے میرا مقصد ان لوگوں کے گینگ کو ڈھونڈ کر ان کے گناہوں کا پتہ کرنا نہیں بلکہ تمہیں ڈھونڈ کر تمھارے اصل مقام تک پہنچانا ہے ۔
اس دنیا میں سب سے پہلے جو چیز ختم ہونا چاہیے وہ تم جیسا درندہ ہے اور میں بہت جلد تم تک پہنچ کر تمہیں جڑ سے اکھاڑ دوں گا ۔
لاش کو فورا لیپ بھیج دیا گیا تھا
پریشان مت ہوں آریان بہت جلد کوئی نہ کوئی ثبوت مل جائے گا ڈی ایس پی سر اس جگہ کو چیک کرتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ہی روم سے باہر آئے تھے
کب ثبوت ملے گا سر ہماری ٹیم بہت سلو کام کر رہی ہے وہ بیسٹ ہم سے بہت آگے ہے بہت زیادہ آگے ہم اتنی آسانی سے اس تک نہیں پہنچ پائیں گے
وہ پریشانی سے بولا
چھوڑو ان سب باتوں کو چلو آؤ ایک کپ چائے پیتے ہیں ہوٹل کے ایک ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس سے کہا
سر ایم سوری میں اون ڈیوٹی ہوں وہ مسکراتے ہوئے معذرت کر گیا
ہاہاہاہا برخوردار میں بھی تو اون ڈیوٹی ہوں
یاد آیا وہ لڑکی ملی تمہیں جس سے بس میں دیکھا تھا تم نے وہ اس سے پوچھنے لگے جبکہ وہ نفی میں سر ہلا گیا ۔
چلو کوئی بات نہیں کیس کے ساتھ ساتھ اپنی لائف پر بھی دھیان دو وہ اسے بتا رہے تھے جب ویٹر نے چائے کا کپ اِن کے سامنے لا کر رکھا ۔
انہیں چائے میں مصروف دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے اس کمرے کی طرف آ گیا تھا
°°°°°
°°°°°°°°
آریان بیٹا یہاں مارکیٹ کے قریب گاڑی روکنا مجھے کچھ کام ہے ڈی ایس پی سر نے اس سے کہا
سر خیریت تو ہے آپ کو کچھ چاہیے وہ اسے مارکیٹ کے باہر گاڑی کھڑی کرنے کا کہہ رہے تھے وہ انہیں گغر چھوڑے جا رہا تھا
ہاں بیٹا کچھ نہیں بس ایک چھوٹا سا کام ہے کل میری بیٹی یہاں سے شاپنگ کرنے آئی تھی تو ایک شاپنگ بیگ اس کے ساتھ آ گیا شاید دکاندار کی غلطی کی وجہ سے بس وہی واپس کرنا ہے انہوں نے اسے مکمل بات بتائی
کل۔۔۔! کل تو اس نے اس لڑکی کے لیے ایک ایکسٹرا شاپنگ بھیجا تھا جس میں وہ حجاب تھا اس نے یاد کیا ۔
میں ذرا وہ شاپنگ بیگ واپس کر کے آتا ہوں پتہ نہیں کس کا ہو گا میں دے کے آتا ہوں پھر گھر کے لیے نکلتے ہیں وہ گاڑی سےباہر آتے ہوئے کہنے لگے
لیکن اس سے پہلے ہی وہ گاڑی سے نکل کر ان کے سامنے آگیا
سر میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ مجھے نہیں پتا آپ کس ایکسٹرا شاپنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں لیکن کل ایک ایکسٹرا شاپنگ بیگ میں نے بھی کسی کو دیا تھا یقیناً یہ وہ شاپنگ بیگ نہیں ہوگا لیکن پھر بھی میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی قسم کی کوئی غلط فہمی ہو
کل یہاں وہ لڑکی آئی ہوئی تھی جسے میں پسند کرتا ہوں جسے میں نے بس میں دیکھا تھا اس کے لیے میں نے ایک حجاب خریدا تھا اور اس کے شاپنگ بیگز میں دکاندار کو شامل کرنے کے لئے کہا تھا ۔کہیں یہ وہ شاپنگ بیگ تو نہیں ایک ہی مارکیٹ میں ایک ہی دن ایک ہی واقعہ دو بار تو نہیں ہو سکتا اسی لئے وہ پوری بات انہیں بتانے لگا ۔
تو وہ تم نے کیا ہے وہ اس سے حیرت بڑے انداز میں پوچھنے لگے ۔
جی سر کل وہی لڑکی ایک حجاب پسند کر رہی تھی لیکن خریدا نہیں اسی لئے میں نے اس کے لئے وہ خرید کر اس کے شاپنگ بیگز میں ایڈ کروا دیا وہ کچھ شرمندہ سا لگ رہا تھا
۔کچھ دن پہلے انہیں کے گھر میں وہ انہیں کی بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کر چکا تھا اور آج اتفاق ایسا تھا کہ جس لڑکی کو وہ جانتا تک نہیں تھا اسی کی محبت میں بری طرح سے گرفتار ہوکر ایک طرح سے ان سے جا ملا تھا ۔
لیکن اس دن اس نے ان کی بیٹیوں کو دیکھا تھا ہاں لیکن صرف ائمہ اورتائبہ کو تو کیا یہ ارشفہ کے بارے میں بات کر رہا ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگے ۔
تو کیا وہ یہ جانتا ہے کہ ارشفہ گونگی ہے وہ بول نہیں سکتی
اس لڑکی کا نام کیا ہے وہ انجان بنے پوچھنے لگے۔ آریان کو کچھ عجیب لگا تھا وہ خود اسے بتا رہے تھے کہ کل ان کی بیٹی شاپنگ پر آئی تھی یہ اور ان کے پاس وہی حجاب وہ بیگ بھی ہے اور اب اس سے اپنی بیٹی کا نام پوچھ رہے تھے ۔وہ ان کے ہاتھ سے بیگ لے کے بھی دیکھ چکا تھا اس میں وہی حجاب ہی تھا
سر آپ کی بیٹی ہے آپ اس کا نام بہتر جانتے ہوں گے ۔ وہ ہمیشہ سے صاف بات کرنے کا عادی تھا اب جب کہ وہ ان کی بیٹی کو پسند کرتا تھا اور وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ ان کا دماد بنے تو وہ اس طرح کیوں بن رہے تھے ۔
کیا جانتے ہو اس کے بارے میں وہ پھر سے پوچھنے لگے ۔
ان کی بات پر آریان مسکرایا تھا سر میں تو اس کا نام تک نہیں جانتا ۔ اس کے علاوہ ایک لڑکی مجھے پسند آگئی ہے میں اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں بس میں اور کچھ نہیں جانتا آگے سب کچھ آپ نے کرنا ہے سب آپ کی ذمہ داری کی جیسا آپ نے وعدہ کیا تھا
اس کا تو جیسے سب سے بڑا مسئلہ حل ہوچکا تھا جس لڑکی کو کل تک وہ جانتا تک نہیں تھا آج وہ اسی کے باس کی بیٹی تھی
وہ بھی ایسے شخص کی جنہں وہ دنیا میں سب سے زیادہ پسند کرتا تھا بھلا اس سے زیادہ اچھا اور کیا ہو سکتا تھا اس کے لیے ۔
دیکھو آریان تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے دراصل بات ۔۔۔۔
سر میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس کو پسند کرتا ہوں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں آپ پلیز مجھ پر اعتبار کیجئے اسے دیکھتے ہی میں محبت کر بیٹھا جبکہ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ابھی تک اس کا چہرہ نہیں دیکھا کل تک میں بہت پریشان تھا کہ شاید وہ لڑکی مجھے کبھی ملے گی بھی یا نہیں لیکن آج یہ جان کے کہ وہ آپ کی بیٹی ہے ساری پریشانی دور ہو چکی ہے
سر میں اس کا خیال رکھوں گا سر پلیز میری بے سکونی کو قرار دیں اس پریشانی کو ختم کردیں سر میں اسے بے تحاشا چاہتا ہوں میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں یہ تو شاید میں خود بھی نہیں جانتا
ہاں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے اپنی ذات سے بھی اتنی محبت نہیں جتنی کے اس لڑکی سے ہے
بس اسے آپ ہی میری زندگی میں شامل کر سکتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ مجھے انکار نہیں کریں گے اس نے مسکراتے ہوئے ان کے ہاتھوں کو تھاما ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا
حجاب واپس لوٹانے کی بجائے وہ اس کے ساتھ واپس گھر آ گئے تھے راستے میں انہوں نے کوئی بات نہیں کی تھی اور آریان بھی ان کے چہرے پر پریشانی دیکھ رہا تھا اور اسی پریشانی کی وجہ سے اس نے اس لڑکی کا نام تک نہیں پوچھا تھا نہ جانے کیا وجہ تھی کہ سر جو کل تک اسے اپنا دماد بنانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے آج اتنے خاموش اور پریشان تھے
°°°°°°°°
اس نے ہوسٹل میں قدم رکھا تو روز کی طرح آج ایک اور پارسل اس کا منتظر تھا اس نے مسکراتے ہوئے بیڈ کی جانب قدم اٹھائے اور اس پارسل کو اٹھا کر کھول کر دیکھنے لگی روز کی طرح بے تحاشہ تصویریں وہی بیڈ پر لیٹتے مسکراتے ہوئے ایک ایک تصویر کو دیکھ رہی تھی
بس بہت ہوگیا مسٹر چان میں تم سے ملنا چاہتی ہوں یہ چھپن چھپائی بند کرو اس نے مسکراتے ہوئے ایک تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر آخر اسے اس کی مطلوبہ چیز بھی مل گئی ایک اور خط
کتنی بے چین ہو مجھ سے ملنے کے لیے میں بھی تم سے ملنا چاہتا ہوں بس بہت ہوگیا یہ چھپن چھپائی کا کھیل اب آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقات ہوگی لیکن اگر میں تمہیں پسند نہیں آیا تو ۔۔۔۔۔؟
یہ مت سوچنا کہ اگر میں تمہیں پسند نہیں آیا تو میں تمہاری جان چھوڑ دوں گا میں سائے کی طرح موت تک تمہارے ساتھ رہوں گا تم صرف میری ہو میں اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گا تمہیں میرا ہونا ہوگا تیار ہو جاؤ اپنے آپ کو صرف اور صرف میرے نام کرنے کے لئے
خط ختم ہوچکا تھا جبکہ وہ ابھی تک اس کے لفظوں کو غور کر رہی تھی کتنا جنون تھا اس کے لفظوں میں کتنا چاہتا تھا وہ اسے وہ اس کی محبت پر ٹوٹ کر یقین کرنے لگی تھی ۔اس کا ایک کے خلاف اس سے اپنی محبت کو بیان کر رہا تھا وہ دن رات اس کی محبت میں ڈوبتی چلی جارہی تھی پچھلے 10 دن سے مسلسل رسیو ہونے والے خطوط اور پارسلز اسے اس پر یقین کرنے پر مجبور کر گئے
جب کہ وہ تو جانتی تک نہیں تھی کی کوئی ہے جو اس سے اس قدر ٹوٹ کر محبت کرتا ہے کہ ساری رات اس کے قریب بیٹھ کر اس کا دیدار کرتا ہے کہ کہیں اسے نیند میں بھی کوئی تکلیف نہ ہو ۔
کہیں کوئی نیند میں اسی تکلیف نہ پہنچائے ۔کوئی 24 گھنٹے سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا ہے لیکن جاناں تو شاید اس کے سائے سے بھی ناواقف ہے نہ جانے کتنے سالوں سے وہ پل پل اس کے ساتھ ہے لیکن اس کے ہونے کا احساس صرف ان دس دنوں میں ہی ہوا ہے ۔
اس نے تو اسے پتہ تک نہیں چلنے دیا کہ وہ اسے برسوں سے جانتا ہے نہ جانے کتنے سالوں سے وہ دن رات اس کے ساتھ ہے لیکن اب وقت آ گیا تھا کہ جاناں سب کچھ جان جائے وہ اس کے سائے سے لے کر اس کی ذات تک کو پہچان جائے اب وہ وقت آ چکا تھا کہ وہ اس کے سامنے آجائے وہ وقت آگیا تھا جب جاناں کو اس سے محبت کرنی تھی ساری دنیا کو ٹھکرا کر صرف اور صرف اس کےساتھ کو قبول کرنا تھا سب کو چھوڑ کر پاس کے ساتھ آنا تھا ۔
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اب جاناں کو بھی اس سے ملنے کا تجسس ہے وہ بھی اسے ملنا چاہتی ہے اسے دیکھنا چاہتی ہے وہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ آخر کون ہے جو اسے اس قدر محبت کرتا ہے
°°°°°°°°
سارے راستے میں ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی وہ انہیں گھر چھوڑ کر کافی دیر باہر کھڑا رہا لیکن آج تو انہوں نے اسے گھر کے اندر بھی نہیں بلایا تھا نہ جانے وہ کیوں اتنے پریشان تھے وہ خاموشی سے اندر چلے گئے آج تو نے اسے الوداع بھی نہیں کہا تھا
وہ پریشان تو تھا لیکن کہیں نہ کہیں اندر سکون بھی تھاکہ جس لڑکی کو ڈھونڈ رہا تھا وہ لڑکی نہ صرف اسے مل چکی تھی بلکہ اس کے لیے راستے بھی کافی آسان ہو چکے تھے لیکن سر کے پریشانی اسے پریشان کر رہی تھی۔
گھر آ کر کافی دیر اس لڑکی کو سوچتا رہا اس کا ڈرنا اس سے گھبرنا دور بھاگنا اس کی ایک ایک ادا اسے پاگل کر رہی تھی اور اس کا صبر جواب دے رہا تھا ۔۔۔پھر اپنی سو چوں کو لگام ڈال کر اس کے بارے مِیں سوچنا چھوڑ کر اپنے کیس کی طرف متوجہ ہو گیا اس نے اپنا کام بھی کرنا تھا
پتا نہیں بیسٹ اگلا حملہ کس پر کرنے والا تھا اس کا اگلا شکار کون تھا اب لسٹ میں اگلا نام جس لڑکی کا تھا وہ بھی اس کے لیے انجان تھی لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا وہ اس لڑکی اور اس کے گینگ کو نہیں بلکہ پہلے بیسٹ کو ڈھونڈے گا
یہ بات تو وہ سمجھ چکا تھا کہ بیسٹ جن لوگوں کو مار رہا ہے وہ کوئی نیک لوگ نہیں ہے لیکن جو انداز بیسٹ نے اپنایا تھا وہ بھی کوئی اچھا نہیں تھا اسی لئے اب سب سے پہلے وہ اس کیس کے اصل دندے کو ڈھونڈ رہا تھا جو صرف نام کا نہیں بلکہ سچ میں ایک بیسٹ تھا ۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک چپ ایسے ہی رسیو ہوئی تھی لگتا ہے بیسٹ کی لسٹ ایماندار آفیسر میں بہت کم لوگوں کا نام تھا تبھی تو اسے یہ چیپ دوسری بار ملی تھی وہ گھر آیا تو ایک پارسل اس کا انتظار کر رہا تھا اس میں بھی اسے ایک چیپ ہوئی تھی اور اس سب کے اندر بھی ہمیشہ کی طرح ایک کھنڈر کی ویڈیو تھی یقیناً یہ بھی کوئی جگہ ہی تھی جو آج کے زمانے میں کوئی نہ کوئی مقبول کلب یا کوئی ہوٹل ہوگا ۔
جہاں کچھ عرصہ پہلے کالے دھندے ہوتے رہے ہیں اس ہوٹل کی ہسٹری نکالنے پر اسے پتہ چلا تھا کہ بیس سال پہلے وہاں بہت بڑے اور غیر قانونی کام ہوتے رہے ہیں شاید تب ہی بیسٹ ایسی جگہوں کو ہی ڈھونڈتا تھا جہاں پہلے سے دندنگی نما واقعہ ہواہو
جس ہوٹل میں وہ واقعہ پیش آیا تھا قانون کی ہسٹری میں وہ جتنا مقبول اور بڑا ہوٹل تھا بیس سال پہلے وہاں عورتوں کی سمگلنگ کی جاتی تھی اور اب اس کے میں بہت بڑے بڑے لوگ پھنس چکے تھے اور اسے یقین تھا جس جگہ کی ویڈیو اس نے اس بار بھی ہے یقیناً وہاں بھی کوئی نہ کوئی ایسا ہی کام ہوتا رہا ہے ۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس بار بھی وہاں پہلے کوئی قتل ہونا تھا پھر ہی انہیں کچھ پتہ چلانا تھا اور لاش کی حالت ایسی ہی ہوتی کہ اس سے کچھ بھی پتہ لگانا ناممکن تھا پچھلی لاش سے بھی انہیں ابھی تک کچھ بھی پتہ نہیں چلا تھا نہ کوئی ہاتھوں کے نشان تھے اور نہ ہی وہ چاکو ملا تھا جس سے اس لڑکی کی انگلیاں کاٹی گئی تھی یقینا اپنا کوئی الگ ہتھیار رکھتا تھا جسے وہ صرف اس کام کے لیے استعمال کرتا تھا اور وہ اس کام میں اتنا زیادہ ایکسپیرینسڈ ہو چکا تھا کہ اب وہ کوئی بھی غلطی نہیں کرتا تھا
°°°°°°°°
آج اتوار کا دن تھا اسے صبح صبح ایک پار سل رسیو ہوا
اس نے فوراً مسکرا کر پارسل لے لیا
اور اسے کھول کر دیکھنے لگی یہ پہلا پارسل تھا جس میں تصویریں نہیں بلکہ ایک بہت ہی خوبصورت ڈریس تھی
ایک انتہائی خوبصورت پاؤں کو چھوتی لونگ فراک اور اس کے ساتھ ہم رنگ ہی حجاب ۔آف وہ اس کا کتنا خیال رکھتا تھا ۔کہ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اپنی ہر ڈریس کے ساتھ حجاب لے کر ہی باہر نکلتی ہے
وہ اس کی ہر چیز سے واقف تھا لیکن وہ تو اس کی شکل سے بھی نا آشنا تھی وہ اس کے نام کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی اس کا نام بھی اصل تھا یا نہیں اس بات سے بھی بے خبر تھی
اس کے ذہن میں بہت سارے سوال تھے وہ کسی کو بتائے بغیر کسی انجان سے ملنے جا رہی تھی یہی بات اسے اندر سے پریشان کر رہی تھی
ایک ان دیکھے انسان پر بھروسہ کر رہی تھی اگر یہ بات اس کے باپ تک چلی جاتی تو وہ اس سے آگے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی
اور نہ ہی وہ سوچنا چاہتی تھی کہ اس کے ذہن میں صرف اور صرف جان کو دیکھنے کا تجسس تھا اخر کون تھا وہ اور اس سے اتنی محبت کرتا تھا اس نے اسے کہاں دیکھا تھا وہ کس جذبے کو محبت کا نام دیتا تھا جاناں سب کچھ جاننا چاہتی تھی
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے کوئی بات ارشی اور عاشی سے بھی چھپائی تھی۔
اسے پتہ تھا کہ اگر ان دونوں کو اس بارے میں کچھ بھی بتائے گی تو وہ اسے منع ضرور کریں گی وہ اسے کبھی انجان شخص سے ملنے کی اجازت نہیں دے گئی
اور یہی وجہ تھی کہ جاناں نے ان کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا کیونکہ اب وہ رکنا نہیں چاہتی تھی اس شخص سے ملنا تھا جو سامنے آئے بغیر اس کے دل کی دنیا میں ہلچل مچا چکا تھا
کہ جاناں کو پہلی بار اپنّے پر لگائیں تمام پہیروں کو توڑ کر باہر قدم اٹھانا پر رہا تھا ۔
وہ ڈریس کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی جب اس کا فون بجا وہ مسکراتے ہوئے فون کی طرف آئی آج کل اس کی ہر سوچ سے پر صرف جاں سوار تھا اسے لگا تھا شاید وہ آج اسے فون کرے گا اس سے پہلے تو اس نے صرف ایک بار ہی اسے فون کیا تھا ورنہ وہ بھی اپنی تمام باتیں خطوط کے ذریعے ہی کرتا تھا ۔
لیکن جاناں کو لگا تھا کہ شاید وہ آج اس سے ملنے کے لیے کسی جگہ کا بتانے کے لیے فون کرے گا لیکن فون بابا کا تھا اسے پچھلے کچھ دنوں سے بابا کو فون کرنے کا ہوش ہی نہ تھا
وہ پوری طرح سے اپنے خوابوں خیالوں کی دنیا میں گم تھی اسے یاد ہی نہ تھا اس نے پچھلے ہفتے میں اپنے بابا سے بات بالکل کرنے کی کوشش نہ کی اور شاید اس بات کو وہ بھی نوٹ کر چکے تھے اسی لئے تو آج وہ خود اسے فون کر رہے تھے
السلام علیکم بابا کیسے ہیں آپ اس کا لہجہ بہت خوشگوار تھا آج تک اس نے ہمیشہ مایوسی سے ہی ان سے بات کی تھی ۔
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہو جاناں تم کیسی ہو کیا چل رہا ہے آج کل بابا کی یاد نہیں آئی اتنے دنوں سے وہ شکوہ کرنے لگے
نہیں بابا ایسی بات نہیں ہے وہ دراصل پیپرز کی تیاری چل رہی ہیں نیکسٹ منتھ سے ایگزیم شروع ہونے والے ہیں تو سارا دھیان پڑھائی کی طرف ہے اس نے صاف جھوٹ بولا تھا کیوں کہ وہ انھیں جان کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتانا چاہتی تھی ۔
گڈ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم اپنی پڑھائی کو لے کر سیریس ہو
میں سوچ رہا ہوں کہ تمہارے پیپر شروع ہونے سے پہلے تم سے ایک بار مل آوں چھ ماہ ہو چکے ہیں تمہیں دیکھا تک نہیں وہ مسکراتے ہوئے اس کے لہجے میں ایکسائٹمنٹ کا انتظار کر رہے تھے
جبکہ دوسری طرف جاناں کو چپ لگ گئی بابا کو جان کے بارے میں پتہ تو نہیں چل گیا اس کے اندر چور نے سر اٹھایا
پھر اپنے لہجے کو درست کرتے ہوئے بولی نہیں بابا آپ بزی ہوں گے بے کار میں وقت ضائع ہوگا آپ کا پیپرز کو بہت کم وقت رہ گیا ہے میرا دھیان تو پیپرز کی طرف ہے آپ بور ہو جائیں کہ میں ٹھیک سے آپ کو کمپنی تک نہیں دے سکوں گی وہ بہانہ بناتے ہوئے بولی
جب کہ بابا کو تو دوسری طرف حیرت کا جھٹکا لگا تھا اس کا فون نہ کرنا پھر ان سے ملنے کے لیے کوئی ایکسایٹمنٹ نہ دکھانا انہوں نے اسے خود سے بہت دور کر دیا تھا
پچھلے ہفتے اس سے بات کرنے کے بعد انہوں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اس کے پیپرز ختم ہوتے ہی وہ اسے اپنے پاس بلا لیں گے ان کی بیٹی ان سے بہت دور ہوتی جارہی ہے
ٹھیک ہے بیٹا میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کروں گا تم آرام سے اپنے پیپرز کی تیاری کرو ان کے انداز پر وہ پرسکون ہو کر فون رکھ چکی تھی
خدایا یہ جان تو میری جان لے کر رہے گا اس نے دل ہی دل میں جان کو کوسا تھا جس کی وجہ سے بابا سے بات کرتے ہوئے مسلسل اس کا دل زور زور سے دھڑکتا رہا تھا
°°°°°°°°
جان نے خط میں کہا تھا کہ وہ آج رات اس سے ملے گا وہ ٹائم کے مطابق مکمل اسی کی ڈریس میں تیار ہو کر کھڑی تھی ۔
اور بے چینی سے اس کے اگلے پیغام کا انتظار کر رہی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ غلط کر رہی ہے لیکن اس وقت جان اس پر پوری طرح سے سوار تھا ۔وہ صحیح غلط کو سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی ۔
اس کے موبائل کی ٹون بجی ان نون نمبر سے میسج تھا باہر ایک بلیک کار کھڑی ہے اس میں بیٹھ کر میرے پاس آجاؤ تمہارا جان میسج پڑھ کر اس نے ایک نظر کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر سڑک پر ایک کالی گاڑی کو کھڑا دیکھا
اس کا دل الگ ہی ترنگ میں دھڑکا تھا اس کے دل نے تو نیا انداز میں دھڑکنا تب سے ہی شروع کر دیا تھا جب سے اسے جان کے پارسل موصول ہو رہے تھے
کیا کرنے جا رہی تھی وہ اس طرح سے کسی انجان شخص سے ملنا غلط تھا اس کے دماغ نے کہا ۔
نہیں وہ مجھ سے پیار کرتا ہے اور پیار میں کچھ غلط نہیں ہوتا اس کے دل نے کہا تھا
اور پھر اس نے دماغ کی ہر بات کو رد کرتے ہوئے باہر کی طرف قدم اٹھائیں ۔اسے اندر ہی اندر خوف محسوس ہو رہا تھا
وہ اس شخص سے ملنے جا رہی تھی جو اس کے سامنے آئے بغیر اس کی ذات پر پوری طرح سے حاوی ہوچکا تھا
بس اب وہ اس سے ملنا چاہتی تھی اس نے اپنے دل سے خوف نکالا اور اپنی فراک کو سنبھالتے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھی
اس نے زندگی میں بہت کم لوگوں کی محبت پائی تھی بابا سے بھائیوں سے دور ایک گمنام زندگی گزار کر تھک چکی تھی اور اب اسے ایک ایسا شخص مل رہا تھا جو اس سے محبت کرتا تھا اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی
°°°°°°°°
آخر کار سفر ختم ہو چکا تھا جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی اس کا ڈر بھی ختم ہوتا چلا جا رہا تھا وہ تمام ہمت جمع کر کے آئی تھی اب کیا ڈرنا
گاڑی ایک خوبصورت فلیٹ کے سامنے آرکی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ہی ایک لڑکا کھڑا تھا وہ لڑکا تھا یا کچھ اور جاناں کو سوچنا پڑا
وہ آہستہ آہستہ چلتا گاڑی کے پاس آیا ویلکم پیاری لڑکی اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے مسکرا کر کہا وہ بہت خوبصورت نوجوان تھا تو کیا یہ جان تھا جاناں کے دل کو مایوسی ہوئی وہ تو بہت امید سے آئی تھی
اور یہاں تو سب الٹا ہوا تھا کیونکہ سامنے کھڑے لڑکے میں اس سے زیادہ نزاکت تھی
او پیاری لڑکی اوپر چلو میں صبح سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں وہ دل کش انداز میں بولا
آو پیاری تم یقیناً جان کی تلاش میں ہو جان ہا ہاہا وہ تو پاگل ہو رہا ہے کبھی ادھر کبھی ادھر گھوم رہا ہے میری ماہی کو یہ پسند ہے میری جاناں کو وہ پسند نہیں پگلا دیوانہ ہوا ہوا ہے
خیرتمہارا دیوانہ تو وہ برسوں سے ہے
وہ دلکش انداز میں کہتا ہاتھوں کو لڑکیوں کی طرح حرکت دیتا اسے بتا رہا تھا
جاناں کو سکون ملا وہ جان نہیں تھا
اف پیاری لڑکی تمہارے اس دیوانے نے تو میرا جینا حرام کر رکھا ہے
صبح سے میرا سرکھا رکھا ہے میرے تو ہاتھ بھی درد ہو گئے ہیں کام کر کر کے دیکھو صبح میرا ناخن ٹوٹ گیا لیکن ظالم کو ذرا رحم نہ آیا وہ ہاتھوں کو بغور اسے دکھاتے ہوئے بتا رہا تھا جاناں صرف مسکرائی اس نے زندگی میں پہلی بار کسی خواجہ سرا کو دیکھا تھا
لیکن وہ کتابوں میں ان کے بارے میں اکثر پڑھتی آئی تھی
اور تو اور سامنے کھڑا یہ نوجوان اپنے حسن کو لے کر بہت ٹچی تھا دیکھنے میں تو بہت خوبر جوان لگتا تھا لیکن انداز لڑکیوں سے بھی زیادہ نازک تھے
اس نے فلیٹ کا دروازہ کھولا تو سامنے حال نما کمرا تھا
آو پیاری لڑکی اس کمرے میں ہے تمہارا دیوانا اور میرے حسن کا دشمن مجھے کہتا ہے کہ میں زیادہ دیر تم سے بات نہ کروں کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ تم مجھ سے خوفزدہ ہو جاؤ گی کیا میں ایسا بھیانک دیکھتا ہوں وہ مایوسی سے بولا
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میں آپ سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوں جاناں نے فورا کہا تو وہ کھل اٹھا
ہائے میں صدقے پیاری لڑکی تم چلو اپنے دیوانے سے ملو پھر میں تمہاری بیوٹی فل سکن کو مزید بیوٹی فل کرنے کا طریقہ بتاؤں گا
وہ نرمی سے ہاتھوں سے اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے بولا اور روم کے دروازے تک چھوڑ کر خود دوسرے کمرے میں کہیں غائب ہوگیا جاناں نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا
°°°°°°°°
روم میں ہر طرف کینڈل کی روشنی خوابناک ماحول بنا رہی تھی
ہر طرف اپنی تصویریں دیکھ کر اسے جھٹکا لگا روم کی چار دیواروں میں ہر طرف اس کی تصویر تھی ایک تصویر تو تب کی تھی جب وہ 10 سال کی تھی۔
اس کی سانس سانس حیرات میں ڈوبی تھی ۔
میری اتنی ساری تصویریں اور یہ اتنی پرانی تصویر یہاں کیسے۔ ۔۔۔! وہ بڑبڑاتے ہوئے خود سے سوال کر رہی تھی
یہ تو کچھ بھی نہیں تمہاری ہر سانس سے باخبر ہوں میں وہ بالکل قریب سرگوشی نما آواز میں بولا
اسے آپنے اتنے قریب محسوس کرکے وہ گھبرا کر دور ہوئی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال تھا اسے اپنی بالکل قریب کر چکا تھا
مجھ سے دور جانے کے بارے میں سوچنا بھی مت جاناں۔
بہت لمبا سفر طے کیا ہے بہت دوری سہی ہے تمہارے قریب آنے کے لیے اب دور نہیں جانے دوں گا
تمہیں خود سے وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے آہستہ آہستہ بول رہا تھا
جبکہ جاناں اس کی گرم سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی وہ اس کی دھڑکن کی طرح اس کے قریب تھا ۔
وہ اسے دیکھ رہی تھی دل بے تربیت تھا لیکن وہ خوف زدا نہیں تھی۔ وہ اس کے خوابوں کے شہزادے سے بھی حسن تھا ۔
اور خاموشی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھ رہی تھی وہ کتنا خوبصورت تھا شاید اس سے بھی زیادہ
وہ خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے گال پر جھکا اور اس کے نازک گال کو اپنے لبوں سے چھوا ۔اس کے گرم لمس پر وہ فورا اس سے دور ہٹی تھی جیسے کرنٹ نے چھو لیا ہو
°°°°°°°°

کیا مطلب ہے اس لڑکے کو میری بیٹی نہیں بلکہ وہ لڑکی پسند آئی ہے عشرت بیگم کا تو غصے سے برا حال تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اریشفہ کو جان سے مار ڈالے
زبان سنبھال کر بات کرو بیگم اور مت بھولو تم جس کے بارے میں بات کر رہی ہو وہ میری بیٹی ہے دیا
شاکر صاحب نے غصے سے کہا
جی جی میرا وہ مطلب نہیں تھا اس طرح سے کیسے وہ ہماری ایک بچی کو ٹھکرا کر دوسری کے لیے رشتہ مانگ سکتا ہے آپ صاف انکار کر دیں وہ بہت کوشش کے باوجود بھی اپنا غصہ دبا نہیں پا رہی تھی
انکار کیوں کر دوں بلا اتنا اچھا لڑکا ہے بس اسے سچ بتا دوں گا کہ ہماری بچی شروع سے گویائی سے محروم ہے ۔اور ویسے بھی اس بچے کی نظروں میں میں نے اپنی بچی کیلئے بے تحاشہ محبت دیکھی ہے میں جانتا ہوں یہ سب جان کر بھی وہ اس رشتے سے انکار نہیں کرے گا ۔ڈی ایس پی سر نے پورا اعتماد لہجے میں کہا
لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں اسی کی بات بتاؤں گا کیسے ۔۔۔ بھلا کوئی باپ اپنی بیٹی کی محرومی کا اس طرح کیسے اظہار کرسکتا ہے
۔ہمارے لئے ہماری بیٹی گھونگی نہیں ہے بلکہ وہ اشاروں سے ہی سب کچھ سمجھا سکتی ہے بتا سکتی ہے اپنے دل کی ہر بات ہمارے سامنے رکھ سکتی ہے ۔ان کے انداز میں اپنی بیٹی کے لیے بے تحاشہ محبت تھی جو عشرت بیگم لو پسند نہیں تھی
جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ہماری اوشی آسانی سے اپنی بات ہمیں سمجھا سکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہم یہ بات آریان کو بھی سمجھا پائے اور ہو سکتا ہے کہ آپ آریان کو یہ بات کھل کر بتا بھی نہ پائے
اسی لئے مجھے لگتا ہے کہ میرا اسے بتانا زیادہ بہتر رہے گا میرا مطلب ہے ۔ ہم آریان کے مزاج سے بے خبر ہیں ۔ ہمیں نہیں پتا وہ کس طرح سے ری ایکٹ کرے گا یہ نہ ہو کہ وہ غصہ ہو جائے
میرا مطلب ہے یہ کوئی اتنی عام سے بات تو نہیں اگر اس نے انکار کردیا تو بیکار میں آپ کا دل اس سے کھٹا ہو جائے گا جب کہ اگر سچ جانے کے بعد وہ انکار کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے ہر انسان کو اپنی من پسند جیون ساتھی چننے کا حق ہے
اس لئے میں خود اس کو یہ بات بتاؤں گی اگر اس کے بعد بھی اریان ہماری اریشفہ کو اپنی دلہن بنانا چاہتا ہے تو سمجھے ہماری بچی کی قسمت کھل گئی
عشرت بیگم نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ صرف ہاں میں سر ہلا کے جیسے کہنے کو کچھ بچا ہی نہ ہو
°°°°°°
اس کے یوں پیچھے ہٹنے پر جان کے ماتھے پر بل پڑ گئے
کیا ہوا ماہی میرا چھونا تمہیں برا لگا وہ آنکھوں میں ناراضگی کیلئے بولا
نہیں وہ میں۔۔۔۔۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ بغیر کسی رشتے کے اس کو یہ سب کچھ پسند نہیں۔کیونکہ وہ یہاں تنہائی میں اس سے ملنے بھی بغیر کسی رشتے کے آئی تھی وہ باغور اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا
تمہیں روم کیسا لگا۔۔۔۔! وہ اس کی گھبراہٹ کو نوٹ کرتے ہوئے بولا تو جاناں ایک بار پھر سے اپنی تصویریں دیکھنے لگی
یہ تصویریں تو میں کہاں سے ملیں ۔۔۔! وہ پوچھنے لگی
تم نے زندگی کے جتنے بھی لمحات جیے ہیں وہ میرے سامنے ہیں
تم کب سے جانتے ہو مجھے۔۔۔ اس کے الجھے ہوئے جواب پر وہ پھر سے سوال کرنے لگی
ہمیشہ سے ۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
ہمیشہ سے ۔۔۔۔۔؟ جاناں نے حیرت سے دہرایا
پہلے ڈنر کرو گی یا میں پرپوز کروں وہ دلفریب انداز میں بولا تو جاناں اسے دیکھ کر رہ گئی
تمہیں نہیں لگتا کہ یہ سب کچھ بہت جلدی ہو رہا ہے میں تمہیں جانتی تک نہیں جاناں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی
میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمھارے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں اس کے علاوہ تمہیں کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی اگر جاننا ضروری ہے تو میں ایک کھلی کتاب ہوں پڑھ لو مجھے وہ دلکشی سے بولا تو جان بے ساختہ مسکرا دی
ہاں کھلی کتاب لیکن اس زبان میں جو دنیا میں ابھی ایجاد تک نہیں ہوئی وہ کھکھلاتے ہوئے بولی تو جان بھی مسکرا دیا ہے
ڈنر ٹھنڈا ہو رہا ہے وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے میز کی طرف لے جاتے ہوئے بولا وہ بھی ریلکس ہو کر اس کے ساتھ میز کی جانب آئی تھی ۔
ہر ڈش اس کی پسند کی تھی ارے یہ تو سب میرا فیورٹ ہے تمہیں کیسے پتہ چلا وہ حیرت سے پوچھنے لگی
میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اس نے پھر سے بتایا
سب کچھ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی انداز امتحان لینے والا تھا وہ مسکرا کر سرہاں میں ہلا گیا ۔
تم میرا ٹیسٹ لینا چاہتی ہو تو یاد رکھو اگر میں جیت گیا تو تمہیں میرا پرپوز ایکسیپٹ کرنا ہوگا وہ شرط رکھتے ہوئے بولا تو جاناں نے گھبرا کرسر نہ میں ہلایا
نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی ۔
کیا میں تمہیں پسند نہیں آیا وہ سیاہ آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے بولا
تم اچھے ہو جان لیکن میں اپنی زندگی کا انتہائی اہم فیصلہ اس طرح سے نہیں کر سکتی وہ آہستہ سے بولی
وقت چاہیے میں اتنی جلدی یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتی۔
جتنا وقت چاہیے تم لے سکتی ہو جاناں لیکن جواب مجھے ہاں میں چاہیے وہ گہری نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا
مجھے سویٹ بہت پسند ہے وہ ڈنر کے بعد میز پر کچھ میٹھا نہ دیکھ کر بولی شاید اس کا دیکھنا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا۔
ابھی ٹائر لا ریا ہو گا اس کے انداز پر وہ مسکرا کر بولا
کون ٹائر۔ ۔۔۔؟ جاناں نے پوچھا
میں ہوں دروازے پر کھڑے اسی پیارے سے انسان نے جواب دیا جو اسے یہاں لایا تھا
آپ کا نام ٹائر ہے وہ حیرت سے پوچھنے لگی بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا
میرا نام کچھ اور ہے لیکن یہ تمہارا دیوانہ مجھے ٹائر کہتا ہے اسی لیے میں اپنا نام بھول گیا اب تو اپنا نام کبھی کبھی بس آئی ڈی کارڈ پر دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ اصل نام وہ ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول جاتا ہوں ۔
وہ خالص عورتوں والے انداز میں بولا
ٹائر ۔۔۔۔جان کی سخت آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی
جا تو رہا ہوں وہ منہ بسور کر بولا اور پھر اگلے ہی لمحے وہاں سے نکل گیا
تم ان پر غصہ کیوں ہو رہے تھے وہ گھورتے ہوئے بولی
فضول بول رہا تھا اسے وقت دیا تھا تم سے بات کرنے کا نیچے سے فلیٹ میں آنے تک اس نے اپنا وقت گزار لیا اب میرا وقت ہے صرف میرا اس کے انداز سے ایک جنون تھا جو جاناں نے شدت سے محسوس کیا
تم بہت ہینڈسم ہو وہ بات بدلنے لگی
مطلب میں تمہیں پسند ہوں وہ دلکشی سے مسکرایا
اب ایسا بھی نہیں ہے وہ ہنسی چھپا گئی
تو پھر کیسا ہے وہ گہری نظر اس کے چہرے پر جمائے ہوئے بولا
تمہارا نام کیا ہے اصل والا۔ ۔وہ اصل پر زور دیتے ہوئے بولیی
جان مرتضی میری عمر 26 سال ہے ڈبل MAکرنے کے بعد نوکری ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی نہیں ملی تو اپنا کام شروع کر دیا اور کامیابی سے چل رہا ہے تمہیں بھوکا نہیں دوں گا شادی کے بعد وہ مسکرا کر بولا
شادی۔ ۔۔۔ جاناں نے حیرانگی سے دیکھا
ہاں تو تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں زندگی بھر تمہیں گرل فرینڈ بنا کر رکھوں گا وہ پرسکون انداز میں بولا
لمحے میں جاناں کے گال لال ٹماٹر ہوئے تھے حیا چھلکتا یہ انداز جان کو بہت بھلا لگتا تھا
مجھے ہوسٹل واپس جانا چاہئے بہت وقت گزر گیا ہے جان وارڈن کو بتائے بغیر آئی تھی وہ گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے بولی ۔
جان بھی بنا کچھ بولنے کچھ بولے کرسی سے اٹھا ۔
ہم پھر کب ملیں گے وہ پوچھنے لگی جان مسکرایا
تم جب چاہے یہاں آ سکتی ہووہ اس کے لئے دروازہ کھولتے ہوئے بولا
وہ خود اسے ہوسٹل چھوڑنے آیا تھا وہ جانے سے پہلے جتنی زیادہ خوفزدہ تھی اب اتنی ہی رلیکس تھی اس کا ڈر بیکار ثابت ہوا تھا جان تو بہت اچھا انسان تھا اور ٹائر بھی جاناں ہوسٹل واپس آنے کے بعد صرف اسی کے بارے میں سوچے جا رہی تھی وہ پوری طرح اس کی سوچوں پر سوار تھا
°°°°°°
آریان کافی خوش اور مطمئن ہو کر ان کے گھر آیا تھا ڈی ایس پی سرنے ڈنر کے بعد کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں اس رشتے کے حوالے سے جبکہ آریان انہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ اگلے ہفتے استنبول جانے والا ہے تین ماہ کے لئے اس سے پہلے ہی وہ شادی کرنا چاہتا ہے
تاکہ ان تین مہینوں میں وہ اس لڑکی کو ٹھیک سے جان سکے جب کہ ڈی ایس پی سر نے کہا تھا کہ ایک بار وہ اس کی مکمل بات کو اطمنان سے سن لے پھر ہی شادی کے بارے میں کوئی بات کی جائے گی۔
جبکہ آریان کا دھیان بار بار دروازے کے دوسری طرف کھڑی اس لڑکی کی طرف جا رہا تھا شاید وہ اسے دیکھنے کی کوشش میں تھہ ائمہ او تائبہ بار بار اندر باہر آ جا رہی تھی مطلب کے وہاں وہی تھی۔
پھر کچھ ہی دیر میں عشرت آنٹی اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی آریان سوچ رہا تھا نہ جانے کیا بات کرنی ہو گی لیکن آنٹی کے باتیں سن کر پریشان ہو چکا تھا ۔
دیکھو بیٹا تائبہ ہماری بیٹی ہے اس کی ذمہ داری ہم لے سکتے ہیں لیکن کسی غیر کی بیٹی کی ذمہ داری ہم نہیں لیں گے ۔ اریشفہ ہماری اپنی اولاد تو ہے نہیں میرے دیور کی بیٹی ہے۔اور کسی کہ بچی کی ذمہ داری اٹھانا بہت مشکل ہے ۔
وہ بھی ایک ایسی لڑکی کی ذمہ داری اٹھانا جو منہوس ہو میرا مطلب ہے پیدا ہوتے ہی ماں باپ کو کھا گئی ہو اس کی وجہ سے حاندان برباد ہو گیا ہو۔
ان کے لب و لہجے میں اس کے لئے نفرت محسوس کرکے وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا ۔لیکن ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی وہ خاموشی سے انہیں سنتا رہا
اور دو سری سب سے اہم بات ہم شادی پر ایک روپیہ خرچ نہیں کریں گے ۔اگر تمہیں اس سے شادی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو تمہیں بنا جہز اس سے نکاح کرنا ہوگا اور جتنا جلدی ہو سکے نکاح کرو
۔
ہم بھی اسے زیادہ وقت اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے اور یہی بات تمہارے انکل بھی تم سے کرنا چاہتے تھے لیکن وہ تمہیں بہت پسند کرتے ہیں اسی لیے یہ ساری باتیں انہوں نے خود نہیں کی لیکن مجھ سے یہی ساری باتیں تم تک پہنچائی ہیں آگے تمہاری مرضی چاہے تو اسے انکار کر دو ۔
وہ کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی گئی جس کے آریان تو سکتے میں چلا گیا تھا جس شخص کی اتنی عزت کرتا تھا وہ کتنا گھٹیا اور گرا ہوا تھا
وہ خود بھی اپنی محبت کو ایسے گھٹیا اور لالچی لوگوں کے درمیان نہیں رکھنا چاہتا تھا جو اسے منہوس سمجھتے تھے کالا سا یہ کہتے تھے
°°°°°°
دیکھو بیٹا تمہاری آنٹی نے تمہیں سب کچھ بتا دیا ہے کیا اس کے بعد بھی تم یہ رشتہ کرنے کے لیے تیار ہو ڈی ایس پی سر سامنے والی کرسی پر بیٹھے اسے دیکھ کر پوچھنے لگے ایک پل کے لئے تو اسے اس انسان سے نفرت ہو رہی تھی کتنا گرا ہوا شخص تھا یہ
کل تک وہ بہت سے زیادہ اس انسان کی عزت کرتا تھا اسے اپنے باپ کا درجہ دیتا تھا لیکن آج اسے خود شرمندگی ہورہی تھی کہ وہ ایسے انسان کے لیے اپنے دل میں اتنی عزت بنائے ہوئے تھا
جی آپ کی مسز نے مجھے سب کچھ بتا دیا آپ فکر نہ کریں ۔ مجھے یہ رشتہ قبول ہے ۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے نکاح سادگی سے ہوگا ۔ آریان نے کہتے ہوئے ایک نظر دوسرے دروازے کے قریب کھڑی اس لڑکی پر ڈالی جو ان کی نظروں سے بچ کر انہیں سننے کی کوشش کر رہی تھی
آریان تو اسے اسی وقت دیکھ چکا تھا جب یہاں آکر بیٹھا تھا تائبہ اور آئمہ دونوں باری باری اس کے سامنے کچھ نہ کچھ رکھنے اس کمرے میں آ رہی تھی جب کہ وہ وہی دروازے کے پیچھے کھڑے نے سن رہی تھی
بہت جلد وہ اسے اس دنیا سے چھپا کر اپنی دنیا میں لے جانے والا تھا جسے وہ دل ہی دل میں بے پناہ چاہنے لگا تھا۔
بیٹا سادگی سے۔۔۔۔! میں اپنی بیٹی کو یوں اتنی سادگی سے رخصت نہیں کرنا چاہتا ۔ڈی ایس پی سر نے مایوسی سے کہا ۔ جبکہ ان کے ڈرامے دیکھ کر آریان کا دل چاہا کہ وہ ابھی ان کے سامنے حقیقت کا آئینہ رکھتے ہوئے بتائے کہ وہ ان کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہے۔
لیکن وہ اس معصوم لڑکی کا کیا کرتا ہے جو اسے اپنا باپ بنائے ہوئے ان کی گفتگو کو چھپ کر سن رہی تھی
دیکھیں سر آپ جانتے ہیں میرا آگے پیچھے اور کوئی نہیں ہے ۔ شادی میں جو بھی لوگ شامل ہوں گے وہ آپ کی طرف سے ہوں گے ۔اسی لیے مجھے نہیں لگتا کہ زیادہ ہنگامہ کرنا چاہیے ۔اور اسلام میں بھی سادگی سے نکاح کا ہی حکم ہے ۔ پوری طرح سے تو نہ سہی لیکن کچھ معاملوں کو ہم اسلام کو فالو کر سکتے ہیں ۔
باقی جو کمی ہو گی وہ میں ولیمے میں پوری کر لوں گا ۔اس کا انداز کافی خشک تھا جو ڈی ایس پی سر کے ساتھ ساتھ ان کی دونوں بیٹیوں نے بھی نوٹ کیا تھا ۔ لیکن اس کا یہ انداز سامنے بیٹھی اور دیکھو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ اگر وہ اتنی آسانی سے ان کی بیٹی کو ٹکرا کر ارشفہ کو دلہن بنانے کو تیار تھا ۔ تو کیا وہ ذرا سے جھوٹ نہیں بول سکتی ۔
لیکن اس سے قیامت تو اس دن آنے تھی جس دن آریان کو یہ پتہ چلانا تھا کہ اس کی ہونے والی بیوی تو گونگی ہے ۔ اور یہ بات کم از کم نکاح سے پہلے تو وہ اسے پتہ چلنے دینے والی نہیں تھی۔ جی شادی کے پہلے ہی دن طلاق کا دھبہ لگا کر گھر واپس آئے گی ۔ اس دن سے پتہ چلے گا اس جیسی لڑکیوں کا کیا انجام ہوتا ہے ۔
بہت پچھتاؤ گی اریشفہ تم نے ہمیشہ میری بچیوں کا حق مارا ہے ان کا باپ ان سے بڑھ کر تمہیں چاہتا ہے ۔وہ اپنی ہی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی جب انہیں آریان کی آواز سنائی تھی
بہت وقت ہوگیا ہے اب مجھے چلنا چاہیے ۔ باقی جب آپ نکاح کی رسم کرنا چاہے میں آ جاؤں گا وہ بہت کوشش کے باوجود بھی اپنے لہجے میں آئی ناگواری کو چھپا نہیں پا رہا تھا ۔
ٹھیک ہے بیٹا اسی جعمے کو نکاح رکھ لیتے ہیں پھر تم تین مہینوں کے لئے استنبول چلے جاؤ گے ۔ اور باقی اریشفہ کے پیپرز تو استنبول میں ہی ہوں گے ۔ وہ اسے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ ڈی ایس پی سر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جبکہ وہ صرف ایک نظر دروازے کو دیکھتے وہاں سے نکل گیا۔
°°°°°°°°
اس ہی شادی رہی تھی وہ بھی یوں اچانک وہ حیران تھی اسے بس اتنا ہی پتہ تھا کہ اس کی شادی کی بات چل رہی ہے لیکن اتنی جلدی شادی کا اس نے تصور تک نہیں تھا
لیکن تایا ابو اتنا زیادہ خوش ہے کہ حد نہیں تایا ابو کی خوشی کے لیے اس رشتے کے لئے ہاں کردی ۔
یہ وہی شخص تھا جو اس دن اسے مارکیٹ میں گھور رہا تھا اور وہ حجاب بھی ان کے سامان میں اسی نے رکھا تھا جواب اس کی الماری میں تھا وہ اس کے تایا ابو کی پسند تھا ۔
اور بس یہی بات اس کے لیے اہم تھی کیونکہ تایا ابو کی خوشی سے زیادہ اور کوئی بات اہمیت نہیں رکھتی تھی وہ تایاابو کو پسند تھا تو مطلب اچھا انسان تھا اور شادی کے بعد اسے اس کے پڑھنے پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا اور اس کے گگونے ہونے کے باوجود وہ اس سے شادی کر رہا تھا ۔
وہ اسے اس کی کمی کے ساتھ قبول کر رہا تھا بس اسے اور کچھ نہیں چاہئے تھا آئمہ اور تائبہ کو تو اسے چھڑے کا بہانہ مل گیا تھا یہ رشتہ تائبہ کا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کی شادی سے بہت خوش تھی۔
وہ تو ابھی سے جمعے کے دن کی تیاریاں شروع کر چکی تھی آئمہ اور تائبہ دونوں گھر کی پہلی خوشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی آریان کے منع کر دینے کے باوجود بھی ڈی ایس پی سر نے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اریشفہ کے نام کردیا تھا آخر وہ ان کی بیٹی تھی وہ اسے خالی ہاتھ تو ہرگز رخصت نہیں کر سکتے تھے
°°°°°°°°
جاناں کو ہوسٹل چھوڑنے کے بعد اس نے اس سے کہاتھا کہ وہ فون پر رات میں اس سے بات کرے گا ۔جاناں کے چہرے پر اپنے محبت کے حسین رنگ دیکھ کے وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا ۔
پرسکون انداز میں گھرمیں داخل ہوا تو آتے ہی اس نے سب دروازے سے لانک کرتے ہوئے کچن کا رخ کیا تھا اسے چائے کی اشد طلب ہو رہی تھی اس نے کیف چراتے ہوئے سفید شرٹ کے اوپری تین بٹن کھولے سرخ و سفید کثرتی جسمانیت پر سیاہ بال اس کی مردانگی کا ثبوت دے رہے تھے ۔
اس نے آگے بڑھتے ہوئے چولہے پر چائے کا پانی چڑھایا اور ساتھ ہی دوسرے چولہے کو ان کرتے اس پر اپنی چُھری رکھ دی۔اور ابلتے پانی میں چائے کے لوازمات ڈال دیئے
چائے کو کاپ ڈال کر وہ شان بے نیازی سے چلتا کمرے کی جانب آیا تھا دروازے کوس نے اپنے پیر کی مدد سے کھولا تھا ۔
اب وہ بیڈ کی جانب آتے ہوئے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا اور بیڈ پر لیٹے موجود کو گھورنے لگا ۔جبکہ ساتھ ساتھ چائے کی گھونٹ بھرتا وہ بھرپور اس کے سرابے پر گہری نظر جمائے ہوئے تھا
حد ہوتی ہے عاصم گھر میں مہمان آئے ہیں اور تم سوئے پڑے ہو وہ لہجے میں ناراضگی لئے ہوئے بولا۔
جب کہ اپنے آپ پر گہری نظروں کا تعاقب محسوس کرتے ہوئے وہ گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔سامنے بیٹھا شخص اس کے لیے انجان تھا لیکن موت کو پہچاننا مشکل تھوڑی نہ ہوتا ہے
گڈ مارننگ وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا ۔انداز اصل جگری یار والا تھا ۔
بی بی ۔۔۔۔بیسٹ لمحے میں اسے پہچان گیا تھا ۔
اگر تم مجھے پہچاننے میں دیر لگاتے تو مجھے بہت برا لگتا وہ ڈرامائی انداز میں بولا
بہت ہی برے مہمان نواز کو تم عاصم میں نے خود چائے بنا کر پی ہے اور تم بھاگنے کی کوشش کیوں کر رہے ہو بھاگو مت مرتے ہوئے زیادہ تکلیف ہوگی وہ اسے بھاگنے کی تیاری میں دیکھ کر بولا جب کہ خالص کسی مہمان کی طرح چائے سے انصاف کر رہا تھا ۔
پلیز مجھے چھوڑ دو بیسٹ میں نے کچھ نہیں کیا میں بے گناہ ہوں وہ خوف کے مارے بیڈ سے اٹھ تک نہیں پا رہا تھا ۔
ہاں عاصم تم نے کچھ نہیں کیا تم تو صرف آٹھ سال کی مہک اور چھ سال کی عروہ کو پاکستان سے اٹھا کر ملائیشیا لے گئے تم نے معصوم بچیوں کو ہوس کے درندوں کے سامنے پھینک دیا وہ خود پر یہ ظلم برداشت نہ کر سکی بچیاں دم توڑ گئیں تو تم نے عاصم تم نے ان کے جسموں کے ٹکڑے کاٹ کر بیچ ڈالے۔
اور تم کہتے ہو کہ تم بھی گناہوں اس کے بعد بھی تم ہی سکون نہیں آیا تم نے ان کی لاشوں کے ملوے کو دفنانے کی بجائے ملیشیا کی پہاڑوں پر پھینک دیا اور یہ سب کچھ تمہاری نظروں میں کچھ بھی نہیں ہے رائٹ دنیا کے سامنے نیک اور شریف بنے وہ یہ گھٹیا کام کرتا تھا ۔
جس کا ثبوت بھی بعد میں کسی کو نہیں ملتا تھا لیکن جس کا ثبوت قانون نہیں ڈھونڈ سکتا تھا ایسے لوگوں کو بیسٹ جڑ سے اکھار کر ان کے انجام تک پہنچاتا تھا اور آج عاصم اپنے انجام تک پہنچنے والا تھا جس طرح اس کے ساتھیوں کو پہنچایا گیا تھا ۔
عروا اور مہک کے ساتھ ہوئی زیادتی کی سزا میں دوں گا کیوں کہ اللہ نے مجھے شاید تمہارے جیسے لوگوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہی اتنی طاقت بھی ہے لیکن باقی سب کا حساب تم خود دینا ۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اس نے بھی کی تھی وہ اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے لگا جبکہ بیسٹ وہیں کرسی پر بیٹھا اس کے کرتب ملاحظہ کرنے لگا ۔
وہ کبھی لاک دروازے کی طرف بھاگتا تو کبھی کسی کی سے کود کر اپنی جان بچانا چاہتا لیکن یہاں سے اگر کوئی دتا تو بہت بری موت مرتا اس کے علاوہ گھر کے تمام دروازے بھی لاکھ تھے وہ اطمینان سے چائے پی کر کب کو ایک طرف رکھنے لگا
عاصم تم میرا وقت ضائع کر رہے ہو دیکھو جتنا میرا نقصان ہو گا اتنی ہی بری موت مروگے اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں دردناک موت ملے تو پلیز مجھے تنگ مت کرو
جلدی سے مرو گھرجا کر جاناں سے فون پر بہت ساری باتیں کرنی ہیں وہ میرے فون کا انتظار کر رہی ہوگی میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے وہ اکتا کر بات کر رہا تھا ۔
پھر نفی میں سر ہلا تا ہوا کچن کی طرف آیا اور چولہے پر رکھی ہوئی چھری کو اٹھا کر واپس آیا اب اس کا وقت مکمل ہو چکا تھا شاید وہ اس گیم سے بری طرح سے اکتا گیا تھا ۔
چلو تمہارا وقت ختم ہوا اچھے بچوں کی طرح مر جاؤ وہ اس کے پاس آتے ہوئے چھری چلا چکا تھا اس کے دو انگیاں کٹ کر زمین پر جا گری وہ چلاتے ہوئے اپنے درد کا اظہار کرنے لگا
شور مت جاؤ بے وقوف آدمی پروسی ڈسٹرب ہوں گے وہ کسی ٹیچر کی طرح اپنے اسٹوڈنٹ کو ڈانٹ رہا تھا جبکہ اس کی بات سن کر اس نے امید کے سہارے چلانا شروع کر دیا تھا شاید کوئی سن کر اس کی جان بچانے آجائے لیکن آج قسمت کو بھی اس پر ترس نہیں آیا تھا ۔
اس کی چیخ و پکار میں اضافہ ہوتا چلا گیا جب کہ وہ کسی معصوم بچے کی طرح اسے بہلاتے ہوئے اس کے جسم کے پیسزکو الگ کر رہا تھا شاید اب اسے ان معصوم بچوں کے درد کا احساس ہوا ہو گا جو بنا کسی جرم کے ایسے حالات کا شکار ہوتےتھے
°°°°°°°°
وہ اس کے جسم کے ہزاروں ٹکڑے کر چکا تھا اب بھی اس کے پاس بیٹھا اپنا پسندیدہ کام سرانجام دے رہا تھا چیخ و پکار تو کب کی دم توڑ چکی تھی ۔ آپ تو صرف سر ہی تھا یہاں جو شناخت رکھتا تھا سر کو اٹھا کر اگر پہچاننے کی کوشش کی جائے تو یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا
کہ یہاں کوئی قتل ہوا ہے یہ کسی جانور کو ذبح کیا گیا ہے جب کہ وہ پرسکون انداز میں کسی قصائی کی طرح اپنا کام کرنے میں مصروف تھا ۔وہ انتہائی احتیاط سے گلوز چڑھائے جسم کے اہم ترین حصے نکال کر میڈیکل مشین میں رکھ رہا تھا ۔
سوری جاناں میں تمہیں بتانا ہی بھول گیا کہ میں کام کیا کرتا ہوں تم نے بھی تو نہیں پوچھا اگر پوچھتی تو بتا دیتاکہ سیریل کلر ہوں۔ لیکن اگر میں نے تمیں یہ بتایا تو تم مجھ سے خوفزدہ ہو جاؤ گی میں تمہیں خود سے ڈرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا لیکن میں تم سے جھوٹ بھی نہیں بول سکتا جاناں۔
وہ خود سے کہتا ہوا اپنا میڈیکل سسٹم کو الگ کر کے اٹھ کھڑا ہوا کمرے میں آیا تو کپ ابھی تک وہیں پڑاتھا اسے اٹھا کر کچن میں لاکر چائے کے اپنے برتن دھونے لگا ۔
دیکھو اس عاصم میں کتنا اچھا مہمان ہوں میں نے اپنے گندے برتن خود ہی صاف کر دئیے اچھا میں چلتا ہوں بہت وقت ضائع کر دیا تم نے جاناں سے بات تک نہیں ہو کر پاؤں گا تمہاری وجہ سے وہ افسوس کرتے ہوئے اپنا سامان اٹھا کر وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔
وہ سیدھا ہسپتال آیا تھا یہ بہت غریب اور لاچار لوگوں کا ہسپتال تھا جہاں صرف خیرات کے پیسوں سے ہی علاج ممکن تھا ۔وہ چہرے پر ماکس لگائے آگے بڑھا جہاں ڈاکٹر پریشان حالت میں کسی کا انتظار کر رہے تھے یہ سامان دوسرے ہسپتال سے بھیجا گیا ہے وہ میڈیکل سٹم ڈاکٹر کو دیتے ہوئے بولا ڈاکٹر نے فوارً سسٹم چیک کیا تھا ۔
اس سسٹم میں چار مختلف خانے بنے ہوئے تھے ایک میں دھڑکتا ہوا دل جبکہ دوسرے میں دو آنکھیں اور باقی دونوں میں کیڈیناں موجود تھی
نرس ڈاکٹر کو بلاؤ دل کا انتظام ہو گیا ہے اس آدمی کی جان بچ جائے گی جاؤ جلدی سے ان سب چیزوں کا میڈیکل جانچ کرو میڈیکل سسٹم نرس کے حوالے کرتے ہوئے وہ اس نوجوان کا شکریہ ادا کرنے لگے ۔
آپ کا بہت بہت شکریہ اپنے باس کا بھی شکریہ ادا کیجیے گا ہمیں اس وقت ایک مریض کے لیے دل کی ضرورت تھی اس کا دل پوری طرح سے ساتھ چھوڑ چکا ہے لیکن جسم میں زندگی کی نوعیت اب بھی باقی ہے
ان کے چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ بھی جب کہ ان کی خوشی اس حد تک سوار تھی کہ انہوں نے پوچھا ہی نہیں کہ سامان کس نے بھیجا ہے
°°°°°°°°
رضی آپ کے بزنس پارٹنر کا خون ہو گیا ہے اور اتنی بے دردی سے کہہ حد نہیں مجھ سے تو یہ خبر دیکھی تک نہیں جا رہی
یہ تو حیوان ہے پورا ذرا رحم نہ آیا
آپ کیا حیوانوں کے سامنے حیوانیت کی باتیں کر رہی ہیں عائشہ کمرے سے نکل کر کچن کی طرف جاتی اونچی آواز میں بولی
کیا حیوانیت کی ہے میں نے تمہارے ساتھ وہ انتہائی غصے سے اس کی جانب بڑھ رہا تھا
میرے ساتھ کچھ بھی کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے آپ میں۔میں تو اپنی ماں کی بات کر رہی ہوں جس کے چہرے پر آپ کی حیوانیت کا نشان ہے
وہ ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی تو وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی ہیں
وہ میری بیوی ہے میں جو چاہے کر سکتا ہوں اس کے ساتھ تم کون ہوتی ہوں مجھے پوچھنے والی وہ غصے سے دھاڑا تھا
میں پوچھوں گی بھی نہیں آپ سے لیکن بیوی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان پر کبھی بھی ہاتھ اٹھا سکتے ہیں وہ بھی اس گھٹیا سو ہم کی وجہ سے وہ بھی ان ہی کے انداز میں جواب دیتے ہوئے بولی
سوہم کی وجہ سے نہیں تمہاری وجہ سے تم نے سو ہم پر ہاتھ اٹھایا اس وجہ سے تمہاری وجہ سے میری دیل ختم ہوسکتی تھی وہ بلند آواز میں چلایا
مطلب ختم ہوئی نہیں بھرے ہی بے غیرت لوگ ہیں ابھی تک دیل ختم نہیں کی عائشہ کو حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا تھا
عائشہ تم سو ہم کو بیکار میں ضد لا کر رہی ہو وہ تمہیں پسند کرتا ہے بہت لکی ہو تم ورنہ اس کے تو آگے پیچھے لڑکیاں پاگلوں کی طرح گھومتی رہتی ہیں اس کی ماں نے سمجھانا چاہا
بھاڑ میں جائے وہ اور بھاڑ میں جائے یہ رشتہ میرے سامنے اس رشتے کا ذکر بھی مت کیجئے گا ورنہ میں آج ہی ہاٹسل چلی جاؤں گی
وہ غصے سے کہتی اپنے کمرے کی طرف چلی آئی تھی اس کا دل چاہا آج ہی واپس ہوسٹل چلی جائے لیکن ہوسٹل میں تو سب کو ہی اس کی ذات سے زیادہ ہی دلچسپی تھی
وہ کسی کی بھی انٹرٹینمنٹ کا سامان نہیں بننا چاہتی تھی اسی لیے چھٹیاں گزار کر واپس جانے کا ارادہ رکھتی تھی ورنہ تو کب کی اس سوہم نامی مصیبت سے جان چھڑا چکی ہوتی
°°°°°°=
جاناں کالج سے واپس آئی تھی جب دوسری کلاس کی لڑکی کو تیار شیار ہو کر باہر جاتے دیکھا کہاں جا رہی ہو وہ سرسری سے انداز میں پوچھ رہی تھی
میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آئس کریم کھانے جا رہی ہو وہ الگ ہی انداز میں بولی
تمہارا بوائے فرینڈ ۔۔۔۔! اسے حیرت کا جھٹکا لگا
ہاں یار وہ میرا ہونے والا شوہر کہتا ہے کہ شادی سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کو سمجھ لینا چاہئے اسی لیے اکثر مجھے اپنے ساتھ باہر آئسکریم یا لنچ پر لے جاتا ہے ہم ایک دوسرے کو کافی اچھے سے سمجھنے لگے ہیں لیکن ایک لیمٹ میں وہ لیمٹ پر زور دیتے ہوئے بولی
تو وہ اس کی بات سمجھ کر اسے بیسٹ آف لک کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف آ گئی تھی کمرے میں آتے ہی اس نے جان کو فون کیا تھا
کہاں ہو تم ۔۔۔۔۔!وہ منہ بسور روٹھےانداز میں بولیی
کام کر رہا ہوں وہ اپنی چھڑیوں کی دھار تیز کرتے ہوئے بولا
کیسے بوائے فرینڈ ہو تم تم نے کبھی مجھے آئس کریم کی آفر نہیں کی میں تمہارے پرپوزل پر کبھی یس نہیں بولوں گی وہ روٹھی روٹھی سی اسے دھمکیاں دینے لگی
میں تمہارا بوائے فرینڈ بن گیا ہوں وہ حیرت زدہ ہوا
تو کیا تم نہیں بننا چاہتے جاناں نے معصومیت سے پوچھا
میں توشوہر بننا چاہتا ہوں وہ مسکرا کر بولا جب کہ اس کی بات پر جاناں کے گال لال ہو گئے تھے
جانے کہاں سے اپنے لہجے میں اتنی نرمی لاتا تھا وہ جاناں سے بات کرتے ہوئے سامنے بیٹھے ٹائر نے سوچا جو کب سے اس کی چھریوں کو دھو دھو کر رکھ رہا تھا
آئس کریم کھانی ہے میرے ماہی نے وہ اس کی حیا کو محسوس کر کے محفوظ ہوا تھا
ہاں وہ بس اتنا ہی بول پائی
15 منٹ میں آتا ہوں تیار ہو جاؤ وہ مسکرا کر فون بند کر چکا تھا ۔
اٹھ ٹائر یہ سب کچھ سنبھال مجھے جاناں سے ملنے جانا ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
میرے ساتھ ایسے بات کرتے ہو اور اپنی جاناں سے کیسے پیار سے میٹھے میٹھے ہو کر بولتے ہو وہ منہ بسور کر بولا
تمارا اور اس کا بھلا کیا مقابلہ وہ گھورتے ہوئے پوچھنے لگا
نہیں مقابلہ نہیں کر رہا ہوں بس یہ بتا رہا ہوں کہ جب اس سے بات کرتے ہو تو تم بیسٹ نہیں لگتے وہ اس کی انفارمیشن میں اضافہ کرنے لگا وہ دلکشی سے مسکرایا ۔
میں بیسٹ دنیا کے لیے ہوں جاناں کیلئے صرف جان ہوں صرف اس کا جان اس پر غصہ ہو کر اس کی فرمائش پوری نہ کر کے اس کی بات نہ مان کر اس کو ڈرا کر خود سے دور نہیں کر سکتا اسے میرے پاس آنا ہے سب کچھ چھوڑ کر صرف میرا بننا ہے
جاناں اپنے جان سے ڈرے گی نہیں بلکہ اس سے محبت کرے گی صرف محبت وہ اس کو اپنے دل کی بات بتا رہا تھا ٹائر تو بس ہائے صدقے کہتا ہے اپنی کاجل سے بھری آنکھوں سے نظر کاٹکہ اس کی گردن کے پیچھے لگانے لگا جبکہ اس کے انداز پر وہ مسکرا کر جاناں کی فرمائش پوری کرنےجانے لگا
°°°°°°°
تو میری ماہی کو کون سا آئس کریم کھانی ہے وہ مسکراتے ہوئے بولا
میرا نام جاناں ہے جاناں تو مجھے ماہی کیوں کہتے ہو وہ اسے گھور کر پوچھنے لگی
کیونکہ تم میری ماہی ہو وہ مسکرا کر بولا ۔
چلو ٹھیک ہے تم مجھے ماہی کہو اور میں تمہیں ۔۔۔۔۔
میں تمہارا جان ہوں۔ وہ اس کی بات کاٹ گیا
اووو ہو تم جو مرضی بولو میں جارہی ہوں آئسکریم آرڈر کرنے تم یہیں بیٹھ کر ویٹ کرو
رکو تم کیوں جا رہی ہومیں جاتا ہوں اور آڑڈر کرکے آتا ہوں وہ اسے روکتے ہوئے بولا
بالکل بھی نہیں آج کی ٹریٹ میری طرف سے ہے اور آرڈر بھی میں ہی کروں گی
ٹھیک ہے تم آرڈر کر کے آ جاؤ لیکن یہ ٹریٹ میری طرف سے میرے خاندان میں ہونے والی بیوی کا خرچہ اٹھانے کا رواج ہے وہ دلکشی سے مسکرا کر بولا جبکہ اس کی بات کے جواب میں جاناں کے گال لال ہو گئے
اب اگر شرمآ لیا ہو تو کچھ کھانے کو لے آو یار میں نے لنچ بھی نہیں کیا وہ اسے شرماتے ہوئے دیکھ کر بولا ۔تو جاناں کو وہاں سے کھسکنے کا بہانہ مل گیا وہ فوراً وہاں سے اٹھ کر کاونٹر پر جانے لگی
وہ بھی آرڈر کر کے مڑنے ہی والی تھی کہ اسے اپنی کمر پر سخت گرفت محسوس ہوئی اس نے نظریں اٹھا کر جان کی جانب دیکھا جو اسے دیکھنے کے بجائے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا آنکھوں میں اتنی وحشت تھی کہ جاناں گھبرا کر رہ گئی ۔
سامنے ہی کاؤنٹر پر موجود کچھ آوارہ لڑکے اسے عجیب نظروں سے سر سے پیر تک دیکھ رہے تھے جان کو دیکھتے ہوئے ہیں وہ اندازہ لگا چکی تھی کہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے جان کو بہت غصہ آرہا ہے اور یقینا جان نے اب ان کو کچھ ایسا ضرور کرنا تھا جو ان لڑکوں کو عقل آ جاتی اس نے فورا جان کے سینے پہ ہاتھ رکھا چلو یہاں سے وہ وحشت سے بولی۔
ڈانٹ یو ڈیر شی از مائنڈ ۔۔۔وہ نرم لیکن انتہائی سرد انداز میں بولا ۔اور اس کے انداز پر وہ لڑکے بھی کچھ ہربڑا کر دونوں ہاتھ اوپر لہراتے باہر کی طرف بڑھ گئے جاناں کو کچھ سکون آیا
جاناں کو کچھ سکون آیا جان اوڈر کر رہا تھا جبکہ جاناں کا دھیان اب بھی ان لڑکوں کی طرف تھا جواب قہقے لگاتے ہوئے باہر کی جانب جا رہے تھے کے اچانک دو تین لڑکوں نے مڑ کر واپس کاؤنٹر کی طرف دیکھا اور اسے انتہائی گندے انداز میں دیکھتے ہوئے آنکھ مارتے قہقہ لگا کر باہر نکل گئے یہ تو شکر ہے ان کی یہ حرکت جان کی نظروں میں نہیں آئی تھی ۔
اس نے اگلے ہی لمحے جان کا تھامتے ہوئے اسے دوسرے ٹیبل کی طرف بڑھایا وہ نہیں چاہتی تھی کہ جان دروازے کی جانب بھی جائے آج جان کے انداز میں اس نے جو استحقاق سنا تھا اس کے بعد جہاں وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھ رہی تھی وہی اسے جان سے خوف بھی محسوس ہوا تھا ۔
°°°°°°
کتنے عجیب ہوتا ہے نا انسان دنیا کے سامنے اتنا اچھا اور اندر ہی اندر نجانے کیا کیا راز چھپائے ہوئے ہوتا ہے آریان کو ڈی ایس پی سر ہمیشہ سے بہت اچھے لگتے تھے وہ کبھی بھی ان کے بارے میں اتنا برا نہیں سوچ سکتا تھا لیکن اریشفہ کی محبت نے جیسے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی تھی اس کے ساتھ کچھ برا ہوا اور کرنے والے یہ لوگ تھے
تو کیا ڈی ایس پی سر بھی اریشفہ کو مہنوس کہتے تھے وہ انسان جو کچھ ہی دن میں اس کے لئے اس کی جان سے زیادہ عزیز ہو گیا تھا اسے کوئی برا کہے تو کہے کیوں شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتا تھا بس جلد سے جلد اپین اریشفہ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا
اس وقت بھی جب ڈی ایس پی سر نے کہا کہ اریشفہ کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور ڈریس سلیکٹ کر لو اسے خوشی ہوئی تھی ۔
وہ بھی شادی سے پہلے ایک بار اس سے ملنا چاہتا تھا اسے اپنے دل سے بات کہنا چاہتا تھا
لیکن کہیں نہ کہیں ڈی ایس پی سر کی طرف سے بے اعتباری اس کے دل میں بس گئی تھی اسے سچ میں انکی حقیقت جان کر افسوس ہوا تھا وہ انہیں بہت زیادہ عرصے سے نہیں جانتا تھا تقریبا ایک ڈیڑھ سال سے اور وہ بھی صرف ڈیوٹی ہاؤرز میں لیکن پھر بھی وہ اسے بہت اچھے لگتے تھے
اس نے گاڑی گھر سامنے روک دی اور دروازہ کھٹکٹایا آنٹی خود دروازے پے آئی تھی
آنٹی اریشفہ کو باہر بھیجنے ہمیں ویڈنگ ڈریس لینے جانا ہے اس نے انہیں سلام کرتے ہوئے کہا کہ آنٹی کے چہرے پر فکر مندانہ تاثرات تھے
ارے بیٹا عرشی تو گھر نہیں ہے وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنی سہیلی کے گھر گئی ہے آنے میں کافی وقت لگ جائے گا تم اندر آؤ بیٹھو وہ مہمان نوازی کرنے لگی
نہیں میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مجھے واپس جانا ہوگا ڈیوٹی ہاؤرز ہیں صرف لنچ بریک میں باہر آیا تھا چلیں کوئی بات نہیں میں کل آ جاؤں گا نہیں بلکہ کل تو نکاح ہے وہ پریشانی سے بولا
پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنی جیب سے کچھ نکال کر ان کے حوالے کیا۔ آنٹی پلیز آپ خود اس کے لیے ڈریس لے آئیے گا یہ میرا کارڈ ہے ۔ میں جانتا ہوں یہ کچھ عجیب ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی اپنے نکاح پر میری طرف سے ڈریس پہنے
وہ انہیں کارڈ تھماتے ہوئے بولا جب کہ انہوں نے اس کا دل رکھنے والے انداز میں کارڈ تھام لیا ۔
اور دروازہ بند کر کے اندر کمرے میں داخل ہوئی ۔
اریشفہ اندر بیٹھی اپنے پیپرز کی تیاری کر رہی تھی کل اس کا نکاح تھا اور آج وہ اپنی پڑھائی میں بری طرح سے مگن تھی
اچھا ہی تھا اگر اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ دروازے پر کون آیا ہے تو مسلہ ہو جاتا
تائبہ اور ائمہ دونوں ہی شاپنگ پر گئی ہوئی تھی اگر وہ آریان کے ساتھ چلی جاتی تو یقینا اس کو پتہ چل جاتا کہ وہ گونگی ہے اور ان کا کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا
°°°°°°°°
وہ اس وقت ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے آگے پیچھے ہر طرف صرف اور صرف گاڑیاں ہی گاڑیاں تھی وہ دونوں ہی ٹریفک کھلنے کا انتظار کر رہے تھے جب جاناں کی نظر کے پار ایک بزرگ پر بڑی بڑی مشکل سے سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے
اس نے ایک طرف ہو کر جان کو مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے دیکھنے سے پہلے ہی جان ان بزرگ کے مسلے کو جان چکا تھا ۔
اور اب ان کے پاس پہنچ کر سہارا دے کر سرک پار کر آنے لگا ۔
کتنا اچھا تھا وہ جاناں سوچ کر مسکرائی ۔
اسی لڑائی جھگڑے سے شروع سے الجھن تھی جہاں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو تو وہاں سے کوسوں دور چلی جاتی اور شکر ہے جان بھی اس کی ذات کو پہچاننے لگا تھا ۔ اسی نہیں پتا تھا جان جگرالو ہے یا نہیں لیکن اس کے سامنے وہ اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتا تھا انتہائی نرم اور خوبصورت انداز ہر کسی کے درد کو سمجھنے والا تھا جان ۔وہ سوچ کر مسکرائی
یہ جانے بغیر کہ اس کا لوگوں کو کاٹنے کا انداز بھی انتہائی نرم تھا ۔
وہ جان بھی محبت سے لیتا تھا ۔
وہ اپنے شکاری کو کسی بچے کی طرح ٹریٹ کرتا تھا ۔
جان نے آکر گاڑی کا دروازہ کھولا اور گاڑی آگے بڑھا دی ٹریفک کھلا جاناں کو خود بھی پتا نہیں چلا تھا ۔
اگلی بار کب آوو گی آئس کریم کھانے اس نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر پوچھا
جب میرا دل چاہے گا وہ الگ ہی ترنگ میں بولی ۔
جان مسکرایا میں دو دن کے لئے کسی کام کے سلسلے میں باہر جا رہا ہوں دو دن تم سے ملاقات نہیں ہو گی اس نے مسکراتے ہوئے لیکن اداس لہجے میں کہا تھا ۔
کوئی بات نہیں تم اپنا کام کر کے مجھے آئس کتیم کھلانے آ جانا اس نے مسکرا کر شرارت سے کہا تو وہ بھی ہنس دیا
مطلب کی یہ جو مجھے بوائے فرینڈ والی سیٹ ملی ہے تمہں آئس کریم کھلانے کے لیے ملی ہے اس نے گھورتے ہوئے پوچھا جس پر جاناں نے زور زور سے ہاں میں سر ہلایا ۔اور پھر دونوں ہی مسکرا دیئے
°°°°°°°
سڑک کے بیچوں بیچ تین لڑکے ایک لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس نے اچانک گاڑی روکی سر پر ہڈ ڈال کر آگےبڑھ رہا ۔
مدد کرو یہ لوگ میرے ساتھ زبردستی کررہے ہیں لڑکی نے بھاگتے ہوئے اس کی طرف قدم بڑھائے اور مدد کے لئے پکارنے لگی یہ نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کر چکے ہیں پلیز میری مدد کرو یہ کلب میں ڈرگز بھیجتے ہیں میں وہیں پر کام کرتی ہوں آج میں نے ان لوگوں کو یہ کرتے ہوئے دیکھ لیا یہ میرے ساتھ بھی وہی کرنے جا رہے ہیں جو آج تک سب کے ساتھ کرتے ہیں وہ لڑکی ترکش میں کہتی اس کے پیچھے چھپتی اسے اپنا محافظ سمجھنے لگی۔
یہ تو وہی لڑکا ہے جو دن میں اس لڑکی کے ساتھ تھا ان میں سے ایک لڑکے نے ترکش زبان میں کہا۔
ہاں میں وہی ہوں جان آگے قدم بڑھاتے ہوئے اس کے پاس روکا ۔
میں نے تم سے کہا تھا نہ وارن کیا تھا تمہیں کیا اس کی طرف مت دیکھو پھر بھی تم نے اس کی طرف دیکھا ۔ کیوں دیکھا تم نے میری جان کو گندی نظر سے وہ انتہائی غصے سے بولا تھا اس نے اپنی جیب سے ایک سرینج نکالی
جو کہ پیک تھی مطلب کی بات بالکل نیو تھی لڑکے نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ نہ جانے کیا کرنے جا رہا تھا ۔
ہے یوں تم اپنی ڈاکٹری کسی ہسپتال میں جا کر کرو ہمیں ہمارا کام کرنے تو وہ اسے دھکا دیتے ہوئے بولا جبکہ جان ہوا کو سرینج میں لوڈ کرتے ہوئے اگلے ہی لمحے انجیکشن اس کی گردن میں مار چکا تھا ۔
ایک لمحے کم ہوا تو لگا تھا اس لڑکے کو موت کا مزا چکھنا ہے ہوئے ۔
اگر ڈاکٹری ہسپتال میں کروں گا تو تم لوگوں کا علاج کون کرے گا وہ مسکراتے ہوئے دوسرے لڑکے کی طرف بڑھا اور اس کے ساتھ بھی اس نے بالکل ایسا ہی کیا تھا تیسرے نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کا کام تمام کر چکا تھا
دور کھڑی لڑکی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی
میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی میں نے کچھ نہیں دیکھا وہ کہتے ہوئے پیچھے کی طرف آ گئی تھی جبکہ جان جانتا تھا وہ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گی
°°°°°°°
ارے عرشی تجھے چھٹیاں گزارنے بھیجا تھا یا شادی کرنے تجھے پتہ ہے میں تیری شادی پر نہیں آسکتی اتنے دور میں آؤگی اور بابا بھی فون نہیں اٹھا رہے ان کی اجازت کے بغیر میں وہاں نہیں جا سکتی اور جان وہ بھی تو یہاں نہیں ہے کل ہی وہ پتا نہیں کون سے کام کے سلسلے میں کہاں گیا ہے دو دن بعد واپس آئے گا وہ بے اختیار ہیں بولی تھی
جبکہ عرشی اشاروں سے پوچھ رہی تھی کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہی ہے اسے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا
تم شادی وغیرہ کرکے واپس آؤ نا پھر تمہیں بتاؤں گی ارے تمہیں تمہارا شوہر شادی کے بعد ہوسپٹل آنے تو دے گانا تم اپنی پڑھائی تو مکمل کرو گی نا وہ پریشانی سے بولی
جس پر عرشی نے اطمنان سے ہاں میں سر ہلایا تھا
شکر ہے ورنہ تو میں تو پریشان ہوگئی تھی تمہیں پتا ہے عاشی نے جانے کے بعد صرف دو تین میسج کیے ہیں مجھے فون بھی دو تین منٹ میں بند کر دیتی ہے وہ منہ بناتے ہوئے اسے شکایت کرنے لگی جب کہ وہ روز رات کو ایسے بہت سارے میسیج کرتی تھی ۔
جبکہ فون تو وہ خود جلدی میں بند کر دیتی تھی کہ اسے جان سے بات کرنی ہوتی تھی لیکن عاشی کو بھی اس نے جان کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا اس نے سوچا تھا وہ دونوں یہاں آئیں گی تو وہ انہیں سکون سے اس کے بارے میں سب بتائے گی ۔
اچھا تو بتا اپنے منگیتر کے بارے میں کیسا دکھتا ہے ہینڈسم تو ہے نہ کرتا کیا ہے وہ اکسائیڈ ہو کر پوچھنے لگی جب کہ وہ اشارے سے سر پر ٹوپی لگاتی اسے بتانے کی کوشش کرنے لگی
کیا ٹوپیاں بیچتا ہے اس نے شرارت سے کہا جس پر وہ نفی میں سر ہلا تی ناراضگی کا اظہار کرنے لگی
ویڈیو کال پر وہ ناراض ناراض شرمائی شرمائی بہت پیاری لگی تھی اور اوپر سے آج تو ائمہ اسے زبردستی پالر لے کر گئی تھی اور بیوٹیشن میں تو واقع ہی اس کے حسن کو فیشل سے کافی نکھار دیا تھا
پھر جاناں اسے مانا کر ایک بار پھر سے اس کے بارے میں پوچھنے لگی جب وہ اپنے ہاتھ میں ڈنڈا پکڑ کر سر پر ٹوپی لگاتی اسے سمجھانے لگی اور اس بار جانا واقعہ ہی سمجھ گئی تھی کہ وہ پولیس انسپکٹر ہے ۔
اس نے اس کی خوشیوں کے لیے بہت ساری دعائیں کی یقینا وہ شخص بہت اچھا تھا جو اسے اس کی کمی کے ساتھ قبول کر رہا تھا اور اس کے تایا ابو بھی تو بہت اچھے تھے وہ کبھی اسے کسی غلط انسان کی زندگی میں شامل نہیں کر سکتے تھے
°°°°°°°°
سر آپ کے گھر کو بہت اچھے طریقے سے صاف کروا دیا ہے سب کچھ پرفیکٹ ہے عمران جو کہ کل سے استنبول اس کی شادی کی تیاریوں میں آیا ہوا تھا اسے فون پر بتانے لگا ۔
دیکھو عمران کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے تمہاری بھابھی کو ذرا بھی گندگی محسوس نہ ہو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ اس گھر میں کوئی مرد رہتا ہے اتنے اچھے سے صاف کرنا کہ میرا پہلا انپریشن اس پر اچھا پڑھے۔ کو سمجھاتے ہوئے بولا تو عمران مسکرایا
سر آپ پریشان نہ ہوں میں نے سب کچھ بہت اچھے سے کروایا ہے عمران نے ہنستے ہوئے جواب دیا تو اس نے بھی اطمینان سے فون بند کر دی۔
اس کی ہر سوچ پر صرف اریشفہ سوار تھی اوہ س سے ملنا چاہتا تھا بے شمار باتیں کرنا چاہتا تھا اسے اپنے دل کی ہر بات کہنا چاہتا تھا اور نہ جانے کتنی باتیں ہوں گی جو وہ اس سے کرنے کے لیے بے چین ہو گئی
۔
کل سے تم میری زندگی میں شامل ہو جاؤ گی اور میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمیہں کبھی بھی ایک اچھے ساتھی کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا میں تمہیں اتنا پیار دوں گا قسمت کے ساتھ دنیا تم پررشک کریں گی۔
وہ چھت کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی کے حسین خواب سجا رہا تھا
°°°°°°°°
عائشیہ سوہم ایک بہت اچھا انسان ہے تم اس کے ساتھیہ سب کر کے اپنا فیوچربرباد کر رہی ہو وہ ایک بار پھر اس کے سامنے بیٹھی اسے سمجھا رہی تھی لیکن وہ کچھ بھی سمجھ نہیں چاہتی تھی
آپ اس کی وکالت کرنا بند کریں زہر لگتا ہے مجھے وہ شخص اور دوسرا آپ کا شوہر نہیں رہوگی میں زیادہ دن یہاں کچھ دن سکون سے رہنے دیں چلی جاؤں گی میں یہاں سے وہ انتہائی غصے سے کہتی ان کے قریب سے اٹھنے لگی لیکن وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی
ایک عورت کو زندگی جینے کے لیے ایک مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے عائشہ اس بات کو سمجھ جاؤ تمہارے لئے بہتر رہے گا تم اپنی زندگی برباد کر دو گی اس طرح تمہارا باپ بھی میرے آگے پیچھے پھیرا کرتا تھا شادی سے پہلے لیکن میں اسے اکثر اس کی اوقات یاد دلاتی رہتی لیکن جب وہ میرے گھر رشتہ لے کر آیا تو میری ماں باپ نے انکار نہیں کیا تھا گھونگٹ اٹھاتے ہی اس نے پہلا لفظ جانتی ہو مجھے کیا کہا
اس نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے میری اوقات دلاتی ہے یاد دلادیتی رہی اور دیکھو تمہاری اوقات کیا ہے تم میری ہی سج سجا کر بیٹھی ہواس زندگی کے سات سال پل پل مجھے اس بات کا احساس ہوتا رہا کیوں میں شادی سے پہلے اس سے ٹھیک سے بات نہیں کی
تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کہ میں نے شادی کے سات سال کتنے مشکل گزارے ہیں
سکون سے تو آپ زندگی اب بھی نہیں گزار رہی ماما وہ طنز کرتے ہوئے بولی شاید اپنے باپ کی بڑھائی اس سے برداشت نہیں ہوئی تھی ۔
ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم سکون سے تو میں اب بھی زندگی نہیں گزار رہی لیکن اس وقت مجھے پتا ہے کہ میرے پاس ایک سہارا تو ہے اگر کبھی مجھ پر کوئی سوال کیا گیا تو میرا شوہر جواب دینے کے لیے تیار رہے گا میں بے سہارا نہیں ہوں۔
میرا شوہر ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑا ہے وہ جیسا بھی ہے مجھے بہت چاہتا ہے اور میں ایسی خواہش تمہارے لئے بھی کرتی ہوں
بس کر دیں ماما اپنی زندگی سکون سے جینے کے لیے میں کبھی کسی غلط چیز کا ساتھ نہیں دوں گی وہ غصے سے کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی گئی جب کہ وہ ہمیشہ کی طرح سے جاتے ہوئے دیکھتے رہیں
°°°°°°°°
باہر آ کر بھی اسے سکون نہیں ملا تھا گھر میں رہ کر ماں اسے باتیں بتاتے رہتی ہیں اور باہر آ کر بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
اور نہ ہی طہٰ بخاری اسے واپس ملا تھا تاکہ وہ اسے اس کی بانسری واپس کر سکے ہاں لیکن وہ ہمیشہ اس کے پاس ہی رہتی تھی ۔
بھائی تمہاری قسمت میں تمہارے مالک کا ملنا لکھا ہی نہیں ہے وہ بانسری سے کہتی اسے واپس اپنے بیگ میں رکھ کر آہستہ آہستہ آگے کی طرف چلنے لگی جب دور سڑک پر اسے بانسری کی ہی مدہم سی سنائی دی
وہ اس کی طرف بھی چلی گئی بے اختیار ہی سہی لیکن وہ اس کی لڑائی کو بھول کر اس کی بانسری کی دھن سن رہی تھی آج سے پہلے اس نے کبھی بھی بانسری کی آواز کو نہیں سنا تھا
بلکہ اسے تو اس طرح بے اختیار سڑکوں پر کھڑے رہنے والے لوگوں سے چڑ تھی لیکن آج نہیں سامنے وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہی پر جس کی امانت اس نے اسے لوٹانی تھی وہ آنکھیں بند کیے آہستہ آہستہ سر ہلا رہا تھا ۔
عائشہ کو کافی ایٹریکٹیو لگا اپنی خوبصورتی کو بہت استعمال کرتا تھا اس کی دھن سے لطف اندوز ہو کر لوگ اس کی ٹوپی میں پیسے ڈال رہے تھے کافی اچھا طریقہ تھا یہ پیسے کمانے کا وہ انپرسڈ ہوئی تھی
سب لوگ آہستہ آہستہ سے اس کی ٹوپی میں پیسے ڈال کر نکلتے چلے جارہے تھے وہ بھی وہیں پاس کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہی تھی
سو مسٹر طہٰ بخاری تو تم یہاں یہ کام کرتے ہو تم نے تو کہا تھا کہ تم بے کاری نہیں ہو لیکن یہ کام تو بیکارہوں والے ہی ہیں وہ مسکراتے ہوئے اسے جتا رہی تھی
جب اگلے ہی لمحے اس نے اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اس کی کیپ میں پھینکنا چاہیے لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا ۔
ا میں صرف ان لوگوں سے لیتا ہوں جو میرے ٹیلنٹ کو اپنے سکون کے لئے استعمال کرتے ہیں ان لوگوں سے نہیں جو اپنے پیسے کا رعب جما کر میرے ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اپنی دولت پھنک کر چلے جاتے ہیں محترمہ پھینکے ہوئے پیسوں پر تو میں لعنت بھی نہیں بھیجتا
وہ اس کا ہاتھ پھینکنے والے انداز میں دور کر چکا تھا ۔
بڑے ہی کوئی ڈیھٹ انسان ہو یہ سب بھی بھیک مانگنے کے ہیں برابر ہے وہ اپنی جیب سے بانسری نکالتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگی
خیرتم سے بحث کرنے کا وقت میرے پاس بالکل نہیں ہے میں نے تمہاری اس چیز کو واپس کرنا تھا یہ اس دن مجھے اس جگہ لی تھی جہاں میں نے تم سے مدد مانگی تھی سو میں تمھاری مدد کے بدلے تمہیں تمہاری چیز واپس کر رہی ہو حساب برابر وہ بانسری کے حوالے کرتے ہوئے بولی اور اس نے نوٹ کیا تھا اس بانسری کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر رونق سی آ گئی تھی
ہاں سہی کہا تم نے حساب برابر میں اس چیز کا ہمیشہ تمہارا مشکور رہوں گا یہ میرے لئے بہت قیمتی ہے وہ مسکرا کر اس کا تلخ لہجہ نظرانداز کر چکا تھا
اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک بار پھر سے لوگوں کا ہجوم جمع ہونے لگا اسے سننے کے لیے بہت سارے لوگ منتظر بیٹھے تھے ۔لیکن عائشہ کا اس کے پاس کھڑے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ اس کے اس ٹیلنٹ سے انپریسڈ نہیں ہوئی تھی اسی لیے واپس جانے لگی لیکن جیسے ہی اس نے دھن بجانا شروع کی اس کے قدم جم سے گئے
وہ بہت چاہنے کے باوجود بھی اس دن کو نظر انداز نہیں کر پائی تھی پیاری تھی مدہوش کر دینے والی دھن ۔
°°°°°°°°
باربی سنے درندگی کی انتہا کر دی تھی ایم صرف تصویریں ہی دیکھ پایا کیونکہ ان کی تیاریوں میں بیزی تھا ویسے تو آج وہ چھٹی پر تھا لیکن کام زیادہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی کام ختم کرکے کل پیاری ماں کو لیکر استنبول روانہ ہو جانا چاہتا تھا لیکن پھر بھی کامل کی ذات کا سب سے پہلا حصہ تھا
یہ کام بھی بیس تک کا ہی تھا میں لاش کی آنکھیں نکال کر اس نے لاش کے ماتھے پر بھی سفر دیکھا تھا ۔
کون تھے یہ لوگ اور بیس ٹریننگ کیوں مار رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لاش کے اتنے ٹکڑے کیے گئے تھے کہ اب شور نہ ناممکن تھا لاش مسح ضروری فضول نکال لیے گئے تھے اگلا شخص کے گھر سے نہ ملتی تو وہ بھی پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ فلاسفر کس کی ہے ۔
گھر میں کوئی بھی فالتو یا کوئی بھی چیز بے ترتیب نہیں تھی جب سے بیس کی کسی غلطی کا اندازہ لگایا جا سکے ۔
بہت چالاک آدمی ہے اتنی آسانی سے ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا علی نے تصویریں دیکھتے ہوئے عمران سے کہا جو کافی گہری نظر سے تصویروں کو دیکھ رہا تھا وہ آج ہی استنبول سے واپس آیا تھا
عالین کے میں بہت مضبوط دل کا شخص ہوں لیکن اس آدمی کو دیکھ کر مجھے بھی بھوک محسوس ہو رہا ہے اس نے اپنے دل کی بات کہی توارین مسکرا دیا
ذرا سوچو عمران جس شخص نے یہ کام کیا ہے اس نے کیسے کیا ہوگا کوئی بکریوں کو بھی اس طرح سے زباں نہیں کرتا جس طرح اس نے انسان کی گردن کاٹی ہے ۔
مجھے تو لگتا ہے یہ کوئی قصائی ہے ۔ عمران نے تصویریں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ۔
میری بھی ایسی ہی رائے ہے ۔وہ دونوں فوٹوگرافیک لیپ سے باہر آئے تھے ۔۔
°°°°°°°°
وہ سو رہی تھی انتہائی گہری نیند میں جب کہ جان اس کے پاس بٹھا تھا اس کے چہرے کے ایک کے نقش کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔
تین دن کے بعد دیکھ رہا ہوں تمہیں دیکھو کیا حال ہو گیا ہے تمہارے دیوانے کا۔میں نے کہا تھا صبح تم سے ملوں گا لیکن ٹائر نے کہا رات کو اسی حالت میں رہے گے تو مر جاؤ گے بس موت کے ڈر سے بھاگا چلا ابھی تو ملی ہو تم ابھی تو محسوس کیا ہے تمہیں تمہارے ساتھ جیے بنا مرنا نہیں چاہتا
کیونکہ مجھے بھی یہی لگ رہا تھا کہ اب تمہیں نہیں دیکھا تو مر جاؤں گا
کیوں ہو تم اتنی پیاری ہاں میرا دل ہی نہیں لگتا تمہارے بنا جاناں اگر ایسے سب کچھ چلتا رہا تو میں کیسے کام کروں گا اور اگر میں کام نہیں کروں گا تو وہ گندے لوگ سب کچھ تباہ کر دیں گے ۔
اور یہ قانون پولیس ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے تمہیں پتا ہے ٹائر میرا دوست میری جان ایسی ہی ایک قانون کے محافظ نے میرے اس دوست کو موت کے دورائے پر کھڑا کر دیا ۔تمہیں پتا ہے وہ کیسے تڑپتا تھا ساری ساری رات روتا رہا اس رات کو یاد کر کے وہ پل پل مرتا رہا لیکن میں اپنے دوست کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا میں نے بھی اس کا وہی حال کیا جس کا وہ حقدار تھا
تمہیں پتا ہے اس دن ٹائر کتنا نچا خوشی سے بالکل پاگل ہو گیا تھا ۔
جیل میں گزرا وہ وقت بہت برا تھا جاناں بہت برا جب بھی وہ وقت یاد آتا ہے نابتو وہ چھڑا ہوا دوست یاد آجاتا ہے پتہ نہیں وہ آج کہاں ہو گا ۔
جہاں بھی ہوگا بہت خوش ہوگا ۔اہ ہو میں بھی کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا میں تو تمہیں دیکھنے آیا تھا ۔تم سے اپنے دل کی باتیں کرنے آیا تھا تو میں اپنے دل کا حال سنایا تھا یہ تین دن میں نے تمہارے بغیر کیسے گزارے بتانے آیا تھا ۔
اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا لبوں سے لگا کر ایک بار پھر اسکے چہرے کے نقوش میں کھو سا گیا جب کہ وہ اپنے آپ کو شاید نیند میں بھی محفوظ محسوس کرکے گہری نیند میں تھی۔
°°°°°°°°
شادی کا ڈریس آریان کی طرف سے تھا
جو بے حد خوبصورت تھاوہ خود بھی کسی حسین پری سے کم نہیں لگ رہی تھی
۔ بری بری گہری جیل آنکھیں جن کا آریان دیوانہ ہو گیا تھا۔
پیاری سے چھوٹے چھوٹے پنکھڑی ہونٹ اور چھوٹی سی ناک ۔رنگت سفید تھی لیکن اس وقت آئمہ اور تائبہ کی چھڑچھاڑ کی وجہ سے وہ مکمل سرخ ہوئی پری تھی ۔
اس نے عائشہ کو بھی فون کر کے بتایا تھا۔ کہ اس کا نکاح ہے ۔لیکن جانتی تھی اس کا اتنی جلدی میں یہاں آنا ممکن نہیں ہے اور ویسے بھی اس کی فیملی باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی بالکل جاناں کی طرح
کاش آج زندگی کے سب سے اہم وقت پر اس کی سہیلیاں بھی اس کے ساتھ ہوتی
اس کے دل میں ایک حسرت تھی لیکن یہ بھی تھا واپس انئیں کے پاس ہی تو جا رہی تھی ۔ یقیننا اریان ویسے اس کی ہر کمی کے ساتھ قبول کر رہا ہے اس کی سہیلی سے ملنے سے منع تو نہیں کرے گا
آج آریان کا سوچتے ہوئے بھی اس کے گال لال ہونے لگے تھے ابھی تو وہ شخص زندگی میں شامل تک نہیں ہوا تھا کہ اتنا پیارا لگنے لگا تھا ۔وہ سوچ کر مسکرا دی
نکاح کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھی
اسی دلہن کی طرح سجایا گیا اریشفہ نے اپنے آپ کو کبھی اتنا حسین محسوس نہیں کیا تھا جتنی آج وہ آریان کی دلہن بن کر لگ رہی تھی
نکاح میں بہت کم لوگ شامل تھے ۔ان کے خاندان بلادری والے بہت لوگ تھے لیکن جنہوں اچانک نکاح وجہ سے بہت ناراضگی کا اظہار کیا لیکن بابا نے بھی کہہ دیا کہ اچھا رشتہ تھا اور لڑکا بھی بہت اچھا ہے ان کے ساتھ ہی کام کرتا ہے انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی بھتیجی کے بارے میں سوچا ۔
°°°°°°°°
نکاح کی رسم ادا ہوئی اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نکاح نامے پر سائن کیے آریان کافی غور سے اس کی آواز کو سننے کے لیے منتظر تھا ۔وہ سامنے ہی تو بیٹھا تھا یہ رسم باہر لان میں کی گئی تھی درھیان میں جالی دار پردہ لگا دیا گیا ایک کرسی پر اریشفہ کی دوسری کرسی پر آریان بیٹھا تھا
وہ نقاب میں ایک مکمل حیسن کا پیکر لگتی تھی آج سامنے آئی تو آریان کا نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا
اسے قبولیت کے وقت اریشفہ کی آواز سنائی نہیں دی گئی لیکن نکاح نامہ پر سائن ملتے ہی مولوی صاحب اٹھ کر اس کی طرف آ گئے وہ تھوڑی پریشان ہوا تھا اس کی شرم و حیا کو سوچتے ہوئے مسکرا دیا
اور حاموشی سے نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے رسم مکمل کر دی اور اب سامنے بیٹھی وہ خاموش سی شرمائی شرمائی سی لڑکی اس کی ملکیت تھی نکاح کے بعد پردہ ہٹا دیا گیا ۔
آریان نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی اگلے ہی لمحے دوبارہ نظر جھکا گئی تھی اس انداز پر وہ گہرا سا مسکرا دیا تھا
رخصتی کا وقت بھی آہی گیا وہ اپنے تایا کے آنگن سے اپنے ساجن کی آنگن کی طرف قدم اٹھا رہی تھی ۔بہت سنجیدہ سا ماحول تھا تایا ابو نے بہت کچھ دینے کی کوشش کی لیکن آریان کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ وہ ان سے صرف اپنی دلہن لینے آیا ہے
انہیں اپنی پسند پر فخر تھا انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔قرآن کے سائے میں انہوں نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا
جبکہ اگلے ہی لمحے تائی اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی وقت دور نہیں جب وہ خود اسے اسی حالت میں واپس چھوڑنے آئے گا ۔
پیار محبت اپنی جگہ لیکن کوئی بھی شخص اتنی بڑی کمی کے ساتھ ایک لڑکی کو ساری زندگی کے لیے قبول نہیں کر سکتا تھا اریشفہ کو واپس اسی گھر میں آنا تھا اور اس گھر میں ان کی بیٹی ائمہ نے آریان کےگھر جانا تھا
تم نے میری بیٹی کی جگہ لی ہے اریشفہ اتنی آسانی سے تمہیں چھوڑوں گی نہیں اور آریان تم نے میری بیٹی کو ٹکرا کر ایک گونگی لڑکی کو اپنایا تمہیں تو سزا دینا بنتی ہے
°°°°°°°°
آریان خود کار ڈرائیو کر رہا تھا جب کہ اریشفہ ابھی تک آنسو بہا رہی تھی اپنوں سے بچھڑنے کا بھی الگ ہی غم ہوتا ہے اسے کوئی نہیں سمجھ پاتا جن کے ساتھ ساری زندگی گزاری ہو پھر ایک دن انہیں چھوڑ کر چلے جانا کوئی عام بات نہیں وہ گھر سے ہی چہرہ گھونگھٹ میں لیے باہر آئی تھی اور پھر اسی طرح ہی ساتھ لے آیا
اس وقت بھی اس کا چہرہ گھونگھٹ میں چھپا ہوا تھا جب آریان نے ایک ہی لمحے میں اس کا گھونگھٹ پیچھے کر دیا عرشی نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا
ارے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو میں اپنی دلہن کو دیکھنا چاہتا ہوں اب کیا سارے سفر میں تمہارا گھونگھٹ ہی دیکھ کر دل کی بے چینیوں پر کنٹرول کروں یار ایسے نہیں چلے گا میں خود پر بہت مشکل سے کنٹرول کر رہا ہوں اس کے انداز پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی اور پھر اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے نظر ہی جھکا گئی
ہائے اس کے انداز آریان نے آہ بھری
پتا ہے اریشفہ پہلے تو تمہارے بغیر شاید خود پر کنٹرول بھی کر لیتا لیکن یہ جو احساس ملکیت ہے نا اس نے سارا کام خراب کر رکھا ہے وہ گاڑی ایک طرف لگاتے ہوئے کچھ الگ انداز میں بولا تو اریشفہ نے اسے حیرانگی سے دیکھا
وہ کیا بات کر رہا تھا ایک تو اسے اس شخص کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھی
ہاں لیکن وہ اس کے ساتھ خوف زدا بالکل بھی نہیں تھی وہ کیوں اس سے ڈرتی وہ کوئی غیر تو نہیں بلکہ اس کا محافظ اس کا اپنا ہمسفر تھا ۔وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے بیچ سڑک پر گاڑی کیوں روک دی تھی آخر یہ کرنے کی والا تھا ۔
پہلے تو اس نے وہاں موجود لڑکے سے کہہ دیا کہ گاڑی خود ڈرائیو کرے گا اور پھر اپنے ساتھ آنے سے بھی منع کر دیا اس نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہ سفر اکیلے طے کرنا چاہتا ہے اور اب گاڑی بھی سڑک پر کھڑی کردی
وہ اپنی ہی سوچوں میں مصروف تھی جب آریان نے اسے بازو سے تھام کر اپنی طرف کیا اور اگلے ہی لمحےوہ اس کے نازک لبوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں لے چکا تھا۔
اریشفہ کا نازک دل بے ترتیبی سے دھڑکنے لگا اس کا ایک ہاتھ اریان کی قید میں جب کہ دوسرا اس کے سینے پے آ چکا تھا ۔جب کہ اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو محسوس کرکے وہ محفوظ ہوتے ہوئے مزید اسے اپنے قریب کر گیا
وہ اس کے ہونٹوں کو اپنے دسترس میں لیے مکمل مد ہوش ہوچکا تھا اریشفہ اپنی تمام تر ہمت جمع کرکے اسے خود سے الگ کرنے لگی کیونکہ اب وہ اس کی سانس بند کر رہا تھا وہ تو آج اس معصوم کی جان لینے کے در پر تھا وہ جتنا اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی اسے خود بھی قید کئے جا رہا تھا
اس کا دوپٹہ سر سے گر کر کندھے پے چکا تھا جب آریان نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس سے دوری اختیار کی اور بنا کسی بناوٹ کے اس کا دوپٹہ واپس اس کے سر پر ٹھیک کرنے لگا اس کا موجود جی جان سے کانپ رہا تھا
جیسے بیٹھے بٹھائے اس پر قیامت ٹوٹی ہو
یار کانپنا بند کرو مجھے عجیب فیل ہو رہا ہے اس معاملے میں جذبات بھی بے لگام ہیں اور خواہش بھی دل میں دبی تھی لیکن تم اس طرح سے کانپ کر مجھے مزید پاگل کر رہی ہو
ویسے تو آج رات سارے فاصلے مٹا ہی دونگا لیکن تب تک تم میرے اس معصوم دل کا کچھ خیال کرو یار بڑی مشکل سے کنٹرول کیے بیٹھا ہوں وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے جذبات سے چور لہجے میں بولا اریشفہ کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں
اللہ میں کیسے کہوں ان سے کہوں مجھ سے اس طرح کی باتیں نہ کریں پتا نہیں یہ میرے اشارے سمجھتے بھی ہوں گے یا نہیں وہ کانپتے وجود کے ساتھ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھیں جبکہ اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہو کر اس نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کر دی
°°°°°°°°
وہ تمام راستے میں اس سے باتیں کرتے ہوئے آیا لیکن اسے بولنے کے لئےکچھ نہیں کہا ۔بس خود ہی اپنے دل کا حال سنا تا رہا اور اس کی باتوں کے ساتھ وہ اسے مزید گھبراھٹ میں مبتلا کرتا رہا سارے راستے میں اور کچھ نہیں تو اس کی محبت کو سمجھ گئی تھی ۔
وہ اس بات کا اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ سچ میں اس سے بہت پیار کرتا ہے اور آج رات اسے پوری طرح سے اپنا بنا کر اس کے ہوش ٹھکانے لگانے کا بھی خوب ارادہ رکھتا ہے
ہاں وہ آنے والے وقت کو لے کر تھوڑی بہت خوفزدہ تھی لیکن آریان کی بھرپور توجہ محبتوں کے ساتھ وہ اس گھر کے اندر داخل ہوئی تھی
یہ گھر تمہارا ہے اب تمہیں اسے سنوارنا اور تمہیں ہی سجانا ہے اور آپنے ایک عدد شوہر کا بہت سارا خیال رکھنا ہے وہ شرارت سے بولا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ فری کرنے کی کوشش کر رہا تھا سارے راستے میں وہ اسی طرح اس سے مزاق کرتا ہوا آیا ۔
جس سے اور کچھ نہ سہی لیکن اس کے ساتھ وہ کانفٹیبل ہو کر تھوڑا سا مسکرا دیتی تھی۔
شاید اس نے یہ سفر اکیلے کرنے کا اسی لئے کہا تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ بات کر کے مطمئن کر سکے ۔
آریان اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ اندر لے کر آیا کھانا تو وہ لوگ ڈی ایس پی سر کی ہاں کھا کر آئے تھے اس وقت رات کا ایک بجا رہا تھا یقیناً وہ تھک گئی ہو گی اسی خیال سے وہ اسے گھر کے بارے میں بتانے لگائے
ادھر کچن ہے اور یہ ایکسٹرا بیڈ روم ہے ۔
اس طرح سے یہ بالکنی کا دروازہ ہے اور یہ اسٹور روم ہے اس کے علاوہ میرے استعمال میں جو بیڈروم ہے وہ اوپر ہے تو یہاں پر ٹائم ویسٹ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اوپر چلیں وہ اوپر چلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
جب اریشفہ نے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا چکا تھا اریشفہ کا دل ایک لمحے کے لئے تھم سآگیا پھر اس کی مسکراتی نظروں میں دیکھ کر نظر جھکا گئی ۔
ایم سوری میں تمہارے لئے کچھ بھی اسپیشل نہیں کر پایا میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ تم میرے لیے کتنی اسپیشل ہو لیکن اگر میں یہاں آ جاتا تو نکاح کے لئے کسی اور آریان کا انتظام کرنا پڑتا ہے ّّ
لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہارا ویلکم نہ سہی لیکن تمہاری زندگی کو بہت اسپیشل بنا دوں گا ۔فی الحال اس اسپیشل سفر کی اسپیشل سی شروعات کرتے ہیں وہ اس کے کانوں میں گنگنانے والے انداز میں کہتا سیڑھیاں چڑھنے لگا جبکہ اریشفہ اس کے سینے پہ ہاتھ رکھتی شرمائی تھی
°°°°°°°°
وہ اسے ایک انتہائی خوبصورت کمرے میں لے آیا تھا جس کو ڈریم لینڈ کہنا غلط نہیں ہوگا وہ اپنے آپ میں ایک جایزہ معلوم ہوتا تھا کمرے کی ہر چیز آریان کے بازوق ہونے کی منہ بولتا ثبوت بھی ۔
دروازے سے لے کر بیڈ تک پھولوں کا ایک خوبصورت راستہ بنایا گیا تھا اس کے علاوہ بیڈ پر لاتعداد پھولوں کی پتیاں تھی اس کے علاوہ سارا کمرہ بالکل سادہ سا تھا لیکن کمرے کے قیمتی آرائش سے پتہ چل رہا تھا کہ اس کمےر میں اور کسی سجاوٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
اور یہ سب جو تھوڑا بہت کام کیا گیا تھا وہ بھی شاید عمران کی محنت تھی اس نے ایک بار آ کر نہ صرف گھر کو بالکل ٹھیک طریقے سے صاف کروایا تھا بلکہ خود سے بھی تھوڑا بہت سجا کر دیا تھا ۔
اریشفہ اب تک میں نے جتنا کمایا ہے میں نے اپنے اس گھر پہ لگایا ہے اس گھر میں موجود ایک ایک چیز ےے انتہا کی محبت کرتا ہوں میری زندگی کی ایک ایک چیز قیمتی ہے اور اس گھر میں موجود سب سے اہم وجود تم ہو ۔
میں اپنی ہر ممکن کوشش کرتے تمہیں خوش رکھوں گا میں تمہیں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولنا میرا اعتبار نہیں توڑنا یا مجھے دھوکا نہیں دینا ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر ہی میں نے تمہیں اپنے لیے چنا ہے ۔
اگر تم اس طرح کی ہوتی تو کبھی آریان تمہیں اپنی دلہن بنا کر نہیں لاتا میں جانتا ہوں تم اس بناوٹی دنیا کی بناوٹ سے پاک ہو ۔
میں تم سے اتنا ہی کہوں گا میں تمہیں بہت پیار دوں گا بس میرے پیار کے بدلے تم اپنا پیار مجھے دینا ۔وہ اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
او یار نہیں پلیز ایسا مت کرنا تم گھر سے ہی اتنا رونا دھونا کرکے آئی ہواب نئی زندگی کی شروعات ہوئی ہے خدا کے لئے یہ آنسو مت بہانا میں اپنی زندگی کی شروعات ہنستے کھیلتے کرنا چاہتا ہوں روتے روتے نہیں وہ اس کے چہرے کو صاف کرتے ہوئے اس انداز میں بولا کہ اریشفہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
تمہیں نہیں لگتا کہ ہم اپنا وقت برباد کر رہے ہیں اسے مسکراتے دیکھ ایک ہی لمحے میں سے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا تھا جبکہ اس کی اس حرکت پر اریشفہ کا دل ایک بار پھر سے بے ترتیب ہونے لگا ۔
جب کہ وہ اس کے انداز سے لطف اٹھاتے ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھ چکا تھا اس کا نازک وجود کانپے جا رہا تھا ۔
تم بہت خوبصورت ہو مجھے فخر ہے کہ تم میری پسند ہو وہ اس کے گلے سے بھاری نکلیس نکل کے ایک طرف رکھتے ہوئے الماری سے ایک خوبصورت سی چین نکالنے لگا ۔
یہ ہے شادی کا تحفہ جو میں نے آج نہیں بلکہ بہت پہلے اپنے ہم سفر کے لیے بنوایا تھا ۔مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سمت اسے قبول کرو گی وہ اس کے گلے میں چین پہناتے ہوئے محبت سے بولا ۔
سونے کی خوبصورت بھاری چین تھی جس کے درمیان میں انگلش میں آریان لکھا ہوا تھا۔عرشی نے دل و جان سے اس پہلے تحفے کو قبول کیا تھا ۔
تو ابھی کیا ہم شروعات کر سکتے ہیں وہ اس کے کانوں سے جھمکے نکالتے ہوئے شرارت سے بولا اریشفہ خاموشی سے سر جھکا گئی
مشرقی لڑکی اگر سر جھکا لے تو مطلب ہاں سمجھو اس بار شرارت سے وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتا ہوا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف سفر کر رہا تھا وہ آنے والے وقت کو سوچتے ہوئے اچانک ہی اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ چکی تھی آریان نے مسکرا کر اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے لبوں سے چھوا ۔
یار اتنا بھی مت ڈرو انسان ہی ہوں کوئی جن نہیں جو تمہیں کھا جاؤں گا وہ اب بھی شرارتی انداز میں بولا
لیکن وہ تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں رہی تھی آنے والے لمحات میں سوچتے ہوئے اس نے بس ایک نظر اٹھا کے آریان کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں محبت اور جذبات کا ایک الگ ہی جہاں تھا اس کو اپنی طرف دیکھتے پاکر اس کے لبوں کو اپنی قید میں لے چکا تھا ۔
رات گزرتی چلی جارہی تھی اور ہر لمحے میں وہ آریان کی بے باکیوں پر بکھرتی چلی جا رہی تھی لیکن سامنے بھی آریان تھا اگر اسے بکھیرنا آتا تھا تو وہ سمٹنا بھی جانتا تھا ۔
آریان کا جنونی شدت بھرا انداز اس کی محبت کو بیان کر گیا تھا اس کا روم روم اس کی محبت کی گواہی دینے لگا وہ پوری طرح سے اس کی محبت میں ڈوب گئی تھی ۔ساری رات ایک لمحے کے لئے بھی آریان نے اسے سونے نہیں دیا تھا صبح اذانوں کے قریب نہ جانے اسے کیسے اس پر ترس آ گیا اس کی ڈوبی ہوئی نیند سے بھرپور آنکھوں کو دیکھ کر اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے سونے سے اجازت دے ڈالی
°°°°°°
اٹھ جاؤ میری سلیپنگ کوئین کیا سونے کے لئے شادی کی ہے دوپہر کے 12 بج رہے ہیں وہ ایک ہاتھ میں ٹرے جب کے دوسرے ہاتھ سے اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔
اور آنکھوں میں بے تحاشہ محبت
یار بڑی ظالم قسم کی لڑکی ہو تم خود تو سو گئی اور ذرا پروا نہیں کی اپنے شوہر کی تائی امی نے تمہیں سکھایا نہیں کہ جب تک شوہر خود نیندوں کی وادیوں میں گم نہ ہو جائے بیوی کا فرض ہے کہ وہ سو نہیں سکتی نہ جانے کیوں وہ تائی کا نام لے بیٹھا ۔
ویسے تمہیں تمہاری تائی کی بہت یاد آتی ہو گی نہ بے تحاشہ محبت کرتی ہیں تم سے وہ اس کا ہاتھ تھامیں اسے واش روم کی طرف لے کر آیا تھا ۔
جلدی سے باتھ لے کر باہر نکلو بھوک سے میری جان نکل رہی ہے صبح سے میں نے کچھ نہیں کھایا تمہارے چکر میں کہ جب میری بیگم شریف کی آنکھیں کھلیں گی تب وہ کچھ کھائیں گی اور میں بھی کچھ کھا لوں گا لیکن نہیں میری بیگم نے تو جیسے سونے کے آج ریکارڈ توڑ دیے ہیں
وہ اسے واش روم کے اندر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے خود ہی بربڑاتے ہوئے ٹیبل پر کھانا لگانے لگا عرشی بھی اس کے اشارے پرفوارً ہی واش روم میں جا چکی تھی لیکن اس نے باتوں ہی باتوں میں تائی امی کا ذکر کیوں کیا اور اسے کیسے پتہ کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں وہ کچھ کنفیوز تھی
آریان نے خود ہی وار ڈراپ سے اس کے لئے کپڑے نکالے اور باہر دروازے کے قریب رکھ کر اسے بتایا
وہ باہر نکلی تو وہ کھانا لگا چکا تھا اسے جلدی آنے کا اشارہ کیا ۔
آریان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا ڈارک بلو سوٹ میں وہ کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی آریان مسکرایا یہ وہی رنگ تھا جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا ۔
وہ مسکرا کر اٹھا اور س کے پاس آیا ۔یار میں رات سے کتنی بار تمہیں اپنی محبت کا بتا چکا ہوں مجال ہے جو تم نے ایک بار مجھے احساس بھی دلایا ہو وہ شکوہ بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
ارہشفہ کو لگا وہ اس سے خفا ہو رہا ہے وہ مڑکر جانے لگا۔ تو اریشفہ نے اس کو شرٹ سے تھام لیا وہ مسکراہٹ دبا کر اس کی طرف موڑا ۔
جبکہ اریشفہ اسے ناراض سوچ کر ہاتھ سے کچھ اشارہ کرنے لگی آریان قہقہ لگا کہ اسے اپنی باہوں مِیں لے چکا تھا۔
پریشان مت ہو جانم میں تو مزاق کر رہا ہوں وہ اس کے ہاتھوں کو چومتا ہوا مسکرایا۔
تم تو اپنے اشاروں سے مجھے ساری باتیں سمجھا لو گی لیکن میری اشارے کب سمجھو گی وہ اسے ٹیبل کی طرف لے جاتے ہوئے مسکرا کر بولا اور اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر اس کے منہ کے قریب لے آیا ۔
اریشفہ نے ہاتھ اور سر کے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ اسے بہت اچھی طرح سے سمجھ گئی ہے ۔
وہ ایک بار پھر سے قہقہ گا اٹھا
ایک ہی رات میں اتنے اچھے سے سمجھ گئی مطلب کہ آگے اور بھی مزہ آئے گا وہ اب پھر سے شرارتی ہوا ۔اریشفہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر اسے خود سے دور کیا جب کہ وہ قہقہ لگاتے ہوئے اسے پھر سے کھانا کھلانے کی طرف متوجہ کرنے لگا
°°°°°°°°
عائشیہ سوہم ایک بہت اچھا انسان ہے تم اس کے ساتھیہ سب کر کے اپنا فیوچربرباد کر رہی ہو وہ ایک بار پھر اس کے سامنے بیٹھی اسے سمجھا رہی تھی لیکن وہ کچھ بھی سمجھ نہیں چاہتی تھی
آپ اس کی وکالت کرنا بند کریں زہر لگتا ہے مجھے وہ شخص اور دوسرا آپ کا شوہر نہیں رہوگی میں زیادہ دن یہاں کچھ دن سکون سے رہنے دیں چلی جاؤں گی میں یہاں سے وہ انتہائی غصے سے کہتی ان کے قریب سے اٹھنے لگی لیکن وہ اس کا ہاتھ تھام چکی تھی
ایک عورت کو زندگی جینے کے لیے ایک مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے عائشہ اس بات کو سمجھ جاؤ تمہارے لئے بہتر رہے گا تم اپنی زندگی برباد کر دو گی اس طرح تمہارا باپ بھی میرے آگے پیچھے پھیرا کرتا تھا شادی سے پہلے لیکن میں اسے اکثر اس کی اوقات یاد دلاتی رہتی لیکن جب وہ میرے گھر رشتہ لے کر آیا تو میری ماں باپ نے انکار نہیں کیا تھا گھونگٹ اٹھاتے ہی اس نے پہلا لفظ جانتی ہو مجھے کیا کہا
اس نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے میری اوقات دلاتی ہے یاد دلادیتی رہی اور دیکھو تمہاری اوقات کیا ہے تم میری ہی سج سجا کر بیٹھی ہواس زندگی کے سات سال پل پل مجھے اس بات کا احساس ہوتا رہا کیوں میں شادی سے پہلے اس سے ٹھیک سے بات نہیں کی
تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کہ میں نے شادی کے سات سال کتنے مشکل گزارے ہیں
سکون سے تو آپ زندگی اب بھی نہیں گزار رہی ماما وہ طنز کرتے ہوئے بولی شاید اپنے باپ کی بڑھائی اس سے برداشت نہیں ہوئی تھی ۔
ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم سکون سے تو میں اب بھی زندگی نہیں گزار رہی لیکن اس وقت مجھے پتا ہے کہ میرے پاس ایک سہارا تو ہے اگر کبھی مجھ پر کوئی سوال کیا گیا تو میرا شوہر جواب دینے کے لیے تیار رہے گا میں بے سہارا نہیں ہوں۔
میرا شوہر ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑا ہے وہ جیسا بھی ہے مجھے بہت چاہتا ہے اور میں ایسی خواہش تمہارے لئے بھی کرتی ہوں
بس کر دیں ماما اپنی زندگی سکون سے جینے کے لیے میں کبھی کسی غلط چیز کا ساتھ نہیں دوں گی وہ غصے سے کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی گئی جب کہ وہ ہمیشہ کی طرح سے جاتے ہوئے دیکھتے رہیں
°°°°°°°°
باہر آ کر بھی اسے سکون نہیں ملا تھا گھر میں رہ کر ماں اسے باتیں بتاتے رہتی ہیں اور باہر آ کر بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔
اور نہ ہی طہٰ بخاری اسے واپس ملا تھا تاکہ وہ اسے اس کی بانسری واپس کر سکے ہاں لیکن وہ ہمیشہ اس کے پاس ہی رہتی تھی ۔
بھائی تمہاری قسمت میں تمہارے مالک کا ملنا لکھا ہی نہیں ہے وہ بانسری سے کہتی اسے واپس اپنے بیگ میں رکھ کر آہستہ آہستہ آگے کی طرف چلنے لگی جب دور سڑک پر اسے بانسری کی ہی مدہم سی سنائی دی
وہ اس کی طرف بھی چلی گئی بے اختیار ہی سہی لیکن وہ اس کی لڑائی کو بھول کر اس کی بانسری کی دھن سن رہی تھی آج سے پہلے اس نے کبھی بھی بانسری کی آواز کو نہیں سنا تھا
بلکہ اسے تو اس طرح بے اختیار سڑکوں پر کھڑے رہنے والے لوگوں سے چڑ تھی لیکن آج نہیں سامنے وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہی پر جس کی امانت اس نے اسے لوٹانی تھی وہ آنکھیں بند کیے آہستہ آہستہ سر ہلا رہا تھا ۔
عائشہ کو کافی ایٹریکٹیو لگا اپنی خوبصورتی کو بہت استعمال کرتا تھا اس کی دھن سے لطف اندوز ہو کر لوگ اس کی ٹوپی میں پیسے ڈال رہے تھے کافی اچھا طریقہ تھا یہ پیسے کمانے کا وہ انپرسڈ ہوئی تھی
سب لوگ آہستہ آہستہ سے اس کی ٹوپی میں پیسے ڈال کر نکلتے چلے جارہے تھے وہ بھی وہیں پاس کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہی تھی
سو مسٹر طہٰ بخاری تو تم یہاں یہ کام کرتے ہو تم نے تو کہا تھا کہ تم بے کاری نہیں ہو لیکن یہ کام تو بیکارہوں والے ہی ہیں وہ مسکراتے ہوئے اسے جتا رہی تھی
جب اگلے ہی لمحے اس نے اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اس کی کیپ میں پھینکنا چاہیے لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا ۔
ا میں صرف ان لوگوں سے لیتا ہوں جو میرے ٹیلنٹ کو اپنے سکون کے لئے استعمال کرتے ہیں ان لوگوں سے نہیں جو اپنے پیسے کا رعب جما کر میرے ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اپنی دولت پھنک کر چلے جاتے ہیں محترمہ پھینکے ہوئے پیسوں پر تو میں لعنت بھی نہیں بھیجتا
وہ اس کا ہاتھ پھینکنے والے انداز میں دور کر چکا تھا ۔
بڑے ہی کوئی ڈیھٹ انسان ہو یہ سب بھی بھیک مانگنے کے ہیں برابر ہے وہ اپنی جیب سے بانسری نکالتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے لگی
خیرتم سے بحث کرنے کا وقت میرے پاس بالکل نہیں ہے میں نے تمہاری اس چیز کو واپس کرنا تھا یہ اس دن مجھے اس جگہ لی تھی جہاں میں نے تم سے مدد مانگی تھی سو میں تمھاری مدد کے بدلے تمہیں تمہاری چیز واپس کر رہی ہو حساب برابر وہ بانسری کے حوالے کرتے ہوئے بولی اور اس نے نوٹ کیا تھا اس بانسری کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر رونق سی آ گئی تھی
ہاں سہی کہا تم نے حساب برابر میں اس چیز کا ہمیشہ تمہارا مشکور رہوں گا یہ میرے لئے بہت قیمتی ہے وہ مسکرا کر اس کا تلخ لہجہ نظرانداز کر چکا تھا
اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک بار پھر سے لوگوں کا ہجوم جمع ہونے لگا اسے سننے کے لیے بہت سارے لوگ منتظر بیٹھے تھے ۔لیکن عائشہ کا اس کے پاس کھڑے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ اس کے اس ٹیلنٹ سے انپریسڈ نہیں ہوئی تھی اسی لیے واپس جانے لگی لیکن جیسے ہی اس نے دھن بجانا شروع کی اس کے قدم جم سے گئے
وہ بہت چاہنے کے باوجود بھی اس دن کو نظر انداز نہیں کر پائی تھی پیاری تھی مدہوش کر دینے والی دھن ۔
°°°°°°°°
باربی سنے درندگی کی انتہا کر دی تھی ایم صرف تصویریں ہی دیکھ پایا کیونکہ ان کی تیاریوں میں بیزی تھا ویسے تو آج وہ چھٹی پر تھا لیکن کام زیادہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی کام ختم کرکے کل پیاری ماں کو لیکر استنبول روانہ ہو جانا چاہتا تھا لیکن پھر بھی کامل کی ذات کا سب سے پہلا حصہ تھا
یہ کام بھی بیس تک کا ہی تھا میں لاش کی آنکھیں نکال کر اس نے لاش کے ماتھے پر بھی سفر دیکھا تھا ۔
کون تھے یہ لوگ اور بیس ٹریننگ کیوں مار رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لاش کے اتنے ٹکڑے کیے گئے تھے کہ اب شور نہ ناممکن تھا لاش مسح ضروری فضول نکال لیے گئے تھے اگلا شخص کے گھر سے نہ ملتی تو وہ بھی پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ فلاسفر کس کی ہے ۔
گھر میں کوئی بھی فالتو یا کوئی بھی چیز بے ترتیب نہیں تھی جب سے بیس کی کسی غلطی کا اندازہ لگایا جا سکے ۔
بہت چالاک آدمی ہے اتنی آسانی سے ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا علی نے تصویریں دیکھتے ہوئے عمران سے کہا جو کافی گہری نظر سے تصویروں کو دیکھ رہا تھا وہ آج ہی استنبول سے واپس آیا تھا
عالین کے میں بہت مضبوط دل کا شخص ہوں لیکن اس آدمی کو دیکھ کر مجھے بھی بھوک محسوس ہو رہا ہے اس نے اپنے دل کی بات کہی توارین مسکرا دیا
ذرا سوچو عمران جس شخص نے یہ کام کیا ہے اس نے کیسے کیا ہوگا کوئی بکریوں کو بھی اس طرح سے زباں نہیں کرتا جس طرح اس نے انسان کی گردن کاٹی ہے ۔
مجھے تو لگتا ہے یہ کوئی قصائی ہے ۔ عمران نے تصویریں ایک طرف رکھتے ہوئے کہا ۔
میری بھی ایسی ہی رائے ہے ۔وہ دونوں فوٹوگرافیک لیپ سے باہر آئے تھے ۔۔
°°°°°°°°
وہ سو رہی تھی انتہائی گہری نیند میں جب کہ جان اس کے پاس بٹھا تھا اس کے چہرے کے ایک کے نقش کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا ۔
تین دن کے بعد دیکھ رہا ہوں تمہیں دیکھو کیا حال ہو گیا ہے تمہارے دیوانے کا۔میں نے کہا تھا صبح تم سے ملوں گا لیکن ٹائر نے کہا رات کو اسی حالت میں رہے گے تو مر جاؤ گے بس موت کے ڈر سے بھاگا چلا ابھی تو ملی ہو تم ابھی تو محسوس کیا ہے تمہیں تمہارے ساتھ جیے بنا مرنا نہیں چاہتا
کیونکہ مجھے بھی یہی لگ رہا تھا کہ اب تمہیں نہیں دیکھا تو مر جاؤں گا
کیوں ہو تم اتنی پیاری ہاں میرا دل ہی نہیں لگتا تمہارے بنا جاناں اگر ایسے سب کچھ چلتا رہا تو میں کیسے کام کروں گا اور اگر میں کام نہیں کروں گا تو وہ گندے لوگ سب کچھ تباہ کر دیں گے ۔
اور یہ قانون پولیس ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے تمہیں پتا ہے ٹائر میرا دوست میری جان ایسی ہی ایک قانون کے محافظ نے میرے اس دوست کو موت کے دورائے پر کھڑا کر دیا ۔تمہیں پتا ہے وہ کیسے تڑپتا تھا ساری ساری رات روتا رہا اس رات کو یاد کر کے وہ پل پل مرتا رہا لیکن میں اپنے دوست کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا میں نے بھی اس کا وہی حال کیا جس کا وہ حقدار تھا
تمہیں پتا ہے اس دن ٹائر کتنا نچا خوشی سے بالکل پاگل ہو گیا تھا ۔
جیل میں گزرا وہ وقت بہت برا تھا جاناں بہت برا جب بھی وہ وقت یاد آتا ہے نابتو وہ چھڑا ہوا دوست یاد آجاتا ہے پتہ نہیں وہ آج کہاں ہو گا ۔
جہاں بھی ہوگا بہت خوش ہوگا ۔اہ ہو میں بھی کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا میں تو تمہیں دیکھنے آیا تھا ۔تم سے اپنے دل کی باتیں کرنے آیا تھا تو میں اپنے دل کا حال سنایا تھا یہ تین دن میں نے تمہارے بغیر کیسے گزارے بتانے آیا تھا ۔
اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا لبوں سے لگا کر ایک بار پھر اسکے چہرے کے نقوش میں کھو سا گیا جب کہ وہ اپنے آپ کو شاید نیند میں بھی محفوظ محسوس کرکے گہری نیند میں تھی۔
°°°°°°°°
شادی کا ڈریس آریان کی طرف سے تھا
جو بے حد خوبصورت تھاوہ خود بھی کسی حسین پری سے کم نہیں لگ رہی تھی
۔ بری بری گہری جیل آنکھیں جن کا آریان دیوانہ ہو گیا تھا۔
پیاری سے چھوٹے چھوٹے پنکھڑی ہونٹ اور چھوٹی سی ناک ۔رنگت سفید تھی لیکن اس وقت آئمہ اور تائبہ کی چھڑچھاڑ کی وجہ سے وہ مکمل سرخ ہوئی پری تھی ۔
اس نے عائشہ کو بھی فون کر کے بتایا تھا۔ کہ اس کا نکاح ہے ۔لیکن جانتی تھی اس کا اتنی جلدی میں یہاں آنا ممکن نہیں ہے اور ویسے بھی اس کی فیملی باہر جانے کی اجازت نہیں دیتی بالکل جاناں کی طرح
کاش آج زندگی کے سب سے اہم وقت پر اس کی سہیلیاں بھی اس کے ساتھ ہوتی
اس کے دل میں ایک حسرت تھی لیکن یہ بھی تھا واپس انئیں کے پاس ہی تو جا رہی تھی ۔ یقیننا اریان ویسے اس کی ہر کمی کے ساتھ قبول کر رہا ہے اس کی سہیلی سے ملنے سے منع تو نہیں کرے گا
آج آریان کا سوچتے ہوئے بھی اس کے گال لال ہونے لگے تھے ابھی تو وہ شخص زندگی میں شامل تک نہیں ہوا تھا کہ اتنا پیارا لگنے لگا تھا ۔وہ سوچ کر مسکرا دی
نکاح کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھی
اسی دلہن کی طرح سجایا گیا اریشفہ نے اپنے آپ کو کبھی اتنا حسین محسوس نہیں کیا تھا جتنی آج وہ آریان کی دلہن بن کر لگ رہی تھی
نکاح میں بہت کم لوگ شامل تھے ۔ان کے خاندان بلادری والے بہت لوگ تھے لیکن جنہوں اچانک نکاح وجہ سے بہت ناراضگی کا اظہار کیا لیکن بابا نے بھی کہہ دیا کہ اچھا رشتہ تھا اور لڑکا بھی بہت اچھا ہے ان کے ساتھ ہی کام کرتا ہے انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی بھتیجی کے بارے میں سوچا ۔
°°°°°°°°
نکاح کی رسم ادا ہوئی اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نکاح نامے پر سائن کیے آریان کافی غور سے اس کی آواز کو سننے کے لیے منتظر تھا ۔وہ سامنے ہی تو بیٹھا تھا یہ رسم باہر لان میں کی گئی تھی درھیان میں جالی دار پردہ لگا دیا گیا ایک کرسی پر اریشفہ کی دوسری کرسی پر آریان بیٹھا تھا
وہ نقاب میں ایک مکمل حیسن کا پیکر لگتی تھی آج سامنے آئی تو آریان کا نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا
اسے قبولیت کے وقت اریشفہ کی آواز سنائی نہیں دی گئی لیکن نکاح نامہ پر سائن ملتے ہی مولوی صاحب اٹھ کر اس کی طرف آ گئے وہ تھوڑی پریشان ہوا تھا اس کی شرم و حیا کو سوچتے ہوئے مسکرا دیا
اور حاموشی سے نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے رسم مکمل کر دی اور اب سامنے بیٹھی وہ خاموش سی شرمائی شرمائی سی لڑکی اس کی ملکیت تھی نکاح کے بعد پردہ ہٹا دیا گیا ۔
آریان نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی اگلے ہی لمحے دوبارہ نظر جھکا گئی تھی اس انداز پر وہ گہرا سا مسکرا دیا تھا
رخصتی کا وقت بھی آہی گیا وہ اپنے تایا کے آنگن سے اپنے ساجن کی آنگن کی طرف قدم اٹھا رہی تھی ۔بہت سنجیدہ سا ماحول تھا تایا ابو نے بہت کچھ دینے کی کوشش کی لیکن آریان کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ وہ ان سے صرف اپنی دلہن لینے آیا ہے
انہیں اپنی پسند پر فخر تھا انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔قرآن کے سائے میں انہوں نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا
جبکہ اگلے ہی لمحے تائی اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی وقت دور نہیں جب وہ خود اسے اسی حالت میں واپس چھوڑنے آئے گا ۔
پیار محبت اپنی جگہ لیکن کوئی بھی شخص اتنی بڑی کمی کے ساتھ ایک لڑکی کو ساری زندگی کے لیے قبول نہیں کر سکتا تھا اریشفہ کو واپس اسی گھر میں آنا تھا اور اس گھر میں ان کی بیٹی ائمہ نے آریان کےگھر جانا تھا
تم نے میری بیٹی کی جگہ لی ہے اریشفہ اتنی آسانی سے تمہیں چھوڑوں گی نہیں اور آریان تم نے میری بیٹی کو ٹکرا کر ایک گونگی لڑکی کو اپنایا تمہیں تو سزا دینا بنتی ہے
...........
آریان خود کار ڈرائیو کر رہا تھا جب کہ اریشفہ ابھی تک آنسو بہا رہی تھی اپنوں سے بچھڑنے کا بھی الگ ہی غم ہوتا ہے اسے کوئی نہیں سمجھ پاتا جن کے ساتھ ساری زندگی گزاری ہو پھر ایک دن انہیں چھوڑ کر چلے جانا کوئی عام بات نہیں وہ گھر سے ہی چہرہ گھونگھٹ میں لیے باہر آئی تھی اور پھر اسی طرح ہی ساتھ لے آیا
اس وقت بھی اس کا چہرہ گھونگھٹ میں چھپا ہوا تھا جب آریان نے ایک ہی لمحے میں اس کا گھونگھٹ پیچھے کر دیا عرشی نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا
ارے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو میں اپنی دلہن کو دیکھنا چاہتا ہوں اب کیا سارے سفر میں تمہارا گھونگھٹ ہی دیکھ کر دل کی بے چینیوں پر کنٹرول کروں یار ایسے نہیں چلے گا میں خود پر بہت مشکل سے کنٹرول کر رہا ہوں اس کے انداز پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی اور پھر اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے نظر ہی جھکا گئی
ہائے اس کے انداز آریان نے آہ بھری
پتا ہے اریشفہ پہلے تو تمہارے بغیر شاید خود پر کنٹرول بھی کر لیتا لیکن یہ جو احساس ملکیت ہے نا اس نے سارا کام خراب کر رکھا ہے وہ گاڑی ایک طرف لگاتے ہوئے کچھ الگ انداز میں بولا تو اریشفہ نے اسے حیرانگی سے دیکھا
وہ کیا بات کر رہا تھا ایک تو اسے اس شخص کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھی
ہاں لیکن وہ اس کے ساتھ خوف زدا بالکل بھی نہیں تھی وہ کیوں اس سے ڈرتی وہ کوئی غیر تو نہیں بلکہ اس کا محافظ اس کا اپنا ہمسفر تھا ۔وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی اس نے بیچ سڑک پر گاڑی کیوں روک دی تھی آخر یہ کرنے کی والا تھا ۔
پہلے تو اس نے وہاں موجود لڑکے سے کہہ دیا کہ گاڑی خود ڈرائیو کرے گا اور پھر اپنے ساتھ آنے سے بھی منع کر دیا اس نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہ سفر اکیلے طے کرنا چاہتا ہے اور اب گاڑی بھی سڑک پر کھڑی کردی
وہ اپنی ہی سوچوں میں مصروف تھی جب آریان نے اسے بازو سے تھام کر اپنی طرف کیا اور اگلے ہی لمحےوہ اس کے نازک لبوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں لے چکا تھا۔
اریشفہ کا نازک دل بے ترتیبی سے دھڑکنے لگا اس کا ایک ہاتھ اریان کی قید میں جب کہ دوسرا اس کے سینے پے آ چکا تھا ۔جب کہ اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو محسوس کرکے وہ محفوظ ہوتے ہوئے مزید اسے اپنے قریب کر گیا
وہ اس کے ہونٹوں کو اپنے دسترس میں لیے مکمل مد ہوش ہوچکا تھا اریشفہ اپنی تمام تر ہمت جمع کرکے اسے خود سے الگ کرنے لگی کیونکہ اب وہ اس کی سانس بند کر رہا تھا وہ تو آج اس معصوم کی جان لینے کے در پر تھا وہ جتنا اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی اسے خود بھی قید کئے جا رہا تھا
اس کا دوپٹہ سر سے گر کر کندھے پے چکا تھا جب آریان نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس سے دوری اختیار کی اور بنا کسی بناوٹ کے اس کا دوپٹہ واپس اس کے سر پر ٹھیک کرنے لگا اس کا موجود جی جان سے کانپ رہا تھا
جیسے بیٹھے بٹھائے اس پر قیامت ٹوٹی ہو
یار کانپنا بند کرو مجھے عجیب فیل ہو رہا ہے اس معاملے میں جذبات بھی بے لگام ہیں اور خواہش بھی دل میں دبی تھی لیکن تم اس طرح سے کانپ کر مجھے مزید پاگل کر رہی ہو
ویسے تو آج رات سارے فاصلے مٹا ہی دونگا لیکن تب تک تم میرے اس معصوم دل کا کچھ خیال کرو یار بڑی مشکل سے کنٹرول کیے بیٹھا ہوں وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے جذبات سے چور لہجے میں بولا اریشفہ کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں
اللہ میں کیسے کہوں ان سے کہوں مجھ سے اس طرح کی باتیں نہ کریں پتا نہیں یہ میرے اشارے سمجھتے بھی ہوں گے یا نہیں وہ کانپتے وجود کے ساتھ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھیں جبکہ اس کی گھبراہٹ سے محفوظ ہو کر اس نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کر دی
°°°°°°°°
وہ تمام راستے میں اس سے باتیں کرتے ہوئے آیا لیکن اسے بولنے کے لئےکچھ نہیں کہا ۔بس خود ہی اپنے دل کا حال سنا تا رہا اور اس کی باتوں کے ساتھ وہ اسے مزید گھبراھٹ میں مبتلا کرتا رہا سارے راستے میں اور کچھ نہیں تو اس کی محبت کو سمجھ گئی تھی ۔
وہ اس بات کا اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ سچ میں اس سے بہت پیار کرتا ہے اور آج رات اسے پوری طرح سے اپنا بنا کر اس کے ہوش ٹھکانے لگانے کا بھی خوب ارادہ رکھتا ہے
ہاں وہ آنے والے وقت کو لے کر تھوڑی بہت خوفزدہ تھی لیکن آریان کی بھرپور توجہ محبتوں کے ساتھ وہ اس گھر کے اندر داخل ہوئی تھی
یہ گھر تمہارا ہے اب تمہیں اسے سنوارنا اور تمہیں ہی سجانا ہے اور آپنے ایک عدد شوہر کا بہت سارا خیال رکھنا ہے وہ شرارت سے بولا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ فری کرنے کی کوشش کر رہا تھا سارے راستے میں وہ اسی طرح اس سے مزاق کرتا ہوا آیا ۔
جس سے اور کچھ نہ سہی لیکن اس کے ساتھ وہ کانفٹیبل ہو کر تھوڑا سا مسکرا دیتی تھی۔
شاید اس نے یہ سفر اکیلے کرنے کا اسی لئے کہا تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ بات کر کے مطمئن کر سکے ۔
آریان اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ اندر لے کر آیا کھانا تو وہ لوگ ڈی ایس پی سر کی ہاں کھا کر آئے تھے اس وقت رات کا ایک بجا رہا تھا یقیناً وہ تھک گئی ہو گی اسی خیال سے وہ اسے گھر کے بارے میں بتانے لگائے
ادھر کچن ہے اور یہ ایکسٹرا بیڈ روم ہے ۔
اس طرح سے یہ بالکنی کا دروازہ ہے اور یہ اسٹور روم ہے اس کے علاوہ میرے استعمال میں جو بیڈروم ہے وہ اوپر ہے تو یہاں پر ٹائم ویسٹ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اوپر چلیں وہ اوپر چلنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
جب اریشفہ نے سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھائے لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا چکا تھا اریشفہ کا دل ایک لمحے کے لئے تھم سآگیا پھر اس کی مسکراتی نظروں میں دیکھ کر نظر جھکا گئی ۔
ایم سوری میں تمہارے لئے کچھ بھی اسپیشل نہیں کر پایا میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ تم میرے لیے کتنی اسپیشل ہو لیکن اگر میں یہاں آ جاتا تو نکاح کے لئے کسی اور آریان کا انتظام کرنا پڑتا ہے ّّ
لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمہارا ویلکم نہ سہی لیکن تمہاری زندگی کو بہت اسپیشل بنا دوں گا ۔فی الحال اس اسپیشل سفر کی اسپیشل سی شروعات کرتے ہیں وہ اس کے کانوں میں گنگنانے والے انداز میں کہتا سیڑھیاں چڑھنے لگا جبکہ اریشفہ اس کے سینے پہ ہاتھ رکھتی شرمائی تھی
°°°°°°°°
وہ اسے ایک انتہائی خوبصورت کمرے میں لے آیا تھا جس کو ڈریم لینڈ کہنا غلط نہیں ہوگا وہ اپنے آپ میں ایک جایزہ معلوم ہوتا تھا کمرے کی ہر چیز آریان کے بازوق ہونے کی منہ بولتا ثبوت بھی ۔
دروازے سے لے کر بیڈ تک پھولوں کا ایک خوبصورت راستہ بنایا گیا تھا اس کے علاوہ بیڈ پر لاتعداد پھولوں کی پتیاں تھی اس کے علاوہ سارا کمرہ بالکل سادہ سا تھا لیکن کمرے کے قیمتی آرائش سے پتہ چل رہا تھا کہ اس کمےر میں اور کسی سجاوٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
اور یہ سب جو تھوڑا بہت کام کیا گیا تھا وہ بھی شاید عمران کی محنت تھی اس نے ایک بار آ کر نہ صرف گھر کو بالکل ٹھیک طریقے سے صاف کروایا تھا بلکہ خود سے بھی تھوڑا بہت سجا کر دیا تھا ۔
اریشفہ اب تک میں نے جتنا کمایا ہے میں نے اپنے اس گھر پہ لگایا ہے اس گھر میں موجود ایک ایک چیز ےے انتہا کی محبت کرتا ہوں میری زندگی کی ایک ایک چیز قیمتی ہے اور اس گھر میں موجود سب سے اہم وجود تم ہو ۔
میں اپنی ہر ممکن کوشش کرتے تمہیں خوش رکھوں گا میں تمہیں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولنا میرا اعتبار نہیں توڑنا یا مجھے دھوکا نہیں دینا ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر ہی میں نے تمہیں اپنے لیے چنا ہے ۔
اگر تم اس طرح کی ہوتی تو کبھی آریان تمہیں اپنی دلہن بنا کر نہیں لاتا میں جانتا ہوں تم اس بناوٹی دنیا کی بناوٹ سے پاک ہو ۔
میں تم سے اتنا ہی کہوں گا میں تمہیں بہت پیار دوں گا بس میرے پیار کے بدلے تم اپنا پیار مجھے دینا ۔وہ اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
او یار نہیں پلیز ایسا مت کرنا تم گھر سے ہی اتنا رونا دھونا کرکے آئی ہواب نئی زندگی کی شروعات ہوئی ہے خدا کے لئے یہ آنسو مت بہانا میں اپنی زندگی کی شروعات ہنستے کھیلتے کرنا چاہتا ہوں روتے روتے نہیں وہ اس کے چہرے کو صاف کرتے ہوئے اس انداز میں بولا کہ اریشفہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
تمہیں نہیں لگتا کہ ہم اپنا وقت برباد کر رہے ہیں اسے مسکراتے دیکھ ایک ہی لمحے میں سے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا تھا جبکہ اس کی اس حرکت پر اریشفہ کا دل ایک بار پھر سے بے ترتیب ہونے لگا ۔
جب کہ وہ اس کے انداز سے لطف اٹھاتے ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھ چکا تھا اس کا نازک وجود کانپے جا رہا تھا ۔
تم بہت خوبصورت ہو مجھے فخر ہے کہ تم میری پسند ہو وہ اس کے گلے سے بھاری نکلیس نکل کے ایک طرف رکھتے ہوئے الماری سے ایک خوبصورت سی چین نکالنے لگا ۔
یہ ہے شادی کا تحفہ جو میں نے آج نہیں بلکہ بہت پہلے اپنے ہم سفر کے لیے بنوایا تھا ۔مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سمت اسے قبول کرو گی وہ اس کے گلے میں چین پہناتے ہوئے محبت سے بولا ۔
سونے کی خوبصورت بھاری چین تھی جس کے درمیان میں انگلش میں آریان لکھا ہوا تھا۔عرشی نے دل و جان سے اس پہلے تحفے کو قبول کیا تھا ۔
تو ابھی کیا ہم شروعات کر سکتے ہیں وہ اس کے کانوں سے جھمکے نکالتے ہوئے شرارت سے بولا اریشفہ خاموشی سے سر جھکا گئی
مشرقی لڑکی اگر سر جھکا لے تو مطلب ہاں سمجھو اس بار شرارت سے وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتا ہوا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف سفر کر رہا تھا وہ آنے والے وقت کو سوچتے ہوئے اچانک ہی اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ چکی تھی آریان نے مسکرا کر اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے لبوں سے چھوا ۔
یار اتنا بھی مت ڈرو انسان ہی ہوں کوئی جن نہیں جو تمہیں کھا جاؤں گا وہ اب بھی شرارتی انداز میں بولا
لیکن وہ تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں رہی تھی آنے والے لمحات میں سوچتے ہوئے اس نے بس ایک نظر اٹھا کے آریان کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں محبت اور جذبات کا ایک الگ ہی جہاں تھا اس کو اپنی طرف دیکھتے پاکر اس کے لبوں کو اپنی قید میں لے چکا تھا ۔
رات گزرتی چلی جارہی تھی اور ہر لمحے میں وہ آریان کی بے باکیوں پر بکھرتی چلی جا رہی تھی لیکن سامنے بھی آریان تھا اگر اسے بکھیرنا آتا تھا تو وہ سمٹنا بھی جانتا تھا ۔
آریان کا جنونی شدت بھرا انداز اس کی محبت کو بیان کر گیا تھا اس کا روم روم اس کی محبت کی گواہی دینے لگا وہ پوری طرح سے اس کی محبت میں ڈوب گئی تھی ۔ساری رات ایک لمحے کے لئے بھی آریان نے اسے سونے نہیں دیا تھا صبح اذانوں کے قریب نہ جانے اسے کیسے اس پر ترس آ گیا اس کی ڈوبی ہوئی نیند سے بھرپور آنکھوں کو دیکھ کر اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے سونے سے اجازت دے ڈالی
°°°°°°
اٹھ جاؤ میری سلیپنگ کوئین کیا سونے کے لئے شادی کی ہے دوپہر کے 12 بج رہے ہیں وہ ایک ہاتھ میں ٹرے جب کے دوسرے ہاتھ سے اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔
اور آنکھوں میں بے تحاشہ محبت
یار بڑی ظالم قسم کی لڑکی ہو تم خود تو سو گئی اور ذرا پروا نہیں کی اپنے شوہر کی تائی امی نے تمہیں سکھایا نہیں کہ جب تک شوہر خود نیندوں کی وادیوں میں گم نہ ہو جائے بیوی کا فرض ہے کہ وہ سو نہیں سکتی نہ جانے کیوں وہ تائی کا نام لے بیٹھا ۔
ویسے تمہیں تمہاری تائی کی بہت یاد آتی ہو گی نہ بے تحاشہ محبت کرتی ہیں تم سے وہ اس کا ہاتھ تھامیں اسے واش روم کی طرف لے کر آیا تھا ۔
جلدی سے باتھ لے کر باہر نکلو بھوک سے میری جان نکل رہی ہے صبح سے میں نے کچھ نہیں کھایا تمہارے چکر میں کہ جب میری بیگم شریف کی آنکھیں کھلیں گی تب وہ کچھ کھائیں گی اور میں بھی کچھ کھا لوں گا لیکن نہیں میری بیگم نے تو جیسے سونے کے آج ریکارڈ توڑ دیے ہیں
وہ اسے واش روم کے اندر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے خود ہی بربڑاتے ہوئے ٹیبل پر کھانا لگانے لگا عرشی بھی اس کے اشارے پرفوارً ہی واش روم میں جا چکی تھی لیکن اس نے باتوں ہی باتوں میں تائی امی کا ذکر کیوں کیا اور اسے کیسے پتہ کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہیں وہ کچھ کنفیوز تھی
آریان نے خود ہی وار ڈراپ سے اس کے لئے کپڑے نکالے اور باہر دروازے کے قریب رکھ کر اسے بتایا
وہ باہر نکلی تو وہ کھانا لگا چکا تھا اسے جلدی آنے کا اشارہ کیا ۔
آریان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا ڈارک بلو سوٹ میں وہ کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی آریان مسکرایا یہ وہی رنگ تھا جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا ۔
وہ مسکرا کر اٹھا اور س کے پاس آیا ۔یار میں رات سے کتنی بار تمہیں اپنی محبت کا بتا چکا ہوں مجال ہے جو تم نے ایک بار مجھے احساس بھی دلایا ہو وہ شکوہ بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
ارہشفہ کو لگا وہ اس سے خفا ہو رہا ہے وہ مڑکر جانے لگا۔ تو اریشفہ نے اس کو شرٹ سے تھام لیا وہ مسکراہٹ دبا کر اس کی طرف موڑا ۔
جبکہ اریشفہ اسے ناراض سوچ کر ہاتھ سے کچھ اشارہ کرنے لگی آریان قہقہ لگا کہ اسے اپنی باہوں مِیں لے چکا تھا۔
پریشان مت ہو جانم میں تو مزاق کر رہا ہوں وہ اس کے ہاتھوں کو چومتا ہوا مسکرایا۔
تم تو اپنے اشاروں سے مجھے ساری باتیں سمجھا لو گی لیکن میری اشارے کب سمجھو گی وہ اسے ٹیبل کی طرف لے جاتے ہوئے مسکرا کر بولا اور اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر اس کے منہ کے قریب لے آیا ۔
اریشفہ نے ہاتھ اور سر کے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ اسے بہت اچھی طرح سے سمجھ گئی ہے ۔
وہ ایک بار پھر سے قہقہ گا اٹھا
ایک ہی رات میں اتنے اچھے سے سمجھ گئی مطلب کہ آگے اور بھی مزہ آئے گا وہ اب پھر سے شرارتی ہوا ۔اریشفہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر اسے خود سے دور کیا جب کہ وہ قہقہ لگاتے ہوئے اسے پھر سے کھانا کھلانے کی طرف متوجہ کرنے لگا
°°°°°°°°
کیسا رہا تمہارا کام تم نے ایک بار بھی مجھے فون نہیں کیا وہ اس سے شکوہ کر رہی تھی
تم نے مجھے مس کیا ان تین دنوں میں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو نظریں جھکا گئی
بالکل بھی نہیں نلا میں کیوں تمہیں مس کروں گی تم کون سا میرے بوائے فرینڈ ہو وہ منہ بناتے ہوئے بولی
اچھا تو اتنی جلدی بوائے فرینڈ کی پوسٹ سے برخاست کر دیا وہ مسکرایا تھا
میری پوسٹ میرا بوائے فرینڈ تو میری مرضی تمہیں کیا۔۔۔ اس کی مسکراہٹ پر وہ نظریں پھیرتے ہوئے بولی
اب جب تم ہی میری ہو تو تمہاری مرضی میں کہیں نہ کہیں تو میری مرضی شامل ہونی چاہیے نہ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا
مجھ سے بات مت کرو میں ناراض ہوں تم سے وہ جتانے والے انداز میں بولی
یار ایک تو تم ناراض بہت ہوتی ہو ویسے بوائے فرینڈ کی پوسٹ سے برخاست کیوں کیا گیا یہ تو بتاؤ اس کا یہ روٹھا روٹھا انداز سے جاند کو بہت پیارا لگ رہا تھا
تم نے مجھے ایک بار بھی فون نہیں کیا تین دن اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی
مطلب کے وہ اس کے فون نہ کرنے پر اس سے حفا تھی جان کو یہ بات بھی اچھی لگی
کام بہت زیادہ تھا نا اس لئے تمہیں فون نہیں کر سکا لیکن تمہیں بہت مس کیا سارا ٹائم دھیان تمہیں پر لگا رہا ادھر تم مجھے مس کر رہی تھی اور ادھر میں تمہیں تم سے بات نہ کرپانے کی وجہ سے پریشان تھا
لیکن یہاں آکر تم نے مجھے خوش کر دیا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ تم مجھے اتنا مس کر رہی ہو گی وہ واقع ہی خوش تھا
ایک منٹ تمہیں کس نے کہا کہ میں نے تمہیں مس کیا وہ حیران ہوتی پوچھنے لگی
تم نے ہی تو بھی کہا کہ میں نے تمہیں فون نہیں کیا
تم نے مجھے فون نہیں کیا مجھے برا لگا لیکن میں نے تمہیں مس کیا یہ میں نے کب کہا میں نے تمہیں بالکل بھی مس نہیں کیا تمہیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ فوراً ہی اس کی غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے بولی
جس پر جان پھر سے مسکرا دیا تھا جہاں اس کی دلکش مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی وہی اس کی سرد آنکھیں جاناں کو کہیں سوال پوچھنے پر مجبور کر دیتی جاناں کو اس کی آنکھوں سے عجیب سا خوف آتا تھا
اس کی آنکھیں سیاہ کالی گہری تھی جیسے اپنے آپ میں کہیں راز چھپائے ہوئے ہوں جان تمہارے گھر میں کون کون ہے میرا مطلب ہے تمہاری فیملی وغیرہ میں وہ اپنی ناراضگی کو نظر انداز کرتے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنے لگی
آخر ساری زندگی کا ساتھ تھا وہ اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔
صرف ٹائر اور بعد میں تم ہو جاؤ گی خیر اب مجھے چلنا چاہیے بہت وقت ہو گیا ہے وہ مسکراتے ہوئے اسے گڈبائے کہنے لگا جب کہ نہ جانے کیوں جاناں کو لگا تھا کہ وہ اس کے سوالوں سے بچ کر کہیں جا رہا ہے
°°°°°°°°
کیسے ہو آریان بیٹا سب کچھ ٹھیک تو ہے نہ ارہشفہ تو ٹھیک ہے نہ تم دونوں میں کوئی ایسی بات تو نہیں ہوئی نا میرا مطلب ہے اس کی محرومی کے بارے میں ڈی ایس پی سر ویڈیو کال پر کافی پریشان لگ رہے تھے
اس وقت اریان اپنے گھر کی چھت پر کھڑا ان سے بات کر رہا تھا جب کہ اور اریشفہ اس کے لیے نیچے چائے بنا رہی تھی اس نے دوسرے ہی دن اپنے گھر کی ساری زمہ داری اٹھا لی تھی اس نے منع کرنا چاہا لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کو خود سنبھالے گی
سر کیا ہوگیا ہے آپ کو میں نے اریشفہ سے محبت کرنے سے پہلے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہو سکتی یا میں نے آپ سے کبھی کہا ہو اس کے گویائی سے محروم ہونے سے مجھے کوئی فرق پڑتا ہے ۔
میں نے اس سے محبت کی ہے سر اور وہ مجھے اس کی ہر خامی ہر خوبی کے ساتھ قبول ہے ہاں نکاح کے بعد میں وقتی طور پر پریشان ہو گیا تھا کیونکہ میرے لیے یہ جھٹکا بہت برا تھا مجھے پہلے اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا
اسی لیے وقتی طور پر میں نے تھوڑا شاکڈ ہو گیا تھا لیکن اریشفہ میری پہلی اور آخری محبت ہے سر میں اسے بے پناہ چاہتا ہوں اور وہ جیسی بھی ہے مجھے قبول ہے ۔
عشرت آنٹی نے مجھے بتایا تھا اس کی محرومی کے بارے میں لیکن میں اتنی گہرائی سے نہیں جان پایا تھا اور نہ ہی اس دن میں آنٹی کی باتوں کو ٹھیک سے سمجھ پایا تھا
لیکن اب آپ کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے میں اریشفہ کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھنے کی کوشش کروں گا اچھا اب میں چلتا ہوں
آپ کی بیٹی چائے پر میرا انتظار کر رہی ہوگی آج رات کام سے واپس آؤں گا تو آپ کی اس سے بات بھی کرواؤں گا اس نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا تھا
جب کہ ڈی ایس پی سراب کافی مطمئن ہو چکے تھے نکاح کے فورا بعد ہی اسے پتہ چل چکا تھا کہ اریشفہ بول نہیں سکتی اور یہ بھی کی ڈی ایس پی سر کو ان کے سامنے غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا ڈی ایس پی سر واقعی ایک قابل تعریف انسان تھے
انہوں نے اپنی آدھی جائیداد اریشفہ کے نام کر دی تھی
تاکہ کوئی بھی اسے اس کی محرومی کا طعنہ نہ دے سکے اسے سر نے خود بھی بتایا تھا کہ ارہشفہ بول نہیں سکتی یہ سن کر تو وہ تھوڑی دیر کے لئے تو ساکت رہ گیا تھا کہ نکاح کے بعد اسے یہ بات بتائی گئی ہے
لیکن جب سر نے کہا کہ عشرت تم سے اس بارے میں بات کر چکی ہے وہ سمجھ چکا تھا کہا عشرت نے نہ صرف اریشفہ کے معاملے میں ہی غلط بیانی نہیں کی ہے بلکہ ان کو بھی اس کی نظروں سے گرانے کی کوشش کی ہے
اس کا دل چاہا کہ وہ انہیں سب کچھ بتا دے کہ ان کی بیوی نے آخر کیا کیا ہے لیکن پھر اس نے کچھ بھی نہیں بتایا کیونکہ وہ آج اریشفہ کے ساتھ خوشیوں سے شروعات کرنا چاہتا تھا نہ کہ اسے لوگوں کی بد دعاؤں سے
°°°°°°°°°
وہ آج پھر باہر آئی تھی
دو دن کے بعد وہ ہوسٹل واپس جانے والی تھی اریشفہ شادی کا سن کر اسے خوشی بھی بہت ہوئی تھی لیکن اتنی جلدی شادی کا سوچ کر اسے عجیب بھی لگا تھا
ایسی کونسی مجبوری تھی کہ یو اچانک شادی کر دی ابھی تو اس کی پڑائی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی لیکن پھر اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسے پسند کرتا ہے ویڈیو کال پر اسکا شرمایا شرمایا حسین روپ دے کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی
اس نے شادی پر جانے کے لیے اپنی ماں سے بھی بات کی تھی لیکن اس کی ماں نے صاف انکار کردیا اور باپ نے انتہائی غصے سے کہا کہ اگر تم سو ہم کے ساتھ باہر نہیں جا سکتی تو اپنے دماغ سے یہ سوچ بھی نکال دو کے ہوسٹل کے علاوہ تمہیں کہیں اور جانے کی اجازت دی جائے گی
وہ کسی سے لڑنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے خاموش ہو گئی اسی کو یہ بھی ڈر تھا کہ یہ نہ ہو کہ اس کا باپ اسے دوبارہ کمرے میں بند کر دے اور وہ اس گھٹن زدہ کمرے سے باہر نہ نکل سکے اور ویسے بھی اتنی جلدی شادی پر پہنچنا بھی بہت مشکل تھا
ارشفہ کا شوہر استمبول کا ہی رہنے والا تھا تو یقینا انہوں نے یہی پرآنا تھا تو شادی کے بعد اس سے ملاقات بھی کر سکتی تھی اور وہ اپنی پڑھائی بھی شادی کے بعد ہی پوری کرنے والی تھی
وہ اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی نہ ہی کسی سے ملنا چاہتی تھی بس حاموشی سے اس طرف آگئی جہاں طہٰ بخاری بانسری بجاتا تھا یقیناً آج بھی وہ اسی طرف ہو گا ۔
اس جگہ پہنچ کر غیر اداری طور پر وہ طہٰ کو ڈھونڈنے لگی آج وہ وہاں نہیں تھا بلکہ کوئی بھی نہیں تھا یہ عجیب سنسان سی جگہ تھی
اس نے واپسی کے لیے قدم اٹھائے تو بہت دور اسے کوئی لڑکی کھڑی نظر آئی جو عجیب نظروں سے اسے گھور رہی تھی
اس کے اس طرح سے گھورنے پر عائشہ کو اس کا انداز بہت عجیب تھا لیکن تھوڑا سا آگے جانے پر اریشفہ کو احساس ہوا کہ وہ کوئی لڑکی نہیں ہے لیکن وہ کوئی لڑکا بھی نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک خواجہ سرا تھا
وہ اسے کیوں اس طرح سے گھور رہا تھا اچانک ہی عائشہ کو خوف آنے لگا اس کی نظروں میں عجیب سا تاثر تھا
اور پھر اس سے پہلے کہ عائشہ اس تک پہنچتی وہ غائب ہوگیا نہ جانے کہاں چلا گیا اچانک سے عائشہ کو خوف نے آ گھیرا اگلے ہی لمحے وہ قدم گھر کے لیے آٹھا چکی تھی
°°°°°°°°°
سر جس آدمی کا قتل ہوا تھا اس کا تعلق سوہم سے ہے سوہم بھی کافی بد نام ہے لیکن آج تک اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی قانون کے ہاتھ اس تک پہنچے ہیں ہم لوگ صرف شک ہی کر سکتے ہیں سکتا ہے اس بیسٹ کا اگلا شکار سو ہم ہو ۔
عمران اسے فون پر بتا رہا تھا
ہاں ہو سکتا ہے اور ویسے بھی تفصیلات کے مطابق سوہم کے ساتھ کافی گہرے تعلقات تھے اس کے سوہم بیگ کو خبر کر دو کہ ہوسکتا ہے کہ بیسٹ کا اگلا شکار وہی ہو
آریان نے تفصیل سے کہتے ہوئے ایک نظر اپنے کمرے کی طرف ڈالی جہاں اریشفہ آج سرخ رنگ میں اس کی دھڑکن دھڑکا رہی تھی ۔اس وقت وہ بے حد حسین لگ رہی تھی
اس کا دماغ اچانک ہی عمران کی باتوں سے بھٹک کر اس کی جانب ہوگیا اس کی بہکتی نظریں اس کی وجود کا طواف کر رہی تھی
جب کہ اسے اپنی طرف متوجہ پا کر اریشفہ نظر جھکا گئی آنکھوں میں شرم و حیا ور چہرے پر محبت کی لالی تھی آریان بے ساختہ مسکرا دیا
شادی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔لیکن آج بھی وہ اس سے پہلے دن کی طرح شرماتی گھبراتی پھر رہی تھی اور اس کی یہی ادا آریان کو مزید بے خود کر رہی تھی
وہ عمران کی بات سنے بغیر ہی فون کاٹ کر اس کی طرف قدم اٹھانے لگا ۔
جب کہ اسے اپنی طرف بڑھتے پاکر وہ اس کی نظروں کا مطلب سمجھنے لگی تھی اس نے کچن کی طرف دیکھا جہاں کوکر پر اس میں دال گلنے کے لئے رکھی تھی آج وہ اس کے لئے دال چاول بنانے والی تھی اپنے ہاتھوں کا ذائقہ تو وہ اسے خوب چکا چکی تھی
اس کے ہاتھوں کی لذت سے وہ واقع ہی بہت متاثر ہوا تھا اور اب اپنے سکھر پن سے گھر کی حالت کو ایک ہفتے میں ہی نکھار ڈالا تھا یہ گھر واقعہ میں اس کا تھا اریان نے پہلے دن ہی کہا تھا یہ گھر تمہارا ہے اسے تم نے سجانا ہے اور اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے اگلے ہی دن اس نے نہ صرف سیٹنگ کو چینج کردی بلکہ جو اس کا دل چاہا وہ کیا
جبکہ آریان بھی اپنے گھر میں آنے والی اس چینجز سے بہت خوش تھا اس نے تو گھر کی چابیاں اریشفہ کے حوالے کر دی تھی۔
کبھی اس طرح بھی نظرکرم کر دیجئے حضور آپ تو اس گھر کی یا پھر اس کیچ کی ہو کر رہ گئی ہیں میرا تو بالکل ہی خیال نہیں وہ اسے کچن کی طرف دیکھتے پا کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے اپنی طرف کرتے ہوئے بولا
پتہ نہیں ابھی کیا کیا سوچ رہی تھی کہ آریان نے جھک کر اس کے لبوں کو اپنی دسترس میں لیا فاصلہ مٹ چکا تھا وہ مکمل مدہوش ہوئے ایسے کمر سے تھامتے ہوئے اپنے بے حد قریب کر چکا تھا اریشفہ نے گھبرا کر پیچھے ہونا چاہا لیکن آریان نے سارے راستے بند کر دیئے
اس سے پہلے کہ وہ اسے باہوں میں اٹھاتا اریشفہ نے کچن کی طرف اشارہ کیا اور اسے کسی بھی طرح سے روکنا چاہا آریان نے اس کی گھبراہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اسے ایک منٹ کا اشارہ کیا اور پھر ایک منٹ کے اندر ہی کچن سے چولہا بند کر کے اس کے پاس آیا تھا
اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ اس کا واحد بہانہ بھی سرے سے مٹاتے ہوئے بولا تھا اریشفہ نظر جھکا گئی جبکہ وہ اس سے اپنی باہؤں میں اٹھائے بیڈروم میں لے کر جانے لگا
اسے آرام سے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے اس کے دوپٹے کو اس سے الگ کر چکا تھا
تم صرف نیلے رنگ میں نہیں بلکہ ہر رنگ میں آریان کے دل میں دھڑکن بن کر رہوں گی وہ اس کے لبوں کو چھوتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا تھا اریشفہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اب اس کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رہی تھی
°°°°°°°°°

سر ہم صرف آپ کو سکیورٹی فراہم کرنا چاہتے ہیں بیسٹ کی لسٹ میں اگلا نام آپ کا ہے اس کے نخرے دیکھانے پر آریان نے غصے سے لسٹ اس کے سامنے کی تھی
جس میں اب اگلا نام سو ہم بیگ لکھا تھا اور وہ اس سوہم تک بہت جلدی پہنچ چکے تھے کیونکہ اس کے اچھے تعلقات تھے عاصم مرزا کے ساتھ اور وہ دونوں بزنس میں پارٹنرز تھے ۔
دیکھو مجھے یہ سب کچھ نہیں پتا اور عاصم مرزا کے ساتھ بھی میرے کوئی بہت اچھے تعلقات نہیں تھے میں بس کچھ وقت سے ہی اسے جانتا تھا اس بیسٹ نے میرا نام کیوں لکھا ہے میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے یہ سو ہم بھی کوئی اور ہو اس دنیا میں صرف میں ہی سوہم نہیں ہوں
اور مجھے تم لوگوں کی سکیورٹی کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے اسی لئے تم لوگ یہاں سے جا سکتے ہو سوہم نے حکمرانہ انداز میں کہا تھا اور اس کا یہی انداز تواریان کو غصہ چڑھا رہا تھا اس کے ناز نخرے دیکھتے ہوئے آریان کا دل چاہا کہ بیسٹ سے پہلے وہ اسے ختم کر دے ۔
ٹھیک ہے سر جیسی آپ کی مرضی ہم آپ کو سکیورٹی فراہم کرنا چاہتے تھے ۔۔۔
لیکن مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں سوہم نے اسے کو دیکھتے ہوئے کہا
جب کہ اب وہ بدتمیزی سے باہر جانے کا اشارہ کر رہا تھا ۔
سر میں یونیفارم ضروری پہنتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کا غلام ہوں بہتر ہوگا کہ آپ اپنے اشاروں پر کنٹرول کریں آریان نے اپنی توہین محسوس کرتے ہوئے کہا
آئی ایم سوری مسٹر آریان مجھے شاید آپ کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن یقین جانے میں وہ نہیں ہوں جس کا نام اس لسٹ میں لکھا ہے
آپ بے فکر ہو جائیں مجھے سکیورٹی کی ضرورت نہیں اس کے سخت لہجے پر سو ہم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کیونکہ قانون کے ساتھ بدتمیزی کرنا ترکی جیسے ملک میں کوئی عام بات ہرگز نہیں تھی ۔
°°°°°°°°°°
ہم ایک ضروری کام کے لیے باہر جا رہے ہیں عائشہ تم گھر پر اکیلی ہو اپنا خیال رکھنا ۔اس کی ماں نے ساڑی کو سنبھالتے ہوئے کہا اس نے ایک نظر میں ماں کی مکمل ڈرسنگ پر ڈالی تھی ۔
ایک وقت تھا جب اس کی ماں ایک سیدھی سادی عورت تھی اپنے آپ کو چھپا کر رکھنے والی اپنے آپ کو شوہر کی امانت سمجھنے والی لیکن آج یہ عورت خود کو دنیا کے سامنے اس طرح سے پیش کرتی تھیں جس طرح سے اس کا شوہر پسند کرتا تھا ۔
اس کے باپ کے بعد اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی تھی اور اس کے نانا کے سامنے اس کے دوسرے شوہر نے کی شرط رکھی تھی کہ عائشہ کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جائے گا لیکن ان کی شادی کے ایک سال بعد ہی نانا کا انتقال ہوگیا اور وہ اپنی ماں اورسوتیلے باپ کے پاس آ گئی لیکن اس کے رویوں سے ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ اسے پسند نہیں کرتا ۔
اسی لیے چھوٹی عمر سے ہی وہ ہوسٹل میں رہنے لگی ۔اس کی ماں کو بھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا اس کے سوتیلے باپ کو اولاد کی خواہش نہیں تھی نہ سوتیلی کی نہ سگی کی ۔ اسے تو بس اپنی اس خوبصورت بیوی کوشو پیس بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا جس میں وہ کافی کامیاب ہوگیا تھا ۔
اس کی ماں کی خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے وہ سے ہر محفل کی شان بناتا اسے اپنے ساتھ رکھتا ۔اسے سب کو دیکھاتا تھا کہ کتنے ہی لوگ اس کی ماں کو بے باک نظروں سے دیکھتے لیکن اس کی ماں کا فرض تھا مسکراتے رہنا ۔
کہ کہیں اس کے سوتیلے باپ کے دوستوں کو کوئی بات بری نہ لگ جائے شروع شروع میں وہ اکثر اپنی ماں کو روتے دھوتے دیکھتی تھی لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اس کی ماں بھی اس ماحول کی عادی ہوگئی ۔
دروازہ بند کرنے کے بعد وہ اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی اپنے کمرے میں آ کر سونے کی بجائے کتاب کا مطالعہ کر رہی تھی ۔کہ دروازہ بجا
۔ارے اس وقت کون آ گیا ابھی تو یہ دونوں گئے ہیں وہ پریشانی سے دروازے کی طرف آئی ۔لیکن دروازہ کھولنے پہ سامنے موجود آدمی کو دیکھ کر اس کے ہوش اڑ چکے تھے
رات کے ساڑھے گیارہ بجے یہ یہاں کیا کر رہا تھا ۔اوپر سے اس وقت اور اکیلے تھی گھر پہ
°°°°°°°°°°
تو کیا تم مجھے مس کر رہی ہو وہ سڑک پر چلتے ہوئے اس سے بات کر رہا تھا ہاتھ میں ایک چاقو تھا جب کہ سر پہ ہوڈی چڑھائے منہ پر ماسک لگائے ہوئے تھا
ارے میں تمہیں مس نہیں کرتی میں نے تمہیں پہلے ہی بتایا تھا نا جانا نے پھر سے نخرے دکھانے شروع کر دیے
مس نہیں کرتی تو پھر پیار بھی نہیں کرتی ہوگی جان نے کہا
اب یہ میں نے کب کہا جاناں کو حیرت ہوئی
مطلب تم مجھ سے پیار کرتی ہو جان کے لہجے میں کھنک تھی
اب میں نے یہ بھی نہیں بولا جاناں اترائی
تم نہیں تمہارا لہجہ بولتا ہے جاناں اور بہت پیارا بولتا ہے اس نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ دوسری طرف جاناں بھی مسکرا دی۔
تم کیا کر رہے ہو کیا تم چل کر رہے ہو اس نے اندازہ لگایا تھا
ہاں واک کر رہا ہوں یار ۔جان نے جواب دیا
یہ کون سا وقت ہے واک کرنے کا اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں ساڑھے گیارہ بجے تھے ۔
میں اکثر اس وقت واک کرتا ہوں شادی کے بعد ہم دونوں مل کر پر واک کر جایا کریں گے ۔جان نے پھر سے اس کی بولتی بند کر دی ۔
جان تمہیں یقین ہے ہماری شادی ہو گی اور نہ جانے کیا سوچ کر اس سے پوچھنے لگی
کیوں تمہیں یقین نہیں ہے جان نے کہا
مجھے نہیں پتہ جان میری فیملی کو میں خود بھی نہیں جانتی اس کے انداز میں بے بسی تھی
لیکن میں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں جان نے بے ساختہ کہا
کیا تم میری فیملی کو جانتے ہو جاناں کو حیرت ہوئی
فیملی کی نہیں تمہاری بات کر رہا ہوں مجھے یقین ہے ہماری شادی ہو گی اور وہ بھی بہت جلد
اگر میری فیملی نہیں مانی تو جاناں نے کہا
تم مان گئی میرے لئے اتنا ہی کافی ہے جان مسکرایا ۔
اور جان کی اس بات پر جاناں کو اپنی غلطی پر افسوس ہوا تھا وہ کب سے اس سے شادی کی باتیں کر رہی تھی جب کہ اب تک اس نے اس کے پرپوزسر کو ایکسپٹ نہیں کیا تھا
میں کب مانی ۔۔۔ وہ مکرنے لگی
بہت پہلے جب تمہیں مجھ سے پیار ہوا ۔۔جان اس کی بے ساختگی پر مسکرایا۔
اور مجھے پیار کب ہوا جاناں اتراتے ہوئے پوچھنے لگی
جب تم نے مجھے پہلی بار دیکھا تمہاری آنکھوں میں وہ حیرانگی نہیں بلکہ محبت بھی ۔تمھیں مجھ سے تب ہی محبت ہو گئی تھی جب میں نے تمہارے لئے پھول بھیجے جب میں نے تمہارے لئے وہ کارڈ بھیجا جب میں نے تم سے اپنی محبت کا اظہار کیا جاناں تمہیں ہی محبت کی تلاش تھی تم تب سے ہی مجھے ڈھونڈنے لگی تھی
تمہیں بہت پہلے مجھ سے محبت ہوگئی تھی لیکن اب بھی میں تمہاری طرف سےہاں کا منتظر ہوں میں بے چینی سے اس لمحے کا انتظار کر رہا ہوں جب تم ہاں کہو گی اور مجھے یقین ہے تم بہت جلد کہنے والی ہو کیوں بھی سہی کہہ رہا ہوں نا وہ مسکراتے ہوئے بولا
مجھے نہیں پتا جاناں کو لگا جیسے وہ سامنے کھڑے اس کی چوری پکڑ چکا ہواس نے فون بند کر دیا جبکہ اس کی اس طرح سے فون بند کرنے پر جان بس مسکرایا اور سامنے دیکھا ۔
یہ ہے وہ جگہ بیسٹ جاؤ تمھارا شکار تمہارا انتظار کر رہا ہوگا میں باہر خیال رکھتا ہوں ٹائر نے مسکراتے ہوئے کہا وہ دو ہی دن میں ساری معلومات لے کر اسے بتا چکا تھ
وہا بالکل صحیح جگہ پر آیا تھا لیکن یہ اس اس کے شکار کا اپنا گھر نہیں تھا ۔
لیکن بیسٹ کو صرف شکار سے مطلب تھا جگہ سے نہیں ۔
°°°°°°°°°°°°
تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو وہ انتہائی غصے سے بولی
کیوں ڈارنگ تمہیں کسی اور کا انتظار تھا سوہم اگلے ہی لمحے اسے دھکا دیتے ہوئے دروازہ بند کر چکا تھا
یہ کیا کر رہے ہو تم دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ابھی اور اسی وقت وہ غصے سے چلائی تھی
اتنی جلدی کیا ہے ابھی تو میرا وہ کام بھی نہیں ہوا جس کے لئے تمہارے باپ کو میں نے تمہاری ماں کو باہر لے جانے کا کہا تھا وہ ہنستے ہوئے اس کی جانب بڑھا ۔
تمھیں نہیں پتہ کتنے پاپڑ بیلے ہیں میں نے یہاں تک آنے کے لئے اب تمہیںحاصل کرکے ہی جاؤںگا تمہاری یہ جنوانی آج رات میرے نام اور بہت شوق ہے نہ تمہیں مجھے تھپڑ مارنے کا اب ذرا اس کا حساب بھی دے دو ڈارلنگ وہ اس کی شرٹ کو نوچتے ہوئے بولا وہ اس کس مقصد سمجھ چکی تھی ۔وہ اس کی طرف بڑھا
یہ گھٹیا شخص اسے یہاں بے آبرو کرنے کے لئے آیا تھا وہ دھکا دیتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی
اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑتا کسی نے اسے پکڑ لیا عائشہ نے حیرات سے مڑ کر دیکھا
کالی جینز پر کالا جیکٹ سر پہ ہوڈی چہرے پے کالا مارکس اسے پہچاننا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام تھا لیکن اس نے سوہم کو اس طرح سے دبوچ رکھا تھا کہ وہ ہل تک نہیں پا رہا تھا
کون ہو تم چھوڑو مجھے وہ اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سامنے والے کی پکر اتنی مضبوط تھیکہ اسے یہ ناممکن سا کام لگا عائشہ کے لئے تو وہ کسی فرشتے سے کم نہیں تھا جو اس کے بے آبرو ہونے سے پہلے پہنچ چکا تھا ۔
وہی جس کے لئے تمہیں وران کیا گیا تھا وہی ہوں میں اس کے لیے اس آفیسر نے تمہیں بچ کر رہنے کے لیے کہا تھا تمہیں سیکیورٹی لے لینی چاہیے تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں اگر تم سیکیورٹی لے بھی لیتے تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑتا اس کے لہجے میں عجیب سا جنون تھا عجیب سی وحشت تھی ۔
بیسٹ۔۔۔۔۔۔ سوہم نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کا نام لیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس کے دل کے بیچوں بیچ اپنی چھڑی چلا رہا تھا ایک دلخارش چیخ عائشہ کی جانب سے بلند ہوئی تھی وہ اپنی نظروں کے سامنے یہ قتل عام دیکھ کر تو بوکھلا کر رہ گئی ۔
لیکن سامنے کھڑا شخص شاید اب بھی اس پر رحم کرنے کو تیار نہیں تھا وہ اسے گلے سے دبوچ کر کھڑا تھا جبکہ ایک کے بعد دوسرا وار وہ اس کے سینے پر برساتا چلا جا رہا تھا اور ہر وار عائشہ کے لبوں سے چیخ بلند ہوٹی ۔
جب کہ وہ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا سرخ وحشت ذدا آنکھیں نفرت سے بھرپور اس پر جمی ہوئی تھیں عائشہ کا دل بری طرح سے لرز رہا ہے جب اس نے انہی وحشت ذداس کا اشارہ ملتے ہی آنکھوں سے اسی جانے کا اشارہ کیا اس کا اشارہ ملتے ہی وہ دروازے کی جانب بھاگ گئی
وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی وہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ مین گیٹ کی طرف بھاگ رہی تھی جب اچانک کوئی اس کے ساتھ آ کر ٹکرایا پہچاننا مشکل نہیں تھا یہ وہی خواجہ سرا تھا جو آج دوپہر اس پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔
اس کے پیروں میں مزید تیزی آ گئی تھی وہ اسے خود سے دور کرتے ہوئے ایک بار پھر سے باہر کی جانب آ گئی جب کہ وہیں کھڑا ٹائر اسے ڈرتے ہوئے دیکھ کر مسکرایا۔
پاگل لڑکی وہ اسے بھاگتے دیکھ کر بولا اور پھر بیسٹ اس کا انتظار کرنے لگا
°°°°°°°°
آدھی رات کا وقت تھا وہ پوری طرح سے اریشفہ میں گم اپنی حسین رات کو مزید حسین بنا رہا تھا ۔
جبکہ اریشفہ شرماتی گھبراتی اس کے سینے میں منہ چھپا رہی تھی ۔
وہ اس کے سینے پر سر رکھیں نہ جانے انگلی سے کیا لکھ رہی تھی جبکہ اس کی انگلی سے اپنے سینے اور دل پر کچھ لکھتے ہوئے محسوس کرکے مسکرایا
تھوڑا صبر کر لو یار کچھ دن کام زیادہ ہے اس کے بعد لے چلوں گا تمہیں تمھارے تایا ابو سے ملوانے کے لیے وہ اس کی بات کو سمجھتے ہوئے مسکرا کر بولا تو عرشی نے فوراً اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا
اس کے دیکھنے میں ہی اتنی خوشی تھی کہ آریان کا دل ایک بار پھر سے بے ایمان ہونے لگا آج کل تو اسے بس بہانہ چاہیے تھا اریشفہ کو اپنے قریب اپنی باہوں میں بھرنے کا جبکہ دوسری طرف اریشفہ سے ہر لمحے بے باک اور بے خود ہوتے دیکھ کر پریشان ہو جاتی تھی۔
اس کی محبت نے اسے بہت حسین بنا دیا تھا اس کے موڈ کو سمجھنا بھی اریشفہ کے لئے کافی آسان تھا وہ صرف محبت مانگتا اور محبت کرنے پر یقین رکھتا تھا ۔
اور سب سے خاص بات وہ اس کے ایک ایک اشارے کو سمجھتا تھا ۔
بلکہ کل تو اس نے یہ بھی کہا تھا اتنی باتیں کرتی ہو تم تھکتی نہیں ہوں کیا اتنا شور مچا کر اقور اس کی اس کی بات پر وہ کھل کھلا کر مسکرائی تھی اس کے ساتھ تواریشفہ کر کچھ ہی دن میں ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی بھی قوت سے محروم ہے ہی نہیں
اسے خود محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ بہت بولتی ہے اور آریان اس کی ایک ایک بات کو سمجھتا ہے وہ اس کے لئے ڈھیر ساری چوڑیاں لایا تھا لیکن کہاں سے یہاں سے سمجھ نہیں آیا ترکی کے اس علاقے میں کہیں پر بھی چوڑیاں نہیں ملتی تھی کانچ کی ڈھیروں چوڑیاں جو وہ ہر کپڑوں کے ساتھ میچنگ پہنتی تھی ۔
اور وہ ہمیشہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اس کی چوریوں کی چھنچھنآہٹ سے لطف اندوز ہوتا وہ خود بھی سمجھ چکی تھی کہ آریان کو چوڑیاں پسند ہیں اسی لیے وہ اپنے بناؤ سنگھار میں اس چیز کا خاص خیال رکھتی تھی کچھ ہی دن میں خود سر سے پیر تک آریان کی محبت میں رنگ چکی تھی ۔
اب تو وہ خود ہی جانتی تھی کہ اریان کے بغیر وہ نہیں رہ سکتی اس وقت بھی وہ اس کے سینے پر سر رکھے اپنی چوڑیوں سے شور مچانے میں مصروف تھی جب آریان کا فون بجا
سر سو ہم کا کام تمام ہو گیا عمران کے لہجے میں عجیب سی خوشی تھی
یہ تو ہونا ہی تھا جناب کو سکیورٹی نہیں چاہیے تھی لیکن جن دو لوگوں کو تم نے کام پر لگایا تھا ان کا کیا ہوا وہ اس کے انکار کے بعد کی بات کر رہا تھا جو عمران نے خفیہ طور پر دو آفیسرز اس کے پیچھے لگائے تھے
سر وہ دونوں سو ہم بے کے گھر سے بے ہوش ملے ہیں ۔عمران نے بتایا
آتا ہوں میں تم کیس کی تفشیش شروع کرو ۔وہ عمران سے بول کر فون رکھ چکا تھا جبکہ اریشفہ نے گھور کر اسے دیکھا مطلب وہ دوبارہ جا رہا تھا جبکہ اس کے گھورنے پر آریان کو بے ساختہ اس پر پیار آیا تھا جس کا اظہار اس نے اس کے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے کیا تھا
°°°°°°°°°°
عائشہ کا پورا وجود کانپ رہا تھا
بھاگتے بھاگتے وہ ایک سنسان سڑک پر آ پہنچی تھی
اس وقت سڑک پر کوئی نہیں تھا
دور دور تک کسی کا نام و نشان بھی نہیں تھا
وہ بار بار اپنے پیچھے دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ شخص اس کا پیچھا نہ کر رہا ہو
لیکن دور دور تک کوئی نہیں تھا
وہ بھاگتے بھاگتے ایک گلی کے نکڑ پر پہنچی وہاں چھپنے کی تھوڑی سی جگہ تھی
وہ وہیں بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اپنے سامنے اس طرح کا قتل دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے
اس کا دل چاہا کہ پولیس سٹیشن جائے اور وہاں جا کر بتا دے
کہ اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوا ہے
لیکن اس کے باوجود بھی اس نے قاتل کو نہیں دیکھا تھا
وہ پوری طرح سے اپنے آپ کو چھپائے ہوئے تھا اگر وہ اس کے سامنے آتا تو وہ اسے پہچان نہیں سکتی تھی وہ صرف اس کی آنکھوں سے واقف تھی
ہاں وہ سرخ دہشت زدہ آنکھیں کتنی خوفناک آنکھیں تھیں
وہ ان کو سوچتے ہی اس کا دل ایک بار پھر سے کانپنے لگا
۔ابھی وہ وہیں بیٹھی نہ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی کہ اچانک کوئی اس کے پاس آ کر بیٹھا ہے اس کی چیخ نکل گئی لیکن سامنے والے نے فورا اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔!
اورمجھے دیکھ کر چیخ کیوں مار رہی ہو
طہ بخاری اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ جمائے پوچھ رہا تھا
خون طہ اس نے قتل کیا میری آنکھوں کے سامنے اس نے میرے سامنے ایک آدمی کو مار دیا پھوٹ پھوٹ کر روتی اگلے ہی لمحے اس کے سینے سے لگ چکی تھی طہ کے لیے یہ سیچویشن بہت عجیب تھی
لیکن اس کے پھوٹ پھوٹ کر رونے پر اور بری طرح سے کانپنے پر وہ اسے خود سے دور نہیں کر پایا تھا
میں نے اسے دیکھا تھا طہ
اس نے میرے سامنے سوہم کو مار دیا میری آنکھوں کے سامنے اس نے سو ہم کا قتل کردیا اب وہ مجھے بھی مار دے گا وہ میرے پیچھے آ رہا ہوگا
وہ بری طرح سے کانیتے ہوئے اس کے ساتھ چپکی ہوئی تھی
ریلیکس عائشہ ریلیکس سب صحیح ہوگا اور یہاں میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اگر اس نے تمہیں مارنا ہی ہوتا تو تم اس وقت تک یہاں نہیں ہوتی ایسے لوگ تو کہیں سے بھی اپنا شکار ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن تم کس کی بات کر رہی ہو تم نے کس نے دیکھا ہے وتل کرتے ہوئے اور کس کو مارا ہے اس نے اور کہاں دیکھا ہے طہ اسے ڈرتے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔
بیسٹ ۔۔۔۔طہ میں نے بیسٹ کو دیکھا ہے
اسے قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے
اس نے سوہم کو مار ڈالا تھا میری آنکھوں کے سامنے مارڈالا
اب وہ مجھے بھی مار ڈالے گا
پلیز مجھے بچالو طہ ۔وہ بری طرح سے روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی
عائشہ کچھ نہیں ہوگا تم چلو میرے ساتھ پولیس سٹیشن ہم پولیس کو بتا کر ابھی سب کچھ کلیئر کر لیتے ہیں ارے تمہیں تو بہت تیز بخار ہے ۔
ہم پہلے پولیس سٹیشن چلتے ہیں پھر بعد تمہیں ہوسپیٹل لے کے جاتا ہوں وہ اس کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے بولا شاید ڈر کی وجہ سےاسے بخار چڑ چکا تھا ۔
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا
وہ میرے پیچھے آ رہا ہو گا
وہ مجھے مار ڈالے گا
پلیز طہ مجھے بچا لو پلیز وہ آ رہا ہو گا
وہ بار بار ایک ہی جملہ کہتی اس سے چپکی ہوئی بری طرح سے رو رہی تھی
اور تھوڑی ہی دیر میں اس کا سسکتا وجود ایک دم خاموش ہو گیا تھا ۔
طہ کو لگا تھا کہ وہ رونا ختم کر چکی ہے لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ خوف سے بے ہوش ہو چکی ہے ۔اس نے پریشانی سے اس کے گال پر تھپتھپائے تھے
لیکن وہ بے ہوش تھی کہ اس نے مجبور ہوکر اس کا بے جان وجود اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گیا کیونکہ وہ اسے اس طرح بھی سڑک پر چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا
وہ نہیں جانتا تھا کہ عائشہ کسی خواب کے زیرِ اثر ہےیا اس نےسچ میں ایسا کچھ دیکھا ہے لیکن جو بھی تھا وہ اسے اس طرح سے چھوڑ کر جانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا
°°°°°°°°°°
جس کا ڈر تھا وہی ہوا
بیسٹ نےاپنا کام کر دیا
سوہم کی لاش کو پہچانا بھی ایک بہت مشکل کام تھا
آریان کو اس کی موت کا زرا برابر افسوس نہیں تھا ۔
کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے
سو ہم بھی نا جانے کتنی ہی معصوم لڑکیوں کی زندگی کو تباہ کر چکا تھا
اور نہ جانے کتنی ہی معصوم لڑکیاں اس کی ہوس کی بھینٹ چڑھنے والی تھی
اور اس معاملے قانون کے ہاتھوں بری طرح سے بندھے ہوئے تھے
سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے
۔ بیسٹ جیسے ہی لوگوں کی ضرورت انہیں قانون میں بھی تھیی
لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ بیسٹ جس طرح سے کھلے عام یہ کام کر سکتا ہے قانون نہیں کر سکتا قانون کو بہت سارے اصولوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے
لیکن بیسٹ جیسے انسان کے لئے کوئی بھی اصول اس کے اپنے اصولوں سے برا نہیں تھا
۔سوہم کی لاش کی جانچ پڑتال ہو رہی تھی سب کچھ صاف تھا قتل بیسٹ نے ہی کیا تھا کیونکہ بیسٹ اپنا کلر سائن چھور کر جا چکا تھا ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ قتل راحیل خان کے گھر پر ہوا تھا اور لسٹ میں راحیل خان کا نام بھی شامل تھا
۔اس قتل کے بعد پانچ نام اور تھے اس کے بعد راحیل خان کی باری تھی ۔جس کے لیے وہ اسے وارن کر چکا تھا لیکن راحیل خان نے یہی ظاہر کیا کہ وہ تو سوہم کو ٹھیک سے جانتا تک نہیں تھا نہ جانے اس کے گھر یہاں کہاں سے آگیا
۔لیکن آریان کا اس کے ڈرامے دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بس اتنا ہی کہہ دیا کہ اگر اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو سیکیورٹی کے روز کو فالو کرے جبکہ مسز راحیل تو پاگلوں کی طرح اپنی بیٹی عائشہ کو ڈھونڈ رہی تھی
جو گھر پر اکیلی تھی لیکن راحیل نے یہ بات پولیس کو بتانے سے منع کر دیا تھا
وہ اس کیس میں پولیس کی کسی بھی طرح کی انٹرفرنزنہیں چاہتا تھا اور نہ ہی کہیں اپنا نام ۔لیکن مسز راحیل ل کافی پریشان لگ رہی تھی ۔
سر اب کیا کرنا ہے عمران نے پوچھا
کیا کرنا ہے کیا نہیں اس کو چھوڑو یہ بتاؤ ان لڑکوں کو ہوش آیا جن کو تم سکیورٹی کے طور پر رکھا تھا آریان نے پوچھا جس پر وہ نفی میں سر ہلانے لگا ۔
نہیں سر کافی ہے سخت ڈیوز دیا گیا ہے دونوں کو لیکن بالکل بھی خطرناک نہیں ہے
۔عمران نے پوری بات بتائی آریان کو نہ جانے کیوں لگا جیسے عمران اپنی پوری سپورٹ بیسٹ کو دیتا ہے اس کے خلاف نہ کوئی بات کرتا ہے نہ ہی سنتا ہے
چلو ٹھیک ہے پھر میں گھر جلتا ہوں تمھاری بھابھی انتظار کر رہی ہوگی آریان نے بتایا تھا عمران مسکرا دیا
سر آپ بہت لکی ہیں
آپ کو اتنی پیاری وائف ملی ہے عمران نے خوشی سے کہا
ہاں میں تو ہوں ہی لیکن تم بھی بہت جلدی لکی ہونے والے ہو آریان اس کا دھیان اس کی شادی کی طرف دلانے لگا تو وہ صرف مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا جبکہ آریان بھی اپنے گھر کی طرف آنے کی تیاری کرنے لگا
°°°°°°°°
جاناں ٹی وی چینل پر سرچ کر رہی تھی
آج سنڈے تھا اسے لگتا تھا کہ جان اسے فون کرے گا یا اس کے لئے کچھ اسپیشل کرے گا
لیکن جان کو جیسے ہوش ہی نہیں تھا
صبح سے نہ تو اس کا فون آیا اور نہ ہی شاید فون آنا تھا
وہ بار بار فون کو دیکھتی لیکن بار بار ناامیدی سے دوبارہ ٹی وی کے چینل سرچ کرنے لگتی ۔
ابھی یہی سب کچھ چل رہا تھا
جب اچانک ایک چینل پر نظر پڑتے ہی اس نے ہاتھ روک گئے اس نے ٹی وی پر کسی اور کی نہیں بلکہ اس کے بھائی کی تصویر تھی ۔
ناصر خان پر قاتلانہ حملہ ۔۔
۔ناصر خان اس وقت ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں
۔۔۔حملہ کس نے کیا کون ہے جوان کی جان کا دشمن ہے
جاننے کے لیے دیکھتے رہیے نیوز کاسٹر باربار چند لائنیں دہرا رہی تھی جبکہ جاناں ساکت سی ٹی وی پر اپنے بھائی کی تصویر دیکھ رہی تھی ۔
اس نے بے چینی سے فون اٹھا کر بابا کے نمبر پر کال کی
بار بار فون کرنے کے بعد بھی بابا فون نہیں اٹھا رہے تھے
لیکن اس نے بھی ہمت نہ ہاری آخرکار بابا نے تنگ آکر فون اٹھا ہی لیا ۔
کیا مسئلہ ہے جاناں تمہیں ایک بار میری بات سمجھ نہیں آتی وہ انتہائی غصے سے بولے تھے ۔
بابا ناصر بھائی۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ بول ہی نہیں پائی بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اس کا بھائی اس سے دور تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اسے بہت چاہتی تھی ۔
ٹھیک ہے ناصر اور خبردارجو تم نے کسی سے کہا کہ ناصر تمہارا بھائی ہےوہ غصے سے بولے تھے
بابا میں بھقائی سے ملنا چاہتی ہوں پلیز ایک بار مجھے ان سے بات کروا دیں اس نے بری طرح سے روتے ہوئے کہا
خاموش ہو جاناں تمیں سمجھ نہیں آیا میں نے کیا کہا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ نا صر تمہارا بھائی ہے کسی کو بھی پتہ نہ چلے کہ تم کون ہو سمجھیایک تو پہلے ہی جان عزاب بنی ہوئی ہے اور دوسرا عذاب تم ہو میری جان کا ۔
تمہاری وجہ سے سکون کا سانس نہیں لے پاتا ہوں
میں کاش بیٹی کی بجائے ایک اور بیٹا ہو جاتا میرا کم از کم یہ عذاب تو نہیں سہنا پڑتا مجھے
ایک بات کان کھول کر سن لو تم جب تک میں فون کروں تب تک مجھے فون مت کرنا بابا نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا جبکہ وہ وہ فون بیڈ پر پھینک سے بری طرح سے رونے لگی
وہ اپنے باپ کے لیے ایک مصیبت تھی
اس کی جان کا عذاب تھی
اس سے تو بہتر تھا کہ اسے ایک اور بیٹا ہو جاتا بیٹی پیدا کر کے اس کا باپ پچھتا رہا تھا وہ اس کے لفظوں کے زیر اثر تھی
اتنی بری تھی وہ کہ ہر کوئی اس سے نفرت کرتا تھا کیوں تھی وہ اسے اپنے پیدا ہونے پر افسوس تھا
جب اچانک اس کا فون بجا فون پر جان کا میسج تھا اس نے جلدی سے فون اٹھایا ۔
جلدی سے باہر آجاؤ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں سمائلی امیوجی کے ساتھ ایک میسج تھا وہ تقریب بھاگتے ہوئے باہر کی جانب کی تھی جہاں گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے جانے کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا ۔
ارے پاگل ایسے ہی آ گئی تیار تو ہو کے آتی وہ اس سے نائٹ ڈریس ملبوس دیکھ کر بولا ۔
جبکہ وہ بنا کچھ سمجھے روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ چکی تھی ۔
جاناں کیا ہوا میری جان تم اس طرح سے کیوں رو رہی ہو
وہ اس کی روتے ہوئے وجود کو اپنے ساتھ لگائے بے چینی سے بولا ۔
جان وہ کہتے ہیں کہ میں ان کی زندگی کا عذاب ہوں
مجھے پیدا کرکے وہ پچھتا رہے ہیں
مجھ سے بہتر تھا کہ انہیں ایک اور بیٹا ہو جاتا بری طرح سسکتے ہوئے وہ اسے بتا رہی تھی جب جان نے اسے ایک بار پھر سے اپنے سینے سے لگا لیا ۔
نہیں جاناں تم بہت پیاری ہو جیسی ہو ویسی اچھی ہو وہ اس کے احساس کمتری کم کرنے کی کوشش کرنے لگا
نہیں ہوں میں اچھی کاش میں پیدا ہوتے ہی مر جاتی
تو آج اپنے باپ کی جان کا عذاب تو نہیں بنتی وہ سسکتے ہوئے بول رہی تھی ۔
نہیں جاناں ایسا مت سوچو نہیں ہو تم کسی کی جان کا عذاب سے تم تو جان ہو میری تم ایسے لوگوں کے لئے اپنے آنسو ضائع کر رہی ہو جو تمہاری قدر ہی نہیں کرتے ۔
ایسے لوگوں کے لئے آنسو بہا رہی ہو جن کو تمہارے وجود سے نفرت ہے ان کو تمہاری پیدائش سے افسوس ہے مجھے دیکھو میری آنکھوں میں دیکھو کتنی محبت ہے یہاں تمہارے لئے ۔
جاناں سب کچھ چھوڑ دو بس میرے پاس آ جاؤ میں تمہیں اتنا پیار دوں گا کہ تمہیں خود پہ ناز ہوگا بس میری ہو جاو پھر دیکھنا پوری دنیا کی خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا
۔ہم شادی کر لیتے ہیں جاناں اپنی الگ دنیا بناتے ہیں جس میں کوئی نہیں ہوگا صرف ہماری خوشیاں ہوں گی وہ اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے محبت سے بولا
نہیں جان میں ایسا نہیں کر سکتی
۔میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی جان میں اپنی فیملی کو بتائے بغیر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی
وہ لوگ اس طرح کبھی میری شادی کے لیے تیار نہیں ہوں گے
تم میرے بابا کو نہیں جانتے تم نہیں جانتے میرے بھائی کون ہیں وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی لیکن اگلے ہی لمحے جاناسے اپنے بازو دھکا دے کر دور کر چکا تھا
مطلب تم کبھی میرا ہونا ہی نہیں چاہتی
۔تمہیں مجھ سے محبت ہی نہیں ہے
جاناں اگر تمہیں مجھ سے محبت ہوتی تو میری ایک بار کہنے پر میرے پاس چلی آتی ۔
یہ کیسا رشتہ ہے جاناں یہ سب سےچھپ کر ہم کیا رہے ہیں ۔
محبت میں ہمت ہونی چاہیے ساری دنیا سے لڑنے کی ہمت تم تو بہت بزدل نکلی جاناں
تم میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ اپنے والدین کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر سکو۔
مجھے ایسی محبت نہیں چاہیے جاناں مجھے یہ رشتہ چھپا کر نہیں بنانا اگر تم مجھ سے محبت کرتی ہو تو صاف جواب دو
اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو کھل کر اظہار کرو
ڈر ڈر کر محبت کرنابند کرو جاناں
میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر اس لئے تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں اب جب تم مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو گی تب ہی ہم ملیں گےاب سے ملاقات ہماری تب ہی ہوگی جب تم مجھ سے نکاح کے لیے راضی ہوگئی
ورنہ اس رشتے کو یہیں ختم کر دیتے ہیں میں کبھی ایسا رشتہ جوڑ کر نہیں رکھنا چاہتا جس کی کوئی منزل نہ ہو
۔میں جا رہا ہوں جاناں اب واپس تب ہی آوں گا جب تم ہاں کرو گی
جان پلیز نہیں اس طرح سے مجھے چھوڑ کر مت جاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے وہ روتے ہوئے اس کے سینے سے آ لگی تھی
لیکن میں تمہارا وقتی سہارا نہیں بن سکتا اگلے ہی لمحے اس نے پھر سے خود سے دور کر دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے چلا گیا جب کہ جاناں وہی سڑک پر بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی یہ تو واحد رشتہ تھا جو اس سے محبت کرتا تھا
°°°°°°°°
اس نے گھر میں قدم رکھا تو اریشفہ صوفے پر بیٹھی ابھی تک اس کا انتظار کر رہی تھی
اس نے نو بجے تک واپس آنے کے لیے کہا تھا
لیکن اس وقت رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا
اسے دیکھتے ہی وہ منہ پھلا کر صوفے سے اٹھ کر کمرے کے اندر چلی گئی
یقینا اس کے انتظار سے اکتا کر اب وہ سے ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی
آریان کو اس پر ڈھیروں پیار آیا
اور دروازہ بند کرتے ہوئے اس کے پیچھے ہی کمرے میں آ گیا تھا
جہاں اب وہ بیڈ پر لیٹی دوسری طرف کروٹ بدلتی ناراضگی ظاہر کر رہی تھی
اف ایک تو اتنی پیاری بیوی اور اتنی سخت ناراضگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار مجھے لڑکیوں کو منانے کا طریقہ نہیں ہے وہ اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں لیتے ہوئے بولا
جس پر وہ اپنی چوڑیاں چھنچھناتی اسے خود سے دور ہونے کے لئے کہہ رہی تھی
شاید وہ اس کے اشاروں سے زیادہ اس کی چوڑیوں کی زبان سمجھنے لگا تھا
بالکل بھی نہیں میں تو تم سے ایک سیکنڈ دور نہیں ہو سکتا اور تم کیا کہہ رہی ہو میں تم سے دور رہوں
نو نیور۔ ۔۔۔۔۔
اچھا اب مان جاو نہ
یار اچھی بیویاں اس طرح شوہر سے ناراض نہیں ہوتی
وہ ابھی بھی صلح کرنے والے انداز میں اس کے گرد بازو پھیلائے اس کی پیٹھ کو خود سے لگائے ہوئے تھا
جب کہ وہ اشاروں سے اب پوچھ رہی تھی کہ اچھے شوہر کیا کرتے ہیں ۔
اس کے انداز پر وہ کھل کر مسکراتے ہوئے اسے اپنی جانب کر کے اس کے لبوں پر جھکا تھا
اچھے شوہر ہر وقت اپنی بیوی کو اپنی نظروں کے سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے پیار کے بارش میں بھیگوتے ہیں وہ اس کے لبوں پہ اپنے لب رکھ دئیے ہوئے پوری شدت سے وہ اپنا لمس چھوڑ دیا
غلطی کی معافی سوری ہوتی ہے اور میں سوری بول رہا ہوں
اس لیے اب مزید ناراضگی ختم وہ اس کے دونوں بازو کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتے ہوئے بولا اور قید ایسی تھی
کہ وہ نہ تو اشارہ کر رہی تھی اور نہ ہی اپنی چوڑیاں چھنچھنا پا رہی تھی ۔
اس بار اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں لیتے ہوئے وہ مکمل مدہوش ہی سے اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا
جبکہ اریشفہ اس کی جسارتوں سے گھبراتی اپنی ناراضگی کی بھلائے اس کی باہوں میں سما چکی تھی
°°°°°°°°°°
وہ رو رہی تھی بری طرح سے پھوٹ پھوٹ کر جیسے سب کچھ لٹ گیا ہو
جیسے سب کچھ برباد ہو گیا ہو اس کے پاس کچھ بھی نہ بچاہو ۔
اب رونے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا
آنسو تھے روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے
ایک طرف اس کا باپ اس سے کا فون نہیں اٹھا رہا تھا نہ جانے ناصر کیسا تھا دوسری طرف جان بھی اس کا فون بالکل ہی اگنور کیے ہوئے تھا ۔
وہ بار بار فون کیے جا رہی تھی لیکن سامنے والا تو شاید پتھر دل تھا
جسے اس کے احساسات کی خبر ہی نہ تھی یا حبر ہوتے ہوئے بھی وہ بےخبر بنا تھا ۔
وہ مسلسل آنسو بہاتی کبھی جان کو تو کبھی بابا کو فون کر رہی تھی
بس کر دو جاناں میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ مجھے بار بار فون مت کرنا تو کیا تم ایک بار میری بات سمجھ نہیں آتی
بابا کی پھنکارتی ہوئی آواز فون سے آئی تھی وہ کانپ کر رہ گئی
بابا پلیز مجھے بتائے ناصر بھائی کیسے ہیں وہ ان کی بات کو نظر انداز کرتے کہنے لگی ۔
جاناں میں تمہیں ایک بار بتا چکا ہوں نا کہ وہ ٹھیک ہے تو تم کیوں بار بار مجھے تنگ کر رہی ہوایک بات کیا تمہیں سمجھ نہیں آرہی
اب خدا کے لئے مجھے فون مت کرنا
میں نہیں کر سکتا تم سے بات اور تم بھی بار بار مجھے فون کرنے کے بجائے اپنے پیپرزکی تیاری کرو تو تمہارے لئے بہتر ہوگا ۔
وہ انتہائی غصے سے کہتے فون رکھ گئے تھے ۔
بابا آپ کو جاناں سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیے
اس طرح سے تو وہ ہم سے بددل ہو جائے گی
ناصراس وقت ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا ان سے کہنے لگا کل سے مسلسل جاناں کی کال کو نظرانداز کیے ہوئے تھے لیکن وہ اس کی بہن تھی وہ جانتا تھا اسے اس کی پرواہ ہے
تو میں کیا کروں ناصر اس لڑکی نے میرا دماغ خراب کر رکھا ہے
میری بات کو سمجھنے تک کی کوشش نہیں کر رہی ہے یہ بیوقوف لڑکی
اگر وہاں کسی کو پتہ چل گیا کہ جاناں میری بیٹی اور تمہاری بہن ہے تو ہمارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا
اور اگر وہ لڑکا اگر غلطی سے بھی جاناں کے پاس پہنچ گیا
تو پھر سوچو کیا ہوگا ہم نے اسے دنیا سے چھپا کے رکھا ہے صرف اس لیے تاکہ پندرہ سال پہلے کے راز دفن ہیں رہیں اگر کسی کو بھنک بھی پڑ گئی نہ تو تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ہم کس طرح سے برباد ہوں گے
لیکن بابا ہم ساری زندگی جاناں کو خود سے دور بھی تو نہیں کر سکتے اس کے انداز پر نا صر نے سمجھانا چاہا
میں اسے خود سے دور نہیں کر رہا ناصر میںاس کے پیپرز ختم ہوتے ہی اسے اپنے پاس بلا لوں گا بس اس کے یہ پیپر ہوجائے پھر اسے ہمیشہ کے لئے یہاں لے آؤں گا اس سے نہ صرف وہ اس لڑکے سے دور ہو جائے گی بلکہ خود ہی کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کر دوں گا
لیکن بابا اس کی شادی کیسے ممکن ہے ناصر نے نہ سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
ممکن ہے ناصر سب کچھ ممکن ہے
میں اپنی اس غلطی کی وجہ سے اپنی بیٹی کی زندگی تباہ نہیں ہونے دوں گا
میں جاناں کو غائب کر دوں گا اس کی پہچان میں بدل چکا ہوں میں اس کی پوری زندگی بدل چکا ہوں اب وہ لڑکا کبھی بھی جاناں تک نہیں پہنچ پائے گا
اور نہ ہی جاناں کو بچپن کی کوئی بھی بات یاد ہے اسی لئے میں جتنی جلدی ہو سکے جاناں کی زندگی کا کوئی اچھا سا فیصلہ کروں گا
°°°°°°°°°°
اس کی آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو ایک بہت ہی انجان جگہ پر پایا
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا بہت تھوڑی سی جگہ تھی
اس میں صرف ایک ہی بیڈ تھا اور اس سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک سنگل صوفہ رکھا گیا تھا جس پر وہ بیٹھے بیٹھے سو رہا تھا
وہ پوری طرح سے اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی
وہ وحشت زدہ آنکھیں اسے یاد آنے لگیی
اور اس کا قتل کرنے کا انداز وہ ایک دم سے اٹھ بیٹھی
اس نے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ فوراً ہی اٹھ کر اس کے پاس آ گیا
شاید وہ اس کے لئے ان سے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا
اب کیسی طبیعت ہے تمہاری رات کو تم بے ہوش ہو گئی تھی
مجھے نہیں پتا تم کہاں رہتی ہو اسی لیے میں تمہیں اپنے روم میں لے آیا
یقیناً تمہیں برا نہیں لگے گا
رات کو تم کسی قتل کے بارے میں بات کر رہی تھی تم کہہ رہی تھی کہ بیسٹ نے کسی کو مار ڈالا کیا تم نے کوئی خبر سنی تھی یا تم سچ میں کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھ چکی ہو
وہ خود بھی بہت پریشان لگ رہا تھا جب عائشہ نے ہاں میں سر ہلایا
میں نے اسے دیکھا ہے طہٰ میں جھوٹ نہیں بول رہی تھی
میں نے اسے قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے
سوہم نے میرے سامنے اس کا نام لیا اور پھر اس نے میری آنکھوں کے سامنے سوپم کو مار ڈالا میں جھوٹ نہیں بول رہی پلیز میرا یقین کرو وہ بولتے ہوئے ایک بار پھر سے رونے لگی تھی
عائشہ مجھے تم پر یقین ہے پلیز تم پریشان مت ہو چلو ہم پولیس سٹیشن چلتے ہیں اور اور وہاں تم کو سب کچھ بتا دینا
تم نے جو کچھ بھی دیکھا اور وہ آدمی کیسا دکھتا ہے سب کچھ طہٰ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن عائشہ کے چہرے پر پریشانی تھی
لیکن میں نے تو اسے دیکھا ہی نہیں تھا وہ چہرے پر ماکس لگائے ہوئے تھا
اور سر پر اس نے ہوڈی پہنی ہوئی تھی میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ اس کی آنکھیں دیکھی ہیں
عائشہ بہت زیادہ پریشان تھی جب کہ ہر تھوڑی دیر میں رونے لگتی
طہ کو یہ ساری باتیں خود بھی بہت عجیب لگ رہی تھی
اسی لیے اسے ریلکس رہنے کے لئے کہتا ہوا اس کا ایڈریس پوچھنے لگا
نہیں مجھے گھر نہیں جانا اسے پتہ ہے وہ میرا گھر ہے میں وہاں نہیں جاؤں گی مجھے اس سے بہت خوف آتا ہے
تم پلیز مجھے میرے ہوسٹل چھوڑ دو اس وقت وہ بھول چکی تھی کہ اس شخص سے مدد لینا اپنی توہین سمجھتی ہے
ٹھیک ہے تم پریشان مت ہو میں تمہیں تمہارے ہوسٹل چھوڑ رہا ہوں پریشان مت ہو سب ٹھیک ہے اب بالکل مت رونا اور اس سب کا کسی کے سامنے ذکر مت کرنا میں سب سبھال لوں گا وہ اٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ دے کر اٹھانے لگا
عائشہ بھی خاموشی سے اس کے ساتھ فریش ہو کر اس کے روم نما گھر سے چلی آئی تھی
°°°°°°°°
جان پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو
پلیز فون اٹھا لو
میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی
پلیز فون اٹھاؤ مجھے تمھاری ضرورت ہے
اس کا فون مسلسل بج رہا تھا بار بار واٹس ایپ پر اس کے میسج آ رہے تھے جو وہ صرف سنتا اور پھر ڈیلیٹ کر دیتا لیکن پھر اس کا نمبر بلاک کر دیا
تم بہت ظالم بہو جان تم بھلا اپنی ہی جاناں کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو
تم تو اسے روتے ہوئے ییں دیکھ سکتے
تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے نہ تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے اس کے مسلسل فون کاٹنے پر ٹائر نے پوچھا
نہیں ٹائر میں اسے تکلیف نہیں دے سکتا
میں خود اسے درد میں نہیں دیکھ سکتا اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میرا اپنا دل تڑپ رہا ہے لیکن میں مجبور ہوں
میں کیا کروں ٹائر میرے پاس یہی موقع ہے جاناں کو اپنے پاس لانے کا جاناں کو یہ بتانے کا کہ مجھ سے زیادہ اسے کوئی پیار نہیں کرتا
اب جاناں کو اپنے ہر ڈر سے لڑ کر میرے پاس آنا ہوگا اسے نکاح کے لیے حامی بھر لی ہوگی ورنہ
ورنہ ورنہ کیا اس کے خاموش ہونے پر ٹائر نے پوچھا
اسے میرے پاس آنا ہوگا ٹار اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے وہ اپنی بات بدل گیا تو ٹائر خاموش ہو گیا
°°°°°°°°°
وہ ہوسٹل آئی تو جاناں ہوسٹل میں نہیں تھی
اریشفہ کا تو وہ جانتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں ہے
لیکن جاناں کو یہاں نہ پا کر اسے پریشانی ہوئی تھی وہ تو باہر کہیں نہیں جاتی تھی
لیکن اس وقت اس کے ذہن پر بیسٹ سوار تھا جس نے اس کے سامنے قتل کیا
اس کی آنکھوں کی وحشت سے یاد آتے ہی اس کا جسم کانپنے لگتا تھا ۔
اسے اس شخص سے اتنا خوف نہیں آتا تھا
جتنا خوف شخص کی آنکھوں سے آتا تھا اور اس کا قتل کرتا انداز اس کا ہاتھ بار بار سو ہم کے سینے میں دب جاتا اور پھر وہ نکالتا تو ہر بار سو ہم کے سینے سے خون کا فوارہ نکلتا
وہ منظر یاد کرتے ہیں اس کی آنکھیں نم ہونے لگی اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا
اس کی طبیعت بہت خراب تھی یہ تو طہ کا احسان تھا کہ وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا اور اب اسے ہوسٹل چھوڑ گیا تھا دوائیوں کے زیر اثر وہ کو بیڈ پر لیٹتے ہی گہری نیند سو چکی تھی
نہ جانے زندگی آگے کیا موڑ لانے والی تھی ۔
°°°°°°°°°°
اس نے دروازہ کھولا تو وہ جاناں باہر کھڑی تھی
پیاری لڑکی کیسی ہو تم اس کا مرجایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا تھا
جان کہاں ہے وہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف اس سے پوچھنے لگی
وہ تمہیں بہت چاہتا ہے جاناں اس کا حال بھی تم سے الگ نہیں
شادی کے لیے ہاں کر دو وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں وہ کبھی تمہیں تکلیف نہیں دے گا تم بس ایک بار ہاں کر دو وہ سب کچھ خود سنبھال لے گا
ٹائر کسی ہمدرد بہن کی طرح اس کے دونوں ہاتھ تھامے ہوئے کہہ رہا تھا
پلیز اس سے کہو مجھ سے بات کر لے
میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی
پلیز وہ تمہاری بات ضرور مانے گا وہ تمہیں بہت چاہتا ہے پلیز اس سے کہو کہ تم جو کہو گے میں کروں گی
لیکن مجھے اس طرح سے محبت کی راہوں میں لاکر یہ تنہا نہ چھوڑے
جان بری طرح سے روتے ہوئے چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی وہیں زمین پر بیٹھی سسکنے لگی جب ٹائر نے وہیں زمین پر بیٹھتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا لیا
تم پریشان مت ہو جاناں میں ابھی اسے فون کرتا ہوں تمہاری طرف سے ہاں سن کر وہ بھاگا چلا ائے گا تمہارا دیوانہ عشق کرتا ہے تم سے وہ اس یقین دلا رہا تھا
°°°°°°°°°°

اس نے جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھا جاناں بھاگتی ہوئی اس سے آ لیپٹی تھی۔
جان جو فی الحال اس سے بات کرنے موڈ میں نہیں تھا اس کے بری طرح سے رونے پر اسے اپنے سینے سے لگانے پر مجبور ہوگیا ۔
جاناں رونا بند کرو ۔وہ اس کے سر کو تھپتھپاتے ہوئے محبت سے بولا
نہیں تم پہلے وعدہ کرو کہ کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے وہ اس کے سینے سے لگی کسی چھوٹے بچے کی طرح سے بات کر رہی تھی۔
تمہیں چھوڑ کر جاؤں گا کہاں جاناں تم تو میری آخری منزل ہو ۔میری زندگی میری جینے کی وجہ ہو
ہمارے بغیر تو میں ایک پل نہیں جی سکتا ۔تمہیں چھوڑ کر بلا جاؤں گا بھی تو کہاں جاؤں گا ۔
وہ اسے اپنے ساتھ لگائے آہستہ آہستہ اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا
تو پھر کیوں گئے تھے مجھے چھوڑ کے وہ اپنا چہرہ اس کے سینے سے اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھنے لگی ۔
تم نے مجبور کیا تھا جاناں میں چھپ چھپا کر محبت کرنے والوں میں سے نہیں ہوں میں ڈنکے کی چوٹ پر کام کرتا ہوں
اگر محبت کی ہے تو سینہ تان کے کروں گا ۔
اور تمہیں بھی میرا ساتھ دینا ہوگا ۔
ہمارا نکاح آج ہی ہوگا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بات ختم کرنے والے انداز میں بولا
لیکن جان آج ہی کیسے ممکن ہے میں نے تو ابھی تک ہمارے رشتے کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا جاناں پریشان ہوئی تھی ۔
ابھی تک ہم دونوں کے بیچ میں کوئی رشتہ نہیں ہے جاناں نکاح کے بعد ایک مضبوط رشتہ ہو گا تم سب کو بتا دینا وہ ہار ماننے کے بالکل موڈ میں نہیں تھا لیکن جاناں کا انکار اور ڈر اسے غصہ دلا رہا تھا ۔
ٹائر نکاح کے انتظامات کرو کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے ۔
آج سے میری جاناں میری ہو جائے گی ہمیشہ کے لئے وہ ٹائرکی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو جاناں نے ایک پل کے لئے اسے روکنا چاہا ۔
جاناں اگر تم نکاح کے لیے تیار نہیں ہو تو چلی جاؤ یہاں سے اور مڑ کر کبھی اس طرف مت دیکھنا وہ اتنے غصے سے بولا تھا کہ جاناں اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔
جب کہ اسے غصے میں دیکھ کر ٹائر فورا نہیں باہر کی طرف بھاگ گیا تھا ۔
وہ ایک نظروں سے بھرپور جاناں کی طرف دیکھتا باہر نکل گیا ۔
°°°°°°°°°°
سیڈے کو کون بے وقوف پڑھتا ہے ۔
آریان کب سے اسے کتابوں میں سردیےدیکھ کر بولا آج سنڈے تھا اور وہ گھر پے تھا لیکن اس کے باوجود بھی اریشفہ اپنا سارا کام ختم کرکے اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہوگئی تھی اور یہی چیز آریان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ کتابوں میں سر کھپا رہی ہے ۔
اس کے سوال پر اریشفہ مسکراتے ہوئے اپنی طرف اشارہ کرنے لگی آریان نے سرد آہ بھری ۔
اتنی زیادہ پڑھائی کرنا صحت کے لیے موثر ہے اس سے بہتر ہے کہ یہ سب چھوڑو اور اپنے شوہر پر دھیان دو جو تمہارے لئے آج گھر پر ہے اس کی خدمت کرو ثواب پاؤ گی
اللہ بھی خوش ہوگا ۔
وہ اس کا دھیان اپنی طرف سے لگاتے ہوئے بولا جس پر اریشفہ آنکھیں گھما کر اس کی طرف دیکھا ۔
اور پھر اشارے سے بتانے لگی کہ اس کی پیپرز کو پندرہ دن بھی نہیں رہ گئے اور اسے تیاری کرنی ہے لیکن آریان تو آج کچھ سننے کے موڈ میں ہی نہیں تھا ۔
جب سے جاناں نے اسے فون پر بتایا تھا کہ ایک پیپرز شروع ہونے والے ہیں تب سے ہی اریشفہ کا زیادہ دھیان اپنی سٹڈیز کی طرف آ گیا تھا ۔
ویسے تو آریان روز رات اس کی بہت مدد کرتا تھا کھانا کھانے کے بعد روز اسے خود پڑھ رہا تھا لیکن اس کے اپنے ہی کچھ اصول تھے ۔
اور محبت کے معاملے میں جو اصول اس نے بنائے رکھے تھے ان پر اریشفہ جیسی لڑکی کے لیے پیرائے عمل کرنا بہت مشکل تھا ۔
اور اتوار والے دن تو وہ صاف لفظوں میں کہہ چکا تھا کہ اریشفہ سر سے لے کر پاؤں تک صرف ان کی ہے تو ایسے میں وہ اسے کوئی اور کام کرنے دیتا یہ تو ناممکن بات بھی
کوئی پڑھائی نہیں پیپر ہوتے رہیں گے پہلے ادھر دھیان دو وہ اس کی کتابیں بند کرنے لگا تو اریشفہ نے التجاً نظر اس کی طرف دیکھا ۔
بیوی اگر فیل بھی ہوگئی تو وہ بھی پروا نہیں میں اگلے سال پھر سے تمہیں تیاری کروا دوں گا لیکن اس وقت میرا موڈ خراب مت کرو اس کے گھورنے پر وہ محبت سے بولا ۔
کون سا اس کے سامنے اریشفہ کی کبھی چلی تھی جو چلنے دیتا اس کی کتابیں ایک طرف رکھ کے وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے بیڈروم میں لے آیا تھا ۔
جب کہ وہ منہ پھلائے اسے نظر انداز کرتے دوسری طرف دیکھ رہی تھی آریان نے نرمی سے اسے بیڈ پر لٹایا ۔
اور پھر اس کے چہرے پر جابجا اپنے لب رکھتے ہوئے اس کی ناراضگی کو دور کرنے لگا ۔وہ جو اپنے دل میں سے ناراضگی کا پکا ارادہ کر چکی تھی اس کی جساتوں پر اسی دل کو باغی ہوتے پاکر بے بس ہو گئی ۔
اس کا ہاتھ تھا بے اختیار ہی آریان کی پیٹھ پر آرکا تھا ۔آریان ایک نظر اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھا
پھر مسکراتے ہوئے اس کے لبوں پر جھک کر اپنی تشنگی مٹانے لگا ۔
جب کہ اریشفہ خاموشی سے اس کی من مانیاں برداشت کرتی اس کی باہوں میں سمٹ کے چلی جارہی تھی
°°°°°°°°°°
وہ واپس آیا تو ابھی تک وہیں بیٹھی ہوئی تھی
اندر آو کمرے میں اور یہ ڈریس پہن کر تیار ہو جاؤ دو تین منٹ میں مولوی صاحب اور باقی لوگ آتے ہی ہوں گے
وہ اس کا ہاتھ تھام کے اسے اپنے اسی کمرے میں لے کر آیا تھا جہاں وہ پہلی بار اس سے ملی تھی ۔
اور پھر ایک خوبصورت لال ڈریس کی طرف کرتے ہوئے وہ دوبارہ کمرے سے نکل گیا
سب کچھ یوں اچانک ہو رہا تھا کہ جاناں مطمئن نہیں تھی۔
لیکن جان کا غصہ دیکھنے کے بعد اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا نہ تو وہ جان کو چھوڑ سکتی تھی اور نہ ہی اس کے بغیر رہ سکتی تھی
کچھ غلط نہیں ہے جاناں ہر انسان کو حق ہے محبت کرنے کا اور اپنی محبت کو پانے کا تمہیں بھی پورا حق ہے کوئی تمہیں روکنے کا حق نہیں رکھتا تم چھوٹی بچی نہیں ہو بالغ ہو اور خود اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکتی ہو ۔لیکن بابا۔دل اور دماغ میں ایک عجیب جنگ چل رہی تھی
بابا نے تو کبھی مجھے پیار نہیں کیا کبھی مجھے اپنے قریب نہیں آنے دیا میں کبھی اپنے بھائیوں سے بھی نہیں ملی ان لوگوں نے کبھی مجھے اپنی محبت کا احساس نہیں دلایا اگر میں ان کے لئے اہم ہوتی تو کیا وہ یوں مجھے چھوڑ دیتے۔
صرف جان ہی ہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے تبھی تو وہ مجھ سے شادی کر رہا ہے ایک مضبوط رشتہ قائم کر رہا ہے ۔
اس نے اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے خود ہی دلائل دیے تھے اس نے ایک نظر ڈریس کی طرف دیکھا بے تحاشا خوبصورت ریڈ برائیڈل ڈریس ۔
اور اب وہ اس ڈریس کو دیکھتے ہوئے تیار ہونے واش روم میں جا چکی تھی ۔
اس کے دل نے فیصلہ کرلیا تھا اسے جان کی محبت سے زیادہ اور کچھ بھی عزیز نہیں تھا اسی جان کے ساتھ خوبصورت زندگی گزارنی تھی اور وہ جانتی تھی اگر ایک بار نکاح ہوگیا تو جان خود ہی سب سنبھال لے گا اپنے وعدے کے مطابق ۔
اسے جان پر پورا یقین تھا وہ محبت کے لیے لڑنے والوں میں سے تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ خود بابا کے سامنے آئے گا اور سب کچھ بتا دے گا ۔
اسے تو بس ہمت کرکے نکاح کے پیپر پر سائن کرنا تھا اور اپنی محبت کو ایک پاکیزہ نام دینا تھا
°°°°°°°°°°
تیار ہو تم اس نے کمرے میں جھانک کر پوچھا تو ایک نظر اس کے خوبصورت سراپے کو دیکھ کر جان کھٹکا تھا ۔اس کی نظروں سے گھبرا کر جاناں فورا نظریں جھکا گئی
یوں تو مت کرو یار ابھی تو نکاح بھی نہیں ہوا اور تم میرے ہوش اڑانے پر تلی ہوئی ہو اس کے خوبصورت سراپے پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اس کے سامنے آ روکا تھا ۔
دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھوڑی ہی دیر میں صرف میری ہو جائے گی وہ مسکرایا تھا
ان شاللہ جاناں کے لبوں نے سرگوشی کی بھی جس پر جان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی
بہت پیاری لگ رہی ہو میری لگ رہی ہو اس نے مسکراتے ہوئے اس کے سراپے پر ایک بھرپور نظر ڈالی تھی اس کی نظریں جابجا اس کے چہرے اور دلکشی میں الجھ رہی تھی۔پھر محبت پاس نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بولا
دیکھو مجھ سے زیادہ اچھی امید مت رکھنا شادی کے بعد میں بہت ظالم شوہر ثابت ہوں گا وہ اس کی نظروں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔
انداز سے شرارت جھلک رہی تھی ۔
جان مت کرو ایک دو بابا کو بتائے بغیر میں ویسے ہی گلٹی فیل کر رہی ہوں اور تم بھی وہ اس کے مذاق کرنے پر تھوڑی ناراض ہوئی تھی ۔
اگر اتنا ہی گلٹی فیل کر رہی ہو تو چلی جاؤ یہاں سے مت کرو نکاح اسے غصہ آنے لگا تھا
اگر تم دل سے راضی نہیں ہو جاناں تو چلی جاؤ اب بھی موقع ہے ایک بار نکاح ہو گیا نا تو تمہیں جانے نہیں دوں گا خود سے دور وہ غصے میں بے اختیار اس کا بازو پکڑ چکا تھا
تم مجھے ڈراو گے تو میں تم سے نکاح نہیں کروں گی جاناں نے اس کے غصے کو کم کرنے کی ناکام سی کوشش کی
تم انکار کرو گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ انجانے میں اس کے غصے کو مزید ہوا دے چکی تھی۔
میں ایسے انسان سے شادی کرونگی جو بالکل غصہ نہ کرے اسے اپنے آپ کو گھورتے پاکر وہ معصومیت سے بولی
تم کوشش کرونا کہ مجھے غصہ نہ آئے اس کا بازو چھوڑ کر وہ اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے وہ نرمی سے بولا تھا
میں کب غصہ دلاتی ہوں تم خود ہی غصہ کرتے ہو وہ منہ بنا کر بولی
تم کام کیا کرتے ہو ۔۔۔۔۔؟
اسے خاموش پا کر وہ دوبارہ بولی شاید وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کا غصہ کم ہوا ہے یا نہیں ۔
سیریل کلر( Serial killer) ہوں اس کے یکدم کہنے پر جاناں خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
پھر اس کی شرارت سمجھ کر کھلکھلا کر ہنسی ۔اور وہ بنا پلکیں جھپکائیں اسے دیکھتا رہا
تم بولتے ہوئے اتنی پیاری نہیں لگتی جتنی کہ ہنستے ہوئے لگتی ہو اس کے کہنے پر وہ پھر سے کھلکھلائی
تم رومینٹک ہو رہے ہو کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟
نہیں فی الحال تو صرف بتا رہا ہوں رومینٹک تومیں مولوی صاحب کے جانے کے بعد ہوں گا
جان تمہیں نہیں لگتا کہ بابا کو ایک بار میرے نکاح کے بارے میں بتا دینا چاہیے وہ اداسی سے بولی آج اس کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا اور وہ اپنے اس دن میں اپنے باپ کا ساتھ چاہتی تھی ۔
اور آج یہ اداسی وہ جاناں کے چہرے پر نہیں دیکھنا چاہتا تھا
تمہارا باپ نہیں مانے گا اب کچھ دیر میں مولوی صاحب آجائیں گے نکاح کے بعد تمہارے باپ کے پاس لے جاؤں گا تمہیں ۔نہ جانے کیوں اسے اور زیادہ غصہ آنے لگا تھا وہ کیوں بار بار اپنے باپ کا ذکر کر رہی تھی جب اس کی زندگی میں شامل ہونے جا رہی تھی
اگر بابا نے ہماری شادی کو قبول نہ کیا تو ۔۔۔۔؟
تو کیا۔۔۔۔۔؟جاناں کے سوال پراس نے آگے سے سوال کیا تھا
تو ہم الگ ہو جائیں گے ۔۔۔۔؟
آج یہ بکواس کی ہے آئندہ کبھی مت کرنا جان لے لوں گا تمہاری وہ ایک ہی لمحے میں اس منہ وہ اپنے ہاتھوں میں تو دبوچ چکا تھا دنیا کی کوئی طاقت تمیہں مجھ سے الگ نہیں کرسکتی میری ہو تم اگر کوئی ہمارے بیچ میں آیا تو زندہ زمین میں گاڑ دوں گا ۔
میں نے تمہیں موقع دیا تھا مجھ سے دور جانے کا مجھے چھوڑنے کا لیکن تم خود چل کر میرے پاس آئی ہوگا اور اب تمہارا وقت ختم ہو چکا ہے اب تم میری ہو صرف میری
تم اتنے شدت پسند کیوں ہو۔۔۔۔۔۔؟ اس کا دوپٹہ زمین پر گر چکا تھا جاناں کو اس سے اس وقت اس طرح کے غصے کی امید نہ تھی ۔
میں ایسا ہی ہوں اور تمہیں مجھے ایسا ہی قبول کرنا ہوگا تمہیں ایسے ہی شخص کے ساتھ ساری زندگی رہنا ہوگا وہ غصے سے اس کا منہ چھوڑ کر باہر نکل گیا یہ دیکھنے کی زحمت کیے بغیر کہ اس کے اس طرح سے چھوڑنے کی وجہ سے جاناں کا سر سامنے رکھے ٹیبل پر لگا ہے
وہ اپنے سر کی چوٹ پہ ہاتھ رکھتی خون روکنے کی کوشش کرتی وہیں زمین پر بیٹھ چکی تھی جب دو تین دن منٹ کے بعد ٹائر نے اسے مولوی صاحب کے آنے کی خبر دی ۔
اس کے ہاتھ میں ایک بینڈیج تھا جو اس نے اس کی طرف بڑھایا یہ جان نے دیا ہے ۔وہ اتنا بھی بے خبر نہ تھا جتنا جاناں نے سوچا تھا اس نے فوراً ہی اس کے ہاتھ سے بینڈیج لے لیا
وہ جانتی تھی کہ وہ غصے کا بہت تیز ہے اور اپنے غصے پر کبھی کنٹرول نہیں کر پاتا ۔اور اس بات کا اندازہ بھی اسے اس دن آئسکریم والے واقعے سے ہی ہوا تھا ۔ورنہ وہ تو جان کو ایک بہت لائٹ پرسن سمجھتی تھی لیکن اب جو بھی تھا وہ جاناں کی محبت تھا وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جاناں کو یقین تھا کہ وہ اپنی محبت سے اس کا غصہ کم کرلے گی ۔
اور وہ سب بھی تو اسی کیلئے کرتا ہے اسے جان کہیں سے بھی غلط نہیں لگتا تھا ۔شاید محبت میں اندھا ہونا اسی کو کہتے ہیں
ٹھیک کہتا ہے جان مجھے اسے غصہ نہیں دلانا چاہیے کہیں نہ کہیں غلطی میری ہے میں ہی اس کے غصے کو ہوا دیتی ہوں ۔
سارے معاملے میں بے قصور ہونے کے باوجود بھی خود کو قصوروار ٹھہراتی اپنا دوپٹہ اچھے سے سر پر جماتی باہر نکل آئی ۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں اس کا نکاح اس سنگدل انسان سے ہو گیا جس سے وہ انجانے میں محبت کر بیٹھی۔نکاح کی رسم بہت سادگی سے ادا ہوئی تھی جاناں ہمیشہ کے لیے اپنی جان کی ہو چکی تھی ۔
نکاح کے بعد وہ اٹھ کر ٹائر کے ساتھ اسے کمرے میں آگئی تھی جب کہ جان مہمانوں کو رخصت کرکے واپس اسی کمرے میں آیا تھا ۔
جاناں تمہیں چوٹ لگی تھی وہ اس کے بلکل پاس بیٹھا اس کے ماتھے پے ہاتھ رکھ کے اس کے چوٹ کو دیکھنے لگا ۔
ٹائر اسے دیوانہ کہتا تھا اس وقت وہ بھی جانا کو کوئی دیوانہ نہیں لگ رہا تھا ۔
میں ٹھیک ہوں جان کوئی بات نہیں اس کے اس طرح سے اپنی چوٹ کو دیکھ کے پا کر جاناں نے اسے مطمئن کیا تھا جبکہ وہ باربار اس کے ماتھے پہ رکھتا اس کی چوٹ کو دیکھ رہا تھا ۔
°°°°°°°°

میں بالکل ٹھیک ہوں جان وہ اسے اپنی پروا کرتے دیکھ خوش ہوئی تھی پھر اس کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے محبت سے بولی
میں نے تمہیں ہرٹ کیا اپنی زندگی میں شامل کرتے ہی میری وجہ سے تو میں چوٹ لگی بہت برا ہوں نہ میں وہ اسے دیکھتے ہوئے اگلے ہی لمحے اپنا ہاتھ اپنے چہرے پر تھپڑ کی صورت مار چکا تھا جاناں نے گھبرا کر اس کے چہرے کو تھاما ۔
نہیں جان تم بہت اچھے ہو مجھے تمہاری وجہ سے کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی
میں جانتی ہوں تم جتنا غصہ کرتے ہو اتناہی پیار بھی کرتے ہو اور تمہیں پتا ہے محبت اور غصہ دو واحد چیزیں ہیں جن پر ہمارا بالکل کنٹرول نہیں ہوتا شاید میں بھی بہت فضول بول گئی تھی جبکہ جانتی بھی ہوں کہ تم اپنی زندگی میں شامل کرکے مجھے ہر مسئلے سے دور رکھنا چاہتے ہو ۔
مجھے یقین ہے تم میرے بابا کو منا لو گے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔
میرے بابا بھی بالکل تمہارے جیسے ہی پیار تو بہت کرتے ہیں لیکن غصے کے بھی بہت تیز ہیں ۔میں جانتی ہوں شاید اس دن انھوں نے غصے میں مجھ سے وہ ساری باتیں کہی تھی میں بھی تو ان کو بہت تنگ کرتی ہوں نا ۔
ایک تو بھیا پر جان لیوا حملہ ہوا اور اوپر سے میں بابا کو بار بار فون کر کے انہیں تنگ کر رہی تھی جب کہ بابا مجھے ہزار بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک وہ مجھے فون نہ کرے میں انہیں فون نہ کیا کروں
لیکن میری عقل میں کوئی بات سمائے تب نہ ۔اپنے سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھی
جب کہ وہ اب بھی اس کے ماتھے کی چوٹ کو اپنی انگلیوں سے چھو کر دیکھ رہا تھا
تم پریشان مت ہو جان میں بالکل ٹھیک ہوں اس کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔
اچھا چلو مجھے ہوسٹل چھوڑ دو ۔ وارڈن انتظار کر رہی ہوں گی کسی کو بھی بتائے بغیر میں یہاں آئی تھی جاناں نے اسے دیکھتے ہوئے بولی تو جان نے الگ ہی انداز میں اسے گھورا تھا اور اس کے اس طرح سے گھورنے پر وہ کھل کھلا کر ہنس دی۔
جان میں جانتی ہوں ہمارے نکاح کے بعد تمہارے دل میں اس رشتے کو لے کر بہت سارے احساسات جذبات ہوں گے اور میں تمہارے سب احساسات کی قدر کرتی ہوں اور یقین مانو تمہارے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے کے لیے میں دل و جان سے تیار ہوں۔
لیکن پلیز میرے پیپر ختم ہونے دو ۔ کیونکہ میں اس مسئلے کو لے کر شاید کبھی بھی ایک میرڈ لائف کو انجوائے نہ کر سکوں
میرا مطلب ہے جان میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی کا ہر لمحہ سپیشل بنانا چاہتی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ جب تک میرے پیپرز ختم ہوں تب تک ہم اپنے رشتے کی شروعات کریں ورنہ میرا سارا دھیان اس طرف چلا جائے گا ۔وہ اس کے ہاتھ تھا میں اسے سمجھانے والے انداز میں بولی تھی جان زرا سا مسکرایا
مجھے باتوں میں مت لگایا کرو جاناں میں جانتا ہوں تم میرے ساتھ اس رشتے کی شروعات اس لیے نہیں کرنا چاہتی کیونکہ تم اپنے باپ سے ڈرتی ہو اسے بتائے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتی
پھر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم اپنے بابا کو سب کچھ بتا دو اور اپنے بھائی اپنی فیملی کو بھی ۔اور جہاں تک تمہارے پیپرز کی بات ہے تو یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ نالائق نہیں ہو تم اپنی فیملی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے جاناں ۔
اپنی ہر پریشانی ہر مسئلہ میرے سر ڈال دو میں سب کچھ سنبھال لوں گا تمہاری فیملی اور تمہارے بابا کو میں ہینڈل کر لوں گا ۔اب سے تم میری ذمہ داری ہو ۔ تم ریلیکس ہو کر اپنے پیپرز پر فوکس کرو پھر میں خود تمہارے بابا سے ملنے آؤں گا
اور پھر میں بھی دیکھوں کون اعتراض کرتا ہے اب تو تم قانونی اور شرعی طور پر بھی میری ہو چکی ہو ۔ اب تمہارا روح دل ہی نہیں بلکہ تمارے روم روم پر میرا حق ہے اور اپنا حق لینے کے لیے مجھے تمہاری بھی اجازت کی ضرورت نہیں
وہ کہتے ہوئے بنا اسے اپنی بات سمجھنے کا موقع دیے اس کے لبوں پر جھکا تھا شدت سے بھرپور لمس اس کے لبوں پر چھوڑتا وہ کب ہونٹوں سے گردن کا سفر طے کرنے لگا جاناں خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی دل تھا جو پسلیاں توڑ کر باہر آنا چاہتا تھا ۔
سارا جسم جیسے برف بن چکا تھا اس کے ہاتھ پیر کانپنے لگے ۔
جب کہ جان تو اپنی ہی دنیا میں مدہوش اپنی جاناں کو اپنے رنگ میں رنگنے میں مصروف تھا ۔
جاناں نے اس کے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے ذرا سے دور کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لٹا گیا ۔اس کی باہوں میں پگھلتی وہ بالکل بے بس ہونے لگی تھی اس کی گردن پر جابجا اپنے لبوں کو بے لگام چھوڑتا اب وہ اپنے جنون کی ایک الگ داستان لکھ رہا تھا ۔جاناں کا روم روم کانپنے لگا ۔
جان پر تو جیسے کوئی مدہوشی سوار ہوئی تھی اس کے دونوں ہاتھ جان کی ہاتھوں میں قید تھے وہ اپنے ہاتھوں کو ہلا تک نہیں پا رہی تھی اسے روکنے کی کیا کوشش کرتی ۔
جان کا ہاتھ اس کے دوپٹے کو اس کے سر سے ہٹاتے ہوئے اس کے ڈریس کی ڈوریوں میں الجھ چکا تھا ایک ایک کرکے ساری ڈوریاں کھل گئی جاناں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے جیسے خود سپردگی کا اعلان کیا تھا وہ جو تھوڑی بہت مزاحمت کر رہی تھی اب چھوڑ چکی تھی ۔
پھر اس نے محسوس کیا جان کا ہاتھ حرکت نہیں کر رہا تھا اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو جان اب پرسکون سا لیٹا اس کے چہرے کی سرخی کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے مسکرا رہا تھا ۔
سوچ رہا ہوں تمہارے پیپرز کا انتظار کر ہی لیتا ہوں وہ کیا ہے نہ میں نہیں چاہتا کہ تمہارے پاس کوئی بھی بہانہ بچے اور پھر میرے دماغ میں یہ سوچ بھی ہے کہ اگر میں نے تمہیں اپنا بنا لیا تو تم تو کبھی میرے ہزار سے نکل ہی نہیں پاؤگی اور شاید میری دیوانگی برداشت کرنا بھی تمہارے بس سے باہر ہو تم ایسا کرو آرام سے اپنے پیپرز کی تیاری کرو ۔
اور پھر جب تم پیپرز کے بعد میرے پاس آؤں گی جان تمہیں اپنی جان بنا لے گا میں تمہیں اس طرح سے قید کروں گا کہ نکلنے کا کوئی راستہ تمہارے سامنے نہیں ہوگا جاناں تیار ہو جاؤ میری دیوانگی میری شدت میری محبت کو برداشت کرنے کے لیے ۔
اپنے لئے بہت مشکل ٹاسک چناہے وہ اسے چھوڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا جبکہ وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی تھی ۔
وہ جو اپنے آپ کو اس کی شدتیں سہنے کے لیے تیار کئے ہوئے تھی اس کے اس طرح سے پیچھے ہٹنے پر نہ جانے کتنی دیر تک اسے گھورتی رہی پھر خود ہی مسکرا دی چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی اس کی قربت میں اسے مکمل اپنے اپ میں قید کر لیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کی بات کا مان رکھ رہا تھا
اس کرم نوازی کا شکریہ ۔ بیڈ سے اٹھتے ہوئے اپنا دوپٹہ اٹھانے لگی لیکن اس سے پہلے ہی جان اس کا دوپٹہ دور پھینکتا اس کے پیچھے آ کر اس کی ڈوریاں دوبارہ بند کرنے لگا ۔
میں چینج کروں گی جان اب یہ ڈریس پہن کر تو میں ہوسٹل نہیں جا سکتی نا اس کی قربت میں وہ گھبرائے ہوئے بولی تھی ۔
ہاں تم چینج کر لو میں ویسے بھی نہیں چاہتا کہ تمہیں اس ڈریس میں میرے علاوہ کوئی اور دیکھے ۔یہ سنگار یہ روپ سروپ صرف میرے لیے ہے اس سراپے اس دلکشی اور ان تمام رعنائیوں پر صرف اور صرف میرا حق ہے ۔
اس نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے اور لبوں کے دوران ایک انگلی سے لکیر کھینچی اور پھر اس کی انگلی سے اس کے لبوں کو چھوتے ہوئے رک گئی جاناں پھر سے نروس ہو گئی تھی اس کا ہاتھ بالکل حرکت نہیں کر رہا تھا اس نے سر اٹھا کر جان کی طرف دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا پھر سرگوشی نما آواز میں بولا ۔
اجازت ہے ۔۔۔
جاناں نے بے ساختہ اس کی طرف دیکھا تھا اس کی نظروں میں طلب تھی وہ حق رکھتے ہوئے بھی اجازت مانگ رہا تھا جاناں نے مسکرا کر آپا میں سر ہلایا وہ شاید کبھی بھی اس شخص کو انکار نہیں کرتی سکتی تھی ۔
جان نے جھکتے ہوئے اس کے نازک لبوں پر اپنے لب رکھ دئیے ۔
وہ جو سوچ سے ہی تھی کہ کہ وہ بس ایک چھوٹی سی کس لے گا اس کی سوچ بالکل غلط ثابت ہوئی تھی وہ تو اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں لیے ابھی اپنی پچھلی تشنگی مٹانے لگا ۔انداز ایک بار پھر سے جنون اختیار کرنے لگا ۔
جاناں نے اس سے دور ہٹنا چاہا لیکن شاید اس سے اجازت لینے کی وجہ یہی تھی کہ وہ اسے آسانی سے چھوڑنے والا نہیں تھا وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے بالکل اپنے ساتھ جوڑ چکا تھا جب کہ اس کےلب اب بھی جان کی دسترس میں تھے ۔
جاناں کی سانس رُکنے لگی لیکن شاید یہ رحم کرنا نہیں جانتا تھا جاناں نے اس سے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی جان اسے اسی طرح سے کھینچتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا جبکہ اس لب اس دوران بھی جان کے ہونٹوں میں قید تھے ۔
اس کے دونوں ہاتھ اس ظالم نے خود میں قید کر رکھے تھے ۔
جاناں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے رکتی سانس کا یہ ستم برداشت کرنا اب اس کے بس سے باہر تھا وہ سچ میں جنونی تھا شدت پسند تھا رحم کرنا نہیں جانتا تھا لیکن پھر بھی جاناں اس سے محبت کرتی تھی حد سے زیادہ سب سے زیادہ
نہ جانے کیا سوچ کر وہ اس سے دور ہٹا جاناں لمبی لمبی سانسیں لیتی بے اختیار اپنے لبوں کو چھو بیٹھی ننھا سا خون کا قطرہ اسے جان کی محبت کی نشانی دے گیا تھا وہ اس سے نظر ملائے بغیر واش روم کی طرف بھاگ گئی تھی ۔
°°°°°°°°°°°°
جان کمرے سے باہر نکالتا ٹائر کو آوازیں دینے لگا ۔
جو گھر کے باہر کھڑا تھا ۔
کیا ہو گیا ہے جان کیوں آواز ہی دے رہے ہو مجھے وہ بھی اتنے غصے سے مجھ پر اتنا غصہ کیوں کرتے ہو آج تو تمہاری خوشی کا دن ہے تمیں تمہاری جاناں مل گئی تو اس کے ساتھ خوش رہو میں تو بس اپنا سامان لینے آیا تھا جا رہا ہوں یہاں سے میں تم لوگوں کی پرائیویسی کو بالکل ڈسٹرب نہیں کروں گا
وہ حالص زنانہ انداز میں ہاتھ ہلاتا اس کے پاس آتے ہوئے اپنا سامان دکھانے لگا ۔
تم بعد میں یہاں سے جانا پہلے جاناں کو ہوسٹل چھوڑ کے آؤ ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا تو وہ سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگا ۔
جاؤ اور اسے چھوڑ کے آؤ ابھی وہ اپنے ایگزامز میں بیزی ہے سو جب تک اس کے ایگزامز نہیں ہو جاتے اس کی ساری ذمہ داری تم پر ہے اس کا بہت خیال رکھنا اور ہر وقت اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرنا اسے کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو تم وہیں رہنا وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا یعنی کہ اپنی ذمہ داری وہ اسے سن رہا تھا
کیا ہوا جان تم کیا کہیں جا رہے ہو وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔
ہاں مجھے دو تین ضروری کام نمٹانے ہیں تب تک جاناں کا خیال تم نے رکھنا ہے ۔
پہلے وعدہ کرو کے گنجا کرو گے لسٹ میں اگلا نام لڑکی کا تھا وہ پرجوش ہو کر وعدہ لینے لگا ۔
جہاں چیپ ہو گئی بس وہی پارٹ کاٹوں گا ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے سیریس انداز میں بولا تھا
اس چڑیل کے بال خوبصورت ہیں ٹائر نے جل کر کہا
اگر اس کے سر میں چیپ ہوئی تو بال اکھاڑ دوں گا ورنہ نہیں کسی کے بال اکھاڑنا میری مجبوری ہے شوق نہیں وہ اسے سمجھانے کی خاطر بولا تو ٹائر کا موڈ آف ہو گیا
اب نخرے بند کرو اور جاؤ جاناں کو ہوسٹل چھوڑ کے آو اسے اپنے پیپرز کی تیاری کرنی ہے وہ اسے گاڑی نکالنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے کمرے سے نکلتی جاناں کی طرف متوجہ ہوا
بلیک جینز اور بلیک لیڈیز شرٹ کے اوپر لیدر جیکٹ اسے بہت سوٹ کر رہا تھا
وہ واپس اپنے بولڈ کپڑے پہن چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس کی نظروں سے چھلک شررم و حیا اسے بولڈ نہیں بننے دے رہی تھی
اگر کسی نے پوچھا تو کیا جواب دوگی وہ اس کے ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے بولا تو جاناں فوراً اس کے سوال کی تہہ تک پہنچ گئی
پھر شرارت سے بولی کہوں گی کسی کیڑے نے کاٹا ۔
مطلب تم مجھے کیڑا کہہ رہی ہو ۔وہ مصنوعی غصے سے گھورتے ہوئے بولا تو جاناں سر ہلا گئی
ہاں کیڑا کاٹنے والا کیڑا وہ کہاں اس سے ڈرنے والی تھی ۔
اس کیڑے نے ٹھیک سے نہیں کاٹا ایک اور موقع ملے گا وہ دو قدم اس کے قریب آیا تو جاناں بوکھلا کر فورا باہر کی طرف دوڑ لگا چکی تھی اب شخص کا کوئی بھروسہ نہ تھا ۔
نکاح کے بعد تو یہ پھیل ہی گیا تھا جاناں نفی میں سر ہلاتے ہوئے سوچتی باہر نکل گئی .
°°°°°°°°
جیت کتنی پرسکون ہوتی ہے آج وہ جیت گیا تھا صرف اپنی محبت ہی نہیں بلکہ اپنا سب کچھ اگر وہ چاہتا تو وہ اسے کبھی بھی اپنے پاس رکھ سکتا تھا اپنے ساتھ لے کر آنا سکتا تھا ان دونوں میں مضبوط رشتہ آج کا نہیں بلکہ برسوں پرانا تھا
وہ تو ہمیشہ سے اسی کی تھی لیکن جان اس کے ساتھ ایک نئی شروعات کر رہا تھا اسے اپنی زندگی میں اس کی اس نئی پہچان کے ساتھ شامل کر رہا تھا پرانے رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے ہاں لیکن بھول جایا کرتے ہیں
جان سامنے رکھی اس تصویر کو دیکھ رہا تھا جس میں چار سالہ جاناں خوبصورت سا لال دوپٹہ اپنے سر پہ ڈالے نکاح نامہ ہے اپنے باپ اکبر کا ہاتھ تھامیں سکنیچر کر رہی تھی وہ تو ہمیشہ سے ہی اس کی تھی اگر چاہتا تو حق سے اسے اپنے پاس رکھ سکتا تھا
لیکن وہ جانا. کو محبت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ جو محبت جان اس سے کرتا ہے ویسی ہی محبت جاناں بھی اس سے کرے اور اب وہ اس سے محبت کرتی تھی وہ اس کی زندگی میں شامل ہو چکا تھا اس کی محبت بن کر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا
°°°°°°°°
ٹائر اسے ہاسٹل کے باہر چھوڑ کر جا چکا تھا
لیکن دروازے پر ہی وارڈن نے اس کی کلاس لے ڈالی
کہاں تھی تم لڑکی یہ کوئی وقت ہے ہوسٹل واپس آنے کا تمہارا گھر نہیں ہے یہ وہ انتہائی غصے سے دیکھتے ہوئے بولی
تمہاری دوست واپس آئی ہے اس کی حالت دیکھوجا کے دو بار ڈاکٹر آچکا ہے اتنی بری کنڈیشن ہے اس کی کہ کوئی حال نہیں
اور تمہیں گھومنے پھرنے سے ہی فرصت نہیں ہے وہ انتہائی غصے سے کہتے ہوئے اسے عائشہ کی حالت کی سنگینی کا احساس دلایا
پہلے تو اسے عائشہ کو یہاں دیکھ کر جھٹکا لگا تھا جو کہ کچھ دن بعد واپس آنے والی تھی اور اوپر سے اس کے بخار میں کانپتے وجود کو دیکھ کر وہ پریشانی سے اس کے پاس آ گئی تھی
عائشہ میری جان کیا ہوا ہے تمہیں اتنا تیز بخار آپ نے ڈاکٹر کو دکھایا وہ اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھنے لگی
ابھی تو بتایا کہ دو بار ڈاکٹر چکا ہے اس کے والدین نہ جانے کہاں گئے ہوئے ہیں نوکر نے فون اٹھایا تھا اور کہاں کہ صاحب اور ان کی بیوی کا کوئی اتا پتا نہیں ہے وارڈن ترکش میں اس سے بات کر رہی تھی
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ حالت بہت خراب ہے یہ کسی چیز سے بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکی ہے آج صبح ہی یہاں آئی تھی لیکن تم تو صبح سے غائب ہو کہاں تھی صجح سے وہ اب اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی
وہ دراصل میرے ڈیڈی آئے تھے میں ان کے ساتھ تھی صبح سے اسی لئے اس طرف دھیان نہیں دے سکی ان کی جانب دیکھتے ہوئےجاناں نے جھوٹ بولا تھا ورنہ وارڈن نے بات کی تہہ تک پہنچ کر ہنگامہ کر دینا تھا ۔
اچھا ٹھیک ہے اب میں جا رہی ہوں تم اس کا خیال رکھنا بیچاری بہت زیادہ گھبرائی ہوئی ہے نہ جانے کیا بات ہے جب سے آئی ہے یہی بستر پر پڑی تھی دوسری کلاس کی لڑکی تمہارا پتہ کرنے کے لیے یہاں آئی تو اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی بخار اتنا زیادہ تھا کہ سوچا اسے ہسپتال لے جاؤں لیکن اس نے صاف منع کردیا ۔
اور اب اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے تم دھیان رکھنا کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کہہ دینا وہ ایک نظر عائشہ کی طرف دیکھتی جاناں کو کہتی باہر جا چکی تھیں
جبکہ جاناں اب پریشان بیٹھی اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے لگی اتنے دنوں کے بعد دوست ملی بھی تھی تو اتنی بری حالت میں کہ وہ ٹھیک سے خوش بھی نہ ہو سکی اس کی واپسی پر
پتا نہیں عائشہ کو ہوا کیا تھا کہ اس کی حالت حد درجہ خراب تھی بخار کے ساتھ ساتھ اس نے جاناں کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا جاناں اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی کسی سے حد درجہ خوفزدہ ہے
°°°°°°°°
آریان اپنا سارا کام نبٹا کر جلدی سے جلدی گھر واپس آیا تھا
کیونکہ آج صبح کے تایا ابو ان کے شہر آئے تھے وہ دوپہر کو ہی انہیں گھر بھیج چکا تھا تاکہ وہ اریشفہ سے مل کر تھوڑا وقت اس کے ساتھ گزار سکیں
کیونکہ وہ اپنے ایک بہت ضروری کام کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے انہیں شام کو ہی واپس چلے جانا تھا یقیناً اس وقت تک وہ گئے نہیں ہوں گے یہی سوچ کر خود آتے ہوئے ان کے لئے ارجنٹ ڈنر پیک کروا کے لایا تھا
لیکن پھر بھی وہ بہت لیٹ ہو گیا تھا اب اپنا سارا کام ختم کرکے وہ گھر آیا جانتا تھا کہ آج اریشفہ بہت زیادہ خوش ہو گی کیونکہ وہ کافی ٹائم سے اس کو کہہ رہی تھی کہ اسے گھر جانا ہے
وہ مسکراتے ہوئے بلڈنگ میں داخل ہوا تو گھر لاک تھا وہ اکیسٹرا کی یوز کر کے اندر آیا تو یہاں اریشفہ تھی اور نہ ہی ڈی ایس پی سر موجود تھے
۔اس نے جلدی سے اپنا فون نکالا تاکہ پتہ لگاسکے کہ وہ دونوں کدھر گئے ہیں لیکن اس کے فون پر اتنی ساری مسڈکال تھی اس نے دیکھا تو ساری کی ساری اریشفہ کی ہی تھی
وہ اسے اتنا زیادہ فون کیوں کر رہی تھی اس کا فون سائلڈ پر ہونے کی وجہ سے اسے اس کی ایک بھی کال کا پتا نہ چلا ۔یا اللہ پتہ نہیں کیوں کال کررہی ہو گی پتا نہیں کیا بات کرنی ہو گی اسے مجھ سے
لیکن اتنی زیادہ مس کالز وہ پریشانی سے اسے فون کرنے لگا وہ ہمیشہ اسے ویڈیو کو ہی کرتا تھا ۔اور اب بھی اس نے ایسا ہی کیا
فون رسیو ہوا تو سامنے اریشفہ کی جگہ اس کے تایا ابو مسکرا رہے تھے
۔معاف کرنا اریان بیٹا تمہاری اجازت کے بغیر میں اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے کر جا رہا ہوں وہ کیا ہے کہ اس کے پیپر سے شروع ہونے والے ہیں تو اچھا ہے ایک بار سب سے مل لے
پھر تو اپنے پیپرز کی تیاری میں بیزی ہو جائے گی اریشفہ نے تمہیں بہت بار فون کیا لیکن شاید تم بیزی تھے تم نے فون نہیں اٹھایا تو میں بنا اجازت ہی اسے لے آیا یقینا تم برا نہیں مانو گے سر نے مسکراتے ہوئے کہا تو آریان بھی مسکرا دیا
اب یہ تو وہی جانتا تھا کہ اریشفہ کے بغیر تو اسے نیند بھی نہیں آتی ۔
سر میں بھی کل یا پرسوں اسے وہاں لے کر آنے ہی والا تھا عرشی تو روز کہتی تھی شادی کے بعد میں اسے بالکل بھی اس کے گھر لے کر نہیں جا سکا
آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ جو کیس اس دفعہ کھلا ہے اس کی وجہ سے میں کتنا مصروف ہوں ۔آریان نے اپنا غصہ چھپانے کی کوشش کی تھی ۔
ہاں بیٹا یہ کیس بہت مشکل ہے میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری مصروفیات کو لیکن اریشفہ کا بھی بہت دل تھا آنے کا اسی لیے میں اسے اپنے ساتھ لے آیا
کچھ دن میں واپس آ جائے گی انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا جب کہ آریان نے تو صرف "کچھ دن" ہی سنا تھا ۔
کچھ دن تو مشکل ہو جائے گا سر کل تومیں خود ویسے بھی وہاں آنے ہی والا ہوں آپنے ایک کام کے سلسلے میں تو میں خود ہی اس کو لینے آ جاؤں گا اب آپ کیا زحمت کریں گے اور اسی بہانے میں بھی سب سے مل لوں گا ۔
اس نے صفائی سے بات کو اپنے مطلب تک پہنچایا تھا ۔
ارے بیٹا اب تو تمہاری ہی ہے تم جب چاہے لے جانا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔پھر تھوڑی دیر مزید باتیں کرکے فون بند کر دیا
اس دوران اریشفہ بالکل فون کے سامنے نہیں آئی تھی وہ کسی بھی طرح آریان کو غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی اس کا دل جانتا تھا بے شک آریان ان سامنے کچھ بھی نہ کہے لیکن وہ اس وقت غصے میں تو تھا
تم تو کہہ رہی تھی کہ آریان غصہ ہوگا تمہارے اس طرح سے جانے پر وہ تو بالکل بھی غصہ نہیں ہوا اب فون بند کرنے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ مسکرا دی
یہ بات تو صرف وہی جانتی تھی کہ آریان کو تو کام سے واپس آتے ہی بس اسی کے چہرے کی طلب ہوتی ہے اسے دیکھے بنا تو وہ کوئی بات نہیں کرتا کہاں اس کے بنا رہ پائے گا
آریان کو سوچ کر وہ بہت پریشان تھی یقینا اس وقت وہ بہت غصے میں ہو گا لیکن تایا ابو کے سامنے وہ اسی طرح ظاہر کر رہی تھی جیسے اس کچھ ٹھیک ہو
اور اس کی سوچ کے عین مطابق آریان کو بہت غصہ آرہا تھا وہ جانتی تھی کہ اس کی شکل دیکھے بنا میں نہیں رہ سکتا تو اس طرح سے کیسے جا سکتی ہے دو دن صبر کرلیتی لے جاتا اسے وہ سگریٹ کے کش لگاتا ہوا ادھر سے ادھر گھوم رہا تھا ۔
لیکن غصہ کسی طرح سے کم نہیں ہو رہا تھا اب کہہ دیا تھا کہ صبح لینے آئے گا اس وقت پیچھے بھی نہیں جا سکتا ۔ ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ ابھی واپس لے آئے اسے لیکن اسے یہ بھی سمجھنا تھا کہ صرف اسی کا حق نہیں ہے اس پہ وہ رشتے رکھتی ہے ایک فیملی رکھتی ہے جن سے وہ محبت کرتی ہے
آریان تو بچپن سے ہی اکیلا تھا تنہا تھا رشتے ناطے فیملی کسے کہتے ہیں اس سے پتہ تک نہیں تھا وہ تو اریشفہ کے آنے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ اس کا بھی کوئی ہے اس دنیا میں ورنہ برسوں سے اکیلے رہتے ہوئے اسے کسی رشتے کی طلب تک نہیں تھی ۔
لیکن اب سب کچھ بدل گیا تھا
اب ہر شام کو گھر واپس آتے ہیں اسے اریشفہ شکل دیکھنی تھی
اور اسے اپنے پورے دن میں ہوئے تمام واقعات سنانے تھے وہ اسے ہر بات بتاتا تھا جن میں سارا دن اسے کتنا مس کیا کتنی بار فون کیا
کیا کیا سب شامل ہوتا تھا اور آج اسے اس کے بنا رہنا
تھا جو کہ دنیا کا سب سے مشکل ترین کام تھا اس کے لیے
°°°°°°
وہ اس وقت ایک کلب میں موجود تھا
ہاتھ میں مشروم کا گلاس تھا جسے وہ پی نہیں رہا تھا بلکہ صرف گھور رہا تھا
جبکہ دھیان سامنے ڈانسنگ فلور پر ناچتی ایک لڑکی کی طرف تھا ۔
جو خود بھی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
۔پھر تھوڑی دیر کے بعد آہستہ آہستہ اس کی طرف چلی ائی
تم کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے ہو کیا میں تمہیں بہت اچھی لگی ۔مجھے بھی تم کافی اچھے لگے اگر تم چاہو تو ہم اس شام کو ایک ساتھ انجوائے کر سکتے ہیں
اس کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے وہ اسے اپنی بات کی گہرائی کا مطلب سمجھا رہی ہو ۔
میں شادی شدہ انسان ہوں اس نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تو اس کے اپنے چہرے پر بھی ایک دلکش مسکراہٹ آ رکی نہ جانے کیسے اسے اس وقت جاناں کا خیال آ گیا وہ تو یہاں اپنے کام کے لئے آیا تھا
میرے جتنی خوبصورت تو نہیں ہوگی ۔اور اگر ہو گی تو اس میں وہ مزہ کہاں جو مجھ میں ہے ۔یقین مانو جتنا سکون میں دوں گی وہ نہیں دے پائے گی ۔ بیویاں تو صرف گھر کے لئے ہوتی ہیں سکون تو ہم جیسی عورتوں سے ملتا ہے وہ ایک آنکھ دباتی اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔
میری جاناں سے زیادہ خوبصورت اور کوئی نہیں ہے مجھے اس کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں چاہیے وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولا ۔
کیوں وہ کیا آسمان سے اتری ہوئی کوئی حور ہے
۔ پا پری ستان سے اتری ہوئی پری ۔
ایک بار مجھے آزما لو اسے بھول جاؤ گے
وہ کوئی عام لڑکی نہ تھی یہاں تو اس کا روز کا آنا جانا تھا اور یہاں کا ہر شخص اس کی قربت کے لیے تڑپتا تھا
لیکن وہ ہمیشہ اسی کو اپنے لئے چنتی جو اسے اچھا لگتا اور آج اسے جو اچھا لگا تھا وہ اس کے سامنے کسی اور کی تعریف کر رہا تھا جو اسے ہرگز گوارا نہ تھا ۔
وہ کتنی ہی دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا ۔پھر اچانک ہی اسے یاد آگیا وہ یہاں جاناں کے نام پر لڑنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے کام کے لئے آیا ہے
میرے گھر چلو گی وہ اسے دیکھ کر بولا تو اس کے چہرے پر خوشی کے کہیں رنگ جگمگائے ۔
ہاہاہا دیکھا آخر میری خوبصورتی کا رنگ تم پر چڑھ گیا
تم جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چلوں گی بے بی وہ اس کی گردن میں باہیں ڈالتے ہوئے اس کے بالکل پاس آ گئی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے لبوں سے اس کے ہونٹوں کو چھوتی جان اس کا ہاتھ تھامتے اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے آیا تھا جب کہ وہ ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح اس کے پیچھے پیچھے کھینچی چلی آ رہی تھی ۔
آہستہ چلو بی تم تو جان ہی لینے پر تلے ہو وہ مسکراتے ہوئے کہتے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی
جب کہ وہ اسے اپنی گاڑی میں بیٹھاتا ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا ۔
زندگی کا آخری سفر مبارک ہو اس نے مسکرا کر کہا ۔جبکہ وہ اس کی بات کی گہرائی کا مطلب سمجھتے بغیر قہقہ لگا گئی
°°°°°°°°
رات جاناں کے خیال رکھنے کی وجہ سے عائشہ کی طبیعت کافی ٹھیک تھی عائشہ نے اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ کیوں پریشان ہے بس اسے یہ پتہ چلا تھا کہ اس کے ماں باپ غائب ہیں ۔
اس نے بے ساختہ ہی اپنی ماں کے لیے دل سے دعا کی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہوں جبکہ سوتیلے باپ سے اسے کبھی بھی کوئی لینا دینا نہیں تھا وہ جیے یا مرے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اسے بس اپنی ماں سے محبت تھی جسے وہ لاکھ انکار کے باوجود بھی اپنے دل سے نکال نہیں سکتی تھی ۔
جاناں نہانے گئی تو اس کے فون پراریشفہ کے میسج آنے لگے وہ اٹھ کر اس کا موبائل چیک کر رہی تھی جب اریشفہ کے نیچے اسے جان نامی آدمی کے میسج نظر آئے
اس نے فورا ہی اوپن کیا تھا کسی کے میسج پڑھنا بری بات تھی لیکن جاناں کوئی غیر نہیں تھی۔
اور جاناں کے لئے وہ کچھ بھی برا نہیں سوچنا چاہتی تھی
اسی لیے وہ اس کے ہر موو پر نظر رکھتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جانب بہت معصوم ہے اور اپنی زندگی کو بہت مشکل طریقے سے گزار رہی ہے
وہ اس کی زندگی میں کبھی بھی کچھ برا نہیں ہونے دے سکتی تھی اور جان نامی شخص کو وہ خود نہیں جانتی تھی اس لئے اس کے میسج دیکھنا اپنا فرض سمجھا
وہ سارے مسجز کو پڑھ چکی تھی یہ بات سمجھنا اس کے لئے مشکل نہیں تھا کہ جان اس کے لئے ایک بہت خاص شخصیت ہے جانا واش روم سے نکلتی اپنا موبائل عائشہ کے ہاتھ میں دیکھ چکی تھی ۔
کون ہے یہ وہ جان کے میسجز اس کے سامنے کرتی غصے سے بولی تھیں جاناں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا لیکن دل بہت بری طرح سے دھڑکنے لگا تھا
آخر کار وہ پکڑی گئی
اور اب وہ عائشہ کے میسج پڑھنے والی حرکت کا برا منائے بغیر اپنی صفائی دینا شروع کر چکی تھی ۔
وہ بہت اچھا ہے عائشہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے مجھے ہمیشہ سے جانتا ہے تم اس سے ملو گی نہ تو تمہیں بھی وہ بہت اچھا لگے گا پلیز میرا یقین کرو وہ بہت اچھا ہے
میں اس سے ملنا چاہتی ہوں وہ اس کی بات پر دھیان دیئے بغیر غصے سے بولی تو جاناں صرف ہم سر ہلا گئی۔
میں ابھی اس سے ملنا چاہتی ہوں اس بار وہ مزید غصے سے بولی تو جاناں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر ہاں میں سر ہلا گئی ۔
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے جو بھی کہے ایسا نے وہی کرنا ہے جو اسے بہتر لگے گا
اس وقت عائشہ بھی اپنا ڈر بلائے صرف اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی
کہاں ہے تمہاری بیوی مجھے بھی تو بتاؤ میں بھی تو دیکھوں اس حسین اپسرا کو وہ اس کے گھر میں داخل ہوتی شان بے نیازی سے صوفے پر ٹانگ پے ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی ۔
اسے چھوڑو تم اپنی بات کرو وہ اس کے سامنے کھڑا کہنے لگا ۔
ابھی وہ اسے کہہ رہا تھا جب اس کا فون بجا اس نے فوراً فون اٹھا لیا تھا ۔
جان میں تم سے ملنا چاہتی ہوں جاناں فون اٹھاتے ہی بول اٹھی
ہاں میری جان کیوں نہیں جب تم کہو اس نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔
ہم تھوڑی دیر میں ملتے ہیں میں تمہیں فون کروں گا اس نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا تھا
اسی کا فون تھا نہ اسی چڑیل کا میں ملنا چاہتی ہوں اس سے ارے دکھاؤ تو مجھے اس ڈائن کو میں بال نوچ لوں گی اس کے جو تمہیں میرے بالوں سے خوبصورت لگتے ہیں ۔
آنکھیں نکال دوں گی اس کی جو روز تمہیں دیکھتی ہیں بتاؤ تو سہی ہے کہاں ۔
وہ مجھ سے خوبصورت کیسے ہو سکتی ہے ایک بار نظر تو آئے مجھے میں جان نکال دوں گی اس کے وہ سامنے کھڑے جان کو دیکھتے ہوئے بولی نہ جانے اس شخص میں ایسا کیا تھا جو آج تک اسے کسی میں بھی محسوس نہیں ہوا ۔
بس وہ اس شخص کو حاصل کرنا چاہتی تھی جبکہ وہ اسے سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا جیسے اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہو
لیکن وہ تو خود سے زیادہ کسی کو حیسن سمجھتی نہیں تھی اس کے لئے جاناں کی خوبصورتی بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی لیکن اہمیت رکھتا تھا سامنے کھڑا یہ آدمی جو اس کے سامنے جاناں کے گن گا رہا تھا ۔
تمہیں میری جاناں کے بارے میں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا تمہیں اس کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے جان تو میں تمہاری ویسے بھی لینے والا تھا لیکن اب شاید جو ہو گا وہ پہلے نہیں ہونا تھا ۔
وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف قدم بڑھتا اسے بھی پریشان کر گیا تھا وہ کیا کہہ رہا تھا سامنے بیٹھی لڑکی کو تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔
پھر اس نے اپنا موبائل فون نکالا کسی کو فون کیا ۔
میں نے جو کام کہا تھا وہ ہوا ۔۔۔! اس نے سوال کیا ۔
میں تھوڑی دیر میں ان دونوں لڑکیوں کو لے کر فلیٹ میں پہنچ جاؤں گا تب تک تو تم اس لڑکی کا کام تمام کر دینا ۔ٹائر نے کہتے ہوئے فون رکھا جبکہ جان اب پوری طرح اس لڑکی کی طرف متوجہ تھا
°°°°°°
یہ کیا چمچ نہیں ہے ساتھ اب کیا ہاتھوں سے کھاؤں گا یہ چاول اس کا موڈ سخت بگڑا لیکن بھوک بھی بہت لگی تھی اس نے جلدی سے چاول پلیٹ میں نکالے
ایک تو بھوک سے جان نکلے جارہی ہے ایسے میں یہ ٹائر کام بھی پورا نہیں کرتا ۔کھانا لانے کی زحمت اگر کر ہی دی تھی تو چمچ بھی ساتھ لے آتا
وہ پانی کا گلاس اور چاول کی پلیٹ لاکر واپس وہیں آ کر بیٹھ گیا
اس نے ایک نظر فرش پر پڑے خون پر ڈالی۔ یار اب اس کا کیا کرنا ہے
اب اس نے نظروں سے سامنے پڑی لڑکی کو دیکھا ۔
جس کی حالت اتنی خراب تھی کہ کوئی عام آدمی اسے دیکھ لیتا تو اسے ابکائی آنے لگتی
وہ خاموشی سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چرائے بیٹھا اور اپنا گلاس سامنے خون سے بڑے ہوئے ٹیبل پر رکھ دیا
جیسے ہی اس نے پہلا نوالہ لیا اس کی نظر ٹیبل پر ہی پڑی انگلی پر پڑی جو تھوڑی دیر پہلے اس نے فرصت سے اس لڑکی کی کاٹی تھی ۔
اس نے ایک نظر تھوڑا جھک کر اس لڑکی کو ٹیبل کی شیشے سے دیکھا ۔
جس کی ایک آنکھ غائب ہیں اور دوسری باہر نکل رہی تھی ۔
اور اس کے ایک انگلی ٹیبل پر جبکہ باقی نو زمین پر تھی ایک بازو دروازے کے قریب پڑا تھا ۔
دوسرا اس کے ساتھ صوفے پر وہ پرسکون ہو کر اپنی انگلیوں کی مدد سے چاول کھانے لگا ۔
مکمل کھانہ کھا کر اس نے پلیٹ ٹیبل پر رکھی اور پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں پی گیا ۔
پھر آرام سے اٹھا اپنا پیر اس کے خون سے بچاتے ہوئے اس کے بلکل قریب اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔؟اس نے مردہ جسم سے پوچھا
تمہیں میری جاناں کے خلاف بکواس نہیں کرنی چاہیے تھی نا تم جانتی ہو نہ میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں ۔کیا کہہ رہی تھی تم جان لے لو گی اس کی لو میں نے تمہاری جان لے لی
اور کیا کہہ رہی تھی تم بال نوچ لوگی میری جاناں کہ اس نے لڑکی کے گنجے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
آنکھیں نکالوگی میری جاناں کے ۔اس نے اس کے آنکھوں کو دیکھتے ہوئے قہقہ لگایا
تم نے صرف سوچا تو میں نے تمہارا یہ حال کر دیا
اگر کسی نے میری جاناں کی طرف دیکھنے کی بھی کوشش کی تو اس کا حال میں اس سے بھی بدتر کروں گا ۔
وہ صرف میری ہے صرف میری بیسٹ کی بیوٹی
°°°°°°°°°
سامنے پڑے فرش پہ خون کو دیکھ کر وہ ریلیکس فیل کر رہا تھا
نہ جانے خون کا گہرا سُرخ رنگ اسے اتنا کیوں پسند تھا ایک عجیب سا نشہ تھا اسے سکون ملتا تھا
اگر اس کی جاناں اسے اس طرح سے دیکھ لیتی تو ڈر کر کبھی اس کے پاس بھی نہ آتی ۔
وہ فرش سے اٹھ کر ان دونوں لڑکیوں کے وجود کے قریب آیا
جبکہ ٹائر اس وقت تھوڑی دیر پہلے ہونے والی کاروائی کی صفائی کر رہا تھا
ہمیں۔۔۔۔۔ چھوڑ دو۔۔ ہم نے۔۔۔۔۔۔ تمہارا کیا۔۔۔۔۔۔ بگاڑا ہے خدا کے لیے ۔۔۔۔چھوڑ دو ۔۔۔۔لڑکی روتے ہوئے بولی ۔
شس۔۔۔۔ شسش۔ ۔اس نے اپنے ہونٹوں پے انگلی رکھ کر ان دونوں کو خاموش کروایا ۔
شٹ اپ تم دونوں مرنے والی ہو اور اس طرح سے رو رو کر مجھے اریٹیٹ مت کرو ۔
مجھے مزا نہیں آئے گا ۔
وہ غصے سے ان دونوں کو ڈانٹتے ہوئے ایک لڑکی کی انگلی پکڑ چکا تھا ۔
اور پھر اگلے ہی لمحے اس نے انگلی کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ دیا ۔
واو۔۔۔۔واو دیکھو تمہارے خون کا کلر کتنا پیارا ہے ۔۔۔تم لڑکیاں ہر چیز میں پنک کلیر ڈھونڈتی ہونا اسے دیکھو یہ سرخ لال رنگ ۔کتنا خوبصورت رنگ ہے لیکن اتنا کم کیوں ہے ۔مجھ زیادہ رنگ دیکھنا ہے ہر طرف لال ہر طرف سرخ رنگ ۔اس نے پاگلوں کی طرح کہتے کہ ہوئے لڑکی کی ایک کرکے ساری انگلیاں کاٹ دی ۔
لڑکی اونچی آواز میں رو رہی تھی چلا رہی تھی جبکہ اس کو اس طرح سے روتے دیکھ کر دوسری لڑکی بھی بری طرح سے رونے رہی تھی شاید وہ بھی اپنا انجام جانتی تھی ۔
اب تمہاری باری اب وہ دوسری لڑکی کے قریب آ کر بیٹھا تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹنے لگی۔
لیکن شایداس کی قسمت اچھی تھی کہ اس کا فون بج اٹھا ۔
اس نے ٹائر کواشارہ کیا جو اپنی خوبصورت ادائیں دکھاتا آیا اور مضبوط مردانہ ہاتھ دونوں لڑکیوں کے منہ پر رکھ دیا ۔
آواز مت کرنا میری جاناں کا فون ہے ۔اس نے سرگوشانہ انداز میں کہا تھا ۔
جی جان ۔۔۔۔۔وہ اپنے لہجے میں دنیا جہان کی محبت لئے بولا تھا ۔
کہاں ہو تم ۔۔۔؟تم نے کیا کہا تھا مجھ سے کہ تم کچھ دیر میں مجھ سے ملنے والے ہو اور پھر تم نے فون بند کر دیا ہاں ۔دیکھو مجھے ابھی تم سے ملنا ہے بتاؤ مجھے کہاں ہو شاید ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جاناں آج بہت غصے میں تھی
جاناں اس وقت تو میں فلیٹ میں ہوں ۔میں کچھ ہی دیر میں تمہارے ہوسٹل آتا ہوں ۔جاناں سے کہیں زیادہ وہ خود اس سے ملنے کے لیے بے چین تھا ۔
نہیں بدھو تم مت آو میں آئی ہوں تمہارے فلیٹ میں عائشہ بھی میرے ساتھ ہے ۔اسے یہاں کچھ کام تھا اس نے مجھے بتایا تو میں بھی اس کے ساتھ آگئی ۔اسے میں نے تمہارے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اب وہ تم سے ملنا چاہتی ہے جاناں نے اس سے آدھی ادھوری بات بتائی
ہم بس دو منٹ میں اوپر آ رہے ہیں جاناں نے بتاتے ہوئے فون بند کر دیا ۔
جلدی ۔۔۔۔جلدی سے صاف کرو ایک ایک چیز صاف کرو کچھ بھی گندا نہیں ہونا چاہیے یہ خون فرش سے ہٹاؤ اسے خون سے ڈر لگتا ہے جان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا اس کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا ابھی کچھ دن پہلے جب اس نے جان کے ہاتھ پر چوٹ دیکھی تھی کتنی خوف ذدا ہو گئی تھی اور اگر وہ یہاں اتنا خون دیکھ لیتی تو یقیناً بے ہوش ہوجاتی ۔وہ جلدی سے ٹائر کو حکم دیتا خود بھی اس کے ساتھ کام کرنے میں مصروف ہو چکا تھا جب کہ وہ دونوں لڑکیاں اونچی آواز میں چلانے لگی شاید ان کی جان بچنے کا یہ آخری موقع تھا ۔
جب کہ وہ ان دونوں کو اگنور کیے اپنے کام میں مصروف تھا ۔
جتنا جلدی ہو سکے دونوں نے مل کر فرش صاف کیا اور وہاں سے ان دونوں لڑکیوں کی انگلیاں اٹھائیں لیکن ان لڑکیوں نے چلانا اب تک بند نہ کیا ۔
جب ایک ہی لمحے میں وہ ایک لڑکی کو گھسیٹ کر اندر لے آیا اس کا منہ دبوچتے ہوئے زبان باہر نکالی ۔
بہت شوق ہے نہ تمہیں چلانے کا آج تمہاری جان بچ سکتی تھی میں اپنی جاناں کے صدقے تمہیں بخش سکتا تھا لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھتی تو لڑکی باہر لٹکی ہوئی زبان کو اس نے کینچی کی مدد سے کاٹا تھا ۔پھر وہ باہر آیا۔اس لڑکی کی حالت کیا تھی یہ سوچتے ہوئے بھی دوسری لڑکی کی روح کانپ اُٹھی تھی
آواز نہیں آنی چاہیے تمہاری وہ دوسری لڑکی کی آنکھوں میں دیکھ کر غرایا جس نے فوراً نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے یقین دلایا کہ اس کی آواز نہیں آئے گی ۔
ٹائر اسے لے کے جاؤ یہاں سے اس نے لڑکی کی طرف اشارہ کیا اور خود جلدی سے کپڑے چینج کیے اور دروازہ کھولا ۔
ارے بدھو بیل تو بجانے دیتے ۔۔جاناں نے اندر آ کر کہا
کیسے بجانے دیتا ہوں میری وجہ سے تمہیں اتنی سی بھی تکلیف ہو میری برداشت سے باہرہے وہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کو اپنے لبوں سے چومتے ہوئے بولا ۔
عائشہ نے ایک نظر اسے دیکھا کافی خوبصورت نوجوان تھا عائشہ نے بس ایک نظر اسے دیکھا کافی خوبصورت اور خوبر جوان تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شخص وہی ہوسکتا ہے جس سے وہ پہلے بھی مل چکی ہے اور آج تک اس سے ملاقات کے خوف کے زیر اثر ہے۔
جان نے مسکرا کر اسے ہیلو کہا تھا جس کے بدلے میں وہ بھی مسکرائی
یہ عجیب سے سمل کیوں آرہی ہے عائشہ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا وہ ابھی نجانے کیا کیا کہہ رہی تھی لیکن اس کی ایک ہی گھوری نے اس کی بولتی بند کردی
ہاں بہت گندی سمیل آ رہی ہے ۔اس بار جاناں بولی سخت آنکھیں اپنے آپ پر نرم ہو چکی تھی ۔
پتہ نہیں میں بھی کافی دیر سے محسوس کر رہا ہوں چلو باہر چلتے ہیں ۔اس نے جاناں کا ہاتھ تھامتے ہوئے باہر کی راہ لینی چاہیے
لیکن عائشہ نے اس کی بے اختیاری پر جاناں کو انکار کرنے کے لئے بولا
ارے نہیں میں تو بس تم سے ملنے آئی تھی ہم واپس جا رہے ہیں ۔وہ کیا ہے نہ میری فرینڈ تم سے ملنا چاہتی تھی ۔
عائشہ یہ ہے جان ۔اور میں اس کی جاناں ۔جاناں نے شرارت سے اس کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے عائشہ سے کہا ۔
تو تم ہو اس کے بوائے فرینڈ ۔۔۔۔؟ عائشہ نے اپنا ہاتھ اس کے طرف بڑھاتے ہوئے کہا
بوائے فرینڈ نہیں ہزبینڈ میرا مطلب ہے ہونے والا ہزبینڈ رائٹ اس نے ایک نظر اپنے قریب کھڑی جاناں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جاناں کی نظروں کا مطلب ہو جلدی سمجھ گیا تھا مطلب کہ یہ لڑکی ابھی تک ان کے نکاح کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی
وہ بظاہر عائشہ سے مسکرا کر باتیں کر رہا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ اس کی نظروں میں اپنے لئے سختی کو محسوس کر چکی تھی نہ جانے کیوں وہ اسے گھور کر دیکھ رہا تھا
یس ۔جاناں نے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھا
اسے اس طرح سے خود کو گھورتے پاکر عائشہ نظروں کا زاویہ بدلا لیکن سامنے پار کے کمرے کے بند دروازے سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے لیکن جب نظر پردے کے پیچھے کٹی ہوئی انگلی پر پڑی تو اس کا وجود لرزنے لگا ۔
جاناں چل یہاں سے اس نے کپکپاتی آواز میں جاناں سے کہا تھا ۔جبکہ اس کی آواز سن کر اس کے لبوں پر پرسرار مسکراہٹ کھلی تھی ۔
ایسے کیسے چائے تو پی لو اسے خود سے خوف کھاتا دیکھ کر وہ اسے چائے آفر کرنے لگا
نی ۔۔۔۔نہیں نہیں پینی چاہیے چلو جاناں وہ جاناں کا ہاتھ تھام کر گھسیٹنے لگی
جاناں مجھے لگتا ہے تمہاری سہیلی کی طبیعت خراب ہے اسے لے جاؤ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
ہاں اس کی طبیعت بہت خراب ہے جب سے ہوسٹل واپس آئی ہے روز بخار چڑجاتا ہے ہم دوبارہ آئیں گے تم سے ملنے کے لیے جاناں مسکرا کر اسے خدا حافظ کرنے لگی جب جاناں کا ہاتھ چومتے ہوئے اس نے اپنا فون کان سے لگایا تھا
جو میرے خلاف بکواس کرتے ہیں میں ان کی زبان کاٹ دیتا ہوں ۔وہ کان سے فون لگائے عائشہ کو گھور رہا تھا۔
جبکہ اس کی بات سننے کے بعد وہ لڑکھڑا کر گرنے لگی اگر جاناں سے نہ تھمتی تو یقیناً گر جاتی شاید وہ اس سے اپنی بات کا مطلب سمجھا رہا تھا مطلب کہ اگر اس نے جاناں کواس بارے میں کچھ بھی بتایا تو وہ اس کی زبان کاٹ دے گا ۔
اس نے ایک نظر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا کچھ تو تھا جو اسے یاد آیا لیکن وہ جاناں کو وہاں سے لے کر جلدی نکلنا چاہتی تھی
ان کے جاتے ہی وہ قہقہ لگاکر ہنسا تھا ٹائر بھی تالیاں بجاتا اس کے پاس آ کر رکا
ٹائر تو نے دیکھا اس عائشہ کو بہت میری جاناں سے بھی زیادہ ڈرپوک ہے
وہ مجھ سے ڈر رہی تھی لیکن میری جاناں کو مجھ سے ڈر نہیں لگتا مجھ سے بہت پیار کرتی ہے
اس کی خوشی میں اس کا دوست ٹائر بھی بہت خوش تھا
لیکن اگر اس نے جاناں کو کچھ بتا دیا تو وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ابھی تو پچھلا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا وہ لڑکی اسے قتل کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی اور اب یہاں پر کٹی انگلی کے ساتھ ساتھ خون کی نہر بھی ۔
وہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گی تو بے فکر رہ جان نے مسکراتے ہوئے کہا تو ٹائر بھی بے فکر ہو گیا
راستہ بالکل خاموشی سے گزر رہا تھا
وہ اس سے بالکل بھی بات نہیں کر رہا تھا
اور اریشفہ بے چاری بار بار نظریں اٹھا کر اس کی جانب دیکھی لیکن وہ بالکل انجان بنا گاڑی چلانے میں مصروف تھا
جیسے گاڑی میں بالکل اکیلا ہو اس کے ساتھ کوئی موجود ہی نہ ہو
اریشفہ یہ تو جانتی تھی کہ وہ اس خفا ہوا ہے لیکن وہ اسے اس طرح سے نظر انداز کرے گا یہ بات اسے بہت چُب رہی تھی
صبح ہوتے ہی وہ اسے لینے آ پہنچا تھا کہنے کو تو اس نے کہا تھا کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں آیا ہے جو واپسی پر سرانجام دے گا
لیکن واپسی پر اس نے کوئی کام نہیں کیا تھا بس اسے لے کر واپس گھر کے راستے پر چل پڑا تھا
اریشفہ نے یہی سوچا تھا کہ گھر جاکر اسے منانے کی بھر پور کوشش کرے گی
ایک تو وہ اس سے پہلے بار ناراض ہوا تھا
دوسرا اس سے تو کبھی کوئی ناراض ہی نہیں ہوا تھا اسے تو منانا تک نہیں آتا تھا
پتا نہیں اپنے محبوب شوہر کو کیسے منائے گی
بہت ساری سوچیں اس کے ذہن و دل پر سوار تھی
وہ آریان کو اس طرح سے حفا دیکھ کر اندر ہی اندر بہت پریشان تھی ۔آریان کا یہ بے گانہ پن اسے بہت الجھن میں مبتلا کر رہا تھا
۔اور سب سے اہم بات اس کے غصے کا لیول کیا تھا وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی بلا ایسے منائے گی کیسے
وہ بار بار نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی جو بالکل بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا اور اس کا معصوم دل ڈوبتا جا رہا تھا آج آریان کی ناراضگی نہ جانے کون سا طوفان لانے والی تھی
سفر ختم ہو چکا تھا وہ گھر کے باہر گاڑی کھڑی کرتا بنا بھی اسے مخاطب کیے اندر چلا گیا
شاید اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا
اریشفہ خاموشی سے اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے ہی اندر آ گئی ۔
اب وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اندر کی جانب جا رہی تھی جہاں وہ اپنے کام کی تیاری کرتے ہوئے یونیفارم لئے باتھ روم میں گھس چکا تھا
اور اس نے فورا کیچن کی طرف دوڑ لگائی ناشتے کا وقت تو گزر گیا تھا دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا عرش والے جلدی جلدی ہاتھ چلائے آریان نے وہاں پر بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ گھر سے کچھ کھا کر نہیں آیا
کیونکہ استنبول سے اس کے گھر کا سفر تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کا تھا اور اسے پتہ تھا کہ آریان نے یہ سفر بھوکے ہی طے کیا ہوگا
اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے آریان کے لئے کھانا بنایا تھا لیکن جیسے ہی اس نے میز پر کھانا رکھا آریان کی گاڑی کی آواز باہر سے آئی
اس نے دور کر دروازے پر دیکھا تھا لیکن آریان اپنی گاڑی اسٹارٹ کیے وہاں سے جا چکا تھا اس کی آنکھوں میں پانی آنے لگا اس کا شوہر اس سے اس حد تک خفا تھا
°°°°°°°°
کیا ہوا عائشہ تم جب سے آئی ہو بہت پریشان ہو کیا تمہیں جان سے مل کر اچھا نہیں لگا کیا وہ تمہیں پسند نہیں آیا جاناں کب سے اس کے پاس بیٹھی مسلسل اسکا سرکار ہی تھی ۔
جبکہ اس کا دھیان ابھی تک اس جان کی نظروں پر تھا کچھ تو تھا اس کی نظروں میں کچھ تو ایسا تھا جسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی
نہ جانے کیوں اس بیسٹ اور اس جان میں اسے پر کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا
کیا وہ خون اصلی تھا کیا وہاں پر وہ انگلی سچ میں ایک انسان کی تھی عائشہ اپنی ہی سوچوں میں بری طرح سے ڈوبی ہوئی تھی جب جاناں نے اس کے بازو سے پکڑ کر ہلایا
بولو نہ عائشہ کیا تمہیں جان پسند نہیں آیا
کیا تمہیں اس سے مل کر خوشی نہیں ہوئی
وہ بہت اچھا ہے مجھ سے بہت پیار کرتا ہے میرے بھائی اور بابا سے بھی زیادہ جاناں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی
جاناں اتنے تھوڑے وقت میں کسی پر بھروسہ کرنا سوائے بیوقوفی کے اور کچھ نہیں ہے تم اس پر ضرورت سے زیادہ جلدی بھروسہ کر رہی ہو تم بے وقوفی کر رہی ہو جاناں کیا جانتی ہو تم اس شخص کے بارے میں جو تم اس سے محبت کا دعویٰ کرنے لگی ہو یا وہ تمہارے بارے میں کیا جانتا ہے ہاں وہ انتہائی غصے سے اس کے سامنے جان کی ناپسندیدگی کی وجہ بتانے لگی
میں جان کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں
وہ مجھ سے پیار کرتا ہے اور میں اس سے پیار کرتی ہوں
اس سے زیادہ ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے
اور اگر جان کی بات کروں تو میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے سب کچھ عائشہ وہ مجھے بچپن سے جانتا ہے
میری زندگی کا ہر لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے
وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے
عائشہ دیوانوں کی طرح تم نے اس کی محبت نہیں دیکھی ورنہ اس طرح کبھی نہیں کہتی تم ایک بار اس کی محبت کو دیکھ لو پھر دیکھنا تمیں بھی جان اچھا لگنے لگے گا وہ اسے سمجھانے کے لیے مضبوط دلائل ڈھونڈنے لگی
یہ ساری باتیں لڑکے لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے اکثر کرتے رہتے ہیں جاناں
اب کیا کوئی بھی اٹھ کر تم سے یہ کہے گا کہ وہ تمہیں بچپن سے جانتا ہے تو کیا تم اس پر یقین کر لوگی
یہ ساری باتیں لڑکے لڑکیوں کو امپریس کرنے کے لئے کہتے رہتے ہیں اس نے بھی بول دیے ہوں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہیں سچ میں جانتا ہے ۔
نہیں عائشہ اس کے پاس میرے بچپن کی تصویریں ہیں
جاناں یہ سب کچھ آج کل مشکل نہیں ہے کسی بھی انسان کے بارے میں جاننا ہے اس کی انفرمیشن اکٹھا کرنا یا اس کی تصویر نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
یہ انٹرنیٹ کا دور ہے جاناں بیوقوف مت بنو اگر تم اس سے محبت کرتی ہو تو ٹھیک ہے میں تمہارے راستے میں نہیں آوں گی لیکن اگر اس نے کل تم سے شادی کرنے سے انکار کردیا تو کیا کرو گی ہم مسلمان ہیں جاناں ہماری آخری منزل نکاح ہوتا ہے
وہ اسے سمجھا رہی تھی
جبکہ جاناں مسکرا کر اسے قریب سے اٹھ کر اپنے بیڈ پر لیٹ چکی تھی اگر اسے اپنے بابا کا ڈر نہ ہوتا تو وہ اسے بتا دیتی کہ وہ محبت کی آخری منزل بھی طے کر چکے ہیں
°°°°°°°°°°
جاناں گہری نیند سو چکی تھی
جب عاشی کا فون پر جا وہ آہستہ سے فون اٹھا کر نمبر دیکھنے لگی انجان نمبر سے فون آ رہا تھا اس بلا انجان نمبر سے کون کرے گا
اس نے سوچتے ہوئے فون دوبارہ رکھ دیا اس طرح کے فون اٹھانے کی غلطی وہ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن شاید فون کرنے والا کوئی ڈھیٹ آدمی تھا جو بار بار نان سٹاپ فون کیے ہی جا رہا تھا
عائشہ نے مجبور ہوکر فون اٹھایا ایک نظر اس نمبر پر ڈالی جو اس کے لئے بالکل بھی آشنا نہیں تھا پھر فون اٹھا ہی لیا ۔
ہیلو عائشہ کیا تم بول رہی ہو دوسری طرف سے طہ کی آواز پہچان نا اس کیلئے مشکل نہیں تھا
طہ کیسے ہو تم مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ نمبر تمہارا ہے سوری میری وجہ سے تمہیں بار بار فون کرنا پھر اس نے مسکراتے ہوئےسوری کی تھی تو دوسری جانب طہ بھی مسکرا دیا
نہیں کوئی بات نہیں تم بتاؤ آپ کیسی طبیعت ہے تمہاری بخار اترا کے نہیں وہ مسکرا کر بولا تو عائشہ بھی مسکرا دی
پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی
طہ مجھے تم سے کوئی بہت ضروری بات کرنی ہے بیسٹ کے بارے میں کیا ہم مل سکتے ہیں بیسٹ کے بارے میں کوئی بھی بات وہ اس وقت جاناں سے تو شئر نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی وہ اس نازک دل لڑکی کو بتا سکتی تھی اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کیا ہوتا دیکھا ہے
عائشہ اس بیسٹ کو تم اپنے دماغ سے نکال کیوں نہیں دیتی
پلیز عائشہ اسے اپنے دل سے نکال کر اپنے پیپرز پر دھیان دو ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچنا جسے تم نے دیکھا تک نہیں
میں نے ایک انسان کو دیکھا ہے طہ اور مجھے لگتا ہے کیوں وہی بیسٹ ہے میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ میں نے ابھی اس کو دیکھا ہے اس کی آنکھیں اور اس آدمی کی آنکھیں بالکل ایک جیسی ہیں سرد بے رحم تم ایک بار مجھے ملو میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گی وہ کچھ سوچتی ہوئے کہنے لگی تو طہ نے بھی حامی بھر لی تھی اوکے عائشہ میں تمہیں کل صبح ریسٹورنٹ میں ملتا ہوں ۔
لیکن پلیز اس وقت ریلیکس ہو کر سو جاؤ اپنے دماغ سے یہ سوچے نکال دو عائشہ اپنے پیپرز پر دھیام دو اپنے کیلیر کے بارے میں سوچو تمہارے سامنے تمہارا فیوچر ہے تم ایک انسان کی وجہ سے اپنے آپ کو اس حد تک ڈسٹرب کر لو گی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا
وہ اس کا دوست نہ ہوتے ہوئے بھی ایک اچھے دوست کی طرح اسے مشورہ دے رہا تھا پھر دو چار باتیں اور کرنے کے بعد اس نے فون رکھ دیا جب کہ عائشہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ طہ کو جان اور بیسٹ کے بارے میں سب کچھ بتا دے گی
°°°°°°°°°°
عائشہ سو رہی تھی
جب اسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بہت غور سے دیکھ رہا ہے
اس کے دل و دماغ پر ابھی تک بیسٹ کا ڈر بری طرح سے سوار تھا
وہ اکثر نیند میں جاگ جاتی تھی یا اپنے آپ کو بیسٹ کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھتی
آج کل اس کے دماغ میں سوائے قتل خون اور بیسٹ کے اور کچھ چلتا ہی نہیں تھا اس وقت بھی گہری نیند میں تھی بہت دنوں کے بعد اسے ایسی نیند آئی تھی لیکن اب اسے اس نیند میں خلل ہوتا محسوس ہوا کوئی بہت قریب گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ زیادہ دیر تک نیند کو بچا نہیں پائی ۔
اس کی آنکھ کھلی تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی
وہ اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا جبکہ ہاتھ میں ایک چاقو تھا
بالکل میں ایسا ہی چاقو جیسا اس دن بیسٹ کے ہاتھ میں تھا لیکن یہ بیسٹ نہیں بلکہ جان تھا
کیسی ہو جاناں کی دوست سوری میں دن میں تم سے ٹھیک سے نہیں مل پایا تھا وہ کیا ہے نہ اس وقت میں بہت مصروف تھا اسی لئے اسپیشل تم سے ملنے آیا ہوں ۔وہ مسکراتے ہوئے اسے بتا رہا تھا یا ڈرا رہا تھا یہ عائشہ کو سمجھ نہیں آ رہا ۔بس اس کا دل جس رفتار میں دوڑ رہا تھا عائشہ کو لگا کے کچھ ہی دیر میں اس کی سانسیں رک جائیں گی
تم جاناں بکی دوست ہو تو میری بھی دوست ہوئی نہ تم مجھ سے پوچھو گی نہیں کہ میں دن میں اس وقت کیا کر رہا تھا چلو میں خود ہی بتا دیتا ہوں وہ کیا ہے نہ اس وقت میں ایک بہت ضروری کام سرانجام دے رہا تھا ایک لڑکی تھی
وہ میری جاناں کو یہ بتانے آ رہی تھی کہ میں کیا کرتا ہوں مجھے بہت غصہ آیا تو میری جاناں کو مجھ سے دور کرنے کے لیے اسے سب بتانے آ رہی تھی بس اسی لئے میں نے اس کی ساری انگلیاں کاٹ دی اور ہاں اس کے سارے بال بھی کاٹ دیے سوری اکھاڑ دیے وہ اپنے سر پہ ہاتھ مارتا دوستانہ انداز میں بولا تھا
جب کہ اس کے سامنے بیٹھی تھی عائشہ تھر تھر کانپ رہی تھی
کیا ہوا عائشہ تم ڈر گئی جاناں کی دوست تم یوں کیوں ڈر رہی ہو میں تمہیں بھلا کچھ کہہ سکتا ہوں کیا تم تو جاناں کی دوست ہواور تم تھوڑی نہ جاناں کو میرے بارے میں کچھ بتانے والی ہو
تم کون سا اسے یہ بتانے والی ہو کہ اس دن سو ہم کو میں نے کس طرح سے مارا تھا ہیں نا تم نہیں بتاؤ گی نہ تم تو جاناں کی دوست ہوں اور جاناں کی دوستوں میری بھی دوست ہے
تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں عائشہ تم مجھ سے ڈر کیوں رہی ہو میں بھلا کیا کہوں گا چھوڑو ان سب باتوں کو میں نے تو میں ڈسٹرب کیا تم سو جاؤ اب میں بھی چلتا ہوں وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا
۔
عائشہ کی جان میں جان آئی تھی وہ فورا اٹھ کر جاناں کی طرف جانے لگی تھی جب اگلے ہی لمحے وہ الٹے قدموں سے واپس آیا جان نے اپنا چاقو نکال کر اس کے سامنے کیا شاید وہ اسے مارنے ہی والا ہے اس سے پہلے کہ وہ چختی جان نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
چپ ایک دم چپ تم میری جاناں کی نیند خراب کر رہی ہو وہ دوسرے بیڈ پر گہری نیند میں سو ہی جاناں کی طرف دیکھتے ہوئے ہرایا
کسی دوست ہو تم تمہیں پتا ہے نہ جب وہ کچی نیند سے جانتی ہے اس کے سر میں درد ہو جاتا ہے پھر بھی ایسی چیخ چلا کر اس کی نیند خراب کر رہی ہو ۔
وہ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتے ہوئےغصے سے بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو عائشہ نے بہت ہمت کر کے کہا
نہیں مجھے چھوڑ دو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مجھے جانے دو بہت زیادہ گھبرائیں بری طرح سے کانپ رہی تھی اسے دیکھ کر جان ذرا سا مسکرا دیا
جب تک تم اپنا منہ بند رکھو گی تب تک میرا چاقو بھی ضد نہیں کرے گا
ورنہ آج تک جس جس کے سامنے میں نے قتل کیا ہے وہ زندہ نہیں بچا
بیسٹ وہ درندہ جس کا نام ہر ٹی وی چینل پر گونجتا ہے وہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا وہ درندہ میں ہوں ان لوگوں کی جان لینا ان کے پارٹس کو کاٹ کاٹ کر الگ کرنا میرا پسندیدہ کام ہے میری ہوبی ہے اور تمہیں بھی کاٹنے میں مجھے زیادہ وقت نہیں لگے گا
اپنا منہ کھولنے سے پہلے ایک بار کل ٹی وی پر اس لڑکی کی خبر سن لینا جس کے ہاتھ کی انگلی تو میرے گھر پر دیکھ کر آئی تھی چلو اب سو جاؤ پیپرز ہونے والے ہیں تم لوگوں کے اتنی دیر رات تک جاگنا اچھی بات نہیں ہوتی گڈ نائٹ وہ آہستہ سے اسے وش کرتے ہوئے ایک محبت بھری نظر جاناں کی طرف دیکھ کر کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا کیا
اب یہ تو عائشہ ہی جانتی تھی کہ اس کی یہ گڈ نائٹ کتنی گڈ ہے
°°°°°°°°
اس نے گھر میں قدم رکھا تو عریشفہ سامنے بیٹھی ہوئی تھی
اسے دیکھتے ہی کھل اٹھی روز کی بانسبت وہ آج ذرا لیٹ آیا تھا
اریشفہ اس کا فیورٹ کلر بلو پہنے سیدھے اس کے دل میں اتر رہی تھی
لیکن فی الحال وہ اتنی آسانی سے ماننا نہیں چاہتا تھا
وہ اسے اپنی اہمیت کا احساس دلانا چاہتا تھا وہ محبت کے بدلے محبت چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ جتنی محبت وہ اریشفہ سے کرتا ہے اتنی ہی محبت اریشفہ بھی اس سے کرے
جتنا اس کا خیال رکھتا ہے اتنا ہی خیال اریشفہ بھی اس کا رکھے
جس طرح وہ اس کے جذبات کا احترام کرتا ہے وہ بھی اس کے جذبات کا احترام کرے ابھی کل صبح ہی کی تو بات تھی جب وہ اسے اپنے تمام تر جذبات کا اظہار کر کے کام پر گیاتھا
اس نے کہا تھا کہ شام کو وہ ڈنر باہر کریں گے ایک محبت سے بھرپور شام ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں گے
وہ تو ڈی ایس پی سر آگئے تو آریان کا کام زیادہ بڑھ گیا
لیکن اس نے اپنے پلانز کو پھر بھی اگنور نہیں ہونے دیا تھا
اسے پتہ تھا کہ سر واپس چلے جائیں گے کیونکہ وہ کبھی بھی گھر سے باہر رات نہیں گزارتے تھے
اس نے سوچا تھا کہ سر کے جانے کے بعد وہ اسے لانگ ڈرائیو پر لے کر جائے گا
اور اس کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارے گا
اس کے پیپرز شروع ہونے سے پہلے وہ اس کے ساتھ اسپیشل ٹائم گزارنا چاہتا تھا
اور اس پہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی ڈی ایس پی سر کے ساتھ چلی گئی اسی بات نےآریان کو ہرٹ کیا تھا اور اب آریان چاہتا تھا کہ وہ اسے اس بات کا احساس دلائے
اسی لئے وہ اس سے ناراض ہو گیا تھا دوپہر بنا اس کے ہاتھ کا کھانا کھائے وہ چلا گیا تاکہ وہ اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرسکے
وہ گھر واپس آیا اور اسے اگنورکرتےسیدھا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا جب اریشفہ نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا
سامنے ٹیبل پر اس کی پسندیدہ بریانی تیار تھی ۔
وہ اپنا ہاتھ چھڑواتا ایک نظر اس کی طرف دیکھتا پھر اسے نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔
وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہی پریشان صورت لے کر آئی اس کا چہرہ دیکھ کر آریان کی بار بار ہنسی نکل رہی تھی
جس پر وہ بھرپور کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
ابھی وہ واڈراب کھول کر کپڑے نکال ہی رہا تھا جب اچانک اریشفہ نے میوزک آن کر دیا
۔"تمہاری نظر کیوں خطا ہو گئی
خطا بخش دو گر خطا ہو گئی"
"تمہاری نظر کیوں خفا ہو گئی
خطا بخش دو گر خطا ہو گئی "
ہمارا ارادہ تو کچھ بھی نہ تھا
ہماری خطا خود سزا ہو گئی "
اریشفہ کمرے کے دروازے سے ٹیک لگائے مسکراتے ہوئے اپنی صورتحال کو گانے کی صورت بیان کر رہی تھی
پھر مسکراتے ہوئے آواز بلند کر دی
آریان نے آئی برو اچکا کر اس کے اس انداز پر داد دی تھی وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب ائی اس کے غصے میں کمی دیکھ کر اریشفہ کو تھوڑا حوصلہ ملا تھا اب۔وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سنگر کی آواز کے ساتھ ہونٹ ہلاتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی
"سزا ہی سہی آج کچھ تو ملا ہے
سزا میں بھی اک پیار کا سلسلہ ہے "
"سزا ہی سہی آج کچھ تو ملا ہے
سزا میں بھی اک پیار کا سلسلہ ہے "
"محبت کا اب کچھ بھی انجام ہو
ملاقات کی ابتدا ہوگئی "
ہمارا ارادہ تو کچھ بھی نہ تھا
ہماری خود خود سزا ہوگئی
۔
آریان کا دل چاہا کہ اپنی ساری ناراضگی بھلا کر اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لے لیکن اسے تنگ کرنے میں بھی اپنا ہی مزا آ رہا تھا آج وہ کھل کر اس سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی آج تو یہ سنگر واقع ہی اس کے دل کے الفاظ اس کی زبان پر لے آئی تھی
اسی لیے اسے پیچھے کرتے ہوئے مسکرا کر سنگر کے ساتھ خود بھی گنگنانے لگا
"ملاقات پہ اتنا مسرور کیوں ہو
ہماری خوشامد سے مجبور کیوں ہو "
"ملاقات پہ اتنا مسرور کیوں ہو
ہماری خوشامد پہ مجبور کیوں ہو"
منانے کی عادت کہاں پر گئی
ستانے کی تعلیم کیا ہوگئی "
ہمارا ارادہ تو کچھ بھی نہ تھا
تمہاری خطا خود سزا ہوگئی ۔
خوب نکھرے دکھاتا وہ ایک بار پھر سے اسے خود سے پیچھے کرتے ہوئے ناراضگی سے گنگنایا اریشفہ ابھی تک اسے منانے کا مکمل ارادہ رکھتی تھی اس کے پیچھے پیچھے ہی آئی ۔
اتنی جلدی ہار نہیں مان سکتی تھی ہاں لیکن اب اتنا یقین ہو چکا تھا آریان مان چکا ہے اب تو یہ بس اوپر اوپر کا ڈرامہ ہے جو وہ جلد ہی ختم کرکے اپنی ناراضگی کو بھلا دے گا
اسی لئے اس کے پیچھے پیچھے سر پے ہاتھ رکھے کسی فوجی کی طرح چلتی پھر سے سنگر کی آواز پر لب ہلاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"ستاتے نہ ہم تو مناتے ہی کیسے
تمہیں اپنے نزدیک لاتے ہی کیسے "
" ستاتے نہ ہم تو مناتے ہی کیسے
تمہیں اپنے نزدیک لاتے ہی کیسے "
وہ اس کے سامنے کھڑی ابھی تک مانا رہی تھی جب آریان اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے خود گنگنانے لگا
"اسی دن کا چاہت کو ارمان تھا
قبول آج دل کی دعا ہوگئی۔ "
وہ اس کے دونوں گالوں پے ہاتھ رکھتے ہوئے اگلے ہی لمحے اس کے لبوں پر جھکا تھا ۔اس کے مان جانے پر آریشفہ نے سکون کی سانس لی
لیکن یہ تو اس کی سانسیں روکنے کے در پر تھا لیکن آج اس کا یہ ظلم قبول تھا آج سچ میں وہ بہت ڈر گئی تھی
اگر آریان بھی اس سے ناراض ہو گیا تو اس کی زندگی میں بچے گا ہی کیا بہت کم وقت میں اسے پتہ چل چکا تھا کہ آریان سے زیادہ اس کی زندگی میں اور کوئی اتنا عزیز نہیں اور آریان کا روٹھنا اس کے لیے سوھان روح ھے ۔
°°°°°°
عائشہ چلو باہرچلتے ہیں
وہ صبح صبح تیار اس کے سامنے کھڑی تھی
اس نے ایک نظر اس کی تیاری پر دیکھا اب جاناں اپنے آپ کو کافی تیار شیار رکھتی تھی ۔
وہ سادگی جو اس کی طبیعت کا حصہ تھی اپنے آپ کو نظر انداز کیے اپنی ذات کو بھلائے وہ جاناں اس جاناں سے بالکل مختلف تھی ۔
وہ جب سے آئی تھی اس نے اس بات کو بہت زیادہ نوٹ کیا تھا کہ اب وہ اپنا بہت خیال رکھنے لگی تھی پہلے کی طرح کچھ بھی نہیں تھا اب وہ ہر وہ کام کرتی جو اس کی خوبصورتی کو بڑھاتا یہ تو وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ یہ سب کچھ اس لئے کرتی تھی تاکہ وہ جان کو اور اچھی لگے وہ اس سے اور زیادہ محبت کرنے لگے ۔
یہ معصوم تو جانتی تک نہیں تھی کہ جس سے وہ محبت کر بیٹھی ہے وہ انسان نہیں بلکہ بھیڑیا ہے انسان کے روپ میں چھپا ہوا حیوان ایک درندہ ہے
۔اور جس درندگی سے وہ لوگوں کی جان لیتا ہے وہ سوچتے ہوئے بھی عائشہ سوچ کر ہی کانپ گئی
۔اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اسے سو ہم کو موت کے گھاٹ اتارتے دیکھا تھا
وہ کیسے اپنی دوست کے لئے اس شخص پر یقین کر سکتی تھی وہ انسان نہیں تھا یا شاید اس کے سینے میں دل نہیں تھا جس طرح سے وہ لوگوں کو کاٹ کر ٹکرے ٹکڑے کرتا تھا کسی انسان کے بس کی بات تو وہ ہرگز نہیں تھی
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جاناں کو سب کچھ بتا دے
وہ جان کی حقیقت اس کے سامنے کھول دے
وہ اسے حقیقت کا آئینہ دکھائے لیکن پھر کیا ہوگا جان تو شاید اسے جان سے مار دے گا
اپنی سہیلی کے لئے جان دینے کے لیے بھی تیار تھی
لیکن اس معصوم لڑکی پر کیا بیتے گی جب سے پتہ چلے گا کہ جسے اتنی محبت کرنے لگی ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو سر تا پیر بدل رہی ہے وہ ایک قاتل ہے
جاناں تو بکھر کر رہ جائے گی
۔ساری زندگی اپنوں سے محبتوں کے نام پر اسے کچھ بھی نہیں ملا تھا اور اب محبت میری بھی کو انسان کے روپ میں ایک درندے کی کیسے برداشت کرے گی وہ یہ سب کچھ کیسے جیے کہ اس شخص کے ساتھ
نہیں میں جاناں کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی
میں اسے سب کچھ بتا دوں گی اس نے فیصلہ کیا تھا
لیکن پھر سوہم کی لاش آنکھوں کے سامنے آگئی
خون سے لت پت جسم سے خون کے فوارے نکلتے وہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ آج بھی اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے
جاناں جو کب سے اس کی منتظر تھی اس کے چہرے پر سوچو کا جال دیکھ کر اس کے سامنے چٹکی بجائی
چلو نہ یار بہت مزہ آئے گا جان بھی آئے گا اچھا ہے نہ تم اس کے ساتھ ٹائم سپینڈ کرکے اسے اچھی طرح سے جان لو گی پھر تمہارے بیکار کے وہم بھی دور ہو جائیں گے وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی عائشہ کو یاد آیا آج وہ طہہ سے ملنے والی ہے
نہیں جاناں میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے تم جاؤ انجوائے کرو وہ سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تو جاناں کو بھی پریشانی نے آ گھیرا
کیا ہوا عاشی طبیعت زیادہ خراب ہے میں جان کو فون کرکے منع کر دیتی ہوں وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تو ہے اس نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا ۔
نہیں جاناں میں بالکل ٹھیک ہوں تم جاؤ انجوائے کرو وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی وہ طہ کے بارے میں سے کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی پتا نہیں طہ کو سب کچھ بتا کہ وہ ٹھیک کر رہی تھی یا نہیں وہ خود میں ہی بری طرح الجھی ہوئی تھی
جاناں کے فون پر میسج آیا جان باہر اس کا انتظار کر رہا تھا وہ عائشہ کو خدا حافظ کرتی جان کے پاس چلی گئی جب کہ وہ جان کی گاڑی کے نکلنے کا انتظار کرتی رہی تاکہ خود طہ سے ملنے جا سکے
کیوں کہ یہ تو اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ خاموش نہیں بیٹھتے گی وہ جان کو اس کے گناہوں کی سزا ضرور دے گی وہی ہے جو لوگوں کو کاٹ کر ان کی زندگیاں ختم کر رہا ہے بے قصور لوگوں کی جان لے رہا ہے
میں اپنی دوست کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی جان تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا ضرور ملے گی تم جیسے حیوان کی جگہ باہر میں نہیں بلکہ جیل میں ہے ۔تم جیسے انسان کو سلاخوں کے پیچھے رہنا چاہیے تمہیں کوئی حق نہیں ہے اس طرح آزاد زندگی گزارنے کا
°°°°°°°°
جان تم نے تو کہا تھا کہ ہم ڈیٹ پر جا رہے ہیں لیکن یہ تم مجھے یہاں کیوں لے کے آئے ہو اسے گھر کے باہر کار روکتے دیکھ کر وہ پوچھنے لگی ۔
ڈیٹ پر جا کر کیا کرنا ہے ہم اپنا وقت میرے بیڈروم میں بھی تو گزار سکتے ہیں ۔
وہ اس کے بالکل نزدیک آتے ہوئے بولا تو جاناں نے فوراً اپنے لبوں پر ہاتھ رکھ لیا جس پر جان کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی ۔
ارے کیا تم تو بہت خوفزدہ ہو مجھ سے ایسے کیسے چلے گا ابھی تو تمہیں بہت کچھ سہنا ہے وہ اس کے ہاتھوں کو اس کے لبوں سے ہٹانے لگا
جان خبرادار جو تم نے کوئی بھی شرارت کی
تم نے مجھے آئس کریم کھلانے کا وعدہ کیا تھا لیکن تم مجھے یہاں لے آئے چھیٹر کہیں کے چلو مجھے آئس کریم کھلانے لے کر جاؤ
میں تمہارے ساتھ اکیلے اس گھر میں ہرگز نہیں آؤں گی بالکل بھی اچھے نہیں ہو تم ایک نمبر کے چھچھوڑے آدمی ہو۔تمہارے چھچھوڑے پن کے مناظر میں اس دن دیکھ چکی ہوں وہ اسے گھورتے ہوئے بولی
لڑکی ابھی تم نے میرا چھچھوڑاپن دیکھا کہاں ہے ایک بار تمہارے پیپرز ختم ہو جائیں پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ میں کیا ہوں اور کیا نہیں ۔لیکن فی الحال مجھے برداشت کر لو وہ کیا ہے نا پچھلے چار دن سے میں نے خود پر بہت مشکل سے قابو کیا ہوا ہے ۔
کہاں ملے گا مجھ جیسا مسکین شوہر جو سارے حقوق رکھنے کے باوجود بھی اتنی دوری اختیار کئے ہوئے ہے وہ اس کے دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کی پیالیوں میں بھر چکا تھا پھر اس کے لبوں پر جھکا
پلیز جان نہیں ۔۔ وہ اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے دور کرنے لگی ۔
ائی پرامس اس بار بہت پیار سے ہ وعدہ کرنے والے انداز میں بولا تو جاناں کا ہاتھ اپنے آپ ہی اس کے لبوں سے ہٹ گیا ۔
جان مسکرایاایسے جیسے جاناں نے خود اسے چھونے کی اجازت دی ہو جان اس پر جھکا اس کے نرم و ملائم نازک لبوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں لیے وہ کچھ ہی پل میں اسے آزاد کر چکا تھا ۔
دیکھا کوئی چھچھوڑاپن نہیں دکھایا وہ آنکھ دباتے ہوئے مسکرا کر بولا تو جاناں بھی ہسن کر چہرا جھکا گئی ۔لیکن لال چہرہ شرم و حیا کی سرخی کو بیان کر گیا ۔
میری بلشنگ کوئین چلو آؤ تمہیں آئسکریم کھلاتا ہوں وہ نرمی سے اس کے گالوں کو چھوتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کر گیا جاناں نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھا جان نے بے اختیار اپنے لب اس کے بالوں پہ رکھے تھے
آئی لو یو ماہی تمہارے بغیر تمہارا جان ادھورا ہے وہ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کو چومتا محبت سے بولا جب کہ جان صرف مسکرائی تھی
°°°°°°°°

آریان کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے سینے پرسر رکھے گہری نیند سو رہی تھی ۔اریان نے محبت سے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر آہستہ سے اسے خود سے دور کرتے ہوئے بیڈ پر لٹایا ۔اوراس کے قریب سے اٹھا
رات اس نے کافی دیر تک اسے جگائے رکھا تھا اس وقت وہ اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے تیار ہونے لگا آئے دن بیسٹ کی کوئی نہ کوئی خبر آتی ہی رہتی تھی یقیناً آج بھی اس میں کچھ نہ کچھ ضرور کارنامہ سرانجام دیا ہو گا ۔
اسےبیسٹ کی طرف سے تین پارسل ریسیو ہوچکے تھے مطلب کہ ان دنوں میں اس کے لیے سب سے زیادہ ایماندار آفیسر آریان ہی تھا اسی لئے وہ سب چیزیں اسی کو بھیج رہا تھا ۔لیکن اس کے باوجود بھی آریان ان لوگوں کو بچا نہیں پا رہا تھا ۔
اب لسٹ میں اگلا نام جس کا تھا اسی کے گھر سےسوہم کی لاش ملی تھی لیکن آج کل اس کا بھی کوئی پتا نہیں تھا سو ہم کی موت کے بعد وہ شخص ایسا غائب ہوا کہ اس کا نام و نشان بھی نہ ملا وہ اور اس کی بیوی دونوں ہی منظر عام سے غائب تھے جبکہ ان کی بیٹی کا بھی کوئی اتا پتا نہیں تھا ۔
جس دن سو ہم کی موت ہوئی تھی اس کی بیٹی اس دن کر گھر پر تھی لیکن اریان صرف اسے تصویروں کی حد تک جانتا تھا ۔لیکن اس لڑکی کو اس نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا ابھی سے پتہ چلا تھا کہ وہ کسی ہوسٹل میں رہائش پذیر ہے آج اریان کا وہاں جانے کا ارادہ تھا ہوسکتا ہے کہ وہ لڑکی اپنے والدین کے بارے میں کچھ جانتی ہو ۔
اس کا ارادہ صرف خان صاحب کی جان بچانے کا تھا لیکن وہ بے وقوف آدمی بیسٹ سے بچنے کی کوشش میں نہ جانے کہاں جا چکا تھا موت پر کسی کا زور نہیں اگر اس کا جان کے ہاتھوں اس کا مرنا لکھا ہے تو وہ ضرورمرے گا لیکن کوشش تو کر سکتا تھا اس سے بچانے کی ۔
ابھی وہ انہیں سب سوچوں میں اپنے شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جب نظر بیڈ کی طرف دیکھا اریشفہ نیند سے بھری آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی آریان نے مسکرا کر پلٹ کر دیکھا اب وہ اشاروں میں اس سے بات کر رہی تھی ۔
آپ جا رہی ہیں اتنی جلدی میں آپ کے لئے ناشتہ تیار کرتی ہوں آپ تب تک تیاری کرے وہ تیزی سے بیڈ سے اٹھی جب آریان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔
اس ناشتہ کا ٹائم نہیں ہے لیکن اگر تم چاہتی ہو کے میں گھر سے یوں نہار منہ نہ جاؤں تو تم مجھے ایک کس دے سکتی ہو اس نے مسکراتے ہوئے اس کے لبوں کو اپنی انگلیوں سے چھوا جب اریشفہ نےاسے خود سے دور کرتے ہوئے سخت نظروں سے گھورا
یار جب تم ایسی گھورتی ہو تو تم پر اور بھی زیادہ پیارآتا ہےوہ اس کے دونوں گالوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے لبوں پر جھکا تھا محبت سے بھرپور دہکتا لمس پراریشفہ آنکھیں بند کر لیں وہ نرمی سے اس کے لبوں کو چھوتا پیچھے ہٹتے مسکرایا ۔
پیپرزکی تیاری کیسی ہے اب وہ اپنی تیاری مکمل کرتے ہوئے سیریس انداز میں پوچھنے لگا جس پر خود دونوں ہاتھ کو انگوٹھے کی شکل دیتے ہوئے اپنے پیپرز کی تیاری کا بتانے لگی چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی ۔
ویری گڈ ایسے ہی پیپر بھی ہونے چاہیے اس نے اریشفہ کے چہرے پر الجھن سی دیکھی تھی اسے لگا جیسے وہ اس سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے ۔
جو کہنا چاہتی ہوکہہ دیا کرو اس طرح سے تمہیں اپنی طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھ کر مجھے غیروں جیسی فیلینگ آتی ہے وہ کچھ ناراضگی سے بولا تو عرشی فوراً ہی اس کے پاس کھڑی اشارے کرنے لگی ۔
لڑکی تمہارے پاس ایک گھر ہے تمہیں بھلا ہوسٹل میں جانے کی کیا ضرورت ہے وہ بگڑ چکا تھا جب وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے پھر سے سمجھانے لگی ۔
ٹھیک ہے چلی جانا اپنی دوستوں سے ملنے کے لیے لیکن آج نہیں کل انہیں بھی بتا دینا کہ تم آنے والی ہو یہ نہ ہو کہ تم ہوسٹل جاؤ اور وہ لوگ کالج چلی جائیں ۔
لیکن آج کے لئے اپنے دماغ سے یہ پڑھائی وغیرہ سب کچھ نکال تو آج رات ہم دونوں ڈنر باہر کریں گے اور لانگ ڈارئیو پر چلیں گے پلاننگ تو پرسوں رات کی تھی لیکن آج ہی سہی میں شام کو آؤں تو تیار ملنا وہ نک سنک سے تیار اس کے گالوں کو اپنے لبوں سے چھوٹا خدا حافظ کرتا باہر نکل گیا
جبکہ اریشفہ اپنا فون اٹھائے عائشہ اور جاناں کو آپ نے کل آنے کی خبر دینے لگی ۔ ویسے تو ان دونوں کے سامنے اس نے اریان کے تعریفوں کے ایسے پل باندھے تھے کہ وہ دونوں ہی اپنے لئے آریان جیسے شخص کی دعائیں کرنے لگی تھی
وہ دونوں اس بات کو قبول کرتی تھی کہ آریان ایک بہت اچھا شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھا انسان بھی ہے ۔وہ دونوں ہی اریشفہ اور آریان کے ہمیشہ ساتھ رہنے کی دعائیں کرتی تھی اور اب اس کے کل آنے کی خبر سن کر وہ دونوں ہی بے تحاشا خوش تھی وہ اس کی شادی پر نہیں جا پائیں تھی لیکن شادی کے بعد اس سے ملنے کی خواہش تو ان دونوں کے اندر تھی ۔
اسی لئے تو کل اس کی آنے کی خبر سن کر وہ دونوں بہت خوش ہو گئی تھی لیکن اب یہ سوچ کر بھی وہ دونوں ہی اداس تھی کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہے گی اب تو ان دونوں کا ساتھ بھی ہمیشہ کا نہیں تھا پیپرز ختم ہونے کے بعد جاناں نے اپنے گھر چلے جانا تھا جبکہ عائشہ کو وہی نفرت زدہ زندگی جینی تھی جو ہمیشہ سے جیتی آئی تھی ۔
وہ تو جانتی تک نہیں تھی کہ اس کے ماں باپ کہاں ہیں کیسے ہیں ۔
بس اپنی ماں کے لیے دعائیں کرتی تھی کہ وہ جہاں بھی ہو ٹھیک ہو
°°°°°°°°
جاناں کے ہوسٹل سے جانے کے بعد وہ خود طہ سے ملنے کے لیے باہر آئیں تھی اس وقت وہ ریسٹورنٹ میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس کے سامنے بیٹھے ہوئے بولا بھی تو کیا
اتنے مہنگے ریسٹورنٹ میں آنے کی ضرورت کیا تھی یہ بل تم دوگی میں نہیں میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔وہ جو اسے اتنی اہم بات بتانے آئی تھی اس کی یہ بات سن کر غصے سے سرخ ہو گئی
چپ کر جاؤ بیکاری کہیں کے میں تم سے پیسے نہیں لوں گی ووٹر کو اشارہ کرتے ہوئے غصے سے بولی تھی
شکر ہے میں تو گھبرا ہی گیا تھا سوچا تم بیمار ہو اور بیمار حالت میں یہاں آ کر بیٹھ گئی تو میں اندازہ تو ہے نہ یہ ہوٹل کتنا مہنگا ہے تمہارے پاس پیسے تو ہیں نہ وہ اب بھی اس کا غصہ دیکھ کر پریشانی سے بولا تھا ۔
بس کر جاؤ طہ میرے پاس پیسے ہیں تم آرام سے کوف پیو پتہ نہیں کس انسان سے اپنی پرابلم شیئر کرنے بیٹھ گئی میں وہ اکتا کر بولی تھی وہ اس سے اتنی اہم ترین بات کرنے آئی تھی اور اسے پیسوں کی پڑی تھی ۔
اچھا ٹھیک ہے نا غصہ کیوں ہو رہی ہو بتاؤ تم نے مجھے کیوں بلایا ہے کون سی خاص بات کرنی تھی تم نے مجھ سے وہ ا سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اس بیسٹ میں انٹرسٹ ہوگیا تھا جس کی خبروں کو ٹی وی پر آتے دیکھتے ہی وہ نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتا
تم بیسٹ کے بارے میں تو جانتے ہی ہو نا وہ درندہ ہے جو قتل کرتا ہے آئے دن نیوز میں آتا ہے میں نے تمہیں بتایا تھا نا میں نے اسے دیکھا ہے ۔اس نے اپنی بات کا آغاز کیا
یار عائشہ ختم کر دو اس سارے قصے کو کیوں پیچھے پڑ گئی ہو تم جتنا زیادہ اس میں انٹرسٹڈ لو گی تمہیں اتنا ہی اس سے خوف آئے گا بھلا دواسے اپنی فیوچر پر دھیان دو
بکواس بند کرو اور بات سنو میری میں نے اسے دیکھا ہے بنا نقاب کے میں کل اپنی دوست جاناں کے ساتھ اس کے بوائے فرینڈ سے ملنے گئی تھی میں نے وہاں کچھ عجیب دیکھا ۔
ایک منٹ ایک منٹ تم نے کہا کہ تم نے اسے بنا نکاب کے دیکھا کیسا دکھتا ہے وہ بتاؤ مجھے طہ کے لہجے میں ایکسائٹمنٹ تھی۔
عائشہ تم حاموش کیوں ہو بتاؤ مجھے کیسا دکھتا ہے وہ آدمی مطلب کیا اس کے سر پر سینگ ہیں اس کے سر پر ایک بڑی سی آنکھ ہے لائک ایکسٹرا آئی ۔دو کے بجائے اس کے چار کان ہیں کیا اس ماتھے پر بڑے بڑے دو ہونٹ ہیں یار پلیز بتاؤ نہ وہ کیسا دکھتا ہے مجھے نہ بہت تجسس ہو رہا ہے اسے دیکھنے کا ۔طہ بولا تو اس انداز میں جیسے عائشہ کا مذاق کر رہا ہو نہ چاہتے ہوئے بھی عائشہ کی آنکھوں میں نمی سے اتر آئی
وہ فورا اس کے قریب سے اٹھ کر تیزی سے ریسٹورنٹ کے باہر جانے لگی جب تک کہ طہ نے جلدی سے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
یار میری بات تو سنو کیا ہو گیا ہے تمہیں اس طرح سے کیسے جا سکتی ہو تم اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے اس کے سامنے آ کر رکا عائشہ نے اپنے دونوں ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس کی اگلی بات سن کر اسے پھر سے غصہ آ گیا تھا
یار جانے سے پہلے کم از کم کوفی کے پیسے ہی دے جاؤ میرے پاس کچھ نہیں ہے بالکل خالی جیب ہے میری اس کی التجا پر عائشہ کا دل چاہا کہ اس کا منہ توڑ دے ۔
بیکاری انسان میں پیسے دے کے جاوں گی تم پر اپنا کوئی بھی خرچ نہیں ڈال رہی وہ اپنے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے ٹیبل پر رکھ کر ہوٹل سے باہر نکلی جب اس کے ساتھ بھاگتا ہوا باہر آیا تھا ۔
عائشہ ایک بار میری بات کو غور سے سنو میں پاگل نہیں ہوں عائشہ تمہاری ساری باتوں کو سمجھ رہا ہوں جانتا ہوں کہ تم نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کا خون ہوتے دیکھا ہے لیکن تم نے اسے اپنے سر پر بہت زیادہ سوار کر لیا ہے عائشہ تمہیں اس کے علاوہ کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تم اس شخص کے علاوہ کچھ اور سوچ تک نہیں پا رہی ہو وہ تمہیں پاگل کر رہا ہے اور تم پاگل ہو رہی ہو تم نے اسے کہیں نہیں دیکھا عائشہ ۔تمہیں صرف لگتا ہے کہ تم نے اسے دیکھا اب ہر انسان میں تمہیں اسی کا چہرہ نظر آئے گا ۔
کیونکہ وہ تمہارے سر پر سوار ہے تمہارے دماغ پر بری طرح سے حاوی ہے اور کچھ بھی نہیں
وہ کل رات ہوسٹل میں آیا تھا مجھے دھمکی دینے کے لیے کہ اگر میں نے جاناں کو کچھ بھی بتایا تو وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال تے تقریبا چلاتے ہوئے بولی تھی۔
عائشہ یہ صوف تمہارا وہم بھی تو ہو سکتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم نے کوئی خواب دیکھا ہو وہ اب بھی پیچھے نہیں ہٹاتا عائشہ کو اس پر غصہ آنے لگا ۔
اپنا منہ بند رکھو تم میرا ہی دماغ خراب تھا جو میں تمہیں سب کچھ بتانے آگئی تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے نہ بھاڑ میں جاؤ میری طرف سے مجھے بھی تمہاری ضرورت نہیں ہے لیکن میں جھوٹ نہیں بول رہی تھی کہ میں نے اسے دیکھا ہے جاناں کا بوائے فرینڈ ہے وہ اس نے میرے سامنے قبول کیا ہے کہ اس نے سوہم کو مارا ہے
اور اگر میں نے جاناں کو کچھ بھی بتایا تو وہ مجھے بھی مار دے گا ۔وہ ابھی اسے بتا ہی رہی تھی کہ اس کا فون بجا ۔
اتنے دنوں کے بعد اپنی ماں کا فون دیکھ کر اس کے دل میں اس سے بات کرنے کی خواہش مچلتی تھی اس نے فوراً ہی فون اٹھا یا فون پر اس کی ماں سسکیاں لیتے رو رہی تھی ۔
عائشہ اس نے مار ڈالا اس نے مار ڈالا تمہارےبابا کو وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اب وہ کون تھا یہ اندازہ لگانا عائشہ کے لئے مشکل تو نہیں تھا ۔
ماما آپ تو ٹھیک ہیں نا اس نے اپنے بھے جان ہوتے اساب کو کنٹرول کرتے پوچھا ۔کیا اس کی ماں ٹھیک تو تھی اس کا سر بری طرح سے چکر آنے لگا
خواہش تم ٹھیک تو ہو تا جا اس کے پاس ہی کھڑا تھا اسے یوں اچانک گرتے دیکھ کر پوچھنے لگا ۔اس اس نے ایک نظر طہ کی جانب دیکھا تھا جو حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن اس کے بےجان ہوتے مود کو دیکھ کر وہ اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر خود بات کرنے لگا
°°°°°°°°°°
جان اسے ملنے آیا تو وہ تقریبا بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی
جاناں میری جان تم پریشان کیوں ہو کیا تم یہ اداسی وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیے بولا اس کی اداسی پر تڑپ ہی تو اٹھا تھا ۔وہ تو اسے ہمشہ خوش دیکھنا چاہتا تھا
جان تمہیں میری دوست یاد ہے نا عائشہ تم پرسوں تو اس سے ملے تھے اس کے پاپا کا انتقال ہوگیا بیسٹ نے مار ڈالا اوف تم نے ان کی لاش دیکھی ٹی وی پر ان کی لاش برل کر کے دکھائی گئی ابھی بھی وہ لوگ ٹی وی پر دکھا رہے تھے اف کتنا ظالم شخص تھا وہ جس نے انکل کا قتل کیا ۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جان ایسے کسی بے قصور کی جان کیسے لے سکتا ہے وہ کیا اسے رحم نہیں آتا کیا ان لوگوں کے خون کو دیکھ کر اس کے اندر انسانیت نہیں جاگتی اس طرح کیسے کسی کی جان لے سکتا ہے ۔وہ بری طرح سے گھبرائی تقریبا اس کے ساتھ چپکے ہوئے بولی تھی ۔
جانو پلیز میرے سامنے یہ ساری باتیں مت کرو مجھے بہت عجیب فیل ہو رہا ہے عائشہ کے والد کا سن کر افسوس ہوا لیکن پلیز وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے مت لاؤ مجھے خون بالکل بھی پسند نہیں ہے وہ اسے ٹوک گیا ۔
۔ہاں تم بھی سہی کہہ رہے ہو میں بیکار میں یہ ساری باتیں لے کر بیٹھ گئی عائشہ کی ما ما بہت بیمار ہیں وہ اسے بتانے لگی تو جان نے عائشہ کے بارے میں پوچھا
عاشی کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ سگے بابا نہیں تھے اس کے اور بہت برے تھے لیکن اس کی ماں بہت اچھی ہیں اور ان کا شوہر تھا نا تو افسوس تو ہو گا ہی عائشہ اپنی ماما کے لیے وہاں گئی ہے ۔
جاناں نے اسے پوری بات بتائی تو وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی میں بیٹھنے لگا
جان اس وقت میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی بہت وقت ہو گیا ہے وہ اسے سمجھانے لگی
زیادہ دور نہیں جائیں گے بس پاس سے ہی واپس آ جائیں گے تمہارا مائنڈ ذرا فریش ہو جائے گا ورنہ ساری رات اس بیسٹ کے بارے میں سوچتی رہو گی اور مجھے بھول جاؤ گی اور یہ میں برداشت نہیں کر سکوں گا وہ پیار سے اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے بولا تو جاناں بے ساختہ مسکرا دی
کتنی فکر کرتا تھا یہ شخص اس کی کتنی محبت کرتا تھا اس سے جاناں اس کی محبت کو پا کر خود پر نازاں ہو گئی تھی
°°°°°°°°
آریان کو کل ہی مسڑ خان کی موت کی خبر مل چکی تھی
۔اگر وہ ان لوگوں سے چھپ کر نہیں جاتا تو شاید وہ اسے بچا لیتے
لیکن موت تو موت ہے جو کبھی بھی کہیں بھی آسکتی ہے
اریشفہ کو وعدے کے مطابق اس نے صبح سویرے ہی ہوسٹل چھوڑ دیا تھا یہاں آکر اسے عاشی غائب ملی تو جاناں نے اسے بتایا کہ اس کے فادر کی ڈیتھ ہوچکی ہے
اور بیسٹ نے بے دردی سے ان کا قتل کر دیا ہے جاناں تو کل سے ہی ٹی وی پر یہی ساری خبریں سنتی آئی تھی اسے تو بس موقع چاہیے تھا کہ کسی نہ کسی سے اس کے بارے میں بات کرنے لگی
عائشہ کے پاپا کے بارے میں سن کر انہیں بہت افسوس ہوا تھا
اریشفہ ائی تو عائشہ یہاں نہیں تھی اسے بھی پتہ چل چکا تھا کہ عائشہ کا سوتیلا باپ کسی کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے
وہ جانتی تھی عاشی نہ سہی لیکن اس کی ماں اس وقت بہت دکھ میں ہوگی آخر وہ اس کا شوہر تھا اس کا ہمسفر تھا اس کے لیے عزیز تھا
ایسے میں عائشہ کا اپنی ماں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا
اس نے فون پر انہیں بتایا تھا کہ وہ صرف اور پیپرز کے وقت ہی آئے گی کیونکہ اس کے ماں کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے زیادہ وقت اسی کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے ۔
ارشی یار مجھے تو بہت افسوس ہو رہا ہے پتا نہیں آنٹی کی کیا حالت ہوگی
کل تک وہ ارشی یہاں واپس آنے کی تیاری کر رہی تھی انہوں نے پورے روم کو ٹھیک سے صاف کیا تھا خاص کر ارشی کی ساری چیزیں پیک کردی تھی جیسے وہ اپنے ساتھ لے کر جانا والی تھی ۔
عائشہ سے ملنے کے لیے بہت ایکسائٹڈ تھی لیکن اس واقعے کی وجہ سے وہ اس سے نہیں مل پائی ۔
اس نے اریشفہ کو فون پر جان کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ کسی سے محبت کرتی ہے اس نے وعدہ کیا تھا کہ جس دن ارشی یہاں آئے گی وہ اسے اس سے ضرور ملوائے گی لیکن جان کا کوئی ضروری کام نکل آنے کی وجہ سے وہ اسے اس سے بھی نہیں ملنا پائی تھی
اور حالات بھی کچھ ایسے تھے ۔
کہ عائشہ اور اس کے باپ کی موت کے علاوہ وہ دونوں کوئی اور بات ہی نہیں کر پائی شام کو آریان اسے لینے آیا تو اس کی ملاقات جاناں سے بھی ہوئی تھی
جاناں اسے بہت اچھی لگی تھی اور اس نے پیپرز کے بعد ان دونوں کو اپنے گھر آنے کے لیے بھی کہا تھا جاناں کو بھی آریان کر بہت اچھا لگا تھا
اور جو چیز اسے سب سے زیادہ اچھی لگی وہ تھی اس کا بار بار اریشفہ کی جانب دیکھ کر مسکرانا
اس کی باتوں کو اہمیت دینا ان دونوں کے درمیان بار بار اسے مخاطب کرنا کتنی محبت کرتا تھا وہ اریشفہ سے اس کے لب ولہجے سے ہی پتہ چلتا تھا ۔
°°°°°°°°
ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہم اس طرح ان کو نہیں بچا پائے
لیکن اگر وہ ہمارے ساتھ تعاون کرتے تو آج ایسا نہیں ہوتا آریان نے افسوس کرنے والے انداز میں کہا تھا عائشہ نے ایک نظر اسے دیکھا عائشہ کو تو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس شخص کو اس کے باپ کی موت سے بہت سکون ملا ہے
اور وہ اندر ہی اندر بہت خوش ہے صرف اوپر سے اس کے اس کی ماں کے سامنے ڈرامے کر رہا ہے ۔
خیر افسوس تو اس سب کا عائشہ کو بھی نہیں تھا وہ تو خود اپنے باپ کے موت کی دعائیں مانگی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اس کی ماں کی حالت اتنی بگر جائے گی شوہر کی جدائی کے غم میں بری طرح سے تڑپ رہی تھی ۔
خان نے مرنے سے پہلے اپنی ساری جائیداد اپنی بیوی اور بیٹی کے نام کر دی تھ اسے تو یہ بھی کوئی کرشمہ ہی لگا تھا ورنہ اس کا باپ اا سے اتنی محبت کہاں کر تا تھا کہ مرنے سے پہلے اپنی جائیداد ان کے نام لکھوا دیتا ۔
کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ آپ کے شوہر کسی وسیم راجپوت کو جانتے ہیں کیونکہ لسٹ میں اگلا نام وسیم راجپوت کا ہے مطلب اگلا قتل ان کا ہو گا
دیکھیں میڈم یہ لسٹ بہت لمبی ہے پتہ نہیں کون کون مرے گا اور کس کس کی موت آپ کے شوہر کی موت سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی ہم اس کیس کا کوئی سراغ نہیں لگا رہے گا وہ بیسٹ وہ اپنے پیچھے سے سوائے ایک لوگوکے اور کچھ بھی نہیں چھوڑتا
پلیز ہمارے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہم مزید بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اترنے سے بچالیں آریان ان کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا جب عائشہ کو غصہ آنے لگا
انسپکٹر کیا آپ کو نظر نہیں آرہا میری ماں کی کیا حالت ہے اس وقت وہ بات کرنے کی کنڈیشن میں نہیں ہے اور آپ کو اپنے کیس کی پڑی ہے پلیز خدا کے لیے رحم کرے ہم پر ہم لوگ کسی وسیم راجپوت کو نہیں جانتے
عائشہ نے انتہائی غصے سے کہا لیکن مسز خان کے چہرے پر ایک عجیب سی الجھن تھی جسے آریان بھی محسوس کر چکا تھا ۔
وسیم راجپوت یہ تو ان کا کوئی دوست تھا اور پاکستان سے آئے دن اس کے فون آتے تھے اس کا تعلق پاکستان سے ہے خان اسے فون پر کہتے تھے کہ تم بے کار میں گھبرا رہے ہو کوئی بیسٹ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بس تم اپنا منہ بند رکھنا ۔
پتہ نہیں وہ کس بارے میں بات کر رہے تھے ہاں لیکن ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ دمکا کا ہوگا اور بہت زور دار ہوگا اس دن میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ آپ کس سلسلے میں بات کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا کہا تم ان سب میں مت کرو تمہارا ان سب سے کوئی تعلق نہیں ہے مسز خان اپنی ہی رومیں بولتی چلی جا رہی تھی ۔
کیا آپ مجھے ان کا فون یا کانٹیکٹ لسٹ دے سکتی ہے پلیز آریان نے امید سے پوچھا تھا اتنے دنوں کے بعد بس ایک سراغ ان کے ہاتھ لگا تھا ۔
ان کا فون تو ہمارے اٹلی والے بنگلو میں ہے ۔جہاں ان کا قتل ہوا مسز خان نے فورا کہا تھا ۔
مطلب کہ ہمیں کسی نہ کسی کو اٹلی بھیجنا ہوگا آریان ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے باہر نکل کر عمران سے کہنے لگا ۔
جو سر ہلاتا فور نہیں اٹلی میں اپنے کانٹیکٹ سے رابطہ کرنے لگا ۔
°°°°°°°°
میرے پاس اچھا موقع تھا مجھے انسپکٹر کو سب کچھ بتا دینا چاہئے تھا کہ میں نے بیسٹ کو دیکھا ہے اور بیسٹ کیسا دکھتا ہے یہ بھی میں جانتی ہوں لیکن اگر اس سب کے بعد بیسٹ نے میری ماں کو کچھ کر دیا تو نہیں میں اپنی ماں پر کوئی رسک نہیں لے سکتی وہ پہلے ہی اتنی پریشان ہیں ۔
لیکن اگر میں کچھ بھی نہیں بولی تو وہ درندہ نہ جانے کتنے معصوم لوگوں کی جان لے لے گا نہ جانے کتنے اچھے لوگوں کو اس نے دنیا سے ختم کر دیا ہوگا ۔
لیکن میرا باپ تو اچھا انسان نہیں تھا
اس کے دل میں ایک الجھن سی ہونے لگی
سو ہم بھی اچھا انسان نہیں تھا ۔
لیکن اس کی ماں تو بری نہیں ہے اور جاناں
جاناں وہ تو بری نہیں ہے تو پھر وہ جاناں کے ساتھ سب کچھ کیوں کر رہا ہے کیا وہ سچ میں جاناں سے محبت کرتا ہے اس کی نظروں میں جاناں کے لئے جو جذبات تھے وہ سچے تھے ۔
لیکن وہ ایک قاتل ہیں ایک درندہ ہے اگر وہ جاناں سے محبت کرتا بھی ہے تو جب جاناں کو حقیقت پتہ چلے گی تب کیا ہوگا ۔کیا تب وہ جاناں کو بھی ختم کر دے گا ۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی جب اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی وہ بے چینی سے اسے پکار رہی تھی وہ بھاگتے ہوئے اندر آئی
ماما کیا ہوا میں یہاں ہوں آپ کے پاس دیکھیں مجھے اس کے چیخنے چلانے پر وہ اس کے پاس آ کر بیٹھی تھی جب اگلے ہی لمحے انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا
عائشہ تم مجھ سے دور مت جانا ورنہ وہ تمہیں بھی مار دے گا تم بالکل یہاں سے مت ہلانا میں تمہیں بچا لوں گی میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی میری جان بس تم میرے پاس رہنا ۔
اسے اپنے سینے میں بھیجتے ہوئے کہہ رہی تھی عائشہ پریشانی سے ان کے ساتھ لگی بس یہی سوچ رہی تھی کہ اگر اس نے جان کے بارے میں کسی کو کچھ بھی بتا دیا تو اس کی ماں کی کیا حالت ہوگی
نہیں جب تک اس کی ماں بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتی تب تک وہ اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتا سکتی تھی
°°°°°°°°
یہ موبائل تمہارے پاس ہے اور وہاں انسپکٹر آریان پاگل ہو رہا ہے ۔ٹائر اس کے ہاتھ میں ناچتے فون کو دیکھ کر کہنے لگا تو جان مسکرا دیا
بیسٹ اتنا پاگل نہیں ہے کہ اپنے خلاف کوئی ثبوت چھوڑ دے وہ موبائل کو ہاتھ میں لیے ادھر کبھی ادھر کر رہا تھا
تو کیا اب تم پاکستان جاؤ گے اس نے پوچھا تو جان نے ہاں میں سر ہلایا ۔
ڈونٹ وری میں تمہاری جاناں کا بہت خیال رکھوں گا ویسے بھی پرسوں اس کا پہلا پیپر ہے میں اس کے آس پاس ہی رہوں گا ۔
اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو جان نے مسکرا کر کہا
میں جانتا ہوں تم میری جاناں کا خیال رکھو گے ۔
مجھے فکر ہے اس عائشہ کی جو میرا چہرا دیکھنے کے بعد بح چین سے رہنے لگی ہے اس کا دھیان مجھ سے ہٹانا ہو گا ۔ اور یہ پارسل اس آریان تک پہنچا دینا ۔
اسے پتہ چل جانا چاہیے کہ میرا اگلا شکار پاکستان میں ہے وہ اپنے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہو تو ٹائر نے اس کا رہ روک لیا
تم جاناں سے ملنے جا رہے ہو ضرور جاؤ لیکن جانے سے پہلے مجھے ایک بات بتا کر جاؤ کہ یہ بس کچھ تم انسپکٹر آریان کو ہی کیوں بھیجتے ہو اتنے اچھے اچھے پولیس والے ہیں اور کافی امانت دار بھی ہیں لیکن تم سب کچھ اسی کو کیوں بھیج رہے ہو
کیونکہ مجھے پسند آگیا ہے وہ جب مجھے بچپن میں ملا تھا نا تب بھی بہت اچھا لگا تھا
ہاں مجھے تو بالکل بھی پسند نہیں ٹائر نے منہ بنا کر کہا
تم آج زندہ ہو تو اسی کی وجہ سے اگر وہ میری منتیں نہ کرتا تو میں تمہیں کبھی اس جیل سے نہ اٹھا کر لے کر جاتا ۔
ہاں مجھے بچا کر لے جارہا تھا خود ہی گولی کھا کر لیٹ گیا ٹائر اسٹائل سے کہتے ہوئے منہ بنا گیا ۔
تم کبھی اس کا احسان نہیں مانو گے نہ وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔
احسان تو اسے تمہارا ماننا چاہیے کہ اس دن تم نے میرے ساتھ ساتھ اس کی بھی جان بچاری اور آج کل تمہارے پیچھے تمہاری جان لینے کے لئے پڑا ہے ۔
وہ اپنا کام کر رہا ہے جس طرح سے ہم اپنا کام کر رہے ہیں تمہیں اسے اپنا فرض نبھانے دینا چاہیے جان اسے سمجھانے لگا ۔
ہم اس دنیا سے برائی کو ختم کر رہے ہیں اور وہ برائی کو بچا رہا ہے اس میں کو نسا اچھا کام ہے ٹائر اب بھی نہیں مانا تھا
ہم اچھا کام غلط طریقے سے کر رہے ہیں لیکن وہ اپنا فرض نبھا رہا ہے ۔اور ایسے میں ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے میرا مطلب ہے موت کے بعد لاش کا پتہ بتا دینا چاہیے وہ مسکراتے ہوئے بولا تو ٹائر بھی مسکرا دیا
ہاں کیوں کہ موت سے پہلے تو ہم اسے پتہ بھی نہیں چلنے دیں گے کہ ہم کب کہاں کیسے مارنے والے ہیں اتنی لمبی لسٹ بھیج دی تم نے اس کو اور کسی ایک تک بھی پہنچ نہیں پایا ہم سے پہلے وہ نزاکت سے ٹیبل پر پڑی لوشن کی شیشی اپنے ہاتھوں پیروں میں لگانے لگا ۔
جبکہ جان اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا اس کا ارادہ جاناں سے ملنے جانے کا تھا کل وہ پاکستان کے لیے روانہ ہونے والا تھا اپنا اگلا شکار کرنے اور اس سے پہلے وہ ایک بار جاناں سے ملنے جانا چاہتا تھا
°°°°°
میں نہیں بولتی تم سے یہ کیا بات ہوئی میرے پیپر ہو رہے ہیں اور میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گی وہ اس ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تو جان نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔
کام ہے ماہی جانا بہت ضروری ہے کام نہیں کروں گا تو تمیں ایک خوشحال زندگی کیسے دوں گا وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتے ہوئے مسکرا کر بولا جب جاناں اس کے سینے سے لگ گئی ۔
مجھے ڈر لگنے لگا ہے جان مجھے لگتا ہے کہ کہیں سے بابا کو ہمارے نکاح کے بارے میں پتہ چل جائے گا بابا یہاں آ جائیں گے مجھے لینے کے لئے وہ تمیں مجھ سے دور کر دیں گے جان اور تم کبھی مجھے ڈھونڈ نہیں پاؤ گے اس کی آنکھوں میں نمی سی اترنے لگی
اس دنیا میں کوئی تمہیں مجھ سے دور نہیں پڑھ سکتا جاناں اپنے دماغ سے یہ فتور نکال دو کہ تمہارا باپ تمہیں مجھ سے دور کر سکے گا وہ جو کو کچھ کرسکتا تھا کر چکا ہے تم میری ہو صرف میری
وہ اسے اپنے سینے سے لگائے سمجھا رہا تھا
دس سال میں دن رات اسے اس سے چھپاتا رہا اس کی پہچان بدل دی اس کا نام بدل دیا یہاں تک کہ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کو خود سے دور کر دیا
لیکن جان سے دور نہیں کر پایا وہ جان کی امانت تھی اور جان نے اسے خود سے دور نہیں جانے دیا تھا اور نہ ہی آگے کبھی جانے دے گا وہ جاناں کے پیپرز کے فورا بعد خود ہی اس سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا
جہاں جاناں خود اپنے باپ کو چھوڑ کر اس کے پاس آنے والی تھی اسے یقین تھا جان اپنے باپ کے بغیر رہ لے گی لیکن جان کے بغیر نہیں
جان جانتا تھا اس نے اس دن کو تیاری کر رکھی ہو گی اس لیے جان نے وقت رہتے جاناں سے نکاح کر لیا کیونکہ آگے ہونے والی کارروائی میں وہ چاہتا تھا کہ جاناں ہر لمحے اس کے ساتھ ہو اور وہ جانتا تھا ایسا بھی ہوگا جیسا اس نے سوچا ہے
°°°°°°°°
ان کے پیپرز شروع ہوچکے تھے
اور جان کو گئے ہوئے آج تین دن ہو چکے تھے اس کا کوئی رابطہ نہیں جاناں سے
جاناں اس کے بغیر کافی بے چین تھی
لیکن عائشہ بہت پرسکون تھی کہ اس درندے نما انسان سے اس کی ملاقات نہیں ہو رہی ہے ۔
جاناں یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ تمھیں چھوڑ کر چلا گیا ہواس کے بار بار جان کے بارے میں بات کرنے پر وہ چر کر بولی تو تو عرشی نے بھی ایسے ناگوار نظروں سے دیکھا ۔
تم مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو یہ ایک انجان آدمی پر یقین کر کے اس سے محبت کر بیٹھی ہے میں اسے سمجھانا چاہتی ہوں عائشہ نے اسے اپنے آپ کو گھورتے دیکھ کر سمجھانا چاہا
اریشفہ وہ بہت اچھا ہے مجھ سے بہت پیار کرتا ہے یہ تو پاگل ہے اسے کچھ بھی نہیں پتا وہ اریشفہ کو جان کی طرح سے صفائی دینے لگی تو اریشفہ بے اختیار مسکرا دی
اور اشاروں سے اسے بتانے لگی کہ اسے پتہ ہے کہ اس کی سہیلی ایسے شخص پر کبھی یقین نہیں کرے گی جو برا ہو
یہ بات الگ ہے کہ اسے اشارے کرتے دیکھا عائشہ کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا ۔
ایک دن آئے گا تمیں بھی میرے جان پر یقین ہو جائے گا
کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اس کے انداز میں ایک غرور تھا شاید چاہت کو پالینے کا غرور عائشہ کو اس کے انداز دیکھ کر کچھ عجیب لگا تھا
وہ کیسے ایک درندے کی محبت کو خود پر اس حد تک سوارکر سکتی تھی
اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اسے سب کچھ بتا دے اس رات کی دھمکیوں سے لے کر سو ہم کے قتل تک سب کچھ لیکن وہ اسے کچھ بھی نہیں پتا پا رہی تھی ایک اپنی ماں کی زندگی کا خوف دوسرا اس کے اپنے دل میں بھی اس شخص کا ہو پوری طرح سے بیٹھا ہوا تھا
اللہ تمہیں ہدایت دے جاناں اور تمہارے ساتھ وہی ہو جو تمہارے لیے بہتر ہے وہ اٹھتے ہوئے باہر جانے لگی اس کا ڈرائیور آچکا تھا ابھی اسے گھر جاناں تھا کہ وہ اپنی ماں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی تھی جبکہ اریشفہ آریان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی ان کا دوسرا پیپر تھا اور آریان ہی نہیں اسے لینے آتا تھا ۔
عائشہ ابھی باہر نکلی ہی تھی کے سامنے انسپکٹر آریان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر پریشان ہو گئی ۔تبھی عائشہ کے پیچھے سے اریشفہ بھی آ گئی ۔
اور عائشہ کو اشارہ کرنے لگی کہ وہ اسے کسی سے ملوانا چاہتی ہے عائشہ بھی بے دھیانی میں ہی اس کے سامنے آ روکی اور اب اریشفہ اان دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کروا رہی تھی
آریان کو جان کر عجیب لگا کہ خان کی بیٹی کا تعلق اس کی بیوی سے ہے
بیسٹ کیس میں وہ اپنی فیملی کو کہیں سے بھی شامل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا عائشہ سے ملنے کے بعد وہ اریشفہ لے کر گھر چلا جانے لگا
اریشفہ نے بھی نوٹ کیا تھا جہاں جاناں کے ساتھ اس کی ملاقات بہت خوشگوار تھی وہ گرم جوشی اس نے عائشہ سے ملاقات پر محسوس نہیں کی تھی
پیپر کیسا ہوا تمہارا وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے آئس کریم پارلر لے آیا تھا
Meshur bondur maci Ali Ysta
استنبول کا ایک بہت مشہور آئس کریم پالر تھا اور وہ اسے اکثر یہی پر لے کر آتا تھا ۔یہاں زیادہ تر کپلز ہی آتے تھے
اریشفہ تو آریان کی دیوانی تھی اسے ہر وہ چیز پسند تھی اس کے ہر پسند کو اپنی پسند مانتی تھی ۔
ان دنوں میں آریان اس کا بہت زیادہ خیال رکھنے لگا تھا شام کو ایسے دودھ میں بادام ڈال کر لازمی پلاتا صبح اسے الرجی ڈرنک دیتا وہ ہر ممکن طریقے سے اس کا خیال رکھ رہا تھا ۔اسے ہر کی ٹینشن سے دور رکھتا تاکہ وہ پرسکون ہو کے پیپرز دے سکے
آریان کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اپنی قسمت پہ نازاں ہونے لگی تھی بے شک رب نوازتا ہے اور اوقات سے بڑھ کر نوازتا ہے ۔اریشفہ نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس آریان جیسا جیون ساتھی ملے گا اس کے لیے وہ اپنے رب کا جینا شکریہ ادا کرتی کم تھا
آریان کے ساتھ اس کے دن اور رات کیسی حسین خواب کی طرح گزر رہے تھے آریان ایک بہت اچھا ہونے والا محبت کرنے والا انسان تھا
رشتے کیسے نبھائیں جاتے ہیں یہ بات کوئی آریان سے پوچھے اس نے اپنے گھر میں بھی بہت محبتیں پائی تھی لیکن آریان کی محبت کے سامنے اسے دنیا کی ہر چیز کم لگنے لگی وہ آریان سے کسی اور کی محبت کا مقابلہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی
°°°°°
جاناں کی بیچینی حد سے زیادہ تھی
وہ بار بار جان کے موبائل پر فون کرتی لیکن اس کا فون نہیں لگتا
ٹائر کا نمبر نہیں تھا اس کے پاس لیکن اس نے دو تین بار اس کو اپنے کالج کے باہر دیکھا تھا اور ایک بار ہوسٹل کے باہر دیکھا تھا شاید جان نے اسے اس کا خیال رکھنے کے لئے کہا تھا
لیکن وہ اس سے ملتا کیوں نہیں تھا کل بھی وہ اس کے ہاسٹل کے باہر کھڑا تھا اور جب تک نیچے گی تب تک ٹائر جا چکا تھا
نجانے جان کہاں گیا تھا یقیناًٹائر کے پاس اس نمبر تھا وہ اس سے لے سکتی تھی لیکن اگر اس سے ملتا تو ہی کالج کے باہر بھی اس نے دو تین بار ملنے کے لیے گئی تب تک وہ جا چکا ہوتا ۔
اسے جان پر بھی بہت غصہ آرہا تھا جو جانے سے پہلے اسے اپنا کنٹیکٹ نمبر تک نہیں دے کر گیا ۔شاید وہ اس کی محبت کو آزما رہا تھا شاید جاننا چاہتا تھا کہ وہ جان اس سے کتنا پیار کرتی ہے ۔اور ان شاید ہوجاناں کی بے چینی دیکھ کر محفوظ ہو رہا ہوگا ۔
ایک بار اس نے سوچا کیوں نہ وہ ٹائر سے ملنے کے لئے گھر چلی جائے لیکن وہاں بھی نہیں جاسکی مشکل پیپر ہونے کی وجہ سے اسے ٹائم ہی نہیں ملا تھا وہ جان کو بہت زیادہ مس کرنے لگی تھی جان اسے بہت بری طرح آزما رہا تھا ۔
میں تم سے روٹھ جاؤں گی جان بات بھی نہیں کروں گی فون میں اس کی فوٹو دیکھتے ہوئے نم آنکھوں سے تو
آخر وہ چلا گیا تھا ایسا کون سا ضروری کام تھا اس کے لیے جو جان سے بھی زیادہ اہم تھا
کوئی محبت کرنے والوں کے ساتھ ایسا کرتا ہے بھلا ۔وہ اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی جب ایک پارسل اسے دروازے پر رسیو ہوا اس نے فوراً پارسل کھولا تھا بالکل وہی پیکنگ تھی جو جان اس کے لئے کرتا تھا ۔
اس نے گفٹ نظر انداز کرتے ہوئے فوراً لیٹر کو اوپن کیا تھا
بیوقوف لڑکی مجھے بہت یاد آ رہی ہو تمہاری وجہ سے میں اپنا کام نہیں کر پا رہا مجھے اتنا مس مت کرو ورنہ میں روٹھ جاؤں گا تم سے کوئی ایسا کرتا ہے محبت کرنے والوں کے ساتھ وہی شکوے گلے جو وہ ابھی اپنے خیالوں میں اس سے کر رہی تھی وہ لفظوں میں کر چکا تھا
میں بالکل ٹھیک ہوں بہت جلدی آ جاؤں گا تمہارے پاس تم اپنے ایگزام پر غور کرو نہ جانے کتنی بار اس کا خط پڑھ چکی تھی شکر ہے کہ وہ ٹھیک تھا اور جلد ہی واپس آنے والا تھا وہ بھی اسے اتنا ہی مس کر رہا تھا جتنا کےجاناں
اپنے کام کے دوران بھی اسے اس کی بس کی فکر ہو رہی تھی
جان جب تک تم واپس آؤ گے تب تک میں پیپر سے فارغ ہو جاؤں گی تم میرے پاپا سے بات کرو گے اب میں بھی تمہارے بغیر نہیں رہنا چاہتی جان بہت ہوگیا اگر محبت کی ہے تو ڈرنا کیسا میں تمہاری ہر قدم پر تمہارا ساتھ دوں گی ۔
وہ خیالوں میں اس سے مخاطب تھی آنے والا وقت ان دونوں کی زندگی میں کیا لانے والا تھا یہ اس سے تو جاناں انجان تھی ان کی زندگیوں میں کتنے مشکل موڑ آنے والے تھے ماضی میں نہ جانے کتنے راز دفن تھے اس کے بارے میں تو جاناں کچھ بھی نہیں جانتی تھی ۔
جاناں نے تو بس محبت کی تھی اور اپنی محبت کو ایک جائز نام دیا تھا یہ راستہ اگے کتنا مشکل تھا یہ جاناں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن اب وہ وقت دور نہیں تھا بہت جلد حقیقت اس کے سامنے کھلنے والی تھی۔
اور جان تو اس کے لئے اس کی زندگی کی محبت اور دنیا کا سب سے اچھا انسان تھا اس کی حقیقت کیا تھی وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا جاناں نہ تو کبھی جاننے کی کوشش کی تھی نہ ہی اسے جاننا تھا
۔وہ جانتی بھی تو بس اتنا کہ جان اس کی محبت ہے اور اب وہ جان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی
°°°°°°°°°°°°
تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا کیا تم اس کے گھر جا رہی ہو اور وہ اکیلی تم کیسے جاؤ گی وہاں طہٰ اس کے سامنے بیٹھا تھا س کی بے وقوفی پر تو اسے پہلے ہی یہی لگ رہا تھا کہ یہ کوئی نہ کوئی چاند چڑھائے گی ۔
تمہیں لگتا ہے نہ کہ یہ سب میرا وہم ہے تو تیار ہو جاؤ میں ایسا ہی کروں گی میں ثابت کر کے دکھاوں گی کہ جان ہی بیسٹ ہے وہی ہے وہ درندہ جو لوگوں کا قتل کرتا ہے اس وقت جان ترکی میں نہیں ہے اور یہ ایک بہت اچھا موقع ہے اس کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے کا
وہ شخص باہر بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ایسے درندوں کو جیل کے اندر ہونا چاہیے اور میں اسے جیل کے اندر پہنچاکر رہوں گی۔
اپنی موت کے خوف سے اور بے قصور لوگوں کو مرنے نہیں دوں گی میں جاناں کے سامنے ثبوت پیش کروں گی اس کے خلاف میں اپنی سہیلی کی زندگی برباد نہیں ہونے دوں گی
لڑکی تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیوں کسی کی جاسوسی کرنے لگی ہو اگر تمہیں لگتا ہے کہ ان سب بیوقوفیوں میں تمہارا ساتھ دوں گا تو ایسی کوئی امید مت رکھنا وہ اس پر غصہ ہوتے ہوئے بولا تو عائشہ نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا مجال ہے جو یہاں کوئی غلط کےحلاف بولنے دے
دیکھو مسٹر میں تم سے مدد نہیں مانگ رہی ہوں میں اپنا کام خود کروں گی بس تمہیں بتا دیا وہ اٹھتے ہوئے کہنے لگی تو طہٰ نے اس اس کا راستہ روک لیا
اب کیا تکلیف ہے پیسے دے کر جا رہی ہوں میں وہ غصے سے بولی
تو طہٰ نے اسے دوبارہ بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
بولو کیا کہنا ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے احسان کرنے والے انداز میں بولی
دیکھو وہ جگہ خطرناک ہے میں تمہیں اکیلے نہیں جانے دوں گا ہم دونوں چلے گئے لیکن ہمیں نہیں پتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے میرا مطلب ہے اس کا گھر کہاں ہے کیا تم جانتی ہو وہ پوچھنے لگا
ہاں میں جاناں کے ساتھ گئی تھی وہاں مجھے پتا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے میں تمہیں اس سب میں شامل نہیں کرنا چاہتی لیکن میں مجبور ہوں کیوں کہ میں نے تمہیں صرف تمہیں اس بارے میں بتایا ہے اور تمھیں مجھ پر یقین نہیں تمہیں لگتا ہے کہ میں پاگل ہوں اور یہ سب میرا وہم ہے طہ میں یہ تمہارے سامنے ثابت کروں گی
کہ جان ہیں بیسٹ ہے لیکن اگر تمہیں ڈر لگ رہا ہے یا تم یہ سوچ رہے ہو کہ تم پھس جاؤ گے تو تم ابھی ہی اس سب سے نکل سکتے ہو میں تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کر رہی وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولے طہ میں نفی میں سر ہلایا
یہ بات نہیں ہے مجھے تم پر یقین نہیں ہے میں جانتا ہوں کہ تم سچ کہہ رہی میں بس یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم اس سب کو اپنے اوپر سوار کر لو لیکن اگر تمہیں جاسوس پر بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں کیونکہ اس بیسٹ جو تو میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں
ٹھیک ہے تو چلو تیاری کرلو جب جانا ہوامجھے بتا دینا میں انکار نہیں کروں گا وہ مسکرا کر بولا تو عائشہ بھی مسکرا دی کوئی تو تھا اس کے ساتھ جو دنیا میں ایسی برائی کو ختم کرنا چاہتا تھا
°°°°°°°°°°°
جان کے بارے میں کچھ پتہ چلا آج ان کا ساتوا پیپر تھا جب وہ اس سے پوچھنے لگی ۔
کچھ دن پہلے اس کا لیٹر آیا تھا وہ بالکل ٹھیک ہیں اور جلد ہی واپس آنے والا ہے جاناں نے مسکر آ کر بتایا ۔
جلد ہی مطلب کہ مجھے بہت جلدی جان کے گھر جانا ہو گا تاکہ میں اس کے خلاف کوئی ثبوت ڈھونڈ سکو اس سے پہلے کے جان واپس آئے مجھے اپنا کام کرنا ہوگا وہ کتنے ہی دنوں سے ان کے گھر جانے کی پلاننگ کر رہے تھے ۔
اس کام میں طہٰ اس کے ساتھ تھا اور آج اس میں طہٰ کو فون کرکے کہا تھا وہ آج رات ہی اس کے گھر جاکر ثبوت ڈھونڈ لیں گے طہٰ کافی گبھرایا ہوا تھا لیکن اس نے حامی بھر لی تھی ۔
وہ کافی ڈرپوک تھا لیکن اس کا ساتھ دے رہا تھا عائشہ کو اسی بات کی خوشی تھی ۔
اپنے ضمیر سے لڑ لڑ کر اس نے کہ یہ فیصلہ کیا تھا کہ اپنی جان کے بارے میں سوچنے سے بہتر ہے کہ بے گناہ لوگوں کے بارے میں سوچے موت تو ویسے بھی آنی ہے تو کیوں نہ مرنے سے پہلے کوئی اچھا کام کر جائے ایسے درندے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر جائے
°°°°°°°°°°°

کل تو سنڈے ہے نہ۔۔؟
آریان نے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے اریشفہ سے کہا
جو کہ بیڈ پر کتابیں پھیلائیں اپنی پڑھائی میں زور و شور سے مگن تھی۔
اسے کمرے میں آتے دیکھ کر اس کی بات کا جواب صرف گردن ہلا کر دیا اور پھر سے اپنی کتابوں میں مگن ہو گئی
لیکن اس کا یوں نظر انداز کرنا آریان کو بالکل اچھا نہیں لگتا تھا ۔
اسی لیے اس کی گود سے کتابیں ہٹا کر ایک طرف رکھتے ہوئے خود اس کی گود میں آ کر لیٹ گیا ۔
مطلب کے کل سنڈے ہے اور تمہارے پاس پورا دن ہے پڑھنے کے لئے تو بہتر ہوگا اس وقت ان کتابوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے شوہر کا دل بہلاؤ۔
جب سے تمہارے پیپر شروع ہوئے ہیں میں تمہارا بہت خیال رکھ رہا ہوں اور تمہیں بالکل بھی تنگ نہیں کر رہا تھا کیونکہ میں ایک بہت اچھا شوہر ہوں اور مجھے پڑھے لکھے لوگ بہت پسند ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم مجھے یعنی کہ اپنے بہت ہی پیارے شوہرانسپکٹر آریان خان کو اگنور کر دو ۔
انسپیکٹر آریان خان کو اپنی بیوی کی خوبصورت باہیں ۔۔۔۔۔"
وہ اس کے دونوں بازو کو چومتا ہوا اس کے حیسن چہرے کو ہاتھوں میں تھامیں اپنی ٹوٹی ہوئی باتوں کی تار کو پھر سے وہی سے جوڑ کر بولا
اور یہ جھکی نگاہیں اس کی آنکھوں پر لب رکھتے ہوئے وہ اب اس کے رخسار کی طرف آیا اور یہ سرخ گال ۔اس کے رخسار پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑ کر اب وہ اس کے لبوں پر جھکا تھا ۔
اور یہ ہونٹ بے حد پسند ہیں اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لے کر کچھ لمحوں کے بعد سے آزادی بخشی کر مسکرا کر بولا
وہ جو آج رات اور کل کا دن بہت سارا پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی آریان کے خیالات جان کر اپنے دھڑکتے دل پر بڑی مشکل سے قابو کیا ۔
بڑی مشکل سے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اس کی آنکھوں میں جذبات کی لوح تھی ۔ بے تحاشہ محبتوں کا اظہار تھا اریشفہ اٹھی نگاہیں دوبارہ جھکا لیں ۔
پلکوں کی جھالر پر چلتا یہ دن و رات کا کھیل آریان نے بہت پرشوق نظروں سے دیکھا ۔اریشفہ کے لبوں پر پیاری سی مسکراہٹ کھلی ۔
آریان نے خاموشی سے اس کی خوشبو میں بسے وجود کو اپنی باہوں میں بھرا ۔اس کے کانوں میں میٹھی محبت نما سرگوشیاں کرتے ہوئے وہ اپنی ولولا محبتوں کا اظہار کرنے لگا اب وہ تھی اور آریان کی محبت جو ہر بار اسے ایک نہیں محبت میں مبتلا کر دیتی ۔
وہ اسے چھوتا بھی تو اس انداز میں کہ اریشفہ کو اپنے ہونے پر ناز ہوتا بیوی کو چاہت دینا محبت دینا تو ہر شوہر کا فرض ہے ۔ اس کے تمام حقوق پورے کرنا ہر شوہر کی ذمہ داری لیکن اس کے جذبات کا احترام اپنے جذبات سے پر کرنا اصل مرد ہونے کی نشانی ہے ۔آریان صرف اس کی عزت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے جذبات کا احترام اپنے جذبات سے بڑھ کر کرتا تھا ۔ اسی لیے تو وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس شخص کی دیوانی ہوتی چلی جا رہی تھی
°°°°°°°°
رات ایک بجے کا وقت تھا وہ اس کے گھر کے باہر کھڑے تھے تالا لگا ہونے ساتھ ساتھ اندر اندھیرا تھا ان دونوں کو یقین تھا کہ اندر کوئی نہیں ہے ۔اور یہی بات ان دونوں کے حوصلے کو بڑھایا گئی تھی وہ آہستہ سے قدم اٹھاتے ہوئے ایک کھڑکی کے پاس آ کے رکے ۔
یار مجھے ڈر لگ رہا ہے یہ نہ ہو کہ وہ آجائے وہ خوفزدہ ہوتے ہوئے بولی تو طہٰ نے اسے گھور کر دیکھا وہ اندھیرے میں بھی اس کی گوری کا اندازہ لگا چکی تھی ۔
اگر میں ہمت کرکے یہاں آ سکتا ہوں تو تم بھی آسکتی ہو تمہیں یقین ہے نہ کہ یہ اسی کا گھر ہے وہ پھر سے بولا یہ سوال تو وہ کوئی دس بار پہنچ چکا تھا
ہاں یقین ہے تمہیں کیا لگتا ہے ایسے ہی میں منہ اٹھا کر یہاں آ جاؤں گی خیر یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے چلو اس کو کھولنے کی کوشش کرو دروازے پر دو تین لاک لگے ہم وہ نہیں کھول سکتے ۔ اس دن دروازے پر کھڑے ہونے کی وجہ سے عائشہ نے دروازے پر دو تین لاک لگے دیکھے تھے اور اس کی ذہانت کچھ ایسی تھی کہ وہ جو الگ ٹائپ چیز ایک بار دیکھ لے اسے آسانی سے بھول نہیں پاتی تھی
اور اس دن دروازے پر لگے وہ لاک دیکھ کر اسے کچھ عجیب لگا تھا ۔
کھڑکی کافی آسانی سے کھل گئی تھی
یار یہ تو کھلی ہوئی تھی کہ یہ بیسٹ ہمارا انتظار تو نہیں کر رہا دیکھو ابھی میں کنوارہ ہوں مرنا نہیں چاہتا وہ اسے گھورتے ہوئے بولا ۔
بکواس بند کرو اندر چلو ہمیں جلدی واپس بھی آنا ہے وہ کھڑکی کے راستے اس اندھیرے گھر میں اتر چکے تھے لیکن یہاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے انھیں ٹھیک سے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا طہٰ نے اپنے موبائل کی ٹارچ جلا کر آگے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی باہر تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس سے وہ شک کر پاتے
سامنے ایک کمرہ تھا اس دن اسی کمرے سے خون نکل رہا تھا عائشہ نے اس کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے اندر آنے کے لیے کہا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہی آگیا
وہ دونوں اندر داخل ہوئے تو یہاں ایک الگ ہی منظر تھا لاتعدکینڈلز کی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی جاناں کی بے تحاشہ تصویریں اس کی زندگی کے ایک ایک موومنٹ کو اس خوبصورتی سے تصویر میں قید کیا گیا تھا کہ دیکھنے والا تعریف کیے بنا نہ رہ سکے ۔
وہ ابھی تک کمرے کی ایک ایک چیز پر نظر ڈال رہے تھے کہ اس کی نظر سامنے پڑی ایک ڈائری پر پڑی اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتے کوئی گنگناتے ہوئے باہر کا لاک کھول رہا تھا ۔
عائشہ نے طہٰ کو اسی راستے سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور خود اس کے پیچھے آئی اس سے پہلے کہ دروازہ کھلتا وہ دونوں کھڑکی سے باہر نکل چکے تھے دروازے پر کھڑا وہ آدمی ان دونوں کو دیکھ چکا تھا ۔عائشہ کو اسے پہچاننے میں ایک سیکنڈ نہیں لگا تھا یہ وہی تھا جو سو ہم کے قتل کی رات اس سے ٹکرایا تھا ۔
عائشہ اس حد تک خوفزدہ ہو چکی تھی کہ بھاگ تک نہیں پا رہی تھی طہٰ نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوئے لے گیا ٹائر بھی بھاگتے ہوئے ان کے پیچھے آیا تھا جبکہ عائشہ کے ہاتھ میں جان کی ڈائری بھی وہ دیکھ چکا تھا
°°°°°°°°°°
وہ دونوں تیزی سے بھاگ رہے تھے جبکہ ٹائر ان کے پیچھے ہی بھاگتا ہوا آ رہا تھا
تم نے اس کی ڈائری چرالی طہٰ اسے دیکھتے ہوئے بولا
ڈائری عائشہ کے ہاتھ میں تھی لیکن پیچھے سے ٹائر کو آتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے ان کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا
تم اس طرف جاو میں اس طرف جاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہارا پیچھا چھوڑ کر میرے پیچھے لگ جائے لیکن تم انہیں سیدھی گھر جانا وہ اسے کہتا ہوا گلی کے موڑ سے دوسری طرف مرا جب کے اس کی جیب سے اس کا وولٹ زمین پر گر گیا عائشہ جلدی سے وولٹ اٹھاتے ہوئے دوسری طرف بھاگ گئی تھی ۔
اس کے کہنے کے مطابق وہ راستے میں کہیں پر بھی رکی نہیں تھی سیدھی گھر آکر ہی دم لیا اور اب وہ جلدی جلدی اس ڈائری کو دیکھ رہی تھی اسے یقین تھا اسے ضرور اس میں سے کوئی نہ کوئی ثبوت ضرور ملے گا ورنہ وہ خواجہ سرا اتنی دور تک ان کے پیچھے نہیں آتا ۔
وہ ڈائری کھول کر اسے پڑھنے لگی اور جیسے جیسے وہ ڈائری پڑھ رہتی تھی ویسے ویسے اس کے دل کی حالت خراب ہو رہی تھی ۔
جو اس کے سامنے تھا وہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا ڈائری پڑھ کر اس نے جیسے ہی بیڈ پر رکھی اس کا دھیان طہٰ کے وولٹ پر گیا ۔
مجھے اس بارے میں سب کچھ طہٰ کو بتا دینا چاہیے اس نے میری اتنی مدد کی ہے ویسے بھی اس کے بارے میں اسے پتہ چلنا چاہیے وہ طہٰ کو فون کرکے اسے ملنے کے لیے بنانا چاہتی تھی لیکن اس کا فون لگا ہی نہیں ۔
اس نے دو تین بار فون کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا فون نہ لگنے پر وہ تھوڑی دیر بعد کوشش کرنے کے بارے میں سوچتی ہوئی اپنا فون اور طہٰ کا وولٹ سائیڈ ٹیبل پر رکھنے لگی لیکن تب ہی طہٰ کے وولٹ سے ایک کارڈ زمین پر گرا ۔
جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تو کیا سارے انکشاف اس پر آج ہی ہونے تھے ۔
کارڈ پر لکھے الفاظ پڑھ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی وہ بار بار یہ نام پر رہی تھی ۔
آئی یس آئی (Inter Services Intelligence ) سکریٹ ایجنٹ آفیسر طہٰ بخاری
یعنی کہ پاکستان آرمی کا آفیسر لیکن وہ یہاں کیا کر رہا تھا ۔۔
کیا بیسٹ کا یہ کیس اتنا بڑا تھا کہ اس میں پاکستان آرمی سروس بھی تعاون کر رہی تھی ۔
لیکن اگر جان پکڑا گیا تو تو بولو پھر مار دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا جان کو زندہ رہنا ہوگا ایسے ظالموں کے خلاف لڑنے کے لیے میں یہ ڈائری کسی کو نہیں دوں گی میں اسے جان کو واپس کر دوں۔
آوہ ابھی انہی سوچوں میں مصروف تھی جب اس کا فون بجا
طہٰ تم ٹھیک ہو نا اس نے طہٰ کا فون اٹھاتے ہی پوچھا تھا
میں ٹھیک ہوں وہ ڈائری جلدی سے لے کر آؤ اور مجھے اس ریسٹورنٹ میں ملو وہ کہتے ہوئے فون بند کرنے لگا جب اسے عائشہ کی آواز سنائی تھی
طہٰ وہ ڈائری میرے پاس نہیں ہے وہ تو غائب ہوگئی ہے کہیں وہ خواجہ سرا تو اسے نہیں لے گیا میں ہر جگہ ڈھونڈ چکی ہوں لیکن نہیں مل رہی ہے پتا نہیں عائشہ کیا کیا کہہ رہی تھی جب طہٰ غصے سے چلایا۔
اوجسٹ شٹ اپ جلدی سے وہ ڈائری لو اور مجھے دو ابھی تم میں انتظار کر رہا ہوں تمہارا اس کے انداز میں اتنا غصہ تھا کہ عائشہ گھبرا کر رہ گئی لیکن ملنے تو جانا ہی تھا
°°°°°°°°
عائشہ تم یہاں تم نے تو کہا تھا کہ تم پیپرز ختم ہونے تک ہوسپٹل چکر نہیں لگا پاؤگی جاناں اسے دیکھ کر خوش ہوئی تھیی
لیکن وہ کافی گھبرآئی ہوئی لگ رہی تھی
جاناں میری بات سنو یہ ڈائری میری امانت ہے تمہارے پاس اسے کھولنا مت میں کچھ دنوں میں تم سے یہ واپس لینے آؤں گی لیکن تب تک اس کا خیال رکھنا اور کسی کو بھی اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتانا ۔
تم میری بات کو سمجھ رہی ہو نا وہ ڈائری ایک لفافے میں بند کرکے اسے دے رہی تھی
یہ کیسی ڈائری ہے میں نے تو تمہیں کبھی یہ لکھتے ہوئے نہیں دیکھا وہ اسے الٹا پلٹا کرتے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن عائشہ جانتی تھی کہ اس نے اسے کھولنے کی اجازت نہیں دے گی تو وہ پھر کبھی نہیں کھولے گی
بس تم اس کا خیال رکھنا چاہیے جو بھی ہو جائے کبھی کبھی کسی کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے وہ اسے سمجھا رہی تھی اور جاناں سمجھ گئی تھی ۔
عائشہ جلد ہی واپس چلی گئی تھی اسے کسی دوست سے ملنے جانا تھا اسی لئے جاناں نے بھی اسے روکنے کے لیے نہیں کہا تھا ہاں لیکن اس کا آدھی رات کے ملنے کے لیے آنا جاناں کو بہت کنفیوز کر گیا تھا وہ اتنی دور سے صرف اسے ڈائری دینے آئی تھی ایسا کیا تھا اس ڈائری میں جاناں کے دماغ میں سوال تو بہت تھے لیکن وہ اسے کھول کر اپنی دوست کی امانت میں خیانت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی
°°°°°°°°°
طہٰ ہوٹل کے باہر بے چینی سے چلتے ہوئے اس کا انتظار کر رہا تھا اور کیوں کر رہا تھا یہ بھی عائشہ بہت اچھے طریقے سے سمجھتی تھی وہ انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے سامنے آ گئی جبکہ وہ اسے دیکھتے ہی فوراً اس کے پاس آیا
عائشہ وہ ڈائری کہاں ہے پلیز وہ میرے حوالے کر دو طہٰ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا
کون سی ڈائری میں کسی ڈائری کے بارے میں نہیں جانتی عائشہ انجان بنی
میں اس ڈائری کی بات کر رہا ہوں جو ہم نے جان کے گھر سے چرائی تھی وہ غصے سے بولا
وہ ڈائری تو گم ہوگئی میں نے تمہیں فون پر بتایا تھا وہ گم ہوگئی مجھ سے میں نے بہت ڈھونڈا لیکن نہیں ملی شاید خواجہ سرا اسے اٹھانے میں کامیاب ہوگیا عائشہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن طہٰ کو اس کی بات پر ایک فیصد یقین نہیں تھا ۔
جھوٹ کہہ رہی ہو تم بہتر ہوگا کہ وہ ڈائری میرے حوالے کر دو ورنہ ۔۔وہ دانت پیس کر بات ادھوری چھوڑ گیا
ورنہ ورنہ کیاطہٰ کیا کرو گے تم اس ڈائری کا جب کہ میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ وہ ڈائری میرے پاس نہیں ہے تم ٹھیک کہتے تھے میں بیکار میں جان پر شک کر رہی تھی
جان وہ انسان نہیں ہے وہ کوئی اور تھا مجھے غلط فہمی ہوئی ہے شاید وہ سب میرا وہم تھا
جان تو بہت اچھا انسان ہے اور جاناں سے بے پناہ محبت کرتا ہے شکر ہے وقت رہتے میری غلط فہمی دور ہو گئی اس نے مسکراتے ہوئے کہا اس کے چہرے اور لب و لہجے سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ جان کے متعلق تمام وہم و گمان اپنے دل سے نکال چکی ہے
نہیں عائشہ تم ٹھیک کہہ رہی تھی جان ہی بیسٹ ہے وہ معصوم لوگوں کو قتل کرتا ہے اور اس ڈائری میں ۔
اس ڈائری میں کچھ نہیں تھا جاناں کے لیے شاعری لکھی ہوئی تھی اور اب وہ میرے پاس نہیں ہے ورنہ میں تمہیں دے دیتی لیکن تم اس کا کیا کرو گے وہ اس سے پوچھنے لگی نہ جانے کیوں اسے اس کیس میں اتنا زیادہ انٹرسٹ تھا ۔
لیکن یہ بات تو اب تہہ تھی عائشہ ڈائری سوائے جان کے وہ ڈائری کسی کو نہیں دے گی ۔ اور اب وہ اس کے ہر صحیح اور غلط کام میں اس کے ساتھ تھی۔
عائشہ میرے ساتھ گیم کھیلنا بند کرو اچانک وہ اتنا اچھا کیسے ہو گیا اور تمہیں اتنا اچھا کیسے لگنے لگا ہے جب کہ تم ہی تو کہہ رہی تھی کہ وہ بیسٹ ہے وہ عائشہ کو جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
وہی تو کہہ رہی ہوں کہ میری غلط فہمی تھی اور کچھ بھی نہیں اب میں ہوسٹل گئی تو جاناں نے مجھے فون کیا میں ابھی جاناں سے مل کر آ رہی ہوں جاناں نے مجھے بتایا کہ جان نے اسے شادی کیلئے پرپوز کیا ہے اب وہ بیسٹ کی شادی تھوڑی نہ کرے گا
اس کی ڈائری وہ بھی میں کچھ بیچ ہی کر پائی میں اسے اپنے بیڈ پر رکھ کر کھانا کھانے گئی تھی جب واپس آئی تو ڈائری غائب تھی لیکن اس ڈائری میں صرف اور صرف جاناں کے لیے شاعری لکھی ہوئی تھی اور کچھ بھی نہیں
اور وہ خواجہ سرا وہ اب بھی غصے میں تھا
وہ خواجہ سرا تمہیں کیا لگتا ہے بیس خواجہ سرا سے دوستی کرے گا ۔میرا نہیں خیال کہ وہ خواجہ سرا کا بھی کوئی تعلق ہے اس سے میں نے اسے کہیں بار دیکھا ہے کتنی بار تو میرے گھر بھی آیا ہے وہ پاکستان سے ہے تو کچھ نہ کچھ مانگنے آتا رہتا ہے میری ماما کو اچھی طرح سے جانتا ہے پروفیسر رفیق غلط فہمی تھی ہو سکتا ہے وہی اسی گھر میں رہتا ہوں جان کے ساتھ جان کا دوست ہوں
مجھے احساس ہوا کہ جان تو بہت اچھا انسان ہے اور وہ تو wیک عام سا انسان ہے بیسٹ سے اس کا کوئی تعلق نہیں تم ٹھیک کہتے تھے وہ صرف میرا وہم تھا
وہ کسی طرح اس کے ہاتھ آنے کو تیار نہ تھی یہ تمہارا وولٹ وہاں گر گیا تھا میں نے اٹھا لیا
وہ اس کا وولٹ اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی تو طہٰ کے چہرے پر ایک لہر سی آئی
ایسے مت گھورومیں نے اسے کھول کر نہیں دیکھا لیکن مجھے اندازہ ہے کہ اس میں ریسٹورانٹ میں کافی پینے جتنی اماؤنٹ ہرگز نہیں ہوگی عائشہ کا انداز ایسا تھا کے طہٰ بھی اس سے اپنی پہچان چھپانے کی کوشش میں لگ گیا۔
چلو شکر ہے تمہارا وہم دور ہوگیا ہے میرے وولٹ میں تو اتنی اماؤنٹ نہیں ہے کہ تمہیں کوفی پلا پاؤں لیکن تمہارا بگ کافی ہائی ہے
ہاں یہ تو ہے تو چلو آؤ ہمیشہ کی طرح میں ہی تمہیں کافی پلاتی ہوں عائشہ اپنی گھبراہٹ کو نظرانداز کیے بہت کونفیڈنس ہو کر بولی تھی طہٙ جو اس کا ہر انداز نوٹ کر رہا تھا وہ بھی ریلیکس لگنے لگا مطلب کہ اسے عائشہ بھی یقین آ چکا تھا یا کچھ اور
لیکن طہٰ وہ تمہارے سامنے جھوٹ بول رہی تھی تم نے اسے کچھ کہا کیوں نہیں وہ ہمارے ہاتھ سے اس طرح سے نکل گئی تو ہم بیسٹ کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں لگواپائیں گے آریان بہت پریشان تھا ۔
یار تو تم ہی کہو میں کیا کرتا وہاں وہ میرے سامنے صاف جھوٹ بول رہی تھی
اگر میں اس کے سامنے زیادہ انکوائری کرنے کی کوشش کرتا تو اسے مجھ پر شک ہو سکتا تھا
اور مجھے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ میرے بارے میں جان چکی ہے
میرا وولٹ وہاں راستے میں گر گیا تھا عائشہ اپنے ساتھ لے گئی اور پھر واپس پے اس نے مجھے واپس کیا مجھے لگتا تو نہیں کہ اس کو کچھ بھی پتہ چلا ہے لیکن پھر بھی اپنی غیر احتیاطی پر میں بہت پریشان ہوں وہ آریان کے سامنے بیٹھا اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا تھا ۔
طہٰ یہ لڑکی بہت تیز ہے یہ تو میں اسی دن سمجھ گیا تھا جس دن یہ اپنی ماں سے کوئی بھی سوال مجھے پوچھنے نہیں دے رہی تھی
اور سب سے خاص بات سو ہم اس کا منگیتر تھا اور وہ خان اس کا باپ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی کہیں نہ کہیں اس کیس سے جڑی ہو ہم اس لڑکی کو خود پر شک کرنے کا موقع ہرگز نہیں دے سکتے ۔
اسی لیے تو میں نے مزید اس بارے عائشہ سے کچھ نہیں پوچھا اگر میں بار بار اس سے اس بیسٹ کے بارے میں پوچھا تو یقینا اسے مجھ پر شک ہو جاتا طہٰ نے کہا۔
تمہیں یقین تو ہے نہ کہ اسے تمہارے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چلا آریان اب بھی شک کی زد میں تھا ۔
ہوپ سو اسے کچھ بھی پتہ نہیں چلا ویسے اگر اسے پتہ چلتا تو تمہیں کیا لگتا ہے وہ اتنی آسانی سے مجھ سے بات کرتی یا پھر مجھ سے ملنے کے لیے آتی ۔
لیکن پھر وہ ڈائری کہاں گئی تمہیں لگتا ہے کہ وہ ڈائری عائشہ کے پاس نہیں ہے اور سب سے اہم بات کیا عائشہ کو اب یقین ہو گیا ہے کہ وہ لڑکا جان بیسٹ نہیں ہے یہ لڑکی اچانک اپنی بات سے پلٹ کیسے گئی کل تک تو کہہ رہی تھی کہ وہ بیسٹ کو جانتی ہے اور اس نے اسے دیکھا ہے رات کو وہ اسے ڈرانے آیا تھا تو پھر وہ اچانک مکر کیوں گئی ۔
یار یہی بات تو مجھے سمجھ نہیں آرہی آخر ایسا کیا ہوگیا دو گھنٹوں میں عائشہ کو جان سہی لگنے لگا ۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جان نے عائشہ کو ڈرایا دھمکایا ہو یہ تو ہو سکتا ہے نہ کہ ان دو گھنٹوں میں اس کی ملاقات جان سے ہوئی ہو آریان نے اپنا شک بیان کیا ۔
ہاں ممکن تو ہے لیکن وہ کہیں سے بھی ڈری سہمی نہیں لگ رہی تھی ۔ بلکہ وہ تو یقین سے کہہ رہی تھی اس کو جو کچھ بھی لگتا ہے سب صرف وہم ہے اور وہ جان کو غلط سمجھ رہی تھی اور اس ڈائری کے بارے میں وہ کہہ رہی تھی کہ اس میں اس کی گرل فرینڈ کے لئے صرف شاعری لکھی ہے اور کچھ بھی نہیں ۔طہٰ نے تفصیل بتائی۔
یار مجھے تو لگتا ہے کہ ہم اس لڑکی پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں مجھے تو لگ رہا ہے کہ یہ تمہیں بیوقوف بنا رہی تھی اور ہمہیں تو بھی نہیں پتا کہ اس دن اس نے سو ہم کا قتل ہوتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی تھا یا نہیں ۔اور اگر دیکھا بھی تھا تو اس نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا اس لڑکے جان پر تو صرف اسے شک تھا ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جان کو اس سب میں پھسنا چاہتی ہو ۔ کیونکہ میں نے اس لڑکے کے بارے میں پتا کیا ہے بہت صاف ریکارڈ ہے اس کا ہو سکتا ہے وہ اسے پسند نہ کرتی ہو آج کل کے یہ لڑکے لڑکیاں زرا زرا سی بات کو آگے لے جاتے تھے آریان نے کہا
سچ کہوں تو مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے جان کے گھر میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس سے لے کر میں اس پر شک کر پاتا بس ایک کمرے میں ایک لڑکی کی بہت ساری تصویریں تھیں اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ اسے بہت چاہتا ہے اور وہیں پر وہ ڈائری ملی تھی جس میں عائشہ کے کہنے کے مطابق کوئی شاعری لکھی ہوئی تھی ۔
مجھے لگتا ہے اس جان کو بیسٹ سمجھ کر ہم سے اپنا وقت برباد کر رہے ہیں عائشہ کی بنائی ہوئی کہانی بھی ہو سکتی ہے ہو سکتا ہے وہ اہمیت حاصل کرنے کے لئے یہ سب کر رہی پو کیوں کہ پہلے اس کے منگیتر کا قتل بیسٹ کے ہاتھوں ہوا اس کے باپ کا ہو سکتا ہے اس نے اپنے پاس ہی کہانی بنا لی ہو آج کل یہ لوگ ہٹ ہونے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں امپریس کرنے کے لئے آریان بات کہتے کہتے اچانک طہٰ مسکرا دیا تھا بے اختیار اس کی طرف دیکھنے لگا
او ہیلو ایسا کچھ نہیں ہے وہ صرف میری دوست ہے ۔ اور وہ مجھے امپرس کرنے کی کوشش کیوں کرے گی اتنے بھی قریب نہیں ہم وہ بری طرح سے حیران ہوا تھا ۔
ہاہاہا مذاق کر رہا ہوں یار میں تو خوش ہوں تیری لائف میں بھی کوئی لڑکی آئی اب ٹائم مت ضائع کر میری طرح تو بھی ۔۔۔۔
سیٹ اپ آریان میں کہہ رہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے اور وہ مجھے امپیرس کرنے کی کوشش کیوں کرنے لگی وہ مجھے بالکل بھی پسند نہیں کرتی وہ تو دن اتفاق سے ہماری ملاقات ہوگئی ورنہ اس سے پہلے ہم کتنی بار ملے تھے ہماری بری طرح سے جھڑپ ہوئی تھی ۔
ہاں پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے سامنے اپنے آپ کو بہادر شو کرنے کے لیے یہ کہانی بنا رہی ہوآریان نے پھر سے کہا ۔
ہاں سر ایسے معاملوں میں لڑکیوں کو اپنی بہادری دکھانے کا بہت شوق ہوتا ہے عمران جو کب سے کھڑکی کے قریب کھرا چائے پینے میں مصروف تھا اس کی بات میں حصہ لیتے ہوئے بولا ۔
مطلب تم دونوں یہ بات ثابت کرکے ہی رہوں کہ پچھلے دو ہفتوں سے اپنا وقت برباد کر رہا تھا ۔طہ نے اٹھتے ہوئے کہا تو ان دونوں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا
ویسے تم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تمہارا وقت برباد ہوا ہے لڑکی بہت خوبصورت تھی اور خوبصورت ساتھی کے ساتھ وقت کی بربادی نہیں ہوتی آریان نے پھر لقمہ دیا تو وہ اسے گھور کر رہ گیا ۔
آریان میں نے کہا نہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے اس بار وہ گھور کر بولا ۔
تو میں نے کب کہا کہ ایسا کچھ ہے ۔ میں تو بس بائے دا وئے بات کر رہا ہوں اریان نے دونوں ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے اپنی جان چھڑاوئی۔
بھاڑ میں جاؤ تم دونوں بے کار میں اپنا وقت برباد کر رہا ہوں تم دونوں کے ساتھ ہی گھورتے ہوئے جانے لگا
ہاں بھائی اب ہمارے ساتھ وقت کیوں اچھا گزرنے لگا اب تو اتنی حسین کمپنی مل گئی ہیں
حسین بھی اور ذہین بھی تبھی تو اتنے قابل آفیسر کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئی ہے عمران نے بھی آریان کا ساتھ دیتے ہوئے جملہ ملایا
خاموش ہو جاؤ ورنہ وہ بیسٹ میرے ہاتھ لگے نہ لگے میں خود بیسٹ بن کے تم دونوں کو گنجا ضرور کروں گا وہ اکتا کر بولا تو عمران اور آریان قہقہ لگایا جبکہ وہ ان دونوں کو گھورتے ہوئے وہاں سے نکل گیا اب ان دونوں کے پاس مزید بیٹھنا اس کے لیے بہت مشکل تھا
°°°°°°°°
وہ نائٹ گاون میں گہری نیند میں سو رہے تھے جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کے آس پاس کوئی ہے آج کل تو بیسب احساس تک سوار تھا کہ سوتے ہوئے بھی ان کی چھٹی حس ہر وقت بیدار رہتی تھی آنکھیں کھولیں تو وہ بالکل ان کے پاس کرسی رکھی ہے بیٹھا ہوا تھا ۔
تم تم یہاں کیا کر رہے ہو وہ غصے سے دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔
بلا میں یہاں کیوں ہو سکتا ہوں آپ سے بہتر کون جانتا ہے ۔وہ انہیں دیکھتے ہوئے بولا
میں تمہیں ہزار بار بتا چکا ہوں جان کہ ماہی اب اس دنیا میں نہیں ہے مرچکی ہے وہ آخرتمہیں میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا کیوں نہیں یقین کر لیتے کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہی وہ انتہائی غصے سے سمجھانے لگے
مطلب کے آپ کے لئے وہ مرچکی ہے وہ جیسے سوال کرنے لگا
ہاں وہ مر چکی ہے کتنی بار سمجھاؤں تمہیں اس کی سرخ آنکھوں سے نکلتے انگارے انہیں ڈرا گئے تھے ۔
ٹھیک ہے تو اپنی بات پر قائم رہے گا آپ کے لیے ماہی مر چکی ہے اب وہ صرف میری ہے میری اس کے انداز میں ایک عجیب سی بات تھی کہ انہیں خوف آیا کہیں اسے پتہ تو نہیں چل گیا کہ ماہی ترکی میں ہے
تم یہاں صرف ماہی کے بارے میں پوچھنے آئے تھے وہ کچھ حیران ہوئے تھے اس کی نظریں انہیں بہت کچھ سمجھا رہی تھی
میں یہاں کیوں آیا ہوں یہ تو آپ کو پتہ چل جائے گا لیکن بے فکر رہے میری لسٹ میں آپ کا نمبر بہت آخر میں ہے وہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا لیکن اس کی بات اکبر صاحب کے دماغ کیلئے سمجھنا ایک مشکل کام تھا وہ جس خاموشی سے آیا اسی خاموشی سے واپس جا چکا تھا ۔
لیکن تھوڑی ہی دیر میں نوکروں کی آوازیں گونجنے لگی ۔ اور ان کے ساتھ ہی ان کی جان سے پیاری بیوی کی چیخ و پکار بھی وہ تقریبا بھاگتے ہوئے نیچے گئے تھے آواز ان کے سالے کے کمرے سے آ رہی تھی
وہ اسی طرف بڑھ رہے ہیں فرش پر خون ہی خون بکھرا تھا اور سامنے ان کے سالے کی لاش پڑی تھی ۔
اتنی جان دار پر رعب شخصیت ہونے کے باوجود بھی اس لاش کو دیکھ کر ان کا دل کانپ اٹھا تھا وہ ایک ہی پل میں سمجھتے تھے کہ یہ کام جان نے کیا ہے لیکن مجبوراً وہ نہ تو جان کا نام لے سکتے تھے اور نہ ہی بیسٹ سے اپنے کسی تعلق کا ذکر کر سکتے تھے ۔
انہوں نے اپنی ایمیج کچھ اس طرح سے بنا رکھی تھی کہ نہ تو ان کا بھی سب سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی قتل ہوئے لوگوں میں سے کسی کے ساتھ اپنی سوچوں کو جھٹلا کر وہ آگے بڑھے اور اپنی بیوی کو اپنے کندھے سے لگایا جو کہ بھائی کی موت پر تڑپ رہی تھی ۔
آپ کا نمبر میری لسٹ میں بہت آخر میں ہے اس کے الفاظ کا مطلب وہ اب سمجھے تھے ۔ دل نے بے اختیار دعا کی تھی کے ایسی اذیت ناک موت ان کے حصے میں نہ آئے
°°°°°°°°
آج ان کا آخری پیپر تھا ان تینوں نے پرسکون ہو کر پیپر دیا اور اب باہر بیٹھی اپنی اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی ۔
جاناں بہت خوش تھی کیونکہ جان اب جلد ہی واپس آنے والا تھا جبکہ دوسری طرف عائشہ بھی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔اسے جان کو ڈائری واپس کرنی تھی ڈائری ابھی جاناں کے پاس تھی اس نے جاناں سے دوبارہ اس کا ذکر نہیں کیا تھا ۔
بس کہا تھا کہ جب اسے لگے گا کہ وہ اب واپس اس کے پاس آ جانی چاہیے وہ اس سے لے لے گی
تھوڑی دیر میں عائشہ کی گاڑی آ گئی تو وہ چلی گئی
جب کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد کالج کی لڑکیوں نے جاناں کو اس کے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا
تم لوگ جاؤ میں آ جاؤ ابھی آریان بھائی نہیں آئے تو اریشفہ اکیلی کیسے رہے گی وہ اریشفہ کو دیکھتے ہوئے بولی
ارے اریشفہ کے ہزبینڈ ابھی آ جائے گے لیکن تم تو چلو بعد میں اکیلے کیسے جاؤ گی ۔لڑکی نے کہا
میں پہلے بھی تو آتی رہی ہوں میں آ جاؤں گی تم لوگ جاؤ سیکنڈ ٹائم پیپر ہونے کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں اندھیرا ہونے والا تھا ۔
اور اریشفہ نہیں چاہتی تھی کہ جاناں اس کی وجہ سے بعد میں جائے ۔
اریشفہ اسے اشارے کرنے لگی کہ اسے چلے جانا چاہیے ۔اس کے بعد میں اکیلے جانے سے اسے پریشانی ہوگی اور اریان تو تھوڑی دیر میں آ ہی جائے گا وہ بھی لیٹ نہیں ہوتا تھا یقین آج کوئی ضروری کام نکل آیا ہوگا اس کے بار بار اشارے کرنے پر جاناں کو مجبور اٹھنا ہی پڑا آہستہ آہستہ سب لوگ جا چکے تھے اب وہ اکیلی وہیں بیٹھی آریاب کا انتظار کر رہی تھی
وہ کتنی ہی دیر بیٹھی آریان کا انتظار کرتی رہی پھر اندھیرے کے خوف سے اٹھ کر گھر جانا بہتر سمجھا
اس کے لیے اکیلے جانا مشکل ہرگز نہیں تھا وہ تو اپنے ہوسٹل سے اکیلی بس کا سفر کرتی اپنے گھر دوسرے شہر چلی جاتی تھی ۔وہ ہمت کر کے اٹھی اور اپنے گھر کی جانب چل دی ۔
لیکن جانے سے پہلے آریان کو میسج کرنا نہیں بھولی تھی کہ وہ گھر جا رہی ہے جب وہ فون نہیں اٹھاتا تھا تو مطلب سمجھ جاتی تھی کہ وہ بیزی ہوگا اسی لئے وہ اسے میسج کر دیا کرتی تھی
°°°°°°°°
وہ جلدی جلدی کرنے کے باوجود بھی جلدی نہیں کر پایا تھا پاکستان میں ہونے والے چار قتل انہیں پریشان کر گئے تھے مطلب کے ان دنوں بیسٹ پاکستان میں تھا اور انہیں پتہ تک نہ چلا ۔اور بیسٹ وہاں اپنا کام انجام دیتا رہا ۔
وہ تو لسٹ میں موجود باقی لوگوں کو یہی ترکی میں تلاش کر رہے تھے اٹلی میں خان کے گھر سے کوئی موبائل نہیں ملا تھا ۔
بیسٹ ہر قدم پر ان سے آگے تھا وہ اس کی سوچ تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام یاب ہو رہے تھے ۔
اور سب سے بڑی بات ان لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر بیسٹ کی ان لوگوں کے ساتھ دشمنی کیا ہے کیوں اتنی کوشش کے باوجود بھی وہ ان لوگوں کے گناہ کو سمجھ نہیں پا رہے ایسا کون سا گناہ ہوا تھا ان لوگوں سے کہ وہ انہیں اس دنیا سے ختم کر رہا تھا ۔
کام ختم نہیں ہوا تھا اس کے پاس سانس لینے کا بھی وقت نہیں تھا وہ اس کیس کو جتنا سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے یہ کیسے اتنا ہی الجھتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے آریان کی ٹینشن کی بڑھتی جا رہی تھی۔لیکن اس سب کے بیچ میں وہ اریشفہ کو اگنورنہیں کر سکتا تھا
وہ تھوڑی دیر کی چھٹی لے کر اریشفہ کو لینے کالج جا چکا تھا ۔لیکن یہاں آکر کالج میں کوئی بھی نہیں تھا اس نے اریشفہ کو منع کیا تھا کہ وہ خود اسے لینے آئے گا ۔اس نے اپنی جیب میں موبائل ٹوٹلا تو وہ بھی آفس کے ٹیبل پر بھول آیا تھا اریشفہ سے اسے اتنی بڑی غیر زمہ داری کی امید ہرگز نہیں تھی
ابھی اس وقت کے پیپر کو ختم ہوئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا اور یہ جگہ سنسان ہو چکی تھی اور اب تو باہر اندھیرا بھی چھانے لگا تھا کیس کی ٹینشن بھول کر اسے اریشفہ کی فکر ہونے لگی وہ آگے پیچھے ہر جگہ اریشفہ کو ڈھونڈنے لگا اسے یقین تھا وہ اکیلی کبھی نہیں جائے گی ۔
°°°°°°°°
وہ تقریبا ایک گھنٹے سے ہر جگہ اس کو تلاش کر رہا تھا لیکن نہ جانے وہ کہاں جا چکی تھی گھر کا راستہ بہت سنسان تھا اور اس طرف کوئی بھی ٹرانسپورٹ نہیں جاتی تھی مطلب کی اس کا گھر جانا بہت مشکل تھا ۔
ہر جگہ پاگلوں کی طرح تلاش کرنے کے بعد وہ مجبور ہو کر گھر کی طرف جانے لگا ۔
گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر اسے سکون ملا تھا لیکن اریشفہ کی غیر زمہ داری پر غصہ بھی بہت آ رہا تھا اس شہر میں آریان کے کم دشمن تو ہرگز نہیں تھے ہر بڑے گینگ سے اس نے پنگا لے رکھا تھا اور ایسے میں اریشفہ کا یوں اکیلے آنا اسے اچھا خاصہ دلا گیا تھا ۔
اس نے اندر قدم رکھا تو وہ سامنے کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی وہ سیدھا اس کے سر پر جا سوار ہوا ۔
بیوقوف لڑکی عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم میں
کیا کہا تھا میں نے تمہیں لینے آؤں گا ایک گھنٹہ ہی لیٹ تھا
ضروری کام آ گیا تھا جو چھوڑ کے آیا تھا تمہارے لئے
منح کیا تھا نہ تو پھر کیوں نہیں آئی ۔میری کوئی بھی بات نہ مانے کی قسم کھا رکھی ہے تم نے مجال ہے جو تھوڑی دیر وہاں رک جاتی
کیوں آئی اس طرح سے تم اگر راستے میں کچھ ہو جاتا تو ۔اب کیا منہ بنا کر کھڑی ہو گئی ہو دیکھو میری طرف وہ غصے سے اس کا چہرہ اپنی طرف کر رہا تھا لیکن اپنی تھوڑی دیر پہلے والی بے چینی کی وجہ سے ٹھیک سے ڈانٹ تک نہیں پا رہا تھا لیکن یہ کیا اس کی ڈانٹ سن کر اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھی ۔
اریشفہ ۔۔۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی وہ اسے پیچھے کرتی وہاں سے بھاگتی ہوئی اندر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
اپنی غلطی پر بھی مجھ سے ناراض ہو رہی ہوٹھیک ہے میں بھی نہیں مناؤں گا وہ غصے سے کہتا دوسرے بیڈروم میں جا چکا تھا ۔لیکن پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے منانے کے لئے کمرے کی طرف جانے لگا تو باہر میز پر رکھا رسیور بول اٹھا ۔
ہیلو سر ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ بیسٹ کیس کی ایک اور لاش ملی ہے آپ جلدی آجائے فون پر عمران نے انفارم کیا تو وہ اریشفہ کو منانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے گھر سے نکل گیا ہاں لیکن باہر کا دروازہ بند کرنے کا کہنا نہیں بھولا تھا
وہ تھکی تھکی سی کمرے میں داخل ہوئی پیپر نے اسے اچھا حاضہ کا دیا تھا اور پھر دو ہفتوں کی تھکاوٹ بھی تو اتارنی تھی ان پیپرز کے چکر میں وہ بہت دنوں سے اپنی نیند پوری نہیں کر پا رہی تھی اب تو بستر پر پڑھتے ہی گہری نیند سو گئی
پیپرز کے بعد ہر ٹینشن سے الگ ہوکر وہ ایسے ہی گہری نیند سوتی تھی ۔
نجانے سوتے سوتے کتنا وقت گزر گیا ۔لیکن پھر ایک احساس نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا
اس کے چہرے پر گرم سانسوں کی تپش نے اس کی سانسیں تیز کر دی تھی ۔وہی محسوس کن خوشبو جیسے وہ اتنے دنوں سے مس کر رہی تھی
یہ خواب تھا یا حقیقت لیکن یہ احساس بہت راحت بخش تھا ۔
شاید جائز رشتے نے اسے اتنا خوبصورت بنا دیا ہوگا ۔اس کے لبوں کی نرماہٹ کو وہ اپنے چہرےکے ایک ایک نقش پر محسوس کر رہی تھی ۔
لیکن آنکھیں کھولنے کا دل نہیں کر رہا تھا جیسے وہ آنکھیں کھولے گی اور وہ چلا جائے گا کہ غائب ہو جائے گا وہ خواب بن جائے گا ۔
اب وہ اپنے لبوں پر اس کا لمس محسوس کر رہی تھی ۔ سانسیں الجھنے لگی تھی ۔وقت تھم سا گیا تھا وہ اس کے قریب تھا بہت قریب لیکن جاناں اب بھی خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی اسے محسوس کر رہی تھی
لیکن اسے خود سے دور جاتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی اسی لیے وہ خوابوں کہ اس خوبصورت دنیا میں اپنے جان کے ساتھ زندگی کے حسین لمحات گزار رہی تھی
جانتی تھی کہ یہ خواب ہے اگر یہ حقیقت ہوتا تب تک جاناں کے سانس رک چکی ہوتی ۔تو بےشک اپنے آپ کو بہت بولڈ ظاہر کرتی تھی لیکن اندر سے وہی نھنا سا دل تھا جو اس کی ذرا سی قربت پر مچلنے لگتا تھا ۔
وہ اس احساس کو محسوس کر رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کیا اس کے کندھے سے اس کی شرٹ نیچے سرک رہی ہے اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ کر اسے روکنا چاہا ۔
خواب حقیقت بن کر آیا تھا وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو آپنی تمام حدیں پار کرنے کے لئے سراپا عشق بن اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔
مطلب وہ خواب نہِن حقیقت تھا اور کب سے اس کے ساتھ۔۔ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہ سکی
کیا ہوا ۔۔۔!وہ انجان بنااسے دیکھنے لگا
تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔۔! جاناں حیرت زدہ سی پوچھنے لگی ۔
تمہیں محسوس کر رہا ہوں اس کا جواب بے ساختہ تھا ۔
لیکن کیوں ۔۔۔۔! جاناں کی زبان پھسلی
کیونکہ تم میری بیوی ہو اور میں تمہیں بہت زیادہ مس کر رہا تھا اتنے دنوں سے تمہیں دیکھنے کے لئے تمہیں چھونے کے لئے تمہیں پانے کے لیے پاگلوں کی طرح ترس رہا تھا ۔
دیکھو اپنے وعدے کے مطابق میں تمہارے پیپر کے بعد فورا واپس آ گیا ویسے تم بھی مجھے بہت مس کر رہی تھی ہے نا وہ اس کے تھوڑی دیر پہلے والے تاثرات کے بارے میں بول رہا تھا ۔جس پر جاناں جی بھر کے شرمندہ ہوئی ۔
ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔ میں نے کب بولا کہ میں تمہیں محسوس کر رہی تھی وہ صاف مکر گئی
اچھا تو تم مجھے مس نہیں کر رہی تھی ۔۔۔! جان استہزائیہ نظروں سے دیکھنے لگا
بالکل بھی نہیں جاناں نے فوراً جواب دیا ۔
اچھا تو اب جب میں تمیں یہاں محسوس کر رہا تھا تب تم میں کوئی بھی ری ایکشن کیوں نہیں دیا۔ جان مسکراتی نظروں سے اس کے سراپے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔
کب کہاں میں تو سو رہی تھی ۔۔ جاناں نے اس کی نظروں سے گھبرا کر بے ساجان بہانہ بنایا ۔
ابھی یہاں جب میں نے تمہاری آنکھوں کو چوما تمہارے رخسار کو پیار کیا ۔اور تمہارے ہونٹوں سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھائی لیکن یہ پیاس بجھی نہیں ہے ابھی تو ان 14 دن کا حساب چکانا ہوگا تمہیں ۔ابھی تو میں بہت آگے کا سوچ رہا ہوں وہ بولڈ انداز میں کہتا اس کے مزید قریب ہوا
جبکہ اس کی بے باکی پر جاناں کا منہ کھل گیا تھا لیکں وہ اب بھی باز نہ آیا
کیا تم سچ میں سو رہی تھی ۔جب میں نے تمہاری پلکوں کو چھوا تمہارے ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لیا ابھی تو مین آگے جانے کا سوچ رہا تھا وہ کہتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی شرٹ سرکانے ہی والا تھا کہ جاناں نے اسے پیچھے کی طرف دھکا دیا
تم بہت بے شرم ہو جان مجھے کچھ نہیں پتا میں سو رہی تھی اور اب تم بہت کچھ کر چکے ہو جاؤ یہاں سے وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی ۔
نہ جاناں اب میں یہاں سے جانے والا تو ہرگز نہیں ہوں اور تم سو رہی تھی تو کیا ہوا ۔میں تمہیں پھر سے اپنی چاہت کا احساس دلانے کے لیے ہر وقت تیار ہوں
وہ اسے ایک ہی لمحے میں کھینچ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ گیا تھا ۔اور ایک کروٹ لے کر اسے اپنے نیچے کرلیا جاناں کا دل پہ ترتیب دھڑکنے لگا
جان پلیز ۔۔۔۔اسے اپنے ہونٹوں پر جھکتے دیکھ کر وہ چہرہ پھیر گئی۔ تم پہلے ہی بہت کچھ کر چکے ہو جاؤ یہاں سے وہ چہرا پھیرے ہوئے بولی تو جان نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر سیدھا کیا ۔
ابھی سے گھبرا گئی جاناں ابھی تو تم نے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ۔میرے جنون میری شدتوں کے ساتھ ایک زندگی گزارنی ہے ۔ابھی تو شروعات تک نہیں ہوئی ہماری محبتوں کی اور تم ابھی سے راہ فرار کی تلاش میں ہو
ابھی تو ہم نے مل کر اس سفر کو شروع کرنا ہے ۔
وہ کہتے ہوئے روکا نہیں تھا بلکہ اب وہ اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوم رہا تھا اس کی دیوانگی جابجانا اس کے چہرے پر رقم تحریر کر رہی تھی ۔
وہ کافی دیر مزاحمت کرتے اسے روکنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اس کے دونوں ہاتھ جان کے ہاتھوں میں قید ہو چکے تھے
وہ اس کی پناہوں میں مکمل بے بس تھی۔ جان پوری طرح سے اس پر حاوی ہو چکا تھا دل کی دھڑکنیں دھڑکتے ہوئے اس کی سانسوں پہ اپنی حکومت چلا رہا تھا
۔پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ اس سے الگ ہوا ۔
کل میں تمہیں لینے آؤں گا اپنا سامان پیک کر لینا اب سے ہم دونوں ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور یہ دیوار جو تم نے ہم دونوں کے بیچ میں قائم کی اس کا وجود بھی اس دنیا سے ختم ہو جائے گا اب جان اپنی جان کو حاصل کرے گا ۔
تیار ہو جاؤ میری ہونے کے لئے بس یہ آج کی رات پھر تم صرف اور صرف میری دیوانگی میں جیو گی میرے جنون کوسہوگی صرف میری بن کررہوں گی اس کے قریب سے اٹھنے لگا ۔جاناں کی گھبراہٹ میں کم ہوئی ورنہ تو آج وہ اس کہ جان لینے کے در پر تھا اور اب اس کی باتیں
لیکن بابا اس کی باتیں سن کر جاناں پریشان سے کہنے لگی کب سے اس کی چہرے پرچھائی سرخی اب زردی میں بدلنے لگی تھی وہ اپنے باپ سے خوفزدہ تھی ۔
اگر کہو گی تو آج ہی تمہارے باپ سے بات کر لوں گا ورنہ جب تم چاہو لیکن اب تمہارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے تمہیں میرے پاس آنا ہوگا میں یہ دوریاں صرف آج رات برداشت کروں گا کل سے تم میری ہو صرف میری جان کا انداز ایسا تھا کہ اب وہ اس کا کوئی بہانہ نہیں سنے گا ۔
جب کے جاناں آنے والے وقت کے لئے پریشان تھی اگر اس کے باپ کو اس کے نکاح کی خبر لگ جاتی تو ۔۔۔۔اور اس کا دل تو اس سوچ پر بند ہونے لگتا ۔
تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو جاناں کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے وہ اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا تو جاناں کا دل پہ اختیار دھڑکا اٹھا اب وہ اسے کیسے کہتی کہ اس سے زیادہ بھرسہ اسے کسی پر نہیں ہے
مجھے تم پر بھروسہ ہے جان لیکن بابا کے ری ایکشن پتہ نہیں کیسا ہوگا اسی لیےڈر بھی لگ رہا ہے وہ اپنے دل کی بات اس کے سامنے کہتے ہوئے اس کے سینے سے لگ چکی تھی
کسی سے ڈرنے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے جاناں میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں ۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں سب کچھ سنبھال لوں گا وہ اسے اپنے ساتھ لگائے محبت سے کہنے لگا ۔
آئی لو یو جان ۔جاناں کے لبوں نے پہلی بار ان الفاظ کا استعمال کیا تھا
جان نے اگلے ہی لمحے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا ۔
پھر سے کہو جان کے اچانک کہنے پر وہ بے اختیار نظر جھکا گئی ۔
ایسے نہیں میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو وہ بے چین ہوا
کیا کہوں جانقں انجان بنی
وہی جو ابھی کہاہے ۔۔۔وہ گھورنے لگا
میں تو کچھ نہیں کہا اسے ستانے میں اسے مزہ آنے لگا تھا ۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔اس کے مکرنے پر جان نء اسے گھورتے ہوئے کہا تو وہ بھی نخرے دکھاتی ہاں میں سر ہلا گئی ۔
لیکن شاید وہ یہ بھول گئی تھی کہ سامنے کھڑا شخص جان ہے جو منٹوں میں اس کی جان عذاب کر دیتا تھا اگلے ہی لمحے جان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے بالوں سے پکڑتے ہوئے آپنے بے حد قریب کیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے گیا ۔
جاناں اپنے لفظوں سے مکر کر پچھتائی تھی کیوں کہ جان نکاح کے دن والے انداز پر آ چکا تھا اس کی سانسوں کی رفتار کی پرواہ کیے بغیر وہ اس پر پوری طرح سے حاوی ہوچکا تھا ۔
جاناں اسے اپنے ہاتھوں کی مدد سے خود سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامیں اس کے کمر کے پیچھے لے گیا ۔ہونٹ تو پہلے ہی اس ظلم کی قید میں تھے اور ہاتھ بھی قید ہو چکے تھے
جنون کا یہ سلسلہ نجانے کتنی دیر چلنا کہ اچانک کسی نے جاناں کے کمرے کا دروازہ بجایا جان نے اسی انداز میں اس کے لبوں کو چھوڑ کر دروازے کی جانب دیکھا چہرے پر ناگواری پھیلی لیکن اس کے ہاتھ ابھی تک اسی انداز میں قید تھے ۔
جان وارڈن ہونگی وہ رکی ہوئی سانسوں میں بڑی مشکل سے بولی تھی
یہاں کیوں آئی ہے وہ ناگواری سے بولا ۔
میرا کمرہ دوپہر سے بند تھا وہ پریشان ہو گئی ہوں گی تم آ جاؤ بہت وقت ہو گیا ہے وہ اسے پیچھے کرتے ہوئے کہنے لگی جبکہ اس کے ہاتھوں پر جان کی گرفت اب بہت نرم ہو چکی تھی
ٹھیک ہے ابھی جا رہا ہوں تمہیں کل لینے بھی تو آنا ہے کاس کے اچانک کہنے پر وہ نظریں جھکا گئی چہرا تو پہلے ہی سرخ ہو چکا تھا ۔اور اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ کل اسے لینے ضرور آئے گا اس کی تو پل بھر کی قربت دہنا جاناں کے بس سے باہر تھا کہاں وہ ساری زندگی ایسے قید کرنے کے ارادہ رکھتا تھا
وہ مسکرا کر اس کے بالوں کو چومتا اس کے اس کے سرخ چہرے کو نظروں کے حصار میں لے جس رستے آیا واپس چلا گیا ۔
جاناں سکون کا سانس لیتی دروازے کی طرف آئی
°°°°°°°°°°
جاناں تم نے دروازے کیوں بند کیا ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمہاری وہ صبح سے ہی بہت پریشان تھی وہ جب سے آئی تھی اپنے کمرے میں بند تھی۔ وہ دو سال سے ان سب کا خیل رکھتی کبھی غصے سے تو کبھی بہت پیار سے بات کرتی لیکن سچ یہی تھا کہ وہ ان سب لڑکیوں کی بہت پروا کرتی تھی
میں ٹھیک ہوں وہ کیا ہے نہ آج آخری پیپر تھا دے لے کے آئی تو ٹھاوٹ کی وجہ سے نیند مکمل نہیں ہو رہی تھی تو آتے ہی سو گئی اب تھوڑی دیر پہلے آنکھ کھلی ہے ۔جاناں نے مسکرا کر کہا لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئی تھی
وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے جاناں لیکن تمہارا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہو رہا ہے کہیں تمہیں بخار تو نہیں وہ پریشانی سے کہنے لگے جاناں سر جھکا گئی اب وہ انہیں کیسے کہتی کہ یہ ساری سرخی تو اس کے شوہر کی شدتوں سے بخشی ہوئی ہے ۔
جی طبیعت تومیری ٹھیک ہے سونے کی وجہ سے آپ کو لگ رہا ہوگا جاناں نے بہانہ بنایا ۔
اچھا اوکھانا کھا لو انہوں نے مسکرا کر کر کہا تو وہ دو منٹ میں منہ ہاتھ دھونے کا کہتے ہوئے واپس کمرے میں آئی جان کمرے میں نہیں تھا لیکن اس کی خوشبو ابھی تک یہیں پر بسی ہوئی تھی ۔
نہ جانے آج کل کیا ہونا تھا
°°°°°°°°°°°°°°
بیسٹ کیس سے جوڑی ایک اور لاش ملی ہے مطلب کہ بیسٹ واپس آ چکا تھا آریان کیس کی پریشان تھا ساری رات اسے ادھر ہی رکنا پڑا واپس آیا تو گھر پر تالا لگا ہوا تھا اس نے پریشانی سے ایکسٹرا کی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
صبح کے 10 بجے رہے تھے اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو بیڈ پر سامنے ہی ایک پیپر پڑا ہوا تھا
اریشفہ رات سے اس سے ناراض تھی وہ اس سے ناراضگی کی امید رکھتا تھا لیکن بات اتنی بڑی نہیں تھی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی
اس نے پیپر کھول کر پڑھنا شروع کیا
میں نے کہا تھا کہ پیپرز کے بعد میں تایا ابو کے گھر جاؤں گی تو میں جارہی ہوں وہ بھی اکیلے میں پہلے بھی اکیلے جاتی رہی ہوں میرے لئے کوئی مشکل بات نہیں ہے دو سال میں نے ہوسٹل سے گھر اکیلے ہی سفر کیا ہے کل رات میں گھر آ گئی تھی یہ سوچ کر کے آپ بیزی ہوں گے اور میری وجہ سے پریشانی اٹھائیں گے آپ کو میسج کر کے بتا دیا تھا میں نے اگر آپ نے اپنا فون چیک نہیں کیا تو غلطی آپ کی ہے میری نہیں اسی لئے آئندہ مجھے اس طرح سے بالکل مت ڈانٹیں گا
خدا حافظ
اس پیپر پربس یہی چند لائن لکھی ہوئی تھی غصہ تو بہت آیا لیکن اریشفہ کی ناراضگی پر مسکرا دیا
اس کی پریشانی کا سوچتے ہوئے اس نے اسے لیٹر بھی لکھا تھا اور اب وہ اپنا موبائل چیک لر رہا تھا جس پر اریشفہ کے کل کے آئے ہوئے تھے
میری جان میں کیسے سمجھاؤں شادی سے پہلے بات کچھ اور تھی لیکن اب بات کچھ اور ہے میرے دشمن کبھی بھی کبھی بھی میرے ویک پوائنٹ کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ !یں بعد میں تمہیں خود سمجھ جاؤں گا ۔
لیکن پہلے تمہیں منا تو لوں اسنے سوچا کہ وہ آج ہی اسے لینے چلا جائے لیکن نہیں کچھ دن پہلے اس نے اریشفہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے وہاں دو تین دن رہنے کی اجازت دے گا
لیکن وہ اس سے خفا تھی اس لئے اس نے کل ہی جاکر سے منانے کا سوچا تھا
آریان کا بار بار فون آ رہا تھا جسے مکمل نظر انداز کر رہی تھی تایا ابو نے بھی اس کا یہ انداز نوT کیا تھا
کیا بات ہے میری جان آریان سے ناراضگی چل رہی ہے وہ پوچھنے لگے انداز میں وہیں چاشینی و شفقت تھی
اس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو وہ اس کے انداز وہ بھی مسکرا دیے
مطلب کی میری بیٹی میرے بیٹے سے ناراض ہو کر آئی ہے انہوں نے اب بھی مسکراتے ہوئے کہا تو اریشفہ نے پھر ہاں میں سر ہلایا ۔
جس کا مطلب تھا کے بات اتنی بری نہیں ہے وہ آپس میں ہی سب کچھ ٹھیک کر لیں گے انہیں اریشفہ پر پورا یقین تھا وہ کبھی ان کا سرجھکنے نہیں دے سکتی تھی
ابھی بھی اس کا انداز بتا رہا تھا کہ ان دونوں میں سب کچھ ٹھیک ہے اور اگر کچھ خراب ہوتا تو وہ بھنک بھی نہ پڑنے دیتی۔
اچھی بات ہے بیٹا ناراض ہونا چاہیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی آپ کی کتنی قدر کرتا ہے اس سے ہمیں بھی پتہ چلتا کہ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔
انسان کو ہمیشہ وہاں رہنا چاہیے جہاں آپ سے محبت کرنے والے لوگ ہوں آپ کو سمجھنے والے لوگ ہوں ورنہ تو آج کل کی یہ دنیا اتنی مطلبی ہے کہ خون کے رشتے تک پہچانے نہیں جاسکتے ۔آج کی دنیا میں چاہنے والے محبت کرنے والے بڑی مشکل سے نصیب ہوتے ہیں
میری بچی تو خوش قسمت ہے کہ اسے اتنا چاہنے والا محبت کرنے والا شخص ملا ہے میں تو ہمیشہ اپنی بچیوں کی خوشی کے لئے دعائیں مانگتا ہوں انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا تھا ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے کہ دروازہ بجا ۔
بھلا اس وقت کون ہو سکتا تھا ائمہ نے جا کر دروازہ کھولا تو دروازے پر آریان کو کھڑا دیکھ کر خوشی سے بابا کو بتانے لگی۔ جبکہ اس کا نام سنتے ہی اریشفہ اندر کمرے میں غائب ہو چکی تھی آخر وہ اس سے ناراض تھی ناراضگی تو جتانی تھی
°°°°°°°°°°
ارے آریان بیٹا تم تو دو دن بھی نہیں رہ پائے ہماری عاشی کے بغیر اور ایک ہی دن میں اسے لینے آگئے لیکن اس بار تو وہ کچھ دن رہنے کے لیے آئی ہے جب سے تمہارے ساتھ شادی ہوئی ہے تب سے وہ نہ تو گھر آئی ہے اور نہ رکی ہے اب آئی ہے تو چار دن رکنے دو وہ جلے بونے انداز میں بولی ویسے بھی جس دن اس کی شادی ہوئی تھی وہ تو جل کر ہی رہ گئی تھی
نہیں آنٹی وہاں کام بہت ہے اور اس کے بغیر میرا گزارا نہیں ہے روکنے کے لیے دوبارہ آ جائے گی
خیر میں خود اس سے بات کر لوں گا کہاں ہے وہ اس نے پوچھا تو ڈی ایس پی سےنے مسکراتے ہوئے کمرے کی طرف اشارہ کیا
وہ تھوری دیر ڈی ایس پی صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اندر آ گیا تھا جہاں اب اریشفہ منہ بنا کر بیٹھی تھی ۔
اریشفہ یہ کیا ہے تم مجھے بتا کر سکتی تھی کون سا میں تمہیں یہاں آنے کے لئے منع کرتا ہوں اگر اکیلے سفر کرنے سے منع کیا ہے تو مطلب کوئی وجہ ہی ہے مجال ہے جو تم میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو حد ہوتی ہے لاپرواہی کی وہ آتے ہیں اس پر چڑ دوڑا تھا اریشفہ جو یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسے منائے گا الٹا ہو تو اسے ڈانٹنے لگ گیا تھا ۔ایک تو کل کا غصہ اور اب پھر اس کا غصہ کرنا اریشفہ کی آنکھوں میں لے آیا
میں نےکوئی تمہیں یہاں آنے سے منع نہیں کیا جو تم رونے بیٹھ گئی ہو عرشی ۔بات بات پہ آنسو بہانے والا لڑکیاں زہر لگتی ہیں مجھے ۔فوراً صاف کرو یہ آنسو ۔
ایک تو صبح سے وہ یہ سفر کر کے پاگل ہو رہا تھا اور ایک عرشی تھی جو اس کے ذرا سے ڈانٹنے پر رونے بیٹھ چکی تھی ۔
آج کے بعد مجھے بنا بتائے تم یہاں نہیں آؤ گی بلکہ بنا بتائے کیا تم میرے بغیر کہیں نہیں جاؤ گی اٹھو جلدی سے گھر چلو ۔
ابھی آنٹی کہہ رہی تھی کہ تم رہنے کے لئے آئی ہو جانتی ہونا تمہارے بغیر مجھے نیند نہیں آتی ۔میری اجازت کے بغیر کیسے پلیننگ کرلی تم یہاں رہنے کی ۔
چلو اب اٹھو اور گھر چلو ۔ایک دن گھر پے نہیں تھی تو ایسا لگا ویرانے میں آگیا ہوں میں ۔وہ اسے اپنے دل کا حال سناتا اٹھ کھڑا ہوا ۔اب اسے منانا بھی تو تھا آخر وہ اس سے روٹھ کر یہاں آئی تھی
کمرے میں آتی تائی امی نے اس کی آخری بات سن چکی تھی
ارے بیٹا اسے آج رات یہیں رکنے دو ویسے بھی کون سا یہ بول سکتی ہے جو شور مچا کر تمہارا ویرانہ ختم کرے گی ۔تائی امی کے انداز ے اریشفہ کے دل پے دھگا سا باندھ دیا
لیکن وہ کون سا اس کے احساسات کی پروا کرتی تھی تائی امی نے زہر اگلتے ہوئے اسے باور کروایا کہ وہ بول نہیں سکتی۔ نجانے کیوں عرشی کی خوشیاں ان سے دیکھی نہیں جا رہی تھی ایک تو گونگی اور اوپر سے ہسبینڈ پولیس والا وہ بھی اتنا پرکشش ۔کاش اریشفہ کی جگہ آج ان کی اپنی بیٹی ہوتی
ان کی بات پر آریان مسکرایا کون کہتا ہے یہ بول نہیں سکتی یہ تو اشاروں سے شور مچاتی ہے ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس کی باتیں صرف میں سمجھ سکتا ہوں ۔
تائی امی نے اپنی زبان سے جو زخم اس کے دل پر لگایا تھا آریان نے بڑی محبت سے اسی زخم پر مرہم رکھا تھا
اس کا شوہر اس کا سائبان اس کی خاموشی میں بھی اس کا شور سن سکتا تھا
وہ جلدی سے اٹھی اور گھر جانے کے لئے تیاری کرنے لگی ۔
کیونکہ تایا ابو بلکل ٹھیک کہتے تھے انسان کو وہی ہونا چاہیے جہاں اس کی قدر ہو جہاں اس سے محبت کرنے والا ہو اور اس کا شوہراس سے محبت کرتا تھا
°°°°°°
عائشہ آج کل اپنی ماں کے پاس ہی رہتی تھی
اور اسی کو سنبھالنے میں مصروف تھی طہٰ سے اس نے رابطہ کم کر دیا تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا
اس دن کے بعر ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
اس سے جتنا ہو سکے وہ طہٰ دور دور رہتی تھی طہٰ کے بارے میں سب کچھ جاننے کے بعد اس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھ رہی تھی
یہ اس کے لئے ایک بہتر فیصلہ تھا کیونکہ وہ کوئی آدمی آدمی نہیں تھا ایک اجنٹ تھا وہ بہت اسانی سے اس سے کچھ بھی اگلوا سکتا تھا اس کے ساتھ خطرے سے خالی نہیں تھا۔
دوسری طرف طہٰ نے بھی یہ بات نوٹ کررہی تھی اور اب وہ بھی اس سے کم ہی رابطہ رکھتا تھا تاکہ سے طہٰ پر شک نہ ہو لیکن وہ اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا
یہ بھی سچ تھا کہ جو کچھ عائشہ جانتی تھی بیسٹ کے بارے میں اور کوئی نہیں جانتا تھا اسی عائشہ کی مدد کی ضرورت تھی لیکن وہ اسے بالکل نہیں کوئی تعلق نہیں رکھا رہی تھی ۔
اس نے کافی بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ہو بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر دیتی اس کا کترانہ اس سے بھی چھپا نہیں رہا تھا اس سارے معاملے میں وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا یہ اس کی مجبوری تھی کہ اسے عائشہ کی مدد کی ضرورت تھی ۔
صرف وہی اسے بیسٹ کے بارے میں انفارمیشن دے سکتی تھی اریان اور عمران کو لگتا تھا کہ یہ سب کچھ اس نے صرف اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے کیا ہے لیکن سچ تو یہ تھا کہ عائشہ جو کچھ بول رہی تھی وہ سب کچھ سچ تھا اور اس بات پر طہ کو یقین تھا لیکن وہ مکر کیوں ہ رہی تھی اس نے جھوٹ کیوں بولا تھا کیا اس کا آئی ڈی کارڈ دیکھا تھا اس نے ہو سکتا ہے وہ دیکھنے کے بعد وہ اس سب کے الگ ہو جانا چاہتی تھی ۔
یا پھر بیسٹ کی ڈائری میں کچھ ایسا تھا کہ عائشہ خاموش ہوگئی یا ڈر سے یا کچھ اوروجہ جو بھی تھی لیکن ایک بات تو یقیی تھی کہ عائشہ بہت کچھ جانتی ہے بیسٹ کے بارے میں اور اب وہ اسی سے مدد لینا چاہتا تھا ۔
اس وقت بھی وہ بار بار عائشہ کو فون کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن یا تو وہ اس کا فون نظر انداز کر دیتی اگر غلطی سے فون اٹھائے بھی لیتی تو ایسے بہانے بناتے طہٰ کو خود ہی فون بند کرنا پڑ جاتا ۔
لیکن وہ کوئی رسک نہیں اٹھ سکتا تھا وہ واحد لڑکی تھی جو اس کیس میں مدد کر سکتی تھی ۔
اگر تو وہ خوفزدہ تھی تو وہ خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے رہا تھا ۔لیکن اگر اس کی خاموشی کی وجہ کوئی اور تھی تو وہ پتہ لگانا چاہتا تھا کیونکہ وہ اتنے بڑے کیس کو ایک لڑکی کی بزدلی پر چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔
صرف کیس کے لیے وہ سات ماہ سے ترکی کے چپے چپے پر بانسری بجا رہا تھا ۔اور اب جب اسے اس کیس کی طرف سے کوئی سوراخ مل رہا تھا تو وہ اتنی آسانی سے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اب چاہے اسے عائشہ کے پیچھے ہی کیوں نہ پرنا پڑے ۔لیکن وہ پیچھے ہٹنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھا
°°°°°°
جاناں ساری رات اپنے بابا کے بارے میں سوچتی رہی پہلے سوچا نہیں فون کرکے سب کچھ بتا دے لیکن وہ خود میں اتنی ہمت پاتی نہیں تھی ۔
اور پھر اپنے وعدے کے مطابق اگلے دن جان اسے لینے آ گیا تھا وارڈن کو اس نے بس اتنا ہی بتایا تھا کہ وہ اپنے گھر جا رہی ہے ۔
وارڈن بہت خوشی سے اس سے ملی تھی پچھلے دو سال کے دوران اس نے ایک بار بھی اپنے گھر کا ذکر نہیں کیا تھا ۔
اس کے جانے پر دکھ تو ہو رہا تھا لیکن آپنے گھر اپنی فیملی اپنے اپنوں کے بیچ میں جانے کا سوچ کر وہ اس کے لیے خوش بھی تھی ۔
اس نے سارا پیپر ورک پورا کیا تھا۔ ویسے بھی پیپرز پر کہیں پر بھی جاناں کے باپ کا نام نہیں لکھا تھا اور جس ڈرائیور کا نام لکھا تھا پچھلے سال ان کا انتقال ہو چکا تھا ۔
بابا کبھی بھی ہوسٹل کے نمبر پر اسے فون نہیں کرتے تھے وہ ہمیشہ اس کی پرسنل موبائل پر ہی فون کرتے تھے تو اس بات کو لے کر اسی کوئی ٹینشن نہیں تھی لیکن بابا سے چھپ کر اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنا کوئی عام بات تو نہیں تھی
ہاں لیکن یہ سوچ کر وہ مطمئن تھی کہ جس کی خاطر وہ سب کچھ کہہ رہی تھی وہ ایک جائزہ رشتہ تھا جان کے ساتھ اس کا رشتہ اتنا ہی پاکیزہ تھا جتنا محبت کرنے والوں کا ہونا چاہیے
اپنا سارا سامان پیک کرکے اس نے جان کی گاڑی کے پاس رکھوایا وہ گاڑی کی ڈیگی کھول کر اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے ہاتھ سے بھی سارا سامان لے کر خود ہی گاری میں رکھنے لگا اور پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کا کہا اندر کہیں نہ کہیں گھبراہٹ تھی ۔
لیکن اس نے اپنی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ کر لیا تھا ایک نئی زندگی جان کے ساتھ محبتوں اور خوشیوں بھرا سفر اور اسے جان پر یقین تھا وہ سب کچھ ٹھیک کر دے گا آج نہیں تو کل سہی اس کے باپ بھائی اس رشتے کو قبول کر لیں گے ۔
اسے اب ہر چیز قبول تھی سوائے جان سے جدائی کے جان کی محبت اس کی رگوں میں اترتی جا رہی تھی ۔ اور اب وہ اس کی محبت کے لئے دنیا بھی کسی چیز کو بھی چھوڑنے کو تیار تھی ۔ جان کی محبت میں اس نے اپنے اندر بہت ساری تبدیلیاں محسوس کی تھی ۔وہ کچھ بھی چھوڑ سکتی تھی سوائے جان کے اور آج جان اسے اپنی زندگی میں شامل کر رہا تھا ۔اسے اس کی ہر پریشانی سے نکال رہا تھا ۔اگر یہاں تک کا سفر طے کر لیا تھا تو آگے بھی کر ہی لینا تھا مشکل تھا نا ممکن نہیں ۔
سفر شروع ہوچکا تھا راستہ آہستہ آہستہ اس کی منزل کی طرف جا رہا تھا جان ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مسکرا دیا
کیا ہوا تم ہو گھبرائی ہوئی لگ رہی ہو ڈر لگ رہا ہے کیا اپنے بابا سے پوچھنے لگا ۔
بابا سے بھی اور تم سے بھی تم بھی بہت سے چھچھوڑے انسان ہونے جانے وہاں لے جا کر میرے ساتھ کیا کیا کرو گے وہ مدھم سی آواز میں اس سے کہنے لگی وہ جان کا اتنا بڑا دن اپنے ڈرکی وجہ سے خراب نہیں کر سکتی تھی ۔اسی لیے ہلکی پھلکی ہو کر بولیں تو وہ مسکرا دیا
اگر تمہارا یہ ڈر میری وجہ سے ہے تو بالکل ٹھیک ہے کیونکہ جو کچھ تمہارے دماغ میں چل رہا ہے میں وہ سب کچھ سچ کرنے والا ہوں اس نے مسکراتے ہوئے اسے ڈرایا تھا
جان اگر تم نے کل رات کی طرح مجھے تنگ کیا تم نے تم سے بالکل بات نہیں کروں گی وہ اسے دھمکانے لگی ۔
کل رات میری جان کل رات تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا ہونا تو وہ ہے جو آج ہوگا کل تو تم نے اپنے جان کا صرف ایک روپ دیکھا ہے آج تو تم اس کی شدت اس کا جنون اس کی محبت اس کا عشق سب کچھ دیکھو گی برداشت کرو گی ۔
آج میں تمہیں بتاؤں گا کہ میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں زندگی کے گزرتی ہر لمحے کے ساتھ میں نے تمہیں کتنا چاہا ہے ۔کب کیسے کہاں مجھے تم سے عشق ہوا ۔کب کیسے کہاں میرا عشق جنون میں بدل گیا کب کیسے کہاں میرے دل میں تمہیں پا لینے کی چاہت کی ۔اور آج میں نے تمہیں پا لیا اور آج کی رات جو فاصلے تم نے ہم دونوں کے درمیان قائم کیے ہیں وہ میں ختم کروں گا وہ کہتے ہوئے گاڑی اپنے گھر کے باہر چکا تھا جبکہ گاڑی رکھتے ہی اس کا دل گاڑی سے بھی تیز رفتار میں دھڑکنے لگا وہ جو کچھ کہتا تھا وہ کرتا تھا ۔بس یہی تک جاناں کی سوچ نے اسے بوکھلا کر رہ گئی تھی
اس نے گھر کے اندر قدم رکھا تو دروازے پر ٹائر کھڑا انھیں ویلکم کرنے لگا ویلکم پیاری لڑکی وہ اس کے سر سے چند نوٹ وارتے مسکرا کر اسے اندر آنے کا راستہ دینے لگا اس گھر میں ایسا کوئی نہیں ہے جو تمہیں ویلکم کریں لیکن میں تمہارا دوست پلس دیور تمہیں اس گھرمیں اور ان کی زندگی میں خوش آمدید کہتا ہوں خوش رہو مسکراتے ہوئے اسے دعائیں دیتا اسے جان کے روم کی طرف لے جانے لگا
یہ کمرا آج سے تم دونوں کا ہے ہمیشہ خوش رہو وہ اسے روم میں چھوڑ کر باہر چلا گیا جب کہ ایک بار پھر سے وہ اس خوبصورت کمرے کو دیکھنے لگی۔ جہاں اس کے اپنے چہرے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا چاروں جانب اس کی تصویریں لگی ہوئی تھی
وہ ایک بار پھر سے ان تصویروں کے خوبصورت مناظر میں کھونے لگی جب اسے اچانک دروازہ بند ہونے کی آواز آئی اس نے مڑ کر پیچھے کی جانب دیکھا جہاں جان دروازہ بند کرکے اسے دیکھ رہا تھا
اسے ایک ہی پل میں گھبراہٹ سی ہونے لگی اس کے چہرے سے اڑتی ہوائیاں دیکھ کر جان مسرو سا اس کی طرف بڑھا تھا
تو اب تم مجھ سے شرماؤ گی وہ ایک ایک قدم اس کی طرف اٹھاتا اسے کنفیوز کرنے لگا
جان تم کیا کرنے والے ہو اس کے قدم اپنی طرف بھرتے دیکھ کر وہ انتہائی گھبراہٹ اور معصومیت سے کہتی تھی اسے بہت پیاری لگی تھی
اب کیا تم اتنی معصوم ہو جاناں وہ الٹا اس سے سوال کرنے لگا جاناں کا نظر اٹھا کر بات کرنا محال ہو گیا
تم دور رہو نہ پلیز گبھرائی کو گھبرائی سے سیدھی اس کے دل میں اتر رہی تھی وہ ایک ہی جھٹکے میں اسے اپنے قریب بے حد قریب کر گیا
آج کی رات دور سے بات کون کرتا ہے جاناں بلکہ آج کی رات بات ہی کون کرتا ہے یہ رات دوریاں مٹانے کی روح میں اتر جانے کی ہوا کرتی ہے آج میں تمہاری روح میں اتر جانا چاہتا ہوں
اس کی کمر کو مضبوطی سے تھامیں اسے بالکل اپنے ساتھ لگائے ہوئے نرمی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو لبوں سے چھوتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر آ کر رک گیا
جاناں کا دل تو پہلے ہی بے ترتیب تھا جان کی جسارت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی
اس سے اپنے پاؤں پر کھڑے رہنا مشکل لگا
۔لیکن جان کی پناہوں سے آزادی ایک ناممکن کام تھا لبوں کو آزادی ملتے ہی وہ چہرہ پھیر کر اپنی سانسس آسان کرنے لگی اس کی شدت برداشت کرنا جانا کے بس سے باہر تھا
لیکن جان کی گستاخیوں کا سلسلہ رکا نہیں تھا بلکہ اس کی گستاخییاں بھرتی چلی جارہی تھی ۔
اپنے کندھوں پر اس کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے جاناں وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھیی
اس نے جان سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کی تو جان نے ایک ہی جھٹکے میں اسے خود سے لگا لیا
شاید وہ آج رات اس کی کسی قسم کی کسی مزاحمت کو کوئی اہمیت دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا وہ اس کے پیچھے کھڑا اس کی گردن سے بال ہٹانا کر وہاں اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا
۔اپنی گردن پر اس کے گرم سانسوں کی تپش محسوس کرتی جان بے اختیار اس کی طرف مڑ کر اس کے سینے سے آ لگی
جیسے اب ہمت جواب دے چکی ہو اس وقت وہ پوری طرح جان کے رحم و کرم پر کھڑی تھی اس کے اپنے قدموں میں اتنی جان نہیں کی کہ وہ خود اپنے بل پر کھڑی بھی رہ پاتی
اس کا سارا وزن جان نے بڑی آسانی سے اٹھا رکھا تھا
جان نے خاموشی سے اس کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں لے لیا اور اسے اٹھا کر بیڈ پر لے آیا
اس کے نرم و نازک وجود کو بیڈ پر لیٹاتے ہوئے اس نے اپنی شرٹ اتار کر زمین پر پھینکی جبکہ جاناں اس کے ایسا کرنے پر اپنا رخ پھیر گئی اس کے یوں شرمانے پر جان کے لبوں پر تبسم بکھرا تھا
جبکہ جاناں گہری گہری سانسیں لیتی اس کی جسارتوں کو سہنے کے لئے خود کو تیار کرنے لگی
وہ نرمی سے اسے اپنی طرف کرتا اس کے کانوں میں سرگوشی نماہ آواز میں بولا
جاناں مجھ پر بھروسہ ہے نہ اس کے سوال پر جاناں بے اختیار اسے دیکھنے لگی
تم سے زیادہ اب کسی پر بھروسہ نہیں جان وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے دل کی تمام سچائیوں سے بولی ۔
جب کہ اس کا جواب سننے کے بعد وہ بنا رکھے اس کے چہرے پر جھکا اور جابجا اپنے لبوں کا لمس اس کے چہرے پر چھوڑتے ہوئے اسے اپنی محبت کا احساس دلانے لگا ۔اس کی جاناں بھی اس کی محبت کے سامنے بے بسی ہو کر بہکنے لگی جاناں تمام تر مزاحمتیں چھوڑ کر اس کی محبت کو دل سے محسوس کرنے لگی ۔
چہرے کے بعد اس کا لمس اپنی گردن اور شہ رگ پر محسوس کرتے جاناں نے اپنے ہاتھوں کو اس کے ہاتھوں میں قید ہوتے پایا ۔آزادی کے تمام تر راہیں بند ہوگئی ۔اور نہ ہی اب جاناں کے اندر آزادی کی خواہش تھی ان لمحات کو محسوس کرتی جان کے رنگ میں رنگتی چلی جا رہی تھی ۔
اس وقت اس کے ذہن میں نہ تو کوئی ڈر تھا نہ ہی کوئی خوف اس وقت صرف اور صرف جان اس کے دل و دماغ پر حاوی تھا اسے خود میں سمیٹتے ہوئے اسے محبت کرتے ہوئے وہ اسے اپنے ہی جہاں میں لے گیا اور جاناں بھی خوشی خوشی اس کے ساتھ اس کی ہم قدم تھی۔
جان اس کے نازک سے وجود کو خود میں سمیٹے اپنے عشق کے سب رنگ دکھا رہا تھا
وہ اس کے وجود کے ساتھ اس کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے تھا جان نہیں چاہتا تھا کہ اس وقت وہ کچھ بھی اور سوچے
اس کے ہر ہر نقش کو چومنے اس جیسے اپنی عشق و جنون کی الگ داستان سنا رہا تھا
جبکہ اس کی جسارتیں برداشت کرنے کی ہمت خود میں نہ پاتے ہوئے بھی وہ پوری طرح اس کی قید میں تھی
رات آہستہ آہستہ گزر رہی تھی جبکہ اس کی شرماتی گھبراتی جاناں اس کی پناہوں میں سوچتی چلی جارہی تھی
°°°°°°°°°°
راستہ بالکل خاموشی سے گزرا
آریان نے اسے آئس کریم کی تب بھی وہ منہ بنا کر بیٹھی رہی
آریان کو تو اس کی ناراضگی بہت لطف دے رہی تھی
لیکن آج شاید اس کی خفاخفا سی بیوہ اسے منہ لگانے کا بلکل ارادہ نہیں رکھتی تھی ۔
لیکن پھر بھی آریان نے اپنی خفا خفا سی بیوی کو بھعکانہیں رہنے دیا تھا راستے میں ایک ہوٹل سے اسے شاندار ڈنر کروایا
لیکن نہیں وہ اب بھی نخرے دکھا رہی تھی ۔
گھر آنے کے بعد بھی وہ اس سے ناراص ناراص گھوم رہی تھی ۔آریان نے راستے میں اس سے بہت بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا منہ بنا ہی رہا آج تو اشاروں میں بھی ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی اسے اپنی روٹھی روٹھی سی بیوی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
وہ گاڑی روک کر کمرے میں آیا تو وہ نائٹ سوٹ پہنے سونے کی تیاریوں میں مصروف نظر آئی ۔
اف میری اتنی ناراضگی میری نازک سی جان نے کیسے اٹھا رکھی ہے وہ اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں قید کرتے ہیں محبت سے بولا
اس اچانک حملے پر اریشفہ کا دل بے اختیار دھڑکا تھا لیکن پھر اس نے اپنے دل کو سمجھایا کہ آریان نے اسے ڈانٹا تھا اور وہ اس سے سخت خفا ہے۔
اریشفہ کچھ بھی بھولنا نہیں چاہتی تھی
لیکن آریان کچھ بھی یاد نہیں رکھنا چاہتا تھا
وہ ڈانٹ ہی نہیں بلکہ وہ تو اسے پوری دنیا بھلا دینا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کے علاوہ اریشفہ کچھ بھی یاد نہ رکھے
اس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے وہ بے بس سی ہونے لگی
لیکن وہ ناراض ہے خود کو سمجھایا
لیکن اس محبت بھری پناہ گھر کا کیا کرتی اس نے بڑی مشکل سے اریان کی باہوں کا حصار توڑ اور اس سے دور ہوۓ بیڈ پر آئی اور آپنے اوپر کمبل ٹھیک کرنے لگیی
آریان نے بھرے غور سے اس کے یہ مغرور انداز دیکھے تھے
پھر آگے بڑھتے ہوئے کمبک کھینچ کر اس سے دودھ زمین پر پھینکا اریشفہ ۔خفگی بھری نگاہ اس پر ڈالی جس پر وہ ڈھٹائی مسکرا دیا
تم مجھ سے ناراض ہو تمہارا ناراض ہونا بنتا ہے عرشی لیکن میں نہیں چاہتا کہ فرشتے ساری رات تم سے ناراض رہیں اس لیے مجھے اپنے آپ کو منانے دو وہ انتہائی شرارت سے کہتا بیڈ پر اس کے بالکل پاس آتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو قید کرکے اس کے اوپر آ لیٹا
جس پر عرشی کو تو اس کا انداز آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے پر مجبور کر گیا مطلب اس نے اسے بیکار میں ڈانٹا اور اب فرشتے بھی اسی سے ناراض ہوں گے
آریان کا تو اس کے ایکسپریشن پر دھیان دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا وہ اس کے لبوں کو اپنی دسترس میں لے چکا تھا جبکہ وہ بھرپور ناراضگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بھی خود کو اس کی قید سے آزاد نہیں کر پائی تھی۔
اور پھر آریان بھی نہ روکے اسے اپنی پناہوں میں لیتا اس کی تمام ناراضگی و کو ہوا کر گیا اور اس کی خوبصورت سنگت میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ہر ناراضگی بھلا گئی ۔آخر اس کی محبت میں رنگی اس کی پناہوں میں جیتی وہ کب تک اس سے ناراض رہتی آریان اسے منانے کے سارے ہنر جانتا تھا
°°°°°°°°
کیا جاناں کل اپنے گھر چلی گئی
لیکن مجھ سے ملے بغیر ہو کیسے جا سکتی ہے
اور اس نے مجھے اس بارے میں کچھ بتایا بھی نہیں کہ وہ جانے والی ہے عائشہ ہوسٹل آئی تو اسے پتہ چلا کہ جاناں گھر جا چکی ہے
آج وہ ڈائری اس سے لے کر جان کے گھر جانے والی پرسوں رات جاناں سے اس کی بات ہوئی تھی اس نے کہا تھا کہ جان واپس آ چکا ہے لیکن اب جاناں غائب تھی تو وہ اس سے ڈائری کیسے لیتی
میں جان کے گھر جاکر اس سے مل کر اسے پوری بات بتا دیتی ہوں اور جان خود ہی ڈائری جاناں سے لے لے گا۔
اس نے سوچتے ہوئے جان کے گھر جانے کا فیصلہ کیا ابھی وہ ہوسٹل سے نکلی ہی تھی کہ سامنے طہٰ کو کھڑا پایا وہ جانتا تھا کہ وہ اسے دیکھ چکی ہے وہ اسے اگنور کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی
وہ آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آیا تھا وہ مسکرا کر بولا
کوفی پینے چلیں پیسے میں دوں گا
تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے وہ اس کو نارمل کرتے ہوئے کہنے لگے
آج دیہاڑی اچھی لگی ہے وہ کہیں سارے سکے اور چھوٹے نوٹ اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہنے لگا تو عائشہ کو ہنسی آگئی
مطلب تم ثابت کر رہے ہو کہ تم بےکاری ہو ۔وہ اس کے اسٹائل سراپے کو دیکھتی اس کے ہاتھ سے پوٹلی کو تھامتے ہوئے اچھال کر پیسوں کا اندازہ لگا رہی تھی ۔
بانسری بجانے میں محنت لگتی ہے عائشہ بی بی یہ آسان کام نہیں ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا کہنے لگا
مجھے گھر جانا ہے ماما گھر پر اکیلی ہیں میرا جانا ضروری ہے پھر کسی دن کوفی پینے چلیں گے عائشہ نے معذرت کی
وہ کچھ بھی نہیں بولا جب کہ وہ آگے بڑھ چکی تھی وہ اب اسے بالکل وقت نہیں دیتی تھی نہ ہی زیادہ بات کرتی تھی بلکہ ہمیشہ اس سے بھاگنے کی کوشش کرتی رہتی
لیکن طہٰ اسے اس طرح سے جانے نہیں دے سکتا تھا بہت سوچنے کے بعد بھی وہ اس کے پیچھے جانے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ نہیں پایا جب اس کی زمین پر پڑی وہ بے ساختہ مسکرا دیا جیسے اللہ نے اس کے پیچھے جانے کا بہانہ دے دیا تھا ۔جتنا بھاگنا ہے بھاگ لو عائشہ لیکن مجھ سے دور نہیں جا پاؤگی وہ زمین پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھ میں کچھ لے کر مسکرایا
°°°°°°°°
عائشہ کو ڈر تھا کہ طہ اس کے پیچھے نہ آ رہا ہو
اس لیے وہ جان کی طرف جانے کے بجائے اپنے گھر آ گئی تھی لیکن دروازہ کھولتے ہی اس کے اسے اپنی ماں کی مسکراتی آواز سنائی دی
آج کہیں دنوں کے بعد اس نے اپنی ماں کو مسکراتے ہوئے سنا تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی
وہ بھی مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی لیکن ماماکے ساتھ سامنے اسے بیٹھا دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا
ماما بھی اسے دیکھ چکی تھی عاشی میری جان وہاں کیوں رک گئی اندر آؤ دیکھو تمہارا دوست آیا ہے تم سے ملنے کے لیے وہ مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کرنے لگیں
تم یہاں کیا کر رہے ہو اسے اپنے گھر دیکھ کر جھٹکا ہی تو لگا تھا اسےے
آنٹی میں نے کہا تھا نا دوست ورڈ کا استعمال مت کیجئے گا یہ تو میری دشمن ہے وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا تو آنٹی بھی مسکرا دی ۔
غلط بات ہے عاشی کتنا پیارا دوست ہے تمہارا ایسے تو مت کہا کرو بیچارے کو دیکھو تمہاری جوتے کا ہک گر گیا تو اسے لوٹانے اتنی دور سے یہاں آیا وہ اپنے ہاتھ میں موجود اس کے جوتے کا سٹائلش ہک دکھاتی کہنے لگیںں
اب تو عائشہ کو بھی حیرت ہوئی تھی وہ صرف جوتی کا ہک لوٹانے یہاں تک آیا تھا جب اس نے طہٰ کو دیکھا جیسے شرارت سے اسے دیکھ رہا تھا پھر بولا
لیکن اس سے نہیں بلکہ اس کی مما کو آنٹی کوفی اس کی آواز میں بلا کی معصومیت تھی عائشہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی
ہاں اور کوفی پینے جاؤ اس کے ساتھ آج اسے پے ملی ہے بیچارہ صبح سے تمہاری منتیں کر رہا ہے لیکن ایک تم ہو دوستوں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے ایسے دوست قسمت سے ملتے ہیں وہ نرمی سے ڈانٹ رہی تھی تھی جبکہ اس کی بیچاری صورت پر عائشہ کو غصہ آنے لگا تھا
ماما میں آپ کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی ہوسٹل جانا تو میری مجبوری تھی لیکن ۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں دوائی لے چکی ہوں اب سونے جا رہی ہوں میں اور ریٹا ہر وقت میرے ساتھ ہوتی ہے ماما نے اس کی تسلی کرتے ہوئے اس کی بات کاٹی ۔
اس کا بہانہ ختم ہو چکا تھا اس نے کہا کہ وہ غصے سے طہٰ گھورا پھر سوچتے ہوئے بولی
کافی کا ٹائم تو ختم ہو چکا ہے چلو لنچ کرتے ہیں وہ بھی اس ریسٹورنٹ میں وہ اپنا پرس وہی صوبے پر پھینکتے ہوئے اٹھ کر باہر آ گئی جب کہ آنٹی کو بائے کرتا ہو اس کے پیچھے آیا
میرے پاس صرف کافی کے پیسے ہیں وہ اسے سمجھا رہا تھا
بہت شوق ہے نہ تمہیں کوفی پلانے کا آج کے بعد مجھے تو کیا کبھی کسی کو کوفی پلانے کے لائق نہیں رہو گےوہ اسے چیلنج کرتے ہوئے آگے بڑھ چکی تھی
جبکہ اس کے انداز نے طہٙ کو مسکرانے پر مجبور کر دیا ۔
صبح گیارہ بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی
تو اس کی باہوں میں سمٹی اپنے نازک وجود کو اس میں چھپائے ہوئے تھی جان کتنی دیر سے دیکھتا رہا رات جس طرح جان نے اپنے جنون کو اس پر برسایا تھا جاناں اس کی پناہوں میں بالکل بے بس ہو کر رہ گئی
نہ تو اس کی مزاحمتیں کام آئی تھی اور نہ ہی جان نے اس پر کسی قسم کا کوئی رحم کیا تھا
اس کے ستم سہتے سہتے جاناں اندازہ لگا چکی تھی جان کے ساتھ زندگی کا یہ حسین سفر آسان نہیں ہے
اس کا جنون اس کا انداز اسے ایک الگ ہی دنیا میں لے گیا جاناں سمجھ چکی تھی کہ اس کا عشق سہنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے
جان نے کل رات اس پر اپنی محبت کی ایسی برسات کی تھی کہ وہ اس کی محبت میں قید ہو کر رہ گئی ۔لیکن جان کا دل ابھی تک اس کی قربت کا خواہشمند تھا ۔
نہ جانے کتنے سالوں کا انتظار کیا تھا اس نے اسے پانے کے لیے اسے اپنا بنانے کے لیے ۔اور اب اسے ہر طرح سے اپنا بنانے کے بعد بھی اس کی تشنگی کم نہیں ہوئی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسے خود میں کہیں چھپا لے اس دنیا جہان سے کہیں دور لے آئے اپنی دنیا میں جہاں کوئی بھی نہ ہو صرف جان اور اس کی جان اور بے پناہ محبتیں
اس کے ایک ایک نقش کو دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت وہ گہری نیند میں تھی یہ رات اتنی جلدی ختم نہیں ہوئی تھی جان کی بے باکیوں نے اسے ساری رات دیکھ پل کے لئے بھی سونے نہ دیا جس کی وجہ سے جاناں ابھی تک سو رہی تھی۔
کل رات اس کی شرماہٹیں مزاحمتیں خود میں سمیٹ کر جان سارے فاصلے تہہ چکا تھا ہر دوری مٹا چکا تھا جاناں کی فرار کی تمام راہیں بند کر چکا تھا اب وہ صرف اس کی تھی صرف جان کا حق تھا اس پر اس کی جانب دیکھتے ہوئے جان کا دل ایک بار پھر سے بے اختیار ہونے لگا اس کا دل چاہا وہ اسے تھام کرپھر سے خود میں سمو لے لیکن یہ نازک سی جان ابھی تک کل کی بکھری نہیں سمٹی تھی وہ اسے اور کیا بکھیرتا
وہ آہستہ سے غیر محسوس انداز میں اس کے لبوں پر جھکا اور ایک نرم گرم سا بوسہ اس کے لبوں پر دیتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھا
ارادہ اس کے لیے ایک زبردست سا ناشتہ بنانے کا طریقہ سے وقت تو بہت گزر چکا تھا ناشتے کے بجائے لنچ کا وقت تھا
لیکن پھر بھی کوئی بھوکا تو نہیں رکھ سکتا اپنی ماہی کے لئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنانے کی نیت لیے اس نے آج پہلی بات کچن میں قدم رکھا تو ایک پل کے لئے ٹائر کا خیال آیا
کچن کا سارا نظام وہی سنبھالتا تھا لیکن کل رات ان دونوں کی پرائیویسی کے لیے اس نے اپنا انتظام کہیں باہر کر لیا تھا ٹائر کے نہ ہونے کی وجہ سے جان کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا
°°°°°°°°
ہلکا پھلکا سا ناشتہ تیار کر کے کمرے میں آیا
تو جاناں ابھی تک گہری نیند سو رہی تھی
ماہی اٹھو میری جان ناشتہ کرلو
وہ نرمی سے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا
لیکن دوسری طرف سے کوئی اچھا رسپانس نہیں ملا وہ دوسری طرف کروٹ لے کر دوبارہ سو گئی
جان نے گھور کر اسے دیکھا
جاناں اگر تم نہیں اٹھی نہ تو مجھے برداشت کرنا تمہارے بس سے باہر ہو جائے گا وہ دھمکی دینے لگا اور اس کی دھمکی نے جاناں پر بہت اچھا اثر ڈالا تھا
خبردار جان جو تم نے مجھے تنگ کرنے کی کوشش کی میں تمہیں چھوڑ کر ہوسٹل دوبارہ چلی جاؤں گی انتہائی فضول انسان ہو تم چھچھورے پن میں تو پی ایچ ڈی کر رکھی ہے تم نے وہ ایک ہی لمحے میں اٹھ بیٹھی تو جان قہقہ لگا کر ہنس دیا
رات کو تو میں نے تمہیں اتنے میں پیار کی ایک جھلک بھی نہیں دکھائی اور تم مجھے فضول اور چھچھوڑے پن کا خطاب دے رہی ہو آگے کیسے کٹے گی تمہاری مہرے ساتھ اور تم مجھے چھوڑ کر جاؤ گی ایسا خواب میں بھی مت سوچنااب تمہاری آپس ممکن نہیں میری جان ۔۔۔
تم میری زندگی میں شامل ہو چکی ہو میری ہو چکی ہو اب واپسی کا راستہ نہیں ہے وہ آرام سے اس کے اوپر سے کمبل نہٹا رہا تھا جب جانا بے اختیار اپنے اوپر کنفرٹر کرلیا جبکہ جان کے انداز پر مسکرا دیا اور بنا کوئی شرات کیے واش روم کی طرف جانے کا اشارہ کیا
جاناں اسے گھورتے ہوئے بیڈ سے کنفرٹرسمیت اٹھ کر واش روم میں بند ہوئی جب کہ جان اب جاناں کے سامان سے کپڑے نکال رہا تھا جب نظر اس کے بیگ میں موجود خاکی لفافے میں اپنی ڈائری پر پڑی جو آدھی باہر نکل آئی تھی ڈائری اس کی اپنی تھی اس کے لئے پہچاننا مشکل نہیں تھا
لیکن اس نے آگے کچھ نہیں سوچا وہ جاناں کے پاس کیا کر رہی تھی کیا جاناں اس کے بارے میں کچھ جانتی تھی
ان سب باتوں پر دھیان دیجئے بغیر ڈائری ایک طرف کر دی
اور ایک بلو جیز کے ساتھ ریڈ ٹاپ نکالتے ہوئے واش روم کے دروازے کے قریب رکھا گیا تھوڑی ہی دیر میں وہ گیلے بالوں میں ٹاول لپیٹے اس کے بالکل پاس آکر بیٹھی جان کی نظر اس کی شرمائی شرمائی سی صورت اور گھبرائے گھبرائے وجود پر اٹھی تو پلٹنا بھول گئی
وہ اس سے شرما رہی تھی جان کے لیے یہ ایک بہت خوشگوار احساس تھا جان نے اسے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانا شروع کیا تو جاناں بے اختیار بولی میں کر لوں گی جان تم اپنا کرووہ اس سے بہت زیادہ شرما رہی تھی یہ احساس بہت الگ سا تھا ۔۔۔۔۔۔
نہیں میں اپنی بیوی کو شادی کی پہلی صبح خود اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا چاہتا ہوں اس نے مسکرا کہا اور نوالہ جاناں کے منہ میں ڈالا پھر جاناں بھی خاموشی سے کھانا کھانے لگی
جاناں تم اتنے چپ کیوں ہو وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ سے کھانا کھا رہی تھی جان کو کچھ غیر معمولی محسوس ہوا تو وہ پوچھنے لگا
جان ایسا کھانا میں نے پہلے کبھی نہیں کھایا وہ معصومیت سے بولی تو جان کا ہاتھ رک گیا
اچھا نہیں ہے کیا وہ پوچھنے لگا
بالکل بھی نہیں جاناں نے سچائی سے کام لیا کیونکہ اگر وہ جھوٹ بولتی تو یہ سارا ناشتہ اسے اکیلے کھانا پڑتا
میں نے کبھی ناشتہ نہیں بنایا یہ سارے کام تو ٹائر کے ہیں وہ تو جوش جوش میں۔ میں نے تمہارے لئے بنانے کی کوشش کی تم پلیز جلدی سے ریڈی ہو جاؤ ہم باہر سے اچھا لنچ کرتے ہیں وہ برتن ایک طرف رکھتے ہوئے کہنے لگا تو جاناں بھی جان چھوٹنے پر فورا اٹھ کھڑی ہوئی تھی کیونکہ اتنا بد مزاکھانا کھانا اس کے بس سے باہر تھا
°°°°°°°°
عائشہ نے اطمنان سے ہوٹل کی سب سے مہنگی ڈشز آرڈر کی اور بڑے مزے سے اس شاندار لنچ سے لطف اندوز ھو رھی تھی
جبکہ طہٰ حیرانگی سے دیکھنے میں مصروف تھا
تم مجھے گھورنا بند کرو اوربل بھرو وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو طہٰ نے اسے مزید گھورا
میرے پاس صرف کافی کے پیسے تھے ان سب کا بل تم بھرو وہ غصے سے بولا تھا اتنی تنخواہ تو اس کی ایک ماہ کی نہیں تھی جینا وہ ٹھس چکی تھی وہ واقعہ سے اپنے ساتھ لا کر پچھتا رہا تھا ۔
تو میں کیا کروں اگر تمہارے پاس پیسے نہیں تو مجھے یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی آفر کرنے کی کیا ضرورت تھی اب بل ادا کرو اور آ جانا میں باہر وئٹ کر رہی ہو وہ کہہ کر آرام سے اس کے قریب سے اٹھ کر باہر نکل گئی طہٰ نے پریشانی سے وئٹر کو بل لیے اپنے طرح بڑھتے دیکھا تھا ۔
عائشہ ابھی تھوڑے ہی فاصلے پر پہنچی تو پیچھے سے طہ بھاگتا ہوا اپنی طرف آتا نظر آیا
کیا ہوا تم بھاگ کیوں رہے ہو وہ اسے بھاگتے ہوئے دیکھ پوچھنے لگی
وہ لوگ میرے پیچھے پڑیں ہیں برتن دلوائیں گے مجھ سے اس سے کہتا ہوا ایک بار پھر سے بھاگ گیا عائشہ نے ایک نظر اپنی ہائی ہیلز کی طرف دیکھا اور پھر انہیں اتارتے ہوئے کہا طہ کےپیچھے بھاگ آئی
بیوقوف تم بھاگ کیوں رہے ہو پیسے دو ان کو وہ غصے سے بولی تھی ۔
اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوتے تو دے نا دیتا اتنا کھا کر آئی ہواس کا بل میں ساری زندگی بانسری بجا کردار نہیں کر سکتا وہ بھاگتے کرتے ہوئے کہہ رہا تھا
جب کے برتن دھونے کے خیال سے عائشہ نے بھی سپیڈ پکڑ لی تھی اب جو بھی تھا کھایا تو سب کچھ اسی نے کھایا تھا پھر تو اس کا بھاگنا بھی بنتا تھا ۔
جب کہ بل ادا کرنے کے بعد بھی وہ عائشہ سے بدلہ لینے کا ارادہ رکھتا تھا اسی لئے اس سے جھوٹ بولا ہاں لیکن اس جھوٹ نے اسے بھی بہت مزہ دیا تھا
°°°°°°°°
جاناں کے پیپر ختم ہوچکے ہیں اب میرے خیال میں ہمیں جاناں کو یہاں بلا لینا چاہیے لیکن شاید وہ میری وجہ سے یہاں آنا پسند نہ کرے اینی نے اپنے ہی انداز میں کہا ۔
نہیں نہیں اینی ایسی کوئی بات نہیں ہے جاناں تمہیں بہت پسند کرتی ہے وہ دراصل وہ ہم سے دور ہے نا تو اس نے اپنے دماغ میں سوتیلی ماں کو لے کر اپنا ہی ایمج کریڈٹ کر رکھا ہے لیکن جب تم یہاں اسے پیار دو گی اسے توجہ دو گی تو وہ سمجھ جائے گی کہ یہ سوتیلا پن کچھ بھی نہیں ہوتا وپ محبت سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیں ۔
ہاں اکبر میں بھی اب اپنی بچی سے دور نہیں رہنا چاہتی اسے یہاں بلا لیجئے انہوں نے اپنے لہجے میں جاناں کے لیے بے پناہ محبت سیمٹی تھی
وہ تو اب میں بھی نہیں رہنا چاہتا میں بھی اب اپنی بچی کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس بلا لینا چاہتا ہوں اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں ماضی کی وجہ سے میں نے اپنی بیٹی کو خود سے بہت دور کر دیا ہے لیکن اب نہیں میں اپنی بیٹی کو اپنے پاس واپس لے آؤں گا ۔
اس سے پہلے کہ جان اس تک پہنچ جائے مجھے جاناں کو واپس لے آنا ہوگا میں نے جان سے کہہ تو دیا کہ جاناں مر چکی ہے لیکن اسےمجھ پر یقین نہیں ہے میں جانتا ہوں وہ جاناں کو ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کرے گا اکبر صاحب پریشانی سے کہہ رہے تھے ۔
اکبر ہمہیں جاناں کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ لینا چاہیے اور ہمیں جلد سے جلد اس کی شادی کر دینی چاہیے یہ نہ ہو کہ جان اس تک پہنچ جائے اینی نے کہا ۔
لیکن وہ تو تب ممکن ہے اینی جب جان جاناں کو طلاق دے اور جان مرتے دم تک اسے نہیں چھوڑے گا
ہاں لیکن اکبر یہ ساری باتیں جاناں تو نہیں جانتی اور ہم نے جان کو اس سے اتنا دور کر رکھا ہے کہ جان کا اس تک پہنچنا بہت مشکل ہے فی الحال بازی ہمارے ہاتھ میں ہے ہم کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں اینی نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔
یہ نہ ہو کہ جان اس تک پہنچ جائے اسے سب کچھ بتا دے ہمیں اپنی جاناں کو اس سے دور کرنا ہوگا
اور اگر جاناں کو نکاح کے بارے میں پتہ چلا تو ہم میں جو راز سالوں سے چھپا کر رکھا ہے وہ ہمیں برباد کر دے گا اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ 15 سال پہلے سامیا کے قتل کی وجہ کیا تھی تو ہم برباد ہو جائیں گے اکبر
اینی نے سامیہ کا نام لیا تو اکبر صاحب کے دل میں ٹھس سی اٹھی ان کی اکلوتی بہن جس کا قاتل اور کوئی نہیں بلکہ اس کا اپنا بیٹا جان تھا اپنی بہن کے قتل سے ایک ہفتہ پہلے انہوں نے بہت دھوم دھام سے اپنی بیٹی کا ہاتھ اپنے جگری دوست اورسگی بہن کے بیٹے کو دیا تھا ۔
ان کی چھوٹی سی جاناں دلہن بن کر کتنی پیاری لگی تھی کتنے دھوم دھام سے ہوا تھا وہ نکاح کون جانتا تھا کہ ایک ہفتے میں لوگوں کی زندگیاں بدل جائیں گی ۔
ان کی ایک غلطی نے سب کچھ ختم کر دیا انہوں نے اپنی بہن کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں جان دوست کو بھی کھو دیا ان کو اپنی بہن اور دوست کی موت کا غم تھا لیکن اس سفر میں وہ پلٹ نہیں سکتے تھے ان کے وفادار بیوی زلیخا نے خودکشی کر لی لیکن وہ اپنے اپنوں کے لیے بھی اس سفر کو ادھورا چھوڑ پائے ۔
اپنا سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی انھوں نے یہ راستہ نہ چھوڑا دولت کمانے کی دھن نے انہیں صحیح غلط کی پہچان بھلا دی تھی ۔
انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر بار تباہ کر لیا وہ جانتے تھے کہ جان انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اس لسٹ میں ان کا نام بھی شامل ہے آج نہیں تو کل جان نے ان بھی ختم کر دے گا انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دے گا لیکن وہ چاہ کر بھی اس راستے کو چھوڑ نہیں سکتے تھے
اس لسٹ میں بہت بڑے بڑے نام تھے
اور وہ سب کو جانتے تھے ان کا نام بھی شامل تھا لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تھے
ان سب سے وہ کوئی تعلق نہیں رکھ رہے تھے لیکن تعلق تھا بہت گہرا تعلق ہے یہ کھیل تو شروع ہی ان سے ہوا تھا
بہت لوگ ختم ہو چکے تھے اور بہت سارے لوگوں نے ختم ہونا تھا اگر وہ خاموش رہے تو جان ایک ایک کرکے سب کو مار ڈالے گا
لیکن اگر وہ بولے تو انکا خاندان وہ دولت کمانے جو کے لیے انھوں نے سب کچھ کھو دیا سب ختم ہو جائے گا اور وہ یہ سب کچھ ختم نہیں کر سکتے تھے ۔
اسی لیے انہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی تھی وہ اب بھی چپ تھے بس حاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے بہت جلد ان کی بھی وہ حالت ہونی تھی جو اب تک باقی لوگوں کی ہوئی تھی
یہ ایک بہت خوبصورت دن تھا ان دونوں کا ساتھ ہی بہت حسین تھا جہاں جان کی خواہش پوری ہو رہی تھی وہیں جاناں بھی اس کے ساتھ ایک نئے سفر پر بہت خوشی سے جی اٹھی تھی بہت ہی خوبصورت ہوگئی تھی زندگی جاناں تو جان اتنی محبت اور توجہ پاکر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی جان کی اتنی توجہ اس کی اتنی محبت وہ کہاں اپنے آپ کو ان کے قابل سمجھتی تھی لیکن جان نے اسس ان نئی خوشیوں سے آشنا کروایا تھا وہ اس کے ساتھ بہت خوش تھی
وہ دونوں ترکی کی خوبصورت مقامات انجوائے کرکے شام کو ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئے تو جان کو اچانک ہی اپنے جان سے پیارے دوست کی یاد آگئی ۔
مجھے بھی ٹائر بھائی سے ملنے جانا ہے اس نے جیسے ہی ٹائر کا نام لیا جاناں نے فورا کہا تھا ۔
میری جان تھوڑا سا انتظار کر لو وہ تم سے ملنے آ جائے گا کچھ دن تک وہ رہ نہیں سکتا میرے بغیر اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں میرے علاوہ کچھ دن تک تمہیں یہی ملے گا ۔
یہ پرائیویسی دینے کے ڈرامے زیادہ دن تک نہیں کر پائے گا وہ جان تو ٹائر کی رگ رگ سے واقف تھا
جاناں نے بھی اس کی بات مان لی تھی ۔ویسے تو اسے اکیلے یہاں رہنے میں ڈر لگ رہا تھا لیکن جان جلدی آنے کا وعدہ کر گیا
باہر بارش شروع ہو رہی تھی بجلی کڑک تو بالکل نہیں رہی تھی لیکن جاناں پھر بھی تھوڑی بہت خوفزدہ تھی۔ جب کہبجلی جانے کا کوئی ڈر نہ تھا ۔تو وہ اس حوالے سے بالکل پریشان نہیں ہوئی تھی
۔جبکہ جان نے اسے بتایا تھا کہ اس کا روم ساؤنڈ پروف ہے اگر بجلی کرکے تو وہوہاں جا سکتی ہے اندر اسے بجلی کی آواز ہرگز نہیں آئے گی جان نے سے پہلے ہی وہ اس کے ڈر کا اچھا علاج کرکے گیا تھا ۔
وہ کافی دیر اپنے کمرے میں بیٹھی رہی یہاں بارش کی کوئی آواز نہیں آرہی تھی کافی دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد وہ اٹھا کر باہر آئی تو بارش بہت کم ہو چکی تھی ۔
ٹھنڈی ٹھنڈی بوندا باندی اسے ہمیشہ اٹریکٹ کرتی تھی لیکن وہ یہاں اکیلے بھیگنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
جان کو گئے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا تھوڑی ہی دیر میں اسے واپس آ جانا تھا ۔جاناں نے یہی سوچتے ہوئے ٹھنڈی بونداباندی میں قدم رکھا
چھت کی اس طرف سے راستہ صاف نظر آ رہا تھا لیکن یہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا ۔
جان کا انتظار کرتے ہوئے وہ بارش سے لطف اندوز ہونے لگی ۔ٹھنڈے بارش کے قطروں کو خود پر محسوس کرتی دونوں بازو پھیلائے وہ اسی موسم کا ایک حسین منظر لگ رہی تھی
°°°°°°°°°°
باقی سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ایک چیز سے میں خوف زدہ ہوں اگر جاناں کو پتہ چل گیا تمہارے کام کے بارے میں تو پھر کیا ہوگا تم نے تو اسے کچھ بھی نہیں بتایا اگر اسے پتہ چل گیا کہ تم کلر ہو لوگوں کی جان لینا تمہارا پیشہ ہے ۔
تو کیا وہ تمہارا ساتھ جی پآئے گی بلکہ کیا وہ تمہارے ساتھ رہ پائے گی ٹائر پریشانی سے کہنے لگا لیکن ایسی ہی پریشانی اس نے جان کے چہرے پر کھوجی چاہی تھی جس میں وہ ناکام رہا تھا ۔
اسے میرے ساتھ رہنا ہوگا ٹائر وہ میری ہے اور اب ساری زندگی وہ میرے ساتھ ہی رہے گی کوئی اسے مجھ سے الگ نہیں کر سکتا وہ بالکل بے فکر انداز میں بولا ۔
لیکن جان تم لوگوں کی جان لیتے ہو قتل کرتے مارتے ہو لوگوں کو جان ٹائر نہ جانے اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا
لوگوں کو مارنا میری مجبوری ہے شوق نہیں ہماری دنیا کا المیہ یہ بھی ہے ہم برے لوگوں کو فرشتہ اور انہیں ختم کرنے والوں کو بیسٹ کہتے ہیں اور اگر ان لوگوں کو لگتا ہے کہ میں بیسٹ ہوں تومیں بیسٹ ہی سہی
مجھے خود کو بیسٹ کہلوانا برا نہیں لگتا ہاں لیکن ان لوگوں کا بہتا ہوا خون دیکھ کر مجھے سکون ملتا ہے
ان کی رگیں کاٹنے سے میری رگوں میں سکون اترتا ہے ۔ان کی جان جاتی دیکھ کر لگتا ہے جیسے میری سانسوں میں ایک نئی طاقت پھونک دی گئی ہو ۔
میں کچھ غلط نہیں کرتا ٹائر میں جو کر رہا ہوں بالکل ٹھیک کر رہا ہوں اور مجھے اپنے کسی بھی عمل کا کوئی افسوس نہیں ہے ۔
لیکن جاناں ۔۔۔۔۔۔۔! اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ٹائر نے اس کی بات کاٹ دی تھی ۔
جاناں کیا ۔۔۔۔۔!اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ ان سب چیزوں سے الگ ہے ٹائر ۔خیر میں یہاں کن باتوں پر لگ گیا مجھے واپس جانا چاہیے جاناں گھر پے اکیلی ہے اور باہر بارش کا موسم ہو چکا ہے یہ نہ ہو کہ وہ ڈر جائے ۔جان نے اٹھتے ہوئے کہا تو ٹائر بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا ۔
وہ ہر چیز سے ڈرتی ہے لیکن جس سے ڈرنا چاہیے اس سے نہیں اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگا تو جان کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آ رکی ۔
تم چاہتے ہو میری جاناں مجھ سے ڈرے ۔۔جان نے بے ساختہ کہا۔
نہیں ہر گز نہیں میں ایسا کچھ نہیں چاہتا بس ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ جب جاناں کو یہ سب کچھ پتہ چلے گا تو وہ کس طرح سے ری ایکٹ کرے گی ۔ٹائر اب بھی فکر مند لگ رہا تھا
یہ ساری باتیں تمہارے سوچنے کی نہیں تم بے فکر ہو جاؤ لیکن کل صبح جاناں سے ملنے گھر ضرور آنا وہ تو میرے ساتھ یہاں آنا چاہتی تھی لیکن اس کباڑ خانے میں اسے بالکل بھی نہیں لانا چاہتا ۔
وہ اس کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جس کا حال کافی برا ہو رہا تھا ۔
سوری یار آج روم میں نہیں تھا تو صفائی نہیں کر پایا لیکن تم بھابھی کو کر لے آنا میں صفائی کر لوں گا بلکہ رہنے دو میں صبح خود ہی آ کر ان سے ملوں گا ۔
لیکن تمہاری ڈائری کا کیا ہوا وہ پھر سے پوچھنے لگا
وہ جاناں کے پاس ہے بالکل بے فکر رہو ۔اس نے بے فکری سے کہا لیکن ٹائر بے فکر نہیں ہو سکا تھا
کیا مطلب جاناں کے پاس کیا وہ تمہارے بارے میں سب کچھ جان گئی ہے وہ پریشان سا کہنے لگا۔
اگر وہ میرے بارے میں سب کچھ جانتی تو کیا تمہیں میں اتنا بے فکر لگتا جان نے اس سے الٹا سوال کیا ۔
تو پھر تم اتنے بے فکر کیسے ہو سکتے ہو جان ۔۔۔!
تو تم کیا چاہتے ہو ہر وقت 12 بجا کر گھومتا رہا ہوں چہرے پر فی الحال جاناں کو ہوش نہیں ہے اس ڈائری کے بارے میں سوچنےیا اسے دیکھنے کا آج صبح میں نے اس کے بیگ سے سارے کپڑے نکال کر والےالماری میں سیٹ کر دیے تھے اور وہ ڈائری میں نے لاکر میں رکھ دی۔
تب جاناں نے مجھے بتایا کہ وہ ڈائری عائشہ کی امانت ہے اور وہ کبھی نہ کبھی اس سے واپس ضرور مانگے گی جب کہ اسے وہ ڈائری دیکھنے سے عائشہ نے منع کر دیا ہے
جاناں کو اس ڈائری کو دیکھنے کا نہ تو کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی وہ عائشہ کی امانت میں خیانت کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے پھر تم بھی بے فکر ہو جاؤ میری ڈائری اب میرے پاس ہے ۔
وہ اسے ریلیکس کرتا ہوا الوداعی کلمات کہتا باہر چلا گیا ۔
جبکہ ٹائربھی کافی بے فکر لگ رہا تھا مسئلہ تو اسے صرف ڈائری کا ہی تھا جو کہ اب جان کے پاس بالکل محفوظ تھی
°°°°°°°°
جان گھر میں قدم رکھا تو جاناں چھت پر کھڑی تھی جان سیدھا وہی چلا آیا بارش اب بھی ہلکی ہلکی برس رہی تھی وہ اس کو واپس آتے دیکھ چکی تھی
وہ اس کی بالکل پاس آ چکا تھا اسے اپنی کمر پر جان کی انگلیوں کا لمس محسوس ہوا تو جاناں نے آنکھیں بند کر لیں اور پھر ایک نرم سالمس اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے جاناں کا دل دھڑکا اور اگلے ہی لمحے وہ اسے اپنی طرف موڑتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا
وہ شدت سے اپنے ہونٹوں کا لمس اس کے لبوں پر چھوڑ کر رہا تھا اس کا انداز بہت شدت پسند تھا نرمی کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا جاناں کی گرفت اس کی شرٹ پر مضبوط ہو چکی تھی
جتنی سختی سے اس نے جان کی شرٹ تھام رکھی تھی اسی طرح کی سختی وہ اپنے لبوں پر محسوس کر رہی تھی ۔
اس کی سخت گرفت محسوس کرتے ہوئے جاناں کی گرفت میں بھی سختی آتی جا رہی تھی جان بہت شدت سے اس کے لبوں پر اپنی گرفت جمائے ہوئے تھا
تشنگی تھی جو مٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔اور جاناں کا ہاتھ پیر بے جان ہوتے جا رہے تھے
نجانے کیسے اسے جاناں پر ترس آ گیا وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جاناں بے اختیار اس کے سینے سے جا لگی اس کی سانس پوری طرح اسے پھول چکی تھی جان نے اس کے لبوں پر سخت تشدد کیا تھا
بارش نے بھی اپنی شدت پکرلی وہ اس کے سینے میں چھپی تیز بارش کے ساتھ اپنے سینے کے اندر تیز ہوتی دھڑکن کی ہلچل کو محسوس کر رہی تھی
جو شاید جان کے اتنے قریب ہو اور بے باک ہونے پر مچل اٹھی تھی اس کی قربت پر دل مچل رہا تھا نرمی سے اس کا نازک وجود اپنی باہوں میں اٹھائے وہ اپنے کمرے میں لے آیا ۔
بارش کی پرستی آواز یہاں آتے دم توڑ رہی تھی وہ اس کے نازک وجود کو بیڈ پر لیٹا واپس دروازے کی جانب آیا بارش کی جو تھوڑی بہت آواز آ رہی تھی وہ بھی دروازہ بند ہونے سے ختم ہو چکی تھی ۔
وہ آہستہ آہستہ شرٹ اتارتا اس کی جانب آ رہا تھا اور جاناں ایک بار پھر سے اس کا جنون اور شدتیں سہنے کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی
°°°°°°°°°°
آپ کی جان کو خطرہ ہے سر آپ کا لسٹ میں اگلا نام ہے آپ کی جان جا سکتی ہے پلیز ہمیں سکیورٹی سیٹ کرنے دیں ۔اریان کب سے اس پاگل بڈے کے سامنے کھڑا اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
جس کا کہنا تھا کہ ایسے کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ تو وہ شخص ہے ہی نہیں جس کا نام لسٹ میں شامل ہے اور اس کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن جس طرح سے وہ گھبرایا ہوا ڈرا ہوا تھا اسے یقین تھا کہ اپنی موت کا ڈر تو اس کے اندر بھی ہے لیکن وہ قبول نہیں کرے گا ۔
کیوں کہ اگر کو پولیس کے سامنے یہ کہتا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ ہے تو وہ اس سے وجہ پوچھے گے اور بہت سارے وجوہات سامنے آئیں گیں ۔
اور اگر اس کا راز کھل گیا تو سب سے پہلے پولیس خود ہی اسے گولی مار دے گی ۔
سمجھنے کی کوشش کیں سر لسٹ میں اگلا نام آپ کا ہے آپ کی جان جا سکتی ہے ہمہیں سیکوڑٹی دینی ہے ہمارا فرض ہے آپ کی جان بچانا آریان نے سمجھانا چاہا
آنسپکٹر آپ سے اپنا وقت برباد کر رہے ہیں میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جس کا نام اس لسٹ میں شامل ہے میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور جو لوگ مارے گئے ہیں ان سے تو میرا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا بلکہ میں تو نے ان جانتا تک نہیں تھا بھلا وہ مجھے کیوں مارے گا میرا تو ایک چھوٹا سا آفس ہے چھوٹا سا کاروبار ہے میرا اس بیسٹ کے ساتھ کیا لینا دینا وہ میرا دشمن کیوں بنا ہوا ہوگا ۔
بہتر ہوگا کہ آپ اصل شخص کو تلاش کریں
مجاہد خان کم نہیں ہوں گے ترکی میں بھی لیکن جس مجاہد خان کی بات آپ کر رہے ہیں وہ میں ہرگز نہیں ہوں چہرے پر موت کا خوف ہونے کے باوجود بھی وہ شخص سیکیورٹی لینے سے صاف انکار کر رہا تھا ۔
اور آریان نے تھک ہار کر اس شخص کی بات مانیں اور باہر آیا ۔
عمران دو آدمیوں کو سیٹ کرو ہر وقت اس آدمی پر نظر رکھے 24 گھنٹے وہ کیا کرتا ہے کہاں جاتا ہے ایک ایک بات کی رپورٹ چاہیے مجھے ۔میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ میں کچھ سیکیورٹی گارڈ ہر لمحہ اس کے آس پاس رکھوں گا
ویسے تو وہ شخص سیکیورٹی سے صاف انکار کر چکا تھا لیکن آریان کے کام میں رکاوٹ بننا قانون کے خلاف تھا تو وہ خاموشی سے پولیس والوں کو اپنا کام کرنے دے رہا تھا۔
اس نے عمران کو پوری بات سمجھائی تو وہ یس سر کرتا اس کے حکم کی تکمیل کرنے لگا ۔
°°°°°°°°
صبح ہوتے ہی عائشہ نے جان کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا اس نے پورے راستے دھیان رکھا تھا کہ طہٰ اس کا پیچھا نہ کر رہا ہو اسے یقین تھا کہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑے گا وہ اپنی پہچان بدل کر اس کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا تو مطلب صاف تھا کہ اسے اس پر شک تھا اور عائشہ جان کا نام دے کر اس کے شک کو ہوا دے چکی تھی
لیکن اب وہ جان کو اس کیس سے بالکل ختم کر دینا چاہتی تھی وہ طہٰ کو اس بات کا یقین دلانا چاہتی تھی کہ جان کا اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
اس نے جان کے گھر کے باہر قدم رکھا لیکن جیسے ہی اس نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے ہاتھ اٹھایا کسی نے اس کا ہاتھ تھام کر کھینچ لیا
۔۔۔۔۔اے چوری تو یہاں کیا کر رہی ہے تو چور ہے نا اس دن تو نے چوری کی تھی وہ ڈائری۔۔۔۔
کوئی اس کے سامنے کھڑا تھا مردانہ جسمات میں ایک عورت کو دیکھ کر پہلے تو وہ حیران ہوئی لیکن اس سے اگلے ہی لمحے سمجھا چکا تھا کہ یہ وہی ہے جس میں نے اس دن اس کا پیچھا کیا تھا
عائشہ بری طرح سے گھبرا چکی تھی نہ جانے اس شخص سے اتنا خوف کیوں آ رہا تھا اور خوف سے اپنے پکڑے جانے کا نہیں بلکہ سامنے کھڑے اس شخض سے آرہا تھا دلہن کا لباس پہنے زیورات سے لدا ہوا ہر نقوش پر میک اپ اسے اور زیادہ خوفناک بنا رہا تھا ۔
عائشہ کے ہاتھ پیر بری طرح سے کاپننے لگے تھے
پلیز مجھے چھوڑ دو میں صرف جان سے ملنے آئی ہوں اور کچھ نہیں میں وہ ڈائری جاناں کو دے چکی ہوں
اور وہ ہوسٹل چھوڑ گئی ہے میں اسے بس یہی بتانے آئی تھی کہ وہ جاناں اسے جب بھی ملے اس سے ڈائری لے لے
اگر جاناں سے میرا رابطہ ہوا تو میں جاناں کو کہہ دوں گی وہ ڈائری جان کو دے دے۔باقی میں کچھ بھی کہنے نہیں آئی تھی پلیز مجھے چھوڑو جانے دو مجھے وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی نہ جانے کیوں اس کا وجود کانپنے لگا تھا اس دن یہ شخص اس سے ٹکرایا تھا ۔
وہ تیز تیز کہتی ہے اپنی بات مکمل کر چکی تھی جب ٹائر کا ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھا وہ اسے جان سے مارنے والا تھا وہ اس کی جان لینے والا تھا عائشہ نے چیخنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی ٹائر اس کے لبوں پر اپنا مضبوط مردانہ ہاتھ رکھ چکا تھا
تم آج پہلی اور آخری بار یہاں آئی ہو اس کے بعد اگر میں نے تمہیں یہاں دیکھا تو میں تمہاری جان لے لوں گا وہ انتہائی غصے سے اپنی سرخ آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے ہوئے بولا
لبوں پر اب بھی ہاتھ مضبوطی سے رکھا ہوا تھا عائشہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھیں اسے کچھ یاد دلانا رہی تھی کوئی تو تھا ۔۔یہ ۔آنکھیں اس نے پہلے بھی دیکھی تھی اتنی ہی نزدیک سے۔نفرت سے بھری سرخ آنکھیں ۔۔ لیکن کون تھا یہ ۔۔۔۔۔!اس کا دماغ نہ جانے کس کی طرف جا چکا تھا جب ٹائر نے اسے باہر کی جانب دھکا دیا ۔
وہ تیزی سے وہاں سے نکلی تھی ۔وہ ایک سیکنڈ بھی یہاں نہیں روکنا چاہتی تھی بھاگتے ہوئے باہر کی جانب جا رہی تھی جب اسے جاناں کی آواز سنائی تھی وہ کرورڑوں میں اپنی سہیلی کی آواز پہچان سکتی تھی اس نے مڑ کر دیکھا وہ شخص اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
اور اس کی آنکھوں سے گھبرا کر وہ فورا وہاں سے بھاگ نکلی ۔ٹائر کے لبوں پر ایک تبسّم سا بکھرا تھا ۔نہ جانے کیوں اسے اس لڑکی کو ڈرانے میں بہت مزہ آتا تھا
امجد خان اس وقت ایک گودام میں آیا تھا
آریان نے اس کے پیچھے بہت سارے لوگوں کو لگا کے رکھا تھا
لیکن اس بار اس کیس کی ذمہ داری طہ نے اٹھا لی تھی
وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی آیا اور ویسے بھی اس بار اسے یہاں ایک اور بہت ضروری کام تھا جسے سر انجام دینے کے لیے وہ یہاں آیا تھا اسے ایک لڑکی پر شک تھا کہ وہ غیر قانونی کاموں میں شامل ہے
اس لڑکی کے ساتھ وہ تقریبا 18 دن سے کانٹیکٹ میں تھا
اس لڑکی کو اعتبار میں لینے کے بعد وہ اس کی کافی معلومات حاصل کر چکا تھا
اور آج اس لڑکی نے اسے نوکری کے سلسلے میں اس گودام میں بلایا تھا
جو باہر سے ایک کا گودام لیکن اندر سر ایک غیر قانونی آڈا تھا ۔
یہاں پر کون سے کام سر انجام دیے جاتے تھے وہ طہٰ اس ماحول کو دیکھ کر سمجھ چکا تھا ۔اور اب اسے اصل بات سمجھ میں آئی تھی جب امجد خان بھی اسی طرف آ نکلا
یہ بات تو اس سے کہیں نہ کہیں سے پتہ چل ہی چکی تھی کہ اس کیس کا تعلق اسی گودام سے ہے اور امجد خان کا چھپ چھپا کر یہاں آنا اس بات کو ثابت کر گیا تھا کہ وہ بھی بیسٹ کیس میں شامل ہے ۔
وہ اس آدمی کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آ گیا تھا اور اس نے سب سے پہلے فون کرکے آریان کو اس گودام کی صورتحال بتائی تھی ہیاں تقریبا تین راستے تھے
ایک راستہ سامنے ناچتی گاتی لڑکیوں کی طرف جا رہا تھا جبکہ دوسرے طرف اندھیرا تھا ہاں لیکن اندر سے نشے میں قہقہے لگاتے مردوں کی آوازیں باہر تک آ رہی تھی
اور تیسرا راستہ بالکل سنسان تھا اس نے اس راستے کی طرف قدم اٹھانا ہی چاہا جب ایک گارڈ نے اچانک اسے آلیا
کلب اس طرف ہے تم کس طرف جا رہے تھے وہاں ضروری سامان ہے صاحب لوگوں کا اس طرف جانا منع ہے اس طرف جاؤ تومہیں تمہارے کام کا سامان وہیں پر ملے گا
شاید وہ آدمی ان سب حالات کو فیس کرنے کا عادی تھا
اسی لئے تو اسے اشارتاً بتا رہا تھا کہ وہی اسے اس کے کام کا سامان ملے گا
کتنے کا ملے گا ۔طہ نے اپنی حالت نشائی کی طرح بنائی
جتنے کا مانگو گے اتنے کا ملے گا ۔تمہیں کتنا چاہیے وہ اب براہ راست پوچھنے لگا
مجھے زیادہ مال چاہیے طہٰ بہت اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ ڈرگس کے بارے میں بات کر رہا ہے
کیوں تم زیادہ کا کیا کروگے وہ پوچھنے لگا ۔
اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے بتاؤ تم مجھے کتنا دے سکتے ہو ۔طہ نے کہا ۔
اگر بہت زیادہ مال چاہیے تو اوپر آرڈر دینا پڑے گا لیکن میں پہلے پتہ کرتا ہوں کہ زیادہ مال کا کیا کیا جائے گا آدمی شاید اس کام میں ماہر تھا وہ کسی بھی قسم کا رسک لینے کو تیار نہیں تھا
ارے یار سٹوڈنٹ ہوں یہاں سے جتنے کا لے کر جاؤں گا اس سے تھوڑی زیادہ قیمت لگا کر بیچ دوں گا تھوڑا فائدہ بھی کما لوں گا طہ نے زاردانہ انداز میں کہا تو جیسے اس کی پوری بات سمجھ گیا ۔
ٹھیک ہے تمہاری طرح بہت لوگ آتے ہیں یہاں ۔کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تمہیں جتنا مال چاہیے میں دوں گا وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا کلب کی طرف جانے لگا جہاں سامنے سے روبی کو آتا دیکھا
وہ آتے ہی اس کے گلے میں باہیں ڈال چکی تھی ۔
ٹونی تم اس سے ملے گی میرا دوست ہے کسی اکیڈمی میں سٹوڈنٹ ہیں وہاں ہمارا کام کافی بہتر طریقے سے کر سکتا ہے میں نے ہی اسے یہاں بلایا تھا ۔کافی کام کا آدمی ہے اسے اپنے کام کے لیے رکھ لو ۔وہ اس کی گردن میں باہیں ڈال بہت بے باک انداز میں اس کے ساتھ تقریبا چپکی ہوئی تھی طہٰ کوکو فت ہونے لگی ۔
ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے بعد وہ باہر آیا اور پوری صورت حال کی خبر آریان کے زیرگوش کی
°°°°°°°°°°
پوری انفارمیشن حاصل کرنے کے بعد آریان کو یہ تو سمجھا چکا تھا کہ امجد خان کا اس کیس سے بہت گہرا تعلق ہے
اور اس کلب سے بھی گہرا تعلق ہے اس کلب کا جو باہر سے ایک گودام ہے لیکن اندر سے ان لیگل کام ہو رہے ہیں وہاں عورتوں کی سمگلنگ سے لے کر ڈرگس اور تقریبا سب کچھ ہو رہا تھا
تو کیا بیسٹ ہی لوگوں کو عورتوں کی سمگلنگ ہا ڈرگس کے لیے قتل کر رہا تھا آریان سوچوں میں مصروف تھا ۔
جبکہ اریشفہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی اس سے آئے ہوئے ابھی تھوڑا ہی وقت ہوا تھا شاور لینے سے پہلے اس نے طہٰ ساری معلومات لی تھی ۔
دو دن پہلے اس نے اپنے آفس سے چھٹیوں کے لیے اپلیکیشن بھیجی تھی کیونکہ وہ اریشفہ کو کچھ دنوں کے لیے گھمانے لے کر پیرس جانے والا تھا ویسے تو وہ ہنی مون پر بھی نہیں جا سکے تھے اور پھر اریشفہ کے پیپر شروع ہو گئے اب وہ فارغ تھی تو وہ چاہتا تھا کہ کچھ وقت وہ اکیلے ایک دوسرے کے ساتھ گزارے اسی سلسلے میں وہ اس کے کاغذات چیک کر رہا تھا
جب نظر اس کے آئی ڈی کارڈ کی ڈیٹ پر پڑی ۔
جہاں پانچ مارچ اس کی سالگرہ کا دن لکھا تھا ۔وہ پورے اکیس سال کی ہونے جا رہی تھی۔اریشفہ نے اسے اپنی برتھ ڈے کے بارے میں بالکل کچھ نہیں بتایا تھا اب صرف ایک دن میں تیاری کیسے کرتا ۔
مطلب کہ کل اس کی سالگرہ تھی ۔یہ تو واقعی ہی اس کی بیوی نے اس کے ساتھ زیادتی کردی تھی یعنی کہ شادی کے بعد پہلی سالگرہ دھوم دھام سے نہیں بنا پائے گا
اگر وہ اریشفہ کو گھر لے کر جاتا تو وہاں سب لوگ کے ساتھ اس کی سالگرہ اچھی گزر سکتی تھی لیکن سفر کی تھکاوٹ میں شاید وہ اپنی سالگرہ کو انجوائے نہیں کر پاتی اور ویسے بھی وہ پیرس جانے سے پہلے وہ ان لوگوں سے ملنے کے لئے جانے ہی والے تھے
اور ان لوگوں کے لئے علاوہ اریشفہ کے لیے اہمیت رکھتی تھی اس کی سہیلیاں جاناں اور عائشہ
اور اس سے اگلے ہی سیکنڈ آریان نے پوری پارٹی کی پلاننگ کر لی تھی جس میں جاناں اور عائشہ کی مدد لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا
اریشفہ کا موبائل بیڈ پر پڑا تھا اس نے فوراً ہی وہاں سے عائشہ اور جاناں کے نمبر نکالے تھے شادی کے بعد اس کی پہلی سالگرہ کو وہ اتنے روکھے سوکھے طریقے سے تو نہیں منا سکتا تھا زیادہ کچھ نہ سہی لیکن اس کی دوست تو آ ہی سکتی تھی
°°°°°°°°
کیا جان جاناں کو سب کچھ بتا چکا ہے ۔۔۔۔!
آپنے اور اس کے بچپن کے نکاح کے بارے میں کیا وہ جان کے بارے میں سب کچھ جان گئی ہے
تبھی تو وہ اس کے ساتھ اس کے گھر میں رہ رہی ہے
ورنہ جاناں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی
لیکن جان اتنی آسانی سے ساری حقیقت جاناں کے سامنے کیسے رک سکتا ہے
تو کیا وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے عائشہ بری طرح سے خود میں الجھی ہوئی تھی
جب اس کا فون بجا انجان نمبر سے فون آتا دیکھ کر اسے یہی لگا کہ طہٙ کا فون ہوگا
السلام علیکم کیا میں عائشہ سے بات کر سکتا ہوں اس کا مودبانہ کہا
وعلیکم السلام جی میں عائشہ بات کر رہی ہوں آپ کون ہیں اس نے ایک بار پھر سے نمبر پر غور کیا لیکن یہ نمبر انجان تھا وہ بالکل بھی اس کے بارے میں نہیں جانتی تھی اور یہ آواز بھی اس کے لئے کافی انجان تھی۔
میں آریان ہوں اریشفہ کا ہسبنڈ اس نے انسپکٹر کی پہچان دینے کے بجائے اریشفہ کا حوالہ دیا تو عائشہ کو خوشی ہوئی
جی آریان بھائی میرا مطلب ہے انسپیکٹر عائشہ نے دانتوں تلے زبان دبائی تو آریان نے بے اختیار مسکرا دیا
آپ مجھے بھائی کہہ سکتی ہیں یقین جانے مجھے بہت خوشی ہوگی
اریشفہ کو تنگ کرنے کی خاطر اور آریان سے ملاقات سے پہلے وہ ہمیشہ اسے آریان بھائی کہہ کر ہی ارشی لو چراتی تھی اب تو اس کے نام کے ساتھ بھائی کا حوالہ دینے کی عادت ہی بن گئی تھی
اگر ان کی ملاقات اتنی نہ خوش گوار نہ ہوتی تو شاید ان کا اچھا رشتہ بنتا
جی آریان بھائی کہیں میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں اس کا فون آیا تھا تم مطلب صاف تھا کہ وہ کسی وجہ سے ہی فون کر رہا تھا
کل 5مارچ ہے آریان نے جیسے یاد دلایا
تو یقینا آپ مجھے اپنی بیگم کی برتھ ڈے پارٹی پر انوائٹ کرنے کے لیے فون کر رہے ہیں ۔عائشہ مسکرائی
نہیں ہر گز نہیں میں آپ کو برتھ ڈے پارٹی کی تیاریوں کے لیے بلا رہا ہوں پلیز آئیں اور میری مدد کریں جاناں کو فون کر دیا ہے میں نے وہ کل اپنے شوہر کے ساتھ آ رہی ہے آریان نے اسے پوری بات بتائی
مطلب جاناں جان کے بارے میں سب کچھ جان چکی تھی لیکن جان آریان کے گھر جا رہا تھا
مطلب ایک سیریل کلر ہو کر وہ ایک پولیس والے کے گھر جانے والا تھا وہ پولیس والا جو خود ہر جگہ اسے ڈھونڈ رہا تھا عائشہ پریشان ہوئی تھی
تو کیا میں بے فکر ہو جاؤں کل کے حوالے سے آرہان کی آواز ایک بار پھر سے آئی
جی جی بالکل آپ بالکل پریشان نہ ہوں میں اور جاناں سب سنبھال لیں گے اس نے اسے بے فکر کرنا چاہا
جی وہ تو میں جانتا ہوں پر آپ بھی فکر مت کریں آپ کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا میرے پاس بھی تین ملازم ہیں میرا مطلب ہے تین دوست ہیں جو آپ کی مدد کرسکتے ہیں بس اریشفہ کو خوش کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی پارٹی بس دو آپ اریشفہ کی دوست اور تین دوست میرے جاناں کا ہسبنڈ بس یہی کچھ لوگ ہیں آریان نے تفصیل بتائی اور بے فکر ہو کر فون بند کر دیا جبکہ عائشہ جان کے جانے پر کافی پریشان ہو رہی تھی
جان کا نام طہ کے سامنے لے کر وہ ویسے ہی اسے شک کے دائرے میں ڈال چکی تھی اور اب اگر آریان کو اس پر شک ہوگیا تو وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑے گا وہ جان کو ان سب چیزوں سے نکالنا چاہتی تھی طہ کا شک اس پر سے ختم کردینا چاہتی تھی لیکن جان خود ہی کل آریان کے سامنے آنے والا تھا یہ نہ ہو کیا آریان کو جان پر شک ہو جائے ۔
عائشہ کا پریشانی سے سوچ سوچ کر برا حال ہو رہا تھا اگر آریان کو پتہ چل گیا تو اگر جان پھس گیا تو اتنی فکر جان کو اپنی نہیں تھی جتنی عائشہ کو اس کی ہو رہی تھی ۔
°°°°°°°°
کیا یار کیا فائدہ پارٹی میں آنے کا میرے پاس تو کوئی پارٹنر ہی نہیں ہے عمران نے اداسی سے کہا
اس مہینے اس کی شادی تھی اور اس کی ہونے والی بیگم کو باہر آنے کی اجازت نہ تھی
اس کے گھر والے کافی پرانا خیالات کے تھے وہ منگنی کی رسم پر بیٹی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے جبکہ رضی اس وقت مکمل سنگل تھا
عائشہ آ رہی ہے ۔۔اریان نے طہٰ کو بتایا تو طہٰ نے اسے گھورا تھا
اگر وہ آئے گی تو میں کیسے آ سکتا ہوں یار تمہارا دماغ خراب ہے کیا کیوں پھنسا رہے ہو مجھے یہ نہ ہو کہ اس کا شک یقین میں بدل جائے
کون سا شک تجھے سچ میں لگتا ہے کہ اس نے تیرا آئی ڈی کارڈ دیکھا ہے اگر اس نے دیکھا ہوتا تو یا تو تجھ سے ڈر کر بھاگ جاتی یا پھر ایکسائیڈ ہو کر بات کرتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہے اب کوئی بھی لڑکی اتنی نارمل تو ہو نہیں سکتی کہ اسے پتہ چل جائے کہ سامنے کھڑا شخص ایک آرمی آفیسر ہے ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے لیکن وہ بالکل بھی لیے ایکٹ نہ کرے
خود سمجھ طہٰ وہ بالکل نارمل بات کر رہی ہے اس نے کبھی تیرے سامنے آرمی یا پولیس کا ذکر نہیں کیا مطلب کچھ بھی نہیں جانتی وہ۔ ۔۔۔۔
مجھے تو بہت بری ایکٹرس لگتی ہے طہٰ نے اپنا شک بیان کیا
کچھ نہیں طہٰ تم بس تو اس کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے لگا ہے آریان نے اس کی چوری پکڑی
ایسا کچھ نہیں ہے وہ صاف مکرا
اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو تم کبھی پارٹی پر آنے سے انکار نہیں کرتے تم اس سے بچ رہے ہو اس سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہو تم خود اس پر ظاہر کر رہے ہو کہ تم باقیوں سے الگ ہو آریان نے کہا
ایسا کچھ نہیں ہے آریان میں تو بس کچھ سوچ کر نہیں آنے والا تھا لیکن اب ضرور آؤں گا اور ثابت کروں گا کہ میں اس عائشہ کو زیادہ نہیں سوچتا اور نہ ہی اس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں وہ کہتے ہوئے ٹیبل سے اپنی کی چین اٹھاتا باہر نکل گیا کیا
آریان اسے جاتے دیکھ کر صرف مسکرا دیا تھا ۔
عائشہ ایک اچھی لڑکی تھی لیکن طہٰ کا اس سے گھبرانا کترانہ بھی آریان اچھے سے سمجھ رہا تھا
°°°°°°°°°°
جان پلیز میرے ساتھ چلو نا میں نے آریان بھائی کو بول دیا ہے کہ میرا شوہر میرے ساتھ آئے گا اب میں انہیں انکار کیسے کر سکتی ہوں وہ ضدی انداز میں اس کے سامنے کھڑی اپنی بات منوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی ۔
ماہی میں وہاں جا کر کیا کروں گا تم جاؤ تمہارے دوستوں کی پارٹی ہے تم انجوائے کرو وہ بہت پیار سے بولا تھا
نہیں نہ میں نے ان کو بول دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ساتھ لاؤں گی اسی بہانے تم اریشفہ سے ملنا ہے عائشہ سے تو تمہاری ایک بار ملاقات ہوچکی ہے لیکن ابھی تک تتم اریشفہ سے نہیں ملے وہ بھی میری بیسٹ فرینڈ ہے پلیز چلو نہ وہ زور زور سے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے پھر منانے کی کوشش کرنے لگی
میری جان میرا بابو میرا کیوٹی پائی وہ اس کے دونوں گال کھینچتے بچوں کی طرح اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ اب جان کی نیت اس پر خراب ہو رہی تھی اگر وہ یہ بات جان لیتی تو کب کی یہاں سے بھاگ کر جان کی نظروں سے دور جا کر چھپ جاتی
لیکن اس کے چھپنے یا بھاگنے سے پہلے ہی جان کا ارادہ اپنی خراب نیت پر عمل کرنے کا تھا
وہ ابھی تک اس کے بالکل قریب بیٹھی اسے سمجھا رہی تھی جب اس کی بے باک سی گرفت کی کمر پر محسوس کرتے ہوئے وہ اچانک جھٹکے سے اس کے بالکل قریب ہو چکی تھیاور اس کے نازک لب جان کی گرفت میں آ چکے تھے ۔
گرفت سخت تھی بچناناممکن سا تھا وہ اس کے قریب بیٹھنے پر بری طرح سے پچھتا رہی تھی ۔اس کے کالر پہ ہاتھ رکھ کے وہ اسے خود سے دور کرنے لگی تھی جب ایک لمحے کے لیے وہ اس سے دور ہوا
میں تمہارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں لیکن اس وقت مجھے ڈسٹرب نہیں کرو گی ورنہ میں اس وقت بھی اپنا حق وصول کروں گا اور کل بھی تمہارے ساتھ چلنے کی کوئی گارنٹی نہیں دیتا وہ اس کی مزاحمت پر بدمزہ ہوا تھا
جاناں کا مزاحمت کرتا ہاتھ اچانک گیا
سمجھدار ہو اور مسکرا کر اسے اپنی جانب کھنچ چکا تھا
اور اب وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے بیڈروم کی جانب بڑھ گیا اسے بیڈ پر لیٹ آتے ہوئے اس بار اس نے دروازہ بند کرنے کی زحمت نہیں کی تھی
اس کے دونوں گالوں کو چومتے ہوئے وہ اس کی صراحی دار گردن پر جھک
ا جہاں اس کی شدتوں کا نشان پہلے ہی موجود تھا اور اس نشان پر اپنے لب رکھتے ہوئے وہ اسے بیڈ شیٹ مٹھیوں میں بیچنے پر مجبور کر گیا
رات کے اندھیروں میں اس کی شدت میں سہنا ہی ایک قیامت تھی
کہان وہ دن کی روشنی میں اس کی جسارتیں برداشت کرتی بس بند آنکھوں سے اس کے ہونٹوں کا لمس اپنے پورپور پر محسوس کرتی رہی
عائشہ تیار ہو کر صبح دس بجے ہی آریان کے گھر آ گئی تھی
آریان نے اس کا کافی پرجوش استقبال کیا تھا
عائشہ نے اس سے کہا تھا کہ وہ صرف گیٹ ٹو گیدر کابہانہ کر کے آئے گی
اریشفہ پہلی بار اسے اپنے گھر دیکھ کر بہت خوش تھی اور اس کو شک نہ ہو کہ وہ سب اس کی برتھ ڈے کی پلاننگ کر رہے ہیں اس لئے عائشہ نے کہا تھا کہ جاناں بھی آنے والی ہے اپنے شوہر کے ساتھ
جب کہ اسے عائشہ کے ساتھ چھوڑ کر آریان برتھ ڈے پارٹی کی تیاریاں کرنے لگا
تقریبا ساڑھے دس بجے کے قریب اس کے دوست بھی آ گئے تھے
عمران اور رضی سے تو عاشی ایک بار پہلے بھی مل چکی تھی اپنے گھر پہ خان صاحب کے قتل کیس کے دوران لیکن اسے کبھی بھی یہ نہیں لگا تھا کہ طہٰ بھی یہاں آئے گا اس کی حقیقت سے تو وہ بہت اچھی طرح سے واقف تھی لیکن اس طرح سے اس کا آجانا عائشہ کو حیران کر گیا تھا کیا وہ جانتا تھا کہ عائشہ اس کی حقیقت سے واقف ہے
عائشہ نے سوچا تھا لیکن وہ تو اسے مخاطب کیے بنا ہی آریان کی طرف مصروف ہوگیا عائشہ کو تو اس طرح سے نظر انداز کر دیا جیسے وہ اسے جانتا ہی نہیں
وہ تینوں عائشہ کو ہائے ہیلو کہہ کر آریان کی مدد کے لیے چلے گئے جبکہ اریشفہ کویہی لگا تھا کہ وہ چھٹی کا دن اپنے دوستوں کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے جس طرح سے اس نے اریشفہ کی دوستوں کو گھر پر بلایا تھا
اپنی برتھ ڈے تو اس کے دماغ میں بالکل بھی نہیں تھی
اور پھر تقریبا 11 بجے جاناں اور اس کے ساتھ وہ پیارا سا آدمی جان تھا جسے وہ اس سے ملوانا چاہتی تھی اس کے بارے میں جاناں پیپرز کے دوران ہی اسے اتنی باتیں کر چکی تھی کہ اریشفہ کو اس سے ملنے کا تجسس جاگ اٹھا تھا اور آج اس سے مل کر واقعہ ہی وہ اسے ایک بہت اچھا انسان لگا تھا
عائشہ جاناں سے مل کر بہت خوش تھی اور جان سے مل کر بھی اس کی کوئی پرانی فلیلنگز نہیں آئی تھی اور نہ ہی جان نے ایسا کچھ بھی محسوس ہونے دیا تھا
اور آریان سے بھی جان سے نارمل انداز میں ملا اریشفہ کو جان بہت اچھا لگا تھا لیکن یوں اچانک نکاح کا سن کر وہ حیران ہوئی تھی عائشہ بھی سمجھ گئی تھی کہ جان نے جاناں کے سامنے کوئی اور ہی کہانی بنا رکھی ہے ۔
وہ سمجھ چکی تھی کہ جاناں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی ۔اسے لگاتا تھا کہ جاناں جان کی حقیقت بے خبر رہے یہی بہتر تھا ۔کیونکہ جاناں کے لئے جان کی حقیقت کو قبول کرنا ایک بہت مشکل مرحلہ تھا عائشہ نہیں جانتی تھی کہ آگے کیا ہوگا نجانے جاناں کی زندگی آگے کون کون سے موڑ لے گی جان کے ساتھ اس کی زندگینبہت مشکل ہونے والے تھے
°°°°°°°°°°
عائشہ اور جاناں ارشی کے ساتھ تھی جبکہ اریان جان کو اپنے ساتھ لے گیا تھا
طہٰ عمران اور رضی اس کی مدد کر رہے تھے کام میں
جب کہ جان کو اس نے کوئی کام نہیں کرنے دیا تھا کیونکہ وہ اس کے لئے مہمان تھا
اس سے پہلے وہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے اگر آریان کو اندازہ ہو جاتا کہ سامنے بیٹھا شخص وہی ہے جسے وہ پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہے تو یقیناً حیران ہوتا ۔
تو جان تم کیا کرتے ہو میرا مطلب ہے کیا کام کرتے ہو آریان نے پوچھا جبکہ طہٰ کو تو پہلے ہی اس پر شک تھا اور اسی شک کو وہ پہلے ہی آریان پر کافی بار ظاہر کر چکا تھا کیونکہ عائشہ نے اسی کا نام لیا تھا
اپنی بیوی سے عشق کرتا ہوں اس کے علاوہ چھوٹا موٹا بزنس ہے سپورٹس کا اسی کو ہینڈل کرتا ہوں ۔اس نے دوستانہ انداز میں جواب دیا تو اریان مسکرایا ۔
بالکل آج کے زمانے میں سب سے اہم کام تو اپنی بیوی سے محبت کرنا ہے ۔اور اگر بیوی ناراض ہو جائے تو منانا بہت مشکل ہو جاتا ہے ویسے تمہاری نئی نئی شادی ہوئی ہے لیکن میری شادی ڈیڑھ مہینہ پرانی ہوچکی ہے اگر چاہو تو سکتے ہو میں ٹپس دے سکتا ہوں فیوچر میں جاناں تم سے ناراض ہو تو آریان کا انداز بھی دوستانہ تھا
ارے نہیں اس کی ضرورت نہیں پڑے گی میں اپنی بیوی کو بہت آسانی سے ہینڈل کر سکتا ہوں لیکن اگر تمہاری آفر محدود مدت کے لیے نہیں ہے تو میں ضرور تم سے مشورہ لوں گا ۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا
اینی ٹائم ۔۔آریان نے مسکراتے ہوئے سینے پہ ہاتھ رکھا پر سر کو ذرا سا خم دیا ۔
ابھی تک تو اس کی کسی بات یا کسی انداز سے یہ ظاہر نہیں ہوا تھا کہ اس کا تعلق بیسٹ سے ہو سکتا ہے لیکن طہٰ کا شک اب بھی برقرار تھا جب کہ عمران اور رضی کو وہ ایک نارمل سا انسان لگا تھا بیسٹ سے اس کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے یہ سوچ ہی انہیں فضول لگ رہی تھی ۔
لیکن آریان اس کیس کو حل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا
اس کیس نے اس کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھی اور اب تو ذرا سی روشنی ملی تھی اور اسی روشنی میں وہ اس کیس کو حل کر دینا چاہتا تھا یہ اس کی لائف کا سب سے مشکل کیس ثابت ہوا تھا۔
اسے بھی جان بہت نورمل انسان لگ رہا تھا اس پر شک کرنا بے وقوفی تھی لیکن طہٰ کاشک وہ ضائع نہیں جانے دے سکتا تھا وہ اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا اس کے ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا لیکن ابھی تک اسے کچھ بھی ایسا محسوس نہ ہوا جسےوہ لے کر وہ جان کو غلط سمجھتا
°°°°°°°°
پارٹی تیاری مکمل ہوتے ہی تقریبا چار بجے کے قریب ہر قسم کی لائٹس اوف کردی گئی یہاں تک کہ کھڑکیاں بھی بند کر دیں تاکہ باہر کی روشنی اندر نہ آئے
اس نے جاناں کے موبائل پر میسج کیا کہ وہ اریشفہ کو لے کر باہر آ جائے اور پھر کچھ ہی دیر میں اریشفہ نے اندھیرے میں قدم رکھا
اس قدر اندھیرا دیکھ کر اسے بھی حیرت ہوئی تھی اپنے گھر میں ایسا اندھیرا دیکھنے کی عادت نہیں تھی اسے ساری لائٹس آف کیوں تھی اور دن کی روشنی میں اس طرح سے ساری کھڑکیاں دروازے کیوں بند کر دیئے گئے تھے
وہ سوچتے ہوئے آگے بھریں جب اچانک لائٹس آن ہوئی اور سب نے اسے مبارکباد دینا شروع کر دی
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
برتھ ڈے ڈیئر اریشفہ
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
سب گنگنا رہے تھے جبکہ اریشفہ پریشانی سے حال کے ایک ایک کونے کی تیاری دیکھ رہی تھی یہ سب کچھ کب ہوا وہ سب لوگ اس کی برتھ ڈے کی تیاری کر رہے تھے ۔
یہ اس کے لئے ایک بہت بڑا سرپرائز تھا سب باری باری اس سے ملتے ہوئے مبارکباد دے رہے تھے عمران اور رضی اس کے لئے اسپیشل گفٹ لائیں تھے
جان اور جاناں نے بھی اسے بہت پیارا گفٹ دیا عائشہ نے بھی اسے گفٹ دیا جبکہ آریان نے اس کے کان میں سرگوشی کی
میں اپنا گفٹ تمیں رات کو دوں گا اپنے والے اسٹائل میں اس کی سرگوشی پر وہ شرماتے ہوئے سرجھکا گی ۔
کیک بہت خوشگوار ماحول میں کاٹا گیا وہ بہت خوش تھی اس کی سالگرہ کا یہ دن آریان نے بے پناہ محبتوں سے منایا تھا اسے بھی یاد نہیں تھا کہ آج کے دن وہ پیدا ہوئی تھی اور آریان کے علاوہ تو ویسے بھی آج کل اسے کسی اور چیز کا ہوش نہیں تھا آریان کی محبتوں نے اسے دنیا بھلا دی تھی
لیکن آج وہ بس یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کتنی اہم ہے آریان کے لیے اس نے اسے خوش کرنے کے لئے اس کی سالگرہ منائی اس کے دوستوں کو بلایا
کتنا پیارا تھا وہ شخص اس کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا اتنا خیال رکھتا تھا ۔ہر وقت اس کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے کچھ نہ کچھ ایسا کرتا رہتا جس سے وہ خوش ہوتی
اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی زندگی اتنی حسین ہو جائے گی اتنا پیار کرنے والا شخص اس کے نصیب میں لکھا گیا ہوگا ۔وہ تو بچپن سے اپنے آپ کو ایک بوجھ سمجھتی تھی اپنے نصیب پر تو اسے یقین نہیں تھا تائی کی باتیں کہ کون بہائے گا تجھ جیسی گونگی کو جب بھی یاد آتی وہ سجدے میں گر کر اپنے رب کا شکریہ ادا کرتی ۔کیونکہ اس نے جو اس کے نصیب میں لکھا تھا وہ تو نصیب والوں کو بھی نہیں ملتا
بے شک نصیب لکھنے والا وہ تھا اور اس سے بہتر کوئی نہیں
°°°°°°°°°°°°
پارٹی ختم ہونے کے بعد آریان نے عمران اور رضی سمیت طہٰ کو بھی گھر صاف کرنے پر لگا دیا وہ تینوں گھر کا کونا کونا چمکاتے ہوئے اپنی کمرپکڑ چکے تھے ۔ارشفہ کا تو آج کوئی بھی کام کرنے سے صاف منع کردیا گیا تھا آریان نے کہا تھا کہ آج اس کی سالگرہ کا دن ہے تو وہ اسے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دے گا
جان نے بھی ان لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آریان نے کہا کہ وہ اس گھر کا جمائی راجہ ہے اور جاناں اس کی بہن ہے ۔اور وہ پہلی بار اس کے گھر آیا ہے اسی لیے پہلی بار کے لیے رعایت اگلی دفعہ چاہے تو کام کر سکتا ہے ۔
وہ تین کام میں جتے ہوئے تھے جب اچانک عمران کے ہاتھ پر چھری لگی اور اس کا ہاتھ اچھا خاصہ کٹ گیا ۔
سب پریشانی سے اس کے آگے پیچھے کھڑے تھے جبکہ جان کا فیصلے پر کھڑا تھا اور یہ بات آریان نے نوٹ کرلی لیکن پھر نہ جانے جان کو کیا ہوا کہ وہ اچانک اٹھ کر باہر چلا گیا ۔اور اس کا یوں آٹھ کر باہر جانا کسی سے بھی چھپا نہیں رہا تھا لیکن عمران کے ہاتھوں میں بہتا ہونا ان کی پریشانی کی وجہ بنا تھا
تھوڑی دیر کے بعد مرہم پٹی ہو گئی تو جان واپس ان کے پاس اندر چلایا طہٰ سے رہا نہیں گیا اور پوچھنے لگا ۔
جان جب عمران کو چوٹ لگی تھی تم باہر چلے گئے تھے خیریت تو تھی نا ۔۔۔۔۔!
ہاں سب خیریت تھی وہ دراصل مجھ سے زیادہ خون دیکھا نہیں جاتا بہتا ہوا خون دیکھ کر میرا سر گھومنے لگتا ہے چکر آنے لگتے ہیں سچ کہوں تو اب بھی دماغ گھوم رہا ہے اسی لیے اس وقت باہر چلا گیا تھا ۔جان کے انداز پر آریان کو ہنسی آگئی اور اسی طرح ہنستے ہوئے اس نے طہٰ کی جانب دیکھا تھا جیسے کہہ رہا ہوکیا تمہیں واقعی لگتا ہے کہ یہ بیسٹ ہے ۔
کم اون جان یہ لڑکیوں والے ڈائیلاگ مت بولو عمران نے ہنستے ہوئے کہا۔
نہیں یار میں سچ کہہ رہا ہوں مجھ سے کبھی بھی بہتا ہوا خون نہیں دیکھا جاتا اور خاص کر اپنا خون بہے تو میری جان جانے لگتی ہء جیسے میرا سارا خون جسم سے بہ جائے گا اور میں مر جاؤں گا اب موت کا ہو تو ہر کسی کے دل میں ہوتا ہے ۔
جان نے مسکین سے صورت بنا کر کہا ۔
گھبراؤ نہیں جان ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ تم نے کبھی کسی کا خون بہتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھو تو بہتر ہے کیونکہ یہ منظر بہت خطرناک ہوتا ہے ہم دن رات ایسے لوگوں کے بیچ میں گھومتے ہیں یہ ایک بہت خطرناک ایکسپیرینس ہے اور میری یہی خواہش ہے کہ تم اسے بالکل بھی فیس نہ کرو ۔آریان نے مسکراتے ہوئے کہا تو جان نے صرف ہاں میں سر ہلا دیا
جب کہ طہٰ کو اپنی بے وقوفی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ۔
جب جان کی اچانک ہی نظر عائشہ کی طرف اٹھی جو ساکت سی بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی نہ جانے کیوں اسے دیکھتے ہی جان کے چہرے پر تبسم سا بکھڑا
اور عائشہ بیٹھی بس اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور اس کا ذہن اپنے سامنے سو ہم کی لاش سے نکلتے خون کے فواروں کی طرف چلا گیا تھا ۔آج اگر اس کے بس میں ہوتا تو یہ جان کو افورڈ سے ضرور نوازتی۔
°°°°°°°°°°
شام ہوتے ہی سب لوگ اپنے اپنے گھر جا چکے تھے سارا کام عمران طہٰ اور رضی ختم کر کے گئے تھے اریشفہ کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا جلدی کمرے میں نہ جانے کا اور آریان بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا اپنا گفٹ لیے اپنے وعدے کے مطابق سے گفٹ بھی تو دینا تھا ۔
اور وہ اس کی شدتوں سے گھبراتی آج بھی کافی لیٹ کمرے میں آئی تھی اس نے کمرے میں قدم رکھا تو سامنے بیڈ پر خفا خفا سابیٹھا تھا
سارا کام تک ختم کروا دیا دو گھنٹے سے کچن میں کیا کر رہی ہو اسے کمرے میں آتے دیکھ کر وہ بیڈ سے اٹھا اور اس کی سامنے آکر سوال کرنے لگا ۔اریشفہ ہاتھ ملتے بنا کوئی جواب دیے نظر جھکائے کھڑی تھی جب آریان نے اس کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا سر اونچا کیا
غلط بات ارشی ۔۔۔۔میرا دل کر رہا ہے تمہیں اس غلطی کی سزا دوں لیکن آج نہیں آج کا دن بہت سپیشل ہے اور یہ رات بھی بہت سپیشل ہے اور اس میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا بلکہ بہت خوبصورت سا تحفہ دوں گا یہ گفٹ میں نے تین سال پہلے خریدا تھا بس یہ سوچ کر کہ اگر مجھے ایک پیاری سی بیوی مل گئی تو میں اسے دوں گا
شادی کے بعد اس کی پہلی سالگرہ پر
توکیا تم اس گفٹ کی خوبصورتی کو بڑھانا چاہو گی وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے بریسلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرایا ۔
ایک بہت خوبصورت نفیس بریسلیٹ اس کے ہاتھ میں تھا آریان نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور وہاں اپنا بریسلیٹ پہنانے لگا جو اس کی خوبصورت کلائی پر بہت جچ رہا تھا ۔
یہ ہو گیا تمہارا گفٹ اور اب میں ریٹن گفٹ لونگا ۔وہ ابھی اس گفٹ کو دیکھ رہی تھی جب آریان کے الفاظ اس کے کان میں پڑے اس نے بے اختیار سر اٹھا کر دیکھا اور وہ تو جیسے اسی کے انتظار میں تھا اس کے اوپر دیکھتے ہی وہ اس کے چہرے پر جھکا اور ان اس کے ایک ایک نقش کو لبوں سے چومتے ہوئے وہ اس کے ہونٹوں پر آیا اور اپنی تشنگی مٹانے لگا ۔
اور پھر ساری رات وہ اس کی محبتوں کی بارش میں بھیگتی چلی گئی ۔زندگی پرسکون اور خوبصورتی اب آریان کے سنگت کے علاوہ اور کسی چیز کی خواہش نہیں تھی ۔

جان تم اب کیسا محسوس کر رہے ہو اب چکر تو نہیں آرہے جاناں فکر مندی سے اس سے پوچھ رہی تھی وہ اس کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوا
اب بہتر فیل کر رہا ہوں لیکن ابھی بھی وہ خون میری آنکھوں کے سامنے ہے وہ کیا ہے نہ مجھے سرخ رنگ دیکھتے ہیں الجھن ہونے لگتی ہے
اور خون کا سنتے ہی میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اس وقت بھی مجھے چکر آ رہے ہیں وہ اتنے سیریس انداز میں کہہ رہا تھا کہ کوئی بھی اس پر یقین کر لیتا
جان تم روم میں چلو میں تمہارے لئے جوس بنا کے لاتی ہوں اس سے تم بہتر محسوس کرو گے جاناں نے فکرمندی سے کہا اور جان ے اسے اس موضوع سے ہٹانے کے لئے صرف ہاں میں سر ہلایا اور بیڈ روم میں چلا گیا
جبکہ اس کی فکر میں پریشان ہوتی سیدھی کیچن کی طرف کی گئی تھی ۔
جبکہ جان ان سب بے وقوفوں کی بیوقوفی پر ہنس رہا تھا کل کتنی آسانی سے وہ خون سے گھبرانے کے بہانے وہاں سے نکلا اور امجد خان کو ختم کرکے ان لوگوں کے بیج واپس آگیا اور وہ سب بیوقوف یہ سمجھتے رہے کہ جان خوفزدہ ہوگیا خون دیکھ کر اس کی طبیعت خراب ہونے لگی اگر کسی کو پتہ چل جاتا کہ جان ان 15 منٹ کے دوران کہاں گیا ہے تو پاگل ہو جاتے
اور جاناں اس کی فکر میں پاگل ہو رہی تھی کہ نہ جانے جان کو خون دیکھتے ہی کیا ہو گیا ہے وہ اس کے لئے جوس بنا کر لائہ تب بھی جان نے منہ سیدھا نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اسے اپنے اس جھوٹ پر یقین دلانا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب رہا تھا
°°°°°°°°°
عائشہ بے کار میں اتنی پریشان ہو رہی تھی جان نے سب کچھ ہینڈل کر لیا تھا وہ بھی اتنے اچھے سے کسی نے اس پر شک بھی نہیں کیا لیکن اس کی ایکٹنگ دیکھ کر عائشہ کا بھی دماغ گھوم گیا تھا
کیاڈرامہ کیا تھا اس نے اتنی آسانی سے وہ اپنے اوپر سے سارا شک ہٹا چکا تھا عائشہ جیسا چاہتی تھی ویسا ہی ہو چکا تھا جس کے لیے وہ بے فکر ہو گئی تھی
وہ انہی سوچوں میں گم تھی اس کی سوچ طہٰ کی جانب گئی کیسے گنور کر رہا تھا وہ اسے آج تک کسی نے اس طرح سے نظر انداز نہیں کیا تھا یہاں تک کہ جو لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے وہ بھی ایک نظر اٹھا کر اس کی جانب سے ضرور دیکھتے اور وہ بانسری بجانے والا اسے نظر انداز کر دیا
اس کو سوچتے ہوئے اس کے سینے میں غصے کی ایک لہر اٹھی نہ جانے کیوں طہٰ یوں نظر انداز کرنا اسے بہت کھلا تھا
تم مجھے کیا نظر انداز کروگے طہٰ بخاری نظر انداز تو میں تمہیں کروں گی
اگر تمہیں مجھ سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو میں بھی تمہارے لئے مری نہیں جا رہی اس نے غصے سے کہا تھا لیکن پھر اپنے لفظوں پر غور کرتے ہوئے وہ خود ہی پریشان ہوگئی
اگر وہ بانسری والا سیکرٹ ایجنٹ مجھے نظرانداز کر رہا ہے تو یہ تو اچھی بات ہے مجھے اتنا برا کیوں لگ رہا ہے اس کا نظر انداز کرنا اسے برا لگا تھا تبھی تو اس کا دل اس سے سوال کرنے لگا تھا جس ا جواب اس کے پاس موجود نہیں تھا ۔
نہ جانے کیوں عائشہ چاہتی تھی کہ طہٰ اس کے پیچھے اسے ہی گھومتا رہے جیسے پہلے گھومتا تھا اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہر وقت اس کے آس پاس رہتا لیکن نہ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ اب سب کچھ بدل رہا ہے کل پہلی بار اس نے اسے نظر انداز کیا تھا اور اس سے لگ رہا تھا کہ جیسے اب یہ اگنورس ختم نہیں ہوگی
°°°°°°°°°
وہ تینوں بیٹھے قہقے لگا رہے تھے جبکہ طہٰ صرف ان کے قہقے سن کر شرمندہ ہو رہا تھا جان کے آریان کے گھر پے آنے سے پہلے اس نے ان کو تیار کر رکھا تھا کہ اس کے ایک ایک موو پر نظر رکھیں وہ پیسٹ ہو سکتا ہے یہ صرف عائشہ کا شک نہیں ہے عائشہ نے اسے قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اب جان سے ملنے کے بعد ان تینوں کو موقع مل گیا تھا اس کا مذاق اڑانے کا جسےوہ بھرپور انجوائے کر رہے تھے
یار بس کر دو ٹھیک ہے مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم لوگ اس طرح سے میرا مذاق اڑاو طہٰ نے برا منایا ۔
یار طہٰ اگر شک ہی کرنا تھا تو کسی ایسے آدمی پر شک کرتے جو کم ازکم بیسٹ کے ایک ناخن کے برابر تو ہوتا اس بیچارے کو تو خون سے بھی ڈر لگتا ہے جسے تم نے بیسٹ بنا دیا عمران نے کہا ۔
میرے خیال میں تم لوگوں کو میرا مذاق اڑانے سے بہتر کام ملے ہوئے ہیں جاؤ اور بیسٹ کو ڈھونڈو وہ ان لوگوں سے تنگ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
جب کہ وہ تینوں اس کے جاتے ہی ایک بار پھر سے قہقہ لگا اٹھے ۔
جان کے بارے میں ان لوگوں نے بہت غلط سمجھ لیا تھا وہ ایک بہت اچھا انسان تھا خون کو دیکھتے ہی وہ گھبرا جاتا تھا لیکن اس میں کوئی برائی نہیں تھی اور جاناں کے لئے اس کی محبت دیکھ کر بھی آریان کو خوشی ہوئی تھی جاناں جیسی پیاری لڑکی کیلئے ایک پیارا سا لڑکا جو یقینا سے بہت خوش رکھے گا
°°°°°°°°
اس کی آنکھ صبح ساڑھے نو بجے کے قریب کھلی وہ اس کے بالکل پاس گہری نیند سو رہا تھا اس نے مسکرا کر ایک نظر جان کو دیکھا پھر اس کے قریب سے اٹھنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی جان ے ا سے اپنے شکنجے میں پھسا لیا
روشنی ہوتی نہیں ہے کہ تم بھاگ نکلتی ہو جبکہ جانتی ہو جو رات کے اندھیرے میں تمہیں قید کر سکتا ہے اس کے لیے تمہیں دن کی روشنی میں قید کرنا بھی اتنا مشکل نہیں وہ اسے اپنی باہوں میں سمٹتا بیڈ پہ لٹاتے ہوئے خود اس کے اوپر آ کر اسے خود میں قید کر چکا تھا
اب کہاں بھاگوں گی جان اب تو دن بھی تمہارا اور رات بھی تمہاری اسےاپنی گردن پر جھکتے دیکھ کر وہ آنکھیں بند کر گئی ۔
مطلب کے تمہیں یہ قید منظور ہے اس کی بات نے شاید اسے خوشی دی تھی ۔
تمہاری محبت کے ساتھ سب منظور ہے ۔وہ محبت سے بولی اور اب اس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی ۔
لیکن باہرصوفے پر پڑےاپنے موبائل کی تھوڑی تھوڑی آواز آئی تو وہ چونکی ۔
جان لگتا ہے میرا فون بج رہا ہے وہ جان کو مکمل بہکتے دیکھ کر بولی ۔
ابھی سے نہیں نہ جانے کتنی دیر سے بج رہا ہے برا ہی کوئی ڈھیٹ ہے یہ انسان پتا ہے کہ تم مصروف ہو اپنے شوہر کو لبھانے میں لیکن پھر بھی فون پر فون کیے جارہا ہے وہ بہکے سے انداز میں بول کر اسے پھر سےقید کر چکا تھا ۔
جان اتنی دیر سے فون بج رہا ہے تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں اگر تم جاگ رہے تھے تو وہ اس کے باہوں کی قید توڑتے ہوئے کہنے لگی
تم تو زندگی بھر قید کی بات کر رہی تھی تو اب ایک فون کے بہانے سے اس قید سے رہائی چاہتی ہواس کا اندازہ اس سے اچھا نہیں لگا تھا تب بھی جتلاتے ہوئے بولا ۔اور جاناں بے بسی سے اٹھتے ہوئے واپس لیٹ گئی ۔اور آنکھیں بند کر گئی
جان کو اس کا انداز پسند آیا تھا وہ مسکراتے ہوئے اس کی شہ رگ پر اپنے لب رکھ چکا تھا ۔اور پھر یہ قید سخت سے سخت ہوتی چلی گئی اور اب جاناں کے پاس اسے برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا
°°°°°°°°
کل رات جب وہ پارٹی میں تھے تب امجد خان کا کسی نے بے دردی سے قتل کر دیا
انفارمیشن کے مطابق قتل دوپہر تین بجے سے رات نو بجے کے دوران ہوا تھا مطلب تب جب وہ لوگ پارٹی میں تھے
لاش کی حالت ہمیشہ والی ہی تھی ۔دیکھا جانا بھی کسی عام انسان کے بس سے باہر تھا ۔
اس کلب پر پولیس نے چھاپہ مارا تھا جہاں سے سمگلنگ کی گئی تقریباً 24 لڑکیاں روتی تڑپتی نکالی گئی ۔لڑکیوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ کسی کو بھی ان پر ترس آ جاتا جبکہ 26 کلو ڈرگس کے ساتھ بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا
امجد خان کا نام اس کلب کے انرز میں شامل تھا سب کو یہی لگا کہ بیسٹ نے ان لوگوں کا قتل ان لڑکیوں اسلحہٰ اور ڈرگس کی وجہ سے کیا ہے اتنا سب کچھ غلط کرنے کے باوجود بھی وہ قانون کی غلط لسٹ میں شامل نہیں تھا وہ سہی کام کو غلط طریقے سے کرنے کا عادی تھا لیکن جو بھی کر رہا تھا وہ غلط نہیں تھا
آج ان بے گناہ لڑکیوں کو ایسی حالت میں دیکھ کر اسے بیسٹ کے کام سے خوشی ہوئی تھی امجد جیسے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے لیکن کاش قانون کو اتنی طاقت بخشی جاتی کہ وہ ایسے لوگوں کا صفایا کر پاتے کیوں ہمارے معاشرے میں ایسے درندوں کے لیے درندہ ہی جاگتا ہے ۔آریان نے تلخی سے سوچا لیکن سوائے سوچنے کے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اپنی بندوق سے نکلی جانے والے ایک ایک گولی کا اسے حساب دینا پڑتا تھا لیکن بیسٹ اس حساب سے بھری تھا ۔
وہ چاہے کچھ بھی کرے کوئی نہیں تھا اسے پوچھنے والا ۔
آریان بھی بیسٹ کو لے کر اپنی سوچ بدل رہا تھا لیکن وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ایک غلط کام کر رہا ہے کسی کا قتل کرنا اور پھر یوں بے دردی سے اس کی لاش کو کاٹ کر ٹکرے ٹکرے کر دینا انسانیت تو ہرگز نہیں تھی وہ صحیح کام کر رہا تھا اس بات سے آریان بھی پرسکون تھا لیکن وہ غلط لوگوں کے ساتھ انتہائی غلط کر رہا تھا اور آریان اسی لئے پریشان تھا
بیسٹ کے ساتھ اس کی کوئی پرسنل دشمنی نہیں تھی وہ ان لوگوں کی بہت مدد کر چکا تھا لیکن پھر بھی شہر میں بڑھتے قتل بھی تو بیسٹ کی دہشت کو بڑھاتے چلے جارہے تھے
°°°°°°
جاناں شاور لینے جا چکی تھی جبکہ جان اٹھ کر باہر آ گیا لیکن سامنے ٹیبل پر اس کا فون بجتا دیکھ کر وہ فون اٹھانے کی نیت سے آیا تو سکرین پر بابا لکھا دیکھا اس کے چہرے پر ایک پرسرار سے مسکراہٹ آ رکی تھی
اس نے فوراً فون اٹھا لیا
السلام علیکم سسر صاحب کیسے ہیں آپ اس کی آواز میں عجیب سی کھلکھلاہٹ تھی جسے اکبر صاحب نے گہرائی سے محسوس کیا لیکن جاناں کے نمبر پر اس کی آواز سنتے ہی وہ سناٹوں میں آ گئے
جان تم میری جاناں کہاں ہے کہاں لے گئے ہو تم میری بیٹی کو وہ کسی گہری کھائی سے بول رہے تھے
اس جان سے دور کرنے کے لیے انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا تھا اپنی بیٹی کی پہچان بدل دی اسے خود سے دور کردیا برسوں اسے ہوسٹل اور الگ الگ ملکوں میں تک کھانے کے لئے چھوڑ دیا لیکن جس کے لئے وہ سب کچھ کیا وہ تو اسے حاصل کر گیا تھا
کون جاناں۔۔۔۔۔! آپ کی بیٹی کون۔ ۔۔۔۔۔۔! آپ نے تو کہا تھا کہ جاناں مر چکی ہے اور جاناں کے علاوہ میرا نہیں خیال کہ آپ کی کوئی اور بیٹی بھی تھی اس کا انداز مذاق اڑانے والا تھا وہ اپنے ہی لفظوں پر پچھتائے تھے
بکواس بند کرو میری بیٹی کہاں ہے کہاں لے گئے ہو تم اسے تم نے ٹھیک نہیں کیا جان تم ایسا نہیں کر سکتے میری بیٹی کو چھوڑ دو
جو بھی ہوا جیسا بھی ہوا وہ سب کچھ ماضی میں ہوا تھا ۔اب تمہارا اس پر کوئی حق نہیں ہے وہ غصے سے غرائے تھے
وہ میری بیوی تھی ماضی میں بھی اور اب بھی کچھ بھی نہیں بدلا اور ایک شوہر اپنی بیوی پر حق رکھتا ہے ان کے انداز پر جان کے پرسکون رویے میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا تھا
نہیں ہے وہ تمہاری بیوی سمجھے تم نہیں مانتا میں اس بچپن کے نکاح کواور نہ ہی میری بیٹی مانے گی وہ غصے سے بولے تھے ۔
آپ نہیں مانتے تو نہ مانے سسرجی اور اگر آپ کی بیٹی اس بچپن کے نکاح کو نہیں مانتی تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس نکاح کو تو وہ مانے گی جو ابھی ڈھائی ماہ آپ پہلے ہوا ہے اس کا مسکراتا انداز ذرا بھی نہیں بدلا تھا
ناممکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا میری بیٹی کبھی مجھے دھوکہ نہیں دیکھ سکتی ان کے لہجے میں یقین تھا
لیکن ایسا ہو چکا ہے اکبر صاحب آپ کی بیٹی نے نہ صرف مجھ سے نکاح کیا ہے بلکہ اپنے دل و جان سے مجھے اپنا شوہر تسلیم کرلیا ہے ۔اور اس وقت بھی وہ میرے ساتھ میرے گھر پر ہی ہے ۔
ویسے یہ بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے آخر دو دن ہو گئے ہیں آپ کو ترکی میں آئے ہوئے پرسکون انداز میں کہتے ہوئے انہیں یہ بھی بتا چکا تھا کہ وہ ان کے ایک ایک موو پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔
تمہیں کیسے پتہ کہ میں یہاں ہوں وہ کچھ گھبرائے تھے ۔
اب آپ بچوں جیسی باتیں کر رہے ہیں میں تو آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اور بہت جلد ہی سب کچھ آپ کی بیٹی بھی جان جائے گی ۔میں اسے بتاؤں گا ۔سب کچھ ماضی کی ایک ایک بات ۔۔جان نے کہا
نہیں جان تم ایسا نہیں کر سکتے اگر تم نے جاناں کو میرا ماضی بتایا تو تمہیں اسے اپنا ماضی بھی بتانا ہوگا تمہیں اسے بتانا ہوگا کہ تم نے اپنی ماں کو قتل کیا ہے وہ دھمکیوں پر اتر آئے لیکن جان کے پرسکون لہجے پر رتی برابر اثر نہ پڑا
میں فخر سے بتاؤں گا کہ میں نے اپنی ماں کو کیوں مارا اور میری بیوی بھی مجھ پر فخر کرے گی لیکن آپ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرے گی بلکہ اسے تو آپ کو باپ کہتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوگی تو کیا کہتے ہیں بتاؤں اسے سب کچھ ۔۔۔۔۔!
ان کی دھمکی پر جتنا جان پر سکون تھا جان کی دھمکی پر وہ اندر تک ہل اٹھے تھے ۔
ارے آپ کو تو چپ ہی لگ گئی سسر صاحب ۔بہتر ہے کہ یہ چپ لگی رہے کیونکہ اگر میں نے اپنی چپ تھوڑی نا تو آپ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔اس لیے بہتر ہو گا کہ آپ خاموش رہے اور خاموشی سے میری لسٹ میں اپنی باری کا انتظار کرتے رہے جان نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور موبائل پر آنے والے اس کے باپ کی ساری کال ڈیلیٹ کر دی ۔
موبائل صوفے پر پھینکتے ہوئے وہ کچن میں چلا گیا جہاں اپنی جاناں کے لئے وہ کچھ اسپیشل بنانے کا ارادہ رکھتا تھا
عائشہ میری جان یہ کیا تم سارا دن گھر پر بیٹھے رہتی ہو
باہر نکلا کرو دوستوں سے ملا کرو
تم تو میرے ساتھ بندھ کر رہ گئی ہو اس کی امی اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھارہی تھی
ماما میرے دل نہیں کرتا کہیں جانے کو جاناں اور اریشفہ کی شادی ہو چکی ہے اب روزان کے پاس جانا بھی عجیب لگتا ہے
۔ہوسٹل میں جتنی بھی لڑکیوں کو جانتی تھی سب اپنے اپنے گھر لے جا چکی ہیں اور ترکی میں تو میری دوست ہے نہیں جانااں ور اریشفہ کے علاوہ ۔۔
ارے تمہارا ایک دوست ہے تو سہی جو اس دن گھر آیا تھا تمہیں کافی پر لے گیا تھا کیا نام تھا اس کا ہاں طہٰ اسے کیوں نہیں بلا لیتی ماما کا اس کا اس طرح کی آدم بیزاری ہرگز پسند نہیں آئی تھی
ماما وہ بزی ہوتا ہے کام کرتا ہے بیچارہ اس کے پاس اتنا ٹائم کہاں کہ وہ مجھے لے کر کہیں باہر جائے اور پھر اپنا بھی دل نہیں کرتا کہیں باہر جانے کو وہ بے زاری سے بولی
کیسےدل نہیں کرتا عائشہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے کل سے وہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں صبح سے باتھ تک نہیں لیا تم نے سارا سارا دن گھر پہ رہتی ہو مجھے تمہاری حالت بالکل پسند نہیں ہے
جاؤ جلدی سے شاور لے کر آؤ ہم دونوں باہر چلتے ہیں دونوں ماں بیٹی انجوائے کریں گے ۔
نہیں ماما ڈاکٹر نے آپ کو فی الحال ٹریفک وغیرہ میں جانے سے منع کیا ہے اور آپ کو تو پتہ ہے کہ یہاں کتنی ٹریفک ہے آپ فی الحال یہی پر رہے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور میں بھی بالکل ٹھیک ہوں وہ انہیں سمجھانے لگی
اگر ٹھیک ہو نا اسے کہتے ہیں تو ٹھیک رہنے سے بہتر ہے کہ بندہ زندگی کو انجوائے کرے عائشہ مجھے تمہاری بیزار صورت ہرگز پسند نہیں ہے بیٹا
تمہارے لیے ہی تو جی رہی ہوں میں اور تم بھی اس طرح سے رہو گی تم میری زندگی کا بھلا کیا فائدہ اور وہ اسے ایموشنل بلیک میل کرنے لگی
آوو ہو ماما کیا ہوگیا ہے آپ کو اچھا ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں کہیں گھوم پھر کے آتی ہوں
ہو سکتا ہے کوئی جاننے والا مل جائے
اور اگر نہیں بھی ملا تو بھی پارک سے گھوم کر کچھ دیر انجوائے کر کے واپس آؤں گی
عائشہ شروع سے ایسی طبیعت کی مالک تھی اسے اکیلے گھر پر بیٹھنا ٹی وی دیکھنا موبائل یوز کرنا یہ سب کچھ ایٹریکٹ نہیں کرتا تھا وہ آزاد ماحول میں اڑنے والا پرندہ تھی اسے قید ہرگز پسند نہیں تھی
اور اس کا یوں اکیلے گھر پر بیزار رہنا اس کی ماما کو ہرگز پسند نہیں تھا انہیں تو اپنی بیٹی ہنستی کھیلتی اچھی لگتی تھی تبھی تو اس کے اس طرح سے مان جانے پر خوشی سے کھل اٹھی تھی
°°°°°°°°°°°°
ماما کی بات مان کر وہ فریش کر باہر تو آ گئی تھی لیکن اب کہاں جائے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
دوستوں کے ساتھ زندگی کتنی خوبصورتی سے گزر رہی تھی اور اب کالج ئف ختم ہوتے ہی سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے
کاش وہ دن واپس لاپاتی اس نے بے اختیار سوچا
ابھی کچھ عرصہ پہلے کتنی خوشی سے وہ اپنے سہیلیوں کے ساتھ زندگی انجوائے کر رہی تھی اور اب سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے
ٹھیک کہتے ہیں لوگ بس سکول کالج لائف ہی ہوتی ہی زندگی کو کھل کر جینے کے لئے اس کے بعد ذمہ داریوں پہاڑ سر پر ایسے آکر ٹکتا ہے کہ اترتا ہی نہیں
وہ اپنی ہی سوچوں پر مسکراتے ہوئے جانے کہاں نکل آئی تھی جب اسے سامنے ہی طہٰ نظر آیا
اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا
دل بے ترتیب دھڑکنے لگا تھا
آج ایک ہفتے بعد وہ سے نظر آیا نہ جانے کیوں آج کی اس کی نظر باقی ہر نظر سے الگ تھی
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس نظر سے وہ اسے پہلی بار دیکھ رہی ہے
پتہ نہیں کیوں اوہ سے اتنا اچھا لگنے لگا تھا کہ اس کی نظریں اسے ڈھونڈنے لگتی تھی
وہ تیزی سے چلتی اس کے پاس آ روکی اور اس وقت وہ یہ بھی بھول چکی تھی کہ ایک ہفتہ پہلے وہ سے مکمل نظرانداز کر گیا تھا
ہیلو طہٰ کیسے ہو تم تم تو شاید مجھے بھول ہی گئے اس دن آریان بھائی کے گھر پر تم نے مجھے بات نہیں کروائی بہت برا لگا مجھے نہ جانے کیوں وہ اس پر حق جتا رہی تھی لیکن سامنے کھڑا شخص تو عجیب ہی موڈ میں تھا
عائشہ ہاں میں ٹھیک ہوں
تم جاؤ یہاں سے میں یہاں اپنے کسی ضروری کام کے لئے آیا ہوں وہ آگے پیچھے دیکھتا اس سے کہنے لگا
ارے ایسےکیسے جاؤں یہاں سے اور تمہیں کیا ضروری کام ہے بھلا اور کس کو دیکھ رہے ہو تم میں تم سے بات کر رہی ہو تم آگے پیچھے دیکھ رہے ہو عائشہ کو اس کا یہ انداز ہرگز پسند نہیں آیا تھا
عائشہ میں کہہ رہا ہوں نا کہ میں یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوں تم جاؤ یہاں سے تم ایک بار میری بات سمجھ نہیں آرہی وہ بدتمیزی پر اتر آیا
طہٰ تم مجھ سے اس طرح سے بات کیوں کر رہے ہو تم مجھے اگنور کر رہے ہو کیا کوئی بات ہوئی ہے کیا میری کوئی بات تمہیں بری لگی ہے عائشہ کا دل بیٹھنے لگا
کچھ نہیں ہوا عائشہ جاؤ یہاں سے میں یہاں کسی ضروری کام کے سلسلے میں آیا ہوں
وہ اسے سمجھانے لگا
ایسا کون سا ضروری کام ہے جس کے لیے تمہیں اپنے دوستوں کو اگنور کرنا پڑے وہ تپ کر بولی
بول تو رہا ہوں کہ کام ہے یار تم تو پیچھے پر گئی ہو میری جان چھوڑو بول رہا ہوں نہ بہت ضروری کام ہے سمجھ نہیں آرہی تمہیں وہ بد لحاظی سے بولا عائشہ کو اس کا یہ انداز بہت برا لگا تھا
ہاؤ ڈئیر یو ٹاک میں لائک دس طہٰ بخاری ۔عائشہ غصے سے کہنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی طہ کا بھاری ہاتھ اس کے نازک گال پر آ لگا تھا عائشہ ششتر سی دیکھنے لگی
وہ اس سے ہر طرح کی امید کر سکتی تھی لیکن وہ اس پہ ہاتھ اٹھائے گا یہ تو اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔
کب سے بکواس کر رہا ہو جاؤ یہاں سے ایک بار میری بات سمجھ میں نہیں آتی تمہیں گلے پڑ گئی ہو میرے آخر چاہتی کیا ہو مجھ سے وہ انتہائی غصے سے اس کے منہ پر دہارا تھا
جبکہ عائشہ ابھی تک بے یقینی سے اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھیےاس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہی تھی
مطلب کہ اتنی گھٹیا حرکت کرنے کے بعد وہ شرمندہ تک نہیں تھا
اور پھر اسے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر پیچھے کی طرف دھکا دیا یہ اس کے لیے دوسرا جھٹکا تھا
گیٹ آؤٹ فرام ھیئر آج کے بعد مجھ سے بات کرنے کی یا میرے آس پاس نظر آنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ اگلا تھپر اس سے زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔ وہ انتہائی غصے سے کہتا پیچھے کی طرف مڑا اور پھر تیزی سے قدم اٹھاتا وہاں سے نکل گیا
آگے کچھ فاصلے پر ایک بولڈ سی لڑکی اس کے سینے سے لگی تھی اب وہ اپنے لبوں سے اس کے گال کو چھو رہی تھی دور کھڑی عائشہ منظر حیرت اور بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔
ابھی تو اس کے دل کی دنیا بسی نہیں تھی کہ اس نے کسی اور کو بسا لیا ۔
انہیں سب چیزوں سے وہ بچنا چاہتی تھی کہیں طہ اسے نظر نہ آجائے کہیں بے اختیار ہو کر اس کے پاس نہ چلی جائے انہیں سب چیزوں نے تو اسے بے چین کر رکھا تھا پچھلے ایک ہفتے سے اس نے اپنے آپ کو اپنے گھر میں بند کر لیا تھا
اور آج نکلی تو حقیقت کے کوڑے ایسے لگے کے چلنے کی ہمت بھی نہ بچی ۔آج طہٰ پر سے وہ اعتبار اٹھا تھا جو کبھی تھا ہی نہیں۔
کننی آسانی سے وہ اس کے دل کی دنیا اجاڑ گیا تھا
وہ دنیا جو ابھی بسی تک نہیں تھیی
وہ خواب جو ابھی آنکھوں میں آئے تک نہیں تھے ۔ابھی تو اس نے اپنے سپنوں کی دنیا کو سجانا تھا ابھی تو اسےاپنے خوابوں کا شہزادہ اس پتھر دل کو بنانا تھا ۔لیکن اس سے پہلے ہی اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے خوابوں کو چکنا چور کر گیا
انسان ہر دکھ سے باہر نکل سکتا ہے لیکن پہلی محبت کا دکھ جیتے جی مار دیتا ہے
اندر ہی اندر انسان کو ختم کر دیتا ہے
یہ ایسا احساس ہوتا ہےکہ اس کے بعد کوئی احساس باقی نہیں بچتا
پہلی محبت کبھی دل سے نہیں جاتی ۔وہ تو ابھی تک اس پہلی محبت کو تسلیم تک نہیں کر پائی تھی اس شہزادے کو اپنے خوابوں کے تخت پر بھی نہ بٹھا پائی تھی ۔کہ وہ اس کے دل کی سلطنت اجاڑ کر چلا گیا
°°°°°
اسے جان کے ساتھ رہتے ایک مہینہ ہو چکا تھا اور حیرت انگیز طور پر ابھی تک بابا کی کال نہیں آئی تھی اس میں خود تو اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ بابا کو فون کرکے انہیں ساری حقیقت بتاتی لیکن بابا کا بھی اسے یاد نہ کرنا اسے فون نہ کرنا اسے دکھ میں گرفتار کر رہا تھا
وہ بے شک اسے مہینوں مہینوں یاد نہیں کرتے تھے لیکن وہ تو اس کے باپ تھے اس کے لیے بے حد اہم تھے وہ دن رات ان کے فون کا انتظار کرتی تھی
ہاں اب اندر ڈر بھی تھا کہ اگر بابا کو حقیقت پتا چل گئی تو وہ لس طرح سے ری ایکٹ کریں گے اس نے سوچا تھا کہ وہ خود ہی بابا کو فون کرکے ان سے بات کر لے گی لیکن اپنے آپ میں اتنی ہمت تو نہیں پا رہی تھی
جان نے اسے فون ہاتھ میں پکڑے کسی گہری سوچ میں پایا تو اس کے پاس صوفے پر ہی بیٹھ گیا
کیا ہوا میری پیاری سی بیوی اتنی اداس کیوں ہے وہ محبت سے پوچھنے لگا
جان میں بابا سے بات کرنا چاہتی ہوں بہت دنوں سے ان کا فون نہیں آیا اور مجھے پریشانی ہو رہی ہے ایک ڈیڑھ ہفتے یا پندرہ دن کے بعد وہ مجھے ضرور فون کرتے تھے
ویسے تو بہت وقت ہوگیا میری اینی آنٹی سے کوئی بات نہیں ہوئی کہ وہ مجھ سے ناراض ہو کر بابا کو میری جھوٹی شکایت کر دیں
اگر ایسا ہو تو بابا مجھ سے کافی مہینوں بات نہیں کرتے لیکن اب تو سب کچھ ٹھیک ہے آنٹی نے مجھے فون کیا تو میں نے ان سے بہت اچھے سے بات کی تھی
تاکہ بابا مجھ سے ناراض نہ ہوں پھر نہ جانے کیا بات ہوگئی کہ بابا مجھے فون نہیں کر رہے وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔
ہو سکتا ہے انہیں ہماری شادی کے بارے میں پتا چل گیا اور وہ تم سے ناراض ہوگئے ہوں جان نے اسے نظروں کے حصار میں لیے گہرے لہجے میں کہا اس کے چہرے کی رنگت پل میں ذر پڑ گئی تھی
اللہ نہ کرے بابا کو کچھ بھی پتہ چلے اگر انہیں پتہ چل گیا تو پتا نہیں کس طرح سے ریکیٹ کریں گے لیکن جان یہ بات تو ہمارے علاوہ کوئی نہیں جانتا انہیں کس نے بتایا ہوگا وہ بہت زیادہ ڈر گئی تھی
جاناں میں صرف ایک بات کر رہا ہوں کہ اگر انہیں پتہ چل گیا ہو تو ہو سکتا ہے وہ تم سے ناراض ہوں یہ تو نہیں کہا کہ کسی نے انہیں بتا دیا
تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو اتنا مت ڈرو میری جان تمہیں اس سچویشن کو جلد ہی فیس کرنا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہیں اپنے بابا اور مجھ میں سے کسی ایک کو چننا پڑے وہ اسے مستقبل قریب میں آنے والے حالات سے آگاہ کر رہا تھا
پلیز جان ایسے مت کہو مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے اللہ نہ کرے کہ مجھے تم دونوں میں سے کسی ایک کو چننا پر ہے تم دونوں میرے لیے بہت اہم ہو میں تم دونوں سے بہت پیار کرتی ہوں وہ دل کی گہرائیوں سے کہہ رہی تھی
میں نہیں جانتا کہ کل کو کیا ہو جائے کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے .....ہو سکتا ہے وہ لوگ مجھ پر کسی قسم کا جھوٹا الزام لگا کر تمہیں مجھ سے دور کرنے کی کوشش کریں مجھے دھوکے باز قرار دے کر تمہیں مجھ سے الگ کر دیں وہ بہت بڑے لوگ ہیں جاناں کچھ بھی کر سکتے ہیں پتہ نہیں تب تم مجھ پر بھروسہ بھی کرو گی یا نہیں شاید وہ اسے آزما رہا تھا
تم پر بھروسہ ہے جان مجھے یقین ہے تم مجھے کبھی دھوکا نہیں دو گے کبھی میرا اعتبار نہیں توڑو گے نہیں تو رو گے نہ ۔۔۔!وہ اس کے سینے سے لگی آہستہ آواز میں بول رہی تھی ۔
تمہیں اپنے انتخاب پر فخر ہوگا جاناں تم میری بیوی کہلاتے ہوئے فخر محسوس کروگی وہ اسے اپنے ساتھ لگائے گہرے لہجے میں بولا۔
لیکن تمہارا انداز مجھے اب بھی اس بات پر پوری طرح یقین کرنے نہیں دے رہا کہ تم میرا ساتھ دو گی تمہیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ میں تمہیں کبھی دھوکا نہیں دوں گا اس کے سوالیہ انداز پر وہ پھر سے کہنے لگا
جان میں تمہارے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں جانتی وہ اپنے دل کا ڈر اس کے سامنے بیان کرنے لگی
جاناں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میں کوئی غیر نہیں ہوں تمہاری سگی پھوپو کا بیٹا ہوں اور ہمارا نکاح بہت پہلے ہی ہوچکا ہے یہ کوئی ایسا راز نہیں جسے میں تم سے چھپا کر رکھوں وہ کہنے لگا تو جاناں حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی یہ کونسا راز تھا جو آج اس پر فاش ہوا تھا ۔
ہاں جاناں یہ سچ ہے میں کوئی غیر نہیں ہوں بلکہ تمہاری سگی پھوپو کا بیٹا ہوں تمہارے بابا کو یہ رشتہ تب قبول نہیں تھا جب میری ماں کا انتقال ہوگیا ہمارا نکاح آج سے پندرہ سال پہلے ہوا تھا لیکن میری ماں کے انتقال کے بعد تمھارے بابا یہ رشتہ ختم کر دینا چاہتے تھے
انہوں نے تمہیں مجھ سے الگ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جب یہاں تک کہ وہ بچپن میں ہی طلاق چاہتے تھے
لیکن تب کم عمری اور نہ سمجھی کی وجہ سے عدالت نے طلاق کا فیصلہ بالغ ہونے کے بعد پر چھوڑ دیا تو تمھارے بابا نے تمہیں مجھ سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی تمہیں پتا نہیں کہاں سے کہاں لے گئے میں تمہیں ہر جگہ ڈھونڈتے ہوئے یہاں پہنچ آیا
میری محبت اور لگن سچی تھی جاناں تبھی تو آج تو میرے پاس ہو میرے ساتھ ہو لیکن مجھے ڈر ہے یہ نہ ہو کہ یہ ساتھ ختم ہو جائے
میں جانتا ہوں یہ راز تمھارے بابا نے تم سے چھپایا ہے
جاناں میں نے ہمیشہ سے تمہیں چاہا ہے میرے دل کی دنیا کی صرف تم ہی ایک ملکہ ہو آگے جو فیصلہ تم کرو وہ مجھے منظور ہوگا لیکن مجھے چھوڑ کر جانے کی بات مت کرنا اب مجھ میں اور تم میں کوئی راز باقی نہیں تم میرے بارےمیں سب کچھ جان چکی ہو وہ آہستہ سے اس کے قریب سے اٹھ کر باہر نکل گیا جب کہ جاناں ابھی تک حیرت اور بے یقینی کی کیفیت میں بیٹھی بند دروازے کو دیکھ رہی تھی
تمہاری ہمت کیسے ہوئی طہٰ تم اس پر ہاتھ کیسے اٹھا سکتے ہو اور آریان کو بھی اس کی حرکت نے بہت غصہ دلایا تھا
وہ خود بھی شرمندہ تھا بے اختیار اپنے عمل پر لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا اب تو وقت گزر گیا تھا
اسے شک تھا کہ وہ لوگ پہلے ہی اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ لڑکی زونی وہ بھی اس پر کچھ خاص اعتبار نہیں کرتی تھی اور ان لوگوں کو بھی اس پے شک تھا کہ کلب کی خبریں پولیس تک پہنچانے والا ہی ہے اور ایسے میں زونی ہر وقت اس کے گلے کا ہار بنی اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی وہ اپنے کسی بھی اہم بندے کو اپنے پاس نہیں رہنے دے سکتا تھا
اور عائشہ اس کے بہت قریبی لوگوں میں سے ایک تھی اس کا تھا ہی کون اس دنیا میں کچھ دوستوں کے علاوہ اور عائشہ تو اس کے لیے بہت اہم ہوتی جا رہی تھی وہ اس کی جان پر بلکل رسک نہیں لے سکتا تھا
لیکن کل عائشہ کا اچانک وہاں آ جانا اور اس کے ساتھ باتیں کرنے لگنا اسے بری طرح سے پھسا سکتا تھا اگر عائشہ ان لوگوں کی نظر میں آجاتی تو یقیناً وہ اسے نقصان پہنچا سکتے تھے
اور وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا اسی لیے کل اس نے بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھ اٹھایا تاکہ وہ وہاں سے چلی جائے اور کسی کی نظروں میں نہ آئے لیکن اس کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھ کر وہ خود بھی ٹھٹک گیا
کل اس نے عآئشہ کی نظروں میں کچھ ایسا دیکھا تھا جسے وہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا
۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ عائشہ اپنے دل میں اس کے لئے جذبات رکھتی ہے
لیکن وہ کوئی نادان بچہ نہیں تھا جو ایک لڑکی کے جذبات کو سمجھ نہ سکے
۔وہ کل ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ اس کے لئے کیا سوچتی ہے لیکن وہ عائشہ کے لیے تو کیا کسی بھی لڑکی کے لئے ایسے جذبات نہیں رکھتا تھا
اس کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد تھا اپنے وطن کے لیے سب کچھ قربان کر دینا لیکن پھر بھی کل سے وہ بہت بے چین تھا اور اپنی اسی بے چینی کو کم کرنے کے لیے وہ آریان کے پاس آیا
اور اسے سب کچھ بتا دیا لیکن یہاں آریان کا ری ایکشن اتنا خراب تھا کہ وہ کچھ بول ہی نہیں پایا وہ تو اسے شرم دلوا رہا تھا
۔یار میں کہہ تو رہا ہوں کہ میں مجبور تھا میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اسے وہاں سے بھیجنے کے لیے میں نے مجبور ہو کر اس نے ہاتھ اٹھایا ہے آریان وہ اسے سمجھانے لگا
۔بس کرو طہٰ تم بے شک مجبور تھے لیکن تمہیں اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا اور نہ ہی تم اس پر اس طرح کا کوئی حق رکھتے ہو
تم اسے سمجھا بجھا کر وہاں سے بھیج دیتے لیکن ہاتھ اٹھانے جیسے گھٹیا حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں اس سے معافی مانگنی چاہیے
تم نے ایک بہت گھٹیا حرکت کی ہے ۔اس کی کوئی معافی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی تمہیں عائشہ کو سوری کہنا ہوگا اسے بنانا ہوگا یار طہٰ وہ تمہارے لئے خاص جذبات رکھتی ہے تم اس طرح سے اس کے جذبات کی توہین نہیں کر سکتے
۔وہ بات جو ابھی تک طہٰ نے اس کے سامنے کہیں بھی نہیں تھی وہ اسے سمجھ بھی چکا تھا آریان بھی جان چکا وہ اس کے لئے جذبات رکھتی ہے یہ بات اہم بھی سمجھ چکا تھا۔
طہٰ زبان سے اس کے سامنے کچھ نہ کہے لیکن آریان اس کے دل کے سارے راز جانتا تھا اور اب تو وہ عائشہ کے اندر کے جذبات بھی سمجھ چکا تھا
کہیں آریان اس کا بھی راز بھی نہ جان جائے اس کے دل کا چور سر اٹھا رہا تھا لیکن آریان کے پاس زیادہ رکنے کا مطلب تھا کہ اپنا دل و دماغ کھول کر اس کے سامنے رکھ دینا وہ آریان سے کبھی کچھ بھی چھپا نہیں پاتا تھا اسی لیے وہاں سے جانا ہی بہتر سمجھا
°°°°°°°°
جان واپس گھر آیا تو جاناں کو اسی حالت میں صوفے پر بیٹھے پایا وہ اسے تھوڑی دیر وقت دینا چاہتا تھا اس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے
جاناں کیا کھاؤ گی تم کچھ آرڈر کروں یا یہی میں اپنے ہاتھوں سے بناؤں اپنی پیاری سی بیوی کے لئے کچھ وہ اسے کسی سوچ میں ڈوبے دیکھ اس کے پاس ہی بیٹھ کے کہنے لگا
جاناں اب اسے دیکھے جا رہی تھی اس کا کوئی جواب نا دینا جان کو غصہ دلانے لگا تھا
تو کیا وہ اس پر اتنا اعتبار بھی نہیں کرتی تھی یا پھر اتنا قریبی رشتہ جانے کے بعد اس کی محبت ختم ہو گئی
جاناں کیا مسئلہ ہے بتاؤ مجھے اب تو میرے بارے میں سب کو جانتی ہو پھر اس طرح اداسی سے بیٹھنے کا کیا مطلب ہے
جب تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی تب مجھے جاننے کے لئے تم کتنی بے چین تھی اور اب جب تمہارے سامنے پورا کھل کر آگیا ہوں میں تو تم اس طرح سے اداس ہو رہی ہو
جاناں کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی میرے بارے میں جان کر کیا یہ جان کر تمہیں خوشی نہیں ہوئی کہ ہم بچپن سے اس پاکیزہ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کیا تمہارے لئے یہ بات خوشی کی نہیں ہے وہ اس کے سامنے بیٹھا اس سے پوچھنے لگا جاناں کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو سے آگئے اور وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی ایک ہی پل میں وہ جان کو بے حد بے چین کر گئی تھی
ماہی میری جان کیا ہوا تم یوں کیوں رہی ہو کیا ہوگیا ہے جاناں اس طرح سے کیوں رو رہی ہو تم مجھے بے چین کر رہی ہو اس کی اس طرح سے رونے پر جان سچ میں بہت پریشان ہو چکا تھا جاناں میں کہہ رہا ہوں رونا بند کرو تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آرہی کیوں رو رہی ہو اس طرح اب تو سب کچھ ٹھیک ہے
اس کے حاموش نہ ہونے پر جان نے ذرا غصہ دکھایا ۔نہ تو اس کی آنکھوں کی نمی ختم ہورہی تھی اور نہ ہی وہ رونا بند کر رہی تھی ۔وہ پریشان تھا آخر جاناں ہوا کیا ہے اس طرح سے کیوں رو رہی ہو کیا تم میرے ساتھ اس رشتے کو قبول نہیں کر پا رہی یا تم بچپن کے اس نکاح کو قبول نہیں کرتی اب وہ غصے سے پوچھنے لگا
جان مجھے بابا نے کیوں نہیں بتایا اس نکاح کے بارے میں انہوں نے مجھ سے اتنا برا راز کیوں چھپایا فرض کرو کہ اگر تم وہ امسان نہیں ہوتے جس سے میرا نکاح ہوا تھا تو ہمارا یہ رشتہ حرام ہوتا
کیونکہ میں تو بچپن کے اس نکاح کے بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں تھی ۔میں تو ہر چیز سے انجان تھی کچھ نہیں پتا تھا مجھے جان اگروہ شخص تم نہ ہوتے تم مجھ سے کتنا بڑا گناہ ہو جاتا
اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرتا جان میں کتنی بڑی گناہگار ہوتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی جب جان نے اسے تھام کر اپنے ساتھ لگا لیا ۔اس کا وجود بری طرح سے لرز رہا تھا رونے سے اس کی ہچکیاں سے بندھنے لگی جان نے اسے دل کا غبار نکالنے دیا
آنجان تو تم تھی جاناں میں تو نہیں تو میں تم سے ایسا گناہ کیسے ہونے دیتا ۔میں نے تمہیں کہا تھا نہ میں تمہاری زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہوں
میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا تھا جاناں ہمیشہ سے میں کبھی بھی تم سے انجان نہیں رہا ۔مجھے پتہ تھا کہ تم ہمارے نکاح کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تمہارے بابا نے تمہیں کچھ نہیں بتایا تو یہ ان کی غلطی ہے تمہاری نہیں
۔اور نکاح اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے جاناں وہ کیسے تمہیں مجھ سے دور جانے دیتا ۔ہمارا رشتہ ہمیشہ سے پاکیزہ تھا پہلے یہ نکاح ہمارے والدین کی رضامندی سے ہوا تھا ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا
مجھے نہیں پتا تھا کہ تم بچپن کے اس نکاح کو قبول کرو گی یا نہیں اسی لئے میں نے تم سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور اب جب تم یہ نکاح قبول کر چکی ہودل و جان سے مجھے اپنا شوہر مان چکی ہو تو مجھے لگا تمہیں ساری حقیقت بتا دینی چاہیے ۔
بس یہی سوچ کر میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا ۔تمہارے باپ نے تمہیں کچھ نہیں بتایا انہوں نے غلط کیا لیکن اب ہمارے رشتے میں کوئی راز نہیں ہے اسی لئے اب تمہارے چہرے کی یہ اداسی میں نہیں دیکھوں گا ۔
تم سکون ہو میرا جاناں تمہاری اداسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی وہ اسے اپنے ساتھ لگائے نرمی سے سمجھا رہا تھا ۔جبکہ جان اس کے سینے سے لگی ابھی بھی روئے جارہی تھی
°°°°°°°°°°°°
اس نے گھر میں قدم رکھا تو عرشی سامنے کہیں نہیں تھی وہ کچن میں آیا لیکن وہاں پر بھی اریشفہ کہیں نظر نہ آئی
عرشی یار کہاں ہو تم وہ کہتے ہوئے بیڈ روم کی جانب آیا تھا
لیکن یہاں عرشی کو سوتے پا کر وہ پریشان ہوا وہ کبھی سرشام میں یوں نہیں سوتی تھی۔
وہ پریشانی سے اس کے قریب آ گیا اس کے ماتھے کو جھک کر چیک کرنا چاہیں کہیں اسے بخار تو نہیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا اس نے اریشفہ کا ہاتھ تھام کر اسے جگانا چاہا
اپنے بازو پر کسی کا لمس محسوس کر کے اس کی آنکھ کھل گئی اسے اپنے بالکل قریب آریان کو دیکھ کر وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھی نظر گھڑی کی طرف اٹھی تو وہاں شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے وہ پریشان ہوگئی اور آریان گہری نظروں سے اسے نوٹ کر رہا تھا
کیا ہوا آج تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے وہ پریشان ہوا تھا اریشفہ نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا ۔
اس نے کھانا تک نہیں بنایا تھا اور یقینا آریان کو اب بھوک لگ رہی ہو گی
اس کی پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی وہ اتنی زیادہ کیسے سو گئی اب آریان کے سامنے اسے شرمندگی ہورہی تھی آج صبح ہی تو وہ فرمائش کر کے گیا تھا کہ جب تک واپس آئے اس کے لئے بریانی تیار ملنی چاہیے
۔اور ابھی تک اس میں کچھ نہیں بنایا تھا آریان تسلی کر کے فریش ہونے چلا گیا واپس آیا تو کمرے میں اریشفہ نہیں تھی روم سے نکل کر کچن کی طرف آیا تو وہ جلدی جلدی کچھ بنانے کی کوشش میں لگی تھی ۔
آریان نے مسکراتے ہوئے پیچھے سے تھام کر اپنے ساتھ لگایا ۔اریشفہ میری جان اگر تم نے کھانا نہیں بنایا تھا اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں کہ تم اتنا گھبرؤ ۔ہر انسان کو نیند آتی ہے اگر تم سو گئی تو اس نے ایسی کوئی بڑی بات نہیں جو غلطی سمجھ کر میں ہمیں سزا دوں گا آئی نو یہاں پر بھی کچھ نہ کچھ میری غلطی ہے میں نے تمہیں ساری رات سونے نہیں دیا وہ پیچھے سے اس کے گال چومتا اتنی محبت سے بولا کہ اریشفہ کے گال لال ہوگئے ۔کیا تھا یہ شخص اس شخص کی قربت بھی اس سے پہلے دن کی طرح شرمآنے پر مجبور کر دیتی تھی
چلو اب چھوڑو یہ سب کچھ کہیں باہر چلتے ہیں اچھا سا ڈنر کرتے ہیں اور اس کے بعد لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں
جاو جلدی سے تیار ہو کے آؤ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے زبردستی بیڈروم کی طرف بھیج چکا تھا
اریشفہ کچھ دیر میں تیار ہو کر واپس باہر آئی تھی آریان گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا
اسی آتے دیکھ کر فوراً گاڑی کا دروازہ کھولا
۔وہ گاڑی میں آکر بیٹھی تو آریان نے گڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے جلد ہے روڈ پر ڈالی اوراب آہستہ سے باتیں کرنے لگا یہ جانے بغیر کہ کوئی اور ہے جو آہستہ آہستہ اس کے پیچھے آ رہا ہے کوئی ہے جو ان کے ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔
°°°°°°°°
سر انسپیکٹر آریان کے بارے میں ساری معلومات لے چکا ہوں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے اس کی بیوی گھونگی ہے اور اب گھر آتے ہی وہ اسے اپنے ساتھ ڈنر کرنے باہر لے کر آیا ہے سر انسپیکٹر اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہے
یہ لڑکی ہمیں بہت فائدہ دے سکتی ہے اس لڑکی سے فائدہ اٹھا کر ہم آریان کو وہ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں جو وہ ایسے کبھی نہیں کرے گا
ٹھیک ہے نظر رکھو اس پر کب کہاں جاتا ہے اس کی بیوی کس وقت گھر پر اکیلی ہوتی ہے ۔وہ اپنے مطلب کی بات سمجھانے لگا
ٹھیک ہے سر میں نظر رکھے ہوئے ہوں جیسے ہی اپنی بیوی کو اکیلے چھوڑ آئے گا میں آپ کو انفارم کر دوں گا اس وقت وہ دونوں میرے سامنے بیٹھے ہیں
سر ہم آریان کی بیوی کو ڈرا دھمکا کر آریان کو وہ کرنے پر مجبور کر دیں گے تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا اور جو اسلحہ اورڈرگز اس نے قانون کی پروٹیکشن میں دیے ہیں وہ ہم اس کی بیوی کے ذریعے آسانی سے واپس حاصل کر لیں گے
وہ لوگ پوری طرح پلاننگ کیے ہوئے تھے ۔لیکن جانتے نہیں تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے
°°°°°°°°°°°
وہ جان کے آنے سے پہلے اس کی پسند کا ڈنر بنا رہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا فون پر بابا کی کال آتے دیکھ کر ایک دم وہ پریشان ہو گئی اس نے سوچا بھی نہیں تھا کے بابا اسے فون کریں گے سب حقیقت جاننے کے بعدتو اس کا دل ہی نہیں کرتا تھا ان سے بات کرنے کا اتنی بڑی حقیقت چھپانے کے بعد وہ کس طرح سے ریلیکس تھے
صرف جان کو اس سے دور کرنے کے لیے انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ۔اسے خود سے دور کر دیا اس کی پہچان بدل دی اس کا دل بہت بے زار ہونے لگا تھا لیکن فون تو اٹھا نا ہی تھا
ہیلو جاناں میری بچی کیسی ہو بابا نے بے چینی سے پوچھا
میں ٹھیک ہوں بابا آپ کیسے ہیں اس کے انداز میں کوئی جوش نہیں تھا
میں تم سے ملنا چاہتا ہوں جاناں کہاں ہو تم ۔۔۔۔۔!اس کے انداز میں کسی بھی قسم کی گرم جوشی محسوس نہ کرتے ہوئے انہوں نے مطلب پرانا بہتر سمجھا
میں اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر پہ ہوں بابا الحمدللہ بہت خوش ہوں اللہ کا بہت کرم ہے کہ اس نے کوئی بھی گناہ ہونے سے بچا لیا آپ نے مجھ سے سچ چھپا کر اچھا نہیں کیا بابا وہ شکوہ کرنے لگی
جاناں تم کچھ نہیں جانتی ایک بار مجھ سے ملو بیٹا میں تمہیں بتاؤں گا سب سچ بتاؤں گا کہ میں نے تم سے وہ سب کچھ کیوں چھپایا حقیقت جاننے کے بعد یقین مانو تمہیں اپنا باپ غلط نہیں لگے گا وہ یقین سے کہہ رہے تھے جب کہ جاناں یہ سوچ رہی تھی کہ اب کتنے راز باقی ہیں
وہ دونوں ڈنر کر کے واپس آئے تو راستے میں اریشفہ کی پھر سے آنکھ لگ گئی
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اریشفہ کو آج اتنی زیادہ نیند کیوں آرہی ہے جب کہ کل رات بھی وہ جلدی سو گئی تھی
اس نے دوپہر میں جب اریشفہ کو فون کیا تھا تب بھی وہ سو رہی تھی
اور شام میں گھر واپس آیا تب بھی وہ سو رہی تھی اسی لئے اسے بہت عجیب لگ رہا تھا ۔بس یہی وجہ تھی کہ وہ گاڑی گھر لے جانے کی بجائے ہوسپیٹل لے آیا تھا
بظاہر تو وہ بالکل ٹھیک نظر آ رہی تھی لیکن آریان اس کی صحت پر کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا اور وہ بھی آج کل جب وہ اتنے اہم مشن پر کام کر رہا تھا
اس کیس کے سلسلے میں وہ ہنیمون پر بھی نہیں جا پائے تھے شادی کو تین مہینے ہونے کو آئے تھے لیکن آریان اپنے ٹف شیڈول کی وجہ سے ارشی کو کہیں لے کر نہیں جا پایا گاڑی ہوسپیٹل کے باہر کھڑی کرتے ہوئے اس نے ارشی کو جگایا تو وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی
سوری جان تمہاری طبیعت خراب ہے کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے
اس سے پہلے میں نے تمہیں اس طرح کبھی سوتے ہوئے نہیں دیکھا اسی لیے تمہیں ہوسپیٹل لے آیا تھایار کیا ہے کہ تم مجھے بیمار سی لگ رہی ہو اور آج کل میں بہت زیادہ مصروف ہوں اسی لیے تمہیں اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہوگا تمہاری بیماری بالکل ہینڈل نہیں کر پاؤں گا
میں نے چھٹیوں کے لیے اپلیکیشن بھیجی تھی جو نہ منظور ہو کر واپس آ گئی ہے اور اب ایک گھنٹے کی بھی چھٹی نہیں لے سکتا اور اگر تم بیمار ہو گئی تو میرے لئے بہت مشکل ہو جائے گی اسی لیے چپ چاپ اپنا چیک اپ کرواؤ ۔
وہ اسے گاڑی سے نکلواتا ہاتھ تھام کر زبردستی ہوسپیٹل لے گیا
جبکہ اریشفہ کا تو کہنا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اسے کسی قسم کی چیک اپ کی ضرورت نہیں لیکن سامنے آریان تھا جس کے سامنے اس کے کبھی نہیں چلتی تھی ۔اور اس وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا
لیڈی ڈاکٹر نے اس کا مکمل چیک اپ کیا پھر مسکراتے ہوئے آریان سے مخاطب ہوئی کہ پریشانی والی بات نہیں ہے
لیکن اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کے آریان کو اچھی خاصی تپ چڑ گئی
ڈاکٹر اب ہنس کیوں رہی ہیں میری بیوی کی طبیعت خراب ہے میں اپنی پریشانی لے کر آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ آگے سے ہنس رہی ہیں یہ کیا طریقہ ہوا علاج کا ان کا مسکراتا چہرہ اسے سچ میں غصہ دلا گیا تھا ۔
ایم ریلی سوری انسپیکٹر آپ کو برا لگ رہا ہے لیکن بات ہی کچھ ایسی ہے آپ کی پریشانی بالکل بے وجہ نہیں ہے فرسٹ پریگننسی میں اکثر ایسا ہوتا ہے
۔اور شروع میں تو لڑکی بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس کرتی ہے اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے
یس شی از پریگنیٹ کانگریچولیشن ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے بم پھورا تھا ۔
آریان کو جھٹکا ایسا لگا تھا کہ اس سے ایک لفظ بھی بولا نہیں جا رہا تھا جبکے ارہشفہ حیرانگی سے کبھی ڈاکٹر کو تو کبھی آریان کو دیکھ رہی تھی ۔اور پھر اگلے ہی لمحے آریان نے ڈاکٹر کی پرواہ کئے بغیر نہ صرف اسے اپنی باہوں میں بھر لیا تھا
بلکہ اس کے ماتھے پر محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بوسہ بھی دے ڈالا
جبکہ ڈاکٹر ان دونوں کے اس پرسنل موومنٹ پر مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی اور عرشی بیچاری سے تو آنکھیں تک نہیں اٹھائی جا رہی تھی
اپنے اندر اس نے ابھی تک کسی قسم کی کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی تھی صرف تھکاوٹ کی وجہ سے اسے نیند آ جاتی ہے وہ خود بھی پریشان تھی کہ اتنا تو کوئی کام کرتی نہیں کہ جس سے تھکاوٹ ہو جائے
لیکن پھر اتنی نیند کیوں آتی ہے لیکن اب تو مانو پاؤں زمین پر نہیں کر رہے تھے ۔جہاں اریان خوشی سے سرشار تھا وہی اریشفہ بھی اپنے اللہ کے حضور سجدے دینے کے لیے بے چین ہو رہی تھی
°°°°°°°°°°
جاناں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے جان کو بتانا چاہیے یا نہیں
بابا کے فون کے بارے میں اس نے جان کو کچھ نہیں بتایا تھا جان کے انداز سے وہ یہ تو اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ اس کے بابا کو کچھ خاص پسند نہیں کرتا
نہ جانے اس کے ان سے ملنے پر کس طرح سے ری ایکٹ کرے جب کہ کل وہ بابا کو ہوٹل میں ملنے کا کہہ چکی تھی
بابااسے کوئی بہت ضروری بات بتانے والے تھے جان کچھ دن سے اس کا پہلے سے بہت زیادہ خیال رکھنے لگا تھا کسی بھی جان کا انداز بہت اچھا لگتا تھا لیکن اب جان سے چھپ کر بابا سے ملنا بھی اسے عجیب لگ رہا تھاا
وہ جان سے کچھ بھی نہیں چھپانا چاہتی تھی جس طرح سے جان نے اپنا آپ کھو ل کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا وہ بھی اب جان سے کسی بھی قسم کا کوئی پردہ کوئی راز نہیں رکھنا چاہتی تھی لیکن بابا کے بارے میں وہ اسے کیسے بتائے
جان نے اس کی بے چینی کو نوٹ تو بہت کیا تھا لیکن اسے پتہ تھا جاناں خود ہی اسے کچھ نہ کچھ بتا دے گی اپنی پریشانی کی وجہ سے وہ اسے چھپاتی نہیں تھی اس لیے جان نے اس سے ایک بار بھی نہیں پوچھا
کہ وہ کیوں پریشان ہے دوسری طرف اس کی پریشانی اس کا باپ بھی تھا لیکن وہ اس کے سامنے ان کا نام کم ہی لیتی تھی اور یہ بات جان کو بہت پسند تھی وہ اس کی پسند نہ پسند کو اچھے طریقے سے سمجھ رہی تھی اور اس کے سامنے ایسا کوئی کام نہیں کرتی تھی جو اسے پسند نہ ہو ۔
اس نے ٹائرکو بہت بار کہا تھا ان کے گھر واپس آ جائے لیکن ٹائر نے ایک ہی بات کہی تھی کہ وہ ان دونوں کی شادی شدہ زندگی میں کسی قسم کی کوئی ڈسٹربنس نہیں لانا چاہتا تھا
اسی لیے وہ جہاں ہے وہیں خوش ہے جان سے اس کی ملاقات روز ہی ہو جاتی تھی اور جاناں سے ملنے کے لیے وہ دوسرے نہیں تو تیسرے دن آتا ہی رہتا تھا
جاناں کو کچھ بھی بنانا نہیں آتا تھا لیکن جان کی پسند کی ڈشز بنانے کی کوشش کرتی رہتی وہ جیسی بھی بنتی جان خاموشی سے کھا لیتا ۔جب کے جاناں خود ہی اپنی بنائی ہوئی ڈش میں غلطی نکال کر اگلی بار اس غلطی کی مکمل پریکٹس کرتی
ان دونوں کی زندگی پر سکون گزر رہی تھی جان اس کی نظروں میں ایک سپورٹ کمپنی میں کام کرتا تھا کہ جہاں وہ کسی کا پارٹنر تھا ہر روز صبح کام پر جاتا اور ایک عام انسان کی طرح شام کو واپس آ جاتا اپنی جان سے پیاری بیوی کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارتا اسے اپنی محبتوں کا احساس دلاتا اور اگلے دن ایک نئے دن کی شروعات
اس نے جیسا سوچا تھا سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جاناں کو اس کے کام سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی جس سے لے کر وہ بہت پر سکون تھا ۔
لیکن اب یہ اکبر نامی کانٹا ان دونوں کے بیچ میں آ چکا تھا اکبر اب تک ترکی سے گیا کیوں نہیں یہ بات جان کو کچھ حد تک بے چین کر رہی تھی
اسے یقین تھا اکبر جاناں کو اس سے دور کرنے کے لیے کوئی بھی حد پار کر جائے گا ۔اگر اس نے جاناں کو اکبر کی اصلیت دکھائی شاید وہ اس پر یقین نہ کرے اور اگر وہ اس پر یقین کرے گی تو کبھی بھی اسے اس کے طریقے سے اکبر کو ختم نہیں کرنے دے گی
بلکہ وہ قانون کا سہارا لے گی اور جان اپنے قانون خود بناتا تھا اسی لیے وہ ان تمام معاملات سے جاناں کو بہت دور رکھنا چاہتا تھا اور وہ دور بھی تھی کہ اکبر نے جاناں کو ملاقات کے لیے بلا لیا اور اس ملاقات سے جان بالکل انجان تھا
°°°°°°°°°°
ایک ہفتہ گزر چکا تھا اس کی اور طہٰ کی ملاقات کو
طہٰ اسے مسلسل فون کر رہا تھا لیکن نہ تو اس نے اس نے فون اٹھایا اور نہ ہی وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی
وہ کیسے سرعام اس پر ہاتھ اٹھا سکتا تھا اسے تھپڑ۔ مرانے جیسے گھٹیا اور گری ہوئی حرکت کرسکتا تھا وہ تو بس جان پہچان کی خاطر اس سے حال چال پوچھنے چلی گئی
لیکن اب اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا
اور اب وہ اس سے ان سے کوئی رابطہ رکھنا ہی نہیں چاہیتی تھی وہ ابھی تک اپنے دل کے جذبات کو قبول نہیں کر رہی تھی یا دل قبول کر چکا تھا وہ خود ہی زبان پر نہیں لا پا رہی تھی
لیکن طہٰ سے نہ تو وہ ملنا چاہتی تھی اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی کوئی بات کرنا چاہتی تھی پچھلے ایک ہفتے سے وہ بخار کی زد میں رہی تھی ماما بھی بہت پریشان تھی ۔
دن میں وہ سوتی نہیں تھی لیکن بخار کی وجہ سے سارا دن کمرے میں بند رہتے ہوئے رونے اور سونے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا اکثر اسے دن میں نیند آ جاتی اور رات وہ جاگ کر اس شخص کی بے قدری پر روتی ۔
اس نے طہٰ کو اس تھپر کا جواب پتھر کی صورت کیوں نہ دیا اسے چاہیے تھا کہ وہی اپنا بدلا پورا کر لیتی اور پرسکون ہو جاتی اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی اس پر ہاتھ اٹھانے کی اگر وہ اسے اہمیت دے رہی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی من مانی کرے اس کی ناقدری کرے
کیا میں نے اس شخص کی نظروں میں خود کو اتنا بھی مول کر دیا کہ وہ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے اس نے خود پر لعنت بھیجئی
نہیں طہٰ بخاری مجھ پرہاتھ اٹھانے کی وجہ سے ساری زندگی پچھتاو گے تم میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی
تم نے مجھے اگنور کیا عائشہ خان پر ہاتھ اٹھایا اب تم دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں زندگی بھر تم جیسے شخص کی شکل بھی نہیں دیکھوں گی ۔
کچھ دیر پہلے ہی اس کی آنکھیں کھلی تھی شاور لے کر باہر آئی تو ماما سے کسی کو بات کرتے ہوئے سنا اس آواز کو تو وہ کروروں میں پہچان سکتی تھی وہ طن فن کرتی باہر آئی جہاں وہ اس کی ما ما کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا
ہاو ڈہئر یو تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں قدم رکھنے کی دو ٹکے کے بانسری والے گیٹ آؤٹ فارم مائی ہوم اٹھو دفع ہو جاؤ یہاں سے وہ انتہائی غصے سے اس کے روبرو کھڑی تھی کہ جب طہٰ نے ماما کی جانب دیکھا
عاشی یہ کیا طریقہ ہے گھر آئے مہمان کے ساتھ بات کرنے کا تم اس طرح سے ری ایکٹ کیوں کر رہی ہو وہ دوست ہے تمہارا
یہ میرا دوست نہیں ہے ماما اور ایسے دوستوں پر لعنت بھیجتی ہوں میں گیٹ آؤٹ تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو دفع ہو جاؤ میرے گھر سے وہ اپنی ماں کو جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر سے دہاری تھی
عاشی ایم سوری یار مجھ سے غلطی ہوگئی معاف کر دو صلح جو انداز میں بولا تھا
غلطی مائی فٹ اپنی سوری اپنے پاس رکھو میرے گھر سے دفع ہو جاؤ اور خبردار جو میرے گھر کے آس پاس بھی نظر آئے تمہیں سنائیں نہیں دیا میں نے کیا کہا اس کی اتنی بےعزتی کے بعد بھی وہ وہیں کھڑا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا عائشہ چلا کر بولی
عاشی بہت غلط حرکت کر رہی ہو تم وہ مہمان ہے ہمارے گھر میں ما مانے سمجھانا چاہا
آنٹی میری غلطی ہے عائشہ کا حق بنتا ہے پلیز اسے مت ڈانٹے فی الحال میں یہاں سے جا رہا ہوں عائشہ لیکن واپس ضرور آؤں گا میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں اور جتنی بار تم کہوگی اتنی بار تم سے معافی مانگوں گا میں نے بہت بری حرکت کی ۔لیکن سمجھ سکتا ہوں کہ اس وقت تم بہت زیادہ غصے میں ہو اسی لیے دوبارہ آؤں گا
کوئی ضرورت نہیں ہے دوبارہ آنے کی ہر بار تمہیں یہ دروازہ بند ہی ملے گا اس کے اس طرح سے معافی مانگنے پر عائشہ کا دل دھڑکتا تھا لیکن وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو محبوب کی ذرا سی نرمی پر پھکل جاتی ہیں بلکہ وہ محبوب کو بھی تارے دکھانے والوں میں سے ایک بھی اسی لیے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہ صرف اسے گھر سے نکالا بلکہ منہ پر اتنے زور سے دروازہ بند کیا کہ طہ نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں
°°°°°°°°
اسے یہاں آکر اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا وہ جان کو بتائے بغیر یہاں آ گئی تھی اور اگر بابا اسے یہاں سے ایسے ہی لے گئے تو اسے جان کو بتا کر آنا چاہیے تھا
وہ مسلسل اپنی ہی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی جب ایک خوش شکل سے نوجوان کے ساتھ اس کے بابا اس کے ٹیبل پر بیٹھے
یقیناً وہ خوش شکل نوجوان اس کا بھائی تھا کتنے عرصے بعد اس نے اسے دیکھا تھا اور اس نے اس کا حال تک نہ پوچھا اس کے دل میں ایک لہر سی اٹھی
جاناں میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں تم جیسا سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے اگر تمہیں لگ رہا ہے کہ جان ٹھیک ہے اور ہم سب غلط ہیں تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے جان نے بھی تم سے بہت سارے راز چھپائے ہیں اس نے تمہیں میرے بارے میں تو بتا دیا لیکن اپنے بارے میں اس نے تمہیں کچھ نہیں بتایا
میں جان کے بارے میں سب کو جانتی ہوں بابا مجھے آپ سے اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں آپ نے تو مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ میں بچپن سے کسی کے نکاح میں ہوںں
خدا نہ خاستہ مجھ سے کوئی گناہ ہو جاتا تو میں اللہ کو کیا چہرہ دکھاتی
کسی شخص کے نکاح میں ہونے کے باوجود آپ نے مجھے اس سے دور رکھا مجھے میری زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا اور اب آپ مجھے میرے ہی شوہر کے خلاف کرنے آ گئے
وہ جیسے پھٹ پڑی تھی ۔اکبر صاحب تو کچھ لمحات کے لیے اس کا چہرہ ہی دیکھتے رہ گئے ہیں یہ ان کی بزدل بیٹی تو نہ تھی
جاناں بغیر پوری بات جانے تم اس طرح نہیں کہہ سکتی ابھی تک اس شخص کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہو سوائے اس کے کہ وہ تمہارے بچپن کا شوہر ہے اس نے تم سے بہت کچھ پایا ہے اور میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا میرا بچہ تم اسے جتنا اچھا سمجھ رہی ہو وہ اتنا اچھا نہیں ہے
تو آپ ہی بتا دیں کہ کتنا برا ہوں میں اچانک ان کے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے زرا سا جھکا وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا جاناں ایک لمحے کیلئے بکھلا سی گئی وہ تو اسے کچھ بھی بتائے بغیر یہاں آئی تھی اور جان اس کے پیچھے پیچھے یہاں آگیا
جاناں یہ یہاں کیا کر رہا ہے میں نے تم سے کہا تھا ۔۔۔۔۔
جی آپ نے میری بیوی سے اکیلے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن وہ کیا ہے کہ میں اپنی پیاری بیوی کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہ دنیا جنگلی بھیڑیوں سے بھری ہے اور افسوس کے اس کے خون رشتے بھیڑیوں سے کم نہیں میں اپنی بیوی پر کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتاسسر صاحب ۔اور سالہ صاحب وقت ہے سدھر جائے میں اپنی بیوی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا وہ آنکھوں میں ہی آنکھوں میں اسے بہت کچھ باور کروا رہا تھا جس سے جاناں بالکل انجان تھی۔
جاناں میری جان تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی یہ شخص ایک قاتل ہے ۔۔۔۔اکبر صاحب نے جاناں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
خدا کے لئے بس کردیں بابا اور کوئی الزام نہیں بچا میرے شوہر پر لگانے کے لیے میں آپ کو ایسا تو ہرگز نہیں سمجھتی تھی
کیوں بابا آخر کیوں آپ جان کو اتنا غلط سمجھتے ہیں بابا وہ بہت اچھا انسان ہے مجھے بے پناہ محبت کرتا ہے آپ سے توکہیں زیادہ
۔بابا جو محبت آپ نے مجھے نہیں دی وہ مجھے جان نے دی ہے پلیز اسے مجھ سے دور مت کریں میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں میں جان سے بے پناہ محبت کرتی ہوں پلیز بخش دے ہمیں میرے اور جان کے اس رشتے کو قبول کرلیں
پھوپھو نہیں رہی تو کیا ہمارا رشتہ بھی نہیں رہا تب آپ نے خود اپنی مرضی سے مجھے اس کے نکاح میں دیا ہے پلیز اب ہمیں الگ مت کریں
میں مر جاؤں گی اس کے بغیر وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہنے لگی جب کہ اکبر صاحب فقط کھڑے اپنی بیٹی کو خود سے بغاوت کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے
وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رہی تھی
جب کہ وہ تو بس اس کا چہرہ دیکھے چلے جا رہے تھے
بیٹا میں تمہارا بھلا چاہتا ہوں میں باپ ہوں تمہارا مجھ سے بہتر تمہارے لئے اور کون اچھا سوچ سکتا ہے بھلا ۔۔۔۔۔!وہ اس کے اس رویے سے پریشان ہوئے تھے ابھی تو وہ آدھی ادھوری بات جانتی تھی کہ باپ سے اس طرح کا رویہ رکھے ہوئے تھیی
آور اگر اسے مکمل سچائی پتہ چل جاتی تو وہ تو ان سے نفرت کرنے لگتی
وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی نفرت کیسے برداشت کرتے وہ جانتے تھے انہوں نے اپنی بیٹی کو خود سے بہت دور کر دیا ہے لیکن ان کی محبت بھی بے پناہ تھی ۔
بس بابا میں اور کوئی بات نہیں سننا چاہتی
بس آپ سے یہی کہنا چاہتی ہوں کے اب اور نہیں میں اب جان کے ساتھ بہت خوش ہوں
یہ رشتہ آپ نے اپنی مرضی سے جوڑا تھا ۔شاید آپ کے لئے اب رشتے بدل چکے ہوں گے لیکن میرے لیے نہیں جان سے بہت پیار کرتی ہوں
اور اس کے ساتھ بہت خوش بھی ہوںں
اللہ بھی ہمارا یہ رشتہ برقرار رکھنا چاہتا تھا اسی لئے تو اتنے سالوں کے بعد بھی اس نے مجھے اسی شخص کی ہم را ہی میں دے دیا جسے آپ مجھ سے الگ کرنا چاہتے تھے
۔لیکن اب اور نہیں پلیز بابا میں جان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور میں اس کے ساتھ بہت خوش ہوں پلیز ہمیں الگ کرنے کے بارے میں مت سوچیے ۔وہ ان سے التجا کر رہی تھی
جاناں تم اس شخص کے بارے میں کچھ نہیں جانتی یہ فریب دے رہا ہے تمہیں دھوکا دے رہا ہے تمہیں تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی
بابا دہائی دے رہے تھے ۔
لیکن وہ کچھ نہیں سننا چاہتی تھی جان کے خلاف یہاں تک کہ ان کا جان کو قاتل کہنا بھی جاناں نظر انداز کر گئی تھی اس وقت وہ جان سے زیادہ بھروسہ خود پر نہیں کرتی تھی
تو ان پر کیسے کر لیتی اس کا بھائی تو جیسے یہاں آیا ہی خاموش رہنے کے لئے تھا ۔
بس اب بہت وقت ضائع کر لیا آپ نے ہمارا اب ہمیں چلنا چاہیے جان نے جاناں کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو وہ بنا کچھ بھی بولے اٹھ کر کھڑی ہو گئی
جیسے اس کے حکم کی غلام ہو
اس کے ہاتھ کی کتپتلی جو اس کے اشارے پر چلتی ہے ۔
تھوڑی دیر میں وہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہاں سے جا چکے تھے
بابا دور تک انہیں جاتے ہوئے دیکھتے رہے
یہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا تھا اتنی آسانی سے جان بازی جیت گیا
اتنی آسانی سے وہ جاناں کو نہ صرف ڈھونڈ چکا تھا بلکہ حاصل بھی کر چکا تھا اور وہ جو اتنے سالوں سے اسے چھپائے چھپائے گھوم رہے تھے
اس کی شناخت بدل کر یہ سوچ رہے تھے کہ جان اب جاناں تک کبھی پہنچ ہی نہیں پائے گا ہار گئے بری طرح سے ہار گئے ۔
انہوں نے ایک نظر اپنے ساتھ بیٹھے بیٹے کو دیکھا جو انہیں چلنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔
یہ سب کیا ہوگیا بیٹا میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ میری بیٹی اس شخص سے محفوظ ہے
دور ہے اس سے وہ کبھی اس تک نہیں پہنچ پائے گا لیکن یہاں تو سب کچھ ختم ہو گیا ۔وہ میری بیٹی کو مجھ سے دور کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔بابا بے یقینی کی گرفت میں تھے
بابا ہونا تو وہی تھا جو اللہ کو منظور تھا
۔میرے خیال میں فی الحال ہمیں جاناں کو اس کے حال پرچھوڑ دینا چاہیے اور پھر جب سہی وقت ہوا ہم پھر آئیں گے
اور اگر اس نے ہم پر یقین نہ کیا تب بھی کبھی نہ کبھی تو سچائی سامنے آئے گی
جان کبھی اس سے یہ نہیں پھپا پائے گا کہ وہی "بیسٹ" ہے
ایک درندہ جو لوگوں کا قتل کرتا ہے ۔
قاتل چاہے سو قتل کر لے لیکن ایک دن پکڑا ہی جاتا ہے جان بھی ایک دن پکڑا جائے گا ۔اور یقین کریں وہ دن دور نہیں جان جاناں سے تو اپنی سچائی چھپا سکتا ہے لیکن ہم سے نہیں ۔
°°°°°°°°
بے وقوف آدمی ایک لڑکی کو قابو نہیں کر پا رہے تم لوگ صرف ایک لڑکی کو وہ بھی جو گونگی ہے بول نہیں سکتی اپنی زبان کا استعمال نہیں کرسکتی
اس لڑکی کو کڈنیپ نہیں کر پا رہے تم لوگ نکمے ہو سب کے سب وہ انتہائی غصے سے کہہ رہا تھا ۔
سر ہم نے بہت کوشش کی لیکن وہ انسپیکٹر اسے چھوڑتا ہی نہیں ہے دو دن سے وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ ہے اور تو اور اب اس کے لئے ایک اسپیشل ملازمہ کا بھی انتظام کردیا ہے
جو 24 گھنٹے اس کے ساتھ رہتی ہے نہ تو وہ اس کا پیچھا چھوڑ دیتی ہے اور نہ ہی ہم اپنا کام کر پاتے ہیں
ملازمہ ہے تو اسے خرید لو
۔مجھے کسی بھی قیمت پر وہ لڑکی چاہیے
صرف اس لڑکی کے زریعہ ہم اپنا اسلحہ واپس حاصل کر سکتے ہیں بیوقوف آدمی ایک سو سولہ کروڑ کی ڈرگز تھی وہ جس پے وہ قبضہ میں لے کر بیٹھا ہے ۔
اگر وہ آگے شفٹ کر دی گئی تو ہم کبھی بھی اسے حاصل نہیں کر پائیں گے فی الحال نگران انسپکٹر اریان ہے اور اگر اس کی نگرانی سے کام آگے چلا گیا تو مجھے بہت نقصان ہو جائے گا
اور میں اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر سکتا
کیسے بھی اس لڑکی کو میرے پاس لاؤ بس اسی لڑکی کے ذریعے مجھے میری دولت واپس مل سکتی ہے وہ انتہائی غصے سے کہہ رہا تھا
جبکہ دوسری طرف آدمی اس کے غصے سے کافی بھکلا گیا تھا۔
سر آپ فکر نہ کرے میں کیسے بھی اس لڑکی تک پہنچ جاؤں گا اس نے یقین دلایا
تمہیں پہنچنا ہی ہوگا کیسے بھی ورنہ تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا جو لوگ میرے کام کے نہیں ہوتے میں انہیں راستے سے ہٹا دیتا ہوں اس کا انداز دھمکانے والا تھا
جی سر آپ فکر نہ کریں میں کیسے بھی لڑکی کو پہنچ کر اسے آپ کے پاس لے کر آؤں گا ۔اس نے پھر سے یقین دلایا تو دوسری طرف فون بند ہوگیا
اسے نے سکون کا سانس لے اوردوبارہ سے اس گھر کی طرف متوجہ ہو گیا
در بین کی مدد سےوہ ان کے گھر کے اندر ایک ایک چیز پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔دو دن سے اسے ایک بھی ایسا موقع نہ ملا جس سے وہ ان کے گھر کے اندر گھس سکے
پہلے تو انسپیکٹر آریان اس لڑکی کے ساتھ ساتھ تھا
لیکن آج صبح ایک ملازمہ نے ان کے گھر میں قدم رکھا اور انسٹکٹر آریان اپنے کام پر روانہ ہوگیا ۔اور اب تب سے ہی وہ ملازمہ اس کے ساتھ ساتھ تھی
وہ نیچے جاتی تو وہ اس کے ساتھ نیچے آتی اور اوپر جاتی ساتھ ہی وہ اس کے اوپر چلے جاتی یہاں تک کہ کچن میں بھی وہ اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی
۔وہ اس ملازمہ سے سخت عاجزآ یا ہوا تھا
وہ اس کے کام میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ بنی تھی اگر آج وہ یہاں نہیں ہوتی تو وہ یقینا اس لڑکی کو کیسے بھی یہاں سے لے جاتا اور پھر انسپیکٹر آریان ان کے اشاروں پر چلتا ۔
وہ تو یہاں تک صرف ایک ہی یقین کے سہارے آیا تھا اس نے آریان کے انداز میں اس لڑکی کے لیے محبت دیکھی تھی
اس کا یہی اندازاور ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہنا صاف ظاہر کر رہا تھا کہ یہ لڑکی انسپیکٹر آریان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے
۔اور ان لوگوں کو فی الحال اور چاہیے ہی کیا تھا سوائے انسپکٹر آریان کی کمزوری کے وہ سب لوگ ہی اس بات سے واقف ہو چکے تھے کہ انسپکٹر آریان اس لڑکی سے بہت محبت کرتا ہے
اور اس کے لئے کچھ بھی کرے گا لیکن یہاں آ کر انہیں یہ پتہ چلا تھا کہ یہ لڑکی نہ صرف انسپکٹر آریان کی زندگی میں اہم ہے
بلکہ وہ اس کا لمحہ لمحہ خیال بھی رکھتا ہے اور ایسے میں ان کے لئے اس لڑکی کو اغوا کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا ان لوگوں نے سمجھ رکھا تھا
°°°°°°°°°°
وہ جب سے واپس آئی تھی جان سے دور باہر صوفے پر بیٹھاتھا
یقینا اسے بہت غصہ آ رہا تھا اور اس وقت اس کے قریب جا کر اسے مزید غصہ بالکل نہیں دینا چاہتی تھہ اس کا یوں بغیر بتائے اپنے باپ سے ملنے چلے جانا واقعی ایک بہت غلط حرکت تھی
وہ شخص اس کا باپ تھا اسے اپنے ساتھ زبردستی لے کر جا سکتا تھا
اسے اپنی باتوں میں پھنسا سکتا تھا
جان کو یہی ایک سوچ پریشان کر رہی تھی ۔اس نے جان کو کیوں نہیں بتایا اب وہ اس پر اتنا بھی اعتبار نہیں کرتی تھی کہ اسے سب کچھ بتا پاتی
لیکن آج جان نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس کا یقین جیت کر رہے گا کیسے بھی وہ اس پر ظاہر کرکے ہی رہے گا کہ اس سے زیادہ اس سے اور کوئی محبت نہیں کرتا ۔
کافی دیر باہر بیٹھنے کے بعد وہ بیڈ روم میں چلا گیا
جہاں جاناں بیڈ پر بیٹھی اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی
اس کی آنکھیں وہ سے سرخ ہو رہی تھی
اور جاناں کو اس وقت اس کی آنکھوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا ۔اس نے ایک نظر جاناں کی طرف دیکھا اور پھر بھی نہ کچھ بولے الماری کی طرف آیا اور اپنے لئے آرام دہ کپڑے نکالے
شاید اس وقت وہ اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے شاور لینا چاہتا تھا جا ناں اب بھی کچھ نہ بولی بولنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آیا تو آ کر اس کے بالکل پاس بیٹھ کر بیٹھا
جاناں تھوڑی سی پر سکون ہو گئی اس کے انداز میں اب کوئی غصہ نہیں تھا لیکن وہ بنا کچھ بولے آہستہ سے فروٹس کی ٹوکری سے چھڑی اپنے ہاتھ میں اٹھا چکا تھا ۔
شاید اس نے لنچ نہیں کیا تھا اس وقت اسے بھوک لگی تھی ۔اب وہ اس کے سامنے ہی سیب اٹھاکر اسے کاٹنے لگا ۔سیب کو ٹکڑوں میں کاٹتے ہوئے ایک ٹکڑا اس کے طرف بڑھایا
مزاحمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔جاناں نے منہ کھول دیا اب وہ خاموشی سے خود سیب کھا رہا تھا اس کی خاموشی جاناں کو پھر سے بے چین کرنے لگی تھی
آئی لو یو ماہی جذبات سے بوجھل انداز میں کہا جاناں مسکرائی تھی
آئی لو یو ماہی اس نے پھر سے کہا جیسے جواب کا منتظر ہو
آئی لو یو ٹو ۔وہ معصومیت سے کہہ کر شرماتے ہوئے اس کے سینے میں اپنا سر چھپا گئی ۔
آئی لو یو ماہی ۔۔۔اس بار انداز میں اداسی تھی جاناں کو کچھ سمجھ نہیں آیا ۔
آئی لو یو ٹو جان سچی وہ وعدہ کرنے والے انداز میں بولی
آئی لو یو ماہی نجانے کیوں اس بار اس کے انداز میں غصہ تھا
میں بھی تمہیں بہت چاہتی ہوں جان ۔میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں ۔جاناں اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شرم و حیا کو ایک طرف رکھ کر اسے اپنی محبت کا یقین دلانے لگی ۔
آئی لو یو ماہی ۔۔۔اس نے پھر سے کہا ۔
آئی لو یو ٹو جان بلیو می میں تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں کچھ بھی میں ایسا کیا کروں کہ تمہیں میری محبت پر یقین آجائے ۔
مر جاؤ۔۔۔۔ مجھے مر کر دیکھاو ماہی ۔جان پرسرار انداز میں کہتے ہوئے اپنا چاقو اس کے سامنے کر چکا تھا جب کہ ماہی بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
کیونکہ وہ جانتی تھی ۔کہ اس شخص سے ہر چیز کی امید کی جاسکتی ہے لیکن مذاق کی نہیں۔
جان یہ تم کیا کہہ رہے ہو جاناں پریشان سے کہنے لگی ۔
میں نے ایسا کیا کہہ دیا جاناں محبت میں تو لوگ مر بھی جاتے ہیں اور مر کر بھی دکھاتے ہیں کیا تم میرے لئے اتنا نہیں کرسکتی بولو کیا تم میرے لیے مر نہیں سکتی وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔
جان میں تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں اگر تمہیں میری محبت پر یقین تب ہی آئے گا تو ٹھیک ہے مجھے اپنے ہاتھوں سے ختم کردو وہ بنا خوف بولی ۔
نہیں جاناں مجھے تمہاری محبت پر یقین ہے مجھے تم پر پورا یقین ہے میں جانتا ہوں تم میرے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں لیکن شاید تم مجھ پر یقین نہیں کرتی
ٹبھی تو مجھے بتائے بغیر تم اپنے بابا سے ملنے چلے گئی اگر تم مجھے بتا کر جاتی تو کیا میں تمہیں روک دیتا نہیں ماہی میں تم سے اتنا پیار کرتا ہوں کہ تمہارے لئے کوئی بھی حد پار کر سکتا ہوں لیکن تمہیں میری محبت پر یقین نہیں ہے نا
نہیں ہے نہیں یقین تمہیں اپنے جان پر اگر تمہیں یقین ہوتا تو تم کبھی مجھے بتائے بغیر وہاں نہیں جاتی لیکن میں تمہیں یقین دلاؤں گا
تم میرے لیے اپنی جان دو یا نہ دو لیکن میں تمہیں جان دے کر دکھاؤں گا وہ نرم لہجے میں کہتا ہوا اگلے ہی لمحے اسی چھڑی کو اپنے ہاتھ پر رکھتے ہوئے اپنی کلائی کاٹ چکا تھا
جانا ں تو بوکھلاہٹ کے مارے کچھ بول ہی نہ پائی
لیکن جان روکا نہیں بلکہ اس نے بنا دیر کیے تھوڑے سے فاصلے سے دوبارہ اپنا ہاتھ کاٹا جاناں جیسے ہوش میں آتے ہوئے اس کی طرف آئی تھی ۔وہ زمین پر نیچے اس کے پیروں کے قریب بیٹھی بے چینی سے اس کا ہاتھ دیکھنے لگی تھی جہاں سے خون کے فوارے نکل رہے تھے
فرش لہولوہان ہو چکا تھا لیکن جان پر تو جیسے کسی چیز کا کوئی اثر ہی نہ تھا
جان یہ تم نے کیا کیا اپنا ہاتھ دیکھو کتنا خون بہہ رہا ہے
وہ اپنے دوپٹے کو تیزی سے اس کے ہاتھ پر باندھ رہی تھی
جو اس کے خون سے مکمل سرخ ہو چکا تھا ۔
مجھ پر اعتبار نہیں ہے نہ جاناں لیکن میں تمہیں یقین دلاؤں گا اپنی محبت کا تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہوگا جاناں تمہیں اپنے جان پر اعتبار کرنا ہوگا تب ہی تو ہم محبت کی ایک نئی داستان لکھیں گے
ایسے محبت کرنے والے جنہیں کوئی ایک دوسرے سے الگ نہ کر پایا ۔جو کو الگ کرنے والے ان کے اپنے تھے جو ان سے ہار گئے ہاں جاناں میں اپنی محبت کی کہانی خود لکھوں گا
اور اس کہانی میں پیار کے ساتھ ساتھ اعتبار بھی ہوگا تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہوگا تم مجھ سے کچھ بھی چھپانے کا کوئی حق نہیں رکھتی
اس کے لہجے میں دیوانگی تھی جاناں اپنے کیے پر پہنچتا رہی تھی
جان پلیز مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی
پلیز ہاسپیٹل چلو تمہارا بہت خون ضائع ہو رہا ہے
پلیز چلو جان تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی
خون بہہ رہا ہے جان پلیز چلو میرے ساتھ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں تمہاری قسم کھاتی ہوں آئندہ میں تم سے کبھی کچھ نہیں چھپاؤں گی پلیز میری اس غلطی کو معاف کر دو
پلیز میرے ساتھ ہوسپیٹل چلو میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں آئندہ کبھی بابا سے نہیں ملوں گی ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھوں گی
جان میں کبھی تمہارا اعتبار نہیں توڑوں گی پلیز میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز ہاسپیٹل چلو بہت خون ضائع ہو رہا ہے وہ کسی پرندے کی طرح تڑپ رہی تھی جس کے پروں پرکسی نے پیر رکھ لیا ہو
جان اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے چینی دیکھ کر جہاں بہت خوش تھا وہی اپنی بگڑتی حالت کو محسوس کر کے اس نے ہوسپیٹل جانا بہتر سمجھا
ابھی وہ اپنی زندگی پر کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا ابھی بہت سارے لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچانا تھا اور جاناں کے ساتھ ایک خوبصورت زندگی جینی تھی
لیکن اسی جتلانا نہیں بھولا تھا
اپنے وعدوں پر قائم رہنا جاناں یہ نہ ہو کہ تم انہیں بھول جاؤ اگر تم اپنا ایک بھی بات بضولی تومیں اپنے طریقے سے یاد دلاؤں گا اس کا لہجہ دھمکانے والا تھا لیکن اس وقت جاناں کو صرف اور صرف اس کے بہتے خون کی پرواہ تھی

جاناں جان کولے کر  سیدھی ہسپتال آئی تھی اور اس وقت ڈاکٹر اس کے ہاتھ پر پٹی باندھ رہا تھا اس کے چہرے پر درد کے کوئی تاثرات نہیں تھے

جیسے وہ اس تکلیف سے گزر رہا ہی نہ ہو ۔ہاں لیکن یہ بات تو کلیئر ہو چکی تھی کہ اب جاناں ایسی غلطی دوبارہ کبھی نہیں کرے گی

 اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ جان کو تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ سکتی ۔جان کو یقین ہوگیا تھا کہ اب وہ کبھی بھی دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گی جو جان کے غصے کو ہوا دے ۔اور نہ ہی جاناں اپنے اور جان کے اس سے کو خراب کرنے کے بارے میں سوچ سکتی تھی۔

ڈاکٹر کے پاس سے ہو کر وہ سیدھے گھر واپس آئے تھے گھر آ کر بھی جان کا موڈ  آف تھا شاید وہ اتنی آسانی سے اسے معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اورنہ وہ اس سے بات کر رہا تھا

 اس کی نارضگی جاناں کو بے چین کر رہی تھی۔ جاناں نے میز پر کھانا لگاتے ہوئے اسے کھانے کے لئے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا

 مجھے بھوک نہیں ہے تم کھا کر سو جاؤاس کے لہجے میں اب بھی غصہ تھا 

وہ بے چین سی اس کے پاس آئی تھی ۔ایم سوری جان میں دوبارہ ایسی حکت نہیں کروں گی میں تمہیں بتائے بغیر کبھی بھی کہیں نہیں جاؤں گی ۔پلیز تم میرے ساتھ اس طرح روڈ لی بہیوومت کرو  مجھ سے تمہارا یہ رویہ برداشت نہیں ہوتا جان

تم مجھ پر غصہ ہو جاؤ ناراضگی دکھاؤ سب کچھ ٹھیک ہے میں سب کچھ سہ لوں گی لیکن اس طرح مجھ سے بات کرنا مت چھوڑو پلیز جان میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے ۔پلیز مجھے معاف کردو جان میں دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گی میں تمہیں ہر بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن بابا نے تمہارے بارے میں اتنی عجیب بات کی کہ مجھے ان سے ملنے جانا پڑا وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھانے لگی

جب میں تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتا تو چکا ہوں جاناں تو پھر تم کسی اور سے میرے بارے میں پوچھنے کیوں گئی انہوں نے میرے بارے میں ایک بات کہی اور تم ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہوئے ان کے پاس چلی گئی اگر تمہیں مجھ پر یقین ہوتا تو ایسا کبھی نہیں کرتی

جان مجھے تم پر یقین ہے اور میں تم سے وعدہ کرتی ہوں میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی بلکہ میں تو تمہیں تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی

 بس ایک بار مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی جان اس کی آنکھوں کی نمی کو دیکھتے ہوئے جان نے ایک ہی لمحے میں اسے تھام کر اپنے سینے میں بھیج لیا تھا

میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ جاناں کہ تم آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ کرو ۔کیوں کہ اب اگر تم نے میری اور اپنے رشتے میں اس بے یقینی کو لایا تو میں اپنا ہاتھ نہیں کاٹوں گا بلکہ اپنے آپ کو کاٹ دوں گا اس کے لہجے میں شدت بھی جاناں نے ترپ کر اس کے حصار سے نکلنا چاہا لیکن اس کی گرفت بہت مضبوط تھی وہ اس کی باہوں میں صرف قید ہو کر رہ گئی ۔

°°°°°°°°

اس کے بار بار سرنامیں لانے کے باوجود بھی آریان نے نرمی سے اس کے بال بنائے اور پھر پیار سے اسے ناشتہ کرواتے ہوئے ملازمہ کے آ جانے کے بعد ہی اپنے کام پر گیا

جب سے وہ پریگنیٹ ہوئی تھی آریان تو بالکل اس کا سایہ بن گیا تھا

 وہ ایک لمحے کے لیے بھی اسے اکیلے نہیں چھوڑتا تھا ہر وقت اس کے آس پاس رہتا اس کا خیال رکھتا اور اس نے ملازمہ بھی بالکل اپنے جیسی ہی ڈھونڈتی تھی

 وہ بھی کسی ربورٹ کی طرح اس کے سر پر سوار رہتی ایک لمحے کے لیے بھی اسی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی ۔آریان کے آتے ہی اس کی شکایت تو کا لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا

اور وہ ملازمہ کی اشاروں ہی اشاروں میں اسے اتنی شکایت لگاتی لیکن آریان صرف مسکراتا رہتا یہ بھی الگ بات تھی جب سے وہ پریگنیٹ ہوئی تھی اور آریان کو اس کا ہر انداز اچھا لگتا تھا

اس کے اشارہ کرنا اپنی بات سمجھانا آریان کو سب کچھ الگ سا لگنے لگا تھا

 اس کے چہرے پر آئی ممتا کی رونق آریان کو حد سے زیادہ محسوس ہونے لگی تھی ایک وقت تھا جب وہ سوچتا تھا کہ ایک دن ہوگا اس کی بھی فیملی ہوگی بیوی ہوگی بچے ہوں گے اور اب جب سے پتہ چلا تھا کہ اریشفہ پریگنٹ ہے اس کے تو پاوں جیسے زمین پر نہیں ٹھہر رہے تھے ۔اس کا خواب سچ ہو رہا تھا اس کی خواہش پوری ہونے لگی تھی

وہ اپنے آنے والے بچے کو لے کر بہت زیادہ ایکسائٹڈ تھا جسے ابھی آنے میں آٹھ ماہ باقی تھے ۔ایسے میں اگر وہ سب سے زیادہ کوئی کام کر رہا تھا تو وہ تھا ار یشفا کا خیال رکھنا وہ ا سے زمین پر پیر اتارنے کی بھی اجازت نہیں دیتا تھا ۔

اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر لمحے اس کے ساتھ رہے اس کے ایک ایک موومنٹ کو انجوائے کرے لیکن یہ بھی اس کی مجبوری تھی کہ کام بھی بہت ضروری تھا

جس کی وجہ سے اسے اپنی ارشی سے دور جانا پڑتا لیکن زیادہ دیر کے لئے نہیں صبح نو بجے وہ اپنے کام پر جاتا تو شام پانچ بجے تک وہ کسی بھی حالت میں گھر واپس آ جاتا تھا اور پھر اس کے جانے کے بعد ہی ملازمہ اپنے گھر جاتی تھی۔

جس کی وجہ سے ان کی راہ میں بیٹھے دشمن ان پر حملہ آور نہیں ہو پا رہے تھے وہ کتنے دنوں سے ان کے گھر کے باہر پہرا دے رہا تھا

لیکن اس کے ہاتھ ایسا کوئی وقت نہیں آیا جس میں وہ انسپیکٹر آریان کی کمزوری کا فائدہ اٹھا سکے وہ کسی بھی طرح اس لڑکی تک پہنچنا چاہتے تھے

 اور پھر انسپکٹر آریان نے وہیں کرنا تھا جو وہ کہتے وہ آریان کو اپنے ہاتھ کی کتھ پتلی بنا کر استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس یہ اتنا آسان ثابت نہیں تھا جتنا وہ لوگ سمجھ رہے تھے آریان ان کے لئے ایک بہت مشکل ٹاکس تھا

 ۔اس نے اپنی کمزوری کو سامنے ضرور رکھا تھا لیکن اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔

اس کا باس بھی اب اس سے تنگ آ چکا تھا آئے دن اس سے اپنی بےعزتی کروا کر وہ غصے کی حالت میں یہاں آتا کہ آج کسی بھی طرح ان کے گھر میں گھس کر ان کی بیوی کو کڈنیپ کر لے گا لیکن ہر روز اس کے ہاتھوں میں سوائے ناکامی کے کچھ نہیں آرہا تھا

°°°°°°°°

بیسٹ کی بھیجی ہوئی لسٹ دن بدن چھوٹی ہوتی چلی جا رہی تھی

اب صرف سولہ لوگ باقی تھے جو بیسٹ کے ہاتھوں موت کا شکار ہونے جا رہے تھے ۔

بیسٹ نے بہت جلد ان تک پہنچ کر ان کا کام بھی تمام کر دینا تھا

اور یہ لوگ کون تھے کہاں تھے کیا کرتے تھے اور بیسٹ سے ان کا کیا واسطہ تھا اس سب کے بارے میں وہ لوگ کچھ نہیں جانتے تھے

بیسٹ کب کہاں کیسے مارنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور یہ سب ان کے لئے سوائے ایک سوالیہ نشان کے اور کچھ نہیں تھا ۔

دن بدن یہ کیس مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا تھا ۔بیسٹ ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا ابھی تک وہ لوگ صر بیسٹ کے صرف نام سے ہی واقف تھے کسی نے بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا عائشہ کے شک کی بنا پر انہیں بھی جان پر کچھ حد تک شک ہوا تھا

لیکن جان پر کچھ وقت تک نظر رکھنے کے بعد انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ایک عام سی سپورٹ کمپنی میں کام کرتا ہے

جہاں اس کا ایک پارٹنر ہے اور ان کا کام پورٹس کی اشیاء کو ایک ملک سے دوسرے ملک ٹرانسفر کرنا ہے

اور اب وہ جان کو اس کے حال پر چھوڑ کر ایک بار پھر سے بیسٹ کیس میں مصروف ہو چکے تھے ائے دن کہیں نہ کہیں سے بدترین موت کی خبر ملتی رہتی

بیسٹ کہاں تھا کس شہر میں تھا ان لوگوں کی سمجھ سے باہر تھا ۔

اور جن لوگوں کا نام لیسٹ مِیں آ رہا تھا ان کے تو نام سے بھی وہ واقف نہیں تھے انہیں ڈھونڈتے کیسے ان سے ملتے کیسے اور وقت رہتے  ان کی جان بچاتے کیسے یہ انسپکٹر آریان کی زندگی کا سب سے مشکل کیس تھاآپ جیسے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ سلجھانے میں نہ کامیاب رہا تھا

°°°°°°°°

عائشہ نے ایک سٹور میں قدم رکھا تو سامنے وال پر اسے سوری بڑے بڑے الفاظ میں لکھا دیکھائی دیا ۔وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا سامان خریدنے آگے بڑھی تو سامنے پیکٹ پر بھی سوری لکھا نظر آیا

ایسے ہی سوری کے کارڈ اسے کچھ دن سے موصول ہورہے تھے جسے وہ سرے سے نظر انداز کیے ہوئے تھی ۔وہ آگے بھرنے لگی ہر چیز کو نظر انداز کئے وہ اپنے آپ کو پتھر دل ثابت کر رہی تھی لیکن اسٹور کے باہر شیشے سےے وہ اسے دیکھتے ہوئے صرف مسکرا رہا تھا یہ لڑکی اپنا ناک اونچا دکھانے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی

وہ اپنا سامان خرید کر سٹور سے باہر نکلی تو سامنے ہی بینر پر اسے بہت بڑا بڑا سوری لکھا نظر آیا اس کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ کھلی تھی جسے وہ اگلے ہی لمحے چھپاتی تیزی سے آگے بڑھ گئی

جب ایک بچہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور بنا کچھ بولے ایک پھول اس کی طرف بڑھایا پھول پر ایک چھوٹی سی چٹ تھی جس پر سوری لکھا ہوا تھا ۔اس نے آگے پیچھے ہر طرف دیکھا لیکن طہ اسے کہیں نظر نہیں آیا اگلے ہی لمحے اس نے غصے سے پھول کو دیکھا اور پھر اسے تروڑ مروڑ کے وہیں زمین پر پھینک دی آگے بڑھ گئی

اس کی حرکت پر بچے نے منہ بسور کر اسٹور کے اوپر کی طرف دیکھا جو بچے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا لیکن شاید بچے کو آنٹی کی حرکت پسند نہیں آئی تھی اسی لیے پیر پٹکتا وہاں سے بھاگ نکلا ۔

ابھی تھوڑی ہی آگے بھری تھی جب اسے دو موٹرسائیکل کے بیج میں ایک بڑا سا کپڑا نظر آیا اس نے غور سے پڑھنا چاہا تو اس سفید کپڑے پر بڑا بڑا سوری لکھا ہوا تھا اور دونوں موٹر سائیکل سوار نے اس کپڑے کے سروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا ۔

وہ نفی میں سر ہلاتی اپنا رستہ ہی بدل گئی ۔

تو یہ تہہ ہے عائشہ خان کے تم مجھے معاف نہیں کرنے والی اور یہ بھی تہہ ہے کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرتی میں تم سے ایسے ہی معافی مانگتا رہونگا وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گیا

کیونکہ اب عائشہ کو مزید تنگ کرنے کا ارادہ وہ کل پر ملتوی کر چکا تھا

°°°°°°°°°°

جان اور جاناں میں سب کچھ نارمل ہو چکا تھا جو بھی ہوا جان ا سے ایک بلا وقت سمجھ کر چکا تھا اس کے بعد جان نے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا ۔

اب اس نے صاف الفاظ میں کہا تھا تمہیں جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کرو جو بھی پوچھنا ہے مجھ سے پوچھو تمہارے دل میں جو بھی سوال ہے تم مجھ سے کرو گی میرے بارے میں کسی سے کچھ نہیں پوچھنا تو میں اپنے بارے میں سب کچھ میں خود بتاؤں گا اور اس کے بعد سے لے کر جاناں ہر بات اسی سے کر رہی تھی اس کے دماغ میں جو بھی بات ہوتی وہ سیدھی اسی سے کرتی تھی تاکہ ان دونوں کا رشتہ خراب نہ ہو

اور ایسا ہی ہوا تھا اس کے ہر سوال کا جواب وہ بہت محبت سے دیتا جس میں کوئی جھوٹ کوئی دکھاوا کوئی فریب نہ ہوتا وہیں سے سب کچھ سچ بتاتا تھا

جان تمہارے پاس میری ماما کی کوئی تصویر ہے دو دن پہلے اس نے جاناں کو بتایا تھا نہ صرف جاناں کی ماں جان کی سگی پھوپو ہیں بلکہ اس کی ماں کے ساتھ بھی جان کا ایسا ہی تعلق ہے ۔جاناں نےکبھی اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا اسی لئے سوچا کہ ہو سکتا ہے جان کے پاس ان کی کوئی تصویر ہو

یہاں پر تو نہیں ہے ہاں مگر پاکستان والے گھر پہ ہے میں جلد ہی پاکستان جانے والا ہوں آتے ہوئے تمہارے لیے تمہاری ماں کی تصویر لے آؤں گا وہ اس کا سر اپنے سینے سے لگاتے ہوئے محبت سے کہنے لگا ۔

اچھا لیکن پھوپھو کی تصویر تو ہوگی نہ تمہارے پاس مجھے دیکھنا ہے جان وہ کیسی دیکھتی تھی ۔جان میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمہاری شکل ان سے ملتی ہے یا ماموں جان سے پلیز مجھے دکھاؤ نا ان  کی تصویر وہ بچوں سےانداز میں بولی

نہیں میرے پاس میری ماں کی کوئی تصویر نہیں ہے اس کا لہجہ بہت روکھا تھا

ارے ایسی کوئی تصویر نہیں ہے تمہارے پاس تمہاری ماں کی کوئی تصویر تو ہونی چاہیے نہ جان میرے پاس نہیں ہے کیونکہ میں اپنے ماں کی کبھی پاس ہی نہیں رہی میں تو بابا سے بھی اتنی دور رہی ہوں

لیکن تم تو اپنے ماں باپ کے پاس تھے نا تو تمہارے پاس ان کی تصویر کیوں نہیں ہے ۔تمہارے پاس میری اتنی ساری تصویر ہیں پھوپھو کی ایک تصویر نہیں ہے تمہارے پاس وہ جیسے بدمزہ ہوئی تھی

ہاں میرے پاس اس عورت کی کوئی تصویر نہیں ہے کیونکہ میں اس عورت کی کوئی بھی تصویر اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتا تھا آج تم نے اس بارے میں بات کی ہے آئندہ اس عورت کو لے کر مجھ سے کوئی بات مت کرنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا وہ ایک جھٹکے سے خود سے الگ کرتے ہوئے کمرے میں بند ہوگیا

 جاناں کو تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اسے ہوا کیا ہے بھلا اپنی ہی ماں کو کوئی اس طرح سے مخاطب کیسے کر سکتا تھا جان کے لہجے میں اپنی ہی ماں کے لیے اتنی نفرت کیوں تھی جاناں صرف سوچ کر رہ گئی آخر ایسی کونسی وجہ تھی کہ جان اپنی ہی ماں کو لے کر اتنا روڈ ہو رہا تھا کہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا

ایک خبر کے تحت آج آریان کو پتہ چلا تھا کہ بیسٹ کا اگلا شکار کون ہے اور وہاں اسے بچانے کے لئے دوپہر میں ہی نکل چکا تھا

 سفر زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے ملازمہ کو فون کر کے کہا تھا  مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی تم گھر پر ہی رہنا

اور اریشفہ کو اکیلے بالکل بھی نہیں چھوڑنا

 اور ملازمہ نے بھی اسے یقین دلایا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے وہ کہیں نہیں جائے گی ۔تو آریان بھی بے فکر ہو کر اپنے کام پر چلا گیا تھا

لیکن یہ دھیان اریشفہ پر ہی لگا ہوا تھا وہ اس  کے دیر سے آنے پر آجکل پریشان ہوجاتی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ پریشان ہو کر اپنی صحت خراب کرے۔

اسی لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کرکے گھر جلدی واپس آ جائے کا لیکن اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہاں کام اتنا زیادہ بھر جائے گا

 ایک تو سفر اچھا خاصا لمبا تھا اور یہاں پر ایسا کچھ نہیں تھا جیسا ان لوگوں نے سوچ رکھا تھا

یہ ایک غلط معلامات ثابت ہوئی تھی یہاں نہ تو بیسٹ تھا اور نہ ہی بیسٹ کا کوئی نام و نشان اور نہ ہی اس آدمی کے بارے میں انہیں پتہ چلا تھا

جو بیسٹ کا اگلا شکار ہونے جا رہا تھا بلکہ یہاں تو اس نام کا کوئی شخص کبھی تھا ہی نہیں ان لوگوں نے اس لسٹ میں موجود ہر نام کی مکمل معلومات لیں

 لیکن اس علاقے میں ان میں سے کوئی بھی شخص نہیں تھا انہیں مایوسی سے واپسی کی راہ لینی پڑی ۔

بیسٹ کیس پر وہ لوگ کام کر رہے ہیں اس بات کو بہت کم لوگ جانتے تھے اور اس لسٹ کے بارے میں بھی لوگوں کو بہت کم بتایا تھا اس لسٹ میں کتنے نام تھے اور کتنے لوگوں کو اس بارے میں پتا تھا ان کی پرسنل ملامات تھی جو وہ کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے تھے

 لیکن جس یقین سے اس خبری نے اس شخص کا نام لیا جو ان کی لسٹ میں اگلا نام تھا تو انہیں مجبوراً اس جگہ جانا پڑا

ایک بات تو انہیں کلیئر ہو گئی تھی وہ خبری جو کوئی بھی تھا ان کے بارے میں خاص معلومات رکھتا تھا اور بیسٹ کیس کے ساتھ بھی اس کا گہرا تعلق تھا

 ورنہ اتنے یقین سے وہ لسٹ میں موجود اگلا نام کیسے لے سکتا تھا ۔

لیکن اس وقت یہ سب کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا وہ صرف گھر واپس جانا چاہتا تھا اریشفہ کے پاس اس وقت اس کے دل و دماغ میں سوائے اریشفہ کے اور کچھ بھی نہیں تھا.

آج صبح اس کا کام پر آنے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا نہ جانے کیوں آج اس کا دل بے چین سا تھا وہ اریشفہ کو اکیلے چھوڑ کر آنا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن ضروری کام کی وجہ سے آنا پڑ گیا اسی لئے وہ جلد سے جلد واپس جانا چاہتا تھا ۔

لیکن اسے احساس تھا کہ اسے واپس پہنچنے میں ابھی بھی تقریبا تین گھنٹے آسانی سے لگ جائیں گے

°°°°°°°°

اریان کو جھوٹی انفارمیشن دے کر وہ شہر سے باہر بھیج چکے تھے

 تاکہ اس کی غیر موجودگی میں آسانی سے اپنا کام سرانجام دے سکیں

پوری تیاری کے ساتھ وہ گھر کے اندر چھت کے راستے داخل ہوا سامنے ہی کچن میں ملازمہ کھڑی اسے کام کرتی نظر آئی

 جبکہ اریشفہ اپنے کمرے میں تھی وہ دبے پاؤں ملازمہ کے پیچھے آکر ایک رومال پیچھے سے اس کے منہ پے  رکھا ایک منٹ وہ پھڑپھڑانے کے بعد اسے دیکھنے کی کوشش کرنے میں نا کامیاب ہوتے زمین پر جا گری اور اگلے ہی لمحے بے ہوش ہوگئی

 پہلا کام وہ بہت آسانی سے سر انجام دے چکا تھا اب اسے دوسرے کام کی طرف بھرنا تھا ۔

اریشفہ کو یہاں سے غائب کرنا تھا آہستہ آہستہ بنا آواز بھی یہ سیڑھیاں چڑ رہا تھا وہ اریشفہ کو کسی بھی قسم کی ہوشیاری کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا اس کا انداز بالکل غیر محسوس کرتا تھا

 اس نے آواز کیےبنا دروازہ کھولا تو سامنے اریشفہ کو بیڈپر بیٹھے کچھ پڑھتے پایا اریشفہ بھی کمرے میں کسی کی موجودگی کو محسوس کر کے دروازے پر کھڑے اس انجان شخص کو دیکھ کر بوکھلا گئی اس نے گھبرا کر اٹھنا چاہا لیکن اگلے ہی لمحے وہ شخص اپنے پیچھے سے پستول نکال کر اس پر تان چکا تھا ۔

اریشفہ کے معاملے میں وہ کسی بھی قسم کا رسک لینے کو تیار نہ تھا

 وہ یہاں صرف اپنا کام سر انجام دینے آیا تھا یہ لڑکی ان کے لیے بہت اہم تھی بس یہی ایک لڑکی راستہ تھی انسپکٹر آریان سے اپنا کام نکلوانے کے لیے

کوئی بھی ہوشیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ چہرے پر ماکس لگائے پستول اس پرتانے اسے اچھا خاصہ ڈرا چکا تھا وہ آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگا جب جب کہ اریشفہ پیچھے کی طرف قدم اٹھانے لگی

وہیں رک جاؤ بے وقوف لڑکی اگر تم نے کسی بھی قسم کی ہوشیاری کی تو نقصان کی ذمہ دار خودہو گی وہ ے مزید دھمکا رہا تھا

یہ تو وہ بھی جانتا تھا کہ وہ بول نہیں سکتی ہو یہاں آنے سے پہلے تمام ہوم ورک کرکے آیا تھا اور اتنے دنوں سے وہ صرف اور صرف ایک موقع کی تلاش میں تھا اور آج اسے وہ موقع مل چکا تھا

اس نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے رومال اس کے چہرے پر رکھنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی کوئی جارحانہ انداز میں اس کا ہاتھ تھام چکا تھا

اس نے گھبرا کر سامنے کھڑے شخص کی طرف دیکھا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پستول کی مدد سے اسے گولی مارنی چاہیی لیکن اس آدمی نے ایسا نہ ہونے دیا پستول پر زور دینے کی وجہ سے ایک گولی چل کر سامنے لگی وال پر جالگی جس کی وجہ سے اریشفہ کی گھبر آہٹ میں مزید اضافہ ہو چکا تھا لیکن سامنے کھڑا شخص اس کا مسیحا تھا

اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسے کسی کو تو بھیج دیا تھا اس کی حفاظت کے لیے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سامنے کھڑا شخص جسے وہ فرشتہ سمجھ رہی ہیں وہ ایک درندہ ہے

 لیکن اس بات کا اندازہ بھی اسی جلد ہی ہو گیا

 جب سامنے والے لڑکے نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے مسیحا نے درندے کا روپ دھارتے ہوئے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور اس کے سینے کے آر پار کر دیا ۔اور پھر وہ شخص ر کا نہیں بلکہ  اس کاہاتھ پھر چلتا گیا اور اس انسان کا سینہ چھیرتا گیا منظر دیکھ کر اریشفہ نے چیکنا چاہا چلا نا چاہا یہ منظر اس کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا لیکن وہ نہ تو چلاسکتی تھی اور نہ ہی کسی کو پکار سکتی تھی

بس کھلی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔

زمین خون سے لت پت تھی اور وہی کچھ فاصلے پر ایک لاش پڑی تھی اس شخص کی لاش اب وہ شخص بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا ۔

تمہارے شوہر کو میرے بارے میں غلط انفرمیشن دی گئی اور اسے ایک جگہ بلایا گیا جب کہ وہاں تو میرا کوئی کام بھی نہیں تھا

جس سعودزاہد کو لوگ ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو یہ تھا اس نے مرے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

مجھے کہنا نہیں چاہیے لیکن تمہارےشوہر کے پاس اپنا دماغ نہیں ہے کیا جب جانتا ہے کہ اس نے ان لوگوں کا اتنا نقصان کیا ہے اور اب وہ خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے

 کوئی نہ کوئی کھیل کھیلیں گے تمہیں اس طرح اکیلے چھوڑ کر کیوں چلا گیا جب کہ وہ جانتا بھی ہے کہ اس شخص کی کمزوری صرف تم ہو اور وہ تمہارا استعمال کر سکتے ہیں

آج میں یہاں نہیں آتا تو تم جانتی ہو کیا کرتا ہے یہ شخص تمہیں کڈنیپ کر لیتا اور پھر انسپکٹر آریابن سے مقصد پورا کرتا

 خیر جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا میں یہ سب کچھ تمہارے سامنے نہیں کرنا چاہتا تھا ۔وہ اس کے ڈرے سہمے گھبرآئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بلکل لاپروا سے انداز میں کہہ رہا تھا

جیسے یہاں کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہ ہو

جیسے یہاں کوئی واردات ہوئی ہی نہ ہو

وہ اس لاش کے پاس اس طرح سے بیٹھا تھا جیسے وہ خون نہیں بلکہ پانی ہو اور وہ  کوئی لاش نہیں بلکہ کوئی شخص اپنی نیند پوری کر رہا ہو۔

اریشفہ کو اپنی سہیلی کی زندگی پر ترس آنے لگا تھا ڈر سے اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی

کچھ نہیں کہہ سکتی تھی بس وہی دیوار کے ساتھ لگے بیٹھے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے کچھ یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ شخص اسے جاتا ہوا نظر آیا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے حواس برقرار نہیں رکھ پائی تھی

°°°°°°

آریان کے اپنے شہر کی حدود میں داخل ہوئے تھے کہ سے فون پر کسی نے بتایا کہ اس کے گھر پر حملہ ہوا ہے اور ایک لاش بھی برآمد ہوئی ہے

 جس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے دیکھا تک نہیں جا سکتا

جبکہ اس کی بیوی اور ملازمہ گھرمیں بے ہوش پڑی ملی ہے آریان کو سیدھا ہسپتال میں ہی بلایا گیا تھا وہ پریشان تھا صبح سے وہ جانا بھی نہیں چاہتا تھا  اس کا ڈر سہی ثابت ہوا تھا آخر ان لوگوں نے اپنے مقصد کے لئے اس کی بیوی کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی

وہ جانتا تھا کہ اتنی آسانی سے اسے جانے نہیں دیں گے کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور نکالیں گے اپنے غیر قانونی مال کو اس سے نکلوانے کے لیے

 بس اگلے ہی ہفتے کو سارا سامان سرکاری سامان میں شفٹ کر دیا جانا تھا اس سے پہلے اس پر حملہ بھی ہوسکتا تھا اس کی کمزوری کو استعمال بھی کیا جاسکتا تھا اسی لیے اسے اریشفہ کا ڈر تھا لیکن وہ اپنا کام چھوڑ نہیں سکتا تھا

یہ اس کی مجبوری تھی لیکن ملازمہ کی موجودگی میں گھر پر کسی کا حملہ کرنا اور پھر اسی کی تلاش ملنا اور پھر لاش کے ساتھ بیسٹ کا  ٹگ بھی تھا لاش کے ماتھے پر بڑا بڑا بیسٹ لکھا تھا

سر آپ کی بیوی ہوش میں آئے تو ہم ان سے پوری معلومات حاصل کرتے ہیں مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے بیسٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی غیر موجودگی میں انسپیکٹر راحت اس کیس کو ہینڈل کر رہا تھا

نہیں فی الحال نہیں اس کی طبیعت بہت خراب ہے میں خود اس سے معلومات لے لوں گا کسی اور کو اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے

وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ چشم دید گواہ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کے لئے اس طرح کی کوئی بھی انکوائری برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

سر ٹرسٹ می میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کی وائف ہیں میں بہت احتیاط سے کیس کو ہینڈل کروں گا آپ مجھے میرا کام کرنے دیں اس نے سمجھانا چاہا

 میں نے تمہیں جتنا کہا ہے راحت تم اتنا کرو یہ میرا کام ہے میں اسے دیکھ لوں گا

اس نے غصے سے کہا تھا

 لیکن راحت کی دی گئی اگلی انفارمیشن اسے پریشان کر گئی تھی

سر لیسٹ میں اگلا نام سعود زاہد تھا اور اتفاق سے اس شخص کا نام بھی سعود زاہد ہء اور اس کا اس گینگ سے گہرا تعلق ہے جن کا پہلا قتل ہوا ہے اس نے تفصیل بتائی

سر یہ سب ان لوگوں نے پلان کیا تھا یہ لوگ آپ کے گھر پر حملہ کرنے کے لیے پوری پلاننگ کر چکے تھے اسی لیے پہلے آپ کو ایک جھوٹی خبر دی گئی تھی

جس کی وجہ سے آپ شہر سے دور چلے گئے اور پیچھے آپ کی وائف کو کڈنیپ کرنے کی کوشش کی اور بیسٹ نے آکر اپنا کام کر دیا آج تو آپ کو بیسٹ کا احسان مند ہونا چاہیے جس نے آپ کی بیوی کی جان بچائی ہے ور نہ نجانے کیا ہوتا ہے

اور یہ سچ ہی تو تھا کہ آج اسے واقعہ ہی بیسٹ کا احسان مند ہونا چاہیے ورنہ وہ اپنی بیوی کو کیسے بچاتا  وہ لوگ پوری پلاننگ کے ساتھ اسے شہر سے باہر بھیج چکے تھے آج بیسٹ نے اس کے بچے اور بیوی کی جان بچائی تھی اور یہ احسان کوئی چھوٹا سا احسان نہیں تھا اسے جب بھی موقع ملتا ہے وہ احسان چکاتا

°°°°°°°°

اسے ہوش آیا تب بھی وہ بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی

اورآریان اس کے پاس ہی تھا اسے ہوش میں آتا دیکھ کر فوراً اس کے قریب آیا اور اس کا نازک سا وجود تھام کر اپنی باہوں میں بھیج لیا

ارشی میری جان گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں آگیا ہوں سب ٹھیک ہے

میں ہوں تمہارے پاس ایم سوری مجھے تو میں اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا یہ سب کچھ میری لاپروائی کا نتیجہ ہے اب میں تمہیں ایک لمحے کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا وہ اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھا

ج  کے ارشی اس کے سینے میں اپنا آپ چھپایا یے اس میں چھپ جانا چاہتی تھی جیسے ہر مصیبت سے ہر پریشانی سے دور چلے جانے کا ارادہ ہو جیسے اس منظر کو آنکھوں سے ہٹا دینا چاہتی ہوں لیکن وہ منظر اس کی آنکھوں سے نہیں ہٹا رہا تھا اس کے بیڈروم میں خون پھیلا ہوا تھا فرش پر خون ہی خون تھا اس کے سامنے اس نے کتنی بار اس کے سینے میں چاقو اتارا

اور وہ کوئی غیر نہیں تھا اس کی بیسٹ فرینڈ کا شوہر تھا کچھ دن پہلے کی تو بات تھی جب اس نے کہا تھا کہ اسے خون سے خوف محسوس ہوتا ہے اس کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اور کیسے آج وہ اپنے چاروں طرف خون پھیلائے بیچ میں بیٹھ کر سگریٹ سلگا رہا تھا

اس کی سوچوں کے سارے دھاگے اس وقت جان کے ساتھ بندھے ہوئے تھے جب انسپیکٹر عمران اور انسپکٹر رضی اندر داخل ہوئے

اسلام علیکم بھابی کیسی طبیعت ہے آپ کی عمران نے پہل کی

لیکن اس وقت شاید اس وقت کسی سے نہیں بات کرنا چاہتی تھی وہ اریان کے سینے سے لگی کسی کو کوئی جواب نہیں دے رہی تھی بس خاموشی سے چاروں طرف وہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اریشفہ گھبرائی ہوئی ہے

عمران اور رضی نے بھی اس وقت ان دونوں کو اکیلے چھوڑنا بہتر سمجھا اور ان کو خدا حافظ کہتے ہیں باہر چلے گئے ۔

آریان اریشفہ کو لے کر بہت پریشان تھا اریشفہ کی حالت ابھی تک سمبلی نہیں تھی اور طبیعت بھی بہت زیادہ خراب تھی ۔
ایسے میں آریان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس کی حالت اس کے بےبی کے لئے بھی بری ہو سکتی تھی ڈاکٹر نے اسےینشن سے دور رکھنے کے لیے کہا تھا اور آریان سے جتنا ہو سکے وہ اتنا کرنے کی کوشش کر رہا تھا
لیکن اس کے باوجود بھی وہ حددرجہ سہمی ہوئی تھی اپنی آنکھوں سے کسی کا قتل ہوتے دیکھنا بہت دل گردے کی بات ہے اور اریشفہ جیسی نازک سی لڑکی کے لئے یہ منظر کتنا خطرناک ہوگا وہ سمجھ سکتا تھا ۔
اریشفہ کو ٹینشن سے دور لے جانے کے لیے آج اس نے جاناں اور عائشہ کو فون کیا تھا کہ وہ اس بات کو بھلانے میں اس کی مدد کر سکیں ۔
عائشہ نے تو جب سے سنا تھا کہ اس نے بیسٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ بہت پریشان تھی جبکہ جاناں تو اس کی غیر ہوتی حالت کا سن کر جان کے ساتھ یہاں آگئی تھی
جان تو باہر آریان کے پاس بیٹھ گیا اگر اریشفہ کو ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ باہر جان آیا ہوا ہے تو نجانے اس کی کیا حالت ہوتی ۔
ارشی کیا تم نے سچ مچ میں بیسٹ کو دیکھا وہ کیسا دکھتا ہے بہت خطرناک دکھتا ہے کیا جاناں اس کے ساتھ بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھی جب عائشہ پہنچی
جاناں ہم ارشی کو ان سب باتوں سے دور کرنا ہے نہ کہ اسے بار بار وہ سب کچھ یاد کروانا ہے عائشہ نے سخت لہجے میں جاناں کو ڈانٹا
ایم سوری یار میں تو بس جاننا چاہتی تھی کہ وہ درندہ نما انسان دیکھتا کیسا ہے ۔مجھے تو سوچ کر ہی ایسے لوگوں سے نفرت ہونے لگتی ہے کیسے کسی کی جان لے سکتے ہیں جاناں نے اپنا نظریہ بیان کیا تو اریشفہ اسے دیکھنے لگی وہ بیچاری تو کچھ بھی نہیں جانتی تھی کہ جس درندے نما انسان سے وہ اتنی نفرت کرتی ہے وہ کوئی غیر نہیں بلکہ اس کا شوہر ہے ۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ میرے لیے پانی لے کر آو بہت پیاس لگی ہے مجھے عائشہ ارشی کے ساتھ بیٹھ کر بیٹھی کہنے لگہ تو جاناں اس کے لیے پانی لانے اٹھ گئی ارشی اس کے سامنے ارشی کافی نورمل ظاہر کر رہی تھی لیکن اس کی بات نے اریشفہ کو ایک بار پھر سے کاپنے پر مجبور کر دیا
کیا تم نے جان کو قتل کرتے دیکھا ہے اس کا سوال بہت ہی غیر متوقع تھا لیکن اریشفہ کے گھبراہٹ نے اسے اور کچھ بھی بولنے نہ دیا
دیکھو ارشی یہ بات صرف میرے اور تمہارے درمیان رہنی چاہیے اس کے بارے میں کسی کو کچھ مت بتانا میں جانتی ہوں جان ہی بیسٹ ہے ۔لیکن وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ غلط نہیں ہے میرا یقین مانو ۔وہ ایک بہت اچھا انسان ہے اور دنیا سے گناہ گاروں کو ختم کر رہا ہے اس سب کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ ہے تم یہ راز اپنے سینے میں ہی دفن کر دو یہ بات کبھی کسی کو پتا نہیں چلنی چاہیے وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے امید سے کہہ رہی تھی جب جانا . پانی لی ہے اندر داخل ہوئی
میں سوچ رہی ہوں کہ ہم اریشفہ کو لے کر پکنک پر چلتے ہیں اس کا دھیان تھوراسا بٹ جائے گا آریان بھائی کے پاس تو ٹائم ہی نہیں ہے اسے کہیں باہر لے جانے کا اندر داخل ہوتے ہوئے جانا ں اپنے ہی دھن میں بولی ۔
تو دونوں نے ایک ٹھنڈا سانس خارج کیا کہ وہ ان لوگوں کی کوئی بھی بات کو نہیں سن پائی تھی ۔
ویسے آئیڈیا برا نہیں ہے ہم تینوں کو کہیں باہر نکلنا چاہیے عائشہ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔اور تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں اسے اس موضوع سے ہٹانے میں کامیاب رہی تھی
°°°°°°°°
جان کیا تمہیں پتا ہے ارشی نے بیسٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے قتل کرتے ہوئے میں نے تو بہت بار پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ کیسا دکھتا ہے پھر عائشہ نے کہا کہ مجھے بار بار نہیں پوچھنا چاہیے اس سے تو ہر دفعہ اسکو بار بار اس شخص کا چہرہ یاد آجائے گا اور یہ اس کے بے بی کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہے ۔
وہ دونوں کیچن میں کھرے کھانا بنا رہے تھے جب جاناں نے ایک بار پھر سے یہ موضوع چھیڑ دیا
جاناں تم کیوں جاننا چاہتی ہوکہ وہ شخص کیسا دکھتا ہے وہ اپنے کام میں مصروف اس سے سوال کرنے لگا ۔
ارے مجھے بھی تو جاننا ہے کہ سب کا قتل کرنے والا سب کو یوں مارنے والا آخر دیکھتا کیسا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ اس کا چہرہ بہت خطرناک ہوگا ۔ایک دم بھیڑیے کے جیسا کیونکہ عام انسان تو اتنا ظالم نہیں ہو سکتا مجھے تو لگتا ہے کہ اس قاتل کا چہرہ ہی اتنا بھیانک ہوگا کہ وہ سب کا چہرہ بگاڑ دیتا ہے میرے خیال میں اس سے خوبصورت چہرے برداشت نہیں ہوتے جاناں اپنے ہی دھ میں تیز بول رہی تھی اچانک جان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا
میرا چہرا کیسا دکھتا ہے تمہیں کیا میں تمہیں بھیڑیے جیسا دکھتا ہوں وہ سخت لہجے میں کہنے لگا
جان میں تمہارے بارے میں بات نہیں کر رہی میں تو اس بیسٹ کے بارے میں بات کر رہی ہوں جو سب کی جان لیتا ہے اس کا سر د انداز جاناں کو سہنے پر مجبور کر گیا
یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں جاناں کے آخر کیوں تم کسی اور کے بارے میں بات کر رہی ہو جب ہم دونوں ایک ساتھ ہیں جب ہم دونوں ایک ساتھ اتنا خوبصورت وقت گزار رہے ہیں اتنی پیاری یادیں بنارہے ہیں اور ایسے میں تم ایک قاتل کے بارے میں باتیں کرکے اس موومنٹ کو برباد کر رہی ہو
ایم سوری جان میں تو بس بیسٹ کے بارے میں بات کر رہی تھی مجھے نہیں پتہ تھا تمہیں اتنا برا لگے گا وہ کیا ہے نہ میرا ذہن اریشفہ کی حالت میں الجھا ہوا ہے لیکن اب میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کروں گی تم بتاؤ اب کیا کرنا ہے وہ اس کا کھانےکی طرف لے جانے لگی جہاں وہ اسے کچھ بنانا سکھا رہا تھا ۔
اس کی معذرت کرنے پر وہ ایک بار پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا
°°°°°°°°°°
پولیس والوں نے بہت بار اریشفا تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن آریان کا بس اتنا ہی کہنا تھا کہ جب تک وہ بالکل ٹھیک نہیں ہو جاتی ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دے گی ۔
جاناں اور عائشہ روز اتی اس کی دلجوئی کرتی لیکن اس کے باوجود بھی اریشفا اکثر نیند میں ڈر جاتی اسے ہر طرف خون ہی ہو نظر آتا آریان نے خود بھی بہت بار پوچھنے کی کوشش کی تھی جان کے بارے میں لیکن اس نے ا سے کچھ بھی نہ بتایا
کہیں نہ کہیں عائشہ کی باتیں اس کے ذہن میں تھی کہ وہ جو بھی کرتا ہے وہ غلط نہیں ہے بس برے لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچاتا ہے ۔
اور یہی وجہ تھی کہ اتنے ڈر کے باوجود بھی اریشفہ نے اپنی زبان پر تالا لگا لیا تھا ۔
اب تو اس واقعے کو بہت سارے دن گزر چکے تھے لیکن اریشفہ اب بھی آریان کی پریشانی کی وجہ تھی
°°°°°°°°°°
رات نہ جانے کون سا وقت تھا کہ جاناں کو اپنے قریب حرکت محسوس ہوئی لیکن نیند میں نظر انداز کرکے دوبارہ سو گئی ۔اور پھر گاڑی کی آواز سنائی دی اس نے ایک نظر پیچھے کی جانب پلٹ کر دیکھا جہاں جان نہیں تھا
جان رات کو کہاں چلا گیا وہ پریشانی سے اٹھ بیٹھی اور جان کے موبائل پر کال کرنے لگی لیکن اتفاق سے موبائل بھی وہی بیڈ کے پاس ٹیبل پر ہی پڑا ملا
ایسا بھی کیا ہو گیا کہ جان اپنا موبائل بھی گھر چھوڑ گیا وہ پریشانی کے عالم میں باہر ٹہلنےلگی
پھر تقریباً ڈھائی گھنٹے کے بعد اسے جان کی گاڑی کی آواز سنائی دی تھی بھاگتے ہوئے باہر پہنچی جہاں جان خون سے لت پت شرٹ میں گاڑی سے نکلا
جان یہ تمہیں کیا ہوا ہے یہ کیا ہوا ہے تمہیں چوٹ لگی ہے دکھاؤ مجھے تمہارا اتنا خون بہہ رہا ہے وہ پریشانی سے اسے دیکھنے لگی
ریلیکس جاناں مجھے چوٹ نہیں لگی میں بالکل ٹھیک ہوں تم اتنی رات کو کیوں جاگ رہی ہو ا سے جاگتے دیکھ کر جان کے چہرے پر تھوڑی پریشانی آئی تھی لیکن اسے اس طرح سے اپنا معائنہ کرتے دیکھ کر وہ مسکرا دیا
جاناں میری جان میں بالکل ٹھیک ہوں ایک ضروری کام آ گیا تھا وہ نپٹا کر واپس آ رہا تھا کہ راستے میں ایک بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا لوگ تو بہت تھے لیکن کوئی بھی مدد نہیں کر رہا تھا میں بس انسانیت کے ناتے اسے ہسپتال لے گیا اور یہ اسی کا خون ہے اللہ کا شکر ہے کہ میں وقت رہتے اسے ہسپتال پہنچا چکا تھا ورنہ اس کی جان بچانا بہت مشکل ہو جاتا وہ اسے اپنے ساتھ لیے ہسپتال کے بارے میں بتاتے ہوئے بیڈروم میں لے آیا تھا
اللہ کا شکر ہے مجھے لگا تمہارا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے تم فریش ہو جاو تب تک میں تمھارے کپڑے نکالتی ہوں تمہیں عجیب فیل ہو رہا ہوگانا خون والے کپڑوں میں کہیں نہ کہیں جاناں کے ذہن میں ابھی تک جان کا خون والے ڈر کا قصہ موجود تھا ۔
اسی لیے وہ پریشانی سے کپڑے نکالنے لگی جبکہ جان بھی اسے باتوں میں لگا کر اب پر سکون ہو چکا تھا
°°°°°°°°°°
صبح ہوتے ہی جان اپنے کام پر چلا گیا جبکہ جاناں گھر کے کام نپٹاکر جان کے لیے کچھ بنانے کا سوچ رہی تھی جب دروازہ بجا
اس وقت کون ہو سکتا ہے بھلا جان کے جانے کے بعد تو کبھی بھی کوئی نہیں آتا تھا ٹائر بھی اسکی موجودگی میں آتا جاتا تھا وہ دروازے کی طرف آئی اور دروازہ کھولا تو سامنے بابا کو کھڑے دیکھا جہاں ان کے پہلی بار اپنے گھر آنے پر خوشی ہو رہی تھی وہی ان کا چہرہ نہ کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا
رات کو کیا کہانی سنائی ہے تمہارے شوہر نے تمہیں یقینا اس نے تمہیں اس قتل کے بارے میں تو نہیں بتایا ہوگا جو اس نے کل رات کیا ہے بابا کے لہجے میں اشتقاق تھا
یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں بابا آپ کو کس نے بولا ہے یہ سب کچھ کیوں آپ کے دماغ سے جان کے خلاف یہ فتور نہیں نکل رہا وہ کوئی قاتل نہیں بلکہ ایک بزنس مین ہے وہ بہت کوشش کے باوجود اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر سکی تھی
اور ویسے بھی جان کے خلاف بولنے والے اس کے بابا خود ہی کیوں نہ ہو اس کی برداشت سے باہر تھا
ٹھیک کہہ رہا ہوں میں جاناں یہی حقیقت ہے جتنا جلدی ہو سکے اسے قبول کر لو تمہارا شوہر ایک قاتل ہے جسے تم ایک عام انسان سمجھتی ہووہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ لوگوں کی جان لینے والا درندہ ہے تم ابھی اسے اتنا نہیں جانتی جتنا کہ میں جان چکا ہوں تمہاری آنکھوں میں محبت کی پٹی بندھی ہے اور جس دن یہ پٹی کھلے گی نہ تمیں سب صاف نظر آئے گا
بس ہو گیا آپ کا یہی ساری باتیں کرنے آئے ہیں آپ یہاں چلے جائیں یہاں سے مجھے آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنی جان جیسا بھی ہے مگر آپ جیسا تو ہرگز نہیں ہے وہ ان کے منہ پر دروازہ بند کرتے ہوئے بدتمیزی کا مظاہرہ کر گئی تھی جس سے انہوں نے بھی بہت محسوس کیا لیکن پھر بھی خاموش نہیں رہے
جاناں بہت پچھتاؤ گی تم اپنے اس فیصلے پر تمہیں تب میری باتیں صحیح اور جان غلط لگے گا اب بھی وقت ہے چھوڑ دو اس شخص کو کچھ نہیں رکھا اس شخص کے ساتھ میں تم ایک قاتل کے ساتھ اپنی زندگی برباد کر رہی ہو جاناں وہ ایک قاتل ہے اس کا مقصد صرف مجھ تک پہنچنا تھا وہ تم سے کوئی محبت نہیں کرتا اور نہ جانے کیا کیا بول رہے تھے لیکن جاناں ان کی ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کمرے میں بند ہوگئی یہاں ان کی آواز نہیں پہنچتی تھی
اسےجان پر پورا یقین تھا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا تھا اس کا یقین غلط نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ اس بات کا یقین اپنے باپ کو کیسے دلاتی جو ان دونوں کو الگ کرنے کے لیے من گھڑت کہانی بنا رہا تھا
اسے اس شخص پر ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا ۔
اس نے یہی سوچا تھا کہ وہ جان کو فون کرکے سب بتا دے گی بابا کے یہاں آنے سے لے کر ان کی تمام باتوں تک وہ اس سے کچھ بھی نہیں چھپائے گےی اس سے چھپانے کا نتیجہ وہ پہلے دیکھ چکی تھی
ابھی اس نے جان سے بات کرنے کے لیے فون اٹھایا ہی تھا کہ اس کی میسج ٹون بجی میسج بابا کا تھا اس کے چہرے پر غصے کی لکیریں نمایاں ہوئی
اگر اپنے شوہر کی حقیقت کے بارے میں جاننا چاہتی ہوتو کل صبح اس ہسپتال پہنچ جانا سب تمہارے سامنے آ جائے گا تمہارا شوہر کتنا نیک اور پارسا ہے ساری حقیقت کھل کر تمہارے سامنے آجائے گی پھر تمہیں تمہارا باپ ٹھیک اور وہ شخص غلط لگے گا جاناں تب تم اپنے فیصلے پر پچھتاؤگی صبح یہاں ضرور آنا سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اس نے غصے سے موبائل بیڈ پر پھینک دیا
مجھے کہیں نہیں جانا بابا مجھے اپنے جان پر پورا یقین ہے لیکن پھر بھی میں آپ کے اس یقین کو غلط ثابت کرنے کے لیے کل اسپتال آوں گی آخر میں بھی تو دیکھوں آپ میرے جان کو غلط ثابت کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں اس نے کچھ سوچتے ہوئے موبائل دوبارہ اٹھایا اور جان کو فون کرنے کی بجائے بابا کو کل ہسپتال آنے کا کہہ کر فون واپس رکھ دیا
میں آپ پر ثابت کروں گی بابا میرا جان غلط نہیں ہے اس نے یقین سے سوچا
اسےجان پر پورا یقین تھا مگر صرف بابا کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جان غلط نہیں ہے اس نے وہاں نہ صرف جانے کا فیصلہ کر لیا تھا بلکہ اس بارے میں جان کو کچھ بھی نہ بتانے کا فیصلہ بھی گیا تھا
جان واپس آیا تو اس نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا سب کچھ بہت نارمل تھا اس نے جان کے لیے کھانا بنایا جو جان کو بہت پسند آیا تھا جس کا انعام اس نے اس کے لبوں پر بوسہ دے کر دیا تھا
اس کے بعد بھی رات بہت بار اس کا دل چاہا کہ وہ جان کو سب کچھ بتا دے لیکن اس طرح شاید وہ بابا پر جان کو صحیح ثابت نہیں کر پائے گی ۔
اور وہ جان کو بابا کی نظر میں صحیح ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی وہ اپنی پسند کو ان کے سامنے صحیح ثابت کرنا چاہتی تھی
اور ایسے میں جان سے یہ سب کچھ پانا بہت ضروری تھا شاید جان اسے ان سے ملنے کی اجازت نہ دے اسی لئے جان سے یہ سب کچھ چھپانا ہی فی الحال کے لیے بہتر تھا
°°°°°°°°°°
صبح ہوتے ہی جان اپنے کام پر نکل گیا اور جاناں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا پیچھا کیا وہ جاننا چاہتی تھی کہ جان آخر کہاں جاتا ہے
اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جان اسی ہسپتال آئے گا جہاں کا ایڈریس اس کے بابا نے بھیجا ہے اس نے کچھ فیصلہ کرنے سے بہتر جان کو پوری طرح سے فالو کرنا سمجھا وہ جان سے چھپ چھپاکر ہسپتال آپہنچی تھی ۔
جان یہاں کیوں آیا ہے۔۔۔۔۔!
اسے بھلا یہاں کیا کام ہے ۔۔۔۔!
اور بابا نے اسی ہسپتال کا ایڈریس کیوں دیا ۔۔۔۔!
بے شمار سوال اس کے دماغ میں گردش کر رہے تھے جن کا جواب اب صرف ہسپتال کے اندر جا کر ہی مل سکتا تھا ۔
وہ جان سے چھپ کر ہسپتال میں داخل ہوئی تھی اور مکمل طور پر اس کا پیچھا بھی کر رہی تھی جان کو شاید تھوڑا شک گزرا اسی لئے اسے دو تین بار پیچھے مڑ کر دیکھا تھا لیکن وہ اس کی نظروں سے چھپ گئی
اس کے بعد جان کمرے میں داخل ہوا وہ کافی دیر تک کمرے کے باہر رہی اس کا ارادہ جان کے یہاں سے چلے جانے کے بعد اندر جانے کا تھا لیکن بابا کی باتوں نے اس کا دماغ اچھا خاصہ خراب کر رکھا تھا ۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسی وقت دوسری طرف سے بھی دروازہ کھولا جان اسے اپنے سامنے دیکھ کر کھٹکا تھا
°°°°°°°°°°
جاناں تم یہاں کیا کر رہی ہو تمہیں تو اس وقت گھر پر ہونا چاہیے تھا تم یہاں ہسپتال میں کیسے آئی۔۔۔۔۔؟
جان کا انداز تفیش کردہ ہرگز نہیں تھا وہ بہت نارمل سے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔
پہلے تم بتاؤ گے تم یہاں کیا کر رہے ہو جاناں نے الٹا سوال کیا
میں نے کل تمہیں اس بچے کے بارے میں بتایا تھا نا جس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا میں اسی کو یہاں دیکھنے آیا تھا اب تم مجھے بتاؤ گی کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ اب بھی بہت نورمل انداز میں اس سے بات کر رہا تھا
جاناں نے چاہا کہ اسے جھوٹ بول کر سب ٹھیک کر لے اسے کچھ بھی نہ بتائے بابا کے بارے میں لیکن کب تک شاید بابا نے اپنی حرکتیں کبھی بھی نہیں چھوڑنی تھی اور اس طرح جان پر شک کر کے وہ اپنا اور جان کا رشتہ خراب کر رہی تھی اسی لیے اس نے جان کو ساری بات بتا دی
ایم سوری جان تو یہ مت سوچنا کہ مجھے تم پر یقین نہیں ہے میں صرف بابا کو یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ تم غلط نہیں ہو
میں تو صرف اسی لیے میں تمہیں بتائے بغیر یہاں آئی مجھے تم پر پورا یقین ہے جان تم کبھی غلط نہیں ہو سکتے بس بابا نے وہ سب کچھ کہا تو میں انہیں غلط ثابت کرنے کے لیے ان کی بات مان کر یہاں آ گئی جاناں بری طرح سے روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی تھی
لیکن جاناں تمہیں یہ ساری باتیں مجھے بتانی تو چاہیے ایک با شیئر تو کرنا چاہیے میں تمہیں خود اس بچے سے ملوانے لے آتا اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں کسی کا قتل کرکے اسے ہسپتال لے کر آؤں گا ۔
پتہ نہیں کیا سوچ ہے تمہارے بابا کی مجھے تو یہ شخص سمجھ میں نہیں آتا جان نے اُس سے کہا
جان میں آئندہ ان کی کسی بات پر یقین نہیں کروں گی بلکہ میں ان کا نمبر بھی بلاک کر دیتی ہوں تاکہ وہ مجھ سے رابطہ ہی نہ کر سکے میری غلطی ہے مجھے یہاں تمہارا پیچھا کرتے ہوئے نہیں آنا چاہیے تھا ۔
اٹس اوکے جاناں لیکن وعدہ کرو کہ اب تمہارے بابا جو بھی کہیں گے تم پہلے مجھ سے بات کرو گی ۔ورنہ اس سے ہمارا رشتہ خراب ہو گا اور کچھ بھی نہیں وہ اسے سمجھانے لگا جس پر جاناں ہاں میں سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے سینے پر اپنا سر رکھ چکی تھی
اچھا چلو بہت وقت ہو گیا ہے گھر چلتے ہیں جانا نے کہا
نہیں پہلے تم میرے ساتھ چلو اور اندر اس بچے سے ملتا ہوں کہ تمہارے بابا کا کوئی بھی ع
شک ادھورا نہ رہ جائے اس کے لہجے میں اب بھی غصہ تھا
نہیں جان مجھے تم پر کوئی شک نہیں ہے ہم اب واپس گھر ہی چلیں گے مجھے کسی سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے تم پر پورا یقین ہے اس کی بات پر جاناں نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر اسے زبردستی ہسپتال کے باہر لے جانے لگی
وہ لڑکا کہاں گیا جو رات کو یہاں دھڑکتا دل لایا تھا تھوڑی دیر پہلے تو یہی تھا ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتے ہوئے کہنے لگا
سر کوئی لڑکی آئی تھی اسے اپنے ساتھ لے گئی اب تک تو وہ لوگ جا چکے ہوں گے ورڈ ڈبوئے نے کہا
اچھا ٹھیک ہے اگر اس کا نمبر موجود ہے کاونٹر پر تو کہو کہ ہمیں ایسے اور مووینگ ہارٹز کی ضرورت ہے ۔ایک بوڑھے شخص کی جان بچانے کے لیے
جی سر میں رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں بورڈ بوئے ترکش لینگویج میں کہتا آگے بڑھ گیا
°°°°°°°°°°°
عرشی کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی آریان اس کا بہت خیال رکھتا تھا اور صرف اس کے لیے اس نے ایک ہفتے تک کام سے چھٹی کی تھی
لیکن آج وہ دوبارہ اپنے کام پر حاضری دے چکا تھا ہاں مگرعرشی کے لیے اس نے اسپیشل دو گارڈز کا انتظام کروایا تھا
جو ہر پل سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتے تھے جاناں اور عائشہ اکثر اس سے ملنے آتی رہتی تھی ۔
لیکن جان کے بارے میں اس نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا جان کو لگا تھا کہ شاید اور کسی کو نہ سہی لیکن آریان کو اس کے بارے میں سب کچھ بتا دے گی لیکن ایسا نہ ہوا اب وہ اریشفہ کے معاملے میں بھی بے فکر ہو کر اپنا کام کرنے لگا تھا ۔
یہ تو وہ سمجھتا تھا کہ اریشفہ کے سامنے جو کچھ بھی ہوا ہے اس سے اس کے ذہن پر بہت برا اثر پڑا ہے لیکن اس کے بعد بھی اس کا کسی کو کچھ بھی نہ بتانا اس کی بہت مدد کر گیا تھا
اب وہ اپنے کام میں اور زیادہ بے فکر ہو گیا تھا ۔
عائشہ نے اس کام میں اس کی بہت مدد کی تھی جس کے لیے وہ اس سے ایک بار مل کر شکریہ ادا بھی کر چکا تھا ۔
اور اس سب میں عائشہ کا بس اتنا ہی کہنا تھا اس کام جرم ختم کرنے والے کام میں ہمیشہ ساتھ دے گی چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے
°°°°°°°
کام پر واپس آنے کے بعد آریان کو اس بات کا احساس ہوا تھا کہ اب لسٹ میں بہت کم نام باقی بچے ہیں
ان سب کے ہوتے ہوئے بیسٹ کتنی بے فکری سے اپنا کام سرانجام دے رہا تھا جیسے اسے کسی کا خوف اور ڈر ہی نہ ہو
اور وہ بھلا ان سے ڈرتا بھی کیوں کونسا ہے وہ لوگ اس تک پہنچ پائے تھے یا اسے ایک پرسنٹ بھی نقصان پہنچا پائے تھے جس سے خوفزدہ ہوکر اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتا ۔اتنے مہینوں سے یہ کیس چل رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ بیسٹ کے خلاف کچھ بھی نہیں کر پائے تھے وہ اپنا کام کر رہا تھا جیسے پولیس یا قانون کا خوف اس کے اندر موجود ہی نہ ہو
اور وہ جو اس کے تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اب انہیں یہ جان کر مزید الجھن ہو رہی تھی کہ اب اس کیس میں کچھ نہیں بچاتا لسٹ میں بہت کم لوگوں کا نام باقی تھا اور جلد ہی بیسٹ نے ان کو بھی ختم کر کے اپنا کام ختم کر لینا تھا
صرف آٹھ لوگوں کے نام تھے کہ جن راستے سے ہٹانے کے بعد شاید بیسٹ کیس ہی کلوز ہو جانا تھا اور یہ پولیس کی ناقص پرفارمنس پر ایک کالا دھبہ تھا
اگر اب کچھ امید تھی تو صرف اور صرف زونی سے جوطہٰ کے آجکل بہت قریب آ چکی تھی ۔زونی کا نام لسٹ میں پانچویں نمبر پر تھا اس لیےابھی اس کی موت کو تھوڑا وقت باقی تھا
اب وہ ہر ممکن طریقے سے اس سے انفرمیشن نکالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ بھی کوئی کچی کھلاڑی نہیں تھی وہ بہت ہوشیاری سے اپنا کام کر رہی تھی ایسے میں اس کے ذہن کو پڑھنا ایک مشکل ترین کام تھا جو طہ اپنے سر لے چکا تھا
عائشہ کے ہر درجہ نظرانداز کرنے کے بعد اب طہ اسے تنگ نہیں کرتا تھا ۔وہ بہت کم اس کے راستے میں آتا ہاں لیکن اسے احساس تھا کہ اس نے غلطی کی ہے وہ اب بھی اس سے معافی مانگنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن نہ تو عائشہ اس سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور نہ ہی معاف کرنے کا
وہ اسے جہاں بھی دیکھتی چہرہ پھیر لیتی جیسے اسے جانتی ہی نہ ہو اس سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو عائشہ اپنے جذبات اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اور اپنے جذبات اس پر ظاہر نہ کرنے کے لیے اس نے اپنے راستے بدل لئے تھے ۔
اس نے طہٰ سے اس طرح سے تعلق توڑا تھا کہ جیسے اس سے کبھی کوئی واسطہ رہا ہی نہ ہو جیسے کبھی جانتی ہی نہ ہو
وہ اپنی زندگی میں مصروف ہونے لگی تھی دوبارہ سے اپنی پرانی روٹین پر آ چکی تھی جاناں اور اریشفہ کے ساتھ وقت گزارنا انہیں لے کر شاپنگ پر جانا سارا دن موج مستی کرنا اب یہی اس کی روٹین تھی جس میں طہٰ شامل نہ تھا
اور یہی وجہ تھی کہ طہٰ اس سے دور ہو گیا تھا وہ اس کی پرسنل لائف ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھااور جس طرح سے وہ دوبارہ اپنی زندگی میں مصروف ہوئی تھی طہٰ کو بھی اچھا لگا تھا ایسے میں وہ بھی اس کا پیچھا کرنا یا بات بات پر بات کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ چکا تھا ۔
وہاپنے مشن پر فوکس کرنے لگا تھا اس کا میشن بیسٹ کو پکڑنا تھا کیسے بھی کسی بھی حالت میں وہ بھی بیسٹ کو اگلا قتل کرنے سے پہلے بیسٹ ان کے لیے ایک بہت مشکل ٹاسک بنا ہوا تھا جس میں اب وہ کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہیں کرنا چاہتا تھا
°°°°°°°°
اریشفہ اور جاناں اریشفہ کے ساتھ زبردستی باہر آئی تھی اریشفہ نے تو خود کو جیسے گھر میں قید کر لیا تھا اسی لیے عائشہ اسے زبردستی اپنے ساتھ باہر گھسیٹ لائی تھی ۔اریشفہ اب کافی نارمل ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی گھر سے باہر نکلنا لوگوں سے ملنا بالکل ہی ترک کر چکی تھی ایسے میں جاناں اورعائشہ ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتی تھی اسے دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لانا نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کے ہونے والے بچے کے لیے بھی بہت ضروری تھا
اس وقت وہ تینوں شاپنگ مال شاپنگ کرنے میں مصروف تھی
یار اس لڑکے کو کہیں دیکھا ہے اچانک جاناں کے کہنے پر عائشہ اور اریشفہ کے مڑ کر دیکھا اریشفہ فورا ہی اسے پہچان کراشارے بتانے لگی کہ وہ آریان کا دوست ہے اور پارٹی والے دن ان کے گھر بھی آیا تھا ۔
لیکن جاناں کو آج پہلی بار اسے دیکھ کر کچھ عجیب لگا کچھ تھا وہ آریان کے گھر کے علاوہ بھی اس نے اس لڑکے کو کہیں دیکھا تھا مگر کہاں اسے یاد نہ آیا جبکہ عائشہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی انجان بنی ہوئی تھی
اور پھر تھوڑی ہی دیر میں شاپنگ مال سے ایک خوبصورت ماڑرن سی لڑکی اس کے گلے کا ہار بنیں
عائشہ جو ان لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کیے ایک نظر سے دیکھ کر آگے بڑھنے لگی تھی اس لڑکی کو دیکھ کر جل بن اٹھی
اس نے انتہائی غصے سے گھور کر ان دونوں کو دیکھا تھا طہٰ بھی شاید اسے دیکھ چکا تھا تبھی اچانک ہی اس نے اس لڑکی کا ہاتھ چھوڑ دیا جبکہ عائشہ بنا جاناں اور اریشفہ کو مخاطب کیے پکر پٹکتی وہاں سے نکلتی چلی گئی
طہ نے دور تک اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر اس لڑکی کی طرف متوجہ ہوا
ڈرالنگ تم کہاں کھو گئے میں تو یہاں ہوں تمہارے پاس چلو کلب چلتے ہیں وہ اس کے ساتھ لگی اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے بہت بے باکی سے بولی طہٰ نے صرف مسکراتے ہوئے اسے چلنے کا اشارہ کر چکا تھا
وہ لوگ جا چکے تھے عائشہ بھی جا چکی تھی لیکن اریشفہ اور جاناں دونوں یہ سوچنے میں مصروف تھی کہ عائشہ کو اچانک ہوا کیا
ماما سے بنا کچھ بولے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوگئی شوپنگ کی ہوئی تمام چیزوں کو پھینکتے ہوئے وہ بری طرح سے سسکتی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی
کیا وہ شخص اس کے جذبات سے اس حد تک انجان تھا ۔۔۔۔۔"
کیا وہ اس کے جذبات سے نہ واقف تھا ۔۔۔۔۔۔"
کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اسے کس قدر چاہتی ہے ہاں وہ اپنے جذبات کو اپنے تک محدود رکھنے والی لڑکی تھی
ہاں وہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی وہ طہٰ کو بتانا چاہتی تھی بلکہ وہ تو ابھی تک آپنے آپ کو بھی ٹھیک سے اپنی محبت کا یقین نہیں دلانا پائی تھی ۔
تو طہٰ کو کیسے اپنے جذبات بتاتی جو اس سے معافی مانگنے کے لیے ایڑیاں رگڑ رہا تھا ۔
مگر کیوں وہ اس سے اس حد تک انجان ہے کیسے اس لڑکی کو خود سے لگائے وہ اس سے دور چلا گیا
بنا یہ سوچیں کہ یہ منظر دیکھ کر اس کے معصوم دل پر کیا بیتی ہو گی ۔کیا اس کی جذبات کی لوح ایک پرسنٹ بھی اس تک نہیں پہنچتی تھی وہ سسکتے ہوئے مسلسل طہٰ کو ہی سوچ رہی تھی
جو نہ تو اس کے دل میں پوری طرح سے براجمان ہو رہا تھا اور نہ ہی اس کے دل و دماغ سے نکل رہا تھا
اور وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان تھی لیکن وہ اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی
وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانے گی اس نے کل ہی آریان سے ملنے کی ٹھان لی تھی یقیناً وہ اس کی مدد ضرور کرے گا
°°°°°°
بابا کی کالز اور ان کی ملاقات کو وہ مسلسل نظر انداز کر رہی تھی
وہ بہت بار اس سے ملاقات کے لئے آئے لیکن وہ ان سے ملنے سے صاف انکار کر چکی تھی جان بھی اس معاملے کو ٹھنڈا دیکھ کر پر سکون ہو چکا تھا جاناں خود ہی اپنے باپ سے نہیں ملنا چاہتی تھی اور یہ چیز اس کے لیے کافی زیادہ فائدے مند بھی تھی
جب تک جاناں کے باپ کی باری آتی ہے تب تک یہ قصہ کلوز ہی رہے تو بہتر تھا ۔لیکن وہ جاناں کہ جذبات کو بھی سمجھ سکتا تھا
وہ شخص اس کا باپ تھا چاہے وہ اسے کتنا ہی نظر انداز کرے جان کے لیے لیکن حقیقت کبھی بدل نہیں سکتی تھی
جان کے جانے کے بعد وہ اپنی ہی سوچوں میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ اٹھ کر دروازے تک آئی باہر ٹائر کھڑا تھا اس نے فورا دروازہ کھول دیا
ٹائربھائی کیسے ہیں آپ وہ اس کے چہرے پر کچھ کھوجتی پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔۔"
میں تو بالکل ٹھیک ہوں پیاری لڑکی تم کیسی ہو اور مجھے یہاں کیوں بلایا ٹائر کے انداز میں ہمیشہ کی طرح جوش تھا ۔۔۔۔۔"
جب کہ اس کا اپنا چہرہ طواف کرتی نظروں کو بھی وہ نوٹ کر چکا تھا ۔
ٹائربھائی کبھی آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ ہے کہ آپ کے آس پاس بالکل آپ کے جیسا انسان ہے لیکن وہ آپ کے جیسا نہیں ہے بلکہ نورمل ہے ۔میرا مطلب ہے وہ آپ کی طرح الگ نہیں ہے وہ نہ جانے کیا کہنا چاہتی تھی شاید سےہی الفاظ کی تلاش میں تھی ۔
او پیاری لڑکی پتہ نہیں تم کیا بول رہی ہو مجھے اس وقت ایک کپ کافی چاہیے تم بناؤ گی یا میں خود بناوں خیر میں تمہیں بتا دوں کہ تمہارے یہاں آنے سے پہلے کچن پر میری حکومت تھی اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا مسکراتے ہوئے کچن کی جانب آیا تھا اس کا یو بولنا ہی ٹائر کو شک میں مبتلا کر گیا تھا لیکن وہ بنا اسے شک ہونے دیے کچن کی جانب آیا اور اپنے لئے کافی بنانے لگا جاناں اس کا انداز اور باتیں دیکھ کر اپنے خیال کو جھٹلاتی اس کی مدد کرنے لگی
°°°°°°°°°°
وہ اپنے آفس میں بیٹھا سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج پر جاناں اور ٹائر کو کافی پیتے دیکھ رہا تھا
ٹائر اسے بتا کر گیا تھا کہ وہ اس کے گھر جانے والا ہے جاناں نے نہ جانے کیوں اسے بلایا ہے وجہ تو جان بھی سمجھ نہیں پایا تھا ہاں لیکن جاناں کا بلانا اور پھر اس کے عجیب انداز میں سوال جان اور ٹائر دونوں کو ہوشیار کر گئے تھے
جبکہ ٹائر اس کے سوالات کو نظر انداز کرتا اپنی ہی باتوں میں اسے لگا چکا تھا یقیناً وہ اپنے ارادے میں کامیاب رہا تھا
°°°°°°°°°°°
آریان اپنے آفس میں بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا جب اسے عائشہ کے آنے کی خبر ملی
عائشہ کا اس کے آفس میں آنا کوئی عام بات تو ہرگز نہیں تھی
او عائشہ خیریت تو ہے تم یہاں بنا بتائے آئی ہو۔۔۔۔اگر کچھ بہت اہم تھا تو تم مجھے فون کر لیتی یا باہر کہیں بلا لیتی اس طرح سے پولیس سٹیشن میں آئی ہو سب کچھ ٹھیک تو ہے نا پچھلے کچھ وقت سے ان لوگوں کے تعلقات کافی بہتر ہو چکے تھے ۔
اور اب عائشہ آسانی سے آریان سے کوئی بھی بات کر سکتی تھی
اس کی حالت دیکھ کر آریان اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ ٹھیک تو ہرگز نہیں ہے
مجھے طہٰ کے بارے میں سب کچھ جاننا ہے وی سیدھی اپنی بات پر آئی تھی ۔
تم اس کے بارے میں بلا کیا جاننا چاہتی ہو ۔۔۔وہ اس کے چہرے پر کھوجتی نظروں سے دیکھنے لگا اس کے جذبات کسی کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے تھے بہت پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ عائشہ طپہ کو پسند کرتی ہے اور طہٰ کی نظروں میں بھی اس نے کچھ ایسے ہی جذبات کو دیکھا تھا اور یہ بات جان کر اسے خوشی بھی ہوئی تھی لیکن وہ طہٰ کی مجبوریوں کو بھی سمجھ رہا تھا وہ اس طرح سے کسی لڑکی کو طہٰ کے لیے خواب سجانے پر اپریشیٹ نہیں کر سکتا تھا
دیکھیں آریا ن بھائی میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی پچھلے کچھ وقت سے میرے دل کی حالت بہت عجیب ہو رہی ہے میں طہہ سے بہت پہلے ملی تھی ہماری پہلی ملاقات کچھ خوشگوار نہیں تھی لیکن شاید میں اس کے لئے جذبات رکھتی ہوں میرا دل اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے بہت کوشش کے باوجود بی میں اپنے دل کو روک نہیں پائی وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے میں اس کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں
اس کے علاوہ بھی اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہوں لیکن طہ سب کچھ نہیں جانتا یہ سب کچھ صرف آپ کو بتا رہی ہوں
میں اس کی پرسنل لائف کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کچھ دن پہلے میں نے اسے ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا جو بھی تھا جیسا بھی تھا لیکن وہ منظر میری آنکھوں سے ہٹ نہیں رہا میرا دل خون ہو رہا ہے ۔
پلیز میری مدد کریں میں اس کے بارے میں سب کو جاننا چاہتی ہوں وہ بات گھمانے یا چھپانےوالوں میں سے نہیں تھی اس کے دل میں جو تھا اس نے سب آریان کے سامنے رکھ دیا تھا لیکن اس کے بعد جو بات آریان نے اس سے کہی تھی وہ جان کر ایسا صحیح معنوں میں بوکھلا کر رہ گئی تھی
اگر عائشہ نے اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا تو آریان نے بھی طہہ کو مکمل کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا تھا وہ اس پیاری سی لڑکی کا دل توڑنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن حقیقت تھی وہ ج قدموں پہ آئی تھی انہی قدموں پر لوٹ گئی
ہاں وہ اپنا دل آباد کرنے آئی تھی لیکن وہ تو ایک بنجر پنجرہ بن کر رہ گیا
°°°°°°°°°°°°°°
جاناں کو کسی انجان نمبر سے کال آئی تو اس نے سوچا کہ ہو سکتا ہے جان اسے انجان نمبر سے فون کررہا ہولیکن فون پر بابا تھے
جاناں تم میری بات کا یقین کیوں نہیں کر رہی ہومیں سچ کہہ رہا ہوں وہاں کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا بلکہ جان کے کالے کارناموں کا ایک ثبوت تھا جسے تم دیکھے بغیر آ گئی
یا خدایا بابا آپ کیوں اس بات پر یقین نہیں کر لیتے کہ جان بالکل بے گناہ ہے وہ ویسا نہیں ہے جیسے آپ ہیں آپ کی طرح اس نے مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا مجھے گناہ گار نہیں کیا آپ کو ایک مار کبھی یہ خیال گزرا ہے کہ اگر جان کے علاوہ میرا نکاح کسی اور کے ساتھ ہو جاتا تو میں اپنے رب سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہتی ہیں آپ وہ انسان ہیں جو میری دنیا کے ساتھ ساتھ میری آخرت کو بھی داغدار کر رہے تھے
لیکن آپ کو اس بات کا زرا ملال نہیں آپ کو اس بات کا زرا افسوس نہیں کہ آپ کی بیٹی کی ساری زندگی تباہ ہو رہی تھی اور اب آپ مجھے میرے شوہر کے خلاف کرنا چاہتے ہیں
آپ کو پتہ ہے ایک بیوی کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکانے والے جہنم میں جاتے ہیں اور کسی کا نہ سہی خدا کا خوف کریں اور پلیز دوبارہ مجھے فون مت کیجئے گا وہ انتہائی غصے سے کہتی فون کاٹ چکی تھی ۔جب کہ بابا اسے سمجھانے میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکام ہی رہے تھے
فون بیڈ پر پٹک کر وہ ایک بار پھر سے ٹی وی کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کرنے لگی جو کہ ایک کافی مشکل ترین کام تھا
ٹی وی میں خود کو مگن کرنے میں کامیاب ہوئی تھی کہ ایک بار پھر سے فون بیجنے لگا اس نے غصے سے فون کو دیکھا تھا یقینا بابا کسی اور نمبر سے اسے فون کرنے والے تھے کیونکہ پہلا نمبر تو بلاک کر چکی تھی
لیکن یہ کیا فون پر جان کا نمبر جگمگا رہا تھا اس نے فورا فون اٹھایا دل کی کیفیت اپنے آپ ہی بدل چکی تھی
°°°°°°°°°°
میری جان کیا کر رہی ہے محبت پاس لہجا تھا
تمہارے لیے شام میں کیااسپیشل بناؤں یہ سوچ رہی تھی اس کی آواز سنتے ہی جاناں کی ہر سوچ بدل گئی
کچھ بھی بنانے کی ضرورت نہیں ہے ڈنر باہر کریں گے خود کو کچن میں کچھ زیادہ مصروف نہیں کر لیا تم نے مجھے مس کرنے کی بجائے میرے لیے کچھ نہ کچھ بنانے پر زیادہ توجہ دیتی ہو۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں ایک اچھی بیوی ہوں اور اچھی بیوی اپنے شوہر کا بہت خیال رکھتی ہے اسی لیے میں تمہارا بہت سارا خیال رکھنا چاہتی ہوں تمہاری پسند کی ڈشز بنانا چاہتی ہوں
تمارے کپڑے جوتے ہر چیز کا خیال رکھنا چاہتی ہوں اور تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں آج تمہاری شرٹ میں نے اپنے ہاتھوں سے دھوی ہے اس نے فخر سے بتایا
ماہی میری جان میں بیوی لایا ہوں دھوبن نہیں اب کسی کام کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے یہ سارا کام کرنے کے لئے بہت لوگ ہیں تم بس مجھے مس کیا کرو
کتنا مس کرنا ہے۔۔۔۔۔" جاناں نے شرارت سے کہا
کم ازکم اتنا کہ میں تمہیں تمہاری سانسوں سے بھی زیادہ قریب محسوس ہوں اس کے لہجے میں شدت تھی
تم بہت قریب ہو جان اس نے یقین دلانے والے انداز میں کہا
میں اور قریب آنا چاہتا ہوں جاناں میں تمہاری روح میں اتر جانا چاہتا ہوں میں تمہارے جسم و دل کا مالک نہیں میں تمہاری روح کا تمہاری چلتی سانسوں کا مالک بننا چاہتا ہوں ۔میں تمہیں مکمل طور پر اپنی ملکیت میں لینا چاہتا ہوں تمہاری ایک ایک سانس کو اپنی ملکیت سمجھنا چاہتا ہوں
تم کہو تو سانس لینا چھوڑ دوں۔۔۔۔۔۔" اس کی شدت پسندی پر وہ بولی
خبردار جب تک میری سانسیں نہ رکے تب تک تمہاری سانسیں چلتی رہنی چاہیے ۔اس کے لہجے میں اب بھی وہی شدت پسندی تھی
جاناں سے ایک لفظ نہ بولا گیا پھر تھوڑی دیر اس کی سانسوں کی مدہم آواز سننے کے بعد ہی جان کی آواز پھر سے گونجی
میں آدھے گھنٹے میں گھر پہنچ رہا ہوں ۔وہ جیسے فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
تم تو شام کو آنے والے تھے جاناں نے فورا کہا
مجبوری ہے ڈارلنگ اب تمہاری طلب ایسی جاگی ہے کہ جب تک تمہیں پانہ لوں یہ طلب مدہم نہیں پڑے گی آرہا ہوں میں تمہاری سانسوں پر اپنی حکومت چلانے وہ اسے اپنے آنے کا مقصد بھی بتا چکا تھا ۔جاناں مسکرائی اور پھر فون رکھ کر اس کا انتظار کرنے لگی
°°°°°°°°°°
جاناں کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا اپنے وعدے کے عین مطابق وہ آدھے گھنٹے میں ہی دروازے پر کھڑا تھا اس نے دروازہ کھولا تو ایک خوبصورت ساپھول اس کا منتظر تھا
جاناں نے مسکراتے ہوئے پھول تھام لیا اور اسی انداز میں جان نے اسے کھینچ کر اپنے بےحد قریب کرتے ہوئے اس کے کمر میں اپنے بازو حائل کیے
تو کیا خیال ہے جانِ جاناں تمہاری روح اتر کر میں تمہاری سانس سانس کو پی جاؤں تمہاری ہر دھڑکن پر اپنی حکومت چلاؤں اسے بالکل اپنے ساتھ لگائے وہ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرے جنون و محبت سے بولا
اگر میں انکار کروں تو کیا تم رک جاؤ گے اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا برحل جواب وہ خود بھی جانتی تھی
اب تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مجھ سے نہیں بچا سکتی اچھی بیوی بننے کا بہت شوق ہے نہ تمہیں آو میں اچھی بیوی ہونے کی ٹینشن دیتا ہوں ایک ہاتھ سے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لئے اس کے لبوں کو چومتے ہوئے وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا چکا تھا
جبکہ جاناں بنا مزاحمت کیے اس کی گلے میں بازو ڈالتی خاموشی سے اس کے سینے پر اپنا سر رکھ چکی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مزاحمت بیکار ہے جان کے سامنے اس کی کسی مزاحمت نے نہیں چلنا تھا یہاں صرف جان کی محبت اس کی شدت پسندی اورجنون چلتا تھا
°°°°°°°°°
ٹوٹی بکھری حالت میں گھر پہنچی تھی ما ماتو اس کی حالت دیکھ کر ہی پریشان ہوگیں اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن عائشہ کے پاس جیسے بات کرنے کے لیے الفاظ ہی ختم ہو چکے تھے
عائشہ میری جان کیا ہوا ہے تم اس طرح سے کمرے میں بند ہر وقت کیوں روتی رہتی ہو آخر مجھے تو بتاؤ مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی آج ماما اس کے پاس بیٹھی اسے بخار میں تپتے دیکھ کر تڑپ کر کہنے لگیں
میں ٹھیک ہوں ماما سب ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا ہے بس میرے اندر کی دنیا تباہ ہوگئی ہے عائشہ آدھی بات بول کر خاموش ہوگئی جانتی تھی کہ اس جملے پر اس کی ماں تڑپ اٹھے گی
تو پھر کیوں اپنے آپ کو یہاں بند رکھتی ہو آخر ہوا کیا ہے مجھے تو بتاؤ میری جان بھی تمہاری ماں ہوں اگر کوئی مسئلہ ہے تو شیئر کرو میں جتنا ہوسکے تمہاری مدد کروں گی
ماما میں نے کہا نہ کچھ نہیں ہے بس شاید موسمی بخار ہے کچھ دن میں ٹھیک ہو جائے گا آپ بیکار میں پریشان ہو رہی ہیں اور یقینا آپ نے میڈیسن بھی نہیں لی ہوگی اٹھے چلے جائیں جا کر میڈیسن لے اگر میں بیمار ہوں تو میرا خیال رکھتے ہوئے خود دوبارہ بیمار پڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے
میں ٹھیک ہو جاؤ گی اس نے ماں کو یقین دلایا
جب کہ اپنے دل کی تباہی پر اس کے پاس بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا ابھی الزام دیں تو کس طرح وہ تو خود بے گناہ تھا
جاناكں کو بابا کے بہت سارے فون آ رہے تھے الگ الگ نمبر سے وہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جاناں کوئی بھی رونگ کال اٹھانے کی غلطی کر ہی نہیں رہی تھی
اب حد ہو چکی تھی آخر وہ اپنے باپ کو کس طرح سے سمجھاتی شاید انہیں تو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا کہ اس سب سے ان کی اپنی بیٹی کا گھر برباد ہو رہا ہے
آنے والے ہر نمبر کو وہ اگنور کرتے بلاک کر رہی تھی جب ایک میسج نے اس کے ہاتھ روک دیئے
جاناں کیا تمہارا باپ تمہارے لیے اتنا بے اعتبار ہو چکا ہے کہ تم اس سے ایک بات نہیں کر سکتی یقین نہ سہی ایک بار میری بات سن تو سکتی ہو میں تمہارا باپ ہوں تمہارا بھلا ہی چاہوں گا کوئی تو وجہ ہو گی جو میں تمہیں جان سے دور رہنے کے لئے کہتا ہوں ۔میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا ہو تمہارا حق بنتا ہے لیکن تمہیں میرے اور آپنے اس رشتے کا واسطہ ایک بار مجھ سے بات کرلو
بابا کے اس میسیج نے اس بار آنے والی کال کو رسیو کرنے پر مجبور کر دیا
جی بابا کہیں اس نے فون اٹھاتے ہوئے خیر وخیریت پوچھے بغیر کہا ۔
جاناں میں جانتا ہوں تم اس وقت جان کے گھر پہ ہو۔لیکن کیا تم ایک بار صرف ایک بار اپنے باپ پر اعتبار کر کہ میری بتائی ہوئی جگہ پر آ سکتی ہو ۔شاید میرے پاس یہی آخری موقع ہے تم پر حقیقت واضح کرنے کا اپنی آنکھوں سے اپنے شوہر کی حقیقت دیکھ لو ۔
دیکھ لوآخروہ کیسا ہے تمہیں میرےاور آپنے اس رشتے کا واسطہ تمہارے باپ کی قسم بس ایک بار بس ایک آخری بار میری بات مان کر یہاں آ جاؤ اس کے بعد میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گا بلکہ تمہاری اور جان کی زندگی سے دور چلا جاؤں گا کیا تم صرف ایک بار مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو ۔
تمہیں اپنی رگوں میں چلتے خون کی قسم انکار مت کرنا میں نے تمہیں ایک ایڈریس سینڈ کیا ہے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں بابا آپنی بات مکمل کر کے فون بند کر چکے تھے ۔
یہ واسطے اور یہ قسمیں جاناں کو نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں جانے پر مجبور کر گئے
ایک آخری بار اپنے باپ پر اعتبار کر سکتی تھی ایک آخری بار ان سے مل کر وہ یہ قصہ ہی تمام کردینا چاہتی تھی وہ جانتی تھی جان غلط نہیں ہے اور نہ ہی بابا اسے کبھی غلط ثابت کر پائیں گے
اور اگر وہ خود ہی انہیں غلط ثابت کرائی تو یقینا وہ دوبارہ اس کی زندگی میں انٹر فیر نہیں کریں گے یہی سوچتے ہوئے اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا
°°°°°°°°
میرا بچہ آپ کیسا ہے ماما اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی
میں بہت بہتر ہوں ماما میرا خیال رکھنے کے چکر میں آپ اپنا خیال نہیں رکھ رہیں ول کافی زیادہ شرمندہ ہو رہی تھی
تم ٹھیک ہو جاؤ خود ہی میرا خیال رکھنا ماما کی آواز میں اداسی تھی ۔
آئی ایم سوری ماما شاید اپنی پرابلمس میں میں آپ کی ذات کو نظرانداز کرنے لگی ہوں مجھے معاف کر دیں شاید میں ایک اچھی بیٹی نہیں ہوں وہ ان کے سینے میں چہرہ چھپاتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
نہ میری جان تم بہت اچھی بیٹی ہو بس اب جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ تمہیں یوں بمار دیکھ کر میرا دل کٹتا ہے میری جان ماما نے اس کا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا
آو ہو ماما آپ کیا یہ بورنگ سے باتیں کر رہی ہے چلیں کچھ بناتے ہیں اور کچھ کھاتے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے اس نے مسکراتے ہوئے ماما کا دل رکھنے کے لیے کہا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے اٹھ گئی جب ان کا فون بجا
ماما آپ کتنا زیادہ سوشل میڈیا یوز کرتی ہیں اس نے مسکراتے ہوئے ماما کو فون کھولا تھا جہاں وٹس ایپ پر میسج رہے تھے
ہاں تو میری بیٹی ہمیشہ مصروف رہتی ہے تو اس کی بیچاری ماں کیا کرے یہی سب بے جان چیزوں سے تو دل بہلاتی ہوں وہ مسکرا رہی تھی
عائشہ نے وٹس ایپ پر ایک گروپ کھولا جہاں ایک لو سٹوری سینٹ کی گئی تھی
ایک لڑکی نے ایک ایسے شخص سے شادی کرلی جو اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور تھا ۔اس کے ساتھ ہی بیٹھی ماما نے بھی یہ تحریر پڑھی تھی
ماشاءاللہ سچی محبت کسی قسم کی کوئی کمی نہیں دیکھتی ماما نے تبصرہ کیا تو وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی
کیا مطلب ماما کیا وہ لڑکی نہیں جانتی کہ وہ آگے جاکر کتنا پچھتائے گی اس کا ہمسفر ساری زندگی کے لیے معذور ہے یہ کیسی محبت ہے جو انسان کو ایک ایسے شخص کے ساتھ جوڑ دے جو دنیا سے الگ ہو عائشہ کے نظریا الگ تھا
محبت خود ایک بہت الگ چیز ہے عاشی یہ کوئی فرق نہیں دیکھتی نہیں دیکھتی کہ اس کا محبوب دنیا سے الگ ہے اس لڑکی کی مثال لے لو اس نے سچی محبت کی اور وہ شخص جیسا بھی تھا اسے بدلے بغیر اس سے شادی کر لی اپنی محبت کو ثابت کر دیا اس لڑکی کو اور کچھ نہیں چاہئے سوائے اپنی محبت کے ۔یہ خود کماتی ہے اپنا بھی سہارا ہے اور اپنے شوہر کا بھی دیکھو اللہ نے کیسے اس لڑکی کو اس شخص کا بھی وسیلہ بنا دیا ماما بہت محبت سے اسے سمجھا رہی تھی
جبکہ وہ تو اپنی ہی سوچو کی دنیا میں ڈوب چکی تھی
مطلب کہ محبت نہیں دیکھتی کہ آپ کا محبوب دنیا سے الگ ہے ۔محبت محبت ہے وہ فرق نہیں سمجھ سکتی نہ سمجھنا چاہتی ہے ۔
تو مجھے بھی فرق نہیں کرنا چاہیے نا مجھے بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ دنیا سے الگ ہے عائشہ کی بڑبراہٹ کو ماما نے بہت غور سے سنا تھا
وہ کون ہے عائشہ ماما کا اگلا سوال اسی گھبرانے پر مجبور کر گیا ۔
تمہاری حالت تمہارا کھانا پینا چھوڑ دینا اس طرح سے دنیا سے کٹ کر کمرے میں رونا دھونا پہلے بھی یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن اب میں تمہاری کنڈیشن سمجھ رہی ہوں مجھے سچ بات بتاؤ آخر ہوا کیا ہے ماما نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اور اس کے بعد ماما کو تو کچھ نہیں بتا پائی ہاں لیکن ایک فیصلہ کر لیا تھا اس نے
°°°°°°°°
آریان کوئی اسپیشل فائل لینے کے لئے آیا تھا لیکن سامنے دیکھ کر پریشان ہو گیا
او بیٹا آریان کیسے ہو تم سامنے ٹائی ا می اور ائمہ کو بیٹھے دیکھ کر اس نے زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائی تھی
ارے آپ لوگ کیوں اچانک خریت تو ہے اس سے رہا نہ گیا تبھی پوچھنے لگا سچ تو یہ تھا کہ تائی امی کو یہاں دیکھ کر اسے بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی تھی لیکن اس نے شفقت سے ایمہ کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا
آریان بھائی اتنی بڑی خوشخبری سن کر تو ہم رہےہی نہیں سکے اور پھر ماما نے کہا کہ شروع شروع کی پریگنسی میں لڑکی کو بہت پرابلم ہوتی ہیں ایسے بھی کسی بڑے کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہے اسی لئے ہم یہاں آ گئے اس نے خوشی سے بتایا
ویسے اتنی بڑی خوشخبری تم نے ہم سب سے کیوں چھپائی آریان کہیں تمہیں یہ ڈر تو نہیں تھا کہ تمہاری ہونے والی اولاد بھی اریشفہ کی طرح قوت گویائی سے محروم ہوگی میرا مطلب ہے ایسا ممکن ہے ۔۔۔۔۔
اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ اللہ اس دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا کرے سب کو مکمل بنائے اور جہاں تک اریشفہ کی بات ہے اس کا ہم سفر ایسا ہے جو اس کی باتوں سے زیادہ اس کے اشاروں کو سمجھتا ہے
مجھے تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ بول نہیں سکتی
ویسے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا میں اسے سنبھال لیتا لیکن پھر بھی آپ لوگوں کو یہاں دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی
آج کل کچھ زیادہ مصروف ہوں ایسے میں اریشفہ کے لئے فکر ہوجاتی ہے آپ لوگوں کا آنا بہت اچھا رہے گا اس نے خوش دلی سے کہا تھا
ہاں لیکن اس کا جان لٹاتا انداز تائی امی کو بہت چھباتھا آج اس کی جگہ ان کی بیٹی بھی ہو سکتی تھی
ماما بتائیں نہ عریشی کے لئے کیا اچھا ہے میں اس کا بہت سارا خیال رکھوں گی ائمہ تو خالہ بننے کی خوشی میں پھولے نہ سما رہی تھی کچھ دن پہلے یہاں کیا واقعہ پیش آیا اس بارے میں کوئی کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اریشفہ نے محسوس ہونے دیا ۔
تائی امی نے ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھا جو اپنے نصیب پر کسی اور کو حکومت کرتے دیکھ کر ذرا بھی اداس و پریشان نہیں تھی ۔بلکہ خالا بننے کی خوشی سے اس کا چہرہ چمک رہا تھا
ان کی تو اولاد بھی نادان تھی تبھی تو ان کی بیٹیوں کی بجائے یہ بےزبان بازی لے گئی
اتنا بڑا شاندار گھر اتنا شاندار انسان گاڑی نوکر چا کر ہر چیز تو تھی اس کی اگر آج عریشفہ بیچ میں نہ ہوتی تو یہاں ائمہ اپنی حکومت چلا رہی ہوتی ۔
لیکن مشکل تو یہ اب بھی نہیں تھا وہ آریان جیسے شاندار بندے کے ساتھ اپنی بیٹی کی دوسری شادی کرنے کو بھی تیار تھی ۔اور یہاں آنے کا انکا مقصد بھی کچھ ایسا ہی تھا
اریشفہ کو اریان کی زندگی سے نکال کر وہاں ائمہ کی جگہ بنانا چاہتی تھی ۔اب وہ اپنے اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں یہ تو اللہ ہی جانتا تھا
°°°°°°°°
وہ فریش ہو کر نکلی اب اس کی طبیعت کافی سنبھل چکی تھی ماما کی باتوں نے اس کی طبیعت پر اچھا اثر ڈالا تھا اسے باہر نکلتے دیکھ کر ماما کو خوشی ہوئی
جینز کے ساتھ لونگ شرٹ اور زکاف کو گلے میں ڈالے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
ماما مجھے ایک بہت ضروری کام ہے میں جلدی ہی واپس آ جاؤں گی ماما کے دونوں گال چومتی ہوئی وہ جلدی ہی باہر نکل گئی ماما تو بس ارے ارے کرتی رہے گی نہ تو اس نے کھانا کھایا تھا اور نہ ہی دوائی لی تھی لیکن اتنا ہی کافی تھا کہ وہ خوش ہے
وہ وہاں سے سیدھی طہٰ کے گھر آئی تھی اس وقت اور کسی سے بھی ملنے کی چاہ نہیں تھی ۔
دروازے پر دستک سن کے طہ نے دروازہ کھولا تو سامنے عائشہ کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر خود بھی مسکرا دیا
ہیلو کیسے ہو تم اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
اللہ کا کرم ہے بالکل ٹھیک تم سناؤ ناراضگی ختم ہوئی تمہاری کہ نہیں اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا آخرکار اس تھپڑ کے بعد یہ پہلی ملاقات تھی جو نارمل لگ رہی تھی
تم نے ٹھیک سے منایا نہیں عائشہ نے شکوہ کیا ۔
میں نے بہت بار معافی مانگی عائشہ اس دن تم پر ہاتھ اٹھا کر میں خود بھی بہت پچھتایا پھر میں تم سے ایک بار پھر سے معافی مانگتا ہوں ایم ریلی سوری میں نے واقعی اس دن بہت گھٹیا حرکت کی تھی اس نے دل سے معافی مانگی عائشہ نے مسکراتے ہوئے نامیں سر ہلایا
کوئی بات نہیں طہ اس دن میں تمہارے کام کی بیچ میں آگئی مجھے خود سمجھنا چاہیے تھا کہ تم بیزی ہواور وہ تہمارا کام تھا میں تمہیں بہت زیادہ ڈسٹرب کر رہی تھی لیکن ایک پرومس فیوچر میں میں تمہیں کبھی تمہارے کام سے نہیں روکوں گی ۔
ہاں ہم ہمیشہ اچھے دوست رہیں گے طہ نے اس کی بات کاٹی
میں صرف دوست نہیں بننا چاہتی اور میں جانتی ہوں کہ یہ بات آریان بھائی بتا ہی چکے ہوں گے ۔اب وہ اپنے اور طہ کے بیچ میں کسی قسم کی کوئی دیوار نہیں چاہتی تھی
تمہارے آریان بھائی نے تمہیں اور بھی کچھ باتیں بتائیں ہوگی جن کا یقینا تم مطلب سمجھتی ہو اور نہ ہی ان باتوں کی گہرائی تک جا سکتی ہو ۔
آئی لو یو طہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کیسے ہو کیا ہو میں تم سے محبت کرتی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ تم بھی میرے جذبات سے نا واقف نہیں ہو اور میں نے تمہاری آنکھوں میں بھی اپنے لئے ایسے ہی جذبات دیکھے ہیں ۔
وہ اس کے چہرے کی بے یقینی دیکھ رہی تھی اس کا یہ اقرار محبت کرنا اتنا عام نہیں تھا جتنا اس نے سمجھ رکھا تھا طہ کو شاید جھٹکا لگا تھا تبھی تو وہ کچھ بول نہیں پایا
عائشہ میں نے تم سے کہا نا شاید تم ان باتوں کا مطلب نہیں جانتی ہو جو آریان نے تمہیں بتائیں لیکن ۔۔۔۔۔۔
مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم باقی لوگوں سے الگ ہو محبت میں فرق نہیں دیکھا جاتا تم جیسے بھی ہو جو بھی ہو مجھے قبول ہو میں تمہارے ساتھ ایک حسین زندگی کی شروعات کرنا چاہتی ہوں جس میں میں ہوں تم ہو اور ۔۔۔۔۔
اور۔۔۔! اور کی عائشہ خان بولو جواب دو اور کچھ بھی نہیں صرف فل سٹاپ آگے کچھ بھی نہیں ہےسوائے اندھیرے کے میرے ساتھ تمہارا کوئی فیوچر نہیں ہے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو مجھے لگا تھا کہ آریان جب تمہیں میرے بارے میں سب کچھ بتائے گا تم خود اپنی راہ بدل لو گی لیکن نہیں تمہیں اریان کی باتیں سمجھ ہی نہیں آئی ۔۔۔
میں سب سمجھتی ہوں طہ مجھے سب کچھ پتہ ہے لیکن میری نظروں میں ان سب باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے میرے لیے تم اہم ہو تم اہمیت رکھتے ہو میرے لیے تم کیا ہو یہ بات تمہارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔
تم یہاں سے جا سکتی ہوعائشہ اور کوشش کرنا کہ دوبارہ یہاں مت آؤ خاص کر میرے سامنے تو ہرگز نہیں وہ اس کی بات کاٹتا ہوااس کا ہاتھ تھام کر اسے زبردستی گھر کے باہر کرنے لگا
نہیں طہ میں کہیں نہیں جاؤں گی میں تم سے محبت کرتی ہوں تم جیسے بھی ہو مجھے قبول ہو ۔آئی لو یو اور جب تک تم میری محبت کو قبول نہیں کرتے میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی ۔
وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی جیسے آج اسے اپنی محبت قبول کرنے پر مجبور کر دے گی
عائشہ جاؤ یہاں سے یہ نادانی چھوڑ دو میرے ساتھ تہمارا کوئی فیوچر نہیں ہے کوئی کل نہیں ہے ۔۔اور نہ ہی میں تمہارے لئے ایسےجذبات رکھتا ہوں میں اپنی حدود اچھے طریقے سے جانتا ہوں اور آئندہ یہاں مت آنا وہ اس کے منہ پر دروازہ بند کرتا انتہائی غصے سے بولا تھا
مگر آج تو عائشہ کو اس کا یہ انداز بھی برا نہ لگا اتنی انسلٹ کے باوجود بھی وہیں کھڑی اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی
میں تم سے محبت کرتی ہوں طہ بے پناہ محبت اور تمہارا یہ رویہ مجھے تم سے دور نہیں کر سکتا میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی یہی بیٹھی رہوں گی وہ اسی کے گھر کے تھوڑے پاس بنے بینچ پر بیٹھی اسے چیلنج کر رہی تھی
°°°°°°°°
بابا نے جہاں کا ایڈریس دیا تھا جاناں وہاں آ چکی تھی آج وہ سارا قصہ ختم کردینا چاہتی تھی
بابا نے اسی گھر کا ایڈریس دیا تھا گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اندر سے کسی کی لمبی لمبی سانسوں کی آواز آرہی تھیں جیسے کوئی بہت مشقت کا کام کر رہا ہو
نہ جانے کس کا گھر تھا ۔۔اور بابا نے اسے یہاں کیوں بلایا تھا نہ جانے وہ ا سے کیا دکھانا چاہتے تھے اس کے دماغ میں بہت سارے سوال تھے ۔
لیکن آج اسے ان سب کا جواب چاہیے تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی گھر کے اندر داخل ہوئی اور اسی آواز کے پیچھے جانے لگی جو اسے آ رہی تھی
وہ گھر کے اندر ایک بڑے سے ہال میں داخل ہوئی آہستہ سے بنا آواز کے دروازہ کھولا سامنے زمین پر ایک شخص کی لاش پڑی تھی اور کوئی اس کے بالکل پاس بیٹھا چاقو کی مدد سے مسلسل اس کے سینے پر وار کر رہا تھا ۔پیچھے سے اس شخص کا قد کاٹھ ایسا تھا جیسے وہ جان ہو
جب کہ وہ پوری طرح خون میں لت پت تھا جاناں کے ہاتھ پیر سن ہونے لگے یہ منظر اس کی سوچ سے زیادہ خطرناک تھا
بہت شوق تھا تمہیں بیسٹ سے ملاقات کرنے کا یقینا تمہیں یہ ملاقات پسند آئے گی اس شخص نے کہا اور جاناں نے یہ الفاظ سنے تھے صرف چند قدم کے فاصلے پر یہ آواز پہچاننا اس کے لئے مشکل نہیں تھی
اس شخص نے اپنے پیچھے کسی کو محسوس کیا اور پلٹ کر دیکھا اس کا چہرہ خون میں لت پت تھا جاناں کی بے ساختہ چیخ نکلی
سامنے کھڑا شخص بے یقین تھا جاناں نے وہ چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ اس کا چہرہ مکمل طور پر خون میں لت پت تھا لیکن وہ اسے پہچان چکی تھی وہ جان ہی تھا ۔جاناں کانپتے پیروں کے ساتھ پیچھے کی طرف بھاگ گئی تھی تھوڑی ہی دیر میں وہ وہاں سے باہر نکل چکی تھی
نی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ۔۔۔۔۔۔نہیں وہ جان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔جان ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
وہ بیسٹ تھا کوئی قاتل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ میرا جان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا وہ بربڑاتے ہوئے مسلسل بھاگ رہی تھی
نہیں ۔۔۔۔۔۔وہ جان نہیں تھا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تھا وہ جان وہ کوئی اور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیسٹ تھا ایک قاتل تھا۔۔۔۔۔۔ کوئی درندہ تھا
لیکن۔ ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ جان تھا وہ ا سے پہچان چکی تھی ۔
لیکن قبول نہیں کرنا چاہتی تھی
وہ حد درجہ گھبرائی ہوئی تھی دل و دماغ پر جان کا وہ روپ چھایا ہوا تھا کیا وہ سچ میں جان تھا اس کا دل اب بھی قبول نہیں کر رہا تھا
جان تو اپنے کام پر گیا ہے ہوسکتا ہے بابا نے کوئی گیم کھیلا ہو مجھے جان کے خلاف کرنے کا اس کا دل الگ ہی کہانی بنا رہا تھا
ہاں میں جان کے علاوہ کسی پر یقین نہیں کروں گی یہ سب جھوٹ ہو سکتا ہے ڈرامہ ہو سکتا ہے کھیل ہو سکتا ہے بابا مجھے جان سے دور کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں یہ سب کچھ انہوں نے کیا ہے یہ سب ایک گیم ہے میں بابا کی بات پر یقین نہیں کروں گی میں یہاں سے سیدھے گھر جاؤں گی
اور جان جب تک مجھے سب کے بارے میں خود نہیں بتاتا میں یہ یقین نہیں کروں گی ہاں جان کے علاوہ مجھے کسی پر یقین نہیں ہے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی وہ اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی کہ جان ایک درندہ ہے ایک قاتل ہے وہ بیسٹ ہے جسے دنیا ڈھونڈ رہی ہے جس کے نام سے دنیا کے بڑے بڑے ڈان اور انڈر ورلڈ کانپتا ہے
محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے اور عاشق پاگل ۔۔۔۔ وہ بھی شاید اس کے عشق میں پاگل ہو چکی تھی
شاید اسی لیے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی اسے ایک بھی بات پر یقین نہیں تھا
اس کا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ کہیں اور جانے کی بجائے اپنے گھر آئی تھی جب تک جان اسے خود ساری بات نہ بتائے وہ کسی اور پر یقین کیوں کرتی یہ تو محبت کے تقاضے تھے کہ محبوب کے علاوہ کسی پر یقین نہیں
گھر آ کر اس نے اندر سے دروازہ بند کیا
کیا جان اس سب کے بارے میں جانتا ہوگا کیا اسے پتا ہوگا کہ میں نے کسی شخص کو قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ اپنے آپ میں الجھی ہوئی تھی
اگر وہ جاں ہی ہوا تو اس کے دل نے سوال کیا
نہیں وہ جان نہیں تھا میں اسے ساری بات بتاؤں گی وہ مجھے سب حقیقت بتائے گا یہ سب کچھ جھوٹ ہے میں نے جو دیکھا سب جھوٹ ہے سب بابا کا گیم ہے مجھے جان سے دور کرنے کے لیے وہ خود سے بڑبڑارہی تھی جبکہ جان کے انتظار کے ساتھ دل میں خوف بھی پیدا ہو رہا تھا
وہ اپنی ہی سوچوں میں بری طرح سے ڈوبی ہوئی تھی صبح سے شام ہو گئی جب دروازہ کھلا مطلب وہ آچکا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کا دل بری طرح سے کانپنے لگا
°°°°°°°°°°°°
گھر جانے کی بجائے وہ ہدی پر چارد لیے ٹائر کے پاس آیا
تیزی سے گھر کے اندر داخل ہوا اور اپنے کپڑے چینج کرنے واش روم جانے لگا ٹائر نے ایک نظر اسے تیزی سے کام کرتے دیکھا
خیریت تو ہے سب کچھ ٹھیک ہے نا اس نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا اس کا یوں اتنی بڑی چادر لپیٹے ہوئے گھر میں داخل ہونا ٹائر کو پریشان کر گیا تھا جبکہ اس کا دھیان باہر کی جانب تھا
جاناں کو سب کچھ پتہ چل گیا ہے وہ تیزی سے کپڑے بدلتا ہوا اس سے کہنے لگا
یہ تو بہت برا ہوا جان ابھی تک ہمارا مقصد پورا بھی نہیں ہوا تھا
یہ سب کچھ اس کے باپ نے کیا ہے مجھے کافی دن سے لگ رہا تھا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ شخص کون ہے لیکن میرا دھیان میرے مشن کی جانب تھا اسی لیے زیادہ دھیان نہیں دیا اس کی طرف لیکن اکبر نے بہت بڑا گیم کھیلا ہے موقع پر چوک مارا ہے
وہ پولیس اسٹیشن سے وہ لسٹ نکلوا چکا ہے جو میں نے انسپکٹر آریان کو بھجوائی تھی اور اسی لسٹ کی مدد سے اس نے پتہ لگا لیا کہ میرا اگلا شکار کون ہے جبکہ میرا پیچھا کرنے کی وجہ سے وہ کافی آسانی سے میرے اگلے قدم کو بھانپ گیا کیونکہ مجھے نارمل رہنا تھا کسی کو اپنا آپ شو نہیں کرنا تھا اسی لئے میں سب کچھ جان کر بھی انجان بنا رہا وہ تیزی سے شرٹ اپنے جسم پر چراتا ہوا بولا
جبکہ نہانے کی وجہ سے اس کے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے ٹائر نے اسے تولیہ لا کر دیا
تم بار بار باہر کیا دیکھ رہے ہو سب خیریت تو ہے اس کا یو باہر کی جانب دیکھنا جان نوٹ کر چکا تھا
ہاں سب ٹھیک ہے ایسی کوئی بڑی بات نہیں اس نے لاپرواہ انداز میں کہا
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے جاناں کو میں سنبھال لوں گا تم اپنے شکار کی طرف دھیان دو وہ اسے بے فکر کرتا جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے باہر نکل گیا
ٹائر نے دروازہ بند کرنے کے لئے ایک نظر باہر کی طرف نظر گھمائیں دور دور تک کوئی نہیں تھا اس نے سکون کا سانس لیا ساری رات ایک سیکنڈ بھی وہ سو نہ سکا بے چینی حد سے زیادہ سوار تھی لیکن دروازہ بند کرتے ہوئے سامنے تھوڑے فاصلے پر بینچ پر نظر پڑتے ہی اس کی بے چینی مزید بڑھ گئی لیکن اس کے باوجود بھی وہ نظر انداز کرتا دروازہ بند کر چکا تھا
°°°°°°°°°°°
ساری رات بے چینی میں گزر گئی وہ وقفے وقفے سے اسے دیکھتا رہا کہ وہ باہر ہی کچھ فاصلے پر ایک بینچ پر بیٹھی تھی پھر وہ لیٹ گئی شاید سو بھی گئی لیکن اس نے اپنے دل کو مضبوط رکھا باہر وہ نہیں گیا تھا
اس کے پاس نہ ہی اس سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا وہ اس کے دل میں ایسےجذبات جگانا ہی نہیں جاتا تھا وہ اسے کسی قسم کی کوئی امید دینا ہی نہیں چاہتا تھا لیکن اپنی بے چین دھڑکنوں کا کیا کرتا ہے جو صرف اسی کے بارے میں سوچ کر کہ رہی تھی
ساری رات خود کو مضبوط بنا کر اس نے باہر قدم نہیں رکھا لیکن اب انتہا ہو چکی تھی وہ رات ساری باہر سردی میں پڑی رہی وہ کیوں اس کی مجبوری کو سمجھ نہیں رہی تھی کیوں نہیں سمجھ رہی تھی کہ وہ الگ ہی سب سے الگ
باقی لوگوں کی طرح ایک عام انسان نہیں ہے اس کی زندگی الگ ہے لوگ اس کے بارے میں الگ سوچ رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کی سوچ پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ دنیا سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے وہ خاموشی سے دنیا میں آیا اور خاموشی سے ہی چلے جانا چاہتا تھا بس اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا
اپنی ساری کمیوں کو نظر انداز کرکے اس نے اس فیلڈ کو جوائن کیا تھا اور وہ بہت ہی ایمان داری سے اپنا کام کر رہا تھا اس کے کام میں کسی محبت عشق ّکی گنجائش نہیں تھی وہ اپنے آپ کو خود ساختہ بنیں حدود میں قید رکھتا تھا
بہت کم دوست تھے اس کے اور جو اس کے قریبی دوست تھے وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے اور وہ بھی کسی لڑکی کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ طہ کے لئے حسین خواب سجائے اور اسی سوچ کو لے کر آریان نے عائشہ کو سب سچ بتا دیا تھا
اسے یہی لگا تھا کہ حقیقت جانے کے بعد عائشہ اپنے راستے بدل لے گی لیکن ایسا نہ ہوا وہ جتنا عائشہ کو خود سے دور کرنا چاہتا تھا وہ اتنا ہی اس کے قریب آنا چاہتی تھی سب کچھ جاننے کے بعد بھی وہ اس کی محبت میں پیچھے ہٹنے کی بجائے کہیں قدم آگے آ چکی تھی
اور یہ چیز کا طہ کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن رہی تھی
وہ عائشہ کو کتنا بھی سمجھا لے لیکن وہ اس کی کسی بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی گھر سے باہر نکل کر اسنے دروازے پر تالا لگایا اور بنا اس کی جانب دیکھئے آگے بڑھ گیا عائشہ نے اس کی بے رخی پر اپنے دل میں اٹھتے درد کو محسوس کیا تھا لیکن یہ تو محبت کی پہلی منزل تھی اور یہاں کیسے ہار جاتی وہ جانتی تھی کہ امتحان بہت لمبا ہے اور وہ اپنی تمام کشتیاں جلا کر ہی اس میدان میں اتری ہے اب تو پیچھے ہٹنے کا کہیں کوئی سوال نہیں تھا
اس کے اس طرح سے نظر انداز کرنے پر وہ زخمی سی مسکرا کر بینچ پر ایک بار پھر سے سمٹ کر بیٹھ گئی یہاں سے جانے کا تو خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتی جب تک طہ اس کی محبت کو قبول نہ کر لے
°°°°°°°°°°
عرشی بہت نکمی ہو تم اس طرح سے کام کیا جاتا ہے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے گارڈن کی خوبصورت گھر ملا ہے تو اس طرح سے ناشکری کرو گی ٹائی امی صبح صبح اسے سناتے ہوئے گارڈن کی صفائی کر رہی تھی
جبکہ اسے سنانے کا مقصد صرف اور صرف آریان کو بتانا تھا کہ وہ ایک نکمی لڑکی سے شادی کر چکا ہے
ارشی بہت خیال رکھتی ہے گھر کا کچھ دنوں سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو اس نے دھیان نہیں دیا آریان نے بہت محبت سے اس کا پھولا ہوا منہ دیکھا اور پھر اس کی سائیڈ لی تھی جبکہ ان کا انداز اس زہر سے بھی زیادہ کڑوا لگ رہا تھا
ارے بیٹا ماں بننے جا رہی ہے کوئی انوکھی بات نہیں ہے ہر لڑکی بنتی ہے میں نے بھی دو دو بیٹیوں کو جنم دیا ہے لیکن مجال ہےجو اپنے کاموں سے ذرا کام چوری کی ہو
لیکن آجکل کی ان لڑکیوں کو کون سمجھائے اور ویسے بھی صفائی کے معاملے میں ذرا کم ہی دھیان دیتی ہے ارشی اگر یہاں اس کی جگہ ائمہ ہوتی تو چمکا کر رکھتی اس گھر کا کونا کونا ان کی بے ساختہ بات پر جہاں ائمہ نے گھور کر اپنی ماں کو دیکھا وہی آرین کا تو مانو غصے سے چہرہ سرخ ہو گیا
اللہ آئمہ کے نصیب میں بھی ایسا ہی گھر لکھے گا بلکہ میں اپنی بہن کے لئے خود اچھا ساگھر ڈھونڈں گا ائمہ کے چہرے پر شرمندگی دیکھ کر آریان نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ شرمندہ سے مسکرا دی
وہ بھی تک راضی کا انتظار کر رہا تھا جو رات اس کی گاڑی لے کر گیا تھا اور صبع اسے پک کر نے آنے والا تھا وہ کمرے میں چلا گیا تواس کا موڈ سمجھ کر ارشی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے پیچھے ہی بیڈروم میں چلی گئی تھی
آئمہ جو اپنی ماں سے اس بے کار ترین بات کی وضاحت چاہتی تھی ان کے پاس جانے لگی جب کہ وہ تو اسے نظر انداز کرتی اندر کی طرف چلی گئی لیکن جانے سے پہلے ہی سے تاکید کر گئی کہ سب پھولوں میں اچھے سے پانی ڈال دے
حد ہے امی کی سوچ نہ جانے کہاں کہاں چلی جاتی ہے اف کتنی فضول بات کی امی نے آریان بھائی کے سامنے ہو ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں وہ تیز تیز پر بڑبڑاتے ہوئے پانی لگا رہی تھی تب اچانک ایک گاڑی آ کر باہر کی
سنومالی کا کا آریان سر کو بھلا دیجئے انہیں کہیں رضی آیا ہے لینے کے لیے رضی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس پیاری سی نازک لڑکی کو کیا کہے کربلائے تبھی غلطی سے مالی کا کا پکار اٹھا
میں کیا تمہیں شکل سے مالی کا کا نظر آتی ہوں وہ انتہائی غصے سے پلٹ کر کہنے لگی
شکل سے تو آپ پرستان سے اتری ہوئی پری بھی نظر نہیں آتی برحل میں نے آپ کی شکل کو نہیں بلکہ آپ کے کام کو دیکھ کر آپ کا نام رکھا ہے
وہ اسے لڑائی کے موڈ میں دیکھ کر بولا
اب کیا دنیا میں کوئی بھی پائپ اٹھا کر پودوں کو پانی لگائے گا تو وہ مالی بن جائے گا آئمہ کے تو مانو سر پر لگی پیر پر بجھی
جب کہ مضی سمجھ چکا تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی اس کے آنے سے پہلے ہی غصے سے بھری پڑی ہے
اس سے پہلے کے وہ ائمہ کو معذرت کرتا ہےیا کوئی جواب دیتا آریان خود ہی گاڑی کی آواز سن کر باہر آ گیا تھا
آئمہ بیٹا ارشی کا خیال رکھنا وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتا رضی کو چلنے کا اشارہ کر چکا تھا رضی کے دل میں تو بہت خواہش تھی اس لڑکی کے بارے میں جاننے کی لیکن شاید آریان کچھ بھی بتانے کا یا اسے متعارف کروانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا
°°°°°°°°°°
صبح شام ہوگئی اور اب رات کا گہرا اندھیرا چھا چکا تھا آنے والی ہر آہٹ پر وہ جان کو محسوس کر رہی تھی صبح سے کانپ کانپ کر اس کا برا حال تھا کبھی دودھ والا تو کبھی نہ جانے کون کون آ چکا تھا
جن سے وہ روز ڈیل کرتی تھی لیکن آج ہر چیز روز سے الگ تھی وہ صوفے پر بے چینی سے بیٹھی ہوئی تھی جب جان نے اندر قدم رکھے
جاناں کا دل بے ترتیب دھڑک رہا تھا لیکن اس کے باوجود جان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا وہ بالکل صاف شفاف تھا جس طرح وہ صبح گھر سے گیا تھا
جاناں نے ایک لمحے میں اس سب کو اپنے باپ کی ایک چال قرار دیتے ہوئے جان کی طرف دیکھا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی
لیکن جان کے الفاظ تو جیسے بے جان کر گئے
جاناں تم وہاں سے بھاگ کیوں آئی مجھے بات کرنے کا موقع تو دیتی اس نے مسکراتے ہوئے کہا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو جبکہ جاناں تو اس کے الفاظ پر ہی بری طرح سے گھبرا اٹھی مطلب یہ سچ تھا کوئی خواب کوئی دھوکا کوئی گیم نہیں
تمہیں رکنا چاہیے تھا میں اپنا کام ختم کر کے کھل کر تم سے بات کرتا تھا تم تو وہاں سے بھاگ آئی وہ اتنے نورمل انداز میں بات کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن جاناں توپھٹ پڑی
میں نے تم سے اتنی محبت کی جان اور تم نے میرے ساتھ اتنا بڑا گیم کھیلا
تم دھوکے باز ہو فریب کیا ہے تم نے میرے ساتھ تم نے دھوکہ دیا ہے مجھے تم قاتل ہو ایک خونی ہومجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ میں اپنے بابا کے پاس جانا چاہتی ہوں ابھی اسی وقت جاناں چلا چلا کر اس پر اس کی حقیقت واضح کر رہی تھی .....
جبکہ سامنے والے پر تو جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا
اپنے الفاظ درست کرو لڑکی میں نے تمہیں کوئی دھوکا نہیں دیا کوئی فریب نہیں کیا میں نے تمہارے ساتھ نکاح والے دن میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میری حقیقت کیا ہے اور میں کیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔`
اب اگر تم خود آپنی اس محبت کی وجہ سے میری حقیقت نہیں جان پائی تو مجھے گناہگار ٹھرانہ بند کرو
اور یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم میرے ساتھ نہیں رہنا وغیرہ وغیرہ کہیں نہیں جا سکتی تم اب مجھ سے تمہیں صرف تمہاری موت ہی الگ کر سکتی ہے یاد رکھنا
اور یہ محبت ۔۔۔۔۔! یہ محبت کر کے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا تم نے جو بار بار اس محبت کے رونے رو رہی ہو اگر تم نے مجھ سے محبت کی ہے تو دیوانوں کی طرح میں نے چاہا ہے تمہیں اور ہاں خبردار جو یہاں سے باہر نکلی ۔ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری ۔۔۔اور ایک اور بات یہ آنسو بہانہ بند کرو ۔میں ان سے نہیں پگھلنے والا میری لسٹ میں بہت کم لوگوں کے نام باقی ہیں جن کو راستے سے ہٹا کر تمہیں ہنی مون پر لے کر چلوں گا ۔
تب تک اپنا منہ بند کر کے یہیں پڑی رہو ۔۔۔۔تمہارے لئے جان ہوں۔ ۔۔۔ جان ہی رہنے دو اگر بیسٹ بن گیا نہ تو بہت پچھتاؤ گی
کیونکہ خود سے دور تو تمہیں جانے نہیں دوں گا ۔بیشک مجھے تمہاری جان ہی کیوں نہ لینی پڑے وہ بہت نارمل انداز میں بات کر رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو لیکن شاید جاناں کا انداز اسے غصہ دل آگیا تھا
جب کہ جاناں اسے بے عتبار نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا جھک کر اس کے لبوں پہ اپنے لب رکھے ۔اور اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے وہاں سے نکلتا چلا گیا
جاناں ساکت کھڑی سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی وہ جو صبح سے یہ سوچ رہی تھی کہ جان اسے اپنی صفائی دے گا سچ بیان کرے گا کہ وہ ویسا نہیں ہے
لیکن وہ تو کھل کر اس کے سامنے آگیا تھا جیسے اسے سب کچھ پتہ چلنے کا منتظر تھا
جان کے جانے کے بعد اس نے دوڑ کر دروازہ کھولنا چاہا لیکن وہ باہر سے لاک تھا وہ کتنی ہی

دیر دروازہ کھٹکھٹاتی رہی غصے اور خوف سے اس کا سر دکھنے لگا تھا لیکن کوئی نہیں تھا جو اس کی سنتا
سچ جاننے کے بعد اسے جان سے اچھی امید تو ہرگز نہیں تھی لیکن وہ اسے اس طرح سے گھر میں قید کر لے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا
جان کے آنے سے پہلے جو ڈر اس کے دل و دماغ پر حاوی تھا اب کم ہو چکا تھا
بے شک اسے جان سے بے پناہ محبت تھی اس کے بغیر رہنا اس نے کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا لیکن جان کا یہ بھیانک روپ جو اس کے سامنے آیا تھا اس کے بعد اس کی روح تک کانپ گئی تھی ایک قاتل ایک درندہ یہی تو تھی اس شخص کی حقیقت
اور ایسے شخص کے ساتھ رہنا جاناں جیسے لڑکی کے لیے ناممکن تھا
وہ کوئی کمزور دبوسی لڑکی نہیں تھی وہ لڑ کر جیتنے والوں میں سے تھی
اس نے زندگی میں بہت کم لوگوں کی محبت پائی تھی جان وہ واحد شخص تھا جسے اس نے اپنی روح و دل چاہا ہے لیکن جان کیا نکلا
بابا سہی تھے اور جاناں۔۔۔۔۔۔ وہ سب سے اس کے لیے لڑ رہی تھی
اس کی حقیقت جان کر اب ٹوٹ کر بکھر چکی تھی کتنی آسانی سے اس شخص نے کہہ دیا کہ ہاں وہی قاتل وہی بیسٹ ہے ایک درندہ ہے سیریل کلر ہے
نکاح والے روز بھی تو اس نے کہا تھا کہ وہ کیا ہے اس نے کبھی اس سے جھوٹ نہیں بولا تھا وہ ہمیشہ سچ کہتا آیا تھا لیکن جاناں کی آنکھوں پر تو محبت کی پٹی بندھی تھی
جاناں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائی
لیکن آپ اور نہیں وہ ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتی تھی اور ایسے شخص کو اس طرح سے کھلا چھوڑ دینا مطلب انسانیت کی توہین کرنا تھا جاناں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی ہمیشہ کے لئے لیکن جان کو اس کے انجام تک پہنچنے کے بعد
جان یہ سب کچھ کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔۔!
کیوں بیسٹ بن کر گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔ !
کیوں لوگوں کی جان لے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ان سب سوالوں پر جاناں نے غور نہ کیا اسے علم تھا تو بس اتنا کے جان قاتل ہے اور وہ قاتل کے ساتھ نہیں رہ سکتی
جان کے آنے سے پہلے اس کے دل و دماغ پر جان کا خوف بہت بری طرح سے سوار تھا لیکن اس کے جانے کے بعد وہ خوف زدہ نہیں تھی
یہ بات تو بہت اچھے طریقے سے سمجھتی تھی کہ جان اسے بے پناہ چاہتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی غلطی کبھی نہیں کرے گا اور اسی بات کا وہ فائدہ اٹھا سکتی تھی جان جیسے شخص کو اس کے انجام تک پہنچا سکتی تھی
اگر وہ جان سے ڈر کر خوفزدہ ہو کر آج ہمت ہار جاتی تو ایسے درندے دنیا کو یوں ہی نقصان پہنچاتے رہتے
اس کے دماغ میں ایک بار یہ نہیں آیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ جو کام وہ کر رہا ہوں وہ صحیح ہو اس کے دماغ میں بس ایک ہی چل رہی تھی کہ جان قاتل ہے اور جان جیسے درندے کو اس طرح کھلا چھوڑ دینے کا مطلب ہے نہ جانے کتنے ہی بے گناہوں کی زندگی کو برباد کرنا تھا اور جاناں ایسا نہیں کرسکتی تھی ۔
ہاں اس میں دنیا سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی لیکن سامنے جان تھا اس کی پوری دنیا
لیکن اس وقت وہ کیا کر سکتی تھی وہ گھر میں بند تھی اور جان اسے قید کر کے نہ جانے کہاں جا چکا تھا وہ اپنی سوچ میں گم تھی جب اس کا دھیان اپنے فون پر گیا وہ آریان کو فون کرکے سب سچ بتا سکتی تھی اور بیسٹ کو پکروانے میں اس کی مدد کر سکتی تھی اس نے سوچا اور فورا ہی عمل کرنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی کوئی دروازہ کھول کر اندر آ چکا تھا
°°°°°°°°°°
آپنے چند ایک بہت اہم کام نبٹا کر واپس آیا تو عائشہ کو سامنے بینچ پر ویسے ہی بیٹھے دیکھا وہ اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن نہیں بھر پایا
اس پاگل پن کا کیا مطلب ہے عائشہ ۔۔۔۔۔۔
وہ اس کے سر پر کھڑا سوال کرنے لگا جب کہ عائشہ تو مسکرا رہی تھی مطلب کہ وہ ایک دن اس سے بے رخی نہیں بھرتا پایا
کیا محبوب تھا اس کا
بس اتنی سی ہمت تھی دو تین دن مجھے یہی پرے رہنے دیتے پھر پوچھتے وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی
فضول بکواس بند کرو اور جاو اپنے گھر تمہاری ماما پریشان ہو رہی ہو گی تمہارا اس طرح سے کل رات ساری یہاں بیٹھے رہنا اور پھر آج سارا دن بھی تم نے یہاں گزار دیا اپنا نہ سہی اپنی ماں کا تو خیال کرو وہ اسے شرم دلا رہا تھا
تم فکر مت کرو میں اپنی ماں کو بتا کے آئی ہوں کہ میرا صنم ذرا سنگدل ہے آنے میں وقت لگے گا میرے لیے پریشان نہ ہوں وہ کافی ڈھیٹ ثابت ہو رہی تھی
تو پھر پڑی رہو یہاں پر میرا ہی دماغ خراب تھا جو تم سے پوچھ لیا گیا اس کے بے باک جملوں پر طہ نے دامن چھڑا نہ ہی بہتر سمجھاو
وہ کل سے بھوکی پیاسی یہاں پر تھی اس بات کا افسوس تھا اسے لیکن یہ پاگل لڑکی محبت کے چکروں میں نہ جانے کون سی مثالیں قائم کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ان جمیلوں میں پڑنے کی اجازت خود کو نہیں دیتا تھا
اسے ایسے ہی چھوڑ کر وہ گھر واپس آیا اپنے لئے کھانا بناتے ہوئے اس نے ایک ایکسٹرا سینڈوچ بنایا اور الماری سے ایکسٹرا کمبل نکالا
خود کو اتنا سنگدل ظاہر کرنے کے باوجود بھی وہ اگلے آدھے گھنٹے میں ایک بار پھر سے اس کے سر پر سوار تھا کمبل پھینکنے والے انداز پر اسے دیا اور کھانے کی پلیٹ وہی بینچ پر رکھ دی
کسی خوش فہمی میں مت رہنا میں نہیں چاہتا کہ مجھ پر کل یہ الزام آئے کہ میری محبت میں پاگل ہو کر ایک لڑکی نے میرے دروازے پربھوکی رہ کر خودکشی کرلی
عائشہ جو اس کی کرم نوازی پر فوراً سنڈوچ اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ چکی تھی اس کی بات پر ڈھیوٹوں کی طرح ہنس دی
تھینک یو ڈارلنگ تم فیوچر میں ایک اچھے ہسبینڈ ثابت ہوگے وہ پھر سے اسی پے باکی سے بولی جبکہ طہ نفی میں سر ہلاتا واپس اندر کی جانب بڑھ چکا تھا جبکہ عائشہ کمبل خود پر اڑتی کھانےسے انصاف کرنے لگی
°°°°°°°°°
اس کے ہاتھ میں کچھ شاپرزتھے اور اس کے ہاتھ کے عمل کو بھی بہت دیکھ چکا تھا جبکہ جاناں کے ہاتھ اپنے موبائل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے رک گئے۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے پاس آیا سارے شاپرز کو ٹیبل پر رکھ کر اس نے ایک نظر جاناں کی طرف دیکھا جو صوفے پر بیٹھی اسے ہی اپنی طرف آتا ہوا دیکھ رہی تھی اس کے ہاتھ میں موبائل موجود تھا ۔
جان نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کی جانب سے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے موبائل اس کے ہاتھ سے لے لیا اور پھر چیک کرنے لگا کہ وہ کسی فون کر رہی تھی جاناں نے نظریں چرائی جب کہ جان کا سارا دھیان اس کے چہرے کی جانب تھا
تمہارے پاس انسپکٹر آریان کا نمبر بھی ہے تم نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا خیر کوئی بات نہیں میں ڈیلیٹ کر دیتا ہوں
ہمیں بھلا اس سے کیا کام جو ہم اسے فون کرنے لگے
ویسے میرے خیال میں تمہیں کوئی خاص کام تو اس فون سے بھی نہیں ہے جان نرمی سے کہتے ہوئے اتنی شدت سے فون کو دیوار پر مار چکا تھا کہ وہ کہیں ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا جب کہ اس کی بے ساختہ حرکت پر جاناں چیخ اٹھی
چپ ۔۔۔۔ایک دم چپ ۔جب میں نے کہہ دیا ہے کہ کوئی الٹی سیدھی حرکتیں مت کرو تو بازکیوں نہیں آجاتی تم اس کے چلانے پر خود دھارتے ہوئے بولا جبکہ اس دوران وہ اس کے اتنے قریب آ چکا تھا کہ جاناں کو صوفے پر سمٹ کر بیٹھنا پڑا ۔اور اب جاناں کو اس سے ڈر لگ رہا تھا ۔
مجھے نہیں رہنا ۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ساتھ۔۔۔۔ جانا ہے مجھے۔۔۔۔۔ یہاں سے تم ۔۔۔۔۔۔۔قاتل ہو میں۔ ۔۔۔۔۔تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔اپنی زندگی نہیں ۔۔۔۔۔گزار سکتی....میں یہاں ۔۔۔۔۔سے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاہتی ہوں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں رہنا
وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہتی تھی لیکن اس کے اتنے قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی جاناں کی زبان لڑکھڑا گئی لیکن پھر بھی وہ رکی نہیں اپنی بات مکمل کر کے ہی دم لیا اس کی بات مکمل ہونے پر اتنے غصے میں ہونے کے باوجود بھی جان کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی
تم مجھ سے یہ بھی تو پوچھ سکتی ہو کہ میں یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔
اس سب کے پیچھے میرا مقصد کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!
میں کیوں لوگوں کی جان لیتا ہوں اور کن لوگوں کی جان لیتا ہوں ۔۔۔۔!
مجھے تمہارے۔۔۔۔۔۔۔ بارے میں کچھ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں جاننا بس میں ۔۔۔۔۔یہاں سے جانا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوں وہ چیختے ہوئے بولی جان کا نرم لہجہ اس کے انداز میں بہادری لا رہا تھا
ان شاپرز میں کھانا ہے جاؤ جا کر نکالو بہت بھوک لگی ہے مجھے بہت دماغ کھانے لگی ہو تم چلو جاؤ جا کر کھانہ نکالو اس کے چیخنے پر بھی جان بہت نارمل انداز میں گویا ہوا تو جاناں اسے گھور کر رہ گئی
تمہیں سمجھ نہیں آرہی میں کیا کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ چلائی تھی جب جان نے ٹیبل پر پڑے فروٹ کی ٹوکری سے چھری نکال کر اس کے سامنے کی جاناں دل و جان سے کانپ کر رہ گئی اس کا پورا جسم کانپنے لگا تھا گھبراہٹ اس کے چہرے سے صاف واضح ہو رہی تھی ۔
آج کھانے کے ساتھ میرا ایپل کھانے کا دل کر رہا ہے اس کی گھبرائی ہوئی شکل دیکھ کر جان نے ٹوکری سے ایک سیب اٹھاتے ہوئے کہا جاناں کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی تھی
تم کھانا نکال رہی ہو یا نہیں ایک سلائس کاٹ کر اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے چھری ایک بار پھر جاناں کی طرف گھمائی تھی
وہ بنا کچھ بولے فورا کھانے کے شاپر اٹھاتی کچن کی جانب بڑھ گئی
اففف میری معصوم ماہی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سیب کا ایک اور ٹکرا کاٹتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ کر مسکراتے ہوئے بربڑایا
جاناں خاموشی سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کھانا پلیٹ میں نکال رہی تھی سب کچھ اس کی پسند کا تھا اس نے ایک نظر کھانے کی طرف دیکھا جب باہر سے آواز آئی
ماہی ڈارلنگ جلدی کرو بھوک لگی ہے اس وہ حد تک نارمل کیسے تھا اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی وہ اتنا بے فکر لاپروا کیسے ہو سکتا ہے کیا اس کا ضمیر اسے پکارتا نہیں تھا
اس کی آواز پر اس کے ہاتھ تیز تیز چلنے لگے اسے لگا تھا جان اسے نقصان نہیں پہنچائے گا لیکن اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ کسی کو بھی بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتا وہ جلدی سے کھانا اٹھا کر باہر لے آنے لگی
جلدی لاو یار بہت بھوک لگی ہے وہ ہاتھ ملتے ہوئے مسکرا کر اسے اشارہ کر چکا تھا جاناں نے جلدی سے کھانا لا کر کے ٹیبل پر رکھا جبکہ دھیان اس کا زمین پر پڑے اپنے موبائل کی جانب تھا
آج تک میرے ہاتھ سے جو چیز گری ہے وہ سلامت نہیں بچی اس طرح مت دیکھو وہ بیکار ہو چکا ہے وہ اس کی نظریں بھانپ چکا تھا
جاناں نے غصے سے بھرپور ایک نظر اس کی طرف دیکھا وہ اب بھی مسکرا رہا تھا
کیا یار ایسے گھور کیوں رہی ہوں بول تو رہا ہوں کہ جو کچھ بھی ہوا اس کے پیچھے ایک مقصد ہے تم نہیں جاننا چاہتی تمہاری مرضی اس طرح سے مجھے گھورنا یا شرم دلانے کی ناکام کوشش بند کرو تمہاری ان سب حرکتوں سے مجھے رتی برابر فرق نہیں پڑے گا بلکہ تمہارا یہ انداز مجھے میرے مقصد میں ہر حد پار کرنے پر اکسا رہا ہے
چلو میں تمہیں کل تک کا وقت دیتا ہوں تم مجھ سے جو سوال کروگی میں تمہیں اس کا سچ سچ جواب دوں گا چاہے وہ سوال کسی بھی طرح کا کیوں نہ ہو
میں تمہیں سب کچھ سچ بتاؤں گا اپنے خودساختہ خیال بنانا چھوڑ دو بہتر ہے کہ مجھ سے حقیقت جان جاؤ وہ اسے آفر کر رہا تھا
میں تمہارے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتی
جان گئی ہوں میں تمہارے بارے میں تم ایک قاتل ہو بیسٹ ہو جو لوگوں کی جان لیتا ہے اور تمہارےجیسے شخص کے ساتھ میں اپنی زندگی برباد نہیں کروں گی اس نے دبے دبے غصے سے چلانا چاہا لیکن اس وقت ہمت نہیں ہو رہی تھی
ایز یو ویش جانِ جاناں۔ ۔۔۔ میں پھر بھی تمہیں کل تک کا وقت دیتا ہوں پھر بعد میں مت کہنا کہ میں نے تمہیں حقیقت کیوں نہیں بتائی کھانے کا نوالہ بناتے ہوئے زبردستی اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگا جبکہ وہ اس کے بالکل قریب بیٹھی اس حد تک بے بس ہو چکی تھی کہ اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ جھٹلا بھی نا سکی
°°°°°°°°°°
بابا میرے خیال میں آپ کو جان کی پہنچ سے دور چلے جانا چاہیے لسٹ میں آخری نام آپ کا ہے وہ کافی پریشانی سے اکبر صاحب سے بولا تھا
موت آج نہیں تو کل تو آنی ہی ہے لیکن میں ابراہیم کے بیٹے کو اتنی آسانی سے اپنی بیٹی نہیں سنوپؤں گا اس شخص نے مجھے برباد کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا یہاں تک کہ میری بہن کی بھی جان لے لی گئی
اور میں اتنی کوششوں کے باوجود کچھ نہیں کر سکا میں اپنی بیٹی کو اس سے چھپا کر رکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اس تک پہنچ گیا اتنے سالوں سے اس ڈر میں جیتا رہا کہ آج نہیں تو کل ابراہیم کا بیٹا آ کر میرے سارے راز فاش کر دے گا لیکن اس نے ایسا نہ کیا بلکہ وہ تو مجھے جڑ سے اوکھاڑنے کا مقصد لے کر یہاں آیا ہے
موت کا ڈر تو اس کام میں قدم رکھتے ہی ختم ہو گیا تھا بیٹا موت کا ڈر میرے اندر نہیں ہے میں جہاں بھی جاؤں گا جان مجھے ختم کرنے کے لیے وہاں پہنچ جائے گا لیکن میں مرنے سے پہلے جان سے اپنی بیٹی کو الگ کر کے رہوں گا
میں کبھی جاناں اور جان کو ایک نہیں ہونے دونگا ابراہیم کو ختم کرنے سے پہلے میں نے اس سے کہا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو جان کے حوالے نہیں کروں گا اور اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ میری بیٹی کو مجھ سے چھین کر رہے گا چاہے میں اسے دنیا میں کیوں نہ چھپا لوں
میں نہیں جانتا کہ جاناں وہاں آئی تھی یا نہیں اس نے جان کو وہاں دیکھا یا نہیں لیکن میں اس سے رابطہ نہیں کر پا رہا اس کا فون مسلسل بند جا رہا ہے اکبر صاحب نے پریشانی سے کہا کیونکہ اپنا مقصد تو وہ کسی بھی حال میں پورا کرنا چاہتے تھے انہیں افسوس جان کا نہیں بلکہ جان اور جاناں کہ ایک ہونے کا تھا
اس نے کچن میں قدم رکھا تو جاناں کو کسی سوچ میں مصروف پایا وہ کیا سوچ رہی تھی اس کا ذہن کن وادیوں میں بھٹک رہا تھا وہ اچھے سے جانتا تھا لیکن فی الحال اس کے پاس جاناں کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا
اس نے جاناں کو وقت دیا تھا اور آفر دی تھی کہ وہ اس سے پوچھ لے لیکن وہ جانتا تھا کہ کسی بھی نارمل لڑکی کے لیے یہ سب کچھ قبول کرنا یا اس طرح سے وجہ پوچھنا آسان نہیں ہے
اور جاناں کی تو وہ رگ رگ سے واقف تھااور فی الحال اس ک جاناں کو کچھ بھی بتانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا جب تک کہ اس کا یہ کام مکمل نہ ہو جائے
کیا ہوا میری ماہی کا دل نہیں کر رہا برتن دھونے کا تو میں ہونا میں ابھی اپنی جاناں کے سارے برتن دھو دیتا ہوں وہ پیچھے سے اسے اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے اس کی گردن پر بے ساختا ہیں اپنے لبوں سے محبت کی ایک رقم تحریر کرچکا تھا
جاناں بے دردی سے اس کے ہاتھوں کو کھولتے ہوئے اس سے دور ہوئی تھی ۔
تم مجھے اس گھر میں قید تو کر سکتے ہو لیکن میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے وہ چلاتے ہوئے بولی
میری جان میں تمہارے ساتھ کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کر رہا اور جہاں تک اس کے گھر میں رہنے کی بات ہے تو میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ صرف چند دن اس کے بعد میرا کام ختم ہو جائے گا ہم دونوں آرام سے ہنی مون پر چلیں گے
میں تمہارے جیسے گھٹیا شخص کے ساتھ میں ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتی مجھے گھٹن ہو رہی ہے یہاں مجھے سانس نہیں آرہی جان مجھے جانے دو یہاں سے میں کسی کو نہیں بتاؤں گی تمہارے بارے میں مگر مجھے جانے دو میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی
وہ نہ جانے خود میں اتنی ہمت کہاں سے لا رہی تھی کہ ایک قاتل کے روبرو کھڑے ہو کر اس سے بات کر رہی تھی
۔بار بار جانے کی بات کر کے تو مجھے ہرٹ کر رہی ہو جاناں میں جو بھی کر رہا ہوں اس سب کے پیچھے ایک بہت اہم وجہ ہے
وجہ تم نہیں جاننا چاہتی تمہارا قصور ہے لیکن اس طرح سے بار بار تو میری محبت کو جھٹلا کر میرا دل دکھا رہی ہو یہ بہت غلط کر رہی ہو
میں جانتا ہوں کہ سب حقیقت اچانک تمہارے سامنے آئی ہے تم اس سب کو قبول نہیں کر رہی لیکن اگر تم اس سب کے پچھے کی وجہ جان جاؤ گی تو تمہیں میں بالکل ٹھیک لگاؤں گا ۔
۔وجہ یہ ہے کہ تم ایک قاتل ہواور اب میرے لیےاپنے دماغ میں ایک کہانی بنا چکے ہو جو تم مجھے سناؤ گے اور میں پھر پاگلوں کی طرح تم پر یقین کرنے لگاوں گی اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہے اور کچھ نہیں میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں اس شخص کی جان لیتے دیکھا ہے
تم قاتل ہو تم ہی وہ" بیسٹ" ہو جسے سب لوگ ڈھونڈ رہے ہیں اور یہی حقیقت ہے وہ ایک بار پھر سے ہزیانی انداز میں چلائی
یہ حقیقت ہے جاناں اس سے میں انکار نہیں کر رہا میں ہی "بیسٹ" ہوں جسے سب لوگ ڈھونڈ رہے ہیں ہاں میں ہی وہ شخص ہوں جو لوگوں کو بے دردی سے قتل کرتا ہوں لیکن میں تمہیں اس سب کے پیچھے کی وجہ بتانا چاہتا ہوں ۔کیا تم نہیں جاننا چاہتی کہ میں یہ سب کچھ کیوں کرتا ہوں ۔وہ بہت محبت سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ۔
مجھے کچھ نہیں جاننا جان کچھ بھی نہیں بس مجھے یہاں سے جانا ہے میں ایک قاتل کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی میں تمہیں ایک نارمل انسان سمجھ کر پیار کر رہی تھی اور تم کیا نکلےتم نے مجھے دھوکا دیا میرے پیار کو دھوکا دیا میرے ساتھ فریب کیا میں ایسے شخص کے ساتھ میں ایک لمحہ نہیں رہ سکتی پلیز مجھے یہاں سے جانے دو ۔وہ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کر بری طرح سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ اس کی کوئی بھی بات وہ سننا ہی نہیں چاہتی تھی ۔
جان نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا پھر گردن ہاں میں ہاں میں لائی
پھر ایک نظر اس نے چولہے کو دیکھاپھو اسے دیکھ کر بولا
تمہیں پتا ہے مجھے لوگوں کو مارنے میں سب سے زیادہ مزہ کب آتا ہے جب میں چاقو کو تقریبا ایک گھنٹے تک دہکتی آگ پر جلاتا ہوں پھر کیا ہے نہ ماہی وہ پھستا یا روکتا نہیں سیدھا سینے کے آر پار ہو جاتا ہے اور پھرجو چچیں بلند ہوتی ہیں نہ جاناں وہ کہتے ہوئے اس کے بالکل قریب آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔اف سکون ملتا ہے مجھے ۔۔۔۔اس نے سرگوشانہ انداز میں کہا اور اس کے انداز پر جاناں کی روح تک کانپ اٹھی وہ دو قدم پیچھے ہٹی تھی لیکن جان نے اپنی بات جاری رکھی
اور وہ خون اور اس خون کا لال رنگ اصلی سکون اور قرار تو اس میں ہے تم نے کبھی کسی کا قتل نہیں کیا نا تو میری فیلنگز نہیں سمجھ سکتی تم تو مجھے قتل کرتے دیکھ کر ہی پاگل ہورہی ہو۔۔۔
خیر چھوڑو ان سب باتوں کو آو باہر آکر رومنٹک سی مووی دیکھ سکتے ہیں وہ اس کی باتوں کو اس طرح سے نظر انداز کر گیا تھا جیسے وہ دن بھر کی روٹین کی کوئی بہت نارمل بات کر رہی ہووہ ضرورت سے زیادہ اس کی باتوں کو نظر انداز کر گیا تھا
اتنا پرسکون انداز۔۔۔۔۔"
اتنا پر شوق لہجہ ۔۔۔۔"
وہ تو اس کی پل پل بدلتے انداز پر بری طرح سے گھبرا گئی تھی
جاناں تمہیں سنائی نہیں دیا میں نے کیا کہا میں نے کہا باہر آؤ جان مل کر کوئی اچھی سی فلم دیکھ سکتے ہیں وہ باہر جاتے ہوئے پلٹا تھا
ان سب باتوں کے بعد یقیناً وہ فورا اس کے اپنے پیچھے آنے کی امید رکھتا تھا جاناں نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا وہ باغور اسے ہی دیکھ رہا تھا
شاید وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ اس سے خوفزدہ کرچکا ہے
لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماہی اس سے خوفزدہ ہو وہ تو بس یہ چاہتا تھا کہ جاناں اس کی بات کو سمجھیے
ویسے کون سی فلم پسند ہے تمہیں انگلش ترکش ہندی اردو وہ واپس اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ باہر لے گیا اور اس کے تھوڑی دیر پہلے والے انداز کو سوچتے ہوئے جاناں بے جان گڑیا کی طرح اس کے ساتھ ساتھ قدم اٹھانے لگیی
دل میں ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ بھی ان سب لوگوں کی طرح جان کی درندگی کا شکار نہ ہوجائے اب تو جان سے کسی بھی طرح کی امید کی جاسکتی تھی ۔
اور جاناں تو بس ان سب لوگوں کو انصاف دلانا چاہتی تھی جو جان کے ہاتھوں مارے گئے
کیوں جان درندہ بن گیا
کیوں لوگوں کا یہ حال کر دیا
اسے کوئی انٹرسٹڈ نہیں تھا تھا تھا تو بس اس بات میں کہ جان قاتل ہے اور اس شخص کو وہ اتنی آسانی سے نہیں چھوڑے گی
چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے اسے بس کسی بھی طرح انسپکٹر آریان سے رابطہ کرنا تھا جو اپنے آپ مین ایک بہت مشکل کام تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جان کے ساتھ نارمل بیہیو کرے گی اور رات اس کے سونے کے بعدجان کے فون سےانسپکٹر آریان کو فون کرکے بتا دے گی کہ "بیسٹ" آخر کون ہے
لیکن اس سب کے لئے اسے جان کو خود پر شک نہیں ہونے دینا تھا لیکن جان کا انداز اس کی بے باکی اور اتنا نارمل اس سے بات کرنا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہا تھا وہ بہت کوشش کے باوجود بھی خود کو اس کے جینا نارمل نہیں کر پا رہی تھی جان نے اسے اپنے بالکل قریب بٹھایا اور آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا
ماہی تم پلیز مجھ سے خوفزدہ مت ہو میں سہی کام غلط طریقے سے کر رہا ہوں جب تمہیں یہ سب کچھ پتہ چلے گا نا تب تم مجھ پر فخر کرو گی بس سہی وقت آ جانے دو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بہت محبت سے اسے سمجھا رہا تھا جبکہ جاناں کے دماغ میں تو اپنی ہی پلاننگ چل رہی تھی
لیکن پاس بیٹھا شخص اس سے اتنا بھی انجان نہیں تھا وہ اس کی رگ رگ سے واقف
سوچیں پرھ رہا تھا جبکہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی قید میں محسوس کرتے اس کی نظر مسلسل جان کے ہاتھ پر اپنے نام کی بنی ٹیٹو پر تھی
°°°°°°
اتنے دن ہو گئے تھے جب سے تائی ا می ان کے گھر آئی تھی ان دونوں کے پاس تو بالکل وقت ہی نہیں بچا تھا ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے آریان کے گھر آتے ہی تائی امی اسے کسی نہ کسی کام پر لگا دیتی
اور پھر وہ فارغ تب ہوتی جب آریان گہری نیند سو چکا ہوتا صبح اٹھ کر وہ روز اس سے شکایت کرتا تھا۔۔۔۔ کیا بات ہے بیگم جب سے آپ کی تائی امی اور بہن آئی ہیں آپ کے پاس تو ہمارے لئے بالکل وقت ہی نہیں۔۔۔ اس کی شکایتی نظریں اریشفہ کو اچھا خاصہ شرمندہ کر دیتی تھی ۔لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی اس معاملے میں
آج بھی آریان کو آئے ہوئے تقریبا تین گھنٹے گزر چکے تھے اور تائی امی اس وقت اس سے اسٹور روم کی صفائی کروانے میں مصروف تھی
۔ملازمہ دن میں اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتی جس کی وجہ سے تائی امی اس سے کوئی کام نہیں کرواتی لیکن اب ایسا نہیں تھا اریشفہ کے ساتھ باتیں کرنے کے بہانے وہ ہر روز اسے کمرے سے لے آتی اور پھر نہ جانے کون کون سا کام نکل آتا اور آریان مے سامنے وہ یہ کہہ ٹال دیتی کہ اریشفہ صرف بتا رہی ہے کام تو وہ اورائمہ کر رہی ہیں ائمہ نے بھی بہت بار انہیں منع کرنے کی کوشش کی کہ اس کی حالت ویسے ہی ٹھیک نہیں ہے اور آپ اسے گدھوں کی طرح کام لے رہی ہیں لیکن ٹائی امی کے تو اپنے ہی اصول تھے
آج جب اس نے کمرے میں قدم رکھا تو روز کی طرح آریان کو گہری نیند سوئے ہوئے پایا رات کا ایک بج رہا تھا یہ تو آریان ہی تھا جو ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیتا ورنہ کونسا شوہر اپنی ذاتی وقت میں بیوی کو کہیں اور رکنے دیتا ہے
۔وی سچ میں بہت پیارا تھا
کتنا اچھا انسان تھا وہ نہ صرف اسے اس کی کمی کے ساتھ قبول کیا تھا بلکہ اپنا آپ بھرپور محبت توجہ اس پر نچھاور کر دی تھی ۔وہ بنا آواز کیے بیڈ کے پاس آئی اور جھک کر بہت محبت سے اس نے آریان کے گال پر اپنے لب رکھے تھے آریان کے چہرے پر خوشگوار سے تاثرات تھے لیکن شاید وہ بہت تھک گیا تھا اسی لئے گہری نیند سو رہا تھا
اریشفہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھی اور کپڑے چینج کرنے کی نیت سے الماری کے پاس آئی لیکن سارا دھیان آپنے سوئے ہوئے شوہر کی جانب ہونے کی وجہ سے وہ بے دھیانی میں اپنے بجائے آریان کی الماری کھول گئی جس سے اچانک ہی کچھ چوڑیاں اور ایک بیگ زمین پر گرا
اس نے پریشانی سے بیگ اٹھایا جس میں سے چوڑیاں نکل رہی تھی
یہ کیا ہے اس نے سوچا اور اگلے ہی لمحے اس میں لیڈیز سوٹ اور نہ جانے عورتوں کا کون کون سا سامان اس بیگ سے باہر نکالا تھا
یہ سب کچھ کس کا تھا بلا وہ پریشانی سے سوچنے لگی
اتنی بڑی بڑی چوریاں اتنی بڑی بڑی انگوٹھیاں اس کی تو کیا کسی بھی عام سی لڑکی کی نہیں ہو سکتی آریان کے پاس کیا کر رہی تھی
آریان نے اس طرح کا سامان اپنی الماری میں کیوں رکھا ہوا تھا اس نے سوچا
پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کسی کی امانت ہو کسی کو واپس کرنا ہو وہ ایک پولیس والا تھا یہ سب کچھ اس کے کام کا حصہ بھی ہوسکتا تھا اس نے سوچتے ہوئے وہ سارا بیگ دوبارہ پیک کرتے ہوئے آریان کی الماری میں رکھ دیا وہ اس کے کام میں کبھی بھی دخل اندازی کی وجہ نہیں بننا چاہتی تھی
°°°°
وہ خود کو کافی لاپروا ظاہر کر رہا تھا
لیکن دیہان باہر ہونے والی تھوڑی دیر کے بعد بارش پر تھا اب نہیں تو تھوڑی دیر میں پکا بارش شروع ہونے والی تھی اور عائشہ باہر اس بارش میں تھی
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور یہی اس کی بے چینی کی وجہ تھی
وہ اسے کتنا ہیں نظر انداز کیوں نہ کرلے لیکن اس کا دل اسے نظر انداز کرنے پر راضی نہیں تھا اس نے دو تین بار سوچا کہ جا کر باہر اس پاگل لڑکی سے بات کرے اور اسے دوبارہ گھر واپس بھیجے اس لڑکی کا دماغ بالکل خراب ہو چکا تھا وہ اس کی کسی بات کو سمجھنے کے لئے راضی ہی نہیں تھی
وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کر باہر جانے لگا
لیکن اس طرح سے تو عائشہ اس کی نرمی کا غلط فائدہ اٹھا سکتی تھی ہوسکتا تھا وہ اس سب کا بھی کوئی اور ہی مطلب نکالے
یہی سوچتے ہوئے وہ واپس بیڈ پر بیٹھ گیا جب اس کا دروازہ بجا اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے عائشہ کو کھڑے پایا
وہ کیا ہے نہ کہ میرے گھر پر میرا مطلب ہے میرے بینچ پر بارش ہونے لگی اور ہم پروسی ہے تمہیں پروسی ہونے کے ناطے میری مدد کرنی چاہئے وہ اسے بنا کچھ کہنے کا موقع دیے فورا ہی اسے پیچھے کرتی اندر داخل ہو چکی تھی
مجھے تمہارا پڑوسی بننے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے نکلو میرے گھر سے وہیں بینچ پر جاکر ڈیرہ جماو بلکہ یہاں نہیں اپنے گھر جاؤ وہ سختی سے بولا تھا
کیوں بیکار محنت کر رہےہو تمہاری ان سب باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہونے والا اور میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والک اسی لئے اپنے الفاظ ضائع مت کرو وہ اسی کے بیڈ پر اپنا کمبل جو طہ.نےہی اسے دیا تھا پھیلاتے ہوئے لیٹ گئی
بے وقوف لڑکی تم میرے بیڈ پر کیا کر رہی ہو اسے غصہ آیا
جب میں بیمار تھی تب بھی تومیں یہی پر سوئی تھی نہ اور تم کہیں اور اس وقت جہاں سوئے تھے جا کر وہیں پر سو جاؤ اور پلیز مجھے بالکل تنگ مت کرنا نیند سے جگانے والے لوگ مجھےزہر لگتے ہیں اور ایک اور بہت اہم بات شادی کے بعد میں اس کھنڈر نما کمرے میں نہیں رہوں گی
پہلے بتا رہی ہو وہ اپنے ڈھیٹ پنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمبل تان چکی تھی جبکہ طہ کو تو اس سے بات کرنا ہی بیکار لگا اسی لئے خاموشی سے اپنا کمبل صوفے پر پھینکتے ہوئے اس پر لیٹ گیا ہاں بے چینی کم ہوگئی تھی کیونکہ عائشہ اب باہر بارش میں نہیں تھی
وہ بالکل نارمل سا ہو گیا تھا نیند بھی اچھی آ رہی تھی چہرے پر ایک دل کشتی مسکراہٹ تھی شاید اسے بھی یہ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا
جاناںبے صبری سے اس کے سونے کا انتظار کر رہی تھی
جب کہ جان اس کے صبر کو آزما رہا تھا
وہ اس سے بالکل بات نہیں کرتی تھی نہ ہی اس کی طرف دیکھتی تھی
یہ سب جان کے لئے اس کا امتحان بنا ہوا تھا
لیکن وہ مجبور تھا وہ جاناں کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا اور نہ ہی جاناں اس سے کچھ پوچھنا چاہتی تھی
جاناں کے لیے وہ ایک کہانی تیار کر چکا تھا
اگر وہ اس سے حقیقت پوچھتی تو کوئی نہ کوئی بہانہ وہ اس کے سامنے بنا ہی لیتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جانا:ں اس سے بات کرنے کی بھی روادار نہیں تھی
جاناں کی یہ بے رخی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی
اسے تو جاناں کا وہ پیارا سا محبت کرنے والا انداز ہی اچھا لگتا تھا
یہ بے اعتباری بے یقینی کے سب اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا
لیکن یہ اس کی مجبوری تھی جاناں کو آج نہیں تو کل یہ سب کچھ پتہ چلنا ہی تھا
جان خود ایسے سب کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن اس طرح نہیں جس طرح اسے پتہ چلا تھا ۔یہ تو صرف اس کے دل میں جان کا ڈر پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا
وہ اس کے ہر قدم سے واقف تھا
اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے
وہ کیا سوچ رہی ہےاور وہ کیا کرنے والی ہے
جان ایک ایک لفظ سے واقف تھا
وہ اسے ڈرانا دھمکانا نہیں چاہتا تھا لیکن اب لگ رہا تھا کہ ایسا کرنا پڑے گا
۔وہ کافی دیر سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا جہاں وہ سامنے صوفے پر بیٹھی اس سے مکمل لاتعلقی کی برت رہی تھی
چلو ماہی سو جاتے ہیں بہت نیند آ رہی ہے وہ کہہ کر اٹھ کر اندر چلا گیا اور جاناں کو اب اس کے سونے کا انتظار تھا
اگر تو وہ سو جاتا تو وہ اس کے موبائل سے انسپکٹر آریان کو فون کر لیتی اور اس کی حقیقت کو کھول کر انسان ہونے کا حق ادا کرتیی
جاناں کو یقین تھا کہ جان اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا
اس کی دیوانگی اور جنون سے وہ خود بھی واقف تھی
۔لیکن جس طرح سے جان ا سے ڈرا رہا تھا
خود سے خوفزدہ کر رہا تھا اسے وقتی طور پر لگتا کہ جان واقع ہی اسے جان سے مار دے گا
۔اور جب وہ لمحہ گزر جاتا تو جاناں کا دل ایک بار پھر سے گواہی دیتا ہے کہ وہ اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا
°°°°°°°°°°
سارے دن کے کام نمٹانے کے بعداریشفہ جب اپنے کمرے میں آئی تو اسے خیال آیا کہ آج سے اریان کے الماری بھی صاف کرنی تھی
لیکن اب تو شام ہونے والی تھی آریان کبھی بھی آنے والا تھا اور اگر وہاں اسے یوں کام کرتے دیکھ لیتا تو بہت ڈانٹتا
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بہت دنوں سے اس نے اس کے الماری صاف نہیں کی تھی
کمرے میں آنےکے بعد اریشفہ نے الماری صاف کرنے کی نیت سے کھولی تووہ سامان اب بھی وہیں پر موجود تھا
۔اسے حیرت ہوئی ۔
آخر یہ سامان کس کا تھا اور آریان کی کبڈ میں کیا کر رہا تھا اس نے سوچا لیکن پھر اس سامان کو بیڈ پر ایک طرف رکھتے ہوئے آریان کی باقی شرٹز نکال کر الگ کرنے لگی
جب تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔۔۔تو یہاں کیا کر رہی ہے میں نے تجھے کہا تھا کہ کچن میں آنا
شوہر کے گھر واپس آتا ہے تو اس کی پسند کا کوئی کھانا کوئی ڈش بنا کر اسے خوش کیا جاتا ہے
لیکن تجھے کون سکھائے جیسی ماں ویسی بیٹی چل کچن میں میں تجھے بتاتی ہوں انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا
جبکہ اریشفہ یہ سمجھ کر مسکرا دی کہ وہ اس کا گھر بسانے میں اس کی مدد کر رہی ہیں اسے اچھی بیوی ہونے کے ہنر سکھا رہی ہیں
لیکن وہ نادان ان کی چالبازی کو کہاں سمجھتی تھی وہ تو اپنے طریقے سے اس کا گھر برباد کرنے کی تیاریوں میں تھی ۔
اس نے آریان کی الماری صاف کرنے کے لیے وقت مانگا لیکن ان کا دھیان بیڈ پر پڑے بیگ کی طرف چلا گیا
یہ آریان کی الماری میں تیرا سامان کیا کر رہا ہے اتنے سارے مردانہ کپڑوں میں ایک زنانہ شاپر دیکھ کر وہ خود ہی اس کے پاس چلی آئی
اور بنا اسے کچھ بھی سمھجانےکا موقع دیے اس بیگ کو پوری طرح سے بیڈ پر انڈیل دیا ہائے اللہ یہ اتنا سامان کس کا ہے تیرا تو نہیں ہو سکتا یہ اتنی بڑی بڑی چوڑیاں اتنی بڑی بڑی انگوٹھیاں کس کی ہی
یہ کسی عورت کی تو نہیں لگتی تائی امی نے اپنا نظریہ اس کے سامنے رکھا جب اچانک کمرے میں آریان داخل ہوا
اس کا دھیان نا تو تائی امی کی جانب تھا اور نہ ہی اریشفہ کی طرف سے اس کے چہرے سے رنگ تو تب اڑے تھے جب اس نے بیڈ پر پھیلا ہوا سامان دیکھا
۔عرشی پہ یہ سب کیا ہے کیوں میری چیزوں کو باہر نکال کے رکھا ہے تم نے وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا تھا ۔
اگر کچھ پتہ نہ ہو تو پوچھ لیا کرو اس طرح سے میری چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو
وہ تیز تیز ہاتھ چلاتا سامان واپس بیگ میں رکھ رہا تھا بلکہ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا
اتنے پیار کرنے والے شوہر کی ڈانٹ سن کر اریشفہ اداس ہو گئی ہے اور اس کا فائدہ ٹائی امی نے اٹھایا
ارے بیٹا چھوڑو بی بچی ہے کہ سمجھ تھوڑی ہے پولیس والوں کے ہزار داوپیچ ہوتے ہیں ہزار چیزیں آ کے وہ گھر میں رکھتے ہیں
اب سچ کہیں تو میری ڈی ایس پی صاحب کا بھی یہی حال ہے لیکن اب ہر کسی کو تو سمجھ نہیں ہوتی ان سب چیزوں کی
لیکن کوئی بات نہیں میں ہوں نہ یہاں سمجھا دوں گی
ویسے یہ سب کچھ ہے کیاتمہاری امی کی چیز ہیں یا کسی کام کی
تائی امی نے ایک نظر اس بیگ کی طرف دیکھا جس سے نہ جانے کیوں انہیں لگ رہا تھا کہ اریان چھپانے کی کوشش کر رہا ہے
میں بھی پاگل ہوں تمہاری امی کی ہوگی اتنی بڑی بڑی چیزیں اریشفہ کی تو ہو نہیں سکتی اور ایسا تو کچھ ہوتا نہیں پولیس والوں کے پاس چھپانے کے لئے ان کا انداز کھوج لگانے والا تھا
کیونکہ آریان کا رشتہ جب وہ آئمہ کے لیے چاہتی تھی تب وہ اس کے بارے میں ساری انفو لےچکی تھی
ویسے آریان میں نے سنا ہے کہ تم بچپن میں کسی گناہ کی وجہ سے جیل گئے تھے
مجھے ڈی ایس پی صاحب نے بتایا تھا
ہاں یاد آیا تم نے اپنی ماں کا قتل کیا تھا نا ڈی ایس پی صاحب تو کہہ رہے تھے کہ ہوسکتا ہے کسی نے الزام لگایا ہوتم پر
جب تم بچے تھے سمجھ تو تمہیں کسی چیز کی تھی
پھس گئے ہو گے اس شاطر دنیا کی چال بازیوں میں اب دیکھو نہ اگر تم نے اپنی ماں کا قتل کیا ہوتا تو کیا ان کی چیزیں اس طرح سے سنبھال کے رکھتے
آج بھی کتنی نئی اور فیشن کے مطابق محسوس ہورہی ہیں یہ سب چیزیں ان کا انداز اور باتیں آریان کو بری طرح سے ہرٹ کر رہی تھی ۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ فی الحال وہ ان سب باتوں میں پڑھنا ہی نہیں چاہتا تھا بس ایک شکایتی نظر اس نے اریشفہ کی طرف دیکھاوہ خاموشی سے اس سامان کو الماری میں رکھ کر فریش ہونے چلا گیا
جبکہ آریان کی ناراضگی کا سوچتے ہوئے اور اس کے لیے کچھ بنانے کے لئے کچن کی طرف آئی تھی
اب جو تائی امی کہتی ہیں وہی کرتی تھی
کیونکہ تائی امی اس کی بھلائی چاہتی تھی انہیں اچھے برے کی سمجھ بھی جو اریشفہ کو نہیں تھی
نہ جانے گھر کیسے بسائے جاتے ہیں یہ تو تائی ا می ہیں جو اسے بتا رہی تھی
ورنہ یہ وقت اس کے لئے کتنا مشکل تھا یہ تو صرف اریشفہ ہی سمجھتی تھی تائی امی کی باتیں اس کے دماغ میں گردش کرتی رہتی تھی
°°°°°°°°°°
وہ بالکل ریلیکس انداز میں بیڈ پرسورہا تھا جیسے اس سے زیادہ معصوم انسان اس دنیا میں پیدا ہی نہ ہوا ہو
وہ کافی دیر اس کا انتظار کرتا رہا دو بار تو جان نے اسے پکارا بھی
جاناں کمرے میں آ جاؤ سو جاؤ ڈارلنگ اس طرح سے میرا مقابلہ کیسے کرو گی
لیکن جاناں نے تو قسم کھا رکھی تھی کہ اسے کمرے میں قدم نہیں رکھنا
اور اب بھی اسے سوتے پا کر اس نے کمرے میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ اس کا ارادہ اس کا فون چوری کرنے کا تھا
اس نے بیڈ کی چاروں جانب گھوم کر فون ڈھونڈنے کی کوشش کی
لیکن نہ تو اسے فون نظر آرہا تھا اور نہ ہی مین دروازے کی چابی
کل صبح اس نے پھر اپنے درندنگی کو دکھانے کہیں نہ کہیں چلے جانا تھا اور اسے یہیں پر قید کر دینا تھا
اگر اسے چابی مل جاتی تو وہ میں دروازہ کھول کر یہاں سے جان کی پہنچ سے دور نکل جاتی
لیکن جان نے تو اسے یہ قید ہی کر لیا تھا ۔
بہت کوشش کے بعد بھی اسے کہیں پر بھی جان کا فون نہیں ملا
ایک امید کے ساتھ وہ باہر آئی اور جان کے ہاتھوں شہید ہوئے اپنے فون کو جوڑنے کی کوشش کرنے لگی
لیکن افسوس بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اسے مکمل نہیں کر پائی
نہ جانے جان کی قوت نے اس کے پرزے کہاں کہاں تک بکھیرے تھے
اب شاید ہی یہ فون کبھی ٹھیک ہو سکتا ہے جاناں نے سوچا اور فون کو نہ امیدی سے رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے بیڈ روم میں آکر جان کا فون تلاش کرنے لگی
پھر اسے نظر آیا جان کے تکیے کے نیچے اس نے سکون کا سانس لیا لیکن یہ سکون بھی زیادہ دیر کا نہیں تھا
اور آہستہ سے جان کے ساتھ اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی
اس نے بہت ہوشیاری سے اپنا کام کرنا تھا
تاکہ وہ اپنا کام بھی کرلے اور جان کی آنکھ بھی نہ کھلے
لیکن وہ جانتی تھی کہ جان بہت کچھی نیند سوتا ہے اس کی ایک ذرا سی غلطی سے بری طرح سے پھنسا دے گی
اس نے بہت احتیاط سے جان کے تکیے کے نیچے سے فون نکالا تھا
لیکن اس سے پہلے کہ وہ فون کو لے کر وہاں سے نکلتی اچانک جان نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے کھینچ کر اپنے اوپر گرا چکا تھا
وہ پوری طرح سے اس کی باہوں میں قید ہو کر رہ گئی
جاناں مت کرو ایسی غلطیوں کے مجھے تمہیں سزا دینی پڑے
وہ اسے اپنے حصار میں لیے سرگوشی نما آواز میں بولا جبکہ جاناں اس کی باہوں میں پھرپھڑہ کر رہ گئی
۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ اس نے بہت زور لگایا اور پھر اس کی ساری مزاحمت بیکار ٹھہری تو وہ اس سے کہنے لگی
نہیں چھوڑ سکتا پاگل
نہیں چھوڑ سکتا تمہیں بچپن سے ایک ایک لمحہ چاہا ہے
تمہیں پانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا میں نے اور آج تم کہہ رہی ہو چھوڑدو
کیا چھوڑنا اتنا آسان ہوتا ہے جاناں اگر ہوتا ہے تو تم کیوں نہیں چھوڑ دیتی اپنی یہ ضد قبول کر لو یہ حقیقت ہے
کہ میں ایک برا انسان ہوں لیکن برا انسان ہونے کے باوجود بھی میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں
میں سانسوں کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہوں لیکن تمہارے بغیر نہیں
میں نے تم سے کہا تھا کہ یہ راستہ مشکل ہے لیکن اس وقت تم میرے ساتھ ہر راستے پر چلنے کو تیار تھی
تو اب کیوں نہیں جاناں تھوڑا سا انتظار کرلو حقیقت تہمارے سامنے ہوگی
اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسے مزید اپنی با ہوں میں قید چکا تھا جب کہ جاناں اس کے سینے پر سر رکھے مکمل بے بسی سے اس میں قید ہو چکی تھی
وہ کب گہری نیند میں اترا کب سو گیا جاناں کو پتہ بھی نہ چلا اور اس کی باہوں کا حصار اس کے نازک وجود کو ایسے ہی خود میں قید کیے رکھا
°°°°°°°°°
اس کی آنکھ کھلی تو طہ اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا یہ صبح صبح کہاں چلا گیا اسی ناگن سے ملنے گیا ہوگا
عائشہ کی بے ساختہ سوچ اس لڑکی کی طرف گئی تھی
جس کی باہوں میں باہیں ڈالے وہ اسے اکثر نظر آتا تھا اور اب تو اس نے اس کا نام بھی ناگن رکھ لیا تھا
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب وہ واش روم سے برآمد ہوا ۔
تم گئے نہیں مجھے لگا تم کہیں چلے گئے
عائشہ کو نہ جانے کیوں اسے صبح صبح دیکھ کر اتنی خوشی ہورہی تھی
شاید خوشی اس بات کی تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر اس ناگن کے پاس نہیں گیا
اپنی ساری خوشیاں اپنے گھر جا کر مناؤ اٹھو اور نکلو میرے گھر سے صبح ہو گئی ہے اور باہر کوئی بارش نہیں ہو رہی
اچھا پڑوسی ہونے کا حق ادا کر چکا ہوںمیں
اس کا انداز جان چھڑانے والا تھا
اچھے پروسی ناشتہ بھی کرواتے ہیں عائشہ نے فورا کہا
کہیں وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے گھر سے باہر ہی نہ نکال دے
عائشہ پلیز جاؤ یہاں سے مجھے اور بھی بہت سارے کام ہیں تمہاری خدمت گزاری نہیں کر سکتا میں وہ اکتائے ہوئے انداز میں بولا
منہ کیوں بنا رہے ہو جا رہی ہوں عائشہ نے بھنا کر کہا
شاید اس کے بورنگ سے انداز نے اسے بھی بیزار کر دیا تھا
لیکن اس کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر وہ شکرگزار لہجے میں بولا
بڑی مہربانی آپ کی
حد ہے مہمانوں سے بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے
کسی نے مینرزنہیں سکھائیں
لیکن کوئی بات نہیں میں ہوں نا میں سب کچھ سکھا دوں گی اور اتنے اچھےطریقے سے سکھاؤں گی کہ تم کبھی بھول نہیں پاؤ گے
آخر اتنا تو میں کر ہی سکتی ہوں تمہاری فیوچر بیوی ہونے کے ناطے
وہ اب بھی اپنی باتوں اور بے باکی سے باز نہیں آئی
طہ سر پکڑ کر رہ گیا
ہوگی تمہاری بکواس ختم اٹھو نکلو یہاں سے تالا لگانا ہے مجھے وہ اس بار ذرا سختی سے بولا
چور نہیں ہوں میں جو تمہارے گھر سے کچھ چوری کرکے لے جاؤں گی
تالا لگانا ہے ایسا کون سا خازنہ چھپا کے رکھا ہے تم نے یہاں پر جو اتنی سکیورٹی رکھی ہے
عائشہ بھی بیڈ سےاٹھتے ہوئے سیدھی واش روم میں گھس گئی
اب وہ اسے کیا بتاتا کہ یہاں اتنی اہم چیزیں ہیں سکیورٹی کے لائق کل عائشہ کو پتہ چل جائے تو جان سے بڑھ کر ان کی حفاظت کرتی
منہ ہاتھ دھونے میں اتنا وقت لگتا ہے کیا وہ دروازہ کھٹکھٹا کر غصے سے بولا
صبح صبح اور بھی بہت سارے کام ہوتے ہیں واش روم میں صرف منہ ہاتھ نہیں دھویا جاتا وہ انتہائی غصے سے پھنکاری تھی
جبکہ اس کے انداز پر نا چاہتے ہوئے بھی طہ مسکرا دیا
اچھا سوری تم آرام سے اپنے کام کرو میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کروں گا
وہ معذرت کرتے ہوئے اسی کمرے میں بنے چھوٹے سے کچن کی جانب آیا تھا
وہ کسی قسم کی مہمان نوازی کرنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے بھوکے پیٹ نہ جائے
اس نے عائشہ کے لئے ایک اچھا سا سینڈوچ بنایا اور ٹیبل پر رکھ کر چائے بنانے لگا
وہ واش روم سے برآمد ہوئی تو اس کے چہرے پر بڑی پیاری مسکان تھی
کسی خوش فہمی کا شکار مت ہو جانا اپنے لیے بنا رہا تھا سوچا تمہارے لیے بھی بنا دوں سارا دن کافی کام ہوگا مجھے شاید میں رات کو واپس نہ آوں
اس کا انداز بتانے والا تھا
مطلب وہ چاہتا تھا کہ عائشہ یہاں سے چلی جائے لیکن اس بات پر عائشہ مسکرائی
بہت اچھی بات ہے ایسے ہی پریکٹس کرتے رہو وہ کیا ہے نہ کہ شادی کے بعد تمہیں مجھے ہر طرف بتا کر ہی جانا پڑے گا اسی لئے اچھا ہے کہ تم ابھی سے عادت ڈالو
عائشہ کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں بغیر کچھ کھلائے پلائے یہاں سے اٹھا کر باہر پھینک تو اگر نہیں تو منہ بند کرکے کھاؤ
اسے وہ غصے سے ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تو عائشہ مسکراہٹ دباتی اپنے کھانے سے انصاف کرنے لگی
اریشفہ نے آریان کے لئے اسپیشل ڈش تیار کی تھی
جو آریان کو کچھ خاص پسند نہیں آئی لیکن سب کے سامنے اس نے اظہار نہیں کیا
اور آج جو بحث ہوئی تھی اس کے بعد تو ویسے بھی اسے کچھ بھی کھانے کا دل نہیں کر رہا تھا
لیکن نہیں چاہتا تھا کہ اریشفہ اداس ہو
کچھ باتیں تو وہ بھی اچھے طریقے سے سمجھ چکا تھا
جیسے تائی امی کا یہاں آنا
اریشفہ کو بات بات پر ڈانٹنا اور پھر غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنا
آئمہ کو بار بار کسی ماڈل کی طرح اس کے سامنے پیش کرنا
اسے بہت غصہ آ رہا تھا لیکن وہ عرشی پہ کو ہرٹ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
وہ بس 2سے3 نوالے ہی کھا کر واپس روم میں آ گیا
جس سے اریشفہ کو پریشانی ہونے لگی
وہ اس سے وجہ پوچھنے کے لئے جلدی کمرے میں آنا چاہتی تھی لیکن تائی امی نے اسے روک کر کام دے دیا اور خود اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں
آئمہ جو اس کے پاس ہی کام کر رہی تھی اس کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے اسے کمرے میں بھیج کر اسے کام کی تسلی دینے لگی
اریشفہ کو اپنی بہن پر بہت پیار آیا وہ واقع ہی بہن ہونے کا حق ادا کر رہی تھی
اس کے جانے کے بعد ائمہ نے بہت خاموشی سے کام نہیں بتایا تاکہ اس کی ماں کو غلطی سے بھی بھنک نہ پڑ جائے
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو آریان کو پریشان سا بیڈ پر بیٹھے پایا
وہ خاموشی سے دروازہ بند کر کے اس کے پاس ہی بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی
۔شاید وہ بھی سمجھ چکا تھا اس کی پریشانی کی وجہ سے اسی لئے اس کے بالکل قریب آتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا
۔اریشفہ وہ سب چیزیں میری ماں کی نہیں بلکہ میری ضروری کام کی ہیں
ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے آئندہ ان چیزوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی چھڑ چھاڑ مت کرنا اس کا انداز سمجھ آنے والا تھا
عرشی صرف ہاں سر ہلا گئی اور اس کا اگلا سوال وہ اچھے طریقے سے سمجھتا تھا تائی امی کی باتیں ہی تھی جو کہ وہ جاننا چاہتی تھی
وہ یہ سچ ہے کہ میں نے اپنی ماں کا قتل کیا ہے
میری ماں ایک اچھی عورت نہیں تھی
وہ میرے بابا کو دھوکا دے رہی تھی
وہ بھی کسی غیر کے ساتھ نہیں بلکہ میرے بابا کے سگے بھائی کے ساتھ
اسے چچا کہتے ہوئے شرم آتی ہے میں وہ دن کبھی نہیں بھلا سکتا
جب سکول سے واپس آ کر میں نے اپنی ماں کو ۔۔۔وہ کچھ کہتے ہوئے اچانک خاموش ہوگیا
اریشفہ سمجھ سکتی تھی وہ ٹوٹ چکا ہے اس طرح سے اپنی ماں کی حقیقت کسی پر واضح کرنا آسان نہیں ہوتا
تھوڑے وقفے کے بعد دوبارہ بولا
میری ماں اور میرے چچا کے تعلقات تھے
سکول سے واپسی کے بعد اس دن میں نے ان دونوں کو ساتھ دیکھا
مجھ سے برداشت نہیں ہواا ریشفہ اور اس دن میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں کو قتل کر دیا اور مجھے اس بات کا بالکل بھی افسوس نہیں ہے
وہ عورت نہیں ایک گالی تھی اور ایک تالی کو میں اپنی ماں بنانے کے حق میں نہیں
میری زندگی کی بس یہی حقیقت ہے کہ میں اپنی ماں کا قاتل ہوں
اور مجھے اس بات پر رتی برابرافسوس نہیں ۔
خیر میں نے تمہیں کن باتوں پر لگا دیا
جلدی سے سو جاؤ سارا دن کام کرتی رہی ہو تھک گئی ہو گی ۔۔ میں بھی چینج کر کے آتا ہوں وہ اپنا درد چھپائے مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا
جبکہ وہ اس کے ساتھ ہی اٹھ گئی
وہ اس کی جیون ساتھی اس کے درد کو سمجھتی بنا کچھ بولے اس کے سینے پر سر رکھ دیا اور آریان جو کبھی کسی کے سامنے نہیں ٹوٹا تھا آج ٹوٹ کر بکھر گیا
اسے اپنے سینے سے لگایا آج وہ آنسو بہائے تھے جو اس نے کتنے سالوں سے اپنے اندر دفن کئے ہوئے تھے
°°°°°°°°
اس کے منع کرنے کے باوجود بھی عائشہ وہاں سے گئی نہیں تھی
۔اسے ایسی جگہ بینچ پر بیٹھا دیکھ اسے غصہ تو بہت آیا
لیکن اب تک یہ بات تو وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ اس لڑکی کے پاس دماغ میں کوئی چیز نہیں ہے
وہ اسے نظر انداز کرتا اپنی گھر کی جانب آ گیا
اس کے ساتھ دماغ کھپانے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں تھا
عائشہ اس کے اس طرح نظرانداز کرنے پر اسے گھور کر رہ گئی
کل کیسے اس کی حدمتیں کر رہا تھا اور آج اسے یوں نظر انداز کر دیا جیسے جانتا ہی نہ ہو
چلو کوئی بات نہیں سب تو اس کی مجبوریاں تھے آخر وہ اس سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا
لیکن عائشہ بھی اس کی ساری مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا خوب فائدہ اٹھا رہی تھی
وہ جانتی تھی کہ وہ کبھی بھی ایک لڑکی کی انسلٹ نہیں کرے گا
لیکن اس کا خود کو الگ سمجھنا
خود کو قصوروار سمجھنا
عائشہ کو ہرگز پسند نہیں تھا
جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا تھا اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی
وہ جو بھی تھا جیسا بھی تھا یہ تو قدرت کا نظام تھا وہ اپنے آپ کو کیوں قصور وار ٹھہرا رہا تھا
عائشہ اس سے محبت کرتی تھی اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی
اور وہ اسے اس گلٹ سے نکالنا چاہتی تھی کہ اس کا الگ ہونا اس کی غلطی ہے
°°°°°°°°°°°°
جاناں کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بالکل تنہا پایا اس وقت رات کے تین بج رہے تھے
جان کہیں نہیں تھا یقینا وہ پھر سے کسی کو جان سے مارنے کا کیا ہوگااس نے تلخی سے سوچا
آخر وہ کیا کرے کس طرح سے اس کے چنگل سے نکلے اور ایسے شخص کو جیل کی چار دیواری کے اندر قید کرے کوئی حق نہیں تھا جان جیسے شخص کو اس طرح آزاد زندگی گزارنے کا
اور کتنے غرور سے کہتا تھا کہ جاناں کو اس پر فخر ہوگا
کیا وہ ایک سیریل کلرپر فخر کر سکتی تھی ایسے شخص کے ساتھ تو رہنا بھی غنیمت تھی
اور جاناں یہاں بری طرح سے پھس چکی تھی
نہ تو جان اسے خود سے الگ ہونے دے رہا تھا اور نہ ہی اس کے ہوتے ہوئے وہ کسی قسم کا کوئی ایکشن لے پا رہی تھی
لیکن اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی وہ اپنے دل میں چھپی جان کے لیے محبت کو کم نہیں کر پائی تھی اس کی حقیقت جاننے کے باوجود بھی اس کے دل میں جان کے لیے جذبات زندہ تھے
چا ہے جو بھی ہو جائے وہ جان کا یہ روپ ابھی تک قبول نہیں کر پائی تھی
جسے وہ خود اس کے سامنے نہ صرف قبول کر چکا تھا بلکہ اس نے اپنی آنکھوں سے اسے کسی کا خون کرتے ہوئے دیکھا تھا
کتنا بیانک جان کاوہ روپ جاناں اب بھی سوچ کر کانپ کر رہ جاتی اور پھر اس کے اندر ایک بار پھر سے جان جیسے سائیکو درندے کو جیل کے اندر دیکھنے کی خواہش جاگتی
لیکن وہ آریان سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی
وہ فی الحال صرف آریان پر ہی یقین کر سکتی تھی
کیونکہ وہ صرف اسی کو ہی جانتی تھی
اور اسے یقین تھا کہ آریان اس کی مدد ضرور کرے گا
لیکن وہ اس سے کیسے رابطہ کرے کیسے اس تک پہنچے
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
اوپر سے جان کا بیانک روپ میں باربار اس کی آنکھوں کے سامنے آ کر اسے ڈرا رہا تھا
اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی جاننا چاہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ رہے اس سے اسی طرح سے محبت کرے لیکن جاناں یہ سب کچھ قبول نہیں کر سکتی تھی
گھر کےایک ایک کونے میں کہیں سے بھی نکلنے کی کوشش کر رہی تھی
جب اسے کچن کی پچھلی طرف ایک کھڑکی نظر آئی اب یہ کھڑکی ہی اسے یہاں سے باہر نکلنے میں مدد کر سکتی تھی
°°°°°°°°
کھڑکی کے راستے وہ بہت مشکل سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی
اور اب وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے کسی بھی ایسی جگہ جانا چاہتی تھی جہاں اسے موبائل یا فون کال کے لیے کچھ مل جائے
ویسے تو اسے بہت ساری ایسی جگہ پتا تھی لیکن وہ کہیں پر بھی دور نہیں جا سکتی تھی
اس لئے اس نے ایک پٹرول پمپ کا رخ کیا اس وقت اسے وہی سے کال کرنے کے لیے فون مل سکتا تھا
یہ تو اریشفہ کو آئے دن فون کرنے کا اثر تھا کہ اسے اریان کا نمبر یاد تھا جب کہ اس کا اپنا موبائل پچھلے کچھ دن خراب ہو گیا تھا
اسی لیے وہ آج آریان کو ہی فون کرتی رہی
اس نے جلدی جلدی پٹرول پمپ کی طرف قدم بڑھائے اندر ڈر تھا کہ کہیں سے بھی جان نہ آ جائے اور اس کا ڈر بے وجہ نہیں تھا نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا کرتا
آخر وہ پیٹرول پمپ پر آ پہنچی
اور اب پٹرول پمپ کے مالک سے اجازت لے کر وہ فون استعمال کرنے فون کی طرف آئی تھی
اس نے جلدی جلدی آریان کا نمبر ملایا اتنی رات گئے فون کرنے پر اسے لگا تھا کہ شاید آریان فون نہیں اٹھائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اس کی پہلی ہی کال پر دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا یقینا اسے ایسی بہت ساری فون کو آتی ہوں گی جن میں وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی
ہیلو آریان بھائی میں جاناں بات کر رہی ہوں اریشفہ کی دوست پلیز مجھے بچا لیں مجھ سے ملے میں بیسٹ کو جانتی ہوں
میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے
آپ پلیز جلدی ہائی وے کے پاس والے پیٹرول پمپ پر آجائیں
میں وہیں آپ کا انتظار کر رہی ہوں
پلیز جلدی آئیے گا یہ نہ ہوکہ وہ آ جائے بھائی پلیز جلدی آئیے گا میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے جاناں ایک ہی سانس میں جتنا ہو سکے اتنا بول چکی تھی
گھبراؤ نہیں جاناں تم وہیں رکو کہیں مت جانا میں وہاں آ رہا ہوں
میری بات یاد رکھنا چاہے جو بھی ہو جائے تم وہی پر رکنا وہ اسے مت نکلنا آریان نے اسے تاکید کی تھی
اور پھر فون بند کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھا جاناں بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگی
°°°°°°°°
وہ آہستہ سے اس کے قریب سے اٹھا کافی دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا جیسے یقین کر رہا ہو کہ کہیں وہ جاگ تو نہیں رہی پھر اسے یقین آیا کہ وہ نیند سو رہی ہے ایک نظر مسکرا کر اس کے وجود کو دیکھتے ہوئے وہ اس کے ماتھے پر جھکا نرمی سے اس کا بوسہ لے کر وہ اٹھا تھا
پچھلے کچھ دنوں سے وہ کافی مصروف تھا اپنے گھر بار پر تو بالکل دھیان نہیں دے
پایاتھا لیکن اب نہیں اب اس کے پاس اریشفہ کے لیے بہت سارا وقت تھا کیونکہ بیسٹ کیس اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا وہ بہت جلد اس کیس میں کامیاب ہونے والے تھے
اور پھر اس کے پاس اپنی بیوی کے لئے وقت ہی وقت تھا سب سے پہلے تو تائی امی کو ایک طرف لگانا تھا اس عورت نے اس کا جینا حرام کر رکھا تھا اور اریشفہ وہ تو شاید ہی اس عورت کو سمجھ پاتی اسے اپنی بھولی بیوی پر بے انتہا پیار آتا تھا اور اس عورت کی چالبازی بھی برداشت کرنے پر رہی تھی
ہاں لیکن کل اسے اریشفہ پر بھی بہت غصہ آیا تھا
وہ کتنی آسانی سے اس کا سامان نکال کر باہر رکھ چکی تھی
اگر کسی کو بنک بھی پر جاتی کہ وہ چیزیں اس کے کس کام کی ہیں تو وہ بری طرح سے پھس سکتا تھا وہ آہستہ سے اس کے قریب سے اٹھ کر الماری کی جانب آیا اور اپنی ساری چیزیں نکال کر باہر رکھے
اس نے ایک نظر مڑ کر پھر سے اریشفہ کی جانب دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی لیکن وہ سارا سامان سامنے شیشے کے میز پر پھیلاتے ہوئے ان کپڑوں کو اٹھا کر واش روم میں گھس گیا
اگلے پانچ منٹ میں وہ سبز رنگ کے اس خوبصورت شرارے نما سوٹ میں ملبوس اندر داخل ہوا بے انتہا خوبصورت سوٹ کے ساتھ اس نے میچنگ چوڑیاں اپنے ہاتھوں میں ڈال دی اور اب وہ اپنے پیروں میں پازیب پہن رہا تھا
اس کے بعد اس نے ایک ادا سے اپنے سر پر نقلی بالوں کا گچھا سجایا
ساری چیزیں سامنے ٹیبل پر پھیلاتے ہوئے اس نے سب سے پہلے فاؤنڈیشن کی ایک تہہ اپنے منہ پر لگائیں اس کے بعد ایس میکپ لائنر مسکارا اور سب سے آخر میں ایک ادا سے لپسٹک اٹھائی
تھوڑی دیر میں وہ ایک بھرپور وجیہہ مرد سے ایک عورت کے روپ میں ڈھل چکا تھا پیاری لڑکی میں تم سے ملنے ضرور آؤں گا
میں تم سے ضرور ملاقات کروں گا
تمہاری مدد ضرور کروں گا
لیکن سب سے پہلے مجھے بات کرنی ہےاپنے ہیروجان سے اس نے کیا کر دیا ہے اسے میں نے منع بھی کیا تھا کسی کو مت بتانا لیکن اس نے پھر بھی ساری حقیقت تمہارے سامنے رکھ دی کتنا برا کیا ابھی تو ہمارا مشن بھی پورا نہیں ہوا تھا
وہ آہستہ آہستہ بات کرتا اپنی تیاری مکمل کر چکا تھا ایک نظر بیڈ پر لیٹی اریشفا کی جانب دیکھ کر اس نے آئینے میں خود کو دیکھا
میں تو اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں
انتہائی مغرورانہ انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکنے والے انداز میں وہ باہر نکل آیا آہستہ آہستہ بنا آواز پیدا کیے وہ باہر نکلا تھا اور جب تک وہ باہر نکلتا تب تک اس نے اپنی پائل کو بھی بالکل آواز نہیں کرنے دی تھی
جیسے سختی سے منع کیا ہو اور وہ بھی شاید اس کے روٹھ جانے کے خیال سے خاموش رہی

وہ نازکت سے چلتا ہوا ایک گھر کے سامنے آیا اور اپنے ہاتھ کو لہراتے ہوئے گھنٹی پر رکھ دیا اور پھر بجاتا ہی چلا گیا

 ۔اوہ خدایا کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔

 کیوں اتنی جلدی میں ہو بھئی ۔۔۔۔۔۔۔

آرہی ہوں میں۔۔۔

 اندر سے کسی لڑکی کی ترکش میں آواز آئی

 اب وہ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے دروازہ کھول چکی تھی

 کون ہو تم ۔۔۔!

اور میرے گھر میں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔!

اسے دیکھتے ہی وہ کھٹک گئی شاید اس نے اس طرح کی عورت کبھی نہیں دیکھی ہوگی

 ۔کتنا وقت لگا دیا دروازہ کھولنے میں میرے تو پیروں میں درد ہو گیا یہاں کھڑے کھڑے ۔۔۔۔۔۔۔

 وہ نازک انداز میں کہتا لڑکی کو دھکا مارتا خود گھر کے اندر داخل ہو گیا

 کون ہو تو ۔۔۔۔۔!اور اس طرح سے میرے گھر میں میری ہی اجازت کے بغیر کیسے آ رہی ہو۔۔۔!

 نکلو میرے گھر سے تم اس طرح میرے گھر میں نہیں آسکتی۔۔۔

 لڑکی تیزی سے کہتی اس کے پیچھے آئی تھی

 جب کہ دروازہ بند کرنے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی اور یقیناً یہ بھی نہیں دیکھ پائی تھی کہ جس دروازے کو کھلا چھوڑ آئی ہے وہاں کوئی اور بھی ہے

جو اب گھر کے اندر قدم رکھ کر دروازہ بند کر چکا ہے

دروازہ بند ہونے کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا

 کون ہو تم ۔۔۔۔؟

کون ہو تم لوگ ۔۔وہ جان اور اس کی طرف اشارہ کرتی پوچھنے لگی

تمہارے دوست تو ہو نہیں سکتے جان اسی کے انداز میں کہتا چاقو لیے اس کی طرف بڑھا تھا

 وہ جلد ہی اس کی حقیقت کو سمجھ چکی تھی

 بیسٹ۔۔ تم بیسٹ ہو۔۔۔! اسے یقین تھا کہ بہت جلد اس کی موت اس کے سر پر کھڑی ہوگی

 بیسٹ کی لسٹ میں اپنا نام وہ کہیں بار سن چکی تھی

۔صحیح پہچانا۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے اسے سمجھنے کا موقع دیئے بغیرچاقو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا

 ۔جنت کے قابل تو پتہ نہیں ہو تم کہ نہیں لیکن میں پھر بھی تمہارے لئے دعا کروں گی ہمارا اللہ بہت بے نیاز ہے ہو سکتا ہے بائس سال کی زندگی میں کوئی ایک آدھ نیک کام کیا ہو تم نے ٹائر معصومیت سے کہتا اس کے بالوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ چکا تھا

 ۔فکر مت کرو ہم پہلے تمہیں موت دیں گے پھر تمہارے سر پر سے وہ چیپ نکالیں گے

ہمیں پتا ہے بہت تکلیف ہوتی ہے

اسی لیے تمہیں زیادہ تکلیف سے نہیں گزاریں گے

 جان نے کہتے ہوئے ایک بار پھر سے چاقو اس کے سینے سے آر پار کیا اور بہت جلد زونی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی

ٹائر جلدی سے اس کے بال کاٹ اور  بوڈی کے پیس کر کے ضروری اجزا ہوسپٹل میں بھجوا دینا

میں جا رہا ہوں جاناں کے پاس یہ نہ ہو کے انسپکٹر آریان مجھ سے پہلے وہاں پہنچ جائے اس نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کی جانب دیکھا تھا

۔وہ آفسر نکماہے کسی کام کا نہیں پتہ نہیں کس نے اسے پولیس میں بھرتی کر دیا

ہر جگہ دیر سے پہنچتا ہے

ٹائر کی بات پر جان نے بھرپور مردانہ قہقہ لگاتے ہوئے کہا تو ٹائر بھی ہنس دیا اور اس سے وہی چھوڑ کر خود جاناں کو لینے چلا گیا

°°°°°°°°°°

جاناں ابھی بھی  پٹرول پمپ کے قریب آریان کا انتظار کرنے لگی

ابھی تک آریان کو آ جانا چاہیے تھا

لیکن نہ جانے کیا وجہ ہوئی کہ وہ ابھی تک نہ پہنچا ۔

بس ایک بار وہ آ جائے وہ ساری حقیقت آریان کو بتا دے گی

پتہ نہیں آریان کو آنے میں کتنا وقت لگے گا فون کیے ہوئے تو ایک گھنٹے سے اوپر کا وقت گزر چکا تھا ۔

جاناں خوفزدہ بھی تھی کہ اب تک جان کو اس کی غیر موجودگی کا پتہ چل چکا ہوگا

 اب تک یقین جان اسے ڈھونڈ نے میں لگ چکا ہوگا

اب وہ اتنی آسانی  تو اسے جانے نہیں دے گا اور آریان تک تو وہ اسے کبھی بھی پہنچنے نہیں دے گا

کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اریان بہت ایماندار آفیسر ہے

۔اور اپنے فرض کے لیے اپنی جان بھی لوٹا سکتا ہے

  وہ جان جیسے خطرناک مجرم کو اس طرح نہیں چھوڑے گا

۔اور یقیناً جان بھی یہ بات جانتا ہوگا تبھی وہ اسے آریان سے رابطہ نہیں کرنے دے رہا

۔شاید وہ آریان سے ڈرتا تھا جاناں نے سوچا

لیکن اتنا خطرناک مجرم بلا کہاں کسی سے ڈرتا ہوگا ۔

لیکن جان یہ سب کچھ کیوں کر رہا تھا آخر کیا وجہ تھی۔۔۔۔۔۔؟ 

 کیوں وہ اتنےاچھے انسان سے ایک قاتل بن گیا۔۔۔۔۔؟

 اس کے دل و دماغ میں کہیں سوال تھے ۔جو جان سے جاننا چاہتی تھی

لیکن حقیقت بدل نہیں سکتی تھی جان ایک قاتل تھا

 وجہ جو بھی ہو جو بھی مجبوری ہو سچ یہی تھا کہ جان اب ایک عام انسان نہیں بلکہ ایک خطرناک ترین قاتل تھا

 ایک بیسٹ تھا جس کی تلاش پورے ملک کی پولیس کر رہی تھی

 اور اب جاناں اس کی حقیقت کو انسپکٹر آریان کے سامنے رکھ کر اپنا فرض نبھائے گی

 ۔بس ایک بار انسپکٹر اریان یہاں آ جائے

وہ پٹرول پمپ کے باہر ایک جگہ پر چھپ کر بیٹھی تھی

 کیوں کہ آریان نے اسے وہاں سے نکلنے سے منع کیا تھا وہ سامنے نہیں آ سکتی تھی

 اسے ڈر تھا کہ جان اس کا پیچھا کرتے کہیں یہاں نہ آ جائے

 اسی لیے وہ پیٹرول پمپ کے باہر چھوٹی سی جگہ پر چھپ گئی لیکن اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی آریان نہیں آیا تھا

پتا نہیں اس کا انتظار کب ختم ہوگا

وہ انہی سوچوں میں تھی جب دور سے اسے ایک آدمی آتا نظر آیا

 اندھیرے میں آدمی کو پہچاننا تقریباً نا ممکن تھا

 اس جگہ کوئی لائٹ کوئی روشنی بالکل نہیں تھی وہ کافی دیر سے پہچانے کی کوشش کرتی رہی

 لیکن اس اندھیرے میں اسے پہچاننا ناممکن سا تھا

 وہ آدمی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بالکل اس جگہ پر آکر رکا جہاں وہ چھپ کر بیٹھی تھی

 اسے لگا کے وہ آریان ہے

وہ بنا کچھ بولے پنجوں پر بیٹھ کر اس چھوٹی سی جگہ میں جھانکنے لگا پھر بولا

۔بہت ہوگئی لکا چھپی اب گھر چلے ڈارلنگ وہ بہت محبت سے بولا

اس کی آواز پہچاننے میں جاناں کو زیادہ وقت نہیں لگا تھا 

وہ بھاگ نہیں سکتی تھی یہ جگہ بہت کم تھی

جان نے اس کا بازو تھاما اور بنا اس کی طرف دیکھے اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا

مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ تم قاتل ہو نفرت ہے مجھے تم سے چھوڑو مجھے وہ مسلسل چلا رہی تھی اپنے ناخوں سے اسے زخمی کررہی تھی لیکن جان تو جیسے آج بہرہ ہو گیا تھا یا بے حس وہ اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا کر لے گیا اور جاناں چلاتی رہی روتی رہی

  • •••••••••

چھوڑ دو مجھے جان

نہیں رہنا مجھے تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔

نفرت ہے مجھے تم سے گھٹن ہوتی ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔

کیا لگتا ہے تمیں اس طرح تم مجھے قید کر کے رکھو گے

تو میں چپ کر کے بیٹھ جاؤں گی

ایسا سوچنا بھی نہیں میں بہت جلد تمہیں تمہارے انجام تک پہنچ جاؤں گی

وہ دن دور نہیں جب تم جیل کی چار دیواروں کے پیچھے ہو گئے

میں  انسپکٹر اریان کو سب کچھ بتا دوں گی

اتنے گناہ کر کے تم اس طرح آزاد نہیں گھوم سکتے

میں انسپکٹر آریان سے بات کر چکی ہوں

وہ جلد ہی مجھے ڈھونڈتے یہاں تک آ جائیں گے

اور پھر تم بھی اپنے انجام کے لیے تیار رہنا وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولیج

ان اس کی مکمل بات سن کر نرمی سے مسکرا دیا

لیکن اس کی مسکراہٹ جاناں طنزیہ لگی

اس سے پہلے میں تمہیں نہ ختم کردوں  جاناں اس کا انداز دھمکیلا تھا

کر دو بے شک کر دو اور میں ایسا ہی کرنا چاہیے

اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم مجھے مار دینے کی دھمکی دوگے اور میں بالکل خاموش ہو جاؤں گی تو اس غلط فہمی کو دور کر لو

میں تم سے نہیں ڈرتی

اور تم جیسے خطرناک مجرم کا مجھے ڈر ہے بھی نہیں

تم جیسے انسان کو تو جینے کا حق نہیں اور یہاں تم آزادی سے گھوم رہے ہو

میں تم سے کی آزادی چھین لوں گی

بہت جلد تمہیں جیل پہنچ جاؤں گی

تم جیسے مجرم کی اصل جگہ وہی ہے جاناں نے بنا ڈرو خوف کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا

اس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی ڈر نہیں تھا اور نہ ہی لہجے میں کسی قسم کی لڑکڑاہٹ

آج اس کی ہمت کی داد دینی پڑے گی

یقیناً یہ ہمت آریان سے بات کرنے کے بعد ہی آئی ہوگی

تقریر اچھی کرتی ہو جان من لیکن اس وقت مجھے بہت نیند آ رہی ہے

صبح کے پانچ بج رہے ہیں اور تمہاری بھاگ دوڑ ختم نہیں ہو رہی

اب آرام سے پڑی رہو جب تک میری نیند پوری نہیں ہوجاتی

میں نے دروازہ بند کر دیا ہے

اور چابی یہ میرے تکیے کے نیچے ہے

وہ چابی کو تکیہ کے نیچے اسے دکھا کر رکھتے ہوئے بولا

تم اس کے آس پاس بھی مت آنا

کیونکہ اگر تم بیڈ کے پاس آئی تو میں اس کا کچھ اور مطلب نکالوں گا

وہ شرارت سے آنکھ دباتا اسےنظر چرانے پر مجبور کر گیا

گھٹیا انسان صرف وصول بکنا آتا ہے اسے وہ غصے سے بڑبڑا تے کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ جان اب آرام سے بیڈ پر لیٹ کر اپنی نیند پوری کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ جان اس کے تکیے کے نیچے سے چابی نکالنے کی کوشش ضرور کرے گی

°°°°°°°°°

وہ جس طرح آہستہ آہستہ گیا تھااسی طرح واپس آ چکا تھا

کمرے میں قدم رکھا تو اریشفہ کو نماز میں مصروف پایا

وہ بنا آواز کیے واش روم میں چلا گیا

آرام سے اپنی ساری چیزیں سنبھال کر الماری میں رکھ دی

نیند سے برا حال ہو رہا تھا آج کی رات تو بالکل بھی نہیں سو پایا تھا

ان کا آخری شکار ان کے بالکل قریب تھا اکبر خان ان کی لسٹ کا آخری نام جسے جان نے تڑپا تڑپا کر مارنے کی قسم کھا رکھی تھی

جلد وہ اپنے باپ کے قاتل کو اس کے انجام تک پہنچانے والا تھا

جلد اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد پورا ہونے جارہا تھا

وہ کیس کو بہت کامیابی سے آگے بڑھا رہے تھے

 ِبیسٹ کے خلاف جتنے بھی ثبوت ملے تھے آریان نے بہت ہوشیاری سے مٹا دیے تھے

ساڑھے چار سال لگا دیے اس نے پہلے پاکستان سے اپنی پوسٹنگ ترکی لگانے میں یہاں کے لوگوں کا اعتبار جیتنے میں

اور پھر اس نے یہاں ایک گھر بھی لے لیا

شادی اس کی پلاننگ کا حصہ نہیں تھی لیکن اریشفہ اس کی محبت ہی نہیں بلکہ اس کا سکون بن چکی تھی

ڈی ایس پی  کی بیٹی سے شادی کر کے وہ یہ سب کام اور بھی کامیابی سے کر سکتا تھا لیکن شاید آئمہ کبھی اریشفہ کی جگہ نہیں آ سکتی تھی

اور ڈی ایس پی سر جیسے نیک انسان کی بیٹی کو دھوکا دینے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا

اس لیے اس نے شادی بھی اسی سے کی جس سے وہ محبت کرتا تھا

اور وہ اپنے اس فیصلے پر بہت خوش بھی تھا اورپر سکون بھی

اریشفہ بھی کے ساتھ بہت خوش تھی

لیکن اسے ایک چیز سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ تائی امی کو واپس کیسے بھیجے

جو ان کی زندگی میں بری طرح سے انٹر فیر کر رہی تھیں

وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی ماں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں

وہ بچپن میں جیل گیا تھا

اس نے قتل کیا تھا یہ ساری باتیں وہ ڈی ایس پی سر کو بتا چکا تھا

اور اس کے بعد  اتنی محنت کر کے وہ پولیس لائن میں آیا تھا

سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ عورت اس کی ذات کو کھولنے میں لگی تھیں

اور فی الحال وہ اپنا کوئی بھی رازاریشفہ پر نہیں کھولنا چاہتا تھا

لیکن پھر بھی اس نے اریشفہ کو اپنے بارے میں سب سچ بتا دیا

کیونکہ جس پاکیزہ رشتے میں وہ لوگ بندے تھے اس میں اس طرح کے راز کوئی اہمیت نہیں رکھتے

اور اریشفہ بھی بہت محبت سے اسے قبول کر چکی تھی

°°°°°°°°°°°°

عائشہ ابھی تک اپنی ضد پر قائم تھی

وہ اب بھی اسی بینچ پر سوتی تھی

 طہٰ کو غصہ تو بہت آتا تھا لیکن اس معاملے میں وہ بے بس تھا

اس سے بہت سمجھانے کے باوجود بھی وہ اس کی بات سمجھنے کو تیار نہیں تھی

لیکن طہٰ اس کے اس بچپنے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا

اسی لئے اب اس نے عائشہ کو مخاطب کرنا چھوڑ دیا

 اس کا یوں نظر انداز کرنا عائشہ نے بھی نوٹ کر لیا تھا

 وہ دو دنوں سے اسے بالکل بات نہیں کروا رہا تھا ۔

صبح اٹھ کر اپنے کام پر چلا جاتا اور پھر شام کو اس کی واپسی ہوتی اس دوران عائشہ اسی کے گھر کے باہر ہی رہتی

 اور رات بھی ایسے ہی گزر جاتی

لیکن اس طرح سے تو ساری زندگی نہیں گزاری جا سکتی تھی

عائشہ کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا

طہٰ  کو سمجھنا اور سمجھانا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔

وہ اپنے آپ میں ہی احساس کمتری کا شکار تھا ۔

 ابھی تک عائشہ نے اس ٹوپک پر کھل کر اس سے بات نہیں کی تھی ۔

ہاں لیکن وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں اب تک جو کچھ بھی ہوا اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے

یہ سب تقدیر کا لکھا تھا ۔ جس کو خود پر حاوی کرکے  طہٰ اپنے آپ کو سزا دے رہا ہے ۔ اور اپنی زندگی کھل کر جینے کی کوشش نہیں کر رہا

لیکن عائشہ اسے خود سے لڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی

 آخر اسے بھی جینے کا حق تھا

اسے بھی خوش رہنے کا حق تھا

 ایک گھٹیا اور ذلیل شخص کی غلاظت کی وجہ سے اس کی ذات سوالیہ نشان بن کر رہ گئی تھی

 ۔وہ بچپن سے اتنا کچھ فیس کرتا آیا تھا

 کہ اب اس نے خود کو اپنے آپ میں قید کر لیا تھا ۔

وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا شاید اس لیے اتنا کچھ فیس کرنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہارا

۔لیکن پھر بھی وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا

 وہ اپنی زندگی کو ایک موقع نہیں دینا چاہتا تھا یا شاید وہ عائشہ کو موقع نہیں دینا چاہتا تھا ۔

وہ عائشہ کو اپنی ذات میں گم کرکے اس کی ذات کو بے نشان نہیں کرنا چاہتا تھا

عائشہ ایک زندہ دل لڑکی ہے جو کسی بھی لڑکے کا آئیڈیل ہو سکتی ہے

اورایک ایسی لڑکی کو اپنے لئے برباد ہوتے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا

اسی لئے عائشہ سے وہ جتنا دور رہے ان دونوں کے لیے بہتر تھا

لیکن عائشہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی تھی

یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی

محبت پیچھے ہٹنے کا نہیں بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا نام ہے

اس نے مڑ کر دیکھا تو اریان کو بیڈ پر لیٹا ہوا تھا

اریان  مسکرا کر ہاتھ آگے بڑھایا

تو بھی نرمی سے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھ گئی

اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ وہ کہاں تھا۔۔۔۔

 کیوں کہ جب وہ جاگی تب آریان اس کے آس پاس نہیں تھا

 میں  کہاں جا سکتا ہوں میری جان بس یہی گیا تھا ٹہلنے کے لئے

 آنکھ جلدی کھل گئی تھی پہلے سوچا تمہیں تنگ کرتا ہوں۔۔۔ پھر یہ سوچا کہ تمہاری تائی امی آج کل یہ فریضہ بہت اچھے سے سر انجام دے رہی ہیں

 اسی لیے تمہیں تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا  پھر زرا واک کرنے کے لیے باہر نکل گیا

لیکن اگر تمہاری اجازت ہو تو اب تم ہی تھوڑا سا تنگ کر ہی لیتا ہوں

 وہ مسکرا کر کہتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے بیڈ پر لٹا گیا

 اس کے چہرے کو اوپر کیا جبکہ وہ بیڈ پر لیٹی شرمیلی کی نظروں سے دیکھ رہی تھی

آرہان نے نرمی سے اس تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا اور اس کا معصوم چہرہ اپنی نظروں کے حصار میں لیا

جبکہ فوکس اس کے لبوں پر تھا

وہ اس کے لبوں پر انگلی پھیرتے ہوئے ذرا سا مسکرایا

 اجازت ہے وہ آنکھ دبا کر شرارت سے بولا بلکہ میں سوچ رہا ہوں بھاڑ میں ڈالو اجازت کو ۔۔۔اب کیا اپنی چیزوں کے لئے بھی اجازت مانگوں۔ ۔۔خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے اس کے لبوں کو اپنے دسترس میں لے چکا تھا

اور اس کی قربت پر ہمیشہ کی طرح اریشفہ بوکھلا کر رہ گئی

 اس کے ہاتھ بے اختیار ہی اس کی شرٹ کے کالر کو تھام چکے تھے

جتنی شدت آریان کے انداز میں تھی اتنی ہی شدت سے اس کی کالر تھام رکھی تھی ۔

اس کے ہونٹوں پر ترس کھاتے ہوئے وہ اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کی گردن پر جھکا تھا

اور اب مکمل بہہ رہا تھا

جب  اچانک دروازہ کھلا اور تائی ا می اندر داخل ہوئی

 انہیں ایک دوسرے کے اتنے قریب دیکھ کر وہ شرمندہ تو ہوئیں

 لیکن جلد ہی وہ اپنے آپ کو سنبھال چکی تھیں

جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوکر اب کھڑے ہو چکے تھے ۔

معاف کرنا بیٹا دروازہ کھلا تھا تو میں اندر آ گئیںں

 ۔وہ ان کو دیکھتے ہوئے بولیںں

 یہ دروازہ کھلا نہیں تھا  تائی امی آپ کھول کر آئی ہیں ہیں اور یقین کریں اس سے زیادہ بری حرکت اور کوئی نہیں لگتی

پلیز آئندہ غور کیجئے گا

یہ ہسبنڈ وائف کا کمرہ ہے آپ کا اس طرح سے یہاں آنا زیب نہیں دیتا

وہ غصے سے انہیں گھورتے ہوئے واش روم میں بند ہوگیا

اور دروازہ اتنے زور سے بند کیا تھا تائی امی اپنی جگہ سے اچھل کر رہ گئیںں

۔اور اب ہ ریشفہ کو دیکھ رہی تھیں جس کے شوہر نے صبح صبح ان کی اچھی خاصی انسلٹ کردی تھی

 فریش ہو کر آ جانا کیچن میں وہ سختی سے کہتی باہر نکل گئیںں

 جبکہ اسے تو اپنے شوہر کی پریشانی کھائی جا رہی تھی جس کا موڈ بری طرح سے بگڑ گیا

°°°°°°°°°°

اسے یقین ہو گیا کہ وہ سو چکا ہے

تو وہ کمرے میں داخل ہوئی

اسے پتہ تھا کہ چابی تکیے کے نیچے ہے

وہ اسے اٹھانا اپنے آپ میں ایک مشکل ترین کام تھا

جو کہ آج جاناں کو کسی بھی حال میں کرنا تھا

وہ بنا آواز کیے پہلے کی طرح اس کی تکیے کے قریب آئی اور چابی  ٹوٹلنے کی کوشش کرنے لگی

اسے ٹھینڈے پیسینے بھی آرہے تھے

اگر جان کی آنکھ کھل جاتی تو اب اس میں کوئی لحاظ نہیں کرنا تھا

کہیں نہ کہیں وہ دھمکی بھی اثر کر رہی تھی جو جان نے سونے سے پہلے اسےدی تھی اس کے شرارتی انداز یاد کرتے ہی جاناں کے ہاتھ میں تیزی آگئی

اب تو اور بھی زیادہ شدت سے چابی تلاش کرنے لگی تھی

کیوں کے اب تو وہ جان کے ساتھ ایک لمحہ نہیں گزارنا چاہتی تھی

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انسپکٹر آریان سب کچھ جاننے کے بعد وہاں آئے یا نہیں

اب تک یقین انہیں پتہ چل چکا ہوگا کہ وہ جاناں کو زبردستی اپنے ساتھ لے آیا ہے

اس حساب سے انہیں اب تک ان کے گھر پہ آ جانا چاہیے تھا

لیکن وہ ابھی تک یہاں نہیں آئے مطلب کے ہو سکتا ہے کہ وہ وہاں اسے تلاش کر رہے ہو کیوں کہ انہوں نے اس سے کہا تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے پٹرول پمپ سے مت نکلنا

اس کا وہاں سے نکلنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا

لیکن جان اسے زبردستی یہاں لے آیا تھا

اور وہ ایک بار پھر قید ہو کر رہ گئی تھی

وہ اس غلطی پر پچھتا رہی تھی

اس نے انسپکٹر آریاِن کے سامنے جان کا نام نہیں لیا تھا

یہ واقعی ایک بہت بڑی غلطی تھی

انہیں بیسٹ کا اصل نام بتا دینا چاہیے تھا

لیکن تب اسے خیال ہی نہیں آیا

کہیں یہ نہ سوچ رہے ہو جاناں اپنے شوہر کے سیو ہے

اور وہ شوہر نہ جانے کتنے لوگوں کو بے دردی سے مارتا چلا جائے

یہ خیال آتے ہی اس کا ہاتھ تکیے سے ذرا زیادہ نیچے چلا گیا

اور اس سے جان کی آنکھ کھل گئی اور اب جاناں کی جان پر بنی تھی

میں نے منع کیا تھا نہ جان جاناں بیڈ کے پاس مت آنا

لیکن تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی

اب تو میں اس کا وہی مطلب نکال لوں گا جو میں نکالنا چاہتا ہوں

تمہیں بیڈ کے اتنے پاس نہیں آنا چاہیے تھا

وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنےبے حد نزدیک کر چکا تھا

اور اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر لیا جاناں پھڑپھراکر رہے گئی

لیکن جان کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔

وہ اس کے لبوں پر بے تحاشہ تشدد کرنے کے بعد وہ اسے خود سے دور کر چکا تھا

اور آزادی ملتے ہی جاناں اس سے ایسے دوڈ بھاگی  تھی جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو پورے کمرے میں جان کا مردانہ قہقہ گوجا جیسے جاناں نے سنوا اور غصے سے لب بھیج کر رہ

گئی

°°°°°°°°°°

وہ فریش ہو رہا تھا

جب باہر سے دروازہ کھٹکھٹانے کی زور سے آواز آئی

جیسے کوئی بہت غصے میں دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو

اسے لگا کے شاید کوئی بہت ضروری کام کے لیے یہاں آیا ہے

لیکن دروازہ کھولنے پر سامنے عاِئشہ کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا

تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔!وہ اسےدیکھتے ہوئے پوچھنے لگا

کیا کر رہی ہوں کا کیا مطلب ہے طہٰ تم مجھے اگنور کر رہے ہو

تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو

اسے پتا تھا کہ عائشہ زیادہ دیر خاموش بیٹھنے والی لڑکی نہیں ہے آج نہیں تو کل صبح وہ اس سے جواب مانگنے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی

ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی ہیں ٹپکی تھی

جب میں تم سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتاتو تم سے خوشگوار انداز میں بات کیسے کروں ۔۔۔۔؟

جب میں تمہارے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ ہی نہیں رکھنا چاہتا تو تمہیں اگنور کیوں نہ کروں۔ ۔۔۔۔۔؟

تم زبردستی میرے گلے پر رہی ہوں عائشہ اور میں زبردستی کے رشتے نبھانے کا قائل نہیں ہوں

وہ آج بہت صاف اور کلیر بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

میں تم سے محبت کرتی ہوں طہ ۔اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا

اسے امید نہیں تھی کہ طہ اس کے ساتھ اس طرح بے رخی بڑتے گا

مجھے تمہاری محبت نہیں چاہیے ۔

اور نہ ہی میں کبھی تم سے محبت کروں گا عائشہ

اب بھی وقت ہے اپنے راستے بدل لو یہاں تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا

 ۔شاید آج وہ اس کا دل توڑنے کا ارادہ رکھتا تھا

پلیز ایسا مت کہوطہ ۔میں سچ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں

میں نہیں رہ سکتی تمہارے بنا ۔تم اس ہول سے باہر نکلو جو تم نے اپنی چاروں طرف بنا کر رکھا ہے

تم صرف اپنا وقت برباد کر رہی ہو ۔۔۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر بولا

جاؤ یہاں سے عائشہ تمہیں یہاں کچھ حاصل نہیں ہوگا

اگر تمہیں لگتا ہے کہ میرے گھر کے باہر پڑےرہنے سے مجھے تم سے محبت ہو جائے گی اس غلط فہمی کو دور کر لو

 میری نظروں میں یہ چیزیں کوئی ویلیو نہیں کرتی۔۔۔۔۔"

 میں کیا ہوں کیا نہیں یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا

آئندہ یہاں مت آنا

ہم اچھے دوست بن کر رہ سکتے ہیں

تمہیں بار بار انسلٹ کرنا مجھے بھی اچھا نہیں لگتا ۔وہ اسے باہر کا رستہ دکھاتے ہوئے بہت بےرخی سے بولا

عائشہ کو لگا کہ جیسے اس کے الفاظ ختم ہو گئے ہیں

طہ اس کی کوئی بات سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھا

آج پہلی بار عائشہ کو ایسا لگا کہ وہ سچ میں یہاں صرف اپنا وقت برباد کر رہی ہے

وہ جس طرح سے آئی تھی اسی طرح وہاں سے نکل گئی

لیکن اس بار باہر نہیں بلکہ اپنے گھر گئی تھی

اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہاں باہر وہ صرف اپنی محبت کی قیمت کو کم کر رہی ہے

°°°°°°°°

طہ کو خود غصہ آ رہا تھا

کتنی آسانی سے اس نے عائشہ کو ہرٹ کر دیا تھا

 وہ جانتا تھا کہ اب وہ دوبارہ اس کے راہ میں نہیں آئے گی

اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا اخر عائشہ کو سمجھا دیا کہ وہ جو کچھ کر رہی ہے غلط ہے

 اس سے اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا

لیکن پھر بھی اس کا دل اتنا بے چین کیوں تھا۔۔۔۔۔!

 کیوں کھل کر خوش نہیں ہو پا رہا تھا وہ۔ ۔۔۔۔۔؟

کیوں کھول کر سانس نہیں لے پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔؟

 اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کیا جسے عائشہ نہیں بلکہ اس کی ہر خوشی اس سے روٹھ کر چلی گئی ہے اس  سکون اس سے روٹھ کر چلا گیا ہے

وہ بے چینی سے دائیں بائیں گھوم رہا تھا

 اسے ایک پرسکون نہیں آرہا تھا

عائشہ کاجانا اسے بری طرح پریشان کر گیا تھا

ہاں وہ چلی گئی تھی اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے وہ سچ میں چلی گئی تھی

اس کی محبت سے ہار کر لیکن جانے سے پہلے اسے بتا گئی تھی کہ وہ اس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے ۔کیا اسے ایساکرنا چاہیے تھا کیا عائشہ کا دل دکھا کر اس نے اچھا کیا تھا۔۔۔۔۔!

 کیا ایسا کر لینے سے اس کی پریشانیاں ختم ہو گئی تھی ۔۔۔۔!

۔نہیں۔۔۔۔۔"

 اس کی ساری پریشانیاں اب بھی وہی تھی

 ۔عائشہ کے چلے جانے کے بعد بھی اس کے دکھ اس کی بے چینیاں وہی تھی

 ۔ہاں بس عائشہ کے ہوتے ہوئے وہ اپنے غم اپنی تکلیف بھول جاتا تھا

 لیکن آج اس کے جانے کے بعد وہ سب بھی یاد آ گیا تھا جو وہ کبھی یاد ہی نہیں کرنا چاہتا تھا

اس کا بچپن۔۔۔۔۔"

 لوگوں کے طعنے ۔۔۔۔۔۔۔"

وہ لوگوں کے پتھر مارنا ۔۔۔۔۔۔۔"

بے اختیار ہی اسکی آنکھ سے ایک آنسو نکلا جسے اس نے اپنے ہاتھ سے صاف کردیا تم اچھی ہو عائشہ بہت اچھی ہو

 لیکن میں اچھا نہیں ہوں یہ دنیا مجھے قبول نہیں کرتی میں تمہارے قابل نہیں ہوں اور مجھے کوئی حق نہیں بنتا کہ میں تمہاری زندگی برباد کروںں

 تم خوش رہو ایسے ہی شاید میرے تمہاری زندگی میں آ جانے سے تم سے  خوشیاں ہی چھین جائے

وہ کیسے چھین لیتا اس سے اس کی ساری خوشیاں۔۔۔۔

وہ کیسے اپنی بے نشان  ذات کے ساتھ اس کی زندگی برباد کر دیتا ۔۔۔۔۔؟

وہ کیسے اسے ایک ایسی زندگی جینے پر مجبور کردیتا ہے جس میں سوائے ذلالت کے اور کچھ نہیں تھا

وہ جی رہا تھا پچھلے 27 سال سے وہ ایک ایسی زندگی جی رہا تھا جس میں اسے خود آج تک کوئی خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی

وہ عائشہ کو کیسے کہتا کے اس کے ساتھ سوائے اندھیروں کے اور کچھ نہیں ہے

کیسےہیں آپ ڈی ایس پی سرزیمہ کیسی ہے۔۔۔۔ ؟

جی جی ائمہ بالکل ٹھیک ہے۔۔

ماشاءاللہ سے یہاں آنے کے بعد بہت خوش بھی ہے اس تائی امی نےبہت نرم لہجے میں کہا

وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے بیگم آپ بھی واپس گھر آ جائے آپ کے گھر کو آپ کی ضرورت ہے

آپ تو اریشفہ کے گھر ایسی جا کر رکھی ہیں کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی

اریشفہ کا خیال رکھنے کے لیے آئمہ کو وہیں چھوڑ آئیں

لیکن آپ واپس آجائیں

ہماری آئمہ بہت لائق ہے وہ اریشفہ کا خیال رکھ سکتی ہے

ڈی ایس پی سر نے سمجھانے والے انداز میں کہا

نہیں ڈی ایس پی صاحب اریشفہ اور آئمہ دونوں بچیاں ہیں وہ بھلا کیسے ۔۔۔۔۔

اپ وہ کریں جو میں آپ کو کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں بحث مت کیا کریں گھر واپس آ جائیں آپ ان کا لہجہ سخت ہو گیا

لیکن ڈی ایس پی صاحب تائی امی نے کچھ کہنا چاہا

لیکن ویکن کچھ نہیں آج شام کی بس سے آپ واپس آجائیں آئمہ کو ابھی کچھ دنوں ہی رہنے دیں

وہ کہہ کر فون بند کر چکے تھے جبکہ ناشتے کی ٹیبل پر کھانا لاتے پر اریشفہ نے ایک نظر ان کو دیکھا

میں آج شام کی گاڑی سے واپس جا رہی ہو آئمہ کچھ دن یہاہی پر رہے گی وہ اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہنے لگیں

ایمہ تو خوشی سے چہک اٹھی

جب کہ آریان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ چکی تھی

آپ فکر نہ کریں تائی امی میں آپ کو وقت پر چھوڑ آؤں گا ۔بس تک اگر مجھے ضروری کام نہیں ہوتا تو میں آپ کو گھر تک بھی چھوڑا تھا

اس کا انداز جان چھڑانے والا تھا

کوئی بات نہیں بیٹا میں چلی جاؤں گی میں کونسا پہلی بار جا رہی ہوںں

آئمہ اریشفہ کا خیال رکھنا اور تم بھی میری باتوں پر غور کرنا یہ کو چائے بنائی ہے نہ تم نے بالکل بھی سواد ہے اس طرح سے چائے بنائی جاتی ہے اریشفہ بہت نالائق ہو تم آئمہ بیٹا کل صبح سے آریان کے لئے چائے تم بنانا

نہیں نہیں تائی امی اس کی ضرورت نہیں ہے میں چائے کچھ خاص پسند نہیں کرتا وہ تو اریشفہ پیتی ہے تو میں اس کا ساتھ دینے کے لئے پی لیتا ہوں

اور اس کے ہاتھ کی چائے مجھے اچھی بھی بہت لگتی ہے

سچ کہوں تو شادی سے پہلے تو میں نے کبھی چائے کو ٹیسٹ بھی نہیں کیا تھا تم رہنے دو ائمہ مجھے تو میری بیوی کے ہاتھ کی چائے ہی پسند ہے اس سے پہلے کہ ائمہ کچھ جواب دیتی آریان بول پڑا

آپ اپنا بیگ پیک کر لیں میں آپ کو بس اسٹیشن چھوڑ آؤں گا بارش کا موسم بن جا رہا ہے یہ نہ ہو کہ شام تک بارش شروع ہو جائے پھر آپ کا جانا مشکل ہو جائے گا آریان نے اٹھتے ہوئے کہا

کل ہی ڈی ایس پی سرکوفون کیا تھا اور کہا تھا کہ تائی امی کا رویہ آئمہ  سے ٹھیک نہیں لگ رہا

اور اس کی پوری بات سن کر ڈی ایس پی سر نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنی بیگم کو واپس بلوا لیں گے

°°°°°°°°°°

اسے یقین تھا کہ عائشہ کبھی اس کے راستے میں نہیں آئے گی

لیکن عائشہ کو اپنے کلب کے باہر دیکھ کر وہ پریشان ضرور ہوا تھا اس کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ رو کرآئی ہے

تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟

وہ کلب کے اندر جانے کے بجاۓ اس کے پاس آیا تھا اس کا دل اس کی طرف کھنچتا چلا جا رہا تھا

تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں

میرے ایک سوال کا جواب دے دو پھر میں یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلی جاؤں گی میں نے اپنی امی کو بتا دیا ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتی ہوں وہ بھی میرے ساتھ جانے والی ہیں ہم کل صبح کی فلائٹ سے یہاں سے چلے جائیں گے لیکن جانے سے پہلے میں ایک سوال تم سے پوچھنا چاہتی ہوں

تمہیں جو بھی پوچھنا ہے جلدی پوچھو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مجھے اندر جانا ہے میرے دوست انتظار کر رہے ہیں اس کے جانے کا سن کر اسے دکھ تو ہوا تھا پر وہ اپنے چہرے سے کچھ بھی شو نہیں کرنا چاہتا تھا

کیا میری محبت سے انکار کر دینے سے تمہاری ماں کو انصاف مل جائے گا۔۔۔؟

تم۔ ۔۔طہ نے کچھ کہنا چاہا

پلیز طہٰ میری بات ختم نہیں ہوئی

کیا تمہارے ماتھے پر لگاناجائز کاٹیگ اتر جائے گا۔۔۔۔!

اگر تمہارے باپ نے تمہیں قبول نہیں کیا تھا اس میں تمہاری کیا غلطی ہے طہ۔ ۔۔۔!

اگر اس شخص نے تمہاری ماں کو برباد کیا تو اس میں تمہاری کیا غلطی ہے۔۔۔۔۔۔؟

تم اپنے آپ کو سزا کیوں دے رہے ہو ۔۔۔۔؟

کیوں اپنی ذات کو بے نام و بے نشان کر رہے ہو۔۔۔۔۔؟

کیا تم میں خود سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے ۔۔۔۔۔؟

اگر نہیں ہے تو واقع ہی میں نے غلط شخص سے محبت کی

تم سچ میں میری محبت کے قابل نہیں ہو

تم تو اپنے لئے نہیں لڑ سکتے میرے لئے کیا لڑو گے

تم خود سے لڑ رہے ہو خود سے جیت ہے وہ خود ہی ہار رہے ہو۔۔۔

وہ شخص مر چکا ہے طہٰ

تمہاری ماں مر چکی ہیں۔۔۔۔۔

اب ختم ہو چکا ہے سب کچھ بدل چکا ہے

غور سے دیکھو تو کافی کچھ ٹھیک ہو چکا ہے

کچھ ٹھیک نہیں ہوا عائشہ سب غلط ہے میری ماں یا اس ذلیل انسان کے مر جانے سے میرے سر سے ایک ریپ چلڈ ہونے کا ٹیگ نہیں اترا

میں آج بھی گٹر کی پیدائش ہوں

میری ماں جو بارہ سال میرے لیے لڑیی رہی مجھے باپ کا نام دینے کے لیے اس کےپیر پکڑتی رہی

مجھے میری ماں کے آنسو نہیں بھولتے عائشہ

مجھے نہیں بھولتے وہ بارہ سال اور وہ میری ماں کی تڑپ اور وہ میری ماں کی آخری الفاظ کہ طہ تم ایک ناجائز بچے ہو ایک ایسے بچے  جس کا کوئی باپ نہیں ہوتا میری پاکدامن ماں بارہ سال خود کو انصاف اور مجھے میرے باپ کا نام دلانے کے لیے لڑتی رہی

اور مجھے کچھ نہیں دے سکی

سوائے دنیا کے طانوں اور اس آدمی کی پستول سے نکلی گولی کے

میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا عائشہ میں خود سے لڑتا ہو ہارتا ہوں میں ہارا ہوا انسان ہوں نہیں ہوں میں تمہارے قابل پلیز میرے سامنے مت آنا جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلی جاو وہ اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے جا چکا تھا عائشہ نے  اسےکلب کے اندر جاتے ہوئے دیکھا اور اس کے قدموں میں جان نہیں تھی وہ لوٹ جائے

اج اس نے اس موضوع پر اس سے کھل کر بات کی تھی

آریان نے اسے بتایا تھا کہ تھا وہ ایک ریپ چلڈ ہے

اس کی ماں کا ریپ ہوا تھا

کسی حیوان نے ان کی عزت کو تار تار کردیا تھا اس کے نتیجے میں وہ طہٰ کی ماں بن گئی لیکن اسے کبھی باپ کا نام نہ دلآپائی

وہ اپنے آپ میں ہی الجھی ہوئی تھی جب اسے زوردار دھماکے کی آواز آئی

سامنےکلب کو آگ لگ چکی تھی

ہرطرف بم بلاسٹ ہونے کی پکار سنائی دے رہی تھی

اس نے بھاگ کر وہاں پر جانا چاہا لیکن کوئی بھی اس طرف جانے نہیں دے رہا تھا

تھوڑی ہی دیر میں وہاں پولیس اکٹھی ہو چکی تھی اب وہ لوگ وہاں سے لاشیں نکال رہے تھے

کسی کا صرف ہاتھ کسی کے صرف پیر لاشوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ دیکھا تک نہیں جا رہا تھا

°°°°°°°°°°

اس کی آنکھ کھلی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے

 جاناں دوبارہ اس کے پاس نہیں آئی تھی

 چابی اس کے تکیہ کے نیچے ہی تھی

 اس نے مسکرا کرچابی سنبھالی اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔"

 آج اس سفر کی منزل ملی تھی ۔۔۔۔۔۔"

آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔"

یقیناً جاناں اب بھی اس سے غصہ ہو گی

 کوئی بھی لڑکی ایک ایسے شخص کا ساتھ قبول کیوں کرے گی جو قاتل ہو

 لیکن اسے یقین تھا جب جاناں کو سب کچھ پتہ چلے گا وہ اس کے ہر فیصلے میں اس کا ساتھ دے گی۔۔۔۔۔

 لسٹ میں آخری نام بچا تھا

جسے  وہ ختم کرنے والا تھا آج وہ بےحد خوش تھا

 کیوں کہ آج وہ اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے والا تھا پندرہ سال پہلے اس شخص نے اس کے باپ کو جان سے مار ڈالا اور آج اسی تاریخ پر کہیں اور راز کھلنے والے تھے ۔۔۔

وہ فریش ہو کر باہر آیا تو جاناں کو صوفے پر  لیٹے پایا

کتنے دنوں سے وہ بے چینی نیند سو رہی تھی

اتنے دنوں سے اس نے ایک دن بھی سکون سے نہیں گزارا تھا

 لیکن اب اور یہ سب نہیں ہوگا

جان اپنا آپ کھو ل کر اس کے سامنے رکھنے والا تھا

 بس ایک دن اور۔۔۔۔۔۔صرف آج کا یہ دن اور پھر وہ جاناں کو ساری حقیقت بتا دینے والا تھا

 وہ سمجھ چکا تھا کہ جاناں سے یہ سب کچھ چھپانے کا کوئی مقصد نہیں وہ اس کی زندگی کی ساتھی ہے اور اگر تو اس سے اپنا آپ چھپایا کر رکھے گا تو بعد میں ان کی زندگی اور مشکل ہو جائے گی

اور اب تو حالات ایسے بن چکے تھے کی جاناں کو سب کچھ بتا کر ہی کچھ بھی ہو سکتا تھا

پہلے جیسا ہو سکتا تھا اور جان سب کچھ پہلے جیسا کرنا چاہتا تھا

اسے جاناں کی محبت کی عادت ہو چکی تھی اب جاناں کا یہ انداز  اسے تکلیف دے رہا تھا

اسے جاناں کی محبت اس کی فکر مندی واپس چاہیے تھی

اس کی جاناں واپس چاہیے تھی

وہ اپنی ماہی کے بنا ادھورا تھا اور ان دنوں اپنی ماہی کو بہت مس کر رہا تھا

 بس تھوڑا سا وقت اور یہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا وہ پیار سے جاناں کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا پھر آہستہ سے اس کے قریب آیا اور کمبل کو اس کے اوپر ڈالتے ہوئے اسے کور کیا

 جاناں جو سردی کی وجہ سے خود میں سمٹی ہوئی تھی کمبل کوخود پر محسوس کرتے ہوئے مزید اس میں سمٹ گئی

اور اس کرم نوازی پر یہ بھی نہ سوچا کہ یہ احسان کس نے کیا ہے

بس اس کی نیند آسان ہوگئی تھی

جان نےمسکرا کر نرمی سے اس کا ماتھا چوما اورخاموشی سے گھر سے نکل گیا

اسے یقین تھا آج کا یہ سفر اس مقصد کا آخری سفر ہے

اس کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہونے والا تھا

اسے پتہ تھا باپ کی موت پرجاناں کو دکھ ہوگا

لیکن اسے یقین تھا کہ جاناں کو سمجھ لے گا

اپنے پیار اپنی محبت سے وہ اس شخص اور اس کی ذات کو اس کی زندگی سے نکال دے گا اور اپنی جاناں کے ساتھ وہ زندگی کی شروعات کرے گا

°°°°°°°°°°°°

عائشہ بری طرح سے تڑپ رہی تھی

سسک سسک کر رو رہی تھی

کوئی اسے اندر نہیں جانے دے رہا تھا

اس جگہ کو پوری طرح پولیس  کور کر چکی تھیں

نہ جانے کتنی لاشوں کے پارٹس  نکالے جا چکے تھے

کوئی بھی لاش پہچانا ناممکن سا لگ رہا تھا

اس وقت اندر آٹھ لوگ تھے کیوں کہ ان لوگوں کے حساب سے وہ آٹھ لوگوں کی لاشیں تھیں

اور انہی میں سے ایک وہ بھی تھا اتنی جلدی وہ اپنی محبت ہار گئی

اتنا جلدی وہ اس سے روٹھ کر چلا گیا

وہ اس کے پاس جانا چاہتی تھی اس سے اپنے الفاظ کی معافی مانگنا چاہتی تھی

لیکن شاید اب تو وہ رہا ہی نہیں تھا

پولیس نے انہیں اس جگہ سے دور ہٹنے کے لیے کہہ دیا تھا

وہ بے جان ہارے قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی

جب سڑک کے سامنے پار اسے بلیک ہڈ پہنے جان نظر آیا

وہ بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئے تھی

اور پھر اس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آج جو نقصان ہوا تھا وہ ان دونوں کے لیے عام نہیں تھا وہ ان دونوں کے لیے جان سے عزیز تھا

°°°°°°°°°°°

جاناں کی آنکھ کھلی تو خود کو صوفے پر کمبل میں لپتے پایا

اسے یاد تھا کہ رات کمبل تو لے کر نہیں آئی تھی

تو یقینا یہ جان نے ہی دیا ہوگا

کمبل کو ایک طرف رکھ کر فوراً دروازہ کو دیکھنے لگی جو بند کر کے  وہ چلاگیا تھا ۔

مطلب کے روز کی طرح آج بھی اسے قید کر کے چلا گیا تھا

اسے غصہ تو بہت آیا لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی

وہ خاموشی سے واپس آ کر اسی صوفے آ بیٹھی

جب بیٹھے بیٹھے اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا

جب شروع میں یہاں آئی تھی تب جان نے اسے بتایا تھا گھر کے سب دروازوں کی ایکسٹرا چابی وہ کہیں پر رکھتا ہے

تب جاناں نے اتنا غور نہیں کیا تھا پھر بعد میں اسے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی

لیکن آج اس نے اس چابی کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی تھی

اور اب وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ جان کے آنے سے پہلے وہ ان چابیوں کو ڈھونڈ کر رہے گی اور یہاں سے نکل جائے گی

یہ مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں

اب اسے کسی بھی حال میں انسپکٹر آریان تک پہنچنا تھا

تاکہ وہ ان کو جان کی حقیقت بتا سکے

اسے یقین تھا کہ انسپکٹر آریان اس کا ساتھ ضرور دیں گے

وہ جانتی تھی کہ وہ آجکل بیسٹ کیس پر کام کر رہے ہیں

اور وہ اس معاملے میں ان کی بہت مدد کر سکتی تھی

وہ جلدی سے کمرے میں آکر چابیاں ڈھونڈنے لگی تھوڑی دیر میں اس نے سارے دراز اور الماریاں دیکھ لی تھی جان کی الماری لاک تھی اسے یقین تھا کہ چابیاں اس میں ہیں

اس لیے اس نے الماری کا لاک تھوڑنے کافیصلہ کیا اور کچن سے جا کر ہتھوری لےکر آئی

اپنے اناڑی پن سے تھوڑی ہی دیر میں وہ پوری الماری کا ستیاناس کر چکی تھی

لیکن اسے پرواہ کہاں تھی وہ بہت تیزی سے جان کا سامان الماری سے نیچے پھینکنے لگی جب اچانک عائشہ کی ڈائری اس کی الماری سے نیچے گری

یہ تو عائشہ کی ہے یہ جان کی الماری میں کیسے گئی۔۔۔۔  ۔ اس کے ہاتھ رک گئے تھے کیونکہ اسی ڈائری سے ایک تصویر باہر کو نکلی پڑی تھی جو کسی اور کی نہیں بلکہ جاناں کے اپنے بچپن کی فوٹو تھی جاناں نے اٹھائی

اور اس کے پہلے پیج پر جان ابراہیم کا نام پڑھ کر الجھ کر رہ گئی

اگر یہ ڈائری جان کی ہے تق عائشہ نے اسے کیوں دی سنبھالنے کے لیے اس نے سوچا

اور پھر اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ڈائری کا اگلا پیج کھولا

ماضی

°°°°°°

سریہ سب کب تک چلے گا

سات سال ہو گئے ہیں

 میں نے اب تک آفیسر ابراہیم کو خود پر شک نہیں ہونے دیا

لیکن اب پانی سر کے اوپر سے جا چکا ہے

میرے لیے یہ سب کچھ دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے

مجھے لگ رہا ہے کہ ابراہیم کو مجھ پر شک ہوگیا ہے

آج کل مجھ سے کافی کھیچے رہتے ہیں اور ان کا رویہ بھی کافی عجیب ہے

 آج کل کچھ زیادہ ہی غصے میں رہنے لگے ہیں اگر انہیں مجھ پر شک ہوگیا تو میں بری طرح سے پھس جاؤں گی ۔

جان کو گہری نیند سوتے دیکھ کر وہ ٹیلی فون اٹھا کر کسی سے بات کرنے لگی

 ایسا کچھ نہیں ہے

اسے تم پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے

میں ان سب باتوں کا دھیان رکھ رہا ہوں

 اگر اسے تم پر شک ہوا تومیں بہت آسانی سے بچا لوں گا اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں

اور تم سات سال کی بات کر رہی ہو مجھے میرے بھائی سے بچھڑے 15 سال ہو چکے ہیں جب تک بلیک بیسٹ پاکستان کی جیل سے آزاد نہیں ہو جاتا تب تک یہ کیس یوں ہی چلتا رہے گا

اور تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑے گا

لیکن سر میں اپنی زندگی کے سات سال برباد کر چکی ہوں ۔وہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگی

شاید تم بھول رہی ہو کہ تم اپنی زندگی کا ایک ایک سیکنڈ بلیک ٹیسٹ کو بیچ چکی ہو

 اور یہی حقیقت ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی اب فون بند کرو یہ نہ ہو کہ کسی کو شک ہو جائے فلحال تمہیں کسی قسم کی بیوقوفی کی اجازت نہیں دیتے ہم

 وہ اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے فون بند کر چکے تھے ۔

°°°°°°°°°°

واوا بیگم کیا کھانا بنایا ہے آج بہت دنوں کے بعد ابراہیم کا موڈ اچھا تھا

شکر ہے آپ کو بھی کچھ اچھا لگا سومیہ منہ پھولا کر بولی

ارے میری جان آپ کے ہاتھ کی بنی ہر چیز لیزیز ہوتی ہے وہ اس کا موڈ دیکھتے ہوئے بہت محبت سے کہنے لگے

اتنے دنوں سے تو آپ کو شاید یہ بات یاد نہیں رہی تھی وہ شاید پچھلے دنوں ان کے خراب موڈ کی طرف اشارہ کر رہی تھی

نہیں یار ایک کیس میں بری طرح سے الجھ گیا تھا

کون سا نیا کیس آ گیا بیزاری سے کہنے لگی

وہی بلیک ٹیسٹ ۔۔۔۔۔امریکہ کے گروپ نے مجھے آفر کی ہے

بہت سارے روپے پیسے کی

 وہ لوگ مجھے امریکا کے کسی بڑے گروپ میں شامل کرنا چاہتے ہیں

 جہاں زندگی کی کسی بھی چیز کے لئے ترس نہیں پڑے گا

 جہاں ہم اپنی مرضی سے زندگی گزاریں گے

 عیش و عشرت دولت شہرت ہر چیز ہمارے قدموں میں ڈھیر ہو گی وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس انداز میں کہہ رہے تھے جیسے وہ اسے آزما رہے ہوں

مجھے کیوں بتا رہے ہیں یہ سب کچھ کیا میں آپ کو نہیں جانتی

آپ کے لیے اپنے ملک سے زیادہ عزیز کچھ نہیں ہے

 یہ ساری آفرز تو آپ کو تب سے آرہی ہیں جب سے ہمارا نکاح ہوا ہے

 ۔کون سا آپ نے ان آفرز پر نظر ثانی کی ہے یا نہیں قبول کرلیا ہے آپ کے لئے یہ ساری چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتی

چاہے بیوی پڑوسیوں کے طعنے سنتی رہے یا اولاد سرکاری سکول میں پڑھتی رہے

 آپ کو ان سب چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کو بس اپنے ملک سے وفا بنانی ہے وہ بھگرے موڈ میں کہتی برتن اٹھانے لگی جبکہ ان کے انداز پر ابراہیم شاہ قہقہ بلند ہوا

ماشاءاللہ کتنے اچھے سے جانتی ہیں آپ اپنے شوہر کو بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ہے تم نے ان گھٹیا لوگوں کی گھٹیا آفر کو منہ پر مار کر آیا ہوں

چلو چھوڑو ان فضول باتوں کو یہ بتاؤ میرا جانِ جگر کہاں ہے

 اب وہ اپنے جان سے عزیز بیٹے کا ذکر کرنے لگے

کہاں ہو گا وہ باہر نقلی بندوق لئے سرحد پر ملک کے دشمنوں کو حلاق کر رہا ہے

 ۔سومیہ نے ایک نظر باہر کی جانب دیکھا جہاں کھڑکی سے باہر جان نقلی بندوق پکڑے ادھر سے ادھر دوڑ لگاتے ہوئے دشمنوں کو ان کے انجام تک پہنچا رہا تھا

ابراہیم مسکراتے ہوئے بیوی کا خفاخفا سا چہرہ دیکھ کر باہر جان کے پاس چلے گئے ۔

ُ°°°°°°°°°°°°°

وہ ابھی ابھی یاسر اور یاور کو سلا کر کمرے میں آئی تھی تو دیکھا اکبر ابھی تک جاگ رہے ہیں

آپ ابھی تک سوئےنہیں مجھے تو لگا تھا کہ اس وقت تک نید میں اتر چکے ہوں گے زینت مسکراتے ہوئے آئی

ارے نیوز سن رہا ہوں آپ کا بھائی تو چھایا ہوا ہے ماشاء اللہ ہر چینل پر اسی کی خبریں چل رہی ہیں

جی ہاں بھائی پر جان لیوا حملہ ہوا ہے

وہ جو آج کل کیس چل رہا ہے اسی کو لے کر کسی قیدی کو دوسری جیل میں شفٹ کرتے ہوئے بہت خطرناک قیدی ہے 15 سال سے جیل میں قید ہے

اور اس کے قیدی کو آزاد کرنے کے لئے بھائی کو ایسی ایسی آفرز ملی ہے کے عام انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا لیکن میرے بھائی کبھی اپنے ملک کے ساتھ غداری نہیں کریں گے زینت کے چہرے پر ایک فخر تھا جس سے اکبر نے بہت محسوس کیا

دولت کے سامنے ایک نہ ایک دن سب ہار جاتے ہیں

تمہارا بھائی بھی ایک دن ہار جائے گا کھیر لائٹ آف کر دو مجھے نیند آرہی ہے

بھائی کبھی نہیں ہار سکتے دولت ہو یا اس سے بھی بڑی کوئی چیز میرے بھائی کو ملک سے غداری کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی

 اس کے لہجے میں اب بھی وہی فخربول رہا تھا ۔جو اکبر کو تو بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا

لیکن وہ بنا بحث کی یہ اب سونا چاہتے تھے

°°°°°°°°°°°°

بس دیکھ لیا آپ نے اپنی محبِ وطنی کا نتیجہ یہی چاہتے ہیں نا آپ آج گولی لگی ہے کل اللہ نہ کرے کچھ برا ہو جائے

 سومیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کچھ بھی کر کے ان سے اپنی بات منوا لے ۔

بس کر دو بیگم اتنی بھی زیادہ چوٹ نہیں لگی یہ رونا دھونا بند کرو فوجیوں کی بیویوں کو یہ رونا دھونا زیب نہیں دیتا وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولے

نہیں براہیم تمہیں سومیہ کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے

وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے

آج تمہیں گولی لگی ہے کل اس سے بھی برا ہو سکتا ہے

 ہم سب جانتے ہیں کہ تم اپنے ملک سے بے انتہا محبت کرتے ہو

 لیکن صرف ایک مجرم کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دینا بیوقوفی ہے بلیک بیسٹ آخر تمہارا اکھاڑ کیا جا سکتا ہے

 اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے آزاد کر چکا ہوتا

جس کی وجہ سے میری بیوی بچے سکون میں نہیں ہیں

 اکبر نے سمجھانا چاہا

یہی تو بات ہے اکبر تم میری جگہ نہیں ہو

 اور یہی میرے لئے فخر کی بات ہے میں اپنی بیوی بچوں کے سکون کے لیے کبھی اپنے وطن کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا

۔چاہے مجھے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے

لیکن بلیک بیسٹ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

پندرہ سال سے وہ شخص میری قید میں ہے اور اپنی آخری سانس تک اسی طرح قید میں رہے گا

میں اپنے وطن کے دشمنوں کو اس طرح آزاد گھومنے ہرگز نہیں دوں گا ابراہیم کا لہجہ مضبوط تھا ۔

جو دل میں آئے وہ کرو میرا فرض تھا تمہیں سمجھانا

 اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا

اکبر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا لیکن لہجے میں اس کے لیے فکرمندی ظاہر کی

°°°°°°°°

سر میں بہت کوشش کر چکا ہوں لیکن وہ شخص بہت پکا ہے

 اس سے انفارمیشن لینا ایک ناممکن کام ہے اکبر نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

مجھے نہیں پتہ یہ ساری باتیں جو کہہ چکا ہوں اس پر عمل کرو آٹھ سال ہو چکے ہیں

تمہیں اس شخص کے ساتھ ابھی تک تم اس کو نہیں سمجھ پائے

مت بھولو کہ اس کی بہن تمہاری بیوی ہے

تم اس سے فائدہ اٹھاؤ اس کو جا کر کہو کے اپنی ضد چھوڑ دے

سر میری بیوی بھی اپنے بھائی کو صحیح اور مجھے غلط کہتی ہے

 وہ کبھی میری بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتی

۔میں ہر ممکن کوشش کر چکا ہوں یہ دونوں بہن بھائی بہت تیز ہیں

تبھی تو آٹھ سال سے ایک دن تنکے جتنی معلومات ہم ان سے حاصل نہیں کر سکیں

اکبر نے سمجھانا چاہا لیکن اسے سمجھنا کون چاہتا تھا

مجھے یہ ساری باتیں نہیں سنیں

 اور ہاں ایک بات مت بھولو تمہاری سانس سانس میری خریدی ہوئی ہے تمہیں کسی بھی حال میں بلیک بیسٹ کو چھڑوانا ہی ہوگا چاہے اس کے لیے تمہیں اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانے پڑے

جی سر میں اپنی بھرپور کوشش کروں گا اس کا موڈ بھگرتے دیکھ کر اکبر نے فورا کہا

°°°°°°°°°

ابراہیم تمہارا آئیڈیا تو بہت کمال کا ہے

 اگر ہم اس پر عمل کرتے ہیں پم بلیک بیسٹ کے بھائی اور اس کے تمام گینگ کو اپنی حراست میں لے سکتے ہیں معید نے اس کی بات پر رضامندی ظاہر کی

پھر ٹھیک ہے معید اب سے یہ میرا اور تمہارا سیکرٹ ہے

 یہ باہر نہیں جانا چاہیے

ہم اس پر عمل کریں گے میں کل ہی یہ خبر پھیلا دوں گا کہ بلیک بیسٹ جیل سے بھاگتے ہوئے مارا گیا

لیکن جب تک وہ سارے راز نہ اگل دے تب تک اس سے مرنے نہیں دیں گے

 ہاں لیکن ہمیں زیادہ احتیاط کرنی ہوگی کیونکہ اب یہ کیس پولیس سے نکل کر ہمارے ہاتھ میں آجائے گا اور یہ بہت مشکل بھی ہوگا

ہاں یہ تو ہے لیکن ہم بلیک بیسٹ کو اپنے ملک میں کسی قسم کی کوئی تباہی مچانے نہیں دیں گے بلیک بیسٹ اور اس کے بھائی اور اس کے تمام گینگز کو ہم بہت جلد انجام تک پہنچا دیں گے

ان شاءاللہ معید نے سچے دل سے دعا کی

کیا لگا تھا لوگوں کو کہ

کوئی بھی دو ٹکے کا گینگسٹر یوں اٹھ کر میرے ملک کے خلاف سازشیں کرے گا اور میں اسے اس طرح سے چھوڑ دوں گا یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہے معید پندرہ سال سے وہ شخص میری قید میں ہے اور نہ جانے آگے کتنے سال تک رہے گا لیکن میری ایک بات یاد رکھنا ابراہیم شاہ کی قید سے اس کی لاش تو جا سکتی ہے لیکن وہ زندہ واپس نہیں جا سکتا

ابراہیم شاہ نے مضبوط لہجے میں کہا ان کے لفظ لفظ میں وطن کے لیے ان کی محبت بیان ہو رہی تھی

ان شاءاللہ بہت جلد ہم اس شخص کے بھائی اور اس کے گینگ تک بھی پہنچ جائیں گے جو لوگ ہمارے ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انہیں جینے کا کوئی حق نہیں افسوس تو اس بات کا ہے ابراہیم کے ہمارے ہی ملک کے لوگ دولت کے لیے اپنے ہی ملک کی  جڑیں کاٹنے پر لگے ہیں وہ دولت کے لیے اپنا آپ بیچ چکے ہیں اپنا دین ایمان فروخت کر چکے ہیں ۔

ہم بہت جلد ان لوگوں تک بھی پہنچ جائیں گے جلد یہ بیسٹ کیس اپنے اختتام تک پہنچے

گا اور  نہ جانے کتنے لوگ اور ہونگے جو اپنے انجام تک پہنچیں گے

یہ سب لوگ جو ہمارے آگے پیچھے گھومتے ہیں ہمارے ساتھ رہتے ہیں اندر سے بھیکے ہوئے ہیں ان کا ضمیر مر چکا ہے افسوس کی بات ہے کہ ہم ان کو جانتے نہیں اور جس دن میں انہیں جان گیا نامعید اس دن میں ان کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں گا

°°°°°°°°°°

بہت دنوں کے بعد آپ آئیں معید بھائی بہت خوشی ہوئی بھابھی کو بھی لے آتے ۔سو میہ بہت خوش دلی سے اس کے سامنے لوزاومات رکھ رہی تھی

جی بھابی ارادہ تو تھا آنے کا لیکن آج کل کام بھی بہت زیادہ ہے کہیں آنے جانے کا وقت نہیں ملتا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے معید نے احترام سے جواب دیا

یہ تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں خیر سے آج کل کون سے کیس پر اتنے مصروف ہیں کہ ہمارے شوہر کو بھی گھر بار کا ہوش ہی نہیں تقریبا چھ ماہ سے بلیک بیسٹ کی ہر قسم کی خبر ختم ہو چکی تھی بس پتا تھا تو اتنا کہ بلیک بیسٹ انکاؤنٹر میں مارا گیا

جی بھابی وہی کیس چل رہا ہے پندرہ سال پرانا معید نے ساختہ جواب دیا ابراہیم اسے گھور کر رہ گئے

میرا مطلب ہے کہ وہ بیسٹ کیس تو ختم ہو گیا آج کل ایک اقر کہس پر کام کر رہے ہیں اس کی گھوری کا مطلب سمجھے بغیر معید نے بات بدل دی تھی

 یہ بات ان دونوں کی تھی ان کا سیکرٹ تھا اس میں کسی کو شامل نہیں کرنا تھا مطلب ابراہیم نے اس بارے میں اپنی فیملی کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا ۔معید اس کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ چکا تھا

چلے جو بھی کیس ہے اسے جلدی جلدی ختم کرے ماشاءاللہ سے میرے بچے کی سالگرہ آنے والی ہے خدارا اس بار اس کے لیے کوئی اچھے سے تحفہ لائیے گا نہ کہ بندوق اور پستول سومیہ خود پر شک نہیں ہونے دے سکتی تھی اس لیے بات بدلتے ہوئے بولی

ارے بھابھی جی کھیلنے دیجئے اسے انہی سب چیزوں سے آخر کل کو ہماری طرف فوج میں ہی آئے گا ان شاءاللہ بہت کامیابی ملے گی اسے

فوج میں ہرگز نہیں میں اپنے بچے کو ہرگز فوج میں نہیں جانے دوں گی اس کو تو میں ڈاکٹر بناؤں گی سومیہ نے اپنا ارادہ بتایا

میں اپنے بچے کو ملک کا محافظ بناؤں گا ۔

ایک ایسا محافظ جیسے اپنے وطن سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں ہوتا

 نہ اپنا آپ اور نہ ہی اپنی ذات سے ُجڑی کوئی اور شے

 اُسے صرف اپنے ملک کی پرواہ ہوتی صرف اپنے وطن سے مطلب ہوتا ہے۔اپنے ملک پر جان لٹانے کے لیے بھی ہروقت تیار ہوتا ہے انتظار ہوتا ہے تو بس ایک اشارے کا.اور میرا جان اسی اشارے کا انتظار کرے گا ابراہیم نے سومیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا

میرے خیال میں اس موضوع پر لڑائی کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے شہزادے سے ہی پوچھ لیں کہ وہ کیا بنے گا ان دونوں کی بحث ہوتے یکھ معید نے جان کی جانب دیکھا تھا

چاچو جو بابا کہیں گے میں وہی کروں گا میں فوج میں جاؤں گا اور بابا کی طرح سارے دشمنوں کو ڈیشو ڈیشو کر کے ختم کر دوں گا

جان اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کو مکے کی شکل دیتے ہوئے کہنے لگا تو ابراہیم شاہ کا اختیار قہقہ بلند ہوا ہے

شاباش میرے شیر یہ کی نہ شیروں والی بات ان کا انداز جہاں بہت خوشگوار تھا وہی سومیہ کا موڈ بری طرح سے آف ہوگیا

وہ بنا کچھ بولے وہاں سے اندر چلی گئی جبکہ ابراھیم شاہ ان کے اس ناراض انداز کو اپنے لیے محبت سمجھتے تھے

لیکن ان کے توہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ جو عورت آٹھ نو سال سے ان کے نکاح میں ان کے ساتھ محبتوں کے رشتے نبھا رہی ہے وہ اصل میں ان ہی میں سے ایک ہے جن سے وہ انتہا کی نفرت کرتے ہیں

ان میں سے ایک ہے جو آپنے وطن کو غدار و کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں ان میں سے ایک جو پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہتے ہیں

ایک غدارایک دھوکے باز  جو ان کے جان سے پیارے وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنا آپ بیچ چکی ہے

ان کی شادی ایک پلیننگ تھی

یہ سب بلیک بیسٹ کا بنایا ہوا جال تھا

ابراہیم شاہ نے بلیک بیسٹ کو پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے پکڑا اور اس کا گینگ اور بھائی اسے چھڑوانے کے لیے پچھلے پندرہ سال سے سازشیں کر رہے تھے

ان سازشوں میں ایک سازش یہ بھی تھی کہ بلیک بیسٹ کے آدمی کا رشتہ ابراہیم شاہ کی بہن کے لئے آیا اور اس کو بھی پوری پلاننگ کی تیار کیا گیا

اکبر خان کے رشتے میں ایسا کچھ بھی نہ تھا جس سے وہ اس رشتے سے انکار کر دیتے اکلوتی بہن  کو ہمیشہ خوش رکھنے کے لیے جب اکبر نے اپنی بہن کا رشتہ ان کے لیے رکھا تو وہ ایک بار بھی انکار کیے بغیر شادی کے لیے تیار ہوگئے

لیکن ان آٹھ نو سالوں میں بھی سومیہ آج تک ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائی تھی وہ ایک بند کتاب تھے وہ کسی کے سامنے بھی نہیں کھلتے تھے اپنی شریک حیات کے سامنے بھی نہیں

جان آٹھ کا ہو چکا تھا اور اور کافی کچھ سمجھنے لگا تھا۔۔۔

خاص کر سب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں ہے

ہم جس گھر میں رہتے ہیں اسے سجاتے ہیں سنوارتے ہیں خوبصورت بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں

تو ہمیں اپنے آپ ہی اس جگہ سے محبت ہو جاتی ہے

اس گھر سے ہمارے جذبات جڑ جاتے ہیں

ہمیں ہمارا گھر بے حد عزیز ہوتا ہے

تو پھر اس جگہ سے محبت کیوں نہ ہو جہاں ہم ستے ہیں ہم سانس لیتے ہیں  جو ہماری پہچان ہوتی ہے

ابراہیم کی طرح جان کو بھی اپنا ملک بے حد عزیز تھا اور یہ بات اب سو میہ بھی سمجھنے لگی تھی

°°°°°°°

ماما آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ۔۔۔!جان سکول سے واپس آیا تو سومیہ کے سینے سے لگ کر بہت لاڈ سے پوچھنے لگا

ہاں میری جان کون سی ماں ہو گی جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرے گی ۔۔۔سومیا نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے محبت سے جواب دیا

توپھر ماموں سے کہیں نا کے ماہیر مجھے دے دیں میں اس کا بہت خیال رکھوں گا بہت پیار کروں گادو ماہ ہو چکے تھے ما ہی کو پیدا ہوئے اور تب سے ہی جان کبھی دیوانہ ہو چکا تھا وہ زیادہ وقت ان کے گھر گزارتا تھا

ابھی وہ اس سے بات کر رہی تھی کہ اس کی گفتگو باہر سے آتے ابراہیم اور اکبر نے بھی سن لی

ہاں بھائی یہ تو بہت اچھی بات ہے

تم ماہیر کو ہمیشہ کے لئے لے جانا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے

تم ماہیر کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھ لینا

اکبر نے مسکراتے ہوئے کہا تو جان چہک اٹھا

سچی ماموں آپ ماہی کو مجھے دے دیں گے وہ بے یقین سا ہوا

ہاں بھئی کیوں نہیں دیں گے ضرور دیں گے بس تم تھوڑے سے بڑے ہو جاؤ جب تک ماہی بھی تھوڑی بڑی ہوجائے گی اور پھر ہم اسے دلہن بنا کر ہمیشہ کے لئے تمہارے ساتھ رخصت کردیں گے ۔کیوں ابراھیم بھائی میں نے کچھ غلط تو نہیں کہانہ وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے بہت عاجزی سے ابراہیم کو دیکھنے لگے

وہ جو صرف اپنی 2 ماہ کی بیٹی کے بارے میں یہ بات کر رہے تھے ابراہیم حیرانگی سے ان کی شکل دیکھنے لگے بلا اس طرح کون سا باپ اپنی دوماہ کی بیٹی پیش کرتا ہے لیکن وہ اپنی ناگواری چھپا گئے

بھائی صاحب میرے خیال میں ابھی یہ باتیں ہمیں نہیں کرنی چاہیے ابھی شاید وقت نہیں ہے وقت آنے پر یہ سارا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ابراہیم نے بات ہی ختم کرنا چاہی

بالکل بھی نہیں یہ بات آج ہی ہوگی مجھے جان ہمیشہ سے بہت پسند ہے اور میں اس کے لئے ہمیشہ سے یہ خواب دیکھتا رہا ہوں بلکہ میں تو اللہ سے بیٹی کے لیے دعائیں مانگتا رہا ہوں اور اب جب مجھے بیٹی ملی ہے تو میں اپنی اکلوتی بہن کی اکلوتے بیٹے کے لیے خواہش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو

ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔۔۔بلکہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ گھر کی بچی گھر میں آجائے گی سومیہ نے فورا کہا

کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ ابراہیم اس موضوع پر بے زارہو چکے ہیں

یقیناً وہ فی الحال یہ ساری باتیں نہیں کرنا چاہتے ہوں گے

بس ٹھیک ہے ہم جلد ہی ان دونوں کا نکاح کر دیتے ہیں تاکہ ہمارا رشتہ اور مضبوط ہو جائے اکبر نے ایک نظر ابراہیم کو دیکھتے ہوئے اپنی بہن کو سینے سے لگایا

نہیں اتنی جلدی مچانے کی ضرورت نہیں ہے

ابھی تو جان بچہ ہے

فی الحال بہت وقت ہے ان سب چیزوں میں اور ماہی تو بہت چھوٹی سی بچی ہے

میرا نہیں خیال کے ماہی کو اس طرح سے کسی کے ساتھ باندھ دینا چاہیے ابھی بچی ہے بڑے ہو کر اپنے فیصلے خود کرے گی

اور اکبر بھائی اصل بات کچھ ایسی ہے کہ میں بچپن کے رشتوں کو مانتا بھی نہیں ہوں

بچپن کے نکاح بہت کم چلتے ہیں ہم دونوں کی بات کر لیتے ہیں بات پکی کر دیتے ہیں ماہی کو انگوٹھی بھی پہنا دیتے ہیں لیکن بچی کو اتنا حق تو ہونا چاہئے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کو خود چنے ابراہیم نے سمجھانا چاہا

نہیں بہن بھائی ہمارے خاندانوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہمارے خاندانوں میں وہیں بچی سر جھکاتی ہے جہاں اس کا باپ کہتا ہے ۔

اور میری بچی کا فیصلہ میں خود کروں گا اور کر چکا ہوں کہ میں تو کچھ ہی دنوں میں ماہی اور جان کا نکاح کروں گا اگر آپ کو اعتراض ہے تو صاف بات کریں اب ان کا اندازہ خفا خفا سا تھا

ان سے کسی بات پر لڑ جگر کر وہ اپنی بہن کو تکلیف نہیں دے سکتے تھے پہلے بھی وہ ذرا سی بات پر اکثر زینت سے لڑائی کرتا تھا اور وہ ایسا نہیں چاہتے تھے

ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن ماہیر کو دستخط کے لائق ہو جانے دیجئے تو بہت چھوٹی ہے ابراہیم نے بات ڈالتے ہوئے کہا ۔

ان کا ارادہ اس ٹوپک کو ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا تھا

انہیں خود بھی ماہیر اور جان کے رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔

لیکن ماہیر ابھی بہت چھوٹی تھی اور اتنی چھوٹی بچی کو اس مضبوط رشتے میں باندھنا سراسر زیادتی تھی

°°°°°°

ماہیر چار سال کی ہو چکی تھی

اکبر اور سومیہ ابھی تک اپنی ضد پر قائم تھے

چار سال سے وہ ہر ممکن کوشش سے انہیں ٹال رہے تھے

لیکن اب یہ سب کچھ ان کے بس سے باہر ہو چکا تھا سومیا دو ماہ سے ان سے ناراض تھی اور جان بھی ۔

جان کو سومیا نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ تمہاری ماہی تمہارے گھر آئے اسی بات کی وجہ سے جان بھی ان سے ناراض ہو گیا کیونکہ سومیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر جان ان سے ضد کرے گا تو وہ ماہی کو ان کے گھر لے آئیں گے

اور یہ سچ تھا کہ جان جب تک ان سے بات نہ کریں انہیں نیند نہیں آتی تھی وہ جان کو منانے کی بہت کوشش کر چکے تھے

لیکن اس کے دماغ میں بس ایک ہی بات تھی کہ اگر وہ راضی ہوگیا تو وہ کبھی اس کی بات نہیں مانیں گے جب کہ اپنے باپ کے بنا جان خود بھی اداس تھا اور پھر جان کی ضد کے آگے وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے

°°°°°°

چھوٹی سی ماہی دلہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھی

جبکہ 12 سالہ جان دلہا بنا بہت پیارا لگ رہا تھا بہت ساری تصویریں لی گئی بہت بڑا فنکشن کیا گیا

جس میں ماہی اور جان کا نکاح ہوا

اپنے بیٹے کی خوشی کے لے جہاں وہ نکاح پر خوش تھے

وہی وہ اتنی چھوٹی بچی کے نکاح کے حق میں بھی نہیں تھے

لیکن جان کی ضد کے آگے انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا

جبکہ ان کا رشتہ اکبر سے اب اور بھی  مضبوط ہوگیا اکبر کے مطابق

  لیکن ان کا یہ رشتہ کتنا مضبوط ہوا تھا یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا

کیونکہ اکبر  اس بات سے باخبر تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے ابراہیم کے لئے ملک سے زیادہ عزیز ہے اور کچھ نہیں ہے

°°°°°°

وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن اکبر اور سومیہ اب بھی خالی ہاتھ تھے

بلیک بیسٹ کو ابراہیم اور اس کی ٹیم نے اس طرح سے غائب کیا تھا کہ اس کا اب تک کوئی نام و نشان نہ ملا

لیکن بلیک پوسٹ کے بھائی کو اب تک یقین تھا کہ اس کا بھائی زندہ ہے

پاکستان آرمی اتنی آسانی سے بلیک بیسٹ کو ختم نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کے پاس بہت ساری انفارمیشن تھی اور اگر وہ لوگ بلیک بیسٹ کو ختم کرتے تھے

تو ساری انفارمیشن بھی بلیک بیسٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جانی تھی اور  ایسا تو وہ کبھی نہیں ہونے دے سکتے تھے

اسے یقین تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے بلیک بیسٹ کبھی ان کے پلان کو برباد نہیں کرے گا ان کے لیے اپنے باس کا ہونا اہم تھا جیسے آزاد کرنے لے لیے وہ بیس سال کوشش کر رہے تھے

اور وہ ذندہ تھا

اور وہ لوگ اس کا پلان جانے بغیر اسے نہیں مار سکتے تھے

وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتے تھے ۔اور کافی حد تک ہو بھی چکے تھے وہ ڈرگز کی بڑی مقدار پاکستان میں لا چکے تھے

جن میں بہت سارے پاکستانی بھی شامل تھے

اور یہ نشہ نوجوان نسل میں تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا ۔

اور نشےمیں انسان ہر فرق بھول جاتا ہے ۔یہ لوگ بھی اپنی زندگی کو کسی نشے میں ڈبو کر خود کو برباد کر رہے تھے ۔

اور حقیقت تو یہ ہے کہ نشے میں انسان زندہ ہو یا مرا ہوا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو شخص اپنا وجود اپنی ذمہ داریاں اپنے رشتے بھلا کر اس ناپاک چیز کو اپناتا ہے اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے

امریکہ نے پاکستان میں بڑی مقدار میں نشے کو پھیلا دیا تھا ۔

جو اچھے سے اچھے انسان کو بری طرح سے ڈبو رہا تھا

اس کھیل کی شروعات بیس سال پہلے بلیک بیسٹ نے کی تھی ۔اور بیس سال سے ابراہیم کی قید میں تھا جب تک ابراہیم اس سے پوری معلومات نکال نکلوا نہ لے تب تک وہ اسے چھوڑنے والا تو ہرگز نہیں تھا

اس کے علاوہ بلیک بیسٹ کی ٹیم پاکستان میں جگہ جگہ دھماکے کر رہی تھی بڑی بڑی جگہوں پر بم بلاسٹ ہور ہے اس کے علاوہ ہر بڑے گناہ میں بلیک بیسٹ کا نام شامل تھا ۔

اور ایسے میں ابراہیم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار تھا

ابراہیم ان کے راستے میں اتنی بڑی رکاوٹ بن چکا تھا ان لوگوں کو اس کے خلاف کتنا بڑا ایکشن لینا پڑا

°°°°°

ان سب کے لئے سب سے پہلے انہیں ایک خاندان کے دو لوگ خرید نے پڑے

جنہں  مطلب تھا صرف پیسے اور آزادی سے پیسہ اور بلیک بیسٹ کا ڈر ان پر اتنا حاوی تھا کہ وہ اپنی سانس سانس کو گروی رکھ چکے تھے

سومیا اور اکبر دونوں بہن بھائی پچھلے 13 سال سے ان کے ہاتھوں کی کھ پتلی بنے ہوئے تھے ۔

اکبر کا رشتہ آتے ہی ابراہیم نے اس رشتے کی جانچ کی جس کے بعد ہر طرف سے اچھا جواب ملا بہن کی رضامندی دیکھتے ہوئے اکبر کو اپنا بہنوئی بنا لیا

اکبر کا تعلق کسی کپڑے کی کمپنی سے تھا یہ رشتہ ان کے لئے ایک مناسب رشتہ تھا پھر کچھ عرصے کے بعد اکبر کی بہن سومیہ نے براہیم میں دلچسپی دیکھائی یہ سب ایک پلیئنگ کا حصہ تھا

وہ ابراہیم سے اپنا رشتہ گہرا کرنے کے لئے اور اس سے انفارمیشن نکالنے کے لئے اپنی بہن کو ابراہیم کے سامنے پیش کر چکا تھا

ابراہیم جیسے بندے کا جسے شادی یا پھر فیملی کی طرف بالکل رو جان نہیں تھا ۔

لیکن بہن کی خواہش پر اس نے مسکراتے ہوئے سومیہ کا ہاتھ تھام لیا ۔شروع شروع میں سومیہ نے اس کے کام کی طرف کافی دلچسپی ظاہر کی

لیکن پھر ابراہیم کا انداز اس معاملے میں تھوڑا سخت دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئی ۔

لیکن وہ اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی تھی وہ بلیک بیسٹ کے کیس کے علاوہ اور بہت سارے کیسز کی خبریں باہر تک پہنچانے لگی

جسے ابراہیم کو بہت نقصان بھی ہوا لیکن شک سومیہ پر ہرگز نہ گیا

ایک سال بعد ان کے ہاں ایک پیارا سا بیٹا پیدا ہوا۔جو ابراہیم کی جان تھا اسی لیے اس نے اس کا نام بھی جان ہی رکھا

دیکھتے ہی دیکھتے ابراہیم کے لئے اس کے جینے کی وجہ بن چکا تھا ۔اور یہ واحد رشتہ تھا جو جومیہ اور ابراہیم کو ایک دوسرے سے جوڑ رہا تھا ۔

اس کے لیے دولت عزیز تھی لیکن جان کی ماں بننے کے بعد جان کے ساتھ اس کی محبت بھی مثالی تھی

لیکن پھر بات وہیں پر آکر ختم ہو رہی تھی کہ وہ دولت روپیہ پیسے کیلئے اس نے 13 سال پہلے اپنا آپ بیچ دیا تھا ۔

اس نے ایک پیپر پر سائن کیا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ جب تک بلیک بیسٹ آزاد نہیں ہو جاتا اسے ابراہیم کی بیوی بننا پڑے گا ۔

اور بلیک بیسٹ کے آزاد ہوتے ہی وہ بھی آزاد ہو جائے گی اس کیس کے بعد وہ کیا کرتی ہے کیا نہیں بیسٹ گینگ اس سے کچھ نہیں کہہ سکتا وہ خود اپنی زندگی کی مالک ہو گی ۔

اور ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ ہے پچھلے 13سال سے اس شخص کے ساتھ رہتے ہوئے وہ بھی اس کی محبتوں کے حصار میں قید ہو چکی تھی ۔

اب وہ براہیم سے محبت کرنے لگی تھی

اس نے ایک دو بار منع کردیا کے اب وہ ابراہیم کو مزید دھکا نہیں دے گی لیکن بلیک بیسٹ کے بھائی کا کہنا تھا کہ اگر تو وہ اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹی تو وہ ابراہیم کو ساری حقیقت بھیج دیں گے وہ سے بتا دیں گے کہ اس کی ملک کی تباہی میں ایک ہاتھ سومیہ کا بھی ہے

ان لوگوں نے جان کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہا ان کا ارادہ تھا کہ وہ جان کو اغوا کر لیں گے اور اس کے بعد ابراہیم کو مجبور کر دیں گے اور اگر وہ پھر بھی نہ مانا تو وہ جان کو قتل کر دیں گے

لیکن یہاں آکر ایک ماں کا کلیجہ پھٹنے لگا

وہ غدار تھی بے وفا تھی بھیکی ہوئی تھی لیکن  تو ایک ماں اپنی نسوں کو کٹتے کیسے دیکھتی

اس نے کہہ دیا کہ ابراہیم کو جان سے کوئی خاص لگاؤ نہیں اسے صرف اور صرف اپنے ملک سے مطلب ہے ۔

اور پھر ایسی ہی نہ جانے کتنی دلائل دے کر اس نے جان کو اس کیس سے ہٹایا تھا

ورنہ اب تک تو وہ جان کو بھی ختم کر چکے ہوتے

سومیہ جلد سے جلد یہ سب ختم لونا چاہتی تھی اسے ملک سے کوئی مطلب نہ تھا وہ بس اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ ایک پیاری سی زندگی گزرنا چاہتی تھی اور ایسا تب ہی ممکن تھا جب بلیک بیسٹ آزاد ہوتا اور ایسا ابراہیم نے ہونے نہیں دینا تھا

ماما اب تو ما ہی میری ہے تو ہم اسے اپنے گھر کیوں نہیں لے کر آتے جاتے۔۔۔۔؟

 اب تو وہ میری بیوی بن چکی ہے نہ تو

 اسے میرے ساتھ یہاں رہنا چاہیے

جب سے اس کا نکاح ماہی کے ساتھ ہوا تھا ابراہیم اس سے زیادہ اس طرف نہیں جانے دیتے تھے

 جس کی وجہ سے وہ ماہی کو بہت زیادہ مس کرتا تھا

 اسی لیے ہر روز کوئی نہ کوئی بات لے کر ماں کے پاس آ جاتا سومیہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا

میری جان ابھی وہ وقت نہیں آیا جب ماہی بڑی ہو جائے گی

 تو ہم اسے تمہاری دلہن بنا کر دھوم دھام سے یہاں لائیں گے سو میہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔

لیکن ماما آپ نے تو کہا تھا کہ اگر بابا راضی ہوگئے تو ہم ماہی کو اپنے گھر لے آئیں گے

وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان نے اسے اس کا وعدہ یاد کروایا ۔اور ابراہیم کی جانب دیکھا

 ہاں میری جان میں نے کہا تھا لیکن وہ اب کی نہیں بلکہ بعد کی بات ہے

جب تم بڑے ہو جاؤ گے

 فلحال تو ماہیر خود بہت چھوٹی سی ہے سومیہ نے محبت سے سمجھایا

جب کے پاس بیٹھے ابراہیم خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے

 لیکن مامااگروہ اتنی سی چھوٹی تھی تو آپ نے اتنی جلدی کیوں کیا یہ اس کو بڑے ہو جانے دیتے جان نے اپنی سمجھ کے مطابق سوال کیا جس پر سو میہ نے ایک نظر ابراہیم کی جانب دیکھا

 جو جتلاتی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے

جسے کہہ رہے ہوں کہ جواب دو اس کے سوالوں کا ۔

بس جان بہت ہوگئی ہے ساری باتیں چلو اب اپنے پیپر کی تیاری کرو

 کل تمہارا پیپر ہے سومیہ نے بات بدلتے ہوئے کہا

جان خاموشی سے ان کے قریب سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا

 اسی لیے میں کہہ رہا تھا کہ فی الحال نکاح پر زور مت دو لیکن تم سنتی کہاں ہو میری

 ابراہیم  بھی ان کے قریب سے اٹھتے ہوئے کہنے لگے

 ہاں اس گھر میں صرف میں ہی غلط ہوں میں ہی ضد کرتی ہوں ساری غلطی میری ہے وہ غصے سے کہتی پیر پٹکتی اٹھ کر کچن میں چلی آئی

 ارادہ ابرا ہیم سے ناراضگی ظاہر کرنا تھا

 لیکن فی الحال ابراہیم کے پاس انہیں منانے کا وقت نہیں تھا

معید نے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ بلیک بیسٹ اس قید میں رہ رہ کر تھک چکا ہے

 اسے پتہ چل چکا ہے کہ اس کی ٹیم اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی

 پچھلے بیس سال سے وہ آزادی کا انتظار کر رہا ہے

 اور اب وہ انہیں اپنے سارے کالے کارنامے بتانے کو تیار ہے

 بلکہ اپنی ٹیم کو بھی پھسانا چاہتا ہے

کیوں کہ جو لوگ بیس سال سے اس کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے وہ آگے بلا کیا کرتے

اس لیے بلیک بیس نے آزادی کی خاطر کی ڈیل کی تھی

 وہ ابراہیم کو سب کچھ بتا دے گا اور بدلے میں آزادی حاصل کر لے گا

جب کہ ابراہیم کے ارادے کچھ اور ہی تھے

ابراہیم اس سے ساری معلومات لینے کے بعد اس کی جان لینا چاہتے تھے

 کیوں کہ ایسے شخص کو کھلے عام چھوڑ دینا ان کی نظر میں کوئی عقلمندی نہیں تھی

 وہ پہلے دن ہی فیصلہ کر چکے تھے کے ساری انفارمیشن لینے کے بعد وہ بلیک بیسٹ کا نام و نشان ختم کر دیں گے کیونکہ دنیا کی نظروں میں وہ پہلے ہی مر چکا تھا

 اور اب وہ اسے حقیقت میں مار دینا چاہتے تھے

سومیہ نے دیکھا کہ ابراہیم اس کے پیچھے  نہیں آئے تو باہر آ کر انہیں ڈھونڈنے لگی

 لیکن وہ اپنے کمرے میں کسی سے فون پر بات کر رہے تھے ۔

معید تم تب تک ایک کیمرے کا انتظام کرو تاکہ جب بلیک بیسٹ جرم قبول کرے ہمارے پاس ایک ایک سیکنڈ کا ثبوت محفوظ ہو

وہ  ٹیلی فون پر بات کر رہے تھے

سومیہ ان کی بات سن کر الٹے قدموں واپس آگئی

مطلب کے بلیک ٹیسٹ اپنا جرم قبول کرنے والے ہے

 یقینا وہ آدمی سب کو پھسادے گا

وہ ہمارے خلاف سارے ثبوت ان کے حوالے کردے گا اور میں بھی پھنس جاؤں گی

 نہیں مجھے کچھ کرنا ہوگا کچھ تو کرنا ہوگا

 میں اپنے بچے اور شوہر سے دود نہیں رہوں گی

 ابراہیم کو سچ بتا نہیں چلنے دوں گی چاہے جو بھی ہو جائے

میں اپنا گھر برباد نہیں ہونے دوں گی

 ۔مجھے باس سے بات کرنی چاہیے

 وہی اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں

 ورنہ سب کچھ تباہ ہوجائے گا

سب کچھ برباد ہو جائے گا میرا گھر برباد ہو جائے گا

 میرا بچہ مجھ سے دور ہو جائے گا میں ایسا نہیں ہونے دوں گی وہ ابراہیم کے گھر سے جانے کا انتظار کرنے لگی ۔اب اسے اپنا گھر بار بچانے کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھا

°°°°°

ڈوبنے والا ڈوبنے سے پہلے ہاتھ پمیر ارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے

 سومیہ بھی اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی

 وہ کبھی ایک تو کبھی دوسرے کو فون کر رہی تھی

لیکن یہ خبر ہی سب کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی کہ بلیک بیسٹ ان سب کی حقیقت سے پردہ اٹھانے والا ہے

 سب یہی سوچ کر پریشان ہو چکے تھے کہ بلیک بیسٹ کہیں ان کا نام نہ لے لے

بہت سارے نام تو ایسے بھی تھے جو پاکستان میں رہ کر پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے تھے

 اس میں سیاست کے کہیں ناموارہیستیاں کے علاوہ بہت بڑے بڑے بزنس مینزبھی شامل تھے

اور اب جب حقیقت کھلی تھی تو وہ ان کی زندگیاں برباد ہو جانی تھی

بہت سارے لوگوں نے تو پاکستان چھوڑنے کا ارادہ کر لیا

جبکہ کچھ لوگ تو راتوں رات غائب ہو چکے تھے

 اور کچھ لوگ اپنی پہچان ہی بدل چکے تھے

 بس اس ڈر سے کے اگر بلیک بیسٹ میں ان کا نام لے لیا تو ان کی زندگیاں تباہ ہوجائیں گی ۔

اور ایسے میں سو میہ بھی جلے پیر کی بلی بنی گھوم رہی تھی ۔

اسے پتہ لگ چکا تھا کہ بلیک بیسٹ کا بھائی بھی پاکستان چھوڑ کر نہ جانے کہاں جا بسا ہے

۔وہ بے حد پریشان تھی اور اکبر کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا

اس وقت بھی وہ اسی کے پاس بیٹھا پریشانی سے سر پکڑے ہوئے تھا

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا اکبر ابراہیم اپنی پرسنل چیزوں کو چھونے کی اجازت نہیں دیتے مجھے اور اگر ان کی اتنی اہم چیز غائب ہوگئی تو قیامت آجائے گی

۔ارے میری بیوقوف بہنا قیامت تو تب آئے گی جب ہماری حقیقت کھلے گی

 ابراہیم کی ٹیم  اس کہس پر کام کر رہی ہے ۔ایسے میں تم اپنے آپ کو کوئی بڑی چوٹ دے دو ابراہیم سارا کام ٹیم پر چھوڑ کر تمہارے پاس آ جائے گا ۔

اور بلیک بیسٹ کی ویڈیوز اور وہ ساری فائل وہ گھر پر پہنچا دیں گے

اور یقیناً بلیک بیسٹ کو ختم کر دیں گے

اسے زندہ چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

فائلز اور ویڈیوز گھر آ جائیں گے تو تم آسانی سے انہیں غائب کر سکتی ہو بتا دینا گھر میں چوری ہو گئی یا کچھ بھی اور بہانہ بنا دینا

وہ لوگ یقیاًبلیک بیسٹ کو ختم کر دیں گے اور اگر بلیک بیسٹ زندہ بچے گا ہی نہیں تو وہ تو دوبارہ ثبوت  تیار کیسے کریں گے ۔۔۔۔؟

ویسے بھی ہمیں پیسہ ملنے والا ہے ۔ڈیل کے مطابق وہ کافی سارا پیسہ ہمیں دے چکے ہیں

 میرے تین بچے ہیں ایک وفادار سلیقہ شعور بیوی ہے

تمہارا بچہ ہے شوہر ہے

اگر ہمارا نام کیس  سے نکل گیا نا تو سمجھو ہم ایک بہترین زندگی گزار سکیں گے

 بس تھوڑی سی ہمت کرو

 ۔اس وقت ابراہیم اسلام آباد کے سفر پر نکل چکا ہے

 ۔اس سے پہلے کہ وہ اسلام آباد پہنچے ہم اسے واپس بلانا ہو گا

۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا اور جتنی بات سومیہ کو سمجھ آئی تھی وہ یہ تھی کہ اسی طریقے سے وہ اپنا گھر بار بچا سکتی ہے

وہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا مطلب کے اس کا پلان کامیاب رہا تھا

 وہ سومیہ  کو اپنے باتوں میں لگا چکا تھا ۔

کل رات اسے بلیک بیسٹ کے بھائی کا فون آیا تھا

جس نے کہا تھا کہ اگر وہ اس کا نام لیسٹ سے ہٹا دے

تو وہ نہ صرف اسے اپنا پارٹنر بنا لے گا بلکہ اپنی دولت کا آدھا حصہ بھی اسے دے گا ۔

اسے ہمیشہ کے لیے ایک بہترین زندگی دے گا ۔

کیوں کہ اکبر جانتا تھا کہ اگر اس کا نام لسٹ میں آبھی جائے تو پاکستان سے بھاگ کر وہ ایک آسان زندگی گزار سکتا ہے

 اس سب سے اکبر کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو رہا تھا

 ہاں لیکن فائدہ بہت برا ہو رہا تھا اور اس فائدے کے لیے وہ اپنی بہن کو بھی استعمال کرنے کے لئے تیار تھا

اپنی بات اسے مکمل سمجھانے کے بعد اکبر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا

 جبکہ سو میہ پریشانی سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی

 سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔۔۔۔۔۔

اسے یقین تھا کہ بلیک بیسٹ زندہ ہے لیکن ابراہیم نے اسلام آباد میں قید رکھا ہے یہ بات کسی کو پتا نہیں تھی ۔اکبر اسے جو کچھ بتا کر گیا تھا سو میہ کو اپنا گھر بچانے کے لیے سب سہی لگا ۔

اسے صرف اپنے شوہر اور بچے سے مطلب تھا

اور۔جو کام وہ کرنے جا رہی ہے اس کے بعد اس کے ملک کو کتنا نقصان ہوگا اسے کوئی مطلب نہیں تھا

 وہ ان لوگوں میں سے ہی نہیں تھی جو اپنے ملک کے لیے کچھ کریں ۔

°°°°°

درد کی شدت سے اس کی جان نکل رہی تھی

جان پاس بیٹھا رو رہا تھا

جبکہ ابراہیم آدھے راستے سے ہی واپس آ گئے تھے

کچن میں کام کرتے ہوئے اس کے دوپٹے کو آگ لگ گئی جس سے کچن میں بھی آگ لگ گئی اور کچن میں آگ پھیل جانے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکی

جس کے نتیجے میں اس کی پیٹھ پوری طرح آگ میں جھلس گئی

۔اکبر اور زینت بھی ہسپتال میں ہی موجود تھے ۔

سب لوگ بہت پریشان تھے ڈاکٹر نے حالت بہت نازک بتائی

اکبر کو یقین تھا کہ اس کی بہن سب ٹھیک کر لے گی

اپنا گھر بار بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک چلی جائے گی

لیکن خود کو اتنی بڑی چوٹ لگانا واقعی ہمت کی بات تھی اس میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی ۔لیکن سومیہ کو اپنا گھر بار بچانا تھا جس کے لیے اپنی جان جانے کا بھی ڈر نہ تھا

اسے پتہ تھا کہ ابراہیم آسانی سے یا چھوٹی موٹی چوٹ کا سن کر کبھی واپس نہیں آئیں گے

اس لیے اس نے خود کو بڑی ضرب لگائی تھی ۔

ابراہیم اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر اس کے لئے واپس آ گئے تھے

کیونکہ ان کے مطابق اب یہ کیس حل ہوچکا تھا

انہوں نے کہا تھا کہ وہ کل ہی اسلام آباد پہنچ جائیں گے اور اپنے ہاتھوں سے بلیک بیسٹ کو ختم کریں گے

یہ تو ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کے ہر دشمن کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارے پر ایسا موقع وہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے

اسی لیے انہوں نے اپنی ٹیم سے کہا تھا

باقی سارا کام ٹیم کر لے لیکن بلیک ٹیسٹ کو اپنے ہاتھوں سے ختم کریں گے ۔

وہ جلدی واپس جانے کا ارادہ رکھتے تھے

لیکن سومیہ کی حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے  جلدی واپس نہ جا سکے

۔اس وقت ان کی بیوی کو ان کی ضرورت تھی

جب کہ ان کی ٹیم اپنا کام ختم کرکے ایک فائل اور کچھ ویڈیوز ان کے گھر پہنچ چکی تھی

اور سومیا جانتی تھی کہ یہ وہی ثبوت تھے جو اسے برباد کر سکتے ہیں

بس اب یہ فائل اور ویڈیوز کیسے بھی اپنے بھائی تک پہنچانی تھی یا ضائع  کردینی تھی اکبر نے اس سے کہا تھا کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ لسٹ میں کتنے لوگوں کا نام ہے

اس لیے یہ سب کچھ تک پہنچایا جائے لیکن سومیا نے یہ سب کچھ ضائع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا

وہ مزید کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی

°°°°°

بابا آپ نہیں جائیں نہ کل میری سالگرہ ہے

جان نے ان کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے لاڈ سے کہا

میری جان میں وعدہ کرتا ہوں میں سالگرہ سے پہلے پہنچ جاؤں گا واپس بس مجھے روکنا مت جانے دووہ اسے پیار کرتے ہوئے کہنے لگے ۔

ٹھیک ہے آپ کل میری برتھ ڈے شروع ہونے سے پہلے آ جائیے گا

لیکن جانے سے پہلے مجھے کوئی کام دے کر جائے جیسے کہ میرے وطن کا کوئی کام جان کی لگن پاکستان کے لئے بڑھتی چلی جا رہی تھی

جیسے لے کر بہت خوش تھے ۔

ہاں میری جان کیوں نہیں یہ بوکس دیکھ رہے ہو تمیں اس کی حفاظت کرنی ہے

جب تک میں واپس نہیں آجاتا

وہ فائل اور سی ڈیز کے باکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے

اوکے سر میں آپ کے باکس کا خیال رکھوں گا

اور اسے بہت سنبھال کر رکھوں گا ۔

جان نے کسی فوجی کی طرح وعدہ کیا ۔

اور یہی انداز ان کے لئے ان کی خوشی تھا

یہی چیز تو وہ دیکھنا چاہتے تھے اپنے بچے میں ۔

جان میری ایک بات یاد رکھنا ہم فوجی ہیں اور ہم لوگوں کے لئے اپنے وطن سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں نہ رشتے ناطے ناعزیزوجان سب سے پہلے ہمارا وطن باقی سب کچھ بعد میں آتا ہے ۔ہمارے لئے ہمارا ملک ہی سب کچھ ہے اور اگر اس ملک کے لیے ہمیں جان دینے کا موقع ملے تو یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے ۔وہ بہت محبت سے اسے سمجھا رہے تھے

یس بابا پاکستان سے زیادہ اہم اور کچھ بھی نہیں

اور جب میں بڑا ہو جاؤں گا اور فوج میں چلا جاؤں گا تو پاکستان کے سب دشمنوں کو چن چن کر مار دوں گا ان شاءاللہ جان کا حوصلہ مضبوط اور ارادہ چٹانی تھا

جسے محسوس کرتے ہوئے ابراہیم کو اپنے بیٹے پر فخر ہوا

°°°°°

ابراہیم اسلام آباد کے لیے روانہ ہو چکے تھے

جب کہ سومیہ کی حالت اتنی خراب تھی کہ اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا ۔

لیکن بات وہی ختم ہو رہی تھی کہ اسے اپنا آپ بچانا تھا ۔

وہ جیسے تیسے ابراہیم کے پرسنل روم میں آئی تھی

۔جہاں جان بیٹھا کچھ کر رہا تھا

ابراہیم آج صبح اسلام آباد کے لیے نکل چکے تھے یقینا ان کو آج بلیک بیسٹ کا نام و نشان ختم کرنا تھا ۔

ماما آپ یہاں کیوں آئیں۔۔۔!

آپ کو تو بابا نے ریسٹ کرنے کے لئے بولا تھا ۔۔۔۔؟

ہاں بیٹا میں لیٹ لیٹ کر تھک گئی ہوں

جاؤ ذرا میرے لیے پانی لے آؤ وہ باکس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی

جسے جان نے اپنے بالکل پاس رکھا ہوا تھا

جان فورن پانی لینے جا چکا تھا

جبکہ سومیہ ‏بوکس میں سے فائلز اور ڈی وی ڈیز نکالنے لگی

ماما یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔۔۔۔؟

بابا نے یہ مجھے دی ہیں سنبھالنے کے لیے

اس روم سے لے جانے کے لیے بھی منع کیا ہے سومیہ کو یہ چیزیں باہر لے جاتے دیکھ جان نے فوراً کہا تھا

۔جوہ ان وہ۔ ۔۔۔ہاں آپ کے بابا کا فون آیا ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے یہ سب کچھ لانے کے لئے

میں یہ سب کچھ ان ہی کے پاس لے کر جا رہی ہوں ۔آپ یہیں پر رہو میں تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گی

سومیہ سے گھبراہٹ میں کوئی ڈھنگ کا بہانہ بھی نہ بنا

۔لیکن جان کو ہینڈل اس کے لئے مشکل نہیں تھا

یہ سب کچھ ختم کرنے کے بعد اس نے جان کے سامنے کوئی بھی بہانہ کر لینا تھا ۔

جان کیلئے اتنا ہی کافی تھا کہ یہ سب کچھ اس کے باپ نے منگوایا ہے

لیکن وہ چھوٹا سا معصوم بچہ یہ نہ سمجھ سکا کے اس وقت اس کے سامنے اس کی ماں نہیں بلکہ اس کے ملک کی غداری کھڑی ہے

تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو....

 میں تمہیں انفارمیشن دے چکا ہوں

 اب آزاد کر دو مجھے بلیک بیسٹ نے کہا

۔آزاد کرنے ہی لایا ہوں تمہیں یہاں پر ابراہیم نے اسے دیکھتے ہوئے ۔

تم مجھے یہاں جان سے مارنے  لائے ہو نہ بلیک بیسٹ خوف سے بولا

 بہت ہوشیار ہو آخر تمہیں دنیا میں ایسے ہی بلیک بیسٹ نہیں کہتی ہو گئی

وہ مسکرائے تھے

۔نہیں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ابراہیم میں نے تمہیں ساری انفارمیشن دی ہے

 سب کچھ بتایا ہے تمہیں

اب تم اپنے وعدے سے مکر نہیں سکتے ۔

میں اپنے وطن کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں

اور تم تو پہلے دن سے میری نظر میں تھے

بیس سال ضائع کیے ہیں میں نے تمہارے لیے

یہ دھوکہ ہے تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے

 تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے میں نے تمہاری ہر بات مانی ہے

 ۔میری ساری باتیں اپنے وعدے کے مطابق پوری ہیں بلیک بیسٹ

 تمہیں آزادی چاہیے تھی مجھے انفارمیشن۔۔۔۔

 تم نے انفارمیشن مجھے دے دی اور اب میں تمہیں آزادی دے رہا ہوں

 زندگی سے۔۔۔۔

 اس کے بعد ابراہیم نے اسے بولنے کا موقع نہ دیا

 تھوڑی دیر تڑپنے کے بعدوہ زندگی کی بازی ہار گیا

دنیا کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں پر نچانے والا جلد ہی بے جان ہو چکا تھا

یہ لوگوں کے قتل کرنے والے نوجوان نسل کو تباہ کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کو بھی ایک دن مرنا ہے ان کے لیے بھی حساب کا دن مقرر ہے

 ابراہیم کے لوگ اس باڈی کو ٹکانے لگا رہے تھے

کیونکہ دنیا کے سامنے وہ پہلے ہی مر چکا تھا ۔

سر آپ نے وہ لسٹ دیکھی ان کے ایک ٹیم ممبر نے پوچھا

 نہیں یار میں وہ لسٹ نہیں دیکھ سکا میں آج ہی اس پر کام شروع کروں گا

دراصل اس لسٹ میں ۔۔۔عارف کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔

عارف بولو اس میں ایسا کیا ہے تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔۔؟

اس کی پریشانی کو وہ بھی محسوس کر چکے تھے

سر مجھے کنفرم تو نہیں ہے لیکن اس لسٹ میں آپ کے سالے کا نام بھی موجود ہے

میں نہیں جانتا ہی اکبر خان وہی ہے یا کوئی اور لیکن وہ بلیک بیسٹ کے بھائی کے خاص آدمی میں سے ایک ہے  ۔عارف جھجکتے ہوئے کہا

 جبکہ اس کی اس بات نے ابراہیم کو بھی اچھا خاصہ پریشان کردیا تھا

ابراہیم نے فوراً اپنے گھر پر فون کیا تھا کیونکہ اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں اٹھا سکتے تھے اس کیس کے لیے وہ اپنی زندگی کے 20 سال ضائع کر چکے تھے اب مزید نہیں کر سکتے تھے

°°°°

ابراہیم جلدی سے اپنے فلیٹ میں پہنچے تھے

 اس سے پہلے کہ کچھ برا ہو جائے وہ سب کچھ بھی کر دینا چاہتے تھے

 انکا سالہ انہیں اتنا بڑا دھوکا دے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے

 اور نہ ہی وہ اپنے رشتوں سے اس طرح کی کوئی امید رکھتے تھے

 ان کی نظروں میں اکبر ایک عام سا کاروبار کرنے والا شخص تھا لیکن اکبر کیا نکلا تھا

 وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اکبر ملک کے خلاف اتنے بڑے پلین کا حصہ بھی ہوسکتا ہے

ان کی ماتھے کی رگیں باہر آئی ہوئی تھی بار بار فون کرنے کی کوشش کے باوجود بھی فون نہ لگا.

یہ فون کیوں نہیں لگ رہا وہ پریشانی سے دوبارہ فون کرنے لگے

 جب انہیں محسوس ہوا کہ کوئی ان کے پیچھے کھڑا ہے

پلٹ کر دیکھا تو بے یقینی تھی اکبرکو مسکرا پایا اور ہاتھ میں فون وار تھی  ابراہیم نے غصے سے فون پٹخ دیا تم اتنے بےغیرت نکلوگے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا

وہ سارا احترام بھول چکے تھے

ہاں میں اتنا ہی بے غیرت ہوں ابھی تو میں نے تو میں اپنی بے غیرتی دکھائی ہی نہیں اکبر کہتے ہوئے اپنی جیب سے پستول نکال کر ان پرتان چکا تھا

 تم نے میرا کام کم کردیا بلیک بیسٹ کو زندگی سے آزاد کردیا

 اس کے بھائی نے اسے مارنے کا پلان بنا لیا تھا

کیونکہ اس کے لیے اس کا بھائی اب کسی کام کا نہیں تھا

 تمہیں انفارمیشن دے کر ویسے بھی اسے مارنے والا تھا اور اگر تمہیں کوئی انفارمیشن نہ دیتا تو بھی وہ مارا جاتا کیونکہ اب اس کے بھائی کو بلیک بیسٹ کا مقام چاہیے تھا

جو حاصل کرنے سے پہلے تم نے اسے ختم کر دیا

اور اب ہمارے راستے میں رکاوٹ بس تم ہی ہو اگر تمہیں مار دیا جائے تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا

 اسی لیے فیوچر بلیک فیس نے مجھے یہاں بھیجا ہے تمہیں ختم کرنے کے لئے

 اب تمہیں مار کر یہاں سے چلا جاوں تو بلیک بیسٹ مجھے اتنا پیسہ دے گا کہ میری زندگی عش میں گزرے گی اسی لیے تمہیں تو اب مرنا ہوگا

 اور مرنے سے پہلے میرے لئے تھوڑا کام آسان کرنے کا شکریہ

 واقعی بلیک بیسٹ کو تمہاری قید سے نکال کرختم کرنا بہت مشکل تھا

 اب تک تو سومیا سارے ثبوت بھی مٹا چکی ہوگی جن میں ہمارے نام ہیں

ویسے اتنی بڑی گیم کھیلیں نہ ہم نے تمہارے ساتھ جسے تم سمجھ میں نہیں پائے

13 سال سے چل رہا تھا تمہاری ناک کے نیچے ڈرامہ اور تم کتنے بے وقوف نکلے

 آج تو کچھ سمجھ ہی نہیں پائے

 سچ ہی کہتے ہیں لوگ رشتوں میں لپٹے دھوکے کو پہچاننا آسان نہیں ہوتا سمجھ سکتا ہوں یقین کرنا مشکل ہو گا

لیکن یہی حقیقت ہے تمہاری محنت ضائع ہو چکی ہے

تمہارے اتنے سالوں کی محنت سب کچھ برباد ہو چکا ہے

ابراہیم سب کچھ ختم ہو چکا ہے

سب کچھ ہار گئے ہو تم

اپنے بیس سال کا انتظار بھی اور آج اپنی زندگی بھی میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا تھا تم بہت اچھے انسان ہو

لیکن مجھے ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے تمہیں مار نہ ہوگا

وہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے گولی چلا چکا تھا

گولی ان کے سینے کے بیچوں بیچ لگی۔ابراہیم نے آگے بڑھ کر اسے دھکا دیا اپنا پستول نکالنے کی کوشش کرنے لگے لیکن اس سے پہلے ہی اکبر ان پر دوبارہ وار کر چکا تھا اس بار گولی ان کی پیٹھ پر لگی تھی وہ زمین پر بیٹھ گئے

ابراہیم کے پاس جیسے الفاظ ہی ختم ہو چکے تھے اتنا بڑا دھوکا وہ بھی اپنے سے۔

وہ خاموشی سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے

جو گولی پر گولی چلا کر انہیں گھائل کر چکا تھا

 وہ اپنے بچاؤ کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا نہ ہی یہاں پر اتنی جگہ تھی کہ وہ اسے دھکا دے کر اپنے بچاؤ کے لیے کچھ کر پاتے

لیکن پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارے وہاں سے سمجھانا چاہتے تھے کہ وہ اپنے ملک کو برباد کر رہا ہے

اکبر تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو اب بھی وقت ہے

میں تمہیں سزاسے بچاؤں گا توبہ کرلو

اپنے ملک کے ساتھ ایسا مت کرو غداری گناہ ہے

کون سا ملک ۔۔۔؟ اس ملک نے دیا کیا ہے مجھے جو میں اس کو کچھ دوں

مجھے پیسہ چاہے ۔پیسے کے لئے بہت کچھ کیا ہے میں نے  اپنی بہن تمہیں دے دیا ہے اپنی بیٹی کو تمہارے بیٹے کے نکاح میں دے دیا

صرف پ پیسے کے لئے اور اب وہ پیسہ مجھے مل چکا ہے ۔

غیرت دکھاؤ شرم کرو اپنی بہن اور بچی کے لئے ایسے الفاظ مت استعمال کرو تمہاری بچی میرے بیٹے کے نکاح میں ہے تاحیات رہے گی

کبھی نہیں میں ابھی تمہارے گھر جاؤں گا اور اپنی بیٹی کو اس سے سے آزاد کروں گا ۔تمہارے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رکھنا مجھے

یہ سب ایک کھیل تھا

ایک گیم تھی

میں نے یہ سب کچھ صرف روپے پیسے کے لیے کیا تھا جو مجھے مل چکا ہے

تمہارے ساتھ جڑے ہو کسی رشتے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

اور نہ ہی میری بیٹی کو تم سے کوئی رشتہ رکھنا ہے

اور آج تمہیں ختم کر کے میں یہ قصہ تمام کر دوں گا

بوئے کوئی گولی ان پر چلاتے ہوئے بولا

اور اس بار ابراہیم کا حوصلہ جواب دے گیا ان کی آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگی

وہ درد میں تڑپ نہیں رہے تھے

کیونکہ جو دھوکا انہیں ملا تھا وہ اس درد سے کہیں بڑا تھا ۔

تم میری اچھی یادوں میں رہو گے پیارے بہنوئی وہ انہیں مرا ہوا سمجھ کرخاموشی سے وہاں سے نکل چکا تھا ۔

جب کہ ابراہیم نے اس کے جاتے ہی اپنی آنکھیں کھول دیں

کیونکہ وہ اس ثبوت کو ضائع نہیں کر سکتے تھے

جو ان کی 20 سال کی محنت کا صلہ تھا

وہ اپنی تمام تر جمع کر کے اٹھے بولو اور وہ وار فون کے ساتھ لگائی

انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اب یہاں سے زندہ نکلنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے

اسی لیے انہوں پہلے معید کو فون کیا اور اپنے گھر جانے کا کہا

اس کی حالت کا سوچ کر معید رو پڑا لیکن انہیں معید کے آنسو نہیں بلکہ وطن سے وفا کی امید جس پر معید نے کھڑا اترنا تھا۔

معید سے بات کرنے کے بعد انہوں نے گھر فون کیا

ان کا فون جان نے اٹھایا تھا اب ہمت جواب دے چکی تھی

اس درد میں اپنے بیٹے سے بات کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا

°°°°°

کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔جان وہ اپنی آواز کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے

ٹھیک ہوں بابا  بٹ آپ نے ماما کو کیوں کام بولا

آپ کو پتہ ہے ان کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے

مجھے یہ کام بتانا چاہیے تھا

میں آپ کے پاس وہ فائل اور ویڈیو چھوڑ جاتا

آپ ہیں کہاں پہلے مجھے یہ بتائیں اور گھر کب تک آئیں گے ۔وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا ۔

جان تمہاری ماں کو ۔۔۔۔۔گئے ۔۔کتنا۔۔۔۔ وقت ہوا ہے ۔انہیں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی جان خود ہی ساری بات ان کے سامنے رکھ چکا تھا

ان کو گئے ہوئے تو پانچ سات منٹ گزر چکے ہیں لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔؟

آپ کو پتہ ہے کہ وہ کتنی مشکل سے واک کر رہی تھی ۔۔۔جان کچھ کہہ رہا تھا جب انہوں نے بات کاٹ دی گئی

میری ۔۔۔۔بات کان کھول۔۔۔۔۔ کر سنو جان

تمہیں۔۔۔۔ یاد ہے نا میں۔۔۔۔۔ نے تمہیں کیا ۔۔۔۔۔سیکھا تھا

چاہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔ بھی سامنے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔نہ ہو لیکن ملک۔۔۔۔۔۔ سے عزیز کچھ۔۔۔۔۔ نہیں تمہیں یاد ہے ۔۔۔۔۔نا جان ہم ۔۔۔۔۔۔ملک کے رکھوالے۔۔۔۔۔۔ ہیں ملک کی۔۔۔۔۔۔ حفاظت کرنے ۔۔۔۔۔۔والے ہمارے ۔۔۔۔۔۔لئے اپنے ۔۔۔۔۔ملک سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔عزیز کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں نہ رشتے ۔۔۔۔۔۔نہ لاتے نہ اپنے ہمارے۔۔۔۔۔۔ لئے سب۔۔۔۔۔ سے پہلے ۔۔۔۔۔ہمارا ملک آتا ہے ۔۔۔۔ہم غداروں۔۔۔۔ سے نفرت۔۔۔۔۔۔ کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔ چاہے وہ۔۔۔۔۔ غد دار ہمارے۔۔۔۔۔ اپنے ہی ۔۔۔۔کیوں نہ ہوں۔

کی پاپا مجھے سب یاد ہے لیکن آپ کی ساری باتیں کیوں بتا رہے ہیں

میں اپنی ذمہ داری تمہارے کندھوں پر لگا رہا ہوں اچھی جو کام میرا تھا وہ تم کروگے تم میں وہ سب کچھ کرنا ہے جو میں کہتا ہوں

تو میں اپنے ملک کا محافظ بنا ہے جان

اور ایک اور اہم۔۔۔۔۔ بات میری خواہش۔۔۔۔ ہے کہ ماہی۔۔۔۔۔ میرے گھر کی۔۔۔۔۔ بہو بنے اور چاہے ۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی ہو جائے تو۔۔۔۔۔ میں ماہی۔۔۔۔۔ کو چھوڑنا نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس معصوم کو اپنے ۔۔۔۔۔باپ کے کیے کی۔۔۔۔۔۔۔ سزا نہیں ملنی چاہیے۔۔۔۔۔ اور تمہاری ماں۔۔۔۔۔ نے ہمارے ساتھ غداری ۔۔۔۔۔۔کی ہے اس نے اپنا۔۔۔۔۔ آپ نہیں بلکہ ہمارا ملک بیھچا ہے ۔

مطلب آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ماما اور ماموں نے ہمیں دھوکا دیا ہے ۔جان جیسے ان کی بات کی تہ تک پہنچ چکا تھا تبھی دروازہ کھلا معید اندر داخل ہوا۔

جان تم ٹھیک ہو میری جان تمہاری ماں کہاں ہے کیا لے کر گئی ہے وہ یہاں سے مجھے جلدی سے بتاؤ وہ  ایک کمرہ چیک کرنے لگا ۔

فون پر کس سے بات کر رہے ہو تم وہ جلدی سے باہر آیا

بابا سے۔۔۔۔ جان نے معید کو دیکھتے ہوئے کہا

جان اب ۔۔۔۔سے معید تمہارا۔۔۔۔۔ خیال رکھے ۔۔۔۔۔۔۔گا وہ جو کہیں ۔۔۔۔۔گا تمہیں۔۔۔۔ وہی کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔اس نے ۔۔۔۔مجھ سے وعدہ۔۔۔۔۔۔ کیا ہے ۔۔۔۔۔کہ وہ تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس قابل بنائے ۔۔۔۔۔گا کہ تم میری ساری۔۔۔۔ زمداری اٹھا سکو۔

آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں

۔۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔۔

 آپ ٹھیک ہیں نہ بابا وہ بے چین ہونے لگا۔

تم وعدہ کرو ۔۔۔۔۔۔کہ ملک کے۔۔۔۔۔ غداروں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔چن چن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔مارو گے

 اپنے ملک کو دھوکہ۔۔۔۔۔ نہیں دو گے۔۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے۔۔۔۔۔۔ باپ کے قتل کا ۔۔۔۔۔حساب چکانا ۔۔۔۔۔۔ہوگا جان ۔۔۔۔چاہے تمہارے سامنے۔۔۔۔۔۔ تمہاری سگی ۔۔۔۔۔۔ماں ہی ۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہ ۔۔۔۔۔۔۔ہو وعدہ کرو۔۔۔۔۔ مجھ سے ۔۔۔وعدہ کرو مجھ سے جان ۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس زیادہ۔۔۔۔۔ وقت نہیں ہے میں۔۔۔۔ تمہیں چھوڑ۔۔۔۔۔ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔اپنے ملک کو۔۔۔۔۔ تمہارے حوالے۔۔۔۔۔ اور تمیں اپنے ملک کے ۔۔۔۔۔حوالے سے۔۔۔۔ چھوڑ کر ۔۔۔۔جا رہا ہوں 

ان کی باتیں جان کی آنکھوں میں آنسو لے آئی معید اس کے پاس آیا اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔

میں وعدہ کرتا ہوں بابا میں آپ کے ملک کی حفاظت کروں گا

میں کسی بھی غددار کو نہیں چھوڑوں گا ۔

آپ کا چھوڑا ادھورا کام میں پورا کروں گا

یہ میرا خواب نہیں میرا مقصد ہے ۔

شاباش میرے۔۔۔۔۔۔ بچے اب یہ۔۔۔۔۔ میرا ملک ۔۔۔۔۔تمہارے حوالے۔۔۔۔ میری محنت۔۔۔۔ کے بیس سال اس۔۔۔۔۔ پر لگے ہیں۔۔۔۔ شاید تمہاری۔۔۔۔۔ پوری زندگی لگ ۔۔۔۔۔جائیں ہمت ۔۔۔۔مت ہارنا یاد رکھنا ۔۔۔۔کہ یہ تمہارے۔۔۔۔ باپ کی آخری۔۔۔۔ خواہش ہے

بابا میں وعدہ کرتا ہوں میں آپ کی ہر خواہش پوری کروں گا وہ روتے ہوئے کہنے لگا

لیکن دوسری جانب سے کوئی آواز نہیں آئی

  جان کے رونے میں شدت آگئی

معیدکتنی دیر اسے اپنے سینے سے لگائے خود بھی روتا رہا ۔

پھر جان نے فون رکھا اور اپنے آنسو صاف کیے

 چاچو چلے ماما ماموں کے گھر گئی ہوں گی ہمیں کسی بھی حال میں وہ ثبوت واپس لانے ہیں

مجھے اپنے بابا کی آخری خواہش پوری کرنی ہے

اس کام میں بابا کے بیس سال لگے چاہے میری پوری زندگی ہی کیوں نہ لگ جائے لیکن میں بابا کا خواب پورا کر کے رہوں گا

وہ ہمت سے بولا معید نے ایک نظر اس کے حوصلے کو دیکھا تھا

اپنا باپ کھونے کے بعد بھی وہ اتنی ہمت دکھا رہا تھا تومعید تو صرف ایک دوست تھا ۔اور دوست ہونے سے پہلے ملک کا رکھوالا ۔اس نے ایک نظر جان کو دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ تھام لیا

اب جان نے ہی اس سے لوگوں تک پہنچانا تھا ۔

اور جان کی ذمہ داری بھی اٹھانی تھی

اس نے آپنے مر تے دوست سے وعدہ کیا تھا وہ جان کی حفاظت کرے گا اس کی پرورش کرے گا اسے اس مقام تک پہنچ جائے گا جہاں اس کا باپ تھا اور ابراہیم کا آخری خواب پورا کرنے میں اس کی مدد کرے گا

اس نے گھر میں قدم رکھا تو زینت کو کسی کام میں مصروف پایا

بھابھی بھائی کہاں ہے اس نے پوچھا

آو سومیہ شکر ہے تمہیں بھی فرصت ملی کیوں گھوڑے پر سوار ہو۔۔۔؟

۔اتنی جلدی کیا ہے اور کس کے ساتھ آئی ہو ابھی تمہیں بیڈ ریسٹ کرنا چاہیے

تمہاری طبیعت ابھی مکمل ٹھیک نہیں ہوئی ۔۔۔

نہیں بھابھی میں بالکل ٹھیک ہوں اور پلیز ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے مجھے بھائی سے بہت اہم کام ہے

 پلیز بتائے وہ کہاں ہیں

دوسرے شہر گئے ہیں کل تک واپس آجائیں گے

تم آؤ بیٹھو زینت نے مسکراتے ہوئے کہا

نہیں بھابھی میں بیٹھ نہیں سکتی مجھے جانا ہے بہت کام تھا

ہاں میں سمجھ سکتی ہوں کل جان کی سالگرہ ہے نا

میں بھی ابھی بازار ہی جا رہی تھی

اس کے لئے کوئی تحفہ خریدنے

 زینت اس کی بے چینی کو بالکل بھی سمجھ نہیں پائی تھی

 مطلب کے ابراہیم کے واپس آنے سے پہلے مجھے ان ثبوتوں کو ضائع کر دینا چاہیے پتا نہیں بھائی کو یہ ثبوت کیوں چاہیے

 لیکن یہ میں براہیم کے ہاتھ لگنے نہیں دے سکتی

 ورنہ سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا

اسےمجبور اً زنیت کے پاس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھنا پڑا لیکن  وہ جلد ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی

 زینت نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی

لیکن فی الحال وہ اپنی سوچوں کی کشمکش میں تھی

 اسے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا

اور نہ ہی اپنے درد کی خبر تھی

 اسے بس اتنا پتہ تھا کہ وہ اپنا گھر بچا سکتی ہے

 اور یہ اس کے پاس آخری موقع ہے

 وہ وہاں سے نکل کر وہ گھر جانے کی بجائے ایک سنسان جگہ کی طرف جا رہی تھی

 جہاں وہ ان سب چیزوں کو ضائع کر سکے ۔اس نے ایک دوکان پر کھڑے ہوکر ماچس خریدی

اور پھر ایک کھلے میدان کی طرف آگئی یہ علاقہ کافی سنسان تھا

اور کچھ لوگوں کے پھیلائی  ہوئی خبریں یہ تھی کہ یہ جگہ خطرناک ہے اس لیے یہاں بہت لوگ کم لوگوں کی آمدورفت تھی

 ۔لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ کوئی ہے جو اس کا پیچھا کر رہا ہے

اس کے ایک ایک موو منٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں

°°°°°

معید چاچو آپ یہاں کیوں روکے ہیں وہ سب ضائع کر دیں گی

 انہوں نے ماچس خریدی یقینا وہ ساری چیزیں جلانا چاہتی ہیں

 میرے بابا نے وہ چیزیں بہت محنت سے جمع کی ہیں وہ میرے بابا کے بیس سال کی محنت ہے

جسے میں ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتا ۔

صبر کر جاؤ جان ہم پبلک پلیس میں اس طرح اس پر اٹیک نہیں کر سکتے اور اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ ثبوت کو ہم سے دور کر دے ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے

وہ اسے سمجھا رہا تھا

جب کہ سومیا اب ایک کھلے میدان کی طرف بڑھ گئی

معید آہستہ آہستہ اپنی گاڑی اس کے پیچھے میں میدان کی طرف لے کر آیا اور باہر ہی روک دی

چلیں چاچو جلدی چلیں اس سے پہلے کہ ہم ان ثبوتوں کو برباد کر دیں

 ہمیں انہیں بچانا ہوگا

 ہاں جان تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن یہ میدان کافی بڑا ہے

 جب تک ہم اس تک پہنچیں گے وہ سب برباد کر دے گی

 اسی لیے ہمیں ہوشیاری سے کام لینا ہوگا

تو یہیں پر رکو اور میں اندر جاکر وہ ثبوت اس سے لینے کی کوشش کرتا ہوں

 اگر ثبوت نہ ملا تو میں اس کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کروں گا اور تم وہاں سے ثبوت غائب کروگے 

تم سمجھ رہے ہو نہ معید اسے مکمل بات سمجھانے کے بعد پوچھنے لگا

جس پر جان نے فوراً ہاں میں سر ہلایا تھا وہ اس کا کندھا تھپتھپاتا اندر کی جانب چلا گیا

°°°°°°°

ارے بھابھی جی آپ یہاں کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔؟

 وہ تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی جب اسے پیچھے سے معید کی آواز سنائی تھی 

اس کے ہاتھوں بری طرح سے کانپ کر رہے گئے اور وہ کھلا کر اٹھ گئی

 اور ثبوتوں کو اپنے پیچھے چھپانے لگی

 کچھ نہیں معید بھائی یہاں سے گزر رہی تھی لیکن کوئی بھی گاڑی یارکشہ نہیں مل رہا تھا تو اکبر بھائی کو فون کیا

 کہ مجھے یہاں سے لے جائیں

انہوں نے مجھے یہاں میدان میں رکھنے کے لئے کہا تھا

تو یہاں اندر آ گئی خیر سے آپ یہاں کیا کر رہے ہیں

وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو کرتے ہوئے نارمل انداز میں پوچھنے لگی۔

 کچھ نہیں مجھے یہاں میدان میں کچھ کام تھا

آپ کے ہاتھ میں کیا ہے وہ اس کا پیچھے چھپا یا ہوا ہاتھ دیکھ کر کہنے لگا

 اور اس کی باتوں نے سومیا کو اچھا خاصہ نروس کر دیا تھا

کچھ نہیں بس میری کچھ چیزیں ہیں کل جان کی سالگرہ ہے

تو وہی سامان لینے آئی تھی

 وہ ان چیزوں کو مزید اپنے ہاتھ میں چھپاتے ہوئے دوپٹہ ڈال چکی تھی

۔آپ کی طبیعت اتنی خراب ہے فی الحال آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے دیجئے مجھے اٹھا لیتا ہوں اور آئیے میں آپ کو گھر ڈراپ کر آتا ہوں معید نے آگے بڑھتے ہوئے کہا تو وہ اس سے کہیں فٹ کے فاصلے پر چلی گئی

نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اپنی چیزیں خود اٹھا سکتی ہوں اس کا لہجہ کافی سخت تھا ۔

جبکہ معید کے لیے مزید ڈرامہ کرنا مشکل تھا اسی لیے اپنی جیب سے پستول نکالتے ہوئے اس پر تن گیا۔

بس بہت ہوگیا ڈرامہ وہ چیزیں میرے حوالے کر دو

تمہارا راز اب راز نہیں رہا سومیا

سب کچھ بدل چکا ہے بلیک بیسٹ کے خلاف یہ ثبوت اب مزید چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے

 تم یہ ضائع نہیں کر سکتی

ویسے کتنی مکار عورت ہو تم تمہارا شوہر بیس سال سے دن رات محنت کرکے یہ جمع کر رہا تھا اور تم کتنی آسانی سے انہیں برباد کرنے آ گئی

 شاید جن لوگوں کے ضمیرمرے ہوئے ہوتے ہیں ان لوگوں کے لئے یہ بات کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی

ان چیزیوں کو  میرے حوالے کر دو معید نے اپنا دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا ۔

جبکہ سو میہ بھی اس کی پوری بات سننے کے بعد سمجھ چکی تھی کہ اب بچنا آسان نہیں ہے

 اسی لئے وہ بھی مزید اسے صفائیاں دینے کا ڈرامہ کرنے کے بجائے اپنا ریوالور نکال چکی تھی

 ۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں نے واقعی زندگی میں بہت ساری غلطیاں کی

 لیکن مزید کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی

 اگر میرے بارے میں جان گئے ہوں تو میرے بارے میں اور بھی بہت کچھ جان چکے ہوں گے

اگر میں کوئی عام لڑکی ہوتی تو بلیک بیسٹ کبھی مجھے اپنی ٹیم میں نہیں رکھتا

اور نہ ہی میرے سامنے ابراہیم کی بیوی بننے کی شرط رکھتا میں نے پیسے کے لئے بہت کچھ کیا ہے یہاں تک کہ اپنا آپ برباد کر دیا

لیکن اب مجھے اس پیسے کا لالچ نہیں ہے

 ۔۔میں اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتی ہوں

میں جان اور ابراہیم کے ساتھ ایک بہترین زندگی گزارنا چاہتی ہوں

۔لیکن میں جانتی ہوں کہ تم اب ایسا کبھی نہیں ہونے دوگے

کیونکہ  تم میری حقیقت جان چکے ہو ۔اور میں اپنی شادی شدہ زندگی میں کسی بھی قسم کی کوئی پرابلم نہیں چاہتی

 اور اب ان ثبوتوں کو ابراہیم تک بھی پہنچنے دوں گی اور نہ ہی تمہیں اب یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے کہ میرے ہاتھوں مرنا پسند کرو گے یا مجھے اپنی گولی کا نشانہ نہ بناؤ گے

اس کے لہجے میں کسی بھی قسم کا ڈر اور خوف نہیں تھا ۔

وہ اسے مارنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔وہ ایک اچھا انسان تھا ۔

لیکن فی الحال اسے صرف اور صرف اپنے گھر بار کی پروا تھی

لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ سے کسی نے کچھ لیا ہے

پلٹ کر دیکھا تو جان نہ صرف اس کے ہاتھ سے چیزیں چھین چکا تھا بلکہ معید کی طرف بھی پھینک چکا تھا ۔چاچو ان چیزوں کو لے کر چلے جائیں یہاں سے وہ چلایا تھا ۔

جبکہ سومیا تو سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ اچانک ہوا

کیا وہ بے چینی سے معید کی جانب بڑھ رہی تھی

جب جان نے اسے دھکا دیا اور وہ معید کو اشارہ کرتے ہوئے وہاں سے جانے کا کہہ رہا تھا

میری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے سومیہ لیکن تم میرے ملک کے دشمن ہو تم کبھی بھی مجھے اتنی گھٹیا نہیں لگی تھی

تمہارے اندر ہر چیز ہے لیکن وفا نام کی کوئی چیز نہیں

تم نےاپنے ملک کو اپنے شوہر کو اپنی اولاد کو دھوکا دیا ہے

شاید اسی لیے آج تمہاری اولاد میں تمہارا ساتھ نہیں دے رہی

اور اب یہ ثبوت یہاں سے سیدھے کورٹ جائیں گے اور یہ سب لوگ جیل میں تیار رہنا تم بھی انہی میں سے ایک ہو

بہت کم وقت ہے تمہارے پاس اپنی پہچان بدل لو یا پھر یہاں سے بھاگ جاؤ

لیکن ہماری پہنچ سے دور نہیں جاؤ گی وہ جان کو چلنے کا اشارہ کرتے ہیں اسے جیسے آزاد چھور چکا تھا ۔

ان کے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہی سومیہ کو جیسے ہوش آیا تھا

جان تو اس کی اولاد تھا وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی

لیکن معید وہ اس کا گھر برباد کر رہا تھا

ہاں وہ ایک مطلبی عورت تھی

اسے صرف اپنے آپ سے مطلب تھا

اس کی نظر میں جان ایک بچہ تھا اور وہ اس کی ماں ہے

وہ اسے جو کہتی جان اسی بات پر عمل کرتا

لیکن معید کے ہاتھ میں اس کی بربادی کی سندتھی

۔اس نے بنااپنے انجام کی پرواہ کیے معید پر گولی چلائی مجو عید کی پیٹھ پر لگی تھی لمحے میں وہ زمین پر جا گرا

جان بے یقینی سے آپ کی ماں کو دیکھنے لگا

یہ آپ نے کیا کیا ماماآپ نےچاچو پر گولی چلائی معید کا بہتا ہوا خون دیکھ کر وہ بوکھلا چکا تھا

جان یہ سب لوگ پاگل ہو گۓ ہیں یہ مجھے پھسانا چاہتے ہیں

تمہاری ماں کو پھسانا چاہتے ہیں اسی لیے مجھے مجبوری میں ایسا کرنا پڑا یہ تمہارے  چاچو بالکل بھی اچھے انسان نہیں ہیں

یہ تمہارے بابا کی محنت کو برباد کرنا چاہتے ہیں

اسی لیے میں اسے لے کر تمہارے بابا کے پاس جا رہی تھی

جھوٹ بول رہی ہیں آپ دھوکے باز معید چاچو نہیں بلکہ آپ خود ہیں

آپ نے دھوکا دیا ہے بابا کو

جان میرے بچے میرے پاس تمہیں سمجھانے کا وقت نہیں ہے وہ جان کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی اتنے میں معید نے ایک بار پھر سے اپنا پستول اٹھانے کی کوشش کی

لیکن اس بار سومیہ نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے گولی اس کے سینے کے بیچوں بیچ چلائی تھی اور اس بار جیسے معید بے جان ہو گیا

جان فلحال میں یہاں سے جا رہی ہوں

لیکن میں جلد ہی واپس آؤں گی

تمہیں لینے کے لیے یاد رکھنا تمہاری ماں تم سے بہت پیار کرتی ہے

وہ ثبوت اٹھاتے ہوئے جان کو دیکھ کر کہنے لگی جبکہ معید اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتا جان کو امید سے دیکھ رہا تھا

وہ ماں تھی ہر حد سے گزر سکتی تھی لیکن بیٹے کو نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی یہ معید کا یقین تھا ۔

اور جان ہر حد سے گزرسکتا تھا لیکن آپنے بابا کا خواب ٹوٹتے نہیں دیکھ سکتا تھا

۔اس نے ایک نظر بھاگتی ہوئی ماں کی جانب دیکھا اور پھر زمین پر پڑے اپنے چاچو کو اگلے ہی لمحے اس کے ننھے ذہن نے کیا فیصلہ کیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا

ہاں لیکن معید کی پستول میں جتنی گولیاں تھیں وہ اس نے سومیا پر چلا دی تھی کتنی گولیاں اسے لگی اور کتنی نہیں وہ بالکل بے خبر تھا

اس کے ہاتھ سے چلتی بندوق کتنی وزنی تھی

اور اس کو چلاتے ہوئے اپنی کتنی جان صرف کر رہا تھا اسے بالکل ہوش نہیں تھا

سومیا زمین پر خون سے لت پت پڑی تھی

وہ اس کے پاس آیا اس کے دل میں اپنی ماں کے لیے کسی قسم کا کوئی رحم یا ہمدردی موجود نہیں تھی اس وقت وہ صرف اس کے لئے اس کے وطن کی دشمن تھی

جان نے اس کے پاس سے وہ ثبوت اٹھائے اور  تھوڑے فاصلے پر زمین میں ایک گڈھا کھود کر انہیں چھپانے لگا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے باباکی ٹیم کے علاوہ یہ یہ چیزیں کسی اور کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے

۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ چیزیں کس چیز کی ہے

وہ اپنی ماں کو ختم کر چکا تھا لیکن اس کی آنکھ میں ایک آنسو نہ آیا

وہ اتنا بے حس کبھی نہیں تھا لیکن اسے اپنی ماں کی موت کا کوئی افسوس نہیں ہو رہا تھا ۔

پولیس کو خبر کس نے دی پولیس وہاں کیسے پہنچی

ان سب باتوں کا اسے ہوش نہیں تھا ثبوت وہ چھپاچکا تھا اس کا وہ چاچا جو اس کی زندگی کی حفاظت کرنے والا تھا اس کے سامنے ہی شاید دم توڑ گیا ۔

سیکرٹ ایجنٹ ہونے کی وجہ سے معید کو بہت کم لوگ جانتے تھے

اگر پتا تھا تو بس اتنا کہ اس بچے کے ہاتھوں اپنی ہی ماں کا قتل ہوا ہے جان کو جیل بھیج دیا گیا جبکہ بوڈیزکو پاس مارٹم کے لیے ۔

°°°°°

اس جیل میں رہتے ہوئے اور تیسرا دن تھا

کوئی اس سے ملنے نہیں آیا یہاں تک کہ اس کی پھوپو زینت بھی نہیں وہ جانتا تھا کہ اس کے بابا شہید چکے ہیں اور اپنی ماں کو خود ہی ختم کر کے آیا تھا

وہ بالکل خاموش تھا تین دن ایک ہفتے میں گزر گئے اور پھر وہ ایک ہفتہ ایک ماہ میں بدل گیا

کل اسے دوسری جگہ شفٹ کر دیا جانا تھا شاید اب اس کی زندگی اسی جیل کی کال کوٹھری میں گزرنے والی تھی وہ بالکل خاموش تھا جیسے الفاظ ختم ہو چکے ہو

پھر ایک دن کوئی اس سے ملنے آیا جس کا چہرہ دیکھ کر وہ ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا

اسے یقین تھا کہ معید مر چکا ہے لیکن وہ زندہ تھا

وہ ایک ماہ سے کوما میں تھا وہ جان کو اپنے سینے سے لگا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا کہ وہ اپنے ہی دوست کی آخری امانت کا خیال نہ رکھ سکا

جان میرے پاس تمہیں بچانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن میں تمہیں جیل سے نکالوں گا کل تمیہں یہاں سے دوسری جگہ شفٹ کر دیا جائے گا

تمہیں وہاں تین دن گزارنے ہیں

اور تمہیں وہاں بچوں کی جیل میں رکھا جائے گا وہاں پر ایک راستہ ہے جو بہت پہلے انگریزوں نے بنایا تھا لیکن تم وہاں سے چھپ کر بھاگ سکتے ہو

میرے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس سے میں تمہیں لیگل طور پر جیل سے باہر نکال سکوں

ہمارے پاس سومیہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے وہ گناہ گار ثابت ہو سکے

اس لیے تو میں غیر قانونی طریقے سے جیل سے بھاگناہوگا تم وہاں کسی سے بات نہیں کرو گے اور پھر ہم اپنے طریقے سے اس کیس پر کام کریں

لیکن وہ ثبوت کہاں چلا گیا اس جگہ پر ایسی کوئی چیز نہیں تھی کیا پولیس والوں نے اس ثبوت کو ضائع کردیا بلیک بیسٹ کے ہاتھوں کتنے لوگ بھیکے ہیں میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے وہ ثبوت ۔۔۔۔۔

وہ ثبوت میرے پاس ہے میں اسے چھپا کے آیا تھا چاچو آپ نے کہا تھا نہ کہ وہ ثبوت کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے بس اسی لیے میں نے ان چیزوں کو چھپا دیا جان نے اس سے پوری بات بتائی تومعید نے اسے ایک بار پھر سے خود میں بھیج لیا ۔

صرف بارہ سال کا بچہ بھی اپنے ملک کے لیے اپنی محبت دکھا چکا تھا ۔بس اب اسے جیل سے کیسے بھی نکالنا تھا

تین دن گزر چکے تھے

وہ سارا راستہ دیکھ چکا تھا

اسے پتہ چل چکا تھا کہ یہاں واقعی میں ایک راستہ ہے یہ بہت پہلے انگریزوں نے یہاں سے بھاگنے کے لیے بنایا تھا

اور اب وہ یہ راستہ استعمال کرکے بہت آسانی سے یہاں سے بھاگ سکتا ہے

 کیونکہ انہیں بچوں کی جیل میں رکھا گیا تھا اور اس سیکشن کو بچوں کے لیے ہی الگ کر دیا گیا تھا

 تاکہ بچے اس بات کو سمجھ ہی نہ سکیں گے کہ یہاں سے وہ آسانی سے بھاگ سکتے ہیں

 جان بالکل خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا

اسے یقین تھا کہ معید اسے آسانی سے نکال لے گا

اسے آج ہی پتہ چلا تھا کہ اس کی جیل میں کچھ اور لڑکوں کو لایا جارہا ہے

آج کچھ قیدی اور آنے والے ہیں ۔اتنے وقت سے جیل میں رہنے کے بعد وہ کافی باتیں سمجھ چکا تھا

 جو ایک بارہ سالہ بچے کی سمجھ سے کہیں زیادہ بڑی باتیں تھیں

۔جیل میں موجود لوگ انتہائی گھٹیا گفتگو کرتے ہوئے

 اکثر ایک دوسرے سے اپنی ایسی باتیں شیئر کرتے جو نہ چاہتے ہوئے بھی جان سنتا رہتا

 کبھی کبھی تو ان کی باتیں اخلاق سے اتنی گر جاتی کہ جان کے لیے وہاں بیٹھنا بھی مشکل ہو جاتا

 لیکن پھر بھی پچھلے ایک ماہ سے وہیں تھا

 کیونکہ وہ کہیں جا نہیں سکتا تھا ان لوگوں کو سننا اور برداشت کرنا اس کی مجبوری تھی ۔

°°°°°

شام تک اور لوگ آچکے تھے

 اس کے ساتھ اسی کے عمر کے دو اور لڑکے تھے

 جو اسے کافی اچھے گھر کے لگ رہے تھے

 لیکن اسے کچھ ہی دیر میں پتہ چل گیا کہ ایک لڑکا جو دوسرے کڑکے سے پہلے لایا گیا ہے وہ خواجہ سرا ہے

جب کہ دوسرا لڑکا کون ہے اور کیسا ہے اس نے بالکل بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی

 لیکن وہ خود ہی اس سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا

وہ اپنی ماں اور چچا کا قتل کر کے یہاں آیا تھا

 اور اسےوجہ  بتانے کی ضرورت نہیں پڑی جان یہاں ایک مہینے سے اس طرح کی ہر وجہ کو اچھے سے سمجھ چکا تھا

اسی لئے آریان کی باتیں سن کر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا

جبکہ وہ اچھا حاصل شرمندہ ہو گیا تھا ۔

پھر اس لڑکے نے اس سے کوئی بات نہیں کی حاموش ہی رہا

جبکہ تھوڑی دیر میں ایک جیلر ان کے کمرے کے اندر جھانکنے لگا

اور پھر اس کی تھوڑی ہی دیر میں تیسرے لڑکے جو کہ خواجہ سرا تھا اس کو اٹھا کر لے گئے

 ہاں وہ ایک مہینے سے یہاں رہ کر اس چیز کی وجہ بھی سمجھ چکا تھا

جہاں وہ اس سے پہلے رہتا تھا وہاں وہی جیلراکثر لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا

 اور شاید آج اس معصوم کی باری تھی جان صرف ترس کھا سکتا تھا

 لیکن غصہ حد سے بھر چکا تھا

اس نے قسم کھائی تھی کہ جیل سے نکلنے کے بعد سب سے پہلے وہ اس شخص کو اس کے  انجام تک ضرور پہنچائے گا

کافی دیر چیخ و پکار کی آواز آتی رہی ہے

 اور دوسرا لڑکا بے چینی سے اس سے سوال کرتا رہا

پھر وہ خواجہ سرا کو پھینک کر چلے گئے اور آریان پاگلوں کی طرح اس سے بچانے کے لیے کوشش کر رہا تھا لیکن وہ معصوم بھی تو اسی کی طرح تھا وہ کیا سمجھتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔

اسے آریان میں اپنا آپ نظر آیا ۔نہ جانے کیا سوچ کر اس نے آریان کو وہاں سے بھاگنے کی آفر کی لیکن اسے اپنے آہ سے زیادہ اس لڑکے میں دلچسپی تھی

 وہ اپنے آپ سے پہلے اسے بچانا چاہتا تھا

جان نے اسے منع کرنا چاہا کیونکہ وہ ایک زخمی لڑکے کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتا تھا

اور اس کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ زندہ نہیں بچے گا

 لیکن آریان باضد تھا اسی لئے جب وہ لوگ وہاں سے بھاگے تو آریان نے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا

جان  وہاں سے اسے اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا لیکن آریان کی بے چینی نے اسے مجبور کر دیا

ایک ایسا لڑکا جو سے تھوڑی ہی دیر پہلے ملا تھا

 اس کی جان بچانے کے لیے آریان کچھ بھی کرنے کو تیار تھا

 اسی جذبے نے جان کو اسے اپنے کندھوں پر اٹھانے پر مجبور کر دیا

 کیونکہ آریان کے لیے اسے اٹھا کر بھاگنا بہت مشکل تھا

آریان نے بار بار اس سے اس کا نام پوچھنے کی کوشش کی لیکن جان نے اسے اپنا نام نہ بتایا جبکہ اس خواجہ سر اکو ٹائر کہہ کر اسے ایک نام دے دیا

 لیکن تھوڑے ہی آگے جاکر گولی چلنے کی آواز آئی جان کو لگا کہ گولی آریان لگی ہے لیکن گولی اس کے کندھے پر ماجود خواجہ سرا کو لگی تھی

اور اس کی زندہ بچنے کی تھوڑی سی امید تھی وہ بھی ختم ہوگئی

 خون اس کے پوری شرٹ کو بھی بگھو چکا تھا لیکن وہ پھر بھی رکے نہیں بھاگتے ہی چلے گئے شاید اب روکنا ان کے مقدر میں لکھا ہی نہیں تھا

اسے بار بار لگا کہ اسے آریان کو بتا دینا چاہیے

کہ شاید اب اس لڑکے کو بچانا ناممکن ہے

لیکن وہ خود میں اتنا حوصلہ ہی نہیں پا رہا تھا

آریان کا جذبہ اس کی محبت وہ بھی ایک انجان انسان کے لیے

وہ اس کی امیدوں کو توڑنا نہیں چاہتا تھا

اسی لئے اس کے ساتھ ساتھ بھاگتا چلا گیا

دوسری گولی نے آریان کو جیتنے پر مجبور کر دیا

کیونکہ وہ گولی اس کے بازو کو چھو کر گزری تھی

°°°°

جان میں نے تمہیں کسی سے بھی بات کرنے سے منع کیا تھا

یہ تم یہاں کس کو اٹھا لائے ہو

دیکھو جان ہمارا مقصد بہت بڑا ہے

 جان ہم کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتے

جہاں جان کو دیکھ کر معید بہت خوش ہو گیا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہیں

 وہیں اس کے ساتھ دو لڑکے دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا تھا

۔ان میں سے ایک لڑکا بہت بری طرح زخمی تھا اسے پیٹھ پر گولی لگی تھی

اس کا بہت سارا خون ضائع ہو چکا تھا

جبکہ دوسرا لڑکا بھی زخمی تھا اسے گولی چھو کرگرزی تھی ۔اسے بھی گہرا زخم آیا تھا جب کہ جان بلکل تھیک تھا

چاچو پلیز یہ میرے دوست ہیں

ان کی جان بچائیں ان کا بہت خون بہہ رہا ہے اس سے پہلے کہ انہیں کو کچھ ہو جائے

 پلیز بچا لے ان کو جان نے منت بھرے انداز میں کہا

 تو وہ بھی اسے دیکھ کر رہ گیا

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اس طرح سے تو یہ کیس بہت لمبا ہو سکتا تھا

۔اور وہ پھنس بھی سکتے تھے

 ایسے میں صرف اس کا ایک ڈاکٹر دوست ہی اس کی مدد کر سکتا تھا

جو کہ خفیہ طور پر پہلے ہی ایک بارہ سالہ لڑکے کا علاج کر رہا تھا

اور یقینا وہ اس بچے کا بھی علاج کر دیتا ہے وہ بارہ سالہ بچہ اس کی کزن کا بیٹا تھا اس کی کزن کر ریپ ہوا تھا جس کے نتیجے میں وہ بچہ اس دنیا میں بے نام گھوم رہا تھا

 اس شخص نے اسے بچے کو اپنا نام دینے کی بجائے گولی مار دی تھی اور پچھلے تین مہینے سے وہ قوما میں تھا اور وہ اس کا علاج کر رہا تھا ۔کیونکہ وہ خود اس لڑکی ے محبت کرتا تھا اور وہ اس کی منگیتر بھی تھی لیکن شادی ہونے سے پہلے ہی اس کے ساتھ یہ حادثہ پیش آگیا

اور وہ پورے تیرہ سال اپنی اولاد کے لئے لڑتی رہی لیکن اسے انصاف نہ ملا

اب اس بچے کا دنیا میں کوئی نہیں تھا تو وہ خود ہی اس بچے کا علاج کرنے کی کوشش کر رہا تھا مڈر کیس پر لمبے کیسے چلتے ہیں اسی لئے وہ خفیہ طور پر یہ کام کر رہا تھا

یقینا اس کے لئے بھہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا

 اب وہ خواجہ سرا بچے کو ہی لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

لیکن وہ آریان اور جان کو بھی اس طرح چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اس لئے وہ ان دونوں کو بھی اپنے ساتھ اس کے گھر لے گیا

°°°°°

معید میں تیری مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن تو جانتا ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے

اگر میں اس بچے کو اپنے گھر پہ رکھ بھی لوں تو مجھے بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہوگی

 جہاں تک مجھے لگ رہا ہے اس بچے کا ریپ ہوا ہے

اور دوسری بات یہ کہ جتنے اچھے سے اس کا علاج ایک ہوسپٹل میں ہو سکتا ہے اتنے اچھے سے گھر پر نہیں کرتا ہوگا

 یہ جیل سے بھاگے ہوئے قیدی ہیں اگر میں پکڑا گیا تو میرا ڈاکٹری لائسز چھین  لیا جائے گا

میں برباد ہو کر رہ جاؤں گا یار ۔

وہ اسے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کافی پریشان لگ رہا تھا

 معید بھی اس کی مجبوری کو اچھے سے سمجھ رہا تھا لیکن یہاں مسئلہ ایک بچے کی جان بچانا تھا

تو مجھے بس یہ بتا کہ تو مجھے کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی

میں کیسے بھی ارینج کر لوں گا

 لیکن پلیز یار اس بچے کی جان بچا لے یہ بہت معصوم ہے اور اوپر سے اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے

 یار میں تجھے کچھ دے نہیں پاؤں گا لیکن اللہ تجھے بہت کچھ دے گا

اس معصوم کی جان بچا لی یار

اریان کی پٹی باندھ کر اسے اور جان کو کچھ فاصلے پر کرسی پر بٹھایا گیا

جب کہ وہ اپنی بحث میں مصروف تھے

 اس نے اچھے سے ٹائر کو چیک کر لیا تھا وہ سب سمجھ چکا تھا ۔

لیکن وہ اس کی مدد کیسے کریں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا مطلب کہ وہ یہ چاہتا تھا کہ وہ گھر میں ہی اس کا بھی علاج کرے جس طرح سے وہ طہٰ کا کر رہا ہے

یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ٹھیک ہے میں اس بچے کو یہاں اپنے گھر رکھ لیتا ہوں

 ۔لیکن اس بچے کے لئے تجھے ہر وقت یہی پر رہنا ہوگا

 مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت پڑسکتی ہے

 اس کے علاج میں اچھا خاصہ وقت اور پیسہ چاہے اور ابھی تو میرے پاس نہیں ہے ڈاکٹرزاہد نے اسے اپنی مجبوری بتائی

 ہاں ٹھیک ہے میں ہر وقت یہی پر رہوں گا تو بالکل فکر مت کر تجھے جس چیز کی ضرورت ہو گی میں تجھےلا کر دوں گا اس نے زائد کو یقین دلایا ۔تووہ اس کا علاج کرنے پر راضی ہو گیا

°°°°°

ڈاکٹر زاہد اپنی پوری کوشش کر رہا تھا

اور اس انجان بچے کی جان معید بچانا چاہتا تھا

وہ آریان اور جان کو  لے کر اسی کے پاس رہنے لگا

یہاں دو بچوں کا علاج چل رہا تھا ۔

طہب چارے کو تو اتنی گولیاں لگی تھی اور ڈاکٹر زاہد کو یقین تھا کہ وہ اسے بچا نہیں پائے گا لیکن وہ پھر بھی کوشش کر رہا تھا

اور ایسی ہی ایک کوشش کو ٹائر کے لیے بھی کر رہا تھا جس کا سارا جسم بے جان ہو چکا تھا ایک ہفتے سے وہ خود کو ماتھا

صرف اس کا دل کام کر رہا تھاباقی اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کام نہیں کر رہا تھا

جبکہ دوسری طرف طہ کا یہ حال تھا کہ دل پر لگنے والی گولی کی وجہ سے اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار دن بدن کم ہوتی جا رہی تھی کسی بھی پل اس کی دھڑکن رک جانی تھی

ڈاکٹر زاہد دونوں کے لئے ایک جیسی جذبات رکھتا تھا وہ ان دونوں بچوں کو بچا لینا چاہتا تھا ۔لیکن ایسا ممکن نہیں تھا ۔

°°°°

وہ دونوں سارا وقت ہی ٹائر کے پاس بیٹھے رہتے ۔

پرسوں ہی ٹائر کو ہوش آیا تھا ۔

وہ ان دونوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو نہ وہ اپنا ہاتھ  ہلاتا نہ پیر اور نہ ہی اس سے کچھ کھایا پیا جا رہا تھا

اس کی ریڑھ کی ہڈی بالکل بے جان ہو چکی تھی

زاہد اس کی جان بچانے میں کامیاب تو رہا تھا ۔

لیکن اس کی زندگی کسی کام کی نہیں تھی ۔اب اس نے ساری زندگی یوں ہی معذوری میں گزار نی تھی ۔

اس کے سونے کے بعد جان اور آریان دونوں باہر چلے گئے

جبکہ معید  زاہد کا شکریہ ادا کرنے کمرے میں آیا تو اس کی نظر طہ کے بے جان وجود پر پڑی

کیا اس کی حالت میں کوئی سودار نہیں ہے اس نے ہمدردی سے پوچھا تو زاہد نے نہ میں سر ہلایا

نہیں یار اس کا دل بالکل کام کرنا چھوڑ چکا ہے

کبھی بھی اس کی موت ہو سکتی ہے

۔مجھے افسوس ہے میں حمیرا کو انصاف نہیں دلا پایا میں نے سوچا تھا کہ میں اس کے بچے کی جان بچا لوں گا لیکن دیکھو نہ میں نا کامیاب رہا

13 سال پہلے ہماری شادی ہونے والی تھی

میں اور حمیرا دونوں بہت خوش تھے ۔

اور اس حادثے کے بعد اس نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا وہ ماں بننے والی تھی پورے خاندان نے اسے چھوڑ دیا تب بھی میں اس سے شادی کے لئے تیار تھا

لیکن اس بچے کی خاطر اس نے مجھے چھوڑ دیا

میں نے اس سے کہا تھا اس بچے کو دنیا میں مت لاؤ یہ بے نام و بے نشان ہے لیکن اس نے میری بات نہیں مانی

اس نے کہا کہ یہ بچہ بے گناہ ہے یہ اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے

اور وہ تحفے کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گی

اور پھر وہ خود ختم ہوگئی اور آج اللہ کا دیا یہ تحفہ بھی ضائع ہو رہا ہے زاہد کے لہجے میں دکھ تھا تکلیف تھی اپنی محبت کے کھو جانے کا افسوس تھا ۔

زاہد شاید اللہ نے اس کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی معید نے اسے حوصلہ دیا

ہاں شاید لیکن میں تم سے ایک بات شیئر کرنا چاہتا ہوں پلیز میری بات ہے غلط مطلب نکالا

ہاں ہاں بتاؤ تم کیا کہنا چاہتے ہو معید نے کہا

پتہ نہیں تم کیا سوچو گے لیکن میں صرف ایک بات کہہ رہا ہوں ۔یہ جو بچہ ٹائر ہے وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا نہیں ہو سکتا

اس کا جسم پوری طرح بے جان ہو چکا ہے صرف اس کا دل کام کر رہا ہے

اور اس حالت میں وہ بھی زیادہ وقت تک جی بھی نہیں سکے گا لیکن اگر ہم اس کا دل ٹرانسفر کرکے طہ  کو دے دیں تو ہم ایک بچے کی جان بچا پائیں گے

میرا مطلب ہے دونوں کو کھونے سے بہتر ہے کہ ہم ایک کی جان بچا لیں۔

خیر یہ بات صرف میں نے سوچی ہے اور میں صرف تم سے اپنے دل کی بات شیئر کر رہا ہوں

پلیز غلط مطلب مت نکالنا میں جانتا ہوں یہ بچہ تمہارے لئے بہت اہم ہے او باہر چلتے ہیں بچے انتظار کر رہے ہوں گے ۔معید کے اچانک خاموش ہوجانے پر زاہد نے بات بدل دی

اوراسے لے کر باہر چلا گیا

جب آہستہ سے ٹائر نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے ساتھ ہی دوسرے بیڈ پر لیٹے اس وجود کو دیکھا ۔

جو کہ ایک مکمل وجود تھا اس کی طرح ادھورا نہیں

اسے تو یہ دنیا یہ معاشرہ ایسے بھی مار ہی دے گا ۔تو کیوں نہ وہ مرنے سے پہلے اسے ایک زندگی دے دے

وہ تو بے کار تھا نکارا ھا لیکن اس کا دل کسی دوسرے کے سینے میں دھڑک ر سکتا تھا کسی دوسرے کی جان بچا سکتا تھا وہ اپنی ہی سوچوں ایک نظر طہٰ کو دیکھ کر مسکرایا

ہاں جو دل میں آئے وہ کرو

ہمارا ہی دماغ خراب تھا جو تمہیں بچا کر یہاں لے آئے ۔

اس لیے تمہیں نہیں بچایا تھا ہم نے  کہ یہاں آ کر شہنشاہ ایران بن جاؤ

بے وقوف انسان ہر انسان کے پاس ایک ہی دل ہوتا ہے

اور اگر وہ بھی اس سے لے لیا جائے تو وہ انسان مر جاتا ہے

جان غصے سے کہتا اسے مسلسل سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا

 اسے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ٹائر نے خود چاچو سے یہ بات کی ہے

میں جانتا ہوں جان کے ہر انسان کے پاس بس ایک ہی دل ہوتا ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا

 اور اس وقت وہ طہ کے پاس نہیں ہے جو میں  اسے دینا چاہتا ہوں ۔وہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگا لیکن اسے سمجھنا کون چاہتا تھا

نہیں ہے تو ہم کیا کریں

ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کیا ہم نے بس اب کوئی فضول بکواس نہیں کرے گا تُو چاچو کے سامنے

وہ ڈاکٹر انکل کا کچھ لگتا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور تم زندہ بچ گئے ہو بہت جلد تم ٹھیک ہو جاؤ گے

 آریان نے اسے سمجھانا چاہا

تم ٹھیک کہہ رہے ہو آریان میں زندہ بچ گیا ہوں اور شاید کبھی نہ کبھی ٹھیک بھی ہو جاؤں گا

لیکن میں اپنے اندر کی اس کمزوری کا کیا کروں گا جو کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔

طہ میرے جیسا نہیں ہے وہ الگ ہے وہ تم لوگوں کی طرح ہے میں زندہ بچ بھی گیا  تو یہ معاشرہ مجھے اپنی باتوں سے اپنے رویوں سے مار دے گا

لیکن اسے نہیں ۔۔۔طہ میرے دل کے ساتھ ایک بہت خوبصورت زندگی جیے گا ۔اپنے ملک اپنے وطن کے لیے کچھ کرے گا

میرا یہ دل میرے کسی کام کا نہیں ہے ۔

لیکن میرا یہ دل طہ کے کام آ سکتا ہے ۔اور اس کے لیے مجھے تم دونوں کی اجازت کی ضرورت ہے تم دونوں نے میری زندگی بچائی ہے مجھے یہاں تک لائے ہو میری جان پر مجھ سے زیادہ تم لوگوں کا حق ہے

اسی لیے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں تم دونوں کی اجازت مانگنا چاہتا ہوں

 میں نے ڈاکٹر انکل اور معیدانکل سے بات کر لی ہے اور انہیں سمجھا بھی لیا ہے وہ دونوں میری مجبوری کو سمجھ چکے ہیں

 تم لوگ بھی سمجھو

کیسے سمجھیں ہم ہاں بتاؤ کیسے سمجھیں تمہیں پتا ہے جب انسان مر جاتا ہے وہ دنیا سے غائب ہو جاتا ہے اس کا نام و نشان نہیں رہتا اس کے بات پر آریان تو تڑپ ہی اٹھا

ایک ہفتہ پہلے جب انہیں پتہ چلا تھا کہ ٹائرٹھیک ہو جائے گا وہ زندہ بچ گیا ہے کتنے خوش تھے وہ دونوں اوراب وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لینے پر تلاتھا۔

کیوں نہیں رہے گا میرا نام و نشان کیا تم لوگ مجھے یاد نہیں رکھو گے کیا بھول جاؤ گے تم دونوں مجھے ۔

اگر آج میں یہاں مر گیا تو کیا تم لوگ مجھے کبھی یاد نہیں کرو گے میرا کوئی نہیں ہے جان جو مجھے یاد کرے مجھ سے پیار کرے مجھے پیار تم دونوں نے دیا ہے آریان

اور مجھے پتا ہے اگر میں مر گیا نا تو بھی تم لوگ مجھے بھولو گے نہیں

مجھے یقین ہے کہ تم لوگ زندگی کے ہر قدم پر مجھے یاد رکھو گے

رکھو گے نہ ۔۔۔۔! وہ ایک امید سے  پوچھنے لگا ۔

آریان وہی وینٹیلیٹر پراس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جبکہ جان جو اپنے آپ کو بہت مضبوط ظاہر کر رہا تھا اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔

ہم تمہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے ٹائر تم کبھی بھی ہماری زندگی سے دور نہیں رہو گے

 ہماری خوشیوں میں ہمارے غم میں تم ہر چیز میں شامل رہو گے یہ وعدہ ہے ہمارا جان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے اسے اجازت دی تھی

جبکہ آریان کے آنسو اب بھی رکے نہیں تھے

آریان وعدہ کرو مجھ سے کے میرے دل کا بہت خیال رکھو گے وہ بھی ہماری طرح ہے یتیم و بے سہارا ہے

 اس کا بھی تم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا میری طرح

 تم دونوں اس کا خیال رکھو گے نا ۔۔۔۔؟میرے دل کا خیال رکھو گے نہ تم دونوں۔۔۔۔؟

 وہ ان دونوں سے سوال کر رہا تھا جس پر جان اور آریان دونوں نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے آنسو صاف کیے

اور یہ ان کی آخری ملاقات تھی

اس کے بعد وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا

لیکن طہہ کی صورت میں ان کے پاس بھی تھا۔

 ان لوگوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ٹائر کو کبھی خود سے الگ نہیں کریں گے وہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں گے اور وہ ساتھ تھا

ہاں ٹائر اس کہانی کا وہ کردار تھا جس کا کوئی وجود نہیں

°°°°°

ٹائر چلا گیا لیکن تھا ہمیشہ کے لئے لیکن اب ان کے پاس طہ آ گیا

وہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا اپنے باپ کا نام چاہتا تھا لیکن وہ جلد ہی سمجھ چکا تھا کہ اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا

اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اس شخص کو جان سے مار دے جو اس کی ماں کو برباد کرنے کے بعد اسے اپنا نام دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھا

لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا معید نے اسے سمجھایا کہ وہ اپنی پہچان بنا سکتا ہے اسے اس شخص کے نام کی ضرورت نہیں ہے

وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر کے بھی اپنا نام بنا سکتا ہے

معیدنے ہی اس کے دل میں یہ جذبہ جگایا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرے اور پھر اسے ٹائر کا خواب بھی پورا کرنا تھا

جس کا دل اس کے سینے میں دھڑک رہا تھا

جو اس کے دل کا اصل مالک تھا

وہ اس کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کے کردار کو ہمیشہ زندہ رکھے گا

چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا

°°°°

°وہ اپنی پھوپھو سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ جان چکا تھا کہ اس کی پھوپھو اب اس دنیا میں نہیں رہی

وہ پھوپھو جو اس پر جان چھڑکتی تھیں اتنی جلدی اسے چھوڑ کر چلی گئی

اور اسے یقین تھا وہ مری نہیں ہے بلکہ ماری گئی ہے ۔

وہ ایک نا ایک دن اکبر تک پہنچ کر اپنی پھوپھو کی حقیقت جان جائے گا

اسے یقین تھا لیکن اس کی ماہی۔۔۔۔؟ اکبر نے ماہی کو کہیں غائب کر دیا تھا ۔

کورٹ میں جب جان کو اپنی ہی ماں کے قتل کی سزا سنائی جا رہی تھی اکبر وہی تھا اور اس نے اکبر کو کہا تھا

وہ چاہے کہیں بھی چلا جائے لیکن ماہی کو اس سے دور نہیں جانے دے گا

اس نے اپنے مرتے باپ سے وعدہ کیا ہے کہ ماہی اس کی دلہن بنے گی

وہ اس کے نکاح میں ہے اور وہ کیسے بھی اسے ڈھونڈ نکالے گا چاہے وہ ماہی کو دنیا کے کسی بھی کونے میں چھپا لے اور اکبر نے ایسا ہی کیا تھا

وہ ماہی کو سریا بھیج چکا تھا اور اپنے ہی ڈرائیور کی بیٹی بنا کر اس کی پہچان بھی بدل چکا تھا ۔

اس نے اس دن جان کی آنکھوں میں ایک جنون دیکھا تھا اگر وہ اپنی ماں کی جان لے سکتا تھا تو ماہی کو پانا بھی اس کے لئے مشکل نہیں تھا

ہاں یہ سچ تھا کہ اس دن وہ ہٹا کٹا آدمی ایک چھوٹے سے بچے کے جنون سے ڈر گیا تھا

اکبر نے قسم کھائی تھی چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے لیکن وہ کبھی بھی اپنی بیٹی جان کے حوالے نہیں کرے گا ۔

جب کہ جان نے اپنے مرتے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ماہی کو حاصل کرکے ہی دم لے گا ۔

اب وہ دن رات اس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب وہ اکبر کو ہرا کر اسے موت کے گھاٹ اتارے گا ۔

°°°°°

وقت گزر رہا تھا معید نے سب سے پہلے ان تینوں کی پڑھائی پر توجہ دی تھی جو کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے سب سے اہم تھی ۔

ڈاکٹر زاہدطہٰ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن طہٰ کا مقصد کچھ اور تھا وہ اپنی ایک پہچان چاہتا تھا اور اس کے مقصد کے لیے ہی ڈاکٹر زاہد نے اسی جانے کی اجازت دے دی ۔

وہ تینوں ایک اسکول ایک کالج ایک ہی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھ رہے تھے۔

معید پر مسلسل کام کر رہا تھا  ۔

وہ سی ڈی جس میں بلیک بیسٹ میں اپنے سارے کالے کام قبول کی تھی وہ سی ڈی خراب ہو چکی تھی

ایک مہینے سے زیادہ وقت زمین اور مٹی میں رہنے کی وجہ سے معید بہت کوشش کے باوجود  اسے ٹھیک نہ کر سکا ۔

وہ فائل بھی بری طرح سے تباہ ہو چکی تھی ۔

ہاں لیکن اس فائل میں ان سب لوگوں کے نام موجود تھے اور اسے ٹھیک کرنے میں کو وہ لوگ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے

اس لسٹ میں جتنے بھی لوگ تھے جن کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا بڑی بڑی ہستیاں بڑے بڑے کروڑپتی لوگ چاہا کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے ۔

اور ان کی ٹیم پر طرف جا رہی تھی ۔بلیک بیسٹ کی لسٹ میں اور نام شامل ہو رہے تھے

قانون کے کچھ محافظ ایماندار لوگ  انہیں روکنے کی کوشش کر رہے تھے  ۔لیکن کب تک وہ مضبوط بیگراونڈ رکھتے تھے

پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہو رہی تھی ۔

ایسے میں بلیک بیسٹ جیسے درندے کو ختم کرنے کے لئے بھی ایک بیسٹ کی ضرورت تھی ۔اور اب معید جان کو وہ بیسٹ بننے کی ٹریننگ دے رہا تھا ۔

جس میں طہٰ اور آریان بھی شامل تھے ۔ان لوگوں کا سب سے بڑا گینگ اور ملنے کی جگہ ترکی میں تھے ۔اسی لئے ان لوگوں نے شروعات بھی ترکی سے ہی کی آریان  اپنا ٹرانسفر کروا کے ترکی چلا گیا جبکہ طہ بھی ترکی کی سڑکوں پر بانسری بجانے لگا ۔

جان کے ہاتھوں نے ہتھیار چلانا سیکھ سکتے ہی سب سے پہلے اپنے ٹائر کو انصاف دلایا تھاوہ 21 سال کا تھا جب اچانک ایک رات جان کہیں چلا گیا واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں معید کی گن تھی ۔

اور اس نے سر اٹھا کر معید کو بتایا تھا کہ وہ ٹائر کا بدلہ لے کر آیا ہے

°°°°°

ان لوگوں کا انصاف کا سفر شروع ہو چکا تھا تین سال پہلے بلیک بیسٹ کا قتل کرکے جان ایک بیسٹ کے وجود میں ان لوگوں کی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا

اور اب ایک ایک کرکے انہیں ختم کر رہا تھا

اب بلیک بیسٹ کا گینگ 20  یا30 لوگوں پر مشتمل نہیں تھا ۔

یہ ساڑھے چار سو لوگوں کا ایک گینگ تھا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ایسے ہی کہیں ملکوں کو تباہ کر رہے تھے ۔

اور آہستہ آہستہ وہ ان سب کو ختم کر رہا ہے

اس کے قتل کرنے کا طریقہ بہت ہی بیانک تھا ۔

وہ لوگوں کے جسم سے ان کے ضروری حصے نکال کر اپنی بنائی ہوئی ایک ٹرسٹ جس کا نام دوست فاؤنڈیشن تھامیں دیتا تھا

اور یہ فاؤنڈیشن اس نے اپنے دوست ٹائر کی یاد میں بنائی تھی ۔

تائر نے مرنے سے پہلے اپنا دل تحفہ دے کر اس کی جان بچائی تھی اور جان بھی ایسا ہی کرتا تھا وہ جس کی بھی جان لینے جاتا اس کے جسم کے ضروری حصے نکال کر اپنے پاس محفوظ کر لیتا تاکہ اس سے کسی اور کی جان بچائی جا سکے ایک ایسے انسان کی جان جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتا ہے کچھ بننا چاہتا ہے نہ کہ دنیا کو برباد کرنا چاہتا ہے

اور پھر آریان نے اپنی پاور یوز کرکے  انفارمیشن کے تحت پتا لگایا کہ ان کی تمام ٹیم آپ کے پاس کوئی نہ کوئی چپپ موجود ہے

جو ان کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے ۔

اور وہ چیپ یا تو ان کے سر کے بالوں کے درمیان موجود ہے یا پھر پیر کے ساتھ آپریشن کرکے جوڑی گئی ہے

یہی وجہ تھی کہ کبھی کباڑ اسے ان کو گنجا کر لے مارنا پڑتا ہاں وہ ترس نہیں کھاتا اس کے ملک کا دشمن لڑکا ہے یا لڑکی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا

اور پھر جب وہ ترکی چلاآیا تو اسے یہاں ایک عام شہری بن کر رہنا تھا ۔

یہاں وہ طہٰ کو جانتا تھا اور نہ ہی آریان کو اسی لئے وہ اکثر اس سے ٹائر کے روپ میں آکر ملتے ۔جہاں وہ تین نہیں بلکہ چار دوست مل کر باتیں کرتے انجوائے کرتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کی پلاننگ کرتے ۔

°°°°

بیس سال کی عمر میں اسے پتہ چل چکا تھا کہ ماہی کہاں ہے ۔

اکبر نے اسے دور کرنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جان نہ صرف اس تک پہنچ چکا تھا بلکہ وہ تو ہر رات اس سے ملنے جاتا تھا

اکبر کے وجود سے بے پناہ نفرت کرنے کے باوجود بھی وہ ماہی سے نفرت نہیں کر پایا تھاکیونکہ اگر اس سارے قصے میں کوئی بے قصور تھا تو وہ صرف اور صرف ما ہی تھی  وہ اکبر کی نہیں بلکہ اس کی پھوپھو کی بیٹی تھی وہ پھوپھو جو اس سے جان سے زیادہ چاہتی تھی اس نے اپنے ہاتھ پر ماہی کے نام کا ایک ٹیٹو بنوایا تھا

وہ ہر لمحہ ماہی کے ساتھ رہتا تھا ایک انجان سائے کی طرح ماہی کو کبھی محسوس بھی نہ ہوا کہ کوئی اس کے اتنے قریب ہے

اور پھر اس نے اپنی ماہی کو پا لیا اور اب وہ اپنے مقصد میں کامیابی کے بہت قریب آ چکا تھا اس کی لسٹ میں صرف ایک نام بچا تھا اور وہ نام تھا اکبر خان کا جسے وہ سب سے زیادہ دردناک موت دینا چاہتا تھا ۔

وہ ڈائری لکھنے کا شوقین نہیں تھا لیکن لیکن وہ لکھتا تھا اپنی زندگی کے کچھ اہم پہلو کے بارے میں اپنے احساسات بیان کئے تھے اور جو دنیا سے چھپا کر رکھا تھا وہ لفظوں میں اس نے اپنی ڈائری سے شیئر کیا تھا

وہ لمحہ جب اس نے پہلی بار اپنے باپ کی وردی پہن کر اس احساس کو محسوس کیا کہ وہ ایک پاکستانی ہے

وہ لمحہ جب وہ کامیاب ہوا اور ایک سیکرٹ ایجنٹ بن گیا

وہ انکوانٹر سپیشلسٹ تھا ۔ایک انڈر کور آفیسر جس سے اجازت حاصل تھی کہ وہ اپنے ملک کے کسی بھی ‏دشمن کو بنا دوسری سانس لینے کا موقعہ دیے ختم کردے

اس ڈائری میں الفاظ کی بہت کمی تھی

لیکن ان چند لفظوں میں ہی ماہی اس کی زندگی کی ساری حقیقت سمجھ گئی تھی

وہ کہتا تھا جب تمہیں سچ پتہ چلے گا تم فخر کرو گی مجھے پے خود پے لیکن جاناں کیا فخر کرتی اسے تو شرم آ رہی تھی کہ وہ اکبر جیسے غدار کی بیٹی ہے

اور جان وہ خودکو اس سے نظر ملانے لے قابل نہیں سمجھتی تھی وہ آنسو بہاتی زمین پر بیٹھی تھی جب وہ دراوزہ کھول کر اندر داخل ہوا

°°°°°

اس نے سامنے دیکھا تو جاناں زمین پر بیٹھے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا

صبح سے یہی بیٹھی ہویا کچھ کھایا پیا بھی ہے۔۔۔۔؟

دیکھو ڈارلنگ تمہارا غصہ مجھ پر جائز ہے لیکن کھانا پینا چھوڑ دینا بے وقوفی ہے اور پھر تم مجھے چیلنج بھی کر چکی ہو کے تم مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجو گی

اور اس کے لیے تمہیں محنت کرنی پڑے گی لڑائی کرنی پڑے گی اتنی آسانی سے تو تم مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج پاؤ گی

میرے گناہ ثابت کرنے کے لئے تم نے بہت محنت کرنی ہے اور اس کے لئے تمہارے اندر طاقت ہونا چاہیے سو کھانا کھا لو پھر لڑائی جھگڑا شروع کر دینا

میں تمہارے لیے کھانا بنا کر گیا تھا لیکن یقیناً تم نے کچھ نہیں کھایا تمہاری شکل بتا رہی ہے وہ اس طرح سے روتے دھوتے تم میرا کچھ اکھاڑ نہیں سکتی آئی میری بات سمجھ میں وہ مسکرا کر بہت محبت سے اس سے بات کر رہا تھا

یقینا اس سے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی ڈائری کو پڑھ چکی ہے

اٹھو زمین سے یہ اوپر صوفے پر بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کے لئے لاتا ہوں وہ اس کا بازو تھام کر کسی صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔

وہ بنا کچھ بولے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی

کیا بات ہے آج میری شیرنی بالکل بھی لڑائی کے موڈ میں نہیں لگ رہی ۔کیا آج آپنے جان کو اپنی آواز بھی نہیں سناؤگی ۔وہ جیسے منت کر رہا تھا

تم بہت برے ہو جان

آئی ہیٹ یو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی کبھی تمہیں پیار نہیں کروں گی اور تمہارے ساتھ ہنی مون پر بھی نہیں جاؤنگی

تم بہت بہت زیادہ برے ہو رہے ہو

اتنا کچھ اکیلے سہتے رہے مجھ سے اپنی تکلیف تک شئر نہیں کی تم نے

کیا میں اس قابل بھی نہیں تھی کہ تم مجھے اپنے دکھ اپنے درد کا حصہ سمجھتے

وہ اس کے سینے پہ اپنے نازک ہاتھوں کے مکے مارتی اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔

جان پہلے حیرانگی سے سنتا رہا پھر اس کی نظر زمین پر پڑی اپنی ڈائری پر گئی اور وہ سب سمجھ گیا ۔

تم  موقع ہی نہیں دے رہی تھی کیسے بتا تا تمہیں

جاناں میں تمہیں اپنی زندگی کے کسی بھی پل سے انجان نہیں رکھنا چاہتا تھا یہ میری مجبوری تھی

جسے آج میری ڈائری پر کہ تم نے ختم کر دیا

اس ڈائری میں میں نے اپنی زندگی کے چند اہم لمحات لکھے تھے لیکن اس ڈائری کے آخری صفحے پر تم نے جو پڑھا ہے وہ سچ ہے میری زندگی کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اکبر خان کو اس کی زندگی سے رہائی دینا ہے

جتنی نفرت میں تمہارے باپ سے کرتا ہوں اتنی مجھے شاید دنیا میں کسی سے نہیں ہے وہ شخص قاتل ہے میرے باپ کا اور میری پھپھو کا ۔اس شخص نے مار دیا ہے تمہاری ماں کو اور اب میں اس سے بدلہ لوں گا اپنے باپ کا بھی اور تمہاری ماں کا بھی اور اس میں تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا میرا ساتھ دو گی نہ جاناں۔وہ بہت آس سے پوچھ رہا تھا

میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں جان لیکن اس شخص کو بار بار میرا باپ کہہ کر مجھے مزید شرمندہ نہ کرو وہ صرف میرے ملک کا غدار ہے وہ باپ کہلانے کے لائق نہیں

اور جتنے نفرت تم اس سے کرتے ہو شاید اتنی ہی مجھے بھی اس سے ہوگئی ہے اس نے تمہارے بابا اور میری ماما کو اس لئے مار دیا کیونکہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتے تھے اپنے ملک کو بیچ نہیں سکتے تھے اس کے جیسے ۔اور پھر مجھے تم سے دور کردیا انہوں نے کبھی مجھے احساس نہیں دلایا کہ وہ میرے بابا ہیں

جان میں کبھی اس شخص کو سمجھ ہی نہیں پائی ۔لیکن میں اللہ کی بہت شکر گزار ہوں جس نے وقت رہتے ہیں میری آنکھیں کھول دیں ۔

اور اب میں تمہارا ساتھ دوں گی

تم اپنے آپ کو تنہا مت سمجھنا میں تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں ۔تم جو کہو گے وہی کروں گی لیکن ایک سوال میرے دماغ میں ہے جو مجھے بہت کنفیوز کر رہا ہے جان وہ کچھ کہتے کہتے اچانک بات بدل گئی

ہاں بتاؤ کون سی بات کرنی یوز کر رہی ہے میری جان کو آج تمہاری ہر پریشانی ختم کر دوں گا

جان مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ تمہاری یہ ڈائری عائشہ کے پاس کیسے گئی اور عائشہ یہ ڈائری سنبھالنے کے لیے مجھے کیوں دے گئی اور ہاں اریشفہ اور عائشہ نے تمہیں قتل کرتے ہوئے دیکھا تو ان لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم ہی بیسٹ ہو۔

ملک کی محبت جاناں یہ بڑے بڑے انسان کو بدل دیتی ہے کہنے کو عائشہ اور اریفشہ اس ملک کی پیدائش ہیں لیکن ان کے سینوں میں پاکستان کا دل دھڑکتا ہے

میں عائشہ کے سامنے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ خبیث انسان اس وقت عائشہ کے فلیٹ میں تھا جو کہ میرا اگلا شکار تھا اور اسے اسی رات ختم کرنا میرا مقصد تھا اس رات مجھے عائشہ کے سامنے وہ سب کچھ کرنا پڑا

لیکن تب میں نے ماکس پہنا ہوا تھا عائشہ نے مجھے پہچانا نہیں پھر وہ تمہارے ساتھ میرے فلیٹ میں آئی مجھ سے ملنے کے لیے اس دن اسے مجھ پر شک ہوگیا تھا اور پھر اس کا شک یقین میں بدل گیا جب میں اسے ڈرانے تمہارے ہوسٹل چلا گیا

اس دن میں بس یہ چاہتا تھا کہ تم کسی بھی طرح مجھ سے دور نہ چلی جاوبس اسی لئے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑے گا ورنہ تمہاری دوست کو ڈرانا میرے کام میں شامل نہیں تھا لیکن عائشہ بہت بہادر تھی وہ ڈرنے کے بجائے میرے پیچھے آنے لگی میرے لیے ثبوت اکٹھا کرنے لگے یہاں تک کہ ایک دن عائشہ اپنے ایک دوست کے ساتھ میرے فلیٹ میں اور تمہیں پتا ہے اس دن وہ میری ڈائری شروع کر لے گئی تھی

اور تمہیں پتا ہے اس دن اس کے ساتھ  آنے والا کون تھا میرا یار طہ میرے دوست نے اس کی مدد کی تھی وہ ڈائری چرانے میں

کیونکہ میں عائشہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے حقیقت بتاؤں گا آ اس میں میرے اور تمہارے نکاح کے بارے میں سب لکھا ہے اور اس کے بعد میرے میشن کے بارے میں بھی عائشہ کو پتہ چل چکا تھا کہ میں ایک سکریٹ ایجنٹ ہو اور یہاں کسی مشن پر کام کر رہا ہوں

پھر کیا تھا ملک کی محبت نے انگڑائی لی اور عائشہ نے سب کچھ اپنے سینے میں دفن کر لیا ۔لیکن اسے ڈر تھا کہ یہ نہ ہو کے وہ ڈائری طہ اور آریان کے ہاتھ لگ جائے  اسی لیے وہ ڈائری چھپانا سب سے بہتر اسے تمہارے پاس لگا

اور وہ ڈائری تمہارے حوالے کر گئی جبکہ اس بات کی تو اسے خبر بھی نہیں تھی کہ آریان اور طہ دونوں میرے دوست اور اس کیس کا اہم ترین حصہ ہیں

جان نے مسکراتے ہوئے بتایا تو جان اسے دیکھ کر رہ گئی جب کہ اس کی حیرانگی پر جان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی تھی۔

مطلب کے  آریان بھائی بھی تمہارے اس کیس کے بارے میں جانتے تھے اسی لئے اس رات مجھے پیٹرول پمپ کے نکلنے سے منع کر رہے تھے تاکہ وہاں تم آ جاؤ اور مجھے واپس لے جاؤ اور میں آریان بھائی پر یہ سوچ کر یقین کر رہی تھی کہ وہ میرا ساتھ دیں گے اور اریشفہ وہ جانتی تھی۔۔۔۔؟ جاناں اپنی بیوقوفی پر پریشان ہوتی اس سے پوچھنے لگی

نہیں وہ معصوم بالکل بے گناہ ہے

وہ لوگ اپنے نقصان پر آریان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے وہ اپنا غیرقانونی مال واپس چاہتے تھے جس کی وجہ سے وہ ارشفہ پر اٹیک کرنے کا سوچ رہے تھے یہ بات مجھے پتہ چل گئی

اور پھر جو شخص میرا اگلا شکار تھا

وہی اریشفہ  پر حملہ کرنے والا تھا تو مجھے یہ کام اس کے سامنے کرنا پڑا اور اس کے لئے میں بہت پچھتایا کیونکہ اس سے اریشفہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اور اس چیز کی مجھے بہت شرمندگی بھی ہے

اگر اس دن اسے کو کچھ ہو جاتا تو شاید میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاتا جانا وہ سچ میں بہت شرمندہ تھا

اور اس کے بعد عائشہ نے یہاں بھی میری مدد کی اریشفہ کو سب سچ بتایا اور اس کے بعد اس نے بھی میرا ساتھ دیا

اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو تم نہیں جانتی اور وہ یہ ہے کہ طہ کو دیکھ کر تمیں لگا کے تم نے اسے کہیں پہلے بھی دیکھا ہے لیکن تم ٹائر اور طہ میں کبھی فرق نہیں کر پائی خیر یہ باتیں بات تمہاری سہیلیاں بھی نہیں جانتی وہ مسکراتے ہوئے بتا رہا تھا جب کہ جاناں کو تو جھٹکا ہی لگا وہ کافی دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی

مطلب صرف یہی ایک بات تھی جو وہ نہیں جانتی صرف میں ہی تھی جو ان سب باتوں سے انجان تھی یہاں تک کہ میرے دوستوں کو بھی سب پتہ تھا صرف میں ہی بے وقوف تھی وہ تو بڑے مزے سے سارے کارنامے میں بتا رہا تھا اس کی خاموشی پر اسے دیکھنے لگا اور پھر جب وہ بولی جان کا بھی قہقا بلند ہوا

اور اس کے یوں منہ پھاڑ کے ہنسنے پر جاناں کو اچھا خاصہ غصہ دلآگیا اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھی

اور اندر جانے لگی جب اچانک جان نے اس کا بازو تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا

ارے میری جان من تو ناراض ہو گئی ۔

جانو میں تمہیں پہلے دن ہی بتانا چاہتا تھا لیکن میری مجبوریوں اس کو سمجھنے کی کوشش کرو

۔عائشہ کی عزت اور اریشفہ کی جان کو خطرے میں نہ ہوتی تو یہ بات کبھی وہ لوگ بھی نہیں جان پاتیں

اور جہاں تک بات تماری ہے تو تم تک کسی خطرے کو پہنچنے سے پہلے اسے جان کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔

تم تک کسی مصیبت کو نہیں آنے دونگا لیکن فی الحال تو اس مصیبت کو جھیلوجسے اتنے دنوں سے خود سے دور کر رکھا ہے وہ کہتے ہوئے بنا اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے اس کے لبوں پر جھکا تھا اور اس کے ل وں کو اپنی سخت دسترس میں لیا

اس کے انداز میں اتنی شدت تھی کہ جاناں بوکھلا کر رہ گئی بے اختیار ہی جاناں کے ہاتھ اس کی شرٹ پر مضبوط ہوئے ۔

جاناں کی سانس روکنے لگی لیکن جان شاید پچھلے تمام دنوں کا حساب بے باک کر رہا تھا جاناں کی حالت کی پروا کیے بغیر وہ اپنی تشنگی مٹا رہا تھا

اس کی دیوانگی سے گھبرا کر جاناں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور کرنا چاہا لیکن یہ بھی ممکن نہیں تھا وہ جاناں کو مزید خود کے قریب لے آیا ان کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا

اس کے جنون کے آگے جاناں بےبس سی ہوگئی اسے لگا شاید اب وہ دوسری سانس نہیں لے سکے گی پھر اچانک جان اس سے الگ ہو گیا۔

میں تمہیں تکلیف نہیں دے سکتا لیکن پچھلے کچھ دن سے میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہا تھا جاناں اسے غصے سے دیکھتی گہری گہری سانسس لے رہی تھی

وہ نرمی سے ایک بار پھر اس کے لبوں پر جھکا لیکن اس بار انداز میں شدت نہ تھی ۔وہ بہت محبت سے اس کے لبوں کی نرماہٹ کو محسوس کر رہا تھا جب جاناں اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کچھ فاصلے پر ہوئی وہ مدہوشی سے پھر اس کی جانب آیا

جب جاناں نے اسے دور رہنے کا اشارہ کیا

وہی رک جاو سانس لینے دو مجھے

سامنے والے پر ترس بھی کھایا جاتا ہے کیا جان لو گے میری وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولی تو جان مسکرایا

سوری ڈارلنگ اتنے دنوں کے بعد قریب آیاہوں تو ہوش نہیں رہا بٹ ڈونٹ وری آگے اختیاط سے کروں گا وہ شرارتی انداز میں بولا

آگے سے کیا مراد ہے تمہاری ۔۔۔؟ جاناں نے گھورا۔

اب اتنی بھی کاکی نہیں ہو تم کہ ایک ایک بات کا مطلب سمجھوں

چلو کوئی بات نہیں کمرے میں چلو ایک عد کلاس دے ہی دیتا ہوں وہ سنجیدگی سے کہا ہوا اس کی مذاحمت کی پراہ کیے بغیر اٹھا کر لے گیا۔

اور اب وہ سچ میں اسے اپنی باتوں کا مطلب بہت اچھے سے سمجھا رہا تھا  جاناں ہمیشہ کی طرح بے بس سی اس کی باہوں میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہی تھی 

اور جان اپنے تمام دنوں کی تھکاوٹ مٹاتا اپنے آنے والے وقت اور مقصد کو فراموش کیے صرف اور صرف اپنی جاناں کو پیار کررہا تھا

ان تینوں میں ایک ساتھ تہہ خانے میں مقدم رکھا

 ۔یہ ایک بہت ویران اور پرسرار سے جگہ تھی ۔

وہ تینوں ایک ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ اندر آ رہے تھے ۔

سامنے ہی ایک آدمی کرسی پر باندھا بہت بری حالت میں تھا

 ۔اس کے جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جس کے زخم نہ ہو

۔شاید نہیں یقینا اس وقت وہ خدا سے اپنی موت کے لئے دعا کر رہا ہوگا ۔

تین دن سے بھوکا پیاسا وہ اسی حالت میں یہاں باندھا ہوا تھا ۔

وہ تینوں آگے بڑھے جب ان میں سے ایک لڑکے نے ایک اسٹول اٹھا کر اس کے سامنے رکھا جس پر اس نے دوسرے لڑکے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔

کیسے ہو اکبر خان یہاں کیسا محسوس کر رہے ہو ۔۔۔۔؟

یقینا تم خوش ہو گئے بلکے نہیں میں غلط بول گیا تم نہیں تمہاری روح بہت خوش ہو گی

جسے آج تمہارے جیسے گھٹیا شخص کے وجود سے آزادی مل رہی ہے

۔ہاں ٹھیک سنا تم نے آج تمہاری زندگی کا آخری دن ہے تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں تین دن سے زندہ کیوں رکھا ہوا تھا

 تاکہ تم محسوس کرو ان لوگوں کا درد جنہیں اپنا مقصد پورا نہ ہونے پر تم اسی تکلیف سے دوچار کرتے ہو ۔

خیر احساس نام کی کوئی چیز تو تمہارے اندر ہے نہیں تو سوچا کیوں نہ تمہیں وہی تکلیف دے کر میں تمہیں بتا سکوں کہ دوسروں کو وہ تکلیف کس طرح سے محسوس ہوتی ہے ۔

ویسے تمہیں زندہ رکھنے کی ایک اور وجہ بھی تھی ۔

بارڈر پر ہماری فوج کے ایک نوجوان کو گولی لگ گئی تھی

 گولی دل پر لگنے کی وجہ سے اس کا دل کام کرنا چھوڑ رہا تھا

 ڈاکٹر اس کا دل ٹرانسفارم کرنا چاہتے تھے اور اس کا باڈی سسٹم تمہارے باڈی سسٹم سے کافی زیادہ میچ کر رہا تھا

 میں نے سوچا بچارے کا بلا ہو جائے گا لیکن اتفاق سے اس شخص کو پہلے ہی پتہ چل گیا کہ تم اس کے ملک کے غدار ہو

 اور تمہارے جیسے ذلیل اور گھٹیا انسان کا دل لینے کی بجائے اس نے موت کو قبول کرنا بہتر سمجھا

 اس حساب سے اب تم میرے کسی کام کے نہیں ہو تو تمہیں زندہ رکھنا بھی میرے لیے کوئی اہم نہیں تو اب تم تیار ہو جاؤ کیوں کہ میں تمہاری موت بن کر تمہارے سامنے کھڑا ہوں

نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے جان

 جاناں تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی

بھولو مت جان میں تمہارا ماموں ہوں میں تمہاری جاناں کاباپ ہوں

جان  مجھے معاف کردو مجھ سے غلطی ہوگئی

 پلیز مجھے معاف کر دو کیا مجھے مار کر جاناں کے سامنے جا پاؤ گے۔۔۔!

 اسے کبھی بتاؤ گے کہ تم نے اس کے باپ کا قتل کر دیا وہ اسے ایموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔جب جان ذرا سا اس کے سامنے جھکا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ۔

میری جاناں نے مجھ سے کہا ہے کہ میرے ملک کے ایک بھی غدار کو دوسری سانس لینے کا موقع مت دینا ۔چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اسے زندہ مت چھوڑنا

 اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں گی میں اپنی بیوی کوتمہارے لیے ناراض ہیں کر سکتا اور تمہارے بارے میں بھی وہ سب کچھ جانتی ہے

اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ہے کہ تمہاری موت کی خبر میں اسے نہ دوں اس لیے نہیں کہ اسے تکلیف ہوگی بلکہ تمہارے جیسے گھٹیا شخص کی بیٹی کہلاتے ہوئے اسے شرمندگی ہوتی ہے ۔

اور یہ پہلا موقع تھا جب اکبر اپنی نظریں جھکا گیا

میرے خیال میں بہت باتیں ہو گئی جان اب ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے آریان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو جان نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنا چاقو نکالا

میری خواہش تھی کہ میں تمہیں دردناک موت دوں پچھلے پندرہ سال سے ایک ایک پل میں یہی سوچتا رہا کہ تمہاری موت کو اذیت ناک بنا دوں گا ۔

لیکن میں تم سے اتنی نفرت کرتا ہوں اکبر خان کی میرا دل ہی نہیں کر رہا تم سے بات کرنے کا

 تم اس قابل نہیں ہو کہ میرے ہاتھوں مرو لیکن یہاں مجھے اپنا فرض سر انجام دینا ہے

ان ہاتھوں سے تم نے میرے بابا کی جان لی تھی نا آج ان ہاتھوں کو میں کاٹ دوں گا ۔اکبر خان کی چیخ کو پکار درد اور التجاؤں کی پرواہ کیے بغیر وہ اس کے دونوں ہاتھ اس کے جسم سے الگ کر چکا تھا ۔

اور پھر یہ چیخ و پکار بڑھتی چلی گئی ۔

تہہ خانے میں شور برپا تھا

اس کی التجاوں نے شدت پکڑلی

اور پھر خاموشی۔ ۔۔۔۔

ہر طرف خاموشی کا راج تھا

°°°°°

اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ تینوں جس خاموشی سے آئے تھے اسی خاموشی سے باہر چلے گئے

طہ اس جگہ کی صفائی اس انداز میں کرنا کے پتہ بھی نہ چلے گئے یہاں کوئی قتل ہوا ہے آریان نے باہر نکلتے ہوئے کہا تو طہ نے اسے گھور کر دیکھا

ابھی میں ٹھیک نہیں ہوں مجھے بہت ساری چوٹیں لگی ہیں اور صفائی کا کام میں نہیں کر سکتا

مجھے کراہت ہوتی ہے کچھ دن پہلے بھی تم نے مجھ سے کروایا تھا تمہیں اندازہ بھی ہے بعد میں جسم سے کتنی اسمیل آتی ہے اس بلڈ کی

ہزار بار نہانا پڑتا ہے پھر بھی دس دن کے بعد میں ختم ہوتی ہے یہ بدبو وہ اسے دیکھتے ہوئے سمجھانے لگا

دیکھ بھائی ہم دونوں شادی شدہ بندے ہیں اب کیا بیوی کے پاس خون کی بدبو لے کر جائیں گے کنوارا تُو ہی ہے اسی لیے یہ کام تیرا جب تک تو شادی نہیں کرتا آریان نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا

اگر ایسی بات ہے تو میں بھی شادی کرنے والا ہوں مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا

مجھے پہلے ہی پتہ تھا یہ بندہ عائشہ پہ فدا ہے آریان نے مسکرا کر کہا انداز شرارت سے بھرپور تھا

ارے میں نہیں عائشہ بچاری مجھ پر مرتی ہے اب دیکھو نہ پچھلے ایک ہفتے سے میری موت کو سوچ سوچ کر روئے جارہی ہے حامت یکھی ہے اس کی مجھے ترس آتا ہے اس بیچاری پر اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ اب میں اسے مزید تکلیف نہیں دوں گا کیا یاد کرے گی طہ نے سخی پن کا مظاہرہ کیا۔

بس اب زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے سب کو پتہ ہے کہ تم عائشہ کو چاہتے ہو اب اسے مذیدتکلیف پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچنا شادی کر لو اس سے گھر بساؤ مجھے یقین ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین ساتھی ثابت ہو گے جان میں حوصلہ افزائی کی

ہاں بس عائشہ اب شادی کے لیے مان جائے ساری حقیقت جاننے کے بعد آریان نے لقمہ  دیا

ارے وہ بچاری پاگل ہے میرے پیچھے ایک اشارہ کروں گا تو بھاگتی چلی ائے گی طہ نے روعب سے کہا

پہلے جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ تو زندہ ہے اور صرف مرنے کا ڈرامہ کر رہا ہے تو سب سے پہلے وہ تیری بینڈ بجائے گی اور پھر شادی اس نے کرنی ہے یہ نہیں یہ وہ خود سوچنے گی ۔لیکن تو عائشہ کے سامنے جانے کے لیے تیار ہو جاؤ

ہاں جلدی سے جلدی عائشہ سے ملاقات کرو تمہاری وجہ سے میری جاناں  پریشان ہے اپنے دوست کے دکھ میں پاگل ہوئی جارہی ہے کھانا تک نہیں کھا رہی ٹھیک سے اور میں اپنی جاناں کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتا ۔

اس لئے جتنا جلدی ہو سکے اپنا میٹر سیٹ کرو ۔جان کا انداز ذرا سخت تھا

وہ اپنی ماہی کو ہر مسئلے سے دور رکھنا چاہتا تھا لیکن آج کل وہ عائشہ کی وجہ سے بہت پریشان تھی اور عائشہ کی پریشانی کی وجہ طہ تھا

°°°°°°

عائشہ کو لگ رہا تھا کہ اس بم بلاسٹ میں طہ کی موت ہو چکی ہے جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ لوگوں کا آخری ٹھکانہ تھا

جس کا نام و نشان مٹانے کی ڈیوٹی طہ کے سر پر لگائی گئی تھی طہ بم سیٹنگ کے بعد قلب سے نکل تو گیا لیکن وہ صرف باہر تک ہی اب آیا تھا کہ بلاسٹ ہو گیا۔شاید عائشہ سے بات کرنے کے چکر میں وہ ٹائم سیٹنگ سے نہیں کر پایا تھا

بلا سٹ جلدی ہو جانے کی وجہ سے طہ کو بہت ساری چوٹیں آئی تھی اور وہ دو دن ہسپتال میں بھی رہا

جس کی وجہ سے اکبر کو مارنے میں بھی انہیں تھوڑا وقت لگ گیا

اور اب وہ اپنا یہ مشن مکمل کرنے کے بعد معید کے پاس پاکستان جانا چاہتے تھے تاکہ وہ اسے بتا سکے کہ وہ اپنا سب سے بڑا مشن حل کر چکے ہیں

جان اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر چکا ہے

اور اب وہ تینوں اس کی خوشی اس شخص کے ساتھ منانا چاہتے تھے جس نے ان کا سب سے زیادہ ساتھ دیا جو ان لوگوں کو وجود میں لے کر آیا

اور سب سے زیادہ اس نے طہ کا ساتھ دیا تھا وہ جو اپنے آپ کو بے نام و بے نشان کہتا تھا اس نے دو چیزوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا ایک اپنے باپ کا نام حاصل کرنا دوسرا اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا

لیکن معید چاہتا تھا کہ اس کے دل میں ایک ھی خواھش ہو اپنے ملک کے لئے سب کچھ لوٹا دینا اسی لیے معید نے اسے اپنا نام دیا تھا ۔

اس کے تمام سرٹیفکیٹس پر باپ کے نام کی جگہ معید بخاری کا نام لکھا تھا

بلاسٹکے دوسرے  دوسرے دن اسے پتہ چلا تھا کہ جسٹس حفیظ کرپشن کیس میں بیس سال کے لیے اندر جا چکا ہے

اس کی اولاد دوست کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں

پاکستان میں جسٹس حفیظ کا نام آج کل ایک گالی سے زیادہ اور کچھ نہ تھا

اور طہ کوتھا اس کے علاوہ دنیا کے سامنے اپنے ہی ملک کو بیچنے والے شخص کا بیٹا نہیں ہے

وہ دنیا کے لئے ایک ایسے شخص کا بیٹا تھا جو اپنے ملک کے لیے اپنی جان دینے کو تیار تھا اس شخص نے اپنی آرمی تیار کی تھی

جان آریان اور طہ کے ساتھ مل کر اس نے ان تینوں کو اپنے بچے بنا کر پالا تھا اور ان تینوں کو اس شخص کے بیٹے کہلانے پر فخر تھا

°°°°

آریان سرمجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے

اگر آپ مصروف نہ ہوں تو رضی کو وہ کافی دن سے دیکھ رہا تھا وہ اس سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر ڈٹل جاتا اکثر وہ اس کے گھر بھی آتا تھا

وہ بھی بنا کسی وجہ کے آریان کو اس پر شک تو ہونے لگا تھا کہ وہ آئمہ کو پسند کرتا ہے لیکن فی الحال وہ خاموش تھا اسی لیے آریان نے  بھی کوئی بات نہ چھیڑا

اسے رضی پسند تھا اسے ایک اچھا شخص تھا ۔اور ائمہ کیلئے ایک بہترین ہمسفر ثابت ہو سکتا تھا

رضی میں منتظر ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو رضی کو پھر سے حخاموش پا کر آریان نے مسکراتے ہوئے کہا وہ اس کا حوصلہ بڑھا رہا تھا

سر وہ دراصل بات کچھ پرسنل ہے رضی نے تمہید باندھی لیکن وہ پھر سے خاموش ہوگیا آریان نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا

حد ہے بے وقوف آدمی میری سالی کا رشتہ مانگنا چاہتے ہو اور مجھ سے ہی ٹھیک سے بات نہیں کر سکتے

وہ میری سالی بعد میں ہے میں تمہارا دوست پہلے ہوں تم اپنی کوئی بھی بات کھل کر کر سکتے ہو

تم رشتہ لے آنا ڈی ایس پی سر سے میں خود بات کر لوں گا بے فکر رہو انکار نہیں ہوگا وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھ کر یقین سے بولا تو رضی بے اختیار مسکراتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گیا

مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا آپ سے اس طرح سے بات کرنا وہ آپ کی سالی آپ کی بہنوں جیسی ہے ۔مجھے لگا آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے

اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے تم ایک بہترین انسان ہو اور یقین کرو تمہیں اپنا سنڈوبناتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہوگی

آریان نے مسکرا کر کہا اور اسے یقین دلایا کہ وہ رشتہ لے آئے انکار نہیں ہوگا اب اسے ڈی ایس پی سر سے بات ہوئی تھی اسے پتہ تھا کہ تائی امی اتنی آسانی سے یہ رشتہ نہیں ہونے دیں گیں

°°°°°

ارے دو کمرے کا مکان بنایا ہے اس نے کوئی محل نہیں بنا لیا

کہ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ اسے دے دیں

مجھے تو وہ لڑکا پہلے ہی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا ارے میرے ہوتے ہوئے اتنی بار آیا ہے میرے بعد تو نہ جانے کتنے چکر لگائے ہوں گے

میں پہلے ہی کہہ رہی  تھی اس لڑکی کے پاس میری بیٹی کو مت رہنے خود تو عشقیاں لڑاکے کرلی شادی اور میری بیٹی کو بھی بگاڑ دیا

جب سے آریان نے رشتے کے بعد کی تھی تب سے تائی امی کا پارا ہائی ہو رہا تھا وہ فورا آئمہ کو بھی گھر بلا چکی تھیں

بس خاموش اب ایک لفظ نہیں کہنا میری بیٹی کے بارے میں وہ ایسی ہرگز نہیں ہے یہ شادی میری مرضی سے ہوئی ہے میری پسند سے ہوئی ہے بہت بکو اس کر لی تم نے میری بیٹی کے بارے میں ساری زندگی تم نے اسے صرف اور صرف تکلیف دی ہے تمہاری ان رویوں کی وجہ سے میں نے اسے خود سے دور کر دیا ورنہ میں اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنے سینے سے لگا کے رکھتا ۔

تمہاری نفرتوں کی وجہ سے اس نے گھر سے زیادہ ہوسٹل میں رہنا بہتر سمجھا بات بات پر اسے گونگے ہونے کے طعنے تم نے دیے اس نے اپنی اس کمی کو اتنا محسوس نہیں کیا ہوگا جتنا تم نے طعنے دے کر محسوس کروایا ہے

یہاں تک کہ شادی کے دن تم نے اس کی شادی توڑنی چاہئہ تم نے اریان کو نہیں بتایا اس کی محرومی کے بارے میں اور اب بھی وہاں جانے کے بعد تمہارا اس کے ساتھ کیسا رویہ رہا ہے میں سب جانتا ہوں اور مجھے بتانے والا آریان نہیں بلکہ ائمہ تھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری بیٹیوں کے سینے میں تمہارے جیسی جاھل عورت کا دل نہیں ہے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ دو دو بیٹیوں کی ماں ہوکر تم تیسری  بیٹی جیسی بچی کے ساتھ ایسا رویہ کیسے اختیار کر سکتی ہو

تمہارے ان ناجائز رویوں کی وجہ سے میں نے کتنی بار کیا خود کو سخت الفاظ کہنے سے روکا لیکن آج نہیں اگر تم نے اس رشتے میں کسی بھی قسم کی کوئی مخالفت کی تھی یاد رکھنا کہ میں تمہیں اپنی زندگی سے اتار کر پھینک دوں گا نہیں ہے ضرورت مجھے ایسی عورت کی جو نہ تو اپنی اولاد کی پرورش کرسکے اور نہ ہی کسی دوسرے کی اولاد کو محبت کے تو بول دے سکے

میں تو تمہیں اسی دن اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دینے والا تھا جب تم نے پہلی بار اریشفہ پے ہاتھ اٹھایا لیکن اس تیرا سال کی بچی نے مجھ سے کہا کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی لیکن میری تائی امی کو کچھ نہ کہیں اس کے پاس الفاظ نہیں تھے لیکن احساس تھا  یاد رکھو بیگم اگر آج اریشفہ نہیں ہوتی تو تم بھی نہیں ہوتی تم اس گھر میں اپنی اولاد اپنے شوہر پر راج کر رہی ہو تو صرف اور صرف اسی یتیم بچی کی وجہ جس سے تم نے ہمیشہ نفرت کی ہے

وہ انتہائی سخت انداز میں کہتے اٹھ کر باہر چلے گئے جب کہ تائی امی کے پاس تو جیسے الفاظ کی ختم ہوگئے یہ ساری باتیں انہیں کیسے پتہ چلی اس کا مطلب اریشفہ کی شادی کے بارے میں وہ شادی کے دن سے سب جانتے تھے لیکن پھر بھی خاموش رہے صرف اپنی بچیوں کی خوشیوں کے لیے ۔

اور اگر ایسے میں وہ کوئی سخت فیصلہ کردیں تو اس عمر میں وہ کہاں جاتیں پچھلے دنوں ہی ان کی سہیلی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی اپنے تین بچوں کے ساتھ وہ ایک کمرے کے چھوٹے سے فلیٹ میں گزارا کر رہی تھی اسے دیکھ کر ان کے دل میں کوئی نرمی ہے کوئی احساس نہیں جاگے تھے

ہاں لیکن آج وہ اس عورت کی جگہ خود کو سوچتی کانپ کر رہ گئیں دور کسی مسجد سے اذان کی آواز آئی تو آج اس آواز نے انہیں اٹھنے پر مجبور کر دیا  وہ سجدے میں گر کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں ۔اتنی خطا کار ہونے کے باوجود بھی اللہ نے اپنی رحمت کا سایہ آپ پر بنایا ہوا تھا

°°°°°°

پچھلے ایک ہفتے سے سوائے رونے کے اس میں اور کچھ نہیں کیا تھا ۔

طہ کے سامنے بولے گئے سخت الفاظ اسے آج بھی یاد آتے تو آنکھیں اپنے آپ بھیگنے لگتی ایسے میں اس کے دونوں سہلیاں اس کا سایہ بنیں اس کے ساتھ ساتھ تھی اس کو سنبھال  رہی تھی اس کی تکلیف میں اس کا ساتھ دے رہی تھی

وہ اسے باہر لے کر جاتی ۔اس سے انٹرٹین کرنے کی کوشش کرتی تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی لیکن اسے طہ یادوں سے نکالنے کی کوشش کرتی

ان دونوں کے ساتھ  وہ خود کو کافی مطمئن ظاہر کرتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہیں ۔

ماں اور ان دو دوستوں کے علاوہ اس کی زندگی میں اب تھا ہیں کون ۔۔۔!

جاناں اس سے کل سے باہر چلنے کو بول رہی تھی اور جب اس نے اس کی بات نہیں مانی تو جاناں نے کسی ہوٹل میں ٹیبل بک کرا کر اسے میسج سینڈ کر دیا ابھی سے جانا پڑ رہا تھا ماما کے بار بار ضد کرنے پر مجبور ہوگئی

لیکن جس ہوٹل کا ایڈریس جاناں نے اسے سینڈ کیا تھا وہ ہوٹل پوری طرح بند تھا وہ کچھ سوچ کر واپس جانے کا سوچ رہی تھی لیکن پلٹتے ہی اس ہوٹل میں اس کے سامنے ایک الگ ہی نظارہ پیش کر دیا تھا

ہر طرف لائٹنگ ہوئی تھی ۔رنگوں سے بھری لائٹس میں الگ ہی ماحول بنا دیا تھا ۔اس کے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ آئی کیونکہ اب سامنے سے چلتی لائٹ آئی لو یو عائشہ شو کر رہی تھی

کتنی پیاری تھی اس کی سہلیاں اسے چند پل کی خوشی دینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی تھی اسے اختیار جاناں اور اریشفہ پر پیار آیا ۔

پھر اچانک ساری لائٹس آف ہوگئی اسے سامنے سے ایک سایہ اپنی طرف آتا نظر آیا مطلب شاید جاناں یا اریشفہ ہو گی لیکن وہ کوئی آدمی تھا وہ پریشان ہوئی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی

وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھی وہ وہی تھا جسے وہ سوچ رہی تھی وہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے آچکا تھا اس جگہ اب بھی اندھیرا تھا

پھر اچانک ساری لائٹس اون ہوگئی وہ گھٹنے کو فولڈکرتے ہوئے اپنا سارا وزن اس پر ڈالتا زمین پر بیٹھ چکا تھا

ایک ہاتھ سے اس نے عائشہ کا نازک ہاتھ تھاما جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک خوبصورت ڈائمنڈ رنگ تھی

میں طہ معید بخاری آج اس بات کو قبول کرتا ہوں کہ میں تم سے پاگلوں کی طرح محبت کرتا ہوں اور تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی کروانے کے لیے تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی ۔

کیا تم مجھے اپنی محبت کے راستے کا ہم سفر بناؤ گی ۔مجھ سے شادی کروں گی عائشہ ۔وہ زمین پر بیٹھا یقین سے پوچھ رہا تھا جبکہ عائشہ حیرانگی سے اسے دیکھے جا رہی تھی ۔

وہ ایک قدم پیچھے ہٹی تو طہ زمین سے اٹھ کر اس کے سامنے آگیا شاید وہ اس کی بے یقینی کو سمجھ رہا تھا اسی لیے مسکراتے ہوئے ایک قدم مزید اس کی طرف بڑھایا

چٹاخ ۔۔۔۔ تھپڑ کی گونج نے حال میں شور برپا کیا اور پھر سناٹا چھا گیا طہ نے بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا اب اسے سے امید تو ہرگز نہیں تھی ۔

طہ نے  ایک نظرپلر کے پیچھے چھپے آریان کو دیکھا تھا کیونکہ اسے پیچھے سے قہقے لگانے کی آواز آ رہی تھی

جہاں جاناں آریشفہ اور  جان سیریس انداز میں اس کی زندگی کا فیصلہ ہوتے دیکھ رہے تھے وہی آریان کے کنٹرول میں نہیں آرہے تھے جبکہ طہ  اسے انتہائی غصے سے گھورے جا رہا تھا

اس نے ایک نظر گھور کر آریان کو دیکھا

دل تو چاہ رہا تھا کہ جس طرح عائشہ کے تھپڑ سے اس کا گال گرم ہو چکا ہے

ایسا ہی ایک جھاپڑ وہ آریان کے منہ پر بھی لگا دےلیکن اس وقت زیادہ ضروری عائشہ کو منانا تھا

 جس نے اس کی عزت کا فالودہ بنا دیا تھا

 اس کے سارے ارمان چکناچور ہوگئے تھے

 وہ جو سوچ رہا تھا کہ  عائشہ اس کے ایک اشارے پر بیٹھی ہے اس کی ساری غلط فہمیاں دور ہو چکی تھی

عائشہ یار تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر ۔۔۔۔۔

چٹاخ۔ ۔

اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ عائشہ کا ہاتھ ایک بار پھر سے اٹھا اور اس بار اس کا گال گرم ہونے کے ساتھ ساتھ لال بھی ہو چکا تھا

بس بہت ہوا میں تمہیں پرپوز کرنے آیا تھا اپنے گال کاپوسٹ مارٹم کروانے نہیں  آریان کی بتیسی دیکھتا ہوا وہ اچھا خاصا بگڑا

پرپوز کی ایسی کی تیسی ۔۔۔تمہیں تو میں پرپوز کرواتی ہوں وہ  اپنا جوتا نکالتے ہوئے اس کی بات کاٹ گئی

اب ہوٹل کا نظارہ کچھ ایسا تھا  کہ عائشہ طہ کے پیچھے اور طہ آگے آگے اس سے بچنے کے لیے بھاگ رہا تھا آریان قہقے پر قہقے لگا رہا تھا

 جان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جبکہ جاناں اوراریشفہ اپنی سہیلی کی بے وقوفی پر پریشان

اریشفہ کوآریان کا یوں منہ پھاڑ کر ہنسنا بالکل اچھا نہیں لگا تھا

 اسی لئے آریان کا بازو پکڑ کر اسے زور سے چٹکی کاٹی

آریان اپنا بازو سہلاتے ہوئے اسے گھور کر دیکھنے لگا

شاید وہ اسے ضرورت سے زیادہ ہی معصوم سمجھے ہوئے تھا کیونکہ سہیلیوں کے سامنے تو اکثر وہ بھی شیرنی بن جاتی تھی

اب وہ اشارے سے کہہ رہی تھی کہ کیوں آپ عائشہ کی بے وقوفی میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں

اسے سمجھئیں کہ وہ اپنی بیوقوفی چھوڑے ایسا چاہنے والا روز روز نہیں ملتا

اور اس کی بات سے جاناں بھی سو فیصد ایگری کرتی تھی

۔وہ تو یہ سوچ کر بہت خوش تھی کہ طہ بلکل ٹھیک ہے اور آج شام و عائشہ کو پرپوز کرنے والا ہے ۔

یہ بات اس کے لیے اتنی بڑی خوشخبری تھی کہ اس کی سہیلی کی زندگی میں خوشیاں آجائیں گی لیکن یہاں تو الٹا ہی ہوچکا تھا

عائشہ کا تو مانودماغ خراب ہو گیا تھا ۔

اریشفہ جاناں جان اور آریان صبح سے اس جگہ کو سجا رہے تھے

 تاکہ ان کی یہ پہلی ڈیٹ بہت اچھی رہے

 لیکن عائشہ نے تو اس کا بیڑہ غرق کر دیا تھا اب بھی وہ طہ کے پیچھے بھاگتے ہوئے  ساری لائٹس کا ستیاناس کر چکی تھی

اور وہ پھول جو اس نے عائشہ کے راستے میں سجائے تھے ان کا تو بیڑا غرق ہو چکا تھا

اور ابھی تک عائشہ اس کے پیچھے اپنا جوتا لے کر بھاگ رہی تھی

نہ جانے کتنی بار تو اس کا جوتا طہ کا کندھا شہید کر چکا تھا

میں بتا رہا ہوں عائشہ شادی کے بعد میں تمہیں کبھی ہیل نہیں بننے دونگا ۔وہ اس کے ہاتھوں مار کھاتا دھمکی پر اتر آیا

تم روکو گے مجھے میرے پسند کے جوتے پہننے سے ۔۔۔!تمہیں ساتھ لے کر جایا کروں گی دکان پر اور جو سب سے زیادہ تمہارے سر پر سوراخ کرے گا وہ لے کر آیا کروں گی اس کی دھمکی کو نظر انداز کرتی الٹا اسی کو دھمکی دینے لگی

مطلب شادی تو کرو گی نا ۔۔۔وہ اپنے مطلب کی بات پر اتر آیا

شکل دیکھی ہے اپنی بندر جیسی مجھے کسی بندر سے شادی نہیں کرنی

میری طرف سے انکار سمجھو وہ جوتا زمین پر پھینک کر اسے ہری جھنڈی دکھا گئی

ایسے کیسے انکار سمجھوں

 کتنا خرچہ ہوا ہے میرا اس ہوٹل پہ یہ لائٹنگ لگائی ہے میرے مہینے کی تنخواہ سے زیادہ لگ گیا ہے

 اوراگر انکار ہی کرنا ہے تو ابھی نکالو میرے سارے خرچے کے پیسے ۔اس کی بات پر جہاں عائشہ کا منہ کھل گیا ۔وہی آریان کے قہقے کو بھی بے ساختہ بریک لگی تھی

 وہ اس سے اس کی بات کی امید نہیں رکھتا تھا

ہاں پتا ہے مجھے بھیک مانگے یہی اوقات ہے تمہاری

 اس بندے سےابھی سے میری کافی کا خرچہ نہیں اٹھایا جاتا تو شادی کے بعد خاک اٹھائے گا ۔وہ غصے سے کہتےہوئے اپنی جیب سے پیسے نکالنے لگی اور اب وہ اس کے منہ پر بھی مار چکی تھی ۔

اور طہ نے بے شرموں کی طرح سارے پیسے گنے اور پھر بولا

یہ تو صرف دو ہزار ہے میرے ساڑھے بائیس لگے ہیں ۔

دے دونگی تمہارے پیسے لے کر بھاگ نہیں رہی ۔وہ پیر پٹکتے غصے سے بولی

اچھا چھوڑو یہ سارے حساب کتاب ہم شادی کے بعد کریں گے ۔فی الحال مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں مجھے زندہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے نہیں ۔

آریان اور جان کی سخت گھوری  نے اسے بات بدلنے پر مجبور کر دیا

ہاں بہت خوشی ہوئی اتنی خوشی ہوئی کہ اب دل کر رہا ہے کہ تمہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کر دوں عائشہ غصے سے بھنا کر بولی

ہاں وہ سب کچھ تم لوگ شادی کے بعد دیکھ لینا فی الحال ہمیں بتاؤ کہ ہم لوگ رشتہ لے کر کب آئے ۔جان نے ان دونوں کے درمیان آ کر ان کے مکالمے کو ختم کیا

 ۔اور ہمیشہ کی طرح اس کا انداز اتنا سخت تھا کیا عاشی دو قدم پیچھے ہٹ گئی

عاشی اب جانتی تھی کہ وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ ہے اور جو بھی کر رہا تھا اپنے وطن کے لئے کر رہا تھا لیکن جو پہلی دفعہ ڈر اس کے سینے میں بیٹھا تھا وہ آج بھی وہیں موجود تھا ۔

وہ ایک دوسرے کے سامنے نارمل رہتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی عائشہ اس سے ڈرتی ہے جان جانتا تھا اور عائشہ بہت چاہنے کے باوجود بھی اس ڈرکو کم نہیں کر پائی تھی اس کا وہ پہلا روعب اب بھی موجود تھا

 اور طہ کو یقین تھا کہ وہ جان سے اتنا ڈرتی ہے کہ اس کے سامنے وہ کچھ نہیں بولے گی ہاں لیکن بعد میں اس کی بینڈ ضرور جائے گی

میرے خیال میں ہمہیں کل ہی چلنا چاہیے کیونکہ آج شام میں چاچو یہاں پہنچ جائیں گے آریان نے کہا

گریٹ تو پھر ہم سب کل ملتے ہیں عائشہ کے گھر پر وہ مسکرا کر عائشہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔جاناں اور اریشفہ مسکرا کر اسے مبارکباد دینے لگی

جب کہ وہ طہ کو گھورتے ہوئے ان کی مبارکباد کو موصول کر گئی

°°°°°

سب کچھ اتنا جلدی اتنا آسانی سے ہو جائے گا طہ اور عائشہ دونوں نے ہی نہیں سوچا تھا

معید چاچو نے آکر نہ صرف رشتہ پکا کیا تھا بلکہ عائشہ کے ہاتھ میں طہ کے نام کی انگوٹھی بھی پہناچکے تھے ۔عائشہ جو اندر سے بے حد خوش تھی اوپر سے بہت ڈرامے کر رہی تھی

اور اس کی یہی سارے ڈرامے بالکل نظر انداز کیے ہوئے

۔جیسے اس کے روٹھنے یا ناراض ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا

 لیکن عائشہ نے بھی  قسم کھا رکھی تھی شادی کے بعد وہ اس کے ساتھ وہ کرے گی جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا

وہ اس کی زندگی حرام کرنے کی پوری پلاننگ کر چکی تھی

 جتنا اس نے اسے ستایا تھا عائشہ اتنی آسانی سے ہرگز معاف نہیں کرنے والی تھی

۔منگنی کی رسم ادا ہوئی اور ساتھ ہی جمعہ کے دن دونوں کا نکاح بھی رکھ دیا گیا

 ماما کی تو مانو خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی

 ۔وہ تو بس اپنی بیٹی کو ہنسی خوشی بستے دیکھنا چاہتی تھی۔

جہاں اس جمعہ ان دونوں کے نکاح کی تیاری شروع ہوئی تھی وہی ہفتے کے دن رضی اور ائمہ کی نکاح کی بھی خبری آ چکی تھی

 ۔ اور ان دنوں اریشفہ آریان کے ساتھ ساتھ اپنی اور اس کی شاپنگ کروا رہی تھی اور آریان ہمیشہ کی طرح اس کی پسند کی ہوئی ہر چیز پر یس بولتا ساری دنیا اس کے قدموں میں ڈھیر کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھا

 ۔جب کہ جان اور جاناں بھی ان دونوں صرف اور صرف شاپنگ پر فوکس کر رہے تھے۔

°°°°°

جان آج تو میرا برتھ ڈے نہیں ہے تم نے میری آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ہے

 وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی گھر کے اندر داخل ہوئی

 اس کا ایک ہاتھ جان نے مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھاما ہوا تھا

جبکہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی

 جان اسے کوئی سرپرائز دینے والا تھا ۔اس نے گھر کے اندر قدم رکھا اور اسے اپنے ساتھ ساتھ ایک جگہ پر لے کر گیا یقیناًوہ اس کے گھر کا سیٹنگ ایریا تھا

 جاناں نے ایک اندازے سے سوچا اور پھر آہستہ سے جان نے اس کی آنکھوں سے پٹی کھول دی

جاناں ان تینوں کو اپنے سامنے دیکھ کر واقعی ہی سرپرائز ہو گئی تھی

وہ آگے بڑھنے کی بجائے جان کو حیرت سے دیکھنے لگی جو مسکرا کر اسے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر رہا تھا

جاناں اپنے بھائیوں سے نہیں ملو گی یاور نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے بازو پھیلائے

میں جانتا ہوں جاناں تم مجھ سے جب بھی ملی ہو بابا کے ہوتے ہوئے ملی ہو

لیکن یقین کرو بابا کے سارے کالے کاموں میں میں ان کے ساتھ نہیں تھا بلکہ میں نے تو جان کی مدد کی ہے میں نے ہی اسے بتایا ہے کہ اس شخص میں ہماری ماں کو کس بے دردی سے قتل کیا تھا

یاسر نے آگے بڑھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔

یاور ان کے بارے میں تو  کچھ نہیں جانتا تھا سوائے اس کے کہ ایک دن اپنے بابا سے لڑائی کرکے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر واپس نہیں آیا جبکہ یاسر اکبر کے سارے کالے کارناموں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی خاموش تھا

جان نے اس سے بہت بار وران کیا تھا کہ اپنے باپ کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے ملک کا ساتھ دے اور پھر اس نے ایسا ہی کیا

جبکہ ولی  ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔

اپنے ماں باپ کو کھونے کے بعد اب یہ بھائی ہی اس کا سہارا تھے لیکن آج اتفاق سے اسے یہ پتہ چلا تھا کہ ان کی ایک بہن بھی ہے ۔

جان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے یاسر اور یاور کا ساتھ دیا

جاناں ہم بہت برے بھائی ہیں بہت چاہنے کے باوجود بھی ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکے بابا نے تو تمہیں مجھ سے بھی چھپا کر رکھا تھا یارو نے اپنے باپ کی بے حسی کا بتایا

اور میں جانتا بھی تھا کہ تم کہاں ہو کیسی ہو لیکن پھر بھی بابا مجھے تم سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے تھے بابا نے میرے ہاتھ باندھ رکھے تھے جاناں میں بہت چاہنے کے باوجود بھی تم تک نہیں آ سکا یاسر نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا

 اتنے برسوں کے بعد اپنے اپنوں سے مل کر جاناں بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

جبکہ جان اسے ان دونوں کے پاس چھوڑتا خود ولی کے پاس آ روکا تھا کیا ہوا تمہیں جاناں پسند نہیں آئی کیا وہ اس کے سامنے بیٹھا ہوا پوچھنے لگا

بیوٹیفل تو ہے بٹ روتی بہت ہے اس نے ناک چرا کر کہا

جبکہ یاسر ہنستے ہوئے اسے دیکھنے لگا

جب بہنیں روتی ہیں تو بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ چپ کروائیں نہ کہ کھڑے ہو کر نظارہ دیکھے یاسر کے کہنے پر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا جاناں کے پاس آیا

مجھے بہتی ناک والی بہن نہیں چاہیے

وہ منہ بنا کر کہتا جاناں کو اپنے ناک پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر گیا

 اور اس کی شرارت پر سب لوگ ہنسنے لگے

جبکہ جاناں نے بنا اس کے نخروں کی پرواہ کیے اسے خود میں بھیج لیا

°°°°°°

اس نے کمرا عروسی میں قدم رکھا تو وہ سامنے ہی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھی تھی چہرے پر کسی قسم کی کوئی شرم و حیا نہیں تھی

عائشہ تم میرے ساتھ ٹھیک نہیں کر سکتی

ٹھیک ہے میں نے تمہیں نخرے دکھائے

تمہارے پرپوزل کو قبول نہیں کیا

تم میرے لئے پاگل تھی میرے ایک اشارے پر بیٹھی تھی

لیکن میں نے تمہیں بالکل بھاؤ نہیں دیا ۔

بس بس بہت اڑ لیاآسمانوں پہ اب زمین پر آ جاؤ عائشہ نے بریک لگائی

تو کیا میں ٹھیک نہیں کہہ رہا ہوں کیا تم نہیں تھی میرے پیچھے پاگل کیا تم میرے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں تھی

کیا تم چار راتیں میرے گھر کے باہر نہیں رکی

ہاں میں نے یہ سب کچھ کیا لیکن بدلے میں تم نے کیا کیا مجھے دھوکہ دیا مجھ سے جھوٹ بولا میرے سامنے مرنے کا ڈرامہ کیا  مجھ سے محبت کرتے ہوئے بھی تم نے میری محبت سے منہ پھیر لیا

تم جانتے ہوطہ اس دن میں کتنا روئی اپنے آپ کو کتنا نیچے گرا ہوا محسوس کیا تم میری محبت کو ٹھکرا کر چلے گئے

عائشہ میری ذمہ داریوں نے میرے ہاتھ باندھے ہوئے تھے میں تمہیں ایک بہت خوبصورت حسین زندگی دینا چاہتا تھا لیکن میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا ۔مجھے لگتا تھا کہ یہ ساری خوشیاں میرے لیے نہیں ہیں

لیکن اس دن تمہیں وہاں چھوڑ کر جب میں اندر گیا تب میری یہی سوچ  تھی کہ میں نے بہت بڑی غلطی کردی اور میں وہاں  بم فٹ کرنے کے بعد واپس آنے والا تھا

لیکن میں اسی کا شکار ہوگیا اس سے پہلے کہ میں مین گیٹ تک جاتا ٹائم ٹھیک سے سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بلاسٹ ہوگیا وہ تو شکر ہے کہ میں نے بم بیسمنٹ میں سیٹ کیا تھا ۔

کیونکہ ان لوگوں کا سارا گینگ نیچے بیسمنٹ میں اپنا کام کر رہا تھا ۔اس لئے میں نے وہیں پرسیٹنگ کرتے ہوئے وہاں سے نکلنا چاہا

اور یقین کرو میں واپس باہر تمہارے پاس ہی آنے والا تھا میں خود تھک چکا تھا ان سب چیزوں سے میں تم سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے لیکن میں پھر بھی سوائے معافی مانگنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا تم چاہو تو ساری زندگی مجھ سے انتقام لیتی رہنا پلیز مجھے معاف کر دو پلیز پلیز وہ دونوں کان پکڑے اس کے سامنے زمین پر بیٹھا معافی مانگنے لگا

اور عائشہ جو اسے بہت سارا ستانے کا ارادہ رکھتی تھی اس کے انداز کے سامنے ہار گئی وہ بہت کوشش کے بعد بھی اپنی مسکراہٹ کو چھپا نہیں پائی تھی

تم بہت برے ہوطہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی

میں تمہیں ساری زندگی ستاتی رہوں گی

وہ اس کے ہاتھ تھامےا سے کھڑا کرتے ہوئے کہنے لگی

جب کہ طہ کو تو بس موقع چاہیے تھا وہ اس کا وہی ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب کرتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔

تم ساری زندگی مجھے ستاتی رہنا تمہارا ہر انداز سر آنکھوں پر وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے اس کے ایک ایک نقش کو لبوں سے چومتا اپنی محبت کا یقین دلانے لگا ۔جبکہ عائشہ بھی کی محبت کے سامنے ہار مانتے ہوئے اس کی باہوں میں سما چکی تھی

وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا گھر کے اندر داخل ہوا

اس نے اریشفہ کو ڈھونڈا تو وہ ہمیشہ کی طرح کچن میں نظر آئی

آج بہت عرصے کے بعد اس نے بلو کلر پہننا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کلر میں آریان کا دل دھڑکنے لگا

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بالکل اس کے پاس آرکا شاید گرمی بہت زیادہ ہو رہی تھی تبھی تو اریشفہ کی گردن پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے

اس نے غیر محسوس انداز میں اس کی گردن پر ہلکی سی پھونک ماری ۔وہ گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی آریان نے اسے اپنی باہوں میں قید کر لیا

کتنی بار کہا ہے اس طرح سے گھبر آیا مت کرو میرے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ایسی گستاخی اس کی گردن پہ لب رکھتا وہ اس کا دل دھڑکانے لگا ۔

وہ کل ہی گھر سے واپس آئی تھی تائی امی نے اس سے معافی مانگی تھی اور ان کا رو رو کر معافی مانگنا اریشفہ کی آنکھیں بھی نم کر گیا اس نے اپنے دل کی تمام گہرائیوں سے ان کی ساری غلطیاں اور زیادتیاں معاف کر دی تھی جبکہ اریان شادی ختم ہونے سے پہلے ہی گھر واپس آ گیا تھا اسے یہاں بہت سارے کام تھے

لیکن آئمہ اور زئمہ اریشفہ کو روک لیا تھا ۔جس پر وہ پریشان ہو گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ آریان کو یہ پسند نہیں ہے لیکن پھر آریان نے اس کی خوشی کی خاطر اسے وہاں رکنے کی اجازت دے دی

کل وہ کافی تھک تھکا ہوا گھر واپس آیا تھا اسے دیکھ کر اس کا موڈ کافی بہتر ہو گیا لیکن اتنے لمبے سفر میں اریشفہ کی تھکاوٹ کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے دل کی خواہشات کو دل میں ہی دبا گیا لیکن آج ایسا نہیں تھا

اب تو وہ اپنی تمام تر تھکاوٹ اس کے وجود سے مٹانا چاہتا تھا

اسی لیے بنا اس کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کی پرواہ کیے دیوانہ وار اس پر اپنی محبت برساتا اسے پور پور چومتا اپنی محبت میں شرم آنے پر مجبور کر گیا

°°°°°

جان گھر داخل ہوا تو ماہی اسے کہیں نظر نہیں آئی

اور ہر روز کی طرح وہ اب بھی زور زور سے آوازیں دیتا اسے پورے گھر کے کونے کونے میں ڈھونڈنے لگا

ماہی اگر تم مجھے بیڈروم میں ملی نہ تو اپنی خیر منا لینا ۔وہ شرارتی انداز میں کہتا بیڈروم میں قدم رکھ چکا تھا

اور کمرے میں آتے ہی وہ پردے کے پیچھے اس کے پیر بھی دیکھ چکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف قدم بڑھا رہا تھا بیڈ پر پھولوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا پیپر نظر آیا

جس پر باقاعدہ اس کا نام بھی لکھا تھا اور وہ بھی جاناں کی طرف سے اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ آئی

میری بیوی نے مجھے لو لیٹر لکھا ہے وہ مسکراتے ہوئے بیڈ سے اس کاغذ کو اٹھا چکا تھا جاناں کی شرمیلی ہنسی اس کے کانوں میں گونجتی تھی

اور اب وہ اس کاغذ کو کھول کر آہستہ آہستہ پڑھنے لگا یہ کسی ہسپتال کی رپورٹ تھی اس نے محسوس کیا کہ جاناں آہستہ آہستہ چلتی اس کے بالکل پاس آ رہی ہے وہ بے یقینی سے اس پیپر کو ہاتھ میں پکڑے جاناں کی جانب دیکھنے لگا

ماہی کیا یہ سچ ہے وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا

ماہی نے شرماتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا

میں باپ بننے والا ہوں

تم ماں بننے والی ہو

ہمارے گھر ایک چھوٹا سا بےبی آنے والا ہے

ماہی ہمارا بچہ میرابچہ میرے وجود کا حصہ خوشی کے مارے جان سے اپنے جذبات  لفظوں میں بیان نہیں ہو رہے تھے

اس نے بے اختیار ہی جاناں کو خود میں بھنج لیا

ماہی میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ میرا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے  میں اس کا نام ابراہیم رکھوں گا اپنے بابا کے نام پر ۔وہ میرا بچہ ہو گا میں اسے بہت پیار دوں گا اور ان شاءاللہ میں اسے اپنے ملک سے محبت کرنا سیکھ آونگا ماہی میرا بچا یہاں نہیں ہو گا میرا بچہ میرے ملک میں ہوگا

میں اسے  ایک ایسا انسان بناؤں گا جو اپنے ملک کے لیے کچھ بھی کرے گا ۔جان اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اسے خود سے لگائے کسی اور ہی دنیا میں کھو چکا تھا

جبکہ جان اس کے سینے پر سررکھے  اس کی ہر لفظ پر ان شاءاللہ کہتی بے انتہا خوش تھی

وہ بھی جان سے یہی بات کرنا چاہتی تھی کہ ان کا بچہ ایک غیر ملک میں پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنے بچے کو اپنے ملک میں لے کر جائیں گے تاکہ وہاں اسے دنیا میں آنے پر ویلکم کر سکے

°°°°°

پانچ سال بعد

زندگی بدل چکی تھی بہت کچھ بدل چکا تھا

وہ تینوں ایک بار پھر سے پاکستان آ چکے تھے

یہاں  سب سے اپناآپ اپنی پہچان چھپا چکے تھے

طہ دنیا کی نظروں میں ایک کیفے چلاتا تھا جس میں عائشہ اس کی مدد کرتی تھی جبکہ اس کے دشمن زیرک اس کا بس ایک ہی کام تھا اس کا ہر کام بھگڑنا وہ ڈھائی سال کا ہوچکا تھا اور اتنا ہی فیشن ایبل تھا جتنی کہ اس کی ماں طہ کو تو سمجھ نہیں آتا تھا اس کی ماں کی خرچے زیادہ تھے یا پھر اس کے بیٹے کے

عائشہ نے تو اس سے وہ بدلے نکالے تھے جو وہ ساری زندگی نہ بھلاتا

ہاں اس نے سچ میں ہی اس کی زندگی کا بیڑہ غرق کر دیا تھا

اپنی ساری جائیداد وہ اپنی ماں کے نام کرکے دبئی سے پاکستان آئے گی اور ویسے بھی جو جائیداد خان نے اس کے نام کی تھی اس پر وہ اپنا کوئی حق نہیں سمجھتی تھی

یہاں آ کر اس نے طہ کا وہ حال کیا کہ طہ کو لگا کے اپنی جاب چھوڑ کر اب چوری ڈاکے والے کام کرنے پڑیں گے

لیکن پھر عائشہ نے ہی اسے آئیڈیا دیا کہ کیوں نہ وہ دونوں مل کر ایک کیفے اوپن کرے ۔

جان اور آریان کے لحاظ سے بھی یہ ایک بہت اچھا آئیڈیا تھا کیونکہ وہ  یہ ان کے لیے ایک بہت اچھا طریقہ تھا اپنی پہچان کو چھپا کر رکھنے کا

دنیا کے سامنے وہ ایک کیفے میں کام کرنے والا عام سا انسان تھا جس کی ایک فیملی تھی ایک چھوٹا سا بچہ تھا

اس نے کیفے میں قدم رکھا تو سامنے ہی عائشہ کاؤنٹر پر کھڑی تھی جس کے ساتھ چھوٹے سے بینچ پر وہ آرام سے بیٹھا ہوا تھا اسے یقین تھا یہ طوفان سے پہلے والی خاموشی ہے ورنہ اس کا لاڈلا آرام سے بیٹھ جائے ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا

کیا ہوا زیرک تم اس طرح اسے کیوں بیٹھے ہو دیکھو یہ شریف تم پر بالکل سوٹ نہیں کرتی وہ اس کے دونوں گال چومتا ہوا محبت سے بولا ۔

ماما دندی اے دانتامدیے (ماما گندی ہے ڈانٹا مجھے )وہ ماں کو گھورتے ہوئے منہ پھلا کر شکایت کرنے لگا

کیوں ڈانٹا میرے بیٹے کو وہ عائشہ کو گھورتے ہوئے پوچھنے لگا اب بیٹے کے سامنے اپنا تھوڑا بہت روعب تو جمانا ہی تھا

کیوں کہ تمہارے بیٹے نے تمہارے جیسے چھچھوڑے کام شروع کر دیے ہیں ایک لڑکی یہاں سے گزری اس کو کہتا ہے ڈرالنگ آپ کتنے خوبصورت ہیں میرے ساتھ ڈیٹ پر چلیں گی وہ تو شکر ہے کہ اس لڑکی کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی ورنہ یقینا یہ کیفے بند کروا کر چلی جاتی عائشہ نے بیٹے کا کارنامہ سنایا ۔

طہ کو بھی اپنے ڈھائی سالہ بیٹے سے ایسی امید تو ہرگز نہیں تھی ۔لیکن عائشہ نے کہا تھا تمہارے جیسے چھچھوڑے کام شروع کر دئیے ہیں ۔

دیکھو یہ میرا بیٹا ہے ۔مجھے دیکھ کر ہی سیکھے گا لیکن میں چھچھوڑے جو بھی کام کرتا ہوں اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہوں ۔اور اگر میرا بیٹا تمہارے لئے بہو ڈھونڈ رہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے ۔تم بھی پسند کر لو آخرپندرہ بیس سال میں اس کی بھی شادی کرنی ہے ۔طہ ڈھیٹ پن سے کہتا زیرک کو اٹھا کر اندر لے گیا

میری عمر کی لڑکی تھی اب کیا میں اپنی عمر کی بہو لاؤں گی  وہ کہتے ہوئے اس کے پیچھے آئی اس کی بات پر طہ قہقہ لگا کر ہستاتھا اور اب آپ کو اس طرح منہ پھاڑ کر ہنستے دیکھ کر زیرک بھی کھل اٹھا ۔جبکہ عائشہ ان دونوں کے منہ پھاڑ کر ہنسنے پر پیر پٹکتی جیسے اندر آئی تھی ویسے ہی باہر واپس چلی گئی

°°°°°°

اریشفہ نے آنکھ کھولی تو ہرروز کی طرح آریان کے بالکل اس کے قریب اس کی باہوں میں سو رہی تھی ۔ آریان بہت نرمی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھو رہا تھا وہ محبت سے اس کے گال پر جھک کر اپنے لب رکھےآہستہ اس کی گردن کی طرف آ رہا تھا اریشفہ نے آنکھیں کھول لیں اور ایک نظر پیچھے کی جانب دیکھا جہاں اس کا بیٹابڑے مزے سے بیڈ پر لیٹا ہاتھ پیر مارنے میں مصروف تھا وہ فی الحال صرف چار ماہ کا تھا

آریان نے اس کی نظروں کا تعاقب سمجھتے ہوئے اس کے ماتھے پر لب رکھے

بے فکر رہو میری جان تمہارا لاڈلا پیٹ پوجا کر چکا ہے اور میری لاڈلی اسکول جا چکی ہے وہ اس کے فکر مارنا انداز پر مسکرا کر کہنے لگا اریشفہ کو موسمی بخار تھا جس کی وجہ سے آریان نے سے نہیں جگایا

اریشفہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا

کیسا تھا یہ شخص آج بھی پہلے دن جیسا بے پناہ چاہنے والا

بے انتہا محبت کرنے والا ۔آریان کی سنگت میں گزرے یہ ساڑھے پانچ سال اس نے کبھی خود کو اپنی محرومی کو محسوس نہیں کیا تھا اور نہ ہی آریان نے کبھی محسوس ہونے دیا تھا ۔

اس نے سچ میں اس سے محبت کی تھی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ بول نہیں سکتی اور یہ کمی شاید اللہ نے اس کے لیے اس لیے رکھی تھی تاکہ اس کا شوہر سے بے پناہ محبت کرے ۔

اگر وہ ٹھیک ہوتی تو شاید تب بھی آریان اس سے اتنا ہی پیار کرتا تھا یا پھر اس سے تھوڑا کم یا پھر شاید زیادہ آریان کی محبت سمندر جیسی تھی جیسے ماپنا ایک بہت مشکل کام تھا

مرش اور زارب  نے ان کی زندگی حسین بنا دی تھی ۔

اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہو چکے تھے

°°°°°

اریشہ کب سے اسے دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے بیٹھی چپس کھا رہی تھی جب کہ وہ جاناں سے آئسکریم پر لے جانے کی ضد کر رہی تھی

وہ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی اور ایک پرزور دار تھپڑ رکھ کر اس کے منہ پر لگایا

اریشہ جو برے مزے سے بیٹھی چپس کھا رہی تھی اس تھپڑ پر منہ پھاڑ کر رونے لگی۔

جاناں بوکھلا کر اس کے رونے پر باہر کی طرف بھاگ گئی تھی ۔

اریشہ  میری جان کیا ہوگیا کیوں رو رہی ہو ۔۔۔؟کیا ہوا ہے اسے مزیشہ وہ بے چینی سے اپنے ساڈھے تین سالہ بیٹی کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی ۔

ماما اس سے نہ پوچھیں میں آپ کو بتاتا ہوں اس نے میرے سامنے ابھی اریشہ کو تھپڑ مارا ہے ناد نے بڑے بھائی ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے فوراً اسے شکایت کردی

مزیشہ بہت شرارتی ہوتی جا رہی ہو تم اب تم میرے ہاتھ وں مار کھاو گی کیوں مارا بہن کو کیوں کرتی ہو گندے بچوں جیسی حرکتیں

وہ اس کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگی جس پر وہ سرخ سرخ  پھولے ہوئے گال مزید پھولا  اس سے روٹھ کر بیٹھ گئی ۔

اس کے اس طرح سے باہر بیٹھنے کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ اب وہ اپنے باپ کے آنے کا انتظار کر رہی ہے

اور جان کے آتے ہی اس نے وہ ولولہ مچایا کی جاناں بوکھلا کر رہ گئی

اریشہ اور مزیشہ دونوں جڑواں تھی جبکہ ناد کو وہ دونوں اپنی محبت کی نشانی کہا کرتے تھے ۔

مزیشہ غصے کی تیز اور کچھ سخت مزاج تھی جبکہ اریشہ بہت  سویٹ نرم مزاج پیاری سی بچی تھہ ۔لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کو کچھ خاص پسند نہیں کرتی تھی ۔جس کی وجہ سے ابھی سے ہی ان دونوں میں کافی زیادہ لڑائیاں شروع ہو گئی تھی ۔

لیکن ایسے میں ناد بڑے بھائی ہونے کا فرض انجام دیتا  ان دونوں کو اچھی خاصی کوٹ لگاتااور جاناں کاتو وہ اتنی لاڈلا تھا کہ جان کو اس سے اونچی آواز میں بات کرنے کی بھی اجازت نہ تھی

اور ایسا میں وہ اپنی بیٹوں  کاساتھ نبھاتا وہ بھی ان پر کسی کو غصہ نہیں کرنے دیتا تھا لیکن ناد کے ساتھ اس کی محبت بے پناہ تھی

ان کی تینوں اولادوں اریشہ بہت شرارتی اور شیطان کی قسم کی بچی تھی لیکن سچ تھا کہ وہ ان کے گھر کی رونق تھی

اور اب ان کی اس رونق نے  جان کے گھر آتے ہی ایسی رونق لگائی تھی کہ کوئی حد نہیں جس کے نتیجے میں جاناں کو ہی ہار مان کر اسے اسپیشل آئسکریم پر لے جانا پڑا اور پھر جا کر کہیں جنابہ  کا موڈ ان ہوا تھا ۔

جبکہ جان نے اسے ایک دن پہلے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ سنڈے کو اسے آئس کریم پر لے کر چلے گا جو کہ وہ بھول گیا تو یہ اریشہ کا ایک طریقہ تھا اپنے بابا کو اپنے کیے ہوئے وعدے یاد کروانے کا

°°°°°

 

 

♥ Download More:

 Areej Shah Novels

 Zeenia Sharjeel Novels

 Famous Urdu novel List

 Romantic Novels List

 Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

 

 

آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

 

 

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.