Zeenia Sharjeel Novels List Urdu Novels

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel is very romantic novel, if you love to read romantic novels then you must read deewangi by zeenia sharjeel. 

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils has been represented in this novel. Different things that destroy today’s youth are shown in this novel. All type of people are tried to show in this novel.

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel

Zeenia Sharjeel has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best. 

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel

If you want to download this novel, you can download it from here:

↓ Download  link: ↓

Note!  If the link doesn’t work please refresh the page

Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel Complete PDF

 

 

Read Online Deewangi Novel by Zeenia Sharjeel

صبح کے آغاز پر آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر اپنے کمرے کے ٹیرس پر گئی،، وہ روز معمول کی طرح نائٹی پر اپنا گاؤن پہن کر ٹیرس پر چلی آئی۔۔۔۔ روز صبح صبح ٹیرس پر کھڑی ہوکر بند آنکھوں کے ساتھ گہری سانس لیے فریش آیئر کو اپنے اندر اتارنا اسے شروع سے ہی اچھا لگتا تھا۔۔۔ اسے یہ احساس بھی چھو کر نہیں گزرا کہ کوئی دوسری آنکھ اس کے گھر کے سامنے سڑک پر بہت غور سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ٹخنوں سے چھوتی نائٹی پر پہنے گاؤن،، جس کی ڈوریوں کو کمر سے کسنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی تھی،، نہ ہی اس نے شولڈر سے ذرا نیچے آتے کُھلے بالوں کو باندھنے کی زحمت کی تھی۔۔۔ لاپرواہ انداز میں وہ ٹیرس پر آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔۔۔۔ اور کوئی اس کے مکمل سراپے کو اپنے کیمرے کی مدد سے زوم کر کے کھٹا کھٹ اس کی تصویریں لے رہا تھا
کسی احساس کے تحت جیسے ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تو کوئی شخص ایک دم سامنے سڑک پر موجود درخت کی آڑ میں ہو گیا۔۔۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اپنے گاؤن کی ڈوریاں بند کرتی ہوئی اپنے گھر کے سامنے اس بوڑھے درخت کو دیکھنے لگی جس کے پیچھے چھپے ہوا شخص اس کے آنکھیں کھولنے پر ایک دم درخت کے پیچھے چھپ گیا تھا
وہ آج بھی اس شخص کا نوٹس لیے بنا اپنے کمرے میں چلی گئی جو معلوم نہیں آج سے پہلے کتنے مقامات پر، کتنی جگہوں پر اس کی ڈھیروں کی تعداد میں اپنے موبائل میں تصویریں کھینچتا رہا تھا
*****
آج شاید قسمت اس پر کافی مہربان تھی جبھی وہ انگلینڈ میں ریڈز کلب میں بیٹھا ہوا جوئے کی ایک کے بعد ایک بازی میں کامیاب ہوکر جیت اپنے نام کئے جا رہا تھا۔۔۔ موبائل پر آئی فائق کی کال کو وہ کافی دیر سے نظر انداز کیے ہوئے تھا۔۔۔۔ سارے کوائینز کا مالک بن کر بالآخر وہ ٹیبل سے اٹھا تو سامنے سے آتی مارتھا جان بوجھ کر اس سے ٹکرائی
"ہائے ہینڈسم اگر تم چاہو تو ہم دونوں تمہاری جیت کو ایک ساتھ مل کر بھرپور طریقے سے آج رات سیلیبریٹ کر سکتے ہیں کیا خیال ہے تمہارا اس بارے میں"
مارتھا نے اس سے بولتے ہوئے اپنے زپر کی زپ اچھی خاصی نیچے کر دی جس سے اس کے جسم کے خوبصورت خدو خال اور زیادہ واضح ہونے لگے۔۔۔ وہ مارتھا کے گلے کی گہرائی دیکھنے کے بعد مارتھا کو دیکھنے لگا جو اس کو آنکھ مارتی ہوئی معنیٰ خیزی سے مسکرا رہی تھی
"میری عادتیں اور خیالات جیکی سے کافی زیادہ مختلف ہیں یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ میں اپنی جیت کو اکیلا سیلیبریٹ کرنے کا عادی ہوں،، ہاں اگر آج کی رات تم میری بجائے کسی اور کے ساتھ نائٹ اسپینڈ کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو تم بیشک فائق کے ساتھ خوبصورت لمحات انجوائے کر سکتی ہو ویسے بھی وہ آج فری ہے"
وہ مارتھا کے قریب آکر اس کی شرٹ کی زپ اوپر کرتا ہوا بولا جس پر مارتھا کا منہ بن گیا۔۔۔ اس سے پہلے وہ کسینو سے باہر جانے کے لیے قدم اٹھاتا مارتھا اپنے دونوں بازوؤں کو اسکے گلے میں حائل کرتی ہوئی بولی
"میرے خیال میں تمہیں ایک بار آزمانا چاہیے میں شیمپینگ کی بوتل جتنا نشہ رکھتی ہو"
مارتھا کی بات سن کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ مارتھا کی کمر پر ٹکائے
"نشہ میں وہی پسند کرتا ہوں جو سر چڑھ کر بولے جبکہ شیمپینگ کی بوتل میرا کچھ نہیں بگاڑتی"
مارتھا کی کمر پر رکھے ہوئے ہاتھوں سے وہ مارتھا کو پیچھے ہٹاتا ہوا کسینو سے باہر نکل گیا
"عجیب مغرور آدمی ہے یہ جیکی کا دوست بھی"
مارتھا آہستہ آواز میں بڑبڑاتی ہوئی اپنے موبائل سے فائق کا نمبر ملانے لگی
****
"شش خاموشی سے اپنا کھانا فنش کرو کیوکہ تمہیں ایک ہیلدی بےبی بننا ہے"
دس ماہ کی زمل کی رونے کی آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی کیونکہ وہ اپنی بھوک سے زیادہ سریلیک کھا چکی تھی، وہ اب اور سریلیک نہیں کھانا چاہتی تھی جبکہ آٹھ سالہ درید زمل کے منہ میں زبردستی سریلیک ٹھونس رہا تھا جس کی وجہ سے زمل نے رونا شروع کردیا تھا
"یہ کیا کر رہے ہو تم زمل کے ساتھ، مارنا ہے تمہیں اسے اتنا زیادہ سریلیک کھلا کر"
تابندہ زمل کی رونے کی آواز سن کر کمرے سے باہر آئی، اپنی بیٹی کا درید کے ہاتھوں حشر دیکھ کر وہ اپنا غصہ ضبط کرتی ہوئی درید سے بولی
"کھانے سے کون مرتا ہے، آپ بھی تو روز کھانا کھاتی ہیں اور اس باؤل میں جتنا سریلیک ہے اس سے زیادہ کھانا کھاتی ہیں آپ کو تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔ ویسے بھی آپ زمل کے لیے پریشان مت ہوا کریں کل ڈیڈ نے آپ سے بولا تو تھا زمل اب درید کی ذمہ داری ہے"
درید تابندہ کو تڑخ کر جواب دیتا ہوا روتی ہوئی زمل کو وہاں سے لے کر چلا گیا۔۔۔ تابندہ غصے میں کھولتی ہوئی درید کو دیکھنے لگی وہ ثمن کی زندگی میں بالکل بھی بدتمیز بچہ نہیں تھا مگر اب تو اس کا یہ حال تھا کہ وہ بات بات پر نہ صرف تابندہ سے بدتمیزی کرتا تھا بلکہ اس کی چھوٹی سی بیٹی کو بھی اپنی جاگیر سمجھتا، کل اعظم نے مذاقاً درید کے سامنے تابندہ کو بولا تھا کہ زمل درید کی ذمہ داری ہے، وہ اس کے لیے پریشان نہ ہوا کرے اور درید شاید اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا تھا۔۔۔ وہ ابھی درید کے کمرے میں جاکر زمل کو لے آتی تو تابندہ کو پورا یقین تھا اعظم نے افس سے آکر الٹا اسی کو سمجھانا تھا اس لیے وہ وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگی تھوڑی دیر میں درید کو پڑھانے کے لیے اس کا ٹیوٹر آتا تو اسے زمل کو گود میں لینا نصیب ہوتا
****
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لینے کے بعد یونیورسٹی کے لیے نکلنے لگی،، فٹٹ جینز کے اوپر اسٹائلش سے ٹاپ میں وہ روز کی طرح دلکش لگ رہی تھی مگر اس سے پہلے اس کی مما اس کی ڈریسنگ کو لے کر اس کو ٹوکتی کیوکہ زیب تن کیا ہوا ٹاپ کافی فٹنگ میں تھا جس کا گلہ بھی گہرا تھا۔۔۔۔ اس نے خود ہی شرافت سے اسٹول کو گلے میں ڈال لیا۔۔۔
ان چار سالوں میں اسے اپنی زندگی اب زندگی محسوس ہوتی تھی۔۔۔ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی وہ اپنی مرضی سے سانس لے سکتی ہے ورنہ بچپن سے لے کر پندرہ سال کی عمر تک تو اس کا اس گھر میں جینا حرام ہو چکا تھا
"نگہت مما کہاں ہیں نظر نہیں آرہی"
وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو ڈائننگ ہال میں خالی کرسی کو دیکھ کر گھر کی ملازمہ سے اپنی ماں کے بارے میں پوچھنے لگی جو کہ اس کے یونیورسٹی جانے کے ٹائم پر پہلے سے ہی ناشتے کی ٹیبل پر موجود ہوتی
"چھوٹی بی بی آپ کو نہیں معلوم،، ارے کل رات کو بڑے صاحب کو دل کا دورہ پڑا تھا رات میں ہی بیگم صاحبہ ان کو اسپتال لے کر گئی تھی اور وہ اب بھی بڑے صاحب کے پاس اسپتال میں ہی موجود ہیں"
نگہت نے اس کو جو خبر سنائی تھی وہ اس کے لیے حیران کن اور پریشان کن تھی ساتھ ہی وہ اپنی کم علمی پر افسوس کرنے لگی۔۔۔ کل رات میں نشاء کی برتھ ڈے پارٹی سے واپس گھر آتے وقت وہ کافی لیٹ ہو چکی تھی جس کی وجہ سے وہ چوری چھپے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کر لیا تھا تاکہ اس کی ماں اس سے کوئی جواب طلب نہ کر سکے
"کون سے ہسپتال میں"
وہ نگہت سے ہسپتال کا نام پوچھنے لگی ساتھ ہی اس کو دوسرا خدشہ بھی لاحق ہونے لگا "اس" کے پاکستان واپس آنے کا خدشہ یعنی اپنی آزادی جانے کا خدشہ مگر اپنے خیالات کو فل الوقت نظر انداز کرتی ہوئی وہ یونیورسٹی جانے کی بجائے ہسپتال جانے کا ارادہ کرنے لگی۔۔۔ ساتھ ہی اس نے کیف کو بھی اپنے یونیورسٹی نہ آنے کا بتانا تھا ورنہ وہ اس کے لیے پریشان ہوجاتا
****
درید اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرتا ہوا وارڈروب میں چھپا ہوا سگریٹ کا پیکٹ نکالنے لگا۔۔۔ آج اعظم کو اس کی اسموکنگ کی عادت کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے باپ سے کافی زیادہ ڈانٹ سننے کو ملی تھی،، اعظم نے نہ صرف افس سے آنے کے بعد درید کی اچھی طرح کلاس لی تھی بلکہ اسے کھانے کی ٹیبل پر بھی اچھی خاصی باتیں سنائی تھی جس کی وجہ سے وہ کھانے کی ٹیبل سے بغیر کچھ کھائے اٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود اعظم کی باتوں کا اثر لیے بغیر بنا کسی شرمندگی کے اسموکنگ کر رہا تھا
یہ عادت اسے اپنے کالج میں نئے دوستوں سے لگی تھی اور اس کی اس عادت کے بارے میں گھر میں سے زمل کو معلوم تھا لیکن اسے پورا یقین تھا زمل اعظم کو اس کے اسموکنگ کرنے کے بارے میں کبھی بھی نہیں بتا سکتی بلکہ یہ کام تابندہ کا تھا۔۔۔
آج صبح اتفاق سے تابندہ کا اس کے کمرے میں آنا ہوا تھا بیڈ پر پڑا ہوا سگریٹ کا پیکٹ تابندہ کی نظروں سے چھپ نہ سکا تھا مگر وہ سیگرٹ کے پیکٹ کو دیکھ کر درید پر یہ تاثر دینے لگی کہ درید کا اسموکنگ کرنا اس کی نظر میں کوئی خاص بات نہیں لیکن شام میں جب اعظم آفس سے واپس آیا تو وہ درید کے بارے میں اعظم کو بتا چکی تھی۔ ۔۔ بچپن میں اکثر تابندہ کی ان حرکتوں کا خمیازہ زمل کو بھکدنا پڑتا۔۔۔ جس کے بعد درید کو بھی اپنے کئے کا افسوس ہوتا مگر اب زمل پر تابندہ کا غصہ نکالنے کے بعد درید خود بھی اندر سے بے چین ہو جاتا۔۔۔ اسموکنگ کے دوران وہ ساری باتیں سوچ رہا تھا کہ اسے بھوک کا احساس ستانے لگا اس کی نظریں گھڑی پر گئی جہاں رات کے بارہ بج رہے تھے وہ کچن میں جا کر کچھ کھانے کا سوچ ہی رہا تھا تب اس کے کمرے کا دروازہ بجا
"کیا ہے"
درید تنے ہوئے نقوش لیے اپنے سامنے کھڑی زمل سے پوچھنے لگا
"آپ کے لیے کھانا لے کر آئی ہو دید"
وہ اپنے دونوں ہاتھ، جو اس کی پشت پر موجود تھے درید کی طرف آگے بڑھاتی ہوئی بولی اس کے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ موجود تھی جسے دیکھنے کے بعد درید اس کا معصوم چہرہ دیکھنے لگا
"اندر آ جاؤ"
درید زمل کے ہاتھ سے پلیٹ لیتا ہوا بولا اور کھانے کی پلیٹ سامنے ٹیبل پر رکھ کے خود صوفے پر بیٹھ گیا زمل کمرے کا دروازہ بند کرتی ہوئی اس کے پاس آئی تو درید نے ہمیشہ کی طرح اسے اپنے تھائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جیسے وہ اسے ہمیشہ بچپن سے بٹھاتا آیا تھا۔۔۔ زمل بغیر ہچکچائے صوفے کے پاس آکر درید کی گود میں بیٹھ گئی
"تم تو شاید کل مجھ سے ناراض تھی ناں پھر کیوں لے کر آئی ہوئی ہو یہ کھانا میرے لیے"
درید زمل کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ شام میں درید اسے خود ٹیوشن دیتا تھا۔۔۔ کل زمل پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دے رہی تھی جس کی وجہ سے درید نے اپنے پاس موجود لائیٹر سے زمل کو ڈرانا چاہا،، خوف کے زیر اثر زمل نے اپنی توجہ تو پڑھائی کی طرف کرلی تھی مگر وہ درید سے ناراض ہوچکی تھی
"سونے کے لئے لیٹی تھی تو خیال آیا کہ آپ نے رات کا کھانا نہیں کھایا۔۔۔ پہلے تو سوچا اچھا ہی ہے آپ ساری رات بھوکے ہی رہے بلاوجہ میں آپ نے کل میرا ہاتھ جلایا تھا مگر پھر آپ کی بھوک کا احساس کر کے مجھے نیند ہی نہیں آئی تو اس لیے آپ کے لیے کھانا لے آئی"
زمل کی بات سے درید کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا اس نے زمل کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں پر لگایا
"ہاتھ جلایا نہیں تھا لٹل گرل، صرف تمہاری توجہ پڑھائی کی طرف دلائی تھی ورنہ آج تمہارا ٹیسٹ اتنا اچھا کیسے ہوتا"
درید زمل کا ہاتھ پکڑے اسے بتانے لگا
"آپ کو یاد ہی نہیں ہے بلکے آپکو احساس تک نہیں ہوا دید، کل آپ نے مجھے ڈرانے کے چکر میں جب لائٹر جلا کر میری کلائی کی طرف بڑھایا تھا تو اس کی آنچ میری کلائی پر لگی تھی"
زمل ناراض ہوتی ہوئی درید کو بتانے لگی جس پر درید فکر مند سا ہوکر اس کی کلائی دیکھنے لگا
"اوفو دید یہ والا ہاتھ نہیں تھا بابا دوسرا ہاتھ تھا"
زمل اپنے دوسرے ہاتھ کی کلائی درید کے آگے بڑھاتی ہوئی بولی۔۔۔ جس پر درید ایک بار پھر اپنے ہونٹ اس کی کلائی پر رکھنے کے بعد اس کی شفاف کلائی پر اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھیرنے لگا
"جب آپ پیار کرتے ہیں تو بہت پیارے لگتے ہیں مگر جب آپ مجھ پر غصہ کرتے ہیں تو بہت برے لگتے ہیں پلیز دید مجھ سے صرف پیار کیا کریں غصہ نہیں"
زمل نے بولتے ہوئے اپنی کہنی درید کے شولڈر پر ٹکائی جس سے اس کا چہرہ مزید درید کے چہرے سے نزدیک ہوا۔۔۔ درید غور کرتا ہوا زمل کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ ۔۔۔ وہ اِس وقت آٹھ سال کی معصوم بچی تھی۔۔۔ بچپن میں جب پہلی بار اس نے درید کا نام پکارہ تھا تب درید کی بجائے "دید" اس کے منہ سے ادا ہوا تھا تب سے وہ درید کو دید کہہ کر ہی پکارتی تھی
وہ اسے بچپن سے پیاری لگتی تھی، تب سے جب وہ خاور اور تابندہ کے ساتھ اپنے گھر پر رہتی تھی، زمل اسکی برتھ ڈے والے دن ہی پیدا ہوئی تھی۔۔۔ درید ثمن سے ضد کر کے اکثر زمل سے ملنے جایا کرتا تھا پھر ایک دن اچانک زمل ہمیشہ کے لیے اس کے گھر آگئی درید کو یہ بات بری نہیں لگی وہ بہت خوش ہوا تھا، برا اسے تب لگا جب اعظم نے اسے بولا ثمن کی بجائے اب تابندہ اس کی ماما ہیں اس بات کو اس کا ذہن بچپن سے اب تک قبول نہیں کر پایا تھا
"دید کہاں کھو گئے، آپ میری بات سن بھی رہے ہیں یا نہیں"
زمل اس کے چہرے کے آگے ہاتھ کی انگلیاں لہراتی ہوئی بولی تو درید ماضی سے واپس لوٹتا ہوا زمل کو دیکھنے لگا جو ابھی بھی اس کے بے حد قریب بیٹھی ہوئی تھی درید قریب سے اس کے چہرے کے خوبصورت نقوش کو دیکھتا ہوا اس کے گلابی ہونٹوں کو دیکھنے لگا اس کے بعد بھٹک کر اس کی نگاہ زمل کی گردن پر گئی،، سلیو لیس شرٹ سے نظر آتے اس کے بازو درید کے جذبات کو بہکانے لگے
"میں کھانا کھا لیتا ہو زمل، تم اپنے کمرے میں جاؤ"
درید زمل کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس سے بولا، زمل بےشک آٹھ سالہ بچی تھی اتنی عقل فہم نہیں رکھتی تھی مگر وہ بچہ نہیں تھا
"نہیں مجھے نہیں جانا اپنے روم میں آپ سے باتیں کرنی ہیں ابھی ڈھیر ساری"
اب وہ درید کی گود کی بجائے صوفے پر آرام سے درید کے برابر میں بیٹھتی ہوئی بولی اس سے پہلے وہ درید کے کندھے پر اپنا سر رکھتی درید جھٹکے سے صوفے سے اٹھا اور زمل کو بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کرتا ہوا بولا
"سمجھ میں نہیں آرہا تمہیں کہ میں کیا بول رہا ہوں، جاؤ اپنے کمرے میں"
درید نے اب کی بار اسے غصے میں آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا جس پر زمل اسے ناراضگی سے دیکھنے لگی اور چپ کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی
*****
"اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو مجھے امید ہے انکل کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی"
کل اُس نے کیف کو اپنے یونیورسٹی نہ آنے کی وجہ بتائی تھی اِس لئے آج کیف اُسے اُس کے انکار کرنے کے باوجود یونیورسٹی کے قریب کیفے ٹیریا میں لے آیا تھا اور اس وقت ٹیبل پر اس کے سامنے بیٹھا ہوا اس کے اداس چہرے کو دیکھ کر اُسے دلاسہ دے رہا تھا
"میرے پاس پریشان ہونے کی ایک یہی وجہ نہیں ہے کیف، کل رات میں نے تمہیں کال پر اپنا خدشہ ظاہر تو کیا تھا اگر ڈیڈ کی طبیعت کا سن کر وہ واپس آگئے تو۔۔۔"
پریشان چہرہ لیے اِس سے آگے وہ کچھ بول نہیں پائی بس خاموش ہوکر سوالیہ نظروں سے کیف کا چہرہ دیکھنے لگی
"فار گاڈ سے یار وہ انسان ہے کوئی بھوت نہیں جو تم اُس کی آمد کا سوچ کر اتنی خوفزدہ ہو رہی ہو اگر وہ واپس پاکستان آجاتا ہے تو یہ اچھا ہی ہے کم ازکم تمہارا اُس کا یہ قصہ تو ختم ہو جائے گا"
کیف اُس کے خوبصورت چہرے پر خوف کی پرچھائیاں دیکھ کر بولا وہ کیف کی یونیورسٹی فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ تمام دوستوں میں اُس کے لئے اسپیشل تھی اور یہ بات کیف ایک ماہ پہلے ہی اُس سے شیئر کر چکا تھا
"تمہارے لئے یہ بات بولنا بہت آسان ہے کیونکہ تم ان کو جانتے نہیں ہو۔۔۔ ان کی واپسی کا مطلب ہے میرا کہیں پر بھی آنا جانا، سونا، جاگنا، ہنسنا، بولنا سب کچھ ان کی مرضی پر ہوگا یہاں تک کہ میرا سانس لینا بھی،،، تم نہیں جانتے کیف میں ہر بات کے لیے ان کی پابند ہو جاؤ گی"
بولتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ بےبسی بھی نظر آ رہی تھی اُس کے وحشت بھرے لہجے کو محسوس کر کے کیف نے ٹیبل پر رکھے ہوئے اُس کے مومی ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
"ریلیکس یار تم نے اُس کے خوف کو کچھ زیادہ ہی اپنے حواسوں پر سوار کر لیا ہے،، اب ویسا کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا وہ کرتا آیا ہے، میرا یقین کرو میں ہو ناں تمہارے ساتھ"
کیف اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے پُر اعتماد لہجے میں بولا۔۔۔ وہ کیف کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوا اپنا ہاتھ دیکھنے لگی۔۔۔۔ اگر یہ منظر اُس کی زندگی کا ولن دیکھ لیتا تو یقیناً وہ کیف کے ہاتھ کے ساتھ اس کو بھی ہاتھوں سے محرم کر ڈالتا
"تم شاید ٹھیک کہہ رہے ہو چار سال اُن کی غیر موجودگی میں، میں ان کے خوف کو اپنے حواسوں پر سوار کر چکی ہوں۔۔۔۔ مجھے اتنا نہیں سوچنا چاہیے اس بارے میں، تم ہو تو میرے پاس"
وہ مسکرا کر بولتی ہوئی اپنے مائنڈ کو ریلیکس کرنے لگی اس کی مسکراہٹ دیکھ کر کیف بھی مسکرایا
"میں تمہارے پاس ہوں اور بہت جلد تمہیں اپنے پاس بلا لوں گا"
کیف کی معنیٰ خیری سے کہی ہوئی بات پر وہ بے ساختہ مسکراتی ہوئی اس سے بولی
"تم میرے ہی ہم عمر ہوں، مجھے اپنے پاس بلانے کے لئے تمہیں پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا"
وہ مسکرانے کے ساتھ جتاتی ہوئی کیف سے بولی، اس نے کیف کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوا اپنا ہاتھ نکالا مگر اس سے پہلے کیمرے کی آنکھ اس منظر کو اپنے پاس محفوظ کر چکی تھی جس سے وہ دونوں ہی بےخبر تھے
"میم میں آپ کو یاد دلادو کہ میں یہاں اپنے پیروں پر چل کر ہی آیا ہوں۔۔۔ رہی بات میری تعارف کی تو میرا فیملی بیگراونڈ تم اچھی طرح جانتی ہوں،، تمہیں حاصل کرنے کے لئے مجھے کوئی جاب ڈھونڈنے کی یا پہلے سیٹل ہونے کی ضرورت نہیں ہے"
کیف کے لہجے میں تھوڑا غرور بھی تھا کیف اس کو جتاتا ہوا بولا جس پر اس نے مسکرا کر آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے سر کو ہلکا سا خم کیا وہ تسلیم کر چکی تھی کیف کو اس کو پانے کے لیے کوئی مشکل درپیش آنے والی نہیں ہے
"میرے خیال میں اب مجھے چلنا چاہیے کیف، مما ہاسپٹل میں ڈیڈ کے پاس اکیلی ہو گیں"
وہ اپنا بیگ کندھے پر لٹکاتی ہوئی چیئر سے اٹھی تو کیف بھی اس کے ساتھ اٹھ گیا
"فرسٹ ٹائم ہم دونوں بغیر کسی اپنے فرینڈ کے ایک ساتھ کہیں باہر آئے ہیں اور تمہیں واپس جانے کی جلدی ہے، نیکسٹ ٹائم میں تمہیں اپنے ساتھ ڈیٹ پر لے جانا چاہتا ہوں اور ہر بار کی طرح تم مجھے انکار نہیں کروں گی اور نہ ہی ہر بار کی طرح میں تمہاری کوئی بات مانوں گا"
کیف برا سا منہ بنا کر اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا
"دیکھتے ہیں"
وہ کیف کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی بولی
کیف اسلام آباد کے مشہور بزنس مین کا بیٹا تھا۔۔۔ جوکہ خاصی جذباتی طبیعت کا مالک تھا،، یونیورسٹی میں اس کے دوسرے فرینڈز اس کی نیچر سے واقف تھے چھ ماہ پہلے کیف نے "اس" کے آگے اپنا حالِ دل بیان کیا تھا۔۔۔ مگر "اس" کے انکار پر کیف نے بالکل ہمت نہیں ہاری بلآخر "اس" کے انکار کی وجہ جاننے کے بعد بھی کیف اپنے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹا تب کیف کی ثابت قدمی کو دیکھ کر "وہ" کیف کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ وہ کیف کو اپنے متعلق مکمل سچائی بتاچکی تھی جس سے کیف کو خاص فرق نہیں پڑا۔۔۔ ایک ماہ سے وہ دونوں ایک ساتھ تھے یہ بات ان کے گروپ میں ثمرن کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا
****
درید نے اپنے روم کی کھڑکی کھولی جو کہ بیک یارڈ کی طرف کھلتی تھی، اس کی نظریں سوئیمنگ کرتی ہوئی زمل پر پڑی۔۔۔۔ درید روم کی کھڑکی کے پاس کھڑا اسموکنگ کرتا ہوا سوئمینگ کرتی ہوئی زمل کو دیکھنے لگا۔ ۔۔۔ دو سال پہلے ہی گھر کے بیک یارڈ پر درید کے کہنے پر اعظم نے پول بنوایا تھا اور چند دنوں پہلے زمل نے اپنے ڈر کو مات دیتے ہوئے سوئمنگ سیکھنے کا فیصلہ کیا تھا ابھی وہ تیرنے میں زیادہ مہارت نہیں رکھتی تھی جبھی گہرے پانی میں جانے کی بجائے پول کے آگے کے حصے کی طرف سوئمینگ کر رہی تھی۔۔۔ اس کی نظریں درید کے کمرے کی کھڑکی پر گئی جہاں درید کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ زمل مسکراتی ہوئی ہاتھ کے اشارے سے اُسے بلانے لگی وہ زمل کو پول میں پڑے، لائیو گارڈ کی طرف اشارہ کرتا ہوا بیک یارڈ کی طرف جانے لگا۔۔۔۔ لائیو گارڈ کی طرف اشارہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ زمل احتیاط کے ساتھ سوئمینگ کر سکے۔۔۔۔ مگر درید کے وہاں پہنچنے سے پہلے درید کی نظرہں لان میں کھڑے ہوئے ڈرائیور پر گئی جوکہ لان کی دیوار کی آڑھ میں کھڑا ہوا بیک یارڈ میں جھانک رہا تھا یقیناً وہ زمل کو سوئمنگ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا درید کے ماتھے پر بل نمایاں ہونے لگے
"کیا دیکھ رہے ہو"
درید ڈرائیور کے پاس پہنچ کر اس سے پوچھنے لگا ڈرائیور نے درید کی آواز پر فوراً پلٹ کر اسے دیکھا
"کک۔۔۔ کچھ نہیں درید سر بس یونہی"
وہ درید کے سامنے اپنی چوری پکڑے جانے پر تھوڑا شرمندہ ہوکر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔ ڈرائیور کا چہرہ دیکھ کر درید کا مزید خون کھولنے لگا۔۔۔ جبھی اس نے ڈرائیور کی عمر کا لحاظ کیے بنا ڈرائیور کے منہ پر زور دار تھپڑ مار کر اس کا گریبان پکڑا
"یونہی کیا، جواب دو۔۔۔۔ ہمت کیسے ہوئی تمہاری اُس پر غلیظ نگاہ ڈالنے کی۔۔۔ گھر کے اس پورشن میں تمہارا کیا کام ہے، کیوں آئے تم یہاں پر۔۔۔ میں پوچھتا ہوں کب سے تم چھپ چھپ کر اس کو دیکھتے ہو جواب دو"
درید نے ایک کے بعد دوسرا تیسرا سوال کرتے ہوئے اس کا منہ تھپڑوں سے سُجھا دیا۔۔۔ ڈرائیور شرمندہ ہوتا ہوا درید کے قدموں میں گرا، اپنی نوکری جانے کے ڈر سے اس سے معافی مانگنے لگا
"تم معافی مانگنے کے لائق نہیں ہو، آئندہ اگر تم مجھے اس ایرئیے میں دوبارہ نظر آئے تو میں تمہیں اریسٹ کروا دوں گا۔۔۔ اپنا سارا حساب آج ہی کلیئر کرو اور دفع ہو جاؤ اس گھر سے ہمیشہ کے لئے"
درید اُس کا گریبان پکڑ کر اپنے قدموں سے اٹھاتا ہوا غصے میں بولا اُسے گھر کے دروازے کی طرف دھکا دیتا ہوا خود بیک یارڈ کی طرف آگیا
"زمل میں نے تمہیں یہ لائیو گارڈ یوز کرنے کو بولا تھا، سمجھ میں نہیں آئی تمہیں میری بات"
وہ سوئمینگ پول کے پاس آکر اپنا بگڑا موڈ درست کرتا ہوا بولا کیوکہ اب زمل بڑی ہو رہی تھی درید کے غُصے کو اور سختی کو محسوس کرنے لگی تھی
"او کم ان دید سوئمنگ کرنے میں صرف آپ ہی چیمپیئن نہیں ہیں میں بھی آپ کی طرح پرفیکٹ سوئمنگ کر سکتی ہو اس لائیو گارڈ کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔۔۔ دیکھتے جائیں بس اب"
زمل درید کو بولتی ہوئی پول میں آگے کی طرف جانے لگی
"آگے پانی گہرا ہے زمل واپس آؤ فوراً"
اب کی بار درید تھوڑا سخت لہجے میں بولا یقیناً وہ درید سے داد وصولنے کے لئے اسے گہرے پانی میں سوئمنگ کرکے دکھانا چاہتی تھی اس لیے وہ درید کے وارننگ دینے کی پرواہ کیے بغیر بولی
"مجھے بچہ سمجھنا چھوڑ دیں دید، میں اب بچی نہیں ہو اور گہرے پانی میں آسانی سے سوئمنگ کر سکتی ہو"
زمل درید کو جتاتی ہوئی بولی تو درید اس کی بات سن کر وہی خاموشی سے کھڑا اسے سوئمنگ کرتا ہوا دیکھنے لگ گیا
یہ بات وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کہ وہ اب بچی نہیں رہی تھی۔۔۔۔ اس کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ جسم کے خوبصورت خدوخال اب نمایاں ہونے لگے تھے۔۔۔۔ وہ اس وقت سوئمنگ کاسٹیوم میں موجود تھی، جو حد درجہ قابل اعتراض تو نہیں تھا مگر پھر بھی اس کے عریاں بازو اور گھٹنے تک چھلکتی ہوئی سفید پنڈلیاں دیکھ کر کوئی بھی مرد اس کی طرف متوجہ ہو سکتا تھا۔۔۔۔ درید کو ایک بار پھر اس ڈرائیور پر غصہ آنے لگا جو آنکھوں میں غلاظت لیے زمل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ خود بھی اس وقت زمل کو غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کی نظروں میں غلاظت نہیں تھی،، اگر زمل کو دیکھ کر اس کی نظروں کا زاویہ یا ذہن بہک بھی جاتا تو اپنے آپ کو بری طرح جھڑکتا۔۔۔ وہ بچپن سے اسی کی تھی اور ہمیشہ اسی کی رہے گی یہ بات وہ اپنے دل کو اچھی طرح سمجھا چکا تھا۔۔۔ باقی بچتا تھا اس کا باپ، زمل کی ماں اور خود زمل،، تو ان تینوں سے وہ ہمیشہ ہی اپنی منواتا آیا تھا۔۔۔ تابندہ اگر کسی بھی معاملے میں آڑ جاتی تو بھی ہوتا وہی تھا جو وہ چاہتا تھا
"دید۔۔۔ دید پلیز ہیلپ می"
زمل کی چلاتی ہوئی آواز پر درید اپنی سوچوں سے ایک دم باہر نکلا
"زمل"
وہ زمل کو گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں چلاتے ہوئے اور ڈوبتا ہوا دیکھ کر ایک پل کے لیے ڈر گیا، اس لیے زمل کے چیخنے پر بنا سوچے سمجھے درید نے پول میں چھلانگ لگا دی
درید اسے بازووں میں اٹھا کر سوئمنگ پول کے باہر لے کر آیا اور پول سے باہر بنے ٹائلز پر زمل کو لٹا کر زور زور سے اس کے گال تھپتھپانے لگا
"زمل آنکھیں کھولو پلیز جلدی سے آنکھیں کھولو"
وہ درید کے پکارنے پر بھی آنکھیں بند کیے بے سدھ لیٹی رہی تب درید نے اس کی سانسوں کی رفتار چیک کی، وہ خود زمل کی حالت دیکھ کر اتنا گھبرا گیا تھا کہ سمجھ ہی سکا زمل کی سانسوں کی رفتار مدھم چل رہی ہے یا اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ درید اسے نقلی سانس دینے کے لیے جیسے ہی زمل کی طرف جھکا زمل نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھول دی، درید حیرت ذدی سا زمل کو دیکھنے لگا
"سوری دید میں نے مذاق کیا تھا آپ سے، میں نے محسوس کیا تھا آپ کی توجہ میرے اوپر نہیں بلکہ آپ کچھ سوچ رہے تھے اس لیے ڈوبنے کا ڈراما کرنے لگی"
زمل اٹھکر بیٹھی ہی تھی اس کی بات جیسے ہی مکمل ہوئی تو درید نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا
"کیا سوچ کر یہ فضول قسم کا ڈرامہ کیا تم نے،، تمہیں احساس ہے ذرا بھی اس بیہودہ مذاق کا۔۔۔ کہاں سے بڑی ہو گئی ہو تم بتاؤ مجھے،، عقل تمہاری ابھی تک گھٹنوں میں ہے ایڈیٹ"
اسے زمل کے مذاق پر شدید غصہ آیا تھا کیو کہ اس کے مذاق سے درید کی سچی میں جان نکل گئی تھی۔۔۔ درید زمل پر غصہ نکالتا ہوا وہاں سے جانے لگا
"تھپڑ کیوں مارا آپ نے مجھے"
درید ہمیشہ اس کی شرارتوں پر یا کہنا نہ ماننے پر اس کو پنش کرتا آیا تھا آج پہلی بار زمل پر اس کا ہاتھ اٹھا تھا۔۔۔ جس پر زمل پہلے تو صدمے سے درید کو دیکھ کر اس کی باتیں سنتی رہی پھر درید کو جاتا ہوا دیکھ کر وہی کھڑی تیز آواز میں چیختی ہوئی درید سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ زمل کی بات پر درید پلٹ کر واپس زمل کے پاس آیا اور غصے میں اس کی گردن دبوچتا ہوا بولا
"اگلی بار اگر تم نے کوئی احمقانہ حرکت کی یا پھر اس طرح کا مزاق کیا تو تھپڑ کی بجائے تمہاری جان لے لوں گا میں،، دل تو چاہ رہا ہے تمہیں واپس اٹھا کر اس پول میں پھینک دو"
درید نے زمل کی گردن دبوچ کر صرف بولنے پر انحصار نہیں کیا تھا بلکہ زمل کو گردن سے پکڑے وہ اپنے بازو کی طاقت سے شاید اسے پیچھے پول میں دھکیل بھی دیتا
"دید کیا ہوگیا ہے آپ کو"
زمل نے جلدی سے اپنی گردن پر اس کے ہاتھ پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹا کر درید کی شرٹ مضبوطی سے پکڑ لیتی ہوئی بولی۔۔۔ درید اس کی گردن کو چھوڑ کر غصے میں زمل کو دیکھنے لگا جو آنکھوں میں آنسو بھرے اسی کو دیکھ رہی تھی
"پہنو اسے"
ریلیکسنگ چیئر پر رکھا ہوا زمل کا باتھ گاؤن اٹھا کر وہ زمل کی طرف بڑھاتا ہوا بولا جسے زمل درید کے ہاتھوں سے لے کر ایک بار میں ہی درید کے کہنے پر خاموشی سے پہننے لگی جس کے بعد وہ زمل کو بازو سے پکڑ کر اسے اس کے کمرے میں لایا
زمل خاموشی سے درید کو وارڈروب سے ٹاؤل نکالتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ چپ چاپ کھڑا ٹاول کی مدد سے زمل کے بال خشک کرنے کے بعد اس کے بالوں کو ڈرائیر کر رہا تھا۔۔۔ اسکے بالوں میں برش کی مدد سے سلجھاتا ہوا درید زمل کو آئینے سے دیکھنے لگا، زمل خود بھی انکھوں میں ناراضگی لیے آئینے میں سے درید کو دیکھ رہی تھی
وہ زمل کو اس کے بال نہیں کٹوانے دیتا تھا کیوکہ اسے زمل کے لمبے بال بےحد پسند تھے۔۔۔۔ زمل اکثر اپنے الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ الجھ کر انہیں سلجھانے کے لیے تابندہ کے پاس یا پھر زیادہ تر درید کے پاس ہی آتی تھی
"ایسے ناراض ہو کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے، اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ میں تمہاری اس فضول حرکت کے بعد تمہیں مناؤ گا تو بھول جاؤ"
زمل کی آنکھوں میں ناراضگی دیکھ کر درید اس سے بولا جبکہ وہ خود جانتا تھا ایسا ممکن نہیں ہے وہ زیادہ دیر خود اس سے بناء بات کیے نہیں رہ سکتا
"میں فریج میں رکھی ہوئی ساری اسٹبیریز کھا جاؤ گی اور رات کو سونے سے پہلے اورنج جوس بھی پیو گی، کوئی ذرا روک کر تو دکھائے مجھے"
کھٹی چیزیں فوراً زمل کا گلے پر اثر انداز ہوتی تھی، جو وہ درید کی نظر سے بچ کر کبھی کبھی کھا لیتی تھی۔۔۔۔ زمل غصے میں آئینے سے درید کو دیکھ کر دھمکی دیتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ زمل کی دھمکی سن کر ہیئر برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتا ہوا زمل کا رخ آئینے سے اپنی طرف کر چکا تھا
"اگر تم بیمار ہوئی تو جانتی ہو ناں تمہارا دید تمہیں کیسے اپنے ہاتھوں سے دوا کھلائے گا"
درید کی بات سن کر زمل نے روتے ہوئے درید کے سینے پر غصے میں اپنے ہاتھ زور زور سے مارنا شروع کردیئے
"زمل بس ہوگیا، اب تم اوور ہوچکی ہو۔۔۔ اسٹاپ اٹ یار"
درید اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو کرتا ہوا بولا تو زمل دوبارہ غصے میں درید کو دیکھنے لگی درید کی نظر اس کے گال پر پڑی۔۔۔ اس نے زمل کا ہاتھ چھوڑ کر اس کے گال پر اپنا ہاتھ رکھا ہی تھا جسے زمل نے بری طرح جھٹکا دیا
"آپ بہت بدتمیز ہیں دید"
زمل درید کو دیکھتی ہوئی بولی
"ہاں مجھے معلوم ہے۔۔۔۔ جاؤ چینج کر آؤ،، اور ایک بات میری کان کھول کے سن لو آج کے بعد تم سوئمنگ نہیں کروں گی"
درید اس کو بولتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا
****
تھوڑی دیر پہلے وہ یونیورسٹی سے ہاسپٹل آئی تھی آج اعظم کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئے تیسرا دن تھا اچھی بات یہ تھی کہ کل کی بانسبت آج اس کی طبیعت کافی بہتر تھی اس لیے زمل نے تھوڑی دیر کے لئے تابندہ کو گھر بھیج دیا تھا کیونکہ تابندہ پرسوں رات سے ہاسپٹل میں موجود تھی، تھکن اب اس کے چہرے سے واضح ہونے لگی تھی زمل چاہتی تھی کہ تابندہ گھر جا کر تھوڑی دیر آرام کر لے مگر تابندہ اعظم کو چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں تھی زمل نے اس کو زبردستی گھر بھیجا تھا
وہ اپنے سامنے بستر پر لیٹے وجود کو دیکھنے لگی جس کے منہ اور ناک میں غذا اور دواؤں کی نلکیاں لگی ہوئی تھی، ڈرپ لگے ہوئے اس کے ہاتھ ہر اب سوئیلنگ آچکی تھی۔۔۔۔ اعظم کو اس حالت میں دیکھ کر زمل کو دکھ ہو رہا تھی وہ کافی زیادہ اداس تھی۔۔۔ اس نے اپنے سگے باپ کو آج تک نہیں دیکھا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا وہ اعظم کو ہی باپ کی صورت دیکھتی آئی تھی۔۔۔ اعظم نے ایک اچھے باپ طرح ہی اس کی پرورش کی تھی اپنی سگی اولاد اور اس میں کبھی کوئی فرق نہیں رکھا تھا
"درید"
اعظم کی آواز پر زمل اپنی سوچوں کے بندھن سے آزاد ہو کر ہوش کی دنیا میں آئی
"جی ڈیڈ کیا ہوا یہ میں ہو زمل۔۔۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں آپ کو"
وہ اپنی سوچوں میں اعظم کے پاس بیٹھی ہوئی، اُسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کب اس نے اعظم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا
زمل ایک دم اپنا ہاتھ ہٹا کر کرسی سے اٹھتی ہوئی مزید اعظم کے قریب آ کر اس سے پوچھنے لگی
"میں سمجھا شاید درید واپس آ گیا ہے"
اعظم ذرا سی آنکھیں کھول کر آہستہ آواز میں بولا تو زمل نظر چراتی ہوئی بولی
"وہ غلطی سے میں نے آپکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ آ جائیں گے واپس،، آپ زیادہ سوچیں مت"
زمل اس شخص کے ذکر سے بچنا چاہتی تھی اس لئے کمرے کی موجود کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ سچ تو یہ تھا وہ بالکل بھی نہیں چاہتی تھی کہ درید اعظم کی واپسی ہو
"کیسے نہیں سوچو، وہ بیٹا ہے میرا۔۔۔ آپ کو معلوم ہے ناں آپ میں اور درید میں میری جان بستی ہے۔۔۔ بیٹا اس سے اپنی ناراضگی ختم کر دیں آپ،، اسے یہاں اپنے ڈیڈ کی خاطر واپس بلالیں، آپ کے ڈیڈ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ اسے ایک بار فون کر لیں"
اعظم کی بات سن کر وہ کچھ بول نہیں پائی۔۔۔ یہ کام تو وہ اپنی زندگی میں کسی صورت نہیں کرسکتی تھی
"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے وہ میرے بلانے پر آ جائیں گے آج تک انہوں نے ہم تینوں میں سے کسی کی بات سنی ہے ہمیشہ سے وہ اپنی مرضی کرتے آئے ہیں وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں"
زمل کھڑکی سے باہر ایمبولینس کو دیکھتی ہوئی بولی
"وہ آ جائے گا آپ کے بلانے سے، چند ماہ پہلے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ زمل نے جاتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ وہ اب کبھی میرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی اور نہ ہی وہ چاہتی ہے کہ اب میں واپس آؤ۔۔۔ کیا آپ اپنے ڈیڈ کی خاطر اس سے ناراضگی ختم کرکے ایک کال نہیں کر سکتی اُسے۔۔۔ اب ایسی بھی کیا ناراضگی اس سے بیٹا"
ایمبولینس میں ڈیڈ باڈی کو رکھا جارہا تھا زمل نے اپنی نظروں کا زاویہ فوراً اعظم کی طرف کیا وہ زمل کو بہت امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ زمل چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اعظم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا
"اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں دید کو کال کرو تو میں آپ کی خاطر ایسا کر لوں گی، آپ کی بیٹی آپ کی خاطر کچھ بھی کرسکتی ہے بس آپ ٹھیک ہوجائے"
آج اس کا نام "دید" اپنے لبوں سے کافی عرصے بعد زمل نے خود سنا تھا اب تو یہ نام بھی اس کو بہت اجنبی لگتا تھا مگر سامنے بستر لیٹے ہوئے شخص کو وہ مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اعظم کے چہرے کو دیکھ کر مشکل سے ہی سہی مسکرانے لگی کیو کہ زمل کی بات سن کر اعظم کے چہرے پر رونق سی آگئی تھی
*****
"یہ لڑکا ابھی تک گھر کیو نہیں آیا، زمل ذرا کال کرو درید کو"
اعظم اور تابندہ دونوں ہی صوفے پر براجمان تھے جبکہ زمل فرش پر رکھے فلور کشن پر بیٹھی ہوئی تھی آج ہفتے کا دن تھا اس لیے وہ تینوں ہی سٹنگ روم میں موجود تھے سامنے اسکرین پر کوئی مووی چل رہی تھی جس کو دیکھتے ہوئے اعظم زمل سے بولا
"جی ڈیڈ دید کا ابھی میسج آیا تھا وہ دس منٹ میں آ رہے ہیں"
اعظم کی بات سن کر وہ جلدی سے بات بناتی ہوئی بولی،، ہاتھ میں موجود ہو پاپ کارن کا باؤل گود میں رکھ کر درید کو میسج ٹائپ کرتی ہوئی اعظم کا پیغام دینے لگی۔۔۔ یہ تیسری بار تھا جب وہ اعظم کے پوچھنے پر درید کو جلدی گھر آنے کا میسج میں بول رہی تھی
"درید کے دس منٹ کا مطلب پورا ایک گھنٹہ ہوتا ہے آپ کو معلوم تو ہے اس کا اعظم پلیز اب چوتھی بار مت پوچھئے گا۔۔۔ جانتے بھی ہیں وہ سیٹرڈے نائیٹ کو صرف اپنے دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹوں میں مشغول رہتا ہے"
تابندہ بےزار سے انداز میں بولی تو زمل تابندہ کو دیکھنے لگی
"ہر سیٹرڈے نائٹ تو دید اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں گزارتے مما وہ تو منتھ میں کبھی ایک بار پروگرام بن جاتا ہے ان کا اور ویسے بھی آج احمر بھائی کے بڑے بھائی کی اینگیجمنٹ تھی اس لیے دید کو واپس آنے میں دیر ہو گئی"
زمل کو درید کے بارے میں تابندہ کا اسطرح بولنا ذرا اچھا نہیں لگا اس لیے وہ فوراً درید کی سائڈ لیتی ہوئی بولی
"تم چپ کر جاؤ زمل، تمہیں زیادہ درید کی اماں بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔ جاؤ جاکر اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کرو"
تابندہ سے اپنی بیٹی کی درید کے لیے چمچہ گری ذرا برداشت نہیں ہوئی اس لیے وہ زمل کو گُرکتی ہوئی بولی زمل منہ بنا کر پاپ کارن کا باؤل ٹیبل پر رکھتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
"کیوں ہر وقت بچی کے پیچھے پڑی رہتی ہو تابی میں نوٹ کر رہا ہو تم بہت زیادہ زمل کو ٹوکنے لگی ہو"
اعظم اسکرین پر چلتی ہوئی مووی سے اکتا کر چائنل بدلتا ہوا تابندہ سے بولا
"بچی کہاں ہے اعظم اب زمل، اس کو تو آپ نے اور درید نے ہی بچہ بنایا ہوا ہے، خاص کر درید نے۔۔۔ اسے بچوں کی طرح اپنے سامنے بٹھا کر ناشتہ کرواتا ہے جیسے میں نہیں وہ زمل کی ماں ہے اور زمل اس کا لاپروا انداز دیکھ کر تو مجھے اس کی اور بھی زیادہ فکر ہونے لگی ہے، کس طرح درید کے ساتھ چپک کر اتنا کلوز ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور درید اگر کبھی اس کی طبیعت خراب ہوجائے پھر تو اسے میڈیسن کی ڈوس نہیں بلکہ زمل چاہیے جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت بیٹھی رہے،، کیا ہے یہ سب اعظم۔۔۔۔ اور آپکو بھلا کیا ضرورت تھی پرسوں درید کو پرمیشن دینے کی کہ وہ زمل کو لے کر اتنی دیر تک کے لیے باہر نکل جائے، معلوم ہے رات کے ساڑھے بارہ بجے واپسی ہوئی تھی ان دونوں کی،، زمل تو میری ڈانٹ کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتی ہے اور آپ کے صاحبزادے ان سے تو میں کچھ پوچھ ہی نہیں سکتی وہ تو مجھے کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے"
تابندہ اعظم کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا شروع ہو چکی تھی کیونکہ اسے یہ باتیں بالکل بھی پسند نہیں تھی کہ زمل اچانک اپنی پلیٹ میں سے کھاتے کھاتے درید کی پلیٹ میں کھانا شروع کر دیتی تھی درید کے سامنے بچی بن کر اس سے بات منواتی تھی۔۔۔ اگر تابندہ کچھ اعتراض کرتی یا زمل کو ٹوکتی تو الٹا اعظم اسی کو باتیں سناتا اور اب بھی یہی ہونا تھا
"مسئلہ کیا ہے یار تابی تمہارے ساتھ،،، زمل اور درید دونوں ہی ہمارے بچے ہیں ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں اگر ایک ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے چلے گئے تو اس میں حرج کیا ہے آخر۔۔۔ کسی آؤٹ سائیڈر کے ساتھ باہر بھیجا ہے میں نے زمل کو،، اور درید کو تم کیا سمجھ رہی ہو۔۔۔ ایک ماہ پہلے ڈرائیور کو اس نے کیوں جاب سے فارغ کیا تھا بتایا نہیں تھا میں نے تمہیں وہ قصہ۔۔۔ دیکھو تابی درید بچپن سے ہی زمل کو لے کر بہت زیادہ ٹچی ہے اس کا خیال ہی رکھتا ہے۔۔۔۔ تو اس بات پر بھی تمہیں اعتراض ہے"
اعظم اب کی بار تابندہ کو سمجھاتا ہوا بولا تو وہ بھینا اٹھی
"آپ تو کبھی بھی میری بات کا مطلب نہیں سمجھے گیں اعظم،، اعتراض مجھے درید اور زمل کے اتنا کلوز ہونے پر نہیں ہے۔۔۔ میں درید کو اور زمل کو اچھی طرح جانتی ہو۔۔۔ مگر یہ دنیا،، گھر کے نوکر، دوسرے لوگ وہ ان دونوں کو دیکھ مختلف سوالات اٹھا سکتے ہیں اعظم۔۔۔ آپ سمجھنے کی کوشش کریں درید اور زمل سگے بہن بھائی نہیں ہیں جو ہر وقت ایک دوسرے کے رومز میں اتنا ریلکس ہو کر بیٹھے ہوتے ہیں"
تابندہ کی بات سن کر اعظم ناگوار نظروں سے اسے دیکھنے لگا
"یہ کس طرح کی جاہلانہ گفتگو کر رہی ہو تم تابی، یہ دنیا والے کون ہوتے ہیں میرے بچوں پر اعتراض کرنے والے،، ان پر سوالات اٹھانے والے،۔۔۔ اگر اوقات ہے کسی کی تو آکر میرے سامنے بات کرے پھر میں اس کو بتاؤں گا۔۔۔ کیا ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے دو افراد، ایک دوسرے کے کمروں میں آ جا نہیں سکتے۔۔۔ اتنا گرا ہوا کوئی کیسے کوئی سوچ سکتا ہے آج کے اس ایڈوانس دور میں۔۔۔ سگے بہن بھائی نہیں ہے وہ دونوں تو کیا مطلب ہے یار،، اب دنیا والوں کا منہ بند کروانے کے لیے کیا میں ان دونوں کا نکاح پڑھوا دوں تاکہ وہ دونوں سکون کے ساتھ اپنے ہی گھر میں زندگی گزار سکیں اور کہیں آ جا سکیں"
اعظم کو تابندہ کی بات سن کر غصہ آئے جارہا تھا مگر اس کی آخری بات پر تابندہ ایک دم گھبرا اٹھی
"اعظم، اعظم کیا ہوگیا آپ کو پلیز کول ڈاؤن۔۔۔ میں نے تو ایک نارمل بات کی تھی یہ نکاح بیچ میں کہاں سے آگیا"
تابندہ تو کبھی درید اور زمل کو لے کر ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس لیے اعظم کو کول کرتی ہوئی جلدی سے بولی
"تابی اپنے ذہن کو ان فضول کی سوچوں سے پاک رکھو اور میں آئندہ تمہارے میں سے کوئی بھی الٹی بات نہ سنو کہ زمل درید کے کمرے میں کیا کر رہی ہے، وہ دونوں اکیلے باہر کیوں جا ریے ہیں یا ایک ساتھ بیٹھ کر مسکراتے ہوئے کیا بات کر رہے ہیں۔۔۔ ایک ہی باؤل میں آئسکریم کیوں کھا رہے ہیں۔۔۔۔ وہ دونوں بچے ایک ہی گھر میں پلے بڑھے ہیں دونوں ہی ایک دوسرے سے اٹیچ ہیں آگے مستقبل میں اگر ان دونوں کا روجان ایک دوسرے کی طرف مائل ہو بھی جاتا ہے تو بھی یہ میرے لیے کوئی شاکنگ بات نہیں ہوگی جس طرح تم نے ابھی نکاح والی بات پر ری ایکٹ کیا ہے۔۔۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کوئی معیوب یا پھر حیران کن بات نہیں ہے اور اگر ان دونوں کی سوچیں، پسند رجان الگ ہوں تب بھی میں ان دونوں کی چوائس کو کھلے دل سے ایکسپٹ کروں گا لیکن اگر کوئی دوسرا بلاوجہ میں ان دونوں کو لے کر باتیں بنائے گا تو میں بالکل بھی برداشت نہیں کروں گا"
اعظم تابندہ کو کو بولتا ہوا کمرے سے چلا گیا
*****
تھوڑی دیر پہلے ولیم اور ایوا کی شادی کی رسومات مکمل ہوئی تھی، مارتھا اور فائق ان دونوں کو شادی کی مبارکباد دے کر ڈانس فلور کی طرف چلے گئے جہاں پہلے سے چند لڑکے اور لڑکی کپل کی صورت رقص میں مشغول تھے جبکہ وہ خود ولیم اور ایوا کو وش کرتا ہوا ڈانس فلور سے تھوڑی دور صوفے پر بیٹھ گیا اس کی نظریں اب بھی ولیم اور ایوا پر تھی جو اب کپل ڈانس کر رہے تھے۔۔۔ ولیم اور ایوا اکھٹا ڈانس کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ آج بہت خوش نظر آ رہے تھے وہ دونوں ہی کپل ڈانس کے دوران کسی بات پر زور سے ہنس رہے تھے تب اس کا ذہن کہی ماضی کی یادوں میں بھٹک چکا تھا
"دید آپ نے کبھی کپل ڈانس کیا ہے"
درید زمل کے کمرے میں بیٹھا ہوا زمل کے سولف کیے ہوئے پرابلمز چیک کر رہا تھا تب زمل پڑھائی سے فارغ ہوکر ایل ای ڈی آن کرتی ہوئی اسکرین پر نظریں جمائے درید سے پوچھنے لگی جہاں ایک لڑکا اور لڑکی کپل ڈانس کر رہے تھے
"یہ بھی کوئی کرنے والا کام ہے"
زمل کی بات سن کر درید اس کو گھور کر دیکھتا ہوا بولا ساتھ ہی درید نے نوٹ بک بند کر کے ٹیبل پر رکھ دی اور انگلش کی بُک کھول کر دیکھنے لگا
"یعنٰی کہ کبھی بھی نہیں کیا۔۔۔ ویسے بھی کپل ڈانس کے لئے ایک عدد ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ چلیں آج ہم دونوں ٹرائے کر کے دیکھتے ہیں"
زمل بولنے کے ساتھ ہی ڈانس کرنے کا ارادہ بناتی ہوئی صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا زمل، فضول کے کام چھوڑو یہاں واپس آ کر بیٹھو۔۔ ویسے بھی کل تمہارا انگلش کا ٹیسٹ ہے بتاؤ مجھے کتنی پریپشن ہوچکی ہے تمہاری"
درید اسے ٹوکنے کے ساتھ ریموٹ اٹھا کر ایل ای ڈی بند کرنے لگا تو زمل نے فوراً درید کے ہاتھ سے ریموٹ چھینا
"انگلش کے ٹیسٹ کی آپ مجھے پرسوں ہی مکمل تیاری کروا چکے ہیں اب مجھے صرف ریوائس کرنا ہے جو کہ میں رات میں کرلو گی پلیز کھڑے تو ہو جائے ناں دید"
زمل اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے درید کے سامنے کھڑی ہوئی اس سے ضد کرتی ہوئی بولی
"میرا بالکل بھی موڈ نہیں ہو رہا زمل اور نہ یہ میں نے پہلے کبھی کیا ہے سریسلی"
درید زمل کے سراپے کو دیکھتا ہوا بولا جوکہ اس وقت لانگ فراک میں مبلوس کیوٹ سی ڈول لگ رہی تھی
"مجھے نہ ذرا یہ نخرے کم ہی دکھایا کریں دید۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز آپ ہی مجھے سکھائیں آج میں آپ کو ڈانس کرنا سکھا دیتی ہوں اٹھیں تو یار"
زمل بولنے کے ساتھ ہی درید کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر اسے کھینچ کر صوفے سے اٹھاتی ہوئی بولی تو درید کو ناچار ہی کھڑا ہونا پڑا
"بہت ضدی ہوتی جاری ہو تم"
درید زمل کو بولتا ہوا اسکرین کو دیکھنے لگا جس پر کوئی ڈانس کمپٹیشن ہو رہا تھا
"میں آپ ہی کی شاگرد ہوں، بائی دا وے یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے اپنا ہاتھ پکڑوائے مجھے۔۔۔ یہاں یوں میری کمر پر رکھیں ہاتھ کو ایسے گڈ، اب اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے اس ہاتھ کو پکڑے۔۔۔ یس،، اب اسکرین پر اس لڑکے کی پاؤں کی حرکت کو غور سے دیکھیں،، اب آپ کو اپنے پاؤں کے اسٹیپ میرے پاؤں کے اسٹیپ سے ملانے ہیں ایسے"
وہ زمل کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ سے زمل کا ہاتھ تھامے ڈانس کے اسٹیپ کرنے لگا۔۔۔ زمل درید کا ہاتھ چھوڑے بنا ڈانس کا اسٹیپ لیتی ہوئی اس سے تین سے چار قدم دور ہوئی تو درید اسے واپس اپنی طرف کھینچتا ہوا اس کی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ چکا تھا جبکہ زمل مسکراتی ہوئی درید کے شولڈرز پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ چکی تھی۔۔۔ وہ ڈانس کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر رہی تھی جبکہ درید غور سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھنے کے بعد زمل کے گلابی گالوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کئی احساسات درید کے دل میں جاگ اٹھے تھے،، کئی خواہشات اس کے دل میں سر اٹھانے لگی تھی جن سے زمل بالکل انجان تھی
"ہیلو کہاں گم ہو ہینڈسم"
مارتھا جھومتی ہوئی اس کے برابر میں صوفے پر آتی ہوئی بیٹھی تو درید ماضی کی یادوں سے نکل کر واپس آیا
"تم جانتے ہو تمہارا دوست جیکی سے بریک اپ کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا راسکل ہے۔۔۔ مطلب وہ میرے ساتھ ریلیشن میں رہا اور میری مدر کے ساتھ بھی ۔۔۔۔ مین"
مارتھا نشے کی حالت میں جیکی کو موٹی موٹی گالیاں دینے لگی۔۔۔ ولیم اور ایوا کی شادی والے دن ہی اس کا اور جیکی کا بریک اپ ہوا تھا۔،۔۔ کیونکہ مارتھا کو کل ہی پتہ چلا تھا کہ جیکی کی زندگی میں دوسرے آنے والی نئی گرل فرینڈ کوئی اور نہیں بلکہ ماتھا کی ماں تھی
"مجھے افسوس ہے تمہیں جیکی کو جاننے، پرکھنے اور سمجھنے کے لیے اس کے کافی قریب جانا پڑا۔۔۔ چلو اسی بہانے سہی تمہیں مرد کی پہچان بھی ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جیکی واقعی کتنا بڑا ۔۔۔۔ ہے"
درید اسموکنگ کرنے کے ساتھ ہی مارتھا کے تازہ بریک اپ پر افسوس کرتا ہوا بولا
"اس نے میری ماں کے ساتھ ریلیشن رکھ کر مجھے ہرٹ کیا ہے تمہارا کیا خیال ہے مجھے بھی جیکی کو اسی کے طریقے سے ہرٹ کرنا چاہیے۔۔ مطلب اس کے فرینڈ کے ساتھ ریلیشن بنا کر"
مارتھا درید کے اور زیادہ نزدیک ہو کر بیٹھتی ہوئی نشے میں چور آنکھوں سے اس کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"اب تم اس دن کی طرح مجھے رات ساتھ گزارنے کی آفر کر کے بور مت کرنا۔۔۔ میں ویسے ہی پریشان ہوں"
درید بیزار سے انداز میں اس کے نیم عریاں بدن اور معنی خیز نظروں کو کو دیکھ کر بولا۔۔۔ مارتھا درید کے ہاتھ سے سگرٹ لے کر گہرا کش لگاتی ہوئی افسوس سے بولی
"او گاڈ میں نے پہلا ایسا ایشیائی مرد دیکھا ہے جو ایک خوبصورت لڑکی کو بار بار نظر انداز کر رہا ہے"
مارتھا درید کو اس کی سگریٹ واپس کرتی ہوئی افسوس سے بولی کیوکہ وہ آج جیکی کی یادوں کو سرے سے اپنے ذہن سے مٹانے کا ارادہ رکھتی تھی
"ایشیائی مردوں کی بات مت کرو مارتھا تم ایشیائی مردوں کی نفسیات کو کبھی بھی انڈرسٹینڈ نہیں کر پاؤں گی، ہر ایشیائی مرد جھوٹا کھانے کا عادی نہیں ہوتا اور رہی بات خوبصورتی کی تو جب ایک مرد کے دل کو برسوں پہلے ہی کسی نے اپنا اسیر کرلیا ہو تو پھر کوئی دوسرا خوبصورت چہرہ اس مرد کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔ اب معلوم نہیں دوسروں کے ساتھ ایسا ہوتا ہو کہ نہیں لیکن درید اعظم کے ساتھ تو ایسا ہی مسلئہ ہے"
درید مارتھا کو جواب دیتا ہوا اس کے منہ کی سگریٹ کو ٹیبل پر پڑی ہوئی ایش ٹرے میں مسل کر اپنے لئے دوسری سگریٹ سلگانے لگا۔۔۔ اتنے میں فائق بھی اس کے پاس آتا ہوا صوفے پر بیٹھا
"تو یہاں بیٹھا ہوا ہے یار اور تو نے پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا مجھے بتایا بھی نہیں، ابھی ولیم سے پتہ لگا مجھے تیرے ڈیڈ کی طبیعت کیسی ہے اب"
فائق سے درید کی دوستی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔۔۔ گرینی کی ڈیتھ کے بعد وہ اپارٹمنٹ میں اکیلا ہی رہتا تھا،، ہم وطن ہونے کی وجہ سے اس نے فائق کو اپنے اپارٹمنٹ میں اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دی تھی
"ڈیڈ کی طبیعت کی وجہ سے ہی پاکستان واپس جانے کا ارادہ بن رہا ہے بیچارے کافی بیمار ہیں اور اچھے انسان بھی ہیں کافی پیار کرتے ہیں مجھ سے تو سوچا جا کر دیکھ لیتا ہوں۔۔۔ تُو ٹینشن نہیں لے ایزی ہو کر اپارٹمنٹ میں رہ لے۔۔۔ جب تک تیرے ریزیڈینس کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا"
درید فائق کی ٹینشن دور کرتا ہوا بولا تو فائق بھی ریلکس ہوگیا۔۔۔ مارتھا جو کہ فائق کو منتظر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی فائق کے اشارہ کرنے پر درید کے پاس سے اٹھتی ہوئی وہ فائق کے پاس بیٹھ گئی۔۔۔ درید کے پاس بیٹھ کر مارتھا کا صرف وقت ضائع ہوا تھا جبکہ درید اپنے موبائل میں آنے والے میسج کی طرف متوجہ ہوا،، یہ میسج اس کو پاکستان سے کیا گیا تھا جس میں اس کو چند تصویریں بھیجی گئی تھی اُن تصویروں کو دیکھ کر درید کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات غُصے میں تبدیل ہونے لگے۔۔۔درید سے اپنا غصہ ضبط کرنا مشکل ہوگیا تو وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا، اسے واقعی اب جلد پاکستان جانا چاہیے تھا
*****
"ماما پلیز میرے ساتھ ہائیڈ اینڈ سیک کھیلیں ناں"
اٹھ سالہ درید کچن میں کھانا بناتی ہوئی ثمن سے بولا
"چندا اس وقت میں آپ کے ساتھ کیسے کھیل سکتی ہو، آپکی تابندہ آنٹی آئی ہوئی ہیں آج ہمارے ہاں، میں ان کے لیے رات کا ڈنر تیار کر رہی ہو۔ ۔۔ شام میں خاور انکل بھی ہمارے گھر آئے گیں اور ابھی تو آپ کے ڈیڈ بھی آنے والے ہیں"
ثمن کھانا تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو بہلاتی ہوئی بولی۔۔۔ اس کی سہیلی تابندہ اس وقت اپنی نومولود بیٹی کے ساتھ اس کے گھر پر موجود تھی جبکہ تابندہ کا شوہر خاور رات میں انہی کے گھر میں ڈنر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔ کیونکہ جیسے تابندہ اور ثمن ایک دوسرے کی سہیلی تھی ویسے ہی اعظم اور خاور بھی آپس میں دوست تھے
"ٹھیک ہے پھر میں زمل کو جگا دیتا ہوں وہ جب سے آئی ہے سوئے جا رہی ہے مجھے اس کو جاگتے ہوئے دیکھنا ہے وہ ہر وقت سوتی رہتی ہے"
درید ثمن سے بولتا ہوا کچن سے باہر جانے لگا
"درید رکو زمل کو بالکل بھی نہیں جگانا وہ جاگ گئی تو رو رو کر تابندہ کو تنگ کرے گی۔۔۔ آپ جا کر چھپو میں آپ کو ڈھونڈتی ہوں۔۔ لیکن پھر اس کے بعد آپ مجھ سے کھیلنے کی بالکل بھی ضد نہیں کرے گیں اوکے"
ثمن تیار ہوا سیلڈ فریج میں رکھتی ہوئی بولی درید خوشی خوشی چھپنے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر چھت پر چلا گیا
*****
"کیا کر رہے ہیں اعظم پلیز چھوڑیں مجھے۔۔۔ یہ سب کرنے کے لئے آپ نے مجھے اوپر چھت پر آنے کے لئے بولا تھا"
تابندہ اعظم کے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتے ہوئی اس سے بولی
"ہاں یہی سب کرنے کے لیے بلایا تھا کیوں نظر انداز کر رہی ہو تم مجھے، میرا فون کیوں نہیں اٹھاتی۔۔۔ تابی تم اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں محبت کرتا ہوں تم سے"
اعظم بے قرار لہجے میں تابندہ سے بولتا ہوا اسے اپنے حصار میں لینے لگا مگر اس سے پہلے ہی تابندہ نے اسے پیچھے کی طرف دھکیلا
"اگر آپ مجھ سے محبت کرتے تو شادی بھی مجھ سے کرتے، ثمن سے نہیں۔۔۔ پلیز اعظم اس طرح روز فون مت کیا کریں کہیں خاور کو شک نہ ہو جائے،، کیا جانتے نہیں ہیں آپ اپنے دوست کی طبعیت کو"
تابندہ اعظم سے التجائی انداز میں بولی بار بار اس کا دھیان سیڑھیوں کی طرف جا رہا تھا اسے خدشہ تھا کہ ثمن اس کو تلاش کرتی ہوئی کچن سے چھت پر ہی نہ آجائے
"تم اچھی طرح جانتی ہوں ثمن سے شادی کرنا میری مجبوری تھی گھر والوں نے مجھے کس حد تک مجبور کیا تھا ثمن سے شادی کرنے کو، ورنہ مجھے اس سے رتی برابر بھی محبت نہیں ہے نہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔ صرف احساس کرتا ہوں میں اس کا کیونکہ وہ میرے بیٹے کی ماں ہے۔۔۔ محبت مجھے صرف تم سے ہے اور تم سے ہی رہے گی"
اعظم اب تابندہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتا ہوا بولا تو تابندہ خاموشی سے اس کو دیکھنے لگی
"ایسا مت کریں اعظم، میں بھی اب شادی شدہ ہوں ایک بیٹی ہے میری۔۔۔ آپ کے ہی دوست سے شادی ہوئی ہے میری۔۔۔ بہت غلط کیا آج میں نے جو میں آپ کے بلانے پر یہاں آ گئی"
تابندہ اپنے چہرے سے اعظم کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔۔۔ اعظم کی باتیں اسے پِگلا رہی تھی،۔۔ وہ پگلنا نہیں چاہتی تھی اس لئے واپس جانے کے لیے پر تولنے لگی۔۔۔ اعظم نے اس کا ارادہ بھانپ کر فوراً تابندہ کو بازو پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا
"کس انسان کے لیے مجھ سے دور جانا چاہتی ہوں، وہ انسان جو وفا کے لائق ہی نہیں ہے۔۔۔ خاور کا خود کسی دوسری عورت کے ساتھ افیئر ہے۔۔۔ تم اگر یہ سمجھ رہی ہو کہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں تو چند دن ٹھہر جاؤ میں نے تمہارے شوہر اور اس عورت کے ساتھ رنگے ہاتھوں نہ پکڑ لیا تو میرا نام بدل دینا۔۔۔ تابندہ پلیز یوں مجھ کو اور میری محبت کو نظر انداز مت کرو"
اعظم تابندہ کو دونوں شانوں سے پکڑتا ہوا بےبسی سے بولا۔۔۔ تابندہ خود بھی جانتی اعظم بالکل درست کہہ رہا ہے خاور کے بدلے ہوئے رنگ اور تیور اس کی آنکھوں سے پوشیدہ ہرگز نہیں تھے مگر وہ خود خاور کی جھگڑالو طبیعت کو دیکھ کر اس سے لڑائی جھگڑا کرکے بات کو بڑھا نہیں سکتی تھی
"کیوں مشکلات پیدا کر رہے ہیں آپ اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔۔۔ جبکہ اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں"
تابندہ نم لہجے میں اعظم کو دیکھتی ہوئی بولی تو اعظم نے اسے اپنے حصار میں لے لیا
"میں بہت جلد کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا۔۔۔ جس سے ہم دونوں ہمیشہ کے لئے ایک ہو جائے گیں میں خود بھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا"
اعظم تابندہ کو حصار میں لے سرگوشانہ انداز میں بولا
ان دونوں کو اندازہ تک نہیں ہو سکا ایک معصوم ذہن چھت پر کمرے میں چھپا ہوا ان دونوں کو دیکھتا ہوا اپنے ننھے سے ذہن میں کئی سوال پال رہا ہے
****
پسینے سے تر چہرہ لئے وہ نیند سے اچانک سے جاگا آنکھوں میں عجیب وحشت کا عالم لیے وہ بیڈ پر بیٹھا ہوا اس خواب کو سوچنے لگا جس کی حقیقت اب ماضی کے پنوں میں دب چکی تھی۔۔۔ اس خواب کو وہ اپنے ذہن سے نوچ کر کہیں دور پھینک بھی نہیں سکتا تھا یہ وہ تلخ حقیقت تھی جس کو وہ سوچ کر خود اذیت کا شکار ہوتا
اور ایسا بھی ہرگز نہیں تھا کہ وہ لندن آنے کے بعد زمل سے مکمل طور پر غافل اور بےخبر ہو گیا تھا۔۔۔ یہاں گرینی کی طبیعت کا سن کر وہ ان کے پاس آ تو گیا تھا مگر اس نے پچھلے چار سالوں میں زمل کی ایک ایک حرکت و سکنات پر یہاں بیٹھے نظر رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کے باہر آنے جانے سے لے کر یونیورسٹی فیلو کے ساتھ گھومنا پھرنا۔۔۔ زمل کا ہر پروگرام درید کو اسی طرح تصویروں کے ذریعہ سے معلوم ہوتا رہتا۔۔۔ مگر آج جو تصویریں اس کو موصول ہوئی تھی وہ درید کو آگ لگانے کے لئے کافی تھی
وہ لڑکا اسی کا ہم عمر تھا بلکہ زمل کا کلاس فیلو جسے درید نے پہلے بھی کئی بار تصویروں میں دیکھا تھا۔۔۔ لیکن اس وقت کافی شاپ میں زمل کے ساتھ صرف وہی موجود تھا اور ٹیبل پر رکھے زمل کے ہاتھ پر اس نے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔ جسے سوچ کر درید کے دماغ کی نسیں پھٹی جارہی تھی۔۔۔
کیا زمل اس ڈر کو فراموش کر بیٹھی تھی جو وہ یہاں آنے سے پہلے اس کے اندر بٹھاکر آیا تھا یا پھر جیسا کچھ اس تصویر میں دکھ رہا تھا بات ویسی نہیں تھی۔۔ کیوکہ زمل بھی اس کی نیچر اور اس کے مزاج کو اچھی طرح جانتی تھی درید کو نہیں لگتا تھا وہ ایسا کچھ کر کے اپنے آپ کو تکلیف سے دوچار کرتی، یہ بھی ہوسکتا تھا یہ تصویر والا لڑکا ہی زمل میں دلچسپی رکھتا ہو، بات جو بھی تھی اعظم کی طبعیت کے علاوہ بھی اب اسے اصل حقیقت جاننے کے لیے پاکستان جانا تھا ابھی درید سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا تب اس کا موبائل بجنے لگا یہ کال پاکستان سے آرہی تھی اس کے گھر کے نمبر سے
"ہیلو"
پہلا خیال اعظم کا آتے ہی درید نے فوراً کال ریسو کی۔۔۔ مگر دوسری طرف چار سال بعد درید کی آواز سن کر زمل کی اپنی سانسیں تھمنے لگی
"زمل"
وہ فوراً ہی زمل کو پہچان گیا تھا اس لیے بےقرار سا اس کا نام پکار بیٹھا
"بات کرو مجھ سے زمل، میں بہت اکیلا محسوس کر رہا ہو خود کو"
درید کی آواز میں بےبسی محسوس کر کے بھی وہ خاموش رہی یہ کال بھی آج اس نے اعظم کے کہنے پر کی تھی مگر منہ سے بولنے کے لیے اس سے لفظ ادا نہیں ہو پا رہے تھے جبکہ دوسرے فریق کی بےبسی بےقراری اب غصے میں ڈھلنے لگی تھی
"بول کیو نہیں رہی ہو تم بات کرو مجھ سے۔۔۔ بتاؤ مجھے آخر ایسا کیا کر دیا ہے میں نے تمہارے ساتھ جو مجھے یوں سزا دے رہی ہو"
درید غصے میں زور سے چیخا تو بھی زمل ریسیور کان سے لگائے خاموش کھڑی رہی۔۔۔ وہ اتنا سب کچھ کر کے اس سے پوچھ رہا تھا آخر اس نے ایسا کیا کردیا۔۔۔ زمل خاموشی سے فون رکھ چکی تھی جبکہ کال ڈسکنیکٹ دیکھ کر درید کا غصہ آسمانوں کو چھونے لگا اس نے اپنا موبائل سامنے آئینے پر کھنچ کر مارا تو اس آئینے میں دراڑ پڑ گئی
****
Epi # 4
"پھر کیا سوچا ہے تم چاروں نے کونسرٹ کا،، دیکھو پاسیز کا کوئی ایشو نہیں ہوگا،، پانچ پاس آسانی سے مل جائیں گیں، میرا کزن ارینج کروا دے گا۔۔۔ میں تو کہتا ہوں آج شام کا پروگرام کنفرم کر لو"
واصف، کیف، زمل، ثمرن اور نشاء پانچویں کلاس آف ہونے کے بعد یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں بیٹھے ہوئے تھے تب واصف ان چاروں کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ہاں چلے چلتے ہیں یار اسی بہانے یونیورسٹی سے اف ہونے بعد شام میں دوبارہ ایک دوسرے کو جوائن کرلیں گے"
کیف بول تو واصف کو رہا تھا مگر اس کی نظریں زمل کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی جو کہ ان سب کے درمیان موجود ہو کر ذہنی طور پر کہیں اور تھی
"یار میرا تو مشکل ہے کیوکہ آج بابا واپس آرہے ہیں۔۔۔ رات میں ہمارا فیملی ڈنر ہوگا اس کو میں مس نہیں کرسکتی"
ثمرن اپنے کونسلٹ میں نہ آنے کا جواز بتانے لگی
"زمل تم تو چلو گی نہ یار شام میں"
ثمرن کے نہ آنے کا سن کر نشاء زمل سے پوچھنے لگی تو زمل اپنی سوچوں سے نکل کر نشاء سے بولی
"میرا بھی مشکل ہے یار۔۔۔ ڈیڈ کی حالت دیکھ کر بالکل موڈ نہیں ہو رہا کہیں جانے کا"
وہ اعظم کی کنڈیشن کو دیکھ کر ویسے بھی پریشان تھی اور کل رات چار سال بعد درید کی آواز سن کر ذہنی طور پر اور بھی ڈسٹرب ہوگئی تھی اسلیے ان سب سے ایکسکیوز کرتی ہوئی بولی
"زمل بھی نہیں جارہی، نہ ہی ثمرن تو میں کیا کروں گی ان دونوں کے بغیر جاکر"
نشاء واصف کو دیکھتی ہوئی کندھے اچکا کر بولی
"انکل کی وجہ سے پریشان مت ہو، ہم کون سا رات دیر تک وہاں رکے گیں جلدی واپسی کر لیں گے۔۔۔ تمہاری طبعیت بھی بہل جائے گی تھوڑی دیر کے لیے"
کیف نے زمل کی وجہ سے اپنے جانے کا پروگرام بنایا تھا وہ زمل کو دیکھ کر بولا تو زمل سے پہلے ثمرن بول اٹھی
"فورس مت کرو اسے کیف۔۔۔ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے اور ویسے بھی انٹی انکل کے پاس اکیلی ہوگیں"
ثمرن کی بات سن کر کیف خاموش ہوگیا
"پھر کیا کرنا ہے۔۔۔ ان نخریلی لڑکیوں کو چھوڑو، ہم دونوں ہی چلتے ہیں"
واصف کیف کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میرے خیال میں پروگرام کو کینسل کر دینا چاہیے۔۔۔ ویسے بھی دو مہینے کے بعد سمسٹر شروع ہونے والے ہیں"
زمل کا موڈ دیکھ کر کیف اپنے جانے کا بھی پروگرام کینسل کرتا ہوا بولا تو واصف خاموش ہوگیا
"لگتا ہے اب کہ بار تمہارا ہیئر کٹ لینے کا ارادہ نہیں،، ویسے لونگ ہیئرز سوٹ کریں گیں تمہارے فیس پر"
نشاء زمل کے بالوں کی لینتھ دیکھ کر زمل سے بولی کیوکہ اس نے ہمیشہ زمل کو شولڈر تک بالوں میں دیکھا تھا جبکہ واصف اور کیف ان خواتین کو مخصوص زنانہ باتوں میں لگا دیکھ کر اپنی باتیں اسٹارٹ کر چکے تھے
"غلط سوچ رہی ہو، زہر لگتے ہیں لمبے بال میرے فیس کٹ پر، بس ڈیڈ ٹھیک ہو کر واپس گھر آجائے پھر ان لمبے بالوں سے بھی نجات حاصل کر گی"
زمل نشاء کو دیکھ کر بولی جبکہ چار سال پہلےاس کے جنتے لمبے بال ہوا کرتے تھے اب اس کے آدھے ہوچکے تھے اپنے لمبے بالوں کو یاد کرکے ماضی کی یاد اس کے ذہن پر حملہ آور ہوئی
**†**
"تابی میں تم سے دوسری بار کہہ رہا ہوں آہستہ آواز میں بولو اب تمہاری آواز اس کمرے سے باہر نہیں جانا چاہیے، میں تمہیں بول رہا ہو کہ میں خود درید سے پوچھو گا آخر اس نے ایسی حرکت کی کیوں زمل کے ساتھ"
اعظم کو خود اندازہ نہیں تھا کہ تابندہ کو سمجھاتے ہوئے اس کی خود کی آواز کافی تیز ہو چکی تھی جو کہ کمرے سے باہر جا رہی تھی
"کب اعظم کب،، آخر کب پوچھیں گے آپ اپنے بیٹے سے، دن بدن اس کی بدتمیزی اور خود سری بڑھتی جا رہی ہے اور آج تو اس نے حد ہی کر دی ہے وہ ہوتا کون ہے میری بیٹی پر پابندیاں لگانے والا اور اس پر روک ٹوک کرنے والا۔۔۔ زمل کہیں آ نہیں سکتی کہیں جا نہیں سکتی،، اپنی مرضی سے کوئی کام کر نہیں سکتی،، کچھ سیکھنا ہو یا پھر کسی بات کا دل چاہ رہا ہو تو پہلے اسے درید کی پرمیشن لینا پڑتی ہے۔۔۔ میری بیٹی کی اپنی لائف پر اس کا اختیار نہیں ہے اور آج تو درید نے حد کر دی یعنیٰ اگر زمل نے اپنی مرضی سے ہیئر کٹنگ کروا لی تو درید کا اتنا سخت ری ایکشن۔۔۔۔ وہ ہوتا کون ہے میری بیٹی سے اس طرح کا بی ہیویر کرنے والا۔۔۔ اگر میں درید کی حرکتوں اور زیادتیوں پر خاموش رہتی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ گھر کا ماحول برباد نہ ہو، بچوں کے ذہن ڈسٹرب نہ ہو مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں درید کی ہر بات میں اس کی من مانیاں برداشت کروں گی"
تابندہ خاموش ہونے کی بجائے اونچی آواز میں اعظم کو مزید باتیں سنانے لگی
اپنے کمرے میں موجود درید اسموکنگ کرتا ہوا ساری باتیں سن رہا تھا مگر اسے ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اعظم اور تابندہ کی پروا نہیں تھی اسے احساس تھا تو صرف اپنے رویے کا۔۔۔ اس سلوک کا جو اپنے غصے کی بدولت زمل کے ساتھ کر چکا تھا۔۔۔ جیسے جیسے زمل بڑی ہو رہی تھی وہ اس کے لیے مزید حساس ہوتا جا رہا تھا
ویسے تو وہ بچپن سے ہی زمل کی ذات کو لے کر کافی ٹچی رہا تھا زمل کی ذرا سی بھی طبیعت خراب ہو جاتی تو تابندہ سے زیادہ وہی اس کے لئے پرشان ہوتا،، زمل کی اسٹڈیز کو لے کر وہ فکرمند رہتا،، وہ کس طرح کی لڑکیوں میں اٹھتی بیٹھتی ہے وہ لڑکیاں کس فیملی سے تعلق رکھتی ہیں ان سب باتوں کو جاننے کے بعد ہی زمل کو ان سے دوستی کی پرمیشن دیتا۔۔۔ چند ہفتے پہلے جب زمل بی پی لو ہونے کی وجہ سے اسکول میں بےہوش ہو گئی تھی تب تابندہ نے پریشان ہو کر درید کو ہی فون کیا تھا۔۔۔ درید اس وقت یونیورسٹی میں موجود تھا تھوڑی دیر بعد اس کی پریزنٹیشن تھی مگر تابندہ کی بات سن کر وہ زمل کے لیے فکرمند ہو گیا، وہی زمل کو اسکول سے گھر لے کر آیا۔۔۔ اس کے بعد وہ زمل کی ڈائٹ کا بھی خیال رکھنے لگا زمل کو کیا چیز کھانے میں پسند ہے اب یہ بات میٹر نہیں رکھتی بلکہ کیا چیز اس کی صحت کے لئے فائدہ مند ہے یہ ضروری تھا وہ زمل اس کے سامنے بریک فاسٹ کرنے کے بعد اسکول جاتی
درید کو شروع سے ہی زمل کے لمبے بال پسند تھے،، زمل نے جب جب اس سے ہیئر کٹ لینے کی اجازت مانگی، تب تب درید نے اسے سختی سے منع کردیا۔۔۔ کمر کو ڈھکے زمل کے بالوں کی لمبائی درید کو بے حد پسند تھی
آج شام جب وہ احمر کے پاس سے گھر لوٹا، کسی کام سے زمل کے پاس اس کے کمرے میں گیا تو ایک پل کے لیے وہ زمل کے بالوں کی لینتھ دیکھ کر شاکڈ رہ گیا زمل کے بالوں کی لینتھ چھوٹی ہو چکی تھی آدھی کمر تک آتے اسٹائل میں کٹے بالوں کو دیکھ کر اسے افسوس کم اور غصہ زیادہ آنے لگا
"کیوں کٹوائے تم نے اپنے بال"
وہ غصے میں زمل کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر زمل سے بالوں کے کاٹنے کی وجہ پوچھنے لگا
"دید میرا دل چاہ رہا تھا پلیز آپ ناراض مت ہو،، ویسے بھی کتنی جلدی میرے بالوں کی لینتھ بڑھتی ہے آپ خود کہتے ہیں"
زمل اس کو غصے میں دیکھکر وضاحت دینے لگی
"اور میرے دل کا کیا میرا خیال کیوں نہیں کیا تم نے،، تم جانتی ہو ناں تمہاری حرکت سے مجھے کتنا دکھ ہوگا، کیسے تم نے میری بغیر اجازت کے ان بالوں کو کسی دوسرے کو ہاتھ لگانے دیا،،، بولو" درید نے غصے میں زمل کو بیڈ پر دھکا دیا اور خود ڈریسنگ ٹیبل کی ڈراز کی طرف بڑھا
"دید۔ ۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔ ۔۔ دید نہیں، نہیں دید نہیں پلیز ایسا مت کریں"
جب درید نے قینچی سے زمل کے بال کاٹنے شروع کیے تو وہ بہت روئی چیخی چلائی مگر درید اس کے بالوں پر الٹی سیدھی قینچی چلاتا رہا
اس کے بعد درید کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اس نے زمل کمرے میں موجود سارے ڈیکوریشن پیس اور چیزوں کو تہس نہس کر دیا جبکہ زمل بیڈ پر لیٹی ہوئی درید کے اتنے سخت ری ایکشن پر روتی رہی
"آئندہ کبھی اپنے بالوں کو میرے بغیر اجازت کے کسی دوسرے کو تم نے ہاتھ بھی لگانے دیا تو اُس کا اور تمہارا دونوں کا حشر بگاڑ دو گا میں"
وہ بیڈ پر روتی ہوئی زمل کو دھمکی دیتا ہوا اپنے کمرے میں جا چکا تھا
اعظم اور تابندہ جب اپنے فرینڈ کے گھر سے ڈنر کر کے واپس لوٹے تب ملازموں کے ذریعے ان دونوں کو سارا ماجرا معلوم ہوا۔۔۔ زمل درید کے رویہ پر کافی دلبرداشتہ ہوئی تھی اور تابندہ کے گلے لگ کر روئی تھی جبکہ اعظم نے تین سے چار بار درید کے کمرے کا بند دروازہ کھٹکھٹا کر درید کو کمرے سے باہر آنے کا حکم دیا مگر وہ اعظم یا کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے کمرے کا دروازہ لاکڈ کیے اپنے کمرے میں بیٹھا اسموکنگ کرتا رہا۔۔۔ مگر اب جیسے جیسے رات گزر رہی تھی درید کا غصہ بےچینی میں تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔ اسے زمل کے ساتھ کیے جانے والے اپنے سلوک پر دکھ ہونے لگا خاص کر اس کا روتا ہوا چہرا یاد کر کے اسکی بےچینی بڑھنے لگی۔۔۔ اس وقت گھڑی میں رات کے دو بج رہے تھے نیند درید کی آنکھوں سے غائب تھی نہ ہی وہ اپنے کل ہونے والے پیپر پر صحیح سے توجہ دے پا رہا تھا، یونیورسٹی میں اس کا فائنل آیئر تھا۔۔۔ صوفے سے اٹھ کر وہ زمل کمرے میں جانے کا ارادہ کرنے لگا
*****
"مجھے معلوم ہے تم جاگ رہی ہو زمل یہاں دیکھو میری طرف"
وہ زمل کے بیڈ روم میں آیا تو زمل اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی تھی، درید نے کمرے کی لائٹ آن کی تو اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ زمل جاگ رہی ہے،، تب درید بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ کر زمل کا ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹانا چاہا
"کیوں آئے ہیں آپ یہاں پر، پلیز دید چلے جائیں میرے روم سے"
درید نے جیسے ہی زمل کی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا زمل فوراً دوسری طرف کروٹ لیٹی ہوئی درید سے بولی
"چلا جاؤں گا پہلے یہاں میری طرف دیکھ کر میری بات سن لو"
درید نے زمل کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کرنا چاہا تو وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئی
"کیا بات سن لو میں آپ کی دید، کیا بتانا چاہتے ہیں آپ مجھے، یہی نہ کہ غلطی میری تھی مجھے اپنے بالوں کی کٹنگ نہیں کروانا چاہیے تھی کیونکہ آپ کو میرے لمبے بال پسند ہیں لیکن آپ مجھے یہ بتائیں میری اپنی لائف پر میرا حق ہے کہ نہیں، یار انسان ہوں میں بھی، اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں مگر مجھے میری زندگی پر اپنا اختیار ہی نہیں ہے"
وہ اس کے سامنے بیٹھ کر بولتی ہوئی رونے لگی تو درید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا پھر بولا
"جو آپ سے بہت زیادہ پیار کرتا ہو تو آپ کے لیے خودبخود حساس ہو جاتا ہے، پھر سامنے والے کو چاہیے کہ وہ خود اپنے سارے اختیارات اس پیار کرنے والے کو سونپ دے۔۔۔ اگر تم یہ اختیارات مجھے نہیں سونپنا چاہتی تو پھر میں ایسے ہی تم پر اپنا حق جتاؤ گا کیونکہ میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے"
درید زمل کی آنکھیں صاف کرتا ہوا بولا اپنی طرف سے آج اس نے زمل کو اپنے محسوسات سے اگاہ کردیا تھا جو وہ زمل کے لئے کیا محسوس کرتا تھا مگر وہ جانتا تھا زمل اس کی باتوں کو بالکل نارمل لے گی جبکہ دوسری طرف زمل کو درید کی بےتکی لاجک پر غُصہ آنے لگا وہ اپنے چہرے سے درید کے ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی
"ایسے پیار کیا جاتا ہے کسی سے دید، پیار کرنے والے کا یہ حشر کیا جاتا ہے جو آپ نے میرا کردیا اور میرے اس کمرے کا بھی، پیار تو میں بھی آپ سے بہت کرتی ہو بتائے ذرا کاٹ ڈالو آپ کی یہ حسین زلفیں"
زمل غصے میں درید سے پوچھنے لگی مگر اس کی آخری بات پر درید کو ہنسی آنے لگی جسے وہ ضبط کر گیا
"تمہارا غصہ اگر ایسے ٹھنڈا ہوجائے گا تو کاٹ ڈالو یار میری یہ حسین زلفیں،، اُف تک نہیں کروں گا تمہارے بدلہ لینے پر"
درید بولتا ہوا اپنا چہرا زمل کے چہرے کے قریب لایا تو
زمل نے درید بالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھی میں بھرلیا
"کیا کر رہی ہو یار بال تو چھوڑو میرے"
زمل نے درید کے بال پکڑے تو درید اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پایا اگر وہ اپنے دونوں ہاتھ زمل کے دائے بائے بیڈ پر نہیں ٹکاتا تو اس کے اوپر ہی گر پڑتا
"اب کل دوبارہ پارلر جاکر بالوں کی سیٹنگ کروانا پڑے گی"
درید پیچھے ہوکر بیٹھا تو زمل افسوس سے کہنے لگی وہ خود اپنے بالوں کو زیادہ چھوٹا نہیں کروانا چاہتی تھی مگر اب بالوں کی سیٹنگ کروانے پر اس کو اچھی طرح اندازہ تھا بالوں کی لمبائی کافی کم ہوجائے گی
"کوئی ضرورت نہیں ہے، تم نے سنی نہیں میری بات مجھے بالکل بھی پسند نہیں کہ کوئی تمہارے بالوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔ یہاں آکر بیٹھو میں بیلنس میں کر دیتا ہو بالوں کو"
درید نے بولنے کے ساتھ بیڈ سے اٹھ کر زمل کو ڈریسنگ ٹیبل کے پاس موجود چھوٹے سے اسٹول پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
"دید نو پلیز بال اور چھوٹے ہوجائیں گے یار"
زمل درید کے ارادے سے ڈرتی ہوئی اس سے کہنے لگی تو درید اسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا
"مجھے تمہارے بالوں کی تم سے زیادہ فکر ہے، یہاں بیٹھو آکر شرافت سے"
درید نے اسے بازو پکڑ کر اسٹول پر بٹھا دیا تو زمل کی رونے والی شکل ہوگئی وہ منہ بناکر اسٹول پر بیٹھی ہوئی درید کو دیکھ رہی تھی جو اس کے بالوں پر پانی کا اسپرے مار کر بہت احتیاط کے ساتھ کی اس کے بالوں کی لینتھ کو بیلنس میں لا رہا تھا
"اب ایسی شکل تو نہیں بناؤ تھوڑی دیر پہلے جو مجھ سے تمہارے بالوں کا حشر ہوا تھا اس سے تو بہتر ہی ہے اب"
درید اس کے بالوں کی کٹنگ کرنے کے بعد زمل کی رونی شکل دیکھتا ہوا بولا
"اُس سے تو بہتر ہے مگر بہت زیادہ چھوٹے ہو گئے ہیں اور اتنے چھوٹے بالوں میں تو میں آپ کو اچھی بھی نہیں لگو گی"
زمل اسٹول سے آٹھ کر درید کے سامنے کھڑی ہوتی ہوئی اس سے کہنے لگی۔۔۔ اب مشکل سے اس کے بالوں کی لینتھ شولڈر کو چھو رہی تھی درید کو واقعی زمل کے اتنے چھوٹے بالوں کو دیکھ کر بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر یہ بھی نہیں تھا کہ اسے زمل بری لگ رہی ہو زمل کی بات سن کر درید مسکراتا ہوا بولا
"تم مجھے کبھی بھی بری نہیں لگ سکتی اگر پوری گنجی ہو جاؤ گی تب بھی بہت پیاری لگو گی"
بولنے کے ساتھ ہی درید نے شرارت سے اس کی ناک کھینچی اور اپنے کمرے میں جانے لگا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کل یونیورسٹی سے آنے کے بعد زمل کا روم بھی سیٹ کرے گا
"دید کہاں جا رہے ہیں آپ رکیں تو"
درید کو اپنے کمرے سے جاتا ہوا دیکھ کر زمل جلدی سے بولی
"یار کل پیپر ہے میرا تھوڑا اسٹڈی کروں گا اور پھر سو جاؤں گا"
درید زمل کو دیکھتا ہوا اسے بتانے لگا
"تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں جن سے پیار کیا جاتا ہے ان کا احساس بھی کیا جاتا ہے، احساس ہے آپ کو کہ میں نے رات میں کچھ نہیں کھایا آپ کے غصے کے سوا،، چلیں اس وقت باہر میرے ساتھ اور مجھے کچھ کھلا کر لائیں"
رات کا کھانا تو خود اس نے بھی نہیں کھایا تھا مگر اس وقت زمل کی فرمائش سن کر درید اسے بڑی بڑی آنکھیں دکھا کر گھورنے لگا
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا،، رات کے تین بجنے والے ہیں باہر اس وقت کونسی شاپ یا ہوٹل کھلا ہوگا شرافت سے کچن میں جاؤ فرج سے کھانا نکالو کھاؤ اور سوجاؤ"
درید زمل کو بولتا ہوا اپنے کمرے میں جانے لگا مگر زمل کو خاموش نظروں سے اپنی طرف دیکھ کر وہ دوبارہ رک گیا
"فوڈ اسٹریٹ اوپن ہوگی اس وقت، ہم وہاں پر جا کر ارام سے کچھ کھا سکتے ہیں۔۔۔ مگر بات اب آپ کے پیار کی ہے میری بات مان کر آپ مجھ پر ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ سچ میں مجھے پیار کرتے ہیں"
زمل کے بولنے پر درید لمبا سانس کھینچ کر اسے دیکھنے لگا
"بہت بڑی فلم ہوگئی ہو تم زیادہ ہی ڈائیلاگز بولنے نہیں آ گئے ہیں تمہیں، انسان بن جاؤ۔۔۔ اس ڈریسنگ میں میں تمہیں اس وقت باہر لے کر ہرگز نہیں جاؤ گا جیکٹ لے کر باہر آؤ"
درید اس کے بلیک کیپری اور ہاف سلیوز ٹاپ کو دیکھتا ہوا بولا اور زمل کے کمرے سے باہر نکل گیا زمل جلدی سے جیکٹ پہننے لگی
"ہم کار میں نہیں جائیں گے دید،، میں پہلے ہی آپ کو بتا رہی ہوں اپنی ہیوی شیوی بائیک نکال لیں پلیز"
درید جو کہ کار کی طرف بڑھ رہا تھا زمل کی اگلی فرمائش پر ایک مرتبہ پھر گھور کر اس کو دیکھنے لگا
"اتنی فرمائشوں سے بہتر یہی تھا کہ قینچی اٹھا کر تم بھی میرے بالوں پر چلا دیتی اور اپنا بدلا لے لیتی"
وہ زمل کے پاس آتا ہوا بولا اور اس کی جیکٹ کی زپ بند کرتا ہوا اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ درید نے بائیک اسٹارٹ کی تو زمل لڑکیوں کی طرح بیٹھنے کی بجائے لڑکوں والے اسٹائل درید کے پیچھے بائیک پر بیٹھ گئی
"معلوم نہیں تمہیں آگے جاکر عقل آئے گی بھی کہ نہیں"
وہ صرف عمر میں بڑھ رہی تھی مگر اس کے ہر انداز سے لاپرواہی چھلکتی تھی تبھی درید اس کی طرف گردن موڑ کر اس سے بولا
"میری عقل سے آپ کو یا خود مجھ کو کیا لینا دینا مجھے تو چلاتے ہی آپ اپنی عقل سے ہے،، اب آگے دیکھ کر بائیک چلائیں"
ٰزمل نے بولنے کے ساتھ ہی دونوں ہاتھ درید کی کنپٹی پر رکھ کر اس کے سر کو آگے گھمایا تو وہ بھی ہنس دیا
"بائیک چلانی ہے یا پھر ہوا میں اُڑانی ہے"
وہ دونوں ہاتھوں سے درید کی کمر کو پکڑے بائیک پر بیٹھی تھی تب درید ایک بار پھر زمل سے پوچھنے لگا
"یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ مجھے کس انداز میں امپریس کرنا پسند کریں گے،، ڈیسنٹ بن کر یا پھر ہیرو بن کر"
زمل تیز آواز میں درید سے بولی تو اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر درید نے بائیک کی اسپیڈ اتنی تیز کردی کہ زمل باقاعدہ چیخنے لگی
****
"اب تم میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو، پیٹ بھر گیا ناں اب جا کر اپنے کمرے میں سو جاؤ"
تھوڑی دیر پہلے وہ دونوں باہر سے آئے تھے درید لیپ ٹاپ میں موجود اپنا اسائنٹمنٹ چیک کر رہا تھا تب زمل دوبارہ اس کے روم میں آئی، درید گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا اس سے بولا جہاں ساڑھے چار بج رہے تھے
"نیند نہیں آ رہی ہے مجھے، اب آپ اور میں مووی دیکھیں گے کوئی اچھی سی"
زمل بیڈ پر درید کے برابر میں بیٹھتی ہوئی اس سے بولی
"زمل ہوش میں آ جاؤ آدھی رات گزر چکی ہے یار، جاؤ اپنے کمرے میں سونے کی کوشش کرو"
درید باقاعدہ اس کو آنکھیں دکھاتا ہوا سختی سے بولا جس کا اثر لیے بغیر وہ خاموشی سے درید کو دیکھ رہی تھی
"نکال چکے ہیں آج کا غصہ آپ میرے اوپر،، اب آپ یہ غصہ بعد کے لیے سنبھال کر رکھیں"
زمل درید سے بولتی ہوئی مزید اس کے قریب ہو کر بیٹھی اور لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف کر کے اسکرین پر موجود اپلیکیشن کلوز کرنے کے بعد اس نے مووی لگادی
درید خاموشی سے اس کی کاروائی دیکھ رہا تھا مووی لگانے کے بعد وہ درید کا چہرہ اپنی طرف سے ہٹا کر لیپ ٹاپ کی طرف کرتی ہوئی خود بھی مووی دیکھنے لگی مگر آدھے گھنٹے بعد جب اس کا سر درید کے کندھے سے ٹکرایا تب درید کو اندازہ ہوا کہ زمل مووی دیکھتے ہوئے سو چکی تھی
"زمل اٹھو۔۔۔ اپنے کمرے میں جا کر سؤو۔۔۔ زمل"
درید لیپ ٹاپ ایک طرف رکھ کر اس کا کندھا ہلاتا ہوا بولا
"دید تنگ مت کریں سونے دیں پلیز"
وہ نیند میں بولتی ہوئی باقاعدہ بیڈ پر لیٹ چکی تھی درید غصے میں اس کو گھورنے لگا کیوکہ وہ پچھلے تین گھنٹے سے اس کو تنگ کر رہی تھی اور اب الٹا وہ اس سے کہہ رہی تھی کہ تنگ مت کریں
"دل تو چاہ رہا ہے تمہیں اپنے کمرے سے اٹھا کر باہر پھینک دو"
درید نے بولتے ہوئے زمل کو بازوؤں میں اٹھا لیا اور اسے اس کے کمرے میں لٹانے کے بعد درید اس پر کمفرٹر ڈالنے لگا۔۔۔ اس کی نظریں بھٹک کر زمل کے گلابی ہونٹوں پر ٹک گئی جنھیں دیکھنے کے بعد، اسے دل میں مچلتی خواہش کو دبانا مشکل مرحلہ لگنے لگا
"کیو میرے جذبوں سے اتنی انجان ہو۔۔۔ کیو اپنے دید کی محبت کو سمجھ نہیں پاتی، بہت مشکلیں پیدا کر دیتی ہے میرے لیے تمھاری یہ بےخبری"
درید زمل کے ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگائے اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں اس کے گال پر پھیرتا ہوا۔۔۔ وہ اپنے دل میں زمل سے مخاطب تھا
وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب جھکا کر اس کے ہونٹوں کو کسی پیاسے صحرا کی ماند دیکھنے لگا۔۔۔ درید چاہتا تو وہ زمل کی نیند سے فائدہ اٹھا کر اپنے ہونٹوں کی پیاس بجھا بھی سکتا تھا مگر وہ ایسا کوئی بھی عمل کرکے اس کے کچے ذہن پر کوئی غلط اثر نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔ اس لیے اس پر کمفرٹر ڈالنے کے بعد بیڈ سے اٹھ کر اس کے کمرے سے نکل گیا
"تم اس وقت زمل کے کمرے میں کیا کر رہے ہو"
وہ زمل کے کمرے کا دروازہ بند کرنے لگا تب تابندہ اپنے کمرے سے نکلتی ہوئی درید کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو کر اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ درید نے مڑ کر اسے دیکھا شاید وہ بھی نیند سے ابھی جاگی تھی
"آپ کو کیا لگتا ہے میں کیا کرنے آیا ہونگا اس ٹائم زمل کے کمرے میں"
درید الٹا تابندہ کے پاس آ کر اس سے سوال پوچھنے لگا تابندہ غصے میں دانت پیستی ہوئی بولی
"اگر تم نے میری بیٹی کے ساتھ کچھ غلط کرنے کی کوشش بھی کی تو"
تابندہ انگلی اٹھا کر اسے غصے میں وارن کرنے لگی تھی تب درید اسکی بات کاٹتا ہوا بیچ میں بول اٹھا
"میں نیچ اور گرا ہوا انسان نہیں ہوں جو اپنی محبت کے ساتھ کسی جائز رشتے کے بغیر کوئی بھی ایسا گھٹیا قدم اٹھاؤ جس سے میری محبت کی توہین ہو۔۔۔ میں اعظم بخش کا خون ہونے کے باوجود ان کی جیسی طبعیت نہیں رکھتا سمجھ میں آیا آپ کے"
درید تابندہ پر بہت کچھ جتا کر اپنے کمرے سے چلا گیا تابندہ صدمے کی حالت میں اس کی باتوں کا مطلب سمجھنے لگی
وہ کیا کچھ جانتا تھا اعظم اور اس کے بارے میں اور وہ اپنی محبت کسے کہہ رہا تھا زمل کو؟ ؟؟ ایسا کب ہوا۔۔۔ کیا زمل بھی؟ ؟ اسے کیو کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ ۔۔۔ تابندہ اپنا سر پکڑتی ہوئی واپس کمرے میں چلی گئی
****
"اتنی دیر لگا دی اسپتال آنے میں، کہاں موجود تھی کب سے انتظار کر رہی ہوں میں تمہارا"
ٰزمل اسپتال میں آئی تو پریشان سی تابندہ اس کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"ٹریفک میں پھنس گئی تھی مما یونیورسٹی سے سیدھی ہی آرہی ہوں آپ بتائیے ڈیڈ کی طبیعت اب کیسی ہے، کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹرز"
زمل تابندہ کا پریشان چہرہ دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ چار دن سے اعظم ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھا۔۔۔ آج صبح سے ہی اس کی طبیعت خاصی خراب تھی جبھی تابندہ نے زمل کو یونیورسٹی سے سیدھا اپنے پاس ہاسپٹل میں بلایا تھا
"ہارٹ مکمل طور پر صحیح تو ورک نہیں کر رہا ہے اب بریتھینک میں بھی کافی پرابلم ہے تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹرز کہہ رہے تھے اگر شام تک طبیعت نہیں سنبھلی تو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے"
تابندہ تھکے ہوئے انداز میں زمل کو بتانے لگی اور رو پڑی زمل نے آگے بڑھ کر تسلی دینے والے انداز میں تابندہ کو گلے لگایا ساتھ خود کو رونے سے باز رکھا۔۔۔۔ اعظم کی حالت پر اس کا اپنا دل دکھی تھا
"آپ پریشان مت ہوں مما انشااللہ ڈیڈ ٹھیک ہوجائیں گے"
وہ تابندہ کو تسلی دیتی ہوئی بولی مگر جس طرح کی کنڈیشن تابندہ اسے بتا رہی تھی وہ واقعی مایوس کن تھی
"پریشان کیسے نہ ہو اعظم کے علاوہ کون ہے ہمارا۔۔۔۔ کس طرح اشاروں سے وہ درید کے بارے میں پوچھ رہے تھے، کب سے ان کو تسلی دیئے جارہی ہو کہ درید آنے والا ہے ان کے پاس"
تابندہ آنسو صاف کرتی ہوئی زمل سے بولی تو زمل تابندہ سے الگ ہو کر صوفے پر جا بیٹھی اور خاموشی سے تابندہ کو دیکھنے لگی
"بات ہوئی تھی آپ کی دید سے، ان کا واقعی پاکستان آنے کا پروگرام بن رہا ہے"
اپنے تیز دھڑکتے دل پر قابو پاتے ہوئے وہ تابندہ سے درید کی آمد کے بارے میں پوچھنے لگی
"بات کرنا پسند ہی کہا کرتا ہے وہ مجھ سے، جب اسے اعظم کا اسپتال میں ایڈمٹ ہونے کا بتایا تھا تب اس نے لگے بندھے انداز میں ایک بار مجھ کو کال کرکے اعظم کے بارے میں پوچھا تھا اور اپنے آنے کا تو کچھ بتایا بھی نہیں"
تابندہ تھکے ہوئے انداز میں زمل کو بتانے لگے
"بہت ہی اچھا ہوگا دید واپس نہ آئیں تو"
زمل کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو تابندہ اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی
"کیسی بات کر رہی ہو، اعظم انتظار کر رہے ہیں اس کا۔۔۔ اتنے سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تمہیں خود بھی سب کچھ بھول جانا چاہیے"
تابندہ کی بات پر زمل اسے دیکھنے لگی تبھی نرس روم میں ان دونوں کے پاس آئی
"آئی سی یو میں آپ کے پیشینٹ کی حالت سنبلھنے میں نہیں آرہی ہے۔ ۔۔ ڈاکٹر ظہیر آپ کو اپنے روم میں بلا رہے ہیں"
نرس کے اطلاع دینے پر تابندہ اور زمل ڈاکٹر ظہیر کے روم کی طرف جانے لگی
*****
ہ ابھی گھر لوٹا ہی تھا تب سیٹنگ روم سے آتی ہوئی اجنبی آوازوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا،، درید نے سٹنگ روم کا رخ کیا جہاں اعظم اور تابندہ کے علاوہ ایک پچاس سالہ مرد اور عورت،، اور ایک نوجوان شخص بیٹھا ہوا تھا
"آؤ درید ان سے ملو یہ مسٹر سراج ہیں اور یہ ان کی مسسز اور یہ سراج صاحب کے صاحبزادے"
درید کے سٹینگ روم میں قدم رکھنے پر سب کی نظریں اس پر مرکوز ہوئی جبھی اعظم نے درید کو وہاں آنے کی دعوت دینے کے ساتھ گھر میں آئے ہوئے گیسٹ کا اس سے تعارف کروایا۔۔۔ درید ان لوگوں سے مل کر صوفے پر بیٹھ گیا مگر یہ چہرے اس کے لئے اجنبی تھے وہ ان تینوں کو نہیں پہچانتا اور نہ اسے ان لوگوں کے آنے کا مقصد معلوم تھا اس لیے خاموش بیٹھا رہا
"تو پھر آپ دونوں نے اپنی بیٹی کے بارے میں کیا سوچا ہے جواب نہیں دیا آپ لوگوں نے۔۔ ہم عادل کو اپنے ساتھ جبھی لے کر آئے تھے تاکہ آپ دونوں عادل کو بھی دیکھ لیں اور ہماری فیملی تو آپ کے سامنے ہی ہے"
سراج صاحب دوبارہ سے باتوں کا سلسلہ جوڑتے ہوئے آعظم سے گویا ہوئے تو درید کنفیوز ہو کر اعظم کو دیکھنے لگا۔۔۔ خود اعظم بھی درید کو دیکھ رہا تھا اس لیے سراج صاحب کی بجائے درید کو ان لوگوں کے یہاں آنے کا مقصد بتانے لگا
"دراصل جس اکیڈمی میں چند ماہ پہلے زمل نے ایڈمیشن لیا تھا وہ سراج صاحب کی اکیڈمی ہے اور عادل زمل کے ٹیچر ہیں۔۔۔ ہماری بیٹی عادل کو اور ان کی فیملی کو پسند آئی ہے اسی سلسلے میں یہ لوگ ہم سے بات کرنے آئے ہیں مطلب زمل رشتہ لے کر"
اعظم درید کو بتا رہا تھا اور اعظم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تابندہ خاموشی سے درید کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی۔۔۔ اعظم کی بات مکمل ہونے پر درید اٹھا اور عادل کے پاس آیا
"اٹھو"
عادل کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے کر واپس ٹیبل پر رکھتا ہوا وہ عادل سے بولا تو کمرے میں ایک دم سکوت طاری ہو گیا سب کی نگاہیں درید پر مرکوز تھی عادل اٹھ کر درید کے مقابل کھڑا ہو گیا
"اب تک اپنی اکیڈمی کی کتنی لڑکیوں کے گھر اپنے ماں باپ کو لے کر ان کا رشتہ لینے کے لیے جا چکے ہو"
درید عادل سے نارمل انداز میں پوچھنے لگا تو خجالت سے عادل کا چہرہ سرخ ہو گیا
"درید"
اعظم کے سختی سے ٹوکنے پر درید اعظم کی بجائے تابندہ کو دیکھنے لگا
"بتایا نہیں آپ نے ڈیڈ کو میرے خیالات اور ارادوں کے بارے میں زمل کو لے کر کیا سوچتا ہو آپ تو واقف ہیں ناں،، کیسے آنے دیا آپ نے ان لوگوں کو یہاں پر زمل کے لیے سب کچھ جاننے کے باوجود،۔۔ دھکا دے کر نکالا کیوں نہیں آپ نے ان لوگوں کو"
درید غصے میں تابندہ کو دیکھتا ہوا بولا تو وہ مزید شرمندہ ہونے لگی مگر ان لوگوں کا لحاظ کر کے خاموش رہی
"ہم یہاں شریفوں کی طرح عزت دار طریقے سے آپ کی بیٹی کا رشتہ لے کر آئے ہیں اور آپ کا یہ بیٹا مسلسل ہماری توہین کر رہا ہے"
سراج صاحب خفا ہوتے ہوئے اعظم کو دیکھ کر بولے مگر اعظم کے معظرت کرنے سے پہلے ہی درید سراج صاحب کی طرف رخ کرتا ہوا ان سے بولا
"توہین محسوس کر کے بھی آپ لوگ مسلسل یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں میرے خیال میں آپ لوگوں کو یہاں سے چلے جانا چاہیے ناشتہ تو کر ہی چکے ہیں"
درید لوازمات سے سجی ہوئی ٹیبل کی طرف دیکھتا ہوا طنزیہ انداز میں بولا تو سراج صاحب سمیت ان کی وائف اور بیٹا وہاں سے اٹھ کر چل دیئے
*****
"زمل ابھی پندرہ سال کی ہوئی ہے میں اس کی اتنی جلدی شادی ہرگز نہیں کرو گا لیکن گھر آئے گیسٹ کے ساتھ یہ سلوک، اس فضول حرکت کے پیچھے کیا مقصد تھا تمہارا کیوں اس طرح سے انسلٹ کر کے نکالا تم نے ان لوگوں کو جواب دو مجھے درید"
ان لوگوں کے جانے کے بعد اعظم غصے میں درید سے پوچھنے لگا جبکہ تابندہ اس کی حرکت پر کھولتی ہوئی درید کو دیکھ رہی تھی
"اس گھر میں اور بھی کوئی زمل کا رشتہ لے کر آئے گا تو میں ایسے ہی اس کی انسلٹ کروں گا کیونکہ زمل اس گھر سے کہیں نہیں جائے گی، وہ ہمیشہ یہی رہے گی میری وائف بن کر"
درید کو اعظم سے یہ سب بولتے ہوئے نہ ہی کوئی شرمندگی ہوئی تھی نہ ہی کوئی ہچکچاہٹ مگر اس کی بات سن کر اعظم ضرور شاکڈ ہوا تھا کیونکہ تابندہ نے درید کے خیالات کے بارے میں اعظم کو بتایا تھا اور نہ ہی اس بات کا کہ درید ان دونوں کی شادی سے پہلے کی پسندیدگی کے بارے میں بھی باخبر تھا
"اپنے ہی گھر کی لڑکی پر نظر رکھتے ہوئے شرم نہیں آئی تمہیں، جو تم اپنا منہ کھول کر بےشرموں کی طرح ایسی بات کر رہے ہو وہ بھی اپنے باپ سے"
اعظم جب کچھ بولنے کے قابل ہوا تو درید کو شرمندہ کرتا ہوا بولا
"نہیں ڈیڈ میں زمل پر نظر رکھ کر ہرگز شرمندہ نہیں ہوں کیونکہ نہ تو وہ میرے دوست کی بیوی ہے نہ ہی کسی دوسرے کی بیوی ہے۔۔۔ ہاں میں نے زمل پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا ہے کیونکہ اس کی عمر ان سب باتوں کو سوچنے یا سمجھنے کی نہیں ہے اور آپ دونوں کو اپنے خیالات کے متعلق اس لئے آگاہ کر رہا ہو تاکہ دوبارہ اس طرح کوئی بھی دوسرا منہ اٹھا کر زمل کا رشتہ مانگنے یہاں آ جائے تو آپ دونوں پھر خود ہی اسے انکار کر دیں"
درید بغیر غصے کے بالکل نارمل انداز میں اعظم کو دیکھتا ہوا بولا مگر اعظم کی بولتی صرف اس وجہ سے بند ہو چکی تھی کہ اس کے بیٹے کو ضرور اس کے ماضی میں تابندہ سے تعلق کے بارے میں علم تھا جبھی وہ اعظم پر گہرے طنز کر رہا تھا اعظم بالکل خاموش تھا مگر اب کی بار تابندہ خاموش نہیں رہ سکی
"کیوں انکار کردیں کہیں اور زمل کے رشتے سے، ایک ماں ہونے کی حیثیت سے مجھے زیادہ اچھی طرح معلوم ہے کہ میری بیٹی کے لئے آگے زندگی میں کون سا شخص مناسب رہے گا اور سراج صاحب کے بیٹے عادل میں ایسی کوئی برائی نہیں ہے جو اس کے رشتے کو ریجیکٹ کیا جائے، وہ پڑھا لکھا گوار نہیں ہے اس میں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز اور تہذیب موجود ہے وہ زمل کیلئے ہر لحاظ سے بہتر ہے کم ازکم تم سے تو بہتر ہی ہے"
تابندہ جو اب تک خاموش تھی درید پر گہرا طنز کرتی ہوئی بولی جسے سن کر درید غصے میں اپنے جبڑے بھینچتا ہوا تابندہ کے پاس آیا
"اگر سامنے والا عزت کے قابل ہو تو اس کو عزت دی جاتی ہے میرا تو یہ ماننا ہے خیر اس بات کو جانے دیں کیونکہ یہاں بات زمل کی ہو رہی ہے۔۔۔ تو یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں بٹھا لیں اگر آپ نے زمل کا رشتہ کہیں اور طے کرنے کی کوشش کی، شادی تو بہت دور کی بات ہے صرف رشتہ کرنے پر ہی میں اس لڑکے کو جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔ یہ میری بدقسمتی ہے کہ زمل آپ کی بیٹی ہے جسے میں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں اس لیے آپ کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ آپ اس بات کو انا کا مسئلہ بنائے بغیر سکون سے ایکسپیٹ کرلیں ورنہ خود ہی آگے جا کر آپ کے لئے مشکل ہو جائے گی اور ہاں آج کے بعد زمل اکیڈمی نہیں جائے گی، وہ اکیڈمی سے واپس آئے تو یہ بات اس کو اچھی طرح سمجھا دیجئے گا اب دوبارہ سے اس کو میں خود پڑھا دیا کروں گا"
درید تابندہ کو اچھی طرح سے ہر بات کے لیے وارن کرتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا تابندہ جو مکمل ضبط کے ساتھ اس کی بات سن رہی تھی صوفے پر خاموش بیٹھے ہوئے اعظم کو دیکھنے لگی
"آپ کا بیٹا کیا کچھ کہہ کر جا چکا ہے اور آپ اتنے آرام سے اس کی باتیں سن رہے ہیں اعظم،، وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہم نے زمل کا رشتہ کہیں اور طے کیا تو وہ اس لڑکے کو جان سے مار ڈالے گا۔۔۔ اعظم یہ درید مجھے بول کر گیا ہے سنا آپ نے،، میں آپ کو بتا رہی ہو اعظم میں اپنی بیٹی کی شادی اپنی مرضی سے کرونگی،، آپ خاموش کیوں ہیں کچھ بولتے کیوں نہیں"
تابندہ خود بھی اتنی جلدی زمل کے رشتے کے حق میں نہیں تھی مگر درید کی باتیں اس بری طرح سلگا گئی تھی اس لیے تیز آواز میں اعظم کے سر پر کھڑی ہو کر اس سے بولی تو اعظم نے سر اٹھا کر تابندہ کو دیکھا
"اسے ہم دونوں کے بارے میں کیسے معلوم ہوا تابی"
اعظم کے پوچھنے پر تابندہ غصے میں بغیر کچھ بولے اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئی یقیناً اعظم درید کے منہ سے شادی سے پہلے تابندہ سے قائم تعلق والی بات پر گلٹ فیل کررہا تھا
"کیا اسے ثمن کے بارے میں۔۔۔"
اعظم کے کچھ بولنے سے پہلے تابندہ سر اٹھاتی ہوئی بھنا کر بولی
"مجھے نہیں معلوم اعظم کہ درید کو ہم دونوں کے بارے میں کہاں سے خبر ہوئی یا پھر اسے ثمن کی موت کی اصل وجہ معلوم ہے کہ نہیں لیکن آپ میری یہ بات اچھی طرح سن لیں میں زمل کی شادی درید سے ہرگز نہیں کروں گی"
تابندہ اعظم کو غصے میں بولتی ہوئی صوفے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی
****
اعظم کے انتقال کو آج تیسرا دن تھا جس وقت ڈاکٹرز نے اعظم کی ڈیتھ کا بتایا تھا تابندہ کو تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا اس کا سکتہ اعظم کے ڈیتھ باڈی کو دیکھ کر ٹوٹا تھا زمل نے ہی بہت مشکلوں سے اپنے آپ کو اور ساتھ تابندہ کو بھی سنبھالا تھا ان دونوں کو نہیں معلوم تھا کہ درید کو اعظم کی موت کی خبر سے کسی نے آگاہ بھی کیا ہے کہ نہیں۔۔۔ تابندہ نہیں جانتی تھی کہ درید پاکستان واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ نہیں، بس وہ یہ جانتی کہ تھوڑی دیر پہلے زمل کی سہیلی ثمرن اس سے پرمیشن لے کر زمل کو اپنے ساتھ تھوڑی دیر کے لئے اپنی کار میں ڈرائیو پر لے کر گئی تھی تاکہ زمل کی طبعیت بہل جائے۔۔۔ باہر کسی کی آمد پر تابندہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھی اور اپنے کمرے سے باہر نکلی تو اس نے ہال کے دروازے پر درید کو کھڑا پایا
درید نے تابندہ کو دیکھ کر ہاتھ میں موجود سوٹ کیس نیچے رکھا تابندہ اسے چار سال کے بعد اپنے سامنے دیکھ رہی تھی تابندہ نے دیکھا اس کی آنکھیں بری طرح سرخ ہو رہی تھی وہ سرخ آنکھوں سے تابندہ سے چند قدم فاصلے پر کھڑا اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ تابندہ چلتی ہوئی درید کے پاس آئی اور روتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی
"آعظم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے درید، تمہارے ڈیڈ ہمہیں چھوڑ کر چلے گئے"
ان دونوں کی شروع سے ہی نہیں بنتی تھی لیکن اس وقت ان دونوں کا غم برابر تھا تبھی تابندہ اس کے گلے لگ کر روتی ہوئی بولی، بہت ضبط کے باوجود درید کی آنکھوں سے اشک رواں ہونے لگے
"وہ تمہیں یاد کرتے کرتے چلے گئے اس دنیا سے،۔۔ کیا ہوتا اگر تم ان کی زندگی میں آ کر انہیں ایک بار اپنا چہرہ دکھا دیتے وہ تمہارا انتظار کرتے کرتے چلے گئے ہمیشہ کے لئے"
تابندہ ابھی بھی درید کے گلے لگ کر روتی ہوئی اس کے دیر سے آنے کا شکوہ کر رہی تھی اور تابندہ کے الفاظ درید کو مزید تڑپا رہے تھے، اعظم اس کا باپ تھا۔۔ درید کو اپنے باپ کے مرنے کا اور آخری وقت میں اس کا چہرہ نہ دیکھنے پر بے حد افسوس تھا،، تبھی وہ تابندہ کو الگ کرتا ہوا اس سے بولا
"پیپر ورک میں کچھ ایشو آگیا تھا جس کے بنا پر فوری طور پر یہاں نہیں آ سکا، اپنی اس وقت کی بدنصیبی کو میں چاہ کر بھی زندگی بھر نہیں بھلا سکوں گا، کہ میں ڈیڈ کے آخری وقت میں ان کے پاس نہیں تھا۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے تکلیف نہیں ہو رہی ہے مجھے، جانتی ہیں آپ اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہو رہی ہے، میں کیسا محسوس کر رہا ہوں"
شاید اپنی زندگی میں وہ پہلی بار اپنے سامنے کھڑی اپنی سوتیلی ماں کو حرف بہ حرف سچائی بتا رہا تھا بلکہ اسے اپنے دل کی کیفیت بیان کر رہا تھا۔۔۔ اس سے پہلے درید اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کرتا تھا تابندہ اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پہنچنے لگی
"میں جانتی ہوں تم صحیح کہہ رہے ہوں گے، میں تمہاری کیفیت سے بے خبر نہیں ہے بیٹا۔۔۔ لازمی تمہیں تکلیف ہو رہی ہوگی اعظم ڈیڈ تھے تمہارے ان کے سوا کون سا رشتہ ہے اب دنیا میں"
تابندہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا اس وقت اسے درید پر ترس آ رہا تھا چھوٹی سی عمر میں اس نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا اور آج باپ بھی اس کے پاس موجود نہیں تھا
"زمل"
درید تابندہ کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تو تابندہ زمل کا نام اس کے منہ سے سن کر خاموشی سے درید کو دیکھنے لگی تابندہ کو سمجھ میں نہیں آیا وہ اسے بتا رہا ہے یا پھر کچھ یاد دلا رہا ہے
"کہاں ہیں وہ نظر کیوں نہیں آ رہی"
درید اب تابندہ کی طرف دیکھنے کی بجائے زمل کے کمرے کا بند دروازہ دیکھ کر تابندہ سے اس کے بارے میں پوچھنے لگا
"وہ دراصل زمل۔۔۔ زمل کی دوست اسے تھوڑی دیر کے لئے اپنے ساتھ باہر لے کر گئی ہے"
تابندہ کو یہ بات کہتے ہوئے دشواری محسوس ہوئی تھی اب جس انداز میں درید اس کو دیکھ رہا تھا وہ مزید درید کو دیکھ کر جلدی سے بولی
"میں اچھی طرح جانتی ہوں ثمرن کو بہت اچھی طبیعت کی بچی ہے سیدھی سادی سی،، فیملی کو بھی اچھی طرح جانتی ہوں پڑھے لکھے صاف ستھرے لوگ ہیں، بس زمل تھوڑا بہتر فیل نہیں کر رہی تھی تو میرے کہنے پر ہی ثمرن اسے اپنے ساتھ لے کر گئی تھی میں کال کرتی ہوں زمل کو،، تم بتاؤ فلائٹ میں کچھ لیا تھا یا پھر کچھ کھاؤ گے"
اپنی طرف سے تابندہ نے درید کو مکمل طور پر تسلی دی تھی جو نہ جانے اسے ہوئی بھی تھی کہ نہیں وہ درید کا خیال کرتے ہوئے اس سے کھانے کا پوچھنے لگی
"بھوک نہیں ہے مجھے، آپ اپنے کمرے میں جا کر ریسٹ کریں"
درید دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا تابندہ سے بولا اور باہر کی طرف جانے لگا
"مگر تم اس وقت کہاں جا رہے ہو"
تابندہ اس کو یوں اچانک باہر جاتا ہوا دیکھ کر ایک دم پوچھنے لگی
"قبرستان"
درید مڑ کر تابندہ کو بولتا ہوا اپنا ہینڈ کیری وہی چھوڑ کر گھر سے باہر نکل گیا
تابندہ کو معلوم تھا وہ اس کے روکنے سے یا پھر صبح جانے کا کہنے سے کبھی اس کی بات نہیں مانے گا ویسے ایک طرح سے تو درید کا باہر جانا ہی مناسب تھا کیونکہ تابندہ کو معلوم تھا کہ زمل اپنا موبائل گھر پر ہی بھول گئی تھی اچھا ہوتا کہ وہ درید کے گھر لوٹنے سے پہلے ہی واپس گھر آجاتی۔۔۔ تابندہ واقعی اپنے آپ کو تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی اس لئے اپنے کمرے میں جانے لگی
*****

"بہت دیر لگا دی ہے تم نے کیف مما پریشان ہو رہی ہوں گیں"
زمل کیف کی گاڑی میں بیٹھی ہوئی اس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی اسے واقعی تابندہ کی فکر ہو رہی تھی۔۔۔ اسے ثمرن اور کیف کے پروگرام کا معلوم نہیں تھا، وہ سمجھ رہی تھی ثمرن اسے سچ میں تھوڑی دیر اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتی ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ثمرن کیف کے کہنے پر اسے تابندہ سے اجازت لے کر باہر لے آئی تھی۔۔۔ اگر اُس وقت زمل کو ذرا بھی معلوم ہوجاتا تو وہ ثمرن کو ہی منع کر دیتی
"کیا ہوگیا ہے یار تم تو زیادہ ہی ٹینشن لے رہی ہو ابھی صرف رات کے دس بج رہے ہیں بارہ نہیں اور ثمرن بتا رہی تھی آنٹی تھکی ہوئی تھی اب تک سو چکی ہوگیں اس لیے اب تم پریشان مت ہو"
کیف اپنی گاڑی زمل کے گھر کی طرف بڑھاتا ہوا زمل کو دیکھ کر بولا جو اس وقت باقی دنوں کے بانسبت بالکل عام سے حلیہ میں موجود تھی۔۔۔ سادہ سی قمیز شلوار بڑے سے دوپٹے میں بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹے ہوئے مگر وہ اس وقت بھی جاذب نظر لگ رہی تھی
"اگر مما واقعی سو چکی ہوگیں تب تو مجھے اور زیادہ ڈانٹ پڑے گی باتوں میں کتنا وقت لگا دیا تم نے، مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تمہارے ساتھ، اب اس کار کو تھوڑا تیز چلاؤ"
کیونکہ زمل اپنا موبائل گھر پر ہی چھوڑ کر آ گئی تھی اس لیے جھنجھلاتی ہوئی کیف کو بولی
"دیر کہاں لگادی تمہارے سامنے ہی میری کار خراب ہو گئی تھی، اس کار نے واقعی سارا کام خراب کر دیا۔۔۔ آج دوسری بار ایسا موقع ہے جب ہم دونوں اکیلے بغیر کسی دوست کے کہیں نکلے تھے اور وہ بھی میں نے اس وجہ سے پروگرام بنایا تاکہ تمہاری طبیعت بہل جائے اور تمہیں دیکھ بھی لو"
کیف زمل گھر کے پاس گاڑی روکتا ہوا بولا تو زمل مسکرانے لگی۔۔۔ تین دن سے وہ بہت زیادہ ڈسٹرب تھی اسے کیف کا کیئر کرنا بہت اچھا لگا وہ اپنے گھر کو دیکھ کر کار کا دروازہ کھولنے لگی تب کیف نے اس کا ہاتھ پکڑا
"کل یونیورسٹی ضرور آ جانا یار، گھر میں رہو گی تو مائنڈ ڈسٹرب ہی رہے گا میں تمہارا ویٹ کروں گا کل یونیورسٹی میں"
کیف زمل کو دیکھتا ہوا بولا وہ یونیورسٹی سے زمل کو اپنے دوست کے بنگلے میں لے کر جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کا دوست اپنی فیملی کے ساتھ دوسرے شہر میں موجود تھا۔ ۔۔ ویسے بھی کیف محبت میں دوری رکھنے کا قائل نہیں تھا اسلیے آج اس نے زمل کا دل باتیں کر کے بہلایا تھا تاکہ وہ کل زمل کے ساتھ اپنا دل بہلا سکے
"میں بھی سوچ رہی ہوں کہ یونیورسٹی آ جاؤ، اسٹڈی کا بھی کافی حرج ہو چکا ہے ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں"
زمل کیف کو بولتی ہوئی اس کی گاڑی سے اتر گئی تو کیف نے اپنی گاڑی آگے بڑھا لی۔۔۔ زمل گھر کے اندر داخل ہونے لگی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس پورے منظر کو اس کے بیڈ روم کی کھڑکی سے دو شعلے اگلتی ہوئی آنکھیں نے بہت غور سے دیکھا تھا
*****
"گڈ ایم سی کیو کی تو فل تیاری ہے تمہاری اب ذرا اسے ایکزمپل کے ساتھ سولف کر کے دکھاؤ"
درید نے نوٹ پیڈ زمل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے زمل بے دلی سے تھام کر ایکویشن سولف کرنے لگی۔۔۔
درید ہفتے بھر سے زمل کا ایک ایک انداز نوٹ کر رہا تھا جب سے درید نے اس کے اکیڈمی جانے پر پابندی لگائی تھی تب زمل نے پہلے تو کافی ہنگامہ کیا تھا خوب چیخی چلائی تھی مگر درید کے آگے اس کی ہمیشہ کی طرح ایک نہیں چلی۔۔۔ تابندہ اور اعظم نے بھی بالکل خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔۔ زمل کے بھوک ہرتال کرنے پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا درید سے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا تھا ساتھ ہی اسے صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کہ وہ اب اکیڈمی جانے کی بجائے دوبارہ سے اسی سے پڑھے گی۔۔۔ زمل کو اپنا کوئی بھی قصور سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے اکیڈمی جانے پر کس وجہ سے پابندی لگائی گئی تھی۔۔۔ دو دن رونے دھونے کے بعد وہ اب دوبارہ سے درید سے پڑھ رہی تھی مگر دو دن سے نہ ہی زمل درید سے کوئی بات کر رہی تھی نہ ہی اس کے کمرے میں جا رہی تھی وہ درید سے مکمل خفا ہو چکی تھی
"گڈ یعنیٰ میں ایکسپکٹ کر سکتا ہوں کہ کیمسٹری میں تمہارے نائنٹی پلس آسکتے ہیں"
درید سولف ہوئی ایکویشن کو دیکھ کر نوٹ پیڈ بند کرتا ہوا اس سے بولا
"ضروری نہیں ہے دید ہر انسان آپ کی توقعات پر پورا اترے، اگلا بندہ بھی انسان ہی ہوتا ہے"
زمل درید کو دیکھتی ہوئی کہنے لگی اور صوفے سے اٹھی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں سے کلپ نکال کر اپنے بالوں میں برش پھیرنے لگی۔۔۔ اب دوبارہ سے اس کے بال بڑے ہو چکے تھے۔۔۔ درید اس کی بُکس سمیٹ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا اور زمل کو شانوں سے تھام کر اسٹول پر بٹھاتا ہوا وہ خود زمل کے ہاتھ سے برش لے کر اس کے بال بنانے لگا
"آگے جا کر بھی تمہیں میری توقعات پر پورا اترنا ہے اور تمام اترو گی مجھے یقین ہے"
درید ڈریسنگ ٹیبل سے بینڈ اٹھا کر زمل کی اونچی پونی ٹیل بنانے لگا۔۔۔ ٹائٹس کے ساتھ شارٹ کُرتے میں اونچی بندھی پونی ٹیل وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔۔ درید کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر وہ اٹھ کر اپنے کمرے سے نکلنے لگی تو درید نے زمل کی کلائی پکڑی جس پر وہ خاموشی سے درید کو دیکھنے لگی
"اپنے دید سے ابھی تک خفا ہو"
درید اس کا نازک سے ہاتھ تھام کر تھوڑا قریب آتا ہوا زمل کا ناراض چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا
"آپ کو فرق پڑتا ہے میرے ناراض ہونے سے"
وہ درید کا چہرہ دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"کیوں نہیں پڑتا فرق،، اتنے دن سے رات میں مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آ رہی صرف یہ سوچ کر کہ ایک بہت پیاری سی لڑکی جس کی میری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے وہ مجھ سے ناراض ہے"
درید مسکرا کر زمل کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑتا ہوا بولا
"یہ ناراضگی آپ مجھے دوبارہ اکیڈمی جانے کی پرمیشن دے کر دور کر سکتے ہیں"
زمل کی بات سن کر درید کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی تو زمل نے بھی اپنا دونوں ہاتھ درید کے ہاتھوں سے نکال لیے
"زمل اچھی لڑکیاں فضول کی ضدیں نہیں پالتی، تمہیں نہیں معلوم آج کل پڑھانے والے ٹھیک سے نہیں پڑھاتے ہیں، اس اکیڈمی کا ماحول بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا اور سب باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کیا تمہیں اپنے دید سے پڑھنا اچھا نہیں لگتا۔۔ اس کے ساتھ وقت گزارنا اچھا نہیں لگتا"
درید زمل کا چہرہ تھامے اسے بہلاتا ہوا نرمی سے پوچھنے لگا
"ہم دونوں ایک ہی گھر کے فرد ہیں دید، ایک ساتھ اپنا بہت سارا وقت ساتھ گزارتے ہیں مگر دوسری لڑکیاں بھی تو اکیڈمی جاتی ہیں تو ان کی طرح مجھے بھی اکیڈمی میں پڑھنا ہے ماحول سے کیا ہوتا ہے پلیز دید مان جائیے ناں آپ میری خاطر آپ کی پرمیشن پر ہی ڈیڈ اور مما مجھے اکیڈمی جانے کی پرمیشن دیں گے"
زمل درید کی دونوں کلائیوں کو پکڑ کر التجائی انداز میں بولی تو درید ایک پل کے لئے خاموش ہوگیا اور زمل کا چہرہ دیکھنے لگا
"چلو کہیں آؤٹنگ کا پروگرام بنا لیتے ہیں آج، اس کے بعد تمہاری پسند کی جگہ پر ڈنر اور پھر اس کے بعد گھر آکر کوئی فنی سی مووی"
درید اس کی بات ٹالنے کے ساتھ اسکا دماغ دوسری طرف لگاتا ہوا بولا
"مجھے معلوم تھا آپ کبھی بھی میری بات نہیں مانے گے" وہ اپنے چہرے سے درید کے دونوں ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی
اس وقت وہ بیک یارڈ میں جاکر سوئمنگ پول کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اب وہ جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی اسے اپنے اوپر لگائی ہوئی پابندیوں سے الجھن ہونا شروع ہوگئی تھی۔۔۔ وہ اپنی دوسری فرینڈز کو اور کلاس کی لڑکیوں کو دیکھتی تو دل ہی دل میں اس کی بھی خواہش ہوتی کہ وہ بھی ان کی طرح ایک دوسرے کے گھر جا کر پارٹیز انجوائے کرے یا شادی کے فنکشنز میں جائے جیسے شام میں سب گروپ کی لڑکیاں کسی ایک کے گھر جمع ہوکر اسٹڈی کرتی اس کا بھی دل کرتا وہ انہی کی طرح ان کے ساتھ کمبائن اسٹڈی کرے۔۔ اس کے گھر میں سہولت کی ہر چیز موجود تھی مگر گھر سے باہر اس پر دس قسم کی پابندیاں تھی۔۔۔ تین دن پہلے اسکول کی طرف سے تمام کلاس پکنک پر گئی تھی اس کے علاوہ۔۔
وہ سوئمنگ پول کے پاس بیٹھی ہوئی تمام باتیں سوچ رہی تھی درید نے اسے جب سے منع کیا تھا اس نے سوئمنگ بھی چھوڑ دی تھی وہ ابھی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ قدموں کی آواز سن کر وہاں پر آنے والے شخص کو دیکھنے لگی درید اس کی جیکٹ ہاتھ میں لیے اسی کے پاس ہی آ رہا تھا
"چلو اٹھو ڈیڈ کو انفارم کر چکا ہوں میں، ابھی ہم دونوں باہر جا رہے ہیں"
درید زمل کے پاس آتا ہوا اسے بولا
"میرا باہر جانے کا موڈ نہیں ہے دید، مجھے کہیں نہیں جانا"
زمل کھڑی ہوتی ہوئی اس سے بولی تو درید اس کو خود ہی جیکٹ پہناتا ہوا بولا
"پر میرا موڈ بن چکا ہے باہر جانے کا اور اس وقت ہم دونوں باہر جا رہے ہیں"
درید اس وقت زمل کو بہلا کر باہر لے جانا چاہتا تھا تاکہ اس کو منانے لے اور پیار سے سمجھا بھی دے۔۔ پر درید کے زبردستی جیکٹ پہنانے پر زمل ایک دم زور سے چیخ اٹھی
"کیا ہوں میں،، بتا دے دیں آج آپ مجھے۔۔۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ مجھے،، کوئی پپٹ ہوں میں،، جسے آپ ہر وقت اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں، یہ کرو، وہ نہ کرو، یہاں نہ جاؤ، اس سے نہ ملو، کیوں، بال نہ کٹواؤ۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔ کیوں نہیں میں ہر وہ کام کر سکتی جو ہر دوسری لڑکی کرتی ہے۔۔۔ مجھے آزادی کیو نہیں ہے دید پلیز مجھے بھی آزادی چاہیے"
وہ غصے میں آج درید کے سامنے پھٹ پڑی تھی درید خاموشی سے زمل کی باتیں سنتا رہا پھر سختی سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے
"آزادی چاہیے تمہیں مجھ سے،، آزاد ہو تم آج سے"
وہ بولتا ہوا زمل کو سوئمنگ پول میں دھکا دے کر خود وہاں سے چلا گیا
****
وہ گھر کے اندر داخل ہوئی تو سارے کمرے کی لائٹ بند تھی تابندہ کو بیڈروم میں سوتا ہوا دیکھ کر زمل کو حیرت ہوئی تابندہ گھر کا مین دوڑ کیسے کھلا چھوڑ کر اتنی جلدی سو گئی۔،۔۔ تابندہ کے کمرے سے زمل اپنے کمرے میں آئی کمرے کا دروازہ بند کر کے جیسے ہی اس نے کمرے کی لائٹ آن کی تو درید کو سامنے صوفے پر بیٹھا پایا
"دید۔۔۔۔ آپ"
درید کو دیکھ کر زمل کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی، وہ درید کی یوں اچانک آمد پر شاکڈ تھی اس لیے خاموشی سے کھڑی درید کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
"تم کو کیا لگ رہا تھا کہ میں اب کبھی واپس نہیں آؤ گا جو مجھے دیکھ کر اتنا حیران ہو رہی ہو۔۔۔ کتنے سالوں بعد اپنے دید کو دیکھ رہی ہو کیا ملو گی نہیں اپنے دید سے"
درید چلتا ہوا زمل کے پاس آیا اسکے سامنے اپنے دونوں بازو کھول کر کھڑا ہوگیا،، جس طرح وہ ملنے کا کہہ رہا تھا زمل کا دل بند ہونے لگا۔۔۔ وہ اپنی بات کر کے انتیظار کرنے کا عادی نہیں تھا اس لیے زمل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر درید کے قریب آئی زمل کے پاس آنے پر درید آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔ زمل کو درید کی قید میں گھبراہٹ ہونے لگی مگر وہ مزاحمت نہیں کر سکتی تھی اس لئے انتظار کرنے لگی کہ درید کب اسے آزاد کرے جبکہ دوسری طرف درید اسے بانہوں میں لیے دنیا جہاں سے بے خبر ہو چکا تھا۔۔۔ درید کے ہونٹ زمل کو اپنے کندھے سے ٹچ ہوتے محسوس ہوئے تو اس وقت زمل کے پورے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹنے لگی تب اسے محسوس ہوا جیسے درید اسے اپنے حصار سے آزاد کرنے کے موڈ میں نہیں ہے
"انتظار تو بالکل بھی نہیں کیا ہوگا میرے واپس آنے کا"
وہ زمل کو بانہوں میں لیے اس سے پوچھنے لگا،، درید کی سانسوں کی گرماہٹ وہ اپنے کندھے پر گردن پر محسوس کر کے بےبسی سے اپنے ہاتھوں کے دونوں مٹھیاں بند کرتی ہوئی بولی
"ڈیڈ نے بہت انتظار کیا تھا آپ کا"
زمل کی بات سن کر درید نے اس کو اپنے حصار سے آزاد کرتا ہوا بولا
"کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عمر بھر کے لیے پچھتاوا بن جاتی ہے مجھے اس بات کا زندگی بھر افسوس رہے گا کہ میں ڈیڈ کے آخری وقت میں ان کے پاس موجود نہیں تھا۔۔۔ تم بتاؤ اتنی رات کو اکیلی کہاں سے آ رہی ہو"
وہ زمل سے اس کے بارے میں سوال کرتا ہوا واپس صوفے پر جا بیٹھا۔ ۔۔ اس کے سوال کرنے پر ایک بار پھر زمل کا دل بند ہونے لگا
"ویسے ہی واک پر نکلی ہوئی تھی"
زمل نے بہت آہستہ سے جواب دیا اتنا آئستہ کر کے اسے خود بھی اپنی آواز سنائی نہیں دی
"یہاں آؤ"
درید اس کا گھبرایا ہوا چہرا دیکھ کر اپنے پاس بلانے لگا۔۔۔ زمل ایک بار پھر سست قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی
"بیٹھو"
درید اپنی تھائی کی طرف اشارہ کرتا ہوا زمل سے بولا جسے دیکھ کر زمل مزید گھبرا گئی کیونکہ وہ اسے اپنی گود میں بیٹھنے کو کہہ رہا تھا وہ اب اٹھ سال کی بچی کہاں تھی۔۔۔ زمل بےبسی سے پھر درید کو دیکھنے لگی، درید نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر زمل کی کلائی پکڑتا ہوا کھینچ کر اسے اپنی گود میں بٹھا لیا
"اب بولو اتنی رات کو کہاں سے آ رہی ہو"
درید کا لہجہ حد درجہ سنجیدہ تھا وہ اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حائل کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"میں تھوڑا ڈپریشن محسوس کر رہی تھی تو میری فرینڈ مجھے تھوڑی دیر کے لئے باہر لی گئی تھی"
زمل نظریں نیچے کئے درید کو بتانے لگی
"فرینڈ لڑکی تھی یا لڑکا"
وہ نرمی سے اس کے گال پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوا انگلیوں کے پوروں سے اس کے ہونٹوں کو چھو کر اگلا سوال پوچھنے لگا، تو درید کی بات سن کر زمل کی سانس رکنے لگی اگر وہ سچ بتا دیتی تو اس وقت نہ جانے درید تو اس کے ساتھ کیا کر بیٹھتا
"لل۔۔۔ لڑکی ثمرن۔۔۔۔ میں ثمرن کے ساتھ گئی تھی دید"
زمل کی بات سن کر وہ اپنے ہاتھ کی انگلیاں زمل کے ہونٹوں سے اس کی گردن تک لایا
"سوچ سمجھ کر جواب دو مجھے، کہیں اہسا نہ ہو کہ غلط جواب پر تمہارے لیے بیٹھے بیٹھے کوئی مسلئہ بن جائے"
درید اس کی گردن کو اپنی انگلیوں سے چھوتا ہوا حد درجہ سنجیدگی سے بولا
"ثمرن بھی ساتھ تھی، کیف نے پہلے اسے گھر ڈراپ کیا بعد میں مجھے،، میں سچ بول رہی ہوں"
خوف کے مارے بولتے ہوئے زمل کی آنکھ میں آنسو آگئے جن کی پرواہ کیے بغیر درید اس کا گلا دباتا ہوا صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا
"دید ثمرن بھی ساتھ تھی میں واقعی سچ بول رہی ہو"
درید کے ہاتھ کی سختی اپنی گردن پر محسوس کر کے زمل اپنی صفائی میں بولی اور یہ سچ میں تھا لیکن درید اس کی بات سن کر اسے گردن سے پکڑے بیڈ تک لے آیا
"میں چند سالوں کے لئے گھر سے دور کیا رہا تم اپنی من مانیوں پر اتر آئی، بھول گئی جانے سے پہلے کیا وعدہ لیا تھا میں نے تم سے"
درید اسے بیڈ پر دھکا دیتا ہوا غصے سے پوچھنے لگا
"میں کچھ بھی نہیں بھولی دید آپ کا رویہ، آپ کی مجھ پر حکومت کرنا مجھے اپنی ملکیت سمجھنا سب یاد ہے مجھ کو"
زمل بیڈ سے اٹھ کر بیٹھتی ہوئی اپنے سامنے کھڑے درید سے بولی تو درید نے سختی سے اس کا منہ دبوچا
"میں تمہیں اپنی ملکیت سمجھتا نہیں ہو تم میری ملکیت ہو، شاید گزرے ہوئے ان چند سالوں میں تم یہ بات اپنے ذہن سے نکال چکی ہوں،، ایک بات میری کان کھول کر سن لو زمل، جو چیز میری ملکیت کا حصہ بن جاتی ہے اس پر میں کسی دوسرے کی نظر یا پھر حق بالکل برداشت نہیں کر سکتا"
درید نے بولتے ہوئے زمل کا منہ جھٹکے سے چھوڑا اور اس کے کمرے سے نکل کر چلا گیا
**†**
وائٹ کلر کی قمیز شلوار میں کندھوں پر دوپٹہ ٹکائے وہ اپنا نازک اور حسین سراپے لئے آئینے کے سامنے کھڑی تھی،، آج اسے اسکول کی طرف سے منعقد کردہ میلاد کی تقریب میں شرکت کرنا تھی جس کے لیے اسے اعظم اور تابندہ نے پرمیشن دی تھی، کیوکہ مہینے بھر سے درید نے اس پر سے روک ٹوک یا ہر قسم کی پابندی ختم کر دی تھی، ناراضگی کے باوجود درید اس سے بول چال ختم نہیں کر سکتا تھا اس سے بات چیت ختم کر کے آخر وہ گھر میں کیسے رہ سکتا تھا
زمل کو اپنے بال بنوانے کے لئے درید کے کمرے میں آنا پڑا وہ ہمیشہ کی طرح دروازہ ناک کیے بغیر درید کے کمرے میں داخل ہوئی
"کیا کام کر رہے ہیں تھے دید،، یار ذرا میرے بال تو باندھ دیں جو بھی اس ڈریس پر سوٹ کریں"
درید کو لیپ ٹاپ میں مصروف دیکھ کر زمل اس کے پاس آتی ہوئی بولی، درید نے اس پر سرسری نظر ڈالی تو اپنی نگاہیں زمل کے چہرے سے ہٹانا بھول گیا وہ وائٹ کلر کے قمیض شلوار میں بےحد پیاری لگ رہی تھی مگر کچھ اس کے چہرے پر نیا پن بھی تھا اس لیے درید غور سے زمل کو دیکھے گیا
"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں اچھی نہیں لگ رہی ہوں میں آپ کو"
زمل درید کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس سے پوچھنے لگی، درید لیپ ٹاپ سائیڈ میں رکھ کر اس کے پاس آیا
"صرف اچھی نہیں بہت اچھی لگ رہی ہو اتنی زیادہ کہ دل کر رہا ہے دیکھتا ہی جاؤ"
درید زمل کے چہرے پر نظر ٹکائے پوری ایمانداری سے سچ بولا تو زمل مسکرا دی
"آج اسکول کی طرف سے میلاد کا فنکشن ہے، میں اس میں جانا چاہتی ہوں جبھی اپنے بال بنوانے کے لئے آپ کے پاس آئی تھی، اگر مما کے پاس جاتی تو وہ بال بنانے کے ساتھ ساتھ طعنے دینے بھی بیٹھ جاتیں"
زمل آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر درید کو بتا رہی تھی درید اس کی بات پر مسکرانے لگا اور زمل کی پشت پر آکر کھڑا ہوا
"دید میرے میلاد اٹینڈ کرنے پر آپ خوش ہیں ناں"
زمل جھجھکتی ہوئی آئینے میں سے درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"تم خوش ہو"
درید زمل کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا پوچھنے کے ساتھ ہی اس کی آئی برو پر اپنی انگلی پھیرتا ہوا غور کرنے لگا جس کا شیپ چینج تھا،، یہی نیا پن تھا جو اسے زمل کے چہرے میں محسوس ہوا
"اف دید کتنی نظر رکھتے ہیں آپ میری ساری چیزوں پر، فرسٹ ٹائم اپنی آئی برو کو شیپ دیا ہے اور آپ کی نظروں سے یہ بھی نہیں چھپ سکا"
زمل حیرت زدہ ہو کر آنکھیں دکھاتی ہوئی درید سے بولی اور دوبارہ آئینے کی طرف مڑ گئی
"پہلے والا شیپ بھی برا نہیں تھا"
درید اس کی پشت پر کھڑا ہیر برش اٹھاتا ہوا بولا تو زمل دوبارہ اس کی طرف مڑی
"یعنی آپ کو پسند نہیں آیا میرا آئی برو بنوانا، آپ کو اچھا نہیں لگا نہ سچ بتائیں"
زمل درید کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم اپنے دید کو اچھی لگو"
درید زمل کے ہونٹوں کو غور سے دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"آف کورس جیسے میں ڈیڈ اور مما کو اچھی لگتی ہوں ویسے ہی میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو بھی اچھی لگوں"
وہ درید کی نظروں کو تھوڑی کنفیوز ہو کر دیکھتی ہوئی بولی جو کہ اس کے ہونٹوں پر ٹکی ہوئی تھی، زمل کے بولنے پر درید نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ٹشو باکس میں سے ٹشو نکالا اور اس کی ہونٹوں پر لگا ہوا پنک گلوس آئستہ سے صاف کرنے لگا۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا جیسے زمل کا یہ روپ اس کو دیوانہ کر رہا ہے کوئی دوسرا اس کی طرف مائل ہوتا۔۔۔ یہ اس لڑکی کے لیے درید اعظم کی دیوانگی تھی یا پھر جنوں،، وہ نہیں جانتا تھا وہ کبھی کبھی اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ہی حساس ہو جاتا تھا جیسے اس وقت درید کی شدت سے خواہش ہوئی تھی کہ زمل کو اس روپ میں اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا نہ دیکھے
"آئی برو کا شیپ پہلے بھی برا نہیں تھا، اب بھی اچھا لگ رہا ہے مگر یہ گلوس۔ ۔۔۔"
وہ ٹشو کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا
"ان مصنوعی سہاروں کی ضرورت انہیں ہوتی ہے جنہیں لگتا ہے ان میں کوئی کمی ہے،، میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ نہ تم میں کوئی کمی ہے نہ تمہیں ان مصنوعی سہاروں کی ضرورت پیش آنی چاہے تم ہر لحاظ سے پرفیکٹ اور مکمل ہو اور ہاں درید اعظم کو تم کبھی بھی بری نہیں لگ سکتی ہو ایسی سوچ بھی اپنے دل میں مت لانا کبھی۔۔۔ یہ میرا دل جب تک دھڑکتا رہے گا تمہیں ہر حال میں چاہتا رہے گا چاہے میں جہاں بھی موجود ہو"
درید نے بولنے ہوئے اس ٹشو کو ڈسٹ بن میں پھینکنے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر، زمل کا رخ دوبارہ ڈرسنگ ٹیبل کی طرف کیا اور اس کے بالوں میں برش پھیرتا ہوا،، اس کے بالوں میں تین سے چار بل دے کر بینڈ لگا دیا زمل دوبارہ پلٹ کر درید کو دیکھنے لگی
"آپ کو لندن جانا ضروری ہے دید اپنی گرینی کے پاس، آپ روز ویڈیو کال پر بات تو کرتے ہیں ناں ان سے"
زمل کو جب سے معلوم ہوا کہ درید اپنی گرینی کے پاس جا رہا ہے تب سے درید سے دوری کا سوچ کر وقفے وقفے سے اس کا دل اداس ہو جاتا تھا
"تمہیں تو میرے جانے پر خوش ہونا چاہیے، روک ٹوک کرنے والا اور پابندی لگانے والا انسان تمہاری زندگی سے جا رہا ہے"
درید مزاقاً زمل کا چہرہ دیکھ کر ہنستا ہوا بولا مگر درید کی بات سن کر زمل کی آنکھوں میں نمی اتر آئی وہ ایک دم درید کے سینے پر اپنا سر ٹکا کر رونے لگی جس سے درید کے ہونٹوں پر ہنسی خود بخود غائب ہو گئی
"آپ کو تو بس یہی لگتا ہے آپ ہی مجھ سے پیار کرتے ہیں، میں کیسے رہو گی دید آپ کے بغیر "
وہ درید کے سینے سے سر ٹکاتی ہوئی بولی، وہ بچپن سے ہی درید کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھتی آئی تھی اس لیے درید کا یوں اچانک اتنی دور جانا اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا
"ارے یار یہ بچوں کی طرح کیو رو رہی ہو ہمیشہ کے لئے تھوڑی جا رہا ہوں میں، خود کہاں زیادہ دنوں تک تمہارے بغیر رہ سکتا ہوں میں،، مگر گرینی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے ناں۔۔۔ انہوں نے پہلی بار مجھے اپنے پاس آنے کے لیے کہا ہے اور میں ان سے وعدہ کر چکا ہوں، بہت جلد واپس آ جاؤں گا۔۔۔ وہاں پہنچ کر ڈیلی تم سے بات کیا کروں گا"
وہ زمل کو خود سے الگ کرتا ہوا اس کے آنسو صاف کرکے بولا تو زمل اداسی سے مسکرا کر اس کے کمرے سے چلی گئی
زمل کے جانے کے بعد درید خود بھی ہوٹل جانے کی تیاری کرنے لگا جہاں اس کے دوست ڈنر پر اس کا ویٹ کر رہے تھے۔۔۔ دو دن بعد اس کو لندن چلے جانا تھا۔۔۔ آج اس کے دوستوں کی طرف سے اس کے لیے ڈنر تھا، ڈریسنگ ٹیبل سے پرفیوم اٹھاتے ہوئے اس کی نظر ٹشو پر پڑی جس پر زمل کے ہونٹوں کے نشان تھے وہ اس ٹشو کو دراز میں رکھتا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکل گیا
*****
وہ صبح کا الارم لگا کر جلدی اٹھ چکی تھی اس سے پہلے تابندہ یا درید میں سے کوئی بےدار ہوتا وہ گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکل جانا چاہتی تھی۔۔ کیپری کے اوپر شورٹ اسٹائل ٹاپ پہنے وہ جلدی جلدی اپنے بالوں کو فولڈ کرکے سن گلاسس اپنی شرٹ کے گلے میں اٹکاتی ہوئی بیک کو کندھے پر ڈالے اپنے کمرے سے باہر نکلی مگر ڈائننگ ہال میں قدم رکھتے ہی اس کی ساری پھرتی رفوچکر ہو چکی تھی۔۔۔ سست انداز میں چلتی ہوئی وہ ڈائینگ ٹیبل کے پاس آئی جہاں درید کرسی پر بیٹھا ہوا منتظر نگاہوں سے اسی کو دیکھ رہا تھا
"آپ اتنی جلدی کیوں جاگ گئے" وہ اپنی جھنجھلاہٹ ظاہر کیے بنا آہستہ آواز میں درید سے بولی۔۔ ٹیبل کے پاس آنے پر درید نے اسے اشارے سے کرسی پر بیٹھنے کا کہا
"دیر تک سونے کی عادت مجھے شروع سے ہی نہیں ہے اور لندن میں رہ کر بھی میں نے اپنی عادتیں نہیں بدلی، تم بتاؤ ایسے گھر سے چوروں کی طرح بھاگ کر کہاں جارہی تھی"
درید اوپر سے نیچے تک زمل کے سراپے کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اس سے پوچھنے لگا
"مجھے کیا ضرورت ہے کہیں چوروں کی طرح جانے کی، پہلی کلاس میری جلدی ہوتی ہے اس لیے یونیورسٹی کے لیے نکل رہی تھی"
زمل اس کی بات پر برا مانتی ہوئی درید سے بولی
"کس کی پرمشن سے"
اب کی بار درید اس کو سنجیدگی سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا، اسی بات کا تو زمل کو ڈر تھا اور وہی ہوا۔۔ اب زمل کو یقین ہوگیا کہ وہ اسے یونیورسٹی نہیں جانے دے گا
"آپ جاگ گئے درید صاحب، ناشتے میں آپ کے لئے کیا بناؤ اور زمل بی بی آپ بھی بتا دیں ناشتہ کریں گیں یا صرف دودھ پی کر جائے گیں یونیورسٹی"
نگہت ہال میں آتی ہوئی درید کے ساتھ ساتھ زمل سے بھی پوچھنے لگی۔۔۔ زمل نم آنکھوں کے ساتھ ملازمہ کی بجائے درید کو دیکھ رہی تھی، درید زمل کے چہرے سے نظریں ہٹا کر ملازمہ کو دیکھتا ہوا بولا
"ابھی فی الحال میں کافی لوں گا اور وہ میرے لئے تمہاری زمل بی بی بنا دیں گیں، تم ایسا کرو اپنی زمل بی بی کا یہ سامان ان کے کمرے میں رکھ آؤ"
درید نگہت کو زمل کا بیگ فائل اور شرٹ کے گلے میں اٹکے ہوئے گلاسس نکال کر ملازمہ کو تھماتا ہوا بولا۔۔۔ زمل بغیر کچھ بولے ضبط کیے درید کو دیکھنے لگی
"نگہت اب کچن کے اندر کوئی بھی نہیں آنا چاہیے"
درید ملازمہ کو کہتا ہوا کرسی سے اٹھا اور زمل کو دیکھتا ہوا بولا
"تمہیں کیا اٹھنے کے لیے کہنا پڑے گا کچن میں آجاؤ فوراً"
وہ زمل کو بولتا ہوا وہ خود بھی کچن میں جانے لگا۔۔۔ زمل ضبط کرتی ہوئی کچن میں درید کے پیچھے آئی جہاں درید کیبنٹ سے مگ اور کافی کے دوسرے کے لوازمات نکال کر شلف پر رکھتا ہوا زمل کو دیکھنے لگا
زمل فرج سے فریش کریم نکال کر شیلف کے پاس آئی جہاں کافی کا مگ موجود تھا۔۔۔ زمل درید کے لئے کافی بنانے لگی جبکہ درید اس کی پشت پر کچن کی دیوار سے ٹیک لگائے دوبارہ اس کا جائزہ لینے میں مگن ہوگیا۔۔۔ وہ زمل کے بالوں میں باندھا ہوا جوڑھا دیکھنے لگا اسے معلوم تھا اب اس کے بالوں کی لمبائی پہلے جیسی نہیں ہے وہ مختلف تصویروں میں یہ بات نوٹ کر چکا تھا،، وہ زمل کے زیب تن کیے ٹاپ کو دیکھنے لگا جو صرف اس کی کمر کو ہی کور کر پا رہا تھا۔۔۔ اس کے بعد درید اس کے لائٹ پنک کلر کے کیپری جینز کو دیکھنے لگا جس میں سے اس کی سفید چمکتی ہوئی پنڈلیاں جھانک رہی تھی۔۔۔ ان چار سالوں میں درید نے اسے کھلی چھوٹ دی تھی مگر وہ زمل سے غافل ہرگز نہیں ہوا تھا،، زمل کی ایک ایک حرکت پر درید کی نظر تھی
ان چار سالوں میں جہاں درید کی شخصیت میں کافی بدلاؤ آیا تھا پہلے کی بانسبت اس کا جسم تغوڑا بہت بھر چکا تھا،، اپنی شیو کو اس نے لوز چھوڑا ہوا تھا وہی زمل بھی ان چار سالوں میں پہلے کی بانسبت کافی خوبصورت ہو چکی تھی اس کے چہرے کی معصومیت ابھی تک برقرار تھی،،۔۔ لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو زمل کا اپنے آپ سے لاپروا انداز۔۔۔ درید چلتا ہوا زمل کے قریب آیا تو اپنی پشت پر درید کی موجودگی کے احساس سے، کافی کا پیسٹ بناتے ہوئے گھبراہٹ کے مارے زمل کے ہاتھوں کی رفتار سست ہونے لگی۔۔۔ جب زمک کی کمر درید کے سینے کو چھونے لگی تو زمل شیلف سے چپک کر کھڑی ہو گئی، مگر درید کے اور زیادہ نزدیک ہونے پر زمل کا فرار ہونے کا راستہ مکمل بند ہوچکا تھا۔۔۔ وہ اس کے وجود سے چپکا کھڑا تھا، کافی کا پیسٹ بناتے ہوئے زمل کے ہاتھوں کی حرکت وہی ساکت ہوگئی
"کافی بناتے ہوئے اگر تمہارے ہاتھوں کی حرکت تھمی تو تم میرے ہاتھوں کی حرکت سے پریشان ہو جاؤ گی، اپنا کام جاری رکھو"
درید زمل کے کان کی طرف جھگتا ہوا سنجیدگی سے بولا تو زمل کے ہاتھوں میں ایک دم تیزی آگئی وہ جلدی جلدی کافی کا پیسٹ بنانے لگی
وہ اپنے کندھے پر درید کی سانسوں کو گرمائش کو بخوبی محسوس کر سکتی تھی جو اسے کندھے سے لے کر اس کی گردن تک کو جھلسا رہی تھی
"خوبصورت تم شروع سے تھی، لیکن اب اور زیادہ ہو گئی ہو، خاص طور پر تمہارا یہ فگر، بہت پرکشش ہو گیا ہے"
درید اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے زمل کی کمر کی لمبائی کو ناپتے ہوئے اس کے پیٹ کے گرد اپنا بازو حائل کر چکا تھا۔۔۔ زمل کو لگا درید کا اس طرح اس کو چھونا،، زمل کی جان نکال دے گا مگر وہ ضبط کیے ہوئی کافی کے پیسٹ میں چمچہ چلا رہی تھی
"اتنے سالوں بعد بہت برا محسوس کر رہی ہوگی تم یوں میری دسترس میں آکر، بالکل اس دن کی طرح جب لندن جانے سے ایک رات پہلے میں تمہارے کمرے میں آیا تھا۔۔۔
درید کے لفظ زمل بہت کچھ یاد دلا گئے جبکہ درید کا بازو جو اس کے پیٹ پر لپٹا ہوا تھا سرکتا ہوا اوپر آنے لگا
"دید پلیز آپ کیو کر رہے ہیں ایسے، میں آپکی ہر بات مان تو رہی ہو"
زمل اس کا ہاتھ پکڑنے کی جرت نہیں کر سکی تھی جو آئستہ سے فاصلہ عبور کر کے اس کی گردن پر آ ٹھہرا تھا
"بہت برا لگ رہا ہے میری بات مان کر، یونیورسٹی جانے کو دل کر رہا ہے تمہارا"
درید اس کی گردن پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوا اپنے ہونٹوں کو زمل کی گردن کے پاس لاتا ہوا پوچھنے لگا
"نہیں مجھے یونیورسٹی نہیں جانا"
ٰزمل جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلاتی ہوئی بولی درید کا ہاتھ اسکی گردن سے سرکتا ہوا زمل کے کندھے اور پھر بازو پر آکر رکا جبکہ درید اپنے دوسرا ہاتھ سے پہلے ہی زمل کا دوسرا بازو پکڑے ہوئے تھا
"جانا بھی نہیں چاہیے تمہیں یونیورسٹی کیوکہ آج کا سارا دن، تمہارا دید بس تمہیں دیکھ کر گزارنا چاہتا ہے"
وہ اپنے ہاتھوں سے زمل کے دونوں بازوؤں پر دباؤ ڈالتا ہوا سرگوشی کے انداز میں بولا۔۔۔ درید کے ہونٹ زمل کی گردن کو چھو رہے تھے اور زمل کا سانس لینا مشکل ہوا جا رہا تھا وہ درید کے اس روپ سے بہت خوف زدہ تھی یہ بات درید اچھی طرح جانتا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کے ساتھ ایسا کیو کر رہا تھا۔۔۔ زمل کو اپنی غلطی سمجھ میں نہیں آرہی تھی
"کل تم نے بتایا نہیں کہ ان گزرے ہوئے سالوں میں تم نے اپنے دید کو یاد کیا کہ نہیں"
درید اس کی گردن سے اپنا سر اٹھاتا ہوا زمل کا منہ جبڑے سے پکڑ کر، رخ اپنے چہرے کی طرف کرتا ہوا زمل سے پوچھنے لگا
"یاد کیا"
زمل دل پر پتھر رکھ کر آہستہ آواز میں بولی تبھی درید نے اس کا زور سے دبوچا ہوا منہ چھوڑ کر، شیلف پر رکھا ہوا کافی کا مگ ہٹایا۔ ۔۔ اپنے دوسرے ہاتھ سے زمل کے جوڑھے کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر اس کا چہرہ شیلف پر ٹکا دیا
"دید کیا ہوگیا ہے آپ کو، آپ کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ایسے"
زمل پوری کی پوری شیلف کے اوپر اندھی جھکی ہوئی تھی اس کا دایاں گال اور دونوں ہتھیلیاں شیلف پر جمی ہوئی تھی، وہ درید کی جارحانہ انداز پر خوف کے مارے چیختی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"اب میری کسی بھی بات کے جواب میں تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولوں گی، اور نہ ہی تم میری پرمیشن کے بغیر گھر سے باہر نکلو گی سنا تم نے"
درید خود بھی زمل کی کمر پر جھکتا ہوا اسے تنبھہی کرتا ہوا بولا۔۔۔ زمل اس کے انداز پر بری طرح خوفزدہ ہوچکی تھی
"کل جس لڑکے کے ساتھ تم واپس گھر لوٹی تھی اس لڑکے کے ساتھ پہلے کبھی اکیلے میں ملی ہو۔۔۔ زمل یاد رکھنا مجھے صرف سچ سننا ہے بالکل سچ"
درید کو شاید غصہ بھی اسی بات پر تھا جبھی وہ زمل کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کر رہا تھا اور درید کی بات سن کر زمل کی روح فنا ہونے لگی لیکن حقیقت بنا کر وہ آج ہی اپنی جان کا خاتمہ نہیں چاہتی تھی
"وہ یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا ہے دید، دوسرے دوستوں کے جیسا ہے میں اس سے اکیلے نہیں ملی پلیز مجھے چھوڑ دیں"
خوف کے مارے زمل روتی ہوئی اپنی جھوٹی صفائی دینے لگے جس پر درید کو اس پر اور بھی زیادہ غصہ آیا۔۔ وہ نیچر کے حوالے سے کافی بدل چکی تھی، اس سے اپنی ہر بات چھپانے لگی تھی درید اس کے اوپر سے اٹھا، اس کا ارادہ زمل کو اپنے کمرے میں لے جانے کا تھا تبھی اسے اپنی پشت سے آواز آئی
"درید یہ کیا کر رہے ہو تم"
تابندہ کی آواز پر نہ صرف درید نے پلٹ کر دروازے پر کھڑی ہوئی تابندہ کو دیکھا بلکہ خوف کے مارے روتی ہوئی زمل بھی اٹھ کر بھاگتی ہوئے تابندہ کے گلے لگ گئی
"کچھ جاننا چاہ رہا تھا میں اس سے، میرے خیال میں آپ کو ہم دونوں کے بیچ میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی اس وقت"
درید زمل کو تابندہ کے گلے لگ کر روتا ہوا دیکھنے کے بعد بغیر شرمندہ ہوئے تابندہ سے بولا
"شٹ اپ، یہ کون سا طریقہ ہے کچھ پوچھنے کا، زمل کمرے میں جاؤ اپنے"
تابندہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر کل والے درید پر رحم دلی بھلائے اس کو بولی اور ساتھ ہی زمل کو منظر سے ہٹنے کے لیے کہا تاکہ وہ صحیح سے درید کا دماغ درست کر سکے
"وہ کافی بنائے بغیر نہیں جائے گی کافی بناؤ میرے لیے زمل"
درید تابندہ کا لحاظ کیے بناء زمل کو آرڈر دینے والے انداز میں بولا
"زمل درید کے لئے کافی بنا کر میرے کمرے میں لے آنا، تم چلو میرے کمرے میں بات کرنی ہے مجھے تم سے کچھ"
تابندہ زمل کے ساتھ ہی درید سے بھی مخاطب ہو کر بولی اور اپنے کمرے میں چلی گئی
*****
"چند سال پہلے مجھے محسوس ہوتا تھا تم مجھ سے لاکھ بدتمیزی کر لو مگر زمل کے لیے تم کافی ٹچی ہو مگر آج تمہارا اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک دیکھ کر مجھے احساس ہو رہا ہے جیسے تم نے میری بیٹی کو ہرٹ کرنے کے لیے یا پھر مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اسے اپنایا تھا"
درید کے کمرے میں آتے ہی تابندہ درید کو دیکھتی ہوئی اس سے بولی
"بوکس فلاسفی ہے آپ کی، آپ سے بدلہ لینے کے لیے میں آپ کی بیٹی کو اپنی عزت ہرگز نہیں بناتا۔۔۔ ہرٹ میں نے نہیں کیا اسے، جتنا اس نے کیا ہے مجھے۔۔۔ شاید وہ ہمارا رشتہ تک بھول چکی ہے"
درید ہمیشہ کی طرح چڑتا ہوا تابندہ سے بولا
"اچھا تو پھر تم ایسی حرکتوں سے زمل کو اپنا اور اس کا رشتہ یاد کرواؤ گے"
تابندہ اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر درید سے پوچھنے لگی تو وہ ایک پل کے لیے خانوش ہوگیا
"یاد کروانے کا کیا فائدہ وہ تو اپنے اور میرے رشتے کو شاید دل سے ایکسپٹ ہی نہیں کرتی"
درید اپنا سر جھٹک کر تابندہ کے سامنے شکوہ کرتا ہوا بولا تو تابندہ درید کو غور سے دیکھنے لگی
"جس طرح تم اپنا اور زمل کا رشتہ اس سے ایکسیپٹ کروانا چاہ رہے ہو، اس طرح سے تو تم اس کے دل میں اپنے لیے صرف اور صرف ڈر پیدا کرو گے، وہ کبھی بھی اپنے اور تمہارے رشتے کو ایکسپٹ نہیں کرسکے گی بلکہ زور زبردستی سے آج کل کے دور میں کوئی بھی لڑکی ایسے اپنا رشتہ ایکسپٹ نہیں کرتی"
تابندہ بول رہی تھی تب دروازہ ناک کیا گیا۔۔ درید نے دروازہ کھولا تو زمل ہاتھ میں کافی کا مگ لیے کھڑی تھی
"اپنے کمرے میں جاکر مت بیٹھ جانا۔۔۔ میرے کمرے میں جا کر ہینڈ کیری سے میرا سامان نکالو اور وارڈروب میں سیٹ کرو"
درید اس سے اپنی کافی لیتا ہوا بولا تو وہ شکوہ بھری نگاہوں سے درید کو دیکھ کر وہاں سے چلی گئی درید کمرے کا دروازہ بند کرکے تابندہ کی طرف متوجہ ہوا
"میرے یہاں سے جانے کے بعد اگر تھوڑی بہت سختی آپ اپنی بیٹی پر کر لیتی تابندہ اعظم، یا پھر سختی نہ سہی صرف نظر ہی رکھ لیتی تو آج مجھے اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا پڑتا"
درید تابندہ کے جواب میں طنزیہ لہجہ اختیار کرتا ہوا بولا تو تابندہ حیرت سے اس کو دیکھنے لگی
"مطلب کیا ہے تمہارا،، تمہاری اس بات کا"
تابندہ ناگوار لہجے میں درید سے پوچھنے لگی تب درید نے ہاتھ میں موجود کافی کا مگ ٹیبل پر رکھ کر اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور تابندہ کی طرف بڑھایا اسکرین پر موجود زمل جو اپنے یونیورسٹی کے لڑکے کے ساتھ ریسٹورینٹ میں بیٹھی ہوئی تھی تابندہ الجھی ہوئی نظروں سے درید کو دیکھنے لگی
"ان چار سالوں میں، میں دور ضرور رہا ہوں مگر بے خبر نہیں رہا ہو آپ کی بیٹی سے،، اس لڑکے کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا میں زمل سے کیا وجہ ہے جو اس لڑکے نے زمل کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ہوا ہے اور آخر زمل اس کے ساتھ اکیلی کیو ریسٹورنٹ بیٹھی ہے"
درید تابندہ سے اپنا موبائل واپس لے کر پاکٹ میں رکھتا ہوا بولا تو ایک پل کے لیے وہ خاموش ہوگئی
"ٹھیک ہے میں بات کرتی ہو زمل سے اس بارے میں" تابندہ کے بولنے پر کافی تھامتا ہوا درید تابندہ کو دیکھتا ہوا بولا
"کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو زمل سے کوئی بھی بات کرنے کی،، مطلب کوئی بھی بات۔۔ آپ سمجھ رہی ہے نا میری بات۔۔ میں خود ہینڈل کر لوں گا اس معاملے کو"
وہ کافی کا سپ لیتا ہوا بولا تو تابندہ خاموش کھڑی ہوئی زمل کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔ زمل نے یہ سب کب شروع کیا، اسے معلوم کیسے نہیں ہوا تابندہ سوچنے لگی
"کیا میں یہاں بیٹھ کر تھوڑی دیر آپ سے ڈیڈ کی باتیں کر سکتا ہوں"
درید کی آواز پر تابندہ چونک کر اس کو دیکھنے لگی
"بیٹھو"
اس کو صوفے پر بیٹھنے کا بول کر تابندہ خود ہی بیٹھ گئی
****
"کہاں رستے میں گم ہوگئے تھے میرے بھائی"
درید ہوٹل کے ایڈریس پر پہنچا جہاں آج اس کے دوستوں نے اس کے لیے ڈنر ارینج کیا تھا تب احمر اسے پوچھنے لگا۔۔۔ وہ دونوں ہی اپنی اپنی گاڑی میں آگے پیچھے ہوٹل پہنچ رہے تھے
"پٹرول بھروانے کے لئے رک گیا تھا باقی سب پہنچ گئے ہیں کیا"
درید احمر کے ساتھ چلتا ہوا پوچھنے لگا ہوٹل کے فرسٹ فلور پر اُن لوگوں کا ٹیبل بُک تھا
"ہاں ابھی رضا کی کال آئی تھی وہ بتا رہا تھا سب آچکے ہیں صرف ہم دونوں کا ویٹ ہو رہا ہے"
احمر سیڑھیاں چڑھتا ہوا درید کو بتا رہا تھا تب نیچے فلور پر ایک ٹیبل پر کچھ لڑکے لڑکیوں کے قہقہے سیٹیاں اور شور کی آواز آئی جس پر درید سیڑھیاں چڑھتا ہوا اس ٹیبل کی طرف متوجہ ہوا
"پہلے اسی فلور پر یہی ٹیبل میں نے بُک کروانے کا سوچا تھا مگر یہ ٹیبل پہلے سے ہی ریزرو تھی"
احمر سیڑھاں چڑھتا ہوا درید کو بتانے لگا۔۔۔ تب درید نے بے خیالی میں اثبات میں سر ہلایا کیوںکہ اس کی توجہ بلیک ٹاپ میں اس لڑکی پر تھی جس کی پشت درید کی طرف تھی، درید اس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر کھلے بالوں سے اسے زمل کا گمان ہوا تھا مگر درید سے اپنا وہم سمجھ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔ جہاں اس کے سب دوست اس کا انتظار کر رہے تھے
*****
"کہو زمل انجوائے کر رہی ہو نا، یہاں ہمارے ساتھ آ کر"
زمل کے برابر والی چیئر پر بیٹھی ہوئی نور اس سے پوچھنے لگی
"یار سچ بتاؤ تو عجیب سا لگ رہا ہے بلکہ افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے مما کو سچ نہیں بتایا، مطلب انھوں نے میلاد میں جانے کی پرمیشن بھی تو دی مجھے، کم از کم ان سے جھوٹ بول کر کے تو مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا اور ادینہ بھی نہیں آئی۔۔۔ وہی آ جاتی میرے ساتھ"
زمل اپنے اٹھائے ہوئے قدم پر افسوس کرتی ہوئی بولی، نور کے کہنے پر ہی اس نے تابندہ کو اسکول میں میلاد کا کہا تھا اور اس وقت وہ اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ ہوٹل میں موجود تھی جہاں نور اور وائیبہ کے ساتھ ان دونوں کے بوائے فرینڈز بھی آئے ہوئے تھے
"اور تمہاری مما تمہیں یہاں بلاجواز ڈنر کا سن کر آنے کی اجازت دے دیتیں۔۔۔ جیسے پہلے تم ہر بار ہر جگہ آتی رہی ہو۔۔۔ اور ادینہ کا ذکر کرکے موڈ خراب مت کرو عجیب سی ممی ڈیڈی ٹائپ بندی ہے یار وہ تو، کوئی کتابی کیڑا گُھسا ہوا لگتا ہے مجھے اس کے اندر۔۔۔ جب دیکھو پڑھائی پڑھائی اور بس پڑھائی فیشن کا تو اسے کچھ معلوم ہی نہیں ہے بلاوجہ میں بی اماں ٹائپ شریف بی بی بنی رہتی ہے میری مانو تو تم بھی اس سے دوستی کم ہی کر دو۔۔۔ اچھا اب اتنی عجیب شکل مت بناؤ، نہ ہی اتنا گلٹی فیل کرو وائبہ کو دیکھو وہ بھی اپنے پیرنٹس سے میلاد کا ہی بول کر یہاں آئی ہے اور دیکھو ناں ذرا سمیع کے ساتھ کیسی خوش ہے۔۔۔ میرا کزن ہمایوں آتا ہی ہوگا پھر وہ تمہیں اچھی سی کمپنی دے گا تم ذرا سا بھی خود کو اداس محسوس نہیں کروں گی۔۔۔ اس کے بعد ڈنر کر کے تھوڑا بہت ہلہ گلہ کرکے تم ڈریسنگ روم میں جا کر اپنے کپڑے چینج کر لینا اور پھر چلی جانا اپنے گھر۔۔۔ یہی تو اصل زندگی کے مزے ہوتے ہیں جو ہم سب بعد میں یاد کرکے خوش ہوتے ہیں"
نور زمل کا اچھی طرح برین واش کرتی ہوئی اس سے بولی اور آنکھ مار کر جوس سے بھرا گلاس پینے لگی
زمل کی شروع سے ہی ادینہ اور مرینہ سے دوستی تھی جو کہ بے حد پڑھاکو ٹائپ اور سنجیدہ قسم کی لڑکیاں تھی۔۔۔ اسی کی کلاس میں نور اور وائبہ بھی تھی جن سے چند دنوں پہلے زمل کی کافی گہری دوستی ہو چکی تھی، نور اور وائبہ یہاں ہوٹل میں اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ آئی ہوئی تھی تو نور نے زمل کو بھی اپنے ساتھ آنے کے لئے کہا۔۔۔ کیونکہ زمل اب ان کی دوست تھی انکے ساتھ وقت گزارتی تھی نور کے خیال میں زمل کو اب ان ہی کے طریقے سے چلنا چاہیے تھا نور کے کہنے پر وہ تابندہ سے اسکول میں میلاد کے فنکشن کا جھوٹ بول کر آئی تھی نور کے کہنے پر ہی وہ اپنا ایک ڈریس بیگ میں رکھ کر لائی تھی جو اس نے ہوٹل کے واش روم میں چینج کیا تھا
****
ڈنر سے فارغ ہونے کے بعد ابھی درید اپنے دوستوں کے ساتھ وہی ٹیبل پر موجود باتیں کر رہا تھا تب بے ساختہ اس کی نظر سیڑھیوں سے اوپر آتی زمل پر پڑی جسے دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہو گیا یعنی نیچے فلور پر وہ لڑکی جسے درید اپنا وہم سمجھا تھا وہ واقعی زمل تھی۔۔۔ اس وقت وہ اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ دو لڑکیاں اور تین لڑکے بھی موجود تھے۔۔ یہ لڑکیاں آدینہ اور مرینہ ہرگز نہیں تھی وہ ان دونوں زمل کی دوستوں کو چہروں سے جانتا تھا بلکے ان دونوں کی فیملی کو بھی جانتا تھا
"کہاں کھو گئے کیا دیکھ رہے ہو کوئی پسند آگئی ہے کیا"
احمر درید کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس کی نظریں تھرڈ فلور پر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتے لڑکے اور لڑکیوں پر تھیں
"بکواس نہیں کرو۔۔۔ یہاں اوپر والے فلور پر تو رومز موجود ہیں ناں"
درید احمر سے کنفرم کرنے لگا کیونکہ احمر کا کزن اسی ہوٹل میں مینیجر تھا
"ہاں مگر تمہیں کیا ضرورت پڑ گئی روم کی، کیا چکر ہے"
احمر شک بھری نگاہوں سے درید کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو درید تنقیدی نگاہ اس پر ڈال کر کرسی سے اٹھا
"آتا ہوں تھوڑی دیر میں"
*****
"ہم لوگ اس روم میں کیو آئے ہیں نور، میں اب کافی لیٹ ہو چکی ہو میرے خیال میں اب مجھے واپس گھر جانے کے لیے ڈرائیور کو کال کرکے بلا لینا چاہیے"
زمل کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وائبہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک الگ روم میں جا چکی تھی۔۔۔ نور خود اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ باتوں میں لگ کر اسے فراموش کر چکی تھی۔۔۔ اور اس کا کزن ہمایوں جو کہ تھوڑی دیر پہلے ہوٹل میں آیا تھا اور ان لوگوں کو جوائن کیا تھا وہ زمل کو عجیب طریقے سے دیکھ کم اور گھور زیادہ رہا تھا۔۔۔ اس سے عجیب عجیب سی باتیں پوچھ رہا تھا
"یار ابھی سے گھر جانے کیا ضرورت ہے پھر تمہارے پیرنٹس تمہیں کہاں اتنی جلدی آنے جانے کی پرمیشن دیں گے،، دیکھو یہ جو میرا بوائے فرینڈ ہے ناں اگر میں اس کو صحیح سے ٹائم نہیں دے پائی تو یہ مجھ سے بہت بری طرح ناراض ہو جائے گا،، اس لئے میں اسی روم کے ساتھ اٹیچ دوسرے روم میں تھوڑی دیر رومی کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں،، میں نے آج ہمایوں کو یہاں پر صرف تمہارے لئے بلایا ہے،، پلیز تم ہمایوں کو تھوڑی دیر ٹائم دو، اسے تمہاری جیسی خوبصورت اور بھولی بھالی لڑکیاں ہی پسند ہے وہ بہت جلد تم سے محبت کر بیٹھے گا"
نور زمل کو سمجھاتی ہوئی زمل کی کوئی بات سنے بغیر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ اسی کمرے کے ساتھ اٹیچ ایک دوسرے روم میں چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا۔۔۔۔ ہمایوں مسکراتا ہوا کنفیوز کھڑی ہوئی زمل کو دیکھنے لگا
"تم خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سیدھی بھی ہو ڈئیر اور مجھے تمہاری جیسی لڑکی بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔۔۔ اچھا تو تم مجھے ذرا یہ بتاؤ تمہیں معلوم ہے میری کزن نور اس وقت اِس روم میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کیا کر رہی ہو گی"
ہمایوں زمل کے نزدیک آتا ہوا سے پوچھنے لگا وہ زمل یا اس کی کلاس فیلوز کا ہم عمر نہیں تھا بلکہ دو تین سال بڑا ہی ہوگا مگر ہمایوں سے جھجھک کی وجہ اس کی عمر نہیں وہ باتیں تھی جو وہ زمل سے کر رہا تھا
"مجھے نہیں معلوم اندر کمرے میں نور کیا کر رہی ہے اور نہ ہی مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے۔۔۔ معلوم نہیں اگر نور کو اپنے فرینڈ کو ہی کمپنی دینا تھی تو پھر وہ مجھے یہاں پر کیو لےکر آئی تھی"
زمل ہمایوں کو دیکھ کر بیزار لہجے میں بولی
"میرے لئے ڈئیر وہ تمہیں یہاں پر میرے لئے لائی ہے تاکہ مجھے اچھی کمپنی مل سکے یقین کرو تم میری کمپنی کو بہت انجوائے کرو گی۔۔۔ اچھا تو مجھے تم یہ بتاؤ بالغ تو تم کنفرم ہوگئی ہوگی اب تک۔۔۔ تمہیں پہلے کبھی کسی لڑکے نے کِس وغیرہ کیا ہے"
ہمایوں کے بےباکی سے پوچھے گئے سوال پر پہلے تو زمل حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھنے لگی پھر اسے ہمایوں کی بات سن کر غصہ آنے لگا
"یہ کیا بیہودہ سوال ہے، راستہ چھوڑو میرا باہر جانا ہے مجھے۔۔ نور آئے تو اس کو بتا دینا کہ میں اپنے گھر کے لیے نکل گئی ہو"
زمل ہمایوں کو سخت لہجے میں بولتی ہوئی سائیڈ سے نکلنے لگی کہ اچانک ہمایوں نے اس کی کلائی پکڑی
"یہ کیا ڈئیر تم تو ناراض ہو گئی میرے سوال سے۔۔۔ میں نے یہ سوال اس لئے پوچھا ہے کہ کِس کرنے کے عمل میں بہت مزہ آتا ہے،، ہوسکتا ہے شروع میں تم تھوڑا عجیب محسوس کرو لیکن بعد میں تم انجوائے کرو گی میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں"
ہمایوں زمل کو بہلاتا ہوا اس کے دونوں بازو پکڑ کر اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو زمل نے پوری قوت سے اسے پیچھے دھکا دینا چاہا
"لیو می،، میں کہتی ہوں پیچھے ہٹو" ہمایوں کو پیچھے ہٹانے کے ساتھ وہ زور سے چیخی
"پاگل تو نہیں ہو گئی ہو تم بیوقوف لڑکی۔۔۔ چیخ کیوں رہی ہو یہاں، صرف کِس کر رہا ہوں میں تمہیں۔۔۔ اس کے بعد باقی سب تمہاری مرضی پر ہی ہوگا اگر تم ایگری کرو گی تو اوکے"
ہمایوں نے بولنے کے ساتھ زمل کو اچانک پیچھے صوفے پر دھکا دیا۔۔۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور صوفے پر جا گری،، ہمایوں نے ایک بار پھر اس کے اوپر جھکنے کی کوشش کی تو زمل اس کی شرٹ کا کالر پکڑ کر احتجاجاً زور سے چیخی
"پیچھے ہٹو میں کہتی ہوں دور رہو مجھ سے"
صوفے پر لیٹی ہوئی زمل ایک بار پھر ہمایوں کو پیچھے ہٹا کر چیختی ہوئی بولی اس سے پہلے ہمایوں اس پر مکمل قابض ہوتا اچانک کمرے کا دروازہ کھلا جس کی وجہ سے ہمایوں کو پیچھے ہٹنا پڑا تو زمل بھی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی مگر کمرے کے اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کی روح فنا ہونے لگی
"واٹ دا ہیل، اس ہوٹل میں کوئی پرائیوسی نام کی چیز ہے یا نہیں تم اندر کیسے آئے ہو یو فول"
ہمایوں درید پر غصہ کرتا ہوا بولا مگر درید نے بنا لحاظ کیے یا کچھ بولے بغیر ہمایوں کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھ کو روکے بناء ہمایوں کے منہ پر مُکے ہی مُکے برساتا گیا
"تم مجھے مار کیو رہے ہو اتنی بری طرح،، کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا"
تھوڑی ہی دیر بعد درید نے ہمایوں کو مار مار کر اس کی حالت جانوروں جیسی کردی تھی جبکہ زمل خوف سے کھڑی ہوئی درید کو بےپناہ غصے میں دیکھ کر بری طرح کانپ رہی تھی، مار پیٹ اور شور کی آواز پر نور اور اس کا بوائے فرینڈ بھی اپنے شرٹ کے بٹن بند کرتا ہوا اس کنرے میں آگیا تھا جبکہ درید کا دوست احمر اور اس کا کزن ہوٹل کا مینیجر ایک ساتھ ہی اس کمرے میں پہنچے تھے
"کیسے چھوا تم نے اس کو، جواب دو ہمت کیسے ہوئی تمہاری اس کو ہاتھ لگانے کی"
درید ہمایوں کو طیش کے عالم میں بری طرح پیٹنے کے بعد اس کا سر شدید غصے کے عالم میں صوفے کی لکڑی پر مارتا ہوا چیخ رہا تھا۔۔۔ اس کا غصہ اتنا شدید تھا کہ وہ ہوٹل کے مینیجر اور احمر کے قابو میں نہیں آ رہا تھا جس کی وجہ سے ہمایوں کا اچھا خاصہ کچومر نکل چکا تھا
"چھوڑ دو اس کو یہ زمل کا بوائے فرینڈ ہے، جو بھی کچھ زمل کے ساتھ کر رہا تھا وہ زمل کی مرضی پر ہی کر رہا تھا تم ہمایوں کو اس طرح نہیں مار سکتے"
نور کے چیخ کر بولنے پر درید نے ہمایوں کا گریبان چھوڑا تو وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔ درید غصے میں نور کی طرف بڑھا اس سے پہلے درید کا ہاتھ نور کے منہ پر طماچے کی صورت پڑتا احمر اور ہوٹل کے مینیجر نے ایک بار پھر درید کو قابو میں کیا
زمل نور کے منہ سے اپنے لیے یہ الفاظ سن کر سکتے کی کیفیت میں نور کو دیکھنے لگی جبکہ نور اور اس کا بوائے فرینڈ ہمایوں کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے
"درید میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شی از رائٹ بٹ تھوڑی دیر پہلے جب اس روم کی بکنگ کروائی گئی تھی تو یہاں پر کسی کو فورسلی نہیں لایا گیا تھا یار۔۔۔ اس طرح سے شور شرابہ کرنے سے تمہاری الگ بدنامی ہوگی اور ہوٹل کی الگ ریپوٹیشن خراب ہو گئی پلیز میری جاب کا سوچو میں نے صرف تمہارے ریکویسٹ کرنے پر تمہیں اس طرح یہاں روم میں آنے دیا ہے"
احمر کا کزن ہوٹل کا مینیجر درید کو نرمی سے سمجھاتا ہوا بولا مگر نور کی بات سن کر تو درید کا سر چکرا گیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ سب کچھ تہس نہس کر ڈالے
"اس کے سر سے بہت زیادہ بلیڈنگ ہو رہی ہے اسے ہوش نہیں آرہا ہے اسکو ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے"
ہمایوں کی حالت دیکھ کر نور پریشان ہوتی ہوئی بولی تو احمر اور مینیجر بھی ہمایوں کی طرف متوجہ ہوگئے وہ سب ہمایوں کو ہاسپٹل لے جانے کا بندوبست کرنے لگے
اس وقت ہوٹل کے روم میں درید اپنا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ زمل وہی خاموش کھڑی ہوئی تھی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ درید کو مخاطب کرے، بہت ساری ہمت جمع کر کے وہ چلتی ہوئی درید کے پاس آئی
"دید"
زمل کے ہاتھوں کا لمس اپنے کندھے پر محسوس کر کے درید سرخ آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر زمل کو دیکھنے لگا۔۔۔ درید کی آنکھو میں نمی دیکھ کر زمل کو ڈھیروں شرمندگی نے آ گھیرا زمل کو لگا درید کی آنکھوں میں نمی کی وجہ نور کی باتیں تھی
"نور نے جو بھی کہا اس میں بالکل سچائی نہیں تھی"
زمل کی بات مکمل بھی نہیں ہو پائی تھی درید نے صوفے سے اٹھ کر زوردار تھپڑ زمل کے منہ پر دے مارا، درید کے ہاتھ کا زناٹے دار تپھڑ زمل برداشت نہیں کر پائی اور نیچے ماربل پر جاگری۔۔۔ ایک پل کے لیے اسے پورا کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہوا
"اپنی ماں سے، مجھ سے، جھوٹ بول کر یہاں پر آئی تھی تم، اپنے ہی گھر والوں کو دھوکا دیتے ہوئے شرم نہیں آئی تمہیں"
درید غصے میں چلتا ہوا زمل کے پاس آ رہا تھا زمل فرش پر سے اُٹھ بھی نہیں پائی تھی کہ درید نے اس کے گال پر دوسرا تھپڑ مارا
"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی دید، میں نے غلط بیانی سے کام لیا مگر مجھے بالکل بھی معلوم نہیں نور یہاں پر اپنے کسی کزن کو بلانے والی ہے اور نور کا مجھے یہاں لانے کا کیا مقصد تھا۔۔۔ میں نور کے کزن کو بالکل بھی نہیں جانتی آپ میرا یقین کریں میں سچ بول رہی ہوں اور اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو بے شک میری جان لے لیں"
زمل فرش پر بیٹھی ہوئی رو کر بولی
"ٹھیک کہا تم نے تمہاری لیے یہی سزا ہونی چاہیے کہ آج میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لے لو"
درید گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا زمل کا گلا پکڑتا ہوا بولا۔۔۔ اپنے گلے پر درید کے ہاتھوں کے دباؤ سے زمل کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی اس کا دم گھٹنے لگا، وہ تکلیف کے مارے درید کے دونوں ہاتھ اپنی گردن سے ہٹا رہی تھی اور پاؤں زور سے فرش پر رگڑ رہی تھی
"درید۔۔۔ درید کیا کر رہا ہے یار کیا ہوگیا ہے۔۔۔ چھوڑ اسے"
احمر جوکہ درید کے پاس واپس آیا تھا کمرے میں موجود صورت حال دیکھ کر بھاگتا ہوا درید کے پاس آیا ہوا اور اسے پیچھے ہٹانے لگا۔۔۔ درید کے ہاتھ جیسے ہی زمل کی گردن سے ہٹے تو وہ اپنی گردن پکڑ کر اٹھ بیٹھی اور زور زور سے کھانسنے لگی
"تم نہیں سمجھو گے احمر اس کا مرجانا ہی بہتر ہے، اس نے اپنے اوپر سے میرا اعتماد آج ختم کر دیا مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا اس کی بے ہودہ حرکت نے۔۔۔ اس کی شکل دیکھو کتنی معصوم لگتی ہے میں اسے دنیا کی بری نظر سے بچا کر رکھنا چاہتا تھا اور آج اس نے۔۔۔ یہ مجھ سے اپنی ماں سے جھوٹ بول کر یہاں پر آئی ہے۔۔۔ اس کو مرجانے دو آج میرے ہاتھوں۔۔۔ اس کا مرجانا ہی بہتر ہے"
درید اس وقت بالکل اپنے آپے میں نہیں لگ رہا تھا وہ غصے میں ایک بار پھر بولتا ہوا زمل کی طرف بڑھا زمل ڈر کے مارے چیخ کر روتی ہوئی پیچھے سرکنے لگی اور پیچھے دیوار سے جا لگی ایک بار پھر احمر نے درید کو پکڑا
"درید ہوش میں آؤ، پاگل تو نہیں ہو گئے ہو تم۔۔۔ یہاں آؤ میرے ساتھ اس کمرے میں"
احمر کو اس بات کا علم تھا کہ زمل اس کی اسٹپ مدر کی بیٹی تھی مگر آج وہ درید کی حالت دیکھ کر یہ بھی جان کیا کہ اس کا یہ دوست اس لڑکی کے لئے کیا فیلینگز رکھتا ہے
احمر سمجھ گیا تھا کہ اس وقت درید ذہنی طور پر کافی زیادہ ڈسٹرب ہے۔،۔۔۔ زمل اس کے سامنے رہے گی تو وہ ایسے ہی ری ایکٹ کرے گا اس لئے احمر درید کو دوسرے پورشن میں لے گیا جبکہ زمل دیوار سے جڑی ہوئی نیچے فرش پر بیٹھی رونے لگی۔۔۔ وی جانتی تھی اس سے غلطی ہوئی تھی اس نے جھوٹ بولا تھا لیکن وہ درید کا ری ایکشن دیکھ کر کافی زیادہ خوفزدہ ہو چکی تھی اس کے دونوں گالوں پر درید کی انگلیوں کے نشان موجود تھے بلکہ اس کی گردن پر بھی درید کی انگلیوں کے نشانات موجود تھے
****
"گھر چلو"
آدھے گھنٹے بعد درید کی آواز سنائی دی تو زمل اپنے گھٹنوں سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔ وہ چہرے پر سخت غصے والے تاثر لیے زمل سے مخاطب تھا، زمل کو اس وقت بھی درید سے خوف آ رہا تھا
"تمہاری کار میں ڈرائیو کر لیتا ہوں میرا مطلب ہے تم دونوں کو گھر میں چھوڑ دیتا ہوں"
احمر بھی اسی کمرے میں آکر بیچ میں مداخلت کرتا ہوا درید سے بولا
"میں اب ٹھیک ہوں احمر، ابھی ڈیڈ کی کال آئی تھی وہ اس کے لیے پریشان ہیں کافی ٹائم گزر چکا ہے اس کو گھر سے نکلے ہوئے۔۔۔ میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ میں زمل کو لے کر گھر آ رہا ہوں"
درید احمر کو بولتا ہوا زمل کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکل گیا
کار میں پورے راستے ان دونوں کے درمیان خاموشی رہی تھی جیسے ہی کار پورچ میں آکر رکی تو درید کار سے اتر کر زمل کی طرف کا دروازہ کھولتا ہوا اس کی کلائی پکڑ کر زمل کو کار سے باہر نکلنے لگا
"دید پلیز ڈیڈ اور مما کو کچھ بھی مت بتائیے گا، ورنہ میں ان دونوں سے نظریں نہیں ملا پاؤں گی۔۔۔ میں آپ کی ہر بات مانو گی، آپ جو کہے گیں وہ کرو گی، گھر سے باہر بالکل بھی قدم نہیں نکالو گی،، نہ ہی کوئی دوست بناؤ گی پلیز دید۔ ۔۔۔ آپ مجھے ڈیڈ کے بیڈ روم میں کیوں لے کر جا رہے ہیں۔۔۔ میں بول تو رہی ہوں آپ کی ہر بات مانو گی اب"
وہ زمل کی کلائی پکڑ کر تقریباً اس کو کھینچتا ہوا اعظم اور تابندہ کے بیڈروم میں لے کر جارہا تھا کیونکہ گھر پر ابھی تک سرونٹس موجود تھے زمل مسلسل روتی ہوئی درید سے منتوں پر اتر آئی تھی جن کا درید پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا
"منہ بند کر کے خاموشی سے چلو زمل ورنہ میں تمہارا یہی حشر بگاڑ دوں گا"
زمل درید سے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرنے لگی تو وہ زمل کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا اور اعظم کے بیڈروم میں لاکر زمل کو زور سے دھکا دیا۔۔۔ زمل کے گرنے پر ٹیبل کا کارنر اس کے سر پر لگا اعظم حیرت زدہ ہو کر بیڈ سے اٹھا جبکہ تابندہ دوڑ کر زمل کے پاس آئی
"یہ کیا بیہودہ حرکت ہے درید کچھ احساس ہے تمہیں کتنی زور سے ٹیبل کا کونا اس کے سر پر لگا ہے"
اس سے پہلے تابندہ درید پر بگڑتی اعظم بیڈ سے اٹھ کر درید سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا
"اس سے پوچھیں یہ کیا بیہودہ حرکت کر کہ آئی ہے، جو قدم آج اس نے اٹھایا ہے آپ کو اگر معلوم ہو گیا تو آپ کا دل کرے گا کہ آپ اسے جان سے مار ڈالیں"
درید غصے میں آعظم کو دیکھتا ہوا بولا تو زمل سمجھ گئی کہ اب ایک اور قیامت کا منظر اس کا منتظر ہے۔۔۔ جو ماں اس وقت اس کے چوٹ لگنے پر اس کو پیار کر رہی ہے تھوڑی دیر بعد وہی اس پر قہر برسائے گی۔۔۔ وہ ابھی بھی درید کو التجائی نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر درید غصے میں اعظم اور تابندہ کو سب کچھ بتاتا چلا گیا جس پر زمل کا سر شرم سے جھک گیا
"زمل یہاں میری طرف دیکھو اور مجھے بتاؤ کہ درید کی باتوں میں کتنی سچائی ہے"
درید کی بات سن کر اعظم بالکل خاموش ہو چکا تھا جبکہ تابندہ بے یقینی سے زمل کو دیکھ رہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ زمل اس سے غلط بیانی کر سکتی ہے اس لیے وہ زمل سے پوچھنے لگی
"مما سس۔ ۔۔ سوری نور نے مجھ سے کہا تھا کہ اپنی مما سے میلاد کا بولو گی تو باہر جانے کی پرمیشن آسانی سے مل جائے گی"
زمل کی بات سن کر تابندہ نے اس کے گال پر تھپڑ مارنا شروع کر دیے
"تابی کیا ہو گیا ہے تمہیں، جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھا رہی ہو پاگل تو نہیں ہو گئی ہو تم"
اعظم ایک دم تابندہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے ہٹاتا ہوا بولا جبکہ درید وہی کھڑا ہوا اب بھی سخت نظروں سے زمل کے سرخ چہرے کو دیکھ رہا تھا، اب زمل خود بھی درید کو غصے کے ساتھ ساتھ نفرت سے گھور رہی تھی
"اعظم آپ وہی پر موجود تھے ناں،، اس نے کیسے مجھ سے ریکویسٹ کرکے میلاد میں جانے کی پرمیشن لی تھی اور میں نے یہ سوچ کر اس کو پرمیشن دی تھی کہ درید اس کو کہیں آنے جانے نہیں دیتا۔۔۔ اس نے مجھ سے غلط بیانی کی، جھوٹ بولا اعظم کیا ہوتا اگر درید وہاں پر نہیں پہنچتا۔ ۔۔ اس نے تو مجھے زلیل رسوا کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی"
تابندہ بولتی ہوئی زارو قطار رونے لگی زمل کے اس قدم پر اسے کافی تکلیف پہنچی تھی۔۔۔ اعظم تابندہ کو بیڈ پر بٹھاتا ہوا زمل کے پاس آیا تب ایک دم درید بولا
"ڈیڈ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنا ہے"
درید کے بولنے پر اعظم مڑ کر اسے دیکھتا ہوا بولا
"اپنے کمرے میں جاؤ میں آ رہا ہوں تھوڑی دیر میں"
وہ درید سے بولتا ہوا زمل کو اٹھانے لگا جو کہ ابھی تک سر جھکائے ٹیبل کے پاس نیچے ہی بیٹھی تھی
"اپنے کمرے میں نہیں یہی سب کے سامنے بات کرنا ہے مجھے"
درید کے بولنے پر اعظم آنکھوں سے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگا
"چلو بیٹا اپنے روم میں جاؤ آپ"
آعظم زمل کو بولتا ہوا اس کے کمرے میں اسے خود چھوڑنے چلا گیا تو درید وہی کھڑا اعظم کا انتظار کرنے تھا جبکہ تابندہ ابھی بھی درید کی طرف دیکھے بغیر رو رہی تھی
"اب بولو"
اعظم واپس آتا ہوا درید سے بولا وہ نہیں چاہتا تھا کہ زمل کے سامنے مزید کوئی اس ٹاپک پر دوبارہ بات کی جائے
"میں لندن جانے سے پہلے زمل سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"
درید کی بات سن کر اعظم حیرت سے اسے دیکھنے لگا بلکہ اب تابندہ بھی اسی کو دیکھ رہی تھی
"ایسا کیسے ممکن ہے زمل صرف پندرہ سال کی ہے اور تمہاری پرسوں فلائٹ ہے اتنی جلدی کیسے نکاح ہو سکتا ہے"
اعظم کے اعتراض اٹھانے پر درید سے پہلے تابندہ بول اٹھی
"کل سادگی سے گھر میں ہی نکاح کی تقریب رکھ لیتے ہیں، آپ نے جن خاص لوگوں کو بلانا ہو انہیں آج ہی موبائل پر انوٹیشن دے دیئے گا"
تابندہ اپنے آنسو پوچھتی ہوئی اعظم سے مخاطب ہوئی تو اعظم کے ساتھ درید بھی اس کو دیکھنے لگا
*****
زمل کی حرکت پر تابندہ نے اتنا اثر لیا کہ اس کی حالت رات میں بگڑ گئی جس کی وجہ سے اسے ہاسپٹل لے جانا پڑا۔ ۔۔ زمل اپنے آپ کو زمین میں گڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی ایک چھوٹی سی غلطی کے اتنے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹی تھی اذان کی آواز پر اسے احساس ہوا کہ دن کا آغاز ہو چکا ہے باہر گاڑی کی آواز پر وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی جہاں درید ڈرائیونگ سیٹ سے اتر رہا تھا جبکہ اعظم تابندہ کو تھامے گھر کے اندر لا رہا تھا۔۔۔۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد جب اسے یقین ہو گیا کہ درید اپنے کمرے میں چلا گیا ہوگا تب زمل اپنے کمرے سے نکل کر اعظم کے کمرے کی طرف گئی، دروازہ کھلا
"بیٹا خیریت آپ اتنی صبح کیوں جاگ گئیں"
اعظم دروازے پر کھڑی زمل کو دیکھ کر پوچھنے لگا ایک وہی شخص گھر میں اس پر بغیر غصے کے نارمل انداز میں بات کر رہا تھا
"ڈیڈ مما کی طبیعت کیسی ہے اب، میں ان کو دیکھنا چاہتی ہوں ان سے بات کرنا چاہتی ہوں"
زمل اعظم کو بتا نہیں سکی کہ وہ ایک پل کے لئے بھی سوئی نہیں تھی وہ اعظم کے سوال کے جواب میں شرمندہ ہوتی ہوئی تابندہ کی فکر کرتی اعظم سے اس کا پوچھنے لگی
"تابی کی تھوڑی دیر پہلے ہی آنکھ لگی ہے بیٹا ابھی آپ اس سے بات کرو گی تو اس کی نیند ڈسٹرب ہو گی جب وہ جاگ جائے گی تو میں آپ کو بتا دوں گا تب آپ اپنی مما سے بات کر لینا۔۔۔ ابھی آپ بھی اپنے کمرے میں جاکر آرام کریئے شاباش"
زمل کو اس وقت اپنے سامنے دیکھ کر تابندہ کی دوبارہ طبیعت خراب ہوتی اس لئے اعظم اسے نرمی سے سمجھاتا ہوا بولا تو زمل خاموش ہوگئی۔۔۔ اعظم نے کمرے کا دروازہ آدھے سے زیادہ کھولا ہوا تاکہ زمل تابندہ کو سوتا ہوا دیکھ سکے
"مجھے آپ سے بھی بات کرنا تھی ڈیڈ"
زمل نظریں چراتی ہوئی اعظم سے بولی وہ جانتی تھی اعظم تابندہ کے بارے میں صحیح کہہ رہا ہے وہ خود بھی آہستہ آواز میں بولی تاکہ تابندہ کی نیند ڈسٹرب نہ ہو
"چلیں آئت لیونگ روم میں چلتے ہیں"
اعظم کمرے کا دروازہ بند کرکے زمل سے مخاطب ہوا تو وہ اعظم کے پیچھے لیونگ روم میں چلی آئی
"ارے یہاں پر نیچے کیوں بیٹھ گئی ہو بیٹا آپ"
اعظم صوفے پر بیٹھتا ہوا زمل کے بولنے کا منتظر تھا تو زمل صوفے کی بجائے اعظم کے پاس فرش پر بیٹھی جبھی اعظم اس سے بے ساختہ بولا
"نہیں ڈیڈ مجھے یہی بیٹھا رہنے دیں میں اس لائق نہیں ہوں کہ آپ کے اور مما کے ساتھ بیٹھو یا آپ سب سے نظریں ملا سکوں"
زمل روتی ہوئی اعظم سے بولی
"نہیں بیٹا آپ بیٹی ہو ہم دونوں کی، ایسا مت سوچیں" اعظم زمل کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتا ہوا بولا زمل کو دوبارہ کو اٹھانا چاہا تو وہ دوبارہ نفی میں سر ہلا کر منع کرتی ہوئی بولی
"یہ صحیح ہے کہ میں وہاں نور اور وائبہ کے ساتھ ہوٹل میں جانا چاہتی تھی، مگر مجھے محسوس ہوا کہ آپ یا مما مجھے پرمیشن نہیں دیں گیں تب مجھے نور کا بتایا ہوا آئیڈیا برا نہیں لگا اور میں نے آپ دونوں سے جھوٹ کہا کہ اسکول کی طرف سے میلاد کی تقریب ہے مگر مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ نور نے وہاں اپنے کزن کو بھی بلایا ہوا ہے یا پھر نور اور وائبہ کے فرینڈ بھی وہاں پر پہلے سے موجود تھے میں بالکل صحیح بول رہی ہیں۔۔۔ جب وہ لوگ آپس میں اوپر روم لینے کی بات کر رہے تھے تب مجھے اندازہ نہیں ہو سکا وہ لوگ کس پرپز کے لیے روم بُک کروانا چاہتے ہیں۔۔۔ جب نور کے کزن نے اس روم میں میرے ساتھ بدتمیزی کرنا چاہیی تو میں اس روم سے جانا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے ہی دید وہاں پر پہنچ گئے اور نور نے دید سے سب کچھ جھوٹ بولا۔۔۔ ڈیڈ میں قسم کھا کر کہتی ہوں دید مجھے جیسی لڑکی سمجھ رہے ہیں میں ویسی لڑکی نہیں ہوں"
وہ اعظم کے سامنے بیٹھی روتی ہوئی اسے اپنی سچائی بیان کرنے لگی
"بیٹا سب سے پہلی بات تو یہ آپ کو جھوٹ بول کر کہیں بھی نہیں جانا چاہیے تھا، جب میں اور آپ کی مما آپ کو میلاد میں جانے کی پرمیشن دے سکتے ہیں تو فرینڈز کے ساتھ باہر ڈنر کرنے کی کیوں نہیں دیتے مگر اس سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسان کو خود دیکھ بھال کرکے اپنے دوست بنانا چاہیے کیوکہ ہمارے دوستو سے ہی ہماری شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔۔۔ ہماری عادتوں سے، ہمارے بات کرنے سے، خیالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔۔۔ یہ بات آپ خود بھی بچپن سے اپنے گھر میں دیکھتی آ رہی ہیں کہ آپ کی مما اور درید کی آپس میں بالکل بھی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے مگر پھر بھی تابی کچھ باتوں پر درید کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ خاموش رہتی ہے جیسے آپ کو کہاں آنا جانا چاہیے، کس سے ملنا چاہیے، آپ کی کس طرح کی فرینڈز ہونی چاہیے۔۔۔ ان سب باتوں کا خیال اگر درید رکھتا ہے تو تابی کبھی بھی اس کے اگینسٹ بات نہیں کرتی کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ درید یہ سب آپ کے اچھے کے لئے کرتا ہے، وہ آپ کی کیئر کرتا ہے۔۔۔ ہاں بعض وقت وہ بہت زیادہ ان سکیور ہو جاتا ہے جس پر تابی کو بھی اچھا نہیں لگتا اور میں بھی پھر اس کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہوں۔۔۔ آپ جانتی ہیں ہم سب گھر والے آپ سے بہت پیار کرتے ہیں کیونکہ آپ بہت انوسینٹ ہیں اور ساتھ ہی ام میچور بھی، آپ کو دنیا کا نہیں معلوم آپ اپنے ذہن سے یا بات نکال دیں کہ درید نے نور کی بات کا یقین کیا ہوگا اسے صرف اس بات پر غصہ ہے کہ آپ گھر میں غلط بیانی کر کے باہر گئیں۔ ۔۔ بیٹا آپ کو مجھے، تابندہ کو یا پھر درید کو اپنا یقین دلانے کے لیے کسی قسم کی قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ آپ کیسی ہیں یہ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں اور اب آپ اس طرح سے بالکل نہیں روئے گیں"
اعظم نرمی سے زمل کو سمجھا رہا تھا جبکہ لیونگ روم کے دروازے پر کھڑا درید کی خاموشی سے اعظم کی باتیں سن رہا تھا، وہ اس وقت اعظم سے بات کرنے کے لئے اس کے کمرے کی طرف گیا تھا مگر لیونگ روم کی جلتی ہوئی لائٹ دیکھ کر زمل اور اعظم کی باتیں سن کر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا
*****
تھوڑی دیر پہلے درید سے اس کا نکاح ہوا تھا اس کے لاکھ رونے، احتجاج کرنے کے باوجود زمل کو اپنے نکاح کے لیے حامی بھرنا پڑی کیونکہ درید کی مرضی کے ساتھ ساتھ اس نکاح میں تابندہ کی بھی نرضی شامل تھی۔۔۔ درید کے خوف کی وجہ سے، تابندہ کی ناراضگی اور طبیعت خرابی کی وجہ سے اور اعظم کے سمجھانے پر زمل نے نکاح نامے پر سائن کر دیئے، اس نے کبھی خواب میں یا تصور میں بھی درید کے ساتھ ایسے رشتے کا نہیں سوچا تھا جو تھوڑی دیر پہلے اس کا اور درید کا بن چکا تھا۔۔۔ چند منٹ پہلے نگہت اس کے کمرے میں کھانا لے کر آئی تھی اور ساتھ ہی درید کا پیغام بھی کہ اگر اس نے صبح کے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کی طرح اس وقت رات کے کھانے سے انکار کیا تو وہ خود یہاں آکر اس کو کھانا کھلائے گا
زمل اس کے کھانا کھلانے کے طریقے کار سے اچھی طرح واقف تھی لیکن اس کے کھانا کھانے کی وجہ ڈر نہیں تھا بلکہ وہ اس وقت درید کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس لئے دل مار کر کھانا کھانے لگی۔۔۔ نگہت سے ہی اس کو معلوم ہوا تھا کہ درید کے ہاتھوں جو لڑکا کل زخمی ہوا تھا اس کے گھر والوں نے درید خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی کیونکہ اس لڑکے کے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی۔۔۔ لیکن اچھا یہ ہوا کہ اعظم نے بیچ میں پڑ کر اپنے تعلقات کی بنا پر، کچھ سفارشیں کروا کے اس معاملے کو بڑھنے نہیں دیا بلکہ دبا دیا ورنہ درید کے ملک سے باہر جانے میں مسلئہ کھڑا ہو جاتا
کل درید کی لندن کی فلائٹ تھی، کل تک زمل کا دل درید کے دور جانے پر اداس تھا لیکن اب وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ درید یہاں سے جا رہا تھا اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے زمل لائٹ بند کیے بغیر،، آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی تب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا۔۔ زمل نے درید کو کمرے میں آتا دیکھا تو اٹھ کر بیٹھ گئی
"اب کیا کرنے آئے ہیں آپ میرے کمرے میں"
زمل درید کو دیکھ کر ناراضگی اور غصے میں بولی کیونکہ زمل کو پورا یقین تھا کہ اس سے نکاح کرنے کے بارے میں کھبی درید نے بھی نہیں سوچا ہوگا یہ نکاح درید نے غصے اور ضد میں آکر کیا تھا
"تمہیں سبق سکھانے آیا ہوں"
درید چلتا ہوا زمل کے پاس آیا اور اس کو سنجیدگی سے جواب دینے لگا
"کل سے لے کر اب تک آپ سب کچھ ہی تو کر چکے ہیں میرے ساتھ۔۔۔ سارے سبق سکھا چکے ہیں آپ مجھے، پلیز چلے جائیں اب یہاں سے"
زمل درید کے سامنے آکر اسے دیکھتی ہوئی بولی تو درید نے اس کے دونوں بازوؤں کو سختی سے پکڑا
"نہیں ابھی تک سارے سبق نہیں سکھائے ہیں تمہیں۔۔۔ سب سے زیادہ اہم سبق سکھانے کے لئے میں نے آج تم سے نکاح کیا ہے۔۔۔ یہاں سے جانے سے پہلے میں تمہیں وہ سبق سکھا کر جاؤں گا جو تم ساری زندگی یاد رکھو گی"
درید نے بولنے کے ساتھ زمل کو بیڈ پر دھکا دیا وہ خوف سے درید کو دیکھ کر بیڈ سے اٹھ بیٹھی اور پیچھے کی طرف سرکنے لگی۔۔۔ تب درید سے زمل کے دونوں پاؤں اپنی طرف کھینچ کر اس کے اوپر جھکا
"دید نہیں آپ ایسے کیسا کر سکتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔ آپ ایسے نہیں کر سکتے میرے ساتھ"
زمل روتی ہوئی درید کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی تو درید نے ایک ہاتھ سے زمل کی دونوں کلائیوں کو سختی سے پکڑا، اپنے دوسرے ہاتھ سے زمل کی گردن پر دباؤ ڈالتا ہوا بولا
"اگر تمہارے رونے کی آواز کمرے سے باہر نکلی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔ کل تو تمہیں احمر نے بچا لیا لیکن آج تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا یاد رکھنا"
درید کی دی ہوئی وارننگ سے زمل کا رونا بند ہوا وہ خوفزدہ نظروں سے درید کو دیکھنے لگی تب درید نے اس کی گردن سے اپنا ہاتھ ہٹایا
"جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے باوجود میں تمہیں ایک چھوٹی بچی سمجھتا تھا، مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تمہارے اندر ایک پوری عورت چھپی بیٹھی ہے۔۔۔ میں تمہیں نائن کلاس میں پڑھنے والی ایک معصوم سی لڑکی سمجھتا تھا مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم ایک لڑکے اور لڑکی کی بیچ قائم تعلقات کے بارے میں مکمل جانکاری رکھتی ہو۔۔۔ تم گھر سے جھوٹ بول کر باہر نکلی جہاں شکاری اپنے شکار کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔ اگر میں بروقت وہاں پر نہیں پہنچتا جانتی ہو وہ لڑکا تمہارے ساتھ کیا کرتا"
درید قہر برساتی آنکھوں سے زمل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا تو زمل خوف کے مارے نفی میں سر ہلانے لگی
"مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا دید وہ لوگ وہاں روم میں جا کر کیا کرنے والے ہیں"
زمل درید کے بگڑے ہوئے تاثرات دیکھ کر اسے صفائی دیتی ہوئی بولی
"تمہیں یہ اندازہ تو ہونے لگا ہے ناں کہ اب میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں"
درید مزید زمل پر جھکاؤ ڈالتا ہوا کڑے تیوروں سے زمل کو گھورتا ہوا اس سے پوچھنے لگا اس کی بات سن کر زمل سکتے کی حالت میں درید کو دیکھنے لگی۔۔۔ مگر جیسے ہی درید نے اس کے نائٹ ڈریس کی شرٹ کا پہلا بٹن کھولا زمل بری طرح سسک اٹھی
"بتاؤ سہہ پائے گا تمہارا یہ نازک وجود اتنی سخت سزا، کہ جس کے بعد تم خود سے بھی نظریں نہ ملا پاؤ۔۔۔ جواب دو برداشت کر پاؤ گی تم درید اعظم کا وہ روپ جس کا تم نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو"
درید کی بات سن کر زمل سسکتی ہوئی رو پڑی ساتھ نفی میں سر ہلانے لگی
"میرے یہاں سے جانے کے بعد تم کبھی کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس سے ہماری فیملی کا سر شرمندگی سے جھکے، گھر سے باہر اب تم صرف اپنی اسٹڈی کے لیے نکلو گی، اگر مجھے معلوم ہوا کے تم نے کسی لڑکی یا لڑکے سے دوستی کی یا بات چیت کی تو میں اسی وقت واپس آکر تمہارا حشر بگاڑ دوں گا، یہ جو تمہارا جسم ہے اس پر صرف میری مرضی، میرا حق چلے گا اب زندگی بھر، تمہارے اس جسم پر ہی نہیں تمہاری ان سانسوں پر بھی میرا اختیار ہوگا سمجھ میں آرہا ہے تمہیں"
درید زمل کو تنبہی کرتا ہوا بولا۔۔۔ درید بیڈ پر سے اٹھا تو زمل اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاتی ہوئی سسک اٹھی
"کل کی تمہاری اُس حرکت نے میرا اور تمہارا وہ رشتہ ختم کردیا جو اب تک ہمارے بیچ قائم تھا، اب تم اپنے دید کو الگ روپ میں دیکھو گی جو تمہاری کسی بھی غلطی کو لے کر تمہیں کوئی رعایت نہیں دے گا"
درید زمل کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے چلا گیا
****

اسے آج بھی وہ شام اچھی طرح سے یاد تھی جب درید کو لندن جانا تھا وہ ائیر پورٹ جانے سے پہلے زمل کے کمرے میں اس سے ملنے آیا تھا۔۔۔۔ تب زمل نے اپنے چہرے کا رخ اس کی طرف سے پھیر لیا تھا۔۔۔نہ تو زمل رخصت ہوتے وقت درید کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی، نہ ہی اسے اپنا چہرہ دکھانا چاہتی تھی بلکہ وہ درید کو صاف بول چکی تھی کہ اب درید واپس آنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوکہ یہ دید اس کا پہلے والا دید نہیں ہے جسے وہ چاہتی تھی،، وہ زمل کی ناراضگی اپنے ساتھ لیے اور اپنا خوف اس کے اندر ڈال کر لندن چلا گیا تھا۔۔۔ درید کا غصہ کم ہوا تو شروع میں درید نے زمل سے بات کرنی چاہی مگر زمل اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی پھر درید نے ضد باندھنے کی بجائے زمل کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔۔ البتہ اپنی گرینی کے پاس رہ کر وہ ان سے زمل کی ڈھیر ساری باتیں کرتا۔۔۔ کبھی کبھی بہت شدت سے اسے زمل کی یاد آتی تو وہ اپنے دل کو سمجھا لیتا کہ وہ اس سے دور ہے تو کیا ہوا،، ہے تو اب اسی کی۔۔۔۔ درید کی گرینی یعنیٰ ثمن کی ماں وہ درید سے زمل کی باتیں تو خوش ہو کر سن لیتیں مگر اعظم کا ذکر آتے ہی ان کا موڈ خراب ہوجاتا۔۔۔ درید نے اپنی گرینی سے اعظم کے بارے میں ہمیشہ یہی سنا کہ اعظم نے کبھی اس کی بیٹی کو خوش نہیں رکھا وہ تو دلبردشتہ ہوکر اکثر اعظم کو ثمن کا قاتل بولتی۔۔ آئستہ آئستہ درید بھی انہی باتوں کی وجہ سے دل ہی دل میں اعظم سے بدگمان ہونے لگا اور پھر اس نے بات چیت کا سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ کم کردیا
اعظم نے اس کی ماں سے بےوفائی کی تھی اتنا تو وہ بچپن سے ہی جانتا تھا۔۔ وہ اپنی ماں کی جگہ لینے والی کے لیے تو دل صاف نہیں کر سکا مگر اس کی بیٹی کو دل سے نہیں نکال سکتا تھا
*****
زمل درید کو کافی دینے کے بعد اس کے کمرے میں اس کی وارڈروب سیٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ ساتھ ہی انہی سوچوں میں گم تھی کہ درید نے جانے سے پہلے جو اس کے ساتھ کیا تھا وہ اس کے لئے درید کو معاف نہیں کر پائے گئی، نہ ہی اس کا دماغ درید کے اور اپنے نئے رشتے کو قبول کر پایا گا۔۔۔ جانے سے پہلے درید اس کے اندر اپنا جو خوف بٹھا کر گیا تھا،، وہ اسی خوف کے زیر اثر جی رہی تھی۔۔۔ وہ کیف کی جانب کبھی راغب نہیں ہوتی مگر کیف کی مستقل مزاجی یا پھر ہٹ دھرمی نے اسے کیف کی طرف متوجہ کیا تھا وہ اس کے اور درید کے رشتے کی حقیقت جاننے کے باوجود بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ ایک مہینے پہلے ہی اس نے کیف کی محبت کو قبول کیا تھا اب یوں اچانک درید کی آمد پر وہ پریشان ہوچکی تھی۔۔۔ زمل سب کچھ سوچتے ہوئے ہینڈ کیری سے درید کا ایک ایک کر کے سارا سامان نکال رہی تھی جب اس کے والٹ میں موجود ٹشو پیپر نیچے فرش پر گرا، جسے زمل اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی یہ ٹشو پیپر کافی پرانا تھا اور اس پر لپ اسٹک کا نشان بھی موجود تھا۔۔۔ ابھی وہ ٹشو پیپر پر مزید غور کرتی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور درید ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے کمرے کے اندر داخل ہوا
"کیا دیکھ رہی ہو، اس ٹشو پر، یہ کسی گوری کی لپ اسٹک کا نشان نہیں ہے، تمہارے ہی ہونٹوں کی لپ اسٹک کا نشان ہے"
درید کمرے کا دروازہ بند کرکے کافی کا خالی مگ ٹیبل پر رکھتا ہوا زمل کے پاس آکر اسے بتانے لگا تو زمل کو وہ دن یاد آیا جب درید نے اس کے ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک ٹشو پیپر کی مدد سے صاف کی تھی
"اس ٹشو کو اتنا سنبھال کر رکھنے کا مقصد پوچھ سکتی ہو"
زمل تھوڑی دیر پہلے اپنے ساتھ درید کا رویہ بھول کر اس سے کنفیوز ہوکر پوچھنے لگی
"کیوں نہیں پوچھ سکتی، ضرور پوچھ سکتی ہو مگر دور سے نہیں تھوڑا قریب آکر"
درید زمل کے ہاتھ سے ٹشو لے کر ڈسٹ بن میں پھینکتا ہوا اچانک سے زمل کو اپنی جانب کھنچ چکا تھا
"دید"
زمل نے یوں اچانک اپنے اوپر ہوئے حملے پر ایک دم بوکھلا کر درید کو پکارا مگر وہ اپنا ایک بازو زمل کے کمر کے گرد لپیٹ کر دوسرے ہاتھ کی انگلی زمل کے ہونٹوں پر رکھتا ہوا اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا
"شش اب بالکل خاموش رہنا، ایک لفظ منہ سے نہیں نکالنا"
اس سے پہلے وہ احتجا جاً کچھ بولتی درید کے وارننگ دینے پر نہ صرف زمل خوفزدہ ہو چکی تھی بلکہ درید کی نظریں اپنے ہونٹوں پر ٹکی ہوئی دیکھ کر وہ نفی میں سر ہلانے لگی درید آئستہ سے زمل کے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ لایا جس پر زمل کو زور سے اپنی آنکھیں بند کرنا پڑی، وہ بچپن سے اس کو دیکھتی آئی تھی اس کے دید نے اس کے ساتھ آج تک کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی،، وہ آنے والے وقت کا سوچ کر آئستہ آئستہ کانپنے لگی
تابندہ کی باتوں کو اثر تھا یا پھر وہ زمل کو اپنے بیڈ روم میں دیکھ کر اس کی قربت سے مدھوش ہوا جارہا تھا۔۔۔۔ یہی وجہ تھی جو وہ زمل کو کھینچ کر اپنی پناہوں میں لے چکا تھا لیکن اب درید اپنی دسترس میں موجود زمل کی بند آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ درید نے محسوس کیا وہ آئستہ آئستہ کانپ رہی تھی
"جان کیو نکل رہی ہے تمہاری ابھی سے۔۔۔ یہ فضول میں کانپنا بند کرو اور اپنی آنکھیں کھولو فوراً"
درید کی آواز سن کر زمل آنکھیں کھولتی ہوئی اپنے آپ کو نارمل حالت میں لانے لگی
"کوئی بڑا والا کارنامہ انجام نہیں دے رہا تھا میں جو تم نے یوں کھڑے کھڑے ہی کانپنا شروع کردیا صرف ایک کِس کرنے والا تھا"
درید اسے نارمل حالت میں لانے کے لیے اس کی کمر کے گرد اپنا لپٹا ہوا بازو ہٹاتا ہوا بولا۔۔۔۔ مگر درید کی بات سن کر وہ نارمل کہاں رہی تھی
"کک کک۔۔۔ کِس"
کتنی بےباکی سے وہ اس کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا تھا زمل درید کے منہ سے کِس لفظ سن کر باقاعدہ ہکلاتی ہوئی بولی
"ہاں، کک کک کِس۔۔۔۔ کیا اردو میں پوری تشریح کر کے بتاؤ اب کِس کی"
درید بالکل سیریز ہوکر زمل سے پوچھنے لگا ساتھ ہی صوفے پر جا بیٹھا جبکہ زمل حیرت سے درید کو دیکھنے لگی جس نے آج سے پہلے اس سے ایسی واہیات باتیں کبھی نہیں کی تھی۔۔۔ وہ تو درید کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو یہاں آکر بیٹھو"
درید اس کی حیرانگی کو خاطر میں نہ لاتا ہوا روعب دار لہجہ بنا کر بولا۔۔۔ زمل دوبارہ مرنے والی ہوگئی،، وہ اسکی تھائی کو دیکھنے لگی جہاں درید نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا تھا۔۔۔ وہ کل رات سے کسی نہ کسی طریقے سے اس کی جان لینے پر تلا ہوا تھا
"دید مجھے اپنے کمرے میں جانا ہے پلیز"
زمل آئستہ آواز میں بولی اب اس کو درید کے کمرے میں ایک ایک پل گزرانا بہت بھاری لگ رہا تھا
"چلی جانا مگر پہلے وہ کرو جو میں نے کہاں ہے یہاں آؤ ایک سیکنڈ میں"
درید کا لہجہ بالکل سنجیدہ تھا اگر زمل اس کی بات نہ مانتی تو لازمی وہ طوفان کھڑا کر دیتا زمل سست قدموں سے چلتی ہوئی درید کے پاس آئی۔۔۔ درید زمل کی کلائی پکڑ کر اپنی تھائی کی بجائے اسے اپنے برابر میں بٹھا چکا تھا۔۔۔ زمل جو کہ کچھ اور توقع کر رہی تھی صوفے پر درید کے برابر میں بیٹھی اس کو دیکھنے لگی وہ خود بھی زمل کو دیکھ رہا تھا ایک دم سے بولا
"جانتی ہو میں اُس رات غصے میں تمہارے ساتھ کرنے والا تھا"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا درید کی بات سن کر زمل کی آنکھوں میں نمی آنے لگی وہ جانتی تھی درید اس سے کس رات کا ذکر کر رہا تھا سوچو کا تسلسل ٹوٹا بھی نہیں تھا کہ اچانک درید اسے اس رات کی طرح اپنی گرفت میں لے چکا تھا
"دید نہیں پلیز نہیں۔۔۔ ایسا مت کریں میرے ساتھ"
درید کے اچانک زمل کو صوفے پر لٹانے کے ساتھ اس پر جھکنے سے زمل کی جان نکلنے لگی وہ آنکھیں بند کرتی تڑپتی ہوئی بولی
"مکمل اختیارات رکھنے اور شدید غصے میں ہونے کے باوجود نہ میں نے اس رات تمہارے ساتھ کچھ کیا تھا، نہ اب کچھ کرو گا اپنی آنکھیں کھول لو"
درید کی بات پر زمل نے اپنی آنکھیں کھول لی وہ زمل پر جھکا اسی کو دیکھ رہا تھا، بہت آئستگی سے درید نے اپنے ہونٹ زمل کی پیشانی پر رکھے۔۔۔ جس سے زمل ایک بار پھر سسک اٹھی
"کیو کر رہے ہیں آپ اس طرح میرے ساتھ اب کیا غلطی کر دی میں نے"
زمل اپنی پیشانی پر درید کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے سسکتی ہوئی پوچھنے لگی جس پر درید اس پر جھکا ہوا زمل کا چہرہ دیکھ کر بولا
"ضروری تو نہیں ہے کہ تمہارے غلطی کرنے پر ہی میں تمہارے قریب آؤ،، ایک مضبوط رشتہ بنا کر گیا تھا میں تم سے جانے سے پہلے۔۔ ہمارے درمیان موجود اس رشتے کی کشش بھی مجھے تمہاری طرف کھینچ سکتی ہے"
وہ کون سا اس وقت زمل سے اپنا حق وصول رہا تھا۔۔۔۔ کیا وہ اپنے دل میں موجود خواہش کو اب بھی دبا لیتا جبکہ وہ اب اس کی بیوی تھی
"میں آپ کے اور اپنے بیچ اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی ہوں پلیز دید سمجھنے کی کوشش کریں، آپ کا یہ رویہ صرف اور صرف اب مجھے آپ سے خوفزدہ کر رہا ہے"
زمل بولتی ہوئی رو پڑی تو درید اٹھ کر بیٹھتا ہوا زمل کو دیکھنے لگا
کیا وجہ تھی جو وہ چار سالوں میں اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی تھی کیا وہ لڑکا۔ ۔۔۔؟ درید سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے موبائل پر احمر کی کال آنے لگی جسے ریسیو کرتا ہوا وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ زمل اس کے جانے کے انتظار میں تھی درید کے کمرے سے جاتے ہی وہ بھی اس کے کمرے سے نکل گئی
*****
شام کے وقت زمل کو اندازہ ہوگیا کہ درید گھر پر موجود نہیں ہے۔۔۔ نگہت سے سرسری انداز میں پوچھنے پر اسے معلوم ہوا وہ مخدوم اور نعمت اللہ کو بیک یارڈ کی صفائی پر لگا کر اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے نکلا ہوا ہے تو زمل نے سکون کا سانس لیا۔۔۔ کل رات سے لے کر اب تک اس کی جان سولی پر ہی لٹکی ہوئی تھی اپنے موبائل کی بیٹری ڈیڈ دیکھ کر وہ تابندہ کا موبائل لے کر اپنے کمرے میں آتی ہوئی کیف کو کال ملانے لگی
"کہاں ہو یار زمل تم یونیورسٹی بھی نہیں آئی،، کتنا ویٹ کیا ہے میں نے تمہارا اور موبائل کیوں آف ہے تمہارا صبح سے"
زمل کی آواز سنتے ہی کیف نے ایک سانس میں زمل سے سوالات کرنا شروع کر دیے
"کل رات دید واپس آ گئے ہیں کیف، وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں،،، اور میرے ساتھ ان کا رویہ۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہو کیف،، مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ آگے کیا ہوگا میرا"
کیف کی آواز سن کر زمل اس سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگی ایک وہی تھا ساری باتوں کو جاننے والا اس کو سمجھنے والا
"تو مسٹر درید اعظم واپس آ چکے ہیں لگتا ہے ان سے ملنا ہی پڑے گا تم بالکل پریشان مت ہوں میں تمہارے ساتھ ہو،، تمہیں کبھی بھی کسی حال میں تنہا نہیں چھوڑوں گا اور اس ظالم شخص کے چنگل سے جلد سے جلد تمہیں آزاد کروا لوں گا۔۔۔۔ درید اعظم تمہیں اتنی آسانی سے مجھ سے نہیں چھین سکتا بس یار تم اس آدمی سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا اسے زیادہ فری وری مت ہونے دینا اپنے آپ سے پلیز"
کیف زمل کو تسلی دیتا ہوں آخری بات پر خود ہی فکر مند ہوکر بولا۔۔۔ کیف کی بات پر زمل کو صبح والا منظر یاد آگیا اس نے تو کبھی کیف کو پنے قریب نہیں آنے دیا تھا مگر وہ چاہ کر بھی درید کو کچھ بھی کرنے سے کیسے روک سکتی تھی وہ اس کے نکاح میں تھی،، تھوڑی دیر کیف سے بات کرکے زمل موبائل سائیڈ پر رکھ چکی تھی تب اس کے کمرے میں تابندہ آ گئی
"خیریت میرے موبائل پر کس سے بات کر رہی تھی"
تابندہ اپنا موبائل زمل کے بیڈ روم میں دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی
"میں بھلا کس سے بات کروں گی اپنی فرینڈز کو یونیورسٹی نہ آنے کا ریزن بتا رہی تھی۔۔۔ میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ تھی اس لیے آپ کے موبائل سے کال ملا لی"
آج برسوں بعد زمل تابندہ کے تفشیشی انداز پر چونکی تھی اس لیے تابندہ کو دیکھتی ہوئی تفصیل سے بتانے لگی اور اس میں جھوٹ بھی کیا تھا بھلا
"زمل اب تم سے کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت نہیں ہونی چاہیے جس کی وجہ سے گھر میں کوئی طوفان برپا ہو یہ میں تمہیں بتا رہی ہو"
تابندہ زمل کو دیکھ کر وارن کرنے والے انداز میں بولی
"الٹی سیدھی حرکت سے کیا مطلب ہے آپ کا"
دل میں چور ہونے کے باوجود زمل تابندہ کی بات کا برا مانتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"مجھے نہیں لگتا کہ مجھے تمہیں ہر مطلب کی بات سمجھانا چاہئے تم اچھی طرح سمجھ رہی ہو کہ میں تمہیں کیا کہہ رہی ہو"
درید نے اسے زمل سے کوئی بھی بات کرنے سے منع کیا تھا لیکن تابندہ پھر بھی اس کو جتاتی ہوئی بولی تو زمل خاموش ہوگئی
"یونیورسٹی کیوں نہیں گئی آج تم،،،، کیا درید نے منع کیا تمہیں یونیورسٹی جانا سے"
تابندہ اس کو خاموش دیکھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی آئل کی بوتل اٹھا کر زمل کے پاس آتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"تو آخر ان کے علاوہ اور کس کو تکلیف ہوگی میرے یونیورسٹی جانے سے۔۔۔ شروع سے ہی دید میرے ساتھ ایسا کرتے آئے ہیں اب تو اور زیادہ ٹھوک بجا کر اپنی بات منوائے گیں مجھ سے"
زمل غصے میں بولتی ہوئی بیڈ سے نیچے فلور کشن رکھ کر بیٹھ گئی وہ جانتی تھی تابندہ اس کے بالوں میں آئلنگ کرنے والی ہے
"اچھا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے درید گھر آجائے تو پھر میں بات کر لیتی ہوں اس سے کہ وہ تمہیں ایگزمز تک یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دے دے"
تابندہ زمل کے بالوں میں مساج کرتی ہوئی کچھ سوچ کر بولی۔۔۔ زمل نے محسوس کیا تھا کہ جب سے درید سے اس کا نکاح ہوا تھا تابندہ درید کے ذکر سے،، پہلے کی طرح نہ چڑتی تھی نہ ہی خار کھاتی تھی شاید اس کی ماں درید کو بطور داماد قبول کر چکی تھی مگر مسلئہ اس کا تھا وہ درید کو شوہر کی صورت قبول نہیں کر پا رہی تھی
"کیا باتیں چل رہی ہیں آپ دونوں میں،، کس کو کس بات پر غصہ آ رہا ہے"
درید زمل کے کمرے میں آتا ہوا تابندہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا وہ پہلے بھی زمل یہ کمرے میں بنا اجازت کے ایسے ہی آ جایا کرتا تھا اب بھی اس کا یہی حال تھا
"کوئی ایسی خاص بات نہیں ہو رہی ہے تم بتاؤ رات گئے کہاں سے آ رہے ہو اور دوپہر سے کہاں غائب تھے"
تابندہ زمل بالوں میں مساج کرتی ہوئی غصے والی بات کو گول کرکے درید سے اس کے گھر سے غیر حاضری کا پوچھنے لگی جبکہ زمل درید کو صوفے پر بیٹھتا ہوا دیکھ کر غصے سے دیکھنے لگی۔۔ صبح جو درید نے اس کے ساتھ کچن میں پھر اپنے بیڈ روم میں کیا تھا وہ اس بات کو لے کر درید سے خفا بھی تھی
"پاکستان واپس آنے کی دیر تھی یار دوستوں نے پیچھا پکڑ لیا انہی کی طرف نکلا ہوا تھا۔۔۔ واپس گھر آئے تو مجھے گھنٹہ بھر گزر چکا ہے بیک یارڈ کا جائزہ لے رہا تھا میرے جانے کے بعد تو گھر کا پچھلا حصہ اجاڑ ویران بن چکا ہے،، کتنے سال ہو چکے ہیں آپ کو اس حصے کی صفائی کروائے ہوئے"
درید فلور کشن پر بیٹھی ہوئی زمل پر نظر ڈالتا ہوا تابندہ سے نارمل انداز میں باتیں کر رہا تھا جیسے اس کی شروع سے ہی تابندہ سے بہت اچھے تعلقات رہے ہو جبکہ درید کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ زمل اب اسے غصے میں کیوں دیکھ رہی تھی۔۔۔ اپنی ناراضگی تو وہ اس کے ہاتھ کی کافی پینے اور اس کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر لگا کر ختم کر چکا تھا
"وہاں پر پول تمہاری فرمائش پر ہی اعظم نے بنوایا تھا میرا اعظم کا تو اس حصے میں جانا ہی کم ہوتا تھا،، تم دونوں ہی تھوڑا بہت وقت وہاں میں گزارتے تھے۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد دھیان ہی نہیں دیا اس جگہ پر، اب خیال رکھو گی، یہ بتاؤ کہ رات کا کھانا کھا لیا یا پھر نگہت سے کہہ کر یہی پر منگوالو"
تابندہ بھی درید سے بالکل اسی طرح نارمل انداز میں بات کر رہی تھی زمل کو تو اپنا وجود ہی فضول لگنے لگا،، وہ دونوں یہ سب فضول باتیں کسی اور کمرے میں جا کر بھی کر سکتے تھے زمل کڑھتی ہوئی سوچنے لگی
"رات کا ڈنر تو میں دوستوں کے ساتھ ہی کھا چکا ہوں،، کیا آپ اور بھی کچھ کہنا چاہتی ہیں مجھ سے"
درید تابندہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا اسے محسوس ہوا جیسے تابندہ اس سے کچھ بات کرتے ہوئے جھجھک محسوس کر رہی تھی
"زمل کے پیپرز ہونے والے ہیں دو ماہ بعد اگر یہ یونیورسٹی نہیں جائے گی تو اس کی ساری محنت ضائع ہوجائے گی میں خود بھی چاہتی ہوں کہ زمل یونیورسٹی جائے اور سمسٹر دے بعد میں بے شک"
تابندہ اپنی بات جاری رکھتی مگر درید بول پڑا
"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میں اس کی محنت یا پھر سال ضائع ہونے دوں گا آج تو میں نے اسے یونیورسٹی جانے سے اس کیے روکا تھا کیوکہ اسے بہت سالوں بعد اپنے سامنے دیکھ رہا تھا تو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ یہ میری نظروں سے دور جائے"
درید کی بات سن کر تابندہ مسکرانے لگی جبکہ درید زمل کو اسمائل دیتا ہوا دیکھنے لگا،، زمل درید کو بناء اسمائل دیئے خاموشی سے دیکھنے لگی
"زمل تم پرسوں یونیورسٹی چلی جانا،، ایسا کرو کہ اپنے سارے فرینڈز کو کل یہاں ڈنر پر انوائٹ کر لو،، سب کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور ایک میٹنگ بھی کر لیتے ہیں تمہارے یونیورسٹی کے کلوز فرینڈز کے ساتھ،، اوکے"
درید مسکراتا ہوا زمل سے کہنے لگا اور اس کے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ زمل ضبط کرتی ہوئی تابندہ کو دیکھنے لگی جو کہ اس بات پر ہی مطمئن تھی کے درید نے زمل کو یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دے دی
**†**
رات کو اپنے کمرے میں آکر اسے لیٹے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے نیند تو اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر ہلکا ہلکا سر درد کر رہا تھا زمل کا خیال ذہن میں آتے ہی وہ زمل کے کمرے میں جانے کا ارادہ کرنے لگا
درید نے زمل کمرے کا دروازہ کھولا تو زمل کو بیڈ پر سوتے ہوئے پایا،، نائٹی میں مبلوس وہ بے خبر سو رہی تھی،، درید کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آکر زمل کے برابر میں لیٹ گیا
"آپ یہاں اس وقت میرے کمرے میں کیا کر رہے ہیں"
درید کے برابر میں لیٹنے کی دیر تھی کہ زمل کی فوراً آنکھ کھل گئی وہ درید کو اپنے برابر میں لیٹا ہوا دیکھ کر ایک دم اٹھ بیٹھی اور حیرت زدہ سی درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی
"نیند نہیں آ رہی تھی اپنے روم میں تو سوچا تمہارے چہرے کا دیدار کر لو تمہیں دیکھتے دیکھتے شاید آنکھ لگ جائے اس لیے چلا آیا۔۔۔ تم اُٹھ کیو گئی ہو لیٹی رہو"
درید بیڈ پر لیٹا ہوا زمل سے بولا بلکہ اس نے زمل کے لیٹنے کا انتظار کیے بنا زمل کو خود ہی اپنے برابر میں لٹا لیا
وہ دونوں ہی بیڈ پر ایک دوسرے کے برابر میں سیدھے لیٹے ہوئے تھے۔۔۔ زمل خاموشی سے چھت پر لگے ہوئے پنکھے کو دیکھ رہی تھی جو کہ مدھم رفتار میں چل رہا تھا،، درید کے ہاتھوں کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کر کے وہ ایک دم درید کو دیکھنے لگی جو زمل وہ دیکھنے کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ چکا تھا ایسے وہ پہلے اکثر اپنی طبیعت خرابی میں کرتا تھا
"طبیعت ٹھیک ہے آپ کی"
زمل درید کے سینے پر اپنا ہاتھ دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی جو اب سکون سے آنکھیں بند کیا لیٹا تھا
"ہہہمم سر میں درد ہے"
درید آنکھیں بند کیا یوا اسے بتانے لگا
"سر دباؤ آپ کا"
وہ ابھی بھی درید کا چہرہ دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی،، زمل کو درید کے ساتھ اپنا اچھا گزرا ہوا وقت یاد آنے لگا جب اس کا دید اِس دید سے بالکل مختلف ہوا کرتا تھا جو وہ اب بن چکا تھا
"خود ہی ٹھیک ہو جائے گا مائی لیڈی اس طرح پریشان مت ہو"
درید آنکھیں کھول کر زمل کو دیکھتا ہوا مسکرا کر بولا۔۔۔ زمل خاموشی سے اس کو مسکراتا ہوا دیکھنے لگے وہ اس کو بول نہیں سکی کہ درید کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کتنی پیاری لگ رہی تھی
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو"
درید زمل کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس سے پوچھنے لگا
"آپ کے فیس پر اسمائل"
زمل کے منہ سے بے ساختہ نکلا پھر وہ ایک دم درید کے چہرے سے نظریں ہٹا کر دوبارہ چھت پر لگے ہوئے پنکھے کو دیکھنے لگی،، اس کا ہاتھ اب بھی درید کے سینے پر موجود تھا اور درید کی نگاہیں زمل کے چہرے پر مرکوز تھی
"آنٹی بتا رہی تھی چھ ماہ پہلے تم نے ایک کیٹ (بلی) پالی تھی۔۔۔ پھر ڈیڈ سے ڈیتھ سے دو دن پہلے تم نے وہ کیٹ نگہت کے بیٹے کے حوالے کردی جبکہ تم اس سے کافی زیادہ مانوس ہو چکی تھی"
درید زمل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔۔زمل کی نظروں کا زاویہ اب بھی چھت کی جانب تھا
"میری توجہ کہیں اور چلی جائے تو وہ چیز آپ کو بری لگنے لگتی ہے اس لیے جس رات میں نے آپ کو پہلی بار کال کی تھی تب ہی سوچ لیا تھا آپ کی آمد سے پہلے مانو کو خود سے دور کردو گی"
زمل کی بات سن کر درید کو وہ دن یاد آیا جب زمل نے بچپن میں اعظم سے ضد کر کے پیرٹ (طوطا) منگوایا تھا مگر جب زمل بہت زیادہ اس پیرٹ پر دھیان دینے لگی تب درید اس سے کافی زیادہ ناراض رہنے لگا۔۔۔۔ زمل کے ناراضگی کی وجہ پوچھنے پر وہ زمل کو بتا چکا تھا کہ زمل کو اپنے دید یا پھر پیرٹ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔۔۔۔ کیوکہ وہ پیرٹ درید کو پسند نہیں
زمل کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب اس نے اپنے پیرٹ کو پنجرے سے آزاد کیا تھا اور وہ درید کے سینے سے لگ کر اپنے پیرٹ کے لیے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔۔۔ کتنے دنوں تک درید اسے بڑے پیار سے بہلاتا رہا تھا اس کی ہر بات مانتا مگر کتنے دنوں تک زمل اس پیرٹ کو مس کرتی رہی تھی
"یہ جو تمہارے دید کا دل ہے ناں قسم سے تمہارے لئے بہت زیادہ سیلفش ہے۔۔۔ یہ چاہتا ہے جیسے دید اپنی زمل کو چاہتا ہے بس اس کی زمل بھی صرف اپنے دید کو چاہے"
درید اپنے سینے پر رکھا ہوا زمل کا ہاتھ اپنے لبوں سے چھوتا ہوا بولا تو زمل نے فوراً اپنا ہاتھ کھینچا اور ایک دم بول اٹھی
"مجھ سے ایسی باتیں کرکے یہ مت ظاہر کریں کہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں"
زمل دوبارہ اپنی نظروں کا زاویہ درید کی طرف کر کے اس سے بولی اور آہستہ سے بیڈ سے اٹھنے لگی مگر اس کے اٹھنے سے پہلے ہی درید آئستہ سے اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھ چکا تھا وہ اٹھ نہیں سکی
"اگر محبت نہیں کرتا درید اعظم تم سے تو پھر کیا کرتا ہے"
درید سنجیدہ تاثرات سے زمل کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"حکومت،، درید اعظم زمل پر صرف حکومت کرتا ہے"
زمل درید کو بولتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹا کر بیڈ سے اٹھنے لگی تو درید نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ ایک ہی جست میں درید کے سینے پر آ گری
"تم میری محبت کو غلط نام دے کر اس کی توہین نہیں کر سکتی زمل،، یہ میں بالکل بھی برداشت نہیں کروں گا سنا تم نے"
درید ماتھے پر بل نمودار کرتا ہوا زمل سے بولا اگر وہ اس پر حکومت کرتا تو چار سال سے اسے یوں آزاد نہ چھوڑتا نہ ہی اسے اتنی من مانیاں کرنے دیتا جتنی وہ ان چار سالوں میں کر چکی تھی
"محبت،،، وہ کب ہوئی آپ کو مجھ سے۔۔۔ آپ نے مجھ سے نکاح محبت میں کیا تھا یا پھر غصے میں؟؟؟ جو سلوک آپ نے میرے ساتھ آج صبح کیا وہ تھی محبت آپ کی، واپس آنے کے بعد آپ نے کل رات سے جو میرے ساتھ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اسے محبت کہتے ہیں آپ۔ ۔۔۔ نہیں چاہیے دید مجھے آپ کی ایسی محبت،، خوف پیدا کر دیتی ہے آپ کی محبت میرے اندر، ڈرنے لگی ہو اب میں آپ کے اس نئے روپ سے جو آپ نے نکاح کے بعد سے اپنایا ہوا ہے"
زمل بولتی ہوئی اس کے سینے سے اٹھی درید اب بھی خاموشی سے لیٹا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا تھوڑے وقفے کے بعد وہ ایک بار پھر بولی
"میری ایک غلطی جوکہ میں مانتی ہوں کہ کوئی چھوٹی غلطی نہیں تھی اس پر آپ نے مجھ سے میرا دید ہی مجھ سے چھین لیا،، مجھے تو اپنا وہی دید پسند تھا جس کے ساتھ میں بچپن سے لے کر پندرہ سال تک کا عرصہ گزارتی آئی تھی،، جو مجھ سے غصہ کرنے اور کسی بات پر ناراض ہونے کے باوجود مجھے خود پیار سے منا لیتا۔۔۔ آپ نے جاتے وقت بالکل ٹھیک کہا تھا کہ میں اپنی اس غلطی سے اپنے اس دید کو کھو چکی ہوں اور جس درید اعظم نے مجھ سے نکاح کیا ہے وہ زمل کے لیے بالکل اجنبی ہے زمل اس سے کبھی بھی محبت نہیں کر سکتی سنا آپ نے"
زمل درید سے بولتی ہوئی اپنے کمرے سے باہر نکل گئی تھوڑی دیر تک درید خاموش بیڈ پر لیٹا ہوا اس کی باتوں پر غور کرتا رہا پھر خود بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا
**†**

تھوڑی دیر پہلے ہی ثمرن کی کال زمل کے پاس آئی تھی کہ وہ نشا، واصف اور کیف اس کے گھر پر پہنچنے والے ہیں۔۔۔ آج کے دن کے لیے زمل نے وائٹ کلر کی لونگ فراک کا انتخاب کیا تھا جسے زیب تن کرنے کے بعد وہ آئینے کے سامنے پشت کیے کھڑی اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لے جاتے ہوئے فراک کی زپ بند کر رہی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کُھلا اور درید اس کے کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ زمل نے اپنے سامنے درید کو اپنے کمرے میں آتا دیکھا، تو فراک کی زپ بند کرتی اس کے ہاتھوں کی حرکت وہی تھم گئی ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ نیچے گرا لئے۔۔۔ اس کی پشت ابھی بھی آئینے کے سامنے تھی جبکہ وہ درید کو دیکھ رہی تھی،، اسے صبح اٹھ کر ویسے بھی عجیب محسوس ہو رہا تھا شاید اسے کل رات درید سے وہ سب باتیں نہیں کہنی چاہیے تھی
"ابھی تک ریڈی نہیں ہوئی تم"
درید زمل کے پاس چلتا ہوا آیا اور اس کا چہرہ دیکھ کر سوال کرنے لگا وہ خود بلیک کلر کی جینز اور بلیک ہی کلر شرٹ میں تیار لگ رہا تھا
"بس ریڈی ہی ہو"
زمل درید کو دیکھ کر ذرا سا ہچکچاتی ہوئی بولی اس کا سارا دھیان اپنی آدھی کُھلی ہوئی زپ پر تھا،، درید اپنی نظریں اس کے گھبرائے ہوئے چہرے سے ہٹاتا ہوا زمل کو دونوں کندھوں سے تھام کر اس کا رخ آئینے کی طرف کر چکا تھا، زمل احتجاج بھی نہ کر سکی۔۔۔ بہت مشکلوں سے ہمت کر کے وہ اپنی نظریں اٹھاتی ہوئی آئینے سے درید کو دیکھنے لگی، درید کی انگلیوں کا لمس اپنی کمر پر محسوس کر کے زمل کے پورے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔۔۔ وہ بےحد نرمی سے زمل کی کمر کو اپنی انگلیوں سے چھوتا ہوا بہت آہستہ سے اس کی فراک کی زپ بند کر چکا تھا
"پہنچے نہیں ابھی تک تمہارے سارے فرینڈز"
درید زمل کا رخ اپنی طرف کرتا اسکے گلابی رنگے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ کر زمل سے نارمل لہجے میں پوچھنے لگا جبکہ درید محسوس کرچکا تھا اس کے ذرا سے چھونے پر زمل کے چہرے کی ہوائیاں اڑ چکی تھی
"وہ سب راستے میں بس پہنچنے والے ہیں ابھی ثمرن نے مجھے کال پر بتایا تھا"
زمل درید کی نظروں کے زاویے سے گھبراتی ہوئی جلدی سے بولی۔۔۔ درید کی نگاہیں اس کا اعتماد بحال نہیں ہونے دے رہی تھیں
"ہہمم، اچھی بات ہے۔۔۔۔ ویسے کل رات تم نے جو جو باتیں مجھ سے بولی وہ بالکل ٹھیک بولی، زمل یہاں میری طرف دیکھ کر مجھے بتاؤ،،، تم مِس کر رہی ہو ناں اپنے پرانے والے دید کو"
درید اچانک زمل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر لہجے میں نرمی لاتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"نہیں دید ایسا نہیں ہے وہ سب باتیں تو میرے منہ سے یونہی نکل گئی تھی"
زمل کو کیف کا خیال آنے لگا جبھی وہ درید سے بولی اگر درید نرم پڑ جاتا تو کیف سے اس کی کمیٹمینٹ کا کیا ہوتا جبکہ بقول کیف کہ وہ درید سے خلع لیتی تبھی کیف اپنے اور اس کے لیے کوئی اسٹیپ لے سکتا تھا اور سارے معاملے کو سنبھال سکتا تھا
"مگر کل رات مجھے خود بھی احساس ہوا کہ ہم دونوں کے بیچ اب پہلے والا رشتہ نہیں رہا میں خود بھی ہم دونوں کے اس رشتے کو مِس کر رہا ہو"
درید نے بولتے ہوئے زمل کو جود سے مزید قریب کر لیا اس سے پہلے درید زمل کو اپنے مکمل حصار میں لیتا، زمل اس سے دور ہوتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہیئر برش کو اٹھا کر اپنے بالوں میں پھیرنے لگی۔۔۔ درید نے زمل کے گریز کو اچھی طرح محسوس کیا مگر کچھ بھی جتائے بناء وہ زمل کی پشت پر آکر کھڑا ہوا اور زمل سے ہیئر برش لیتا ہوا اس کے بالوں میں پھیرنے لگا
"لگتا ہے میرا سارا غُصہ تم اپنے بالوں پر نکال چکی ہو ان چار سالوں میں"
درید زمل کے بالوں کی لینتھ دیکھ کر اس سے بولا
"آپ کو معلوم ہے بڑے بال مجھ سے نہیں سنبھلتے شروع سے ہی"
زمل اپنے شولڈر سے نیچے آتے چھوٹے بالوں کا جواز پیش کرتی ہوئی درید کو آئینے سے دیکھ کر بولی جس پر درید ہلکا سا مسکرایا
"اب میں واپس آ گیا ہوں ڈارلنگ تمہیں پورا کا پورا سنبھالنے کے لیے،، آج سے تمہیں یہ بات اپنے مائنڈ میں رکھنا ہے کہ اب تمہیں اپنے بالوں کی لمبائی پہلے جیسی کرنی ہے اپنے دید کے لیے"
درید ہیئر برش کو واپس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھنے کے بعد زمل کا رخ دوبارہ اپنی طرف کر چکا تھا۔۔۔۔ وہ خاموشی سے زمل کو دیکھنے لگا جو اس کے سامنے سر جھکائے اپنے چہرے پر آئی ناگواری کے تاثرات چھپائے کھڑی تھی
"پوچھوں گی نہیں اپنے دید سے کہ آج تم کیسی لگ رہی ہو"
درید زمل کی تھوڑی کے نیچے انگلی ٹکا کر اس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا اس کی نظریں دوبارہ زمل کے گلابی ہونٹوں پر ٹک گئی تھی
"دید مجھے لگ رہا ہے سب لوگ پہنچ چکے ہیں، میں دیکھ کر آتی ہوں"
زمل اس کی بہکی ہوئی نظروں سے گھبراتی ہوئی اپنے کمرے سے جانے لگی مگر درید اس کی کلائی پکڑ چکا تھا
"میں تمہیں بتانا چاہتا ہو کہ تم کیسی لگ رہی ہو۔۔۔ تمہیں دیکھ کر مجھے شروع سے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اوپر والے نے ایک پری خاص درید اعظم کے لیے دنیا میں بھیجی ہے،، جس کو درید اعظم کا دل کتنا چاہتا ہے اس کا اندازہ شاید تم خود بھی کبھی نہ لگا سکو گی"
درید زمل کا چہرا دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس سے بولتا ہوا اچانک اس کے ہونٹوں پر جھکا زمل خواہش کے باوجود درید کو پیچھے نہیں ہٹا سکی۔۔۔
درید اس کی سانسوں کو قید کرتا ہوا اپنی سانسیں زمل کے اندر اتارنے لگا۔۔۔ زمل بے بسی سے انکھیں بند کیے ساتھ ہی مٹھی میں اپنی فراک کو دبوچے کھڑی تھی۔۔۔ زمل کو لگا شاید آج درید اس کی سانسیں بند کر دینا چاہتا ہے تب اس نے احتجاجاً درید کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹایا تو درید کسی سحر سے آزاد ہوا، وہ پیچھے ہوا تو زمل کے ہونٹوں سے پنک گلوس صاف ہو چکا تھا جس کے لئے آج درید کو ٹشو کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی،، زمل درید کی حرکت پر اپنے چہرے کا رخ موڑ گئی درید اس کی پشت کو دیکھتا ہوا زمل کے کمرے سے نکل گیا
*****
"دید یہ نشاہ ہے اس کا نام ثمرن ہے،، یہ واصف ہے اور یہ کیف۔۔ یہ چاروں ہی میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں اور میرے بہت اچھے دوست ہیں"
زمل کمرے میں تھوڑی دیر پہلے ہوئی کاروائی کو فراموش کر ان چاروں کے ساتھ اپنے گھر کے سٹنگ ایریا میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ۔۔درید کی وہاں آمد پر ایک ایک کر کے سب کا تعارف کروانے لگی
"کھڑے کیوں ہوگئے تم سب لوگ بیٹھو"
درید ان سب سے مل کر انہیں مخاطب کرتا ہوا بولا
"زمل تم نے ہمارا تعارف تو ان سے کروا دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ کون ہیں"
نشاہ ثمرن کے برابر میں صوفے پر بیٹھتی ہوئی زمل سے پوچھنے لگی مگر اس سے پہلے زمل کچھ بولتی اس کے پاس کھڑا ہوا درید بول اٹھا
"زمل کی بجائے میں خود ہی اپنا انٹروڈکشن کروا دیتا ہوں تم لوگوں سے۔۔۔ میں زمل کا ہسبینڈ ہو درید اعظم"
درید اپنے پاس کھڑی زمل کے کندھے کے گرد اپنا بازو پھیلا کر اسکے دوستوں سے اپنا تعارف کرواتا ہوا خاص طور پر کیف کو دیکھنے لگا مگر ثمرن نشاہ اور واصف۔۔۔۔ وہ تینوں ہی حیرت زدہ ہو کر زمل کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ ثمرن تھوڑی کنفیوز نگاہوں سے زمل اور درید کے بعد اپنے بائیں طرف صوفے پر بیٹھے ہوئے کیف کو دیکھ رہی تھی جو اس انکشاف پر زرا سا بھی حیرت زدہ نہیں تھا
"آنٹی کہاں پر ہیں زمل نظر نہیں آرہی"
ثمرن کے پوچھنے پر درید کے پاس بیٹھی ہوئی زمل ثمرن سے بولی
"اپنے روم میں ریسٹ کر رہی ہیں آؤ تمہیں ان سے ملوا دیتی ہوں"
زمل ثمرن سے کہتی ہوئی صوفے سے اٹھی تو نشاہ بھی ثمرن کے ساتھ اس کے پیچھے چل دی جبکہ درید واصف سے باتیں کرنے لگا
"زمل کی بچی تم نے اتنی بڑی بات ہم لوگوں سے چھپائی کہ تم ایک عدد اتنا ہینڈسم سے ہسبنڈ بھی رکھتی ہو آخر کیوں نہیں بتایا تم نے ہم لوگوں کو اپنی شادی کے بارے میں"
وہ تینوں وہاں سے اٹھ کر ہال میں پہنچی تو سب سے پہلے نشاہ زمل کی خبر لیتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"صرف نکاح ہوا ہے میرا دید سے وہ بھی ابھی نہیں، چار سال پہلے۔۔۔ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے میرے لیے جو میں تم لوگوں کو بتاتی"
زمل نشاہ کہ شکوہ کرنے پر بالکل نارمل انداز میں اس سے بولی
"تمہارے لئے اہم بات ہو یا نہ ہو مگر نکاح کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔۔۔ کم از کم تمہیں کیف کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہیے تھا کتنا دل ٹوٹا ہوگا اس کا تمہارے بارے میں حقیقت جان کر"
ثمرن جوکہ زمل اور کیف کے تعلق سے آگاہ تھی افسوس کرتی ہوئی کہنے لگی جس پر نشاہ ایک بار پھر حیرت سے منہ کھول کر زمل کو دیکھنے لگی
"یعنی مجھے صہیح دال میں کالا لگتا تھا، مطلب تمہارا اور کیف کا۔۔۔ او مائی گاڈ"
نشاہ حیرت کے مارے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی
"کیف اور میرا ٹائم پاس نہیں ہے وہ مجھ سے اسٹڈیز مکمل ہونے کے بعد شادی کرنے والا ہے اور میں نے کیف کو دید کے بارے شروع میں ہی سب کچھ بتا دیا تھا"
زمل ثمرن اور نشاہ کو دیکھتی ہوئی بولی مگر وہ دونوں اب زمل کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں
"زمل مائینڈ مت کرنا یار مگر تم ایک شخص کے نکاح میں ہونے کے باوجود کسی دوسرے کے ساتھ انولو ہوگئی،، میں بالکل بھی سمجھ نہیں پا رہی ہوں آخر تمہارا دل کیسے مانا، ماڈرن اور ایڈوانس میں بھی ہو مگر۔۔۔۔"
ثمرن کو بات کرتے ہوئے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں زمل اس کی باتوں کا برا نہ مان جائے اس لیے بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہو گئی
"دید نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا تھا،، کیا زور زبردستی سے جڑنے والے رشتے کو تم قبول کروں گی۔۔۔ انہوں نے مجھے میری غلطی کی سزا دینے کے لیے مجھ سے نکاح کیا،، ان سے میرا کوئی محبت والا تعلق نہیں ہے۔۔۔ دید شروع سے ہی پسند کرتے ہیں کہ میں ان کے تابع ہو کر رہو، ان کی ہر بات مانو جو ان کو پسند ہے میں وہ کام کرو،، جو ان کو پسند نہیں ہے اس چیز کو یا اس خواہش کو ترک کر دو۔۔۔ وہ مجھے شروع سے اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق چلاتے آئے ہیں۔۔۔ آج تم سب کو یہاں بلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ تم سب کے بارے میں وہ اچھی طرح جان سکے اور تم لوگوں کو پرکھ سکے کہ تم لوگوں میں سے مجھے آگے کس سے دوستی رکھنا چاہیے اور کس سے نہیں"
زمل ان دونوں کو دلیل دینے کے ساتھ ساتھ چار سال پہلے اس رونما ہونے والے واقعہ کے بارے میں بتانے لگی جس غلطی کے بنا پر درید نے سزا کے طور پر اس سے نکاح کیا تھا
"یہ بھی تو ہو سکتا ہے تمہارے دید واقعی تم سے محبت کرتے ہو ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے ہو"
نشاہ کی بات سن کرو زمل زور سے ہنسی
"یہ میں نے کب کہا وہ مجھ سے محبت نیں کرتے۔۔۔ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر گھر میں رہنے والے ایک فرد کی طرح۔۔۔ اس سے آگے کی محبت جو تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ نہ ان کی طرف سے نہ میری طرف سے،، بس دید پسند کرتے ہیں کہ میں ان کی مرضی سے ساری زندگی چلتی رہو،، ان کا حکم مانتی رہو وہ مجھے میری غلطی پر سزا دیتے رہے اور مجھے ساری زندگی اپنی مرضی کے مطابق چلاتے رہیں"
زمل کی بات مکمل ہونے پر خاموش کھڑی ثمرن اس سے پوچھنے لگی
"اس سب کا سلوشن پھر کیا ہے زمل،، میرا مطلب ہے تم نے اپنے آگے کے لیے کیا سوچا ہے"
ثمرن فکرمند لہجے میں زمل کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگیکیو کہ وہ زمل اور کیف کے بارے میں جانتی تھی درید اعظم کا باب کھلنے پر سب سے بڑا دھچکا اسی کو لگا تھا۔ ۔۔۔ ثمرن کی بات سن کر زمل لمبی سانس کھینچ کر اس سے بولی
"سوچنا کیا ہے کیف ساری حقیقت جاننے کے بعد بھی نہ صرف مجھے پسند کرتا ہے بلکہ شادی کا خواہش مند ہے۔ ۔۔ یہی بات اس کی سنسئیرٹی کو شو کرتی ہے،، میں سیمسٹر کمپلیٹ ہونے کا ویٹ کر رہی ہوں اس کے بعد دید سے خلع لے کر کیف سے۔۔۔۔ آئی مین پھر میں اور کیف شادی کر لیں گے"
زمل کی بات سن کر ثمرن خاموش ہو گئی وہی نشاہ عجیب سی شکل بناتی ہوئی بولی
"ویسے اگر دیکھا جائے تو کیف کی پرسنیلٹی سے تو تمہاری دید کی پرسنلٹی زیادہ اچھی ہے کم از کم درید اعظم میں کیف کی طرح کیلشیم اور آیوڈین کی کمی تو نظر نہیں آتی"
نشاہ کیف کے دبلے جسم کو نشانہ بناتی ہوئی بولی تو ثمرن نے اپنی آمڈ آنے والی ہنسی کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا جبکہ زمل منہ بناتی ہوئی نشاہ سے بولی
"صرف کیف دبلے ہونے کا مذاق کیو اڑا رہی ہو کچھ قصیدے اس کی ہائیٹ پر بھی پڑھ دو"
زمل کے طنز کرنے پر ثمرن اور نشاہ دونوں ہی ہنس پڑی
"اگر میں نے کیف کی ہائیٹ کو بھی ٹارگٹ کیا تو پھر تم مجھ سے سخت والا ناراض ہو جاؤ گی اور میں تمہیں ناراض بالکل بھی نہیں کرنا چاہتی ہو"
نشاء زمل کے گال پر زور سے چٹکی بھرتی ہوئی بولی
"نشاہ تم فضول میں کیف کی پرسنلٹی کو لے کر بات کر رہی ہوں وہ جس خاندان سے بی لونگ کرتا ہے وہاں پر پرسنیلٹی زیادہ میٹر نہیں کرتی"
ثمرن کی بات زمل کو کافی محسوس ہوئی اس لیے وہ ثمرن کو دیکھتی ہوئی بولی
"مجھے اس کی دولت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ثمرن، ڈیڈ بے شک دید کے ریئل فادر تھے مگر انہوں نے مجھے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔۔ میرے لئے میٹر رکھتا ہے کیف کا مجھ سے مخلص ہونا اور بس"
زمل کی بات سن کر ثمرن ایکدم بولی
"اور اگر تمہیں کبھی یہ معلوم ہو جائے کہ تمہارا ہسبنڈ تمہارے اور اپنے رشتے کو لے کر مخلص ہے ساتھ ہی وہ تم سے محبت بھی کرتا ہے اور یہ نکاح اس نے محض غصے یا ضد میں نہیں کیا تو کیا تب بھی تم درید اعظم کو چھوڑ کر کیف کا انتخاب کروں گی"
ثمرن کی بات سن کر زمل بالکل خاموش ہوگئی
"چلو تم دونوں مما سے مل لو میں ذرا کچن کا چکر لگا کر آتی ہوں"
زمل ثمرن اور نشاہ سے بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی
"زمل کی جگہ اگر تم یہ سوال مجھ سے پوچھتی تو میں بنا سوچے سمجھے درید اعظم کا نام لے لیتی بھئ مجھے تو یہ کیف جیسے نازک سے چوزے ٹائپ کے مرد بالکل بھی نہیں پسند"
نشاہ اکثر ایسے الٹے سیدھے ناموں سے کیف کے پیچھے اس کا ریکارڈ لگایا کرتی،، ثمرن اس کی بات پر ہنستی ہوئی تابندہ کی کمرے کی طرف جانے لگی نشاہ بھی اس کے پیچھے چل دی
*****
"ڈنر بہت زبردست تھا مزا آگیا اب یہ بتاؤ تم نیورسٹی کب سے آ رہی ہو"
ڈنر کے بعد سب ہال میں موجود تھے تب واصف زمل کو دیکھتا ہوا اس سے سوال کرنے لگا جس پر زمل کی نظریں بے ساختہ درید پر گئی جو اسی کو دیکھ رہا تھا
"کل، کل سے جوائن کرو گی۔۔۔۔ تم کیوں اتنے خاموش ہو کیف"
واصف کو جواب دینے ہی زمل کیف کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی مگر کیف کے جواب دینے سے پہلے ہی درید بول اٹھا
"بور ہو رہا ہوگا کیف،، کیو کیف ایسا ہی ہے چلو گائز ایسا کرتے ہیں ٹُرتھ اور ڈیر کھیلتے ہیں۔۔۔ کیا خیال ہے تم سب کا"
درید قریب رکھے سائیڈ ٹیبل سے پینٹنگ کی ہوئی ڈیکوریشن کی بوتل اٹھا کر سب کو باری باری دیکھ کر پوچھنے لگا
"ناٹ آ بیڈ آئیڈیا"
ثمرن بولی
"یس"
نشاہ نے بھی ایگری کیا تو درید نے زمل کی طرف دیکھا
"ٹھیک ہے"
وہ بھی کندھے اچکاتی ہوئی بولی تو درید نے پاس رکھے ٹیبل پر بوتل کو لٹا کر گھمایا۔۔۔ اتفاق سے بوتل کی کارک والی سائیڈ درید پر آکر رکی سب اسی کو دیکھنے لگے وہ واصف کے بولنے کے انتظار کرنے لگا جو درید کے سامنے بیٹھا ہوا تھا
"تو درید سر آپ اپنے لئے کیا چوز کریں گے ٹرتھ یا ڈیر"
واصف درید کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"سچ بولنے میں گھبرانا کیسا مگر میں کتنا ڈیئرنگ ہو یہ تو ڈیر جیتنے کے بعد ہی تم کو اندازہ ہوگا۔۔۔ اس لیے میں یہ تم پر چھوڑتا ہوں تم ڈیر دینا چاہو گے یا پھر کوئی سچ سننا چاہو گے"
درید واصف سے بولتا ہوا پیچھے صوفے پر ٹیک لگا کر واصف کے بولنے کا انتظار کرنے لگا
"کیوں نہ دوستو ہم سب لوگ کوئی سچ جاننے کے ساتھ ساتھ ڈیر بھی دیکھ لیں۔۔۔ تو سر جی آپ نے زمل کو کوئی ایسی سچ بات بتانی ہے جو اس کے علم میں نہ ہو یا پھر اِس سے آپ نے کبھی نہ کہی ہو اور ساتھ ہی ڈیر کے طور پر ہم لوگ آپکو اپنی زمل کے ساتھ ایک رومینٹک کپل ڈانس کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں کیوں بھئی کیا خیال ہے دوستو"
واصف کی بات سن کر جہاں درید ہنسا وہی زمل واصف کو گھور کر دیکھنے لگی جبکہ نشاہ اور ثمرن نے واصف کی بات کی تالیاں بجا کر تائد کی بس کیف خاموش بیٹھا ہوا ضبط کر کے درید کو دیکھ رہا تھا جو زمل کا نازک سا ہاتھ تھام کر اسے کمرے کے بیچ و بیچ لے آیا ساتھ ہی وہ زمل کا دوسرا ہاتھ تھامتا ہوا اس سے بولنے لگا
"آج سے پہلے یہ سچ میں تمہیں کہی بار پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں تمہیں پیار کرتا ہو مگر تم نے ہمیشہ میری بات کو نارمل انداز میں لیا تم ہمیشہ میری فیلنگز سے بے خبر رہی، شاید تم سمجھتی ہو کہ جیسے گھر میں رہنے والے فرد ایک دوسرے سے،، اپنی فیملی سے محبت کرتے ہیں میں بھی تم سے ویسی محبت کرتا ہوں اور بس۔۔۔ یہ پورا سچ نہیں ہے زمل، میں نے تمہیں پچپن سے چاہا ہو جب تم بہت چھوٹی تھی تب سے۔۔۔ محبت شاید اس دن ہو گئی تھی جب ڈیڈ کو میرے اسموکنگ کرنے کا معلوم ہوا اور انہوں نے سزا کے طور پر مجھے رات کا ڈنر نہیں کرنے دیا اور تم سب کے سونے کے بعد میرے کمرے میں میرے بھوکے رہنے کے احساس سے میرے لیے کھانا لے کر آئی۔۔۔ ہاں اس دن مجھ پر اپنی خود کی فیلنگز ظاہر ہوگئی تھی کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔ ویسی محبت جس میں اپنے چاہنے والے کے لیے خالص فیلینگز رکھی جاتی ہیں۔۔۔۔ جو محبت کسی ایک خاص فرد سے، دوسروں افراد کے برعکس ذرا ہٹ کر کی جاتی ہے۔۔۔ تبھی میں نے سوچ لیا تھا کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی میں شامل کرلوں گا"
درید زمل سے نہ جانے اور بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر زمل چہرے پر خوف زدہ تاثرات کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھی ساتھ ہی اس نے کیف کو دیکھا جو ان دونوں کو دیکھ کر بڑے ضبط سے جبڑے بھینچے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ کیف سے ہوتی ہوئی اس کی نظر ہال میں موجود واصف پر گئی جو بہت دلچسپی سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا ایسا ہی کچھ حال ثمرن کا بھی حال تھا جو حیرت سے پورا منہ اور آنکھیں کھولی ہوئی تھی جبکہ نشاہ اپنے ہاتھ میں موبائل پکڑے باقاعدہ ان دونوں کی ویڈیو بنا رہی تھی
"تم سے یوں اچانک نکاح کرکے جانے کی وجہ بھی میں آج بتا دیتا ہوں،، بے شک مجھے اس دن تم پر بہت غصہ تھا مگر میں یہاں سے جانے سے پہلے تمہیں اپنا بنا کر جانا چاہتا تھا تاکہ تم زندگی بھر میری ہو کر رہو،، مجھ سے جڑی رہو صرف میرے لیے سوچو۔۔۔ جیسے میں نے ان گزرے چار سالوں میں صرف اور صرف تمہارا سوچا ہے"
درید خوابناک لہجے میں بولتا ہوا زمل کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے جانے لگا جسے زمل نے سب کی موجودگی کو دیکھ کر فوراً پیچھے کیا ویسے ہی درید بھی ہوش میں آگیا۔۔۔ لیکن نشاہ کے میوزک پلے کرنے پر وہ ایک بار پھر زمل کو کمر سے تھام چکا تھا جب درید نے ڈانس کے اسٹیپ لینا شروع کیے تو زمل نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شولڈر پر رکھے۔۔۔ زمل کو پرانا دھندلا سا ایک منظر یاد آیا جب وہ درید کو ڈانس کرنے کے لیے فورس کر رہی تھی لیکن اِس وقت جس طرح سے وہ زمل کے ساتھ ڈانس کے اسٹیپ لے رہا تھا زمل کو اندازہ ہوگیا وہ کپل ڈانس کرنے میں وہ پہلے کے مقابلے میں کافی مہارت حاصل کر چکا ہے
"کیا خیال ہے ڈانس کے اختتام پر تمہارے دوستوں کو رومینٹک ہسبنڈ کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھا دو اگر تم مائنڈ نہ کرو تو"
درید زمل کو تھامے ڈانس کرنے کے ساتھ اس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا سرگوشی میں بولا۔۔۔۔ زمل ڈر کے مارے ایک دم اس سے دور ہوئی،، وہی تالیوں اور سیٹیوں کی آواز ہال میں گونجنے لگی درید مسکراتا ہوا واپس صوفے پر بیٹھا تو نشاہ نے بھی ویڈیو بنانا بند کر دی۔۔۔ زمل نے ایک نظر کیف پر ڈالی جو دھواں دھواں چہرے کے ساتھ خاموش ایک جگہ ٹکا ہوا تھا وہ بھی خاموشی سے بغیر کچھ بولے واپس صوفے پر بیٹھ گئی
"چلو بھئی اب دوبارہ گیم اسٹارٹ کرتے ہیں"
واصف کے بولنے پر درید نے بوتل کو گھمایا تو اب کی بار بوتل کیف پر آکر رکی اس نے ایک دم درید کی طرف دیکھا
"ٹرتھ یا ڈیر"
درید کیف کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا سب تجسس سے کیف کو دیکھنے لگے
"ڈیر"
کیف درید کی باتوں سے اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ اس کے اور زمل کے بارے میں ضرور جان گیا ہے یا پھر اسے شک ہے دوسرا کیف نے اندازہ لگا لیا تھا کہ درید ایک چالاک انسان ہے جبھی وہ اسے ٹرتھ کا موقع دیئے بغیر جلدی سے ڈیر بولا
"تمہارا ڈیر یہاں پر موجود نہیں ہے اور اگر تم سب کو بھی کیف کا ڈیر دیکھنا ہے تو میرے اور کیف کے ساتھ بیک یارڈ میں آجاؤ"
درید صوفے سے اٹھتا ہوا بولا تو کیف سمیت واصف، نشاہ، ثمرن اور زمل درید کے پیچھے بیک یارڈ کی طرف جانے کے لیے تیار ہوگئے
****
"ریلکس یار تمہارے چہرے پر تو ابھی سے ہوائیاں اڑ رہی ہیں جیسے میں تمہیں شیر کے پنجرے میں جانے کا کہہ دوں گا"
بیک یارڈ میں پہنچ کر درید کیف کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا جو سوئمنگ پول کو دیکھ کر اچھا خاصا گھبرایا ہوا تھا کیونکہ بچپن سے ہی اسے ڈیپ واٹر فوبیا تھا
"میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو ڈئیر کرنے سے ڈر جاؤ، تم ڈیر بولو اگر میں نہ کر سکو تو بات کرنا"
کیف درید کا ڈیر سنے بغیر اس پر اپنا ڈر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ کانفیڈنس سے بولا
"زمل ذرا اپنا بریسلیٹ دینا"
کیف کی بات سن کر درید زمل سے بولتا ہوا خود ہی اس کی کلائی پر موجود بریسلیٹ اتارنے لگا۔۔۔ زمل خود بھی گھبرا کر کیف کو دیکھنے لگی کیونکہ اس کے فوبیا کے بارے میں وہ زمل ہی نہیں وہ تینوں بھی جانتے تھے
"بے فکر رہو اس بریسلیٹ کو میں اس پول میں نہیں پھینکوں گا جو تم ڈر کے مارے بار بار سوئمنگ پول کو دیکھ رہے ہو"
درید کی بات پر زمل اور کیف کو چھوڑ کر واصف، نشاہ اور ثمرن ہنسنے لگے
درید دیوار کے ساتھ فکس ہوئے اس پائپ کے پاس آیا جو اوپر کی طرف جا رہا تھا اس پائپ میں باقاعدہ چڑھنے کے لئے تین سے چار فٹ کے فاصلے پر چھوٹے سائز کے سریہ فکس کیے ہوئے تھے جن کی مدد سے آسانی سے اوپر کی طرف چڑھا جا سکتا تھا۔۔۔۔ درید ایک سریے پر اپنا شو رکھ کر اوپر چڑھنے لگا،، زمل سمیت سب درید کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ جب وہ آخر کے تین اسٹیپ چڑھنے سے رہ گئے تو درید نے اس زنگ آلود سریہ پر اپنا جوتا نہیں رکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ سریہ کمزور ہے اس پر وزن ڈالنے سے وہ نیچے گر سکتا ہے،، اس زنگ آلود سریہ کے پاس دیوار پر موجودہ کھانچے میں اپنا جوتا پھنسا کر وہ اوپر چڑھنے لگا۔۔۔ نیچے دیکھنے والے شاید یہ بھی کوئی اسٹنڈ کا حصہ سمجھ رہے ہو،، وہ اوپر چڑھ کر زمل کا بریسلٹ وہاں رکھ آیا جہاں پانی کا بڑا سا ٹینک موجود تھا اور احتیاط سے نیچے اتر کر واپس آ گیا
"اوپر پانی کے ٹینک کے پاس زمل کا بریسلٹ موجود ہے تمہیں وہ بریسلیٹ لانا ہوگا سمپل"
درید کیف کو دیکھتا ہوا بولا تو کیف سر اٹھا کر دیوار کی ہائیٹ دیکھنے لگا
"یہ اتنا بھی سمپل نہیں ہے جیسے تم کہہ رہے ہو"
کیف دیوار پر لگے ہوئے پائپ کی ہائٹ دیکھتا ہوا بولا تو ثمرن اور نشاء ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکرانے لگی
"بچوں والا ٹاسک ہے یار یہ"
واصف بھی کیف کو دیکھ کر بولا تو درید فوراً بولا
"پر ہر بچہ نہیں کرسکتا واصف"
درید کی بات سن کر زمل کو چھوڑ کر وہ تینوں ہنسنے لگے جبکہ درید اپنی ہنسی چھپاتا ہوا کیف کو دیکھنے لگا جو خار بھری نظروں سے اسی کو دیکھنے کے بعد اوپر چڑھنے لگا
"ارے واہ چوزا تو ہمت والا نکلا"
نشاء ثمن کو دیکھ کر آہستہ سے بولی جس پر ثمرن اسے ہنستی ہوئی آنکھیں دکھانے لگی
"بار بار نیچے مت دیکھو کیف، بس اوپر چڑھتے چلے جاؤ۔۔۔ یو کین ڈو اٹ مین"
واصف بار بار کیف کے نیچے دیکھنے پر اونچی آواز میں کیف سے بولا مگر جیسے ہی کیف نے زنگ آلود سریہ پر جوتا رکھ کر وزن ڈالا سریہ دیوار سے نکل گیا اس سے پہلے وہ نیچے گرتا کیف پائپ پکڑ چکا تھا۔۔۔ نیچے موجود زمل کی چیخ نکلی جبکہ نشاء اور ثمرن افسوس سے اووو کرتی رہ گئی
"کیف گھبراؤ نہیں تم آرام سے نیچے آ سکتے ہو"
آصف کی آواز آنے پر کیف دوبارہ نیچے دیکھنے لگا اس کے ہاتھوں کی گرفت پائپ کمزور ہونے لگی
"دید اس کو بچا لیں پلیز، وہ نیچے گر جائے گا"
زمل گھبرا کر درید سے بولی جو دلچسپی سے کیف کے ٹاسک کو بھرپور طریقے سے انجوائے کر رہا تھا
"ریلکس ڈارلنگ وہ بچہ نہیں ہے اپنا دماغ استعمال کر کے آرام سے نیچے آ سکتا ہے"
درید زمل سے پیار بھرے لہجے میں بولا ہی تھا
"آآآآ"
کیف کے ہاتھوں سے پائپ کی گرفت چھوٹی اور وہ نیچے گر پڑا
"چلو جی یہ تو گیا کام سے" ثمرن افسوس سے کیف کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ واصف اور زمل دونوں ہی نیچے گرے ہوئے کیف کی جانب بڑھے جو کہ اپنا کندھا پکڑے درد سے چیخ رہا تھا ساتھ ہی کھا جانے والی نظروں سے درید کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ درید نے خود بھی کیف کو دیکھ کر طنزیہ ہنستے ہوئے اپنا سر جھٹکا
****
"زمل تم مانو یا نہ مانو اس کمینے انسان نے جان بوجھ کر میرے ساتھ یہ سب کیا ہے"
صبح زمل یونیورسٹی پہنچی تب اسے ثمرن نے کیف کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا۔۔۔ کیوکہ رات میں ہی کیف کہ شولڈر میں کافی درد تھا اس سے اپنی کار ڈرائیو نہیں ہو پا رہی تھی واصف اسے زمل کے ہاں سے ہسپتال لے گیا وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کیف کے بازو کی ہڈی اپنی جگہ سے سرک گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے پاؤں پر بھی ہیئر لائن فریکچر آیا تھا وہ اس وقت ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹا ہوا زمل سے موبائل پر بات کر رہا تھا
"دید کی تمہارے سے کوئی دشمنی تو نہیں ہے کیف جو انہوں نے تمہیں جان بوجھ کر پری پلان گرایا ہو اور پلیز ان کے لئے بیٹ ورڈز یوز مت کرو"
زمل کیف کی بات کی نفی کرتی ہوئی اس سے بولی کیف کا درید کو کمینہ کہنا زمل کو بالکل اچھا نہیں لگا جس کے لیے اس نے کیف کو ٹوک دیا
"زمل تم اس درید کے بچے کی سائیڈ لینا بند کرو اور پلیز یہ مت بولنا کہ اس کا اظہار محبت سن کر تم اس کی محبت میں مبتلا ہو چکی ہوں یا تمہیں بھی اچانک کل رات اس سے پیار ہوگیا ہے"
کیف کو زمل کا درید کی سائیڈ لینا بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا جبھی وہ تپ کر بولا
"تم بات کو کہاں سے کہاں لے کر چلے گئے ہو کیف۔۔۔۔ دید کے ساتھ میرا پورا بچپن گزرا ہے انہیں تم یا کوئی دوسرا برا بولے گا تو مجھے برا ہی لگے گا اور دید کا اظہار محبت سچ تھوڑی تھا۔۔۔ وہ بھلا میرے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں۔۔۔ وہ سب کچھ تو انہوں نے ویسے ہی سب کے سامنے بول دیا ہوگا"
زمل کیف سے زیادہ اپنے آپ کو اپنی بات کا یقین دلا کر بولی، ساتھ ہی اس نے درید کے خیال کو بری طرح جھٹکا۔۔۔ وہ کل رات سے ہی درید کے خیال کو ایسے ہی جھٹک رہی تھی وہ درید کے لیے کچھ محسوس ہی نہیں کرنا چاہتی تھی
"اگر وہ سب کچھ سچ تھا بھی تو یاد رکھنا زمل کہ میں تمہیں درید اعظم سے زیادہ پیار کرتا ہوں،، مجھے کل بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا جیسے وہ تم پر حق جتا رہا تھا۔۔۔ میں بالکل بھی برداشت نہیں کر پاؤں گا اگر تمہارا مائنڈ یا پھر دل میری طرف سے ہٹا بھی"
کیف زمل کو وارننگ دیتا ہوا بولا تو زمل خاموش ہوگئی اسے کل شام کا وہ مناظر یاد آنے لگے جب درید نے اس کے بیڈروم میں پورے استحقاق کے ساتھ زمل کے ہونٹوں پر مہر ثبت کی تھی۔۔۔ اس نے تو کبھی کیف کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا مگر وہ درید کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکی تھی۔۔۔ یہ سب اگر کیف کو معلوم ہو جاتا تو کیا وہ برداشت کر پاتا
"کہاں کھو گئی ہو یار مجھ سے بات کرتے کرتے تم"
کیف کی موبائل پر آواز سن کر زمل ایک دم ہوش کی دنیا میں آ کر بولی
"کہیں نہیں۔۔۔ تمہارے بارے میں سوچ رہی تھی بہت چوٹیں آئی ہیں کل رات تمہیں کیف"
زمل بات بناتی ہوئی بولی مگر یہ سچ بھی تھا وہ کیف کے لئے فکر مند تھی
"میرے بارے میں سوچو مت زمل مجھ سے ملنے کے لیے میرے پاس آؤ۔۔۔ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں یار کل تو اس درید اعظم کی موجودگی میں، میں تمہیں ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پایا۔۔۔ مجھے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں نظر اٹھا کر تمہیں دیکھوں گا تو درید اعظم مجھے ویسے ہی جلا کر راکھ کر دے گا تم نے نوٹ کیا وہ واصف سے باقی سب سے کتنے کتنے اچھے طریقے سے بات کر رہا تھا اور مجھے کیسے گھور رہا تھا"
کیف نے جو محسوس کیا وہ زمل نے بھی محسوس کیا تھا مگر وہ اس بات کو گول کرتی ہوئی بولی
"ملنے کا تو یہ ہے میں آف ٹائم میں نشاہ یا پھر ثمرن میں سے کسی کے ساتھ تمہارے پاس ہاسپٹل آتی ہوں"
زمل کیف سے بولی کیوکہ صبح اس کے یونیورسٹی جانے کے ٹائم پر درید آفس کے لیے تیار ہوا خود بھی ناشتہ کر رہا تھا
**†**
"آپ یہاں پر کیا کر رہے ہیں دید"
زمل نے
یونیورسٹی کے آف ٹائم میں جب درید کو یونیورسٹی میں دیکھا تو وہ درید سے حیرت کا اظہار کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"یہاں پر اور کس کے لئے آؤنگا مائی لیڈی، آفس سے تمہارے لئے ہی آیا ہوں آجاؤ کار وہاں پارک ہے"
درید زمل کو اشارہ کرتا ہوا خود اپنی کار کی طرف بڑھنے لگا
"دید میری بات سنیں پلیز مجھے گھر سے پہلے ہاسپٹل جانا ہے کیف کو دیکھنے، واصف اور ثمرن تو اس کو دیکھ آئے تھے میں نے سوچا میں نشاہ کے ساتھ جا کر اسے دیکھ آتی ہوں"
زمل کی بات سن کر درید کچھ پل اس کو خاموشی سے دیکھنے کے بعد ایک دم بولا
"نشاہ کو چھوڑو تم میرے ساتھ چلو ہاسپٹل،، اسی بہانے میں بھی دیکھ لیتا ہوں بیچارے سے کیف کو، نہ جانے کہاں کہاں سے اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا ہے"
درید افسوس سے بولتا ہوا کار کی طرف بڑھا تو زمل کو بھی نہ چاہتے ہوئے درید کے ساتھ جانا پڑا مگر اسپتال سے واپسی پر زمل کو اچھا خاصہ غصہ آیا ہوا تھا جس کا اظہار اس نے درید سے کار میں بیٹھتے ہی کیا
"آپ ہاسپٹل کس لیے گئے تھے دید، بیمار کی عیادت کرنے کے لیے یا پھر اس کا مذاق بنانے کے لیے"
کیف ایک تو زمل کو درید کے ساتھ آتا ہوا دیکھ کر ویسے ہی بری طرح تپ گیا تھا اوپر سے درید نے کیف پر افسوس کرنا شروع کر دیا کہ وہ کیف کو صرف اوپر سے ہی کمزور سمجھتا تھا لیکن اس کے اندرونی حالات اور پرزے بھی کافی ڈھیلے ڈھالے اور کمزور ہیں بقول درید کہ کیف کو اپنے آپ کو اور اپنی ہڈیوں کو کافی اسٹرونگ بنانا چاہیے جس کے لیے درید نے اچھی غذا اور ٹیبلیٹس کے استعمال کا بھی مشورہ دیا۔۔۔ درید کیف کہ یونیورسٹی کے ہرج ہونے کا اور اس کے سمسٹر نہ دینے کا بھی افسوس کر رہا تھا ساتھ ہی اس نے کیف کی عقل پر بھی ماتم کرتے ہوئے بتایا کہ اگر وہ پائپ پر لٹک ہی گیا تھا تو اسے کس ٹرک سے نیچے آنا چاہیے تھا۔۔۔ نہ کہ وہ ڈر کے مارے پائپ ہاتھ سے چھوڑ دیتا۔۔۔ ساتھ ہی درید نے کیف کو برین تیز کرنے کی ایکسرسائز کی بھی کچھ ترکیب بتائی۔۔۔ جتنی دیر زمل درید کے ساتھ ہاسپٹل میں موجود رہی اتنی ہی دیر صرف درید بولتا رہا لیکن اب کار میں بیٹھنے پر زمل شروع ہو گئی تھی
"میں کیوں کیف کا مذاق اڑاؤں گا اس نے خود حرکت ہی اپنا مذاق اڑانے والی کی ہے۔۔۔ دیکھا نہیں کل پائپ پر لٹکا ہوا کینا فنی لگ رہا تھا"
درید اپنی ہنسی چھپا کر بولتا ہوا کار ڈرائیو کرنے لگا اس کی نہ چھپنے والی ہنسی کو دیکھ کر زمل کو درید پر غصہ آنے لگا
"بہت ہنسی آرہی ہے آپ کو، ذرا احساس ہے آپ کو۔۔۔ اس کے شولڈر کی ہڈی میں کریک آیا ہے اس کے پاؤں میں پلسٹر بندھا ہوا ہے وہ دو ماہ تک یونیورسٹی نہیں آ سکتا۔۔ وہ بے چارہ سسمسٹر نہیں دے پائے گا"
زمل درید سے غصے میں بول رہی تھی مگر اس کو کیف کی حالت دیکھ کر افسوس ہو رہا تھا
"اسٹاپ اٹ زمل میں نے اس سے نہیں کہا تھا کے ہائیٹ سے چھلانگ لگا کر اپنی کمزور اور ناتواں ہڈیوں کا حلوا بنا دوں،، نہ ہی اس کے سمسٹر نہ دینے کی وجہ میں بنا ہو۔۔۔ عقل سے اسے خود کام لینا چاہیے تھا"
درید ڈرائیونگ کرتا ہوا سیریس ہو کر زمل کو بولا تو زمل نے اپنا سر جھٹکا نہ جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے درید نے اسے ارام سے یونیورسٹی جانے ہی اس لئے دیا ہے کیونکہ کیف دو ماہ تک بیڈ ریسٹ پر ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کیف کو پلان کرکے درید نے زخمی کیا ہو تاکہ زمل یونیورسٹی جا سکے کیف کا درید پر شک کرنا صحیح ہو
"آپ نے اسے ٹاسک دیا تھا آپ جانتے تھے کہ کونسا ہک لوز ہے جس پر پاؤں کا وزن دینے سے وہ دیوار سے نکل جائے گا۔۔۔ آپ کو کیف کے اوپر جانے سے پہلے اس کو انفارم کرنا چاہیے تھا دید لیکن آپ نے اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ شاید آپ چاہتے تھے کہ کیف کو نقصان پہنچے"
زمل غصے میں بولی تو درید نے ایک دم کار کو بریک لگایا اور اب وہ بھی غصے میں زمل کو گھور رہا تھا
"زیادہ ہی زبان نہیں چل رہی ہے اس وقت تمہاری۔۔۔ کیف صرف ٹوٹا پھوٹا لیکن زندہ ہے، اس لیے اس کے لیے جذباتی ہونا بند کرو۔۔۔۔۔ ایک دوست ہونے کی حیثیت سے تم جتنا کیف کے لیے افسوس کر سکتی تھی وہ تم کر چکی ہوں اب میں دوبارہ تمہارے منہ سے کیف کا نام نہ سنو،، کیف سے زیادہ تم اپنے سیمسٹر پر دھیان دو جس کے لئے تمہیں یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دی ہے میں نے"
درید زمل کو آنکھیں دکھا کر جھڑکتا ہوا بولا تو زمل بالکل خاموش ہو گئی۔۔۔ پیچھے دوسری کار ہارن دے رہی تھی جس کو دیکھ کر درید نے دوبارہ کار کو اسٹارٹ کر کے ڈرائیو کرنا شروع کر دیا
*****
درید کے سارے دوست جو کہ تھوڑی دیر پہلے اس کے گھر پر انوائٹ تھے کچھ دیر قبل ہی واپس اپنے گھروں کو لوٹے تھے، درید لیونگ روم سے نکل کر تابندہ کے بیڈ روم کی بند لائٹ کو دیکھ کر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ سو چکی ہے جبکہ زمل کے کمرے سے بجتے ہوئے موبائل کی آواز نے اسے زمل کے کمرے کی طرف متوجہ کیا۔۔۔ کارنر ٹیبل پر رکھے ہوئے موبائل پر آتی کیف کی کال کو دیکھ کر ناگوار شکنیں درید کے ماتھے پر نمایاں ہوئی
"رات کے وقت زمل کو کال کرنے کی کوئی خاص وجہ"
درید کی کال ریسیو کر کے بغیر سلام دعا کے کیف سے مخاطب ہوا تو دوسری سائیڈ درید کی آواز سن کر کیف کا موڈ بھی خراب ہو گیا
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں رات میں اس وقت تم زمل کے کمرے میں کیا کر رہے ہو"
رات کے وقت درید کی زمل کے کمرے میں موجودگی کیف کو بھی ہضم نہیں ہوئی تھی اس لیے بے ساختہ وہ بھی درید سے پوچھ بیٹھا
"تم زمل کے یونیورسٹی فیلو ہو تو اپنی لمٹ میں رہو۔۔۔ تم یہ بات پوچھنے کا حق نہیں رکھتے ہو کہ میں اس وقت زمل کے کمرے میں کیا کر رہا ہوں اور دوسری بات بھی جان لو مجھے اپنے اور زمل کے بیچ کسی دوسرے کی مداخلت کچھ خاص پسند نہیں ہے تو تم اس بات کا آئندہ خیال رکھنا اور ایک آخری بات۔۔۔۔ کیف اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری باقی کی ہڈیاں سلامت رہے تو زمل سے دور رہنا، اگر عقلمند ہوگے تو میری اس بات کو یاد رکھو گے"
درید کیف کو بول کر لائن ڈسکنیکٹ کرکے موبائل بیڈ پر اچھالتا ہوا اپنے بیڈ روم میں چلا آیا وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ زمل اپنے بیڈ روم میں نہیں تو کہاں موجود ہے جبھی اپنے بیڈ روم کی کھڑکی کی طرف اس کی نظریں گئی، جہاں پول کے اندر دونوں پاؤں ڈالے زمل کسی گہری سوچ میں گم تھی،، آج کے دن وہ سارا ہی وقت اپنی وائف کو ڈھنگ سے نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔۔ درید ڈریس چینج کرنے کے بعد کیجول ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں بیک یارڈ کی طرف جانے کا ارادہ کرنے لگا
*****
"یہاں اکیلی بیٹھی کیا سوچ رہی ہو میری پنک ڈول"
لائٹ پنک کلر کے کپری اور پنک کلر کے ہی ٹاپ میں وہ اپنے دونوں پاؤں پول کے اندر ڈالے کسی گہری سوچ میں گم تھی تب درید بیک یارڈ میں آ کر ہاتھ میں موجود گاؤن اور ٹاول کو ریلکسنگ چیئر پر رکھنے کے بعد زمل کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا زمل اپنی سوچوں سے نکل کر درید کو دیکھنے لگی
"کیوں کیا اب آپ کو میرے یہاں بیٹھ کر کچھ سوچنے پر بھی اعتراض ہے"
کل جب وہ زمل کو کیف کے پاس ہاسپٹل سے گھر لایا تھا تب سے زمل اس سے ناراض تھی اس لیے طنزیہ لہجے میں درید کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"صرف ان سوچوں پر اعتراض ہے جو سوچیں تمہارے دماغ کے لئے مضحر ثابت ہو سکتی ہیں"
درید مسکراتا ہوا بولا ساتھ ہی اپنی ٹی شرٹ اتار کر ریلکسنگ چیئر پر اچھالی
"میں اب بچی نہیں ہو دید اور اپنا اچھا برا خود سمجھ سکتی ہوں اس لیے اب آپ بار بار یوں اعتراضات اٹھانا بند کر دیں"
زمل جتانے والے انداز میں درید سے بولی مگر جیسے ہی اپنی ٹی شرٹ اتارنے کے بعد درید کے دونوں ہاتھ اپنے ٹراؤزر پر گئے زمل نے ویسے ہی اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔۔۔ درید اس کی حرکت پر مسکراتا ہوا ڈائیو مار کر پول میں چھلانگ لگا چکا تھا تو زمل اپنے چہرے سے دونوں ہاتھوں کو نیچے کر کے درید کو دیکھنے لگی جو اس وقت بناء شرٹ کے،،،، ٹراؤزر میں موجود پول کے اندر سے زمل کو دیکھ رہا تھا
"مجھے معلوم ہے تم اب بچی نہیں ہو لیکن بیوقوف ہو جو غلط دیکھنے کے باوجود نادانی پر اتری ہوئی ہو"
درید سوئمنگ کرتا ہوا زمل کے پاس آ کر بولا جو کہ ابھی تک اپنے دونوں پاؤں پول کے اندر ڈالے بیٹھی تھی،، زمل درید کی بات پر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی نہ جانے سے کیوں محسوس ہوا جیسے درید اس کے اور کیف کے بارے میں جانتا ہے،، وہ بنا کچھ بولے وہاں سے جانے کا ارادہ کرنے لگی
"کہاں جا رہی ہو"
اس سے پہلے زمل اپنے دونوں پاؤں پول سے باہر نکالتی درید اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر پیار سے پوچھنے لگا
"مما کے پاس جا رہی ہو میں"
زمل جس انداز میں بولی،، درید کو وہ اس وقت کوئی چھوٹی بچی لگی جو اس سے خفا تھی
"سو چکی ہیں وہ،، یہاں پول کے اندر آجاؤ میرے پاس"
درید نے بولنے کے ساتھ ہی اچانک زمل کے دونوں پاؤں کو پول کے اندر کھینچا جس سے وہ پول کے اندر آ گری۔ ۔۔ اگر درید فوراً اسے کمر سے نہ پکڑتا تو زمل پوری کی پوری پانی کے اندر موجود ہوتی
"یہ کیا حرکت کی ہے آپ نے دید مجھے پورا کا پورا بھگو ڈالا، اب پیچھے ہٹیں"
زمل کو درید کی اس حرکت پر بےحد غصہ آیا وہ کمر تک پانی میں موجود تھی درید کے دونوں ہاتھ اپنی کمر کے گرد سے ہٹاتی ہوئی ناراض لہجے میں بولی
"ابھی پورا کہاں بھگویا ہے جان،، پورا تو پول کے اندر تم اب جاؤں گی وہ بھی اپنے دید کے ساتھ"
درید نے زمل کے باہر نکلنے سے پہلے ہی،، اسے اپنے دونوں بازوؤں میں مضبوطی سے جکڑ کرلیا
"دید یہ کیا۔۔۔۔" زمل بول بھی نہیں پائی کہ درید اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں رکھتا ہوا۔۔۔ پانی کے اندر پہنچ چکا تھا،، زمل درید کی اس بے باک حرکت پر پہلے والی حرکت سے بھی زیادہ غصہ ہوئی تھی وہ درید کی گرفت سے آزاد ہونے کے لئے اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگی اس کے منہ سے ببلز نکل رہے تھے۔۔۔ درید کی گرفت سے آزاد ہو کر اس نے اپنا سر پانی سے باہر نکالا اور کھانسنے لگی
"اتنی فضول حرکتیں کر رہے ہیں آپ،، کیوں تنگ کر رہے ہیں آخر مجھے" درید زمل کے کھانسنے پر اس کے پاس آکر زمل کی کمر سہلانے لگا زمل آنکھیں دکھا کر غصہ کرتی ہوئی اس سے بولی
"اسے تنگ کرنا نہیں کہتے میری جان بلکہ شرارت کرنا کہتے ہیں،، کیوں بھول جاتی ہو میرے اور تمہارے درمیان اب ایک مضبوط رشتہ قائم ہوچکا ہے۔۔۔ جس میں بےتکلفی بری نہیں لگتی،۔ آؤ ساتھ میں سوئمنگ کرتے ہیں"
درید یہ وقت زمل کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے اس لیے اس کو مناتا ہوا اسے سوئمنگ کرنے کا بولنے لگا
"بھول چکی ہوں میں سوئمنگ کرنا، نہ اب مجھے دلچسپی رہی ہے سوئمنگ کرنے میں۔۔۔ اب میں بس اپنے روم میں جانا چاہتی ہوں دید"
زمل رات کے اس وقت درید اور اپنے آپ کو بھیگا ہوا دیکھ کر اور درید کی باتیں سن کر بولی۔،۔۔ اس وقت درید جس موڈ میں تھا زمل کو اس کے پاس ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں لگ رہا تھا اس لیے درید سے بولتی ہوئی وہ پول میں موجود سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔ درید چاہتا تو وہ زبردستی زمل اپنے پاس روک سکتا تھا مگر وہ محسوس کر چکا تھا کہ زمل اس سے پہلے ہی خفا تھی وہ اب اسے مزید اپنے آپ سے بد دل نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے زمل کو پول سے باہر جاتا ہوا دیکھنے لگا
"دید آپ نے یارڈ کا دروازہ بند کیوں کر دیا۔۔۔ اس کے اندر کا لاک تو خراب تھا اور اب ڈور کو باہر سے کوئی کھولے گا تب ہی ہم دونوں باہر جا سکیں گے ورنہ ہم دونوں یارڈ میں لاک رہے گے"
زمل واپس پول کے طرف آکر درید سے پریشان لہجے میں بولی
"بخش سے میں نے لاک چینج کرنے کو کہا تو تھا میں نے، ایک تو یہ لوگ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرتے ہیں، رکو میں چیک کرتا ہوں"
درید زمل کو بولتا ہوا پول سے خود بھی باہر نکل کر ریلکسنگ چیئر سے ٹاول اٹھا کر اپنے شولڈر پر ڈالتا ہوا یارڈ کا لاک چیک کرنے لگا جوکہ زنگ آلود ہونے کی وجہ سے جام تھا
"اب کیا ہوگا دید"
زمل پریشان ہو کر درید کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جو کہ مسلسل دروازہ کھولنے کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا
"اب کیا ہو سکتا ہے یہ دروازہ خود یہی چاہتا ہے کہ آج تم میرے پاس سے بالکل بھی دور نہیں جاؤ"
درید دروازے کا ہینڈل چھوڑ کر زمل کو اپنے حصار میں لے کر سیریس انداز میں بولا
"آپ بات کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں دید اور میں پریشان ہو"
زمل نے درید کو بغیر شرٹ کے دیکھا جو اسے اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا زمل نے اس کے حصار سے آزاد ہونا چاہا مگر درید نے زمل کو ایسا نہیں کرنے دیا
"تو کیوں پریشان ہو، تھوڑی دیر میں دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں اب بالکل ریلکس ہوجاؤ"
درید زمل کو اپنے حصار میں چھپائے اس کے چہرے پر پریشانی کو دیکھ کر نرمی سے بولا ساتھ ہی اپنے شولڈر سے ٹاؤل ہٹاتا ہوا زمل کے گیلے بال خشک کرنے لگا
"مجھے سردی بھی لگ رہی ہے دید"
نومبر کے مہینے رات کے پہر ہلکی ہلکی سی چلنے والی ہوا سے زمل کو واقعی ٹھنڈ محسوس ہونے لگی تو وہ درید کو دیکھتی ہوئی بولی
"جاؤ اسٹور روم میں جا کر باتھ گاؤن پہن لو"
درید اس کے گیلے کپڑوں کو دیکھ کر زمل سے بولا۔۔۔ زمل یارڈ میں موجود چھوٹے سے اسٹور روم میں گاؤن لے کر چلی گئی جبکہ درید ریلکسنگ چیئر سے اپنی ٹی شرٹ اٹھا کر پہننے کے بعد دیوار پر فکس ہوئے پائپ پر چڑھنے لگا جہاں اس نے دو دن پہلے زمل کا بریسلٹ رکھا تھا
زمل باتھ گاؤن پہنے اسٹور روم باہر نکلی اور ہاتھ میں موجود گیلے کپڑے ایک سائڈ رکھتی ہوئی چاروں اطراف میں نظریں دوڑا کر درید کو ڈھونڈنے لگی جو اسے دیوار کے ساتھ لگے پائپ سے نیچے اترتا ہوا دکھا۔۔۔
زمل سمجھ گئی درید یقیناً اوپر چھت پر جانے کے بعد وہی سے نیچے گیٹ پر موجود واچ مین کو یارڈ کا دروازہ کھولنے کا کہہ چکا ہوگا
"واچ مین کو بول دیا ناں آپ نے کہ دروازے کا لاک کھول دے"
درید چلتا ہوا زمل کے پاس آنے لگا تو وہ درید سے پوچھنے لگی
"کیا واچ مین کو ایسا بھی کچھ بولنا تھا۔۔۔ مجھے تو لگا آج ہم دونوں کو گھر کے اس حصے میں ایک ساتھ رات گزارنی چاہیے"
وہ زمل کی کلائی پر اس کا بریسلیٹ پہناتا ہوا سنجیدگی سے بولا جس پر زمل ناراضگی سے درید کو دیکھنے لگی
"لگتا ہے ان چار سالوں میں تمہیں اپنا دید اور اس کا مذاق برا لگنے لگا ہے"
درید زمل کے چہرے کے تاثرات دیکھتا ہوا درید اس سے بولا
"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے"
زمل درید کی بات پر ایک دم اس سے بولی اور اپنے چہرے کے زاویے ٹھیک کرنے لگی
"تو پھر جو بھی بات ہے وہ یہاں میرے قریب آ کر مجھے بتا دو"
درید ریلکسنگ چیئر پر بیٹھنے کے بعد زمل کو اپنی تھائی پر بیٹھاتا ہوا بولا درید کی اس اچانک کاروائی پر زمل ایک دم سٹپٹا سی گئی
"دید اب میں بچی نہیں رہی ہو جو آپ اس طرح سے مجھے۔۔۔"
زمل اس کی گود میں بیٹھی ہوئی درید سے بولی مگر درید کی نظروں سے کنفیوز ہوکر آدھی بات اس کے منہ میں ہی رہ گئی
"مجھے تو تم ابھی بھی کوئی چھوٹی سی بچی ہی لگتی ہو اور مجھے اب یہ معلوم ہے کہ اس بچی پر مکمل میرا اختیار ہے اس لیے دل میں آتی کوئی بھی اپنی خواہش کو میں رد نہیں کر سکتا"
درید زمل سے بولتا ہوا ریلکسنگ چیئر پر پیچھے کمر ٹکا کر آرام سے بیٹھ گیا اور زمل کو اپنے حصار میں لے لیتے ہوئے اس کا سر اپنے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ زمل درید کی بات سن کر بالکل خاموش ہوگئی اور کیف کے خیال آتے ہی وہ سوچنے لگی وہ کس راہ پر نکل چکی ہے،، کیا درید سے اس کے اختیارات چھینا اتنا آسان ہوگا جتنا وہ سمجھ بیٹھی ہے
"خاموش کیو ہوگئی جان، باتیں کرو ناں اپنے دید سے جیسے پہلے کرتی تھی ڈھیر ساری باتیں"
درید زمل کی کمر پر اپنے دونوں بازووں کو باندھے اپنے سینے پر رکھے ہوئے زمل کے سر پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا اس سے بولا
"اتنا پرفیکٹ کپل ڈانس کب سیکھا آپ نے"
زمل جانتی تھی وہ درید کے حصار سے اس وقت آزاد ہونا چاہے بھی تو درید اسے کبھی آزاد نہیں کرتا اس لیے کیف کے خیال کو جھٹک کر درید کے سینے پر سر ٹکائے اس سے پوچھنے لگی
"لندن میں اپنے فرینڈ جیک کی گرل فرینڈ سے"
درید کی بات سن کر زمل اس کے سینے سے سر اٹھا کر سنجیدگی سے درید کو دیکھنے لگی وہ مسکراتا ہوا زمل کو دیکھنے لگا
"اور کیا کیا سیکھا ہے جیک کی گرل فرینڈ سے"
زمل طنزیہ لہجہ اختیار کرتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی تو وہ زور سے ہنسا
"اور باقی کچھ تمہارے دید کو سیکھنے کی ضرورت نہیں سب اسے پہلے سے ہی آتا ہے"
درید زمل کے چہرے پر اپنی نظریں ٹکائے معنی خیز لہجہ اختیار کرتا ہوا بولا۔۔۔ درید کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لیے زمل نے دوبارہ اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا
"اب کیا سوچنے لگ گئی"
درید اپنے ہاتھوں کی انگلیاں زمل کے بالوں میں پھیرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ اب بھی زمل کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا
"لندن جانے سے پہلے آپ کافی شریف انسان ہوا کرتے تھے وہاں کے ہوا لگ کر کافی بگڑ چکے ہیں آپ اور ساتھ ہی اپنی شرافت بھی بھول چکے ہیں"
زمل جو درید کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ سچ سچ اس کے سینے پر سر رکھے درید کو بولنے لگی جس پر درید ایک بار پھر قہقہہ لگا کر زور سے ہنسا
"شریف تو میں پہلے بھی نہیں رہا مائی لیڈی وہ تو تم سے میرا نکاح نہیں ہوا تھا۔۔۔ ویسے کافی بنانا کس سے سیکھا تم نے"
درید آہستہ آہستہ زمل کی کمر سہلاتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"آپ کو پسند آئی میرے ہاتھ کی کافی"
زمل ایک بار پھر درید کے سینے سے سر اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی تجسس سے پوچھنے لگی
"کافی ہاٹ تھی بالکل تمہاری طرح"
درید نے بولنے کے ساتھ ہی زمل کے چہرے پر اپنی نظریں جمائے اس کے گاؤن کی ڈوری اچانک کھول دی
"دید یہ کیا۔۔۔۔
زمل اس حرکت پر حواس باختہ ہوگئی فوراً پیچھے ہٹ کر گاؤن کی ڈوری باندھنے لگی مگر اس سے پہلے ہی درید چیئر سے اٹھ کر زمل کو چیئر پر لٹا چکا تھا
"دید اسٹاپ اٹ میں ناراض ہو جاؤ گی آپ سے"
زمل چیختی ہوئی درید سے اپنے دونوں ہاتھ چھڑا کر درید کو پیچھے ہٹانے لگی درید ایک بار پھر اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو میں کرنے کے بعد زمل کی گردن پر جھک گیا اور اس کی گردن پر اپنے ہونٹوں سے محبت کی گہری چھاپ چھوڑتا ہوا شولڈر سے زمل کا گاؤن کو نیچے کرنے لگا
"دید۔ ۔۔ نو لیو می"
اپنے شولڈر پر درید کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے وہ ایک بار پھر تیز آواز میں بولی۔۔۔ مگر درید اس کے دونوں ہاتھوں کو سختی سے پکڑے دیوانہ وار اس کے کندھے بازو اور گردن پر اپنے پیار کی گہری چھاپ چھوڑتا ہوا مدہوش ہو چکا تھا۔۔۔ زمل کے احتجاج پر تو نہیں البتہ یارڈ کا دروازہ باہر سے کھلنے کی آواز پر درید کو پیچھے ہٹنا پڑا
"آپ بہت زیادہ بدتمیز ہے دید آپ کو ذرا بھی احساس ہے اپنی حرکت کا آئی ہیٹ یو"
درید کی شدت بھرے انداز پر وہ غصہ کرتی ہوئی اسے دیکھ کر بولی اور گاؤن سے اپنے شولڈرز کو کور کرتی ہوئی چیئر سے اٹھ گئی
"زمل میری بات سنو یار"
درید زمل کے پیچھے آتا ہوا اسے بولا مگر درید کی آواز سن کر وہ رکنے کی بجائے بھاگتی ہوئی یارڈ سے باہر نکل گئی اور اپنے بیڈروم میں آ کر اس نے دروازے کو لاک کر لیا۔۔۔
*****
"کیا ہوا ناشتہ کیوں نہیں کر رہی ٹھیک سے"
تابندہ نے زمل کو دیکھ کر ٹوکنے والے انداز میں پوچھا جوکہ درید کے ڈائینگ ٹیبل پر آنے سے قبل ٹھیک سے ناشتہ کر رہی تھی مگر درید کے کرسی پر بیٹھتے ہی وہ ناشتے سے ہاتھ پیچھے کر چکی تھی، تابندہ کے ٹوکنے پر درید بھی نظریں اٹھا کر زمل کو دیکھنے لگا، وہ درید کی کل والی حرکت پر اس کو دیکھنے سے مکمل گریز کر رہی تھی
"ناشتہ میں کر چکی ہو بس اب یونیورسٹی کے لیے نکلنا ہے"
زمل تابندہ کو مختصر سا جواب دے کر اٹھ چکی تھی تبھی درید فوراً بولا
"واپس بیٹھ جاؤ میں ناشتہ کر کے تمہیں یونیورسٹی ڈراپ کردوں گا"
وہ خود بھی آفس جانے کے لیے ریڈی تھا زمل کو دیکھ کر جلدی سے بولا
"میں چلی جاؤ گی ڈرائیور کے ساتھ آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے"
زمل ایک نظر درید پر ڈال کر ناراض لہجے میں بولی۔۔۔ اس نے دوپٹہ سے اپنی گردن پر موجود نشانات کو اچھی طرح کور کیا ہوا تھا جو درید کی دیوانگی ظاہر کر رہے تھے
"جب میں کہہ رہا ہو یونیورسٹی تمہیں میں ڈراپ کردوں گا تو بلاوجہ ضد کرنے کی ضرورت نہیں ہے بیٹھو چیئر پر فوراً"
درید اب کی بار زمل کو دیکھتا ہوا روعب دار لہجے میں بولا تو وہ چیئر پر بیٹھنے کی بجائے درید کو دیکھنے لگی
"پھر جھگڑا کرلیا تم دونوں نے"
تابندہ جوکہ خاموشی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی بیچ میں مداخلت کرتی ہوئی بولی
"ایسی کوئی بات نہیں ہے اس کی عادت بن چکی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر برا مان جانے کی"
درید بات کو ٹالتا ہوا تابندہ سے بولا اور خود چیئر سے اٹھ کر زمل کا ہاتھ نرمی سے پکڑتا ہوا اسے چیئر پر بٹھانے لگا
"چھوٹی بات۔۔۔۔ وہ چھوٹی بات تھی جو کل رات آپ نے کی تھی۔۔۔ بتائے ذرا دید مما کو کہ کس بات کا برا مانا ہے میں نے"
زمل چیئر پر بیٹھتی ہوئی درید سے بولی جس پر درید حیرت سے پوری آنکھیں کھولے زمل کو دیکھنے لگا جبکہ تابندہ کنفیوز ہوکر درید کو دیکھنے لگی
"یہ کل رات میرے ساتھ کپل ڈانس کرنے کی ضد کررہی تھی میرا موڈ نہیں تھا ذرا سا ڈانٹنے پر برا مان کر بیٹھ گئی"
درید نارمل لہجے میں تابندہ کو بتانے لگا جس پر تابندہ کوئی تبصرہ کیے بغیر مسکراہٹ چھپانے کو چائے پینے لگی دوسری طرف زمل درید کے جھوٹ پر گھور کر اس کو دیکھنے لگی
"اب تمہارا منہ طرف ناشتہ کرنے کے لیے کھلنا چاہیے خاموشی سے پراپر ناشتہ کرو پھر یونیورسٹی جانا"
درید زمل کی ناشتے کی پلیٹ اس کے سامنے رکھتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اسے آنکھیں بھی دکھائی تاکہ وہ تابندہ کے سامنے کچھ الٹا سیدھا بولنے سے باز رہے
"بڑی بی بی آپ کا فون ہے"
نگہت نے ناشتے کی ٹیبل پر تابندہ کو اس کا بجتا ہوا موبائل لا کر دیا
"ہاں زرقون خیریت کیسے فون کیا تم نے"
تابندہ موبائل پر نمبر دیکھ کر کال ریسیو کرتی ہوئی بولی تو درید ناشتہ کرتا ہوا تابندہ کو دیکھنے لگا۔ ۔۔ زرقون بی اعظم کی ایبٹ آباد میں موجود رہائش گاہ کی ملازمہ کا نام تھا،، 19 سال پہلے جب ثمن کی اس کوٹیج میں موت واقع ہوئی تھی تب سے درید مشکل سے ہی ایبٹ آباد میں موجود اس کوٹیج میں مشکل سے دو یا تین مرتبہ گیا تھا اس کو وہاں عجیب سی وحشت محسوس ہوتی تھی مگر اعظم ہر سال وہاں تابندہ کے ساتھ چند دن گزار کر آتا کیونکہ اعظم کے آفس کی ایک برانچ وہاں پر بھی موجود تھی
"نہیں نہیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر اس کی حالت زیادہ بگڑ گئی ہے تو ڈاکٹر کو وہاں پر لے آؤ۔۔۔ باقی میں خود تمہارے بیٹے خادم سے شام میں بات کر لوں گی اور اسے سمجھا دو گی کہ کیا کرنا ہے"
تابندہ نے کال کاٹ کر موبائل ٹیبل پر رکھا تو درید اس کا چہرہ دیکھنے لگا
"کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہی ہیں آپ۔۔۔ کیا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے"
درید تابندہ کو غور سے دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"نہیں سب ٹھیک ہے،، زرقون بی کے شوہر کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی وہی بتا رہی تھی مجھے"
تابندہ بے دغیانی نیں بنا سوچے بات بناتی ہوئی درید کو بولنے لگی
"مما مگر زرقون بی کے ہسبینڈ کی تو۔۔۔"
زمل ناشتہ کرتی ہوئی اچانک سے تابندہ سے بولنے لگی مگر اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تابندہ بری طرح اس پر برس پڑی
"تم سے ابھی درید نے کیا کہا ہے خاموشی سے ناشتہ کرو، زمل تمہیں ہر وقت بولنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہے کہ نہیں، کتنی بار سمجھایا ہے کہ لڑکیوں کو بلاوجہ نہیں بولنا چاہیے، تمہاری عقل میں آتی ہی نہیں ہے میری باتیں، بڑی ہونے کے باوجود ابھی تک تمہاری عقل گھٹنوں میں موجود ہے۔۔۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر تم بڑی کب ہوگی اور کب تمہیں عقل آئے گی"
تابندہ زمل کو بنا کسی بات پر صبح ہی صبح اچھی خاصی سنا چکی تھی جس پر زمل کی شکل باقاعدہ رونے والی ہو گئی، وہ کرسی سے اٹھ کر بیگ شولڈر پر ڈالتی ہوئی اپنے آنسو ضبط کیے باہر نکل گئی۔۔۔ درید خاموشی سے تابندہ کو دیکھنے لگا جو کہ زرقون بی کی کال کے بعد سے مسلسل پریشان نظر آ رہی تھی
اسے تابندہ کے رویے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ آخر کیو تابندہ نے غلط بولا کہ زرقون بی کے شوہر کی طبعیت خراب ہے۔۔۔ اگر زمل یہ بولنے والی تھی کہ زرقون بی کے ہسبنڈ کی تو دو سال پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔۔۔ تو اس بات کا درید کو علم تھا یہ بات اعظم خود درید کو بتا چکا تھا جب وہ لندن میں تھا۔۔۔ درید تابندہ سے کچھ پوچھے بناء خاموشی سے چائے کا مگ اٹھائے چھوٹے چھوٹے سپ لیتا ہوا تابندہ کے چہرے کے اتار اور چڑھاؤ کو غور سے دیکھنے لگا
****
"کوئی کام تو نہیں تھا آپ کو اس وقت یا پھر میں بعد میں آجاؤں"
درید تابندہ کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا اسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جو کہ ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی
"نہیں میں فری ہوں، تم کمرے کے اندر آ سکتے ہو۔۔۔ کیا کوئی ضروری کام ہے"
تابندہ درید کے ہاتھ میں موجود فائل دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"ہاں کام تو ضروری تھا دراصل اس فائل پر آپ کے سگنیچر چائیے تھے"
درید کمرے میں آ کر صوفے پر بیٹھتا ہوا تابندہ سے بولا تو تابندہ اس کے برابر میں بیٹھ گئی اور درید کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس سے فائل اور پین لینے لگی
"بغیر ان پیپرز کو پڑھے ہی آپ ان پر سائن کر دیں گیں"
تابندہ سائن کرنے والی تھی ایک دم درید تابندہ سے بولا تو تابندہ اس کو دیکھنے لگی
"تم نے تو پڑھے ہوگے پیپرز پھر مجھے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے"
تابندہ درید کو دیکھتی ہوئی بولی درید اسی کو دیکھ رہا تھا تابندہ کے جواب پر بولا
"چیک کر لیں ایک دفعہ، کہیں یہ نہ ہو ڈیڈ نے ففٹی پرسنٹ پراپرٹی کا جو حصہ آپ کے نام کیا ہے اِن پیپرز پر سائن کرنے کے بعد میں اس کا بھی مالک بن بیٹھو"
درید سنجیدگی سے بولا تو تابندہ اس کی بات سن کر مسکرانے لگی
"میں جائیداد سے زیادہ رشتے کو اہمیت دینے کی عادی ہوں، اعظم وصیت میں ہم دونوں کو برابر کا شریک بنا کر چلے گئے۔۔۔ تم اور زمل ایک ساتھ خوش رہو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے"
تابندہ نے بولتے ہوئے دوبارہ پیپرز پر سائن کرنے چاہے
"پہلے تو میں آپ کو بتا دو کہ آپ ڈیڈ کی لائف پاٹنر رہی ہیں، بیس سال تک آپ کا اور ان کا ساتھ رہا ہے۔۔۔ آپ کانونی اور شرعی لحاظ سے ان کی ہر چیز پر حق رکھتی ہیں اور اب دوبارہ ان پیپرز کو پڑھے بغیر سائن مت کریئے گا پہلے ان کو اچھی طرح پڑھیں اور پھر سائن کریں"
تابندہ کو معلوم تھا اب جب تک وہ پیپرز نہیں پڑے گی تو درید اسے سائن نہیں کرنے دے گا اسلئے وہ پیپرز پڑھنے لگی
"فیکڑی کی ایک مشین بالکل ناکارہ ہو چکی ہے دو کی مرمت کروانی ہے جس کی لاگت 98 لاکھ۔۔۔ تو ٹھیک ہے ناں اس میں پیپرز پڑھنے والی کیا بات ہے یہ سب کام تو تم خود ہی دیکھ لیا کرو"
تابندہ پیپرز پر سائن کرتی ہوئی درید سے بولی
"آپ کو بھی ان ساری باتوں کا علم ہونا چاہیے اتنی لا پرواہی اور لاتعلقی برتنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں تھوڑا بہت آپ بھی آفس سے ریلیٹڈ چیزوں میں دلچسپی ظاہر کریں اور جلد سے جلد آفس جوائن کریں یوں خالی بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے"
درید تابندہ کو دیکھتا ہوا بولا تابندہ درید کو دیکھ کر مسکرانے لگی لندن سے آنے کے بعد وہ بالکل بچپن والا درید بن گیا تھا جو ثمن کے دور میں تابی آنٹی کے گھر آنے پر بہت خوش ہوتا تھا
"اگر یہ تمہاری خواہش ہے تو میں تمہاری خواہش کا احترام لازمی کروں گی لیکن ساتھ ہی میری بھی خواہش ہے تم اور زمل ایک ساتھ ہمیشہ خوش رہو۔۔۔ زمل بالکل بھی میچور نہیں ہے تمہیں اندازہ ہے ناں درید وہ بہت نادان ہے اس کی غلطیوں کو نظرانداز کر دیا کرو"
تابندہ درید کو دیکھتی ہوئی بولی درید بناء کچھ بولے اسمائل دے کر صوفے سے اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگا
"دیکھ کر آتا ہو اُسے، شام سے نظر نہیں آئی"
درید بولتا ہوا وہاں سے زمل کے کمرے میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا جبھی تابندہ سے بولا
"اگر زمل کے کمرے میں جا رہے ہو تو اسے ڈائینگ ہال میں لے آؤ اور خود بھی ڈنر کے لیے آجاؤ۔۔۔ اس لڑکی کے بھی موڈ کا نہیں پتہ جب سے یونیورسٹی سے آئی ہے منہ پھلا کر اپنے کمرے میں بیٹھی ہے"
تابندہ خود بھی صوفے سے اٹھ کر درید کو بتانے لگی وہ خود کچن میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی
"وہ پہلے ہی مجھ سے ناراض تھی، اور آج صبح آپ نے بھی اس کو اچھا خاصا ڈانٹ دیا وہ بھی بلاوجہ میں، موڈ تو خراب ہوگا ہی اس کا۔۔۔۔ میں اس کو منا لاتا ہوں اور ہم دونوں کا ڈنر تو آج احمر کے گھر ہے"
درید تابندہ کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ تابندہ صبح والی بات یاد کر کے پریشان ہوتی ہوئی کچن میں جانے کی بجائے اپنے موبائل پر زرقون بی کو کال ملانے لگی
*****
"مجھے دیکھ کر سوتا بننے کی عادت گئی نہیں تمہاری،، فوراً اٹھ جاؤ ورنہ تم جانتی ہو میں تمہیں کیسے جگاؤں گا"
درید سمجھ چکا تھا زمل کمرے کا دروازہ کھولنے پر سوتی ہوئی بن گئی ہے اس لئے وہ زمل کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اسے دھمکی دینے والے انداز میں بولا
"چلے جائیں دید یہاں سے میرا موڈ نہیں ہو رہا ہے آپ سے یا پھر مما سے بات کرنے کا۔۔۔ آپ دونوں ہی ایک جیسے ہیں اپنے اپنے موڈ کے اور اپنی مرضی کے مالک.... جب دل چاہا پیار کیا جب دل چاہا ڈانٹ دیا"
زمل ویسے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیڈ پر لیٹی ہوئی درید سے بولی۔۔۔ درید اس کی آنکھوں پر رکھا ہاتھ ہٹاتا ہوا پوچھنے لگا
"مجھ سے کل رات والی بات پر خفا ہو، تم جانتی ہو ناں میری عادت کو۔۔۔ جتنی شدت سے مجھے غصہ آتا ہے تو پھر میرے پیار میں بھی اتنی ہی شدت ہوگی یہ سب تو تمہیں برداشت کرنا پڑے گا"
درید کی بات سن کر زمل اس کو گھور کر دیکھنے لگی
"یہ حالت کر دیں گے آپ میری پیار میں۔۔۔ اسے کہتے ہیں محبت۔۔ یہ محبت نہیں ہے یہ پاگل پن ہے دیوانگی ہے اور میں یہ سب بالکل بھی برداشت نہیں کرنے والی"
زمل اٹھ کر بیٹھتی ہوئی درید پر اچھا خاصا بگڑتی ہوئی بولی درید اس کی گردن پر اپنے جذباتی پن کا مظاہرہ دیکھ کر زمل کا ناراض چہرہ دیکھنے لگا
"کل رات کچھ زیادہ ہوگیا تھا مگر غلطی میری بھی کہا تھی یار تم کل رات باتھ گاؤن میں میرے بالکل قریب تھی تو تمہارا یہ دیوانہ اگر پاگل نہیں ہوتا تو پھر کیا ہوتا"
درید کل رات کا منظر ذہن میں لاتا ہوا ایک بار پھر زمل کے اوپر جھکا۔۔۔ درید کے جھکنے سے وہ پیچھے ہوتی ہوئی دوبارہ تکیہ پر لیٹ گئی
"دید۔۔۔۔ پلیز نو"
درید اسکے ہونٹوں کے قریب اپنے ہونٹ لایا جس کی وجہ سے زمل بامشکل بول پائی
"کل رات کی طرح ڈریک کولا نہیں بنو اس ٹائم پرامس"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا اور زمل کے کچھ بولنے سے پہلے نرمی سے اس کے ہونٹوں اپنے ہونٹ رکھ دیئے جس سے زمل کے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی
"دید پلیز اب پیچھے ہٹ جائے"
چند سیکنڈ بعد جب اس نے زمل کے ہونٹوں کو آزاد کیا تو زمل اس کی قربت سے گھبراتی ہوئی بولی
"پیاس نہیں بجھی میری خاموشی سے یونہی لیٹی رہو"
درید اس کی گھبراہٹ کو نظر انداز کرتا ہوا زمل کی گردن پر جھک گیا مگر کل رات کی بانسبت آج اس نے جذباتی انداز نہیں اپنایا ہوا تھا اس کے باوجود زمل چند سیکنڈ بعد درید کو پیچھے ہٹا کر اٹھ بیٹھی
"چار سال تک آپ اپنی پیاس کیسے بجھاتے رہی ہیں لندن میں اپنا دیوانہ پن کس پر نکالتے رہے، جیک کی گرل فرینڈ پر وہ بھی ڈانس سکھانے کے لیے آپ کے اتنے ہی قریب آتی ہوگی۔۔ تو کیا اس کے ساتھ بھی آپ"
زمل چاہتی تھی کہ درید اس کے کمرے سے چلا جائے جبھی وہ درید سے بولی۔۔۔ زمل کی بات پر صحیح معنوں میں درید کو آگ لگا گئی جبھی اس نے زمل کو بیڈ پر دھکا دیا اور خود بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا
"تم مجھے نرم پڑتا دیکھ کر اب میری نرمی کا فائدہ اٹھا رہی ہو زمل، بہت غلط کر رہی ہو میرے ساتھ۔۔۔ کیا سمجھا ہوا ہے تم نے مجھے جواب دو۔۔۔ کمزور نفس کا مرد نہیں ہوں میں جو کسی بھی لڑکی کے قریب آنے پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پاؤ۔۔۔ ہمارے نکاح سے پہلے تم پر کتنی بار یوں اپنی دیوانگی ظاہر کی ہے میں نے جواب دو مجھے، یا بچپن میں کتنی مرتبہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے تمہارے قریب آیا ہوں میں۔۔۔ اگر میں اب تم پر اپنے جذبات عیاں کرتا ہوں تو یہ مت بھولو کہ تم اب بیوی میری ہو، آئندہ اگر تم نے کوئی بھی الٹی سیدھی بات اپنے منہ سے نکالی تو پھر مجھ سے کبھی کوئی اچھی توقع مت رکھنا"
درید زمل کو اچھی طرح سنا کر وہی صوفے پر بیٹھ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے لگا۔۔۔ زمل بیڈ پر خاموشی سے بیٹھی ہوئی دل ہی دل میں اپنی بات پر گلٹی فیل کرنے لگی مگر وہ بھی کیا کرتی درید کے قریب آنے پر وہ کیف کا سوچ کر دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کرتی تھی۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد درید صوفے سے اٹھا اور چلتا ہوا زمل کے پاس آیا
"چلو ریڈی ہوجاؤ آج ہم احمر کے گھر ڈنر پر انوائیٹڈ ہیں، میں آنٹی کو ہمارے پروگرام کا بتا چکا ہوں"
درید کے بولنے پر بیڈ پر بیٹھی ہوئی زمل سر اٹھا کر درید کو دیکھنے لگی جو اب غصے کو بھلائے نارمل انداز میں اسے احمر کے گھر لے جانے کی بات کر رہا تھا
"دید میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہو رہا مجھے بہت سارا پڑھنا ہے پلیز"
زمل دوبارہ طنز کرنے کی بجائے بیڈ سے اٹھتی ہوئی درید کے سامنے کھڑی ہو کر ارام سے بولی تو درید نے زمل کے دونوں ہاتھوں کو تھاما
"یاد ہے ایک دفعہ جب تمہارا باہر جا کر ڈنر کرنے کا موڈ ہو رہا تھا اور اگلے دن میرا پیپر تھا پورے صبح کے پانچ بجے تک تم نے مجھے اپنے ساتھ مصروف رکھا تھا اور ابھی تمہارے پیپرز میں پورے دو ہفتے باقی ہیں۔۔۔ میں احمر کے گھر سے واپس آنے کے بعد تمہیں اپنے ساتھ مووی دیکھنے کی بھی فرمائش نہیں کروں گا اس لیے جلدی سے تیار ہو جاؤ"
درید نرم لہجے میں بہت پیار سے بولا تو زمل انکار نہیں کر سکی وہ سر اقرار میں ہلا کر خاموشی سے ڈریس چینج کرنے کے لیے وارڈروب کی طرف بڑھنے لگی تو درید اس کے کمرے سے جانے لگا۔۔۔ تب زمل کے موبائل پر آچانک کیف کی کال آنے لگی
"ثمرن ہم تھوڑی دیر میں بات کرتے ہیں میں تھوڑا بزی ہو ابھی"
کیف کی کال ریسیو کر کے وہ جلدی سے بولی اور کال ڈسکنکٹ کر کے موبائل کو سوئچ آف کرتی ہوئی درید کو دیکھنے لگی۔۔۔ درید کے روم میں آنے سے پہلے وہ کافی دیر سے کیف کو کال ملا رہی تھی مگر اس وقت کیف کال ریسیو نہیں کر رہا تھا لیکن اب درید کی موجودگی میں وہ کیف سے بات کرکے کوئی تماشا نہیں کرنا چاہتی تھی
"میں تمہارا باہر ویٹ کر رہا ہوں"
درید زمل سے بولتا ہوا اس کے کمرے سے چلا گیا
****
"کیف تم بلاوجہ میں بات کو بڑھا رہے ہو ایسا کچھ نہیں ہے میں بھلا تمہیں اگنور کروں گی۔۔۔ پرسوں رات کو میں یارڈ میں تھی اور اتفاق سے میرا موبائل بیڈ روم میں موجود تھا اور کل رات دید مجھے اپنے ایک فرینڈ کے ہاں ڈنر پر لے گئے تھے اس وجہ سے تمہاری کال آنے پر میں نے موبائل آف کر دیا تھا"
صبح یونیورسٹی میں کیف کی کال آنے پر زمل کیف کو وضاحت دینے لگی کیونکہ وہ اس سے بری طرح خفا تھا
"دید دید دید میرے کان پک چکے ہیں، تمہارے منہ سے یہ نام بار بار سن کر۔۔۔ میں نوٹ کر رہا ہوں زمل اس کے آنے کے بعد تم مجھے نظر انداز کرنے لگی ہو"
کیف ابھی بھی زمل سے ناراض لہجے میں اپنے نظر انداز ہونے کا شکوہ کرتا ہوا بولا
"کیف میں تمہیں نظر انداز کہا کر رہی ہو لیکن اگر تم یہ چاہتے ہو کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے میں دید کو نظر انداز کرو تو ایسا ممکن نہیں ہے میرے لیے۔۔۔ میں خود سے بھی اگر چاہو تو درید اعظم کو نظر انداز نہیں کر سکتی کیونکہ دید مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرا ان سے ایک رشتہ جڑا ہے اور اس رشتے کی ساری حقیقت میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں"
زمل کوریڈور میں لوگوں کے رش اور موجودگی کے احساس سے آئستہ آواز میں کیف کو جھنجھنلا کر سمجھاتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ درید اور کیف کے درمیان بری طرح پھنس چکی تھی اور اپنے آپ کو بےبس محسوس کر رہی تھی
"درید اعظم تمہیں اپنا آپ اگنور کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ تمہارا اسے مضبوط رشتہ جڑا ہے اور بقول تمہارے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے تو کیا میں تم سے یہ پوچھ سکتا ہوں درید اعظم تم سے اپنا رشتہ کس حد تک مضبوط کر چکا ہے"
کیف چھبتے ہوئے لہجے میں زمل سے بولا تو سیڑھیوں سے اترتی ہوئی زمل کے قدم ایک پل کے لئے رکے
"سچ سننا چاہتے ہو تو سن لو، دید مجھ پر مکمل اختیار رکھتے وہ جب چاہے میرے اور اپنے تعلق کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں،،، میں انہیں کیسے روک سکتی ہو کیف،، میں ان کی دسترس میں اپنے آپ کو بےبس تو محسوس کرسکتی ہوں مگر چاہنے کے باوجود میں کچھ نہیں کرسکتی کیوکہ میں ان کے نکاح میں ہوں، کیف میں ذہنی طور پر بہت پریشان ہو چکی ہوں میرے خیال میں ہم دونوں کو یہ حقیقت کو قبول کر لینا چائیے کہ۔ ۔۔
سیڑھیاں اترتی ہوئی زمل کی آواز روندھنے لگی مگر وہ کیف کو حقیقت سے انجان بھی نہیں رکھ سکتی
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ بےہودہ بکواس کرنے کی،، تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو کہ درید اعظم تمہارے ساتھ کچھ بھی کر لے اور تم اسے نہیں روک سکتی، تم نے کبھی مجھے تو خود کو چھونے بھی نہیں دیا۔۔۔ پھر تم مجھ سے محبت کرنے کے باوجود اس شخص کے بے بس کرنے پر کیسے بےبسی کا اظہار کرسکتی ہو۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے وہ تمہارے نزدیک آیا ہوگا جبھی تم یہ سب بول رہی ہو۔۔۔ تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی زمل،، میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔ بہت زیادہ دل دکھا ہے میرا تمہاری ان باتوں سے اگر آج میں سوسائڈ کرنے میں کامیاب ہوتا ہوں تو میری موت کی ذمہ دار صرف اور صرف تم ہو گی"
کیف غصے کی شدت میں زور سے چیختا ہوا بولا اور اپنا موبائل کھینچ کر دیوار پر دے مارا
"کیف۔ ۔۔ کیف میری بات سنو"
کیف کی سوسائیڈ والی بات پر زمل ڈرتی ہوئی بولی مگر جب تک لائن کٹ چکی تھی دو تین بار کال ملانے کے بعد زمل کو گھبراہٹ ہونے لگی وہ بھاگتی ہوئی پارکنگ لاٹ میں آئی
"اس وقت ہم گھر نہیں جا رہے ہیں جو ایڈریس میں بتا رہی ہوں جلدی وہاں چلو"
زمل کار کے اندر بیٹھتی ہوئی ڈرائیور سے بولی جو اسے معمول کی طرح اس وقت گھر لینے کے لئے آیا تھا اسے کیف کی بات سن کر ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ جذباتی انسان جذبات میں آ کر غلط قدم نہ اٹھا لے اس لیے وہ اس وقت کیف کے گھر جانے کا ارادہ رکھتی تھی
"پر میڈم درید صاحب نے کہا ہے کہ آپ کو سیدھا گھر لے کر آؤ وہ ناراض ہوجائے گے"
ڈرائیور درید کا دیا ہوا حکم زمل کو سناتا ہوا بولا
"شٹ آپ جیسا میں کہہ رہی ہوں تم ویسے ہی کرو، نہیں تو روکو کار کو میں خود چلی جاؤں گی"
زمل سخت لہجے میں ڈرائیور سے بولی تو وہ خاموشی سے زمل کے بتائے ہوئے ایڈریس پر کار کو لے جانے لگا
*****
وہ کیف کے گھر پہلی بار نہیں آئی تھی ثمرن نشاہ اور واصف کے ساتھ پہلے بھی آ چکی تھی اس لئے نہ صرف کیف کے گھر میں موجود ملازم زمل کو دیکھ کر پہچان چکے تھے بلکہ زمل خود ہی گھر میں داخل ہوتی ہوئی گھبراہٹ کے مارے بغیر ملازموں سے کچھ پوچھتی خود ہی کیف کے کمرے کے اندر آگئی۔۔۔۔ جہاں کیف بیڈ پر بیٹھا ہوا ہاتھ میں پکڑی پوائزن کی شیشی کو گھور رہا تھا جو اس نے کمرے کی کھڑکی سے زمل کو آتا دیکھ کر دراز سے نکال لی تھی
"کیف تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا کر رہے ہو یہ"
کیف کی حرکت پر زمل پریشان ہوتی ہوئی بولی مگر کیف اس کی بات کے جواب میں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوتل کا کیپ ہٹا کر اسے پینے لگا۔۔۔۔ زمل نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر ڈسٹ بن میں پھینک دی
"تمہیں اب اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں جہاں تم نے اپنے ہسبنڈ کو خود سے تھوڑا بہت فری ہونے دیا ہے وہی مکمل اختیارات اور ساری حقوق اس کے حوالے کر دو۔۔۔ بن جاؤ اس کی بیوی اور لعنت بھیج تم مجھ پر اور میری محبت پر"
اپنے پاؤں پر چڑھے پلستر کی وجہ سے وہ بیڈ سے اٹھ نہیں سکتا تھا اس لیے دکھی دل کے ساتھ زمل کو دیکھتا ہوا بولا تو زمل خاموشی سے اس کو دیکھتی رہی
"تم ہر بات سے اگاہی رکھتے ہو کیف،، میں تمہیں بتا چکی ہو کہ کن حالات میں میرا دید سے نکاح ہوا تھا۔۔۔ تم سب کچھ اچھی طرح جانتے ہو اس کے باوجود۔۔۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو میری جگہ تصور کر کے دیکھو کیف کہ میں کس قدر لاچار اور بے بس ہو۔۔۔ میرے خیال میں تمہاری جگہ سوسائڈ تو مجھے کر لینا چاہیے تاکہ یہ سارا قصہ ہی ختم ہو جائے"
زمل کیف کو بولتی ہوئی رونے لگی تو کیف سے اس کا رونا برداشت نہیں ہوا۔۔۔۔ وہ اسٹک کا سہارا لیتا ہوا بیڈ سے اٹھا اور چلتا ہوا زمل کے پاس آیا
"زمل پلیز ایسے مت رو میرے سامنے، تمہارے منہ سے ایسی باتیں سن کر میں ذرا بھی برداشت نہیں کر پایا اور سوسائیڈ کرنے کا بول دیا۔۔۔ تم پلیز کسی بھی طرح اس درید اعظم سے ڈائیورس لینے کی کوشش کرو۔۔۔ میں فوراً تمہیں اپنا لوں گا یار مگر اس انسان کے ساتھ میں تمہیں بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔ دیکھو پلیز میری طرف زمل بس اب تمہارا ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ تمہیں جلد سے جلد درید اعظم سے ڈائیورس لے کر اپنی جان چھڑانی ہے،، باقی کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو"
کیف خود اپنے سہارے پر مشکل سے کھڑا ہو پا رہا تھا اس وجہ سے وہ آگے ہاتھ بڑھا کر زمل کے آنسو صاف نہیں کر پایا اور کیف زمل کو نہ چھونا ہی کیف کے لئے خوش قسمتی ثابت ہوا کیوکہ اس کے کمرے میں طوفان کی طرح آتے ہوئے درید نے زوردار لات کیف کی اسٹک پر ماری، اسٹک کے نیچے گرنے سے کیف خود بھی اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور فرش پر گر گیا
"دید آپ یہاں"
زمل گھبراہٹ بھرے لہجے میں درید کو دیکھ کر بولی
"کس کی پرمیشن سے تم اس لنگڑے سے ملنے یہاں آئی ہوں،، ہمت کیسے کی تم نے بغیر میری اجازت کے یہاں آنے کی"
درید غصے سے سرخ ہوتی آنکھیں اور غضبناک تیور لیے زمل کا منہ دبوچ کر اس سے پوچھنے لگا
"زمل کو چھوڑ دو درید اعظم،، تم اس کے ساتھ اتنا برا رویہ اختیار نہیں کر سکتے"
زمل کے کچھ بولنے سے پہلے فرش پر گرا ہوا کیف غصے میں درید کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔ درید نے پلٹ کر نیچے گرے ہوئے کیف کو دیکھا اور زمل کے گال سے اپنا ہاتھ ہٹاکر غصے میں جبڑے بھیجتا ہوا کیف کے پاس آیا اور اس کو گریبان سے پکڑ کر اٹھاتا ہوا اپنے سامنے کھڑا کیا
"دید اس کو چھوڑ دیں پلیز۔۔۔ اس کی کوئی غلطی نہیں ہے"
زمل جلدی سے درید کے پیچھے آ کر درید کا بازو پکڑتی ہوئی اس سے بولی۔۔۔ جس پر درید نے زوردار طریقے سے زمل کو دھکا دیا وہ پیچھے جاگری
"اس کے ساتھ میں جو بھی کرو گا وہ تو بات کی بات ہے لیکن آج میں تمہیں تمہارے ہی گھر میں یہ بات اچھی طرح سمجھا کر جاؤ گا کہ کسی دوسرے کی بیوی پر نظر رکھنے کا انجام کیا ہوتا ہے"
درید نے کیف کو بولنے کے ساتھ ہی اس کے منہ پر زور دار مکا رسید کیا جس سے وہ بیڈ پر جا گرا
"دید سوری۔۔۔ پلیز کیف کو چھوڑ دیں پلیز اس کے ساتھ یہ سب مت کریں"
زمل ایک بار پھر اٹھ کر درید کے پاس آئی اور روتی ہوئی درید کے آگے گڑگڑا کر بولی اسے درید کے غصے سے سے خوف آ رہا تھا درید زمل کو بازو سے کھینچتا ہوا اسے ڈریسنگ روم کی طرف لے گیا جو کہ کمرے کے اندر ہی موجودہ اور زمل کو ڈریسنگ روم میں بند کر دیا
"میری شکل کیا دیکھ رہے ہو کمینے، جاؤ جا کر ڈیڈی کو فون کرو اور یہاں بلاؤں انہیں"
شور شرابے کی آواز پر کمرے میں آتے ہوئے ملازم کو کیف چیختا ہوا بولا۔۔۔ ملازم کے وہاں سے جانے کے بعد درید کمرے کا دروازہ بند کرتا ہوا کمرے میں موجود ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں فروٹ باسکٹ کے ساتھ تیز دہار کی چھری بھی موجود تھی
"یہ، یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔ دیکھو تم جانتے نہیں ہو درید اعظم اگر تم نے مجھے ذرا سا بھی نقصان پہنچایا تو تم خود بھی بچ نہیں پاؤ گے اتنی آسانی سے"
کیف بیڈ پر لیٹا ہوا درید کو چھری لے کر اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر اس سے بولا۔۔۔ زمل زور زور سے دروازہ بجا رہی تھی جس کا درید اثر لیے بغیر بیڈ پر لیٹے ہوئے کیف کے پاس آیا۔۔۔ کیف سے تکلیف کے مارے اٹھا تو دور سرکا تک نہیں جا رہا تھا
"میرے آنے سے پہلے میری بیوی کو کیا مشورہ دے رہے تھے تم ذرا پھر سے دوہرانا اپنے الفاظ"
درید کیف کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتا ہوا اس کی پلسٹر والی ٹانگ کو پکڑتا ہوا آرام سے کیف سے پوچھنے لگا
"وہ تم سے پپ۔ ۔۔ پیار نہیں کرتی ہے۔۔۔ نہیں رہنا چاہتی ہے وہ تمہارے ساتھ"
کیف سنبھلتا ہوا درید کو دیکھ کر بولا اور متلاشی نگاہوں سے کوئی ایسی چیز ڈھونڈنے لگا جس سے وہ درید کو زخمی کر کے اپنا بچاؤ کر سکے۔ ۔۔ اب نہ جانے وہ اس کی پہلے سے ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ کیا کرنے والا تھا
"وہ مجھ سے پیار کرے گی،، میں سکھا دوں گا اسے خود سے پیار کرنا،، تم یہ بتاؤ میری بیوی کو ڈائیورس لینے کا مشورہ دے کر تمہارا آگے کا کیا پلان تھا"
درید اس کی پلسٹر شدہ ٹانگ کو، چھری کی مدد سے پلسٹر کاٹتا ہوا پوچھنے لگا
"دیکھو تم میرے ہی گھر میں گھس کر میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتے،، میں کہتا ہوں مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔ تم نہیں جانتے ہو کہ تم کس کے ساتھ دشمنی مول رہے ہو"
وہ کیف کی ٹانگ سے پلسٹر اتار کر اب اس کے کندھے پر باندھی ہوئی بیلٹ کھول رہا تھا۔۔۔ کیف نے دوسرے ہاتھ سے درید کا گریبان پکڑنا چاہا تو درید نے زوردار مُکا اس کے گال پر جڑا
"میں نے تمہیں اچھی طرح سمجھایا تھا اگر تم چاہتے ہو تمہاری باقی کی ہڈیاں سلامت رہے تو تم زمل سے دور رہنا مگر تم ٹھہرے ایک نادان بچے،، اب تم اپنی نادانی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جاؤ"
درید اس کے کندھے پر بندھی ہوئی بیلٹ کھولنے کے بعد فرش پر گری ہوئی کیف کی اسٹک اٹھا کر اس کے پاس آیا
"اب بتاؤ کون سی ہڈی زیادہ اچھی طرح اور جلدی جڑی ہے کندھے والی یا پھر ٹانگ والی چلو آج چیک کر کے دیکھتے ہیں"
کیف جو کہ آنے والے وقت سے پہلے ہی ڈر کر اپنی آنکھیں بند کر چکا تھا کندھے پر پڑنے والی زوردار اسٹک پر وہ بری طرح تڑپ اٹھا۔۔۔ وہ خوش تھا کہ وہ جلدی ری کور کر رہا ہے دوبارہ سے اپنے بازو اور ٹانگ پر پڑنے والی اسٹک کی ضربیں برداشت نہیں کر پایا اور بے ہوش ہو گیا۔۔۔ درید نے بیڈ پر اس کے پاس ہی اسٹک اچھالی اور ڈریسنگ روم کا دروازہ کھولا
"یا میرے خدا۔۔۔ کیف"
درید زمل کا بازو پکڑ کر اسے باہر لا رہا تھا تب زمل بیڈ پر بے ہوش پڑے کیف کی حالت دیکھ کر رونے لگی جس پر درید غصے میں زمل کا بازو کھینچتا ہوا اسے کمرے سے باہر لے آیا
"سر میرے لیے کیا حکم ہے"
ڈرائیور گاڑی کے پاس کھڑا ہوا زمل سے نظریں چراتا ہوا درید سے پوچھنے لگا۔۔۔ اس کے نظریں چرانے سے زمل سمجھ چکی تھی کہ درید کو اسی نے انفارم کر کے یہاں بلایا تھا
"تم گھر جاؤ"
درید ڈرائیور کو بولتا ہوا اپنی گاڑی میں زمل کو بھٹا کر خود بھی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گیا
*****
"چھوڑیں دید۔ ۔۔ میں کہتی ہوں چھوڑیں میرا ہاتھ"
درید زمل کی کلائی پکڑتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا نگہت یہ منظر دیکھ کر فوراً تابندہ کے کمرے کی طرف بھاگی تاکہ اسے آنے والے طوفان کے بارے میں آگاہ کر سکے جبکہ درید نے زمل کو اس کے کمرے میں لا کر زوردار طریقے سے بیڈ پر دھکا دیا
"کیا سوچ کر تم اس اُلو کے پٹھے سے ملنے اس کے گھر چلی گئی تھی، پیار کی زبان تمہیں سمجھ میں نہیں آتی ہے اب مجھے بتاؤ میں تمہاری اس حماقت پر تمہیں کون سی سزا دوں"
درید غصے میں بیڈ پر اوندھے منہ گری ہوئی زمل کے پاس آتا ہوا اس سے پوچھنے لگا زمل درید کی بات سن کر بیڈ سے اٹھ کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی
"سمجھتے کیا ہیں آپ اپنے آپ کو دید۔۔۔ ہوتے کون ہیں آخر آپ مجھے یا پھر کیف کو ہماری غلطیوں اور حماقتوں کی سزا دینے والی۔۔۔ ایسا کوئی حق نہیں رکھتے آپ کسی بھی انسان پر، کہ اس کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کریں"
زمل کیف کا حشر دیکھنے کے بعد درید سے ڈرنے کی بجائے اس کے مقابل بے خوف ہو کر غصے میں چیخ کر بولی۔۔۔ وہی درید نے زمل کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر اس کا چہرہ اپنے چہرے سے قریب کیا
"کسی دوسرے انسان پر بےشک حق نہ ہو مگر تم پر میں مکمل حق رکھتا ہوں سنا تم نے۔۔۔ اس وقت میں تمہاری یہ دونوں ٹانگیں بھی توڑ سکتا ہوں اور یہ تمہاری زبان بھی کاٹ سکتا ہوں جو غلطی کرنے کے باوجود تم میرے آگے چلا رہی ہو"
درید ایک ہاتھ سے زمل کے بالوں کو مٹھی میں جکڑے دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ دبوچتا ہوا غصے بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ تکلیف کی شدت سے زمل نے درید کی شرٹ مٹھی میں دبوچ لی
"یہ کیا کر رہے ہو درید چھوڑو زمل کو"
تابندہ زمل کے کمرے میں آ کر حیرت زدہ ہو کر درید کو دیکھنے لگی پھر اس کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ درید نے تابندہ کی آواز پر مڑ کر اسے دیکھا، زمل تابندہ کو دیکھ کر رونے لگی تو درید نے اپنی مٹھی سے اس کے بالوں کو آزاد کیا اور اس کا چہرہ جھٹک کر تابندہ کے پاس آیا
"مجھے تم سے ایسے رویے کی امید نہیں تھی"
تابندہ درید کے بات کرنے سے پہلے افسوس بھرے لہجے میں اس سے بولی
"مجھے بھی اِس سے ایسی حرکت کی توقع نہیں تھی پوچھیں اس سے۔۔۔ یہ اُس لڑکے کے گھر کیا کرنے گئی تھی وہ بھی اکیلی۔۔۔ جس لڑکے کی تصویر میں نے آپ کو اپنے موبائل پر دکھائی تھی، وہ لڑکا آخر کون ہوتا ہے اِسے یہ مشورہ دینے والا کی یہ مجھ سے ڈائیورس لے، پوچھیں آپ اس سے آخر اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے میرے اور اپنے رشتے کو لے کر"
درید اپنا غصہ ضبط کیے بغیر اونچی آواز میں زمل کی طرف اشارہ کرتا ہوا تابندہ سے بولا۔۔ تابندہ افسوس بھری نگاہوں سے زمل کی طرف دیکھنے لگی جو کہ حیرت ذدہ ہوکر درید کی باتیں سن رہی تھی یعنی درید اس کی اور کیف کی جاسوسی بھی کرتا آیا تھا اور وہ اس پر نظر بھی رکھے ہوئے تھا
"کیوں ملنے گئی تھی تم کیف کے گھر۔۔۔ زمل تم جو بھی بولو گی میرے سامنے بالکل سچ بولو گی،، بتاؤ مجھے تم پہلے بھی کیف سے اکیلی ملتی رہی ہو"
تابندہ زمل کے پاس آ کر اس سے سخت لہجے میں پوچھنے لگی درید وہی خاموش کھڑا زمل کو دیکھ رہا تھا اسے اس وقت زمل پر شدید غصہ تھا
"پسند کرتا ہے کیف مجھے۔۔۔ شادی کرنا چاہتا ہے وہ مجھ سے"
خاموش رہنے سے بہتر زمل کو سچائی بیان کرنا لگی تھی اس لیے وہ آہستہ آواز میں تابندہ سے بولی۔۔۔ جس سے تابندہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی مگر زمل کی بات سن کر درید کے تن بدن میں چنگاریاں بھر گئی وہ اپنے ہاتھوں کی دونوں مٹھیوں کو بند کیے اپنا غصہ ضبط کرنے لگا
"اور کیف کے خیالات جان کر بھی تم اس سے ملتی رہی، کیو برقرار رکھی تم نے کیف سے دوستی۔۔۔ شرم نہیں آ رہی تمہیں کسی دوسرے مرد کے نکاح میں ہونے کے باوجود تم کس ڈھٹائی سے یہ سب میرے سامنے بول رہی ہو"
تابندہ غصے میں سے زمل کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی پوچھنے لگی جبکہ درید تابندہ لحاظ کرکے ضبط کئے ہوئے کھڑا تھا
"مما میں خود بھی کیف سے شادی کرنا چاہتی ہوں"
زمل کو سمجھ میں نہیں آیا بہت آہستہ سے مگر کیسے اس کے منہ سے یہ لفظ نکل گئے جسے سن کر تابندہ ایک دم اس کے دونوں بازو چھوڑتی ہوئی پیچھے ہٹی وہ بے یقینی سے اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی اتنی ہی بےیقینی سے درید زمل کو دیکھ رہا تھا مگر اس نے تابندہ کی طرح حیرانگی سے زمل کو دیکھنے سے کام نہیں لیا تھا بلکہ زمل کی طرف بڑھ کر زوردار تپھڑ اس کے منہ پر رسید کیا جس سے تابندہ ایک دم حواس میں آئی
"اب دوبارہ بولو کس سے شادی کرنا چاہتی ہو تم"
درید نے غصے میں زمل کے چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے اس سے جارہانہ انداز میں پوچھا
"آپ اس طرح سے اپنے لئے میرا انکار اقرار میں نہیں بدل سکتے ہیں دید۔۔۔ میرا جواب اب بھی وہی ہے میں کیف سے شا"
اس سے پہلے زمل اپنا جملہ مکمل کرتی درید اپنے دونوں ہاتھوں کو زمل کی گردن پر رکھ کر اس کا گلا دبانے لگا
"درید۔ ۔۔۔ درید چھوڑ دو اس کو وہ تو پاگل ہو چکی ہے۔۔۔ تم کیوں پاگل پن کر رہے ہو۔۔۔ خدا کے لیے چھوڑ دو اسے"
تابندہ یوں اچانک درید کے ردعمل پر گھبرا گئی اور اس کے دونوں ہاتھوں کو زمل کی گردن سے ہٹانے لگی مگر ناکام رہی
"ایک بار پھر نام لو اس کمینے کا اپنی زبان سے پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کروں گا"
وہ تابندہ کی بات سنے بغیر زمل پر غصے میں ڈھاڑتا ہوا بولا۔۔۔ تکلیف سے زمل کا چہرہ سرخ ہونے لگا اس نے درید کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا۔۔۔ تابندہ بھی مسلسل کوشش میں لگی ہوئی تھی درید زمل کی گردن سے اپنے ہاتھ ہٹا دے اس لیے روتی ہوئی بولنے لگی
"درید کیا کر رہے ہو وہ مر جائے گی خدا کے لیے اس کو چھوڑ دو۔ ۔۔ وہ اب یہ نام کبھی بھی اپنی زبان پر نہیں لائے گی تمہیں ثمن کی قسم ہے پلیز زمل کو چھوڑ دو"
تابندہ درید سے زمل کو چھڑواتی ہوئی رو پڑی تب درید نے اپنے دونوں ہاتھ زمل کی گردن سے ہٹائے زمل نڈھال انداز میں فرش پر بیٹھتی چلی گئی جبکہ تابندہ اب بیڈ پر بیٹھی دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑے رو رہی تھی
"سنا آپ نے یہ کیا چاہ رہی ہے کہ میں اپنی بیوی کا ہاتھ خود اس کے چاہنے والے کے ہاتھ میں دے دو، کس طرح کا مرد سمجھتی ہے یہ مجھے۔۔۔ کیسے میرے ساتھ یہ اس طرح کر سکتی ہے آپ پوچھیں اس سے۔۔۔ یہ میرے نکاح میں ہو کر کیسے کسی غیر مرد کا خیال اپنے دل میں بھی لا سکتی ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ لڑکا اس سے محبت کرتا ہے"
درید غصے کی شدت سے چیختا ہوا تابندہ سے پوچھنے لگا اس کی مردانگی یہ ضرب برداشت نہیں کر پارہی تھی اس کی منکوحہ کے دل میں اس کی بجائے کوئی دوسرا مرد بستا ہے
"یہاں مجھے دیکھ کر بتاؤ وہ کل کا لڑکا تمہارا ننھا منھا سا عاشق تمہیں مجھ سے زیادہ چاہ سکتا ہے، نہیں کبھی بھی نہیں۔۔۔۔ تمہیں درید اعظم سے زیادہ کوئی نہیں چاہ سکتا سنا تم نے"
درید اب خود بھی فرش پر بیٹھ کر سسکتی ہوئی زمل کے سامنے بیٹھ کر غصے میں اس سے بولا
"میں درید اعظم کو نہیں چاہتی"
زمل اپنا چہرہ درید کے قریب کرتی ہوئی ارام سے بولی جس پر تابندہ ڈر کے مارے درید کو دیکھنے جبکہ درید کی زبان تالو سے چپک گئی وہ خاموشی سے اپنے سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھنے لگا جسے اس نے بچپن سے اب تک بے تحاشہ چاہا تھا مگر وہ اس کو نہیں چاہتی تھی۔۔۔ تابندہ بیڈ سے اٹھ کر زمل کے پاس آئی اس کو ہاتھ پکڑ کر اٹھاتی ہوئی بولی
"کیا چاہ رہی ہو تم اس وقت زمل بتاؤ مجھے۔۔۔ میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے مار ڈالوں کیو کر رہی ہو ایسا۔۔۔ ایسی کی تھی میں نے تمہاری تربیت، ذرا شرم نہیں آرہی تمہیں یہ سب بولتے ہوئے"
تابندہ زمل کے منہ پر تپھڑ جڑتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی جبکہ درید سب باتوں سے انجان خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا
*****
"میں درید اعظم کو نہیں چاہتی۔۔۔۔ میں درید اعظم کو نہیں چاہتی"
وہ صوفے پر بیٹھا ہوا ناجانے کب سے اسموکنگ کر رہا تھا زمل کے جملے بار بار اس کے کانوں میں بازگشت کر رہے تھے۔ ۔۔ کھٹن کا احساس بڑھتا ہی چلا جارہا تھا تب ٹیبل پر رکھے اپنے موبائل کی اسکرین پر اس کی نظر پڑی جہاں احمر کی کال آرہی تھی
"ہاں احمر بولو کیا انفرمیشن ملی اس لڑکے کے بارے میں"
درید ساری باتیں اپنے ذہن سے جھٹک کر احمر کی کال کی طرف متوجہ ہو چکا تھا جیسے جیسے احمر اسے کیف کے بارے میں بتا رہا تھا ویسے ویسے درید کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہونے لگی
"اب تم آ گے دیکھ لو کیا کرنا ہے یا پھر مجھے بتا دو میں خود دیکھ لیتا ہوں اِس لڑکے کو۔۔۔ اس وقت تو وہ تمہاری بدولت ہسپتال میں موجود ہے مگر اس نے اپنا حشر بگاڑنے والے کا نام نہیں لیا"
احمر ساری باتیں درید کو بتانے کے بعد اس سے بولا
"ہہم ٹھیک ہے۔۔۔نہیں تم اس معاملے کے بیچ نہیں پڑو یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں ہے میں خود ہینڈل کر لو گا"
درید نے احمر سے بول کر موبائل رکھ دیا اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے دوپہر کے واقعہ کے بعد،، وہ واپس آفس نہیں گیا تھا بلکہ تب سے اپنے کمرے میں موجود تھا
رات میں تابندہ ہی اس کے کمرے میں کھانا لے کر آئی تھی اور تابندہ نے ہی اسے بتایا تھا کہ وہ زمل سے اس کا موبائل لے چکی ہے اب زمل کل سے یونیورسٹی بھی نہیں جائے گی اور نہ ہی گھر سے باہر قدم نکالے گی۔۔۔ تابندہ نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اب زمل کبھی بھی اس لڑکے کا ذکر نہیں کرے گی وہ زمل کو اچھی طرح سمجھا چکی ہے۔۔۔
درید بناء کچھ بولے تابندہ کی ساری باتیں خاموشی سے سن رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ تابندہ اس سے کس بنا پر یہ باتیں کر رہی ہے۔۔۔ کیا مرتے ہوئے شوہر کا پاس رکھنے کے لیے وہ یہ سب کہہ رہی تھی کیونکہ آعظم نے مرنے سے ایک دن پہلے تابندہ سے یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ درید کا خیال رکھے گی۔۔۔ زمل اور درید کے رشتے کو کبھی بھی ٹوٹنے نہیں دے گی، ایسا تابندہ نے خود اعظم کا ذکر کرتے وقت درید کو بتایا تھا۔۔۔ وہ خود بھی اندازہ لگا چکی تھی کہ درید اس کی بیٹی سے محبت کرتا ہے شاید اس لیے بھی وہ چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کسی دوسرے لڑکے کا خیال اپنے دل سے نکال دے یا پھر عمر کے اس حصے میں آکر وہ اپنی جوانی میں کیے گئے عمل پر پشیماں محسوس کر تھی۔۔۔ اس نے بھی شادی شدہ ہو کر اعظم سے تعلق رکھا تھا اب یہ سب اس کی بیٹی کر رہی تھی تو شاید اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کی بیٹی غلط کر رہی ہے۔۔۔ درید ان ساری باتوں کو سوچنے کے بعد ذہن سے جھٹک کر صوفے سے اٹھا
"میں درید اعظم کو نہیں چاہتی"
ایک بار پھر زمل کا بولا ہوا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا سائیڈ ٹیبل کے دراز سے اپنا ریوالور نکال کر اسے جیکٹ میں چھپاتا ہوا وہ زمل کے کمرے میں جانے لگا
**†**
وہ رات کے وقت زمل کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرے کی لائٹ آف تھی، لیمپ کی روشنی میں بیڈ پر بے خبر سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر درید اندازہ لگا چکا تھا کہ زمل گہری نیند سو رہی ہے۔۔۔ وہ کمرے میں مدھم روشنی میں بیڈ پر زمل کے پاس بیٹھ کر اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا جہاں اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشان کے ساتھ تابندہ کی انگلیوں کے نشان بھی زمل کے گال پر چھپے ہوئے تھے۔۔۔ شاید سونے سے پہلے بھی روئی تھی اس کے گالوں پر آنسو کے نشانات اب سوکھ چکے تھے
درید اس کی بند آنکھوں پر انگلیاں پھیرتا ہوا اس کے گال کو اپنی انگلی کے پوروں سے چھوتا ہوا اپنی انگلیاں زمل کی گردن تک لایا،، کسی احساس کے تحت زمل نے اپنی آنکھیں کھولیں تو درید کو اپنے قریب بیٹھا دیکھا۔۔۔ زمل کو جاگتا دیکھ کر نہ درید نے اپنی انگلیاں زمل کی گردن سے ہٹائی نہ ہی زمل نہ کوئی ہل جھل کی۔۔۔ وہ خاموشی سے لیٹی درید کو دیکھتی رہی۔۔۔ درید نے اپنا دوسرا بازو زمل کی کمر کے گرد حائل کرتے ہوئے اسے بیڈ پر بٹھا دیا، وہ اب بھی خاموشی سے بیڈ پر درید کے سامنے بیٹھی ہوئی اس کو دیکھ رہی تھی تب درید نے بولنا شروع کیا
"جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے پاس ماں باپ کے علاوہ اور کسی دوسرے کو نہیں دیکھا، سنا تھا لڑکے بہت بےپروا ہوتے ہیں لیکن لڑکا ہونے کے باوجود مجھے اکیلے پن کا احساس رہتا، دل میں خواہش جاگتی کوئی ایسا ہو جس کے میں ساتھ کھیل کود سکو پھر تم پیدا ہوئی اور میرے لیے اسپیشل بات یہ تھی کہ تم میری برتھ ڈے والے دن ہی پیدا ہوئی۔ ۔۔۔ جب تابندہ آنٹی تمہیں ہمارے گھر پر لے کر آتی تو میں تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوتا، بچپن سے ہی تم آئستہ آئستہ میری توجہ کھینچتی رہی مگر تم بہت چھوٹی تھی،، میرے ساتھ باتیں نہیں کر سکتی تھی میں انتظار کرنے لگا تمہارے بڑے ہونے کا۔۔۔ تاکہ تم بڑی ہو کر میرے ساتھ باتیں کرو کھیلو کودو،، تم نے بچپن سے ہی میری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رکھا میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ تم میرے پاس آ جاؤ میرے گھر میں ہمیشہ کے لئے پھر ایک دن میری دعا قبول ہوگئی۔۔۔ تم ہمیشہ کے لئے میرے گھر میں آگئی میرے پاس،، اس دن میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ تم صرف میری ہو جبھی میرے پاس ہو میرے گھر میں۔۔۔۔ آہستہ آہستہ تم بڑی ہونے لگی میں تمہارے مقابلے میں اور زیادہ بڑا ہوتا گیا میرا قد میرا ذہن میری سوچ۔۔۔ پھر میری خواہش نہیں رہی کہ میں تمہارے ساتھ کھیلو مگر تمہارے ضد کرنے پر مجبور کرنے پر میں بچہ بن کر تمہارے ساتھ کھیلتا۔۔۔ آہستہ آہستہ تمہیں لے کر میری طبیعت مزید حساس ہونے لگی،، میں تمہاری ہر چیز کو لے کر پوزیسو ہوتا گیا تمہاری کیئر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا یہاں تک کہ آنٹی تمہاری کیئر کرتی مجھے وہ بھی برا لگتا کیونکہ میں کس لیے تھا آخر۔۔۔۔ میری بڑھتی ہوئی عمر میرے اندر جاگتی تمہاری محبت کو کم نہیں کر سکی۔۔۔ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وہ محبت بھی مزید پروان چڑھنے لگی میرے احساسات تمہیں سوچتے ہوئے مختلف ہو جاتے،، تمہیں مسکراتا ہوا دیکھ کر اچھا لگتا ہے کئی بار تمہیں چھونے کی، پیار کرنے کی خواہش دل میں جاگتی مگر میں اس وقت جوانی کے ادوار سے گزر رہا تھا تم نہیں، تم وہی معصوم بچی تھی۔۔۔۔ جبھی درید اعظم تم پر اپنے احساسات اور جذبات عیاں نہیں کر پایا،،، لیکن فرسٹ ٹائم جب اکیڈمی جانے پر تمہارا رشتہ آیا تو میں اندر ہی اندر ڈر گیا کوئی تمہیں مجھ سے چھین نہ لے، اس لیے اسی دن میں نے اپنے خیالات کا اظہار ڈیڈ پر اور آنٹی پر کردیا تاکہ وہ دونوں بھی یہ بات اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں کہ تم صرف میری ہو اس کے بعد پھر وہ واقعہ ہوا جس نے ایک بار پھر مجھے اندر سے خوفزدہ کردیا مگر ساتھ ہی یہ احساس بھی دلایا کہ اب تم بچی نہیں رہی۔۔۔ ان دنوں گرینی بیمار تھی میں ان سے پرامس کر چکا تھا لندن ان کے پاس آنے کا مگر تمہیں یوں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا تبھی لندن جانے سے پہلے میں نے تم سے نکاح کیا تاکہ تمہارے ذہن میں بھی یہ بات محفوظ رہے کہ اب تم صرف میری ہو مگر مجھ پر غصہ ہونے کی وجہ سے تم نے میرے جاتے وقت نہ صرف مجھے یہ کہا کہ اب دوبارہ کبھی واپس مت آئیے گا بلکہ تم ہم دونوں کے بیچ ہوئے نکاح کو بھی فراموش کر بیٹھی، اتنے قریبی رشتے کو بھول گئی تم"
درید بولتا ہوا خاموش ہوا زمل ابھی بھی اس کے سامنے بیٹھی درید کو دیکھ رہی تھی تب درید زمل کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا دوبارہ بولا
"تم نے آج کہا کہ تم درید اعظم کو نہیں چاہتی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ زمل اپنے دید کو نہیں چاہتی، میں یہ مان ہی نہیں سکتا۔۔۔ میں نے بچپن سے تمہیں دیکھا ہے تمہیں چاہا ہے صرف تم سے محبت کی ہے کسی اور کی طرف غلطی سے میرا دھیان بھی نہیں بھٹکا پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جس لڑکی کو میں نے دیوانگی کی حد تک چاہا ہو وہ مجھے نہیں چاہتی۔۔۔ بول دو ایسا تم نے صرف غصے میں کہا تھا زمل بول دو تم بھی مجھے چاہتی ہو بول دو تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو"
درید زمل کا ہاتھ تھاما ہوا اس کو دیکھ کر بولا
"میں آپ سے پیار کرتی ہوں دید مگر ویسا نہیں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔۔۔ میں نے ایسا کبھی بھی نہیں سوچا آپ کے بارے میں جیسی آپ فیلیگز رکھتے ہیں میرے لیے،، مجھے نہیں معلوم آپ نے اس دن نکاح مجھ سے محبت میں کیا تھا۔۔۔ اس وقت آپ غصے میں تھے وہ مجھے آپ کے غصے کا ری ایکشن لگا۔۔۔ آپ بچپن سے ہی میرے ساتھ ایسا کرتے آئے ہیں دید،، جب آپ کو میری کسی بات سے اعتراض ہوا آپ نے روک دیا ٹوک دیا اپنا غصہ مجھ پر نکال کر میری خواہشات کا گلہ دبا دیا۔۔۔۔ آپ کی محبت مجھے ذرا سا بھی اسپیس نہیں دیتی ہے دید نہ ہی آگے زندگی میں دے گی۔۔۔ میں ساری زندگی تو ایسے نہیں گزار سکتی ہر چیز پر آپ کی روک برداشت کرتے ہوئے پلیز مجھے اس رشتے سے آزاد کر دیں پلیز آپ میری بات کو سمجھیں"
زمل آنسو بہاتی ہوئی درید سے بولنے لگی تو درید کے ہاتھ کی گرفت زمل کے ہاتھ پر ڈھیلی ہوئی لیکن وہ زمل کا ہاتھ چھوڑے بغیر اس سے بولا
"مانا تم مجھ سے ویسا پیار نہیں کرتی،، مگر جیسے بھی کرتی ہوں میرے لیے وہی بہت ہے کہ تم مجھے پیار کرتی ہو۔۔۔ اگر میرا کیئر کرنے کا انداز تمہیں روک ٹوک لگتا ہے تو ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا اپنا انداز بدل لوں لیکن تم اس رشتے کو ختم کرنے کی بات نہیں کر سکتی زمل۔۔۔ کیف تم سے محبت نہیں کرتا اور اگر بالفرض وہ محبت کرتا بھی ہے تو میں تمہیں اس رشتے سے آزاد نہیں کر سکتا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم یہ بات تمہارے علم میں ہے کہ نہیں لیکن ہمارے نکاح کے وقت نکاح نامے میں خلع لینے کا آپشن کٹوا دیا گیا تھا۔۔۔۔ مجھ سے خلع لینے کا حق تمہارے پاس محفوظ نہیں ہے تم مجھ سے خلع نہیں لے سکتی اور خود سے طلاق میں تمہیں کبھی بھی نہیں دوگا تو پلیز اپنے اور میرے رشتے کو دل سے قبول کر لو"
درید حیرت زدہ سی زمل کو دیکھتا ہوا اسے بتانے لگا۔۔۔ جیسے ہی درید زمل کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے کر گیا ویسے ہی زمل نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچا
"مطلب کیا ہے آپ کا میرے پاس خلع کا بھی حق محفوظ نہیں ہے۔۔ آپ یا پھر کوئی اور دوسرا مجھ سے میرا حق نہیں چھین سکتا۔۔۔ میں مر جاؤں گی لیکن آپ کے ساتھ ساری زندگی اس رشتے میں جڑ کر نہیں رہوں گی سنا آپ نے"
اسے آج ہی درید سے یہ بات معلوم ہوئی تھی اس لئے وہ غصے میں چیختی ہوئی بولی لیکن جیسے ہی درید نے جیکٹ میں چھپی ہوئی ریوالور باہر نکالا تو زمل بالکل خاموش ہوگئی۔۔۔ درید بے حد سنجیدگی سے زمل کو دیکھتا ہوا بولا
"آزادی چاہیے تمہیں مجھ سے بولو، اب بول کیوں نہیں رہی آزادی چاہیے تمہیں اس رشتے سے"
درید زمل کی طرف ریوالور کا رخ کرتا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ زمل کو درید سے ڈر لگنے لگا وہ پوری آنکھیں کھولے درید کو دیکھنے لگی
"ٹھیک ہے آج تم اپنے ہاتھ سے مجھے ختم کر اس رشتے سے اور مجھ سے آزادی حاصل کر لو۔۔۔ میں تم پر اپنا خون معاف کر دیتا ہوں کیوکہ میری موت کی صورت ہی تمہیں اب اس رشتے سے آزادی مل سکتی ہے ویسے تو میں خود سے تمہیں جدا نہیں ہونے دوں گا"
درید نے بولنے کے ساتھ ہی زمل کے ہاتھوں میں ریولور پکڑا کر اپنی کنپٹی پر رکھ دی
"یہ۔ ۔۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ دید۔۔۔ پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں ہٹائے اس ریوالور کو"
ریوالور پکڑے ہوئے زمل کا ہاتھ درید کے ہاتھ میں تھا جسے درید نے زبردستی گرفت میں لے کر اپنی کنپٹی پر رکھا ہوا تھا۔۔۔ زمل کا دل خوف کے مارے کسی انہونی کے ڈر سے بری طرح کانپنے لگا
"نہیں آج ختم کر ڈالو مجھے تاکہ تمہیں آزادی نصیب ہو جائے ویسے بھی تم مجھ سے محبت نہیں کرتی۔۔ یہ سوچ ہی مجھے مارے جا رہی ہے"
درید نے بولنے کے ساتھ ہی زمل کی انگلی سے ٹریگر دبانا چاہا
"میں محبت کرتی ہوں آپ سے دید، بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔ اب دوبارہ کبھی بھی آپ سے دور جانے کی بات نہیں کروں گی پرامس"
زمل اپنا ہاتھ مسلسل درید کی گرفت سے چھڑواتی ہوئی خوفزدہ انداز میں چیخ کر بولی۔۔۔ تب درید نے زمل کا پکڑا ہوا ہاتھ چھوڑ دیا، زمل نے فوراً اپنے ہاتھ میں موجود ریوالور کو ڈر کے مارے فرش پر پھینکا اور درید کے سینے سے لگ کر رونے لگی
"آپ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی میں، کبھی بھی آپ کے ساتھ برا نہیں کر سکتی نہ برا ہوتے برداشت کر سکتی ہو۔۔۔ خدا کے لئے دوبارہ کبھی بھی ایسا مت کریئے گا ورنہ میرے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا میں کرتی ہو آپ سے محبت پلیز دید ایسا مت کرئیے گا آئندہ"
زمل درید کے سینے سے لگی ہوئی ہے اس سے بول رہی تھی جبکہ درید کی نظریں اب کمرے کے دروازے پر ٹکی ہوئی تھی جہاں دروازے کا ہینڈل کو پکڑے کافی دیر سے کھڑی ہوئی تابندہ سارا تماشا خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ بناء آواز کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے بند کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تب درید نے زمل کے وجود کو اپنے حصار میں لیا جو اس کے سینے سے لگی ہوئی ابھی تک درید کی حرکت پر رو رہی تھی
"آئی نو تم مجھ سے پیار کرتی ہو، بس تم مجھ پر غصہ تھی مجھ سے ناراض تھی اس لیے کیف کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔ اس سے تمہیں کوئی دلی لگاؤ نہیں ہے۔۔۔ تم اپنے اور میرے رشتے کو آخر کیوں دل سے قبول نہیں کر پا رہی، ہم دونوں نے بچپن سے ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھا ہے تو پھر ہم ساری زندگی کیوں نہیں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں بتاؤ مجھے"
درید زمل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس سے پوچھنے لگا زمل کے چہرے پر ابھی بھی خوف کے آثار دکھ رہے تھے وہ درید کے ری ایکشن سے خوفزدہ گئی تھی۔۔۔ درید اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتا ہوا دوبارہ بولا
"رونا بند کر دو زمل میں تمہیں اپنے آپ سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جبھی یہ سب جذبات میں کر بیٹھا اب ایسا کبھی بھی نہیں کروں گا۔۔۔ بس تمہارے منہ سے یہ الفاظ نہیں سن سکتا کہ تم مجھ سے پیار نہیں کرتی، میرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔۔۔ آئندہ ایسا کبھی مت بولنا پلیز"
درید زمل کے وجود کو اپنے حصار میں لے کر بیڈ پر لٹاتا ہوا اس پر جھکا
"دید"
زمل اس سے پہلے درید کو کچھ بولتی وہ اپنی انگلی زمل کے ہونٹوں پر رکھ کر چکا تھا
"بہت زیادہ دل جلا ہے آج میرا،، صرف پانچ منٹ مجھے اپنی قربت کے دے کر خود میں سکون محسوس کرنے دو۔۔۔ اس کے بعد میں تمہارے کمرے سے چلا جاؤں گا"
درید زمل سے بول کر اس کی گردن پر جھگ گیا اپنے آج کے کیے گئے غصے کا ازالہ اس کی گردن کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر پورا کرنے لگا جبکہ زمل خاموشی سے دیوار پر ٹنگی گھڑی میں پانچ منٹ گزرنے کا انتظار کرتی ہوئی ساتھ ہی یہ سوچنے لگی کہ اب اسے کیف کو بھلانا ہوگا۔۔۔ اپنی گردن پر درید کی سانسوں کی گرمائش سے اس میں کوئی احساسات بیدار نہیں ہوئے وہ بت بنی لیٹی ہوئی والکلاک کو دیکھے جاری تھی، تب درید نے زمل کے گال پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا
"لو یو مائی لائف"
مدہوش سی درید کی آواز زمل کے کان سے ٹکرائی جس کے بعد وہ اپنی سانسوں کی گرمائش زمل کی سانسوں میں اتارنے لگا۔۔۔ زمل کی بند آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔۔۔ درید کی انگلیاں زمل کی گردن پر آئستہ سے رقص کرتی ہوئی سرحد پار کر کے حدود سے نکلتی گئی اس نے ایک دم درید کا ہاتھ پکڑا مگر اب وہاں درید کے ہونٹوں کا لمس اسے تڑپا رہا تھا
"لیو می دید پانچ منٹ ہوچکے ہیں"
زمل کے یاد دلانے پر درید ہوش میں آیا وہ زمل کو خاموشی سے دیکھتا ہوا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
*****

"کیا حماقت کی تھی کل رات تم نے زمل کے کمرے میں جا کر اس کے سامنے۔۔۔ میں تو تمہیں اچھا خاصا میچور انسان سمجھتی تھی لیکن تمہارا جذباتی پن دیکھ کر تو مجھے اب زمل کے ساتھ ساتھ تمہاری بھی فکر ہو رہی ہے"
تابندہ صبح ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھی جب درید آفس جانے کے لئے تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں آیا تو وہ اسے دیکھ کر شروع ہوگئی
"کون سی حرکت کی بات کر رہی ہیں آپ، اچھا وہ ریوالور والی۔۔۔ وہ ریولور تو خالی تھا۔۔۔۔ کیا ہوا اب ایسے کیوں گھور رہی ہیں مجھے،، آپ کی بیٹی کے لیے جذباتی ضرور ہو مگر بےوقوف نہیں کہ اپنی جان لے لوں"
درید کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھتا ہوا نارمل انداز میں بولا تو تابندہ اسے پوری آنکھیں کھول کر درید کو گھورنے لگی پھر کچھ یاد آنے پر ایک دم بولی
"ویسے کل تم زمل سے یہ بھی کہہ رہے تھے وہ خلع کا حق اپنے پاس محفوظ نہیں رکھتی ہے یعنی وہ اپنی مرضی سے خلع نہیں لے سکتی"
تابندہ ناشتے سے ہاتھ کھینچ کر درید کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"تو یہ بات اتنا اونچا بولنے کی کیا ضرورت ہے آہستہ تو بولیں،، جاگ چکی ہوگی زمل اور پلیز اگر میں نے اس سے ایسا کچھ بولا بھی ہے تو آپ جانتی ہیں اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ خلع کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دے"
درید تابندہ کو دیکھ کر خود بھی آہستہ آواز میں وضاحت دیتا ہوا بولا
"یعنی تم میری بیٹی کو گن پوائنٹ پر اپنے ساتھ رشتہ رکھنے پر مجبور کرو گے"
تابندہ درید سے سیریس ہو کر پوچھنے لگی
"کیوں آپ ایسا نہیں چاہتی کہ میرا اور زمل کا رشتہ ہمیشہ قائم رہے۔۔۔ ویسے بھی آپ کی بیٹی میری بیوی ہے، اگر وہ اپنے لیے کوئی غلط راستے کا انتخاب کرے گی تو اسے عقل دلانا میرا فرض ہے۔۔۔ میں گن پوائنٹ پر اگر اسے اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور کر رہا ہو تو وجہ بھی آپ جانتی ہیں"
درید تابندہ کو بولتا ہوا ناشتہ کرنے لگا
"وجہ یہی ہے کہ تم اس کو بچپن سے پسند کرتے ہو مگر زمل کی پسند۔۔۔ اس کا کیا؟؟"
تابندہ کی بات سن کر درید ناشتے سے ہاتھ روکتا ہوا اسے دیکھنے لگا
"جانتی کیا ہیں آپ اس لڑکے کے بارے میں معلوم ہے آپ کو وہ کون ہے۔۔۔ اور یہاں زمل کی پسند بیچ میں کہاں سے آگئی وہ منکوحہ ہے میری۔۔۔ صرف وہ اپنے اور میرے رشتے کو سمجھ نہیں پارہی ہے محبت وہ بھی مجھی سے کرتی ہے"
درید ماتھے پر بل لائیے تابندہ کو جتاتا ہوا بولا
"مجھے کیا کرنا ہے اس لڑکے کے بارے میں جان کر۔۔۔۔ درید میں مانتی ہوں کل زمل نے اپنی باتوں سے تمہیں ہرٹ کیا ہوگا وہ غلطی پر بھی تھی مگر اس کے باوجود میں غصے میں تمہارا ری ایکشن دیکھ کر اپنی بیٹی کے لئے فکرمند ہو چکی ہو"
تابندہ کی بات پر درید کو اپنا غصے میں زمل پر ہاتھ اٹھانا یاد آیا تو ماتھے کے بل خود ہی غائب ہوگئے
"بات اتنی سی ہے میں اسے کسی دوسرے کے ساتھ بالکل برداشت نہیں کر سکتا،، نہ ہی اپنے اور زمل کے رشتے کو ختم کر سکتا ہوں۔۔۔ ہاں مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ میں اس کے ساتھ غصے میں کافی مس بی ہیو کر چکا ہوں جس کا مجھے احساس ہے آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا"
درید نے بولنے کے بعد کافی کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا
"میں بس یہی چاہتی ہوں کہ تم دونوں ایک ساتھ خوش رہو"
تابندہ بولتی ہوئی دوبارہ ناشتہ کرنے لگی
"اس معاملے میں ہم دونوں کی سوچیں ایک دوسرے سے کافی ملتی ہیں کیوکہ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ ہم دونوں ایک ساتھ خوش رہیں۔۔۔ میں دیکھ کر آتا ہوں زمل کو وہ جاگ چکی ہوگی"
درید تابندہ کو بولتا ہوا کرسی کھینچ کر اٹھ گیا اور زمل کے کمرے میں جانے لگا
*****
اپنے روم کے ٹیرس پر کھڑی ہو پچھلے بیس منٹ سے کیا کچھ سوچ چکی تھی اس کے پاس یہ حق محفوظ نہیں تھا کہ وہ خلع لے کر آزادی سے جی سکے۔۔۔ درید کو بچانے کے بعد اس سے آزادی لینے کے لیے کیا اسے خود سوسائڈ کر لینا چاہیے تھی یا پھر کہیں بہت دور چلے جانا چاہیے تھا جہاں اسے کوئی پہچان نہ سکے یا پھر وہی کرنا چاہیے تھا جیسا درید اور تابندہ چاہتے تھے آخر وہ خود کیوں نہیں چاہتی تھی ایسا۔۔۔ کیا وجہ اس کی کیف سے محبت تھی یا پھر درید کی بے جا پابندیاں اور دیوانگی جس سے وہ پریشان ہو جاتی
کل تابندہ اس سے نہ صرف اس کا موبائل لے چکی تھی بلکہ اس کے یونیورسٹی جانے پر بھی تابندہ نے پابندی لگا دی تھی صرف اسے سمسٹر میں پیپر دینے کی اجازت تھی۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے لینڈ لائن پر ثمرن کی کال آئی تھی جو کہ اتفاق سے اس نے اپنے کمرے سے باہر نکل کر ریسیو کرلی تھی۔۔۔ ثمرن نے اس کو کیف کا میسج دیا تھا کیونکہ وہ کل شام سے کیف کی کال ریسیو نہیں کر رہی تھی، کیف اس کے کال ریسیو نہ کرنے کی وجہ سے کافی پریشان تھا صرف زمل کی خاطر اس نے درید کی کمپلین پولیس میں نہیں کروائی تھی ورنہ جو حرکت درید اس کے گھر میں آ کر، کر کے گیا تھا وہ ہرگز قابل معافی نہیں تھی۔۔۔ بقول ثمرن کے کیف نے اس سے کہا تھا کہ وہ زمل کے ساتھ ہے وہ کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑنے والا، بس زمل کو ہی کسی طرح درید سے اپنا رشتہ ختم کرنا ہے باقی کی منزل ان دونوں کے لئے آسان ہے اور کیف کی یہ سب باتیں بتانے کے بعد ثمرن نے زمل سے یہی کہا تھا کہ وہ کیف فضول باتوں کو بالکل بھی سیریس نہ لے اور اپنے پیپرز پر دھیان دے۔۔۔ ابھی زمل یہی ساری باتیں سوچ رہی تھی تب اس نے چونک کر اپنے پیٹ کی جانب دیکھا۔۔۔ جہاں درید کے ہاتھ اس کے پیٹ کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔۔۔ وہ زمل کے پشت پر کھڑا اس کے بالوں کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتر رہا تھا۔۔۔ زمل خاموش کھڑی اس کے ہاتھوں کی حرکت محسوس کرنے لگی، جو اس کے گاؤن کی کُھلی ڈوری کو پیٹ پر کس رہے تھے
"میں اپنی ہر صبح کی شروعات اسی طرح تمہیں اپنی باہوں میں لے کر کرنا چاہتا ہوں مائی لو،، تمہارے سمسٹر کمپلیٹ ہوجائے تو میں نے سوچ لیا ہے اس کے بعد ہمیں اپنی میرڈ لائف کا آغاز کرنا چاہیے۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں"
درید زمل کی پشت پر کھڑا اسے اپنے بازوؤں میں بھرے اس سے اس کی مرضی جاننے لگا۔۔۔ بات کرتے ہوئے بادستور درید کے ہونٹ زمل کے بالوں کو چھو رہے تھے
"ٹھیک ہے"
زمل درید کی بات پر مختصر سا جواب دے کر اپنے گرد لپٹے درید کے بازوؤں کا حصار توڑتی ہوئی اندر کمرے میں چلی آئی۔۔۔
زمل کو ٹھیک ہے کہنا ہی مناسب لگا ویسے بھی اگر اس کی مرضی نہ بھی ہوتی درید تب بھی زمل سے اپنی ہی منواتا۔۔۔ جیسے وہ شروع سے کرتا آیا تھا
"زمل یہاں آؤ میرے پاس"
درید خود بھی کمرے میں آ کر زمل کو دیکھتا ہوا بولا وہ وارڈروب کی طرف بڑھ رہی تھی
"آپ یہی سے بول دیں دید میں سن رہی ہو آپ کی بات"
زمل درید کو دیکھے بغیر اسے بولی اور وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالنے لگی درید چلتا ہوا اس کے پاس آیا،، وارڈروب کا دروازہ بند کرکے زمل کا ہاتھ پکڑتا ہوا اسے صوفے تک لایا خود صوفے پر بیٹھتا ہوا وہ زمل کو اپنی تھائی پر بٹھا چکا تھا
"کل جو بھی کچھ ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا، جانتا ہوں میں بہت زیادہ اگرسیو ہوگیا تھا کیوکہ بات ہمارے رشتے کی تھی اس لیے غصے میں کچھ زیادہ ہی مس بی ہیو کر بیٹھا، مگر تمہیں بھی تو سوچنا چاہیے یار تم میری بیوی ہوکر کسی یوں کسی دوسرے کے بارے میں۔۔۔۔ خیر میں کل کی باتوں کو دھرانا نہیں چاہتا اب بہتر یہی بہتر ہے کہ ہم دونوں ہی کل والی باتوں کو اپنے دل و دماغ سے نکال دیں"
درید زمل کی کمر کے گرد اپنا بازو لپیٹے اسے پیار سے سمجھانے لگا جبکہ زمل خاموشی سے درید کو دیکھتی ہوئی اس کی بات سن رہی تھی
"ٹھیک ہے میں کل والی ساری باتیں جو میں نے آپ سے کہی اسے اپنے دل اور دماغ سے نکال دیتی ہوں"
زمل درید کے چہرے کو دیکھنے کی بجائے سامنے دیوار پر ٹنگی وال کلاک میں ٹائم دیکھتی ہوئی اس سے بولی۔۔۔ بالکل رات کی طرح جب درید نے اس سے اپنے لیے پانچ منٹ مانگے تھے
"یہاں دیکھ لو میری طرف ابھی بھی زیادہ وقت نہیں لوں گا تمہارا، خود بھی آفس جانا ہے مجھے۔۔۔ میں جانتا ہوں تم ابھی بھی مجھ سے ناراض ہو بلکہ ناخوش بھی۔۔۔ کیونکہ کل رات کو میں نے ہر دفعہ کی طرح تم سے اپنی بات منوائی مگر زمل میں تمہیں اس طرح اداس بھی نہیں دیکھنا چاہتا ہو لیکن تمہیں اپنے آپ سے دور کرنے کا تو حوصلہ بھی نہیں ہے مجھ میں۔۔۔ پلیز میری جان میرا یقین کرو میں تمہیں ساری زندگی خوش رکھوں گا آئی پرامس"
اب وہ زمل کے گال پر پیار سے اپنا ہاتھ رکھتا ہوا اسے اپنا یقین دلانے لگا
"مجھے ناخوش دیکھ کر میری خوشی چاہتے ہیں آپ تو پھر مجھے یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دے دیں"
زمل درید کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹاتی ہوئی ایک دم سے بولی جیسے اسے آزمانا چاہتی ہو زمل کی بات پر درید ایک پل کے لیے خاموش ہوا زمل اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی
"اوکے ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ"
درید کے بولنے پر زمل غور سے اس کو دیکھنے لگی اسکو بالکل بھی امید نہیں تھی کہ درید اتنی آسانی سے اس کی بات مان لے گا۔۔۔ وہ درید کے پاس سے اٹھنے لگی تب درید نے زمل کا بازو پکڑا
"میں مانتا ہوں کہ غصے میں میرا ری ایکشن بہت سخت ہوجاتا ہے لیکن میں تم سے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں۔۔۔ صرف اور صرف پیار ہی کرنا چاہتا ہوں تمہیں۔۔۔ پلیز کوئی بھی ایسا کام مت کرنا جس سے مجھے دوبارہ غصہ آئے اور میں غصے میں اپنے حواس کھو بیٹھو۔۔۔ جس کی وجہ سے تم ہرٹ ہو اور پھر تمہیں اس طرح اداس دیکھ کر میں خود بھی پریشان ہوجاؤ۔۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات"
درید نرمی سے زمل کو اپنی بات سمجھاتا ہوا بولا جس پر زمل نے آئستہ سے اقرار میں سر ہلایا تو درید نے زمل کے قریب آکر اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور اسے اپنے حصار سے آزاد کیا۔۔۔ زمل درید کے پاس سے اٹھ کر واراڈروب سے اپنا ڈریس نکالنے لگی تاکہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو سکے۔۔۔ درید زمل کو مصروف دیکھ کر آفس جانے کے لئے اس کے کمرے سے نکل گیا مگر اس سے پہلے اسے جا کر تابندہ کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ خود ہی زمل کو یونیورسٹی جانے کی پرمیشن دے چکا ہے اور یہ بھی کہ تابندہ زمل کو اس کا موبائل دے دے
*****
"تم اب بھی میرے بلانے پر نہیں آتے تو میں واقعی تم سے دوستی ختم کر دیتا واصف"
واصف کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کیف اس سے بولا وہ یونیورسٹی سے سیدھا پیپر دے کر کیف کے بلانے پر اس کے پاس آیا تھا
"یار کیوں اتنے زیادہ جذباتی ہو رہے ہو تمہیں معلوم تو ہے سمسٹر چل رہے ہیں اسی وجہ سے وقت نہیں نکال پا رہا تھا میں تمہارے پاس آنے کے لئے۔۔۔ بتاؤ اب کیسی کنڈیشن ہے تمہاری"
واصف کیف سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھتا ہوا ریلکس انداز میں صوفے پر بیٹھا
"میری کنڈیشن تو اب بالکل سیٹ ہے مگر تم سب لوگوں کو کیا ہو گیا ہے آخر کیوں تم لوگ مل کر مجھے اس طرح اگنور کر رہے ہو پورے بیس دن گزر چکے ہیں۔۔۔ پہلے زمل میری کال ریسیو نہیں کر رہی تھی اب مسلسل اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔۔۔۔ زمل کے بارے میں ثمرن یا نشاہ سے بات کرتا ہوں تو وہ دونوں ہی مجھے ٹالنے والے انداز میں جواب دیتی ہیں۔۔۔ واصف میں زمل سے بات کرنا چاہتا ہوں پلیز میری اس سے بات کرواؤ"
کیف کی بات سن کر واصف سنجیدگی سے سیدھا ہو کر بیٹھا
"دیکھو کیف میں تو تمہارے اور زمل کے معاملے سے بالکل انجان تھا یار،، مجھے زمل کے لئے تمہاری پسندیدگی کا معلوم تھا مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ تم دونوں کی آپس میں کمیٹمنٹ بھی ہے۔۔۔ زمل نے غلط کیا ہم دوستوں سے اپنے نکاح کے بارے میں چھپا کر مگر ثمرن کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں اپنے نکاح کے بارے میں بتایا تھا۔۔۔ کیا یار یہ سب تمہیں ٹھیک لگتا ہے مطلب زمل پہلے سے ہی کہیں انگیج ہے اور یہ جان کر بھی تم نے اپنے قدم نہیں روکے۔۔۔ درید اعظم سے ملنے اور اس کو جاننے کے بعد بھی تم اس کی وائف سے تعلق رکھتے ہو پھر تو درید اعظم کا یہی ری ایکشن بنتا ہے جو کچھ وہ تمہارے ساتھ کر کے گیا"
واصف آرام سے بولتا ہوا کیف کو اس کی غلطی کے بارے میں بتانے لگا کیوکہ درید نے کیف کے گھر آکر جو سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا وہ ثمرن نشاہ اور واصف تینوں کو معلوم ہو چکا تھا واصف سے خود بھی زمل کی سرسری سی بات ہوئی تھی وہ صرف پیپرز دینے کے لیے یونیورسٹی آتی تھی فوراً اپنے ڈرائیور کے ساتھ چلی جاتی تھی
"شادی کرنا چاہتے ہیں زمل اور میں ایک دوسرے سے۔۔۔ وہ خود بھی درید اعظم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔۔ وہ یہاں ڈیٹ پر مجھ سے ملنے نہیں آئی تھی، جو درید اعظم نے یہاں آکر بات کا بلاوجہ میں بتنگڑ بنایا یقیناً گھر جانے کے بعد اس نے زمل وہ بھی ہرٹ کیا ہوگا ایسا نہیں ہے کہ زمل مجھ سے کانٹیکٹ ہی نہ کرے"
کیف غصے میں واصف کو جتاتا ہوا بولا تو واصف نے بھی اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے
"زمل کو درید اعظم نے ہرٹ کیا ہو یا نہیں یہ تو ان دونوں کا پرسنل معاملہ ہے مگر اب زمل خود تم سے کانٹیکٹ نہیں رکھنا چاہتی وہ ایسا درید اعظم کے دباؤ میں آکر کر رہی ہے یا پھر اپنی مرضی سے یہ تو میں نہیں جانتا مگر کیف تمہیں نہیں لگتا یہی صحیح ہے میرے خیال میں اب تمہیں بھی زمل کا خیال اپنے ذہن سے نکال دینا چاہیے اسی میں تم دونوں کی بہتری ہے"
واصف اپنی طرف سے کیف کو سمجھاتا ہوا بولا تو کیف بھڑک اٹھا
"زمل اگر دباؤ میں آکر مجھے اگنور کر رہی ہے یا جان بوجھ کر دونوں صورتوں میں، میں اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا کیونکہ میں کوئی الو کا پٹھا نہیں ہوں کہ کوئی لڑکی پہلے میرے ایموشنز سے کھیلے پھر بعد میں مجھے اگنور کردے اور میں خاموش بیٹھا رہا ہوں۔۔۔ دیکھ لوں گا میں زمل کو بھی اور اس درید اعظم کو بھی"
کیف غصے میں بولا تو واصف اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا
*****
درید آفس سے گھر لوٹا تو اسے ملازمہ سے معلوم ہوا تابندہ اس وقت بیک یارڈ میں موجود ہے جبکہ زمل پیپر دے کر آنے کے بعد سے ابھی تک سو رہی تھی جہاں تک درید کو معلوم تھا زمل کا کل بھی پیپر تھا وہ بھی آخری۔۔۔ پچس دن گزر چکے تھے گھر کے ماحول میں سکون تھا۔۔۔ درید کے صلح کروانے پر ہی تابندہ نے زمل سے اپنی ناراضگی ختم کی تھی، زمل کے پیپرز کی وجہ سے جہاں زمل نے اپنے آپ کو مصروف کر لیا تھا وہی درید بھی اُسے ناشتے یا ڈنر کے وقت چند منٹ کے لئے ہی دیکھتا کوئی بھی بلا جواز بات وہ خود زمل سے نہیں کر رہا تھا۔۔۔ وہ زمل کو ٹائم دینے کے ساتھ یہ بھی چاہتا تھا زمل ریلیکس ہو کر پیپرز سے فارغ ہوجائے۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ زمل کی طرف سے اب بالکل بے فکر یا لاتعلق ہو چکا تھا وہ زمل کی یونیورسٹی میں گزرنے کے اوقات کی پوری خبر رکھتا تھا۔۔۔ درید کے ہی آرڈر پر ڈرائیور جب تک یونیورسٹی میں گاڑی کھڑی رکھتا ہے جب تک زمل کا پیپر ختم نہ ہو جائے
درید نے کیف کے بارے میں بھی معلوم کروایا تھا اس کا کل ہاسپٹل اپوائنمنٹ تھا وہ کافی حد تک بہتری کی طرف آ رہا تھا،، درید نے سوچ لیا تھا اگر دوبارہ کیف نے زمل سے ملنے کی کوشش کی تو اب کی بار وہ کیف کو ہاتھ پاؤں سے ہی مفلوج کر دے گا۔۔۔ درید اپنے روم کی طرف بڑھنے ہی لگا تو لینڈ لائن پر گھنٹی بجنے لگی اس کے قدم رکے
"جی ایبٹ آباد والے گھر سے زرقون بی کی بیٹی بول رہی ہوں شارقہ، مجھے بڑی بیگم صاحبہ سے بہت ضروری بات کرنا ہے پلیز آپ انہیں بھلاوا دیں"
درید کے ہیلو کے جواب میں اس کے کانوں سے اسے نسوانی آواز ٹکرائی زرقون کی بیٹی کو وہ جانتا تھا جو بچپن میں اکثر اپنے ماں یا باپ کے ساتھ کاٹیج میں موجود ہوتی تھی
"میں درید بات کر رہا ہوں جو بھی مسئلہ ہے تم مجھے بتا سکتی ہو"
درید جان گیا تھا وہ تابندہ سے بات کرنا چاہتی ہے مگر درید یہ جاننا چاہتا تھا آخر وہاں ایسا کون سا مسئلہ ہے درپیش آگیا ہے جس کے لیے شارقہ تابندہ سے بات کرنا چاہتی تھی
"جی درید بھائی وہ میں آپ کو کیسے بتاؤں، اماں دراصل ایک ضروری کام سے شہر گئی ہوئی ہیں مجھے کاٹیج کی صفائی اور دوسرے کام کا بول کر"
شارقہ بولتی ہوئی ہچکچانے لگی وہ تابندہ کے موبائل پر کافی دیر سے کال ملا رہی تھی مگر مسلسل بیلز جا رہی تھی اس لیے شارقہ نے گھبراتے ہوئے گھر کے نمبر پر کال ملائی تھی
"کاٹیج کی صفائی کے علاوہ دوسرا کام کونسا شارقہ۔۔۔۔ اچھا اچھا اس کی حالت دوبارہ تو خراب نہیں ہوگئی جس کی وجہ سے زرقون بی نے آنٹی کو چند دنوں پہلے ہی فون کیا تھا اور آنٹی کے کہنے پر ہی کاٹیج میں ڈاکٹر بھی بلوایا گیا تھا"
درید کچھ سوچنے کے بعد تابندہ کے جملے یاد کرتا ہوا ایک دم سے شارقہ سے بولا۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر شارقہ پر یہ تاثُر چھوڑا تھا جیسے وہ ساری بات کا علم رکھتا ہو۔۔۔۔ اپنے اور زمل کے رشتے، آفس کے مسئلے مسائل میں اس دن وہ تابندہ والی بات کو ذہن سے نکال چکا تھا
"آپ جانتے ہیں نیچے تہہ خانے میں موجود آدمی کے بارے میں"
شارقہ ہچکچاتی ہوئی تھوڑی حیرت زدہ ہو کر درید سے پوچھنے لگی
"ہاں آنٹی مجھے اس کے بارے میں بتا چکی ہیں۔۔۔ تم اصل وجہ بتاؤ فون کس لیے کیا تھا"
درید تہہ خانے کے نام پر بری طرح چونکا تھا کیونکہ کاٹیج میں کوئی تہہ خانہ موجود ہے اس بات کا علم اسے بالکل بھی نہیں تھا مگر وہ شارقہ کہ پر کچھ بھی ظاہر کیے بنا نارمل انداز میں اس سے پوچھنے لگا
"اسی آدمی کے بارے میں بتانے کے لئے بڑی بیگم صاحبہ کو کال ملائی تھی۔۔۔ کل سے اس کی طبیعت کافی زیادہ خراب ہے ہاتھ پاؤں میں بیڑیوں کی وجہ سے جو زخم بن چکے تھے وہ اب بالکل خراب خراب ہو چکے ہیں۔۔۔ اماں یہاں پر موجود نہیں ہیں اور خادم بھی صبح سے نہ جانے کہاں نکلا ہوا ہے ابھی تک لوٹ کر نہیں آیا اب مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا درید بھائی میں کیا کروں"
درید اس کی بات سن کر خود بھی سوچ میں پڑ گیا کہ شارقہ کس آدمی کا ذکر کر رہی تھی آخر کون تہہ خانے میں موجود تھا
"تم پریشان مت ہو ایسا کرو جس ڈاکٹر کو پہلے بلوایا تھا اس کو ابھی فیصل(ڈرائیور) سے کہہ کر فوراً بلوالو،، اس وقت تو میرا گھر سے نکلنا مشکل ہو جائے گا میں کل دوپہر کا خود وہاں پہنچتا ہوں اور ہاں ابھی آنٹی کو فون کرکے پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کوئی بھی ایمرجنسی ہو اس صورت میں تم مجھ سے رابطہ کر لینا،، میں نے تمہارا نمبر نوٹ کر لیا ہے تھوڑی دیر میں ڈاکٹر آجائے میں تمہیں پھر خود کال کرتا ہوں"
درید شارقہ سے بات کرکے پلٹا تو زمل کو وہاں کھڑا پایا اس کے چہرے اور بکھرے بالوں سے لگ رہا تھا وہ تھوڑی دیر پہلے ہی جاگی تھی
"کیا ہوا کس کی کال تھی کیا ایمرجنسی ہوگئی ہے"
زمل درید کو اپنی طرف دیکھ کر تھوڑی کنفیوز اور تھوڑی پریشان ہوتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"کوئی ایمرجنسی نہیں ہوئی ہے تم یہ بتاؤ تم ابھی تو کیوں سو رہی تھی طبعیت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری"
درید زمل کے قریب آ کر اسے پوچھنے لگا جو اس وقت ٹراؤزر کے ساتھ لونگ شرٹ پہننے رف سے حلیے میں اس کے سامنے کھڑی تھی
"آج پیپر دے کر آئی تھی تو تھوڑا سر میں درد تھا اس لیے لیٹ گئی،، معلوم ہی نہیں ہو ابھی آنکھ کھلی ہے ایسے تو مت دیکھیں دید اب میرا درد بالکل ختم ہوچکا ہے۔۔۔ آپ کل دوپہر میں کہاں جا رہے ہیں"
درید کے چہرے پر اپنے لئے فکر دیکھ کر زمل اسے مطمئن کرتی ہوئی بولی مگر ابھی اس کا دماغ فون کال پر ہی اٹکا ہوا تھا زمل کو بالکل بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا درید کس سے بات کر رہا تھا۔۔۔ زمل کی بات سن کر درید اس کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کرکے اسے خود سے قریب کرتا ہوا بولا
"صرف میں نہیں ہم دونوں جا رہے ہیں ایبٹ آباد کل دوپہر میں،، جب تم پیپر دے کر آؤں گی تو اس کے بعد نکلتے ہیں مجھے وہاں پر آفس کا کچھ ضروری کام ہے تمہارا بھی مائنڈ فریش ہو جائے گا اوکے"
درید زمل کو خود سے مزید قریب کر کے اپنائیت بھرے لہجے میں بولا
"اوکے"
انکار کا کوئی فائدہ نہیں تھا درید وہی کرتا جو اس نے سوچ رکھا تھا اس لیے زمل درید سے بولی۔۔۔اتنے دنوں بعد درید کے اتنے زیادہ درید کے اتنے زیادہ قریب آنے پر زمل کی نظریں درید کے ہونٹوں پر گئی وہ جلدی سے اپنی نظریں جھگا گئی
"میں آنٹی کو ہمارے کل کا پروگرام بتا کر آتا ہوں۔۔۔ پیکنگ تم اپنی رات میں ہی کر لینا اوکے"
درید زمل سے بولتا ہوا اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔۔ زمل اندر ہی اندر اپنے اسطرح درید کے ہونٹوں کو دیکھنے پر شرمندہ ہونے لگی۔۔۔ وہ زمل کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے کافی دنوں بعد اس کی سانسوں کی مہک کو اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا۔۔۔ تب ہال میں آتی قدموں کی آواز پر وہ زمل سے دور ہوا
"درید صاحب آپ کو بڑی بیگم صاحبہ یارڈ میں بلا رہی ہیں کوئی بات کرنا ہے انہیں آپ سے"
نگہت ہال میں آتی ہوئی درید کو تابندہ کا پیغام دینے لگی
"ٹھک ہے تم چائے لے کر وہی آجاؤ"
درید نگہت سے بولا وہ تابندہ کے پاس جانے سے پہلے شارقہ کی تابندہ کے موبائل پر آئی ہوئی کالز ڈیلیٹ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا وہ خود جا کر دیکھنا چاہتا تھا آخر وہ شخص کون تھا جو کوٹیج کے تہہ خانے میں موجود تھا
"میرے لئے کافی میرے روم میں لے آؤ اور پلیز ڈنر پر مجھے ٹیبل پر بلانے مت آنا جب مجھے بھوک ہوگی تو میں خود کھانا کھا لوں گی"
زمل نگہت سے بول کر اپنے روم میں چلی گئی وہ کل پیپر سے فری ہو کر تھوڑا ریلیکس چاہتی تھی مگر کل ہی اس کے لیے ایک اور امتحان شروع تھا درید اسے ایسے ہی اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا تھا یقیناً وہ اس کے ساتھ اپنی میرڈ لائف شروع کرنے والا تھا جس کے بارے میں وہ زمل کو بتا چکا تھا جس کے لیے فی الحال زمل بالکل تیار نہیں تھی
****
"تم آ گئے آفس سے، میں تمہارا ہی ویٹ کر رہی تھی۔۔۔ یہ پلانٹس میں نے خاص اس جگہ کے لئے منگوائے ہیں بالکل خالی سا لگ رہا تھا یہ پورشن۔۔۔ اب کیسا لگ رہا ہے"
درید کے یارڈ میں آنے پر تابندہ اس کو دیکھتی ہوئی بولی، سوئمنگ پول سے تھوڑے فاصلے پر دائیں جانب جہاں پر میز اور کرسیاں رکھی ہوئی تھی اسی کونے پر چار سے پانچ بڑے گلملوں کا اضافہ ہوا تھا
"نائس، اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔ نگہت بتا رہی تھی کہ آپ نے کوئی بات کرنا تھی مجھ سے"
درید وہی تابندہ کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔ وہ ابھی تابندہ کے کمرے میں موجود اس کے سیل فون سے شارقہ کی کالز ڈیلیٹ کرکے آرہا تھا
"ہاں تمہیں بتانا تھا کہ آج صبح ثوبیہ کی کال آئی تھی وہ ہمارے پاس کل رات کی فلائٹ سے پاکستان آ رہی ہے اور اب کی بار اس نے طے کیا ہے کہ وہ ہفتے دس دن یہی ہمارے پاس اسٹے کرے گی، ہمارے گھر پر"
تابندہ درید کو خوشی خوشی بتانے لگی۔۔۔ ثوبیہ ثمن اور تابندہ، تینوں کی دوستی اسکول کے وقت سے تھی۔۔۔ ثوبیہ شادی کے بعد مستقل طور پر کینیڈا چلی گئی تھی مگر تابندہ اور ثمن سے اس کا ہمیشہ کانٹیکٹ رہا وہ ثمن کی موت کے علاوہ بھی تین چار بار پاکستان آئی تھی وہ جب بھی پاکستان آتی تابندہ سے ضرور ملتی لیکن اب کی بار تابندہ اس لیے خوش تھی کہ اس کی سہیلی کا قیام اس کے گھر پر ہوگا
"یہ تو خوشی کی بات ہے ثوبیہ آنٹی پاکستان آ رہی ہیں مگر میں اور زمل ان سے فوری طور پر نہیں مل پائیں گے کیونکہ کل دوپہر زمل پیپر دے کر آئے گی تو ہمیں ایبٹ آباد کے لیے نکلنا ہوگا"
درید ریلکس انداز میں بیٹھا ہوا تابندہ کو اپنے پروگرام سے آگاہ کرتا ہوا بولا تو تابندہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی
"کیا مطلب اس بات کا کہ تمہیں اور زمل کو ایبٹ آباد جانا ہے۔۔۔ مطلب یہ پروگرام کب ڈیسائیڈ ہوا"
تابندہ حیرت ذدہ سی ہوکر درید سے پوچھنے لگی
"آج صبح وہاں کے آفس سے مینیجر کی کال آئی تھی، ایک دو چھوٹے موٹے مسائل ہیں تو رضی صاحب کہہ رہے تھے کہ میں وہاں ایک دو دن کے لئے آ جاؤ"
درید تابندہ کے چہرے کے تاثرات جانچتا ہوا اسے بتانے لگا وہ اب پہلے کی بانسبت تھوڑی پریشان دکھائی دے رہی تھی
"مگر زمل۔۔۔ اس کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے ایسے اچھا تو نہیں لگتا کہ گھر میں گیسٹ آنے والے ہو اور گھر کے افراد ہی گھر پر موجود نہ ہو بلکہ میں تو کہتی ہو تمہیں بھی وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے، جو بھی مسئلے مسائل ہیں یہی بیٹھے بیٹھے سالو کرلو انہیں"
تابندہ اعتراض کرتی ہوئی درید سے بولی اور ساتھ ہی درید کو بھی رکنے کا مشورہ دیتی ہوئی بولی یقیناً اس کا خوشگوار موڈ اب پہلے جیسا نہیں تھا
"اگر یہاں بیٹھے ہوئے مسلئے مسائل حل ہو جاتے تو رضی صاحب ان مسائل کو خود ہی نبٹا لیتے نہ کہ مجھے کال کر کے آنے کو کہتے اور رہی بات زمل کو اپنے ساتھ کے جانے کی آپ کو معلوم تو ہے مجھے وہاں اکیلے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے میرے ساتھ زمل ہوگی تو وقت سہولت سے گزر جائے گا۔۔۔ زیادہ نہیں صرف تین سے چار دن کا اسٹے ہے پھر ہم دونوں واپس آکر مل لیں گیں ثوبیہ آنٹی سے"
درید تابندہ کو بات کی مکمل وضاحت دیتا ہوا بولا
"ایسے اچھا تو نہیں لگے گا درید ابھی زمل کی رخصتی نہیں ہوئی ہے یوں وہ اکیلے تمہارے ساتھ جائے گی تو ثوبیہ کیا سوچے گی"
تابندہ کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا بول کر درید کو وہاں جانے سے روکے اگر زمل درید کے ساتھ وہاں پر جاتی تو درید اور زیادہ دنوں تک وہاں اسٹے کرتا جو تابندہ بالکل نہیں چاہ رہی تھی اس لیے وہ ایک اور اعتراض اٹھاتی ہوئی درید سے بولی
"ثوبیہ آنٹی تو ایسا کچھ نہیں سوچیں گیں جیسا آپ سوچ رہی ہیں۔۔۔ میں اپنے ساتھ کسی غیر لڑکی کو یا اپنی کوئی گرل فرینڈ کو لے کر تو نہیں جا رہا ہوں۔۔۔ زمل اور میں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ایک دوسرے کے روم میں بنا اجازت کہ بناء ہچکچائے بچپن سے آتے جاتے تھے جب ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا تب سے۔۔۔ اور میری زمل سے بچپن سے اٹیچمینٹ ہے جس کا اندازہ نہ صرف آپ کو اچھی طرح ہے بلکہ ثوبیہ آنٹی کو بھی ہے تو مجھے نہیں لگتا آپ کو یا ثوبیہ آنٹی کو اس بات پر کوئی خاص اعتراض ہونا چاہیے۔۔۔ اگر آپ پھر بھی مطمئن نہیں ہیں تو میں زمل کو آج ہی رخصت کر کے اپنے کمرے میں لے آتا ہوں پھر اس کے بعد تو ساری ٹینشن مسلئے ہی ختم ہوجائے گے"
درید کے نان اسٹاپ بولنے پر تابندہ گھور کر اس کو دیکھنے لگی۔۔۔ وہ درید ہی کیا جو اپنی بات سے پیچھے ہٹ جاتا اس لیے تابندہ ہار مانتی ہوئی بولی
"اچھا اچھا درید اب خاموش بھی کر جاؤ۔۔۔ لے جاؤ زمل کو اپنے ساتھ میں زرقون بی کو فون کرکے بول دو گی کہ تم دونوں وہاں آرہے ہو"
تابندہ درید کو خاموش کرواتی ہوئی بولی
"زرقون بی کو کال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں انہیں کال کر کے اپنے آنے کا بتا چکا ہو۔۔۔ آپ وہاں کی ٹینشن لینے کی بجائے آپ یہاں ثوبیہ آنٹی کے رہنے کے لیے روم ڈیسائیڈ کریں"
درید تابندہ کو مطمئن کرتا ہوا بولا
"یہ تو مجھے کہنے کی ضرورت نہیں ہے میں جانتی ہو تم زمل کا خیال اچھی طرح سے رکھو گے، لیکن اگر وہ کوئی نادانی میں غلطی کر بیٹھے تو پلیز بھڑک مت جانا پیار سے ہینڈل کر لینا اسے"
تابند دبے لفظوں میں درید کو سمجھاتی ہوئی بولی
"میں نے آپ سے کہا تھا ناں جو چند دنوں پہلے ہوچکا ہے آگے ویسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ زمل میری لائف میں بہت معنیٰ رکھتی ہے میں بچپن سے اس کا خیال رکھتا آیا ہوں اور آگے بھی رکھو گا۔۔۔ آپ اپنے دل سے سارے خدشات نکال کر مطمئن ہوجائے اور یہاں ریلکس ہوکر ثوبیہ آنٹی کو ٹائم دیں"
درید کے بولنے پر تابندہ خاموش رہی کیوکہ نگہت وہاں چائے لے کر آگئی تھی
****
"زمل کہاں جارہی ہو آج تو پیپرز ختم ہوئے ہیں تھوڑی دیر ٹھہر کر گھر چلی جانا"
زمل پیپر دینے کے بعد کلاس روم سے نکلی تو ثمرن اس کے پیچھے آتی ہوئی بولی
"ڈرائیور ویٹ کر رہا ہے۔۔۔ 20 منٹ بھی لیٹ ہوگئی تو پھر تم جانتی ہو گھر میں مما اور دید کو ٹینشن شروع ہوجائے گی، کہ میں کہاں بھاگ گئی ہو اور میرے گھر نہ آنے پر وہ دونوں ہی کئی طرح کی باتیں خود ایزیم کرلیں گے"
زمل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر پارکنگ ایریا کی طرف جاتی ہوئی ثمرن سے بولی
"اپنی مما اور ہسبینڈ سے اتنی بد دل مت ہو یار، وہ دونوں یہ سب تمہاری فکر میں، تم سے محبت میں کرتے ہیں۔۔۔ میرے حساب سے تو تمہیں اس دن یوں کیف کے گھر جانا ہی نہیں چاہیے تھا جب تمہیں خود اپنے ہسبنڈ کی نیچر کا اندازہ تھا اور یوں نکاح کے بعد کیف کے ساتھ تمہاری انڈرسٹینڈنگ کہاں سے مناسب ہے زمل"
ثمرن اس کے ساتھ چلتی ہوئی ایک بار پھر زمل کو سمجھاتی ہوئی بولی جس پر زمل کے قدم رکے اور وہ ثمرن کی طرف رخ کرتی ہوئی اس سے بولی
"تم بار بار میرے نکاح کی بات بیچ میں لاکر کیوں مجھ پر یہ ثابت کرنا چاہتی ہو کہ میں کوئی غلط لڑکی ہو جبکہ میں تمہیں بتا چکی ہوں دید سے میرا نکاح میری چوائس پر نہیں ہوا تھا۔۔۔ کانٹیکٹ ختم کر تو دیا ہے کیف سے اب اور کیا کرو میں۔۔۔ وہ میرے اس رویہ کو لے کر کتنا دکھی ہوا ہوگا۔۔۔ ناجانے میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا،، مگر میں اس کو اپنے اس بی ہیویر کی وضاحت بھی نہیں دے سکتی کیوکہ دید کو اگر کہیں سے معلوم ہوا کہ میں نے کیف سے بات کی ہے تو دید اپنے آپ کو نقصان پہنچا لے گیں اور ان کو میری وجہ سے کچھ ہوجاتا ہے تو میں یہ بوجھ لے کر ساری زندگی خود بھی نہیں جی پاؤں گی۔۔۔ میں چند دنوں سے کس کشمکش میں مبتلا ہو میری فیلینگز کوئی بھی نہیں جان سکتا"
زمل روہانسی لہجے نے ثمرن کو اپنی دلی کیفیت بتانے لگی
"میں تمہیں غلط لڑکی نہیں سمجھ رہی ہو زمل۔۔۔ اگر تم کوئی غلط لڑکی ہوتی تو میری اور تمہاری دوستی برقرار نہیں رہتی، میں تمہاری فیلنگز کو بھی سمجھ رہی ہوں اور تمہاری مخلص دوست ہونے کی حیثیت سے تمہیں یہ مشورہ دو گی کہ دو کشتوں میں سوار مسافر کبھی بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔۔۔۔ تم زبردستی ہی سہی مگر اپنے اور درید اعظم کے رشتے کو جب قبول کر ہی چکی ہو تو خوش ہوکر اپنی نئی زندگی کی شروعات کرو۔۔۔ اگر تم اپنے دل میں کیف کی یادوں کو بسائے یا پھر درید اعظم کے لیے دل میں غصہ رکھ کر، آنے والی زندگی کا آغاز کرو گی تو یہ درید اعظم سے بھی منافقت ہوگی اور تم خود بھی اس طرح کبھی خوش نہیں رہ پاؤ گی۔۔۔ میں سمجھ سکتی ہو تمہاری فیلینگز کو، اپنے دل کو زبردستی اُس راہ پر چلانا نہایت دشوار ہوجاتا ہے جس راستے پر آپ چلنا نہیں چاہتے ہو مگر تم یہ تصور کرلو اس راستے پر ہی اوپر والے نے تمہارے لیے بھلائی اور بہتری رکھی ہے،، تمہارے ہسبینڈ کو میں نے اور نشاہ نے دیکھا ہے ہم دونوں نے ہی محسوس کیا ہے درید اعظم تمہارے لیے فیلینگز رکھتا ہے اور رہی بات تمہاری فیلینگز کی تو جب تم درید اعظم کو مکمل شوہر کے روپ میں دیکھو گی تو پھر فیلینگز خود پیدا ہوجائے گیں۔۔۔۔ اب اگر تم کیف کی فیلینگز کا سوچ رہی ہو تو میں مانتی ہو وہ بھی تمہارے لیے پیور فیلینگز رکھتا ہوگا مگر اس بات کو اُسے شروع میں ہی قبول کر لینا چاہیے تھا کہ تم کسی دوسرے سے منسوب ہو۔۔۔ اِس وقت وہ تمہارے لیے ضد کر سکتا ہے لڑ سکتا ہے غصہ کر سکتا مگر وقت گزرنے پر خود ہی آہستہ آہستہ سمجھ جائے گا کہ اس کی اور تمہاری منزلیں الگ الگ ہیں۔۔۔ زمل تم میری بہت پیاری دوست ہو میں تمہیں کبھی بھی غلط مشورہ نہیں دوں گی اپنے دل اور دماغ کو ایک طرف کرلو جو فیصلہ تمہارے لیے تمہاری قسمت چار سال پہلے کر چکی ہے۔۔۔ آجاؤ تھوڑی دیر کیفے ٹیریا میں بیٹھتے ہیں نشاہ اور واصف بھی آتے ہوگے۔۔۔ آنٹی یا درید اعظم میں سے کوئی بھی تمہیں کچھ نہیں کہے گا، میں بات کر لیتی ہو آنٹی سے کہ زمل ہم لوگوں کے ساتھ ہے"
ثمرن زمل کو سمجھاتی ہوئی بولی۔۔۔ زمل خاموشی سے ثمرن کی ساری باتیں سن رہی تھی پھر بولی
"تم میری مخلص دوست ہو ثمرن۔۔ میں تمہاری ان ساری باتوں پر غور کرو گی مگر دید سب کچھ بہت جلدی چاہتے ہیں آخر سب کچھ اتنی جلدی کہا نارمل ہو سکتا ہے اس لیے مزید الجھی ہوئی ہو۔۔۔ تمہارے، واصف اور نشاہ کے ساتھ وقت گزارتی مگر کل شام ہی دید نے آج ایبٹ آباد جانے کا پروگرام بنا لیا تھا وہ آفس سے آگئے ہوگے میرا ہی ویٹ کر رہے ہو گے،، اس لئے مجھے گھر جانا چاہیے"
زمل ثمرن کو بتاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی کار میں بیٹھی ہوئی وہ مسلسل ثمرن کی باتوں کو سوچنے لگی
****
تین گھنٹے سے وہ مسلسل کار ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ اس کے برابر میں بیٹھی ہوئی زمل بے خبر سو رہی تھی آج صبح آفس کا ضروری کام نمٹا کر مینیجر کو آفس کا تین سے چار دن کا چارج دے کر وہ زمل کو اپنے ساتھ لیے ایبٹ آباد کے لیے نکلا تھا تاکہ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ سکے درید نے کل رات اور آج صبح شارقہ کا کو کال کی تاکہ موجودہ صورتحال معلوم کر سکے۔۔۔۔ وہ چاہتا تو تابندہ سے سیدھے سیدھے خود ہی کل شارقہ کی کال کا بتا کر اس سے حقیقت پوچھ سکتا تھا لیکن اس بات کی گارنٹی نہیں تھی کہ تابندہ اس کو حقیقت ہی بتاتی۔۔۔ زمل کے سونے سے پہلے چند ایک دو سوالات گھما پھرا کر اس نے زمل سے بھی پوچھے تھے مگر زمل کے چہرے کے الجھے ہوئے تاثرات سے وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ زمل اس معاملے میں بھی جانکاری نہیں رکھتی
اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے جس کی وجہ سے ملگجاہ سا تھا اندھیرا ماحول میں پھیل چکا تھا آبادی کا سلسلہ ختم ہو کر گاڑی پہاڑوں کے راستے پر رواں تھی جہاں کا ایریا کافی سنسان تھا۔۔۔ اعظم کا کاٹیج پہاڑی کے رستے پر، آبادی سے کافی دور تھا۔۔۔ اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی، تو درید سوئی ہوئی زمل کو دیکھنے لگا گاڑی کے رکنے سے اس کی نیند میں کوئی خلل نہیں پڑا تھا وہ ابھی بھی ویسے ہی گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔ شام کے سائے ڈھلنے کی وجہ سے اس وقت خنکی کافی حد تک بڑھ چکی تھی درید گاڑی کی بیک سیٹ سے گرم چادر اٹھا کر سوئی ہوئی زمل پر ڈالنے لگا ویسے تو وہ گرم کپڑوں میں موجود تھی مگر درید نہیں چاہتا کہ موسم کے تیور اس کی بیوی کی نازک مزاج طبیعت پر اثر انداز ہو۔۔۔ وہ گاڑی سے نیچے اتر کر بونٹ کھول کر چیک کرنے لگا جہاں کار کا انجن گرم ہو چکا تھا
اف پانی بھی ختم ہو گیا۔۔۔ گاڑی میں رکھی ہوئی پانی کی بوتل کو دیکھ کر وہ دل میں اپنے آپ سے بولا، ایک نظر سوئی ہوئی زمل پر ڈال کر وہ گاڑی کو لاک کر کے پیچھے راستے پر چل پڑا جہاں تھوڑی دیر پہلے ایک چھوٹی سی جیل اس کو نظر آئی تھی
زور دار آواز پر زمل کی آنکھیں ایک دم کھلی اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے گاڑی کے شیشے پر زور سے ہاتھ مارا ہو
"دید"
اپنے اوپر سے گرم چادر ہٹا کر وہ خالی ڈرائیونگ سیٹ کو دیکھ کر ایک دم پریشان ہوگئی کہ درید اسے اس ویران جگہ پر اکیلا چھوڑ کر آخر کہاں چلا گیا ہے۔۔۔۔ چار سو اندھیرا پھیلا ہوا تھا آندھیرہ دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ شام کے سائے اب رات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔۔۔ کل جب وہ پیپر دے کر آئی تھی تو کافی دیر تک یونیورسٹی سے آنے کے بعد سوتی رہی تھی جس کی وجہ سے پچھلی پوری رات اس نے جاگ کر گزاری اور آج پیپر دینے کے بعد اسے درید کے ساتھ ایبٹ آباد کے لیے نکلنا تھا اس لیے اس نے نیند پوری کرنے کا کام راستے میں ہی کیا تھا۔۔۔ زمل اپنا موبائل نکال کر درید کو کال ملانے لگی
"آپ کہاں پر ہیں دید مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر کہاں چلے گئے ہیں"
کال کنیکٹ ہوتے ہی زمل درید کی آواز سنے بغیر اس سے پوچھنے لگی
"گاڑی کا انجن گرم ہوچکا تھا اور راستے میں سارا پانی تم پی گئی تھی اس لئے پانی بھرنے گیا تھا ڈونٹ وری بس پہنچ رہا ہو"
درید پانی بھر کر گاڑی کی طرف آ رہا تھا تب زمل کی کال ریسیو کر کے اس سے بولا
"پہنچ نہیں رہا ہوں جلدی پہنچے یہاں، میں بری طرح تھک چکی ہوں دید، اس بورنگ سفر سے"
زمل کچی نیند سے جاگی تھی اس لیے بےزار سے انداز میں درید سے بولی
"اس سفر کو بورنگ تمہاری نیند نے بنایا ہے ڈارلنگ ہم اس سفر کو اچھا خاصہ یادگار اور رومینٹک بھی بنا سکتے تھے، اچھا کال رکھو بس پہنچ گیا ہوں میں"
درید زمل سے بولتا ہوا کال کاٹ چکا تھا اور گاڑی کی طرف لمبے لمبے قدم اٹھانے لگا جبکہ زمل جو کافی دیر سے بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی اس لیے گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گئی
پچپن نے اس نے درید کو مختلف روپ میں دیکھا تھا لیکن اب اس کی باتیں اور اس کا انداز بالکل مختلف ہوچکا تھا یہی وہ چینج تھا جو زمل قبول نہیں کر پا رہی تھی کہ اب درید اس کا شوہر بن چکا ہے۔۔۔ اپنے گرد دونوں ہاتھوں کو لپیٹ کر پتھریلی سڑک پر چلتی ہوئی وہ دوبارہ سے ثمرن کی باتیں سوچنے لگی جب اچانک گاڑی کے پیچھے چھپا ہوا کوئی آدمی زمل کا بازو پکڑ کر اس کو کھینچنے لگا
"اے کون ہو تم کہاں لے جا رہے ہو مجھے چھوڑ میرا ہاتھ"
زمل اچانک اس آدمی کو دیکھ کر ڈر گئی تھی مگر اس کی جرت پر زور سے چیختی ہوئی اسے اپنا بازو چھڑواتی ہوئی بولی جو اس کو کھینچ کر گاڑی سے دور جھاڑیوں کی طرف لے جا رہا تھا
"خاموشی سے چل میرے ساتھ ورنہ یہی مار کر پھینک ڈالوں گا تجھے"
وہ آدمی باقاعدہ زمل کا بازو کھینچ کر اسے جھاڑیوں کی طرف لے جاتا ہوا ساتھ ہی دھمکی دیتا ہوا بولا۔۔۔ زمل کے مزاحمت کرنے پر وہ زمل کو پتھریلی سڑک پر دھکا دے چکا تھا
"جان چھڑا کر بھاگنا چاہتی ہے مجھ سے، درندہ معلوم ہے کیا ہوتا ہے نہیں ناں، آج میں تجھے بتاؤں گا"
اس سے پہلے وہ آدمی زمل کی طرف غلط ارادے سے بڑھتا پیچھے سے بھاگ کر آتا ہوا درید بری طرح اس آدمی پر جھپٹ پڑا
"کیا بتائے گا۔۔۔ بول"
درید نے اس آدمی کا گریبان پکڑ کر اس کے منہ پر پے در پے مُکے رسید کرنا شروع کردیئے۔۔۔ نیچے گری ہوئی زمل درید کو دیکھ کر شکر ادا کرتی ہوئی جلدی سے کھڑی ہو گئی
"درندگی دکھانی ہے تجھے، چل مجھے دیکھا آج اپنی درندگی"
درید نے غصے میں اس آدمی کو خود پر حملے کرنے کی مہلت دیئے بغیر اس کے پیٹ میں گھونسے مارنے لگا وہ آدمی اپنا بچاؤ کرتا ہوا نیچے پتھریلی زمین پر گر پڑا
"دید چھوڑ دیں اس کو وہ خود بھی معافی مانگ رہا ہے اب"
درید شدید غصے میں اس آدمی کو لاتوں سے مارنے لگا تب زمل درید سے بولی وہ آدمی اپنے بچاؤ کے لئے درید سے معافی مانگنے لگا
"ان گندے ہاتھوں سے چھوا تُو نے اِس کو بول۔۔۔۔ میرا بس نہیں چلتا اِس کو چھونے والے کے میں ہاتھ اُس کے جسم سے الگ کردوں"
وہ آدمی مار کھا کھا کر اب ادھ مرا ہو چکا تھا۔۔۔۔ اپنی طرف درید کو بھاری پتھر لاتا ہوا دیکھ کر وہ زمین سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگر درید نے اس کے سینے پر لات مار کر اسے دوبارہ نیچے گرا دیا
"کیا ہوا نکل گئی ساری درندگی چل میں تجھے بتاتا ہوں درندگی کیا ہوتی ہے"
درید بولتا ہوا بھاری پتھر کو باری باری اس کے دونوں ہاتھوں پر مارنے لگا
"وووہ، وہ مر جائے گا دید چھوڑ دیں اس کو پلیز"
زمل درید کو بازو سے پکڑ کر پیچھے ہٹاتی ہوئی خود بھی رونے لگی۔۔۔ وہ درید کا غصہ اور جنونی انداز دیکھ کر خود بھی ڈر گئی تھی
"میری جان تم کیو رو رہی ہو۔۔۔ جسٹ ریلکس کہیں چوٹ تو نہیں لگی تمہیں"
درید زمل کی طرف پلٹنے کے بعد فکرمند لہجے میں بولتا ہوا اس کے آنسو پونچھنے لگا جبکہ وہ آدمی سڑک پر پڑا ہوا درد سے کراہ رہا تھا درید نے بہت برے طریقے سے اس کے دونوں ہاتھ کچل کر خونم خون کر ڈالے تھے
"دید یہاں سے چلیں۔ ۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے"
زمل اس آدمی کی حالت دیکھنے کے بعد چاروں طرف سنسان علاقے میں نظر دوڑاتی ہوئی درید سے بولی
"ڈرنے کی کیا ضروت ہے جان میں ہو تو تمہارے ساتھ۔۔۔ چلو چل کر کار میں بیٹھو"
درید زمل کے کندھے کے گرد اپنا بازو رکھ کر اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا
****
زمل کو وہ وقت یاد آنے لگا جب دو ماہ پہلے یونیورسٹی میں ایک لڑکے کے بدتمیزی کرنے پر زمل نے اس لڑکے کے گال پر تپھڑ مارا تھا۔۔۔۔ تب الٹا کیف نے اسی کو باتیں سنائی تھی اور غصہ بھی کیا تھا ساتھ ہی کیف نے اس لڑکے سے سوری بھی کہا تھا۔۔۔ بعد میں کیف نے زمل کو سمجھایا تھا کہ اگر اس لڑکے نے زمل کو ذرا سا ٹچ کر بھی دیا تھا تو اس بات پر اسے اتنا اوور ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ وہ لڑکا اس تپھڑ کے بدلے میں اور بھی کچھ کر جاتا تو وہ کیا کرلیتی۔۔۔ تب زمل نے کیف سے پوچھا
"اگر وہ لڑکا واقعی میرے تپھڑ کے بدلے کچھ بھی غلط کرتا تو تم کیا کرتے کیف"
کیوکہ جب اس لڑکے نے بدتمیزی کی تھی کیف اس وقت زمل کے ہی ساتھ تھا وہ دونوں ہی واصف، نشاہ اور ثمرن کا انتظار کررہے تھے
تب کیف زمل سے اپنائیت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ کہ اسی لیے تو اس نے اس لڑکے سے سوری بولا تاکہ وہ زمل کے ساتھ کچھ غلط نہ کرے۔۔۔
گاڑی کاٹیچ کے راستے پر رواں تھی اور زمل کی سوچیں جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکی تھی۔۔۔۔ واپس لوٹ کر وہ حال میں تب آئی جب اسے درید کے ہاتھ کی گرمائش اپنے سرد ہاتھ پر محسوس ہوئی
زمل درید کو دیکھنے لگی جو ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرتا ہوا اپنے دوسرے ہاتھ سے زمل کا ہاتھ تھاما ہوا تھا
"چادر سے کور کرو اپنے آپ کو زمل، سردی بڑھ رہی ہے اب"
درید جانتا تھا زمل کو سردی زیادہ لگتی ہے اس لیے گاڑی میں ہیٹر آن ہونے کے باوجود وہ زمل کی فکر کرتا ہوا بولا ساتھ ہی زمل کے ہاتھ پر رکھا اپنا ہاتھ ہٹاتا ہوا ڈرائیونگ کرنے لگا۔۔۔۔ درید کے لہجے سے اس کی فکر ہمیشہ کی طرح چھلک رہی تھی زمل بغیر کچھ بولے خاموشی سے خود کو چادر سے لپیٹتی ہوئی اپنا سر درید کے کاندھے پر رکھ چکی تھی۔۔۔ جس پر درید نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک دم اپنے کندھے پر ٹکا ہوا زمل کا سر دیکھا، نرم مسکراہٹ کے ساتھ زمل کے سر پر ہونٹ رکھتے ہوئے اس نے اپنی توجہ دوبارہ ڈرائیونگ کی طرف کردی
****
کوٹیج کے پاس جیسے ہی گاڑی آکر رکی ویسے ہی زمل نے سکون کا سانس لیا۔۔۔ درید اسے دیکھنے لگا جو کہ تھوڑی دیر پہلے ہوئے واقعے کی وجہ سے اب تک سہمی ہوئی بیٹھی تھی
"ریلکس ہو جاؤ جان اب ہم گھر پہنچ گئے ہیں"
درید زمل کو دیکھتا ہوا کہنے لگا ساتھ ہی ریسٹ واچ میں ٹائم دیکھنے لگا جہاں رات کے آٹھ بج رہے تھے
"آپ مجھے ڈرا دیتے ہیں دید، مجھے بہت زیادہ خوف آنے لگتا ہے آپ کے ایسے ری ایکشن پر"
زمل درید کو دیکھ کر دل میں موجود سچ بیان کرنے لگی جو وہ درید کو ڈرائیونگ کے وقت نہیں بول پائی۔۔۔ جس طرح درید اس آدمی پر اپنا غصہ نکال رہا تھا زمل کو درید سے ہی ڈر لگنے لگا تھا
"اس نے تمہیں چھوا، ہاتھ لگایا۔۔۔ یہ بات مجھے غصہ دلا گئی۔۔۔ مجھے پسند نہیں ہے میرے علاوہ اور کوئی دوسرا تمہیں ہاتھ بھی لگائے"
درید بھی زمل کو اپنے دل میں موجود سچ بیان کرکے زمل کے کندھے سی ڈھلکی ہوئی چادر ٹھیک کرتا ہوا گاڑی سے نیچے اترا اور اپنا اور زمل کا بیگ گاڑی سے نکالنے لگا
"شکر ہے آپ دونوں پہنچ گئے بڑی بیگم صاحبہ کا تین بار فون آچکا ہے، وہ آپ دونوں کا پوچھ رہی تھی"
درید اور زمل داخلی دروازے سے کوٹیچ میں داخل ہو رہے تھے تب خادم (زرقون بی کا بیٹا)درید کے ہاتھ سے دونوں بیگز لیتا ہوا بولا
"ہہہم راستے میں بات ہوگئی تھی آنٹی سے، بتا چکا ہوں میں انہیں یہاں پہنچنے کا۔۔۔ اس کے علاوہ اور کیا پوچھ رہی تھی آنٹی"
درید غور سے خادم کا چہرا دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"جج۔ ۔۔ جی اور تو کچھ خاص بات نہیں کر رہی تھی"
خآدم ہچکچاتا ہوا درید سے بولا۔ ۔۔ وہ جان گیا تھا جو بات اتنے عرصے سے اب تک سب سے چھپی ہوئی تھی،، وہ باب اب اس کی بہن کی کم عقلی کی بدولت اس کے بڑے صاحب کا یہ بیٹا جان گیا ہے،، جو شاید اس کو جاننی نہیں چاہیے تھی۔۔۔ خادم نے یا شارقہ نے اپنی شامت کے ڈر سے تابندہ کو بھی علم نہیں ہونے دیا کہ درید کو قید والے آدمی کا پتہ چل گیا ہے
"اور تم نے بڑی بیگم صاحبہ کو کیا کہا"
درید روعب دار لہجے میں ایک بار پھر خادم سے پوچھنے لگا
"میری کیا مجال جو میں بڑی بیگم صاحبہ کو کچھ کہتا۔ ۔۔ اب بڑے صاحب کے بعد آپ ہی تو ہمارے صاحب ہیں جی"
خادم درید کے سامنے کھڑا گھبراتا ہوا بولا
"کیا ہوا دید، کچھ ہوا ہے کیا"
زمل درید اور خادم کی باتیں سن کر کنفیوز ہوتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی
"کچھ نہیں ہوا چلو اندر چلیں"
درید زمل کا ہاتھ پکڑتا ہوا اسے اندر لے آیا وہ خادم کی باتوں سے جان گیا تھا،، تابندہ کو ان دونوں بہن بھائیوں نے کسی بات کی ہوا نہیں لگنے دی ہوگی کیوکہ اگر ایسا ہوتا تو درید کی تھوڑی دیر پہلے جو تابندہ سے بات ہوئی تھی درید اس سے اس بات کا اندازہ لگا لیتا
کوٹیچ کے اندر پہنچ کر شارقہ زمل سے سلام دعا کرتی رہی تھی جبکہ درید خاموش کھڑا ان بے رحم سیڑھیوں کو دیکھ رہا تھا جس پر سے گرنے کی وجہ سے اس کی ماں کی موت واقع ہوئی تھی۔۔۔ اس وقت وہ چھوٹا تھا اور اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا جب یہ درد ناک واقعہ ثمن کی جان لینے کی وجہ بنا تھا
"دید آپ ٹھیک ہیں"
زمل درید کی آنکھوں میں اداسی محسوس کر کے درید کے پاس آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتی درید سے پوچھنے لگی وہ جانتی تھی وہ یہاں آکر بالکل چپ ہو جاتا تھا اس لیے وہ شروع سے ہی بہت کم یہاں آتا تھا
"ہہہم۔۔۔ ٹھیک ہوں"
درید زمل کو اس کی بات کا مختصر سا جواب دے کر خاموش ہو گیا اور اپنے دائیں جانب دیوار کو دیکھنے لگا جس پر نو سال پہلے تک ثمن کی تصویر ہوا کرتی تھی اسے یاد پڑتا تھا وہ یہاں وہ آخری بار نو سال پہلے سے صرف دو دن کے لیے یہاں آیا تھا
"ماما کی تصویر کس نے ہٹائی اس دیوار سے"
درید خادم کی طرف دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جو کہ سیڑھیوں سے اوپر موجود بیڈ رومز میں بیگز رکھنے کے بعد نیچے آتا ہوا ہلکی آواز میں اپنی بہن کو کچھ بول رہا تھا
"وہ جی بڑی بیگم صاحبہ (تابندہ) کے کہنے پر ہٹائی تھی میں نے"
خادم درید کو بتاتا ہوا اس کے ساتھ خاموش کھڑی زمل کو دیکھنے لگا پھر جلدی سے بولا
"بیگم صاحبہ کا کہنا تھا کہ بڑے صاحب جی تصویر میں بی بی جی کو دیکھتے ہیں تو پریشان ہوجاتے ہیں اس لیے ان کے کہنے پر وہ تصویر اسٹور روم میں رکھ دی تھی میں نے"
خادم باقی کی بات درید کو بتانے لگا زمل درید کو دیکھ رہی تھی کہ جس کے ماتھے پر اب شکنیں موجود تھی لازمی اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی
"جاؤ اسٹور روم سے تصویر لے کر آؤ اور فوراً اسے دیوار پر دوبارہ لگاؤ۔۔۔ اگر اب کسی کو کوئی بھی پریشانی ہوئی تب تھی وہ تصویر اس دیوار سے ہٹنی نہیں چاہیے"
درید کی بات سن کر خادم سر ہلاتا ہوا اسٹور روم کی طرف چلا گیا جبکہ اس کی بہن شارقہ کچن میں چلی گئی
"مما نے وہ تصویر ڈیڈ کے کہنے پر یہاں سے ہٹائی تھی دید، اس وقت میں بھی روم میں موجود تھی جب ڈیڈ نے مما سے تصویر ہٹوانے کا بولا تھا"
خادم کے وہاں سے جاتے ہی زمل درید کو وضاحت دیتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی درید کے دل میں تابندہ کی طرف سے کوئی بدگمانی آئے۔۔۔ درید کے واپس پاکستان آنے کے بعد جو سب سے اچھی بات زمل کو لگی تھی وہ یہی تھی کہ درید اور تابندہ کے تعلاقات پہلے کی بانسبت اب بہتر ہوگئے تھے اور وہ چاہتی تھی درید اور تابندہ اب ہمیشہ ایسے ہی رہیں
"میں جانتا ہو ایسا ڈیڈ نے ہی کہا ہوگا، انہیں تو کبھی زندگی میں قدر ہوئی میری ماں کی مرنے کے بعد وہ کیا قدر کرتے"
بولتے ہوئے درید کے لہجے میں تلخی گھل گئی جسے محسوس کر کے زمل خاموش ہوگئی وہ بہت کم ہی ثمن کا ذکر زمل سے کرتا تھا
"کیا ہوا سفر کی تھکن زیادہ ہوگئی ہے اتنی ڈل کیو لگ رہی ہو"
درید پچھلی ساری باتوں کو ذہن سے نکال کر مکمل طور پر زمل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ اس کا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جو کہ درید کو تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا
"میں واقعی بہت زیادہ تھکن محسوس کر رہی ہو اب صرف ریسٹ کرنا چاہتی ہوں کھانے کے لئے مجھے مت بلائیے گا پلیز"
زمل درید کو دیکھتی ہوئی بولی کیوکہ اب اسے واقعی تھکن محسوس ہو رہی تھی وہ صرف نیند لینا چاہتی تھی
"اوکے مگر ایسے خالی پیٹ نہیں سونا تم روم میں جاؤ میں شارقہ کو کہہ دیتا ہوں وہ تمہارے لیے وہی روم میں کھانا لے آئے گی"
درید پیار سے زمل کا چہرہ تھام کر بولا جس پر زمل اقرار میں سر ہلا کر سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بیڈروم میں چلی گئی جبکہ خادم ثمن کی تصویر اسٹور روم سے لا کر دیوار پر لگانے لگا۔۔۔ درید خادم کو دیکھتا ہوا کچن میں چلا آیا جہاں شارقہ موجود تھی
"تہہ خانے کا راستہ بتاؤ"
درید کی آواز پر شارقہ پلٹ کر درید کو دیکھنے لگی جو کہ کچن میں موجود سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا
"صاحب جی اگر بڑی بیگم صاحبہ کو معلوم ہوگیا کہ میں نے آپ کو کچھ بھی بتایا ہے تو وہ بہت زیادہ ناراض ہو گیں"
شارقہ ڈرتی ہوئی درید سے بولی۔۔۔ خادم بھی کچن کے دروازے پر آ کر کھڑا ہو گیا درید ایک دم بولا
"جتنا تم سے پوچھا گیا ہے اتنا بتاؤ"
درید کے سختی سے بولنے پر خادم ایک دم بول اٹھا
"آئیے میں آپ کو لے چلتا ہوں وہاں"
خادم کے بولنے پر درید نے مڑ کر خادم کو دیکھا پھر شارقہ کی طرف دیکھتا ہوا اسے تنبہی کرنے والے انداز میں بولا
"چھوٹی بی بی کو کسی بھی بات کا علم نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بڑی بیگم صاحبہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں یہ سب جان چکا ہوں سمجھ میں آرہا ہے تمہیں"
درید کی بات سن کر شارقہ نے جلدی سے اقرار میں سر ہلایا
"جاؤ چھوٹی بی بی کا کھانا اوپر کمرے میں لے جاؤ"
درید شارقہ کو بولتا ہوا خادم کے ساتھ کاڑیچ کے باہر جانے لگا
****
رات بارہ بجے کے قریب جب وہ سیڑھیاں چڑھ کر بیڈ روم میں پہنچا تو بیڈ پر زمل کو سوتا ہوا پایا۔۔۔۔ یہ کوٹیچ جو کہ دو بیڈ رومز پر مشتمل تھا، درید کو یاد پڑتا تھا وہ جب بھی یہاں آتا تھا دوسرے والے بیڈ روم میں اعظم اور ثمن کا قیام ہوتا تھا جبکہ یہ والا کمرہ درید کہ حصے میں آتا تھا۔۔۔ بچپن میں وہ اکثر اعظم اور ثمن کے ساتھ یہاں چھٹیاں گزارنے آتا تھا مگر ثمن کی موت کے بعد سے اس نے یہاں آنا چھوڑ دیا مشکل سے وہ تین سے چار بار ہی یہاں آیا ہوگا جبکہ اعظم اور تابندہ ہر سال زمل کے ساتھ ایبٹ آباد کا ضرور چکر لگاتے یقیناً اب اس کمرے میں ہر سال زمل ہی ٹہرتی ہوگی جبھی وہ بالکل بے فکر ہو کر لاپرواہ انداز میں بیڈ پر لیٹی ہوئی گہری نیند سو رہی تھی۔۔۔ درید کمرے کا دروازہ لاک کر کر زمل کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا لیکن وہ جو کچھ درید بیسمینٹ میں دیکھ کر آیا اس پر اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا۔۔۔ پاکٹ سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر نکالنے کے بعد وہ اسموکنگ کرتا ہوا تھوڑی دیر پہلے ہوئے عجیب سے اتفاق کو سوچنے لگا
اسے ذرا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کوٹیچ سے باہر بنے ہوئے اسٹور روم کے اندر کوئی ایسی خفیہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جس میں ایک تہہ خانہ موجود تھا یا پھر یہ تہہ خانہ کسی خاص مقصد کے لئے بعد میں بنوایا گیا تھا جب خادم درید کو اس تہہ خانے میں لے کر گیا تو درید وہاں پر زنجیروں میں بندھے ہوئے شخص کو دیکھ کر شاکڈ میں مبتلا ہوگیا تھا۔۔
بڑھاپے، خستہ حالی اور بیماری کے باوجود وہ اس شخص کو پہچان گیا تھا
"زنجیریں کھولو"
درید اس شخص کو دیکھتا ہوا خادم سے بولا
"مگر صاحب جی"
خادم درید کی بات پر پریشان ہوتا ہوا بولا تو درید غصے میں خادم کو گھورنے لگا
"سنائی نہیں دے رہا تمہیں زنجیریں کھولو فوراً"
اب کی بار درید کے سختی سے بولنے پر خادم اس شخص کے پاؤں کی بندھی ہوئی زنجیریں کھولنے لگا۔۔۔ فرش پر بچھے ہوئے گدے پر بے سود لیٹا ہوا شخص ہوش میں آیا
"خاور انکل۔۔۔ آپ خاور انکل ہیں ناں تابندہ آنٹی کے ہسبینڈ زمل کے فادر"
درید اس شخص کے پاس بیٹھتا ہوا بولا اس کی آنکھیں ہرگز دھوکا نہیں کھا سکتی تھی وہ خاور کو پہچان چکا تھا جس کے بارے میں سب کو یہ معلوم تھا کہ وہ تابندہ کو طلاق دینے کے بعد، زمل اور تابندہ کو چھوڑ کر ملک سے باہر جا چکا تھا
"تم۔۔۔ کون ہو تم"
اس بوڑھے شخص کے چہرے پر شناسائی کی رمق تک نہ تھی وہ درید کو نہیں پہچان سکا تھا تبھی حیرت سے پوچھنے لگا اور اتنا بولنے کے ساتھ ہی اس کا سانس اکھڑنے لگا
"میں درید، آپ کے دوست اعظم کا بیٹا پہچانا آپ نے مجھے"
درید خاور سے اپنا تعارف کرواتا ہوا بولا خاور بہت غور سے درید کو دیکھنے لگا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگا
"اعظم اور ثمن کا بیٹا درید۔۔۔ تم درید ہو ہاں یاد آگیا مجھے"
خاور درید کو پہچان گیا تھا جبھی اس سے بولا وہ بمشکل اپنے یہ جملہ ادا کر پایا کیونکہ اس کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی تھی
"آپ یہاں پر کب سے موجود ہیں انکل اور کس نے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔۔۔ کون ہے آپ کی اس حالت کا ذمہ دار"
درید کے دماغ میں بہت سارے سوالات ایک دم سے اٹھنے لگے جو وہ خاور سے جاننے کے لیے بےتاب تھا
"اعظم نے۔۔۔ تمہارے باپ نے مجھے یہاں پر قید کیا تھا 19 سال پہلے۔۔ وہی ہے میری اس حالت کا ذمہ دار"
بولتے ہوئے نہ صرف خاور کی آنکھوں میں آنسو نکلنے لگے بلکہ اس کی حالت بھی بگڑنے لگی جبکہ درید خاور کے منہ سے اعظم کا نام سن کر ایک دم سکتے میں آگیا
"آنکل کیا ہو رہا ہے آپ کو انکل۔۔۔ خادم جاؤ کار نکالو ہمہیں ہسپتال جانا ہوگا ابھی"
درید خاور کی بگڑھتی ہوئی حالت کو دیکھ کر جلدی سے خادم سے بولا تو خاور تکلیف سے سانس لیتا ہوا نفی میں سر ہلانا لگا۔۔۔ بس درید نے اسے اپنے تکلیف سے کراہ تے اور انکھیں بعد کرتے دیکھا پھر اس کا جسم ساکت ہوگیا۔۔۔۔ درید حیرت ذدہ ہوکر خاور کے بےجان وجود کو دیکھنے کے بعد خادم کو دیکھنے لگا
"صاحب جی مجھے لگتا ہے اس کی موت ہوگئی"
خادم کی بات سن کر درید بستر پر لیٹے ہوئے خاور کو دیکھنے لگا۔۔۔ خاور بہت سے ضروری سوالات کے جوابات اپنے ساتھ ہی لے کر دنیا سے جا چکا تھا۔ ۔۔ جس کے جوابات یہاں کے ملازمین نہیں جانتے تھے جس کے جوابات جاننے کے لیے درید کو تجسس تھا جس کے جوابات اب اسے صرف تابندہ سے ہی مل سکتے تھے
اگر اس کے باپ نے 19 سالوں سے اپنے دوست کو قید کر کے رکھا ہوا تھا تو اس کے باپ کے ساتھ تابندہ بھی اعظم کے جرم میں برابر کی شریک تھی کیونکہ وہ سب باتوں سے واقف تھی۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اس کے باپ نے اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟؟؟ درید سیگریٹ پیتا ہوا سوچنے لگا
تابندہ کو حاصل کرنے کے لئے۔۔۔ دریس کو خود ہی جواب مل گیا۔۔۔ یہ قدم اعظم نے تابندہ کو حاصل کرنے کے لیے اٹھایا تھا کیونکہ وہ بچپن میں اپنی آنکھوں سے جو منظر دیکھ چکا تھا وہ اس بات کی اہم کڑی تھی۔۔۔ درید اسموکنگ کرتا ہوا خود سے نتیجہ اخذ کرنے لگا،، اچانک اس کا دماغ ثمن کی طرف چلا گیا
اگر اس کا باپ اپنے دوست کو راستے سے ہٹانے کے لیے اسے قید کر سکتا تو پھر اپنی پہلی بیوی کو۔۔۔ کیا اس کی ماں کی موت حادثاتی تھی یا پھر پری پلان؟؟؟
یہ بات درید کے ذہن میں آتے ہی اس کو گھبراہٹ سی ہونے لگی اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کے اندر دھواں سا بھر گیا ہے مگر یہی حالت کمرے کی بھی تھی اسموکنگ کرنے کی وجہ سے پورے کمرے میں دھواں بھرنے لگا تھا۔۔۔ درید کو اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کھولنا پڑی۔۔۔ ٹھنڈی ہوا میں سانس لیتا ہوا وہ خود کو پُر سکون کرنے لگا۔۔۔ ایسا ضروری بھی نہیں تھا جو سلوک اعظم نے اپنے دوست کے ساتھ کیا ہو وہی سلوک وہ اپنی بیوی کے ساتھ کرتا۔۔۔۔ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ اس کی ماں کی موت واقعی سیڑھیاں گرنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہو۔۔۔ اب وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا مثبت انداز میں سوچنے لگا
پوری سچائی اب وہ واپس جانے کے بعد تابندہ سے جاننے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ کیونکہ اصل حقیقت اب اسے تابندہ سے ہی معلوم ہو سکتی تھی۔۔۔
زمل کے کروٹ لینے پر درید نے مڑ کر بیڈ پر سوئی ہوئی زمل پر نظر ڈالی کھڑکی کھولنے کی وجہ سے کمرے میں ٹھنڈ بڑھ رہی تھی شاید وہ اس وجہ سے نیند میں بےچین ہو رہی تھی درید نے کھڑکی کا دروازہ بند کر دیا اور اپنی جیکٹ کو اتار کر زمل کے برابر میں بیڈ پر لیٹتا ہوا زمل کو دیکھنے لگا،، حقیقت چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔ درید کی محبت اس لڑکی سے کم نہیں ہوسکتی تھی نہ وہ اس سے محبت کرنا بند کر سکتا تھا درید اپنے اور زمل کے بارے میں سوچتا ہوا سونے کی کوشش کرنے لگا
****
صبح کے وقت زمل کی آنکھ کھلی تو وہ بائیں جانب کروٹ لیے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس کا سر تکیہ کی بجائے اپنی پشت پر سوئے ہوئے درید کے پھیلے ہوئے بازو پر ٹکا ہوا تھا۔۔۔ زمل کو درید سے پوری توقع تھی کہ وہ رات میں اسی روم میں آ کر اُسی کے پاس سوئے گا کیونکہ یہاں آ کر وہ اداس ہوجاتا خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا۔۔۔ وہ زمل کو لایا بھی اپنے ساتھ شاید اسی وجہ سے تھا تاکہ اپنی اداسی اور اکیلے پن کا علاج کر سکے
کمفرٹر کے اندر موجود ہو کر بھی زمل کو اس وقت سردی محسوس ہو رہی تھی وجہ ہیٹر کا بند ہونا تھا جو کہ درید نے لازمی رات کو سونے سے پہلے بند کر دیا ہوگا۔۔۔ زمل کمفرٹر سے اپنا ہاتھ باہر نکال کر سائیڈ ٹیبل پر ریموٹ کنٹرول ڈھونڈنے لگی جو کہ درید سونے سے پہلے نہ جانے کہاں رکھ چکا تھا۔۔۔ کمفرٹر سے باہر نکل کر ہیٹر آن کرنا اس وقت زمل کو دنیا کا سب سے مشکل کام لگا مگر کمرے کے ٹمپریچر کو دیکھ کر یہ کام کرنا ضروری تھا، اس لیے کمفرٹر سے باہر نکلنے سے پہلے وہ اپنے اوپر سے درید کا ہاتھ ہٹانے لگی۔۔۔ زمل کو پتہ بھی نہیں لگا کہ اس کے چھونے سے درید کی آنکھ کھل چکی تھی
زمل نے کمفرٹر سے باہر نکل کر ٹھنڈے فرش پر پاؤں رکھے تو اس کے دانت بجنے لگے وہ اس وقت ٹراؤزر کے اوپر ہالف سلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی جلدی سے قدم بڑھاتی ہوئی وہ دیوار پر نسب ہیٹر کو آن کرکے وہی سے بھاگ کر واپس آتی ہوئی دوبارہ کمفرٹر میں چھپ گئی
"اف دید کو تو بہت ہی زیادہ گرمی لگتی ہے ہیٹر بند کرنے کی کیا ضرورت تھی"
زمل آہستہ آواز میں بڑبڑائی تو اس کی پشت پر لیٹے درید نے زمل کو اپنی طرف کھینچا جس پر زمل کے منہ سے زور دار چیخ نکلی ساتھ ہی اس کی کمر درید کے سینے سے چپک گئی
"بی کوز آئی ایم وارم بلاڈڈ"
درید زمل کو اپنے اندر چھپائے اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔۔۔ وہ رات والے واقعے کو دل اور دماغ سے نکال کر صرف اس وقت زمل کو محسوس کرنا چاہتا تھا
"کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔ مجھے اس وقت بہت سردی لگ رہی ہے پلیز دید چھوڑ دیں مجھے"
درید کے بازوؤں کے تنگ گھیرے میں زمل گھبراتی ہوئی اس سے بولی اور اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی
"تمہاری سردی کا ہی علاج کر رہا ہوں میں، اس ہیٹر سے زیادہ گرمائش رکھتا ہوں آزما کر دیکھ لو"
درید نے بولنے کے ساتھ ہی زمل کو مزید اپنی گرفت میں جکڑا
"کیا ہوگیا ہے دید آپ کو، کیا توڑ ڈالے گے آج آپ مجھے ہٹیں ناں پیچھے"
زمل درید کی گرفت میں پریشان ہوتی ہوئی بولی تو درید نے سیدھے لیٹتے ہوئے زمل کے نازک وجود کو اپنے اوپر جھکا لیا اب وہ درید کے سینے پر جھکی ہوئی اسے گھور رہی تھی تو درید بولا
"تمہاری یہ نازک مزاجی دیکھ کر تو میں خود بھی ٹینشن میں آجاتا ہوں کہ کیسے برداشت کرو گی تم اپنے اِس دیوانے کی دیوانگی کو"
درید سنجیدہ انداز میں زمل کا چہرہ دیکھ کر بولا تو زمل نے اپنی نظروں کا زاویہ درید کے چہرے سے ہٹاتے ہوئے پلکوں کو جھکالیا
"کیا ضروری ہے اپنی دیوانگی دکھانا۔۔۔ مجھے تو اب ویسے بھی آپ سے ڈر لگنے لگا ہے"
زمل درید سے بولتی ہوئی اس کے سینے سے سر ہٹا کر بیڈ پر بیڈ گئی
"مجھ سے ڈر،، وہ کیوں"
درید خود بھی بیڈ پر بیٹھتا ہوا حیرت سے زمل کو دیکھ کر پوچھنے لگا
"بتایا تو تھا آپ کو کہ اب آپ پہلے جیسے شریف نہیں رہے ہیں"
زمل نے بولنے کے ساتھ ہی جلدی سے بیڈ سے اترنا چاہا مگر اس سے پہلے درید اس کو بازوؤں میں بھرتا ہوا بیڈ پر دوبارہ لیٹ گیا
"ابھی تک تو میں نے شرافت کا ہی مظاہرہ کیا ہوا تھا۔۔۔ مگر اب آگے تمہارا ڈرنا جائز ہوگا اسلیے صحیح سے ڈرنے کے لیے ابھی سے تیار ہوجاؤ"
درید مسکراہٹ چھپا کر مصنوعی گھوری سے اس کو نوازتا ہوا زمل کے چہرے پر جھکا تو زمل نے اپنی آنکھیں بند کرلی
"دید کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔ آپ تو سیریس ہوگئے پلیز ابھی تو ہٹیں"
اپنی گردن پر درید کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے وہ ایک دم بوکھلاتی ہوئی بولی کیوکہ زمل جان گئی تھی درید اب لمحہ بھر ہی لگائے گا اس پر اپنی شدتیں لٹانے میں
"میرے خیال میں اب تمہیں بھی سیریس ہوجانا چاہیے، بس اب کوئی آرگیو نہیں"
درید زمل کی مدخلت پر اس کا چہرہ دیکھ کر بولا وہ اس وقت بالکل سنجیدہ تھا پھر بھی زمل کی زبان سے جانے کیسے پھسل گیا
"کل ڈرائیونگ کے دوران آپ رضی انکل کو اپنے صبح آفس آنے کا بتا رہے تھے۔۔۔ رضی انکل آپ کا ویٹ کر رہے ہوگیں دید"
زمل درید کی گرفت میں اسے مینجر کی کال کا یاد دلانے لگی
"لیکن وہ مجھ سے لیٹ آنے کی وجہ نہیں پوچھیں گے۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا چاہ رہی ہو میں یہی موجود رہو یا دوسرے روم میں چلا جاؤ"
درید اٹھ کر بیٹھتا ہوا زمل سے پوچھنے لگا۔۔۔ زمل نچلا ہونٹ دانتوں سے دباتی ہوئی بےچارگی سے درید کو دیکھنے لگی۔۔۔ درید بیڈ سے اٹھ کر دوسرے روم سے جانے لگا تب زمل نے فوراً درید کی کلائی پکڑی
"میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھ سے ناراض ہوکر جائے۔۔۔ مگر آپ کا آفس جانا بھی ضروری ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے"
وہ اتنی جلدی کیسے یہ سب کچھ۔۔۔ مگر درید کی ناراضگی ااففف۔۔۔ زمل سچ میں کنفیوز ہو چکی تھی مگر اپنی بات مکمل ہونے پر درید کو اپنے اوپر دوبارہ جھکتا ہوا دیکھ کر اس کی سانسیں رک گئی
"کہا تو ہے آفس لیٹ بھی چلا جاؤ تو کوئی پرابلم نہیں"
درید زمل کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بولا وہ زمل کے ہونٹوں پر جھکنے لگا مگر اس سے پہلے زمل نے کانپنا شروع کردیا
"تم نے پھر اس دن کی طرح کانپنا شروع کردیا۔۔۔ حیرت ہے مجھے نہیں لگتا کوئی لڑکی اس طرح بھی ایکٹ کرتی ہوگی"
درید غور سے زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا جوکہ بند آنکھوں کے ساتھ درید کے بےحد قریب لیٹی ہوئی باقاعدہ کانپ رہی تھی
"آپ نے اگر اپنا برف جیسا ہاتھ میرے اوپر سے نہیں ہٹایا تو میں ایسے ہی کانپتی رہو گی"
زمل کے بولنے پر درید کی نظر اپنے ہاتھ پر گئی جو زمل کی شرٹ سے تھوڑا اندر اس کے پیٹ پر موجود تھا۔۔۔ درید مسکراتا ہوا اپنا چہرا زمل کے قریب لایا
"وجہ یہی ہے یا بن رہی ہو میرے سامنے"
درید مسکراتا ہوا زمل سے پوچھنے لگا جس پر زمل اپنی آنکھیں کھلتی ہوئی درید کو دیکھنے لگی
"سس"
درید کا ہاتھ سرکتا ہوا اوپر گیا تو زمل کے منہ سے سسکی نکلی
"آپ کو اس روپ میں امیجن کیا تھا تب بھی یہی کنڈشن ہوگئی تھی میری پلیز اب دور ہٹ جائے"
زمل کی بات پر درید کے لب بےساختہ مسکرائے
"اور ایسا امیجن کب کیا تم نے"
اب درید کا ایک ہاتھ زمل کے گال پر تھا جبکہ دوسرے ہاتھ کی انگلیاں زمل کے ہونٹوں کو نرمی سے چھو رہی تھی
"کل رات"
زمل اپنی آنکھیں بند کیے بولی تو درید اس کے سانسوں میں اپنی سانسیں اتارتا ہوا مدہوش ہوا مگر پھر زمل کی حالت پر ترس کھاتا ہوا اٹھ بیٹھا
"سوچ رہا ہو آفس کا چکر لگا آتا ہو ورنہ تمہارا دماغ میرے آفس جانے میں اٹکا رہے گا اور آج رات ہی تمہاری اس سردی کا اور کانپنے کا صحیح سے علاج کرتا"
درید زمل سے بولتا ہوا اپنی جیکٹ صوفے سے اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا
****

"یہاں آؤ تم دونوں"
تھوڑی دیر بعد درید آفس کے لیے تیار ہوتا ہوا سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔۔۔ زمل ابھی تک اوپر والے اپنے کمرے میں موجود تھی۔۔۔ درید نے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے ان دونوں بہن بھائیوں کو بلایا جو تھوڑی دیر پہلے اسے زمل کے کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ کر حیرت سے منہ تک رہے تھے
"تم دونوں واقعی نہیں جانتے بیسمینٹ میں موجود وہ آدمی کون تھا یا پھر میرے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے ہو"
درید خادم اور شارقہ کو دیکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا
"درید بھائی آپ قسم لے لو ہم دونوں کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں ہے بڑے صاحب نے اتنے سالوں سے اسے وہاں پر کیوں رکھا ہوا تھا۔۔۔ ہم تو آپ لوگوں کے نوکر ہیں بڑے صاحب کے حکم سے اس کو دو وقت کا کھانا دے دیا کرتے تھے"
خادم کل رات کی طرح ایک بار پھر درید کو یقین دلاتا ہوا بولا جبکہ شارقہ خادم کے ساتھ خاموش کھڑی تھی
"اور زرقون بی ان کو بھی اس بات کا علم نہ ہو، ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ کب تک واپسی ہے ان کی بلکہ ایسا کرو آج ہی انہیں کال کر کے بولو درید یہاں آیا ہوا ہے وہ آپ کو یاد کر رہا ہے، وہ جیسے ہی واپس آۓ انہیں فوراً میرے پاس بھیجو"
درید خادم کو دیکھتا ہوا بولا ایسا ممکن نہیں زرقون بی کو کچھ معلوم نہ ہو وہ ناصرف اعظم اور ثمن کو اچھی طرح جانتی تھیں بلکہ اسے دھندلا سا یاد پڑتا تھا اعظم اور ثمن کے ساتھ تابندہ اور خاور بھی یہاں پر آئے تھے جب تابندہ خاور کی بیوی ہوا کرتی تھی
"اور ایک بات اور بھولے سے بھی اس آدمی کی موت کا بڑی بیگم صاحبہ یا چھوٹی بی بی کو علم نہیں ہونا چاہیے ورنہ تہہ خانے میں جو جگہ خالی ہے وہاں میں تم دونوں کو ڈال دوں گا سمجھ آ رہا ہے"
درید ان دونوں کو ڈراتا ہوا بولا وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب تک وہ خود اصل معاملے کی تہہ تک پہنچے زمل کو کچھ بھی معلوم ہو۔۔۔ ویسے تو خاور زمل کو یاد نہیں تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ زمل کو کوئی بھی ایسی خبر ہو جو اسے دکھی کرے، درید کی بات سن کر خادم اور شارقہ جا چکے تھے جبکہ زمل ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھامے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آ رہی تھی جس سے درید نے اندازہ لگایا اس کا باہر جانے کا پروگرام تھا
"آپ ابھی تک آفس نہیں گئے"
زمل ڈائننگ ٹیبل کے پاس آکر درید سے مخاطب تھی مگر وہ دیکھ بائیں جانب سے کچن میں رہی تھی جہاں اس وقت شارقہ موجود تھی
"یہاں میری طرف دیکھ کر بات کرو کیا ابھی بھی شرما رہی ہو مجھ سے"
درید زمل کا چہرہ دیکھنے کے ساتھ،،، نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا تو زمل درید کو گھورنے لگی
"اب ایسے کیا آنکھیں دکھا رہی ہو تھوڑی دیر پہلے تو شرم سے آنکھیں نہیں کھل رہی تھی تمہاری میرے سامنے"
درید بولنے کے ساتھ ساتھ زمل کے فیس ایکسپریشن بھی انجوئے کررہا تھا۔۔۔ تب زمل درید کو مزید گھور کر دیکھنے لگی یہ درید کے لیے وارننگ تھی کہ اب اگر اس نے کچھ بھی بولا تو وہ درید سے ناراض ہوجائے گی
"اوکے میری جان نہیں تنگ کر رہا یہ بتاؤ کہا جا رہی ہو اگر کہیں باہر جانے کا موڈ ہے تو میں آفس کا چکر بعد میں لگا لیتا ہوں ٹیل می کہاں جانا ہے"
زمل کا ہاتھ اب بھی درید کے ہاتھ میں تھا وہ پیار بھرے لہجے میں زمل سے پوچھنے لگا
"آپ کے ساتھ نہیں جانا مجھے میرا مطلب ہے آپ کو آفس جانا چاہیے دید،، مجھے تو یہی قریبی مارکیٹ تک جانا ہے میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ گی"
زمل اب کی بار درید کو دیکھتی ہوئی نارمل انداز میں بولی۔۔۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی درید اسے اکیلا جانے کی پرمیشن دیتا ہے یا نہیں،، وہ جب اپنے اور درید کے رشتے کو قبول کر چکی تھی تو چاہتی تھی درید بھی اس پر بھروسہ کرے
"اوکے چلی جانا، پر ڈرائیور کے ساتھ نہیں میں خادم سے کہہ دیتا ہو وہ تمہیں مارکیٹ تک چھوڑ آئے گا مگر پہلے یہاں بیٹھ کر ناشتہ کرو"
درید نے زمل کو بولتے ہوئے اپنی برابر والی کرسی پر بٹھالیا لگا
"کیا پارلر جانا ہے تمہیں"
درید زمل کی آئی برو کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جو اس وقت صحیح شیپ میں موجود نہیں تھی۔۔۔ درید کی بات سن کر زمل گھور کر درید کو دیکھتی ہوئی بولی
"کتنا غور و فکر کرتے ہیں آپ بھی دید، اور ہاتھ چھوڑیں میرا شارقہ ہر تھوڑی دیر بعد کچن سے ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے"
پیپرز میں بزی ہونے کی وجہ سے اس کا پارلر جانا نہیں ہوا تھا لیکن کل ہی اتفاق سے اس کا اور درید کا برتھ ڈے تھا اسے اپنے لیے تو کچھ نہیں لینا تھا مگر وہ درید کے لیے برتھ ڈے پریزنٹ لینا چاہتی تھی اس وجہ سے اس کا مارکیٹ جانے کا پروگرام بن گیا تھا
"اپنی ہی چیز پر غور و فکر کر رہا ہوں تو پھر کسی دوسرے کو کیا اعتراض"
درید اس کا ہاتھ چھوڑے بغیر گہری میں نگاہؤں سے زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا تو وہ خاموش ہو گئی وہ زمل کو اس وقت بالکل ہی مختلف لگ رہا تھا
"تم جانتی ہو یہ کون ہے میری"
شارقہ ناشتہ لے کر ٹیبل پر رکھنے لگی تو درید شارقہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جو ابھی بھی ٹیبل پر رکھا ہوا درید کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوا زمل کا ہاتھ دیکھ رہی تھی
"دید"
زمل نے گھور کر درید کو ٹوکنا چاہا جو اس وقت زمل کی بجائے شارقہ کو دیکھ رہا تھا
"جی چھوٹی بی بی جی تو آپ کے لیے بالکل چھوٹے بےبی کی طرح ہیں آپ بہت پیار کرتے ہیں ان سے بچپن سے، بالکل ایسے ہی"
شارقہ مسکراتی ہوئی تھوڑا شرما کر درید کو دیکھ کر بتانے لگی
"چھوٹے بےبی کی طرح نہیں ہے یہ بیوی ہے میری۔۔۔ اوپر روم کی صفائی کر کے میرا بیگ اسی کے روم میں رکھ دینا"
درید شارقہ کی معلومات میں اضافہ کرنے کے بعد ناشتہ کرنے لگا۔۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ شارقہ اور خادم دونوں جس طرح حیرت سے اسے صبح زمل کے کمرے سے نکلتا ہوا دیکھ رہے تھے وہ دونوں بہن بھائی ہی ان دونوں کے نکاح سے لاعلم تھے
"میں خادم سے بول دیتا ہو وہ تمہیں مارکیٹ تک چھوڑ دے گا، لیکن اگر پارلر جانا ہے تو بس اپنے بالوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے او کے چلتا ہوں"
درید ناشتے کے بعد زمل سے بولتا ہوا باہر نکل گیا
****
زمل خادم کے ساتھ قریبی مارکٹ آئی تھی، یہاں وہ پہلے بھی تابندہ کے ساتھ آتی رہتی تھی اس لیے بغیر کنفیوز ہوئے پارلر کے بعد ایک مخصوص پرفیوم کی دکان کے اندر داخل ہوئی جہاں اس نے شاپ کیپر کو ویلنٹینو پرفیوم دکھانے کو کہا کیوکہ درید یہی پرفیوم زیادہ تر استعمال کرتا تھا
"نہیں کاپی نہیں اس کا اوریجنل چاہیے"
وہ شاپ کیپر کو پرفیوم کی بوتل واپس کرتی ہوئی بولی تو شاپ کیپر اسے پانچ منٹ کا ویٹ کروا کے شاپ سے چلا گیا
"زمل"
زمل دوسرے پرفیوم دیکھنے میں مصروف تھی جبھی اس کی پشت پر کھڑے شخص نے اسے پکارا
"کیف تم یہاں کیا کر رہے ہو"
شاپ کے دروازے پر کھڑے کیف کو دیکھ کر زمل حیرت کا اظہار کرتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"تمہیں مجھے دیکھ کر خوش ہونا چاہیے تھا لیکن تم خوش ہونے کی بجائے حیران ہو، خیر میں یہاں تمہارے لئے آیا ہوں تم سے ملنے"
کیف شاپ کے اندر داخل ہوتا ہوا زمل کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر بولا
"تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں پر موجود ہو، تمہیں کس نے بتایا"
زمل اپنی خیریت بتانے کی بجائے الٹا کیف سے یہاں اس کی موجودگی کا سوال کرنے لگی کیونکہ اس نے ثمرن کو منع کیا تھا کہ وہ کیف کو بالکل بھی نہ بتائے کہ وہ کہاں پر ہے
"جن سے دل لگا لیا جائے تو ان کے بارے میں خبر رکھنا کوئی مشکل کام نہیں اس لیے فضول باتوں میں وقت ضائع مت کرو کہ مجھے یہاں تمہاری موجودگی کا کیسے پتہ چلا, تم یہ بتاؤ کہ مجھے نظر انداز کیوں کر رہی ہو بات کیوں نہیں کرتی تم مجھ سے"
کیف مزید زمل کے قریب آتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"تم کو سب باتوں کا معلوم تو ہے کہ پھر یہ سوال پوچھنے کا فائدہ، دیکھو کیف سمجھنے کی کوشش کرو ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مزید آگے نہیں چل سکتے ایسا کرنا میرے لئے ممکن نہیں، نہ ہی یہ تمہارے لئے بہتر ہے"
زمل دبے ہوئے لفظوں میں اسے سمجھانے لگی ساتھ ہی اس کی نظر شاپ سے باہر مٹر گشت کرتے لوگوں پر ٹکی ہوئی تھی کسی ڈر کے تحت،، کہیں درید آج پھر ان دونوں کو ایک ساتھ نہ دیکھ لے لیکن زمل کی بات سن کر ایک دم کیف نے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑا تو زمل چونک کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی
"تو تم اس شخص کے ڈر کی وجہ سے میری محبت فراموش کرنا چاہتی ہو یا پھر تمہیں اس درید اعظم کے ساتھ وقت گزار کر محبت ہو گئی ہے اس سے، بولو۔۔۔۔ زمل ایک بات اچھی طرح جان لو تم مجھے اس شخص کی وجہ سے نظر انداز کرو گی تو میں تمہیں بھی نہیں بخشو گا درید اعظم کے ساتھ ساتھ یہ بات تم اچھی طرح یاد رکھنا مجھ سے بے وفائی کرنے کا سوچنا بھی مت"
کیف کی بات سن کر اور اس کے دھمکی والے انداز پر زمل کو کیف پر غصہ آنے لگا اس نے غصے میں کیف کے دونوں ہاتھ اپنے بازو سے جھٹکے
"شٹ اپ کیف اپنی حد میں رہو، تم سے محبت کی شروعات میں نہیں کی تھی نہ ہی میں نے تم سے محبت کا دعوی کیا ہے۔۔۔ تمہاری محبت کے اعتراف کرنے پر میں تمہیں اپنے نکاح کی حقیقت بتا چکی تھی۔۔۔ ہاں یہ میں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوں کے اس کے باوجود جب تم نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے تو میں نے تمہارا ساتھ دیا، اس وقت میں غلط تھی بہت غلط کیا میں نے۔۔۔ لیکن اب تمہیں بھی اپنی غلطی مان لینا چاہیے کیف اور اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ میں کسی دوسرے کی عزت ہو۔۔۔ درید مجھ سے اپنا تعلق کبھی بھی ختم نہیں کر سکتے اور شاید میں بھی ایسا ہی چاہتی ہوں۔۔۔ پلیز کیف میں تمہیں سمجھانا چاہتی ہوں کہ اگر تم اس بات کو ضد نہ بناؤ تو بات آگےنہیں بڑھے گی۔۔۔ میں اس بات کو مانتی ہوں اگر کسی کے ساتھ فیلنگز جڑی ہو تو سب کچھ ایک دم ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ مگر ہم دونوں کی کمیٹمینٹ کو ایک ماہ سے زیادہ نہیں ہوا تھا تم پلیز سب باتوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرو اسی میں ہم دونوں کی بھلائی ہے"
زمل کیف کو سمجھاتی ہوئی بولی جو غصے سے اس کو دیکھ رہا تھا ایک دم بولا
"اصل فساد کی جڑ درید اعظم ہے۔۔۔ وہ ہم دونوں کے بیچ میں آ رہا ہے اور تم اس کی وجہ سے مجھ سے الگ ہونے کا سوچ رہی ہوں اس سے بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں مل کر اس کو مار دیتے ہیں۔۔۔ قتل کر دیتے ہیں اس کا، ویسے بھی وہ تم سے اتنی آسانی سے رشتہ ختم کرنے والا نہیں ہے اس کا مرجانا ہی بہتر ہے"
کیف جذباتی پن سے بولا تو زمل نے غصے میں اس کا گریبان پکڑ لیا
"ہمت کیسے کی تم نے دید کے بارے میں اتنی گھٹیا بات کرنے کی۔۔۔ اتنی گری ہوئی سوچ کے مالک ہوں تم کیف کہ اپنی خواہش کے حصول کے لیے کسی کی بھی جان لینے کا سوچوں گے۔۔۔ اتنا آسان ہے تمہارے لئے کسی انسان کی جان لینا یہ انسانیت ہے تمہارے اندر،، ایک بات میری اچھی طرح سن لو کیف،، درید میرے شوہر ہیں نہ ہی میں کبھی ان کو مشکل میں دیکھ سکتی ہوں نہ ہی میں اب ان کو تمہارے لئے چھوڑو گی۔۔۔ بہت اچھا ہوا کہ آج تم نے اپنی منفی سوچوں کو مجھ پر ظاہر کر دیا جس سے میرے دل میں اب تمہارے لیے عزت بھی ختم ہو چکی ہے چلے جاؤ یہاں سے کیف اور اب کبھی میرے سامنے مت آنا"
زمل غصے میں کیف کو دیکھ کر بولی
"او ہو تو یعنی محبت کر بیٹھی ہو تم اس درید اعظم سے۔۔۔ بولو زمل صحیح کہہ رہا ہوں ناں میں"
کیف چھبتے ہوئے لہجے میں اس کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ہاں ہو چکی ہے محبت سن لیا تم نے"
زمل دبے ہوئے غصے میں کیف کو دیکھ کر غراتی ہوئی بولی آخر وہ اتنا کیسے گر سکتا تھا کہ درید کے لیے اس سے ایسی بات کرتا
"تمہیں فائنل ایئر کا وہ اسٹوڈنٹ تو یاد ہوگا جس نے محبت کی ناکامی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنی محبوبہ یعنیٰ اپنی ہی کلاس میٹ کا چہرہ ایسڈ سے بگاڑ دیا تھا اس سے بھی زیادہ برا حشر کرو گا میں تمھارے ساتھ اور وہ تمہارا شوہر درید اعظم روئے گا تمہارا حشر دیکھ کر"
کیف زمل کو دھمکی دیتا ہوا شاپ سے باہر نکل گیا
****
وہ جب سے گھر پہنچی تھی اسے رہ رہ کر کیف کی باتیں اور دھمکی یاد آ رہی تھی جس پر زمل کو افسوس ہو رہا تھا کیف اس حد تک منفی سوچ رکھتا ہے کہ کسی انسان کو ختم کرنے کی بات بھی کر سکتا ہے ساتھ وہ اس کے بارے میں کیسے کہہ رہا تھا کہ وہ اس کا حشر بگاڑ دے گا۔۔۔ زمل نے کیف کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے بارے میں واصف کو بھی کال کر کے بتا دیا تھا اور اس کی دھمکی کے بارے میں بھی۔۔۔ جس پر واصف نے زمل کو تسلی دی تھی کہ وہ کیف سے بات کرے گا اور اسے سمجھائے گا۔۔۔ اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی درید کے سامنے وہاں کیف کی موجودگی کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے درید اور اس کے بیچ معاملات نہ خراب ہوجائے
شام میں درید آفس سے گھر لوٹا تو زمل اس سے خوش ہوکر ملی اس کے باوجود درید نے اسے خاموشی کا نوٹس لیا،، زمل سے اس کی خاموشی کی وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر ٹال گئی۔۔۔ رات کو ڈنر کے بعد زمل اوپر اپنے کمرے میں آ گئی جبکہ اسے خبر نہیں تھی درید نیچے کیا کر رہا تھا۔۔۔ تابندہ سے موبائل پر بات کرنے کے بعد وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی بُک پڑھنے میں مگن تھی کتنا وقت گزر چکا تھا اسے خبر نہیں ہوئی۔۔۔ درید اوپر کمرے میں اس کے پاس آیا
"ہیپی برتھ ڈے مائی ڈارلنگ"
درید کے وش کرنے پر زمل چونک کر پلٹتی ہوئی درید کو دیکھنے لگی وہ دروازے کے پاس کھڑا ہوا مسکرا کر زمل کو ہی دیکھ رہا تھا
"اووو بارہ بج بھی گئے مجھے خبر ہی نہیں ہوئی ہم دونوں کی برتھ ڈے اسٹارٹ ہوگئی ہے ہیپی برتھ دے دید"
زمل گھڑی پر نظر ڈال کر بیڈ سے اٹھتی ہوئی درید کے پاس آکر بولی تو درید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچتے ہوئے زمل کی کمر کے گرد اپنے دونوں بازو حائل کر کے زمل کو اپنے حصار میں لیا
"قریب آ کر ٹھیک سے وش کروں مجھے"
درید کی فرمائش سن کر زمل غور سے درید کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔ پہلی بار شاید وہ مختلف انداز میں درید کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ ثمرن اور نشاہ ٹھیک ہی کہتی تھی وہ کافی ہنڈسم تھا اس بات کا پہلے کبھی اس نے غور ہی نہیں کیا تھا
"آج کا دن آپ کو بہت بہت مبارک اللہ پاک آپ کو لمبی عمر اور ڈھیر ساری خوشیاں عطا کرے"
کیف کی صبح والی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے زمل درید کو لمبی عمر کی دعا دینے لگی
"میری خوشی تو صرف تمہارے ساتھ میں ہے مائی لیڈی لو یو سو مچ"
درید نے بولتے ہوئے زمل کی پیشانی پر اپنا پیار بھرا لمس چھوڑا تو زمل کو اپنا آپ معتبر محسوس ہونے لگا
درید نے اس کے ماتھے سے اپنے ہونٹوں ہٹائے زمل اب بھی ویسے ہی آنکھیں بند کیے کھڑی تھی، درید زمل کو ایسے کھڑا دیکھ کر اس کے چہرے کے آگے چٹکی بجانے لگا جس پر زمل نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولی
"کہاں گم ہو گئی"
درید غور سے زمل کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا تو وہ شرمندہ ہو کر بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے کرتی ہوئی نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔ درید اسکے بدلے ہوئے انداز کو صبح سے نوٹ کر رہا تھا اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہوا وارڈروب کی طرف بڑھا اور اپنے بیگ سے ایک ڈریس نکال کر زمل کے پاس لایا تو وہ سوالیہ نظروں سے درید کو دیکھنے لگی
"برتھ ڈے گرل کے لیے ڈریس ہے، جاؤ جلدی سے چینج کر کے آؤ"
درید کی فرمائش پر زمل وہ بلیک کلر کی لونگ میکسی اس کے ہاتھ سے لے کر چینج کرنے چلی گئی
میکسی میں مبلوس وہ کمرے میں واپس آئی تو درید اسی کے انتظار میں کمرے میں کھڑا تھا۔۔۔ وہ زمل کو دیکھ کر چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے بندھے ہوئے بالوں کھول دیئے، زمل کے بال کمر پر بکھر گئے۔۔۔ وہ زمل کا پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے آیا۔۔۔ زمل خاموشی سے درید کا ہاتھ تھامے سیڑھیوں سے اتر رہی تھی مگر اس کی نظریں نیچے سجے ہوئے کمرے پر مرکوز تھیں جسے بلونز اور لائٹز سے ڈیکوریٹ کیا ہوا تھا
"یہ سب آپ نے کیا ہے دید"
زمل آخری سیڑھی پر کھڑی چاروں طرف نظریں دوڑاتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی
"نہیں خادم اور شارقہ نے کیا ہے"
درید کے الٹے جواب پر زمل آنکھیں دکھاتی ہوئی اسے دیکھنے لگی
"اف کورس میری جان آج پورے چار سال بعد ہم دونوں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی برتھ ڈے منائیں گے پھر تھوڑا بہت تو اسپیشل کرنا ہی تھا، آؤ کیک کاٹیں"
درید مسکرا کر کہتا ہوا زمل کا نازک ہاتھ تھام کر اسی ڈائننگ ٹیبل کی طرف لے آیا جہاں پر اس کا پسند کا چاکلیٹ پینٹ بٹر کیک موجود تھا جو ہر سال درید زمل کی برتھ ڈے پر اس کے لیے لاتا تھا۔۔۔ درید لائٹر کی مدد سے کیک پر لگی ہوئی پھولوں کی شکل میں میوزک کینڈل جلانے لگا۔۔۔ زمل غور سے درید کو دیکھنے لگی وہ ساری زندگی اس کو یہی ویلیو دے گا،، اس کی کیئر کرے گا مگر کیئر یہ تو اس کی ہمیشہ سے کرتا آیا تھا اور محبت بھی۔۔۔ جس کو وہ خود بھی دعوے دار تھا،، بدلے میں وہ خود کیا چاہتا تھا صرف زمل سے اس کا عمر بھر کا ساتھ۔۔۔۔ شاید یہ سودا اس کے لیے اتنا مہنگا نہیں تھا جتنا پہلے اسے لگ رہا تھا
"اب کیا سوچنے لگ گئی ڈارلنگ، چلو کیک کاٹو"
درید کی آواز پر ایک بار زمل پھر چونکی درید ہاتھ میں نائف لیے کھڑا تھا،، زمل درید کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ کیک کاٹنے لگی
"مینی مینی ہیپی ریٹن اف دس ڈے مائی ڈیئر وائف"
درید نے بولتے ہوئے کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا زمل کے منہ کی طرف بڑھایا جسے درید کے ہاتھ سے کھانے کے بعد زمل کیک کا بڑا سا پیس درید کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی
"تھینک یو مائی ڈیئر ہسبنڈ"
درید صرف ایک سیکنڈ کے لئے زمل کے انداز پر اسے دیکھ کر مسکرایا پھر زمل کے ہاتھ سے کیک کھانے لگا
"میں آج آپ کے لیے کوئی گفٹ ہی نہیں لے سکی دید"
درید زمل کے گلے میں نیکلیس پہنا رہا تھا تب زمل افسوس کرتی ہوئی درید کو بتانے لگی۔۔۔ کیونکہ کیف کی باتوں سے وہ اتنی ڈسٹرب ہو گئی تھی کہ پرفیوم لیے بغیر مارکیٹ سے سیدھا گھر چلی آئی تھی
"آج سے بیس سال پہلے میری برتھ ڈے والے دن پیدا ہوکر تم مجھے اپنا آپ گفٹ کر چکی ہوں میرے لیے یہی بہت ہے"
نیکلس پہنانے کے بعد درید اس کا چہرہ تھام کر بولا۔۔۔ زمل چہرہ نیچے کر کے اپنے گلے میں خوبصورت سا نیکلس دیکھنے لگی جس میں لگے ڈائمنڈ اس کی گردن میں جگمگا رہے تھے
"وہ الگ بات ہے لیکن مجھے گفٹ لینا چاہیے تھا"
زمل نیک لیس کو دیکھتی ہوئی ایک بار پھر اداسی سے بولی۔۔۔کیوکہ درید پچھلے چار سالوں سے اس کی ناراضگی اور بات چیت بند ہونے کے باوجود اسے لندن سے اس کی برتھ ڈے پر ہر سال گفٹ بھیجتا آیا تھا۔۔۔ اس لیے زمل کو افسوس ہو ریا تھا کہ آج کم از کم اسے خالی ہاتھ گھر نہیں آنا چاہیے تھا
"تو اس میں اتنا اداس ہونے کی کیا ضرورت ہے تم ابھی بھی مجھے گفٹ دے سکتی ہو"
درید کی بات سن کر زمل نیکلیس سے نظریں ہٹاکر درید کو دیکھنے لگی درید ایک بار پھر زمل کو اپنے حصار میں لے کر اس کے ہونٹوں کو دیکھنے لگا
"یہ میرے لئے تھوڑا مشکل ٹاسک ہے جو آپ ہر بار بہت آسانی سے اور مزے سے انجام دے لیتے ہیں۔،۔ اس لیے آپ کل میرے ساتھ مارکٹ چلئے گا اور وہی سے اپنے لئے گفٹ چوز کرلیے گا"
زمل درید کی نگاہوں کو دیکھ کر اس کا اشارہ سمجھتی ہوئی درید سے بولی جس پر درید نے زور کا قہقہہ لگایا
"مجھے تم سے اپنا گفٹ لینے کے لیے کل تمہارے ساتھ مارکیٹ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اپنا گفٹ میں تھوڑی دیر بعد بیڈ روم میں جاکر خود لے سکتا ہوں۔۔۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹاسک بھی تمہارے لئے مشکل ہی ہوگا"
درید کی بات کا مفہوم سمجھ کر زمل کا چہرہ بری طرح بلش کرنے لگا اور نگاہیں خود بخود جھک گئی
"اور مجھے آپ سے پوری امید ہے وہ ٹاسک بھی آپ پوری آسانی سے سرانجام دے دیں گیں"
زمل نے بولتے ہوئے اب کی بار درید کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔۔ زمل کی بات سن کر درید خوشگوار انداز میں مسکرایا
"لیٹس ڈانس"
اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر سونگ پلے کرتا ہوا وہ زمل کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر بولا
*****
جب وہ اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتا ہوا بیڈ روم میں لایا تو زمل کی زبان تالو سے چپک چکی تھی، ورنہ اس سے پہلے وہ درید کے ساتھ کپل ڈانس کرتی ہوئی نہ صرف مسکرا رہی تھی بلکہ اپنے بلکہ اپنی پچھلی گزری ہوئی سالگرہ کے دنوں کو یاد کر کے درید کے ساتھ شئیر کر کے خوش ہو رہی تھی۔۔۔۔ اعظم کے ذکر پر وہ اغظم کو مس کرکے اداس ہوئی تھی مگر درید نے اسے زیادہ دیر اداس نہیں رہنے دیا، اپنی اس برتھ ڈے کو اکیلے ہی سہی مگر گزرے دنوں کو یاد کرکے ان دونوں نے انجوائے کیا
درید نے زمل کو بیڈ روم کے دروازے پر لا کر کھڑا کیا تو وہ کنفیوز ہو کر درید کو دیکھنے لگی۔۔۔ درید خود بھی اس کو خاموش نگاہوں سے دیکھ رہا تھا
"میں چینج کرکے آتی ہوں"
درید کا یوں خاموش کھڑے ہو کر اسے دیکھنا مزید کنفیوز کرنے لگا۔۔۔ جبھی زمل اس سے بولتی ہوئی کمرے سے جانے لگی مگر درید نے اس کا کلائی پکڑی
"اور میرے گفٹ کا کیا ہوگا"
درید کے سنجیدگی سے پوچھنے پر زمل اپنی پلکیں جھکا گئی
درید نے اس کا چہرہ تھام کر اوپر کیا تو زمل نے فوراً اپنی آنکھیں زور سے بند کرلی۔۔۔ درید زمل کے چہرے اور سراپے کو بےخود سا دیکھنے کے بعد اسے دوبارہ باہوں میں اٹھا کر بیڈ تک لایا، بیڈ پر لیٹنے کے ساتھ ہی زمل نے شرم کے مارے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا، درید زمل کی پشت کو دیکھتا ہوا اپنی جیکٹ اتار کر صوفے پر پھینکتا ہوا زمل کے نازک سراپے پر جھک گیا
درید کا اپنے اوپر جھکاؤ محسوس کر کے زمل کی ڈھڑکن تیز ہونے لگی، جو نارمل ہونے کی بجائے درید اپنی بےباکیوں سے مزید بڑھانے لگا۔۔۔ درید ذرا سا اٹھ کر زمل کا رخ اپنی طرف کرتا ہوا اس کی گردن پر جھگ گیا مگر تھوڑی دیر میں زمل اس کی گستاخی پر درید کے دونوں بازوں پکڑ چکی تھی
"درید"
اپنی دونوں آنکھیں بند کیے اسکی شدتوں کی تاب نہ لاتی ہوئی بے ساختہ زمل نے درید کو اس کے اصل نام پکارا جس پر درید زمل پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرتا ہوا اس پر مکمل قابض ہوگیا۔۔۔ اب زمل کے پاس اسکی دیوانگی برداشت کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا وہ آنکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی درید کی اپنی لیے دیوانگی محسوس کرنے لگی
صبح درید کی آنکھ کھلی تو کل رات والے تمام منظر ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔۔۔ اپنے منہ زور جذبات پر بےقابو ہونا جس کی وجہ سے زمل کا بار بار شرم وحیا سے آنکھیں بند کرلینا، اپنی بڑھتی ہوئی وارفتگی پر زمل کا گھبرا جانا۔۔۔ پھر اپنی مدھوشی پر زمل کا بدحواس ہوجانا۔۔۔ آخر میں اپنی دیوانگی پر زمل کا ہلکی پھلکی مزاحمت۔۔۔۔ جسے وہ کل رات خاطر میں نہ لا کر اپنی ملکیت کو مکمل طور پر اپنا بنا چکا تھا۔۔۔ درید نے زمل کی طرف کروٹ لے کر اس کی طرف اپنا رخ کیا تو درید کو اپنے بازو میں کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی دوسرے ہاتھ سے ٹٹولنے پر معلوم ہوا وہ اس کا خریدا ہوا نیکلیس تھا جو کل رات اس نے زمل کو کیک کاٹنے کے بعد پہنایا تھا، اور بعد میں کمرے میں آکر خود ہی اتار بھی دیا کیو کہ بعد میں وہ نیکلس اس کے کام میں خلل ڈال رہا تھا۔۔۔ نیکلیس کو سائیڈ ٹیبل پر رکھتا ہوا وہ دوبارہ زمل کا چہرا دیکھنے لگا جو بے خبر سوئی ہوئی تھی
"کیا آج اٹھنے کا ارادہ نہیں ہے میری جان"
درید زمل کے گال کو اپنی انگلیوں سے ہلکے سے چھوتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ مگر درید کا لمس زمل کی نیند میں خلل ڈالنے میں ناکام رہا
"ایسی کون سی نیند ہے جو پوری نہیں ہو رہی، کل رات تمہاری حالت دیکھ کر بہت جلدی بخش دیا تھا تمہیں تمہارے دید نے اب جلدی سے جاگ جاؤ اس سے پہلے میرے سوئے ہوئے جذبات جاگ جائیں"
درید نے کمفرٹر کے اندر زمل کے پاؤں پر اپنا پاؤں پھیرتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی، تو زمل اپنا رخ پھیر کر درید کی طرف پشت کر کے لیٹ گئی
"یعنیٰ کہ تم بھی چاہ رہی ہو میں کل رات کی طرح دوبارہ سے۔۔۔
درید نے آدھا جملہ ادا کرکے جیسے ہی زمل. کو اپنے حصار میں لیا ویسے ہی زمل نے نیند میں اس کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹایا جس پر درید زمل کی پشت کو گھورتا ہوا بیڈ سے اٹھا اور اپنی شرٹ پہننے لگا
کل رات کی بانسبت آج زیادہ ٹھنڈ تھی، کل رات کچھ موسم میں، کچھ جذبوں میں گرمائش تھی کہ درید کو ہیٹر بند کرنا پڑا تھا، شرٹ پہننے کے بعد وہ بیڈ سے اترتا ہوا دوبارہ ہیٹر آن کر چکا تھا تاکہ زمل کی نیند میں بے سکونی نہ آئے۔۔۔ درید خود آفس جانے کی تیاری کرنے لگا کیوکہ آج شام وہ زمل کو اپنے ساتھ واپس لے کر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔ درید سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تب اسے زرقون بی نظر آئیں
"کتنے سالوں بعد دیکھ رہی ہو آپ کو، کتنے بڑے ہوگئے ہیں آپ درید بابا"
درید کے سلام کا جواب دینے کے بعد زرقون بی خوش دلی بولی جس پر درید ہلکا سا مسکرایا
"وقت گزرتے معلوم نہیں ہوتا زرقون بی اور وقت گزرنے کے ساتھ انسان بڑا ہو جاتا ہے لیکن یہ بہت غلط بات ہے کہ پھر بھی اس انسان کو چھوٹا سمجھ کر اس سے بڑی بڑی باتیں چھپا لی جائیں۔۔۔۔ یہاں اتنے سالوں سے کیا کچھ ہوتا رہا ہے جس سے مجھے بےخبر رکھا گیا تھا وہ سب باتیں اب میرے علم میں آچکی ہیں، آپ نے مجھے ان باتوں سے آگاہ کیوں نہیں کیا زرقون بی"
درید بات کو طول دیئے بغیر کام کی بات پر آیا جس پر زرقون بی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئیں
"ہمیں اعظم صاحب نے اس کوٹیچ کی رکھوالی کے لیے رکھا تھا، میں اور میرے دونوں بچے یہاں پر بطور ملازم اپنی نوکری سر انجام دیتے ہیں اعظم صاحب کے حکم سے یہ بات آپ سے ہی نہیں بلکہ سب لوگوں سے چھپائی گئی تھی۔۔۔۔ اعظم صاحب کے انتقال کے بعد بیگم صاحبہ (تابندہ) نے سختی سے اس راز پر سے پردہ ہٹانے کو منع کیا تھا کہ یہاں پر خاور صاحب کو قید میں رکھا گیا ہے۔۔۔۔ میں برسوں سے یہاں ملازمت کر رہی ہو، اعظم صاحب کے کئی احسانات ہیں مجھ پر ان کا کوئی بھی راز میں آپ کو یا کسی دوسرے کو بتا کر میں ان سے غداری نہیں کر سکتی تھی"
زرقون بی کی بات سن کر درید کچھ پل خاموشی کے بعد دوبارہ بولا
"کیونکہ خاور انکل کی قید کے بارے میں مجھے معلوم ہو چکا ہے اب یہ راز نہیں رہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے ساری سچائی بتا دیں کہ ڈیڈ نے خاور انکل کو یہاں پر کس "وجہ" سے قید کر کے رکھا تھا"
درید "وجہ" یعنی تابندہ اور اعظم کے بارے میں جاننے کے باوجود زرقون بی سے سارا معاملہ پوچھنے لگا اس کا دھیان اوپر بیڈ روم میں سوئی ہوئی زمل پر بھی تھا جبھی وہ بہت محتاط انداز میں بات کر رہا تھا۔۔۔۔ لیکن درید کا سوال سن کر ذرقون بی کچھ پریشان ہوگئیں
"بیٹا میں اس گھر کی معمولی سی ملازمہ ہو، صاحب لوگوں کی باتوں کا مجھے کیا علم، کہ کیو اعظم صاحب نے اپنے اتنی قریبی دوست کو یہاں اتنے سال قید میں رکھا"
زرقون بی خود بھی اپنے آپ کو حقیقت سے بےخبر ظاہر کرتی ہوئی درید سے بولی یہاں آنے سے پہلے خادم اور شارقہ نے انہیں خاور کی موت کے بارے میں بھی بتا دیا تھا
"یعنی آپ مجھے حقیقت نہیں بتائیں گی جبکہ آپ کے لہجے اور انداز سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ بہت کچھ جانتی ہیں،
درید زرقون بی کو جتانے والے انداز میں بولا جس پر زرقون بی تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہیں پھر بولی
"آپ بڑی بیگم صاحبہ سے ہر طرح کا سوال کر سکتے ہیں آپ کو سارے سوالات کے جواب مل جائیں گے درید بابا"
زرقون بی درید سے نظریں ملائے بغیر بولی۔۔۔ تو درید کمرے میں لگی ہوئی ثمن کی تصویر دیکھنے لگا،، زرقون بی کی نظریں بھی اب ثمن کی تصویر پر مرکوز تھی
"آنٹی کو تو اب سارے جوابات دینے پڑیں گے اور وہ جواب ضرور دیں گی لیکن میرے ایک سوال کا جواب مجھے آپ ہی دیں گیں اور وہ بھی بالکل سچ۔۔۔ زرقون بی آپ جانتی ہیں میں نے کبھی بھی آپ کو ملازم کی حیثیت سے نہیں دیکھا آپ ہمیشہ میرے لئے قابل احترام ہستی رہی ہے پلیز مجھے سچ بتائیں میری ماما کی موت کیسے واقع ہوئی تھی"
درید نے جتنی سنجیدگی سے سوال کیا تھا ایک بار پھر زرقون بی پریشان ہو کر درید کا چہرہ دیکھنے لگی
"میں آپ کی زبان سے بالکل سچ سننا چاہوں گا زرقون بی، بالکل سچ پلیز مجھے بتائیں"
درید زرقون بی کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا چکا تھا ثمن کی موت اتنی بھی حادثاتی نہیں تھی جتنی اسے یا پھر دوسری جاننے والوں کو بتائی گئی تھی مگر آج وہ یہ راز جاننے کا ارادہ رکھتا تھا
"اُن دنوں آپ اپنے اسکول کی چھٹیوں میں یہاں اعظم صاحب اور ثمن بی بی کے ساتھ آئے تھے،، اس رات کو آپ جلدی سو گئے تھے۔۔۔ اعظم صاحب اور ثمن بی بی کی لڑائی کی تیز آوازوں سے بھی آپ کی آنکھ نہیں کھل پائی۔۔۔۔ ویسے بھی آپ کافی چھوٹے تھے شاید آپ کو بہت سی باتوں کا علم نہ ہو بہرحال ان دونوں کی لڑائی کی آوازیں کمرے سے باہر آ رہی تھی میں سارے کاموں سے فارغ ہوکر گھر کے لیے نکلنے والی تھی جب اعظم صاحب اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلے۔۔۔ وہ شدید غصے میں تھے اور سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے تب ثمن بی بی ان کے پیچھے آتی ہوئی بار بار انہیں کسی بات سے منع کر رہی تھی یا پھر انہیں روک رہی تھی مگر آعظم صاحب ان کی بات نہیں سن رہے تھے وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے باہر جانے کا ارادہ رکھتے تھے پھر ثمن بی بی نے آپکی قسم کھائی، جس پر اعظم صاحب کو شدید غصہ آیا اور اعظم صاحب نے ثمن بی بی کا ہاتھ زور سے جھٹکا جس کی وجہ سے وہ سیڑھیوں سے نیچے گر گئیں اس وقت ان کے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی"
زرقون کی بات سن کر درید کو عجیب سی وحشت نے آ گھیرا تھا،، اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اسے تو یہ معلوم تھا کہ ثمن کی ڈیتھ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی یہ نہیں معلوم تھا کہ اعظم بھی اس وقت سیڑھیوں پر موجود تھا یا اس سے پہلے اس کے ماں باپ میں کسی بات کو لے کر لڑائی ہوئی تھی لیکن اس کی گرینی غصے میں اعظم کو ثمن کا قاتل بولتی تھی آج اسے اپنی گرینی کی بات بالکل سچ لگ رہی تھی
"ایسی کون سی بات تھی جس کی وجہ سے ڈیڈ اور ماما میں لڑائی ہوئی تھی"
درید غائب دماغی میں ذرقون بی سے پوچھنے لگا
"شوہر اور بیوی کے درمیان کی بات کا مجھے کیا علم درید بابا"
زرقون بی اپنے دوپٹے سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتی ہوئی درید سے بولی
"خدارا پہلیاں مت بجھائے زرقون بی جو بھی بات ہے مجھے سچ سچ بتا دیں۔۔۔ ابھی آپ نے خود کہا ان دونوں کی لڑائی کی آوازیں باہر تک آرہی تھی"
زرقون بی بات سن کر درید جھنجنھلاتا ہوا ان سے پوچھنے لگا۔۔۔ جس پر زرقون بی فیصلہ نہیں کر پائی کہ اسے سچائی بتانی چاہیے یا نہیں
"اور مجھے کسی بات کا کچھ بھی علم نہیں ہے درید بابا،، بس مجھے یہ معلوم ہے سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ثمن بی بی کے سر پر مسلسل خون بہہ رہا تھا اور اعظم صاحب نے غصے کے باوجود اپنے دوست ڈاکٹر کو فون کر کے یہاں بلایا اور خود وہ باہر نکل گئے"
زرقون بی گھبراہٹ میں جلدی سے بولتی ہوئی وہاں سے جانے لگی
"اس رات ڈیڈ نے صرف ڈاکٹر کو ہی فون کیا تھا یا پھر تابندہ آنٹی کو بھی فون کیا تھا"
درید کی آواز نے ذرقون بی کے قدم روک لئے،، وہ چلتا ہوا زرقون بی کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔ یہ بات چند سال پہلے اس نے ثمن کا ذکر آتے ہوئے تابندہ کے منہ سے سنی تھی کہ ثمن کے سیڑھیوں سے گرنے پر سب سے پہلے اعظم نے اس کو کال کرکے بتایا تھا
"میں اتنا بھی لاعلم نہیں ہو زرقون بی جتنا آپ مجھے سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔ بس میں یہ سمجھتا رہا کہ اس رات میری ماما کی موت حادثاتی تھی۔۔۔ انہیں تو مارا گیا تھا اور خاور انکل کو یہاں قید میں رکھا گیا تاکہ ڈیڈ اور تابندہ آنٹی کے رشتے کے بیچ کوئی رکاوٹ نہ آئے"
درید کی بات سن کر اس سے پہلے ذرقون بھی کچھ بولتی سیڑھیوں سے نیچے اترتی ہوئی زمل پر ان دونوں کی نظر پڑی جو ان دونوں کی باتوں سے انجان مسکراتی ہوئی ان دونوں کے پاس ہی آ رہی تھی
"کہاں غائب تھیں آپ زرقون بی کیسی ہیں آپ"
زمل شرمیلی سی ایک نگاہ درید پر ڈال کر ذرقون بی کے پاس آ کر ان سے پوچھنے لگی۔۔۔ وہ یہاں ہر سال ایبٹ آباد آتی تھی اس کی شارقہ کی بانسبت زرقون بی سے اچھی سلام دعا تھی
"میں بالکل ٹھیک ہوں،، مجھے شارقہ سے آپ کی اور درید بابا کی شادی کے بارے میں معلوم ہوا ہے، بہت خوشی ہوئی سن کر،، اللہ تعالی آپ دونوں کو خوش اور آباد رکھے،، میں آپ دونوں کے لیے ناشتہ بناتی ہوں"
ذرقون بی زمل سے بولتی ہوئی، گہری سوچ میں خاموش کھڑے درید کو دیکھ کر وہاں سے کچن میں چلی گئی۔۔۔ زمل درید کی طرف متوجہ ہوئی جس نے سرسری سی نگاہ ہی زمل پر ڈالی تھی
"مجھے جگایا کیوں نہیں آپ نے دید،، مجھ سے بات کیے بناء آپ آفس جا رہے تھے"
زمل درید کو آفس جانے کے لیے تیار دیکھ کر اس کے پاس آتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی۔۔۔
درید زرقون بی کے وہاں سے جانے کے بعد اب خاموشی سے زمل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ درید کے دیکھنے کے انداز میں کل رات والے والہانہ پن نہیں تھا۔۔۔ وہ بے تاثر انداز میں خاموش کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا
"کیا ہوا آپ کو، ایسے کیا دیکھ رہے ہیں"
زمل نیچی نگاہیں کرکے درید کی شرٹ کا کالر ٹھیک کرتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی، کل رات وہ اپنے لیے درید کی دیوانگی دیکھ کر اس وقت مشکل سے ہی اس سے نظریں ملا کر بات کر رہی تھی۔۔۔ درید اس کے گال کو اپنی انگلیوں سے چھو کر، اپنا انگوٹھا اس کے ہونٹوں پر پھیرتا ہوا زمل سے پوچھنے لگا
"آگے زندگی گزارنے کے لیے اگر تمہیں اپنی ماں اور مجھ میں سے کسی ایک کو چننا پڑے تو تم کس کا انتخاب کرو گی"
درید زمل سے سوال کرتا ہوا اپنا ہاتھ اس کی تھوڑی سے نیچے گردن پر لے جانے لگا۔۔۔ جبکہ درید کا دماغ ابھی بھی ماضی میں کہیں بھٹکا ہوا تھا
"یہ کیسا سوال ہے دید، آپ جانتے ہیں آپ اور مما دونوں ہی میرے لئے اہم ہیں"
زمل درید کے اس عجیب و غریب سوال کا جواب دیتی ہوئی اس سے بولی،، درید جو اس کی گردن پر اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا۔۔۔۔ اسکے جواب پر آہستہ سے اس کی گردن پکڑتا ہوا بولا
"یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے زمل، اب تمہاری زبان سے صرف وہی ایک نام نکلنا چاہیے جس کے ساتھ تم اپنی آگے کی زندگی گزارنا چاہتی ہو"
درید کا انداز کل رات سے بالکل مختلف تھا ساتھ اس کا لہجہ بھی وارننگ دینے والا تھا،، درید کا ہاتھ ابھی بھی زمل کی گردن پر تھا۔۔۔ وہ درید کے چہرے کے سرد تاثرات کو دیکھنے لگی، درید زمل کے جواب کا منتظر اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ کل رات درید اس سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے کے بعد،، آج اس کا امتحان لے رہا تھا مگر کیو؟؟
"میں اپنی مما کو اکیلا کیسے"
ابھی زمل کا جواب مکمل بھی نہیں ہوا تھا درید کے ہاتھ کی سختی زمل کی گردن پر بڑھنے لگی۔۔۔۔ وہ خاموشی سے درید کا چہرہ دیکھتی ہوئی اس کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹانے لگی
"تم اچھی طرح جانتی تھی ناں تمہیں کس کا نام لینا تھا"
درید کے چہرے کے سرد تاثرات کی طرح اب اس کا لہجہ بھی سرد تھا۔۔۔۔ زمل نے ذرا سی مزاحمت کی تو درید کے ہاتھ میں مزید سختی آگئی
"دید۔ ۔۔۔ پپ پلیز"
زمل بمشکل بول پائی تو درید نے ایک دم سے اس کی گردن چھوڑی
"یہی ایک نام میں تمہارے منہ سے سننا چاہوں گا زندگی بھر، اس نام کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔۔۔ جیسے میری ماں اس دنیا میں نہیں رہی میرا باپ مر گیا سمجھ لو کہ اب تمھاری ماں بھی مر چکی ہے"
درید زمل کے سرخ چہرے اور آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا
زمل درید کے عجیب وغریب رویے پر شاکڈ نہیں تھی۔۔۔۔ وہ انکھوں میں آئی نمی کو صاف کر کے کمرے میں جانے لگی تب اس کی کچن کے دروازے پر نظر پڑی جہاں زرقون بی خاموش کھڑی اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی وہ ماضی میں اس گھر میں بہت کچھ دیکھتی آئی تھیں مگر ہمیشہ ہی خاموش رہی۔۔۔ زمل زرقون بی کو دیکھ کر بناء کچھ بولے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی کمرے میں چلی آئی۔ ۔۔ وہ واپس اسلام آباد جانا چاہتی تھی اپنی مما کے پاس، درید دے دوری کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن وہ اپنی ماں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔۔۔ زمل نے سوچ لیا تھا وہ درید کو یہاں سے اپنے جانے کا فون کر کے بتا دے گی
*****
"یعنیٰ زمل نے تمہیں کال کرکے میرے بارے میں یہ بولا ہے کہ میں اس کی لائف میں آنٹرفیئر کرکے اس کو ٹیس کر رہا ہو"
کیف بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل سے بات کرتا ہوا واصف سے پوچھنے لگا
"تم میری بات کا غلط مطلب مت نکالو کیف۔۔۔ میرا تمہیں سمجھانے کا مقصد یہی ہے کہ اس وقت زمل ایبٹ آباد میں اپنے ہسبنڈ کے ساتھ موجود ہے اگر وہ اپنی لائف اپنے ہسبنڈ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے تو تم کیوں ان دونوں کے بیچ میں مداخلت کرکے ان کی لائف ڈسٹرب کر رہے ہو۔۔۔۔ اب پلیز یہ مت کہنا کہ تم ایبٹ آباد سیر و تفریح کے لیے آئے ہو اور وہاں تمہاری زمل سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی ہے"
واصف طنزیہ انداز میں کیف کو بولا
"اتفاقیہ تو کچھ بھی نہیں ہوتا، تم ٹھیک کہہ رہے ہو مجھے اب زمل اور اس کے ہسبینڈ کے بیچ نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔ میں تمہاری بات اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔۔۔۔ اب کال رکھو مجھے ایک ضروری کام ہے اور پھر میں کل ہی واپسی کرتا ہوں۔۔۔ بعد میں بات کرتے ہیں"
کیف نے واصف سے بولتے ہوئے خود ہی رابطہ منقطعہ کردیا واصف کو تھوڑا تعجب بھی ہوا کہ کیف اتنی آسانی سے اس کی بات کو سمجھ گیا جبکہ دوسری طرف کیف بشیر کی آتی ہوئی کال ریسیو کر چکا تھا
"سر ہم کو اس گھر کا پتہ اور لڑکی کا تصویر مل گیا ہے۔۔۔ فکر مت کرو آج شام تک وہ لڑکی آپ کے پاس ہوگا"
بشیر سے کیف کل رات کو ہی ملا تھا۔۔۔۔ اِس وقت کیف نے بشیر کو ملنے سے منع کردیا اس لیے بشیر کیف کو کال کرتا ہوا بولا کہ وہ اس کا کام آج ہی کر دے گا
"ٹھیک ہے کام بہت ہوشیاری سے ہونا چاہیے اور آج شام کو ہی ہو جانا چاہیے کیونکہ شام کے وقت وہ لڑکی گھر میں اکیلی ہوتی ہے۔۔۔ جب تم اس لڑکی کو میرے گھر کے ایڈریس پر پہنچا دو گے تو تمہیں باقی کی رقم مل جائے گی"
بشیر کو رقم کا اطمینان دلا کر کیف اپنے موبائل میں زمل کی مسکراتی ہوئی تصویر دیکھتا ہوا اس سے مخاطب ہوا
"اتنے آرام سے پیچھا چھوڑ دوں گا میں تمہارا۔۔۔ اب تمہارا پیچھا چھوڑنے سے پہلے تمہیں بہت بھاری قیمت دینا پڑے گی زمل۔۔۔ تمہیں تو میں اب منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑو گا۔۔۔۔ پھر بےشک تم اپنا داغدار وجود لے کر اپنے دید کے پاس چلی جانا اگر وہ ایک داغدار لڑکی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے تو اور مجھے پورا یقین ہے اتنا ظرف تمہارے دید میں ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔ تمہیں معلوم ہے ابتداء میں، میں تمہارے قریب بدلہ لینے کے لیے آیا تھا،، بدلہ۔۔ ۔ تم سے اور تمہارے دید سے۔۔۔۔
اس درید اعظم سے جس نے چار سال پہلے میرے بھائی جیسے کزن کو بری طرح زخمی کیا تھا۔۔۔۔ ایسا کیا کردیا تھا ہمایوں نے تمہارے ساتھ؟ ؟ اور اگر تم اتنی پاک بی بی تھی تو اس کے ساتھ بند کمرے میں کر کیا رہی تھی بولو"
کیف زمل کی تصویر سے باتیں کرتا ہوا بولا پھر اپنے موبائل کی اسکرین پر زمل کی تصویر کو اپنی انگلیوں سے چھوتا ہوا دیکھنے لگا
"ویسے ہمایوں کی بھی اتنی غلطی نہیں تھی،، تمہارا حسن ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی تمہارا دیوانہ ہوجائے۔۔۔ جیسے تمہارے حسن کی کشش نے مجھے تمہارا دیوانہ بنا دیا اور میں بدلہ ودلہ سب بھول کر تمہیں اپنا بنانے کا سوچنے لگا۔۔۔ ایسے ہی درید اعظم بھی تو تمہارا دیوانہ ہے۔۔۔ سالا شاطر نکلا ہے پہلے ہی اس نے نکاح کر کے تم سے اپنا مضبوط رشتہ بنا لیا، کتنی محنت کرنا پڑی تھی مجھے تمہاری توجہ حاصل کرنے کے لیے مگر سب بےسود رہا۔۔۔ اور بےچارہ ہمایوں،، وہ تو مفت میں پٹ گیا اور ہاتھ کچھ نہیں آیا مگر میں ہمایوں نہیں ہوں"
کیف زمل کی تصویر کو دیکھ کر غصہ کرتا ہوا بولا
"سنا ہے جس سے محبت کی جائے اس کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن تمہیں پانے کے لئے اب مجھے اپنی محبت کے ساتھ وحشی جانوروں جیسا سلوک کرنا پڑے گا آج شام تمہاری کیف سے نہیں بلکہ کیف کے روپ میں جانور سے ملاقات ہو گی۔۔۔ اس کے بعد تمہاری لٹی پٹی حالت دیکھ کر تمھارا دید تمہیں خود قبول نہیں کر سکے گا۔۔۔۔ کیا کرو گی تم،، رو پیٹ کر تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا اور میں ٹہرا تمہارا دیوانہ تمہیں حاصل کرلوں گا"
کیف آگے کی پلاننگ کرتا ہوا سوچنے لگا اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگا جب شام میں زمل کو اغواء کرکے اس کے پاس لایا جاتا
*****
افس آنے کے بعد اس کا دماغ بری طرح الجھا رہا،، آج سے اپنے مرے ہوئے باپ پر بہت غصہ آرہا تھا جس کی وجہ سے وہ بچپن میں ہی اپنی ماں کی محبت سے محروم ہوگیا تھا۔۔۔ نہ جانے کیوں اسے یقین تھا کہ ثمن کو سیڑھیوں سے دھکا دینے کی غلطی جان بوجھ کر کی گئی تھی تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹ جائے،، جیسے خاور کو قید کر کے راستے سے ہٹایا گیا تھا
اگر واقعی ثمن کو راستے سے ہٹانا اعظم اور تابندہ کی چال تھی تو درید نے سوچ لیا تھا وہ تابندہ کو ایسے نہیں بخشے کا،، اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنے مرے ہوئے باپ کو بھی قبر سے نکال کر اسے اس کے کیے کی سزا دیتا۔۔۔۔ انہی سوچوں میں درید کو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔ ۔۔ تھوڑی دیر پہلے اسے زمل کا مسیج اپنے نمبر پر موصول ہوا تھا جس میں زمل نے اسے اپنے واپس جانے کے بارے میں بتایا تھا، یقیناً وہ صبح والے رویے کو ذہن میں رکھ کر درید سے خفا ہو کر واپس جانے کی بات کر رہی تھی۔۔۔ درید زمل کے بارے میں سوچتا ہوا کرسی سے اٹھا اور آفس سے گھر جانے کی تیاری کرنے لگا کیوکہ ابھی اس کے نکلنے میں ٹائم تھا درید اس سے پہلے ہی زمل کے پاس پہنچنا چاہتا تھا
"تم واپس نہیں گئے،، ابھی تک یہی موجود ہو"
درید اپنے کمرے سے باہر نکلا تو خادم کو افس میں دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"صاحب جی آپ نے ہی تو مجھے تھوڑی دیر پہلے کال کر کے یہاں آنے کو کہا تھا"
خادم اپنی جگہ سے اٹھ درید کو اس کی کال کا یاد دلانے لگا
"ارے ہاں ایسا کرو مجھے گھر ڈراپ کرکے گاڑی کو سروس کے لیے لے جاؤ پیٹرول وغیرہ بھی اچھی طرح چیک کر لینا رات میں مجھے اسلام آباد کے لیے نکلنا ہوگا"
وہ رات میں زمل کو اپنے ساتھ واپس لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا
درید خادم سے بات کرتا ہوا پارکنگ آیریا میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک سامنے سے ایک آدمی بھاگتا ہوا اس کے قریب آنے لگا ابھی درید سوچ ہی رہا تھا کہ اس آدمی کو اس نے پہلے کہاں دیکھا ہے اچانک سے اس آدمی نے اپنی چادر میں چھپے ہوئے چھرے سے درید پر وار کرنا چاہا۔۔۔۔ درید جوکہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا مگر اس آدمی کو پہچاننے کے ساتھ ہی درید نے اپنے پیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے چھرے کو پکڑنا چاہا۔۔۔
اس آدمی کے ہاتھ کو پکڑنے کے باوجود وہ آدمی درید کو بری طرح زخمی کر چکا تھا
"او یہ کیا کر دیا تم نے،، خانہ خراب ہو تمہارا۔ ۔۔ پکڑو کوئی اس خبیث کو۔۔۔ ہمارے صاحب کو مار دیا اس نے"
خادم ایک دم چیختا ہوا بولا دو سے تین آدمی جو پہلے سے اس جگہ پر موجود تھے۔۔۔ اس آدمی کے بھاگنے سے پہلے اسے قابو کر چکے تھے
مگر درید تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے پیٹ کو ہاتھ سے دبائے فرش پر گرچکا تھا
"اس کا خون روکو۔۔۔۔ جلدی سے ہسپتال لے جاؤ اسے"
اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے درید کے کانوں سے مختلف آوازیں ٹکرائی۔۔۔ اس نے اپنی طرف تین سے چار آدمیوں کو بڑھتے دیکھا۔۔۔ بس اتنی ہی دیر وہ اپنے حواس قائم رکھ سکا تھا
زمل شاور لے کر نکلی اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے تھوڑی دیر پہلے زرقون بی اور شارقہ کوٹیچ کی صفائی کر کے اپنے گھر کے لیے نکلی تھی اور ڈرائیور کو اس نے چار بجے کا ٹائم دیا تھا تاکہ وہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوسکے درید کو وہ پہلے ہی اپنے جانے کا موبائل پر انفارم کر چکی تھی۔۔۔ بس اب اسے اپنا بیگ پیک کرنا تھا صبح والے روید کے رویہ کو لے کر وہ درید سے کافی مایوس ہوئی تھی،، اس وجہ سے درید سے ملے بغیر وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں برش پھیرتی ہوئی وہ مسلسل درید کے بارے میں سوچ رہی تھی جب اسے محسوس ہوا کوٹیچ میں کوئی داخل ہوا ہے۔۔۔ زمل سویٹر پہنتی ہوئی اپنے کمرے سے باہر نکلی
"چھوٹی بی بی جی وہ صاحب جی۔۔۔۔ ان کو ہوش نہیں آرہا ہے"
خادم زمل کو کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھ کر گبھراتا ہوا بولا
"کیا بول رہے ہو خادم،، کیا ہوا دید کو"
زمل خادم کے کپڑوں پر خون دیکھ کر اور اس کا گھبرایا ہوا انداز دیکھ کر جلدی جلدی سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی پریشان ہو کر خادم سے درید کے بارے میں پوچھنے لگی
"کسی بدبخت نے درید بھائی پر بڑی سے چھری سے حملہ کیا ہے اور انہیں مارنے کی کوشش کی ہے ہم نے درید بھائی کو اسپتال پہنچا دیا ہے مگر ان کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اور اس حملہ کرنے والے بدبخت کو بھی لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا ہے"
خادم پریشان کھڑی ہوئی زمل کو ساری تفصیل بتانے لگا
"چھری سے حملہ کیا ہے میرے اللہ۔۔۔ کیسے ہیں دید پلیز مجھے ان کے پاس لے چلو خادم"
زمل کو فلحال اس بات سے غرض نہیں تھی کہ وہ آدمی پکڑا گیا ہے یا پھر کون تھا۔۔۔ وہ صرف درید کے پاس جانا چاہتی تھی،، خادم زمل کو اپنے ساتھ اسپتال لے جانے کی غرض سے ہی آیا تھا زمل اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی خادم کے ساتھ ہسپتال جانے کے لیے تیار ہوگئی
*****
"ڈاکٹر۔۔۔۔ درید اعظم۔۔۔۔ وہ میرے ہسبینڈ ہیں۔۔۔ مجھے ان سے ملنا ہے پلیز مجھے بتائیں وہ کیسے ہیں اب"
خادم زمل کو اسپتال لے کر آگیا تھا آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس آ کر زمل بے صبری سے اسے درید کے بارے میں پوچھنے لگی آنسو تھے کہ اس کی آنکھوں سے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے درید کی تکلیف کا سوچ کر وہ خود بھی تکلیف محسوس کر رہی تھی
"دیکھیں آپ اس طرح پریشان مت ہوں ان کی کنڈیشن اب خطرے سے باہر ہے ویسے بھی جس چیز سے آپ کے ہسبنڈ پر حملہ کیا گیا تھا وہ ہتھیار زیادہ گہرائی میں پیٹ میں نہیں جا سکا، بس ان کا خون زیادہ بہہ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئے ہیں امید ہے بہت جلد انہیں ہوش آ جائے گا"
ڈاکٹر زمل کو درید کی تسلی بخش حالت کے بارے میں آگاہ کرتا ہوا بتا رہا تھا جسے سن کر زمل نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اسے تھوڑی بہت تسلی ہوئی تھی
"میں اپنے ہسبنڈ کو دیکھنا چاہتی ہو ان سے ملنا چاہتی ہوں"
زمل ڈاکٹر کو دیکھتی ہوئی بولی وہ درید سے ساری ناراضگی اور صبح والے قصے کو بھول گئی تھی۔۔۔ صرف اور صرف اس وقت وہ درید کو دیکھنا چاہتی تھی
"ایسا فوری طور پر ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے ہسبنڈ سے مل سکے کیونکہ یہ پولیس کیس تھا مگر اس کے باوجود جس کنڈیشن میں آپ کے ہسبنڈ کو لایا گیا تھا انہیں فوری طور پر ٹریٹمنٹ دے دیا گیا تھا لیکن اب ان کے ہوش میں آنے کے بعد پولیس ان سے ان کا بیان لے گی جس کے بعد ہی آپ یا پھر کوئی دوسرا ان سے مل سکتا ہے"
ڈاکٹر شائستہ لہجے میں زمل سے کہتا ہوا وہاں سے جا چکا تھا جبکہ زمل ویٹنگ روم میں چیئر پر بیٹھتی ہوئی درید کے ہوش میں کی آنے کی دعا کرنے لگی
****
"او میرا بھائی خدا کو مانو،،، تم کو سر سر بول کر ہمارا خود کا سر دکھ چکا ہے مگر تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ جب ہم وہاں پر پہنچا تو مکان خالی تھا وہاں لڑکی جیسا کوئی بھی چیز موجود نہیں تھا پھر ہم کیا کرتا بھلا گھر کے باہر درخت سے باندھا ہوا بکری اٹھا کر لے آتا تمہارے لیے"
بشیر کے عاجزی سے بولنے پر جب کیف کو اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تو بشیر موبائل پر کیف سے بات کرتا ہوا بگڑ کر بولا
"بکواس بند کرو اپنی ایک چھوٹا سا کام تم کو دیا تھا مگر تم سے وہ بھی نہیں ہو سکا اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ کہ تم کسی کام کے آدمی نہیں ہو تو تمہیں ایڈوانس رقم کبھی بھی نہیں دیتا شرافت سے کل آ کر مجھے میری ساری رقم واپس کر دینا اب جو کرنا ہوگا وہ میں خود کر لوں گا"
پلان کی ناکامی پر کیف کو شدید غصہ آیا تھا اگر زمل اس وقت اس کے پاس ہوتی تو آگے جا کر اس کے لئے کوئی پرابلم نہیں ہوتی جبکہ اگر زمل اسلام آباد پہنچ جاتی تو اس کی کڈنیپنگ کا کام مشکل تھا
"یار یہ پیسے واپس کرنے کی بات کو تم کہاں سے بیچ میں لا رہا ہے۔۔۔ لڑکی کوئی ابھی وہاں سے بھاگا تھوڑی نہ جا رہا ہے ہم پوری معلومات کرکے آیا ہے اس کا خاوند زخمی ہے بیچارہ اور اسپتال میں موجود ہے۔۔۔ تم زیادہ جذباتی مت بنو میرا بھائی۔۔۔ تم کو وہ لڑکی چاہیے ہم تم کو لڑکی لاکر دے گا بس تھوڑا سا صبر سے کام لو،، دو چار دن بعد لڑکی تمہارے پاس ہوگا یہ وعدہ ہے بشیر کا"
رقم کی واپسی کی بات سن کر بشیر ایک دم نرم پڑتا ہوا کیف کو سمجھانے لگا
"مجھ کو کام والے بندے پسند ہیں بشیر لیکن تمہیں صرف باتیں بنانا آتی ہیں کل صبح تم شرافت سے مجھے وہ ایڈوانس رقم لا کر دو ورنہ میں خود آتا ہوں تمہاری ٹھکانے پر اپنی رقم نکلوانے کے لیے"
کیف نے سوچ لیا تھا اگر درید واقعی زخمی تھا تو یہ کام زیادہ مشکل نہیں تھا کہ وہ خود انجام نہ دیتا۔۔۔ اس لئے بشیر سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہوا بولا
"خدا کو مانو یار تم آدمی ہے کہ خچر ہے پہلے تم لڑکی لڑکی کا رٹ لگایا ہوا تھا اب تم پیسہ پیسہ بول رہا ہے ہمارا دماغ خراب کر دیا تم نے۔۔۔ لعنت بھیجتا ہے ہم یار تمہارے پیسے پر کل ہی تمہارا رقم تمہارے منہ پر مارے گا،، ہم کو تو عجیب خوار کر دیا تم نے لڑکی چاہیے۔۔۔ اگر لڑکی چاہیے تو خود ہیرو بن کر جاؤ اور پکڑ کر لاؤ،،، یہاں بیٹھ کر تم ہم کو باتیں سنا رہا ہے اور یاد رکھنا جتنا تم بے چین ہو رہا ہے اس لڑکی کے لئے وہ لڑکی اب تم کو کبھی بھی نہیں ملے گا یہ بشیر کی بددعا ہے"
بشیر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر رابطہ منقطع کر چکا تھا جبکہ کیف بشیر کو بڑی سی گالی دیتا ہوا اپنے ڈرائیور کو درید کی طرف بھیج کر مکمل معلومات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ وہ زمل کو خود اٹھا کر یہاں لاسکے
*****
"اب اس طرح سے کیوں پریشان بیٹھی ہوئی ہو زندہ سلامت تو ہو تمہارے سامنے"
درید اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر لیٹا ہوا زمل سے بولا جو کہ اس وقت روہانسی چہرہ لئے اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی
زمل اور درید کو اسپتال سے آئے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔۔۔۔ درید کے ہوش میں آنے کے بعد پولیس نے اس سے بیان لیا تھا اس کے بعد ہی زمل درید سے ملی تھی اور تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر کے لاکھ سمجھانے کے باوجود درید اپنی ضد پر قائم ہسپتال سے کاٹیج میں آچکا تھا
"آپ کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان نہ ہوں تو پھر اور کیا کرو۔۔۔ یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے دید ہم یہاں پر بالکل بھی سیف نہیں ہیں بس آپ کی کنڈیشن تھوڑی بہت اسٹیبل ہوگی تو ہم واپس اسلام آباد چلیں گے"
زمل درید کی کنڈیشن دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ اس واقعہ نے ان دونوں کے بیچ صبح والی تلخی کا اثر زائل کر دیا تھا
"ہمہیں اور کس سے خطرہ ہو سکتا ہے میری جان، جس نے مجھ پر حملہ کیا تو وہ اس وقت پولیس کی حراست میں موجود ہے۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈرنے یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت نہیں ہے بلکہ آج رات تو تمہیں مجھ سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے"
زمل کو تسلی دینے کے ساتھ آخری جملہ درید نے شرارت میں زمل کا ہاتھ پکڑ کر بولا۔۔۔ جس پر زمل درید کو گھورنے لگی
"اس کنڈیشن میں بھی شوخیاں سوجھ رہی ہیں آپ کو۔۔۔ دیکھ لیا آپ نے ہیرو بننے کا انجام،، کتنی برے طریقے سے اس جنگلی بے رحم انسان نے آپ پر حملہ کیا ہے"
زمل اپنا دوسرا ہاتھ درید کے زخم پر رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ یہ اسی شخص کا کام تھا جس کے دونوں ہاتھوں کو درید نے بری طریقے سے زخمی کیا تھا اس نے موقع دیکھتے ہی درید سے اپنا بدلہ لینے کی کوشش کی تھی
"ریلکس ہوجاؤ زمل وہ آدمی اب پولیس کی گرفت میں ہے ویسے ایسی کنڈیشن سے کیا مراد ہے تمہاری۔۔۔ اسٹمنا چیک کرنا ہے میرا تو ذرا اور پاس آ جاؤ پھر میری اس کنڈیشن میں اپنی کنڈیشن دیکھ لینا"
درید باز آنے کی بجائے زمل کے بالوں کی لٹ کھینچ کر اس کا چہرہ اپنے چہرے سے قریب کرتا ہوا بولا
"باز نہیں آنا آپ کو دید"
زمل درید کے چہرے پر جھکی ہوئی اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر بولی۔۔۔ جس پر درید نفی میں سر ہلاتا ہوا زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"ممکن ہے باز آجاؤ مگر تھوڑا بہت اپنے دل کی ماننے کے بعد"
درید نے بولتے ہوئے زمل کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنسائی اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا اپنے دل کی ماننے لگا
"دید آپ اس لیے ہاسپیٹل سے چھٹی لے کر گھر آئے تھے بس اب پیچھے ہٹیں"
زمل درید کے سینے پر جھکی ہوئی اپنی کمر سے درید کا بازو ہٹاتی ہوئی سیدھی ہوکر بولی
"معلوم ہے ناں تم میرے لیے میڈیسن کا کام کرتی ہو ایسے ہی مجھے جلدی جلدی ڈوس ملتی رہی تو میں جلد صحتیاب ہو جاؤں گا"
درید زمل کا بلش کرتا ہوا چہرہ دیکھ کر دوبارہ شرارت سے بولا
"اوور ڈوز ہونے سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔ اب سیدھا لیٹ کر شرافت سے سونے کی کوشش کریں"
زمل اس کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی شرارت کو اگنور کرکے درید کا تکیہ سیٹ کرنے لگی اس کے بعد کمفرٹر درید پر ڈالنے لگی۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ درید کی الٹی سیدھی حرکت کی وجہ سے اس کے پیٹ کے زخم کو کوئی نقصان نہ پہنچے کیوکہ اس کا زخم ابھی بالکل تازہ تھا
"تم کہاں جا رہی ہو، معلوم ہے ناں تمہیں اب 24 گھنٹے میری آنکھوں کے سامنے رہنا ہے"
زمل کو بیڈ سے اترتا ہوا دیکھ کر درید بیڈ پر لیٹا ہوا اس سے پوچھنے لگا اس کی آنکھیں نیند کے خمار سے سرخ ہو رہی تھی کیوں ڈاکٹر نے چھٹی سے پہلے درید کو پین کلر کا انجکشن دیا تھا
"زرقون بی اور خادم چلے گئے ہوگے میں دروازہ چیک کرکے آتی ہوں آپ کے پاس"
زمل اپنے گرد گرم شال لپیٹتی ہوئی کمرے کی لائٹ آف کر کے باہر نکل گئی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ تھوڑی دیر میں درید سو جائے گا زمل باہر کا دروازہ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ تابندہ کو کال بھی کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ درید کے بےہوشی کے وقت پریشانی میں تابندہ کو ساری صورت حال بتا چکی تھی جس پر تابندہ نے زمل کو تسلی دیتے ہوئے ایک گھنٹے بعد گھر سے نکلنے کو کہا تھا۔۔۔ زمل کے مطابق تابندہ کو اب تک وہاں پر پہنچ جانا چاہیے تھا مگر وہ درید کے سامنے فل الحال تابندہ کا ذکر کرکے درید کو غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی،، وہ نہیں چاہتی تھی کہ درید کی حالت کے پیش نظر اس کا موڈ خراب ہو جائے۔۔۔ وہ خود بھی پریشان تھی اچانک درید کو ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ تابندہ کے لیے ایسا کہہ رہا تھا
"آپ ابھی تک یہی پر موجود ہیں زرقون بی، اپنے گھر نہیں گئیں آپ"
تابندہ سے بات کرکے زمل واپس جانے لگی تب زرقون بی کو کوٹیج میں دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگی
"درید بابا کی فکر میں آج یہی پر رک گئی ہو اور آپ بھی تو اکیلی ہیں ناں"
زرقون بی کا جواب سن کر زمل مسکرائی
"مما سے بھی بات ہوئی ہے میری ویسے تو وہ ابھی تک یہاں پہنچ جاتی مگر ان کی دوست جو ہمارے اسلام آباد والے گھر میں رکی ہوئی ہیں ان کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی اس لیے مما کا ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکلنا ہوا ہے"
زمل زرقون بی کو تابندہ کے بارے میں بتانے لگی جوکہ تھوڑی دیر پہلے ہی ڈرائیور کے ساتھ ایبٹ آباد کے لیے نکلی تھی
"بڑی بیگم صاحبہ یہاں آ رہی ہیں یہ تو اچھی بات ہے مگر رات کو سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی خیر اللہ حفاظت سے ان کو یہاں لے کر آئے۔۔۔ آپ درید بابا کے پاس جائیں وہ آپ کو اپنے پاس موجود نہ پا کر پریشان ہو گے بیگم صاحبہ آئیں گے تو میں جاگ رہی ہوں آپ ان کی فکر نہ کریں"
زرقون بی کی بات سن کر زمل مطمئن ہو گئی اور درید کے پاس کمرے میں جانے لگی
*****
بے چینی اور گھبراہٹ سے درید کی آنکھ کھلی تو سیدھا اس کی نظر وال کلاک پر گئی جہاں رات کہ ڈھائی بج رہے تھے اپنے برابر میں سوتی ہوئی زمل کو دیکھ کر وہ پانی پینے کے غرض سے اٹھا،، زخم تازہ ہونے کی وجہ سے اسے چلنے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی مگر زمل کو اٹھانے کی بجائے درید خود کمرے میں موجود ڈسپینسر سے پانی پینے لگا تب کھڑکی کی جانب اس کی نظر پڑی۔۔۔ درید پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاں تابندہ گاڑی سے اتر رہی تھی
درید نے اندازہ لگایا کہ وہ ڈرائیور سے بات کرکے اسے واپس جانے کا کہہ رہی تھی ڈرائیور کے وہاں سے جانے کے بعد اس نے تابندہ کو کوٹیچ میں آنے کی بجائے اسٹور روم کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ درید سمجھ گیا وہ بیسمینٹ میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے کچھ سوچ کر درید کمرے سے باہر نکلا،، پیٹ پر لگے اسٹیچس کی وجہ سے سیڑھیاں اترنا درید کے لیے تکلیف دہ مرحلہ ثابت ہوا تھا مگر وہ خود بھی بیسمینٹ میں جانا چاہتا تھا شاید یہی موقع مناسب تھا جب وہ تابندہ سے حقیقت کا پوچھتا بہت کچھ تو وہ جان گیا تھا لیکن وہ تابندہ کے منہ سے اس کے گناہ کا اعتراف سننا چاہتا تھا تاکہ اسے اس کے جرم کی سزا دے سکے
****
"اس جگہ کو خالی دیکھ کر اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہیں آپ۔۔۔ یہی سوچ رہی ہیں نہ کہ آپ کے ایکس ہسبنڈ کہاں گئے آخر"
درید کی آواز پر تابندہ نے ایک دم مڑ کر اسے دیکھا
"درید تم یہاں پر"
تابندہ حیرت سے درید کو اس جگہ پر دیکھ کر بولی
"کیا بہت زیادہ حیرت ہورہی ہے مجھے یہاں دیکھ کر یا پھر حیرت سے زیادہ پریشانی ہو رہی ہے خاور انکل کو یہاں موجود نہ پا کر"
درید بولنے کے ساتھ چلتا ہوا تابندہ کے پاس آیا
"درید مجھے نہیں معلوم تم کیا کچھ جانتے ہو مگر تمہیں مکمل حقیقت کا علم نہیں ہوگا اس کا مجھے اندازہ ہے"
تابندہ درید کے چہرے پر سختی اور ماتھے پر نمایاں بل دیکھ کر اس سے بولی
"اندازے تو میں اپنی طرف سے سارے ہی درست لگا چکا ہوں،، آپ سے تو میں صرف آپ کے گناہ کا اعتراف چاہتا ہوں مگر ابھی نہیں زمل کے سامنے تاکہ اسے اپنی ماں کے کردار کا اور اصلی چہرے کو معلوم ہو سکے"
درید طنزیہ لہجے میں تابندہ سے بولا
"کردار، اصلی چہرہ۔۔۔ ویسے تم نے خود سے کیا اندازہ لگائے ہیں بتانا پسند کرو گے مجھے"
تابندہ اس کے طنز کو خوب سمجھ رہی تھی جو کچھ وہ اپنے دل میں پال کر بیٹھا تھا وہ جاننے کی خواہش پر بیٹھی
"مردوں کا گھٹیا روپ تو بہت دیکھا ہے اور بہت کچھ سنا بھی ہے مرد ذات کے بارے میں۔۔۔ لیکن کوئی عورت بھی اتنی گھٹیا ہو سکتی ہے اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا شادی سے پہلے کی محبت اور اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ نے اور ڈیڈ نے اپنے اپنے لائف پارٹنرز کو دھوکہ دیا۔۔۔ آپ نے ڈیڈ کے ساتھ شامل ہو کر خاور انکل سے طلاق لینے کے بعد ان کو اس جگہ پر قید تنہائی کی سزا دی اور ساتھ ہی اپنی سہیلی کا گھر اجاڑ کر اس کے شوہر کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔۔۔ میری ماں کو راستے سے ہٹانے کے لیے آپ نے اور ڈیڈ نے انہوں نے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا۔۔۔ ڈیڈ کی ہر سازش میں آپ بھی ان کا حصہ بنی رہی۔۔۔۔ کیو ایسا ہی کچھ ہے ناں تابندہ اعظم"
درید نے پوری کوشش کی تابندہ کو اس کا مکروہ چہرہ صحیح سے دکھا سکے
"اب تم سچ سننا پسند کرو گے،، اتنی ہمت ہے تم میں کہ تم سچ برداشت کر سکو۔۔۔ مانا کہ میں اور اعظم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے اعظم کی شادی ثمن سے اور میری خاور سے ہوگئی۔۔۔۔ میں اعظم کی محبت اور یادوں کو اپنے دل سے نکال دیتی اگر خاور ایک اچھا شوہر ثابت ہوتا،، جن دنوں زمل پیدا ہونے والی تھی تب مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ خاور کسی عورت کے چکر میں پڑ گیا ہے اس کی بیوفائی نے مجھے ایک بار مجھے پھر آعظم کی طرف متوجہ کیا، ایک دن خاور نے غصے میں مجھے طلاق دے دی تب اعظم مجھ سے دوسری شادی کا ارادہ رکھتے تھے مگر اس سے پہلے جو راز تمہارے ڈیڈ پر افشاں ہوا اس نے اعظم کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ جانتے ہو کہ کس عورت سے خاور کے تعلاقات تھے، وہ عورت کون تھی جس کی وجہ سے خاور نے مجھے طلاق دی"
تابندہ اچانک درید سے سوال پوچھنے لگی مگر درید خاموش کھڑا اسی کے بولنے کا انتظار کرنے لگا
"خاور کے نکاح میں ہونے کے باوجود میں نے اعظم سے رابطہ رکھا مانا کہ میں نے خاور سے بے ایمانی کی مگر میرے اور اعظم کے بیچ ناجائز تعلق نہیں رہا جبکہ خاور کے ثمن کے ساتھ ناجائز تعلقات کا اعظم کو جیسے ہی علم ہوا۔۔۔۔
تابندہ اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پائی تھی کہ درید ایک دم چیخا
"خاموش بالکل خاموش ہو جائیں آپ۔۔۔ خبردار جو آپ نے ایک بھی لفظ اپنے منہ سے میری مری ہوئی ماں کے بارے میں نکالا تو جان لے لوں گا میں آپ کی سنا آپ نے"
درید تابندہ کے منہ سے ثمن کا نام سن کر غصے سے میں پاگل ہونے لگا۔۔۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہونے لگے جیسے اس انکشاف پر اس کی روح تک اذیت میں مبتلا ہوگئی ہوں
"میں تمہیں زندگی میں کبھی ثمن کی حقیقت نہیں بتاتی لیکن تم اعظم کو اس کا قاتل مت سمجھو۔۔۔ شادی جیسے پاک بندھن میں باندھنے کے باوجود میں نے خاور سے وفا نہیں نبھائی مگر کبھی بھی وہ گناہ جو خاور اور ثمن
تابندہ درید کی بدلتی کیفیت کو دیکھ کر بول رہی تھی تب ثمن کا نام آنے پر درید نے غصے میں تابندہ کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے دونوں بازو پکڑے
"بولا تھا نہ بالکل خاموش کر جاؤ ورنہ میں جان لے لوں گا تمہاری اپنی ان ہاتھوں سے"
درید تابندہ سے طیش کے عالم میں بولا اور ساتھ ہی اس نے تابندہ کو تہہ خانے میں موجود بستر پر دھکا دیا
"درید یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔ میری بات سنو درید"
درید تابندہ کو وہی بند کرکے جانے لگا۔۔۔ تابندہ بھاگتی ہوئی درید کی جانب بڑھی مگر تب تک درید تہہ خانے کا دروازہ بند کر کے وہاں سے جا چکا تھا
*****
تابندہ اس وقت ٹہلتی ہوئی اعظم کے فون کا انتظار کر رہی تھی، اعظم ہفتے بھر سے ثمن اور درید کے ساتھ ایبٹ آباد میں موجود تھا۔۔۔ خاور چھ ماہ پہلے ہی اس کو غصے میں آکر معمولی سی بات پر طلاق دے چکا تھا تابندہ جانتی تھی وہ معمولی بات صرف ایک بہانہ بنی تھی خاور کے طلاق دینے کا،، اصل وجہ وہ عورت جس کے پیچھے اس کا شوہر اس سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا
اس مشکل گھڑی میں اعظم کی مخلص محبت اس کے سامنے آئی تھی جو نہ صرف اس سے شادی کرنے کے لئے تیار تھا بلکہ زمل کو بھی باپ کی حیثیت سے اپنانے کے لیے تیار تھا مسئلہ صرف ثمن کا تھا۔۔۔ اعظم ثمن کو تابندہ اور اپنے بارے میں بتا کر تابندہ سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر تابندہ ہر بار آنے والے طوفان کا سوچ کر اعظم کو روک دیتی
تابندہ کی ضد اور اصرار پر ہی اعظم نے اپنے دوست سے خاور اور اس کی گرل فرینڈ کے بارے میں معلومات کروائی تھی،، تابندہ جاننا چاہتی تھی اس عورت کے بارے میں جس کی وجہ سے اس کا گھر اجڑا تھا۔۔۔ فون کی گھنٹی بجنے پر سوتی ہوئی زمل پر نظر ڈال کر تابندہ فون کی طرف بڑھی
"میں کب سے آپ کی کال کا انتظار کر رہی ہوں اعظم بتایئے نا کیا بنا اس کام کا جو میں نے آپ سے کہا تھا۔۔۔۔ آپ نے بولا تھا کہ آج آپ کا دوست آپ کو خاور اور اس کی گرل فرینڈ کی تصویریں دے گا"
تابندہ اپنی رو میں اعظم کی خاموشی کو محسوس کیے بنا اس سے پوچھنے لگی
"ثمن"
اعظم کے منہ سے ثمن کا نام سن کر تابندہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا
"ثمن، کیا ہوا اس کو وہ ٹھیک تو ہے اعظم"
تابندہ ثمن کے بارے میں اعظم پوچھنے لگی جب سے اس کی اور خاور کی طلاق ہوئی تھی تابندہ نے محسوس کیا تھا ثمن کے رویے میں بھی تبدیلی آئی تھی وہ اب تابندہ سے کھیچی رہنے لگی تھی
"اس بے غیرت بے حیا بے شرم عورت کا خاور سے پورے دو سال سے افیئر چل رہا ہے تابی۔۔۔۔ وہ عورت میرے ساتھ رہتے ہوئے۔۔۔ خاور کی محبوبہ اور کوئی نہیں ثمن ہے"
اعظم کی بات سن کر تابندہ سکتے میں آ چکی تھی اتنا بڑا کھیل خاور اور ثمن میں کھیلا تھا یہ تو وہ اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں لا سکتی تھی۔۔۔ وہ تو اپنے اور اعظم کے رابطے پر شرمسار رہتی تھی
"ایسی بے شرم اور بے حیا عورت کو تو میرا دل کر رہا ہے کہ اپنے ہاتھ سے مار ڈالو"
تابندہ کو اعظم کی غصے میں بھری ہوئی آواز سنائی دی
"بے حیا اور بے شرم اور تو میں بھی ہوں اعظم، جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی آپ سے تعلق رکھے ہوئی تھی،، کوئی بھی فرق نہیں ہے ثمن اور تابندہ میں"
تابندہ شرمندہ لہجے میں اعظم سے بولی
"اپنے اور میرے تعلق کو ان دونوں کے ناجائز تعلقات سے مت ملاؤ تابی، جو تصویر اس وقت میرے ہاتھ میں موجود ہیں اگر تم دیکھ لو تو شرم سے پانی پانی ہو جاؤ گی۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں اس نیچ عورت کو ایک پل کے لئے اپنی زندگی میں برداشت نہیں کروں گا"
اعظم غصے میں تابندہ سے بولتا ہوا فون کر چکا تھا مگر اپنے سامنے زرقون بی کو دیکھ کر ایک دم چونکا
"ایسا تو نہیں ہے زرقون بی کے آپ ان سب باتوں سے انجانے رہی ہوگیں کیوں بے خبر رکھا آپ نے مجھے ثمن سے متعلق"
اعظم غصہ دباتا ہوا اپنے سامنے کھڑی زرقون بی سے سوال کرنے لگا کیونکہ زرقون بی کے تاثرات اسے بتا رہے تھے کہ وہ اس معاملے سے انجان بالکل نہیں ہیں اور ان تصویروں میں اسی کوٹیج کا کمرہ شو ہو رہا تھا جس میں خاور اور ثمن باہوں میں بانہیں ڈالے ایک دوسرے میں بری طرح مدھوش تھے
"میں اس گھر میں نوکر کی حیثیت رکھتی ہوں اعظم صاحب۔۔۔ میرے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں آپ کو اتنے بڑے دکھ ہیں دوچار کرتی میں اپنے اندر اتنی ہمت جمع نہیں کر پائی کیا آپ کو حقیقت بتا کر شرمندہ ہوتا دیکھتی۔۔۔ اس بات کے لئے آپ مجھے معاف کر دیجیے گا"
زرقون بی جنہوں نے اس کوٹیج میں کئی چھوٹے اور بڑے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں،، جس کے بعد وہ خود شرمسار ہو جاتی آج اعظم کے سامنے یہ سب بولتے ہوئے انہیں خود بھی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔زرقون بی کی بات سن کر اعظم غصے سے بھرا وہاں سے نکلتا ہوا کوٹیج کی سیڑھیاں چڑھ کر ہوا بیڈروم میں جانے لگا جہاں پر ثمن موجود تھی
****
اعظم مشتعل تب ہوا جب ساری تصویریں اس نے ثمن کے منہ پر دے ماری جس کو دیکھنے کے بعد وہ بغیر شرمندہ ہوئے اپنے گناہ سے صاف مُکر گئی،، اعظم کو اشتعال میں دیکھنے کے بعد ثمن کے منہ سے یہ بھی نکل گیا کہ وہ بھی اس کے اور تابندہ کے تعلق کا علم رکھتی ہے جس پر اعظم نے ثمن پر اپنی سوچ ظاہر کردی
"میں تابی کو ابھی سے نہیں بلکہ ہماری شادی سے پہلے سے پسند کرتا ہوں، میں تمہاری طرح اپنے اور تابی کے تعلق سے مکرو گا نہیں کیونکہ میرا تابی کے ساتھ ویسے غلیظ تعلق نہیں ہے جیسا تمہارا اور خاور کا ہے۔۔۔۔ ڈرائیورز کے پیپر تمہیں جلد مل جائیں گے اس کے بعد میں تابی کو اپنی زندگی میں شامل کروں گا اور درید کی طرف سے تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ میرا خون ہے میرے پاس ہی رہے گا"
اعظم غصے میں ثمن سے بولتا ہوا کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترنے لگا
"اعظم میری بات تو سنو،، مجھے معاف کر دو میں بہک گئی تھی اب خاور سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی، درید کی قسم کھا کر کہتی ہو مجھے طلاق مت دینا"
ثمن اعظم کے پیچھے سیڑھیاں اترتی ہوئی اعظم کا بازو پکڑ کر بولی مگر اعظم کو ثمن پر شدید غصہ تھا۔۔۔ درید کی قسم کھانے پر اس نے ثمن سے اپنا بازو چھڑا کر دود جھٹکا جس کے نتیجے میں وہ سیڑھیوں سے گر پڑی
"اعظم صاحب دیکھیں ناں بیگم صاحبہ کے سر سے خون نکل رہا ہے"
اعظم جو کہ ثمن کی پرواہ کئے بغیر اس کو نظر انداز کرتا ہوا آنے والی کال ریسیو کر چکا تھا زرقون بی اعظم کے پاس آتی ہوئی بولی تو وہ اپنے سے چھ قدم کے فاصلے پر سسکتی ہوئی ثمن کو دیکھنے لگا
"اعظم زرقون بی کیا کہ رہی ہے ثمن زخمی ہوگئی ہے کیا۔۔۔ اعظم آپ کو اس وقت غصے سے کام نہیں لینا چاہیے وہ درید کی ماں ہے میں کال بند کرتی ہوں آپ پلیز اس کو دیکھیں"
تابندہ جو کہ زرقون بی کی آواز سن چکی تھی جلدی سے اعظم سے بولی جس پر اعظم نے اتنا کیا کہ ڈاکٹر کو گھر کا ایڈریس دے کر ثمن کو زرقون بی کے آسرے پر چھوڑتا ہوا خود گھر سے باہر نکل گیا
****
"کہاں چلے گئے تھے دید آپ"
درید جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے زمل کو جاگتے ہوئے پایا جوکہ فکرمند لہجے میں درید سے پوچھ رہی تھی
"کہیں نہیں گیا تھا تم جاگ کیو گئی ہو سو جاؤ"
واپس سیڑھیاں چڑھ کر آتے ہوئے اس کی حالت غیر ہوگئی تھی مگر درید کو لگ رہا تھا یہ تکلیف اس تکلیف سے بےحد کم تھی جو اسے تابندہ کی باتوں سے سن کر ہوئی تھی
"کیا ہوا دید مجھے آپ کی کنڈیشن کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے بتائےناں آپ کیا فیل کر رہے ہیں"
درید جوکہ بیڈ کی طرف بڑھ کر لیٹنا چاہ رہا تھا زمل اس کے پاس آتی ہوئی درید کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگی اس وقت درید کے چہرے پر ایک ایک درد رقم تھا
"شدید تکلیف محسوس کر رہا ہوں میں اس وقت زمل۔۔۔ تم میری اس تکلیف کو نہیں سمجھو گی بلکہ کوئی بھی میری اس تکلیف کو نہیں سمجھ سکتا"
درید زمل کو دونوں شانوں سے پکڑتا ہوا بولا، کرب اس کے چہرے اور لہجے دونوں سے چھلک رہا تھا
"میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ ہاسپیٹل سے اتنی جلدی ڈسچارج ہونے کی ضرورت نہیں ہے مگر وہی ناں آپ تو اپنی ہی چلاتے ہیں بس۔۔۔ چلیں یہاں پر آ کر لیٹے میں ڈاکٹر کو فون کرکے بلاتی ہوں"
زمل درید کو سہارا دیتی ہوئی بیڈ پر بٹھانے کے بعد اپنے موبائل لینے کی غرض سے اٹھنے لگی تو درید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"دید ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہے ہیں کیا ہوا ہے آخر۔۔۔ پلیز بتائیں ناں مجھے"
وہ نم آنکھوں سے زمل کو دیکھ رہا تھا تو زمل اس کا چہرہ تھامتی ہوئی پوچھنے لگی
"ٹوٹ چکا ہوں آج میں بری طرح، اپنا ہی وجود بے معنیٰ سے لگ رہا ہے دل چاہ رہا ہے خود کو جلتی ہوئی آگ میں جھونک ڈالوں۔۔۔ نفرت محسوس ہو رہی ہے اپنے آپ سے مجھے"
درید زمل کے کندھے پر سر رکھ کر باقاعدہ رونے لگا، زمل درید کے اس طرح ری ایکٹ کرنے سے مزید پریشان ہوگئی
"بتا کیوں نہیں رہے ہیں کہ آخر ہوا کیا ہے اب مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے دید کیوں پریشان کر رہے ہیں مجھے"
زمل دوبارہ درید کا چہرہ تھام کر اس کے آنسو پوچھتی ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھنے لگی اس سے پہلے درید کچھ بولتا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا
"تم یہاں۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی"
درید کیف کو اپنے کمرے میں دیکھ کر اپنی کیفیت سے باہر آتا ہوا غصے سے بولا جبکہ زمل اس وقت کیف کو دیکھ کر پریشان ہو چکی تھی
"خود کو ہیرو اور مجھے بچہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے ہو تم درید اعظم۔۔۔ آج تم میری ہمت پر ہی نہیں میری جرت پر حیران رہ جاؤ گے۔۔۔ جب میں تمہاری ہی آنکھوں کے سامنے تمہاری اس خوبصورت بیوی کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤ گا"
کیف بولتا ہوا زمل کی طرف بڑھا جو کہ غصہ ضبط کیے کیف کی فضول بکواس سن رہی تھی مگر اس سے پہلے وہ زمل کی طرف ہاتھ بڑھاتا۔۔۔۔ زور دار تھپڑ کیف کے منہ پر درید نے رسید کیا
"اس کی طرف اگر تم نے اپنی غلیظ نگاہ بھی ڈالی تو میں تمہارا ہمایوں سے بھی زیادہ برا حشر کر دوگا کیف جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا"
درید اشتعال بھرے انداز میں کیف اور گریبان پکڑتا ہوا بولا کیف اپنے گال پر ہاتھ رکھا ہوا غصے درید سے بولا
"بہت ہوگیا درید اعظم اب اور نہیں"
کیف نے بولنے کے ساتھ ہی درید کے پیٹ پر زوردار لات ماری جس سے وہ فوری طور پر سنبھل نہیں پایا اور درد سے کراہتا ہوا پیچھے جا گرا
"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے جاھل انسان۔۔۔ یہ کیا کر رہے ہو چھوڑو میرا ہاتھ میں کہیں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ"
اچانک ہوئی کاروائی پر زمل غصے سے بولی لیکن کیف زمل کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے جانے لگا
زمل پریشان ہو کر فرش پر گرے ہوئے درید کو دیکھنے لگی جو کہ تکلیف کی شدت برداشت کر رہا تھا۔۔۔ پیٹ پر زوردار لات لگنے کی وجہ سے ایک پل کے لئے درید کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا مگر زمل کے چیخنے چلانے سے درید کے حواس دوبارہ بیدار ہونے لگے وہ فرش سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا
"میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی کیف میں کہتی ہو میرا ہاتھ چھوڑ دو"
زمل ایک بار پھر اپنے آپ کو کیف سے چھڑواتی ہوئی چیخ کر بولی
"تمہارے تو اچھے بھی میرے ساتھ چلیں گے شکر کرو کے محبت کرتا ہوں تم سے ورنہ تمہاری جیسی لڑکی کو تو استعمال کرکے ہمایوں کے آگے پھینک ڈالنا چاہیے"
کیف غصے میں زمل کے چیخنے چلانے کی پرواہ کیے بغیر اس کو گھسٹتا ہوا کمرے سے باہر لے آیا
"زمل کو چھوڑ دو کیف ورنہ آج میں تمہاری جان لے لوں گا"
درید کیف اور زمل کے پیچھے کمرے سے باہر نکلتا ہوا غصے میں چیختا ہوا کیف سے بولا۔۔۔ پیٹ پر زور دار لگنے والے لات سے اس کے اسٹیچس کُھل گئے تھے جس کی وجہ سے خون اس کی شرٹ کو لال رنگ میں رنگ گیا تھا
"بہت ہی کوئی ڈھیٹ آدمی ہو تم درید اعظم ایسے نہیں جان چھوڑو گے، اب میں تمہیں اور اچھے سے مزا چھکاؤں گا"
کیف نے اپنے پیچھے درید کو آتا ہوا دیکھا تو زمل کا ہاتھ چھوڑ کر ایک بار پھر درید کو مارنے کی غرض سے اس کی طرف بڑھا ہی تھا
"کیف نہیں پلیز دید کو کچھ نہیں کرنا"
زمل نے کیف کا بازو پکڑ کر اسے روکنا چاہا وہ درید کے زخم سے خون نکلتا ہوا دیکھ کر رو رہی تھی
"پیچھے ہٹو اور چھوڑو میرا ہاتھ"
اس سے پہلے درید کیف کو مارنے کے لئے آگے بڑھتا۔۔۔ کیف نے زمل سے اپنا بازو چھڑا کر اس زور سے دھکا دیا
"زمل"
زمل کو سیڑھیوں سے نیچے گرتا ہوا دیکھ کر درید ڈر کے مارے زور سے چیخا وہ اپنا درد اور تکلیف بھول کر کیف کو غصے میں بری طرح مارنے لگا
"تم مجھ سے اس کو نہیں چھین سکتے میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا"
درید کیف کو برے طریقے سے مارتا ہوا غصے میں شاید پاگل ہو گیا تھا۔۔۔ کیف نے اپنے بچاؤ کے لئے درید کے پیٹ میں ایک دفعہ اور زوردار لات ماری جس کی وجہ سے درید درد سے چیختا ہوا فرش پر جا گرا۔۔۔۔ اس کے پیٹ میں شدید تکلیف اٹھنے لگی تھی اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس نے داخلی دروازے سے پولیس کے پیچھے تابندہ اور زرقون بی کو آتا ہوا دیکھا
*****
"بہت آئستہ سے درید نے اپنی کھولی تو خود کو ہسپتال کے کمرے میں موجود پایا سب سے پہلی نظر اس کی تابندہ کے چہرے پر پڑی جو درید کو ہوش میں آتا دیکھ کر شکر ادا کر رہی تھی
"ڈرا کر رکھ دیا تم نے ہمہیں شکر ہے تمہیں ہوش آگیا"
تابندہ سارے قصے کو بھول کر مسکراتی ہوئی درید سے بولی
"زمل"
درید آئستہ آواز میں تابندہ سے زمل کے بارے میں پوچھنے لگا تب درید کو اپنے ہاتھ پر زمل کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اس نے دائیں جانب گردن موڑ کر دیکھا تو زمل اپنی آنکھوں میں نمی کے ساتھ درید کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی
"میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتی ہوں"
تابندہ کرسی سے اٹھتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ زمل درید کے قریب آئی
"میں اس وقت ڈر گیا تھا جب تم سیڑھیوں سے نیچے گری، کیف تمہیں مجھ سے چھیننا چاہتا تھا"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا آہستہ آواز میں اس سے بولا
"خدا کی ذات کے علاوہ مجھکو آپ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا دید اور اوپر والا بھی ہم دونوں کا ساتھ چاہتا ہے جبھی میں آپ کے پاس ہوں۔۔۔ اپنے دل سے ہر طرح کے ڈر اور خوف کو نکال دیں کیونکہ اب میں خود بھی آپ سے جدا ہونے کا تصور نہیں کر سکتی"
زمل نے درید کو پوری ایمانداری سے سچائی بتاتے ہوئے اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے
*****
جس وقت درید تابندہ کو بیسمینٹ میں بند کرکے واپس کوٹیچ میں آگیا تھا۔۔۔ سیڑھیوں سے اوپر اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسے زرقون بی دیکھ چکی تھی مگر درید کو روکنے کی بجائے وہ باہر چلی آئی جہاں اسٹور کی لائٹ آن دیکھ کر وہ کسی خدشے کے تحت وہ اسٹور روم میں چلی گئی۔۔۔۔ تہہ خانے کے بجتے ہوئے دروازے اور تابندہ کی آتی ہوئی آوازوں سے انہوں نے تہہ خانے کا دروازہ کھولا
تابندہ زرقون بی کے آنے سے پہلے ہی پولیس کو انفرم کر چکی تھی۔۔۔ اسے درید کے تیور دیکھ کر اپنے ساتھ زمل کے لیے بھی ڈر محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ جب تک وہاں پولیس پہنچی تو ایک نیا قصّہ سامنے آگیا۔۔۔ زمل کو سیڑھوں سے نیچے گرا ہوا دیکھ کر اور درید کو بےہوشی کی حالت میں دیکھ کر تابندہ کو فوری طور پر ایمبولینس بلانا پڑی جبکہ پولیس کیف کو اپنے ساتھ لے جا چکی تھی
*****
پورے ایک ہفتے بعد وہ ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آیا تھا۔۔۔ سامنے دیوار پر ثمن کی تصویر کو دیکھ کر وہ خادم کو پکارنے لگا
"اس تصویر کو واپس اسٹور میں رکھ آؤ"
درید کے بولنے پر وہاں موجود تابندہ اور زرقون بی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں
"چلیں دید اپنے روم میں چل کر تھوڑی دیر ریسٹ کر لیں"
زمل درید کا بازو پکڑتی ہوئی بولی تو درید بنا کچھ بولے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ۔۔۔ دو دن پہلے جب وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ تب زرقون بی اسے پوری سچائی بتا چکی تھی جس کو سن کر وہ بالکل خاموش ہوگیا تھا۔۔۔ زمل جانتی تھی اسے تھوڑا وقت لگے اس فیز سے باہر آنے میں
"میرے خیال میں آپ کو وہ سب درید کو نہیں بتانا چاہیے تھا زرقون بی، اس طرح اسے دیکھ کر اچھا نہیں لگ رہا ہے بالکل ہی چپ ہوگیا ہے"
تابندہ درید کو اپنے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ کر آہستہ آواز میں زرقون بی سے بولی وہ خود بھی درید کو ثمن کے بارے میں بتا کر دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی
"خوشی خوشی نہیں بتایا بیگم صاحبہ میں نے کچھ بھی، نہ ہی درید بابا کو یوں خاموش دیکھ کر میں خوش ہو،، لیکن حقیقت ان کے سامنے نہیں آتی تو اُس کے برے نتائج کا آپ کو اور شاید زمل بی بی کو بھی سامنا کرنا پڑتا"
زرقون بی کی بات سن کر تابندہ خاموش ہو گئی تو زرقون بی کچن کی طرف چلی گئیں
*****
"میں اس وقت لیٹنا نہیں چاہ رہا"
کمرے میں آنے کے بعد زمل بیڈ کی جانب بڑھتی ہوئی درید کی سائیڈ کا تکیہ سیٹ کرنے لگی تب درید صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔۔۔ اس کی بات سن کر زمل درید کے پاس آکر اس کی تھائی پر بیٹھ گئی جس پر درید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا تو زمل اسمائل دیتی ہوئی درید سے بولی
"میرا بھی دل چاہ رہا تھا اس وقت آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے باتیں کرنے کا"
زمل نے بولنے کے ساتھ ہی درید کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا
"مجھے تو لگتا ہے میرے پاس اب بولنے کو کچھ نہیں رہا"
درید اداسی سے بولنے لگا تو زمل اس کے کندھے سے سر اٹھا کر درید کو دیکھنے لگی اس کا دل چاہا وہ درید کی ساری اداسی دور کردے
"تو آپ میری سن لی جیئے میرے پاس تو آپ سے کرنے کے لئے بے شمار باتیں ہیں"
وہ درید کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی نرم مسکراہٹ کے ساتھ بولی ایک ہفتے میں اس کی شیو کافی گھنی ہوگئی تھی۔۔۔ چہرے پر اداسی لیے وہ زمل کو دیکھنے لگا
"تمہیں آنٹی نے بتایا، میری ماما کا تمہارے بابا کے ساتھ"
درید کی بات مکمل ہونے سے پہلے زمل اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھتی ہوئی بولی
"ضروری تو نہیں ہے دید ہم گزری ہوئی تلخ باتوں کا ذکر کرکے خود کو اذیت میں مبتلا کریں جس سے حاصل تو کچھ بھی نہیں ہونا۔۔۔ کیو نہ ہم اپنے آنے والے کل کی باتیں کریں جو ہمارے لیے خوشی کا باعث بنے"
وہ درید کے گال پر دوبارہ اپنا ہاتھ رکھ کر اسے پیار سے سمجھاتی ہوئی بولی
"آنے والا کل"
درید زمل کا چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا ساتھ ہی اس نے پیچھے صوفے پر اپنا سر رکھ دیا
"ہہم ہم دونوں کا آنے والا کل"
زمل نے بولنے ہوئے دوبارہ درید کے کندھے پر اپنا سر رکھا اب زمل کا ہاتھ درید کے گال کی بجائے اس کے سینے پر تھا
"ہم دونوں کے آنے والے کل کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ شاید چند دنوں بعد میرا واپس لندن جانا ہوجائے پھر یہاں آنے کا نہ جانے کب ارادہ ہو"
درید نے جتنی سنجیدگی سے یہ جملہ ادا کیا زمل اتنی حیرت سے سر اٹھا کر درید کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔۔ وہ اکیلا لندن جانے کی بات کر رہا تھا اس کو چھوڑ کر جانے کی بات کر رہا تھا
"کس سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ دید"
زمل اس کی تھائی سے اٹھتی ہوئی درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی تو درید بھی سیدھا ہو کر بیٹھا
"میں کیوں کسی سے بھاگو گا۔۔۔ تم میرے ساتھ رشتہ نہیں چاہتی تھی،، اب مجھے یہ ریلائیز ہوا ہے کسی دوسرے کو اپنا پابند بنا کر، زندگی بھر اُسے اُس کی مرضی کے بغیر زبردستی اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا جا سکتا ورنہ بعد کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔۔۔ تمہاری مرضی شامل نہ ہونے کے باوجود میں نے تمہیں حاصل کیا، تم سے زبردستی اپنا اور میرا رشتہ منوایا۔۔۔ غلط ہے یہ سب"
درید سنجیدگی سے زمل کو دیکھتا ہوا بولا وہ آنکھوں میں نمی کے ساتھ درید کو دیکھنے لگی
"ڈر گئے ہیں آپ دید، یہ بولیں ناں آپ مجھ سے ڈر گئے ہیں۔۔۔ آپ کو لگ رہا ہے چند سالوں بعد میں بھی شاید آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیف یا پھر کسی دوسرے کے ساتھ رشتہ بنالو گی بالکل اپنی مما یا آپ کی ماما کی طرح"
زمل بے دردی سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی
"زمل،، ہمت کیسے کی تم نے اتنی فضول بات کرنے کی"
درید غصے میں چیختا ہوا زمل سے بولا
"ویسے ہی جیسے آپ نے لندن جانے کی فضول بات کی میرے سامنے"
زمل بھی اب غصے میں اسی کی طرح چیخ کر بولی تو درید خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔ زمل ایک بار پھر اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو پونچھتی ہوئی درید سے بولی
"آپ لندن جانے کا سوچ چکے ہیں یعنیٰ آپ نے میرے بغیر رہنے کا تصور کر لیا ہے دید، رہ لیں گے آپ میرے بغیر"
زمل کے بولنے پر اب کی بار درید کا دل تڑپ اٹھا وہ صوفے سے اٹھتا ہوا زمل کے پاس آیا۔۔۔ درید نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر زمل کے آنسو صاف کرنے چاہے مگر زمل نے اس کا ہاتھ جھڑک دیا
"ہر عورت کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے دید۔۔۔ نہ ہی ہر عورت ایک جیسی ہوتی ہے۔۔۔ اگر کسی مرد کی زندگی میں بدکار عورت آجائے تو ضروری نہیں ہر عورت کو ترازو کے ایک ہی پلرے میں تولا جائے۔۔۔ عورت کو وفا کا پیکر کہا گیا ہے مگر آپ شاید"
زمل بولتی ہوئی خاموش ہوئی درید خاموشی سے ابھی تک زمل کو دیکھ رہا تھا تب زمل دوبارہ بولی
"میرا کیف کی طرف رجحان آپ کی من مانیوں سے اور بےجا روک ٹوک سے گیا۔۔۔ آپ نے واپس آنے کے ساتھ ہی مجھ سے ایسا رویہ اپنایا مجھے اپنے لیے کیف صحیح آپشن لگنے لگا۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے زمل کی زندگی میں بھلا کون تھا،،، اس نے بھی دید کے علاوہ کبھی اپنے آس پاس کسی کو نہیں دیکھا تھا"
زمل کو بولتے ہوئے ہوئے ایک بار پھر رونا آنے لگا
"زمل"
درید نے اب کی بار اسے اپنے سینے سے لگانا چاہا وہ بھلا کہا زمل کو روتا ہوا دیکھ سکتا تھا مگر زمل نے ایک بار پھر اس کے اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکا
"پہلے آپ نے میری مرضی جانے بغیر اپنی مرضی سے مجھ سے نکاح کیا، زبردستی مجھے اپنے ساتھ رشتے میں جوڑے رکھا۔۔۔ اپنا پابند تو آپ مجھے بچپن سے ہی بناتے آئے ہیں اور حق بھی جتاتے آئے ہیں مجھ پر۔۔۔ پھر مجھے ہمارے رشتے کی اہمیت بتا کر، اپنی محبت کا اعتراف کرکے،، میرے اتنے قریب آکر ہمارے رشتے کو مکمل کرنے کے بعد آپ مجھے چھوڑ کر جانے کی بات کر رہے ہیں دید۔۔۔ آئی ہیٹ یو"
زمل روتی ہوئی درید سے بولی تو درید نے تیسری بار اپنے جھٹکے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز کرکے زمل کی دونوں کلائیاں پکڑتے ہوئے اس اپنے سے قریب کیا۔۔۔ زمل کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کرتے ہوئے درید نے پوری شدت دکھائی تھی،، جتنی دیر کمرے میں زمل کی آواز گونج رہی تھی اب بالکل خاموشی تھی۔۔۔ زمل کی مزاحمت پر بھی درید اپنی گرفت میں کمی لائے بغیر اسے جکڑا ہوا تھا۔۔۔ زمل کی انکھیں جنھوں نے آج برسنے کی قسم کھائی ہوئی تھی درید کی شدت پر ایک بار پھر نم ہونے لگی زمل کے آنسوں کی نمی کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے درید کی گرفت ڈھیلی پڑی تو زمل نے اسے پیچھے دھکیلا
"کیا کر رہے ہیں آپ، ہوش میں تو ہیں ایسے بھی کوئی کرتا ہے"
زمل درید کے جذباتی انداز پر سرخ چہرے کے ساتھ اپنی سانسیں ہموار کرتی ہوئی اس سے بولی
"جتنا سب کچھ تم نے آخر میں میرے بارے میں بتایا،، میرے اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی تم مجھے ہیٹ کرو گی تو میں پھر یونہی کروگا تمہارے ساتھ"
درید نرمی سے زمل کو اپنے حصار میں لیتا ہوا بولا
"مجھ سے دور جانے کا کیسے سوچا لیا آپ نے"
زمل درید کی باہوں میں اب بھی اس سے شکوہ کرتی ہوئی پوچھنے لگی
"تمہیں کیا لگ رہا تھا تم سے دور جانے کا فیصلہ کر کے میں خود اپنے فیصلے پر قائم رہتا۔۔۔ اتنا ہی جانا ہے تم نے اپنے دید کو"
درید کے بولنے پر زمل نے درید کے سینے سے سر اٹھا کر اس کو دیکھا۔۔۔ درید زمل کو ہی دیکھ رہا تھا اسکی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھنے کے بعد وہ دوبارہ زمل سے بولا
"تم سے دور جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے تمہارے کردار پر اعتبار نہیں ہے ایسا اب دوبارہ کبھی بھی مت سوچنا۔۔۔ بس ماما کی حقیقت کو جاننے کے بعد دل بری طرح سے۔۔۔
زمل نے درید کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھی تو وہ خاموش ہوگیا
"آج کے بعد ہم دونوں کے درمیان ہمارے پیرنٹس کو لے کر ماضی کی کوئی بات نہیں ہوگی دید۔۔۔۔ نہ ہی آپ کچھ الٹا سیدھا اپنے دل میں سوچیں پالیں گیں پرامس کریں مجھ سے"
زمل کے بولنے پر درید اسے اپنے حصار میں لیے خاموشی سے محسوس کرنے لگا
"اب کیوں خاموش ہوگئے ہیں کیا سوچ رہے ہیں"
زمل درید کے سینے پر سر رکھے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ اسے اندر سے تھوڑا بہت اطمینان ہوا تھا کہ وہ جلدی درید کو اس فیز سے نکال لے گی
"میرے دور جانے کا سن اتنا زیادہ روئی ہو تم۔۔۔ زندگی بھر مجھے اپنے پاس رکھ کر میری دیوانگی کو برداشت کر پاؤ گی"
درید زمل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"نہ ہی میرے بالوں کو کوئی دوسرا آپ کے علاوہ ہاتھ لگا سکتا ہے، نہ ہی آپ کو میری توجہ کسی دوسری طرف اچھی لگتی ہے۔۔۔ یہ دیوانگی ہی ہے جسے میں بچپن سے برداشت کرتی آرہی ہو"
زمل اپنے دونوں ہاتھ درید کے گلے میں ڈالتی ہوئی بولی تو درید نے اسے خود سے مزید قریب کرکے انچ بھر کا رہا سہا فاصلہ بھی ختم کیا
"لیکن اب تو تم میری بیوی بن چکی۔۔۔ اس لیے میری دیوانگی کو ایک نئے روپ میں برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ"
درید بولتا ہوا زمل کی گردن پر جھکا اس سے پہلے وہ جذباتی ہوتا زمل اس کے حصار سے نکل چکی تھی
"تھوڑی دیر پہلے ہی ہاسپٹل سے گھر آئے ہیں دید بےشرمی چھوڑ کر شرافت سے جاکر بیڈ پر لیٹ جائے"
زمل درید کو آنکھیں دکھاتی ہوئی کمرے سے جانے لگی تو درید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"لیٹ جاتا ہوں مگر پہلے آج رات کے "پروگرام" کی ڈیٹیلز بتانے کے بعد"
درید زمل کو فرار ہوتا دیکھ کر معنیٰ خیزی سے بولا مگر دروازے کی دستک پر اسے زمل کا ہاتھ چھوڑنا پڑا
"ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے تمہیں"
تابندہ کمرے میں آتی ہوئی درید سے پوچھنے لگی
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپ بیٹھیں پلیز"
درید سنجیدہ ہوتا ہوا تابندہ سے بولا وہ بیسمینٹ میں تابندہ کو بند کرنے والی حرکت پر خود بھی اندر سے گلٹی تھا جیسے تابندہ اس کو ثمن کا سچ بتا کر گلٹ محسوس کر رہی تھی
"اور کیا باتیں چل رہی تھی"
تابندہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی سرسری انداز میں درید سے پوچھنے لگی
"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی آپ کی بیٹی کو شوق چڑھا ہوا تھا اپنی تعریفیں سننے کا وہی کرکے اس کا دل خوش کر رہا تھا"
درید خود بھی دوسرے صوفے پر بیٹھتا ہوا سیریس ہوکر تابندہ کو بتانے لگا جس پر تابندہ ایک دم ہنسی جبکہ زمل کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا مگر وہ بھی ہار ماننے والی نہیں تھی
"دید مما کو آج رات والے پروگرام کا بھی بتا دیں جو آپ ابھی مجھے بتانے والے تھے۔۔۔ پھر میں آپ کے لیے اچھی سی کافی بنا کر لاتی ہوں"
زمل درید سے اپنا بدلہ لیتی ہوئی بولی جس پر درید زمل کو آنکھیں دکھانے لگا
"کون سا پروگرام درید کیا سوچ رکھا ہے تم نے آج رات کے لیے"
تابندہ حیرت سے درید کو دیکھ کر پوچھنے لگی جبکہ زمل وہی کمرے میں کھڑی اپنی ہنسی چھپانے لگی
"واپس اسلام آباد چلنے کا پروگرام اور کون سا پروگرام ہوسکتا ہے بھلا"
درید تابندہ کے حیرت ذدہ تاثرات کو دیکھ کر نارمل انداز اپناتا ہوا بولا ساتھ ہی اس نے زمل کو آنکھیں دکھائی تاکہ وہ باز آجائے
"نہیں بیٹا اتنی بھی کیا جلدی ہے کہ آج رات میں ہی اسلام آباد کے لیے نکلا جائے پہلے تم مکمل صحت یاب ہوجاؤ پھر کوئی پروگرام رکھتے ہیں"
تابندہ اپنی طرف سے درید کو معقول مشورہ دیتی ہوئی بولی جس پر درید نے تابعداری دکھاتے ہوئے اقرا میں سر ہلایا مگر اسے زمل کے فضول بولنے پر غصہ آیا تھا
"ارے مما پروگرام کی پوری ڈیٹیل تو جان لیں دید سے وہ ابھی وہی بتانے والے تھے مجھے شاید کوئی موڈ بن جائے، کیوں دید"
زمل کے بولنے پر درید ایک دم زمل کی بات کاٹتا ہوا بولا
"تم میرے لیے کافی بناکر لانے والی تھی شاید اور آنٹی کی بات بالکل ٹھیک ہے اب میری صحت یابی کے بعد ہی کوئی پروگرام رکھے گیں۔۔۔ واپسی کا"
درید آنکھوں ہی آنکھوں میں زمل کے لیے ناراضگی ظاہر کرتا ہوا بولا ساتھ اسے سدھرنے کا بھی اشارہ کیا
"رئیلی مجھے تو لگ رہا تھا آپ میں کافی اسٹیمنا ہے آئی مین سفر تو آسانی سے کر سکتے ہوگیں آپ جبھی تو پروگرام بنا کر بیٹھے تھے"
زمل معصومیت سے درید کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی اس سے پہلے درید اس کو صحیح سے جھڑکتا کیوکہ وہ تابندہ کے سامنے نہ جانے کیا کیا بول رہی تھی یہ کام خود چپ بیٹھی تابندہ نے انجام دے دیا
"جب ایک بات ڈسائیڈ ہوچکی کہ آج رات کا پروگرام کینسل ہے پھر کیو بلاوجہ میں بولے جارہی تم۔۔۔ بہت زیادہ دل کر رہا ہے تمہیں اسلام آباد جانے کا"
تابندہ زمل کو ڈانٹتی ہوئی بولی اسے تو آج کے اس پروگرام کی کوئی لاجک ہی سمجھ میں نہیں آئی تھی
"میرا دل تھوڑی کررہا ہے پروگرام تو آپ کے داماد نے بنایا تھا"
زمل آئستہ سے بولتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی جبکہ درید زمل کی پشت کو گھور کر رہ گیا۔۔۔ وہ ایسے ہی اب زمل کو نہیں بخشتا رات میں اسے درید کے پاس ہی آنا تھا

 

 

Another Novel by Zeenia Sharjeel:

 

 

♥ Download More:

Areej Shah Novels

Zeenia Sharjeel Novels

Sidra Shiekh Novels

Famous Urdu novel List

Romantic Novels List

Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

 

آپ ہمیں اپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

 

 

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.

About the author

Muhammad Qasim

Muhammad Qasim, founder of Shaheen ebooks website, which is an online ebooks library serving Urdu books, novels, and dramas to the global Urdu reading community for the last 3 years (since 2018. Shaheenebooks.com.

Leave a Comment