زمل شاور لے کر نکلی اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے تھوڑی دیر پہلے زرقون بی اور شارقہ کوٹیچ کی صفائی کر کے اپنے گھر کے لیے نکلی تھی اور ڈرائیور کو اس نے چار بجے کا ٹائم دیا تھا تاکہ وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوسکے درید کو وہ پہلے ہی اپنے جانے کا موبائل پر انفارم کر چکی تھی۔۔۔ بس اب اسے اپنا بیگ پیک کرنا تھا صبح والے روید کے رویہ کو لے کر وہ درید سے کافی مایوس ہوئی تھی،، اس وجہ سے درید سے ملے بغیر وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں برش پھیرتی ہوئی وہ مسلسل درید کے بارے میں سوچ رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کوٹیچ میں کوئی داخل ہوا ہے۔۔۔ زمل سویٹر پہنتی ہوئی اپنے کمرے سے باہر نکلی
"چھوٹی بی بی جی وہ صاحب جی۔۔۔۔ ان کو ہوش نہیں آرہا ہے"
خادم زمل کو کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھ کر گبھراتا ہوا بولا
"کیا بول رہے ہو خادم،، کیا ہوا دید کو"
زمل خادم کے کپڑوں پر خون دیکھ کر اور اس کا گھبرایا ہوا انداز دیکھ کر جلدی جلدی سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی پریشان ہو کر خادم سے درید کے بارے میں پوچھنے لگی
"کسی بدبخت نے درید بھائی پر بڑی سے چھری سے حملہ کیا ہے اور انہیں مارنے کی کوشش کی ہے ہم نے درید بھائی کو اسپتال پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اور اس حملہ کرنے والے بدبخت کو بھی لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ہے"
خادم پریشان کھڑی ہوئی زمل کو ساری تفصیل بتانے لگا
"چھری سے حملہ کیا ہے میرے اللہ۔۔۔ کیسے ہیں دید پلیز مجھے ان کے پاس لے چلو خادم"
زمل کو فلحال اس بات سے غرض نہیں تھی کہ وہ آدمی پکڑا گیا ہے یا پھر کون تھا۔۔۔ وہ صرف درید کے پاس جانا چاہتی تھی،، خادم زمل کو اپنے ساتھ اسپتال لے جانے کی غرض سے ہی آیا تھا زمل اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی خادم کے ساتھ ہسپتال جانے کے لیے تیار ہوگئی
"ڈاکٹر۔۔۔۔ درید اعظم۔۔۔۔ وہ میرے ہسبینڈ ہیں۔۔۔ مجھے ان سے ملنا ہے پلیز مجھے بتائیں وہ کیسے ہیں اب"
خادم زمل کو اسپتال لے کر آگیا تھا آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس آ کر زمل بے صبری سے اسے درید کے بارے میں پوچھنے لگی آنسو تھے کہ اس کی آنکھوں سے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے درید کی تکلیف کا سوچ کر وہ خود بھی تکلیف محسوس کر رہی تھی
"دیکھیں آپ اس طرح پریشان مت ہوں ان کی کنڈیشن اب خطرے سے باہر ہے ویسے بھی جس چیز سے آپ کے ہسبنڈ پر حملہ کیا گیا تھا وہ ہتھیار زیادہ گہرائی میں پیٹ میں نہیں جا سکا، بس ان کا خون زیادہ بہہ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئے ہیں امید ہے بہت جلد انہیں ہوش آ جائے گا"
ڈاکٹر زمل کو درید کی تسلی بخش حالت کے بارے میں آگاہ کرتا ہوا بتا رہا تھا جسے سن کر زمل نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اسے تھوڑی بہت تسلی ہوئی تھی
"میں اپنے ہسبنڈ کو دیکھنا چاہتی ہو ان سے ملنا چاہتی ہوں"
زمل ڈاکٹر کو دیکھتی ہوئی بولی وہ درید سے ساری ناراضگی اور صبح والے قصے کو بھول گئی تھی۔۔۔ صرف اور صرف اس وقت وہ درید کو دیکھنا چاہتی تھی
"ایسا فوری طور پر ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے ہسبنڈ سے مل سکے کیونکہ یہ پولیس کیس تھا مگر اس کے باوجود جس کنڈیشن میں آپ کے ہسبنڈ کو لایا گیا تھا انہیں فوری طور پر ٹریٹمنٹ دے دیا گیا تھا لیکن اب ان کے ہوش میں آنے کے بعد پولیس ان سے ان کا بیان لے گی جس کے بعد ہی آپ یا پھر کوئی دوسرا ان سے مل سکتا ہے"
ڈاکٹر شائستہ لہجے میں زمل سے کہتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا جبکہ زمل ویٹنگ روم میں چیئر پر بیٹھتی ہوئی درید کے ہوش میں کی آنے کی دعا کرنے لگی
"او میرا بھائی خدا کو مانو،،، تم کو سر سر بول کر ہمارا خود کا سر دکھ چکا ہے مگر تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ جب ہم وہاں پر پہنچا تو مکان خالی تھا وہاں لڑکی جیسا کوئی بھی چیز موجود نہیں تھا پھر ہم کیا کرتا بھلا گھر کے باہر درخت سے باندھا ہوا بکری اٹھا کر لے آتا تمہارے لیے"
بشیر کے عاجزی سے بولنے پر جب کیف کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تو بشیر موبائل پر کیف سے بات کرتا ہوا بگڑ کر بولا
"بکواس بند کرو اپنی ایک چھوٹا سا کام تم کو دیا تھا مگر تم سے وہ بھی نہیں ہو سکا اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ کہ تم کسی کام کے آدمی نہیں ہو تو تمہیں ایڈوانس رقم کبھی بھی نہیں دیتا شرافت سے کل آ کر مجھے میری ساری رقم واپس کر دینا اب جو کرنا ہوگا وہ میں خود کر لوں گا"
پلان کی ناکامی پر کیف کو شدید غصہ آیا تھا اگر زمل اس وقت اس کے پاس ہوتی تو آگے جا کر اس کے لئے کوئی پرابلم نہیں ہوتی جبکہ اگر زمل اسلام آباد پہنچ جاتی تو اس کی کڈنیپنگ کا کام مشکل تھا
"یار یہ پیسے واپس کرنے کی بات کو تم کہاں سے بیچ میں لا رہا ہے۔۔۔ لڑکی کوئی ابھی وہاں سے بھاگا تھوڑی نہ جا رہا ہے ہم پوری معلومات کرکے آیا ہے اس کا خاوند زخمی ہے بیچارہ اور اسپتال میں موجود ہے۔۔۔ تم زیادہ جذباتی مت بنو میرا بھائی۔۔۔ تم کو وہ لڑکی چاہیے ہم تم کو لڑکی لاکر دے گا بس تھوڑا سا صبر سے کام لو،، دو چار دن بعد لڑکی تمہارے پاس ہوگا یہ وعدہ ہے بشیر کا"
رقم کی واپسی کی بات سن کر بشیر ایک دم نرم پڑتا ہوا کیف کو سمجھانے لگا
"مجھ کو کام والے بندے پسند ہیں بشیر لیکن تمہیں صرف باتیں بنانا آتی ہیں کل صبح تم شرافت سے مجھے وہ ایڈوانس رقم لا کر دو ورنہ میں خود آتا ہوں تمہاری ٹھکانے پر اپنی رقم نکلوانے کے لیے"
کیف نے سوچ لیا تھا اگر درید واقعی زخمی تھا تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں تھا کہ وہ خود انجام نہ دیتا۔۔۔ اس لئے بشیر سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہوا بولا
"خدا کو مانو یار تم آدمی ہے کہ خچر ہے پہلے تم لڑکی لڑکی کا رٹ لگایا ہوا تھا اب تم پیسہ پیسہ بول رہا ہے ہمارا دماغ خراب کر دیا تم نے۔۔۔ لعنت بھیجتا ہے ہم یار تمہارے پیسے پر کل ہی تمہارا رقم تمہارے منہ پر مارے گا،، ہم کو تو عجیب خوار کر دیا تم نے لڑکی چاہیے۔۔۔ اگر لڑکی چاہیے تو خود ہیرو بن کر جاؤ اور پکڑ کر لاؤ،،، یہاں بیٹھ کر تم ہم کو باتیں سنا رہا ہے اور یاد رکھنا جتنا تم بے چین ہو رہا ہے اس لڑکی کے لئے وہ لڑکی اب تم کو کبھی بھی نہیں ملے گا یہ بشیر کی بددعا ہے"
بشیر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر رابطہ منقطع کر چکا تھا جبکہ کیف بشیر کو بڑی سی گالی دیتا ہوا اپنے ڈرائیور کو درید کی طرف بھیج کر مکمل معلومات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ وہ زمل کو خود اٹھا کر یہاں لاسکے
"اب اس طرح سے کیوں پریشان بیٹھی ہوئی ہو زندہ سلامت تو ہو تمہارے سامنے"
درید اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر لیٹا ہوا زمل سے بولا جو کہ اس وقت روہانسی چہرہ لئے اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی
زمل اور درید کو اسپتال سے آئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔۔ درید کے ہوش میں آنے کے بعد پولیس نے اس سے بیان لیا تھا اس کے بعد ہی زمل درید سے ملی تھی اور تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر کے لاکھ سمجھانے کے باوجود درید اپنی ضد پر قائم ہسپتال سے کاٹیج میں آچکا تھا
"آپ کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان نہ ہوں تو پھر اور کیا کرو۔۔۔ یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے دید ہم یہاں پر بالکل بھی سیف نہیں ہیں بس آپ کی کنڈیشن تھوڑی بہت اسٹیبل ہوگی تو ہم واپس اسلام آباد چلیں گے"
زمل درید کی کنڈیشن دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ اس واقعہ نے ان دونوں کے بیچ صبح والی تلخی کا اثر زائل کر دیا تھا
"ہمہیں اور کس سے خطرہ ہو سکتا ہے میری جان، جس نے مجھ پر حملہ کیا تو وہ اس وقت پولیس کی حراست میں موجود ہے۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈرنے یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت نہیں ہے بلکہ آج رات تو تمہیں مجھ سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"
زمل کو تسلی دینے کے ساتھ آخری جملہ درید نے شرارت میں زمل کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔ جس پر زمل درید کو گھورنے لگی
"اس کنڈیشن میں بھی شوخیاں سوجھ رہی ہیں آپ کو۔۔۔ دیکھ لیا آپ نے ہیرو بننے کا انجام،، کتنی برے طریقے سے اس جنگلی بے رحم انسان نے آپ پر حملہ کیا ہے"
زمل اپنا دوسرا ہاتھ درید کے زخم پر رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ یہ اسی شخص کا کام تھا جس کے دونوں ہاتھوں کو درید نے بری طریقے سے زخمی کیا تھا اس نے موقع دیکھتے ہی درید سے اپنا بدلہ لینے کی کوشش کی تھی
"ریلکس ہوجاؤ زمل وہ آدمی اب پولیس کی گرفت میں ہے ویسے ایسی کنڈیشن سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔ اسٹمنا چیک کرنا ہے میرا تو ذرا اور پاس آ جاؤ پھر میری اس کنڈیشن میں اپنی کنڈیشن دیکھ لینا"
درید باز آنے کی بجائے زمل کے بالوں کی لٹ کھینچ کر اس کا چہرہ اپنے چہرے سے قریب کرتا ہوا بولا
"باز نہیں آنا آپ کو دید"
زمل درید کے چہرے پر جھکی ہوئی اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر بولی۔۔۔ جس پر درید نفی میں سر ہلاتا ہوا زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"ممکن ہے باز آجاؤ مگر تھوڑا بہت اپنے دل کی ماننے کے بعد"
درید نے بولتے ہوئے زمل کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسائی اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا اپنے دل کی ماننے لگا
"دید آپ اس لیے ہاسپیٹل سے چھٹی لے کر گھر آئے تھے بس اب پیچھے ہٹیں"
زمل درید کے سینے پر جھکی ہوئی اپنی کمر سے درید کا بازو ہٹاتی ہوئی سیدھی ہوکر بولی
"معلوم ہے ناں تم میرے لیے میڈیسن کا کام کرتی ہو ایسے ہی مجھے جلدی جلدی ڈوس ملتی رہی تو میں جلد صحتیاب ہو جاؤں گا"
درید زمل کا بلش کرتا ہوا چہرہ دیکھ کر دوبارہ شرارت سے بولا
"اوور ڈوز ہونے سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔ اب سیدھا لیٹ کر شرافت سے سونے کی کوشش کریں"
زمل اس کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی شرارت کو اگنور کرکے درید کا تکیہ سیٹ کرنے لگی اس کے بعد کمفرٹر درید پر ڈالنے لگی۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ درید کی الٹی سیدھی حرکت کی وجہ سے اس کے پیٹ کے زخم کو کوئی نقصان نہ پہنچے کیوکہ اس کا زخم ابھی بالکل تازہ تھا
"تم کہاں جا رہی ہو، معلوم ہے ناں تمہیں اب 24 گھنٹے میری آنکھوں کے سامنے رہنا ہے"
زمل کو بیڈ سے اترتا ہوا دیکھ کر درید بیڈ پر لیٹا ہوا اس سے پوچھنے لگا اس کی آنکھیں نیند کے خمار سے سرخ ہو رہی تھی کیوں ڈاکٹر نے چھٹی سے پہلے درید کو پین کلر کا انجکشن دیا تھا
"زرقون بی اور خادم چلے گئے ہوگے میں دروازہ چیک کرکے آتی ہوں آپ کے پاس"
زمل اپنے گرد گرم شال لپیٹتی ہوئی کمرے کی لائٹ آف کر کے باہر نکل گئی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ تھوڑی دیر میں درید سو جائے گا زمل باہر کا دروازہ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ تابندہ کو کال بھی کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ درید کے بےہوشی کے وقت پریشانی میں تابندہ کو ساری صورت حال بتا چکی تھی جس پر تابندہ نے زمل کو تسلی دیتے ہوئے ایک گھنٹے بعد گھر سے نکلنے کو کہا تھا۔۔۔ زمل کے مطابق تابندہ کو اب تک وہاں پر پہنچ جانا چاہیے تھا مگر وہ درید کے سامنے فل الحال تابندہ کا ذکر کرکے درید کو غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی،، وہ نہیں چاہتی تھی کہ درید کی حالت کے پیش نظر اس کا موڈ خراب ہو جائے۔۔۔ وہ خود بھی پریشان تھی اچانک درید کو ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ تابندہ کے لیے ایسا کہہ رہا تھا
"آپ ابھی تک یہی پر موجود ہیں زرقون بی، اپنے گھر نہیں گئیں آپ"
تابندہ سے بات کرکے زمل واپس جانے لگی تب زرقون بی کو کوٹیج میں دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگی
"درید بابا کی فکر میں آج یہی پر رک گئی ہو اور آپ بھی تو اکیلی ہیں ناں"
زرقون بی کا جواب سن کر زمل مسکرائی
"مما سے بھی بات ہوئی ہے میری ویسے تو وہ ابھی تک یہاں پہنچ جاتی مگر ان کی دوست جو ہمارے اسلام آباد والے گھر میں رکی ہوئی ہیں ان کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی اس لیے مما کا ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکلنا ہوا ہے"
زمل زرقون بی کو تابندہ کے بارے میں بتانے لگی جوکہ تھوڑی دیر پہلے ہی ڈرائیور کے ساتھ ایبٹ آباد کے لیے نکلی تھی
"بڑی بیگم صاحبہ یہاں آ رہی ہیں یہ تو اچھی بات ہے مگر رات کو سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی خیر اللہ حفاظت سے ان کو یہاں لے کر آئے۔۔۔ آپ درید بابا کے پاس جائیں وہ آپ کو اپنے پاس موجود نہ پا کر پریشان ہو گے بیگم صاحبہ آئیں گے تو میں جاگ رہی ہوں آپ ان کی فکر نہ کریں"
زرقون بی کی بات سن کر زمل مطمئن ہو گئی اور درید کے پاس کمرے میں جانے لگی
بے چینی اور گھبراہٹ سے درید کی آنکھ کھلی تو سیدھا اس کی نظر وال کلاک پر گئی جہاں رات کہ ڈھائی بج رہے تھے اپنے برابر میں سوتی ہوئی زمل کو دیکھ کر وہ پانی پینے کے غرض سے اٹھا،، زخم تازہ ہونے کی وجہ سے اسے چلنے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی مگر زمل کو اٹھانے کی بجائے درید خود کمرے میں موجود ڈسپینسر سے پانی پینے لگا تب کھڑکی کی جانب اس کی نظر پڑی۔۔۔ درید پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاں تابندہ گاڑی سے اتر رہی تھی
درید نے اندازہ لگایا کہ وہ ڈرائیور سے بات کرکے اسے واپس جانے کا کہہ رہی تھی ڈرائیور کے وہاں سے جانے کے بعد اس نے تابندہ کو کوٹیچ میں آنے کی بجائے اسٹور روم کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ درید سمجھ گیا وہ بیسمینٹ میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے کچھ سوچ کر درید کمرے سے باہر نکلا،، پیٹ پر لگے اسٹیچس کی وجہ سے سیڑھیاں اترنا درید کے لیے تکلیف دہ مرحلہ ثابت ہوا تھا مگر وہ خود بھی بیسمینٹ میں جانا چاہتا تھا شاید یہی موقع مناسب تھا جب وہ تابندہ سے حقیقت کا پوچھتا بہت کچھ تو وہ جان گیا تھا لیکن وہ تابندہ کے منہ سے اس کے گناہ کا اعتراف سننا چاہتا تھا تاکہ اسے اس کے جرم کی سزا دے سکے
"اس جگہ کو خالی دیکھ کر اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہیں آپ۔۔۔ یہی سوچ رہی ہیں نہ کہ آپ کے ایکس ہسبنڈ کہاں گئے آخر"
درید کی آواز پر تابندہ نے ایک دم مڑ کر اسے دیکھا
"درید تم یہاں پر"
تابندہ حیرت سے درید کو اس جگہ پر دیکھ کر بولی
"کیا بہت زیادہ حیرت ہورہی ہے مجھے یہاں دیکھ کر یا پھر حیرت سے زیادہ پریشانی ہو رہی ہے خاور انکل کو یہاں موجود نہ پا کر"
درید بولنے کے ساتھ چلتا ہوا تابندہ کے پاس آیا
"درید مجھے نہیں معلوم تم کیا کچھ جانتے ہو مگر تمہیں مکمل حقیقت کا علم نہیں ہوگا اس کا مجھے اندازہ ہے"
تابندہ درید کے چہرے پر سختی اور ماتھے پر نمایاں بل دیکھ کر اس سے بولی
"اندازے تو میں اپنی طرف سے سارے ہی درست لگا چکا ہوں،، آپ سے تو میں صرف آپ کے گناہ کا اعتراف چاہتا ہوں مگر ابھی نہیں زمل کے سامنے تاکہ اسے اپنی ماں کے کردار کا اور اصلی چہرے کو معلوم ہو سکے"
درید طنزیہ لہجے میں تابندہ سے بولا
"کردار، اصلی چہرہ۔۔۔ ویسے تم نے خود سے کیا اندازہ لگائے ہیں بتانا پسند کرو گے مجھے"
تابندہ اس کے طنز کو خوب سمجھ رہی تھی جو کچھ وہ اپنے دل میں پال کر بیٹھا تھا وہ جاننے کی خواہش پر بیٹھی
"مردوں کا گھٹیا روپ تو بہت دیکھا ہے اور بہت کچھ سنا بھی ہے مرد ذات کے بارے میں۔۔۔ لیکن کوئی عورت بھی اتنی گھٹیا ہو سکتی ہے اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا شادی سے پہلے کی محبت اور اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ نے اور ڈیڈ نے اپنے اپنے لائف پارٹنرز کو دھوکہ دیا۔۔۔ آپ نے ڈیڈ کے ساتھ شامل ہو کر خاور انکل سے طلاق لینے کے بعد ان کو اس جگہ پر قید تنہائی کی سزا دی اور ساتھ ہی اپنی سہیلی کا گھر اجاڑ کر اس کے شوہر کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔۔۔ میری ماں کو راستے سے ہٹانے کے لیے آپ نے اور ڈیڈ نے انہوں نے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔۔۔ ڈیڈ کی ہر سازش میں آپ بھی ان کا حصہ بنی رہی۔۔۔۔ کیو ایسا ہی کچھ ہے ناں تابندہ اعظم"
درید نے پوری کوشش کی تابندہ کو اس کا مکروہ چہرہ صحیح سے دکھا سکے
"اب تم سچ سننا پسند کرو گے،، اتنی ہمت ہے تم میں کہ تم سچ برداشت کر سکو۔۔۔ مانا کہ میں اور اعظم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے اعظم کی شادی ثمن سے اور میری خاور سے ہوگئی۔۔۔۔ میں اعظم کی محبت اور یادوں کو اپنے دل سے نکال دیتی اگر خاور ایک اچھا شوہر ثابت ہوتا،، جن دنوں زمل پیدا ہونے والی تھی تب مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ خاور کسی عورت کے چکر میں پڑ گیا ہے اس کی بیوفائی نے مجھے ایک بار مجھے پھر آعظم کی طرف متوجہ کیا، ایک دن خاور نے غصے میں مجھے طلاق دے دی تب اعظم مجھ سے دوسری شادی کا ارادہ رکھتے تھے مگر اس سے پہلے جو راز تمہارے ڈیڈ پر افشاں ہوا اس نے اعظم کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ جانتے ہو کہ کس عورت سے خاور کے تعلاقات تھے، وہ عورت کون تھی جس کی وجہ سے خاور نے مجھے طلاق دی"
تابندہ اچانک درید سے سوال پوچھنے لگی مگر درید خاموش کھڑا اسی کے بولنے کا انتظار کرنے لگا
"خاور کے نکاح میں ہونے کے باوجود میں نے اعظم سے رابطہ رکھا مانا کہ میں نے خاور سے بے ایمانی کی مگر میرے اور اعظم کے بیچ ناجائز تعلق نہیں رہا جبکہ خاور کے ثمن کے ساتھ ناجائز تعلقات کا اعظم کو جیسے ہی علم ہوا۔۔۔۔
تابندہ اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پائی تھی کہ درید ایک دم چیخا
"خاموش بالکل خاموش ہو جائیں آپ۔۔۔ خبردار جو آپ نے ایک بھی لفظ اپنے منہ سے میری مری ہوئی ماں کے بارے میں نکالا تو جان لے لوں گا میں آپ کی سنا آپ نے"
درید تابندہ کے منہ سے ثمن کا نام سن کر غصے سے میں پاگل ہونے لگا۔۔۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہونے لگے جیسے اس انکشاف پر اس کی روح تک اذیت میں مبتلا ہوگئی ہوں
"میں تمہیں زندگی میں کبھی ثمن کی حقیقت نہیں بتاتی لیکن تم اعظم کو اس کا قاتل مت سمجھو۔۔۔ شادی جیسے پاک بندھن میں باندھنے کے باوجود میں نے خاور سے وفا نہیں نبھائی مگر کبھی بھی وہ گناہ جو خاور اور ثمن
تابندہ درید کی بدلتی کیفیت کو دیکھ کر بول رہی تھی تب ثمن کا نام آنے پر درید نے غصے میں تابندہ کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے دونوں بازو پکڑے
"بولا تھا نہ بالکل خاموش کر جاؤ ورنہ میں جان لے لوں گا تمہاری اپنی ان ہاتھوں سے"
درید تابندہ سے طیش کے عالم میں بولا اور ساتھ ہی اس نے تابندہ کو تہہ خانے میں موجود بستر پر دھکا دیا
"درید یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔ میری بات سنو درید"
درید تابندہ کو وہی بند کرکے جانے لگا۔۔۔ تابندہ بھاگتی ہوئی درید کی جانب بڑھی مگر تب تک درید تہہ خانے کا دروازہ بند کر کے وہاں سے جا چکا تھا
تابندہ اس وقت ٹہلتی ہوئی اعظم کے فون کا انتظار کر رہی تھی، اعظم ہفتے بھر سے ثمن اور درید کے ساتھ ایبٹ آباد میں موجود تھا۔۔۔ خاور چھ ماہ پہلے ہی اس کو غصے میں آکر معمولی سی بات پر طلاق دے چکا تھا تابندہ جانتی تھی وہ معمولی بات صرف ایک بہانہ بنی تھی خاور کے طلاق دینے کا،، اصل وجہ وہ عورت جس کے پیچھے اس کا شوہر اس سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا
اس مشکل گھڑی میں اعظم کی مخلص محبت اس کے سامنے آئی تھی جو نہ صرف اس سے شادی کرنے کے لئے تیار تھا بلکہ زمل کو بھی باپ کی حیثیت سے اپنانے کے لیے تیار تھا مسئلہ صرف ثمن کا تھا۔۔۔ اعظم ثمن کو تابندہ اور اپنے بارے میں بتا کر تابندہ سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر تابندہ ہر بار آنے والے طوفان کا سوچ کر اعظم کو روک دیتی
تابندہ کی ضد اور اصرار پر ہی اعظم نے اپنے دوست سے خاور اور اس کی گرل فرینڈ کے بارے میں معلومات کروائی تھی،، تابندہ جاننا چاہتی تھی اس عورت کے بارے میں جس کی وجہ سے اس کا گھر اجڑا تھا۔۔۔ فون کی گھنٹی بجنے پر سوتی ہوئی زمل پر نظر ڈال کر تابندہ فون کی طرف بڑھی
"میں کب سے آپ کی کال کا انتظار کر رہی ہوں اعظم بتایئے نا کیا بنا اس کام کا جو میں نے آپ سے کہا تھا۔۔۔۔ آپ نے بولا تھا کہ آج آپ کا دوست آپ کو خاور اور اس کی گرل فرینڈ کی تصویریں دے گا"
تابندہ اپنی رو میں اعظم کی خاموشی کو محسوس کیے بنا اس سے پوچھنے لگی
"ثمن"
اعظم کے منہ سے ثمن کا نام سن کر تابندہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا
"ثمن، کیا ہوا اس کو وہ ٹھیک تو ہے اعظم"
تابندہ ثمن کے بارے میں اعظم پوچھنے لگی جب سے اس کی اور خاور کی طلاق ہوئی تھی تابندہ نے محسوس کیا تھا ثمن کے رویے میں بھی تبدیلی آئی تھی وہ اب تابندہ سے کھیچی رہنے لگی تھی
"اس بے غیرت بے حیا بے شرم عورت کا خاور سے پورے دو سال سے افیئر چل رہا ہے تابی۔۔۔۔ وہ عورت میرے ساتھ رہتے ہوئے۔۔۔ خاور کی محبوبہ اور کوئی نہیں ثمن ہے"
اعظم کی بات سن کر تابندہ سکتے میں آ چکی تھی اتنا بڑا کھیل خاور اور ثمن میں کھیلا تھا یہ تو وہ اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں لا سکتی تھی۔۔۔ وہ تو اپنے اور اعظم کے رابطے پر شرمسار رہتی تھی
"ایسی بے شرم اور بے حیا عورت کو تو میرا دل کر رہا ہے کہ اپنے ہاتھ سے مار ڈالو"
تابندہ کو اعظم کی غصے میں بھری ہوئی آواز سنائی دی
"بے حیا اور بے شرم اور تو میں بھی ہوں اعظم، جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی آپ سے تعلق رکھے ہوئی تھی،، کوئی بھی فرق نہیں ہے ثمن اور تابندہ میں"
تابندہ شرمندہ لہجے میں اعظم سے بولی
"اپنے اور میرے تعلق کو ان دونوں کے ناجائز تعلقات سے مت ملاؤ تابی، جو تصویر اس وقت میرے ہاتھ میں موجود ہیں اگر تم دیکھ لو تو شرم سے پانی پانی ہو جاؤ گی۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں اس نیچ عورت کو ایک پل کے لئے اپنی زندگی میں برداشت نہیں کروں گا"
اعظم غصے میں تابندہ سے بولتا ہوا فون کر چکا تھا مگر اپنے سامنے زرقون بی کو دیکھ کر ایک دم چونکا
"ایسا تو نہیں ہے زرقون بی کے آپ ان سب باتوں سے انجانے رہی ہوگیں کیوں بے خبر رکھا آپ نے مجھے ثمن سے متعلق"
اعظم غصہ دباتا ہوا اپنے سامنے کھڑی زرقون بی سے سوال کرنے لگا کیونکہ زرقون بی کے تاثرات اسے بتا رہے تھے کہ وہ اس معاملے سے انجان بالکل نہیں ہیں اور ان تصویروں میں اسی کوٹیج کا کمرہ شو ہو رہا تھا جس میں خاور اور ثمن باہوں میں بانہیں ڈالے ایک دوسرے میں بری طرح مدھوش تھے
"میں اس گھر میں نوکر کی حیثیت رکھتی ہوں اعظم صاحب۔۔۔ میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں آپ کو اتنے بڑے دکھ ہیں دوچار کرتی میں اپنے اندر اتنی ہمت جمع نہیں کر پائی کیا آپ کو حقیقت بتا کر شرمندہ ہوتا دیکھتی۔۔۔ اس بات کے لئے آپ مجھے معاف کر دیجیے گا"
زرقون بی جنہوں نے اس کوٹیج میں کئی چھوٹے اور بڑے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں،، جس کے بعد وہ خود شرمسار ہو جاتی آج اعظم کے سامنے یہ سب بولتے ہوئے انہیں خود بھی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔زرقون بی کی بات سن کر اعظم غصے سے بھرا وہاں سے نکلتا ہوا کوٹیج کی سیڑھیاں چڑھ کر ہوا بیڈروم میں جانے لگا جہاں پر ثمن موجود تھی
اعظم مشتعل تب ہوا جب ساری تصویریں اس نے ثمن کے منہ پر دے ماری جس کو دیکھنے کے بعد وہ بغیر شرمندہ ہوئے اپنے گناہ سے صاف مُکر گئی،، اعظم کو اشتعال میں دیکھنے کے بعد ثمن کے منہ سے یہ بھی نکل گیا کہ وہ بھی اس کے اور تابندہ کے تعلق کا علم رکھتی ہے جس پر اعظم نے ثمن پر اپنی سوچ ظاہر کردی
"میں تابی کو ابھی سے نہیں بلکہ ہماری شادی سے پہلے سے پسند کرتا ہوں، میں تمہاری طرح اپنے اور تابی کے تعلق سے مکرو گا نہیں کیونکہ میرا تابی کے ساتھ ویسے غلیظ تعلق نہیں ہے جیسا تمہارا اور خاور کا ہے۔۔۔۔ ڈرائیورز کے پیپر تمہیں جلد مل جائیں گے اس کے بعد میں تابی کو اپنی زندگی میں شامل کروں گا اور درید کی طرف سے تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ میرا خون ہے میرے پاس ہی رہے گا"
اعظم غصے میں ثمن سے بولتا ہوا کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترنے لگا
"اعظم میری بات تو سنو،، مجھے معاف کر دو میں بہک گئی تھی اب خاور سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی، درید کی قسم کھا کر کہتی ہو مجھے طلاق مت دینا"
ثمن اعظم کے پیچھے سیڑھیاں اترتی ہوئی اعظم کا بازو پکڑ کر بولی مگر اعظم کو ثمن پر شدید غصہ تھا۔۔۔ درید کی قسم کھانے پر اس نے ثمن سے اپنا بازو چھڑا کر دود جھٹکا جس کے نتیجے میں وہ سیڑھیوں سے گر پڑی
"اعظم صاحب دیکھیں ناں بیگم صاحبہ کے سر سے خون نکل رہا ہے"
اعظم جو کہ ثمن کی پرواہ کئے بغیر اس کو نظر انداز کرتا ہوا آنے والی کال ریسیو کر چکا تھا زرقون بی اعظم کے پاس آتی ہوئی بولی تو وہ اپنے سے چھ قدم کے فاصلے پر سسکتی ہوئی ثمن کو دیکھنے لگا
"اعظم زرقون بی کیا کہ رہی ہے ثمن زخمی ہوگئی ہے کیا۔۔۔ اعظم آپ کو اس وقت غصے سے کام نہیں لینا چاہیے وہ درید کی ماں ہے میں کال بند کرتی ہوں آپ پلیز اس کو دیکھیں"
تابندہ جو کہ زرقون بی کی آواز سن چکی تھی جلدی سے اعظم سے بولی جس پر اعظم نے اتنا کیا کہ ڈاکٹر کو گھر کا ایڈریس دے کر ثمن کو زرقون بی کے آسرے پر چھوڑتا ہوا خود گھر سے باہر نکل گیا
"کہاں چلے گئے تھے دید آپ"
درید جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے زمل کو جاگتے ہوئے پایا جوکہ فکرمند لہجے میں درید سے پوچھ رہی تھی
"کہیں نہیں گیا تھا تم جاگ کیو گئی ہو سو جاؤ"
واپس سیڑھیاں چڑھ کر آتے ہوئے اس کی حالت غیر ہوگئی تھی مگر درید کو لگ رہا تھا یہ تکلیف اس تکلیف سے بےحد کم تھی جو اسے تابندہ کی باتوں سے سن کر ہوئی تھی
"کیا ہوا دید مجھے آپ کی کنڈیشن کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے بتائےناں آپ کیا فیل کر رہے ہیں"
درید جوکہ بیڈ کی طرف بڑھ کر لیٹنا چاہ رہا تھا زمل اس کے پاس آتی ہوئی درید کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگی اس وقت درید کے چہرے پر ایک ایک درد رقم تھا
"شدید تکلیف محسوس کر رہا ہوں میں اس وقت زمل۔۔۔ تم میری اس تکلیف کو نہیں سمجھو گی بلکہ کوئی بھی میری اس تکلیف کو نہیں سمجھ سکتا"
درید زمل کو دونوں شانوں سے پکڑتا ہوا بولا، کرب اس کے چہرے اور لہجے دونوں سے چھلک رہا تھا
"میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ ہاسپیٹل سے اتنی جلدی ڈسچارج ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر وہی ناں آپ تو اپنی ہی چلاتے ہیں بس۔۔۔ چلیں یہاں پر آ کر لیٹے میں ڈاکٹر کو فون کرکے بلاتی ہوں"
زمل درید کو سہارا دیتی ہوئی بیڈ پر بٹھانے کے بعد اپنے موبائل لینے کی غرض سے اٹھنے لگی تو درید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"دید ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہے ہیں کیا ہوا ہے آخر۔۔۔ پلیز بتائیں ناں مجھے"
وہ نم آنکھوں سے زمل کو دیکھ رہا تھا تو زمل اس کا چہرہ تھامتی ہوئی پوچھنے لگی
"ٹوٹ چکا ہوں آج میں بری طرح، اپنا ہی وجود بے معنیٰ سے لگ رہا ہے دل چاہ رہا ہے خود کو جلتی ہوئی آگ میں جھونک ڈالوں۔۔۔ نفرت محسوس ہو رہی ہے اپنے آپ سے مجھے"
درید زمل کے کندھے پر سر رکھ کر باقاعدہ رونے لگا، زمل درید کے اس طرح ری ایکٹ کرنے سے مزید پریشان ہوگئی
"بتا کیوں نہیں رہے ہیں کہ آخر ہوا کیا ہے اب مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے دید کیوں پریشان کر رہے ہیں مجھے"
زمل دوبارہ درید کا چہرہ تھام کر اس کے آنسو پوچھتی ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھنے لگی اس سے پہلے درید کچھ بولتا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا
"تم یہاں۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی"
درید کیف کو اپنے کمرے میں دیکھ کر اپنی کیفیت سے باہر آتا ہوا غصے سے بولا جبکہ زمل اس وقت کیف کو دیکھ کر پریشان ہو چکی تھی
"خود کو ہیرو اور مجھے بچہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے ہو تم درید اعظم۔۔۔ آج تم میری ہمت پر ہی نہیں میری جرت پر حیران رہ جاؤ گے۔۔۔ جب میں تمہاری ہی آنکھوں کے سامنے تمہاری اس خوبصورت بیوی کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤ گا"
کیف بولتا ہوا زمل کی طرف بڑھا جو کہ غصہ ضبط کیے کیف کی فضول بکواس سن رہی تھی مگر اس سے پہلے وہ زمل کی طرف ہاتھ بڑھاتا۔۔۔۔ زور دار تھپڑ کیف کے منہ پر درید نے رسید کیا
"اس کی طرف اگر تم نے اپنی غلیظ نگاہ بھی ڈالی تو میں تمہارا ہمایوں سے بھی زیادہ برا حشر کر دوگا کیف جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا"
درید اشتعال بھرے انداز میں کیف اور گریبان پکڑتا ہوا بولا کیف اپنے گال پر ہاتھ رکھا ہوا غصے درید سے بولا
"بہت ہوگیا درید اعظم اب اور نہیں"
کیف نے بولنے کے ساتھ ہی درید کے پیٹ پر زوردار لات ماری جس سے وہ فوری طور پر سنبھل نہیں پایا اور درد سے کراہتا ہوا پیچھے جا گرا
"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے جاھل انسان۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو میرا ہاتھ میں کہیں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ"
اچانک ہوئی کاروائی پر زمل غصے سے بولی لیکن کیف زمل کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے جانے لگا
زمل پریشان ہو کر فرش پر گرے ہوئے درید کو دیکھنے لگی جو کہ تکلیف کی شدت برداشت کر رہا تھا۔۔۔ پیٹ پر زوردار لات لگنے کی وجہ سے ایک پل کے لئے درید کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا مگر زمل کے چیخنے چلانے سے درید کے حواس دوبارہ بیدار ہونے لگے وہ فرش سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا
"میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی کیف میں کہتی ہو میرا ہاتھ چھوڑ دو"
زمل ایک بار پھر اپنے آپ کو کیف سے چھڑواتی ہوئی چیخ کر بولی
"تمہارے تو اچھے بھی میرے ساتھ چلیں گے شکر کرو کے محبت کرتا ہوں تم سے ورنہ تمہاری جیسی لڑکی کو تو استعمال کرکے ہمایوں کے آگے پھینک ڈالنا چاہیے"
کیف غصے میں زمل کے چیخنے چلانے کی پرواہ کیے بغیر اس کو گھسٹتا ہوا کمرے سے باہر لے آیا
"زمل کو چھوڑ دو کیف ورنہ آج میں تمہاری جان لے لوں گا"
درید کیف اور زمل کے پیچھے کمرے سے باہر نکلتا ہوا غصے میں چیختا ہوا کیف سے بولا۔۔۔ پیٹ پر زور دار لگنے والے لات سے اس کے اسٹیچس کُھل گئے تھے جس کی وجہ سے خون اس کی شرٹ کو لال رنگ میں رنگ گیا تھا
"بہت ہی کوئی ڈھیٹ آدمی ہو تم درید اعظم ایسے نہیں جان چھوڑو گے، اب میں تمہیں اور اچھے سے مزا چھکاؤں گا"
کیف نے اپنے پیچھے درید کو آتا ہوا دیکھا تو زمل کا ہاتھ چھوڑ کر ایک بار پھر درید کو مارنے کی غرض سے اس کی طرف بڑھا ہی تھا
"کیف نہیں پلیز دید کو کچھ نہیں کرنا"
زمل نے کیف کا بازو پکڑ کر اسے روکنا چاہا وہ درید کے زخم سے خون نکلتا ہوا دیکھ کر رو رہی تھی
"پیچھے ہٹو اور چھوڑو میرا ہاتھ"
اس سے پہلے درید کیف کو مارنے کے لئے آگے بڑھتا۔۔۔ کیف نے زمل سے اپنا بازو چھڑا کر اس زور سے دھکا دیا
"زمل"
زمل کو سیڑھیوں سے نیچے گرتا ہوا دیکھ کر درید ڈر کے مارے زور سے چیخا وہ اپنا درد اور تکلیف بھول کر کیف کو غصے میں بری طرح مارنے لگا
"تم مجھ سے اس کو نہیں چھین سکتے میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا"
درید کیف کو برے طریقے سے مارتا ہوا غصے میں شاید پاگل ہو گیا تھا۔۔۔ کیف نے اپنے بچاؤ کے لئے درید کے پیٹ میں ایک دفعہ اور زوردار لات ماری جس کی وجہ سے درید درد سے چیختا ہوا فرش پر جا گرا۔۔۔۔ اس کے پیٹ میں شدید تکلیف اٹھنے لگی تھی اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس نے داخلی دروازے سے پولیس کے پیچھے تابندہ اور زرقون بی کو آتا ہوا دیکھا
"بہت آئستہ سے درید نے اپنی کھولی تو خود کو ہسپتال کے کمرے میں موجود پایا سب سے پہلی نظر اس کی تابندہ کے چہرے پر پڑی جو درید کو ہوش میں آتا دیکھ کر شکر ادا کر رہی تھی
"ڈرا کر رکھ دیا تم نے ہمہیں شکر ہے تمہیں ہوش آگیا"
تابندہ سارے قصے کو بھول کر مسکراتی ہوئی درید سے بولی
"زمل"
درید آئستہ آواز میں تابندہ سے زمل کے بارے میں پوچھنے لگا تب درید کو اپنے ہاتھ پر زمل کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اس نے دائیں جانب گردن موڑ کر دیکھا تو زمل اپنی آنکھوں میں نمی کے ساتھ درید کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
"میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں"
تابندہ کرسی سے اٹھتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ زمل درید کے قریب آئی
"میں اس وقت ڈر گیا تھا جب تم سیڑھیوں سے نیچے گری، کیف تمہیں مجھ سے چھیننا چاہتا تھا"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا آہستہ آواز میں اس سے بولا
"خدا کی ذات کے علاوہ مجھکو آپ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا دید اور اوپر والا بھی ہم دونوں کا ساتھ چاہتا ہے جبھی میں آپ کے پاس ہوں۔۔۔ اپنے دل سے ہر طرح کے ڈر اور خوف کو نکال دیں کیونکہ اب میں خود بھی آپ سے جدا ہونے کا تصور نہیں کر سکتی"
زمل نے درید کو پوری ایمانداری سے سچائی بتاتے ہوئے اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے
جس وقت درید تابندہ کو بیسمینٹ میں بند کرکے واپس کوٹیچ میں آگیا تھا۔۔۔ سیڑھیوں سے اوپر اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسے زرقون بی دیکھ چکی تھی مگر درید کو روکنے کی بجائے وہ باہر چلی آئی جہاں اسٹور کی لائٹ آن دیکھ کر وہ کسی خدشے کے تحت وہ اسٹور روم میں چلی گئی۔۔۔۔ تہہ خانے کے بجتے ہوئے دروازے اور تابندہ کی آتی ہوئی آوازوں سے انہوں نے تہہ خانے کا دروازہ کھولا
تابندہ زرقون بی کے آنے سے پہلے ہی پولیس کو انفرم کر چکی تھی۔۔۔ اسے درید کے تیور دیکھ کر اپنے ساتھ زمل کے لیے بھی ڈر محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ جب تک وہاں پولیس پہنچی تو ایک نیا قصّہ سامنے آگیا۔۔۔ زمل کو سیڑھوں سے نیچے گرا ہوا دیکھ کر اور درید کو بےہوشی کی حالت میں دیکھ کر تابندہ کو فوری طور پر ایمبولینس بلانا پڑی جبکہ پولیس کیف کو اپنے ساتھ لے جا چکی تھی
پورے ایک ہفتے بعد وہ ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آیا تھا۔۔۔ سامنے دیوار پر ثمن کی تصویر کو دیکھ کر وہ خادم کو پکارنے لگا
"اس تصویر کو واپس اسٹور میں رکھ آؤ"
درید کے بولنے پر وہاں موجود تابندہ اور زرقون بی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں
"چلیں دید اپنے روم میں چل کر تھوڑی دیر ریسٹ کر لیں"
زمل درید کا بازو پکڑتی ہوئی بولی تو درید بنا کچھ بولے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ۔۔۔ دو دن پہلے جب وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ تب زرقون بی اسے پوری سچائی بتا چکی تھی جس کو سن کر وہ بالکل خاموش ہوگیا تھا۔۔۔ زمل جانتی تھی اسے تھوڑا وقت لگے اس فیز سے باہر آنے میں
"میرے خیال میں آپ کو وہ سب درید کو نہیں بتانا چاہیے تھا زرقون بی، اس طرح اسے دیکھ کر اچھا نہیں لگ رہا ہے بالکل ہی چپ ہوگیا ہے"
تابندہ درید کو اپنے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ کر آہستہ آواز میں زرقون بی سے بولی وہ خود بھی درید کو ثمن کے بارے میں بتا کر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی
"خوشی خوشی نہیں بتایا بیگم صاحبہ میں نے کچھ بھی، نہ ہی درید بابا کو یوں خاموش دیکھ کر میں خوش ہو،، لیکن حقیقت ان کے سامنے نہیں آتی تو اُس کے برے نتائج کا آپ کو اور شاید زمل بی بی کو بھی سامنا کرنا پڑتا"
زرقون بی کی بات سن کر تابندہ خاموش ہو گئی تو زرقون بی کچن کی طرف چلی گئیں
"میں اس وقت لیٹنا نہیں چاہ رہا"
کمرے میں آنے کے بعد زمل بیڈ کی جانب بڑھتی ہوئی درید کی سائیڈ کا تکیہ سیٹ کرنے لگی تب درید صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔۔۔ اس کی بات سن کر زمل درید کے پاس آکر اس کی تھائی پر بیٹھ گئی جس پر درید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا تو زمل اسمائل دیتی ہوئی درید سے بولی
"میرا بھی دل چاہ رہا تھا اس وقت آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے باتیں کرنے کا"
زمل نے بولنے کے ساتھ ہی درید کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا
"مجھے تو لگتا ہے میرے پاس اب بولنے کو کچھ نہیں رہا"
درید اداسی سے بولنے لگا تو زمل اس کے کندھے سے سر اٹھا کر درید کو دیکھنے لگی اس کا دل چاہا وہ درید کی ساری اداسی دور کردے
"تو آپ میری سن لی جیئے میرے پاس تو آپ سے کرنے کے لئے بے شمار باتیں ہیں"
وہ درید کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی نرم مسکراہٹ کے ساتھ بولی ایک ہفتے میں اس کی شیو کافی گھنی ہوگئی تھی۔۔۔ چہرے پر اداسی لیے وہ زمل کو دیکھنے لگا
"تمہیں آنٹی نے بتایا، میری ماما کا تمہارے بابا کے ساتھ"
درید کی بات مکمل ہونے سے پہلے زمل اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھتی ہوئی بولی
"ضروری تو نہیں ہے دید ہم گزری ہوئی تلخ باتوں کا ذکر کرکے خود کو اذیت میں مبتلا کریں جس سے حاصل تو کچھ بھی نہیں ہونا۔۔۔ کیو نہ ہم اپنے آنے والے کل کی باتیں کریں جو ہمارے لیے خوشی کا باعث بنے"
وہ درید کے گال پر دوبارہ اپنا ہاتھ رکھ کر اسے پیار سے سمجھاتی ہوئی بولی
"آنے والا کل"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا ساتھ ہی اس نے پیچھے صوفے پر اپنا سر رکھ دیا
"ہہم ہم دونوں کا آنے والا کل"
زمل نے بولنے ہوئے دوبارہ درید کے کندھے پر اپنا سر رکھا اب زمل کا ہاتھ درید کے گال کی بجائے اس کے سینے پر تھا
"ہم دونوں کے آنے والے کل کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ شاید چند دنوں بعد میرا واپس لندن جانا ہوجائے پھر یہاں آنے کا نہ جانے کب ارادہ ہو"
درید نے جتنی سنجیدگی سے یہ جملہ ادا کیا زمل اتنی حیرت سے سر اٹھا کر درید کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔۔ وہ اکیلا لندن جانے کی بات کر رہا تھا اس کو چھوڑ کر جانے کی بات کر رہا تھا
"کس سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ دید"
زمل اس کی تھائی سے اٹھتی ہوئی درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی تو درید بھی سیدھا ہو کر بیٹھا
"میں کیوں کسی سے بھاگو گا۔۔۔ تم میرے ساتھ رشتہ نہیں چاہتی تھی،، اب مجھے یہ ریلائیز ہوا ہے کسی دوسرے کو اپنا پابند بنا کر، زندگی بھر اُسے اُس کی مرضی کے بغیر زبردستی اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا جا سکتا ورنہ بعد کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔۔۔ تمہاری مرضی شامل نہ ہونے کے باوجود میں نے تمہیں حاصل کیا، تم سے زبردستی اپنا اور میرا رشتہ منوایا۔۔۔ غلط ہے یہ سب"
درید سنجیدگی سے زمل کو دیکھتا ہوا بولا وہ آنکھوں میں نمی کے ساتھ درید کو دیکھنے لگی
"ڈر گئے ہیں آپ دید، یہ بولیں ناں آپ مجھ سے ڈر گئے ہیں۔۔۔ آپ کو لگ رہا ہے چند سالوں بعد میں بھی شاید آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیف یا پھر کسی دوسرے کے ساتھ رشتہ بنالو گی بالکل اپنی مما یا آپ کی ماما کی طرح"
زمل بے دردی سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی
"زمل،، ہمت کیسے کی تم نے اتنی فضول بات کرنے کی"
درید غصے میں چیختا ہوا زمل سے بولا
"ویسے ہی جیسے آپ نے لندن جانے کی فضول بات کی میرے سامنے"
زمل بھی اب غصے میں اسی کی طرح چیخ کر بولی تو درید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔ زمل ایک بار پھر اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو پونچھتی ہوئی درید سے بولی
"آپ لندن جانے کا سوچ چکے ہیں یعنیٰ آپ نے میرے بغیر رہنے کا تصور کر لیا ہے دید، رہ لیں گے آپ میرے بغیر"
زمل کے بولنے پر اب کی بار درید کا دل تڑپ اٹھا وہ صوفے سے اٹھتا ہوا زمل کے پاس آیا۔۔۔ درید نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر زمل کے آنسو صاف کرنے چاہے مگر زمل نے اس کا ہاتھ جھڑک دیا
"ہر عورت کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے دید۔۔۔ نہ ہی ہر عورت ایک جیسی ہوتی ہے۔۔۔ اگر کسی مرد کی زندگی میں بدکار عورت آجائے تو ضروری نہیں ہر عورت کو ترازو کے ایک ہی پلرے میں تولا جائے۔۔۔ عورت کو وفا کا پیکر کہا گیا ہے مگر آپ شاید"
زمل بولتی ہوئی خاموش ہوئی درید خاموشی سے ابھی تک زمل کو دیکھ رہا تھا تب زمل دوبارہ بولی
"میرا کیف کی طرف رجحان آپ کی من مانیوں سے اور بےجا روک ٹوک سے گیا۔۔۔ آپ نے واپس آنے کے ساتھ ہی مجھ سے ایسا رویہ اپنایا مجھے اپنے لیے کیف صحیح آپشن لگنے لگا۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے زمل کی زندگی میں بھلا کون تھا،،، اس نے بھی دید کے علاوہ کبھی اپنے آس پاس کسی کو نہیں دیکھا تھا"
زمل کو بولتے ہوئے ہوئے ایک بار پھر رونا آنے لگا
"زمل"
درید نے اب کی بار اسے اپنے سینے سے لگانا چاہا وہ بھلا کہا زمل کو روتا ہوا دیکھ سکتا تھا مگر زمل نے ایک بار پھر اس کے اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکا
"پہلے آپ نے میری مرضی جانے بغیر اپنی مرضی سے مجھ سے نکاح کیا، زبردستی مجھے اپنے ساتھ رشتے میں جوڑے رکھا۔۔۔ اپنا پابند تو آپ مجھے بچپن سے ہی بناتے آئے ہیں اور حق بھی جتاتے آئے ہیں مجھ پر۔۔۔ پھر مجھے ہمارے رشتے کی اہمیت بتا کر، اپنی محبت کا اعتراف کرکے،، میرے اتنے قریب آکر ہمارے رشتے کو مکمل کرنے کے بعد آپ مجھے چھوڑ کر جانے کی بات کر رہے ہیں دید۔۔۔ آئی ہیٹ یو"
زمل روتی ہوئی درید سے بولی تو درید نے تیسری بار اپنے جھٹکے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز کرکے زمل کی دونوں کلائیاں پکڑتے ہوئے اس اپنے سے قریب کیا۔۔۔ زمل کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کرتے ہوئے درید نے پوری شدت دکھائی تھی،، جتنی دیر کمرے میں زمل کی آواز گونج رہی تھی اب بالکل خاموشی تھی۔۔۔ زمل کی مزاحمت پر بھی درید اپنی گرفت میں کمی لائے بغیر اسے جکڑا ہوا تھا۔۔۔ زمل کی انکھیں جنھوں نے آج برسنے کی قسم کھائی ہوئی تھی درید کی شدت پر ایک بار پھر نم ہونے لگی زمل کے آنسوں کی نمی کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے درید کی گرفت ڈھیلی پڑی تو زمل نے اسے پیچھے دھکیلا
"کیا کر رہے ہیں آپ، ہوش میں تو ہیں ایسے بھی کوئی کرتا ہے"
زمل درید کے جذباتی انداز پر سرخ چہرے کے ساتھ اپنی سانسیں ہموار کرتی ہوئی اس سے بولی
"جتنا سب کچھ تم نے آخر میں میرے بارے میں بتایا،، میرے اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی تم مجھے ہیٹ کرو گی تو میں پھر یونہی کروگا تمہارے ساتھ"
درید نرمی سے زمل کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بولا
"مجھ سے دور جانے کا کیسے سوچا لیا آپ نے"
زمل درید کی باہوں میں اب بھی اس سے شکوہ کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"تمہیں کیا لگ رہا تھا تم سے دور جانے کا فیصلہ کر کے میں خود اپنے فیصلے پر قائم رہتا۔۔۔ اتنا ہی جانا ہے تم نے اپنے دید کو"
درید کے بولنے پر زمل نے درید کے سینے سے سر اٹھا کر اس کو دیکھا۔۔۔ درید زمل کو ہی دیکھ رہا تھا اسکی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھنے کے بعد وہ دوبارہ زمل سے بولا
"تم سے دور جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے تمہارے کردار پر اعتبار نہیں ہے ایسا اب دوبارہ کبھی بھی مت سوچنا۔۔۔ بس ماما کی حقیقت کو جاننے کے بعد دل بری طرح سے۔۔۔
زمل نے درید کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی تو وہ خاموش ہوگیا
"آج کے بعد ہم دونوں کے درمیان ہمارے پیرنٹس کو لے کر ماضی کی کوئی بات نہیں ہوگی دید۔۔۔۔ نہ ہی آپ کچھ الٹا سیدھا اپنے دل میں سوچیں پالیں گیں پرامس کریں مجھ سے"
زمل کے بولنے پر درید اسے اپنے حصار میں لیے خاموشی سے محسوس کرنے لگا
"اب کیوں خاموش ہوگئے ہیں کیا سوچ رہے ہیں"
زمل درید کے سینے پر سر رکھے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ اسے اندر سے تھوڑا بہت اطمینان ہوا تھا کہ وہ جلدی درید کو اس فیز سے نکال لے گی
"میرے دور جانے کا سن اتنا زیادہ روئی ہو تم۔۔۔ زندگی بھر مجھے اپنے پاس رکھ کر میری دیوانگی کو برداشت کر پاؤ گی"
درید زمل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"نہ ہی میرے بالوں کو کوئی دوسرا آپ کے علاوہ ہاتھ لگا سکتا ہے، نہ ہی آپ کو میری توجہ کسی دوسری طرف اچھی لگتی ہے۔۔۔ یہ دیوانگی ہی ہے جسے میں بچپن سے برداشت کرتی آرہی ہو"
زمل اپنے دونوں ہاتھ درید کے گلے میں ڈالتی ہوئی بولی تو درید نے اسے خود سے مزید قریب کرکے انچ بھر کا رہا سہا فاصلہ بھی ختم کیا
"لیکن اب تو تم میری بیوی بن چکی۔۔۔ اس لیے میری دیوانگی کو ایک نئے روپ میں برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ"
درید بولتا ہوا زمل کی گردن پر جھکا اس سے پہلے وہ جذباتی ہوتا زمل اس کے حصار سے نکل چکی تھی
"تھوڑی دیر پہلے ہی ہاسپٹل سے گھر آئے ہیں دید بےشرمی چھوڑ کر شرافت سے جاکر بیڈ پر لیٹ جائے"
زمل درید کو آنکھیں دکھاتی ہوئی کمرے سے جانے لگی تو درید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"لیٹ جاتا ہوں مگر پہلے آج رات کے "پروگرام" کی ڈیٹیلز بتانے کے بعد"
درید زمل کو فرار ہوتا دیکھ کر معنیٰ خیزی سے بولا مگر دروازے کی دستک پر اسے زمل کا ہاتھ چھوڑنا پڑا
"ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے تمہیں"
تابندہ کمرے میں آتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپ بیٹھیں پلیز"
درید سنجیدہ ہوتا ہوا تابندہ سے بولا وہ بیسمینٹ میں تابندہ کو بند کرنے والی حرکت پر خود بھی اندر سے گلٹی تھا جیسے تابندہ اس کو ثمن کا سچ بتا کر گلٹ محسوس کر رہی تھی
"اور کیا باتیں چل رہی تھی"
تابندہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی سرسری انداز میں درید سے پوچھنے لگی
"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی آپ کی بیٹی کو شوق چڑھا ہوا تھا اپنی تعریفیں سننے کا وہی کرکے اس کا دل خوش کر رہا تھا"
درید خود بھی دوسرے صوفے پر بیٹھتا ہوا سیریس ہوکر تابندہ کو بتانے لگا جس پر تابندہ ایک دم ہنسی جبکہ زمل کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا مگر وہ بھی ہار ماننے والی نہیں تھی
"دید مما کو آج رات والے پروگرام کا بھی بتا دیں جو آپ ابھی مجھے بتانے والے تھے۔۔۔ پھر میں آپ کے لیے اچھی سی کافی بنا کر لاتی ہوں"
زمل درید سے اپنا بدلہ لیتی ہوئی بولی جس پر درید زمل کو آنکھیں دکھانے لگا
"کون سا پروگرام درید کیا سوچ رکھا ہے تم نے آج رات کے لیے"
تابندہ حیرت سے درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی جبکہ زمل وہی کمرے میں کھڑی اپنی ہنسی چھپانے لگی
"واپس اسلام آباد چلنے کا پروگرام اور کون سا پروگرام ہوسکتا ہے بھلا"
درید تابندہ کے حیرت ذدہ تاثرات کو دیکھ کر نارمل انداز اپناتا ہوا بولا ساتھ ہی اس نے زمل کو آنکھیں دکھائی تاکہ وہ باز آجائے
"نہیں بیٹا اتنی بھی کیا جلدی ہے کہ آج رات میں ہی اسلام آباد کے لیے نکلا جائے پہلے تم مکمل صحت یاب ہوجاؤ پھر کوئی پروگرام رکھتے ہیں"
تابندہ اپنی طرف سے درید کو معقول مشورہ دیتی ہوئی بولی جس پر درید نے تابعداری دکھاتے ہوئے اقرا میں سر ہلایا مگر اسے زمل کے فضول بولنے پر غصہ آیا تھا
"ارے مما پروگرام کی پوری ڈیٹیل تو جان لیں دید سے وہ ابھی وہی بتانے والے تھے مجھے شاید کوئی موڈ بن جائے، کیوں دید"
زمل کے بولنے پر درید ایک دم زمل کی بات کاٹتا ہوا بولا
"تم میرے لیے کافی بناکر لانے والی تھی شاید اور آنٹی کی بات بالکل ٹھیک ہے اب میری صحت یابی کے بعد ہی کوئی پروگرام رکھے گیں۔۔۔ واپسی کا"
درید آنکھوں ہی آنکھوں میں زمل کے لیے ناراضگی ظاہر کرتا ہوا بولا ساتھ اسے سدھرنے کا بھی اشارہ کیا
"رئیلی مجھے تو لگ رہا تھا آپ میں کافی اسٹیمنا ہے آئی مین سفر تو آسانی سے کر سکتے ہوگیں آپ جبھی تو پروگرام بنا کر بیٹھے تھے"
زمل معصومیت سے درید کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی اس سے پہلے درید اس کو صحیح سے جھڑکتا کیوکہ وہ تابندہ کے سامنے نہ جانے کیا کیا بول رہی تھی یہ کام خود چپ بیٹھی تابندہ نے انجام دے دیا
"جب ایک بات ڈسائیڈ ہوچکی کہ آج رات کا پروگرام کینسل ہے پھر کیو بلاوجہ میں بولے جارہی تم۔۔۔ بہت زیادہ دل کر رہا ہے تمہیں اسلام آباد جانے کا"
تابندہ زمل کو ڈانٹتی ہوئی بولی اسے تو آج کے اس پروگرام کی کوئی لاجک ہی سمجھ میں نہیں آئی تھی
"میرا دل تھوڑی کررہا ہے پروگرام تو آپ کے داماد نے بنایا تھا"
زمل آئستہ سے بولتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی جبکہ درید زمل کی پشت کو گھور کر رہ گیا۔۔۔ وہ ایسے ہی اب زمل کو نہیں بخشتا رات میں اسے درید کے پاس ہی آنا تھا