Areej Shah Novels Urdu Novels

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writers. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is the latest novel by Areej Shah. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.

Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download Ishq e Yaram Novel to click on the link given below, or you can also read it online.

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel

Ishq e Yaram Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society

 

↓ Download  link: ↓

If the link doesn’t work then please refresh the page.

 

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Ep 1 to Last

 

 

 

Read Online Ishq e Yaram Novel by Areej Shah:

عشقِ یارم

اریج شاہ

وہ  ہر طرف اسے ڈھونڈ رہا تھا کسی کی اتنی ہمت کہ کوئی اس کی روح کو تکلیف پہنچائے

کون تھا اس کا ایسادشمن جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول سے پنگا لیتا ۔

راشد اس کھیل کا سب سے کمزور مہورا تھا ۔جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول کی کمزوری پر حملہ کرتا

ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔اور پھر اسے ایک فون آیاتھا ۔

اگر روح کو بچانا چاہتے ہو تو جس جگہ کی لوکیشن میں تمہیں سینڈ کر رہا ہوں وہاں چلے جاؤ روح کو اس شخص نے وہیں پر رکھا ہے ۔

لیکن تم کون ہو۔۔۔! وہ پاگلوں کی طرح روح کو ڈھونڈتے  تھک چکا تھا جب کسی امید کے روشن دیے کی طرح کسی نے اسے فون کیا

میں جو بھی ہوں اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ملیکن یں ہوچاہتا ن تم مجھے یاد رکھو دنیا مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتی ہے میری ذات کھنگالنے  سے بہتر ہے کہ تم اپنی روح کی جان بچاؤ فون بند ہوچکا رہا

اور لوکیشن اس کے موبائل پر آ چکی تھی ۔

وہ شخص کون تھا کون نہیں یارم کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن یا رم کی ذات پر اس کا ایک احسان تھا جو یارم کاظمی  مرتے دم تک چکا نہیں سکتا تھا ۔

°°°°

وہ یارم کے لیے سب سے مشکل ترین وقت تھا جب ہرچلتی سانس کے بعد اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی روح اس سے دور جا رہی ہے

ڈاکٹر نے اس کا جنون اور دیوانگی دیکھتے ہوئے ہی اسے مناسب الفاظ میں بتایا تھا

کہ روح کی جان بچانا اور تقریبا ناممکن ہے یہ سب کچھ کہتے ہوئے ڈاکٹر خود بھی اس سے خوفزدہ تھا یقیناًاسے اپنی جان بہت عزیز تھی ۔

وہ یارم کے جنون کے ہتھے نہیں چڑناچاہتا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی اس شخص کے لئے اس کی زندگی ہے

لیکن اندھیری کالی قبر سے نکلنے کے بعد روح اپنے آپ کو بےجان محسوس کر رہی ہے اس میں جینے کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔

یارم کا بس چلتا تو شاید وہ ڈاکٹر کو ہی جان سے مار دیتا ہے ۔

اگر وہ ڈاکٹر زندہ تھا تو صرف اور صرف خضر کی وجہ سے جس نے اس وقت یارم پر کنٹرول کیا تھا ۔

اور پھر وہ اپنی روح کو لے آیا تھا وہاں سے اس کا  مہنگے سے مہنگا علاج کروایا ۔امریکا کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ روح کے اندر صرف دس پرسنٹ ہی جینے کی نوعیت باقی ہے

اگر وہ خود زندگی کی طرف لوٹ آئے تو اس کی جان بچائی جا سکتی ہے

اور پھر یارم کی محبت کے سامنے روح نے ضد چھوڑ دی وہ لوٹ آئی اپنے یارم کے لیے کیونکہ وہ بھی جانتی تھی روح کے بنا یارم کچھ نہیں ۔

پورے دو ماہ بعد وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی ۔اور تب سے ہی ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی بات یاد کروانے یا پھر ٹینشن دینے سے سختی سے منع کیا تھا ایسا کرنے سے اس کی دماغی حالت بھگڑ سکتی تھی وہ اپنی یاداشت بھول سکتی تھی

اور یارم ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا اسے تو بس اپنی روح واپس چاہیے تھی جیسی وہ تھی بالکل ویسی ہی

°°°°°°°

یارم کے لیے روح ہی اس کا سب کچھ تھی اس کے بنا وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ جانتا تھا وہ ان سب چیزوں سے عاجز آچکی ہے وہ چاہتی ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے یہ وقت اس کے لیے بہت مشکل ہے ڈاکٹر نے دو ماہ تک یارم  کو روح کے پاس جانے سے بھی منع کر دیا تھا

اسے یاد تھا ۔کتنی مشکل سے وہ اسے نارمل زندگی کی طرف لا پایا تھا

تین ماہ گزر چکے تھے اس حادثے کو لیکن روح آج بھی پہلے کی طرح نہیں ہو پائی تھی ۔

ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی پرانی بات یاد دلوا کر ٹینشن دینے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وہ سب کچھ بھولتی ہی نہیں تھی وہ اس کے سامنے ظاہر کرتی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن یارم جانتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ساری رات اس کے قریب بیٹھا جاگتا رہتا تھا کہ کہیں وہ خواب میں ڈرنا جائے یارم ہر ممکن طریقے سے اسے ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھے ہوئے تھا ۔

کل اسے پورا ایک مہینہ ہو جانا تھا قومہ سے واپس ہوش میں آئے ہوئے ۔دو مہینے تک اسے کچھ بھی ہوش نہیں تھا ڈاکٹر کے مطابق شائد ہی وہ زندہ بچ پاتی۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ ایک مردہ وجود ہے وہ زندہ نہیں بچ پائے گی لیکن یارم نے ہمت نہیں ہاری ۔اسے اپنی روح  چاہیے تھی اور وہ اپنی روح کو واپس لے آیا تھا

 یہ ایک معجزہ تھا

جو یارم کی زندگی ہوا اور اسے ایک بار پھرروح مل گئی

 اللہ نے اس پر رحم کیا تھا اس کی روح کو اسے واپس دے دیا تھا ورنہ اس کے معاملے میں توخضر لیلیٰ شارف اور معصومہ بھی ہمت ہار چکے تھے۔وہ اس سے چھپ کر روتے تھے وہ پوری طرح سے اس بات کو قبول کرچکے تھے کہ اب روح کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں بچی اور کسی بھی وقت روح کی موت کی خبر یارم کی زندگی ہلاسکتی تھی

لیکن یارم کی محبت زندہ تھی اسے واپس آنا تھا اور اللہ کو اس پر رحم آگیا جس کے لیے وہ ہر وقت اپنے رب تعالیٰ کا شکر گزار تھا

ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر روح کی سانس اکھڑنے لگتی اکثر وہ اپنے آپ کو ایک اندھیری قبر میں محسوس کرتی اچانک نیند میں اس  کی آنکھ کھل جاتی

اس کا خوف زدہ وجود کانپنے لگتا اور یارم بے بس تھا بالکل بے بس یہاں وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا یہاں اس کی ہر پاور بے بس تھی

یارم اسے بالکل بھی اکیلے نہیں چھوڑتا تھا اسے صرف اور صرف اپنی روح کی پرواہ تھی جس کے بنا وہ ادھورا  تھا نامکمل تھا" روحِ یارم" مطلب  یارم کی روح وہ یارم کی روح تھی روح کے بنا یارم کبھی مکمل نہیں ہو سکتا تھا

یارم کا کہنا تھا کہ وہ مطلبی ہے وہ روح کا نہیں بلکہ اپنا خیال رکھتا ہے اپنے جینے کی وجہ کا خیال رکھتا ہے کیونکہ روح کے بنا وہ جی نہیں سکتا

اور یار م کی حددرجہ کیئرنگ پر وہ بری طرح سے جھنجھلا گئی تھی ۔ہر چیز میں روک ٹوک کھانے پر روک ٹوک'اٹھنے بیٹھنے پر روک ٹوک یہاں تک کہ وقت پر نہ سونے پر روک ٹوک وہ آج کل یارم سے بہت زیادہ چڑی ہوئی تھی اکثر ناراض بھی ہو جاتی اور یارم کو اس کی فضول اور بےجا ضد بھی ماننی پڑتی

اب وہ پہلے کی طرح یارم کی ایک گھوری پر خاموش نہیں ہوتی تھی اب وہ ضد کرتی تھی جانتی تھی کہ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی یارم اس کو ڈانٹنا تو دور غصہ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا لیکن پھر بھی یارم کا لال چہرا سوخی بھری آنکھیں اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام نہیں کرنے دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس سے لڑتی بھی تھی لیکن اس کے بدلے بھی سامنے سے ٹھنڈا ری ایکشن ملتا تو وہ بےزار ہو جاتی

  ایسے میں لیلیٰ کی پریگنسی نے اس کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈال دیا تھا ۔

اور اس کی خوشی اور ضد دیکھتے ہوئے یارم نے اسے لیلیٰ کے پاس دوپہر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی

°°°°°

 وہ سارا سارا دن لیلٰی کے پاس ہی رہتی تھی

 کیونکہ خضر کے مطابق وہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے مافیا ماحول میں پرورش نہیں پانے دے گا یہی وجہ تھی کہ لیلٰی کو سارا کام کاج چھوڑ کر پریگنسی کے پہلے مہینے میں ہی گھر بیٹھنا پڑ گیا ۔

ایسے میں روح کا آجانا لیلیٰ کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھایہ الگ بات ہے کہ اب آہستہ آہستہ وہ اس کے لیے زحمت ثابت ہو رہی تھی

اس کی پریگنسی کی وجہ سے یارم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لیلی کے پاس چھوڑ کے آتا تھا وہ تو روح کی ہر چیز بلکہ ایک ایک سیکنڈ پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا وہ شام کو خود ہی لے کر جاتا یہاں تک کہ وہ اس کے معاملے میں وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتا تھا

لیلیٰ کے گھر میں لگے کیمروں کی مدد سے وہ ہر وقت اس پر نظر رکھتا تھا ۔

لیکن وہ جانتی تھی کہ آفس سے لے کر لیلی کے گھر کے سفر تک وہ اسے نہیں دیکھ پاتا اور آج تو شارف نے فون پر بتایا تھا کہ ڈیول کسی کا صفایا لرنے گیا ہے

مطلب وہ لیٹ آئے گا اور وہ اس چیز کا فائدہ اٹھاتی تھی لیلی کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کررہی تھی

لیلی کے لیے تو روح بھی اپنے ماموں سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس کی پریگنسی کو لے کر کافی ٹچی ہو رہی تھی کبھی ایک چیز تو کبھی دوسری چیز وہ اس کو کھلا کھلا کر کچھ ہی دن میں اس کا وزن بڑھانے میں کامیاب رہی تھی

اس وقت بھی وہ دونوں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی جبکہ لیلی کو یارم نے روح سے کوئی بھی کام کروانے سے منع کر رکھا تھا لیلیٰ کی سانسیں سوکھی ہوئی تھی کیونکہ یارم کے آنے کا وقت ہو رہا تھا ۔

اور یہ ماموں کی بھانجی اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی ۔

روح خدا کے لئے بس کر دو یار میں خود بنا کر پی لوں گی تمہیں ویڈیو سینڈ کر دوں گی مگر تم مت بناؤ ڈیول کبھی بھی آتا ہوگا

وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اسے منع کرنے کی کوشش کر رہی تھی

یارم نام ہے ان کا ماشاء اللہ سے کتنا خوبصورت نام ہے اور تم لوگ ڈیول ڈیول کہہ کربگاڑ رہے ہو ان کا نام اللہ معاف نہیں کرتا نام بگاڑے والوں کو وہ چڑکر بولی

تمہیں  نام کی پڑی ہے روح ڈیول ہمارا نقشہ بگاڑ دے گا اگر تمہیں ذرا سی بھی تکلیف ہوئی تو۔وہ اس کی بات کاٹ کر جلدی سے بولی جب اسے پیچھے سے قدموں کی بھاری چاب سنائی دی۔

تم یہاں میری بیوی سے کام کروا رہی ہووہ غصے سے سرد آواز میں بولا ۔

 لیلیٰ تو اچھل پڑی جب کہ روح کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا

شارف بھائی نے تو بولا تھا کہ یہ کہیں گئے ہوئے تھے اور آج لیٹ آنے والے تھے تو اتنی جلدی ۔۔۔ وہ ناخن منہ میں ڈالے سوچنے لگی

جب یارم کی سخت گھوری نے ہاتھ منہ سے نکالنے پر مجبور کر دیا

نہیں ڈیول می۔۔۔ می۔۔ می۔۔۔میں نہیں روح کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔بہت بہت بار منع کرنے کی کوکوکوک۔۔۔۔۔۔ کوشش کی لیکن یہ میری سنتی۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔ ۔لیلی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دبنے لگے تھے آواز کمبخت باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی

یارم سے وہ لوگ ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رہتے تھے لیکن جب سے روح کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا تھا ان کی زندگی پھڑپھڑاتا پرندہ بنی ہوئی تھی

جیسے ڈیول کبھی بھی آزاد کر سکتا تھا

اور اب تو وہ روح کے معاملے میں خود پے بھی یقین نہیں کرسکتا تھا تو لیلیٰ تو پھر لیلیٰ تھی

تو تم اسے کچن میں لے آئی کہ جو دل میں آئے کرو ۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر غصے سے جبڑےبھیجے بولا

نہیں ڈڈڈ۔۔۔ڈیول یہ مان نی۔۔۔ نہیں رہی تھی ۔۔۔ لیلی نظرجھکا گئی۔جبکہ یارم نےانگلی کی مدد سے اس کا چہرا اوپر کیا۔

اگر اسے اتنی سی تکلیف ہوئی نہ تو میں تمہیں زندہ زمین میں  گاڈ دوں گا یاد رکھنا اس کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا جب کہ وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی لیلیٰ کی شامت دیکھ رہی تھی ۔

آواز کرنے کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ نہ ہو کے اس کے لیلی کے گھر آنے پر پابندی لگ جائے اور اب وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔اسے آپنے بالکل نزدیک دیکھ کر روح نے آنکھیں میچ لیں

جب اس کی نرم سی گرفت اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی وہ بنا کچھ بولے اسے اپنے ساتھ باہر لےجانے لگا جس کا صاف مطلب تھا کہ یارم آج بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس آدمی میں اتنا صبر کہاں سے آیا تھا سمجھ پانا مشکل تھا

روح نے بےفکر ہو کرایک نظر پیچھے کھڑی لیلی کو دیکھا اور اسے سوپ پینے کا اشارہ کرنے لگی لیلیٰ نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔

مطلب کہ اس کی جان اٹکی ہوئی تھی اور وہ اسے سوپ پینے کے لئے کہہ رہی تھی ۔آج اس کے شوہر کے ہاتھوں وہ شہید بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن اسے تو اس کی بالکل پرواہ ہی نہیں تھی لیلی اندر ہی اندر غصہ پیتی سوپ کا پیالا لیے باہر آئی

اور اسے ٹیبل پر پٹکتے ہوئے موبائل کا کیمرہ آن کیا ویڈیو بنتی جارہی تھی اور لیلی منہ بناتی سوپ پیتی جا رہی تھی ۔کیونکہ بنا ثبوت وہ اس پر یقین نہیں کرتی کہ اس نے سوپ پیا ہے

°°°°

وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جب کہ روح کب سے چور نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

نہ تو وہ اسے ڈانٹتا تھا اور نہ ہی غصہ کرتا تھا اس کا سارا غصہ باقیوں کے لیے تھا روح کو تکلیف پہنچانا اب اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی

وہ کنتی کوشش کرتی تھی کہ یارم اس پر غصہ ہو اسےڈانٹے پھر پیار کرء لیکن اب تو یارم کو اس سے زیادہ اس کی سوتن بیماری سے پیار ہو گیا تھا وہ منہ کے ڈائزین بناتی مسلسل اس کو دیکھتی سوچ رہی تھی

اس کے کھو جانے کے ڈر نے یارم کو اس حد تک بے بس کردیا تھا کہ اب وہ روح کو درد دینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا ۔

کہاں وہ اس کے ذرا سی سخت نگاہ پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی تھی اور اب وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرتی تھی۔خیر اس سب چیزوں کا تو وہ بعد میں گن گن کے بدلا لینے والا تھا اس کا حساب تو روح کو ٹھیک ہونے کے بعد دینا ہی تھا

لیکن فلحال   اس کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یارم اس کو کچھ نہیں کہتا تھا ۔اس کی  حد سے زیادہ فکر کرنا اس کا خیال رکھنا ۔اس سب کے علاوہ جیسے یارم کو اور کوئی کام ہی نہیں تھا ۔

اس بورنگ روٹین اور عجیب و غریب زندگی سے روح اجزا چکی تھی ۔

وہ سب کچھ پہلے جیسا چاہتی تھی اور پہلے جیسا سب کچھ تبھی ہو سکتا تھا جب وہ بالکل ٹھیک ہوتی اور اب وہ کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی لیکن یارم کا یہی کہنا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے

جس کی وجہ سے یارم کی اسٹریک کیئرنگ اب بھی جاری تھی

وہ کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ روح کا سارا دھیان اسی کی جانب ہے لیکن وہ جان بوجھ کر اسے دیکھ نہیں رہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ سچ میں غصے میں تھا اور وہ اپنا غصہ اس پر نکال نہیں سکتا تھا

اس لیے وہ اپنا غصہ اسٹینڈنگ پر نکالتے ہوئے گاڑی چلانے میں مصروف تھا جب اسے اپنے ہاتھ اور کندھے پر روح کا لمس محسوس ہوا وہ اس کا بازو تھا میں اس کے کندھے کے اپنا سر رکھ چکی تھی

یارم نے نرمی سے اپنا حصار اس کے گرد کھینچتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا  کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔گھر کے باہر گاڑی روک ہر یارم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔

لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اس کی لریزتی پلکیں دیکھ چکا تھا

بڑی بھاری ہو گئی ہو ۔اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی تو اس کے لبوں پر شرارتی سی مسکان کھلی

اور کھلایں نہ وہ دوائیاوں کی دکان اب ہو گئی نہ میں موٹی اب کیسے اٹھاکے چلیں گے مجھے۔۔وہ دونوں آنکھیں پٹپٹاتی سیریس انداز میں بولی۔

تم ایک بار بنا کوئی بھی مستی کیے یہ کورس مکمل کر لو میں ساری زندگی تمہیں یوں ہی اپنی باہوں میں اٹھا کر چلوں گا۔وہ محبت سے بولا تو روح نے آنکھیں گھومئی ۔

اور اگر میں دوائیاں نہیں کھاؤں گی تو کیا آپ مجھے اپنی باہوں میں نہیں اٹھائیں گے وہ اس کے گلے میں باہر ڈالتی اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے بولی

تم دوائی ضرور کھاؤ گی روح وہ سختی سے بولا تھا ۔

ہاں تو میں کب انکار کر رہی ہوں میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک دن نہ کھانے سے کون سا کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں ہوجائے گا بہت کچھ ہو جائے گا مجھے دوائی کھانی چاہیے ضرور کھانی چاہیے ۔وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر یارم کی سخت انگلیوں کا ہلکا سا لمس محسوس ہوا وہ فورا بات بدل گئی ۔

گڈ گرل بے بی ۔۔وہ اسے لئے گھر کے اندر داخل ہوا

بس ذرا ذرا سی بات پر گھورنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی موٹی موٹی آنکھوں سے ۔کوئی ان کو بتائے نیلی آنکھیں خوبصورتی کی نشانی ہوتی ہیں نہ کہ وہ دہشت پھیلانے گی ۔وہ برابڑتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کی اس سرگوشی پر اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکا تھا

ہاں بس نمائش کروالیں ان سے اور تو کوئی کام ہے نہیں وہ اس کے ڈمپل میں انگلی گھساتی اس کی مسکراہٹ کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

جبکہ اس کی اس حرکت یارم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی

یارم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس لکے لیے ڈنر بنایا ۔وہ سچ میں کمال کا کوک تھا اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا ۔اور اگر ذائقہ نہ بھی تو تب بھی ہارم کی بےپناہ محبت پر وہ انکار نہیں کرسکتی تھی ۔

اور پھرظالم جس ادا سے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا کوئی انکار کر کے دیکھائےوہ اس کے ہاتھوں سے کھاتی سوچ رہی تھی جب اپنی بےلگام سوچوں پے لعنت ڈالتی اونچی آواز میں بولی

اللہ نہ کرے۔کہ آپ کسی اور کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیں  ۔

کیا بول رہی بےبی منہ کھولو ۔بس یہ تھوڑا سا رہ گیا ہے ۔اس کی بات کی گہری سمجھے بغیر یارم نے ایک اور نوالہ اس کے منہ میں ڈالا

اس وقت یارم کے لیے اس کا کھانا اہم تھا ۔ورنہ یقیناً اس کے اظہارِ جلن پر وہ خوش ہوتا۔کیوں کہہ روح بھی اس کے معاملے میں کافی پوزیسسو ثابت ہوئی تھی اسے بھی پسند نہیں تھا اپنے علاوہ یارم کی توجہ کا مرکز کسی اور کی ذات دیکھنا ۔

اکثر مارکیٹ یا شاپنگ مال میں وہ اس سے آگے پیچھے کہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔

جب کہ وہ جانتی بھی تھی کہ یارم اس کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا

ہاں لیکن اس کی یہ جلن یا رم کو بہت بھاتی تھی ۔اسے اچھا لگتا تھا روح کا اس کے لیے اتنا ٹچی ہونا لیکن یہ وقت خوش ہونے کا نہیں تھا کیونکہ وہ کھانا بنانے میں پہلے ہی لیٹ ہو چکے تھے ۔روح تو بہت خوشی کے ابھی تک اس کا منہ کڑوانہیں ہوا تھا لیکن یارم کو اس کی فکر لگی ہوئی تھی ۔

میرا بچہ جلدی سے یہ ختم کرو ۔پھر میں تمہیں اچھی سی چائے بنا کر پلاتا ہوں ۔وہ چائے کیلئے پانی چڑاتا بہت محبت سے بولا تھا ۔

مطلب آپ کو یاد ہے یارم آپ کی یاداشت کتنی اچھی ہے نا مجال ہے جو کچھ بھول جائیں

وہ دانت پیستی یار م کو مسکرانے پر مجبور کر گئی

لو جی پھر شروع ہوگئی نمائش ۔

ہٹیں پیچھے آج چائے میں بناوں گی۔وہ کرسی سے اٹھ کر بولی

نہیں روح تم ابھی گیس کے قریب نہ آو یہ خطرناک ہے وہ اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتا اسے واپس بیٹھانے لگا۔

یارم اب بس کریں نہ پلیز میں تنگ آ گئی ہوں یوں بیٹھے بیٹھے ۔۔پلیز کم از کم چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔وہ منت کرنے والے انداز میں بولی  ۔

نہیں روح پلیز ابھی نہیں صرف کچھ ٹائم صبر کر لو پھر سب تم نے ہی تو کرنا ہے نا وہ سمجھنے والے انداز میں بولا تو روح منہ بنا کر واپس بیٹھ گئی ۔

آج میں تمہیں بہت مزے کی چائے پلاوں گا۔وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے منانے میں کامیاب ہوا تھا۔

اور واقع ہی اس کی چائے بہت زبردست تھی ہمشہ کی طرح وہ اس میٹھی میٹھی چاِپئے کے بعد وہ اسے گندی گندی دوائیاں کھلانے والا تھا۔جس پر اس کا منہ ساری رات اس کڑوے زہر کے زیراثر رہے گا

آخر کب ختم ہو گا یہ میڈیسن کا سلسلہ وہ سوچتے ہوئے یارم کے پیچھے منہ بنائے کمرے میں آئی تھی

°°°°°

یارم اب نہ میں آپ سے پکی والی خفا ہو جاوں گی اسے میڈیسن باکس لیے اپنی طرف آتا دیکھ وہ منہ بنا کر بولی

کوئی بات نہیں بےبی مجھے میرے بچے کو منانے کا طریقہ آتا ہے وہ محبت سے اس کا ماتھا چومتامیڈیسن نکالنے لگا

آپ کو پتا ہے کوئی بھی کام زبردستی کروانے سے گناہ ملتا ہے آپ کو بھی گناہ مل رہا ہے جب آپ مجھے زبردستی یہ دوائیاں کھلاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے توبہ کر لیں  ۔کسی بھی طریقے سے جب وہ اس کی باتوں میں نہیں آیا تو روح اب اسے خدا سے ڈر آنے لگی ۔

لیکن میں یہ کام تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں اور جو کام کسی کی بھلائی کے لیے کیا جائے اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا

ہیں۔۔۔۔! بھلائی کیا بھلائی ہے اس میں اچھے خاصے منہ کو کڑوا بادام بنا کے رکھ دیتے ہیں آپ اور آپ کہتے ہیں کہ یہ میری بھلائی ہے آپ کھائے ذرا یہ دوائی ذرا بیمار ہوں آپ۔۔۔۔ استغفراللہ کیا بکواس کر رہی ہوں میں اللہ نہ کرے آپ کو کچھ بھی ہو کوئی بھی بیماری آپ کو چھو کر بھی گزرے وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتی اللہ سے معافی مانگتے ہوئے اپنی بات کی توبہ کرنے لگی ۔۔پھر زراواقفے سے بولی

آپ ذرا یہ دوائی کھائیں پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کیسی ہے ۔گلے سے نیچے نہیں اترتی یہ تو میں صرف آپ کی خاطر سمجھوتا کر لیتی ہوں ۔ورنہ میں ساری زندگی اسے منہ نہ لگاتی

اپنا منہ کھولتے ہوئے وہ روز کی طرح اپنی بڑاس بھی نکال رہی تھی

آخر اس سوتن بیماری کو خود کے اور یارم کے بیج سے نکالنا بھی تو تھا

ورنہ اس کا تو یہی کہنا تھا کہ اس کی اس سوتن بیماری سے یارم کو اس سے زیادہ محبت ہو گئی ہے

یہ دوائی تمہاری احسان مند رہے گی ساری زندگی کے تم نے اسے منہ لگایا ۔وہ شرارتی انداز میں اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگاتے ہوئے بولا تو روح نےآخری گولی بھی نگل لی

گڈ میرابچہ اب جلدی سے لیٹ جاؤ سونے کا وقت ہو گیا ہے

یارم مجھے ابھی نہیں سونا مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔وہ جلدی سے بولی تھی ۔

ہم صبح باتیں کریں گے اس وقت تمہیں سونا ہے چلو شاباش وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے زبردستی بیڈ پر لیٹ آنے لگا

نہیں نا یارم مجھے نہیں سونا پلیز نہ ہم تھوڑی دیر باتیں کرتے ہیں پھر سو جائیں گے نہ روح کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی میڈیسن میں ایک میڈیسن نیند کی بھی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر اس سے دیر سے سونے کی ضد کرتی تھی لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ رات میں اس کی نیند ڈسٹرب و یا وہ ڈر کر جاگ جائے

ورنہ شاید وہ خود بھی اسے اتنی جلدی سونے پر کبھی مجبور نہ کرتا

اوکے بابا ہم کر رہے ہیں باتیں آرام سے لیٹ جاؤ میں بھی یہی ہوں تمہارے پاس وہ مان جانے والے انداز میں کہتا بیڈ کی دوسری جانب آیا تو روح کو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ اسے سینے سے لگایا تھا

اور اب یقیناً روح کی بے تکی باتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا ۔

اور انہی باتوں کے دوران ہی اس نے گہری نیند میں اتر جانا تھا یارم جانتا تھا

°°°°°

یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔جلدی لیلیٰ ماں بن جائے گی ۔اورخضر ماموں کا ایک پیارا سا بیٹا ہوگا یا شاید بیٹی لیکن یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔

کاش ہمارا بچہ ہوتا تو اب تک تو کچھ ہی وقت میں وہ ہمارے پاس آنے والا ہوتا

ہم دونوں اس سے بہت پیار کرتے ہیں نا یارم ۔

لیکن شاید میں اس کی ماں بننے کے قابل نہیں تھی اسی لئے تو وہ آیا ہی نہیں شاید میں ہی اللہ کے دیے اس تخفے کو سنبھال نہیں پائی ۔ایک بار پھر سے اپنے اندر خالی پن کا احساس جاگتے ہی روح اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی اور یارم نے سختی سے لب بھیج لیے

یہی وجہ تھی روح میں تمہیں لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے رہا تھا ۔اس طرح سے رو رو کر تم اپنی طبیعت خراب کر لوگی

جو کچھ بھی ہوا وہ سب ہمارے نصیب کا لکھا تھا خبردار جو تم نے اس میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا ۔

وہ ہمارے نصیب کی اولاد نہیں تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ بے اولاد رہیں گے ان شاء اللہ جلد بھی ہمارے بچے ہوں گے ۔اور ہم انہیں بہت پیار کریں گے بہت خیال رکھیں گے ۔

اور اس طرح سے آنسو بہا بہا کر اللہ کو ناراض نہ کرو۔وہ بے نیاز ہے ہمیں اوقات سے بڑھ کر نوازے گا ان شاءاللہ ۔لیکن اس طرح سے رو رو کر تم نا قدری کر رہی ہو جو ہے اس کی  ۔وہ اسے سختی سے ڈپتے ہوئے بولا ۔

اچھا نہیں کہتی کچھ بھی ڈانٹتے کیوں ہیں ۔۔۔! وہ لاڈ سے اس کے گرد باہیں پھیلائے بولی۔

ڈانٹ کہاں رہا ہوں بس سمجھا رہا ہوں ۔اپنی اس نا لائق اسٹوڈنٹ کو ۔یا رم نے اسے اپنے مزید قریب کیا

میں نالائق نہیں ہوں ۔وہ روٹھے روٹھے انداز میں بولی

ہاں بہت لائق ہو تم ۔مجال ہے جو کوئی بھی بات اس نھنے سے ذہن میں بٹھا لو ہر چیز پر ضد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو ۔اس کے روٹھنے پر یارم نے اسے مزیدچھڑا۔

بس بہت ہوگیا یارم بہت اڑا لیا آپ نے میرا مذاق ہے ایک بار  ٹھیک ہو جانے دیں مجھے منہ بھی نہیں لگاؤں گی آپ کو ۔دن رات بیماری بیماری کرتے رہتے ہیں نہ پھر رہنا اسی سوتن بیماری کے ساتھ ۔

روح ہاتھ نہیں آئے گی تب وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر تکیے پر رکھتے ہوئے بولی ۔یہ ناراضگی کا اظہار کرنے کا طریقہ تھا یارم کو بالکل پسند نہیں تھا ۔کیوں کہ اسے باہوں میں لیے بغیر تو اسے ساری رات نیند بھی نہیں آتی تھی ۔

ہاں یہ بیماری مجھے پیاری ہے کیونکہ اس وقت یہ تم سے جڑی ہوئی ہے ۔لیکن تم نے اسے اپنی سوتن کیوں بنا لیا ۔ وہ پچھلے دو دن سے اس کی بیماری سوتن والےطعنے سن رہا تھا

سوتن ہی تو ہے جب سے یہ سوتن ہم دونوں کے بیچ میں آئی ہے آپ مجھے کم اور اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔

بتائیں کب کہا تھا آپ نے مجھے آئی لو یو میرا بچہ ۔۔۔بولنے بتائیں میں بتاتی ہوں آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا اور اتوار والے دن صبح کچن میں آپ کو یاد آیا تھا کہ میں آپ کی بیوی ہوں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں

ورنہ تو ہر وقت دوائیاں کھا لو روح

وقت پر سو جاؤروح

وقت پر کھانا کھاؤروح ۔

طبیعت خراب ہو جائے گی روح

بیمار پر جاؤں گی روح ۔

آپ کی ہر بات اس سوتن بیماری سے جڑی ہوتی ہے ۔ررح تو کہیں ہے ہی نہیں بس ہر جگہ یہ سوتن بیماری ہے

تو ہوا نہ آپ کو اس سوتن بیماری سے مجھ سے زیادہ پیار

وہ عجیب و غریب لاجک بیان کرتی اپنے بات کی وضاحت دے رہی تھی

اور یارم بھرپور توجہ سے اس کی ایک ایک بات کے ساتھ اس کے احساسات کو بھی سمجھ رہا تھا

ہاں یہ سچ تھا جب سے وہ ہوش میں آئی تھی یارم کو صرف اور صرف اس کی صحت کی فکر لگی ہوئی تھی ۔

وہ صرف اور صرف اس کی پروہ کر رہا تھا اس کا خیال رکھ رہا تھا

وہ اسے محبت نہیں دے رہا تھا وہ اسے توجہ دے رہا تھا

اور سچ یہی تھا کہ یہ اس کی روح کے ساتھ زیادتی تھی ۔

جس کے لیے وہ خود کو قصوروار بھی سمجھتا تھا

لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی روح بالکل ٹھیک ہو جائے ۔اور یہ بیماری ان دونوں کے بیچ سے نکل جائے ۔

اور اس ان چاہی بیماری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے یارم کو فلحال اس کی صحت کی فکر کرنی تھی۔

تم ایک بار بالکل ٹھیک ہو جاؤ روح ۔

یارم کاظمی کی محبت پر ہی نہیں بلکہ اس کی سانس سانس پر صرف تمہارا حق ہےجو تم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔

کوئی بیماری ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آسکتی ۔

دنیا کی کوئی بھی چیز یارم کاظمی کیلئے روح سے زیادہ عزیز نہیں ہوسکتی ۔

بس ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ ۔پھر دیکھنا میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا ۔

وہ ایک ہی لمحے میں اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتا شدت سے کہتا اسے اپنے سینے میں بھیج گیا۔

ہاں میں بھی تبھی کی بات کر رہی ہوں میں آپ کو منہ نہیں لگاؤں گی اتنے نخرے دکھاؤں گی ۔کہوں گی جائیں نہ اپنے لاڈلی بیماری کے پاس میرے پاس کیا کر رہے ہیں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اترتی نہ جانے کیا کیا بڑابڑا رہی تھی ۔

لیکن اس کے باوجود بھی اپنی آنکھیں کھولے یا رم سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی

۔ایسی بیوقوفی بھری باتیں وہ ہوش میں کبھی نہیں کرتی تھی ۔

یہ سب ان میڈیسن کا اثر تھا جو اپنی سوچوں کو عجیب لفظوں میں پرو کر اس کے سامنے بیان کرتی تھی

ہاں لیکن وہ اپنے دل میں کچھ نہیں رکھتی تھی ۔

اور اس کی صحت کے لیے یہ بہت اچھا ہے

یارم کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ وہ بڑی مشکل سے آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی

میں یہاں اتنے سیریس موضوع پر بات کر رہی ہوں اور آپ مسکرا رہے ہیں چھپائیں اسے چھپائے اس ڈمپل کو ورنہ میں کھا جاؤں گی ۔

بلکہ نہیں آپ بھلا کیوں چھپائیں گے آپ تو نمائش کریں گے ۔آخر اللہ نے دیں جو دیا ہے ۔لیکن میں آپ کو بتا دوں یارم کاظمی صاحب اللہ نمائش کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا قہ سر گوشانہ انداز میں اس کے کان کے قریب بولی تھی ۔

جس پر یارم کے ڈمپل مزید گہرے ہوئے تھے ۔

اگر روح کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ رات کو وہ نیند کے خمار میں اس سے کیا کیا بولتی ہے ۔تویقیناً تین چار دن تو اس سے چھپ کر گزار دیتی

ہاں لیکن یہ الگ بات تھی کہ صبح اس کی شروعات بالکل نئی ہوا کرتی تھی رات وہ کیا کیا کہتی ہے اس کے ذہن میں ایک دی بات نہ ہوتی ۔

اس کی گرم گرم سانسیں وہ اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا مطلب کے شاید وہ سوچکی تھی ۔

یا رم نے اسے سیدھا کرنا چاہتا تو مزید یارم سے لپٹ گئی ۔

اس سے پہلے کہ یارم اپنی آنکھیں بند کرتا وہ اچانک سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔

کچھ رہ گیا کیا میرا بچہ ۔۔۔! وہ بہت محبت سے بولا  ۔

اینگو مینگو یارم ۔۔۔اینگومینگو سو مچ ۔۔اس کے معصومانہ انداز میں کہنے پر یارم کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھی

رات کے بارہ بجے اسے آئزلینڈک لینگویج بولنے کا جوش چڑ چکا تھا ۔

آئی لو یو ٹو میرا بچہ ۔۔۔وہ ایک بار پھر سے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا تھکنے لگا ۔

جب  اچانک اس نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا یارم نے ٹھنڈی بھری نہ جانے اب اسے کیا یاد آیا ہوگا ۔

اب کیا ہوا بےبی۔۔۔!یارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا

جب اچانک ہی وہ اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتی شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔

یہ جانے بغیر کے ایک اور رات کو ہی یارم کے لیے بہت مشکل بنا چکی ہے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بےحد قریب کی یہ وہ سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔

تمہیں اس سب کا حساب چکانا ہو گا روح بےبی ۔یہ سب کچھ کر کے تم اپنے آنے والے وقت کو مشکل بنا رہی ہو۔تمہیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا ۔یہ ساری حرکتیں معاف کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔اس کے ماتھے کو شدت سے چومتے وہ خود میں ہی کہیں قید کر لینا چاہتا تھا

°°°°°

یارم پلیز مان جائیں نہ میں وعدہ کرتی ہوں میں کوئی کام نہیں کروں گی کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاوں گی میں کچھ نہیں کروں گی پلیز مجھے لے چلیں نا ۔

وہ صبح اٹھتے ہی اس کی منتیں کرنے لگی تھی کیونکہ یارم نے کہا تھا کہ اب وہ اسے لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے گا

بلکہ میری اور شفا ہی اس کا خیال رکھیں گیں۔اور اس کے ایک ایک سیکنڈ کی رپورٹ اس تک پہنچائیں گیں ۔

سوری بےبی میں اس معاملے میں تم پر بالکل یقین نہیں کر سکتا ۔تمہارے ہاتھ پیر کنٹرول نہیں ہوتے اس لیے بہتر ہے کہ تم گھر پر ہی رہو اگر چاہو گی تو لیلیٰ یہاں آ جایا کرے گی لیکن تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گا ۔اس کا گھر میرے آفس سے بہت دور ہے اور واپسی کے راستے پر بھی تمہیں دیکھ نہیں پاتا

لیلی ماں بننے والی ہے یارم وہ بھلا روز روز یہاں کیسے آئے گی اور میں اپنے ہاتھ پیر کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گی نہ میں کوئی کام نہیں کروں گی آپ یقین کر کے تو دیکھیں ۔وہ اسے اپنے سامنے بٹھائےزبردستی ناشتہ کروا رہا تھا جس دوران وہ مسلسل اس کی منتیں کرتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

روح میں نے کہا نہیں تو اس کا مطلب نہیں ہے وہ سختی سے بولا ۔

اس کا مطلب نہیں ہے تو پھر میں بھی ناشتہ نہیں کروں گی اور نہ ہی وہ دوائیاں کھاؤں گی ۔وہ پھر سے ضدی ہونے لگی

جب اچانک یا رم نے غصے سے ایک ہاتھ ٹیبل پر مارا وہ اچھل کر دور ہوئی۔اور اب کچھ فاصلے پر کھڑی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی وہ کیا کرنے والا تھا  ۔

یارم اٹھ کر اس کے پاس آیا اسے ہاتھ پکڑ کر زبردستی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانے لگا سرخ آنکھوں میں اس وقت اتنا غصہ تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ناشتہ کرنے لگی اس وقت اس کے اندر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی کرنا تو ضد کرنا تودور کی بات تھی۔

ناشتہ کروانے کے بعد وہ اسی غصے سے اٹھ کر اس کے لیے دوائیاں لے کر آیا اور روح بنا چواں چراں کے کھانے لگی ۔جبکہ اس کی سختی پر آنکھیں نم ہو ہو رہی تھی لیکن اس کے سامنے آنسو بہانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جلدی سےباہر آو اور خبردارجو وہاں کوئی بھی کام کیا ۔وہ سختی سے کہتا باہر نکل گیا جبکہ روح اپنے کانوں پر یقین کرتی خوشی سے باہر بھاگی تھی ۔۔

روح تم نے اسے گود میں کیوں لیا ہے

اس کتے کو نیچے اتارو گاڑی میں۔بیٹھے ہی روح نے شونو کو اپنے گود میں دیا تو یارم کا غصہ ہمیشہ کی طرح ہائی ہوگیا ۔

یارم پلیز رہنے دیں نا بیچارہ بیمار ہے پہلے ہی اور آپ اس پر غصہ ہو رہے ہیں ۔

کل سے وہ کچھ سست کیا ہوگیا روح نے تو اسے بیمار ہی بنا لیا

۔وہ بالکل ٹھیک ہے بس تھوڑا سا موسم کا اثر لے رہا ہے لیکن اسے اپنی گود سے اتارو تم

 اور خبردار جو آئندہ تم نے اسے گود میں لیا وہ غصے سے شونو کا پٹا پکڑ کر پیچھے والی سیٹ پر پھینک چکا تھا

یارم آپ کیسے ایک معصوم چھوٹے سے جانور کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کر سکتے ہیں

روح نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا

۔ایسے ہی جیسے میں نے ابھی کیا ہے یارم نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی جب کہ شونوکا سارا سست پن پچھلی سیٹ پر جاتے ہیں ختم ہو چکا تھا

وہ تو مچلتا ایک بار پھر سے روح کی گود میں آنے کو تیار تھا

۔جب یا رم نے اسے گھور کر دیکھا

 وہ جانور جیسے اس کی نظروں کا محفوظ سمجھتا تھا ۔فورا ہی خاموش  ہوکر سیٹ پر بیٹھ گیا

 یارم کتنے بے رحم انسان ہیں کیسے گھور رہے ہیں اس معصوم کو میں پوچھتی ہوں کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا ۔جو آپ اس پر اس طرح سے غصہ ہوتے رہتے ہیں ۔

جانوروں کے ساتھ کوئی بلا اس طرح کا سلوک کرتا ہے ۔

اس کے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور شونو کے ڈر کر چپ ہو جانے پر روح خاموش نہ رہ سکی

کیا مطلب ہے کیا بگاڑا ہے کیا تم اب بھی نہیں جانتی کہ اس کتے کے بچے نے میرا کیا بگاڑا ہے ۔یہ تمہارے اور میرے درمیان آیا ہے

۔یہ تم سے میرا وقت لیتا ہے۔ وہ بھنا کر بولا ۔

یار م آپ ایسا نہیں کہہ سکتے بالکل غلط بیانی ہے یہ میں کب اس کے ساتھ آپ کے ہوتے ہوئے وقت گزارتی ہوں جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تب ہی میں شونو کے پاس رہتی ہو روح نے فورا اس کی بات کی نفی کی تھی ۔یہ تو روح کو اپنی ذات پر ایک الزام کی طرح لگا تھا ۔

جب کہ اس وقت میں تم مجھے یاد کر کے میری محبت کا ثبوت بھی دے سکتی ہو

 ۔اپنی محبت کو ظاہر بھی کر سکتی ہو

لیکن تم نے تو اس کتے کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔

میرے حصے کا پیار تم اس کتے کے بچے کو دیتی ہوں ۔یہاں تک کہ تم اسے اپنی گود میں بیٹھاتی ہواس کے بال سہلاتی ہو۔اس سے پیار کرتی ہو ۔کتے کی طرف داری پر یارم بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا ۔

جب کہ اس کے بات مکمل ہوتے ہی شونو نے ایک بار پھر سے بھونکتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلایا ۔

دیکھا دیکھا کباب میں ہڈی اسے ہی کہتے ہیں اس نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر شونوکو دیکھتے ہوئے جتلایا

شونو میری جان خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ آپ کے پاپا ابھی غصے میں ہیں۔

 یارم کا غصہ دیکھتے ہوئے اس نے شانوکی جان بچانے کی خاطر کہا۔

 روح تم نے پھر سے مجھے اس کتے کا باپ بولا۔روح بات پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا

۔او سوری میں بھول گئی تھی شونو آپ کے پاپا نہیں بس آپ کی ماما کے ہسبنڈ ابھی غصے میں ہے ابھی آپ کچھ مت بولو روح نے بات بدلی

۔اور وہ بات بدل کر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں کر پائی تھی

 کیونکہ اس کی بات کا مطلب تو وہی تھا اب حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ  اسے ایک کتے کو گود لینا پڑ رہاتھا اب بہتر تھا یارم اس سے لڑنے کی بجائے اپنی ڈرائیونگ پر فوکس کرتا

 ورنہ پتہ نہیں وہ اس کتے سے اس کی کون کون سی رشتہ داریاں نکلوا لیتی

°°°°

خضر یارم کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہی آفس کے لیے نکلے

جب گاڑی سے روح اور شونو کو نکلتے دیکھ کر وہ بے اختیار ہی مسکرا دیا

 اسے یقین تھا کہ آج یارم اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں لائے گا کیونکہ کل کی ساری کہانی لیلی اسے سنا چکی تھی۔

اسو روح کو یہاں دیکھنے پر حیرت تو بنتی تھی۔

السلام علیکم ماموں کیسے ہیں ۔

روز کی طرح فریش سا چہرہ دیکھ کر خضر کو خوشی ہوئی تھی مطلب کے وہ اپنے ضد منوا کر یہاں آ چکی تھی ۔

میں تو بالکل ٹھیک ہو ماموں کی بھانجی لیکن تم ضد چھوڑو کیوں نہیں دیتی  اسے اتنا تنگ مت کیا کرو خضر نے سمجھایا

تم کون ہوتے ہو اسے یہ کہنے والے پیچھے سے آتے یارم نے اس کی بات سنی

۔ اور روح کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا ۔

یہ میری روح ہے خضر اس کا حق بنتا ہے کہ یہ مجھے تنگ کرے مجھے ستاۓ ۔تم اس کے ماموں ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے مجھ سے زیادہ چاہتے ہو ۔وہ اس کے روبرو کھرپڑا کہنے لگا تو خضر مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا

۔میری اتنی مجال کے میں اسے کسی کام سے منع کر سکوں ۔خضرت نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا

 ۔اس حادثے کے بعد یارم خضر کے ساتھ بھی مقابلے پر اتر آیا تھا

وہ روح کا اکلوتا رشتہ تھا ۔لیکن یہاں بھی یارم کا یہی کہنا تھا کہ اس سے زیادہ روح پر اور کسی کا کوئی حق نہیں

اور خضراس بات کو دل و جان سے قبول کرتا تھا

۔اس کی اتنی مجال کہاں کہ وہ یارم کے ہوتے ہوئے روح پر اپنا حق جتائے۔

 اپنا خیال رکھنا روح اور دوائی ٹائم پر کھانا میں لیلیٰ کو بتا کر جاؤں گا اور اس کتے سے دور رہنا ۔کتا کہیں کا صبح صبح لڑائی کروا دی۔وہ شونو کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولا تو خضر بے اختیار مسکرا دیا ۔

یہ کتا جب سے آیا تھا تب سے ہی یارم کو اس سے سخت چڑ تھی

لیکن اس کے باوجود بھی جن دنوں میں روح بیمار تھی یا رم نے کسی عزیز کی طرح اس کا خیال رکھا تھا ۔

یارم اظہار کرے نہ کرے لیکن روح کی جان بچا کر یہ کتا اس کے لئے بھی بہت خاص ہو چکا تھا

اور وہ بھی اسے اپنے ہی گھر کا ایک فرد سمجھنے لگا تھا

 ۔یارم کے گھر میں دو نہیں بلکہ تین جانے بستی تھی

اس بات کو یار م قبول کرتا تھا ۔روح کو بے شمار ہدایت دینے کے بعد وہ اپنے کام کے لئے نکل چکے تھے ۔

جبکہ یہاں سے آفس پہچنے کے درمیان میں لیلیٰ کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود بھی روح نے چائے بنائی ۔

تمہارا شوہر مجھے سولی پر ٹانگ دے گا اور تم وہی سامنے کھڑے ہو کر نظارہ کرو گی

 اچھی طرح سے سمجھ رہی ہوں میں تمہاری پلیننگ ۔مروانا چاہتی ہونا  مجھے تو ماپنے یاں کے ہاتھوں۔ ۔

 تو صاف صاف کہہ دو ہو سکتا ہے تمہیں خوش کرنے کی خاطر وہ مجھے مار ڈالے

لیکن اللہ کا واسطہ ہے روح مجھے قسطوں میں مت مارو ۔

اس طرح سے میری سانس رکنے لگتی ہے ۔

ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ہٹلر واپس آ ہی نہ جائے دیکھو روح اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ایک نھنی سی جان بھی ہے میرا نہ سہی ہے اس معصوم کا ہی خیال کر لو ۔

لیلیٰ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی

۔اتنے بھی برے نہیں ہیں یار م جتنا تم سمجھتی ہو

تمہیں پتا ہے کل انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ اتنے پیار سے میرے لیے کھانا بنایا روح نے اس کا خوف کم کرنے کی خاطر بولا

 ۔لیکن اب لیلی بیچاری اسے کیا بتاتی کہ جو کچھ بولنا تھا وہ تو کل اسے کہہ کر گیا تھا

وہ اسے زندہ زمین میں گاڈے کی بات کر رہا تھا اور روح اب بھی بے فکری سے وہی سارے کام کر رہی تھی جن سے یارم کوچڑ تھی

°°°°°

ڈیول  اس سب سے تمہیں بہت غصہ آرہا ہوگا لیکن تم خود سوچو کہ اس کام میں کتنا فائدہ ہے اور ہم کسی کے ساتھ کی کوئی زبردستی نہیں کرتے

 وہ لڑکیاں  خود میرے لڑکوں کی محبت میں ہار کر یہاں تک کہ چلی آتی ہیں ۔

اور ان میں سے کوئی بھی نیک اور پارسا لڑکی تو نہیں ہو سکتی جو آدھی رات کو اپنے معشوق سے ملنے کے لیے اپنی عزت کی پرواہ کیے بغیر ایسی جگہوں پر آجائے

 ۔اپنی مرضی سے آتی ہیں وہ سب اور پھر ان میں اچھی لڑکیاں نہیں ہوتی ۔یہ لڑکیاں محبت کے نام پر فریب دیتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ خود فریب میں آ جاتی ییں اور اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے

وارث بہت مزے سے اسے اپنے کارنامے سنا رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت نیک کام کر رہا ہو

 یارم نے ایک نظر سامنے کھڑے پانچ خوبصورت لڑکوں پر ڈال

۔یہ اسٹائلیش اور خوبصورت لڑکے کیسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتے تھے

شکل سے کسی امیر گھرانے کے لگتے تھے ۔اور ایسے لڑکوں کا  ہی تو خواب لڑکیاں دیکھتی ہیں

 ۔جو یہ سوچتیں ہیں کہ کسی امیر لڑکے کو اگر ان سے پیار ہو جائے تو ان کی ساری زندگی سنور سکتی ہے ۔لیکن ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے گھٹیا ارادوں کو وہ لڑکیاں کیوں نہیں سمجھ پاتی ۔اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں گنوا دیتی ہیں ۔

کیوں وہ کردار کو مضبوط نہیں رکھ پاتی

کیوں عورت اپنا معیار اتنا گرا دیتی ہے

کیوں اپنے شوہر کی امانت میں خیانت کر کے اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کر دیتی ہے

 ۔ان لڑکیوں کو سوچتے ہوئے اسے ایک پل کے لئے اپنی روح کی یاد آئی تھی پاکیزہ معصوم مضبوط کردار کی مالک جو اپنے شوہر کو ہی اپنے تن بدن کا مالک سمجھتی ہے

 اور دین حق پر چلتی ہے اور دوسری طرف تھی یہ لڑکیاں صرف خوبصورت چہرے اور چند پیسوں کے خاطرکیسے اپنا آپ برباد کر دیتی تھیں۔ اس کے سامنے میز پر ستر سے زیادہ ویڈیو کلپ کی ڈیٹیلز پڑی تھی ۔جن میں ان لڑکیوں کی عزت کا سودا کیا جارہا تھا

میں نے تمہیں منع کیا تھا وارث کوئی بھی ایسا کام مت کرنا کہ جیسے تم میری نظروں میں آؤ

 لیکن تم نے وہی کیا اب تم بتاؤ تمہیں اس گناہ کی کیا سزا دوں

 ۔ڈیول نے جیسے اس کی تقریر سنی ہی نہیں تھی ۔

ڈیول میں تمہیں بتا تو چکا ہوں میرا کوئی قصور نہیں ہے یہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں کھینچی یہاں چلی آتی ہیں ۔اور ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی زبردستی کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوئی تم یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہو

یہ لڑکیاں اپنی مرضی سے میرے لڑکوں کے ساتھ تعلقات بناتی رہی ہیں وارث اب بھی اپنا جرم قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور یہ بات یارم کو مزید غصہ د** رہی تھی

شارف نے میز سے اوریجنل سی ڈی اٹھاتے ہوئے توڑنا شروع کر دی تو وارث کو بہت غصہ آیا لیکن ڈیول کے سامنے کچھ بھی بولنا اس کی اوقات سے باہر تھا

۔سامنے کرسی پر بے نیاز اور بے فکر بیٹھاوہ شارف کو یہ کام کرتے دیکھ رہا تھا

۔باقی کچھ اور بھی ہے یا بس یہی ہیں شارف نے پوچھا

۔اور کچھ نہیں ہیں بس یہی سی ڈیز تھی جو تم نے ضائع کر دی وارث نے شارف کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر کہا ۔

بیٹا ابھی تو ہم تجھے بھی ضائع کریں گے اور تیرے ان لوگوں کو بھی اس کے اس طرح سے کہنے پر ہی خضر بھی بول اٹھا ۔

اسے پہلے لگا تھا کہ وارث اپنی غلطی کو قبول کرے گا لیکن وہ تو سینہ تانے اپنے گناہ کو غلط کہنے کو تیار ہی نہ تھا

اور ایسے لوگوں کاوہی انجام ہوتا ہے جو ڈیول آج تک کرتا آیا ہے ۔

کیا مطلب ہے تمہارا تم ایسے نہیں کر سکتے میرے ساتھ ڈیول میں نے تمہارا بہت ساتھ دیا ہے ۔

اور میں نے کبھی بھی تمہارے خلاف جا کر کوئی کام نہیں کیا

یہ لڑکیاں خود لوٹنے کو تیار ہیں تو کونسا آدمی پیچھے ہٹے گا ۔یارم کی خاموشی پر وارث پریشانی سے بولا تھا کیونکہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہوسکتی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ڈیول کی بیڈ لسٹ میں نا آجائے ۔

شارف ان لڑکوں کو یہاں سے لے کر چلے جاؤ ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی خوبصورتی کو غلط طریقے سے کیش کیا ہے

لیکن ان کی غلطی کی سزا بھی انہیں ملے گی

ان کی شکل صرف دیکھنے کے لائق ہونی چاہیے چاہنے کے نہیں وہ اٹھ کر ان لڑکوں کے سامنے کھڑا کہنے لگا تو پانچوں بوکھلا گئے

 ۔ڈیول ہمیں معاف کر دیں ہم سے غلطی ہوگئی ہم دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گے ان میں سے دو لڑکے یارم کے پیروں پر جھکے معافی مانگنے لگے

۔جب کہ ان دونوں کو اس طرح سے معافی مانگتے دیکھ کر باقی تینوں بھی اپنی موت کو اپنے قریب دیکھتے ہوئے ہاتھ باندھ چکے تھے

 ۔ہم ایسا کام دوبارہ نہیں کریں گے ڈیول پلیز ہمیں چھوڑ دیں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے وہ لڑکیاں خود ہمارے ساتھ آنے کو تیار تھی

 اور جو بھی ہوا ہے ان کی مرضی سے ہوا ہے ہم نے کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کی

 وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے

لڑکی اپنی عزت اپنے عزت کے محافظ کے حوالے کرتی ہے جسے وہ چاہتی ہے جسے وہ اپنا مانتی ہے جس کی خاطر وہ اپنا تن من دینے کو تیار ہو جاتی ہے

محبت دنیا کی سب سے انمول چیز ہے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ اور اس تحفے کو تم نے اتنا بے مول کر دیا ہے کہ آج لوگوں کا محبت پر سے ایمان اٹھ گیا ہے

۔میں یہ نہیں کہتا کہ قصور صرف تم لوگوں کا ہے قصوروار وہ لڑکیوں کا بھی ہیں جو بنا کسی جائز رشتے کہ تم لوگوں کے ساتھ یہاں تک آتی رہی

اور کل ان سی ڈیز کی صورت میں بازاروں میں بکنے والی تھی ۔قصوران لڑکیوں کا بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے میں لڑکیاں دل سے سوچتی ہیں دماغ سے نہیں اور بعد میں تم لوگ  انہی معصوم دلوں کے ساتھ کھیل کر ان کی زندگی برباد کر دیتے ہو

کتنی عام سی بات ہے نا ہم اکثر سنتے ہیں کہ کسی لڑکی کا ایم ایس لیک ہوتے ہیں آج ایک لڑکی کا توکل دوسری لڑکی کا

 اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے کسی ایک جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی

 تو دوسری جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی کے باپ بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا

۔اور تم جیسے لڑکے پھر کسی دوسرے شکار کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہو ایک بار تم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ جس کو تم نے اس غلط راہ پر لگایا وہ اپنی جان گنوا چکی ہے

۔کل تک شاید ان لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہوگا ۔اور تم لوگ آج معافی مانگ رہے ہو

لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ڈیول کی کتاب میں معافی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔شارف لے جاؤ ان کو یہاں سے اور دوبارہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا

 یارم  سختی سے کہتا ایک بار پھر سے وارث کے سامنے آ بیٹھا تھا

۔تمہاری بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے نہ وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے ٹیبل پر پھینک چکا تھا وہ بھی کسی لڑکے کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہے ممکن ہے کہ کل ایسی ہی کوئی ویڈیو تمہاری بیٹی کی بھی لیک ہو جائے تم نے میرے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے وارث مجھے تم سے ایسے گھٹیا کام کی کبھی امید نہیں تھی ۔

میں امید کرتا ہوں کہ تم دوبارہ ایسا نہیں کرو گے

لیکن یہ مت سوچنا کہ تم ڈیول کی نظر میں گنہگار نہیں ہو

  میں تمہیں تمہارے گناہ کی سزا میں ضرور دوں گا لیکن اس سے پہلے تم اپنی بیٹی کو بچا لو

 جلد ملیں گے یارم نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو خضر اور شارف بھی اس کے پیچھے چل دیئے

جب کہ وارث بے چینی سے تصویریں دیکھ رہا تھا جو یارم اس کے سامنے ٹیبل پر پھینک کر گیا تھا

°°°°°

مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وارث کوچھوڑ دو گے خضر نے نکلتے ہوئے کہا

میں اسے سزا کیسے دے سکتا تھا خضرجبکہ اسے سزا اللہ نے دی ہے اس کی بیٹی کے روپ میں ۔

جس لڑکے سے وہ محبت کر بیٹھی ہے وہ ایسے ہی ایک گینگ پر لیڈر ہے

جو میری نظر میں بھی ہے ۔اور بہت جلد میں اسے بھی اس کے انجام تک پہنچ جاؤں گا لیکن وارظث کی بیٹی کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تب تک اس کی عزت کی حفاظت اس کا باپ کر سکے

۔مکافات عمل شاید اسی کو کہتے ہیں شارف نے کہا ۔

یہ تو حل ہو گیا اور دوسرے کیس کا کیا کرنا ہے اور جس کے بارے میں میں نے خضر کو سب بتایا تھا

کون سا کیس خضر نے تو کسی کیس کا ذکر نہیں کیا وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا ہاں وہ دراصل میرے دماغ سے نکل گیا یونیورسٹی میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا لڑکی کے انکار پر اس نے لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا یہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے لڑکی کی مسلسل سرجریز کی جارہی ہیں لیکن اب بھی حالات بہت خراب ہیں ۔اور اب ۔۔۔۔خضر نے بتاتے ہوئے ایک نظر اس کے ماتھے کی رگوں پر ڈالی تھی

۔اور پھر خاموش ہو گیا

اس کا ڈیول موڈ اون ہو رہا تھا جو ان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا

پوری بات بتاؤ خضر خاموش کیوں ہوگئے وہ غصے سے دہارا تھا

۔اور وہ لڑکا شادی کر رہا ہے آج رات اس کی شادی ہے ۔

وہ بات مکمل کرکے پھر خاموش ہو گیا ۔

مطلب کے ایک معصوم لڑکی کی زندگی کو برباد کرکے وہ خود شادی کر رہا ہے

۔ایک معصوم کی ساری خوشیاں لوٹ کے وہ اپنا گھر بسانے جا رہا ہے

اور اسے لگتا ہے کہ ڈیول ایسا ہونے دے گا

۔ایڈریس بتاؤ اس کا یارم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

۔مجھے یہیں چھوڑ جاؤ ڈیول مجھے اور کچھ کام ہے اس کا خطرناک موڈدیکھتے ہوئے شارف نے فورا کہا تھا ۔

ڈیول کے ایسے موڈ کے ساتھ وہ کہیں بھی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔

اسی لیے وہیں پر ہی اتر گیا جبکہ خضر یارم کو راستہ بتا رہا تھا ۔

ہیلو لیلی روح کا خیال رکھنا اور اپنا بھی ڈیول اور خضر کو آنے میں دیر ہو جائے گی ان کے جاتے ہی شارف نے لیلی کو فون کیا تھا

۔خیریت تو ہے لیلی نے ایک نظر باہر ٹی وی لگائے روح کی جانب دیکھا تھا

۔ہاں ٹھیک ہے سب کچھ بس ڈیول کا ڈیول موڈ آن ہوچکا ہے پتہ نہیں آج کس کی شامت آئی ہے بس دعا کرنا کہ وہ جو بھی ہو اس کو آسان موت ملے شارف نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تو لیلیٰ کی ہنسی نکل گئی ۔

فکر مت کرو میں روح کو سنبھال لوں گی اور تم بھی اپنا خون نا جلاو گھرچلے جاؤ معصومہ انتظار کر رہی ہو گی کیونکہ اتنی ہمت تم میں ہے نہیں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جا پاتے لیلی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا

لیلی میں تمہاری ہمت سے بھی اچھے سے واقف ہوں اور تمہاری طرح پریگنٹ ہو کر گھر نہیں بیٹھا بہت کام ہے مجھے ۔اتنا ہی فارغ ہوں نا وہ سنانے والے انداز میں کہتا فون بند کر چکا تھا جب کہ اپنی بات پر غور کرکے جہاں اس نے خود پر لعنت بھیجی تھی وہی لیلی کا قہقہ اسے فون بند ہونے تک سنائی دیتا رہا

وہ بنا آگے پیچھے دیکھے سیدھا شادی والے گھر میں داخل ہوچکے تھے
۔حال کو سرخ گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا
جبکہ ہر طرف لائٹنگ کی گئی تھی ۔
بے شک اس جگہ کی خوبصورتی بے مثال تھی
یارم کو اس ماحول سے نفرت ہو رہی تھی ۔
ایک معصوم سی لڑکی کو تباہ و برباد کر کے کیسے یہ شخص اپنی شادی کے شامیانے سجائے بیٹھا تھا ۔
وہ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوا سامنے ہی ایک آدمی بیٹھا ہاتھ میں سگار پکڑے ہوئے مہمانوں سے محو گفتگو تھا ۔
خضرتیزی سے آگے بڑھتے ہوئے اس شخص کا گریبان پکڑ چکا تھا
بیٹا کہاں ہے تمہارا۔۔۔۔۔
تم کون ہو اس طرح سے بدتمیزی کیوں کر رہے ہو
تم اندر کیسے آئے اور میرے بیٹے سے تمہیں کیا کام ہے وہ شخص انتہائی غصے سے اس سے پوچھنے لگا
جب خضرنے اپنی جیب سے پستول نکال لیتے ہوئے اس کے پیٹ کے ساتھ دبائی
پہلے مرنا چاہو گےیااپنے بیٹے کا بتاؤ گے ۔خضر نے فالتو بات کرنے سے بہتر موضوع پر آنا سمجھا
جب اس شخص نے اوپر سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا وہ یارم کو ایک نظر دیکھ سکتا خود سیڑھیاں پھلانگتے اوپر چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی یارم بھی انہی سیڑھیوں سے تیزی سے اوپر کے کمرے کی جانب بڑھا تھا
کون ہیں یہ لوگ اس طرح سے ہمارے گھر میں کیسے آگئے ہیں اور یہ اس طرح سے ہمارے بیٹے کا پتا کیوں پوچھ رہے تھے آپ نے کیوں بتایا کہ وہ اوپر ہے ان کے پاس پستول تھی وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں
۔پولیس کو فون کرو انہوں نے بیگم کی باتوں کا جواب دینے سے پہلے نوکر کو حکم دینا بہتر سمجھا
°°°°°
کون ہو تم لوگ اس طرح سے میرے کمرے میں کیسے گھسے
وہ اچانک کسی کوپستول لیے سامنے دیکھ کر بوکھلایااور تیزی سے اپنے فون کی طرف بھرا
لیکن اس سے پہلے ہی خضر نے اس کا ارادہ ہے بھانپتے ہوئے اسے کرسی پر بٹھا دیا تھا یہی تو بتانے آئے ہیں تمہیں کہ ہم کون ہیں
خضر نے کہتے ہوئے یارم کو دیکھا جو پرسکون سا سامنے والی کرسی پے بیٹھا تھا آنکھوں میں اس قدر غصہ تھا کہ خضر کوو یقین تھا یہ لڑکا آج اس کے قہر کا نشانہ ضرور بنے گا
خضر بھی زیادہ دیر اس کے شکار کے پاس نہیں رہا تھا
وہ پیچھے ہٹا تو یارم نے اس کی جانب قدم بڑھائے
جس لڑکی کو چھ دن پہلے یونیورسٹی میں تیزاب سے جلایا ہے تم نے اس کے بھائی ہم ۔کیا سمجھ کے رکھا تھا بے آسرا ہے بے سہارا ہے وہ ماں باپ سر پر نہیں ہیں ایک ہوسٹل میں رہتی ہے تو تمہارے کھیل کا سامن بن کئی ہے
آورتم جیسے امیرزادے اس کا فائدہ اٹھا سکو گے اس معصوم کی زندگی برباد کر کے کتنی آسانی سے شادی کر رہے ہو تم ایک بار بھی تمہیں خیال آیا کہ تم نے اس کی ساری زندگی برباد کر دی ہے پچھلے چھ دن سے کس اذیت میں ہے جانتے بھی ہو تم ۔ایک پل کے لئے بھی سکون حاصل نہیں ہے اس کو پل پل تڑپ رہی ہے وہ ۔اور اب تم تڑپو گے یارم ایک زوردار مکا اس کے منہ پر مارتے ہوئے دھاڑا تھا ۔
لیکن ہم تمہیں اس لڑکی کی تکلیف کا احساس نہیں دلاو کیونکہ اب تم بھی وہی تکلیف سہو گے وہ درد جو وہ لڑکی پیچھے چھ دن سے دن رات سہتی ہے وہی درد اب تمہارہ مقدر بنے گا
اس لڑکی کے ایک چھوٹے سے انکار کو تم لوگ انا کا مسئلہ بنا لیتے ہو نہ آج تمہاری آنا بھی اس تیزاب کی آگ میں جل کر مر جائے گی ۔یارم نے ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل اس کے سامنے کرتے ہوئے ڈکن کھولا تو وہ تڑپ اٹھا
نہیں مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کر دو خدا کے لیے چھوڑ دو مجھے وہ چیخنے لگا لیکن یارم کو اس پر رحم نہیں آیا تھا
خضر دروازہ کھول دو اس کی چیخیوں کی آواز باہر تک جانی چاہی اس کے حکم پر خضر نے دروازہ کھول دیا
اور اس کے بعد ڈیول نے اپنا کام کیا اس کی چیخ و پکار میں اسے اس لڑکی کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی جو نجانے کتنے وقت سے اس تکلیف کو سہ رہی تھی ۔
اس نے ڈکن کھول کر اس میں موجود تیزاب اس کے چہرے پر پھینکا تو کبھی نہ ختم ہونے والی چیخیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔تیزاب کی خالی بوتل سے چھلکا تیزاب ڈیول کے ہاتھ پر بھی گرا لیکن اس وقت اسے پروا نہیں تھی
۔اس کی چیخ و پکار اتنی بلند تھی کہ ساؤنڈ پروف روم کے کھولے دروازے سے آواز باہر تک جا رہی تھی ۔
اور یہی چیخ و پکار سن کر اس کے ماں باپ تیزی سے کمرے کی جانب بھاگے تھے
جہاں وہ اپنے بیٹے کا جلسا ہوا چہرہ دیکھ کر تڑپ اٹھے
اس کا باپ تیزی سے آگے بڑھا اور اس پر پانی پھینک نہ چاہا جب خضر نے اسے پکڑ کر دور پھینکا
اتنا بھی مت تڑییے جسٹس صاحب یہ آپ کی ہی غلطیوں کی سزا ہے
جو آپ کے بیٹے کو مل رہی ہے کیا پرورش کی ہے آپ نے اپنی اولاد کی یہ جو آج تکلیف آپ کا بیٹابرداشت کر رہا ہے وہیں تکلیف چھ دن سے ایک لڑکی بھی برداشت کر رہی ہے کیا سوچا تھا اس نے کہا کہ یہ جو چاہے گا وہ کرے گا اور اس کا باپ سے بچا لے گا ۔
لیکن معاف کیجیے گا یہ کیس آپ کی نہیں بلکہ ڈیول کی عدالت میں آیا ہے ۔اور ڈیول کی عدالت میں کسی کے باپ کی اولاد نہیں دیکھی جاتی ۔
یارم مے کہتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کی طرف دیکھا جو درد سے بے ہوش ہو چکا تھا
جائیں ہسپتال لے جائیں اسے اگر جان بچ گئی تو خوش قسمتی مت سمجھیے گا کیونکہ اب سے آپ کا بیٹا ویسی ہی زندگی جئے گا جیسی وہ لڑکی جئے گی ۔
یارم نے کہتے ہوئے خضر کو چلنے کا اشارہ کیا توجسٹس صاحب کی بیوی وہیں بیٹھ کر بری طرح سے بلکنے لگی ۔جبکہ جسٹس صاحب آپ اپنی بے پروا یوں کے نتیجے پر بے حد شرمندہ تھے
°°°°
روح یار آرام کر لو میں نے تمہیں بتایا نا یارم کو آنے میں وقت لگے گا تم سو جاو ورنہ وہ آکر مجھ پر غصہ ہو گا
لیلی اس کے پاس بیٹھی کب سے سونے کے لئے کہہ رہی تھی لیکن روح اس کی بات مان ہی نہیں رہی تھی
۔نہیں لیلی میرا دل بے چین ہو رہا ہے تم یارم کو فون کرو نہ ان سے پوچھو وہ ٹھیک تو ہیں
روح تم جانتی ہو نا وہ اس وقت فون نہیں اٹھاتا وہ اس وقت اپنے کام میں مصروف ہے ۔میں نے خضرکو بھی دو تین بار فون کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی فون نہیں اٹھا رہا اسی لئے تو کہہ رہی ہوں کہ تم آرام کرو وہ جیسے ہی آئیں گے میں تمہیں اٹھا دوں گی پھر تم یارم کے ساتھ گھر چلی جانا
نیند کی دوائی کھانے کے بعد بھی روح کو نیند نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کا دل بے چین تھا یارم روز وقت پر آ جاتا تھا اور اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا اگر کسی دن لیٹ ہو جائے تو لیلیٰ اسے دوائی وغیرہ کھلا دیتی تھی
لیکن آج تو وہ بہت لیٹ ہو گیا تھا گیارہ بج رہے تھے اور یارم کی واپسی کہ کہیں کوئی آثار نہیں تھے
لیلی کب سے اس کی منتیں کر کر کے تھک چکی تھی لیکن وہ بیڈ پر لیٹنے کو تیار ہی نہیں تھی
اس کا کہنا تھا کہ بیڈپر بیٹھتے ہی اسے نیند آ جائے گی
اور یارم کو اس کا یوں انتظار کرنا پسند ہے ۔جبکہ اس کی بےچینی نوٹ کرتے ہوئے شونو بھی بار بار مین گیٹ تک جاتا اور پھر مایوسی سے واپس لوٹ آتا ۔
°°°°°°
یارم تمہارا ہاتھ تو اچھا اس ہاتھ جل گیا ہے تمہیں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا
وہ اس کا بازو دیکھتے ہوئے کہنے لگا
میں بالکل ٹھیک ہوں خضر بس غصے میں دھیان نہیں رہا خیر تم اس پر کوئی پٹی وغیرہ باندھ دو کہ روح کو نظر نہ آئے
وہ خضر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا تو خضر نے فورانہ میں سر ہلایا
تمہیں ہسپتال چلنا چاہیے تیزاب سے اندر کی ہڈی تک جل جاتی ہے وہ تو شکر ہے کہ تمہیں صرف ٹچ ہوا ہے گرانہیں ورنہ شاید ہمارے لئے مشکل بن جاتی ۔
ویسے تمہیں یقین ہے کہ جسٹس صاحب پولیس میں ہمارا نام نہیں لے گے میرا مطلب ہے انہوں نے ہمارا چہرہ دیکھا ہے گاڑی اسپتال کے رستے ڈالتے ہوئے خضر نے پوچھا
مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک بہت اچھا اور ایماندار انسان ہے اس کی زندگی میں کبھی بے ایمانی نہیں کی ہاں شاید اپنے فرض کی خاطر اپنے بچوں پر دھیان دینا بھول گیا ہے ۔تبھی تو اس کے بیٹے نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے
باپ کی بے دھیانی اور ماں کی طرف سے ملنے والی آزادی سے بچے بگھر جاتے ہیں اور پھر ایسے بچوں کا یہی انجام ہوتا ہے
ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم دنیا میں کچھ بھی کر لے کوئی ہمیں کچھ کہنے کا حق نہیں رکھتا ۔لیکن ایسے لوگوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے ہی اللہ نے ہم جیسے لوگوں کو بنایا ہے ۔خضر نے گاڑی ہسپتال کے باہر رکی تو یارم نے ایک نظراس کو دیکھا جیسے یقین تھا کہ وہ اب اس کی بات نہیں مانے گا
یارم پلیز بنا کچھ کہے اندر چلو تمہارے ہاتھ میں کافی گہری چوٹ لگی ہے میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی بھی قسم کا کوئی بھی نقصان ہو
اور ویسے بھی ہم کافی لیٹ ہو چکے ہیں لیلیٰ بھی کتنی بار فون کر چکی ہے لیکن میں نے فون نہیں اٹھایا اور روح بھی پریشان ہو رہی ہو گی
میرے لیے نہ سہی لیکن اپنی روح کے لیے تو تم اتنا کر ہی سکتے ہو خضر نے مسکراتے ہوئے کہا جیسے اسے یقین ہو کہ اب یارم انکار نہیں کرے گا اور اس نے انکار نہیں کیا تھا بس ایک ہاتھ سے اسے آنے کا اشارہ کیا اور خود ہسپتال کے اندر چلا گیا
°°°°°°
گاڑی گھر کے باہر رکی تو شونوکے بھونکنے کی آواز شروع ہوتے ہی روح بھی تیزی سےاس کے پاس آتے ہوئے اس کے سینے سے آ لگی
وہ حیران ہوا تھاکہ وہ ابھی تک جاگ کیوں رہی تھی یہ اس کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں تھا لیکن پھر بھی غصہ اسے روح پر نہیں بلکہ لیلیٰ پر آیا تھا
جو اس کے آتے ہی اپنی صفائی دینے لگی ۔
ڈیول میں نے اس کی منتیں کیں کہ پلیز سو جاؤ تم نے میڈیسن لی ہے لیکن اس نے میری ایک بھی بات نہیں مانی اور تمہارا انتظار کرتی رہی ہے ۔
ہاں یارم میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی آپ کہاں رہ گئے تھے ۔
یہ مجھے زبردستی سونے کا بول رہی تھی میں نے اس بتایا بھی کہ آپ کو اچھا لگتا ہے میرا جاگ کر آپ کا انتظار کرنا لیکن یہ میری بات مان ہی نہیں رہی تھی
۔لیلیٰ جو اپنی جان بچانے کے لئے اس کی شکایت لگا رہی تھی اس کی شکایت پر اس کا منہ کھل گیا
کوئی بات نہیں میرا بچہ ہم ابھی گھر چل رہے ہیں اس نے شونو کو اشارہ کیا تو وہ اس کے اشارے کو سمجھتے ہی فورا گاڑی میں بیٹھنے کے لئے اچھلنے لگا تو دروازہ خضر نے اس کی مدد کرتے ہوئے کھول دیا ۔
ایک الودعی نظر خضر کی طرف دیکھا اور روح کو چلنے کے لیے کہا جب روح کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی
یار م آپ کو چوٹ لگی ہے یہ کیا ہوا آپ کو وہ بے چین ہو گئی تھی یارم نے بس نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے لئے دروازہ کھولا
اور تھوڑی ہی دیر میں ان کی گاڑی خضر کے گھر سے نکل چکی تھی
کیا بات ہے خضر تم اتنے پریشان کیوں ہو میں نوٹ کر رہی ہوں جب سے تم آئے ہو تب سے مجھے کچھ الجھے الجھے لگتے رہے ہو سب کچھ ٹھیک تو ہے ۔لیلی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاں سب ٹھیک ہے لیلی بس میں ایک بات کو سوچ کر تھوڑا پریشان تھا وہ لیلی کے گرد بازو پھیلائے اسے اندر لے جانے لگا تو لیلی بھی اس کے ساتھ اندر داخل ہوئی
کون سی بات تمہیں بے چین کر رہی ہے مجھے تو بتاؤ ہو سکتا ہے میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں لیلی نے ہمدردی سے پوچھا
تم نے نوٹ کیا ہے لیلیٰ روح اب پہلے کی طرح نہیں رہی
اب وہ یارم کے بغیر نہیں رہ سکتی
اب وہ یارم کو بےحد چاہتی ہے ۔بس میں سے سوچ رہا تھا کہ آج کام کے دوران یارم کو چوٹ لگ گئی کل کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر یارم کو کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔؟
تو روح کا کیا ہوگا ۔۔۔۔کیا روح اس کے بغیر جی پائے گی ۔وہ اپنی بے چینی اسے بتاتے ہوئے بہت پریشان لگ رہا تھا ۔
اللہ روح سے بہت پیار کرتا ہے خضر وہ کبھی روح کو یوں تنہا نہیں کرے گا روح اور یارم تو ایک دوسرے کے لئے تحفہ ہیں اور تحفے کبھی چھینے نہیں جاتے ۔لیلی ٰ نے مسکرا کر کہا تو اس کی بات پر خضر بھی ہلکا سا مسکرا دیا تھا لیکن اس کی بے چینی ختم نہیں ہوئی تھی
°°°°°
یارم بتائیں نا مجھے آپ کے ہاتھ پر کیا ہوا
یہ اتنی بڑی چوٹ کیسے لگی آپ کو
اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے وہ بس رونے کو تیار تھی
کچھ نہیں ہوا میری جان بس تھوڑی سی چوٹ لگی ہے ۔لیکن تم فکر مت کرو مجھے بلکل درد نہیں ہو رہا اس کی بے چینی دیکھتے ہوئے یارم نے محبت سے اس کے ماتھے کو چوما تھا
اتنی بڑی چوٹ لگی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ درد نہیں ہو رہا یقینا درد ہو رہا ہوگا آپ جھوٹ بول رہے ہیں یارم اللہ جھوٹ بولنے والوں کو پسند نہیں کرتا پلیز بتائیں نا مجھے کیا ہوا ہے آپ کو کیسے لگی ہے آپ کو یہ چوٹ وہ پھر سے پوچھنے لگی
اچھا چھوڑو اس کو یہ بتاؤ آئس کریم کونسی کھاؤ گی ۔سامنے آئس یم پالر کی ایک شاپ دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا
کچھ نہیں کھاؤں گی جب تک آپ مجھے نہیں بتاتے کہ آپ کے ہاتھ پر یہ چوٹ کیسے لگی ۔وہ ضدی انداذ میں بولی
مطلب کے اسٹرابری فلیور یارم نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا جواب مانگا ۔
کبھی کبھار چاکلیٹ بھی کھا لیا کرو یار وہ بھی بری نہیں ہوتی ۔ویسے بھی میری جان دوائیاں کھا کھا کے اپنا منہ کڑوا کر چکی ہے اب آئسکریم تو بنتی ہے ۔یہیں بیٹھو میں ابھی لے کر آیا ۔
یارم پہلے بتائیں یہ چھوٹ۔۔۔۔۔۔
بس روح جس چیز سے تمہارا کوئی مطلب نہیں ہے اس سے ریلیٹڈ کوئی سوال نہیں وہ زرا سختی سے کہتا گاڑی سے نکلا
شونو کے لیے بھی لائیے گا ۔۔اسے گاڑی سے نکلتے دیکھ روح نے یاد کروایا ۔اب یہ تو کلیئر تھا کہ وہاں سے کچھ نہیں بتانے والا پھر سختی بھی لر رہا تھا اور آئس کریم بھی زبردستی کھلائے گا تو بہتر تھا کہ وہ فائدہ اٹھا لیتی ۔
روح کیا تم اس آسٹریلین کتے کو آئسکریم بھی کھلاؤ گی یارم کہاں کہاں اپنی حیرانی کی کو چھپانے کی کوشش کرتا ۔روح زندگی کے ہر موڑ پر اسے اس کتے کو لے کر جھٹکے دیتی تھی
ہاں تو اب کیا ہم کھائیں گے اور یہ ہمارا منہ دیکھے گا ۔اس کے لیے ضرور لائیے گا ورنہ میں بھی نہیں کھاؤں گی ۔وہ منہ بنائے فل نخرے دکھانے کے موڈ میں تھی یارم سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا
تھوڑی دیر میں واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں شونو کے لئے ایک الگ کپ تھا جو کہ روح نے ایک اچھی ماما کی طرح پہلے شونو کو ہی دیا ۔
اور یارم کی خیرت انتہا کی حد یہاں ختم ہوئی تھی جب اس نے اپنی بیوی کے اس بیٹے کو آئس کریم کے ساتھ مکمل انصاف کرتے دیکھا ۔
اور اب اس نے سیریز ہو کر سوچا تھا کہ اس سے پہلے کہ وہ اسی کتے کو اس کا بچہ بنا دے اسے اپنی اولاد کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہوگا
کیعنکہ روح اب اس کی ماما بن چکی تھی لیکن وہ اس کا باپ نہیں بن سکتا تھا
روح بےبی آج تم سو کیوں نہیں رہی ۔۔۔۔؟
مجھے نیند نہیں آرہی یارم
اور یہ نیند کیسے آئے گی اس نے دلچسپی سے پوچھا
کوئی اچھی سی فلم دیکھ سکتے ہیں اس نے آئیڈیا دیا
بہت بُرا آئیڈیا ہے جانےمن کیوں کہ اب تمہیں سو جانا چاہیئے پہلے ہی بہت وقت گزر چکا ہے ۔یارم نے اس کے آئیڈی پر نظرثانی کیےبغیر اپنا فیصلہ سنایا تو وہ منہ بنا گئی
کیسے بورنگ انسان ہیں آپ مجال ہے جو ذرا سے اپنے ہول سے باہر نکل آئیں
ہر وقت اتنی سیریل شکل بنا کے رکھتے ہیں آپ کا تو ڈمپل بیچارہ بھی سوچتا ہوگا کہ کس کے متھے لگ گیا ہوں سوری متھےنہیں گال ۔۔۔۔۔
وہ اپنی بات کی درستگی کرتے ہوئے بولی
جس پر یارم ذرا سا مسکرایا تھا
اور روح کو پھر سے اس کے ڈمپل پر چوٹ کرنے کا موقع مل گیا۔۔
لو جی شروع ہو گئی پھر سے نمائش یا اللہ مجھے ایک پیارا سا بچہ دی جس کے گال پہ ایسا ہی ڈمپل ہو اور وہ دل کھول کھول کر مسکراتا ھو
ان کی طرح کنجوس نہ ہو وہ دل سے دعا کرتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھنے لگی
یا اللہ مجھے ایک پیارا سا بچہ دیکھتا کہ اس کتے سونو کو اولاد نہ بنانا پڑے اور ہاں پیارے اللہ میری بیوی بہت معصوم اور جھلی ہے اس کی بات ماننے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ہمیں کوئی ڈمپل والا بچہ نہیں چاہیے
ہمارے گھر میں ایک ہی ڈمپل والا انسان کافی ہے وہ اسی کے انداز میں شرارت سے دعا مانگنے لگا
جس پر روح اسے گھور کر دیکھنے لگی
نہیں اللہ جی ان کی بات مت سنئیے گا ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے مجھے ڈمپل والا بچہ چاہیے وہ بھی ان سے زیادہ خوبصورت تاکہ پھر یہ اس سے جل جل کرسڑ جائے ۔
اور ہاں میرا بچہ ہستو ہونا چاہیے ہر وقت مسکراتا رہے اور ہر وقت اس کا ڈمپل چمکتا رہے وہ خیالوں کی دنیا میں اپنے بچے کے نقوش میں کھوئی ہوئی تھی
۔جب کہ یارم اس کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا
ہاں ہاں بےبی پہنچ گئیں تمہاری دعا اللہ کے پاس اور اللہ نے تمہارا خواہش نامہ سن بھی لیا اب سو جاؤ یار
یارم نے اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالتے ہوئے کہا
۔اف یارم سکون سے دعا بھی نہیں مانگنے دینا مجھے بس ہر وقت لڑتے ہی رہا کریں
وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے منہ بسورے بولی
اتنی دعائیں تو مانگ چکی ہومجھے بھی تو مانگ مانگ کر ہی حاصل کیا ہے اب کیا یہ ڈمپل والے بےبی کی دعا آج رات پوری بھی کروانی ہے
چلو جلدی سے سو جاؤ بہت وقت گزر چکا ہے ۔وہ اس کے اوپر کمبل تھیک کرتے ہوئے اسے زبردستی سلانے کی کوشش کر رہا تھا
۔آپ سے اچھا تو میرا شونو ہے کم از کم مجھے زبردستی سونے پر مجبور تو نہیں کرتا بس ایک بار ٹھیک ہو جاؤں میں پھر دیکھئے گا آپ منتیں کریں گے میری
روح جاگتی رہی ہو تب میں بھی سوتے رہوں گی وہ دھمکی دینے والے انداز میں بولی ۔ڈارلنگ تم بس ایک بار ٹھیک تو ہو جاؤ پھر جو میں کروں گا تمہارے ساتھ وہ تم ساری زندگی یاد رکھو گی ۔اس بیماری میں جتنا تنگ تم نے مجھے کیا ہے نہ اس سب کا حساب تمہیں دینا ہوگا
۔لیکن فی الحال تم سو جاؤ باقی باتیں کل صبح کریں گے کل کا سارا دن تمہارے نام کہیں نہیں جاؤں گا میں اس کا ماتھا چومتے ہوئے محبت سے بولا تو روح نے ایک بار پھر سے اسے گھورا ۔
کوئی احسان نہیں کر رہے آپ مجھ پر جانتی ہوں میں کل آپ نہیں جائیں گے آفس کیوں کہ کل سنڈے ہے ۔کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے میرے روکنے پر رک رہے وہ کمبل ٹھیک کرتی اس سے مزید لڑنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی
جبکہ اس کے انداز پر یار م بھی مسکراتے ہوئے اس کا سر زبردستی اپنے سینے پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا
°°°°°°°
یارم کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے بالکل پاس اس کے سینے پر سر رکھے گہری نیند سو رہی تھی
اس کے چہرے پر انتہا کی معصومیت تھی
جس پر یارم کو بے پناہ پیار آ رہا تھا
۔اور اسے اپنے اس حد تک قریب دیکھ کر اس کے دل میں خواہشات اور جذبات کا سمندر اٹھ رہا تھا
۔وہ اپنے جذبات پر لگام کھینچتا ہے اس کے قریب سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ روح نے اپنا سر مزید اس کے سینے میں چھپاتے ہوئے اسے اپنے قریب سے اٹھنے نہ دیا
ایسی حرکت وہ کبھی بھی ہوش میں نہیں کر سکتی تھی یقینا وہ سو رہی ہوگی
یارم نے ایک نظر اس کے چہرے پر دیکھا ۔وہ گہری نیند میں تھی یارم نے اس کا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹایا تو اسے اپنے قریب سے اٹھتے پاکر روح نے اپنا ہاتھ اس کے گرد پھیلا لیا
وہ یارم کے لیے ایک امتحان بن رہی تھی اب یارم کے لئے جانا مزید مشکل ہو گیا تھا وہ جینا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا وہ اسے اتنا ہی اپنی جانب کھینچتی تھی
اس نے مشکل سے روح کا پھیلایا ہوا بازو اٹھاتے ہوئے اس کا سر تکیہ پر رکھنا چاہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام ختم کر کے اس کے قریب سے اٹھتا روح کی آنکھ کھل گئی
اسے خود پر جھکے پا کر جہاں اس کی نگاہیں جھکنے لگی تھی وہی اس کی شرم و حیا پہلے دن کی طرح برقرار اسے روح سے دور ہونے نہیں دے رہی تھی ۔اس کا اپنا دل بے ایمان ہونے لگا تھا
اس نے نرمی سے روح کی آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوا تو اس کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ پھولوں کی طرح کھلی تھی
۔گڈ مارننگ میری جان یار م اس کے ماتھے پر مہر ثبت کرتا اپنے جذبات پر وہی لگام کھینچ کر اس کے قریب سے اٹھ کھڑا ہوا
۔جب کہ روح اسے اس طرح سے خود سے دور جاتا دیکھ کر اداس ہو گئی ۔وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے قریب نہیں آ سکتا لیکن وہ یوں دور چلا جائے گا یہ روح کو اندازہ نہیں تھا
°°°°°°°
وہ نہا کر باہر نکلا تو روح اب بھی بیڈ پر بے یقینی سے بیٹھی اس کو دیکھ رہی تھی
کیا ہوا روح تم ٹھیک تو ہو وہ بے چین ہوا تھا
نہیں یارم میں ٹھیک نہیں ہوں آپ مجھے یوں چھوڑ کر چلے گئے آپ مجھ سے دور جا رہے ہیں اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
نہیں میرا بچہ میں کہاں تم سے دور ہوں یہی توہوں تمہارے پاس وہ اس کے پاس بالکل قریب آ کر بیٹھا روح اس کے گرد بازو پھیلائے اس کے سینے پر سر رکھ گئی
نہیں یارم کچھ غلط ہو رہا ہے کچھ تو ہو رہا ہے آپ مجھ سے دور جا رہے ہیں آپ میرے پاس نہیں آتے پہلے کی طرح مجھے پیار نہیں کرتے اور اگر کبھی آ بھی جائیں مجھ سے دور چلے جاتے ہیں
یارم یہ سب کچھ کب تک چلے گا میں آپ سے دور نہیں رہنا چاہتی
دور تو تم سے میں بھی نہیں رہنا چاہتا روح لیکن یہ مجبوری ہے جب تک تم مکمل ٹھیک نہیں ہو جاتی تب تک ۔۔
میں ٹھیک ہوں یار م ۔میں بالکل ٹھیک ہو چکی ہوں لیکن آپ سے دور رہ کر میں پھر بیمار ہو جاؤں گی مجھ سے دور مت جایا کریں وہ اس کے سینے پر سر رکھے اپنے دل کی کیفیت بیان کر رہی تھی ۔
میں تم سے دور نہیں جا رہا ہوں بس کچھ دن کی بات ہے پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا حیر یہ سب باتیں چھوڑو جلدی سے فریش ہو جاو تب تک میں اپنی جان کے لئے ناشتہ بناتا ہوں
اور پھر تو آج کا سارا دن تمہارے نام ہے شام کو باربی کیو پارٹی کریں گے تمہارے ماموں اور ممانی کو بھی بلا لیں گے اورتم اپنے بھائی اوربھابھی کو فون کر کے تم خود بلا لو باقی اپنا انسپکٹر تو بن بلایا مہمان ہے وہ اپنی فیملی کو لے کر خود ہی آجائے گی بس اس کے کان تک خبر پہنچنے کی دیر ہے وہ مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے لب رکھتا اس کے قریب سے اٹھا ۔
جبکہ روح بھی اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے فریش ہونے جا چکی تھی
فریش ہو کر باہر آئی تو یارم ناشتہ بنا کر ٹیبل پر بھی لگا چکا تھا ۔
یہ رہا میری جان کا ہلکا پھلکا سا ناشتہ لنچ بھی ہلکا پھلکا ہی کریں گے کیوں کہ آج کاڈنر میری پیاری سی فائف کے لئے اسپشل ہوگا ۔جو کہ اس کا ہسبینڈ خود اپنے ہاتھوں سے بنائے گا
تو آج ہم سارا دن ہلکا ہلکا کھائیں گے تاکہ رات کو پیٹ بھر کر کھائے اور رات کو پیٹ بھر کر کھانے کے لئے ٹمی جگہ بھی تو ہونی چاہیے یارم نے پیار سے کہتے ہوئے اس کے لیے کرسی کھینچی تو بھی زور زور سے ہاں میں سر ہلا دی کرسی پر بیٹھ گئی .
اس کا شہزادہ اسے شہزادیوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا تو وہ کیوں نا اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتی
°°°°°
بہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر کی جانب آئی تھی لیکن ہاتھ میں زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے وہ دروازے پر ہی رک گئی
کھانے پینے کی اشیاء ہونے کی وجہ سے وہ انہیں زمین پر نہیں رکھ سکتی تھی جس کی وجہ سے اسے فلیٹ کا دروازہ کھولنے میں کافی مشکل پیش آرہی تھی
اس سے پہلے کہ معصومہ شارف کے لیے پھر سے نیچے جاتی اسے سامنے سیڑھیوں سے درک آتا نظر آیا
اللہ کا شکر ہے کہ تم آ گئے یقین مانو مجھے اس وقت کسی نہ کسی کی ضرورت تھی کیا تم میرے لیے اسے ہولڈ کرو گے وہ اپنا سامان اس کی طرح بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہنی لگی
درک جو اسے نظرانداز کیے آگے بھرنے ہی لگا تھا اس کے اس طرح سے سامان زبردستی پکڑآنے پر اسے روکنا پڑا
کہاں غائب رہتے ہوتم ویسے میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی تم نے شونو کو سنبھالنے میں میری بہت مدد کی تھی
لیکن میں دوبارہ فلیٹ پر آ نہیں سکی وہ کیا ہے نا شارف روز آفس کے لیے لیٹ ہو جاتا ہے اور ہمارا گھر بھی کافی دور ہے اسی لئے میں نے سوچا کہ میں اپنا فلیٹ کھلوا لیتی ہوں اور اب تم جانتے ہو کہ گر می بھی ہو رہی ہے تو اس سائیٹ پر گرمی بھی بہت ہوگئی یہاں سمندر کے قریب اتنی زیادہ گرمی نہیں لگے گی
کیا خیال ہے تمہارا ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ میں وہ اسے زبردستی کا دوست بناتے ہوئے کہہ رہی تھی
جبکہ درک نے صرف ہاں میں سر ہلایا جیسے اپنی جان چھڑوانا چاہتا ہوں
بڑے بے مروت ہو تم ایک بار پھر شونو کا حال ہی پوچھ لو تو تمہارا دوست تھا ۔معصومہ جو کب سے اپنی باتوں میں مگن اس کے پاس ہی کھڑی بولے جا رہی تھی پھر رک کر کہنے لگی
تمہاری دوست بیمار تھی نا اب وہ کیسی ہے وہ کھڑوس انداز میں بولا تو معصومہ کامنہ بن گیا
ماشاءاللہ سے اب ٹھیک ہے شکر ہے تمہیں یاد تو ہے کہ میری دوست بیمار تھی ۔تمہارا دوست بھی ٹھیک ہے وہ میری دوست کا بےبی ہے بےبی کا مطلب سمجھتے ہو نا بچہ اس کا شوہر اس سے بہت چرتا ہے لیکن روح کے لیے شونو بہت اہم ہے ۔
اس لیے وہ ہمیشہ اسے اپنے پاس رکھتی ہے جب وہ بیمار تھی تب وہ میرے پاس رہا درک میرے لئے وہ وقت بہت مشکل تھا لیکن تم نے میرا ساتھ دیا اس کے لئے شکریہ ویسے تم ایک بہت اکڑو مغرور پلس کھڑوس ٹائپ انسان ہو لیکن اس کے باوجود بھی شونو تمہارے قریب چلا گیا ایک بات بتاؤں وہ کتا آسانی سے کسی کے پاس نہیں جاتا
تم نے اس کا بہت خیال رکھا اس کے لیے میں سچ میں تمہارے شکرگزار ہوں میرے لئے اکیلے وہ سب حالات بہت مشکل تھے تم نے سچ میں میری بہت مدد کی ہے اس کے لئے بہت بہت شکریہ
جانتی ہو کافی لیٹ تمہیں تھینک یو کر رہی ہوں لیکن وہ کیا ہے کہ تم نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے ہو مہینوں نظر ہی نہیں آتے اب دیکھو نا جس دوران تم غائب تھے اس دوران میری شادی بھی ہوگئی ورنہ میں تمہیں اپنی شادی پر ضرور انوائیٹ کرتی
بہت باتیں کرتی ہوں معصومہ شادی مبارک ہو اور میں نے زوبی کو سنبھال کر میرا مطلب ہے تمہاری دوست کے شونو کو سنبھال کر تم پر کوئی احسان نہیں کیا تھا
مجھے جانوروں سے بہت لگاؤ ہے خاض کر چھوٹے جانوروں کے ساتھ ۔اپنی دوست کا خیال رکھنا اور زوبی میرا مطلب ہے شونو کا بھی وہ اس کا سامان اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ چکا تھا
جبکہ معصومہ کو آج بھی پہلے دن کی طرح ہی انتہا کا کھڑوس اور اکڑو لگا تھا ۔لیکن پھر بھی اس نے شونو کو سنبھالنے میں اس کی بہت مدد کی تھی جب روح یارم سے ناراض ہوکر پاکستان جا چکی تھی
ایسے میں شونو کی ذمہ داری معصومہ پر آ گئی تھی اور پھر اس حادثے کے بعد شونو اس کی بالکل کوئی بات نہیں مانتا تھا وہ روح کو مس کرتا تھا ہر وقت اداس رہتا تھا ایسے میں درک نے بہت ساتھ دیا تھا وہ شونو کو اپنے ساتھ لے کر چلا جاتا
اور پھر جب وہ اسے کو لے کر آتا تو شولو فریش ہوتا ۔اور یہ بات سوائے شارف کے اور کسی کو پتا نہیں تھی کہ شونو کو سنبھالنے میں درک نے اس کی مدد کی ہے کیونکہ یہ لڑکا ان کے لیے انجان تھا
وہ کون تھا کیا کرتا تھا معصومہ نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی
اور شاید وہ کبھی درک کے ساتھ بات بھی نہیں کرتی لیکن اس کی کالی آنکھیں اسے بالکل روح جیسی لگتی تھی ۔بس اس لئے وہ اس سے بات کر لیتی تھی اس نے ایک دو بار درک کو بتایا بھی تھا کہ اس کی آنکھیں اس کی دوست سے ملتی ہیں ۔
لیکن وہ ہمیشہ کی طرح کھڑوس سی شکل بنا دیتا تو معصومہ بھی نظر انداز کر دیتی
کیا کہہ رہا تھا تمہارا یہ کھڑوس دوست کیوں روکا ہوا تھا اسے دروازے پر شارف نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا
ارے میں نے نہیں روکا ہوا تھا سامان ہولڈ کرنے کے لیے کوئی نہیں ملا تو سوچا اسی سے تھوڑی سی مدد لے لوں
اور وہ میرا دوست نہیں ہے سمجھے میں صرف اس کو تھینک یو بول رہی تھی اس نے شونو کا بہت خیال رکھا تھا اس کے بعد وہ کہیں غائب ہوگیا آج نظر آیا تو تھینک یو بول دیا بس اور کچھ نہیں
وہ سامان کو ٹیبل پر رکھ رہی تھی جو کہ شارف دروازہ بند کرتے ہوئے اندر داخل ہوا
تم یہاں آرام سے بیٹھ گئے ہو اٹھوصفائی کروانے میں میری مدد کرو اب سے ہمیں یہی رہیں گے تو یہ جگہ ٹھیک سے صاف ہونی چاہیے تمہاری طرح گندگی میں نہیں رہ سکتی میں وہ اسے گھورتی ہوئی کہتی اٹھنے کا اشارہ کر رہی تھی
جبکہ شارف محبت پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا
شارف قسم سے اگر تمہاری نیت خراب ہوئی نہ تو اتنے جوتے ماروں گی کہ ساری زندگی یاد رکھوگے بدتمیز آدمی خبردار جو مجھے ایسی نظروں سے دیکھا
ایسی کسی نظر جانےمن میری نیت تو بہت صاف ہے وہ اس کے قریب آتے ہوئے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال چکا تھا ۔
شارف مجھے بہت کام ہے پلیز مجھے تنگ مت کرو وہ اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اب شارف کی نیت مکمل خراب ہو چکی تھی
ہم کام تھوڑی دیر بعد بھی تو کرسکتے ہیں ڈارلنگ ائی پرامس میں تمہاری پوری پوری ہیلپ کروں گا وہ اسے باہوں میں اٹھائے بہکے ہوئے انداز میں بولا تو معصومہ نظریں چڑا گئی بولڈ سی بے باک لڑکی یہاں آکر بالکل چھوئی موئی بن جاتی تھی
°°°°°
میری آنٹی بیڈ کے نیچے سے مت صفائی کریں وہ صاف ہے میں نے کل ہی اسے صاف کیا تھا اور وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سے بولی تو میری آنٹی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا
نو میم یارم سر غصہ ہوں گے ۔میں دوبارہ کر دوں گی وہ مسکرا کر کہتی بیڈ کے نیچے سے صفائی کرنے لگی لیکن اس بار ان کے جھاڑو کے ساتھ میڈیسن بھی باہر آئی تھی جنہیں دیکھ کر روح کی سانسیں رکنے لگی
میڈم آپ نے دوائی کیوں نہیں کھائی اگر یارم سر کو پتہ چل گیا تو وہ بہت غصہ ہوں گے جانتی ہیں نا آپ ۔میری کو اردو نہیں آتی تھی لیکن روح کے ساتھ رہ کر وہ کافی اردو سیکھ چکی تھی
آنٹی پلیز ان کو مت بتائے گا ۔پلیز مجھے یہ بالکل بھی پسند نہیں ہے لیکن یارم زبردستی کھلاتے ہیں تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی اسی لیے میں نے پھینک دی لیکن میں بتا رہی ہوں میں نے صرف صبع والی پھینکی تھی ۔اس سے پہلے کی ساری کھائی ہیں
اس نے منت کرتے انداز میں کہا جب یارم کمرے میں داخل ہوا ۔میری خاموشی سے یارم کو دیکھتی کمرے سے نکل گئی
روح میری جان یہ جوس پیو تمہارے لیے تمہارے ہینڈسم سے ڈمپل والے شوہر نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے یارم پیار سے گلاس اس کی طرف لے جاتا اس کے منہ سے لگا چکا تھا جبکہ روح پریشان تھی کہ میری کے ہاتھ میں میڈیسن دیکھنے کے باوجود بھی وہ بالکل بھی غصہ نہیں ہوا ۔
وہ جو اس کے غصے سے خوفزدہ تھی بے فکر ہوکر پیجوس نے لگی لیکن جوس پینے کے دوران اسے اپنے گلے میں کچھ اترتا ہوا محسوس ہوا اس نے یارم کو دیکھا وہ زبردستی گلاس اس کے لبوں سے لگائے ہوئے تھا
روح بہت کوشش کے باوجود بھی گلاس کو ہٹا نہیں سکی اور جوس ختم ہوتے ہی یار م نے گلاس ایک سائیڈ پر رکھا
بہت ضدی ہو گئی ہو میری جان لیکن کیا ہے نہ تمہارے یارم کو تمہاری رگ رگ کی خبر ہے تم نے وہ میڈیسن بیڈ کے نیچے پھینک میتو نں ے جوس میں ڈال کر تمہیں پیلا دی آئندہ ایسی حرکت مت کرنا ورنہ سخت سزا دوں گا ۔
پیار سے اس کے گال کھینچنااپنا لیپ ٹاپ اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی اور جب کہ روح پیر پٹکتی رہ گئی

وہ سب لوگ اس وقت یارم کے گھر پر تھے
صارم اپنے دونوں بچوں اور عروہ کے ساتھ بن بلایا مہمان تھا
جب کہ خضر اور لیلیٰ کو خود یارم نے انوائٹ کیا تھا
اور شارف اور معصومہ کو روح نے
یہ اچھا موقع تھا ایک ساتھ وقت گزارنے کا ۔
روح کو فلحال کوئی بھی ہیوی چیز دینے سے منع کیا گیا تھا لیکن یارم اس کی فیورٹ چیزیں اس سے دور کرکے وہ اسے اداس نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
اس لئے پہلے ہی اس کے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیا تھا ۔
اب روح پہلے سے کافی بہتر ہو چکی تھی
اور یارم نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اسے لے کر کہیں گھومنے جائے گا
تاکہ وہ اچھا محسوس کرے اور اپنی نئی زندگی کو کھل کر جئے۔
اس کا سارا دھیان کب سے صرف روح پر ہی تھا ۔جس کی معصومیت نے اس محفل کو چارچاند لگائے ہوئے تھے
وہ کبھی شونو سے بات کرتی تو کبھی لیلیٰ کو مامی کہہ کر چھڑتی
کبھی شارف کے سامنے کوئی نہ کوئی شرط رکھ دیتی
اس کی یہ ساری شرارتیں عروہ اور صارم کے ساتھ بھی جاری تھی ۔
ان سب میں اگر کوئی خاموش اور کچھ پریشان تھا تو وہ خضرتھا وہ نوٹ کر رہا تھا کچھ دن سے خضر کچھ پریشان پریشان رہتا ہے
اور یارم کو یہ مشورے بھی دیتا ہے کہ وہ روح کو اپنا عادی نہ بنائے
یہ جاننے کے باوجود بھی کی روح اس کے جسم کا نہیں بلکہ روح کا حصہ ہے ۔
دو تین بار تو یارم اسے جھڑک بھی چکا تھا کہ اپنے کام سے مطلب رکھو میری اور روح کی پرسنل لائف سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے
نہ جانے خضر کے دماغ میں کیا چل رہا تھا آج کل اس کے پاس یہی سب باتیں ہوتی کرنے کے لئے جن سے یارم کو اچھا خاصا غصہ آ جاتا
وہ جانتا تھا کہ خضر کبھی بھی اس کا برا نہیں سوچتا
وہ اس کا بہترین دوست ہے اور بچپن سے اس کے ساتھ ہے
لیکن وہ روح کے لیے یہ سب کچھ کیوں بول رہا تھا جب کہ وہ جانتا بھی تھا کہ وہ اس کی زندگی ہے اس کی جان ہے
وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ روح کو اپنا عادی مت بناؤ اسے لڑنا سکھاؤ دنیا کا مقابلہ کرنا سکھاؤ
وہ کیوں اسے دنیا کے سامنے مقابلے کے لیے چھوڑ دے ۔
وہ کیوں کوئی مشکل اس تک آنے دے
جبکہ روح کے سامنے اس کی ہر تکلیف سہنے اس کی ہر مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے وہ خود کھڑا ہے
جب وہ خود اپنی روح کا محافظ ہے تو وہ اسی دنیا سے لڑنا کیوں سکھائے ۔
اس کی روح تو بس اپنے یارم سے لڑنا جانتی تھی
روح سے پہلے ان لوگوں کی زندگی کیا تھی ۔۔۔۔؟
آج ایک جگہ سے برائی کو مٹایا کل دوسری جگہ سے مٹانا ہے ۔
آج ایک شخص کا گلا کاٹا ہے کل دوسرے کی جان لینی ہے ۔
یہ سب تو تھی ان لوگوں کی روٹین روح سے پہلے ان کی زندگی میں کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں کی وہ کہنے کو دوست تھے ایک دوسرے کے ساتھ تھے ایک ٹیم کا حصہ تھے
لیکن اس طرح مل جل کر بیٹھنا باتیں کرنا ایک دوسرے کو سمجھنا یہ سب تو انہوں نے کبھی بھی نہیں کیا تھا
یہ سب کچھ تو روح کے آنے کے بعد شروع ہوا تھا
روح کے ہاتھ کی بنی چائے سب کو پسند تھی ۔
اس روز روح نے انہیں پہلی دفعہ گھر انوائٹ کیا اور پھر یہ سب ان کا معمول بن گیا
خضر لیلی سے محبت کرتا تھا نہ جانے وہ اپنی محبت کتنے سالوں تک اپنے سینے میں دبا کے رکھتا پر لیلیٰ کو شاید کبھی پتہ بھی نہیں چلتا لیکن ایسا نہ ہوا
ان کے نصیب میں ایک دوسرے کا ساتھ تھا جو ملا
شارف نے اپنے جذبات کا اظہار معصومہ کے سامنے کیا ۔اور معصومہ نے اس کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس کی محبت کو قبول کیا
ان لوگوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزاریں گے
ان کی زندگی میں ان کے ہمسفر ہوں گے بچے ہوں گے
کتنی خوبصورت زندگی تھی ان سب کی
قانون اور جرم کے کھیل میں یارم اور صارم کی دوستی کہیں کھو سی گئی تھی اورعر وہ جسے وہ اپنی بہن کہتا ہی نہیں بلکہ دل سے مانتا بھی تھا اسے ملے ہوئے اسے سال سال گزر جاتا
لیکن روح کے آ جانے سے سب بدل گیا اس کی دوستی اس کے رشتے سب واپس آگئے
وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے جذبات کو سمجھنے لگا ۔
اور یہ سب کچھ ہوا تھا اس کی روح کی وجہ سے ۔وہ رشتوں میں جینے والی رشتوں کو سمجھنے والی لڑکی اسی جینا سکھا گئی تھی
اور اب خضر چاہتا تھا کہ وہ اسے دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دے
لیکن یارم اتنا خود غرض نہیں تھا وہ روح کے لئے جان دے بھی سکتا تھا اور کسی کی بھی جان لے بھی سکتا تھا
یہ لڑکی اس کے جینے کی وجہ تھی جس کے بغیر س نے جینے کا سوچا بھی نہیں تھا
اور آپ یہی بات وہ خضر کو بھی سمجھانا چاہتا تھا
فی الحال تو اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک خضر کو ہوا کیا ہے وہ کیوں یہ ساری باتیں کر رہا ہے آخر اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے
وہ خود بھی کافی الجھا الجھا لگ رہا تھا آخر کون سی چیز تھی جو اسے ڈسٹرب کر رہی تھی اس کی پریشانی کی وجہ بنی ہوئی تھی
وہ خضر جو کل تک اسے روح کا خیال رکھنے اس کے پاس رہنے کی ہدایت کرتا تھا آج سے دنیا سے لڑنے کا مشورہ دے رہا ہے
اس وقت بھی وہ باہر اکیلا کھڑا نہ جانے کیا کر رہا تھا سب اندر تھے
یارم نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر خاموشی سے غیر محسوس انداز میں اٹھ کر باہر نکل آیا
°°°°
تم یہاں باہر اکیلے کیا کر رہے ہو خضر۔ ۔۔؟
سب لوگ اندر ہیں جب کہ تم یہاں آسمان میں شاید تاروں کو گھورنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے
وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھتا ہوا بولا
کل تک وہ اس پر غصہ تھا لیکن اب اس کا غصہ اتر چکا تھا
کچھ نہیں بس اندر اپنی موج مستی میں لگے ہوئے ہیں تو سوچا تھوڑا موسم انجوائے کر لوں خضر نے مسکرا کر کہا
بہت اچھی بات ہے چلو مل کر موسم انجوائے کرتے ہیں ساتھ میں کچھ باتیں بھی ہو جائیں گی
کیا بات کرنا چاہتے ہو تم مجھ سے خضر مسکرایا تھا
جانتا تھا یارم اس کے پاس ضرور آئے گا
تم جانتے ہو خضر مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور وہ سارا فتور تمہارے دماغ میں کس طرح سے آیا
وہ بات کو الجھانے کا عادی نہیں تھا سیدھی اور صاف بات کرتا تھا
میں جانتا ہوں یارم لیکن میں اپنی بات پر قائم ہوں میں نے تمہیں جو بتایا تھا وہ اب بھی کہتا ہوں
تم روح کو اپنا عادی بنا کر غلط کر رہے ہو
زندگی اتنی آسان نہیں ہے جتنی تم سمجھتے ہو
تم نے کبھی نوٹ کیا ہے روح آج کل بالکل کسی ضدی بچی کی طرح بیہو کرتی ہے ۔
اپنی پسند کی چیز نہ ملنے پر بے چین ہوجاتی ہے
تمہیں گھر آنے میں ذرا سی دیر ہوتی ہے پاگلوں کی طرح پورے گھر میں گھومتی ہے ۔
تمہارے بغیر باہر نہیں نکلتی
تمہارے بغیر کھانا نہیں کھاتی
تمہارے بغیر سوتی نہیں ہے
جب تک تم اس کے سامنے نہیں آ جاتے اسے چین نہیں ملتا
تم جانتے ہو کہ وہ اس گھر سے میرے گھر تک اکیلے نہیں جا سکتی کیونکہ ڈرتی ہے وہ اس میں ہمت ہی نہیں ہے
ایک جگہ پر کچھ لوگوں کو دیکھ کر وہ ان کے قریب سے نہیں گزرتی نجانے وہ اسے کیا کہہ دیں گے کیا کر دیں گے ۔
ہمت نام کی کوئی چیز اس کے اندر نہیں ہے ۔
سکول کے بعد کالج کا ماحول اس نے نہیں دیکھا پڑھائی میں اتنے اچھا ہونے کے باوجود بھی وہ چار کلاسیں نہیں پڑھ سکی
تم غور کرو وہ تمہارے بغیر کچھ نہیں ہیں بلکل زیرو ہے
یارم تمہاری محبت اسے بہادر نہیں بزدل بنا رہی ہے
یہ حقیقت ہے یا رم کہ وہ لڑکی جو دبئی کے ڈان کی بیوی ہے ایک بزدل لڑکی ہے وہ خود سے نہیں لڑ سکتی یہاں تک کہ وہ خود سے اکیلی باہر نہیں جا سکتی تم اس کا سہارا بن چکے ہوں یا رم
اسے لگتا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر میں تم اس کے ساتھ ہو گے وہ جہاں بھی جائے گی جیسے بھی جائے گی تم ہمیشہ اس کے ساتھ رہو گے وہ اپنی رو میں اسے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جب یارم نے اس کی بات کاٹی
ہاں یہ سچ ہے خضر میں ہر قدم پر اس کے ساتھ ہوں میں ہمیشہ اپنی روح کے ساتھ رہوں گا اگر وہ ڈرتی ہے تو میں اس کے ساتھ ہوں ۔میں خود اس کے لیے لڑوں گا میں مقابلہ کروں گا دنیا کا نہ کہ روح کو اس بھیڑ میں تنہا چھوڑ دوں گا خضر کی بات کو سمجھے بغیر یارم نے کہا
اور اگر کل تم نہ رہے تو ۔۔۔۔؟فرض کرو کہ اگر کل تمہیں کچھ ہوگیا تو روح کا کیا ہو گا کل تم پر ایسٹ گرا۔میں جانتا ہوں وہ بہت تھوڑی سی مقدار تھی لیکن وہ زیادہ بھی تو ہو سکتا تھا
یارم ایک ہفتہ پہلے تمہیں گولی چھو کر گزری وہ گولی تمہارے سینے پر بھی تو لگ سکتی تھی نا
ہم موت کا کھیل کھیلتے ہیں زندگی نہیں موت ہمیں اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے آج نہیں تو کل ہماری موت بھی مقرر ہے
میں تم شارف اب تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ ہماری فیملی ہے ہمیں خود سے پہلے ان کی فکر کرنی ہے ۔
لیلیٰ اک بہادر لڑکی ہے میرے بعد جی لے گی ڈٹ کر دنیا کا مقابلہ کر لے گی ۔
اور معصومہ کو بھی ہم کم نہیں سمجھ سکتے وہ بھی لڑنا جانتی ہے اپنا دفاع کر سکے گی
لیکن تم نے کبھی روح کو دیکھا ہے
یارم وہ لڑکی تمہارے بغیر سانس نہیں لے سکتی تمہارے بغیر جینا تو دور کی بات تم نے اسے اپنا اس حد تک عادی بنا لیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کچھ سوچتی ہی نہیں
میں یہ نہیں کہتا کہ تم سے دنیا کی بھیڑ میں اکیلا چھوڑ دو
لیکن اسے اس دنیا سے مقابلہ کرنا سکھا دو
اللہ نہ کرے کہ تمہیں کبھی بھی کچھ ہو لیکن زندگی کا کبھی کوئی بھروسہ نہیں یار میری بچی رول جائے گی وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھتا خاموشی سے وہاں سے نکل گیا جب کہ یارم کو گہری سوچ میں ڈال گیا تھا
خضر کی کوئی بات غلط نہیں تھی اس کے بعد اس کی روح کا کیا ہوگا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا
وہ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتا تھا لیکن روح کے فیوچر کو لے کر اس کے دماغ میں کبھی کوئی بات نہیں آئی
وہ جو روح کے بغیر نہیں رہ سکتا خود بھی جانتا ہے کہ روح بھی اس کے ہونے سے ہے اگر کل اسے کچھ ہوجاتا ہے تو روح تو جیتے جی مر جائے گی اگر یارم کو کچھ ہوا تو روح بھی جی نہیں پائے گی لیکن وہ اپنی روح کو اپنے ساتھ مار تو نہیں سکتا تھا
خضر صحیح کہتا تھا اسے اپنی روح کو دنیا سے لڑنا سکھانا ہوگا ورنہ اس کے بعد یہ دنیا اس کی روح کو مار دے گی
اسے روح کو بہادر بنانا ہوگا ایک ڈان کی بیوی اتنی بزدل نہیں ہو سکتی کہ خود سے مقابلہ بھی نہ کر پائے روح کو لڑنا سیکھنا ہوگا اسے اپنا دفاع کرنا خود آنا چاہیے یارم نے سوچ لیا تھا کہ وہ روح کو احساس دلایا کہ وہ اس کا ساتھی ہے اس کا ہم سفر ہے لیکن روح میں اتنی ہمت ضرور پیدا کرے گا کہ وہ خود اپنے لئے اسٹنڈ لے سکے
°°°°°
سب کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر آفس کا کام کرنے کے بعد کمرے میں آیا تو روح بیڈ پر بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی
۔اف اتنی دیر لگا دیا آپ نے آج کیا کر رہے تھے آفس میں اس کے آتے ہی روح نے سوال پوچھا
کچھ نہیں بس کچھ کام تھا تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا
کیوں کہ میں نے ابھی تک میڈیسن نہیں کھائی ۔اور نہ ہی میں کھانے کا ارادہ رکھتی ہوں لیلی نے بہت کوشش کی مجھے زبردستی دینے کی لیکن میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آپ مجھے کھلانے والے ہیں ۔
بس پھر کیا تھا وہ تو اتنی ڈرپوک ہے اتنا ڈرتی ہے آپ سے فوراً میری بات پر یقین کر لیا اور اب میری میڈیسن دور کہیں کمرے کے باہر گم ہو گئی ہیں اور آپ کو میں جانے نہیں دوں گی لانے کے لیے وہ اس کے گرد باہوں کا حصار تنگ کرتے ہوئے بولی ۔
لیکن بے بی یہ تو بڑی غلط بات ہے اگر تم نہیں کھاؤں گی تو ٹھیک کیسے ہوگی اور اگر تم ٹھیک نہیں ہوگی تو ہم اپنے سیکنڈ ہنی مون پر کیسے چلیں گے
وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اس کے سامنے رکھ کر پوچھنے لگا اور وہ سوالیہ انداز میں اپنا پاسپورٹ دیکھنے لگی
یارم ہم کہیں جا رہے ہیں کیا اس سے تو اگلے مہینے کی 14 تاریخ کی ڈیٹ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں کل مہینے کی 14 تاریخ وہ سوالیہ انداز میں پاسپورٹ اٹھائے اس سے پوچھنے لگی
ہاں میری جان ہم سویزلینڈ جا رہے ہیں ۔آپنے سیکنڈ ہنی مون پر لیکن اس فلائٹ کی کچھ شرطیں ہیں اس میں بیمار لوگ نہیں جا سکتے
ڈاکٹر کی رپورٹس کے مطابق کسی بھی مسافر کو کوئی بیماری نہیں ہونی چاہیے اور اگر اسے کوئی بیماری ہوتی ہے تو پھر ایک ہی مسافر کو بھیج دیا جائے گا مطلب کے اگلے مہینے کی 14 تاریخ تک تم بالکل ٹھیک نہیں ہوئی تو وہ لوگ مجھے سویزلینڈ بھیج دیں گے اور شاید تمہیں یہی پر رہنا ہوگا
لیکن تم یہاں میرے بغیر اکیلی کیسےرہوگی تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا لیکن دوا ئیاں تو تم کھاتی نہیں ہو تو ٹھیک کیسی ہوگی
آج تو دوائیاں تمہاری گم ہوگئی ہیں باہر کہیں دور ۔۔۔۔۔
ویسے سویزلینڈ بہت خوبصورت ہے اور وہاں کے نظارے بھی بہت خوبصورت ہے جیسے آئس لینڈ میں دیکھے تھےنہ کچھ ویسے ہی
استغفر اللہ یارم آپ وہاں ادھی برہنہ عورتیں دیکھیں گے ۔روح نے صدمے سے چیخ کر کہا تھا
۔آدھی نہیں بیگم یہاں تو شاید نظارے مکمل دیکھنے کو ملیں گے ۔اور یہاں تو کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہوگی تمہاری طبیعت بہت خراب ہے میں ویسے بھی تم ہی لے کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔تمہیں ایسی جگہوں پر جانا بھی نہیں چاہیے
وہ روح کو اپنے بے حد قریب کرتے ہوئے بولا تو وہ فوراً کی پناہوں سے دور ہوئی تھی
میں میڈیسن ڈھونڈ کے لاتی ہوں میں کھاؤں گی اور ٹھیک ہو جاؤں گی پھر ان دونوں ساتھ چلیں گے خبردار جو اکیلے جانے کے بارے میں سوچا وہ بھی ایسے گندے ماحول میں
ابھی آتی ہوں میں
وہاں جا کر عورتوں کو دیکھیں گے اسی لئے تو میرے بغیر جانا چاہتے ہیں میں ہونے دوں گی آپ کی ایسی پلیننگ پوری وہ باہر آ کر اونچی اونچی آواز میں بڑابڑتی اپنی چھپائی ہوئی میڈیسن ڈھونڈے لگی جبکہ یارم پرسکون تھا
°°°°°
وہ دوائی کھا کر اب مزے سے اس کے سینے کے سر پر رکھے اس سے سوال کر رہی تھی
یارم یہ سویزلینڈ اور آئرلینڈ دونوں بھائی بہن ہیں کیا۔۔۔۔۔؟ اس کے بے تکے سوال پر وہ سمجھ گیا تھا کہ دوائی اپنا اثر دکھا رہی ہے
واہ بیگم دو الگ الگ ملکوں کی رشتے داری بھی نکال لی مجھے تو لگتا تھا کہ تم صرف کتے اور انسانوں کے تعلقات بنانے میں ماہر ہو
خیر مجھے یہ تو نہیں پتا کہ سویزلینڈ اور آئرلینڈ کا آپس میں کیا تعلق ہے لیکن یہ دونوں مغربی ممالک ہیں ان دونوں ممالک کا شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں وہ پرسکون انداز میں جواب دیتا روح کو سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر گیا
یارم آپ ان عورتوں کو مت دیکھیے گا پتا نہیں اتنے چھوٹے چھوٹے کپڑے کیسے پہن لیتے ہیں اپنی نظریں جھکا کر چلئے گا ہم باہر ہی نہیں نکلیں گے ہوٹل کے اندر ہی رہیں گے وہ انتہائی معصومیت سے سر دوبارہ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے کہنے لگی تو یا رم کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ کھلی تھی
کیوں نہیں بےبی میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لوں گا کیا خیال ہے تمہارا اس نے شرارت سے کہا تو روح نے سر اٹھا کر زور و شور سے ہاں میں سر ہلایا
یہ والا آئیڈیا سب سے اچھا ہے وہ کہتے ہوئے دوبارہ سر اس کے سینے پر رکھ چکی تھی ۔اگلے مہینے کی بارہ تاریخ روح کا یہ کورس مکمل ہونے والا تھا اس کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ ہی باہر لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا سویزرلینڈ کے ٹکٹ اس نے بہت پہلے ہی بک کروا لیے تھے
اور اب روح کے ٹھیک ہو جانے کے بعد وہ اس کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے والا تھا جس میں وہ ہوگا اس کی روح ہوگی اور ایک نیا سفر شروع ہوگا اور اس سفر میں اس کی روح بزدل نہیں ہوگی وہ روح کو دنیا سے مقابلہ کرنا سکھائے گا اس لیے نہیں کہ اسے اپنی زندگی کا بھروسا نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ وہ چاہتا تھا کے اس کی روح بہادر بنے
اٹھ جائیں نا یارم اور کتناسوئیں گے…؟
کیا آج مجھے بھوک مارنا ہے
آپ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ میں ناشتہ نہ کروں ہو دوائی نہ کھاؤں اور آپ وہاں آئز لینڈ کی بہن کے پاس جا کے لڑکیاں تاریں
۔کان کھول کر سن لیں آپ ایسا میں مرتے دم تک نہیں ہونے دوں گی
میں بتا رہی ہوں میں آپ کے ساتھ چلوں گی تو مطلب چلوں گی
جلدی سے اٹھیں اور مجھے ناشتہ بنا کر دیں اگر میں نے خود بنا کر کھایا تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا
۔پھر آپ مجھ پر بے کار میں غصہ ہوں گے
اور خود مجھے کچھ کھانے کو دے نہیں رہے وہ مسلسل اسے جھنجھوڑتے ہوئے تقریر کر رہی تھی
جب یارم نے ایک آنکھ کھولی اور پہلے گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے ساڑھے پانچ بجے جا رہی تھی
بےبی ابھی ناشتے کا وقت نہیں ہوا میری جان سو جاؤ وہ پیار سے اپنے پاس بلاتا ہوا کہنے لگا
جب روح نے فورا نفی میں سر ہلایا
نہیں آپ اٹھیں اور مجھے ناشتہ بنا کر دیں تاکہ میں دوائی کھا کر ٹھیک ہو سکوں
مجھے کسی بھی حال میں 14تاریخ تک ہونا ہے
میں آپ کے ساتھ جا رہی ہوں یاد رکھئے گا آپ کو اکیلے نہیں جانے دوں گی
ان چڑیلوں کے پاس ۔روح اسے زبردستی اٹھاتے ہوئے کہنے لگی تو یارم مسکراتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا
۔اسے پتا تھا کہ یہ پلان کام ضرور کرے گا لیکن اتنا زیادہ کام کرے گا یہ اندازہ اسے ہرگز نہیں تھا
میں ناشتہ بنا کر دیتا ہوں اتنا مت سوچو میں ہرگز تمہیں یہاں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپاتا اٹھ کر باہر نکلا
جب کہ روح منہ بنائے اس کے پیچھے پیچھے آئی تھی
°°°°°
ابھی تک تو اسے آئزلینڈ کے نظارے نہیں بھولے تھے کہ اب وہ اس کی بہن کے نظارے برداشت کرتی ۔
اور اوپر سے یارم کا یہ کہنا کہ فل مغربی ماحول ہے وہاں وہ کسی اچھی چیز کی امید رکھ ہی نہیں سکتی تھی
یارم 14 تاریخ تو یہ آ رہی ہے ہمیں پہلے شاپنگ بھی تو کرنی ہوگی آپ کے اور شونو کے کپڑے بھی لینے ہیں مجھے اپنی بھی کچھ چیزیں لینی ہیں وہ اس کے پچھے آتے آتے بولی
شونو معصومہ کے پاس رہے گا اس نے اچانک مڑ کر کہا تو روح اس کے سینے سے آ لگی
سر پھاڑ دیا میرا وہ اپنا سر پے ہاتھ رکھے پیچھے ہٹی تو یارم نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا
اس کے اچانک ایسا کرنے سے روح دوبارہ اس کے سینے سے آ لگی تھی
یارم شونو کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں نا وہ یہاں کیسے رہے گا میرے بغیر اس کے گلے میں باہیں ڈالے وہ بہت لاڈ سے بولی تھی
بےبی تمہیں اس کتے سے دور لے جانے کے لیے تو اتنی دور جا رہے ہیں ہم وہ ہمارے ساتھ نہیں آرہا اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے اس بارے میں اور کوئی بات نہیں ہوگی
اس کے ماتھے کو چومنے کے بعد وہ جارحانہ انداز میں اس کے گال کو چومتے ہوئے اس سے دور ہٹ کر کچن کا راستہ لے چکا تھا جب کہ اتنے دنوں کے بعد یار م کا یہ پرانا انداز روح کو شرم آنے پر مجبور کر گیا
اور یارم جانتاتھا کہ اس کی اس جارحانہ جسارت کے بعد اب روح اس بارے میں اور کوئی بات نہیں کرے گی
°°°°°°
یارم جب تک اس کے لئے ناشتہ تیار کر رہا تھا روح باہر بیٹھی لسٹ تیار کر رہی تھی کہ اسے کون کون سا سامان چاہیے
اپنے اور یارم کے کپڑوں کے ساتھ اس نے اپنے بے بی کے کپڑے بھی لینے تھے ہاں وہ کتا صرف نکر اور بالکل چھوٹی سی شرٹ پہنتا تھا کیونکہ بقول روح کے اس کے بےبی کو سردی بھی تو لگ سکتی تھی ۔
وہ تو شکر تھا کہ ابھی سردیوں کا موسم نہیں آیا تھا وہ تو اسے سویٹر بھی پہناتی
اب وہ اسے معصومہ کے پاس چھوڑ کر جائے گی تو اس کا سامان بھی تو اسے دینا ہوگا اور بقول روح کے اس کے سارے کپڑے پرانے اور چھوٹے ہوچکے تھے اور اس کے بے بی کو شاپنگ کی اشد ضرورت تھی
روح ناشتہ تیار ہے وہ ٹیبل پر ناشتہ لگاتے ہوئے اسے پکار رہا تھا جب روح ہاتھ میں پیپر تھامیں کچن میں داخل ہوئی
یارم یہ لسٹ ہے ۔یہ سارا سامان یا تو آپ واپس آتے ہوئے لے آئیے گا ورنہ ہم دونوں ساتھ چل کر لے لیں گے اس نے ہمیشہ کی طرح لسٹکے ہاتھ میں تھمائی
تم جا کر لے آؤ یہ سب کچھ وہ بے حد آرام سے کہتا ہے لسٹ اسے تھما کر ٹیبل پر پانی کی بوتل رکھنے لگا تو روح بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
یارم آپ سیریس ہیں وہ بےیقینی سے بولی
اس میں اتنا شوکڈ ہونے والی کونسی بات ہے روح۔۔۔ تمہیں باہر نکلنا چاہیے کم از کم شاپنگ پر تو اکیلے تم جا سکتی ہو
اب تو تم میرے بارے میں بھی سب کچھ جانتی ہو
میں کیا ہوں اور کون سی چیز کس انداز میں پسند کرتا ہوں
اب تمہیں یہاں قید رہنے کی ضرورت نہیں ہے باہر نکلا کرو شاپنگ پر جایا کرو اور وہ لیلیٰ کہاں جاتی ہے معصومہ کے ساتھ تھا وہ بیوٹی پالر وہاں بھی جایا کرو اپنی لائف کو انجوائے کرو باہر نکلو اس قید خانے سے وہ پیار سے اس کے لیے کرسی کھینچتا ہوا اسے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا
وہ جو اپنی حیرانگی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جیسےیارم نے کچھ غلط بول دیا اور اب وہ اس کی بات کی درستگی چاہتی تھی لیکن یارم کے اگلے جملے تو اسے مزید حیرانگی کی کھائیوں میں دھکیل گئے
یہ میرا گھر ہے یارم کوئی قید خانہ نییں
اورآپ کو پتہ ہے نہ میں باہر کبھی اکیلے نہیں گئی ایک باع گئی تھی تو گم ہوگئی تھی صارم بھائی ڈھونڈ کر لائے تھے مجھے اور پھر آپ کتنا غصہ ہوئے تھے یاد نہیں ہے کیا آپ کو وہ اسے یاد دلاتے ہوئے بولی تو یارم نے ہاں میں سر ہلایا
وہ سب پہلے کی باتیں تھی روح اب زندگی بدل رہی ہے لوگ آگے بھر رہے ہیں ہم سے ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا اور تمہیں بھی گھر سے نکلنا چاہیے تم کیا ساری زندگی میری آس پر بیٹھی رہوگی
یارم ہوگا تو یہ کام ہوگا یارم ہوگا تو وہ کام ہوگا
ایسا ساری زندگی تو نہیں چلے گا نا روح میری جان تمہیں کچھ کام خود سے بھی لینا چاہیے وہ اب بھی سمجھانے والے انداز میں بول رہا تھا
نہیں یارم مجھے نہیں جانا کہیں بھی اکیلے آپ فارغ ہوں گے تو ہم ساتھ چلیں گے نہیں تو میں معصومہ یا لیلی میں سے کسی کے ساتھ چلی جاؤں گی وہ اس کی بات کاٹ کر بولی
تم اکیلی جاؤ گی روح یہ فیصلہ تھا یا حکم یاصرف ایک بات روح کو سمجھ نہیں آئی
اور اب سے تم اکیلے ہی جایا کرو گی
خود میں تھوڑی سی ہمت پیدا کرو روح باہر نکلا کرو ساری زندگی میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا
کیوں کہاں جا رہے ہیں آپ ۔۔۔۔؟
آپ جو اس طرح سے کہہ رہے ہیں آپ ساری زندگی میرے ساتھ رہیں گے اور مجھے کیا ضرورت ہے کہیں بھی اکیلے جانے کی جب میرے پاس میرا شوہر ہے
اور اگر کل کو تمہارا شوہر نہ رہا تو اگر کل مجھے گولی لگ جاتی ہے یا کوئی دوسرے گینگ کا آدمی میری جگہ کے لیےآ کر مجھے مار دیتا ہے تب کیا کرو گی مر جاؤ گی میرے ساتھ وہ انتہائی غصے سے بولا تھا
لیکن روح کی آنکھوں کی نمی اور پھر بے تحاشا ٹپکتے آنسو دیکھ کر یارم کو اپنی سخت بات کا احساس ہوا
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بھی کہتا وہ بنا اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں بند ہوگی اور یارم کو پتہ تھا کہ وہ یقیناً اب وہ رو رہی ہوگی
°°°°
وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے تک آیا تھا لیکن دروازہ اندر سے لاک تھا روح بےبی سوری جان میں جانتا ہوں میری بات غلط تھی میرا طریقہ غلط تھا لیکن تم پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں صحیح کہہ رہا ہوں دروازہ کھولو پلیز
اچھا ٹھیک ہے میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا پلیز دروازہ کھولو اس کی سسکیوں کی آواز باہر تک سنائی دے رہی تھی
جو یارم کو بے چین کر رہی تھی
لیکن وہ دروازہ کھولنے کا نام نہیں لے رہی تھی اس وقت سے یار م سے زیادہ برا اور کوئی نہیں لگ رہا تھا
کتنی آسانی سے یہ شخص اس سے اس کی زندگی چھنینے کی بات کر گیا ۔وہ مانتی تھی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن اس نے اسے خدا سے مانگ مانگ کر حاصل کیا تھا یہ بات وہ شخص کیسے بھول گیا
وہ کیسے بھول گیا کہ یارم تو اللہ کا دیا ہوا تحفہ تھا اس کے لیے۔
اس نے کیوں ایسی دل دکھانے والی بات
آج وہ اگر کسی کی آواز نہیں سننا چاہتی تھی کسی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی تو وہ صرف یارم تھا آج پہلی بار اس شخص نے اس کا دل دکھایا تھا
°°°°
باہر میری اور شفا کی آواز سن کر روح نے دروازہ کھول دیا وہ اپنی اور یار م کی ناچاقی کو گھرکے ملازمہ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی
لیکن دروازہ کھولتی ہی سامنے ہی یارم کو بیٹھے دیکھا اس کے دروازے کھولتے ہی اٹھ کر اس کے قریب آیا تھا
اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی یقینا وہ کافی دیر سے رو رہی تھی یارم کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا
یارم کو اپنی بات کی گہرائی کا احساس ہو چکا تھا شاید جن الفاظ میں اس نے روح کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی وہ الفاظ بہت سخت تھے
روح میری جان آئی ایم سوری مجھ سے غلطی ہو گئی میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نے سمجھا
یارم پلیز روم کے اند چل کر بات کریں میں نہیں چاہتی کہ ہماری باتیں کوئی دوسرا سنے روح نے دروازے سے اندر داخل ہوتی شفا اور میری کو دیکھ کر آہستہ آواز میں کہا
السلام علیکم سر آج آپ گئے نہیں کام پر میری نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں آج اور بہت کام ہے تم لوگ جاؤ اپنا کام کرو وہ سرد آواز میں کہتا کمرے میں داخل ہوا تو روح بھی کمرے میں داخل ہوتے دروازہ بند کر چکی تھی
یارم کا یہ انداز شفا یا میری کے لئے نیا نہیں تھا اس لئے وہ دونوں دھیان دہیے بغیر کیچن کی جانب آ گئی تھیں
°°°°
روح میں اپنی غلطی اکسیپٹ کر رہا ہوں نا تو بات کیوں نہیں کر رہی ہو مجھ سے
وہ بیڈ پر اس کے نزدیک بیٹھا اس کے دونوں ہاتھ تھامے ہوئے تھا جبکہ روح اس سے نظر نا ملاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور اس کی باتوں کو مکمل نظر انداز کر رہی تھی
یارم کاظمی ہر چیز برداشت کرتا تھا لیکن اس کی روح اسے نظر انداز کرے یہ بات اس کی برداشت سے باہر تھی
بس بہت ہو گیا روح میں تمہیں کب سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم میری بات پر دھیان ہی نہیں دے رہی
مانتا ہوں غلط الفاظ بول دیے ہیں لیکن بات غلط نہیں تھی میری
تمہیں تکلیف لینے کا ارادہ نہیں ہے میرا بس تمیں زندگی کی دھوپ چھاؤں سمجھانا چاہتا ہوں ۔اب وہ سختی سے کہہ رہا تھا
میں سب سمجھتی ہوں یارم مجھے کچھ اور نہیں سمجھنا اب جائیں یہاں سے مجھے آپ کا چہرہ ہی نہیں دیکھنا وہ ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھرواتی بیڈ پر لیٹنے لگی
کچھ نہیں سمجھتی تم میری جان نہیں سمجھ پا رہی تم بہت مشکل ہے یہ زندگی اور کیا کہا تم نے میرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی ایک ہی دن میں کیا اتنا برا لگنے لگا ہوں میں وہ اسے بازو سے پکڑ کر ایک بار پھر سے نہ صرف بٹھا چکا تھا بلکہ اپنے بےحد قریب کرتے ہوئے اس کے گرد بانہوں کا حصار بھی تنگ کر چکا تھا
ہاں بہت برے ہیں آپ بہت زیادہ برے اتنی گندی بات کہی بھی کیسے آپ نے اندازہ بھی ہے آپ کو کیا آج آپ نے مجھے کتنی تکلیف پہنچائی ہے یارم آپ ساری زندگی معافی مانگتے رہے تب بھی اس غلطی کی کوئی سوری نہیں ہو سکتی
نا چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر سے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی اور اس کے آنسو یارم کو بے چین کرنے لگے
جانتا ہوں بہت غلط بات کر دی ہے میں نے اسی لئے تو معافی مانگ رہا ہوں آئی نو اس بات کی کوئی سوری نہیں ہوتی لیکن میری روح تو اپنے یارم کو معاف کر سکتی ہے نہ
میں وعدہ کرتا ہوں تم سے کہ میں آئندہ تمہیں کبھی نہیں کہوں گا شاپنگ کے لیے پلیز رونا بند کرو تمہاری آنکھوں میں یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا میں وہ اس کی آنسو صاف کرتے ہوئے اس کی نم پلکوں کو چوم کر اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا
جبکہ روح کو تو سسکنے کا جیسے ایک اور بہانہ مل گیا اس کے سینے سے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
میں نہیں جاؤں گی اکیلی شاپنگ پرسن لیں آپ انسووں کی روانی میں کمی آئی تو اس نے انگلی اٹھا کر کہا جب کہ سر ابھی اس کے سینے پر ہی تھا
کوئی ضرورت نہیں ہے ہم ایک ساتھ چلیں گے یارم نے اس کی انگلی کو چومتے ہوئے اس کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا
اور وہاں بھی نہیں جاؤں گی جہاں لیلیٰ اور معصومہ جاتی ہیں ۔۔۔اس نے پھر سے کہا
ہاں میری جان میں تمہیں پالر جانے کے لئے بھی کبھی نہیں کہوں گا اور ویسے بھی وہ تو یہ سب کچھ خوبصورت دیکھنے کے لئے کرتی ہیں لیکن میری روح ہے ہی خوبصورت اسے اس مصنوعی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یارم نے اس کی بات کی تصدیق کی تھی
اور آپ کو اکیلے بھی نہیں جانے دوں گا آئس لینڈ کی بہن کے پاس ۔وہ سوں سوں کرتی اس کے سینے میں منہ چھپاتی بولی تو یارم کے لئے اپنی مسکراہٹ چھپانا مشکل ہو گیا
آف کورس میرابچہ میں اکیلا نہیں جاؤں گا ہم دونوں ساتھ چلیں گے اگر اکیلا گیا تو وہاں کی عورتیں مجھے کھاجائیں گی
اور شونوبھی ہمارے ساتھ چلے گا وہ سوں سوں کرتی لاڈ سے بولی تو اس بار یارم نے اسے گھور کر دیکھا
اگر آپ نے مجھے گھورا تو میں پھر سے رونے لگوں گی روح دھمکی دیتے ہوئے بولی
روح تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو یارم نے ذرا سختی سے کہا تھا
آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں ۔وہ اس کے سینے سے منہ نکالتی معصومیت سے بولی
نہیں میری جان میں تمہیں کیسے ڈانٹ سکتا ہوں وہ اسے ایک بار پھر سے اپنے سینے سے لگا گیا
ہم شونو کو لے کر چلیں گے نہ ۔۔۔۔؟اس نے معصومیت سے پوچھا
وہ معصومہ کے پاس رہے گا روح۔
اور اس بات پر چاہے تم مجھ سے ناراض ہو یار راضی لیکن اس کتے کو میں ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آنے دوں گا ۔
وہ اٹل انداز میں بولا
اور وہ جیسے ہارتے ہوئے خاموشی سے اس کے سینے پر دوبارہ سر رکھ گئی
آپ کو کام سے دیر ہو رہی ہے نہ آپ گئے کیوں نہیں ۔۔روح نے پوچھا
تم مجھ سے ناراض تھی روح اور پھر جب تک تم آرام سے ناشتہ کرکے میڈیسن نہیں لے لیتی تب تک میں کیسے جاتا۔سارا دن ایک پل کو بھی سکون نہیں ملتا مجھے خیر تمہاری وجہ سے بہت لیٹ ہو چکا ہوں میں اٹھ کر جلدی سے ناشتہ کرو
صبح جو اتنی محبت سے تمہارے لئے ناشتہ بنایا تھا وہ ٹھنڈا ہو چکا ہے آؤ تمہیں کچھ اور بنا کر کھلاتا ہوں اپنے ہاتھوں سے وہ پیار سے اس کے دونوں ہاتھ چومتا ہوا بول اور اسے اپنے ساتھ لئے باہر آیا تھا
یہ بات تو وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ روح کو آسان لفظوں میں یہ مشکل بات سمجھانا بہت مشکل ہے اسی لیے اس نے سوچ لیا تھا کی روح کو اپنے طریقے سے سمجھائے گا روح کو بہادر بنانے اور دنیا سے لڑنے کی ہمت دینے کے لیے اس سے اپنا طریقہ استعمال کرنا تھا اس پر غصہ کر کے اس سے ڈانٹ کر کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا
یارم یہ کیسا ہے ۔۔۔۔؟اس نے ایک چھوچھوٹے سے بےبی ڈریس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
روح یہ شونو کو فٹ نہیں ہو گا ۔۔یارم نے بےزاری سے کہا۔
آہووو یارم میں شونو کی بات نہیں کررہی یہ تو میں۔۔۔۔وہ کچھ کہتے کہتے مسکرائی تھی
شونو کے لیے نہیں تو پھر میرے لیے ہے کیا ۔اس کی مسکراہٹ کو وہ باج بوجھ کر اگنور کر گیا
یارم آپ بھی نا ۔ . کیا ہم ساری زندگی شونو کے ہی کپڑے خریدتے رہے گے میں تو اپنے بےبی کی بات کر رہی ہوں
اس نے شرماتے ہوئے کہا
آوووو اچھا تم یہ ہمارے ہونے والے بےبی کے لیے دیکھ رہی ہو ۔۔بہت پیارا ہے بٹ میرا نہیں خیال کہ ابھی ہمیں اس کی ضرورت ہے ۔اس کی پیاری سی مسکان کو اپنے دل میں بسائے وہ محبت سے بولا۔
ہاں پتہ نہیں ہمیہں اس کی ضرورت کب ہو گی یہ بہت خوبصورت ہے ۔۔روح نے حسرت سے کہا۔
تو پھر لے لو میری جان ۔جو چیز دل کو اچھی لگے اس کو انتظار نہیں کرواتے۔اور ان شااللہ اس کو پہننے والا بھی آ ہی جائے گا یارم نے اس کی جھکی . ظریں دیکھتے ہوئے کہا
میں فضول خرچ نہیں ہوں یارم اور یہ کتنا مہنگا بھی تو ہے اور ویسے بھی ہم بعد اس کی شاپنگ کرے گے ہی روح نے ڈریس واپس رکھتے ہوئے کہا۔
یارم کا دل چاہا کہہ دےکہ یہ جو شونو کے لیے شوپنگ کی ہے وہ بھی تو تقریباً فضول خرچی ہی ہے لیکن نہیں وہ شونو کی شان میں گستاخی برادشت نہیں کرتی تھی۔
تمہیں جو چیز پسند ہو تم اسے لے لیا کرو اس کی پمینٹ کرنا میرا کام ہے تمہارا نہیں اور ویسے بھی یہ وہ پہلی چیز ہے جو تم نے شونو کے بجائے ہمارے بچے کے لیے پسند کی ہے ۔۔میں نہیں چاہتا کہ تمہاری پسند کسی اور کے حصے میں جائےاس نے وہ ڈریس اٹھتے ہوئے اس باور کروایا تو روح مسکراتے ہوئےاس کے پیچھے چکی آئی
جبکہ شونو کی چھوٹی سی رسی اس کے ہاتھ میں تھی ۔اور وہ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہا تھا
یارم یہ آپ پے بہت پیارا لگے گا پلیزٹرائی کریں نا۔ وہ ایک بلو شرٹ بلکل ویسی ہی جیسی یارم پہناتا تھا اسے دیکھتے ہوئے بولی
اوکے۔۔۔ یارم نے فوراً اس کی پسند پر مہر لگا دی
اوکے نہیں ابھی ٹرائی کریں ۔وہ باضد ہوئی
روح لے لو نا یار پہن لوں گا۔تمہاری پسند بُری نہیں ہو سکتی ۔خرید لو یارم نے کہا
یارم میں آپ کو ٹرائی کرنے کا بول رہی ہوں نا۔اور اسے گھورتے ہوئی بولی ۔ساتھ ہی منہ بھی بسور لیا ۔مطلب اگر اس کی بات نہ مانی تو اس سے ناراضگی پکی اور یارم اس کی ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتا تھا
ٹھیک ہے یار جا رہا ہوں ٹرائی کرنے منہ سیدھا کرو ۔خیال رکھنا اس کا وہ شونو کو دیکھتے ہوئے بولا اور ٹرائیل روم کی طرف چلا گیا۔اور شونو نے ہلکی آواز میں اسے یقین دلایا۔کہ وہ اس کے جانے کے بعد روح کا خیال رکھے گا
جبکہ روح مسکارتے ہوئے اور چیزیں پسند کرنے لگی
°°°°°
چھوٹے بچوں کے چھوٹے چھوٹے کپڑے دیکھتے ہوئے وہ اس حد تک ان میں کھو گئی کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ وہ بچوں کی شاپنگ سینٹر کے اندرآچکی تھی اور بےدھیانی میں ہی وہ ان چیزوں کو دیکھنے میں اس حد تک مصروف ہو چکی تھی کہ اسے بالکل بھی ہوش نہ رہا کہ شونو اس کے پاس ہے بھی یا نہیں
بچوں کے خوبصورت کپڑے جوتے اور استعمال کی چیزیں اسے اندرسے بہت خوش کر رہی تھی اور یہی ساری چیزیں اس کے اندر ایک بار پھر سے ایک محرومی پیدا کر رہی تھی ۔
اسے آج بھی وہ دن بہت اچھے سے یاد تھا جب یارم کو اس کی ماں بننے کی خبر ملی تھی وہ دبئی سے پاکستان صرف اس کی خاطر گیا تھا
اور اس خوشی کو ان دونوں نے مل کر سیلیبریٹ کیا تھا لیکن ان کی یہ خوشی ان سے جلد ہی چھین گئی شاید تب اللہ کو منظور نہیں تھا ۔
اور اس کے بعد زندگی ایسا امتحان بنی کہ انہیں کسی چیز کا ہوش ہی نہ رہا ۔لیکن وہ صبر کرنے والی لڑکی تھی وہ جانتی تھی کہ اللہ آپنے پسندیدہ نسانوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے یقیناً وہ اللہ کی پسندیدہ انسانوں میں سے ایک تھی
اور اس کا یقین کامل تھا کہ اس کی خوشیاں اس سے دور نہیں عنقریب اس کا رب اس پر مہربان ہونے والا ہے اپنے خیالوں میں کھوئے وہ اس سب چیزوں کو چھو رہی تھی جب اسے احساس ہوا کہ شونو تو اس کے قریب ہے ہی نہیں
وہ بے چینی سے ہر طرف شونو کو تلاش کرنے لگی لیکن نہ جانے وہ کس طرف جا چکا تھا اسے کہیں سے بھی شونو کا کوئی اتا پتا نہیں مل رہا تھا
وہ بچوں کے کپڑوں کی دوکان سے نکل کر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ یارم نجانے کہاں رہ گیا تھا ابھی تک نہیں آیا کہیں شونو یارم کےاس تو نہیں چلا گیا
اسی سوچ کے ساتھ وہ ایک بار پھر سے پوری مارکیٹ میں نظر دوڑآنے لگی
لیکن اب بھی شونو اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا
اب اس کے پاس نیچے جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کیوں کے یہاں اوپر وہ ہر جگہ دیکھ چکی تھی اسی لئے اب ایک بار نیچے دیکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ سیڑھیاں اترنے لگی جب اچانک کسی نے اس کا بازو تھام لیا
کیا ہوگیا ہے روح کیوں اس طرح سے نیچے جا رہی ہومیں تو یہاں پر ہوں یارم اس کی پسند کی ہوئی بلوشرٹ پہنے اس کے سامنے کھڑا تھا
یارم شونو کہیں چلا گیا ہے پتا نہیں کہاں غائب ہو گیا ہے کہیں نہیں مل رہا میں تو یہاں سب طرف دیکھ چکی ہوں لیکن وہ کہیں پر نہیں ہے
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا وہ بہت پریشان لگ رہی تھی
ڈونٹ وری روح یہی ہوگا کہ آجائے گا وہ کسی کے جانور کے ساتھ کھیل رہا ہوگا تم یہیں پر رکو میں نیچے دیکھ کر آتا ہوں دبئی کے اس شاپنگ سینٹر میں لوگوں کو اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ اندر آنے کی اجازت تھی
اور یہاں جانوروں کے کپڑوں کی ایک الگ سے ورائٹی موجود تھی اسی لیے روح اسے ہمیشہ یہی لانے کی ضد کرتی تھی
یہ جگہ ان کے لیے انجان نہیں تھی لیکن شونو کا گم ہو جانا اس کی پریشانی کی وجہ تھی روح وہی رک کر آگے پیچھے شونو کو دیکھنے لگی جب کہ یارم نیچے جا چکا تھا
°°°°
وہ پریشانی سے ساری جگہ چیک کرچکی تھی جب میل ریسٹ رو م کی طرف اسے شونو کی رسی نظر آئی وہ تیزی سے اس کی طرف آئی تھی لیکن سامنے ہی شونو کو کسی دوسرے شخص کے جوتے چاٹتے اور اس کی ہاتھ سے بسکٹ کھاتے دیکھ کر پریشان ہو گئی
پہلے تو اسے شونو کی اس حرکت پر اچھا خاصا غصہ آیا ایک تو وہ خود نہ جانے کہاں چلا گیا تھا اور اب وہ یہاں کسی انجان شخص کو پیار کر رہا تھا جب کہ وہ شخص آرام سے اس کے قریب بیٹھا اس کے بال سہلا رہا تھا
نہ جانے یہ شخص کون ہے
کوئی عربی ہی ہو گا میں اسے اپنی بات کیسے سمجھاؤں گی میں یارم کو بلا کے لاتی ہوں روح نے سوچا
لیکن میرے واپس آنے سے پہلے اگر یہ شخص میرے شونو کو کہیں لے گیا تو روح نے اپنے چلتے قدم پر بریک لگائی اور مڑ کر دیکھا
وہ میرا ہے شونو مجھے پہچانتا ہے مجھے دیکھتے ہی میرے پاس آ جائے گا اس نے سوچتے ہوئے اس شخص کے سامنے جانا بہتر سمجھا
اور اس کے قریب آتے ہوئے اس کی رسی کو تھام کر بنا اس شخص کو دیکھےاسے لے کر جانے لگی ۔
لیکن شونوتو جیسے آنے کو تیار ہی نہیں تھا وہ تو بہت آرام سے اس نئے شخص کی محبت کو وصول کر رہا تھا
یہ میرا ڈوگی ہے ۔روح نے اردو میں کہا کیوں کہ سے ابھی تک عربی نہیں آتی تھی اور نہ ہی یارم نے سکھانا ضروری سمجھی ۔
اب روح کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس کی بات یہ سامنے والاشخص سمجھ پایا ہے یا نہیں لیکن روح اپنا فرض نبھا چکی تھی
میرا نام درک ہے ۔۔اسے پیچھے سے آواز سنائی دی روح نے مڑ کر دیکھا اس کا شونو بڑا اداس لگ رہا تھا لیکن یہ بات اسے سمجھ آچکی تھی کہ وہ شخص اردو جانتا ہے اور اس کی بات کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکا ہے
ماشاءاللہ اچھا نام ہے آپ کا ۔وہ سرد انداز میں کہتی شونو کو گھسیٹ رہی تھی اور وہ اسے وہاں سے لے گئی تھی اپنا نام بتانے کی زحمت اس نے بالکل گوارا نہیں کی تھی
جب کہ اسے اس طرح اسے دور جاتے دیکھ کر وہ شخص ذرا سا مسکرایا تھا
اس نے ایک نظر مڑ کر دیکھا وہ شخص اب وہاں پر موجود نہیں تھا جبکہ یارم کو نیچے وہ سکیورٹی گارڈ سے بات کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی اس نے ہاتھ کے اشارے سے یارم کو اپنی طرف متوجہ کیا
اور ساتھ میں اس سے رسی بھی دکھائی کہ شونواسے مل چکا ہے
یار م سکون کا سانس لیتے ہوئے دوبارہ اس کے قریب آیا تھا
°°°°
شاپنگ مکمل ہو چکی ہے اور اب وہ گھر جانے کا فیصلہ کر چکے تھے یارم یہ بہت بگڑ گیا ہے ایک انجان شخص سے پیار لے رہا تھا اس کو تو وہ گھر چل کر ٹھیک کرتی ہو ں
کیسے اس شخص سے بسکٹ لے کر کھا رہا تھا یہ ۔روح غصے سے شونو کو گھورتے ہوئے ساتھ لے جانے لگی ۔
جب کہ یارم جانتا تھا کہ سارا غصہ کسی دوسرے شخص سے بسکٹ لے کر کھانے یا اس سے پیار لینے کا نہیں بلکہ یہ اس کے اندر کی جلن تھی وہ چاہتی ہی نہیں تھی شونو کو اس کے علاوہ کسی اور سے اتنی اٹیچمنٹ ہو اسی لئے تو وہ اسے معصومہ کے پاس بھی زیادہ نہیں رہنے دیتی تھی ۔
کون تھا وہ شخص تم نے اسے بتایا نہ کہ یہ کتا تمہارا ہے۔اور اس کا بنا تمہاری اجازت کے تمہارے کتے کو اس طرح سے چھونا یا اسے اپنی طرف متوجہ کرنا غیر قانونی ہے یا رم نے پوچھا
میں نے بس اتنا ہی کہا کہ یہ ڈوگی میرا ہے ۔اور پھر اسے لے کر آگئی ۔لیکن یہ اس کے پاس بہت آرام سے بیٹھا تھا ۔کیسے آرام سے اس کے ہاتھ سے کھا رہا تھا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا یا رم۔وہ اپنے دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بولی تو یارم مسکرا دیا
بس یہی حال ہوتا ہے میرا جب تم مجھے چھوڑ کر ہر چیز پر دھیان دیتی ہوں یارم بڑبڑاتے ہوئے اس کے ساتھ چل رہا تھا شکر ہے کہ روح نے اس کی بات پر غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت وہ شونو پر غصہ تھی
یقینا اس کی بات سن کر شونو کے ساتھ ساتھ اس سے بھی خفا ہو جاتی
اور اسے گاڑی میں بیٹھاتے ہی اس کی نصیحتیں شروع ہوچکی تھی ۔شونو خاموشی سے اس کی ڈانٹ سن رہا تھا
بس کر دو بے بی اب کیا جان لو گی اس بیچارے کی ہوگی غلطی اس سے اسے تھوڑی نہ پتا تھا کہ کسی اور سے پیار لینے پر تم اتنا غصہ ہو جاؤ گی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا اس نسل کے کتے تو زیادہ لوگوں کے ساتھ اٹیچ نہیں ہوتے
اور نہ ہی انجان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پھر شونو اس آدمی کے پاس گیا کیسے
یارم کہیں وہ کوئی کڈنپر تو نہیں تھا ہو سکتا ہے وہ شونو کو ہم سے چُرا کر لے جانا چاہتا ہوروح کوایک اور خیال گزرا
اور یہ بات سچ بھی ہو سکتی تھی ۔کیوں کہ کوئی پاگل ہی تھا جو اتنی مہنگی نسل کے کتے کو اس طرح سے چھوڑ دیتا
ممکن ہے تمہاری بات بھی ۔ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی چورہی ہو لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں شونو کی نسل کے کتے بہت ہوشیار ہوتے ہیں وہ اتنی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتے یارم نے اسے بے فکر کرنا چاہتا تھا
اور یہ بات سچ بھی تھی کتے کی جس نسل سے شونو کا تعلق تھا وہ ایک بہت ہوشیار اور بہادر نسل تھی چھوٹے قد کے یہ کتے آسٹریلین آرمی میں بھی استعمال ہو رہے تھے ۔اس لیے ان کو لے کر اس طرح کا ڈر رکھنا ایک قسم کی بے وقوفی تھی ۔
لیکن روح کے لیے وہ کوئی سمجھدار ہوشیار کتا نہیں تھا بلکہ اس کے لیے تو وہ اس کا چھوٹا سا شونو تھا جو کسی بات کو نہیں سمجھتا اور اسے اپنی مالکن کی ضرورت ہے
°°°°
یہ تو بہت اچھا ہے یارم لیکن شاید تم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ فی الحال کام بہت زیادہ ہے
اور تم روح کو اس طرح سے لے کر چلے جاؤ گے تو کام میں بہت مسائل پیش آئیں گے اور تم جانتے ہو کہ یہ سب کچھ ہم اکیلے ہی نہیں کرسکتے
14تاریخ تو یہ آرہی ہے اور تم مجھے ابھی یہ سب کچھ اتنا اچانک بتا رہے ہو ۔
کام ہوتے رہیں گے خضر ایک عرصے سے ہم کام کر رہے ہیں میں تھوڑا وقت اپنی بیوی کو دینا چاہتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے
روح کی طبیعت ابھی تھوڑی بہتر ہوئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ ایک نئی اور پیاری زندگی کی شروعات کرو ں ۔
اسی لیے میں نے یہ سب کچھ کروایا تھا ۔اور کام تم اور شارف سنبھال لو گے سب مجھے اس کی ٹینشن نہیں ہے یارم نے کافی بے فکری سے کہا لیکن خضر بے فکر نہیں تھا
یارم تم ہو تو ہم ہیں تمہارے نہ ہونے سے یہاں کچھ نہیں ہو سکتا تم جانتے ہو اور فلحال بہت سارے کیسز میں ہمارا نام شامل ہے
اس وقت تمہارا منظر سے غائب ہونا ہمیں بہت بری طرح پھنسا دے گا اس لئے میری مانو تو تم یہ پلان کینسل کر دو
اگر تم روح سے بات نہیں کر سکتے تو میں اسے سمجھاؤں گا وہ میری مجبوری کو سمجھ جائے گی لیکن تمہارا اس طرح یوں اچانک جانا ہمارے لئے کل بہت سارے مسائل پیدا کر دے گا
خضر نے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا
اس کی بات ٹھیک تھی یارم کا اس طرح سے منظر سے غائب ہونا ان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا تھا
کیونکہ الحال یارم بہت سارے کیسز میں ہاتھ ڈال چکا تھا وہ بہت سارے بڑےکنگ سے پنگا لے چکا تھا اور ایسے میں اس کا جانا اس کہی ٹیم کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
لیکن وہ روح سے وعدہ کر چکا تھا ۔جسے وہ کبھی بھی توڑ نہیں سکتا تھا
آج 9 تاریخ تھی ان کو جانے میں سے پانچ دن باقی تھے ۔
اور کچھ دن سے روح بھی بنا کسی قسم کی کوئی بھی مستی کی میڈیسن لے رہی تھی پچھلے کچھ دنوں سے وہ جس طرح سے خوش تھی وہ اسے ہرٹ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
°°°°
وہ آج بھی دوائیوں کے زہر اثر گہری نیند میں اتر چکی تھی اور سونے سے پہلے آج بھی اس نے سویزیلینڈ جانے کی بہت ساری باتیں کی تھی
کتنے وقت کے بعد وہ دونوں اکیلے ہی جانے والے تھے ہر پریشانی پر ٹینشن سے دور 24 گھنٹے ایک ساتھ۔وہاں صرف روح ہوتی اور اس کا یارم بس یہی سوچ روح کو بہت خوش کیے ہوئے تھی
جس نے اس کی صحت پر بھی بہت اچھا اثر ڈالا تھا ۔لیکن اب وہ اسے بتا نہیں پا رہا تھا کہ وہ 14 تاریخ اس کے ساتھ نہیں جا سکتا اس وقت یارم بہت سارے کیڑے موڑے نما ڈانز کی نظر میں تھا
جو اس کو تو نہیں لیکن اس کے جانے کے بعد اس کی ٹیم کو نقصان پہنچا سکتے تھے
نہ تو وہ اپنی ٹیم پر کسی قسم کا کوئی رسک لے سکتا تھا اور نہ ہی روح کیا ہوا وعدہ توڑ سکتا تھا
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم کب سے روح کا معصوم چہرہ نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا جب اسے لگا کی وہ نیند میں بے چین ہو رہی ہے اس نے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا لیکن روح کی بے چینی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بھر رہی تھی
اس کی سانس رکنے لگی تھی یارم نے اس کو گاجنا بہتر سمجھا جانتا تھا کہ روح نیند کی دوائی کے زہر اثر ہے وہ آسانی سے نہیں جاگے گی لیکن یارم نے ایک جھٹکے میں اسے بیڈ پر بٹھا دیا تھا جس سے اس کی نیند ٹوٹی تھی ۔
یارم نے فورن پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے لبوں سے لگایا تھا وہ بہت بری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا یارم نے اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا جانتا تھا کہ فی الحال تو کچھ بھی سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں ہے
یا رم ہم کب جائیں گے یہ دن گزر کیوں نہیں رہے
مجھے نہیں رہنا یہاں پلیز مجھے لے چل اپنے ساتھ
جہاں صرف ہم دونوں ہوں کوئی ڈر کوئی خوف نہیں یارم یہاں میرا دم گھٹتا ہے مجھے لے چلیں کھلی فضا میں کھل کے سانس لینا چاہتی ہوں
۔یارم مجھے کھل کر جینا ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے
یہ دن گزر کیوں نہیں رہے وہ اس کے سینے سے لگی آہستہ آہستہ بولتی دوبارہ نیند کی وادیوں میں اتر رہی تھی
جب کہ اس کے الفاظ نہ چاہتے ہوئے بھی یارم کو ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کر رہے تھے
یارم کی آنکھ کھلی تو اس کے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ آ گئی تھی کیونکہ وہ بالکل اس کے قریب کسی ننھے سے بچے کی طرح اس کے سینے میں چھپائے سو رہی تھی
صرف دو دن اور پھر یہ ساری دوریاں کہ ساری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ اپنی روح کو اپنے اندر ہی کہیں چھپا لے گا
جس دن سے اس نے روح کو اپنے سیکنڈ ہنی مون کے بارے میں بتایا تھا وہ بنا کسی قسم کی کوئی مستی کیے آرام سے اپنی میڈیسن لے رہی تھی اور اپنا بہت خیال بھی رکھ رہی تھی
وہ یہ سب صرف اور صرف اس ماحول سے دور جانے کے لئے کر رہی ہے وہ جانتا تھا کہ وہ اس ماحول سے تنگ آ چکی ہے
یار م کا اس سے دور رہنا اس کی ہر پسندیدہ چیز پر پابندی لگانا یہ سب کچھ روح کے لئے بہت مشکل ہے ۔
وہ جانتا تھا کہ وہ صرف اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہے اس وقت وہ صرف اور صرف یارم کا ساتھ چاہتی ہے
اس کے قریب رہنا چاہتی ہے اور یارم اپنے کام کی وجہ سے کافی وقت سے نہ صرف اس سے دور تھا بلکہ اس کی بیماری کی وجہ سے بھی وہ اس دور ہی رہتا تھا یہ ساری پابندیاں ڈاکٹرز کی لگائی ہوئی تھی ڈاکٹر کا کہنا تھا
کہ روح کو اس طرح اسے رکھا جائے کہ اسے کسی بھی چیز میں گھٹن محسوس نہ ہو ۔اور جو میڈیسن وہ استعمال کر رہی تھی وہ کافی زیادہ سخت تھی
روح کو پرسکون رکھنے کے لیے اسے نیند کی گولی دی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کے خوابوں کا اثر ختم نہ کر سکی۔
ہاں لیکن اب اس اندھیری رات کااثر کم ہو چکا تھا پہلے کی طرح وہ ساری ساری رات نہیں جاگتی تھی اس کا ڈر کافی حد تک کم ہو چکا تھا وہ قبر کا ڈر کم ہو رہا تھا لیکن ختم نہیں ہوا تھا اور یارم اس کے اندر سے اس ڈر کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔
اسی لیے یارم نے اسے کچھ وقت کے لیے یہاں سے دور لے جانے کا سوچا تھا
وہ روح کو ایک نیا ماحول دینا چاہتا تھا لیکن اس کے دشمنوں کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں تھا
اسی لئے کل رات اس نے اس سلسلے پلاینگ کی تھی اور آج صبح وہ اسی پر عمل کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا
وہ خضر اور شارف کی زندگی پر بلکل رسک نہیں لے سکتا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کے دشمن اس کی غیر موجودگی میں اس کے سب سے وفادار آدمی کو اپنا شکار بنا ئیں گے اور اگر ان لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا تو یقیناً ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ضرور کرے گے
ممکن تھا کہ اس کی غیر حاضری میں یارم کی جگہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے اسی لیے وہ اپنی ٹیم کو محفوظ کر کے ہی یہاں سے جانا چاہتا تھا جس کی پلاینگ وہ پہلے ہی کر چکا تھا
ایک نظر روح کو دیکھنے کے بعد وہ اس کے قریب سے اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا تا کہ واپس آکر روح کے لیے ناشتہ بنا سکے
°°°°
وہ گہری نیند سو رہا تھا جب کہ اس کا موبائل مسلسل بج رہا تھا
کون تھا جو اتنکصبح صبح اس کی نیند خراب کرتا اس نے غصے سے ایک نظر فون کی جانب دیکھا
دل تو چاہ رہا تھا کہ فون کرنے والے کی گردن کاٹ ڈالے۔لیکن اس کا پیارا دوست گردن کے بغیر بالکل بھی اچھا نہیں لگتا
خضر کے بچےصبح کے چھ بجے میری نیند کا بیڑہ غرق کر دیا ۔وہ بڑبڑایا ۔ایک کیا مجھ مصعوم کو بیوی کم مصیبت ملی ہے جو رات کے بارہ بجے تک برتن رکھ کر انتظار کرتی ہے کہ کب شارف آکر دھوئے گا اور اوپر سے صبح صبح یہ خضر کا بچہ نیند خراب کر دیتا ہے
معصوم کی بد دعا لگے گی تجھے خضر وہ بڑابڑتے ہوئے بنا دیکھے فون اٹھا چکا تھا
جلدی بولو زیادہ ٹائم نہیں ہے میرے پاس سونا ہے مجھے اور پھر وہ کھڑوس ہٹلر بلیٹ کٹر "دا یارم ڈیول کاظمی"مجھے بلا لے گا کوئی کام ہے نہیں اس کو فرف لوگوں کے سینوں پر بلیٹ چلانا ہے اور اگر بلیٹ نہیں چلانا تو ان کے منہ پر تیزاب پھینک کر ان کا کام تمام کرنا ہے اور بعد میں وہ لاشیں ہم ٹکانے لگا تے ہیں
اور پھر آدھی رات کو جب گھر واپس آتے ہی بیوی برتن دھولواتی ہے سوتے ہیں تو صبح ڈیول صاحب کا فون آجاتا ہے آفس میں جاو اس کی صفائی کرو مہاراج اپنے صاف ستھرے پیر گندے فرش پر نہیں رکھ نہیں سکتے وہ اپنی نیند خراب ہونے کا سارا غصہ فون پر موجود دوسرے آدمی پر نکال چکا تھا
خضر خاموش کیوں ہو میرے بھائی کیا ہوا کیا میں نے کچھ زیادہ بول دیا کافی دیر دوسری طرف سے کوئی آواز نہ سننے کے بعد شارف نے معصومیت سے تھا
شارف آج کے بعد فون اٹھانے سے پہلے تم دیکھو گے کہ فون پر کون ہے اور پھر اس حساب سے بات کرو گے آئی میری بات سمجھ میں۔اگر نہیں سمجھ میں آئی تو اگلی بار بلیٹ تمہارے سینے پر اور تیزاب تمہارے منہ پر گرے گا یار م کی سردآواز گونجی اور شارف کے ہاتھ کانپنے لگے
ڈیووووولل۔۔۔۔میییییر۔۔۔میرا۔۔مطلب ۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔یارم بھیا کیا آپ ہیں فون پر اس نے لڑکھڑاتی آواز میں بات مکمل کی
یہ جو تمہاری طوطے کی طرح پترپٹر زبان چلتی ہے نہ اسے ایک دن میں کاٹ دوں گا تمہاری وجہ سے مجھےیا میری ٹیم کو ایک پرسنٹ بھی نقصان ہوا تو تمہارا وہ حال کروں گا جو سوچتے ہوئے بھی تمہاری روح کانپ اٹھے گی ۔۔۔۔وہ ابھی بھی کافی غصے میں بول رہا تھا
نو ڈیول یہ پرائیویٹ نمبر ہے اس پر صرف ٹیم کے ممبر ہی فون کر سکتے ہیں شارف نے اسے بے فکر کرنا چاہتا تھا
مجھے ان سب چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں میں ایک لسٹ بھیج رہا ہوں ان میں سے چھ لوگ آج ڈنر پر جبکہ پانچ لاک لوگ آج لنچ پر مجھ سے ملنے چاہیے
یارم نے کہتے ہوئے فون کر دیا جبکہ شارف سوچ رہا تھا کہ ایسے کون سے اسپیشل لوگ ہیں جن کے لئے یارم نے اسے چھ بجے سے فون کرکے اٹھایا ہے
اور پھر چند ہی سیکنڈ میں ایک لسٹ کے موبائل اوپن ہو چکی تھی
یہ گیارہ لوگوں کی لسٹ تھی جس میں دبئی کے گیارہ بڑے اور پاوور فل گنگز کے کنگز کا نام تھا
اور یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے یارم کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے تاکہ اس کی جگہ پر اپنا قبضہ کر سکے
وہ سب اس کی جگہ ڈان بنا چاہتے تھے اور دئبی مافیایہ پر راج کرنا چاہتے تھے اور ایسا تب ہی ممکن تھا جب ڈیول کو جان سے مارتے یا پھر ڈیول ان سے ہاتھ ملا لیتا۔
وہ لوگ کافی بار یارم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے تھے لیکن اسے حیوانوں سے ڈیول صرف دشمنی رکھنا پسند کرتا تھا
وہ لوگ تو یارم کے خلاف چاہا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے تو اس کا مطلب تھااپنی ٹیم کو محفوظ رکھنے کے لئے وہ ان لوگوں سے ہاتھ ملا رہا تھا مطلب کہ وہ اپنی طرف سے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا شارف کو یہ بات اچھی تو نہیں لگی لیکن یارم کا آرڈر تھا پورا تو کرنا ہی تھا
°°°°
مطلب کے اتنے برے دن آگئے ہیں کہ اب ہم ان حیوانوں سے ہاتھ ملائیں گے
جانتا ہو یارمتم روح سے بے انتہا محبت کرتے ہو لیکن اس کے لیے تم ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملا لو گے جو معصوم بچیوں کے جسم کا دھندا کرتے ہیں ۔
جو معصوم بچوں کے جسم میں ڈرگز اور نشہ وار شراب اور پتہ نہیں کون کون سے زہر کو بھر رہے ہیں
روح کے لئے تمہاری محبت اپنی جگہ لیکن وہ انسانیت کہاں گئی جس کی خاطر تم نے یہ کام شروع کیا تھا
شارف سوچ سکتا تھا کہہ کچھ نہیں سکتا تھا کیونکہ یہاں سامنے کوئی اور نہیں بلکہ ڈیول تھا
جسے اس وقت صرف اور صرف اپنی بیوی کی پرواہ تھی۔
اور اپنی بیوی کو ایک پرسکون اور محبت بھرا ماحول دینے کے لیے وہ ایسے گھٹیا لوگوں کو ڈنر اور لنچ پر انوائیٹ کر کے ۔یہ دوستی کا ہاتھ یارم کی طرف سے بڑھایا جارہا تھا تو یقینا ان سب نے ہی خوش دلی سے قبول کرنا تھا
لیکن شارف مطمئن نہیں تھا یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس کا دل بے چین تھا ۔
اور اپنا سارا غصہ صبح سے معصومہ پر بھی دو بار نکال چکا تھا ۔معصّومہ کی یہ عادت بہت اچھی تھی کہ جب شارف غصے میں ہوتا تو وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھی بلکہ اس کی ہر بات کو ہنس کر برداشت کر جاتی
اور پھر جب اس کا غصہ ختم ہو جاتا تب معصومہ کی باری آ جاتی اور وہ اپنے بدلے گن کر پورے کرتی اور اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا تھا
شارف غصے سے بحال ہوتے چار سے پانچ بار خضر کو فون کر چکا تھا
خضر کو بھی یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی تھی کہ روح کے لیے وہ ایسے گھٹیا لوگوں سے ہاتھ ملانے کو تیار تھا ۔۔ ہاں وہ روح ہی تھی جس نے یارم کے اندر سے ایک پیارے سے انسان کو جگایا تھا
لیکن اس کی وجہ سے ہی یارم کے اندر انسانیت ختم ہوتی جا رہی تھی وہ مطلبی ہوتا جا رہا تھا
°°°°°
شارف کو فون کرنے کے بعد وہ بے فکر ہو چکا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ شارف اپنا کام وقت پر نپٹالے گا روح کا ناشتہ بنا کر کمرے میں لایا تو روح ابھ بھی سو رہی تھی
وہ پیار سے اس کے قریب آیا اور اس کو جگانے لگا اس وقت صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے ۔آج دوپہر کا لنچ اس نے ان لوگوں کے ساتھ کرنا تھا جن سے وہ بے تحاشا نفرت کرتا تھا اور پھر آج کا ڈنر ان لوگوں کے ساتھ جنہیں دیکھتے ہی وہ اس دنیا سے ختم کر دینے کا ارادہ رکھتا تھا
لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کہ کچھ وقت کے لئے ہی سہی لیکن یارم کو ان لوگوں کو برداشت کرنا تھا
وہ اسے کافی دیر سے جگا رہا تھا لیکن روح کی نیند نہیں ٹوٹ رہی تھی جب بے ساختہ ہی یارم کی نظر اس کی آنکھوں کی پلکوں سے ہوتے ہوئے اس کے سرخ لبوں پر آ ٹھہری ۔وہ بے خود سا اس کے لبوں کو دیکھنے لگا
آج بہت عرصے کے بعد اس کا دل بغاوت کرنے لگا دل کو بہت سمجھانے کے بعد بھی وہ سمجھنے کو تیار نہ تھا آج وہ اس کے لبوں کو چھونے کی خواہش کر رہا تھا
یارم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن آج اس کا دل باغی ہونے لگا تھا آج ہو اس کے کسی بہانے پر کان نہیں دھررہا تھا
اس کے گلے میں کانٹے چبھنے لگے تھے جیسے آج اگر وہ یہاں سے پیچھے ہٹ گیا تو شاید اس پیاس سے مر ہی جائے گا تشنگی تھی جو بڑھتی چلی جارہی تھی وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگا
اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لیے محسوس کرنے لگا
بے حد نرم اور پیار بھرا لمس تھا کہیں وہ اس کے چھونے سے ٹوٹ جائے ۔
وہ بہت نرمی سے اپنی سانسوں کی خوشبو کو اس کی سانسوں میں بسا رہا تھا اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس سے دور ہوا کیوں کہ یہ تشنگی تو شاید اب کبھی بھی مٹنی ہی نہیں تھی اور نہ ہی یہ پیاس کبھی ختم ہو سکتی تھی ۔لیکن وہ اپنے باغی کی دل کی ضد کی خاطر اپنی روح کو کسی قسم کے امتحان میں نہیں ڈال سکتا تھا اس لئے بہت نرمی سے اس سے الگ ہوا
اس کے دور ہوتے ہی روح نے اپنی آنکھیں کھول دیں وہ جانتا تھا کہ وہ جاگ چکی ہے اس کی سانسیں تیز ہونے لگی چہرے پر ایک پیاری سی مسکان تھی یارم بے خود سا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جب کہ اسے خود کو دیکھتے پاکرروح نے فور اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اور اس کی یہ حرکت یارم کے چہرے پر مسکراہٹ کو گہرا کر چکی تھی
یارم آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں ایسا کون کرتا ہے کسی بیمار انسان کے ساتھ اس کی میٹھی سی سرگوشی اس کے کانوں میں گونجی تو یارم کے دمپل پر مزید گہرے ہوئے
بےبی اپنا دل مضبوط کر لو کیوں کہ اب میں بالکل بھی اچھا ثابت نہیں ہونے والا بہت ستا لیا ہے تم نے مجھے سویزلینڈ جاتے ہی تم سے گن گن کے بدلے نہ لئے تو میرا نام بھی یارم کاظمی نہیں یاد رکھنا
اور اب مزید خود کو بیمار کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بالکل ٹھیک ہو تم اور اب میں تمہیں جہاں لے کر جاؤں گا وہاں تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اس نے نرمی سے اس کا ماتھا چومتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر بٹھا دیا
چلو جلدی سے فریش ہو کر آؤ پھر ہم دونوں مل کر ناشتہ کرتے ہیں ۔
اور پھر مجھے ایک بہت ہی اہم کام کے لئے نکلنا ہے آج کا سارا دن مصروف رہے گا اور ہوسکتا ہے رات کو بھی آنے میں دیر ہو جائے ۔تیار ہو جاؤ تمہیں جاتے ہوئے لیلیٰ کے گھر چھوڑ دوں گا ۔آج بہت دنوں کے بعد اس نے اسے لیلیٰ کی طرف لے جانے کی بات کی تھی روح تو خوشی سے پھولے نہ سمائی
سچی یارم آپ سچ میں مجھے لیلی کے پاس چھوڑ کر جائیں گے آپ کتنے اچھے ہیں اور آپ کا یہ ڈمپل آپ سے بھی زیادہ اچھا ہے میں ابھی تیار ہو کے آتی ہوں وہ اس کے گال کھینچتے ہوئے اور فریش ہو نے بھاگ گئی تھی
جب کہ یارم اس کی سپیڈ دیکھ کر صرف مسکرا دیا
°°°°°
ڈیول سر آپ کی مہمان آگئے ہیں شارف آف موڈ کے ساتھ پیغام لے آیا تو یار م نے اس کا انجان سا لہجہ شدت سے محسوس کیا
صبح سے خضر بھی ایک بار بھی اس کے آفس میں نہیں آیا تھا اور شارف بھی صبح سے اس سے نام کے بجائے سر کہہ کر پکار رہا تھا
اور جو آرڈر دیا تھا میں نے وہ آیا یا نہیں اس کے اس انداز پر یارم نے کافی روڈلی پوچھا تھا
ہاں وہ بھی آگیا ہے لیکن صرف پانچ لوگوں کا ہی کھانا ہے ۔میرا نہیں خیال کہ ہم لوگ بھی وہیں پر کھانا کھا رہے ہیں خیر ہماری ایسی کوئی خواہش بھی نہیں ہے آپ اپنے مہمانوں کو خود ہی ہینڈل کریں
وہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ناراضگی ظاہر کر رہا تھا جس کا یارم نوٹس لیے بغیر اس کمرے کی طرف آ گیا جہاں لنچ پر پانچ لوگوں کو انوائٹ کیا گیا تھا
اس نے ایک نظر خضر کی طرف دیکھا تھا جو اسے دیکھتے ہی منہ پھیر گیا مطلب کے اس کے اس قدم پر وہ بھی اس سے سخت خفا تھا
°°°°°
ہم تمہارے شکرگزار ہیں ڈیول جو تم نے ہمیں اس قابل سمجھا کہ تم نے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے
تمہارے اس قدم سے ہمیں سچ میں بہت خوشی ہوئی ہے ہم ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہیں تم جو کہو گے ہم وہ کریں گے
بس تم ہمیں اپنے گینگ کا حصہ بنا لو تمہارا نام ہی کافی ہے سب کی چھٹی کر دے گا وہ لوگ کافی پر جوش تھے جب ڈیول نے انہیں کھانے کی طرف متوجہ کیا
بہت شکریہ ڈیول کھانا بہت لذیذ ہے مگر تم کیوں نہیں کھا رہے ان میں سے ایک نے پوچھا
میں دوپہر کا کھانا اپنی ٹیم کے ممبرز کے ساتھ کھاتا ہوں آج وہ لوگ مجھ سے ذرا خفا ہیں تو نہ تو خود کچھ کھائیں گے اور نہ ہی مجھے کچھ کھلائیں گے اس نے عام سے لہجے میں جواب دیا
جب کہ یارم اب انہیں کھانے کی طرف متوجہ دیکھ کر اپنے بیگ سے کچھ سامان نکال رہا تھا
اس کے ہاتھ میں بلیڈ کے پیکٹ دیکھ ایک آدمی کو کھانا کھاتے کھاتے اچانک کھانسی شروع ہوگئی
تم یہ بلیڈز کیوں نکال رہے ہو ڈیول ہمیں اس سے بہت ڈر لگتا ہے تمہارے کام کرنے کا طریقہ بہت خطرناک ہے
اور بہت تکلیف دا بھی ۔ایک آدمی نے جہاں بعد چھوڑی اس کی بات کو دوسرے آدمی نے مکمل کیا
مجھے ان کی ضرورت پڑے گی وہ ایک بلییڈ کو ان پیک کرتے ہوئے سامنے رکھ کر دوسرے کو کرنے لگا
ضرورت کیسی ضرورت ہم تو تمہارے دوست ہیں اپنی موت کو دور سے آتا دیکھ کر ہی ایک آدمی گھبرا کر ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا
تم جیسے درندے کبھی میرے دوست نہیں ہو سکتے میرے صرف دو ہی دوست ہیں ۔
خضر شارف ایماندار اور جان نثار کرنے والے ان دونوں کے ہوتے ہوئے مجھے تم جیسے ہی حیوانوں کو دوست بنانے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئے گی
تم لوگ رک کیوں گئے کھانا کھاتے رہو اگر تم لوگوں کے ہاتھ کھانے سے رکے تو میرے ہاتھ سے چلیں گے اور یقین مانو یہ موت بہت تکلیف دا ہے
فی الحال تم پانچ اور رات کے ڈنرپر میں نے باقی چھ کو بھی انوائٹ کر رکھا ہے میں نے بہت سوچا میں تم لوگوں سے زیادہ نفرت کرتا ہوں یا ان چھے لوگوں سے اور پھر ان لوگوں کا پرلا ذرا بھاری تھا اس لئے سوچا انہیں ذرا فرصت سے ماروں گا
اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تو وہ پانچوں گھبراکر کھانا کھانے لگے جب ڈیول کی آواز ایک بار پھر سے گونجی
کھانے میں زہر ہے میری عادت ہے میں اپنے شکار کو تڑپا تڑپا کر مارتا ہوں مجھے سکون ملتا ہے ۔
اس کے کہتے ہی ان لوگوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیے اور ویسے ہی ڈیول کا ہاتھ چلا تھا سامنے بیٹھے آدمی کی انگلی اس کے دھڑ سے الگ ہو چکی تھی وہ چیخنے لگا چلانے لگا
میں نے کہا نہ اگر تم لوگوں کے ہاتھ کھانے سے رکے تو تم لوگوں کی موت زیادہ تکلیف دہ ہو گی
اس نے اس آدمی کی پروا کیے بغیر باقی چاروں کی طرف اشارہ کیا تو وہ کٹی انگلی کے ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا
موت تو ہر طرف سے آنے تھی اس طرف سے نہ سہی تو اس طرف سے
اور ڈیول کے بلیڈسے تڑپ تڑپ کےمرنے سے بہتر تھا کہ وہ یہ زہر والا کھانا کھا کے مر جاتے
یارم پر سکون سا کرسی پر بیٹھا ان چاروں کو کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا ایک تو وہیں زمین پر بے ہوش ہو چکا تھا شاید زہر نے اس پر زیادہ اثر دکھا دیا تھا
بے فکر رہو اس زہر سے تم لوگ بہت پرسکون نیند سو جاو گے اور شکر کرنا کے میرے ہاتھوں نہیں مارے گئے
وہ اپنے بلیٹڈزکو واپس بیگ میں رکھتا ہوا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا
دو گھنٹے کے بعد لاش ٹھکانے لگا دینا وہ شارف سے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا
اکرم کھانا آرڈرکردو بہت بھوک لگی ہے ۔خضر مسکرا کر کہتا ہوا شارف کو آنے کا اشارہ کرتا یارم کے پیچھے ہی اس کے کیبن کی طرف بھاگا تھا
کمرے خون سے بھرا ہوا تھا ۔کسی کی انگلی تو کسی کا پاؤں کاٹا ہوا تھا ۔شارف اور خضر دونوں ہی یہاں نہیں آنا چاہتے تھے ۔بلکہ وہ دونوں تو اس کمرے میں قدم تک رہیں رکھنا چاہتے تھے لیکن یارم کے آرڈر کے آگے ان دونوں کی کہاں چلتی تھی
خضر اپنی فضول میں اس سے ناراضگی کی سزا کاٹ رہا تھا تو شارف صبح فون پر ہونے والی گفتگو کی سزا کاٹ رہا تھا
اور یارم اب جان بوجھ کر ان دونوں سے بدلہ لینے کے لئے بار بار اپنا خون سے بھرا ہوا ہاتھ شارف کے رومال سے صاف کر رہا تھا ۔
اور باربار خضر سے فرش پے پوچا لگواتا کیونکہ اسے گندگی بالکل پسند نہیں تھی ۔ان لوگوں نے صبح سے ابھی تک کھانے کا ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا ۔کیونکہ یارم کا موڈ اس وقت کے بعد ٹھیک نہیں ہوا تھا
شارف تو اس وقت کو رو رہا تھا جب اس نے یارم کو سر کہہ کر بلایا تھا اور تب سے لے کر اب تک اس وقت کو پچھتا رہا تھا کیونکہ یارم ہر تھوڑی دیر کے بعد کہتا شارف سر یہاں کر میرا ہاتھ صاف کریں گے
وہ ار بار خون سے بھرا ہوا ہاتھ صاف کرتے اور اس عمل کو برداشت کرتے ہوئے شارف کی حالت خراب ہوچکے تھے اسے الٹیاں آ رہی تھی لیکن ڈیول کے سامنے ایسی کوئی بھی حرکت آلاوڈ ہیں تھی
جبکہ خضرجس نے فیصلہ کیا تھا کہ آج یارم ان لوگوں کے ساتھ لنچ کرے یا نہ کرے لیکن ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھائے گے کیونکہ وہ غلط لوگوں سے ہاتھ ملا رہا ہے لیکن وہ کہاں جانتا تھا کہ اپنی اس غلطی کی وجہ سے اسے سارا دن بھوکا پیاسا رہنا ہوگا
اور اب بھوک سے بے حال ہوتے ہوئے خون سے بڑا فرش صاف کرکے اس کی بھوک بھی بےموت مر چکی تھی ۔
آج یارم نے پہلی بار اس سے وہ کام کروایا تھا جو شارف کرتا تھا
شارف تو صبح اس کا کام سن کر خوش ہو گیا تھا کہ آج وہ شارف کے حصے کا کام کرنے والا ہے لیکن جو کام یارم نے شارف کے لیے مقرر کیا تھا اس کے بارے میں شارف بیچارے نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
یارم کے ایک اشارے پر وہ پیکٹ سے ایک نیا رومال نکال کر اس کے پاس آتا اور اس کے ہاتھ کو صاف کرنے کی کوشش کرتا
یارم واقع ہی بہت صفائی پسند تھا وہ کسی قصائی کی طرح آرام سے کرسی پر بیٹھا ان لوگوں کی کٹنگ کر رہا تھا لیکن مجال تھا جو اس کے کپڑوں پر خون کی ایک بوند گری ہو یا اس کے چہرے اور بدن یا کسی اور حصے پر کوئی داغ آیا ہو
ہاں اس کا ہاتھ بار بار گندا ہو جاتا تھا جسے شارف صاف کر رہا تھا
شارف اور خضر دونوں ہی بس اس وقت کے گزر جانے کا انتظار کر رہے تھے
یہ بات تو آج تاریخ میں رقم ہوچکی تھی کہ آئندہ وہ دونوں ڈیول کے اصولوں پر کبھی انگلی نہیں اٹھائیں گے
اپنا کام ختم کرکے یارم کپڑے جھراتا ہوا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا
اور پھر اس کے پیچھے ہی وہ دونوں اپنی الجھی ہوئی حالت میں باہر آئے تھے
یارم تم نے ہمیں معاف کر دیا نا ۔خضر نےاس سے پوچھا تھا
یہ ساری باتیں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں پہلے ان لاش کے سارے پرزے اس بےوقوف انسپکٹر تک پہنچا دو
اس نے ایک اور آرڈر دیا اور اپنے روم کی طرف جانے لگا
°°°°°
خضر اپنی ٹیم تک اس کے آرڈر پہنچاتا خود بھی اس کے پیچھے پیچھے شارف کو ساتھ لے آیا تھا
یارم ہم نے سارا کام نے بتا دیا اب تو بتاؤ تم ہم سے ناراض نہیں ہونا
خضر شارف میرا دماغ خراب نہ کرو فی الحال جاؤ یہاں سے بہت وقت گزر گیا ہے مجھے بھی اب چلنا چاہیے دیر ہو رہی ہے روح انتظار کر رہی ہو گی۔اور جاؤ تم لوگ بھی کپڑے بدل لو کیسے عجیب سے خلیے میں ہو تم دونوں مجھے تو دیکھ کر ہی کراہت محسوس ہو رہی ہے وہ اپنا کوٹ کرسی سے اتارتے ہوئے بولا
یارم بھائی پلیز ہمیں معاف کر دیجئے ہم سے غلطی ہوگئی آئیندہ ہم سے کوئی غلطی نہیں ہوگی شارف جو کب سے ہے ان کی باتیں سن رہا تھا یار م کو یوں نظر انداز کرتے دیکھ وہ اس کے پیروں میں جھک گیا
شارف خضر کیا بچنا ہے اٹھو زمین سے تم جانتے ہو مجھے یہ حرکتیں پسند نہیں ہیں یارم نے ذرا سخت لہجے میں کہا
پسند ہو یا نہ ہو یارم بس تم ہم سے ناراض ہو اور یہ بات ہماری برداشت سے باہر ہے پلیز ہمہیں معاف کر دو ہم سے غلطی ہوگئی خضر نھی اس کے پیرپکڑچکا تھا
یار مسئلہ کیا ہے تم دونوں بے غیرتوں سکون سے ناراض بھی نہیں ہونے دیتے یارم نے ہار کر کہا تو وہ دونوں مسراتے ہوئے نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اس سے چپک بھی چکے تھے
کمینوکیا حالت کر دی میری ایک بار اپنا خلیہ تو دیکھ لیتے ۔وہ ان دونوں کو سمجھتے ہوئے بولا توخضراور شارف دونوں کا قہقہ بلند ہوا
بس تم آئندہ ہم سے ناراض نہیں ہونا یارم۔ہم سچ میں بیوقوف ہیں۔ہم نے تم سے ایک بار نہیں پوچھا کہ آخر تمہارا پلان کیا ہے بس اپنے پاس ہی اندازہ لگاتے رہےخضر نے سرجھکا کرپنی غلطی کو قبول کیا
ہاں تم لوگ سچ میں بہت بیوقوف ہو ہمیشہ الٹے سیدھے کام کرتے رہتے ہو خیر ان سب باتوں کو چھوڑ لیکن آئندہ ایسے میرے قریب مت آنا
مجھے میرے اتنے قریب صرف میری بیوی ہی اچھی لگتی ہے ۔
تم جیسے گندے اور بدبودار لوگ نہیں یارم نے ان کی خالتوں کی طرف اشارہ کیا
ہاں بالکل ہم کوئی نفس نازک تھوڑی ہیں جو تمہیں اچھے لگے
چل شارف جا کر نہا لے میں بھی اپنا حلیہ درست کر کے گھر جانے کی تیاری کرتا ہوں اب وہ دونوں پرسکون تھے
°°°°
کل تک ان کے دماغ میں بس یہی ایک سوچ تھی کہ یارم کے جانے کے بعد یہ کنگز ان کی ٹیم کے لیے بہت مشکل پیش کریں گے ممکن تھا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں ان پر حملہ کرتے
وہ لوگ صرف اور صرف یارم کی ٹیم کا حصہ بننا چاہتے تھے اور یارم ایسا نہیں کرتا تو کسی نہ کسی طریقے سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے
تو پہلے بھی بہت بار یارم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکے تھے لیکن یارم نے کبھی بھی ان لوگوں کو ان کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہونے دیا
ان سب کی خواہش ایک ہی تھی یارم کی جگہ پر قبضہ کرکے دبئی کا ڈان بنا لیکن ایسے چھوٹے موٹے کیروں مکوڑوں کو یارم بہت آسانی سے جہنم تک پہنچا دیتا تھا
وہ تو سب ان سب کو موقع دے رہا تھا کہ شاید وہ سدھر جائیں لیکن سدھرنے کے بجائے وہ سب لوگ اپنا اپنا ایک گینگ تیار کر چکے تھے اور دبئی کے بہت سارے علاقوں میں وہ اپنی دہشت پھیلا چکے تھے ۔اور ان میں سے بہت سارے بے غیرت ایسے بھی تھے جو اور عورتور بچیوں کی عزت کے لیے خطرہ بن چکے تھے یارم کی نظر بہت وقت سے ان لوگوں پر تھی بس فلحال وہ قانون کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا
لیکن اپنے لوگو کی سیفٹی کے لیے اسے یہ قدم اٹھانا پڑا
وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے
یارم اپنی ٹیم کے خلاف کچھ برداشت کر سکتا تھا اور نہ ہی روح سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ سکتا تھا آج نہیں تو کل ان سب نے یارم کے قہر کا نشانہ بنایا تھا
کیوں کہ اپنے کاموں کی وجہ سے وہ یارم کی بیٹ لسٹ میں شامل ہو چکے تھے اسی لئے یارم نے یہاں سے جانے سے پہلے ان سب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی ٹیم کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے
وہ جانتا تھا کہ اب سب پیچھے خضر سنبھال لے گا ۔
اور اس کی مدد کرنے کے لیے شارف ہر وقت اس کے ساتھ موجود ہوگا اب وہ روح کے ساتھ بے فکر ہو کر کہیں بھی جا سکتا تھا اب اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی
°°°°°
وہ پرسکون سا ہو کر گھر کی جانب آیا تھا
لیلی اسے شام کو ہی فون کرکے بتا چکی تھی کہ وہ روح کے ساتھ بازار گئی تھی دونوں نے خوب ساری شاپنگ کی ہے اور اس کے بعد وہ اسے گھر چھوڑ کر اپنے گھر جا چکی ہے
اسی لئے یارم ڈائریکٹ اپنے گھر میں آیا تھا لیکن گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی اس کا فون بج اٹھا
سامنے بیوقوف پولیس والے کانام جگمگا رہا تھا
جلدی بولو صارم میں بہت تھکا ہوا ہوں فلحال کسی سے بات کرنے کا موڈ نہیں ہو رہا اس نے بےزاری سے کہا
ہاں بالکل ان حیوانوں کے جسم کے ٹکڑے کرتے ہوئے ہاتھوں میں درد ہو گیا ہوگا کہو تو میں آکر دبا دوں اس نے بھرپور طنز کیا۔
کیوں پولیس والے کی نوکری سے ریٹائرمنٹ لے رہے ہو کیا جو کسی نئی نوکری کی ضرورت پیش آگئی ہے
خیر فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے اگر موڈ بن گیا تو تمہیں اس نوکری کے لیے رکھ لوں گا اس کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا
کیا بگاڑا تھا ان لوگوں نے تمہارا۔۔۔۔۔!
تمہیں اندازہ بھی ہے ہم کتنے وقت سے ان لوگوں کو تلاش کر رہے تھے ۔۔؟صارم کو غصہ آنے لگا
اگر تم لوگوں کی تلاش ناکارہ ہے تو اس نے میرا کیا قصور ۔۔۔؟
میرے ہاتھ آئے مارے گئے ۔۔
اور ویسے بھی میں نے سنا ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں تم اپنے لمبے ہاتھوں کی مدد سے بچالیتے نا ان کو
یارم تمیں احساس بھی ہے تم نے ایک دن میں گیارہ لوگوں کا قتل کیا ہے اور وہ بھی کوئی عام انسان نہیں بلکہ جانے پہچانے مجرم اور قانون کی نظر میں درندے تھے وہ لوگ یارم اب تو سنبھل جاؤ
اب تو چھوڑ دو یہ ساری چیزیں کیوں خود کو اس دندل میں پھنسارہے ہو کیوں نہیں چھوڑ دیتے یہ سارے کام ۔۔چھوڑ دو سب کچھ یار م اپنی زندگی میں آکر بھرو خود کو دیکھو روح کو دیکھو ایک نئی زندگی شروع کرو
صارم یار تم تو اچھے خاصے بورنگ انسان ہو اتنے فریش موڈ کے ساتھ گھر آیا تھا بیڑہ غرق کردیا موڈکا چلو مجھے نسیت ہوگی آج کے بعد گھر آتے ہوئے کبھی تمہارا فون نہیں اٹھا ونگا
خیر میں نے ایک فائل تیار کی ہے اس کے مطابق ان سب لوگوں کو ڈھونڈنے میں تم کامیاب رہے ہو لیکن افسوس کہ تم انہیں بچا نہیں سکے تمہاری بہادری کے قصے ضرور چلیں گے جانتا ہوں کہ تم نے یہاں کچھ نہیں کیا لیکن میں نے سوچا کہ یہ کیس میں تمہاری آفیسر کے نام کر دوں
ہو سکتا ہے تمہیں اس بار پرموشن مل جائے ۔چلو اب میرا دماغ مت کھاؤ گڈنائٹ فون رکھتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولا
لیکن صارم آگے سے بنا کچھ بولے فون کے اندر سے آتی ٹوں ٹوں کی آواز سن رہا تھا یہ آج یا کل کی بات نہیں تھی یارم کو کچھ بھی سمجھانا اس کے بس سے باہر تھا لیکن وہ پھر بھی کوشش نہیں چھوڑتا تھا کہ شاید وہ اس کی بات کو سمجھ کر یہ گناہوں کا رستہ چھوڑ دے
جن لوگوں کو یارم نے جان سے مارا تھا وہ یار! کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے تو پھر بھلا کیا دشمنی تھی یار م کی ان لوگوں کے ساتھ صارم کو زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے اسی کیس پر کام کر رہا تھا اور جلد ہی وہ ان لوگوں کو گرفتار بھی کرنے والا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے انہیں جان سے مار کر راستے سے ہٹا دیا اور صارم کی ساری کی ساری محنت بری طرح سے برباد ہو گئی
°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی اسے اپنی جان کا چہرہ دیکھنا تھا
وہ آہستہ آہستہ اندر آیا لیکن سامنے ایک بار پھر سے اپنے حکم کے خلاف اسے کیچن میں کام کرتے دیکھ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے ۔ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ روح اس کی کوئی بات مان لیتی ۔
اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یارم اسے سبق ضرور سیکھتا لیکن یہاں تو وہ تھی جیسے پتا تھا کہ اس کی ہر غلطی کی سزا معافی ہے
یارم کاظمی کی عدالت میں وہ گناہگار ہو کے بھی بے گناہ تھی۔پہلے تو یارم اس کی ہر غلطی کی سزا اپنے انداز میں دیتا لیکن اب ایسا نہیں تھا اسی لیے تو وہ بگڑ گئی تھی بلکہ بہت بگڑ گئی تھی
لیکن وہ اپنی روح کو ہینڈل کرنا جانتا تھا ۔
اور اب وقت آگیا تھا کہ وہ اسے سدھارے اور اب جلد ہی وہ اسے سدھارنے والا تھا
وہ غصے سے لب بھیتا اس کے سر پر سوار ہوا
یہ سب کیا ہے روح۔۔۔۔؟ جب میں نے تمہیں کام کرنے سے منا کیا ہے تو تم کیوں باز نہیں آ جاتی وہ سخت لہجے میں بولا
لیکن یارم آپ نے ہی تو صبح بولا تھا کہ اب میں ٹھیک ہوں ۔اور اگر میں ٹھیک ہوں تو میں کچھ بھی کرسکتی ہوں نا ۔وہ معصومیات سے کہتی اس کے الفاظ اسے واپس کر رہی تھی
ہاں کہا تھا میں نے کہ تم ٹھیک ہولیکن یہ نہیں کہا تھا کہ کیچن میں پہنچ جاو ۔ابھی اتنی بھی ٹھیک نہیں ہو تم وہ سمجھانے لگا
آففففف یارم ٹھیک تو ٹھیک ہوتا ہے اِتنا اُتنا نہیں اور میں ٹھیک ہوں تو ہوں نا اسی لیے تو میں نے آپ کے لیے یہ بنایا ہے وہ بھی بہت پیار سے وہ مسکرا کر کہتی اسے لاڈ سے کرسی کی طرف کھنچنے لگی
یارم اسے گھورٙتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر بریانی اپنی پلیٹ میں نکالنے لگا چہرے پر سختی تھی مطلب اس کا موڈ ٹھیک نہیں تھا
اچھا نا اب نہیں کروں گی کچھ بھی وعدہ بس آپ اتنے دن سے کھانا برائےنام کھا رپے تھے تو میں نے آپ کے لیے یہ بنانے کا سوچا اب سے وعدہ جو آپ کہیں گے وہی کروں گی
وہ یارم کی پلیٹ سے خود بھی کھاتے ہوئے پیار سے بولی
کھانے کے بعد یارم نے خاموشی سے پلیٹ پیچھے کر لے اسے دیکھا
چائے بناو۔۔۔یارم نے کہا تو وہ اسے حیرانگی سے دیکھنے لگی
جی۔۔۔! اسے لگا شاید اس نے غلط سنا ہے
جی کیا جاو چائے بناو اگر بریانی کھاکر منہ کا ذائقہ بدل ہی دیا ہے تو ایک کپ چائے بھی ہو ہی جائے آخر اب تم ٹھیک ہو چکی ہووہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
ہاں کیوں نہیں مِیں ابھی بناتی ہوں۔اس کا انداز روح کو پرسکون کر گیا وہ اس سے خفا نہیں تھا
روح نےفوراً اس کے لیے چائے بنائی تھی جو یارم نے پرسکون ہو کر پی ۔
برتن دھو کر کمرے میں آجانا میں زرا آفس روم میں ہوں وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر چلا گیا ۔
روح کو یقین نہیں آرہا تھا یارم اسے اتنا نارملی ٹریٹ کر رہا تھا اس کا مطلب تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے سب کچھ نارمل ہو رہا ہے پہلے جیسا وہ بہت خوش تھی
°°°°°
وہ کافی دیر بعد کمرے میں آئی تو یارم اپنا کام ختم لر کے روم میں آ چکا تھا اس نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ بن کے قریب کھڑا تھا
روح نے غور کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ اس کی میڈیسن بن میں پھینک رہا ہے۔آج کی رات آخری تھی ان میڈیسن کی اس کے بعد وہ آزاد تھی لیکن یارم اسے پہلے کیوں پھینک رہا تھا
سوچا کہ تم اب ٹھیک ہو گئی ہو تو ان میڈیسن کی بھی تمہیں کوئی ضرورت نہیں کیا خیال ہے وہ نرمی سے کہتا اس کے پاس آیا تو روح نے ہاں یں سر ہلایا ۔
جب یارم نے جھک کر اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔وہ گھبرائی تھی
یارم ۔۔۔۔ اس کے لبوں نے بے آواز سرگوشی کی
سشش ۔۔۔ تم ٹھیک ہو نا تو اپنا بیوی ہونے کا فرض ادا کرو ۔اپنے وجود سے اپنے شوہر کو سکون دو ۔تاکہ اسے پتا چل سکے کہ تم کتنی ٹھیک ہو ۔وہ اسےبیڈ پر لیٹا کر اس کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں لے چکا تھا
اپنے یارم کو سکون دو روح۔ وہ بے سکون ہے۔ اد کا سکون کھو گیا تھا ۔اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومتے وہ اس کے کان کے پاس سرگوشی کرنے لگا۔
تم نے مجھے بہت ستایا ہے روح ۔اب مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا۔محبت کے اس دریا ہو انتظار کی سولی پر لٹکا کر سمندر تم نے کیا ہے تو اب اس سمندر میں تمہیں میرے ساتھ ڈوبنا بھی ہو گا۔
اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے وہ اس کے لبوں کو پوری شدت سے قید کر گیا۔وہ بنا مذاحمت کیے اس کی باہوں میں آ سمٹی اس کی دیوانگی کو اپنی رگ رگ میں اتراتا محسوس کر رہی تھا۔
اس کی شدتوں میں پھگلتی وہ پوری طرح اس کی محبت میں رنگنے لگی تھی۔اس کے سینے میں منہ چھپائے وہ اس کے جنون میں سانس لینے لگی ۔اور یارم اسے خود میں سیمٹتا اپنا عشق اس پر لٹتا چلا گیا۔
وہ عشقِ یارم تھی۔یارم کا عشق اس کا جنون اس کی دیوانگی اس کی محبت ۔اس کی روح ۔وہ روحِ یارم تھی۔اور یارم سراپاِ عشق
وہ اس کی باہوں میں سمٹتی آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی
جب کہ یارم اب بھی اسے اپنی باہوں میں بھرےاپنی محبت کی چھاپ چھوڑے جا رہا تھا ۔اس کی دیوانگئ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔
ساری رات اس نے ایک پل بھی روح کو سونے نہیں دیا تھا
اب تو صبح کی اذان ہوئے بھی کافی وقت گزر چکا تھا ۔اور اس وقت بھی وہ اسے اپنی باہوں میں لئے اپنی محبت لٹا رہا تھا
اتنے دن کی دوری کا بدلہ یارم نے اس انداز میں لے کہ روح نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔وہ تو یہ سوچ رہی تھی کہ یارم ابھی بھی اسے میڈیسن ہیں کھلانے والا ہے لیکن نہ جانے یارم کے دماغ میں رات کون سے سوچ سمائی کہ وہ اس سے اختیار کی ہر دوری کو بلا کر اسے خود میں سمیٹنے لگا
۔اس کاہر انداز شدت اختیار کئے ہوئے تھا
۔اس نے روح کو اپنے پرانے انداز میں ہی چھوا تھا ۔بنا اسے مزاحمت کا موقع دیئے وہ اسے پوری طرح خود میں قید کر گیا تھا ۔
اتنے مہینوں سے اس کی دوری کی وجہ سے روح بھی اسے مس کر رہی تھی اسی لیے تو اس کے باہیں پھیلاتے ہی وہ اس کی محبت کے سامنے ہار گئی تھی اس کے پکارتے ہی وہ کسی ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح اس کی باہوں میں آسمٹی تھی ۔
وہ خود بھی تو اس کے پاس آنا چاہتی تھی ۔اسے بھی تو اس کا پرانا یارم چاہیے تھا
جو آج نہ جانے کتنے مہینوں کے بعد ملا تھا اور اب اس سے اپنا حق وصول کر رہا تھا ۔
روح ٹوٹی بکھری حالت میں اس کے پہلو میں خاموشی سے لیٹی اس کے لبوں کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی ۔
اور وہ پھر سے مدہوش ہوتے ہوئے اس کے ہوش ٹھکانے لگانے لگا
یارم مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔۔روح نے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بتایا ۔
انداز میں بلا کی معصومیت تھی یارم نے ایک نظر اس کے حسین چہرے کو دیکھا ایسے موقعوں پر وہ اس سے نظر ملا کر بات نہیں کرتی تھی اس وقت بھی گھنی پلکیں گالوں پر سجدہ ریز تھی گال سرخی چھلک رہے تھے اس کے وجود کا ایک ایک حصہ یارم کی دیوانگی کی داستان سنا رہا تھا
بےبی تمہیں نیند بہت آتی ہے اپنی اس نیند پر قابو کرو میں اپنا سیکنڈ ہنیمون تمہاری نیند کی وجہ سے برباد نہیں کر سکتا ۔اس بار اگر تم مجھے وہاں سوتی ہوئی ملی نا تو بہت بری طرح سے پیش آؤں گا تمہارے ساتھ
اور فی الحال مجھے ڈسٹرب مت کرو ۔
فی الحال مجھے میری بیوی کو بہت سارا پیار کرنا ہے اور اسے سیدھا بھی کرنا ہے وہ کیا ہے نہ پچھلے تین مہینے میں وہ بگر گئی ہے ۔وہ کہتے ہوئے اس کی گردن پر ہونٹ رکھ چکا تھا اس کی گرم سانسوں کی تپش میں جلتی روح نے ایک بار پھر سے احتجاج کیا
یارم مجھے بہت سخت نیند آ رہی ہے ۔۔وہ بلکل بھی جھوٹ نہیں بول رہی تھی اسے سچ میں بہت نیند آئی تھی یا رم نے ساری رات اسے ایک پل کو بھی سونے نہیں دیا تھا اور اب نیند سے اس کا برا حال ہو رہا تھا لیکن یارم کو تو اس وقت صرف اور صرف اپنی تشنگی مٹانی تھی جو کل رات سے اب تک کم ہونے کی بجائےمزید بڑھتی چلی جا رہی تھی
وہ اسے پا کر بھی پیاسا تھا اس کی طلب ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی ۔اور نہ ہی شاید ختم ہونی تھی ۔لیکن روح کی اس کی نیند سے بھری سرخ آنکھیں دیکھ اسے اس پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن وہ فی الحال اسے بخشنے کے موڈ میں بھی نہیں تھا
دس بجے مجھے آفس میں ایک ضروری کام ہے ۔میں کام پر جاؤں گا تو میرے واپس آنے تک تم اپنی نیند پوری کر لینا اور ہاں اب مجھ سے بچنے کے لیے کوئی اور بہانہ بنالو یہ نیند کا بہانہ اب پرانا ہو چکا ہے ۔اب یہ زیادہ دیر تک نہیں کام کرے گا ۔
اور اب مجھے ڈسٹرب مت کرنا ورنہ پھر تم شکایت کرو گی تو اسے وارن کرتے ہوئے اس کے لبوں پر جھکا تھا اس بار روح کچھ بھی نہیں بول پائی تھی
جانتی تھی کہ بولنا فضول ہے وہ اپنی کر کے ہی دم لے گا ۔
اور سچ یہ بھی تھا کہ اتنے وقت کے بعد یارم کو اتنے قریب سے محسوس کر کے وہ خود بھی اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی یارم کا جنون اس کی دیوانگی اس کا شدت سے بھرا لمس جو صرف اور صرف اس کے لئے تھا
وہ صرف اور صرف اسی کا تو تھا صرف اس سے محبت کرنے والا صرف اسی کو چاہنے والے صرف اور صرف روح کا یارم
وہ کیسے اسے مایوس کرتی کیسے اس سے دور جاتی وہ تو خود اس کی پناہوں میں آنے کے لئے مچل رہی تھی
اور یارم ابرِ کرم بنا اس پر برستا چلا جا رہا تھا ۔روح اس کی محبت کی بارش میں بھیگتی سارا جہاں فرموش کیے ہوئے تھی
اس وقت دل اور دماغ کی تمام ڈوریوں پر صرف اور صرف یارم کا قبضہ تھا وہ نہ تو اسے اپنے علاوہ کچھ سوچنے دینا چاہتا تھا اور نہ ہی خود اس سے دور جانا چاہتا تھا
اسے اپنی باہوں میں لے یہ وہ اس کی سانسوں پر اپنی حکومت چلا رہا تھا اپنے پچھلے 3 ماہ کی بے چینی کو مٹا رہا تھا اپنی بے قراریوں کو سکون دے رہا تھا وہ ڈر جوتین ماہ پہلے روح کو کھو جانے کا اس کے دل میں بسا تھا آج یارم اسے آپنے بے حد قریب کر کے اپنا وہ ڈر مٹا لینا چاہتا تھا
پچھلے تین مہینے جس عذاب میں اس نے کاٹے تھے ۔اس کے بعد وہ شاید ہی روح سے دور جاتا اور جتنا روح نے اسے ستایا تھا اس کے لیے یہ اتنی سی سزا تو بنتی تھی
°°°°
یارم کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ ضد کرکے اس کے لئے ناشتہ بنانے لگی تو یارم نے بھی اسے منع نہیں کیا ۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ روح پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور وہ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے ویسی ہی زندگی گزارے گی
اب اس پر کوئی پابندی نہیں ہوگی بہت برداشت کر چکی تھی وہ ایک تو بیماری اور اوپر سے بے فضول کی پابندیاں اب یارم اپنی روح کو مکمل اس کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہتا تھا ۔
اس نے روح کو بول دیا تھا کیا وہ جو چاہتی ہے جیسا چاہتی ہے ویسا ہی کرے وہاں سے منع نہیں کرے گا
پہلے تو روح کو اس کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا
لیکن جب اس نے روح کو ناشتہ بنانے کی اجازت دی تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی
اسے کو بھی بہت وقت کے بعد محسوس ہوا تھا کہ وہ ٹھیک ہو چکی ہے اب سب کچھ نارمل ہو چکا ہے
جب تک یارم فریش ہوتا تب تک روح اس کے لئے ناشتہ بنانے میں مگن ہوگئی آٹا گوندھ کر اس نے یارم کے لئے بہت محبت سے پراٹھا بنایا تھا اور اب وہ اس کے لئے ایملیٹ تیار کر رہی تھی
کہ اچانک نکھرا نکھرا سا یارم کچن میں آیا اور اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں قید کر لیا
یارم کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔میں ناشتہ بنا رہی ہوں ۔۔۔خراب ہو جائے گا
اس کی کل رات کی جسارتوں سے وہ سمبلی ہی کہاں تھی کہ اب مزید اس کی بے باکی کو سہتی
۔لیکن یارم نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں تھی وہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھ کر چکا تھا روح نے مڑکر اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یا رم کی گرفت سخت ہونے کی وجہ سے وہ ہل بھی نہ سکی
یار م یہ کیا۔۔۔؟ آپ کیا کر رہے ہیں آپ تو تیار ہونے گئے تھے نا اور صرف نہا کر آگئے جائیں جلدی سے تیار ہوں آپ کو کام پر جانا ہے
پھر کل صبح کی فلائٹ سے ہم یہاں سے نکل رہے ہیں پھر کام کرنے کا بالکل وقت نہیں رہے گا جتنے بھی ضروری کام ہے آپ نے نپٹا کر آجائیں اس کی بڑھتی ہوئی بے باکیوں سے گھبرا کر روح نے اسے یاد دلایا کہ وہ کسی ضروری کام کی خاطر یہاں سے جانے والا تھا ۔لیکن یارم پر تو اس کی کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا
وہ توجیسے اس کی کسی بات کو سن ہی نہیں رہا تھا بس اپنے ہی کام میں مگن تھا اور اس کی بھرتی ہوئی جسارتوں پر روح کی سانسیں تیز ہونے لگیں
۔روح کا دوپٹہ اس کی کمر سے کھول کر اس سے دور کر چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس رخ اپنی جانب موڑ کر مزید کوئی گستاخی کرتا اس کا فون بج نے لگا جیسے وہ نظرانداز کرتا اپنے کام میں مگن تھا
روح تو اس کے بہکانے پر گھبرا گئی تھی رات کی جسارتوں کو یاد کرتے ہوئے کوئی بہانہ سوچنے لگی کہ یارم کا فون پھر سے بجنے لگا
آور پھر مسلسل بجتے ہوئے یارم کے کام میں خلیل پیدا کر گیا اس نے غصے سے فون نکالا
روح نے سکون کا سانس لیا ۔جبکہ یارم کا موڈ بگرچکا تھا ۔
کیا ہوا شارف کوئی مر گیا ہے کیا جو تم سے صبر نہیں ہو رہا وہ غصے سے فون کان سے لگائے بولا
نہیں یارم تم نے ہی تو کہا تھا کہ کام ہوتے ہی انفارم کرو شارف اس کا غصہ دیکھ معصومیات سے بولا
انفارم کرنے کے لیے کہا تھا ڈسٹرب کرنے کے لیے نہیں بےوقوف آدمی عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم یارم کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اپنا غصہ کیسے کنٹرول کرے
یارم انفارم کرنپتے ہوئے ڈسٹرب تو کرنا پڑتا ہے نا۔۔ شارف نے صفائی پشں کرتے ہوئے کہا۔
دماغ مت خراب کرو فون بند کرو اور اب ڈستپٹرب مت کرنا اور فون رکھتے ہوئے وارن کر رہا تھا اور شارف اس کی بات کو سمجھ گیا تھا اگر نا سمجھتا تو آج جان سے جاتا
فون بند کر کے وہ کیچن میں آیا تو روح غائب تھی
ناشتہ ٹیبل پر رکھا تھا ساتھ ایک چھوٹی سی چٹ تھی۔
خدا کا واسطہ ہے یارم اب ناشتہ کریں اور کام پر جائیں مجھے آرام کرنا ہے اس چٹ کو پڑھتے ہی یارم کا قہقہ بلند ہوا۔
بےبی تم تو بہت جلدی کپگھبرا گئی ابھی تو یہ شروعات ہے اب تمہیں پتہ چلے گا یارم کاظمی سے پگا لے کر نیندیں کیسے اڑتی ہیں
وہ دلکشی سے مسکراتے ہوئے میز پر رکھے ناشتے کو دیکھتے ہوئے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا اور سکون سے ناشتہ کرنے لگا
کل سے اب تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا وہ بہت پرسکون تھا روح کو اپنی محبت میں رنگنے کے بعد آپ اس سے سکون ملا تھا ۔
کل کی فلائٹ سے وہ لوگ سوئٹزلینڈ کے لئے روانہ ہونے والے تھے وہ جانتا تھا کہ روح ساری تیاری مکمل کر چکی ہے
ڈارلنگ تم تو یہاں مجھ سے بھاگنے لگی ہو وہاں جا کر تمہارا کیا حال ہوگا آنے والے وقت کا سوچ کر اس نے ایک نظر اپنے کمرے کے بند دروازے کی جانب دیکھا تھا ۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو روح کو گہری نیند سوتے پایا
وہ مسکراتے ہوئے وارڈوب آپ کی طرف آیا اور اپنے کپڑے نکال کر تیار ہونے چلا گیا ۔
فی الحال تو روح کو تنگ کرنے کا بلکل کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا کل رات کی وہ اسے اچھا خاصہ تنگ کر چکا تھا ۔
اب اگلا ڈوز وہ اسے اپنے ہنیمون ٹور پر دینا چاہتا تھا محبت سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ اپنا کام نمٹانے چلا گیا آج چھوٹے موٹے سارے کام ختم کرنے تھے کیونکہ اس سے اگلا تمام وقت وہ صرف اور صرف روح کے نام کر دینا چاہتا تھا
°°°°
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب اچانک اسے اپنا سر گھو متا ہوا محسوس ہوا اسے لگا وہ ان سیڑھیوں سے نیچے گر جائے گی لیکن اس سے پہلے ہی کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے بچا لیا
اس نے ایک نظر اپنے بازو کی جانب دیکھا تھا جہاں درک کی سخت گرفت تھی ۔
اس کے بازو کے سہارے وہ سیدھی ہوئی تو اب بھی اپنا سر گھومتا ہوا ہی محسوس کیا
اف یہ کیا ہو گیا تھا آج سے پہلے تو معصومہ نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا
شارف ٹھیک ہی کہتا ہے مجھے الٹا سیدھا نہیں کھانا چاہیے اس نے اپنا گھومتا ہوا سر تھام کر سوچا
مجھے تمہاری طبیت ٹھیک نہیں لگ رہی میرے خیال میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہےمعصومہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب لگی تھی وہ کسی کی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا اور نہ ہی اسے لوگوں کے ساتھ گلنا ملنا پسند تھا
وہ بہت کم لوگوں سے بات کرتا تھا یہاں فلیٹ کے لوگ تو اسے کھڑوس کہہ کر پکارتے تھے اور اس کی پیٹھ پیچھے کافی باتیں بھی کرتے تھے لیکن اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی
وہاپنی دنیا میں مگن اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے ایک تھا
لیکن معصومہ نے شونو کے ساتھ اس کا کافی لگاؤ محسوس کیا تھا اور شاید اس وقت بھی وہ شونو کے لئے ہی تھوڑی بہت انسانیت دکھا رہا تھا ورنہ یہاں اس کی بلا سے کوئی جئے یا مرے
نہیں میں ٹھیک ہوں لگتا ہے کچھ الٹا سیدھا کھا لیا
بس اسی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے تھینک یو تم نے میری مدد کی معصومہ کہہ کر آگے بھرنے ہی لگی کہ اس کا سر ایک بار پھر سے گھوم گیا
درک نےبروقت اسے تھام لیا تھا ورنہ اس بار وہ بہت برے طریقے سے گرنے والی تھی
آؤ میں تمہیں اندر تک چھوڑ آتا ہوں تمہاری طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے میں نہیں چاہتا کہ یہاں گر تم اپنی ہڈیاں توڑ لوپتا نہیں لڑکیوں کو کیا کریز ہوتا ہے اتنی اونچی سینڈل پہنے کا وہ بربڑاتا ہوا اس کا بازو تھام کر اسے اس کے فلیٹ تک چھوڑنے کے لئے اندر تک آیا تھا
تھینک یو سو مچ درک تم نے میری بہت مدد کی ہے وہ اس کا بازو تھا میں اسے صوفے پر بٹھا کر پلٹا ہی تھا کہ معصومہ بولی
میں نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی معصومہ اور یہ کوئی احسان نہیں ہے تم پر تم گرتی تو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا اور میں وہاں کھڑا تھا تو مجھے لگا کہ تم مجھے تمہاری مدد کرنی چاہیے تمہاری جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یقینا تب بھی مدد کرتا ۔لیکن تم اتنی جلد بازی میں ہر کام کیوں کرتی ہو تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیے وہ واٹر کولر سے پانی کا گلاس بھر کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگا
اپنا فون دو تمہارے شوہر کو فون کرکے تمہاری طبیعت کی خرابی کا بتا دیتا ہوں اس کے انداز میں کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں تھی وہ انجان سا شخص انجان بن کر ہی رہنا چاہتا تھا
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے میں خود اسے ابھی فون کرکے بتا دوں گی ۔
تم بیٹھو نہ میں تمہارے لئے جائے بنا کر لاتی ہوں آج تم پہلی بار میرے گھر آئے ہو معصومہ نے مہمان نوازی کی خاطر کہا
اپنی حالت دیکھو لڑکی سیدھے طریقے سے چل نہیں سکتی اور تمہیں میری خاطر داری کرنی ہے ۔خیر میں چلتا ہوں تم اپنے شوہر کو انفارم کر دینا وہ اٹھ کر جاتے ہوئے کہنے لگا
ہاں ٹھیک ہے جاؤ میں بھی نہیں روکوں گی کیونکہ اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا اگلے بیس دن کے لیے شونو میرے پاس آ رہا ہے
انسانوں سے نہ سہی لیکن جانوروں سے کافی بنتی ہے تمہاری معصومہ نے مسکراتے ہوئے بتایا
کیوں تمہاری سہیلی کہا ہے جو اس کا ڈوگ تم یہاں لا رہی ہو
وہ اپنے شوہر کے ساتھ سوئزر لینڈ جا رہی ہےبیس دن کے لیے تب تک شونو میرے پاس ہی رہے گا تم جب چاہو اس سے ملنے آ سکتے ہو تمہارے ساتھ وہ ویسے بھی بہت اٹیچ ہے معصومہ نے خوش دلی سے کہا ۔
جب کہ وہ صرف ہاں میں سر ہلاتا اس کے گھر سے نکل گیا
°°°°°
معصومہ شونو کا بہت خیال رکھنا میں فون کرتی رہوں گی
وہ شونو کو معصومہ کے حوالے کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ہدایات دینے لگی
تم بے فکر رہو میں اس کا بہت خیال رکھوں گی اس سے ملتے ہوئے معصومہ نے ایک بار پھر سے یقین دلایا
بس کر دو روح کوئی اپنی اولاد کو بھی رخصت کرتے ہوئے اتنا نہیں سوچتا تم جتنا تم شونو کو معصومہ کے حوالے کرنے پر سوچ رہی ہووہ پہلے بھی اس کا خیال رکھتی آئی ہے
اب چلو تمہارا یہ جذباتی سین دیکھ کر یارم دیکھو کیسے گھوررہا ہے
لیلیٰ نے اسی چٹکی کاٹتے ہوئے اس کا دھیان یارم کی جانب دلایا جو ایئرپورٹ کے باہر کھڑے مسلسل اسے گھور رہا تھا
کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے فون کرنا اور شارف کا خیال رکھنا صارم کی نظر ایک بار پھر سے اس پرہے یارم نے بتایا
یہ انسپیکٹر میرے پیچھے کیوں برا ہے کیا بگاڑا ہے میں نے اس کا شارف بدمزہ ہوا
کاش میں پاکستان میں ہوتا تو فروٹ کی ریڑھی لگا لیتا کم از کم اس انسپیکٹر کی نظر سے دور تو رہتا ۔صارم کی ایک بار پھر سے اس پر نظر تھی مطلب وہ پھر سے اسے کسی نہ کسی چکر میں پھنسا کر جیل کی ہوا کھانا چاہتا تھا جیل میں وہ اس طرح اپنے ہاتھ صاف کرتا تھا یارم کے سارے بدلے اسی پر تو نکالتا تھا وہ
خیر تم کسی قسم کی کوئی بیوقوفی مت کرنا کچھ نہیں ہوتا وہ روح کو اندر چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگا کر ہمت دے کر بولا
معصومہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ۔فیملی کے بارے میں نو کمپرومائز اس کی طبیعت خراب ہے یارم نے اس کا دھیان معصومہ کی طرف لگایا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا
ہاں یہاں سے سیدھا اسے ہسپتال ہی لے کر جاؤں گا شارف نے کہا
جب کہ یارم سر ہلاتا روح کا ہاتھ تھامے ایک نئے سفر پر نکل چکا تھا

وہ کب سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جبکہ روح کا سارا دھیان کھڑکی سے باہر کی جانب تھا ۔
یارم نے پہلے روح کی اور پھر اپنی سیٹ بیلٹ باندھی۔
جہاز اڑان بھرنے کے لیے تیار تھا یارم نے روح کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا جانتا تھا کہ اسے ڈر لگے گا ۔
جب کے اس کے تحفظ بڑے انداز پرروح نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی
ڈر لگ رہا ہے یارم نے پیار سے پوچھا
تو روح نے نامیں سر ہلایا
آپ جب میرے ساتھ ہوتے ہیں نا یارم تب مجھے ڈر نہیں لگتا اس کے انداز میں ایک مان تھا جو اس پر جچتا تھا
اچھی بات ہے میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈر لگنا بھی نہیں چاہیے یارم کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی تھی
۔جہاز کے اڑتے ہی اس نے روح کو اپنے مزید نزدیک کرلیا
جبکہ روح بھی اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر آنکھیں بند کر چکی تھی
۔کیونکہ یہ لمحہ اسے سچ مچ میں خوفزدہ کر دیتا تھا لیکن یار م کا اس کے ساتھ ہونا اس کے ڈر کو کہیں چھپا لیتا تھا
یارم یہ آئسزلینڈ کی بہن کیا بہت خوبصورت ہے روح نے اپنے دل میں مچلتے سوال کو لبوں پر لایا
تم نے تو اسے پکا ہی آئسزلینڈ کی بہن بنا دیا ہے ہاں یہ بہت خوبصورت جگہ ہے
یارم نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا تھا
آئیسزلینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت روح نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا
ہاں ایسا کہا جا سکتا ہے سوئٹزرلینڈ دنیا کے سب سے خوبصورت جہگوں میں سے ایک ہے
اس کا سفر کتنا لمبا ہے آئسز لینڈ تو بہت دور تھالیکن وہاں کے بارے میں تو آپ بہت کچھجانتے تھے کیا اس ملک کے بارے میں بھی آپ سب کچھ جانتے ہیں روح نےکچھ دیر کے بعد دوبارہ سوال پوچھا
ذیادہ کچھ تو نہیں ہاں کچھ کچھ چیزیں جانتا ہوں میں کیونکہ اتفاق سے میں صرف دو بار ہی اس تک جاپایا ہوں۔
سب سے پہلے تو میں تمہیں یہ بتاؤں گا کہ تمہاری فیورٹ چاکلیٹ اس ملک کی پیداوار ہے دنیا کی سب سے زیادہ چاکلیٹ یہی پر پائی جاتی ہیں اور اور یہی بنائی جاتی ہیں تمہیں اور کچھ یہاں ملے نہ ملے لیکن تمہاری فیورٹ ہر چاکلیٹ تمیں یہاں آسانی سے میسر ہو گی ۔اور یہاں پر بہت خوبصورت لوگ نہیں پائے جاتے ہیں لیکن یہ جگہ اپنی مثال خود ہے ۔
دنیا میں کچھ جہگوں کو جنت کہا جاتا ہے ان میں ایک جگہ یہ ملک بھی ہے
یہاں کرائم نہ ہونے کے برابر ہے اس کی وجہ سے یہاں کی گورنمنٹ بھی ہے
یہاں کے لوگوں کو گندگی بلکل نہیں پسند یہاں تک کہ شہر کے پہاڑ راستے اور دوسری ہر جگہ کو بہت صاف ستھرا رکھا جاتا ہے ان کے حساب سے سب سے زیادہ پلوشن گندگی اور آواز کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے رات کے وقت یہاں بالکل بھی آواز نہیں کی جاتی
یہی وجہ ہے کہ یہاں رات کے وقت نہ تو کوئی فائٹ آ سکتی ہے اور نہ ہی جا سکتی ہے
رات کے وقت یہاں لوگوں کے پالتو جانوروں کو بھی منہ پر ماسک لگا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ آواز پیدا نہ کرے ۔
اونچی آواز میں چلانا آواز پیدا کر کے چلنا یہ سب ان کے اصولوں کے خلاف ہیں ۔جن پر سخت جرمانہ ہوتا ہے۔اور اگر ان کے اصولوں پر نہ چلا جائے تو جیل بھی ہوسکتی ہے
یارم نے مسکراتے ہوئے بتایا تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی
یہ کیا بات ہوئی مطلب بول چال ہی بند ہے تو بندا اور کیا کرے روح کو ان کا یہ اصول کافی عجیب لگا تھا
رات کے وقت اور بھی تو بہت سارے کام کیے جا سکتے ہیں نہ بےبی جیسے کہ ایک دوسرے سے پیار یارم شرارتی انداز میں کہتا آنکھ دبا گیا جب کے اس کی یوں بے باک کھلے عام گفتگو پر روح کے کان کی لو تک سرخ ہو گئی
یارم کتنے بے شرم انسان ہیں آپ جگہ کا تو ہوش کر لیں وہ اپنا چہرہ جھکائے اسے ٹھی سے ڈانٹ تک نہ پائی
اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے کہی کا ہوش کیوں کروں ۔
اور اس میں بے شرمی والی کونسی بات ہے وہ لوگ بھی یہی سب کچھ کرتے ہوں گے ۔ورنہ رات کے وقت اور کیا کیا جاسکتا ہے خاموشی سے یارم نے شرارت سے کہا
سویا بھی تو جا سکتا ہے روح نے منہ بسور کر بتایا
ہاں یار کچھ لوگ ہوتے ہیں بے وقوف جو سو جاتے ہوں گے لیکن جس کے پاس اتنی حسین بیوی ہو اسے بھلا سونے کی کیا ضرورت ہے خیر لوگوں کا تو مجھے نہیں پتہ لیکن میں نہیں سو سکتا
مجھے تو میری بیوی سے پیار کرنا ہوتا ہے وہ بھی بہت سارا اسی لیے میں سو کر ایسے چانس مس نہیں کر سکتا
آپ بہت خراب ہے یارم مجھے بات ہی نہیں کرنی آپ سے پرے ہٹیں سونے دے مجھے وہ اس سے تھوڑا فاصلہ قائم کرتے ہوئے کہنے لگی تو یارم ہنس دیا
ہاں بہت خراب ہوں میں لیکن مجال ہے جو تم مجھے تھوڑا سا پیار کر کے ٹھیک کر دو خیر سو جاؤ جتنا سونا ہے سو لو لیکن خبردار جو تم نے وہاں جا کر سونے کی ذرا سی بھی کوشش کی میں بتا رہا ہوں بہت بری طرح پیش آؤں گا
اگر تم نے میرے ہنیمون کو ذرا سا بھی بھگارنے کی کوشش کی اپنے اس سونے کی لت سے
کیا کہا آپ نے مجھے سونے کی لت ہے روح کو صدمہ ہوا
اور نہیں تو کیا ۔۔جب دیکھو سوتی ہی تو رہتی ہو مجال ہے جو کبھی جاگ کر میرے جذبات کا احترام کیا ہو اب وہ اسے تنگ کرنے لگا
یارم آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں میں اتنا بھی نہیں سوتی اور کب میں نے آپ کے جذبات کا احترام نہیں کیا
نہ صرف آپ کے جذبات کا احترام کیا بلکہ میں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ وفا نبھائی ہے ۔کبھی آپ کی بات کی نفی نہیں کی کبھی آپ کا کوئی حکم نہیں ٹالا
بس بس میری ایکسٹرا فرمبردار بیوی یہ سب کچھ تم میرے لئے نہیں بدلے بلکہ اللہ کے حکم کی پابندی کےلئے اور جنت کے لئے کرتی ہو
اگر یہ سب کچھ اللہ کے طرف سے حکم میں شامل نہ ہو تو تم تو مجھے منہ بھی نہ لگاؤ نہ جانے کیوں وہ فضول میں ہی اسے باتوں میں لگانے لگا تھا
جی نہیں یہ سب کچھ میں اس لیئے کرتی ہوں کیونکہ میں آپ سے پیار کرتی ہوں
چھوڑو پیار کو ۔یہ سب کچھ تم اس لئے کرتی ہو کیونکہ تمہیں جنت کی خواہش ہے اور عورت دنیا میں جنت تب ہی پا سکتی ہے جب وہ اپنے شوہر کی خدمت کرے بس اسی لئے کرتی ہو تم یہ سب کچھ یارم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جب کے شرارتی انداز اب بھی قائم تھا لیکن روح کا لب ولہجہ بدل گیا
جنت کا لالچ تو سب کو ہوتا ہے یا رم لیکن میں یہ سب کچھ آپ کے لئے کرتی ہوں ۔میں روز اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اگر میرے نصیب میں جنت لکھی ہے تو مجھے وہاں اکیلے نہ بھیجیں میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی
مجھ جیسا گناہگار بندہ جنت کے لائق نہیں ہے میں گناہوں کی دنیا میں بھٹکا ہوا ہوں روح میرے لئے خود کو مت تھکاؤ میں دنیا میں تمہارے نام لکھ دیا گیا ہوں بس اسی پر خوش ہو جاؤ ۔یارم نے آہستہ سے اپنا سر سیٹ سے لگاتے ہوئے آنکھیں موند لی
یارم آپ کو پتہ ہے ایک اچھی بیوی اپنے اچھے اعمال سے اپنے شوہر کے لیے جنت کما سکتی ہے ۔بس اس پاک ذات کو ایک ادا پسند آجائے
اگر اسے میری کوئی ادا پسند آ گئی نا تو ہم اکھٹےچلیں گے
اور اگر نہیں تو میں اپنے اللہ سے کہہ دوں گی کہ جہاں میرا شوہر ہے مجھے وہیں پر رہنا ہے وہ اس کے سینے پر سر رکھ تے ہوئے بڑے لاڈ سے بولی
اور آپ بھی زیادہ خراب نہیں ہے جنت میں جانے کے چانس آپ کے بھی ہیں بس کبھی کبھی اللہ کو خوش کرنے پر بھی غور کر لیا کریں ۔اسے نماز کی طرف لگانے کی کوشش تو وہ بہت کر چکی تھی ۔اور کبھی کبھار وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ بھی لیا کرتا تھا ۔
لیکن اب وہ ایسی باتوں سے اسے اللہ کے قریب کرنے کی کوشش کرتی تھی
وہ اپنی ہی دھن میں بول رہی تھی جبکہ یارم آگے پیچھے کی جانب دیکھ کر مسکرایا
ویسے میرا دل تو نہیں کر رہا تمہیں یاد دلانے کا لیکن میں پھر بھی تمہیں یاد لا دیتا ہوں کہ اس وقت ہم ایک پبلک پلین میں ہیں ۔جو لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔اور کافی لوگ ہماری طرف متوجہ بھی ہیں
مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمیں دیکھتا ہے یا ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے ہاں لیکن تمہیں شاید اچھا نہ لگے
وہ آہستہ سے اس کے کان میں بولا تو روح نے آنکھیں کھولتے ہوئے ہر بھرا کے آگے پیچھے کی جانب دیکھا
سامنے پار دوسری طرف ایک بڑی عمر کا کپل بیٹھا تھا جو انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا جبکہ روح شرمندہ ہوگئی
لگتا ہے نئی نئی شادی ہوئی ہے آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا
شاید وہ کوئی انڈین کپل تھا
شادی نئی ہویا پرانی فرق نہیں پڑتا بس محبت قائم ہونی چاہیے ویسے ہماری شادی کافی پرانی ہوچکی ہے یار م نے جواب دیتے ہوئے ایک پیار بھری نگاہ پاس بیٹھی روح کو پر ڈالی تھی
بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم ہماری شادی کو 30 سال ہو چکے ہیں اور ہماری 30 اینورسری پر ہمارے بچے ہمیں دوبارہ ہنیمون پر بھیچ رہے ہیں
ہاہاہا ہماری محبت بھی آج بھی قائم ہے اور مرتے دم تک رہے گی کیوں ڈارلنگ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی بیگم کی رضامندی چاہی
جس پر وہ بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلانے لگی یارم کے ساتھ ساتھ روح کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی
کیا خیال ہے بےبی تیس سال کے بعد کیوں نہ ہم بھی چلیں پھر سے ہنی مون پر یارم نے شرارت سے سرگوشی کی
ہاں تیسرے ہنی مون پر تیس سال کے بعد چلیں گے روح نے فاصلہ بڑھاتے ہوئے کہا
تیسرے ۔۔تیسرا تو میں کچھ ٹائم کے بعد کرنے والا ہوں ممکن ہے شاید وہ ہمارا پچاسواں ہنیمون ٹور ہو
یار م کتنی بار ہنیمون منائیں گے آپ روح نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا
جتنی بار تمہارے ساتھ سفر پر جاؤں گا اتنی بار پوری دنیا گھوماؤں گا تمہیں دنیا کا ایک ایک کونہ دکھاؤں گا یہ تو کچھ نہیں بےبی ابھی بہت اڑانے بھرنی ہیں ابھی ہم نے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے
آخر ہم ہم سفر ہیں ہم قدم تو چلنا پڑے گا نا۔۔
یارم کہ انداز پر روح نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر سے سیٹ پر سر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں ۔
اور نہ جانے کتنی دیر اس کا معصوم چہرہ اپنے نظروں کے حصار میں لیے اس کا دیدار کرتا رہا
وہ کوئی بہت خوبصورت لڑکی یا پریوں سا حسن رکھنے والے لڑکی نہیں تھی وہ عام سے نقوش والی ایک عام سی لڑکی تھی
لیکن یارم لاظمہ کے لئے وہ پرہوں سے سے زیادہ حسین شہزادیوں سے زیادہ نازک تھی وہ اس کی روح تھی اس کے لئے سب سے اہم ترین ہستی اس کے لئے اس کے جینے کی وجہ کتنی دیر تک وہ اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتی رہی پھر آنکھیں کھول کر اسے دیکھتے ہوئے بولی
کیا مسئلہ ہے مسٹر کیوں سونے نہیں دے رہے مجھے کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورے جا رہے ہیں
سوری مسز میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے میں اپنی ڈارلنگ کو دیکھوں یا اسے اپنی آنکھوں میں بسا لوں مجھ سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا کوئی ایسے ہی محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا تو روح نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے سر واپس سیٹ پر رکھا اور اپنا دوپٹہ اپنے چہرے پر پھیلایا جس سے اگلے ہی لمحے یارم ہٹا چکا تھا
اگر سونا ہے تو ایسے ہی سو خبردار جو میری بیوی کے چہرے کو مجھ سے چھپایا وہ حکم دیتے ہوئے بولا توروح منہ بسور کر آنکھیں بند کر گئی یارم مسکراتا ہوا ایک بار پھر سے اسکے چہرے کے نقوش میں کھو سا گیا
°°°°°
اب بس کردو شارف اور کیا کیا کرو گے دنیا کے انوکھے باپ نہیں بننے جا رہے ہو تم
پوری کالونی میں شرمندہ کر کے رکھ دیا کیا سوچ رہے ہوں گے سب کہ یہ بندہ باپ بننے کی خوشی میں پاگل ہوا جا رہا ہے
خوشی کا اظہار کرنا غلط نہیں ہے لیکن پوری بلڈنگ کو سر پر اٹھا لیا ہے تم نے ہر گھر میں مٹھائی بھجوانے کی کیا تک بنتی ہے ۔۔۔؟
ابھی تو ہمیں صرف پتا چلا ہے کہ شاید ہو سکتا ہے کہ میں پریگنیٹ ہوں کوئی کنفرم نیوز نہیں آئی ہے رپورٹس کل ملیں گی
معصومہ اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی لیکن شارف کو جیسے پکا یقین تھا کہ وہ پریگننٹ ہے
اور ڈاکٹر نے بی تو یہی کہا تھا ۔تو پھر وہ خوشی کیوں نہ مناتا
لیکن معصومہ ایک بہت پریکٹیکل لڑکی تھی وہ ہر چیز کو وقت پر کرنا پسند کرتی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائے کہ تھوڑا وقت انتظار کر لے
کل تک رپورٹس مل جائیں گی تو بعد میں خوشیاں منائے یا کچھ بھی کرے اسے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن یہی وقت سے پہلے خوشی منانا اور پھر بعد میں اداس ہو جانا اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا وہ شارف سے کھل کر اظہار تو نہیں کرتی تھی لیکن شارف کے چہرے کی اداسی اس کی جان پر بن آتی تھی
لیکن اس بندے نے کہاں اس کی بات کو سمجھنا تھا وہ تو بس اپنی ہی خوشی میں پاگل ہوا جارہا تھا ویسے معصومہ کو بھی یہی لگ رہا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے
اور اس خوشخبری کا انتظار تو وہ شادی کے بعد سے لے کر اب تک کر رہی تھی
شارف کا بھی اسے پتا تھا کہ وہ بھی اس خبر کو سن کر بہت خوش ہوگا لیکن وہ کل تک کا انتظار کرنا چاہتی تھی
اچھا تمہں درک کی کوئی خبر ہے کیا ابھی جب تم مٹھائی دینے گئے تھے تو کیا وہاں پر تھا شونو صبح سے پانچ بار اس کے دروازے تک جا چکا ہے لیکن اس کا دروازہ بند ہے معصومہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی تو شارف نے ہاں میں سر ہلایا
اتفاق سے وہ بھی سوئٹزرلینڈ گیا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے واچ مین نے مجھے بتایا کہ بلڈنگ کے رولز پیپر پر اس نے اپنی لوکیشن بتائی ہے ۔
اور ہوٹل وغیرہ کا نمبر بھی دے کر گیا ہے کہ اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو اسے بتا دیا جائے ۔لگتا ہے اس بار شونو کو تمہیں اکیلے ہی سنبھالنا ہوگا کیونکہ وہ کھڑوس تو جاچکا ہے اور پتہ نہیں کب لوٹے گا
شارف اسے بتا کر اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا
جبکہ معصومہ کو اس کا سوئٹرزلینڈ جانا کچھ عجیب لگا تھا ابھی کل ہی تو اس نے بتایا تھا کہ یارم اورروح سوئٹرز لینڈ جا رہے ہیں تو وہ کیا ۔۔۔اس کے دماغ میں عجیب سے بات آئی تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ خیال جھٹک گئی
کیا ہوگیا ہے مجھے درک کو تو میں چھ مہینے سے جانتی ہوں ۔اور سوئٹزر لینڈ میرے بابا کا تھوڑی ہے جہاں یارم اقر روح کے علاوہ اور کوئی نہیں جا سکتا وہ اپنے سر پر چپت لگاتی کچن میں جا چکی تھی ۔جبکہ شارف اب ڈاکٹر کو فون کر رہا تھا یہ حقیقت تھی کہ صبر نام کی کوئی چیز شارف کے اندر نہیں پائی جاتی تھی اور وہ بھی تب جب آنے والی کوئی خوشخبری ہو
°°°°°
وہ دونو سوئٹزر لینڈ کے ایئرپورٹ تک پہنچ چکے تھے اور اب انہیں یہاں سے لیکجیلوا جانا تھا ۔جو سوئٹزرلینڈ کا سب سے خوبصورت شہر تھا خضر پہلے ہی ان لوگوں کی وہاں ہوٹل بکنگ کروا چکا تھا
یہ جگہ بے بہت حسین تھی ہر طرف سے پہاڑ ہی پہاڑ اونچے اونچے پہاڑ اور پہاڑوں کے بیچ سے نکلتے ہوئے راستے روح کے لیے یہ نظارہ انتہائی خوبصورت تھا۔
کہیں پہار برف سے تو کہیں سبزے سے ڈھکےہوئے تھے ۔پہاڑوں کے پیچھے اور پہاڑیاں جہاں جہاں تک نظر جاتی ہے وہاں صرف پہاڑ ہی نظر آ رہے تھے ۔
کہیں کہیں سڑک پر کوئی گاڑی نظر آجاتی ورنہ لوگ پیدل چل رہے تھے اگر نہیں تو سائیکلوں پر موسم کے لحاظ سے بھی کافی سردی تھی کم ازکم دبئی جیسے گرم ملک سے نکل کر یہاں تک آنا روح کے لئے بہت اچھا ثابت ہوا تھا ۔
یارم یہاں پر گاڑیاں کم اور لوگ سائیکل زیادہ چلا رہے ہیں روح سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگی
ہاں بےبی میں بتایا تھا نا پلوشن ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں نہیں تو سائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ گندگی نہ پھیلے اور ان کا ماحول صاف ستھرا رہے اور اس سے صحت بھی بہت اچھی رہتی ہے یارم نے تفصیل سے بتایا
جس ہوٹل میں وہ رہائش پذیر تھے وہ جگہ پر پوری طرح سے پہاڑوں کے پیچو بیچ تھی اور ہر طرف سے خوبصورتی دیکھ کرروح بہت خوش تھی
اس نے کبھی اتنی حسین جگہ نہیں دیکھی تھی ائسزلینڈ بھی خوبصورت تھا لیکن وہاں ہر طرف صرف برف ہی برف تھی
پر یہاں تو جیسے وہ سچ مچ میں جنت میں آ گئی تھی اتنی خوبصورت جگہ دیکھ کر روح کے سفر کی تھکاوٹ بھی آڑن چھوہو چکی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس جگہ کے چھپے چھپے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے
اور یار م اس کے دل کی ہر بات کو سمجھتا تھا تبھی تو وہ کل ہی اس لے کر گھومنے نکلنے والا تھا لیکن اس سے پہلے آرام ضروری تھا
صاف ستھراماحول اور بڑا سا کمرا کمرے میں موجود بڑی سی کھڑکی جس میں دور دور کے سارے پہاڑ نظر آ رہے تھے
اس کمرے کو اس طرح سے سجایا کیا گیا تھا کہ جیسے وہ کوئی نئے نویلے شادی شدا کپل کا کمرہ ہو
کمرے میں قدم رکھتے ہی روح کو ہنسی آگئی
ہوٹل کی سٹاف ورکر اسے یہاں تک چھوڑ کر خود واپس جا چکی تھی اور یارم ہوٹل چیکنگ کے لیے گیا ہوا تھا
پتا نہیں اس نے کتنی دیر میں واپس آنا تھا جبکہ روح تو منہ ہاتھ دھو کر فریش ہو چکی تھی
اور اب کھڑکی کھول کے سامنے اس خوبصورت دل موہ لینے والے نظارے کو آنکھ بھر کر دیکھ رہی تھی
اونچے اونچے حیسن و خوبصورت پہاڑ کچھ سبز تھے تو کچھ کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔آسمان کے بادل بھی پہارپڑوں سے نیچے لگ رہے تھے اتنے اونچے پہاڑ اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھیں تھے
وہ ایک خوبصورت سی مسکان کے ساتھ اس نظارے کو دیکھ رہی تھی
جب دور ہی سے اسے ایک انتہائی حسین لڑکی اس ہوئل کی طرف آتی نظر آئی
وہ جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی آزاد خیال تھی
شکل سے کوئی گوری میم تو ہرگز نہیں لگتی تھی لیکن اس کے برہنہ کندھے اور ٹانگیں دیکھ کر روح کو اس پر اتنا غصہ آیا کہ وہ کھڑکی بند کر کے بیڈ کے پاس چلی گئی
یا اللہ کیاانہیں ذرا شرم نہیں آتی کیسے یوں ننگی گھوم لیتی ہیں افف
کیسے اپنے شوہر کی امانت کو دنیا جہان میں نظارہ بنا کر پیش کرتی ہیں یہ مغربی عورتیں توبہ توبہ وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ہی آئینے کی جانب دیکھنے لگی
اس کا نازک سراپا سامنے آئینے میں بے حد حسین لگ رہا تھا
یارم کی محبت اسےدن بعد دن بے حد حسین بناتی جا رہی تھی
اگر عورت کی محبت کسی ایک خاص انسان تک محدود ہو جائے اس کو اپنا وجود حسین ترین لگنے لگتا ہے
اسے فاطمہ بی کی کہی ہوئی بات یاد آئی
سچ ہی تو کہتی تھیں وہ اپنے آپ کو ایک شخص کے نام کر کے وہ کتنی مطمئن تھی ۔صرف ایک شخص کی ہو کر کتنے سکون میں تھی وہ
اور یہ مغربی عورتیں کیسے اپنے آپ کو جگہ جگہ رولتی ہیں
ایک سچی محبت کی تلاش میں نہ جانے کتنی محبتیں کر بیٹھتیں ہیں
اور ہمارا مذہب ہمیں کسی غیر محرم سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیوں کہ سچی محبتیں جگہ جگہ نہیں کی جاتی سچی محبت ایک ہی بار ہوتی ہے جو نکاح سے جڑتی ہے
اور نکاح وہ واحد رشتہ ہے جو محبتوں سے بنتا ہے نکاح کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے صرف دو لفظوں سے جڑا تعلق محبت کرنے پر مجبور کر ہی دیتا ہے
اور ہمارے مذہب میں اسی تعلق کو محبتوں سے جوڑا گیا ہے
اور یہ غیر مذہب لوگ کبھی محرم کی محبت کو نہیں سمجھ سکتے
ان کیلئے نکاح یا شادی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
کیسے بے وقوف لوگ ہیں یہ اپنا آپ برباد کرنے کو آزاد خیالی کہتے ہیں ۔اور ایک ہی شخص کے ساتھ ساری زندگی وفاداری سے نکاح کرنے کو بیوقوفی
پھر وہ ان لوگوں کی سوچ پر ہنستی بیڈ پر لیٹ گئی
یہ بےوقوف لوگ بلا محبت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں
تھوڑی ہی دیر میں یارم کو آجانا تھا اور وہ اسے تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اسی لیے بستر میں گھس کر سونے کا ڈرامہ کرنے لگی ۔
کیونکہ جو بھی تھا یارم کو ستانے کا اپنا ہی مزہ تھا
°°°°
ہوٹل چیکنگ کرنے کے بعد جب وہ واپس روم کی جانب آنے لگا تو اس سے پکا یقین تھا کہ روح اسے تنگ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پلاننگ ضرور کر چکی ہوگی
اس سے پہلے کہ وہ سو تی وہ کمرے میں پہنچ جانا چاہتا تھا
کیونکہ فی الحال اس کا انتقام لینے کا ارادہ تھا اتنے دنوں سے وہ جو اسے دن رات ستا رہی تھی وہ مکمل انتقام کے ساتھ خود کو انصاف دلا رہا تھا
جتنا اس نے اسے ستایا تھا اسی حساب سے وہ بھی اسے تنگ کر رہا تھا
لیکن اس کی بھولی بھالی سی معصوم سی روح آج کل اسے بہت تنگ کر رہی تھی شیطانیوں میں شیطانوں کی لیڈر بنے وہ اسے تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی
اسے ہوٹل ورکر کے ساتھ اندر بھیجنے سے پہلےیارم نے سختی سے کہا تھا سونا مت اور جانے سے پہلے اس نے یارم کے کان میں سرگوشی کی تھی
جب تک آپ واپس آئیں گے روح کو خوابوں کی دنیا میں پائیں گے
رات کو میرے خوابوں میں آ جائیے گا مل کے لڈو کھیلیں گے لیکن خبردار جو مجھے جگایا
جس پر یارم نے اسے سختی سے گھورا تھا اور وہ کھلکھلاتی ہوئی اندر چلی گئی
اور اب یارم جلدی روم میں جانا چاہتا تھا تاکہ اس کے پہنچنے تک وہ سوئے نہ
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب اچانک سامنے سے کوئی آتا اس سے زور سے ٹکرایا
غلطی سامنے والے کی تھی لیکن اس وقت وہ روح کے علاوہ کسی کے بھی منہ نہیں لگنا چاہتا تھا
سوری وہ ایک لفظی جواب دیتا آگے بڑھنے لگا جب نظر اس کی آنکھوں کی طرف پڑی
اس قدر جانی پہچانی آنکھیں وہ کھٹک سا گیا
جب کہ وہ صرف ہاتھ سے جواب دیتا آگے کی جانب بھر گیا تھا لیکن یارم کے قدم وہی رک گئے
اس کی آنکھیں روح سے کتنی زیادہ ملتی ہے
یارم نے سوچتے ہوئے اپنا فون نکالا
اور خضر کے موبائل پر ایک میسج کیا
جس کا جواب تھوڑی ہی دیر میں آ گیا تھا
یارم موبائل دوبارہ اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
اب اس کے قدموں میں کسی قسم کی کوئی تیزی نہیں تھی اس کے دماغ میں بہت ساری سوچیں چل رہی تھی
لیکن وہ اپنی کسی بھی سوچ کو کسی قسم کا کوئی نام نہیں دینا چاہتا تھا وہ ان آنکھوں کو اپنے ذہن سے جھٹکتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
°°°°°°
کمرے میں قدم رکھنے سے پہلے اس نے اپنے آپ کو پرسکون کیا تھا وہ اپنی کسی بھی سوچ کا اثر روح تک نہیں جانے دینا چاہتا تھا
کمرے کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو سامنے ہی وہ بیڈ پر کمبل میں گھسی سونے کی باکمال ایکٹنگ کررہی تھی
یارم اپنا جیکٹ اتار کر صوفے پر پھنکتا اپنی گھڑی اور موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر شرٹ اتارنے لگا۔
اور اب وہ مسکراتے ہوئے روح کے ساتھ کمبل میں گھس کر اس پر اپنا شکنجا مضبوط کر چکا تھا
جو اس کے آنے کا اندازہ لگا کر مزید آنکھیں میچے سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی یو ں اسے آپنے بے حد نزدیک محسوس کرکے دونوں آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی
جب کہ وہ اس کی گھوری کو کسی بھی قسم کی اہمیت دیے بغیر اسے پوری طرح سے قید کر چکا تھا
روح کے مسلسل گھورنے پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ تو اس کی گھورتی ہوئی آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے اس کی گردن پر جھکا تھا
یارم مجھے بہت سخت نیند آئی ہے سونے دیں مجھے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ کی ایسی کی تیسی آرام سے پڑی رہو ورنہ میری ورنہ تمہاری ورنہ سے زیادہ خطرناک ہوگئی وہ اس کی دھمکی کی پرواہ کیے بغیر بولا
یارم میں آپ سے ناراض ہو جاوں گی بہت سخت والی اس کی شدت سے بھرپور لمس اپنے گال کے بعد گردن پر محسوس کرتے ہوئے وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی
ہو جاؤ ناراض مجھے منانا آتا ہے اور ناک سے مکھی اور آتے ہوئے اس کے لبوں پر ایک ننھی سی گستاخی کرتا ایک بار پھر سے اس کے دونوں گولوں کو شدت سے چوم کر اس کا دوپٹہ اتار کر پھینک چکا تھا
شرم سے دوہری ہوتی روح نے ہلکی سی مزاحمت کرتے ہوئے اس کی پیٹھ پر چٹکی کاٹی
یارم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا
یہ کیا بدتمیزی تھی وہ سختی سے کر کہنے لگا
یہ بدتمیزی نہیں آپ کو بدتمیزی سے روکنے کی ایک ننی سی کوشش کی تھی روح نے فورا کہا
بھاڑ میں گئی تمہاری کوشش اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر تکیے سے لگاتا سختی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
اور اس بار وہ اس کے لبوں پر جھکا اپنے شدت سے بھرپور لمس کے ساتھ اس کی سانسیں تنگ کر گیا
اس کے نازک لبوں کو چومتے وہ اسے مشکل میں ڈال گیا
وہ اپنی مزاخمت پر پچھتائی تھی
اگر تم نہیں چاہتی کہ میں تم سے سانس لینے کی اجازت بھی چھین لوں تو آرام سے پڑی رہو بنا کسی کوشش کے ورنہ تمہاری ہر کوشش کا میں وہ حال کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گی
اس کے لبوں کو آزادی بخشتے ہوئے وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولا
اور اس کی دھمکی کافی کارآمد ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کے بعد روح پوری طرح مذاحمت چھوڑ چکی تھی
جب کہ یارم اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی تشنگی کو مٹا رہا تھا
°°°°
بہت بہت مبارک ہو شارف روپورٹس پوزیٹو ہیں معصومہ ماں بننے والی ہے ۔اور تم پاپا ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اسے خوشخبری سنائی تھی کل سے ہی وہ اس کی بے چینی پر بے حد پریشان تھی
کیونکہ کل سے ہی اس نے اسے فون کرکے اتنا تنگ کر رکھا تھا کہ حد نہیں
اور اب اس خوشخبری کے بعد جہاں معصومہ نے مسکرا کر شارف کو دیکھا تھا وہی شارف ڈاکٹر کی پرواہ کئے بغیر اسے کھینچ کر سینے سے لگا چکا تھا
معصومہ اسے گھور کر رہ گئی جبکہ ڈاکٹر مسکرا دی
چلو گھر چلتے ہیں اب سے میں خود تمہارا خیال رکھوں گا تمہارے کھانے پینے کا چلنے پھرنے کا ہر چیز کا خیال میں خود رکھوں گا تمہیں تو ویسے بھی کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا یہ نہ ہو کہ تمہاری بے دھیانی سے میری ہونے والی بیٹی دنیا میں آنے سے پہلے ہی مجھ سے ناراض ہو جائے
میں تو ابھی سے اس کا خیال رکھوں گا شارف کمرے سے نکلتے ہوئے میں کہنے لگا تو معصومہ کو جیسے جھٹکا لگا
کیا مطلب ہے ہونے والی بیٹی وہ بیٹا بھی ہو سکتا ہے
اور ان شاء اللہ تعالی بیٹا ہی ہوگا مجھے پہلے بیٹا چاہیے تمھاری بیٹی کے لیے ہم تین چار سال بعد بھی سوچ سکتے ہیں
معصومہ آئستہ آئستہ چلتی اس کے ساتھ کہہ رہی تھی جس پر پہلے تو شارف نے منہ بنایا پھر مسکرا دیا
ہاں بابا چلو بیٹا ہی سہی ہے جو بھی ہو بس جلدی سے آ جائے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے شارف نے مسکرا کر کہا
جلدی کیسے آئے گا شار ف ا بھی تو پورے ساڈھےآٹھ مہینے رہ گئے ہیں معصومہ اس کے ساتھ چلتی مایوسی سے بولی
کوئی بات نہیں ہم ساڈھے آٹھ مہینے اس کا انتظار کریں گے اور تمہیں بھی اپنی کیر کرنی ہوگی تاکہ ہم اسے بتا پائیں کہ ہم اس کے آنے سے پہلے ہی ان کا کتنا خیال رکھتے رہے ہیں
افکورس میں اپنا خیال رکھوں گی صرف تمہیں ہی پیار نہیں ہے اپنے ہونے والے بچے سے معصومہ نے فوراً جواب دیا
ویری گڈ وہ اس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتا جیب سے فون نکال کر تیزی سے میسج ٹائپ کرنے لگا
اب تم کیا کرنے لگ گئے ہو اسے فون پر مصروف دیکھ کر معصومہ نے پوچھا
ارے کچھ نہیں بس خضر اور لیلی کو رات اپنے گھر پر ڈنر کے لیے انوائٹ کر رہا ہوں اب اپنی خوشی اپنوں کے ساتھ ہی مناؤں گانا یارم کو بھی فون کرتا ہوں
خضرکو میسج کرنے کے بعد وہ یارم کو فون کرنے لگا جبکہ معصومہ مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھ چکی تھی
یہ ان کی زندگی میں آنے والی پہلی خوشی تھی جسے لے کر وہ دونوں بے حد خوش تھے
دنیا میں اولاد کا احساس ہی دنیا کا سب سے خوبصورت احساس ہوتا ہے
°°°°°
یارم اٹھ جائیں نا کتنا سوئیں گے وہ اس کا کندھا ہلتی بے زاری سے بولی
سونے دو روح یار تھک گیا ہوں میں وہ آنکھ دباتا شرارت سے بولا توروح نے شرمندہ ہوتے پہلا سر جھکایا اور پھر اس کے کندھے پر چیٹ لگائی
بہت بد تمیز ہیں آپ مجھ بات ہی نہیں کرنی آپ سے
وہ اس کے قریب سے اٹھ کر جانے لگی تو یارم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے خود پر گراتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں قید کر لیا
اب کون سی بدتمیزی کر دی میں نے زیادہ پیار بھی نہیں کرنے دیا تم نے اور اب بھی نہیں کرنے دے رہی وہ اس کی تھوڑی کو پکڑتے ہوئے اس کے لبوں پر میٹھی سی جسارت کرنے ہی والا تھا کہ روح نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا
بس بہت ہوا یارم ۔۔۔۔۔
اٹھیں اور چلیں مجھے باہر لے کر یہاں پر قید ہونے کے لیے نہیں آئی ہوں میں
مجھے آئس لینڈ کی بہن کو ہر طرف سے دیکھنا ہے پلیز چلیں نا
وہ منت کرتے انداز میں بولی
روح میرا بچہ رات کے دس بج رہے ہیں اور یہاں کے کچھ اصول ہیں ہم رات کو باہر نہیں جا سکتے
اور اگر جائیں گے بھی تو کہاں یہ علاقہ شہر سے تھوڑے فاصلے پر ہے اور دور دور تک سوائے جنگل کے اور کچھ نہیں ہیں سوائے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی پہاڑی ہے
لیکن وہاں پر بھی ایک کلب ہے جہاں کا ماحول تمہیں ہرگز پسند نہیں آئے گا
غیر مذہبی ماحول ہے تمہیں پسند آنے کے کوئی چانسز ہی نہیں ہیں وہاں پر شراب سگریٹ جوا سب کچھ چلتا ہے
میرا نہیں خیال کہ تم وہاں جانا پسند کرو گی
یارم نے تفصیل سے بتایا تو روح نے منہ بنالیا
یہاں قریب قریب سے ہی گھوم کر واپس آجائیں گے پلیز چلے نہ روح معصوم سی شکل بنا کر بولی تو یار م کومنانا ہی پڑا
ٹھیک ہے چلو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک بات کان کھول کر سن لو یہاں جوتوں کی آواز پیدا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے یہ نہ ہو کہ ابھی ہوٹل سے نکلے اور صبح جیل سے ملے
یارم میں کبھی جیل نہیں گئی۔لگے ہاتھ وہ بھی دیکھ لیں گے وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتی ہوئی بولی
یارم کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ کھلی تھی
جب کہ روح جلدی سے اس کے ڈمپل پر بوسہ دیتی پھرتی سے اس کے قریب سے اٹھناہی چاہتی تھی کہ یارم نے اسے پکڑ لیا
اور پھر جارحانہ انداز میں اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے شدت سے بھرپور بوسہ لیا
ایسے کیا جاتا ہے پیار وہ شرارت سے آنکھ دباتا بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ بولا
مجھے نہیں سیکھنا آپ کا جارحانہ پیار وہ منہ بناتی باہر کی طرف قدم بڑھانے لگی
لیکن مجھے سیکھانا ہے یارم اس کے پیچھے جاتا شرارت سے بولا
ارے کہا نہ نہیں سیکھنا وہ اسے گھور کر بولی
پر میں نے بھی تو کہا کہ مجھے سکھانا ہے اپنی نکمی بیوی کو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا اپنا کمرہ لاک کرتے ہوئے بولا
تو روح تیز قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی جانب جا چکی تھی ۔
اف کتنی جلدی ہے اس لڑکی کو باہر جانے کی وہ نفی میں سر ہلا سیڑھیاں اترنے لگا جب روح کو آخری سیڑھی پر کچھ حیران ساتھ کھڑے دیکھا
کیا ہوگیا جانےمن یہاں کیوں رک گئی
یارم میں نے ابھی اس کڈنپر کو یہاں دیکھا جو دبئی میں شونو کو اغوا کرنے والا تھا اس نے جلدی سے بتایا
روح میں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی کڈنپر ہو ضروری تو نہیں کہ وہ شونو کو اغوا ہی کرنے والا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی اور ہو خیر چھوڑ چلو باہر چلتے ہیں
چلو ریسیپشن سے گاڑی کی چابی بھی لینی ہے
وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہے اسے اپنے ساتھ لے گیا روح نے پھر ایک نظر دوبارہ پیچھے دیکھا تھا
لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ وہ کہیں بھی اور دیکھیں اس کا دھیان تو صرف اپنے یارم پر ہونا چاہیے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے مزید قریب کرتے ہوئے یارم نے اسے اس بات کا احساس بھی دلایا تھا
جب کہ روح اسے گھورتے ہوئے بے ساختہ مسکرائی اور اس کے ساتھ چل دی
یارم کیا یوں ہی چلے گے اتنے آہستہ آہستہ وہ بہت سلو گاڑی چلا رہا تھا تاکہ کسی قسم کی کوئی آواز پیدا نہ ہو اور ان کے ہاتھوں کسی قسم کا کوئی قانون نہ ٹوٹے ۔
لیکن روح تو اس کی سلو سپیڈ پر حیران تھی
ہاں ہم ایسے ہی جائیں گے کیونکہ یہاں کے قانون بہت سخت ہیں یارم نے دہرایا
تو روح نے منہ بنا لیا
یارم یہ سفر میری زندگی کا سب سے بورنگ سفر بنا رہے ہیں آپ
اس طرح سے چپ چاپ بالکل خاموش اور اتنے آہستہ اسے کم ازکم یارم سے اس سے یہ امید نہیں تھی
تمہیں پتا ہے جانے من جب دو محبت کرنے والے سفر پر نکلتے ہیں نا وہ رستے یا گاڑی کی سپیڈ کو نہیں دیکھتے
بلکہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں
ایک دوسرے میں کھو جاتے ہیں
وہ ایک دوسرے کے علاوہ کسی اور سے بات کرنا پسند ہی نہیں کرتے
کسی اور کے بارے میں سوچنا پسند نہیں کرتے
تم کیا بے کار میں کبھی رستوں پر تو کبھی گاڑی کی سپیڈ پر گھور کر رہی ہو وہ اس کا ہاتھ تھام کر چومتے ہوئے بولا
تمہیں تو چاہیے کہ تم اپنا سارا دھیان مجھ پر لگاؤ
صرف مجھے دیکھو مجھے سوچو تم آگے پیچھے کی چیزوں پے دھیان نہیں دو
اگر تم ان سب میں بزی ہو جاو گی تو کیا فائدہ ہے اس لونگ ڈرائیو کا جب میرا پارٹنرہی میرے ساتھ خوش نہیں ہے
یارم نے اسے دیکھتے ہوئے اس انداز میں کہا کہ روح شرمندہ ہوگئی
نہیں یارم میں بہت خوش ہوں آپ کے ساتھ آ کر میں تو یہ کہہ رہی تھی کیا آپ نے کبھی اتنی آہستہ گاڑی ڈرائیور نہیں کی
اور نہ ہی ہم نے کبھی ایسا سفر کیا ہے جس میں اتنی کم باتیں کی ہوں
ہاں ڈارلنگ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن ہم آہستہ اور کم باتیں اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ تم نے دونوں شیشہ کھول دیے ہیں اس سے ممکن ہے کہ آواز باہر جائے اور کوئی اصول ٹوٹے تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا
یارم آپ ڈان ہیں دا ڈیول آپ کے سامنے یہ سب کیا اہمیت رکھتا ہے وہ اسے دیکھتے ہوپے یاد دلانے لگی یارم مسکرایا
میں خود اصولوں پر چلنے والا بندہ ہوں روح مجھے رول توڑنے والوں لوگوں سے الجھن ہوتی ہے لوگ ہمارے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں
تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے بنائے ہوئے اصولوں کو مدنظر رکھیں
ان کے اصولوں کا احترام کرے یار م نے مسکرا کر اسے اپنی بات کا مطلب سمجھایا تھا
روح اس کی بات سن کرمسکرا دی
آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں یارم جس طرح سے ہم خود اصول بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب اس کی پیروی کریں
ہمیں دوسروں کے اصولوں کی بھی اسی طرح سے پیروی کرنی چاہیے ۔
اگر ہمیں یہ مان ہے کہ لوگ ہمارے اصولوں پر چلیں گے تو پہلے ہمیں بھی کسی کے اصولوں پر چلنا پڑے گا
لیکن پھر بھی گاڑی کی سپیڈ بہت کم ہے اس کی بات کی تاکید کرتے ہوئے وہ پھر سے بولی تویارم بے ساختہ مسکرا دیا ۔
ہاں جانو یہ بات تو تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوپانچ کلو میٹر کا سفر مجھے بھی بہت لمبا لگ رہا ہے
ان کا ارادہ پہاڑی کی طرف جانے کا تھا اور پھر وہی تھوڑی دیر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار کر واپس آ جانے کا
لیکن یہ سفر ان کے لئے بہت لمبا ثابت ہو رہا تھا
جگہ جگہ بوٹ لگے تھے کہ گاڑی کی سپیڈ کم رکھی جائے اور آواز پیدا کرنے سے گریز کیا جائے
اور رات کے وقت ان راستوں پر نکلے ہی نہیں جنگل خطرناک ہے
اور ایسے میں ان اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے آگے کی طرف سفر کرنا بھی اپنے آپ میں ایک بہت مشکل کام تھا
روح باہر کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا جب اچانک یارم نے گاڑی کی سپیڈ تیز کردی
کیا ہوا یارم آپ نے گاڑی کی سپیڈ اچانک اتنی تیز کیوں کر دی
اس سے آواز پیدا ہو سکتی ہے روح نے فورا کہا تھا
یہاں جنگلی جانور ہیں ہمہیں جلدی یہاں سے نکل جانا چاہے روح یہ ہم پر حملہ کر سکتے ہیں
اگر تم گاڑی کا شیشہ بند کر سکتی تو ہمارے لئے آسانی ہوتی لیکن اس سے تمہاری طبیعت خراب ہو جاتی ہے
اسی لیے میں نے گاڑی کی سپیڈ تیز کی ہے
یارم وہ کیا تھا ۔۔۔؟
جو ابھی یہاں سے نکلا اس کی بات کو کاٹتے ہوئے روح نے اپنی گاڑی کے سامنے سے کسی تیز چیز کو نکلتے دیکھا
جو سفید رنگ کی تھی
۔وہ سفید چیتا تھا یہ دنیا میں بہت کم ہیں لیکن سوئزرلینڈ کے جنگلوں میں یہ بہت ہیں یا یوں کہہ لوکہ سوئرزرلینڈ کے جنگل ہی ان کا اصل گھر ہیں
ایک وقت تھا کہ جب یہ دنیا سے ختم ہوگئے تھے پھر نہ جانے کتنے سالوں کے بعد انہیں سوئٹزرلینڈ کی پہاڑیوں پر پایا گیا
پھر یہ لوگ ان کی اس نسل کی خفاظت کرتے ہیں یہ بہت نایاب ہوتے ہیں
ان میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی وار سے اپنے شکار کو ختم کر دیتے ہیں
یارم نے تفصیل بتاتے ہوئے اسے ڈرا دیا تھا
لیکن اس کی کوئی بات جھوٹ نہیں تھی اور روح کو ڈرانے کا بھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا
وہ تو بس روح اس سے جو بھی سوال پوچھتی وہ اس کا صحیح جواب دے دیتا تھا لیکن اس بار اسے سچ بتا کر تھوڑا پچھتا رہا تھا
کیونکہ روح بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکی تھی جب اچانک اس نے ایک سفید چیتا سامنے سڑک پر بھاگتے ہوئے اس طرف آتا دیکھا
گھبراؤ مت روح کچھ نہیں ہوگا
وہ اس طرح سے حملہ نہیں کرتے یارم نے اسے سمجھانا چاہا
لیکن اس چیتے کو اس طرف بڑھتا دیکھ کر روح نے فورا یارم کے سینے میں اپنا منہ چھپایا تھا بروقت یار اگر گاڑی کر نہ سنبھالتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا
یارم واپس چلیں مجھے آگے کہیں نہیں جانا وہ گھبرا کر بولی تو اس سنگین سچویشن میں اس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ کھلی تھی ۔
روح اگر تم اس طرح سے میرے ساتھ لگی رہو گی تو گاڑی چلانے کی بجائے میری نیت بری طرح سے خراب ہوگئی جو کہ ہو رہی ہے اور پھر ہم دونوں ان سفید چیتوں کا ڈنر بن جائیں گے
یارم نے شرارت سے اس کے کان میں سرگوشی کی جبکہ اس طرح سے گاڑی سنبھالنا ایک مشکل ترین کام تھا
اور اس کی پوری بات سننے کے بعد روح اس کے سینے سے ذرا سا منہ نکال کر ایک بار پھر سے سامنے سرک کو دیکھتے ہوئے سیدھی ہوئی
اور گاڑی کا شیشہ آدھے سے زیادہ بند کر لیا
ایم سوری یارم مجھے ضد نہیں کرنی چاہیے تھی ہمیں اس وقت باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا
سوری یارم میری وجہ سے ہم یہاں اتنی خطرناک جانوروں کے بیج آگئے آپ گاڑی واپس مڑے ہم واپس ہوٹل چلتے ہیں
رات تو رات یہاں تو دن کو بھی کوئی نہ آئے ہم واپس چلتے ہیں وہ کافی خوفزدہ اس سے کہہ رہی تھی۔
میرا بچہ اتنی سی بات پے ڈر گیا ہم واپس تو چلیں گے روح لیکن یہاں سے گاڑی موڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ہمہیں تھوڑا اور جانا ہوگا
وہ نرم سے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئے بولا ۔توروح خوف سے اس کا بازو تھام کر کبھی سڑک کی جانب دیکھتی تو کبھی اس کی جانب
وہ اندر ہی اندر بہت پچھتا رہی تھی
اس لیے یارم کے ساتھ اس طرح کی حطرناک جگہ کیوں آئی
یہ کوئی اس کا ملک تھوڑی تھا جہاں جب دل چاہے وہ منہ اٹھا کر چل دی اس جگہ کے کچھ اصول تھے اور یہ جگہ بہت خطرناک بھی تھی
اس نے اپنی وجہ سے یارم کو بھی بہت بڑی مصیبت میں ڈال دیا تھا جس کا اسے بہت افسوس تھا
یہاں کچھ بھی ہوسکتا تھا
یارم اس کی ہر ضد پوری کرتاتھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اس کی نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی
۔لیکن اب تو غلطی ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی یارم نے ایک بار بھی یہ بات جتائی نہیں تھی بلکہ وہ تو بہت محبت سے اسے ٹریٹ کر رہا تھا
یار م پلیز بھی آپ بھی اپنی طرف شیشہ بند کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے وہ شیشے کو کھلا دیکھ کر بولی
ہاں میرا بچہ میں ابھی بند کر دیتا ہوں تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں میں ہونا تمہارے ساتھ
یارم نے بہت نرمی سے
جب اچانک کوئی چیز بھاگتی پوئی ان کی گاڑی کی سائیڈ سے ٹکرائیمروج کانتی تھی کہ وہ سفید چیتا ہی ہے اس کہ بے ساختہ چیخ بلند ہوئی اور اس لے ساتھ وہمیارم سے چیپک گئی
لیکن یارم نے گاڑی روکی نہیں اب بھی گاڑی آگے کی طرف ہی بھر رہی تھی اور اب تھوڑا سا مزید آگے جانے کے بعداب گاڑی موڑنے کی جگہ ملتے ہی اس نے گاڑی موڑ لی تھی
جان اب کوئی جانور نہیں ہے یارم نے سرگوشی کی
پتا نہیں دنیا کے سارے خطرناک جانور ہمارے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں
پہلے آئزلینڈ میں وہ انسان نما پتا نہیں کیا چیز تھی
اور اب یہ سفید چیتا
ہم آئندہ کہیں نہیں جائیں گے اپنے گھر پر ہی رہا کریں گے دبئی میں ۔مجھے جانا ہی نہیں ہے کہیں پھر بھی اس سے تو بہتر دبئی ہے
جہاں ہم پرسکون ہو کر تو رہ سکتے ہیں
وہاں کے جنگلوں میں کوئی جنگلی جانور نہیں ہوتا
اس سے تو بہتر وہی جگہ ہے روح نے اس کی طرف کا شیشہ بھی بند دیکھ کر اب مطمئن انداز میں کہا ۔
ہاہاہا روح میری جان وہاں پر بھی بہت سے جنگلی جانور ہیں
تم نے دبئی دیکھا ہی کہاں ہے جب دیکھوگی تب پتہ چلے گا خیرتمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں میں ہوں نہ تمہارے ساتھ جب تب میں ہوں تمہیں انچ بھی نہیں آئے گی
روح تم یارم کاظمی کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہو اپنی آخری سانس تک خفاظت کروں تمہاری
میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈر نے یا گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا وہ نرمی سے سمجھاتے ہوئے مسکرا کر بولا
آئی ایم سوری یارم میں نہیں جانتی تھی کہ یہاں کچھ ایسا ہوگاےمجھ سے غلطی ہوگئی تو پلیز مجھے معاف کر دیجیے
میں آئندہ کبھی ایسی ضد نہیں کروں گی وہ معصومیت سے بولی
مجھے پتا ہے میری جان تمہیں پتا نہیں تھا ورنہ میری روح جائز ضد نہیں کرتی لیکن تمہیں بار بار سوری بولنے کی ضرورت نہیں ہے
میں جانتا ہوں کہ تم اس جگہ سے پوری طرح ناواقف ہو اور اب تو ہم واپس جا رہے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے
وہ گاڑی دوبارہ سے ہوٹل کے راستے پر ڈالتا ہوا بولا
راستہ پہاڑی کے چاروں طرف گھوم رہا تھا
جس سے نیچے موجود ہوٹل صاف نظر آ رہا تھا جس میں بے شمار روشنیاں جل رہی تھی لیکن اب بھی وہ کافی فاصلے پر تھا
اس کے تو وہم و گمان بھی ہمیں بھی نہیں تھا کہ ہوٹل کے ایریا کے قریب ہیں اتنے جنگلی جانور موجود ہوں گے
°°°°°
ہوٹل میں واپس آنے کے بعد اس نے قسم کھالی تھی رات تو رات وہ دن میں بھی کبھی باہر نہیں نکلے گی
جب تک وہ واپس نہیں چلے جاتے یارم اس قدر پریشان ہو رہا تھا وہ تو اسے یہاں خوش رکھنے آیا تھا
اور یہاں وہ اتنی خوفزدہ ہو چکی تھی
وہ بھی سفید چیتوں سے جو کہ چیتے کی سب سے معصوم نسل ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے خطرناک نسل بھی تھی
لیکن سویزرلینڈ کے لوگوں کے لیے یہ اتنا خطرناک نہیں تھا
یہ ایک ایسا جانور تھا جس کے ساتھ چھیڑ خانی کے بعد وہ حملہ کرتاھا ورنہ کسی کو نقصان نہیں پہنچتا تھا
اپنے آپ سے ہی مطلب رکھتا تھا
ہوٹل کے اتنا قریب ہونے کے باوجود بھی جنگلی جانوروں نے کبھی ہوٹل کے لوگوں پر حملہ نہیں کیا تھا
سوئیزرلینڈ کی حکومت انہیں پسند کرتی تھی یہاں تک کہ جنگل میں بہت سارے حفاظتی انتظامات بھی کیے گئے تھے
تاکہ جنگل میں رہنے والے جانوروں کو کوئی مسئلہ نہ ہو
یہاں پر جانوروں کو رکھنے کے بھی کچھ اصول تھے
اگر یہاں پر ایک جانور کو پالتو جانور کے طور پر پالا جائے تو یہ ان لوگوں کا اصول تھا کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو ہوں گے
مطلب کے جوڑی کی صورت میں یہاں کے لوگوں کو اکیلا جانور پالنے کی اجازت نہیں تھی ان لوگوں کے خیال سے اس طرح سے اکیلا جانور خود کو تنہا محسوس کرتا تھا
اس لیے یہاں پر صرف اور صرف جوڑی کی صورت میں ہی جانور رکھنے کی اجازت تھی
یہ بھی ان لوگوں کے اصولوں میں شامل تھا
اسی لئے تو وہ شونو کو یہاں نہیں لایا روح کی اتنی ضد کرنے کے باوجود بھی اس نے اس کی بات نہیں مانی تھی ۔
کیونکہ وہ کسی بھی جگہ کے اصول نہیں توڑنا چاہتا تھا
وہ خود اصول رکھنے والا انسان تھا اسے اصول توڑنے والے لوگ خود بھی پسند نہیں تھے ایسے میں اس کا کسی جگہ کا اصول توڑنا اس کی شان کے خلاف تھا
°°°°°°
صبح ہوتے ہی یار ہم نے اسے ایک بار پھر سے باہر چلنے کو کہا
نہیں یارم ہم کہیں نہیں جائیں گے ہمہیں جتنے دن رہنا ہے یہی پر رہتے ہیں
اور پھر واپس چلتے ہیں
میری جان کیا ہو گیا ہے تمہیں ہم یہاں گھومنے پھرنے آئے ہیں اور میں نے تمہیں بتایا کہ وہ جانور اتنا خطرناک نہیں تھا جتنا کہ تم سمجھی
نہیں یارم وہ جانور بہت خطرناک تھا وہ چیتا تھا اور جیتے معصوم نہیں ہوتے کو چیر پھاڑ کر ہی دم لیتے ہیں
مجھے کہیں نہیں جانا یہی پر رہنا ہے اور خبردار جو آپ بھی کہیں باہر نکلے اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ جگہ اتنی خطرناک ہے تو میں کبھی یہاں نہیں آتی
اچھا بابا اب ہم اس طرف نہیں جائیں گے ہم دوسری کسی جگہ گھومنے چلتے ہیں اور اب تمہارا سفر بورنگ بھی نہیں ہوگا میں وعدہ کرتا ہوں
ہم بہت انجوائے کریں گے یارم نے اس کا چہرہ ہاتھوں می تھامتے ہوئے کہا تو روح تو ماننا ہی برا
ٹھیک ہے فریش ہو کر چلتی ہوں لیکن وعدہ کریں کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے روح نے پھر سے یقین دہانی چاہیے یارم نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے یقین دلایا جس کے ااتھ ہی وہ اس کے لبوؑ پر جھکا ہلکی سی جسارت لر گیا
جس کا روح نے نپبرا نہیں منایا اور روح فائنلی تیار ہونے چلے گی
وہ نہا کر باہر نکلی تو یارم یہاں نہیں تھا یقین ریسیپشن سے چابہ لینے گیا ہوگا یہاں کے ہوٹلوں کے بھی عجیب اصول تھے
اپنی گاڑی لانا بالکل الاؤڈ نہیں تھا
جہاں بھی جانا تھا ہوٹل کے گاڑی میں جانا تھا وہاں ڈرائیور بھی موجود تھا اگر چاہیں تو اسے بھی لے کر جا سکتے تھے اور اگر ان کے مہمان پرائیویسی چاہتے ہیں تو وہ گاڑی خود ڈرائیو کر سکتے ہیں
بس ان کے پاس لائسنس ہونا چاہیے
اور یارم کو اپنی پرائیویسی بے حد عزیز تھی ۔
وہ کھڑکی پہ کھڑے یارم کا انتظار کرنے لگی جب باہر کی جانب جاتے راستے پر اسے پھر سے وہی کل والی لڑکی نظر آئی
لیکن اس وقت وہ کافی پریشانی سے کسی کی منتیں کر رہی تھی وہ ہاتھ جوڑ رہی تھی بری طرح سے رو رہی تھی
جبکہ دوسرا شخص اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا جسے وہ پہچان نہیں پائی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جب اس نے اس لڑکی کو تھپڑ مارا
وہ اس لڑکے کا چہرہ بھی دیکھ چکی تھی یہ تو وہی تھا جو دبئی میں اس سے ملا تھا اور پھر کل رات بھی تو روح نے سے دیکھا تھا
وہ اس لڑکی کو کیوں مار رہا تھا بلا اس کے ساتھ اس کی کیا دشمنی تھی
وہ اس کے ساتھ اتنا جارحانہ سلوک کیوں کر رہا تھا
وہ اسے دیکھ رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور یارم اندر داخل ہوا۔
چلو جان میں تمہیں سوئٹزرلینڈ کی ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پر لے کر جانے والا ہوں وہ مسکراتا ہوا اس کے قریب آیا تھا
یارم اس طرف دیکھیں وہ کڈنپر جو شاید کڈنپر نہیں ہوگا وہ لڑکی کو مار رہا ہے وہ اس کا ہاتھ تھامے سے تیزی سے کھڑکی کے قریب لائی تھی
لیکن یہ کیا جیسے ہی یارم نے باہر دیکھا وہ لڑکی اس کے گلے لگی بڑی بے باکی اور خوشی کا اظہار کر رہی تھی
روح بےبی گندی بات یہ تم کیا دیکھ رہی ہو وہ ہزبینڈ وائف رومانس کر رہے ہیں وہ تو یہاں چھپ چھپ یر ان کو دیکھ رہی ہو
کتنی غلط بات ہے روح اس کے چہرے کے ایکسپریشن چینج ہوتے دیکھ یارم نے شرارت سے کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی ۔
نہیں یار م وہ دونوں ایسا ویسا کچھ نہیں کر رہے تھے وہ لڑکا اس لڑکی کو مار رہا تھا میں نے خود دیکھا ہے
اسے مارتے ہوئے روح نے یقین دلاتے ہوئے کہا اسے خود سمجھ نہیں آئی تھی کہ اچانک ہو کیا گیا ہے ابھی تو وہ لڑکا اتنا غصہ کر رہا تھااس پر
یہاں تک کہ بے دردی سے اس کے منہ پر تھپڑ تک ماراتھا
اور اب کیسے اسے اپنے گلے سے لگائے شاید بہلا رہا تھا یا منا رہا تھا لیکن لڑکی کے چہرے پر خوشی تھی
روح ہمیہں کیا مطلب ہے کہ کوئی کیا کر رہا ہے وہ دونوں رومانس کریں یا ایک دوسرے کو جان سے مار ڈالے ہمارا ان سے بھلا کیا لینا دینا
ہمیں تو بس اپنے ہنیمون ٹور کو خوشگوار بنا نا ہے
اس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں کے قریب لے جاتے ہوئے یارم نے محبت سے کہا اور اس کی انگلیوں کو چوم کر اس کا ہاتھ تھامے باہر چلنے کا اشارہ کیا
ویسے یارم ہم کہاں جا رہے ہیں اپنا زکاف سیٹ کرتی ہوئے روح پھر سے پوچھنے لگی جبکہ ڈارک بلو زکاف میں اس کا حسین چہرہ کسی حسین پری سے کم نہیں لگ رہا تھا
یارم مدہوش سا اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے اس کے لبوں لو چوم گیا
۔روح حیرت اور صدمے کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگی
وہ تو اس سے عام سوال کر رہی تھی اور یہاں پر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا آپ کبھی نہیں سدھر سکتے وہ غصے سے پٹکتی باہر نکل گئی
جب کہ اپنی بے اختیاری پر وہ اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلا
تم باہر رکو میں چابی لےکے آتا ہوں ۔اس کے چہرے کو نرمی سے چھوتے یارم مسکرا کر ریسپشن کی طرف چلا گیا۔
اور روح ہاں میں سر ہلاتی باہر چلی گئی۔
باہر اسے وہی لڑکی گرین کلر کی شارٹ سی ڈریس میں کھڑی نظرآئی ۔
شاید وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی
شاید اسی کا جو کل رات اس لڑکی کو مار رہا تھا۔
کیونکہ بعد میں یہ لڑکی اس کے گلے لگی ہوئی تھی۔
وہ اسے نظرانداز کرتی یارم کا انتظار کرنےلگی۔جب وہ لڑکی ایک نظراسے دیکھ کر اس کی طرف چلی آئی
تم پاکستان سے ہونا ۔۔! وہ اردو میں کہتی اس سے محاطب تھی
یہ پہلی لڑکی تھی جو یہاں اسے اردو بولتی نظر آئی
ہاں میں پاکستان سے ہوں روح نے جواب دیا ۔ وہ ادھی برہنہ لڑکی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ خود اس کے قریب چل کرآئی تو وہ اسے اگنور نہ کر سکی
واو۔۔یار میری بہت خواہش ہے پاکستان آنے کی پاکستان میں کہاں سے ہوتم ویسے میرا نام خوشی ہے اور تمہارا۔۔۔۔؟ وہ اس سے فری ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔
کم از کم روح کو تو ایسا ہی لگا۔
میرا نام روح یارم کاظمی ہے ویسے تو میں ملتان سے ہوں لیکن میرے شوہر دبئی سے ہیں
اور میں بھی ان کے ساتھ دبئی میں ہی رہتی ہوں ۔روح نے اسے جواب دیےپتے ہوئے بتایا
میرا بوائےفرینڈبھی وہیں ہوتا ہے ۔اور میں یہاں اس سے اتنی دور ۔وہ مایوسی سے کہتی اسے مزید بتانے لگی۔
جبکہ لفظ بوائے فرینڈ پر روح کا موڈ آف ہونے لگا ویسے بھی اس لڑکی سے مل کر اسے خاص خوشی نہیں ہوئی تھی
اور بوائے فرینڈ کا مطلب تو وہ بھی بہت بہتر طریقےسے سمجھتی تھی۔
ایسا رشتہ جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔
اور یارم کی نظر میں اس کا مطلب طوائف تھا۔بلکہ وہ طوائف کو گرل فرینڈ سے بہتر کہتا تھا جو کام طوائف پیسے لے کرتی ہے وہ کام یہ لوگ محبت کا نام دے کر فری میں کرتے ہیں
اسے اس لڑکی سے بات کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ لڑکی کافی باتونی تھی۔
تو تم شادی کب کر رہی ہو ۔میرا مطلب ہے شادی کے بعد بھی اپنے شوہر یے ساتھ دبئی میں آ جانا روح نے کہا۔
شادی ۔۔۔میں تو کب سے تیار ہوں لیکن وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا اور ویسے میں ہمارا مذہب الگ ہے اس کا مذہب اسے مجھ سے شادی کی اجازت نہہں دیتا ۔وہ پھر مایوس ہونے لگی
جبکہ روح کا دل چاہا کہ اسے لڑکی کو بتائے کہ اگر مذہب اس طرح ملنے کی اجازت دیتا ہے ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے یوں نامحرم رشتہ رکھنے کی اجازت دیتا ہےمگر شادی کی نہیں تو تم اس دنیا کی سب سے بڑے بےوفوف ہو۔لیکن وہ نہِیں کہہ پائی ۔
وہ لڑکی کوئی چھوٹی دی بچی نہیں تھہ اپنا بُرابلا سمجھ سکتی تھی پھر وہ کیونکہ دخل اندازی کرتی۔
اچھا روحی میری دوست بنو گی وہ کیا ہے نہ میرا کوئی دوست نہیں ہے
پلیز تم میری دوست بن جاؤ یار میں یہاں بہت بور ہو رہی ہوں وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے اصرار کرتے ہوئے بولی
جب کہ روح تو اس کے منہ سے روحی سن کر ہی پریشان ہو گئی تھی
یہ نام اس کے لئے نیا نہیں تھا اس طرح سے اسے کوئی تو مخاطب کرتا تھا لیکن اسے یاد نہیں آیا لیکن کوئی تھا بہت عزیز
تم مجھے روح کر بلاؤ روح نے فورا جواب دیا تھا
کیوں میرا روحی کہنا تمہیں اچھا نہیں لگا وہ مایوس ہو کر پوچھنے لگی
نہیں تم مجھے روحء ہی بلاؤ مجھے خوشی ہو گی روح نے اس کی مایوسی دور کرنے کے لئے مسکرا کر کہا
وہ بھی تو تمہیں کہتا ہے وہ بڑبرائی تھی
کون روح نے پوچھا
تمہارا ہسبینڈ وہ سر پہ ہاتھ مارتے مسکرا کر بولی
نہیں وہ مجھے میرے نام سے بلاتے ہیں انہیں میرا نام بہت اچھا لگتا ہے روح نے فوراً جواب دیا
ہاں تمہارا نام بہت پیارا ہے یونیک سامجھے بھی بہت پسند ہے لیکن میں اپنے سارے دوستوں کو کسی نہ کسی نکنیم سے بلاتی ہوں لیکن تمہیں میرا دیا ہوا نام پسند نہیں آیا اور وہ مسکرا کر کہنے لگی
جب کہ اس بار روح اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکی تھی
°°°°°°°
میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں اور تم یہاں کھڑی ہوپیچھے سے ایک سرد سی آواز نے انہیں پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا
کم ڈارلنگ اس سے ملو یہ ہے میری نہیں دوست روح ہے
ابھی ابھی ہماری دوستی ہوئی ہے یہ بہت اچھی ہے پاکستان سے آئی ہے یہاں اور اتفاق دیکھو پاکستان سے اس کا تعلق ملتان سے ہے
جہاں تم رہتے تھے اور اب دبئی میں رہائش پذیر ہے اپنے ہزبینڈ کے ساتھی یہ بھی
خوشی مسکراتے ہوئے بولی
جب درک نے اسے گھور کر دیکھا جیسے وہ اسے آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا ہوں
اور روح یہ میرا بوائے فرینڈ ہے میں ہندو ہوں اور یہ مسلم اس لیے ہم شادی نہیں کر سکتے لیکن ساتھ تو رہ سکتے ہیں نہ
خوشی اس کے بازو میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولی
ہوگی تمہاری بکواس ختم وہ غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے بولا ۔
آپ سے مل کر خوشی ہوئی ویسے ہم دبئی میں بھی ایک بار مل چکے ہیں وہ اسے گھور کر روح کی جانب متوجہ ہوا تو روح نے ہاں میں سر ہلایا
جی آپ میرے ڈوگی سے بات کر رہے تھے شاپنگ مال میں روح نے فورا کہا تھا
معصومہ کو جانتی ہوں گی آپ وہ آپ کی دوست ہے یہ ڈوگی اسی کے پاس تھا اور تب میری اس کے ساتھ کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی
بس اسی لئے مجھے دیکھ کر میرے پاس آ گیا میں اور معصومہ ایک ہی بلڈنگ میں بالکل آمنے سامنے رہتے ہیں
اس نے تفصیل سے بتایا تو روح کے چہرے پر اجنبیت کی جو لہر تھی وہ ختم ہوئی
اسی لیے تو میں بھی سوچ رہی تھی کہ میرا ڈوگی آپ کے پاس کیسے چلا گیا جب کہ وہ تو کسی کے ساتھ اس طرح سے اٹیچ نہیں ہوتا
وہ صرف انہیں لوگوں سے ملتا ہے جنہیں وہ جانتا ہے
شاید اسی لئے آپ کے پاس چلا گیا ہوگا
روح نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب کے درک خوشی کو چلنے کا اشارہ کر رہا تھا
°°°°°
یارم نے دور سے روح کو کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا دیکھا
پتا نہیں کون تھی وہ لڑکی لیکن کافی آزاد خیال تھی
یہ بات وہ اس کی ڈریسنگ سے پتہ لگا چکا تھا
اور اُس کے چہرے کی بےزاری بتا رہی تھی کہ وہ اس کے ساتھ رک کر کچھ خاص خوش نہیں ہے اسی لیے وہ جلدی جلدی گاڑی لے کر اس کے قریب جانا چاہتا تھا
جب اس لڑکی کو کسی لڑکے کے ساتھ جاتے دیکھا
یہ لڑکا کون تھا وہ پہچان چکا تھا
لیکن وہ روح کے پاس کیوں کھڑا تھا اس سے بھلا کیا کہہ رہا تھا وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے روح کے پاس آکر رکا
کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ ۔۔۔!
یارم وہ لڑکا کوئی کڈنپر نہیں ہے بلکہ معصومہ کا پڑوسی ہے اس نے ابھی مجھے بتایا کہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا
تبھی تو شاپنگ مال میں اس کے پاس چلا گیا اور ہم سمجھے کہ وہ میرے شونو کو اغوا کرنے والا ہے
روح سر پہ ہاتھ رکھ کے مسکراتے ہوئے اسے تفصیل بتانے لگی
اچھا چھوڑو اور وہ ان لوگوں سے جتنا فاصلہ بنا کے رکھو گی اتنا ہی بہتر ہے عجیب سے لوگ ہیں مجھے تو کچھ خاص پسند نہیں آئے
اور جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے یہ لڑکا کوئی جواوغیرہ کھیلتا ہے میرا مطلب ہے کہ سٹہ بازی کرتا ہے اس کے ساتھ یہ لڑکی بھی شامل ہے
ہوٹل کا مینیجر بتا رہا تھا کہ کہ یہ لڑکا کافی پرسرار ہے
ہمیں اس سے فاصلہ بنا کر رکھنا چاہیے
چھوڑں یارم ہمیں کیا لینا دینا وہ لڑکا کیسا ہے اور یہ ہوٹل کے لوگ بھی ناں عجیب ہوتے ہیں کسی کو بھی کچھ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں
مجھے تو لڑکا ٹھیک ٹھاک لگا لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں بنا شادی بنا نکاح کے اور وہ لڑکی ہندو ہے اور وہ لڑکا مسلمان کیا ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے ایسا کرنے کا
روح آج کے زمانے میں مذہب کون دیکھتا ہے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مذہب کیا ہے
ان لوگوں کو صرف اور صرف اپنے انجوائمنٹ سے فرق پڑتا ہے خیر چھوڑ دو ان سب چیزوں کو جانےمن چلو تمہیں چاند ستاروں کی دنیا میں لے کر چلوں۔
سوئیزرلینڈ کی سب سے خوبصورت جگہ تمہارا انتظار کر رہی ہے
اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے وہ جھکنے ہی والا تھا کہ روح نے اسے جگہ کا احساس دلایا کہ ہٹل کے باہر کھڑے تھے
اور یہاں بھی یارم کی بے باکیاں عروج پر تھی
ہاں تو میں اپنی بیوی سے سے پیار کر رہا ہوں کسی غیر سے تھوڑی کر رہا ہوں وہ اس کی گھوری کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا
اچھا بابا بس بس اب ساری دنیا کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کی بیوی ہوں چلیں جہاں چلنا ہے
اور اللہ کا واسطہ ہے وہاں جا کے اپنا یہ بیوی نامہ مت شروع کر دیجیے گااس کی دن بہ دن بڑھتی بے باکیوں پر روح اچھی خاصی پریشان تھی
بیوی نامہ کھولنے کے لیے ہی تو لے کر جا رہا ہوں تمہیں اپنے ساتھ وہ آنکھ دباتا شرارت سے بولا تو روح اسے گھور کر رہ گئی
جان من رات بھر یہ جتنا چاہے مجھے گھور لینا تم پر کوئی پابندی تھوڑی ہے وہ اسے گاڑی میں بٹھا تا پھر شرارت پر انداز میں بولا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی روح کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلی
آپ لاعلاج ہیں وہ گاڑی میں بیٹھ کر مسکراتے ہوئے بولی
بالکل غلط میرا علاج تم ہو اگر تم ٹھیک سے مجھے پیار کرو ٹھیک سے میرا خیال رکھو تو مجال ہے جو میں ذرا سا بھگڑ جاؤں یارم مسکراہٹ دباتا اس کی بات اپنے انداز میں لے گیا جبکہ روح کو اب خاموش رہنا ہی زیادہ بہتر لگ رہا تھا
ان کا سفر کافی لمبا ہو چکا تھا
یارم اسے کہاں لے کر جا رہا تھا اسے بالکل اندازہ نہیں تھا
کیونکہ یہ جگہ اس کے لئے بہت انجان تھی اس جگہ کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی
اب تو یارم کا ہی سہارا تھا وہ اسے جہاں بھی لے جائے اور یہاں تو کیا ہر جگہ یار م ہی اس کا سہارا تھا
ہاں لیکن تجسس ضرور تھا کہ اس بار وہ اسے کہاں لے کر جانے والا ہے
یارم اب تو آپ بتا دیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ورنہ مجھے اتنا متجسس نہ کریں کیا آپ نے کوئی پلاننگ کی ہوئی ہے پلیز پلیز بتائیں نہ مجھے ہم کہاں جانے والے ہیں روح پرجوش سی انتہائی معصومیت سے کہہ رہی تھی
اس کےاسی معصوم انداز پر تو یارم کو پیار آتا تھا اس کی روح سچ میں دنیا سے الگ تھی صبر کر جاؤ جان من جا تو رہا ہوں بس تھوڑا سا سفر اور ہے
صبر ہی تو نہیں ہوتا مجھ سے ہے ایک بات بتائیں ہم اتنا لمبا سفر کر کے جا رہے ہیں واپسی پر تو ہمیں بہت زیادہ وقت لگ جائے گا اور پھر رات میں گاڑی بھی ہم آہستہ چلائیں گے
تو پھر واپس آتے تو صبح ہو جائے گی
تین گھنٹے سے زیادہ ہوگیا ہے وقت ہمیں وہاں سے نکلے ہوئے اور ایک آپ ہیں جو مجھے کچھ بتا ہی نہیں رہے
ڈارلنگ تمہیں کس بے وقوف نے کہا کہ ہم آج واپس آنے والے ہیں
اب تو واپسی صبح ہی ہوگی ۔
اب تمہیں وہاں لے کر جانے میں اتنی محنت لگ رہی ہے توتمہیں میری محنت کا انعام بھی تو دینا ہوگا
اور انعام لیتے ہوئے ایک رات تو لگ ہی جاتی ہے یہ انتہائی بے باک اور شرارتی لہجہ پچھلے ایک ماہ میں یارم کا یہ انداز اس نے بے حد مس کیاتھا ہاں لیکن اب اس کا یہ انداز ہی سے اچھی خاصی تپ چڑا رہا تھا
اس بندے کو کسی جگہ کا لحاظ نہیں تھا
اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اسے تو بس اپنی روح چاہیے تھی
اور اس کی بےباکیوں پر اگر وہ اعتراض اٹھاتی تو یارم کے پاس ایک ایسا مضبوط جواب تھا
جس کے سامنے اسے خاموش ہونا ہی پڑتا
کہ تم میری بیوی ہو میرا حق ہے تم پر لوگ کون ہوتے ہیں مجھے پوچھنے والے یا ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچنے والے
اور تمہیں بھی کوئی حق نہیں کسی اور کے بارے میں سوچنے کا بس میرے بارے میں سوچو پوری دنیا کو نظر انداز کر دو
اور یہی ایک واحد کام تھا جو روح سے نہیں ہوتا تھا
ہاں نظرانداز کرنے میں تو یارم ماہر تھا
وہ ایک روح کے علاوہ پوری دنیا کو نظر انداز کر سکتا تھا
کیونکہ روح کے علاوہ اسے کسی اور سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا
اگر اسے زندگی میں کسی چیز کی چاہت تھی تو وہ صرف اور صرف روح کی محبت کی باقی دنیا جائے بھاڑ میں اسے کسی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا
°°°°°°
یارم یہ کون سی جگہ ہے یہاں تو اندھیرا ہو گیا ہے
وہ گاڑی سے نکل کر کہنے لگی اسے یہاں اچھی خاصی ٹھنڈ لگ رہی تھی جب یارم نے گاڑی کی پچھلی سیٹ سے ایک ریڈ کلر کا جیکٹ اٹھا کر اسے دیا
یہ کس کا ہے روح نے فورا پوچھا
تمہارے لئے لایا تھا میں جانتا ہوں یہاں بہت ٹھنڈ ہے
جلدی سے پہنواس کو پھر چلتے ہیں یار م نے کوٹ اس کی جانب بڑھایا تو روح نے فورا تھام کر پہن لیاسردی بہت زیادہ تھی
آپ نے تو کچھ نہیں پہنا آپ کو بھی سردی لگے گی نہ روح نے فکر مندی سے کہا تویارم مسکرا دیا
میری سردی کا حل تم وہاں جاکر نکال لینا وہ شرارت سے مسکراتے ہوا گاڑی سے نکلا
یارم یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے یارم نے جب اس کا ہاتھ تھاما تو روح اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھنے لگی
یہ جگہ شہر کی آبادی سے بہت دور ہے اسی لیے یہاں اتنا اندھیرا ہے یہاں محبت کرنے والے ہی آتے ہیں
یہ ایک جزیرہ ہے اور یہاں کے اسٹاف ممبر کسی ہوٹل کی طرح کام کرتے ہیں لیکن یہ ہوٹل نہیں ہے یہ ایک لوررپوائنٹ ہے محبت کرنے والے یہاں آ کر ملتے ہیں لیکن یہاں کی خاص بات یہ ہے کی کوئی بھی منہ اٹھا کر یہاں نہیں آ سکتا
یہ صرف ان لوگوں کو یہاں آنے دیتے ہیں جو شادی شدہ ہوتے ہیں اور اپنے ہسبینڈ یا اپنی وائف کے لیے کچھ اسپیشل پلان کرنا چاہتے ہیں
میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی بیوی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں تو یہ لوگ میری مدد کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور کہا کہ آپ اپنی وائف کو یہاں لے آئیں ہم سارا انتظام سنبھال لیں گے
بس پھر میں اپنی پیاری سی بیوی کو یہاں لے آیا ہوں اب چل کر دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا کیا ہے
وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے یارم لیلکن یہ لوگ خود کہاں ہیں یہاں پر تو کوئی نہیں ہے ہمارے علاوہ پہاڑ کے بیچ و بیچ بنی سیڑھیاں اوپر کی جانب جا رہی تھی اور اس راستے پر روشنی کے لیے بڑے بڑے لائٹ بالز لگائے گئے تھے
روح اس پر چلتے ہوئے وہ اپنے آپ کو کسی پری کی طرح محسوس کر رہی تھی
بے حد حسین سیڑھیاں اور سیڑھیوں کے دونوں اطراف لگے پھول جو اس طرح سے لگائے گئے تھے کہ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پھول ان کے قدموں میں پڑے انہیں ویلکم کر رہے ہیں
ڈارلنگ وہ لوگ اپنا کام کر کے جزیرے کی دوسری جانب جا چکے ہیں تاکہ ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی ڈسٹربنس نہ ہو
یار م کی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے مزید زینے چڑھنے لگی لیکن سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے روح کی سانس پھولنے لگی تھی
۔شاید یہ سیڑھیوں کا سفر ابھی اس کے لیے بہت زیادہ تھا
یا رم نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا
یارم میں چلی جاؤں گی یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے روح نے فوراً کہا تھا
میں تمہاری مشکل آسان کرنے کے لیے تمہیں نہیں اٹھا رہا تو میں تمہیں اپنی بے حد قریب محسوس کرنے کے لئے اٹھا رہا ہوں
ان سیڑھیوں سے زیادہ تم میری باہوں میں سوٹ کرتی ہو یارم مسکرا کر کہتے ہوئے اسے شرمانے پر مجبور کر گیا
اور اس کی شرمیلی سی مسکراہٹ یارم کے ڈمپلز گہرے کر گئی تھی
°°°°°
سیڑھیاں چڑھ کر وہ اسے پہاڑی کی چوٹی پر لے آیا تھا ۔
جو کہ بے حد خوبصورتی سے سجائی گئی تھی
ایک چھوٹے سے شیشے نما جار میں سفید بیڈ کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا شیشے کے چاروں طرف سرخ جالی نما کپڑے سے ڈیزائننگ کی گئی تھی
پہاڑی کے کونے کی طرف ایک ٹیبل لگائی گئی تھی جس کے آگے پیچھے دو چیئر تھی
ڈش سے نکلتا دھواں اس بات کی گواہی تھی کہ کھانا ابھی ابھی لگایا گیا ہے
اور اس کی خوشبو بتا رہی تھی کہ ہر چیز روح کی پسند کی ہے
ڈنر کر لیں ڈارلنگ ویسے تو آج رات میرا تمہیں کھانے کا ارادہ ہے لیکن میرے خیال میں یہ فریضہ مجھے ڈنر کے بعد سرانجام دینا چاہیے اس کے گال کو چومتے ہوئے یارم اس کا ہاتھ تھامے میز کی جانب لے کر آیا
آپ بے حد بے شرم ہو گئے ہیں یارم آپ کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے روح نے جیسے کوئی راز کھولا تھا
مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے لیکن کوئی بات نہیں تم اس کا علاج کر سکتی ہو تمہیں بس اتنا کرنا ہے کہ بنا کسی مزاحمت کے اپنے آپ میرے پاس آ جانا ہے اس سے مجھے تمہارے ساتھ کسی قسم کی بے شرمی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
اچھا مذاق ہے آپ کو بے شرمی سے روکنے کے لیے خود بے شرم بن جاؤں وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو یارم گہرا مسکرایا
اب اس کا حل تو یہی ہے وہ اب بھی باز نہیں آیا
آپ اپنے حل اپنے پاس ہیں رکھے مجھے نہیں چاہیے ایسے بے شرمی سے بھرپور حل میں ایسے ہی ٹھیک ہوں روح نے فوراً جواب دیا ۔
مطلب کے تمہیں میری بے شرمی برداشت کرنی ہوگی ۔کوئی حل نہ پاکر یارم واپس اپنے حل کی طرف آ گیا تھا
یارم بہت خراب ہیں آپ کبھی نہیں سدھر سکتے یہ آخری لیول ہے وہ اس کی معلومات میں اضافہ کرنے لگی
نہیں ڈارلنگ یہ آخری لیول نہیں ہے اگر میں آخری لیول کی طرف آ گیا نا تو تم چہرہ چھپاتی پھروگی
بس کردیں یارم کھاناکھانے دیں مجھے وہ شرم سے سر جھکاتی اسے ڈانٹے ہوئے کہنے لگی
میری جان میں نے کونسا تمہارے ہاتھ پکڑ لیے ہیں یہ تمہارے سامنےکھانا ہے کھاؤ آرام سے کھاؤ یا رم نے شرارت سے کہا
آپ خاموش ہوں گے تو میں کچھ کھا پاؤں گی نہ وہ گھور کر بولی
ہاں یار ہو گیا خاموش کچھ نہیں کہتا میں کچھ کہنے میں رکھا ہی کیا ہے مزہ تو کچھ کرنے میں ہے وہ ایک بار پھر سے بے باکی سے کہتا اسے سر جھکانے پر مجبور کر گیا
اس بار روح نے اس کی بے باکی کا کوئی جواب نہیں دیا تھا بلکہ سرجھکائے کھانا کھانے لگی اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا
اس نے بے شرمی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
°°°°°
ڈنر کے بعد وہ ایک بار پھر سے اس حسین نظارے کو دیکھنے لگی دور دور سے روشنیاں سی نظر آ رہی تھی جیسے کوئی شہر بسا ہو
پہاڑی کے نیچے کی طرف ایک نہر بہہ رہی تھی جس میں بے حد ستارے اور نیچے کی طرف سے آنے والی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کا عکس تھا اور آسمان پر چمکتا وہ واحد پورا چاند جو بے حد حسین لگ رہا تھا
روح نے محسوس کیا کہ نیچے کی جانب صرف روشنی ان چھوٹی چھوٹی لائٹس کی وجہ سے یا ستاروں کی وجہ سے نہیں ہے
بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے سے تارے تو آڑ رہے ہیں اس نے پیچھے کی جانب یارم کو کسی کو اشارہ کرتے ہوئے دیکھا
یارم آپ وہاں کیا کر رہے ہیں یہاں آ کر دیکھئے وہ ستارے چل پھر رہے ہیں دوری کی وجہ سے وہ اس چیز کی وجہ نہیں سمجھ پا رہی تھی لیکن یارم کو اس طرح کسی کو اشارہ کرتے دیکھ کر حیران ضرور ہوئی تھی
جانے من میں یہیں پر تو آ رہا تھا یہاں شاید لائٹنگ کی گئی ہے اور ہوا سے لائٹ ہل رہی ہوں گی اس لیے ایسا محسوس ہو رہا ہے وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے کہنے لگا تو روح نے نہ میں سر ہلایا نہیں وہ کچھ اور ہے
وہ جگنو ہے ہاں وہ جگنو ہے یارم دیکھے پانی کے قریب وہ سب جگنو ہی تو ہیں جو اس طرح سے چمک رہے ہیں کتنے پیارے لگ رہے ہیں میں نے کبھی انتے سارے جگنو کو اس طرح سے چمکتے ہوئے نہیں دیکھا ماشااللہ کتنا خوبصورت نظارہ ہے
میرے اللہ کی حسین قدرت سبحان اللہ اس جگہ کو دیکھیں کتنی پیاری ہے یہ جگہ شاید یہی وہ جگہ ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ چاندنی زمین پر اترتی ہے
وہ حسرت بھری نظروں سے اس جگہ کا دیدار کرتے ہوئے چاہت سے بولی جب کہ یارم کا دھیان تو صرف اس کے چہرے پر تھا
میری چاندنی تو روز زمین پر اترتی ہے صرف میرے آنگن میں مجھے تو بس میری چاندنی سے مطلب ہے وہ اسے اپنے حصار میں لے لیتے ہوئے بولا تو روح اس کے سینے سے اپنا سر ٹکاتی اس نظارے کو آنکھ بھر کر دیکھنے لگی
یہ چاندنی صرف آپ کی ہے اور یہ صرف آپ کے آنگن میں ہی اترے گی کیونکہ اس پر صرف آپ کا حق ہے وہ مان بخشتے انداز میں بولی ۔
بالکل ٹھیک کہا تم نے جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے میں کسی کو نہیں دوں گا وہ اسے نرمی سے اپنے حصار میں لے لیتا جیسے خود میں چھپا رہا تھا
یارم آپ وہاں کیسے اشارہ کر رہے تھے بتائیں ذرا مجھے روح کو اچانک یاد آیا تو وہ مڑ کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
میں تو کسی کو اشارہ نہیں کر رہا تھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے وہ مکر گیا
مجھے پکا یقین ہے کہ آپ کسی کو اشارے کر رہے تھے وہ کہاں اسے مکرنے دینے والی تھی
روح چھوڑو ان باتوں کو یہ دیکھو بارہ ہونے میں صرف تین منٹ باقی ہیں کتنی رات ہوگئی نا وہ اسے باتوں میں بہلا رہا تھا
ہاں صرف تین منٹ باقی ہیں لیکن آپ کو تو کچھ یاد ہی نہیں وہ منہ بنا کر بولی تو یارم کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی
تمہیں پتا ہے سال کا سب سے خوبصورت دن شروع ہونے والا ہے وہ دن جب میری روح اس دنیا میں آئی صرف میرے لیے وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا اسے مسکرانے پر مجبور کر کے اسے یاد تھا اور روح کو لگا کہ وہ بھول گیا
آپ بہت اچھے ہیں یارم وہ اس کے سینے میں سر چھپاتی لاڈ سے بولی جبکہ یارم کے ایک اشارے پر نیچے سے کچھ لوگوں اوپر کے جانب آئے
ٹیبل سے ڈنر کا سارا سامان اٹھا کر وہاں ایک خوبصورت سا کیک سجایا جس میں ایک شہزادہ اور شہزادی ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے شاید حال دل سنا رہے تھے
ہیپی برتھ ڈے میری جان لیکن تمہاری اس برتھ ڈے پر میں تمہیں نہیں بلکہ خود کو دعا دوں گا اللہ تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ رکھے
تم زندگی میں جہاں بھی جاؤ مجھے ہی پاؤ
تمہاری ہر خواہش مجھ سے شروع ہو اور مجھ پہ ختم ہو
روح یارم کا رشتہ روح ِ یارم بن کر ہمیشہ ہم دونوں کے درمیان قائم رہے
اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے یارم نے اسے خود میں چھپایا
جبکہ روح کے منہ سے سرگوشی نما آواز میں آمین ثم آمین سن کر اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی
آجاؤ اس کیک کو شہید کرتے ہیں وہ اسے میز کی جانب لے جاتے ہوئے مسکرا کر بولا تو روح کھلکھلا کر اسکے اس کے ساتھ آئی
یارم میں 12 سال کی نہیں ہوں روح نے کیک پر موجود کینڈل دیکھ کر منہ بنایا
روح اسٹاف کے لوگ تھوڑے سے نکمے ہیں یا شاید تمہیں کوئی چھوٹی بچی سمجھ رہے ہیں وہ کینڈلز کو آگے پیچھے کرتا وضاحت دیتے ہوئے اسے پیچھے سے تھام چکا تھا
یارم نائف کہاں ہے ٹیبل پر چھری بھی موجود نہیں تھی
روح کیا ہے نا جتنی یہ جگہ خوبصورت ہے یہاں کے اسٹاف ممبر شاید اتنے ہی نکمے اور بھلکر ہیں لیکن میں ہوں نہ فکر ناٹ اپنی جیب سے بلیڈ نکالتے ہوئے بولا تو روح نے اسے گھور کر دیکھا
یارم مجھے چھری لا کر دیں میں اس کے ساتھ نہیں کاٹوں گی وہ بلیڈ یارم کی طرف کرتے ہوئے کہنے لگی
تم اسی کے ساتھ کیک کو شہید کروگی کیونکہ تمہارا شوہر بھی یہ کام بہت آرام سے کرتا ہے اچھی بات ہے تمہیں پریکٹس کرنی چاہیے ہو سکتا ہے فیوچر میں تمہیں بھی یہ کام کرنا پڑے
استغفراللہ یارم میں کبھی ایسا کام نہیں کروں گی اور نہ ہی مجھے لوگوں کے پرزے کاٹ کر کوئی خاص خوشی ملتی ہے اس نے فوراً جواب دیا
تمہیں ایک بار ٹرائی کرنا چاہیے روح یہ کام بہت مزے کا ہے ایک بار کوشش تو کرو بہت مزہ آئے گا آج یہ کیک کل کسی کی گردن واو یارم صاف اسے تنگ کررہاتھا
یارم انسان بن جائے مجھ سے ایسی باتیں نہ کریں اور نہ ہی مجھ سے یہ کام ہوتے ہیں وہ سہم کر بولی تم نہ چاہتے ہوئے بھی یار م کا قہقہ بلند ہوا
مذاق کر رہا ہوں یارم جانتا ہوں میری روح میں اتنی ہمت نہیں ہے لیکن کیک تمہیں اسی سے کاٹنا ہوگا کیونکہ سٹاف کے ممبر ہمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے
اور میں بھی نہیں چاہتا کہ اب اس طرف کوئی اور آئے اب تو یہاں صرف میں اور تم رہیں گے
یارم کے زبردستی بلیٹڈ ہاتھ میں پکڑانے پر روح نے مجبور ہوکر ہاتھ کیک کی جانب بڑھایا
یارم شہزادہ اور شہزادی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ہم سائیڈ سے کاٹیں گے اس کا ہاتھ ڈولز کی جانب بڑھتا دیکھ کر روح نے فورا کہا تھا کہیں اس شہزادے اور شہزادی کی گردن کٹ ہی نہ جائے
اوکے بےبی ہم سائیڈ سے کاٹیں گے وہ اس کی بات مانتے ہوئے بولا
کیک کا ایک چھوٹا سا پیس کاٹ کر روح نے اس کی جانب بڑھایا تو وہی پیس تھام کر اس نے روح کے لبوں سے لگایا
یہ کیک میٹھا تب ہوگا جب تمہارے لبوں کی مٹھاس اس میں شامل ہوگی
وہ آرام سے کہتا کیک کا تھوڑا سا حصّہ اس کے منہ میں ڈال چکا تھا اور اب وہ اس کے لبوں پر جھکا
اس کے لبوں کو اپنے لبوں کے دسترس میں لیے وہ مکمل مدہوش ہو چکا تھا جب کہ روح اس کی کالر کو اپنے ہاتھ میں دبوچتی مکمل مزاحمت چھوڑ چکی تھی
یارم آہستہ سے اس کا وجود اپنی باہوں میں اٹھائے وہ اسے اس چھوٹے سے جار نما کمرے میں لے آیا
اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے یارم نے سارے پردے گرا دیے اور اب وہ اس کے نازک سے وجود کو اپنی باہوں میں قید کرتے ہوئے چھوٹی سی لائٹ کو بھی بجھا چکا تھا
اپنے چہرے کے ایک ایک نقش پر اس کے لبوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے وہ دھیرے سے مسکرائی
یارم میرا برتھ ڈے گفٹ اس کی سرگوشی نما آواز نے یار م کی مدہوشی کو توڑا تھا
پہلے میں اپنا گفٹ وصول کر لوں تمہارا تحفہ صبح ملے گا اس کے لبوں پہ اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے یارم نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر تکیے سے لگائے تھے
جب کہ ہر وہ مسکراتے ہوئے اپنا آپ اس کے سپرد کر چکی تھی

لیلی آج کل بہت زیادہ بے چین تھی
کل اس نے خضر کو اپنی بے چینی کی وجہ بتائی تو وہ ہنس کر ٹال گیا
لیلی تم آج کے زمانے کی لڑکی ہو کیسی باتوں پر یقین کرنے لگی ہو
خواب زندگی کا حصہ ہیں لیکن ان پر یقین کرنا صرف اور صرف بیوقوفی ہے
اور روح اور یارم سے میری کل ہی بات ہوئی ہے وہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
خضر نے اسے بے فکر رہنے کے لئے کہا تھا اس کا ٹینشن لینا اس کے لیے اچھا نہیں تھا اور خضر اسے یہی بات سمجھانا چاہتا تھا لیکن آج کل اس کے ذہن پر بس ایک ہی سوچ سوار تھی اور وہ سوچ تھی اس کے خواب
پچھلے کچھ دنوں سے اسے بہت عجیب و غریب خواب آ رہے تھے وہ آج کے زمانے کی لڑکی تھی ان سب چیزوں پر بالکل یقین نہیں کرتی تھی
وہ خود بھی ان سب چیزوں کو ہنس کر ٹال دیتی تھی لیکن ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے یارم کے بارے میں برا خواب دیکھا تھا
سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک تھا لیکن یارم کے بارے میں برا سوچتے ہوئے بھی اسے برا لگتا تھا اور یہاں وہ اای یارم کو خون میں لت پت بے حد زخمی درد سے تڑپتے ہوئے دیکھ چکی تھی
خضر نے تو اس کی کسی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی لیکن لیلی کی پریشانی اپنی جگہ قائم تھی
۔وہ خود ایک بار یارم سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن خضر نے اسے منع کر دیا اس کا کہنا تھا کہ وہ روح کو باہر لے کر گیا ہے تو ایسے میں اسے کسی بھی قسم کی ٹینشن نہیں دینی چاہیے
اور خضر کا بھی یہی کہنا تھا کہ یارم ان سب باتوں پر یقین نہیں کرتا خوابوں خیالوں کو خوابوں خیالوں تک ہی رہنے دینا چاہیے انہیں اصل زندگی حصہ نہیں بنانا چاہیے
لیکن لیلی اپنے دل کا کیا کر دی
جو اس خواب کے بعد سے لے کر اب تک بے چینی کے زیرِ اثر تھا
°°°°°
یارم ہم وہاں سے اتنی جلدی کیوں آگئے ہمہیں وہی رہنا چاہیے تھا کتنی خوبصورت جگہ تھی وہ میرا تو واپس آنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا
جانتا ہوں ڈارلنگ لیکن ہم صرف ایک ہی جگہ محدود ہو جانے کے لیے تو یہاں نہیں آئے ہمیں پورا سوئٹزرلینڈ گھومنا ہے اس کے لئے ہمیں وہاں سے نکلنا ہی تھا میں جانتا ہوں وہ جگہ بے حد حسین تھی اور تمہارا وہاں سے آنے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا
لیکن میرے خیال میں تمہیں پورے سویزرلینڈ کی خوبصورتی کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے
وہ اس علاقے میں صرف ایک رات کے لئے ہی گئے تھے لیکن روح کی ضد کی وجہ سے وہ تین دن وہاں رک کر آئے
اور اب بھی روح کا یہی کہنا تھا کہ اسے واپس نہیں آنا بلکہ اسی خوبصورت جگہ کا ہی ہو کر رہ جانا ہے
اس کا تو ارادہ تھا کہ وہ ہنی مون کے پندرہ کے پندرہ دن وہی پرگزارے گے لیکن یارم اسے زبردستی اپنے ساتھ واپس لے آیا
اور اب کل نہ جانے وہ اسے کہاں لے جانے کا پلان بنا رہا تھا
کیونکہ آج تو سنڈے تھا اور پورا سوئٹزرلینڈ چھوٹی پے تھا
آئسزلینڈ میں حد درجہ سردی ہونے کی وجہ سے روح نے تو کمرے سے نہ نکلنے کی قسم کھا رکھی تھی لیکن اس بار یارم نے ایسا نہیں ہونے دیا
وہ اسے جگہ کی خوبصورتی دکھانا چاہتا تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ ہر جگہ لے کر جانا چاہتا تھا
لیکن اب روح کی آنکھوں میں اس جزیرے کی خوبصورتی کا نقشہ بن گیا تھا کسی بھی جگہ کو دیکھ کر وہ آرام سے کہہ سکتی تھی کہ یہ جگہ اس جزیرے سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے
لیکن اب یارم نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ کل صبح جہاں لے کر جائے گا وہ جگہ اس کی سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گی
اور اس جگہ کو سوچتے ہوئے روح کافی ایکسائٹڈ لگ رہی تھی
ہوٹل کے انتظامیہ نے آج ان کے ڈنر کا انتظام نیچے باہر کاٹن میں کیا تھا جہاں شام کی خوبصورتی اپنے پر پھیلائے ان کا انتظار کر رہی تھی
°°°°°°°
ہوٹل لوگوں سے بھرا ہوا تھا زیادہ تر یہاں ہنی مون کپلز ہی تھے ہر کوئی ایک دوسرے میں مگن تھا
جبکہ روح تو باری باری ان سب کپلز کو دیکھ رہی تھی
کوئی شک نہیں تھا کہ اس جگہ کی خوبصورتی نے ان کی زندگی کے ان مومنٹس کو اور خوبصورت بنا دیا تھا
ہائے روح یار کیسی ہو تم مجھ سے دوستی کرکے تم تو غائب ہی ہو گئی
دو تین بار تو میں نے ہوٹل کے مینیجر سے بھی پوچھا کہ یار روح نام کی ایک لڑکی ہے مجھے اس کے بارے میں بتا دیں ہماری دوستی ہوئی ہے
لیکن مینیجر نے بھی لاعلمی کا مظاہرہ کردیا
ویسے یہ کون تمہارے شوہر ہے کیا وہ بے تکلفی سے اس کے میز کے قریب سے چیئر گھستے ہوئے اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اس نے یارم کی ناگوار نگاہوں کو خود پر دیکھا
اس کا اس طرح سے یو ان دونوں کے درمیان آ کر بیٹھنا یارم کو سخت ناگوار گزرا تھا
ہائے میرا نام خوشی ہے
اور میں تمہاری کی بیوی کی دوست ہوں
۔یار تو بہت ہی ہینڈسم ہو کیسے پٹایا تم نے اسے روح میرے ساتھ بھی شئیر کرو وہ شرارت سے کہتی روح کی طرف دیکھنے لگی
جب کہ اس کی بات نے روح کے گال تپا کر رکھ دیے تھے
او لگتا ہے تم نے نہیں اس نے تمہیں پٹا لیا ہے ہے نا وہ اس کی رنگ دیکھ کر کھلکھلاتی ہوئی یارم کو دیکھنے لگی اور اس کی آنکھوں کی ناگواری کو جان بوجھ کر نظر انداز کر گئی
ہم مسلمان ہیں مسں پٹانا نہیں بسانا جانتے ہیں ۔
بہت معذرت کے روح نے آپ کا ذکر نہیں کیا میرے سامنے اسی لئے میں نہیں جانتا کہ اس کی یہاں کوئی دوست ہے خیر آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن اس طرح کا آپ کا بنا اجازت ہمارے بیچ بیٹھنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا ہم بہت پرسنل باتیں کر رہے تھے
اس طرح کسی کپل کے پیچ بیٹھنے سے پہلے آپ کو ذرا سا خیال رکھنا چاہیے اور دوسری بات انجان لوگ مجھے تم نہیں آپ کہہ کر بلاتے ہیں
اور انجان لوگوں سے میں اس قدر گہرا رشتہ کبھی بناتا ہی نہیں کہ وہ آپ سے تم تک کا سفر طے کریں
آپ کی دوست اس وقت مصروف ہے آپ بعد میں بات کر لیجئے گا ۔وہ اتنے سخت لہجے میں بولا کہ کی روح شرمندگی سے سر جھکا گئی
لیکن اندر ہی اندر خوش تھی اس زبردستی کی دوست سے جان چھوٹ رہی تھی کیونکہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کسی سے یوں بات کرتی
اوکے مسٹر جیجو میں جارہی ہوں یہاں سے لگتا ہے کچھ زیادہ ہی پرسنل باتیں ہو رہی تھی ایم سوری مجھے اس طرح سے انٹر فیر نہیں کرنا چاہیے تھا
لیکن کیا ہے روح کو دیکھ کر میں ایکسائیڈ پر ہو کر یہاں آ کر بیٹھ گئی
ویسے میرا بوائے فرینڈ میرا ویٹ کر رہا ہوگا مجھے بھی چلنا چاہیے وہ کہتے ہوئے اٹھی اور پھر کے کان کے قریب جھکی
یار تمہارا ہسبنڈ تو بہت روڈ ہے میں تم سے بعد میں ملتی ہوں وہ اس کے گالوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہاں سے چلی گئی جس پر یارم نے مٹھیاں بھیجیں
اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہارا گال چومنے کی روح اگر آج کے بعد کسی نے بھی یہ حرکت کی نہ تو اسے جان سے مار ڈالوں گا
غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ لڑکی تھی اور لڑکیوں میں اتنا تو ہو ہی جاتا ہے
اس کے ضرورت سے زیادہ غصہ ہونے پر فوراً بولی
کبھی لیلی یا معصومہ سے ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔۔!نہیں نہ ۔۔۔!وہ تمہاری دوست بھی ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسی حرکت کی جو یہ غیر زبردستی کی دوست آکر کر رہی ہے
کان کھول کر سن لو اور مجھے ان سب چیزوں سے نفرت ہے تمہارے گال میرے علاوہ اور کوئی نہیں چوم سکتا ۔
یہ حرکت صرف میں کر سکتا ہوں ۔تمہیں چھونے کی اجازت صرف میرے ہونٹوں کو ہے
وہ پھر سے سختی سے بولا تو روح اسے گھور کر رہ گئی
کیا یارم اب وہ میرا گال چوم رہی تھی تو میں منع تو نہیں کر سکتی تھی نہ روح نے وضاحت دینی چاہے
کیوں منع نہیں کر سکتی تھی تم ۔کیااتنا مشکل ہے منع کرنا
دیکھو روح جس چیز پر میرا حق ہے اس پر صرف میرا ہی حق ہے تمہیں اتنی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی ۔
کیوں لڑکی تمہارے اتنے قریب آئی
آئندہ اگر یہ لڑکی تمہارے اتنے پاس نظر آئی نہ تو بالکل اچھا نہیں ہوگا
یارم لڑکیاں کرتی ہیں ایسا وہ ایک لڑکی ہی تو تھی اور میں نے معصومہ اور لیلی کو بھی کبھی خود کے قریب آنے سے منع نہیں کیا روح نے پھر سے سمجھانا چاہا
وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ لڑکیوں میں یہ بات بہت عام سی ہے لیکن یارم تو اس کی کسی بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا
معصوم اور لیلیٰ بیوقوف نہیں ہیں جو میرے ہاتھوں مرنے کی خواہش کریں گی میں بہت واضح الفاظ میں ان بتا چکا ہوں کہ تمہیں چھونے کا حق صرف میرے پاس ہے اسی لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ تمہارے ساتھ کوئی ایسی حرکت کریں
یارم کا غصہ اب بھی کم نہیں ہوا تھا ویسے غصے کا یہ اثر تھا کہ وہ اس کے سامنے ایک بہت بڑا راز فاش کر چکا تھا
یارم اپ نے معصومہ اور لیلیٰ کو میرے قریب آنے سے منع کیا ہے اسی لئے وہ میرے پاس نہیں آتی مجھ سے جاتے ہوئے مل کر نہیں جاتی
یا اللہ یارم وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی یارم کی وضاحت پر لیلی ور معصومہ کا سوچتے ہوئے شرمندہ ہو کر رہ گئی
معصومہ اور لیلی اس سے ہر درجہ فری تھی لیکن کبھی بھی وہ اس کے قریب آ کر اس سے ملنے گلے میں ہاتھ ڈالنے یا گال چومنے تک قریب نہ آئیں ۔
اور وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ یہ عام لڑکیوں کی طرح اس سے مل کر کیوں نہیں جاتی
وہ کون ہوتی ہیں تمہارے بارے میں کچھ بھی سوچنے والی جوچیز مجھے نہیں پسند وہ نہیں پسند آج کے بعد احتیاط کرنا وہ سختی سے بولا تھا
جبکہ روح نے اپنا سر پکڑ تے ہوئے ایک نظر پیچھے ٹیبل کی جانب دیکھا جہاں وہی لڑکا اور خوشی بیٹھے ہوئے تھے اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر خوشی نے ایکسائیڈ ہو کر اپنا ہاتھ ہلایا
روح فقط مسکرا کر چہرہ پھیر گئی اب وہ یارم کو مزید غصہ دلانے کا رسک بالکل نہیں لے سکتی تھی
°°°°°
اسے خوب سا تنگ کر کے وہ ابھی نہانے کے لیے گیا تھا
جب اس کے کمرے میں دستک ہوئی دروازہ کھولا تو سامنے خوشی مسکراتی ہوئی کھری تھی
روح نے فورا ایک نظر یارم کے واش روم کے بند دروازے کی جانب دیکھا تھا
ہائے روح کیسی ہو تم آئی ایم سوری مجھے پتا چلا کہ یہ تمہارا کمرہ ہے تو میں آگئی وہ دراصل مجھے تمہیں یہ دینا تھا
انویٹیشن کارڈ وہ ایک کارڈکی جانب بڑھاتے ہوئے بولی
تمہاری شادی ہو رہی ہے روح نے فورا کہا تھا اس کی غلطی نہیں تھی کارڈ کا شیب بھی ایساتھا
ارے نہیں بدھو میری شادی ابھی کہاں ہونے والی ہے یا کبھی ہونے والی ہے یا نہیں پتا کہ میں تمہیں دینے یہ آئی تھی آج رات نہ میرے بوائے فرینڈ کی بائیک ریس ہے
اور میں اسے چیئراپ کرنے کے لیے جا رہی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ تم اور تمھارا ہزبنڈ بھی چلو ویسے بھی آج سنڈے نائٹ ہے صبح ایک مصروف ترین دن ہوگا اسی لئے آج کوئی بھی جگہ اوپن نہیں ہے
جہاں تم جا سکوں کیونکہ یہاں کے لوگوں کا ایک اصول ہے وہ سنڈے کو چھٹی کرتے ہیں یہاں کوئی بھی انسان سنڈے کام نہیں کرتا
اسی لئے ہمارے سارے دوستوں نے یہ رئیس رکھی ہے بہت بری پلیٹ فارم پر یہ رئیس ہو رہی ہے
ویسے تو درک کبھی بھی ہارا نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی وہی جیتے گا میں اسے چیئراپ کرنے کے لیے جا رہی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو
یقین کرو بہت مزا آئے گا
وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتی بول رہی تھی جب کہ روح کو تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو منع کیسے کرے
کیونکہ یہ لڑکی چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
دیکھو خوشی میں نہیں آسکتی یارم کو یہ سب کچھ پسند نہیں ہے اور بائیک ریسنگ میں مجھے بھی کوئی خاص انٹرسٹ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے یہ سب کچھ سمجھ میں آتا ہے روح نے سمجھانے کی کوشش کی
تو یار میں ہوں نہ تمہارے ساتھ کیوں پریشان ہو رہی ہو میں تمیں سمجھا دوں گی پلیز چلو نا وہ کیا ہے نہ درک کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت کم لوگ ہیں
صرف میں اور میرے چند دوست لیکن جس کے ساتھ درک کا مقابلہ ہے وہ بہت برا چیمپیئن ہے سب لوگوں سے سپورٹ کرنے والے ہیں اگر تم میرے ساتھ چلو گی تو میرے بوائے فرینڈ کو سپورٹ کرنے کے لیے دو لوگوں کا اضافہ ہو جائے گا
اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں اور ہمت آجائے اور وہ بہت اچھے سے کمپٹیشن میں پارٹیسپیٹ کر سکے
وہ منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی
لیکن روح کو انکار کرنا تھا کیونکہ یارم کو یقیناً یہ سب کچھ پسند نہیں تھا اور وہ اسے مزید غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی پہلے بھی شام کی وجہ سے اس کا اچھا خاصا موڈ آف ہو گیا تھا
اس نے تو اسے لڑکی سے بات کرنے سے بھی منع کر دیا تھا اور اس لڑکی کو بھی واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ اس کا اندازہ اسے پسند نہیں لیکن پھر بھی یہ لڑکی باز نہیں آ رہی تھی
تو تم چل رہی ہو نا اس نے پھر سے پوچھا
نہیں خوشی میرے لیے ممکن نہیں ہے پلیز
روح یار میرے لیے ابھی ابھی تو ہماری دوستی ہوئی ہے کیا تم اپنی نئی نئی دوست کے لئے اتنا نہیں کرسکتی وہ ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آئی
خوش مجھے اجازت مانگنی ہوگی اور یارم ۔۔۔۔۔
تم اتنی پیاری ہو تمہارا ہسبینڈ تمہیں اجازت دے دے گا مجھے یقین ہے اگر نہیں مانتے تو ذرا سے ضد کر لینا اس کے چہرے سے ہی لگتا ہے کہ کہ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے اور یقین تمھاری ساری باتیں بھی مانتا ہوگا پلیز یار میرے لیے
اچھا میں کوشش کرتی ہوں اس نے ٹالنا چاہا
کوشش نہیں وعدہ تمھیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ تم آؤ گی اتنی آسانی سے میں جان نہیں چھوٹنے والی
دوستی کی ہے تو نبھانی تو پڑے گی تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا میں نے سنا ہے کہ مسلم کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑتے
تمہیں بھی مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا تاکہ میں تم پر یقین کر سکوں
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی
روح کو ایسا لگا کے اس لڑکی کو یہاں سے بیچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے ہاں یہ تو سچ تھا کہ وہ یارم سے کوئی بھی بات منوا سکتی تھی
اسےبائیک ریسنگ میں اسے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن اس لڑکی کی خوشی کی خاطر اس نے حامی بھر لی تھی
اور اب یارم کو منانا ایک بہت ہی مشکل کام تھا
واش روم کا دروازہ کھلا تو خوشی نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا جو بنا شرٹ تولیہ سے بال پہنچتا باہر آیا تھا
ہیلو مسٹر روڈ آپ روڈ کے ساتھ ساتھ ہاٹ بھی ہو وہ کھلے الفاظ میں تبصرہ کر گئی روح کی آنکھیں کھل گئی لیکن یارم نظرانداز کرتا آئینے کی جانب چلا گیا چہرے پر صاف ناگواری جھلک رہی تھی
ہاں ٹھیک ہے خوشی اب تمہیں یہاں سے جانا چاہیے اگلے ہی پل روحیں اس کی نظروں کے سامنے کھڑی ہوتی کہنے لگی
ہاہاہا تم کتنی جیلیس ہو رہی ہو یار میں تو صرف تمہارے ہسبینڈ کی تعریف کر رہی تھی وہ قہقہ لگاتی ہاتھ ہلاتی ایک بار پھر سے رہ کے قریب آئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کے گال کو چھوتی روح نے فورا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے آگے کرتے زبردستی اس کا ہاتھ تھام لیا تھا
اور پھر اسے کمرے کے باہر کرکے دروازے بند کر کے سانس لی
°°°°°°°
آپ کتنے بے شرم ہے ہے یارم کپڑے پہن کر نہیں آ سکتے تھے بہت زیادہ شوق نہیں ہیں آپ کو ان عورتوں کو یہ ننگا جسم دکھانے کی
وہ جلی بھونی اس کے قریب آئی تھی
سوری بےبی میں نہیں جانتا تھا کہ کمرے میں تمہارے علاوہ بھی کوئی موجود ہے آئندہ اپنی سہیلیوں کو اس وقت بلانا جب میں موجود نہ ہوں
وہ میری سہیلی نہیں زبردستی کی سہیلی ہے اور اس زبردستی کی سہیلی نے مجھ سے زبردستی کا وعدہ لے لیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم مسلمان اپنا وعدہ نبھاتے ہیں اسی لیے تیار رہیے گا
آج شام ہمیں یہاں جانے والے ہیں وہ کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی
روح میری کچھ اور پلیننگ ہے وہ کارڈ ٹیبل پر پھینکتے ہوئے اس کے قریب آیا
رہنے دیجئے اس پلیننگ کو وعدہ کیا ہے میں نے اور وہ ہندو لڑکی کہتی ہے کہ ہم مسلمان اپنے وعدے سے نہیں پھیرتے سو ہمیں جانا ہوگا
اور ویسے بھی وہ کہہ رہی تھی کہ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور میری ساری باتیں مانتےہیں
روح مسکراتے ہوئے اس کے گلے میں بانہیں ڈالے لاڈ سے بولی
یہ بات تمہیں کسی اور نے کیوں بتائیں تمیں خود اندازہ ہونا چاہیے
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے وہ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھونے لگا
مجھے پتا ہے اسی لئے تو اس کی بات مان لی ۔وہ اس کے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے کہنے لگی ارادہ خود تیار ہونے کا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے اسے پکڑ لیا
تم نے وعدہ کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھا نہیں اسی لئے قیمت تو چکانی ہوگی کیونکہ تم میرا پلان خراب کر رہی ہو وہ اسے باہوں میں اٹھائے بیڈ پر لایا۔
اور روح کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا ۔سوائے اس کی من مانیاں برداشت کرنے کے
وہ دونوں تیار ہو کر نیچے آئے تو خوشی وہیں روح کا انتظار کرتی تھی اسے ہاتھ ہلانے لگی
یارم نے ایک نظر غصے سے روح کے چہرے کو دیکھا جس نے بمشکل اس کے تاثرات پر اپنی ہنسی بائی تھی
روح یہ چیپکو لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے اب ہم لوگ چل تو رہے ہیں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے کہا
یارم ہو سکتا ہے شاید اسے کوئی بات کرنی ہوگی
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو ذرا ذرا سی بات کو اتنا زیادہ سر پر سوار کیوں کر رہے ہیں روح نے خوشی کودیکھ کر مسکراتے ہوئے کم آواز میں کہا
جبکہ خوشی ان کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے بنا روح کو اپنے آپ کو روکنے کا موقع دیے اس کے گال کو دوبارہ چوم چکی تھی
تم بہت کیوٹ ہو یار آخر تم نے اپنے شوہر کو مناہے لیا میں جانتی تھی کہ آپ ٹپیکل ہسبنڈ کی طرح اپنی بیوی پر پابندیاں نہیں لگاتے ہوں گے
سچ میں مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ دونوں ہمارے ساتھ آ رہے ہیں میرا بوائے فرینڈ تو وہاں چلا بھی گیا ہے
میں تو روح کا ویٹ کر رہی تھی کیونکہ مجھے پکا یقین تھا کہ یہ ضرور آئے گی خوشی نے بے حد خوشی سے کہا جبکہ یارم کے چہرے کے زاویے مکمل بدل چکے تھے وہ روح کو انتہائی خطرناک نظروں سے گھورتا اپنے کمرے میں چلا گیا
روح تمہارے ہسبینڈ کو کیا ہوگیا کیا میں نے کچھ غلط بول دیا کیا
وہ اس طرح سے کیوں چلےگئے کہیں وہ تم سے ناراض تو نہیں ہو گے خوشی پریشان ہو چکی تھی
شاید وہ اپنا موبائل فون کمرے میں بھول آئے تھےمیں دیکھ کے آتی ہوں روح کو کوئی ڈھنگ کا بہانہ بھی نہ ملا لیکن یارم کے اس انداز کی وجہ وہ بھی سمجھ نہیں پائی تھی بس بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آگئی جہاں وہ غصے سے گیا تھا
°°°°°
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو آپ اس طرح سے وہاں سے یہاں کیوں چلے آئے آپ ٹھیک تو ہیں طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی ۔۔۔؟
روح پریشانی سے اس کے پیچھے آکر رکی تھی جب کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑا سگریٹ سلگا رہا تھا
جب سے روح کی طبیعت خراب ہوئی تھی وہ تقریبا سگریٹ چھوڑ چکا تھا لیکن غصے میں بے حال ہو کر اکثر وہ اس کی غیر موجودگی میں وہ اپنی یہ طلب پوری کر ہی لیتا تھا
یارم آپ اتنے سگریٹ کیوں پی رہے ہیں آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں روح کو اس کے غصے کی وجہ بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی
کیونکہ تم ایک نمبر کی بے وقوف لڑکی ہو جاؤ جا کر اپنا منہ دھو کر آؤ
وہ غصے سے اچھی خاصی اونچی آواز میں بولا تھا توروح سہم سی گئی
اسے یاد تھا جب یار م اس پر غصہ ہوتا تھا تب ہی اس طرح سے بات کرتا تھا اسے غصے میں دیکھ کر روح بنا کوئی سوال پوچھے واش روم میں گھس گئی
شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تو وہاں گال پر سرخ لپ اسٹک کا نشان تھا وہ اس کے غصے کی وجہ کو سمجھ کر بے اختیار مسکرا دی
اور سوپ سے اچھے سے اپنا منہ صاف کیا
واش روم سے باہر نکلی تو یارم کو بیڈ پر لیٹے آرام سے سگریٹ نوشی کرتے پایا
یارم میں نے منہ دھو لیا اس نے بتایا تھا
دوبارہ دھو کر آؤ یارم اس کی طرف دیکھے بنا بولا
لیکن یارم دوبارہ کیوں ۔۔۔۔؟روح نے پریشانی سے پوچھا تو یارم نے غصے سے اس کی جانب دیکھا
افکورس ٹھیک سے صاف نہیں ہوا اسی لئے تو کہہ رہے ہیں آپ میں دوبارہ دھوکے آتی ہوں وہ اپنے سوال کا جواب دیتی خود دوبارہ واش روم میں گھس گئی
یارم کا غصہ بتا رہا تھا کہ آج اس کی خیر نہیں اس نے ایک بار پھر سے اپنا چہرہ رگڑرگڑکردھویا جو پہلے سے صاف ستھرا تھا
یارم میں دوبارہ دھو کر آ گئی واش روم سے نکلتے ایک بار پھر سے بتانے لگی
ایک بار پھر سے دھوکر او یارم نے حکم دیا
یارم۔۔۔۔روح اسے دیکھتے ہوئے کسی ضدی بچے سے انداز میں بولی تویارم نے اسے ایک بار پھر سے سخت نظروں سے گھورا
میں جارہی ہوں دوبارہ دھونے کے لیے
وہ غصے سے پیر پٹکتے دوبارہ واش روم میں بند ہو گئی اور اس بار اپنے چہرے کو مزید رگڑنے لگی
حد ہے ایک بار شکل دیکھ تو لے میری صاف ہوگیا ہے لپسٹیکٹ کا نشان وہ بربڑاتی دوبارہ باہر آئی جب یارم نے اسے دوبارہ جانے کا آرڈر دے دیا
یارم پلیز۔۔۔روح نے بے بسی سے کہا تھا لیکن یارم اسے سن کہاں رہا تھا
اور اس کے انتہائی سرد نظریں روح کو اس سے خوفزدہ کر رہی تھی
دس منٹ میں یہ اس کا ستراواں چکر تھا ۔
وہ اچھی خاصی تھک چکی تھی اور اس نے خود قسم کھا لی تھی کہ وہ خوشی کو دوبارہ ایسی حرکت کرنے کا موقع بھی نہیں دے گی
اس بار وہ باہر آئی تو یار م نے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی غلطی کر ہی دی تھی
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آکر رکا
اس کی تھوڑی کو اوپر کرتے ہوئے ہر طرف سے چیک کیا صاف شفاف پانی کی ٹپکتی بوندھے اسے بہکانے لگی تھی
جاودوبارہ دھو کر آؤ۔وہ ایک بار پھر سے کہتا روح کو بے ہوش کرنے کے قریب پہنچا چکا تھا
وہ مرے مرے قدموں سے ایک بار پھر سے واش روم میں گھس گئی
اور جلدی سے پانی کا چھلکا اپنے منہ پر مار کے باہر آئی کیونکہ اسے دوبارہ واپس اندر بھی آنا تھا
اسکاف باندھ لو اچھے خاصے لیٹ ہو چکے ہیں ہم کیا سوچ رہی ہو کہ تمہاری دوست اندر کمرے میں کیا کر رہے ہیں ہم وہ اس کا اسکاف اس کے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا تو روح شکر کا کلمہ پڑھتی اس کے پیچھے آئی لیکن خود سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس ستم کا بدلہ وہ ضرور لے گی ۔
خوشی پریشانی سے باہر آگے پیچھے چل رہی تھی جب وہ دونوں باہر آئے
کیا ہوا روح سب کچھ ٹھیک تو ہے تم لوگ اچانک چلے گئے وہ اس کے قریب آتے ہوئے کہنے لگی
ہاں سب ٹھیک ہے یارم کا موبائل نہیں مل رہا تھا وہ اپنے بہانے کو مضبوط کرتی اس کے ساتھ چل دی جس پر خوشی بے اختیار مسکرائی تھی
صاف صاف کہونا تمہارے ہسبینڈ کا رومٹنک موڈ آن ہو چکا تھا بہانے کیوں بنا رہی ہو کم از کم اپنی سہیلی سے اتنا تو شیئر کر سکتی ہو
وہ شرارتی انداز میں بولی جب کہ ان کے چند قدم آگے چلتا یارم اس کی بات پر مسکرائے بنا نہ رہ پایا
آج جو رومانس اس نے روح کے ساتھ کیا تھا وہ ساری زندگی روح بھول نہیں سکتی تھی جس کے لیے وہ کافی مطمئن تھا اسے یقین تھا اب وہ دوبارہ غلطی نہیں کرے گی
°°°°
ِیہ لوگ اس جگہ پر بائیک ریس کرتے تھے یہ کوئی بہت بڑی رئیس ہونے جا رہی تھی یارم کو اس چیز بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی جبکہ روح کا انٹرسٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھا لیکن خوشی کی خوشی کے لیے وہ یہاں یارم کو بھی اپنے ساتھ لے آئی تھی
یہاں آنے سے بہتر تھا کہ میں تمہیں ایک رومنٹک ڈیٹ پر لے کرجاتا اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت وقت گزارتے وہ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا تو روح نے اسے گھور کر دیکھا
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اتنی بڑی زیادتی کے بعد میں آپ کے ساتھ کہیں بھی ڈیٹ پر چلوں گی غلط فہمی ہے آپ کو مسٹریارم کاظمی میں آپ کو منہ بھی نہیں لگاؤں گی وہ غصہ ہوتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کے انداز پر مسکرایا تھا
اور تمہیں یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ میں تمہارے انکار کو کوئی اہمیت دونگا وہ اسی کے انداز میں کہتا اس سے سوال کر رہا تھا
آپ ہیں ہی ایک نمبر کے چیٹر اس زیادتی کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی
کبھی فائدہ مت دیکھنا اس کا دیکھو تمہارا منہ کتنے اچھے سے صاف ہوگیا ہےاور لگے ہاتھوں تمہیں نصیحت بھی ہوگی کہ جو کام مجھے پسند نہیں ہے وہ تم نے نہیں کرنا وہ اب بھی اپنی بات کو ہنسی میں ہی لے رہا تھا
میں نے جان بوجھ کر تھوڑی کیا تھا وہ معصومیت سے بولی
ہاں میرا بچہ تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا لیکن تم اسے روک سکتی تھی میرے حق پر کوئی نظر بھی اٹھائے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ بات اچھی طرح سے اپنے دماغ میں بٹھا لووہ پیار سے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے بولا
جب درک اور خوشی ان کے نزدیک آ کر کھڑے ہوئے
مجھے خوشی ہوئی تم دونوں کو یہاں دیکھ کر مجھے سپورٹ کرنے کے لیے تم دونوں کا شکریہ اس کی آواز سن کر یارم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا وہ کروڑوں میں اس آواز کو پہچان سکتا تھا
اور پھر اس کی آنکھیں بھی تو بہت کچھ بیان کر رہی تھی
تو آپ بائیک ریس کرنے والے ہیں یار م کو خاموش دیکھ کر روح نے تھوڑا سا انٹریسٹ دکھایا
ہاں روح میرا بوائے فرینڈ چیمپین ہے اسے کوئی ہرا نہیں سکتا آج تک اس نے ایک بھی ریس نہیں ہاری اور آگے بھی ہارنے کے کوئی چانس نہیں ہیں خوشی کے انداز میں ایک مان تھا
جب کہ وہ مغرور سا لڑکا گردن اکڑا کر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اسے ہرانا آسان نہیں
ارے یہ تو کچھ بھی نہیں آپ میرے یارم کو نہیں جانتے میرے یارم آپ کو چٹکیوں میں ہارا دیں گے بائیک ریسنگ میں تو وہ چیمپئن ہیں اور یونیورسٹی میں تو ان سے آگے کوئی تھا ہی نہیں بائیک ریسنگ میں
اگر آپ اپنے آپ کو اتنا بڑا چمپین سمجھتے ہیں تو میرے یارم سے مقابلہ کریں وہ یارم کو آگے کرتے ہوئے درک کو چیلنج دینے لگی
جب کہ یارم کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے کبھی بھی روح کو اس بارے میں کچھ بھی بتایا ہو اس نے تو کبھی آپنے کالج یا یونیورسٹی کا ذکر بھی اس کے سامنے نہیں کیا تھا وہ بائیک ریس کا چمپین وہ کب بنا
روح یہ سب کیا بکواس کر رہی ہو تم وہ اسے گھورتے ہوئے بہت کم آواز میں غرایا
جبکہ درک کے لبوں پر ایک نامحسوس سے مسکراہٹ آئی اور پھر غائب ہوگئی
تو مسٹریارم کاظمی اگر تم خود کو اتنا ہی بڑا چمپین سمجھتے ہو تو ایک ریس ہو جائے تمہاری بیوی کو بہت مان ہے تم پر کہ تم جیتو گے
اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس انداز میں بولا کہ یارم انکار بھی نہ کر پایا
ہاں لیکن اتنا ضرور کہا تھا
کہ میں کوئی چیمپئن نہیں ہوں لیکن میری بیوی کو مجھ پر مان ہے تو میں تمہارا یہ چیلنج ایکسپٹ کر رہا ہوں
اور بس اتنا کہہ کر روح کی طرف متوجہ ہوا
جو اپنا ایک ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے بے حد معصوم لگ رہی تھی لیکن اس معصوم سے چہرے کے پیچھے جو شیطانی چھپی تھی وہ یارم بہت اچھے طریقے سے سمجھ گیا تھا یقینا وہ اس سے یہاں آنے سے پہلے والی بات کا بدلہ لے رہی تھی
18 بار میرا منہ دھوایا تھا نہ اب سو میٹر کے یہ ریس جیت کر دکھائیں وہ ناک چڑھاتی خوشی کے ساتھ دوسرے راستے سے جیت کے مقام کی طرف جانے لگی
اس لڑکی سے دور رہنا یارم نے ایک بار پھر سے اسے بارو کروایا تھاجس پر وہ منہ بناتی چلی گئی
ایک لڑکے نے اسے ایک ہیوی بائیک ہیلمٹ اور احتیاط چیزیں دی ۔
روح نے اسے اچھی خاصی مصیبت میں ڈال دیا تھا لیکن وہ جانتا تھا وہ شرارتی لڑکی شرارت کئے بغیر نہیں رہ سکتی
اور اپنا بدلا تو وہ ضرور لے گی یارم مسکراتا ہوا ہلمنٹ کو پہنتا بائیک سنبھالنے لگا
درک نے اپنا نام دوسری بائیک ریسنگ سے کٹوا دیا تھا کیونکہ وہاں یارم کا نام شامل نہیں تھا نہ جانے کیوں اس کے لیے باقی کسی سے بھی جیتا یارم سے جیتنے سے زیادہ ضروری نہیں تھا
جب کہ یارم کے لیے یہ ریس بالکل عام سے بات تھی اس کا جیتنا ہارنا اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتا تھا وہ تو بس روح کو منانے کے لئے اس کی بات مان گیا
بائیک ریس شروع ہو چکی تھی وہ دونوں ایک دوسرے سے کم نہیں تھے
کبھی ایک آگے نکل جاتا تو کبھی دوسرا
وہ تقریبا دس کلو میٹر تک رئیس پہنچ چکے تھے
یارم کو فی الحال یہ کھیل بہت آسان لگ رہا تھا
وہ کوئی رئیسر نہیں تھا ایک عام سا بندہ تھا جس سے ٹھیک سے بائیک ریسنگ آتی بھی نہیں تھی اس نے کبھی اس چیز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی اسے بھلا ایسے بچوں جیسے شوق سے کیا لینا دینا یہ تو آج کل کے لڑکوں کا ایک کھیل تھا
اگر روح ضد نہ کرتی تو یقینا وہ اس ریس میں کبھی بھی حصہ نہیں لیتا
لیکن اسے منانے کے لیے اب یہ بھی ضروری تھا کیونکہ آج شام میں واقع ہی اس کے ساتھ زیادتی کر گیا تھا ۔
جس کا بدلہ لینے کے لئے روح نے ایک چھوٹی سی شرارت کی تھی
اور اب اس شرارت کا نتیجہ وہ یہاں بائیک پر بیٹھا بھگت رہا تھا اسے راستہ بھی ٹھیک سے نہیں پتا تھا بس سڑک پر لگی چھوٹی چھوٹی لائٹس راستہ بتا رہی تھی ۔
جو صرف اور صرف آج کی اس ریس کے لیے لگائی گئی تھی دوسری رئیس شروع ہونے میں ابھی بہت وقت تھا اس سے پہلے پہلے اس رئیس کو ختم کرنا تھا یارم کو بس یہ بتا تھا کہ ان لائٹ کے سہارے ہیں وہ جیت تک پہنچنے والا ہے
وہ جانتا تھا کہ اس کے بائیک کی اسپیڈ زیادہ تیز نہیں ہے وہ بہت نارمل سپیڈ میں بائیک چلا رہا تھا لیکن اس کے ساتھ دوسرے بائیک پر سوار درک جو کہ ایک بائیک ریسنگ چیمپئن تھا وہ اتنی سلو کیوں چلا رہا تھا یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی
اگر اس کا مقصد یارم سے جیتنا تھا تو وہ کب کا آگے نکل چکا ہوتا
کیا ہوا مسٹر یارم کاظمی کیا تمہیں سمجھ نہیں آرہا راستہ وہ بالکل اس کی بائیک کے ساتھ اپنی بائیک چلاتا عجیب انداز میں پوچھنے لگا
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے راستہ بتا ہے
اور میں تمہیں یاد بھلا دوں کہ ہم ریس کر رہے ہیں تو تمہیں آگے نکل جانا چاہیے نہ کہ اپنے مقابل کا انتظار کرنا چاہیے کہ کب وہ تم سے آگے نکل کر رئیس جیتا ہے یارم ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے بولا جب کہ اس کی بات سن کر درک مسکرا دیا تھا
تم نے خرگوش اور کچھوے کی داستان سنی ہے یقینا سنی ہوگی اگر میں تم سے آگے نکل جاؤں تو وہ خرگوش یقین میں ہوگا اور یقین مانو کے ہار ریس میں خرگوش راستے میں سوتا نہیں ہے
مجھے بچوں والا کھیل پسند نہیں ہے یارم کاظمی کھیل وہ مزہ دیتا ہے جس میں ٹکر کا مقابلہ ہو تم صرف اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے یہ رئیس کر رہے ہو تمہارے دل میں جیتنے کی خواہش نہیں ہے اور ایسی رئیس کو جیت کر مجھے بھی کوئی خاص خوشی نصیب نہیں ہوگی
اگر تم مقابلہ کرنا ہی چاہتے ہو تو ٹھیک سے کرو تاکہ مجھے جیتنے اور تمہیں ہارنے میں مزا آئے اگر اپنی بیوی کا مان رکھنے کے لئے ریس میں حصہ لے لیا ہے تو اسے جیت کے دکھاؤ
یوں بچوں جیسا گیم مت کھیلو وہ اپنی بائیک کو ریس دیتے ہوئے کہنے لگا تو اس کے بات میں یارم کو بھی دم لگا تھا
لڑکے مجھے چیلنج کر کے پچھتاؤ گے تم ہو سکتا ہے اس رئیس میں مجھے جیتنے اور تمہیں ہارنے مزا آ جائے وہ اس انداز میں بات کر رہے تھے کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں
میں تو یہی چاہتا ہوںمیں نے آج تک کار کا سواد نہیں چکھا اگر ہمت ہے تو آج ہارکے ذائقے سے روشناس کروا دو مجھے
وہ اپنی بائیک کو ریس دیتا اس سے آگے نکل چکا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
اس کی بات پر یارم مسکرایا اب وہ صاف انداز میں اسے چیلنج کر چکا تھا اور اب یارم کو بھی یہ ریس جیتنے تھی صرف روح کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے بھی اپنے بائیک کو رئیس دیتے ہوئے وہ کچھ ہی پل میں اپنی بائیک کافی آگے لے آیا
اور اب یہ مقابلہ اصل میں شروع ہوا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب تھے اور فل سپیڈ میں آگے بھر رہے تھے کبھی یار م درک سے تو کبھی درک یارم سے آگے نکل آتا
وہ دونوں آدھا سفر طے کر چکے تھے سو کلو میٹر کی ریس میں تقریبا پچاس کلومیٹر سفر آگے آچکا تھا
جب کہ کسی ایک کی جیت کے انتظار میں روح اور خوشی پہلے ہی دوسرے راستے سے جیت کی مقام تک جا چکے تھے جہاں روح یارم کی جیت کا انتظار کر رہی تھی وہی خوشی کو بھی یقین تھا کہ درک جیت جائے گا
کیونکہ وہ آج تک کبھی بھی ہارا نہیں تھا جبکہ دوسری طرف تو کھیل ہی الگ تھا روح نے بس اسے تنگ کرنے کے خاطر اسے زبردستی اس ریس کا حصہ بنا دیا
جب کہ یارم نے تو کبھی ذکر بھی نہیں کیا تھا کہ اس نے کبھی بائیک چلائی بھی ہے
وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ یارم کو بائیک چلا نہیں آتی بھی ہے یہ نہیں
اور اب وہ اپنی بیوقوفی پر پچھتا رہی تھی۔جب کہ خوشی تو بہت خوش لگ رہی تھی اسے یقین تھا کہ درک ہی جیتے گا
ان کو یہاں پہنچے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ ہونے والا تھا
اور ابھی تک دور دور تک کہیں بھی کھلاڑیوں کا نام و نشان نہیں تھا
بہت زیادہ لوگ نہیں تھے بس کچھ خوشی کے دوست تھے اور دوسری طرف روح بلکل اکیلی
ہاں لیکن خوشی اسے بالکل بھی اکیلا پن محسوس نہیں ہونے دے رہی تھی
وہ ایک مخلص ساتھی کی طرح اس کے ساتھ ساتھ کھڑی اسے خوش کرنے کی خاطر کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دیتی ان کے دوست بھی برے نہیں تھے بہت نورمل سے لوگ تھے کہ شاید اکثر وہ وقت گزاری کے لیے یہ اب کرتے تھے
جب کہ بہت سارے لوگوں کو تو وہ پیچھے ہی چھوڑ آئے تھے شاید ان لوگوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا
°°°°°°
ارے ثانی تم ایک چھوٹے سے بچے کو یہاں کیوں لے آئی ۔میں نے تمہیں اکیلے آنے کے لیے کہا تھا بچہ بچارہ بوا ہو جائے گا وہ ثانیہ سے کہنے لگی جس کا اضافہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ہوا تھا
وہ دونوں سے باتوں میں مصروف تھی جب وہ بھی خوشی کے پاس آ کر رک گئی تھی اس کے ساتھ ایک چھوٹا تقریبا پانچ چھ سال کا بچہ تھا
جوکہ اس کے ہسبینڈ کی پہلی شادی میں سے تھا
وہ ایک بہت امیر شخص تھا اور اس کی بیوی اسے کسی وجہ سے چھوڑ کر چلی گئی
ایسے میں اس نے ثانیہ سے شادی کر کے اسے ایک روئیل لائف سٹائل دیا تھا اور بدلے میں صرف اور صرف اپنے بیٹے کیا خیال رکھنے کی شرط رکھی تھی
جو ثانیہ کے لئے مشکل نہیں تھا وہ بچہ اپنے تمام کام بہت آسانی سے کر لیتا تھا بس اسے سنائی نہیں دیتا تھا
وہ بچہ پیدائشی بہرے تھا جس کی وجہ سے اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی اور ثانیہ اس کے لئے ایک اچھی ماں ثابت ہو رہی تھی
یار گھرپے کوئی نہیں تھا مجھے لگا یہ نہ ہو کہ میرے یہاں آنے کے بعد یہ جاگ جائے اور ابھی ابھی تو یہ میرے ساتھ اٹیچ ہونا شروع ہوا ہے میں اسے اس طرح سے چھوڑ نہیں سکتی
میرے ہسبنڈ کیسی میٹنگ کے سلسلے میں یہاں سے کہیں گئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اس خیال رکھنا پر رہا ہے
اور ویسے بھی اگر میں اس کا خیال نہیں رکھوں گی تو اور کون رکھے گا اخر یہ میرا بیٹا ہے ثانیہ نے محبت سے اس کی طرف دیکھا
جبکہ بچے نے مسکراتے ہوئے اپنی سوتیلی ماں کو دیکھا تھا جیسے وہی اس کا سہارا ہو
چلو یار یہ تو بہت اچھی بات ہے یہ بھی تھوڑی دیر انجوائے کر لے گا
لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے نیند آرہی ہے یہ خوشی اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو ثانیہ نے ایک نظر اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے کبھی روح کو تو کبھی ثانیہ کو دیکھ رہا تھا
وہ ان کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ سکتا تھا لیکن ان کی بات کو سمجھ نہیں سکتا تھا
اٹس اوکے یار ابھی تھوڑی دیر میں گھر واپس چلے جاؤں گی
وہ تو میں گھر پہ بوررہی تھی تو سوچا یہی پر آ جاؤں اور درک کو جیتا ہوا دیکھ لوں تھوڑا فریش فیل کروں گی ویسے بھی آج کل سارا سارا وقت تو میرا گھر پر گزر جاتا ہے
روح کو تو وہ کافی اچھی لگ رہی تھی جو سوتیلی ماں ہونے کے باوجود اس بچے کا اتنا خیال رکھ رہی تھی بے شک دولت اور اپنے روئیل لائف سٹائل کے لئے ہی سہی لیکن اس بچے کو ایک ماں تو مل گئی تھی ۔
°°°°
یہاں کھڑےکھڑے اب روح کے پیروں میں بھی درد ہونے لگا تھا
لیکن یہ ریئس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
بس خوشی کو ریسنگ سیٹلائٹ کے ذریعے میسج آ رہے تھے کہ اب سفر اتنے کلومیٹر باقی ہے ۔
روح تو یہاں آکر اچھی خاصی بور ہو چکی تھی اور پچھتا بھی رہی تھی اس سے تو بہتر تھا کہ وہ یارم کے ساتھ ہیں کہیں چلی جاتی
ابھی وہ اپنی سوچوں میں ہی ڈوبی ہوئی تھی کہ سامنے سے بائیک ایک ساتھ نظر آئی
دو لائٹ چل رہی تھی آگے کون تھا اور پیچھے کون دور سے سمجھنا بہت مشکل تھا اور بائیک فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی تھی
بائیک نظر آتے ہی خوشی اور باقی سب لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا جب کہ وہ خاموشی سے کھڑی تھی ۔
جب وہ چھوٹا بچہ اچانک سرک کے بیچوں بیچ آ گیا ثانیہ پاگلوں کی طرح شور مچانے لگیں ۔وہ جانتی تھی کہ اس کو کچھ بھی ہوا تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔
ہیوی ریسنگ بائک میں توبریک نہیں ہوتی ۔اب کیا ہوگا ثانیہ تمہیں اختیاط کرنی چاہیے تھی خوشی پریشانی سے بولی
جبکہ ثانیہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھاگ کر بچے کو بچا لے
بائیک آگے کی طرف آرہی تھی وہ دونوں ہی بچے کو سڑک کے بیچوں بیچ سے دیکھ چکے تھے ۔ثانیہ کے چیخنے چلانے سے بچے پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا وہ اس کی بات کو نہ سن رہا تھا اور نہ ہی صرف دیکھ رہا تھا
درک بچے کی پرواہ کیے بائیک فل سپیڈ میں آگے بڑھ چکا تھا جبکہ ہارم کو پتا تھا تو بس اتنا کے مزید بائیک اگلے جانے سے یقینا اس بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے
لیکن اس آدمی کو اس کی پرواہ ہی کہاں تھی اسے تو بس اپنی جیت سے مطلب تھا
لیکن یارم اتنا خود غرض نہیں تھا وہ اپنی بائیک کو سیپڈ دیتے ہوئے نہ صرف سے آگے لے گیا بلکہ ایک ہی جھٹکے میں بائیک کو چھوڑ کر بچے کو بچانے کی خاطر سڑک کے بیچوں بیچ کود گیا
جب کہ درک بنا بچے اور یارم کی پرواہ کیے اب اپنا بائیک جیت کے مقام کی طرف بڑھا لے گیا ثانیہ پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی سڑک کی طرف آئی تھی جبکہ روح کا رکا ہوا سانس بحال ہوا
لیکن وہ دور سے ہی یارم کو گرتے ہوئے دیکھ چکی تھی اور اسے یقین تھا کہ یارم کو گہری چوٹ لگی ہے اسے سر سے خون بہہ رہا تھا جب کہ بچہ بالکل صحیح سلامت یارم کی باہوں میں تھا
ثانیہ نے بھاگتے ہوئے کی اپنا بچہ لیا جو کہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا جبکہ روح اس کے پاس کھڑی اس کے سینے پر لگی چوٹ کو دیکھتی تو کبھی سر کی چوٹ کو
یارم آپ کو کا تو بہت خون بہہ رہا ہے ہمیں ڈاکٹر کے پاس کرنا چاہیے وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی یارم بے اختیار مسکرایا
اب رونا مت شروع کر دینا میری جان میں بالکل ٹھیک ہوں
بس ذرا سی چوٹ آئی ہے
شکر ہے کہ بچے کو کچھ نہیں ہوا
اس نے بہت پیار سے روح کو جواب دیا جبکہ انتہائی سرد اور غصے بھری نظروں سے سامنے سے آتے درک کو دیکھ رہا تھا
اسے کبھی نہیں لگا تھا کہ وہ اپنی جیت کے لیے اتنی خود غرضی پر اتر آئے گا
تمہارا دماغ خراب ہو گیا تھا کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ اگر تم ایک انچ اس بچے کے قریب سے گزرتے تو اس کی جان جا سکتی تھی
اتنے خودغرض کیسے ہو سکتے ہو تم
مجھے ویسے بھی اس کھیل کی جیت اور ہار سے کوئی مطلب نہیں تھالیکن تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ اس بچے کی جان جا سکتی تھی
ایک ہی پل میں وہ مر سکتا تھا لیکن تمہیں تو بس اپنی جیت سے مطلب تھا یارم کو اس پربہت غصہ آیا تھا وہ صرف ایک کھیل دیکھنے کے لئے اتنا آگے بڑھ گیا کہ کسی زندگی کی طرح پروا نہیں
وہ اس شخص سے کبھی ایسی امید نہیں رکھ سکتا تھا
میں نے اس بچے کا ٹھیکہ نہیں رکھا ہے ویسے بھی اگر بچے سنبھال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہیں
اور اگر پیدا کرہی لیتے ہیں تو ایسی جگہوں پر لاتے ہی کیوں ہیں
یہی پر بورڈ لگانا چاہے کے یہاں بچوں کو لانا الاؤ ہے
اور وہ بچہ مرتا ہے جیتا میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں اگر وہ میرے راستے میں ہوتا تو اپنی جیت کی خاطر میں اس کے اوپر سے بھی بائیک نکالنے میں ایک سیکنڈ نہ لگاتا
کیوں کہ اگر درک کو زندگی میں کسی چیز سے محبت ہے تو وہ صرف اور صرف اس کی جیت ہے
۔آئندہ اپنے بچے کو یہاں لے کر مت آنا وپ ثانیہ کو سخت انداز میں بولا
کتنےبے دل انسان ہو آپ۔۔بےحسی آپ کی رگ رکگ میں بھری ہے وہ بچہ مر سکتا تھا لیکن آپ کو تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
آپ کے لیے اگر کوئی چیز اہمیت رکھتی ہے تو صرف یہ جیت اور اس بچے کا کیا آپ کو کوئی مطلب نہیں کہ اس بچے کے ماں باپ پر کیا بیتتی روح غصے سے بول تک نہیں پا رہی تھی
ہاں ہوں میں بےدل میں بچپن سے ایسا ہی ہوں سہی کہا ےم نء بےحسی میری رگ رگ میں بھری ہے اسی لئے تو سب لوگ مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتے ہیں ایک ایسا انسان جس کے سینے میں دل نہیں ہے اور ایسے انسان سے اچھے کی امید رکھنی بھی نہیں چاہے
وہ روح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا کہہ کر ایک نظر یارم کو دیکھ کر آگے بڑھ گیا یارم اس کے اشارے کو سمجھ چکا تھا
وہ اس کی بات کے مطلب کی گہرائی تک جا چکا تھا
اب ادمی کیا تھا کیا نہیں یہ بات وہ صاف الفاظ میں اسے بتا کر جارہا تھا جب اچانک رکا اور ایڑیوں کے بل گھوم کر ایک بار پھر سے روح کی طرف جھکا
تمہارا چیلنج ہارگئی تم تمہارے شوہر کو ہرا دیا ہے میں نے ہار ہی گیا میرے ہاتھوں اتنا بھی کوئی چیمپئن نہیں تھا وہ اسے دیکھتے ہوئے ہنس کر آگے بھرنے ہی لگا کہ روح کی آواز سے اسے روک لیا
غلط فہمی ہے آپ کی کہ آپ جیت گئے ہیں اور اگر آپ اسے جیت کہتے ہیں تو آپ سے بڑا لوزر میں نے آج تک نہیں دیکھا
جس طرح کی جیت کو جیت کا نام آپ نے دیا ہے اس سے بڑی کوئی ہار نہیں ہو سکتی آپ ہار گئے ہیں لیکن انسانیت جیت گئی ہے۔
اس کے پیچھے کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں ثانیہ اپنے بچے کو گود میں لیے بہت پرسکون نظر آ رہی تھی
جبکہ روح اسے نظر انداز کرتی ایک بار پھر سے یارم کے زخم دیکھنے لگی
°°°°
وہ آہستہ آہستہ اس کے زخموں کی مرہم پٹی کر رہی تھی کیونکہ یہاں کوئی بھی کلینک اوپن نہیں تھا سنڈے ہونے کی وجہ سے پورا سویزرلینڈ سنسان گاوں کی طرح خالی پڑا تھا ۔
اسی لیے روح کو یہ سب کچھ خود کرنا پڑ رہا تھا کیونکہ یارم ہوٹل میں موجود کسی بھی ڈاکٹر یا نرس سے اپنا علاج کروانے کو تیار نہیں تھا
اور ایسے میں روح ایک اچھی بیوی ہونے کے ناطے اس کی ڈریسنگ کر رہی تھی ۔جب کہ یارم کو تو اسے تنگ کرنے کا موقع مل گیا تھا
وہ شرٹ اتار کر بیڈ پر بیٹھا ۔اور روح اس کے بلکل ساتھ بیٹھی ہوئی اس کی گردن پر موجود ننھے خون کے قطرے صاف کر رہی تھی اور یارم اسے اپنی باہوں میں لیے کبھی اس کی گردن میں منہ چھپتا تو کبھی گال کو لبوں سے چھونے لگا۔
روح شرم سے دوہری ہوتی اپنا کام مکمل کر رہی تھی۔
یارمم نے ڈریسنگ نہ کروانے کی قسم کھا رکھی تھی لیکن روح نے ضدکرکے اسے بٹھا لیا تھا اور اب وہ اسے یہاں بیٹھانےکا ہر جانا وصول کر رہا تھا کیونکہ اگر وہ یہاں سے اٹھتی تو یارم ڈریسنگ کروانے سے صاف انکار کر دیتا
بس یہی وجہ تھی کہ وہ خاموشی سے اس کی من مانیاں برداشت کر رہی تھی وہ کبھی اس کی گال چومتا تو کبھی بالوں سے کھلتا تو کبھی اس کی گردن پر جھک کر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا۔
روح ڈیسنگ مکمل کرتی اس کے قریب سے اٹھنے ہی والی تھی کہ یارم نے اس کے دونوں ہاتھ قید کرتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ کر اسے اپنے اوپر گرالیا
تم نے تو اپنا کام کر دیا اب مجھے بھی تو میرا کام کرنے دو یہ تو تم نے صرف ڈریسنگ کی ہے اس کا علاج بھی تو کرنا پڑے گا
وہ بہت پیار سے اسے بیڈ پر لٹاتا اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومنے لگا جبکہ خاموش سے پڑی روح اس کی من مانیاں برداشت کر رہی تھی آج جو کچھ بھی ہوا ہے دوبارہ نہیں ہونا چاہیے روح نے تو شرارتوں سے توبہ کرلی تھی
اسے درک جیسےسے بے حس انسان سے اسے نفرت ہوتی جا رہی تھی وہ اسے ایسا تو نہیں لگا تھا جانوروں سے اتنی نرمی سے پیش آنے والا انسانوں کے لئے کس قدر عجیب جذبات رکھتا تھا
یارم تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا خضر نے پریشانی سے کہا
ان آج ہی یارم کے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تھا ۔
خضرنے اسے لیلیٰ کے بارے میں بتایا تو یارم نے کہا کہ اسے ایکسیڈنٹ بارے میں ہمیں بتایا جائے پوری بات بتانے کے لئے یار م منع کر چکا تھا
میں بالکل ٹھیک ہوں خضر بس زرا سی چوٹ آئی تھی جو اب ٹھیک ہے کوئی اتنی بڑی بات تھی ہی نہیں جو میں تم لوگوں کو پریشان کرتا
یارم نے سمجھاتے ہوئے کہا
چوٹ چھوٹی تھی یا بڑی خضر کو نہیں پتا تھا کیونکہ وہ اپنی بڑی سے بٹی چوٹ کو بھی چھوٹی چوٹ کا نام دے کر نظر انداز کر دیتا تھا
اور شاید اسے اس سب کے بارے میں پتہ بھی نہیں چلتا اگر آج وہ روح کو فون کرکے اس کا حال احوال نہ پوچھتا
روح نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ بائیک ریسنگ میں اس کی وجہ سے حصہ لے کر زخمی ہو چکا ہے اور وہ تو ساری غلطی اپنی ہی بتا رہی تھی لیکن یارم نے جب اس سے پوری بات بتائی تو خضر کو کافی کچھ سمجھا گیا
لیکن فی الحال یارم نے اسے کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے منع کر دیا تھا وہ اس سب میں پڑنا ہی نہیں چاہتا تھا
دور کے بارے میں اے ٹو زی انفارمیشن نکال چکا تھا
یہی وہ لڑکا تھا جس نے اس دن اسے فون کر کے بتایا تھا کہ روح کہاہے ۔
یہ تو وہ اس کی آواز پہچان کر بھی معلوم کر چکا تھا
اس کی آواز سنتے ہی یارم کو پتہ چل چکا تھا کہ یہ وہی ہے اور اس نے اس کی مدد کیوں کی تھی یہ بات بھی وہ اچھی طرح سے جانتا تھا
پھر دوبئی میں روح کا اس سے ملنا اور پھر اس کا یہ یہاں آنے ایک ہی ہوٹل میں رہنا ایک اتفاق بھی ہو سکتا تھا اسی لئے یار م نے فی الحال کے لیے بہت سا ٹال دیا لیکن زیادہ دیر کے لئے نہیں کیوں کہ یہ معاملہ روح کا تھا
اور روح کے معاملے میں وہ کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہیں کر سکتا تھا
اس نے سوچا تھا کہ وہ روح کو منا کر دے گا خوشی سے بات کرنے یا اس سے ملنے پر لیکن کل رات روح نے خود ہی اس کے زخموں پر مرہم لگاتے ہوئے کہا
کہ اسے ایسی لڑکی سے دوستی رکھنی ہی نہیں ہے جو اس کے شوہر کے زخموں کی وجہ بنے
اگر وہ اس کا دل رکھنے کے لیے وہاں نہیں جاتی تو یقینا یارم کو چوٹ بھی نہیں لگتی اس لیے اب روح نے خود ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جتنا ہو سکے خوشی سے دور ہی رہے گی مانا کے خوشی ایک اچھی لڑکی تھی اور اس کی اچھی دوست بھی ثابت ہوسکتی تھی لیکن یارم سے زیادہ اہم کے لئے اور کچھ نہیں تھا
°°°°°
بےبی اب ڈیسائیڈ کر ہی لو کہاں جانا ہے گھومنے کے لیے کب سے اس بک کو ہاتھ میں لیے سوچی جارہی ہو ۔
مجھے اس سے جلن ہو رہی ہے ۔۔مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہے یہ جیسے اتنی توجہ مل رہی ہے
اف یارم حد ہوتی ہے یہ ساری جگہیں اتنی پیاری ہے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ ہم کہاں جائیں اور اوپر سے آپ تنگ کر رہے ہیں
روح کافی کنفیوزن لگ رہی تھی
کیونکہ یارم نے اس کے سامنے ایک بک رکھی تھی جہاں پر سویزرلینڈ کی بہت ساری خوبصورت خوبصورت جگہ تھی اور وہ ڈیسائیڈ نہیں کر پا رہی تھی کہ آج کا دن کو کہاں جا کر گزاریں
آج کا سارا دن اس نے روح کے نام کردیا تھا اس لیے وہ یہ چاہتا تھا کہ آج کی جگہ بھی وہی ڈیسائیڈ کرے لیکن روح تو سوچوں میں ہی چلی گئی
یارم یہاں چلتے ہیں دیکھیں سمندر دریا پانی بہت مزا آئے گا اس نے ایک بیچ کی طرف اشارہ کیا تو یارم قہقہ کر ہنس دیا
ڈارلنگ اس جگہ کو تم ہینڈل نہیں کر پاؤ گی یہ ایک بیچ ہے اور یہاں پر لوگ کپڑے تک پہننے کا تکلف نہیں کرتے یارم نےہنستے ہوئے کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی
توبہ ہے یارم آپ آسان لفظوں میں بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ جگہ جانے کے قابل نہیں روح سے گھورتے ہوئے بولی
جب کہ یارم کی مسکراہٹ اب بھی قائم تھی اب ایسی بھی بات نہیں ہے اگر تم چاہو تو ہم یہاں چل سکتے ہیں اور کچھ نہ سہی نظارے ہی ہو جائیں گے خوبصورت مقامات کے یارم نے ادھوریبات کی تو روح کو غصہ آ گیا
میں دیکھ رہی ہوں یارم یہاں آنے کے بعد آپ بہت بگڑگئے ہیں کچھ زیادہ ہی شوق نہیں چرا آپ کو ایسی برہنہ دوشیزاؤں کو دیکھنے کا وہ غصے سے بولی
مجھے تو میری شہزادی کو دیکھنے سے فرصت نہیں میں تو تمہارے لئے کہہ رہا تھا کہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں کیسی کیسی انسانک مخلوق پائی جاتی ہے یارم بات ہی بدل گیا اور اس کے بعد میں سچائی تھی
وہ کردار کا کھڑا اور صاف کبھی کسی عورت کے لئے غلط سوچ ہی نہیں سکتا تھا
اگر وہ عیاش پسند ہوتا تو کون روک سکتا تھا اس سے وہ دبئی کا ڈان تھا پورا انڈرولڈ اس کے اشارے پے چلتا تھا
کس کی اوقات تھی اس کے سامنے انکار کرنے کی یہ تو اس کی روح تھی جس کے سامنے وہ اپنا دل ہار بیٹھا
اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد دوبارہ کسی عورت کو دیکھنے کی خواہش ہی نہ جاگی
اس کے لیے تو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت اس کی روح تھی جس کے سامنے دنیا کا حسن کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا
روح کی چاہت روح کی قربت روح کی محبت حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا
اس کی ساری محبت ساری چاہت ساری وفائیں صرف اور صرف روح ہی تک محدود تھی
اسی لئے تو روح نے سر اٹھا کر کہتی تھی کہ یہ شخص صرف اور صرف اسی کا ہے وہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ایسا ممکن ہی نہیں تھا
°°°°°
بہت مچک سے اخر وہ ایک جگہ جانے کا ارادہ کر چکے تھے
یہ ایک امریلا ریسٹورنٹ تھا
جہاں پرہریز چھتریوں جیسی تھی اور روح اسے دیکھنے کے لئے بہت ایکسائٹڈ تھی تصویروں میں تو اسے یہ جگہ بہت الگ اور کچھ عجیب سی لگی لیکن اب وہ اسے لائیو دیکھنے جا رہے تھے
ابھی وہ لوگ اپنے ہوٹل سے باہر نکلے ہی تھے کہ سامنے سے خوشی آتی نظر آئی اس کا موڈ خراب ہونے لگا جبکہ اس کے ہاتھ میں بکے دیکھ کر روح نے یارم کی جانب دیکھا تھا یقینا وہ اس کی تیمایداری کے لیے اس طرف آ رہی تھی
ہیلو کیسے ہو آپ لوگ ایم ریلی سوری کل بہت زیادہ لیٹ ہو گیا تھا اسی لیے میں تمہارے ہسبنڈ کی حیریت پوچھنے نہیں آ سکی
یہ آپ کے لئے اس نے پھولوں کا بکے یارم کی جانب بڑھتے ہوئے کہا تو مرووتاً اسے تھامنا ہی پڑا
کل آپ کو کافی چوٹ لگی تھی مجھے بہت برا لگا لیکن تھینک یو سو مچ ثانیہ کے بیٹے کی جان بچانے کے لیے
اگر اسے کچھ ہوجاتا تو اس کی ساری زندگی سپویل ہوجاتی ثانیہ میری بہت پیاری دوست ہے اس کے ساتھ کچھ برا ہوتا تو مجھے بھی بہت برا لگتا اور دوک سے تو کچھ بھی اچھے کی امید کی نہیں جا سکتی ہے وہ بچے کی بھی پرواہ نہیں کرتا
لیکن میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں اور ثانیہ بھی آپ کے شکر گزار ہے وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے
اس نے اپنے گھر پے آپ لوگوں کے لیے ڈنر پلان کیا ہے اگر آپ آئیں گے تو مجھے اور ثانیہ کو بہت اچھا لگے گا
نہیں ہمارا کچھ اور پلان ہے خوشی ہمارا اگلا پورا ہفتہ بہت مصروف ہے ہم نہیں آ سکیں گے روح نے فورا ہی معذرت کرنی چاہی
اور اسے روح کی بات بہت اچھی لگی تھی چلو اسے تھوڑی عقل تو آئی یار م نے شکر کیا تھا
آف کورس آپ لوگ بیزی ہیں آپ یہاں اپنے ہنی مون کے لیے آئے ہیں ایسے میں میرا انوائٹ کر نہ کچھ عجیب لگتا ہے لیکن اگر آپ آتے تو ہمیں خوشی ہوتی خوشی نے پھر سے کہنا چاہا
میں نے کہا نا خوشی ہمارا اگلا ہفتہ پورا مصروف ہے ہم اگلے ہفتے واپس جانے والے ہیں اور جانے سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں شاید ہم یہاں بھی زیادہ وقت نہ گزارے میرا مطلب ہے ہم ہوٹل کے باہر ہی رہیں گے
اگر ہمارا ہوٹل کے آس پاس کہیں جانے کا پلان ہوتا تو تمہارا انویٹیشن ضرور قبول کرتے لیکن ہم آس پاس نہیں رہیں گے بلکہ ہمارا ارادہ دوسرے شہر جا کر گھومنے کا ہے روح نے لمبی چوڑی تہمید باندھی تھی
ٹھیک ہے روح اگر تم لوگ نہیں آسکتے تو اٹس اوکے لیکن پھر بھی میرے اور ثانیہ کی طرف سے تھینکیو ضرور اکسیپٹ کر لینا اس کی معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا
اور اس سے ملنے کے لیے آگے بڑھی لیکن یارم کے غصے کو سوچتے ہوئے اس نے فورا اپنا ہاتھ مضبوطی سے خوشی کے ہاتھ میں دے دیا
جبکہ خوشی جو اس کے گلے لگنا چاہتی تھی شرمندہ سی ہو کر پیچھے ہٹ گئی
چلیں یارم دیر ہو رہی ہے وہ یارم کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تو یارم سر ہلاتا اس کے ساتھ آگے بھرگیا جب کہ خوشی وہیں کھڑی حیرانی سے دیکھ رہی تھی
پھر اپنا موبائل نکال کر کسی کا نمبر مل لگی
روحی بہت عجیب بیہو کررہی تھی شاید وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی اور میرا نہیں خیال کہ وہ اس دوستی کو بھی آگے تک رکھنا چاہے گی فون پر کسی سے کہتی بہت مایوس لگ رہی تھی
جب دوسری طرف سے کسی نے کچھ کہا اور پھر سے خوشی بولی
تو کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ سچ میں حیران تھی بے حد حیران
تم ایک انتہائی پتھر دل انسان ہو انتہائی بے حس انسان ہو میں پچھتا رہی ہو تم سے محبت کر کے وہ غصے سے کہتے فون رکھ کر ایک بار پھر سے دور جاتے روح اور یارم کو دیکھ رہی تھی
میں جانتی ہوں تم اس سے محبت کرتے ہو بے حد محبت کرتے ہو لیکن کبھی اسے نہیں بتاؤں گے بڑبڑاتے ہوئے مایوسی سے پلٹ گئی
°°°°°°
روح تمہارا انداز بہت عجیب تھا تم نے اس سے دوستی کی ہے اس سے اس طرح سے بات کرنا بہت عجیب لگتا ہے
کیا تم نے کبھی خضر یا شارف سے اس طرح سے بات کرتے ہوئے دیکھا مجھے
میں جانتی ہوں یارم میرا انداز اسے برا بھی لگا ہوگا لیکن میں اس پر ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ میں سے دوستی نہیں رکھنا چاہتی نہیں کوئی زبردستی کا دوست بن سکتا ہے اس کی وجہ سے اس کی ضدجس کی وجہ سے آپ کو چوٹ لگی
اور میرے لئے آپ سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں یارم مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کتنا برا لگتا ہے وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی کہ یارم بے اختیار مسکرا دیا
میرا بچہ اگر تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو رو کیوں رہی ہو وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھنے لگا
یہ سچ تھا کہ خوشی کا دل دکھا کر اس کا اپنا دل بھی دکھا تھا
خوشی جیسے پیاری سی لڑکی سے اس طرح سے بات کرکے تو خود بھی ہرٹ ہوئی تھی
یارم میں نے کہا نہ ہو میری زندگی میں سب سے اہم آپ ہیں آپ سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں میری اس کے ساتھ دوستی نہیں ہے
اور کل جو کچھ ہوا اس کے بعد تو مجھے اس سے بالکل دوستی نہیں رکھنی کیسے غیر انسانی کھیل کھیلتے ہیں یہ سب لوگ ذرا سوچئے اگر وہاں آپ نہیں ہوتے تو اس بچے کو ضرور کچھ ہو جاتا اور پھر اس لڑکی ثانیہ کی زندگی برباد ہوجاتی
آپ کو پتہ ہے اس کے شوہر کی پہلی بیوی اس بچے کو چھوڑ کر چلی گئی ہے یہ بچہ اس کا تھا ثانیہ تو بس اس بچے کا خیال رکھتی ہے اس کی ماں بن کر سوتلی ہی سہی لیکن اس بچے کو ماں تو مل گئی ہے
شاید پیسے اور دولت کی خاطر لیکن ثانیہ اس کا خیال رکھ رہی ہے
ثانیہ کی زندگی بھی بدل گئی ہےوہ اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی ہے اور اگر اس بچے کو کچھ ہوجاتا تو ثانیہ کی زندگی بھی برباد ہو جاتی اور شاید وہ بچہ بھی زندہ نہ ہوتا
نفرت تو مجھے اس آدمی سے ہو رہی ہے جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا کیا وہ انسان تھا کیا اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں یارم
مجھے تو یقین نہیں آرہا کیا کوئی اتنا پتھر دل بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی جان لیتے ہوئے ایک بار نہ سوچے
اس سے نفرت مت کرو روح وہ نفرتوں کے قابل نہیں ہے
میں بھی یہ کام کرتا ہوں نہ لوگوں کی جان لیتا ہوں
بے دردی سے ان کا قتل کرتا ہوں یارم اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے سمجھانے لگا
نہیں یارم ایسے گھٹیا انسان کے ساتھ اپنا مقابلہ نہ کرے آپ کے اندر انسانیت ہے آپ انسانیت کی خاطر یہ سب کچھ کرتے ہیں اور وہ حیوان انسان کی شکل میں حیوان ہے اس کا انسانیت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے جس کی جھلک ہم کل بھی دیکھ چکے ہیں ایسا انسان صرف نفرتوں کے لائق ہو سکتا ہے اور پلیز اس کے بارے میں بات کرکے ہمارا ہنی مون خراب تو نہ کریں
گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی اور روح نے اسے درک کے بارے میں بات کرنے تک سے منع کردیا یارم کو بھی یہ ساری باتیں فضول ہی لگی تھی وہ ایک شخص پر اپنا کتنا قیمتی وقت برباد کررہے تھے
اچھا چھوڑو ہم کیا فضول باتوں میں پڑ رہے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنی چاہیے وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس کی انگلیوں کو لبوں سے لگاتا محبت سے بولا
ویسے ایک بات تو بتاؤ تمہارا ماموں باپ بننے والا ہے اور بھائی بھی تمہارے شوہر کی باری کب تک آئے گی
ویسے میں اس کام میں محنت تو بہت کر رہا ہوں لیکن ابھی تک کوئی چانس نظر نہیں آ رہے ذرا اپنے فیوچر بےبی سے پوچھ کر بتانا کہ کب تک آنے کا ارادہ ہے اسے بھی بتا دو کہ انڈر ولڈ کے ڈان کو بابا بننے کا شوق چڑاہے
یارم لمحے میں ساری بات بدل گیا پھر اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہونے لگا تھا وہ کبھی بھی کوئی بھی بات کر سکتا تھا اس سے کسی بھی قسم کی توقع کی جاسکتی تھی
یارم میں کہہ رہی ہوں خاموشی سے گاڑی چلائیں ورنہ مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی شرم و حیا سے سرخ ہوتے اسے ڈانٹتے ہوئے بولی تو یارم مسکرایا
مطلب اب میں یہ بات بھی نہیں کر سکتا
کوئی رومینٹک بعد میں نہیں کر سکتا
تمہاری دوست ی بات نہیں کر سکتا
اور اب میرے بچوں کی باتوں پر بھی تم نے پابندی لگا دی یہ تو زیادتی ہے نہ وہ ہنستے ہوئے بولا
کوئی زیادتی نہیں ہے آپ خاموشی سے گاڑی چلائیں یہ ساری باتیں بعد میں بھی ہو سکتی ہیں ابھی بہت وقت پڑا ہے ہے وہ ٹالتے ہوئے شیشے سے باہر دیکھنے لگی
اس کی کل جھکی نظریں شرمیلی سی آواز تو یارم کا دل دھڑک آتی تھی
°°°°°°
وہ امریلا ریسٹورنٹ میں بیٹھے اس خوبصورت جگہ کا نظارہ کر رہے تھے یہ واقعی ایک بہت ہی حسین جگہ تھی جہاں ہر چیر چھتریوں سے مشابہت رکھنے والی بنائی گئی تھی
بتایا جاتا ہے کہ اس ہوٹل کے مالک کو چھتری رکھنے کا بہت شوق تھا
وہ سردی میں دھوپ میں بارش میں ہرموسم میں چھتری کا استعمال کرتا تھا اور جب اس نے اپنے اس شوق کو ایک شکل دی تو یہ امبریلا ریسٹورنٹ وجود میں آیا
یارم کو تو اس ریسٹورنٹ کی ہسٹری بہت فنی لگ رہی تھی جبکہ روح بہت خوشی سے سن رہی تھی جب یارم فون بجنے لگا
وہ وئٹر کو آرڈر دیتا ہوااپنا فون لئے باہر چلا گیا کیونکہ ہوٹل کے اندر سروسز بہت زیادہ مسئلہ کر رہی تھی
°°°°°
ابھی اسے گئے ہوئے تقریبا دو منٹ ہی ہوئے تھے جب ہوٹل کی یونی فارم میں ایک ویٹر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یارم اسے باہر بلا رہا ہے ۔
یہ آدمی اردو کیسے بول رہا تھا شاید جانتا تھا کہ وہ پاکستانی ہے
سووز زبان کو سمجھنا ایک بہت مشکل ترین کام تھا وہ اس کی بات کو سمجھ کر مسکراتے ہوئے اٹھ کر اسی راستے پر چلی گئی جہاں سے یارم باہر نکلا تھا
ویٹرنے دور سے اشارہ کیا کہ اسے کس طرف جانا ہے اور اس طرف جاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ یہاں دور دور تک کوئی نہیں ہے وہ کسی غلط جگہ پر آگئی ہے عجیب سنسان جگہ تھی شاید یہ ریسٹورنٹ کا پیچلا حصہ تھا
اسے لگا کے کچھ گر بڑ ہے وہ مزید قدم آگے بڑھانے لگی اس کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا کچھ تو برا ہونے جارہا تھا لیکن کیا ۔۔۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے مزید آگے کی جانب جا رہی تھی جب کسی چیز کی آواز سنائی دی اور ساتھ یارم کی بھی
وہ درد سے کرایا تھا
روح تڑپتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی اس کے یارم کو کچھ ہوا تھا وہ درد میں تھا اسے تکلیف تھی اس کی آواز اس نے سنی تھی
اور پھر خاموشی چھا گئی وہ تیزی سے آگے بھر رہی تھی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں دیوار کی ساتھ اس کے سامنے ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر اس کی روح بھی تڑپ اٹھی کسی نے یارم کے منہ لچھ باندھا ہوا تھا
اسے سات لوکوں نے قابو کیا پوا تھا
سامنے والے آفمی نے پورا کا پورا چاقو کو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ایک بار نہیں دو بار نہیں نہ جانے کتنی بار ۔۔۔۔۔
جبکہ زخمی یا رم کے منہ پر لوہے کی کوئی عجیب سی چیز رکھی تھی جس کا نام تک وہ نہیں جانتی تھی
لیکن اسے دھکا دیتے ہوئے وہ اس آدمی کے ہاتھ میں آ گئی یارم کا چہرا زخموں سے چور تھا
لہو سے سرخ ہوتی آنکھیں سے یارم نے بس ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور وہاں سے جانے کا اشارہ کیا لیکن کے قدم جیسے زمین سے جوڑ چکے تھے
وہ بس پندرہ سے بیس لوگوں تھی ۔
ان لوگوں نے یارم کو زمین پر پھینکا وہ چلایا
جاوووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی چیخ میں انتہا کی تکلیف تھی روح بس بےجان نظروں سے یارم کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ رہی تھی
پکڑو اس لڑکی کو جانے مت دینا اسے آخر یہ ہمارءپے ڈان ڈیول کے دل کی دھڑکن ہے وہ شخص قہقہ لگاتے ہوئے بولا
اور وہ سب ہی لوگ روح کی جانب بھاگنے لگے
اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زمین سے قدم اٹھاتہ وہ جانتی تھی کہ اتنی چوٹوں کے بعد اتنی تکلیف کے بعد وہ یارم کودوبارہ نہیں دیکھ پائے گی اس کی آنکھیں یارم کے بے جان ھوتے وجود پر ٹھہری ہوئی تھی
جبکہ وہ لوگ تیزی سے اس کی طرف بھاگ رہے تھے آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھ کے اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور جو آخری منظر اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ یارم کا بے جان وجود تھا
ایک سال کے اندر دو اتنے میجر نروس بریک ڈاؤن کے بعد بھی زندہ ہیں
یہ کسی مجزے سے کم نہیں لیکن زیادہ امید مت رکھیں ابھی بھی ان کی جان خطرے میں ہے
کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے میں کوئی گرنٹی نہیں دیتا
اس لڑکی کی زندگی سوکھے پتے کی طرح ہے اور ایک ہوا کا جھونکا اسے موت کی آغوش میں لے جائے گا
ایک ذرا سا جھٹکا بھی اس سے اس کی سانسیں چھین سکتا ہے
آج اسے 16 دن کے بعد ہوش آیا ہے
لیکن آپ لوگوں کی ذرا سی لاپرواہی سے ایک بار پھر سے موت کے منہ میں لے جا سکتی ہے
فی الحال میں آپ لوگوں کو یہی سیجیشن دونگا کہ اسے ہسپتال میں ہی رہنے دیں
کیونکہ ابھی کچھ بھی ہو سکتا ہے
ٹینشن ذدہ ماحول میں اس کی طبیعت بگڑبھی سکتی ہے
اور جہاں تک اس کی حالت نظر آرہی ہے میرا نہیں خیال کہ آپ لوگ اس کا بہتر طریقے سے خیال رکھ پائیں گے
آگے آپ لوگوں کی مرضی آپ جو فیصلہ کریں فی الحال وہ ہوش میں تو آج کی ہے لیکن ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہے
اس کے آگے پیچھے کیا ہو رہا ہے فی الحال تو اسےکچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی
دوائوں کا بھی بے حد اثر ہے اسی لئے ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے میں یہی کہوں گا کہ اگر اس کی جان عزیز ہے تو اس کے سامنے ایسی کوئی بھی بات نہ کریں جس سے وہ ٹینشن لے
ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرتے ہیں وہاں سے چلا گیا جب کہ خضر اور شارف ایک بارھر سے اس بینچ پر بیٹھے تھے جہاں ڈاکٹر کے آنے سے پہلے بیٹھے تھے
کل رات تقریبا دو بجے روح کو ہوش آیا
ان کی سانس میں جیسے سانس آئی تھی ۔
لیکن اب ڈاکٹر کے خطرناک باتیں سن کر وہ پھر سے ٹینشن میں آ چکے تھے
خضر بے حد پریشان تھا جبکہ شارف کی آنکھیں نم تھیں وہ اسے دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے لگا
کیوں خضر یارم اور روح کی زندگی کی خوشیوں کا ٹائم پیریڈ اتنا کم کیوں ہے
سب ٹھیک ہوتا ہے پھر کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ سب برباد ہونے لگتا ہے اور اس بار تو سب برباد ہو گیا
روح کی حالت دیکھی نہیں جا رہی اور یارم ۔۔۔۔۔۔۔
شارف پھوٹ پھوٹ کر روتا خصر کے سینے سے لگ چکا تھا
اللہ پر بھروسہ رکھو شارف سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ان شاءاللہ
اور یوں ناامیدی کی باتیں نہ کرو ابھی تو ہم نے روح کا بھی سامنا کرنا ہے ذرا سوچو جب سے سب پتہ چلے گا یارم کے بارے میں وہ کیسے برداشت کرے گی
ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا
اگر ہم ہی ہمت ہار جائیں گے تو اسے کون سنبھالے گا
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ فی الحال وہ دوائیوں کے زیر اثر ہے جب وہ ہوش میں آئے گی تب ہزار سوال کرے گی اور ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا
وہ شارف کو سمجھاتے ہوئے بولا جب نظر سامنے سے آتےاس لڑکے پر پڑی اس کے ساتھ ایک پیاری سی لڑکی بھی تھی
°°°°°°
کیسی ہے وہ ۔۔۔۔؟وہ خضر کے سامنے کھڑا پوچھنے لگا
ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گی ہم سنبھال لیں گے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ بہت روکھے سوکھے لہجے میں بولا تھا
یقینا ٹھیک ہو جائے گی ۔۔ڈاکٹر کیا کہتے ہیں وہ اس کے لہجے کو نظر انداز کرتا پھر سے پوچھنے لگا
درک میں ہزار بار تو میں سمجھا چکا ہوں ۔اب آخری بار کہہ رہا ہوں کہ اس سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے دور رہو اس سے
تم نے ہماری مدد کی ہم تمہارے شکر گزار ہیں
لیکن اب ہمیں تمہاری مزید کوئی مدد نہیں چاہیے سوپلیز روح سے دور رہو وہ سخت لہجے میں بولا
تم مجھے روکنے کا کوئی حق نہیں رکھتے خضر ۔
اور ویسے بھی میں اس سے کوئی تعلق جوڑنے یا رشتہ قائم کرنے نہیں آیا میں بس اس کا حال جاننے آیا ہوں ۔اس بار وہ بھی ذرا سختی سے بولا
وہ ٹھیک ہے اور ان شاءاللہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ہم اس کی فیملی ہیں ہم اس کا خیال رکھ لیں گے تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں وہ چبا چبا کر بولا
مجھے پتہ چلا ہے کہ اسے ہوش آیا ہے میں ایک بار اسے دیکھنا چاہتا ہوں
میں تمہیں اس سے دور رہنے کے لیے کہہ رہا ہوں اتنی سی بات تمھیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی اس بار خضر کا لہجہ تیز ہوا تھا
میں اسے دور سے دیکھ کر چلا جاؤں گا ۔اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار نہیں صرف دیکھنے کی بات کی ہے میں نے
اس کے انداز نے درک کو اچھا خاصہ غصہ دلادیا تھا
خضر اسے سمجھانے کے لئے آگے بڑھا تو شارف نے اسے روک دیا
ٹھیک ہے تم اسے دیکھ سکتے ہو لیکن اندر مت جانا باہر سے ہی دیکھ کر واپس چلے جاؤ
کیونکہ ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں روح کے سوالوں کا اور جواب نہیں دے سکتے ۔شارف نے خضرکو روکتے ہوئے اس سے کہا تو وہ ہاں میں سر ہلاتا روک کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
اس نے دیکھا وہ ہوش میں تھی
لیکن پھر بھی اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا بس آنکھیں کھولے چھت کو گھورے جا رہی تھی
ایک نروس بریک ڈاؤن سے انسان کی جان چلی جاتی ہے لیکن اس نے ایک ہی سال میں 2 میجر نروس بریک ڈاؤن اپنی ننھی سی جان پر جھیل لیے تھے
یارم کی حال دیکھتے ہی وہ دماغی طور پر بالکل بے جان ہو چکی تھی
اس کا یارم اس کے سامنے دم توڑ رہا تھا
آہستہ آہستہ یارم کی آنکھیں بند ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی روح بھی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی یارم کو مرتے دیکھا تھا
وہ منظر یاد آتے ہی جیسے وہ ہوش کی دنیا میں آئی تھی وہ ایک دم اوف کنٹرول ہوتی چیخنے چلانے لگی جس پر روک تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا
°°°°°°°
یارم۔۔۔۔۔۔یارم ۔۔۔۔وہ لوگ مار رہے ہیں
کوئی بچاو ۔۔۔۔میرے یارم کو بچاو۔۔۔
مت مارو ۔۔۔۔مت مارو ۔۔۔میرے یارم کو بچاو
ماموں۔۔۔ ۔ ماموں میرے یارم ۔۔۔۔شارف بھائی۔۔۔میرے یارم کو بچا لیں
یارم نہیں مت ماروووو۔
یارم۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آواز پورے ہسپتال میں گھونج رہی تھی وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی چلا رہی تھی
ڈاکٹر تیزی سے کمرے کی طرف آیا
اور اس کے پیچھے ہی نرس انجیکشن لیے آ رہی تھی
کنٹرول کرو ان کو ابھی انجیکشن دینا ہوگا وہ عربی میں کہتا تیز تیز روح کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا
جب درک نے غصے سے اسے دھکا دیا
خبردار جو تم نے اسے انجکشن دیا ابھی اسے ہوش میں آئے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا ہے
کہ تم اس سے ایک بار پھر سے اس اندھیرے میں بھیجنا چاہتے ہو
ڈاکٹر کو دھکا دے کر وہ انتہائی غصے سے بولا تھا جبکہ ڈاکٹر پریشانی سے اسے دیکھنے لگا
یہ بہت ضروری ہے سرورنہ ان کی حالت بگڑ جائے گی
اس طرح سے یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی
ہمیں انجیکشن دے لینے دیجئے اگر یہ ہوش میں رہیں تو وہ ساری چیزیں یاد کرکے ایک پل پھر سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں گی
ڈاکٹر نے اسے سمجھانا چاہا
خبردار جو تم اس کے پاس بھی لے کر آئے
کوئی انجیکشن نہیں لگے کا روح کو وہ اسے دور کرتے ہوئے کہنے لگا
تو کیا آپ کے پاس ان کے سوالوں کا جواب ہے کیا آپ انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں بنا انجیکشن کے ڈاکٹر جیسے اسے چیلنج کر رہا تھا
ڈاکٹر اس آدمی کا دماغ خراب ہے پلیز آپ اپنا کام کریں کمرے کے اندر آتے تھے خضر نے روح کے دونوں ہاتھ تھامے تھے
اور ساتھ ہی درک کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر کو مخاطب کیا
میرا دماغ خراب ہے ۔تو خراب نہیں رہنے دو لیکن خبردار جو کسی نے روحی کی طرف قدم بھی بڑھایا
وہ خضر کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولا
کیا تم اسے مارنا چاہتے ہو ۔ہاں تمہارے لیے یہ مشکل تھوڑی ہو گا آخر اپنے باپ کو بھی تم نے مارا تھا ۔جان لینا تو تمہارے لئے بہت آسان ہے نا خضر ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا لیکن درک نے اس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا تھا
اس کے ذہن پر اس وقت اس کا شوہر سوار ہے خضر صاحب
اور اس کا شوہر مر چکا ہے یہ سوچ ہی اس کی جان لے لے گی ۔
اس کے حواس پر اس کے ہوش پر صرف اور صرف اس کے شوہر کا قبضہ ہے وہ اپنے شوہر کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتی
اور آپ کو جو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ بے ہوش ہو جائے گی تو زندہ بچی رہے گی دور کر لے
کیونکہ یار م کاظمی روح کی روح میں بستا ہے ۔یارم کی سانس بند ہوچکی ہے یہ سوچ ہی اس کی دھڑکن روک دے گی
اگر یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لو وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال تا اسے روح کی زندگی پر بازی کھیلنے کی دعوت دے رہا تھا
جبکہ ڈاکٹر ان دونوں کی بحث کو دیکھ رہا تھا ۔
انجیکشن لگانا ہے یا نہیں ڈاکٹر نے پھر پوچھا کیونکہ روح مسلسل چلا رہی تھی
نہیں ۔۔۔۔وہ ان حالات کا مقابلہ کرے گی ۔ڈر کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرے گی وہ ڈاکٹر کو کہتا ایک نظر خضر کی طرف دیکھ کر جتلا گیا تھا
جبکہ حضر خاموش ہو چکا تھا
چیختی چلاتی روح کی جانب بڑھا
ماموں۔۔۔میرے یار م۔۔۔۔۔۔کو بچاو۔۔۔۔۔شارف بھائی ۔۔۔۔۔۔۔میرے یارم۔۔۔۔۔۔۔ماموں میرے یارم
وہ ۔ لائے جا رہی تھی
کوئی بھی اسے کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا
چپ۔۔۔۔۔در اس کے پاس آ کر سخت لہجے میں بولا۔
میرے یارم۔۔۔۔۔۔وہ سسکتی ہوئی بولی
ماموں۔۔۔۔میرے یارم۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا اک دم چپ
۔اب تم ایک لفظ بھی نہیں بولو گی سجمھی۔۔۔وہ سخت لہجہ اپنائے ہوئے تھا
خوشی بھی پریشان تھی۔
میرے یارم کو بچاو ۔۔۔۔۔۔ وہ مار رہے ہیں میرے یارم کو۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اس سے التجا کر رہی تھی۔
جب درک نے آگے بھر کر اسے اپنے سینے میں چھپایا ۔
اس کی حالت پر شارف کے ساتھ ایک پہلی بار خضر کی آنکھیں بھی نم ہو گئی
روح میری بات کو غور سے سنو اور سمجھو بھی وہ اسے خاموش کرواتا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے کہنے لگا
جو بھی ہوا بہت برا ہوا یارم پر اس کے دشمنوں نے حملہ کیا تھا
لیکن تمہیں مضبوط بنانا ہوگا تمہیں ان حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا یارم کے بغیر تمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا ۔
وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہا تھا جبکہ روح خالی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اور اب اس کے الفاظ پر جیسے الجھ کر رہ گئی
یارم کے بغیر ۔۔۔۔۔۔
مطلب وہ سچ میں اسے چھوڑ کر جا چکا تھا
نہیں ۔۔۔۔میرے یارم کہاں ہیں۔۔۔۔۔
مجھے میرے یارم کے پاس جانا ہے۔۔۔
مجھے نہیں رہنا اپنے یارم کے بنا۔۔۔
ماموں۔۔۔۔شارف بھائی میرے یارم
یہ آدمی مجھے میرے یارم لے بغیر رہنے کا کیوں بول رہا ہے ۔
اور درک سے الگ ہوتے اسے دھکے دینے لگی
شارف میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ روح کے قریب جاتا ہاں لیکن خضر ہمت کر کے اس کے پاس آیا اور اسے تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا
میں وعدہ کرتا ہوں تم سے روح میں سب ٹھیک کردوں گا
تمہارا ماموں ہے نہ بس تھوڑا سا صبر کر جاؤ وہ اسے دلاسا دیتے ہوئے بول رہا تھا لیکن روح کے دل و دماغ پر بس ایک ہی سوچ سوار تھی کہ اس کا یارم اسے چھوڑ کر چلا گیا
کیا سب کچھ ختم ہوگیا کیا ۔۔۔۔میرے یارم نہیں رہے ۔۔۔۔۔
اللہ نہ کرے کیا بکو اس کر رہی ہوں میں جانتی ہوں مجھے تنگ کر رہے ہوں گے میں انہیں بہت ستاتی ہوں نا میں وعدہ کرتی ہوں ماموں آج کے بعد میں انہیں بالکل تنگ نہیں کروں گی
وہ جو کہیں گے میں وہ کروں گی ان کی ساری باتیں مانوں گی پلیز ان سے کہیں کہ میرے ساتھ اس طرح سے نہ کریں
دیکھیے مجھے سانس نہیں آ رہی ۔
ماموں روح اپنے یارم کے بغیر مر جائے گی ۔
ہاں روح مر جائے گی روح نہییں جی پائے گی اپنے یارم کے بغیر
شارف کو مر جانا چاہیے اگر یارم نہیں تو روح بھی نہیں
یہ کیسی محبت ہے میرے یارم مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں اب تک زندہ ہوں
یا اللہ مجھے موت دے۔۔۔۔۔۔۔
روح۔۔۔۔۔۔ اس کی بات پر خضر کے ساتھ ساتھ درک بھی اس کے سخت الفاظ پر دھارا
کیا بکو اس کر رہی ہو روب ایسا کیسے کہہ سکتی ہو تم ۔۔۔۔اتنی ناشکری اتنی گمراہی یہ کون سے رستوں کی مسافر بن رہی ہو تم اللہ کو ایسے انسان پسند نہیں خضر نے اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا تو وہ ایک بار پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
لیکن خضر سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا تھا روح کے آنسو اس کی تکلیف اس کی تڑپ اس کی برداشت سے باہر تھی
خود پر اتنا کنٹرول کرنے کے باوجود بھی وہ خاموش نہ رہ سکا
°°°°°
انڈر ورلڈ کے اندر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو یارم کی جگہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس کی جگہ ڈون بن کر دبئی پر اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں
یارم کا قبضہ صرف دبئی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بہت سارے ملکوں کا انڈر ورلڈ مافیا اس کے انڈرکام کر رہا ہے
یارم کی زندگی کا ایک ایک پل خطرے سے خالی نہیں
کچھ عرصے سے روس کے ڈان ویلکس میتھو کی نظریارم پر تھی
وہ یارم سے دبئی کا مافیا ولڈ خریدنا چاہتا تھا جس کے لیے وہ کافی وقت سے کوشش بھی کر رہا تھا
لیکن یارم کی طرف سے انکار ہی ملا
اپنی ہر کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اس نے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی یارم کے راستے میں نہیں آئے گا
لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی
پچھلے چھ مہینے سے پل پل یارم پر نظر رکھے ہوئے تھا
یارم کو اس حوالے سے شک تو تھا لیکن ہم پریشان ہوں گے یہ سوچ کر اس نے ہم سے یہ سب کچھ شیئر نہیں کیا
وہ یارم کے بارے میں ساری انفرمیشن نکال چکے تھے وہ یارم کے ایک ایک پل پر حبر رکھے ہوئے تھے ایک ایک سیکنڈ کا حساب جانتے تھے وہ تمہارے بارے میں بھی سب کچھ جان چکے تھے کہ تم یارم کے لیے کیا ہو
وہ لوگ تمہیں یارم کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے
انہیں پتا تھا کہ تم یارم کی کمزوری ہو اور وہ تمہارے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اسی لئے ان لوگوں نے تم لوگوں کا پیچھا کیا اور سوئٹزرلینڈ پہنچ گئے ان کا ارادہ تمہیں پھسا کر یا رم سے اپنا مطلب پورا کروانے کا تھا
اور وہ لوگ اپنا یہ کام امبریلا ریسٹورنٹ کرنے والے تھے
لیکن اس سب کی خبر ہمیں وقت سے پہلے ہی لگ گئی میں نے اس دن یارم کو فون کرکے سب کچھ بتایا لیکن اس سے پہلے ہی وہ تمہیں ہوٹل کی پچھلی سائیڈ بھلا چکے تھے
تم سے پہلے یارم وہاں پہنچ گیا اور ان لوگوں نے یارم پر جان لیوا حملہ کر دیا ۔
ان لوگوں کا مقصد یارم کو جان سے مارنا تھا ۔
اور یارم کا مقصد ان لوگوں کے ہاتھوں مر جانا تھا
میرا مطلب ہے ہماری پلاننگ کا حصہ ۔۔۔۔۔۔خضر نے ٹھہر کر کہا تو وہ اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی ۔
تمہارے وہاں آجانے کی وجہ سے ہمارا پلان فیل ہوگیا
کیوں کہ یارم کا سارا دھیان تمہاری طرف جا چکا تھا اسے لگا تھا کہ وہ لوگ تمہیں نقصان پہنچائیں گے اس سے پہلے کہ وہ تمہیں بچاتا ان لوگوں نے یارم کو موت کے منہ تک پہنچا دیا
زہریلے چاقواور بازو پر دو گولیاں لگنے کے باوجود بھی اس نے اکیلے ان سب کا مقابلہ کیا لیکن تمہیں بے ہوش دیکھ کر وہ بے جان ہونے لگا تھا ۔
تب درک نے اس کی بہت مدد کی ۔
ان سب کے سامنے مرنے کا ڈرامہ کرنے کے بجائے وہ ان سب کا قتل کرکے تمہیں ہسپتال لے آیا
ڈاکٹر نے چوبیس گھنٹے دیے تو میں ہوش میں لانے کے لیے یارم کی وہ حال دیکھ کر تمھارا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ۔
24 گھنٹے بنا کسی سہارے کے وہ یہاں کھڑا رہا ڈاکٹر کے ہزار بار کہنے کے باوجود نہ تو اس نے اپنا علاج کروایا اور نہ ہی آپریشن تھیٹر سے باہر نکلا
لیکن 24 گھنٹے کے اندر اندر زہریلی شاقوکا زہر اس کے پورے جسم میں پھیل گیا ۔
لیکن پھر بھی وہ اپنا علاج کروانے کو تیار نہ تھا اسے بس اپنی روح سے مطلب تھا
24 گھنٹے کے بعد ڈاکٹر نے تھوڑی سی امید دلوائیں
لیکن زہر پھیلنے کی وجہ سے اسے انفیکشن ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا دبئی میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔
پچھلے سولہ دن سے اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے ہوش میں لایا جاتا ہے ۔باقی سارا وقت اسے بے ہوش رکھا جاتا ہے جب تک اس کے جسم سے زہر کا اثرختم نہیں ہو جاتا
لیکن اس ایک گھنٹے میں وہ تم سے ملنے کی اتنی ضد کرتا ہے کہ ڈاکٹر مجبور اسے دوبارہ بے ہوش کر دیتے ہیں
انڈر ورلڈ مافیا کو بچانے کے لئے یارم کا زندہ رہنا ضروری ہے ۔اور وہ زندہ تب ہی رہ سکتا ہے جب وہ یہاں سے دور رہے گا کیونکہ روسی مافیا کو بس یہی پتا ہے کہ ڈیول مر چکا ہے
اور اب اگر وہ یہاں واپس تمہارے پاس آیا تو وہ لوگ اسے جان سے مار ڈالیں گے
تم میری بات کو سمجھ رہی ہو نہ اسے تم سے دور رہنا ہوگا
ہم یہی ظاہر کریں گے کہ وہ نہیں رہا
خضر اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اب اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا ۔
شارف بھائی مجھے نماز پڑھنی ہے ۔ وہ کافی دیر کے بعد بولی
روح اب تو صبح کے نو بج رہے ہیں نماز کا وقت نہیں ہے اسح پرسکون دیکھ کر خضر نے کہا۔
مجٙھے اللہ کو شکریہ بولنا ہے ماموں اور اللہ سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔
آج مجھے یقین ہو گیا کہ میرے اللہ جی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔اور وہ میرے یارم کو کچھ نہیں ہونے دیں گے ۔
وہ بہت صبر سے بولی تھی خضر اور شارف کو لگا تھا کہ وہ یارم سے بات کرنے کیا ملنے کی ضد کرے گی لیکن آپ تو بہت پرسکون لگ رہی تھی
لیکن اس کے لیے یارم کا زندہ ہونا زیادہ اہم تھا
اس نے کسی قسم کا کوئی شور یا ولاویلا نہیں مچایا تھا ۔وہ بلکل خاموش تھی۔خضر جو اس لی ضد اور بیماری کی وجہ سے اسے کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ اس کی طیبت دوبارہ خراب نا ہو جائے اس کے حوصلے کو دیکھ خود بھی حیران رہ گیا تھا
اس کا زیادہ تر وقت یارم کے لیے دعا کرتے گزر جاتا۔
وہ ہر وقت یارم کے ٹھیک ہونے کی دعا مانگتی
اس نے صرف اللہ کو ہی اپنا رازدار بنا لیا تھا۔
اس کی تکلیف اس کا درد صرف اللہ تک محدود ہو گیا تھا
وہ سجدوں میں روتی ۔سارا دن وہ صبر سے گرار دیتی لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا یارم ٹھیک نہیں ہے
لیکن پھر بھی وہ ہمت دیکھا رہی تھی ۔آج اسے ہسپتال سے ڈسچارج کیا جارہا تھا
خضر کہہ رہا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے کر جائے گا اس نے اس معاملے پر بھی بالکل ضد نہیں کی تھی
اس کی خاموشی خضر کو بہت پریشان کر رہی تھی
کہیں وہ اپنا درد اپنی تکلیف اپنے اندر ہی رکھ کر خود کو مزید بیمار نہ کرلے ۔
لیکن جب بھی وہ اس سے ملنے کے لیے جاتا وہ اسے ہنستی مسکراتی ملتی ہاں اس کی مسکراہٹ میں پہلے سی کھنک نہ تھی
ایک ہفتہ ہونے کو آ رہا تھا اس نے نا تو یارم سے بات کرنے کی ضد تھی نہ ہی اس سے دیکھنے کی اور نہ ہی اس سے ملنے کی
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یارم بہت بیمار ہے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اسے دوبارہ زندہ دیکھنے کا حوصلہ کھو چکی تھی جب اسے بتایا گیا کہ اس کا یارم زندہ ہے
اور اسے علاج کی ضرورت ہے
یارم بہت عام سی زندگی گزارتا تھا کسی نے بھی ڈیول کا چہرہ نہیں دیکھا تھا
وہ عام لوگوں کی طرح روز کام پر جاتا دنیا کے سامنے اس کی ایک کمپنی تھی جس میں وہ جاب کرتا تھا
بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ عام سا انسان ہی انڈرورلڈ کی دنیا کا بادشاہ ہے
وہ صرف ان لوگوں کو اپنا چہرہ دکھاتا تھا جنہیں آ تو وہ ختم کرنے والا ہوتا یا پھر دشمنی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں دوستوں کے سامنے بھی نہیں آتا تھا
وہ بہت کم لوگوں پر یقین رکھتا تھا
اور یہ ساری باتیں روح بھی جانتی تھی
روح کے سامنے بھی تو کتنا عرصہ وہ ایک عام انسان کی زندگی گزارتا رہا روح کہاں جانتی تھی کہ اس کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہوگا
وہ جانتی تھی کہ یارم کی جان اب بھی خطرے میں ہے اس کے دشمن اس کی تاک میں بیٹھے ہیں
اور جن لوگوں نے یارم پر حملہ کیا ہے ان لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ یارم اب نہیں رہا
اور خضر اس کی جگہ چکا ہے
آجکل خضر کی زندگی بھی خطرے میں تھی اس پر بھی حملے ہو رہے تھے
یہ توعام سی بات تھی کہ جو لوگ یارم کو ختم کرنے کو تیار تھے ان کے سامنے خضر بھی کسی کیڑے مکوڑے سے کم نہ تھا ۔
لیکن یہ بھی سچ تاکہ وہ یارم کی جگہ پر اتنی آسانی سے کسی دوسرے کو قبضہ نہیں کرنے دے سکتا تھا
لیکن اسے روح سے اتنی سمجھداری کی امید تو نہیں تھی
روح کو دیکھ کر وہ ابھی حیران ہو رہا تھا اس قدر پر سکون کیسے ہو سکتی تھی وہ
اس نے ہسپتال کے کمرے میں قدم رکھا تو روح کو جانماز پر بیٹھے پایا
سلام پھیرتی وہ اسے دیکھ کر مسکرائی
روح تیار ہو آج ہم گھر جانے والے ہیں ۔وہ بہت پیار سے اس کے ساتھ زمین پر ہی بیٹھ کر کہنے لگا
جی میں تیار ہوں ۔۔لیلیٰ کہاں ہے وہ تو ایک بار بھی نہیں آئی مجھ سے ملنےاسے ہوش میں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اب تک لیلیٰ اس سے ملنے نہیں آئی تھی معصومہ ایک پر آئی تھی اور پھر وہ بھی نہیں آئی
وہ تمہارے یارم کے پاس ہے روح میں وہاں نہیں جا سکتا میرے پاس بہت کام ہے اور شارف یہاں میری مدد کر رہا ہے
اگر ہم دونوں منظر سے غائب ہوئے تو ہمارے دشمنوں کو ہم پر شک ہو سکتا ہے اسی لیے ہمارا سامنے رہنا بہت ضروری ہے
صارم تم سے ملنا چاہتا ہے میں نے اسے ملنے کی اجازت دی ہے لیکن تمہیں اس کے سامنے کس طرح سے رہنا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہ پڑی
اس کی حالت یارم کی موت کا سوچ کر بہت بری ہو رہی ہے اور ہم چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ چاہے وہ ہمارا دوست ہو لیکن ہے تو قانون کا حصہ
اسی لیے تم کوشش کرنا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے تمہارے منہ سے ایسی کوئی بات نہ نکلے جس سے ہمارا پلان نا کامیاب ہو وہ اسے سمجھا رہا تھا
لیکن ماموں صارم بھائی تو دوست ہیں نا آپ کے انہیں ہم ان کو بھی نہیں یارم کے بارے میں بتا سکتے ہیں
وہ پولیس والے ہیں تو کیا ہوالیکن دوستی بھی تو اہم ہیں وہ پریشان ہوں گے صارم کو بنا دیکھے ہیں اس کی حالت سوچ کر وہ ٹینشن میں آ چکی تھی
اسے اندازہ تھا کہ صارم بھی یارم سے بے حد محبت کرتا ہے
جانتا ہوں لیکن روح ہم نہیں بتا سکتے خاص کر یار م کی زندگی پر رسک تو بالکل بھی نہیں لے سکتے
چاہے وہ جو بھی کہے تمہیں صارم کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کرنی تھی جس سے اسے ہم پر شک ہو
وہ اس کی ضروری اشیاء بیگ میں رکھتے ہوئے سمجھا رہا تھا روح نے ہاں میں سر ہلایا اس کے لیے بھی تویارم سے اہم کچھ بھی نہیں تھا
اور اگر صارم کو کچھ بھی بتانے سے یارم کی زندگی خطرے میں آ سکتی تھی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا کرے
تم انتظار کرو میں ڈسچارج پیپر لے کر آتا ہوں وہ کہہ کر جانے لگا جب اسے روح کی آواز سنائی دی
ماموں یار م کا فون آپ کے پاس ہے ۔۔اس نے پوچھا خضر نءپیچھے مڑ کر دیکھا پچھلے ایک ہفتے میں اس نے یارم کے بارے میں پہلی بات کی تھی اس نے ہاں میں سر ہلایا
مجھے دے دیں پلیز
روح تم کیا کرو گی اس فون کا تمہارے کسی کام کا نہیں ہے خضر نے جواب دیا کیوں کہ اس کی نظروں میں واقع ہی وہ فون اس کے کسی کام کا نہیں تھا
وہ ہم نے وہاں سوئٹڑز لینڈ میں تصویریں کھینچی تھی نہ تصویریں دیکھنی تھی ۔روح نے پر سکون سا جواب دیا تو اس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنی جیب سے یارم کا فون نکال کر اس کے حوالے کر دیا
جس پر ایروپلین موڈ لگا تھا یعنی کہ کوئی بھی اس نمبر پر فون نہیں کر سکتا تھا
میں اسے اپنے پاس ہی رکھ لوں جب تک یارم واپس آتے ہیں وہ اس سے پوچھنے لگی
میری جان تمہارا ہی تو ہے تم اسے رکھ سکتی ہو وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا مسکرا کر باہر نکل گیا
°°°°°
اسے جب سے یہاں لایا گیا تھااس پر کنٹرول کرنا بے حد مشکل ہو گیا تھا
کوئی بھی اسے کنٹرول نہیں کر پاتا تھا جس پر ڈاکٹر پریشان ہو کر اسے بار بار بے ہوشگی کا انجکشن لگا دیتے
زہر سے زیادہ پھیل جانے کی وجہ سے ڈاکٹر ویسے بھی اسے زیادہ دیر ہوش میں نہیں آنے دیتے تھے
جن لوگوں نے یار م پر حملہ کیا ان کا مقصد روح کو استمال کرنا تھا
خضر نے پوری بات اسے بتائی
اس سے پہلے کہ وہ لوگ روح تک پہنچتے یارم ان تک پہنچ چکا تھا لیکن اسے دیکھتے ہی وہ لوگ بوکھلا کر اس پر حملہ کرنے لگے
ان لوگوں نے پہلا حملہ اس کے پیٹ پر کیا تھا
جس میں ایک زہریلا اورنوکیلا چاقو وہ اس کے پیٹ کے اندر اتار چکے تھے
ان لوگ جن کو کسی بھی قیمت پریارم کو ختم کرنا چاہتے تھے اگر وہ گولی سے نہیں مرا تو زہر سے مر جائے گا اور اگر زہر سے نہیں مرا تو چاقو کی تکلیف سے مر جائے گا
وہ لوگ پوری پلاننگ کے ساتھ آئے تھے
چاقو لگتے ہی زہر اس کے جسم میں پھیلنا شروع ہو گیا لیکن تب تک روح وہاں پہنچ چکی تھی
وہ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے یارم کو اس حالت میں دیکھ کر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی یارم نے اسے وہاں سے جانے کے لیے کہا تھا لیکن وہ اس کی بات سن ہی نہیں رہی تھی اس کا دھیان صرف اور صرف یارم کے جسم پر لگے جگہ جگہ زخموں پر تھا
روح کی کنڈیشن کو وہ اسی وقت سمجھ چکا تھا
اسی لیے اپنی جان بچانے سے زیادہ ضروری تھا کہ وہ اس کی ذہنی حالت کو سمجھتا وہ ابھی ابھی نروس بریک ڈاؤن جسے میجر اٹیک سے نکلی تھی
اس کے لئے ایک چھوٹا سا جھٹکا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا اور یارم کو تو اس دنیا میں سوائے روح کی اور کسی کی پروا ہی نہیں تھی وہ اپنی پرواہ کئے بغیر روح کی طرف بڑھنے لگا جب ان سب نے اس پر حملہ کیا
بہت زیادہ چوٹ لگنے کی وجہ سے زوہ ن پر گرتا ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا تھا لیکن دھیان کے دھاگے اب تک روح سے بندھے ہوئے تھے
وہ اس کے سامنے بیٹھی حیران اور پریشان اسے دیکھے جا رہی تھی یقینا وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو چکی تھی
اس کے بے ہوش ہونے سے پہلے وہاں درک آپہنچا تھا
یارم نے اس سے کہا تھا کہ وہ روح کو بچائے
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے یارم کی مدد کی تھی اس نے مل کر ان سب کو یارم کے ساتھ مل کر جہنم رسید کیا تھا
جب تک وہ ہوش میں رہا اس نے وہ روح کو ہسپتال لے کر آیا تھا ڈاکٹر مسلسل اسکی منتیں کر رہے تھے کہ ایسی کسی بھی حالت میں اپنا علاج کروانا ہے ورنہ زہر اس کے پورے جسم میں پھیل جائے گا اور پھیل پھر گیا
اسے پرواہ تھی تو صرف اور صرف اپنی روح کی جو اس کے سامنے ایک بار پھر سے نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو چکی تھی
اس کے لیے ذرا سا جھٹکا بھی خطرناک تھا یہاں تو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے یارم کو مردہ دیکھنا اسکی تھی
یارم کاجسم اس کا چھوڑنے لگا تھا لیکن پھر بھی وہیں کھڑا رہا آپریشن تھیٹر کے اندر بھی اس نے روح کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا
حضر اور شارف 10 گھنٹے کی فلائٹ سے یہاں پہنچ چکے تھے
لیکن تب تک یارم کا پورا بدن انفیکشن کا شکار ہو چکا تھا
اور جس طرح زہر اس کے پورے جسم میں پھیلا تھا اسے ہوش میں رکھنا بھی خطرناک ہونے لگا
ہسپتال میں یارم پر دوسری بار حملہ ہوا کسی نے آخری اتارآکسیجن کر اس کی جان لینے کی کوشش کی
اور اس کے بعد پورے ہسپتال میں یہ خبر پھیل چکی تھی زہر پھیلنے کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی لیکن خضر رات کی خاموشی میں یارم کو اسپتال سے غائب کر سری لنکا بھیج دیا
سری لنکا کے معافیاکے ساتھ یارم کے بہت اچھے تعلقات تھے
اور اس وقت وہ صرف اور صرف ان ہی لوگوں پر بھروسہ کر سکتا تھا
لیلی اس کے ساتھ چلی گئی پھر روح کوکومہ سے ہوش نا آنے پر وہاں سے دبئی کے ہسپتال میں شفٹ کرچکے تھے
دبئی کے انڈر ورلڈ مافیا میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ ڈیول اب نہیں رہا اور اس کی جگہ خضر سنبھال چکا ہے
جبکہ یہاں سری لنکا میں یارم پر کنٹرول کرنا ہے ایک بے حد مشکل کام تھا اسے زیادہ تر بے ہوش ہی رکھا جاتا
کیوں کہ ہوش میں آنے کے بعد وہ بس ایک بھی بات کرتا کہ اسے اس کی روح چاہیے
اس کو سولہ دن تک ہوش نہیں آیا لیکن خضر نے لیلی کو فون کرکے بتایا تھا کہ وہ ہوش میں آ چکی ہے
اور درک نے اسے یارم کے زندہ ہونے کا بھی بتا دیا ہے
کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر روح کو یہ پتہ چلتا کہ یارم نہیں رہا تو یقیناً روح مر جاتی
°°°°
ڈاکٹر نرس اورگاڑز کا ہجوم اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا
اس کا چیخنا چلانا پورا ہسپتال سن رہا تھا جبکہ لیلی کچھ فاصلے پر کھڑی اس کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہی تھی
یارم پلیز میری بات سن لو میں کیا کہہ رہی ہوں
مجھے کچھ نہیں سننا مجھے میری روح چاہیے لیلی بتاؤ میرےپی روح ٹھیک ہے ورنہ میں سب کو جان سے مار ڈالوں گا
یارم پلیز ریلکس ہو جاؤ یہ کیا کر رہے ہو تم اسے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں سے ڈریپس اتارتا دیکھ کر لیلی نے سمجھانے کی کوشش کی
کچھ نہیں سننا مجھے کچھ نہیں سمجھنا مجھے بس میری روح چاہیے وہ چلایا تھا اس کے چلانے پر وارڈ بوائے تیزی سے آگے بڑھتا اسے انجیکشن دینے کی کوشش کرنے لگا
پچھلے سولہ دن سے مسلسل یہی تو ہو رہا تھا
وہ ہوش میں آتا تو پاگلوں کی طرح چیخنا چلانا شروع کر دیتا کہ اسے اس کی روح چاہیے
اور ڈاکٹرز اسے بے ہوشی کا انجکشن لگا کر خود پرسکون ہو کر اسے بے چین چھوڑ دیتے
اس سے پہلے کے وارڈ بوائے اسے انجیکشن لگاتا یارم کا ہاتھ اس کی گردن پر آ چکا تھا
تمہیں سمجھ نہیں آ رہا مجھے میری روح چاہیے
بتاؤ میری روح کہاں ہے ورنہ میں تمہاری جان لے لوں گا وہ پاگلوں کی طرح اس لڑکے کا گلا دبوچ رہا تھا یقین اور کچھ دیر میں نےسانسس چھوڑ دینی تھی
پلیز چھوڑ دو یہ مر جائے گا ۔لیلی اس کا ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب کہ اس کا یہ وحشی روپ دیکھ کر کسی کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی سامنے آنے کی
نرس اور ڈاکٹر بھی اسے چھونے پر گھبرا رہے تھے
یارم پلیز کنٹرول یورسیلف وہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے اسے ہوش آچکا ہے
وہ بالکل ٹھیک ہے یارم پلیز پرسکون ہو جاؤ
میں خضر سے بات کر چکی ہوں وہ ہوش میں آ چکی ہے وہ آہستہ آہستہ اس کی پیٹھ سہلاتی اسے لیے بیڈ کی جانب جا چکی تھی
یہاں بیٹھو آرام سے میری بات سنو
اسے خاموش اور پرسکون دیکھ کر لیلیٰ نے اسے پیچھے بیڈ پر بٹھایا
°°°°°°
اسے پرسکون دیکھ کر وہ اس کے قریب آ کر بیٹھی تھی وہ بالکل ٹھیک ہے یارم
مجھے اس سے ملنا ہے یارم نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا
مجھے میری روح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے وہ اب بھی ضد پر اڑا رہا تھا
ٹھیک ہے میں کبپچھ لر لوں گی پہلے تم ایک ماہ تک اپنا علاج کرواو
وہ ٹھیک ہے وہ اسے یقین دلا رہی تھی
اگر وہ ٹھیک ہے تو مجھے اس سے ملنا ہے دیکھنا ہے اسے
یارم جانتے ہو یہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے تم ایک بار ٹھیک ہو جاو۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کوئی پرواہ نہیں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں مجھے میری روح کو دیکھنا ہے بس بات ختم ۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوئی نہ کوئی حل نکالتی ہوں لیکن پلیز تم پرسکون ہو جاؤ دیکھو تمہارے سینے سے خون بہنے لگا ہے
تمہیں علاج کی ضرورت ہے ایک ماہ نہ ہی جیسٹ تھری ویکس تمہیں درد ہو رہا ہو گا اس کے گھورنے پر وہ وقت کم کر گئی
لیکن یارم کو پرواہ کہاں تھی
لیلی درد میرے سینے سے نہیں میرے دل میں ہے زخم یہاں لگے ہیں اپنی روح کو اس حال میں دیکھ کر
اس کی وجہ سے میری روح اس حال میں پہنچی کتنی مشکل سے نکالا تھا اس سے اس سب سے اور ایک بار پھر اس نے اسے وہیں پر پہنچا دیا میں ویلکسن میتھو کو نہیں چھوڑوں گا
اس نے میری روح کو تکلیف پہنچائی اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے میں اس کی جان لے لوں گا یا رم کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا
تم ایک بار ٹھیک ہو جاؤ یارم سب کچھ سنبھال لیں گے
بس کچھ وقت کی تو بات ہے
جب تک میری روح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتا میں ٹھیک نہیں ہوسکتا لیلیٰ
میں جانتا ہوں وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ہوش میں آ کر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یارم س کے پاس نہیں ہے
یارم تمہارا علاج ہو جائے آئی پرامیس جیسٹ ٹو ویکس ہم کوئی نہ کوئی حال نکال لیں گے میں سمجھ سکتی ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔
تم نہیں سمجھ سکتی لیلیٰ۔میری روح میرے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔وہ کسی سے کچھ شئر نہیں کرے گی وہ اپنی ساری باتیں مجھے بتاتی ہے
لیکن وہ کسی بھی قسم کی ضد نہیں کر رہی یار م وہ بالکل پر سکون ہے اس نے ایک بار بھی تم سے بات کرنے کی تم سے ملنے کی یا تم میں دیکھنے کی ضد نہیں کی لیلیٰ پھر سے سمجھانے لگی
وہ میری روح ہے لیلی وہ میرے علاوہ کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کرتی اپنی فرمائش اپنی باتیں وہ ساری ضد مجھ سے پوری کرواتی ہے
وہ تم میں سے کسی کو کچھ نہیں کہے گی کیونکہ اس کا یارم اس کے پاس نہیں ہے
تم نہیں سمجھ سکتی لیلی میری روح ٹھیک نہیں ہے
اسے ڈاکٹرز کی نہیں میری ضرورت ہے
اسے میرے پاس لے آؤ وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
ٹھیک ہے تم جو کہو گے میں کروں گی لیکن اس سے پہلے تمہیں میری بات مانی ہو گی تم دو ہفتے میرا مطلب ہے ایک ہفتے تک وہ کرو گے جو ڈاکٹر کہتا ہے
ہاں یارم تمہیں بس ایک ہفتے تک اپنا علاج صحیح طریقے سے کروانا ہوگا
ورنہ تم نہیں جا سکتے وہ اس کی سخت نظر سے گھبراتی وقت مزید کم کر گئی
تم میرے سامنے شرط رکھو گی مجھے بلیک میل کرو گی تو مجھے میری روح سے دور کرو گی اس کی بات پر یارم دہارا تھا
نہیں یارم میں تمہیں تمہاری روح سے دور نہیں کر رہی میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر تمہارا علاج ٹھیک سے نہ ہوا تھا تم ہم سے دور ہو جاؤ گے
میں تمہیں بلیک میل نہیں کرنا چاہتی لیکن میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے یہ تم شرط ہی سمجھ لو اگر تم نے ایک ہفتے تک اپنا علاج نہ کروایا اور میری بات نہیں مانی تو میں تمہیں روح کے پاس نہیں جانے دوگی
تم روک سکتی ہو مجھے اس کے لہجے میں عجیب سا طنز جو لیلی نے محسوس کیا تھا
میں نہیں روک سکتی لیکن یہ انجکشن روک سکتا ہے وہ اس کے قریب سے اٹھتے ہوئے اس کے بازو پر انجیکشن لگا چکی تھی
ایم سوری یارم پلیز مجھے معا ف کر دیناقسم سے مجھے تمہاری روح کے ماموں نے کہا تھا ایسا کرنے کے لئے ۔وہ کافی گھبرائی ہوئی اس سے دور فاصلے پر جاکر رکی تھی جبکہ یارم اسے وحشت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
میں تمہاری اور اپنی روح کے ماموں کی جان لے لوں گا تم دونوں میرے ہاتھوں مروگے یاد رکھنا وہ غنودگی میں جاتے ہوئے اسے دھمکی دے رہا تھا
اور اس کے بے ہوش ہوتے ہی لیلیٰ کو سکون ملا
سوری یار میں جانتی ہوں وہ تمہارے لئے اہم ہے لیکن تم ہمارے لئے ہم ہو
ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا
اس کی اس حرکت کے بعد یارم ہوش میں آنے کے بعد کافی پرسکون تھا وہ اس کی شرط کو مان چکا تھا اور اس کی بلیک میلنگ میں بھی آ چکا تھا
اب وہ ایک ہفتے سے اپنا علاج صحیح طریقے سے کروا رہا تھا ۔جبکہ لیلیٰ روح کے پل پل کی خبر اس تک پہنچا رہی تھی

وہ خضر کے گھر آ چکی تھی
حضر نے اسے وہی کمرہ دیا تھا جو اپنا گھر بنوانے کے بعد اس نے روح کے لیے بنوایا تھا
ویسے تو یارم اسے کبھی بھی کہیں رہنے نہیں دیتا تھا
آج ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی تھی
حضر کوئی غیر نہیں بلکہ اس کا سگا ماموں تھا لیکن اس کے باوجود بھی یارم کو پسند نہیں تھا کہ اس کی روح کہیں اور رہے
حضر نے کئی بار یارم کی منتیں کی تھی کہ وہ اسے ایک رات تو وہاں رہنے دے آخر وہ اس میکا ہے لیکن یارم بس اتنا کہہ کے بات ختم کر دیتاکہ میں اپنی روح کے بغیر نہیں رہ سکتا اور مجھے اپنے گھر کے علاوہ اور کہیں نیند نہیں آتی
اور پھر اس کی اس بات کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی حضر کو خاموش ہونا پڑتا کیونکہ یا رم کسی کی نہیں سنتا تھا
اور یہ وہ واحد بات تھی جہاں روح کی ضد بالکل کام نہیں کرتی تھی وہ صاف الفاظ میں بتا چکا تھا کہ اس کا کسی اور جگہ رہنا اسے پسند نہیں ہے
یقینا اگر آج یارم یہاں ہوتا تو وہ اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں رکنے دیتا
لیکن یارم یہاں نہیں تھا
اور یارم کے واپس آنے تک وہ کسی کو بھی اپنی وجہ سے تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی تھی
وہ جانتی تھی جتنی یہاں وہ بے قرار ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں وہ ہوگا اس سے ملنے کے لیے اسے دیکھنے کے لئے
وہ تو لیلیٰ کے حوصلے کو سوچ کر پریشان ہو چکی تھی جو روح کے بغیر یارم کو سنبھالنے کا فیصلہ کر کے گئی تھی
پتا نہیں وہ بے چاری کس حال میں ہو گی روح نے سوچتے ہوئے بیڈ کر ان سے ٹیک لگائی تو دھیان اپنے موبائل کی طرف چلا گیا اس نے فون اٹھایا تھا
اس کا پاس ورڈ روحِ یارم تھا ۔جو روح کے علاوہ خضر اورشارف بھی جانتے تھے لیکن ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ یارم کےموبائل کی کبھی بھی تلاشی لیتے
اسی لئے یارم نے بھی اپنے فون کا پاسورڈ چینج کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی
روح نے پاس ورڈ لگا کر فون اوپن کیا تو سامنے اس کی تصویر لگی تھی یہ تصویر اس دن کی تھی جب خضر کی مہندی کی رسم ادا ہوئی تھی
اور یارم نے خود اسے لپس ٹیک لگانے کی اجازت دی تھی ۔وہ دن یاد کر کے بے اختیار ہیں روح کے گال تپنے لگے
شرم و حیا سے اس کا برا حال ہو رہا تھا وہ نظریں چُرا رہی تھی جیسے یارم اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
کتنا خوبصورت وقت گزارا تھا اس نے یارم کے ساتھ ان کی شادی کو دو سال ہونے والے تھے
اور یار م شاید نہیں یقین دنیا کا بہترین ہسبنڈ تھا
اس سے پیار کرنے والا اسے چاہنے والا وہ خود بھی جانتی تھی چاہے یہ سب لوگ اسے کتنی بھی محبت کیوں نہ دے یا رم سے زیادہ پیاراس سے اور کوئی نہیں کر سکتا
اس کے سامنے بے شمار تصویریں تھیں سوئٹزرلینڈ کے مقامات پر لی گئی بہت ساری فوٹو
وہ اپنی تصویریں نہیں بناتا تھا
جہاں بھی جاتا اس کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف روح ہی ہوا کرتی تھی
اس کے موبائل میں بے شمار تصویریں تھی روح تو جانتی بھی نہیں تھی کہ یہ ساری تصویریں یارم نے کب بنائی
کچھ تصویروں میں وہ کچن میں کام کر رہی تھی کچھ تصویروں میں وہ سو رہی تھی
یسرم نے اس کی زندگی کے ایک ایک لمحے کو محفوظ کر رکھا تھا
وہ مسکراتے ہوئے آگے بھر رہی تھی
جب اس کے سامنے ایک تصویر آئی اسے یاد تھا پاکستان میں جب فاطمہ بی نے ان کی دوبارہ شادی کرنے کی بات کی تھی تو یارم سے اکیلے میں ملنے کے لیے گئی تھی اور یہ تصویر یارم نے ہوٹل کے اس کمرے میں بنائی تھی جس میں وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے
کتنا خوبصورت اور مکمل کپل تھا ان کا
تصویریں دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھی کتنے دن ہو گئے تھے اس نے اپنے یارم کو دیکھا تک نہیں تھا
وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن کب تک ہمت رکھتی
میں آپ کو بہت مس کر رہی ہو یا رم پلیز جلدی واپس آ جائیں آپ کی روح آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی
پلیز واپس آجائیں اس کی آنسوروانی میں بہہ رہے تھے ۔
یارم کا موبائل اس کے آنسوؤں سے بھیگ نے لگا تھا
جب دروازے پر دستک ہوئی اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے اور بے دردی سے آنکھیں بھی رگڑ ڈالیں کہ پتہ نہ چلے کہ وہ روئی ہے
°°°°°°
روح بیٹا میں نے چائے بنائی ہے پتا ہے تمہارے جتنی اچھی تو نہیں بنے گی لیکن گزارا کر سکتی ہو تم
وہ ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے مسکرایا
روح کی نظریں چرانے پر اپنی طرف نہ دیکھنے کی وجہ سے وہ بہت اچھے سے سمجھ چکا تھا
اسی لئے تو بنا کچھ بولے وہ ا سے چائے کا کپ تھامنے لگا
اچھی بنی ہے نہ اس کے چائے پیتے ہی خضر نے پوچھا تو روح نے فوراً ہاں میں سر ہلایا وہ واقعی بری نہیں تھی
دیکھا کتنی اچھی چائے بناتا ہوں میں لیکن تمہاری مامی نے قسم کھا رکھی ہے میرے ہر کام میں کیڑے نکالنے کی
وہ کہتی ہے کہ مجھے کوئی کام نہیں آتا ہے خاص کر چائے بنانے میں میں زیرو ہوں زیرو ہوں میں کیا اتنی اچھی چائے بنائی ہے میں نے میری روح کو بھی پسند آئی
وہ کافی جوش سے بولا تھا روح کی حوصلہ افزائی نے اسے خوش کر دیا تھا
لیکن پھر کچھ ہوا خضر کے ہاتھ رک گئے
اووووو شٹ مر گیا میں ۔۔۔وہ ماتھے پے ہاتھ مارتا خاصا پریشان لگا تھا
کیا ہوگیا ہے ماموں آپ اتنے پریشان کیوں ہو گئے ہیں سب ٹھیک تو ہے روح کو پریشانی ہونے لگی
کچھ ٹھیک نہیں ہے روح میں نے لیلی کو فون کرنا تھا اب تک تو تمہارا یارم اس کا قیمہ بنا چکا ہوگا۔۔وہ اپنا فون لیے باہر کی طرف بھاگا تھا جبکہ اس کی آخری بات پر روح کو ہنسی آگئی
وہ سہی کہہ رہا تھا روح کے علاوہ اس کے یارم کو اور کوئی سنبھال نہیں سکتا تھا۔
°°°°°
حضرباہر آیا تو اس نے ایک بات بہت شدت سے نوٹ کی تھی اس نے یارم کا نام بھی نہیں لیا
وہ جانتی تھی کہ لیلی سے بات کرنے والا ہے ممکن تھا کہ اس کی بات یارم سے ہو جاتی
لیکن اس نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وہ یارم سے بات کرنا چاہتی ہے
وہ اتنی پرسکون کیسے ہو سکتی ہے یہ ایک بات خضرکو پریشان کر رہی تھی
یارم نے کہا تھا اس کی روح بہت بہادر ھے اسے بہادر بنانے کی ضرورت نہیں ۔اگر یارم اس کے ساتھ نہیں ہوگا تو وہ ہر چیز کا مقابلہ خود کر لے گی ۔اور جب تک اس کے ساتھ یا رم ہے وہ ایسی کسی چیز کو سہننے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔
ہاں اگر یارم نہیں رہا تو بھی نہیں رہے گی
یارم کی وہ بات وہ آج سمجھا تھا
وہ سچ میں بہادر تھی تو یارم کی غیر موجودگی میں اتنی بہادری سے حالات کا مقابلہ کر رہی تھی
سب کہتے تھے کہ یارم کی محبت نے اسےبہت زیادہ ضدی اور شرارتی بنا دیا ہے لیکن آج خضر کو سمجھ ایا تھا
کہ وہ ضدی تھی شرارتی تھی اپنی من مانی کرنے والی بھی تھی لیکن صرف اور صرف یارم کے سامنے ۔وہ جو بھی تھی اپنے یارم کے لیے تھی
یارم کے بغیر تو ایک پرسکون سلجھی ہوئی لڑکی تھی جوزندگی کے ہر حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتی ہے
°°°°°
اس نے لیلیٰ کو فون کیا تو پہلی گھنٹی پر ہی اس نے فون اٹھا لیا تھا
کہاں مرے پڑے تھے یہاں مجھے شیر کے پنجرے میں چھوڑ کر وہ انتہائی غصے سے بولی
آئی ایم سوری یار میں روح کے لیے چائے بنا رہا تھا اب واپس آیا ہوں تو تمہیں فون کیا بتاؤں یارم نح تمہاری بات مان لی
حضرنے اپنے مطلب کی بات پوچھی
ہاں مان لی ہے لیکن ایک مہینے کے لئے نہیں بلکہ صرف ایک ہفتے کے لیے
بیوقوف لڑکی اسے ایک مہینے اور ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے اس کے مکمل بات سننے کے بعد خضر نے کہا تھا
وا واہ واہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ مہرے پیارے پتی دیو آپ مجھے وہاں بلائیں اور آپ خود یہاں تشریف لے آئیں جب سر پر ہر وقت موت کی تلوار لٹکی ہوئی ہوگی نہ تب تمہیں میری قدر ہوگی
یہاں وہ کسی جنگلی چیتے کی طرح ہر وقت میرا شکار کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ میں اسے ایک مہینے کے لئے بلیک میل کروں
میں اسے یہ کہوں کہ میں تمہیں تمہاری روح سے نہیں ملنے دوں گی جب تک تم ایک مہینے تک اپنا ٹریٹمنٹ نہیں کرواتے
اور پھر پتہ ہے کیا ہوگا یارم کاظمی کا بلیٹڈ میری جان پر چلے گا
خود تو جا کر وہاں آرام سے چائے پی رہے ہو نا
میں یہاں ہر وقت اس کی نیلی آنکھوں کی گھوریاں برداشت کر رہی ہوں
ایک نظر دیکھتا ہے میری تو جان ٹکنے لگتی ہے
لیکن خضر مجھے میری پرواہ نہیں ہے مجھے بچے کی پرواہ ہے یہ نہ ہو کہ میرا معصوم بچہ اندر ہی کہیں ڈر جائے۔پلیز مجھے واپس بلا لو اور خود یہاں آجاؤ مجھے اس خونخوار شیر سے بہت ڈر لگتا ہے وہ دہائیاں دے رہی تھی
لیلی یار اوور ایکٹنگ بند کرو میں تمہیں جو کہہ رہا ہوں اس پر غور کرو ۔
اسے کسی بھی طرح ایک مہینے کے لئے منا لو
اور اسے کہو کہ روح کے لیے وہ بالکل فکر نہ کرے میں ہوں نہ اس کے پاس میں اس کا بہت خیال رکھوں گا اس کی ہر بات مانوں گا
خضر اسے یقین دلارہا تھا
میں جانتی ہوں خضر لیکن یار م کا کہنا ہے کہ ہر وہ اس کے علاوہ اور کسی کے سامنے اپنے دل کی بات نہیں کہے گی یہ نہ ہو کہ وہ اپنے ذہن میں چلنے والی ٹینشن کو اپنے تک کررکھ کر ذہنی دباؤ کا شکار ہو جائے
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہفتے تک یار م اپنا علاج سہی طریقے سے کروائے گا تو ہم اس کی روح سے بات کروا دیں گے ۔اور اگر یار م نے ذرا سی بھی ضد کی تو انجیکشن ہر وقت میرے پاس تیار رہتا ہے
بس اسے لگانے کی ہمت آ جائے میرے پاس ۔
چلو ٹھیک ہے تمہیں ٹھیک لگے یارم کا بہت سارا خیال رکھنا اور اسے کہنا کہ روح یہاں بالکل ٹھیک ہے اور اپنا بھی خیال رکھنا خضر نے بات ختم کرتے ہوئے کہا
بہت شکریہ خضر صاحب آپ کو میرا خیال بھی آگیا
یار ایسا تو مت کہو ہر وقت تمہارا خیال رہتا ہے آئی ریلی مس یو یار وہ دل سے بولا تھا
پتا ہے ۔۔۔مجھے نہیں اپنے ہونے والے بچے کو مس کر رہے ہو اب وہ نخرےدکھانے پر اتر آئی تھی
اتنی دور بیٹھی ہو تمہاری تعریف میں زمین آسمان ایک نہیں کرسکتا واپس آ جاؤ ایک بار سب ٹھیک ہو جائے پھر اتنی تعریفیں کروں گا کہ چاند خود زمین پر آکر کہے گا ۔بس کر دےبھئی زمین پر تعریفوں کی کتابیں ختم ہوگئی ہیں وہ لب دباکر شرارت سے کہتا لیلی کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا
اور یارم کے کمرے کی طرف قدم برھاتی لیلیٰ اپنے آؤٹ آف کنٹرول ہوتے قہقے کو نہ پر ہاتھ رکھ کر بند کرنے لگی کیونکہ یارم اسے سخت نظروں سے گھور رہا تھا
°°°°°
اس وقت اسے کوئی بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا
مجھے میری روح سے دور کرکے تم سکون سے اپنے میاں کے ساتھ قہقے لگا رہی ہو پہلے تو میں تمہیں قتل کروں گا
وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہنے لگا لیکن لیلیٰ پر سکون سے ہو کر صوفے پر بیٹھی تھی کیونکہ یارم نہیں اٹھ سکتا تھا کیونکہ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی تھی اور یہ کام اس کی بے ہوشی میں لیلیٰ نے ہی کیا تھا
آئی ایم سوری یارم میں جانتی ہوں میں نے بہت غیر اخلاقی حرکت کی ہے لیکن میں مجبور تھی مجھے تم پر بالکل یقین نہیں ہے تم کبھی بھی میرا قیمہ بنا سکتے ہو اسی لئے مجھے یہ حرکت کرنی پڑی
وہ غصے سے اسے گھورتا رہا
کیسی ہے میری روح وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے پوچھنے لگا
خضر ابھی اسے چائے دے کر آیا تھا وہ ٹھیک تھی اسنے تمہارا فون اپنے پاس رکھ لیا ہے اب کیوں رکھا ہے میں نہیں جانتی لیکن مجھے شارف نے بس یہی بتایا تھا کہ تمہارا فون اب اس کے پاس ہے
وہ مجھے مس کر رہی ہے ۔وہ بیڈ پر دوبارہ بیٹھتے ہوئے مایوسی سے بولا
تم ٹھیک ہو جاؤ گے تو اس کے پاس واپس چلے جاؤ گے
وہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہتی آہستہ آہستہ چلتی اس کے پاس آئی تھی جب یارم نے اپنا ہاتھ آگے کیا لیلیٰ نہ سمجھی تو اپنا ہاتھ اس کی ہتھیلی پر رکھ چکی تھی
جب یارم نے ہتھکڑی اپنے ہاتھوں سے اتار کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی
یارم یہ کیسے کیا تم نے وہ صدمے کی کیفیت میں پوچھنے لگی
دنیا مجھے ڈیول یوں ہی نہیں کہتی لیلیٰ یہ لوہے کی زنجیر مجھے میری روح کے پاس جانے سے روک نہیں سکتی
لیکن میں پھر بھی تمہاری شرط پوری کر رہا ہوں تو اس بدتمیزی کا مطلب کیا تھا وہ انتہائی غصے سے پوچھنے لگا جبکے لیلی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کہے بس اپنا ہاتھ یارم کے ہاتھ سے اٹھاتے ھتکھری لیے باہر بھاگ گئی تھی
اور کمرے کو بھی باہر سے بند کر دیا تھا جبکے یارم تو بیڈ سے اٹھابھی نہ تھا
یا اللہ یہ بندہ میری جان لے لے گا تو میں کیا کروں ہم مصیبت میں ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ ڈیول ہمیں بچا لے گا اب تو ڈیول ہی مصیبت ہے اب کون بچائے گا ہمیں وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ایک تو اس بندے کی نظریں اس سے ہینڈل نہیں ہو رہی تھی اور اوپر سے وہ ضرورت سے زیادہ چالاک تھا
°°°°°°
ایک ہفتے سے بیڈ پر پڑا اس کا برا حال ہو رہا تھا لیکن پھر بھی وہ صبر سے اپنا ٹریٹمنٹ کروا رہا تھا
ڈاکٹر اس کے پاس آنے سے گھبراتے تھے کیونکہ پہلے کچھ دنوں میں وہ جس طرح سے اس کی تنگ کر چکا تھا ڈاکٹر کو بھی اپنی جان پیاری تھی
لیکن اب جب ڈاکٹر اس کے پاس آتے وہ خود ہی اپنا ہاتھ آگے کر لیتا اور کہتا لگاؤں انجیکشن اور جان چھوڑو میری تمہاری شکل مجھے پسند نہیں ۔کیونکہ وہ اردو میں کہتا تھا اس لئے ڈاکٹرز اسکی بات کو بالکل بھی نہیں سمجھتا بس مسکرا کر اپنا کام کرتا اور چلا جاتا
آج ہفتے کا آخری دن تھا اور اپنے وعدے کے مطابق لیلی کو روح سے ملوانا تھا
لیکن وہ ابھی تک ٹھیک نہیں تھا وہ روح کو اگر وہاں سے غائب کرتے تو لوگوں کو شک ہو سکتا تھا اور پھر کے روح کے زریعے یارم کہاں ہے یہ بات وہ پتابھی لگا سکتے تھے
°°°°
السلام علیکم صارم بھائی کیسے ہیں آپ آئہیں بیٹھیے اس کی اجری حالت دیکھ کر روح کو بہت افسوس ہوا تھا جب کہ وہ خاموشی سے اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اس کے پیچھے خضر اندر داخل ہوا تھا شارف یہاں پہلے سے ہی موجود تھا
آج معصومہ بھی شونو کو لے کر ان کے پاس آ چکی تھی
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ۔وہ صوفے پر بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا اسے کہیں سے بھی اد اس نہیں لگ رہی تھی
صارم کو جھٹکا لگا تھا اس کے شوہر کو مرے ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا کہ وہ اس کے سامنے ڈارک بلیو سوٹ میں بیٹھی بےحد پرسکون بات کر رہی تھی
مجھے کیا ہونا ہے بھلا میں بالکل ٹھیک ہوں روح نے سادگی سے جواب دیا
شارف نے اسے گھورتے ہوئے اسے کچھ سمجھانا چاہا جس کو سمجھ کر روح نے سر پہ ہاتھ دے مارا
مجھے یارم کا بہت افسوس ہے روح وہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتا بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی شارف کو ہنسی آگئی
خضر نے ناگوا سی نظر ڈالی تھی
وہ میرا بچپن کا دوست تھا مجھے یقین نہیں آرہا روح میرا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا صارم کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر روح کو اس پر ترس آنے لگا وہ چاہتی تھی کہ بتا دے یارم بالکل ٹھیک ہے اور اپنا علاج کروا رہا ہے لیکن خض اور شارف نے اسے منع کر رکھا تھا اور اب تو اسے یار! کی قسم بھی دے ڈالی تھی
ہاں لیکن اس کے باوجود بھی روح سے ڈرامہ نہ ہوسکا وہ اپنی زبان سے یہ لفظ نہ کہہ سکیں کہ اس کا یارم نہیں رہا
حوصلہ رکھے بھائی ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا اسے صبر دلانے کے لیے روح کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے صارم کا اس طرح سے رونا اسے بے حد پریشان کر گیا تھا
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ چلا گیا اور اس کے جاتے ہیں شارف کے وہ قہقے پھوٹے جو دو گھنٹے تک کنٹرول میں نہ آئے
بے چارہ بے وقوف انسپکٹر حال دیکھو بیچارے کا یار مجھے تو اتنی ہنسی آ رہی ہے
اسے ہنسی نہیں ترس کہتے ہیں خضر نے اس کی بات کاٹی
نہیں ہمیرے دوست اسے ہنسی ہی کہتے ہیں کیونکہ مجھے ہنسی ہی آ رہی ہے وہ انسپیکٹر میرا جینا حرام کر کے رکھتا تھا اور اب خود رو رہا ہے
کتنے افسوس کی بات ہے شارف بھائی وہ اتنے پریشان ہیں اور آپ اس طرح سے کہہ رہے ہیں ۔آنسو وہاں کلتے ہیؓ جہاں محبت ہو وہ محبت کرتے ہیں یارم ست اسی لئے تو اتنے اداس ہیں
تو پھر تم اداس کیوں نہیں ہو میری جان کیا تمیارم سے محبت نہیں کرتی وہ اسکے سامنے الٹی کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور پھر وہ سوال پوچھ ڈالا جو کتنے دنوں سے اس کے دل میں تھا اس کا یارم موت کے اتنے قریب تھا اور وہ اتنی پرسکون کیسے
شارف بھائی ضرور ی نہیں کہ محبت کا اظہار آنسو بہا کر ہی کیا جائے
محبت کا اظہار انتظار کرکے بھی کیا جا سکتا ہے میں چاہتی ہوں کہ جب میرے یارم واپس آئیں تب ان کی روح ان کو ٹوٹی پھوٹی نہ ملے بلکہ ان کی روح ویسی ہی ہوجیسی وہ چھوڑ کر گئے ہیں زندہ دل ضد شرارتی خود سر لیکن صرف اپنے یارم کے لیے
وہ بے حد سکون سے کہتی مسکراتی اس کے پاس سے اٹھ کر اندر جا چکی تھی
اور کوئی سوال شارف صاحب خضر سینے پہ ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے بولا
اب سوال نہیں جواب ۔۔۔ جواب یارم تک پہنچانا ہے وہ اپنا موبائل سامنے کرتا مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا تھا جبکہ اس کے پیچھے خضر مسکراتا ہوا روح کے کمرے کی جانب چلا گیا
دل نشین بہت اچھا شخص تھا اور یارم کا کافی خیال بھی رکھ رہا تھا
اس کا تعلق سری لنکا سے تھا
اور وہ سری لنکا کے مافیا کا ڈان تھا اس کے کچھ عادتیں یارم سے ملتی تھی جیسے ظلم کے خلاف قدم اٹھانا اور ظالموں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچانا بس یہی وجہ تھی کہ یارم کے ساتھ اس کی دوستی اب تک چل رہی تھی
اب تک یارم جتنے بھی انڈرورلڈ کے کنگ کو جانتا تھا
دلنشین سب سے الگ تھا اس نے بھی اپنی زندگی میں بہت کچھ سہا تھا اور اب ظالموں کے خلاف لڑتے لڑتے وہ خود ایک ظالم ڈون بن چکا تھا
لیلی اور یارم کو ان کی طرف سے کافی اہمیت مل رہی تھی
دل نشین خود نہ جانے کتنی بار یارم کو دیکھنے اسپتال جا چکا تھا اور روح کے لئے اس کی دیوانگی بھی سمجھ چکا تھا اس کے دل میں ایک بار روح سے ملنے کی خواہش ضرور جاگی تھی
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اس لڑکی میں ایسا کیا ہے کہ یار م اس حد تک پاگل ہے اس کے لیے
لیلیٰ یارم کے ساتھ ہی رہتی تھی لیکن ہوش میں آنے کے بعد یارم نے کہہ دیا کہ وہ اب سے الگ جگہ پر رہے گی دن میں وہ جب چاہے اس کے کمرے میں آ سکتی ہے لیکن رات میں یارم کے ساتھ ایک ہی کمرے میں نہیں رہے گی
لیلیٰ کو یہ بات عجیب تو لگی تھی لیکن پھر وہ اس کا مطلب بھی اچھے سے سمجھ گئی ۔اگر رات ساری اس کے کمرے میں رہتی تو جاگتی رہتی اور وہ پریگنیٹ تھی یارم نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے لیلیٰ کو کسی بھی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے
لیلیٰ تھوڑی دیر پہلے یارم کے ہی کمرے میں تھی وہ اس سے روح کے بارے میں باتیں کرنے لگی
یارم پہلے تو کافی دیر برداشت کرتا رہا لیکن لیلیٰ کا یہ کہنا کہ روح ٹھیک ہے اور وہ اسے مس بی نہیں کر رہی
یارم کو جلا کر رکھ گیا اس کی روح کے دل کا حال اس کے سے بہتر کیسے جان سکتی تھی یارم کی سرد اور وحشتناک گھوریوں سے گھبرا کر لیلیٰ نے اپنے کمرے میں آنا ہی بہتر سمجھا
لیکن کمرے میں آنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس کا موبائل اس کے پاس نہیں ہے
کہیں وہ یارم کے پاس تو نہیں چھوڑ آئی
وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے واپسی کی راہ لینے ہی لگی تھی کہ ایک بار پھر سے یارم کا غصے سے بھرپور چہرہ اس کی نظروں کے سامنے گھوما لیلیٰ ڈارلنگ تمہیں تمہارا موبائل صبح بھی مل سکتا ہے لیکن اس وقت اس شیر کے منہ میں ہاتھ مت ڈالو ورنہ سب سے پہلے وہ تمہیں چیڑ کر رکھ دے گا
وہ خود سے برابڑ تے ہوئے خاموشی سے آکر اپنے نرم و ملائم بستر پر لیٹ گئی ۔
اسے موبائل سے زیادہ اپنی جان عزیز تھی
°°°°°
یارم کا فون کب سے بج رہا تھا وہ کافی دیر سے سکرین کی طرف دیکھتی رہی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ فون اٹھائے یا نہ اٹھائے اس وقت کال موبائل پر نہیں بلکہ کے واٹس ایپ نمبر پر آ رہی تھی۔اس نے نیٹ آف کر دیا اور پھر موبائل پر کال آنے لگی
موبائل میں نمبر سیو نہیں تھا اس لیے فون کون کر رہا تھا روح کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
لیکن جس شدت سے فون بج رہا تھا روح کو لگ رہا تھا کہ اسے اٹھا لینا چاہیے کیونکہ دوسری طرف موجود شخص کافی بےچین لگ رہا تھا
میں فون ماموں کو دے آتی ہوں اس نے سوچتے ہوئے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے ڈھائی بجے جا رہی تھی
نہیں ماموں کو اس وقت جگا نا سہی نہیں لگتا بیچارے سارا سارا دن یارم کی جگہ کام سنبھالتے ہیں اور اس کے علاوہ میرا خیال رکھتے ہیں یہ سہی وقت نہیں ہے
روح کو یاد نہیں تھا کہ اس نے فون سے ایروپلین مود ہٹایا ہو یا شاید اس نے غلطی سے ہٹا دیا ہو لیکن جو بھی تھا اس کی سزا وہ اس وقت فون سکرین پر نظریں جمائے بھگت رہی تھی
اس وقت وہ موبائل سکرین اپنی اور یارم کی ان تصویروں میں کھوئی ہوئی تھی جب سے یارم اس کے قریب نہیں تھا نیند تو اسے ساری رات نہیں آتی تھی ۔
اور اب بھی یہی حال تھا نہ اسے نیند آ رہی تھی اور نہ ہی کال کرنے والا اسے سانس لینے دے رہا تھا
ایک دو بار تو دل چاہا کہ موبائل آف کر دے
لیکن موبائل آف کرنے کے بعد اسے سکون نہیں تھا کیونکہ ابھی وہ ساری تصویریں دیکھنا چاہتی تھی اور اگر موبائل آف کردیا تو ان کی یادیں بھی اندھیرے میں ڈوب جائیں گی
اخر تنگ آ کر اس نے فون اٹھا ہی لیا لیکن دوسری طرف سے سننے والی آواز نے اسے ساکت کر دیا
°°°°
روح۔۔۔۔یارم کی بے چین سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی
سو رہی تھی کیا کب سے فون کر رہا ہوں میں ۔میرے بغیر اچھی نیند آنے لگی ہے
کہ میرا نام ہی نہیں لے رہی تھی جانتی ہو لیلی کو فون چرآیا ہے میں نے زندگی میں پہلی بار چوری کرکے تم سے بات کر رہا ہوں اور تم نیند میں مگن ہو یہ تو غلط بات ہے میری جان کیا جانتی نہیں ہو تمہارا یارم کس قدر بےقرار رہا ہے تمہارے بغیر
اس کے الفاظ میں بے حد بے چینی تھی روح کا پورا وجود کان بنا ہوا تھا وہ اسے سن رہی تھی اپنے یارم کو آج تین ہفتے کے بعد اس کی دیوانگی سے بھرپور آواز اس کے کانوں میں پر رہی تھی
وہ اس کے بنا تڑپ رہا تھا بے چین تھا
اب کیا منہ میں دہی جمع کر بیٹھ گئی ہو بولو کچھ میرے کان ترس گئے ہیں تمہیں سننے کے لیے جانتا ہوں تمہارا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے تم بھی تڑپ رہی ہو مجھ سے ملنے کے لیے بے چین ہویکن اپنی آواز تو سناؤ
تاکہ مجھے زیادہ سکون آئے ۔
میں آ رہا ہوں روح تمہارے پاس میں نہیں کر سکتا یہ سب کچھ مجھ سے نہیں رہا جاتا تمہارے بغیر بس ایک بار اپنی آواز سناؤ بتاؤ مجھے کہ میرے لیے تم بھی اتنی ہی بے چین ہو میرے بغیر تم بھی نہیں رہ سکتی نا
ارے بھاڑ میں گیا علاج مجھے میری روح چاہیے ایک بار اپنی آواز تو سناؤ اب کیا میری تڑپ سن کر اور تڑپانے کا ارادہ ہے کیا میری بے چینی دیکھ کر تمہیں مزہ آ رہا ہے
وہ ہر بات کے بعد انتظار کرتا کہ وہ کچھ بولے گی لیکن وہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی اور پھر یارم کی سماعت سے بس ایک آواز ٹکرائی
ٹون ٹون ٹوں روح فون بند کر چکی تھی وہ اپنے یارم سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی اپنی دھڑکن کی تو دور اس نے اپنی بے چین سانسوں کا روح بھی یارم کی جانب نہ کیا
اس کی روح اس سے بات نہیں کی غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا وہ موبائل کی سکرین پر دیکھتا انتہائی جارحانہ انداز میں اس موبائل کو دیوار پر مار چکا تھا
اس کی بے چینی اس کی تڑپ کو سمجھنے کے باوجود وہ کچھ نہیں بولی
وہ کس طرح سے رہ رہا ہے یہاں کس درد سے گزر رہا ہے یہ جاننے کے باوجود بھی اس نے اس کی بے چینی اس کی تڑپ کو راحت نہ پہنچائی غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ہر چیز کو تہس نہس کر دے اور ہسپتال کے اس کمرے کا نقشہ تو وہ اگلے دو منٹ میں ہی بگاڑ چکا تھا
°°°°
کچھ ٹوٹنے کی آواز پر ڈاکٹر سے بھاگتے ہوئے کمرے کی جانب آئے تھے اور اس سے اس طرح سے ایک بار پھر جنونی روپ میں دیکھ کر وہ گھبرائے
تین چار کمپاؤنڈر اسے قابو کرنے کے لیے آگے بڑھنے لگے لیکن اس کا غصہ سوا نیزے پر تھا جو بھی اس کے قریب بات بری طرح سے پیٹ جاتا
جب ایک ڈاکٹر نے خوشیاری دکھاتے ہوئے پیچھے سے یارم کے کندھے پر بے ہوشی کا انجکشن لگا دیا
لیکن بے ہوش ہونے سے پہلے پہلے وہ ایک لڑکے کی گردن کو پکڑ چکا تھا
اور اس کا اندازہ اتنا شدت سے بھرپور تھا کہ ہر کوئی اسے چھڑوانے کی کوشش میں مگن تھا لیکن کوئی بھی یارم کی گرفت سے اس کی گردن کو آزاد نہیں کروا رہا تھا
ایک ڈاکٹر نے ایک اور انجیکشن کا آرڈر دیا
سر یہ خطرہ ہو سکتا ہے نرس نے سمجھانا چاہا
اس وقت یہ آدمی ہمارے لئے خطرہ بنا ہوا ہے جاو انجکشن لاو ورنہ یہ ہم سب کو جان سے ماردے گا اور یہ انجکشن والی بات اس لڑکی کو پتہ نہ چلے
ایک تو پہلے ہی ڈاکٹرز بہےپت کم مقدار میں اس کے جسم سے زہر ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس زہر کا الٹا اثر ہو رہا تھا یارم کو جس بات پر غصہ آتا ہے پھر وہ اس بات کے لئے پاگل ہونے لگتا ۔
اور اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا تھا دوسرے انجکشن نے اثر دکھایا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ ہوش و حواس سے مکمل بیگانہ ہو چکا تھا
ڈاکٹر نے اس وقت لیلی کو کچھ بھی بتانے سے منع کردیا ۔یہ ان کے لیے خطرے کی بات تھی کیونکہ وہ ایک ٹائم پر دو انجکشن دے چکے تھے
آج پورے ایک ہفتے کے بعد دوبارہ اس کی حالت ہوئی تھی جیسے پہلے دن تھی وہ کچھ دنوں سے بہت اچھے سے ریکور کر رہا تھا لیکن اب ایک بار پھر سے اس کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی جو اس کے لئے بہت خطرہ ہو سکتی تھی
کیوں کہ جس چیز کا زہر اس کو دیا گیا تھا اس کے لیے اس کے پورے جسم کو کاپریٹ کرنا تھا ۔
اور خاص کر اس کے دل اور ذہن کو اگر اس کا دل اور دماغ اس کی باڈی کا ساتھ نہ دے تو اس کے جسم سے اس زہر کی مقدار کو ختم کرنا بے حد مشکل تھا
پچھلے ایک ہفتے میں یارم نے ففٹی پرسنٹ ریکور کر لیا تھا لیکن آج کی اس حالت دیکھنے کے بعد ڈاکٹرز پھر سے پریشان ہوگئے تھے
انہیں اپنی ساری محنت بےکار ہوتی نظر آ رہی تھی
کیونکہ وہ ففٹی سے دوبارہ زیرو پر جا چکا تھا
°°°°°°
خضر کمرے میں آیا تو روح کو بیڈ پرر بیٹھے بیٹھے سوتے دیکھا شاید وہ رات بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی اس کے ہاتھ میں اب بھی موبائل موجود تھا
جبکہ چہرے پر آنسو کے نشان تھے اس نے جھک کر اسکی پیشانی کو چوما اور موبائل اس کے ہاتھ سے لے کر باہر آگیا
لیکن اوپر سکرین پر لیلیٰ کے موبائل سے اسے بے حد کال ظاہر ہوئی تھی
یہ نمبر لیلیٰ کا وہاں پر لیا گیا تھا اسی لئے یارم کے فون میں یہ نمبر سیو نہیں تھا
لیکن لیلی اس سے بار بار فون کیوں کر رہی تھی پھر اس نے چیک کیا ایک کال اٹینڈ کی گئی تھی جس میں بارہ منٹ تک بات کی گئی
اس نے یار م کے ہی فون سے لیلی کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن فون نہ لگا بار بار کوشش کے باوجود بھی فون نہ لگا تو وہ اپنے موبائل سے کوشش کرنے لگا لیکن اس بار بھی فون نالگ سکا
اس وقت تو لیلیٰ یارم کے ساتھ ہوتی ہے تو اس نے فون کیوں بند کیا ہوا ہے خضرکو پریشانی ہونے لگی
اس لیے اب اس نے سیدھا دل نشین کو کال کی تھی
خضر یار میں تو صبح سے ہسپتال گیا نہیں کچھ ضروری کام سرانجام دے رہا تھا لیکن اب تھوڑی دیر میں جانے والا ہوں وہاں پہنچ کر تم سے تفصیلی بات کروں گا دلنشین نے مختصر سی بات کرکے فون بند کر دیا
دو گھنٹے مزید گزر گئے اور پھر اسے سری لنکا کے نمبر سے فون آیا
لیکن لیلیٰ کا فون بھی ہو سکتا تھا
یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس کا فون گم ہو گیا ہو یا خراب ہو گیا ہوں اس نے جلدی سے فون اٹھا لیا
خضر بہت گربڑ ہو گئی ہے یارم کہیں غائب ہوگیا ہے
میں ہر جگہ دیکھ چکی ہوں لیکن یارم کہیں پر نہیں ہے اللہ اس کی حفاظت کرے نہ جانے کہاں نکل گیا ہے اس نے میرا فون بھی رات کو توڑ دیا ڈاکٹرز بتا رہے ہیں کہ اس کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی
اور وہ رات کو بے حد غصے میں تھا خضر کچھ کرو لیلی بہت بے چین تھی
لیلی تم ٹینشن مت لو میں کچھ کرتا ہوں تم پریشان مت ہولوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا وہ اسے سمجھانے لگا
وہ لیلی کو بھی کوئی ٹینشن نہیں دے سکتا تھا کیونکہ اس کی حالت پہلے ہیں ڈاکٹر کیرٹکل بتا رہا تھا
فون رکھنے کے بعد اس نے اعتبار میں موجود ہر بندے کو فون کر ڈالا
°°°°°
ہمیں روح کو بتا دینا چاہیے
تین دن ہو چکے ہیں یارم کو غائب ہوئے نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا کہاں ہوگا
ہمیں رخوحسے نہیں چھپانا چاہیے شارفبے حد پریشان تھا جبکہ خضر سری لنکا جا چکا تھا
اس نے روح کو نتانے کی بات کی تو اس نے منا کر دیا
اس کے یہاں آنے کے بعد دلنشین نے لاعلمی کا اظہار کردیا وہ نہیں جانتا تھا کہ یارم کہاں چلا گیا ہے
اور اس کے غائب ہونے کی خبر اس نے روح کو نہیں دی تھی
خضر نے روح ہی بتایا تھا کہ یارم ایک ہفتہ علاج کے لیے مان چکا ہے۔اور ان لوگوں نے اس کے سامنے شرط رکھی ہے کہ وہ سے اس کی بات کروا دیں گے
لیکن اب وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ روح کی آواز سنتے ہی یارم اس سے ملنے کے لیے بے چین ہو جائے گا اور جب تک یارم بالکل ٹھیک نہ ہو جائے وہ اسے واپس لانے کی غلطی نہیں کر سکتے تھے
یار م سخت سے سخت چوٹ پر بھی بالکل نارمل رہتا تا کے روح پریشان نہ ہو۔کیونکہ اس کے ہسپتال جانے پر روح بے چین ہوجاتی تھی اور یارم اسے اپنے لئے تڑپتے نہیں دیکھ سکتا تھا
لیکن اب معاملہ کچھ اور تھا روح نے خود اسے تڑپنے پر مجبور کر دیا تھا اور اب اس تڑپ کی تپش کس کس کو نقصان پہنچائے گی یہ کوئی نہیں جانتا تھا
°°°°°
وہ جنگل میں ایک بہت بری لکڑی سے الٹا بندھا ہوا تھا
دونوں طرف درخت موجود تھے اور اس لکڑی کو انہیں دوختوں کے سہارے کھڑا کیا گیا تھا جب کہ نیچے آگ جل رہی تھی
اور آگ کے اوپر بڑے سائز کے چاقو رکھے ہوئے تھے
وہ پچھلے تین دن سے بھوکا پیاسا اس ڈنڈے پر لٹکا اپنے جسم کو جلتا ہوا محسوس کر رہا تھا
اور وہ اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا تھا
ایک ایک سیکنڈ کی اذیت کسی جہنم سے کم نہیں تھی
اب تو چلا چلا کر کے منتیں کر کر کے گلے سے آواز نکلنا بھی بند ہو چکی تھی
اور آگ کے تھوڑے سے فاصلے سے بیٹھا وہ شخص شان نیازی سے چکن کیوبز کا مزا لے رہا تھا
تم چپ کیوں ہو گئے کیا تمہیں سمجھ نہیں آیا میں نے کیا کہا چلاو اونچی آواز میں چلاو مجھے تمہاری چیخیں سکون دیتی ہے
تمہاری تڑپ مجھے مزہ دیتی ہے
تمہاری وجہ سے میں اپنی روح سے دور ہو ترپ رہا ہوں اور جس طرح اس سے میں تڑپ رہا ہوں میں ایسے ہی تمہیں تڑپا تڑپا کے ماروں گا
مجھے معاف کر دو ڈیول مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے چھوڑ دو میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں گا میں چلا جاؤں گا بہت دور چلا جاوں گا کبھی دوبارہ تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا بس ایک بار مجھے بخش دو
اس رگڑگڑاکر روتا اس سے مینتیں کر رہا تھا
جب ڈیول نے چاقو کو نکال کر اس کے ننگے پیٹ پر رکھ دیا
میں تمہیں چلانے کے لئے کہہ رہا ہوں اور تم مجھے اپنی روداد سنا رہے ہو
اس کے تڑپنے پر وہ بے حد غصے سے بولا
میں دنیا کے کسی بھی شخص کو معاف کر سکتا ہوں لیکن دو انسانوں کو نہیں ایک تمہیں اور ایک اپنی روح کو
جو اپنے یارم کی بےچینی اقر تڑپ سمجھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں بولی اس نے میرا فون کاٹنے کی جرت کی ۔وہ جانتی بھی ہے کہ میں اس کے بغیر پل پل مر رہا ہوں پھر بھی اس نے میرا فون کاٹ دیا غلط کیا نہ اس نے اسے مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی
لیکن اس نے کیا کیا اس نے میرا فون کاٹ دیا
صرف ایک بار پھر ایک بار اس نے نہیں کہا یارم آپ ٹھیک تو ہیں
یار میں آپ کو مس کر رہی ہوں
پلیز یارم جلدی واپس جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی
اس نے نہیں کہا
اس نے میرے بے چین دل کو راحت پہنچانے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا
اس نے میرا نام تک نہیں لیا
غلط کیا بہت غلط کیا نہ اس نے۔۔۔؟
وہ جنونی انداز میں پوچھ رہا تھا سامنے الٹا لٹکا شخص اس کے بات کو بنا سمجھے ہاں میں سر ہلا گیا
دیکھا تم سمجھ گئے میری بات کو لیکن وہ نہیں سمجھی
تمہیں اندازہ بھی ہے میں کس حال سے گزر رہا ہوں اور مجھے اس حال میں پہنچانے والے تم ہو تو تمہیں سزا تو بنتی ہے نہ
اور تمہیں پتا ہے میں تمہیں کب ماروں گا جب تم خود کہو گے ڈیول مجھے مار دو میں نے تم سے تمہاری روح کو الگ کر دیا ہے میں نے تم سے تمہاری روح کو دور کیا ہے مجھے جینے کا کوئی حق نہیں میری جان لے لو میری سانسیں ختم کردو
اور پھر میں تمہیں سکون سے موت کی نیند سلا دوں گا
تب تک بنا کوئی چالاکی بناکوئی فضول بات کےایسے ہی لٹکے رہو تم تڑپ ہو سکتے ہو چلا سکتے ہو رو سکتے ہو
لیکن معافی مت مانگو کیوں کہ میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا ۔جو یارم سے اس کی روح کو دور کرتا ہے یارم اسے کبھی معاف نہیں کرتا
وہ اپنی بات مکمل کر کے ایک بار پھر سے بیٹھ کر چکن کیوبز کے مزے لینے لگا ۔جب کہ اس کے حکم کے مطابق وہ تڑپ رہا تھا چیخ رہا تھا چلا رہا تھا لیکن معافی نہیں مانگ رہا تھا
شارف بھائی آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ ماموں اچانک سری لنکا کیوں گئے ہیں یارم ٹھیک تو ہیں نہ وہ بہت زیادہ پریشان لگ رہی تھی
روح ویسے تو خضر نے مجھے تمہیں کچھ بھی بتانے سے منع کیا ہوا ہے لیکن شاید میں تم سے یہ بات چھپا نہ پاوں یا رم کہیں غائب ہوگیا ہے
وہ ہسپتال میں نہیں ہے ۔دراصل بات کچھ یوں ہے کہ دو دن پہلے میں نے یارم کے فون سے ایروپلین موڈ ہٹا دیا تھا اور یار م سے کہا تھا کہ وہ رات کو تمہیں فون کرے لیلی کے فون پر جب لیلی سو جائے
تو پھر تم دونوں کی بات ہو جائے گی یارم تم سے بات کئے بغیر کن حالات وہ تو تم بھی شایداچھے طریقے سے جانتی ہو
اور مجھ سے یارم کی یہی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی بس اس کی مدد کرنے کے لئے میں نے یہ قدم اٹھایا
لیکن تم نے بتایا کہ تمہاری یارم سے بات نہیں ہوئی جب کہ لیلی کافون اس دن یارم کے کمرے سے ٹوٹا ہوا ملا فون یارم نےہی توڑا تھا اس بات کا سب کو یقین ہے
شاید تم اس رات سو گئی یا پھر تمیں اس کی فون کال کا پتا نہیں چلا لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس رات یارم نے تمہیں فون کرنے کی کوشش ضرور کی تھی
تم سے بات نہ کر کے تمہیں بنا دیکھےوہ کس طرح سے جی رہا تھا تم سوچ بھی نہیں سکتی
خضر اور لیلی نے پلان کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے بعد بھی تمہاری بات یارم سے نہیں کروائیں گے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے یارم اپنا علاج پورا کرنے کے بجائے تم سے ملنے کی ضد کرے گا
اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے تم سے زیادہ اہم یارم کی زندگی میں اور کچھ نہیں ہے روح۔ یہ بات تم بھی جانتی ہو ۔
لیکن اب مسلہ یہ ہے کہ اس وقت ہسپتال سے یارم غائب ہوچکا ہے وہ کہاں گیا ہے کس جگہ پر ہے کوئی نہیں جانتا بس ہم سب اس کو ہی ڈھونڈ رہے ہیں خضر نے مجھے یہ بات تم سے شیئر کرنے کے لئے منع کیا تھا لیکن میں نہیں رہ پایا کیونکہ ہم سب سے زیادہ یارم پر تمہارا حق ہے
اور تمہیں یارم کی کنڈیشن جاننے کا پورا حق ہے ۔
بس دعا کرو کہ ہمارا یارم ہمیں واپس مل جائے بالکل صحیح سلامت دشمن اس کی تاک میں بیٹھے ہیں کبھی کوئی حملہ کر سکتا ہے
شارف اسے پوری بات بتا چکا تھا ۔
اور روح کو بےحد رونا آ رہا تھا ۔
وہ جانتیہ تھی کہماس کا یارم وہاں اس سے دور کس حال یں ہے لیکن اس ے بات نہیں کی تھی ۔صرف اس لیے کہ اس کی آواز سن کو وہ اس سے ملنے یہاں آنے سے بھی پرہیز نہیں کرےگا۔
روح کو صرف اس کی فکر تھا یہاں خطرہ تھا لیکن یارم کو یہ بات کون سمجھتا
°°°°°
یارم کو غائب ہوئے بیس دن گزر چکے تھے
آخر وہ گیا کہاں تھا کوئی نہیں جانتا تھا
روح کا تو رورو کر ہوا حال تھا
بس دن رات رونے کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں سکتی تھی خضر اور شارف اسے بہلا بہلا کر پریشان ہو چکے تھے وہ یہی کہہ رہی تھی کہ یارم اس کی وجہ سے کہیں چلا گیا ہے وہ اس سے خفا ہو گیا ہے اور اب شاید کبھی نہیں مانے گا
وہ پچھتا رہی تھی کہ اسے صرف ایک بار ہی سہی اس سے بات کر لینی چاہیی تھی
کم ازکم وہ انہیں چھوڑ کر یوں تو نہ جاتا
جس دن سے یارم غائب ہوا تھا بہت سارے لوگ غائب ہو رہے تھے
خاص کر وہ سب لوگ تو یارم کی بیڈ لسٹ میں آتے تھے ایک ایک کرکے غائب ہو رہے تھے لیکن خضر اس حوالے سے یارم پر بالکل شک نہیں کر سکتا تھا
کیونکہ یار م کی کنڈیشن ایسی تھی ہی نہیں کہ وہ اکیلے اپنی جان سنبھال سکتا اسے یہی لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ دل نشین کر رہا ہے وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنی طرف سے یارم کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے
جس دن یارم غائب ہوا تھا اس رات ڈاکٹرنے یارم کو ایک نہیں بلکہ دو دو بے ہوشی کے انجکشن دیئے تھے جن کا اثر برا ہونا تھا کیونکہ وہ کافی ہیوئی ڈوز اور بہت خطرناک بھی تھے
یار م کے غائب ہونے پر ڈاکٹر نے خود اس بات کو قبول کرلیا کہ یارم کا واپس آنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی کنڈیشن بہت زیادہ خراب ہے
لیلیٰ نے یہ سب جان کا ڈاکٹر پر ہی کیس کر دیا
ڈاکٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے یارم کو کچھ بھی ہو سکتا تھا اور یارم کے معاملے میں وہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی تھی ۔
لیکن اس وقت جو چیز سب سے زیادہ ضروری تھی وہ تھی یارم کا ملنا اور یار م بیس دن سے انہیں نہیں ملا تھا نہ ہی اس کی کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی اس نے انہیں فون کر نے یا بات کرنے کی کوشش کی تھی
پچھلے تین دن سے رخ بھی ہسپتال میں تھی۔
پہلے یارم کے لاپتہ ہونے پر وہ پریشان تھے اب روح کی حالت نے انہیں بوکھلا کر رکھ دیا تھا اور اگر یارم اس وقت کہیں سے آجاتا اور اپنی روح کی حالت دیکھتا تو وہ انہیں جان سے مار ڈالتا
ڈاکٹر نےروح کی حالت کو ذہنی دباؤ کا شکار بتایا تھا اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار کیوں تھی یہ تو سب ہی لوگ جانتے تھے خضرنے روح کو منع کیا تھا یا رم کی بھلائی کے لیے لیکن وہ کہاں جانتا تھا کہ وہ جس کی بھلائی سوچ رہا ہے وہ اس طرح کی کوئی بھلائی چاہتا ہی نہیں
یہ بات تو اسے اچھے سے سمجھ آگئی تھی کہ یارم جب بھی واپس آئے گا سب سے پہلے اسی کی کھال ادھیڑے گا
کیونکہ وہ روح سے اس طرح کی کسی سمجھداری کی امید نہیں رکھتا اسے پتہ تھا کہ روح کے اس رویے کے پیچھے خضر کہیں دماغ چل رہا ہے
اور اب یارم نے واپس آکر سب سے پہلے اس کا سرپھوڑنا تھا
°°°°°°°
ویلکسن میتھوکی لاش آج اٹلی کے جنگلوں سے ملی تھی
لاش کی شناخت کرنا بہت مشکل تھا اس کام کے لیے تین دن لگ گئے اور اسے مرے ہوئے تقریباً پندہ دن گزر چکے تھے
اب ایک کر کے اسکی ٹیم ممبر کے لوگ بھی لاشوں کی صورت میں مل گئے تھے
زیادہ تر لوگوں کو بلیڈسے ہلاک کیا گیا تھا
اور ایک ایک کافی پرسکون اور تسلی سے مارا گیا تھا جیسے یارم مارتا تھا خون کی سرخ لکیر چھوڑتا لمبی لمبی لائن کھینچ کر خضر اور شارف کو یقین تھا کہ وہ یارم ہی ہے
اتنی بے دردی سے کوئی ایسا نہیں کر سکتا تھا سواۓ یارم کے
دو تین بار ان کو لگا کے انہیں روح کو بتا دینا چاہیے کہ یارم جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے اور اپنا کام کرکے ہی واپس آ جائے گا لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ لوگوں کے پرزے کرنے میں مصروف ہے
روح کی حالت تھوڑی سے سبھلی تو خضر اور شارف وہ سارے کام نمٹانے چلے گئے جو وہ یارم کے واپس آنے سے پہلے ختم کرنا چاہتے تھے
کیونکہ اس وقت انہیں اس بات کا ٹھیک سے اندازہ ہو چکا تھا کہ یارم اس وقت ڈیول موڈ میں ہے اور اس موڈ میں وہ نہیں سوچتا کہ سامنے والا اس کا دوست ہے یا دشمن اس وقت یارم کا موڈ کیسا ہوگا وہ اچھی طرح سے جانتے تھے
اسی لئے تو یارم کے واپس آنے سے پہلے پہلے ہی سارے کام نمٹانے میں لگ گئے
°°°°
روح یار پلیز رونا بند کرو یارم جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے
اور جلد ہی ہمارے پاس واپس بھی آ جائے گا
تمہارے رونے سے کون سا کسی مسئلے کا حل نکل آئے گا لیلی اسے اپنے ساتھ لگاتی بہت پیار سے سمجھا رہی تھی
لیلی میں بہت بے وقوف ہوں
میں ہمیشہ ایسے کام کرتی ہوں جو یارم کو تکلیف دیتے ہیں
ان کا دل دکھنے کا سبب بنتے ہیں اگر میں اس رات ان سے بات کر لیتی تو وہ کبھی یوں اس طرح سے مجھے چھوڑ کر نہیں جاتے
بلکہ اب تک تو وہ اپنا علاج مکمل کروا کے ہمیشہ کے لئے میرے پاس واپس آ چکے ہوتے وہ بری طرح سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی
جب کہ لیلیٰ اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی
خود کو سنبھالو روح اگر یارم نے تمہیں اس حال میں دیکھ لیا تو وہ ہمیں جان سے مار ڈالے گا تم جانتی ہو وہ تمہیں کس حد تک چاہتا ہے
پلیز روح جب تک یارم واپس آتا ہے تب تک اس طرح سے رونا بند کرو وہ جلد واپس آ جائے گا کیونکہ مجھے پتا ہے وہ تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا وہ اس کے آنسو صاف کرتے پیار سے سمجھا رہی تھی جبکہ روح کے آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے
°°°°°
رات کے دو بج رہے تھے لیلیٰ کو اپنے کمرے میں گئے کافی وقت گزر چکاتھا اب تک تو وہ نیند میں اتر چکی ہو گی
لیکن نیند اسے آج بھی نہیں آئی۔رو رو کر اس نے اپنی حالت خراب کر دی تھی ۔یارم کا خیال اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا ۔
پتا نہیں یارم کس حال میں ہوگا کچھ کھاتا بھی ہوگا یا نہیں کہیں وہ ان لوگوں کے ہاتھ تو نہیں لگ گیا۔
بس ایک بار وہ آجاجائے روح نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس کے پیر پکڑ کر معافی مانگے گی اوردوبارہ بپکبھی خود سے دور نہیں جانے دے گی
آخر یارم گیا کہاں تھا
یہ لوگ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے تھے۔کیا وہ لوگ جانتے تھے کہ یارم کہاں ہے اگر ہاں تو اسے لے کیوں نہیں آتے تھے
وہ کیسے ان کو بتاتی کہ وہ اپنے یارم کے بغیر پل پل مر رہی ہے ۔
دن رات یارم کے ملنے کی دعا کرتی کافی پریشان تھی۔۔لیکن خضر اور شارف اتنے پریسپشان نہیں تھے اب جتنے کہ پہلے۔
کچھ بدل گیا تھا لیکن کیا اسے سمجھ نا آیا
وہ بیڈ پر لیٹی یوں ہی چھت کو گھور رہی تھی جب کمرے کی لائٹ آف ہوگئی۔اسے انھیرے میں خوف آتا تھا ۔اور نہ ہی وہ زیادہ دیر اس اندھیرے میں بیٹھ سکتی تھی
اس نے اٹھ کرماچش ڈھونڈنےکی کوشش کی لیکن ماچش نہ ملی ایک تو اندھیرے میں اسے ڈر لگتا تھادوسرا یہاں خضر کے گھر میں اسے پتا بھی نہیں تھا کہ کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔
اب وہ زرا زرا سی بات کے لیے ان کو تنگ نہیں کر سکتی تھی۔ایک بار ڈھونڈنے کی کوشش کر کے وہ دوبارہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
باہر لگ رہا تھا کہ لائٹ چل رپی ہے تو کیا صرف اس کے کمرے کی لائٹ آف ہوئی تھی اس نے سوچا لیکن اس وقت و لیلی اور خضرکو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی
نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
ہاں لیکن یارم کی یادیں اس کی رات اسان کر دیتی۔وہ اب بھی اپنے یارم کو سوچ رہی تھی لیکن یادیوں میں بھی سکون نہ تھا
وہ خاموشی سے اپنی آنکھیں بند کر کے کچھ دیراپنے مائنڈ کو ریلکس کرنا چاہتی تھی۔جب اسے محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے ۔اس نے ایک جھٹکے میں اٹھ کر سارا کمرا دیکھا لیکن کوئی نہیں تھی۔
اس کی دل کی دنیاکی کمرا بھی اندھیرے میں ڈوبا تھ۔وہ اپنا وہم سمجھ کرو سونے کی کوشش کرنے لگی۔
لیکن اسی احساس کے تہت وہ زیادہ دیر وہ آنکھیں بند نہ رکھ سکی۔وہ اٹھ کر کھڑکی بند کرنا کا سوچ رہی تھی کہ شاید یہ احساس کھڑکی کے باہر چلنے والی ہوا کی وجہ سے ہے۔
وہ آئستہ آئستہ قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس آئی اور کھڑکی بند کر دی۔
واپس اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے وہی احساس دوبارہ ہوا۔
اسے باربار یہی محسوس ہو رہا تھا کہ کوٙئی ہے ۔اب اس کے دل میں خوف سا پیدا ہونے لگا تھا۔اس نے کمرے سے باہر جانا بہتر سمجھا کیونکہ اب اس کو ڈر لگانے لگا تھا۔اور اس ڈر کے ساتھ اسے ساری رات کمرے میں سکون نہیں آنا تھا۔
°°°°°°
ابھی اس نے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ کسی نے اسے پکڑ کر اپنی جانب کھنچ لیا۔
اس سے پہلے کہ وہ چیختی کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔وہ پوری طرح ان باہوں میں قید ہو چکی تھی
اب وہ بیڈ پر پڑی بےبسی سے اندھیرے میں اس شخض کو ڈھونڈ رہی تھی۔لیکن یہ ایک مشکل کام تھا۔
کیا ہوا بےبی ڈر گئی اتنی سی ہمت تھی بس ۔۔۔ابھی تو تم نے اپنی ایک ایک غلطی کا حساب چکانا ہے ۔ابھی تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے میری کال کاٹ کر خود کو کتنے برے امتحان میں ڈالا ہے
تمہاری ہر غلطی معاف لیکن تم اس شخص کے کہنے پر اپنے یارم کی بےچینیاں اس کی تڑپ اس کی بےقراریاں نظر انداز کر دو اس غلطی کی کوئی معافی نہیں ۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہے تھی روح تم نے غلط کیا بہت غلط ۔وہ اس کے کان میں غرایا
کیوں کیا تم نے ایسا روح کیا تم نہیں جانتی کہ تمہارے بغیر سانسس بھی گن گن کے لیتا ہے تمہارا یارم ۔اس کا ہاتھ اس کے منہ سے سیدھا گردن کی طرف آیا تھا
یارم۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں تڑپ تھی جیسے وہ ویسے ہی نظر انداز کر چکا تھا جیسے اس کی تڑپ کو کیا گیا تھا۔
اس کے ہاتھ کا دباو اس کی گردن پر مزید بھر گیا ۔
نہیں ہوں میں تمہارا یارم۔۔خبراد کو اس زبان سے میرا نام بھی لیا تم نے۔اس کی نازک گردن اس کے سخت ہاتھ کی گرفت میں تھی۔
لیکن روح کو پروہ کہاں تھی وہ تو اس کی آواز سن رہی تھی ۔وہ آ گیا تھا ۔واپس اس کے پاس لیکن دوریاں ختم نہیں ہو رہی تھی۔
وہ اس کے بے حد قریب تھا لیکن نہ تو اسے خود کو چھونے کی اجازت دے رہا تھا نہ ہی کچھ بولنے دیتا۔بس اپنی وحشت اس پر لٹا رہا تھا ۔اس کے دونوں ہاتھ ایک ہاتھ میں قید لیے دوسرے ہاتھ سے کیسی مجرم کی طرح اس کی گردن پکڑے وہ جواب مانگ رہا تھا
یارم می۔۔۔میں۔۔
چپ کہا نہ میں نہیں تمہارا یارم۔میں اپنی روح کا یارم ہوں جو مجھے سمجھتی ہے ۔مجھ سے محبت کرتی ہے تم تو کوئی اور ہو میری روح اتنی پتھر دل نہیں کہ اس کا یارم اس کے سامنے تڑپتا رہے اور وہ اس کے سکون کے لیے ایک لفظ نہ بولے۔
بتاو کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ۔کیوں لیا تم نے میری محبت کا امتحان بولو۔۔اس کی گردن پر زور دے کر پوچھا تو اس بار روح تکلیف سے کراگئی۔
دود ہوا ۔۔۔مجھے بھی ہو رہا ہے اتنے دن سے ایک ایک پل کی موت مر رہا ہوں ۔لیکن تمہیں ترس نہیں آیا ۔اور اب اس تکلیف سے رہائی کے لیے تمہیں میرے سوال کا جواب دینا ہو گا۔
وہ اس کی گردن سے ہاتھ نکال کر اس کی بالوں کو اپنی مٹھءپی میں پکڑچکا تھا
آپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔۔۔۔وہ اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر بولی
میری کیفیت بیان کرنے کے لئے ناراضگی لفظ بہت چھوٹا ہے ۔وہ اس کے بالوں کو ہلکا سا جھٹکا دے کر بولا
معاف نہیں کریں گے میری غلطی وہ امید سے بولی سچ تو یہ تھا کہ وہ اس کے سینے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی تحفظ چاہتی تھی اس کی محبت اس کی توجہ چاہتی تھی
غلطی ۔۔۔؟وہ حیرت سے غرایا
کیا کہا تم نے تم سے غلطی ہوگئی ۔۔۔میری روح تک تڑپا کر رکھ دی تم نے اور تم کہتی ہو کہ یہ غلطی تھی ۔۔
تم نے میری محبت کی توہین کی ہے روح اور یہ غلطی نہیں گناہ ہے ۔
یارم کاظمی کے عشق کی آگ کو بھڑکانے کا گناہ کیا ہے تم نے اور تمہیں اس گناہ کی سزا ملے گی ۔
اسی آگ میں جل کر تڑپو گی تم ۔اسی آتش میں بھسم ہوگی
میری چاہتوں کا میرے جذباتوں کا قتل کیا ہے تم نے اتنی آسانی سے معافی تو نہیں ملے گی تمہیں
اس کے ایک ایک آنسو کو اپنے لبوں سے چنتا وہ اپنے جنون کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہا تھا اس کے آنسوؤں کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنے پیاسے لبوں کو اس کی گردن پر رکھ چکا تھا
اس کے اندر کی تپش نے روح کی گردن کو جلا دیا تھا ۔ وہ اسے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔وہ اس کی محبت چاہتی تھی اس کا جنون نہیں
لیکن وہ تو اپنی تڑپ اپنی آگ اس میں منتقل کرنا چاہتا تھا
اس کے دونوں بازوؤں کو تکیہ سے لگاتے ہوئے اس نے صرف ایک نظر اس کا چہرا دیکھا اور اس کے ماتھے کونرمی سے لبوں سے چھوتا اس کو پرسکون کر گیا لیکن روح کا یہ سکون صرف ماتھے سے لبوں کے سفر تک تھا
لیکن اس کے بعد وہ بے قابو ہو چکا تھا
اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لیے وہ جنونی ہو چکا تھا
وہ کیسے بھول گئی کہ وہ یارم کاظمی تھا اور یارم کاظمی اپنے گناہ گاروں کو اس طرح سے معاف نہیں کرتا
اس بار تو روح نےاس کے جذبات کی توہین کی تھی اس کی تڑپ کی پرواہ نہیں کی تھی تو وہ کیسے اتنی آسانی سے بخش دیتا
وہ اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یارم کو اس کا یوں مزاحمت کرنا مزید غصہ دلا رہا تھا
آگر اب تم نے ذرا سی بھی مزاحمت کی نہ روح تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا ۔اس کی سرد آواز پر روح کی ساری مزاحمت دھری کی دھری رہ گئی ۔
چہرے کے بعد لبوں پر اور اب ہونٹوں کے بعد اپنی گردن پر یارم کا جارحانہ لمس محسوس کر رہی تھی ۔
جبکہ وہ ایک ہاتھ سے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا ہے اس کی نمی سے بھرپور آنکھیں بند کر چکا تھا
اس کاہر ایک انداز شدت سے بھرپور تھا وہ اس کے عشق میں جلتی اس کی شدتوں کو برداشت کر رہی تھی وہ بھی بنا مزاحمت کے کیونکہ آج مزاحمت کا مطلب تھا یارم کو خود سے دور کرنا وہ پہلے ہی اس سے اس حد تک خفا تھا کی روح کو لگا کے وہ اسے کبھی منع ہی نہیں پائے گا
°°°°°°
اہ یار آرام سے کرو جان لینے کا ارادہ ہے کیا ڈاکٹراس کا بازو سیدھا کر رہا تھا جب خضر نے چلاتے ہوئے کہا
تو کس نے کہا تھا روح کو اتنے نایاب مشورے دینے کے لیے وہ تو شکر ہے کہ میں پریگنیٹ ہوں اس لیے بچ گئی
ورنہ تمہارا ہاتھ توڑا ہے مجھے تو پورا توڑ کے رکھ دیتا
لیلیٰ دو قدم اٹھاتی پیچھے ہوئی کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی شور کر رہا تھا البتہ اس کا صرف ایک بازو ہی ٹوٹا تھا
یارم کا ارادہ تو اسے پورا پورا توڑنے کا تھا اور اگر وہ اپنے ارادے پر عمل کرتا تو یقینا وہ اب تک وہ بیوہ ہو چکی ہوتی
میں بھی شارف کا یہ احسان نہیں بھولوں گی ۔
آج پریگنیٹ ہونے کی وجہ سے میں بھی زندہ ہوں وہ لیلیٰ کے کان میں بولی تو لیلی میں نے ہنستے ہوئے شارف کی طرف دیکھا جس کی ناک پر بڑی سی پٹی میں لپٹی ہوئی تھی
تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہی ہو
شارف نے غصے سے کہا
تم لوگوں کی عقل کی تعریف کر رہے ہیں ماشاءاللہ سے اتنے نایاب مشورے دیے تھے نہ تم نے روح کو کہ اب ساری زندگی وہ تم سے بات بھی نہیں کرے گی نہ جانے اس بچاری کا کیا حال ہو رہا ہوگا
ویسے ایک بات بڑی کمال کی ہے ہمارا یارم اپنے سارے کام نپٹا کر روح کے پاس جاتا ہے
لیکن ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آرہی یارم نے دلنشین کو قتل کیوں کیا اس نے کیا بگاڑا تھا وہ تو الٹا ہماری مدد نہیں کر رہا تھا
معصومہ نے پریشانی سے پوچھا
وہ مدد نہیں دکھاوا کر رہا تھا وہ بھی یارم کی جگہ لینا چاہتا تھا ۔
ہسپتال میں اس کا جو علاج ہورہا تھا وہ علاج تھا ہی نہیں اسے پاگل پن کے انجکشن لگائے جا رہے تھے
اور یارم پر حملہ کروانے والے وہ لوگ نہیں بلکہ دل نشین تھا اسپتال میں اس پر حملہ کروانے والے بھی دلنشین کے ہی لوگ تھے
پورے ہسپتال کی ٹیم اس کے ساتھ ملی ہوئی تھی یارم کو تو کافی دنوں سے شک تھا اس پر اسی لئے یارم وہاں سے نکل گیا اور اپنے پلان کے بارے میں ہمیں بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا اور واپس آکر ہماری ہڈی پسلی ایک کردی خضر نے تکلیف سے کرہاتے ہوئے بتایا تو لیلیٰ کا بے ساختہ قہقہ بلند ہوا
جان من یہ آپ کے نایاب مشوروں کا ہی نتیجہ ہے
جو بھی تھا تمہیں روح کو یارم سے دور رہنے کا مشورہ نہیں دینا چاہیے تھاتم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے اور یارم نے کہا ہے کہ جب بازو ٹھیک ہو جائے تو اس کے پاس واپس آنا وہ ایک اور دوذ دے گا
لیلیٰ نے مسکراتے ہوئے کرسی سنبھالی کیوں کہ اب مزید کھڑا رہنا اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا
میرے خیال میں اب یارم سر کے لیے سکیورٹی گارڈ کا انتظام کرنا چاہیے وہ بہت خطرے میں ہیں معصومہ نے کہا تو شارف کے ساتھ ساتھ لیلی اور خضربھی ہنسنے لگے
معصومہ تم کتنی معصوم ہو میری جان اتنے دن سے یارم نے اپنے سارے خطرے اپنے ہاتھوں سے مٹا دیئے ہیں اب اس کے خطروں کو اسی کا خطرہ ہے
یارم اپنے لیے کبھی کسی سیکیورٹی گارڈ کا انتظام نہیں کرے گا کیونکہ وہ ساری دنیا کے سامنے ایک عام ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہے
وہ چاہتا ہی نہیں کہ لوگ اسے جانے اور کسی کو پتہ ہو کہ وہ کون ہے وہ کھل کر جینا چاہتا ہے اپنی روح کے ساتھ اور مجھے بھی نہیں لگتا کہ اسے کسی سکیوٹی گارڈ کی ضرورت ہے وہ اپنی سکیورٹی خود کر سکتا ہے
لیکن درک کا احسان ماننا پڑے گا کتنی ہوشیاری سے اس نے پتہ لگا لیا کہ ہسپتال کی ٹیم دلنشین سے ملی ہوئی ہے
شارف نے کہا تو خضر کا موڈ خراب ہو گیا
تم ہر بات میں اسے کیوں گھسیٹ لاتے ہو اس نے صرف یارم کو یہ بتایا تھا کہ دلنشین اتنا اچھا نہیں ہے اور وہ بھی شاید وہاں پر سٹہ نہ کھیل رہا ہوتا تو کبھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ دل نیشین یارم کے خلاف کیا پلاننگ کیے ہوئے ہے ۔
اور وہ بہت براہے ا سے اچھا ثابت کرنا بند کرو وہ ایک اچھا انسان نہیں ہے اس نے اپنے باپ کا قتل کیا ہے اور روح اسے کبھی معاف نہیں کرے گی اسے ہماری زندگیوں سے نکل جانا چاہیے
خضر نے غصے سے کہا تھا
جبکہ اس کے تلخ لہجے پر شارف نے ہمیشہ کی طرح بات ہی بدل دی
اچھا چھوڑو ان سب باتوں کو یہ بتاؤ کہ یارم مجھے کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے اس نایاب مشورے کے انعام میں تمہاری زبان کاٹ دے گا تو کاٹی کیوں نہیں شارف کا انداز انتہائی شرارتی تھا
یارم نے کہا ہے کہ وہ ایسا ضرور کرتا بہت خوشی سے کرتا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا ہونے والا بچہ یہ بات محسوس کرے کہ اس کا باپ بول نہیں سکتا
ویسے ہمارے ہونے والے بچے کی وجہ سے ہماری کافی بچت ہوگئی ہے لیلیٰ نے جواب دیتے ہوئے خضر سے پوچھا
ہاں بچت تو ہو گئی ہے لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ یارم نے اس کی صرف ناک کیوں توڑی یہ بھی تو میرے برابر کا گناہ گار تھا اسے بھی میرے برابر کی سزا ملنی چاہئے تھی وہ اپنے بازو پر بندھا پلاسک دیکھ کر بولا
ہاں میں بھی برابر کا گناہ گار تھا لیکن روح کو وہ نایاب مشورہ میں نے نہیں دیا تھا شارف نے ہنستے ہوئے کہا تو بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکل گئی کیونکہ اس کے ہنسنے کی وجہ سے اس کے ناک میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا
آئندہ قہقہ لگانے سے پہلے یاد رکھنا کہ فی الحال تمہارے ناک کی عمارت کمزور ہے جو کبھی بھی گر سکتی ہے خضر نے اسے دیکھتے ہوئے پہلے تو شکر ادا کیا کہ اس کی ناک سلامت تھی پھر مشورہ دیتے ہوئے اٹھا انہیں گھر جانا تھا
ویسے تو یارم نے کہا تھا کہ وہ ایک ہفتے تک ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا لیکن خضر کو اپنی بھانجی بہت عزیز تھی
°°°°°
وہ سختی سے روح کو اپنے بازوؤں میں دبوچے آنکھیں بند کئے ہوئے تھا کافی دیر اسے یوں ہی پڑے دیکھ کر روح کو لگا کہ شاید وہ سو چکا ہے
اس کی سانسیں تیز تھی اور اس کی سانس تب ہی تیز ہوتی تھی جب وہ نیند میں اتر چکا ہوتا
روح کافی دیر اس کے چہرے کو دیکھتی رہی
بھری ہوئی داڑی کے ساتھ بالوں کی شیب بھی خراب ہوچکی تھی
اس نے کافی ٹائم سے ہیئر کٹ نہیں کیا تھا
آنکھوں کے نیچے سرخ لکیر تھی مطلب کے کافی وقت سے وہ بے آرامی میں تھا شاید ٹھیک سے سویا بھی نہ ہو روح نے آہستہ سے اپنی ایک انگلی یارم کی پلکوں پے رکھتے ہوئے اسے چھوا ۔
وہ سو رہا تھا اسی لیے ایسے ہی پڑا رہا روح نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا وہ اس حالت میں بھی بے پناہ پیارا لگ رہا تھا
روح کا دل دھڑکنے کے لئے تو یارم کا اس کے پاس ہونا ہی کافی تھا
اس کی دونوں آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہ مسکرائی
وہ کوئی خواب نہیں حقیقت تھا اس بات کا احساس یارم اسے تھوڑی دیر پہلے اچھے سے کروا کر سویا تھا
اس کے بازو پر ابھی تک یارم کی انگلیوں کے نشان تھے
جودیکھتے ہوئے وہ بے اختیار شرما کر اپنا ہی بازو چوم بیٹھی
آئی لو یو ۔۔اس کے کان میں میٹھی سرگوشی کرتے ہوئے وہ اس کے گالوں کو چوم کر اس کا ہاتھ اپنے اوپر سے اٹھانے ہی والی تھی ۔
کہ یارم کی آنکھ کھل گئی ایک ہی جھٹکے میں وہ اسے دوبارہ بیڈ پر پھینک چکا تھا
کیا مسئلہ ہے تمہیں سوتی کیوں نہیں ہو سکون سے وہ سرخ نگاہیں اس کی آنکھوں میں گھِاڑے بے حد سرداور غصے سے بھری آواز میں بولا
یارم وہ شاید باہر کوئی آیا ہے آواز آ رہی ہے وہ ایک لمحے کے لیے اس سے خوفزدہ ہوتے گھبرا کر بولی
تمہارا ماموں اور مامی ہوں گے ہسپتال سے واپس آ گئے ہیں شاید لیکن تم کہاں جا رہی ہو ایک مہینے سے انہیں کے ساتھ تھی نا اب کیا ان کے ساتھ ساری زندگی چپک کررہنے کا ارادہ ہے آرام سے پڑی رو یہیں پر اگر یہاں سے ہلنے کی بھی کوشش کی تو جان نکال دوں گا
وہ ایک بار پھراسے کسی تکیہ کی طرح دبوچ کر اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔اور اس کے ایسا کرنے سے پھر کسی ننھے پرندے کی طرح اس میں قید ہو چکی تھی
میرے بغیر اتنے دن نیند نہیں آئی نہ آپ کو ۔۔وہ۔بہت پیار اور معصومیت سے پوچھ رہی تھی یارم نے سرخ آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا
اگر اس دن فون اٹھا لیتی تو اپنی ساری بے قراریوں سنا دیتا لیکن اب میں تمہیں اپنی بے قراریاں سناؤں گا نہیں سہنے پر مجبور کروں گا
اب تم مجھ سے ایک انچ بھی دور ہوئی نہ تو اس طرح سے جان نکلوں گا کہ ساری زندگی ممنہ چھپاتے پھرو گی مجھ سے
وہ آنکھیں بند کر کے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا
یارم آپ نے مجھے معاف نہیں کیا ابھی تک وہ مایوسی سے بولی تھی
تمہیں لگتا ہے کہ تم معافی کے لائق ہو اگر تمہیں لگتا ہے تو مجھے نہیں لگتا اس کا سر زبردستی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے وہ اسے حیران اور پریشان چھوڑ کر آنکھیں بند کر چکا تھا ۔
اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے چہرے پر رکھ دیا
ایسے ہی چھوتی رہو مجھے۔۔۔ تمہارا ہاتھ تھامنانہیں چاہیے ۔وہ سرد آواز میں کہتا اسےشرمانے پر مجبور کر گیا یعنی کہ وہ جاگ رہا تھا اور اس کی ساری حرکتوں کو محسوس کر رہا تھا ۔
اور اب بھی چاہتا تھا کہ وہ اسے ایسے ہی چھوتی رہے
یارم نے ابھی تک اسے معاف نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے معاف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن روح کو یقین تھا کہ وہ اسے منا لے گی ۔
ہاں لیکن ذہن میں ایک سوال تھا کہ خضر ماموں کو ہوا کیا ہے کہ وہ ہسپتال گئے ہیں ۔پتہ نہیں یارم اس سے ملنے بھی دے گا یا نہیں سوچتے ہوئے یارم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے آنکھیں بند کر چکی تھی آج اسے بھی پرسکون نیند آنی تھی اپنے یارم کی باہوں میں
خضر نے آتے ہی ایک نظر روح کے کمرے کو دیکھا جہاں اندھیرا تھا مطلب یارم وہاہی تھا ۔کیونکہ روح کو اکیلے اندھیرے میں ڈر لگتا تھا
اس کا دل تو بہت کیا کہ ایک بار روح کو دیکھ لے۔
لیکن اس نے اپنے دل کی مانی نہیں
کیونکہ اسے پتہ تھا کہ یارم اس کی شکل دیکھ کر اسے پھر سے کوئی نہ کوئی نقصان پہچائے گا
اور یہ نہ ہو کہ اس بار وہ اس کا ناک یا دوسرا بازو ہی بدن سے الگ کر دے ۔روح سے محبت اپنی جگہ لیکن عزیز تو اپنی جان بھی تھی
روح تو یارم کی جان تھی اس نے پھر بچ جانا تھا ۔لیکن اس سے وہ اس حد تک غصہ تھا کہ اسے دیکھتے ہی جان سے مارنے کا ارادہ رکھتا ۔اسی لیے تو ایک ہفتے تک شکل فکھانے سءپے بھی منع کر دیا تھا
خضتپر خاموشی سے آ کر اپنے کمرے میں لیلیٰ کے ساتھ بند ہی گیا
لیلیٰ بھی اسے اپنی شکل دکھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
اس بھی اپنی جان عزیز تھی ۔
اب بچے کا سوچ کریارم نے ایک بار معاف کیا تھا ضروری نہیں کہ ہر بار کرتا ۔
خضر تو یہ سوچ کر بھی پریشان تھا کہ کل جب وہ آفس جائے گا اور وہاں جو کام خضر سے ہینڈل نہیں ہوئے ان پر یارم کیا حال کرے گا
کیونکہ جو کام وہ نہیں کرپایا تھا وہ تو اس نے ایک سائیڈ لگا چکا تھا۔
اس کے ٹیبل پر یارم کی رپورٹس تھی ۔
پچھلے بائیس دن مِیں یارم اپنا مکمل علاج کروا چکا تھا ۔اور یہ اتنا مشکل تھا ہی نہیں جتنا سریلنکا کے ڈاکٹرز نے مشکل بنا دیا تھا۔
یارم نے اٹلی میں ہی اپنا علاج کروا لیا تھا ۔اور اب وہ مکمل صحت یاب تھا سری لنکن ڈاکٹرز کی وجہ سے اسے کافی مشکلوں کو سامنا کرپڑا لیکن وقت رہتے وہاں سے نکل کریارم کپنے خود کو پاگل ہونے سے بچا لیا تھا۔
اور اس چیز نءپے خضر کو بے فکر کر دیا تھا اب بھی اس کا یہی کہنا تھا کہ اگر وہ پہلے روح سے مل لیتا تو کبھی اپنا علاج نہ کرواتا ۔
°°°°
اٹھو ۔۔روح وہ کافی غصے سے اسے جاگا رہا تھا۔
روح نے آنکھیں کھول کردیکھا پھر کروٹ لیتے ضدی انداز میں بولی
مجھے نہیں اٹھنا آج ہی تو سکون سے سوئی ہوں آپ بھی سو جائیں ۔اور مجھے بھی نیند پوری کرنے دیں
روح تمہیں سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔وہ چادر کھنچتا غصے سے بولا۔
یارم آپ متھ کا کوئی مشکل سوال تھوڑی کہ مجھے سمجھ نہیں آئے گا ۔آپ تو مہرے یارم ہیں
آسان سے پیارے سے ۔آپ کی تو ہر باب سمجھ آتی ہے اور سیدھا دل پر بھی لگتی ہے وہ آنکھیں بند لیے بڑبڑا رہی تھی جیسے خواب کی دنیا میں یارم سے پیارے بھری مٹھی مٹھی باتیں کررہی ہو ۔
اس وقت تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ یارم اس سے ناراض ہے۔
یارم نے این نظر گھور کر اس کی پوری بات سنی اور اگلءپے ہی لمہے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔
ایسا کرنےسے روح نے آنکھیں کھول کراسے دیکھا اور پھر مسکرا کر اس کی گردن میں باہیں ڈالتی اس کی گردن میں منہ بھی چھپا گئی۔
یارم خاموشی سے اسے اٹھا کر واش روم مُیں لیا ۔
اور اسے شارو کے نیچے کھڑا کرنپتے ہوئے شارو کھول بھی دیا۔روح ایک پل میں ہی ہوش کی دینا میں قوپدم رکھ چکی تھی۔
جلدی سے نہا کر آو ہمیں گھر چلنا ہے ۔وہ حکم دیتا باہعپر جانے لگا ۔جب اس کی آواز کانوں میں پڑی۔
کڑوے سڑے ہوئے کریلے۔آپ نہیں ہو میرے پیارے سے یارم۔وہ پیر پٹکےپتے ناراضگی سے بولی۔
کیا کہا تم نے مجھے کڑوا سڑا ہوا کریلا رائٹ ۔تو تمہِں اس کڑوے سڑے ہوئے کریلءپے کو ٹیسٹ بھی کرنا چاہے
وہ دوبوں ہاتھ اس کے ساتھ دیوار پر رکھتا اس کا راستہ بند کر گیا۔
اور اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کے لبوں پرجھک کر اس کے نازک لبوں کو قید کر لیا۔
آس کی شدت پر روح نے اس کی شرٹ کو مٹھیوں مِیں بھنج لیا۔
روح کے ساتھ ساتھ یارم کے کپڑے بھی پوری طرح سے بھیگ گِئے تھے اس کا انداز اب بھی کل رات والا ہی تھا۔وہ اس پے جھکا اپنے جذبات کو سکون دے رہاتھا ۔اور روح اس کے جذبات کی آگ میں جل رہی تھی۔
اس کے لبوں کو بخش کر وہ اس سے زرا دور ہوا۔اور اس کا گال تھپتھپایا۔
تو کیسا لگا کڑوا سڑا ہوا کریلا ۔جلدی کرو ہمہیں اپنے گھر جانا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ منہ پھلائے باہر نکلی ۔
مجھے ماموں سے ملنا ہے یارم ۔اس کے چلنے کے اشارے پر وہ بولی تو یارم نے پھر سے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
زندہ ہے وہ لیکن ہونا نہیں چاہے تھا۔جو اس نے کیا ہے نہ روح اس کے بعد اسے جینے کا حق نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی زندہ ہے کیونکہ تمہارے پاس وہ واحد رشتہ ہے اب فصول نہیں بولنا جلدی چلوورنہ اچھا نہیں ہو گا۔وہ دھمکی دیتا ہوا بولا۔
مطلب آپ ان سے بھی خفا ہیں ۔یارم انہوں نے آپ کو کتنا ڈھونڈا آپ کے غائب ہونے کے بعد بھی آپ کی جگہ سارے کام کرتے رہے سب کچھ سبھالا اور آپ ان سے ناراض ہو رہے ہیں۔
روح میرا دماغ مت خراب کرو ۔چلو جلدی ٹائم نہیں ہے میرے پاس وہ اس کی بات کاٹ گیا۔
میں ماموں سے ملے بنا نہیں جاوں گی یارم پلیز تھوڑا وئٹ کر لیں پتا نہیں آپ نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے جو وہ ہسپتال میں تھے
اب ایک بار دیکھنے تو دیں وہ منت بھرے انداز میں بولی۔
یارم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دو قدم آگے بڑھا اس کا نازک سا وجود اپنی باہوں میں اٹھایا اور دروازہ کھول کر باہر کی طرف چل دیا
یارم یہ غلط ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے میں ماموں سے مل کر جاؤں گی۔
ماموں ماموں جلدی آئیں مجھے بچائیں یارم مجھے زبردستی لے کر جا رہے ہیں ماموں وہ اونچی اونچی آواز میں چلا رہی تھی
لیکن یارم کو کون سا پروا تھی
وہ اس کی چیخ و پکار نظر انداز کیے آگے بھرے جا رہا تھا
جب کہ کمرے میں خضرخاموشی سے بیٹھا اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا
تھوڑی دیر کے بعد آواز بند ہو گئی یعنی کہ وہ دونوں جا چکے تھے
خضر تھوڑی دیر آرام کر لو پتہ نہیں آفس میں یارم تمہارا کیا حال کرے گا یہ نہ ہو کے بیڈ پر بیٹھنے کے بھی لائق نہ رہو اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ پہلے ہی آرام کر کے جاؤ لیلیٰ نے مشورہ دیا جو خضر کو بھی قابل غور لگا تھا
°°°°°°
جاؤ جا کر میرے لئے ناشتہ بناؤ اس کا حکم ملتے ہی روح نے اسے گھور کر دیکھا وہ ابھی ابھی یہاں پہنچے تھے
مجھے نیند آ رہی ہے یارم آپ مجھ پرظلم نہیں کر سکتے پہلے ہی آپ نے مجھے ساری رات سونے نہیں دیا اور پھر صبح صبح اذان سے پہلے مجھے یہاں لائے
اور اب آپ کو میرے ہاتھ کا ناشتہ بھی چاہیے ایسا کون کرتا ہے وہ بالکل آہستہ سے آواز میں منمناتی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی
کچھ کہا تم نے وہ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
نہیں بس یہی کہہ رہی ہوں کہ آپ روم میں جائیں میں آپ کے لئے ناشتہ بناتی ہوں اس کے سختی سے گھورنے پر وہ اپنی بات ہی بدل گئی
گڈ جلدی کرو وہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا
یہ کیا کریلے کا جوس پی کر بیٹھے ہیں جو اتنا کڑوا بول رہے ہیں چلو کوئی بات نہیں میں اپنے ہاتھ سے میٹھا میٹھا ناشتہ کرواوں گی تو خود ہی میٹھے ہو جائیں گے مناکرتو میں بھی رہوں گی یارم بابو آخر کب تک ناراض ہو سکتے ہیں آپ مجھ سے وہ مسکرا کر اپنے آپ کو گڈلک وش کرتی کچن کی جانب آئی تھی۔