Areej Shah Novels Urdu Novels

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writers. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is the latest novel by Areej Shah. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.

Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download Ishq e Yaram Novel to click on the link given below, or you can also read it online.

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel

Ishq e Yaram Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society

 

↓ Download  link: ↓

If the link doesn’t work then please refresh the page.

 

Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Ep 1 to Last

 

 

 

Read Online Ishq e Yaram Novel by Areej Shah:

عشقِ یارم

اریج شاہ

وہ  ہر طرف اسے ڈھونڈ رہا تھا کسی کی اتنی ہمت کہ کوئی اس کی روح کو تکلیف پہنچائے

کون تھا اس کا ایسادشمن جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول سے پنگا لیتا ۔

راشد اس کھیل کا سب سے کمزور مہورا تھا ۔جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول کی کمزوری پر حملہ کرتا

ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔اور پھر اسے ایک فون آیاتھا ۔

اگر روح کو بچانا چاہتے ہو تو جس جگہ کی لوکیشن میں تمہیں سینڈ کر رہا ہوں وہاں چلے جاؤ روح کو اس شخص نے وہیں پر رکھا ہے ۔

لیکن تم کون ہو۔۔۔! وہ پاگلوں کی طرح روح کو ڈھونڈتے  تھک چکا تھا جب کسی امید کے روشن دیے کی طرح کسی نے اسے فون کیا

میں جو بھی ہوں اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ملیکن یں ہوچاہتا ن تم مجھے یاد رکھو دنیا مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتی ہے میری ذات کھنگالنے  سے بہتر ہے کہ تم اپنی روح کی جان بچاؤ فون بند ہوچکا رہا

اور لوکیشن اس کے موبائل پر آ چکی تھی ۔

وہ شخص کون تھا کون نہیں یارم کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن یا رم کی ذات پر اس کا ایک احسان تھا جو یارم کاظمی  مرتے دم تک چکا نہیں سکتا تھا ۔

°°°°

وہ یارم کے لیے سب سے مشکل ترین وقت تھا جب ہرچلتی سانس کے بعد اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی روح اس سے دور جا رہی ہے

ڈاکٹر نے اس کا جنون اور دیوانگی دیکھتے ہوئے ہی اسے مناسب الفاظ میں بتایا تھا

کہ روح کی جان بچانا اور تقریبا ناممکن ہے یہ سب کچھ کہتے ہوئے ڈاکٹر خود بھی اس سے خوفزدہ تھا یقیناًاسے اپنی جان بہت عزیز تھی ۔

وہ یارم کے جنون کے ہتھے نہیں چڑناچاہتا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی اس شخص کے لئے اس کی زندگی ہے

لیکن اندھیری کالی قبر سے نکلنے کے بعد روح اپنے آپ کو بےجان محسوس کر رہی ہے اس میں جینے کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔

یارم کا بس چلتا تو شاید وہ ڈاکٹر کو ہی جان سے مار دیتا ہے ۔

اگر وہ ڈاکٹر زندہ تھا تو صرف اور صرف خضر کی وجہ سے جس نے اس وقت یارم پر کنٹرول کیا تھا ۔

اور پھر وہ اپنی روح کو لے آیا تھا وہاں سے اس کا  مہنگے سے مہنگا علاج کروایا ۔امریکا کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ روح کے اندر صرف دس پرسنٹ ہی جینے کی نوعیت باقی ہے

اگر وہ خود زندگی کی طرف لوٹ آئے تو اس کی جان بچائی جا سکتی ہے

اور پھر یارم کی محبت کے سامنے روح نے ضد چھوڑ دی وہ لوٹ آئی اپنے یارم کے لیے کیونکہ وہ بھی جانتی تھی روح کے بنا یارم کچھ نہیں ۔

پورے دو ماہ بعد وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی ۔اور تب سے ہی ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی بات یاد کروانے یا پھر ٹینشن دینے سے سختی سے منع کیا تھا ایسا کرنے سے اس کی دماغی حالت بھگڑ سکتی تھی وہ اپنی یاداشت بھول سکتی تھی

اور یارم ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا اسے تو بس اپنی روح واپس چاہیے تھی جیسی وہ تھی بالکل ویسی ہی

°°°°°°°

یارم کے لیے روح ہی اس کا سب کچھ تھی اس کے بنا وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ جانتا تھا وہ ان سب چیزوں سے عاجز آچکی ہے وہ چاہتی ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے یہ وقت اس کے لیے بہت مشکل ہے ڈاکٹر نے دو ماہ تک یارم  کو روح کے پاس جانے سے بھی منع کر دیا تھا

اسے یاد تھا ۔کتنی مشکل سے وہ اسے نارمل زندگی کی طرف لا پایا تھا

تین ماہ گزر چکے تھے اس حادثے کو لیکن روح آج بھی پہلے کی طرح نہیں ہو پائی تھی ۔

ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی پرانی بات یاد دلوا کر ٹینشن دینے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وہ سب کچھ بھولتی ہی نہیں تھی وہ اس کے سامنے ظاہر کرتی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن یارم جانتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ساری رات اس کے قریب بیٹھا جاگتا رہتا تھا کہ کہیں وہ خواب میں ڈرنا جائے یارم ہر ممکن طریقے سے اسے ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھے ہوئے تھا ۔

کل اسے پورا ایک مہینہ ہو جانا تھا قومہ سے واپس ہوش میں آئے ہوئے ۔دو مہینے تک اسے کچھ بھی ہوش نہیں تھا ڈاکٹر کے مطابق شائد ہی وہ زندہ بچ پاتی۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ ایک مردہ وجود ہے وہ زندہ نہیں بچ پائے گی لیکن یارم نے ہمت نہیں ہاری ۔اسے اپنی روح  چاہیے تھی اور وہ اپنی روح کو واپس لے آیا تھا

 یہ ایک معجزہ تھا

جو یارم کی زندگی ہوا اور اسے ایک بار پھرروح مل گئی

 اللہ نے اس پر رحم کیا تھا اس کی روح کو اسے واپس دے دیا تھا ورنہ اس کے معاملے میں توخضر لیلیٰ شارف اور معصومہ بھی ہمت ہار چکے تھے۔وہ اس سے چھپ کر روتے تھے وہ پوری طرح سے اس بات کو قبول کرچکے تھے کہ اب روح کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں بچی اور کسی بھی وقت روح کی موت کی خبر یارم کی زندگی ہلاسکتی تھی

لیکن یارم کی محبت زندہ تھی اسے واپس آنا تھا اور اللہ کو اس پر رحم آگیا جس کے لیے وہ ہر وقت اپنے رب تعالیٰ کا شکر گزار تھا

ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر روح کی سانس اکھڑنے لگتی اکثر وہ اپنے آپ کو ایک اندھیری قبر میں محسوس کرتی اچانک نیند میں اس  کی آنکھ کھل جاتی

اس کا خوف زدہ وجود کانپنے لگتا اور یارم بے بس تھا بالکل بے بس یہاں وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا یہاں اس کی ہر پاور بے بس تھی

یارم اسے بالکل بھی اکیلے نہیں چھوڑتا تھا اسے صرف اور صرف اپنی روح کی پرواہ تھی جس کے بنا وہ ادھورا  تھا نامکمل تھا" روحِ یارم" مطلب  یارم کی روح وہ یارم کی روح تھی روح کے بنا یارم کبھی مکمل نہیں ہو سکتا تھا

یارم کا کہنا تھا کہ وہ مطلبی ہے وہ روح کا نہیں بلکہ اپنا خیال رکھتا ہے اپنے جینے کی وجہ کا خیال رکھتا ہے کیونکہ روح کے بنا وہ جی نہیں سکتا

اور یار م کی حددرجہ کیئرنگ پر وہ بری طرح سے جھنجھلا گئی تھی ۔ہر چیز میں روک ٹوک کھانے پر روک ٹوک'اٹھنے بیٹھنے پر روک ٹوک یہاں تک کہ وقت پر نہ سونے پر روک ٹوک وہ آج کل یارم سے بہت زیادہ چڑی ہوئی تھی اکثر ناراض بھی ہو جاتی اور یارم کو اس کی فضول اور بےجا ضد بھی ماننی پڑتی

اب وہ پہلے کی طرح یارم کی ایک گھوری پر خاموش نہیں ہوتی تھی اب وہ ضد کرتی تھی جانتی تھی کہ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی یارم اس کو ڈانٹنا تو دور غصہ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا لیکن پھر بھی یارم کا لال چہرا سوخی بھری آنکھیں اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام نہیں کرنے دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس سے لڑتی بھی تھی لیکن اس کے بدلے بھی سامنے سے ٹھنڈا ری ایکشن ملتا تو وہ بےزار ہو جاتی

  ایسے میں لیلیٰ کی پریگنسی نے اس کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈال دیا تھا ۔

اور اس کی خوشی اور ضد دیکھتے ہوئے یارم نے اسے لیلیٰ کے پاس دوپہر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی

°°°°°

 وہ سارا سارا دن لیلٰی کے پاس ہی رہتی تھی

 کیونکہ خضر کے مطابق وہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے مافیا ماحول میں پرورش نہیں پانے دے گا یہی وجہ تھی کہ لیلٰی کو سارا کام کاج چھوڑ کر پریگنسی کے پہلے مہینے میں ہی گھر بیٹھنا پڑ گیا ۔

ایسے میں روح کا آجانا لیلیٰ کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھایہ الگ بات ہے کہ اب آہستہ آہستہ وہ اس کے لیے زحمت ثابت ہو رہی تھی

اس کی پریگنسی کی وجہ سے یارم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لیلی کے پاس چھوڑ کے آتا تھا وہ تو روح کی ہر چیز بلکہ ایک ایک سیکنڈ پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا وہ شام کو خود ہی لے کر جاتا یہاں تک کہ وہ اس کے معاملے میں وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتا تھا

لیلیٰ کے گھر میں لگے کیمروں کی مدد سے وہ ہر وقت اس پر نظر رکھتا تھا ۔

لیکن وہ جانتی تھی کہ آفس سے لے کر لیلی کے گھر کے سفر تک وہ اسے نہیں دیکھ پاتا اور آج تو شارف نے فون پر بتایا تھا کہ ڈیول کسی کا صفایا لرنے گیا ہے

مطلب وہ لیٹ آئے گا اور وہ اس چیز کا فائدہ اٹھاتی تھی لیلی کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کررہی تھی

لیلی کے لیے تو روح بھی اپنے ماموں سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس کی پریگنسی کو لے کر کافی ٹچی ہو رہی تھی کبھی ایک چیز تو کبھی دوسری چیز وہ اس کو کھلا کھلا کر کچھ ہی دن میں اس کا وزن بڑھانے میں کامیاب رہی تھی

اس وقت بھی وہ دونوں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی جبکہ لیلی کو یارم نے روح سے کوئی بھی کام کروانے سے منع کر رکھا تھا لیلیٰ کی سانسیں سوکھی ہوئی تھی کیونکہ یارم کے آنے کا وقت ہو رہا تھا ۔

اور یہ ماموں کی بھانجی اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی ۔

روح خدا کے لئے بس کر دو یار میں خود بنا کر پی لوں گی تمہیں ویڈیو سینڈ کر دوں گی مگر تم مت بناؤ ڈیول کبھی بھی آتا ہوگا

وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اسے منع کرنے کی کوشش کر رہی تھی

یارم نام ہے ان کا ماشاء اللہ سے کتنا خوبصورت نام ہے اور تم لوگ ڈیول ڈیول کہہ کربگاڑ رہے ہو ان کا نام اللہ معاف نہیں کرتا نام بگاڑے والوں کو وہ چڑکر بولی

تمہیں  نام کی پڑی ہے روح ڈیول ہمارا نقشہ بگاڑ دے گا اگر تمہیں ذرا سی بھی تکلیف ہوئی تو۔وہ اس کی بات کاٹ کر جلدی سے بولی جب اسے پیچھے سے قدموں کی بھاری چاب سنائی دی۔

تم یہاں میری بیوی سے کام کروا رہی ہووہ غصے سے سرد آواز میں بولا ۔

 لیلیٰ تو اچھل پڑی جب کہ روح کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا

شارف بھائی نے تو بولا تھا کہ یہ کہیں گئے ہوئے تھے اور آج لیٹ آنے والے تھے تو اتنی جلدی ۔۔۔ وہ ناخن منہ میں ڈالے سوچنے لگی

جب یارم کی سخت گھوری نے ہاتھ منہ سے نکالنے پر مجبور کر دیا

نہیں ڈیول می۔۔۔ می۔۔ می۔۔۔میں نہیں روح کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔بہت بہت بار منع کرنے کی کوکوکوک۔۔۔۔۔۔ کوشش کی لیکن یہ میری سنتی۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔ ۔لیلی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دبنے لگے تھے آواز کمبخت باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی

یارم سے وہ لوگ ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رہتے تھے لیکن جب سے روح کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا تھا ان کی زندگی پھڑپھڑاتا پرندہ بنی ہوئی تھی

جیسے ڈیول کبھی بھی آزاد کر سکتا تھا

اور اب تو وہ روح کے معاملے میں خود پے بھی یقین نہیں کرسکتا تھا تو لیلیٰ تو پھر لیلیٰ تھی

تو تم اسے کچن میں لے آئی کہ جو دل میں آئے کرو ۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر غصے سے جبڑےبھیجے بولا

نہیں ڈڈڈ۔۔۔ڈیول یہ مان نی۔۔۔ نہیں رہی تھی ۔۔۔ لیلی نظرجھکا گئی۔جبکہ یارم نےانگلی کی مدد سے اس کا چہرا اوپر کیا۔

اگر اسے اتنی سی تکلیف ہوئی نہ تو میں تمہیں زندہ زمین میں  گاڈ دوں گا یاد رکھنا اس کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا جب کہ وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی لیلیٰ کی شامت دیکھ رہی تھی ۔

آواز کرنے کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ نہ ہو کے اس کے لیلی کے گھر آنے پر پابندی لگ جائے اور اب وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔اسے آپنے بالکل نزدیک دیکھ کر روح نے آنکھیں میچ لیں

جب اس کی نرم سی گرفت اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی وہ بنا کچھ بولے اسے اپنے ساتھ باہر لےجانے لگا جس کا صاف مطلب تھا کہ یارم آج بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس آدمی میں اتنا صبر کہاں سے آیا تھا سمجھ پانا مشکل تھا

روح نے بےفکر ہو کرایک نظر پیچھے کھڑی لیلی کو دیکھا اور اسے سوپ پینے کا اشارہ کرنے لگی لیلیٰ نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔

مطلب کہ اس کی جان اٹکی ہوئی تھی اور وہ اسے سوپ پینے کے لئے کہہ رہی تھی ۔آج اس کے شوہر کے ہاتھوں وہ شہید بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن اسے تو اس کی بالکل پرواہ ہی نہیں تھی لیلی اندر ہی اندر غصہ پیتی سوپ کا پیالا لیے باہر آئی

اور اسے ٹیبل پر پٹکتے ہوئے موبائل کا کیمرہ آن کیا ویڈیو بنتی جارہی تھی اور لیلی منہ بناتی سوپ پیتی جا رہی تھی ۔کیونکہ بنا ثبوت وہ اس پر یقین نہیں کرتی کہ اس نے سوپ پیا ہے

°°°°

وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جب کہ روح کب سے چور نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

نہ تو وہ اسے ڈانٹتا تھا اور نہ ہی غصہ کرتا تھا اس کا سارا غصہ باقیوں کے لیے تھا روح کو تکلیف پہنچانا اب اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی

وہ کنتی کوشش کرتی تھی کہ یارم اس پر غصہ ہو اسےڈانٹے پھر پیار کرء لیکن اب تو یارم کو اس سے زیادہ اس کی سوتن بیماری سے پیار ہو گیا تھا وہ منہ کے ڈائزین بناتی مسلسل اس کو دیکھتی سوچ رہی تھی

اس کے کھو جانے کے ڈر نے یارم کو اس حد تک بے بس کردیا تھا کہ اب وہ روح کو درد دینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا ۔

کہاں وہ اس کے ذرا سی سخت نگاہ پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی تھی اور اب وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرتی تھی۔خیر اس سب چیزوں کا تو وہ بعد میں گن گن کے بدلا لینے والا تھا اس کا حساب تو روح کو ٹھیک ہونے کے بعد دینا ہی تھا

لیکن فلحال   اس کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یارم اس کو کچھ نہیں کہتا تھا ۔اس کی  حد سے زیادہ فکر کرنا اس کا خیال رکھنا ۔اس سب کے علاوہ جیسے یارم کو اور کوئی کام ہی نہیں تھا ۔

اس بورنگ روٹین اور عجیب و غریب زندگی سے روح اجزا چکی تھی ۔

وہ سب کچھ پہلے جیسا چاہتی تھی اور پہلے جیسا سب کچھ تبھی ہو سکتا تھا جب وہ بالکل ٹھیک ہوتی اور اب وہ کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی لیکن یارم کا یہی کہنا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے

جس کی وجہ سے یارم کی اسٹریک کیئرنگ اب بھی جاری تھی

وہ کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ روح کا سارا دھیان اسی کی جانب ہے لیکن وہ جان بوجھ کر اسے دیکھ نہیں رہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ سچ میں غصے میں تھا اور وہ اپنا غصہ اس پر نکال نہیں سکتا تھا

اس لیے وہ اپنا غصہ اسٹینڈنگ پر نکالتے ہوئے گاڑی چلانے میں مصروف تھا جب اسے اپنے ہاتھ اور کندھے پر روح کا لمس محسوس ہوا وہ اس کا بازو تھا میں اس کے کندھے کے اپنا سر رکھ چکی تھی

یارم نے نرمی سے اپنا حصار اس کے گرد کھینچتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا  کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔گھر کے باہر گاڑی روک ہر یارم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔

لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اس کی لریزتی پلکیں دیکھ چکا تھا

بڑی بھاری ہو گئی ہو ۔اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی تو اس کے لبوں پر شرارتی سی مسکان کھلی

اور کھلایں نہ وہ دوائیاوں کی دکان اب ہو گئی نہ میں موٹی اب کیسے اٹھاکے چلیں گے مجھے۔۔وہ دونوں آنکھیں پٹپٹاتی سیریس انداز میں بولی۔

تم ایک بار بنا کوئی بھی مستی کیے یہ کورس مکمل کر لو میں ساری زندگی تمہیں یوں ہی اپنی باہوں میں اٹھا کر چلوں گا۔وہ محبت سے بولا تو روح نے آنکھیں گھومئی ۔

اور اگر میں دوائیاں نہیں کھاؤں گی تو کیا آپ مجھے اپنی باہوں میں نہیں اٹھائیں گے وہ اس کے گلے میں باہر ڈالتی اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے بولی

تم دوائی ضرور کھاؤ گی روح وہ سختی سے بولا تھا ۔

ہاں تو میں کب انکار کر رہی ہوں میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک دن نہ کھانے سے کون سا کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں ہوجائے گا بہت کچھ ہو جائے گا مجھے دوائی کھانی چاہیے ضرور کھانی چاہیے ۔وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر یارم کی سخت انگلیوں کا ہلکا سا لمس محسوس ہوا وہ فورا بات بدل گئی ۔

گڈ گرل بے بی ۔۔وہ اسے لئے گھر کے اندر داخل ہوا

بس ذرا ذرا سی بات پر گھورنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی موٹی موٹی آنکھوں سے ۔کوئی ان کو بتائے نیلی آنکھیں خوبصورتی کی نشانی ہوتی ہیں نہ کہ وہ دہشت پھیلانے گی ۔وہ برابڑتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کی اس سرگوشی پر اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکا تھا

ہاں بس نمائش کروالیں ان سے اور تو کوئی کام ہے نہیں وہ اس کے ڈمپل میں انگلی گھساتی اس کی مسکراہٹ کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

جبکہ اس کی اس حرکت یارم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی

یارم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس لکے لیے ڈنر بنایا ۔وہ سچ میں کمال کا کوک تھا اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا ۔اور اگر ذائقہ نہ بھی تو تب بھی ہارم کی بےپناہ محبت پر وہ انکار نہیں کرسکتی تھی ۔

اور پھرظالم جس ادا سے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا کوئی انکار کر کے دیکھائےوہ اس کے ہاتھوں سے کھاتی سوچ رہی تھی جب اپنی بےلگام سوچوں پے لعنت ڈالتی اونچی آواز میں بولی

اللہ نہ کرے۔کہ آپ کسی اور کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیں  ۔

کیا بول رہی بےبی منہ کھولو ۔بس یہ تھوڑا سا رہ گیا ہے ۔اس کی بات کی گہری سمجھے بغیر یارم نے ایک اور نوالہ اس کے منہ میں ڈالا

اس وقت یارم کے لیے اس کا کھانا اہم تھا ۔ورنہ یقیناً اس کے اظہارِ جلن پر وہ خوش ہوتا۔کیوں کہہ روح بھی اس کے معاملے میں کافی پوزیسسو ثابت ہوئی تھی اسے بھی پسند نہیں تھا اپنے علاوہ یارم کی توجہ کا مرکز کسی اور کی ذات دیکھنا ۔

اکثر مارکیٹ یا شاپنگ مال میں وہ اس سے آگے پیچھے کہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔

جب کہ وہ جانتی بھی تھی کہ یارم اس کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا

ہاں لیکن اس کی یہ جلن یا رم کو بہت بھاتی تھی ۔اسے اچھا لگتا تھا روح کا اس کے لیے اتنا ٹچی ہونا لیکن یہ وقت خوش ہونے کا نہیں تھا کیونکہ وہ کھانا بنانے میں پہلے ہی لیٹ ہو چکے تھے ۔روح تو بہت خوشی کے ابھی تک اس کا منہ کڑوانہیں ہوا تھا لیکن یارم کو اس کی فکر لگی ہوئی تھی ۔

میرا بچہ جلدی سے یہ ختم کرو ۔پھر میں تمہیں اچھی سی چائے بنا کر پلاتا ہوں ۔وہ چائے کیلئے پانی چڑاتا بہت محبت سے بولا تھا ۔

مطلب آپ کو یاد ہے یارم آپ کی یاداشت کتنی اچھی ہے نا مجال ہے جو کچھ بھول جائیں

وہ دانت پیستی یار م کو مسکرانے پر مجبور کر گئی

لو جی پھر شروع ہوگئی نمائش ۔

ہٹیں پیچھے آج چائے میں بناوں گی۔وہ کرسی سے اٹھ کر بولی

نہیں روح تم ابھی گیس کے قریب نہ آو یہ خطرناک ہے وہ اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتا اسے واپس بیٹھانے لگا۔

یارم اب بس کریں نہ پلیز میں تنگ آ گئی ہوں یوں بیٹھے بیٹھے ۔۔پلیز کم از کم چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔وہ منت کرنے والے انداز میں بولی  ۔

نہیں روح پلیز ابھی نہیں صرف کچھ ٹائم صبر کر لو پھر سب تم نے ہی تو کرنا ہے نا وہ سمجھنے والے انداز میں بولا تو روح منہ بنا کر واپس بیٹھ گئی ۔

آج میں تمہیں بہت مزے کی چائے پلاوں گا۔وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے منانے میں کامیاب ہوا تھا۔

اور واقع ہی اس کی چائے بہت زبردست تھی ہمشہ کی طرح وہ اس میٹھی میٹھی چاِپئے کے بعد وہ اسے گندی گندی دوائیاں کھلانے والا تھا۔جس پر اس کا منہ ساری رات اس کڑوے زہر کے زیراثر رہے گا

آخر کب ختم ہو گا یہ میڈیسن کا سلسلہ وہ سوچتے ہوئے یارم کے پیچھے منہ بنائے کمرے میں آئی تھی

°°°°°

یارم اب نہ میں آپ سے پکی والی خفا ہو جاوں گی اسے میڈیسن باکس لیے اپنی طرف آتا دیکھ وہ منہ بنا کر بولی

کوئی بات نہیں بےبی مجھے میرے بچے کو منانے کا طریقہ آتا ہے وہ محبت سے اس کا ماتھا چومتامیڈیسن نکالنے لگا

آپ کو پتا ہے کوئی بھی کام زبردستی کروانے سے گناہ ملتا ہے آپ کو بھی گناہ مل رہا ہے جب آپ مجھے زبردستی یہ دوائیاں کھلاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے توبہ کر لیں  ۔کسی بھی طریقے سے جب وہ اس کی باتوں میں نہیں آیا تو روح اب اسے خدا سے ڈر آنے لگی ۔

لیکن میں یہ کام تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں اور جو کام کسی کی بھلائی کے لیے کیا جائے اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا

ہیں۔۔۔۔! بھلائی کیا بھلائی ہے اس میں اچھے خاصے منہ کو کڑوا بادام بنا کے رکھ دیتے ہیں آپ اور آپ کہتے ہیں کہ یہ میری بھلائی ہے آپ کھائے ذرا یہ دوائی ذرا بیمار ہوں آپ۔۔۔۔ استغفراللہ کیا بکواس کر رہی ہوں میں اللہ نہ کرے آپ کو کچھ بھی ہو کوئی بھی بیماری آپ کو چھو کر بھی گزرے وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتی اللہ سے معافی مانگتے ہوئے اپنی بات کی توبہ کرنے لگی ۔۔پھر زراواقفے سے بولی

آپ ذرا یہ دوائی کھائیں پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کیسی ہے ۔گلے سے نیچے نہیں اترتی یہ تو میں صرف آپ کی خاطر سمجھوتا کر لیتی ہوں ۔ورنہ میں ساری زندگی اسے منہ نہ لگاتی

اپنا منہ کھولتے ہوئے وہ روز کی طرح اپنی بڑاس بھی نکال رہی تھی

آخر اس سوتن بیماری کو خود کے اور یارم کے بیج سے نکالنا بھی تو تھا

ورنہ اس کا تو یہی کہنا تھا کہ اس کی اس سوتن بیماری سے یارم کو اس سے زیادہ محبت ہو گئی ہے

یہ دوائی تمہاری احسان مند رہے گی ساری زندگی کے تم نے اسے منہ لگایا ۔وہ شرارتی انداز میں اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگاتے ہوئے بولا تو روح نےآخری گولی بھی نگل لی

گڈ میرابچہ اب جلدی سے لیٹ جاؤ سونے کا وقت ہو گیا ہے

یارم مجھے ابھی نہیں سونا مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔وہ جلدی سے بولی تھی ۔

ہم صبح باتیں کریں گے اس وقت تمہیں سونا ہے چلو شاباش وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے زبردستی بیڈ پر لیٹ آنے لگا

نہیں نا یارم مجھے نہیں سونا پلیز نہ ہم تھوڑی دیر باتیں کرتے ہیں پھر سو جائیں گے نہ روح کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی میڈیسن میں ایک میڈیسن نیند کی بھی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر اس سے دیر سے سونے کی ضد کرتی تھی لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ رات میں اس کی نیند ڈسٹرب و یا وہ ڈر کر جاگ جائے

ورنہ شاید وہ خود بھی اسے اتنی جلدی سونے پر کبھی مجبور نہ کرتا

اوکے بابا ہم کر رہے ہیں باتیں آرام سے لیٹ جاؤ میں بھی یہی ہوں تمہارے پاس وہ مان جانے والے انداز میں کہتا بیڈ کی دوسری جانب آیا تو روح کو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ اسے سینے سے لگایا تھا

اور اب یقیناً روح کی بے تکی باتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا ۔

اور انہی باتوں کے دوران ہی اس نے گہری نیند میں اتر جانا تھا یارم جانتا تھا

°°°°°

یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔جلدی لیلیٰ ماں بن جائے گی ۔اورخضر ماموں کا ایک پیارا سا بیٹا ہوگا یا شاید بیٹی لیکن یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔

کاش ہمارا بچہ ہوتا تو اب تک تو کچھ ہی وقت میں وہ ہمارے پاس آنے والا ہوتا

ہم دونوں اس سے بہت پیار کرتے ہیں نا یارم ۔

لیکن شاید میں اس کی ماں بننے کے قابل نہیں تھی اسی لئے تو وہ آیا ہی نہیں شاید میں ہی اللہ کے دیے اس تخفے کو سنبھال نہیں پائی ۔ایک بار پھر سے اپنے اندر خالی پن کا احساس جاگتے ہی روح اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی اور یارم نے سختی سے لب بھیج لیے

یہی وجہ تھی روح میں تمہیں لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے رہا تھا ۔اس طرح سے رو رو کر تم اپنی طبیعت خراب کر لوگی

جو کچھ بھی ہوا وہ سب ہمارے نصیب کا لکھا تھا خبردار جو تم نے اس میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا ۔

وہ ہمارے نصیب کی اولاد نہیں تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ بے اولاد رہیں گے ان شاء اللہ جلد بھی ہمارے بچے ہوں گے ۔اور ہم انہیں بہت پیار کریں گے بہت خیال رکھیں گے ۔

اور اس طرح سے آنسو بہا بہا کر اللہ کو ناراض نہ کرو۔وہ بے نیاز ہے ہمیں اوقات سے بڑھ کر نوازے گا ان شاءاللہ ۔لیکن اس طرح سے رو رو کر تم نا قدری کر رہی ہو جو ہے اس کی  ۔وہ اسے سختی سے ڈپتے ہوئے بولا ۔

اچھا نہیں کہتی کچھ بھی ڈانٹتے کیوں ہیں ۔۔۔! وہ لاڈ سے اس کے گرد باہیں پھیلائے بولی۔

ڈانٹ کہاں رہا ہوں بس سمجھا رہا ہوں ۔اپنی اس نا لائق اسٹوڈنٹ کو ۔یا رم نے اسے اپنے مزید قریب کیا

میں نالائق نہیں ہوں ۔وہ روٹھے روٹھے انداز میں بولی

ہاں بہت لائق ہو تم ۔مجال ہے جو کوئی بھی بات اس نھنے سے ذہن میں بٹھا لو ہر چیز پر ضد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو ۔اس کے روٹھنے پر یارم نے اسے مزیدچھڑا۔

بس بہت ہوگیا یارم بہت اڑا لیا آپ نے میرا مذاق ہے ایک بار  ٹھیک ہو جانے دیں مجھے منہ بھی نہیں لگاؤں گی آپ کو ۔دن رات بیماری بیماری کرتے رہتے ہیں نہ پھر رہنا اسی سوتن بیماری کے ساتھ ۔

روح ہاتھ نہیں آئے گی تب وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر تکیے پر رکھتے ہوئے بولی ۔یہ ناراضگی کا اظہار کرنے کا طریقہ تھا یارم کو بالکل پسند نہیں تھا ۔کیوں کہ اسے باہوں میں لیے بغیر تو اسے ساری رات نیند بھی نہیں آتی تھی ۔

ہاں یہ بیماری مجھے پیاری ہے کیونکہ اس وقت یہ تم سے جڑی ہوئی ہے ۔لیکن تم نے اسے اپنی سوتن کیوں بنا لیا ۔ وہ پچھلے دو دن سے اس کی بیماری سوتن والےطعنے سن رہا تھا

سوتن ہی تو ہے جب سے یہ سوتن ہم دونوں کے بیچ میں آئی ہے آپ مجھے کم اور اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔

بتائیں کب کہا تھا آپ نے مجھے آئی لو یو میرا بچہ ۔۔۔بولنے بتائیں میں بتاتی ہوں آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا اور اتوار والے دن صبح کچن میں آپ کو یاد آیا تھا کہ میں آپ کی بیوی ہوں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں

ورنہ تو ہر وقت دوائیاں کھا لو روح

وقت پر سو جاؤروح

وقت پر کھانا کھاؤروح ۔

طبیعت خراب ہو جائے گی روح

بیمار پر جاؤں گی روح ۔

آپ کی ہر بات اس سوتن بیماری سے جڑی ہوتی ہے ۔ررح تو کہیں ہے ہی نہیں بس ہر جگہ یہ سوتن بیماری ہے

تو ہوا نہ آپ کو اس سوتن بیماری سے مجھ سے زیادہ پیار

وہ عجیب و غریب لاجک بیان کرتی اپنے بات کی وضاحت دے رہی تھی

اور یارم بھرپور توجہ سے اس کی ایک ایک بات کے ساتھ اس کے احساسات کو بھی سمجھ رہا تھا

ہاں یہ سچ تھا جب سے وہ ہوش میں آئی تھی یارم کو صرف اور صرف اس کی صحت کی فکر لگی ہوئی تھی ۔

وہ صرف اور صرف اس کی پروہ کر رہا تھا اس کا خیال رکھ رہا تھا

وہ اسے محبت نہیں دے رہا تھا وہ اسے توجہ دے رہا تھا

اور سچ یہی تھا کہ یہ اس کی روح کے ساتھ زیادتی تھی ۔

جس کے لیے وہ خود کو قصوروار بھی سمجھتا تھا

لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی روح بالکل ٹھیک ہو جائے ۔اور یہ بیماری ان دونوں کے بیچ سے نکل جائے ۔

اور اس ان چاہی بیماری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے یارم کو فلحال اس کی صحت کی فکر کرنی تھی۔

تم ایک بار بالکل ٹھیک ہو جاؤ روح ۔

یارم کاظمی کی محبت پر ہی نہیں بلکہ اس کی سانس سانس پر صرف تمہارا حق ہےجو تم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔

کوئی بیماری ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آسکتی ۔

دنیا کی کوئی بھی چیز یارم کاظمی کیلئے روح سے زیادہ عزیز نہیں ہوسکتی ۔

بس ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ ۔پھر دیکھنا میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا ۔

وہ ایک ہی لمحے میں اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتا شدت سے کہتا اسے اپنے سینے میں بھیج گیا۔

ہاں میں بھی تبھی کی بات کر رہی ہوں میں آپ کو منہ نہیں لگاؤں گی اتنے نخرے دکھاؤں گی ۔کہوں گی جائیں نہ اپنے لاڈلی بیماری کے پاس میرے پاس کیا کر رہے ہیں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اترتی نہ جانے کیا کیا بڑابڑا رہی تھی ۔

لیکن اس کے باوجود بھی اپنی آنکھیں کھولے یا رم سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی

۔ایسی بیوقوفی بھری باتیں وہ ہوش میں کبھی نہیں کرتی تھی ۔

یہ سب ان میڈیسن کا اثر تھا جو اپنی سوچوں کو عجیب لفظوں میں پرو کر اس کے سامنے بیان کرتی تھی

ہاں لیکن وہ اپنے دل میں کچھ نہیں رکھتی تھی ۔

اور اس کی صحت کے لیے یہ بہت اچھا ہے

یارم کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ وہ بڑی مشکل سے آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی

میں یہاں اتنے سیریس موضوع پر بات کر رہی ہوں اور آپ مسکرا رہے ہیں چھپائیں اسے چھپائے اس ڈمپل کو ورنہ میں کھا جاؤں گی ۔

بلکہ نہیں آپ بھلا کیوں چھپائیں گے آپ تو نمائش کریں گے ۔آخر اللہ نے دیں جو دیا ہے ۔لیکن میں آپ کو بتا دوں یارم کاظمی صاحب اللہ نمائش کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا قہ سر گوشانہ انداز میں اس کے کان کے قریب بولی تھی ۔

جس پر یارم کے ڈمپل مزید گہرے ہوئے تھے ۔

اگر روح کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ رات کو وہ نیند کے خمار میں اس سے کیا کیا بولتی ہے ۔تویقیناً تین چار دن تو اس سے چھپ کر گزار دیتی

ہاں لیکن یہ الگ بات تھی کہ صبح اس کی شروعات بالکل نئی ہوا کرتی تھی رات وہ کیا کیا کہتی ہے اس کے ذہن میں ایک دی بات نہ ہوتی ۔

اس کی گرم گرم سانسیں وہ اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا مطلب کے شاید وہ سوچکی تھی ۔

یا رم نے اسے سیدھا کرنا چاہتا تو مزید یارم سے لپٹ گئی ۔

اس سے پہلے کہ یارم اپنی آنکھیں بند کرتا وہ اچانک سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔

کچھ رہ گیا کیا میرا بچہ ۔۔۔! وہ بہت محبت سے بولا  ۔

اینگو مینگو یارم ۔۔۔اینگومینگو سو مچ ۔۔اس کے معصومانہ انداز میں کہنے پر یارم کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھی

رات کے بارہ بجے اسے آئزلینڈک لینگویج بولنے کا جوش چڑ چکا تھا ۔

آئی لو یو ٹو میرا بچہ ۔۔۔وہ ایک بار پھر سے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا تھکنے لگا ۔

جب  اچانک اس نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا یارم نے ٹھنڈی بھری نہ جانے اب اسے کیا یاد آیا ہوگا ۔

اب کیا ہوا بےبی۔۔۔!یارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا

جب اچانک ہی وہ اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتی شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔

یہ جانے بغیر کے ایک اور رات کو ہی یارم کے لیے بہت مشکل بنا چکی ہے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بےحد قریب کی یہ وہ سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔

تمہیں اس سب کا حساب چکانا ہو گا روح بےبی ۔یہ سب کچھ کر کے تم اپنے آنے والے وقت کو مشکل بنا رہی ہو۔تمہیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا ۔یہ ساری حرکتیں معاف کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔اس کے ماتھے کو شدت سے چومتے وہ خود میں ہی کہیں قید کر لینا چاہتا تھا

°°°°°

یارم پلیز مان جائیں نہ میں وعدہ کرتی ہوں میں کوئی کام نہیں کروں گی کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاوں گی میں کچھ نہیں کروں گی پلیز مجھے لے چلیں نا ۔

وہ صبح اٹھتے ہی اس کی منتیں کرنے لگی تھی کیونکہ یارم نے کہا تھا کہ اب وہ اسے لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے گا

بلکہ میری اور شفا ہی اس کا خیال رکھیں گیں۔اور اس کے ایک ایک سیکنڈ کی رپورٹ اس تک پہنچائیں گیں ۔

سوری بےبی میں اس معاملے میں تم پر بالکل یقین نہیں کر سکتا ۔تمہارے ہاتھ پیر کنٹرول نہیں ہوتے اس لیے بہتر ہے کہ تم گھر پر ہی رہو اگر چاہو گی تو لیلیٰ یہاں آ جایا کرے گی لیکن تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گا ۔اس کا گھر میرے آفس سے بہت دور ہے اور واپسی کے راستے پر بھی تمہیں دیکھ نہیں پاتا

لیلی ماں بننے والی ہے یارم وہ بھلا روز روز یہاں کیسے آئے گی اور میں اپنے ہاتھ پیر کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گی نہ میں کوئی کام نہیں کروں گی آپ یقین کر کے تو دیکھیں ۔وہ اسے اپنے سامنے بٹھائےزبردستی ناشتہ کروا رہا تھا جس دوران وہ مسلسل اس کی منتیں کرتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

روح میں نے کہا نہیں تو اس کا مطلب نہیں ہے وہ سختی سے بولا ۔

اس کا مطلب نہیں ہے تو پھر میں بھی ناشتہ نہیں کروں گی اور نہ ہی وہ دوائیاں کھاؤں گی ۔وہ پھر سے ضدی ہونے لگی

جب اچانک یا رم نے غصے سے ایک ہاتھ ٹیبل پر مارا وہ اچھل کر دور ہوئی۔اور اب کچھ فاصلے پر کھڑی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی وہ کیا کرنے والا تھا  ۔

یارم اٹھ کر اس کے پاس آیا اسے ہاتھ پکڑ کر زبردستی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانے لگا سرخ آنکھوں میں اس وقت اتنا غصہ تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ناشتہ کرنے لگی اس وقت اس کے اندر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی کرنا تو ضد کرنا تودور کی بات تھی۔

ناشتہ کروانے کے بعد وہ اسی غصے سے اٹھ کر اس کے لیے دوائیاں لے کر آیا اور روح بنا چواں چراں کے کھانے لگی ۔جبکہ اس کی سختی پر آنکھیں نم ہو ہو رہی تھی لیکن اس کے سامنے آنسو بہانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جلدی سےباہر آو اور خبردارجو وہاں کوئی بھی کام کیا ۔وہ سختی سے کہتا باہر نکل گیا جبکہ روح اپنے کانوں پر یقین کرتی خوشی سے باہر بھاگی تھی ۔۔

روح تم نے اسے گود میں کیوں لیا ہے

اس کتے کو نیچے اتارو گاڑی میں۔بیٹھے ہی روح نے شونو کو اپنے گود میں دیا تو یارم کا غصہ ہمیشہ کی طرح ہائی ہوگیا ۔

یارم پلیز رہنے دیں نا بیچارہ بیمار ہے پہلے ہی اور آپ اس پر غصہ ہو رہے ہیں ۔

کل سے وہ کچھ سست کیا ہوگیا روح نے تو اسے بیمار ہی بنا لیا

۔وہ بالکل ٹھیک ہے بس تھوڑا سا موسم کا اثر لے رہا ہے لیکن اسے اپنی گود سے اتارو تم

 اور خبردار جو آئندہ تم نے اسے گود میں لیا وہ غصے سے شونو کا پٹا پکڑ کر پیچھے والی سیٹ پر پھینک چکا تھا

یارم آپ کیسے ایک معصوم چھوٹے سے جانور کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کر سکتے ہیں

روح نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا

۔ایسے ہی جیسے میں نے ابھی کیا ہے یارم نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی جب کہ شونوکا سارا سست پن پچھلی سیٹ پر جاتے ہیں ختم ہو چکا تھا

وہ تو مچلتا ایک بار پھر سے روح کی گود میں آنے کو تیار تھا

۔جب یا رم نے اسے گھور کر دیکھا

 وہ جانور جیسے اس کی نظروں کا محفوظ سمجھتا تھا ۔فورا ہی خاموش  ہوکر سیٹ پر بیٹھ گیا

 یارم کتنے بے رحم انسان ہیں کیسے گھور رہے ہیں اس معصوم کو میں پوچھتی ہوں کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا ۔جو آپ اس پر اس طرح سے غصہ ہوتے رہتے ہیں ۔

جانوروں کے ساتھ کوئی بلا اس طرح کا سلوک کرتا ہے ۔

اس کے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور شونو کے ڈر کر چپ ہو جانے پر روح خاموش نہ رہ سکی

کیا مطلب ہے کیا بگاڑا ہے کیا تم اب بھی نہیں جانتی کہ اس کتے کے بچے نے میرا کیا بگاڑا ہے ۔یہ تمہارے اور میرے درمیان آیا ہے

۔یہ تم سے میرا وقت لیتا ہے۔ وہ بھنا کر بولا ۔

یار م آپ ایسا نہیں کہہ سکتے بالکل غلط بیانی ہے یہ میں کب اس کے ساتھ آپ کے ہوتے ہوئے وقت گزارتی ہوں جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تب ہی میں شونو کے پاس رہتی ہو روح نے فورا اس کی بات کی نفی کی تھی ۔یہ تو روح کو اپنی ذات پر ایک الزام کی طرح لگا تھا ۔

جب کہ اس وقت میں تم مجھے یاد کر کے میری محبت کا ثبوت بھی دے سکتی ہو

 ۔اپنی محبت کو ظاہر بھی کر سکتی ہو

لیکن تم نے تو اس کتے کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔

میرے حصے کا پیار تم اس کتے کے بچے کو دیتی ہوں ۔یہاں تک کہ تم اسے اپنی گود میں بیٹھاتی ہواس کے بال سہلاتی ہو۔اس سے پیار کرتی ہو ۔کتے کی طرف داری پر یارم بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا ۔

جب کہ اس کے بات مکمل ہوتے ہی شونو نے ایک بار پھر سے بھونکتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلایا ۔

دیکھا دیکھا کباب میں ہڈی اسے ہی کہتے ہیں اس نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر شونوکو دیکھتے ہوئے جتلایا

شونو میری جان خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ آپ کے پاپا ابھی غصے میں ہیں۔

 یارم کا غصہ دیکھتے ہوئے اس نے شانوکی جان بچانے کی خاطر کہا۔

 روح تم نے پھر سے مجھے اس کتے کا باپ بولا۔روح بات پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا

۔او سوری میں بھول گئی تھی شونو آپ کے پاپا نہیں بس آپ کی ماما کے ہسبنڈ ابھی غصے میں ہے ابھی آپ کچھ مت بولو روح نے بات بدلی

۔اور وہ بات بدل کر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں کر پائی تھی

 کیونکہ اس کی بات کا مطلب تو وہی تھا اب حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ  اسے ایک کتے کو گود لینا پڑ رہاتھا اب بہتر تھا یارم اس سے لڑنے کی بجائے اپنی ڈرائیونگ پر فوکس کرتا

 ورنہ پتہ نہیں وہ اس کتے سے اس کی کون کون سی رشتہ داریاں نکلوا لیتی

°°°°

خضر یارم کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہی آفس کے لیے نکلے

جب گاڑی سے روح اور شونو کو نکلتے دیکھ کر وہ بے اختیار ہی مسکرا دیا

 اسے یقین تھا کہ آج یارم اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں لائے گا کیونکہ کل کی ساری کہانی لیلی اسے سنا چکی تھی۔

اسو روح کو یہاں دیکھنے پر حیرت تو بنتی تھی۔

السلام علیکم ماموں کیسے ہیں ۔

روز کی طرح فریش سا چہرہ دیکھ کر خضر کو خوشی ہوئی تھی مطلب کے وہ اپنے ضد منوا کر یہاں آ چکی تھی ۔

میں تو بالکل ٹھیک ہو ماموں کی بھانجی لیکن تم ضد چھوڑو کیوں نہیں دیتی  اسے اتنا تنگ مت کیا کرو خضر نے سمجھایا

تم کون ہوتے ہو اسے یہ کہنے والے پیچھے سے آتے یارم نے اس کی بات سنی

۔ اور روح کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا ۔

یہ میری روح ہے خضر اس کا حق بنتا ہے کہ یہ مجھے تنگ کرے مجھے ستاۓ ۔تم اس کے ماموں ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے مجھ سے زیادہ چاہتے ہو ۔وہ اس کے روبرو کھرپڑا کہنے لگا تو خضر مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا

۔میری اتنی مجال کے میں اسے کسی کام سے منع کر سکوں ۔خضرت نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا

 ۔اس حادثے کے بعد یارم خضر کے ساتھ بھی مقابلے پر اتر آیا تھا

وہ روح کا اکلوتا رشتہ تھا ۔لیکن یہاں بھی یارم کا یہی کہنا تھا کہ اس سے زیادہ روح پر اور کسی کا کوئی حق نہیں

اور خضراس بات کو دل و جان سے قبول کرتا تھا

۔اس کی اتنی مجال کہاں کہ وہ یارم کے ہوتے ہوئے روح پر اپنا حق جتائے۔

 اپنا خیال رکھنا روح اور دوائی ٹائم پر کھانا میں لیلیٰ کو بتا کر جاؤں گا اور اس کتے سے دور رہنا ۔کتا کہیں کا صبح صبح لڑائی کروا دی۔وہ شونو کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولا تو خضر بے اختیار مسکرا دیا ۔

یہ کتا جب سے آیا تھا تب سے ہی یارم کو اس سے سخت چڑ تھی

لیکن اس کے باوجود بھی جن دنوں میں روح بیمار تھی یا رم نے کسی عزیز کی طرح اس کا خیال رکھا تھا ۔

یارم اظہار کرے نہ کرے لیکن روح کی جان بچا کر یہ کتا اس کے لئے بھی بہت خاص ہو چکا تھا

اور وہ بھی اسے اپنے ہی گھر کا ایک فرد سمجھنے لگا تھا

 ۔یارم کے گھر میں دو نہیں بلکہ تین جانے بستی تھی

اس بات کو یار م قبول کرتا تھا ۔روح کو بے شمار ہدایت دینے کے بعد وہ اپنے کام کے لئے نکل چکے تھے ۔

جبکہ یہاں سے آفس پہچنے کے درمیان میں لیلیٰ کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود بھی روح نے چائے بنائی ۔

تمہارا شوہر مجھے سولی پر ٹانگ دے گا اور تم وہی سامنے کھڑے ہو کر نظارہ کرو گی

 اچھی طرح سے سمجھ رہی ہوں میں تمہاری پلیننگ ۔مروانا چاہتی ہونا  مجھے تو ماپنے یاں کے ہاتھوں۔ ۔

 تو صاف صاف کہہ دو ہو سکتا ہے تمہیں خوش کرنے کی خاطر وہ مجھے مار ڈالے

لیکن اللہ کا واسطہ ہے روح مجھے قسطوں میں مت مارو ۔

اس طرح سے میری سانس رکنے لگتی ہے ۔

ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ہٹلر واپس آ ہی نہ جائے دیکھو روح اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ایک نھنی سی جان بھی ہے میرا نہ سہی ہے اس معصوم کا ہی خیال کر لو ۔

لیلیٰ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی

۔اتنے بھی برے نہیں ہیں یار م جتنا تم سمجھتی ہو

تمہیں پتا ہے کل انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ اتنے پیار سے میرے لیے کھانا بنایا روح نے اس کا خوف کم کرنے کی خاطر بولا

 ۔لیکن اب لیلی بیچاری اسے کیا بتاتی کہ جو کچھ بولنا تھا وہ تو کل اسے کہہ کر گیا تھا

وہ اسے زندہ زمین میں گاڈے کی بات کر رہا تھا اور روح اب بھی بے فکری سے وہی سارے کام کر رہی تھی جن سے یارم کوچڑ تھی

°°°°°

ڈیول  اس سب سے تمہیں بہت غصہ آرہا ہوگا لیکن تم خود سوچو کہ اس کام میں کتنا فائدہ ہے اور ہم کسی کے ساتھ کی کوئی زبردستی نہیں کرتے

 وہ لڑکیاں  خود میرے لڑکوں کی محبت میں ہار کر یہاں تک کہ چلی آتی ہیں ۔

اور ان میں سے کوئی بھی نیک اور پارسا لڑکی تو نہیں ہو سکتی جو آدھی رات کو اپنے معشوق سے ملنے کے لیے اپنی عزت کی پرواہ کیے بغیر ایسی جگہوں پر آجائے

 ۔اپنی مرضی سے آتی ہیں وہ سب اور پھر ان میں اچھی لڑکیاں نہیں ہوتی ۔یہ لڑکیاں محبت کے نام پر فریب دیتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ خود فریب میں آ جاتی ییں اور اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے

وارث بہت مزے سے اسے اپنے کارنامے سنا رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت نیک کام کر رہا ہو

 یارم نے ایک نظر سامنے کھڑے پانچ خوبصورت لڑکوں پر ڈال

۔یہ اسٹائلیش اور خوبصورت لڑکے کیسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتے تھے

شکل سے کسی امیر گھرانے کے لگتے تھے ۔اور ایسے لڑکوں کا  ہی تو خواب لڑکیاں دیکھتی ہیں

 ۔جو یہ سوچتیں ہیں کہ کسی امیر لڑکے کو اگر ان سے پیار ہو جائے تو ان کی ساری زندگی سنور سکتی ہے ۔لیکن ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے گھٹیا ارادوں کو وہ لڑکیاں کیوں نہیں سمجھ پاتی ۔اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں گنوا دیتی ہیں ۔

کیوں وہ کردار کو مضبوط نہیں رکھ پاتی

کیوں عورت اپنا معیار اتنا گرا دیتی ہے

کیوں اپنے شوہر کی امانت میں خیانت کر کے اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کر دیتی ہے

 ۔ان لڑکیوں کو سوچتے ہوئے اسے ایک پل کے لئے اپنی روح کی یاد آئی تھی پاکیزہ معصوم مضبوط کردار کی مالک جو اپنے شوہر کو ہی اپنے تن بدن کا مالک سمجھتی ہے

 اور دین حق پر چلتی ہے اور دوسری طرف تھی یہ لڑکیاں صرف خوبصورت چہرے اور چند پیسوں کے خاطرکیسے اپنا آپ برباد کر دیتی تھیں۔ اس کے سامنے میز پر ستر سے زیادہ ویڈیو کلپ کی ڈیٹیلز پڑی تھی ۔جن میں ان لڑکیوں کی عزت کا سودا کیا جارہا تھا

میں نے تمہیں منع کیا تھا وارث کوئی بھی ایسا کام مت کرنا کہ جیسے تم میری نظروں میں آؤ

 لیکن تم نے وہی کیا اب تم بتاؤ تمہیں اس گناہ کی کیا سزا دوں

 ۔ڈیول نے جیسے اس کی تقریر سنی ہی نہیں تھی ۔

ڈیول میں تمہیں بتا تو چکا ہوں میرا کوئی قصور نہیں ہے یہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں کھینچی یہاں چلی آتی ہیں ۔اور ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی زبردستی کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوئی تم یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہو

یہ لڑکیاں اپنی مرضی سے میرے لڑکوں کے ساتھ تعلقات بناتی رہی ہیں وارث اب بھی اپنا جرم قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور یہ بات یارم کو مزید غصہ د** رہی تھی

شارف نے میز سے اوریجنل سی ڈی اٹھاتے ہوئے توڑنا شروع کر دی تو وارث کو بہت غصہ آیا لیکن ڈیول کے سامنے کچھ بھی بولنا اس کی اوقات سے باہر تھا

۔سامنے کرسی پر بے نیاز اور بے فکر بیٹھاوہ شارف کو یہ کام کرتے دیکھ رہا تھا

۔باقی کچھ اور بھی ہے یا بس یہی ہیں شارف نے پوچھا

۔اور کچھ نہیں ہیں بس یہی سی ڈیز تھی جو تم نے ضائع کر دی وارث نے شارف کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر کہا ۔

بیٹا ابھی تو ہم تجھے بھی ضائع کریں گے اور تیرے ان لوگوں کو بھی اس کے اس طرح سے کہنے پر ہی خضر بھی بول اٹھا ۔

اسے پہلے لگا تھا کہ وارث اپنی غلطی کو قبول کرے گا لیکن وہ تو سینہ تانے اپنے گناہ کو غلط کہنے کو تیار ہی نہ تھا

اور ایسے لوگوں کاوہی انجام ہوتا ہے جو ڈیول آج تک کرتا آیا ہے ۔

کیا مطلب ہے تمہارا تم ایسے نہیں کر سکتے میرے ساتھ ڈیول میں نے تمہارا بہت ساتھ دیا ہے ۔

اور میں نے کبھی بھی تمہارے خلاف جا کر کوئی کام نہیں کیا

یہ لڑکیاں خود لوٹنے کو تیار ہیں تو کونسا آدمی پیچھے ہٹے گا ۔یارم کی خاموشی پر وارث پریشانی سے بولا تھا کیونکہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہوسکتی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ڈیول کی بیڈ لسٹ میں نا آجائے ۔

شارف ان لڑکوں کو یہاں سے لے کر چلے جاؤ ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی خوبصورتی کو غلط طریقے سے کیش کیا ہے

لیکن ان کی غلطی کی سزا بھی انہیں ملے گی

ان کی شکل صرف دیکھنے کے لائق ہونی چاہیے چاہنے کے نہیں وہ اٹھ کر ان لڑکوں کے سامنے کھڑا کہنے لگا تو پانچوں بوکھلا گئے

 ۔ڈیول ہمیں معاف کر دیں ہم سے غلطی ہوگئی ہم دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گے ان میں سے دو لڑکے یارم کے پیروں پر جھکے معافی مانگنے لگے

۔جب کہ ان دونوں کو اس طرح سے معافی مانگتے دیکھ کر باقی تینوں بھی اپنی موت کو اپنے قریب دیکھتے ہوئے ہاتھ باندھ چکے تھے

 ۔ہم ایسا کام دوبارہ نہیں کریں گے ڈیول پلیز ہمیں چھوڑ دیں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے وہ لڑکیاں خود ہمارے ساتھ آنے کو تیار تھی

 اور جو بھی ہوا ہے ان کی مرضی سے ہوا ہے ہم نے کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کی

 وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے

لڑکی اپنی عزت اپنے عزت کے محافظ کے حوالے کرتی ہے جسے وہ چاہتی ہے جسے وہ اپنا مانتی ہے جس کی خاطر وہ اپنا تن من دینے کو تیار ہو جاتی ہے

محبت دنیا کی سب سے انمول چیز ہے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ اور اس تحفے کو تم نے اتنا بے مول کر دیا ہے کہ آج لوگوں کا محبت پر سے ایمان اٹھ گیا ہے

۔میں یہ نہیں کہتا کہ قصور صرف تم لوگوں کا ہے قصوروار وہ لڑکیوں کا بھی ہیں جو بنا کسی جائز رشتے کہ تم لوگوں کے ساتھ یہاں تک آتی رہی

اور کل ان سی ڈیز کی صورت میں بازاروں میں بکنے والی تھی ۔قصوران لڑکیوں کا بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے میں لڑکیاں دل سے سوچتی ہیں دماغ سے نہیں اور بعد میں تم لوگ  انہی معصوم دلوں کے ساتھ کھیل کر ان کی زندگی برباد کر دیتے ہو

کتنی عام سی بات ہے نا ہم اکثر سنتے ہیں کہ کسی لڑکی کا ایم ایس لیک ہوتے ہیں آج ایک لڑکی کا توکل دوسری لڑکی کا

 اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے کسی ایک جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی

 تو دوسری جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی کے باپ بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا

۔اور تم جیسے لڑکے پھر کسی دوسرے شکار کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہو ایک بار تم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ جس کو تم نے اس غلط راہ پر لگایا وہ اپنی جان گنوا چکی ہے

۔کل تک شاید ان لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہوگا ۔اور تم لوگ آج معافی مانگ رہے ہو

لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ڈیول کی کتاب میں معافی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔شارف لے جاؤ ان کو یہاں سے اور دوبارہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا

 یارم  سختی سے کہتا ایک بار پھر سے وارث کے سامنے آ بیٹھا تھا

۔تمہاری بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے نہ وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے ٹیبل پر پھینک چکا تھا وہ بھی کسی لڑکے کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہے ممکن ہے کہ کل ایسی ہی کوئی ویڈیو تمہاری بیٹی کی بھی لیک ہو جائے تم نے میرے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے وارث مجھے تم سے ایسے گھٹیا کام کی کبھی امید نہیں تھی ۔

میں امید کرتا ہوں کہ تم دوبارہ ایسا نہیں کرو گے

لیکن یہ مت سوچنا کہ تم ڈیول کی نظر میں گنہگار نہیں ہو

  میں تمہیں تمہارے گناہ کی سزا میں ضرور دوں گا لیکن اس سے پہلے تم اپنی بیٹی کو بچا لو

 جلد ملیں گے یارم نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو خضر اور شارف بھی اس کے پیچھے چل دیئے

جب کہ وارث بے چینی سے تصویریں دیکھ رہا تھا جو یارم اس کے سامنے ٹیبل پر پھینک کر گیا تھا

°°°°°

مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وارث کوچھوڑ دو گے خضر نے نکلتے ہوئے کہا

میں اسے سزا کیسے دے سکتا تھا خضرجبکہ اسے سزا اللہ نے دی ہے اس کی بیٹی کے روپ میں ۔

جس لڑکے سے وہ محبت کر بیٹھی ہے وہ ایسے ہی ایک گینگ پر لیڈر ہے

جو میری نظر میں بھی ہے ۔اور بہت جلد میں اسے بھی اس کے انجام تک پہنچ جاؤں گا لیکن وارظث کی بیٹی کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تب تک اس کی عزت کی حفاظت اس کا باپ کر سکے

۔مکافات عمل شاید اسی کو کہتے ہیں شارف نے کہا ۔

یہ تو حل ہو گیا اور دوسرے کیس کا کیا کرنا ہے اور جس کے بارے میں میں نے خضر کو سب بتایا تھا

کون سا کیس خضر نے تو کسی کیس کا ذکر نہیں کیا وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا ہاں وہ دراصل میرے دماغ سے نکل گیا یونیورسٹی میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا لڑکی کے انکار پر اس نے لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا یہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے لڑکی کی مسلسل سرجریز کی جارہی ہیں لیکن اب بھی حالات بہت خراب ہیں ۔اور اب ۔۔۔۔خضر نے بتاتے ہوئے ایک نظر اس کے ماتھے کی رگوں پر ڈالی تھی

۔اور پھر خاموش ہو گیا

اس کا ڈیول موڈ اون ہو رہا تھا جو ان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا

پوری بات بتاؤ خضر خاموش کیوں ہوگئے وہ غصے سے دہارا تھا

۔اور وہ لڑکا شادی کر رہا ہے آج رات اس کی شادی ہے ۔

وہ بات مکمل کرکے پھر خاموش ہو گیا ۔

مطلب کے ایک معصوم لڑکی کی زندگی کو برباد کرکے وہ خود شادی کر رہا ہے

۔ایک معصوم کی ساری خوشیاں لوٹ کے وہ اپنا گھر بسانے جا رہا ہے

اور اسے لگتا ہے کہ ڈیول ایسا ہونے دے گا

۔ایڈریس بتاؤ اس کا یارم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا

۔مجھے یہیں چھوڑ جاؤ ڈیول مجھے اور کچھ کام ہے اس کا خطرناک موڈدیکھتے ہوئے شارف نے فورا کہا تھا ۔

ڈیول کے ایسے موڈ کے ساتھ وہ کہیں بھی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔

اسی لیے وہیں پر ہی اتر گیا جبکہ خضر یارم کو راستہ بتا رہا تھا ۔

ہیلو لیلی روح کا خیال رکھنا اور اپنا بھی ڈیول اور خضر کو آنے میں دیر ہو جائے گی ان کے جاتے ہی شارف نے لیلی کو فون کیا تھا

۔خیریت تو ہے لیلی نے ایک نظر باہر ٹی وی لگائے روح کی جانب دیکھا تھا

۔ہاں ٹھیک ہے سب کچھ بس ڈیول کا ڈیول موڈ آن ہوچکا ہے پتہ نہیں آج کس کی شامت آئی ہے بس دعا کرنا کہ وہ جو بھی ہو اس کو آسان موت ملے شارف نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تو لیلیٰ کی ہنسی نکل گئی ۔

فکر مت کرو میں روح کو سنبھال لوں گی اور تم بھی اپنا خون نا جلاو گھرچلے جاؤ معصومہ انتظار کر رہی ہو گی کیونکہ اتنی ہمت تم میں ہے نہیں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جا پاتے لیلی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا

لیلی میں تمہاری ہمت سے بھی اچھے سے واقف ہوں اور تمہاری طرح پریگنٹ ہو کر گھر نہیں بیٹھا بہت کام ہے مجھے ۔اتنا ہی فارغ ہوں نا وہ سنانے والے انداز میں کہتا فون بند کر چکا تھا جب کہ اپنی بات پر غور کرکے جہاں اس نے خود پر لعنت بھیجی تھی وہی لیلی کا قہقہ اسے فون بند ہونے تک سنائی دیتا رہا

وہ بنا آگے پیچھے دیکھے سیدھا شادی والے گھر میں داخل ہوچکے تھے
۔حال کو سرخ گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا
جبکہ ہر طرف لائٹنگ کی گئی تھی ۔
بے شک اس جگہ کی خوبصورتی بے مثال تھی
یارم کو اس ماحول سے نفرت ہو رہی تھی ۔
ایک معصوم سی لڑکی کو تباہ و برباد کر کے کیسے یہ شخص اپنی شادی کے شامیانے سجائے بیٹھا تھا ۔
وہ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوا سامنے ہی ایک آدمی بیٹھا ہاتھ میں سگار پکڑے ہوئے مہمانوں سے محو گفتگو تھا ۔
خضرتیزی سے آگے بڑھتے ہوئے اس شخص کا گریبان پکڑ چکا تھا
بیٹا کہاں ہے تمہارا۔۔۔۔۔
تم کون ہو اس طرح سے بدتمیزی کیوں کر رہے ہو
تم اندر کیسے آئے اور میرے بیٹے سے تمہیں کیا کام ہے وہ شخص انتہائی غصے سے اس سے پوچھنے لگا
جب خضرنے اپنی جیب سے پستول نکال لیتے ہوئے اس کے پیٹ کے ساتھ دبائی
پہلے مرنا چاہو گےیااپنے بیٹے کا بتاؤ گے ۔خضر نے فالتو بات کرنے سے بہتر موضوع پر آنا سمجھا
جب اس شخص نے اوپر سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا وہ یارم کو ایک نظر دیکھ سکتا خود سیڑھیاں پھلانگتے اوپر چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی یارم بھی انہی سیڑھیوں سے تیزی سے اوپر کے کمرے کی جانب بڑھا تھا
کون ہیں یہ لوگ اس طرح سے ہمارے گھر میں کیسے آگئے ہیں اور یہ اس طرح سے ہمارے بیٹے کا پتا کیوں پوچھ رہے تھے آپ نے کیوں بتایا کہ وہ اوپر ہے ان کے پاس پستول تھی وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں
۔پولیس کو فون کرو انہوں نے بیگم کی باتوں کا جواب دینے سے پہلے نوکر کو حکم دینا بہتر سمجھا
°°°°°
کون ہو تم لوگ اس طرح سے میرے کمرے میں کیسے گھسے
وہ اچانک کسی کوپستول لیے سامنے دیکھ کر بوکھلایااور تیزی سے اپنے فون کی طرف بھرا
لیکن اس سے پہلے ہی خضر نے اس کا ارادہ ہے بھانپتے ہوئے اسے کرسی پر بٹھا دیا تھا یہی تو بتانے آئے ہیں تمہیں کہ ہم کون ہیں
خضر نے کہتے ہوئے یارم کو دیکھا جو پرسکون سا سامنے والی کرسی پے بیٹھا تھا آنکھوں میں اس قدر غصہ تھا کہ خضر کوو یقین تھا یہ لڑکا آج اس کے قہر کا نشانہ ضرور بنے گا
خضر بھی زیادہ دیر اس کے شکار کے پاس نہیں رہا تھا
وہ پیچھے ہٹا تو یارم نے اس کی جانب قدم بڑھائے
جس لڑکی کو چھ دن پہلے یونیورسٹی میں تیزاب سے جلایا ہے تم نے اس کے بھائی ہم ۔کیا سمجھ کے رکھا تھا بے آسرا ہے بے سہارا ہے وہ ماں باپ سر پر نہیں ہیں ایک ہوسٹل میں رہتی ہے تو تمہارے کھیل کا سامن بن کئی ہے
آورتم جیسے امیرزادے اس کا فائدہ اٹھا سکو گے اس معصوم کی زندگی برباد کر کے کتنی آسانی سے شادی کر رہے ہو تم ایک بار بھی تمہیں خیال آیا کہ تم نے اس کی ساری زندگی برباد کر دی ہے پچھلے چھ دن سے کس اذیت میں ہے جانتے بھی ہو تم ۔ایک پل کے لئے بھی سکون حاصل نہیں ہے اس کو پل پل تڑپ رہی ہے وہ ۔اور اب تم تڑپو گے یارم ایک زوردار مکا اس کے منہ پر مارتے ہوئے دھاڑا تھا ۔
لیکن ہم تمہیں اس لڑکی کی تکلیف کا احساس نہیں دلاو کیونکہ اب تم بھی وہی تکلیف سہو گے وہ درد جو وہ لڑکی پیچھے چھ دن سے دن رات سہتی ہے وہی درد اب تمہارہ مقدر بنے گا
اس لڑکی کے ایک چھوٹے سے انکار کو تم لوگ انا کا مسئلہ بنا لیتے ہو نہ آج تمہاری آنا بھی اس تیزاب کی آگ میں جل کر مر جائے گی ۔یارم نے ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل اس کے سامنے کرتے ہوئے ڈکن کھولا تو وہ تڑپ اٹھا
نہیں مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کر دو خدا کے لیے چھوڑ دو مجھے وہ چیخنے لگا لیکن یارم کو اس پر رحم نہیں آیا تھا
خضر دروازہ کھول دو اس کی چیخیوں کی آواز باہر تک جانی چاہی اس کے حکم پر خضر نے دروازہ کھول دیا
اور اس کے بعد ڈیول نے اپنا کام کیا اس کی چیخ و پکار میں اسے اس لڑکی کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی جو نجانے کتنے وقت سے اس تکلیف کو سہ رہی تھی ۔
اس نے ڈکن کھول کر اس میں موجود تیزاب اس کے چہرے پر پھینکا تو کبھی نہ ختم ہونے والی چیخیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔تیزاب کی خالی بوتل سے چھلکا تیزاب ڈیول کے ہاتھ پر بھی گرا لیکن اس وقت اسے پروا نہیں تھی
۔اس کی چیخ و پکار اتنی بلند تھی کہ ساؤنڈ پروف روم کے کھولے دروازے سے آواز باہر تک جا رہی تھی ۔
اور یہی چیخ و پکار سن کر اس کے ماں باپ تیزی سے کمرے کی جانب بھاگے تھے
جہاں وہ اپنے بیٹے کا جلسا ہوا چہرہ دیکھ کر تڑپ اٹھے
اس کا باپ تیزی سے آگے بڑھا اور اس پر پانی پھینک نہ چاہا جب خضر نے اسے پکڑ کر دور پھینکا
اتنا بھی مت تڑییے جسٹس صاحب یہ آپ کی ہی غلطیوں کی سزا ہے
جو آپ کے بیٹے کو مل رہی ہے کیا پرورش کی ہے آپ نے اپنی اولاد کی یہ جو آج تکلیف آپ کا بیٹابرداشت کر رہا ہے وہیں تکلیف چھ دن سے ایک لڑکی بھی برداشت کر رہی ہے کیا سوچا تھا اس نے کہا کہ یہ جو چاہے گا وہ کرے گا اور اس کا باپ سے بچا لے گا ۔
لیکن معاف کیجیے گا یہ کیس آپ کی نہیں بلکہ ڈیول کی عدالت میں آیا ہے ۔اور ڈیول کی عدالت میں کسی کے باپ کی اولاد نہیں دیکھی جاتی ۔
یارم مے کہتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کی طرف دیکھا جو درد سے بے ہوش ہو چکا تھا
جائیں ہسپتال لے جائیں اسے اگر جان بچ گئی تو خوش قسمتی مت سمجھیے گا کیونکہ اب سے آپ کا بیٹا ویسی ہی زندگی جئے گا جیسی وہ لڑکی جئے گی ۔
یارم نے کہتے ہوئے خضر کو چلنے کا اشارہ کیا توجسٹس صاحب کی بیوی وہیں بیٹھ کر بری طرح سے بلکنے لگی ۔جبکہ جسٹس صاحب آپ اپنی بے پروا یوں کے نتیجے پر بے حد شرمندہ تھے
°°°°
روح یار آرام کر لو میں نے تمہیں بتایا نا یارم کو آنے میں وقت لگے گا تم سو جاو ورنہ وہ آکر مجھ پر غصہ ہو گا
لیلی اس کے پاس بیٹھی کب سے سونے کے لئے کہہ رہی تھی لیکن روح اس کی بات مان ہی نہیں رہی تھی
۔نہیں لیلی میرا دل بے چین ہو رہا ہے تم یارم کو فون کرو نہ ان سے پوچھو وہ ٹھیک تو ہیں
روح تم جانتی ہو نا وہ اس وقت فون نہیں اٹھاتا وہ اس وقت اپنے کام میں مصروف ہے ۔میں نے خضرکو بھی دو تین بار فون کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی فون نہیں اٹھا رہا اسی لئے تو کہہ رہی ہوں کہ تم آرام کرو وہ جیسے ہی آئیں گے میں تمہیں اٹھا دوں گی پھر تم یارم کے ساتھ گھر چلی جانا
نیند کی دوائی کھانے کے بعد بھی روح کو نیند نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس کا دل بے چین تھا یارم روز وقت پر آ جاتا تھا اور اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا اگر کسی دن لیٹ ہو جائے تو لیلیٰ اسے دوائی وغیرہ کھلا دیتی تھی
لیکن آج تو وہ بہت لیٹ ہو گیا تھا گیارہ بج رہے تھے اور یارم کی واپسی کہ کہیں کوئی آثار نہیں تھے
لیلی کب سے اس کی منتیں کر کر کے تھک چکی تھی لیکن وہ بیڈ پر لیٹنے کو تیار ہی نہیں تھی
اس کا کہنا تھا کہ بیڈپر بیٹھتے ہی اسے نیند آ جائے گی
اور یارم کو اس کا یوں انتظار کرنا پسند ہے ۔جبکہ اس کی بےچینی نوٹ کرتے ہوئے شونو بھی بار بار مین گیٹ تک جاتا اور پھر مایوسی سے واپس لوٹ آتا ۔
°°°°°°
یارم تمہارا ہاتھ تو اچھا اس ہاتھ جل گیا ہے تمہیں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا
وہ اس کا بازو دیکھتے ہوئے کہنے لگا
میں بالکل ٹھیک ہوں خضر بس غصے میں دھیان نہیں رہا خیر تم اس پر کوئی پٹی وغیرہ باندھ دو کہ روح کو نظر نہ آئے
وہ خضر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا تو خضر نے فورانہ میں سر ہلایا
تمہیں ہسپتال چلنا چاہیے تیزاب سے اندر کی ہڈی تک جل جاتی ہے وہ تو شکر ہے کہ تمہیں صرف ٹچ ہوا ہے گرانہیں ورنہ شاید ہمارے لئے مشکل بن جاتی ۔
ویسے تمہیں یقین ہے کہ جسٹس صاحب پولیس میں ہمارا نام نہیں لے گے میرا مطلب ہے انہوں نے ہمارا چہرہ دیکھا ہے گاڑی اسپتال کے رستے ڈالتے ہوئے خضر نے پوچھا
مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک بہت اچھا اور ایماندار انسان ہے اس کی زندگی میں کبھی بے ایمانی نہیں کی ہاں شاید اپنے فرض کی خاطر اپنے بچوں پر دھیان دینا بھول گیا ہے ۔تبھی تو اس کے بیٹے نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے
باپ کی بے دھیانی اور ماں کی طرف سے ملنے والی آزادی سے بچے بگھر جاتے ہیں اور پھر ایسے بچوں کا یہی انجام ہوتا ہے
ان لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم دنیا میں کچھ بھی کر لے کوئی ہمیں کچھ کہنے کا حق نہیں رکھتا ۔لیکن ایسے لوگوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے ہی اللہ نے ہم جیسے لوگوں کو بنایا ہے ۔خضر نے گاڑی ہسپتال کے باہر رکی تو یارم نے ایک نظراس کو دیکھا جیسے یقین تھا کہ وہ اب اس کی بات نہیں مانے گا
یارم پلیز بنا کچھ کہے اندر چلو تمہارے ہاتھ میں کافی گہری چوٹ لگی ہے میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی بھی قسم کا کوئی بھی نقصان ہو
اور ویسے بھی ہم کافی لیٹ ہو چکے ہیں لیلیٰ بھی کتنی بار فون کر چکی ہے لیکن میں نے فون نہیں اٹھایا اور روح بھی پریشان ہو رہی ہو گی
میرے لیے نہ سہی لیکن اپنی روح کے لیے تو تم اتنا کر ہی سکتے ہو خضر نے مسکراتے ہوئے کہا جیسے اسے یقین ہو کہ اب یارم انکار نہیں کرے گا اور اس نے انکار نہیں کیا تھا بس ایک ہاتھ سے اسے آنے کا اشارہ کیا اور خود ہسپتال کے اندر چلا گیا
°°°°°°
گاڑی گھر کے باہر رکی تو شونوکے بھونکنے کی آواز شروع ہوتے ہی روح بھی تیزی سےاس کے پاس آتے ہوئے اس کے سینے سے آ لگی
وہ حیران ہوا تھاکہ وہ ابھی تک جاگ کیوں رہی تھی یہ اس کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں تھا لیکن پھر بھی غصہ اسے روح پر نہیں بلکہ لیلیٰ پر آیا تھا
جو اس کے آتے ہی اپنی صفائی دینے لگی ۔
ڈیول میں نے اس کی منتیں کیں کہ پلیز سو جاؤ تم نے میڈیسن لی ہے لیکن اس نے میری ایک بھی بات نہیں مانی اور تمہارا انتظار کرتی رہی ہے ۔
ہاں یارم میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی آپ کہاں رہ گئے تھے ۔
یہ مجھے زبردستی سونے کا بول رہی تھی میں نے اس بتایا بھی کہ آپ کو اچھا لگتا ہے میرا جاگ کر آپ کا انتظار کرنا لیکن یہ میری بات مان ہی نہیں رہی تھی
۔لیلیٰ جو اپنی جان بچانے کے لئے اس کی شکایت لگا رہی تھی اس کی شکایت پر اس کا منہ کھل گیا
کوئی بات نہیں میرا بچہ ہم ابھی گھر چل رہے ہیں اس نے شونو کو اشارہ کیا تو وہ اس کے اشارے کو سمجھتے ہی فورا گاڑی میں بیٹھنے کے لئے اچھلنے لگا تو دروازہ خضر نے اس کی مدد کرتے ہوئے کھول دیا ۔
ایک الودعی نظر خضر کی طرف دیکھا اور روح کو چلنے کے لیے کہا جب روح کی نظر اس کے ہاتھ پر پڑی
یار م آپ کو چوٹ لگی ہے یہ کیا ہوا آپ کو وہ بے چین ہو گئی تھی یارم نے بس نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کے لئے دروازہ کھولا
اور تھوڑی ہی دیر میں ان کی گاڑی خضر کے گھر سے نکل چکی تھی
کیا بات ہے خضر تم اتنے پریشان کیوں ہو میں نوٹ کر رہی ہوں جب سے تم آئے ہو تب سے مجھے کچھ الجھے الجھے لگتے رہے ہو سب کچھ ٹھیک تو ہے ۔لیلی نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاں سب ٹھیک ہے لیلی بس میں ایک بات کو سوچ کر تھوڑا پریشان تھا وہ لیلی کے گرد بازو پھیلائے اسے اندر لے جانے لگا تو لیلی بھی اس کے ساتھ اندر داخل ہوئی
کون سی بات تمہیں بے چین کر رہی ہے مجھے تو بتاؤ ہو سکتا ہے میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں لیلی نے ہمدردی سے پوچھا
تم نے نوٹ کیا ہے لیلیٰ روح اب پہلے کی طرح نہیں رہی
اب وہ یارم کے بغیر نہیں رہ سکتی
اب وہ یارم کو بےحد چاہتی ہے ۔بس میں سے سوچ رہا تھا کہ آج کام کے دوران یارم کو چوٹ لگ گئی کل کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اگر یارم کو کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔؟
تو روح کا کیا ہوگا ۔۔۔۔کیا روح اس کے بغیر جی پائے گی ۔وہ اپنی بے چینی اسے بتاتے ہوئے بہت پریشان لگ رہا تھا ۔
اللہ روح سے بہت پیار کرتا ہے خضر وہ کبھی روح کو یوں تنہا نہیں کرے گا روح اور یارم تو ایک دوسرے کے لئے تحفہ ہیں اور تحفے کبھی چھینے نہیں جاتے ۔لیلی ٰ نے مسکرا کر کہا تو اس کی بات پر خضر بھی ہلکا سا مسکرا دیا تھا لیکن اس کی بے چینی ختم نہیں ہوئی تھی
°°°°°
یارم بتائیں نا مجھے آپ کے ہاتھ پر کیا ہوا
یہ اتنی بڑی چوٹ کیسے لگی آپ کو
اس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے وہ بس رونے کو تیار تھی
کچھ نہیں ہوا میری جان بس تھوڑی سی چوٹ لگی ہے ۔لیکن تم فکر مت کرو مجھے بلکل درد نہیں ہو رہا اس کی بے چینی دیکھتے ہوئے یارم نے محبت سے اس کے ماتھے کو چوما تھا
اتنی بڑی چوٹ لگی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ درد نہیں ہو رہا یقینا درد ہو رہا ہوگا آپ جھوٹ بول رہے ہیں یارم اللہ جھوٹ بولنے والوں کو پسند نہیں کرتا پلیز بتائیں نا مجھے کیا ہوا ہے آپ کو کیسے لگی ہے آپ کو یہ چوٹ وہ پھر سے پوچھنے لگی
اچھا چھوڑو اس کو یہ بتاؤ آئس کریم کونسی کھاؤ گی ۔سامنے آئس یم پالر کی ایک شاپ دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا
کچھ نہیں کھاؤں گی جب تک آپ مجھے نہیں بتاتے کہ آپ کے ہاتھ پر یہ چوٹ کیسے لگی ۔وہ ضدی انداذ میں بولی
مطلب کے اسٹرابری فلیور یارم نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا جواب مانگا ۔
کبھی کبھار چاکلیٹ بھی کھا لیا کرو یار وہ بھی بری نہیں ہوتی ۔ویسے بھی میری جان دوائیاں کھا کھا کے اپنا منہ کڑوا کر چکی ہے اب آئسکریم تو بنتی ہے ۔یہیں بیٹھو میں ابھی لے کر آیا ۔
یارم پہلے بتائیں یہ چھوٹ۔۔۔۔۔۔
بس روح جس چیز سے تمہارا کوئی مطلب نہیں ہے اس سے ریلیٹڈ کوئی سوال نہیں وہ زرا سختی سے کہتا گاڑی سے نکلا
شونو کے لیے بھی لائیے گا ۔۔اسے گاڑی سے نکلتے دیکھ روح نے یاد کروایا ۔اب یہ تو کلیئر تھا کہ وہاں سے کچھ نہیں بتانے والا پھر سختی بھی لر رہا تھا اور آئس کریم بھی زبردستی کھلائے گا تو بہتر تھا کہ وہ فائدہ اٹھا لیتی ۔
روح کیا تم اس آسٹریلین کتے کو آئسکریم بھی کھلاؤ گی یارم کہاں کہاں اپنی حیرانی کی کو چھپانے کی کوشش کرتا ۔روح زندگی کے ہر موڑ پر اسے اس کتے کو لے کر جھٹکے دیتی تھی
ہاں تو اب کیا ہم کھائیں گے اور یہ ہمارا منہ دیکھے گا ۔اس کے لیے ضرور لائیے گا ورنہ میں بھی نہیں کھاؤں گی ۔وہ منہ بنائے فل نخرے دکھانے کے موڈ میں تھی یارم سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا
تھوڑی دیر میں واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں شونو کے لئے ایک الگ کپ تھا جو کہ روح نے ایک اچھی ماما کی طرح پہلے شونو کو ہی دیا ۔
اور یارم کی خیرت انتہا کی حد یہاں ختم ہوئی تھی جب اس نے اپنی بیوی کے اس بیٹے کو آئس کریم کے ساتھ مکمل انصاف کرتے دیکھا ۔
اور اب اس نے سیریز ہو کر سوچا تھا کہ اس سے پہلے کہ وہ اسی کتے کو اس کا بچہ بنا دے اسے اپنی اولاد کے لیے کوئی قدم اٹھانا ہوگا
کیعنکہ روح اب اس کی ماما بن چکی تھی لیکن وہ اس کا باپ نہیں بن سکتا تھا
روح بےبی آج تم سو کیوں نہیں رہی ۔۔۔۔؟
مجھے نیند نہیں آرہی یارم
اور یہ نیند کیسے آئے گی اس نے دلچسپی سے پوچھا
کوئی اچھی سی فلم دیکھ سکتے ہیں اس نے آئیڈیا دیا
بہت بُرا آئیڈیا ہے جانےمن کیوں کہ اب تمہیں سو جانا چاہیئے پہلے ہی بہت وقت گزر چکا ہے ۔یارم نے اس کے آئیڈی پر نظرثانی کیےبغیر اپنا فیصلہ سنایا تو وہ منہ بنا گئی
کیسے بورنگ انسان ہیں آپ مجال ہے جو ذرا سے اپنے ہول سے باہر نکل آئیں
ہر وقت اتنی سیریل شکل بنا کے رکھتے ہیں آپ کا تو ڈمپل بیچارہ بھی سوچتا ہوگا کہ کس کے متھے لگ گیا ہوں سوری متھےنہیں گال ۔۔۔۔۔
وہ اپنی بات کی درستگی کرتے ہوئے بولی
جس پر یارم ذرا سا مسکرایا تھا
اور روح کو پھر سے اس کے ڈمپل پر چوٹ کرنے کا موقع مل گیا۔۔
لو جی شروع ہو گئی پھر سے نمائش یا اللہ مجھے ایک پیارا سا بچہ دی جس کے گال پہ ایسا ہی ڈمپل ہو اور وہ دل کھول کھول کر مسکراتا ھو
ان کی طرح کنجوس نہ ہو وہ دل سے دعا کرتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھنے لگی
یا اللہ مجھے ایک پیارا سا بچہ دیکھتا کہ اس کتے سونو کو اولاد نہ بنانا پڑے اور ہاں پیارے اللہ میری بیوی بہت معصوم اور جھلی ہے اس کی بات ماننے کی بالکل ضرورت نہیں ہے ہمیں کوئی ڈمپل والا بچہ نہیں چاہیے
ہمارے گھر میں ایک ہی ڈمپل والا انسان کافی ہے وہ اسی کے انداز میں شرارت سے دعا مانگنے لگا
جس پر روح اسے گھور کر دیکھنے لگی
نہیں اللہ جی ان کی بات مت سنئیے گا ان کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے مجھے ڈمپل والا بچہ چاہیے وہ بھی ان سے زیادہ خوبصورت تاکہ پھر یہ اس سے جل جل کرسڑ جائے ۔
اور ہاں میرا بچہ ہستو ہونا چاہیے ہر وقت مسکراتا رہے اور ہر وقت اس کا ڈمپل چمکتا رہے وہ خیالوں کی دنیا میں اپنے بچے کے نقوش میں کھوئی ہوئی تھی
۔جب کہ یارم اس کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا
ہاں ہاں بےبی پہنچ گئیں تمہاری دعا اللہ کے پاس اور اللہ نے تمہارا خواہش نامہ سن بھی لیا اب سو جاؤ یار
یارم نے اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالتے ہوئے کہا
۔اف یارم سکون سے دعا بھی نہیں مانگنے دینا مجھے بس ہر وقت لڑتے ہی رہا کریں
وہ بیڈ پر لیٹتے ہوئے منہ بسورے بولی
اتنی دعائیں تو مانگ چکی ہومجھے بھی تو مانگ مانگ کر ہی حاصل کیا ہے اب کیا یہ ڈمپل والے بےبی کی دعا آج رات پوری بھی کروانی ہے
چلو جلدی سے سو جاؤ بہت وقت گزر چکا ہے ۔وہ اس کے اوپر کمبل تھیک کرتے ہوئے اسے زبردستی سلانے کی کوشش کر رہا تھا
۔آپ سے اچھا تو میرا شونو ہے کم از کم مجھے زبردستی سونے پر مجبور تو نہیں کرتا بس ایک بار ٹھیک ہو جاؤں میں پھر دیکھئے گا آپ منتیں کریں گے میری
روح جاگتی رہی ہو تب میں بھی سوتے رہوں گی وہ دھمکی دینے والے انداز میں بولی ۔ڈارلنگ تم بس ایک بار ٹھیک تو ہو جاؤ پھر جو میں کروں گا تمہارے ساتھ وہ تم ساری زندگی یاد رکھو گی ۔اس بیماری میں جتنا تنگ تم نے مجھے کیا ہے نہ اس سب کا حساب تمہیں دینا ہوگا
۔لیکن فی الحال تم سو جاؤ باقی باتیں کل صبح کریں گے کل کا سارا دن تمہارے نام کہیں نہیں جاؤں گا میں اس کا ماتھا چومتے ہوئے محبت سے بولا تو روح نے ایک بار پھر سے اسے گھورا ۔
کوئی احسان نہیں کر رہے آپ مجھ پر جانتی ہوں میں کل آپ نہیں جائیں گے آفس کیوں کہ کل سنڈے ہے ۔کہہ تو ایسے رہے ہیں جیسے میرے روکنے پر رک رہے وہ کمبل ٹھیک کرتی اس سے مزید لڑنے کا ارادہ ترک کر چکی تھی
جبکہ اس کے انداز پر یار م بھی مسکراتے ہوئے اس کا سر زبردستی اپنے سینے پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا
°°°°°°°
یارم کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے بالکل پاس اس کے سینے پر سر رکھے گہری نیند سو رہی تھی
اس کے چہرے پر انتہا کی معصومیت تھی
جس پر یارم کو بے پناہ پیار آ رہا تھا
۔اور اسے اپنے اس حد تک قریب دیکھ کر اس کے دل میں خواہشات اور جذبات کا سمندر اٹھ رہا تھا
۔وہ اپنے جذبات پر لگام کھینچتا ہے اس کے قریب سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ روح نے اپنا سر مزید اس کے سینے میں چھپاتے ہوئے اسے اپنے قریب سے اٹھنے نہ دیا
ایسی حرکت وہ کبھی بھی ہوش میں نہیں کر سکتی تھی یقینا وہ سو رہی ہوگی
یارم نے ایک نظر اس کے چہرے پر دیکھا ۔وہ گہری نیند میں تھی یارم نے اس کا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹایا تو اسے اپنے قریب سے اٹھتے پاکر روح نے اپنا ہاتھ اس کے گرد پھیلا لیا
وہ یارم کے لیے ایک امتحان بن رہی تھی اب یارم کے لئے جانا مزید مشکل ہو گیا تھا وہ جینا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا وہ اسے اتنا ہی اپنی جانب کھینچتی تھی
اس نے مشکل سے روح کا پھیلایا ہوا بازو اٹھاتے ہوئے اس کا سر تکیہ پر رکھنا چاہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام ختم کر کے اس کے قریب سے اٹھتا روح کی آنکھ کھل گئی
اسے خود پر جھکے پا کر جہاں اس کی نگاہیں جھکنے لگی تھی وہی اس کی شرم و حیا پہلے دن کی طرح برقرار اسے روح سے دور ہونے نہیں دے رہی تھی ۔اس کا اپنا دل بے ایمان ہونے لگا تھا
اس نے نرمی سے روح کی آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوا تو اس کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ پھولوں کی طرح کھلی تھی
۔گڈ مارننگ میری جان یار م اس کے ماتھے پر مہر ثبت کرتا اپنے جذبات پر وہی لگام کھینچ کر اس کے قریب سے اٹھ کھڑا ہوا
۔جب کہ روح اسے اس طرح سے خود سے دور جاتا دیکھ کر اداس ہو گئی ۔وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے قریب نہیں آ سکتا لیکن وہ یوں دور چلا جائے گا یہ روح کو اندازہ نہیں تھا
°°°°°°°
وہ نہا کر باہر نکلا تو روح اب بھی بیڈ پر بے یقینی سے بیٹھی اس کو دیکھ رہی تھی
کیا ہوا روح تم ٹھیک تو ہو وہ بے چین ہوا تھا
نہیں یارم میں ٹھیک نہیں ہوں آپ مجھے یوں چھوڑ کر چلے گئے آپ مجھ سے دور جا رہے ہیں اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
نہیں میرا بچہ میں کہاں تم سے دور ہوں یہی توہوں تمہارے پاس وہ اس کے پاس بالکل قریب آ کر بیٹھا روح اس کے گرد بازو پھیلائے اس کے سینے پر سر رکھ گئی
نہیں یارم کچھ غلط ہو رہا ہے کچھ تو ہو رہا ہے آپ مجھ سے دور جا رہے ہیں آپ میرے پاس نہیں آتے پہلے کی طرح مجھے پیار نہیں کرتے اور اگر کبھی آ بھی جائیں مجھ سے دور چلے جاتے ہیں
یارم یہ سب کچھ کب تک چلے گا میں آپ سے دور نہیں رہنا چاہتی
دور تو تم سے میں بھی نہیں رہنا چاہتا روح لیکن یہ مجبوری ہے جب تک تم مکمل ٹھیک نہیں ہو جاتی تب تک ۔۔
میں ٹھیک ہوں یار م ۔میں بالکل ٹھیک ہو چکی ہوں لیکن آپ سے دور رہ کر میں پھر بیمار ہو جاؤں گی مجھ سے دور مت جایا کریں وہ اس کے سینے پر سر رکھے اپنے دل کی کیفیت بیان کر رہی تھی ۔
میں تم سے دور نہیں جا رہا ہوں بس کچھ دن کی بات ہے پھر سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا حیر یہ سب باتیں چھوڑو جلدی سے فریش ہو جاو تب تک میں اپنی جان کے لئے ناشتہ بناتا ہوں
اور پھر تو آج کا سارا دن تمہارے نام ہے شام کو باربی کیو پارٹی کریں گے تمہارے ماموں اور ممانی کو بھی بلا لیں گے اورتم اپنے بھائی اوربھابھی کو فون کر کے تم خود بلا لو باقی اپنا انسپکٹر تو بن بلایا مہمان ہے وہ اپنی فیملی کو لے کر خود ہی آجائے گی بس اس کے کان تک خبر پہنچنے کی دیر ہے وہ مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے لب رکھتا اس کے قریب سے اٹھا ۔
جبکہ روح بھی اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے فریش ہونے جا چکی تھی
فریش ہو کر باہر آئی تو یارم ناشتہ بنا کر ٹیبل پر بھی لگا چکا تھا ۔
یہ رہا میری جان کا ہلکا پھلکا سا ناشتہ لنچ بھی ہلکا پھلکا ہی کریں گے کیوں کہ آج کاڈنر میری پیاری سی فائف کے لئے اسپشل ہوگا ۔جو کہ اس کا ہسبینڈ خود اپنے ہاتھوں سے بنائے گا
تو آج ہم سارا دن ہلکا ہلکا کھائیں گے تاکہ رات کو پیٹ بھر کر کھائے اور رات کو پیٹ بھر کر کھانے کے لئے ٹمی جگہ بھی تو ہونی چاہیے یارم نے پیار سے کہتے ہوئے اس کے لیے کرسی کھینچی تو بھی زور زور سے ہاں میں سر ہلا دی کرسی پر بیٹھ گئی .
اس کا شہزادہ اسے شہزادیوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا تو وہ کیوں نا اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتی
°°°°°
بہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر کی جانب آئی تھی لیکن ہاتھ میں زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے وہ دروازے پر ہی رک گئی
کھانے پینے کی اشیاء ہونے کی وجہ سے وہ انہیں زمین پر نہیں رکھ سکتی تھی جس کی وجہ سے اسے فلیٹ کا دروازہ کھولنے میں کافی مشکل پیش آرہی تھی
اس سے پہلے کہ معصومہ شارف کے لیے پھر سے نیچے جاتی اسے سامنے سیڑھیوں سے درک آتا نظر آیا
اللہ کا شکر ہے کہ تم آ گئے یقین مانو مجھے اس وقت کسی نہ کسی کی ضرورت تھی کیا تم میرے لیے اسے ہولڈ کرو گے وہ اپنا سامان اس کی طرح بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہنی لگی
درک جو اسے نظرانداز کیے آگے بھرنے ہی لگا تھا اس کے اس طرح سے سامان زبردستی پکڑآنے پر اسے روکنا پڑا
کہاں غائب رہتے ہوتم ویسے میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی تم نے شونو کو سنبھالنے میں میری بہت مدد کی تھی
لیکن میں دوبارہ فلیٹ پر آ نہیں سکی وہ کیا ہے نا شارف روز آفس کے لیے لیٹ ہو جاتا ہے اور ہمارا گھر بھی کافی دور ہے اسی لئے میں نے سوچا کہ میں اپنا فلیٹ کھلوا لیتی ہوں اور اب تم جانتے ہو کہ گر می بھی ہو رہی ہے تو اس سائیٹ پر گرمی بھی بہت ہوگئی یہاں سمندر کے قریب اتنی زیادہ گرمی نہیں لگے گی
کیا خیال ہے تمہارا ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ میں وہ اسے زبردستی کا دوست بناتے ہوئے کہہ رہی تھی
جبکہ درک نے صرف ہاں میں سر ہلایا جیسے اپنی جان چھڑوانا چاہتا ہوں
بڑے بے مروت ہو تم ایک بار پھر شونو کا حال ہی پوچھ لو تو تمہارا دوست تھا ۔معصومہ جو کب سے اپنی باتوں میں مگن اس کے پاس ہی کھڑی بولے جا رہی تھی پھر رک کر کہنے لگی
تمہاری دوست بیمار تھی نا اب وہ کیسی ہے وہ کھڑوس انداز میں بولا تو معصومہ کامنہ بن گیا
ماشاءاللہ سے اب ٹھیک ہے شکر ہے تمہیں یاد تو ہے کہ میری دوست بیمار تھی ۔تمہارا دوست بھی ٹھیک ہے وہ میری دوست کا بےبی ہے بےبی کا مطلب سمجھتے ہو نا بچہ اس کا شوہر اس سے بہت چرتا ہے لیکن روح کے لیے شونو بہت اہم ہے ۔
اس لیے وہ ہمیشہ اسے اپنے پاس رکھتی ہے جب وہ بیمار تھی تب وہ میرے پاس رہا درک میرے لئے وہ وقت بہت مشکل تھا لیکن تم نے میرا ساتھ دیا اس کے لئے شکریہ ویسے تم ایک بہت اکڑو مغرور پلس کھڑوس ٹائپ انسان ہو لیکن اس کے باوجود بھی شونو تمہارے قریب چلا گیا ایک بات بتاؤں وہ کتا آسانی سے کسی کے پاس نہیں جاتا
تم نے اس کا بہت خیال رکھا اس کے لیے میں سچ میں تمہارے شکرگزار ہوں میرے لئے اکیلے وہ سب حالات بہت مشکل تھے تم نے سچ میں میری بہت مدد کی ہے اس کے لئے بہت بہت شکریہ
جانتی ہو کافی لیٹ تمہیں تھینک یو کر رہی ہوں لیکن وہ کیا ہے کہ تم نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے ہو مہینوں نظر ہی نہیں آتے اب دیکھو نا جس دوران تم غائب تھے اس دوران میری شادی بھی ہوگئی ورنہ میں تمہیں اپنی شادی پر ضرور انوائیٹ کرتی
بہت باتیں کرتی ہوں معصومہ شادی مبارک ہو اور میں نے زوبی کو سنبھال کر میرا مطلب ہے تمہاری دوست کے شونو کو سنبھال کر تم پر کوئی احسان نہیں کیا تھا
مجھے جانوروں سے بہت لگاؤ ہے خاض کر چھوٹے جانوروں کے ساتھ ۔اپنی دوست کا خیال رکھنا اور زوبی میرا مطلب ہے شونو کا بھی وہ اس کا سامان اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنے فلیٹ کی طرف بڑھ چکا تھا
جبکہ معصومہ کو آج بھی پہلے دن کی طرح ہی انتہا کا کھڑوس اور اکڑو لگا تھا ۔لیکن پھر بھی اس نے شونو کو سنبھالنے میں اس کی بہت مدد کی تھی جب روح یارم سے ناراض ہوکر پاکستان جا چکی تھی
ایسے میں شونو کی ذمہ داری معصومہ پر آ گئی تھی اور پھر اس حادثے کے بعد شونو اس کی بالکل کوئی بات نہیں مانتا تھا وہ روح کو مس کرتا تھا ہر وقت اداس رہتا تھا ایسے میں درک نے بہت ساتھ دیا تھا وہ شونو کو اپنے ساتھ لے کر چلا جاتا
اور پھر جب وہ اسے کو لے کر آتا تو شولو فریش ہوتا ۔اور یہ بات سوائے شارف کے اور کسی کو پتا نہیں تھی کہ شونو کو سنبھالنے میں درک نے اس کی مدد کی ہے کیونکہ یہ لڑکا ان کے لیے انجان تھا
وہ کون تھا کیا کرتا تھا معصومہ نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی
اور شاید وہ کبھی درک کے ساتھ بات بھی نہیں کرتی لیکن اس کی کالی آنکھیں اسے بالکل روح جیسی لگتی تھی ۔بس اس لئے وہ اس سے بات کر لیتی تھی اس نے ایک دو بار درک کو بتایا بھی تھا کہ اس کی آنکھیں اس کی دوست سے ملتی ہیں ۔
لیکن وہ ہمیشہ کی طرح کھڑوس سی شکل بنا دیتا تو معصومہ بھی نظر انداز کر دیتی
کیا کہہ رہا تھا تمہارا یہ کھڑوس دوست کیوں روکا ہوا تھا اسے دروازے پر شارف نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا
ارے میں نے نہیں روکا ہوا تھا سامان ہولڈ کرنے کے لیے کوئی نہیں ملا تو سوچا اسی سے تھوڑی سی مدد لے لوں
اور وہ میرا دوست نہیں ہے سمجھے میں صرف اس کو تھینک یو بول رہی تھی اس نے شونو کا بہت خیال رکھا تھا اس کے بعد وہ کہیں غائب ہوگیا آج نظر آیا تو تھینک یو بول دیا بس اور کچھ نہیں
وہ سامان کو ٹیبل پر رکھ رہی تھی جو کہ شارف دروازہ بند کرتے ہوئے اندر داخل ہوا
تم یہاں آرام سے بیٹھ گئے ہو اٹھوصفائی کروانے میں میری مدد کرو اب سے ہمیں یہی رہیں گے تو یہ جگہ ٹھیک سے صاف ہونی چاہیے تمہاری طرح گندگی میں نہیں رہ سکتی میں وہ اسے گھورتی ہوئی کہتی اٹھنے کا اشارہ کر رہی تھی
جبکہ شارف محبت پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا
شارف قسم سے اگر تمہاری نیت خراب ہوئی نہ تو اتنے جوتے ماروں گی کہ ساری زندگی یاد رکھوگے بدتمیز آدمی خبردار جو مجھے ایسی نظروں سے دیکھا
ایسی کسی نظر جانےمن میری نیت تو بہت صاف ہے وہ اس کے قریب آتے ہوئے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال چکا تھا ۔
شارف مجھے بہت کام ہے پلیز مجھے تنگ مت کرو وہ اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اب شارف کی نیت مکمل خراب ہو چکی تھی
ہم کام تھوڑی دیر بعد بھی تو کرسکتے ہیں ڈارلنگ ائی پرامس میں تمہاری پوری پوری ہیلپ کروں گا وہ اسے باہوں میں اٹھائے بہکے ہوئے انداز میں بولا تو معصومہ نظریں چڑا گئی بولڈ سی بے باک لڑکی یہاں آکر بالکل چھوئی موئی بن جاتی تھی
°°°°°
میری آنٹی بیڈ کے نیچے سے مت صفائی کریں وہ صاف ہے میں نے کل ہی اسے صاف کیا تھا اور وہ کچھ گھبرائی گھبرائی سے بولی تو میری آنٹی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا
نو میم یارم سر غصہ ہوں گے ۔میں دوبارہ کر دوں گی وہ مسکرا کر کہتی بیڈ کے نیچے سے صفائی کرنے لگی لیکن اس بار ان کے جھاڑو کے ساتھ میڈیسن بھی باہر آئی تھی جنہیں دیکھ کر روح کی سانسیں رکنے لگی
میڈم آپ نے دوائی کیوں نہیں کھائی اگر یارم سر کو پتہ چل گیا تو وہ بہت غصہ ہوں گے جانتی ہیں نا آپ ۔میری کو اردو نہیں آتی تھی لیکن روح کے ساتھ رہ کر وہ کافی اردو سیکھ چکی تھی
آنٹی پلیز ان کو مت بتائے گا ۔پلیز مجھے یہ بالکل بھی پسند نہیں ہے لیکن یارم زبردستی کھلاتے ہیں تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی اسی لیے میں نے پھینک دی لیکن میں بتا رہی ہوں میں نے صرف صبع والی پھینکی تھی ۔اس سے پہلے کی ساری کھائی ہیں
اس نے منت کرتے انداز میں کہا جب یارم کمرے میں داخل ہوا ۔میری خاموشی سے یارم کو دیکھتی کمرے سے نکل گئی
روح میری جان یہ جوس پیو تمہارے لیے تمہارے ہینڈسم سے ڈمپل والے شوہر نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے یارم پیار سے گلاس اس کی طرف لے جاتا اس کے منہ سے لگا چکا تھا جبکہ روح پریشان تھی کہ میری کے ہاتھ میں میڈیسن دیکھنے کے باوجود بھی وہ بالکل بھی غصہ نہیں ہوا ۔
وہ جو اس کے غصے سے خوفزدہ تھی بے فکر ہوکر پیجوس نے لگی لیکن جوس پینے کے دوران اسے اپنے گلے میں کچھ اترتا ہوا محسوس ہوا اس نے یارم کو دیکھا وہ زبردستی گلاس اس کے لبوں سے لگائے ہوئے تھا
روح بہت کوشش کے باوجود بھی گلاس کو ہٹا نہیں سکی اور جوس ختم ہوتے ہی یار م نے گلاس ایک سائیڈ پر رکھا
بہت ضدی ہو گئی ہو میری جان لیکن کیا ہے نہ تمہارے یارم کو تمہاری رگ رگ کی خبر ہے تم نے وہ میڈیسن بیڈ کے نیچے پھینک میتو نں ے جوس میں ڈال کر تمہیں پیلا دی آئندہ ایسی حرکت مت کرنا ورنہ سخت سزا دوں گا ۔
پیار سے اس کے گال کھینچنااپنا لیپ ٹاپ اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی اور جب کہ روح پیر پٹکتی رہ گئی

وہ سب لوگ اس وقت یارم کے گھر پر تھے
صارم اپنے دونوں بچوں اور عروہ کے ساتھ بن بلایا مہمان تھا
جب کہ خضر اور لیلیٰ کو خود یارم نے انوائٹ کیا تھا
اور شارف اور معصومہ کو روح نے
یہ اچھا موقع تھا ایک ساتھ وقت گزارنے کا ۔
روح کو فلحال کوئی بھی ہیوی چیز دینے سے منع کیا گیا تھا لیکن یارم اس کی فیورٹ چیزیں اس سے دور کرکے وہ اسے اداس نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
اس لئے پہلے ہی اس کے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیا تھا ۔
اب روح پہلے سے کافی بہتر ہو چکی تھی
اور یارم نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اسے لے کر کہیں گھومنے جائے گا
تاکہ وہ اچھا محسوس کرے اور اپنی نئی زندگی کو کھل کر جئے۔
اس کا سارا دھیان کب سے صرف روح پر ہی تھا ۔جس کی معصومیت نے اس محفل کو چارچاند لگائے ہوئے تھے
وہ کبھی شونو سے بات کرتی تو کبھی لیلیٰ کو مامی کہہ کر چھڑتی
کبھی شارف کے سامنے کوئی نہ کوئی شرط رکھ دیتی
اس کی یہ ساری شرارتیں عروہ اور صارم کے ساتھ بھی جاری تھی ۔
ان سب میں اگر کوئی خاموش اور کچھ پریشان تھا تو وہ خضرتھا وہ نوٹ کر رہا تھا کچھ دن سے خضر کچھ پریشان پریشان رہتا ہے
اور یارم کو یہ مشورے بھی دیتا ہے کہ وہ روح کو اپنا عادی نہ بنائے
یہ جاننے کے باوجود بھی کی روح اس کے جسم کا نہیں بلکہ روح کا حصہ ہے ۔
دو تین بار تو یارم اسے جھڑک بھی چکا تھا کہ اپنے کام سے مطلب رکھو میری اور روح کی پرسنل لائف سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہے
نہ جانے خضر کے دماغ میں کیا چل رہا تھا آج کل اس کے پاس یہی سب باتیں ہوتی کرنے کے لئے جن سے یارم کو اچھا خاصا غصہ آ جاتا
وہ جانتا تھا کہ خضر کبھی بھی اس کا برا نہیں سوچتا
وہ اس کا بہترین دوست ہے اور بچپن سے اس کے ساتھ ہے
لیکن وہ روح کے لیے یہ سب کچھ کیوں بول رہا تھا جب کہ وہ جانتا بھی تھا کہ وہ اس کی زندگی ہے اس کی جان ہے
وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ روح کو اپنا عادی مت بناؤ اسے لڑنا سکھاؤ دنیا کا مقابلہ کرنا سکھاؤ
وہ کیوں اسے دنیا کے سامنے مقابلے کے لیے چھوڑ دے ۔
وہ کیوں کوئی مشکل اس تک آنے دے
جبکہ روح کے سامنے اس کی ہر تکلیف سہنے اس کی ہر مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے وہ خود کھڑا ہے
جب وہ خود اپنی روح کا محافظ ہے تو وہ اسی دنیا سے لڑنا کیوں سکھائے ۔
اس کی روح تو بس اپنے یارم سے لڑنا جانتی تھی
روح سے پہلے ان لوگوں کی زندگی کیا تھی ۔۔۔۔؟
آج ایک جگہ سے برائی کو مٹایا کل دوسری جگہ سے مٹانا ہے ۔
آج ایک شخص کا گلا کاٹا ہے کل دوسرے کی جان لینی ہے ۔
یہ سب تو تھی ان لوگوں کی روٹین روح سے پہلے ان کی زندگی میں کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں کی وہ کہنے کو دوست تھے ایک دوسرے کے ساتھ تھے ایک ٹیم کا حصہ تھے
لیکن اس طرح مل جل کر بیٹھنا باتیں کرنا ایک دوسرے کو سمجھنا یہ سب تو انہوں نے کبھی بھی نہیں کیا تھا
یہ سب کچھ تو روح کے آنے کے بعد شروع ہوا تھا
روح کے ہاتھ کی بنی چائے سب کو پسند تھی ۔
اس روز روح نے انہیں پہلی دفعہ گھر انوائٹ کیا اور پھر یہ سب ان کا معمول بن گیا
خضر لیلی سے محبت کرتا تھا نہ جانے وہ اپنی محبت کتنے سالوں تک اپنے سینے میں دبا کے رکھتا پر لیلیٰ کو شاید کبھی پتہ بھی نہیں چلتا لیکن ایسا نہ ہوا
ان کے نصیب میں ایک دوسرے کا ساتھ تھا جو ملا
شارف نے اپنے جذبات کا اظہار معصومہ کے سامنے کیا ۔اور معصومہ نے اس کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس کی محبت کو قبول کیا
ان لوگوں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزاریں گے
ان کی زندگی میں ان کے ہمسفر ہوں گے بچے ہوں گے
کتنی خوبصورت زندگی تھی ان سب کی
قانون اور جرم کے کھیل میں یارم اور صارم کی دوستی کہیں کھو سی گئی تھی اورعر وہ جسے وہ اپنی بہن کہتا ہی نہیں بلکہ دل سے مانتا بھی تھا اسے ملے ہوئے اسے سال سال گزر جاتا
لیکن روح کے آ جانے سے سب بدل گیا اس کی دوستی اس کے رشتے سب واپس آگئے
وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے جذبات کو سمجھنے لگا ۔
اور یہ سب کچھ ہوا تھا اس کی روح کی وجہ سے ۔وہ رشتوں میں جینے والی رشتوں کو سمجھنے والی لڑکی اسی جینا سکھا گئی تھی
اور اب خضر چاہتا تھا کہ وہ اسے دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دے
لیکن یارم اتنا خود غرض نہیں تھا وہ روح کے لئے جان دے بھی سکتا تھا اور کسی کی بھی جان لے بھی سکتا تھا
یہ لڑکی اس کے جینے کی وجہ تھی جس کے بغیر س نے جینے کا سوچا بھی نہیں تھا
اور آپ یہی بات وہ خضر کو بھی سمجھانا چاہتا تھا
فی الحال تو اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک خضر کو ہوا کیا ہے وہ کیوں یہ ساری باتیں کر رہا ہے آخر اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے
وہ خود بھی کافی الجھا الجھا لگ رہا تھا آخر کون سی چیز تھی جو اسے ڈسٹرب کر رہی تھی اس کی پریشانی کی وجہ بنی ہوئی تھی
وہ خضر جو کل تک اسے روح کا خیال رکھنے اس کے پاس رہنے کی ہدایت کرتا تھا آج سے دنیا سے لڑنے کا مشورہ دے رہا ہے
اس وقت بھی وہ باہر اکیلا کھڑا نہ جانے کیا کر رہا تھا سب اندر تھے
یارم نے ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر خاموشی سے غیر محسوس انداز میں اٹھ کر باہر نکل آیا
°°°°
تم یہاں باہر اکیلے کیا کر رہے ہو خضر۔ ۔۔؟
سب لوگ اندر ہیں جب کہ تم یہاں آسمان میں شاید تاروں کو گھورنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے
وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھتا ہوا بولا
کل تک وہ اس پر غصہ تھا لیکن اب اس کا غصہ اتر چکا تھا
کچھ نہیں بس اندر اپنی موج مستی میں لگے ہوئے ہیں تو سوچا تھوڑا موسم انجوائے کر لوں خضر نے مسکرا کر کہا
بہت اچھی بات ہے چلو مل کر موسم انجوائے کرتے ہیں ساتھ میں کچھ باتیں بھی ہو جائیں گی
کیا بات کرنا چاہتے ہو تم مجھ سے خضر مسکرایا تھا
جانتا تھا یارم اس کے پاس ضرور آئے گا
تم جانتے ہو خضر مجھے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور وہ سارا فتور تمہارے دماغ میں کس طرح سے آیا
وہ بات کو الجھانے کا عادی نہیں تھا سیدھی اور صاف بات کرتا تھا
میں جانتا ہوں یارم لیکن میں اپنی بات پر قائم ہوں میں نے تمہیں جو بتایا تھا وہ اب بھی کہتا ہوں
تم روح کو اپنا عادی بنا کر غلط کر رہے ہو
زندگی اتنی آسان نہیں ہے جتنی تم سمجھتے ہو
تم نے کبھی نوٹ کیا ہے روح آج کل بالکل کسی ضدی بچی کی طرح بیہو کرتی ہے ۔
اپنی پسند کی چیز نہ ملنے پر بے چین ہوجاتی ہے
تمہیں گھر آنے میں ذرا سی دیر ہوتی ہے پاگلوں کی طرح پورے گھر میں گھومتی ہے ۔
تمہارے بغیر باہر نہیں نکلتی
تمہارے بغیر کھانا نہیں کھاتی
تمہارے بغیر سوتی نہیں ہے
جب تک تم اس کے سامنے نہیں آ جاتے اسے چین نہیں ملتا
تم جانتے ہو کہ وہ اس گھر سے میرے گھر تک اکیلے نہیں جا سکتی کیونکہ ڈرتی ہے وہ اس میں ہمت ہی نہیں ہے
ایک جگہ پر کچھ لوگوں کو دیکھ کر وہ ان کے قریب سے نہیں گزرتی نجانے وہ اسے کیا کہہ دیں گے کیا کر دیں گے ۔
ہمت نام کی کوئی چیز اس کے اندر نہیں ہے ۔
سکول کے بعد کالج کا ماحول اس نے نہیں دیکھا پڑھائی میں اتنے اچھا ہونے کے باوجود بھی وہ چار کلاسیں نہیں پڑھ سکی
تم غور کرو وہ تمہارے بغیر کچھ نہیں ہیں بلکل زیرو ہے
یارم تمہاری محبت اسے بہادر نہیں بزدل بنا رہی ہے
یہ حقیقت ہے یا رم کہ وہ لڑکی جو دبئی کے ڈان کی بیوی ہے ایک بزدل لڑکی ہے وہ خود سے نہیں لڑ سکتی یہاں تک کہ وہ خود سے اکیلی باہر نہیں جا سکتی تم اس کا سہارا بن چکے ہوں یا رم
اسے لگتا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر میں تم اس کے ساتھ ہو گے وہ جہاں بھی جائے گی جیسے بھی جائے گی تم ہمیشہ اس کے ساتھ رہو گے وہ اپنی رو میں اسے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جب یارم نے اس کی بات کاٹی
ہاں یہ سچ ہے خضر میں ہر قدم پر اس کے ساتھ ہوں میں ہمیشہ اپنی روح کے ساتھ رہوں گا اگر وہ ڈرتی ہے تو میں اس کے ساتھ ہوں ۔میں خود اس کے لیے لڑوں گا میں مقابلہ کروں گا دنیا کا نہ کہ روح کو اس بھیڑ میں تنہا چھوڑ دوں گا خضر کی بات کو سمجھے بغیر یارم نے کہا
اور اگر کل تم نہ رہے تو ۔۔۔۔؟فرض کرو کہ اگر کل تمہیں کچھ ہوگیا تو روح کا کیا ہو گا کل تم پر ایسٹ گرا۔میں جانتا ہوں وہ بہت تھوڑی سی مقدار تھی لیکن وہ زیادہ بھی تو ہو سکتا تھا
یارم ایک ہفتہ پہلے تمہیں گولی چھو کر گزری وہ گولی تمہارے سینے پر بھی تو لگ سکتی تھی نا
ہم موت کا کھیل کھیلتے ہیں زندگی نہیں موت ہمیں اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے آج نہیں تو کل ہماری موت بھی مقرر ہے
میں تم شارف اب تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ ہماری فیملی ہے ہمیں خود سے پہلے ان کی فکر کرنی ہے ۔
لیلیٰ اک بہادر لڑکی ہے میرے بعد جی لے گی ڈٹ کر دنیا کا مقابلہ کر لے گی ۔
اور معصومہ کو بھی ہم کم نہیں سمجھ سکتے وہ بھی لڑنا جانتی ہے اپنا دفاع کر سکے گی
لیکن تم نے کبھی روح کو دیکھا ہے
یارم وہ لڑکی تمہارے بغیر سانس نہیں لے سکتی تمہارے بغیر جینا تو دور کی بات تم نے اسے اپنا اس حد تک عادی بنا لیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کچھ سوچتی ہی نہیں
میں یہ نہیں کہتا کہ تم سے دنیا کی بھیڑ میں اکیلا چھوڑ دو
لیکن اسے اس دنیا سے مقابلہ کرنا سکھا دو
اللہ نہ کرے کہ تمہیں کبھی بھی کچھ ہو لیکن زندگی کا کبھی کوئی بھروسہ نہیں یار میری بچی رول جائے گی وہ اس کے کاندھے پے ہاتھ رکھتا خاموشی سے وہاں سے نکل گیا جب کہ یارم کو گہری سوچ میں ڈال گیا تھا
خضر کی کوئی بات غلط نہیں تھی اس کے بعد اس کی روح کا کیا ہوگا اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا
وہ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتا تھا لیکن روح کے فیوچر کو لے کر اس کے دماغ میں کبھی کوئی بات نہیں آئی
وہ جو روح کے بغیر نہیں رہ سکتا خود بھی جانتا ہے کہ روح بھی اس کے ہونے سے ہے اگر کل اسے کچھ ہوجاتا ہے تو روح تو جیتے جی مر جائے گی اگر یارم کو کچھ ہوا تو روح بھی جی نہیں پائے گی لیکن وہ اپنی روح کو اپنے ساتھ مار تو نہیں سکتا تھا
خضر صحیح کہتا تھا اسے اپنی روح کو دنیا سے لڑنا سکھانا ہوگا ورنہ اس کے بعد یہ دنیا اس کی روح کو مار دے گی
اسے روح کو بہادر بنانا ہوگا ایک ڈان کی بیوی اتنی بزدل نہیں ہو سکتی کہ خود سے مقابلہ بھی نہ کر پائے روح کو لڑنا سیکھنا ہوگا اسے اپنا دفاع کرنا خود آنا چاہیے یارم نے سوچ لیا تھا کہ وہ روح کو احساس دلایا کہ وہ اس کا ساتھی ہے اس کا ہم سفر ہے لیکن روح میں اتنی ہمت ضرور پیدا کرے گا کہ وہ خود اپنے لئے اسٹنڈ لے سکے
°°°°°
سب کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر آفس کا کام کرنے کے بعد کمرے میں آیا تو روح بیڈ پر بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی
۔اف اتنی دیر لگا دیا آپ نے آج کیا کر رہے تھے آفس میں اس کے آتے ہی روح نے سوال پوچھا
کچھ نہیں بس کچھ کام تھا تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا
کیوں کہ میں نے ابھی تک میڈیسن نہیں کھائی ۔اور نہ ہی میں کھانے کا ارادہ رکھتی ہوں لیلی نے بہت کوشش کی مجھے زبردستی دینے کی لیکن میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آپ مجھے کھلانے والے ہیں ۔
بس پھر کیا تھا وہ تو اتنی ڈرپوک ہے اتنا ڈرتی ہے آپ سے فوراً میری بات پر یقین کر لیا اور اب میری میڈیسن دور کہیں کمرے کے باہر گم ہو گئی ہیں اور آپ کو میں جانے نہیں دوں گی لانے کے لیے وہ اس کے گرد باہوں کا حصار تنگ کرتے ہوئے بولی ۔
لیکن بے بی یہ تو بڑی غلط بات ہے اگر تم نہیں کھاؤں گی تو ٹھیک کیسے ہوگی اور اگر تم ٹھیک نہیں ہوگی تو ہم اپنے سیکنڈ ہنی مون پر کیسے چلیں گے
وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اس کے سامنے رکھ کر پوچھنے لگا اور وہ سوالیہ انداز میں اپنا پاسپورٹ دیکھنے لگی
یارم ہم کہیں جا رہے ہیں کیا اس سے تو اگلے مہینے کی 14 تاریخ کی ڈیٹ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں کل مہینے کی 14 تاریخ وہ سوالیہ انداز میں پاسپورٹ اٹھائے اس سے پوچھنے لگی
ہاں میری جان ہم سویزلینڈ جا رہے ہیں ۔آپنے سیکنڈ ہنی مون پر لیکن اس فلائٹ کی کچھ شرطیں ہیں اس میں بیمار لوگ نہیں جا سکتے
ڈاکٹر کی رپورٹس کے مطابق کسی بھی مسافر کو کوئی بیماری نہیں ہونی چاہیے اور اگر اسے کوئی بیماری ہوتی ہے تو پھر ایک ہی مسافر کو بھیج دیا جائے گا مطلب کے اگلے مہینے کی 14 تاریخ تک تم بالکل ٹھیک نہیں ہوئی تو وہ لوگ مجھے سویزلینڈ بھیج دیں گے اور شاید تمہیں یہی پر رہنا ہوگا
لیکن تم یہاں میرے بغیر اکیلی کیسےرہوگی تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا لیکن دوا ئیاں تو تم کھاتی نہیں ہو تو ٹھیک کیسی ہوگی
آج تو دوائیاں تمہاری گم ہوگئی ہیں باہر کہیں دور ۔۔۔۔۔
ویسے سویزلینڈ بہت خوبصورت ہے اور وہاں کے نظارے بھی بہت خوبصورت ہے جیسے آئس لینڈ میں دیکھے تھےنہ کچھ ویسے ہی
استغفر اللہ یارم آپ وہاں ادھی برہنہ عورتیں دیکھیں گے ۔روح نے صدمے سے چیخ کر کہا تھا
۔آدھی نہیں بیگم یہاں تو شاید نظارے مکمل دیکھنے کو ملیں گے ۔اور یہاں تو کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہوگی تمہاری طبیعت بہت خراب ہے میں ویسے بھی تم ہی لے کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔تمہیں ایسی جگہوں پر جانا بھی نہیں چاہیے
وہ روح کو اپنے بے حد قریب کرتے ہوئے بولا تو وہ فوراً کی پناہوں سے دور ہوئی تھی
میں میڈیسن ڈھونڈ کے لاتی ہوں میں کھاؤں گی اور ٹھیک ہو جاؤں گی پھر ان دونوں ساتھ چلیں گے خبردار جو اکیلے جانے کے بارے میں سوچا وہ بھی ایسے گندے ماحول میں
ابھی آتی ہوں میں
وہاں جا کر عورتوں کو دیکھیں گے اسی لئے تو میرے بغیر جانا چاہتے ہیں میں ہونے دوں گی آپ کی ایسی پلیننگ پوری وہ باہر آ کر اونچی اونچی آواز میں بڑابڑتی اپنی چھپائی ہوئی میڈیسن ڈھونڈے لگی جبکہ یارم پرسکون تھا
°°°°°
وہ دوائی کھا کر اب مزے سے اس کے سینے کے سر پر رکھے اس سے سوال کر رہی تھی
یارم یہ سویزلینڈ اور آئرلینڈ دونوں بھائی بہن ہیں کیا۔۔۔۔۔؟ اس کے بے تکے سوال پر وہ سمجھ گیا تھا کہ دوائی اپنا اثر دکھا رہی ہے
واہ بیگم دو الگ الگ ملکوں کی رشتے داری بھی نکال لی مجھے تو لگتا تھا کہ تم صرف کتے اور انسانوں کے تعلقات بنانے میں ماہر ہو
خیر مجھے یہ تو نہیں پتا کہ سویزلینڈ اور آئرلینڈ کا آپس میں کیا تعلق ہے لیکن یہ دونوں مغربی ممالک ہیں ان دونوں ممالک کا شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں وہ پرسکون انداز میں جواب دیتا روح کو سر اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر گیا
یارم آپ ان عورتوں کو مت دیکھیے گا پتا نہیں اتنے چھوٹے چھوٹے کپڑے کیسے پہن لیتے ہیں اپنی نظریں جھکا کر چلئے گا ہم باہر ہی نہیں نکلیں گے ہوٹل کے اندر ہی رہیں گے وہ انتہائی معصومیت سے سر دوبارہ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے کہنے لگی تو یا رم کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ کھلی تھی
کیوں نہیں بےبی میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لوں گا کیا خیال ہے تمہارا اس نے شرارت سے کہا تو روح نے سر اٹھا کر زور و شور سے ہاں میں سر ہلایا
یہ والا آئیڈیا سب سے اچھا ہے وہ کہتے ہوئے دوبارہ سر اس کے سینے پر رکھ چکی تھی ۔اگلے مہینے کی بارہ تاریخ روح کا یہ کورس مکمل ہونے والا تھا اس کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ ہی باہر لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا سویزرلینڈ کے ٹکٹ اس نے بہت پہلے ہی بک کروا لیے تھے
اور اب روح کے ٹھیک ہو جانے کے بعد وہ اس کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کرنے والا تھا جس میں وہ ہوگا اس کی روح ہوگی اور ایک نیا سفر شروع ہوگا اور اس سفر میں اس کی روح بزدل نہیں ہوگی وہ روح کو دنیا سے مقابلہ کرنا سکھائے گا اس لیے نہیں کہ اسے اپنی زندگی کا بھروسا نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ وہ چاہتا تھا کے اس کی روح بہادر بنے
اٹھ جائیں نا یارم اور کتناسوئیں گے…؟
کیا آج مجھے بھوک مارنا ہے
آپ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ میں ناشتہ نہ کروں ہو دوائی نہ کھاؤں اور آپ وہاں آئز لینڈ کی بہن کے پاس جا کے لڑکیاں تاریں
۔کان کھول کر سن لیں آپ ایسا میں مرتے دم تک نہیں ہونے دوں گی
میں بتا رہی ہوں میں آپ کے ساتھ چلوں گی تو مطلب چلوں گی
جلدی سے اٹھیں اور مجھے ناشتہ بنا کر دیں اگر میں نے خود بنا کر کھایا تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا
۔پھر آپ مجھ پر بے کار میں غصہ ہوں گے
اور خود مجھے کچھ کھانے کو دے نہیں رہے وہ مسلسل اسے جھنجھوڑتے ہوئے تقریر کر رہی تھی
جب یارم نے ایک آنکھ کھولی اور پہلے گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے ساڑھے پانچ بجے جا رہی تھی
بےبی ابھی ناشتے کا وقت نہیں ہوا میری جان سو جاؤ وہ پیار سے اپنے پاس بلاتا ہوا کہنے لگا
جب روح نے فورا نفی میں سر ہلایا
نہیں آپ اٹھیں اور مجھے ناشتہ بنا کر دیں تاکہ میں دوائی کھا کر ٹھیک ہو سکوں
مجھے کسی بھی حال میں 14تاریخ تک ہونا ہے
میں آپ کے ساتھ جا رہی ہوں یاد رکھئے گا آپ کو اکیلے نہیں جانے دوں گی
ان چڑیلوں کے پاس ۔روح اسے زبردستی اٹھاتے ہوئے کہنے لگی تو یارم مسکراتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا
۔اسے پتا تھا کہ یہ پلان کام ضرور کرے گا لیکن اتنا زیادہ کام کرے گا یہ اندازہ اسے ہرگز نہیں تھا
میں ناشتہ بنا کر دیتا ہوں اتنا مت سوچو میں ہرگز تمہیں یہاں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپاتا اٹھ کر باہر نکلا
جب کہ روح منہ بنائے اس کے پیچھے پیچھے آئی تھی
°°°°°
ابھی تک تو اسے آئزلینڈ کے نظارے نہیں بھولے تھے کہ اب وہ اس کی بہن کے نظارے برداشت کرتی ۔
اور اوپر سے یارم کا یہ کہنا کہ فل مغربی ماحول ہے وہاں وہ کسی اچھی چیز کی امید رکھ ہی نہیں سکتی تھی
یارم 14 تاریخ تو یہ آ رہی ہے ہمیں پہلے شاپنگ بھی تو کرنی ہوگی آپ کے اور شونو کے کپڑے بھی لینے ہیں مجھے اپنی بھی کچھ چیزیں لینی ہیں وہ اس کے پچھے آتے آتے بولی
شونو معصومہ کے پاس رہے گا اس نے اچانک مڑ کر کہا تو روح اس کے سینے سے آ لگی
سر پھاڑ دیا میرا وہ اپنا سر پے ہاتھ رکھے پیچھے ہٹی تو یارم نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا
اس کے اچانک ایسا کرنے سے روح دوبارہ اس کے سینے سے آ لگی تھی
یارم شونو کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں نا وہ یہاں کیسے رہے گا میرے بغیر اس کے گلے میں باہیں ڈالے وہ بہت لاڈ سے بولی تھی
بےبی تمہیں اس کتے سے دور لے جانے کے لیے تو اتنی دور جا رہے ہیں ہم وہ ہمارے ساتھ نہیں آرہا اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے اس بارے میں اور کوئی بات نہیں ہوگی
اس کے ماتھے کو چومنے کے بعد وہ جارحانہ انداز میں اس کے گال کو چومتے ہوئے اس سے دور ہٹ کر کچن کا راستہ لے چکا تھا جب کہ اتنے دنوں کے بعد یار م کا یہ پرانا انداز روح کو شرم آنے پر مجبور کر گیا
اور یارم جانتاتھا کہ اس کی اس جارحانہ جسارت کے بعد اب روح اس بارے میں اور کوئی بات نہیں کرے گی
°°°°°°
یارم جب تک اس کے لئے ناشتہ تیار کر رہا تھا روح باہر بیٹھی لسٹ تیار کر رہی تھی کہ اسے کون کون سا سامان چاہیے
اپنے اور یارم کے کپڑوں کے ساتھ اس نے اپنے بے بی کے کپڑے بھی لینے تھے ہاں وہ کتا صرف نکر اور بالکل چھوٹی سی شرٹ پہنتا تھا کیونکہ بقول روح کے اس کے بےبی کو سردی بھی تو لگ سکتی تھی ۔
وہ تو شکر تھا کہ ابھی سردیوں کا موسم نہیں آیا تھا وہ تو اسے سویٹر بھی پہناتی
اب وہ اسے معصومہ کے پاس چھوڑ کر جائے گی تو اس کا سامان بھی تو اسے دینا ہوگا اور بقول روح کے اس کے سارے کپڑے پرانے اور چھوٹے ہوچکے تھے اور اس کے بے بی کو شاپنگ کی اشد ضرورت تھی
روح ناشتہ تیار ہے وہ ٹیبل پر ناشتہ لگاتے ہوئے اسے پکار رہا تھا جب روح ہاتھ میں پیپر تھامیں کچن میں داخل ہوئی
یارم یہ لسٹ ہے ۔یہ سارا سامان یا تو آپ واپس آتے ہوئے لے آئیے گا ورنہ ہم دونوں ساتھ چل کر لے لیں گے اس نے ہمیشہ کی طرح لسٹکے ہاتھ میں تھمائی
تم جا کر لے آؤ یہ سب کچھ وہ بے حد آرام سے کہتا ہے لسٹ اسے تھما کر ٹیبل پر پانی کی بوتل رکھنے لگا تو روح بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
یارم آپ سیریس ہیں وہ بےیقینی سے بولی
اس میں اتنا شوکڈ ہونے والی کونسی بات ہے روح۔۔۔ تمہیں باہر نکلنا چاہیے کم از کم شاپنگ پر تو اکیلے تم جا سکتی ہو
اب تو تم میرے بارے میں بھی سب کچھ جانتی ہو
میں کیا ہوں اور کون سی چیز کس انداز میں پسند کرتا ہوں
اب تمہیں یہاں قید رہنے کی ضرورت نہیں ہے باہر نکلا کرو شاپنگ پر جایا کرو اور وہ لیلیٰ کہاں جاتی ہے معصومہ کے ساتھ تھا وہ بیوٹی پالر وہاں بھی جایا کرو اپنی لائف کو انجوائے کرو باہر نکلو اس قید خانے سے وہ پیار سے اس کے لیے کرسی کھینچتا ہوا اسے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا
وہ جو اپنی حیرانگی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جیسےیارم نے کچھ غلط بول دیا اور اب وہ اس کی بات کی درستگی چاہتی تھی لیکن یارم کے اگلے جملے تو اسے مزید حیرانگی کی کھائیوں میں دھکیل گئے
یہ میرا گھر ہے یارم کوئی قید خانہ نییں
اورآپ کو پتہ ہے نہ میں باہر کبھی اکیلے نہیں گئی ایک باع گئی تھی تو گم ہوگئی تھی صارم بھائی ڈھونڈ کر لائے تھے مجھے اور پھر آپ کتنا غصہ ہوئے تھے یاد نہیں ہے کیا آپ کو وہ اسے یاد دلاتے ہوئے بولی تو یارم نے ہاں میں سر ہلایا
وہ سب پہلے کی باتیں تھی روح اب زندگی بدل رہی ہے لوگ آگے بھر رہے ہیں ہم سے ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ ساتھ چلنا ہوگا اور تمہیں بھی گھر سے نکلنا چاہیے تم کیا ساری زندگی میری آس پر بیٹھی رہوگی
یارم ہوگا تو یہ کام ہوگا یارم ہوگا تو وہ کام ہوگا
ایسا ساری زندگی تو نہیں چلے گا نا روح میری جان تمہیں کچھ کام خود سے بھی لینا چاہیے وہ اب بھی سمجھانے والے انداز میں بول رہا تھا
نہیں یارم مجھے نہیں جانا کہیں بھی اکیلے آپ فارغ ہوں گے تو ہم ساتھ چلیں گے نہیں تو میں معصومہ یا لیلی میں سے کسی کے ساتھ چلی جاؤں گی وہ اس کی بات کاٹ کر بولی
تم اکیلی جاؤ گی روح یہ فیصلہ تھا یا حکم یاصرف ایک بات روح کو سمجھ نہیں آئی
اور اب سے تم اکیلے ہی جایا کرو گی
خود میں تھوڑی سی ہمت پیدا کرو روح باہر نکلا کرو ساری زندگی میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا
کیوں کہاں جا رہے ہیں آپ ۔۔۔۔؟
آپ جو اس طرح سے کہہ رہے ہیں آپ ساری زندگی میرے ساتھ رہیں گے اور مجھے کیا ضرورت ہے کہیں بھی اکیلے جانے کی جب میرے پاس میرا شوہر ہے
اور اگر کل کو تمہارا شوہر نہ رہا تو اگر کل مجھے گولی لگ جاتی ہے یا کوئی دوسرے گینگ کا آدمی میری جگہ کے لیےآ کر مجھے مار دیتا ہے تب کیا کرو گی مر جاؤ گی میرے ساتھ وہ انتہائی غصے سے بولا تھا
لیکن روح کی آنکھوں کی نمی اور پھر بے تحاشا ٹپکتے آنسو دیکھ کر یارم کو اپنی سخت بات کا احساس ہوا
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بھی کہتا وہ بنا اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں بند ہوگی اور یارم کو پتہ تھا کہ وہ یقیناً اب وہ رو رہی ہوگی
°°°°
وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے تک آیا تھا لیکن دروازہ اندر سے لاک تھا روح بےبی سوری جان میں جانتا ہوں میری بات غلط تھی میرا طریقہ غلط تھا لیکن تم پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو میں صحیح کہہ رہا ہوں دروازہ کھولو پلیز
اچھا ٹھیک ہے میں ایسی کوئی بات نہیں کروں گا پلیز دروازہ کھولو اس کی سسکیوں کی آواز باہر تک سنائی دے رہی تھی
جو یارم کو بے چین کر رہی تھی
لیکن وہ دروازہ کھولنے کا نام نہیں لے رہی تھی اس وقت سے یار م سے زیادہ برا اور کوئی نہیں لگ رہا تھا
کتنی آسانی سے یہ شخص اس سے اس کی زندگی چھنینے کی بات کر گیا ۔وہ مانتی تھی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لیکن اس نے اسے خدا سے مانگ مانگ کر حاصل کیا تھا یہ بات وہ شخص کیسے بھول گیا
وہ کیسے بھول گیا کہ یارم تو اللہ کا دیا ہوا تحفہ تھا اس کے لیے۔
اس نے کیوں ایسی دل دکھانے والی بات
آج وہ اگر کسی کی آواز نہیں سننا چاہتی تھی کسی کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی تو وہ صرف یارم تھا آج پہلی بار اس شخص نے اس کا دل دکھایا تھا
°°°°
باہر میری اور شفا کی آواز سن کر روح نے دروازہ کھول دیا وہ اپنی اور یار م کی ناچاقی کو گھرکے ملازمہ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی
لیکن دروازہ کھولتی ہی سامنے ہی یارم کو بیٹھے دیکھا اس کے دروازے کھولتے ہی اٹھ کر اس کے قریب آیا تھا
اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی یقینا وہ کافی دیر سے رو رہی تھی یارم کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا
یارم کو اپنی بات کی گہرائی کا احساس ہو چکا تھا شاید جن الفاظ میں اس نے روح کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی وہ الفاظ بہت سخت تھے
روح میری جان آئی ایم سوری مجھ سے غلطی ہو گئی میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نے سمجھا
یارم پلیز روم کے اند چل کر بات کریں میں نہیں چاہتی کہ ہماری باتیں کوئی دوسرا سنے روح نے دروازے سے اندر داخل ہوتی شفا اور میری کو دیکھ کر آہستہ آواز میں کہا
السلام علیکم سر آج آپ گئے نہیں کام پر میری نے مسکراتے ہوئے پوچھا
نہیں آج اور بہت کام ہے تم لوگ جاؤ اپنا کام کرو وہ سرد آواز میں کہتا کمرے میں داخل ہوا تو روح بھی کمرے میں داخل ہوتے دروازہ بند کر چکی تھی
یارم کا یہ انداز شفا یا میری کے لئے نیا نہیں تھا اس لئے وہ دونوں دھیان دہیے بغیر کیچن کی جانب آ گئی تھیں
°°°°
روح میں اپنی غلطی اکسیپٹ کر رہا ہوں نا تو بات کیوں نہیں کر رہی ہو مجھ سے
وہ بیڈ پر اس کے نزدیک بیٹھا اس کے دونوں ہاتھ تھامے ہوئے تھا جبکہ روح اس سے نظر نا ملاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور اس کی باتوں کو مکمل نظر انداز کر رہی تھی
یارم کاظمی ہر چیز برداشت کرتا تھا لیکن اس کی روح اسے نظر انداز کرے یہ بات اس کی برداشت سے باہر تھی
بس بہت ہو گیا روح میں تمہیں کب سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم میری بات پر دھیان ہی نہیں دے رہی
مانتا ہوں غلط الفاظ بول دیے ہیں لیکن بات غلط نہیں تھی میری
تمہیں تکلیف لینے کا ارادہ نہیں ہے میرا بس تمیں زندگی کی دھوپ چھاؤں سمجھانا چاہتا ہوں ۔اب وہ سختی سے کہہ رہا تھا
میں سب سمجھتی ہوں یارم مجھے کچھ اور نہیں سمجھنا اب جائیں یہاں سے مجھے آپ کا چہرہ ہی نہیں دیکھنا وہ ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھرواتی بیڈ پر لیٹنے لگی
کچھ نہیں سمجھتی تم میری جان نہیں سمجھ پا رہی تم بہت مشکل ہے یہ زندگی اور کیا کہا تم نے میرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی ایک ہی دن میں کیا اتنا برا لگنے لگا ہوں میں وہ اسے بازو سے پکڑ کر ایک بار پھر سے نہ صرف بٹھا چکا تھا بلکہ اپنے بےحد قریب کرتے ہوئے اس کے گرد بانہوں کا حصار بھی تنگ کر چکا تھا
ہاں بہت برے ہیں آپ بہت زیادہ برے اتنی گندی بات کہی بھی کیسے آپ نے اندازہ بھی ہے آپ کو کیا آج آپ نے مجھے کتنی تکلیف پہنچائی ہے یارم آپ ساری زندگی معافی مانگتے رہے تب بھی اس غلطی کی کوئی سوری نہیں ہو سکتی
نا چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر سے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی اور اس کے آنسو یارم کو بے چین کرنے لگے
جانتا ہوں بہت غلط بات کر دی ہے میں نے اسی لئے تو معافی مانگ رہا ہوں آئی نو اس بات کی کوئی سوری نہیں ہوتی لیکن میری روح تو اپنے یارم کو معاف کر سکتی ہے نہ
میں وعدہ کرتا ہوں تم سے کہ میں آئندہ تمہیں کبھی نہیں کہوں گا شاپنگ کے لیے پلیز رونا بند کرو تمہاری آنکھوں میں یہ آنسو نہیں دیکھ سکتا میں وہ اس کی آنسو صاف کرتے ہوئے اس کی نم پلکوں کو چوم کر اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا
جبکہ روح کو تو سسکنے کا جیسے ایک اور بہانہ مل گیا اس کے سینے سے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
میں نہیں جاؤں گی اکیلی شاپنگ پرسن لیں آپ انسووں کی روانی میں کمی آئی تو اس نے انگلی اٹھا کر کہا جب کہ سر ابھی اس کے سینے پر ہی تھا
کوئی ضرورت نہیں ہے ہم ایک ساتھ چلیں گے یارم نے اس کی انگلی کو چومتے ہوئے اس کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا
اور وہاں بھی نہیں جاؤں گی جہاں لیلیٰ اور معصومہ جاتی ہیں ۔۔۔اس نے پھر سے کہا
ہاں میری جان میں تمہیں پالر جانے کے لئے بھی کبھی نہیں کہوں گا اور ویسے بھی وہ تو یہ سب کچھ خوبصورت دیکھنے کے لئے کرتی ہیں لیکن میری روح ہے ہی خوبصورت اسے اس مصنوعی بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یارم نے اس کی بات کی تصدیق کی تھی
اور آپ کو اکیلے بھی نہیں جانے دوں گا آئس لینڈ کی بہن کے پاس ۔وہ سوں سوں کرتی اس کے سینے میں منہ چھپاتی بولی تو یارم کے لئے اپنی مسکراہٹ چھپانا مشکل ہو گیا
آف کورس میرابچہ میں اکیلا نہیں جاؤں گا ہم دونوں ساتھ چلیں گے اگر اکیلا گیا تو وہاں کی عورتیں مجھے کھاجائیں گی
اور شونوبھی ہمارے ساتھ چلے گا وہ سوں سوں کرتی لاڈ سے بولی تو اس بار یارم نے اسے گھور کر دیکھا
اگر آپ نے مجھے گھورا تو میں پھر سے رونے لگوں گی روح دھمکی دیتے ہوئے بولی
روح تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو یارم نے ذرا سختی سے کہا تھا
آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں ۔وہ اس کے سینے سے منہ نکالتی معصومیت سے بولی
نہیں میری جان میں تمہیں کیسے ڈانٹ سکتا ہوں وہ اسے ایک بار پھر سے اپنے سینے سے لگا گیا
ہم شونو کو لے کر چلیں گے نہ ۔۔۔۔؟اس نے معصومیت سے پوچھا
وہ معصومہ کے پاس رہے گا روح۔
اور اس بات پر چاہے تم مجھ سے ناراض ہو یار راضی لیکن اس کتے کو میں ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آنے دوں گا ۔
وہ اٹل انداز میں بولا
اور وہ جیسے ہارتے ہوئے خاموشی سے اس کے سینے پر دوبارہ سر رکھ گئی
آپ کو کام سے دیر ہو رہی ہے نہ آپ گئے کیوں نہیں ۔۔روح نے پوچھا
تم مجھ سے ناراض تھی روح اور پھر جب تک تم آرام سے ناشتہ کرکے میڈیسن نہیں لے لیتی تب تک میں کیسے جاتا۔سارا دن ایک پل کو بھی سکون نہیں ملتا مجھے خیر تمہاری وجہ سے بہت لیٹ ہو چکا ہوں میں اٹھ کر جلدی سے ناشتہ کرو
صبح جو اتنی محبت سے تمہارے لئے ناشتہ بنایا تھا وہ ٹھنڈا ہو چکا ہے آؤ تمہیں کچھ اور بنا کر کھلاتا ہوں اپنے ہاتھوں سے وہ پیار سے اس کے دونوں ہاتھ چومتا ہوا بول اور اسے اپنے ساتھ لئے باہر آیا تھا
یہ بات تو وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ روح کو آسان لفظوں میں یہ مشکل بات سمجھانا بہت مشکل ہے اسی لیے اس نے سوچ لیا تھا کی روح کو اپنے طریقے سے سمجھائے گا روح کو بہادر بنانے اور دنیا سے لڑنے کی ہمت دینے کے لیے اس سے اپنا طریقہ استعمال کرنا تھا اس پر غصہ کر کے اس سے ڈانٹ کر کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا
یارم یہ کیسا ہے ۔۔۔۔؟اس نے ایک چھوچھوٹے سے بےبی ڈریس کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
روح یہ شونو کو فٹ نہیں ہو گا ۔۔یارم نے بےزاری سے کہا۔
آہووو یارم میں شونو کی بات نہیں کررہی یہ تو میں۔۔۔۔وہ کچھ کہتے کہتے مسکرائی تھی
شونو کے لیے نہیں تو پھر میرے لیے ہے کیا ۔اس کی مسکراہٹ کو وہ باج بوجھ کر اگنور کر گیا
یارم آپ بھی نا ۔ . کیا ہم ساری زندگی شونو کے ہی کپڑے خریدتے رہے گے میں تو اپنے بےبی کی بات کر رہی ہوں
اس نے شرماتے ہوئے کہا
آوووو اچھا تم یہ ہمارے ہونے والے بےبی کے لیے دیکھ رہی ہو ۔۔بہت پیارا ہے بٹ میرا نہیں خیال کہ ابھی ہمیں اس کی ضرورت ہے ۔اس کی پیاری سی مسکان کو اپنے دل میں بسائے وہ محبت سے بولا۔
ہاں پتہ نہیں ہمیہں اس کی ضرورت کب ہو گی یہ بہت خوبصورت ہے ۔۔روح نے حسرت سے کہا۔
تو پھر لے لو میری جان ۔جو چیز دل کو اچھی لگے اس کو انتظار نہیں کرواتے۔اور ان شااللہ اس کو پہننے والا بھی آ ہی جائے گا یارم نے اس کی جھکی . ظریں دیکھتے ہوئے کہا
میں فضول خرچ نہیں ہوں یارم اور یہ کتنا مہنگا بھی تو ہے اور ویسے بھی ہم بعد اس کی شاپنگ کرے گے ہی روح نے ڈریس واپس رکھتے ہوئے کہا۔
یارم کا دل چاہا کہہ دےکہ یہ جو شونو کے لیے شوپنگ کی ہے وہ بھی تو تقریباً فضول خرچی ہی ہے لیکن نہیں وہ شونو کی شان میں گستاخی برادشت نہیں کرتی تھی۔
تمہیں جو چیز پسند ہو تم اسے لے لیا کرو اس کی پمینٹ کرنا میرا کام ہے تمہارا نہیں اور ویسے بھی یہ وہ پہلی چیز ہے جو تم نے شونو کے بجائے ہمارے بچے کے لیے پسند کی ہے ۔۔میں نہیں چاہتا کہ تمہاری پسند کسی اور کے حصے میں جائےاس نے وہ ڈریس اٹھتے ہوئے اس باور کروایا تو روح مسکراتے ہوئےاس کے پیچھے چکی آئی
جبکہ شونو کی چھوٹی سی رسی اس کے ہاتھ میں تھی ۔اور وہ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہا تھا
یارم یہ آپ پے بہت پیارا لگے گا پلیزٹرائی کریں نا۔ وہ ایک بلو شرٹ بلکل ویسی ہی جیسی یارم پہناتا تھا اسے دیکھتے ہوئے بولی
اوکے۔۔۔ یارم نے فوراً اس کی پسند پر مہر لگا دی
اوکے نہیں ابھی ٹرائی کریں ۔وہ باضد ہوئی
روح لے لو نا یار پہن لوں گا۔تمہاری پسند بُری نہیں ہو سکتی ۔خرید لو یارم نے کہا
یارم میں آپ کو ٹرائی کرنے کا بول رہی ہوں نا۔اور اسے گھورتے ہوئی بولی ۔ساتھ ہی منہ بھی بسور لیا ۔مطلب اگر اس کی بات نہ مانی تو اس سے ناراضگی پکی اور یارم اس کی ناراضگی افورڈ نہیں کر سکتا تھا
ٹھیک ہے یار جا رہا ہوں ٹرائی کرنے منہ سیدھا کرو ۔خیال رکھنا اس کا وہ شونو کو دیکھتے ہوئے بولا اور ٹرائیل روم کی طرف چلا گیا۔اور شونو نے ہلکی آواز میں اسے یقین دلایا۔کہ وہ اس کے جانے کے بعد روح کا خیال رکھے گا
جبکہ روح مسکارتے ہوئے اور چیزیں پسند کرنے لگی
°°°°°
چھوٹے بچوں کے چھوٹے چھوٹے کپڑے دیکھتے ہوئے وہ اس حد تک ان میں کھو گئی کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ وہ بچوں کی شاپنگ سینٹر کے اندرآچکی تھی اور بےدھیانی میں ہی وہ ان چیزوں کو دیکھنے میں اس حد تک مصروف ہو چکی تھی کہ اسے بالکل بھی ہوش نہ رہا کہ شونو اس کے پاس ہے بھی یا نہیں
بچوں کے خوبصورت کپڑے جوتے اور استعمال کی چیزیں اسے اندرسے بہت خوش کر رہی تھی اور یہی ساری چیزیں اس کے اندر ایک بار پھر سے ایک محرومی پیدا کر رہی تھی ۔
اسے آج بھی وہ دن بہت اچھے سے یاد تھا جب یارم کو اس کی ماں بننے کی خبر ملی تھی وہ دبئی سے پاکستان صرف اس کی خاطر گیا تھا
اور اس خوشی کو ان دونوں نے مل کر سیلیبریٹ کیا تھا لیکن ان کی یہ خوشی ان سے جلد ہی چھین گئی شاید تب اللہ کو منظور نہیں تھا ۔
اور اس کے بعد زندگی ایسا امتحان بنی کہ انہیں کسی چیز کا ہوش ہی نہ رہا ۔لیکن وہ صبر کرنے والی لڑکی تھی وہ جانتی تھی کہ اللہ آپنے پسندیدہ نسانوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے یقیناً وہ اللہ کی پسندیدہ انسانوں میں سے ایک تھی
اور اس کا یقین کامل تھا کہ اس کی خوشیاں اس سے دور نہیں عنقریب اس کا رب اس پر مہربان ہونے والا ہے اپنے خیالوں میں کھوئے وہ اس سب چیزوں کو چھو رہی تھی جب اسے احساس ہوا کہ شونو تو اس کے قریب ہے ہی نہیں
وہ بے چینی سے ہر طرف شونو کو تلاش کرنے لگی لیکن نہ جانے وہ کس طرف جا چکا تھا اسے کہیں سے بھی شونو کا کوئی اتا پتا نہیں مل رہا تھا
وہ بچوں کے کپڑوں کی دوکان سے نکل کر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ یارم نجانے کہاں رہ گیا تھا ابھی تک نہیں آیا کہیں شونو یارم کےاس تو نہیں چلا گیا
اسی سوچ کے ساتھ وہ ایک بار پھر سے پوری مارکیٹ میں نظر دوڑآنے لگی
لیکن اب بھی شونو اسے کہیں نظر نہیں آیا تھا
اب اس کے پاس نیچے جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کیوں کے یہاں اوپر وہ ہر جگہ دیکھ چکی تھی اسی لئے اب ایک بار نیچے دیکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ سیڑھیاں اترنے لگی جب اچانک کسی نے اس کا بازو تھام لیا
کیا ہوگیا ہے روح کیوں اس طرح سے نیچے جا رہی ہومیں تو یہاں پر ہوں یارم اس کی پسند کی ہوئی بلوشرٹ پہنے اس کے سامنے کھڑا تھا
یارم شونو کہیں چلا گیا ہے پتا نہیں کہاں غائب ہو گیا ہے کہیں نہیں مل رہا میں تو یہاں سب طرف دیکھ چکی ہوں لیکن وہ کہیں پر نہیں ہے
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا وہ بہت پریشان لگ رہی تھی
ڈونٹ وری روح یہی ہوگا کہ آجائے گا وہ کسی کے جانور کے ساتھ کھیل رہا ہوگا تم یہیں پر رکو میں نیچے دیکھ کر آتا ہوں دبئی کے اس شاپنگ سینٹر میں لوگوں کو اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ اندر آنے کی اجازت تھی
اور یہاں جانوروں کے کپڑوں کی ایک الگ سے ورائٹی موجود تھی اسی لیے روح اسے ہمیشہ یہی لانے کی ضد کرتی تھی
یہ جگہ ان کے لیے انجان نہیں تھی لیکن شونو کا گم ہو جانا اس کی پریشانی کی وجہ تھی روح وہی رک کر آگے پیچھے شونو کو دیکھنے لگی جب کہ یارم نیچے جا چکا تھا
°°°°
وہ پریشانی سے ساری جگہ چیک کرچکی تھی جب میل ریسٹ رو م کی طرف اسے شونو کی رسی نظر آئی وہ تیزی سے اس کی طرف آئی تھی لیکن سامنے ہی شونو کو کسی دوسرے شخص کے جوتے چاٹتے اور اس کی ہاتھ سے بسکٹ کھاتے دیکھ کر پریشان ہو گئی
پہلے تو اسے شونو کی اس حرکت پر اچھا خاصا غصہ آیا ایک تو وہ خود نہ جانے کہاں چلا گیا تھا اور اب وہ یہاں کسی انجان شخص کو پیار کر رہا تھا جب کہ وہ شخص آرام سے اس کے قریب بیٹھا اس کے بال سہلا رہا تھا
نہ جانے یہ شخص کون ہے
کوئی عربی ہی ہو گا میں اسے اپنی بات کیسے سمجھاؤں گی میں یارم کو بلا کے لاتی ہوں روح نے سوچا
لیکن میرے واپس آنے سے پہلے اگر یہ شخص میرے شونو کو کہیں لے گیا تو روح نے اپنے چلتے قدم پر بریک لگائی اور مڑ کر دیکھا
وہ میرا ہے شونو مجھے پہچانتا ہے مجھے دیکھتے ہی میرے پاس آ جائے گا اس نے سوچتے ہوئے اس شخص کے سامنے جانا بہتر سمجھا
اور اس کے قریب آتے ہوئے اس کی رسی کو تھام کر بنا اس شخص کو دیکھےاسے لے کر جانے لگی ۔
لیکن شونوتو جیسے آنے کو تیار ہی نہیں تھا وہ تو بہت آرام سے اس نئے شخص کی محبت کو وصول کر رہا تھا
یہ میرا ڈوگی ہے ۔روح نے اردو میں کہا کیوں کہ سے ابھی تک عربی نہیں آتی تھی اور نہ ہی یارم نے سکھانا ضروری سمجھی ۔
اب روح کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس کی بات یہ سامنے والاشخص سمجھ پایا ہے یا نہیں لیکن روح اپنا فرض نبھا چکی تھی
میرا نام درک ہے ۔۔اسے پیچھے سے آواز سنائی دی روح نے مڑ کر دیکھا اس کا شونو بڑا اداس لگ رہا تھا لیکن یہ بات اسے سمجھ آچکی تھی کہ وہ شخص اردو جانتا ہے اور اس کی بات کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکا ہے
ماشاءاللہ اچھا نام ہے آپ کا ۔وہ سرد انداز میں کہتی شونو کو گھسیٹ رہی تھی اور وہ اسے وہاں سے لے گئی تھی اپنا نام بتانے کی زحمت اس نے بالکل گوارا نہیں کی تھی
جب کہ اسے اس طرح اسے دور جاتے دیکھ کر وہ شخص ذرا سا مسکرایا تھا
اس نے ایک نظر مڑ کر دیکھا وہ شخص اب وہاں پر موجود نہیں تھا جبکہ یارم کو نیچے وہ سکیورٹی گارڈ سے بات کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی اس نے ہاتھ کے اشارے سے یارم کو اپنی طرف متوجہ کیا
اور ساتھ میں اس سے رسی بھی دکھائی کہ شونواسے مل چکا ہے
یار م سکون کا سانس لیتے ہوئے دوبارہ اس کے قریب آیا تھا
°°°°
شاپنگ مکمل ہو چکی ہے اور اب وہ گھر جانے کا فیصلہ کر چکے تھے یارم یہ بہت بگڑ گیا ہے ایک انجان شخص سے پیار لے رہا تھا اس کو تو وہ گھر چل کر ٹھیک کرتی ہو ں
کیسے اس شخص سے بسکٹ لے کر کھا رہا تھا یہ ۔روح غصے سے شونو کو گھورتے ہوئے ساتھ لے جانے لگی ۔
جب کہ یارم جانتا تھا کہ سارا غصہ کسی دوسرے شخص سے بسکٹ لے کر کھانے یا اس سے پیار لینے کا نہیں بلکہ یہ اس کے اندر کی جلن تھی وہ چاہتی ہی نہیں تھی شونو کو اس کے علاوہ کسی اور سے اتنی اٹیچمنٹ ہو اسی لئے تو وہ اسے معصومہ کے پاس بھی زیادہ نہیں رہنے دیتی تھی ۔
کون تھا وہ شخص تم نے اسے بتایا نہ کہ یہ کتا تمہارا ہے۔اور اس کا بنا تمہاری اجازت کے تمہارے کتے کو اس طرح سے چھونا یا اسے اپنی طرف متوجہ کرنا غیر قانونی ہے یا رم نے پوچھا
میں نے بس اتنا ہی کہا کہ یہ ڈوگی میرا ہے ۔اور پھر اسے لے کر آگئی ۔لیکن یہ اس کے پاس بہت آرام سے بیٹھا تھا ۔کیسے آرام سے اس کے ہاتھ سے کھا رہا تھا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا یا رم۔وہ اپنے دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بولی تو یارم مسکرا دیا
بس یہی حال ہوتا ہے میرا جب تم مجھے چھوڑ کر ہر چیز پر دھیان دیتی ہوں یارم بڑبڑاتے ہوئے اس کے ساتھ چل رہا تھا شکر ہے کہ روح نے اس کی بات پر غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت وہ شونو پر غصہ تھی
یقینا اس کی بات سن کر شونو کے ساتھ ساتھ اس سے بھی خفا ہو جاتی
اور اسے گاڑی میں بیٹھاتے ہی اس کی نصیحتیں شروع ہوچکی تھی ۔شونو خاموشی سے اس کی ڈانٹ سن رہا تھا
بس کر دو بے بی اب کیا جان لو گی اس بیچارے کی ہوگی غلطی اس سے اسے تھوڑی نہ پتا تھا کہ کسی اور سے پیار لینے پر تم اتنا غصہ ہو جاؤ گی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا اس نسل کے کتے تو زیادہ لوگوں کے ساتھ اٹیچ نہیں ہوتے
اور نہ ہی انجان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پھر شونو اس آدمی کے پاس گیا کیسے
یارم کہیں وہ کوئی کڈنپر تو نہیں تھا ہو سکتا ہے وہ شونو کو ہم سے چُرا کر لے جانا چاہتا ہوروح کوایک اور خیال گزرا
اور یہ بات سچ بھی ہو سکتی تھی ۔کیوں کہ کوئی پاگل ہی تھا جو اتنی مہنگی نسل کے کتے کو اس طرح سے چھوڑ دیتا
ممکن ہے تمہاری بات بھی ۔ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی چورہی ہو لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں شونو کی نسل کے کتے بہت ہوشیار ہوتے ہیں وہ اتنی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتے یارم نے اسے بے فکر کرنا چاہتا تھا
اور یہ بات سچ بھی تھی کتے کی جس نسل سے شونو کا تعلق تھا وہ ایک بہت ہوشیار اور بہادر نسل تھی چھوٹے قد کے یہ کتے آسٹریلین آرمی میں بھی استعمال ہو رہے تھے ۔اس لیے ان کو لے کر اس طرح کا ڈر رکھنا ایک قسم کی بے وقوفی تھی ۔
لیکن روح کے لیے وہ کوئی سمجھدار ہوشیار کتا نہیں تھا بلکہ اس کے لیے تو وہ اس کا چھوٹا سا شونو تھا جو کسی بات کو نہیں سمجھتا اور اسے اپنی مالکن کی ضرورت ہے
°°°°
یہ تو بہت اچھا ہے یارم لیکن شاید تم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ فی الحال کام بہت زیادہ ہے
اور تم روح کو اس طرح سے لے کر چلے جاؤ گے تو کام میں بہت مسائل پیش آئیں گے اور تم جانتے ہو کہ یہ سب کچھ ہم اکیلے ہی نہیں کرسکتے
14تاریخ تو یہ آرہی ہے اور تم مجھے ابھی یہ سب کچھ اتنا اچانک بتا رہے ہو ۔
کام ہوتے رہیں گے خضر ایک عرصے سے ہم کام کر رہے ہیں میں تھوڑا وقت اپنی بیوی کو دینا چاہتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے
روح کی طبیعت ابھی تھوڑی بہتر ہوئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ ایک نئی اور پیاری زندگی کی شروعات کرو ں ۔
اسی لیے میں نے یہ سب کچھ کروایا تھا ۔اور کام تم اور شارف سنبھال لو گے سب مجھے اس کی ٹینشن نہیں ہے یارم نے کافی بے فکری سے کہا لیکن خضر بے فکر نہیں تھا
یارم تم ہو تو ہم ہیں تمہارے نہ ہونے سے یہاں کچھ نہیں ہو سکتا تم جانتے ہو اور فلحال بہت سارے کیسز میں ہمارا نام شامل ہے
اس وقت تمہارا منظر سے غائب ہونا ہمیں بہت بری طرح پھنسا دے گا اس لئے میری مانو تو تم یہ پلان کینسل کر دو
اگر تم روح سے بات نہیں کر سکتے تو میں اسے سمجھاؤں گا وہ میری مجبوری کو سمجھ جائے گی لیکن تمہارا اس طرح یوں اچانک جانا ہمارے لئے کل بہت سارے مسائل پیدا کر دے گا
خضر نے سمجھانے والے انداز میں کہا تھا
اس کی بات ٹھیک تھی یارم کا اس طرح سے منظر سے غائب ہونا ان کے لیے نقصان دہ ہوسکتا تھا
کیونکہ الحال یارم بہت سارے کیسز میں ہاتھ ڈال چکا تھا وہ بہت سارے بڑےکنگ سے پنگا لے چکا تھا اور ایسے میں اس کا جانا اس کہی ٹیم کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
لیکن وہ روح سے وعدہ کر چکا تھا ۔جسے وہ کبھی بھی توڑ نہیں سکتا تھا
آج 9 تاریخ تھی ان کو جانے میں سے پانچ دن باقی تھے ۔
اور کچھ دن سے روح بھی بنا کسی قسم کی کوئی بھی مستی کی میڈیسن لے رہی تھی پچھلے کچھ دنوں سے وہ جس طرح سے خوش تھی وہ اسے ہرٹ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
°°°°
وہ آج بھی دوائیوں کے زہر اثر گہری نیند میں اتر چکی تھی اور سونے سے پہلے آج بھی اس نے سویزیلینڈ جانے کی بہت ساری باتیں کی تھی
کتنے وقت کے بعد وہ دونوں اکیلے ہی جانے والے تھے ہر پریشانی پر ٹینشن سے دور 24 گھنٹے ایک ساتھ۔وہاں صرف روح ہوتی اور اس کا یارم بس یہی سوچ روح کو بہت خوش کیے ہوئے تھی
جس نے اس کی صحت پر بھی بہت اچھا اثر ڈالا تھا ۔لیکن اب وہ اسے بتا نہیں پا رہا تھا کہ وہ 14 تاریخ اس کے ساتھ نہیں جا سکتا اس وقت یارم بہت سارے کیڑے موڑے نما ڈانز کی نظر میں تھا
جو اس کو تو نہیں لیکن اس کے جانے کے بعد اس کی ٹیم کو نقصان پہنچا سکتے تھے
نہ تو وہ اپنی ٹیم پر کسی قسم کا کوئی رسک لے سکتا تھا اور نہ ہی روح کیا ہوا وعدہ توڑ سکتا تھا
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم کب سے روح کا معصوم چہرہ نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا جب اسے لگا کی وہ نیند میں بے چین ہو رہی ہے اس نے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا لیکن روح کی بے چینی کم نہیں ہوئی بلکہ مزید بھر رہی تھی
اس کی سانس رکنے لگی تھی یارم نے اس کو گاجنا بہتر سمجھا جانتا تھا کہ روح نیند کی دوائی کے زہر اثر ہے وہ آسانی سے نہیں جاگے گی لیکن یارم نے ایک جھٹکے میں اسے بیڈ پر بٹھا دیا تھا جس سے اس کی نیند ٹوٹی تھی ۔
یارم نے فورن پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے لبوں سے لگایا تھا وہ بہت بری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا یارم نے اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے اپنے سینے سے لگایا جانتا تھا کہ فی الحال تو کچھ بھی سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں ہے
یا رم ہم کب جائیں گے یہ دن گزر کیوں نہیں رہے
مجھے نہیں رہنا یہاں پلیز مجھے لے چل اپنے ساتھ
جہاں صرف ہم دونوں ہوں کوئی ڈر کوئی خوف نہیں یارم یہاں میرا دم گھٹتا ہے مجھے لے چلیں کھلی فضا میں کھل کے سانس لینا چاہتی ہوں
۔یارم مجھے کھل کر جینا ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے
یہ دن گزر کیوں نہیں رہے وہ اس کے سینے سے لگی آہستہ آہستہ بولتی دوبارہ نیند کی وادیوں میں اتر رہی تھی
جب کہ اس کے الفاظ نہ چاہتے ہوئے بھی یارم کو ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کر رہے تھے
یارم کی آنکھ کھلی تو اس کے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ آ گئی تھی کیونکہ وہ بالکل اس کے قریب کسی ننھے سے بچے کی طرح اس کے سینے میں چھپائے سو رہی تھی
صرف دو دن اور پھر یہ ساری دوریاں کہ ساری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ اپنی روح کو اپنے اندر ہی کہیں چھپا لے گا
جس دن سے اس نے روح کو اپنے سیکنڈ ہنی مون کے بارے میں بتایا تھا وہ بنا کسی قسم کی کوئی مستی کیے آرام سے اپنی میڈیسن لے رہی تھی اور اپنا بہت خیال بھی رکھ رہی تھی
وہ یہ سب صرف اور صرف اس ماحول سے دور جانے کے لئے کر رہی ہے وہ جانتا تھا کہ وہ اس ماحول سے تنگ آ چکی ہے
یار م کا اس سے دور رہنا اس کی ہر پسندیدہ چیز پر پابندی لگانا یہ سب کچھ روح کے لئے بہت مشکل ہے ۔
وہ جانتا تھا کہ وہ صرف اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہے اس وقت وہ صرف اور صرف یارم کا ساتھ چاہتی ہے
اس کے قریب رہنا چاہتی ہے اور یارم اپنے کام کی وجہ سے کافی وقت سے نہ صرف اس سے دور تھا بلکہ اس کی بیماری کی وجہ سے بھی وہ اس دور ہی رہتا تھا یہ ساری پابندیاں ڈاکٹرز کی لگائی ہوئی تھی ڈاکٹر کا کہنا تھا
کہ روح کو اس طرح اسے رکھا جائے کہ اسے کسی بھی چیز میں گھٹن محسوس نہ ہو ۔اور جو میڈیسن وہ استعمال کر رہی تھی وہ کافی زیادہ سخت تھی
روح کو پرسکون رکھنے کے لیے اسے نیند کی گولی دی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کے خوابوں کا اثر ختم نہ کر سکی۔
ہاں لیکن اب اس اندھیری رات کااثر کم ہو چکا تھا پہلے کی طرح وہ ساری ساری رات نہیں جاگتی تھی اس کا ڈر کافی حد تک کم ہو چکا تھا وہ قبر کا ڈر کم ہو رہا تھا لیکن ختم نہیں ہوا تھا اور یارم اس کے اندر سے اس ڈر کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔
اسی لیے یارم نے اسے کچھ وقت کے لیے یہاں سے دور لے جانے کا سوچا تھا
وہ روح کو ایک نیا ماحول دینا چاہتا تھا لیکن اس کے دشمنوں کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں تھا
اسی لئے کل رات اس نے اس سلسلے پلاینگ کی تھی اور آج صبح وہ اسی پر عمل کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا
وہ خضر اور شارف کی زندگی پر بلکل رسک نہیں لے سکتا تھا وہ جانتا تھا کہ اس کے دشمن اس کی غیر موجودگی میں اس کے سب سے وفادار آدمی کو اپنا شکار بنا ئیں گے اور اگر ان لوگوں نے ان کا ساتھ نہ دیا تو یقیناً ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ضرور کرے گے
ممکن تھا کہ اس کی غیر حاضری میں یارم کی جگہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے اسی لیے وہ اپنی ٹیم کو محفوظ کر کے ہی یہاں سے جانا چاہتا تھا جس کی پلاینگ وہ پہلے ہی کر چکا تھا
ایک نظر روح کو دیکھنے کے بعد وہ اس کے قریب سے اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا تا کہ واپس آکر روح کے لیے ناشتہ بنا سکے
°°°°
وہ گہری نیند سو رہا تھا جب کہ اس کا موبائل مسلسل بج رہا تھا
کون تھا جو اتنکصبح صبح اس کی نیند خراب کرتا اس نے غصے سے ایک نظر فون کی جانب دیکھا
دل تو چاہ رہا تھا کہ فون کرنے والے کی گردن کاٹ ڈالے۔لیکن اس کا پیارا دوست گردن کے بغیر بالکل بھی اچھا نہیں لگتا
خضر کے بچےصبح کے چھ بجے میری نیند کا بیڑہ غرق کر دیا ۔وہ بڑبڑایا ۔ایک کیا مجھ مصعوم کو بیوی کم مصیبت ملی ہے جو رات کے بارہ بجے تک برتن رکھ کر انتظار کرتی ہے کہ کب شارف آکر دھوئے گا اور اوپر سے صبح صبح یہ خضر کا بچہ نیند خراب کر دیتا ہے
معصوم کی بد دعا لگے گی تجھے خضر وہ بڑابڑتے ہوئے بنا دیکھے فون اٹھا چکا تھا
جلدی بولو زیادہ ٹائم نہیں ہے میرے پاس سونا ہے مجھے اور پھر وہ کھڑوس ہٹلر بلیٹ کٹر "دا یارم ڈیول کاظمی"مجھے بلا لے گا کوئی کام ہے نہیں اس کو فرف لوگوں کے سینوں پر بلیٹ چلانا ہے اور اگر بلیٹ نہیں چلانا تو ان کے منہ پر تیزاب پھینک کر ان کا کام تمام کرنا ہے اور بعد میں وہ لاشیں ہم ٹکانے لگا تے ہیں
اور پھر آدھی رات کو جب گھر واپس آتے ہی بیوی برتن دھولواتی ہے سوتے ہیں تو صبح ڈیول صاحب کا فون آجاتا ہے آفس میں جاو اس کی صفائی کرو مہاراج اپنے صاف ستھرے پیر گندے فرش پر نہیں رکھ نہیں سکتے وہ اپنی نیند خراب ہونے کا سارا غصہ فون پر موجود دوسرے آدمی پر نکال چکا تھا
خضر خاموش کیوں ہو میرے بھائی کیا ہوا کیا میں نے کچھ زیادہ بول دیا کافی دیر دوسری طرف سے کوئی آواز نہ سننے کے بعد شارف نے معصومیت سے تھا
شارف آج کے بعد فون اٹھانے سے پہلے تم دیکھو گے کہ فون پر کون ہے اور پھر اس حساب سے بات کرو گے آئی میری بات سمجھ میں۔اگر نہیں سمجھ میں آئی تو اگلی بار بلیٹ تمہارے سینے پر اور تیزاب تمہارے منہ پر گرے گا یار م کی سردآواز گونجی اور شارف کے ہاتھ کانپنے لگے
ڈیووووولل۔۔۔۔میییییر۔۔۔میرا۔۔مطلب ۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔یارم بھیا کیا آپ ہیں فون پر اس نے لڑکھڑاتی آواز میں بات مکمل کی
یہ جو تمہاری طوطے کی طرح پترپٹر زبان چلتی ہے نہ اسے ایک دن میں کاٹ دوں گا تمہاری وجہ سے مجھےیا میری ٹیم کو ایک پرسنٹ بھی نقصان ہوا تو تمہارا وہ حال کروں گا جو سوچتے ہوئے بھی تمہاری روح کانپ اٹھے گی ۔۔۔۔وہ ابھی بھی کافی غصے میں بول رہا تھا
نو ڈیول یہ پرائیویٹ نمبر ہے اس پر صرف ٹیم کے ممبر ہی فون کر سکتے ہیں شارف نے اسے بے فکر کرنا چاہتا تھا
مجھے ان سب چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں میں ایک لسٹ بھیج رہا ہوں ان میں سے چھ لوگ آج ڈنر پر جبکہ پانچ لاک لوگ آج لنچ پر مجھ سے ملنے چاہیے
یارم نے کہتے ہوئے فون کر دیا جبکہ شارف سوچ رہا تھا کہ ایسے کون سے اسپیشل لوگ ہیں جن کے لئے یارم نے اسے چھ بجے سے فون کرکے اٹھایا ہے
اور پھر چند ہی سیکنڈ میں ایک لسٹ کے موبائل اوپن ہو چکی تھی
یہ گیارہ لوگوں کی لسٹ تھی جس میں دبئی کے گیارہ بڑے اور پاوور فل گنگز کے کنگز کا نام تھا
اور یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے یارم کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے تاکہ اس کی جگہ پر اپنا قبضہ کر سکے
وہ سب اس کی جگہ ڈان بنا چاہتے تھے اور دئبی مافیایہ پر راج کرنا چاہتے تھے اور ایسا تب ہی ممکن تھا جب ڈیول کو جان سے مارتے یا پھر ڈیول ان سے ہاتھ ملا لیتا۔
وہ لوگ کافی بار یارم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے تھے لیکن اسے حیوانوں سے ڈیول صرف دشمنی رکھنا پسند کرتا تھا
وہ لوگ تو یارم کے خلاف چاہا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے تو اس کا مطلب تھااپنی ٹیم کو محفوظ رکھنے کے لئے وہ ان لوگوں سے ہاتھ ملا رہا تھا مطلب کہ وہ اپنی طرف سے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا شارف کو یہ بات اچھی تو نہیں لگی لیکن یارم کا آرڈر تھا پورا تو کرنا ہی تھا
°°°°
مطلب کے اتنے برے دن آگئے ہیں کہ اب ہم ان حیوانوں سے ہاتھ ملائیں گے
جانتا ہو یارمتم روح سے بے انتہا محبت کرتے ہو لیکن اس کے لیے تم ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملا لو گے جو معصوم بچیوں کے جسم کا دھندا کرتے ہیں ۔
جو معصوم بچوں کے جسم میں ڈرگز اور نشہ وار شراب اور پتہ نہیں کون کون سے زہر کو بھر رہے ہیں
روح کے لئے تمہاری محبت اپنی جگہ لیکن وہ انسانیت کہاں گئی جس کی خاطر تم نے یہ کام شروع کیا تھا
شارف سوچ سکتا تھا کہہ کچھ نہیں سکتا تھا کیونکہ یہاں سامنے کوئی اور نہیں بلکہ ڈیول تھا
جسے اس وقت صرف اور صرف اپنی بیوی کی پرواہ تھی۔
اور اپنی بیوی کو ایک پرسکون اور محبت بھرا ماحول دینے کے لیے وہ ایسے گھٹیا لوگوں کو ڈنر اور لنچ پر انوائیٹ کر کے ۔یہ دوستی کا ہاتھ یارم کی طرف سے بڑھایا جارہا تھا تو یقینا ان سب نے ہی خوش دلی سے قبول کرنا تھا
لیکن شارف مطمئن نہیں تھا یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس کا دل بے چین تھا ۔
اور اپنا سارا غصہ صبح سے معصومہ پر بھی دو بار نکال چکا تھا ۔معصّومہ کی یہ عادت بہت اچھی تھی کہ جب شارف غصے میں ہوتا تو وہ کچھ بھی نہیں بولتی تھی بلکہ اس کی ہر بات کو ہنس کر برداشت کر جاتی
اور پھر جب اس کا غصہ ختم ہو جاتا تب معصومہ کی باری آ جاتی اور وہ اپنے بدلے گن کر پورے کرتی اور اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا تھا
شارف غصے سے بحال ہوتے چار سے پانچ بار خضر کو فون کر چکا تھا
خضر کو بھی یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی تھی کہ روح کے لیے وہ ایسے گھٹیا لوگوں سے ہاتھ ملانے کو تیار تھا ۔۔ ہاں وہ روح ہی تھی جس نے یارم کے اندر سے ایک پیارے سے انسان کو جگایا تھا
لیکن اس کی وجہ سے ہی یارم کے اندر انسانیت ختم ہوتی جا رہی تھی وہ مطلبی ہوتا جا رہا تھا
°°°°°
شارف کو فون کرنے کے بعد وہ بے فکر ہو چکا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ شارف اپنا کام وقت پر نپٹالے گا روح کا ناشتہ بنا کر کمرے میں لایا تو روح ابھ بھی سو رہی تھی
وہ پیار سے اس کے قریب آیا اور اس کو جگانے لگا اس وقت صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے ۔آج دوپہر کا لنچ اس نے ان لوگوں کے ساتھ کرنا تھا جن سے وہ بے تحاشا نفرت کرتا تھا اور پھر آج کا ڈنر ان لوگوں کے ساتھ جنہیں دیکھتے ہی وہ اس دنیا سے ختم کر دینے کا ارادہ رکھتا تھا
لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کہ کچھ وقت کے لئے ہی سہی لیکن یارم کو ان لوگوں کو برداشت کرنا تھا
وہ اسے کافی دیر سے جگا رہا تھا لیکن روح کی نیند نہیں ٹوٹ رہی تھی جب بے ساختہ ہی یارم کی نظر اس کی آنکھوں کی پلکوں سے ہوتے ہوئے اس کے سرخ لبوں پر آ ٹھہری ۔وہ بے خود سا اس کے لبوں کو دیکھنے لگا
آج بہت عرصے کے بعد اس کا دل بغاوت کرنے لگا دل کو بہت سمجھانے کے بعد بھی وہ سمجھنے کو تیار نہ تھا آج وہ اس کے لبوں کو چھونے کی خواہش کر رہا تھا
یارم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن آج اس کا دل باغی ہونے لگا تھا آج ہو اس کے کسی بہانے پر کان نہیں دھررہا تھا
اس کے گلے میں کانٹے چبھنے لگے تھے جیسے آج اگر وہ یہاں سے پیچھے ہٹ گیا تو شاید اس پیاس سے مر ہی جائے گا تشنگی تھی جو بڑھتی چلی جارہی تھی وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگا
اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لیے محسوس کرنے لگا
بے حد نرم اور پیار بھرا لمس تھا کہیں وہ اس کے چھونے سے ٹوٹ جائے ۔
وہ بہت نرمی سے اپنی سانسوں کی خوشبو کو اس کی سانسوں میں بسا رہا تھا اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس سے دور ہوا کیوں کہ یہ تشنگی تو شاید اب کبھی بھی مٹنی ہی نہیں تھی اور نہ ہی یہ پیاس کبھی ختم ہو سکتی تھی ۔لیکن وہ اپنے باغی کی دل کی ضد کی خاطر اپنی روح کو کسی قسم کے امتحان میں نہیں ڈال سکتا تھا اس لئے بہت نرمی سے اس سے الگ ہوا
اس کے دور ہوتے ہی روح نے اپنی آنکھیں کھول دیں وہ جانتا تھا کہ وہ جاگ چکی ہے اس کی سانسیں تیز ہونے لگی چہرے پر ایک پیاری سی مسکان تھی یارم بے خود سا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جب کہ اسے خود کو دیکھتے پاکرروح نے فور اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اور اس کی یہ حرکت یارم کے چہرے پر مسکراہٹ کو گہرا کر چکی تھی
یارم آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں ایسا کون کرتا ہے کسی بیمار انسان کے ساتھ اس کی میٹھی سی سرگوشی اس کے کانوں میں گونجی تو یارم کے دمپل پر مزید گہرے ہوئے
بےبی اپنا دل مضبوط کر لو کیوں کہ اب میں بالکل بھی اچھا ثابت نہیں ہونے والا بہت ستا لیا ہے تم نے مجھے سویزلینڈ جاتے ہی تم سے گن گن کے بدلے نہ لئے تو میرا نام بھی یارم کاظمی نہیں یاد رکھنا
اور اب مزید خود کو بیمار کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بالکل ٹھیک ہو تم اور اب میں تمہیں جہاں لے کر جاؤں گا وہاں تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی اس نے نرمی سے اس کا ماتھا چومتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر بٹھا دیا
چلو جلدی سے فریش ہو کر آؤ پھر ہم دونوں مل کر ناشتہ کرتے ہیں ۔
اور پھر مجھے ایک بہت ہی اہم کام کے لئے نکلنا ہے آج کا سارا دن مصروف رہے گا اور ہوسکتا ہے رات کو بھی آنے میں دیر ہو جائے ۔تیار ہو جاؤ تمہیں جاتے ہوئے لیلیٰ کے گھر چھوڑ دوں گا ۔آج بہت دنوں کے بعد اس نے اسے لیلیٰ کی طرف لے جانے کی بات کی تھی روح تو خوشی سے پھولے نہ سمائی
سچی یارم آپ سچ میں مجھے لیلی کے پاس چھوڑ کر جائیں گے آپ کتنے اچھے ہیں اور آپ کا یہ ڈمپل آپ سے بھی زیادہ اچھا ہے میں ابھی تیار ہو کے آتی ہوں وہ اس کے گال کھینچتے ہوئے اور فریش ہو نے بھاگ گئی تھی
جب کہ یارم اس کی سپیڈ دیکھ کر صرف مسکرا دیا
°°°°°
ڈیول سر آپ کی مہمان آگئے ہیں شارف آف موڈ کے ساتھ پیغام لے آیا تو یار م نے اس کا انجان سا لہجہ شدت سے محسوس کیا
صبح سے خضر بھی ایک بار بھی اس کے آفس میں نہیں آیا تھا اور شارف بھی صبح سے اس سے نام کے بجائے سر کہہ کر پکار رہا تھا
اور جو آرڈر دیا تھا میں نے وہ آیا یا نہیں اس کے اس انداز پر یارم نے کافی روڈلی پوچھا تھا
ہاں وہ بھی آگیا ہے لیکن صرف پانچ لوگوں کا ہی کھانا ہے ۔میرا نہیں خیال کہ ہم لوگ بھی وہیں پر کھانا کھا رہے ہیں خیر ہماری ایسی کوئی خواہش بھی نہیں ہے آپ اپنے مہمانوں کو خود ہی ہینڈل کریں
وہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ناراضگی ظاہر کر رہا تھا جس کا یارم نوٹس لیے بغیر اس کمرے کی طرف آ گیا جہاں لنچ پر پانچ لوگوں کو انوائٹ کیا گیا تھا
اس نے ایک نظر خضر کی طرف دیکھا تھا جو اسے دیکھتے ہی منہ پھیر گیا مطلب کے اس کے اس قدم پر وہ بھی اس سے سخت خفا تھا
°°°°°
ہم تمہارے شکرگزار ہیں ڈیول جو تم نے ہمیں اس قابل سمجھا کہ تم نے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے
تمہارے اس قدم سے ہمیں سچ میں بہت خوشی ہوئی ہے ہم ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہیں تم جو کہو گے ہم وہ کریں گے
بس تم ہمیں اپنے گینگ کا حصہ بنا لو تمہارا نام ہی کافی ہے سب کی چھٹی کر دے گا وہ لوگ کافی پر جوش تھے جب ڈیول نے انہیں کھانے کی طرف متوجہ کیا
بہت شکریہ ڈیول کھانا بہت لذیذ ہے مگر تم کیوں نہیں کھا رہے ان میں سے ایک نے پوچھا
میں دوپہر کا کھانا اپنی ٹیم کے ممبرز کے ساتھ کھاتا ہوں آج وہ لوگ مجھ سے ذرا خفا ہیں تو نہ تو خود کچھ کھائیں گے اور نہ ہی مجھے کچھ کھلائیں گے اس نے عام سے لہجے میں جواب دیا
جب کہ یارم اب انہیں کھانے کی طرف متوجہ دیکھ کر اپنے بیگ سے کچھ سامان نکال رہا تھا
اس کے ہاتھ میں بلیڈ کے پیکٹ دیکھ ایک آدمی کو کھانا کھاتے کھاتے اچانک کھانسی شروع ہوگئی
تم یہ بلیڈز کیوں نکال رہے ہو ڈیول ہمیں اس سے بہت ڈر لگتا ہے تمہارے کام کرنے کا طریقہ بہت خطرناک ہے
اور بہت تکلیف دا بھی ۔ایک آدمی نے جہاں بعد چھوڑی اس کی بات کو دوسرے آدمی نے مکمل کیا
مجھے ان کی ضرورت پڑے گی وہ ایک بلییڈ کو ان پیک کرتے ہوئے سامنے رکھ کر دوسرے کو کرنے لگا
ضرورت کیسی ضرورت ہم تو تمہارے دوست ہیں اپنی موت کو دور سے آتا دیکھ کر ہی ایک آدمی گھبرا کر ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا
تم جیسے درندے کبھی میرے دوست نہیں ہو سکتے میرے صرف دو ہی دوست ہیں ۔
خضر شارف ایماندار اور جان نثار کرنے والے ان دونوں کے ہوتے ہوئے مجھے تم جیسے ہی حیوانوں کو دوست بنانے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئے گی
تم لوگ رک کیوں گئے کھانا کھاتے رہو اگر تم لوگوں کے ہاتھ کھانے سے رکے تو میرے ہاتھ سے چلیں گے اور یقین مانو یہ موت بہت تکلیف دا ہے
فی الحال تم پانچ اور رات کے ڈنرپر میں نے باقی چھ کو بھی انوائٹ کر رکھا ہے میں نے بہت سوچا میں تم لوگوں سے زیادہ نفرت کرتا ہوں یا ان چھے لوگوں سے اور پھر ان لوگوں کا پرلا ذرا بھاری تھا اس لئے سوچا انہیں ذرا فرصت سے ماروں گا
اس نے کھانے کی طرف اشارہ کیا تو وہ پانچوں گھبراکر کھانا کھانے لگے جب ڈیول کی آواز ایک بار پھر سے گونجی
کھانے میں زہر ہے میری عادت ہے میں اپنے شکار کو تڑپا تڑپا کر مارتا ہوں مجھے سکون ملتا ہے ۔
اس کے کہتے ہی ان لوگوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیے اور ویسے ہی ڈیول کا ہاتھ چلا تھا سامنے بیٹھے آدمی کی انگلی اس کے دھڑ سے الگ ہو چکی تھی وہ چیخنے لگا چلانے لگا
میں نے کہا نہ اگر تم لوگوں کے ہاتھ کھانے سے رکے تو تم لوگوں کی موت زیادہ تکلیف دہ ہو گی
اس نے اس آدمی کی پروا کیے بغیر باقی چاروں کی طرف اشارہ کیا تو وہ کٹی انگلی کے ساتھ ہی کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا
موت تو ہر طرف سے آنے تھی اس طرف سے نہ سہی تو اس طرف سے
اور ڈیول کے بلیڈسے تڑپ تڑپ کےمرنے سے بہتر تھا کہ وہ یہ زہر والا کھانا کھا کے مر جاتے
یارم پر سکون سا کرسی پر بیٹھا ان چاروں کو کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا ایک تو وہیں زمین پر بے ہوش ہو چکا تھا شاید زہر نے اس پر زیادہ اثر دکھا دیا تھا
بے فکر رہو اس زہر سے تم لوگ بہت پرسکون نیند سو جاو گے اور شکر کرنا کے میرے ہاتھوں نہیں مارے گئے
وہ اپنے بلیٹڈزکو واپس بیگ میں رکھتا ہوا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا
دو گھنٹے کے بعد لاش ٹھکانے لگا دینا وہ شارف سے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا
اکرم کھانا آرڈرکردو بہت بھوک لگی ہے ۔خضر مسکرا کر کہتا ہوا شارف کو آنے کا اشارہ کرتا یارم کے پیچھے ہی اس کے کیبن کی طرف بھاگا تھا
کمرے خون سے بھرا ہوا تھا ۔کسی کی انگلی تو کسی کا پاؤں کاٹا ہوا تھا ۔شارف اور خضر دونوں ہی یہاں نہیں آنا چاہتے تھے ۔بلکہ وہ دونوں تو اس کمرے میں قدم تک رہیں رکھنا چاہتے تھے لیکن یارم کے آرڈر کے آگے ان دونوں کی کہاں چلتی تھی
خضر اپنی فضول میں اس سے ناراضگی کی سزا کاٹ رہا تھا تو شارف صبح فون پر ہونے والی گفتگو کی سزا کاٹ رہا تھا
اور یارم اب جان بوجھ کر ان دونوں سے بدلہ لینے کے لئے بار بار اپنا خون سے بھرا ہوا ہاتھ شارف کے رومال سے صاف کر رہا تھا ۔
اور باربار خضر سے فرش پے پوچا لگواتا کیونکہ اسے گندگی بالکل پسند نہیں تھی ۔ان لوگوں نے صبح سے ابھی تک کھانے کا ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا ۔کیونکہ یارم کا موڈ اس وقت کے بعد ٹھیک نہیں ہوا تھا
شارف تو اس وقت کو رو رہا تھا جب اس نے یارم کو سر کہہ کر بلایا تھا اور تب سے لے کر اب تک اس وقت کو پچھتا رہا تھا کیونکہ یارم ہر تھوڑی دیر کے بعد کہتا شارف سر یہاں کر میرا ہاتھ صاف کریں گے
وہ ار بار خون سے بھرا ہوا ہاتھ صاف کرتے اور اس عمل کو برداشت کرتے ہوئے شارف کی حالت خراب ہوچکے تھے اسے الٹیاں آ رہی تھی لیکن ڈیول کے سامنے ایسی کوئی بھی حرکت آلاوڈ ہیں تھی
جبکہ خضرجس نے فیصلہ کیا تھا کہ آج یارم ان لوگوں کے ساتھ لنچ کرے یا نہ کرے لیکن ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھائے گے کیونکہ وہ غلط لوگوں سے ہاتھ ملا رہا ہے لیکن وہ کہاں جانتا تھا کہ اپنی اس غلطی کی وجہ سے اسے سارا دن بھوکا پیاسا رہنا ہوگا
اور اب بھوک سے بے حال ہوتے ہوئے خون سے بڑا فرش صاف کرکے اس کی بھوک بھی بےموت مر چکی تھی ۔
آج یارم نے پہلی بار اس سے وہ کام کروایا تھا جو شارف کرتا تھا
شارف تو صبح اس کا کام سن کر خوش ہو گیا تھا کہ آج وہ شارف کے حصے کا کام کرنے والا ہے لیکن جو کام یارم نے شارف کے لیے مقرر کیا تھا اس کے بارے میں شارف بیچارے نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
یارم کے ایک اشارے پر وہ پیکٹ سے ایک نیا رومال نکال کر اس کے پاس آتا اور اس کے ہاتھ کو صاف کرنے کی کوشش کرتا
یارم واقع ہی بہت صفائی پسند تھا وہ کسی قصائی کی طرح آرام سے کرسی پر بیٹھا ان لوگوں کی کٹنگ کر رہا تھا لیکن مجال تھا جو اس کے کپڑوں پر خون کی ایک بوند گری ہو یا اس کے چہرے اور بدن یا کسی اور حصے پر کوئی داغ آیا ہو
ہاں اس کا ہاتھ بار بار گندا ہو جاتا تھا جسے شارف صاف کر رہا تھا
شارف اور خضر دونوں ہی بس اس وقت کے گزر جانے کا انتظار کر رہے تھے
یہ بات تو آج تاریخ میں رقم ہوچکی تھی کہ آئندہ وہ دونوں ڈیول کے اصولوں پر کبھی انگلی نہیں اٹھائیں گے
اپنا کام ختم کرکے یارم کپڑے جھراتا ہوا وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا
اور پھر اس کے پیچھے ہی وہ دونوں اپنی الجھی ہوئی حالت میں باہر آئے تھے
یارم تم نے ہمیں معاف کر دیا نا ۔خضر نےاس سے پوچھا تھا
یہ ساری باتیں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں پہلے ان لاش کے سارے پرزے اس بےوقوف انسپکٹر تک پہنچا دو
اس نے ایک اور آرڈر دیا اور اپنے روم کی طرف جانے لگا
°°°°°
خضر اپنی ٹیم تک اس کے آرڈر پہنچاتا خود بھی اس کے پیچھے پیچھے شارف کو ساتھ لے آیا تھا
یارم ہم نے سارا کام نے بتا دیا اب تو بتاؤ تم ہم سے ناراض نہیں ہونا
خضر شارف میرا دماغ خراب نہ کرو فی الحال جاؤ یہاں سے بہت وقت گزر گیا ہے مجھے بھی اب چلنا چاہیے دیر ہو رہی ہے روح انتظار کر رہی ہو گی۔اور جاؤ تم لوگ بھی کپڑے بدل لو کیسے عجیب سے خلیے میں ہو تم دونوں مجھے تو دیکھ کر ہی کراہت محسوس ہو رہی ہے وہ اپنا کوٹ کرسی سے اتارتے ہوئے بولا
یارم بھائی پلیز ہمیں معاف کر دیجئے ہم سے غلطی ہوگئی آئیندہ ہم سے کوئی غلطی نہیں ہوگی شارف جو کب سے ہے ان کی باتیں سن رہا تھا یار م کو یوں نظر انداز کرتے دیکھ وہ اس کے پیروں میں جھک گیا
شارف خضر کیا بچنا ہے اٹھو زمین سے تم جانتے ہو مجھے یہ حرکتیں پسند نہیں ہیں یارم نے ذرا سخت لہجے میں کہا
پسند ہو یا نہ ہو یارم بس تم ہم سے ناراض ہو اور یہ بات ہماری برداشت سے باہر ہے پلیز ہمہیں معاف کر دو ہم سے غلطی ہوگئی خضر نھی اس کے پیرپکڑچکا تھا
یار مسئلہ کیا ہے تم دونوں بے غیرتوں سکون سے ناراض بھی نہیں ہونے دیتے یارم نے ہار کر کہا تو وہ دونوں مسراتے ہوئے نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئے بلکہ اس سے چپک بھی چکے تھے
کمینوکیا حالت کر دی میری ایک بار اپنا خلیہ تو دیکھ لیتے ۔وہ ان دونوں کو سمجھتے ہوئے بولا توخضراور شارف دونوں کا قہقہ بلند ہوا
بس تم آئندہ ہم سے ناراض نہیں ہونا یارم۔ہم سچ میں بیوقوف ہیں۔ہم نے تم سے ایک بار نہیں پوچھا کہ آخر تمہارا پلان کیا ہے بس اپنے پاس ہی اندازہ لگاتے رہےخضر نے سرجھکا کرپنی غلطی کو قبول کیا
ہاں تم لوگ سچ میں بہت بیوقوف ہو ہمیشہ الٹے سیدھے کام کرتے رہتے ہو خیر ان سب باتوں کو چھوڑ لیکن آئندہ ایسے میرے قریب مت آنا
مجھے میرے اتنے قریب صرف میری بیوی ہی اچھی لگتی ہے ۔
تم جیسے گندے اور بدبودار لوگ نہیں یارم نے ان کی خالتوں کی طرف اشارہ کیا
ہاں بالکل ہم کوئی نفس نازک تھوڑی ہیں جو تمہیں اچھے لگے
چل شارف جا کر نہا لے میں بھی اپنا حلیہ درست کر کے گھر جانے کی تیاری کرتا ہوں اب وہ دونوں پرسکون تھے
°°°°
کل تک ان کے دماغ میں بس یہی ایک سوچ تھی کہ یارم کے جانے کے بعد یہ کنگز ان کی ٹیم کے لیے بہت مشکل پیش کریں گے ممکن تھا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں ان پر حملہ کرتے
وہ لوگ صرف اور صرف یارم کی ٹیم کا حصہ بننا چاہتے تھے اور یارم ایسا نہیں کرتا تو کسی نہ کسی طریقے سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے
تو پہلے بھی بہت بار یارم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکے تھے لیکن یارم نے کبھی بھی ان لوگوں کو ان کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہونے دیا
ان سب کی خواہش ایک ہی تھی یارم کی جگہ پر قبضہ کرکے دبئی کا ڈان بنا لیکن ایسے چھوٹے موٹے کیروں مکوڑوں کو یارم بہت آسانی سے جہنم تک پہنچا دیتا تھا
وہ تو سب ان سب کو موقع دے رہا تھا کہ شاید وہ سدھر جائیں لیکن سدھرنے کے بجائے وہ سب لوگ اپنا اپنا ایک گینگ تیار کر چکے تھے اور دبئی کے بہت سارے علاقوں میں وہ اپنی دہشت پھیلا چکے تھے ۔اور ان میں سے بہت سارے بے غیرت ایسے بھی تھے جو اور عورتور بچیوں کی عزت کے لیے خطرہ بن چکے تھے یارم کی نظر بہت وقت سے ان لوگوں پر تھی بس فلحال وہ قانون کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا
لیکن اپنے لوگو کی سیفٹی کے لیے اسے یہ قدم اٹھانا پڑا
وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے
یارم اپنی ٹیم کے خلاف کچھ برداشت کر سکتا تھا اور نہ ہی روح سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ سکتا تھا آج نہیں تو کل ان سب نے یارم کے قہر کا نشانہ بنایا تھا
کیوں کہ اپنے کاموں کی وجہ سے وہ یارم کی بیٹ لسٹ میں شامل ہو چکے تھے اسی لئے یارم نے یہاں سے جانے سے پہلے ان سب کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی ٹیم کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے
وہ جانتا تھا کہ اب سب پیچھے خضر سنبھال لے گا ۔
اور اس کی مدد کرنے کے لیے شارف ہر وقت اس کے ساتھ موجود ہوگا اب وہ روح کے ساتھ بے فکر ہو کر کہیں بھی جا سکتا تھا اب اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں تھی
°°°°°
وہ پرسکون سا ہو کر گھر کی جانب آیا تھا
لیلی اسے شام کو ہی فون کرکے بتا چکی تھی کہ وہ روح کے ساتھ بازار گئی تھی دونوں نے خوب ساری شاپنگ کی ہے اور اس کے بعد وہ اسے گھر چھوڑ کر اپنے گھر جا چکی ہے
اسی لئے یارم ڈائریکٹ اپنے گھر میں آیا تھا لیکن گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی اس کا فون بج اٹھا
سامنے بیوقوف پولیس والے کانام جگمگا رہا تھا
جلدی بولو صارم میں بہت تھکا ہوا ہوں فلحال کسی سے بات کرنے کا موڈ نہیں ہو رہا اس نے بےزاری سے کہا
ہاں بالکل ان حیوانوں کے جسم کے ٹکڑے کرتے ہوئے ہاتھوں میں درد ہو گیا ہوگا کہو تو میں آکر دبا دوں اس نے بھرپور طنز کیا۔
کیوں پولیس والے کی نوکری سے ریٹائرمنٹ لے رہے ہو کیا جو کسی نئی نوکری کی ضرورت پیش آگئی ہے
خیر فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے اگر موڈ بن گیا تو تمہیں اس نوکری کے لیے رکھ لوں گا اس کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا
کیا بگاڑا تھا ان لوگوں نے تمہارا۔۔۔۔۔!
تمہیں اندازہ بھی ہے ہم کتنے وقت سے ان لوگوں کو تلاش کر رہے تھے ۔۔؟صارم کو غصہ آنے لگا
اگر تم لوگوں کی تلاش ناکارہ ہے تو اس نے میرا کیا قصور ۔۔۔؟
میرے ہاتھ آئے مارے گئے ۔۔
اور ویسے بھی میں نے سنا ہے کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں تم اپنے لمبے ہاتھوں کی مدد سے بچالیتے نا ان کو
یارم تمیں احساس بھی ہے تم نے ایک دن میں گیارہ لوگوں کا قتل کیا ہے اور وہ بھی کوئی عام انسان نہیں بلکہ جانے پہچانے مجرم اور قانون کی نظر میں درندے تھے وہ لوگ یارم اب تو سنبھل جاؤ
اب تو چھوڑ دو یہ ساری چیزیں کیوں خود کو اس دندل میں پھنسارہے ہو کیوں نہیں چھوڑ دیتے یہ سارے کام ۔۔چھوڑ دو سب کچھ یار م اپنی زندگی میں آکر بھرو خود کو دیکھو روح کو دیکھو ایک نئی زندگی شروع کرو
صارم یار تم تو اچھے خاصے بورنگ انسان ہو اتنے فریش موڈ کے ساتھ گھر آیا تھا بیڑہ غرق کردیا موڈکا چلو مجھے نسیت ہوگی آج کے بعد گھر آتے ہوئے کبھی تمہارا فون نہیں اٹھا ونگا
خیر میں نے ایک فائل تیار کی ہے اس کے مطابق ان سب لوگوں کو ڈھونڈنے میں تم کامیاب رہے ہو لیکن افسوس کہ تم انہیں بچا نہیں سکے تمہاری بہادری کے قصے ضرور چلیں گے جانتا ہوں کہ تم نے یہاں کچھ نہیں کیا لیکن میں نے سوچا کہ یہ کیس میں تمہاری آفیسر کے نام کر دوں
ہو سکتا ہے تمہیں اس بار پرموشن مل جائے ۔چلو اب میرا دماغ مت کھاؤ گڈنائٹ فون رکھتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولا
لیکن صارم آگے سے بنا کچھ بولے فون کے اندر سے آتی ٹوں ٹوں کی آواز سن رہا تھا یہ آج یا کل کی بات نہیں تھی یارم کو کچھ بھی سمجھانا اس کے بس سے باہر تھا لیکن وہ پھر بھی کوشش نہیں چھوڑتا تھا کہ شاید وہ اس کی بات کو سمجھ کر یہ گناہوں کا رستہ چھوڑ دے
جن لوگوں کو یارم نے جان سے مارا تھا وہ یار! کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے تو پھر بھلا کیا دشمنی تھی یار م کی ان لوگوں کے ساتھ صارم کو زیادہ افسوس اس بات کا تھا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے اسی کیس پر کام کر رہا تھا اور جلد ہی وہ ان لوگوں کو گرفتار بھی کرنے والا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے انہیں جان سے مار کر راستے سے ہٹا دیا اور صارم کی ساری کی ساری محنت بری طرح سے برباد ہو گئی
°°°°
گھر میں داخل ہوتے ہی اسے اپنی جان کا چہرہ دیکھنا تھا
وہ آہستہ آہستہ اندر آیا لیکن سامنے ایک بار پھر سے اپنے حکم کے خلاف اسے کیچن میں کام کرتے دیکھ اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے ۔ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ روح اس کی کوئی بات مان لیتی ۔
اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یارم اسے سبق ضرور سیکھتا لیکن یہاں تو وہ تھی جیسے پتا تھا کہ اس کی ہر غلطی کی سزا معافی ہے
یارم کاظمی کی عدالت میں وہ گناہگار ہو کے بھی بے گناہ تھی۔پہلے تو یارم اس کی ہر غلطی کی سزا اپنے انداز میں دیتا لیکن اب ایسا نہیں تھا اسی لیے تو وہ بگڑ گئی تھی بلکہ بہت بگڑ گئی تھی
لیکن وہ اپنی روح کو ہینڈل کرنا جانتا تھا ۔
اور اب وقت آگیا تھا کہ وہ اسے سدھارے اور اب جلد ہی وہ اسے سدھارنے والا تھا
وہ غصے سے لب بھیتا اس کے سر پر سوار ہوا
یہ سب کیا ہے روح۔۔۔۔؟ جب میں نے تمہیں کام کرنے سے منا کیا ہے تو تم کیوں باز نہیں آ جاتی وہ سخت لہجے میں بولا
لیکن یارم آپ نے ہی تو صبح بولا تھا کہ اب میں ٹھیک ہوں ۔اور اگر میں ٹھیک ہوں تو میں کچھ بھی کرسکتی ہوں نا ۔وہ معصومیات سے کہتی اس کے الفاظ اسے واپس کر رہی تھی
ہاں کہا تھا میں نے کہ تم ٹھیک ہولیکن یہ نہیں کہا تھا کہ کیچن میں پہنچ جاو ۔ابھی اتنی بھی ٹھیک نہیں ہو تم وہ سمجھانے لگا
آففففف یارم ٹھیک تو ٹھیک ہوتا ہے اِتنا اُتنا نہیں اور میں ٹھیک ہوں تو ہوں نا اسی لیے تو میں نے آپ کے لیے یہ بنایا ہے وہ بھی بہت پیار سے وہ مسکرا کر کہتی اسے لاڈ سے کرسی کی طرف کھنچنے لگی
یارم اسے گھورٙتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر بریانی اپنی پلیٹ میں نکالنے لگا چہرے پر سختی تھی مطلب اس کا موڈ ٹھیک نہیں تھا
اچھا نا اب نہیں کروں گی کچھ بھی وعدہ بس آپ اتنے دن سے کھانا برائےنام کھا رپے تھے تو میں نے آپ کے لیے یہ بنانے کا سوچا اب سے وعدہ جو آپ کہیں گے وہی کروں گی
وہ یارم کی پلیٹ سے خود بھی کھاتے ہوئے پیار سے بولی
کھانے کے بعد یارم نے خاموشی سے پلیٹ پیچھے کر لے اسے دیکھا
چائے بناو۔۔۔یارم نے کہا تو وہ اسے حیرانگی سے دیکھنے لگی
جی۔۔۔! اسے لگا شاید اس نے غلط سنا ہے
جی کیا جاو چائے بناو اگر بریانی کھاکر منہ کا ذائقہ بدل ہی دیا ہے تو ایک کپ چائے بھی ہو ہی جائے آخر اب تم ٹھیک ہو چکی ہووہ اسے دیکھتے ہوئے بولا
ہاں کیوں نہیں مِیں ابھی بناتی ہوں۔اس کا انداز روح کو پرسکون کر گیا وہ اس سے خفا نہیں تھا
روح نےفوراً اس کے لیے چائے بنائی تھی جو یارم نے پرسکون ہو کر پی ۔
برتن دھو کر کمرے میں آجانا میں زرا آفس روم میں ہوں وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر چلا گیا ۔
روح کو یقین نہیں آرہا تھا یارم اسے اتنا نارملی ٹریٹ کر رہا تھا اس کا مطلب تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے سب کچھ نارمل ہو رہا ہے پہلے جیسا وہ بہت خوش تھی
°°°°°
وہ کافی دیر بعد کمرے میں آئی تو یارم اپنا کام ختم لر کے روم میں آ چکا تھا اس نے مسکرا کر اسے دیکھا وہ بن کے قریب کھڑا تھا
روح نے غور کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ اس کی میڈیسن بن میں پھینک رہا ہے۔آج کی رات آخری تھی ان میڈیسن کی اس کے بعد وہ آزاد تھی لیکن یارم اسے پہلے کیوں پھینک رہا تھا
سوچا کہ تم اب ٹھیک ہو گئی ہو تو ان میڈیسن کی بھی تمہیں کوئی ضرورت نہیں کیا خیال ہے وہ نرمی سے کہتا اس کے پاس آیا تو روح نے ہاں یں سر ہلایا ۔
جب یارم نے جھک کر اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔وہ گھبرائی تھی
یارم ۔۔۔۔ اس کے لبوں نے بے آواز سرگوشی کی
سشش ۔۔۔ تم ٹھیک ہو نا تو اپنا بیوی ہونے کا فرض ادا کرو ۔اپنے وجود سے اپنے شوہر کو سکون دو ۔تاکہ اسے پتا چل سکے کہ تم کتنی ٹھیک ہو ۔وہ اسےبیڈ پر لیٹا کر اس کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں لے چکا تھا
اپنے یارم کو سکون دو روح۔ وہ بے سکون ہے۔ اد کا سکون کھو گیا تھا ۔اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومتے وہ اس کے کان کے پاس سرگوشی کرنے لگا۔
تم نے مجھے بہت ستایا ہے روح ۔اب مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا۔محبت کے اس دریا ہو انتظار کی سولی پر لٹکا کر سمندر تم نے کیا ہے تو اب اس سمندر میں تمہیں میرے ساتھ ڈوبنا بھی ہو گا۔
اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے وہ اس کے لبوں کو پوری شدت سے قید کر گیا۔وہ بنا مذاحمت کیے اس کی باہوں میں آ سمٹی اس کی دیوانگی کو اپنی رگ رگ میں اتراتا محسوس کر رہی تھا۔
اس کی شدتوں میں پھگلتی وہ پوری طرح اس کی محبت میں رنگنے لگی تھی۔اس کے سینے میں منہ چھپائے وہ اس کے جنون میں سانس لینے لگی ۔اور یارم اسے خود میں سیمٹتا اپنا عشق اس پر لٹتا چلا گیا۔
وہ عشقِ یارم تھی۔یارم کا عشق اس کا جنون اس کی دیوانگی اس کی محبت ۔اس کی روح ۔وہ روحِ یارم تھی۔اور یارم سراپاِ عشق
وہ اس کی باہوں میں سمٹتی آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی
جب کہ یارم اب بھی اسے اپنی باہوں میں بھرےاپنی محبت کی چھاپ چھوڑے جا رہا تھا ۔اس کی دیوانگئ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔
ساری رات اس نے ایک پل بھی روح کو سونے نہیں دیا تھا
اب تو صبح کی اذان ہوئے بھی کافی وقت گزر چکا تھا ۔اور اس وقت بھی وہ اسے اپنی باہوں میں لئے اپنی محبت لٹا رہا تھا
اتنے دن کی دوری کا بدلہ یارم نے اس انداز میں لے کہ روح نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔وہ تو یہ سوچ رہی تھی کہ یارم ابھی بھی اسے میڈیسن ہیں کھلانے والا ہے لیکن نہ جانے یارم کے دماغ میں رات کون سے سوچ سمائی کہ وہ اس سے اختیار کی ہر دوری کو بلا کر اسے خود میں سمیٹنے لگا
۔اس کاہر انداز شدت اختیار کئے ہوئے تھا
۔اس نے روح کو اپنے پرانے انداز میں ہی چھوا تھا ۔بنا اسے مزاحمت کا موقع دیئے وہ اسے پوری طرح خود میں قید کر گیا تھا ۔
اتنے مہینوں سے اس کی دوری کی وجہ سے روح بھی اسے مس کر رہی تھی اسی لیے تو اس کے باہیں پھیلاتے ہی وہ اس کی محبت کے سامنے ہار گئی تھی اس کے پکارتے ہی وہ کسی ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح اس کی باہوں میں آسمٹی تھی ۔
وہ خود بھی تو اس کے پاس آنا چاہتی تھی ۔اسے بھی تو اس کا پرانا یارم چاہیے تھا
جو آج نہ جانے کتنے مہینوں کے بعد ملا تھا اور اب اس سے اپنا حق وصول کر رہا تھا ۔
روح ٹوٹی بکھری حالت میں اس کے پہلو میں خاموشی سے لیٹی اس کے لبوں کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی ۔
اور وہ پھر سے مدہوش ہوتے ہوئے اس کے ہوش ٹھکانے لگانے لگا
یارم مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔۔روح نے اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے بتایا ۔
انداز میں بلا کی معصومیت تھی یارم نے ایک نظر اس کے حسین چہرے کو دیکھا ایسے موقعوں پر وہ اس سے نظر ملا کر بات نہیں کرتی تھی اس وقت بھی گھنی پلکیں گالوں پر سجدہ ریز تھی گال سرخی چھلک رہے تھے اس کے وجود کا ایک ایک حصہ یارم کی دیوانگی کی داستان سنا رہا تھا
بےبی تمہیں نیند بہت آتی ہے اپنی اس نیند پر قابو کرو میں اپنا سیکنڈ ہنیمون تمہاری نیند کی وجہ سے برباد نہیں کر سکتا ۔اس بار اگر تم مجھے وہاں سوتی ہوئی ملی نا تو بہت بری طرح سے پیش آؤں گا تمہارے ساتھ
اور فی الحال مجھے ڈسٹرب مت کرو ۔
فی الحال مجھے میری بیوی کو بہت سارا پیار کرنا ہے اور اسے سیدھا بھی کرنا ہے وہ کیا ہے نہ پچھلے تین مہینے میں وہ بگر گئی ہے ۔وہ کہتے ہوئے اس کی گردن پر ہونٹ رکھ چکا تھا اس کی گرم سانسوں کی تپش میں جلتی روح نے ایک بار پھر سے احتجاج کیا
یارم مجھے بہت سخت نیند آ رہی ہے ۔۔وہ بلکل بھی جھوٹ نہیں بول رہی تھی اسے سچ میں بہت نیند آئی تھی یا رم نے ساری رات اسے ایک پل کو بھی سونے نہیں دیا تھا اور اب نیند سے اس کا برا حال ہو رہا تھا لیکن یارم کو تو اس وقت صرف اور صرف اپنی تشنگی مٹانی تھی جو کل رات سے اب تک کم ہونے کی بجائےمزید بڑھتی چلی جا رہی تھی
وہ اسے پا کر بھی پیاسا تھا اس کی طلب ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھی ۔اور نہ ہی شاید ختم ہونی تھی ۔لیکن روح کی اس کی نیند سے بھری سرخ آنکھیں دیکھ اسے اس پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن وہ فی الحال اسے بخشنے کے موڈ میں بھی نہیں تھا
دس بجے مجھے آفس میں ایک ضروری کام ہے ۔میں کام پر جاؤں گا تو میرے واپس آنے تک تم اپنی نیند پوری کر لینا اور ہاں اب مجھ سے بچنے کے لیے کوئی اور بہانہ بنالو یہ نیند کا بہانہ اب پرانا ہو چکا ہے ۔اب یہ زیادہ دیر تک نہیں کام کرے گا ۔
اور اب مجھے ڈسٹرب مت کرنا ورنہ پھر تم شکایت کرو گی تو اسے وارن کرتے ہوئے اس کے لبوں پر جھکا تھا اس بار روح کچھ بھی نہیں بول پائی تھی
جانتی تھی کہ بولنا فضول ہے وہ اپنی کر کے ہی دم لے گا ۔
اور سچ یہ بھی تھا کہ اتنے وقت کے بعد یارم کو اتنے قریب سے محسوس کر کے وہ خود بھی اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی یارم کا جنون اس کی دیوانگی اس کا شدت سے بھرا لمس جو صرف اور صرف اس کے لئے تھا
وہ صرف اور صرف اسی کا تو تھا صرف اس سے محبت کرنے والا صرف اسی کو چاہنے والے صرف اور صرف روح کا یارم
وہ کیسے اسے مایوس کرتی کیسے اس سے دور جاتی وہ تو خود اس کی پناہوں میں آنے کے لئے مچل رہی تھی
اور یارم ابرِ کرم بنا اس پر برستا چلا جا رہا تھا ۔روح اس کی محبت کی بارش میں بھیگتی سارا جہاں فرموش کیے ہوئے تھی
اس وقت دل اور دماغ کی تمام ڈوریوں پر صرف اور صرف یارم کا قبضہ تھا وہ نہ تو اسے اپنے علاوہ کچھ سوچنے دینا چاہتا تھا اور نہ ہی خود اس سے دور جانا چاہتا تھا
اسے اپنی باہوں میں لے یہ وہ اس کی سانسوں پر اپنی حکومت چلا رہا تھا اپنے پچھلے 3 ماہ کی بے چینی کو مٹا رہا تھا اپنی بے قراریوں کو سکون دے رہا تھا وہ ڈر جوتین ماہ پہلے روح کو کھو جانے کا اس کے دل میں بسا تھا آج یارم اسے آپنے بے حد قریب کر کے اپنا وہ ڈر مٹا لینا چاہتا تھا
پچھلے تین مہینے جس عذاب میں اس نے کاٹے تھے ۔اس کے بعد وہ شاید ہی روح سے دور جاتا اور جتنا روح نے اسے ستایا تھا اس کے لیے یہ اتنی سی سزا تو بنتی تھی
°°°°
یارم کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ ضد کرکے اس کے لئے ناشتہ بنانے لگی تو یارم نے بھی اسے منع نہیں کیا ۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ روح پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور وہ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے ویسی ہی زندگی گزارے گی
اب اس پر کوئی پابندی نہیں ہوگی بہت برداشت کر چکی تھی وہ ایک تو بیماری اور اوپر سے بے فضول کی پابندیاں اب یارم اپنی روح کو مکمل اس کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہتا تھا ۔
اس نے روح کو بول دیا تھا کیا وہ جو چاہتی ہے جیسا چاہتی ہے ویسا ہی کرے وہاں سے منع نہیں کرے گا
پہلے تو روح کو اس کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا
لیکن جب اس نے روح کو ناشتہ بنانے کی اجازت دی تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی
اسے کو بھی بہت وقت کے بعد محسوس ہوا تھا کہ وہ ٹھیک ہو چکی ہے اب سب کچھ نارمل ہو چکا ہے
جب تک یارم فریش ہوتا تب تک روح اس کے لئے ناشتہ بنانے میں مگن ہوگئی آٹا گوندھ کر اس نے یارم کے لئے بہت محبت سے پراٹھا بنایا تھا اور اب وہ اس کے لئے ایملیٹ تیار کر رہی تھی
کہ اچانک نکھرا نکھرا سا یارم کچن میں آیا اور اسے پیچھے سے اپنی باہوں میں قید کر لیا
یارم کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔میں ناشتہ بنا رہی ہوں ۔۔۔خراب ہو جائے گا
اس کی کل رات کی جسارتوں سے وہ سمبلی ہی کہاں تھی کہ اب مزید اس کی بے باکی کو سہتی
۔لیکن یارم نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں تھی وہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھ کر چکا تھا روح نے مڑکر اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یا رم کی گرفت سخت ہونے کی وجہ سے وہ ہل بھی نہ سکی
یار م یہ کیا۔۔۔؟ آپ کیا کر رہے ہیں آپ تو تیار ہونے گئے تھے نا اور صرف نہا کر آگئے جائیں جلدی سے تیار ہوں آپ کو کام پر جانا ہے
پھر کل صبح کی فلائٹ سے ہم یہاں سے نکل رہے ہیں پھر کام کرنے کا بالکل وقت نہیں رہے گا جتنے بھی ضروری کام ہے آپ نے نپٹا کر آجائیں اس کی بڑھتی ہوئی بے باکیوں سے گھبرا کر روح نے اسے یاد دلایا کہ وہ کسی ضروری کام کی خاطر یہاں سے جانے والا تھا ۔لیکن یارم پر تو اس کی کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا
وہ توجیسے اس کی کسی بات کو سن ہی نہیں رہا تھا بس اپنے ہی کام میں مگن تھا اور اس کی بھرتی ہوئی جسارتوں پر روح کی سانسیں تیز ہونے لگیں
۔روح کا دوپٹہ اس کی کمر سے کھول کر اس سے دور کر چکا تھا اس سے پہلے کہ وہ اس رخ اپنی جانب موڑ کر مزید کوئی گستاخی کرتا اس کا فون بج نے لگا جیسے وہ نظرانداز کرتا اپنے کام میں مگن تھا
روح تو اس کے بہکانے پر گھبرا گئی تھی رات کی جسارتوں کو یاد کرتے ہوئے کوئی بہانہ سوچنے لگی کہ یارم کا فون پھر سے بجنے لگا
آور پھر مسلسل بجتے ہوئے یارم کے کام میں خلیل پیدا کر گیا اس نے غصے سے فون نکالا
روح نے سکون کا سانس لیا ۔جبکہ یارم کا موڈ بگرچکا تھا ۔
کیا ہوا شارف کوئی مر گیا ہے کیا جو تم سے صبر نہیں ہو رہا وہ غصے سے فون کان سے لگائے بولا
نہیں یارم تم نے ہی تو کہا تھا کہ کام ہوتے ہی انفارم کرو شارف اس کا غصہ دیکھ معصومیات سے بولا
انفارم کرنے کے لیے کہا تھا ڈسٹرب کرنے کے لیے نہیں بےوقوف آدمی عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے تم یارم کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اپنا غصہ کیسے کنٹرول کرے
یارم انفارم کرنپتے ہوئے ڈسٹرب تو کرنا پڑتا ہے نا۔۔ شارف نے صفائی پشں کرتے ہوئے کہا۔
دماغ مت خراب کرو فون بند کرو اور اب ڈستپٹرب مت کرنا اور فون رکھتے ہوئے وارن کر رہا تھا اور شارف اس کی بات کو سمجھ گیا تھا اگر نا سمجھتا تو آج جان سے جاتا
فون بند کر کے وہ کیچن میں آیا تو روح غائب تھی
ناشتہ ٹیبل پر رکھا تھا ساتھ ایک چھوٹی سی چٹ تھی۔
خدا کا واسطہ ہے یارم اب ناشتہ کریں اور کام پر جائیں مجھے آرام کرنا ہے اس چٹ کو پڑھتے ہی یارم کا قہقہ بلند ہوا۔
بےبی تم تو بہت جلدی کپگھبرا گئی ابھی تو یہ شروعات ہے اب تمہیں پتہ چلے گا یارم کاظمی سے پگا لے کر نیندیں کیسے اڑتی ہیں
وہ دلکشی سے مسکراتے ہوئے میز پر رکھے ناشتے کو دیکھتے ہوئے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا اور سکون سے ناشتہ کرنے لگا
کل سے اب تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا وہ بہت پرسکون تھا روح کو اپنی محبت میں رنگنے کے بعد آپ اس سے سکون ملا تھا ۔
کل کی فلائٹ سے وہ لوگ سوئٹزلینڈ کے لئے روانہ ہونے والے تھے وہ جانتا تھا کہ روح ساری تیاری مکمل کر چکی ہے
ڈارلنگ تم تو یہاں مجھ سے بھاگنے لگی ہو وہاں جا کر تمہارا کیا حال ہوگا آنے والے وقت کا سوچ کر اس نے ایک نظر اپنے کمرے کے بند دروازے کی جانب دیکھا تھا ۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو روح کو گہری نیند سوتے پایا
وہ مسکراتے ہوئے وارڈوب آپ کی طرف آیا اور اپنے کپڑے نکال کر تیار ہونے چلا گیا ۔
فی الحال تو روح کو تنگ کرنے کا بلکل کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا کل رات کی وہ اسے اچھا خاصہ تنگ کر چکا تھا ۔
اب اگلا ڈوز وہ اسے اپنے ہنیمون ٹور پر دینا چاہتا تھا محبت سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ اپنا کام نمٹانے چلا گیا آج چھوٹے موٹے سارے کام ختم کرنے تھے کیونکہ اس سے اگلا تمام وقت وہ صرف اور صرف روح کے نام کر دینا چاہتا تھا
°°°°
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب اچانک اسے اپنا سر گھو متا ہوا محسوس ہوا اسے لگا وہ ان سیڑھیوں سے نیچے گر جائے گی لیکن اس سے پہلے ہی کسی نے اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے بچا لیا
اس نے ایک نظر اپنے بازو کی جانب دیکھا تھا جہاں درک کی سخت گرفت تھی ۔
اس کے بازو کے سہارے وہ سیدھی ہوئی تو اب بھی اپنا سر گھومتا ہوا ہی محسوس کیا
اف یہ کیا ہو گیا تھا آج سے پہلے تو معصومہ نے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا
شارف ٹھیک ہی کہتا ہے مجھے الٹا سیدھا نہیں کھانا چاہیے اس نے اپنا گھومتا ہوا سر تھام کر سوچا
مجھے تمہاری طبیت ٹھیک نہیں لگ رہی میرے خیال میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہےمعصومہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب لگی تھی وہ کسی کی پرواہ نہیں کیا کرتا تھا اور نہ ہی اسے لوگوں کے ساتھ گلنا ملنا پسند تھا
وہ بہت کم لوگوں سے بات کرتا تھا یہاں فلیٹ کے لوگ تو اسے کھڑوس کہہ کر پکارتے تھے اور اس کی پیٹھ پیچھے کافی باتیں بھی کرتے تھے لیکن اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی
وہاپنی دنیا میں مگن اپنے کام سے کام رکھنے والوں میں سے ایک تھا
لیکن معصومہ نے شونو کے ساتھ اس کا کافی لگاؤ محسوس کیا تھا اور شاید اس وقت بھی وہ شونو کے لئے ہی تھوڑی بہت انسانیت دکھا رہا تھا ورنہ یہاں اس کی بلا سے کوئی جئے یا مرے
نہیں میں ٹھیک ہوں لگتا ہے کچھ الٹا سیدھا کھا لیا
بس اسی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے تھینک یو تم نے میری مدد کی معصومہ کہہ کر آگے بھرنے ہی لگی کہ اس کا سر ایک بار پھر سے گھوم گیا
درک نےبروقت اسے تھام لیا تھا ورنہ اس بار وہ بہت برے طریقے سے گرنے والی تھی
آؤ میں تمہیں اندر تک چھوڑ آتا ہوں تمہاری طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے میں نہیں چاہتا کہ یہاں گر تم اپنی ہڈیاں توڑ لوپتا نہیں لڑکیوں کو کیا کریز ہوتا ہے اتنی اونچی سینڈل پہنے کا وہ بربڑاتا ہوا اس کا بازو تھام کر اسے اس کے فلیٹ تک چھوڑنے کے لئے اندر تک آیا تھا
تھینک یو سو مچ درک تم نے میری بہت مدد کی ہے وہ اس کا بازو تھا میں اسے صوفے پر بٹھا کر پلٹا ہی تھا کہ معصومہ بولی
میں نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی معصومہ اور یہ کوئی احسان نہیں ہے تم پر تم گرتی تو مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا اور میں وہاں کھڑا تھا تو مجھے لگا کہ تم مجھے تمہاری مدد کرنی چاہیے تمہاری جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یقینا تب بھی مدد کرتا ۔لیکن تم اتنی جلد بازی میں ہر کام کیوں کرتی ہو تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیے وہ واٹر کولر سے پانی کا گلاس بھر کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگا
اپنا فون دو تمہارے شوہر کو فون کرکے تمہاری طبیعت کی خرابی کا بتا دیتا ہوں اس کے انداز میں کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں تھی وہ انجان سا شخص انجان بن کر ہی رہنا چاہتا تھا
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے میں خود اسے ابھی فون کرکے بتا دوں گی ۔
تم بیٹھو نہ میں تمہارے لئے جائے بنا کر لاتی ہوں آج تم پہلی بار میرے گھر آئے ہو معصومہ نے مہمان نوازی کی خاطر کہا
اپنی حالت دیکھو لڑکی سیدھے طریقے سے چل نہیں سکتی اور تمہیں میری خاطر داری کرنی ہے ۔خیر میں چلتا ہوں تم اپنے شوہر کو انفارم کر دینا وہ اٹھ کر جاتے ہوئے کہنے لگا
ہاں ٹھیک ہے جاؤ میں بھی نہیں روکوں گی کیونکہ اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا اگلے بیس دن کے لیے شونو میرے پاس آ رہا ہے
انسانوں سے نہ سہی لیکن جانوروں سے کافی بنتی ہے تمہاری معصومہ نے مسکراتے ہوئے بتایا
کیوں تمہاری سہیلی کہا ہے جو اس کا ڈوگ تم یہاں لا رہی ہو
وہ اپنے شوہر کے ساتھ سوئزر لینڈ جا رہی ہےبیس دن کے لیے تب تک شونو میرے پاس ہی رہے گا تم جب چاہو اس سے ملنے آ سکتے ہو تمہارے ساتھ وہ ویسے بھی بہت اٹیچ ہے معصومہ نے خوش دلی سے کہا ۔
جب کہ وہ صرف ہاں میں سر ہلاتا اس کے گھر سے نکل گیا
°°°°°
معصومہ شونو کا بہت خیال رکھنا میں فون کرتی رہوں گی
وہ شونو کو معصومہ کے حوالے کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ہدایات دینے لگی
تم بے فکر رہو میں اس کا بہت خیال رکھوں گی اس سے ملتے ہوئے معصومہ نے ایک بار پھر سے یقین دلایا
بس کر دو روح کوئی اپنی اولاد کو بھی رخصت کرتے ہوئے اتنا نہیں سوچتا تم جتنا تم شونو کو معصومہ کے حوالے کرنے پر سوچ رہی ہووہ پہلے بھی اس کا خیال رکھتی آئی ہے
اب چلو تمہارا یہ جذباتی سین دیکھ کر یارم دیکھو کیسے گھوررہا ہے
لیلیٰ نے اسی چٹکی کاٹتے ہوئے اس کا دھیان یارم کی جانب دلایا جو ایئرپورٹ کے باہر کھڑے مسلسل اسے گھور رہا تھا
کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے فون کرنا اور شارف کا خیال رکھنا صارم کی نظر ایک بار پھر سے اس پرہے یارم نے بتایا
یہ انسپیکٹر میرے پیچھے کیوں برا ہے کیا بگاڑا ہے میں نے اس کا شارف بدمزہ ہوا
کاش میں پاکستان میں ہوتا تو فروٹ کی ریڑھی لگا لیتا کم از کم اس انسپیکٹر کی نظر سے دور تو رہتا ۔صارم کی ایک بار پھر سے اس پر نظر تھی مطلب وہ پھر سے اسے کسی نہ کسی چکر میں پھنسا کر جیل کی ہوا کھانا چاہتا تھا جیل میں وہ اس طرح اپنے ہاتھ صاف کرتا تھا یارم کے سارے بدلے اسی پر تو نکالتا تھا وہ
خیر تم کسی قسم کی کوئی بیوقوفی مت کرنا کچھ نہیں ہوتا وہ روح کو اندر چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگا کر ہمت دے کر بولا
معصومہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ۔فیملی کے بارے میں نو کمپرومائز اس کی طبیعت خراب ہے یارم نے اس کا دھیان معصومہ کی طرف لگایا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا
ہاں یہاں سے سیدھا اسے ہسپتال ہی لے کر جاؤں گا شارف نے کہا
جب کہ یارم سر ہلاتا روح کا ہاتھ تھامے ایک نئے سفر پر نکل چکا تھا

وہ کب سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جبکہ روح کا سارا دھیان کھڑکی سے باہر کی جانب تھا ۔
یارم نے پہلے روح کی اور پھر اپنی سیٹ بیلٹ باندھی۔
جہاز اڑان بھرنے کے لیے تیار تھا یارم نے روح کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا جانتا تھا کہ اسے ڈر لگے گا ۔
جب کے اس کے تحفظ بڑے انداز پرروح نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی
ڈر لگ رہا ہے یارم نے پیار سے پوچھا
تو روح نے نامیں سر ہلایا
آپ جب میرے ساتھ ہوتے ہیں نا یارم تب مجھے ڈر نہیں لگتا اس کے انداز میں ایک مان تھا جو اس پر جچتا تھا
اچھی بات ہے میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈر لگنا بھی نہیں چاہیے یارم کے چہرے پر مسکراہٹ کھلی تھی
۔جہاز کے اڑتے ہی اس نے روح کو اپنے مزید نزدیک کرلیا
جبکہ روح بھی اس کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر آنکھیں بند کر چکی تھی
۔کیونکہ یہ لمحہ اسے سچ مچ میں خوفزدہ کر دیتا تھا لیکن یار م کا اس کے ساتھ ہونا اس کے ڈر کو کہیں چھپا لیتا تھا
یارم یہ آئسزلینڈ کی بہن کیا بہت خوبصورت ہے روح نے اپنے دل میں مچلتے سوال کو لبوں پر لایا
تم نے تو اسے پکا ہی آئسزلینڈ کی بہن بنا دیا ہے ہاں یہ بہت خوبصورت جگہ ہے
یارم نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا تھا
آئیسزلینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت روح نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا
ہاں ایسا کہا جا سکتا ہے سوئٹزرلینڈ دنیا کے سب سے خوبصورت جہگوں میں سے ایک ہے
اس کا سفر کتنا لمبا ہے آئسز لینڈ تو بہت دور تھالیکن وہاں کے بارے میں تو آپ بہت کچھجانتے تھے کیا اس ملک کے بارے میں بھی آپ سب کچھ جانتے ہیں روح نےکچھ دیر کے بعد دوبارہ سوال پوچھا
ذیادہ کچھ تو نہیں ہاں کچھ کچھ چیزیں جانتا ہوں میں کیونکہ اتفاق سے میں صرف دو بار ہی اس تک جاپایا ہوں۔
سب سے پہلے تو میں تمہیں یہ بتاؤں گا کہ تمہاری فیورٹ چاکلیٹ اس ملک کی پیداوار ہے دنیا کی سب سے زیادہ چاکلیٹ یہی پر پائی جاتی ہیں اور اور یہی بنائی جاتی ہیں تمہیں اور کچھ یہاں ملے نہ ملے لیکن تمہاری فیورٹ ہر چاکلیٹ تمیں یہاں آسانی سے میسر ہو گی ۔اور یہاں پر بہت خوبصورت لوگ نہیں پائے جاتے ہیں لیکن یہ جگہ اپنی مثال خود ہے ۔
دنیا میں کچھ جہگوں کو جنت کہا جاتا ہے ان میں ایک جگہ یہ ملک بھی ہے
یہاں کرائم نہ ہونے کے برابر ہے اس کی وجہ سے یہاں کی گورنمنٹ بھی ہے
یہاں کے لوگوں کو گندگی بلکل نہیں پسند یہاں تک کہ شہر کے پہاڑ راستے اور دوسری ہر جگہ کو بہت صاف ستھرا رکھا جاتا ہے ان کے حساب سے سب سے زیادہ پلوشن گندگی اور آواز کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے رات کے وقت یہاں بالکل بھی آواز نہیں کی جاتی
یہی وجہ ہے کہ یہاں رات کے وقت نہ تو کوئی فائٹ آ سکتی ہے اور نہ ہی جا سکتی ہے
رات کے وقت یہاں لوگوں کے پالتو جانوروں کو بھی منہ پر ماسک لگا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ آواز پیدا نہ کرے ۔
اونچی آواز میں چلانا آواز پیدا کر کے چلنا یہ سب ان کے اصولوں کے خلاف ہیں ۔جن پر سخت جرمانہ ہوتا ہے۔اور اگر ان کے اصولوں پر نہ چلا جائے تو جیل بھی ہوسکتی ہے
یارم نے مسکراتے ہوئے بتایا تو وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی
یہ کیا بات ہوئی مطلب بول چال ہی بند ہے تو بندا اور کیا کرے روح کو ان کا یہ اصول کافی عجیب لگا تھا
رات کے وقت اور بھی تو بہت سارے کام کیے جا سکتے ہیں نہ بےبی جیسے کہ ایک دوسرے سے پیار یارم شرارتی انداز میں کہتا آنکھ دبا گیا جب کے اس کی یوں بے باک کھلے عام گفتگو پر روح کے کان کی لو تک سرخ ہو گئی
یارم کتنے بے شرم انسان ہیں آپ جگہ کا تو ہوش کر لیں وہ اپنا چہرہ جھکائے اسے ٹھی سے ڈانٹ تک نہ پائی
اپنی بیوی سے بات کرتے ہوئے کہی کا ہوش کیوں کروں ۔
اور اس میں بے شرمی والی کونسی بات ہے وہ لوگ بھی یہی سب کچھ کرتے ہوں گے ۔ورنہ رات کے وقت اور کیا کیا جاسکتا ہے خاموشی سے یارم نے شرارت سے کہا
سویا بھی تو جا سکتا ہے روح نے منہ بسور کر بتایا
ہاں یار کچھ لوگ ہوتے ہیں بے وقوف جو سو جاتے ہوں گے لیکن جس کے پاس اتنی حسین بیوی ہو اسے بھلا سونے کی کیا ضرورت ہے خیر لوگوں کا تو مجھے نہیں پتہ لیکن میں نہیں سو سکتا
مجھے تو میری بیوی سے پیار کرنا ہوتا ہے وہ بھی بہت سارا اسی لیے میں سو کر ایسے چانس مس نہیں کر سکتا
آپ بہت خراب ہے یارم مجھے بات ہی نہیں کرنی آپ سے پرے ہٹیں سونے دے مجھے وہ اس سے تھوڑا فاصلہ قائم کرتے ہوئے کہنے لگی تو یارم ہنس دیا
ہاں بہت خراب ہوں میں لیکن مجال ہے جو تم مجھے تھوڑا سا پیار کر کے ٹھیک کر دو خیر سو جاؤ جتنا سونا ہے سو لو لیکن خبردار جو تم نے وہاں جا کر سونے کی ذرا سی بھی کوشش کی میں بتا رہا ہوں بہت بری طرح پیش آؤں گا
اگر تم نے میرے ہنیمون کو ذرا سا بھی بھگارنے کی کوشش کی اپنے اس سونے کی لت سے
کیا کہا آپ نے مجھے سونے کی لت ہے روح کو صدمہ ہوا
اور نہیں تو کیا ۔۔جب دیکھو سوتی ہی تو رہتی ہو مجال ہے جو کبھی جاگ کر میرے جذبات کا احترام کیا ہو اب وہ اسے تنگ کرنے لگا
یارم آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں میں اتنا بھی نہیں سوتی اور کب میں نے آپ کے جذبات کا احترام نہیں کیا
نہ صرف آپ کے جذبات کا احترام کیا بلکہ میں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ وفا نبھائی ہے ۔کبھی آپ کی بات کی نفی نہیں کی کبھی آپ کا کوئی حکم نہیں ٹالا
بس بس میری ایکسٹرا فرمبردار بیوی یہ سب کچھ تم میرے لئے نہیں بدلے بلکہ اللہ کے حکم کی پابندی کےلئے اور جنت کے لئے کرتی ہو
اگر یہ سب کچھ اللہ کے طرف سے حکم میں شامل نہ ہو تو تم تو مجھے منہ بھی نہ لگاؤ نہ جانے کیوں وہ فضول میں ہی اسے باتوں میں لگانے لگا تھا
جی نہیں یہ سب کچھ میں اس لیئے کرتی ہوں کیونکہ میں آپ سے پیار کرتی ہوں
چھوڑو پیار کو ۔یہ سب کچھ تم اس لئے کرتی ہو کیونکہ تمہیں جنت کی خواہش ہے اور عورت دنیا میں جنت تب ہی پا سکتی ہے جب وہ اپنے شوہر کی خدمت کرے بس اسی لئے کرتی ہو تم یہ سب کچھ یارم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جب کے شرارتی انداز اب بھی قائم تھا لیکن روح کا لب ولہجہ بدل گیا
جنت کا لالچ تو سب کو ہوتا ہے یا رم لیکن میں یہ سب کچھ آپ کے لئے کرتی ہوں ۔میں روز اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اگر میرے نصیب میں جنت لکھی ہے تو مجھے وہاں اکیلے نہ بھیجیں میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی
مجھ جیسا گناہگار بندہ جنت کے لائق نہیں ہے میں گناہوں کی دنیا میں بھٹکا ہوا ہوں روح میرے لئے خود کو مت تھکاؤ میں دنیا میں تمہارے نام لکھ دیا گیا ہوں بس اسی پر خوش ہو جاؤ ۔یارم نے آہستہ سے اپنا سر سیٹ سے لگاتے ہوئے آنکھیں موند لی
یارم آپ کو پتہ ہے ایک اچھی بیوی اپنے اچھے اعمال سے اپنے شوہر کے لیے جنت کما سکتی ہے ۔بس اس پاک ذات کو ایک ادا پسند آجائے
اگر اسے میری کوئی ادا پسند آ گئی نا تو ہم اکھٹےچلیں گے
اور اگر نہیں تو میں اپنے اللہ سے کہہ دوں گی کہ جہاں میرا شوہر ہے مجھے وہیں پر رہنا ہے وہ اس کے سینے پر سر رکھ تے ہوئے بڑے لاڈ سے بولی
اور آپ بھی زیادہ خراب نہیں ہے جنت میں جانے کے چانس آپ کے بھی ہیں بس کبھی کبھی اللہ کو خوش کرنے پر بھی غور کر لیا کریں ۔اسے نماز کی طرف لگانے کی کوشش تو وہ بہت کر چکی تھی ۔اور کبھی کبھار وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ بھی لیا کرتا تھا ۔
لیکن اب وہ ایسی باتوں سے اسے اللہ کے قریب کرنے کی کوشش کرتی تھی
وہ اپنی ہی دھن میں بول رہی تھی جبکہ یارم آگے پیچھے کی جانب دیکھ کر مسکرایا
ویسے میرا دل تو نہیں کر رہا تمہیں یاد دلانے کا لیکن میں پھر بھی تمہیں یاد لا دیتا ہوں کہ اس وقت ہم ایک پبلک پلین میں ہیں ۔جو لوگوں سے بھرا ہوا ہے ۔اور کافی لوگ ہماری طرف متوجہ بھی ہیں
مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمیں دیکھتا ہے یا ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے ہاں لیکن تمہیں شاید اچھا نہ لگے
وہ آہستہ سے اس کے کان میں بولا تو روح نے آنکھیں کھولتے ہوئے ہر بھرا کے آگے پیچھے کی جانب دیکھا
سامنے پار دوسری طرف ایک بڑی عمر کا کپل بیٹھا تھا جو انہیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا جبکہ روح شرمندہ ہوگئی
لگتا ہے نئی نئی شادی ہوئی ہے آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا
شاید وہ کوئی انڈین کپل تھا
شادی نئی ہویا پرانی فرق نہیں پڑتا بس محبت قائم ہونی چاہیے ویسے ہماری شادی کافی پرانی ہوچکی ہے یار م نے جواب دیتے ہوئے ایک پیار بھری نگاہ پاس بیٹھی روح کو پر ڈالی تھی
بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم ہماری شادی کو 30 سال ہو چکے ہیں اور ہماری 30 اینورسری پر ہمارے بچے ہمیں دوبارہ ہنیمون پر بھیچ رہے ہیں
ہاہاہا ہماری محبت بھی آج بھی قائم ہے اور مرتے دم تک رہے گی کیوں ڈارلنگ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی بیگم کی رضامندی چاہی
جس پر وہ بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلانے لگی یارم کے ساتھ ساتھ روح کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی
کیا خیال ہے بےبی تیس سال کے بعد کیوں نہ ہم بھی چلیں پھر سے ہنی مون پر یارم نے شرارت سے سرگوشی کی
ہاں تیسرے ہنی مون پر تیس سال کے بعد چلیں گے روح نے فاصلہ بڑھاتے ہوئے کہا
تیسرے ۔۔تیسرا تو میں کچھ ٹائم کے بعد کرنے والا ہوں ممکن ہے شاید وہ ہمارا پچاسواں ہنیمون ٹور ہو
یار م کتنی بار ہنیمون منائیں گے آپ روح نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا
جتنی بار تمہارے ساتھ سفر پر جاؤں گا اتنی بار پوری دنیا گھوماؤں گا تمہیں دنیا کا ایک ایک کونہ دکھاؤں گا یہ تو کچھ نہیں بےبی ابھی بہت اڑانے بھرنی ہیں ابھی ہم نے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے
آخر ہم ہم سفر ہیں ہم قدم تو چلنا پڑے گا نا۔۔
یارم کہ انداز پر روح نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر سے سیٹ پر سر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں ۔
اور نہ جانے کتنی دیر اس کا معصوم چہرہ اپنے نظروں کے حصار میں لیے اس کا دیدار کرتا رہا
وہ کوئی بہت خوبصورت لڑکی یا پریوں سا حسن رکھنے والے لڑکی نہیں تھی وہ عام سے نقوش والی ایک عام سی لڑکی تھی
لیکن یارم لاظمہ کے لئے وہ پرہوں سے سے زیادہ حسین شہزادیوں سے زیادہ نازک تھی وہ اس کی روح تھی اس کے لئے سب سے اہم ترین ہستی اس کے لئے اس کے جینے کی وجہ کتنی دیر تک وہ اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتی رہی پھر آنکھیں کھول کر اسے دیکھتے ہوئے بولی
کیا مسئلہ ہے مسٹر کیوں سونے نہیں دے رہے مجھے کیوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گھورے جا رہے ہیں
سوری مسز میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے میں اپنی ڈارلنگ کو دیکھوں یا اسے اپنی آنکھوں میں بسا لوں مجھ سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا کوئی ایسے ہی محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا تو روح نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے سر واپس سیٹ پر رکھا اور اپنا دوپٹہ اپنے چہرے پر پھیلایا جس سے اگلے ہی لمحے یارم ہٹا چکا تھا
اگر سونا ہے تو ایسے ہی سو خبردار جو میری بیوی کے چہرے کو مجھ سے چھپایا وہ حکم دیتے ہوئے بولا توروح منہ بسور کر آنکھیں بند کر گئی یارم مسکراتا ہوا ایک بار پھر سے اسکے چہرے کے نقوش میں کھو سا گیا
°°°°°
اب بس کردو شارف اور کیا کیا کرو گے دنیا کے انوکھے باپ نہیں بننے جا رہے ہو تم
پوری کالونی میں شرمندہ کر کے رکھ دیا کیا سوچ رہے ہوں گے سب کہ یہ بندہ باپ بننے کی خوشی میں پاگل ہوا جا رہا ہے
خوشی کا اظہار کرنا غلط نہیں ہے لیکن پوری بلڈنگ کو سر پر اٹھا لیا ہے تم نے ہر گھر میں مٹھائی بھجوانے کی کیا تک بنتی ہے ۔۔۔؟
ابھی تو ہمیں صرف پتا چلا ہے کہ شاید ہو سکتا ہے کہ میں پریگنیٹ ہوں کوئی کنفرم نیوز نہیں آئی ہے رپورٹس کل ملیں گی
معصومہ اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی لیکن شارف کو جیسے پکا یقین تھا کہ وہ پریگننٹ ہے
اور ڈاکٹر نے بی تو یہی کہا تھا ۔تو پھر وہ خوشی کیوں نہ مناتا
لیکن معصومہ ایک بہت پریکٹیکل لڑکی تھی وہ ہر چیز کو وقت پر کرنا پسند کرتی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائے کہ تھوڑا وقت انتظار کر لے
کل تک رپورٹس مل جائیں گی تو بعد میں خوشیاں منائے یا کچھ بھی کرے اسے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن یہی وقت سے پہلے خوشی منانا اور پھر بعد میں اداس ہو جانا اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا وہ شارف سے کھل کر اظہار تو نہیں کرتی تھی لیکن شارف کے چہرے کی اداسی اس کی جان پر بن آتی تھی
لیکن اس بندے نے کہاں اس کی بات کو سمجھنا تھا وہ تو بس اپنی ہی خوشی میں پاگل ہوا جارہا تھا ویسے معصومہ کو بھی یہی لگ رہا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے
اور اس خوشخبری کا انتظار تو وہ شادی کے بعد سے لے کر اب تک کر رہی تھی
شارف کا بھی اسے پتا تھا کہ وہ بھی اس خبر کو سن کر بہت خوش ہوگا لیکن وہ کل تک کا انتظار کرنا چاہتی تھی
اچھا تمہں درک کی کوئی خبر ہے کیا ابھی جب تم مٹھائی دینے گئے تھے تو کیا وہاں پر تھا شونو صبح سے پانچ بار اس کے دروازے تک جا چکا ہے لیکن اس کا دروازہ بند ہے معصومہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی تو شارف نے ہاں میں سر ہلایا
اتفاق سے وہ بھی سوئٹزرلینڈ گیا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے واچ مین نے مجھے بتایا کہ بلڈنگ کے رولز پیپر پر اس نے اپنی لوکیشن بتائی ہے ۔
اور ہوٹل وغیرہ کا نمبر بھی دے کر گیا ہے کہ اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو اسے بتا دیا جائے ۔لگتا ہے اس بار شونو کو تمہیں اکیلے ہی سنبھالنا ہوگا کیونکہ وہ کھڑوس تو جاچکا ہے اور پتہ نہیں کب لوٹے گا
شارف اسے بتا کر اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا
جبکہ معصومہ کو اس کا سوئٹرزلینڈ جانا کچھ عجیب لگا تھا ابھی کل ہی تو اس نے بتایا تھا کہ یارم اورروح سوئٹرز لینڈ جا رہے ہیں تو وہ کیا ۔۔۔اس کے دماغ میں عجیب سے بات آئی تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ خیال جھٹک گئی
کیا ہوگیا ہے مجھے درک کو تو میں چھ مہینے سے جانتی ہوں ۔اور سوئٹزر لینڈ میرے بابا کا تھوڑی ہے جہاں یارم اقر روح کے علاوہ اور کوئی نہیں جا سکتا وہ اپنے سر پر چپت لگاتی کچن میں جا چکی تھی ۔جبکہ شارف اب ڈاکٹر کو فون کر رہا تھا یہ حقیقت تھی کہ صبر نام کی کوئی چیز شارف کے اندر نہیں پائی جاتی تھی اور وہ بھی تب جب آنے والی کوئی خوشخبری ہو
°°°°°
وہ دونو سوئٹزر لینڈ کے ایئرپورٹ تک پہنچ چکے تھے اور اب انہیں یہاں سے لیکجیلوا جانا تھا ۔جو سوئٹزرلینڈ کا سب سے خوبصورت شہر تھا خضر پہلے ہی ان لوگوں کی وہاں ہوٹل بکنگ کروا چکا تھا
یہ جگہ بے بہت حسین تھی ہر طرف سے پہاڑ ہی پہاڑ اونچے اونچے پہاڑ اور پہاڑوں کے بیچ سے نکلتے ہوئے راستے روح کے لیے یہ نظارہ انتہائی خوبصورت تھا۔
کہیں پہار برف سے تو کہیں سبزے سے ڈھکےہوئے تھے ۔پہاڑوں کے پیچھے اور پہاڑیاں جہاں جہاں تک نظر جاتی ہے وہاں صرف پہاڑ ہی نظر آ رہے تھے ۔
کہیں کہیں سڑک پر کوئی گاڑی نظر آجاتی ورنہ لوگ پیدل چل رہے تھے اگر نہیں تو سائیکلوں پر موسم کے لحاظ سے بھی کافی سردی تھی کم ازکم دبئی جیسے گرم ملک سے نکل کر یہاں تک آنا روح کے لئے بہت اچھا ثابت ہوا تھا ۔
یارم یہاں پر گاڑیاں کم اور لوگ سائیکل زیادہ چلا رہے ہیں روح سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگی
ہاں بےبی میں بتایا تھا نا پلوشن ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں نہیں تو سائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ گندگی نہ پھیلے اور ان کا ماحول صاف ستھرا رہے اور اس سے صحت بھی بہت اچھی رہتی ہے یارم نے تفصیل سے بتایا
جس ہوٹل میں وہ رہائش پذیر تھے وہ جگہ پر پوری طرح سے پہاڑوں کے پیچو بیچ تھی اور ہر طرف سے خوبصورتی دیکھ کرروح بہت خوش تھی
اس نے کبھی اتنی حسین جگہ نہیں دیکھی تھی ائسزلینڈ بھی خوبصورت تھا لیکن وہاں ہر طرف صرف برف ہی برف تھی
پر یہاں تو جیسے وہ سچ مچ میں جنت میں آ گئی تھی اتنی خوبصورت جگہ دیکھ کر روح کے سفر کی تھکاوٹ بھی آڑن چھوہو چکی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس جگہ کے چھپے چھپے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے
اور یار م اس کے دل کی ہر بات کو سمجھتا تھا تبھی تو وہ کل ہی اس لے کر گھومنے نکلنے والا تھا لیکن اس سے پہلے آرام ضروری تھا
صاف ستھراماحول اور بڑا سا کمرا کمرے میں موجود بڑی سی کھڑکی جس میں دور دور کے سارے پہاڑ نظر آ رہے تھے
اس کمرے کو اس طرح سے سجایا کیا گیا تھا کہ جیسے وہ کوئی نئے نویلے شادی شدا کپل کا کمرہ ہو
کمرے میں قدم رکھتے ہی روح کو ہنسی آگئی
ہوٹل کی سٹاف ورکر اسے یہاں تک چھوڑ کر خود واپس جا چکی تھی اور یارم ہوٹل چیکنگ کے لیے گیا ہوا تھا
پتا نہیں اس نے کتنی دیر میں واپس آنا تھا جبکہ روح تو منہ ہاتھ دھو کر فریش ہو چکی تھی
اور اب کھڑکی کھول کے سامنے اس خوبصورت دل موہ لینے والے نظارے کو آنکھ بھر کر دیکھ رہی تھی
اونچے اونچے حیسن و خوبصورت پہاڑ کچھ سبز تھے تو کچھ کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔آسمان کے بادل بھی پہارپڑوں سے نیچے لگ رہے تھے اتنے اونچے پہاڑ اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھیں تھے
وہ ایک خوبصورت سی مسکان کے ساتھ اس نظارے کو دیکھ رہی تھی
جب دور ہی سے اسے ایک انتہائی حسین لڑکی اس ہوئل کی طرف آتی نظر آئی
وہ جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی آزاد خیال تھی
شکل سے کوئی گوری میم تو ہرگز نہیں لگتی تھی لیکن اس کے برہنہ کندھے اور ٹانگیں دیکھ کر روح کو اس پر اتنا غصہ آیا کہ وہ کھڑکی بند کر کے بیڈ کے پاس چلی گئی
یا اللہ کیاانہیں ذرا شرم نہیں آتی کیسے یوں ننگی گھوم لیتی ہیں افف
کیسے اپنے شوہر کی امانت کو دنیا جہان میں نظارہ بنا کر پیش کرتی ہیں یہ مغربی عورتیں توبہ توبہ وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ہی آئینے کی جانب دیکھنے لگی
اس کا نازک سراپا سامنے آئینے میں بے حد حسین لگ رہا تھا
یارم کی محبت اسےدن بعد دن بے حد حسین بناتی جا رہی تھی
اگر عورت کی محبت کسی ایک خاص انسان تک محدود ہو جائے اس کو اپنا وجود حسین ترین لگنے لگتا ہے
اسے فاطمہ بی کی کہی ہوئی بات یاد آئی
سچ ہی تو کہتی تھیں وہ اپنے آپ کو ایک شخص کے نام کر کے وہ کتنی مطمئن تھی ۔صرف ایک شخص کی ہو کر کتنے سکون میں تھی وہ
اور یہ مغربی عورتیں کیسے اپنے آپ کو جگہ جگہ رولتی ہیں
ایک سچی محبت کی تلاش میں نہ جانے کتنی محبتیں کر بیٹھتیں ہیں
اور ہمارا مذہب ہمیں کسی غیر محرم سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیوں کہ سچی محبتیں جگہ جگہ نہیں کی جاتی سچی محبت ایک ہی بار ہوتی ہے جو نکاح سے جڑتی ہے
اور نکاح وہ واحد رشتہ ہے جو محبتوں سے بنتا ہے نکاح کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے صرف دو لفظوں سے جڑا تعلق محبت کرنے پر مجبور کر ہی دیتا ہے
اور ہمارے مذہب میں اسی تعلق کو محبتوں سے جوڑا گیا ہے
اور یہ غیر مذہب لوگ کبھی محرم کی محبت کو نہیں سمجھ سکتے
ان کیلئے نکاح یا شادی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
کیسے بے وقوف لوگ ہیں یہ اپنا آپ برباد کرنے کو آزاد خیالی کہتے ہیں ۔اور ایک ہی شخص کے ساتھ ساری زندگی وفاداری سے نکاح کرنے کو بیوقوفی
پھر وہ ان لوگوں کی سوچ پر ہنستی بیڈ پر لیٹ گئی
یہ بےوقوف لوگ بلا محبت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں
تھوڑی ہی دیر میں یارم کو آجانا تھا اور وہ اسے تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اسی لیے بستر میں گھس کر سونے کا ڈرامہ کرنے لگی ۔
کیونکہ جو بھی تھا یارم کو ستانے کا اپنا ہی مزہ تھا
°°°°
ہوٹل چیکنگ کرنے کے بعد جب وہ واپس روم کی جانب آنے لگا تو اس سے پکا یقین تھا کہ روح اسے تنگ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پلاننگ ضرور کر چکی ہوگی
اس سے پہلے کہ وہ سو تی وہ کمرے میں پہنچ جانا چاہتا تھا
کیونکہ فی الحال اس کا انتقام لینے کا ارادہ تھا اتنے دنوں سے وہ جو اسے دن رات ستا رہی تھی وہ مکمل انتقام کے ساتھ خود کو انصاف دلا رہا تھا
جتنا اس نے اسے ستایا تھا اسی حساب سے وہ بھی اسے تنگ کر رہا تھا
لیکن اس کی بھولی بھالی سی معصوم سی روح آج کل اسے بہت تنگ کر رہی تھی شیطانیوں میں شیطانوں کی لیڈر بنے وہ اسے تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی
اسے ہوٹل ورکر کے ساتھ اندر بھیجنے سے پہلےیارم نے سختی سے کہا تھا سونا مت اور جانے سے پہلے اس نے یارم کے کان میں سرگوشی کی تھی
جب تک آپ واپس آئیں گے روح کو خوابوں کی دنیا میں پائیں گے
رات کو میرے خوابوں میں آ جائیے گا مل کے لڈو کھیلیں گے لیکن خبردار جو مجھے جگایا
جس پر یارم نے اسے سختی سے گھورا تھا اور وہ کھلکھلاتی ہوئی اندر چلی گئی
اور اب یارم جلدی روم میں جانا چاہتا تھا تاکہ اس کے پہنچنے تک وہ سوئے نہ
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب اچانک سامنے سے کوئی آتا اس سے زور سے ٹکرایا
غلطی سامنے والے کی تھی لیکن اس وقت وہ روح کے علاوہ کسی کے بھی منہ نہیں لگنا چاہتا تھا
سوری وہ ایک لفظی جواب دیتا آگے بڑھنے لگا جب نظر اس کی آنکھوں کی طرف پڑی
اس قدر جانی پہچانی آنکھیں وہ کھٹک سا گیا
جب کہ وہ صرف ہاتھ سے جواب دیتا آگے کی جانب بھر گیا تھا لیکن یارم کے قدم وہی رک گئے
اس کی آنکھیں روح سے کتنی زیادہ ملتی ہے
یارم نے سوچتے ہوئے اپنا فون نکالا
اور خضر کے موبائل پر ایک میسج کیا
جس کا جواب تھوڑی ہی دیر میں آ گیا تھا
یارم موبائل دوبارہ اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
اب اس کے قدموں میں کسی قسم کی کوئی تیزی نہیں تھی اس کے دماغ میں بہت ساری سوچیں چل رہی تھی
لیکن وہ اپنی کسی بھی سوچ کو کسی قسم کا کوئی نام نہیں دینا چاہتا تھا وہ ان آنکھوں کو اپنے ذہن سے جھٹکتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
°°°°°°
کمرے میں قدم رکھنے سے پہلے اس نے اپنے آپ کو پرسکون کیا تھا وہ اپنی کسی بھی سوچ کا اثر روح تک نہیں جانے دینا چاہتا تھا
کمرے کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو سامنے ہی وہ بیڈ پر کمبل میں گھسی سونے کی باکمال ایکٹنگ کررہی تھی
یارم اپنا جیکٹ اتار کر صوفے پر پھنکتا اپنی گھڑی اور موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر شرٹ اتارنے لگا۔
اور اب وہ مسکراتے ہوئے روح کے ساتھ کمبل میں گھس کر اس پر اپنا شکنجا مضبوط کر چکا تھا
جو اس کے آنے کا اندازہ لگا کر مزید آنکھیں میچے سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی یو ں اسے آپنے بے حد نزدیک محسوس کرکے دونوں آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی
جب کہ وہ اس کی گھوری کو کسی بھی قسم کی اہمیت دیے بغیر اسے پوری طرح سے قید کر چکا تھا
روح کے مسلسل گھورنے پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ تو اس کی گھورتی ہوئی آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے اس کی گردن پر جھکا تھا
یارم مجھے بہت سخت نیند آئی ہے سونے دیں مجھے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ کی ایسی کی تیسی آرام سے پڑی رہو ورنہ میری ورنہ تمہاری ورنہ سے زیادہ خطرناک ہوگئی وہ اس کی دھمکی کی پرواہ کیے بغیر بولا
یارم میں آپ سے ناراض ہو جاوں گی بہت سخت والی اس کی شدت سے بھرپور لمس اپنے گال کے بعد گردن پر محسوس کرتے ہوئے وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی
ہو جاؤ ناراض مجھے منانا آتا ہے اور ناک سے مکھی اور آتے ہوئے اس کے لبوں پر ایک ننھی سی گستاخی کرتا ایک بار پھر سے اس کے دونوں گولوں کو شدت سے چوم کر اس کا دوپٹہ اتار کر پھینک چکا تھا
شرم سے دوہری ہوتی روح نے ہلکی سی مزاحمت کرتے ہوئے اس کی پیٹھ پر چٹکی کاٹی
یارم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا
یہ کیا بدتمیزی تھی وہ سختی سے کر کہنے لگا
یہ بدتمیزی نہیں آپ کو بدتمیزی سے روکنے کی ایک ننی سی کوشش کی تھی روح نے فورا کہا
بھاڑ میں گئی تمہاری کوشش اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر تکیے سے لگاتا سختی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
اور اس بار وہ اس کے لبوں پر جھکا اپنے شدت سے بھرپور لمس کے ساتھ اس کی سانسیں تنگ کر گیا
اس کے نازک لبوں کو چومتے وہ اسے مشکل میں ڈال گیا
وہ اپنی مزاخمت پر پچھتائی تھی
اگر تم نہیں چاہتی کہ میں تم سے سانس لینے کی اجازت بھی چھین لوں تو آرام سے پڑی رہو بنا کسی کوشش کے ورنہ تمہاری ہر کوشش کا میں وہ حال کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گی
اس کے لبوں کو آزادی بخشتے ہوئے وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولا
اور اس کی دھمکی کافی کارآمد ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کے بعد روح پوری طرح مذاحمت چھوڑ چکی تھی
جب کہ یارم اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی تشنگی کو مٹا رہا تھا
°°°°
بہت بہت مبارک ہو شارف روپورٹس پوزیٹو ہیں معصومہ ماں بننے والی ہے ۔اور تم پاپا ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اسے خوشخبری سنائی تھی کل سے ہی وہ اس کی بے چینی پر بے حد پریشان تھی
کیونکہ کل سے ہی اس نے اسے فون کرکے اتنا تنگ کر رکھا تھا کہ حد نہیں
اور اب اس خوشخبری کے بعد جہاں معصومہ نے مسکرا کر شارف کو دیکھا تھا وہی شارف ڈاکٹر کی پرواہ کئے بغیر اسے کھینچ کر سینے سے لگا چکا تھا
معصومہ اسے گھور کر رہ گئی جبکہ ڈاکٹر مسکرا دی
چلو گھر چلتے ہیں اب سے میں خود تمہارا خیال رکھوں گا تمہارے کھانے پینے کا چلنے پھرنے کا ہر چیز کا خیال میں خود رکھوں گا تمہیں تو ویسے بھی کسی چیز کا ہوش نہیں ہوتا یہ نہ ہو کہ تمہاری بے دھیانی سے میری ہونے والی بیٹی دنیا میں آنے سے پہلے ہی مجھ سے ناراض ہو جائے
میں تو ابھی سے اس کا خیال رکھوں گا شارف کمرے سے نکلتے ہوئے میں کہنے لگا تو معصومہ کو جیسے جھٹکا لگا
کیا مطلب ہے ہونے والی بیٹی وہ بیٹا بھی ہو سکتا ہے
اور ان شاء اللہ تعالی بیٹا ہی ہوگا مجھے پہلے بیٹا چاہیے تمھاری بیٹی کے لیے ہم تین چار سال بعد بھی سوچ سکتے ہیں
معصومہ آئستہ آئستہ چلتی اس کے ساتھ کہہ رہی تھی جس پر پہلے تو شارف نے منہ بنایا پھر مسکرا دیا
ہاں بابا چلو بیٹا ہی سہی ہے جو بھی ہو بس جلدی سے آ جائے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے شارف نے مسکرا کر کہا
جلدی کیسے آئے گا شار ف ا بھی تو پورے ساڈھےآٹھ مہینے رہ گئے ہیں معصومہ اس کے ساتھ چلتی مایوسی سے بولی
کوئی بات نہیں ہم ساڈھے آٹھ مہینے اس کا انتظار کریں گے اور تمہیں بھی اپنی کیر کرنی ہوگی تاکہ ہم اسے بتا پائیں کہ ہم اس کے آنے سے پہلے ہی ان کا کتنا خیال رکھتے رہے ہیں
افکورس میں اپنا خیال رکھوں گی صرف تمہیں ہی پیار نہیں ہے اپنے ہونے والے بچے سے معصومہ نے فوراً جواب دیا
ویری گڈ وہ اس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتا جیب سے فون نکال کر تیزی سے میسج ٹائپ کرنے لگا
اب تم کیا کرنے لگ گئے ہو اسے فون پر مصروف دیکھ کر معصومہ نے پوچھا
ارے کچھ نہیں بس خضر اور لیلی کو رات اپنے گھر پر ڈنر کے لیے انوائٹ کر رہا ہوں اب اپنی خوشی اپنوں کے ساتھ ہی مناؤں گانا یارم کو بھی فون کرتا ہوں
خضرکو میسج کرنے کے بعد وہ یارم کو فون کرنے لگا جبکہ معصومہ مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھ چکی تھی
یہ ان کی زندگی میں آنے والی پہلی خوشی تھی جسے لے کر وہ دونوں بے حد خوش تھے
دنیا میں اولاد کا احساس ہی دنیا کا سب سے خوبصورت احساس ہوتا ہے
°°°°°
یارم اٹھ جائیں نا کتنا سوئیں گے وہ اس کا کندھا ہلتی بے زاری سے بولی
سونے دو روح یار تھک گیا ہوں میں وہ آنکھ دباتا شرارت سے بولا توروح نے شرمندہ ہوتے پہلا سر جھکایا اور پھر اس کے کندھے پر چیٹ لگائی
بہت بد تمیز ہیں آپ مجھ بات ہی نہیں کرنی آپ سے
وہ اس کے قریب سے اٹھ کر جانے لگی تو یارم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے خود پر گراتے ہوئے اسے اپنے بازوؤں میں قید کر لیا
اب کون سی بدتمیزی کر دی میں نے زیادہ پیار بھی نہیں کرنے دیا تم نے اور اب بھی نہیں کرنے دے رہی وہ اس کی تھوڑی کو پکڑتے ہوئے اس کے لبوں پر میٹھی سی جسارت کرنے ہی والا تھا کہ روح نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا
بس بہت ہوا یارم ۔۔۔۔۔
اٹھیں اور چلیں مجھے باہر لے کر یہاں پر قید ہونے کے لیے نہیں آئی ہوں میں
مجھے آئس لینڈ کی بہن کو ہر طرف سے دیکھنا ہے پلیز چلیں نا
وہ منت کرتے انداز میں بولی
روح میرا بچہ رات کے دس بج رہے ہیں اور یہاں کے کچھ اصول ہیں ہم رات کو باہر نہیں جا سکتے
اور اگر جائیں گے بھی تو کہاں یہ علاقہ شہر سے تھوڑے فاصلے پر ہے اور دور دور تک سوائے جنگل کے اور کچھ نہیں ہیں سوائے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی پہاڑی ہے
لیکن وہاں پر بھی ایک کلب ہے جہاں کا ماحول تمہیں ہرگز پسند نہیں آئے گا
غیر مذہبی ماحول ہے تمہیں پسند آنے کے کوئی چانسز ہی نہیں ہیں وہاں پر شراب سگریٹ جوا سب کچھ چلتا ہے
میرا نہیں خیال کہ تم وہاں جانا پسند کرو گی
یارم نے تفصیل سے بتایا تو روح نے منہ بنالیا
یہاں قریب قریب سے ہی گھوم کر واپس آجائیں گے پلیز چلے نہ روح معصوم سی شکل بنا کر بولی تو یار م کومنانا ہی پڑا
ٹھیک ہے چلو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک بات کان کھول کر سن لو یہاں جوتوں کی آواز پیدا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے یہ نہ ہو کہ ابھی ہوٹل سے نکلے اور صبح جیل سے ملے
یارم میں کبھی جیل نہیں گئی۔لگے ہاتھ وہ بھی دیکھ لیں گے وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتی ہوئی بولی
یارم کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ کھلی تھی
جب کہ روح جلدی سے اس کے ڈمپل پر بوسہ دیتی پھرتی سے اس کے قریب سے اٹھناہی چاہتی تھی کہ یارم نے اسے پکڑ لیا
اور پھر جارحانہ انداز میں اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے شدت سے بھرپور بوسہ لیا
ایسے کیا جاتا ہے پیار وہ شرارت سے آنکھ دباتا بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ بولا
مجھے نہیں سیکھنا آپ کا جارحانہ پیار وہ منہ بناتی باہر کی طرف قدم بڑھانے لگی
لیکن مجھے سیکھانا ہے یارم اس کے پیچھے جاتا شرارت سے بولا
ارے کہا نہ نہیں سیکھنا وہ اسے گھور کر بولی
پر میں نے بھی تو کہا کہ مجھے سکھانا ہے اپنی نکمی بیوی کو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا اپنا کمرہ لاک کرتے ہوئے بولا
تو روح تیز قدم اٹھاتی سیڑھیوں کی جانب جا چکی تھی ۔
اف کتنی جلدی ہے اس لڑکی کو باہر جانے کی وہ نفی میں سر ہلا سیڑھیاں اترنے لگا جب روح کو آخری سیڑھی پر کچھ حیران ساتھ کھڑے دیکھا
کیا ہوگیا جانےمن یہاں کیوں رک گئی
یارم میں نے ابھی اس کڈنپر کو یہاں دیکھا جو دبئی میں شونو کو اغوا کرنے والا تھا اس نے جلدی سے بتایا
روح میں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی کڈنپر ہو ضروری تو نہیں کہ وہ شونو کو اغوا ہی کرنے والا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی اور ہو خیر چھوڑ چلو باہر چلتے ہیں
چلو ریسیپشن سے گاڑی کی چابی بھی لینی ہے
وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہے اسے اپنے ساتھ لے گیا روح نے پھر ایک نظر دوبارہ پیچھے دیکھا تھا
لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ وہ کہیں بھی اور دیکھیں اس کا دھیان تو صرف اپنے یارم پر ہونا چاہیے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے مزید قریب کرتے ہوئے یارم نے اسے اس بات کا احساس بھی دلایا تھا
جب کہ روح اسے گھورتے ہوئے بے ساختہ مسکرائی اور اس کے ساتھ چل دی
یارم کیا یوں ہی چلے گے اتنے آہستہ آہستہ وہ بہت سلو گاڑی چلا رہا تھا تاکہ کسی قسم کی کوئی آواز پیدا نہ ہو اور ان کے ہاتھوں کسی قسم کا کوئی قانون نہ ٹوٹے ۔
لیکن روح تو اس کی سلو سپیڈ پر حیران تھی
ہاں ہم ایسے ہی جائیں گے کیونکہ یہاں کے قانون بہت سخت ہیں یارم نے دہرایا
تو روح نے منہ بنا لیا
یارم یہ سفر میری زندگی کا سب سے بورنگ سفر بنا رہے ہیں آپ
اس طرح سے چپ چاپ بالکل خاموش اور اتنے آہستہ اسے کم ازکم یارم سے اس سے یہ امید نہیں تھی
تمہیں پتا ہے جانے من جب دو محبت کرنے والے سفر پر نکلتے ہیں نا وہ رستے یا گاڑی کی سپیڈ کو نہیں دیکھتے
بلکہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں
ایک دوسرے میں کھو جاتے ہیں
وہ ایک دوسرے کے علاوہ کسی اور سے بات کرنا پسند ہی نہیں کرتے
کسی اور کے بارے میں سوچنا پسند نہیں کرتے
تم کیا بے کار میں کبھی رستوں پر تو کبھی گاڑی کی سپیڈ پر گھور کر رہی ہو وہ اس کا ہاتھ تھام کر چومتے ہوئے بولا
تمہیں تو چاہیے کہ تم اپنا سارا دھیان مجھ پر لگاؤ
صرف مجھے دیکھو مجھے سوچو تم آگے پیچھے کی چیزوں پے دھیان نہیں دو
اگر تم ان سب میں بزی ہو جاو گی تو کیا فائدہ ہے اس لونگ ڈرائیو کا جب میرا پارٹنرہی میرے ساتھ خوش نہیں ہے
یارم نے اسے دیکھتے ہوئے اس انداز میں کہا کہ روح شرمندہ ہوگئی
نہیں یارم میں بہت خوش ہوں آپ کے ساتھ آ کر میں تو یہ کہہ رہی تھی کیا آپ نے کبھی اتنی آہستہ گاڑی ڈرائیور نہیں کی
اور نہ ہی ہم نے کبھی ایسا سفر کیا ہے جس میں اتنی کم باتیں کی ہوں
ہاں ڈارلنگ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن ہم آہستہ اور کم باتیں اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ تم نے دونوں شیشہ کھول دیے ہیں اس سے ممکن ہے کہ آواز باہر جائے اور کوئی اصول ٹوٹے تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا
یارم آپ ڈان ہیں دا ڈیول آپ کے سامنے یہ سب کیا اہمیت رکھتا ہے وہ اسے دیکھتے ہوپے یاد دلانے لگی یارم مسکرایا
میں خود اصولوں پر چلنے والا بندہ ہوں روح مجھے رول توڑنے والوں لوگوں سے الجھن ہوتی ہے لوگ ہمارے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں
تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے بنائے ہوئے اصولوں کو مدنظر رکھیں
ان کے اصولوں کا احترام کرے یار م نے مسکرا کر اسے اپنی بات کا مطلب سمجھایا تھا
روح اس کی بات سن کرمسکرا دی
آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں یارم جس طرح سے ہم خود اصول بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب اس کی پیروی کریں
ہمیں دوسروں کے اصولوں کی بھی اسی طرح سے پیروی کرنی چاہیے ۔
اگر ہمیں یہ مان ہے کہ لوگ ہمارے اصولوں پر چلیں گے تو پہلے ہمیں بھی کسی کے اصولوں پر چلنا پڑے گا
لیکن پھر بھی گاڑی کی سپیڈ بہت کم ہے اس کی بات کی تاکید کرتے ہوئے وہ پھر سے بولی تویارم بے ساختہ مسکرا دیا ۔
ہاں جانو یہ بات تو تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوپانچ کلو میٹر کا سفر مجھے بھی بہت لمبا لگ رہا ہے
ان کا ارادہ پہاڑی کی طرف جانے کا تھا اور پھر وہی تھوڑی دیر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار کر واپس آ جانے کا
لیکن یہ سفر ان کے لئے بہت لمبا ثابت ہو رہا تھا
جگہ جگہ بوٹ لگے تھے کہ گاڑی کی سپیڈ کم رکھی جائے اور آواز پیدا کرنے سے گریز کیا جائے
اور رات کے وقت ان راستوں پر نکلے ہی نہیں جنگل خطرناک ہے
اور ایسے میں ان اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے آگے کی طرف سفر کرنا بھی اپنے آپ میں ایک بہت مشکل کام تھا
روح باہر کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں سوائے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا جب اچانک یارم نے گاڑی کی سپیڈ تیز کردی
کیا ہوا یارم آپ نے گاڑی کی سپیڈ اچانک اتنی تیز کیوں کر دی
اس سے آواز پیدا ہو سکتی ہے روح نے فورا کہا تھا
یہاں جنگلی جانور ہیں ہمہیں جلدی یہاں سے نکل جانا چاہے روح یہ ہم پر حملہ کر سکتے ہیں
اگر تم گاڑی کا شیشہ بند کر سکتی تو ہمارے لئے آسانی ہوتی لیکن اس سے تمہاری طبیعت خراب ہو جاتی ہے
اسی لیے میں نے گاڑی کی سپیڈ تیز کی ہے
یارم وہ کیا تھا ۔۔۔؟
جو ابھی یہاں سے نکلا اس کی بات کو کاٹتے ہوئے روح نے اپنی گاڑی کے سامنے سے کسی تیز چیز کو نکلتے دیکھا
جو سفید رنگ کی تھی
۔وہ سفید چیتا تھا یہ دنیا میں بہت کم ہیں لیکن سوئزرلینڈ کے جنگلوں میں یہ بہت ہیں یا یوں کہہ لوکہ سوئرزرلینڈ کے جنگل ہی ان کا اصل گھر ہیں
ایک وقت تھا کہ جب یہ دنیا سے ختم ہوگئے تھے پھر نہ جانے کتنے سالوں کے بعد انہیں سوئٹزرلینڈ کی پہاڑیوں پر پایا گیا
پھر یہ لوگ ان کی اس نسل کی خفاظت کرتے ہیں یہ بہت نایاب ہوتے ہیں
ان میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی وار سے اپنے شکار کو ختم کر دیتے ہیں
یارم نے تفصیل بتاتے ہوئے اسے ڈرا دیا تھا
لیکن اس کی کوئی بات جھوٹ نہیں تھی اور روح کو ڈرانے کا بھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا
وہ تو بس روح اس سے جو بھی سوال پوچھتی وہ اس کا صحیح جواب دے دیتا تھا لیکن اس بار اسے سچ بتا کر تھوڑا پچھتا رہا تھا
کیونکہ روح بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکی تھی جب اچانک اس نے ایک سفید چیتا سامنے سڑک پر بھاگتے ہوئے اس طرف آتا دیکھا
گھبراؤ مت روح کچھ نہیں ہوگا
وہ اس طرح سے حملہ نہیں کرتے یارم نے اسے سمجھانا چاہا
لیکن اس چیتے کو اس طرف بڑھتا دیکھ کر روح نے فورا یارم کے سینے میں اپنا منہ چھپایا تھا بروقت یار اگر گاڑی کر نہ سنبھالتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا
یارم واپس چلیں مجھے آگے کہیں نہیں جانا وہ گھبرا کر بولی تو اس سنگین سچویشن میں اس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ کھلی تھی ۔
روح اگر تم اس طرح سے میرے ساتھ لگی رہو گی تو گاڑی چلانے کی بجائے میری نیت بری طرح سے خراب ہوگئی جو کہ ہو رہی ہے اور پھر ہم دونوں ان سفید چیتوں کا ڈنر بن جائیں گے
یارم نے شرارت سے اس کے کان میں سرگوشی کی جبکہ اس طرح سے گاڑی سنبھالنا ایک مشکل ترین کام تھا
اور اس کی پوری بات سننے کے بعد روح اس کے سینے سے ذرا سا منہ نکال کر ایک بار پھر سے سامنے سرک کو دیکھتے ہوئے سیدھی ہوئی
اور گاڑی کا شیشہ آدھے سے زیادہ بند کر لیا
ایم سوری یارم مجھے ضد نہیں کرنی چاہیے تھی ہمیں اس وقت باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا
سوری یارم میری وجہ سے ہم یہاں اتنی خطرناک جانوروں کے بیج آگئے آپ گاڑی واپس مڑے ہم واپس ہوٹل چلتے ہیں
رات تو رات یہاں تو دن کو بھی کوئی نہ آئے ہم واپس چلتے ہیں وہ کافی خوفزدہ اس سے کہہ رہی تھی۔
میرا بچہ اتنی سی بات پے ڈر گیا ہم واپس تو چلیں گے روح لیکن یہاں سے گاڑی موڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ہمہیں تھوڑا اور جانا ہوگا
وہ نرم سے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ہوئے بولا ۔توروح خوف سے اس کا بازو تھام کر کبھی سڑک کی جانب دیکھتی تو کبھی اس کی جانب
وہ اندر ہی اندر بہت پچھتا رہی تھی
اس لیے یارم کے ساتھ اس طرح کی حطرناک جگہ کیوں آئی
یہ کوئی اس کا ملک تھوڑی تھا جہاں جب دل چاہے وہ منہ اٹھا کر چل دی اس جگہ کے کچھ اصول تھے اور یہ جگہ بہت خطرناک بھی تھی
اس نے اپنی وجہ سے یارم کو بھی بہت بڑی مصیبت میں ڈال دیا تھا جس کا اسے بہت افسوس تھا
یہاں کچھ بھی ہوسکتا تھا
یارم اس کی ہر ضد پوری کرتاتھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اس کی نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی
۔لیکن اب تو غلطی ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی یارم نے ایک بار بھی یہ بات جتائی نہیں تھی بلکہ وہ تو بہت محبت سے اسے ٹریٹ کر رہا تھا
یار م پلیز بھی آپ بھی اپنی طرف شیشہ بند کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے وہ شیشے کو کھلا دیکھ کر بولی
ہاں میرا بچہ میں ابھی بند کر دیتا ہوں تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں میں ہونا تمہارے ساتھ
یارم نے بہت نرمی سے
جب اچانک کوئی چیز بھاگتی پوئی ان کی گاڑی کی سائیڈ سے ٹکرائیمروج کانتی تھی کہ وہ سفید چیتا ہی ہے اس کہ بے ساختہ چیخ بلند ہوئی اور اس لے ساتھ وہمیارم سے چیپک گئی
لیکن یارم نے گاڑی روکی نہیں اب بھی گاڑی آگے کی طرف ہی بھر رہی تھی اور اب تھوڑا سا مزید آگے جانے کے بعداب گاڑی موڑنے کی جگہ ملتے ہی اس نے گاڑی موڑ لی تھی
جان اب کوئی جانور نہیں ہے یارم نے سرگوشی کی
پتا نہیں دنیا کے سارے خطرناک جانور ہمارے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں
پہلے آئزلینڈ میں وہ انسان نما پتا نہیں کیا چیز تھی
اور اب یہ سفید چیتا
ہم آئندہ کہیں نہیں جائیں گے اپنے گھر پر ہی رہا کریں گے دبئی میں ۔مجھے جانا ہی نہیں ہے کہیں پھر بھی اس سے تو بہتر دبئی ہے
جہاں ہم پرسکون ہو کر تو رہ سکتے ہیں
وہاں کے جنگلوں میں کوئی جنگلی جانور نہیں ہوتا
اس سے تو بہتر وہی جگہ ہے روح نے اس کی طرف کا شیشہ بھی بند دیکھ کر اب مطمئن انداز میں کہا ۔
ہاہاہا روح میری جان وہاں پر بھی بہت سے جنگلی جانور ہیں
تم نے دبئی دیکھا ہی کہاں ہے جب دیکھوگی تب پتہ چلے گا خیرتمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں میں ہوں نہ تمہارے ساتھ جب تب میں ہوں تمہیں انچ بھی نہیں آئے گی
روح تم یارم کاظمی کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہو اپنی آخری سانس تک خفاظت کروں تمہاری
میرے ہوتے ہوئے تمہیں ڈر نے یا گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے تمہیں کچھ نہیں ہوگا وہ نرمی سے سمجھاتے ہوئے مسکرا کر بولا
آئی ایم سوری یارم میں نہیں جانتی تھی کہ یہاں کچھ ایسا ہوگاےمجھ سے غلطی ہوگئی تو پلیز مجھے معاف کر دیجیے
میں آئندہ کبھی ایسی ضد نہیں کروں گی وہ معصومیت سے بولی
مجھے پتا ہے میری جان تمہیں پتا نہیں تھا ورنہ میری روح جائز ضد نہیں کرتی لیکن تمہیں بار بار سوری بولنے کی ضرورت نہیں ہے
میں جانتا ہوں کہ تم اس جگہ سے پوری طرح ناواقف ہو اور اب تو ہم واپس جا رہے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے
وہ گاڑی دوبارہ سے ہوٹل کے راستے پر ڈالتا ہوا بولا
راستہ پہاڑی کے چاروں طرف گھوم رہا تھا
جس سے نیچے موجود ہوٹل صاف نظر آ رہا تھا جس میں بے شمار روشنیاں جل رہی تھی لیکن اب بھی وہ کافی فاصلے پر تھا
اس کے تو وہم و گمان بھی ہمیں بھی نہیں تھا کہ ہوٹل کے ایریا کے قریب ہیں اتنے جنگلی جانور موجود ہوں گے
°°°°°
ہوٹل میں واپس آنے کے بعد اس نے قسم کھالی تھی رات تو رات وہ دن میں بھی کبھی باہر نہیں نکلے گی
جب تک وہ واپس نہیں چلے جاتے یارم اس قدر پریشان ہو رہا تھا وہ تو اسے یہاں خوش رکھنے آیا تھا
اور یہاں وہ اتنی خوفزدہ ہو چکی تھی
وہ بھی سفید چیتوں سے جو کہ چیتے کی سب سے معصوم نسل ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے خطرناک نسل بھی تھی
لیکن سویزرلینڈ کے لوگوں کے لیے یہ اتنا خطرناک نہیں تھا
یہ ایک ایسا جانور تھا جس کے ساتھ چھیڑ خانی کے بعد وہ حملہ کرتاھا ورنہ کسی کو نقصان نہیں پہنچتا تھا
اپنے آپ سے ہی مطلب رکھتا تھا
ہوٹل کے اتنا قریب ہونے کے باوجود بھی جنگلی جانوروں نے کبھی ہوٹل کے لوگوں پر حملہ نہیں کیا تھا
سوئیزرلینڈ کی حکومت انہیں پسند کرتی تھی یہاں تک کہ جنگل میں بہت سارے حفاظتی انتظامات بھی کیے گئے تھے
تاکہ جنگل میں رہنے والے جانوروں کو کوئی مسئلہ نہ ہو
یہاں پر جانوروں کو رکھنے کے بھی کچھ اصول تھے
اگر یہاں پر ایک جانور کو پالتو جانور کے طور پر پالا جائے تو یہ ان لوگوں کا اصول تھا کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو ہوں گے
مطلب کے جوڑی کی صورت میں یہاں کے لوگوں کو اکیلا جانور پالنے کی اجازت نہیں تھی ان لوگوں کے خیال سے اس طرح سے اکیلا جانور خود کو تنہا محسوس کرتا تھا
اس لیے یہاں پر صرف اور صرف جوڑی کی صورت میں ہی جانور رکھنے کی اجازت تھی
یہ بھی ان لوگوں کے اصولوں میں شامل تھا
اسی لئے تو وہ شونو کو یہاں نہیں لایا روح کی اتنی ضد کرنے کے باوجود بھی اس نے اس کی بات نہیں مانی تھی ۔
کیونکہ وہ کسی بھی جگہ کے اصول نہیں توڑنا چاہتا تھا
وہ خود اصول رکھنے والا انسان تھا اسے اصول توڑنے والے لوگ خود بھی پسند نہیں تھے ایسے میں اس کا کسی جگہ کا اصول توڑنا اس کی شان کے خلاف تھا
°°°°°°
صبح ہوتے ہی یار ہم نے اسے ایک بار پھر سے باہر چلنے کو کہا
نہیں یارم ہم کہیں نہیں جائیں گے ہمہیں جتنے دن رہنا ہے یہی پر رہتے ہیں
اور پھر واپس چلتے ہیں
میری جان کیا ہو گیا ہے تمہیں ہم یہاں گھومنے پھرنے آئے ہیں اور میں نے تمہیں بتایا کہ وہ جانور اتنا خطرناک نہیں تھا جتنا کہ تم سمجھی
نہیں یارم وہ جانور بہت خطرناک تھا وہ چیتا تھا اور جیتے معصوم نہیں ہوتے کو چیر پھاڑ کر ہی دم لیتے ہیں
مجھے کہیں نہیں جانا یہی پر رہنا ہے اور خبردار جو آپ بھی کہیں باہر نکلے اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ جگہ اتنی خطرناک ہے تو میں کبھی یہاں نہیں آتی
اچھا بابا اب ہم اس طرف نہیں جائیں گے ہم دوسری کسی جگہ گھومنے چلتے ہیں اور اب تمہارا سفر بورنگ بھی نہیں ہوگا میں وعدہ کرتا ہوں
ہم بہت انجوائے کریں گے یارم نے اس کا چہرہ ہاتھوں می تھامتے ہوئے کہا تو روح تو ماننا ہی برا
ٹھیک ہے فریش ہو کر چلتی ہوں لیکن وعدہ کریں کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے روح نے پھر سے یقین دہانی چاہیے یارم نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے یقین دلایا جس کے ااتھ ہی وہ اس کے لبوؑ پر جھکا ہلکی سی جسارت لر گیا
جس کا روح نے نپبرا نہیں منایا اور روح فائنلی تیار ہونے چلے گی
وہ نہا کر باہر نکلی تو یارم یہاں نہیں تھا یقین ریسیپشن سے چابہ لینے گیا ہوگا یہاں کے ہوٹلوں کے بھی عجیب اصول تھے
اپنی گاڑی لانا بالکل الاؤڈ نہیں تھا
جہاں بھی جانا تھا ہوٹل کے گاڑی میں جانا تھا وہاں ڈرائیور بھی موجود تھا اگر چاہیں تو اسے بھی لے کر جا سکتے تھے اور اگر ان کے مہمان پرائیویسی چاہتے ہیں تو وہ گاڑی خود ڈرائیو کر سکتے ہیں
بس ان کے پاس لائسنس ہونا چاہیے
اور یارم کو اپنی پرائیویسی بے حد عزیز تھی ۔
وہ کھڑکی پہ کھڑے یارم کا انتظار کرنے لگی جب باہر کی جانب جاتے راستے پر اسے پھر سے وہی کل والی لڑکی نظر آئی
لیکن اس وقت وہ کافی پریشانی سے کسی کی منتیں کر رہی تھی وہ ہاتھ جوڑ رہی تھی بری طرح سے رو رہی تھی
جبکہ دوسرا شخص اس کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا جسے وہ پہچان نہیں پائی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جب اس نے اس لڑکی کو تھپڑ مارا
وہ اس لڑکے کا چہرہ بھی دیکھ چکی تھی یہ تو وہی تھا جو دبئی میں اس سے ملا تھا اور پھر کل رات بھی تو روح نے سے دیکھا تھا
وہ اس لڑکی کو کیوں مار رہا تھا بلا اس کے ساتھ اس کی کیا دشمنی تھی
وہ اس کے ساتھ اتنا جارحانہ سلوک کیوں کر رہا تھا
وہ اسے دیکھ رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور یارم اندر داخل ہوا۔
چلو جان میں تمہیں سوئٹزرلینڈ کی ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پر لے کر جانے والا ہوں وہ مسکراتا ہوا اس کے قریب آیا تھا
یارم اس طرف دیکھیں وہ کڈنپر جو شاید کڈنپر نہیں ہوگا وہ لڑکی کو مار رہا ہے وہ اس کا ہاتھ تھامے سے تیزی سے کھڑکی کے قریب لائی تھی
لیکن یہ کیا جیسے ہی یارم نے باہر دیکھا وہ لڑکی اس کے گلے لگی بڑی بے باکی اور خوشی کا اظہار کر رہی تھی
روح بےبی گندی بات یہ تم کیا دیکھ رہی ہو وہ ہزبینڈ وائف رومانس کر رہے ہیں وہ تو یہاں چھپ چھپ یر ان کو دیکھ رہی ہو
کتنی غلط بات ہے روح اس کے چہرے کے ایکسپریشن چینج ہوتے دیکھ یارم نے شرارت سے کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی ۔
نہیں یار م وہ دونوں ایسا ویسا کچھ نہیں کر رہے تھے وہ لڑکا اس لڑکی کو مار رہا تھا میں نے خود دیکھا ہے
اسے مارتے ہوئے روح نے یقین دلاتے ہوئے کہا اسے خود سمجھ نہیں آئی تھی کہ اچانک ہو کیا گیا ہے ابھی تو وہ لڑکا اتنا غصہ کر رہا تھااس پر
یہاں تک کہ بے دردی سے اس کے منہ پر تھپڑ تک ماراتھا
اور اب کیسے اسے اپنے گلے سے لگائے شاید بہلا رہا تھا یا منا رہا تھا لیکن لڑکی کے چہرے پر خوشی تھی
روح ہمیہں کیا مطلب ہے کہ کوئی کیا کر رہا ہے وہ دونوں رومانس کریں یا ایک دوسرے کو جان سے مار ڈالے ہمارا ان سے بھلا کیا لینا دینا
ہمیں تو بس اپنے ہنیمون ٹور کو خوشگوار بنا نا ہے
اس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں کے قریب لے جاتے ہوئے یارم نے محبت سے کہا اور اس کی انگلیوں کو چوم کر اس کا ہاتھ تھامے باہر چلنے کا اشارہ کیا
ویسے یارم ہم کہاں جا رہے ہیں اپنا زکاف سیٹ کرتی ہوئے روح پھر سے پوچھنے لگی جبکہ ڈارک بلو زکاف میں اس کا حسین چہرہ کسی حسین پری سے کم نہیں لگ رہا تھا
یارم مدہوش سا اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے اس کے لبوں لو چوم گیا
۔روح حیرت اور صدمے کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگی
وہ تو اس سے عام سوال کر رہی تھی اور یہاں پر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا آپ کبھی نہیں سدھر سکتے وہ غصے سے پٹکتی باہر نکل گئی
جب کہ اپنی بے اختیاری پر وہ اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا مسکراتے ہوئے اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلا
تم باہر رکو میں چابی لےکے آتا ہوں ۔اس کے چہرے کو نرمی سے چھوتے یارم مسکرا کر ریسپشن کی طرف چلا گیا۔
اور روح ہاں میں سر ہلاتی باہر چلی گئی۔
باہر اسے وہی لڑکی گرین کلر کی شارٹ سی ڈریس میں کھڑی نظرآئی ۔
شاید وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی
شاید اسی کا جو کل رات اس لڑکی کو مار رہا تھا۔
کیونکہ بعد میں یہ لڑکی اس کے گلے لگی ہوئی تھی۔
وہ اسے نظرانداز کرتی یارم کا انتظار کرنےلگی۔جب وہ لڑکی ایک نظراسے دیکھ کر اس کی طرف چلی آئی
تم پاکستان سے ہونا ۔۔! وہ اردو میں کہتی اس سے محاطب تھی
یہ پہلی لڑکی تھی جو یہاں اسے اردو بولتی نظر آئی
ہاں میں پاکستان سے ہوں روح نے جواب دیا ۔ وہ ادھی برہنہ لڑکی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ خود اس کے قریب چل کرآئی تو وہ اسے اگنور نہ کر سکی
واو۔۔یار میری بہت خواہش ہے پاکستان آنے کی پاکستان میں کہاں سے ہوتم ویسے میرا نام خوشی ہے اور تمہارا۔۔۔۔؟ وہ اس سے فری ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔
کم از کم روح کو تو ایسا ہی لگا۔
میرا نام روح یارم کاظمی ہے ویسے تو میں ملتان سے ہوں لیکن میرے شوہر دبئی سے ہیں
اور میں بھی ان کے ساتھ دبئی میں ہی رہتی ہوں ۔روح نے اسے جواب دیےپتے ہوئے بتایا
میرا بوائےفرینڈبھی وہیں ہوتا ہے ۔اور میں یہاں اس سے اتنی دور ۔وہ مایوسی سے کہتی اسے مزید بتانے لگی۔
جبکہ لفظ بوائے فرینڈ پر روح کا موڈ آف ہونے لگا ویسے بھی اس لڑکی سے مل کر اسے خاص خوشی نہیں ہوئی تھی
اور بوائے فرینڈ کا مطلب تو وہ بھی بہت بہتر طریقےسے سمجھتی تھی۔
ایسا رشتہ جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔
اور یارم کی نظر میں اس کا مطلب طوائف تھا۔بلکہ وہ طوائف کو گرل فرینڈ سے بہتر کہتا تھا جو کام طوائف پیسے لے کرتی ہے وہ کام یہ لوگ محبت کا نام دے کر فری میں کرتے ہیں
اسے اس لڑکی سے بات کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ لڑکی کافی باتونی تھی۔
تو تم شادی کب کر رہی ہو ۔میرا مطلب ہے شادی کے بعد بھی اپنے شوہر یے ساتھ دبئی میں آ جانا روح نے کہا۔
شادی ۔۔۔میں تو کب سے تیار ہوں لیکن وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا اور ویسے میں ہمارا مذہب الگ ہے اس کا مذہب اسے مجھ سے شادی کی اجازت نہہں دیتا ۔وہ پھر مایوس ہونے لگی
جبکہ روح کا دل چاہا کہ اسے لڑکی کو بتائے کہ اگر مذہب اس طرح ملنے کی اجازت دیتا ہے ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے یوں نامحرم رشتہ رکھنے کی اجازت دیتا ہےمگر شادی کی نہیں تو تم اس دنیا کی سب سے بڑے بےوفوف ہو۔لیکن وہ نہِیں کہہ پائی ۔
وہ لڑکی کوئی چھوٹی دی بچی نہیں تھہ اپنا بُرابلا سمجھ سکتی تھی پھر وہ کیونکہ دخل اندازی کرتی۔
اچھا روحی میری دوست بنو گی وہ کیا ہے نہ میرا کوئی دوست نہیں ہے
پلیز تم میری دوست بن جاؤ یار میں یہاں بہت بور ہو رہی ہوں وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتے اصرار کرتے ہوئے بولی
جب کہ روح تو اس کے منہ سے روحی سن کر ہی پریشان ہو گئی تھی
یہ نام اس کے لئے نیا نہیں تھا اس طرح سے اسے کوئی تو مخاطب کرتا تھا لیکن اسے یاد نہیں آیا لیکن کوئی تھا بہت عزیز
تم مجھے روح کر بلاؤ روح نے فورا جواب دیا تھا
کیوں میرا روحی کہنا تمہیں اچھا نہیں لگا وہ مایوس ہو کر پوچھنے لگی
نہیں تم مجھے روحء ہی بلاؤ مجھے خوشی ہو گی روح نے اس کی مایوسی دور کرنے کے لئے مسکرا کر کہا
وہ بھی تو تمہیں کہتا ہے وہ بڑبرائی تھی
کون روح نے پوچھا
تمہارا ہسبینڈ وہ سر پہ ہاتھ مارتے مسکرا کر بولی
نہیں وہ مجھے میرے نام سے بلاتے ہیں انہیں میرا نام بہت اچھا لگتا ہے روح نے فوراً جواب دیا
ہاں تمہارا نام بہت پیارا ہے یونیک سامجھے بھی بہت پسند ہے لیکن میں اپنے سارے دوستوں کو کسی نہ کسی نکنیم سے بلاتی ہوں لیکن تمہیں میرا دیا ہوا نام پسند نہیں آیا اور وہ مسکرا کر کہنے لگی
جب کہ اس بار روح اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکی تھی
°°°°°°°
میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں اور تم یہاں کھڑی ہوپیچھے سے ایک سرد سی آواز نے انہیں پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا
کم ڈارلنگ اس سے ملو یہ ہے میری نہیں دوست روح ہے
ابھی ابھی ہماری دوستی ہوئی ہے یہ بہت اچھی ہے پاکستان سے آئی ہے یہاں اور اتفاق دیکھو پاکستان سے اس کا تعلق ملتان سے ہے
جہاں تم رہتے تھے اور اب دبئی میں رہائش پذیر ہے اپنے ہزبینڈ کے ساتھی یہ بھی
خوشی مسکراتے ہوئے بولی
جب درک نے اسے گھور کر دیکھا جیسے وہ اسے آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا ہوں
اور روح یہ میرا بوائے فرینڈ ہے میں ہندو ہوں اور یہ مسلم اس لیے ہم شادی نہیں کر سکتے لیکن ساتھ تو رہ سکتے ہیں نہ
خوشی اس کے بازو میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولی
ہوگی تمہاری بکواس ختم وہ غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے بولا ۔
آپ سے مل کر خوشی ہوئی ویسے ہم دبئی میں بھی ایک بار مل چکے ہیں وہ اسے گھور کر روح کی جانب متوجہ ہوا تو روح نے ہاں میں سر ہلایا
جی آپ میرے ڈوگی سے بات کر رہے تھے شاپنگ مال میں روح نے فورا کہا تھا
معصومہ کو جانتی ہوں گی آپ وہ آپ کی دوست ہے یہ ڈوگی اسی کے پاس تھا اور تب میری اس کے ساتھ کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی
بس اسی لئے مجھے دیکھ کر میرے پاس آ گیا میں اور معصومہ ایک ہی بلڈنگ میں بالکل آمنے سامنے رہتے ہیں
اس نے تفصیل سے بتایا تو روح کے چہرے پر اجنبیت کی جو لہر تھی وہ ختم ہوئی
اسی لیے تو میں بھی سوچ رہی تھی کہ میرا ڈوگی آپ کے پاس کیسے چلا گیا جب کہ وہ تو کسی کے ساتھ اس طرح سے اٹیچ نہیں ہوتا
وہ صرف انہیں لوگوں سے ملتا ہے جنہیں وہ جانتا ہے
شاید اسی لئے آپ کے پاس چلا گیا ہوگا
روح نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب کے درک خوشی کو چلنے کا اشارہ کر رہا تھا
°°°°°
یارم نے دور سے روح کو کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا دیکھا
پتا نہیں کون تھی وہ لڑکی لیکن کافی آزاد خیال تھی
یہ بات وہ اس کی ڈریسنگ سے پتہ لگا چکا تھا
اور اُس کے چہرے کی بےزاری بتا رہی تھی کہ وہ اس کے ساتھ رک کر کچھ خاص خوش نہیں ہے اسی لیے وہ جلدی جلدی گاڑی لے کر اس کے قریب جانا چاہتا تھا
جب اس لڑکی کو کسی لڑکے کے ساتھ جاتے دیکھا
یہ لڑکا کون تھا وہ پہچان چکا تھا
لیکن وہ روح کے پاس کیوں کھڑا تھا اس سے بھلا کیا کہہ رہا تھا وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے روح کے پاس آکر رکا
کیا کہہ رہے تھے وہ لوگ ۔۔۔!
یارم وہ لڑکا کوئی کڈنپر نہیں ہے بلکہ معصومہ کا پڑوسی ہے اس نے ابھی مجھے بتایا کہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا
تبھی تو شاپنگ مال میں اس کے پاس چلا گیا اور ہم سمجھے کہ وہ میرے شونو کو اغوا کرنے والا ہے
روح سر پہ ہاتھ رکھ کے مسکراتے ہوئے اسے تفصیل بتانے لگی
اچھا چھوڑو اور وہ ان لوگوں سے جتنا فاصلہ بنا کے رکھو گی اتنا ہی بہتر ہے عجیب سے لوگ ہیں مجھے تو کچھ خاص پسند نہیں آئے
اور جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے یہ لڑکا کوئی جواوغیرہ کھیلتا ہے میرا مطلب ہے کہ سٹہ بازی کرتا ہے اس کے ساتھ یہ لڑکی بھی شامل ہے
ہوٹل کا مینیجر بتا رہا تھا کہ کہ یہ لڑکا کافی پرسرار ہے
ہمیں اس سے فاصلہ بنا کر رکھنا چاہیے
چھوڑں یارم ہمیں کیا لینا دینا وہ لڑکا کیسا ہے اور یہ ہوٹل کے لوگ بھی ناں عجیب ہوتے ہیں کسی کو بھی کچھ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں
مجھے تو لڑکا ٹھیک ٹھاک لگا لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں بنا شادی بنا نکاح کے اور وہ لڑکی ہندو ہے اور وہ لڑکا مسلمان کیا ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے ایسا کرنے کا
روح آج کے زمانے میں مذہب کون دیکھتا ہے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مذہب کیا ہے
ان لوگوں کو صرف اور صرف اپنے انجوائمنٹ سے فرق پڑتا ہے خیر چھوڑ دو ان سب چیزوں کو جانےمن چلو تمہیں چاند ستاروں کی دنیا میں لے کر چلوں۔
سوئیزرلینڈ کی سب سے خوبصورت جگہ تمہارا انتظار کر رہی ہے
اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے وہ جھکنے ہی والا تھا کہ روح نے اسے جگہ کا احساس دلایا کہ ہٹل کے باہر کھڑے تھے
اور یہاں بھی یارم کی بے باکیاں عروج پر تھی
ہاں تو میں اپنی بیوی سے سے پیار کر رہا ہوں کسی غیر سے تھوڑی کر رہا ہوں وہ اس کی گھوری کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا
اچھا بابا بس بس اب ساری دنیا کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں آپ کی بیوی ہوں چلیں جہاں چلنا ہے
اور اللہ کا واسطہ ہے وہاں جا کے اپنا یہ بیوی نامہ مت شروع کر دیجیے گااس کی دن بہ دن بڑھتی بے باکیوں پر روح اچھی خاصی پریشان تھی
بیوی نامہ کھولنے کے لیے ہی تو لے کر جا رہا ہوں تمہیں اپنے ساتھ وہ آنکھ دباتا شرارت سے بولا تو روح اسے گھور کر رہ گئی
جان من رات بھر یہ جتنا چاہے مجھے گھور لینا تم پر کوئی پابندی تھوڑی ہے وہ اسے گاڑی میں بٹھا تا پھر شرارت پر انداز میں بولا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی روح کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلی
آپ لاعلاج ہیں وہ گاڑی میں بیٹھ کر مسکراتے ہوئے بولی
بالکل غلط میرا علاج تم ہو اگر تم ٹھیک سے مجھے پیار کرو ٹھیک سے میرا خیال رکھو تو مجال ہے جو میں ذرا سا بھگڑ جاؤں یارم مسکراہٹ دباتا اس کی بات اپنے انداز میں لے گیا جبکہ روح کو اب خاموش رہنا ہی زیادہ بہتر لگ رہا تھا
ان کا سفر کافی لمبا ہو چکا تھا
یارم اسے کہاں لے کر جا رہا تھا اسے بالکل اندازہ نہیں تھا
کیونکہ یہ جگہ اس کے لئے بہت انجان تھی اس جگہ کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی
اب تو یارم کا ہی سہارا تھا وہ اسے جہاں بھی لے جائے اور یہاں تو کیا ہر جگہ یار م ہی اس کا سہارا تھا
ہاں لیکن تجسس ضرور تھا کہ اس بار وہ اسے کہاں لے کر جانے والا ہے
یارم اب تو آپ بتا دیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ورنہ مجھے اتنا متجسس نہ کریں کیا آپ نے کوئی پلاننگ کی ہوئی ہے پلیز پلیز بتائیں نہ مجھے ہم کہاں جانے والے ہیں روح پرجوش سی انتہائی معصومیت سے کہہ رہی تھی
اس کےاسی معصوم انداز پر تو یارم کو پیار آتا تھا اس کی روح سچ میں دنیا سے الگ تھی صبر کر جاؤ جان من جا تو رہا ہوں بس تھوڑا سا سفر اور ہے
صبر ہی تو نہیں ہوتا مجھ سے ہے ایک بات بتائیں ہم اتنا لمبا سفر کر کے جا رہے ہیں واپسی پر تو ہمیں بہت زیادہ وقت لگ جائے گا اور پھر رات میں گاڑی بھی ہم آہستہ چلائیں گے
تو پھر واپس آتے تو صبح ہو جائے گی
تین گھنٹے سے زیادہ ہوگیا ہے وقت ہمیں وہاں سے نکلے ہوئے اور ایک آپ ہیں جو مجھے کچھ بتا ہی نہیں رہے
ڈارلنگ تمہیں کس بے وقوف نے کہا کہ ہم آج واپس آنے والے ہیں
اب تو واپسی صبح ہی ہوگی ۔
اب تمہیں وہاں لے کر جانے میں اتنی محنت لگ رہی ہے توتمہیں میری محنت کا انعام بھی تو دینا ہوگا
اور انعام لیتے ہوئے ایک رات تو لگ ہی جاتی ہے یہ انتہائی بے باک اور شرارتی لہجہ پچھلے ایک ماہ میں یارم کا یہ انداز اس نے بے حد مس کیاتھا ہاں لیکن اب اس کا یہ انداز ہی سے اچھی خاصی تپ چڑا رہا تھا
اس بندے کو کسی جگہ کا لحاظ نہیں تھا
اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اسے تو بس اپنی روح چاہیے تھی
اور اس کی بےباکیوں پر اگر وہ اعتراض اٹھاتی تو یارم کے پاس ایک ایسا مضبوط جواب تھا
جس کے سامنے اسے خاموش ہونا ہی پڑتا
کہ تم میری بیوی ہو میرا حق ہے تم پر لوگ کون ہوتے ہیں مجھے پوچھنے والے یا ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچنے والے
اور تمہیں بھی کوئی حق نہیں کسی اور کے بارے میں سوچنے کا بس میرے بارے میں سوچو پوری دنیا کو نظر انداز کر دو
اور یہی ایک واحد کام تھا جو روح سے نہیں ہوتا تھا
ہاں نظرانداز کرنے میں تو یارم ماہر تھا
وہ ایک روح کے علاوہ پوری دنیا کو نظر انداز کر سکتا تھا
کیونکہ روح کے علاوہ اسے کسی اور سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا
اگر اسے زندگی میں کسی چیز کی چاہت تھی تو وہ صرف اور صرف روح کی محبت کی باقی دنیا جائے بھاڑ میں اسے کسی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا
°°°°°°
یارم یہ کون سی جگہ ہے یہاں تو اندھیرا ہو گیا ہے
وہ گاڑی سے نکل کر کہنے لگی اسے یہاں اچھی خاصی ٹھنڈ لگ رہی تھی جب یارم نے گاڑی کی پچھلی سیٹ سے ایک ریڈ کلر کا جیکٹ اٹھا کر اسے دیا
یہ کس کا ہے روح نے فورا پوچھا
تمہارے لئے لایا تھا میں جانتا ہوں یہاں بہت ٹھنڈ ہے
جلدی سے پہنواس کو پھر چلتے ہیں یار م نے کوٹ اس کی جانب بڑھایا تو روح نے فورا تھام کر پہن لیاسردی بہت زیادہ تھی
آپ نے تو کچھ نہیں پہنا آپ کو بھی سردی لگے گی نہ روح نے فکر مندی سے کہا تویارم مسکرا دیا
میری سردی کا حل تم وہاں جاکر نکال لینا وہ شرارت سے مسکراتے ہوا گاڑی سے نکلا
یارم یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے یارم نے جب اس کا ہاتھ تھاما تو روح اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھنے لگی
یہ جگہ شہر کی آبادی سے بہت دور ہے اسی لیے یہاں اتنا اندھیرا ہے یہاں محبت کرنے والے ہی آتے ہیں
یہ ایک جزیرہ ہے اور یہاں کے اسٹاف ممبر کسی ہوٹل کی طرح کام کرتے ہیں لیکن یہ ہوٹل نہیں ہے یہ ایک لوررپوائنٹ ہے محبت کرنے والے یہاں آ کر ملتے ہیں لیکن یہاں کی خاص بات یہ ہے کی کوئی بھی منہ اٹھا کر یہاں نہیں آ سکتا
یہ صرف ان لوگوں کو یہاں آنے دیتے ہیں جو شادی شدہ ہوتے ہیں اور اپنے ہسبینڈ یا اپنی وائف کے لیے کچھ اسپیشل پلان کرنا چاہتے ہیں
میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی بیوی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں تو یہ لوگ میری مدد کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور کہا کہ آپ اپنی وائف کو یہاں لے آئیں ہم سارا انتظام سنبھال لیں گے
بس پھر میں اپنی پیاری سی بیوی کو یہاں لے آیا ہوں اب چل کر دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا کیا ہے
وہ سب کچھ تو ٹھیک ہے یارم لیلکن یہ لوگ خود کہاں ہیں یہاں پر تو کوئی نہیں ہے ہمارے علاوہ پہاڑ کے بیچ و بیچ بنی سیڑھیاں اوپر کی جانب جا رہی تھی اور اس راستے پر روشنی کے لیے بڑے بڑے لائٹ بالز لگائے گئے تھے
روح اس پر چلتے ہوئے وہ اپنے آپ کو کسی پری کی طرح محسوس کر رہی تھی
بے حد حسین سیڑھیاں اور سیڑھیوں کے دونوں اطراف لگے پھول جو اس طرح سے لگائے گئے تھے کہ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ پھول ان کے قدموں میں پڑے انہیں ویلکم کر رہے ہیں
ڈارلنگ وہ لوگ اپنا کام کر کے جزیرے کی دوسری جانب جا چکے ہیں تاکہ ہمیں کسی بھی قسم کی کوئی ڈسٹربنس نہ ہو
یار م کی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے مزید زینے چڑھنے لگی لیکن سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے روح کی سانس پھولنے لگی تھی
۔شاید یہ سیڑھیوں کا سفر ابھی اس کے لیے بہت زیادہ تھا
یا رم نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا
یارم میں چلی جاؤں گی یہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے روح نے فوراً کہا تھا
میں تمہاری مشکل آسان کرنے کے لیے تمہیں نہیں اٹھا رہا تو میں تمہیں اپنی بے حد قریب محسوس کرنے کے لئے اٹھا رہا ہوں
ان سیڑھیوں سے زیادہ تم میری باہوں میں سوٹ کرتی ہو یارم مسکرا کر کہتے ہوئے اسے شرمانے پر مجبور کر گیا
اور اس کی شرمیلی سی مسکراہٹ یارم کے ڈمپلز گہرے کر گئی تھی
°°°°°
سیڑھیاں چڑھ کر وہ اسے پہاڑی کی چوٹی پر لے آیا تھا ۔
جو کہ بے حد خوبصورتی سے سجائی گئی تھی
ایک چھوٹے سے شیشے نما جار میں سفید بیڈ کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا شیشے کے چاروں طرف سرخ جالی نما کپڑے سے ڈیزائننگ کی گئی تھی
پہاڑی کے کونے کی طرف ایک ٹیبل لگائی گئی تھی جس کے آگے پیچھے دو چیئر تھی
ڈش سے نکلتا دھواں اس بات کی گواہی تھی کہ کھانا ابھی ابھی لگایا گیا ہے
اور اس کی خوشبو بتا رہی تھی کہ ہر چیز روح کی پسند کی ہے
ڈنر کر لیں ڈارلنگ ویسے تو آج رات میرا تمہیں کھانے کا ارادہ ہے لیکن میرے خیال میں یہ فریضہ مجھے ڈنر کے بعد سرانجام دینا چاہیے اس کے گال کو چومتے ہوئے یارم اس کا ہاتھ تھامے میز کی جانب لے کر آیا
آپ بے حد بے شرم ہو گئے ہیں یارم آپ کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے روح نے جیسے کوئی راز کھولا تھا
مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے لیکن کوئی بات نہیں تم اس کا علاج کر سکتی ہو تمہیں بس اتنا کرنا ہے کہ بنا کسی مزاحمت کے اپنے آپ میرے پاس آ جانا ہے اس سے مجھے تمہارے ساتھ کسی قسم کی بے شرمی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
اچھا مذاق ہے آپ کو بے شرمی سے روکنے کے لیے خود بے شرم بن جاؤں وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو یارم گہرا مسکرایا
اب اس کا حل تو یہی ہے وہ اب بھی باز نہیں آیا
آپ اپنے حل اپنے پاس ہیں رکھے مجھے نہیں چاہیے ایسے بے شرمی سے بھرپور حل میں ایسے ہی ٹھیک ہوں روح نے فوراً جواب دیا ۔
مطلب کے تمہیں میری بے شرمی برداشت کرنی ہوگی ۔کوئی حل نہ پاکر یارم واپس اپنے حل کی طرف آ گیا تھا
یارم بہت خراب ہیں آپ کبھی نہیں سدھر سکتے یہ آخری لیول ہے وہ اس کی معلومات میں اضافہ کرنے لگی
نہیں ڈارلنگ یہ آخری لیول نہیں ہے اگر میں آخری لیول کی طرف آ گیا نا تو تم چہرہ چھپاتی پھروگی
بس کردیں یارم کھاناکھانے دیں مجھے وہ شرم سے سر جھکاتی اسے ڈانٹے ہوئے کہنے لگی
میری جان میں نے کونسا تمہارے ہاتھ پکڑ لیے ہیں یہ تمہارے سامنےکھانا ہے کھاؤ آرام سے کھاؤ یا رم نے شرارت سے کہا
آپ خاموش ہوں گے تو میں کچھ کھا پاؤں گی نہ وہ گھور کر بولی
ہاں یار ہو گیا خاموش کچھ نہیں کہتا میں کچھ کہنے میں رکھا ہی کیا ہے مزہ تو کچھ کرنے میں ہے وہ ایک بار پھر سے بے باکی سے کہتا اسے سر جھکانے پر مجبور کر گیا
اس بار روح نے اس کی بے باکی کا کوئی جواب نہیں دیا تھا بلکہ سرجھکائے کھانا کھانے لگی اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا
اس نے بے شرمی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
°°°°°
ڈنر کے بعد وہ ایک بار پھر سے اس حسین نظارے کو دیکھنے لگی دور دور سے روشنیاں سی نظر آ رہی تھی جیسے کوئی شہر بسا ہو
پہاڑی کے نیچے کی طرف ایک نہر بہہ رہی تھی جس میں بے حد ستارے اور نیچے کی طرف سے آنے والی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کا عکس تھا اور آسمان پر چمکتا وہ واحد پورا چاند جو بے حد حسین لگ رہا تھا
روح نے محسوس کیا کہ نیچے کی جانب صرف روشنی ان چھوٹی چھوٹی لائٹس کی وجہ سے یا ستاروں کی وجہ سے نہیں ہے
بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے سے تارے تو آڑ رہے ہیں اس نے پیچھے کی جانب یارم کو کسی کو اشارہ کرتے ہوئے دیکھا
یارم آپ وہاں کیا کر رہے ہیں یہاں آ کر دیکھئے وہ ستارے چل پھر رہے ہیں دوری کی وجہ سے وہ اس چیز کی وجہ نہیں سمجھ پا رہی تھی لیکن یارم کو اس طرح کسی کو اشارہ کرتے دیکھ کر حیران ضرور ہوئی تھی
جانے من میں یہیں پر تو آ رہا تھا یہاں شاید لائٹنگ کی گئی ہے اور ہوا سے لائٹ ہل رہی ہوں گی اس لیے ایسا محسوس ہو رہا ہے وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے کہنے لگا تو روح نے نہ میں سر ہلایا نہیں وہ کچھ اور ہے
وہ جگنو ہے ہاں وہ جگنو ہے یارم دیکھے پانی کے قریب وہ سب جگنو ہی تو ہیں جو اس طرح سے چمک رہے ہیں کتنے پیارے لگ رہے ہیں میں نے کبھی انتے سارے جگنو کو اس طرح سے چمکتے ہوئے نہیں دیکھا ماشااللہ کتنا خوبصورت نظارہ ہے
میرے اللہ کی حسین قدرت سبحان اللہ اس جگہ کو دیکھیں کتنی پیاری ہے یہ جگہ شاید یہی وہ جگہ ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ چاندنی زمین پر اترتی ہے
وہ حسرت بھری نظروں سے اس جگہ کا دیدار کرتے ہوئے چاہت سے بولی جب کہ یارم کا دھیان تو صرف اس کے چہرے پر تھا
میری چاندنی تو روز زمین پر اترتی ہے صرف میرے آنگن میں مجھے تو بس میری چاندنی سے مطلب ہے وہ اسے اپنے حصار میں لے لیتے ہوئے بولا تو روح اس کے سینے سے اپنا سر ٹکاتی اس نظارے کو آنکھ بھر کر دیکھنے لگی
یہ چاندنی صرف آپ کی ہے اور یہ صرف آپ کے آنگن میں ہی اترے گی کیونکہ اس پر صرف آپ کا حق ہے وہ مان بخشتے انداز میں بولی ۔
بالکل ٹھیک کہا تم نے جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے میں کسی کو نہیں دوں گا وہ اسے نرمی سے اپنے حصار میں لے لیتا جیسے خود میں چھپا رہا تھا
یارم آپ وہاں کیسے اشارہ کر رہے تھے بتائیں ذرا مجھے روح کو اچانک یاد آیا تو وہ مڑ کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
میں تو کسی کو اشارہ نہیں کر رہا تھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے وہ مکر گیا
مجھے پکا یقین ہے کہ آپ کسی کو اشارے کر رہے تھے وہ کہاں اسے مکرنے دینے والی تھی
روح چھوڑو ان باتوں کو یہ دیکھو بارہ ہونے میں صرف تین منٹ باقی ہیں کتنی رات ہوگئی نا وہ اسے باتوں میں بہلا رہا تھا
ہاں صرف تین منٹ باقی ہیں لیکن آپ کو تو کچھ یاد ہی نہیں وہ منہ بنا کر بولی تو یارم کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی
تمہیں پتا ہے سال کا سب سے خوبصورت دن شروع ہونے والا ہے وہ دن جب میری روح اس دنیا میں آئی صرف میرے لیے وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا اسے مسکرانے پر مجبور کر کے اسے یاد تھا اور روح کو لگا کہ وہ بھول گیا
آپ بہت اچھے ہیں یارم وہ اس کے سینے میں سر چھپاتی لاڈ سے بولی جبکہ یارم کے ایک اشارے پر نیچے سے کچھ لوگوں اوپر کے جانب آئے
ٹیبل سے ڈنر کا سارا سامان اٹھا کر وہاں ایک خوبصورت سا کیک سجایا جس میں ایک شہزادہ اور شہزادی ایک دوسرے کے بے حد قریب کھڑے شاید حال دل سنا رہے تھے
ہیپی برتھ ڈے میری جان لیکن تمہاری اس برتھ ڈے پر میں تمہیں نہیں بلکہ خود کو دعا دوں گا اللہ تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ رکھے
تم زندگی میں جہاں بھی جاؤ مجھے ہی پاؤ
تمہاری ہر خواہش مجھ سے شروع ہو اور مجھ پہ ختم ہو
روح یارم کا رشتہ روح ِ یارم بن کر ہمیشہ ہم دونوں کے درمیان قائم رہے
اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے یارم نے اسے خود میں چھپایا
جبکہ روح کے منہ سے سرگوشی نما آواز میں آمین ثم آمین سن کر اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی
آجاؤ اس کیک کو شہید کرتے ہیں وہ اسے میز کی جانب لے جاتے ہوئے مسکرا کر بولا تو روح کھلکھلا کر اسکے اس کے ساتھ آئی
یارم میں 12 سال کی نہیں ہوں روح نے کیک پر موجود کینڈل دیکھ کر منہ بنایا
روح اسٹاف کے لوگ تھوڑے سے نکمے ہیں یا شاید تمہیں کوئی چھوٹی بچی سمجھ رہے ہیں وہ کینڈلز کو آگے پیچھے کرتا وضاحت دیتے ہوئے اسے پیچھے سے تھام چکا تھا
یارم نائف کہاں ہے ٹیبل پر چھری بھی موجود نہیں تھی
روح کیا ہے نا جتنی یہ جگہ خوبصورت ہے یہاں کے اسٹاف ممبر شاید اتنے ہی نکمے اور بھلکر ہیں لیکن میں ہوں نہ فکر ناٹ اپنی جیب سے بلیڈ نکالتے ہوئے بولا تو روح نے اسے گھور کر دیکھا
یارم مجھے چھری لا کر دیں میں اس کے ساتھ نہیں کاٹوں گی وہ بلیڈ یارم کی طرف کرتے ہوئے کہنے لگی
تم اسی کے ساتھ کیک کو شہید کروگی کیونکہ تمہارا شوہر بھی یہ کام بہت آرام سے کرتا ہے اچھی بات ہے تمہیں پریکٹس کرنی چاہیے ہو سکتا ہے فیوچر میں تمہیں بھی یہ کام کرنا پڑے
استغفراللہ یارم میں کبھی ایسا کام نہیں کروں گی اور نہ ہی مجھے لوگوں کے پرزے کاٹ کر کوئی خاص خوشی ملتی ہے اس نے فوراً جواب دیا
تمہیں ایک بار ٹرائی کرنا چاہیے روح یہ کام بہت مزے کا ہے ایک بار کوشش تو کرو بہت مزہ آئے گا آج یہ کیک کل کسی کی گردن واو یارم صاف اسے تنگ کررہاتھا
یارم انسان بن جائے مجھ سے ایسی باتیں نہ کریں اور نہ ہی مجھ سے یہ کام ہوتے ہیں وہ سہم کر بولی تم نہ چاہتے ہوئے بھی یار م کا قہقہ بلند ہوا
مذاق کر رہا ہوں یارم جانتا ہوں میری روح میں اتنی ہمت نہیں ہے لیکن کیک تمہیں اسی سے کاٹنا ہوگا کیونکہ سٹاف کے ممبر ہمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے
اور میں بھی نہیں چاہتا کہ اب اس طرف کوئی اور آئے اب تو یہاں صرف میں اور تم رہیں گے
یارم کے زبردستی بلیٹڈ ہاتھ میں پکڑانے پر روح نے مجبور ہوکر ہاتھ کیک کی جانب بڑھایا
یارم شہزادہ اور شہزادی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ہم سائیڈ سے کاٹیں گے اس کا ہاتھ ڈولز کی جانب بڑھتا دیکھ کر روح نے فورا کہا تھا کہیں اس شہزادے اور شہزادی کی گردن کٹ ہی نہ جائے
اوکے بےبی ہم سائیڈ سے کاٹیں گے وہ اس کی بات مانتے ہوئے بولا
کیک کا ایک چھوٹا سا پیس کاٹ کر روح نے اس کی جانب بڑھایا تو وہی پیس تھام کر اس نے روح کے لبوں سے لگایا
یہ کیک میٹھا تب ہوگا جب تمہارے لبوں کی مٹھاس اس میں شامل ہوگی
وہ آرام سے کہتا کیک کا تھوڑا سا حصّہ اس کے منہ میں ڈال چکا تھا اور اب وہ اس کے لبوں پر جھکا
اس کے لبوں کو اپنے لبوں کے دسترس میں لیے وہ مکمل مدہوش ہو چکا تھا جب کہ روح اس کی کالر کو اپنے ہاتھ میں دبوچتی مکمل مزاحمت چھوڑ چکی تھی
یارم آہستہ سے اس کا وجود اپنی باہوں میں اٹھائے وہ اسے اس چھوٹے سے جار نما کمرے میں لے آیا
اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے یارم نے سارے پردے گرا دیے اور اب وہ اس کے نازک سے وجود کو اپنی باہوں میں قید کرتے ہوئے چھوٹی سی لائٹ کو بھی بجھا چکا تھا
اپنے چہرے کے ایک ایک نقش پر اس کے لبوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے وہ دھیرے سے مسکرائی
یارم میرا برتھ ڈے گفٹ اس کی سرگوشی نما آواز نے یار م کی مدہوشی کو توڑا تھا
پہلے میں اپنا گفٹ وصول کر لوں تمہارا تحفہ صبح ملے گا اس کے لبوں پہ اپنے ہونٹ رکھتے ہوئے یارم نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر تکیے سے لگائے تھے
جب کہ ہر وہ مسکراتے ہوئے اپنا آپ اس کے سپرد کر چکی تھی

لیلی آج کل بہت زیادہ بے چین تھی
کل اس نے خضر کو اپنی بے چینی کی وجہ بتائی تو وہ ہنس کر ٹال گیا
لیلی تم آج کے زمانے کی لڑکی ہو کیسی باتوں پر یقین کرنے لگی ہو
خواب زندگی کا حصہ ہیں لیکن ان پر یقین کرنا صرف اور صرف بیوقوفی ہے
اور روح اور یارم سے میری کل ہی بات ہوئی ہے وہ دونوں بالکل ٹھیک ہیں تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
خضر نے اسے بے فکر رہنے کے لئے کہا تھا اس کا ٹینشن لینا اس کے لیے اچھا نہیں تھا اور خضر اسے یہی بات سمجھانا چاہتا تھا لیکن آج کل اس کے ذہن پر بس ایک ہی سوچ سوار تھی اور وہ سوچ تھی اس کے خواب
پچھلے کچھ دنوں سے اسے بہت عجیب و غریب خواب آ رہے تھے وہ آج کے زمانے کی لڑکی تھی ان سب چیزوں پر بالکل یقین نہیں کرتی تھی
وہ خود بھی ان سب چیزوں کو ہنس کر ٹال دیتی تھی لیکن ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس نے یارم کے بارے میں برا خواب دیکھا تھا
سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک تھا لیکن یارم کے بارے میں برا سوچتے ہوئے بھی اسے برا لگتا تھا اور یہاں وہ اای یارم کو خون میں لت پت بے حد زخمی درد سے تڑپتے ہوئے دیکھ چکی تھی
خضر نے تو اس کی کسی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی لیکن لیلی کی پریشانی اپنی جگہ قائم تھی
۔وہ خود ایک بار یارم سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن خضر نے اسے منع کر دیا اس کا کہنا تھا کہ وہ روح کو باہر لے کر گیا ہے تو ایسے میں اسے کسی بھی قسم کی ٹینشن نہیں دینی چاہیے
اور خضر کا بھی یہی کہنا تھا کہ یارم ان سب باتوں پر یقین نہیں کرتا خوابوں خیالوں کو خوابوں خیالوں تک ہی رہنے دینا چاہیے انہیں اصل زندگی حصہ نہیں بنانا چاہیے
لیکن لیلی اپنے دل کا کیا کر دی
جو اس خواب کے بعد سے لے کر اب تک بے چینی کے زیرِ اثر تھا
°°°°°
یارم ہم وہاں سے اتنی جلدی کیوں آگئے ہمہیں وہی رہنا چاہیے تھا کتنی خوبصورت جگہ تھی وہ میرا تو واپس آنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا
جانتا ہوں ڈارلنگ لیکن ہم صرف ایک ہی جگہ محدود ہو جانے کے لیے تو یہاں نہیں آئے ہمیں پورا سوئٹزرلینڈ گھومنا ہے اس کے لئے ہمیں وہاں سے نکلنا ہی تھا میں جانتا ہوں وہ جگہ بے حد حسین تھی اور تمہارا وہاں سے آنے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا
لیکن میرے خیال میں تمہیں پورے سویزرلینڈ کی خوبصورتی کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے
وہ اس علاقے میں صرف ایک رات کے لئے ہی گئے تھے لیکن روح کی ضد کی وجہ سے وہ تین دن وہاں رک کر آئے
اور اب بھی روح کا یہی کہنا تھا کہ اسے واپس نہیں آنا بلکہ اسی خوبصورت جگہ کا ہی ہو کر رہ جانا ہے
اس کا تو ارادہ تھا کہ وہ ہنی مون کے پندرہ کے پندرہ دن وہی پرگزارے گے لیکن یارم اسے زبردستی اپنے ساتھ واپس لے آیا
اور اب کل نہ جانے وہ اسے کہاں لے جانے کا پلان بنا رہا تھا
کیونکہ آج تو سنڈے تھا اور پورا سوئٹزرلینڈ چھوٹی پے تھا
آئسزلینڈ میں حد درجہ سردی ہونے کی وجہ سے روح نے تو کمرے سے نہ نکلنے کی قسم کھا رکھی تھی لیکن اس بار یارم نے ایسا نہیں ہونے دیا
وہ اسے جگہ کی خوبصورتی دکھانا چاہتا تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ ہر جگہ لے کر جانا چاہتا تھا
لیکن اب روح کی آنکھوں میں اس جزیرے کی خوبصورتی کا نقشہ بن گیا تھا کسی بھی جگہ کو دیکھ کر وہ آرام سے کہہ سکتی تھی کہ یہ جگہ اس جزیرے سے زیادہ خوبصورت نہیں ہے
لیکن اب یارم نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ کل صبح جہاں لے کر جائے گا وہ جگہ اس کی سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گی
اور اس جگہ کو سوچتے ہوئے روح کافی ایکسائٹڈ لگ رہی تھی
ہوٹل کے انتظامیہ نے آج ان کے ڈنر کا انتظام نیچے باہر کاٹن میں کیا تھا جہاں شام کی خوبصورتی اپنے پر پھیلائے ان کا انتظار کر رہی تھی
°°°°°°°
ہوٹل لوگوں سے بھرا ہوا تھا زیادہ تر یہاں ہنی مون کپلز ہی تھے ہر کوئی ایک دوسرے میں مگن تھا
جبکہ روح تو باری باری ان سب کپلز کو دیکھ رہی تھی
کوئی شک نہیں تھا کہ اس جگہ کی خوبصورتی نے ان کی زندگی کے ان مومنٹس کو اور خوبصورت بنا دیا تھا
ہائے روح یار کیسی ہو تم مجھ سے دوستی کرکے تم تو غائب ہی ہو گئی
دو تین بار تو میں نے ہوٹل کے مینیجر سے بھی پوچھا کہ یار روح نام کی ایک لڑکی ہے مجھے اس کے بارے میں بتا دیں ہماری دوستی ہوئی ہے
لیکن مینیجر نے بھی لاعلمی کا مظاہرہ کردیا
ویسے یہ کون تمہارے شوہر ہے کیا وہ بے تکلفی سے اس کے میز کے قریب سے چیئر گھستے ہوئے اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اس نے یارم کی ناگوار نگاہوں کو خود پر دیکھا
اس کا اس طرح سے یو ان دونوں کے درمیان آ کر بیٹھنا یارم کو سخت ناگوار گزرا تھا
ہائے میرا نام خوشی ہے
اور میں تمہاری کی بیوی کی دوست ہوں
۔یار تو بہت ہی ہینڈسم ہو کیسے پٹایا تم نے اسے روح میرے ساتھ بھی شئیر کرو وہ شرارت سے کہتی روح کی طرف دیکھنے لگی
جب کہ اس کی بات نے روح کے گال تپا کر رکھ دیے تھے
او لگتا ہے تم نے نہیں اس نے تمہیں پٹا لیا ہے ہے نا وہ اس کی رنگ دیکھ کر کھلکھلاتی ہوئی یارم کو دیکھنے لگی اور اس کی آنکھوں کی ناگواری کو جان بوجھ کر نظر انداز کر گئی
ہم مسلمان ہیں مسں پٹانا نہیں بسانا جانتے ہیں ۔
بہت معذرت کے روح نے آپ کا ذکر نہیں کیا میرے سامنے اسی لئے میں نہیں جانتا کہ اس کی یہاں کوئی دوست ہے خیر آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن اس طرح کا آپ کا بنا اجازت ہمارے بیچ بیٹھنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا ہم بہت پرسنل باتیں کر رہے تھے
اس طرح کسی کپل کے پیچ بیٹھنے سے پہلے آپ کو ذرا سا خیال رکھنا چاہیے اور دوسری بات انجان لوگ مجھے تم نہیں آپ کہہ کر بلاتے ہیں
اور انجان لوگوں سے میں اس قدر گہرا رشتہ کبھی بناتا ہی نہیں کہ وہ آپ سے تم تک کا سفر طے کریں
آپ کی دوست اس وقت مصروف ہے آپ بعد میں بات کر لیجئے گا ۔وہ اتنے سخت لہجے میں بولا کہ کی روح شرمندگی سے سر جھکا گئی
لیکن اندر ہی اندر خوش تھی اس زبردستی کی دوست سے جان چھوٹ رہی تھی کیونکہ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کسی سے یوں بات کرتی
اوکے مسٹر جیجو میں جارہی ہوں یہاں سے لگتا ہے کچھ زیادہ ہی پرسنل باتیں ہو رہی تھی ایم سوری مجھے اس طرح سے انٹر فیر نہیں کرنا چاہیے تھا
لیکن کیا ہے روح کو دیکھ کر میں ایکسائیڈ پر ہو کر یہاں آ کر بیٹھ گئی
ویسے میرا بوائے فرینڈ میرا ویٹ کر رہا ہوگا مجھے بھی چلنا چاہیے وہ کہتے ہوئے اٹھی اور پھر کے کان کے قریب جھکی
یار تمہارا ہسبنڈ تو بہت روڈ ہے میں تم سے بعد میں ملتی ہوں وہ اس کے گالوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہاں سے چلی گئی جس پر یارم نے مٹھیاں بھیجیں
اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہارا گال چومنے کی روح اگر آج کے بعد کسی نے بھی یہ حرکت کی نہ تو اسے جان سے مار ڈالوں گا
غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ لڑکی تھی اور لڑکیوں میں اتنا تو ہو ہی جاتا ہے
اس کے ضرورت سے زیادہ غصہ ہونے پر فوراً بولی
کبھی لیلی یا معصومہ سے ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔۔!نہیں نہ ۔۔۔!وہ تمہاری دوست بھی ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسی حرکت کی جو یہ غیر زبردستی کی دوست آکر کر رہی ہے
کان کھول کر سن لو اور مجھے ان سب چیزوں سے نفرت ہے تمہارے گال میرے علاوہ اور کوئی نہیں چوم سکتا ۔
یہ حرکت صرف میں کر سکتا ہوں ۔تمہیں چھونے کی اجازت صرف میرے ہونٹوں کو ہے
وہ پھر سے سختی سے بولا تو روح اسے گھور کر رہ گئی
کیا یارم اب وہ میرا گال چوم رہی تھی تو میں منع تو نہیں کر سکتی تھی نہ روح نے وضاحت دینی چاہے
کیوں منع نہیں کر سکتی تھی تم ۔کیااتنا مشکل ہے منع کرنا
دیکھو روح جس چیز پر میرا حق ہے اس پر صرف میرا ہی حق ہے تمہیں اتنی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی ۔
کیوں لڑکی تمہارے اتنے قریب آئی
آئندہ اگر یہ لڑکی تمہارے اتنے پاس نظر آئی نہ تو بالکل اچھا نہیں ہوگا
یارم لڑکیاں کرتی ہیں ایسا وہ ایک لڑکی ہی تو تھی اور میں نے معصومہ اور لیلی کو بھی کبھی خود کے قریب آنے سے منع نہیں کیا روح نے پھر سے سمجھانا چاہا
وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ لڑکیوں میں یہ بات بہت عام سی ہے لیکن یارم تو اس کی کسی بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا
معصوم اور لیلیٰ بیوقوف نہیں ہیں جو میرے ہاتھوں مرنے کی خواہش کریں گی میں بہت واضح الفاظ میں ان بتا چکا ہوں کہ تمہیں چھونے کا حق صرف میرے پاس ہے اسی لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ تمہارے ساتھ کوئی ایسی حرکت کریں
یارم کا غصہ اب بھی کم نہیں ہوا تھا ویسے غصے کا یہ اثر تھا کہ وہ اس کے سامنے ایک بہت بڑا راز فاش کر چکا تھا
یارم اپ نے معصومہ اور لیلیٰ کو میرے قریب آنے سے منع کیا ہے اسی لئے وہ میرے پاس نہیں آتی مجھ سے جاتے ہوئے مل کر نہیں جاتی
یا اللہ یارم وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی یارم کی وضاحت پر لیلی ور معصومہ کا سوچتے ہوئے شرمندہ ہو کر رہ گئی
معصومہ اور لیلی اس سے ہر درجہ فری تھی لیکن کبھی بھی وہ اس کے قریب آ کر اس سے ملنے گلے میں ہاتھ ڈالنے یا گال چومنے تک قریب نہ آئیں ۔
اور وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ یہ عام لڑکیوں کی طرح اس سے مل کر کیوں نہیں جاتی
وہ کون ہوتی ہیں تمہارے بارے میں کچھ بھی سوچنے والی جوچیز مجھے نہیں پسند وہ نہیں پسند آج کے بعد احتیاط کرنا وہ سختی سے بولا تھا
جبکہ روح نے اپنا سر پکڑ تے ہوئے ایک نظر پیچھے ٹیبل کی جانب دیکھا جہاں وہی لڑکا اور خوشی بیٹھے ہوئے تھے اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر خوشی نے ایکسائیڈ ہو کر اپنا ہاتھ ہلایا
روح فقط مسکرا کر چہرہ پھیر گئی اب وہ یارم کو مزید غصہ دلانے کا رسک بالکل نہیں لے سکتی تھی
°°°°°
اسے خوب سا تنگ کر کے وہ ابھی نہانے کے لیے گیا تھا
جب اس کے کمرے میں دستک ہوئی دروازہ کھولا تو سامنے خوشی مسکراتی ہوئی کھری تھی
روح نے فورا ایک نظر یارم کے واش روم کے بند دروازے کی جانب دیکھا تھا
ہائے روح کیسی ہو تم آئی ایم سوری مجھے پتا چلا کہ یہ تمہارا کمرہ ہے تو میں آگئی وہ دراصل مجھے تمہیں یہ دینا تھا
انویٹیشن کارڈ وہ ایک کارڈکی جانب بڑھاتے ہوئے بولی
تمہاری شادی ہو رہی ہے روح نے فورا کہا تھا اس کی غلطی نہیں تھی کارڈ کا شیب بھی ایساتھا
ارے نہیں بدھو میری شادی ابھی کہاں ہونے والی ہے یا کبھی ہونے والی ہے یا نہیں پتا کہ میں تمہیں دینے یہ آئی تھی آج رات نہ میرے بوائے فرینڈ کی بائیک ریس ہے
اور میں اسے چیئراپ کرنے کے لیے جا رہی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ تم اور تمھارا ہزبنڈ بھی چلو ویسے بھی آج سنڈے نائٹ ہے صبح ایک مصروف ترین دن ہوگا اسی لئے آج کوئی بھی جگہ اوپن نہیں ہے
جہاں تم جا سکوں کیونکہ یہاں کے لوگوں کا ایک اصول ہے وہ سنڈے کو چھٹی کرتے ہیں یہاں کوئی بھی انسان سنڈے کام نہیں کرتا
اسی لئے ہمارے سارے دوستوں نے یہ رئیس رکھی ہے بہت بری پلیٹ فارم پر یہ رئیس ہو رہی ہے
ویسے تو درک کبھی بھی ہارا نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی وہی جیتے گا میں اسے چیئراپ کرنے کے لیے جا رہی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو
یقین کرو بہت مزا آئے گا
وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامتی بول رہی تھی جب کہ روح کو تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو منع کیسے کرے
کیونکہ یہ لڑکی چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
دیکھو خوشی میں نہیں آسکتی یارم کو یہ سب کچھ پسند نہیں ہے اور بائیک ریسنگ میں مجھے بھی کوئی خاص انٹرسٹ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے یہ سب کچھ سمجھ میں آتا ہے روح نے سمجھانے کی کوشش کی
تو یار میں ہوں نہ تمہارے ساتھ کیوں پریشان ہو رہی ہو میں تمیں سمجھا دوں گی پلیز چلو نا وہ کیا ہے نہ درک کو سپورٹ کرنے کے لیے بہت کم لوگ ہیں
صرف میں اور میرے چند دوست لیکن جس کے ساتھ درک کا مقابلہ ہے وہ بہت برا چیمپیئن ہے سب لوگوں سے سپورٹ کرنے والے ہیں اگر تم میرے ساتھ چلو گی تو میرے بوائے فرینڈ کو سپورٹ کرنے کے لیے دو لوگوں کا اضافہ ہو جائے گا
اس سے ہو سکتا ہے کہ اس میں اور ہمت آجائے اور وہ بہت اچھے سے کمپٹیشن میں پارٹیسپیٹ کر سکے
وہ منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی
لیکن روح کو انکار کرنا تھا کیونکہ یارم کو یقیناً یہ سب کچھ پسند نہیں تھا اور وہ اسے مزید غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی پہلے بھی شام کی وجہ سے اس کا اچھا خاصا موڈ آف ہو گیا تھا
اس نے تو اسے لڑکی سے بات کرنے سے بھی منع کر دیا تھا اور اس لڑکی کو بھی واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ اس کا اندازہ اسے پسند نہیں لیکن پھر بھی یہ لڑکی باز نہیں آ رہی تھی
تو تم چل رہی ہو نا اس نے پھر سے پوچھا
نہیں خوشی میرے لیے ممکن نہیں ہے پلیز
روح یار میرے لیے ابھی ابھی تو ہماری دوستی ہوئی ہے کیا تم اپنی نئی نئی دوست کے لئے اتنا نہیں کرسکتی وہ ایموشنل بلیک میلنگ پر اتر آئی
خوش مجھے اجازت مانگنی ہوگی اور یارم ۔۔۔۔۔
تم اتنی پیاری ہو تمہارا ہسبینڈ تمہیں اجازت دے دے گا مجھے یقین ہے اگر نہیں مانتے تو ذرا سے ضد کر لینا اس کے چہرے سے ہی لگتا ہے کہ کہ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے اور یقین تمھاری ساری باتیں بھی مانتا ہوگا پلیز یار میرے لیے
اچھا میں کوشش کرتی ہوں اس نے ٹالنا چاہا
کوشش نہیں وعدہ تمھیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا کہ تم آؤ گی اتنی آسانی سے میں جان نہیں چھوٹنے والی
دوستی کی ہے تو نبھانی تو پڑے گی تمہیں مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا میں نے سنا ہے کہ مسلم کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑتے
تمہیں بھی مجھ سے وعدہ کرنا ہوگا تاکہ میں تم پر یقین کر سکوں
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی
روح کو ایسا لگا کے اس لڑکی کو یہاں سے بیچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے ہاں یہ تو سچ تھا کہ وہ یارم سے کوئی بھی بات منوا سکتی تھی
اسےبائیک ریسنگ میں اسے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں تھی لیکن اس لڑکی کی خوشی کی خاطر اس نے حامی بھر لی تھی
اور اب یارم کو منانا ایک بہت ہی مشکل کام تھا
واش روم کا دروازہ کھلا تو خوشی نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا جو بنا شرٹ تولیہ سے بال پہنچتا باہر آیا تھا
ہیلو مسٹر روڈ آپ روڈ کے ساتھ ساتھ ہاٹ بھی ہو وہ کھلے الفاظ میں تبصرہ کر گئی روح کی آنکھیں کھل گئی لیکن یارم نظرانداز کرتا آئینے کی جانب چلا گیا چہرے پر صاف ناگواری جھلک رہی تھی
ہاں ٹھیک ہے خوشی اب تمہیں یہاں سے جانا چاہیے اگلے ہی پل روحیں اس کی نظروں کے سامنے کھڑی ہوتی کہنے لگی
ہاہاہا تم کتنی جیلیس ہو رہی ہو یار میں تو صرف تمہارے ہسبینڈ کی تعریف کر رہی تھی وہ قہقہ لگاتی ہاتھ ہلاتی ایک بار پھر سے رہ کے قریب آئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کے گال کو چھوتی روح نے فورا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے آگے کرتے زبردستی اس کا ہاتھ تھام لیا تھا
اور پھر اسے کمرے کے باہر کرکے دروازے بند کر کے سانس لی
°°°°°°°
آپ کتنے بے شرم ہے ہے یارم کپڑے پہن کر نہیں آ سکتے تھے بہت زیادہ شوق نہیں ہیں آپ کو ان عورتوں کو یہ ننگا جسم دکھانے کی
وہ جلی بھونی اس کے قریب آئی تھی
سوری بےبی میں نہیں جانتا تھا کہ کمرے میں تمہارے علاوہ بھی کوئی موجود ہے آئندہ اپنی سہیلیوں کو اس وقت بلانا جب میں موجود نہ ہوں
وہ میری سہیلی نہیں زبردستی کی سہیلی ہے اور اس زبردستی کی سہیلی نے مجھ سے زبردستی کا وعدہ لے لیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم مسلمان اپنا وعدہ نبھاتے ہیں اسی لیے تیار رہیے گا
آج شام ہمیں یہاں جانے والے ہیں وہ کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی
روح میری کچھ اور پلیننگ ہے وہ کارڈ ٹیبل پر پھینکتے ہوئے اس کے قریب آیا
رہنے دیجئے اس پلیننگ کو وعدہ کیا ہے میں نے اور وہ ہندو لڑکی کہتی ہے کہ ہم مسلمان اپنے وعدے سے نہیں پھیرتے سو ہمیں جانا ہوگا
اور ویسے بھی وہ کہہ رہی تھی کہ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور میری ساری باتیں مانتےہیں
روح مسکراتے ہوئے اس کے گلے میں بانہیں ڈالے لاڈ سے بولی
یہ بات تمہیں کسی اور نے کیوں بتائیں تمیں خود اندازہ ہونا چاہیے
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے وہ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھونے لگا
مجھے پتا ہے اسی لئے تو اس کی بات مان لی ۔وہ اس کے ہاتھ نیچے کرتے ہوئے کہنے لگی ارادہ خود تیار ہونے کا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے اسے پکڑ لیا
تم نے وعدہ کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھا نہیں اسی لئے قیمت تو چکانی ہوگی کیونکہ تم میرا پلان خراب کر رہی ہو وہ اسے باہوں میں اٹھائے بیڈ پر لایا۔
اور روح کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا ۔سوائے اس کی من مانیاں برداشت کرنے کے
وہ دونوں تیار ہو کر نیچے آئے تو خوشی وہیں روح کا انتظار کرتی تھی اسے ہاتھ ہلانے لگی
یارم نے ایک نظر غصے سے روح کے چہرے کو دیکھا جس نے بمشکل اس کے تاثرات پر اپنی ہنسی بائی تھی
روح یہ چیپکو لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے اب ہم لوگ چل تو رہے ہیں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے کہا
یارم ہو سکتا ہے شاید اسے کوئی بات کرنی ہوگی
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو ذرا ذرا سی بات کو اتنا زیادہ سر پر سوار کیوں کر رہے ہیں روح نے خوشی کودیکھ کر مسکراتے ہوئے کم آواز میں کہا
جبکہ خوشی ان کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے بنا روح کو اپنے آپ کو روکنے کا موقع دیے اس کے گال کو دوبارہ چوم چکی تھی
تم بہت کیوٹ ہو یار آخر تم نے اپنے شوہر کو مناہے لیا میں جانتی تھی کہ آپ ٹپیکل ہسبنڈ کی طرح اپنی بیوی پر پابندیاں نہیں لگاتے ہوں گے
سچ میں مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ دونوں ہمارے ساتھ آ رہے ہیں میرا بوائے فرینڈ تو وہاں چلا بھی گیا ہے
میں تو روح کا ویٹ کر رہی تھی کیونکہ مجھے پکا یقین تھا کہ یہ ضرور آئے گی خوشی نے بے حد خوشی سے کہا جبکہ یارم کے چہرے کے زاویے مکمل بدل چکے تھے وہ روح کو انتہائی خطرناک نظروں سے گھورتا اپنے کمرے میں چلا گیا
روح تمہارے ہسبینڈ کو کیا ہوگیا کیا میں نے کچھ غلط بول دیا کیا
وہ اس طرح سے کیوں چلےگئے کہیں وہ تم سے ناراض تو نہیں ہو گے خوشی پریشان ہو چکی تھی
شاید وہ اپنا موبائل فون کمرے میں بھول آئے تھےمیں دیکھ کے آتی ہوں روح کو کوئی ڈھنگ کا بہانہ بھی نہ ملا لیکن یارم کے اس انداز کی وجہ وہ بھی سمجھ نہیں پائی تھی بس بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب آگئی جہاں وہ غصے سے گیا تھا
°°°°°
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو آپ اس طرح سے وہاں سے یہاں کیوں چلے آئے آپ ٹھیک تو ہیں طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی ۔۔۔؟
روح پریشانی سے اس کے پیچھے آکر رکی تھی جب کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑا سگریٹ سلگا رہا تھا
جب سے روح کی طبیعت خراب ہوئی تھی وہ تقریبا سگریٹ چھوڑ چکا تھا لیکن غصے میں بے حال ہو کر اکثر وہ اس کی غیر موجودگی میں وہ اپنی یہ طلب پوری کر ہی لیتا تھا
یارم آپ اتنے سگریٹ کیوں پی رہے ہیں آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں روح کو اس کے غصے کی وجہ بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی
کیونکہ تم ایک نمبر کی بے وقوف لڑکی ہو جاؤ جا کر اپنا منہ دھو کر آؤ
وہ غصے سے اچھی خاصی اونچی آواز میں بولا تھا توروح سہم سی گئی
اسے یاد تھا جب یار م اس پر غصہ ہوتا تھا تب ہی اس طرح سے بات کرتا تھا اسے غصے میں دیکھ کر روح بنا کوئی سوال پوچھے واش روم میں گھس گئی
شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تو وہاں گال پر سرخ لپ اسٹک کا نشان تھا وہ اس کے غصے کی وجہ کو سمجھ کر بے اختیار مسکرا دی
اور سوپ سے اچھے سے اپنا منہ صاف کیا
واش روم سے باہر نکلی تو یارم کو بیڈ پر لیٹے آرام سے سگریٹ نوشی کرتے پایا
یارم میں نے منہ دھو لیا اس نے بتایا تھا
دوبارہ دھو کر آؤ یارم اس کی طرف دیکھے بنا بولا
لیکن یارم دوبارہ کیوں ۔۔۔۔؟روح نے پریشانی سے پوچھا تو یارم نے غصے سے اس کی جانب دیکھا
افکورس ٹھیک سے صاف نہیں ہوا اسی لئے تو کہہ رہے ہیں آپ میں دوبارہ دھوکے آتی ہوں وہ اپنے سوال کا جواب دیتی خود دوبارہ واش روم میں گھس گئی
یارم کا غصہ بتا رہا تھا کہ آج اس کی خیر نہیں اس نے ایک بار پھر سے اپنا چہرہ رگڑرگڑکردھویا جو پہلے سے صاف ستھرا تھا
یارم میں دوبارہ دھو کر آ گئی واش روم سے نکلتے ایک بار پھر سے بتانے لگی
ایک بار پھر سے دھوکر او یارم نے حکم دیا
یارم۔۔۔۔روح اسے دیکھتے ہوئے کسی ضدی بچے سے انداز میں بولی تویارم نے اسے ایک بار پھر سے سخت نظروں سے گھورا
میں جارہی ہوں دوبارہ دھونے کے لیے
وہ غصے سے پیر پٹکتے دوبارہ واش روم میں بند ہو گئی اور اس بار اپنے چہرے کو مزید رگڑنے لگی
حد ہے ایک بار شکل دیکھ تو لے میری صاف ہوگیا ہے لپسٹیکٹ کا نشان وہ بربڑاتی دوبارہ باہر آئی جب یارم نے اسے دوبارہ جانے کا آرڈر دے دیا
یارم پلیز۔۔۔روح نے بے بسی سے کہا تھا لیکن یارم اسے سن کہاں رہا تھا
اور اس کے انتہائی سرد نظریں روح کو اس سے خوفزدہ کر رہی تھی
دس منٹ میں یہ اس کا ستراواں چکر تھا ۔
وہ اچھی خاصی تھک چکی تھی اور اس نے خود قسم کھا لی تھی کہ وہ خوشی کو دوبارہ ایسی حرکت کرنے کا موقع بھی نہیں دے گی
اس بار وہ باہر آئی تو یار م نے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے کی غلطی کر ہی دی تھی
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آکر رکا
اس کی تھوڑی کو اوپر کرتے ہوئے ہر طرف سے چیک کیا صاف شفاف پانی کی ٹپکتی بوندھے اسے بہکانے لگی تھی
جاودوبارہ دھو کر آؤ۔وہ ایک بار پھر سے کہتا روح کو بے ہوش کرنے کے قریب پہنچا چکا تھا
وہ مرے مرے قدموں سے ایک بار پھر سے واش روم میں گھس گئی
اور جلدی سے پانی کا چھلکا اپنے منہ پر مار کے باہر آئی کیونکہ اسے دوبارہ واپس اندر بھی آنا تھا
اسکاف باندھ لو اچھے خاصے لیٹ ہو چکے ہیں ہم کیا سوچ رہی ہو کہ تمہاری دوست اندر کمرے میں کیا کر رہے ہیں ہم وہ اس کا اسکاف اس کے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا تو روح شکر کا کلمہ پڑھتی اس کے پیچھے آئی لیکن خود سے وعدہ کر لیا تھا کہ اس ستم کا بدلہ وہ ضرور لے گی ۔
خوشی پریشانی سے باہر آگے پیچھے چل رہی تھی جب وہ دونوں باہر آئے
کیا ہوا روح سب کچھ ٹھیک تو ہے تم لوگ اچانک چلے گئے وہ اس کے قریب آتے ہوئے کہنے لگی
ہاں سب ٹھیک ہے یارم کا موبائل نہیں مل رہا تھا وہ اپنے بہانے کو مضبوط کرتی اس کے ساتھ چل دی جس پر خوشی بے اختیار مسکرائی تھی
صاف صاف کہونا تمہارے ہسبینڈ کا رومٹنک موڈ آن ہو چکا تھا بہانے کیوں بنا رہی ہو کم از کم اپنی سہیلی سے اتنا تو شیئر کر سکتی ہو
وہ شرارتی انداز میں بولی جب کہ ان کے چند قدم آگے چلتا یارم اس کی بات پر مسکرائے بنا نہ رہ پایا
آج جو رومانس اس نے روح کے ساتھ کیا تھا وہ ساری زندگی روح بھول نہیں سکتی تھی جس کے لیے وہ کافی مطمئن تھا اسے یقین تھا اب وہ دوبارہ غلطی نہیں کرے گی
°°°°
ِیہ لوگ اس جگہ پر بائیک ریس کرتے تھے یہ کوئی بہت بڑی رئیس ہونے جا رہی تھی یارم کو اس چیز بالکل بھی دلچسپی نہیں تھی جبکہ روح کا انٹرسٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھا لیکن خوشی کی خوشی کے لیے وہ یہاں یارم کو بھی اپنے ساتھ لے آئی تھی
یہاں آنے سے بہتر تھا کہ میں تمہیں ایک رومنٹک ڈیٹ پر لے کرجاتا اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت وقت گزارتے وہ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا تو روح نے اسے گھور کر دیکھا
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی اتنی بڑی زیادتی کے بعد میں آپ کے ساتھ کہیں بھی ڈیٹ پر چلوں گی غلط فہمی ہے آپ کو مسٹریارم کاظمی میں آپ کو منہ بھی نہیں لگاؤں گی وہ غصہ ہوتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کے انداز پر مسکرایا تھا
اور تمہیں یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ میں تمہارے انکار کو کوئی اہمیت دونگا وہ اسی کے انداز میں کہتا اس سے سوال کر رہا تھا
آپ ہیں ہی ایک نمبر کے چیٹر اس زیادتی کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی
کبھی فائدہ مت دیکھنا اس کا دیکھو تمہارا منہ کتنے اچھے سے صاف ہوگیا ہےاور لگے ہاتھوں تمہیں نصیحت بھی ہوگی کہ جو کام مجھے پسند نہیں ہے وہ تم نے نہیں کرنا وہ اب بھی اپنی بات کو ہنسی میں ہی لے رہا تھا
میں نے جان بوجھ کر تھوڑی کیا تھا وہ معصومیت سے بولی
ہاں میرا بچہ تم نے جان بوجھ کر نہیں کیا لیکن تم اسے روک سکتی تھی میرے حق پر کوئی نظر بھی اٹھائے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ بات اچھی طرح سے اپنے دماغ میں بٹھا لووہ پیار سے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے بولا
جب درک اور خوشی ان کے نزدیک آ کر کھڑے ہوئے
مجھے خوشی ہوئی تم دونوں کو یہاں دیکھ کر مجھے سپورٹ کرنے کے لیے تم دونوں کا شکریہ اس کی آواز سن کر یارم نے حیرت سے اسے دیکھا تھا وہ کروڑوں میں اس آواز کو پہچان سکتا تھا
اور پھر اس کی آنکھیں بھی تو بہت کچھ بیان کر رہی تھی
تو آپ بائیک ریس کرنے والے ہیں یار م کو خاموش دیکھ کر روح نے تھوڑا سا انٹریسٹ دکھایا
ہاں روح میرا بوائے فرینڈ چیمپین ہے اسے کوئی ہرا نہیں سکتا آج تک اس نے ایک بھی ریس نہیں ہاری اور آگے بھی ہارنے کے کوئی چانس نہیں ہیں خوشی کے انداز میں ایک مان تھا
جب کہ وہ مغرور سا لڑکا گردن اکڑا کر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اسے ہرانا آسان نہیں
ارے یہ تو کچھ بھی نہیں آپ میرے یارم کو نہیں جانتے میرے یارم آپ کو چٹکیوں میں ہارا دیں گے بائیک ریسنگ میں تو وہ چیمپئن ہیں اور یونیورسٹی میں تو ان سے آگے کوئی تھا ہی نہیں بائیک ریسنگ میں
اگر آپ اپنے آپ کو اتنا بڑا چمپین سمجھتے ہیں تو میرے یارم سے مقابلہ کریں وہ یارم کو آگے کرتے ہوئے درک کو چیلنج دینے لگی
جب کہ یارم کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے کبھی بھی روح کو اس بارے میں کچھ بھی بتایا ہو اس نے تو کبھی آپنے کالج یا یونیورسٹی کا ذکر بھی اس کے سامنے نہیں کیا تھا وہ بائیک ریس کا چمپین وہ کب بنا
روح یہ سب کیا بکواس کر رہی ہو تم وہ اسے گھورتے ہوئے بہت کم آواز میں غرایا
جبکہ درک کے لبوں پر ایک نامحسوس سے مسکراہٹ آئی اور پھر غائب ہوگئی
تو مسٹریارم کاظمی اگر تم خود کو اتنا ہی بڑا چمپین سمجھتے ہو تو ایک ریس ہو جائے تمہاری بیوی کو بہت مان ہے تم پر کہ تم جیتو گے
اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس انداز میں بولا کہ یارم انکار بھی نہ کر پایا
ہاں لیکن اتنا ضرور کہا تھا
کہ میں کوئی چیمپئن نہیں ہوں لیکن میری بیوی کو مجھ پر مان ہے تو میں تمہارا یہ چیلنج ایکسپٹ کر رہا ہوں
اور بس اتنا کہہ کر روح کی طرف متوجہ ہوا
جو اپنا ایک ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے بے حد معصوم لگ رہی تھی لیکن اس معصوم سے چہرے کے پیچھے جو شیطانی چھپی تھی وہ یارم بہت اچھے طریقے سے سمجھ گیا تھا یقینا وہ اس سے یہاں آنے سے پہلے والی بات کا بدلہ لے رہی تھی
18 بار میرا منہ دھوایا تھا نہ اب سو میٹر کے یہ ریس جیت کر دکھائیں وہ ناک چڑھاتی خوشی کے ساتھ دوسرے راستے سے جیت کے مقام کی طرف جانے لگی
اس لڑکی سے دور رہنا یارم نے ایک بار پھر سے اسے بارو کروایا تھاجس پر وہ منہ بناتی چلی گئی
ایک لڑکے نے اسے ایک ہیوی بائیک ہیلمٹ اور احتیاط چیزیں دی ۔
روح نے اسے اچھی خاصی مصیبت میں ڈال دیا تھا لیکن وہ جانتا تھا وہ شرارتی لڑکی شرارت کئے بغیر نہیں رہ سکتی
اور اپنا بدلا تو وہ ضرور لے گی یارم مسکراتا ہوا ہلمنٹ کو پہنتا بائیک سنبھالنے لگا
درک نے اپنا نام دوسری بائیک ریسنگ سے کٹوا دیا تھا کیونکہ وہاں یارم کا نام شامل نہیں تھا نہ جانے کیوں اس کے لیے باقی کسی سے بھی جیتا یارم سے جیتنے سے زیادہ ضروری نہیں تھا
جب کہ یارم کے لیے یہ ریس بالکل عام سے بات تھی اس کا جیتنا ہارنا اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتا تھا وہ تو بس روح کو منانے کے لئے اس کی بات مان گیا
بائیک ریس شروع ہو چکی تھی وہ دونوں ایک دوسرے سے کم نہیں تھے
کبھی ایک آگے نکل جاتا تو کبھی دوسرا
وہ تقریبا دس کلو میٹر تک رئیس پہنچ چکے تھے
یارم کو فی الحال یہ کھیل بہت آسان لگ رہا تھا
وہ کوئی رئیسر نہیں تھا ایک عام سا بندہ تھا جس سے ٹھیک سے بائیک ریسنگ آتی بھی نہیں تھی اس نے کبھی اس چیز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی اسے بھلا ایسے بچوں جیسے شوق سے کیا لینا دینا یہ تو آج کل کے لڑکوں کا ایک کھیل تھا
اگر روح ضد نہ کرتی تو یقینا وہ اس ریس میں کبھی بھی حصہ نہیں لیتا
لیکن اسے منانے کے لیے اب یہ بھی ضروری تھا کیونکہ آج شام میں واقع ہی اس کے ساتھ زیادتی کر گیا تھا ۔
جس کا بدلہ لینے کے لئے روح نے ایک چھوٹی سی شرارت کی تھی
اور اب اس شرارت کا نتیجہ وہ یہاں بائیک پر بیٹھا بھگت رہا تھا اسے راستہ بھی ٹھیک سے نہیں پتا تھا بس سڑک پر لگی چھوٹی چھوٹی لائٹس راستہ بتا رہی تھی ۔
جو صرف اور صرف آج کی اس ریس کے لیے لگائی گئی تھی دوسری رئیس شروع ہونے میں ابھی بہت وقت تھا اس سے پہلے پہلے اس رئیس کو ختم کرنا تھا یارم کو بس یہ بتا تھا کہ ان لائٹ کے سہارے ہیں وہ جیت تک پہنچنے والا ہے
وہ جانتا تھا کہ اس کے بائیک کی اسپیڈ زیادہ تیز نہیں ہے وہ بہت نارمل سپیڈ میں بائیک چلا رہا تھا لیکن اس کے ساتھ دوسرے بائیک پر سوار درک جو کہ ایک بائیک ریسنگ چیمپئن تھا وہ اتنی سلو کیوں چلا رہا تھا یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی
اگر اس کا مقصد یارم سے جیتنا تھا تو وہ کب کا آگے نکل چکا ہوتا
کیا ہوا مسٹر یارم کاظمی کیا تمہیں سمجھ نہیں آرہا راستہ وہ بالکل اس کی بائیک کے ساتھ اپنی بائیک چلاتا عجیب انداز میں پوچھنے لگا
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے راستہ بتا ہے
اور میں تمہیں یاد بھلا دوں کہ ہم ریس کر رہے ہیں تو تمہیں آگے نکل جانا چاہیے نہ کہ اپنے مقابل کا انتظار کرنا چاہیے کہ کب وہ تم سے آگے نکل کر رئیس جیتا ہے یارم ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے بولا جب کہ اس کی بات سن کر درک مسکرا دیا تھا
تم نے خرگوش اور کچھوے کی داستان سنی ہے یقینا سنی ہوگی اگر میں تم سے آگے نکل جاؤں تو وہ خرگوش یقین میں ہوگا اور یقین مانو کے ہار ریس میں خرگوش راستے میں سوتا نہیں ہے
مجھے بچوں والا کھیل پسند نہیں ہے یارم کاظمی کھیل وہ مزہ دیتا ہے جس میں ٹکر کا مقابلہ ہو تم صرف اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے یہ رئیس کر رہے ہو تمہارے دل میں جیتنے کی خواہش نہیں ہے اور ایسی رئیس کو جیت کر مجھے بھی کوئی خاص خوشی نصیب نہیں ہوگی
اگر تم مقابلہ کرنا ہی چاہتے ہو تو ٹھیک سے کرو تاکہ مجھے جیتنے اور تمہیں ہارنے میں مزا آئے اگر اپنی بیوی کا مان رکھنے کے لئے ریس میں حصہ لے لیا ہے تو اسے جیت کے دکھاؤ
یوں بچوں جیسا گیم مت کھیلو وہ اپنی بائیک کو ریس دیتے ہوئے کہنے لگا تو اس کے بات میں یارم کو بھی دم لگا تھا
لڑکے مجھے چیلنج کر کے پچھتاؤ گے تم ہو سکتا ہے اس رئیس میں مجھے جیتنے اور تمہیں ہارنے مزا آ جائے وہ اس انداز میں بات کر رہے تھے کہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں
میں تو یہی چاہتا ہوںمیں نے آج تک کار کا سواد نہیں چکھا اگر ہمت ہے تو آج ہارکے ذائقے سے روشناس کروا دو مجھے
وہ اپنی بائیک کو ریس دیتا اس سے آگے نکل چکا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
اس کی بات پر یارم مسکرایا اب وہ صاف انداز میں اسے چیلنج کر چکا تھا اور اب یارم کو بھی یہ ریس جیتنے تھی صرف روح کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے بھی اپنے بائیک کو رئیس دیتے ہوئے وہ کچھ ہی پل میں اپنی بائیک کافی آگے لے آیا
اور اب یہ مقابلہ اصل میں شروع ہوا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب تھے اور فل سپیڈ میں آگے بھر رہے تھے کبھی یار م درک سے تو کبھی درک یارم سے آگے نکل آتا
وہ دونوں آدھا سفر طے کر چکے تھے سو کلو میٹر کی ریس میں تقریبا پچاس کلومیٹر سفر آگے آچکا تھا
جب کہ کسی ایک کی جیت کے انتظار میں روح اور خوشی پہلے ہی دوسرے راستے سے جیت کی مقام تک جا چکے تھے جہاں روح یارم کی جیت کا انتظار کر رہی تھی وہی خوشی کو بھی یقین تھا کہ درک جیت جائے گا
کیونکہ وہ آج تک کبھی بھی ہارا نہیں تھا جبکہ دوسری طرف تو کھیل ہی الگ تھا روح نے بس اسے تنگ کرنے کے خاطر اسے زبردستی اس ریس کا حصہ بنا دیا
جب کہ یارم نے تو کبھی ذکر بھی نہیں کیا تھا کہ اس نے کبھی بائیک چلائی بھی ہے
وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ یارم کو بائیک چلا نہیں آتی بھی ہے یہ نہیں
اور اب وہ اپنی بیوقوفی پر پچھتا رہی تھی۔جب کہ خوشی تو بہت خوش لگ رہی تھی اسے یقین تھا کہ درک ہی جیتے گا
ان کو یہاں پہنچے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ ہونے والا تھا
اور ابھی تک دور دور تک کہیں بھی کھلاڑیوں کا نام و نشان نہیں تھا
بہت زیادہ لوگ نہیں تھے بس کچھ خوشی کے دوست تھے اور دوسری طرف روح بلکل اکیلی
ہاں لیکن خوشی اسے بالکل بھی اکیلا پن محسوس نہیں ہونے دے رہی تھی
وہ ایک مخلص ساتھی کی طرح اس کے ساتھ ساتھ کھڑی اسے خوش کرنے کی خاطر کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دیتی ان کے دوست بھی برے نہیں تھے بہت نورمل سے لوگ تھے کہ شاید اکثر وہ وقت گزاری کے لیے یہ اب کرتے تھے
جب کہ بہت سارے لوگوں کو تو وہ پیچھے ہی چھوڑ آئے تھے شاید ان لوگوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا
°°°°°°
ارے ثانی تم ایک چھوٹے سے بچے کو یہاں کیوں لے آئی ۔میں نے تمہیں اکیلے آنے کے لیے کہا تھا بچہ بچارہ بوا ہو جائے گا وہ ثانیہ سے کہنے لگی جس کا اضافہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ہوا تھا
وہ دونوں سے باتوں میں مصروف تھی جب وہ بھی خوشی کے پاس آ کر رک گئی تھی اس کے ساتھ ایک چھوٹا تقریبا پانچ چھ سال کا بچہ تھا
جوکہ اس کے ہسبینڈ کی پہلی شادی میں سے تھا
وہ ایک بہت امیر شخص تھا اور اس کی بیوی اسے کسی وجہ سے چھوڑ کر چلی گئی
ایسے میں اس نے ثانیہ سے شادی کر کے اسے ایک روئیل لائف سٹائل دیا تھا اور بدلے میں صرف اور صرف اپنے بیٹے کیا خیال رکھنے کی شرط رکھی تھی
جو ثانیہ کے لئے مشکل نہیں تھا وہ بچہ اپنے تمام کام بہت آسانی سے کر لیتا تھا بس اسے سنائی نہیں دیتا تھا
وہ بچہ پیدائشی بہرے تھا جس کی وجہ سے اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی اور ثانیہ اس کے لئے ایک اچھی ماں ثابت ہو رہی تھی
یار گھرپے کوئی نہیں تھا مجھے لگا یہ نہ ہو کہ میرے یہاں آنے کے بعد یہ جاگ جائے اور ابھی ابھی تو یہ میرے ساتھ اٹیچ ہونا شروع ہوا ہے میں اسے اس طرح سے چھوڑ نہیں سکتی
میرے ہسبنڈ کیسی میٹنگ کے سلسلے میں یہاں سے کہیں گئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اس خیال رکھنا پر رہا ہے
اور ویسے بھی اگر میں اس کا خیال نہیں رکھوں گی تو اور کون رکھے گا اخر یہ میرا بیٹا ہے ثانیہ نے محبت سے اس کی طرف دیکھا
جبکہ بچے نے مسکراتے ہوئے اپنی سوتیلی ماں کو دیکھا تھا جیسے وہی اس کا سہارا ہو
چلو یار یہ تو بہت اچھی بات ہے یہ بھی تھوڑی دیر انجوائے کر لے گا
لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے نیند آرہی ہے یہ خوشی اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو ثانیہ نے ایک نظر اسے دیکھا جو مسکراتے ہوئے کبھی روح کو تو کبھی ثانیہ کو دیکھ رہا تھا
وہ ان کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ سکتا تھا لیکن ان کی بات کو سمجھ نہیں سکتا تھا
اٹس اوکے یار ابھی تھوڑی دیر میں گھر واپس چلے جاؤں گی
وہ تو میں گھر پہ بوررہی تھی تو سوچا یہی پر آ جاؤں اور درک کو جیتا ہوا دیکھ لوں تھوڑا فریش فیل کروں گی ویسے بھی آج کل سارا سارا وقت تو میرا گھر پر گزر جاتا ہے
روح کو تو وہ کافی اچھی لگ رہی تھی جو سوتیلی ماں ہونے کے باوجود اس بچے کا اتنا خیال رکھ رہی تھی بے شک دولت اور اپنے روئیل لائف سٹائل کے لئے ہی سہی لیکن اس بچے کو ایک ماں تو مل گئی تھی ۔
°°°°
یہاں کھڑےکھڑے اب روح کے پیروں میں بھی درد ہونے لگا تھا
لیکن یہ ریئس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
بس خوشی کو ریسنگ سیٹلائٹ کے ذریعے میسج آ رہے تھے کہ اب سفر اتنے کلومیٹر باقی ہے ۔
روح تو یہاں آکر اچھی خاصی بور ہو چکی تھی اور پچھتا بھی رہی تھی اس سے تو بہتر تھا کہ وہ یارم کے ساتھ ہیں کہیں چلی جاتی
ابھی وہ اپنی سوچوں میں ہی ڈوبی ہوئی تھی کہ سامنے سے بائیک ایک ساتھ نظر آئی
دو لائٹ چل رہی تھی آگے کون تھا اور پیچھے کون دور سے سمجھنا بہت مشکل تھا اور بائیک فل سپیڈ سے آگے بڑھ رہی تھی
بائیک نظر آتے ہی خوشی اور باقی سب لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا جب کہ وہ خاموشی سے کھڑی تھی ۔
جب وہ چھوٹا بچہ اچانک سرک کے بیچوں بیچ آ گیا ثانیہ پاگلوں کی طرح شور مچانے لگیں ۔وہ جانتی تھی کہ اس کو کچھ بھی ہوا تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔
ہیوی ریسنگ بائک میں توبریک نہیں ہوتی ۔اب کیا ہوگا ثانیہ تمہیں اختیاط کرنی چاہیے تھی خوشی پریشانی سے بولی
جبکہ ثانیہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھاگ کر بچے کو بچا لے
بائیک آگے کی طرف آرہی تھی وہ دونوں ہی بچے کو سڑک کے بیچوں بیچ سے دیکھ چکے تھے ۔ثانیہ کے چیخنے چلانے سے بچے پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا وہ اس کی بات کو نہ سن رہا تھا اور نہ ہی صرف دیکھ رہا تھا
درک بچے کی پرواہ کیے بائیک فل سپیڈ میں آگے بڑھ چکا تھا جبکہ ہارم کو پتا تھا تو بس اتنا کے مزید بائیک اگلے جانے سے یقینا اس بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے
لیکن اس آدمی کو اس کی پرواہ ہی کہاں تھی اسے تو بس اپنی جیت سے مطلب تھا
لیکن یارم اتنا خود غرض نہیں تھا وہ اپنی بائیک کو سیپڈ دیتے ہوئے نہ صرف سے آگے لے گیا بلکہ ایک ہی جھٹکے میں بائیک کو چھوڑ کر بچے کو بچانے کی خاطر سڑک کے بیچوں بیچ کود گیا
جب کہ درک بنا بچے اور یارم کی پرواہ کیے اب اپنا بائیک جیت کے مقام کی طرف بڑھا لے گیا ثانیہ پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی سڑک کی طرف آئی تھی جبکہ روح کا رکا ہوا سانس بحال ہوا
لیکن وہ دور سے ہی یارم کو گرتے ہوئے دیکھ چکی تھی اور اسے یقین تھا کہ یارم کو گہری چوٹ لگی ہے اسے سر سے خون بہہ رہا تھا جب کہ بچہ بالکل صحیح سلامت یارم کی باہوں میں تھا
ثانیہ نے بھاگتے ہوئے کی اپنا بچہ لیا جو کہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا جبکہ روح اس کے پاس کھڑی اس کے سینے پر لگی چوٹ کو دیکھتی تو کبھی سر کی چوٹ کو
یارم آپ کو کا تو بہت خون بہہ رہا ہے ہمیں ڈاکٹر کے پاس کرنا چاہیے وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی یارم بے اختیار مسکرایا
اب رونا مت شروع کر دینا میری جان میں بالکل ٹھیک ہوں
بس ذرا سی چوٹ آئی ہے
شکر ہے کہ بچے کو کچھ نہیں ہوا
اس نے بہت پیار سے روح کو جواب دیا جبکہ انتہائی سرد اور غصے بھری نظروں سے سامنے سے آتے درک کو دیکھ رہا تھا
اسے کبھی نہیں لگا تھا کہ وہ اپنی جیت کے لیے اتنی خود غرضی پر اتر آئے گا
تمہارا دماغ خراب ہو گیا تھا کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ اگر تم ایک انچ اس بچے کے قریب سے گزرتے تو اس کی جان جا سکتی تھی
اتنے خودغرض کیسے ہو سکتے ہو تم
مجھے ویسے بھی اس کھیل کی جیت اور ہار سے کوئی مطلب نہیں تھالیکن تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ اس بچے کی جان جا سکتی تھی
ایک ہی پل میں وہ مر سکتا تھا لیکن تمہیں تو بس اپنی جیت سے مطلب تھا یارم کو اس پربہت غصہ آیا تھا وہ صرف ایک کھیل دیکھنے کے لئے اتنا آگے بڑھ گیا کہ کسی زندگی کی طرح پروا نہیں
وہ اس شخص سے کبھی ایسی امید نہیں رکھ سکتا تھا
میں نے اس بچے کا ٹھیکہ نہیں رکھا ہے ویسے بھی اگر بچے سنبھال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہیں
اور اگر پیدا کرہی لیتے ہیں تو ایسی جگہوں پر لاتے ہی کیوں ہیں
یہی پر بورڈ لگانا چاہے کے یہاں بچوں کو لانا الاؤ ہے
اور وہ بچہ مرتا ہے جیتا میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں اگر وہ میرے راستے میں ہوتا تو اپنی جیت کی خاطر میں اس کے اوپر سے بھی بائیک نکالنے میں ایک سیکنڈ نہ لگاتا
کیوں کہ اگر درک کو زندگی میں کسی چیز سے محبت ہے تو وہ صرف اور صرف اس کی جیت ہے
۔آئندہ اپنے بچے کو یہاں لے کر مت آنا وپ ثانیہ کو سخت انداز میں بولا
کتنےبے دل انسان ہو آپ۔۔بےحسی آپ کی رگ رکگ میں بھری ہے وہ بچہ مر سکتا تھا لیکن آپ کو تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
آپ کے لیے اگر کوئی چیز اہمیت رکھتی ہے تو صرف یہ جیت اور اس بچے کا کیا آپ کو کوئی مطلب نہیں کہ اس بچے کے ماں باپ پر کیا بیتتی روح غصے سے بول تک نہیں پا رہی تھی
ہاں ہوں میں بےدل میں بچپن سے ایسا ہی ہوں سہی کہا ےم نء بےحسی میری رگ رگ میں بھری ہے اسی لئے تو سب لوگ مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتے ہیں ایک ایسا انسان جس کے سینے میں دل نہیں ہے اور ایسے انسان سے اچھے کی امید رکھنی بھی نہیں چاہے
وہ روح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا کہہ کر ایک نظر یارم کو دیکھ کر آگے بڑھ گیا یارم اس کے اشارے کو سمجھ چکا تھا
وہ اس کی بات کے مطلب کی گہرائی تک جا چکا تھا
اب ادمی کیا تھا کیا نہیں یہ بات وہ صاف الفاظ میں اسے بتا کر جارہا تھا جب اچانک رکا اور ایڑیوں کے بل گھوم کر ایک بار پھر سے روح کی طرف جھکا
تمہارا چیلنج ہارگئی تم تمہارے شوہر کو ہرا دیا ہے میں نے ہار ہی گیا میرے ہاتھوں اتنا بھی کوئی چیمپئن نہیں تھا وہ اسے دیکھتے ہوئے ہنس کر آگے بھرنے ہی لگا کہ روح کی آواز سے اسے روک لیا
غلط فہمی ہے آپ کی کہ آپ جیت گئے ہیں اور اگر آپ اسے جیت کہتے ہیں تو آپ سے بڑا لوزر میں نے آج تک نہیں دیکھا
جس طرح کی جیت کو جیت کا نام آپ نے دیا ہے اس سے بڑی کوئی ہار نہیں ہو سکتی آپ ہار گئے ہیں لیکن انسانیت جیت گئی ہے۔
اس کے پیچھے کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں ثانیہ اپنے بچے کو گود میں لیے بہت پرسکون نظر آ رہی تھی
جبکہ روح اسے نظر انداز کرتی ایک بار پھر سے یارم کے زخم دیکھنے لگی
°°°°
وہ آہستہ آہستہ اس کے زخموں کی مرہم پٹی کر رہی تھی کیونکہ یہاں کوئی بھی کلینک اوپن نہیں تھا سنڈے ہونے کی وجہ سے پورا سویزرلینڈ سنسان گاوں کی طرح خالی پڑا تھا ۔
اسی لیے روح کو یہ سب کچھ خود کرنا پڑ رہا تھا کیونکہ یارم ہوٹل میں موجود کسی بھی ڈاکٹر یا نرس سے اپنا علاج کروانے کو تیار نہیں تھا
اور ایسے میں روح ایک اچھی بیوی ہونے کے ناطے اس کی ڈریسنگ کر رہی تھی ۔جب کہ یارم کو تو اسے تنگ کرنے کا موقع مل گیا تھا
وہ شرٹ اتار کر بیڈ پر بیٹھا ۔اور روح اس کے بلکل ساتھ بیٹھی ہوئی اس کی گردن پر موجود ننھے خون کے قطرے صاف کر رہی تھی اور یارم اسے اپنی باہوں میں لیے کبھی اس کی گردن میں منہ چھپتا تو کبھی گال کو لبوں سے چھونے لگا۔
روح شرم سے دوہری ہوتی اپنا کام مکمل کر رہی تھی۔
یارمم نے ڈریسنگ نہ کروانے کی قسم کھا رکھی تھی لیکن روح نے ضدکرکے اسے بٹھا لیا تھا اور اب وہ اسے یہاں بیٹھانےکا ہر جانا وصول کر رہا تھا کیونکہ اگر وہ یہاں سے اٹھتی تو یارم ڈریسنگ کروانے سے صاف انکار کر دیتا
بس یہی وجہ تھی کہ وہ خاموشی سے اس کی من مانیاں برداشت کر رہی تھی وہ کبھی اس کی گال چومتا تو کبھی بالوں سے کھلتا تو کبھی اس کی گردن پر جھک کر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا۔
روح ڈیسنگ مکمل کرتی اس کے قریب سے اٹھنے ہی والی تھی کہ یارم نے اس کے دونوں ہاتھ قید کرتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ کر اسے اپنے اوپر گرالیا
تم نے تو اپنا کام کر دیا اب مجھے بھی تو میرا کام کرنے دو یہ تو تم نے صرف ڈریسنگ کی ہے اس کا علاج بھی تو کرنا پڑے گا
وہ بہت پیار سے اسے بیڈ پر لٹاتا اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومنے لگا جبکہ خاموش سے پڑی روح اس کی من مانیاں برداشت کر رہی تھی آج جو کچھ بھی ہوا ہے دوبارہ نہیں ہونا چاہیے روح نے تو شرارتوں سے توبہ کرلی تھی
اسے درک جیسےسے بے حس انسان سے اسے نفرت ہوتی جا رہی تھی وہ اسے ایسا تو نہیں لگا تھا جانوروں سے اتنی نرمی سے پیش آنے والا انسانوں کے لئے کس قدر عجیب جذبات رکھتا تھا
یارم تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا خضر نے پریشانی سے کہا
ان آج ہی یارم کے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تھا ۔
خضرنے اسے لیلیٰ کے بارے میں بتایا تو یارم نے کہا کہ اسے ایکسیڈنٹ بارے میں ہمیں بتایا جائے پوری بات بتانے کے لئے یار م منع کر چکا تھا
میں بالکل ٹھیک ہوں خضر بس زرا سی چوٹ آئی تھی جو اب ٹھیک ہے کوئی اتنی بڑی بات تھی ہی نہیں جو میں تم لوگوں کو پریشان کرتا
یارم نے سمجھاتے ہوئے کہا
چوٹ چھوٹی تھی یا بڑی خضر کو نہیں پتا تھا کیونکہ وہ اپنی بڑی سے بٹی چوٹ کو بھی چھوٹی چوٹ کا نام دے کر نظر انداز کر دیتا تھا
اور شاید اسے اس سب کے بارے میں پتہ بھی نہیں چلتا اگر آج وہ روح کو فون کرکے اس کا حال احوال نہ پوچھتا
روح نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ بائیک ریسنگ میں اس کی وجہ سے حصہ لے کر زخمی ہو چکا ہے اور وہ تو ساری غلطی اپنی ہی بتا رہی تھی لیکن یارم نے جب اس سے پوری بات بتائی تو خضر کو کافی کچھ سمجھا گیا
لیکن فی الحال یارم نے اسے کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے منع کر دیا تھا وہ اس سب میں پڑنا ہی نہیں چاہتا تھا
دور کے بارے میں اے ٹو زی انفارمیشن نکال چکا تھا
یہی وہ لڑکا تھا جس نے اس دن اسے فون کر کے بتایا تھا کہ روح کہاہے ۔
یہ تو وہ اس کی آواز پہچان کر بھی معلوم کر چکا تھا
اس کی آواز سنتے ہی یارم کو پتہ چل چکا تھا کہ یہ وہی ہے اور اس نے اس کی مدد کیوں کی تھی یہ بات بھی وہ اچھی طرح سے جانتا تھا
پھر دوبئی میں روح کا اس سے ملنا اور پھر اس کا یہ یہاں آنے ایک ہی ہوٹل میں رہنا ایک اتفاق بھی ہو سکتا تھا اسی لئے یار م نے فی الحال کے لیے بہت سا ٹال دیا لیکن زیادہ دیر کے لئے نہیں کیوں کہ یہ معاملہ روح کا تھا
اور روح کے معاملے میں وہ کسی بھی قسم کا کمپرومائز نہیں کر سکتا تھا
اس نے سوچا تھا کہ وہ روح کو منا کر دے گا خوشی سے بات کرنے یا اس سے ملنے پر لیکن کل رات روح نے خود ہی اس کے زخموں پر مرہم لگاتے ہوئے کہا
کہ اسے ایسی لڑکی سے دوستی رکھنی ہی نہیں ہے جو اس کے شوہر کے زخموں کی وجہ بنے
اگر وہ اس کا دل رکھنے کے لیے وہاں نہیں جاتی تو یقینا یارم کو چوٹ بھی نہیں لگتی اس لیے اب روح نے خود ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ جتنا ہو سکے خوشی سے دور ہی رہے گی مانا کے خوشی ایک اچھی لڑکی تھی اور اس کی اچھی دوست بھی ثابت ہوسکتی تھی لیکن یارم سے زیادہ اہم کے لئے اور کچھ نہیں تھا
°°°°°
بےبی اب ڈیسائیڈ کر ہی لو کہاں جانا ہے گھومنے کے لیے کب سے اس بک کو ہاتھ میں لیے سوچی جارہی ہو ۔
مجھے اس سے جلن ہو رہی ہے ۔۔مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہے یہ جیسے اتنی توجہ مل رہی ہے
اف یارم حد ہوتی ہے یہ ساری جگہیں اتنی پیاری ہے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ ہم کہاں جائیں اور اوپر سے آپ تنگ کر رہے ہیں
روح کافی کنفیوزن لگ رہی تھی
کیونکہ یارم نے اس کے سامنے ایک بک رکھی تھی جہاں پر سویزرلینڈ کی بہت ساری خوبصورت خوبصورت جگہ تھی اور وہ ڈیسائیڈ نہیں کر پا رہی تھی کہ آج کا دن کو کہاں جا کر گزاریں
آج کا سارا دن اس نے روح کے نام کردیا تھا اس لیے وہ یہ چاہتا تھا کہ آج کی جگہ بھی وہی ڈیسائیڈ کرے لیکن روح تو سوچوں میں ہی چلی گئی
یارم یہاں چلتے ہیں دیکھیں سمندر دریا پانی بہت مزا آئے گا اس نے ایک بیچ کی طرف اشارہ کیا تو یارم قہقہ کر ہنس دیا
ڈارلنگ اس جگہ کو تم ہینڈل نہیں کر پاؤ گی یہ ایک بیچ ہے اور یہاں پر لوگ کپڑے تک پہننے کا تکلف نہیں کرتے یارم نےہنستے ہوئے کہا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی
توبہ ہے یارم آپ آسان لفظوں میں بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ جگہ جانے کے قابل نہیں روح سے گھورتے ہوئے بولی
جب کہ یارم کی مسکراہٹ اب بھی قائم تھی اب ایسی بھی بات نہیں ہے اگر تم چاہو تو ہم یہاں چل سکتے ہیں اور کچھ نہ سہی نظارے ہی ہو جائیں گے خوبصورت مقامات کے یارم نے ادھوریبات کی تو روح کو غصہ آ گیا
میں دیکھ رہی ہوں یارم یہاں آنے کے بعد آپ بہت بگڑگئے ہیں کچھ زیادہ ہی شوق نہیں چرا آپ کو ایسی برہنہ دوشیزاؤں کو دیکھنے کا وہ غصے سے بولی
مجھے تو میری شہزادی کو دیکھنے سے فرصت نہیں میں تو تمہارے لئے کہہ رہا تھا کہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ دنیا میں کیسی کیسی انسانک مخلوق پائی جاتی ہے یارم بات ہی بدل گیا اور اس کے بعد میں سچائی تھی
وہ کردار کا کھڑا اور صاف کبھی کسی عورت کے لئے غلط سوچ ہی نہیں سکتا تھا
اگر وہ عیاش پسند ہوتا تو کون روک سکتا تھا اس سے وہ دبئی کا ڈان تھا پورا انڈرولڈ اس کے اشارے پے چلتا تھا
کس کی اوقات تھی اس کے سامنے انکار کرنے کی یہ تو اس کی روح تھی جس کے سامنے وہ اپنا دل ہار بیٹھا
اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد دوبارہ کسی عورت کو دیکھنے کی خواہش ہی نہ جاگی
اس کے لیے تو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت اس کی روح تھی جس کے سامنے دنیا کا حسن کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا
روح کی چاہت روح کی قربت روح کی محبت حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا
اس کی ساری محبت ساری چاہت ساری وفائیں صرف اور صرف روح ہی تک محدود تھی
اسی لئے تو روح نے سر اٹھا کر کہتی تھی کہ یہ شخص صرف اور صرف اسی کا ہے وہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ایسا ممکن ہی نہیں تھا
°°°°°
بہت مچک سے اخر وہ ایک جگہ جانے کا ارادہ کر چکے تھے
یہ ایک امریلا ریسٹورنٹ تھا
جہاں پرہریز چھتریوں جیسی تھی اور روح اسے دیکھنے کے لئے بہت ایکسائٹڈ تھی تصویروں میں تو اسے یہ جگہ بہت الگ اور کچھ عجیب سی لگی لیکن اب وہ اسے لائیو دیکھنے جا رہے تھے
ابھی وہ لوگ اپنے ہوٹل سے باہر نکلے ہی تھے کہ سامنے سے خوشی آتی نظر آئی اس کا موڈ خراب ہونے لگا جبکہ اس کے ہاتھ میں بکے دیکھ کر روح نے یارم کی جانب دیکھا تھا یقینا وہ اس کی تیمایداری کے لیے اس طرف آ رہی تھی
ہیلو کیسے ہو آپ لوگ ایم ریلی سوری کل بہت زیادہ لیٹ ہو گیا تھا اسی لیے میں تمہارے ہسبنڈ کی حیریت پوچھنے نہیں آ سکی
یہ آپ کے لئے اس نے پھولوں کا بکے یارم کی جانب بڑھتے ہوئے کہا تو مرووتاً اسے تھامنا ہی پڑا
کل آپ کو کافی چوٹ لگی تھی مجھے بہت برا لگا لیکن تھینک یو سو مچ ثانیہ کے بیٹے کی جان بچانے کے لیے
اگر اسے کچھ ہوجاتا تو اس کی ساری زندگی سپویل ہوجاتی ثانیہ میری بہت پیاری دوست ہے اس کے ساتھ کچھ برا ہوتا تو مجھے بھی بہت برا لگتا اور دوک سے تو کچھ بھی اچھے کی امید کی نہیں جا سکتی ہے وہ بچے کی بھی پرواہ نہیں کرتا
لیکن میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں اور ثانیہ بھی آپ کے شکر گزار ہے وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے
اس نے اپنے گھر پے آپ لوگوں کے لیے ڈنر پلان کیا ہے اگر آپ آئیں گے تو مجھے اور ثانیہ کو بہت اچھا لگے گا
نہیں ہمارا کچھ اور پلان ہے خوشی ہمارا اگلا پورا ہفتہ بہت مصروف ہے ہم نہیں آ سکیں گے روح نے فورا ہی معذرت کرنی چاہی
اور اسے روح کی بات بہت اچھی لگی تھی چلو اسے تھوڑی عقل تو آئی یار م نے شکر کیا تھا
آف کورس آپ لوگ بیزی ہیں آپ یہاں اپنے ہنی مون کے لیے آئے ہیں ایسے میں میرا انوائٹ کر نہ کچھ عجیب لگتا ہے لیکن اگر آپ آتے تو ہمیں خوشی ہوتی خوشی نے پھر سے کہنا چاہا
میں نے کہا نا خوشی ہمارا اگلا ہفتہ پورا مصروف ہے ہم اگلے ہفتے واپس جانے والے ہیں اور جانے سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں شاید ہم یہاں بھی زیادہ وقت نہ گزارے میرا مطلب ہے ہم ہوٹل کے باہر ہی رہیں گے
اگر ہمارا ہوٹل کے آس پاس کہیں جانے کا پلان ہوتا تو تمہارا انویٹیشن ضرور قبول کرتے لیکن ہم آس پاس نہیں رہیں گے بلکہ ہمارا ارادہ دوسرے شہر جا کر گھومنے کا ہے روح نے لمبی چوڑی تہمید باندھی تھی
ٹھیک ہے روح اگر تم لوگ نہیں آسکتے تو اٹس اوکے لیکن پھر بھی میرے اور ثانیہ کی طرف سے تھینکیو ضرور اکسیپٹ کر لینا اس کی معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا
اور اس سے ملنے کے لیے آگے بڑھی لیکن یارم کے غصے کو سوچتے ہوئے اس نے فورا اپنا ہاتھ مضبوطی سے خوشی کے ہاتھ میں دے دیا
جبکہ خوشی جو اس کے گلے لگنا چاہتی تھی شرمندہ سی ہو کر پیچھے ہٹ گئی
چلیں یارم دیر ہو رہی ہے وہ یارم کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تو یارم سر ہلاتا اس کے ساتھ آگے بھرگیا جب کہ خوشی وہیں کھڑی حیرانی سے دیکھ رہی تھی
پھر اپنا موبائل نکال کر کسی کا نمبر مل لگی
روحی بہت عجیب بیہو کررہی تھی شاید وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی اور میرا نہیں خیال کہ وہ اس دوستی کو بھی آگے تک رکھنا چاہے گی فون پر کسی سے کہتی بہت مایوس لگ رہی تھی
جب دوسری طرف سے کسی نے کچھ کہا اور پھر سے خوشی بولی
تو کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ سچ میں حیران تھی بے حد حیران
تم ایک انتہائی پتھر دل انسان ہو انتہائی بے حس انسان ہو میں پچھتا رہی ہو تم سے محبت کر کے وہ غصے سے کہتے فون رکھ کر ایک بار پھر سے دور جاتے روح اور یارم کو دیکھ رہی تھی
میں جانتی ہوں تم اس سے محبت کرتے ہو بے حد محبت کرتے ہو لیکن کبھی اسے نہیں بتاؤں گے بڑبڑاتے ہوئے مایوسی سے پلٹ گئی
°°°°°°
روح تمہارا انداز بہت عجیب تھا تم نے اس سے دوستی کی ہے اس سے اس طرح سے بات کرنا بہت عجیب لگتا ہے
کیا تم نے کبھی خضر یا شارف سے اس طرح سے بات کرتے ہوئے دیکھا مجھے
میں جانتی ہوں یارم میرا انداز اسے برا بھی لگا ہوگا لیکن میں اس پر ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ میں سے دوستی نہیں رکھنا چاہتی نہیں کوئی زبردستی کا دوست بن سکتا ہے اس کی وجہ سے اس کی ضدجس کی وجہ سے آپ کو چوٹ لگی
اور میرے لئے آپ سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں یارم مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کتنا برا لگتا ہے وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی کہ یارم بے اختیار مسکرا دیا
میرا بچہ اگر تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو رو کیوں رہی ہو وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھنے لگا
یہ سچ تھا کہ خوشی کا دل دکھا کر اس کا اپنا دل بھی دکھا تھا
خوشی جیسے پیاری سی لڑکی سے اس طرح سے بات کرکے تو خود بھی ہرٹ ہوئی تھی
یارم میں نے کہا نہ ہو میری زندگی میں سب سے اہم آپ ہیں آپ سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں میری اس کے ساتھ دوستی نہیں ہے
اور کل جو کچھ ہوا اس کے بعد تو مجھے اس سے بالکل دوستی نہیں رکھنی کیسے غیر انسانی کھیل کھیلتے ہیں یہ سب لوگ ذرا سوچئے اگر وہاں آپ نہیں ہوتے تو اس بچے کو ضرور کچھ ہو جاتا اور پھر اس لڑکی ثانیہ کی زندگی برباد ہوجاتی
آپ کو پتہ ہے اس کے شوہر کی پہلی بیوی اس بچے کو چھوڑ کر چلی گئی ہے یہ بچہ اس کا تھا ثانیہ تو بس اس بچے کا خیال رکھتی ہے اس کی ماں بن کر سوتلی ہی سہی لیکن اس بچے کو ماں تو مل گئی ہے
شاید پیسے اور دولت کی خاطر لیکن ثانیہ اس کا خیال رکھ رہی ہے
ثانیہ کی زندگی بھی بدل گئی ہےوہ اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی ہے اور اگر اس بچے کو کچھ ہوجاتا تو ثانیہ کی زندگی بھی برباد ہو جاتی اور شاید وہ بچہ بھی زندہ نہ ہوتا
نفرت تو مجھے اس آدمی سے ہو رہی ہے جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا کیا وہ انسان تھا کیا اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں یارم
مجھے تو یقین نہیں آرہا کیا کوئی اتنا پتھر دل بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی جان لیتے ہوئے ایک بار نہ سوچے
اس سے نفرت مت کرو روح وہ نفرتوں کے قابل نہیں ہے
میں بھی یہ کام کرتا ہوں نہ لوگوں کی جان لیتا ہوں
بے دردی سے ان کا قتل کرتا ہوں یارم اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے سمجھانے لگا
نہیں یارم ایسے گھٹیا انسان کے ساتھ اپنا مقابلہ نہ کرے آپ کے اندر انسانیت ہے آپ انسانیت کی خاطر یہ سب کچھ کرتے ہیں اور وہ حیوان انسان کی شکل میں حیوان ہے اس کا انسانیت سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے جس کی جھلک ہم کل بھی دیکھ چکے ہیں ایسا انسان صرف نفرتوں کے لائق ہو سکتا ہے اور پلیز اس کے بارے میں بات کرکے ہمارا ہنی مون خراب تو نہ کریں
گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی اور روح نے اسے درک کے بارے میں بات کرنے تک سے منع کردیا یارم کو بھی یہ ساری باتیں فضول ہی لگی تھی وہ ایک شخص پر اپنا کتنا قیمتی وقت برباد کررہے تھے
اچھا چھوڑو ہم کیا فضول باتوں میں پڑ رہے ہیں ہم ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنی چاہیے وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس کی انگلیوں کو لبوں سے لگاتا محبت سے بولا
ویسے ایک بات تو بتاؤ تمہارا ماموں باپ بننے والا ہے اور بھائی بھی تمہارے شوہر کی باری کب تک آئے گی
ویسے میں اس کام میں محنت تو بہت کر رہا ہوں لیکن ابھی تک کوئی چانس نظر نہیں آ رہے ذرا اپنے فیوچر بےبی سے پوچھ کر بتانا کہ کب تک آنے کا ارادہ ہے اسے بھی بتا دو کہ انڈر ولڈ کے ڈان کو بابا بننے کا شوق چڑاہے
یارم لمحے میں ساری بات بدل گیا پھر اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہونے لگا تھا وہ کبھی بھی کوئی بھی بات کر سکتا تھا اس سے کسی بھی قسم کی توقع کی جاسکتی تھی
یارم میں کہہ رہی ہوں خاموشی سے گاڑی چلائیں ورنہ مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی شرم و حیا سے سرخ ہوتے اسے ڈانٹتے ہوئے بولی تو یارم مسکرایا
مطلب اب میں یہ بات بھی نہیں کر سکتا
کوئی رومینٹک بعد میں نہیں کر سکتا
تمہاری دوست ی بات نہیں کر سکتا
اور اب میرے بچوں کی باتوں پر بھی تم نے پابندی لگا دی یہ تو زیادتی ہے نہ وہ ہنستے ہوئے بولا
کوئی زیادتی نہیں ہے آپ خاموشی سے گاڑی چلائیں یہ ساری باتیں بعد میں بھی ہو سکتی ہیں ابھی بہت وقت پڑا ہے ہے وہ ٹالتے ہوئے شیشے سے باہر دیکھنے لگی
اس کی کل جھکی نظریں شرمیلی سی آواز تو یارم کا دل دھڑک آتی تھی
°°°°°°
وہ امریلا ریسٹورنٹ میں بیٹھے اس خوبصورت جگہ کا نظارہ کر رہے تھے یہ واقعی ایک بہت ہی حسین جگہ تھی جہاں ہر چیر چھتریوں سے مشابہت رکھنے والی بنائی گئی تھی
بتایا جاتا ہے کہ اس ہوٹل کے مالک کو چھتری رکھنے کا بہت شوق تھا
وہ سردی میں دھوپ میں بارش میں ہرموسم میں چھتری کا استعمال کرتا تھا اور جب اس نے اپنے اس شوق کو ایک شکل دی تو یہ امبریلا ریسٹورنٹ وجود میں آیا
یارم کو تو اس ریسٹورنٹ کی ہسٹری بہت فنی لگ رہی تھی جبکہ روح بہت خوشی سے سن رہی تھی جب یارم فون بجنے لگا
وہ وئٹر کو آرڈر دیتا ہوااپنا فون لئے باہر چلا گیا کیونکہ ہوٹل کے اندر سروسز بہت زیادہ مسئلہ کر رہی تھی
°°°°°
ابھی اسے گئے ہوئے تقریبا دو منٹ ہی ہوئے تھے جب ہوٹل کی یونی فارم میں ایک ویٹر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یارم اسے باہر بلا رہا ہے ۔
یہ آدمی اردو کیسے بول رہا تھا شاید جانتا تھا کہ وہ پاکستانی ہے
سووز زبان کو سمجھنا ایک بہت مشکل ترین کام تھا وہ اس کی بات کو سمجھ کر مسکراتے ہوئے اٹھ کر اسی راستے پر چلی گئی جہاں سے یارم باہر نکلا تھا
ویٹرنے دور سے اشارہ کیا کہ اسے کس طرف جانا ہے اور اس طرف جاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ یہاں دور دور تک کوئی نہیں ہے وہ کسی غلط جگہ پر آگئی ہے عجیب سنسان جگہ تھی شاید یہ ریسٹورنٹ کا پیچلا حصہ تھا
اسے لگا کے کچھ گر بڑ ہے وہ مزید قدم آگے بڑھانے لگی اس کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا کچھ تو برا ہونے جارہا تھا لیکن کیا ۔۔۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے مزید آگے کی جانب جا رہی تھی جب کسی چیز کی آواز سنائی دی اور ساتھ یارم کی بھی
وہ درد سے کرایا تھا
روح تڑپتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی اس کے یارم کو کچھ ہوا تھا وہ درد میں تھا اسے تکلیف تھی اس کی آواز اس نے سنی تھی
اور پھر خاموشی چھا گئی وہ تیزی سے آگے بھر رہی تھی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں دیوار کی ساتھ اس کے سامنے ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر اس کی روح بھی تڑپ اٹھی کسی نے یارم کے منہ لچھ باندھا ہوا تھا
اسے سات لوکوں نے قابو کیا پوا تھا
سامنے والے آفمی نے پورا کا پورا چاقو کو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ایک بار نہیں دو بار نہیں نہ جانے کتنی بار ۔۔۔۔۔
جبکہ زخمی یا رم کے منہ پر لوہے کی کوئی عجیب سی چیز رکھی تھی جس کا نام تک وہ نہیں جانتی تھی
لیکن اسے دھکا دیتے ہوئے وہ اس آدمی کے ہاتھ میں آ گئی یارم کا چہرا زخموں سے چور تھا
لہو سے سرخ ہوتی آنکھیں سے یارم نے بس ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور وہاں سے جانے کا اشارہ کیا لیکن کے قدم جیسے زمین سے جوڑ چکے تھے
وہ بس پندرہ سے بیس لوگوں تھی ۔
ان لوگوں نے یارم کو زمین پر پھینکا وہ چلایا
جاوووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی چیخ میں انتہا کی تکلیف تھی روح بس بےجان نظروں سے یارم کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ رہی تھی
پکڑو اس لڑکی کو جانے مت دینا اسے آخر یہ ہمارءپے ڈان ڈیول کے دل کی دھڑکن ہے وہ شخص قہقہ لگاتے ہوئے بولا
اور وہ سب ہی لوگ روح کی جانب بھاگنے لگے
اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زمین سے قدم اٹھاتہ وہ جانتی تھی کہ اتنی چوٹوں کے بعد اتنی تکلیف کے بعد وہ یارم کودوبارہ نہیں دیکھ پائے گی اس کی آنکھیں یارم کے بے جان ھوتے وجود پر ٹھہری ہوئی تھی
جبکہ وہ لوگ تیزی سے اس کی طرف بھاگ رہے تھے آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھ کے اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور جو آخری منظر اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ یارم کا بے جان وجود تھا
ایک سال کے اندر دو اتنے میجر نروس بریک ڈاؤن کے بعد بھی زندہ ہیں
یہ کسی مجزے سے کم نہیں لیکن زیادہ امید مت رکھیں ابھی بھی ان کی جان خطرے میں ہے
کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے میں کوئی گرنٹی نہیں دیتا
اس لڑکی کی زندگی سوکھے پتے کی طرح ہے اور ایک ہوا کا جھونکا اسے موت کی آغوش میں لے جائے گا
ایک ذرا سا جھٹکا بھی اس سے اس کی سانسیں چھین سکتا ہے
آج اسے 16 دن کے بعد ہوش آیا ہے
لیکن آپ لوگوں کی ذرا سی لاپرواہی سے ایک بار پھر سے موت کے منہ میں لے جا سکتی ہے
فی الحال میں آپ لوگوں کو یہی سیجیشن دونگا کہ اسے ہسپتال میں ہی رہنے دیں
کیونکہ ابھی کچھ بھی ہو سکتا ہے
ٹینشن ذدہ ماحول میں اس کی طبیعت بگڑبھی سکتی ہے
اور جہاں تک اس کی حالت نظر آرہی ہے میرا نہیں خیال کہ آپ لوگ اس کا بہتر طریقے سے خیال رکھ پائیں گے
آگے آپ لوگوں کی مرضی آپ جو فیصلہ کریں فی الحال وہ ہوش میں تو آج کی ہے لیکن ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہے
اس کے آگے پیچھے کیا ہو رہا ہے فی الحال تو اسےکچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی
دوائوں کا بھی بے حد اثر ہے اسی لئے ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے میں یہی کہوں گا کہ اگر اس کی جان عزیز ہے تو اس کے سامنے ایسی کوئی بھی بات نہ کریں جس سے وہ ٹینشن لے
ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرتے ہیں وہاں سے چلا گیا جب کہ خضر اور شارف ایک بارھر سے اس بینچ پر بیٹھے تھے جہاں ڈاکٹر کے آنے سے پہلے بیٹھے تھے
کل رات تقریبا دو بجے روح کو ہوش آیا
ان کی سانس میں جیسے سانس آئی تھی ۔
لیکن اب ڈاکٹر کے خطرناک باتیں سن کر وہ پھر سے ٹینشن میں آ چکے تھے
خضر بے حد پریشان تھا جبکہ شارف کی آنکھیں نم تھیں وہ اسے دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے لگا
کیوں خضر یارم اور روح کی زندگی کی خوشیوں کا ٹائم پیریڈ اتنا کم کیوں ہے
سب ٹھیک ہوتا ہے پھر کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ سب برباد ہونے لگتا ہے اور اس بار تو سب برباد ہو گیا
روح کی حالت دیکھی نہیں جا رہی اور یارم ۔۔۔۔۔۔۔
شارف پھوٹ پھوٹ کر روتا خصر کے سینے سے لگ چکا تھا
اللہ پر بھروسہ رکھو شارف سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ان شاءاللہ
اور یوں ناامیدی کی باتیں نہ کرو ابھی تو ہم نے روح کا بھی سامنا کرنا ہے ذرا سوچو جب سے سب پتہ چلے گا یارم کے بارے میں وہ کیسے برداشت کرے گی
ہمیں صبر سے کام لینا ہوگا
اگر ہم ہی ہمت ہار جائیں گے تو اسے کون سنبھالے گا
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ فی الحال وہ دوائیوں کے زیر اثر ہے جب وہ ہوش میں آئے گی تب ہزار سوال کرے گی اور ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا
وہ شارف کو سمجھاتے ہوئے بولا جب نظر سامنے سے آتےاس لڑکے پر پڑی اس کے ساتھ ایک پیاری سی لڑکی بھی تھی
°°°°°°
کیسی ہے وہ ۔۔۔۔؟وہ خضر کے سامنے کھڑا پوچھنے لگا
ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گی ہم سنبھال لیں گے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ بہت روکھے سوکھے لہجے میں بولا تھا
یقینا ٹھیک ہو جائے گی ۔۔ڈاکٹر کیا کہتے ہیں وہ اس کے لہجے کو نظر انداز کرتا پھر سے پوچھنے لگا
درک میں ہزار بار تو میں سمجھا چکا ہوں ۔اب آخری بار کہہ رہا ہوں کہ اس سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے دور رہو اس سے
تم نے ہماری مدد کی ہم تمہارے شکر گزار ہیں
لیکن اب ہمیں تمہاری مزید کوئی مدد نہیں چاہیے سوپلیز روح سے دور رہو وہ سخت لہجے میں بولا
تم مجھے روکنے کا کوئی حق نہیں رکھتے خضر ۔
اور ویسے بھی میں اس سے کوئی تعلق جوڑنے یا رشتہ قائم کرنے نہیں آیا میں بس اس کا حال جاننے آیا ہوں ۔اس بار وہ بھی ذرا سختی سے بولا
وہ ٹھیک ہے اور ان شاءاللہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ہم اس کی فیملی ہیں ہم اس کا خیال رکھ لیں گے تمہاری ضرورت نہیں ہے ہمیں وہ چبا چبا کر بولا
مجھے پتہ چلا ہے کہ اسے ہوش آیا ہے میں ایک بار اسے دیکھنا چاہتا ہوں
میں تمہیں اس سے دور رہنے کے لیے کہہ رہا ہوں اتنی سی بات تمھیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی اس بار خضر کا لہجہ تیز ہوا تھا
میں اسے دور سے دیکھ کر چلا جاؤں گا ۔اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار نہیں صرف دیکھنے کی بات کی ہے میں نے
اس کے انداز نے درک کو اچھا خاصہ غصہ دلادیا تھا
خضر اسے سمجھانے کے لئے آگے بڑھا تو شارف نے اسے روک دیا
ٹھیک ہے تم اسے دیکھ سکتے ہو لیکن اندر مت جانا باہر سے ہی دیکھ کر واپس چلے جاؤ
کیونکہ ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں روح کے سوالوں کا اور جواب نہیں دے سکتے ۔شارف نے خضرکو روکتے ہوئے اس سے کہا تو وہ ہاں میں سر ہلاتا روک کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
اس نے دیکھا وہ ہوش میں تھی
لیکن پھر بھی اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا بس آنکھیں کھولے چھت کو گھورے جا رہی تھی
ایک نروس بریک ڈاؤن سے انسان کی جان چلی جاتی ہے لیکن اس نے ایک ہی سال میں 2 میجر نروس بریک ڈاؤن اپنی ننھی سی جان پر جھیل لیے تھے
یارم کی حال دیکھتے ہی وہ دماغی طور پر بالکل بے جان ہو چکی تھی
اس کا یارم اس کے سامنے دم توڑ رہا تھا
آہستہ آہستہ یارم کی آنکھیں بند ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی روح بھی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی یارم کو مرتے دیکھا تھا
وہ منظر یاد آتے ہی جیسے وہ ہوش کی دنیا میں آئی تھی وہ ایک دم اوف کنٹرول ہوتی چیخنے چلانے لگی جس پر روک تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا
°°°°°°°
یارم۔۔۔۔۔۔یارم ۔۔۔۔وہ لوگ مار رہے ہیں
کوئی بچاو ۔۔۔۔میرے یارم کو بچاو۔۔۔
مت مارو ۔۔۔۔مت مارو ۔۔۔میرے یارم کو بچاو
ماموں۔۔۔ ۔ ماموں میرے یارم ۔۔۔۔شارف بھائی۔۔۔میرے یارم کو بچا لیں
یارم نہیں مت ماروووو۔
یارم۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آواز پورے ہسپتال میں گھونج رہی تھی وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی چلا رہی تھی
ڈاکٹر تیزی سے کمرے کی طرف آیا
اور اس کے پیچھے ہی نرس انجیکشن لیے آ رہی تھی
کنٹرول کرو ان کو ابھی انجیکشن دینا ہوگا وہ عربی میں کہتا تیز تیز روح کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا
جب درک نے غصے سے اسے دھکا دیا
خبردار جو تم نے اسے انجکشن دیا ابھی اسے ہوش میں آئے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا ہے
کہ تم اس سے ایک بار پھر سے اس اندھیرے میں بھیجنا چاہتے ہو
ڈاکٹر کو دھکا دے کر وہ انتہائی غصے سے بولا تھا جبکہ ڈاکٹر پریشانی سے اسے دیکھنے لگا
یہ بہت ضروری ہے سرورنہ ان کی حالت بگڑ جائے گی
اس طرح سے یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی
ہمیں انجیکشن دے لینے دیجئے اگر یہ ہوش میں رہیں تو وہ ساری چیزیں یاد کرکے ایک پل پھر سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں گی
ڈاکٹر نے اسے سمجھانا چاہا
خبردار جو تم اس کے پاس بھی لے کر آئے
کوئی انجیکشن نہیں لگے کا روح کو وہ اسے دور کرتے ہوئے کہنے لگا
تو کیا آپ کے پاس ان کے سوالوں کا جواب ہے کیا آپ انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں بنا انجیکشن کے ڈاکٹر جیسے اسے چیلنج کر رہا تھا
ڈاکٹر اس آدمی کا دماغ خراب ہے پلیز آپ اپنا کام کریں کمرے کے اندر آتے تھے خضر نے روح کے دونوں ہاتھ تھامے تھے
اور ساتھ ہی درک کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر کو مخاطب کیا
میرا دماغ خراب ہے ۔تو خراب نہیں رہنے دو لیکن خبردار جو کسی نے روحی کی طرف قدم بھی بڑھایا
وہ خضر کو دیکھتے ہوئے غصے سے بولا
کیا تم اسے مارنا چاہتے ہو ۔ہاں تمہارے لیے یہ مشکل تھوڑی ہو گا آخر اپنے باپ کو بھی تم نے مارا تھا ۔جان لینا تو تمہارے لئے بہت آسان ہے نا خضر ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا لیکن درک نے اس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا تھا
اس کے ذہن پر اس وقت اس کا شوہر سوار ہے خضر صاحب
اور اس کا شوہر مر چکا ہے یہ سوچ ہی اس کی جان لے لے گی ۔
اس کے حواس پر اس کے ہوش پر صرف اور صرف اس کے شوہر کا قبضہ ہے وہ اپنے شوہر کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتی
اور آپ کو جو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ بے ہوش ہو جائے گی تو زندہ بچی رہے گی دور کر لے
کیونکہ یار م کاظمی روح کی روح میں بستا ہے ۔یارم کی سانس بند ہوچکی ہے یہ سوچ ہی اس کی دھڑکن روک دے گی
اگر یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لو وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال تا اسے روح کی زندگی پر بازی کھیلنے کی دعوت دے رہا تھا
جبکہ ڈاکٹر ان دونوں کی بحث کو دیکھ رہا تھا ۔
انجیکشن لگانا ہے یا نہیں ڈاکٹر نے پھر پوچھا کیونکہ روح مسلسل چلا رہی تھی
نہیں ۔۔۔۔وہ ان حالات کا مقابلہ کرے گی ۔ڈر کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرے گی وہ ڈاکٹر کو کہتا ایک نظر خضر کی طرف دیکھ کر جتلا گیا تھا
جبکہ حضر خاموش ہو چکا تھا
چیختی چلاتی روح کی جانب بڑھا
ماموں۔۔۔میرے یار م۔۔۔۔۔۔کو بچاو۔۔۔۔۔شارف بھائی ۔۔۔۔۔۔۔میرے یارم۔۔۔۔۔۔۔ماموں میرے یارم
وہ ۔ لائے جا رہی تھی
کوئی بھی اسے کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا
چپ۔۔۔۔۔در اس کے پاس آ کر سخت لہجے میں بولا۔
میرے یارم۔۔۔۔۔۔وہ سسکتی ہوئی بولی
ماموں۔۔۔۔میرے یارم۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا اک دم چپ
۔اب تم ایک لفظ بھی نہیں بولو گی سجمھی۔۔۔وہ سخت لہجہ اپنائے ہوئے تھا
خوشی بھی پریشان تھی۔
میرے یارم کو بچاو ۔۔۔۔۔۔ وہ مار رہے ہیں میرے یارم کو۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اس سے التجا کر رہی تھی۔
جب درک نے آگے بھر کر اسے اپنے سینے میں چھپایا ۔
اس کی حالت پر شارف کے ساتھ ایک پہلی بار خضر کی آنکھیں بھی نم ہو گئی
روح میری بات کو غور سے سنو اور سمجھو بھی وہ اسے خاموش کرواتا اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے کہنے لگا
جو بھی ہوا بہت برا ہوا یارم پر اس کے دشمنوں نے حملہ کیا تھا
لیکن تمہیں مضبوط بنانا ہوگا تمہیں ان حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا یارم کے بغیر تمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا ۔
وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہا تھا جبکہ روح خالی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اور اب اس کے الفاظ پر جیسے الجھ کر رہ گئی
یارم کے بغیر ۔۔۔۔۔۔
مطلب وہ سچ میں اسے چھوڑ کر جا چکا تھا
نہیں ۔۔۔۔میرے یارم کہاں ہیں۔۔۔۔۔
مجھے میرے یارم کے پاس جانا ہے۔۔۔
مجھے نہیں رہنا اپنے یارم کے بنا۔۔۔
ماموں۔۔۔۔شارف بھائی میرے یارم
یہ آدمی مجھے میرے یارم لے بغیر رہنے کا کیوں بول رہا ہے ۔
اور درک سے الگ ہوتے اسے دھکے دینے لگی
شارف میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ روح کے قریب جاتا ہاں لیکن خضر ہمت کر کے اس کے پاس آیا اور اسے تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا
سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا
میں وعدہ کرتا ہوں تم سے روح میں سب ٹھیک کردوں گا
تمہارا ماموں ہے نہ بس تھوڑا سا صبر کر جاؤ وہ اسے دلاسا دیتے ہوئے بول رہا تھا لیکن روح کے دل و دماغ پر بس ایک ہی سوچ سوار تھی کہ اس کا یارم اسے چھوڑ کر چلا گیا
کیا سب کچھ ختم ہوگیا کیا ۔۔۔۔میرے یارم نہیں رہے ۔۔۔۔۔
اللہ نہ کرے کیا بکو اس کر رہی ہوں میں جانتی ہوں مجھے تنگ کر رہے ہوں گے میں انہیں بہت ستاتی ہوں نا میں وعدہ کرتی ہوں ماموں آج کے بعد میں انہیں بالکل تنگ نہیں کروں گی
وہ جو کہیں گے میں وہ کروں گی ان کی ساری باتیں مانوں گی پلیز ان سے کہیں کہ میرے ساتھ اس طرح سے نہ کریں
دیکھیے مجھے سانس نہیں آ رہی ۔
ماموں روح اپنے یارم کے بغیر مر جائے گی ۔
ہاں روح مر جائے گی روح نہییں جی پائے گی اپنے یارم کے بغیر
شارف کو مر جانا چاہیے اگر یارم نہیں تو روح بھی نہیں
یہ کیسی محبت ہے میرے یارم مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں اب تک زندہ ہوں
یا اللہ مجھے موت دے۔۔۔۔۔۔۔
روح۔۔۔۔۔۔ اس کی بات پر خضر کے ساتھ ساتھ درک بھی اس کے سخت الفاظ پر دھارا
کیا بکو اس کر رہی ہو روب ایسا کیسے کہہ سکتی ہو تم ۔۔۔۔اتنی ناشکری اتنی گمراہی یہ کون سے رستوں کی مسافر بن رہی ہو تم اللہ کو ایسے انسان پسند نہیں خضر نے اسے سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا تو وہ ایک بار پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
لیکن خضر سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا تھا روح کے آنسو اس کی تکلیف اس کی تڑپ اس کی برداشت سے باہر تھی
خود پر اتنا کنٹرول کرنے کے باوجود بھی وہ خاموش نہ رہ سکا
°°°°°
انڈر ورلڈ کے اندر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو یارم کی جگہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس کی جگہ ڈون بن کر دبئی پر اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں
یارم کا قبضہ صرف دبئی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بہت سارے ملکوں کا انڈر ورلڈ مافیا اس کے انڈرکام کر رہا ہے
یارم کی زندگی کا ایک ایک پل خطرے سے خالی نہیں
کچھ عرصے سے روس کے ڈان ویلکس میتھو کی نظریارم پر تھی
وہ یارم سے دبئی کا مافیا ولڈ خریدنا چاہتا تھا جس کے لیے وہ کافی وقت سے کوشش بھی کر رہا تھا
لیکن یارم کی طرف سے انکار ہی ملا
اپنی ہر کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اس نے اپنے قدم پیچھے ہٹالیے ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی یارم کے راستے میں نہیں آئے گا
لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی
پچھلے چھ مہینے سے پل پل یارم پر نظر رکھے ہوئے تھا
یارم کو اس حوالے سے شک تو تھا لیکن ہم پریشان ہوں گے یہ سوچ کر اس نے ہم سے یہ سب کچھ شیئر نہیں کیا
وہ یارم کے بارے میں ساری انفرمیشن نکال چکے تھے وہ یارم کے ایک ایک پل پر حبر رکھے ہوئے تھے ایک ایک سیکنڈ کا حساب جانتے تھے وہ تمہارے بارے میں بھی سب کچھ جان چکے تھے کہ تم یارم کے لیے کیا ہو
وہ لوگ تمہیں یارم کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے
انہیں پتا تھا کہ تم یارم کی کمزوری ہو اور وہ تمہارے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اسی لئے ان لوگوں نے تم لوگوں کا پیچھا کیا اور سوئٹزرلینڈ پہنچ گئے ان کا ارادہ تمہیں پھسا کر یا رم سے اپنا مطلب پورا کروانے کا تھا
اور وہ لوگ اپنا یہ کام امبریلا ریسٹورنٹ کرنے والے تھے
لیکن اس سب کی خبر ہمیں وقت سے پہلے ہی لگ گئی میں نے اس دن یارم کو فون کرکے سب کچھ بتایا لیکن اس سے پہلے ہی وہ تمہیں ہوٹل کی پچھلی سائیڈ بھلا چکے تھے
تم سے پہلے یارم وہاں پہنچ گیا اور ان لوگوں نے یارم پر جان لیوا حملہ کر دیا ۔
ان لوگوں کا مقصد یارم کو جان سے مارنا تھا ۔
اور یارم کا مقصد ان لوگوں کے ہاتھوں مر جانا تھا
میرا مطلب ہے ہماری پلاننگ کا حصہ ۔۔۔۔۔۔خضر نے ٹھہر کر کہا تو وہ اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی ۔
تمہارے وہاں آجانے کی وجہ سے ہمارا پلان فیل ہوگیا
کیوں کہ یارم کا سارا دھیان تمہاری طرف جا چکا تھا اسے لگا تھا کہ وہ لوگ تمہیں نقصان پہنچائیں گے اس سے پہلے کہ وہ تمہیں بچاتا ان لوگوں نے یارم کو موت کے منہ تک پہنچا دیا
زہریلے چاقواور بازو پر دو گولیاں لگنے کے باوجود بھی اس نے اکیلے ان سب کا مقابلہ کیا لیکن تمہیں بے ہوش دیکھ کر وہ بے جان ہونے لگا تھا ۔
تب درک نے اس کی بہت مدد کی ۔
ان سب کے سامنے مرنے کا ڈرامہ کرنے کے بجائے وہ ان سب کا قتل کرکے تمہیں ہسپتال لے آیا
ڈاکٹر نے چوبیس گھنٹے دیے تو میں ہوش میں لانے کے لیے یارم کی وہ حال دیکھ کر تمھارا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ۔
24 گھنٹے بنا کسی سہارے کے وہ یہاں کھڑا رہا ڈاکٹر کے ہزار بار کہنے کے باوجود نہ تو اس نے اپنا علاج کروایا اور نہ ہی آپریشن تھیٹر سے باہر نکلا
لیکن 24 گھنٹے کے اندر اندر زہریلی شاقوکا زہر اس کے پورے جسم میں پھیل گیا ۔
لیکن پھر بھی وہ اپنا علاج کروانے کو تیار نہ تھا اسے بس اپنی روح سے مطلب تھا
24 گھنٹے کے بعد ڈاکٹر نے تھوڑی سی امید دلوائیں
لیکن زہر پھیلنے کی وجہ سے اسے انفیکشن ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا دبئی میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔
پچھلے سولہ دن سے اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے ہوش میں لایا جاتا ہے ۔باقی سارا وقت اسے بے ہوش رکھا جاتا ہے جب تک اس کے جسم سے زہر کا اثرختم نہیں ہو جاتا
لیکن اس ایک گھنٹے میں وہ تم سے ملنے کی اتنی ضد کرتا ہے کہ ڈاکٹر مجبور اسے دوبارہ بے ہوش کر دیتے ہیں
انڈر ورلڈ مافیا کو بچانے کے لئے یارم کا زندہ رہنا ضروری ہے ۔اور وہ زندہ تب ہی رہ سکتا ہے جب وہ یہاں سے دور رہے گا کیونکہ روسی مافیا کو بس یہی پتا ہے کہ ڈیول مر چکا ہے
اور اب اگر وہ یہاں واپس تمہارے پاس آیا تو وہ لوگ اسے جان سے مار ڈالیں گے
تم میری بات کو سمجھ رہی ہو نہ اسے تم سے دور رہنا ہوگا
ہم یہی ظاہر کریں گے کہ وہ نہیں رہا
خضر اسے سمجھاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اب اس کے جواب کا انتظار کر رہا تھا ۔
شارف بھائی مجھے نماز پڑھنی ہے ۔ وہ کافی دیر کے بعد بولی
روح اب تو صبح کے نو بج رہے ہیں نماز کا وقت نہیں ہے اسح پرسکون دیکھ کر خضر نے کہا۔
مجٙھے اللہ کو شکریہ بولنا ہے ماموں اور اللہ سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔
آج مجھے یقین ہو گیا کہ میرے اللہ جی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔اور وہ میرے یارم کو کچھ نہیں ہونے دیں گے ۔
وہ بہت صبر سے بولی تھی خضر اور شارف کو لگا تھا کہ وہ یارم سے بات کرنے کیا ملنے کی ضد کرے گی لیکن آپ تو بہت پرسکون لگ رہی تھی
لیکن اس کے لیے یارم کا زندہ ہونا زیادہ اہم تھا
اس نے کسی قسم کا کوئی شور یا ولاویلا نہیں مچایا تھا ۔وہ بلکل خاموش تھی۔خضر جو اس لی ضد اور بیماری کی وجہ سے اسے کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ اس کی طیبت دوبارہ خراب نا ہو جائے اس کے حوصلے کو دیکھ خود بھی حیران رہ گیا تھا
اس کا زیادہ تر وقت یارم کے لیے دعا کرتے گزر جاتا۔
وہ ہر وقت یارم کے ٹھیک ہونے کی دعا مانگتی
اس نے صرف اللہ کو ہی اپنا رازدار بنا لیا تھا۔
اس کی تکلیف اس کا درد صرف اللہ تک محدود ہو گیا تھا
وہ سجدوں میں روتی ۔سارا دن وہ صبر سے گرار دیتی لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا یارم ٹھیک نہیں ہے
لیکن پھر بھی وہ ہمت دیکھا رہی تھی ۔آج اسے ہسپتال سے ڈسچارج کیا جارہا تھا
خضر کہہ رہا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے کر جائے گا اس نے اس معاملے پر بھی بالکل ضد نہیں کی تھی
اس کی خاموشی خضر کو بہت پریشان کر رہی تھی
کہیں وہ اپنا درد اپنی تکلیف اپنے اندر ہی رکھ کر خود کو مزید بیمار نہ کرلے ۔
لیکن جب بھی وہ اس سے ملنے کے لیے جاتا وہ اسے ہنستی مسکراتی ملتی ہاں اس کی مسکراہٹ میں پہلے سی کھنک نہ تھی
ایک ہفتہ ہونے کو آ رہا تھا اس نے نا تو یارم سے بات کرنے کی ضد تھی نہ ہی اس سے دیکھنے کی اور نہ ہی اس سے ملنے کی
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یارم بہت بیمار ہے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اسے دوبارہ زندہ دیکھنے کا حوصلہ کھو چکی تھی جب اسے بتایا گیا کہ اس کا یارم زندہ ہے
اور اسے علاج کی ضرورت ہے
یارم بہت عام سی زندگی گزارتا تھا کسی نے بھی ڈیول کا چہرہ نہیں دیکھا تھا
وہ عام لوگوں کی طرح روز کام پر جاتا دنیا کے سامنے اس کی ایک کمپنی تھی جس میں وہ جاب کرتا تھا
بہت کم لوگ جانتے تھے کہ وہ عام سا انسان ہی انڈرورلڈ کی دنیا کا بادشاہ ہے
وہ صرف ان لوگوں کو اپنا چہرہ دکھاتا تھا جنہیں آ تو وہ ختم کرنے والا ہوتا یا پھر دشمنی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں دوستوں کے سامنے بھی نہیں آتا تھا
وہ بہت کم لوگوں پر یقین رکھتا تھا
اور یہ ساری باتیں روح بھی جانتی تھی
روح کے سامنے بھی تو کتنا عرصہ وہ ایک عام انسان کی زندگی گزارتا رہا روح کہاں جانتی تھی کہ اس کا تعلق انڈر ورلڈ سے ہوگا
وہ جانتی تھی کہ یارم کی جان اب بھی خطرے میں ہے اس کے دشمن اس کی تاک میں بیٹھے ہیں
اور جن لوگوں نے یارم پر حملہ کیا ہے ان لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ یارم اب نہیں رہا
اور خضر اس کی جگہ چکا ہے
آجکل خضر کی زندگی بھی خطرے میں تھی اس پر بھی حملے ہو رہے تھے
یہ توعام سی بات تھی کہ جو لوگ یارم کو ختم کرنے کو تیار تھے ان کے سامنے خضر بھی کسی کیڑے مکوڑے سے کم نہ تھا ۔
لیکن یہ بھی سچ تاکہ وہ یارم کی جگہ پر اتنی آسانی سے کسی دوسرے کو قبضہ نہیں کرنے دے سکتا تھا
لیکن اسے روح سے اتنی سمجھداری کی امید تو نہیں تھی
روح کو دیکھ کر وہ ابھی حیران ہو رہا تھا اس قدر پر سکون کیسے ہو سکتی تھی وہ
اس نے ہسپتال کے کمرے میں قدم رکھا تو روح کو جانماز پر بیٹھے پایا
سلام پھیرتی وہ اسے دیکھ کر مسکرائی
روح تیار ہو آج ہم گھر جانے والے ہیں ۔وہ بہت پیار سے اس کے ساتھ زمین پر ہی بیٹھ کر کہنے لگا
جی میں تیار ہوں ۔۔لیلیٰ کہاں ہے وہ تو ایک بار بھی نہیں آئی مجھ سے ملنےاسے ہوش میں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اب تک لیلیٰ اس سے ملنے نہیں آئی تھی معصومہ ایک پر آئی تھی اور پھر وہ بھی نہیں آئی
وہ تمہارے یارم کے پاس ہے روح میں وہاں نہیں جا سکتا میرے پاس بہت کام ہے اور شارف یہاں میری مدد کر رہا ہے
اگر ہم دونوں منظر سے غائب ہوئے تو ہمارے دشمنوں کو ہم پر شک ہو سکتا ہے اسی لیے ہمارا سامنے رہنا بہت ضروری ہے
صارم تم سے ملنا چاہتا ہے میں نے اسے ملنے کی اجازت دی ہے لیکن تمہیں اس کے سامنے کس طرح سے رہنا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہ پڑی
اس کی حالت یارم کی موت کا سوچ کر بہت بری ہو رہی ہے اور ہم چاہ کر بھی اسے کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ چاہے وہ ہمارا دوست ہو لیکن ہے تو قانون کا حصہ
اسی لیے تم کوشش کرنا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے تمہارے منہ سے ایسی کوئی بات نہ نکلے جس سے ہمارا پلان نا کامیاب ہو وہ اسے سمجھا رہا تھا
لیکن ماموں صارم بھائی تو دوست ہیں نا آپ کے انہیں ہم ان کو بھی نہیں یارم کے بارے میں بتا سکتے ہیں
وہ پولیس والے ہیں تو کیا ہوالیکن دوستی بھی تو اہم ہیں وہ پریشان ہوں گے صارم کو بنا دیکھے ہیں اس کی حالت سوچ کر وہ ٹینشن میں آ چکی تھی
اسے اندازہ تھا کہ صارم بھی یارم سے بے حد محبت کرتا ہے
جانتا ہوں لیکن روح ہم نہیں بتا سکتے خاص کر یار م کی زندگی پر رسک تو بالکل بھی نہیں لے سکتے
چاہے وہ جو بھی کہے تمہیں صارم کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کرنی تھی جس سے اسے ہم پر شک ہو
وہ اس کی ضروری اشیاء بیگ میں رکھتے ہوئے سمجھا رہا تھا روح نے ہاں میں سر ہلایا اس کے لیے بھی تویارم سے اہم کچھ بھی نہیں تھا
اور اگر صارم کو کچھ بھی بتانے سے یارم کی زندگی خطرے میں آ سکتی تھی تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا کرے
تم انتظار کرو میں ڈسچارج پیپر لے کر آتا ہوں وہ کہہ کر جانے لگا جب اسے روح کی آواز سنائی دی
ماموں یار م کا فون آپ کے پاس ہے ۔۔اس نے پوچھا خضر نءپیچھے مڑ کر دیکھا پچھلے ایک ہفتے میں اس نے یارم کے بارے میں پہلی بات کی تھی اس نے ہاں میں سر ہلایا
مجھے دے دیں پلیز
روح تم کیا کرو گی اس فون کا تمہارے کسی کام کا نہیں ہے خضر نے جواب دیا کیوں کہ اس کی نظروں میں واقع ہی وہ فون اس کے کسی کام کا نہیں تھا
وہ ہم نے وہاں سوئٹڑز لینڈ میں تصویریں کھینچی تھی نہ تصویریں دیکھنی تھی ۔روح نے پر سکون سا جواب دیا تو اس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنی جیب سے یارم کا فون نکال کر اس کے حوالے کر دیا
جس پر ایروپلین موڈ لگا تھا یعنی کہ کوئی بھی اس نمبر پر فون نہیں کر سکتا تھا
میں اسے اپنے پاس ہی رکھ لوں جب تک یارم واپس آتے ہیں وہ اس سے پوچھنے لگی
میری جان تمہارا ہی تو ہے تم اسے رکھ سکتی ہو وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا مسکرا کر باہر نکل گیا
°°°°°
اسے جب سے یہاں لایا گیا تھااس پر کنٹرول کرنا بے حد مشکل ہو گیا تھا
کوئی بھی اسے کنٹرول نہیں کر پاتا تھا جس پر ڈاکٹر پریشان ہو کر اسے بار بار بے ہوشگی کا انجکشن لگا دیتے
زہر سے زیادہ پھیل جانے کی وجہ سے ڈاکٹر ویسے بھی اسے زیادہ دیر ہوش میں نہیں آنے دیتے تھے
جن لوگوں نے یار م پر حملہ کیا ان کا مقصد روح کو استمال کرنا تھا
خضر نے پوری بات اسے بتائی
اس سے پہلے کہ وہ لوگ روح تک پہنچتے یارم ان تک پہنچ چکا تھا لیکن اسے دیکھتے ہی وہ لوگ بوکھلا کر اس پر حملہ کرنے لگے
ان لوگوں نے پہلا حملہ اس کے پیٹ پر کیا تھا
جس میں ایک زہریلا اورنوکیلا چاقو وہ اس کے پیٹ کے اندر اتار چکے تھے
ان لوگ جن کو کسی بھی قیمت پریارم کو ختم کرنا چاہتے تھے اگر وہ گولی سے نہیں مرا تو زہر سے مر جائے گا اور اگر زہر سے نہیں مرا تو چاقو کی تکلیف سے مر جائے گا
وہ لوگ پوری پلاننگ کے ساتھ آئے تھے
چاقو لگتے ہی زہر اس کے جسم میں پھیلنا شروع ہو گیا لیکن تب تک روح وہاں پہنچ چکی تھی
وہ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے یارم کو اس حالت میں دیکھ کر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو چکی تھی یارم نے اسے وہاں سے جانے کے لیے کہا تھا لیکن وہ اس کی بات سن ہی نہیں رہی تھی اس کا دھیان صرف اور صرف یارم کے جسم پر لگے جگہ جگہ زخموں پر تھا
روح کی کنڈیشن کو وہ اسی وقت سمجھ چکا تھا
اسی لیے اپنی جان بچانے سے زیادہ ضروری تھا کہ وہ اس کی ذہنی حالت کو سمجھتا وہ ابھی ابھی نروس بریک ڈاؤن جسے میجر اٹیک سے نکلی تھی
اس کے لئے ایک چھوٹا سا جھٹکا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا اور یارم کو تو اس دنیا میں سوائے روح کی اور کسی کی پروا ہی نہیں تھی وہ اپنی پرواہ کئے بغیر روح کی طرف بڑھنے لگا جب ان سب نے اس پر حملہ کیا
بہت زیادہ چوٹ لگنے کی وجہ سے زوہ ن پر گرتا ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا تھا لیکن دھیان کے دھاگے اب تک روح سے بندھے ہوئے تھے
وہ اس کے سامنے بیٹھی حیران اور پریشان اسے دیکھے جا رہی تھی یقینا وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو چکی تھی
اس کے بے ہوش ہونے سے پہلے وہاں درک آپہنچا تھا
یارم نے اس سے کہا تھا کہ وہ روح کو بچائے
لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے یارم کی مدد کی تھی اس نے مل کر ان سب کو یارم کے ساتھ مل کر جہنم رسید کیا تھا
جب تک وہ ہوش میں رہا اس نے وہ روح کو ہسپتال لے کر آیا تھا ڈاکٹر مسلسل اسکی منتیں کر رہے تھے کہ ایسی کسی بھی حالت میں اپنا علاج کروانا ہے ورنہ زہر اس کے پورے جسم میں پھیل جائے گا اور پھیل پھر گیا
اسے پرواہ تھی تو صرف اور صرف اپنی روح کی جو اس کے سامنے ایک بار پھر سے نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو چکی تھی
اس کے لیے ذرا سا جھٹکا بھی خطرناک تھا یہاں تو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے یارم کو مردہ دیکھنا اسکی تھی
یارم کاجسم اس کا چھوڑنے لگا تھا لیکن پھر بھی وہیں کھڑا رہا آپریشن تھیٹر کے اندر بھی اس نے روح کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا
حضر اور شارف 10 گھنٹے کی فلائٹ سے یہاں پہنچ چکے تھے
لیکن تب تک یارم کا پورا بدن انفیکشن کا شکار ہو چکا تھا
اور جس طرح زہر اس کے پورے جسم میں پھیلا تھا اسے ہوش میں رکھنا بھی خطرناک ہونے لگا
ہسپتال میں یارم پر دوسری بار حملہ ہوا کسی نے آخری اتارآکسیجن کر اس کی جان لینے کی کوشش کی
اور اس کے بعد پورے ہسپتال میں یہ خبر پھیل چکی تھی زہر پھیلنے کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی لیکن خضر رات کی خاموشی میں یارم کو اسپتال سے غائب کر سری لنکا بھیج دیا
سری لنکا کے معافیاکے ساتھ یارم کے بہت اچھے تعلقات تھے
اور اس وقت وہ صرف اور صرف ان ہی لوگوں پر بھروسہ کر سکتا تھا
لیلی اس کے ساتھ چلی گئی پھر روح کوکومہ سے ہوش نا آنے پر وہاں سے دبئی کے ہسپتال میں شفٹ کرچکے تھے
دبئی کے انڈر ورلڈ مافیا میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ ڈیول اب نہیں رہا اور اس کی جگہ خضر سنبھال چکا ہے
جبکہ یہاں سری لنکا میں یارم پر کنٹرول کرنا ہے ایک بے حد مشکل کام تھا اسے زیادہ تر بے ہوش ہی رکھا جاتا
کیوں کہ ہوش میں آنے کے بعد وہ بس ایک بھی بات کرتا کہ اسے اس کی روح چاہیے
اس کو سولہ دن تک ہوش نہیں آیا لیکن خضر نے لیلی کو فون کرکے بتایا تھا کہ وہ ہوش میں آ چکی ہے
اور درک نے اسے یارم کے زندہ ہونے کا بھی بتا دیا ہے
کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر روح کو یہ پتہ چلتا کہ یارم نہیں رہا تو یقیناً روح مر جاتی
°°°°
ڈاکٹر نرس اورگاڑز کا ہجوم اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا
اس کا چیخنا چلانا پورا ہسپتال سن رہا تھا جبکہ لیلی کچھ فاصلے پر کھڑی اس کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہی تھی
یارم پلیز میری بات سن لو میں کیا کہہ رہی ہوں
مجھے کچھ نہیں سننا مجھے میری روح چاہیے لیلی بتاؤ میرےپی روح ٹھیک ہے ورنہ میں سب کو جان سے مار ڈالوں گا
یارم پلیز ریلکس ہو جاؤ یہ کیا کر رہے ہو تم اسے اپنے ہاتھوں اور بازوؤں سے ڈریپس اتارتا دیکھ کر لیلی نے سمجھانے کی کوشش کی
کچھ نہیں سننا مجھے کچھ نہیں سمجھنا مجھے بس میری روح چاہیے وہ چلایا تھا اس کے چلانے پر وارڈ بوائے تیزی سے آگے بڑھتا اسے انجیکشن دینے کی کوشش کرنے لگا
پچھلے سولہ دن سے مسلسل یہی تو ہو رہا تھا
وہ ہوش میں آتا تو پاگلوں کی طرح چیخنا چلانا شروع کر دیتا کہ اسے اس کی روح چاہیے
اور ڈاکٹرز اسے بے ہوشی کا انجکشن لگا کر خود پرسکون ہو کر اسے بے چین چھوڑ دیتے
اس سے پہلے کے وارڈ بوائے اسے انجیکشن لگاتا یارم کا ہاتھ اس کی گردن پر آ چکا تھا
تمہیں سمجھ نہیں آ رہا مجھے میری روح چاہیے
بتاؤ میری روح کہاں ہے ورنہ میں تمہاری جان لے لوں گا وہ پاگلوں کی طرح اس لڑکے کا گلا دبوچ رہا تھا یقین اور کچھ دیر میں نےسانسس چھوڑ دینی تھی
پلیز چھوڑ دو یہ مر جائے گا ۔لیلی اس کا ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب کہ اس کا یہ وحشی روپ دیکھ کر کسی کی بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی سامنے آنے کی
نرس اور ڈاکٹر بھی اسے چھونے پر گھبرا رہے تھے
یارم پلیز کنٹرول یورسیلف وہ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے اسے ہوش آچکا ہے
وہ بالکل ٹھیک ہے یارم پلیز پرسکون ہو جاؤ
میں خضر سے بات کر چکی ہوں وہ ہوش میں آ چکی ہے وہ آہستہ آہستہ اس کی پیٹھ سہلاتی اسے لیے بیڈ کی جانب جا چکی تھی
یہاں بیٹھو آرام سے میری بات سنو
اسے خاموش اور پرسکون دیکھ کر لیلیٰ نے اسے پیچھے بیڈ پر بٹھایا
°°°°°°
اسے پرسکون دیکھ کر وہ اس کے قریب آ کر بیٹھی تھی وہ بالکل ٹھیک ہے یارم
مجھے اس سے ملنا ہے یارم نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا
مجھے میری روح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے وہ اب بھی ضد پر اڑا رہا تھا
ٹھیک ہے میں کبپچھ لر لوں گی پہلے تم ایک ماہ تک اپنا علاج کرواو
وہ ٹھیک ہے وہ اسے یقین دلا رہی تھی
اگر وہ ٹھیک ہے تو مجھے اس سے ملنا ہے دیکھنا ہے اسے
یارم جانتے ہو یہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے تم ایک بار ٹھیک ہو جاو۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کوئی پرواہ نہیں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں مجھے میری روح کو دیکھنا ہے بس بات ختم ۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوئی نہ کوئی حل نکالتی ہوں لیکن پلیز تم پرسکون ہو جاؤ دیکھو تمہارے سینے سے خون بہنے لگا ہے
تمہیں علاج کی ضرورت ہے ایک ماہ نہ ہی جیسٹ تھری ویکس تمہیں درد ہو رہا ہو گا اس کے گھورنے پر وہ وقت کم کر گئی
لیکن یارم کو پرواہ کہاں تھی
لیلی درد میرے سینے سے نہیں میرے دل میں ہے زخم یہاں لگے ہیں اپنی روح کو اس حال میں دیکھ کر
اس کی وجہ سے میری روح اس حال میں پہنچی کتنی مشکل سے نکالا تھا اس سے اس سب سے اور ایک بار پھر اس نے اسے وہیں پر پہنچا دیا میں ویلکسن میتھو کو نہیں چھوڑوں گا
اس نے میری روح کو تکلیف پہنچائی اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے میں اس کی جان لے لوں گا یا رم کا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا
تم ایک بار ٹھیک ہو جاؤ یارم سب کچھ سنبھال لیں گے
بس کچھ وقت کی تو بات ہے
جب تک میری روح کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتا میں ٹھیک نہیں ہوسکتا لیلیٰ
میں جانتا ہوں وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ہوش میں آ کر بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یارم س کے پاس نہیں ہے
یارم تمہارا علاج ہو جائے آئی پرامیس جیسٹ ٹو ویکس ہم کوئی نہ کوئی حال نکال لیں گے میں سمجھ سکتی ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔
تم نہیں سمجھ سکتی لیلیٰ۔میری روح میرے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔وہ کسی سے کچھ شئر نہیں کرے گی وہ اپنی ساری باتیں مجھے بتاتی ہے
لیکن وہ کسی بھی قسم کی ضد نہیں کر رہی یار م وہ بالکل پر سکون ہے اس نے ایک بار بھی تم سے بات کرنے کی تم سے ملنے کی یا تم میں دیکھنے کی ضد نہیں کی لیلیٰ پھر سے سمجھانے لگی
وہ میری روح ہے لیلی وہ میرے علاوہ کسی سے اپنے دل کی بات نہیں کرتی اپنی فرمائش اپنی باتیں وہ ساری ضد مجھ سے پوری کرواتی ہے
وہ تم میں سے کسی کو کچھ نہیں کہے گی کیونکہ اس کا یارم اس کے پاس نہیں ہے
تم نہیں سمجھ سکتی لیلی میری روح ٹھیک نہیں ہے
اسے ڈاکٹرز کی نہیں میری ضرورت ہے
اسے میرے پاس لے آؤ وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
ٹھیک ہے تم جو کہو گے میں کروں گی لیکن اس سے پہلے تمہیں میری بات مانی ہو گی تم دو ہفتے میرا مطلب ہے ایک ہفتے تک وہ کرو گے جو ڈاکٹر کہتا ہے
ہاں یارم تمہیں بس ایک ہفتے تک اپنا علاج صحیح طریقے سے کروانا ہوگا
ورنہ تم نہیں جا سکتے وہ اس کی سخت نظر سے گھبراتی وقت مزید کم کر گئی
تم میرے سامنے شرط رکھو گی مجھے بلیک میل کرو گی تو مجھے میری روح سے دور کرو گی اس کی بات پر یارم دہارا تھا
نہیں یارم میں تمہیں تمہاری روح سے دور نہیں کر رہی میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر تمہارا علاج ٹھیک سے نہ ہوا تھا تم ہم سے دور ہو جاؤ گے
میں تمہیں بلیک میل نہیں کرنا چاہتی لیکن میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے یہ تم شرط ہی سمجھ لو اگر تم نے ایک ہفتے تک اپنا علاج نہ کروایا اور میری بات نہیں مانی تو میں تمہیں روح کے پاس نہیں جانے دوگی
تم روک سکتی ہو مجھے اس کے لہجے میں عجیب سا طنز جو لیلی نے محسوس کیا تھا
میں نہیں روک سکتی لیکن یہ انجکشن روک سکتا ہے وہ اس کے قریب سے اٹھتے ہوئے اس کے بازو پر انجیکشن لگا چکی تھی
ایم سوری یارم پلیز مجھے معا ف کر دیناقسم سے مجھے تمہاری روح کے ماموں نے کہا تھا ایسا کرنے کے لئے ۔وہ کافی گھبرائی ہوئی اس سے دور فاصلے پر جاکر رکی تھی جبکہ یارم اسے وحشت زدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
میں تمہاری اور اپنی روح کے ماموں کی جان لے لوں گا تم دونوں میرے ہاتھوں مروگے یاد رکھنا وہ غنودگی میں جاتے ہوئے اسے دھمکی دے رہا تھا
اور اس کے بے ہوش ہوتے ہی لیلیٰ کو سکون ملا
سوری یار میں جانتی ہوں وہ تمہارے لئے اہم ہے لیکن تم ہمارے لئے ہم ہو
ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا
اس کی اس حرکت کے بعد یارم ہوش میں آنے کے بعد کافی پرسکون تھا وہ اس کی شرط کو مان چکا تھا اور اس کی بلیک میلنگ میں بھی آ چکا تھا
اب وہ ایک ہفتے سے اپنا علاج صحیح طریقے سے کروا رہا تھا ۔جبکہ لیلیٰ روح کے پل پل کی خبر اس تک پہنچا رہی تھی

وہ خضر کے گھر آ چکی تھی
حضر نے اسے وہی کمرہ دیا تھا جو اپنا گھر بنوانے کے بعد اس نے روح کے لیے بنوایا تھا
ویسے تو یارم اسے کبھی بھی کہیں رہنے نہیں دیتا تھا
آج ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی تھی
حضر کوئی غیر نہیں بلکہ اس کا سگا ماموں تھا لیکن اس کے باوجود بھی یارم کو پسند نہیں تھا کہ اس کی روح کہیں اور رہے
حضر نے کئی بار یارم کی منتیں کی تھی کہ وہ اسے ایک رات تو وہاں رہنے دے آخر وہ اس میکا ہے لیکن یارم بس اتنا کہہ کے بات ختم کر دیتاکہ میں اپنی روح کے بغیر نہیں رہ سکتا اور مجھے اپنے گھر کے علاوہ اور کہیں نیند نہیں آتی
اور پھر اس کی اس بات کے سامنے نہ چاہتے ہوئے بھی حضر کو خاموش ہونا پڑتا کیونکہ یا رم کسی کی نہیں سنتا تھا
اور یہ وہ واحد بات تھی جہاں روح کی ضد بالکل کام نہیں کرتی تھی وہ صاف الفاظ میں بتا چکا تھا کہ اس کا کسی اور جگہ رہنا اسے پسند نہیں ہے
یقینا اگر آج یارم یہاں ہوتا تو وہ اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں رکنے دیتا
لیکن یارم یہاں نہیں تھا
اور یارم کے واپس آنے تک وہ کسی کو بھی اپنی وجہ سے تکلیف نہیں پہنچانا چاہتی تھی
وہ جانتی تھی جتنی یہاں وہ بے قرار ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں وہ ہوگا اس سے ملنے کے لیے اسے دیکھنے کے لئے
وہ تو لیلیٰ کے حوصلے کو سوچ کر پریشان ہو چکی تھی جو روح کے بغیر یارم کو سنبھالنے کا فیصلہ کر کے گئی تھی
پتا نہیں وہ بے چاری کس حال میں ہو گی روح نے سوچتے ہوئے بیڈ کر ان سے ٹیک لگائی تو دھیان اپنے موبائل کی طرف چلا گیا اس نے فون اٹھایا تھا
اس کا پاس ورڈ روحِ یارم تھا ۔جو روح کے علاوہ خضر اورشارف بھی جانتے تھے لیکن ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ یارم کےموبائل کی کبھی بھی تلاشی لیتے
اسی لئے یارم نے بھی اپنے فون کا پاسورڈ چینج کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی
روح نے پاس ورڈ لگا کر فون اوپن کیا تو سامنے اس کی تصویر لگی تھی یہ تصویر اس دن کی تھی جب خضر کی مہندی کی رسم ادا ہوئی تھی
اور یارم نے خود اسے لپس ٹیک لگانے کی اجازت دی تھی ۔وہ دن یاد کر کے بے اختیار ہیں روح کے گال تپنے لگے
شرم و حیا سے اس کا برا حال ہو رہا تھا وہ نظریں چُرا رہی تھی جیسے یارم اس کے بالکل سامنے بیٹھا ہو
کتنا خوبصورت وقت گزارا تھا اس نے یارم کے ساتھ ان کی شادی کو دو سال ہونے والے تھے
اور یار م شاید نہیں یقین دنیا کا بہترین ہسبنڈ تھا
اس سے پیار کرنے والا اسے چاہنے والا وہ خود بھی جانتی تھی چاہے یہ سب لوگ اسے کتنی بھی محبت کیوں نہ دے یا رم سے زیادہ پیاراس سے اور کوئی نہیں کر سکتا
اس کے سامنے بے شمار تصویریں تھیں سوئٹزرلینڈ کے مقامات پر لی گئی بہت ساری فوٹو
وہ اپنی تصویریں نہیں بناتا تھا
جہاں بھی جاتا اس کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف روح ہی ہوا کرتی تھی
اس کے موبائل میں بے شمار تصویریں تھی روح تو جانتی بھی نہیں تھی کہ یہ ساری تصویریں یارم نے کب بنائی
کچھ تصویروں میں وہ کچن میں کام کر رہی تھی کچھ تصویروں میں وہ سو رہی تھی
یسرم نے اس کی زندگی کے ایک ایک لمحے کو محفوظ کر رکھا تھا
وہ مسکراتے ہوئے آگے بھر رہی تھی
جب اس کے سامنے ایک تصویر آئی اسے یاد تھا پاکستان میں جب فاطمہ بی نے ان کی دوبارہ شادی کرنے کی بات کی تھی تو یارم سے اکیلے میں ملنے کے لیے گئی تھی اور یہ تصویر یارم نے ہوٹل کے اس کمرے میں بنائی تھی جس میں وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے
کتنا خوبصورت اور مکمل کپل تھا ان کا
تصویریں دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھی کتنے دن ہو گئے تھے اس نے اپنے یارم کو دیکھا تک نہیں تھا
وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن کب تک ہمت رکھتی
میں آپ کو بہت مس کر رہی ہو یا رم پلیز جلدی واپس آ جائیں آپ کی روح آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی
پلیز واپس آجائیں اس کی آنسوروانی میں بہہ رہے تھے ۔
یارم کا موبائل اس کے آنسوؤں سے بھیگ نے لگا تھا
جب دروازے پر دستک ہوئی اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے اور بے دردی سے آنکھیں بھی رگڑ ڈالیں کہ پتہ نہ چلے کہ وہ روئی ہے
°°°°°°
روح بیٹا میں نے چائے بنائی ہے پتا ہے تمہارے جتنی اچھی تو نہیں بنے گی لیکن گزارا کر سکتی ہو تم
وہ ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے مسکرایا
روح کی نظریں چرانے پر اپنی طرف نہ دیکھنے کی وجہ سے وہ بہت اچھے سے سمجھ چکا تھا
اسی لئے تو بنا کچھ بولے وہ ا سے چائے کا کپ تھامنے لگا
اچھی بنی ہے نہ اس کے چائے پیتے ہی خضر نے پوچھا تو روح نے فوراً ہاں میں سر ہلایا وہ واقعی بری نہیں تھی
دیکھا کتنی اچھی چائے بناتا ہوں میں لیکن تمہاری مامی نے قسم کھا رکھی ہے میرے ہر کام میں کیڑے نکالنے کی
وہ کہتی ہے کہ مجھے کوئی کام نہیں آتا ہے خاص کر چائے بنانے میں میں زیرو ہوں زیرو ہوں میں کیا اتنی اچھی چائے بنائی ہے میں نے میری روح کو بھی پسند آئی
وہ کافی جوش سے بولا تھا روح کی حوصلہ افزائی نے اسے خوش کر دیا تھا
لیکن پھر کچھ ہوا خضر کے ہاتھ رک گئے
اووووو شٹ مر گیا میں ۔۔۔وہ ماتھے پے ہاتھ مارتا خاصا پریشان لگا تھا
کیا ہوگیا ہے ماموں آپ اتنے پریشان کیوں ہو گئے ہیں سب ٹھیک تو ہے روح کو پریشانی ہونے لگی
کچھ ٹھیک نہیں ہے روح میں نے لیلی کو فون کرنا تھا اب تک تو تمہارا یارم اس کا قیمہ بنا چکا ہوگا۔۔وہ اپنا فون لیے باہر کی طرف بھاگا تھا جبکہ اس کی آخری بات پر روح کو ہنسی آگئی
وہ سہی کہہ رہا تھا روح کے علاوہ اس کے یارم کو اور کوئی سنبھال نہیں سکتا تھا۔
°°°°°
حضرباہر آیا تو اس نے ایک بات بہت شدت سے نوٹ کی تھی اس نے یارم کا نام بھی نہیں لیا
وہ جانتی تھی کہ لیلی سے بات کرنے والا ہے ممکن تھا کہ اس کی بات یارم سے ہو جاتی
لیکن اس نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وہ یارم سے بات کرنا چاہتی ہے
وہ اتنی پرسکون کیسے ہو سکتی ہے یہ ایک بات خضرکو پریشان کر رہی تھی
یارم نے کہا تھا اس کی روح بہت بہادر ھے اسے بہادر بنانے کی ضرورت نہیں ۔اگر یارم اس کے ساتھ نہیں ہوگا تو وہ ہر چیز کا مقابلہ خود کر لے گی ۔اور جب تک اس کے ساتھ یا رم ہے وہ ایسی کسی چیز کو سہننے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔
ہاں اگر یارم نہیں رہا تو بھی نہیں رہے گی
یارم کی وہ بات وہ آج سمجھا تھا
وہ سچ میں بہادر تھی تو یارم کی غیر موجودگی میں اتنی بہادری سے حالات کا مقابلہ کر رہی تھی
سب کہتے تھے کہ یارم کی محبت نے اسےبہت زیادہ ضدی اور شرارتی بنا دیا ہے لیکن آج خضر کو سمجھ ایا تھا
کہ وہ ضدی تھی شرارتی تھی اپنی من مانی کرنے والی بھی تھی لیکن صرف اور صرف یارم کے سامنے ۔وہ جو بھی تھی اپنے یارم کے لیے تھی
یارم کے بغیر تو ایک پرسکون سلجھی ہوئی لڑکی تھی جوزندگی کے ہر حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتی ہے
°°°°°
اس نے لیلیٰ کو فون کیا تو پہلی گھنٹی پر ہی اس نے فون اٹھا لیا تھا
کہاں مرے پڑے تھے یہاں مجھے شیر کے پنجرے میں چھوڑ کر وہ انتہائی غصے سے بولی
آئی ایم سوری یار میں روح کے لیے چائے بنا رہا تھا اب واپس آیا ہوں تو تمہیں فون کیا بتاؤں یارم نح تمہاری بات مان لی
حضرنے اپنے مطلب کی بات پوچھی
ہاں مان لی ہے لیکن ایک مہینے کے لئے نہیں بلکہ صرف ایک ہفتے کے لیے
بیوقوف لڑکی اسے ایک مہینے اور ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے اس کے مکمل بات سننے کے بعد خضر نے کہا تھا
وا واہ واہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ مہرے پیارے پتی دیو آپ مجھے وہاں بلائیں اور آپ خود یہاں تشریف لے آئیں جب سر پر ہر وقت موت کی تلوار لٹکی ہوئی ہوگی نہ تب تمہیں میری قدر ہوگی
یہاں وہ کسی جنگلی چیتے کی طرح ہر وقت میرا شکار کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ میں اسے ایک مہینے کے لئے بلیک میل کروں
میں اسے یہ کہوں کہ میں تمہیں تمہاری روح سے نہیں ملنے دوں گی جب تک تم ایک مہینے تک اپنا ٹریٹمنٹ نہیں کرواتے
اور پھر پتہ ہے کیا ہوگا یارم کاظمی کا بلیٹڈ میری جان پر چلے گا
خود تو جا کر وہاں آرام سے چائے پی رہے ہو نا
میں یہاں ہر وقت اس کی نیلی آنکھوں کی گھوریاں برداشت کر رہی ہوں
ایک نظر دیکھتا ہے میری تو جان ٹکنے لگتی ہے
لیکن خضر مجھے میری پرواہ نہیں ہے مجھے بچے کی پرواہ ہے یہ نہ ہو کہ میرا معصوم بچہ اندر ہی کہیں ڈر جائے۔پلیز مجھے واپس بلا لو اور خود یہاں آجاؤ مجھے اس خونخوار شیر سے بہت ڈر لگتا ہے وہ دہائیاں دے رہی تھی
لیلی یار اوور ایکٹنگ بند کرو میں تمہیں جو کہہ رہا ہوں اس پر غور کرو ۔
اسے کسی بھی طرح ایک مہینے کے لئے منا لو
اور اسے کہو کہ روح کے لیے وہ بالکل فکر نہ کرے میں ہوں نہ اس کے پاس میں اس کا بہت خیال رکھوں گا اس کی ہر بات مانوں گا
خضر اسے یقین دلارہا تھا
میں جانتی ہوں خضر لیکن یار م کا کہنا ہے کہ ہر وہ اس کے علاوہ اور کسی کے سامنے اپنے دل کی بات نہیں کہے گی یہ نہ ہو کہ وہ اپنے ذہن میں چلنے والی ٹینشن کو اپنے تک کررکھ کر ذہنی دباؤ کا شکار ہو جائے
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک ہفتے تک یار م اپنا علاج سہی طریقے سے کروائے گا تو ہم اس کی روح سے بات کروا دیں گے ۔اور اگر یار م نے ذرا سی بھی ضد کی تو انجیکشن ہر وقت میرے پاس تیار رہتا ہے
بس اسے لگانے کی ہمت آ جائے میرے پاس ۔
چلو ٹھیک ہے تمہیں ٹھیک لگے یارم کا بہت سارا خیال رکھنا اور اسے کہنا کہ روح یہاں بالکل ٹھیک ہے اور اپنا بھی خیال رکھنا خضر نے بات ختم کرتے ہوئے کہا
بہت شکریہ خضر صاحب آپ کو میرا خیال بھی آگیا
یار ایسا تو مت کہو ہر وقت تمہارا خیال رہتا ہے آئی ریلی مس یو یار وہ دل سے بولا تھا
پتا ہے ۔۔۔مجھے نہیں اپنے ہونے والے بچے کو مس کر رہے ہو اب وہ نخرےدکھانے پر اتر آئی تھی
اتنی دور بیٹھی ہو تمہاری تعریف میں زمین آسمان ایک نہیں کرسکتا واپس آ جاؤ ایک بار سب ٹھیک ہو جائے پھر اتنی تعریفیں کروں گا کہ چاند خود زمین پر آکر کہے گا ۔بس کر دےبھئی زمین پر تعریفوں کی کتابیں ختم ہوگئی ہیں وہ لب دباکر شرارت سے کہتا لیلی کو قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا
اور یارم کے کمرے کی طرف قدم برھاتی لیلیٰ اپنے آؤٹ آف کنٹرول ہوتے قہقے کو نہ پر ہاتھ رکھ کر بند کرنے لگی کیونکہ یارم اسے سخت نظروں سے گھور رہا تھا
°°°°°
اس وقت اسے کوئی بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا
مجھے میری روح سے دور کرکے تم سکون سے اپنے میاں کے ساتھ قہقے لگا رہی ہو پہلے تو میں تمہیں قتل کروں گا
وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہنے لگا لیکن لیلیٰ پر سکون سے ہو کر صوفے پر بیٹھی تھی کیونکہ یارم نہیں اٹھ سکتا تھا کیونکہ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی تھی اور یہ کام اس کی بے ہوشی میں لیلیٰ نے ہی کیا تھا
آئی ایم سوری یارم میں جانتی ہوں میں نے بہت غیر اخلاقی حرکت کی ہے لیکن میں مجبور تھی مجھے تم پر بالکل یقین نہیں ہے تم کبھی بھی میرا قیمہ بنا سکتے ہو اسی لئے مجھے یہ حرکت کرنی پڑی
وہ غصے سے اسے گھورتا رہا
کیسی ہے میری روح وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے پوچھنے لگا
خضر ابھی اسے چائے دے کر آیا تھا وہ ٹھیک تھی اسنے تمہارا فون اپنے پاس رکھ لیا ہے اب کیوں رکھا ہے میں نہیں جانتی لیکن مجھے شارف نے بس یہی بتایا تھا کہ تمہارا فون اب اس کے پاس ہے
وہ مجھے مس کر رہی ہے ۔وہ بیڈ پر دوبارہ بیٹھتے ہوئے مایوسی سے بولا
تم ٹھیک ہو جاؤ گے تو اس کے پاس واپس چلے جاؤ گے
وہ اسے سمجھانے والے انداز میں کہتی آہستہ آہستہ چلتی اس کے پاس آئی تھی جب یارم نے اپنا ہاتھ آگے کیا لیلیٰ نہ سمجھی تو اپنا ہاتھ اس کی ہتھیلی پر رکھ چکی تھی
جب یارم نے ہتھکڑی اپنے ہاتھوں سے اتار کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی
یارم یہ کیسے کیا تم نے وہ صدمے کی کیفیت میں پوچھنے لگی
دنیا مجھے ڈیول یوں ہی نہیں کہتی لیلیٰ یہ لوہے کی زنجیر مجھے میری روح کے پاس جانے سے روک نہیں سکتی
لیکن میں پھر بھی تمہاری شرط پوری کر رہا ہوں تو اس بدتمیزی کا مطلب کیا تھا وہ انتہائی غصے سے پوچھنے لگا جبکے لیلی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کہے بس اپنا ہاتھ یارم کے ہاتھ سے اٹھاتے ھتکھری لیے باہر بھاگ گئی تھی
اور کمرے کو بھی باہر سے بند کر دیا تھا جبکے یارم تو بیڈ سے اٹھابھی نہ تھا
یا اللہ یہ بندہ میری جان لے لے گا تو میں کیا کروں ہم مصیبت میں ہوتے تھے تو کہتے تھے کہ ڈیول ہمیں بچا لے گا اب تو ڈیول ہی مصیبت ہے اب کون بچائے گا ہمیں وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ایک تو اس بندے کی نظریں اس سے ہینڈل نہیں ہو رہی تھی اور اوپر سے وہ ضرورت سے زیادہ چالاک تھا
°°°°°°
ایک ہفتے سے بیڈ پر پڑا اس کا برا حال ہو رہا تھا لیکن پھر بھی وہ صبر سے اپنا ٹریٹمنٹ کروا رہا تھا
ڈاکٹر اس کے پاس آنے سے گھبراتے تھے کیونکہ پہلے کچھ دنوں میں وہ جس طرح سے اس کی تنگ کر چکا تھا ڈاکٹر کو بھی اپنی جان پیاری تھی
لیکن اب جب ڈاکٹر اس کے پاس آتے وہ خود ہی اپنا ہاتھ آگے کر لیتا اور کہتا لگاؤں انجیکشن اور جان چھوڑو میری تمہاری شکل مجھے پسند نہیں ۔کیونکہ وہ اردو میں کہتا تھا اس لئے ڈاکٹرز اسکی بات کو بالکل بھی نہیں سمجھتا بس مسکرا کر اپنا کام کرتا اور چلا جاتا
آج ہفتے کا آخری دن تھا اور اپنے وعدے کے مطابق لیلی کو روح سے ملوانا تھا
لیکن وہ ابھی تک ٹھیک نہیں تھا وہ روح کو اگر وہاں سے غائب کرتے تو لوگوں کو شک ہو سکتا تھا اور پھر کے روح کے زریعے یارم کہاں ہے یہ بات وہ پتابھی لگا سکتے تھے
°°°°
السلام علیکم صارم بھائی کیسے ہیں آپ آئہیں بیٹھیے اس کی اجری حالت دیکھ کر روح کو بہت افسوس ہوا تھا جب کہ وہ خاموشی سے اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اس کے پیچھے خضر اندر داخل ہوا تھا شارف یہاں پہلے سے ہی موجود تھا
آج معصومہ بھی شونو کو لے کر ان کے پاس آ چکی تھی
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ۔وہ صوفے پر بیٹھا تھا اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا اسے کہیں سے بھی اد اس نہیں لگ رہی تھی
صارم کو جھٹکا لگا تھا اس کے شوہر کو مرے ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا کہ وہ اس کے سامنے ڈارک بلیو سوٹ میں بیٹھی بےحد پرسکون بات کر رہی تھی
مجھے کیا ہونا ہے بھلا میں بالکل ٹھیک ہوں روح نے سادگی سے جواب دیا
شارف نے اسے گھورتے ہوئے اسے کچھ سمجھانا چاہا جس کو سمجھ کر روح نے سر پہ ہاتھ دے مارا
مجھے یارم کا بہت افسوس ہے روح وہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتا بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی شارف کو ہنسی آگئی
خضر نے ناگوا سی نظر ڈالی تھی
وہ میرا بچپن کا دوست تھا مجھے یقین نہیں آرہا روح میرا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا صارم کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر روح کو اس پر ترس آنے لگا وہ چاہتی تھی کہ بتا دے یارم بالکل ٹھیک ہے اور اپنا علاج کروا رہا ہے لیکن خض اور شارف نے اسے منع کر رکھا تھا اور اب تو اسے یار! کی قسم بھی دے ڈالی تھی
ہاں لیکن اس کے باوجود بھی روح سے ڈرامہ نہ ہوسکا وہ اپنی زبان سے یہ لفظ نہ کہہ سکیں کہ اس کا یارم نہیں رہا
حوصلہ رکھے بھائی ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا اسے صبر دلانے کے لیے روح کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے صارم کا اس طرح سے رونا اسے بے حد پریشان کر گیا تھا
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ چلا گیا اور اس کے جاتے ہیں شارف کے وہ قہقے پھوٹے جو دو گھنٹے تک کنٹرول میں نہ آئے
بے چارہ بے وقوف انسپکٹر حال دیکھو بیچارے کا یار مجھے تو اتنی ہنسی آ رہی ہے
اسے ہنسی نہیں ترس کہتے ہیں خضر نے اس کی بات کاٹی
نہیں ہمیرے دوست اسے ہنسی ہی کہتے ہیں کیونکہ مجھے ہنسی ہی آ رہی ہے وہ انسپیکٹر میرا جینا حرام کر کے رکھتا تھا اور اب خود رو رہا ہے
کتنے افسوس کی بات ہے شارف بھائی وہ اتنے پریشان ہیں اور آپ اس طرح سے کہہ رہے ہیں ۔آنسو وہاں کلتے ہیؓ جہاں محبت ہو وہ محبت کرتے ہیں یارم ست اسی لئے تو اتنے اداس ہیں
تو پھر تم اداس کیوں نہیں ہو میری جان کیا تمیارم سے محبت نہیں کرتی وہ اسکے سامنے الٹی کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور پھر وہ سوال پوچھ ڈالا جو کتنے دنوں سے اس کے دل میں تھا اس کا یارم موت کے اتنے قریب تھا اور وہ اتنی پرسکون کیسے
شارف بھائی ضرور ی نہیں کہ محبت کا اظہار آنسو بہا کر ہی کیا جائے
محبت کا اظہار انتظار کرکے بھی کیا جا سکتا ہے میں چاہتی ہوں کہ جب میرے یارم واپس آئیں تب ان کی روح ان کو ٹوٹی پھوٹی نہ ملے بلکہ ان کی روح ویسی ہی ہوجیسی وہ چھوڑ کر گئے ہیں زندہ دل ضد شرارتی خود سر لیکن صرف اپنے یارم کے لیے
وہ بے حد سکون سے کہتی مسکراتی اس کے پاس سے اٹھ کر اندر جا چکی تھی
اور کوئی سوال شارف صاحب خضر سینے پہ ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے بولا
اب سوال نہیں جواب ۔۔۔ جواب یارم تک پہنچانا ہے وہ اپنا موبائل سامنے کرتا مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا تھا جبکہ اس کے پیچھے خضر مسکراتا ہوا روح کے کمرے کی جانب چلا گیا
دل نشین بہت اچھا شخص تھا اور یارم کا کافی خیال بھی رکھ رہا تھا
اس کا تعلق سری لنکا سے تھا
اور وہ سری لنکا کے مافیا کا ڈان تھا اس کے کچھ عادتیں یارم سے ملتی تھی جیسے ظلم کے خلاف قدم اٹھانا اور ظالموں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچانا بس یہی وجہ تھی کہ یارم کے ساتھ اس کی دوستی اب تک چل رہی تھی
اب تک یارم جتنے بھی انڈرورلڈ کے کنگ کو جانتا تھا
دلنشین سب سے الگ تھا اس نے بھی اپنی زندگی میں بہت کچھ سہا تھا اور اب ظالموں کے خلاف لڑتے لڑتے وہ خود ایک ظالم ڈون بن چکا تھا
لیلی اور یارم کو ان کی طرف سے کافی اہمیت مل رہی تھی
دل نشین خود نہ جانے کتنی بار یارم کو دیکھنے اسپتال جا چکا تھا اور روح کے لئے اس کی دیوانگی بھی سمجھ چکا تھا اس کے دل میں ایک بار روح سے ملنے کی خواہش ضرور جاگی تھی
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اس لڑکی میں ایسا کیا ہے کہ یار م اس حد تک پاگل ہے اس کے لیے
لیلیٰ یارم کے ساتھ ہی رہتی تھی لیکن ہوش میں آنے کے بعد یارم نے کہہ دیا کہ وہ اب سے الگ جگہ پر رہے گی دن میں وہ جب چاہے اس کے کمرے میں آ سکتی ہے لیکن رات میں یارم کے ساتھ ایک ہی کمرے میں نہیں رہے گی
لیلیٰ کو یہ بات عجیب تو لگی تھی لیکن پھر وہ اس کا مطلب بھی اچھے سے سمجھ گئی ۔اگر رات ساری اس کے کمرے میں رہتی تو جاگتی رہتی اور وہ پریگنیٹ تھی یارم نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے لیلیٰ کو کسی بھی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے
لیلیٰ تھوڑی دیر پہلے یارم کے ہی کمرے میں تھی وہ اس سے روح کے بارے میں باتیں کرنے لگی
یارم پہلے تو کافی دیر برداشت کرتا رہا لیکن لیلیٰ کا یہ کہنا کہ روح ٹھیک ہے اور وہ اسے مس بی نہیں کر رہی
یارم کو جلا کر رکھ گیا اس کی روح کے دل کا حال اس کے سے بہتر کیسے جان سکتی تھی یارم کی سرد اور وحشتناک گھوریوں سے گھبرا کر لیلیٰ نے اپنے کمرے میں آنا ہی بہتر سمجھا
لیکن کمرے میں آنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ اس کا موبائل اس کے پاس نہیں ہے
کہیں وہ یارم کے پاس تو نہیں چھوڑ آئی
وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے واپسی کی راہ لینے ہی لگی تھی کہ ایک بار پھر سے یارم کا غصے سے بھرپور چہرہ اس کی نظروں کے سامنے گھوما لیلیٰ ڈارلنگ تمہیں تمہارا موبائل صبح بھی مل سکتا ہے لیکن اس وقت اس شیر کے منہ میں ہاتھ مت ڈالو ورنہ سب سے پہلے وہ تمہیں چیڑ کر رکھ دے گا
وہ خود سے برابڑ تے ہوئے خاموشی سے آکر اپنے نرم و ملائم بستر پر لیٹ گئی ۔
اسے موبائل سے زیادہ اپنی جان عزیز تھی
°°°°°
یارم کا فون کب سے بج رہا تھا وہ کافی دیر سے سکرین کی طرف دیکھتی رہی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ فون اٹھائے یا نہ اٹھائے اس وقت کال موبائل پر نہیں بلکہ کے واٹس ایپ نمبر پر آ رہی تھی۔اس نے نیٹ آف کر دیا اور پھر موبائل پر کال آنے لگی
موبائل میں نمبر سیو نہیں تھا اس لیے فون کون کر رہا تھا روح کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
لیکن جس شدت سے فون بج رہا تھا روح کو لگ رہا تھا کہ اسے اٹھا لینا چاہیے کیونکہ دوسری طرف موجود شخص کافی بےچین لگ رہا تھا
میں فون ماموں کو دے آتی ہوں اس نے سوچتے ہوئے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا تو رات کے ڈھائی بجے جا رہی تھی
نہیں ماموں کو اس وقت جگا نا سہی نہیں لگتا بیچارے سارا سارا دن یارم کی جگہ کام سنبھالتے ہیں اور اس کے علاوہ میرا خیال رکھتے ہیں یہ سہی وقت نہیں ہے
روح کو یاد نہیں تھا کہ اس نے فون سے ایروپلین مود ہٹایا ہو یا شاید اس نے غلطی سے ہٹا دیا ہو لیکن جو بھی تھا اس کی سزا وہ اس وقت فون سکرین پر نظریں جمائے بھگت رہی تھی
اس وقت وہ موبائل سکرین اپنی اور یارم کی ان تصویروں میں کھوئی ہوئی تھی جب سے یارم اس کے قریب نہیں تھا نیند تو اسے ساری رات نہیں آتی تھی ۔
اور اب بھی یہی حال تھا نہ اسے نیند آ رہی تھی اور نہ ہی کال کرنے والا اسے سانس لینے دے رہا تھا
ایک دو بار تو دل چاہا کہ موبائل آف کر دے
لیکن موبائل آف کرنے کے بعد اسے سکون نہیں تھا کیونکہ ابھی وہ ساری تصویریں دیکھنا چاہتی تھی اور اگر موبائل آف کردیا تو ان کی یادیں بھی اندھیرے میں ڈوب جائیں گی
اخر تنگ آ کر اس نے فون اٹھا ہی لیا لیکن دوسری طرف سے سننے والی آواز نے اسے ساکت کر دیا
°°°°
روح۔۔۔۔یارم کی بے چین سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی
سو رہی تھی کیا کب سے فون کر رہا ہوں میں ۔میرے بغیر اچھی نیند آنے لگی ہے
کہ میرا نام ہی نہیں لے رہی تھی جانتی ہو لیلی کو فون چرآیا ہے میں نے زندگی میں پہلی بار چوری کرکے تم سے بات کر رہا ہوں اور تم نیند میں مگن ہو یہ تو غلط بات ہے میری جان کیا جانتی نہیں ہو تمہارا یارم کس قدر بےقرار رہا ہے تمہارے بغیر
اس کے الفاظ میں بے حد بے چینی تھی روح کا پورا وجود کان بنا ہوا تھا وہ اسے سن رہی تھی اپنے یارم کو آج تین ہفتے کے بعد اس کی دیوانگی سے بھرپور آواز اس کے کانوں میں پر رہی تھی
وہ اس کے بنا تڑپ رہا تھا بے چین تھا
اب کیا منہ میں دہی جمع کر بیٹھ گئی ہو بولو کچھ میرے کان ترس گئے ہیں تمہیں سننے کے لیے جانتا ہوں تمہارا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے تم بھی تڑپ رہی ہو مجھ سے ملنے کے لیے بے چین ہویکن اپنی آواز تو سناؤ
تاکہ مجھے زیادہ سکون آئے ۔
میں آ رہا ہوں روح تمہارے پاس میں نہیں کر سکتا یہ سب کچھ مجھ سے نہیں رہا جاتا تمہارے بغیر بس ایک بار اپنی آواز سناؤ بتاؤ مجھے کہ میرے لیے تم بھی اتنی ہی بے چین ہو میرے بغیر تم بھی نہیں رہ سکتی نا
ارے بھاڑ میں گیا علاج مجھے میری روح چاہیے ایک بار اپنی آواز تو سناؤ اب کیا میری تڑپ سن کر اور تڑپانے کا ارادہ ہے کیا میری بے چینی دیکھ کر تمہیں مزہ آ رہا ہے
وہ ہر بات کے بعد انتظار کرتا کہ وہ کچھ بولے گی لیکن وہ کچھ بھی نہیں بول رہی تھی اور پھر یارم کی سماعت سے بس ایک آواز ٹکرائی
ٹون ٹون ٹوں روح فون بند کر چکی تھی وہ اپنے یارم سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی تھی اپنی دھڑکن کی تو دور اس نے اپنی بے چین سانسوں کا روح بھی یارم کی جانب نہ کیا
اس کی روح اس سے بات نہیں کی غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا وہ موبائل کی سکرین پر دیکھتا انتہائی جارحانہ انداز میں اس موبائل کو دیوار پر مار چکا تھا
اس کی بے چینی اس کی تڑپ کو سمجھنے کے باوجود وہ کچھ نہیں بولی
وہ کس طرح سے رہ رہا ہے یہاں کس درد سے گزر رہا ہے یہ جاننے کے باوجود بھی اس نے اس کی بے چینی اس کی تڑپ کو راحت نہ پہنچائی غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ہر چیز کو تہس نہس کر دے اور ہسپتال کے اس کمرے کا نقشہ تو وہ اگلے دو منٹ میں ہی بگاڑ چکا تھا
°°°°
کچھ ٹوٹنے کی آواز پر ڈاکٹر سے بھاگتے ہوئے کمرے کی جانب آئے تھے اور اس سے اس طرح سے ایک بار پھر جنونی روپ میں دیکھ کر وہ گھبرائے
تین چار کمپاؤنڈر اسے قابو کرنے کے لیے آگے بڑھنے لگے لیکن اس کا غصہ سوا نیزے پر تھا جو بھی اس کے قریب بات بری طرح سے پیٹ جاتا
جب ایک ڈاکٹر نے خوشیاری دکھاتے ہوئے پیچھے سے یارم کے کندھے پر بے ہوشی کا انجکشن لگا دیا
لیکن بے ہوش ہونے سے پہلے پہلے وہ ایک لڑکے کی گردن کو پکڑ چکا تھا
اور اس کا اندازہ اتنا شدت سے بھرپور تھا کہ ہر کوئی اسے چھڑوانے کی کوشش میں مگن تھا لیکن کوئی بھی یارم کی گرفت سے اس کی گردن کو آزاد نہیں کروا رہا تھا
ایک ڈاکٹر نے ایک اور انجیکشن کا آرڈر دیا
سر یہ خطرہ ہو سکتا ہے نرس نے سمجھانا چاہا
اس وقت یہ آدمی ہمارے لئے خطرہ بنا ہوا ہے جاو انجکشن لاو ورنہ یہ ہم سب کو جان سے ماردے گا اور یہ انجکشن والی بات اس لڑکی کو پتہ نہ چلے
ایک تو پہلے ہی ڈاکٹرز بہےپت کم مقدار میں اس کے جسم سے زہر ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس زہر کا الٹا اثر ہو رہا تھا یارم کو جس بات پر غصہ آتا ہے پھر وہ اس بات کے لئے پاگل ہونے لگتا ۔
اور اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا تھا دوسرے انجکشن نے اثر دکھایا تھا تھوڑی ہی دیر میں وہ ہوش و حواس سے مکمل بیگانہ ہو چکا تھا
ڈاکٹر نے اس وقت لیلی کو کچھ بھی بتانے سے منع کردیا ۔یہ ان کے لیے خطرے کی بات تھی کیونکہ وہ ایک ٹائم پر دو انجکشن دے چکے تھے
آج پورے ایک ہفتے کے بعد دوبارہ اس کی حالت ہوئی تھی جیسے پہلے دن تھی وہ کچھ دنوں سے بہت اچھے سے ریکور کر رہا تھا لیکن اب ایک بار پھر سے اس کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی جو اس کے لئے بہت خطرہ ہو سکتی تھی
کیوں کہ جس چیز کا زہر اس کو دیا گیا تھا اس کے لیے اس کے پورے جسم کو کاپریٹ کرنا تھا ۔
اور خاص کر اس کے دل اور ذہن کو اگر اس کا دل اور دماغ اس کی باڈی کا ساتھ نہ دے تو اس کے جسم سے اس زہر کی مقدار کو ختم کرنا بے حد مشکل تھا
پچھلے ایک ہفتے میں یارم نے ففٹی پرسنٹ ریکور کر لیا تھا لیکن آج کی اس حالت دیکھنے کے بعد ڈاکٹرز پھر سے پریشان ہوگئے تھے
انہیں اپنی ساری محنت بےکار ہوتی نظر آ رہی تھی
کیونکہ وہ ففٹی سے دوبارہ زیرو پر جا چکا تھا
°°°°°°
خضر کمرے میں آیا تو روح کو بیڈ پرر بیٹھے بیٹھے سوتے دیکھا شاید وہ رات بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی اس کے ہاتھ میں اب بھی موبائل موجود تھا
جبکہ چہرے پر آنسو کے نشان تھے اس نے جھک کر اسکی پیشانی کو چوما اور موبائل اس کے ہاتھ سے لے کر باہر آگیا
لیکن اوپر سکرین پر لیلیٰ کے موبائل سے اسے بے حد کال ظاہر ہوئی تھی
یہ نمبر لیلیٰ کا وہاں پر لیا گیا تھا اسی لئے یارم کے فون میں یہ نمبر سیو نہیں تھا
لیکن لیلی اس سے بار بار فون کیوں کر رہی تھی پھر اس نے چیک کیا ایک کال اٹینڈ کی گئی تھی جس میں بارہ منٹ تک بات کی گئی
اس نے یار م کے ہی فون سے لیلی کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن فون نہ لگا بار بار کوشش کے باوجود بھی فون نہ لگا تو وہ اپنے موبائل سے کوشش کرنے لگا لیکن اس بار بھی فون نالگ سکا
اس وقت تو لیلیٰ یارم کے ساتھ ہوتی ہے تو اس نے فون کیوں بند کیا ہوا ہے خضرکو پریشانی ہونے لگی
اس لیے اب اس نے سیدھا دل نشین کو کال کی تھی
خضر یار میں تو صبح سے ہسپتال گیا نہیں کچھ ضروری کام سرانجام دے رہا تھا لیکن اب تھوڑی دیر میں جانے والا ہوں وہاں پہنچ کر تم سے تفصیلی بات کروں گا دلنشین نے مختصر سی بات کرکے فون بند کر دیا
دو گھنٹے مزید گزر گئے اور پھر اسے سری لنکا کے نمبر سے فون آیا
لیکن لیلیٰ کا فون بھی ہو سکتا تھا
یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس کا فون گم ہو گیا ہو یا خراب ہو گیا ہوں اس نے جلدی سے فون اٹھا لیا
خضر بہت گربڑ ہو گئی ہے یارم کہیں غائب ہوگیا ہے
میں ہر جگہ دیکھ چکی ہوں لیکن یارم کہیں پر نہیں ہے اللہ اس کی حفاظت کرے نہ جانے کہاں نکل گیا ہے اس نے میرا فون بھی رات کو توڑ دیا ڈاکٹرز بتا رہے ہیں کہ اس کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی
اور وہ رات کو بے حد غصے میں تھا خضر کچھ کرو لیلی بہت بے چین تھی
لیلی تم ٹینشن مت لو میں کچھ کرتا ہوں تم پریشان مت ہولوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا وہ اسے سمجھانے لگا
وہ لیلی کو بھی کوئی ٹینشن نہیں دے سکتا تھا کیونکہ اس کی حالت پہلے ہیں ڈاکٹر کیرٹکل بتا رہا تھا
فون رکھنے کے بعد اس نے اعتبار میں موجود ہر بندے کو فون کر ڈالا
°°°°°
ہمیں روح کو بتا دینا چاہیے
تین دن ہو چکے ہیں یارم کو غائب ہوئے نہ جانے وہ کس حال میں ہوگا کہاں ہوگا
ہمیں رخوحسے نہیں چھپانا چاہیے شارفبے حد پریشان تھا جبکہ خضر سری لنکا جا چکا تھا
اس نے روح کو نتانے کی بات کی تو اس نے منا کر دیا
اس کے یہاں آنے کے بعد دلنشین نے لاعلمی کا اظہار کردیا وہ نہیں جانتا تھا کہ یارم کہاں چلا گیا ہے
اور اس کے غائب ہونے کی خبر اس نے روح کو نہیں دی تھی
خضر نے روح ہی بتایا تھا کہ یارم ایک ہفتہ علاج کے لیے مان چکا ہے۔اور ان لوگوں نے اس کے سامنے شرط رکھی ہے کہ وہ سے اس کی بات کروا دیں گے
لیکن اب وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ روح کی آواز سنتے ہی یارم اس سے ملنے کے لیے بے چین ہو جائے گا اور جب تک یارم بالکل ٹھیک نہ ہو جائے وہ اسے واپس لانے کی غلطی نہیں کر سکتے تھے
یار م سخت سے سخت چوٹ پر بھی بالکل نارمل رہتا تا کے روح پریشان نہ ہو۔کیونکہ اس کے ہسپتال جانے پر روح بے چین ہوجاتی تھی اور یارم اسے اپنے لئے تڑپتے نہیں دیکھ سکتا تھا
لیکن اب معاملہ کچھ اور تھا روح نے خود اسے تڑپنے پر مجبور کر دیا تھا اور اب اس تڑپ کی تپش کس کس کو نقصان پہنچائے گی یہ کوئی نہیں جانتا تھا
°°°°°
وہ جنگل میں ایک بہت بری لکڑی سے الٹا بندھا ہوا تھا
دونوں طرف درخت موجود تھے اور اس لکڑی کو انہیں دوختوں کے سہارے کھڑا کیا گیا تھا جب کہ نیچے آگ جل رہی تھی
اور آگ کے اوپر بڑے سائز کے چاقو رکھے ہوئے تھے
وہ پچھلے تین دن سے بھوکا پیاسا اس ڈنڈے پر لٹکا اپنے جسم کو جلتا ہوا محسوس کر رہا تھا
اور وہ اس آگ کو بجھنے نہیں دیتا تھا
ایک ایک سیکنڈ کی اذیت کسی جہنم سے کم نہیں تھی
اب تو چلا چلا کر کے منتیں کر کر کے گلے سے آواز نکلنا بھی بند ہو چکی تھی
اور آگ کے تھوڑے سے فاصلے سے بیٹھا وہ شخص شان نیازی سے چکن کیوبز کا مزا لے رہا تھا
تم چپ کیوں ہو گئے کیا تمہیں سمجھ نہیں آیا میں نے کیا کہا چلاو اونچی آواز میں چلاو مجھے تمہاری چیخیں سکون دیتی ہے
تمہاری تڑپ مجھے مزہ دیتی ہے
تمہاری وجہ سے میں اپنی روح سے دور ہو ترپ رہا ہوں اور جس طرح اس سے میں تڑپ رہا ہوں میں ایسے ہی تمہیں تڑپا تڑپا کے ماروں گا
مجھے معاف کر دو ڈیول مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے چھوڑ دو میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں گا میں چلا جاؤں گا بہت دور چلا جاوں گا کبھی دوبارہ تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا بس ایک بار مجھے بخش دو
اس رگڑگڑاکر روتا اس سے مینتیں کر رہا تھا
جب ڈیول نے چاقو کو نکال کر اس کے ننگے پیٹ پر رکھ دیا
میں تمہیں چلانے کے لئے کہہ رہا ہوں اور تم مجھے اپنی روداد سنا رہے ہو
اس کے تڑپنے پر وہ بے حد غصے سے بولا
میں دنیا کے کسی بھی شخص کو معاف کر سکتا ہوں لیکن دو انسانوں کو نہیں ایک تمہیں اور ایک اپنی روح کو
جو اپنے یارم کی بےچینی اقر تڑپ سمجھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں بولی اس نے میرا فون کاٹنے کی جرت کی ۔وہ جانتی بھی ہے کہ میں اس کے بغیر پل پل مر رہا ہوں پھر بھی اس نے میرا فون کاٹ دیا غلط کیا نہ اس نے اسے مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی
لیکن اس نے کیا کیا اس نے میرا فون کاٹ دیا
صرف ایک بار پھر ایک بار اس نے نہیں کہا یارم آپ ٹھیک تو ہیں
یار میں آپ کو مس کر رہی ہوں
پلیز یارم جلدی واپس جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی
اس نے نہیں کہا
اس نے میرے بے چین دل کو راحت پہنچانے کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا
اس نے میرا نام تک نہیں لیا
غلط کیا بہت غلط کیا نہ اس نے۔۔۔؟
وہ جنونی انداز میں پوچھ رہا تھا سامنے الٹا لٹکا شخص اس کے بات کو بنا سمجھے ہاں میں سر ہلا گیا
دیکھا تم سمجھ گئے میری بات کو لیکن وہ نہیں سمجھی
تمہیں اندازہ بھی ہے میں کس حال سے گزر رہا ہوں اور مجھے اس حال میں پہنچانے والے تم ہو تو تمہیں سزا تو بنتی ہے نہ
اور تمہیں پتا ہے میں تمہیں کب ماروں گا جب تم خود کہو گے ڈیول مجھے مار دو میں نے تم سے تمہاری روح کو الگ کر دیا ہے میں نے تم سے تمہاری روح کو دور کیا ہے مجھے جینے کا کوئی حق نہیں میری جان لے لو میری سانسیں ختم کردو
اور پھر میں تمہیں سکون سے موت کی نیند سلا دوں گا
تب تک بنا کوئی چالاکی بناکوئی فضول بات کےایسے ہی لٹکے رہو تم تڑپ ہو سکتے ہو چلا سکتے ہو رو سکتے ہو
لیکن معافی مت مانگو کیوں کہ میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا ۔جو یارم سے اس کی روح کو دور کرتا ہے یارم اسے کبھی معاف نہیں کرتا
وہ اپنی بات مکمل کر کے ایک بار پھر سے بیٹھ کر چکن کیوبز کے مزے لینے لگا ۔جب کہ اس کے حکم کے مطابق وہ تڑپ رہا تھا چیخ رہا تھا چلا رہا تھا لیکن معافی نہیں مانگ رہا تھا
شارف بھائی آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ ماموں اچانک سری لنکا کیوں گئے ہیں یارم ٹھیک تو ہیں نہ وہ بہت زیادہ پریشان لگ رہی تھی
روح ویسے تو خضر نے مجھے تمہیں کچھ بھی بتانے سے منع کیا ہوا ہے لیکن شاید میں تم سے یہ بات چھپا نہ پاوں یا رم کہیں غائب ہوگیا ہے
وہ ہسپتال میں نہیں ہے ۔دراصل بات کچھ یوں ہے کہ دو دن پہلے میں نے یارم کے فون سے ایروپلین موڈ ہٹا دیا تھا اور یار م سے کہا تھا کہ وہ رات کو تمہیں فون کرے لیلی کے فون پر جب لیلی سو جائے
تو پھر تم دونوں کی بات ہو جائے گی یارم تم سے بات کئے بغیر کن حالات وہ تو تم بھی شایداچھے طریقے سے جانتی ہو
اور مجھ سے یارم کی یہی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی بس اس کی مدد کرنے کے لئے میں نے یہ قدم اٹھایا
لیکن تم نے بتایا کہ تمہاری یارم سے بات نہیں ہوئی جب کہ لیلی کافون اس دن یارم کے کمرے سے ٹوٹا ہوا ملا فون یارم نےہی توڑا تھا اس بات کا سب کو یقین ہے
شاید تم اس رات سو گئی یا پھر تمیں اس کی فون کال کا پتا نہیں چلا لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس رات یارم نے تمہیں فون کرنے کی کوشش ضرور کی تھی
تم سے بات نہ کر کے تمہیں بنا دیکھےوہ کس طرح سے جی رہا تھا تم سوچ بھی نہیں سکتی
خضر اور لیلی نے پلان کیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے بعد بھی تمہاری بات یارم سے نہیں کروائیں گے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے یارم اپنا علاج پورا کرنے کے بجائے تم سے ملنے کی ضد کرے گا
اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے تم سے زیادہ اہم یارم کی زندگی میں اور کچھ نہیں ہے روح۔ یہ بات تم بھی جانتی ہو ۔
لیکن اب مسلہ یہ ہے کہ اس وقت ہسپتال سے یارم غائب ہوچکا ہے وہ کہاں گیا ہے کس جگہ پر ہے کوئی نہیں جانتا بس ہم سب اس کو ہی ڈھونڈ رہے ہیں خضر نے مجھے یہ بات تم سے شیئر کرنے کے لئے منع کیا تھا لیکن میں نہیں رہ پایا کیونکہ ہم سب سے زیادہ یارم پر تمہارا حق ہے
اور تمہیں یارم کی کنڈیشن جاننے کا پورا حق ہے ۔
بس دعا کرو کہ ہمارا یارم ہمیں واپس مل جائے بالکل صحیح سلامت دشمن اس کی تاک میں بیٹھے ہیں کبھی کوئی حملہ کر سکتا ہے
شارف اسے پوری بات بتا چکا تھا ۔
اور روح کو بےحد رونا آ رہا تھا ۔
وہ جانتیہ تھی کہماس کا یارم وہاں اس سے دور کس حال یں ہے لیکن اس ے بات نہیں کی تھی ۔صرف اس لیے کہ اس کی آواز سن کو وہ اس سے ملنے یہاں آنے سے بھی پرہیز نہیں کرےگا۔
روح کو صرف اس کی فکر تھا یہاں خطرہ تھا لیکن یارم کو یہ بات کون سمجھتا
°°°°°
یارم کو غائب ہوئے بیس دن گزر چکے تھے
آخر وہ گیا کہاں تھا کوئی نہیں جانتا تھا
روح کا تو رورو کر ہوا حال تھا
بس دن رات رونے کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں سکتی تھی خضر اور شارف اسے بہلا بہلا کر پریشان ہو چکے تھے وہ یہی کہہ رہی تھی کہ یارم اس کی وجہ سے کہیں چلا گیا ہے وہ اس سے خفا ہو گیا ہے اور اب شاید کبھی نہیں مانے گا
وہ پچھتا رہی تھی کہ اسے صرف ایک بار ہی سہی اس سے بات کر لینی چاہیی تھی
کم ازکم وہ انہیں چھوڑ کر یوں تو نہ جاتا
جس دن سے یارم غائب ہوا تھا بہت سارے لوگ غائب ہو رہے تھے
خاص کر وہ سب لوگ تو یارم کی بیڈ لسٹ میں آتے تھے ایک ایک کرکے غائب ہو رہے تھے لیکن خضر اس حوالے سے یارم پر بالکل شک نہیں کر سکتا تھا
کیونکہ یار م کی کنڈیشن ایسی تھی ہی نہیں کہ وہ اکیلے اپنی جان سنبھال سکتا اسے یہی لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ دل نشین کر رہا ہے وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنی طرف سے یارم کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے
جس دن یارم غائب ہوا تھا اس رات ڈاکٹرنے یارم کو ایک نہیں بلکہ دو دو بے ہوشی کے انجکشن دیئے تھے جن کا اثر برا ہونا تھا کیونکہ وہ کافی ہیوئی ڈوز اور بہت خطرناک بھی تھے
یار م کے غائب ہونے پر ڈاکٹر نے خود اس بات کو قبول کرلیا کہ یارم کا واپس آنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی کنڈیشن بہت زیادہ خراب ہے
لیلیٰ نے یہ سب جان کا ڈاکٹر پر ہی کیس کر دیا
ڈاکٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے یارم کو کچھ بھی ہو سکتا تھا اور یارم کے معاملے میں وہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی تھی ۔
لیکن اس وقت جو چیز سب سے زیادہ ضروری تھی وہ تھی یارم کا ملنا اور یار م بیس دن سے انہیں نہیں ملا تھا نہ ہی اس کی کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی اس نے انہیں فون کر نے یا بات کرنے کی کوشش کی تھی
پچھلے تین دن سے رخ بھی ہسپتال میں تھی۔
پہلے یارم کے لاپتہ ہونے پر وہ پریشان تھے اب روح کی حالت نے انہیں بوکھلا کر رکھ دیا تھا اور اگر یارم اس وقت کہیں سے آجاتا اور اپنی روح کی حالت دیکھتا تو وہ انہیں جان سے مار ڈالتا
ڈاکٹر نےروح کی حالت کو ذہنی دباؤ کا شکار بتایا تھا اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار کیوں تھی یہ تو سب ہی لوگ جانتے تھے خضرنے روح کو منع کیا تھا یا رم کی بھلائی کے لیے لیکن وہ کہاں جانتا تھا کہ وہ جس کی بھلائی سوچ رہا ہے وہ اس طرح کی کوئی بھلائی چاہتا ہی نہیں
یہ بات تو اسے اچھے سے سمجھ آگئی تھی کہ یارم جب بھی واپس آئے گا سب سے پہلے اسی کی کھال ادھیڑے گا
کیونکہ وہ روح سے اس طرح کی کسی سمجھداری کی امید نہیں رکھتا اسے پتہ تھا کہ روح کے اس رویے کے پیچھے خضر کہیں دماغ چل رہا ہے
اور اب یارم نے واپس آکر سب سے پہلے اس کا سرپھوڑنا تھا
°°°°°°°
ویلکسن میتھوکی لاش آج اٹلی کے جنگلوں سے ملی تھی
لاش کی شناخت کرنا بہت مشکل تھا اس کام کے لیے تین دن لگ گئے اور اسے مرے ہوئے تقریباً پندہ دن گزر چکے تھے
اب ایک کر کے اسکی ٹیم ممبر کے لوگ بھی لاشوں کی صورت میں مل گئے تھے
زیادہ تر لوگوں کو بلیڈسے ہلاک کیا گیا تھا
اور ایک ایک کافی پرسکون اور تسلی سے مارا گیا تھا جیسے یارم مارتا تھا خون کی سرخ لکیر چھوڑتا لمبی لمبی لائن کھینچ کر خضر اور شارف کو یقین تھا کہ وہ یارم ہی ہے
اتنی بے دردی سے کوئی ایسا نہیں کر سکتا تھا سواۓ یارم کے
دو تین بار ان کو لگا کے انہیں روح کو بتا دینا چاہیے کہ یارم جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے اور اپنا کام کرکے ہی واپس آ جائے گا لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ لوگوں کے پرزے کرنے میں مصروف ہے
روح کی حالت تھوڑی سے سبھلی تو خضر اور شارف وہ سارے کام نمٹانے چلے گئے جو وہ یارم کے واپس آنے سے پہلے ختم کرنا چاہتے تھے
کیونکہ اس وقت انہیں اس بات کا ٹھیک سے اندازہ ہو چکا تھا کہ یارم اس وقت ڈیول موڈ میں ہے اور اس موڈ میں وہ نہیں سوچتا کہ سامنے والا اس کا دوست ہے یا دشمن اس وقت یارم کا موڈ کیسا ہوگا وہ اچھی طرح سے جانتے تھے
اسی لئے تو یارم کے واپس آنے سے پہلے پہلے ہی سارے کام نمٹانے میں لگ گئے
°°°°
روح یار پلیز رونا بند کرو یارم جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے
اور جلد ہی ہمارے پاس واپس بھی آ جائے گا
تمہارے رونے سے کون سا کسی مسئلے کا حل نکل آئے گا لیلی اسے اپنے ساتھ لگاتی بہت پیار سے سمجھا رہی تھی
لیلی میں بہت بے وقوف ہوں
میں ہمیشہ ایسے کام کرتی ہوں جو یارم کو تکلیف دیتے ہیں
ان کا دل دکھنے کا سبب بنتے ہیں اگر میں اس رات ان سے بات کر لیتی تو وہ کبھی یوں اس طرح سے مجھے چھوڑ کر نہیں جاتے
بلکہ اب تک تو وہ اپنا علاج مکمل کروا کے ہمیشہ کے لئے میرے پاس واپس آ چکے ہوتے وہ بری طرح سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی
جب کہ لیلیٰ اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی
خود کو سنبھالو روح اگر یارم نے تمہیں اس حال میں دیکھ لیا تو وہ ہمیں جان سے مار ڈالے گا تم جانتی ہو وہ تمہیں کس حد تک چاہتا ہے
پلیز روح جب تک یارم واپس آتا ہے تب تک اس طرح سے رونا بند کرو وہ جلد واپس آ جائے گا کیونکہ مجھے پتا ہے وہ تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا وہ اس کے آنسو صاف کرتے پیار سے سمجھا رہی تھی جبکہ روح کے آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے
°°°°°
رات کے دو بج رہے تھے لیلیٰ کو اپنے کمرے میں گئے کافی وقت گزر چکاتھا اب تک تو وہ نیند میں اتر چکی ہو گی
لیکن نیند اسے آج بھی نہیں آئی۔رو رو کر اس نے اپنی حالت خراب کر دی تھی ۔یارم کا خیال اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا ۔
پتا نہیں یارم کس حال میں ہوگا کچھ کھاتا بھی ہوگا یا نہیں کہیں وہ ان لوگوں کے ہاتھ تو نہیں لگ گیا۔
بس ایک بار وہ آجاجائے روح نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس کے پیر پکڑ کر معافی مانگے گی اوردوبارہ بپکبھی خود سے دور نہیں جانے دے گی
آخر یارم گیا کہاں تھا
یہ لوگ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے تھے۔کیا وہ لوگ جانتے تھے کہ یارم کہاں ہے اگر ہاں تو اسے لے کیوں نہیں آتے تھے
وہ کیسے ان کو بتاتی کہ وہ اپنے یارم کے بغیر پل پل مر رہی ہے ۔
دن رات یارم کے ملنے کی دعا کرتی کافی پریشان تھی۔۔لیکن خضر اور شارف اتنے پریسپشان نہیں تھے اب جتنے کہ پہلے۔
کچھ بدل گیا تھا لیکن کیا اسے سمجھ نا آیا
وہ بیڈ پر لیٹی یوں ہی چھت کو گھور رہی تھی جب کمرے کی لائٹ آف ہوگئی۔اسے انھیرے میں خوف آتا تھا ۔اور نہ ہی وہ زیادہ دیر اس اندھیرے میں بیٹھ سکتی تھی
اس نے اٹھ کرماچش ڈھونڈنےکی کوشش کی لیکن ماچش نہ ملی ایک تو اندھیرے میں اسے ڈر لگتا تھادوسرا یہاں خضر کے گھر میں اسے پتا بھی نہیں تھا کہ کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔
اب وہ زرا زرا سی بات کے لیے ان کو تنگ نہیں کر سکتی تھی۔ایک بار ڈھونڈنے کی کوشش کر کے وہ دوبارہ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
باہر لگ رہا تھا کہ لائٹ چل رپی ہے تو کیا صرف اس کے کمرے کی لائٹ آف ہوئی تھی اس نے سوچا لیکن اس وقت و لیلی اور خضرکو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی
نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
ہاں لیکن یارم کی یادیں اس کی رات اسان کر دیتی۔وہ اب بھی اپنے یارم کو سوچ رہی تھی لیکن یادیوں میں بھی سکون نہ تھا
وہ خاموشی سے اپنی آنکھیں بند کر کے کچھ دیراپنے مائنڈ کو ریلکس کرنا چاہتی تھی۔جب اسے محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے ۔اس نے ایک جھٹکے میں اٹھ کر سارا کمرا دیکھا لیکن کوئی نہیں تھی۔
اس کی دل کی دنیاکی کمرا بھی اندھیرے میں ڈوبا تھ۔وہ اپنا وہم سمجھ کرو سونے کی کوشش کرنے لگی۔
لیکن اسی احساس کے تہت وہ زیادہ دیر وہ آنکھیں بند نہ رکھ سکی۔وہ اٹھ کر کھڑکی بند کرنا کا سوچ رہی تھی کہ شاید یہ احساس کھڑکی کے باہر چلنے والی ہوا کی وجہ سے ہے۔
وہ آئستہ آئستہ قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس آئی اور کھڑکی بند کر دی۔
واپس اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے وہی احساس دوبارہ ہوا۔
اسے باربار یہی محسوس ہو رہا تھا کہ کوٙئی ہے ۔اب اس کے دل میں خوف سا پیدا ہونے لگا تھا۔اس نے کمرے سے باہر جانا بہتر سمجھا کیونکہ اب اس کو ڈر لگانے لگا تھا۔اور اس ڈر کے ساتھ اسے ساری رات کمرے میں سکون نہیں آنا تھا۔
°°°°°°
ابھی اس نے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ کسی نے اسے پکڑ کر اپنی جانب کھنچ لیا۔
اس سے پہلے کہ وہ چیختی کسی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔وہ پوری طرح ان باہوں میں قید ہو چکی تھی
اب وہ بیڈ پر پڑی بےبسی سے اندھیرے میں اس شخض کو ڈھونڈ رہی تھی۔لیکن یہ ایک مشکل کام تھا۔
کیا ہوا بےبی ڈر گئی اتنی سی ہمت تھی بس ۔۔۔ابھی تو تم نے اپنی ایک ایک غلطی کا حساب چکانا ہے ۔ابھی تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے میری کال کاٹ کر خود کو کتنے برے امتحان میں ڈالا ہے
تمہاری ہر غلطی معاف لیکن تم اس شخص کے کہنے پر اپنے یارم کی بےچینیاں اس کی تڑپ اس کی بےقراریاں نظر انداز کر دو اس غلطی کی کوئی معافی نہیں ۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہے تھی روح تم نے غلط کیا بہت غلط ۔وہ اس کے کان میں غرایا
کیوں کیا تم نے ایسا روح کیا تم نہیں جانتی کہ تمہارے بغیر سانسس بھی گن گن کے لیتا ہے تمہارا یارم ۔اس کا ہاتھ اس کے منہ سے سیدھا گردن کی طرف آیا تھا
یارم۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آواز میں تڑپ تھی جیسے وہ ویسے ہی نظر انداز کر چکا تھا جیسے اس کی تڑپ کو کیا گیا تھا۔
اس کے ہاتھ کا دباو اس کی گردن پر مزید بھر گیا ۔
نہیں ہوں میں تمہارا یارم۔۔خبراد کو اس زبان سے میرا نام بھی لیا تم نے۔اس کی نازک گردن اس کے سخت ہاتھ کی گرفت میں تھی۔
لیکن روح کو پروہ کہاں تھی وہ تو اس کی آواز سن رہی تھی ۔وہ آ گیا تھا ۔واپس اس کے پاس لیکن دوریاں ختم نہیں ہو رہی تھی۔
وہ اس کے بے حد قریب تھا لیکن نہ تو اسے خود کو چھونے کی اجازت دے رہا تھا نہ ہی کچھ بولنے دیتا۔بس اپنی وحشت اس پر لٹا رہا تھا ۔اس کے دونوں ہاتھ ایک ہاتھ میں قید لیے دوسرے ہاتھ سے کیسی مجرم کی طرح اس کی گردن پکڑے وہ جواب مانگ رہا تھا
یارم می۔۔۔میں۔۔
چپ کہا نہ میں نہیں تمہارا یارم۔میں اپنی روح کا یارم ہوں جو مجھے سمجھتی ہے ۔مجھ سے محبت کرتی ہے تم تو کوئی اور ہو میری روح اتنی پتھر دل نہیں کہ اس کا یارم اس کے سامنے تڑپتا رہے اور وہ اس کے سکون کے لیے ایک لفظ نہ بولے۔
بتاو کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ۔کیوں لیا تم نے میری محبت کا امتحان بولو۔۔اس کی گردن پر زور دے کر پوچھا تو اس بار روح تکلیف سے کراگئی۔
دود ہوا ۔۔۔مجھے بھی ہو رہا ہے اتنے دن سے ایک ایک پل کی موت مر رہا ہوں ۔لیکن تمہیں ترس نہیں آیا ۔اور اب اس تکلیف سے رہائی کے لیے تمہیں میرے سوال کا جواب دینا ہو گا۔
وہ اس کی گردن سے ہاتھ نکال کر اس کی بالوں کو اپنی مٹھءپی میں پکڑچکا تھا
آپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔۔۔۔وہ اپنی تکلیف کی پرواہ کیے بغیر بولی
میری کیفیت بیان کرنے کے لئے ناراضگی لفظ بہت چھوٹا ہے ۔وہ اس کے بالوں کو ہلکا سا جھٹکا دے کر بولا
معاف نہیں کریں گے میری غلطی وہ امید سے بولی سچ تو یہ تھا کہ وہ اس کے سینے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی تحفظ چاہتی تھی اس کی محبت اس کی توجہ چاہتی تھی
غلطی ۔۔۔؟وہ حیرت سے غرایا
کیا کہا تم نے تم سے غلطی ہوگئی ۔۔۔میری روح تک تڑپا کر رکھ دی تم نے اور تم کہتی ہو کہ یہ غلطی تھی ۔۔
تم نے میری محبت کی توہین کی ہے روح اور یہ غلطی نہیں گناہ ہے ۔
یارم کاظمی کے عشق کی آگ کو بھڑکانے کا گناہ کیا ہے تم نے اور تمہیں اس گناہ کی سزا ملے گی ۔
اسی آگ میں جل کر تڑپو گی تم ۔اسی آتش میں بھسم ہوگی
میری چاہتوں کا میرے جذباتوں کا قتل کیا ہے تم نے اتنی آسانی سے معافی تو نہیں ملے گی تمہیں
اس کے ایک ایک آنسو کو اپنے لبوں سے چنتا وہ اپنے جنون کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہا تھا اس کے آنسوؤں کی پرواہ کیے بغیر وہ اپنے پیاسے لبوں کو اس کی گردن پر رکھ چکا تھا
اس کے اندر کی تپش نے روح کی گردن کو جلا دیا تھا ۔ وہ اسے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔وہ اس کی محبت چاہتی تھی اس کا جنون نہیں
لیکن وہ تو اپنی تڑپ اپنی آگ اس میں منتقل کرنا چاہتا تھا
اس کے دونوں بازوؤں کو تکیہ سے لگاتے ہوئے اس نے صرف ایک نظر اس کا چہرا دیکھا اور اس کے ماتھے کونرمی سے لبوں سے چھوتا اس کو پرسکون کر گیا لیکن روح کا یہ سکون صرف ماتھے سے لبوں کے سفر تک تھا
لیکن اس کے بعد وہ بے قابو ہو چکا تھا
اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لیے وہ جنونی ہو چکا تھا
وہ کیسے بھول گئی کہ وہ یارم کاظمی تھا اور یارم کاظمی اپنے گناہ گاروں کو اس طرح سے معاف نہیں کرتا
اس بار تو روح نےاس کے جذبات کی توہین کی تھی اس کی تڑپ کی پرواہ نہیں کی تھی تو وہ کیسے اتنی آسانی سے بخش دیتا
وہ اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یارم کو اس کا یوں مزاحمت کرنا مزید غصہ دلا رہا تھا
آگر اب تم نے ذرا سی بھی مزاحمت کی نہ روح تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا ۔اس کی سرد آواز پر روح کی ساری مزاحمت دھری کی دھری رہ گئی ۔
چہرے کے بعد لبوں پر اور اب ہونٹوں کے بعد اپنی گردن پر یارم کا جارحانہ لمس محسوس کر رہی تھی ۔
جبکہ وہ ایک ہاتھ سے اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا ہے اس کی نمی سے بھرپور آنکھیں بند کر چکا تھا
اس کاہر ایک انداز شدت سے بھرپور تھا وہ اس کے عشق میں جلتی اس کی شدتوں کو برداشت کر رہی تھی وہ بھی بنا مزاحمت کے کیونکہ آج مزاحمت کا مطلب تھا یارم کو خود سے دور کرنا وہ پہلے ہی اس سے اس حد تک خفا تھا کی روح کو لگا کے وہ اسے کبھی منع ہی نہیں پائے گا
°°°°°°
اہ یار آرام سے کرو جان لینے کا ارادہ ہے کیا ڈاکٹراس کا بازو سیدھا کر رہا تھا جب خضر نے چلاتے ہوئے کہا
تو کس نے کہا تھا روح کو اتنے نایاب مشورے دینے کے لیے وہ تو شکر ہے کہ میں پریگنیٹ ہوں اس لیے بچ گئی
ورنہ تمہارا ہاتھ توڑا ہے مجھے تو پورا توڑ کے رکھ دیتا
لیلیٰ دو قدم اٹھاتی پیچھے ہوئی کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی شور کر رہا تھا البتہ اس کا صرف ایک بازو ہی ٹوٹا تھا
یارم کا ارادہ تو اسے پورا پورا توڑنے کا تھا اور اگر وہ اپنے ارادے پر عمل کرتا تو یقینا وہ اب تک وہ بیوہ ہو چکی ہوتی
میں بھی شارف کا یہ احسان نہیں بھولوں گی ۔
آج پریگنیٹ ہونے کی وجہ سے میں بھی زندہ ہوں وہ لیلیٰ کے کان میں بولی تو لیلی میں نے ہنستے ہوئے شارف کی طرف دیکھا جس کی ناک پر بڑی سی پٹی میں لپٹی ہوئی تھی
تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہی ہو
شارف نے غصے سے کہا
تم لوگوں کی عقل کی تعریف کر رہے ہیں ماشاءاللہ سے اتنے نایاب مشورے دیے تھے نہ تم نے روح کو کہ اب ساری زندگی وہ تم سے بات بھی نہیں کرے گی نہ جانے اس بچاری کا کیا حال ہو رہا ہوگا
ویسے ایک بات بڑی کمال کی ہے ہمارا یارم اپنے سارے کام نپٹا کر روح کے پاس جاتا ہے
لیکن ایک چیز مجھے سمجھ نہیں آرہی یارم نے دلنشین کو قتل کیوں کیا اس نے کیا بگاڑا تھا وہ تو الٹا ہماری مدد نہیں کر رہا تھا
معصومہ نے پریشانی سے پوچھا
وہ مدد نہیں دکھاوا کر رہا تھا وہ بھی یارم کی جگہ لینا چاہتا تھا ۔
ہسپتال میں اس کا جو علاج ہورہا تھا وہ علاج تھا ہی نہیں اسے پاگل پن کے انجکشن لگائے جا رہے تھے
اور یارم پر حملہ کروانے والے وہ لوگ نہیں بلکہ دل نشین تھا اسپتال میں اس پر حملہ کروانے والے بھی دلنشین کے ہی لوگ تھے
پورے ہسپتال کی ٹیم اس کے ساتھ ملی ہوئی تھی یارم کو تو کافی دنوں سے شک تھا اس پر اسی لئے یارم وہاں سے نکل گیا اور اپنے پلان کے بارے میں ہمیں بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا اور واپس آکر ہماری ہڈی پسلی ایک کردی خضر نے تکلیف سے کرہاتے ہوئے بتایا تو لیلیٰ کا بے ساختہ قہقہ بلند ہوا
جان من یہ آپ کے نایاب مشوروں کا ہی نتیجہ ہے
جو بھی تھا تمہیں روح کو یارم سے دور رہنے کا مشورہ نہیں دینا چاہیے تھاتم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے اور یارم نے کہا ہے کہ جب بازو ٹھیک ہو جائے تو اس کے پاس واپس آنا وہ ایک اور دوذ دے گا
لیلیٰ نے مسکراتے ہوئے کرسی سنبھالی کیوں کہ اب مزید کھڑا رہنا اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا
میرے خیال میں اب یارم سر کے لیے سکیورٹی گارڈ کا انتظام کرنا چاہیے وہ بہت خطرے میں ہیں معصومہ نے کہا تو شارف کے ساتھ ساتھ لیلی اور خضربھی ہنسنے لگے
معصومہ تم کتنی معصوم ہو میری جان اتنے دن سے یارم نے اپنے سارے خطرے اپنے ہاتھوں سے مٹا دیئے ہیں اب اس کے خطروں کو اسی کا خطرہ ہے
یارم اپنے لیے کبھی کسی سیکیورٹی گارڈ کا انتظام نہیں کرے گا کیونکہ وہ ساری دنیا کے سامنے ایک عام ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہے
وہ چاہتا ہی نہیں کہ لوگ اسے جانے اور کسی کو پتہ ہو کہ وہ کون ہے وہ کھل کر جینا چاہتا ہے اپنی روح کے ساتھ اور مجھے بھی نہیں لگتا کہ اسے کسی سکیوٹی گارڈ کی ضرورت ہے وہ اپنی سکیورٹی خود کر سکتا ہے
لیکن درک کا احسان ماننا پڑے گا کتنی ہوشیاری سے اس نے پتہ لگا لیا کہ ہسپتال کی ٹیم دلنشین سے ملی ہوئی ہے
شارف نے کہا تو خضر کا موڈ خراب ہو گیا
تم ہر بات میں اسے کیوں گھسیٹ لاتے ہو اس نے صرف یارم کو یہ بتایا تھا کہ دلنشین اتنا اچھا نہیں ہے اور وہ بھی شاید وہاں پر سٹہ نہ کھیل رہا ہوتا تو کبھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ دل نیشین یارم کے خلاف کیا پلاننگ کیے ہوئے ہے ۔
اور وہ بہت براہے ا سے اچھا ثابت کرنا بند کرو وہ ایک اچھا انسان نہیں ہے اس نے اپنے باپ کا قتل کیا ہے اور روح اسے کبھی معاف نہیں کرے گی اسے ہماری زندگیوں سے نکل جانا چاہیے
خضر نے غصے سے کہا تھا
جبکہ اس کے تلخ لہجے پر شارف نے ہمیشہ کی طرح بات ہی بدل دی
اچھا چھوڑو ان سب باتوں کو یہ بتاؤ کہ یارم مجھے کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے اس نایاب مشورے کے انعام میں تمہاری زبان کاٹ دے گا تو کاٹی کیوں نہیں شارف کا انداز انتہائی شرارتی تھا
یارم نے کہا ہے کہ وہ ایسا ضرور کرتا بہت خوشی سے کرتا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا ہونے والا بچہ یہ بات محسوس کرے کہ اس کا باپ بول نہیں سکتا
ویسے ہمارے ہونے والے بچے کی وجہ سے ہماری کافی بچت ہوگئی ہے لیلیٰ نے جواب دیتے ہوئے خضر سے پوچھا
ہاں بچت تو ہو گئی ہے لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی کہ یارم نے اس کی صرف ناک کیوں توڑی یہ بھی تو میرے برابر کا گناہ گار تھا اسے بھی میرے برابر کی سزا ملنی چاہئے تھی وہ اپنے بازو پر بندھا پلاسک دیکھ کر بولا
ہاں میں بھی برابر کا گناہ گار تھا لیکن روح کو وہ نایاب مشورہ میں نے نہیں دیا تھا شارف نے ہنستے ہوئے کہا تو بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکل گئی کیونکہ اس کے ہنسنے کی وجہ سے اس کے ناک میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا
آئندہ قہقہ لگانے سے پہلے یاد رکھنا کہ فی الحال تمہارے ناک کی عمارت کمزور ہے جو کبھی بھی گر سکتی ہے خضر نے اسے دیکھتے ہوئے پہلے تو شکر ادا کیا کہ اس کی ناک سلامت تھی پھر مشورہ دیتے ہوئے اٹھا انہیں گھر جانا تھا
ویسے تو یارم نے کہا تھا کہ وہ ایک ہفتے تک ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا لیکن خضر کو اپنی بھانجی بہت عزیز تھی
°°°°°
وہ سختی سے روح کو اپنے بازوؤں میں دبوچے آنکھیں بند کئے ہوئے تھا کافی دیر اسے یوں ہی پڑے دیکھ کر روح کو لگا کہ شاید وہ سو چکا ہے
اس کی سانسیں تیز تھی اور اس کی سانس تب ہی تیز ہوتی تھی جب وہ نیند میں اتر چکا ہوتا
روح کافی دیر اس کے چہرے کو دیکھتی رہی
بھری ہوئی داڑی کے ساتھ بالوں کی شیب بھی خراب ہوچکی تھی
اس نے کافی ٹائم سے ہیئر کٹ نہیں کیا تھا
آنکھوں کے نیچے سرخ لکیر تھی مطلب کے کافی وقت سے وہ بے آرامی میں تھا شاید ٹھیک سے سویا بھی نہ ہو روح نے آہستہ سے اپنی ایک انگلی یارم کی پلکوں پے رکھتے ہوئے اسے چھوا ۔
وہ سو رہا تھا اسی لیے ایسے ہی پڑا رہا روح نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا وہ اس حالت میں بھی بے پناہ پیارا لگ رہا تھا
روح کا دل دھڑکنے کے لئے تو یارم کا اس کے پاس ہونا ہی کافی تھا
اس کی دونوں آنکھوں کو لبوں سے چھوتے ہوئے وہ مسکرائی
وہ کوئی خواب نہیں حقیقت تھا اس بات کا احساس یارم اسے تھوڑی دیر پہلے اچھے سے کروا کر سویا تھا
اس کے بازو پر ابھی تک یارم کی انگلیوں کے نشان تھے
جودیکھتے ہوئے وہ بے اختیار شرما کر اپنا ہی بازو چوم بیٹھی
آئی لو یو ۔۔اس کے کان میں میٹھی سرگوشی کرتے ہوئے وہ اس کے گالوں کو چوم کر اس کا ہاتھ اپنے اوپر سے اٹھانے ہی والی تھی ۔
کہ یارم کی آنکھ کھل گئی ایک ہی جھٹکے میں وہ اسے دوبارہ بیڈ پر پھینک چکا تھا
کیا مسئلہ ہے تمہیں سوتی کیوں نہیں ہو سکون سے وہ سرخ نگاہیں اس کی آنکھوں میں گھِاڑے بے حد سرداور غصے سے بھری آواز میں بولا
یارم وہ شاید باہر کوئی آیا ہے آواز آ رہی ہے وہ ایک لمحے کے لیے اس سے خوفزدہ ہوتے گھبرا کر بولی
تمہارا ماموں اور مامی ہوں گے ہسپتال سے واپس آ گئے ہیں شاید لیکن تم کہاں جا رہی ہو ایک مہینے سے انہیں کے ساتھ تھی نا اب کیا ان کے ساتھ ساری زندگی چپک کررہنے کا ارادہ ہے آرام سے پڑی رو یہیں پر اگر یہاں سے ہلنے کی بھی کوشش کی تو جان نکال دوں گا
وہ ایک بار پھراسے کسی تکیہ کی طرح دبوچ کر اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔اور اس کے ایسا کرنے سے پھر کسی ننھے پرندے کی طرح اس میں قید ہو چکی تھی
میرے بغیر اتنے دن نیند نہیں آئی نہ آپ کو ۔۔وہ۔بہت پیار اور معصومیت سے پوچھ رہی تھی یارم نے سرخ آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا
اگر اس دن فون اٹھا لیتی تو اپنی ساری بے قراریوں سنا دیتا لیکن اب میں تمہیں اپنی بے قراریاں سناؤں گا نہیں سہنے پر مجبور کروں گا
اب تم مجھ سے ایک انچ بھی دور ہوئی نہ تو اس طرح سے جان نکلوں گا کہ ساری زندگی ممنہ چھپاتے پھرو گی مجھ سے
وہ آنکھیں بند کر کے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا
یارم آپ نے مجھے معاف نہیں کیا ابھی تک وہ مایوسی سے بولی تھی
تمہیں لگتا ہے کہ تم معافی کے لائق ہو اگر تمہیں لگتا ہے تو مجھے نہیں لگتا اس کا سر زبردستی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے وہ اسے حیران اور پریشان چھوڑ کر آنکھیں بند کر چکا تھا ۔
اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر اپنے چہرے پر رکھ دیا
ایسے ہی چھوتی رہو مجھے۔۔۔ تمہارا ہاتھ تھامنانہیں چاہیے ۔وہ سرد آواز میں کہتا اسےشرمانے پر مجبور کر گیا یعنی کہ وہ جاگ رہا تھا اور اس کی ساری حرکتوں کو محسوس کر رہا تھا ۔
اور اب بھی چاہتا تھا کہ وہ اسے ایسے ہی چھوتی رہے
یارم نے ابھی تک اسے معاف نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ اسے معاف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن روح کو یقین تھا کہ وہ اسے منا لے گی ۔
ہاں لیکن ذہن میں ایک سوال تھا کہ خضر ماموں کو ہوا کیا ہے کہ وہ ہسپتال گئے ہیں ۔پتہ نہیں یارم اس سے ملنے بھی دے گا یا نہیں سوچتے ہوئے یارم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے آنکھیں بند کر چکی تھی آج اسے بھی پرسکون نیند آنی تھی اپنے یارم کی باہوں میں
خضر نے آتے ہی ایک نظر روح کے کمرے کو دیکھا جہاں اندھیرا تھا مطلب یارم وہاہی تھا ۔کیونکہ روح کو اکیلے اندھیرے میں ڈر لگتا تھا
اس کا دل تو بہت کیا کہ ایک بار روح کو دیکھ لے۔
لیکن اس نے اپنے دل کی مانی نہیں
کیونکہ اسے پتہ تھا کہ یارم اس کی شکل دیکھ کر اسے پھر سے کوئی نہ کوئی نقصان پہچائے گا
اور یہ نہ ہو کہ اس بار وہ اس کا ناک یا دوسرا بازو ہی بدن سے الگ کر دے ۔روح سے محبت اپنی جگہ لیکن عزیز تو اپنی جان بھی تھی
روح تو یارم کی جان تھی اس نے پھر بچ جانا تھا ۔لیکن اس سے وہ اس حد تک غصہ تھا کہ اسے دیکھتے ہی جان سے مارنے کا ارادہ رکھتا ۔اسی لیے تو ایک ہفتے تک شکل فکھانے سءپے بھی منع کر دیا تھا
خضتپر خاموشی سے آ کر اپنے کمرے میں لیلیٰ کے ساتھ بند ہی گیا
لیلیٰ بھی اسے اپنی شکل دکھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
اس بھی اپنی جان عزیز تھی ۔
اب بچے کا سوچ کریارم نے ایک بار معاف کیا تھا ضروری نہیں کہ ہر بار کرتا ۔
خضر تو یہ سوچ کر بھی پریشان تھا کہ کل جب وہ آفس جائے گا اور وہاں جو کام خضر سے ہینڈل نہیں ہوئے ان پر یارم کیا حال کرے گا
کیونکہ جو کام وہ نہیں کرپایا تھا وہ تو اس نے ایک سائیڈ لگا چکا تھا۔
اس کے ٹیبل پر یارم کی رپورٹس تھی ۔
پچھلے بائیس دن مِیں یارم اپنا مکمل علاج کروا چکا تھا ۔اور یہ اتنا مشکل تھا ہی نہیں جتنا سریلنکا کے ڈاکٹرز نے مشکل بنا دیا تھا۔
یارم نے اٹلی میں ہی اپنا علاج کروا لیا تھا ۔اور اب وہ مکمل صحت یاب تھا سری لنکن ڈاکٹرز کی وجہ سے اسے کافی مشکلوں کو سامنا کرپڑا لیکن وقت رہتے وہاں سے نکل کریارم کپنے خود کو پاگل ہونے سے بچا لیا تھا۔
اور اس چیز نءپے خضر کو بے فکر کر دیا تھا اب بھی اس کا یہی کہنا تھا کہ اگر وہ پہلے روح سے مل لیتا تو کبھی اپنا علاج نہ کرواتا ۔
°°°°
اٹھو ۔۔روح وہ کافی غصے سے اسے جاگا رہا تھا۔
روح نے آنکھیں کھول کردیکھا پھر کروٹ لیتے ضدی انداز میں بولی
مجھے نہیں اٹھنا آج ہی تو سکون سے سوئی ہوں آپ بھی سو جائیں ۔اور مجھے بھی نیند پوری کرنے دیں
روح تمہیں سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔وہ چادر کھنچتا غصے سے بولا۔
یارم آپ متھ کا کوئی مشکل سوال تھوڑی کہ مجھے سمجھ نہیں آئے گا ۔آپ تو مہرے یارم ہیں
آسان سے پیارے سے ۔آپ کی تو ہر باب سمجھ آتی ہے اور سیدھا دل پر بھی لگتی ہے وہ آنکھیں بند لیے بڑبڑا رہی تھی جیسے خواب کی دنیا میں یارم سے پیارے بھری مٹھی مٹھی باتیں کررہی ہو ۔
اس وقت تو یہ بھی بھول گئی تھی کہ یارم اس سے ناراض ہے۔
یارم نے این نظر گھور کر اس کی پوری بات سنی اور اگلءپے ہی لمہے اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا۔
ایسا کرنےسے روح نے آنکھیں کھول کراسے دیکھا اور پھر مسکرا کر اس کی گردن میں باہیں ڈالتی اس کی گردن میں منہ بھی چھپا گئی۔
یارم خاموشی سے اسے اٹھا کر واش روم مُیں لیا ۔
اور اسے شارو کے نیچے کھڑا کرنپتے ہوئے شارو کھول بھی دیا۔روح ایک پل میں ہی ہوش کی دینا میں قوپدم رکھ چکی تھی۔
جلدی سے نہا کر آو ہمیں گھر چلنا ہے ۔وہ حکم دیتا باہعپر جانے لگا ۔جب اس کی آواز کانوں میں پڑی۔
کڑوے سڑے ہوئے کریلے۔آپ نہیں ہو میرے پیارے سے یارم۔وہ پیر پٹکےپتے ناراضگی سے بولی۔
کیا کہا تم نے مجھے کڑوا سڑا ہوا کریلا رائٹ ۔تو تمہِں اس کڑوے سڑے ہوئے کریلءپے کو ٹیسٹ بھی کرنا چاہے
وہ دوبوں ہاتھ اس کے ساتھ دیوار پر رکھتا اس کا راستہ بند کر گیا۔
اور اسے کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس کے لبوں پرجھک کر اس کے نازک لبوں کو قید کر لیا۔
آس کی شدت پر روح نے اس کی شرٹ کو مٹھیوں مِیں بھنج لیا۔
روح کے ساتھ ساتھ یارم کے کپڑے بھی پوری طرح سے بھیگ گِئے تھے اس کا انداز اب بھی کل رات والا ہی تھا۔وہ اس پے جھکا اپنے جذبات کو سکون دے رہاتھا ۔اور روح اس کے جذبات کی آگ میں جل رہی تھی۔
اس کے لبوں کو بخش کر وہ اس سے زرا دور ہوا۔اور اس کا گال تھپتھپایا۔
تو کیسا لگا کڑوا سڑا ہوا کریلا ۔جلدی کرو ہمہیں اپنے گھر جانا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ منہ پھلائے باہر نکلی ۔
مجھے ماموں سے ملنا ہے یارم ۔اس کے چلنے کے اشارے پر وہ بولی تو یارم نے پھر سے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
زندہ ہے وہ لیکن ہونا نہیں چاہے تھا۔جو اس نے کیا ہے نہ روح اس کے بعد اسے جینے کا حق نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی زندہ ہے کیونکہ تمہارے پاس وہ واحد رشتہ ہے اب فصول نہیں بولنا جلدی چلوورنہ اچھا نہیں ہو گا۔وہ دھمکی دیتا ہوا بولا۔
مطلب آپ ان سے بھی خفا ہیں ۔یارم انہوں نے آپ کو کتنا ڈھونڈا آپ کے غائب ہونے کے بعد بھی آپ کی جگہ سارے کام کرتے رہے سب کچھ سبھالا اور آپ ان سے ناراض ہو رہے ہیں۔
روح میرا دماغ مت خراب کرو ۔چلو جلدی ٹائم نہیں ہے میرے پاس وہ اس کی بات کاٹ گیا۔
میں ماموں سے ملے بنا نہیں جاوں گی یارم پلیز تھوڑا وئٹ کر لیں پتا نہیں آپ نے ان کے ساتھ کیا کیا ہے جو وہ ہسپتال میں تھے
اب ایک بار دیکھنے تو دیں وہ منت بھرے انداز میں بولی۔
یارم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دو قدم آگے بڑھا اس کا نازک سا وجود اپنی باہوں میں اٹھایا اور دروازہ کھول کر باہر کی طرف چل دیا
یارم یہ غلط ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے میں ماموں سے مل کر جاؤں گی۔
ماموں ماموں جلدی آئیں مجھے بچائیں یارم مجھے زبردستی لے کر جا رہے ہیں ماموں وہ اونچی اونچی آواز میں چلا رہی تھی
لیکن یارم کو کون سا پروا تھی
وہ اس کی چیخ و پکار نظر انداز کیے آگے بھرے جا رہا تھا
جب کہ کمرے میں خضرخاموشی سے بیٹھا اس کے جانے کا انتظار کر رہا تھا
تھوڑی دیر کے بعد آواز بند ہو گئی یعنی کہ وہ دونوں جا چکے تھے
خضر تھوڑی دیر آرام کر لو پتہ نہیں آفس میں یارم تمہارا کیا حال کرے گا یہ نہ ہو کے بیڈ پر بیٹھنے کے بھی لائق نہ رہو اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ پہلے ہی آرام کر کے جاؤ لیلیٰ نے مشورہ دیا جو خضر کو بھی قابل غور لگا تھا
°°°°°°
جاؤ جا کر میرے لئے ناشتہ بناؤ اس کا حکم ملتے ہی روح نے اسے گھور کر دیکھا وہ ابھی ابھی یہاں پہنچے تھے
مجھے نیند آ رہی ہے یارم آپ مجھ پرظلم نہیں کر سکتے پہلے ہی آپ نے مجھے ساری رات سونے نہیں دیا اور پھر صبح صبح اذان سے پہلے مجھے یہاں لائے
اور اب آپ کو میرے ہاتھ کا ناشتہ بھی چاہیے ایسا کون کرتا ہے وہ بالکل آہستہ سے آواز میں منمناتی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی
کچھ کہا تم نے وہ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
نہیں بس یہی کہہ رہی ہوں کہ آپ روم میں جائیں میں آپ کے لئے ناشتہ بناتی ہوں اس کے سختی سے گھورنے پر وہ اپنی بات ہی بدل گئی
گڈ جلدی کرو وہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب چل دیا
یہ کیا کریلے کا جوس پی کر بیٹھے ہیں جو اتنا کڑوا بول رہے ہیں چلو کوئی بات نہیں میں اپنے ہاتھ سے میٹھا میٹھا ناشتہ کرواوں گی تو خود ہی میٹھے ہو جائیں گے مناکرتو میں بھی رہوں گی یارم بابو آخر کب تک ناراض ہو سکتے ہیں آپ مجھ سے وہ مسکرا کر اپنے آپ کو گڈلک وش کرتی کچن کی جانب آئی تھی۔
°°°°°°
روح کو کچن میں بیج کر اب یارم آرام سے اپنے بیڈ پر بیٹھا تھا بہت کوشش کے باوجود وہ خود کو روح کے پاس جانے سے روک نہیں پایا
وہ اس سے کافی ناراض رہنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن روح کی حرکتوں کی وجہ سے اس کی ناراضگی دم توڑنے لگی
تھوڑی ہی دیر میں وہ نرم پر چکا تھا اس کا ارادہ اتنی آسانی سے اسے معاف کرنے کا ہرگز نہ تھا
لیکن روح کی باتیں اس کی معصومیت یارم کو ایک بار پھر سے اس کی طرف ایٹریکٹ کرنے لگی تھی
اپنے چہرے پر اس کا نرم کا لمس محسوس کر کے اس نے مسکرا کر اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھا شاید روح کبھی نہیں سمجھ سکتی تھی کہ یارم کے لیے وہ ہے کیا
وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھا جب اسے روح کے چیخنے کی آواز سنائی تھی
وہ تیزی سے اٹھ کر کچن کی جانب آیا تھا
جہاں روح اپنے ہاتھ کو زور سے تھامیں رونے کی تیاری پکڑ رہی تھی وہ کچن کے کام کرنے میں اناڑی ہرگز نہیں تھی اس لیے اسے بہت کم بھی چھوٹ آتی تھی
روح میرا بچہ کیا ہوا میری جان تمھیں چوٹ لگی ہے دکھاؤ مجھے چلو روم میں احتیاط سے کام نہیں کر سکتی کوئی پیچھے پرا ہے کیا کیوں اتنی جلدی مچا رکھی ہے وہ تیزی سے اس کا ہاتھ دیکھتا اسے ڈانٹ رہا تھا
یارم مجھے چوٹ نہیں لگی وہ اسے اس طرح سے اپنی فکر کرتے دیکھ کر پہلے تو ہنسی پھر سمجھاتے ہوئے بولی
تو پھر چیخ کیوں رہی تھی اس کے نازک سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامیں وہ ابھی بھی ٹٹولتے ہوئے بولا
یارم وہاں اس نے کچن کی زمین کی طرف بھی اشارہ کیا جہاں ایک ننھا سا کاکروچ کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگ رہا تھا
یارم ہمارے کیچن میں تو ایسا کچھ نہیں تھا تو چھوٹو کاکروچ یہاں کیا کر رہا ہے یہ یہاں اتنا بےفکر آزادی سے گھوم رہا ہے تو یقیناً اس کے والدین بھی یہیں ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس کی فیملی بھی
شٹ اپ روح میرا اس وقت کاکروچ کی فیملی پلاننگ پر غور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جلدی سے ناشتہ بناو بھوک لگی ہے مجھے وہ اسے ڈانٹ کر کہتا ڈروسے کیڑے مکوڑے مارنے کی سپرے نکالنے لگا
یارم آپ یہاں سے جائیے گا مت یہ نہ ہو کہ آپ کے جانے کے بعد یہ کاکروچ مجھ پر حملہ کردے اور کھا جائے مجھے وہ چور نگاہ سے کاکروچ کی جانب دیکھتی ناشتہ بنانے میں مصروف تھی
یارم نے ایک نظر سرسے پیرتک اسےدیکھا
روح تمہیں لگتا ہے کہ کچھ چھوٹا سا کاکروچ تمہیں کھا سکتا ہے یارم نے اسے دیکھتے ہوئے خیرت کا مظاہرہ کیا
چھوٹا سا شاید نہیں کھا پائے گا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے جانے کے بعد اس کی پوری فیملی مجھ پر حملہ کردےآپ میرے شوہر ہے میری حفاظت کرنا آپ کا فرض ہے آپ یہاں سے کہیں نہیں جا سکتے یہیں پر بیٹھے
ورنہ میں روز محشر اللہ کے سامنے آپ کی شکایت کروں گی کہ آپ نے مجھے کاکروچ اور اس کی فیملی کے حوالے کردیا وہ دھمکی دیتے ہوئے کرسی کی طرف اشارہ کر رہی تھی
تم یہ شکایت کرنا اور میں روز محشر اللہ سے یہ شکایت کروں گا کہ تم نے فون پر مجھ سے بات نہیں کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ تم سے بات کرنے کےلیے یارم تڑپ رہا تھا
اس کے اچانک بولنے پر روح سر جھکا گئی۔
یارم مجھے لگا تھا کہ آپ میری آواز سن کر اپنا علاج کروائے بغیر واپس آ جائیں گے ۔ مجھے آپ کی صحت کی فکر تھی۔
صحت کی فکر تھی میری جان کی نہیں میری تڑپتی سانسوں کی نہیں میرے سلگتے جذباتوں کی نہیں ۔وہ اس کی بات کاٹ کر اسے مزید شرمندہ کر گیا۔
روح آہستہ سے اس کے قریب آئی ۔اور زرا سا جھک کر اس کے گال پر اپنے لب رکھے
اپنی روح کو معاف نہیں کریں گے یارم ۔وہ آہستہ سے اس کی گود میں بیٹھتی پوچھنےلگی
اور روح کے اس انداز پر یارم کا دل بھی بے ایمان ہونے لگا تھا
اس کی کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے مزید اپنے اوپر جھکا گیا
کس می ۔وہ حکم دے رہا تھا یا فرمائش کر رہا تھا صرف کو بالکل سمجھ نہ آیا
پہلے ناشتہ کر لیں ۔وہ بنا مزاحمت تحمل سے بولی
روح میں نے کہا کس می ۔وہ اس کی بات نظر انداز کرتا گھورتے ہوئے بولا
پھر کیا معافی مل جائے گی ۔وہ مسکرا کر اس کے بال پیچھے کرتی پیار سے بولی
کیونکہ سچ ہی یہ تھا کہ یارم کے اتنے پاس آنے کے بعد اب اس میں کس کرنے کی ہمت بالکل نہیں تھی وہ بس اتنی ہی بولڈ ہوسکتی تھی
روح میں کیا کہہ رہا ہوں تمہیں سمجھ نہیں آرہا اب تم مجھے غصہ دلارہی ہو وہ اس کی کمر میں سختی سے بازو حائل کرتا اس کا چہرہ خود پر جھکائے ہوئے ذرا سخت لہجے میں بولا
اگر میں کس کروں تو کیا آپ مجھے معاف کر دیں گے وہ بہت ہمت سے بولی تھی
فضول بکواس کرنا بند کرو جو کہہ رہا ہوں وہ کرو ۔وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
مطلب کس لینے کے بعد بھی آپ مجھے معاف نہیں کریں گے جائیں میں نہیں کرتی وہ نخرے دکھاتی اٹھنے ہی والی تھی
جب یارم نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے پکڑ کے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دئیے کس کا دورانیہ بڑھنے لگا اور یارم کی شدت سہنا اس کے بس سے باہر ہوگیا اس کی سانس پھولنے لگی تھی اور وہ جو ہمیشہ سے اس کی سانسوں پر اپنا حق سمجھتا تھا بےقابو ہو چکا تھا
روح کے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی
جب کہ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھام کا اسی کی کمر کے پیچھے لے گیا
اپنے ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ لاک کر کے وہ اس کے لبوں اپنے لبوں کی تشنگی مٹاتا رہا
پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس پر ترس کھایا اور اس کا چہرہ دیکھنے لگا جب کہ روح لمبی لمبی سانسیں لیتی اسی کے سینے پر سر رکھ چکی تھی ۔
اسے اپنے سینے سے لگائے وہ بھی اپنی آنکھیں بند کئے اسے محسوس کر رہا تھا
جب اچانک دروازے پر دستک ہوئی
یارم یہ اتنی صبح ہمارے گھر کون آ گیا ابھی تو کسی کو پتہ بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے گھر واپس آ گئے ہیں
وہ آنکھیں کھول کر یا رم کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جبکہ یارم لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کندھے اچکا گیا
چلے چھوڑیں میں جا کے دیکھتی ہوں آپ ناشتہ کریں
وہ اس کی گود سےاٹھتی ہوئی ناشتے کی ڈیشیز ٹیبل پر رکھ کر بولی ا
خضر اور شارف میں سے کوئی ہوا تو نے واپس بھیج دینا آج میں آرام کرنے کا موڈ ہے وہ بے زاری سے بولا
آرام کرنے کا یہ مجھے تنگ کرنے کا روح نے جاتے جاتے پوچھا
تمہیں تنگ کرنے کا نہیں تم سے بدلہ لینے کا وہ آرام سے کہتا ناشتہ کرنے لگا
°°°°°
ارے صارم بھائی کیسے ہیں آپ دروازہ کھولتے ہی صارم کو فل یونیفارم میں حیران اور پریشان دیکھ کر وہ پوچھنے لگی
میں تو ٹھیک ہوں لیکن تم یہاں کیا کر رہی ہو
میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ گھر کی لائٹس ان دیکھی
سب خیریت تو ہے نہ صارم پریشانی سے پوچھ رہا تھا کیونکہ جب سے یارم کی موت کی خبر آئی تھی وہ تو خضر کے ساتھ رہ رہی تھی
تو پھر اتنی صبح صبح وہ یہاں کیا کر رہی تھی
اور اس کی ڈریسنگ پر نظر جاتے ہی صارم کو جھٹکا لگا تھا ڈارک ریڈ کلر کے ڈریس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی لیکن ابھی یارم کو گئے ایک مہینہ نہیں ہوا تھا اور روح اپنی رنگین زندگی میں مصروف ہو رہی تھی
جی وہ دراصل ہم آج صبح ہی واپس آئے ہیں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یارم کے بارے میں اسے کیسے بتائے
تمہارے ساتھ کوئی اور بھی آیا ہے صارم نے پیچھے دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا
آو بے وقوف انسپکٹر تمہیں کس نے کہہ دیا کہ صبح ہی صبح تمہاری شکل دیکھنا عوام کو پسند ہے
وہ اسے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا جبکہ صارم کا منہ وہ حیرت سے کھلا تھا ۔اور وہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور صارم کو حیران اور پریشان منہ کھل کر یارم کی جانب دیکھتے دیکھ خود فوراً وہاں سے نکل گئی تھی
یارم تم زندہ ہو ۔۔۔؟ صارم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا
اگر تم کہتے ہو تو مر جاتا ہوں وہ فرصت سے اسے جواب دینے لگا
یارم مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم زندہ ہو صارم بے حد خوشی سے بولا تھا
ایسا کرتا ہوں کہ تمہِن اوپر بھیج دیتا ہوں جاکر جہنم کا ویزٹ کر آؤ اگر وہاں پر نہ ملا تو فرشتوں سے اجازت لے کر ایک نظر جنت میں بھی دیکھا نا ہوسکتا ہے کسی نیک اعمال سے اللہ مجھے جنت میں بھیج دیں
اور اگر دونوں جگہوں پر نہ ملا تب واپس آ جانا اور پھر یقین کر لینا
اس کی حالت یارم کو کافی مزہ دے رہی تھی اس لیے بات طویل کر کے بولا
جبکہ وہ اس کی بات نظرانداز کرتا ہوا اس کے سینے سے لگ چکا تھا
یارم مجھے یقین نہیں آرہا میرے بھائی تم زندہ ہو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تمہاری ٹیم ممبر اور تمہاری بیوی نے مجھے بے وقوف بنایا
میں ان سب کو کبھی معاف نہیں کروں گا یا رم آئی لو یو وہ اس کے سینے سے لگا کر کسی بچے کی طرح خوش ہو رہا تھا
ان لوگوں کو تو میں بھی اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا صارم لیکن تمہارا یہ مجنوں والا انداز مجھے بالکل پسند نہیں ہے
اس کے اس طرح سے چپکنے اور اس کی آنکھوں میں موجود نمی دیکھ کر یار م نے بہت نرمی سے کہا تھا
جس پر صارم کھل کر ہنسا
چلو اندر آوتمہیں چائے پلاتا ہوں تمہاری سوتی ہوئی شکل دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہوں کہ عروہ نے ناشتہ کروا کر نہیں بھیجا
نہیں یار رات سے نائٹ ڈیوٹی پر ہوں ابھی گھر ہی جا رہا تھا
وہ اس کے ساتھ اندر آتے ہوئے بولا
اپنی بیوی سے خود ہی چائے کا بول دو میں ناراض ہوں اس سے وہ روح کو سخت نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولا
کوئی بات نہیں میں بھی ناراض ہوں یارم نے کہتے ہوئے کرسی بھی طرف اشارہ کیا جہاں صارم بیٹھ چکا تھا جبکہ اس کی آخری بات سن کر روح نے گھورکر اسے دیکھا جیسے یارم صاف طور پر نظر انداز کر گیا
صارم چائے پی کر کب کا جا چکا تھا ۔
روح ناشتے کے برتن دھو رہی تھی ۔
اور یارم اس کے قریب کھڑا اس کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا
کیونکہ روح کے مطابق کاکروچ اور اس کی فیملی سے اس کی حفاظت کرنا یارم کا فرض تھا
روح جلدی فارغ ہو مجھے نیند آرہی ہے ۔یارم نے اس کے ہاتھ اتنی سلو سپیڈ میں چلتے دیکھ کر کہا
یارم برتن آرام سے دھوئے جاتے ہیں ۔ تاکہ ٹھیک سے صاف ہوں۔ وہ اطمنان سے بولی اور پھر سے اپنے کام میں مگن ہوگئی
ٹھیک ہے تو پھر تم یہاں سکون سے اپنے برتن دھو تی رہومیں جا رہا ہوں سونےمیرا یہاں تمہارے لیے کھڑے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے یارم اب بھی ناراضگی شو کر رہا تھا
یارم آپ اگر مجھے یہاں کاکروچ اور اسکی فیملی کے پاس چھوڑ کر گئے تو میں آپ سے سچی والی ناراض ہو جاؤں گی روح دھمکی دیتے ہوئے بولی
جبکہ اس کے انداز پر یارم کو جھٹکا لگا تھا
ایکسکیوزمی میں آلریڈی تم سے ناراض ہوں یارم نے جتاتے ہوئے کہا
اوپس سوری میں بھول گئی تھی ۔وہ اپنے سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی
اب دوبارہ بھولنے کی کوشش مت کرنا ورنہ بہت برے طریقے سے پیش آؤں گا وہ سخت لہجے میں بولا
کل سے آپ کون سا اچھے طریقے سے پیش آرہے ہیں وہ برابڑ آتے ہوئے بولی
نہیں بےبی ابھی تم نے یارم کاظمی کی بیڈ سائٹ دیکھی ہی نہیں ہے اور جس دن تم نے یارم کاظمی کی بیڈسائیڈ دیکھ لینا تو پچھتاؤ گی بہت پچھتاؤ گی۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا سرد انداز میں بولا
اور آپ چاہتے ہیں کہ میں پچھتاؤں وہ اسے دیکھتے اسی کے انداز میں بولی
فضول بحث مت کرو میرے ساتھ اگر مجھے منانہیں سکتی تو دماغ خراب مت کرو ۔وہ بات ہی بدل گیا
میں دماغ خراب نہیں کرتی بلکہ میرے پیارےسے شوہر تو کہتے ہیں کہ میں اتنی پیاری ہو ں ۔کہ مجھے کہیں باہر نکلنا ہی نہیں چاہیے یہ نہ ہو کہ مجھے کسی کی گندی نظر لگ جائے وہ کبھی پیار میں کی گئی یارم کی بات کو یاد کرتے ہوئے بولی
فضول بکواس کرتا ہے تمہارا پیارا سا شوہر اس کا دماغ ٹھکانے لگاؤ ۔اس کے انداز پر یارم چڑ کر بولا
مجھے کچھ بھی کہیں لیکن خبردار جو آپ نے میرے شوہر کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ۔
زیادہ بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں تمہارے شوہر سے کتنی محبت ہے یہ تو اسے سری لنکا کے ہسپتال میں ہی پتہ چل گیا تھایارم طنز کرنے سے باز نہ آیا
آپ ایک بار معاف نہیں کر سکتے کیا ۔۔۔! وہ اسے دیکھتے ہوئے مایوسی سے بولی
میں معافی مانگنے سے نہیں بلکہ منانے سے مانوں گا روح تم ایک انتہائی نکمی بیوی ہو جو اپنے شوہر کی ناراضگی ختم نہیں کر سکتی ۔اس کے برتن ختم ہونے پر یارم کہتا ہوا کمرے کی جانب چلا گیا
اور آپ ایک بہت گندے ہزبنڈ ہو جو اپنی بیوی کو سستا کر خوش ہوتے ہیں آپ کو پتہ ہے مجھے منانا نہیں آتا تو آپ کو خود ہی مان جانا چاہیے نہ وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بول رہی تھی
جب کہ یار م تو اسے سرے سے نظر انداز کیے ہوئے تھا
°°°°°
وہ کمرے میں آئی تو یارم سو رہا تھا تھا۔
وہ بھی خاموشی سے اس کے پاس ہی لیٹ گئی
جب اچانک ہی یارم نےاسے کمر سے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔
اس کی اچانک حرکت پر اس نے گھور کر یارم کو دیکھا جو اپنے آپ کو نیند میں شو کر رہا تھا۔ وہ کافی دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی لیکن کوئی ریپونس نہ ملنے پر مسکرکر آنگھیں بند کر گئی۔کیونکہ یارم سچ مچ میں سو چکا تھا ۔
اور اسے سوتا دیکھ روح کے اندر کا شرارتی کیڑا جاگ گیا۔اور وہ اب اس کے ساتھ مستیاں کرنے لگی۔
کبھی وہ یارم کے ناک کو چھڑتی۔تو کبھی اس کے ڈمپل میں انگلی ڈالتی ۔تو کبھی پورے چہرے پر انگلی سے لکیریں کھنچتی ۔
جبکہ یارم سکون سے پڑا کسی چیز کا اثر نہیں لے رہا تھا۔پتہ نہیں کتنے سالوں کی نیند آج ہی پوری کر رہا تھا
اس کو جاگا کر وہ اپنا سکون برباد نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس وقت یارم سے بات کرنا چاہتی تھی۔
اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔لیکن وہ تو سکون سے خود کو سکون پہنچا کر سو گیا تھا۔
کافی دیر مستیاں کرنے کے بعد وہ چھت کو گھورنے لگی ۔
جب اچانک یارم نے اس ہاتھ تھام کر اپنے چہرے پر رکھ دیا۔
کرتی رہو اچھا لگ رہا ہے ۔وہ بند آنکھوں سے بولا
آپ جاگ رہے ہیں۔میں بور ہو رہی ہوں ۔پہلے اٹھیں باتیں کریں مجھ سے وہ حکم دے رہی تھی ۔
تمہارے منہ لگنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں وہ بند آنکھوں سے بولا۔
وا یہ کیا بات ہوئی ۔جب اپنا مطلب تھا تب لگ گئے اور اب جب میں کہہ رہی ہوں تو آپ کا ارادہ نہیں۔
تم اس طرح سے منہ لگنے کا کہہ رہی ہو۔۔۔! وہ آنکھیں کھل کر اس کی بات کو اپنے انداز میں لیتے ہوئے ہوا۔
اگر پہلے بتا دیتی کہ تم اس طرح سے منہ لگنے کی بات کر رہی پو تو میں کب کا منہ لگ چکا ہوتا
وہ اس لا چہرہ ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کے پاس لے گیا
میرایہ مطلب نہیں تھا میں باتیں کرنا چاہتی ہوں آپ سے وہ جلدی سے بولی
لیکن میرا اب یہی مطلب پے اور بات میں تم سے نہیں کر سکتا کیونکہ میں تم سے ناراض ہوں۔
یہ سب کرتے ہوئے ناراضگی یاد نہیں رہتی۔۔! وہ منہ بنا کر پوچھنے لگی
نہیں مجھے بس اپنے مطلب کی چیزیں یاد رہتی ہیں۔باقی میں تم سے ناراض ہوں تو پہلے مناو مجھے اور پھر جو چاہے کہہ لو۔وہ سکون سے کہتا اس کے لبوں ہر جھک کر اسے بے سکون کرگیا۔
کیسے مناوں آپ کو یہ بھی بتائیں نا ۔۔۔۔؟ کیسے ختم ہوگی آپ کی یہ ناراضگی ۔اپنے لبوں کو آزادی ملتی روح نے پوچھا اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اس کے ہونٹوں پر جھکتا روح اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ چکی تھی۔
جو یارم نے آرام سے اپنے ہاتھوں میں قید کر لیے۔
ائندہ یہ حرکت مت کرنا۔اس کا ہاٹھ تھام کر وہ دوبارہ اس کے ہونٹوں پر جھک گیا ۔اس بار انداز میں شدت تھی ۔شاید اس کی کس نہ کرنے دینے کی کوشش یارم کو پسند نہ آئی تھی۔تبھی تو وہ بدلے پر اتر آیا تھا۔
افففف ۔آپ کی یہ ناراضگی میری سمجھ سے باہر ہے وہ ہار کر بولی۔
اب اس ناراضگی کے چکر میں تم سے محروم نہیں ہو سکتا ۔ہونٹوں کے بعد اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چومتا وہ آہستہ سے بولا۔
کیسے مناوں یہ بھی تو بتائیں نا۔۔۔۔!
شوہر کو کیسے !نایا جاتا ہے۔
مجھے نہیں پتا میرے شوہر مجھ سے ناراض نہیں ہوتے ۔وہ فخر سے بولی تھی شاید یہی بات سن کر وہ مان جائے۔
ہمہمہم۔۔۔۔۔میں تو ہوں۔وہ کہ کر اس کا دوپٹہ اتار کر دور پھینک چکا تھا۔اور اب آہستہ آہستہ وہ اس کے نازک وجود پر حاوی ہونے لگا۔
روح خاموشی سے اس کی باہوں میں سما گئی اب اسے مزید خود سے ناراض کرنے کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا ۔
اس کے بنا مزاحمت مان جانے پر یارم کا ڈمپل نمایاں ہوا جو وہ ناراضگی کی وجہ سے فوراً چھپا بھی گیا۔لیکن روح نے دیکھ لیا تھا۔تبھی وہ مسکراتی ہوئی اس کی من مانیاں اپنے نازک سے وجود پر سہہ رہی تھی
°°°°°
وہ کب سے بیٹھی یارم کو منانے کا پلان سوچ رہی تھی ۔جو صاف کہہ چکا تھا تھا کہ اب وہ اپنے آپ نہیں مانے گا بلکہ روح کو پاپڑ بیلنے ہوں گے
وہ کیا کرے اس کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا
لیلیٰ اور معصومہ تو اسے مشورے دیتی تھی کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگاتا۔ان سے تو وہ مشورہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی
۔جب دماغ میں شارف سے مشورہ لینے کا خیال آیا لیکن ان سے ہی لیے پہلے مشوریوں کی سزا وہ بھگت رہی تھی یاد آتے ہی پلان چینج کر لیا۔
یارم آپ ایک بار مان جائیں وعدہ کبھی آپ کو نارض نہیں کروں گی وہ دل سے بولی اور پھر ذہن میں شارف ہی آیا
مجھے شارف بھائی سے ہی بات کرنی ہوگی ۔وہ اٹھ کر روم میں آئی وہاں سے یارم کافون لیا اپنا فون تو اس کا اس دن ہی گم ہو گیا تھا جب یہ حادثہ پیش آیا
اور اس کے بعد نئا فون لینے کا خیال بھی نہ آیا
ان کچھ لوگوں لے نمبر اسے زبانی بھی یاد تھے اور فون میں سیو بھی تھے اسے لیے اسے کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پرا شارف کا نمبر سامنے ہی تھا اس نے فواپراً کال کی تھی
°°°°°
یارم کا نمبر دیکھ کر پہلے تو وہ اچھا خاصہ پریشان ہوا
لیکن روح کی آواز سن کر اسے زرا سکون ملا
روح تم ذندہ ہو۔۔۔۔؟ اس کی آواز سن کر شارف نے پہلا سوال یہی کیا تھا
جی زندہ یوں لیکن یارم کی ناراضگی میری جان لے لے گی مدد کریں میری وہ پریشان سی بولی
میں کیا مدد کروں روح یارم نے تم سےملنے پر بھی پابندی لگا دی ہے ۔شارف نے اپنا دکھرا سنیا
کوئی بات نہیں فون پر ہی مدد کر دیں ۔وہ معصومیت سے بولی۔
روح تم نا اس کی ناراضگی کو مزاق میں لو مطلب اپنی مستیاں نہ چھوڑو اور اسے بہت سا تنگ کرو۔۔یارم کو تمہارا ہر انداز پسند ہےوہ مان جائے گا ۔اس کا مشورہ روح کو کچھ خاص سمجھ نہیں آیا تھا۔
لیکن روح نے حامی بھر لی۔
اچھا روح اگر یارم کا آفس آنے کا کوئی ارادہ ہے تو پلیز ایسا مت ہونے دینا۔
ورنہ وہ میرا قتل کر دے گا۔
آفس کافی گندہ ہو رہا ہے ۔یارم نے اگر آفس کا یہ حال دیکھا تومیرجان لے لے گا پلیز اس کو گھر پر ہی رکھنا ۔
میں کل تک آفس کی صفائی کروا لوں گا پلیز۔وہ مینتں کررہا تھا
آفف آپ مرد لوگ کتنے گندے ہوتے ہو۔مردوں کو میرے یارم کی طرح صفائی پسند ہونا چاہےوہ فخر سے بولی تھی۔
یارم کو سچ میں گندگی سے انتہا کی نفرت تھی ۔اگر اس کا آفس زرا سا گندہ ہوتا تو شارف کی شامت آ جاتی
اور روح کو تو خود صفائی کا شوق تھا اس کی یارم کی نیچر کے حساب سے اس نے سب کچھ اچھے سے سمبھال لیا تھا۔
شارف کو یقین دلا کہ وہ یارم کو آفس نہیں آنے دے گی ۔وہ یارم کو منانے کے لیے اس کی پسند کی ڈش بنانے لگی بس اب اسے اپنے پیارے سے شوہر کو منانا تھا جو پہلی بار بہت مشکل کام لگ رہا تھا۔
روح میرا فون کہاں ہے ۔۔۔! وہ ایک دم تیار باہر نکلا۔تو اپنا فون روح کے ہاتھ میں دیکھا۔
آپ کہیں جا رہے ہیں۔۔۔۔!
یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تم مجھے نہیں منا رہی ۔وہ اسے دیکھتے ہوئے اپنا فون لے چکا تھا جب اسے اپنے معصوم بھائی کی یاد آئی۔
اگر یارم آفس جاتا تو شارف بے موت مارا جاتا۔
یارم میں مناوں گی نا ۔آپ پلیز مت جائے۔ وہ منیتں کرنے لگی

یارم پلیز مت جائیں نا کام پر آج تو آپ کو بہت سارا آرام کرنا چاہیے ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے

اور اس کے پیچھے پیچھے آتی اسے منا رہی تھی

میں گھر پر بور ہو رہا ہوں میری بیوی ایک بہت ہی بورنگ انسان ہے

یارم یہ کہتے ھوئے آگے بڑھ گیا

نہیں ہوں میں بورنگ پلیز مت جائیں وہ منتیں کر رہی تھی اگر وہ آفس چلا جاتا تو یارم نے شارف کا وہ حال کرنا تھا کہ ساری زندگی یاد رکھتا

ایک تو پہلے ہی وہ اس کی نازک سی ناک بیڑا غرق کر چکا تھا

اور اس کے معصوم سے ماموں کا بازو بھی توڑ آیا تھا

اور نہ جانے اب کیا کیا توڑنے والا تھاوہ اپنے ماموں اور بھائی کی زندگی مزید مشکل میں نہیں ڈال سکتی تھی

یارم کیا اپنی اتنی پیاری بیوی کی بات بھی نہیں مانیں گے وہ اس کے گلے میں باہیں ڈالتی اس کے بے حد قریب آ چکی تھی

میری بیوی بہت ہی نکمی ہے اپنے شوہر کو منانا بھی نہیں آتا اس کو اس لئے میں اس کی بات ماننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوں وہ اس کا نازک سا بازو اپنے گلے سے نکال کر بولا

ارے آپ موقع دو دیں روح کی زبان پر اختیار پھسلی ۔ اور تیزی سے س کے گلے میں واپس باہیں ڈالتے ہوئے یارم کی شرٹ کا بٹن لٹکنے لگا ۔

جس سے جہاں روح کے چہرے کی ہوائیاں اڑ رہی تھی وہی یارم کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ آرُکی

وہ اپنی شرٹ سے لٹکتے ہوئے بٹن کو توڑ کر اس کی نازک سی کمر میں اپنا ہاتھ ڈال گیا ۔تو میری پیاری سی بیوی چاہتی ہے کہ میں اسے موقع دے کر اپنا ریپ  کروالؤں۔پر کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں  وہ اپنے کھلے گریبان کو دیکھ کر شرارت سے بولا جبکہ روح کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہے گی

اوکے کیا یاد کرو گی دیا تمہیں موقع وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا جب کہ اس کی مسکراہٹ نے روح کو گھبرانے پر مجبور کر دیا

نہیں چاہیے موقع وہ جلدی سے بولی

 لیکن میں تم اب موقع  دوں گا ۔چلو  اس بار منا لو مجھے وہ ایک آنکھ دباتا اس کا نازک سا وجود باہوں میں لیے صوفے پر آ بیٹھا

عجیب زبردستی ہے مجھے موقع نہیں چاہیے ۔وہ جلدی سے کہتی اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی کیونکہ اس کا موڈ بدل گیا تھا ۔جب سے یارم واپس آیا تھا اس کی جان مشکل میں ڈالی ہوئی تھی ۔

اسے ایک پل کو سکون نہیں لینے دیا تھا ۔اور اب وہ اس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے پریشان ہو چکی تھی

جب کہ یارم تو ہمیشہ کی طرح اب مکمل مدہوش ہو چکا تھا

وہ اسے نہ تو کچھ کہنے دے رہا تھا اور نہ ہی اٹھنے دے رہا تھا

جب کہ روح یہ سوچ کر آدھی ہوئی جا رہی تھی کہ یارم اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا ۔

کیا اسے لگ رہا ہو حا کی شرٹ کے بٹن توڑنے والی حرکت اس نے جان بوجھ کر کی ۔

لیکن وہ تو احساس نہیں چاہتی تھی وہ تو صرف اپنے بھائی کو بچانا چاہتی تھی یارم کے قہر سے لیکن خود پھنس گئی

جبکہ یارم جب باہر آیا تو اس کو اپنی میری سوچوں میں مصروف دیکھا

یقیناً وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسے کیسے منائے یارم اسے مزید تنگ کرنے کے لیے آفس جانے کا بہانہ کرنے لگا ۔

اور اس کی سوچ کے عین مطابق وہ اسے آفس نہیں جانے دے رہی تھی ۔

اس کی شرٹ کا بٹن شرٹ پہنتے ہوئے ہی ٹوٹ چکا تھا اور  اب وہ اسے روح کے پاس لے کر جانے والا تھا تاکہ روح اسے جوڑتے ہوئے اس کے بے حد قریب آجائے

اسے روح کو تنگ کرنے میں بہت مزہ آ رہا تھا وہ اس سے روٹھا ہوا تھا اور وہ اسے منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور اس دوران اس کی من مستیاں من مانیاں اس کی گستاخیاں سب خاموشی سے برداشت کر رہی تھی ۔

یہاں تک کہ اس کی ناراضگی دور کرنے کے لئے اس کے ایک اشارے پر اس کے قریب دوڑی چلی آتی

یارم کو اب اس پر ترس بھی آرہا تھا

لیکن اس کے قریب آتے ہی یارم  خود پر قابو رکھو دیتا ۔

اور پر اپنی شدت لٹانے لگتا

ابھی تو اس کی جدائی کی بیقراریاں بھی ختم نہیں ہوئی تھی

وہ دن یاد کرتے ہی اسے روح کی طلب پوری شدت سے محسوس ہونے لگتی

وہ اتنی وقت کر کے بغیر رہا کیسے ۔۔۔۔؟

یہ سوچ  اسے خود بھی پریشان کر رہی تھی اور اب تو وہ اس سے ایک لمحے کی دوری برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔

اور نہ ہی وہ اسے خود سے دور جانے دے رہا تھا

°°°°

وہ سب لوگ مل کر آفس کا ایک ایک کونہ چمکا چکے تھے

اور اب شارف اور حضر پرسکون ہو کر آفس میں آکر بیٹھے

روح نے نہ جانے یارم کو کیسے روکا ہوگا ۔لیکن اس کا نا آنا فائدہ مند ثابت ہوا تھا

اس کے نہ آنے کی وجہ سے شارف کے ساتھ ساتھ آفس کے باقی لوگوں کی جان بھی بچ گئی تھی

ابھی انہیں سکون سے بیٹھ گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ صارم ان کے سر پر سوار ہوا

ہاتھ میں آریسٹ وارنٹ تھا جو یقین شارف کے نام کا تھا ۔

کیونکہ کل رات ایک دوست سے شرط جیتنے کے چکر میں اس نے ٹریفک پولیس والے کا والٹ چورایا اور بھاگ گیا

تھوڑا آگے جا کر اس نے والٹ کو ہی زمین پر پھینک دیا اور وہ شرٹ جیت گیا

لیکن اس کی  یہ حرکت صارم کے ایک دوست ساتھی پولیس والے سے چھپی نہیں رہ سکی اور وہ شارف کو بھی پہچان گیا

چشم دید گواہ ہونے کی وجہ سے شارف اچھا خاصہ پھنس چکا تھا اور اب صارم اس کے سر پر سوار تھا

یارم کی موت کی خبر جھوٹی نکلنے کے بعد صارم تو اب  بس ایک موقع کی تلاش میں تھا

اسے بس ایک بہانہ چاہیے تھا

اتنی آسانی سے تو وہ ان لوگوں کو بھی معاف کرنے والا نہیں تھا

وہ بے چارے تو صارم نامی اس مصیبت کو بھول ہی گئے تھے

لیکن اپنا دیدار کروا کر صارم نے انہیں واپس حقیقت کی دنیا میں آیا تھا

اور اب وہ شارف کا کیا حال کرنے والا تھا یہ تو وہ جانتا تھا یا پھر شارف

دیکھو انسپکٹر نمٹ میں رہ کر ورنہ میں سیدھے ہائی کورٹ جاؤں گا میں بتا رہا ہوں شارف اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا جب کہ وہ تو اسے گھسیٹ کر لے جا رہا تھا

اور پھر جاتے جاتے خضر کے کان سے بھی نکال دیا کہ تم اپنی خیر مناؤ اس بار میں تمہیں بھی چھوڑنے والا نہیں بچپن کی دوستی بھاڑ میں ۔

اور اس کے ارادے خضر کو بھی کافی خطر ناک لگے تھے

°°°

وہ کب سے اس کے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا ساتھ ہی ساتھ اس کا ہاتھ روح کے بال سہلا رہا تھا

اسے پتہ تھا کہ وہ جاگ رہی ہے لیکن پھر بھی آنکھیں بند تھی یارم کی ساری ناراضگی ہوا ہو چکی تھی

اس کی روح نے اسے منا لیا تھا

یار بھوک لگی ہے وہ آہستہ سے منمنائی اور کے قریب سے اٹھنے کی کوشش کی اس کا ارادہ کچن میں جاکر کچھ بنانے کا تھا

لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے اسے روک لیا

میرے بچے کو بھوک لگی ہے میں خود اپنی جان کے لیے کچھ اچھا سا بنا کے لاتا ہوں تو پیار سے اس کے ماتھے پر بوسہ لیتا ہوا بولا تو روح مسکرائی

اس کا پیارا ساانداز روح نے اسے منا لیا تھا اس نے پرسکون سے سانس لی اور اپنا سر تکیہ رکھا ۔

اب روح خوش تھی وہ اسے منانے میں کامیاب ہو چکی تھی اس کا یارم مان تھا اور اب اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا

°°°°°

یارم بہت پیار سے اس کے لئے کچھ بنا رہا تھا پھر یوٹیوب سے ٹپ لینے کا سوچتے ہوئے فون اٹھایا

لیکن فون ان لاک کرتے ہی شارف کی کال ریکارڈ دیکھی اور سوچا کے اس نے آج کل یہ پھر واپس آنے کے بعد شارف کو فون تو نہیں کیا تو پھر یہ آج کی کال ریکارڈ کی شوہور ہی ہے

شاید روح نے کال کی ہوگی وہ ریکارڈر آن کرتے ہوئے سوچ رہا تھا

وہ جانتا تھا کہ شارف اس کی ناراضگی وجہ سے کافی پریشان ہے کل یارم نے اسکا کافی برا حال کیا تھا ۔

لیکن اسے یقین تھا کہ ان شارف اس کی روح کوکبھی کوئی مشورہ نہیں دیکھا

فون سے شارف اور روح کی گفتگو سنتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنا کھانا بھی بنا رہا تھا ۔

اور جیسے جیسے سن رہا تھا اس کا چہرہ لہوچھکنے خگا

روح اس کی اور اپنی اتنی پرنسل باتیں شارف کو بتا چکی تھی اور اس سے مشورہ مانگ رہی تھی کہ وہ یارم کو کیسے منائے۔

روح اتنی بے وقوف کیسے ہو سکتی ہے غصے سے اس کا پارہ ہائی ہوگیا اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا باول پوری شدت سے زمین پر دے مارا جس کی آواز سن کر فوراً کمرے سے باہر آ گئی تھی

کیا ہوا یارم کچھ گر گیا ہے کیا آپ کو چھوٹ تو نہیں لگی فکرمندی سے بولتی اس کے پاس آئی

اسے سامنے دیکھتے ہی یارم اس کے شانے تھام کر اسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا اس کا انداز انتہائی جارحانہ تھا

تم میرے جذبات کبھی نہیں سمجھ سکتی تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اور اپنی  پرسنل لائف  کسی تیسرے سے شیئر کرنے کی

اب کوئی تیسرا تمہیں بتائے گا کہ تمہیں اپنی شوہر کو کیسے منانا چاہیے تم ایک انتہائی بے وقوف اور کم عقل لڑکی ہو

تم بس میرے جذبات کے ساتھ کھیل سکتی ہو کبھی میری محبت کی قدر نہیں کر سکتی وہ اسےپیچھے دکھا دیتا ہے وہاں سے نکل گیا

آج روح کی اس حرکت میں یارم کو سچ میں بہت ہرٹ کیا تھا ۔

وہ تیزی سے یارم کے پیچھے بھاگتے ہوئے کمرے تک آئی تھی اور کافی دیر کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہی

لیکن یارم نےدروازہ نہیں کھولا

اسے بلکل  اندازہ نہیں تھا کہ یارم اس حد تک خفا ہو جائے گا ۔اور اب اسے بھی یہی لگ رہا تھا کہ یہ ان دونوں کا بے حد پرسنل میٹر تھا

جس میں کسی تیسرے کو نہیں لانا چاہیے تھا اسے شارف سے مشورہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا یہ بات وہ کیچن کاؤنٹر پر رکھے فون کی ریکارڈنگ سے پتہ لگا چکی تھی

کہ یارم کو یہ بات کہاں سے پتہ چلی

لیکن اب وہ کیا کرے گی ابھی سے منائے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا تھا کہ وہ پھر سے ناراض ہو گیا اور اس بار تو وہ سچ میں سیریس والا ناراض ہو گیا تھا

شام کو وہ کمرہ خود ہی انلاک کر کے آئی تھی کمرے میں اندھیرہ تھا جبکہ سگریٹ کی سمیل نے اندر آتےہی اس پر کافی بُرا اثر چھوڑا تھا

اس وقت وہ سر سے پیر تک اس کی پسند بنی تھی۔اس کے بدن پر موجود ہر چیز یارم کی پسند کی تھی ۔

جو وہ خود اس کے لیے لایا تھا۔اور اکثر اسے پہنے کے لیے بھی کہتا لیکن وہ ساڑھی میں خود کو انکفرٹیبل محسوس کرتی تھی۔

یارم کا کہنا تھا کہ روح صرف اس کے سامنے یہ لباس پہنے لیکن روح نے اس کی یہ فرامائش کبھی پوری نہیں کی تھی۔

لیکن آج اس کو منانے کے لیے وہ خود  بنا اس کے بولے اس کی پسند میں ڈھل کر آئی تھی

ڈارک ریڈ ساڑھی میں وہ بے حد خوبصورت  لگ رہی تھی۔

اوپرسے لمبے سیاہ بال اسے کسی دوسرے جہاں کی پری بنا رہے تھی۔

اور پھر ڈارک ریڈ کلر کی لپس ٹک نے اپنا ہی جلوہ بکھیرا تھا۔

یارم نے آیک نظر اس کی تیاری دیکھی  ۔ پھر سر جھک کر سگریٹ سلگانے لگا ۔شاید وہ ماننا ہی نہیں چاہتا تھا۔یا روح کو اس وقت دیکھنے کا خواہش مند ہی نہیں تھا۔

وہ اس سے نظریں پھیر کر باہر جانے لگا لیکن روح نے راستہ روک لیا

اتنے خفا ہوگٙئے کہ مجھے دیکھیں گے بھی نہیں  ۔ وہ معصومیات سے کہتی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔لیکن آج اس کا یہ روپ یارم کا دل دھڑکا نہیں رہا تھا بلکہ جلا رہا تھا

۔راستے سے ہٹو کس سے یہ سستا مشورہ لے کے آئی ہو ۔۔۔

کس کس کو سنا کر آئی ہوکہ تمہارہ شوہر تم سے خفا ہے۔اور اسے ماننے کے لیے تمہیں کوئی مشورہ چاہے ۔

وہ کب کا تپا بٹھا تھا۔

میں نے کسی سے مشورہ نہیں لیا میں خود آپ کو منانے آئی ہوں ۔وہ یقین دلا رہی تھی جو یارم کو نا آیا۔

وہ اس کی بات پر طنزیہ سی مسکراہٹ لیے باہر نکل گیا ۔جبکہ روح اس کے پیھے بھاگتی ہوئی آئی وہ اس پر اعتبار نہیں کر رہا تھا لیکن روح کو تو اسے منانا تھا۔

وہ بھی اپنے پاس سے۔۔۔۔ اس نے غلطی کی تھی اسے یہ باتیں شارف یا کسی اور کو نہیں بتانی چاہے تھی ۔اور وہ شرمندہ تھی ۔اب وہ اپنے یارم کو منا لینا چاہتی تھی جو کافی مشکل تھا

وہ اپنی ساڑھی سمبھالتی باہر میوزک سسٹم کے پاس آئی ۔

تاکہ یارم کی پسند کا کوئی رومنٹک گانا لگا کر اسے منائے لیکن یارم تو زیادہ گانے سنتا ہی نہیں تھا

کوئی بات نہیں کوئی بھی اچھا سا لگا لیتی ہوں

وہ خود سے کہتی کوئی بھی گانا پلے کر کے یارم کی طرف آئی جو صوفے پر بٹھا آنکھیں بند کیے سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا

وہ بلکل اس کے پاس آگئی اور صوفے کے پیچھے کھڑی اس کو دیکھنے لگی۔

"چاہا تھا تمہیں"

"پایا ہے تمہیں"

"مانگا تھا تمہیں"

"پایا ہے تمہیں"

"سینے سے لگا لو مجھ کو'

جذبات نہیں ہیں بس میں"

جذبات نہیں ہیں بس میں"

یہ رات نہیں ہے بس میں ۔"

اس کے بلکل قریب اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہی تھی۔لیکن آج تو جیسے ہر چیز اہم تھی سوائے روح کے ۔یارم وہاں سے بھی اٹھ کر باہر جانے لگا لیکن اس سے پہلے ہی روح اس کا ہاتھ تھام کر کے بے حد نزدیک آ چکی تھی

"پھر چمک اٹھی میری بندیا"

"پھر اڑنے لگی میری نیندیا'

"پھر موسم آئے سہانے "

"پھر ساون لگا ہے گانے "

"نہ جانے کب تک برسے"

"برسات نہیں ہے بس "

"جذبات نہیں ہیں بس میں"

"یہ رات نہیں ہے بس ہے "

روح اپنی تمام تر جمع کرکے اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھونے ہی والی تھی کہ یارم نے اسے دھکا دیتے ہوئے خود سے بے حد دور کردیا

اس نے شدت سے یہ حرکت کی تھی کی روح صوفے پر جا گری

کیوں کر رہی ہو تم یہ سب کچھ ۔۔۔۔؟

کیا تمھیں سمجھ نہیں آرہا تھا مجھے نہیں چاہے یہ سب ۔۔۔۔

اور اس بار کس سے آئیڈیا لے آئی ہو یہ سب کچھ کرنے کا یہ سب لیلیٰ ہی کر سکتی ہے

اسی کے مشورے پر چل رہی ہو نہ تم وہ انتہائی غصے سے اس کے پاس آیا تھا

روح کبھی تو مجھے سمجھنے کی کوشش کرو

کیوں تمہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنی پرسنل لائف کسی تیسرے کے بغیر چاہتا ہوں

میں تمہارے اور اپنے بیچ کسی کی مدالفت نہیں برداشت کرسکتا

کیوں تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مجھے پسند نہیں ہے  میری اور اپنی پرنسل لائف تم کسی اور کے ساتھ شئیر کرو

وہ انتہائی غصے سے بول رہا تھا جبکہ روح کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی

آپ میرے یار م ہیں ہی نہیں ۔۔۔آپ کوئی اور ہیں

میرے یارم میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں کر سکتے ۔نجانے یارم ابھی غصے میں کیا کیا بولنے والا تھا لیکن روح کے الفاظ نےاسے خاموش کر دیا ۔

آپ  نہیں ہیں میرے یارم۔جب سے یہ حادثہ پیش آیا ہے میرے یارم کہیں کھو ہی گئے ۔آپ کبھی میرے یارم کی جگہ نہیں لے سکتے

وہ کبھی اپنی روح کو یوں خود سے  دور نہیں کر سکتے ۔آپ نہیں ہیں میرے یارم وہ بُری طرح سے روتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر بھاگ گئی

جب کہ یارم پہلے تو کتنی دیر اس راستے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ بھاگ کر گئی تھی

اس کے آنسو اس کی تکلیف کی یارم کو پرواتھی

 لیکن یہ روح کا مشورہ نہیں ہو سکتا تھاوہ کبھی بھی یہ سب سوچ نہیں سکتی تھی

لیکن وہ یارم کو منانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی

تو کیا یہ سب کچھ روح نےاپنی مرضی سے کیا وہ اپنا فون نکال کر لیلیٰ کو کال کرنے لگا

°°°°°

یارم کا فون آتا دیکھ  لیلیٰ نے پریشانی سے فوراً ہی فون اٹھا لیا

لیلی بہتر ہوگا کہ تم اپنی زندگی پر توجہ دو میرے اور روح کے بیچ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنے  میٹرزخود حل کر سکتے ہیں آئندہ تم مجھے روح کو مشورہ دیتی نظر نہ آؤ ورنہ میں تم دونوں کی ملاقات ہی بند کر دوں گا وہ انتہائی غصے سے بولا تھا

یارم کیا ہوگیا ہے تمہیں میں نے کب روح کو کوئی مشورہ دیا

میری روح سے بات ہی نہیں ہوئی

جھوٹ بولنا بند کرو لیلیٰ اگر تمہاری روح سے بات نہیں ہوئی تو یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ۔۔۔۔ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا

یارم مجھے کیا پتا وہ کیا کر رہی ہے اور کیا نہیں میری اس سے بات کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اس کا فون ہی گم ہوچکا ہے

پہلے وہ یہاں پر بھی تو تو ہم آمنے سامنے بات کر لیتے تھے لیکن جب سے وہ تمہارے ساتھ گئی ہے میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے

بس شارف نے صبح بتایا تھا کہ اس نے روح سے تمہارے فون پر بات کی ہے اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتی یارم۔میں نے روح کو کوئی مشورہ نہیں دیا اور نہ ہی میری اس سے بات ہوئی ہے

اور میری تو کیا شارف کے علاوہ اس کی کسی اور سے بات بھی نہیں ہوئی ابھی لیلیٰ نہ جانےاپنی صفائی میں کیا کیا کہنے والی تھی کہ یارم فون ہی بند کر دیا

ہو گیا بیڑا غرق مطلب یہ سب کچھ میری شہزادی خود سے کر رہی تھی مجھے منانے کے لیے اور میں نے کیا کیا ۔وہ اپنے سر پہ ہاتھ مارتا بند دروازے کی جانب دیکھنے لگا

°°°°

روح میری جان میرا بچہ پلیز دروازہ کھولو وہ دروازے کے باہر کھڑا کب ہے اسے آواز دے رہا تھا جب کہ وہ کمرے میں بیٹھی روئے جارہی تھی کتنی محنت سے  تیار ہوئی تھی اس کے لئے اس نے کیا کیا

کوئی کیسے کر سکتا ہے اپنی معصوم سی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک

نہیں ہوں میں آپ کا بچہ اور نہ ہی میں آپ کی جان ہوں اور اب کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی آپ میرے یارم ہو ہی نہیں اندر سے روتی ہوئی نم سی آواز آئی جس پر یارم بے چین ہو گیا

روح تم نہیں آؤ گی تو میں اندر آ جاؤں گا یارم نے ہارتے ہوئے کہا

خبردار جو آپ نے ایکسٹرا کی سےدروازہ کھولا میں ساری زندگی بات نہیں کروں گی آپ سے وہ فوراً اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی

اتنے برے لگ رہے ہیں نہ آپ مجھے اس وقت کہ آپ کا چہرہ دیکھنے کا بھی دل نہیں کر رہا

اور نہ ہی مجھے آپ کا چہرا دیکھنا ہے چلے جائیں یہاں سے  اپنے آفس روم میں بیٹھ کر سگریٹ پیے ۔اس سوتن کو منہ لگائے میرے منہ نے کی ضرورت نہیں ہے

وہ روٹھی روٹھی ایسی باتیں کر رہی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یارم کو ہنسی آ جاتی

لیکن وہ بالکل بھی ہنسا نہیں تھا کیوں کے اس وقت اسے روح کو منانا تھا

کیا ہو رہا تھا یہ سب کچھ جب یارم مانتا تھا تب روح روٹھ جاتی ہے اور جب روح مانتی یارم روٹھ جاتا

لیکن یار م کواسے منانے کے بہت سارے طریقے آتے تھے اسے روح کے لیے کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی ۔

°°°°°

اس کو منانے کی ہر کوشش میں ناکام ہونے کے بعد یا رم نے مجبور ہو کر ڈپلیکیٹ کی سے دروازہ کھولا تھا

اس کو دیکھتے ہی وہ منہ پھیر کر بیٹھ گئی ۔

افف بے بی ایم سوری یار غلطی ہو گئی مجھ سے معاف کر دو وہ بیڈپر یٹھی تھی اور یارم زمین پر بیٹھ کر اس سے معافی مانگنے لگا

میں نہیں کروں گی آپ کو معاف آپ بہت گندے ہیں میں بات ہی نہیں کرنا چاہتی آپ سے جائیں یہاں سے جا کر وہ سوتن سگریٹ پیئں وہ غصے سے بار بارسگریٹ کو ہی بیچ میں لا رہی تھی

اچھا نہ یار نہیں پیتا تمہاری سوتن کو وہ شرارتی انداز میں کہتا ہے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر چومنے لگا

بس یہی غلطی معاف کر دو اس کے بعد کبھی کوئی غلطی نہیں ہوگی وعدہ کرتا ہوں وہ اپنےکانوں کو ہاتھ لگاتے بولا تو روح ذرا نرم پڑگئی

خبردار جو آئندہ مجھ سے اس طرح سے بات کی یا مجھے خود سے دور کیا

اور اب اگر کبھی مجھ سے ناراض ہوئے تو میں پکی والی ناراض ہو جاؤں گی ۔

مجھ سے نہیں ہوتےیہ منانے والے کام میں روٹھوں گی اور آپ منائیں گے ہمیشہ مجھ سے نہیں اٹھائے جاتے آپ کے یہ نخرے

وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی جس پر یار م نے فوراً ہاں میں سر ہلایا

میری مجال جو میں تمہارے سامنے نخرے دکھاؤ ں وہ اس کا چہرہ تھا میں اس کے دونوں گال کو چومتے ہوئے پیار سے بولا

ویسے کون سا گانا تھا وہ کافی ہوٹ لگ رہی تھی لیکن تم نے ساڑھی اتار کیوں دی یار آج پہلی بار تو میری خواہش کو پورا کیا تھا

ہاں برے آئے آپ دیکھ ہی کہاں رہے تھے مجھے  میں ہی پاگل ہوئے جا رہی تھی آپ کو منانے کے لئے وہ بے ہودہ لباس پہن لیا ۔اور بال بھی کھول دیے

پتا نہیں یہ فلم میں ہیروئن بال کھول کر ناچ کیسے لیتی ہے میرے تو سارے بالوں  منہ میں آ رہے تھے ۔

وہ اپنے بندھے ہوئے بالوں کو ایک بار پھر سے پیچھے کرتے ہوئے بولی

یہ پریکٹس ہے میری جان تم بھی پریکٹس کیا کرو تمہارا ہیرو تو ہر وقت حاضر رہتا ہے تمہیں سراہنے کے لیے لیکن تم ہیروئن بننے کی کوشش ہی نہیں کرتی وہ ایک ہی جھٹکے میں اسے بیڈ پر گراتا ہوا اس کے اوپر آ چکا تھا

مجھ سے نہیں ہوتے یہ فلمی ڈرامے اگر آپ کو مجھ سے پیار کرنا ہے تو ایسے ہی کریں اور ویسے بھی یہ سب کچھ کرنا اچھا نہیں ہوتا وہ منہ بنا کر بولی

بےبی شوہر کے سامنے کچھ بھی کرنا بُرا نہیں ہوتا ۔ایک لڑکی اپنے شوہر کے سامنے جیسے چاہے ویسے رہ سکتی ہے ۔اور تمہارے تو کسی بھی انداز پر مجھے اعتراض نہیں وہ اس کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا اس کی گردن پر اپنے لب رکھ چکا تھا اور اب پھر وہ خاموش ہو گئی

اور یارم مزید مدہوش ہونے لگا تھوڑی دیر بعد اسے روح کی آواز سنائی دی تھی

بس ذرا سا مان کیا جاؤں بندہ بلکل فری ہو جاتا ہے ۔وہ نفی میں سر ہلاتی اس انداز میں بولی کی یارم قہقہ لگا اٹھا

یہ بندہ تو پہلے دن سے ہی تم پر فدا ہے اور فری ہونے کا تو حق حاصل ہے مجھے وہ کہتا ہوا اس بار اس کے لبوں کو اپنا نشانہ بنا چکا تھا

جب کہ وہ آہستہ سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکال کر اس کے گرد لپٹ گئی

°°°°°

چھ ماہ گزر چکے تھے معصومہ نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا جب کہ دو مہینے پہلے لیلی کے ہاں دو جڑواں بیٹی پیدا ہوئی تھی

جو لیلی کو تگنی کا ناچ نچا رہی تھی لیکن خضر اپنی بیٹیوں کو پا کر بے حد خوش تھا

اور آج معصومہ کے ہاں بھی ایک روشن ستارہ چمکا تھا

وہ ان کو مبارک باد دینے کے بعد ابھی ابھی گھر آئے تھے روح کا تو آنے کا ارادہ ہی نہیں تھا لیکن یارم کی گھوریوں نے اسے آنے پر مجبور کر دیا

یارم اب مجھے بےبی چاہیے سب کے پاس بےبی ہو چکا ہے بس ہمارا ہی نہیں ہے ہمارا کب آئے گا

وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی معصومیت سے کہہ رہی تھی جبکہ شونو بھی قدم قدم ان کے ساتھ ہی آ رہا تھا

اور اس کے ہمارے بےبی کہنے پر اس نے بھونکتے ہوئے احساس دلایا کہ میں یہیں پر ہوں تمہارے ساتھ

لیکن اس بار روح کو اپنا بچہ چاہیے تھا کتے کا نہیں

میرا نہیں خیال کہ فی الحال تم ایک بچے کو ہینڈل کر سکتی ہو ایک بار لیلیٰ اور معصومہ کا ایکسپیرنس چیک کرو پھر ہم اپنے بچے کے بارے میں سوچیں گے ۔

وہ ہمیشہ والا جواب دیتا اپنے آفس روم میں بند ہو گیا مطلب اس وقت وہ کام کرنے والا تھا ۔اس سے اب رات کو ہی بات ہو گی

روح منہ بناتے کچن میں آگئی آج اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ہر قیمت پر یا رم سے بات کرکے رہے گی

اسے اب اپنا بچہ چاہئے تھا کہ کسی بھی حال میں

°°°°°°

رات یارم کمرے میں آیا تو اس کا موڈ کافی خوشگوار تھا جس پروجیکٹ پر وہ کچھ عرصے سے کام کر رہا تھا آج وہ مکمل ہو گیا

اور اب وہ پھر سے روح کو کہیں گھومانے پھرانے لے کر جانے والا تھا

لیکن کمرے میں آتے ہی اسے ایک بار پھر سے بچے کی باتوں میں مصروف پایا وہ بھی ہنستے ہوئے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا

آپ نے دیکھا شارف بھائی کا بچہ کتنامعصوم ہے اس کے ہاتھ کتنے چھوٹے چھوٹے ہیں ہمارے بچے کے بھی ایسے ہی ہوں گے نہ

آپ نے اسے ٹچ نہیں کیا یارم

اگر آپ نے اسے ٹچ کیا ہوتا نا تو اس لمس کو محسوس کرکے آپ کے اندر بھی اپنےبچے کی خواہش ضرور جاگتی

وہ سمجھ نہیں پا  رہی تھی آخر کب تک وہ بچوں کے بغیر رہنے کا ارادہ رکھتا تھا

سوئٹزر لینڈ میں تو وہ خود اس سے بچے کے بارے میں بات کر رہا تھا لیکن اب اچانک اسے ہوا کیا تھا

اسے اب بچہ کیوں نہیں چاہیے تھا وہ کیوں روح کو ان میچور کہتا تھا وہ کیوں کہتا تھا کہ وہ ایک بچہ سنبھال نہیں سکتی

میری بات غور سے سننا روح جب مجھے لگے گا کہ اب ہمارا بچا ہو جانا چاہیے تب ہو جائے گا لیکن فی الحال مجھے نہیں لگتا کہ تم ایک بچے کو سنبھال سکتی ہو سوتم ہماری زندگی پر غور کرو ہمارے بارے میں سوچو جب اللہ نے بچا دینا ہوا دے دے گا وہ اس کا چہرہ تھامیں بہت پیار سے بول رہا تھا

جبکہ اس کے جواب پروہ  ناراض ہو کر کروٹ بدل گئی لیکن یارم نے اسے منانے کی کوشش بلکل نہیں کی تھی

ایک سال میں 2 میجر نروس بریک ڈاؤن جھیلنے کے بعد اس کی صحت اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ اس کی صحت پر بچے کا رسک لیتا

پہلی پریکنسی اور پھر مس کیریج کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے روح کی جان بھی جا سکتی تھی

بچے کی خواہش  اپنی جگہ لیکن اسے روح سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں تھا اب اس کے لیے روح اسے غلط سمجھے یا صحیح اسے فرق نہیں پڑتا تھا اسے بس اپنی روح کی فکر تھی

جبکہ روح سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ آخر یارم بچوں سے اس حد تک خار کیوں کھانے لگا ہے

°°°°°°

معصومہ اور لیلی کے بچے اہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے

ان کی شرارتیں بھی بھرنے لگی تھی

ان کا زیادہ تر وقت روح کے ساتھ ہی گزرتا تھا

اس نے خود معصومہ اور لیلی سے کہا تھا کہ جب تک وہ کام پر ہوتی ہیں وہ اپنے بچے اس کے پاس چھوڑ سکتے ہیں

اور ایسا کرنے سے روح کا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا

لیکن یارم کو لگ رہا تھا کہ اس طرح سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے

اور آج تو لیلیٰ نے ایسی آگ لگائی تھی کہ اس نے بھی  اسے  خونخوار نگاہوں سے دیکھا تھا

لیلیٰ نے اس سے کہا تھا کہ اب تمہیں اور یارم کو بھی ایک بےبی پلان کر لینا چاہیے ۔

اور اس کے بعد یارم اور روح کی اچھی خاصی لڑائی ہوگئی تھی

وقت کو جیسا پر لگ گئے تھے دو دن کے بعد لیلیٰ کی بیٹیوں کی تیسری سالگرہ تھی ۔لیکن یارم کو اب تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اب اسے اپنے بچے کے بارے میں سوچنا چاہیے

وہ اسے  یہ بھی کہہ چکی تھی کہ وہ کوئی معصوم چھوٹی سی بچی نہیں ہے جو بچہ نہیں سنبھال سکتی

۔لیکن یارم کے تو اپنے ہی اصول تھے

اب تو وہ یارم کی اس فضول ضد سے بھی تنگ آ گئی تھی آخر وہ کیوں نہیں سمجھ رہا تھا کہ اس کے اندر ممتا کے احساس جاگ رہے تھے

ہر لڑکی کی طرح اس کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہو چکی تھی کہ اب اس کا بھی ایک بچہ ہونا چاہیے ۔لیکن یارم تو جیسے اس کے جذبات سمجھنے سے ہی قاصر تھا

°°°°°°

دو دن سے یار م سے بات چیت بالکل بند تھی آج وہ لیلیٰ کی بیٹیوں کی برتھ ڈے پارٹی سے واپس آئی ۔

تو اسے اپنی طبیعت میں کچھ غیر معمولی محسوس ہوا

لیکن یارم سے ناراض تھی اسی لیے اسے بتانا ضروری نہیں سمجھا فی الحال وہ اسے احساس دلانا چاہتی تھی کہ وہ اس سے خفا ہے اور کیوں خفا ہے

لیکن یارم نے اس کی ناراضگی کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا تھا وہ بہت نارملی اس سے بات کرتا تھا جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو

ابھی بھی اسےکمرے میں جانے کا کہہ کر وہ آفس روم میں چلا آیا جبکہ وہ اپنے کمرے میں منہ پھولا کر چلی گئی ۔اس کی ناراضگی کو وہ بہت اچھے سے سمجھ رہا تھا

۔لیکن کچھ بھی بولا نہیں وہ کافی پرسکون تھا ۔

ایک ماہ پہلے  وہ ڈاکٹر سے مل چکا تھا ۔ڈاکٹر اب روح کی کنڈیشن کافی بہتر بتا رہے تھے اب ممکن تھا کہ اس کی ذہنی حالت اس پر برا اثر نہیں ڈالتی ۔لیکن پھر بھی وہ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا روح کی ضد کے سامنے اب وہ بھی ہارنےلگا تھا

خضر اور شارف کت بچے دیکھ کر کہیں نہ کہیں دل میں اپنے بچے کی خواہش بھی انگڑائی لینے لگی تھی ۔پچھلے تین سال سے روح کے پاس بس ایک ہی موضوع تھا اس سے لڑنے کے لیے ۔

اب اسے کوئی بہانہ ہی نہیں دیتا تھا لڑائی کرنے کا ناراض ہونے کا اور یہاں آ کر وہ خاموش ہو جاتی کیونکہ ان اسے کہیں نہ کہیں سے یہ بات پتہ چل چکی تھی

کہ یارم بچہ کیوں نہیں جاتا

اور پچھلے تین سال میں وہ دس بار اپنا مکمل چیک اپ کرواکے رپورٹس اس کے سامنے رکھ چکی تھی ۔

لیکن یارم تو پھر بھی یارم تھا وہ اسے منانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔

اور اب جب روح اپنا زیادہ تر وقت لیلیٰ اور معصومہ کے بچوں کے ساتھ گزارتی تو یارم کو بھی شدت سے احساس ہوا تھا کہ اب انہیں اپنے بچے کے بارے میں سوچنا چاہیے

۔وہ جب بھی گھر واپس آتا تو روح وہ کا موڈ اچھا ہوتا

وہ اس کی ساری باتیں لیلی اور معصومہ کے بچوں کے بارے میں ہی باتیں کرتی تھی ۔اور انہی سب باتوں کے اینڈ پر وہ کہتی کہ کاش ہمارا بھی بچہ ہوتا

تو وہ رات کو بھی میرے پاس ہی رہتا

میں اسے اپنے پاس سلاتی

اور یہی سب باتیں یارم کو بھی اچھی لگتی تھی

اسکے دل میں بھی کہیں نہ کہیں بچے کی خواہش تھی جو زبان پر نہیں لاتا تھا ۔اب تو پچھلے ایک مہینے سے روح اسے خوب ناراضگی دکھا رہی تھی

کبھی وہ مان جاتی کبھی پھر سے ناراض ہو جاتی اس بیچاری کا بھی یارم کے علاوہ اور کون تھا

اس لیے یارم سے روٹھنا اس کے بس سے باہر تھا اور اس معاملے میں بھی یارم بھی ذرا سخت طبیعت تھا

وہ اسے اپنے آپ سے زیادہ دیر روٹھنے نہیں دیتا تھا

°°°°°

رات کو کمرے میں آیا تو روح کو واش روم میں ووٹنگ کرتے دیکھا وہ پریشانی سے اس کے پاس آیا تھا

روح میری جان تم ٹھیک تو ہو تمہاری طبیعت خراب ہو رہی ہے میں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا

وہ جو اس سے کافی ناراض تھی اس کی فکر مندی پر اسے دلاسہ دینے لگی

میں ٹھیک ہوں وہ کیا ہے نہ لیلی نے مجھے اورنج جوس پلایا تھا جس کے بعد سے نہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا اب میں ٹھیک ہو جاؤں گی آپ فکر نہ کریں وہ اس کا سہارا لیتی باہر بیڈ تک آئی

نہیں روح تمہیں بےاحتیاطی نہیں کرنی چاہیے اور جوس سے ایسا کچھ نہیں ہوتا تمہاری طبیعت خراب ہے میرے خیال میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس چلا چاہیے یارم  فکر مندی سے بول رہا تھا

اچھا بابا صبح چلوں گی  ابھی مجھے سخت نیند آ رہی ہے وہ ہار مانتے ہوئے بولی کیوں کہ جانتی تھی کہ یارم اتنی آسانی سے اس کی جان نہیں چھوڑنے والا

ٹھیک ہے لیکن صبح میں تمہیں خود لے کر جاؤں گا میرے جانے کے بعد تم چیٹنگ کرو گی جاؤ گی ہی نہیں اس معاملے میں تو ویسے بھی یارم کو اس پر بھروسہ نہیں تھا  روح اسے گھور کر رہ گئی

اس میں آج بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اکیلی گھر سے باہر نکلتی شاپنگ کے لیے لیلیٰ اور معصومہ  اسے باہر لے کر جاتی تھی

اور گھومنے پھرنے لانچ یا ڈنر پر یار م اسے اپنے ساتھ لے کر جاتا ۔وہ آج بھی اتنی ہی بزدل تھی جتنی کے پہلے یارم کی روح آج بھی ویسی ہی تھی لیکن اسے کوئی کمزور نہیں کہہ سکتا تھا

وہ لڑتی نہیں تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ لڑنا جانتی نہیں تھی

اپنی زندگی میں کسی قسم کا کوئی دکھ کوئی تکلیف کوئی پریشانی نہیں چاہتی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ دکھ تکلیف یا پریشانیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی

وہ ہر قسم کے حالات کو فیس کرسکتی تھی ۔لیکن وہ  یہ سب کچھ تب کرتی جب یارم اس کے ساتھ نہ ہوتا لیکن وہ تو ہر قدم پر اس کے ساتھ تھا ہر پل اس کے ساتھ چلتا تھا وہ کیسے اپنی روح کو اکیلا چھوڑ دیتا ۔

روح کے راستے میں آنے والی ہر مصیبت کو پہلے یارم جیسی چٹان کا سامنا کرنا تھا اور یارم کو یقین تھا کہ اس کے بعد بھی اس کی روح اکیلی نہیں ہوگی خضر شارف صارم سب اس کے ساتھ تھے اور کہیں نہ کہیں" وہ' بھی

ہاں اب اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی روح اکیلی ہو جائے گی اسے پتا تھا کہ اس سے جڑے رشتے اس کی روح کو محفوظ رکھیں گے اس کی روح کی حفاظت کریں گے

°°°°°°°°

بہت بہت مبارک ہو شی از پریگنیٹ ۔۔ڈاکٹرروح کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد یارم سے کہنے لگی

جبکہ روح   کبھی ڈاکٹر تو کبھی یارم جانب دیکھ رہی تھی اسے تو سامنے والی کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا

یارم ڈاکٹر نے ابھی ابھی کیا بولا وہ ڈاکٹر کو نظرانداز کرتی یارم سے پوچھنے لگی

وہی جو تم نے سنا روح یارم مسکرا کر بولا

یارم مطلب ہمارا بےبی۔۔۔

مطلب ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے میرا اور آپ کا یارم میرا اپنا بےبی جو 24 گھنٹے میرے پاس رہے گا اور رات کو سوئے گا بھی میرے پاس وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی اس کی شرٹ کو جھنجوڑ چکی تھی جب کہ یارم نے ایک نظر ڈاکٹر کی جانب دیکھا جو چہرہ  نیچے جھکائے مسکرائے جا رہی تھی

 بےبی وہی ہمارا اپنا بےبی آنے والا ہے وہ ہنستے ہوئے بولا تو روح بے اختیار ہی اس کے سینے سے آ لگی

یارم میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ میرا بے بی دنیا میں آنے والا ہے میں اس کا بہت خیال رکھوں گی

میں اس سے بہت پیار کروں گی وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا  دیکھے گا آپ میرا بے بی سب سے پیارا ہوگا

وہ خیالوں کی دنیا میں نہ جانے کہاں سے کہاں نکل چکی تھی جب کہ یارم جہاں اس کی بات پر مسکرا رہا تھا وہی اس کی نم آنکھوں نے اسے پریشان کر دیا

یارم اس بار ہم اپنے  ہونے والے بی کا بہت خیال رکھیں گے کوئی گڑبڑ نہیں ہونے دیں گے سب کچھ اچھا اچھا ہوگا اس بارے میں کچھ بھی برا نہیں ہونے دوں گی

پہلی  خوشی کو یاد کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھی

 یارم م نے آہستہ سے اس کے آنسو صاف کیے

اس بار کچھ بھی غلط نہیں ہوگا ہم دونوں اپنے بچے کو اس دنیا میں ویلکم کریں گے ہم دونوں مل کر اس کا خیال رکھیں گے اسے پیار کریں گے اور وہ ہمارا بےبی ہوگا پر ہمیشہ ہمارے پاس رہے گا

اس کا ہاتھ چومتے ہوئے اس نے ڈاکٹر کی جانب دیکھا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روح کو اپنے ساتھ لے آیا

روح تو ابھی سے اتنی ایکسائٹڈ ہو رہی تھی کہ حد نہیں جبکہ اس کی خوشی سوچ کر یارم نھی بے حد خوش تھا ۔

اس کا یہ پیارا سا انداز سیدھا یارم کے دل میں اتر رہا تھا

°°°°°°

خضر معصومہ لیلیٰ شارف ۔اپنے بچوں سمیت شام سے پہلے ان کے گھر ٹپک چکے تھے

سب نے ہی روح کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی طرف سے گفٹ بھی دیے تھے ۔

جبکہ شونوتو ان کی خوشی کو نہ سمجھتے ہوئے بھی ناچ ناچ کر خوش ہو رہا تھا جیسے ان کی خوشی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہو

جو بھی تھا لیکن روح کا پہلا بچہ تو وہی تھا

جس سے اسے بہت زیادہ محبت تھی۔

اور اس کی موجودگی کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرسکتی تھی

°°°°°°

دن تیزی سے گزرنے لگے تھے

یارم ہر وقت اس کے آس پاس رہتا اس کا خیال رکھتا

لیلیٰ اور معصوم اس کی نرس بنی ہوئی تھی

اس کا حد سے زیادہ خیال رکھتی اور اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام کرنے ہی نہیں دیتی

ڈاکٹر کے مطابق اس کی ذہنی کنڈیشن بہت اچھی تھی لیکن صحت پھر بھی ڈاؤن تھی

جس کی چلتء لیلی اسے روز کسی نہ کسی چیز کا ملک شیک بنا کر دیتی

جس کو دیکھتے ہی روح کو ووٹنگ ہونے لگتی

لیلی کا کہنا تھا کہ ایک بار پیٹ کے اندر چیز چلی جائے پھر باہر آئےبھاڑ میں جائے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

اس کے لئے روح کو کھانا تو پڑے گا ۔

ویسے تو خود بھی اپنا بہت خیال رکھتی تھی کیونکہ خود اسے اس بچے کی بے حد ضرورت تھی لیکن پھر بھی لیلیٰ اور معصومہ کی اسپیشل ٹریٹمنٹ کی وجہ سے وہ اسی بیزار ہو چکی تھی

اور یارم بھی اس کا حد سے زیادہ خیال رکھتا

اب تو اس نے نیا شوشا چھوڑ دیا تھا

کہ وہ اس کے ساتھ آفس چلا کرے وہاں وہ خود اس کا خیال رکھے گا اور وہ 24 گھنٹے اس کی نظروں کے سامنے رہے گی

لیکن روح کو یہ منظور ہرگز نہیں تھا وہ اپنی زندگی یا رم کی بورنگ روٹین کی نظر نہیں کر سکتی تھی

یہاں یارم کی نظروں سے بچ کر وہ جو تھوڑی بہت بے احتیاطی یا اچھل کود کرتی تھی یار م نے وہ بھی بند کروا دینی تھی

اس لیے اس نے بہت بہانے لگائے تھے یارم کے ساتھ نہ جانے کے یارم کا تو کہنا تھا کہ اس کی زندگی بہت انٹرسٹنگ ہے

وہ تو شکر تھا کہ لیلہ نے کہہ دیا کہ خون خرابہ دیکھ کر روح کی صحت پر خراب اثرات پڑ سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ روح کی صحت بھی بگڑجائے ۔

لیلیٰ پراعتبار کرنا تو وہ بہت پہلے سے ہی چھوڑ چکا تھا اسی لئے اس معاملے میں بھی اس نے ڈاکٹر کی رائے لی تھی

اور ڈاکٹر کا بھی یہی کہنا تھا کہ کوشش کی جائے کہ روح کے سامنے خون کا ایک قطرہ بھی بہے اور اسے ایک جگہ بند بھی نہ کیا جائے  کھلی اور تازہ فصا میں رکھا جائے تاکہ بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑے

کھلی فضا والی بات یارم کو بالکل اچھی نہیں لگی تھی کیوں کہ کام زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یارم آج کل رات کو فارغ ہوتا

اور ایسے میں روح  وقت لیلی کے ساتھ گزار رہی تھی جس سے لیلی اسے ہر طرف لے کر جاتی ۔لیلی کے ساتھ کوئی دشمنی تو نہیں تھی

لیکن روح کو عادت کی اپنے دن بھر کی ساری مصروفیات یا رم سے شیئر کرنے کی

اور وہ رات کے ایک ڈیڑھ بجے تک لیلیٰ کی گردان نہیں سن سکتا تھا

لیکن آج کل اسے مجبوری میں یہ بھی کرنا پڑ رہا تھا

°°°°°

یارم مجھے آئسکریم کھانی ہے رات کے ساڑھے تین بجے وہ بیڈ پر چوکڑی مارے آرام سے بیٹھی ہوئی تھی

میرا بچہ میں ابھی لے کے آتا ہوں وہ اس کا ہاتھ چوم تھا اس کے پاس سے اٹھنے ہی والا تھا

مجھے فریج والی نہیں کھانی باہر والی کھانی ہے وہ معصومیت سے کہہ رہی تھی

اد کی پریگنسی کو چھ مہینے گزر چکے تھے اپنی صحت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کہیں سے بھی چھ ماہ کی پریگنٹ لیڈی نہیں دکھتی تھی

بےبی رات کے ساڑھے تین بجے تمہارے لیے آئس کریم کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں یارن نے مسکین صورت بنائی تھی

آجکل روح کی روٹین یہ ہوچکی تھی کس کا دن سوتے ہوئے اور ساری رات جاگتے ہوئے گزرتی اور آدھی رات کو کبھی اسےکوئی مووی دیکھنے کا دل کرتا تو کبھی وہ کچی کیریاں کھانے ضد لے کر بیٹھ جاتی

اور جب تک یارم اس کی ضد کو پواا نہ کرتا تب تک وہ نہ خود سوتی تھی نہ اسے سونے دیتی تھی

یارم ہاں میں سر ہلاتا باہر آیا اور فون اٹھا کر صارم کو کال کرنے لگا

رات کو ساڑھے تین بجے یار م کی کال نے اسے پریشان کیا تھا

یارم سب خیریت تو ہے تم اس وقت فون کیوں کر رہے ہو وہ گہری نیند سے جاگا تھا

تمہاری وردی کا تھوڑا فائدہ ہوسکتا ہے کیا یارم نے سوال کیا

میں سمجھا نہیں تم کیا کہنا چاہتے ہو صارم سچ میں  نہیں سمجھا تھا

مجھے ابھی اور اسی وقت اپنی بیوی کے لئے آئس کریم چاہیے لا کر دے سکتے ہو

آبادی سے باہر ایک  ریسٹورنٹ ہے ساتھ میں آئس کریم پالر بھی ہے تمہیں وہاں سے آسانی سے مل جائے گی میں اتنی رات کو روح کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتا

خضر کو میں نے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر بھیجا ہوا ہے ۔شارف کو مشارف نے اٹھنے نہیں دینایار م نے تفصیل سے بتایا

صارم نے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا

 انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔اتنے دور جانے سے بہتر تھا کہ وہ اپنی وردی کا تھوڑا بہت ٹشن دکھا کر یہیں کہیں پاس ہے کوئی پالر کھلوالے ۔اور شاید یارم نے بھی وردی کی بات اسی لئے کی تھی

میں تقریبا پندرہ بیس منٹ میں لے کر پہنچتا ہوں صارم نے فون بند کرتے ہوئے کہا اور پھر  15 منٹ کے بعد آئسکریم اس کے گھر تک بھی پہنچا گیا

جسے کھا کر روح پرسکون ہو کر سوئی تھی ۔ڈاکٹر نے ویسے تو آئس کریم یا ایسے ہی چھوٹی موٹی چیزیں  بند کر رکھی تھی ۔لیکن یارم روح کو کسی بھی چیز کے لئے ترسا نہیں سکتا تھا اسی لئے ایک حد تک جس سے اسے یا اس کے ہونے والے بچے کو نقصان نہ پہنچے دیتا رہتا تھا ۔

°°°°°

ڈاکٹر نے ڈیلیوری کی ڈیٹ دے دی تھی لیکن آجکل روح کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ابھی اس نو مہینے مکمل نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی روح کی طبیعت حد درجہ خراب رہنے لگی تھی جس کی وجہ سے یارم بہت پریشان تھا

وہ روح کے لیے ڈاکٹرز کی پوری ٹیم رکھ چکا تھا

جو اس کی ننھی سی ننھی سے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی

جو اس کی زرا سی تکلیف پر بھاگ کر اس کے پاس آتے تھے لیکن یہ درد تو قدرت کا نظام تھا جسے سہنا سب عورتوں کے لئے ایک برابر تھا

یارم ہر وقت اس کے پاس رہتا تھا وہ کام پر جانا بھی چھوڑ چکا تھا روح سے زیادہ اہم تو اس کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور اب تو اس کا بچہ بھی اس کی اہمیت کا طلبگار تھا

وہ ہر وقت اس کا سایہ بنے اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا

ابھی بھی روح  آنکھیں موندے ہوئی تھی یارم  اس کے سرہانے بیٹھا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا

اسے محسوس کرتے ہوئے وہ مسکرائی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اسے درد شروع ہونے لگا نرس نے اسے فوراً ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس پر یارم  نے عمل کیا تھا

°°°°°

مسٹر یارم پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہے ہم پیشنٹ کو پہلے ہی بتا چکے تھے

بچے یا مدر میں سے کسی ایک کو بچانا مشکل ہو جائے گا لیکن انہوں نے ہماری بات کو سیریس نہیں لیا اور آپ سے بھی یہ بات شیئر کرنے سے منع کردیا

ہمیں جس چیز کا ڈر تھا وہی ہو رہا ہے ہم دونوں میں سے کسی ایک کو ہی بچا پائیں گے آپ ان پر سائن کر دیں

آپ کو کس کی جان سے زیادہ عزیز ہے ۔جبکہ دوسرا پیپر اس بات کی گارنٹی ہے کہ اگر کوئی بھی  آپریشن میں جان سے جاتا ہے تو ہسپتال ذمہ دار نہیں ہوگا ڈاکٹر اس کے ہاتھ میں پکڑا کر آگے جا چکی تھی

وہ ابھی تک اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی اس نے یہ بات یارم سے نہیں شئیر کی

تو کیا یہ بچہ اس کے لیے اتنا اہم تھا

لیکن اس کے لئے

 اس کی روح اہم تھی اسے روح سے زیادہ اہم تو اس کے لیے اپنی جان بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی

۔لیکن اگر اس نے روح کو بچا لیا اور یہ بچہ نہ رہا تو کیا روح اسے معاف کرے گی کیا وہ دوسری بار اپنا بچہ کھونے کا حوصلہ پیدا کر سکے گی

اور وہ بھی اس کنڈیشن میں کہ وہ کبھی دوبارہ ماں بھی نہیں بن سکتی ۔آج پہلی بار یارم کو لگ رہا تھاکے اس کا سب کچھ لٹ رہا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتا

خضر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا

تو یارم نے بنا اس کی طرف دیکھے اپنی روح کو بچانے کے لئے پیپر پر سائن کر دیے

ہر گزرتا لمحہ ایک امتحان سے کم نہیں تھا .

اندر اس کی روح کا آپریشن چل رہا تھا ۔اور وہ باہر بیٹھا بے چینی سے آنے والے لمحات کا انتظار کر رہا تھا .

نہ جانے کیا ہونے والا تھا .

وہ بس اللہ سے اپنی روح کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا ۔

شاید ان کے نصیب میں اولاد کا سکھ لکھا ہی نہیں ۔

وہ بس یہ مشکل لمحات گزرنے کا انتظار کر رہا تھا

وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی روح کو سمجھا سکتا ہے

وہ اسے بتائے گا کہ بچہ نہ ہونا قدرت کا فیصلہ ہے جسے ان دونوں کو قبول کرنا ہوگا

روح نہ جانے کس طرح ری ایکٹ کرے گی کیا وہ اسے معاف کر سکے گی دوسری بار اپنا بچہ کھو کر ایک اچھی زندگی گزار سکے گی ۔

اور جب اس کوپتہ چلے گا کہ وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تو کیا بیتے گی اس کے دل پر۔

کہیں وہ  اپنے بچے کا گناہ گار اسے نہ سمجھے چار سال کے طویل انتظار کے بعد اسے موقع ملا تھا اپنی ممتا کو سکون پہنچانے کا

۔اپنی ممتا کسی پر نثار کرنے کا کسی کے ننھے وجود کو اپنے سینے سے لگانے کا

لیکن ان کی یہ  خوشی بھی ان سے چھن چکی تھی

ڈاکٹر نے کچھ ہی دیر میں آکر بتا دینا تھا کہ اس کا بچہ  اس دنیا میں نہیں رہا ۔

لیکن روح  کے لئے بھی یہ آپریشن بہت خطرناک تھا

وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نظر لال بتی پر جمائے ہوئے تھا جہاں سے کبھی بھی کوئی بھی فیصلہ آسکتا تھا

یارم ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن دعا تو کر سکتے ہیں خضر اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا دعا کرو کہ روح ٹھیک ہوجائے

ہاں یارم بھائی آپ تو کہتے ہیں نہ کہ اللہ روح سے بے انتہا محبت کرتا ہے تو وہ ہماری روح کو اس کنڈیشن سے ضرور نکالے گا ۔

اور بچے کا کیا ہے لوگ ہزار بچے گود لیتے ہیں دن میں ۔اگر روح کی کنڈیشن زیادہ خراب ہو گئی تو ہم اس کے لیے ایک بچہ گود لی لیں گے ۔اس کی حالت سبنھال جائے گی وقت ہر درد کا مرہم ہے شارف اس کے دوسری طرف بیٹھتے ہوئے بولا

اگر اللہ روح سے اتنی محبت کرتا ہے تو وہ اسے اسی کی اولاد کیوں نہیں دیتا سارے امتحان میری روح کے لئے ہی کیوں بنائے ہیں ۔۔۔۔

وہ روح کو خوشیاں دے کر خوشیاں چھین کیوں  لیتا ہے ۔۔۔۔

جب سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے تو وہ پھر خراب کیوں کرتا ہے کیوں روح پر سکون زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔کیوں خضر کیوں۔۔

خضر حیرانگی سے یارم کے یہ ناشکرانہ الفاظ سن رہا تھا

آج پہلی بار اسے یارم کے لب و لہجے پر یقین نہ آیا

اسےناشکری سے نفرت تھی اور آج روح کی اس حالت کو دیکھ کر وہ خود ناشکری کر رہا تھا

اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو بس بہنےکو بے چین تھے لیکن شایدوہ اپنے آنسو بہانا ہی نہیں چاہتا تھا

اگر وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے تو کیوں نہیں دے دیتا اسے اس کے حصے کی خوشیاں وہ خضر کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جب اچانک ڈاکٹر باہر آیا

بہت بہت مبارک ہو مسٹر یارم  بیٹا ہوا ہے  آپ کی مسز کی کنڈیشن اتنی خراب تھی کہ ہمیں لگا کہ شاید ہم کسی ایک کو ہی بچا پائیں گے

لیکن وقت رہتے سب کچھ کوراپ ہوگیا

نرس تھوڑی ہی دیر میں آپ کا بیٹا باہر لے آئے گی ڈاکٹر اس سے ہاتھ ملاتا اسے حیرانگی میں گھیرے دیکھ کر مسکرا دیا

جبکہ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا یارم اسے روک لیا تھا

میری روح کیسی ہے۔۔۔؟

اس کے لہجے کی بے چینی نے ڈاکٹر کو بھی ایک لمحے کے لیے پریشان کردیا تھا

ابھی تو میں نے بتایا کہ ان کی کنڈیشن بھی کافی بہتر ہے

پہلی پریگٹسی کی وجہ سے کنڈیشن کافی کرٹیکل ہو گئی تھی لیکن ہم نے وقت رہتے ان کی کنڈیشن پر قابو پا لیا

فی الحال وہ بےہوش ہیں ا نہیں دو تین گھنٹوں میں ہو جائے گا جب تک آپ اپنے بیٹے سے باتیں کریں اس کی حالت ایسی تھی کہ ڈاکٹر بہلانے والے انداز میں کہنے لگا

نہیں مجھے میری روح کو دیکھنا ہے ۔یارم نے ایک نظر نرس کی طرف دیکھا جو بچے کو سفید کپڑےمیں چھپائے اس کے پاس لا رہی تھی  

اس وائے ٹاٹ آپ اپنی مسز کے پاس رہ سکتے ہیں جب تک ان کو ہوش اتا ہے انہیں تھوڑی ہی دیر میں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپاتا آگے بڑھ چکا تھا

خضر نرس کے ہاتھ سے اس پیارے سے بےبی کو لے کر اس کی طرف قدم بڑھائے تھے لیکن یارم نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں

یارم روح اور تمہارا بےبی دونوں بالکل ٹھیک ہیں اس طرف دیکھو تو صحیح کتنا پیارا ہے یہ وہ بچےکو اپنے ہاتھوں میں لیے یارم کو اس کی طرف متوجہ کر رہا تھا

خضر میں نے بہت ناشکرا نا الفاظ استعمال کے ہیں نا دیکھا اس پاک ذات نے ایک پل میں دکھا دیا کہ وہ جسے چاہے جتنا چاہے نوازتا ہے

اس نے میرے لیے امتحان کی گھڑی رکھی اور میں اس میں صبر کرنے کے بجائے شکایت کرنے لگا

کتنا کم عقل انسان ہوں نا میں اس کی ذات کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ سکا ۔میں سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ پاک زات ہر جگہ موجود ہے ہمیں سنتی ہے ہمیں دیکھتی ہے ۔

کتنی جلدی اس نے اپنا آپ مجھ پر ظاہر کر دیا

میں سب سے پہلے اس کے پاس جاؤں گا اوراس چھوٹے کارٹون کو  اپنی روح کے ساتھ ہی دیکھوں گا لیکن پہلے اس کا تو شکریہ ادا کر لوں جس نے اوقات سے بڑھ کر نوازا ہے

اپنی آنکھوں میں آئے آنسو کو ہاتھوں سے صاف کرتا ہے وہ مسکرایا جبکہ حضر  بھی مسکراتے ہوئے بے بی کو شارف کی گود میں ڈال چکا تھا ۔

جو کب سے بے چین تھا اسے دیکھنے کے لئے

یارم شکرانے کے نفل ادا کرنے جا چکا تھا

اور شارف کو یہ ننھا سا فرشتہ یارم اور روح کی نہیں بلکہ اپنی کاپی لگ رہا تھا

°°°°°°

یارم نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی تھی اپنی ناشکری پر وہ بے حد شرمندہ تھا ۔اس کا اللہ اسے بہت چاہتا تھا

اور اپنی محبت میں ان دونوں کو ایک بہت پیارا سا تحفہ بھی دے ڈالا تھا

اللہ رحیم و کریم ہے

روح سے ملنے سے پہلے اس نے اپنی غلطی کی معافی مانگی تھی ۔

اتنا ناشکرا وہ کبھی بھی نہیں تھا ۔

وہ تو خود سب کو گمراہی سے دور کرتا تھا اور آج خود گمراہی کے راستے پر چل پڑا

وہ پچھتا رہا تھا بہت پچھتا رہا تھا

رو رو کر اپنے سجدوں میں اللہ سے معافی مانگی تھی وہ  اس کا بہت شکر گزار بھی تھا

جس نے روح جیسی پاک سیرت لڑکی اس کے نصیب میں لکھی تھی ۔

پر اپنی رحمتوں کا تحفہ ایک ننھے فرشتے کے روپ میں بھیجا تھا

اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگ کر  وہ روح کے پاس آیا

اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا وہ خاموشی سے اس کے قریب کرسی رکھتا اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا

وہ اپنے بیٹے کا چہرہ اپنی بیوی کے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا روح کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا لیکن وہاں لیلیٰ اور معصومہ اس ننھے بچے کو اپنے تینوں شیطانوں سے بچا رہی تھی

جو اس کے ہاتھ پر پر بلون باندھ کر اسے اڑانے کی کوشش کر رہے تھے

جہاں بچے اسے پا کر بے حد خوش تھے وہی معصومہ اور لیلی کو ڈر تھا کہ کہیں یہ سب اسے غبارے سے باندھ کر آسمان میں ہیں نہ اڑا دیں۔

کیونکہ وہ بہت کمزور تھا

شارف اور خضر بے حد خوش تھے جب کے صارم بھی تھوڑی ہی دیر میں اپنی فیملی کے ساتھ آچکا تھا

ہسپتال میں اتنا رش نےڈاکٹر کو پریشان کر دیا تھا لیکن صارم نے کمرے کا دروازہ بند کرکے کہہ دیا کہ شور کی آواز باہر نہیں جائے گی

اور اب صارم کے دونوں بچے بھی یارم کے معصوم سے بیٹے کو اڑانے کی کوشش کر رہے تھے

یہ الگ بات ہے کہ شونو کو یہ سب کچھ بالکل پسند نہیں آیا

جیسے ہی لیلیٰ نے چھوٹے میاں کو کاٹ میں لٹایا شونو اس کی رکھوالی کے لیے اس کے سر پر بیٹھ گیا

اور اب شونو کے ڈر سے کوئی بھی چھوٹے میاں کے پاس ہی آ رہا تھا

سوائے ماہرہ کے سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے اسے تھوڑا بہت سمجھدار ہونے کا خطاب حاصل تھا

ماما اس کا نام کیا ہوگا ماہرہ بے بی کی گال چومتے ہوئے عروہ سے پوچھنے لگی

وہ تو اس کی ماں ہوش میں آنے کے بعد بتائے گی

عروہ نے مسکراتے ہوتے ہوئے کہا

جبکہ یارم  کی نگاہیں ابھی ابھی صرف اور صرف روح پر ہی  ٹکی ہوئی تھی

جو اس شور شرابے کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھول رہی تھی اس کی آنکھیں کھولتے ہوئے ایک نظر پورے کمرے میں موجود ہر شخص پر ڈالی

یارم اس کے بے حد قریب تھا وہ اسے دیکھتے ہوئے اس کے پاس  بیٹھا تھا

روح نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھانا گیا

لیکن اس کے چہرے پر کسی قسم کی خوشی نہیں بلکہ ایک ڈر ایک خوف تھا جو یارم بہت اچھے سے محسوس کر چکا تھا

°°°°°

وہ آہستہ سے کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس بیٹھا اور اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اٹھایا

یارم میرا بچہ کہاں ہیں سب ٹھیک تو ہے نہ

یارم پلیز کچھ بولیں آپ خاموش کیوں ہیں

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

سب کچھ ٹھیک ہے روح پلیز ریلکس یارم اس کا ماتھا چومتے ہوئے کے بال سہلا رہا تھا لیکن روح کو سکون یا آیا

تومیرا بچہ کہاں ہے پلیز بتائیں مجھے وہ یارم کا کالر جھنجھوڑتے ہوئے بولی

روح کیا ہو گیا ہے تمہیں ریلکس ہو جاؤ بےبی یہیں پر ہے ابھی سویا ہے بچے اسے سونے نہیں دے رہے تھے وہ تو شکر ہے کہ شونو کاروعب تھوڑا چل گیا ورنہ ہماری تو کوئی سنتا ہی نہیں ہیں یہاں

عروہ نےاٹھ کر کاٹ سے بےبی اٹھایا اور اس کے پاس لے آئی

روح تمہارا بیٹا مسٹر چھوٹے میاں فل حال ہم نے یہی نام رکھا ہے باقی اس پرسنیلٹی پر سوٹ کرنے والا نام تم خود رکھ لینا وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بےبی اس کی گود میں رکھ چکی تھی

اس کے سفید کپڑے سے اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا

ارے چھوٹے میاں اب اپنے بابا کو بھی اپنا چہرہ بھی دیکھا دیں عروہ نے شرارت سے کہتے ہوئے اس کے چہرے سے سفید کپڑا ہٹایا

پر نور  معصوم سے چہرے کو دیکھتے ہی روح کے ساتھ ساتھ یار م کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز کر گئی

روح میڈم آپ کےشوہر  صاحب کا کہنا تھا کہ جب تک میری روح اپنے بیٹے کو نہیں دیکھتی تب تک وہ بھی نہیں دیکھے گے ہم دونوں اسے مل کر دنیا میں ویلکم کریں گے اب آپ دونوں اسے ویلکم کر لو عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا

تو روح نے بھیگی آنکھوں سے مسکرا کر یا رم کو دیکھا

یارم نے آہستہ سے اس کی دونوں آنکھیں چومتے ہوئے اپنے بیٹے کے گال کو چھوا تھا جس پرروح تو سب کے سامنے یارم کی اس جسارت پر چہرہ جھکاتے ہوئے اپنے بیٹے کے چہرے پر جھک گئی

وہ خود پریشان تھی کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کوئی ایک ہی زندہ بچ سکتا ہے اور اب اس کا بیٹا اس کے ہاتھ میں کیسے تھا اس کے چہرے پر لکھی الجھن کی تحریریں یارم چکا تھا

اللہ تم سے بہت محبت کرتا ہے روح اس نے ہمارے لیے تحفہ بھیجا ہے بس شکر ادا کرووہ نرمی سے اس کا ماتھا چومتا اس کے آنسو صاف کرنے لگا

روح نظریں اپنے بیٹے کے چہرے پر جمائےیارم کے سینے پر سر رکھ کر  خاموشی سے آنسو بہانے لگی

وہ پاک ذات ہر چیز پر قادر ہے ۔اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ۔آج اس نے ان مو بے حد نوازا تھا ۔بے شک کون ہے اس پاک ذات کے علاوہ

°°°°°

ہسپتال میں پچھلے تین دن سے اچھی حاصی رونق لگی ہوئی تھی لیکن ڈاکٹر کے مطابق یہ ان کے اصولوں کے خلاف تھا

لیکن یہاں ڈاکٹرز کی سنتا کون تھا صارم کا قانونی لائسنس اور کسی چیز کے کام آئے یا نہیں لیکن یہاں آ رہا تھا

کمرے کا دروازہ بند ہونے کے بعد آواز باہر نہیں جاتی تھی اور صارم کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر دیتا اور اگر شور ہی نہیں ہوتا تھا تو باقی مریض ڈسٹرب کیسے ہوتے صارم کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو ڈسٹرب نہیں کریں گے بس اپنے کام سے کام رکھیں گے

اور وہ ایسا ہی کرتے تھے

روح کو ایک ہفتے کے بعد یہاں سے چھٹی ملنی تھی

تب تک اس کا سارا وقت ہسپتال میں اپنے بیٹے اور یارم کے ساتھ ہی گزرتا تھا یارم اس کے پاس ہی رہتا

اور کمرے میں ہی موجود صوفے پر رات کو سوتا چھوٹے موٹے سارے کام نرس ا کر 'کرجاتی تھی

لیکن روح نے ایک چیز بہت شدت سے نوٹ کی تھی کہ اس نے ابھی تک اپنے بیٹے کو اپنی باہوں میں اٹھایا نہیں تھا

روح نے بہت سوچ وچار کے بعد اپنے بیٹے کا نام رویام رکھا تھا

یارم اور روح  کا نام جوڑ کر اسے ایک ہی نام سمجھ میں آیا یہ ان کی محبت کی نشانی تھی جس کا نام بھی بے حد محبت سے ہی رکھا تھا

یارم کو بھی اپنے بیٹے کا نام بے حد پسند آیا

یارم آپ اسے اپنی باہوں میں کیوں نہیں اٹھاتے  وہ بے بی کاٹ کے قریب کرسی رکھے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا یہ روح کی آواز  سنی

روح یاروہ اسے تھوڑا سا بڑا ہو جانے دو یہ چھوٹا سا ہے یہ نہ ہو کے میری باہوں میں پھسل جائے

یارم نے ایک بے تکی سی لاجک دی تو روح نے حیرت سے منہ بنا کر اسے دیکھا  

کیا یار منہ کھولے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے ڈر لگتا ہے یہ نہ ہو کہ یہ میرے ہاتھ سے گر جائے ابھی بہت چھوٹا ہے یہ تھوڑا سا بڑا ہوگا تب میں اسے اٹھایا کروں گا

فی الحال اسے تم ہی اٹھاؤ

مجھے تو ایک بات سمجھ میں نہیں آتی تکلیف اتنی زیادہ دے رہا تھا ہے

آور یہ ہے کتنا سا ۔۔۔۔؟

آتے ہی ناک میں دم کر رکھا تھا اور اب کیسے مزے نیند پوری کر رہا ہے

ہیلو مسٹر اٹھو یہ تمہارے باپ کا ہسپتال نہیں ہے جہاں آرام سے نیند پوری کر رہے ہو اور نرس کو گھور کر کیوں دیکھ رہے تھے

اپنے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا مجھے اس طرح دوسرے کی ماں بہنوں پر نظر رکھنے والے لوگوں سے سخت چڑ ہے

تمہیں بھی ٹھیک کر دوں گا یہ مت سوچنا کہ میرے بیٹے ہو جو تمہیں سب آلاؤٹ ہے

وہ گھورتے ہوئے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی روح کی ہنسی نکل گئی

یارم ہوسکتا ہے وہ اس نرس میں مجھے ڈھونڈ رہا ہوں آپ تو میرے معصوم بچے کو ٹھرکی بنا رہے ہیں روح نے ہنستے ہوئے کہا تو یارم بھی مسکرایا

جب سے رویام دنیا میں آیا تھا روح ابھی تک کھل کر ہنسی نہیں تھی اور نہ ہی کھل کر یارم سے بات نہیں کی تھی

اسے لگ رہا تھا کہ یارم اس سے خفا ہو گا کیونکہ اس نے اپنی کریٹیکل کنڈیشن کے بارے میں اس کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا

لیکن یارم اس سے ناراض نہیں تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب قسمت کا کھیل ہے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے اپنی یا کسی اور کی آنے والی موت کو روک نہیں سکتا

لیکن روح یہ سوچ کر پریشان تھی کہ شاہد یا رم دل ہی دل میں اس سے خفا ہو گا ابھی نہیں بتا رہا لیکن آج اسے لگ رہا تھا کہ یارم اس سے خفا ہےوہ بہت پیار سے بات کرتا ہے اس کا خیال رکھ رہا تھا

اور آج بہت دنوں کے بعد وہ پرسکون ہو کر کھل کر اس سے باتیں کر رہی تھی کھل کر مسکرا رہی تھی

یارم نے ایک بار پھر رویام کے چہرے کی طرف دیکھا شاید رویام بھی مسکرایا رہا تھا یارم نے ایک نظر روح کو دیکھا

جو انہیں کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی لیکن یارم دوبارہ بیٹے کی جانب متوجہ ہو گیا

اس کا دھیان مسکراتے ہوئے رویام کے گال پر پڑھتے گہرے ڈمپل پر تھا

یہ وہ واحد چیز تھی جو اپنی اولاد میں روح کی محبت بٹ جانے کے خیال سے  نہیں چاہتا تھا ۔

تمہاری دعا قبول ہوگی روح اس نے بتایا تو روح پھر سے کھل کر ہنسی

میں جانتی ہوں ۔۔آپ اس کے ڈمپل کی بات کر رہے ہیں نا کتنا پیارا ڈمپل ہے میرے بیٹے کااپنی ماں صدقے میرے بچے پر

یارم پلیزاٹھا کر دیجیے مجھے اس کے ڈمپل پر کس کرنا ہے وہ ایکسائٹڈ سی ہو کر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اس سے رویام مانگ رہی تھی کیوں کہ فی الحال ڈاکٹر نے اسے بیڈ سے اٹھنے سے منع کیا تھا

میں یہ نہیں کر سکتا یار میرے ہاتھ سے گر گیا تو

کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ چھوٹا سا تو ہے آپ اٹھا کر دے دیں مجھے

روح نےاس کی ہمت برائی تھی اور یارم میں تھوڑی ہمت آ بھی گئی تھی

اس نے بہت نرمی سے رویام کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا اب وہ بہت چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اسے روح کی جانب لے کر جا رہا تھا

یہ ننھا سا احساس بالکل نیا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ پھول سا نازک وجود اس کی اولاد ہے

لیکن تھوڑی ہی دیر میں اس کی اولاد نے اسے احساس دلادیا کہ وہ یارم کاظمی کی اولاد ہے

بدتمیز تم ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔۔۔؟

تمہیں شرم نہیں آئی میں تمہارا باپ ہوں وہ اس گھورتے ہوئے بولا جب کے روح کی ہنسی کنٹرول نہیں ہورہی تھی

یار م اس بچارے کو تھوڑی نہ پتہ تھا کہ یہاں سوسو نہیں کرنا کیونکہ یہ اس کے بابا کی گود ہے اور  اس کے بابا دبئی کے ڈون ہیں ۔روح نے مصنوعی مسکین سی شکل بناتے ہوئے اس کے ہاتھ سے رویام کو لے لیا

نرک کی بچی کہاں گئی کیا اسے پتہ نہیں ہے کہ اسپتال میں بچے کو پیمپر پہنا کر رکھتے ہیں ۔اپنی بھیگی شرٹ کو دیکھ کر اب اسے نرس پر بھی غصہ آ رہا تھا لیکن روح سے اپنی ہنسی کو کنٹرول نہیں ہورہی تھی

وا میرے شہزادے تو نے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی نہیں کر سکا روح رویام کے گال چومتے ہوئے بولی

روح کی ضد پر یارم آج چوتھے دن ہی اسے اپنے ساتھ واپس گھر لے کر جا رہا تھا

ڈاکٹر نے ایک ہفتے کے ریسٹ کے لئے کہا تھا

لیکن روح اپنے بچے کو ہسپتال میں نہیں رکھ سکتی تھی

اسے لگتا تھا کہ یہاں اچھے خاصے شخص کی صحت خراب ہو جائے وہ بیچارہ تو ابھی ابھی پیدا ہوا تھا اور اس کی صحت بھی کافی نازک تھی

اور وہ اپنے کمزور سے بچے کو ہسپتال میں بالکل نہیں رکھنا چاہتی تھی

اسے ہسپتال کی نرسوں کی نہیں بلکہ اپنی ماں کی ضرورت تھی

اور اوپر سے کیسے عجیب لوگ تھے اس ہسپتال کے ہر تھوڑی دیر کے بعد رویام کو اس سے دور کاٹ میں لیتا دیتے اور اسے ریسٹ کرنے کے لیے کہہ دیتے

بھلا کون کہتا ہے کسی ماں کے ساتھ ایسا ۔۔۔۔؟

اندر ہی اندر اسے اس بات کا غصہ تھا ۔کہ وہ لوگ رویام کو زیادہ دیر اس کے پاس نہیں رہنے دے رہے تھے ۔روح کا بس چلتا تو وہ تو اسے ایک سیکنڈ کے لیے بھی خود سے دور نہ کرتی

دو تین بار تو اس نے نرس سے کہہ بھی دیا کہ کاٹ کو ہی اس کے بیڈ کے پاس رکھ جائے وہ بس دور سے ہی رویام کو دیکھتی رہے گی لیکن نرس نے مسکرا دیا جیسے وہ کوئی بےوقوفی والی بات کر رہی ہو

اور جاتے ہوئے بےبی کاٹ کو بھی آگے کر کر نہیں گئی ظالم عورت

وہ تو یارم سے ضد چل گئی اور وہ اسے گھر لے آنے کے لیے تیار ہو گیا

ورنہ یہ ہسپتال والے تو اسے اس کے بچے سے ہی دور کردیتے۔ بے وقوف بے حس لوگ ایک ماں کی فیلنگز کو نہیں سمجھتے تھے (بقول روح کے)

ایک تو اتنی منتوں مرادوں کے بعد اسے ایک بچہ ملا تھا وہ بھی ان ہسپتالوں کی ظلم کی نظر ہو رہا تھا ۔

خضر اور شارف  نے تو بہت منع کیا کہا کہ ابھی روح کو ہسپتال میں ہی رہنے دو ہم سب یہاں اس کا بہت خیال رکھیں گے لیکن روح کے جھوٹے آنسووں  پر یارم پگھل گیا ۔

اور اب روح سکون سے واپسی کی تیاری کر رہی تھی

°°°°°

یہ سب کیا ہے ۔۔۔؟

بڑے بڑے کاٹن کو ہسپتال کے اندر رکھتے ہوئے آدمی کو دیکھ ڈاکٹر نے پوچھا

سر یہ بےبی پیمپرز ہیں

یارم کاظمی کی طرف سے آرڈر ملا ہے آدمی نے تفصیل بتائی

تو ڈاکٹر ہاں میں سر ہلاتا یارم کے پاس چلایا

سر آپ نے ہسپتال میں اتنے زیادہ پیپرز کیوں منگوائے ہیں

کیوں کہ آپ کی نرس بتا رہی تھی کہ اتنے بڑے ہسپتال میں پیپر ختم ہوگئے ہیں

اور میرے بیٹے کو بغیر پیپر کے رکھا گیا تھا مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں آئی یارم اسے گھورتے ہوئے اس انداز میں بولا جیسے کہہ رہا ہوآئندہ کبھی پیپرز ختم نہیں ہونے چاہیے

جبکہ خضر اور شارف کو ایک بار پھر سے ہنسی آنے لگی

انہوں نے یہ نظارہ لائو تو نہیں دیکھا تھا

لیکن روح نے ایسے چٹخارے دار انداز میں انہیں پوری کہانی سنائی تھی کہ ابھی تک یاد کرتے ہی انہیں ہنسی آجاتی

تھینک یو سو مچ سر ڈاکٹر شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا

جب کے یار م نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں خضر اور شارف اپنا قہقہ روکے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ کھڑے تھے

تم لوگوں کو یہاں کھڑے رہنے کے لئے نہیں بلایا ہے میں نے جاؤ روح کا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھو

اور ہاں اس نمونے کو بھی ساتھ اٹھا کرلے جانا

یارم نے اس انداز میں کہا کہ وہ دونوں اسے گھورنے لگے وہ کس نمونے کی بات کر رہا تھا

یارم نمونہ کون شونو تو خود اپنے پیروں پر چل سکتا ہے ۔۔۔۔۔

میں اس کتے کے بچے کی نہیں اپنے بچے کی بات کر رہا ہوں ان دونوں کے حیران ہونے پر وہ سمجھاتے ہوئے بولا

ارے یارم نے نگینہ کہاہے ہمیں سننے میں غلطی ہوگئی خضر شارف کے کندھے پر چماٹ لگاتے ہوئے بولا

تم لوگوں کے لیے وہ جو بھی ہو لیکن میرے لیے تو نمونہ ہی ہے

آتے ہی میری روح پر قبضہ کرلیا اس ایلفی کے بچے نے جب سے آیا ہے اس دنیا میں روح نے مجھ سے ایک بار نہیں پوچھا یارم آپ نے کھانا کھایا

یارم آپ نے کل سے یہی کپڑے پہنے ہیں اتارے کیوں نہیں

ابھی چار دن کا ہے اور میری جگہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے

 اسے تو میں ٹھیک کروں گا بس زرا بڑا ہو جائے ابھی بہت چھوٹا ہے یارم جلدی جلدی بول رہا تھا جب ان دونوں کو حیرانگی سے خود کو دیکھتے پایا

پھر وہ اپنی باتوں پہ غور کر کے ذرا ٹھنڈے لہجے میں بولا

کیا سوچ رہے ہوں گے یہ دونوں اس نے تین چار دن کے بچے سے دشمنی پل لی ہے یارم  نے سوچتے ہوئے بات بدلی اور وہ دونوں جو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے بے ساختہ قہقہ اٹھے

یارم اتنی جیلسی یار کیا ہوگیا ہے تمہارا بچہ ہے وہ آخر روح کے ساتھ ہی رہے گا نہ خضر اس کےکاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھانے لگا

فضول بولنا بند کرو جتنا کہا ہے اتنا کرو یارم اس کا ہاتھ جھٹکتا اندر چلا گیا جب کہ خضر اور شارف کو اپنی ہنسی روکنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام لگ رہا تھا 

ہاہاہاہا ڈان بنا پھرتا ہے اب پتہ چلے گا بیٹا ڈان کے اوپر بھی ایک ڈان ہوتا ہے

 وہ دونوں قہقہ لگاتے ہوئے سامان اٹھانے نکل گئے

°°°°°°

روح یار یارم نے کہا ہے کہ رویام گاڑی تک لے چلو تم اٹھا کر نہیں چل پاؤ گی

ابھی تمہیں خود سہارے کی ضرورت ہے

اسے شارف اٹھا لے گا اور تمہیں میں تھام کر چلوں گا صرف تمہیں صرف سہارا دوں گا گاڑی میں بیٹھتے ہی تم رویام کواپنی گود میں لے لینا

اور شارف کون سا اسے دوسری گاڑی میں لے کر جانے والا ہے جو تو اسے اٹھانے ہی نہیں دے رہی

خضرنے سمجھاتے ہوئے کہا

یارم اس کے ڈسچارج پیپر تیار کروانے جا چکا تھا

جبکہ روح اب یہ ضد کر رہی تھی کہ وہ خود اسے اپنی گود میں اٹھا کر باہر لے کر جائے گی پتا نہیں بچے کے معاملے میں روح بہت زیادہ ٹچی کیوں  ہوتی جا رہی تھی

اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر وقت رویام کو اپنی گود میں لے کر رکھے

وہ تو  اسے ایک پل کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے

شارف نے بہت آہستگی سے اس کی گود سے رویام کو اٹھایا

خضر روح کے گرد ہاتھ پھیلاتے ہوئے اس شارف کے ساتھ ہی باہر لے آیا

روح کی جزباتی طبیعت کو سمجھتے ہوئے شارف نے ایک قدم بھی اس سے فاصلے پر نہیں اٹھایا تھا وہ اس کے بالکل برابر چل رہا تھا

بلکہ ساتھ ساتھ ہیں وہ دونوں رویام کے نقش و نگار پر غور کر رہے تھے

وہ نہ صرف یارم سے بےحد ملتا تھا بلکہ اس کی آنکھوں کا کلر بھی یارم جیسا تھا اور چہرے پڑتا گہرا ڈمپل اس کے چھوٹے سےچہرے کو مزید روشن بنا دیتا تھا

روح اپنے بچے کو بچا کر رکھنا تمہارا شوہر تمہارے بیٹے سے بہت جلتا ہے   ۔خضر نے ساتھ ہی اسے راز کی بات بتائی تھی

کیا ہوگیا ہے آپ کو ماموں بلا کوئی باپ اپنے بیٹے سے جل سکتا ہے ۔روح نے ہستے ہوئے کہا

تم ابھی تک یارم کاظمی کو نہیں جانتی روح وہ اپنی ملکیت پر صرف اپنا حق سمجھتا ہے

اور یہاں یہ جناب چھوٹے میاں اس کی ملکیت میں حصہ دار بننا گئے ہیں اب یہاں پر جلیسی تو بنتی ہے

خضر کا انداز مزے لینے والا تھا ۔جب کہ اس کی بات کو سمجھ کر نا چاہتے ہوئے بھی روح مسکرائی

میرے یارم اپنے بیٹے سے بہت پیار کریں گے ۔روح نے فوراً یارم کی سائیڈ لی تھی

ارے تو ہم نے کونسا کہا یارم اس سے پیار نہیں کرے گا یارم اس سے بہت پیار کرتا ہے ۔اور بے شک وہ اسے تم سے بھی زیادہ چائے گا ۔

لیکن تمہارا دھیان یارم سے بھی  ہٹنا نہیں چاہیے ورنہ دبئی میں باپ بیٹے کی ایسی جنگ چھڑے گی کہ تم کبھی بھول نہیں پاؤ گی خضر کا انداز ڈرانے والا تھا

جبکہ نیچے اترتے ہی یار م نے اپنے نمونے کو اپنی گود میں لے لیا تھا اور ساتھ ہی حضرنے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے یارم کو روح کو تھامنے کا موقع دیا

چلو نکلو تم لوگ پچھلی گاڑی میں آؤ

وہ ان دونوں کو آرڈر دے رہا تھا اور ساتھ ہی شارف کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کا اشارہ بھی کر ڈالا

ہمہیں بھی رویام کے ساتھ چلنا ہے شارف نے کہا

جب کہ ان سے پہلے شونو گاڑی کے اندر بیٹھ چکا تھا

میں نے کہا پچھلی گاڑی میں آؤ یاتم نے سخت لہجے میں کہتے ہوئے روح کو گاڑی میں بٹھایا اور رویام کے سوئے ہوئے وجود کو آہستہ سے اس کی گود میں رکھ دیا

خضر اور شارف دور تک ان کی گاڑی کو دیکھتے رہے

یارہم سے زیادہ تو ان دونوں کی زندگی میں اس کتے کی اہمیت ہے کیسا کتا ہے اپنے باپ کی گاڑی سمجھ کر فورا بیٹھ جاتا ہے

شارف نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی

ایک تو ویسے بھی رویام کے چہرے سے نظر ہٹا نے کا دل نہیں کرتا تھا اور اوپر سے یارم نے اتنے کام دے ڈالے تھے خضر آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر پھیلاتے ہوئے اسے چلنے کا اشارہ کرنے لگا

کیونکہ یارم کا آرڈر فالو کرنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے تھے

°°°°°°

یارم آپ شارف بھائی کو آنے دیتے نہ ساتھ ان کا کا کتنا دل کر رہا تھا رویام کے ساتھ آنے کا آج پہلی بار سفر کے دوران روح کی نظریں نہ تو یارم کے چہرے کی طرف تھی اور نہ ہی باہر سڑک کی طرف وہ مسلسل رویام کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی

روح مجھے تھوڑی پرائیویسی چاہیے

کتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں وہ آہستہ سے جھک کر اس کے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھام کر اس کے گال پرلب رکھتے ہوئے پیچھے ہٹا جب کہ اس کی بے باکی پر وہ ایک پل میں سرخ ہو چکی تھی

یارم کی کیا حرکت ہے ڈرائیونگ پر فوکس کریں وہ سرخ ہوتے ہوئے اسے ڈانٹ کر بولی جبکہ یارم مسکرایا

ادھر کیسے فوکس کروں جب ساتھ میں اتنی حسین بیوی بیٹھی ہو

اور اگر شارف کا چہرہ تمہیں اتنا ہی اداس لگ رہا تھا تو تم رویام کو اس کے حوالے کر دیتی رویام اس کے ساتھ آ جاتا لگے ہاتھ ہمارا رومانس ۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے گال پر جھکا

یارم باز آ جائیں آپ رویام دیکھ رہا ہے اس نے یہ رویام کی طرف اشارہ کیا جو اپنی دونوں گول گول آنکھیں کھولے اپنے باپ کو گھورے جا رہا تھا

بڑا ہی کوئی  بے شرم ہے ماں باپ کو رومانس کرتے ہوئے نہیں دیکھتے وہ اس کی آنکھیں بند کرتے اس کے چھوٹے سے چہرے پر اپناہاتھ انتہائی نرمی سے رکھ کر اٹھاتے ہوئے بولا

جبکہ اس کی حرکت پر اس کے گال کے ڈمپل نمایاں ہوئے

جیسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے روح نےاس  کے گال پہ اپنے لب رکھتے ہوئے چھوا

بہت ہی غلط بات ہے روح کبھی میرے ڈمپل کو اس طرح سے نہیں چھواتم نے یار م نے اسے گھورتے ہوئے کہا

آپ کا اور اس کا بھلا کیا مقابلہ یہ تو میرا چھوٹا سا بیٹا ہے میرء جگر کا ٹکڑا ہےوہ ایک نظریارم کی طرف دیکھ کر پھر سے جانثار نظروں سے رویام کو دیکھتے ہوئے بولی

میں بھی تمہارا شوہر ہوں تمہارے دل پر میرا حق ہے بیٹے کے آجانے سے تم مجھے بھول نہیں سکتی یارم نے جیسے یاد دلایا تھا

یارم میں آپ کو نہیں بھولی کیا ہوگیا ہے آپ کو ۔۔۔

ویسے آپ ہیں کون کیا میں آپ کو جانتی ہوں یارم  کی بات پر روح پہلے تو جذباتی انداز میں بولی لیکن پھر شرارت سے بات بدل گئی

گھر چلو پھر بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں اس کے انداز پر وہ مسکراتے ہوئے بولا

جب کہ سچ تو یہ تھا کہ یارم کی نظر بھی بار بار بھٹک رویام کے چہرے کی طرف جا رہی تھی

رویام کے چہرے سے نظر ہٹا نے کا اس کا بھی بالکل  دل نہیں کر رہا تھا

لیکن مجبوری یہ تھی کہ اسے گاڑی بھی چلانی تھی

سب کا کہنا تھا کہ اس کے سارے نقش یارم سے ملتے ہیں

اور اگر ایسا تھا تو بے شک یارم بچپن میں بہت ہی پیارا بچہ ہوا ہوگا کیونکہ اس کا بیٹا بے حد پیارا تھا اور یہ بات وہ دل سے قبول کرتا تھا

°°°°°

یا رم نے لمبا راستہ کیا تھا اور انہیں آنے میں کافی دیر ہوگئی دوسرے راستے پر چڑھائی زیادہ تھی

اور وہ روح اور اپنے بچے کو بالکل سیفٹی سے گھر لانا چاہتا تھا

شارف اور خضر پہلے سے ہی ان کے گھر پر پہنچ چکے تھے

جبکہ لیلی اور معصومہ اپنے بچوں سمت پہلے سے ہی یہاں تھی

اور صارم بھی اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر فیملی کے ساتھ آج انہیں کے پاس تھا

سب نے بہت خوشی سے رویام کو گھرمیں ویلکم کیا

لیلی اور معصومہ نے تو پورے گھر کو ہی سجا ڈالا تھا ہسپتال میں لی گئی پہلے دن کی تصویر کو فریم کرکے گھر کی سینٹر والی دیوار پر لگایا تھا جہاں روح اور یارم ایک ساتھ بیٹھے رویام کو اپنی گود میں لیے مسکرا رہے تھے

سب کے ہاتھوں میں رویام کے لئے تحفے تھے جن سے کھیلنے کے وہ فی الحال قابل تو نہیں تھا ۔لیکن وہ سارے تحفے ایک سے بڑھ کر ایک تھے

رویام کو پہلے دن کے کپڑے خضرکے گھر سے پہنائے گئے تھے کیونکہ خضرر بہت فخر سے اس بات کو قبول کر رہا تھا کہ وہ رویا م کانانا ہے

ہاں لیکن لیلیٰ کو نانی بنتے ہوئے بہت عجیب لگ رہا تھا

اب کیا صرف 29سال کی عمر میں وہ نانی بنتی اچھی لگتی کیا لیکن اب تو ہر کسی کو بہانہ مل گیا تھا اسے چھڑنے کا

اور تو اور اب یارم اسے بلاتا رویام کی نانی کے نام سے تھا ۔

شارف رویام کواپنی گود میں لئے سب  بچوں کو اس سے متعارف کروا رہا تھا

ویسے تو وہ سب اس سے مل بھی چکے تھے اور اسے غبارے باندھ کراڑانے کی کوشش بھی کر چکے تھے لیکن گھر آنے کے بعد وہ ایک نئے انداز میں اس سے ملے

مشارف صاحب کا تو کہنا تھا کہ وہ اکیلے ہیں اسی لیے اسے اپنے ساتھ ہی لے چلیں لیکن اس کی بات سن کر یارم نے کہا کہ اپنے باپ سے رابطہ کرو وہ تمہیں بہن بھائی دے سکتا ہے ہمارے بچے پر نظر رکھنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے

اب جو بھی تھا آپنے چند دن کا بچہ تھا تو اسے بھی بہت پیارا تھا

سب کے جانے کے بعد یار اسےایک کمرے میں آنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود اندر چلا گیا

روح آہستہ سے رویام کو اٹھاتی شونو کو اشارہ کرتی اس کی پیچھے چلی گئی

°°°°

یہ ایک بے حد پیارا کمرہ تھا جو کسی بچے کے لیے سجایا اور بنایا گیا تھا

اس سے پہلے کل تک یہ ایک  ایکسٹرا بیڈ روم تھا جس میں ایک بیڈ اور صوفہ کے ساتھ کسی مہمان کے رہنے کی مکمل جگہ بنائی گئی تھی

کیسا لگا ہمارے رویام کا کمرا ۔۔۔۔¡یا رم نے مسکراتے ہوئے پوچھا

کمرے میں ایک منی سائز کا بیڈ تھا

ہر طرف کھلونے ہی کھلونے تھے کمرے کو پورا بلو کلر کیا گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ یارم کو پتہ چلا تھا کہ بیٹے کی صحت پر نیلا کلر اچھا اثر کرتا ہے جب کہ بیٹی کی صحت پر ہلکا گلابی کلر اچھا اثر کرتا ہے

بہت پیارا کمرہ ہے یارم یہ آپ نے سجایا روح کو یقین نہیں آرہا تھا

آف کورس میں نے بنایا ہے اپنے بیٹے کے لئے ویسے میں بہت اچھا ڈیزائنر نہیں ہوں لیکن ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے

وہ آہستہ رویام کو روح کی گود سے لیتے ہوئے بیڈ پر لیٹاچکا تھا

جہاں وہ پر سکون نیند کے مزے لیتا اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ روح کا دل کیا کہ ابھی جائے اور اسے پیار کرنے لگے

روح یار یہ اتنا زیادہ سوتا کیوں ہے روح کو اپنے بے حد قریب کیے وہ سوال کرنے لگا

پتا نہیں میں نے بھی لیلی سے پوچھا تھا اس نے کہا تھا بچے ایسے ہی سوتے ہیں

سوتے ہیں اور روتے ہیں لیکن ہمارے بیٹے کی کوالٹی چیک کریں وہ صرف سوتا ہے اور مسکراتا ہے روح نے فخر سے بتایا تھا

اور واقعی یہ بات سچ تھی رویام کو ابھی تک روتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔بس جب اس کا رونے کا دل کرتا تو اتنی پیاری شکل بناتا کہ روح ا سے فورا اپنی گود میں لے لیتی  اور وہ خود ہی چپ ہو کر مسکرانے لگ سکتا

اچھا چلو اب ہم اسے بالکل ڈسٹرب نہیں کرتے اپنے کمرے میں چلتے ہیں وہ روح کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا

ہاں تو اسے ساتھ لے کر جائیں گے یہاں اکیلےچھوڑ تو نہیں سکتے روح نے فکر مندی سے کہا

روح تو ایسے بات کر رہی ہو جیسے دوسرے کمرے میں نہیں کسی دوسرے گھر میں جا رہے ہیں یہیں پر ہی اگر روئے گا تو آواز آ جائے گی کیا یارم نے پیار سے کہتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا

بالکل نہیں یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو میں فی الحال اسے بالکل بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتی   دوسرے کمرے میں ہمارے ساتھ لے کر چلے وہیں پر سویا کرے گا ہمارے سینٹر میں روح نے اسے کرتے ہوئے کہا

کیا مطلب ہے تمہارا یہ میرے اور تمہارے بیچ میں سوئے کا ہم دونوں کے درمیان یار م شاکڈ کی کیفیت میں تھا

جبکہ روح ہاں میں سر ہلاتی رویام کو اٹھاتی آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی جانب چل دی

یارم کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا یہ چھوٹا سا نمونہ اب اس کے اور اس کی بیوی کے بیچ میں سویا کرے گا

روح تم بیکار میں پریشان ہو رہی ہویہ یارم کاظمی کا بیٹا ہے بالکل نہیں ڈرنے والا اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے کہا جہاں روح بیڈ کےسینٹر میں رویام کو لیٹا چکی تھی

نہیں میں بالکل رسک نہیں لے سکتی وہ لیٹتے ہوئے بولی جب یارم آہستہ سے اپنی سائیڈ آ کر لیٹ گیا

اور یہ کب تک ہمارے بیچ میں ایسے ہی رہے گا اس نے پھر سے سوال کیا

تقریبا پانچ سال تک تو میں اسے بالکل اکیلا نہیں چھوڑنے والی یارم روح نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا جب کہ یارم خاموشی سے اپنا سر تکیے پر گرا گیا

وہ گہری نیند سو رہا تھا جب اسے اپنے ہاتھ پر ننھا سا لمس محسوس ہوا
اس کی آنکھ فورا کھل گئی تھی
اس کا لمس پھول سے زیادہ نازک تھا
اس نے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھا تو یارم کے بازو پر بار بار اس کا ہلتا ہوا پیر لگ رہا تھا
وہ بے اختیار مسکرا کر اسے دیکھنے لگا
رویام دونوں آنکھیں کھولے ہاتھ پیر ہلانے میں مصروف تھا اور اس کا ننھا سا پیر بار بار ہلنے کی وجہ سے اس کے بازو سے ٹچ ہو رہا تھا
پھر شاید رویا م نے محسوس کرلیا تھا اس کا باپ اس کی طرف متوجہ ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پیر اسی سپیڈ سے ملائے جا رہا تھا شاید اس کے کھیلنے کا اپنا ہی انداز تھا
یا رم اب اس کی طرف کروٹ لے کر باغورا سے دیکھنے لگا ۔اس کا یہ چھوٹا سا وجود ہلتا جلتا ہے اسے بہت ہی پیارا لگ رہا تھا کروٹ لینے کی وجہ سے اس کا بازو اس سے ذرا فاصلے پر آگیا جو یارم کو خود بھی اچھا نہیں لگا وہ مزید اس کے تھوڑا نزدیک ہوا اور اس کا پیر ایک بار پھر سے اس کے ہاتھ کو چھونے لگا
مسٹر رویام یارم کاظمی کیا آپ کو پتا ہے آپ کی ماما آپ کے جاگنے کا کتنا انتظار کرنے کے بعد سوئی ہے آج تک میں نے اپنی بیوی کو اتنا تنگ نہیں کیا جتنا تم نے بس ان چار دنوں میں کیا ہے
کتنا ترستی ہے وہ تم سے باتیں کرنے کے لئے اور تمہارے شہزاد جیسے نخرے ختم نہیں ہوتے
اور دوسری تمہاری یہ نیند جو پوری ہونے کا نام نہیں لیتی اتنا سو کر کرتے کیا ہو بس بتا دو مجھے
کہیں خوابوں میں میرے بہو تو نہیں پسند کر رکھی ایک بات کان کھول کر سن لو فی الحال تمہاری عمر نہیں ہے لڑکیوں کے خواب دیکھنے کی اسی لیے بہتر ہو گا کہ خوابوں کی دنیا سے باہر آجاؤ
اور فی الحال تمہیں میری بیوی پر دھیان دینا چاہیے جو اتنی مشکل سے تمہیں اس دنیا میں لائی ہے
نہ کہ ان دوشیزاؤں پے ویسے اس نرس کے ساتھ تمھارا کچھ چل رہا تھا یہ بات تو میں تب بھی سمجھ گیا تھا جب وہ تمہیں مسکرا مسکرا کر دیکھ رہی تھی
اور ایک اور بات کان کھول کر سن لو تمہارے باپ نے کبھی ایسے کام نہیں کیے اس نے ایک ہی لڑکی کو پسند کیا اسی سے شادی کی اور اسی سے تم جیسی ٹھرکی اولاد بھی پیدا کرلی ۔اور اب اسی کے ساتھ پوری زندگی سکون سے گزاروں گا
اور تم بھی ایک ہی لڑکی کو پسند کرو گے اسی کے ساتھ شادی کرو گے اور اسی کے ساتھ ساری زندگی گزارو گے ۔جو اصول میری زندگی کے وہی اصول تمہاری زندگی کے بھی ہونے چاہئیں آخرتم یارم کاظمی کی اولاد ہو
وہ اس کے بالکل پاس لیٹا اس کا بازو تھامے اسے مکمل طور پر اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔رویام کا کھیل اب رک چکا تھا
یارم نے تو صرف اس کا ایک بازو ہی پکڑا ہوا تھا لیکن اس بازو کی وجہ سے اسکا دوسرا ہاتھ اور دونوں پیر بھی رک گئے
شاید رویام کا ان سے کوئی کنکشن تھا .
اور رویام کےہاتھ پیر رک جانے کی وجہ سے اس کے ہونٹ پتا نہیں باہر کیوں آرہے تھے
اس کا نچلا ہونٹ مکمل طور پر باہر نکلا ہوا تھا جبکہ اوپر کے ہونٹ نے اندر کا تمام حصہ کور کیا ہوا تھا
یارم کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے
لیکن اسے تھوڑی ہی دیر میں پتا چل گیا کہ وہ کیا کرنے والا ہے جب اچانک اس کی کراکے دار آواز نے پورے کمرے کو ہلا کر رکھ دیا
رات وہ کیسے مان لے کر رہی تھی کہ اس کا بیٹا روتا نہیں ہے
اور اس کے بیٹے نے تو دو ہی منٹ میں پورے کمرے کو آسمان پر اٹھا لیا تھا
رویام یار کیا ہوگیا ہے کیوں روئے جا رہا ہے اچھا یار برا کیوں منا رہا ہے ٹھیک ہے ایک دو گرل فرینڈ بھی بنا لینا
اچھا چل میں اسی نرس کو بہو کے طور پر قبول کر لوں گا اب وہ تیرا فرسٹ کرش ہے تو میں اس کے لئے منع نہیں کر سکتا
تو فکر مت کر میں ظالم باپ بالکل ثابت نہیں ہونے والا پیار محبت کے معاملے میں تو بہت سویٹ ہارٹ قسم کا انسان ہوں
اس کے رونے پر وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھا
اور ایک اچھے باپ کی طرح رویام کو اس کے پسند کی چیزوں کی آفر بھی دینے لگا لیکن رویام کسی اچھے بچے کی طرح بلکل اپنا منہ بند نہیں کر رہا تھا وہ روئے جا رہا تھا
اس نے ایک نظر روح طرف دیکھا جو شاید آج بہت دنوں کے بعد پر سکون نیند سو رہی تھی ۔وہ اسے بالکل ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا آہستہ سے اس نے رویام کے ننھے سے وجود کو اپنے سینے سے لگایا
اور اسے اٹھا کر باہر لے آیا
°°°°°°°
کیا ہوگیا ہے یار اس طرح سے کیوں رو رہا ہے وہ اس کے نازک سا وجود اپنے سامنے کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا
اس کے دونوں ہاتھوں میں وہ بالکل کوئی گڈا سا لگ رہا تھا ۔
یارم کے اس طرح سے اسے اپنے سامنے رکھنے اور ہاتھ میں اٹھانے پر وہ خاموش ہو گیا
یہ کی نایارم کاظمی کے بیٹے جیسی بات کیوں رو رہا تھا ایسےکون روتا ہے ہاں تجھے پتہ ہے تیری ماں تجھے اس دنیا میں لانے کے لئے کتنا کچھ سہہ چکی ہے اور اب رو رو کر تو اس کی نیند پراب کرنے والا تھا
نو مہینے ایک بھی رات ٹھیک سے سو نہیں پائی میری بیچاری روح اور تو کیسے چار دن سے سو رہا تھا اور سارا دن بھی تو سوتا ہی رہتا ہے لیکن رات کو پھر بھی تجھے میری روح کی نیند خراب کرنی ہے کیوں بھئی باپ کا راج ہے کیا
نہ بیٹا یہاں ایسا نہیں چلے گا میری روح نے تجھے دنیا میں لانے کے لیے اپنی نیند قربان کی ہے اب تجھے بھی اپنی ماں کو بالکل تنگ نہیں کرنا اور اگر تو نے اسے تنگ کیا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا وہ اسے دھمکی دے رہا تھا
جبکہ رویام اس کے چہرے کے ایکسپریشن دیکھ کر مسکرائے جا رہا تھا
چل اب جلدی سے کچن میں چلتے ہیں تیرے لیے دودھ وغیرہ بناتے ہیں اور پھر تجھے سلا دیتے ہیں کیا خیال ہے وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اٹھا
ایک ہاتھ سے اس کے ننھے سے وجود کو تھامے ہوئے وہ اس کے لئے دودھ بنانے لگا روح کو اس نے دن میں تین چار بار دودھ بناتے ہوئے دیکھا تھا وہ یارم کاظمی تھا اسے کسی بھی چیز کو سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دیکھنا ہی کافی تھا
تھوڑی ہی دیر میں وہ اس کے لئے دودھ بنا کر واپس باہر صوفے پر آ گیا اور اس کو بالکل ڑوح والے انداز میں دودھ پلایا لیکن دودھ پینے کے بعد بھی رویام سویا نہیں
ارے یار اب سو جا تیرا پیٹ بھی بھرگیا ہے ۔ کیوں نہیں سو رہا یارم نے زرا سختی سے پوچھا
ویسے یار تیری بھی غلطی نہیں ہے سارا دن تو سوتا رہا ہے اب تو سوئے گا کیسے ہے نا یہی بات ہے نا
چل کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں تو سونہیں سکتا لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے تیرا باپ ہے نہ اس میں کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا
ابھی تو ابھی ابھی دنیا میں آیا ہے تو ہمارے لئے تو ایک مہمان ہے اور یارم کاظمی مہمانوں کی خوب خدمت کرتا ہے ویسے تو سوچ رہا ہو گا میں تیرے سامنے بار بار اپنا نام کیوں لے رہا ہوں تاکہ تجھے یاد ہو جائے کہ تیرے باپ کا نام کیا ہے
اور تجھے بھی پتہ چل جائے کہ تو کس کا بیٹا ہے
چل اب میں تیری انٹرٹینمنٹ کا کوئی سامان کرتا ہوں ویسے یہ کھلونا کافی انٹرسٹنگ ہے وہ ایک پلاسکٹ کی گاڑی کو اپنے ہاتھ میں لے لئے اسے دکھا رہا تھا
لیکن تو فی الحال اس کے ساتھ نہیں کھیل سکتا کیونکہ تو بہت چھوٹا ہے ویسے میرے پاس بھی ایک کھلونا ہے جو میرا موسٹ فیورٹ ہے وہ اپنی جیب سے ایک بلیٹ نکال کر اسے دکھاتے ہوئے بولا
یہ میرا فیورٹ کھلونا ہے اور اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے مجھے بہت زیادہ مزہ آتا ہے لیکن اس کے لیے بھی تو بہت چھوٹا ہے میرا نہیں خیال کہ فی الحال تو کسی بھی کھلونے کے ساتھ کھیلنے کے قابل ہے تجھ سے تو ہاتھ میں پکڑا بھی نہیں جا رہا یہ اس کی گاڑی اس کے پیٹ سے اٹھاتے ہوئے پھینک چکا تھا
فلم دیکھے گا چل آجا دونوں باپ بیٹا مل کر ایک فلم دیکھتے ہیں دا ایول ڈیتھ فی الحال یہاں پر بس یہی ایک فلم ہے بہت فنی ہے مل کر دیکھیں بہت مزہ آئے گا وہ کہتے ہوئے فلم لگانے لگا
ویسے تیری ماں تو رومینٹک موویز دیکھتی ہے اس ٹائپ کی فلمیں پسند نہیں ۔اور سچ کہوں تو اس کے ساتھ بیٹھ کر رومینٹک فلم دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے اب میں تیرے ساتھ بیٹھ کرتو رومینٹک مووی تو دیکھنے سے رہا
تو ہم دونوں اسی فلم کو انجوائے کریں گے وہ ریوٹ اپنے ساتھ لاتا پلیئر اون کر چکا تھا رویم کو اپنے ساتھ صوفے پر ذرا اونچا کرکے بٹھایا تھا کہ وہ ٹی وی کو ٹھیک سے دیکھ سکے لیکن اسے جلد ہی احساس ہوگیا کہ فی الحال وہ بیٹھنے کے قابل بھی نہیں ہے
یار ایک تو کیا چیز ہے تجھے سےبیٹھا نہیں جاتا کیا چل آ جا میری گود میں ہی آجا وہ اپنی گود میں رکھتے ہوئے احسان کر کے بولا
فلم شروع ہوئی ہے یارم نے خوب انجوائے کیا اور شاید رویا م نے بھی
رویام فلم کی طرف کم اور یارم کے چہرے کی طرف سے زیادہ دیکھ رہا تھا یار م کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر وہ بھی بار بار کھلکھلا اٹھتا۔
فلم کے اینڈ پر یارم کو اچھی حاصی نیند آنے لگی تھی کیونکہ پچھلے چار دن سے ہسپتال میں ہونے کی وجہ سے اسے صوفے پر ایک دن بھی اچھی نیند نہیں آئی
اور دوسری طرف یہ فکر لگی رہتی تھی یہ نہ ہو کہ روح کو کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے
اسی لیے وہ نیند میں بھی الرٹ ہی رہتا تھا ۔اس وقت ایسے بہت نیند آ رہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کے ننھے سے شہزادے کو اس کی ضرورت ہے ۔
وہ روح کو بالکل ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا ۔فلم ختم ہونے کے بعد وہ رویام کے لئے پھر سے دودھ بنانے لگا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے ہر دو ڈھائی گھنٹے کے بعد دودھ دینا تھا
اور اب تقریبا دو گھنٹے تو ہو ہی چکے تھے اسے پیٹ پوجا کئے ہوئے اپنے لئے چائے کا کپ بنا کر اس نے رویام کے لیے بھی تیار کیا
آپ نے چائے کاکپ رویام کی بوتل کے ساتھ ٹچ کرکے اس نے ڈرنک شیئر کرنے والے انداز میں چئرز کیا ۔وریام کے دودھ کی بوتل آدھی ہونے کے بعد اس نے گندا سا منہ بنایا یارم نے سمجھ کر بوتل اس سے دور رکھ دی
ابھی ہے کتنا سا اور نخرے دکھا رہا ہے بیٹا چھ سات مہینے تک تو تجھے یہی بے سواد بے ذائقہ دودھ پینا ہے میں نے بھی یہی پیاہے اگر تیری دادی زندہ ہوتی تو تجھے بتاتی ۔چل اب آجا ذرا باہر لان میں چلتے ہیں اذان ہونے میں ابھی کافی وقت ہے گرمی بھی کافی ہے چل ٹھنڈی ہوا لیتے ہیں وہ دوستانہ انداز میں اسے اٹھا کر باہر کی جانب آ گیا
°°°°°
اور اس کی آہٹ پا کر شونو بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے باہر نکل آیا
۔کیا بات ہے مسٹر شونوتم اتنی صبح صبح جاگ رہے ہو اسے اپنے پیچھے آتے دیکھ کر یارم نے خوشگوار انداز میں کہا
اس کے انداز پر شاید نہیں یقینا شونو بھی حیران ہوا ہوگا کیونکہ آج تک یارم نے اس سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی ۔اور یارم نے بھی شاید زندگی میں پہلی بار اتنی باتیں کی تھی وہ بہت کم بولتا تھا صرف ضرورت میں استعمال ہونے والے الفاظ یا پھر روح کے سامنے وہ اپنے دل کی ہر بات کرتا تھا
لیکن اس نے خود نوٹ کیا تھا کہ جو باتیں وہ رویام سے کر رہا تھا ساری بے فضول اور بے مقصد تھی ۔ایسی باتیں جن کا کوئی سرا ہی نہیں تھا
لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کی ساری باتیں بہت ہی انجوائے کر رہا ہے اسی لئے تو وہ خاموش نہیں ہوا بلکہ اب بھی وہ اپنی ہی دن میں رویام سے باتیں کئے جارہا تھا جن کو ان کے ساتھ چلتا شونو بھی بڑی غور سے سن رہا تھا
°°°°°°
روح نے نیند میں اپنا ہاتھ بیڈ پر اپنے دائیں طرف رکھا تو وہاں کسی کا وجود محسوس نہ کرکے اس کی آنکھ کھل گئی
نا تو یہاں یارم تھا اور نہ ہی رویام وہ تیزی سے اٹھی
وہ دونوں غائب تھے مطلب وہ جہاں بھی تھے ایک ساتھ تھے
ظاہری سی بات ہے رویام خود سے اٹھ کر کہیں جا نہیں سکتا ۔
اس کی نیند اڑ چکی تھی وہ باہر کی جانب آنے لگی جب کھڑکی سے لان میں ٹہلتے یارم کو اس کے گود میں رویام کو دیکھا جبکہ شونو اس کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ چل رہا تھا
اس نے سکون کی سانس لی
رویام یارم کے ساتھ تھا وہ بالکل بھی رو نہیں رہا تھا بلکہ یارم کی باتیں اسے اچھی لگ رہی تھی ۔روح چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ آئی
اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جمائی لی تھکاوٹ سے بھرپور انگڑائی لے کر وہ دوبارہ بیڈ پر آگئی آپنے اوپر کنمل پھیلاتے ہوئے وہ بیڈ پر لیٹی اور ایک بار پھر سے آنکھیں بند کر لیں
ہاں اسے اب فکر نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا یارم اس کے رویام کو سنبھال لے گا تھوڑی دیر پہلے جو نیند اسے بائےبائےکہہ کر بھاگ گئی تھی ایک بار پھر سے اس پر حاوی ہونے لگی
تھوڑی دیر میں وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی ۔
°°°°°°
نہ جانے کب ٹھہرتے ٹھہرتے رویام کی آنکھیں بند ہوگئی یارم کو بالکل احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ سو چکا ہے ۔
وہ کب سے اس ننھے سے وجود کو اپنے ساتھ لگائے بس ٹہلتا جا رہا تھا
یہ بے مقصد بے منزل سا سفر اسے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔شونو نے بھونکتے ہوئے اسے بتانا چاہا کہ رویا م سو چکا ہے
پتا نہیں کیسے وہ جان گیا تھا ۔یارم نے ایک نظر شونو کو دیکھا اور پھر رویام کی جانب سوتے ہوئے بالکل کوئی معصوم سا فرشتہ دکھ رہا تھا
ارے یہ تو سو گیا یارم اسے دیکھتے ہوئے مسکرایا تو شونو بھونکتے ہوئے اچھلا
جب یارم نے ایک ہاتھ کی انگلی اپنے ہوںٹھوں پر رکھ کر اسے چپ کروایا ۔
شور نہیں کرنا ہو سو گیا ہے
چلو اسے بیڈ روم میں رکھتے ہیں ۔
وہ شونو کو کہتا ہوا آگے چل دیا اور وہ اسی کے انداز میں اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا
°°°°°
کمرے میں قدم رکھا تو روح گہری نیند سو رہی تھی فرق بس اتنا تھا کہ رات کو وہ غلطی سے یارم کی جگہ پر سو گئی تھی اس وقت وہ اپنی جگہ پر تھی
یارم آہستہ سے رویام کو بیڈ پر لٹایا
اور خود بھی بیڈ پر لیٹ گیا
جبکہ شونو کمرے میں ہی بنے چھوٹے سے گدھے پر لیٹ چکا تھا
مسٹر شونو مجھے تو بہت نیند آ رہی ہے میں سونے جا رہا ہوں ۔تم بھی سو جاؤ کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں وہ سارے نمونیہ آ جائیں گے
اس نے سب کو یاد کرتے ہوئے سوچا جو کل رات یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
شارف تو بار بار دروازے تک جا کر واپس آ جاتا
خضر تقریبا اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا اس کا بس چلتا تو وہ رویام کو خود سے دور ہی نہ کرتا ۔
اور کل اس میں جلدی آنے کا وعدہ بھی کر دیا تھا اب اس کی جلدی کتنے بجے ہونی تھی یارم کو بالکل اندازہ نہیں تھا ان کے آنے سے پہلے پہلے وہ اپنی نیند پوری کر لینا چاہتا تھاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ بچوں کے شورشرابے اور شارف کی مستیوں میں نیند تو اسے ہرگز نہیں آئے گی
°°°°°°
یارم کی آنکھ دس بجے کے قریب کھلی تھی
دروازہ بند تھا لیکن باہر سے ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی
اس وقت کمرے میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا وہ کافی دیر تک چھت کو گھورتا رہا
اپنے بازو پر اسے ابھی تک رویام کالمس محسوس ہو رہا تھا جسے محسوس کرکے وہ مسکرایا
پھرفریش ہو کر باہر نکل آیا
جہاں تقریبا سب لوگ ہی تھے سوائے صارم کے اسے اپنی ڈیوٹی پر جانا تھا
کیوں کہ ڈان کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خوشی میں اسے چھٹی تو ہرگز نہیں ملنی تھی
رویام اس وقت معصومہ کی گود میں تھا ۔روح کچن میں اس کا دودھ تیار کررہی تھی
اس نے آہستہ سے معصومہ کو اشارہ کیا تو وہ مسکرا کے رویام کو اس کی گود میں رکھ گئی
جب بچے ہوتے ہیں تو آپ کو ساری رات جاگنا پڑتا ہے خضر اسے دیکھتے ہوئے اس انداز میں بولا کہ یارم مسکرایا
ہاں بس اللہ نے تحفہ دیا ہے تو سنبھالنا تو پڑے گا وہ رویام کے چہرے کو نرمی سے چھوتے ہوئے بولا
روح بتا رہی تھی کہ تم ساری رات جاگتے رہے ۔اسی لیے صبح اس نے تمہیں جگانے نہیں دیا اور ہم نے بھی پوری کوشش کی کہ ہم بالکل شورشرابہ نہ کرے اور کچھ شونو صاحب نے ہم پر اپنی حکومت چلائی ہوئی تھی
ذرا سی آواز نیچی ہوتی تو وہ گلے پڑ جاتا ہے شارف نے کہتے ہوئے لگے ہاتھوں شونو کی شکایت کی آج پہلی بار یار م کووہ اتنا اچھا لگا تھا
ویسے تو خضر نے اپنی بچیاں پیدا ہونے کے بعد لیلی کو سوا مہینہ کہیں بھی آنے جانے نہیں دیا تھا اور نہ ہی زیادہ لوگوں سے ملاقات کرنے دی تھی
لیکن روح کا معاملہ الگ تھا وہ بہت کم لوگوں کو جانتی تھی اور بہت کم لوگوں سے تعلق رکھتی تھی اور یارم نے اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی
تبھی تو وہ بالکل ریلیکس تھی اور مزے سے اپنے ان دنوں کو انجوائے کر رہی تھی رویام کو خضر کے حوالے کر کے کچن میں آیا جہاں وہ اس کے لئے دودھ بنا رہی تھی
اس کے کچن میں آنے پر اس نے مسکرا کے یارم کو دیکھا اور پھر خود اس کے قریب آ کر اس کے گرد بازو لپیٹے اس کے سینے پر سر رکھ کر بولی
یارم اینگو مینگو سو مچ ۔۔۔۔اس کا انداز بہت میٹھا تھا یارم مسکرایا
آئی لو یو ٹو میرا بے بی اس کے دونوں گال کو انتہائی شدت سے چومتے ہوئے بولا اس سے پہلے کہ روح سے دور ہوتی اسے باہر سے رونے کی آواز سنائی دی اور رویا م کے رونے پر وہ دونوں باہر کی طرف بھاگ گئے تھے
یار اس کو اچانک کیا ہو گیا یہ رونے کیوں لگا شارف نے جیسے ہی رویام کو اپنی باہوں میں اٹھایا اس نے رونا شروع کردیا ۔
روح اور یارم کچن سے بھاگتے ہوئے آئے تھے ۔
شار ف نے فوراً رویام کو روح کے حوالے کردیا
ارے کچھ نہیں شارف بھائی پریشان مت ہوں اسے بھوک لگی ہے اس لئے رو رہا ہے روح رویام کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولی
اپنی ماں کا لمس محسوس کرکے وہ فورا خاموش ہو گیا تھا
پتہ نہیں بھوک لگی ہے یا کسی نے اس کے کان میں آکر سرگوشی کی ہے کہ اس کا باپ اسکی ماں کے ساتھ رومانس کر رہا ہے یارم اسے گھورتے ہوئے بڑبڑایا تو روح اسے کر گھور کر رہ گئی
ایسے گھور کر کیا دیکھ رہی ہومجھے۔ مجھے یہ پہلے دن سے ہی بہت تیز لگتا ہے ۔بس تمہارے سامنے معصوم شکل بناتا ہے یارم نے اس کی انفارمیشن میں اضافہ کیا تھا
یارم وہ صرف پانچ دن کا بچہ ہے ۔روح نے اسے یاد دلاتے انداز میں کہا
یہ چار دن کا بچہ ضرور ہے لیکن اسے بچہ مت سمجھو بہت پکا ہے یہ رات میں نے تمہارے ماتھے پر کس کیا تو مجھے گھور کر دیکھنے لگا ۔
جیسے اپنی بیوی کو نہیں اس کی ماں کو کس کیا ہو یارم اس کے بالکل ساتھ صوفے پر بیٹھا ہوا رویام کے دودھ کی بوتل پکڑ کر اسے بتاتے لگا
ایک تو آپ بالکل ہی میری سمجھ سے باہر ہیں صبح کیسے پیار کر رہے تھے ساری رات اس کا خیال بھی رکھا اور اب اس کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔روح اسے گھورتے ہوئے بولی
ہاں تب تم سامنے نہیں تھی نہ میرے سامنے تو بہت شرافت سے بیٹھا ہوا تھا ہم دونوں نے کافی انجوائے کیا بہت ساری باتیں بھی کی میں نے اسے سمجھایا بھی کہ تمہیں بالکل تنگ نہ کرے
لیکن دیکھو دوپہر ہوتے ہی یہ بدل گیا پھر سے تمہیں تنگ کر رہا ہے
اسے ذرا احساس نہیں ہے کہ کچن میں اس کے ماں باپ دونوں بزی ہیں اس طرح سے گلا پھاڑ پھاڑ کر روکر پکارنے کی کیا ضرورت پڑ گئی
تھوڑا صبر کرنا چاہیے تھا اسے مینرز نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس کے اندر اپنے ماں باپ کو اس طرح سے کون ڈسٹرب کرتا ہے وہ اچھا خاصا برا مناتے ہوئے بولا تو روح اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنے لگی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی
یارم آپ پانچ دن کے بچے کے اندر مینرز کہاں سے ڈھونڈ نے لگ گئے وہ ابھی بچہ ہے ہم اسے کچھ سیلھائیں گے تو اسے کچھ آئے گا نا روح کا انداز سمجھانے والا تھا لیکن یہاں اسے سمجھنے کو تیار کون تھا
انتہا کی بداخلاق اولاد ہے ہماری روح اسے تمہارے پیٹ کے اندر سے ہی سیکھ کر آنا چاہیے تھا اسے پتہ ہونا چاہئے کہ یہ یارم کاظمی کی اولاد ہے ۔وہ اس انداز میں بولا کہ روح کوشش کے باوجود بھی اپنی ہنسی روک نہیں سکی
اللہ یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ اپنی ہنسی روکتی بمشکل بولی پائی تھی جبکہ اسے اس طرح سے ہنستے دیکھ کر باقی سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے
کیا ہوگیا ہے روح تمہیں اس طرح سے کیوں ہنس رہی ہو۔۔۔۔؟سب سے پہلے لیلیٰ نےپوچھا تھا
کچھ نہیں بس میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے میں میں مینرز کب سے آئیں گے روح ایک نظر یارم کی طرف دیکھ کر لیلی کو بتانے لگی جب کے یارم شان بےنیازی سے صوفے پر بیٹھا ٹانگ پر ٹانگ رکھے بہت مزے سے بیٹھا تھا
روح دماغ ٹھکانے پر ہے نہ تمہارا چار دن کے بچے میں کہاں سے مینرز آتے ہیں
ابھی وہ برا ہوگا کچھ سمجھے گا تو کچھ سیکھنا شروع کرے گا حضر کا انداز ڈاٹنے والا تھا
اچھا ایسی بات ہےمجھے تو لگا کہ یہ سب کچھ سیکھ کر آئے گا یارم مجھے لگتا ہے ہمیں بہت محنت کرنی ہوگی اسے مینرز سکھانے میں ہمارا بچہ بہت بد اخلاق ہے ۔
اور بہت بدتمیز بھی ہے ہمیں بہت محنت کرنی ہوگی وہ یارم کو دیکھتی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہوئے بولی
کتنا فضول بولتی ہو تم روح کیا مجھے نہیں پتہ کہ ہمیں اس کے لیے محنت کرنی ہوگی عقل نام کی کوئی چیز تمہارے اندر ہے نہیں
آف کورس ہمیں اسے مینرزسیکھانے ہوں گے لیکن پہلے تم اسے بڑا تو ہونے دو آہستہ آہستہ سیکھے گا وہ جب اسے کچھ سمجھ میں آئے گا
ابھی تو اس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اپنے منہ میں دودھ کی بوتل ڈالنی ہے یا اپنا ہی پیر تھوڑی دیر پہلے یار م نے اسے اپنا ہی پیر منہ میں ڈالے دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا تھا
ہاں لیکن روح اس کے بات بدلنے پر اسے دیکھنے لگی جوسارا الزام ہی اسی پر لگا گیا تھا اور اب ہر کوئی اس کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ تم ضرورت سے زیادہ جلدی مچا رہی ہو
ابھی رویام چھوٹا ہے اسے ٹائم لگے گا سیکھنے میں سمجھنے میں اور بڑا ہونے میں فی الحال تو اسے اپنے ماں باپ کو پہچاننے میں ہی دو ڈھائی مہینے لگ جائیں گے
جبکہ روح خاموشی سے ان سب کی باتیں سن کر خود کو مجرم ٹھہرائے جانے پر اندر ہی اندر یارم سے خفا ہو رہی تھی
°°°°°°
سب کے جانے کے بعد یارم جب کمرے میں آیا تو روح کو منہ بنائے دیکھ کر مسکرایا
کیا بات ہے آج تو میری جنگلی بلی کافی غصے میں لگ رہی ہے وہ اس کے پاس بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا جبکہ رویام تھوڑے فاصلے پر نیند میں تھا
کتنے برے ہیں آپ یارم آپ نے سب کے سامنے مجھے غلط ثابت کر دیا
جبکہ آج میں سب کو دکھانے والی تھی کہ آپ کیا سوچتے ہیں
وہ منہ پھولئے بولی
تو تم چاہتی تھی کہ وہ سب لوگ میرا مذاق بنائے وہ اس کی گود میں سر رکھتا گہرا سا مسکرایا
ہاں تو آپ بھی تو سب کا مذاق بناتے رہتے ہیں ۔سارے ڈرتے ہیں آپ سے بچاروں کو موقعہ مل جاتا تھوڑا خوش ہونے کا لیکن آپ کسی کو خوش ہونے کہاں دیتے ہیں
ان سب کو لگ رہا تھا کہ میں ایسا چاہتی ہوں کہ رویام اوپر سے سب سیکھ سکھا کر آئے ۔
وہ ایک نظر رویام کو دیکھتی یارم سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگی
ہاں تو یہ تمہاری غلطی ہے تمہیں عقل کا استعمال کرنا چاہیے تھا ضروری نہیں جو باتیں میں تم سے یارویام سے شئیر کرتا ہوں وہ تم سب کے سامنے بول دو ۔
میں اپنا آپ ہر کسی پر ظاہر نہیں کرتا تم سے محبت بہت ہے وہ اس کا چہرہ خود پر جھکائے گال چومتےہوئے بولا
اور میرے رویام سے روح نےجلدی سے پوچھا ۔
یارم م نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا وہ ننھا اس وجود اس وقت نیند کے مزے لوٹ رہا تھا
میرا دل کرتا ہے کہ میں اسے ڈسٹ بن میں پھینک دوں ۔تم اسے ہر وقت اُٹھا کر کیوں گھومتی رہتی ہو تھکتی نہیں ہو کیا وہ کتنی ہی دیر محبت سے رویام کا چہرہ دیکھنے لگے دیکھتا رہا اور پھر جب بولا تو روح کو چیخنے پر مجبور کر گیا
یارم آپ ایسا سوچتے ہیں میرے معصوم بچے کے لیے آپ میرے بچے کو ڈسٹ بن میں پھینک دیں گے ہائے اللہ اب تو میں آپ پر بھروسہ ہی نہیں کرسکتی آپ کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ رویام کا معصوم سا چہرہ دیکھتی اس کی دل دہلا دینے والی بات پر پریشان ہو چکی تھی
ارے میں تو تمہارے لیے ہی بھلائی سوچتا ہوں تمہیں تنگ کرتا ہے ہر وقت تم اس کو اٹھا کر گھومتی رہتی ہو تمہیں پریشان کر دیتا ہے اس لیے کہہ رہا ہوں یارم نے معصوم بننے کی کوشش کی
یااللہ یارم اگر میرا بچہ مجھے تنگ کرے گا تو آپ اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیں گے ۔
تنگ کرنے کا تو نہیں پتا ہاں لیکن اگر اس نے تمہیں ضرورت سے زیادہ پیار کیا تو میں ایسا کرنے سے پیچھے بھی نہیں ہٹوں گا ۔
اس نے رویام کسمسا تے دیکھتے ہوئے روح کی گود سے سر اٹھایا اور اٹھ کر بیٹھ گیا
یارم آپ اتنے ظالم باپ ہیں روح کو صدمہ ہوا تھا
ہاں بہت ہی ظالم باپ ہوں میں تمہارے بیٹے کا ہونٹ باہر آ رہا ہے یہ تھوڑی ہی دیر میں رونا شروع کر دے گا جلدی سے اس کے لئے دودھ بنا کر لاؤ
ایسا گلا پھاڑ پھاڑ کر روتا ہے کہ میرے کان ہی پک جاتے ہیں جلدی جاؤ وہ رویام کو اپنے قریب کرتا ہوا اپنی گود میں اٹھا چکا تھا
جبکہ اسی جاگتا پاکر روح صدمے کی کیفیت میں کچن میں چلی گئی
یا رم نے ایک نظر ویام کے چہرے کو دیکھا جو اس وقت آف موڈ کے ساتھ اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا
یارم نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھوا
اور ابھی تھوڑی دیر پہلے روح سے کی ہوئی باتوں پر ہنسنے لگا
وہ اسے کیا ڈسٹ بن میں پھینکتا وہ تو اسے اپنے دل کے کسی کونے میں چھپا کر رکھنا چاہتا تھا ۔
وہ روح سے اتنی محبت کرتا تھا کہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور دیکھے وہ روح کو بھی اسی طرح سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا جیسے آج وہ رویام کو خود میں چھپا لینا چاہتا تھا
آج رویام کو باری باری سب کی گود میں دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ وہ اپنا بیٹا ان سے لے کر کہیں کسی جگہ چھپا کر رکھ لے جہاں کوئی اسے نہ دیکھ پائے
وہ اپنے اندر تبدیلی نوٹ کر رہا تھا اس نے جو محبت روح سے کی تھی ویسی ہی محبت رویام اسے خود سے کرنے پر مجبور کر رہا تھا
میں نے بالکل ٹھیک کہا تھا تم بہت تیز چیز ہو ۔تم سے ہم دونوں ساتھ بیٹھے دیکھے نہیں جاتے نا ۔اگر تھوڑی دیر اور لیٹ جاگتے تو میں اپنی بیوی سے دوچار پیار بھری باتیں کر لیتا
لیکن نہیں تم نے تو کباب میں ہڈی بننا ہے وہ اس کا پیر پکڑ تا اونچا کر کے اس کے چھوٹے سے پیر کو آگے پیچھے سے ٹٹولتے ہوئے بولا
لیکن تمہاری تو ہڈیاں بھی تمہاری طرح چھوٹی چھوٹی ہوں گی ۔اور کباب میں اتنی چھوٹی ہڈی سے یارم کاظمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا
تو میں تمہیں کباب کے ساتھ ہی چھپا کر کھا جاؤں گا وہ اس کے گال کو ذرا شدت سے چوم کر بولا تو رویام اس کی ظلم پر رونے لگا
شاید یارم کی مونچھ اور داڑھی نے رویام کے نازک نقوش پر ظلم کیا تھا
مسٹر رویام صاحب ذرا ذرا سی بات پر رونے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے باپ کے پیار کی عادت ڈالو میں تو ایسے ہی پیار کروں گا
زرا بہادر بنو یار تو یارم کاظمی کے بیٹے ہو دوبئی کار ڈان کے
دارھی کی ذرا سی چھبن تم سے برداشت نہیں ہوتی وہ اسے اپنے سامنے کرتے ہوئے ذرا سخت لہجے میں بولا
اس کے اس طرح سے سامنے کرنے پر رویا م نے رونا بند کر دیا اور ایک بار پھر سے اسے گھورنے لگااس کا ایک ہونٹ اب بھی باہر تھا
اوئے مجھے گھورنا بند کرو ورنہ تیری ماں کو بتا دوں گا کہ نرس کے ساتھ تیرا کیا چل رہا ہے کچھ زیادہ ہی شریف سمجھ رکھا ہے اس نے تجھے لیکن میں تیرا باپ ہوں بہت اچھے سے جانتا ہوں تو کتنا بڑا ٹھرکی ہے یارم بول ہی رہا تھا کہ روح دودھ کی بوتل لے کر اندر داخل ہوئی
اگر تم اور دو منٹ لیٹ آتی تو میں سے واقعی ڈسٹ بن میں پھینک دیتا کتنا روئے جا رہا تھا یہ وہ اسے پھر سے تپنے لگا
ہاں مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ آپ ایسا ہی کریں گے لیکن دودھ بنانے کے دوران میں نے ایک بات نوٹ کی کہ ایک باپ کبھی اپنے بچے کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا
اور میں جانتی ہوں کے آپ اس سے بہت پیار کرتے ہیں ۔آپ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے صرف مجھے تنگ کرنے کے لئے ایسا بول رہے ہیں ۔روح نے اپنی عقلمندی دکھائے تو یارم نے اسے داد دینے والے انداز میں تالی بجائی
مطلب کے تم اتنی عقل مند ہوکہ یہ بات تم نے کچن میں جاکر سوچی نہ کہ یہاں بیڈروم میں کیا تمہیں کمرے میں یاد نہیں آیا تھا کہ میں اس کا باپ ہوں وہ اس کے ہاتھ سے دودھ کی بوتل لیتے ہوئے رویام کے منہ میں ڈال چکا تھا ۔
نہیں خیال تو تب بھی آیا تھا لیکن ڈسٹ بن والی بات نے مجھے سچی میں ڈرا دیا تھا اب آپ کا کوئی بھروسہ بھی تو نہیں آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ آہستہ سے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی تو یارم اپنی ہنسی چھپا گیا
میں واقع کچھ بھی کر سکتا ہوں مجھ سے بہت اچھے کی امید مت رکھنا ۔وہ ہنستے ہوئے بولا توروح منہ بنا گئی
°°°°°°°
جب سے یارم نے رویام کو روح کو تنگ کرنے کے لئے منع کیا تھا تب سے تو وہ بالکل ہی روح کے ساتھ چپک کر رہنے لگا تھا
جیسے اس کی بات کو بہت اچھے سے سمجھ گیا ہو وہ تو شکر تھا کی رویام سوتا بہت زیادہ تھا ورنہ تو اسے روح کے ساتھ لمحات بھی نصیب نہ ہوتے
وہ ہر وقت روح کے ساتھ رہتا تھا اور وہ اسے ذرا سا روح کے ساتھ بیٹھے دیکھتا تو وہ رونا شروع کر دیتا رویام اب دو ماہ کا ہونے والا تھا
یارم نے تو ایسے ہی اسے دشمن کہہ دیا تھا لیکن اب وہ اصل میں اس کا دشمن بن چکا تھا
وہ ایک نظر یارم کو روح کے پاس جاتے دیکھتا اور پھر آپ نے کراکے دار آواز میں وہ رونا شروع کرتا ہے کہ جب تک روح اسے اٹھانا لیتی وہ چپ نہیں کرتا تھا ۔
یار م کووہ پیارا تو بہت تھا لیکن اس کا روح کے ساتھ چپکا چپکی اسے بالکل پسند نہیں تھی
اور خاص کر جب روح اس کے پاس ہوتی تھی اور روح کا سارا وقت اس کا ہوتا تھا پھر تو رویام کی مخالفت بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا
اب وہ اسے بےبی کاٹ میں سلاتی تھی ویسے تو اس کی پیدائش کے دوسرے ہفتے ہی وہ اپنے کمرے میں بےبی کاٹ لے آیا تھا اجہاں وہ رویام کی سوتے ہیں اسے اٹھا کر سائٹڈ لگا دیتا
کیونکہ روح کو اپنی باہوں میں بھرے بغیر اسے پرسکون نیند نہیں آتی تھی
کمرے میں بےبی کاٹ آنے کے بعد روح نے تھوڑا سا اعتراض تو کیا تھا لیکن یا رم نے کہا کہ اگر رویام بیڈ پر سوئے گا تو اسے دوسرے کمرے میں سونا ہوگا اور یہ بھی سچ تھا کہ روح کو دوسرے کمرے میں اکیلے سونے میں ڈر لگتا تھا اور رویام کو فی الحال وہ اکیلے دوسرے کمرے میں رہنے دے نہیں سکتی تھی
اسی لئے اسے اس بےبی کاٹ کے بوجھ کو سہنا پڑا
°°°°°
وہ کمرے میں آیا تو رویام بے بی کاٹ میں آرام سے سو رہا تھا
رات کو کیا کہا تھا میں نے تم سے اس ایلفی کے سونے کے بعد مجھے سٹڈی سے بلا لینا
لیکن جب میں کمرے میں آیا تو تم بھی اس کے ساتھ بے ہوش پڑی تھی تم دونوں نشہ کرکے سوئے تھے کیا جو میری یاد نہیں آئی
وہ روٹھا روٹھا سا بیڈ پر بیٹھ گیا
رات کو مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب مجھے نیند آگئی اور میں رویام کے ساتھ ہی سو گئی روح اسے روٹھا دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسے منانے اس کے پاس آئی تھی
اسے منانا بہت ضروری تھا کیونکہ کل رویام کے لیے شاپنگ کرنے جانا تھا اور اکیلی وہ جا نہیں سکتی تھی اور اگر یارم مانا نہیں تو وہ اسے لے کر نہیں جائے گا
وہ ہاں میں سر ہلاتا ایک ہی پل میں اسے کھینچ کر بیڈ کر گرا چکا تھا جب کہ روح کو اس کے انداز بہت خطرناک لگے
یارم ابھی آپ مجھ سے ناراض تھے روح نے فوراً یاد دلایا
ان کو غلطی کی سزا چوم کے دی جاتی ہے،-
پیارے لوگوں کی خطاؤں پے بھی پیار آتا ہے،-
وہ دلکشی سے کہتا ہے اس کے لبوں پر جھکا اور ایک میٹھی سی جسارت کرتا ہوا پیچھے ہٹا اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھولے تو روح کو خطرے کی گھنٹی سنائی دینے لگی
یارم رویام جاگ جائے گا ۔وہ اسے پیچھے کرتے ہوئے سمجھا رہی تھی
کوئی بات نہیں دو دن پہلے میں نے اس کے کاٹ پر ایک چھنچھنا کھلونا لگایا تھا اسے وہ بہت پسند ہے اور جب وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تب اسے اپنی ماں کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی
اس لیے وہ اپنے ماں باپ کے پرائیویٹ موومنٹ کو بالکل ڈسٹرب نہیں کرے گا اور فی الحال تم مجھے ڈسٹرب مت کرو ورنہ کل میں تمہارے بیٹے کی شاپنگ کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا
رویام کے سارے کپڑے اس کو چھوٹے ہو گئے یار م ہمہیں جانا ہو گا روح نے فوراً یاد کرواتے ہوئے اس کے گلے میں باہیں ڈال دی
گڈ گرل آف کورس ہم جائیں گے بس تم ڈسٹرب مت کرنا مجھے وہ مسکرا کر پہلے اس کے لبوں کو پھر اس کے گالوں کو چومتا اس کی گردن پر جھکا
جب کہ وہ خاموشی سے اس کا لمس محسوس کر رہی تھی
رویام کی ساری چیزوں کی لسٹ تو وہ پہلے ہی تیار کر چکی تھی
اور اب یارم بھی چلنے کو تیار تھا
سوا مہینہ مکمل ہو جانے کے بعد تقریبا روز ہی شاپنگ پر جارہی تھی لیکن پھر بھی اسے یہی لگتا تھا کہ رویام کے لیے چیزیں اب بھی کم ہیں
اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ پوری دنیا خرید لے اپنے بیٹے کے لیے جبکہ یارم بھی ہر روز اس کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا رہتا تھا
یارم کھل کر اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتا تھا لیکن اس کے ہر انداز میں روح نے اس کے بیٹے کے لیے بے پناہ دے رکھی تھی
وہ دونوں رویام کے لیے شاپنگ کر رہے تھے
جب اچانک شونوکسی کو دیکھ کر پیچھے کی طرف بھاگا
شونو کہاں جا رہے ہو تم ۔۔۔۔واپس اؤ روح نے اسے بھاگتے دیکھ کر کہا
یارم دیکھیں نا قسے کیا ہو گیا ہے ایسے کیوں بھاگ رہا ہے اسے بھاگتا دیکھ کر وہ بھی اس کے پیچھے آئی تھی
لیکن نیچے پہنچتے ہی اسے شونو کے ساتھ وہ آدمی دکھائی دیا
شونواس کے بوٹ پر زبان چلائے جا رہا تھا جب کہ اسے یاد تھا جب وہ ہسپتال میں پاگل پن کی حالت میں تھی تب یہ شخص کی بے حد قریب تھا اس نے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا وہ لمحہ یاد کرتے ہیں روح کے ہاتھ پیر میں جیسے بیچھو سے رینگنے لگے
اس نے بعد میں خضر سے بھی پوچھا تھا جب وہ ہوش میں نہیں تھی تب اس شخص کو اس کے اتنے قریب کیوں آنے دیا ۔۔۔۔؟
یہاں تک کہ اس نے یاروں کو بھی یہ بات بتائی تھی اسے یاد تھا وہ اس شخص کے سینے سے لگا کر بری طرح سے رو رہی تھی
یارم نے تو اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ویسے تو وہ روح کو کسی کو چھونے نہیں دیتا تھا لیکن درک کے گلے لگنے پر بھی یارم نے کچھ نہ کہا ۔
شاید اس کی طبیت کی خرابی کی وجہ سے
بس کہہ دیا کہ تم ہوش میں نہیں تھی اور اس وقت درک نے ہماری بہت مدد کی تھی
یار م درک کا شکر گزار تھا کہ اس نے روح کا خیال رکھا تھا اسے بچانے میں مدد کی تھی لیکن نہ جانے کیوں روح کو اس بندے سے عجیب سے چڑ تھی
جب سے اس نے کہا تھا کہ ایسےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بچہ زندہ ہے یا مر جاتا ہے اسے تب سے ہی یہ آدمی بالکل اچھا نہیں لگتا تھا انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اس کے اندر یہاں تک کہ وہ اس کی شکر گزار بھی نہیں تھی نہ جانے کیوں اس شخص سے اسے الجھن محسوس ہوتی تھی
وہ اس کے قریب آئی اور غصے سے شونو کی رسی تھامی
بہت بدتمیز ہو تم شونو اس طرح ہر ایرے غیرے کے پیروں کوچاٹنے لگتے ہو
کیا تمہیں سمجھ میں نہیں آتا تمہارا اپنا کون ہے اور پرایا کون وہ شونوکو ڈانتے ہوئے کہہ رہی تھی
ہو سکتا ہے میں اس کا تم سے زیادہ اپنا ہوں بہت وہ سرد لہجے میں بولا
جبکہ روح اس کی طرف دیکھے بنا شونو کو ڈانٹتی کچھ فاصلے پر کھڑے یارم کی جانب آگئی
جب کہ در ک اسے خود سے دور جاتا دور تک دیکھتا رہا
°°°°°
تمہیں اس سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی اس نے تمہاری جان بچائی ہے اس دن اگر وہ نہیں ہوتا تو ہمارے لئے بہت مشکل ہو جاتی
میری جان اللہ نے بچائی ہے اسے صرف وسیلہ بنایا تھا اور پتہ نہیں اسے ہی کیوں وسیلہ بنایا تھا مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا وہ شخص کتنا مغرور ہے وہ شخص اور شونو اس کے پیروں کو چاٹ رہا تھا تو ذرا اسے احساس نہیں ہوا کہ وہ شونو کو تھوڑا سا پیار ہی کردے
اور تم گھر چلو آج تو میں تمہیں ٹھیک کردوں گی وہ شونو کو غصے سے دیکھتی ہوئی بولی
جو درک کے قریب سے آنے کے بعد کافی اداس لگ رہا تھا
کیا ہو گیا ہے روح وہ جانور ہے مانوس ہو گیا تھا اس سے جانور جس چیز کو پسند کرتا ہے اسی کے پاس بھاگ کر جاتا ہے تم کچھ زیادہ ہی دل پر لے رہی ہو یارم سمجھا رہا تھا
یارم ہم کیا اس آدمی کے بارے میں باتیں کرنے لگے ہیں پلیز رویام کے لیے شاپنگ کرنی ہے وقت بہت کم ہے
مشارف کی سالگرہ کے لئے میں اس کے اچھے اچھے ڈریسز لینا چاہتی ہوں
تاکہ میرا بچہ شہزادہ لگے
وہ تو ہے ہی شہزادہ یارم نے بےاخیتار کہا۔
روح مسکرائی
شونو کے لئے میں ییلو کلر کی شرٹ لوں حی ییلو کلر کی شرٹ میں بالکل پھول جیسا لگتا ہے وہ اب اچانک ہی اسے شونو پر پیارآ گیا تھا
سورج مکھی کا یا سرسوں کا روح کے انداز پر یارم نے ایکسائیڈ میں دکھائی
جبکہ روح سمجھ چکی تھی کہ وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے
آپ میرے اور میرے بچوں کے بیچ میں مت بولا کریں
بچہ اور کتایار م نے یاد کروایا ۔
ہاں تو اور بچے بھی ہو جائیں گے روح فوراً بولی تھی
ہاں کیوں نہیں بچوں کی فوج پیدا کر لیتا ہوں تاکہ تم پوری زندگی انہیں میں الجھ کر رہ جاؤ ایک دیا ہے نا اسی کو سنبھالو
کیا مطلب آگے جا کر ہمارے اور بچے نہیں ہوں گے پہلے روح ان باتوں پر شرما جاتی تھی لیکن جب سے رویام دنیا میں آیا تھا اسے رویام کے بھائی بہنوں کی فکر ہونے لگی تھی اس لئے وہ کھل کر یارم سے بات کرتی تھی
دیکھو روح مجھے بچے بہت پسند نہیں ہیں ایک آدھ بچہ ٹھیک ہے
ہم اس کو سنبھال سکتے ہیں اسے ایک اچھی ب زندگی دے سکتے ہیں اس کا خیال رکھ سکتے ہیں اور پوری طرح اس دھیان دے سکتے ہیں ۔
مجھے اور بچوں کی خواہش نہیں ہے روح ہمارا ایک ہی بچہ بہت ہے جس کا ہم خیال رکھ سکتے ہیں سنبھال سکتے ہیں یارم کا انداز سمجھانے والا ہرگز نہیں تھا
وہ جیسے حکم دے رہا تھا کہ اسے ایک ہی بچہ رکھنا ہے اور کوئی بچہ ہوگا ہی نہیں روح خاموش سی ہوگئی
جب کہ اس کی خاموشی کو نوٹ کرکے یارم نے اسے شاپنگ کی طرف لگانے کی کوشش کی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ کامیاب بھی ہو گیا وہ اسے بتا نہیں پایا تھا کہ وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی
رویام کی صورت میں اللہ نے ان کے نصیب میں اولاد لکھ دی یہی کافی تھا
یارم کے اندر نہ تو اور بچوں کی خواہش تھی اور نہ ہی وہ روح کی جان دوبارہ مشکل میں ڈال سکتا تھا وہ ایک بچے کے ساتھ بہت خوش تھا لیکن وہ روح کو یہ بات بتانا نہیں چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ ماں نہیں بن سکتی
وہ اسے کبھی بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونے دے سکتا تھااسی لیے اس پر اپنی مرضی ظاہر کی کہ وہ اور بچے نہیں چاہتا جبکہ روح اس چیز کو بعد پر رکھ کر ریلکس ہو گئی
°°°°°°°
وہ دونوں شاپنگ میں مصروف تھے
جب روح کا دیہان سامنے پارایک چھوٹے سے بچے پر گیا جو شاید اپنی ماں کے ساتھ آیا تھا اور یہاں پر آگے پیچھے کھیل رہا تھا شاید اس کی ماں شاپنگ میں مصروف تھی
وہ بہت کیوٹ سا تھاکبھی ادھر تو کبھی ادھر کھیلتا اور پھر شونو کو بھی اشارہ کرتا ہے
شاید اسے شونو پسند آ گیا تھا لیکن فی الحال شونو کو کسی بھی طرف جانے کی اجازت ہرگز نہیں تھی اور نہ ہی شونو خلدی کسی کے ساتھ گھلتا ملتا تھا
روح کو و وہ بچہ بہت پیارا لگ رہا تھا
اس کی عمر تقریبا تین ساڑھے تین سال تو ہوگی اس نے یارم کا دھیان بھی اس طرح دلوایا
وہ پیارا سا بچہ پسند تویارم کو بھی بہت آیا تھا
لیکن وہ کافی شرارتی لگ رہا تھا وہاں سب ہی لوگوں سے اس کی شرارتیں جاری تھی
جبکہ اس کے ماں ہر تھوڑی دیر میں اسے کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر واپس اپنے پاس لے کے آتی شاید اسے اس مال میں آنے کی عادت تھی اس لیے وہ یہاں کی ہر جگہ کو اچھے طریقے سے جانتا تھا
°°°°°
ان لوگوں کی شاپنگ کمپلیٹ ہوئی تو وہ واپسی کی راہ لینے لگے لیکن تھبی اوپر والی منزل سے آوازیں آنے لگیں وہ چھوٹا سا بچہ مارکیٹ کے دیوار سے لٹکا بس گرنے ہی والا تھا روح کی تو بے اختیار چیخ نکل گئی
یارم اس بچے کو دیکھیں وہ گر جائے گا سب لوگ چلا رہے تھے مارکیٹ کی وہ جگہ بالکل سنسان تھی اس طرف کوئی بھی نہیں تھا
شاید وہ بچہ اپنی شرارتوں میں وہاں پہنچ گیا تھا اور اب سب کو اپنی طرف متوجہ کر چکا تھا اس وقت وہ چیخ رہا تھا رو رہا تھا وہ خود اپنی مدد نہیں کر پا رہا تھا
جب کہ اس کی ماں نیچے سے مسلسل بس اتنا ہی کہہ رہی تھی کہ ہاتھ مت چھوڑنا میں آ رہی ہوں
لیکن اس سے پہلے کہ وہاں پر پہنچتی بچے کا ہاتھ چھوٹ کر نیچے لگے لوہے کے پائپ پر آ گیا
یہ جگہ دیوار سے بہت زیادہ دور تھی آسانی سے شاید ہی کوئی وہاں پہنچ پاتا اور نیچے کا فاصلہ حد سے زیادہ تھا
وہی اوپری منزل پر پاس کھڑا درک اسے بس دیکھے جا رہا تھا بالکل بچانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا
یہ وہ لمحہ تھا جب روح نے پہلی بار کسی سے بے انتہا نفرت کی تھی کوئی اتنا بے حس بے درد کیسے ہو سکتا تھا
کیا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ بچہ مر جائے گا وہ اس کے بالکل قریب کھڑا اس کی مدد کرنے کی بالکل کوشش نہیں کر رہا تھا لوگ چلا رہے تھے اس کی ماں پاگلوں کی طرح روتے ہوئے اسے بچانے کے لیے مدد مانگ رہی تھی
روح نے اپنے قریبی یارم کو ڈھونڈنا چاہا لیکن وہوہاں اسے کہیں نظر نہیں آیا اور پھر اس نے ایک بار پھر سے دھیان اس بچے کی طرف دیا تو اسے یارم وہی اوپری منزل پر اس بچے کو بچاتا ہوا نظر آیا
یارم کے ساتھ دو تین اور لوگ بھی تھے جو اس بچے کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے یارم اس دیوار سے کھود کر آگے پائپ کی طرف آیا اور اس بچے کو پکڑ کر اوپر کی جانب کھینچ لیا خو وہ دو بار گرتے گرتے بچا
سب نےسکون کا سانس لیا جب کہ بچے کی ماں رورو کر یارمکا شکریہ ادا کر رہی تھی یارم بے بس ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اپنے قدم روح کی جانب جانے بڑھا دیے
جب پیچھے سے آواز ایک یار م نے مڑکر دیکھا
بن گئے ہیرو ثابت کردیا کہ تمہارا دل بہت بڑا ہے لیکن تمہیں ملا کیا کچھ بھی نہیں لیکن اگر تم تھوڑا سا لیٹ ہو جاتے تو اس مارکیٹ کی تھوڑی بہت پبلسٹی ہو جاتی میڈیا والے پہنچنے ہی والے تھے لیکن تمہیں بہت جلدی تھی نہ اس کو بچانے کی مارکیٹ کے مالک کا تھوڑا بلاہی کروا دیتے
مالک اکیلے نہیں کھاتا تمہیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیتا
اتنا گرا پڑا نہیں ہوں میں اس شخص کے پاس بیٹھا رہوں گا اور اگر میں اسے نہیں بچاتاتو وہ بچہ نیچے گر جاتا یارم اسے کہتا ہواپھر آگے بڑھا
مرتا نہیں بس زیادہ سے زیادہ تھوڑی بہت چھوٹ آجاتی تمہیں ہیرو بننے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی وہ خاصا برا منائے ہوئے بولا اسے یارم کی یہ حرکت کو پسند نہیں آئی تھی لیکن نہ جانے اس کی باتیں سن کر روح کو اتنا غصہ کیوں آنے لگا
آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہاں موجود ہر شخص آپ کے جیسا ہے آپ کے جیسا بے درد بے حس احساس نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں آپ کے اندر وہ عورت کب سے چلائے جا رہی تھی اگر آپ اس کے بچے کو بچا لیتے تو وہ اتنی بری کنڈیشن میں جاتا ہی نہیں ۔آپ کو احساس ہے کہ وہ بچہ کتنا ڈرا ہوا ہے دیکھیں اسے کتنا سہما ہوا ہے وہ اس ڈر سے نکلتے ہوئے اسے سالوں لگ جائیں گے لیکن آپ کو تو شاید صرف پیسہ ہی نظر آتا ہے اور وہ اس کی ساری باتیں سن کرا سے احساس دلاتے ہوئے بولی
بالکل زندہ اور صحیح سلامت ہے بچہ کچھ نہیں ہوا اسے اور اس کا احساس مجھے نہیں اس کی ماں کو ہونا چاہیے جیسے شاپنگ کرتے ہوئے اپنے ہی بچے کا ہوش ہی نہیں لیکں تم اتنا اوور ریکیٹ کیوں کر رہی ہو تم تو ایسے تڑپ رہی ہو جیسے اس کا نہیں تمہارا بچہ لٹکا ہوا تھا جسے میں نے بچایا نہیں اور گر کر مر۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔اس کی بات ابھی ادھوری تھی کہ روح کا ہاتھ اُٹھا اور اس شدت سے اس کے چہرے پر آ کر لگا کہ وہ بے ساختہ اسے دیکھ کر رہ گیا
زبان سنبھال کر مسٹر خبردار جو میں بچے کے خلاف ایک لفظ بھی کہا
ہم اپنے بچے کی حفاظت خود کر سکتے ہیں ہمیں کم از کم آپ جیسے بے حس بے دل انسان کی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی
جس نے مدد آپ ہمارے کر چکے ہیں اتنا ہی شکریہ اللہ کرے مجھے دوبارہ آپ کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہو
وہ نہ تو اتنے بہادر تھی اور نہ ہی اتنی بے حس کے کسی کو اس طرح سے تھپڑ مار کر باتیں سناتی لیکن رویام اس کی زندگی میں کیا تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی اپنے بچے کے لئے ایسے الفاظ وہ تو کیا کوئی بھی ماں برداشت نہیں کر سکتی
کتنی دیر اسے گھورتا رہا اور اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اس تپش کو برداشت کرتا رہا
جبکہ اس کے بات پر یارم کو بھی اچھا خاصہ غصہ آ گیا تھا وہ روح کے اس قدم پر بالکل بھی حیران نہیں ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ رویام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتی
اس کے بچے کے خلاف اس کا باپ کوئی بات نہیں کر سکتا وہ تو پھر کوئی تھا
اتنے بڑے الفاظ مت بولو مسز روح یارم کاظمی زندگی میں کب کیا ہو جائے کسی کو پتہ نہیں چلتا
یہ دنیا بہت بری ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے کہ ایک دن تم میرے پاس آؤ
ہو سکتا ہے ایک دن ایسا آیا کہ تم مجھ سے مدد مانگنے کے لیے بے بس ہو جاؤ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن میں تم سے اس تھپڑ کا حساب مانگوں
آپنی غلط فہمی کو دور کر لو مسٹر یارم اس کے سینے پہ ہاتھ رکھے سے پیچھے دھکیلتے ہوئے بولا
روح کے لیے ابھی یارم زندہ ہے اور یارم کے ہوتے ہوئے روح کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی
اور آئندہ ایک ماں کے سامنے اس کے بچے کے لیے ایسے الفاظ مت کہنا ورنہ یہ تو روح تھی جس نے ایک تھپڑ مار کے چھوڑ دیا ایسی باتوں پر مائیں نسلیں اکھاڑکے رکھ دیتیں ہیں
تم شاید عورت کو سمجھ سکتی ہو لیکن ایک ماں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا
میری خواہش ہے آگے زندگی میں تمہیں کبھی نہ دیکھوں میں تمہارا شکرگزار ہوں تم نے میری روح کی جان بچائی ہے یہ احسان بھی تمہیں سری لنکا کی جیل سے نکال کر میں نے چکا دیا ہے
اب نہ تو کوئی احسان ہے اور نہ ہی تمہاری شکل دوبارہ دیکھنے کا خواہش مند ہوں دوبارہ ہمارے راستے میں مت آنا
کیونکہ ہم خون سے جڑے رشتوں سے زیادہ احساس سے جوڑےرشتوں کو نبھاتے ہیں
ایسے خون کے رشتوں کا کیا کرنا جن میں احساس نام کی کوئی چیز نہ ہو
جہاں احساس ہو وہاں خون کے رشتوں کی ضرورت نہیں پڑھتی
اور ہمارے پاس احساد کے رشتے ہیں خون کے رشتوں کی ضرورت نہیں ہے ہمیں میں اور میری بیوی کبھی بھی تمہیں دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے
چلے جاؤ اپنا بے حس اور مردہ دل لے کر ہماری زندگی سے یارم کا انداز اتنا بے درد تھا کہ نہ جانے کتنی دیر درک اسے زخمی نگاہوں سے دیکھتا رہا
ایک دن آئے گا یارم کاظمی خون کے رشتوں کی بھیک مانگنے آ وگے میرے در پر تب تمہیں کچھ نصیب نہیں ہوگا وہ اتنی کم آواز میں بولا کہ روح اس کی بات کو سن نہیں پائی تھی
گیٹ آؤٹ یارم چھبا چھبا کر بولا
اس نے ایک نظر روح کو دیکھا اور پھر شونوکو
جا رہا ہوں دوست اگر نصیب میں ہوا تو تم سے دوبارہ ملاقات ضرور کروں گا ۔لیکن جو ذمہ داری میں نے تمہیں دی ہے اسے ضرور نبھانا یاد رکھنا تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ شونو کو دیکھتے ہوئے اس انداز میں بولا جیسے وہ کوئی کتے سے نہیں بلکہ اپنے دوست سے بات کر رہا ہو
اور پھر وہ چلا گیا شونو دور تک اسے دیکھتا رہا اس نے اسے گھسیٹنے کی کوشش کی تو وہ چلنے کو تیار ہی نہیں تھا جب تک درک اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گیا تب تک اس نے وہاں سے اپنا قدم آگے نہیں ہٹایا تھا
نہ جانے کیا تھا اس شخص میں کہ شونواس کا اس قدر دیوانہ تھا
اور شونو سے اس طرح سے کیسے بات کر رہا تھا کون سی ذمہ داری دی تھی اس نے شونو کو اور کونسا وعدہ کیا تھا شونو نے اس کے ساتھ روح کو بالکل سمجھ نہیں آیا تھا
°°°°°
اس بات کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا مشارف کی سالگرہ بہت دھوم دھام سے کی گئی تھی
لیکن پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا شونو کو وہ نہ تو ٹھیک سے کھانا کھا رہا تھا اور نہ ہی اس کی کھیل کود پہلے جیسی تھی وہ ایک ہی جگہ اداس بیٹھا رہتا
یا پھر سارا سارا دن رویام کے قریب بیٹھا رہتا
روح سے تو وہ بالکل دور دور رہتا تھا وہ بلکل اس کے قریب نہ آتا جب بھی اس کے پاس آتی اس کے بال سہلاتی وہ کسی روٹھے ہوئے دوست اس کی طرح اٹھ کر باہر چلا جاتا روح کو یہ سب چیزیں بہت عجیب لگ رہی تھی وہ بہت پریشان تھی شونو کو لے کر
جب ایک دن معصومہ اس کا ماحول چینج کرنے اسے اپنے فلیٹ میں لے کر گئی ۔واپس آئی تو شونو بالکل نارمل تھا جیسے وہ پہلے ہوا کرتا تھا
وہ پہلے سے زیادہ روح کے قریب ہو چکا تھا وہ پہلے سے زیادہ اس کا خیال رکھتا تھا
تھا لیکن اس دن کے بعد وہ شخص انہیں کہیں نظر نہ آیا اور نہ ہی روح اس کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی اور نہ ہی اسے دوبارہ کبھی دیکھنا چاہتی تھی
پھر وہ اپنی زندگی میں مصروف ہو چکی تھی
کبھی یارم تو کبھی رویام اسے اور کسی چیز کا ہوش ہی نہیں تھا
اس کی زندگی بہت مصروف ہو چکی تھی اور بے حد حسین بھی ۔یارم اسکو شہزادیوں کی طرح رکھتا تھا اور وہ خود ایک شہزادے کی ماں تھی ۔
بے حد پیاراساڈمپل والا شہزادہ جس سے اس کاڈمپل والا شوہر بہت جلتا تھا اور وہ اسے اور جلاتی تھی
رویام ڈھائی مہینے کا ہو چکا تھا
اس کی شرارتیں بھی بھرنے لگی تھی
اس کی سب سے فیورٹ جگہ تھی روح کی گود اور اگر کھڑی ہو تو اس کے کندھے پر لٹکنا اس کا فیورٹ کام تھا اور یارم کو اس کی یہی چیز پسند نہیں تھی
ہاں لیکن روح کو تو اس کی کوئی بھی چیز نہ پسند نہیں تھی کہ اس کا ہر انداز ہی روح کی جان تھا
جب وہ یارم کے ساتھ پیار کرتا تھا تب بالکل اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن جب وہ روح سے پیار کرتا تھا اس کے ساتھ کھیلتا تھا اسے چپکتا تھا اسے تنگ کرتا تھا
اب اسےیہ چپکو بالکل اچھا نہیں لگتا تھا
وہ کوروح کو پیار کرتے ہوئے وہ وہ بار بار یارم کی جانب دیکھتا تھا
یارم کو یقین تھا کہ یہ جان بوجھ کر اسے جلاتے ہوئے یہ کام کرتا ہے
لیکن روح کے لئے اس کا بچہ بہت معصوم تھا نہ سمجھ سا۔
لیکن یارم نے اسے سمجھانا بھی چاہا تھا کہ وہ اتنا بھی نہ سمجھ نہیں ہےجتنا تم سمجھتی ہو لیکن اب تو روح کو ایک ڈائیلاگ مل گیا تھا آپ جلتے ہیں میرے بچے سے اس لیے ایسی باتیں کرتے ہیں
اور اس کے بات پر حیران ہو کر اگر یارم پوچھ لیتاکہ وہ بلا کس چیز سے چجے گا تو روح کے پاس جواب تھا
اس کا ڈمپل
آپ میرے بچے کے ڈمپل سے جلتے ہیں یار م تو اس کی باتوں پر عش عش کر اٹھتا
لیکن بعد میں جہاں اسے رویام اکیلے مل جاتا وہ اپنے خوب بدلے پورے کرتا تھا جیسے کہ اس وقت یارم کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ رویام بیڈ پر الٹا لیٹا ہوا سر اٹھائے شونوکو گھور رہا ہے
جبکہ شونو اس کے سامنے پتا نہیں کون سے کرتب پیش کر رہا تھا
اس نے ایک نظر روح کی جانب دیکھا جو کچن میں بہت مصروف لگ رہی تھی
اور پھر اس نے شونو کو اشارہ کیا
اس کا اشارہ سمجھ کر شونو کمرے سے باہر نکل گیا تھا
جب کہ یارم نے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور اپنے قدم بیڈ کی جانب بڑھ جائے
میرا پیارا بچہ بابا مسیڈ یو میرے شہزادے آہستہ آہستہ اس کی طرف قدم اٹھاتا ایک ہی ہاتھ سے تھام کر دبوچ چکا تھا ۔
وہ معصوم سی جان پوری طرح اس میں قید ہو کر رہ گئی
اور یارم بہت آرام سے اس کے گال پر اپنی داڑھی موچھ چھبوتے ہوئے خود اپنی جارحانہ محبت کا اظہار کر رہا تھا ۔
یارم کا دل تو چاہتا تھا کہ اسے کھا ہی جائے لیکن افسوس کہ وہ کوئی چوکلیٹ یا بریانی کی پلیٹ نہیں تھا لیکن یاتم کی نیت اس پر خراب ہی رہتی
جب تک وہ اپنے پر ہونے والے اس ظلم کو سمجھ کر رونا شروع کرتا یارم اپنا کام کر چکا تھا ۔
جب تک رویام نے چیختا چلاتا شروع کیا یارم رستہ صاف دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا
جبکہ اس کے چلانے پر روح بھاگتے ہوئے کچن سے کمرے کی طرف آئی تھی
جہاں وہ بیڈ پر الٹا لیٹا روئے جا رہا تھا روح فورا اس کے پاس آئی اور اسے آہستہ سے اٹھا کر اپنی باہوں میں بھرے اپنے سینے سے لگایا
بس میرا بچہ کیا ہوگیا اتنا رونا کیوں آ رہو ہو میری جان
اور یہ چہرہ کیوں اتنا سرخ ہو گیا وہ اس کے چہرے پے ہاتھ پھیرتے پریشانی سے بولی
یارم کے ساتھ شونو بھی کمرے میں داخل ہوا
کیا ہوا روح کیوں رو رہا ہے میرا شہزادہ یارم اس کے پیچھے پریشانی سے بولا
ارے یارم اب آپ آگئے پتہ نہیں شاید اکیلے کمرے میں ڈر گیا ہے
شونق تو اس کے پاس ہی تھا شاید شونو سوسو کتنے باہر گیا ہوگا وہ رویام کو اپنے سینے سے لگاتی شونو کو دیکھ کر بولی
رویام آہستہ آہستہ روح سے یارم کی خوب ساری شکایت کر رہا تھا یہ الگ بات تھی کہ روح ابھی اس کی شکایتوں کو سمجھ نہیں سکتی تھی ورنہ یارم کی شامت ضرور آتی
جب کہ یارم اس وقت بالکل معصوم بنا اس کے ساتھ بیٹھا پریشانی سے رویام کی پیٹھ سہلا رہا تھا
کوئی بات نہیں میرا شہزادہ اس میں رونے والی کونسی بات ہے وہ بالکل نارمل انداز میں اسے بہلا رہا تھا
°°°°°°°°
یارم میں آپ کے لیے بریانی بنا رہی ہوں دمادےلے کے آئی ہوں بس چولہے سے اتارا باقی ہے اب رویام کو یہ دودھ پلا دیجئے وہ دودھ کی بوتل اس کے ہاتھ میں پکڑ آتی واپس باہر کی طرف جانے لگی
جب کہ اس کی بات سن کر یارم نے بیڈ کی جانب دیکھا اور پھر یارم کے ڈمپلز روشن ہوئے تھے ۔
روح بے چاری اپنے معصوم بچے کو شیر کی کچھار میں چھوڑ کر جا چکی تھی
لیکن پھر اس سے پنگا لینے سے پہلے اسے کھلانا پلانا بہتر سمجھا اب اس کا ننھا سا دشمن سے مقابلہ کرنے سے پہلے کچھ کھا پی لے یہی بہتر تھا
میرا شہزادہ دودھ پئے گا وہ مسکراتا ہوا بیٰ کی جانب آیا
جب شونو اچانک راستے میں آ گیا
ابھی دو دن پہلے ہی تو یارم نے اس کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا تھا جس میں شونونے بھی اس کا ساتھ دیا وہ اس بچے پر اس طرح کا ظلم مزید ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا
شونو یار کیا ہوگیا ہے تجھے تو بے کار میں پریشان ہو رہا ہے میں تو رویام سے دو چار باتیں کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں
ارے یار وعدہ کرتا ہوں اس کے ساتھ کچھ گربڑ نہیں ہوگی بس باتیں کروں گا اور گال کو چھونوں گا بھی نہیں وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا شونو پر وہ زیادہ بھروسہ نہیں کر سکتا تھا
روح کا یہ چمچا کب اس کی ساری باتیں روح کے کانوں میں ڈال دے اسے کچھ پتہ نہیں تھا اور یہ تو روح کو اپنی باتیں سمجھابھی سکتا تھا
اس کے باتپر یقین کرکے شونو اس کے قریب سے ہٹ گیا اور یار م بنا کسی شرارت کے رویام کے پاس آ بیٹھا
میرا شہزادہ بیٹا نرمی سے اس کے گال چھونے لگا
بھائو۔ ۔۔۔شونو نے بھونک کر اسے احساس دلایا کہ وہ بھی یہی ہے
ارے کچھ نہیں کر رہا میں اب کیا اپنے بیٹے کو پیار بھی نہ کروں وہ اسے گھورتے ہوئے دودھ کی بوتل کا ڈھکن اتار کر کے منہ میں رکھ چکا تھا
جب کہ نظریں بار بار کبھی اس کے گال تو کبھی ننھے ننھے ہاتھ پاوں اوپر جا رہی تھی
رویام یار تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور قسم سے تجھے بہت سارا پیار کرنے کو دل کرتا ہے لیکن میرا پیار تیری ماں نہیں سہہ سکتی تو کیسے سہے گا
اور میری روح کےاتنے پاس مت جایا کر وہ کیا ہے نا جب تو روح کے پاس جاتا ہے اس سے پیار کرتا ہے اس سے پیار لیتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ تو میرے مقابلے پر اتر آیا ہے اور پھر تیری صحت دیکھ کر تجھ سے مقابلہ کرنے پر بھی دل گھبرانے لگتا ہے
اب تو ہی بتا میں کیا کروں
اپنی صحت کا تھوڑا خیال رکھا کر اب تو یارم کاظمی کے مقابلے پر اترا ہے تجھے ہر وقت تیار رہنا ہوگا مقابلے کے لئے وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے گال کی طرف جھکنے لگا
بھائو۔ ۔۔۔۔۔شونو کی آواز ایک بار پھر سے اس کا راستہ روک گئی
ہاں پتا ہے تو یہی ہے اس کا بوڈی گارڈ ۔بندہ اپنے ہی بچے کو پیار نہیں کر سکتا
وہ سسے گھورتے ہوئے بولا
جب کہ شاید اسے یہ سمجھانا چاہتا تھا سے پیار کرنے اور ظلم کرنے میں فرق ہوتا ہے
°°°°°°°°°
جیسے جیسے رویام بڑا ہو رہا تھا یارم کا گھر سے نکلنے کا دل بھی نہیں کرتا تھا ہر وقت اس کے ساتھ شرارتیں مستیاں کرتے رہنا اسے بہت پسند تھا
اب تو روح نے بھی اسے اس پر ظلم کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا وہ بھی رنگے ہاتھ اب و بھی اسے یارم کے ساتھ اکیلا بالکل نہیں چھوڑتی تھی ۔
اگر یارم کو اس سے پیار کرنا تھا تو اسے سب کے سامنے ہی کرنا ہوگا
یہ روح کا فیصلہ تھا
اب اسے یارم پر بالکل بھروسہ نہیں تھا
وہ اس کے معصوم بچے کو اپنے پیار کا وہ وہ ڈائقی چھکا چکا تھا کہ روح کو اپنے بچے پر ترس آنے لگا تھا
°°°°°°°°°
یارم ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ آفس سے واپس آیا تھا اس وقت وہ نہا رہا تھا
روح بیڈ پر اسے دودھ پلاتے ہوئے اس سے باتیں کرتے اس کا ننھا سا چہرہ دیکھ رہی تھی
ویسے یارم کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی وہ اس کی ٹماٹرجیسے گال دیکھ کر بے بس ہو جاتا تھا اور پھر اپنے انداز میں جب رویام کو پیار کرتا تو رویام بیٹھ کر رونے لگ جاتا
جبکہ روح کو تو بعد میں اپنے بیٹے کے گال سہلا سہلا کر لال سے سفید کرنے پڑتے تھے اور اس دوران رویام یارم کی وہ شکایتیں لگاتا جسے نہ سمجھتے ہوئے بھی روح اسے دلاسے دیتی تھی کہ اب بابا رویام کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے
وہ نہا کر باہر نکلا
روح یہ دیکھو شرٹ کا بٹن ٹوٹا ہوا ہے
شرٹ بیڈ پر پھینکتے ہوئے وہ اسے دکھا رہا تھا
یارم یہ شرٹ تو میں اس بار لائی تھی اس کا بٹن کیسے ٹوٹ گیا وہ رویام کو بیڈپر رکھتے ہوئے اس کی شرٹ دیکھنے لگی یہ تو پرسوں ہی وہ لے کر آئی تھی یہ تو یار م نے ایک بار بھی نہیں پہنی تھی
اچھا اب ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا اتنے اچھے سے نہیں انہوں نے لگائے ہوتے چلو جلدی سے اس کا بٹن لگا دو یارم لمبی بحث میں پڑے بغیر شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا
آپ کوئی اور پہن لیں نا میں صبح اس کے سارے بٹن پکے کر دوں گی روح نے شرٹ پتہ کر کے کہا
نہیں ابھی کرو ابھی مطلب ابھی کے ابھی مجھے یہی پہنی ہے وہ ضد کرتے ہوئے بولا
اچھا بابا ٹھیک ہے میں ابھی کر دیتی ہوں روح اس کی بات مانتے ہوئے اس الماری کی جانب آئی جب پیچھے سے اچانک رویام کی زور دار چیخ کے ساتھ رونے کی آواز سنائی دی
وہ یارم کے قبضے میں بری طرح سے مچل رہا تھا
جب کہ یارم اس کے گال پر اپنے دارھی اور مونچھ سے اچھا خاصہ ظلم کرتا اسے اپنے جارحانہ پیار کا مظاہرہ کر رہا تھا
روح بھاگتی ہوئی بیڈ پہ آئی لیکن اس سے پہلے کہ یارم وہاں سے اٹھ کر باہر کی جانب بھاگ چکا تھا
یا اللہ یارم آپ کب سدھریں گے ہائے میرا معصوم بچہ روح فورا اسے اپنے سینے سے لگاتی اس کی شکایت سننے لگی
جب کہ اب مزے سے باہر رہا تھا
میرے معصوم بچے مجھے معاف کر دینا داڑھی مونچھ کے بغیر میں تیری ماں کو اچھا نہیں لگتا داڑھی موجچھ کے ساتھ تجھے نہیں
اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے تجھے ساری زندگی اپنے باپ کا پیار یوں ہی سہنا ہوگا
وہ اونچی آواز میں روح کو سناتے ہوئے بول رہا تھا
اب آپ ہاتھ لگا کر دیکھائیں میرے بچے کو پھر دیکھنا میں کیا حال کرتی ہوں روح اسے اپنے ساتھ لگائے بہلا رہی تھی جبکہ یارم کی باتیں اسے مزید تپارہی تھی
بیٹا پلیز دودھ پی لو میں وعدہ کرتی ہوں اب سے بابا آپ کے پاس بھی نہیں آئیں گے اور نہ ہی ان کا جارحانہ پیار سہنا پڑےگا میرے بچے کو۔ ۔۔"
یااللہ ذرا رحم نہیں آتا اس شخص کو میرے معصوم بچے پر
ہر کسی کو اپنی طرح سٹون مین بنا سمجھا ہوا ہے
کیا حالت کر دی میرے معصوم شہزادے کی وہ اس کے گال سہلاتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی جو اب تک سوں سوں کر رہا تھا
روح کو اس کی حالت پر بہت ترس آ رہا تھا لیکن وہ اپنے معصوم سے بچے کو اپنے ظالم اور جابر شوہر سے بچا نہیں سکتی تھی ۔
رویام زرا سابہتر ہوا تو وہ اسے بیڈ پے رکھتی فریش ہونے چلی گئی
یارم نے کمرے میں قدم رکھا تو رویام کو بیڈ پر اکیلے کھیلتا ہوا پایا اس کی آنکھیں ایک بار پھر سے روشن دیے کی طرح چمک اٹھی تھی ۔
لپک کر اس کے قریب بیڈ پر آیا رویام کی کشش تھی جو اسے اپنی طرف کھینچتی تھی اسے دیکھ کر یارم خود پر صبر ہی نہیں کر پاتا تھا
اس سے پہلے کہ وہ پھر سے جھک کر اس پر کسی قسم کا کوئی تشدد کرتا اس کے سرخ گال دیکھ کر اسے پر ترس آ گیا
میرا بچہ یہ کس نے کیا میرے بچے کے ساتھ ایسے کون پیار کرتا ہے بابا کو بالکل پیار کرنا نہیں آتا لیکن کوئی بات نہیں بابا آہستہ آہستہ پیار کرنا سیکھ جائیں گے یا پھر میرے شہزادے کو اپنے بابا کاپیار سہنے کی عادت پر جائے گی
یارم بے حدنرمی سے کا گال چوم کر پیچھے ہٹا ۔
یارم نہ کرے پلیز وہ اتنی مشکل سے چپ ہوا ہے
آپ کا بس چلے تو اس سے کھا ہی جائیں بلکہ آج تو آپ نے کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ۔روح یارم کو منع کرتی تقریبا بھاگتی ہوئی بیڈ پر آئی تھی
دیکھو بیگم ایک بات کان کھول کر سن لو یہ میرا بھی بچہ ہے اور اسے میں بھی پیار کرنے کا پورا حق رکھتا ہوں
اب مجھے نہیں آتا تمہارے جیسا پیار تو میں کیا کروں میرے پیار کرنے کا ایک الگ طریقہ ہے الگ انداز ہے
جو ابھی رویام کو سمجھ نہیں آتا اسی لیے وہ رونے لگتا ہے
تمہیں مجھے موقع دینا چاہیے اور رویام کو وقت دینا چاہیے تاکہ اسے سمجھ میں آئے کہ یہ اس کے باپ کے پیار کرنے کا طریقہ ہے
یار م سخت لہجے میں اسے سمجھا رہا تھا جب کہ نظروں سے شرارت صاف جھلک رہی تھی
آپ کے پیار کرنے کا طریقہ اتنا جارحانہ ہے کہ میرا بچہ برداشت نہیں کر سکتا
ہاں بالکل اسے اپنی طرح نازک بنا دو آج آج کو اسے کپڑے بھی لڑکیوں کے پہنا دیے یہ لڑکا ہے روح کم ازکم اس کے کپڑے تو بلو کلر کے ہونے چاہیے
حد ہے یارم کسی چیز کی حد ہوتی ہے آپ کو دو ہی کلر زندگی میں پسند ہیں ایک نیلا اور دوسرا سرخ سرخ مجھے پہنا پہنا سرخ کر دیا ہے اور اب نیلا اسے پہنا پہنا کر نیلا کر دیں گےروح اس کی بات سن کر جلدی سے بولی تھی
یارم نے تو اس پر اچھی خاصی پابندی لگائی ہوئی تھی وہ زیادہ تر ریڈ کلر کے کپڑے پہنتی تھی کیونکہ یارم اس کے لیے اپنےپسند کے کپڑے لاتا تھا اور تقریباً سارے ہی ریڈ کلرکے ہوتے
لیکن رویام کے معاملے میں وہ بالکل کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتی تھی
اس کے لیے وہ ہر رنگ کی چیزیں لاتی کھلونے کپڑے یہاں تک کہ اس کے دودھ کی بوتل بھی ہر کلر میں تھی رویام پر یار م کی کم ہی چلتی تھی
اور یار م کو اس بات پر زیادہ اعتراض بھی نہیں تھا
رویام کو رنگوں کو جینے کی پوری آزادی تھی لیکن روح اسے سرخ میں ہی اچھی لگتی تھی ایک تو سرخ کلراس کی نظروں کی ٹھنڈک تھا اور دوسرا روح پر یہ کھلتا بھی بہت زیادہ تھا
اچھا ٹھیک ہے بابا جو مرضی پہناؤ میں کہاں روک رہا ہوں یارم فوراً مان گیا
ہاں تو میں کون سا آپ کی بات مانوں گی روح بھی اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نخرے دکھاتی بولی
رویام میری جان دودھ پی لو نہ بیٹا
یارم میں کب سے اسے دودھ پلانے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن پہلے کتنے ہی دیرروتا رہا اور اب یہ دودھ نہیں پی رہا نے پریشانی سے کہا تو یارم جو آرام سے بیڈپے لیٹا تھا اٹھ کر بیٹھ گیا اور روح کی گود سے رویام کو لے کر اپنی گود میں رکھا
وہ اس لیے کیونکہ آج رویام نے اپنے بابا سے بات ہی نہیں کی کیوں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا
یارم آپ اس کے ساتھ لاڈ بعد میں کر لیجئے گا پہلے سے دودھ پلائیں نا ۔اسے دودھ پئے ہوئے چار گھنٹے سے زیادہ وقت ہوچکا ہے اب تو اسے بھوک لگی ہونی چاہیے بہت تنگ کرنے لگا ہے مجھے روح منہ بنائے بولی اور یارم ہاں سر ہلاتا اس کا ننھا سا چہرہ دیکھنے لگا جس کا سارا دھیان اسی کی جانب تھا۔
شاید وہ بھی محسوس کر چکا تھا کہ وہ اس وقت اپنے دشمن کی باہوں میں ہے اسی لئے اس کا منہ پھرسے بن گیا وہ رونے کی مکمل تیاری کر چکا تھا
اس کا ننھا سا نیچلا ہونٹ اوپرےہونٹ کو چھپا کر باہر آ چکا تھا
رویام کے ہاتھ میں اب تک روح کا دوپٹہ پھنسا ہوا تھا اس نے بہت زور سے اس کے دوپٹے کو پکڑا ہوا تھا روح دودھ کی بوتل یارم کے حوالے کر چکی تھی
جب کہ یارم اب مصروف ہو چکا تھا
تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے لڑکے ۔۔۔۔!کیوں میری بیوی کو اتنا تنگ کرتے ہو اس کے پاس آتے ہی تمہارے ڈرامہ شروع ہو جاتے ہیں مجھے میری بیوی کے ساتھ چپکنے والے لوگ بالکل پسند نہیں ہیں
آئندہ اس کے پاس آتے ہی تم نے یوں رونا شروع کیا نا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا تم جانتے نہیں ہو مجھے دبئی کا ڈان ہوں میں
لوگ مجھے ڈیول کے نام سے جانتے ہیں وہ رویام پر جھکا اسے اپنی پاور دکھانے کی کوشش کر رہا تھا شاید وہ اس وقت یہ بھول چکا تھا کہ جسے وہ ڈرا رہا ہے کوئی عام انسان نہیں بلکہ سید رویام طاظمی ہے
یارم کے اس طرح سے ڈرانے پر وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگا اس کھلکھلاہٹ پر اس نے روح کو دیکھا تھا جو خود بھی ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی
کتنی بداخلاق اولاد ہے بابا بات کر رہے ہیں اور یہ جناب ہنس رہے ہیں ۔
یارم چاہ کر بھی اپنی ہنسی کو چھپا نہ پایا
اسے نرمی سے پیار کرتے ہوئے یارم نے دودھ کی بوتل اس کے لبوں سے لگائی تو وہ خاموشی سے شریف بچے کی طرح دودھ پینے لگا
یار م آپ میرے بچے کو اس طرح سے کیوں ڈانٹ رہے تھے اسے دودھ پیتے دیکھ کر روح کو بھی دنیا جہان کا کچھ ہوش آیا تو تھوڑی دیر پہلے یارم کے ڈرانے پر اس کا دھیان گیا
میں نے کب ڈانٹا روح۔۔۔وہ تو میں اسے سمجھا رہا تھا کہ تمہیں تنگ نہ کیا کرے اور تم سے زیادہ نہ چپکاکرے کیونکہ اس کام کے لیے اس کا باپ ہے
رویام کو غنودگی میں جاتے دیکھ کر یارم نے نرمی سے اسے کاٹ میں لٹایا اور ذومعنی انداز میں کہتا رہ کے پاس آیا ایک ہی جھٹکے میں سے کھینچ کر بیڈ پر گرایا
احساس ہے مجھے تمہارا سارا دن اس کے لیے بھاگتے بھاگتے تھک جاتی ہو اور رات کو میں تھکا دیتا ہوں
اسی لئے سوچا کہ کیوں نہ اپنی اولاد کو تھوڑا سا سبق سکھاؤں اسے بتاؤں کہ ماں کو تھوڑا آرام بھی کرنے دینا چاہیے آخر اولاد کے اندر تھوڑا سا احساس بھی ہونا چاہیے وہ اس کی گردن پر لب رکھتا شرارتی انداز میں بولا ۔
یہی احساس شوہر صاحب کے اندر بھی تو جاگ سکتا ہے وہ تھوڑا سا احساس کر لیں اور رات کو آرام کرنے دیں روح نے ساری بات اس پر ڈالتے ہوئے اس کی گردن میں اپنی باہیں ڈالیں
نہیں یار تمہارا شوہر بہت بے رحم ظالم و سفاک انسان ہے وہ تم پر تو بالکل ترس نہیں کھا سکتا اور اس معاملے میں تو بالکل بھی نہیں ۔جتنا پیار تم سارا دن رویام کو دیتی ہواتنا پیار تمہیں ساری رات مجھے دینا ہوگا
اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو اس گھر میں جنگ ہوگی میری اور تمہارے بیٹے کی۔اگر تم پر اس کا حق ہے تو میرا بھی ہے
اور میرا حق زیادہ ہے کیونکہ میں پہلے تمہاری زندگی میں آیا ہوں
بلکہ اسے تو لایا بھی میں ہوں
تو تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم اپنی ہر رات کا حسین وقت میرے نام کر دو صرف میرے نام تمہارا سارا دن تمہارا بیٹا اور رات میری میں جیسے چاہوں اپنا پیار وصول کروں تمہں مزاحمت یااعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
تمہیں بس مجھے محسوس کرنا ہے
اپنی آتی جاتی سانسوں کو میرے نام کرنا ہے وہ اس کی گردن کو چومتے ہوئے اس کی تھوڑی پر اپنے لب رکھ چکا تھا ۔
اور اب وہ اپنے انداز میں اس طرح اپنا پیار اپنا حق جتاتا رہا تھا
جب کہ روح بنا کسی مزاحمت کے اس کے گرد باہوں کاحصار کھینچتی اس کے لبوں کا لمس اپنے لبوں پر محسوس کر رہی تھی ۔
رویام خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا جبکہ روح پل پل یارم کی باہوں میں پگھلتی اپنا آپ پھولوں سے بھی زیادہ نازک محسوس کر رہی تھی۔
وہ پل پل شکر ادا کرتی تھی اپنے رب کا جس نے اسے اتنی حسین زندگی دی تھی اس کا ایک ایک پل کسی حسین خواب جیسا تھا جس خواب سے وہ کبھی بھی جاگنا نہیں چاہتی تھی
°°°°°
رویام چھ ماہ کا ہوا تو رمضان شروع ہوگیا یہ رمضان بھی ان کی زندگی کا بے حد اہم رمضان تھا کیونکہ رویام کی پہلی عید آ رہی تھی
جس کو وہ دونوں ہی یادگار بنانا چاہتے تھے لیکن یارم کا کام بھی بڑھ چکا تھا
جتنی حسین اس کی دنیا ہوچکی تھی شاید اتنی ہی بدترین دوسری دنیا بھی تھی
آئے دن جوان لڑکیوں کے ریپ ان کو غلط کاموں پر لگانا
اور پھر جو ان لڑکوں کا نشے میں دھت ہو کر ان نشے کو دنیا میں پھیلانا
اپنے ہی وطن کے ساتھ غداری کرنا اپنے ہی لوگوں کو دھوکا دینا ہر شخص چہرے رکھتا تھا
سارا دن ایسے ہی لوگوں کے ساتھ گزار کے جب وہ شام اپنے گھر جاتا تو اسے سکون ملتا تھا
روح کےبغیر تو وہ اپنی زندگی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن رویام نے اس کی زندگی میں آ کر اس کی زندگی کو بے حد سکون بخشا تھا
رات کو اپنا سارا کام ختم کرکے وہ کافی دیر سے گھر واپس آیا تھا ۔
اس کے بعد کمرے میں آیا تو رویام روح کے ساتھ بڑے مزے سے گہری نیند سو رہا تھا ۔
تھوڑی ہی دیر میں سحری کا وقت شروع ہو جانا تھا اسی لیے سونے کا مقصد ہی نہ تھا وہ خاموشی سے اٹھ کر سٹڈی میں آگیا ۔
اور اب تقریبا پونے گھنٹے کے بعد روح کو جگانے آیا تھا ۔
ان چند سالوں میں اس کی زندگی کتنی حسین ہو گئی تھی ۔دن رات گناہوں کی دنیا میں رہتے ہوئے وہ جب اپنی پرسکون فیملی کو دیکھتا تھا اسے اپنی ساری تھکاوٹ ختم ہوتی محسوس ہوتی ۔
رویام کی ننھی ننھی شرارتوں نے ان کے گھر کو جنت بنا دیا تھا ۔
رویام کے بس ایک ہی عادت سے یارم چڑتا تھا اور وہ یہ تھی کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے روح کا دیہان کبھی یارم کی طرف نہ جانے دیتا ۔
وہ چھ ماہ کا بچہ ضرورت سے زیادہ ہوشیار تھا ۔اب تو روح بھی کہنے لگی تھی یارم آپ کے ڈمپلز سے زیادہ پیارے میرے بیٹے کے ڈمپل ہیں ۔
پھر کیا تھی جلن کی انتہا ہوگئی یارم میں جو ایک کوالٹی روح کو نظر آتی تھی وہ بھی اب اس کے بیٹے میں تھی ۔
وہ خاموشی سے اس کی سائیڈ آیا اور اسے جگانے لگا ۔
روح سحری کا وقت ہو چکا ہے ۔
اس نے محبت سے جگایا تھا ۔
لیکن روح کوجاگنے سے پہلے نہ جانے کیسے اس کا بوڈی گارڈ جاگ گیا ۔
یارم کا ہاتھ اپنے ماں کے کندھے پر دیکھتے ہی اس کا الارم بجنے لگا ۔
رویام یار میں کچھ نہیں کر رہا ہوں تیری ماں کے ساتھ صرف سحری کے لیے جگا رہا ہوں اسے گلا پھاڑ کے روتا دیکھ کر وہ روح اس سے الگ ہوا ۔
یار کیا ہوگیا ہے تجھے صرف تیری ماں نہیں ہے میری بیوی بھی ہے قسم سے میری بات پر یقین کر لے یار م نے دہائی دیتے ہوئے کہا جبکہ رویام گلہ پھاڑے رونے میں مصروف تھا
رویام کو روتے ہوئے سن کر روح کی آنکھ کھل چکی تھی
یارم میرا بے بی کیوں رو رہا ہے ۔۔۔؟
وہ رویام کو اپنے سینے سے لگائے اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی
میں نے کچھ نہیں کیا روح تمہارا یہ چوکیدار مجھے تمہارے قریب محسوس کرتے ہی جاگ آیا اور پھر ہونے لگا ۔
یار م نے فوراً اپنی صفائی پیش کی تھی ۔
یہ شاید دنیا کا واحد بچہ تھا جو اپنے باپ کو اپنی ماں کے قریب نہیں آنے دیتا تھا اور یارم کا واحد دشمن جو اسے روح سے دور رکھتا تھا اور جس کا یار م کچھ نہیں اکھاڑ سکتا تھا ۔وہ خود بھی اس سے بہت محبت کرتا تھا
آپ نے ضرور ڈانٹا ہوگا یا گھور کے دیکھا ہوگا اسے آپ کو پتہ ہے نہ آپ کے اس طرح سے دیکھنے سے وہ روتا ہے ۔
روح اسے چپ کراتے ہوئے بیڈسےاٹھی
یار میں نے کچھ نہیں کیا میں سچ کہہ رہا ہوں یہ اپنے آپ رونے لگا ۔
اچھا تو اب آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میرا بچا روتو ہے ہر وقت روتا ہے ۔روح اسے گھورتے ہوئے بولی
نہیں روح میرا یہ مطلب نہیں ہے ۔میں بس یہی کہہ رہا ہوں کہ میں نے کچھ نہیں کیا یہ خود ہی رو رہا ہے ۔
ہاں بالکل آپ تو کچھ کرتے ہی نہیں ہیں جو کچھ کہتا ہے میرا معصوم بچہ کرتا ہے ۔
روح یہ باقی معصوم بچوں کی طرح معصوم نہیں ہے یہ بہت تیز ہے یارم نے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی ۔
واہ واہ آپ کو میرا چھ ماہ کا معصوم سا بچہ تیز لگتا ہے ۔
اور خود پینتس سال کے ہوگئے ہیں اپنی حرکتوں پر کبھی غور نہیں کیا ۔آپ نے خبردار جو اپ نے میرے معصوم بچے کو یہ ان نگاہوں سے دیکھا بھی تو روح نے اسکی آنکھوں کی طرف بھی اشارہ کیا
کون سی نگاہوں سے روح ۔۔۔۔؟
ان نگاہوں سے جن سے آپ میرے معصوم بچے کو دیکھ رہے ہیں ۔
رویام ڈر جاتا ہے یارم ۔
بےبی تمہارا بیٹا ڈرتا نہیں تمہارا بیٹا ڈراتا ہے ۔
یارم نے بے بسی سے اسے سمجھانا چاہا وہ بنا کسی غلطی کے گناہگار ٹھہرایا گیا
یارم میں اس وقت لڑ نہیں سکتی وقت کم ہے مجھے سحری بنانی ہے وہ فریش ہو کر کچن کی طرف چل دی ۔
وہی میز کے ساتھ رکھی چھوٹی کرسی پر رویام کو بٹھایا اور خود سحری بنانے میں مصروف ہوگئی ۔
یارم بھی فریش ہو کر نیچے رویام کے سامنے والی چیئر پر بیٹھا تو رویام گھورنے لگا ۔
بدلے میں یار م نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر کھلکھلاکر مسکرا رہا تھا ۔
اس کے گالوں پر پڑنے والے ڈمپلز دیکھ کر یارم بے اختیار مسکرایا
اس وقت اسے اپنے بچے پر ٹوٹ کر پیار آ رہا تھا اپنے ڈمپلز کی نمائش کرتا نرمی سے ہنستا وہ اسے بھی معصوم بچہ لگ رہا تھا اس وقت یارم بھول گیا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے اس شیطان نے اپنی شیطانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے خوب ڈانٹ پلائی ہے
یارم غیر محسوس انداز میں کرسی سے اٹھ کر رویام کے پاس آیا ۔اس کے اس طرح سے اپنے قریب آنے پر رویام اسے گھور کر دیکھنے لگا جب یارم نے اس کا ننھا سا چہرہ تھام کر اپنی جارحانہ محبت کا اظہار کیا ۔
اور اس کے بعد رویام کا ایسا باجا بجا کہ روح بوکھلا کر اس کی طرف آئی ۔
اور اسے اٹھا کر پیار کرنے لگی جبکہ یارم مسکراتا ہوا کچن سے باہر نکلا تھوڑی دیر پہلے اسے پڑنے والی ڈانٹ کا بدلا تو رویام کو جارحانہ پیار کرکے وہ ویسے بھی لے ہی چکا تھا
روح بس اس کی پیٹھ کو گھور کر رہ گئی وہ اس وقت اس سے بحث نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ سحری ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا ۔
رویام کو وہ بہت مشکل سے اسے چپ کرانے میں کامیاب ہوئی تھی وہ اسے دوبارہ سے کرسی پر بٹھا کر ایک بار پھر کھانا بنانے لگی
رووو۔۔۔۔۔روو۔۔وہ چائے بنانے میں مصروف ہوئی تو اسے پیچھے سے رویام کی آواز سنائی دی
وہ پہلی بار بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ تو خوشی سے پھولے نہ سمائی
اللہ میرا بچہ پہلی بار کچھ بول رہا ہے یارم یارم جلدی آئیں تو رویام نے مجھے پکارا جلدی آئیں کیا ہوگیا ہے وہاں باہر کیا کر رہے ہیں
وہ خوشی میں اس قدر دیوانی ہو رہی تھی کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ تھوڑی دیر پہلے یارم کی حرکت نے اسے غصہ دلایا تھا اور وہ اس سے ناراض بھی ہو رہی تھی
کیا ہوا ہے روح اتنی خوش کیوں ہو رہی ہو وہ کچن میں داخل ہوا تو اسے خوش ہوتے دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا
یارم رویام نے ابھی مجھے پکارا ابھی اس نے مجھے بلایا یارم میں سچ کہہ رہی ہوں وہ اتنی خوش تھی کہ انتہا نہ تھی۔
میں جانتا ہوں وہ چھ ماہ کا ہو چکا ہے ابھی اسے باتیں کرنی شروع کرنی چاہیے
شہزادے ایک بار میرے سامنے بھی اپنی ماں کو پکارو یام اس کے سامنے بیٹھے ہوئے کہنے لگا لیکن وہ منہ بنا کر ہاتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے میز پر ہی لیٹ گیا
اور بقول یارم اب وہ نکمی اولاد کا ثبوت دیتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں وہ نیند میں بھی اتر چکا تھا
انتہائی بدتمیز اولاد ہے روح میں بول رہا ہوں تمہیں وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھا تے ہوئے سینے سے لگا کر بولا ارادہ اسے کمرے میں چھوڑ کر آنے تھا جبکہ روح اس کی شکل دیکھ کر کھلکھلا کر ہنسی
وہ مانتی تو نہیں تھی کہ اتنا چھوٹا سا بچہ اپنے باپ سے دشمنی مول لے سکتا ہے لیکن اب اسے بھی لگتا تھا کہ رویام یارم کا دشمن بن گیا ہے وہ یارم کی مرضی کا کوئی کام نہیں کرتا تھا
روح اور یارم اس وقت اسے سامنے بیٹھائے اسے دیکھ رہےتھے
روزہ کھولنے میں ابھی کافی وقت تھا یارم رمضان میں ٹائم پر گھر آنے کی کوشش کرتا تھا اور آج اتفاق سے وقت پر آ بھی گیا تھا
رویام دیکھ اگر تو نے بابا نہیں بولا نا تو میں تجھے کھا جاؤں گا وہ مصنوعی غصے سے بول رہا تھا
اورکب سے اس کی منتیں کر رہا تھا کہ وہ اسے ایک بار اسے بابا کہہ کر بلا لے
اتنے نخرے دکھانے کی ہمت آج تک کسی میں نہیں ہوئی تھی
اتنے نخرے دکھانے والے کی اکڑیارم ایک پل میں خاک کر دیتا تھا لیکن آج سامنے رویام تھا
لیکن اب اس نے وقت سے سمجھوتا کر لیا تھا اس کے نصیب میں ہی نکمی اولاد ہےتو اس کا کیا قصور
یارم ایسے نہیں بچوں سے پیار سے بولوایا جاتا ہے اتنے غصے سے نہیں اور آپ کا روزہ ہے آپ سے کھائیں گے کیسے ۔۔؟ وہ اسے رویام پر غصہ کرتے دیکھ برا مناتے ہوئے بولی
یارم نے گھور کر اسے دیکھا وہ اسے یاد کروا رہی تھی کہ اس کا روزہ ہے جیسے وہ سچ مچ میں اسے کھانے جا رہا ہو
رویام بیٹا بتاؤ بابا کے سامنے بولو کہ رویام کیسے بولتا ہے رویام ابھی بولے گا ماما ۔۔۔۔
ماما نہیں پہلے بابا بولے گا شاباش میرا بچہ ابھی بابا بولے گا
یارم کا بازو پکڑ کر اسے پیچھے کرتے ہوئے رویام کے مزید قریب کھسکا
کیوں بابا بولے گا پہلے یہ ماما بولے گا کیونکہ وہ ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے پھر کچھ اور وہ بھی اسے پیچھے دھکیلتی خود رویام کے قریب آئی
جبکہ رویام شاید ان دونوں کو دیکھ کر کچھ سوچ رہا تھا جیسے فیصلہ کر رہا ہوکہ پہلے کیسے خوش کرے
شاباش میری جان اگر تو نے بابا بولا نہ تو پکا وعدہ میں اس نرس کے ساتھ تیری سیٹنگ کروا دوں گا
مجھے پتا ہے تو اسے بہت پسند کرتا ہے لیکن وہ تجھے زیادہ بھاؤ نہیں دیتی لیکن تیرا باپ ہے نہ تو فکر مت کر تیری باپ کی خوبصورتی کس دن کام آئے گی اب میں اپنے بچے کے لئے اتنا تو کرہی سکتا ہوں وہ اس کے دونوں گال چومتے ہوئے پیار سے بولا آج کل اس کی محبت کی شدت میں کمی آئی ہوئی تھی
لیکن افطاری کے بعد اگر وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا تو بچتا بھی نہیں تھا
چپ کریں یارم میرے معصوم سے بچے کو کن چیزوں میں لگا رہے ہیں اسے کسی نرس میں انٹرسٹڈ نہیں ہے سمجھے آپ میرا معصوم بچہ ۔۔۔پتا نہیں کیسے کیسے گندے الزام لگا رہے ہیں آپ اس پر دیکھئے ابھی ماما کہہ کر ثابت کر دے گا کہ تویام آپ سے زیادہ مجھ سے پیار کرتا ہے روح کے لہجے میں بہت مان تھا
اور پھر رویام صاحب بولنے کے لئے تیار ہوئے ایک لمبا سانس کھینچ کر اس نے ماں باپ کو دیکھا
جو با غور اسے دیکھ رہے تھےرویا کھلکھلایا تو وہ دونوں بےاختیار مسکرائے
سارا دھیان اسی کی جانب تھاجیسے وہ کوئی علان کرنے والا ہوں کہ وہ کس سے محبت کرتا ہے
اور پھر رویام نے ان دونوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا
ب۔۔۔بھا۔۔۔۔بھائو۔۔۔۔۔بھائو۔۔۔۔۔۔اور اس کی یہ بھائو بھائو سن کر یارم اور روح دونوں کا منہ کھل گیا
روح نتپے اداس سی ایک نظر یارم پر ڈالی
ابے چپ کر کتے کہیں کے روح کی اداسی دیکھ کر یارم نے سختی سے کہا
یار آپ میرے بیٹے کو کتا بلا رہے ہیں روح تڑپ اٹھی
ہاں مگر غلط بلا رہا ہوں جانتا ہوں کتا تو بڑا سا ہوتا ہے یہ چھوٹا سا پپی ہے یارم کا غصہ کم نہیں ہوا تھا روح کے اتنے اداس ہونے پر اسے پہلی بار رویام پر اتنا زیادہ غصہ آیا تھا وہ کیسے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر کتے کی آواز نکال سکتا ہے اسے ماما یا بابا کہنا چاہئے تھا
کیوں ریکارڈ قائم کر رہا ہے ۔تو انسانوں کا بچہ ہے
یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو وہ بچہ ہے سارا دن تو شونو کے ساتھ رہتا ہے تو ایسی آواز نکالے گا نا اور اس کو کیا پتہ ہے کہ اس نے ہمیں کیا کہہ کر بلانا ہے ماما یا بابا یا کچھ اور ہم سکھائیں گے تو پتہ چلے گا نا یار م کی ڈانٹنے پر وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
لیکن سحری میں تو تم کہہ رہی تھی کہ اس نے تمہیں پکارا ہے یارم اسے گھورتے ہوئے بولا
او ہو تو تب اس نے مجھے ماما کہہ کر تھوڑی نہ بلایا تھا اس نے تو مجھے روح کے کر بلایا تھا
روح نے رویام کی صفائی میں بولا
حد درجہ بدتمیز اولاد ہے اس اتنا بھی نہیں پتا کہ ماما کو نام سے نہیں بلاتے
اوہو یار م اس کے سامنے تو آپ مجھے روح کہہ کر بلاتے ہیں اور بچہ جو سیکھے گا وہی تو بولے گا اس کے ڈانٹنے پر پھر سے سمجھاتے ہوئے بولی
تو اب یہ سیکھے گا کیسے مطلب ابدن اتنے برے آگئے ہیں کہ میں تمہیں مما کہہ کر بلاوں ہوگا
وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تھا اور روح نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر مارا جو ضرورت سے زیادہ سخت لگ گیا وہ اپنا ماتھا مسلتے ہوئے یارم کو دیکھنے لگی جو اس کا ہاتھ ہٹا کر خود اس کے ماتھے پر مساج کرنے لگا
کیوں تکلیف دے رہی ہو خود کو جانتی نہیں ہے مجھے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولا
یارم میرا مطلب تھا ہم اسے سکھائیں گے وہ سیکھے گا نا اب میں اس کو سمجھایا کروں گی کہ یہ مجھے ماما اور آپ کو بابا بلایا کریں کیونکہ ابھی تو اس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اس نے ہمیں کیا کیا کہہ کر بلانا ہے
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے آہستہ آہستہ رشتوں کے بارے میں سمجھانا شروع کریں روح نے سوچتے ہوئے کہا اور نظر گھڑی کی طرف دوہرائیں جہاں روزہ کھلنے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا
اوہو یارم آپ نے مجھے یہاں باتوں میں لگا دیا مجھے ابھی پکوڑے بھی تلنے ہیں وہ اٹھتے ہوئے بولی
یرام نے ایک نظر اسے دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا تو وہ اٹھ کر اندر چلی گئی
°°°°°°°
دیکھ رویام مجھے بابا بے شک مت بولب اھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کبھی بھی روح اور میرا مقابلہ ہونا تو تجھے روح کو ہی چھننا ہے کیونکہ تیرا باپ اس سے بہت پیار کرتا ہے
اور وہ تیری ماں کی آنکھ میں بالکل اداسی نہیں دیکھ سکتا اور اگر تو نے میری بیوی کو اتنی سی بھی اداسی دی نا تو میں تیرا وہ حال کروں گا جو ساری زندگی یاد رکھے گا
اور یہ جو تو نے ابھی کتے کی طرح بھائوکی ہے نہ اس کی سزا میں تجھے دونگا افطاری کے بعد چلا آ جاباہر چلتے ہیں کیا یہاں کمرے میں بیٹھا ہوا ہے باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے یہ اے سی کی ہوا ہے صحت نہیں بناتی
اچھی صحت کے لئے ٹھنڈی اور تازہ ہوا لینا ضروری ہے چل جلدی سے آ جاؤہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے زمین پر اتار چکا تھا
رویام زمین پر بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کیوں کہ فی الحال وہ چل نہیں سکتا تھا لیکن اگر زمین پر اتار دیا جائے تو وہ کبھی بھی کسی بھی کونے تک جا سکتا تھا
لیکن یارم نے اس کا ہاتھ اتنی سختی سے پکڑا ہوا تھا کہ رویام نے نظریں اٹھا کر غصے سے اس کی جانب دیکھا
ابے چل اٹھ مجھے زمین پر رینگنے والے بچے بالکل پسند نہیں ہیں قدم سے قدم ملا کر چل میرے ساتھ
بڑا آیا یٹھنے والا کھڑے ہو جا
خبردار جو زمین پر بیٹھا چل قدم سے قدم ملا میرے ساتھ وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے زبردستی چلوانے کی کوشش کر رہا تھا
جس پر رویام کا منہ چکا تھا وہ رونے کی مکمل تیاری کر چکا تھا لیکن یارم نے اسے رونے کی اجازت نہیں دی تھی
اس کی ایک صرف گوری پر وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ کے سہارے سے اٹھنے لگا اور پھر زبردستی چلنے کی کوشش بھی کرنے لگا
جب اسے اچانک ہی دروازے کے قریب سے نیلا آنچل نظر آیا اس نے ایک ہی لمحے میں رویام کو اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا تھا
میرا شہزادہ خود چلنا چاہتا ہے ابھی پیر تو لگنے دےبیٹا پھر چلنے کی کوشش کرنا فی الحال تو صرف زمین پر کیڑوں کی طرح رینگ اس کے دونوں گالوں کو چومتاوہ محبت سے بولآآ
روح آج کل بالکل بے فکر تھی
روزے کی حالت میں یارم اس پر بالکل تشدد نہیں کرتا تھا اس لئے وہ اسے اکیلا چھوڑ دیتی تھی اس کے ساتھ بنا کسی ڈر خوف کےلیکن یارم کو افسوس تھا کہ وہ اسے اپنی مرضی سے پیار کیوں نہیں کر پاتا
لیکن افطاری کے بعد وہ خوب بدلے نکالتا تھا
کیا ہوا یارم کیا یہ چلنے کی کوشش کر رہا تھا اس کی بات سن کرروح خوشی سے بولی یارم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا
ہاں یہ تو کوشش کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے فی الحال اس کے پیراس کا ساتھ نہیں دیں گے ابھی چھوٹو شا ہے نا میرا شہزادہ وہ اس کے دونوں گال چومتا بہت پیار سے بولا روح کو تو باپ بیٹے کے پیار پر بے حد پیار آیا تھا
یہ بات الگ تھی کہ تھوڑی دیر پہلے والے واقعے کو وہ بالکل نہیں جانتی تھی اگر جانتی تو اس وقت یارم کی ایک اور لڑائی ہو چکی ہوتی
کوئی بات نہیں تھوڑے عرصے میں میرا بیٹا اپنے پیروں پر چلنے لگے گا وہ خوشی سے کہتی واپس جانے لگی
ان شاءاللہ تم افطاری کا سارا سامان باہر لان میں لگا دو میں اوررویام تھوڑی دیر وہاں واک کرنے جا رہے ہیں
وہ اس سے کہتا باہر چلا گیا جبکہ دھیان اب بھی اس کے گالوں پر تھا
جو صرف اور صرف رمضان کی وجہ سے سفید تھے ورنہ اس کی جارحانہ محبت سرخ ہوئے ہوتے
°°°°
روح کو جگا کر وہ خود نماز ادا کرنے گیا تھا ابھی واپس آیا تو دیکھا رویام بیڈ پر ایک دم تیار بیٹھا ہے سفید کرتا شلوار اور اوپر سے بلیک واسکٹ پیروں میں ننھی ننھی سی کھیریاں اسے شہزادہ بنا رہی تھی
یارم کا دل چاہا کیا بھی اس کے پاس جائے اور دل کھول کر اسے پیار کرے لیکن پھر وہ عید والے دن اسے روتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اسی لیے اپنے جذبات پر کنٹرول کر گیا
اس نے خود بھی بالکل اسی کے جیسے ہی کپڑے پہن رکھے تھے روح نے خود بنوائے تھے رویا م اوریارم کے کپڑے اور روح کی پسند میں وہ دونوں شہزادوں سی آن بان رکھنے والے بے حد پیارے لگ رہے تھے
اس کی ڈریسنگ کا کلر بھی ان کے جیسا ہی تھا اس نے سفید رنگ کا کرتا شلوار اور اس کے اوپر بلیک کلر کا نیٹ کا دوپٹہ لیا ہوا تھا
یہ رویام کی پہلی عید ان دونوں کے لیے بے حد اسپیشل تھی
میرا شہزادہ بچہ کتنا پیارا لگ رہا ہے ماشاء اللہ وہ اس کا ماتھا نرمی سے چومتا ہوا پیچھے ہٹا جب داھیان سپشونو کی جانب گیا
سفید رنگ کا کتا چھوٹی سی کالی شرٹ پہنے ہوئے تھا
روح نے تو آج اچھی خاصی میچنگ کروا ڈالی تھی سب کو
شونو صاحب ہیرو لگ رہے ہو اور ایک نظر شونو کو دیکھتا آنکھ دبا کر بولا
جبکہ شونو اپنی دم ہلاتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا
رویام بیڈ پتبیٹھا کھکھلا رہا تھا اور جو چیز اس سے زیادہ ایکٹ کر رہی تھی وہ تھے اس کے پیروں کے جوتے
جن پر وہ پورا پورا دھیان دیتا پورا پیر اٹھا کر دیکھتا اور یارم کو بھی اشارہ کرتا
اس کے ننھے سے پیروں پر چھوٹے چھوٹے سے جوتے بے حد پیارے لگ رہے تھے
اس سے نظریں ہٹا کر وہ روح کو تلاش کرنے لگا جو شاید کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی
اس نے جیب سے ایک کڑک نوٹ نکال کر اس کی ہتھیلی میں تھمایا جو کہ اس کی طرف سے اس کی عیدی تھی
اور پھر شونوکو اس کے پاس رہنے کا اشارہ کرتا ہے خود کیچن میں چلا گیا آخر اس کو بھی تو اپعیدی دینی تھی اور لینی بھی تھی
°°°°°°°
اس نے کچن میں قدم رکھا تو وہ شیر خورمہ بنانے میں مصروف تھی سب نے تھوڑی ہی دیر میں آ جانا تھا اسی لیے وہ پہلے ہی ساری تیاری کر لینا چاہتی تھی
بریانی دم پر رکھی ہوئی تھی جب کہ اس کا سارا دھیان کرائی میں کبابوں کی طرف تھا
جب اچانک یا رم نے اسے پیچھے سے پکڑ لیتے ہوئے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لیا
اور اپنے انداز میں اسے عید وش کرنے لگا
عید مبارک بےبی اور تھینک یو سو مچ میری عید اتنی سپیشل بنانے کے لیے رویام کی پہلی عید بے حد اسپشل ہے اور ہمیشہ رہے گی وہ اس کا گال لبوں سے چھوتے ہوئے پیچھے ہٹا جبکہ یارم کی اس حرکت نے اسے سرخ کر دیا تھا
آج بھی اس شخص کی قربت اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی
اگر لیلیٰ اور معصومہ یہاں ہوتی تو ایک منٹ میں ان کو پتہ چل جاتا کہ روح کی سرخ رنگت صرف اور صرف یارم کی جسارت کی وجہ سے ہے
حد ہوتی ہے یار م کبھی تو ہوش کر لیا کریں ابھی کوئی آ جاتا تو ۔۔۔!وہ اپنے حواس پر قابو پاتی اسے ڈانٹتے ہوئے بولی تو وہ مسکرا دیا
ہاں رو میں نے ایسا بھی کیا کر دیا صرف عید ہی تو دی ہے تمہیں اور اب عیدی لونگا اور اب دو میری عیدی وہ پیار سے ہاتھ اس کے سامنے پھیلاتے ہوئے بولا
آپ اپنی عیدی لے چکے ہیں اس نے اس کی تھوڑی دیر پہلے والی جسارت کی طرف اشارہ کیا
اب آپ مجھے میری عیدی دیں وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے بولی
اس حساب سے تو میں نے بھی تمہیں چھ مہینے پہلے ہی عیدی دی ہےایک شہزادے کے روپ میں اس سے زیادہ پیاری تو کوئی عیدی میں تمہیں دے بھی نہیں سکتا وہ اپنا ووٹ نکال کے اس کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے بہت پیار سے بولا
روح نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور اس کا الٹ بھی اپنے پاس ہی رکھ لیا
بات تو اس کی بالکل سچ بھی رویام سے زیادہ پیاری تو عیدی ویسے بھی اس کے لئے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتی تھی
°°°°°
وقت گزر رہا تھا رویام کی پہلی سالگرہ آنے والی تھی
جس کے لئے خوب تیاریاں کی جارہی تھی ہر کوئی اپنی طرف سے رویام کی سالگرہ کی تیاریوں میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا
حضر اپنی بچیوں سے بھی بے حد محبت کرتا تھا لیکن رویام کے ساتھ اس کی اٹچیمنٹ الگ ہی لیول کی تھی
وہ اس سے بے حد چاہتا تھا اور جانتا تھا کہ رویام بھی اس سے بہت پیار کرتا ہے وہ بھی اس کے ساتھ بے حد خوش رہتا تھا
جب کہ شارف تو صاف کہتا تھا کہ رویام میں الگ ہی لیول کی کشش ہے کہ اسے اپنی طرف کھینچتی ہے
صارم ہفتے میں ایک دن ضرور اس کے پاس چکر لگاتا
لیلیٰ نے کئی بار یارم سے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے آفس میں لایا کرے لیکن یارم نے صاف انکار کر دیا وہ اپنی فیملی کو اپنے کام سے بہت دور رکھنا چاہتا تھا
وہ تو شاید روح کو بھی یہ سب کچھ کبھی بھی نہ بتاتا کہ وہ کیا کام کرتا ہے لیکن روح ایک دن ہو رہی سب کچھ جان گئی تھی
اور وہ اس کے ساتھ بھی تھی وہ جانتی تھی کہ یارم بُروں لوگوں کے خلاف کام کرتا ہے اور اسے یارم کے کام پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا
لیکن یارم کو اعتراض تھا وہ اپنی فیملی کو اس خون خرابے سے دور رکھنا چاہتا تھا
اس نے لیلی اور معصومہ کو بھی منع کر دیا تھا کہ اب وہ یہ کام نہ کرے شارف اور خضر پر ساری ذمہ داری ڈال دیں
لیکن معصومہ اور لیلی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہتی ہیں یہ ان کا کام ہے جو وہ تاحیات کرنا چاہتی ہیں ان کی ضد کے سامنے یارم نے مزید کوئی بحث نہیں کی لیکن اپنی فیملی کو اس نےاس سب سے دور ہی رکھا ہوا تھا
روح کی سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ کبھی اس کے سامنے ان سب چیزوں کا ذکر نہیں کرتا
اس کی روٹین آج بھی ویسی ہی تھی صبح ایک عام انسان کی طرح گھر سے نکلنا سارا دن وہ کتنے لوگوں کو مارتا ہے کن لوگوں کو کاٹ کر ان کی زندگیاں ختم کر دیتا ہے اس سب سے کوئی بھی واقف نہیں تھا
اس کے پاس انپورٹ ایکسپورٹ کی کمپنی کے لیگل کاغذات موجود تھے جو کہ ایک عام سی کمپنی تھی اور سپورٹ کا سامان پاکستان سے دبئی اور دبئی سے پاکستان اور دوسرے ممالک میں شیفٹ کرتی تھیں
یہاں پر بہت سارے لوگوں کی ملازمت چل رہی تھی
یارم نے یہ کمپنی تقریبا دس سال پہلے اپنے حلال پیسوں سے بنائی تھی اور اسی سے آنے والے پیسوں کو وہ روح اور رویام پر خرچ کرتا تھا
ڈان بننے کے بعد دولت کی کمی اسے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن وہ سارا پیسہ وہ یتیموں غریبوں ور ٹرسٹ میں دیتا تھا
اسے اس پیسے سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا وہ روح اور اپنے بچے کو کبھی بھی حرام نہیں کھلانا چاہتا تھا اور نہ ہی اس نے کبھی انہیں حرام کھلایا تھا
اور یہ روح بھی بہت اچھے طریقے سے جانتی تھی
اسے اپنے شوہر پر فخر تھا جو ہر لحاظ سے ایک پرفیکٹ انسان تھا دنیا اسے ایک عام انسان کی طرح جانتی تھی کوئی اس بات سے واقف نہ تھا کہ وہ ڈیول کے روپ میں نہ جانے کتنے حیوانوں کو اس دنیا سے ہٹا چکا تھا اور کتنوں کا صفایہ ابھی بھی کرنا تھا
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ڈیئر رویام
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہر طرف اس کی سالگرہ کے گیت گائے جا رہے تھے
اور وہ شہزادہ بڑی شان بے نیازی سےیارم کی گود میں چڑا اس کے ہاتھ سے کاٹ رہا تھا
ان کی پارٹی میں صرف ان کے خاص لوگ ہی شامل تھے
جو یارم کے لیے پیارے پیارے گفٹس لائے تھے اور جو گفٹ اسے سب سے زیادہ پسند آیا تھا وہ تھی اپنے نانو کی لائی ہوئی سائیکل جس میں بیٹھ کر وہ اپنے ہی گھر کی سیر کر رہا تھا
فی الحال اسے سائیکل چلانی نہیں آتی تھی اس لئے مشارف اسے پیچھے سے دھکا دے رہا تھا ۔جبکہ عنایت اس کے پیچھے بیٹھی اس سے سائیکل چلوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔
جب کے مہر سب کو اگنور کی ہے آپنے کرش کے پاس بیٹھی باتیں کرنے میں مصروف تھی یارم اسے اپنےساتھ بٹھائے اس سے سکول کے بارے میں پوچھ رہا تھا
یہ نہیں تھا کہ وہ آج ان کے ساتھ نہیں کھیل رہی تھی وہ ہمیشہ کھیل کود سے ذرا الگ رہتی تھی اور ہاں خاص کر جب وہ رویام کے گھر پے آتی تو وہ ہمیشہ یارم کو ہی دیکھتی رہتی تھی
یارم کو بھی یہ ننھی سی گڑیا بہت پسند بھی عنایت کے لحاظ سے مہر تھوڑی کمزور تھی نظروں پرہر وقت چشمہ چرائے اپنی ننھی سی ناک کو چھوتی بہت معصوم لگتی تھی
سبھی جانتے تھے کہ وہ یارم سے بے حد اٹیچ ہے وہ کافی ضدی تھی لیکن جب یارم اس سے کوئی بات ماننے کیلئے کہتا تو وہ فورا بات مان جاتی تھی
یہاں تک کہ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ بڑی ہو کر یارم چاچو سے شادی کرے گی ۔
کیونکہ اتفاق سے اسے بھی یارم کے ڈمپل بے حد پسند تھے جو اس کے گھر میں کسی کے پاس بھی نہیں تھے
رویام کے آنے کے بعد بھی اس نے اپنا کرش نہیں بدلا تھا اسے آج بھی یارم ہی پسند تھا بے شک روح بدل گئی تھی لیکن مہر نے یارم کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بے وفائی نہیں کی تھی
وہ اس وقت یا رم سے باتیں کرتی بالکل کوئی خاموش طبیعت لڑکی نہیں لگ رہی تھی وہ اپنی ساری باتیں اس سے شیئر کر رہی تھی
جب کہ یار م بھی خاموشی سے اس کی ساری باتیں سن کر بالکل اس کی سوچ کے مطابق لیے ایکشن دے رہا تھا
اس کا اس طرح سے پیار سے بات کرنا کسی اور کی نظروں میں بہت برا گناہ تھا ۔
وہ کب سے اسے سخت نگاہوں سے گھورے جا رہا تھا جس کا یارم بالکل نوٹس نہیں لے رہا تھا
اور پھر اچانک گھر میں کراکےدار رونے کی آواز گونجی جسے سنتے ہوئے سب لوگ ہی بوکھلا گئے تھے
یارم بھاگ کر باہر کی جانب آیا اسے لگا کہ شاید وہ سائیکل سے گر گیا ہو گا
اور اسے چوٹ لگی ہوگی اس کے پیچھے ہی روح بھاگتی ہوئی باہر آئی
لیکن رویام کو کچھ بھی نہیں ہوا تھا وہ بس کھڑکی کے پاس سائیکل کو کھڑے کر کے روئے جا رہا تھا اور عنایت اور مشارف حیرانگی سے دیکھ رہے تھے
وہ بھی پریشان تھے کہ اچانک ہوا کیا ہے ابھی تو وہ سائیکل پر ان کے ساتھ بہت انجوائے کر رہا تھا پھر اچانک وہ اس طرح سے کیوں رونے لگا
کیا ہوگیا رویام کیوں روئے جارہے ہو ۔۔۔۔؟وہ اسے اپنی گود میں اٹھانا چاہ رہا تھا لیکن رویام اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارتا دونوں ہاتھ آپس میں جوڑے اور زیادہ رونے لگا
ارے میرے پاس تو آ۔۔کیا ہوگیا ہے کیوں روئے جا رہا ہے ۔۔۔؟وہ اسے ایک بار پھر سے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا جب اس نے ایک بار پھر سے اس کے ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے اور زیادہ رونا شروع کر دیا
یارم آپ پیچھے ہوں میں دیکھتی ہوں روح پریشانی سے رویام کے پاس آئی تو وہ اپنے دونوں بازو اوپر کرتا اور اس کے پاس چلا گیا
اور اب کے کندھے سے لگا مسلسل روئے جا رہا تھا
ہوا کیا ہے رویام میری جان کیوں رو رہے ہو اس طرح ۔۔۔؟روح اس کی پیٹھ سہلاتی پریشانی سے پوچھ رہی تھی
جب شارف نے شرارتی سے مشارف کی طرف دیکھا
ارے ہم تو کھیل رہے تھے یہ اچانک خود ہی رونے لگا ۔پانچ سالہ مشارف فور اپنی صفائی میں بولا
عنایت سچ سچ بتاؤ وہ کیوں رو رہا ہے اب وہ عنایت سے پوچھنے لگا جو کندھے اچکا کر پریشانی سے رویام کو دیکھ رہی تھی
کچھ تو ہوا ہے ایسے ہی تو نہیں رونے لگے گا نا ضرور تم دونوں شیطانوں نے کچھ کیا ہے جلدی سے بتاؤ کیا کیا ہے تم نے وہ ان دونوں کو دیکھ کر ڈانٹتے ہوئے بولا
اٹس اوکے شارف بھائی ایسے ہی رونے لگا ہوگا ۔جاؤ بیٹا آپ لوگ کھیلوشاید رویام کو نیند آ رہی ہے اس لئے رو رہا ہے وہ اسے اٹھا کر اندر لے جاتے ہوئے بچوں سے بولی تو شارف اور یارم بھی اس کے پیچھے ہی اندر آ گئے
سارے بچے مل جل کر پیار محبت سے رہتے تھے لڑائی جھگڑے کا تو فی الحال انہیں پتا بھی نہیں تھا اس لئے اس بات کو لے کر وہ بے فکر تھے کہ کسی قسم کی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے رویام رویا ہوگا یا بچوں نے اسے مارا یا ڈانٹا ہو گا ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا
یہ سب لوگ ہی رویام کو بے حد چاہتے تھے ۔اور ان سب کے ساتھ رویام انجوائے بھی بہت کرتا تھا تو پھر رویام اس طرح سے رونے کیوں لگا اور اب تو وہ یارم کے پاس جا ہی نہیں رہا تھا بس غصے سے گھورے جا رہا تھا
یارم کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن کچھ تو غلط ہوا تھا اس سے رویام اسے اس طرح سے گھورے جا رہا تھا اس کا اتنا شدت برا پیار جھیل کر بھی وہ اس سے ناراض نہیں ہوتا تھا لیکن پتہ نہیں اس بار ایسا کیا ہوگیا کہ وہ اس سے بالکل ہی روٹھ کر بیٹھ گیا تھا
اس کے بار بار گھورنے پر یارم نے دو تین بار اسے پاس بلایا اور اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار اس کا ہاتھ جھٹک دیتا اور پھر اسے گھورنے لگتا آخر ہوا کیا تھا یارم کو بالکل سمجھ نہیں آیا لیکن وہ اس سے سخت روٹھا ہوا تھا
°°°°°
رویام رو رو کر تھوڑی دیر سو چکا تھا اور اب ان سب کے جانے کا وقت ہو گیا ڈنر کے بعد جب وہ لوگ واپس جانے لگے
تو رویام بھی جاگ چکا تھا اور اب اس کی نظریں یارم پر تھی
تھوڑی دیر پہلے والے ناراضگی کو وہ بالکل بھول چکا تھا تبھی تو یارم نے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ بھاگتا چلا گیا
یارم کو بھی تھوڑا سکون ملا تھا کہ وہ اس سے ناراض نہیں تھا ۔سب لوگ جانے سے پہلے رویام سے ملے ۔جب مہر نے رویام کو کس کرنے کی کوشش کی ۔تو وہ اسے گھور کر اس سے دور ہو گیا ۔
اس کی حرکت سب کے لیے ہی کافی مزے دار تھی ۔
مہری تم اس کے حصے کا کس بھی یارم کو کردو ۔حضر نے آئیڈیا دیا جو مہر کو بہت پسند آیا تھا یارم مسکرا کر نیچے جھکا تو رویا م کا بجا پھر سے بجنے لگا
یارم بوکھلا کر پیچھے ہوا ۔جب کہ خضرقہقہ گا اٹھا ۔
مسٹر یار م مبارک ہو آپ کے بیٹے کے اندر بھی آپ والے جراثیم پائے جاتے ہیں وہ کون سے جراثیم تھے ہاں جیلسی کے ۔خضر نے ہنستے ہوئے رویام کے رویے کی پوری وجہ اس کے سامنے رکھ دی
کیا مطلب تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں مہرکو پیار کر رہا ہوں اس لئے رو رہا ہے ۔۔؟یارم کے لیے یہ بات نئی تھی لیکن وہ رویام کے رونے کی وجہ جاننا چاہتا تھا خضر نے ہنستے ہوئے ہاں میں سر ہلایا
دیکھا رویام نے ثابت کر دیا کہ وہ تیرا ہی بچہ ہے توبہ ابھی ایک سال کا ہے اور اتنی جلن ۔میری معصوم سی بیٹی کو کس بھی نہیں کرنے دیا ۔حضر ہنسا تو یارم اگلے ہی لمحے روح کی گود سے رویام کو زبردستی اٹھا کر اپنے سینے سے لگا چکا تھا
جو بری طرح سے اس کے بازوؤں میں مچلتے ہوئے رو رہا تھا یا رم ان سب کو ہاتھ ہلاتا اسے لئے اوپر کی جانب چلا گیا
وہ صبح سے ہی رویام کے رویے کی وجہ سے بہت پریشان تھا وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اسے لے کر پوزیسسو ہو رہا ہے ۔
بس میرا بچہ میں وعدہ کرتا ہوں میں کسی کو نہیں اٹھاؤں گا کسی سے پیار نہیں کروں گا صرف اپنے رویام سے کروں گا
وہ اسے اپنے سینے سے لگائے اسے تحفظ کا احساس دیتا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ صرف اسی کا باپ ہے
لیکن رویام اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مزید رو کر اسے خود سے دور کر رہا تھا
اچھا نہ میرا بابو میں کسی سے پیار نہیں کروں گا یارمیں صرف تیرا باپ ہوں وہ اسے چومتے ہوئے یقین دلارہا تھا
تھوڑی ہی دیر میں رویام کا رونا بند ہوگیا لیکن سوں سوں اب بھی جاری تھی ۔بس میرا بچہ بابا صرف آپ سے پیار کریں گے ۔وہ رویام کے گال چومتا اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا ۔نہ جانے کیوں اسے رویام کا یہ رویہ بہت اچھا لگا تھا وہ خود بھی ایسا ہی تھا
اسے بھی نہیں پسند تھا کہ رویام اور روح کسی اور سے محبت کرے اور وہی جرثیم اس کی اپنی اولاد میں بھی تھے
جو روح کے لئے پریشانی تھی لیکن یارم اس بات کو لے کر بہت خوش تھا ۔
وہ جانتا تھا کہ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ ضرورت اپنے ماں باپ کی ہوتی ہے ان کی توجہ ان کے پیار کی ضرورت ہوتی ہے
اتنی چھوٹی سی اولاد کو اگر ٹھیک سے سنبھالا نہ جائے تو آگے جاکر بہت سارے مسائل پیش آ سکتے ہیں ۔یارم کسی بھی قسم کا کوئی رسک نہیں چاہتا تھا وہ اسے پروٹیکشن دینا چاہتا تھا اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ صرف اور صرف اسی کا باپ ہے اور سب سے زیادہ اس سے محبت کرتا ہے
اور اس کی محبت میں کوئی بھی حصہ دار نہیں بنے گا ۔سب کو دروازے تک چھوڑ کر روح نے کمرے میں قدم رکھا تو وہ اس کے سینے سے لگا پتہ نہیں کون سی باتیں کرنے میں مصروف تھا
روح نے یارم سے اشارے سے پوچھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو یارم انگوٹھا دکھا کر اسے اندر بلا چکا تھا اور وہ ایک گہرا سانس لے کر پرسکون ہوئی
آپ دونوں باتیں کریں میں کچن سمیٹ کے آتی ہوں ۔وہ آہستہ سے کہتی دروازہ باہر سے بند کرکے شونو کے ساتھ نیچے آ گئی ۔
جس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ اپنی پریشانی شیئر کر رہی تھی اورشونوبھی کسی ہمدرد دوست کی طرح اس کی ساری باتیں سن رہا تھا
°°°°°
وقت کو پر لگ چکے تھے وہ اپنی پرسکون زندگی میں بےحد خوش تھے
آج لیلیٰ اور خضر میں اچھی خاصی لڑائی ہوگئی تھی لیلی اپنی دونوں بیٹیوں کو ہوسٹل بھیجنا چاہتی تھی
جبکہ خضر کا کہنا تھا کہ وہ بہت چھوٹی ہیں ابھی اپنا آپ نہیں سنبھال سکتیں
لیلی بھی پیچھے نہیں ہٹی اس نے کہہ دیا کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹیاں اس خون خرابے سے دور رہیں
اور حقیقت بھی یہی تھی کہ چلتی ہمیشہ سے لیلی کی ہی تھی خضر لڑ لڑ کر اب خاموش ہوگیا جب کہ یار م نے بھی اسے سمجھایا تھا کہ لیلی ایک طرح سے ٹھیک ہی رہی تھی یہاں پر ان لوگوں کی پڑھائی بھی ڈسٹرب ہو رہی ہے
اور وہ کونسا زیادہ دور جا رہی ہیں خضر جب چاہے ان سے مل سکتا ہے اور پھر خضر اس کی بات کو سمجھ گیا
ان دونوں کی صلح کروانے کے بعد وہ گھر واپس آیا تو روز کی طرح روح کو آج بھی رویام کے ساتھ ہی مصروف پایا
لیلی اپنی دونوں بیٹیوں کو یہاں سے دور بھیج رہی ہے تاکہ ان کی پرسنل لائف ڈسٹرب نہ ہو یارم نے اپنے ڈمپل کی نمائش کرتے ہوئے اسے خبر سنائی تھی
جی نہیں وہ انہیں خود سے دور اس لیے نہیں کر رہی تھی بلکہ اس لئے کر رہی ہیں تاکہ وہ دونوں ایک محفوظ جگہ پر ایک اچھے سکول میں پڑھ سکے اور ماموں کی بیٹیاں ماشاءاللہ سے چھ سال کی ہیں وہ رہ سکتی ہیں لیکن میرا معصوم رویام ابھی صرف دو سال کا ہے وہ نہیں رہ سکتا اپنی ماں کے بغیر اس نے رویام کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے محبت سے کہا ۔
سب سے پہلی بات روح ہزار بار سمجھا چکا ہوں تم اس جن کو" معصوم"نہ کہا کرو وہ بچے اور ہوتے ہیں جنہیں " معصوم" کا خطاب ملتا ہے یہ تو شیطان کا بھی باپ ہے ۔یارم نے اسے گھورتے ہوئے کہا جس پر وہ مزید کھکھلاتے ہوئے اپنی ماں کے ساتھ چپکا تھا جیسے کا ارادہ ہی یارم کو دکھا کرجلانے کا ہو
اس حساب سے تو آپ پھر شیطان کے دادا ہوئے روح نے حساب برابر کیا
ہاں کیوں نہیں اب اس سے ساری رشتہ داریاں میری ہی نکالو کیوں کے اس کے خاندان کا جن میں اپنے گھر لے آیا ہوں نہ جانے کون سا وقت تھا جب اولاد کی خواہش جاگی اگر پتہ ہوتا کہ ایسی اولاد پیدا ہوگی تو ۔۔۔
استغفراللہ استغفراللہ اللہ شکر ادا کرنے والوں کو پسند کرتا ہے میں تو دن رات اللہ پاک کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے میری جھولی میں میرا معصوم بچہ ڈالا اور ایک آپ ہیں۔ ۔۔ باپ آپ کے جیسے نہیں ہوتے یارم روح نے توبہ کرتے ہوئے کہا
اگر باپ میرے جیسا نہیں ہوتا تو اولاد اس کے جیسے بھی نہیں ہوتی ۔کونسی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کے بیچ ہڈی بن کر ہر وقت اپنی ماں سے چپکی رہتی ہے ۔
اسے میرے حوالے کرو آج میں اسے شارف کے گھر لے کر جاؤں گا ۔اور اسے سمجھاؤں گا کہ اس کی ماں پر اس کے باپ کا بھی حق ہے ۔یارم نے اسے بازو سے پکڑ اپنی گود میں اٹھایا جس پر وہ تڑپ کر دوبارہ اپنی ماں کی طرف لپکا ۔
یارم آپ کتنے ظالم ہیں اتنے بڑے ستمگر ہیں کہ ایک بچے کو اس کی ماں سے جدا کر رہے ہیں روح نے ڈرامہ کرتے ہوئے کہا
روح خدا کے لئے خدا کا خوف کرو میں اسے صرف تھوڑی دیر کے لئے اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں کیونکہ شارف اور معصومہ اس سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نہیں ہوں اتنا اس ظالم کے ایک ماں کو اس کے معصوم بچے سے الگ کر دوں اس نے" معصوم" کو کھینچ کر کہا کیوں کہ اس کی نظر میں اس کا یہ معصوم بیٹا معصوم تو ہرگز نہیں تھا
اچھا تو ایسے کہیں نہ آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا میں اسے گرم کپڑے پہنا دیتی ہوں پھر لے جائیے گا روح نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے باہوں میں لے لیا جس وہ ایک بار پھر سے یارم کو جلاتے ہوئے روح کے ساتھ چپک چکا تھا ۔
جب کہ اس کے جانے کے بعد اس کی مستی پر یارم کے ڈمپل نمایاں ہوئے تھے
میرا شیطان بچہ ۔یارم بڑبڑا کر مسکراتے ہوئے اپنے سیکرٹ روم میں آگیا
°°°°
وہ گھر آیا تو صرف اسے کھانا کھانے میں مصروف تھی
جب کہ وہ شیطان خوب مستیاں کر رہا تھا
رویام میرا بچہ پلیز کھانا کھا لو اور وہ اس کی منتیں کر رہی تھی
ریام تھانہ نہیں تھائے گا ریام کو بوت نہیں لدی (رویام کھانا نہیں کھائے گا رویام کو بھوک نہیں لگی )وہ معصومیات سے بولا یارم بھی مسکراتے ہوئے کرسی پر آ بیٹھا
نہیں رویام کو بھوک لگی ہے اور وہ کھانا کھائے گا روح نے نچمچ بھر کر اس کے قریب کیا جس پر وہ نا میں سر ہلانے لگا
ریام نہیں بابا تو بوت لدی ہے (رویام کو نہیں بابا کو بھوک لگی ہے) ۔اس نے روح کا ہاتھ یارم کی جانب کر دیا
رو بےبی بابا کو تھانا دو (روح بےبی بابا کو کھانا دو) ۔وہ اسے زبردستی یارم کو کھانا کھلانے پر مجبور کر رہا تھا
لیکن یارم تو مر کر بھی یہ دلیہ نہ کھاتا اور اب تو اس نے رویام کے منہ سے روح کا نام بھی سن لیا تھا ویسے تو روح نے اس سے پہلے بھی کہا تھا کہ وہ اسے نام سے بلانے لگا ہے
اور روح کو اس بات میں بھی کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی
روح اس کو بولو تمہیں ماں'ماما' اماں' کچھ بھی بولے لیکن روح بے بی نہیں بول سکتا وہ اسے گھورتے ہوئے روح کو کہنے لگا ۔روح بھی اس کو دیکھ کر اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کے معصوم بچے کی شامت آنے والی ہے اسی لیے وہ اسے سمجھنے کے لیے اس کی طرف آئی ۔ جہاں وہ اپنے معصوم چہرے پر ڈمپل کی نمائش کرتا ہے اسے دیکھ رہا تھا ۔
رو بےبی 'میلا بتہ ' بوت لدی ہے۔
رویام نے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے پھر سے یارم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا
اس سے پہلے کہ وہ اس کی طرف آ کر اس کا دماغ ٹھکانے لگاتا وہ بھاگ کر روح سے چپک گیا جہاں اسے یقین تھا کہ وہ بچ جائے گا
یارم میں سمجھاوں گی نا پلیز نہیں ڈانٹے اور نہ ہی اس کو گھورِیں روح نے منیےں کی۔جبکہ اسے جلا کر رویام کے چہرے پر بڑی روشن مسکراہٹ تھی

بس کر دو خضر۔۔۔۔۔تم کیوں مجنوں کی طرح یہاں بیٹھ گئے ہو ۔۔۔۔؟
ہم ہر ویک ان سے ملنے جایا کریں گے
آور بیٹوں پر بڑا پیار آتا ہے تمہیں
کبھی مجھ سے تو اتنا پیار نہیں دکھایا۔
جب سے یہ دونوں ہماری زندگی میں آئی ہیں تم تو مجھے بالکل ہی نظرانداز کر دیتے ہو لیلی اسے منانے کی خاطر اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کر رہی تھی
لیلیٰ پلیز میں اس وقت یہ ساری فضولیات میں نہیں پڑنا چاہتا وہ اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتے ہوئے کافی غصے سے بولا
خضر ساری زندگی کے لیے نہیں بھیج رہی میں ان دونوں کو
کیوں اتنے اداس ہو گئے ہو لیلیٰ پریشانی سے اس کے پاس ہوئی۔
وہ اتنی سی بات کو کچھ زیادہ ہی سر پر سوار کر چکا تھا۔ساری دنیا کے بچے باہر پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا ان کے والدین اس طرح سے ری ایکٹ کرتے ہوں گے لیلی کے لیے خضر کا انداز ناقابل قبول تھا
جو تین دن سے منہ بنائے ہوئے تھا اس سے بھی سیدھے منہ بات نہیں کر رہا تھا
لیلیٰ کیا تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے گھر سے ہماری بچیاں جانے والی ہیں
نہ جانے کتنے کتنے دن میں ان کا چہرہ نہیں دیکھ پاؤں گا ۔ان سے بات نہیں کر پاؤں گا انہیں محسوس نہیں کر پاؤں گا مجھے ان کی آواز نہیں سنائی دے گی جب میں گھر آؤں گا تو کوئی مجھے بابا بابا کہہ کر میرے پاس آ کر میرے سینے سے نہیں لگے گا
اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں کیوں اداس ہوں
میری بچیاں ہیں میرے جگر کا ٹکڑا ہیں میں انہیں خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتا
اب بھی وقت ہے اپنا فیصلہ بدل لے لیلیٰ ہم ان دونوں کو سنبھال سکتے ہیں ہم انہیں پروٹکشن دیں گے ہم ان کے والدین ہیں ان کا خیال رکھ سکتے ہیں
وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے اسے سمجھانے لگا
دیکھو خضر میں بھی ان سے محبت کرتی ہوں وہ میری بھی بچیاں ہیں میرے لیے بھی اہم ہیں وہ میرے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں جتنی تمہارے لیے اس گھر سے جانے کے بعد میری زندگی بھی ویران ہوگی صرف تمہاری ہی نہیں
ہم انہیں اپنے پاس رکھ کر بھی ان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن اس سے ہم ہر وقت ڈرتے رہیں گے کہ ہماری بچیوں کو کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے
ہم اپنے فرض کو ٹھیک سے انجام نہیں دے پائیں گے میں انہیں ایک ایسی زندگی دینا چاہتی ہوں جس میں وہ آزادی سے سانس لے سکیں گیں ہم انہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے کہیں لے کر نہیں جاتے
تم نے نوٹ کیا ہے مہرکسی سے بھی اپنے دل کی بات شیئر نہیں کرتی سوائے یارم کے
ہمیشہ خاموش رہتی ہے الگ رہتی ہے کچھ دن پہلے مجھ سے پوچھ رہی تھی ماما اگر ہم اکیلے گھر سے باہر جائیں گے تو کیا گندے لوگ ہمیں مار ڈالیں گے میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا خضر۔
وہ میری بچیاں ہیں میں ان کو ساری زندگی ڈرتےنہیں دیکھ سکتی اپنے ہی گھر میں وہ کھل کر سانس نہیں لے پاتی
میں بس یہ چاہتی ہوں کہ میں اپنی بچیوں کو ایک ایسا ماحول دوں
جس میں وہ محفوظ رہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی جبکہ خضر بنا کچھ کہے اٹھ کر باہر چلا گیا
جہاں اس کی دونوں بیٹیاں کھیل رہی تھی کل یہ لان بالکل خالی ہو جانا تھا
اس کی پریاں جانے والی تھی اور پھر ایک ہفتے کے بعد صرف دو گھنٹے کے لیے ملاقات خضر کے لیے یہ لمحات ہی مشکل تھے
°°°°°°
یہ اللہ پتا نہیں لیلیٰ کے پاس اتنا بڑا جگرا کہاں سے آیا مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں ہے کہ مشارف کو ایک دن بھی خود سے دور کر سکوں
اور وہ کیسے اپنی بچیوں کو تو یہاں سے دور بھیج رہی ہے
وہ دودھ گرم کرتے ہوئے مسلسل شارف سے باتیں کر رہی تھی
ہاں بات تو سچ ہے یار لیلی نے واقعی ہمت دکھائی ہے
خضر تو ابھی تک مان نہیں رہا ویسے یارم نے اسے سمجھایا ہے کہ لیلیٰ ایک طرح سے ٹھیک کر رہی ہے لیکن بچوں کو خود سے دور کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے
لیکن لیلیٰ کا کام بھی بہت زیادہ ہے دیکھو تم تین بجے گھر واپس آ جاتی ہومشارف کے ساتھ وقت گزارتی ہولیکن لیلی کے پاس بالکل وقت نہیں ہوتا
وہ دونوں تو اپنی بچیوں پر ٹھیک سے غور نہیں کر پاتے ان کی پڑھائی بھی متاثر ہو رہی ہے ۔
اور آج کل دشمنوں کی نظر بھی ہے خضر اور لیلی پہ پچھلے دنوں ان کے گھر پر حملہ ہوا تھا بچیوں کو بھی نقصان ہو سکتا تھا
اس حساب سے لیلی کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے
شارف نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
معصومہ دودھ گرم کر کے باہر آ گئی اور اب مشارف کو دیکھتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ تو اپنے بچے سے ایک پل کے لئے بھی دور نہیں ہو سکتی
پتہ نہیں لیلیٰ یہ وقت کیسے گزارے گی فی الحال تو وہ خود کو بہت مضبوط ظاہر کر رہی تھی لیکن تھی تو ایک ماں
اور اپنی اولاد سے دور رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ ایک ماں سے بہتر اور کون جان سکتا تھا
اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا
جو خضر کو ابھی تک قبول نہیں تھا
خضر باپ ہوکر اپنے بچوں سے دور جانے کے فیصلے کے خلاف تھا
تو لیلیٰ نے تو انہیں جنم دیا تھا وہ کس طرح سے یہ سب کچھ فیس کر رہی تھی وہی جانتی تھی
لیکن فی الحال تو خضر اسی کے ہی خلاف ہوا بیٹھا تھا جو اسے اس کی بچیوں سے دور کر رہی تھی
°°°°°
یارم کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے ساتھ بنا شرٹ الٹا سو رہا تھا
وہ جب سے بڑا ہو رہا تھا اس نے یارم کی ساری عادتیں اپنائی ہوئی تھی
شرٹ پہن کر سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
اور اب تو صبح ہوتے ہی وہ ان کے پیچھے پیچھے جیم روم میں بھی پہنچ جاتا تھا
اور ایکسرسائز کرنے کی پوری کوشش کرتا
اور اس کا یہ شوق دیکھتے ہوئے ہی یارم اس کے لئے منی مشینری منگوا رہا تھا
فی الحال تو وہ گہری نیند میں تھا یارم سیدھا ہو کر بیٹھا اور بیڈ کران سے ٹیک لگائی روح نے صبح چار بجے کے قریب اسے بیڈ پر رکھا تھا
اور اس کے بیڈ پر آتے ہی اُس نے شرارتیں شروع کرکے یارم کو جگایا تھا اور پھر خود دودھ پی کر آرام سے سو گیا
اس نے ایک نظر دوسری جانب سوئی روح کو دیکھا جس کا ہاتھ رویام کی پیٹھ پر تھا
اس نے نرمی سے رویام کے ماتھے پر پیار دیا اور آہستہ سے روح کا ہاتھ بٹاتا اسے اٹھا کر اپنے ہی روم میں موجود بےبی کاٹ میں لٹا دیا
جو کہ اب پہلے سے تھوڑا بڑا اور بیڈ کی شیپ میں آ چکا تھا لیکن تھا ابھی تک انہیں کے کمرے میں موجود
کیوں کے روح کا کہنا تھا کہ جب تک رویام پانچ برس کا نہیں ہو جاتا تب تک وہ اسے الگ کمرے میں نہیں لائے گی
اور یارم نے اس کے فیصلے کو اب قبول کرلیا تھا اسے بےبی کاٹ میں سلا کر وہ واپس روح کے پاس آیا
وہ گہری نیند میں سوئی بے حد معصوم لگ رہی تھی پہلے دن کی طرح پاکیزہ بے شمار محبتیں سمیٹی ہوئی اس کی معصوم سی روح
آج کل روح کے ساتھ اس کا صبح ہی وقت گزرتا تھا جب رویام صبح کے وقت گہری نیند میں ہوتا ورنہ تو وہ رات بھی اس وقت سوتا تھا جب روح سوچکی ہوتی اگر اسے یارم کا دشمن کہا جاتا تھا تو یہ غلط نہیں تھا وہ روح اور یارم کے رومینس کا بھی دشمن تھا
لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ اس میں یارم کی جان بستی تھی اسے دیکھے بنا تو اسے سکون نہیں آتا تھا صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے ان دونوں کا چہرہ دیکھتا تھا تب ہی اس کا دن اچھا گزر تا ۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر دوسری جانب سوئی روح کو روح کا معصوم چہرہ دیکھ کر اس کی نیت خراب ہونے لگی تھی
وہ آہستہ سے بیڈ پر واپس آیا اور وہ اس کو ایک ہی لمحے میں کھینچ کر اپنے قریب کر لیا
وہ بوکھلا کر آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی جو مسکراتا ہوا ابھی اس کی گردن پر جھک کر اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا
یارم کیا کرتے ہیں آپ ڈرا دیا مجھے اس کے لبوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کر کے وہ منمنائی تھی
یہی تو مسئلہ ہے تم ڈرتی بہت ہو اب تو تمہیں عادت ہو جانی چاہیے یارم کہتے ہوئے اس کے چہرے پر جھکا اور اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لے کر اپنی جارحانہ محبت کا اظہار کرنے لگا روح کی سانسس روکنے لگی تھی
لیکن یارم کو اس وقت صرف اور صرف اپنے بڑھتی ہوئی تشنگی کی فکر تھی جو روح کے قریب جائے بغیر تو ختم ہو نہیں سکتی تھی
آئی لو یو یار کیسے ہو سکتی ہے مجھے تم سے اتنی محبت میں پاگل ہو جاؤں گا تمہارے پیار میں
اپنی والہانہ محبت اس پر نثار کرتے ہوئے وہ کھلے لفظوں میں اعتراف عشق کر رہا تھا
روح آج بھی اس کے انداز پر بوکھلا کر رہ جاتی تھی
شادی کے سات سال بعد بھی یارم کی محبت میں کمی نہیں آئی تھی بلکہ اس کی محبت کو اس نے ہر لمحے کے ساتھ بڑھتے ہوئے محسوس کیا تھا
اور اس کی محبت صرف اسی کے لئے تھی اپنی آتی جاتی ہر سانس کے ساتھ یارم نے الگ انداز میں اسے بتایا تھا کہ وہ اس کی زندگی میں کتنی اہم ہے
پچھلے سات سال سے محبتوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں تھا
یارم کی بے پناہ محبتوں نے اسے نکھار دیا تھا وہ اپنے آپ کو انمول سمجھتی تھی
اس کی محبت کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
اور یارم آہستہ آہستہ اس کی ہر سانس پہ اپنی حکومت چلا رہا تھا
°°°°°
رویام یارم کے آفس روم سے چاکلیٹ کا ڈبہ اٹھائے کبھی بیڈ کے نیچے جا کر چاکلیٹ کھاتا تو کبھی کسی صوفے کے پیچھے چھپ کر کھاتا
یارم ہر طرف سے ڈھونڈ رہا تھا جب کہ وہ جانتا تھا کہ رویام کہاں ہے اور صوفےکے پیچھے اور بیڈ کے نیچے کیا کر رہا ہے
لیکن پھر بھی اسے خوش کرنے کی خاطر وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا
اور رویام سمارٹ بنے اسی کے سامنے سے نکل کر کہیں اور چھپ جاتا اور یارم بچارے کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا
روح میں مہر کے لیے چاکلیٹ لایا تھا پتا نہیں کہاں رکھ دی
مجھے تو کہیں نہیں مل رہی کہیں رویام نے تو نہیں اٹھا لی وہ روح کو کچن سے نکلتے دیکھ کر بولا
روح نے ایک نظر صوفے کے پیچھے بیٹھے اپنے ننھے سے شیطان کو دیکھا تھا
جو اس سے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے ایک چاکلیٹ بھی اپنے ننھے سے ہاتھ میں پکڑے لالچ دینے میں مصروف تھا
اور روح اس کی لالچ میں آ بھی چکی تھی
مجھے کیا پتا آپ نے کہاں رکھی ہے اور رویام تو باہر شونو کے ساتھ کھیل رہا ہے آپ جا کر اپنےآفس روم میں ڈھونڈے وہی ہو گی وہ اسے ٹلنے والے انداز میں کہتی اسے آفس روم بھیج چکی تھی جبکہ خود رویام کے پاس آکر صوفے کے پیچھے بیٹھ گئی
اور رویام سے چاکلیٹ مانگنے لگی لیکن رویام صاحب کا کہنا تھا
اتھے بتے توکلت نی کھاتے دنت کرب ہو جاتے ہے(اچھے بچے چاکلیٹ نہیں کھاتے دانت خراب ہو جاتے ہیں ۔)
اس کے اس جواب پر روح کا منہ کھل گیا جبکہ صوفے سے اوپر لٹکے ہوئے یا رم ان دونوں کو دیکھتا رویام کی بات پر قہقہ لگا چکا تھا
سیکھو میرے بیٹے سے کچھ اسے پتہ ہے کہ چاکلیٹ نہیں کھاتے اس سے دانت خراب ہو جاتے ہیں وہ ہنستے ہوئے روح کو دیکھ کر کہنے لگا تو روح منہ بنا گئی
کیونکہ اس کا بیٹا ضرورت سے زیادہ سیانا تھا اسے پتہ تھا کہ چاکلیٹ کھانے سے دانت خراب ہوتے ہیں لیکن آپنے نہیں صرف دوسروں کے
°°°°°
خضر اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرو یار کیا ہوگیا ہے تمہیں تمہارے گھر پر آئے دن حملے ہو رہے ہیں بچیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
اور وہ کوئی ساری زندگی کی بات تو نہیں کر رہی جب سب کچھ ہمارے انڈر کنٹرول ہوگا تو تم بچیوں کو واپس لے آنا یارم اسے سمجھا رہا تھا لیکن وہ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھا
لیکن لیلیٰ نے کہاں اس کی سنی تھی وہ مہر اور عنایت کا سارا سامان پیک کرچکی تھی اور کل انہیں یہاں سے بھیجنے والی بھی تھی
خضر کی ناراضگی اور اس کے فیصلے کو وہ سرے سے کوئی اہمیت نہیں دے رہی تھی۔اسے اپنے بچیوں کی زندگی عزیز تھی خضر کی فضول ضد کے سامنے وہ اپنی بچیوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگا سکتی تھی
کل تم سب لوگ آنا مہر اور عنایت کو جانا ہے ان سے ملنے کے لیے میں چاہتی ہوں کے جانے سے پہلے ایک زبردست لنچ ہم سب لوگ مل کر کرے اور مہر اور عنایت خوشی سے جائیں اسے کہہ دو کہ ان کے سامنے اپنا منہ رکھے
ورنہ میری بچیاں جاتے ہوئے اداس ہوں گی تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا
لیلیٰ خود تو کافی دنوں سے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی اور جب خضر نے نہ ماننے کی ٹھان لی تھی تو اس نے بھی کوشش کرنا چھوڑ دی
لیلیٰ فیصلہ تو کر ہی چکی تھی کہ بچیاں جائیں گی اور ضرور جائیں گی اسی لئے اب وہ خضر کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہی تھی لیکن خضر کی اداسی سب لوگوں نے نوٹ کر لی تھی
ڈیر کرش آئی لو یو میں آپ کو بہت مس کروں گی مہریارم کے گال پر پیار کرتے ہوئے اداسی سے بولی تو یارم مسکرا دیا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ رویام نے کوئی ری ایکشن نہ دیا بلکہ یارم کی گود میں آرام سے بیٹھا رہا
لیلی اور خضر کے جانے کے بعد بھی رویا م نے کسی قسم کا کوئی ولولہ نہیں مچایا تھا خضر کی اداسی نے روح اور یارم دونوں کو پریشان کردیا تھا لیکن پھر بھی لیلی کا فیصلہ انہیں ٹھیک لگ رہا تھا
°°°°
بابا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جانے کے بعد آپ ہمیں بہت مس کرو گے لیکن آپ فکر نہ کریں ہم روز رات کو آپ کے ڈیم میں آیا کریں گی اور آپ سے خوب کھلیں گے باتیں بھی کریں گے اور بہت سارا پیار بھی کریں گے وہ دونوں اس کے دائیں بائیں بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھی
جب کہ لیلی ابھی تک ان دونوں کا ضروری سامان پیک کرنے میں مصروف تھی
بابا ہم آپ کو بہت مس کریں گے مہر اس کے ساتھ لگی ہوئی تھی جبکہ عنایت اس کے بالوں پر نہ جانے کون سا ڈیزائن بنانے میں مصروف تھی
ماما بابا کے بالوں میں روز چمپی کرنا اگر میرے بابا کے بال خراب ہوئے تو میں چھوڑ دوں گی نہیں آپ کو
ہاں اور بابا جب کام سے واپس آئیں گے تو انہیں ہگ بھی کرنا ورنہ ہم دونوں جب واپس آئیں گے تو آپ کو ڈس بن میں پھینک دیں گے ویسے بھی آپ ہمارے کسی کام کی نہیں ہو مہر خضر کی گود میں بیٹھتے ہوئے بولی تو لیلیٰ اس کی باتوں پر اسے گھورتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی
بس باپ سے پیار ہے تم لوگوں کو میں تو تم لوگوں کی کچھ لگتی ہی نہیں ہوں
لیلی آنکھوں میں نمی لیے ناراضگی سے بیڈ پر بیٹھی
تو ان دنوں میں خضر پہلی بار مسکرایا
اور ان دونوں کو لیلیٰ کے پاس جانے کا اشارہ کیا اور نہایت اور مہر اس کے دائیں بائیں بیٹھی اسے منانے کی کوشش کرنے لگیں خضر ابھی آہستہ سے اٹھ کر اس کے سامنے آگیا
لیلی اس کے سینے سے لگ کر نمی چھپا کر اپنے آپ کو بہادر ظاہر کرنے لگی لیکن خضر جانتا تھا کہ یہ وقت اس کے لئے بھی اتنا ہی مشکل ہے
میں بھی تم لوگوں کو بہت مس کروں گی اور فکر مت کرو میں اور بابا تم لوگوں کو جلدی واپس لے آئیں گے ۔
وہ ان دونوں کو یقین دلاتی اپنے سینے سے لگا چکی تھی اندر ایک خوف تھا ایک وحشت پھیلی ہوئی تھی جیسے کچھ برا ہونے جارہا ہو بہت برا
°°°°°
صبح سب لوگ آئے تھے انہیں گڈ بائے کہنے کے لئے عنایت نے زبردستی رویا م کوکس کیا ۔کیونکہ وہ روح کے علاوہ کسی کا کس لینا پسند نہیں کرتا تھا ۔
مہر نے یارم کے ہاتھ سے چاکلیٹ لیا جو وہ ہمیشہ اس کے لئے لاتا تھا
شارف صارم ۔معصومہ عروہ ۔مائرہ عدن مشارف سب آئے تھے
اور پھر ان پیاری سی پریوں کا سفر شروع ہوگیا لیکن کون جانتا تھا کہ ان کا یہ سفر آگے چل کر کیا ثابت ہوگا
ان کی گاڑی گھر سے نکلے ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا ۔
جب یارم کے موبائل پر ایک کال آئی
جس گاڑی میں مہر اور عنایت کو ہوسٹل بھیجا گیا تھا راستے میں ہی وہ گاڑی بلاسٹ ہوگی ۔
مہر اور عنایت کی لاشوں کے اتنے ٹکڑے ہوچکے تھے کہ اب شاید ان کی لاشوں کو سمٹ پانا بھی ناممکن تھا ۔وہ پریاں خاموشی سے دینا چھوڑ چکی تھی ۔اپنی ماں اور باپ کی پر پریشان ختم کرکے ان کا گھر ہی نہیں زندگی بھی ویران کر کے
وہ سب لوگ اندر بیٹھے ہوئے تھے کہ خضر ابھی بھی پریشان تھا لیلی کے چہرے پر بھی پریشانی تھی
اور یارم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ انہیں ان کی بیٹیوں کی موت کی خبر سننا پاتا
ہر طرف خاموشی چھائی تھی ۔
ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا۔۔اس کی بیٹیاں بچھڑ گئیں اور وہ کچھ نا کر سکی ۔
ابھی کل کی ہو تو بات تھی وہ اس گھر میں چہکتی تھیں۔سارہ سارہ دن اسے تنگ کرتی تھیں
وہ تنگ آ کر ان کو باندھ دیتی کبھی واش روم میں تو کبھی ٹی وی کے سامنے صوفے کے ساتھ سارا دن ان کو پیار کرتی سمجھاتی کہ وہ ان کی ماں ہے
اور ان کو اس کا ساتھ دینا چاہے نا کہ خضر کا
اور وہ سارا دن اس کی لاڈلیاں بنی رہتیں اور خضر کے آتے ہی ٹیم چینج کر لیتیں وہ ناراض ہو کر بیٹھ جاتی تو وہ دونوں پیار سے اسے مناتی بھی تھیں
لیکن ہر بات کے اینڈ پر اسے بتاتی کہ بیسٹ پھر بھی بابا ہی ہیں . اور وہ اپنے بابا کی پریاں
اور پھروہ پریاں ان کو چھوڑ کر چلی گئیں لیلیٰ کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا اس کی بیٹی اسے چھوڑ کر چلی گئیں وہ ان کی حفاظت کرنا چاہتی تھی اور خود موت کے منہ میں چھوڑ آئی۔کیسی ماں تھی وہ ۔۔۔؟اپنی ہی بیٹیوں کو کھا گئی ۔۔۔؟
اپنی ہی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
وہ اندر ہی اندر گھٹ کر مر رہی تھی ابھی تک اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ گرا وہ اپنی ہی بیٹیوں کو کھا جانے والی ڈائن تھی اس لیے ان پر رونے کا کوئی حق نہیں تھا
اس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی معصوم بچیوں کی جان لی تھی
تو اب کس طرح سے روتی
آنسو خاموش ہو چکے تھے ۔آنکھیں ایسے خشک تھیں کہ ان سے ایک قطرہ بھی نہ بہا وہ اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کی موت پر روتی
لیلیٰ خدا کے لئے خود کو یوں اذیت مت دو اپنے اندر اپنے آنسوؤں کا گلا گھونٹ کر خود کو مردہ ثابت مت کرو
اس طرح سے تمہارا دل مر جائے گا معصومہ اسے سمجھا رہی تھی کب سے اس کے پاس بیٹھی مسلسل روئے جا رہی تھی
مگر لیلیٰ تو جیسے پتھر کی بنی ہوئی تھی پچھلے ایک ہفتے سے ایک آنسو نہ بہایا تھا تو اب کیوں روتی ۔۔۔۔!
معصومہ چلی جاؤ یہاں سے اور مجھے اکیلا چھوڑ دو کوئی بھی میرے پاس مت رہو میں ڈائن ہوں اپنا ہی گھر برباد کرنے والی اپنی بچیوں کی جان لینے والی مجھے کوئی حق نہیں ہے رونے کا مجھے میرے حال پر چھوڑ دو چلے جاؤ یہاں سے سب
اس پر ایک بار پھر سے پاگل پن سوار ہونے لگا رونے کو تیار نہ تھی اور اب وہ اپنے پاس بھی کسی کو نہیں آنے دے رہی تھی
خضر بالکل خاموش ہو گیا تھا وہ تو ویسے بھی اس کے پاس نہیں آتا تھا بس اپنے آپ میں ہی مصروف رہتا نہ کسی سے کچھ بولتا اور نہ کسی سے کچھ کہتا
ان کے گھر میں پھیلی یہ افسردگی اب شاید ہی ختم ہونی تھی
°°°°°
ج تین دن سے وہ بخار میں تپ رہی تھی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ ڈاکٹر کو گھر آنا پڑا وہ نا تو کچھ کھا رہی تھی اور نہ ہی کسی سے بات کرتی تھی
خضر اس کے پاس آیا کتنی دیر سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا اسے سمجھاتا رہا ہے یہ قسمت کا فیصلہ ہے تمہارا کوئی قصور نہیں لیکن لیلیٰ پر تو ایسے چپ سوار ہوئی تھی کہ وہ کچھ بولتی ہی نہیں تھی
پہلے اس نے کھانا پینا چھوڑا اب اس نے بولنا چالنا بند کر دیا تھا خود کو کمرے میں لاک کر رکھتی ۔
خضر کتنی دیر اس کے پاس بیٹھا رہتا ہے وہ اس سے بھی کوئی بات نہیں کرتی تھی
اپنی اپنی جگہ پرکوئی اسے سمجھا چکا تھا لیکن وہ کہاں کسی کی سمجھنا چاہتی تھی اسے تو بس اپنی بیٹیاں چاہیے تھیں جو اس کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ کر جا چکیں تھیں
وہ ان کی حفاظت کرنا چاہتی تھی خضر نے منع بھی کیا تھا کاش وہ اس کی بات مان لیتی کاش خضر کی ناراضگی کو وہ اہمیت دیتی
لیکن اس نے تو ہمیشہ سے اپنی کرنی تھی اور اس نے اپنی کی تھی جس کی سزا وہ آج کاٹ رہی تھی ۔انہیں ہمیشہ کے لئے کھو کر وہ انہیں خود سے دور کر رہی تھی اللہ نے اسےہمیشہ کے لئے ان سے دور کردیا
°°°°°°°
لیلیٰ کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی سب ہی لوگ پریشان تھے
اپنا درد خودتک محدود رکھے وہ اندر ہی اندر مر رہی تھی
کمرے میں اندھیرا تھا ۔اور وہ اس اندھیرے کی باسی بنی بالکل خاموش آج پھر روح اور یارم اس سے ملنے کے لیے آئے تھے لیکن وہ اب بھی اسی اندھیرے میں بیٹھی تھی جیسے کسی سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہو
وہ دونوں الگ نہیں سوتی تھی ان کا کہنا تھا کہ ان کے بابا کو ان کے بغیر نیند نہیں آتی لیکن اس کے باوجود بھی لیلیٰ نے ان کے لئے ایک کمرہ بنایا تھا اور اب وہ اسی کمرے میں رہتی تھی
آج پہلی بار یہاں آ کر رویام بالکل اکیلا ہو گیا تھا آج اس سے کھیلنے کے لئے اسے زبردستی کس کرنے کے لئے یہاں اس کی دوست نہیں تھیں
وہ ان دونوں کو تلاش کرتا آہستہ آہستہ چلتا ان کے کمرے میں آ گیا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے دروازہ کھولتا وہ نیم اندھیرے میں بھی لیلیٰ کے وجود کو دیکھ چکا تھا
کسی کی آہٹ کو محسوس کرکے لیلیٰ نے سر اٹھایا تو رویام دروازے پر کھڑا تھا آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا اور حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا
شاید اس سے پہلے اس نے لیلیٰ کو کبھی اس حالت میں نہیں دیکھا تھا وہ خوبصورت لڑکی ہمیشہ تیار رہتی اس نے اپنے آپ کو کبھی دوبچیوں کی ماں لگنے ہی نہیں دیا تھا وہ اپنا خیال رکھتی اپنے آپ کو سنوار کر رکھتی
سب کی پسندیدہ وہ ایسے ہی تو نہیں بنی تھی کوئی بھی بچہ اسے آنٹی نہیں کہتا تھا اور رویام کی تو وہ رشتے میں نانی لگتی تھی
رویام کے اس طرح سے دیکھنے پر وہ بھی بے جان نظروں سے اسے دیکھنے لگی اس کا ننھا سا وجود اسے اپنی بچیوں کی یاد دلا رہا تھا
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رودی اس کے آنسو بہنے لگے آنکھوں نے آخر ہمت ہار کے اپنا ضبط کو کھو ہی دیا اگلے ہی لمحے رویام نے اس کی آنکھ سے بہتے آنسو کو اپنے ننھے سے ہاتھ سے اس کے چہرے پر سے صاف کر ڈالا
اسی کسی کا رونا پسند نہیں تھا لیکن لیلیٰ کی تڑپ کو خود سمجھ نہیں سکتا تھا بے اختیار لیلیٰ نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
اس کی رونے کی آوازیں باہر تک آ رہی تھی وہ سب بھاگتے ہوئے کمرے کی جانب آئے
جہاں لیلیٰ رویام کو اپنے سینے میں بھیجے روئے جارہی تھی
اس کی جارحانہ گرفت میں بھی رویام رویا نہ تھا شاید وہ اس کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا
لیلیٰ کا یہ انداز اس کے لئے بھی اتنا ہی نیا تھا جتنا باقی سب کے لیے آج تک لیلیٰ کو کسی نے اس طرح سے روتے ہوئے نہ دیکھا وہ تو ان کے گروپ کی شیرنی تھی
جو سامنے والے کو چیر پھاڑ کے رکھ دینے کا ہنر جانتی تھی
عام عورتوں کی طرح رونا دھونا آنسو بہانہ لیلیٰ کا اسٹائل نہیں تھا
لیکن وہ ایک ماں بھی تھی اور آج وہ ان کی شیرنی نہیں بلکہ ایک ماں بنی ہوئی تھی جس کی آنکھوں میں اپنی بچیوں کے بچھڑ جانے کا غم تھا
خضر جلدی سے اس کے پاس آیا اس نےلیلیٰ کو تھام کر اپنے سینے سے لگایا جبکہ وہ دیوانوں کی طرح رویام کو چومتے اپنی ممتا کی پیاس بجھا رہی تھی
خضر میں مر جاؤں گی میں مر جاؤں گی خضر مجھے میری بچیاں چاہیے
خضر میں نہیں رہ سکتی ان کے بغیر ان کے بغیر رہنا میرے بس سے باہر ہے
میری تڑپ کو سمجھنے کی کوشش کرو
دیکھو دیکھو میری ممتا ادھوری ہے دیکھو میں ادھوری ہو چکی ہوں خضرمجھے میری بچیاں چاہیے
وہ ایک ہاتھ سے رویام کو تھامے جب کہ دوسرے ہاتھ میں خضر کاکلرجھنجوڑرہی تھی
صبر کرو لیلیٰ سب ٹھیک ہو جائے گا
وہ اسے اپنے سینے سے لگائے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
رویام کو روتا دیکھ کر یارم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو روح نے اس کا ہاتھ تھام لیا
میرے خیال میں رویام کو آج یہیں رہنے دینا چاہیے
لیلیٰ کو اس کی ضرورت ہے
وہ آہستہ آواز میں بولی تو یارم اسے دیکھنے لگا
تم اس کے بغیر رہ لوگی یا رم نے سوال کیا تو روح نے نرمی سے ہاں میں سر ہلا دیا
خضر تم لیلی کو سنبھالو ہم اب گھر چلتے ہیں یارم نے اندر آتے ہوئے کہا تو لیلیٰ نے ایک بار پھر سے رویام کو اپنے تڑپتے سینے سے لگا لیا
لیلیٰ تم رویام کا خیال رکھنا وہ آہستہ سے اسے کہتا اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر باہر نکل گیا جب کہ لیلیٰ نے ایک بار پھر رویام کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا
°°°°°°
گھر آکر وہ نہ جانے کتنی دیر روتی رہی اور یارم اسے سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا
لیلیٰ کو اس طرح سے ٹوٹا پھوٹا دیکھنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی وہ ان کے گروپ کی سب سے بہادر لڑکی رونا دھونا آتا کہاں تھا اسے وہ تو ان سب چیزوں کو بیوقوفی تصور کرتی تھی
لیکن اولاد کے غم نے اسے بھی توڑ کر رکھ دیا تھا
اس کا تڑپ تڑپ کر رونا روح کو بے چین کر گیا
اولاد کے چھین جانے کا خوف کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن لیلیٰ نے تو اپنی بچیاں ہی کھودی تھیں
صبر کرنا ایک انتہائی مشکل کام تھا نہ جانے خضر کیسے خاموش تھا
بس کرو روح کتنا رو گی تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں وہ نرمی سے اس کی آنکھوں کو چومتا اپنی تکلیف کا احساس دلاتے ہوئے بولا
اللہ کسی کی اولاد نہ چھینے یارم اس سے بڑا دکھ اور کوئی نہیں ہو سکتا وہ اس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
پریشان تو وہ بھی تھا عنایت چلبلی سی ہر وقت مستیاں کرنے والی پیاری سی بچی اور مہر خاموش طبیعت چپ چاپ سی جو ہر دوسرے تیسرے دن اس کے گھر آکر اس سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کرتی تھی
یقین تو اسے بھی نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو چکی ہیں
روح کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی اسے سر درد کی گولی دے کر نیند کی بھی گولی دی کہ وہ پرسکون ہو کر سو جائے
اور اسے سوتے دیکھ کر آہستہ سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب آگیا اور اپنے موبائل پر آنے والی کال سننے لگا
°°°°°°
وقت گزر رہا تھا سب کچھ معمول کے مطابق ہونے لگا یارم دوسرے دن جب رویام کو لینے آیا تو لیلیٰ کو اس کے ساتھ کافی اٹیچ دیکھا وہ بنارویام کو لئے واپس آگیا
اور اب تین دن سے وہ وہیں پر رہ رہا تھا
اپنی ماں کو تو وہ بہت مس کر ہی رہا تھا لیکن لیلیٰ کی محبت بھی اسے عزیز تھی
وہ یارم اور روح کے علاوہ اور کسی کو زیادہ تنگ نہیں کرتا تھا
یہ بات روح اور یارم دونوں ہی جانتے تھے اس لئے اس معاملے میں بالکل بے فکر ہوچکے تھے لیلیٰ جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتی ان کا رویام کو واپس لانے کا ارادہ نہیں تھا
اس کی تڑپتی ممتا کو ننھے معصوم لمس کی ضرورت تھی
اور رویام کو واپس لاکر وہ اس کی ممتا کوتپتے صحرا میں چھوڑ نہیں سکتے تھے
عنایت اور مہر کی لاش نہ ملی تھی
اگر ملی تھی تو صرف اور صرف مہر کے پیر کی جوتی
لاشیں بلاسٹ میں بری طرح سے تباہ ہو گئی
گاڑی کا بھی کوئی حال نہ تھا
بلاسٹ اس قدر شدید تھا کہ لیلیٰ اپنی بچیوں کے جنازے تک نہ کروا سکی اسے کس طرح سے چین آتا ۔وہ کیسے سکون سے رہتی اس نے تو اپنی بچیوں کا آخری دیدار تک نہ کیا تھا
°°°°°°
لیلیٰ نے بہت ہمت کرکے عنایت اور مہر کا کمرہ صاف کیا تھا ۔
ان کے سب کھلونے اور ساری چیزیں وہ ایک بڑے سے بیگ میں پیک کر کے دارالامان میں دینے جا رہی تھی
لیلیٰ کیا ضرورت ہے یہ سب کچھ کرنے کی ان سب چیزوں کو یہی رہنے خضر کمرے میں آیا تو اسے یہ سب کر دیکھ کر پریشانی سے کہنے لگا
نہیں خضر مجھے یہ ساری چیزیں دینے دو میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اگر ہماری بچیاں ان کھلونوں سے نہیں کھیل سکتی تو کیا ہوا دارالامان کے یتیم بچے ان سب چیزوں کو استعمال کریں گے اور ہماری عنایت اور مہر کے لیے دعائیں کریں گے
اگر تم ان یتیموں کو کچھ دینا چاہتی ہو تو ہم باہر سے خرید کر بھی دے سکتے ہیں میری بچیوں کی چیزیں کیوں دے رہی ہو
ہم دیں گے خضر ہم باہر سے خرید کر بھی دیں گے ان کو لیکن یہ ساری چیزیں میں اس لیے دے رہی ہوں کیونکہ مجھے میری بچیوں کے لئے بہت ساری دعائیں چاہیے ۔
میں ان چھوٹے چھوٹے بچوں میں اپنی بچیوں کو محسوس کرنا چاہتی ہوں
میں بہت خود غرض ہوں میں نے کبھی اپنی بچیوں کو اپنے بے حد قریب نہیں آنے دیا
ہمارا کام ایسا ہے کہ کبھی بھی ہمیں گولی لگ سکتی ہے کبھی بھی ہم مر سکتے ہیں میں اپنی بچیوں کو ماں کی عادت نہیں ڈالنا چاہتی تھی
لیکن وہ دونوں مجھ سے روٹھ کر چلی گئیں ہمیشہ کے لئے ۔خضر میں وعدہ کرتی ہوں اگر زندگی میں مجھے کبھی دوبارہ اولاد ہوئی نا تمہیں کبھی اسے خود سے دور نہیں کروں گی اس تڑپ کو میں اب محسوس کر رہی ہوں میں کیوں اپنی بچیوں کےلمس سے بے خبر رہی خضر
کیوں انہیں خود سے دور کیا دیکھو نہ وہ روٹھ کر ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلی گئیں ہمیشہ کے لئے اپنی ماں سے ناراض ہوگئیں ۔وہ آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے بولی تو خضر اس کے پاس آتے ہوئے بیڈ کے قریب بیٹھا اور اسے اپنا کندھا پیش کیا
وہ آہستہ سے اس کے کندھے پر سر رکھتی خاموشی سے آنسو بہانے لگی
میں تمہارے سر پر روز چمپی کروں گی تمھارے بال خراب نہیں ہوں گے اور جب تم کام سے واپس آؤ گے نہ تو روز تمہیں ہگ کروں گی تمہاری بیٹیاں آخرت کے دن مجھ سے حساب مانگیں گیں
وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی تو خضر نے اسے تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا کاش وہ اس کا دکھ کم کرسکتا کاش وہ اس کی تڑپ کو مٹا سکتا لیکن ممتا کی تڑپ کو مٹانا کہاں ممکن تھا
تھوڑی ہی دیر میں شارف آگیا ۔اور لیلیٰ سےسامان لے کر اسے گاڑی میں شفٹ کرنے لگا ۔لیلیٰ کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے شارف نےاسے اپنے ساتھ چلنے سے منع کر دیا تھا
°°°°°°
رات گیارہ بجے کا وقت تھا
وہ ہاتھوں میں بیگ لیے اسے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا
اس نے سر اور چہرے پر ہڈ پہن رکھا تھا کہ کوئی بھی آسانی سے اسے پہچان نہیں سکتا تھا وہ بہت لمبی مسافت طے کرکے آیا تھا
تھکاوٹ اس کے ایک ایک عضو سے جھلک رہی تھی
اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا تو دونوں ملازمہ الرٹ ہوگئیں
اور دروازے کی طرف دیکھنے لگیں لیکن اسے دیکھتے ہی انہوں نے گہری پرسکون سانس لی
کیسی ہیں وہ دونوں زیادہ تنگ تو نہیں کیا وہ ملازمہ سے پوچھنے لگا تو دونوں نے مسکرا کے نا میں سر ہلایا وہ مسکراتا ہوا ان کے کمرے کی جانب آگیا تھا
اتنا بڑا بیگ اس بیگ میں کیا ہے ملازمہ نے پوچھا
ان دو پریوں کا سارا ضروری سامان وہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا تو اسے دیکھتے ہی وہ دونوں چلاتے ہوئے اس کی طرف آئی تھیں
شارف چاچو نعرہ لگاتے وہ اس کے سینے سے آ لگی تھی
میری شہزادیاں کیسی ہو دونوں وہ باری باری ان کا سر چومتا پوچھنے لگا دونوں خوشی سے ہاں میں سر ہلاتی اسے بے حد پیاری لگی تھی
اچھا یہ سارا سامان تم دونوں کی ماما نے بھیجا ہے تاکہ اس کی بیٹیاں یہاں پر بہت خوش رہیں اور بابا تم لوگوں کو بہت سارا پیار بھیج رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ تم دونوں یہاں پر خوش ہونا وہ بہت نرمی سے ان دونوں سے پوچھ رہا تھا
چاچو ہم بہت خوش ہیں یہاں پر زیادہ پڑھائی بھی نہیں کرنی پڑتی تھی لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ ہوسٹل میں ہمارے بہت سارے دوست ہوں گے لیکن یہ کیسا ہوسٹل ہے یہاں تو ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے
کہاں ہیں ہمارے دوست اور ماما اور بابا ہم سے ملنے کب آئیں گے وہ دونوں باری باری سوال کر رہی تھی
ارے چپ کر جاؤ میری چھپکلیوں وہ دونوں جلد ہی آئیں گے تم لوگوں سے ملنے کے لیے لیکن فی الحال تم لوگوں کو یہیں رہنا ہے ان کے بغیر
یہاں تم لوگ پڑھائی کرو اور مستی کرو یہاں تم لوگوں کو ہر طرح کی چھوٹ ہے ایک دوسرے کا خیال رکھو اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو میری آنٹی اور شفاآنٹی کو بتا دینا ۔وہ مجھے بتائیں گیں
اور میں وہ چیز لے کر یہاں حاضر ہو جاؤں گا (اگر تم لوگوں کی ماں کے ہاتھوں زندہ بچ گیاتو) اس نے سوچا
کیوں کہ سچائی جاننے کے بعد لیلیٰ نے اسے جان سے مار دینا تھا پچھلے دنوں وہ جتنا تڑپی تھی اپنی بیٹیوں کی جدائی پر روئی تھی اس کے بعد حقیقت جان کر شارف کی موت لازم تھی
دونوں سے مل کر انہیں بہت ساری ہدایات دے کر وہاں سے باہر نکل کر اس نے اپنا فون نکالا
ہاں وہ تو بالکل ٹھیک ہیں فکر مت کرو میں ایک ایک پل پر نظر رکھے ہوئے ہوں یہاں وہ بالکل محفوظ ہیں
وہ میری اور شفا کو ہدایت دیتا دروازہ بند کرتے ہوئے باہر گارڈز کے پاس آیا
اور انہیں ہر پل الرٹ رہنے کا کہتا واپس اپنی گاڑی میں بیٹھا جب کہ اس دوران اس کی کال چل رہی تھی اسے صبح ہونے سے پہلے پہلے واپس اپنے شہر جانا تھا آٹھ گھنٹے کا ایک سفر ابھی ابھی اس نے ختم کیا تھا اور 8 گھنٹے کا سفر اس نے ایک بارپھر سے شروع کر دیا تھا
تم سارا سامان دے آئے نہ شارف وہ سرخ آنکھیں لئے اس کی طرف دیکھنے لگی
تو شارف نے فوراً ہاں میں سر ہلایا
تم کب کام واپس جوائن کرو گی وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے پوچھنے لگا
میں کل سے واپس کام پہ آ جاؤں گی شارف لیکن کیا تمہیں پتہ ہے کہ یہ بلاسٹ کس نے کروایا ہے کوئی شک کوئی اندازہ وہ اسے دیکھ کر پوچھنے لگی
شارف نے ایک نظر پیچھے صوفے پر بیٹھے خضر کو دیکھا جو اس کی بات پر بوکھلا کر پہلو بدل گیا
تم اس کے ساتھ کیا کرو گی لیلیٰ وہ آہستہ سے خضر کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا
وہی جو مجھے کرنا چاہیے شارف تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں اس طرح بےوقوفی بھرا سوال مجھ سے نہیں کرنا چاہیے
لیلیٰ تم ان کو چھوڑو انفارمیشن کے مطابق پتہ چلا ہے کہ گاڑی کو پہاڑی کی طرف لے کر جایا گیا تھا اور وہی پر اسے آگ لگا دی گئی تھی وہ بلاسٹ نہیں تھا
مجھے لگ رہا ہے کہ گاڑی کے پرزے کسی بہت ماہر انسان نے الگ کیے ہیں مجھے یہ بم بلاسٹ نہیں لگ رہا مجھے لگ رہا ہے کہ یہ کسی کی پلیننگ ہے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک فائل ٹیبل پر پھینک کر یارم لیلیٰ کو دیکھتے ہوئے بولا
کس کی پلاننگ ہے یہ ڈیول بتاؤ مجھے میں اسے چیڑکر رکھ دوں گی کس نے کیا ہے میری بیٹیوں کے ساتھ ایسا فائل کو اٹھائے وہ پاگلوں کی طرح دیکھنے لگی
خضر کی تو جان پر بنائی تھی
مجھے شام تک کا وقت دو لیلیٰ میں تمہیں سب بتاؤں گا اور یقین کرو مجرم تمہارے قدموں میں بیٹھ کر تم سے معافی مانگیں گے وہ صوفے پر ان دونوں کو گھورتے ہوئے بولا شارف نے بمشکل تھوک نگلا
نہیں وہ مجھے میرے قدموں میں نہیں بلکہ ان کی لاشوں کے ٹکڑے میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہوں یارم مجھے ان کی لاشیں دیکھنی ہیں جنہوں نے میری بچیوں کو جان سے مار ڈالا میں انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے سانس لیتا ہوا نہیں دیکھ سکتی ڈیول انہیں مار کر میرے پاس لانا
لیلیٰ کے شدید انداز پر خضر صوفے سے اٹھ بیٹھا
لیلیٰ اس کی کوئی مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے اس کے بے ساختہ کہنے پر شارف نے رکھ کر اس کے پیروں پر اپنا جوتا مارا
لیلہٰ نے حیرانگی سے اس شخص کو دیکھا تھا جو اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کا دعویٰ تو کرتا تھا لیکن بیٹیوں کی موت پر اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ گرا تھا
بیٹا ان کی مجبوریاں تو میں دور کروں گا اپنے سارے بہانے اور مجبوریاں لے کر شام 6 بجے آفس میں پہنچ جانا وہ ان دونوں کا کندھا تھپتھپاتے آہستہ آواز میں بولا مطلب یارم سب کچھ جان چکا تھا
خضر اور شارف ایک دوسرے کو دیکھنے لگے مطلب آج ان کی زندگی کا آخری دن تھا
لیلیٰ فائل چیک کر رہی تھی جس میں صاف لکھا تھا کہ اس جگہ کوئی بلاسٹ نہیں ہوا لیکن اگر بلاسٹ نہیں ہوا تھا تو مطلب اسکی بیٹیاں زندہ تھی ایک امید سی اس کے دل میں پیدا ہوئی
یارم اگر بلاسٹ نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب ہوا نہ کہ عنایت اور مہر ۔۔۔۔۔
آف کورس اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ دونوں زندہ ہیں اور ایک دن کے اندر وہ تمہارے پاس آئیں گی
کچھ نہیں ہوا تمہاری بیٹیوں کو اور نہ ہی اب میں کچھ ہونے دے گا تم لوگوں آفس میں ملو مجھے وہ ان دونوں کو گھورتا ہوا باہر نکل گیا
°°°°
تم نے تو کہا تھا کہ تم نے بہت اچھی پلاننگ کر رکھی ہے تو یارم کو پتہ کیسے چلا کیا پلاننگ کی تھی تم نے پہاڑوں پہ جاکے گاڑی کو جلا دیں گے اور اس سے کیا ہوگا سب کو لگے گا بم بلاسٹ ہوا ہے .واہ بھئی واہ۔یہ پلان تھا تمہارا یہ ۔۔۔۔۔؟
بے غیرت آدمی پلاننگ تو وہ کرتا جو یارم کی نظروں سے بچ جاتی۔ جس میں ہمارے زندہ بچنے کے چانسز ہوتے اگر نہیں تو سب کچھ یار م کو بتا دیتے وہ خود سنبھال لیتا وہ غصے سے بھرا ہوا اسے سنا رہا تھا
یہی تو مسئلہ ہے شارف اگر یارم کو بتاتا تو وہ اپنے طریقے سے سنبھال سکتا اگر لیلیٰ کو بتاتا وہ شیرنی اپنی بچیوں کی زندگی پر منڈاتا یہ خطرہ دیکھ کر پتہ نہیں کیا سے کیا کر دیتی
یہ لوگ مجھے دھمکی دے رہے تھے کہ اگر میں نے یارم کو جان سے نہیں مارا تو وہ میری بیٹیوں کو مار ڈالیں گے یارم کو میں مار نہیں سکتا اور اپنی بیٹیوں کو مرتےدیکھ نہیں سکتا۔وہ بھی تب جب میں ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں
بہت سوچ سمجھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنی بیٹیوں کو سامنے سے ہٹا دوں گا صارم بھی ان لوگوں کے خلاف ثبوت ڈھونڈ رہا ہے ۔
اس کے بارے میں صارم کو پتہ چل گیا کیونکہ اس نے میرے موبائل فون پر ٹریسرلگایا تھا ۔
ان لوگوں نے گھر پر حملہ کیا ۔اس دن میں گھر پر نہیں تھا اگر لیلیٰ نہیں ہوتی تو آج شاید میں اپنی بچیوں کی موت پر آج سچ میں آنسو بہا رہا ہوتا
یار وہ لوگ صرف فون پر بات کرتے تھے مجھ سے وہ مجھے دھمکیاں دینے لگے کہ اگر میں نے یارم کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا تو وہ میری بیٹیوں کو جان سے مار ڈالیں گے اور اتنا ہی نہیں اسکول سے کڈنیپ کرنے کی کوشش کی گئی
دوسری طرف یارم کے سامنے مجھے خاموش رہنے کی دھمکیاں دی جارہی تھی صارم نے یہ ساری فون کال اپنے کانوں سے سن لی اور اس نے مجھے کہا کہ مجھے فلحال اپنی بچیوں کو منظر سے ہٹا دینا چاہیے
میں نے یہ سب صرف اس لئے کیا تھا کہ میں یہ جان سکوں کہ آخر وہ لوگ ہیں کون اور یارم کی جان کے پیچھے کیوں پڑے ہیں عنایت اور مہر کو سب کی نظروں میں مار کر مجھے لگا کہ میں ان لوگوں تک پہنچ جاؤں گا لیکن میں یارم کی نظروں میں آ گیا میں دنیا کے ہر انسان کو دھوکا دے سکتا ہوں لیکن یارم کی نظر سے نہیں بچ سکتا اور اب یارم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا
اور پتہ نہیں لیلیٰ ہمارا کیا حال کرے گی اس کی ادھوری بات کو شارف نے مکمل کیا
۔میں تو بس ان دونوں کے زندہ ہونے کی خوشی میں پاگل ہو گیا تھا مجھے کیا پتا تھا تم نے یہ ساری پلاننگ کی ہوئی ہے
اور ویسے بھی مجھے تو بس اتنا ہی پتا تھا نہ کہ وہ دونوں زندہ ہیں اس کے علاوہ تو تم نے مجھے کچھ کہا ہی نہیں
کچھ بتایا نہیں مطلب کہ میرے زندہ بچنے کے چانس ہیں
شارف معصومیت سے کہتا اسے دیکھ رہا تھا
خضر کا دل چاہا اس دو چہرے والے انسان کا منہ توڑ دے شارف تو اس بات پر یقین کرنے کے لیے پہلے تیار ہی نہیں تھا کہ اس کی بیٹیاں زندہ ہیں
اور شارف کو بتانے کا تو اس کو ارادہ نہیں تھا اس نے اسے اس لئے بتایا تھا کیونکہ لیلیٰ کو اکیلا چھوڑ کر وہ خود اپنی بیٹیوں سے ملنے نہیں جا سکتا تھا
تمہاری کتنی غلطی ہے یہ تو تمہیں یارم بتائیے گابیٹا اگر میں پھسا تو زندہ تو تم بھی نہیں بچو گے
میرا نام بھی خضر ہےبیٹا میں یارم اور لیلیٰ کو بتاؤں گا کہ اس پوری پلاننگ میں تو شامل تھا
تیرے جیسے دوست سے دشمن اچھے ہیں وہ دہائی دیتے ہوئے بولا
دوست کون دوست میرا شارف نام کا کوئی دوست نہیں یہاں کچھ دیر پہلے ایک دشمن بنا ہے اور ڈیول کی ٹیم دشمنوں کے ساتھ کیا کرتی ہے وہ تجھے یارم کےسامنے پتہ چلے گا وہ دھمکی لگاتا اٹھ کر باہر چلا گیا جہاں لیلیٰ غصے سے دائیں بائیں ٹہل رہی تھی بہت دنوں کے بعد اس کا پرانا روپ سامنے آ رہا تھا
شیرنی اپنے شکار کے لیے تیار بیٹھی تھی اس وقت شاید وہ آفس جانے کی تیاری کر رہی تھی
تم اس وقت کہاں جا رہی ہو ۔۔؟وہ اس سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس کے غصے کا گرا ف چیک کرنا چاہتا تھا کہ پتہ تو چلے کہ زندہ بچنے کے چانس ہیں یا نہیں شاید اسے اپنی بیٹیوں کا باپ سمجھ کر زندہ چھوڑہی دے
خضریارم نے کہا ہے کہ وہ مجھے سب کچھ بتائے گا لیکن فی الحال اس نے مجھے کچھ بتایا نہیں تو سوچا خود ہی آفس جا کے چیک کر آتی ہوں کیونکہ اس فائل میں تو صرف گاڑی کی تصویریں ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ کسی بہت ماہر مکینک نے اس کے پرزے الگ کئے ہیں ۔لیکن اب میں اس کے پرزے الگ الگ کروں گی
کیونکہ ایک بلاسٹ کے بعد جو حالت گاڑی کی ہونی چاہیے وہ تو اس کی ہرگز نہیں ہے چلو تم بھی یارم تمہیں بھی بلا رہا تھا اور شارف کو بھی چلنے کا کہو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے
یار م نے تم سے کیا کہا کہ کیا وہ جانتا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں اپنے سر پر لٹکتی تلوار کا سوچ کر کمرے سے نکلتے شارف نے پوچھا
نہیں یہ تو نہیں پتا لیکن یارم نے صارم کو آفس میں بلایا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری کچھ مدد کرے لیلیٰ کہتے ہوئے اپنے جوتے پہن چکی تھی
بیچارہ صارم لیلیٰ یہ سوچ رہی تھی کہ یار م نے صارم کو مدد کے لئے بلایا ہے وہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ آج کی تاریخ میں دو نہیں تین جنازے اٹھنے والے ہیں
اے اللہ ان ظالموں کے دل میں ہمارے لیے رحم ڈال د ے آج بچالے آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کریں گے لیلیٰ کو باہر نکلتے دیکھ کر شارف نے پوری شدت سے دعا کی جس پر اس شدت سے آمین خضر کی جانب سے آیا تھا
°°°°°
یارم آفس جانے سے پہلے گھر آیا تھا دو دن سے رویام کو بخار تھا پہلے ہلکا پھر تیز پھر ہلکا اور روح بتا رہی تھی کہ اب پھر تیز ہو گیا ہے
وہ صبح ہی اسے ہوسپٹل لے کرجانے ولا تھا لیکن اسے شارف اور خضر کے کارنامے کا پتہ چل گیا
وہ کچھ دن سے کافی ڈل ڈل لگ رہا تھا یارم نے گھر آتے ہی سب سے پہلے اس کو دیکھا تھا وہ جاگ رہا تھا لیکن پھر بھی بنا شرارتوں کے آرام سے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا
جس کا مطلب تھا کہ وہ زیادہ بیمار ہے
میرا شیطان اتنا خاموش کیوں ہے وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھاتا پیار سے اس کا ماتھا چوم کر پوچھنے لگا
مدھے پھیور ہے (مجھے فیور ہے )وہ ننھا سا ہاتھ اپنے ماتھے پر مارتا اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بتانے لگا
فیور کی کیا مجال جو میرے بیٹے کو ہو جائے چلو جلدی سے بولو اپنے فیور کو کہ اپنے گھر جائے ہمیں نہیں چاہیے اس کے انداز پر مسکراتے ہوئے یارم نے اسے اپنے سینے سے لگا کر کہا
نہیں جا رہا ۔۔وہ معصومیت سے منہ بسور کر بولا جبکہ روح کے کمرے میں آنے پر فورا یارم کے سینے میں چھپ گیاجو اس کےلیے دوائی لے کر آئی تھی
رویام بیٹا دیکھو میں ساتھ میں چاکلیٹ بھی لائی ہوں یہ گندی کڑوی سے دوائی پی کر آپ ساتھ میں میٹھی چاکلیٹ کھاؤ تو آپ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ گے وہ اسے پیار سے بہلاتے ہوئے بولی
میں صرف چاکلیٹ کھاؤں گا وہ منہ بنا کر بولا
لیکن چاکلیٹ کوئی دوائی نہیں ہے ٹھیک ہونے کے لیے تمہیں میڈیسن لینی ہوگی ورنہ ڈاکٹر انکل آپ کو انجکشن لگائیں گے وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی جب اگلے ہی لمحے وہ بیڈ پر کھڑے ہو کر انکارکرنے لگا
میں تو ایک دم ٹھیک ہوں۔۔۔ دوائی کی ضرورت نہیں
لیکن اس کا ننھا سا وجود اگلے ہی لمحے بیڈ پر گر گیا تھا اگر یارم اسے بروقت نہ تھامتا وہ تو یقینا چکر کھا کر زمین پر گر جاتا
رویام میری جان آپ ٹھیک نہیں ہیں اور یہ میڈیسن آپ کو لینی ہوگی اور مجھے ضروری کام ہے میں وہ نپٹا کے آؤں گا پھر ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر چلیں گے
یارم کہہ کر اسے زبردستی دوائی کھلانے لگا رویام رونے لگا تو اسے چوم کر روح کی گود میں ڈال کر وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا
جبکہ روح اس کا روتا ہوا وجود اپنے سینے سے لگا کر اسے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگی جانتی تھی کہ وہ اسے دوائی نہیں کھلا پائے گی کیونکہ وہ رویام کو اس طرح روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن یارم اس کے رونے کی فکر کرتے ہوئے اس کی صحت پر کبھی رسک نہیں لیتا تھا اور اس وقت بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا
رویام کو دوائی کھلا کر وہ خضر اور شارف کا حساب کرنے جارہا تھا
اپنے جارحانہ انداز سے رویام کو دوائی کھلانا اسے بھی اچھا نہیں لگا تھا لیکن یہ اس کے لیے ضروری تھا روح کو اس کا خیال رکھنے کا کہتا وہ اپنے آفس چلا گیا اب نہ جانے اسے چپ کروانے میں روح کو کتنا وقت لگا تھا
°°°°
°خضر صاحب لیلیٰ کی بچیاں کہاں ہیں۔۔۔۔؟ وہ انتہائی غصے سے پوچھنے لگا ۔
یارم یار کیا ہوگیا ہے تمہیں مہر اور عنایت میری بھی بچیاں ہیں میں باپ ہوں ان کا ان کے ساتھ کچھ برا نہیں ہونے دوں گا خضر نے سمجھاتے ہوئے کہا
میں نے پوچھا لیلیٰ کی بچیاں کہاں ہیں خضر ۔۔۔؟وہ ایک زوردار مکا اس کے منہ پر مارتے ہوئے پھر اسی انداز میں بولا
میرے پاس ہیں اور بالکل ٹھیک ہے خضر نے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے بتایا جہاں سے اس کے حملے کی وجہ سے خون بہنے لگا تھا
میں نے کہا ۔کہاں ہیں ۔۔۔۔۔! وہ ایک بار پھر سے اس کا کلر پکڑ کر اپنے سامنے کرنے لگا جب وہ بول اٹھا
تمہارے فارم ہاؤس پر میری اور شفا کے پاس وہ فورا بولا
مطلب کے اس سب میں وہ دونوں بھی شامل ہیں ۔۔۔۔؟ یارم نے بےیقینی سے کہا وہ اس کی وفادار ساتھی تھیں ۔ان سے یارم کو ایسی امید نہیں تھی
نہیں وہ تو ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھیں لیکن میں نے ان کی مینتں کی اور کہا کہ یارم کو سب کچھ پتہ ہے تب جا کر انہوں نے ہماری مدد کی صارم نے کسی طوطے کی طرح یاد کیا ہوا سبق سنایا۔آج وہ بھی اس لیسٹ میں تھا ۔
جس میں خضر اور شارف تھے۔
اور آج اس کی وردی بھی کسی کام کی نہیں تھی ۔
مطلب کے تم لوگوں نے مجھے علم میں لائے بغیر میرے ہی لوگوں کو استعمال کیا ۔۔۔؟اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا پوری شدت سے صارم کی پشت پر مارتے ہوئے اسے چلانے پر مجبور کر کے یا رم نے پوچھا
غلطی ہوگئی معاف کردو وہ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر ہم نے تمہیں کچھ بھی بتایا تو وہ لوگ عنایت اور مہر کو جان سے مار ڈالیں گے وہ لوگ سکول بھی گئے تھے عنایت مہر کو کڈنیپ کرنے کے لئے لیکن وہاں اسکول کے گارڈ نے ان کو بچا لیا
اور فورا ہی مجھے فون کر کے بتایا کہ وہاں میری بچیوں کو کڈنیپ کرنے کی کوشش کی گئی ہے میں وہاں سے ان کو لے کر تو آیا لیکن دل میں ایک ڈر بیٹھ گیا تھا کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے
وہ لوگ صرف مجھ سے فون پر بات کر رہے تھے یارم وہ کون تھے میں نہیں جانتا لیکن صارم کو شک تھا کہ چھ مہینے پہلے جیل سے چھوتےہوئےلوگ جو پاکستان سے یہاں لڑکیاں لائے تھے جن میں تمہارے گھر آئی وہ مہمان حورم مقدم شاہ شامل تھی وہ لوگ ہیں
وہ بہت خطرناک لوگ تھے یارم اور ایک باپ ہونے کے ناطے مجھے جو ٹھیک لگا وہ میں نے کردیا
میں اپنی بیٹیوں کے لیے تمہیں دھوکا نہیں دے سکتا تھا اور نہ روح کی زندگی کی خوشیاں چھین سکتا تھا
وہ مجھے دھمکی دے رہے تھے کہ مجھے تمہیں اپنے ہاتھوں سے مارنا ہوگا میں نہیں جانتا تھا کہ میں اپنی بیٹیوں کی جان بچا سکوں گا یا نہیں لیکن تمہارے ساتھ غداری نہیں کر سکتا میں
ان لوگوں کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے اپنی بیٹیوں کو منظر سے ہٹا دیا
خضر نے اسے پوری بات بتائی
صارم کا شک بالکل ٹھیک تھا یہ وہی لوگ تھے جو چھ مہینے پہلے پاکستان سے دبئی لڑکیاں لائے تھے اور یارم نے ان کے کام کو ناکام بنا دیا تھا اور اب وہ لوگ یارم کو جان سے مار کر اپنا بدلہ لینا چاہتے تھے جس کے لیے وہ خضر کو استعمال کر رہے تھے ۔
ان کے بوس کے یارم نے اتنے ٹکڑے کیے تھے کہ شاید ہی اس کی لاش مکمل کسی کو مل پاتی لیکن اس کے سارے پارٹ جمع کرکے ایک شاپر میں ڈال کے وہ صارم کے گھر کے باہر رکھا گیا تھا
اور وہاں پر موجود باقی سارے لڑکےاپنی جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگ گئے تھے اس گینگ کے اوپر بھی ایک گینگ تھا جو کسی اور کا نہیں بلکہ اس کے بھائی کا تھا وہ لوگ گرین گینگ کے نام سے جانے جاتے تھے ۔اور اب وہ گرین گینگ یارم کو مارنے کی پلاننگ کر رہا تھا یہ ساری باتیں وہ ان تینوں کو بتائے بغیر دو دن میں جان کر آج ان کی کلاس لے رہا تھا
جب لیلیٰ نے کمرے میں قدم رکھا۔
آو لیلیٰ یہ رہے تمہارے مجرم اپنی بیٹیاں تم ان تینوں سے مانگو وہ کہہ کمرے باہر نکل گیا اب لیلیٰ جانے اور وہ تینوں۔۔
وہ تینوں لیلیٰ کو خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے
°°°°°°
باہر نکلتے ہی اسے روح کا فون آیا
روح اسے بہت کم فون کرتی تھی ۔اس نے فورا فون اٹھایا
رویام کی طیبیت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔اسے بخار میں جھٹکے لگ رہے تھے ۔جس کی وجہ سے روح بہت پریشان تھی
روح فون پے جذباتی ہو رہی تھی۔
یارم اسے ابھی گھر پہنچنے کا کہتا اپنی گاڑی کی طرف آیا
جبکہ پورے آفس میں خضر شارف اور صارم کی چیخیوں کی آوازیں گھوج رہی تھی۔
ان کا تو آج اللہ ہی خافظ تھا
کیا مطلب ہے تمہارا لیلیٰ تم ہمیں اتنا مارپیٹ کر بیٹھنے کے بھی قابل نہ چھوڑ کر بچیوں کو لینے بھی نہیں چلو گی ۔۔۔۔؟
شارف جو کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا چیخ کر اٹھا اور پھر اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے پوچھنے لگا
میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جاؤں گی اور نہ ہی تم لوگ کہیں جا سکتے ہو یارم کے آرڈر ملنے سے پہلے اور میری وہاں نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ یارم نے مجھے منع کیا ہے اس نے کہا ہے کہ تم لوگوں نے بیوقوفی کا کام کرنے کے باوجود بھی ان دونوں کو ایک جگہ سیو جگہ پہنچا کر اچھا کام کیا ہے
اس لیے فی الحال ان دونوں کو وہی پر رہنے دو جہاں وہ دونوں سیو ہیں اور باقی جو تم نے ہم سے یہ بات چھپائی ہے اس کی سزا میں نے تم لوگوں کو دی ہے
مطلب کے ہم نے جو کام کیا وہ بالکل ٹھیک تھا تو سزا کس بات کی صارم بولا ۔کیوں کے اسے بھی یہی لگتا تھا کہ اس نے جو کیا ہے وہ بالکل غلط ہے
اوور اسماٹ بنے کی ۔لیلیٰ نے جواب دیا
اور خضر تو صرف اور صرف اپنی بچیوں کی حفاظت کرنا چاہتا تھا اور ایک باپ ہونے کے ناطے جو کچھ کرسکتا تھا اس نے کیا اور اس نے جو بھی کیا تھا اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا ۔
تو انہیں بے کار میں اتنی سزا کیوں ملی یارم نے انہیں اس خونی شیرنی کے آگے کیوں پھینک دیا لیلیٰ نے تو انہیں بیٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا اتنے اچھے سے ڈنڈے مارے تھے کہ وہ بیٹھتے ہوئے بھی تکلیف محسوس کر رہے تھے ۔
اور اب انہیں یہ پتہ چل رہا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ بالکل صحیح تھا
کیونکہ تم لوگوں نے اتنی بڑی بات ہم سے چھپائی ۔ٹھیک ہے معاملہ ہماری بچیوں کا تھا تم یارم سے چھپا لیتے اسے کچھ بھی نہ بتاتے لیکن مجھے بیچ میں شامل نہ کر کے تم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے اگر تم ایک باپ ہونے کے ناطے ان بچیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر سکتے ہو تو ایک ماں ہونے کے ناطے مجھے بھی جاننے کا حق تھا
تمہیں بس میں نے اس بات کی سزا دی ہے اور ان دونوں کو سزا ان کے مشورے اور ساتھ دینے کی وجہ سے ملی ہے اگر تم چاہتے تو حقیقت مجھے بتا سکتے تھے اپنی پلاننگ میں مجھے شامل کر سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا
ان کا جو انجام ہونا چاہیے تھا میں نے وہی کیا
فلحال کے لیے مہر اور عنایت کو وہیں رہنے دو جہاں پر وہ ہیں
اور اس کے علاوہ ایک اور بات صارم تم پچھلے دو ہفتے سے ہر جگہ ان لوگوں کو ڈھونڈ رہے تھے جو خضر کو بلیک میل کر رہے تھے لیکن یار م نے دو ہی دن میں ان لوگوں کو نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ ساری انفارمیشن نکالتے ہوئے ان کے اڈے تک جا پہنچا تو اسی بات سے اندازہ لگا لو کہ یارم کی طاقت تم سے زیادہ ہے
تم اپنا دماغ فضول میں استعمال نہ کیا کرو
تمہارا قانون ہماری کبھی کوئی مدد نہیں کر سکا الٹا یہ ہماری مدد لیتا آیا ہے ۔اگر تم اپنا دماغ لڑانے کے بجائے یارم کو ساری حقیقت بتا دیتے تو یقین کرو اب تک ہم ان لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچا چکے ہوتے اور مہر اورعنایت ہمارے پاس ہوتیں۔
اور باقی شارف ایک بات یاد رکھنا چاہے جو بھی ہو جائے تمہیں میرا ساتھ دینا ہوگا اگر تم نے آئندہ اس کا ساتھ دیا نہ تو تمہارا انجام اس سے بھی زیادہ برا ہوگا
آج تم بے شک بیٹھنے کے قابل نہیں رہے لیکن اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہواگر آئندہ تم نے ایسی غلطی کی تو شاید تم اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہ ہوسکو وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی وہ ان کے آگے پیچھے چلتی مسلسل اپنے جوتوں کی ٹک ٹک سے انہیں پوری بات بہت اچھے طریقے سے سمجھا چکی تھی
لیلیٰ سے کہیں زیادہ تو اس حال میں اس کے جوتوں کی آواز گونج رہی تھی ۔
اب تم گھر چلو گے یا تمہارا یہی رکنے کا ارادہ ہے لیلیٰ نے خضرکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
وہ جانتی تھی کہ وہ ان کرسیوں پر کتنی بے چینی سے بیٹھے ہوئے ہیں اسی لیے طنزیہ مسکرائی
فکر مت کرو خضر میں تمہیں گھر تک آرام سے لے جاؤں گی آخر تم میرے بچوں کے باپ ہو اتنا تو کرہی سکتی ہو میں تمہارے لیے
اور ہاں شارف معصومہ یہیں باہر ہے وہ تمھیں گھر لے جائے گی اور مسٹر انسپکٹر صاحب گریٹ بیوقوف صارم تم اپنی بیوی کو بلا لو یا اپنے کسی آفسر کو ہی بلا کر چلے جاؤ
کیونکہ تم گاڑی میں بیٹھ کر نہیں بلکہ بیک سیٹ پر لیٹ کر جاؤ گے ۔
میں دعا کروں گی کہ تم لوگوں کی رات اچھی گزرے اس نے ایک نظر سائیڈ پر پڑے لکڑیوں کے ڈھیر پر ڈالی تھی ۔
شہتوت کے درخت کی بنی سٹکس تقریبا ایک درجن تو ہونگی ۔جس کو لیلیٰ نے بہت سہولت سے استعمال کیا تھا
خضرنے اٹھتے ہوئے لیلیٰ کے کندھوں کا سہارا لیا کیونکہ اس سے چلا تک نہیں جا رہا تھا لیلیٰ کو ہنسی تو بہت آئی ۔
لیکن اب اسے اس پر ترس دیا ۔
وہ جانتی تھی کہ خضر نے جو بھی کیا ہے اپنی بچیوں کی زندگی بچانے کے لئے کیا ہے لیکن اسے اس سے چھپانے کا کوئی حق نہیں تھا اگر وہ باپ تھا اپنے بچوں کا بلا سوچ رہا تھا تو وہ بھی ماں تھی جس کا پورا حق ہے اس کی بیٹیوں کی زندگی خطرے میں ہے
حضرکو یارم کو لے کر دھمکیاں دی جارہی تھی حضر نے اس سے اتنی بڑی بات چھپائی ۔
لیکن شارف اور صارم ساری بات جانتے تھے مطلب کہ وہ خضر کے لئے اس سے زیادہ قابل یقین تھے ۔اس بات کے لئے حضر کو سزا تو ملنا بنتی ہی تھی ۔جولیلٰی نے دے کر اپنا فرض پورا کیا تھا
°°°°°
ڈاکٹر حسن رویام کا مکمل چیک کرنے کے بعد رپورٹ چیک کرنے چلا گیا . لیکن جانے سے پہلے اس نے رویام کو انجیکشن دینے کا آرڈر نرس کو دیا
آپ پلیز میرے بیٹے کے سامنے انجیکشن تیار نہ کریں وہ انجکشن سے ڈرتا ہے روح نے فکرمندی سے بتایا تونرس مسکرائی
اوکے میم میں دوسری طرف جا کے کرتی ہوں ۔
پیارے بے بی کو ڈر لگتا ہے وہ رویام سے بہت پیار سے بولی تھی روح تو اس نرس کا انداز بالکل اچھا نہ لگا کبھی وہ یارم کو گھور گھور کر دیکھتی تو کبھی مسکرا مسکرا کر یارم کے پاس جانے کی کوشش کرتی
اور اب وہ رویام کے پیچھے پڑ گئی تھی
ٹھرکی نرس کہیں کی روح بڑ برائی اور اس کی یہ بڑبراہٹ یارم نے بہت غور سے سنی تھی
ٹھر کی وہ بیچاری نہیں بلکہ تمہارا بیٹا ہے دیکھ نہیں رہی کب سے اسے گھور کر لائن دے رہا ہےیارم نے فورا اس کی بات کا جواب دیا
خبردار خو میرے بیٹے کے خلاف ایک لفظ بھی کہا ۔وہ آپ کو گھور کر دیکھ رہی تھی روح نے اسے بتایا تو وہ مسکرایا
کیا بات کر رہی ہو مطلب تمہارے بیٹے کے ہونے کے باوجود کوئی مجھے دیکھ رہا تھا لگتا ہے نرس کی نظر خراب ہے ۔روح یارم سے کہتی تھی کہ اس کا بیٹا یارم سے زیادہ پیارا ہےتو لگے ہاتھ یارم نے اس بات کا بھی بدلہ لے لیا
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے ورنہ آپ میں دیکھنے لائق ہے ہی کیا روح کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی
واہ بیوی اپنی ٹھر کی اولاد کو کچھ مت کہنا۔ہنس ہنس کے تمہارا بیٹا اسے اپنی طرف متوجہ کرے اور الزام تم میرے سر ڈال دو ۔
رویام بیٹا بتا اسے کہ جب تو پیدا ہوا تیری نرس کے ساتھ سیٹنگ کرنے کی کتنی کوشش کی تھی تیرے باپ نے وہ تو نہ جانے کہاں چلی گئی لیکن اس کے ساتھ ہی سیٹنگ کروا سکتا ہوں تیری یہ مسکان بتا رہی ہے کہ تجھے بہت پسند آ گئی ہے وہ کیا خیال ہے شادی کرا دوں تیری اس کے ساتھ وہ رویام کو دیکھتے ہوئے ہنستے ہوئے بولا
جب کہ بخار کی شدت میں تپتے ہوئے رویام نے فورانہ میں سر ہلایا تھا
مطلب کے یہ بھی نہیں پسند پھر کس سے شادی کرے گا یارم نے ہنستے ہوئے کہا روح تو اسے گھور کر رہے گی
خدا کو مانے یار م رویام صرف ڈھائی سال کا ہے اتنی لمبی سوچیں نہیں ہیں میرے بیٹے کی ایک شریف معصوم سے بچے کے لیے ایسا کون سا باپ کہتا ہے
میں۔۔اس کے انداز پر یار م نے ہنستے ہوئے کہا
نہ جانے اس نے کس بات پر نامیں سر ہلایا تھا اور یارم پتہ نہیں اسے کس انداز میں لے گیا اور خود ان دونوں باپ بیٹے کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھی
میں سچ کہتا ہوں تو ایک بار نام تو لے کے تیری شادی کس کے ساتھ کرنی ہے میں اسے فوراً اپنی بہو بنا کے لے آؤں گا اور اگر تو اس کو پٹانا سکا تو تیرا باپ بہت ہینڈسم ہے کوئی نہ کوئی جھگاڑکر ہی لے گا تیرے لیے بس تو بتا کہ تجھے شادی کس سے کرنی ہے وہ بھر پور شرارتی انداز میں بولا
دانو تھائی شے (جانوسائیں سے)۔یارم کی بات مکمل ہونے پر رویام نے فورا جواب دیا کہ یارم اور روح دونوں ہی اسے حیرانی سے دیکھنے لگے
رویام کی یاداشت بہت تیز تھی یہ دو ماہ پہلے کی بات ہے جب حورم مقدم شاہ ان کے گھر میں آکر رکی اور رویام تو اس پر پوری طرح سے فدا ہو گیا تھا اسے رویام کا پہلا کرش کہا جائے تو یہ غلط نہیں تھا ۔
جو خود رویام پر پوری طرح سے فدا ہو گئی تھی اگر وہ شادی شدہ نہ ہوتی تو رویام کبھی اسے جانے نہ دیتا
اگر اس کا ٹانکا دائم شاہ کے ساتھ فٹ نہ ہوتا تو پکا میں تیری شادی اس کے ساتھ کروا دیتا یارم کے انداز پر روح نے اسے گھور کر دیکھا
وہ ڈھائی سال کا ہے ایسی سوچیں نہیں ہیں میرے معصوم شریف سے بچے کی روح نے اس کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا
روح بے۔ بی تمہارا بیٹا کتنی پہنچی ہوئی چیز ہے تمہیں بالکل اندازہ نہیں ہے
تم نے دیکھا نہیں کہ اس نرس کو کیسے دیکھ رہا تھا اور باربار مسکرا مسکرا ڈمپل شو کرتا تھا اس کا ارادہ اسے جانے دینے کا نہیں تھا وہ تو بےچاری شادی شدہ نکلی اس کا شوہر اسے لینے آ گیا ورنہ آج وہ ہماری بہو ہوتی
یارم ابھی بھی ہنستے ہوئے روح کو چھیڑنے لگا
جب نرس کمرے میں داخل ہوئی
آئی ایم سوری میں ذرا لیٹ ہوگئی مجھے ڈاکٹر نے بلایا تھا آپ کے بیٹے کی رپورٹس آ چکی ہیں لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ تفصیل سے چیک کرنا چاہتے ہیں اسی لیے آپ لوگوں کو رپورٹ کل ہی ملیں گی تو تب تک کیوں نہ ہم رویام کو انجیکشن لگا لے
مسکراتے ہوئے وہ رویام کے سامنے آکر بیٹھی تھی تو رویام نے مسکرا کرڈمپل کی نمائش کی
ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے آپ کا وہ رویام کی تعریف کرتے ہوئے انجکشن لگانے لگی
یارم نے بہت نرمی سے رویام کے دونوں بازو تھام لئے تاکہ وہ ہلے نہیں جس پر رویام نے گھور کر اپنے باپ کو دیکھا تھا شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ اسے ہسپتال کیوں لایا گیا ہے
پلیز بےبی رونا نہیں بلکل درد نہیں ہوگا میں بالکل درد نہیں لگاتی آپ کو وہ کہتے ہوئے نرمی سے انجکشن لگانے لگی اور روح تو کب سے آنکھیں بند کیے رویام کے رونے کی آواز کا انتظار کر رہی تھی انجکشن لگنے کے بعد بھی اس کی آواز نہ آئی
بلکہ وہ تو اپنے باپ کا کہا سچ کرتے ہوئے محبت بھری نظروں نرس کو دیکھ رہا تھا
جیسے سچ مچ میں اس سے پیار ہوگیا ہو
دیکھا بلکل درد نہیں لگایا نہ میں نے وہ بہت پیار سے اس کا گال چومتے ہوئے بولی تو رویام نے شرماتے روح کے سینے میں اپنا منہ چھپا لیا
مطلب کے اس کا بیٹا شرمآ رہا تھا وہ بھی اس لڑکی سے مطلب کے وہ سچ میں ٹھرکی تھا یا رم کی بات سچی تھی اس کے انداز پر یارم نے اپنی مسکراہٹ بہت مشکل سے روکی
°°°°°°
یارم روح کو یہی رکنے کا کہتا خود گاڑی نکالنے چلا گیا کیونکہ باہر بہت زیادہ رش تھا ہسپتال کی وجہ سے یہاں پر بہت زیادہ بھیڑ ہوجاتی تھی ۔
رویام کا بخار ابھی تک اترا نہیں تھا اس لئے وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ رش میں جا کر اپنی طبیعت مزید خراب کرے
روح ڈاکٹر کے کیبن کے باہر لگے ٹیکس پر بیٹھ کر یارم کی کال کا انتظار کرنے لگی پتہ نہیں اسے آنے میں کتنا وقت لگنا تھا ۔
جب اسے یارم کی تو نہیں لیکن لیلیٰ کی کال آگئی تھی وہ صبح سے پریشان تھی اور بار بار فون کر کے رویام کی طبیعت کا پوچھ رہی تھی اس نے فون اٹھاتے ہوئے اسے رویام کے بارے میں بتایا
جبکہ رویام اس کے ساتھ بڑے آرام سے ٹانگیں لٹکائے اسی ڈیکس پر بیٹھا سامنے پر بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔
جو نہ صرف بہت خوبصورت تھی بلکہ بار بار اسے دیکھ کر مسکراتی جس کے بدلے میں رویام بھی مسکراتا
اپنے بیٹے کو مسکراتا دیکھ کرروح کا دھیان سامنے والی کرسی پر گیا جہاں ایک بہت ہی پیاری لڑکی بیٹھی ہوئی تھی اس کی ڈریسنگ سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ مسلمان ہے
۔آپ پاکستان سے ہیں اس لڑکی مے بہت نرمی سےسوال کیا
روح نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا جو نہ صرف دیکھنے میں مسلمان تھی بلکہ اردو میں بات بھی کر رہی تھی روح نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ لڑکی مسکرا کر رویام کی جانب متوجہ ہوئی
بہت پیارا بچہ ہے آپ کا ماشاء اللہ
وہ رویام کو دیکھتے ہوئے بہت محبت سے بولی جس پر رویام نے بھی اس کے لیے مسکراہٹ پاس کی تھی
جب اچانک ہی سائیڈ والا کیبن کا دروازہ کھلا اور وہاں سے نکلنے والے شخص کو دیکھ کر روح نے نفرت سے چہرہ پھیر لیا
ڈاکٹر نے کہا ہے اگر دوائی ٹائم پر لیتی ہو ٹھیک ہو جاؤ گی اپنا بالکل خیال نہیں رکھتی نہ تم ۔۔؟سارے طریقے آتے ہیں تمہیں مجھے ستانے کے وہ شکوہ کرتا اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہا تھا جب دھیان پاس بیٹھی روح پر پڑا
درک نے بس ایک نظر سے دیکھا اور پھر چہرہ پھیر گیا
سر آپ کی وائف کی رپورٹس نرس نے کمرے سے نکلتے ہوئے رپورٹ اس کے ہاتھ میں دے دیں تو روح نے حیرانگی سے دیکھا
وہ اس کی بیوی تھی اسے یاد تھا اس کی ایک گرل فرینڈ تو خوشی تھی
تو کیا اس کو چھوڑ کر اس نے اس لڑکی سے شادی کرلی کتنا آسان تھا ان کے لیے رشتہ ختم کر دینا کتنا پیار کرتی تھی وہ اس سے
اس سے شادی کی خواہشمند تھی اور یہ شخص کتنی آسانی سے کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہا تھا روح نہ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی جب اس کا فون بجا یارم کی کال آ رہی تھی وہ ان کو اسے باہر بلا رہا تھا اس نے آہستہ سے رویام کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اسے لے کر باہر کی جانب چل دی جب کہ رویام پیچھے کھڑی اس پیاری سی لڑکی کو بائے بائے کر رہا تھا
اس کے انداز پر وہ لڑکی مسکرائی اور نرمی سے ہاتھ ہلا کر اسے بائےکیا
جب کے پاس کھڑا شخص بہت محبت سے اس کی یہ حرکت دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر بہت پیاری مسکراہٹ تھی جو اس کے نام سے کبھی بھی اس کے چہرے پرنہیں آئی تھی
°°°°°°
وہ باہر آ کر اسی جگہ رکی جہاں یارم نے آتے ہوئے اسے اتارا تھا جب پیچھے سے کسی نے اسے پکارا
روح یہ تم ہو مجھے یقین نہیں آرہا کتنے سالوں کے بعد مل رہی ہوتم مجھ سے مجھے لگا تھا کہ میں کبھی تمہیں دوبارہ نہیں دیکھ پاؤں گی خوشی خوشی سے چہکتے ہوئے اس کے گلے سے آ لگی
رویام کو اس لڑکی کی یہ حرکت بالکل اچھی نہیں لگی تھی اس کو بالکل پسند نہیں تھا کہ کوئی اس کی ماں سے بےوجہ چپکے اسے تو اپنے باپ کا اس کے قریب آنا پسند نہیں تھا وہ اسے پیچھے کرتے ہوئے ناپسندیدگی سے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا
روح خوشی کے اچانک سامنے آنے پر پریشان ہوئی تھی
کیسی ہو تم خوشی ۔۔روح نے خوشی سے پوچھا جب کہ خوشی کا تو سارا دھیان اس کی گود میں موجود اس بچے پر تھا
یہ بچہ تمہارا ہی ہوگا اس کی آنکھیں اور ڈمپلز بالکل تمہارے شوہر جیسے ہیں وہ ایک لمحے میں ہی اسے پہچان گئی تھی روح مسکرائی
جب وہ شخص اسے دیاآیا جو کل تک اس لڑکی کا خواب تھا لیکن آج وہ کسی اور کے ساتھ تھا کیا وہ یہ سب کچھ جانتی تھی
روح کے دماغ میں ایک سوال تھا خوشی نہ جانے ابھی کیا کیا کہتی ہے کہ پیچھے کھڑے لڑکے نے اسے پکارا
خوشی یار تم یہاں ہو جلدی چلو درک پھر سے غصہ ہوگا وہ کہتے ہوئے اس کے قریب ہی چلا گیا روح کو ایک منٹ سے بھی کم وقت لگا تھا اس شخص کو پہچاننے میں
یہ وہی شخص تھا جس سے آج سے پانچ سال پہلے یارم نے شونوکو خریدا تھا
شاید وہ شخص بھی اسے پہچان چکا تھا
تم وہی ہو نا ۔۔۔۔؟جس کے شوہر نے مجھ سے ایک کتا خریدا تھا تمہیں شاید یاد نہیں ہوگا ہم ایئر پورٹ پر ملے تھے میرا نام راکیش ہے ۔تمہارے شوہر نے اس کتے کی قیمت مجھے تیس ہزار درہم دی تھی۔ کیا تم جانتی ہو اس بارے میں۔ وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا
روح نے صرف ہاں میں سر ہلایا جب کہ خوشی بھی ان دونوں کی طرف متوجہ تھی
واو تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو روح یہ میرا بھائی ہے راکیش ۔یقینا یہ زوبی کے بارے میں بات کر رہا ہے
ہاں زوبی کے بارے میں ہی بات کر رہا ہوں اس پپی نے میری ساری زندگی بدل گئی تمہارے شوہر نے جو پیسے مجھے دیے تھے ان سے میرے لائف بن گئی ۔
وہ کتا درک کا تھا اور اسی نے مجھ سے کہا تھا اس کتے کو بیچنے کے لیے کیونکہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ تمہارا شوہر تم سے کتنی محبت کرتا ہے
اور تمہارے لئے کیا کرسکتا ہے اسی لئے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جتنی قیمت میں اس کتے کی لگا سکتا ہوں اتنی لگاؤں تمہارے شوہر نے مجھے 25000 درہم کی آفر کی لیکن میں نے ہوشیاری دکھا کر تیس ہزار بولا لیکن اس نے انکار نہیں کیا وہ سچ میں تمہیں بے پناہ چاہتا ہے ۔تم جانتی ہو اس کتے کے اصل مالک نے مجھ سے اس رقم کا ایک پیسہ بھی نہیں لیا تھا ۔
اور ان پیسوں سے میری زندگی بن گئی
سچ کہوں ۔۔۔۔۔نہ جانے راکیش ابھی کیا کیا کہنے والا تھا جب خوشی نے اپنی ہائی ہیل اس کے پیر پردے ماری وہ اسے دیکھ کر رہ گیا لیکن خاموش ہو گیا تھا اور روح نے اس کی خاموشی کو نوٹ کیا لیکن تب تک یارم آ چکا تھا
وہ حیرت میں ڈوبی ان دونوں کو گڈ بائے کہہ دیا اور آ کر گاڑی میں ہارم کے پاس بیٹھ گئی تھی ۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا بلا درک اسے اس طرح سے اپنا کتا کیوں نہیں دے گا
شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کتا اس سے اتنا زیادہ اٹیچ تھا ۔
اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی یہ ساری باتیں یارم کو بتا دے دی تھی لیکن یا رم نے کہا کہ فی الحال رویام پر غور کرو اسے تمہاری زیادہ ضرورت ہے
یارم مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اس شخص نے اپنا پالتو جانور مجھے کیوں دیا اگر شونو اس کا تھا تو مجھے دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے اور وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں اور اس آدمی کو کیوں بولا تھا شونو کو ہمہیں بیچنے کے لیے
آخر تعلق کیا ہے اس کا ہم سے وہ پہلے بھی وہ ہماری پرسنل لائف میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا سوئٹزرلینڈ میں بھی وہ ہمارے پیچھے پیچھے رہا اور اب پھر سے
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ آدمی آخر ہم سے چاہتا ہے کیوں ہر وقت ہمارے پیچھے پیچھے پڑا رہتا ہے
یارم مجھے لگتا ہے وہ کچھ غلط کر رہا ہے آپ پلیز اپنا خیال رکھیں اور اس آدمی سے بچ کر رہیں پتہ نہیں اس آدمی کو ہم سے اتنا مسئلہ کیوں ہے کیوں ہروت ہمارے پیچھے لگا رہتا ہے
اور آپ کو پتا ہے اس نے خوشی سے نہیں بلکہ کسی اور سے شادی کر رکھی ہے وہ ادھر اپنی بیوی کے ساتھ تھا بہت پیاری سی لڑکی تھی پتہ نہیں وہ کون تھی مجھے لگا کہ خوشی کو اس بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہوگا لیکن یہاں ہسپتال کے باہر مجھے خوشی اور اس کا بھائی نظر آیا اور جس نے آپ کو شونو دیا تھا وہی خوشی کا بھائی ہے
وہ جب سے گاڑی میں آکر بیٹھی تھی مسلسل بولے جا رہی تھی جب کہ یارم اسے سنتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا جبکہ رویام کی کوشش روح کی گود سے نکل کر یارم کی گود میں جانے کی تھی کیونکہ اب اسے گاڑی چلانے کا شوق چڑھ گیا تھا
اس کے بار بار اپنے پاس آنے کی کوشش پر یارم نے مسکرا کر اسے روح کی گود سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا
روح بے کار کی باتوں پر دھیان مت دو ادھر دیکھو میرا بیٹا کس طرح سے گاڑی چلا رہا ہے وہ اس کے دونوں ہاتھ سٹرینگ پر رکھتے ہوئے اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں پر رکھ کر اس انداز میں بولا کہ روح بے اختیار مسکرا ئی
جی بالکل اور میرا بیٹا ان شاءاللہ آپ سے اچھا ڈرائیور بنے گا روگ فخر سے بولی جبکہ اس کے انداز پر یارم مسکرایا
ہاں بھئی تمہارا بیٹا تو ہر کام میں مجھ سے آگے ہے میں کہاں اس کا مقابلہ کر سکتا ہوں یارم نے فورا ہارمان لی
اچھا نہیں یارم میں کچھ اور بات کر رہی ہوں آپ میرا دھیان مت بٹائیں ذرا سوچیں یہ آدمی آخر ہمارے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے ہم جہاں جاتے ہیں وہاں پہنچ جاتا ہے
میں نے ایک بات بہت شدت سے نوٹ کی ہے یارم کہ یہ آج یا کل سے نہیں بلکہ بہت وقت سے ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے یقیناً تب سے جب سے شونو ہمہیں ملا ہےاس نے اپنا پالتو جانور ہمیں کیوں بیچ دیا
روح اس نے شونو ہمیں بھیج دیا ہے اب شونو مارا ہے ممکن ہے کہ وہ اس کے ساتھ اٹیچ ہو اسی لئے ہمارا پیچھا کرتا ہوں پالتو جانوروں کے ساتھ انسان بہت پیار کرتا ہے زیادہ نہیں سوچنا چاہیے یام کا انداز ڈالنے والا تھا
لیکن یارم پھر بھی ہم اس چیز کو نظر انداز نہیں کرسکتے اس نے پھر سے اسے اس طرح لگانے کی کوشش کی تو یارم نے بات ہی بدل دی
مہر اور عنایت زندہ ہیں خضر نے انہیں چھپا کر رکھا تھا اسے کوئی دھمکیاں دے رہا تھا اس کے اچانک کہنے پر وہ اختیار اسے دیکھنے لگی اسے اگلی پچھلی ہر بات بھول چکی تھی
یارم کیا کہا آپ نے مہر اور عنایت زندہ ہیں یہ کیسے ممکن ہے مطلب وہ تو نہیں رہی تھی اور لیلیٰ بےچاری اس کی کیا حالت ہو گئی تھی اور ماموں ۔۔۔
ہاں تمہارے خضر ماموں نے ہی انہیں چھپا کر رکھا تھا کوئی اسے دھمکیاں دے رہا تھا یہ ساری باتیں مجھ سے شیئر کرنے کی بجائے وہ خود ہی حل کرنے نکل پڑا جس میں شارف اور صارم بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے
لیکن ایک بات کی گارنٹی ہے آج کے بعد وہ کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ بات کرتے ہوئے بھی سوچیں گے کیونکہ لیلیٰ نے اس کا جو حال کیا ہو گا اس کے بعد شاید ہی وہ بیٹھنے کے قابل نہیں رہا ہو یارم مکمل بات اسے بتا کر درک کو اسکی شوچ سے ہٹا چکا تھا
یارم یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ مہر اور عنایت زندہ ہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے بس اللہ کسی کی اولاد کو اس کے والدین سے جدا نہ کرے روح پہ خوش تھی اور اس کےایسے کہنے پے یار مسکرا کر رویام کی جانب متوجہ ہوا
جو پوری طرح سے گاڑی چلانے میں مصروف تھا یارم بار بار اپنی موچھ اس کی گردن میں چھوبتا تو وہ ذرا سا کسکسا کر پھر سیدھا ہوکر ڈرائیونگ کی طرف دھیان دیتا جیسے اسٹرینگ سے اس کی ذرا سی بھی نظر ہٹ گئی تو مصیبت ہو جائے گی
اس کے دماغ میں یہی بات چل رہی تھی کہ گاڑی وہ چلا رہا ہے اور اس کا سارا دھیان ڈرائیونگ کی طرف تھا یارم کو یقین تھا اس کا بیٹا بڑا ہو کر ایک زبردست قسم کا ڈرائیور بنے گا ۔روح یارم کورویام کے ساتھ شرارتیں کرتے مسلسل دیکھ رہی تھی
اس کے بار بار شرارتیں کرنے اور پیار کرنے پر وہ ذرا سا چیخ کر اسے پیچھے کرتا اور پھر سے سارا دھیان اپنی ڈرائیونگ کر دیتا ہے اور روح یارم کو گھورتی جس پر یارم مسکرا کر آنکھ دباتا وہ ان دونوں کی مستیاں دیکھ رہی تھی یارم یقینا اس معصوم بچے پر ظلم کر رہا تھا
رویام بیٹا میرے پاس آ جاؤ بابا آپ کو ایسے ہی تنگ کریں گے روح نے کہا
لیکن رویام کو اس وقت اپنی گاڑی چلانی تھی اسی لئے فورا نامیں سر ہلا گیا
مامابابا تھک دئے ہیں میں گالی تلاؤں دا اور آپ تو گھل تھوڑو دا نا(نہیں ماما بابا تھک گِئے ہیں میں گاڑی چلاوں گا اور آپ کو گھر چھوڑدوں گا نا) وہ بہانہ بنا گیا شاید اسے ڈرائیونگ سیٹ پر اسے بہت مزہ آ رہا تھا جس کے لیے وہ یارم کی مستیاں برداشت کرنے کو بھی تیار تھا
اس کی بات پر یارم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس کی ننھی سی گردن پر اپنے لب رکھے جس پر کچھ چلا کر اسے پیچھے کرنے لگا
°°°°°°
رویام بیٹا اچھے بچے ٹائم پہ ہوتے ہیں
چل جلدی سے سو جا ابھی تجھے فیور ہے وہ اس کے سینے پر بیٹھا اسے مسلسل سونے سے انکار کر رہا تھا
او یار م اسے سلانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا
روح وہیں پاس بیٹھی ان دونوں کے تماشہ دیکھ رہی تھی اسے لیٹنے کی اجازت نہ تھی نا تو یارم رویام کوسلانے میں کامیاب ہو رہا تھا نہ ہی اسے جگانے میں
یارم بس بہت ہوا ہے آپ لوگ اپنے مذاکرات جاری رکھیں مجھے سونے دیں روح نے لیٹتے ہوئے کہا تو یارم نے اسے گھور کر دیکھا ۔اور اس کی گھوری پر وہ منہ بسورتے اٹھ کر بیٹھ گئی
چپ چاپ بیٹھی رہو خبردار جو سونے کا نام بھی لیا جب دیکھو سوتی رہتی ہو
وہ اسے گھورتے ہوئے ایک بار پھر رویام کی جانب متوجہ ہوا
ماما تھو داؤ آپ(ماماسوجاوآپ)۔رویام نے اپنی ماں پر ترس کھاتے ہوئے کہا
اس کو جاگنے دے تو سوجا میرے شیطان اس کے سونے سے میرا کام نہیں ہوگا
وہ اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا جب روح نے اپنی نیند سے بند ہوتی آنکھیں زبردستی کھولی
اگر تم سو گئی تو میں تمہارے ساتھ وہ سلوک کرو گے تم ہمیشہ یاد رکھو گی وہ عویام کو زبردستی سلاتے ہوئے روح کی جانب متوجہ ہوا
ہاں تو آپ کو کیا لگتا ہے میں تھکتی نہیں ہوں سارا دن اس کے پیچھے بھاگتی رہتی ہوں اندازہ بھی ہے آپ کو کتنا تنگ کرتا ہے اپنی بےبسی پر وہ اسے گھورتے ہوئے بولی
تو ماما تھو داؤ میں داگ را ہوں نا بابا اتلے نی ہیں میں ان تے سات ہوں تھو داؤ میلی پالی ماما۔(تو ماما سو جاو میں جاگ رہا ہوں نابابا اکیلے نہیں ہیں میں ان کے ساتھ ہوں سو جاومیری پیاری ماما )وہ روح کو دیکھ کر بہت محبت سےمسکراتے ہوئے بولا تو روح کو اپنے ننھے سے بچے پر بہت پیار آیا
ابے تو اپنے کام سے مطلب رکھ نا چل جلدی سے سو جا خواب میں تجھ سے ملنے کے لیے وہ نرس آئے گی جس پر آج دوپہر میں لائن مار رہا تھا وہ زبردستی اسے اپنے سینے پر لٹاتے ہوئے اپنا حصار تنگ کرنے لگا
دانو تھائی آےدی( جانو سائیں آئے گی )۔۔؟رویام نے ڈیل کرتے ہوئے کہا
ارے وہ تو اپنے شوہر کے ساتھ مصروف ہو گی تیرے خواب میں کیسے آئے گی بچاری یارم اکے منہ سے بے ساختہ نکلا
فر می نی تھوں گا(پھر میں نہیں سوؤں گا) وہ واپس اس کے حصار سے نکلتے ہوئے اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا جبکہ روح بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھی
اچھا اچھا ٹھیک ہے میں اس تیرے خواب میں بھیج دوں گا تو سو تو سہی وہ اسے ایک بار پھر اپنے حصار میں لے کر سینے پر لٹا چکا تھااور اس بار اس کا یہاں سے نکلنا کافی مشکل ہو گیا تھا
پلومش(پرومس) وہ اس کے سینے میں دبی دبی آواز میں بولا
ارے پکا پرومس تو بس سوجا کیونکہ جب تک تو سوئے گا نہیں میرا کام نہیں ہوگا تو اسے زبردستی سیآتے ہوئے بولا تو روح بیڈسے ہوئے اٹھ کر الماری کی جانب بڑھی
اور اپنی نائٹ ڈریس نکال کر چینج کرنے جانے لگی
اور تھوڑی دیر میں اسے اپنے سینے پر ننھےننھے خراٹوں کی آواز آنا شروع ہو چکی تھی وہ تھکا ہوا تھا اسی لیے جلدی سو گیا ورنہ تو آج وہ اس سے بھرپور تنگ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا
°°°°°°
آ ۔۔۔اوووو۔۔۔۔ہر تھوڑی دیر کے بعد لیلیٰ کے کانوں میں اس طرح کی آوازیں گونج رہی تھی
وہ الٹا لیٹا مسلسل اسے بددعائیں دے رہا تھا
لیلیٰ اٹھی اور الماری کی جانب گئی خضر کو لگا کے وہ اس کے لیے کچھ کرنے جارہی ہے جو اس کے کام آ سکے یا اس کے درد کو کم کر سکے
اتنی بھی بری نہیں ہے میری بیوی بس غصہ آجاتا ہے تو آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتی ہے محبت بھری نظروں سے دیکھتامسوچ رہا تھا جبکہ لیلیٰ واپس بیڈ پر آئی اور پھر لیٹتے ہوئے کان میں روئی ٹھونس لی
اب کرتے رہو آااا۔آووو۔ نیند کا بیڑہ غرق کردیا وہ کروٹ لے کر بولی تو سے اپنی سوچوں پر لعنت بھیجتا دوبارہ سے اپنے درد کو ایک نئے سے محسوس کرنے لگا
°°°°°°
درد سہہ سہہ کر شارف کو بس ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نیند آئی تھی
جب مشارف نے کسی ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنرکی طرح اس پر جمپ لگایا اور تب سے اس کی چیخ و پکار سنتی معصومہ اس پر لعنت بھیجتی اٹھ کر مشارف کے کمرے میں چلی گئی
کیوں کہ آج کی رات اس کی چیخ و پکار بند نہیں ہونے پر معصومہ اپنی نیند بالکل برباد نہیں کر سکتی تھی
لیکن ایک بات اسے اچھے سے سمجھ میں آ گئی تھی کہ لیلی سے پنگا لینے کا کیا انجام ہو سکتا ہے اسی لئے تو معصومہ لیلیٰ کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتی تھی
جب کہ شارف دوسرے کمرے میں لیلیٰ جس کو وہ اپنی بیسٹ فرینڈ کہتا تھا اسے کوس رہا تھا ۔
°°°°°°°
صارم کچھ بتائیں تو سہی اس طرح سے میں آپ کی بلا کیسے مدد کروں وہ پانی کی گرم بوتل اس کو تھامے ہوئے بولی
تم کچھ نہیں کر سکتی عر وہ جان تم بچوں کے کمرے میں جا کر سو جاؤ۔
میں خود کو سنبھالوں گا تم فکر مت کرو صارم اپنی پیاری بیوی کو دیکھتے ہوئے محبت سے بولا جبکہ حالت تو ایسی تھی بیٹھا تک نہیں جا رہا تھا وہ بھی خضر اور شارف کی طرح بیڈ پر الٹا ہی لیٹا تھا
اللہ آپ کو شفا دے کیا دشمنوں کو مارنے کے لیے یہی جگہ ملی تھی ذرا ترس نہیں آیا کون ہو سکتا ہے اتنا ظالم عروہ کو اپنے شوہر کی حالت پر ترس آ رہا تھا
یہی تو مسئلہ ہے اگر کوئی غیر ہوتا تو مجھے بھی افسوس نہ ہوتا یہ حالت تو میرے اپنوں نے کی ہے تم سو جاؤ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں وہ اسے دیکھتے ہوئے بہت پیار سے بولا
اسے اپنی وجہ سے پریشان نہ کرنے کے خیال سے دوسرے کمرے میں چلی گئی کے دوسرے کمرے میں بھی اس کی آہ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں
°°°°°
وہ چینج کرکے شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی تو بے بی کاٹ میں رویام کو لیٹا یارم اس کے پاس آ کر اسے اپنے باہوں کے حصار میں لے چکا تھا
اپنی ناک اس کی کی شہہ رگ پر مسلتا وہ اسے سمٹنے پر مجبور کر گیا
یارم یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔؟اس کی اس حرکت پر روح نے اس کے حصار سے نکلنا چاہا لیکن یہ ناممکن تھا
روح اتنی کاکی مت بنا کرو ڈھائی سال کا بچہ بھی ہے تمہارا میں جب بھی تمہارے پاس آتا ہوں تمہارا یہی سوال ہوتا ہے یارم یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔؟
کتنی بار تفصیل سے بتاؤں۔
اس کے بال گردن سے ہٹاتے ہوئے وہ اس کے نائٹ ڈریس کی ڈوری کھول چکا تھا
رویام جاگ جائے گا یارم اس کی حرکت پر وہ فورا آئینے کے سامنے سے ہٹ کر بیڈ پر آ بیٹھی
نہیں جاگے گا ڈونٹ ورری اس کے ہاتھ میں تھاما لوشن ابھی ہاتھ میں تھا جب یارم نے اسے ہاتھ سے نکال کر ٹیبل پر پھینک دیا ۔اور اس کے اوپر آ کر اس لے دونوں ہاتھ قید کیے اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر گیا۔
اس کی کوئی مذاحمت کبھی چلی ہی نہیں تھی تو کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا ۔لبوں کے بعد کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ مسکرا کر اس کے گرد اپنا حصار بنا گئی ۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ سونا نہیں ہے کیا صبح کام پر جائیں گے
اور پھر صبح آپ کا بیٹا مجھے تنگ کرے گا سو جائیں اور سونے دیں
یارم کب سے اپنے ہاتھ کے سہارے سر رکھے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا
جب روح اس کی نظروں کی تاب نا لاتے ہوئے شرما کر بولی
ہر بار نئے سرے سے محبت ہو جاتی ہے مجھے تم سے روح سچ سچ بتاؤ پہلے دن سے کوئی طلئسم پھونکتی آئی ہو نا پہلے پھونکیں مار مار کے خود سے عشق کرنے پر مجبور کیا
اور اب تو کام اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے آج بتا ہی دو آخر کیا کیا ہے تم نے مجھ پہ ۔کہ جب بھی میں سوچتا ہوں ۔کہ اب تمہارے علاوہ کسی اور چیز پر بھی دھیان دوں گا ۔تو اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کرتا ہوں
آج جواب دو آخر ایسا کونسا جادو کرتی ہو تم مجھ پر کہ تمہارے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں پاتا میں وہ اس کا چہرہ اپنے نظروں کے حصار میں لیے اک الگ انداز میں پوچھ رہا تھا جس پرر وح مسکرائی
میں تونہیں بتا رہی ۔۔۔اگر آپ اتنے بڑے ڈان ہیں تو خود پتا لگا لیں کہ میں ایسا کیا کرتی ہوں وہ دوسری طرف کروٹ لیتے مسکرائی تو یارم نے ایک جھٹکے سے کندھے سے پکڑ کر واپس اپنی طرف موڑ لیا
نظروں سے دور مت جایا کرو
یہ پاگل آنکھیں تمہارے لئے پاگل ہیں ۔
وہ اس کے چہرے پہ جھکتا اس کے ایک ایک نقش کو چومتا پھر سے مدہوش ہونے لگا
یارم بس کر دیں اب سو جائیں دیکھیں تو سہی تین بج رہے ہیں ۔سو جائیں اور مجھے بھی سونے دیں۔ورنہ آپ کے بیٹے نے سارا دن مجھے تنگ کرنا ہے روح بےبسی سے بولی تویارم مسکراتا ہوا بیڈ پر لیٹ کر اسکانازک سا وجود اپنے حصار میں لیے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر گیا
اچھا نہیں تنگ کرتا سو جاؤ ۔۔۔۔یارم کے اس طرح سے کہنے پر روح نےایک نظر اسے سر اٹھا کر اسے دیکھا
وہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھا پھر روح نے آہستہ سے اس کے قریب آتے ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھے اور اگلے ہی لمحے بالکل انجان بنتی اس کے سینے میں چہرا چھپا گئی
بیوی میں پورا کا پورا صرف تمہارا ہوں تھوڑا سا نظر کرم میرے ہونٹوں پر بھی کر دیا کرو ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تو روح سمٹ کر اس میں چھپ گئی
جب کے یارم مسکراتے ہوئے آنکھیں دوبارہ بند کر چکا تھا
°°°°°°
اس کی آنکھ لگے تقریبا 10 سے 20 منٹ ہی ہوئے تھے جب اسے رویام کے رونے کی آواز سنائی آئی
اور روح اس کے سینے پر سر رکھے گہری نیند میں اتر چکی تھی ۔
وہ اسے ایک طرف تکیے پر لٹاتا ہوا فورا اٹھ کر رویا م کےکاٹ کے پاس آیا
بابا دد ہورااے۔(بابا درد ہو رہا ہے)۔۔۔وہ روتے ہوئے یارم کو کچھ بتا رہا تھا جب یارم نے اگلے ہی لمحے سے اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا
کیا ہوا میرا بچہ کیوں رو رہے ہو اس طرح بھوک لگی ہے میری جان کو ۔۔ابھی بابا آپ کو کچھ اچھا سا بنا کر دیتے ہیں
بوت نی لدی ۔دد اے (بھوک نہیں لگی درد ہے)وہ اس کے سینے میں سرچھپاتا روتے ہوئے بولا تو یارم جیسے تڑپا
کہاں درد ہے میرا بچا ۔۔۔۔؟کہاں درد ہو رہا ہے بتاؤ مجھے میں ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کے چلتا ہوں ۔وہ اس کا سر چومتے ہوئے بخار چیک کرنے لگا بخار تو نہیں تھا لیکن رویام کو درد تھا
وہ بار بار اپنے سر کی طرف اشارہ کر رہا تھا
جب کہ یارم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتا ہے
لیکن اس کے رونے میں شدت آرہی تھی ۔ اور اسے یوں درد سے تڑپتے یارم دیکھ نہیں سکتا تھا
روح اٹھو رویام کو درد ہو رہا ہے ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتے ہیں
وہ روح کو جگاتے ہوئے بولا تو ابھی ابھی نیند میں اتری روح ہربڑا کر اٹھی
روح جلدی سے رویام کو لے کر باہر آو میں گاڑی نکالتا ہوں
وہ رویام کو اس کی گود میں ڈالتا باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ روح کی چیخنے کی آواز سنائی تھی وہ جو کمرے سے ابھی ابھی باہر نکلا تھا فورا واپس آ گیا
رویام کے منہ اور ناک سے نکلتے خون کو دیکھ کر یارم بھی بکھلا گیا تھا وہ اسے جلدی سے آنے کا اشارہ کرتا رویام کو لے کرتیزی سے گاڑی کی طرف بھاگا
جبکہ روح تو اپنے بچے کی حالت دیکھ کر رونے لگی تھی
°°°°°°°
ہسپتال پہنچتے ہی اسے ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا
وہ مسلسل باہر ٹہلتے ہوئے ڈیکس پر بیٹھی روح کو حوصلہ دے رہا تھا
جب ڈاکٹر حسن باہر آیا
حسن کیا ہوا ہے رویام کو اسے اس طرح سے خون کی الٹیاں کیوں ہو رہی ہیں اس کے ناک سے خون کیوں بہہ رہا تھا
اسے درد کیوں ہو رہا تھا کیوں تڑپ رہا تھا میرا بچہ
یارم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اندر جائے اور ساری مشینری چیک کر کے پتہ کرے اخراس کے بیٹے کو ہوا کیا ہے
چپ کیوں ہے کچھ بول کیوں نہیں رہا کل لایا تھا نہ میں رویام کو یہاں تو نے اس کا چیک اپ کیا تھا تو نے کہا تھا نہ کل ریپورٹس ملے گی تو بول کیا ہے اسے کیا یہ سب کچھ بخار کی وجہ سے ہو رہا ہے کیا بخار اس کے دماغ میں چلا گیا ہے چپ کیوں بولتا کیوں نہیں ہے تو ۔۔۔؟
وہ بے حد غصے سے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر بولا حسن کوئی غیر نہیں بلکہ اسی کے ساتھ کام کرنے والا ایک ڈاکٹر تھا
دبئی آتے ہی پہلے یارم کی ٹیم کا حصہ بنا تھا اور اب انسانیت کے ناطے ہسپتال میں جاب کر رہا تھا
یار میری بات سنو تم اندر چلو کیبن میں ۔میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا روح کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا
اور ان کے ساتھ ہی وہ بھی کیبن میں چلی آئی
آپ دونوں بیٹھیں۔ وہ کرسی آگے کرتے ہوئے کہنے لگا اس کا انداز اتنا پرسرار تھا کہ یارم اور روح دونوں ہی گھبرانے لگے
حسن صاف صاف بات کر یارسب ٹھیک ہے نہ ۔۔۔۔؟اس کے انداز پر وہ چڑکر بولا
دیکھو یار میں اس طرح سے تمہیں نہیں بتاؤں گا بیٹھو ہم سکون سے بات کرتے ہیں جو بات میں تم لوگوں کو بتانے جارہا ہوں اس کے لئے تم دونوں کا دماغ پر سکون ہونا بہت ضروری ہے
وہ سمجھاتے ہوئے بولا یارم نے ایک نظر روح کو دیکھا جو پہلے ہی بری طرح سے رو رہی تھی وہ اس کے گرد بازو پھیلاتا اسے آہستہ سے کرسی پر بٹھا تا خود بھی بیٹھ گیا
یار میری بات کو بہت غور سے سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا ۔جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے دنیا میں ہر چیز کا علاج ممکن ہے
آج کل یہ بیماری عام بیماریوں میں شامل ہوچکی ہے جو بڑوں جوان اور بچوں میں بھی آنے لگی ہے
بکواس بند کر اور سیدھے بتا رویام کو کیا ہے اسے کوئی بیماری نہیں ہے وہ صرف بخار کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے لکیمیا ہے حسن اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
لکیمیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!دماغ تو نہیں خراب ہوگیا تمہارا ڈھائی سال کا بچہ ہے اسے بھلا ایسی سنگین بیماری کیسے ہوسکتی ہے جاکے اپنی ڈاکٹر کی ڈگری چیک کروا
بالکل ٹھیک ہے میرا بچہ ہے اسے کچھ نہیں ہوا بس بیمار ہے ٹھیک ہو جائے گا مجھےخودہی اسے یہاں لانا ہی نہیں چاہیے تھا کسی اچھے ہسپتال میں لے کر جانا چاہیے تھا
روح خاموشی سے حسن اور یارم کو سن رہی تھی جبکہ اس کی بات پر یارم تو اپنے آپے سے باہر ہوگیا
یار میں جھوٹ نہیں بول رہا اسی لئے کل میں نے وہ رپورٹس تم لوگوں کو نہیں دی میں خود ان رپورٹس کو چیک کرنا چاہتا تھا اور یہ سچ ہے رویام کو لکیمییاہے
اور اگر اس کا علاج وقت پر نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
خبردار حسن جو ایک بھی لفظ اپنے منہ سے نکالا میں جان نکال دوں گا تیری یارم انتہائی غصے سے اس کی بات کاٹ گیا
ایسا کچھ بھی نہیں بول رہا یار میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اسے علاج کی ضرورت ہے
ہاں تو بتانا کہ اس کا علاج ہوسکتا ہے میں دنیا کے سب سے اچھے ہسپتال میں اپنے بچے کا علاج کر آؤں گا یارم نے کہتے ہوئے روح کی طرف دیکھا جو خاموشی سے کب سے ان دونوں کو سن رہی تھی
روح گھبراو مت کچھ نہیں ہو گا رویام کو تمہارا یارم اسے کچھ نہیں ہونے دے گا آنسو مت بہانہ بالکل نہیں رونا ہم اپنے رویام کو کچھ نہیں ہونے دیں گے میں ہوں نہ بس مجھ پر یقین کرو میں اپنے رویام کو کچھ نہیں ہونے دوں گا
روح کی حالت پر وہ حسن کو چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوا
رویام اس کی سہکی ہوئی اولاد تھی ۔جس کو اس نے سسک سسک کا دعاؤں میں مانگا تھا ۔وہ جانتا تھا اگر رویام پر آنچ بھی آئی تو روح جی نہیں پائے گی
حسن تو چپ کیوں ہے بول نا رویام کا علاج کہاں ہوگا ۔روح کی حالت جہاں اسے پریشان کر رہی تھی وہی رویام کا سوچ کر اس کا اندر کانپنے لگا تھا
وہ بے شک اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتا تھا لیکن رویام میں اس کی جان بستی تھی
لکیمیاکا مطلب کیا ہے یارم وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جس طرح سے یارم مچل اٹھا تھا بیماری کا سن کر یقیناً یہ کوئی بہت بڑی بیماری تھی
دوسرے نام میں اسے کینسر بھی کہا جاتا ہے بھابھی ۔لیکن اس کا علاج ممکن ہے ۔ہمیں صرف رویام کی طاقت کا اندازہ لگانا ہوگا کہ وہ کتنا برداشت کر سکتا ہے حسن نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
کیا برداشت کرے گا میرا بیٹا کس چیز کی طاقت کا اندازہ لگائیں گے آپ ان کی باتیں روح کی تو بالکل سمجھ میں نہیں آرہی تھی
ہم اس کی طاقت کا اندازہ لگائیں گے بھابھی کہ وہ کتنی تکلیف برداشت کر سکتا ہے ۔اس کے بوڈی سیل سے پتہ چلے گا کہ وہ کتنا درد سہ سکتا ہے
درد۔۔۔تکلیف وہ توہوا تک کو اپنے بچے کے قریب سے نہ گزرنے دے اور کتنی آسانی سے یہ ڈاکٹر اس کےدرد اور تکلیف سہلے کی بات کر رہا ہے
اس کا علاج مشکل نہیں ہے یارم ہمیں صرف اور صرف بون میرو چینج کرنا ہوگا ۔بس جس کے ساتھ اس کا بون میرو میچ کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ٹرانسفر کر لے ۔
ہڈیوں کے بیچ میں جو ۔۔۔۔
وہ سب میں جانتا ہوں حسن کتنا وقت ہے یہ بتاؤ ۔میرے بچے کو بالکل تکلیف نہیں ہونی چاہیے ۔
بے شک یہ سب کچھ تم آج ہی کروا دو بلکہ اٹھو ابھی کرو میرے بچے کو کوئی درد نہیں ہونا چاہیے ۔
یارم تو ابھی گھر میں بولا اس کا وہ جملہ نہیں بھول پایا تھا ۔
بابادد ہورا اے۔(بابا درد ہو رہا ہے)۔۔وہ یہ لفظ سن کر ہی تڑپ اُٹھا تھا وہ کیسے اپنے بچے کو اس تڑپ میں رہنے دیتا
یارم ریلکس ہو جاؤ ۔پہلے مجھے چیک کرنا ہوگا کہ تمہارا بون میرو اس سے میچ بھی کرتا ہے یا نہیں ۔کیونکہ مجھے نہیں لگتا
مجھ سے کیوں میچ نہیں کرے گا میں باپ ہوں اسکا ۔اٹھو چیک کرو ۔
یارم یہ کوئی خون کا ٹرانسفارمیشن نہیں ہے کہ باپ کا خون یا ماں کا میچ کر جائے گا بون میرو دنیا میں بہت کم میچ کرتے ہیں سب سے زیادہ نیو بون بےبی کا میچ کرتا ہے
تمہیں تھوڑا عجیب لگے گا لیکن یہ سچ ہے اگر رویام کے پاس اتنا وقت ہوتا تو میں تمہیں یہی سجیسڈ کرتا کہ تم اپنی فیملی بڑھانے کے بارے میں سوچو لیکن رویام کے پاس کھینچ تان کر صرف ایک مہینہ بچا ہے
تمہارے پاس رویام کی جان بچانے کے لیے صرف ایک مہینہ ہے
حسن تم چیک تو کرو ہو سکتا ہے میرا بون میرو اس سے میچ کر جائے حسن کی بات نے انہیں سچ میں ڈرا دیا تھا
یارم میں تم مجھ سے انجان ہوں کیا میں تمہیں جانتا نہیں ہوں لیکن تمہاری تسلی کے لیےکرلوں گا
تمہارے سارے رپورٹس میرے سامنے ہیں تمہارا بون میرو رویام سے ٹین پرسنٹ بھی میچ نہیں کرتا
ہمارے پاس ایک مہینے کا وقت ہے یارم کسی نہ کسی ڈونر کو ڈھونڈ لیں گے کوئی نہ کوئی مل جائے گا تم پریشان مت ہو اللہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور دکھائے گا
اور تب تک میرا بچا درد میں تڑپتا رہے گا ۔روح کی آواز میں درد تھا جسے یارم کے ساتھ ساتھ حسن بھی محسوس کر چکا تھا
اسی لیے تو میں نے کہا کہ یہ بیماری رویام کی طاقت پر بیسڈ ہے
کہ وہ کتنی تکلیف برداشت کرسکتا ہے
مطلب میرا بچہ درد میں تڑپتا رہے گا اور ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کتنا درد برداشت کرتا ہے ۔روح کی آنکھوں سے آنسو خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
جب نرس بھاگتے ہوئے اندر آئی
میم آپ کے بچے کو ہوش آ چکا ہے اور اب آپ دونوں کو وہاں نہ پا کر رو رہا ہے پلیز آپ جلدی آجائیں نرس کے کہنے پر وہ دونوں ہی باہر کی طرف بھاگے
جب کہ حسن اپنی پاور کا استعمال کرتے ہوئے جہاں تک ہو سکے وہ ڈونر کا انتظام کرنے کی کوشش کرنے لگا
°°°°°°
میلے بابا تو بلاؤ ونہ می نووں دا۔۔(میرے بابا کو بلاؤ ورنہ میں روں گا)۔رویام نے نرس کو دھمکی دی لیکن اُس کو اس کی بات بالکل سمجھ نہیں آئی تھی لیکن دروازے پر کھڑے روح اور یارم اس کی بات کو اچھے سے سمجھ چکے تھے
نہیں میرا بچہ بالکل نہیں روئے گا بابا آ گئے ہیں ۔اس کے پاس جاتے ہوئے بولا جبکہ نرس نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا جہاں ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔
اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا ۔نہ جانے وہ کتنی تکلیف سے گزرا تھا یارم کو تو بس اس کی وہی پکار یاد تھی جو اس نے آدھی نیند میں سنی تھی
وہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگا چکا تھا جبکہ روح خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گئی اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے رویام کو اتنی بڑی بیماری نکل آئے گی
اور یہ ایک جان لیوا بیماری تھی یہ سوچتے ہوئے ہی روح کی روح کاپنے لگی تھی
اش تو اتالو۔(اس کو اتارو)رویام۔اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کی طرف سے اشارہ کر رہا تھا جبکہ بھرپور کوشش نرس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی تھی روح نے آہستہ سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔
میرے بیٹے کو فیور ہے نا اس لئے ڈاکٹر نے یہ لگایا ہے بس تھوڑی دیر میں رویام بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔روح نے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی
مدرریام تو دد ہورا اے(مگررویام کو درد ہو رہا ہے)وہ بے حد معصومیت سے بولا
روح نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں روکی تھی
جب کہ یارم نے آہستہ سے کاننھاساوجود اپنے سینے سے لگائے ڈرپ ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا
°°°°°°
لکیمیا کیا ہوتا ہے یہ کون سی بیماری ہے میں نے تو اس کے بارے میں کبھی بھی نہیں سنا مجھے تو لگتا ہے کہ ہمیں یہاں کسی ڈاکٹر کو دکھانا ہی نہیں چاہیے ہم رویام کو امریکا لے جاتے ہیں
شارف جب سے آیا تھا دائیں بائیں ٹہلتے ہوئے کچھ نہ کچھ بول رہا تھا
لکیمیا کیا تھا اس کا کیا مطلب تھا کوئی نہیں جانتا تھا سوائے اس کے کہ یہ ایک جان لیوا بیماری تھی اور رویام کی جان جاسکتی تھی اس کے پاس صرف اور صرف ایک مہینے کا وقت تھا
لکیمیاکو اسان الفاظ میں کینسر بھی کہہ سکتے ہیں۔جو بہت جلدی جسم میں پھیلتا ہے یہ زیادہ تر بچوں میں ہی پایا جاتا ہے یا برے لوگوں میں جو ایک حد سے زیادہ اپنی ہڈیوں کا استعمال نہیں کر پاتے
خضر نے اسے بتایا وہ آج ہی ہسپتال حسن سےمل کر آیا تھا اور حسن نے اسے وہ ساری باتیں بتائی تھی جو وہ یار م اورروح کے سامنے نہیں بول پایا
اس نے روح اور یارم کو بہت ساری باتیں نہیں بتائی تھی لیکن خضر کو اس نے دھوکے میں نہیں رکھا وجہ کہیں نہ کہیں یارم کا پاگل پن اور روح کا جذباتی پن تھا .وہ سمجھ سکتا تھا اس بیماری سے صرف رویام کو نہیں بلکہ روح اور یا رم کو بھی لڑنا ہے اس لیے وہ ان دونوں پر کوئی پریشر نہیں ڈالنا چاہتا تھا
اگر وہ انہیں ساری بات بتاتا تو یقیناً یہ دونوں ٹینشن میں آجاتے جس کی وجہ سے وہ بچے کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا
لیکن خضرکو یہ ساری باتیں کسی بھی طرح یارم کو بتانی تھی جو اس امید پر بیٹھا تھا کہ حسن کہیں نہ کہیں سے بون میرو کا انتظام کرلے گا
لیکن حقیقت یہ تھی کہ رویام کا بلڈ گروپ او نیگیٹو تھا جو بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اور اگر خون مل بھی جائے تو بھی بون میرو ٹیس کا میچ ہونا ایک ناممکن سی بات ہے ممکن تھا کہ بون میرو اور بلیڈ گروپ میچ ہوتا اور شاید ڈونر بھی انہیں آسانی سے مل جائے
ہوسکتا ہے لاکھوں ڈونرز مل جائے لیکن ان لاکھوں میں بھی شاید کوئی ایک ہی رویام کے تمام سسٹم سیل سے مل سکے گا
خضر خود بھی اپنا مکمل چیک اپ کروا کے آیا تھا خضر کے ساتھ رویام کے بلیڈ سیل 18 پرسنٹ تک میچ ہوئے تھے ۔لیکن یہ بھی رویام کی جان بچانے کے لیے بے حد کم تھا
حضرنے حسن کو بس اتنا ہی کہا تھا کہ رویام کی جان بچانے کے لیے وہ اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہے بس وہ کہیں سےڈونر ڈھونڈ لائے ۔
جو اپنے آپ میں ایک بے حد مشکل کام تھا
نہیں
کیا نہیں یار میں تمہیں بتا تو رہا ہوں صرف ایک ڈھائی سال کا بچہ ہے تمہارا بلیڈ گروپ اس سے میچ کر رہا ہے اور جہاں تک میرا اندازہ ہے مجھے لگ رہا ہے تمہارا بون میرو بھی اس سے میچ کرے گا .حسن اس کی نہیں پر سمجھانے لگا
وہ ڈھائی سال کا ہو یابیس سال کا میں کچھ نہیں کر رہا اور ہی میں نے کسی کو بچانے کا ٹھیکہ نہیں دے رکھا اور نہ ہی مجھے انٹرسٹ ہےاس سب میں۔درک انکار کرتے ہوئے اٹھا
اس میں انٹرسٹ والی کیا بات ہے ایک بچہ ہے اس کی جان خطرے میں ہے تم اپنے سسٹم سیل سے اس کی جان بچا سکتے ہو ۔یہ نیکی ہو گی اور اس کا باپ فری میں نہیں لے گا کڑوروں دے گا صرف ایک زرا سے اپریشن کے لیے
حسن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائیں
ایک ہفتہ تیزی سے گزر چکا تھا اور وقت بہت کم تھا ۔یارم روز رویام کو انجکشن لگوانے آتا تھا جس سے رویام کو تکلیف نہ ہو اور اس کا یہی سوال ہوتا
ابھی تک رویام کا بون میرو تو کیا بلڈ گروپ میچ کرتا بھی ڈونر بھی نہیں ملا تھا
دیکھو بات سیدھی سی ہے مجھ سے یہ سب کچھ نہیں ہوتا میں یہاں صرف اور صرف پری کو لے کر آیا تھا
اگر اسے میرے خون یا بون میرو کی ضرورت ہے تو بات کرو باقی میرا دنیا کے کسی شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس کی طرف سے صاف انکار تھا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کوئی جیتا ہے یا کوئی مرتا ہے اس سے کسی کی جان بچ سکتی ہے یا کوئی زندگی کی طرف لوٹ کر آ سکتا ہے اسے صرف اور صرف پری سے مطلب تھا
درک ایک بار سوچو تو سہی ۔وہ ڈھائی سال کا بچہ ہے تم ایک بار اپنا چیک اپ کروا لو ہو سکتا ہے تمہارا بون میرو اس سے میچ کر جائے ۔یار میں صرف یہ چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔
بات سنو میری حسن ابھی تم نے بتایا کہ تم کتنے لوگوں کا چیک اپ کر چکے ہو کسی کا بھی بون میرو اس بچے سے میچ نہیں ہوا تو میرے ترلے کیوں کر رہے ہو کیا تمہیں یقین کیوں ہے کہ میرا بون میرو اس سے میچ ہو جائے گا ۔
اور اگر میچ ہو بھی گیا تو کیا میں اسے اپنا بون میرو دوں گا ۔تمہیں کیا لگتا ہے کیا مجھے نہیں پتا بون میرو ٹرانسفارمیشن میں کتنی تکلیف ہوتی ہے
اورتمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں کسی کے لیے کسی قسم کی کوئی تکلیف برداشت کروں گا
کوئی جیے یا مرے بھئی میں کسی کے لیے میں خود کو تکلیف کیوں پہنچاؤں گا
اس بچے کا باپ تمہیں اس تکلیف کی پائی پائی چُکا دے گا وہ تمہیں اتنا پیسہ دے گا کہ تم سٹہ کھیلنے جیسا غلیظ کام نہیں کرو گے
لیسن ۔۔۔؟حسن سٹہ میں اپنے شوق کے لیے کھیلتا ہوں پیٹ کے لئے نہیں ۔جس دن پیٹ کے لیے کھیلنا شروع کیا نہ اس دن میرے بھی ایسے ہی چرچے ہوں گے
اور اب تم اس چیز کے لیے مجھے یہاں نہیں بلاؤ گے ۔ورنہ پری کا علاج کروانے کے لیے دنیا میں بہت سارے ہوسپٹل ہیں ۔
وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بنا اسے دیکھے باہر کی جانب نکل گیا
حسن کو یقین تھا نہ صرف اس کا بلیڈ گروپ رویام سے میچ کرے گا بلکہ اس کابون میرو بھی سیم ہوگا لیکن یہ چیک اپ کروانے کے لیے بھی تیار نہیں تھا
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے دن تیزی سے گزر رہے تھے اور وہ بہت کوشش کے باوجود بھی رویام کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا
°°°°°°°
رویام آرام سے بیٹھ جاؤ بیٹا
میری جان آپ نیچے گر جاؤ گے پھر وہ اے شلیف پر بٹھا کر اپنا کام مکمل کر رہی تھی
جبکہ رویام بار بار شلیف کے اوپر کھڑا ہو جاتا ۔
گندے بتے گلتے ہیں ریام تو پالا بےبی اے۔(گندے بچے گرتے ہیں رویام تو پیارا بےبی ہے )وہ اپنا لوجک دیتے ہوئے کھڑا ہو گیاروح نفی میں سر ہلا کر اس کے پاس آئی اور اسے واپس بٹھا کر اپنا کام کرنے لگی
یہ کوئی نیا کام نہیں تھا وہ روز ایسا ہی کرتا تھا آج چھ دن گزر چکے تھے رویام کی بیماری کے بارے میں پتہ چلے ہوئے
ڈاکٹر ہر طرف سے اس کے ڈونر کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
رویام کی وجہ سے یارم کی ساری رات جاگتے ہوئے گزرتی اور روح کا دن کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ رویام کو کبھی بھی تکلیف ہو سکتی ہے
ایک لمحے کی لاپروائی بہت بری ثابت ہوسکتی ہے
ڈاکٹر نے اسے ہسپتال میں لکھنے کا مشورہ دیا تھا جو روح اور یارم دونوں کو ہی پسند نہ آیا
وہ رویام کو کسی بھی قسم کے بیمار ماحول میں نہیں رکھنا چاہتے تھے
وہ ہر وقت ہنستا کھیلتا رہنے والا بچہ تھا وہ ایک جگہ بیٹھ کر نہیں رہ سکتا تھا
ان چھ دن میں رویام کو دوسرے ہی دن ایک بار پھر سے خون کی الٹی ہوئی ۔وہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا تھا
روح کو تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ بیماری اسے ہوئی کیسے وہ تو اسے کہیں آنے جانے نہیں دیتی رویام ہر پل اس کے ساتھ رہتا ہے رویام کے معاملے میں روح اور یارم ذرا بھی لاپرواہی نہیں تھے
لیکن پھر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یہ بیماری ہے جو کسی کو بھی ہو سکتی ہے
(لکیمیا)بلڈ کینسر کوئی خاندانی یا اچھوت کی بیماری ہرگز نہیں تھی ۔
بس اتنا پتا تھا کہ جب یہ بیماری شروع ہوتی ہے تو بخار کمزوری یا کھانسی سے شو ہونا شروع ہوتی ہے رویام کبھی بھی ایک صحت مند بچہ نہیں تھا
وہ ایک کمزور حالت میں پیدا ہوا بچہ تھا اس لیے اس کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے کسی کو بھی نہ لگا تھا کہ اسے کوئی بیماری ہو سکتی ہے
اور کھانسی اور بخار تو اسے ابھی شروع ہوا تھا
پچھلی چھ راتوں سے یارم مسلسل جاگ رہا تھا ۔وہ صبح کے وقت روح کو جگا کر سوتا تھا ۔وہ ایک لمحے کے لیے بھی لاپروائی نہیں بھرت رہے تھے ۔
رویام کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں کے لیے ہی آنکھیں موندنا بہت مشکل تھا لیکن خضرنے سمجھایا کہ یہ جنگ صرف رویام کی نہیں بلکہ ان دونوں کی بھی ہے اور رویام کا خیال رکھنے کے لیے انہیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہوگا
اور اس کے لیے اب یارم رات کے وقت رویام کا خیال رکھتا تھا جبکہ روح سارادن
مما بوت لدی ہے ریام تو (ماما بھوک لگی ہے رویام کو)اسے کب سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں ناکام ہوتے ہوئے رویام نے معصومیت سے کہا
کوئی بھوک نہیں لگی ۔اور نہ ہی کوئی چاکلیٹ ملے گی ۔ پہلے ہی دانت خراب ہو گئے ہیں رویام کے ۔روح نے فوراً انکار کر دیا
الے ریام تے دنت کراب نی ہے۔مہل ال نایت کے کراب او گے (ارے رویام کے دانت خراب نہیں ہیں ۔مہر اور عنایت کے خراب ہوگئے ہیں)
ریام تے دنت کراب نی او ستکے ات کو فیلی نے دنت د یےہے (رویام کے دانت خراب نہیں ہوسکتے اس کو فیری نے دانت دیے ہیں )۔وہ معصومیت سے کہتا اسے ہنسنے پر مجبور کہ گیا
وہ جیسے تیسے بھی بات کرتا تھا لیکن مکمل کرتا تھا اس کے زیادہ تر الفاظ غلط ہوتے تھے لیکن اپنا جملہ وہ مکمل ادا کرتا تھا بنا کوئی بھی لفظ چھوڑے
اور یہ یارم کی سختیوں کا ہی اثر تھا اسے بچوں کے آدھے ادھورے الفاظ اور جملے پسند نہیں آتے تھے ۔اس لیے وہ رویا م کو ہمیشہ مکمل بات کرنے کا کرتے ہوئے اسے مکمل بات کرنے کا وقت دیتا تھا
اور اب وہ اپنے باپ کے انداز میں ڈھل چکا تھا ۔
اور یہ یارم کی اسی سختی کا نتیجہ تھا کہ آج وہ اپنی بات مکمل کر کے کم از کم انہیں بتا تو سکتا تھا کہ اسے کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے ۔کتنی آسانی سے وہ ان دونوں کو بتا پایا تھا کہ اسےکہاں تکلیف ہے ۔
ورنہ دو ڈھائی سال کے بچے کے لیے آپنی بات کا مطلب کسی کو بھی سمجھانا بہت مشکل تھا
اور اب لفظ صحیح ہو یا غلط رویام نے اپنی بات مکمل کر کے ہی دم لینا تھا ۔
اس کی بات کوئی بھی دوسرا تیسرا سمجھے یا نہ سمجھے لیکن روح اور یار م اچھے سے سمجھتے تھے
عنایت اور مہر کے دانت بالکل بھی خراب نہیں ہیں ۔کیوں کہ لیلیٰ آنٹی انہیں بالکل بھی چاکلیٹ نہیں دیتی ۔اور بہت اچھا کرتی ہے ۔روح اسے سمجھاتے ہوئے بولی
وہ ابھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کی بیماری کے لیے کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی بری ۔یارم سے تو وہ جو بھی چیز مانگتا تھا یارم فورا دے دیتا لیکن روح ہر چیز میں احتیاط کر رہی تھی
لیلا نانو اے آنتی نی ۔۔۔۔(۔لیلیٰ نانو ہے آنٹی نہیں )۔۔وہ اس کا جملہ درست کرتے ہوئے بولا
جبکہ انداز ایسا تھا کہ اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے اس نے اپنا ننھا ہاتھ سر پہ بھی مارا تھا اور وہ مسکرائی تھی لیلیٰ کو تنگ کرنے کے لئے حضر اور یارم اسے زبردستی اسے نانی بلو آتے تھے
اچھا بابا غلطی ہوگئی لیکن پھر بھی چاکلیٹ نہیں ملے گی روح نے کہا
نیتے اتلیں مدھے گندی مما(نیچے اتاریں مجھے گندی ماما) ۔۔۔۔وہ فورامنہ بسورتے ہوئے بولا
جبکہ کچن کے دروازے کے قریب کھڑےشونو کو دیکھ کر روح نے ا سے نیچے اتار دیا تھا یقیناًاب اس کا ارادہ شونو کے ساتھ کھیلنے کا تھا ۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا شونو کے پاس آیا اور اسے اشارہ کرتے ہوئے اس کے آگے آگے چلنے لگا
روح سارا دھیان باہر کی جانب رکھے ہوئے اپنے کام ختم کرنے لگی
°°°°°°
کمرے میں بے حد اندھیرا تھا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ پر آیا
اور نیچے فرش پر بیڈ سے کھینچ کرتکیہ گرایا کیونکہ بیڈاس کی پہنچ سے تھوڑا اونچا تھا
اور وہ اس پر آسانی سے نہیں چڑ پاتا تھا
تکیہ جیسے ہی زمین پر گرا رویام اس کے اوپر چڑھ کر بیڈ پر آگیا
اور اب اس نے بڑے ہی پیار سے اس کے سینے پر اپنی جگہ بنائی تھی یارم کی نیند اسی پل ٹوٹ چکی تھی لیکن اس کا ننھاسالمس محسوس کرتے ہوئے وہ آنکھیں بند ہی رکھے ہوئے تھا
بابا ۔۔۔۔۔؟وہ بہت پیار سے پکار رہا تھا لیکن اس کے انداز میں کہیں نہ کہیں لالچ بھی شامل تھا یارم کے چہرے پے اپنے آپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی
بابا ۔۔اس کی مسکراہٹ دیکھ کررویام نے اس کے منہ پر ہاتھ مارا
آتیں مما گندی ہے۔ ۔۔وہ ریام کو چوتکلت نی دے لی۔ ریام تے دنت کراب نی ہے۔ مہل ال نایت کے کراب ہے۔ ریام تے دنت پالے ہے دیتیں۔(ماما گندی ہیں وہ رویام کو چاکلیٹ نہیں دے رہی رویام کے دانت خراب نہیں ہیں مہر اور عنایت کے خراب ہیں رویام کے دانت پیارے ہیں ۔دیکھیں)
وہ اپنے چھوٹے چھوٹے موتیوں جیسے دانت دکھاتا اسے ثبوت پیش کر رہا تھا
یارم نے ایک نظر اس سے دیکھا جو اپنی دونوں ٹانگیں اس کے کندھوں پر رکھے ہوئے اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھااپنے دانت دکھا رہا تھا
ہاں یار تمہارے دانتوں واقعے میں بہت پیارے ہیں ۔
تمہاری ماما کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے ۔میں تمہیں خود چاکلیٹ دوں گا
اس کے بات کرنے کے انداز پر تو وہ شروع سے ہی فدا تھا اور پھر وہ اپنے سارے الفاظ جب یارم کے لیے استعمال کرے تو الگ ہی بات تھی
اس کے مان جانے پر وہ خوش ہو گیا تھا
ام ماما تو نہیں دے دے۔وہ بی نی دیتی۔(ہم ماما کو نہیں دیں گے وہ بھی نہیں دیتی)رویام نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا تو ریام نے فورا میں سر ہلایا اب رویام اس کے سینے پر ہی بیٹھا آس کی انگلی پکڑے اسے اٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا مطلب یہ تھا کہ وہ چل کر نہیں جائے گا بلکہ شاہی سواری کو اٹھا کر باہر لے جایا جائے
آخر کو اپنی ماں کو اپنی پاور بھی کو دکھانی تھی کہ اس کا باپ اس کے ساتھ ہے
°°°°°
ارے یارم آپ ابھی تو سوئے تھے اتنا جلدی کیوں جاگے ابھی تو صرف سوا آٹھ بجے ہیں بہت وقت ہے آرام سے سو جائیں وہ اسے جاگتے دیکھ کر بولی
تمہاری شکایت آئی ہے بیوی ۔۔تو مجھے جاگنا پڑا وہ فریج سے چاکلیٹ نکالتے ہوئے کہنے لگا تو روح نے یہ رویام کو دیکھا
جو اس کی گود میں بیٹھ کر اسے چاکلیٹ دیکھا کر کھا رہا تھا
رویام کویارم کے گھر ہونے کا کچھ زیادہ ہی فائدہ ہونے لگا تھا اب وہ ہر چیز کی شکایت لے کر سیدھے یارم کے سر پر پہنچ جاتا تھا ۔
یارم اس بار ڈاکٹر سے پوچھیں گے کہ رویام کے لئے چوکلیٹ صحیح ہے اور فکرمندی سررویام کو دیکھتے ہوئے بولی
جو یارم کی گود میں بہت صفائی سے چوکلیٹ کھا رہا تھا ۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے باپ کو گندگی بالکل پسند نہیں ۔روح کے سامنے تو اس کا ہر سٹائل چلتا تھا
لیکن اپنے باپ کی رگ رگ سے وہ بھی واقف تھا آج کل روح کا کم اور یارم کا زیادہ لاڈلا بنا ہوا تھا ۔یارم اس کی ہر بات مان رہا تھا اور وہ یارم کو غصہ دلانے والی کوئی حرکت نہیں کرتا تھا
نہیں روح اگر ڈاکٹر سے پوچھیں گے تو وہ منع کر دے گا ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ نقصان دہ نہیں ہوسکتی لیکن رویام سے ہر چیز کو ہم دور تو نہیں کر سکتے نا
میں چیک کر چکا ہوں چاکلیٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ایک لکیمیا پیشنٹ کے لیے بری ہو سکتی ہے ۔لیکن ڈاکٹر سے پوچھنے پر میں تمہیں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ منع کر دے گا ۔
بنا چیک کرنے کی زحمت کئے ۔اور ہم رویام کو یہاں گھر کا ماحول دینے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں ۔۔۔۔!تاکہ وہ اپنی زندگی انجوائے کرے اس کے لئے اس کی بیماری کوئی بیماری نہ ہو اگر ہم اس پر پابندیاں لگائیں گے تو ہسپتال اور گھر میں کیا فرق ہو گا
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو روح نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا بالکل ٹھیک ہیں تو کہہ رہا تھا وہ رویام گھر لائے ہی اسی لیے تھے کیونکہ رویاماپنی بیماری کو محسوس نہ کر سکے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو بیمار سمجھے
°°°°
اس کا چھوٹا سا ہاتھ روز انجکشن اور ڈرپس لگنے کی وجہ سے نہ صرف سوج گیا تھا بلکہ پوری طرح سے سرخ بھی ہواہوا تھا ۔
جگہ جگہ نیل کے نشان بنتے جا رہے تھے ۔روح تو جب اس کا ہاتھ دیکھتی رونے لگ جاتی
اس وقت بھی اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی ڈاکٹرانجیکشن لگا کر جا چکا تھا ۔اور ڈرپ ختم ہونے تک وہ نہیں اپنے آفس میں آنے کا کہہ چکا تھا
یہ ہئوی ڈوز دوائوں کا ہی اثر تھا کہ ڈرپ کے دوران ہی رویام گہری نیند میں اتر جاتا لیکن پھر ذرا سا درد ہونے پر نہ صرف اس کی آنکھ کھل جاتی بلکہ وہ رونے بھی لگتا
یارم اور روح نرس کو اس کے پاس چھوڑ کر اس کا خاص خیال رکھنے کا کہتے ہوئے ڈاکٹر کے کیبن کی جانب جا چکے تھے
لیکن انہیں گئے ہوئے ابھی دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ ایک جھٹکے کی وجہ سے رویام کی آنکھ کھل گئی اور وہ بری طرح سے رونے لگا
دو دن پہلے بھی ایسا ہو چکا تھا اور نرس کی لاپروائی پر یارم نے ہسپتال بند کروانے کی دھمکی دے ڈالی تھی
اس کے اچانک رونے پر نرس بری طرح سے ہربڑا گئی تھی اپنے موبائل میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ رویام کا ہاتھ چھوڑ چکی تھی ۔رویا م نہیں یقینا ہاتھ پر چبھن محسوس کرتے ہوئے ہاتھ کو جھٹکا دیا تھا اور اب وہ بری طرح سے رو رہا تھا
اگر وہ اس کے ماں باپ کو بلانے جاتی تو اس کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی
اور اس طرح سے تکلیف میں بچے کو روتے دیکھنا بھی بہت مشکل تھا بیٹا پلیز چپ کر جاؤ اس طرح سے مت رو ابھی آپ کی ماما بابا آ جائیں گے ۔
وہ اس کا ڈرپ والا ہاتھ پکڑےاسے سمجھاتے ہوئے بولی
جب اچانک رویام نے دروازے کی طرف اشارہ کیا
دانو تھائی(جانوسائیں)وہ۔بند دروازے کے دوسری طرف کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اپنا سر پکڑے شاید نہیں یقینا بہت بری حالت میں تھی
شیشے کے اس پار وہ بھی اسے اپنی طرف بلاتے دیکھ چکی تھی اسے اس طرح سے روتے دیکھ کر وہ اپنا درد بلائے اس بچے کو دیکھنے لگی
میم کیا آپ اس بچے کو جانتی ہیں ۔۔۔۔وہ آپ کو بلا رہا ہے نرس نے فورا سے آکرعربی میں بتایا اسے نرس کی بات بالکل سمجھ نہیں آئی تھی
اندررویام دونوں ہاتھوں سے اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا اور اس بچے کو اس طرح سے روتے دیکھ کر وہ بھی روکی نہیں تھی
کیا ہوا بےبی آپ رو کیوں رہی ہیں ۔۔۔؟وہ فورا اس کے قریب آتے ہوئے بولی رویام روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گیا
دانو تھائی دد ہے(جانوسائیں درد ہے)وہ روتے ہوئے اسے بتا رہا تھا یقینا وہ غلط فہمی کا شکار تھا اسے کوئی اور سمجھ رہا تھا
بےبی میں آپ کی دانو تھائی نہیں ہوں میں تو پری ہوں وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بہت نرمی سے ڈرپ ٹھیک کرنے لگی
وہ بھیگی بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا پری کو اس پر بے حد پیار آیا
پلی۔۔۔میش۔فیلی۔(پری مینس فیری)وہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کی بات کا مطلب بولا تو پھر یہ ہنسنے لگی
ہاں فیری جو جادو بھی کر سکتی ہے آپ کو جادو دکھاؤں ابھی دیکھنا میرے بیگ سے چوکلیٹ نکلے گی ۔وہ اپنا ہاتھ جادو کی طرح لہراتی اس کا دھیان بٹانے میں کامیاب ہو رہی تھی
اور پری کے جادو سے جو چوکلیٹ برآمد ہوا تھا اسے دیکھ کر رویام خوش ہو گیا تھا
لیکن اس کے اگلے سوال نے پری کو کنفیوز کر دیا
اپ فیلی او تو اپ تے پل کاں ہے(آپ فیری ہوتو آپ کے پرکہاں ہیں)
تم نے تو کہا تھا کہ پری کو میرا خون نہیں لگ سکتا تو اب تو میرا خون کیوں چیک کرنا چاہتے ہو وہ ڈاکٹر کو گھورتے ہوئے بولا
کیونکہ تم نے کہا تھا کہ تم پری کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جیسا کہ تم جانتے ہو کہ اس کے جسم میں خون بہت کم ہے اور کبھی بھی اسے بلڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔
حسن نے تمہید باندھی
لیکن تم نے کہا تھا کہ بی پوزیٹو بلڈ تم کہیں سے بھی ارینج کر سکتے ہو ۔وہ اب بھی اسے گھور رہا تھا
ہاں لیکن تم نے مجھے کہا تھا نہ کہ تم نہیں چاہتے کہ پری کو باہر کا خون لگے .حسن کنفیوژ ہوا
یہ تین ماہ پہلے کی بات تھی نہ وہ اب بھی اسی انداز میں بول رہا تھا ۔
دیکھو یار تمہاری مرضی ہے تم نے پری کو بلڈ دینا ہے یا نہیں لیکن تم او نیگیٹو ہو میں صرف چیک کرنا چاہتا تھا کہ اگر ایمرجنسی میں پری کو بلڈ کی ضرورت پڑے تو کیا تم دے سکتے ہو یا نہیں لیکن تمہاری مرضی کوئی زبردستی نہیں ہے میں پری کے لیے ارینجمنٹ کر لوں گا حسن جان چھڑاتے ہوئے کہا
اچھا ٹھیک ہے میں چیک اپ کروانے کے لیے تیار ہوں ۔پری کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں اور اپنی بات پر بھی قائم ہوں میں نہیں چاہتا کہ پری کو باہر کے کسی بھی شخص کا خون لگے کوشش کرو کہ میرا ہی بلیڈاس کے کام آ جائے
میں ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے ہمیشہ صرف اور صرف میری ہی ضرورت پڑے وہ پرسرار سے انداز میں بول رہا تھا حسن نے صرف ہاں میں سر ہلا کر نرس کو باہر آنے کا اشارہ کیا
دیکھو میں نے اسے ٹیسٹ کے لئے منا لیا ہے تم اس کا مکمل چیک اپ کرنا ہر چیز بون میرو بلیڈ گروپ یا ٹیس مجھے مکمل رپورٹ چاہیے حسن نرس کو سمجھاتے ہوئے بولا
لیکن سر ان کی اجازت کے بغیر بون میرو ٹیسٹ کرنا تو ان لیگل ہے ۔نرس پریشانی سے بولی
کیا لیگل ہے اور کیا ان لیگل یہ سب باتیں سمجھانے کا میرے پاس وقت نہیں ہے جتنا میں کہہ رہا ہوں اتنا کرو
اور رپورٹس کا انتظام ابھی کرو اور میرے آفس میں بھجوا دوں وہ اسے ایک نظر دیکھ کر اپنے روم میں چلا گیا جبکہ نرس پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی اگر اس نے کچھ پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دے گی
°°°°°
نرس کمرے میں آئی تو وہ ویٹ کر رہا تھا
ایک تو یہ آدمی اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا
جب بھی آتا تھا غصہ ناک پر رکھا اور ایٹیٹیوڈ ایسا تھا کہ سامنے والے کو جلا کے رکھ دے
وہ جتنا خوبصورت نوجوان تھا اتنا ہی مغرور بھی تھا ۔خود سے زیادہ اہمیت کسی اور کو دینا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا
وہ اسے تقریبا تین چار سال سے جانتے تھے ۔
وہ ایک بائک ریسر تھا اپنی جان پر کھیلتا تھا ۔اکثر اپنی باڈی پر زخم لے کر وہ اس ہسپتال میں آتا
لیکن چارمہینے پہلے اس نے اچانک ایک انجان لڑکی سے شادی کرلی ۔پہلی بار یہ لڑکی جب اس ہسپتال میں آئی تھی اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اسے دیکھا تک نہیں جا رہا تھا
اس کے جسم میں خون نہ ہونے کے برابر تھا ڈاکٹر نے بہت مشکل سے اس کی جان بچائی تھی ۔
اور تب سے ہی وہ ہر ہفتے اس کا چیک اپ کروانے کے لیے اسے یہاں لاتا تھا وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ اس کی فکر کرتا تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ اس پر پوری طرح سے پر ڈیپنڈ ہو ۔
وہ اسے نہ تو کسی سے بات کرنے دیتا تھا اور نہ ہی خود سے ایک پل کے لئے بھی الگ کرتا ۔
اس وقت بھی وہ اس سے ہسپتال کے اسپیشل روم میں بٹھا کر اپنا چیک اپ کروانے کے لئے آیا تھا کیونکہ حسن نے اسے یہاں بلایا تھا
حسن کی پلاننگ کیا تھی یہ تو وہ نہیں جانتا تھا وہ اپنی پری کے لیے ہی اپنا چیک اپ کروا رہا تھا نرس کو لگا تھا کہ وہ اس سے کوئی سوال نہیں کرے گا کیونکہ اسی لگا تھا کہ وہ بون میرو ٹیسٹ سے انجان ہے
سر آپ اپنی شرٹ اتار دیں آپ کو انجیکشن دینا ہے ۔وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی
ٹیسٹ تو کمپلیٹ ہو گیا ہے اب کون سا ٹیسٹ کرنا ہے اور انجکشن کی ضرورت کیوں کر رہی ہے مزید وہ سرد لہجے میں بولا
سریہ انزشیا کا ۔۔۔۔
انزشیاکا انجکشن کیوں لگایا جا رہا ہے مجھے وہ بنا کر بولا
صرف وہ دراصل آپ کا ٹیسٹ ہو رہا ہے نا ۔۔۔تو انزشیا۔
پاگل لکھا ہے میرے ماتھے پر بے وقوف سمجھتی ہو مجھے کیا میں نہیں جانتا کہ انزشیا کا انجکشن بون میرو ٹیسٹ سے پہلے دیا جاتا ہے وہ اتنے غصے سے بولا کہ نرس کانپ کر رہ گئی
سچ سچ بتاؤ ارادہ کیا ہے تمہارا ۔میرا بون میروبیچ کر پیسہ کمانے کا سوچ رہے ہو نہ تم لوگ ۔۔۔؟
نہیں سر آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے ہم آپ کا بون میرو صرف اور صرف آپ کی وائف کے لیے چیک کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں مسلسل خون کی کمی ہے اور وہ بہت زیادہ بخار میں مبتلاہو جاتی ہیں یہ نشانیاں بلیڈ انفیکشن کی بھی ہو سکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو ہمیں ان کے جسم سے سارا خون نکال کر چینج کرنا ہوگا
جس کے لیے پہلے دوسرے بندے کے بہت سارے چیک اپ کرنے پڑتے ہیں جن میں ایک بون میرو بھی ہے
نرس میڈیکل کے بارے میں جتنا کچھ جانتی تھی اس کے سامنے رکھ کر اسے مطمئن کر چکی تھی اس نے صرف ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسے انجکشن لگانے کی اجازت دی
آنزشیا کا انجکشن لگانے کے بعد بھی بون میرو ٹیسٹ کے دوران اسے بہت تکلیف ہوتی تھی ۔
سر آپ کو آدھا گھنٹہ یہی بیڈ پر لٹناہوگا کچھ دیر کے لیے آپ اپنی ہڈیوں کو بالکل موو نہ کریں
نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔وہ درد برداشت کرپرتا اٹھا
نو سر یہ بہت ضروری ہے ۔آپ کی طبیت خراب ہو سکتی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ہسپٹال آپ کو یوں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔وہ سمجھا رہی تھی
مجھے پری کو لنچ پر لے کر جانا ہے وہ بڑبڑایا
رپورٹس کب تک مل جائیں گی ۔۔۔؟وہ شرٹ پہنتے ہوئے سوال کر رہا تھا
سرکل شام تک آپ اپنی رپورٹس لے جائیے گا ۔اس کے کہنے پر وہ صرف ہاں میں سر ہلا تا لیٹ گیا
جبکہ نرس رپورٹس نٹ کے زریعےحسن کے کمپیرٹر میں چیکنگ کے لئے بھیج چکی تھی
°°°°°
پر تو نہیں ہیں میرے پاس لیکن ۔۔۔۔پری سے کوئی جواب نہ دیا گیا
لیتن تیا(لیکن کیا)وہ اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں کو چھوٹا کر کے اسے گھورتے ہوئے بولا جیسے اس کی چوری پکڑ چکا ہو
ارے بڑے شیطان بچے ہو تم ابھی میں نے تمہیں جادو کر کے دکھایا ۔پری نے اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے
بو تو میلے بابا بی تر لیتے ہے۔لج فج سے نیتل دیتے(وہ تو میرے بابا بھی کر لیتے ہیں۔زور فریج سے نکل دیتے )وہ اس کے جادو کو جادو ماننے سے بلکل انکاری تھا
ہاں تو تمہارے بابا پہلے فریج میں رکھتے ہوں گے پھر نکال کے دیتے ہوں گے لیکن میں نے رکھا نہیں تھا میں نے جادو سے نکالا ہے ۔
پری کو اس سے باتیں کرنے میں بہت مزا آ رہا تھا وہ اس وقت باتوں میں اتنا مصروف تھا کے ڈرپ کب ختم ہوئی اسے بالکل اندازہ نہیں تھا یقینا اگر وہ اس وقت مصروف نہ ہوتا تو اسے اتارنے کی ضد ضرور کرتا
پہلے تو یارم کی سختی کی وجہ سے وہ زیادہ ضد نہیں کرتا تھا لیکن اس کی غیر موجودگی میں رویام کسی کی نہیں سنتا تھا
اتااتی بت اے تو دوبلا نیتل تے دتھاو(اچھا ایسی بات ہے تو دوبارہ نکال کے دکھاؤ)رویام نے چیلنج دیا
اور یہاں وہ پھنس چکی تھی کیونکہ اس نے ایک ہی چاکلیٹ صبح اپنے بیگ میں رکھا تھا
میں نہیں نکالتی۔وہ کھڑوس دیو مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔اور پھر مجھے کھا جائے گا پری نے اسے پرسرار انداز میں بتایا
کھلوش یو۔(کھڑوس دیو)۔۔؟وہ اس کی بات دہراتے ہوئے بولا دتو پری نے بمشکل اس کے ہونٹوں کی حرکت دیکھی اور اپنا قہقہ روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا ہاتھ منہ پر جمایا
ہاں وہ کھڑوس دیو جس نے یہ چاکلیٹ جادو سے میرے بیگ میں رکھی تھی اور اب جادو سے میں نے نکال کر تمہیں دے دی پری کہانی بنائی
آو کھلوش یو شب تو کا جاتا اے (وہ کھڑوس دیوسب کو کھا جاتا ہے ۔۔۔؟ )رویام نے معصومیت سے پوچھا ۔
ہاں سب کو کھا جاتا ہے اور سب سے زیادہ تمہاری طرح پیارے پیارے بچوں کو اور جو لوگ میری جادو پر یقین نہیں کرتے ان کو تو اٹھا کر لے جاتا ہے ۔
پری نے تفصیل بتاتے ہوئے اسے ڈرایا اور لگے ہاتھ اس کے پھولےپھولے سرخ گال پر جھک کر پیار بھی کر ڈالا
جس پر رویام نے اسے گھورتے ہوئے اپنے ننھے سے ہاتھ سے اپنے ننھے سے سرخ گال کو رگڑ ڈالا یقینا اس سے اس کی یہ حرکت بالکل پسند نہیں آئی تھی
کیا ہوا بےبی میرا کس کرنا اچھا نہیں لگا کوئی بات نہیں میں اپنا کس واپس لے لیتی ہوں وہ مسکراتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے گال پر جھکی اور پھر سے اسے کس کرتے ہوئے سیدھی ہوئی جس پر رویام نے اسے مزید گھورا
ارے ایسے کیوں گھور رہے ہو اپنی کس واپس تو لے لی میں نے پری شرارت سے مسکرا کر بولی
اسے تو یہ بچہ پہلے دن سے ہی بے حد پسند آیا تھا
اور آج تو یہ اس کے ہاتھ چڑھ چکا تھا
دیکھو پلیز تم مجھے ایسی مت گھورو ورنہ وہ کھڑوس دیو مجھے کھا جائے گا ۔پری نے معصوم سی شکل بنا کر اسے پھر سے باتوں میں لگانے کی کوشش کی
اپ میلے باباتوبتاو میلے بابا اش کھلوش یو کو ڈش ڈش تر تے مال دے دے(آپ میرے بابا کو بتاؤ وہ اس کھڑوس دیو کو ڈیش ڈیش کرکے مار دیں گے )رویام نے اسے آئیڈیا دیا تھا
ایک تو اس بچے کی مکمل باتیں اور دوسری طرف اس کی بات کرتے ہوئے مشکل الفاظ پر منہ کے ڈیزائن پری تو پوری طرح سے اس پرفلیٹ ہو گئی تھی اور سب سے خاص بات وہ غصے میں بات کرتے ہوئے بھی وہ کتنے ادب و احترام سے مخاطب کرتا تھا
پری تو کیا اس کی جگہ کوئی بھی ہو وہ رویام سے محبت نہ کرے یہ ناممکن سی بات تھی
تم اپنے بابا کو خود ہی بتا دینا ۔کہ وہ میری مدد کریں مجھے اس کھڑوس دیو سے بچائیں ورنہ وہ مجھے کھا جائے گا تم بتانا اپنے بابا کو کہ تمہاری دوست بہت بڑی مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے تمہارے بابا میری مدد کرنے کے لئے آئیں گے نا سپائڈرمین کی طرح پری کا فی الحال اس سے باتیں ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
می اپلے بابا کوپتو بتوں دا لیتن اپ میلی دوشت نی او ۔ال میلے بابا شپڈرمن نی شوپل من ہے(میں اپنے بابا کو بتا دوں گا لیکن آپ میری دوست نہیں ہو اور میرے بابا سپائڈر مین نہیں سپرمین ہیں )۔وہ منہ بنا کر اسے بتانے لگا
ارے میں کب سے تمہارے پاس بیٹھی تم سے باتیں کر رہی ہوں اور تم مجھے دوست ماننے کو تیار ہی نہیں ہویہ تو بہت غلط بات ہے میں نے تمہیں چاکلیٹ دی تو میں تمہاری دوست بن گئی نا چاکلیٹ کا مزہ لینے کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم دوست ہیں
چلو اب جلدی سے مجھ سے دوستی کرو ورنہ میری چولکیٹ واپس کرو ۔پری اس سے دوستی کرنے کی خاطر جلدی سے کہتے ہوئے اس کے ننھے سے ہاتھ سے چوکلیٹ لینے ہی لگی تھی
تھیت اے ام دوشت ہے(ٹھیک ہے ہم دوست ہیں )وہ احسان کرتے ہوئے بولا
لیکن تب ہی کوئی کمرے میں داخل ہوا ۔رویام کامنہ دوسری جانب تھا اسی لیے وہ شخص اسے دیکھ نہیں پایا لیکن وہ پری کو چلنے کا اشارہ کر رہا تھا
او کے پیارے دوست اب مجھے بھی گھر جانا ہے ۔تمہارے ساتھ یہ پہلی ملاقات بہت اچھی رہی تھی اور نرس جی میرے دوست کا خیال رکھیے گا آپ اپنے موبائل پر بعد میں مصروف ہو جائے گا لیکن فی الحال میرے دوست کو آپ کی ذمہ داری پر یہاں چھوڑا گیا ہے وہ اس کے دونوں گال چومتی ہوئی اردو میں بولی کیونکہ وہ کچھ دیر پہلے اسے کسی سے ہندی میں فون پر بات کرتے ہوئے سن چکی تھی
جبکہ رویام نے اسے پھر سے گھورتے ہوئے اپنے ننھےسے ہاتھ سے دونوں گالوں کو سرخ کر ڈالا
ارے دوستی میں کس کرنا الاوڈ ہوتا ہے تمہیں تو کچھ بھی نہیں پتا وہ اس کے ننھے سے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اس کا گال دوبارہ چوم کر باہر بھاگ گئی اور اب وہ اسے دور سے بائے بائےکر رہی تھی
°°°°
مجھے یقین نہیں آرہا یارم یہ دیکھو اس بندے کی %96 پرسنٹ تک رپورٹ رویام سے میچ کر رہی ہیں ۔میرا شک بلکل ٹھیک تھا یارم اگر یہ رویام کو بون میرو دینے کے لیے تیار ہوجائے تو رویام بچ سکتا ہے
مطلب کہ یہ ڈونر ہے ۔۔روح نے خوش ہو کر پوچھا۔
نہیں بھابھی یہ ڈونر تو نہیں ہے لیکن میں اسے منا لوں گا میں صرف کنفرم کرنا چاہتا تھا جو کہ ہو چکا ہے ۔
میں اس سے بات کرتا ہوں ۔حسن کافی پرجوش تھا
اسے مناو تم میں اس کی ساری زندگی اسان کردوں گا میں اس کا فل لائف خرچ اٹھوں گا ۔اسے جو چاہے وہ ملے گا یارم نے حسن کو دیکھتے ہوئے کہا ۔وہ اسے کسی بھی طرح منا لینا چاہتا تھا۔حسن نے سرہلاتا اٹھا۔
وہ اسے جلد منا لینا چاہتا تھا کیونکہ رویام کے جسم سے خون اب سکھ رہا تھا وہ دن با دن کمزور ہو رہا تھا اس کا آپریشن جلد سے جلد کرنا ضروری ہو گیا تھا
اتنے دنوں کی ناامیدی کے بعد آج انہیں تھوڑی سی امید ملی تھی ۔جو ان دونوں کے لیے کسی میجزے سے کم نہیں تھی
چلو رویام کے پاس چلتے ہیں وہ جاگ گیا ہو گا وہ روح کو دیکھتے ہوئے بولا تو روح فوراً اٹھی تھی
°°°°°
درک روکو ۔کیا تمہیں نرس نے نہیں بتایا کہ تم ایسے نہیں جا سکتے تمہیں ریسٹ کی ضرورت ہے تمہارا بون میروسینپل لیا گیا ہے۔حسن بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا
بتایا ہے ۔۔لیکن میرا پھر بھی روکنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے سو ۔۔۔۔
یہ تمہارے لیے ضروری تھا ۔حسن نے سمجھانا چاہا ۔جبکہ پری انجان سی کھڑی انہیں سن رہی تھی
نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔ وہ جانے لگا
مجھے تم سے ایک اہم بات کرنی تھی۔حسن نے کہا
بولو ۔اس کی ضروری بات کے چکر میں شاید وہ اہنا ٹائم برباد نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں تم سے اس بچے کو ملوانا چاہتا ہوں وہ صرف ڈھائی سال کا ہے تمہارا سارےسسٹم سیلز اس سے میچ کر رہے ہیں96% تم دونوں کا باڈی سسٹم ایک جیسا ہے۔وہ تمہاری مدد سے بچ سکتا ہے پلیز اس بچے کی جان بچا لو وہ تکلیف میں ہے ۔ایک ایک سانس مشکل سے لے رہا ہے
دن رات اسے انجکشن لگائیں جاتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی اس کا درد کم نہیں ہوتا۔زرا سوچو تمہاری وجہ سے اس کا درد کم ہو گا وہ اپنی زندگی جی پائے گا ۔صرف ایک بار مل تو لو اس سے
مطلب میرا شک ٹھیک تھا تم نے اسی لیے میرے یہ سارے ٹیسٹ کیے ہیںتمہیں پتا ہے نہ میری اجازت کے بغیر میرا بون میرو کرنے پر میں تم پر کیس کرسکتا ہوں۔وہبھنا کر بولا
کردینا جو کرنا ہے کر دینا بس ایک بار میرے ساتھروم نمبر 11 میں چلو ایک بار حالت دیکھو اس کی حسن اس کی منیتں کررہا تھا۔جبکہ روم نمبر 11 کا سن کر پری نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔کیونکہ روم نمبر 11 سے تو وہ ابھی آئی تھی
وہ تو بہت چھوٹا سا بےبی ہے۔کون سی بمیاری ہے اس کو۔پری پریشان سی بولی
لکیمیا مطلب بلڈ کنسر حسن نے فوراً جواب دیا۔
یا اللہ اس چھوٹے سے بچے کو کنسر ہے۔۔۔؟ وہ کیسے بچے گا۔۔! پری کا انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ پوچھ رہی ہو کہ وہ اس کے لیے کیا کر سکتی ہے۔
اُس کو صرف درک بچا سکتا ہے۔کیونکہ اب تک میں ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کا چیک اپ کر چکا ہوں مگر وہ کے سسٹم سیل صرف درک سے میچ کرتے ہیں ۔
اسے بس اپنا بون میرو ٹرانسفر کرنا ہوگا اسے اور وہ بچ جائے گا حسن نے تفصیل سے بتایا تو پری نے بہت امید سے اس کی طرف دیکھا ۔جیسے یقین ہو کہ وہ انکار نہیں کرے گا
کب کرنا ہے آپریشن وہ پری کو دیکھ کر حسن سے بولا ۔یہ سچ تھا کہ وہ پری کی امید کو ٹوٹنے نہیں دے سکتا تھا۔
جب تم ہاں کر دو۔حسن نے فوراً جواب دیا۔
پھر بھی کوئی وقت تو ہو گا ہی۔!نہ اٹھا کر تو کسی کابھی آپریشن نہیں کرتے ہو گے تم لوگ وہ چڑ کر بولا۔
ہاں تم کل صبح تک آ جاو میں سارا انتظام کر لوں گا
ٹھیک ہے تم تیاری کرو کوئی اور ٹیسٹ کونا ہے تو ابھی کر لو کیونکہ میں بون میرو ٹرانسفر کے بعد ایک ہفتے کے لیے جا رہا ہوں ۔
ہاں ٹھیک ہے تم کل ہی آجانا کوئی ٹیسٹ نہیں کرنا اب صرف آپریشن ہو گا۔
حسن فوراً بولا یہ نہ ہو کہ اس کے آرام کرنے کا کہنے پر وہ مکرجائے ۔ویسے بھی اسے سرپھیرے سے کوئی فالتوبات کرنی ہی نہیں چاہے ۔ٹرانسفرمیپشن کے بعدتو ویسے بھی اس کی کمر کی ہڈی نے اسے اٹھنے نییں دینا تھا۔
اس کے جانے کے بعد حسن نے روح اور یارم کو خوش خبری سنائی تھی کل ان کے بیٹے کا آپریشن ہو جاِپئے گا اور وہ بلکل ٹھیک وہ دونوں بہت خوش تھے۔لیکن آنے والے وقت سے انجان۔۔۔
ایک تو اور ایک تیرے دوست اب کہاں سے پیدا ہوئی تیری دوست بتا مجھے روح کچن میں کھانے کے بعد کام نپٹا رہی تھی ۔جبکہ رویام وہیں بٹھا یارم کو اپنی نئی زبردستی کی دوست کا مسلہ بتا رہا تھا۔
آد ملی بو بتی اے تہ ریام اش تا دوشت اے (آج ملی وہ بولتی ہے کہ رویام اس کا دوست ہے)وہ معصومیت سے منہ بنا کر بولا ۔
ضروری یہ وہی نرس ہو گی جس کے پاس ہم اسے چھوڑ کر گئے تھے یارم نے توکا لگایا
نی بو نی اے ۔بو پلی ہے فیلی ہے بو دادو ترتی اے (نہیں وہ نہیں ہے وہ پری ہے فیری ہے جادو کرتی ہے) وہ پھر سے بولا تو اس بار یارم کھل کر ہنسا
یارم ایک بار اس کی پوری بات سن تو لے کب سے آپ کو بتانے کی کوشش کر رہا ہےمیرا معصوم سا بچہ اس کے نظر انداز کرنے پرروح نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
روح تم نے اس کا پورا قصہ نہیں سنا اس لڑکی میرا مطلب ہے اس کی دوست پری کو کوئی ۔۔۔۔کون قید کیے ہوئے ہے رویام ۔۔۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑ کر اس سے پوچھنے لگا ۔وہ جانتا تھا کہ قصہ کیا ہے لیکن رویام کے منہ سے کھڑوس دیو سن کراسے ہر بار مزا آتا۔اور اس لفظ کو اس نے جیتا مشکل بنا دیا تھا ۔کہ اس کے منہ کا ڈائزین دیکھ کر یارم کو اس پر بہت پیار آتاتھا
کھلوش یو۔(کھڑوس دیو)وہ ننھا شہزادہ فوراً بولا تو یارم نے ہنسی دبائی
ہاں وہ کھڑوس دیو قید کیے ہوئےہے ۔اور اب اس کی دوست پری کو اس دیو سے آزاد کروانا ہے کیا فینٹسی کہانی ہے ۔جو وہ اسے سنا گئی ہے
وہ خود تو اسے سنا کر چلی گئی ہے لیکن اس کے دماغ پر چھانے لگی ہے اور تم کہہ رہی ہوکہ میں اس کا وہ قصہ 15 بار سنوں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے سونے کا وقت ہو چکا ہے
وہ اسے زبردستی اٹھا کر بیڈ روم میں لے آیا جبکہ رویام کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی
باب مینے اش تو بولا اے تہ میلے بابا شوپل من اے(بابا میں نے اس کو بولا ہے کہ میرے پاپا سوپرمین ہیں)۔رویام نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے بتایا مطلب صاف تھا کہ وہ انکار نہیں کر سکتا اس کی مدد کے لیے
اوکے میں اس کی مدد کروں گا اب خوش ۔۔۔؟ وہ کسی قیمت پر سونے کو تیار نہیں تھا
پلومش ۔(پرومس )۔۔؟ سوال آیا۔
ہاں میرا شیطان پرومس ان سو جا وہ وعدہ کرتے ہوئے خود بھی بیڈ پر لیٹ گیا ۔جبکہ رویام اب اس کے سینے پر چڑھ چکا تھا اس کے سینے پر سر رکھے وہ تھوڑی ہی دیر میں ننھےننھے خراٹے لینے لگا
کل اس کا آپریشن تھا وہ رویام کو فریش دیکھنا چاہتا تھا ۔وہ اسے ہر طرح ستپے تیار رکھنا چاہتا تھا اس کے ہاتھ میں آج بھی ڈرپ لگی تھی۔
وہ اسے درد سے بچانے کے لیے ایسا کرتے تھے لیکن ایک معصوم بچے کے لیے یہ درد بھی کم نہیں تھا
روح بہت پریشان تھی ۔۔پتہ نہیں کون تھا وہ شخص جو رویام کو بلڈ دینے کو تیار ہوا تھا اسےتو بس اتنا ہی معلوم تھا کہ وہ اپنی مرضی سے یہ نہیں کر رہا تھا
وہ تو ڈونربننے کو تیار ہی نہیں تھا پتا نہیں حسن نے اسے کیسے بنایا ہوگا
بس اس کا بچہ ٹھیک ہو جائے اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا ۔اپنے بچے کے ساتھ ساتھ وہ اس شخص کے لئے بھی بے شمار دعائیں کر رہی تھی جو اس کی گود اجڑنے سے بچا رہا تھا
°°°°°
وہ وقت سے پہلے ہسپتال پہنچ ایا تھا ۔حسن اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا
تھینک یو سو مچ درک مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم بلڈ دینے کے لیے تیار ہوگئے ہو تمہارا یہ احسان میں ساری زندگی نہیں بھولوں گا
تمہیں جتنیےھی پیسوں کی ضرورت ہو جس بھی چیز کی ضرورت ہو بھی چکا مجھے کہہ سکتے ہو میں تمہاری مدد ضرور کروں گا
بس کرو حسن یہ سب کچھ میں تمہارے لئے نہیں بلکہ اپنی پری کے لئے کر رہا ہوں وہ چاہتی ہے کہ وہ بچہ بچ جائے مجھے تم سے یا کسی اور سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی اس بچے کی جینے یامرنے سے کوئی فرق پڑتا ہے
میں یہاں تک صرف اور صرف اپنی بیوی کے لئے آیا ہوں
اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ آدمی کتنا امیر ہے اور مجھے کتنے پیسے دے سکتا ہے مجھے بس میری بیوی کے چہرے پر خوشی دیکھنی ہے
اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے بازو زور پر دنیا کی کوئی بھی چیز خرید سکتا ہوں اسی لیے یہ سب کچھ کرنا بند کرو اور مجھے اس بچے سے ملواؤں
وہ بچہ تو فی الحال ابھی آیا نہیں میں نے دس بجے کا وقت دیا ہےان لوگوں کو تم جلدی آ گئے حسن نے بتایا
کیا مطلب وہ یہاں اسپتال میں نہیں رہے درک نے پوچھا
نہیں دراصل وہ اسےہہاں پر نہیں رکھ کر اپنے بچے کو بیمار ماحول فراہم نہیں کرنا چاہتے وہ اسے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اس لیے تقریباً روز ہی یہاں آ کر اسے ڈرپ لگوا دیتے ہیں جس سے اسے تکلیف کم ہو جاتی ہے
تم اندر چلو بولو بس تھوڑی دیر میں پہنچنے والے ہوں گے حسن نے بہت سہولت سے کہتے ہوئے اسے اندر بھیجا
جبکہ خود روح یارم کا انتظار کرنے لگاویسے تو اس نے دس بجے کا وقت دیا تھا لیکن درک وقت سے پہلے یہاں آکر اسے حیران کر چکا تھا اسے ابھی پتہ چلا تھا کہ آج ہی دوپہر بارہ بجے کی فلائٹ سے وہ کہیں جانے والا ہے
وہ بھی پورے ایک ہفتے کے لیے اور یہ آپریشن ہونا بہت ضروری تھا اس لیے کہ یارم اورروح وقت سے پہلے آجائے تو اچھا تھا
اس نے فون کرکے ان کوجلدی بلا لیا۔
اور وہ اسے بیس منٹ میں پہنچنے کا کہہ چکے تھے ۔
°°°°°
یار م کیا آپریشن سے رویام کو تکلیف ہوگی گاڑی میں روح نے پوچھا
ہاں تکلیف تو ہو گی روح لیکن جتنی تکلیف برداشت کر رہا ہے اس کے سامنے وہ تکلیف کچھ نہیں ہوگی اور اب جو تکلیف ہوگی اسے وہ ایک ہی بار برداشت کرے گا روز روز نہیں
یارم نے اسے سمجھاتے ہوئے رویام کی جانب دیکھا
جو ہوسپیٹل یہ سوچ کر آیا تھا کہ آج اسے کل والی دوست ملے گی
جس کے لئے اس نے اپنی آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھا کے بال بھی بنائے تھے
باقی سب کچھ تو ٹھیک ہے رویام لیکن یہ چشمہ اور بال بار بار کیوں ٹھیک کر رہے ہو ۔یارم نے اسے دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں پوچھا
تو روح نے اسے گھورا جو وہاں جانے سے پہلے ہی بتا چکی تھی کہ وہ اپنی دوست کو انپریس کرنا چاہتا ہے
اور وہ اپنی اس پری دوست کو یہ بھی کہے گا کہ وہ جادو کر کے اسے بڑا کردے
لیکن پھر بھی یارم اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا اور سب سے مزہ تو اسے تب آتا تھا جو کھڑوس دیو کو کھلوش یو کہہ کر اپنے انداز میں پیش کرتا تھا
می اپلی دوشت شے منے دا را اوں اش لیے (میں اپنے دوست سے ملنے جا رہا ہوں اس لئے) رویام نے جلدی سے جواب دیا
تمہیں پکا پتا ہے کہ تمہاری دوست وہاں ہوگی یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آج تمہاری دوست ہسپتال میں آئی ہی نہ ہو یارم کہا تو وہ سوچ میں پڑ گیا
توئی بت نی می اش کو پھون تر تے بلوں دا
(کوئی بات نہیں میں اس کو فون کرکے بلا لوں گا) رویام نے فوراً جواب دیا
اچھا تو تمہارے پاس اس کا فون نمبر بھی ہے یارم کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی تھی
پھون ممر کشے کاتے ہے میلے پاش تو پھون ہے آپ تا(فون نمبر کیسے کہتے میرے پاس دو فون ہے آپ کا )رویام نے اس کا فون سامنے کرتے ہوئے کہا
اے میرے بے وقوف ٹھرکی بچے بچی کو پٹانے کے لیے نمبر چاہیے ہوتا ہے ۔یا رم نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا تو روح نے گھور کر اسے دیکھا اور لگے ہاتھ اس کے کندھے پر چیت لگائی
آپ ہر بات کو اپنے انداز میں نہ لیا کریں آپ کی طرح نہیں ہے میرا بچہ
رویام اگر وہ نہیں بھی ہوئی نہ تو بھی کوئی بات نہیں ہم پھر کبھی ملیں گے آپ کی دوست سے روح نے سے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
جو کہ وہ منہ بسور کر بیٹھ گیا تھا اس کے ہسپتال جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا وہ تو اپنے دوست کو ملنے والا نہیں تھا
اور نہ ہی وہ اس کو بتانے والا تھا کہ اس کے بابا نے اس سے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ اسے اس (کھلوش دیو)کھڑوس دیو سے بچا لیں گے
کر دیانا میرے بچے کو اداس روح نے پچھلی سیٹ پر یارم کے فون میں مصروف اپنے بچے کو دیکھا جو سیٹ بیلٹ پہنے اداس سا موبائل میں گیم کھیل رہا تھا
ارے مجھے تھوڑی نہ پتا تھا بچی میرا مطلب ہے یہ اپنی دوست کی وجہ سے اتنا اداس ہو جائے گا ۔
یارم جو ابھی تک اس بات کو اپنے انداز میں لے رہا تھا روح کی گھوری پر فورا بعد بدل گیا پھر مسکرا کر ڈرائیونگ کی طرف فوکس کیا
°°°°°°
فی الحال تو سب کچھ نارمل تھا لیکن آنے والے وقت کو لے کر وہ بہت زیادہ پریشان تھا پتا نہیں کیا ہونے والا تھا وہ روح کے سامنے اپنے آپ کو بہت نارمل ظاہر کر رہا تھا لیکن یہ بہت خطرناک آپریشن تھا جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا
سب سے اچھی بات تو یہ تھی کہ رویام کی کنڈیشن بہت اچھی تھی
لیکن اس کا خون سوکھتا جا رہا تھا ۔اگر یہ کہا جائے کہ رویام تکلیف برداشت نہیں کر رہا تھا تو یہ غلط تھا دوائیاں اتنا ہی اثر دکھا رہی تھی جتنا دکھا سکتی تھی اس کے بعد رویام کون سی تکلیف جھیل رہا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا
دو دن پہلے اس نے اسی ہسپتال میں بلڈ کینسر کے مریض دیکھے تھے جن کی عمر تقریبا 40 برس سے زیادہ تھی
اور وہ درد سے تڑپ رہے تھے ہر وقت مشنری میں موجود ہونے کے باوجود بھی درد ان پر پوری طرح سے حاوی تھا
تو نہ جانے اس کا معصوم سا بچہ جو ابھی صرف ڈھائی سال کا تھا یہ تکلیف کیسے برداشت کر رہا تھا
وہ بس کیسے بھی اس تکلیف سے نکالنا چاہتا تھا
اب آہستہ آہستہ رویام کا پورا جسم درد کرنے لگتا تھا درد سر سے شروع ہوکر سینے میں اور سینے سے پیٹ کے اندر اور پھر آہستہ آہستہ اس کا جسم بالکل ہی لاغر ہو جاتا
اور اس کا یہی درد یارم برداشت نہیں کر پا رہا تھا اور وہ تو رو کر اپنا درد ہلکا کر لیتی تھی لیکن وہ تو رو بھی نہیں سکتا تھا اس نے اپنی روح کو بھی سنبھالا تھا
کل رات روح کے سونے کے بعد رویام کو پھر تکلیف شروع ہوگئی وہ سسے اٹھا کر کھلی فضا میں لے آیا لیکن اس کا درد سے بلکتا وجود اب تک یارم کی نگاہوں کے سامنے تھا
کتنی منتوں کے بعد یہ ننھا فرشتہ ان کی زندگی کا حصہ بنا تھا اور اب اسے اتنی بڑی بیماری وہ اسے اپنی زندگی سے دور نہیں جانے دینا چاہتے تھے
یارم اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا
اس کی غیر موجودگی میں سارا کام ہی کر کے خضر پے آ چکا تھا جسے خضر بہت ہمت سے سنبھال رہا تھا اور شارف بھی اس کی پوری مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیلیٰ کا سارا دن ان کے ساتھ ہی ان کے گھر پر ہی گزرتا
جبکہ معصومہ دن رات ڈاکٹر حسن کے ساتھ اس کے لئے ایک ڈنور کا انتظام کر رہی تھی جو اس سے نہیں ملا پچھلے دو دن سے وہ روس میں تھی کل رات ہی اس نے فون کرکے اسے بتایا تھا کہ ڈونرکا انتظام ہو گیا ہے
اسی لئے معصومہ کل ہی واپس آنے والی تھی
ڈونر کے انتظام ہو جانے کی خبر ملتے ہی وہ سب لوگ پرسکون ہو چکے تھے اب ان کا رویام ٹھیک ہو جائے گا
یہی ان کے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات تھی
°°°°°
وہ دونوں حسن کے آفس میں داخل ہوئے تو کرسی پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا
او یارم اس سے ملو یہ ہے درکشم قیوم خلیل ہمارے رویام کا ڈونر ۔ان کے اندر داخل ہوتے ہی حسن نے متعارف کروایا
لیکن اس کو دیکھتے ہی یارم اور روح پریشان ہو چکے تھے جب کہ درک بنا کچھ بولے واپس کرسی پر بیٹھ گیا
درک ان کا ہی بیٹا ہے جس کو تم نے اپنا بون میرو ٹرانسفرکرنا ہے
صرف تم ہی اس کی جان بچا سکتے ہو مجھے نہیں پتا تمہارا بلیڈ گروپ بان میرو اور ٹیس رویام سے اتنا زیادہ میچ کیسے کر سکتا ہے لیکن تمہارے بون میرو سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا زندگی کی طرف واپس آ جائے گا
اس کے لاغر وجود میں ایک بار پھر سے جان آجائے گی وہ اپنے بچپن کو کھل کر جی سکے گا
حسن اسے بتا رہا تھا جبکہ درک کے چہرے پر ایک طنزیہ سے مسکراہٹ تھی جس سے وہ یارم کو دیکھ رہا تھا
رکو حسن رکو تم تو پاگل ہی ہو جاتے ہو کوئی بات بتاتے ہوئے ذرا اپنے یارم صاحب سے پوچھو تو سہی کیا وہ میرا بون میرو اپنے بیٹے کے لیے لینا پسند کریں گے اس کا انداز طنز سے بھرپور تھا
کیا مطلب ہے تمہارا حسن جو پرسکون اسے اپنی بات بتا رہا تھا اس کے لفظوں پر حیران ہوا
انہیں خون کے رشتوں پر بھروسہ نہیں ہے تم جاننا چاہتے ہو نا رویام کے ساتھ بلڈ گروپ بون میرو اور ٹیس اتنا زیادہ میچ کیوں کر رہے ہیں
یارتم تو بالکل بے وقوف ہو تو میں ڈاکٹر کس نے بنا دیا ۔تمہیں تو اتنا تو بتا ہی ہوگا کہ کسی بھی ان نون بندے کے ساتھ ہمارے سسٹم سیل زیادہ سے زیادہ چالیس پرسنٹ میچ کر سکتے ہیں لیکن رویام کے ساتھ میرے سسٹم سیل %96 تک میچ کر رہے ہیں تو یقینا ہم دونوں میں کوئی خون کا رشتہ ہو گا
لیکن خون کے رشتوں پر تو یارم صاحب بھروسہ نہیں کرتے وہ اپنی بیوی کو کبھی بتانا ہی نہیں چاہتے ہیں کہ روح کا ایک بھائی بھی ہے ٹھیک کہہ رہا ہوں نہ میں یارم تم اپنی بیوی کو یہ بات بتانا ہی نہیں چاہتے ہو اس کی روح کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے لیکن دیکھو نا خود ہی حقیقت کھل کر سامنے آگئی
ہاں روح میں وہ انسان ہوں جو تمہارے ساتھ خون کا رشتہ رکھتا ہوں لیکن تم نہ تو کبھی مجھ سے ملی ہو نہ ہی شاید کبھی مجھ سے ملنا چاہو گی
ہاں میں درکشم قیوم خلیل تمہارا بڑا بھائی ہوں ۔
اس شخص کا خون میری رگوں میں دوڑتا ہے جس کا خون تمہاری رگوں میں دوڑتا ہے
ہاں میں وہیں درکشم قیوم خلیل ہوں جس نے تمہارے باپ کا قتل کیا
اور جس کی شکل تم زندگی میں کبھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔
وہی ہوں میں جس نے تمہیں یتیم کیا
تمہیں دنیا کی ٹھوکروں میں پھینک دیا
تمہیں پل پل مرنے پر مجبور کر دیا
اب اگر میں یہ کہوں کہ تمہارا باپ جینے کے لائق نہیں پھر تم یقین نہیں کرو گی
اس لیے میں تب بھی کچھ نہیں بولا تھا میں اب بھی کچھ نہیں بولوں گا
حسن میری 12:00 کی فلائٹ ہے مجھے جانا ہوگا ۔
وہ حسن کو دیکھ کر بولا تو روح نے تڑپ کر اسے دیکھا وہ بھول گئی تھی کہ وہ کون ہے اس کے باپ کا قاتل ہے یا کیا ہے لیکن وہ اس کے بچے کی جان بچانے کا آخری راستہ تھا
ہاں سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ یہ شخص اس کے ساتھ کیا رشتہ رکھتا ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اس شخص نے اس کے باپ کا قتل کیا ہے
اسے پتہ تھا تو بس اتنا کے اگر یہ یہاں سے چلا گیا تھا اس کا بیٹا تڑپ تڑپ کر مر جائے گا
وہ ایک بیٹی بن کر نہیں سوچ سکتی تھی اسے اپنے اند سانس لیتی ماں کے لیے جھکنا تھا
تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔
رویام کو تمہاری ضرورت ہے اگر تم چلے جاؤ گے تو ۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کو میری کتنی ضرورت ہے ۔جس شخص نے اپنے ہی باپ کو جان سے مار ڈالا اس کی بہن کا بچہ مر جائے تو کیا فرق پڑتا ہے
اس کے الفاظ نے یارم کے اندر تک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اگلے ہی لمحے وہ اس کے گر بان کو پکڑ کر جھنجوڑچکا تھا
خبردار جو تم نے یہاں سے جانے کی بات کی تم صرف اور صرف ہماری زندگی میں تکلیف بن کے آئے ہو اور اب تم یہاں سے تب تک نہیں جا سکتے جب تک ۔۔۔۔۔۔
چہ چہ یہ کون سا طریقہ ہے بھیک مانگنے کا یارم کاظمی ۔
تمہیں تو مانگنا بھی نہیں آتا ۔ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر بھیک مانگی جاتی ہے
میں نے کہا تھا نا ایک دن تمہیں جھک کر میرے پاس آنا ہوگا تو بھی آؤ ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر عاجزی سے میں بھی دیکھوں کہ دبئی کا ڈان اپنے بیٹے کے لیے کیا کر سکتا ہے
میں نے سنا ہے کہ آج تک تم نے کبھی کسی کے سامنے سر نہیں جھکایا لیکن میں ہوں نہ تمہارا سر میرے سامنے جو کہے گا ۔وہ آنکھوں میں جیت لئے بولا
یارم کاظمی آج تک اپنے اللہ کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہیں جھکا اور جہاں تک میرے بیٹے کی زندگی کا سوال ہے کہ جس کے سامنے میں جھکتا ہوں وہ اسے بچا لے گا وہ ایک جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے پیچھے ہٹا اور روح کا ہاتھ تھامے اسے باہر لے آیا
°°°°°
یارم ہمارا بچہ مر جائے گا
کیا ہوگیا ہے آپ کو اس طرح سے ضد نہ کریں
یہ ہمارے بچے کی زندگی کا سوال ہے یا رم وہ اس کے ساتھ کھنچتی چلی آ رہی تھی
اگر آپ اس کے سامنے ہاتھ نہیں جوڑسکتے تو میں جوڑلوں گی
یارم وہ جانے والا ہے اگر وہ چلا گیا تو ہمارا بچہ بھی چلا جائے گا
کچھ نہیں ہوگا رویام کو کچھ بھی نہیں جس ذات نے ہمیں رویام دیا ہے وہی ذات سے بچا لے گی
لیکن میں یوں کسی کے اور کے سامنے جھک کر اپنا قبلہ نہیں بدلوں گا تم نے دیکھا نہیں وہ میرے سامنے خدا بننا چاہتا ہے ۔
روح انسان نہیں ہے ایک حیوان ہے اس کے سینے میں دل نہیں پتھردھڑکتا ہے
وہ شخص کسی کا نہیں بن سکتا
تمہاری ماں نے اس کی جان بچانے کے لیے کیا کیا تکلیف نہیں سہی لیکن یہ اس کا بھی نہ بن سکا
وہ انتہائی غصے سے کہتا کمرے کا دروازہ کھول کر رویام کے پاس آیا جو شاید انجیکشن کے زہر اثر بے ہوش پڑا تھا اس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی اس نے بہت نرمی اور آہستگی سے اس کے ہاتھ سے ڈرپ اتار کر اسے اپنی باہوں میں اٹھایا
سر بچے کا آپریشن ہونے والا ہے آپ کیا کر رہے ہیں
ہمارے بچے کا کوئی آپریشن نہیں ہونے والا ۔روح معصومہ کو فون کرو اسے کہو کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
لیلیٰ کو فون کرکے کہوکہ وہ اٹلی چلی جائے ۔
وہ رویام کو اٹھا کر روح سے کہنے لگا کمرے سے باہر نکلا تو درک سامنے سے ہی نظر آیا
کر لو کوشش جتنی کرنی ہے لیکن تمہارا بچہ محفوظ تب ہی ہوگا جب اس کی رگوں میں ایک قاتل کا خون دوڑے گا
اور ایسا تب ہی ہوگا جب یارم کاظمی میرے پیروں پر جھک کر اپنے بیٹے کے لیے بھیک مانگے گا
جھک جاو یارم ہو سکتا ہے اس بار اللہ بھی یہی چاہتا ہو کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا تمہیں اپنا غرور توڑ دینا چاہیے
وہ کہتے ہوئے اس کے قریب سے گزر چکا تھا ۔روح نے اس کے پیچھے جانا چاہا لیکن یارم اس کا ہاتھ تھام چکا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے سامنے بھیک مانگے گی اپنے بچے کی زندگی کے لئے ہر حد پار کر جائے گی
لیکن یار م نا تو خود جھکنے کو تیار تھا اور نہ ہی وہ اپنی بیوی کو ایسے بے حس اور پتھر دل انسان کے سامنے جھکنے دے سکتا تھا جسے اپنی ہی بہن کے بچے سے اس لئے ضد تھی کیونکہ وہ یارم کو جھکانا جاتا تھا

وہ رویام کو لے کر واپس گھر آیا گیا تھا اس وقت وہ شونو کے ساتھ اپنے کھیل میں مصروف تھا
روح کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی
یارم نے سمجھانے کی بہت کوشش کر چکا تھا لیکن بیٹے کی جدائی کے ڈرنے اسے کچھ بھی سمجھنے نہ دیا
اسے پتہ تھا تو صرف اتنا کہ اگر رویام کا آپریشن نہ ہوا تو نہیں بچے گا
اور جتنا حسن نے انہیں بتایا تھا اس کے مطابق رویام کا آپریشن دن بدن لیٹ ہوتا جا رہا تھا اور خطرات بڑھتے جا رہے تھے
درکشم نے آج جب انکشاف کیا کہ وہ اس کا بھائی ہے اس کے دل میں اس کے لیے کسی قسم کی کوئی فیلنگ نہیں جاگی تھی
اس کے دل نے یا دماغ نے اس سے نفرت نہیں کی تھی ہاں وہ اس کے باپ کا قاتل تھا
ہاں اس شخص کی وجہ سے آج وہ یتیم تھی
لیکن وہ حقیقت سے بے خبر تو نہ تھی وہ جانتی تھی کہ اس کا باپ کس قسم کا انسان تھا
نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کی زندگی برباد کی تھی اس شخص نے لیکن آج وہ جس طرح سے درکشم سے نفرت نہیں کر پائی تھی اسی طرح اتنے سالوں سے اس نے کبھی اپنے باپ سے نفرت بھی نہیں کی تھی
اس کی حقیقت جاننے کے باوجود بھی نہیں وہ اس سے نفرت نہیں کرتی تھی
شاید کہیں نہ کہیں یہ احساس زندہ تھا کہ وہ شخص اس کا باپ ہے جس سے نفرت کرنے کی اجازت اسے قدرت نہیں دیتی ۔
لیکن اس کا بچہ اپنے بچے کا کیا کرتی جس کی صحت دن بدن سے گرتی جا رہی تھی
اگر درککشم نے خون نہ دیا تو اس کا بیٹا زندہ نہیں بچے گا
اور اتنی منتوں مرادوں کے بعد پائی ہوئی اولاد کو کھول نہیں سکتی تھی ۔اور نہ ہی رویام کو کھونے کی ہمت اس میں تھی
°°°°
تو کب سے رویام کو دیکھ رہا تھا جو باہر لان میں چھوٹےسے بالٹی کے ڈکن میں پانی بھر کے شونوپر ڈال کر اسے نہلانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔
جبکہ ڈائیلاگز وہی سارے تھے جو روح اسے نہلاتے ہوئے دہراتی تھی
میلا بتہ گندااو گا اے(میرا بچہ گندا ہوگیا ہے )
می ابی اپلے بتے تو نلاوں دا(میں ابھی اپنے بچے کو نہلاوں گا)
ال فر اشے پالےپالے تپرے پیروںدا(اور پھر اسے پیارے پیارے کپڑے پہناوں گا )
فر میلا بتہ اتا پالا لدے دا (پھر میرا بچہ اتنا پیارا لگے گا )
وہ مسلسل بولتے ہوئے اپنے کام میں مصروف تھا۔وہ مسلسل اسے بولتے ہوئے سن رہا تھا جبکہ شونو بالکل سیریز اس کے ساتھ اس کے کام میں مدد کرتے ہوئے نہا رہا تھا
وہ شونو کو اس کا خیال رکھنے کا اشارہ کرتا خود کمرے میں آیا تو روح کو بیڈ پر لیٹے ہوئے پایا وہ اس سے ناراض تو نہیں تھی لیکن ابھی اس سے بات بھی نہیں کررہی تھی وہ خاموشی سے سڑھیاں طے کرتا اوپر چلا آیا
°°°°°°
اسے یاد تھا وہ سب کو راستے سے ہٹا کر خود ڈان بن چکا تھا کوئی بھی نہیں بچا تھا سب نے اسے ڈان کے طور پو قبول کرلیا تھا
اور جس نے نہیں کیا اسے راستے سے ہٹتے ڈیول نے وقت نہ لگایا ۔
اور پھر سب کو قبول کرنا پڑا ۔
وہ جلد ہی انڈزولڈ پر چھا گیا ہر کوئی اسے ہی کنگ ماننے لگا اس نے اپنا ایک الگ بھروسے مند گنگ تیار کیا
جب اسے خبر ملی تھی کہ ایران سے کچھ لڑکیوں کو زبردستی ایک قلب میں لایا گیا ہے
اسے وہاں پہنچے ہوئے تھوڑا ہی وقت ہوا تھا جب شارف کی عمر کا ایک لڑکا اس کے پاس آیا اور ایک پیپر اس کو دیا۔اور کہا کہ مسڑپٹر ڈان میرا احسان یاد رکھنا اس نے اشارہ اسٹیج پر ناچتی لڑکی طرف کر کےچلاگیا۔
اس پیپر پر لکھا تھا
میں ایک کمپیوٹر ورکر ہوں مہرا نام ام لیلیٰ ہےمجھے یہاں زبردستی لایا گیا ہے آپ کو جانتی تو نہیں لیکن سناہے آپ سب کی مدد کرتے ہیں ۔ڈیول نے ایک نظر اسے دیکھا ۔
اور اگلے ہی لمحے صدیق خضر اور شارف نے ان سب پر حملہ لر کے سب لڑکیاں بازیاب کروا لی ۔اس لڑکے نے ان کی بہت مدد کی تھی وہاں سے لڑکیاں نکل کر سیوجگہ لے جانے میں
لیلیٰ کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا ۔تو یارم نے اسے اپنپے ساتھ رکھ لیا تب وجہ اس کا کام کرنے کا اندازتھا ۔
لیکن بعد میں وجہ خضر بن گیا لیکن لیلیٰ ان کی ٹیم کا سب سے اہم حصہ تھا صدیق کے مرنے کے بعد لیلیٰ نے صدیق کا سارا کام اپنے سر لے لیا۔
اس وقت کسی نے غور نہ کیا۔لیکن وہ لڑکا ان پر احسان کر چکا تھا
°°°°°
دوستی بار اس سے ملاقات سعودیہ میں ہوئی تھی ڈیول اسے پہلی ہی نظر میں پہچان گیا
اس نے سٹہ کھلا تھا وہاں خیکن اسے جیتے ہی سزا ملی اس پر بےایمانی کا الزام لگا دیا گیا۔ڈیول نے اسے وہاں سے بچایا تھا اور کہا تھآ
آج میں نے تمہارا احسان چکا دیا۔کہانی یہیں ختم ہوجانی چاہے تھی لیکن ہوئی نہیں
°°°°°°
ان کی اگلی ملاقات دبئی کی ایک اور کلب میں ہوئی تھی ۔
یہاں کچھ لوگوں نے یارم کی ڈرنک میں زہر ملا دیا تھا لیکن وقت رہتے ہیں اس نے اسے بتا دیا کہ ڈرنک میں زہر ہے ۔
اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ مبارک ہو ایک اور احسان کر دیا تم پر اسے کب اتارو گے ۔۔۔؟
یارم کو اس کا یہ مغرور انداز بہت برا لگا تھا لیکن اس کا یہ احسان اس نے اسی کلب میں اتار دیا جب اسی گینگ کے لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا
لیکن یہ کہانی یہاں پر بھی ختم نہ ہوئی تھی
°°°°°
یارم کو پتہ چلا تھا کہ یہ لڑکا وکرم بھا کے لیے کام کرتا ہے
وکرم بھاکے ساتھ اس کے ہمیشہ سے اچھے تعلقات تھے لیکن یہ لڑکا اسے پہلے دن سے ہی پسند نہ تھا
اس نے وکرم بھا کو بھی یہ بات بتا لیکن انہوں نے یہ کہہ کے ٹال دیا کہ کالی زبان کا لڑکا ہے سٹا کھیلتا ہے اور انہیں امیر کر رہا ہے
یارم کو جوئے سے ہمیشہ سے نفرت تھی
اور اب اسے ایسی ہی نفرت اس لڑکے سے بھی ہوتی جا رہی تھی ۔جو ہر بار اس کے رستے میں آ جاتا آخر وہ اسے چاہتا کیا تھا
وہ نوٹ کرتا تھا وہ ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا تھا یارم پر جب بھی کوئی مصیبت آئی وہ اسے بچانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا
امریکہ کے ایک علاقے میں جنگلوں کے بیچ کام کے دوران یارم بہت بری طرح سے پھنس گیا تھا یہاں تک کہ وہی جنگل کے دوران اسے بے ہوش کرکے ایک کرسی پر بیٹھا کر اس جگہ کو آگ لگا کردشمن بھاگ گئےتھے
یارم کو ہوش آیا تو اسے ہر طرف سوائے اس آدمی کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا
اور تب یہ شخص اسے بچانے آیا تھا لیکن شرط یہ تھی
کہ اگر وہ اپنی جان کے سلامتی چاہتا ہے تو اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگے ۔لیکن یارم نے ایسا نہ کیا تو وہ اس کے سامنے چیختا رہا چلاتا رہا کہ وہ ایک بار اسے جھکے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے
صرف ایک بار دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ شخص آنکھوں میں آنسو لیے سر جھکا کر بھیک مانگتا کیسا لگتا ہے
ہزار کوششوں کے باوجود بھی یارم نا مانا تو وہ اسے چھوڑ کر جانے لگا لیکن اتفاق ایسا تھا کہ آگ سے جلا ہوا پلیر اسی کے اوپر آ گیا
یارم نے اس دن بہت مشکل سے اپنی اور اس کی جان بچائی تھی اسے ہسپتال کے بیڈ پر پھینکنے کے بعد یارم اسے بتانا نہیں بولا تھا کہ یہ احسان ہے تم پر اور چکا ناضرور تم مجھ سے میری جان کی بھیک منگوانا چاہتے تھے خود بیڈ پر پڑھے ہو احسان کیا ہے میں نے تم پر تمہاری جان بچا کر
ایک دن آئے گا یارم ڈیول کاظمی میں تمہیں اپنے قدموں پر جھکاؤں گا تم بھیک مانگو گے مجھ سے وہ چلا گیا تھا
یارم کاظمی مر جائے گا لیکن کسی کے سامنے سر نہیں جھکا ئے گا ۔اور میں ایک بادشاہ ہوں بادشاہ بھییگ دیتا ہے لیتا نہیں جیسےتمہاری زندگی تمہیں بھیک میں دے دی وہ مغرور نہیں تھا لیکن اس شخص کے الفاظ نے اسے ایسا کہنے پر مجبور کیا تھا یارم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ الفاظ اس کی ضد بن جائیں گے
پھر یہ لڑکا کہیں غائب ہوگیا کہا گیا وہ کبھی اس سے دوبارہ نہیں ملا کتنے سال گزر گئے وہ تو اس کی ذات کو بھی بھلا چکا تھا
°°°°°
پھر روح اس کی زندگی میں آئی اور اس کی آنکھوں نے اسے ایک بار پھر سے اس لڑکے کو یاد کرنے پر مجبور کر دیا
وہ کب روح سے محبت کرنے لگا کب وہ کی زندگی بن گئی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا
ہاں لیکن حقیقت یہی تھی کہ وہ پہلی نظر کی محبت کا شکار تھا ۔
روح کے ساتھ شادی کر کے ایک خوشحال زندگی گزارنے لگا تھا وہ اپنی زندگی میں بہت آگے بڑھ چکا تھا
اب تو اس کی زندگی میں درکشم قیوم خلیل نامی کسی شخص کی کوئی جگہ نہ تھی لیکن اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ شخص آج بھی اپنے الفاظ اور ضد پر قائم ہے
وہ آج بھی اسے جھکانا چاہتا ہے اسے بھیگ مانگتے دیکھنےکی ضد آج بھی اس کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے
روح جا کے اس سے ناراض ہو کر پاکستان چلی گئی اور راشد نے اسے اغوا کر لیا تو اسے بالکل بھی یاد نہ تھا کہ اسے فون کرنے والا درک ہو سکتا ہے
لیکن وہ در ک ہی تھا
وہ روح کو بچا کر واپس لے آیا ۔اور ایک بار پھر سے اس کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کر چکا تھا ۔
جب وہ دونوں ہنی مون پر گئے تو ایک بار پھر سے وہ شخص اس کے سامنے آگیا اس سے پتہ چل چکا تھا کہ اس دن اسے فون کرنے والا یہی تھا صرف اس کی آواز سن کر وہ پہچان چکا تھا اس کی آواز بھی پہلے سے بدل چکی تھی لیکن پھر بھی یارم اس کی آواز کو اچھے سے پہچان گیا تھا
ریس کے دوران ہی اس نے اسے بتادیا تھا کہ اس کی ذات پر کیا گیا حسان وہ سود سمیت واپس کر چکا ہے ۔کیونکہ اگر وہ اس رات یارم کو فون نہ کرتا تو وہ مر جاتی ۔اور اگرروح کچھ ہوجاتا تو یقینا یارم بھی زندہ رہتا ۔
تو اس کی جان بچانے کا احسان وہ یارم کی جان بچا کر سود سمیت لوٹانے چکا تھا
°°°°°
اس کے بعد کی یارم نے اس کے بارے میں جاننا شروع کیا تھا وہ اس کی ذات کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا یہ اس کی زندگی کا ایک حصہ بنتا جا رہا تھا
ایک عام سا لڑکا جس کی اس کی زندگی میں کوئی جگہ نہ تھی وہ بار بار اس کے سامنے آ رہا تھا
لیکن کیوں یہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے اس کے بارے میں ساری انفارمیشن نکلوائی
تب اس سے پتہ چلا کہ روح کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی کنکشن ہے
لیکن یہ جان کر اسے حیرانگی ہوئی تھی کہ وہ روح کاسوتیلا بھائی ہے
سوتیلا بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس کا تعلق کوٹھے والی سے تھا ۔جس کو کوٹھے پر لانے والا بھی قیوم خلیل خود ہی تھا
ذدرک اسی کوٹھے والے کی اولاد تھا ۔یہ جان کر اسے بہت افسوس ہوا تھا۔وہ قیوم خلیل کا ناجائز بیٹا تھا ۔روح کے ساتھ اس کے کوئی دلی جذبات نہ تھے
بس اتنا پتا تھا کہ جب وہ کوٹھے والی اپنی زندگی سے ہار ہارنے والی تھی تب وہ اپنے بیٹے کو قیوم کی دوسری بیوی یعنی روح کی ماں کے پاس لے آئی تھی
اور اسے بتایا تھا کہ وہ بھی قیوم کی اولاد ہے لیکن ناجائز
قیوم نے اسے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا لیکن نور نے ہارنہ مانی وہ اس سات سالہ بچے کے لئے اپنے شوہر کے سامنے ڈٹ گئی
اس میں لڑنے جھگڑنے کی ہمت نہ تھی لیکن صرف اور صرف اس کے لئے وہ اپنے شوہر کے خلاف گئی اور اسے اپنے ہی گھر پر رکھ لیا ۔
قیوم خضر کو کچھ نہیں کہتا تھا کیونکہ خضر اپنا کام کرتا تھا اپنا کھاتا تھا وہ دیاڑی لگائے یا مزدوری کرے لیکن اپنی بہن کے شوہر سے اس نے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا
ادی لیے خضر کے وجود سے اسے کوئی لینا دینا نہ تھا
لیکن درکشم اسی کا کھاتا تھا اور یہی چیز اسے پسند نہیں تھی پہلے تو درک کو اپنی اولاد تسلیم ہی نہیں کرتا تھا تو پھر وہ اس کا خرچہ کیوں اٹھتا ۔
ایک دن وہ نور سے لڑ جھگڑ کر درک کو اپنے ساتھ لے گیا اور وہاں سات سو روپے میں اسے بیچ آیا نور کو جب یہ پتہ چلا تو اسے بہت افسوس ہوا
لیکن شوہر کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتی تھی وہ بھی تب جب اس کے اپنے پیٹ میں روح کا وجود سے رہا تھا
°°°°°°
ایک رات اس کی کھڑکی پر دستک ہوئی تو وہ بارش میں بھیگتی باہر نکلی سامنے ہی درک خون میں لت پت بری حالت میں مار کھائے ہوئے تھے وہ اسے لے کر فوراً ہی کمرے میں آگئی قیوم ان دنوں اپنی پہلی بیوی سے ملنے گیا ہوا تھا ۔
نور نے اس کی دیکھ بھال کی اس کا بہت خیال رکھا
جب میں بڑا ہو جاؤں گا نہ میں بھی تمہارا بہت خیال رکھوں گا اس نے وعدہ کیا تھا
نہیں تم میرا خیال مت رکھنا تم اپنی بہن کا خیال رکھنا ۔نور نے کہا تھا اس نے فورا نفی میں سر ہلایا
نہیں میں گندے نالے کا کیڑاہوں میرا کوئی نام و نشان نہیں ہے کوئی وجود نہیں ہے ۔
اور نہ ہی میری کوئی بہن ہو سکتی ہے لیکن تم میرے لئے بہت لڑی ہو بہت کچھ سہا ہے تم نےمیں تمہارے لئے جو بھی کر پایا ضرور کروں گا
بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں سات آٹھ سال کا وہ بچہ جو وقت سے بہت پہلے برا ہو گیا تھا
بس میری روح کا خیال رکھنا اس کی بات پر افسوس کرتے ہوئے نور یہ الفاظ کہے تھے
°°°°°
وقت گزر گیا قیوم اسے مار پیٹ کر دوبارہ وہی چھوڑ آیا
نور کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جیسے جنم دیتے ہوئے وہ دنیا چھوڑ گئی
قیوم بیٹی کو لے کر اپنی پہلی بیوی کے پاس چلا آیا تنظیم نے اسے قبول کرنے سے منع کردیا ۔
لیکن قیوم کو کہاں پر واقع تھی وہ تو اسے اپنی بیوی کے پاس چھوڑ کر ایک بار پھر سے عیاشیوں میں مصروف ہوگیا
درک پاس نہیں جاتا تھا لیکن ہمیشہ روح کو دور دور سے دیکھتا رہتا ۔وہ چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کا باپ کبھی ایک اچھا انسان نہیں بن سکتا تھا
محلے میں رہنے والے اسکول ٹیچر کے گھر زبردستی گھس کر اس نے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی
جس کے نتیجے میں غصے میں آ درک نے اپنے ہی باپ کا قتل کر دیا ۔جس کے بعد اسے دوبارہ سال تک جیل میں رہنا پڑا ۔
وہ کون تھا کیا تھا روح تو بالکل ہی اس کی ذات سے انجان تھی لیکن وہ اسے جانتا تھا ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا تھا
اس کی ہر مصیبت میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا لیکن وجہ اس سے محبت نہیں بلکہ وہ احسان تھا جو نوت نے اس پر کیا تھا وہ ایک کمزور سی لڑکی تھی اس کے لئے زیادہ کچھ نہیں کر پائی تھی لیکن وہ کسی بھی شخص کا اس کی ذات پر کیا گیا پہلا احسان تھا جسے وہ آخری سانس تک چھکانا چاہتا تھا
°°°°°
یارم کو کبھی نہیں لگا تھا کہ وہ اس کی زندگی میں دوبارہ آجائے گا سوزی لینڈ میں اس نے اس پر ایک اور احسان کیا تھا اس کی جان بچا کر جس کے بدلے میں یارم نے اسے جیل سے چھڑا کر اس کا احسان اتار دیا تھا
لیکن اب بات احسان پر نہیں بلکہ ضد پر اتر آئی تھی
وہ ضد جو وہ اس سے دس سال پہلے ہی لگا چکا تھا ۔
وہ اسے جھکا ہوا دیکھنا چاہتا تھا بھیک مانگتے دیکھنا چاہتا تھا ۔
یارم اپنی زندگی کے لیے ایسا ہرگز نہیں کرے گا وہ جانتا تھا اس لئے اپنی ضد پوری کرنے کے لیے اس نے اس کے بیٹے کا سہارا لے لیا تھا
اسے روح سے کوئی مطلب نہیں تھا وہ کبھی بھی اس کے لیے کسی قسم کی کوئی فیلنگز نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی خود سے جڑے اس کے تعلق کو قبول کرتا تھا
وہ اپنے آپ کو ناجائز اولاد کہتا ہی نہیں مانتا بھی تھا
اور ناجائز کا کوئی نہیں ہوتا
اور اس کا بھی کوئی نہیں تھا اس نے اپنے اردگرد ایک ہول کھینچ رکھا تھا دنیا اسے ہارٹ لیس کہتی تھی
°°°°°°°
پونے بارہ بجے وہ ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے ہی لگا تھا جب اچانک کسی نے اس کے سر پر حملہ کردیا
وہ اس شخص کو دیکھ نہیں پایا تھا لیکن حملہ اتنا خطرناک تھا کہ اس سے دوبارہ آنکھیں بھی نہ کھولی گئی
وہ وہیں زمین پر بے ہوش ہوگیا اور کوئی اسے گاڑی میں ڈال کر نہ جانے کہاں لے کر آیا اسے جب ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک بند کمرے میں کرسی پر بندھا ہوا پایا تھا
اور اب وہ کب سے چلائے جا رہا تھا اسے یہاں کون لایا
اسے یہاں کیوں باندھ کر رکھا گیا ہے لیکن کوئی جواب نہ ملا
تھوڑی ہی دیر بعد ہی سے احساس ہو گیا کہ اس کے چاہنے چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہاں پر کوئی بھی موجود ہی نہیں
یہ اس کے منہ پر پڑنے والا تیسرا پنج تھا
نازک ہاتھ کا پنچ پھر بھی اس کے منہ پر اتنی شدت سے لگ رہا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کا درد اندر تک محسوس کر رہا تھا
کیا بولا تو نے تو میرے رویام کو بون میرو نہیں دے گا
ایسے کون سے آسمان سے اترا ہے تو جو یارم تیرے سامنے جھک کر تجھ سے اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگے
لیلیٰ ایک اور پنچ اس کے منہ پر مارتی اس کے گال کو زخمی کر چکی تھی کانٹوں سے بنا ہوا یہ ہاتھ کا گلو(دستانہ )اس کے منہ پر زخم کرتا جا رہا تھا
مطلب یہ طریقہ نکالا ہے تم لوگوں نے مجھ سے بون میرو لینے کا
را ہی کم ظرف نکلا یارم کاظمی بچارے کو یہی راستہ ملا اپنے بیٹے کی جان بچانے کا کیا یہ اوقات ہے دبئی کے ڈان کی۔
وہ اپنے زخموں کی پرواہ کئے بغیر ان کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا تو شارف نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا اس کے پیٹ پر دے مارا
یارم کو تو اس کے بارے میں پتا ہی نہیں یہ تو ہم نے کیا ہے لیکن ایک بات تجھے بتا دیں
یارم کبھی بھی تجھ جیسے شخص سے رویام کی زندگی کی بھیک نہیں مانگے گا
کیوں ۔۔۔۔۔؟وہ ہنستے ہوئے وجہ پوچھ رہا تھا جیسے کچھ جانتا ہی نہ ہو
کیوں کہ تو خدا نہیں انسان ہے خضر پیچھے سے اس کے بالوں کو سختی سے اپنی مٹھی میں پکڑتے ہوئے بولا تو وہ قہقہ لگا اٹھا
ارے ماموں جان آپ ۔۔نہیں آپ ۔۔۔۔؟ ایسا بھی کون سی قیامت آ گئی میں توصرف اس شخص کا ایمان چیک کر رہا ہوں
اور ڈھٹائی سے بولا
تو کون ہوتا ہے کسی کا ایمان دیکھنے والا شارف کا غصہ آیا
اور تم لوگ کون ہوتے ہو مجھ سے زبردستی بون میرو لینے والے ۔ارے تم لوگوں میں تو اتنی ہمت نہیں کہ مجھے منا سکو
کڈنیپ کرکے زبردستی لاکر اس کرسی پر بٹھا کر تم لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ میں مان جاؤں گا تو ایسا کبھی نہیں ہوگا اور کوئی بھی قانون مجھ سے زبردستی بون میرو ٹرانسفر نہیں کروا سکتا
وہ تو تجھے ابھی یارم آ کر بتائے گا کہ وہ کیا کروا سکتا ہے اور کیا نہیں بون میرو تو تجھےدے دینا ہو گا بیٹا کیوں کہ یہاں سوال ہمارے رویام کی زندگی کا ہے ۔شارف نے غصے سے کہتے ہوئے اس کی رسی مزید کس دی اور اب وہ لوگ یارم کا انتظار کر رہے تھے
آدھا کام تو وہ لوگ اسے یہاں لا کر سر انجام دے ہی چکے تھے اب بس یارم کےآنے کی دیر تھی اور پھر یقینا اس شخص نے ان کے سامنے یارم سے اپنی زندگی کی بھیک مانگنی تھی جویارم کو جھکانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا
°°°°°
کیا ہوگیا ہے تم لوگوں نے مجھے اتنی جلدی میں یہاں کیوں بلایا وہ روم میں داخل ہوتے ہی کرسی پر بیٹھے اس شخص کو دیکھ لیا تھا اس کے الفاظ میں ہی رہ گئے
کیوں کہ جیجا جی ان لوگوں نے مجھے کڈنیپ کیا ہے
تم لوگ اسے یہاں کیوں لے کر آئے ہو ۔۔۔۔
اس کو یوں باندھ کرکیوں رکھا یہ اس کے منہ پر زخم کے نشان کیوں ہیں
وہ ان تینوں کو گھورتے ہوئے بولا
ہم اسے یہاں کڈنیپ کرکے لائے ہیں رویام کی جان بچانے کے لئے بکواس کر رہا تھا اسی لیے ہم سے مارکھائی ہے اس نے لیلیٰ غصے سے بولی
ہاں تمہارے یہ چمچے مجھے کڈنیپ کر کے یہاں لائے ہیں انہیں لگتا ہے کہ یہ زبردستی مجھ سے رویام کیلئے بون میرو لے لیں گے ۔
بس اب یہی اوقات رہ گئی ہے تمہاری کے تم زبردستی مجھ سے یہ سب کرواؤ کوئی سیدھا راستہ نہیں ملا تو گن پوائنٹ پر اپنا کام نکلوا لوں تم ڈانز کا تو یہ روز کا معمول ہوگا نا
انہیں لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی کی بھیک مانگوں گا وہ بھی تم سے ہاہاہاہا
مسٹر یارم ڈیول کاظمی اگر تمہارا خدا ایک ہے تو میرا خدا بھی وہی ہے اگر تم نہیں جھک سکتے تو جھک تودرکشم قیوم خلیل بھی نہیں سکتا
ویسے بہت کم ہمت نکلے تم مجھے تو لگ رہا تھا کہ ابھی تم مقابلہ کرو گے ۔لیکن تم تو بہت جلدی ہار مان کے اپنے ہتھکنڈوں پر آگئے
کھولو اس نے ادھر کی باتیں نظر انداز کرتے ہوئے صوبے بھر سے بولا
لیکن یار مہاجر نے کچھ کہنا چاہا
میں نے کہا کو لو اسے ۔اور یہ سب کچھ کرنا بند کر دوں اگر ریحام کے نصیب میں زندگی لکھی ہوئی تو اسے مل جائے گی مجھے اپنی بیٹے کی زندگی کے لئے ایسے راستہ اپنانے کی ضرورت نہیں
اگر تم ہی میرے بیٹے کو بہت میرے دینا ہوا تو اپنی مرضی سے دینا اس کا حکم نہ ماننے پر ہیں یا پھر خود ہی اس کی رسی کھولنے لگا
تم جاسکتے ہو یہاں سے جو تکلیف ہوئی اس کے لئے معذرت یار اسے کھول کر ایک سائیڈ ہو گیا
اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد میں پھر بھی تمہیں دس منٹ کا وقت دیتا ہوں جھک جاؤ یارم کاظمی بیٹا بچ جائے گا تمہارا وہ ایک بار پھر سے ہنستے ہوئے بولا تو یارم نے دروازے کی طرف اشارہ کیا
یار بہت اکڑہے تم میں ۔لیکن تمہیں جھکانا میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے جو میں کسی بھی حال میں پورا کر کے رہوں گا
آہستہ آہستہ تمہارا بیٹا موت کے قریب جائے گا نہ تب اکڑبھول کر تم مجھ سے بھیک مانگنے آؤ گے یہ یاد رکھنا
درک کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا جب اس کا فون بچنے لگا اس نےفون نکال کر دیکھا تو پری کا فون آرہا تھا اس نے مسکرا کر فون اٹینڈ کیا اور سپیکر پر لگا دیا
دکش رومی کا آپریشن ہو گیا ۔بے حد معصوم سی آواز فون سی آئی تھی
نہیں ڈرالنگ آپریشن نہیں ہو سکا وہ کیا ہے نہ تمہارے رومی بےبی کے باپ میں بہت زیادہ اکڑ ہے اپنے بیٹے سے زیادہ اسے اپنی اکڑ پیاری ہے ۔وہ ہنستے ہوئے یارم کو دیکھ کر بولا
یا اللہ کیسا بے حس باپ ہے اپنے بیٹے سے زیادہ اپنا غرور عزیز ہے اس کو ۔۔نفرت ہے مجھے ایسے لوگوں سے ۔پلیز اس کی باتوں پر دھیان نہ دیں آپ رومی کو بچائیں ۔وہ پتا نہیں کیا کیا بول رہی تھی جب درک نے فون بند کر دیا
یہاں سروس کا تھوڑا مسئلہ ہے میں تمہیں بعد میں فون کروں گا
اس نے فون بند کر کے ایک بار پھر سے پیچھے کھڑے ان چاروں کو دیکھا
واقعی سروس کا بہت زیادہ مسئلہ ہے باہر جا کے بات کرتا ہوں میں وہ بے حد ڈھٹائین سے یارم کو آنکھ مارتا وہاں سے نکل گیا
کیسا بے غیرت انسان ہے یہ یارم آج اس کی عقل ٹھکانے لگا دیتے ہم ساری اکڑ دھری کی دھری رہ جائے گہ وہ تینوں غصے سے آپس میں باتیں کرنے لگے ۔
جب کہ یارم کے دماغ میں اس وقت صرف اور صرف اپنے بیٹے کی زندگی کا خیال تھا
لیلیٰ میں نے تمہیں امریکا جانے کے لیے کہا تھا انہیں ایک دوسرے سے بحث کرتے دیکھ کر یارم غصے سے بولا
آج رات کی فلائٹ ہے میں چلی جاؤں گی اسے اتنے غصے میں دیکھ کر لیلیٰ منمائی جبکہ خضر اور شارف بھی خاموش ہو چکے تھے
°°°°°
رو میلی اے(روح میری ہے) ۔وہ ضدی انداز میں بولا
چپ کر روح میری ہے۔وہ فروٹس کاٹتے غصے سے بولا
نی میلی اے میلی اے میلی اے ۔(نہیں میری ہے میری ہے میری ہے)وہ بھی مقابلے پر اترتا پیر پٹخ کر بولا۔
کیا ہو رہا ہے یہاں کیوں شور مچا رہے ہیں آپ دونوں روح بیڈروم میں کب سے رویام کی بیماری کو لے کر پریشان تھی اجب ن کی تیز آواز سنتی کچن میں داخل ہوئی
روح بتا دو اپنے لاڈلے کو کہ تم صرف میری ہو صرف میرا حق ہے تم پر مجھ سے زیادہ تمہیں اور کوئی پیار نہیں کر سکتا ۔وہ ضدی انداز میں کہتا اسے بالکل اپنے قریب لے آیا
رو بے بی بتا دو گندے بابا تو آپ تھرف میلی او (روح بےبی بتا دو گندے بابا کو آپ صرف میری ہو رویام بھی اسی کے انداز میں کہتا ہے روح کا دوسرا ہاتھ تھامے اپنی طرف کھینچنے لگا ۔
ابے اوچوزے تو نے میری بیوی کو بےبی کیوں بولا ۔۔۔؟یارم اسے گھورتے ہوئے کہنے لگا
ماما ماما چوشے تے بابا تو تاا بوتے اے(ماما ماما چوزے کے بابا کو کیا بولتے ہیں ) ۔۔۔!اس نے روح سے سوال کیا
مرغا ۔۔۔۔روح نے ناسمجھی سے جواب دیا
ابے او مردے میلی ماما میلی بےبی اے (ابے او مرغے میری ماما میری بےبی ہے )رویام نے اتنے اسٹائل سے جواب دیا تھا کی روح اپنا ہاتھ منہ پر رکھ کر ایسی ہنسی کہ یارم سوائے گھورنے کے اور کچھ نہ کر سکا
پہلے مرغا لفظ بولنا سیکھ اچھے خاصے انسان کو مردہ کر دیا ۔اور میری بیوی تیری بےبی نہیں ہو سکتی ۔وہ صرف تیرے بابا کی بےبی ہے
چل اب اچھے بچوں کی طرح جلدی سے بول کے روح صرف اور صرف یارم کی ہےروح کی ہنسی کو نظر انداز کرتا ہے ایک بار پھر سے اس سے مخاطب ہوا
رو شرف ال شرف ریام تی اے (روح صرف اور صرف رویام کی ہے )وہ فورا جواب لے کر حاضر ہوا
روح نے بہت پیار سے اپنے معصوم بیٹے کو دیکھا تھا جس پر اسے آج حد سے زیادہ پیار آ رہا تھا وہ فوراً ہی جھک کر اس کے دونوں گالوں کو چوم چکی تھی
رویام اپنی ماما سے اتنا پیار کرتا ہے مام بھی اپنےرویام سے بہت پیار کرتی ہے وہ رویام کو گود میں اٹھا کربہت پیار سے بولی
رویام کا باپ بھی تم سے بہت پیار کرتا ہے کبھی اسے تو اس طرح سے پیار کا جواب پیار سے نہیں دیا یارم ان دونوں کی محبت پر جل کر بولا
یار م شرم کریں اتنے بڑے ہو چکے ہیں اور چھوٹے سے بچے سے جلتے ہیں معصوم سے بچے کے ساتھ ضد نہیں لگائی جاتی میرا معصوم سا پیارا بچہ وہ بے حد پیار سے اس کے بال سوارتی اس کے گال چومتی اسے اٹھا کر اندر لے گئی
یارم منہ بسور ان دونوں کے پیار کو دیکھ رہا تھا اور رویام اس کے جلنے پر خوش ہوتے ہوئے مزید روح سے چپک چپک کر پیار لے رہا تھا ۔
ان دونوں کے منظر سے ہٹتے ہی ہارم نے اپنا منہ سیدھا کیا اور کب سے کنٹرول کی اپنی ہنسی کو فضا میں منتقل کرتا ایک بار پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا
اور اب وہ دونوں کمرے میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے میں مصروف ہو چکے تھے جیسے یارم نام کے کسی انسان کو جانتے ہی نہ ہوں
تھوڑی ہی دیر میں یارم کمرے میں حاضر تھا
رویام صاحب اگر آپ کو یاد ہو تو ہم کچن میں تمہاری ماں کے لئے اسپیشل چاکلیٹ فروٹ سیلڈ بنا رہے تھے وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تو رویام نے اپنا ننھا سا ہاتھ اپنے ننھے سے ماتھے پر دے مارا
او می تو بل ای گا می اپلی رو بےبی تےلیے سیشل توکلٹ پھروٹ شلیڈ بلا لا تا میلی رو بےبی شیڈ تی نا اش تو ہیپی ترنے تے لیے (او میں تو بھول ہی گیا میں اپنی روح بےبی کے لیے اسپیشل چاکلیٹ فروٹ سیلڈ بنا رہا تھا میری روح بے بی سیڈ تھی نا اس کو ہیپی کرنے کے لئے) وہ پیار سے روح کے گالوں پے ہاتھ رکھتا بیڈ سے نیچے جمپ کرنے لگا
اس کی اداسی اس کا معصوم بچہ بھی نوٹ کر چکا تھا
یارم نے اسے کتنا سمجھایا تھا ہمیں رویام کی ہمت بنا ہے اسے طاقت دینا ہے یوں خود ہمت ہار کر نہیں بیٹھنا
لیکن وہ ہمت ہارنے لگی تھی ۔
یہ احساس ہی اس کے لیے جان لیوا تھا اس کا بچہ اس سے جدا ہونے والا ہے
وہ شخص جو اس کا رشتے میں بھائی لگتا تھا صرف اور صرف اپنی بے جا فصول سی ضد کی خاطر ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی چھین لینا چاہتا تھا
لیکن روح یارم کی ہمت کی وہ اپنے شوہر کو جھکنے نہیں دے سکتی تھی وہ بھی تب جب زندگی دینے والی ذات اوپر والی تھی ۔
وہ کیوں درکشم جیسے بےحس انسان سے اپنے بیٹے کی زندگی مانگتے
اگر اس کے نصیب میں اولاد لکھی ہوئی ہوئی تو رویام کو کچھ نہیں ہوگا
کوئی بھی درک آ کر یہ کہہ کر انہیں بے بس نہیں کرسکتا کہ تم میرے سامنے جھکو میں تمہارے بیٹے کو زندگی دے دوں گا
گھر آکر اسے یارم کی بات بالکل ٹھیک لگی تھی رویام کو دینے والی ذات اللہ کی تھی تو اس کی جان بچانے والی ذات بھی اللہ کی تھی اس اللہ سے زیادہ اور کسی پر بھروسہ نہیں تھا اور کسی اور سے زندگی کی بھیک مانگنا شرک تھا
وہ اللہ پر یقین رکھنے والے شرک نہیں کرسکتے تھے۔اور درک اگر بون میرو دے بھی دے تو بھی رویام کی زندگی کا فیصلہ اوپر والی ذات نے کرنا تھا کسے درکشم قیوم خلیل نے نہیں
اگر رویام کے نصیب میں زندگی ہوئی تو بنا کسی کے سامنے جھکے بھی اسے مل جائے گی
وہ اپنی ہی سوچوں میں مصروف بھی جب باہر سے پھر شور کی آوازیں آنے لگی
رو میلی اے (روح میری ہے)ننھی سہ معصوم سی آواز
روح میری ہے ۔۔بھاری دلفریب آواز
روح اپناسر پکڑ کر بیٹھ گئی
یہ جنگ تو شاید اب قیامت تک ختم نہیں ہونی تھی
دن پر دن گزرتے جا رہے تھے
لیلیٰ کو امریکہ گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن ابھی تک بون میرو کا کوئی انتظام نہ ہو سکا ۔
وہ سب لوگ بہت پریشان تھے جہاں رویام کی زندگی پر سوال اٹھ رہا تھا وہی روح کی حالت بھی بہت خراب تھی
اس نے رو رو کر اپنا آپ بربادکر لیا تھا ۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا ہوگا اب رویام کو سانس کی تکلیف بھی ہونے لگی تھی
اس کے جسم میں خون نہ ہونے کے برابر ہو چکا تھا
آئے دن خون کی الٹیوں نے اس کی حالت حد درجہ خراب کردی تھی ۔وہ زیادہ دیر دوائیوں کے زہر اثر رہتا ۔ڈاکٹر زیادہ تر ایسے بے ہوش ہی رکھتے تھے
روح سے اپنے بچے کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی
وہ تو ہنستا کھیلتا ہی سب کو اچھا لگتا تھا اس طرح سے ہروقت بیڈ پر لیٹا بے جان وجود تو وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے
ہر وقت مشینوں میں جکڑا ننھا سا وجود کہاں یہ سب تکلیفیں سہہ سکتا تھا یا کہاں وہ یہ سب تکلیفیں سہنے کے قابل تھا ایک چھوٹا سا بچہ جو اپنا آپ تک نہیں سنبھال سکتا
اتنی بری بیماری میں دن رات گزار رہا تھا
تھوڑی دیر کے لئے ہوش آتا تو یارم سے لڑنے لگتا ۔کہ روح اس کی ہے ۔اور اسے ہوش میں دیکھ کر تو روح میں ہمت ہی نہ پیدا ہوتی ہے اس کے سامنے آنے کی
جب دو تین باتیں کرنے کے بعد وہ یہ کہتا کہ اسے درد ہے تو وہ دونوں تڑپ اٹھتے
وہ کیسے اس تکلیف سے آزاد کرتے
کیسے اسے زندگی کی طرف لاتے
آخر ایسا کیا کرتے کہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا
اس کے درد سے بلکتے وجود کو دیکھ کر وہ دونوں اندر ہی اندر مر رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کر پا رہے تھے ۔
لیلیٰ نے کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی معصومہ روس سے سیدھا اٹلی چلی گئی ۔لیکن یہاں بھی اسے کچھ حاصل نہ ہوا
لیلیٰ نے یارم کو یہی کہا تھا کہ وہ درک سے گن پوائنٹ پر بون میرو حاصل کرلیں گے اپنی زندگی تو سب کو عزیز ہے ۔
لیکن درک کے بارے میں سب کچھ جاننے کے بعد انہیں یہ پتہ چلا تھا کہ اس کے لیے سب سے زیادہ عزیز پری نامی ایک لڑکی ہے جو اس کی بیوی ہے
وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے لیلیٰ نے آئیڈیا دیا تھا کہ کیونکہ وہ پری کو ہی غائب کر دے جب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا تو وہ رویام کو بون میرو دے کر اس کی زندگی بچا لے گا
لیکن یار م نے ایسا کرنے سے بھی منع کر دیا تھا
اس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ اگر اس کے بیٹے کے نصیب میں زندگی ہوئی تو مل جائے گی وہ کسی قسم کا کوئی غلط راستہ نہیں اپنائیں گے
لیلیٰ کو اس کی ضد بہت بری لگ رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ یارم اوور ریکٹ کر رہا ہے
اگر سیدھا راستہ ہی اپنانا ہے تو جا کر درک کے سامنے جھک کر اپنے بیٹے کی زندگی مانگے اسے یوں مرنے کیوں دے رہا ہے
اگر وہ کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتا کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہتا سیدھے اور صاف ستھرے طریقے سے رویام کو بچانا چاہتا ہے تو اس سے زیادہ اور سیدھا طریقہ کونسا تھا جس سے رویام کی زندگی بچائی جا سکتی تھی ۔اگر وہ ٹھیک طریقے سے ہی سب کچھ کرنا چاہتا تھا۔تو درک خود اسے راستہ بتا رہا تھا
جھک جائے اس کے سامنے اور لے لے اپنے بیٹے کی زندگی لیکن نہیں وہ جھکنے کو تیار نہیں تھا اسے تو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ روح خاموش کیوں ہے
آخر وہ یارم کو کیوں نہیں پوچھ رہی کہ اسے اپنے بیٹے کی جان عزیز نہیں
کیسی ماں ہے وہ جو اپنی ممتا کی خاطر شوہر کے سامنے ڈٹ نہیں سکتی ۔وہ یارم سے اپنے بچے کی زندگی کے لئے ضد نہیں کر سکتی ۔
وہ کیوں یارم کو یہ بے جاضد چھوڑنے کے لئے مجبور نہیں کر رہی ۔
اگر یارم کی جگہ خضر ہوتا تو وہ کب کا اسے منا چکی ہوتی سہی غلط دیکھنے کی بجائے اس وقت درک سے زبردستی بون میرو حاصل کر لیتی
لیکن یہ اپنی اولاد کو زندگی اور موت میں جلتا نہ دیکھتی
لیکن وہ لیلیٰ تھی جو جذبات میں آکر سوچتی تھی جذبات میں آکر قدم اٹھاتی تھی
اور دوسری طرف یارم کاظمی تھا۔
جوہر کام وقت پر اور صحیح طریقے سے کرتا تھا لیکن لیلیٰ کے مطابق اپنے بیٹے کے لئے وہ کچھ نہیں کر رہا تھا سوائے ضدکے
وہ کہتا تھا کہ اسے اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت ہے لیکن یہ کیسی محبت تھی جو اسے اپنی اولاد کے لیے کسی کے سامنے جھکنے نہیں دے رہی تھی
وہ ہر ممکن طریقے سے بون میرو کی تلاش کر رہی تھی لیکن یارم سے اندر ہی اندر بری طرح سے خفا ہو گئی تھی
اس کا ماننا تھا کہ اللہ کسی نہ کسی کو وسیلہ بنا کر بھیجتا ہے
اوردرک کو اسی نے وسیلہ بنا کر ان کے لیے بھیجا تھا ۔صر ف درک ہی اس کی جان بچا سکتا تھا ۔لیکن یارم کی اکڑکی وجہ سے آج وہ اپنا بیٹا کھونے جارہا تھا لیلیٰ سے یہی بات سمجھا نہیں پا رہی تھی
کیونکہ یارم کا کہنا تھا کہ اگر اللہ نے درک کو وسیلہ بنا کر بھیجا ہے تو وہ اسے اپنے سامنے جھکانہ کیوں چاہتاہے صرف ایک ذرا سی ضد کی خاطر وہ ایک بچے کی جان مشکل میں ڈال رہا ہے
یار م کا کہنا تھا کہ وہ کسی قسم کی کوئی ضد نہیں کر رہا
اسے بس اپنے اللہ پر یقین ہے
اور وہ جانتا ہے کہ اس کا اللہ اسے کسی اور کے سامنے جھکنے نہیں دے گا
ڈھائی سال پہلے اس نے رویام کی پیدائش پر ناشکری کی تھی جس کی معافی وہ آج بھی اللہ سے مانگتا تھا ۔
اور یارم نے قسم کھائی تھی اس غلطی کے بعد اب دوبارہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرے گا ۔
وہ ایک بار ناشکری کرکے اپنے اللہ کو خفا کر چکا ہے اب شرک کر کے کبھی دوبارہ اپنے اللہ سے دور نہیں ہو گا
°°°°°°
پچھلے پانچ دن سے رویام ہسپتال میں ہی تھا ۔
بےشمار مشینوں میں جھڑا پتہ نہیں کس حال میں تھا وہ اسے دیکھ تو سکتے تھے لیکن اس کی تکلیف کو محسوس نہیں کرسکتے
اسے تھوڑی دیر کے لئے ہوش آتا تو ماما بابا شونو بس یہی کچھ نام پکارتا رہتا
وہ دونوں بھی ہسپتال میں رہتے تھے ۔روح کو زبردستی لیلیٰ کے ساتھ گھر بھیج دیتا تھا کیونکہ آج کل اس کی اپنی طبیعت بہت خراب رہنے لگی تھی
سب کچھ ہینڈل کرنا اس کے لیے بھی مشکل تھا لیکن اسے یقین تھا کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی طریقہ نکل ہی آئے گا
اب تو صارم بھی جتنا ہو سکے اتنی کوشش کر رہا تھا
لیکن یہ آسان نہیں تھا ۔رویام کے بون میرو سے کسی کا بون میرو سرے سے میچ ہی نہیں کر رہا تھا
ایک آدمی کا بون میرو اس کے ساتھ 35پرسنٹ تک میچ ہوا
لیکن اس آپریشن میں جان جانے کا زیادہ خطرہ تھا ۔اس شخص نے کہا تھا کہ اگر اس کی جان چلی بھی جائے تو افسوس نہیں بس اس کی فیملی کو اتنی رقم دے دی جائے کہ کہ وہ آسانی سے دو وقت کا کھانا کھا سکے
اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے یارم سے جتنا ہو سکا اتنی مدد کر دی لیکن اس نے آپریشن کروانے سے انکار کر دیا
وہ اپنے بچے کے لیے کسی کی زندگی کا سہارا چھین نہیں سکتا تھا ۔سب نے اسے سمجھایا کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اسے سب سے پہلے رویام کے لئے سوچنا چاہیے بعد میں کسی اور کے لئے
لیکن یارم نے کہا کہ رویام تو اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے اسے اللہ ہی بچائے گا لیکن جس شخص کے لئے اللہ نے مدد کے لئے یارم کو چنا ہے وہ اس کے لئے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا
شارف اور خضر کے پاس تو ابھی بھی بس یہی ایڈیا تھا درک کو پکڑو اور زبردستی کر لو وہ جب ہر طرف سے ہار کر واپس آتے تو ان کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا جس کے لئے اب وہ یارم سے بھی لرنے لگے تھے
جیسے جیسے رویام کی حالت خراب ہو رہی تھی وہ یارم کے ڈر سے نکل کر اس پر رویام کی حالت کو ظاہر کرنے لگے تھے یہ جانے بغیر کہ اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر وہ خود کتنی تکلیف میں ہے
خضر نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ وہ پتھر دل ہے اسے رویام کی تکلیف کا احساس نہیں یارم بس مسکرا کر خاموش ہو گیا اس کے علاوہ کر ھی کیا سکتا تھا ۔
کیونکہ اپنا دل چیڑ کر تو وہ کسی کے سامنے کھول نہیں سکتا تھا اسی لئے خاموشی سے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا
°°°°
بابا دد اے۔(بابا درد ہے)۔وہ اپنے پیٹ پر ننھاسا ہاتھ رکھے مسلسل روتے ہوئے اسے بتا رہا تھا
بیٹا ابھی ڈاکٹر انجکشن لگائے گا نہ تو سارا درد بھاگ جائے گا
بس میری جان اب رونا نہیں
میرا بچہ تو بہت بہادر ھے ایک دم شیر جوان جیسا
اگر میرا بچہ ماما کے سامنے روئے گا تو ماما بھی روئے گی ۔تو پھررویام اپنی مما کو روتے ہوئے کیسے دیکھے گا کیونکہ رویام تو اپنی مما سے بہت پیار کرتا ہے
اور رویام کی مما جب سیڈ ہوگی ےو رویام بھی سیٹ ہو جائے گا نہ ۔۔۔؟وہ اسے بہلانے کی کوشش کر رہا تھا
اب دو ئیا ں زیادہ اثر کر رہی تھی وہ زیادہ وقت سو کر یا بے ہوش ہو کر گزارتا تھا بیچ بیچ میں ہوش آتا تو اسے اپنے تینوں فیملی ممبر سے ملنا تھا
اسے ہوش آتے دیکھ خضر فورا ہی روح اور شونو کو لینے چلا گیا جب کہ یارم اس کے پاس بیٹھا اسے آہستہ آہستہ بہلا رہا تھا ۔
ریام نی نوئے دا ۔ریام شیڈ بی نی ہو دا۔لیتن ریام تو دد اے ۔ریام تو نونا آ لا ہے ۔(رویام نہیں روئے گا ۔رویام سیڈ بھی نہیں ہوگا ۔لیکن پھر بھی رویام کو درد ہے ۔رویام کو رونا آ رہا ہے) وہ اداس سی شکل بنا کر بتانے لگا یارم نے آہستہ سے اس کا ننھا سا ہاتھ پیٹ سے اٹھا کر چوما
میرا بچہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا
لتین ریام تو دد او را اے بت دد ہو لا اے بابا۔ریام ماماتے آنے شے پلے نولے دا (لیکن رویام ٹھیک نہیں ہو رہا بہت زیادہ درد ہے بابا۔رویا ماما کے آنے سے پہلے رولے گا ) ۔اس بار وہ اپنا صبر کھو کر رونے لگا تو یارم نے اسے اٹھا کر اپنی باہوں میں بھیج لیا
یا اللہ میرا امتحان لے ۔لیکن میرے بچے کو میرے گناہوں کی سزا نہ دے ۔اس کی ننھی سی جان سے میری جان بدل دے ۔اس کے درد کو میرے جسم میں منتقل کر دے ۔
اس کی تکلیف برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہے ۔وہ اس کے بلکتے ہوئے وجود کو اپنے سینے سے لگائے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ سے بولا
جو دنیا کا پہلا اور آخری سہارا تھا ۔
تھوڑی ہی دیر میں روح آگئی تھی ۔
رویام نے فوراً اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا ۔نرس نے اسے جو انجکشن دیا تھا اس کا اچھا اثر ہوا ۔اس کا تکلیف سے بلکتا وجود اب نارمل حالت میں آ چکا تھا
لیکن تکلیف اب بھی بے حد تھی یہ وہ سب ہی جانتے تھے
لیکن رویام پنی ماں کے سامنے روتا نہیں تھا
شاید وہ اچھے سے سمجھتا تھا کہ اس کی ماں اسے کتنا چاہتی ہے اس کی تکلیف اس کے لیے کیا ہے
اسے اپنے سینے سے لگائے روح کو قرار آیا
جبکہ شونو وہیں دروازے پر اداس سا بیٹھ گیا ۔لیکن رویام کے اشارے پر فوراً بھاگ کر اس کے پاس آ گیا ۔
تھونومیلا بتہ میلی ماما تا کیال رتنا ۔اے ڈاٹکرانکر مدے در نی دانے لے میلی ماما تو شیڈ نی اونے دینا دب اے پھیور تر دائے دا نہ تب می ال تم بت شالاتھیلے دے ۔ال می تمی روج نہلاو دااتنے گندے اوگے او تم ۔گندا بتہ
(شونو میرا بچہ میری ماما کا خیال رکھنا یہ ڈاکٹر انکل مجھے گھر نہیں آنے دے رہے میرا میری ماما کو سیڈ نہیں ہونے دینا ۔جب یہ فیور اتر جائے گا نہ جب میں اور تم بہت سارا کھیل لیں گے ۔اور میں تمہیں روزنلاؤنگا کتنے گندے ہو گئےہو گندا بچہ )وہ بہت معصومیت سے بول رہا تھا ۔جبکہ شونوبے حد اداس تھا اس کے پاس پڑا تھا جیسے اس کی تکلیف کا اندازہ اس سے بھی ہو
روح نے یارم سے بہت ضد کی رات رکھنے کی لیکن یارم نے انکار کرکے گھر بھیج دیا اس کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ رویام کی حالت دیکھ کر وہ اپنی طبیعت اور خراب کرے پہلے ہی وہ ذہنی طور پر بیمار ہو چکی تھی یارم کے ذرا سی سختی کرنے پر وہ گھر چلی گئی
لیکن دل و دماغ یہیں پر تھا
°°°°°°
رات کے دو بج رہے تھے رویام ایک بار پھر سے گہری نیند اتر چکا تھا ۔
تین چار دن سے مسلسل نائٹ ڈیوٹی کرنے کی وجہ سے حسن بھی آج گھر گیا تھا
ہسپتال تقریبا خالی پڑا تھا بہت کم لوگ تھے یہاں بہت کم مریض تھے ۔کیونکہ یہ بلڈ پیشنٹ کا ہسپتال تھا اس لیے مریضوں کی آمدورفت بہت کم تھی
یہاں صرف تین ہی سپیشلسٹ ڈاکٹر ہر وقت موجود ہوتے تھے ۔جو اس ہسپتال میں آنے والے پیشنٹز کا علاج کرتے تھے
باقی نرسز ووڈ بوائز اور چند مریض ۔
وہ ہر چیز کو بھولئے اپنے بچے کے معصوم نقوش میں کھویا اسے دیکھ رہا تھا
اسے خضر کی بات یاد آئی آج دوپہر میں اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کیسے اس کے دل پر وار کر کے اس نے کہا تھا کہ شاید اب زیادہ دن تک وہ یہ چہرہ دیکھ نہیں پائے گا
اس بے اختیار ہی رویام کی جانب نظریں اٹھائی تھیں وہ رونا نہیں چاہتا تھا نہ ہی وہ کمزور تھا ۔
لیکن شاید ہی اس دنیا میں اولاد کو کھونے سے بڑی اور کوئی تکلیف ہو سکتی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو کب گرا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا
بس بتا تھا تو اتنا کہ وہ اپنی اولاد کو کھونا نہیں چاہتا ۔
نہ جانے کس کی بددعا لگی تھی اس کے معصوم بچے کو ۔
وہ خاموشی سے رویام کے قریب سے اٹھ کر جا نماز بچھاتا تہجد کے نوافل ادا کرنے لگا
وہ دن رات سوچتا تھا کہ ایسی کون سی غلطی ہوگئی تھی اس سے جس کی سزا اسے رویام کی اس بیماری کے روپ میں مل رہی تھی وہ تو ہمیشہ سے اچھے کام کرتا آیا تھا اس نے تو کبھی ایسا کام نہیں کیا تھا جس کی سزا سے اتنے بیانک روپ میں ملیں
تو پھر اس کے بچے کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا تھا کیا اللہ اسے امتحان لے رہا تھا
اگر ہاں تو یہ امتحان اتنا تکلیف دہ کیوں تھا
وہ کیوں اتنا بے بس تھا
دنیا کے آٹھ بڑے ممالک میں اسے اپنے بیٹے کے لیے ایک بون میرو ٹرانسفرمیشن نہ ملا ۔اتنی بڑی دنیا میں کیا کوئی نہیں تھا اس کی مدد کر سکے اس کے بیٹے کو بچا سکے ۔
یا اللہ میری مدد کر ۔مجھ میں نہیں حوصلہ اپنے بچے کو مرتے دیکھنے کا ۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو روح بھی مر جائے گی ۔اور ان دونوں کے بغیر میں کیسے جیوں گا ۔
وہ کب سے جا نماز پر بیٹھا مسلسل دعائیں کر رہا تھا
کیوں کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔
نوافل ادا کرکے وہ اٹھ کر ایک بار پھر سے رویام کے قریب جانے لگا جب باہر سے شور کی آواز آئی
اتنے شور کو سن کر وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے رویام کے کمرے کو بند کر چکا تھا
تقریبا پچاس سال کا آدمی تھا جو بہت شور مچا رہا تھا
°°°°°°
بی بی کو بچا لو اگر انہیں کچھ ہوگیا تو صاحب مجھے جان سے مار ڈالیں گے وہ ان کے لیے مجھے چھوڑ کر گئے تھے اگران کو کچھ ہوگیا تو میں بھی زندہ نہی بچاوں گا
کوئی بی بی کو بچا لو وہ اونچی آواز میں چلا رہا تھا
ہم کوشش کر رہے ہیں۔لیکن ہم سٹور ہوا بلڈ نہیں دے سکتے ان کے جسم کا سارا خون جم چکا ہے اگر ہم نے سٹور ہوا ہونا ان کے جسم میں ٹرانسفر کیا ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لگے گا ان کی موت ہونے میں
ہمیں خون کا انتظام کرنا ہو گا آپ تھوڑا صبر کریں اس کے چلانے پر نرس نے سمجھاتے ہوئے کہا
ہر کوئی کسی نہ کسی کو فون کر رہا تھا ڈاکٹر نرس ہر کوئی مصروف تھا یقینا یہ کیس بہت برا تھا
وہ لوگ ہسپتال میں موجود سٹور ہوا خون استعمال نہیں کر سکتے تھے ۔نہ جانے اس لڑکی کو کیا بیماری تھی ۔کہ اس کے جسم کا سارا خون جم چکا تھا ۔اس سے اسی وقت خون کی ضرورت تھی
اگر اس کے رگوں میں اگر خون نہ اترتا تو وہ مر سکتی تھی ۔
اس نے ایک نرس سے پتا نہیں کیا سوچ کر لڑکی کی کنڈیشن پوچھی تو اس نے یہی ساری بات یارم کو بتا دیں
آپ کو کون سے بلڈ کی ضرورت ہے یارم نے پوچھا
بی پوزیٹو ۔نرس نے کہا
یہ تو بہت نارمل بلڈ ہے جو کہیں سے بھی مل سکتا ہے آپ لوگ اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں یارم حیران ہوا تھا
جی سر یہ نارمل بلڈ ہے لیکن ہسپتال میں موجود دو نرس دونوں کا بلڈ گروپ اے پوزیٹیو ہے جب کہ وارڈ بوائے کا اے بی پوزیٹو
اور لڑکی کی کنڈیشن اتنی خراب ہے کہ ہم اسے آے بی نہیں لگا سکتے ہمیں ابھی اس سے میچنگ بلڈ ہی چاہیے وہ بھی بالکل فریش ۔اس لڑکی کا خون جم چکا ہے ہم سٹور ہوا خون استعمال نہیں کر سکتے
میرا بلڈ بی پوزیٹو ہے اگر میرا خون لگتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔اب اپنے بیٹے کے صدقے کے لیے وہ اتنا تو کرہی سکتا تھا
سر پلیز آپ جلدی سے روم میں چلے ۔پلیز اس لڑکی کی جان خطرے میں ہے ۔نرس ایک تا شکر نظر اس پر ڈالتی ڈاکٹر کو بتانے بھاگ چکی تھی
جب کہ یارم اس پچاس سالہ آدمی کو اپنے بیٹے کا خیال رکھنے کا کہتا خون دینے کے لیے اندر جا چکا تھا
یارم کے خون سے اس لڑکی کی زندگی بچ گئی تھی
جس کی یارم کو بھی بہت خوشی تھی۔
خون دیتے ہی لڑکی کا ٹرٹمینٹ اسٹارٹ ہوگیا ۔جبکہ یارم رویام کے پاس روم میں لوٹ آیا۔
اس دوران رویام کو ہوش نہ آیا تھا
یارم دو گھنٹے تک باہر رہا ۔
اس بوڑھے چاچا نے ایک پل کے لیے بھی رویام سے نظریں نہ ہٹائیں تھیں ۔اور اس کے خون دینے کے بعد بار بار اس کا شکریہ ادا کرتا رہا جیسے اس لڑکی کا نوکر نہیں بلکہ باپ ہو۔
اسے یقین تھا کہ وہ اس لڑکی سے بہت اٹیچڈ تھا ورنہ وہ اس کے لیے یوں روتا نہیں ۔خون دینے کے بعد نرس نے کمرے میں آکر اسے بتایا تھا کہ وہ لڑکی بچ گئی ۔
تمام ڈاکٹرزنے بھی اس کا شکریہ ادا کیا ۔وہ اس مشکل وقت میں ان کے کام آیا تھا ۔
ورنہ یقیناً خون کا انتظام ہونے تک اس لرکی کی جان چلی جاتی
شاید الللہ نے یارم کو اس لڑکی کی جان کا وسیلہ بنایا تھا ۔
اسے سچ میں اس لڑکی کو خون دے کر خوشی ہوئی تھی ۔اس کی عمر انیس بیس سال کے قریب تھی۔
اور دیکھنے میں بہت معصوم سی لڑکی تھی۔شاید اس کا تعلق پاکستان سے تھا ۔
بوڑھا آدمی بھی اب پرسکون تھا اور بہت بار آ کر یارم کا شکریہ ادا کر چکا تھا.اس کے بار بار شکریہ ادا کرنے پر یارم نے بھی اس لڑکی کی عیادت کے لیے جانے کا سوچاتھا
°°°°
رویام کو آج بہت تھوڑی دیر کے لیے ہوش آیا تھا ۔ہوش میں آتے ہی اسے درد شروع ہو گیا ۔جس کی وجہ سے ڈاکٹرز نے اسے دوبارہ بےہوش کر دیا۔
جب ڈاکٹر نے اسے انجکشن دیا وہ اس کے سینے میں چھپ گیا تھا ۔اس کا ننھا سا ہاتھ نیلا پرنے لگا تھا۔لیکن ڈاکٹرز کو اس پر رحم نہیں آتا تھا ۔
جگہ جگہ سیوں کے سرخ نشان بنتے جا رہے تھے
اس کا پورا وجود آہستہ آہستہ ذرد پڑرہا تھا
ڈاکٹرنے کہا تھا اب اس کی جان کو خطرہ ہے اس کبھی بھی آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔
وہ لوگ رویام کے لیے کچھ نہیں کر سکے تھے سوائے دعاوں کے۔
سب لوگ اداس تھے وہ زور رویام سے ملنے آتے لیکن اس کے کمرے میں قدم بھی نہ رکھتے شاید ان سب کے لیے رویام کو یوں دیکھنا آسان نہیں تھا۔
وہ سب بے بس تھے خاموش تھے ۔
دن پر دن گرز رہے تھے ان کے بس میں کچھ نہیں تھا
درک تو اس دن کے بعد نظر ہی نہ آیا ۔یقنناً واپس آ کر اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا ہو گا۔
اسے کیا فرق پڑتا تھا کہ اس کے بون میرو سے کسی کو زندگی مل سکتی ہے
کوئی جی سکتا ہے ۔
کسی کا ہنستا کھیلتا گھرانہ بچ سکتا ہے ۔
کسی کی ممتا پرسکون ہو سکتی ہے
لیکن اسے تو اپنی ضد سے مطلب تھا ۔جو اس کے لیے اس کا سکون تھی اسے بے بس کر کے وہ بہت مطمئن تھا
°°°°°
کیا میں اندر آ سکتا ہوں اس نے دروازہ کھٹکھایا ۔
آو بیٹا ۔وہاں کیوں روکے ہو اندر آو نہ چاچا نے خوشی سے کہا۔
پری بیٹا یہ یارم ہے جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا اسی نے وقت پر آپ کیمجان بچا لی ورنہ میں بوڑھا جانے کیا کرتا۔
یہ ہی ہے وہ فرشتہ جسے اللہ نے تمہاری مدد کے لیے بھیج دیا۔چاچا نے خوشی سے تعارف کروایا۔
میں کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک عام سا انسان ہوں ۔مجھے انسان ہی رہنے دیں چاچا ۔اور میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو ایسا ہی کرتا ۔
چاچا کے الفاظ پر یارم نے کہا تو پری مسکرائی ۔
آج کے زمانے میں کون کرتا ہے کسی انجان مدد آج کل تو کوئی اپنوں کی مدد بھی نہیں کرتا
ہم نے خون کا انتظام کر رکھا تھا لیکن وہ آدمی میرے شوہر کا جاننے والا تھا اور ابھی میرے ٹرٹمیٹ میں ایک ہفتہ باقی تھا اس لیے میرے شوہر کام ستپے دوسرے ملک چلے گئے میرے شوہرتو خود مجھے خون دینے والے تھے ۔لیکن ان کا خون مجھ سے میچ ہی نہیں ہوتا ۔ورنہ شاید وہ اپنا سارا خون میری رگوں مِیں اتارنے میں ایک سکیڈ نہ لگاتے ۔
میں آپ کی شکرگزر ہوں کہ آپ نے میری زندگی بچا لی۔ورنہ پرسوں رات تو میں سچ میں مر جاتی اور آج کل میرے شوہر گھرپر پر بھی نہیں ہیں ۔
وہ میری اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے سعودیہ گئے ہیں کسی نے بتایا ہے کہ وہاں اس بیماری کا علاج ہے لیکن ڈاکٹر نے مجھے سفر کرنے سرپے منا کر دیاسو میں یہی چاچا کی زماداری پر پڑی تھی ۔
وہ مسکرا کر یارم سے بولی۔
تو یارم بھی نرمی سے مسکرایا ۔؟
آپ کو بیماری کیا ہے ۔۔۔میرا مطلب ہے اس کا علاج ۔۔۔۔؟
میری بیماری کا تو مجھے خود بھی نہیں پتا ۔پتا نہیں کون سی بیماری ہے بس خون جمنا شروع ہوجاتا ہے اور میں موت کو قریب سے ٹچ کرکے واپس آ جاتی ہوں
پھر یہ ڈاکٹر شاکٹر میرا علاج کرتے ہیں اور آپ جیسے نیک لوگ میری زندگی بچا لیتے ہیں اس کا انداز بہت بچکانہ تھا یارم کو ہنسی آ گئی۔
چلو شکر ہے کہ تم ٹھیک ہو اب مجھے چلنا چاہیے ہو سکتا ہے میرے بیٹے کو ہوش آ گیا ہوں یارم مسکرا کر کہتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھا ۔
ارے میں نے تو آپ سے پوچھا ہی نہیں آپ یہاں کیوں ہیں آپ کا بیٹا بیمار ہے کیا ۔وہ فکرمند سے پوچھنے لگی ۔
ہاں میرے بیٹے کو بلڈ کینسر ہے ۔اسی کا علاج کروا رہے ہیں ہم ۔لیکن ڈاکٹر کی طرف سے جواب مل گیا ہے ۔بس تم دعا کرنا کہ میرا بیٹا بچ جائے ۔وہ ذرا سا مسکرا کر اسے رویام کی حالت بتانے لگا
یا اللہ رحم ۔۔۔۔ان شاء اللہ آپ کے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا ۔۔جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں اللہ ان کا محافظ ہوتا ہے ۔آپ نے بنا کسی نفع کے میری اتنی مدد کی ان شاءاللہ اللہ آپ کی مدد ضرور کرے گا ۔اور میرے بھتیجے کو ان شاءاللہ کچھ نہیں ہوگا ایک دم ٹھیک ہو جائے گا
اس نے مسکرا کر کہا تویارم نے آہستہ سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
تم دعا کرنا ۔۔۔زندہ دل لوگوں کی بہت دعائیں لگتی ہیں ۔وہ اداسی سے بولا
میری ساری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔اللہ آپ کو ہمت اور حوصلہ دے ۔اور میرے بھتیجے کو زندگی ۔واہ سے پری کے سر پہ ہاتھ پھیرتا باہر نکل آیا
°°°°°°
آروح اپنا خیال رکھو دوائیاں وقت پر لو اس طرح سے کام نہیں چلے گا
میں یہاں رویام کے ساتھ ہوں اس کا خیال رکھ رہا ہوں تم اپنا خیال رکھو ہمارے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا
روح جب سے آئی تھی روئے جا رہی تھی لیلیٰ نے اسے بتایا تھا کہ وہ اپنی دوائی نہیں لے رہی
سب اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے لیکن جیسے جیسے رویام کی حالت بگڑ رہی تھی رو بھی پل پل مر رہی تھی
یارم مجھ سے رویام کو اس حال میں نہیں دیکھا جاتا پلیزآپ کچھ کریں نہ
کچھ تو ایسا کریں کہ ہمارا بیٹا ٹھیک ہو جائے آپ تو وان ہیں نہ کچھ بھی کر سکتے ہیں
تو کیا آپ نے بیٹے کو بچا نہیں سکتے وہ آنکھوں میں آنسو لیے اس سے سوال کر رہی تھی
میں گینگسٹر ہوں ( نعوذ باللہ ) کوئی خدا نہیں
زندگی اور موت کا اختیار اوپر والی ذات کے پاس ہے میرے پاس نہیں اگر اللہ نے چاہا تو رویام کو کچھ نہیں ہوگا
میں رویام کے ساتھ ہوں روح اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا لیکن تمہاری حالت مجھے دن بہ دن مار رہی ہے
روح رویام کے لئے میں ہر ممکن کوشش کر تو رہا ہوں لیکن تم اس طرح سے رہ کر اپنا خیال نہ رکھ کر میری ہمت توڑ رہی ہو مجھے بے بس کر رہی ہو
میں ہارنا چاہتا ہوں لیکن وقت سے پہلے نہیں کم ازکم اس سفر میں ہار تک تو میرا ساتھ دو شاید اس سفر میں جیت ہمارے مقدر میں لکھی ہی نہیں ہے
یارم آپ ناامید نہیں ہو سکتے ۔اس کے الفاظ نے روح کو تڑپا کر رکھ دیا
میں نا امید نہیں ہوں روح مجھے پتا ہے میرا اللہ میرے بچے کو بچائے گا ۔لیکن تم نے اپنی حالت دیکھی ہے ۔روح میں اس ذات کے سامنے کس کس کے لئے ہاتھ پھیلاؤں ۔اگر میں اپنے بیٹے کی زندگی مانگ رہا ہوں تو مجھے ابھی صرف اسی کو مانگنے دو ۔
تم اپنی زندگی ختم مت کرو بس اس پر یقین رکھو بے شک وہ اوقات سے بڑھ کر نوازتا ہے
وہ قادر ہے ۔سب سے اعلی ہے بے نیاز ہے ۔
تمہیں تو مان تھا نا کہ اللہ تمہیں بہت زیادہ چاہتا ہے تم سے بے شمار محبت کرتا ہے۔تو پھر اس سے ناامید ہو کر کیوں یہ آنسو بہآ رہی ہو اگر آنسو بہانے ہی ہیں تو جا کر سجدے میں بہاؤ
وہ سجدے میں بہائے آنسووں کو پسند کرتا ہے ۔
اس سے مانگو اور وہ بے شمار دے گا ۔
وہ اسے سمجھا کر ایک بار پھر رویام کے قریب آیا تھا ۔
جو آج بھی ان سے انجان بہت ہوش و ہواس سے دور تھا
°°°°°
رات کے دو بج رہے تھے وہ رویام کے قریب سے اٹھ کر صوفے پر آیا ابھی اس سے لیٹے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کس نے دروازہ کھٹکھٹایا وہ رات کے وقت دروازہ لاک کر دیتا تھا
اس نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے چاچا زخمی حالت میں تھے
بیٹا پری کو بچا لو وہ غنڈے اسے اٹھا کر لے جا رہے ہیں
اسے بچا لو وہ لوگ اس سے مار ڈالیں گے ۔رحم کرو بیٹا
میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں اس کی جان بچا سکوں ۔لیکن کل کو میں اپنے مالک کو کیا جواب دوں گا کہ میں اس کی بیوی کو چار دن نہ سنبھال سکا
میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں اسے بچا لو وہ لوگ اسے جان سے مار ڈالیں گے چاچا روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے جب یارم نے ان کا ہاتھ تھام لیا
آپ رویام کے پاس روکیں پری کو کچھ نہیں ہوگا وہ انہیں دلاسا دیتا اسی جانب چلا گیا جس طرف چاچا اشارہ کر رہے تھے
°°°°°°
کچھ لوگ پری کو زبردستی گاڑی میں ڈال رہے تھے وہ بالکل بے ہوش تھی ۔اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام کرتے یارم ان تک پہنچ چکا تھا
ان کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیئے بغیر ہی اس نے زمین پڑا لوہے کا پائپ اٹھا کر ان کو بری طرح سے مارنا شروع کر دیا وہ چار لوگ تھے
شاید ان کا تعلق کسی بھی گنگ سے تھا ۔
ان میں سے ایک نے یارم کے بازو پر کوئی انجیکشن لگانے کی کوشش کی جو یارم نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کوشش ناکام بنا دی
اس نے انجیکشن میں موجود نہ جانے کون سی دوائی کو انجیکشن پوش کر کے ضائع کر دیا ۔
تم مجھے یہ بے ہوشی کی دوائی دینے والے تھے لیکن تمہیں پتا ہے میں تمہیں کون سی دوائی دوں گا وہ انجکشن میں ہوا بھرتے ہوئے کہنے لگا جبکہ وہ آدمی حیرانگی سے دیکھ رہا تھا
موت کی دوا۔یہ فضا ایک سیکنڈ میں تمہیں کے موت کے گھاٹ اتار دے گی وہ اسے کنٹرول کرتے ہوئے اس کی گردن کے بالکل قریب انجیکشن لے گیا
اور یہ بات کو نہیں جانتا تھا کہ انجیکشن میں ہوا بھرنے سے انسان کی موت کو ایک پل بھی نہیں لگتا
نہیں پلیز ایسا مت کرو مجھے چھوڑ دو مجھے جانے دو وہ تڑپنے لگا
چھوڑ دوں گا پہلے یہ بتاؤ کہ کون ہو تم لوگ اس لڑکی کو اغوا کیوں کر رہے تھے ۔وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگا اور اپنی جان بچانے کے لئے وہ سب ان اسے مکمل بات بتانے لگے
ہمارا تعلق زوب گینگ سے ہے ۔
اس لڑکی کا شوہر ہمارے لئے کام کرنے والا تھا لیکن اسے پتہ چل گیا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ غلط ہے ۔اور اس نے انکار کر دیا ۔ہم اسے منانے کی بہت کوشش کر چکے ہیں لیکن وہ سیدھے طریقے سے نہیں مان رہا ہمارے لیڈر کو اس کی وجہ سے 35 کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے
اور اپنے لیڈر کو اس نقصان سے بچانے کے لیے ہم اس لڑکی کو اغوا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس لڑکی سے بہت محبت کرتا ہے
اور اس کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے اس لیے ہم اس لڑکی کو اغوا کرکے اس سے اپنا کام نکلوائیں گے
وہ عربی زبان میں پوری تفصیل اسے بتا چکا تھا
یارم زیادہ کام کی گہرائی تک نہ گیا صرف اتنا ہی کافی تھا کہ وہ زوب گینگ کے ممبر تھے جو یقینا اچھے کام نہیں کرتے تھے ان لوگوں کا حساب بعد پر رکھ کر وہ پری کو صحیح سلامت واپس لے آیا تھا ۔
چاچا کی جان میں جان آئی پری کو نہ جانے کون سی دوائی دی گئی تھی کہ اسے ابھی تک ہوش نہ آیا ۔لیکن وہ بالکل ٹھیک تھی یہی ان کے لئے سب سے اچھی بات تھی ۔
لیکن اندر آتے ہی ڈاکٹر نے اسے یہ خبر دی تھی کہ رویام نہیں رہا وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے
°°°°°°
رویام کا آپریشن ابھی بھی ہوسکتا ہے اور ہمارے پاس کے آپریشن کے لیے بون میرو موجود ہی نہیں ہے
مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں رویام کی سانسیں رکنے لگی ہیں وہ سب لوگ ہسپتال میں موجود تھے یارم رویام کے پاس تھا وہ بالکل بے ہوش بے سود تھا
لیکن ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اس کی سانسیں رکنے لگی ہے
ان کا بیٹا مرنے والا تھا۔وہ سب لوگ خاموشی سے اس کی آخری ٹوٹتی ہوئی سانسیں دیکھ رہے تھے نجانے کون سی سانس آخری ہوگی
اچانک رویام لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اس کے قریب بیٹھی روح بری طرح سے مچلتی تھی
جب یارم نے کھینچ کر اسے اپنے سینے میں بھیج دیا شاید وہ بھی اس چیز کو قبول کر چکا تھا
خضر۔ شارف ۔معصومہ۔لیلیٰ سب رو رہے تھے ۔وہ اس چھوٹی سی جان کو کھونے جا رہے تھے ۔ہمیشہ کے لئے
پتہ نہی اس کی کتنی سانسیں بچی تھی آنکھوں سے آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے
روح اونچی اونچی آواز میں تڑپ تڑپ کر رونے لگی ۔سب کا ضبط جواب دے چکا تھا
وہ کچھ بھی نہ کر سکا
اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہا تھا ۔
وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا جب ڈاکٹر تیزی سے اندر آئے اور اسے اٹھا کر باہر لے جانے لگے
کہاں لے کے جا رہے ہو میرے بچے کو روح نے تڑپ کر ان سے رویام کو لینا چاہا
آپریشن تھیٹر میں بس اتنا جواب دے کر حسن رویام کو لے کر وہاں سے بھاگ گیا ۔اس کے پیچھے ہی وہ سب بھی کمرے سے باہر نکلے تھے ۔
جب زخمی حالت میں درکشم کو شرٹ اتارتے اندر جاتے دیکھا ۔
ان سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا لیکن کوئی کچھ بھی نہیں بولا
ان سب کے پاس بولنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں ۔سب خاموشی سے آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کرنے لگے
تھوڑی ہی دیر میں ایک ڈاکٹر آکر یارم کے قریب روکا
دیکھو یارم یہ آپریشن بہت خطرناک ہے ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس لیے تمہیں ان کاغذات پر سائن کرنا ہوگا اگر آپریشن کے دوران رویام کو کچھ ہوتا ہے تو ہسپتال اس کی ذمہ داری نہیں لے گا ۔
وہ پہلے ہی ہوش و حواس بھلائے بیٹھے تھے ڈاکٹر نے انہیں مزید پریشان کر دیا
آپ آپریشن کریں ہمیں یقین ہے ہمارے رویام کو کچھ نہیں ہوگا ۔ہم تو ویسے بھی اپنی امید ہار کے بیٹھے تھے ۔
خضر جو اتنے دنوں سے یارم سے بالکل بات نہیں کر رہا تھا اس کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا آج اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا اسے ہمت دیتے ہوئے بولا
ہاں ڈاکٹر آپریشن کریں دیکھیے گا ہمارا رویام بالکل ٹھیک ہو جائے گا شارف نے پن نکال کر یارم کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہاتو یار مننے اداسی سے مسکرا کر ان کاغذات پر سائن کر دیے
اب سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں تھا ۔
روح جائے نماز کربیٹھی مسلسل اپنے بیٹے کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔اسے یقین تھا اس کے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا وہ اپنی تمام تر ہمت ہار بیٹھے تھے کہ اللہ نے نہ جانے کہاں سے امید کی کرن کے روپ میں درک کو یہاں بھیج دیا
پتا نہیں کیا سوچ کر اللہ نے اس کے دل میں رحم ڈال دیا وہ پتھر دل شخص تو شاید اپنے لیے بھی کچھ نہ کرے
یارم کی زندگی بچانے کے لئے اسے بون میرو ٹرانسفر کر رہا تھا ۔
وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اس شخص کے لیے بھی دعائیں مانگ رہی تھی جو اس کے بیٹے کی زندگی بچانے کے لئے راضی ہو گیا تھا ڈاکٹر نے بتایا تھا یہ آپریشن اس کے لئے بھی بے حد خطرناک ہے
کیوں کہ کچھ دن پہلے ہی اسے دو گولیاں سینے میں ایک گولی کمر پر لگی ہے ۔اور اس کا بون میرو اس کی کمر سے ٹرانسفر کیا جائے گا ۔جو بے شک بے حد تکلیف دہ ہوگا
لیکن وہ یہ تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار تھا ان کے بیٹے کے لیے وہ خود اس اذیت سے لڑنے کو تیار ہو گیا تھا ۔
تو روح کیسے نا اس کے لیے دعائیں مانگتی ۔
وہ سب باہر بیٹھے آپریشن تھیٹر کے باہر جلدی بتی کو دیکھ رہے تھے ۔تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر باہر آتے یا نرسس اندر جاتی عجیب افراتفری مچی ہوئی تھی ۔
لیکن ان سب کے لبوں پر تو بس ایک ہی نام تھا رویام
آپریشن ختم ہوا ڈاکٹر باہر آیا تو اس کے چہرے پر عجیب سی تھکن تھی ۔
یارم اٹھ کر حسن کے سامنے آکر رکا وہ کچھ بول نہیں رہا تھا بس خاموشی سے یارم کو دیکھ رہا تھا یارم کی سانسیں رکنے لگی تھی ۔
کسی بری خبر کے خوف سے یارم کی آنکھ سے آنسو گرا ۔وہ سچ میں اس کے یہ الفاظ نہیں سننا چاہتا تھا لیکن حسن کچھ بھی نہیں بولا
بس مسکرا کر ذرا سا سر کو خم دیا یارم کی جان میں جان آئی ت
مبارک ہو آپریشن کامیاب ہو گیا ہے ۔کچھ دیر میں رویام کو روم میں شفٹ کر دیا جائے گا ہمارا رویام اب ٹھیک ہے حسن نے بہت خوشی سے ان سب کو یہ خوش خبری دی تھی ۔اور یارم کو گلے سے لگا۔
لیلیٰ تو خوشی سے خضر کے اوپر ہی چڑھ گئی تھی۔
چلوشارف پہلے صدقہ دیتے ہیں پھر رویام سے ملے گئے۔معصومہ نےاسے یاد دلایا۔
تو وہ ہاں میں سر ہلاتا یارم سے پوچھ کر چلا گیا۔
روح شکرانے کے نوافل ادا کرنے جا چکی تھی۔
اچھاحسن وہ کیسا ہے ۔یارم نے درک کا پوچھا۔
یار وہ ٹھیک نہیں ہے میرا مطلب اس کو پہلے ہی گولیاں لگی تھی اور پھر بون میرو دینا ۔یہ ایک بہت خطرناک آپریشن تھا صرف رویام کے لیے ہی نہیں بلکہ درک کے لیے بھی۔ابھی اسے ہوش نہیں آیا ۔دعا کرو اس کی کمر کی ہڈی آپریشن سے متاثہ ہوئی ہو۔ورنہ شاید وہ کبھی اپنے پیروں پر نہیں چل سکے گا۔حسن نے یارم کو درک کی ساری کنڈیشن بتائی ۔تو یارم کو افسوس ہوا تھا۔
وہ آج جس حالت میں تھا اس کے بیٹے کی وجہ تھا۔
ویسے اسے گولیاں کس نے ماری یارم نے سوال کیا۔
وہ سٹہ کھلتا ہے اور یہ اس کا پیشہ ہے ۔کالی زبان ہے اس کی لگا لی ہوگی دشمنی اسے انسان کو کچھ بھی ہوسکتا ہے چھوٹے سے چھوٹے گینگ سے لے کر بڑے سے بڑا گنیگ دشمن ہوتا ہے اس کا اسے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ سعودیہ گیا تھا پری کی بیماری کا پتہ کرنے وہاں بھی اس کے بہت سارے گینگز کے ساتھ چھتیس کا اکڑا ہے کسی کی نظر میں آ گیا ہو گا۔سب دعا کرو ٹھیک ہوجائے ۔
اس لڑکی کو کیا ہے۔یارم نے پوچھا۔
اس کا خون جم جاتا ہے چھ ماہ پہلے وہ برف کے طوفان میں پھنس گئی تھی۔اسے فوبیا ہے جب بھی اسے وہ سب یاد آتا ہے ۔ڈر سے اس کا خون جمنے لگاتا ہے۔
اور پھر وہ ڈر اس کی سانسوں پر حاوی ہوجاتا ہے۔اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔اس کا ڈر اسے کی جان بھی لے سکتا ہے
جب یہ ڈر اس پے حاوی ہوتا ہے ۔تو اس کا سارا جسم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔
اس کے علاج کے لیے اس کا یہ ڈر ختم کرنا ہوگا ۔اور درک اسی سلسلے میں سعودیہ گیا تھا ۔وہاں اسے پر حملہ ہوگیا اور وہ بےچارہ ١٢ دن تک زندگی اور موت کی جنگ لڑتا رہا۔
ہوش میں آتے ہی وہ رویام کےلیے واپس آگیا۔کیونکہ وہ رویام کے سرجن کو پہلے ہی بتا گیا تھا کہ وہ دو تین دن میں واپس آ جائے گا لیکن اس حادثے کی وجہ سے نہ آ سکا ۔
آج ہی ڈاکٹر امن نے مجھے یہ بات بتائی ۔
وہ بہت مشک سے وقت پر رویام کے لیے واپس آیا ہے ۔ہم اس کنڈیشن میں آپریشن نہ کرتی لیکن رویام کی زندگی کو خطرہ تھا ۔
شکر ہے سب ٹھیک ہے اب بس درک بھی ٹھیک ہو
امین ۔یارم نے بےساختہ کہا تھا
وہ صر اس کے بیٹے کے لیے واپس آیا تھا اس کا جانا اس کی مجبوری تھی۔ورنہ شاید وہ یارم کو جھکنے کا بھی نا کہتا۔شاید وہ اچھا بننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔
اسے خود سے جڑے رشتوں سے محبت تھی لیکن وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا
بہت الگ تھا وہ لیکن یارم کو آج پہلی بار وہ بہت اچھا لگا تھا ۔اس کے لئے بھی یہ رشتے بہت اہمیت رکھتے تھے آج اپنے انداز اس نے یہ بات ثابت کر دی تھی
°°°°°°
روح دوکشم یہاں دوسرے میں بہت بری حالت میں ہے ہمہیں ایک بار اس سے ملنا چاہیے یارم نے اس سے آکر کہا
مجھے نہیں لگتا یار م کہ ہمیں وہاں جانا چاہیے شارف بھائی اور خضر ماموں کہہ رہے تھے کہ اس نے یہ سب کچھ اس لئے کیا ہے کیونکہ آپ نے اس کی بیوی کی زندگی بچائی ہے مطلب اس نے آپ کا احسان اتارا ہے
اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے وہاں جانے سے ان کو ذرا بھی خوشی ہوگی ۔انہیں نےہمارے لئے جو کیا ہے وہ ہم بھلا نہیں سکتے لیکن میرا نہیں خیال کہ ہمیں بار بار ان کے سامنے جانا چاہیے روح نے انکار کرتے ہوئے کہا تویارم کو آج پہلی بار کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی
کوئی انسان دوسرے انسان پر کوئی احسان نہیں کر سکتا روح نہ تو میں نے کوئی احسان کیا ہے اور نہ ہی اس نے کوئی احسان کا بدلہ چکا ہے
فی الحال تو وہ جانتا بھی نہیں ہے کہ میں نے اس کی بیوی کی زندگی بچائی ہے وہ یہاں ہمارے رویام کے لئے واپس آیا ہے اسے بچانے کے لیے آیا ہے
وہ رویام کے سرجن کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ دو دن میں واپس آ جائے گا لیکن وہاں اس پر حملہ ہوگیا جس کی وجہ سے بارہ دن تک وہ بے ہوش رہا ہ صرف رویام کے لئے واپس آیا اتنی بری کنڈیشن میں اسے بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا
تم اندازہ بھی لگا سکتی ہو کہ اگر اس آپریشن میں اس کی ریڈھ کی ہڈی پر ذرا بھی افیکٹ ہوا تو وہ ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا لیکن اس کے باوجود بھی اس نےرویام کی زندگی بچانے کے لئے اپنی زندگی کی پروا نہیں کی
وہ برا بننے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کا دل اسے برا بننے نہیں دے رہا ۔میرے خیال میں ہم دونوں کو چلنا چاہیے اس سے ملنے کے لیے
اور اگر انہوں نے ہم سے ملنے سے منع کر دیا یارم تو کیا ہوگا ۔
کچھ رشتوں کی شروعات خود کرنی پڑتی ہے روح ۔ہمیں رشتوں کا احساس دلانا پڑتا ہے وہ تمہارے بابا کی ناجائز اولاد ہو سکتا ہے لیکن تمہارا ناجائز بھائی نہیں ہو سکتا ۔
اس نے رویام کو بون میرو اس لیے نہیں دیا
کیونکہ وہ میرا کوئی احسان اتارنا چاہتا تھا بلکہ اس نے رویام کو بون میرو اس لئے دیا ہے کیونکہ وہ تمہارا بیٹا ہے تم اہم ہواس کے لیےروح
یارم نے اسے سمجھایا تو روح نے ہاں میں سر ہلایا کچھ کہنے کو الفاظ تھے ہی نہیں
پتہ نہیں وہ کس طرح سے ریکٹ کرے گا ان دونوں کے وہاں جانے پر لیکن یارم کی بات غلط نہیں تھی وہ اس کا بھائی تھا اور وہ اسے اس بات کا احساس دلانے کے لیے تیار تھی وہ اس کے باپ کا نام جائز بیٹا تو ہو سکتا تھا لیکن اس کا ناجائز بھائی نہیں
°°°°°°°
وہ دونوں درک کے کمرے کے باہر کھڑے تھے اسے ہوش آ چکا تھا ۔لیکن فی الحال وہ کسی سے بھی ملنے کے موڈ میں نہیں تھا
اندر کمرے میں اس کے ساتھ اس کی بیوی اور شاید چاچا تھے
اس نے آہستہ سے دروازے کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھ کر دروازہ کھولا تو بیڈ پر پری کو اس کے سینے سے لگے آنسو بہاتے دیکھا ان دونوں کے اچانک آنے پر بہت اچھی خاصی شرمندہ ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی
پھر اپنی شرمندگی ایک طرف رکھ کر بتانے لگی دکش میں انہیں کے بارے میں بات کر رہی تھی انہوں نے ہی مجھے بچایا ہے ۔
اوراب سے یہ میرے بھائی ہیں۔۔۔یہاں ہسپتال میں ان کا بیٹا ایڈمنٹ ہے ۔اللہ اس کو شفا دے۔۔۔اور آپ تو میرے رومی کی مما ہیں نا میں اور رومی مل چکے ہیں یہی ہسپتال کے روم میں اس کو ڈرپ لگی تھی اس نے آپ کو نہیں بتایا میرے بارے میں بے وفا صنم اپنی دوست پری کا نام بھی نہیں دیا ہوگا اس نے
اور روح کو دیکھ کر بولی تو یارم نے مسکرا کر اسے دیکھا
ہمارے بیٹے کا آپریشن ہو گیا ہے اور ماشاء اللہ سے کامیاب بھی رہا ہے ۔اور بے فکر رہو اس نے مجھے تمہارے بارے میں سب کچھ کھروس بیان قید کر رکھا ہے نہ فکر نہ کرو میں تمہیں بچا لوں گا یارم نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ ڈمپل کی نمائش کی ۔
پری کو یاد تھا درک نے کہا تھا کہ رومی کا باپ بہت مغرور انسان ہے وہ اس سے بون میرو لینا ہی نہیں چاہتا لیکن پری کو تو یارم ایسا بالکل نہیں لگا تھا خیر وہ پرانی باتیں تھی ان سب کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہ تھا اب حقیقت تو یہ تھی کہ وہ اس کا مسیحا تھا
فی الحال تو ہم تمہارے شوہر کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا بیٹا زندہ ہے ۔اگر یہ وقت پر رویام کو بون میرو نہ دیتا تو شاید ہم اسے کھو دیتے یارم نے نرمی سے دیکھتے ہوئے کہا تو پری نے خوشگوار حیرت سے درک کی جانب دیکھا
کیا سچ میں آپ نے رومی کو بچایا ۔۔۔۔
میرا رومی اب بالکل ٹھیک ہے
ہائے میں کب ملوں گی اپنے رومی بے بی سے
وہ یہ اسپتال میں ہی ہے تو میں دوڑکر مل اؤں وہ درک کو دیکھتے ہوئے اجازت مانگ رہی تھی
ہاں وہ ہسپتال میں ہے تم جا کر اس سے ملو وہ در کو دیکھتے ہوئے جواب بولا تو دور تک نے گھور کر یار خود دیکھا تھا یہ ٹھیک ہے نا اس کی نظریں کہہ رہی تھی کہ تم کون ہوتے ہو میری بیوی کو اجازت دینے والے
ارے درک اتنا بھی کیا پریشان ہونا وہ میری بہن ہے رشتے میں اتنا حق تو بنتا ہے میرا یارم کے انداز میں ایک مان تھا جیسے محسوس کرکے پری مسکرا ئی
اچھا ٹھیک ہے آپ لوگ باتیں کریں میں جا رہی ہوں اپنے رومی کے پاس وہ ان دونوں کی باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے باہر بھاگ گئی تھی ایک تو ویسے بھی اسے بورنگ قسم کی باتیں پسند بھی نہیں تھی ۔
اسے تو بس رو یام کی باتیں پسند ہیں جنہیں سمجھنے اور سننے میں اسے بے حد مزہ آتا تھا
°°°°°
میرے خیال میں آپ تم لوگوں کو بھی یہاں سے چلے جانا چاہیے اس کا انداز بہت لیا دیا تھا
ہم آپ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں روح نے دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا تو آج پہلی بار اس نے اسے اتنے غور سے دیکھا تھا
میں نے یہ صرف اس لئے کیا ہے کیونکہ تمہارے شوہر نے میری بیوی کی جان بچائی ہے اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں تھی وہ بہت سرد انداز میں بولا
جبکہ روح اور یارم دونوں جاتے تھے کہ بات اسے ابھی پتا چلی ہے
تو میں نے کب کہا کہ میں اس بات کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں میں تو اور کسی بات کا شکریہ ادا کرنے والی تھی روح نے مسکرا کر کہا تو اس نے ایک نظر اس سے دیکھا نہ جانے کیوں وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا
بچپن میں جب میں چار سال کی تھی ہمارے گھر میں آگ لگ گئی تھی اور میں جانتی ہوں اس حادثے مجھے بچانے والے آپ نے ہی بچایا تھا میں اس دن کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں
بچپن سے لے کر جوانی تک ہمیشہ ایک مضبوط کا حصار میری گرد دکھنچنے کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں
اس دن کے یارم کے دشمن راشد نے مجھے قبر میں دفنا دیا آپ نے یارم کو فون کر کے بتایا کہ میں کہاں ہوں میں اس دن کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں
آپ نے مجھے شونو جیسا دوست دیا میں اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں
آپ نے سوئزرلینڈ میں میری جان بچائی میں اس کے لئے بھی آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں
ہمارا رشتہ قبول نہ کرتے ہوئے بھی ہمیشہ بھائیوں کی طرح میری حفاظت کرنے کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں ۔
اور رویام کو بچا کر آپ نے کوئی احسان نہیں کیا ہم پر ماموں کا فرض ہوتا ہے
اللہ آپ کو صحت یاب کرے ۔وہ اس کے بالکل قریب کھڑی آنسو بہا رہی تھی لیکن وہ خاموشی سے بنا کوئی تاثر دیے اسے یوں نظر انداز کر رہا تھا جیسے وہ اس سے بات ہی نہ کر رہی ہو
پھر اس نے آہستہ سے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور خاموشی سے باہر نکلنے لگی
میں نے تمہارے لئے کبھی بھی کچھ بھی نہیں کیا سمجھیں تم اور تم سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے میری حقیقت یہ ہے کہ میں گندی نالی کا ایک کیڑا ہوں تمہارے باپ کی ناجائز اولاد ہوں میرا کوئی وجود نہیں ۔
اور کسی بھی عزت دار شخص کو مجھ سے رشتہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کے الفاظ نے روح کے قدم دروازے پر ہی روک دیے تھے وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔وہ اس سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی تھی
آپ میرے بھائی ہیں اور یہ بات مجھے آپ سے پوچھنے کی یا آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں چلیں یارم رویام اپنی مامی کو تنگ کر رہا ہوگا ۔روح نے مسکرا کر کہا تو یارم بھی اس کے ساتھ بآہر آ گیا۔
وہ خاموشی سے دروازے کودیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں مسکرا رہی تھی لیکن چہرہ بے تاثر تھا
رویام کی آنکھ کھلی تو روح اور یارم اس کے بے حد قریب بیٹھے تھے وہ کتنی ہی دیر ان دونوں کا چہرہ دیکھتا رہا
اسے دوسری بار ہوش آیا تھا پہلی بار ہوش آنے پر وہ آگے پیچھے دیکھتا ایک بار پھر سے گہری نیند میں اتر گیا پری کتنی دیر اس کے جاگنے کا انتظار کرتی رہی اور پھر نرس نے اسے آکر درک کے بلاوے کا بتایا تو اسے جانا پڑ گیا
لیکن اس بار جب رویام کو ہوش آیا تو وہ سب کو پہچان رہا تھا
فی الحال کسی سے مخاطب تو نہ ہوا تھا لیکن روح اور یارم کا چہرہ دیکھ کر وہ مسکرایا تھا وہ بے حد پر سکون سے اسے دیکھ رہے تھے جب اس کی میٹھی سی آواز ان کے کانوں میں گونجی
بابا آپ لےمیلی ماماتےتندےپل اتھ تیوں لتھا اے(بابا آپ نے میری ماما کے کندھے پر ہاتھ کیوں رکھا ہے) ۔۔۔۔وہ ناراضگی سے پوچھ رہا تھا یارم نے بے اختیار مسکراتٹ روک کر روح کے کندھے سے اپنا ہاتھ ہٹا چکا تھا
ہوش میں آتے ہی جلیسی شروع ہوچکی تھی
پتہ نہیں یہ جلد ککراکس پر گیا تھا ۔بلکہ جلد ککرا کہنا ککر کی توہین ہو گی یہ تو جل چوزہ ہے
جو اپنی ماں کے قریب اپنے باپ کو بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا
ہٹا دیا ہاتھ میرے باپ بس جلدی سے ٹھیک ہوجا تیرا باپ تیرے بغیر نہیں رہا جاتا وہ اس کا ننھا سا ماتھا چومتا بےحد محبّت سے بولا تھا
رویام میرے بچے آپ کو کہیں درد تو نہیں ہو رہا روح نے اس کا ننھا سا ہاتھ ملتے ہوئے محبت سے پوچھا
کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ابھی اس کا پورا جسم درد کرتا رہے گا کیونکہ خون کی کمی پوری ہوتی ابھی بہت وقت لگے گا بلڈ کینسر کوئی چھوٹی سی بیماری ہرگز نہیں ہے
اس میں خون پورا ہوتے ہوتے بہت وقت لگ جاتا ہے
رویام نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھا جس پر سویوں کی وجہ سے بہت سارے نیل پڑے تھے جبکہ باقی اس کا سارا جسم دوائیوں کے زہر اثر ہونے کی وجہ سے فی الحال درد سے بے خبر تھا
دہاں پہ دد اولا اے (یہاں پہ درد ہو رہا ہے )اس نے اپنا ہاتھ اس کو دکھاتے ہوئے کہا
روح نے بہت نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا
بس میری جان اب آپ کو کوئی درد برداشت نہیں کرنا پڑے گا ۔
پھورباد دیا(فیور بھاگ گیا) اس نے معصومیات سے پوچھا
میرے بیٹے کا فیور بھاگ گیا ہے اب ہم تمہیں گھر لے کر جائیں گے اور پھر تم جیسے چاہے ویسا ہوگا پہلے کی طرح کھیلو گے اور اپنے شونو آپ کے ساتھ بہت سارا وقت گزارو گے
روح نے خوشی سے کہا تو رویام کے چہرے کے دونوں ڈمپل پوری طرح سے چمک اٹھے تھے
شچی ریام اپلے در دائے گا شونو تے پاش (سچی رویام اپنے گھر جائے گا شونو کے پاس) وہ بے حد خوشی سے پوچھ رہا تھا جب اس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اس کا ماتھا چوما۔
سچ میں گھر جانے کی بات پر بہت خوش تھا شاید ہسپتال میں رہ رہ کر وہ بھی اکتا چکا تھا
اور اب وہ روح کو گھر جانے کے بعد کی اپنی پلاننگ بتا رہا تھا کتنے کام تھے سے کرنے کے لئے ۔آج جو کام اسے رویام نے بتائے تھے اسے احساس ہوا تھا کہ اس کا بیٹا تو بہت ہی مصروف انسان ہے
جب کہ یارم خاموشی سے اس کے قصے سن رہا تھا جو کہ بہت مزے کے تھے
چڑیا کے لیے پانی رکھنا ۔
ان کے برڈز ہوم کی صفائی کرنا
ان کے کھانے کا انتظام کرنا
شونو کا خیال رکھنا شونو کے ساتھ کھیلنا اس کو نہلانا
کتنے کام تیرے رویام کو روح کو تو بس یہ پتا تھا کہ وہ پودوں کے ساتھ اس نے چند برڈز ہوم لگائے تھے کہ پرندے دھوپ سے بچ کر یہاں آرام کرسکیں
لیکن رویام تو ان کا بھی خیال رکھتا تھا اوران سب چیز میں شونو بھی شامل تھا ۔کتنے دنوں کے بعد وہ اس کی میٹھی میٹھی باتیں سن رہے تھے
شاید ماں باپ کے لئے اس سے زیادہ سکون اور کسی چیز میں نہیں ہوتا
°°°°°°
آپ تو مد شے پیال تب اوا (آپ کو مجھ سے پیار کب ہوا) وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹآتے ہوئے پوچھ رہا تھا
ارے میں تو پہلی نظر کی محبت کا شکار ہوں کیسے بتاؤں تمہیں میں نے تو تم سے دوستی بھی اسی لئے کی تھی کہ تمہیں پٹا سکوں
وہ بڑے آرام سکون سے اس کے سامنے بیٹھی اپنے دل کا حال سنا رہی تھی
یار اب تم بھی اظہار محبت کر ہی ڈالو وہ اس کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لئے زمین پر بیٹھی دوسرے ہاتھ سے اسے چاکلیٹ دے رہی تھی جسے تھامنے میں وہ بہت کنجوسی سے کام لے رہا تھا
رویام بالکل بھی ہاں نہیں کرنا یہ رشتے میں تمہاری مامی لگتی ہے کیا تم امی سے شادی کرو گے یارم نے کمرے میں قدم رکھتے شرارت سے کہا
چاکلیٹ کی طرف ہاتھ لے جاتا رویام فوراً رک کر اسے گھورنے لگا
ارے ہم شادی نہیں کریں گے صرف ایک دوسرے کو ڈیٹ کریں گے اور ہر ڈیٹ میں میں تمہارے لئے بہت ساری چوکلیٹ لایا کروں گی اس سے پہلے کے رویام کچھ بولتا پری نے اسے بڑی پیاری سی آفر دے ڈالی
یقیناً رویام کو بے حد پسند آئی تھی
بابا ام شرف ڈٹ پل دائں دے(بابا ہم صرف ڈیٹ پر جائیں گے) ۔اس نے یارم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
ہاں تو ڈیٹ پر صرف کھجور ہی ملے گی چوکلیٹ نہیں یارم نے اپنی ہنسی دبانے تے ہوئے رویام کے ساتھ جگہ بنائی جبکہ روح بھی ان کی نوک جوک انجوائے کرتی یارم کے پاس ہی آ کر بیٹھ گئی
کوئی بات نہیں رویام چوکلیٹ اور کھجور ایک ہی کلر کی ہوتی ہے ۔اور دونوں کا ٹیسٹ بھی بالکل ایک ہوتا ہے میں اپنی ڈیٹ پر چاکلیٹ کے ساتھ ساتھ کھجور بھی رکھ لوں گی تم بس ایک بار ہا تو کرو وہ اس کا ہاتھ بے حدنرمی سے چومتے ہوئے بولی تو رویام کسی چھوی موی ہیروئن کی طرح اپنا ہاتھ چھڑا کر شرما گیا
رویام جانو سائیں کے ساتھ بے وفائی اور کہاں گئی وہ نرس جس پر تم فدا تھے یارم بےحد شرارت سے بولا جس پر پری نے بے یقینی سے رویام کی جانب دیکھا
مطلب مجھ سے پہلے ہی تمہاری گرل فرینڈ ہے تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو ابھی تو اظہار محبت بھی نہیں ہوا اور تم پہلے ہی افئیر چلا کر بیٹھے ہو پری کو دکھ ہوا تھا
وہ شرف میلی دوشت اے(وہ صرف میری دوست ہے )وہ صفائی دیتے ہوئے بولا تو یارم کا بے اختیارقہقہ بلند ہوا اسے پتہ تھا اس کا بیٹا ٹھرکی ہے لیکن اس قدر تیسری گرل فرینڈ کے لیے پہلی دونوں گرل فرینڈ کا پتہ کاٹ گیا
رویام یہ رشتے میں تیری مامی لگتی ہے یارم نے پھر سے یاد دلایا
ارے آپ اپنے منہ بولے رشتوں کے لیے میرا اور رویام کا رشتہ کیوں خراب کر رہے ہیں وہ بیچ میں یارم کو ٹوکتے ہوئے بولی
یہ کوئی منہ بولا رشتہ نہیں بلکہ ایک اصل اور سچا رشتہ ہے آپ کے شوہر میرے بھائی لگتے ہیں روح نے ان کی باتوں میں حصہ لیا تو وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی
دکش نے تو کبھی ذکر نہیں کیا ۔اب وہ مستی چھوڑ کر بالکل سیریس انداز میں بولی تھی
وہ مجھ سے خفا رہتے ہیں ۔ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے سے الگ اور دور رہے ہیں لیکن وقت ہمیں ایک دوسرے کے پاس لے آیا ہے ان شاءاللہ اب ہم دور نہیں ہوں گے روح نے یقین سے کہا تو پر بے ساختہ آمین کہہ اٹھی تھی
آمین ثم آمین اس کا مطلب ہے کہ میرا بوائے فرینڈ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا اس کے انداز میں ایک بار پھر سے شرارتوں ابرآئی وہ سچ میں ایک زندہ دل اور بہت شرارتی لڑکی تھی
یہ بیماری اگر اسے نہ ہوتی تو وہ ایک بے حد خوبصورت زندگی گزار رہی ہوتی
اپنے بھائی کیلئے یہ پیاری سی لڑکی اسے بے حد پسند آئی تھی
ہاں بالکل تم میرے بیٹے کے ساتھ رہ سکتی ہوں لیکن میرے بھائی کو بالکل دھکہ نہیں دے سکتی ۔اس کے اندازسے لگتا ہے کہ وہ تم سے کتنا پیار کرتا ہے ۔
اس نے مسکرا کر اس کے گال کو چھوا تو وہ بے اختیار نظر جھکائی گئی
ان کا تو مجھے نہیں پتا کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں کتنا نہیں لیکن میں رومی کو بہت پیار کرتی ہوں اور میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں
آپ دونوں مل کر میرا یہ کام کروا دیں مجھے کسی بابا کے پاس لے چلیں جو تعویذ وغیرہ دیتے ہو میں اپنے شوہر کی یاداشت بلاکر رویام کو بڑا کر دوں گی اور پھر اس کے ساتھ بھاگ جاوں گی وہاں ہم دونوں شادی کر لیں گے اور
بس کر دو لڑکی ۔۔حقیقت کی دنیا میں لوٹ آؤ میرا بھائی بھی کسی شہزادے سے کم نہیں ہیں روح نے فورا کی سائیڈ لی تھی ۔
انہیں شہزادہ نہیں کچھ اور کہا جاتا ہے رومی بتاؤ ذرا اپنی ماما کو کہ ہم نے دکش کا کیا نام رکھا ہے وہ بہت پیار سے رویام کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
کھلوش یو۔(کھڑوس دو) وہ منہ بناتے ہوئے بتانے لگا تو بے اختیار یارم قہقہ بلند ہوا مطلب کے یہ نام درک کا تھا بالکل اس کی پرسنالٹی پر سوٹ کرنے والا نام تھا ۔
بابا اپ میلی دوشت تو بتا لودے نا اش کھلوش یو شے می لے اپلی دوشت شے پلومش تیا اے اپ اش تو بتاو گے (بابا آپ میری دوست کو بچا لو گے نا اس کھڑس دیوسے میں نے اپنے دوست سے پرامس کیا ہے کہ آپ اس کو بچاؤ گے) اب وہ ساری باتیں بھلائے یارم سے مخاطب ہوا ۔
میں نے تمہاری دوست کو بچا تو لیا لیکن اس کھڑوس دیو سے نہیں بلکہ اس کے کھڑوس دیو کے دشمنوں سے تمہاری بے چاری دوست کے نصیب میں وہی شخص لکھا ہے یارم نے ہنستے ہوئے کہا تو رویام منہ بسور گیا
شاید اسے اپنی دوست کی بدقسمتی کا خیال تھا
جب کہ پری کو تو اس کا یہ انداز بھی بے حد پیارا لگا وہ بے اختیار جھک کر اس کے دونوں گالوں کو چوم گئی اور ہمیشہ کی طرح اس کی یہ حرکت رویام کو آگ لگا گئی تھی
رویام منہ نہیں بناتے میں نے لاسٹ ٹائم کیا سمجھایا تھا دوستی میں یہ آلاؤٹ ہے وہ اس کے منہ بسور نے پر سمجھانے لگی ۔
جبکہ روح اور یارم رویام کے انداز پر ہنسے تھے ۔اس کا بالکل صحیح لڑکی کے ساتھ پالا پڑا تھا
اب وہ کیسے اسے سمجھاتا کہ اسے کس صرف اپنی ماں کا ہی پسند ہے
°°°°°°
وہ لوگ اسے واپس گھر لے آئے تھے فی الحال اسے آرام کی ضرورت تھی وہ بہت کمزور ہوچکا تھا اس کی ہڈیاں پوری طرح سے اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی
اسے اپنے ماں باپ کی بے حد ضرورت تھی یارم کام پر جاتا تھا لیکن بہت کم اس کا زیادہ وقت اپنے بیٹے کے ساتھ ہی گزرتا تھا وہ مشکل میں تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اب یہ مشکل زیادہ دیر تک نہیں ہے
دوسری طرف جب سے جانو سائیں کو یہ پتا چلا تھا کہ رویام کسی اور کے ساتھ پیار محبت کے عہدوپیمان باندھ چکا ہے اس کا دل بری طرح سے ٹوٹ گیا تھا وہ اسے بے وفائی کا لقب بھی دے چکی تھی
روز وہ دو تین گھنٹے اس سے بات کرتی تھی بس وہ روٹھی بیٹھی رہتی اور رویام اسے مناتا رہتا
دائم سائیں نے تو رویام کے سامنے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اب رویام کے اس طرف کوئی چانس نہیں ہے اب وہ اپنی جانوسائیں کو خود پٹا لے گا
لیکن دائم بیچارے کو کون سمجھائے کہ جانو سائیں کے دل میں تو رویام بستا تھا
جس سے وہ بے حد محبت کرتی تھی
وہ دو تین گھنٹے ایک دوسرے سے کونسی باتیں کرتے تھے کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی بس سارا دن یارم کی موبائل کی شامت آئی رہتی
یہاں وہ جانو سائیں سے کھلم کھلا اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا اور وہاں پری یارم کا نمبر لے چکی تھی رویام سے باتیں کرنے کے لئے
پہلی بار پری کو دیکھتے ہی رویام کو جانو سائیں کی یاد آئی تھی اور اس نے اسے اسی نام سے بلایا تھا لیکن اب جب اس کی جانو سائیں پری کی وجہ سے اس سے روٹھنے لگی تھی تو اسے پری بالکل اچھی نہیں لگتی تھی
اور کل فون پر اس نے پری کو کہہ دیا تھا کہ تم اپنے (کھلوش یو)کھڑوس دیو کے ساتھ رہو مجھے میری جانوسائیں بہت پیاری ہے جو اس کی محبت ہی نہیں بلکہ کا فرسٹ لو کرش بھی ہے
اس کو پتا تو نہیں تھا فرسٹ لو کرش کیاہوتا ہے لیکن یارم کے کہنے پر وہ بول گیا تھا
ان کی باتوں پر پری کا معصوم سادل ٹوٹ گیا
اور اس کے جھوٹ موٹ کے رونے پر رویام نے اس پر ترس کھاتے ہوئے اسے چھوٹا سا آئی لو یو بول ہی ڈالا
روح اور یارم تو اپنے بیٹے کی یہ فین فولونگ دیکھ کر پریشان تھے روح کس کس کو بہو بناتی اچھی خاصی کنفیوز تھی ۔
جب کہ یارم تو اپنے بیٹے کی ٹھرکیاں دیکھ کر یہ سارے کام تو یارم نے خود کبھی زندگی میں نہیں کیے تھے جو اس کا بیٹا صرف ڈھائی سال کی عمر میں کر رہا تھا
°°°°°°
اگلے ہفتے روح کی سالگرہ تھی جسے یارم ہر سال کی طرح اس سال بھی بہت دھوم دھام سے منانے والا تھا اسی سلسلے میں اس نے سب لوگوں کو کام پر لگایا ہوا تھا
سب لوگ ہی اس کی سالگرہ کی تیاری میں بے حد مصروف تھے
جبکہ روح ہر چیز سے بے خبر اپنے بیٹے کی خواہشات پوری کرنے میں مصروف تھی اس وقت وہ اس کے لیے چوکلیٹ کیک بنا رہی تھی چوکلیٹ کا تو وہ دیوانہ تھا
اسی چوکلیٹ سے بنی ہر چیز پسند تھی اور روح کو اپنے بیٹے کی ہر خواہش پوری کرنی تھی
آخر اس کا بیٹا موت کے منہ سے واپس آیا تھا اب تو وہ اس کی کسی بھی خواہش کو ٹال ہی نہیں سکتی تھی اس کا بس چلتا تھا پوری دنیا اٹھا کر اس کے پیروں میں رکھ دے
ماں تھی اللہ نے جتنا بس میں دیا تھا وہ کر رہی تھی
وہ کاؤنٹر پر بڑے مزے سے کھڑا چاکلیٹ کا پیس اپنے منہ میں ڈالے شونو سے باتیں کرنے میں مگن تھا ۔
جبکہ روح بڑے مزے سے اس کے لئے کیک بنارہی تھی دھیان اسی کی جانب تھا اس کی باتوں پر مسکراتے ہوئے وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب آہستہ سے یارم نے پیچھے سے آ کر اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا اور ساتھ ہی اس کے گالوں کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے اس کی گردن پر جھکا تھا
یارم کیا کر رہے ہیں آپ اس کا لمس آپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے ہونٹوں سے اس کا ہاتھ ہٹا کر پوچھنے لگی
خاموش رہو ابھی تمہارا بوڈی گارڈ سن لے گااور پھر اس کا سوال ہوگا بابا آپ میری ماما کے پیچھے کھڑے کیا کر رہے ہیں وہ رویام کی نقل اتارتے ہوئے اس کی گردن پر لب رکھ چکا تھا
ہاں تو میرا سوال بھی یہی ہے آپ میرے پیچھے کھڑے کیا کر رہے ہیں جائے کمرے میں فریش ہو کر آئے اس کے انداز پر مسکراتے ہوئے روح بھی بے حد مدہم آواز میں بولی تھی
یار پیار تو کرنے دو تمہارے باڈی گارڈ کا بس چلے تو مجھے تمہارے قریب بھی نہ بھٹکنے دےاس کے لبوں کو چومتا وہ بہت محبت سے بولا تھا
یارم آپ کیا کر رہے ہیں رویام دیکھ لے گا وہ اسے پیچھے ہٹآتی ہوئی سمجھانے لگی
لیکن اس بار رویام کی نظر اس پر پڑہی گئی جو پتا نہیں کس بات کو لے کر روح سے سوال کرنے لگا تھا
اپ میلی ماما تے پاش تیا تر رے او(آپ میری ماما کے پاس کیا کر رہے ہو) اس کا سوال بالکل یارم کی سوچ کے مطابق تھا
بس تیری ماں نہیں ہے میری بیوی بھی ہے یارم فوراً جواب دیتا روح کی طرف متوجہ ہوا
ماما اپ صرش ریام تی او نہ (ماما آپ صرف رویام کہ ہونا) وہ بے حد معصوم سی شکل بنا کر ،پوچھنے لگا تو روح نے فوراً اس پر پیار آیا
ہاں میری جان ماماصرف رویام کی ہے وہ اس کا گال چومتے ہوئے بولی تو رویام نے شرارتی سی ایک نظر یارم پر ڈالی جیسے کہہ رہا ہوں اب خوش ہو گئی تسلی یارم نے گھور کران ماں بیٹے کی جوڑی کو دیکھا
یہاں کھڑے رہنا ہی بیکار ہے جا رہا ہوں میں فریش ہونے وہ منہ بنا کر کہتا فریش ہونے چلا گیا کے پیچھے سے اسے رویام کی جیت سے بھرپور کھلکھلاہٹ کی آواز آئی تھی وہ اختیار مسکرایا
اس کا ننھا شہزادہ اسے ہرا کر خوش ہوتا تھا جب اس کی ماں اپنی بھرپور محبت کا اظہار صرف اس کے لئے کرتی تھی
°°°°°°
شام کے وقت ساری بچہ پارٹی یارم کے گھر پر موجود کی روح ان سب کے لیے سینیٹ بنا رہی تھی جب کہ وہ پانچوں سرجوڑے پتہ نہیں کون سی باتوں میں مصروف تھے
بس اتنا پتا تھا کہ اندر ہی اندر کوئی پلاننگ چل رہی ہے جس میں روح کو شامل نہیں کیا جا رہا
لیکن روح کو ان سب چیزوں سے فرق پڑتا تھا وہ تو بچوں کی پسند کی چیزیں بنا کر باہر لان میں لے آئی
جہاں وہ سارے کھیل میں مصروف تھے
لیلیٰ عنایت اور مہر کو واپس لے آئی تھی اور اب وہ انہی کے ساتھ رہتی تھی
لیلیٰ بہت خوش تھی جبکہ معصومہ کے دوسری بار پریگنیٹ ہونے پر ان کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا
مشارف نے کہا تھا کہ اس بار اسے بہن چاہیے اور ایسا ہی کچھ معصومہ اور شارف کی بھی خواہش بھی ہے باقی اب جیسا اللہ کو منظور
جبکہ رویام کو جب سے پتہ چلا تھا کہ بہن بھائی گال پر کس کرتے ہیں اسے بہن بھائی بالکل اچھے نہیں لگتے تھے وہ تو پہلے بھی عنایت مہر اور مشارف سے اچھا خاصہ تنگ تھا اسے کس صرف اپنی ماں کا ہی پسند تھا اسے تو اپنے باپ کی چبتی ہوئی داڑھی مونچھ پسند نہیں تھی بہن بھائی کی کہاں سے پسند آتی
اس لیے اسے بہن بھائی کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کی ۔
اور روح اور یارم کے لیے بھی اب رویام ہی کافی تھا وہ اسی کے ننھے وجود پر اپنی ساری خوشیاں خواہشات لوٹاتے تھے
°°°°°°
ایک ہفتہ بے حد تیزی سے گزرا تھا
وہ گہری نیند میں سو رہی تھی جبکہ رویام اس کی باہوں میں گہری نیند میں تھا یارم کا وجود اسے بیڈ پر بالکل برداشت نہ ہوا اسی لئے یارم صوفے پر سو رہا تھا
بارہ بجتے ہی یارم نے آہستہ سے اپنی چادر خود سے ہٹاتے ہوئے بیڈ جانب قدم بڑھائے
بے حد نرمی سے اس نے روح کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے گال پر جھک کر پیار کیا
سالگرہ مبارک ہو میرا بچہ وہ اسے ہاتھ کے اشارے سے اٹھنے کا کہتا دوسرے کمرے میں بلا رہا تھا اس نے مسکرا کر اسے دیکھا
اسے تو بالکل یاد بھی نہیں تھا کہ اس کی سالگرہ ہے یقیناً وہ سب اتنے دنوں سے اسی چیز کی پلاننگ کر رہے تھے
اس نے بے حد نرمی سے رویام کو بیڈ پر سیدھا کیا اور باہر کی جانب ائی جہاں شانو اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے گلے میں ایک کارڈ لکھا ہوا تھا جس پر ہپی برتھ ڈے روح لکھا تھا
میرا پیارا بےبی تھینک یو سو مچ وہ اس کے بال سہلاتی بہت محبت سے بولی تھی جب کہ شونو رویام کے پاس جا چکا تھا کہ وہ روح کی غیر موجودگی میں اس کا خیال رکھ سکے
یارم اسے گھر کے دوسرے بیڈروم میں بلا رہا تھا
°°°°°
اس نے کمرے میں قدم رکھا تو کمرے کو بے حد خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے
کمرے کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی ٹیبل تھی اور اس ٹیبل پر رکھا ہوا ایک کیک
جس پر بہت خوبصورتی سے روح یارم لکھا تھا
ہیپی برتھ ڈے میرا بچہ اللہ تمہیں زندگی کی ہر خوشی دے وہ اس کا ماتھا چومتا اسے اپنی باہوں میں لے لئے بہت محبت سے بولا تھا روح نے آہستہ سے اس کے سینے پر اپنا سر رکھا
تھینک یو سو مچ یارم اس نے مسکرا کر کہا تو یارم نے اس کے دونوں بازو تھامتے اسے خود سے الگ کیا
یہ تھینک یو سو مچ کا کیا میں اچار ڈالو کا مجھے نہیں چاہیے مجھے تو کچھ اور چاہیے اور اس کے لبوں کو اپنی انگلی سے سہلاتا اسے نظر جھکانے پر مجبور کر گیا
کب سدھریں گے آپ یارم وہ اسے خود سے ذرا دور کرتے ہوئے کہنے لگی تو یارم نے ایک ہی جھٹکے میں اس سے آپنے بے حد قریب کر لیا
جب تک تم یوہی پاگل کرتی رہوگی تب تک تو میرے سدھرنے کے کوئی چانس نہیں ہیں وہ نرمی سے اس کا چہرہ تھا میں اس کے لبوں پر جھکا تھا
اس کے لبوں پر اپنے لبوں لگاتا وہ اس کی اور اپنی سانسیں ایک کرنے لگا
روح خاموشی سے اس کا لمس اپنے لبوں پر محسوس کر رہی تھی
وہ بہت نرمی سے اس کے لبوں کو چوم رہا تھا جب روح نے ذرا سا فاصلہ بنایا
آپ یہاں مجھے میری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کے لئے لائے ہیں یا اپنی تیشنگی پوری کرنے وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی تو یارم اس کی کمر میں ہاتھ ڈالنے سے بےحد قریب کرتا ایک میٹھی سی جسارت اس کے لبوں پر پھر سے کر گیا
لایا تو تمہیں تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کے لئے ہی ہوں
لیکن تھوڑا بہت پیار کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں اور ویسے بھی برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے کے بعد کا بھی انتظام میں نے پورا کر رکھا ہے وہ بیڈ کی طرف اشارہ کرنے لگا جہاں بےحد پھولوں کی پتیوں کے بیچ ان دونوں کا نام لکھا تھا
روح نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے دیکھا جب کہ یارم اس کے ہاتھ میں چھری پکڑاتا اسے آہستہ سے ٹیبل کے قریب لے آیا
یقین کرو یہ تمہارے ہونٹوں سے زیادہ میٹھا تو نہیں ہوگا لیکن برتھ ڈے تو منانا ہے تبھی تو کچھ اور نصیب ہوگا
وہ بے حد شرارتی انداز میں کہتا ہے اس کے پیچھے کھڑا ہو کر کیک کاٹنے لگاروح نے ہنستے ہوئے کیک پر چھری چلائی اور کیک کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اسے کھلانے لگی جسے یارم نے صرف اپنے لبوں سے چھوا تھا
سچ تھا اسے میٹھے میں صرف روح کے لب ہی پسند تھے
وہ کیک کا ٹکڑاروح کو کھلا کر ایک بار پھر سے اس کے لبوں پر جھکا تھا
وہ خاموشی سے اس کا لمس محسوس کرتی اس کی گردن میں باہیں ڈالے اپنا آپ اس کے حوالے کر چکی تھی
اس کا نازک سا وجود اپنی باہوں میں اٹھائے وہاسے بیڈ پر لے آیا
اگر تمہارا بیٹا یہاں پر ہوتا نا تو پوچھتا میری ماں آپ کی باہوں میں کیا کر رہی ہے ۔اس نے تو بالکل تمہیں اپنا ہی بنا لیا ہے ۔پتہ نہیں کب ہو گا وہ پانچ سال کا کہ میں اسے اس کے روم میں رخصت کروں گا اس کے ہونٹوں کے بعد اس کی گردن کو چومتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو قید کئے وہ اتنی بے بسی سے بولا روح کی ہنسی چھوٹ گئی
بس کریں یارم کتنا جلیں گے میرے بیٹے سے اس نے ہنستے ہوئے کہا تو یارم نے اسے گھور کر دیکھا
ہاں صرف تمہارا ہی بیٹا ہے نہ میرا تو کچھ لگتا ہی نہیں اس کی شہ رگ کو چومتے ہوئے وہ بہت پیار سے بولا روح نے اس کے انداز میں رویام کے لئے بے حد محبت محسوس کی تھی
اور اب وہ اور کیا کہتی اس کی باہوں میں بھی پل پل پگھلتی وہ اس کی محبت کی شدت کو محسوس کر رہی تھی لمحہ لمحہ اسی کی ہو رہی تھی
وہ ہر گزرتے پل کے ساتھ اسے اپنی محبت کا احساس دلاتا اس کی ایک ایک دھڑکن پر اپنا نام لکھ رہا تھا وہ اسے خود میں قید کر چکا تھا
اور روح اس کی محبت کی قیدی کی اس کی پناہوں میں سمٹتی اس کی محبت کو محسوس کر رہی تھی ۔
جو اس کی ایک ایک سانس کا مالک تھا
وہ نہا کر باہر نکلی تو رویام بیڈ پر بیٹھا اپنی آنکھیں مسل رہا تھا یقیناًابھی ابھی ہی جاگا تھا
جاگ گیا میرا بچہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے روح بہت محبت سے بولی رویام اپنے دونوں بازو اس کی طرف اٹھاتا اس کی گود میں آ چکا تھا
جبکہ یارم بیڈ پر گہری نیند میں تھا
بابا گندا بےبی تو لیت داگتا اے وہ اتھا بےبتہ نی اوتا نہ ماما (بابا گندا بے بی جولیٹ جاگتا ہے وہ اچھا بچہ نہیں ہوتا نہ ماما) وہ یارم کو دیکھتے ہوئے روح سے پوچھنے لگا
جبکہ اسےگندا بےبی کہنے پر روح کو ہنسی آئی تھی
ہاں بالکل بھی اچھے بچے نہیں ہیں وہ وقت پر نہیں جاگ سکتے جو جلدی جاگتا ہے وہ ونر ہوتا ہے جیسے میرا رویام ونر ہے
وہ اسے فریش کرنے کے لیے واش روم میں لے جاتے ہوئے بولی
تو رویام کے ڈمپلز خوشی سے کھل گئےبتھے
ماما اد اپ تا بڈےاے نا (ماما آج آپ کا برتھ ڈے ہےنا )وہ اپنے چھوٹے چھوٹے موتیوں جسے دانتوں میں برش کرتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگاروح نے حیرت سے اسے دیکھا تھا بھلا اسے کیسے پتہ کہا جس کا برتھ ڈے ہے
آپ کو کس نے بتایا روح حیرت میں گھیری اس سے پوچھنے لگی
تل باباشالف تاتوکوبل لےتے۔بت بالی پاتی او دی۔شب لود آیں دے اول توکلٹ ٹیک بی ہو دا۔می نے شوتا تا می آپ تو بتوں دا فیر می بھل دیا(کل بابا شارف چاچو کو بول رہے تھے کہ بہت بڑی پارٹی ہوگی سب لوگ آئیں گے اور چوکلیٹ کیک بھی ہوگا میں نے سوچ لیا تھا آپ کو بتاوں گا لیکن پھر میں بھول گیا )
وہ اپنی ماں کے اچھے بچے کی طرح اپنے بابا کی ساری باتیں اسے بتاتا تھا لیکن اتنی اہم بات وہ اسے بتانا ہی بھول گیا تھا
لیکن اچھا ہی ہوا ورنہ یارم کی پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ۔
یارم اسے خبری کہتا تھا تو غلط نہیں تھا لیکن وہ جھوٹ نہیں بولتا تھا جو دیکھتا وہی بتاتاوہ بھی صرف روح کو
وئی بات نہیں میری جان آپ نے اب بتا دیا یہی بہت ہے وہ اسے نہلانے کے لئے اس کے کپڑے اتارتے ہوئے بولی
ماما ریام تو شم آتی اے ریام مام تے شامے نائی نائی نی ترے دا (ماما رویام کو شرم آتی ہے۔رویام ماما کے سامنے نائی نائی نہیں کرے گا) اس کے ہاتھ اپنے کپڑوں پر دیکھ کر رویام اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بےحد معصومیت سے بولا
رویام کو ساری رات شرٹ اتار کر سوتے ہوئے شرم نہیں آتی
اور نہ ہی جانوسائیں اور پری کے ساتھ فلرٹ کرتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے
لیکن ماما کے سامنے نائی نائی کرتے ہوئے شرم آ رہی ہے ۔وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو رویام اپنی آنکھوں سے ہاتھ بٹاتا شرارت سے کھلکھلایا
نی ریام تو شم نی ْتی ریام تقو مجاک کل لا اے(نہیں رویام کو شرم نہیں آتی رویام تو مذاق کر رہا ہے) وہ بے حد پیارے سے انداز میں بولا تو روح نے ہنستے ہوئے بے بی شیمپو نکالا
وہ تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتی تھی کہ آخر وہ اتنی ساری باتیں لاتا کہاں سے تھا ۔دن رات اس کے سامنے جو بھی باتیں ہوتی تھی وہ بھولتا نہیں تھا اور پھر بعد میں کسی نہ کسی طرح سے ان کو استعمال بھی کرتا تھا
وہ کوئی بھی چیز بہت جلدی سیکھ جاتا تھا یقینا بڑا ہو کر وہ ایک بہت ہی ہوشیار اور ذہین بچا ہوگا ۔
روح جب بھی اس کی ذہانت دیکھتی تھی اس کی نظر اتارنا نہ بھولتی یارم کے مطابق تو اب اسے اسکول میں بھی داخل کروا دینا چاہئے تھا کیونکہ وہ بہت ہوشیار تھا آسانی سے سکول ہینڈل کر سکتا تھا اس کی بیماری کا پتہ چلنے سے پہلے یارم روح کو سکول کے لیے منا بھی چکا تھا
لیکن بیماری کے بعد اب روح نے پھر سے منع کردیا تھا وہ اتنی جلدی اس پر کسی قسم کا کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی ہاں لیکن اگر وہ ایک گھنٹے کے لئے پلے کلاس میں جاتا ہے تو اسے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا
اور خاص کر جب یارم نے یہ بتایا تھا کہ پلے کلاس میں قرآن پاک اور نماز کی تعلیم دی جاتی ہے تو روح نے فورا ہی ہاں کردیا
اور اب تو وہ اگلے ہفتے سے جوائن بھی کرنے والا تھا
اسے اچھے سے نہلا دھلا کر باہر آئی اور اب اس کے لیے اپنی پسند کے کپڑے نکال کر اسے تیار کرنے لگی
جس کے رویام چھوٹی سی نکر پہنے اب یارم کے اوپر چڑھا اس گندے بچے کو جگانے کا کام کر رہا تھا
ات داو گندے بتے کیتا شوتے او بیٹ مرررز دیتو ریام کیتا اتا بتہ اے وہ دلدی دگ کر بش کتا اے)
اٹھ جاؤ گندے بچے کتنا سوتے ہو بیڈ مینرزدیکھو رویام کتنا اچھا بچہ ہے وہ جلدی جا کر برش کرتا ہے )
وہ اس کی پیٹھ کی سواری کرتا اسے ہر ممکن طریقے سے جگانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شاید جانتا نہیں تھا کہ اس کا باپ بھی اسی کی طرح پورا ڈھیٹ ہے
روح بھی چاہتی تھی کہ اب یارم جاگ جائے اسی لیے وہ رویام کو بالکل بھی اسے تنگ کرنے کے لئے منع نہیں کر رہی تھی
کیسے وہ ساری رات اسے جگا کے خود مزے سے سو رہا تھا یہ تو روح کے ساتھ واقعی بہت بڑی ناانصافی تھی
آج میرا بیٹا یہ پنک والی شرٹ پہنے گا اور رات پارٹی کے لیے یہ یلو والی وہ ایک شرٹ کو نکال کر باہر لاتے یلکو وہی جو رکھ آئی تھی
ماما پلی تو پھون رر تے بولونہ آد رت املے در می پاتی اے ال توکلت ٹیک بی اے اول می اس تو بی دوں دا (ماما پری کو فون کر کے بولو نہ آج رات ہمارے گھر میں پارٹی ہے اور چوکلیٹ کیک بھی ہے اور میں اس کو بھی دوں گا) اب وہ یارم کی پیٹھ پر سیدھا ہو کر لیٹا اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھے فلل ریلکس انداز میں روح کو آرڈر جاری کرچکا تھا
بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو آپ کے ماموں کو بھی بلانا ہے ان کو بھی تو انویٹیشن دینا ہوگا وہ فون اٹھاتی بیڈ پر ہی بیٹھ گئی
جب کہ رویام روح کی بات کو شاباشی کے طور پر لیتا خوش ہوا تھا
ہیلو اس نے فون کیا جب دوسری طرف سے درک کی آواز آئی
درک بھائی میں روح بات کر رہی ہوں آج رات میری سالگرہ ہے اور آپ پری کو لے کر پارٹی میں ضرور آئے گا ویسے تو پری کو کل ہی شارف بھائی خود ہی انوائٹ کر چکے ہیں لیکن آپ کو بھی انوائٹ کرنا تھا اسی لیے میں فون کر رہی ہوں وہ اس کی سنے بغیر اپنی کہنے لگی
میں نہیں آ سکتا اور نہ ہی اس طرح کے فصول قسم کی پارٹیز میں مجھے انٹرسٹ ہے وہ بے حد سرد انداز میں بولا لیکن روح کو بالکل اثر نہ ہوا
ایسے کیسے نہیں آسکتے آپ کو آنا ہوگا اگر آپ نہیں آئے تو میں کیک نہیں کاٹوں گی وہ ضدی انداز میں بولی
تمہارا برتھ ڈے تمہارا کیک تم کاٹو یا نہ کاٹو مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ اسی لہجے میں بولا
ارے ایسے کیسے فرق نہیں پڑتا فرق تو آپ کو پڑنا چاہیے اور فرق پڑے گا میں پہلے بول رہی ہوں آپ اگر نہیں آئیں گے تو میں کیک نہیں کارٹوں گی
اس کے انداز میں ایک مان تھا ایک ضد تھی جو بہنیں اپنے بھائیوں سے کرتی تھی
وہ نہیں جانتی تھی اس کا یہ مان یہ ضد دوسری طرف موجود روک بھی محسوس کر رہا ہے یا نہیں لیکن وہ اپنے بھائی کو یہ مان دینا چاہتی تھی کہ اس دنیا میں اس کے پاس ایک رشتہ ہے
وہ فون بند کر چکا تھا روح نے ناراضگی سے موبائل کو گھورا
ایسا کون کرتا ہے کم از کم خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیتے اور نہیں تو مجھے برتھ ڈے ہی وش کر دیتے وہ منہ بنا کر موبائل ایک طرف رکھتی رویام کو دیکھنے لگی لیکن نظریں ئارم کی کھلی ہوئی آنکھوں پر پڑی
یارم یہ میرے لئے بہت مشکل ہے وہ اس کے پاس لیٹتے ہوئے بے حد اساسی سے بولی تو یارم ہلکا سامسکرایا
اس دنیا میں کچھ بھی مشکل نہیں ہے روح اور رشتوں کا احساس دلانا ہرگز نہیں تم اپنی کوشش جاری رکھو آج نہیں تو کل وہ تمہاری محبت کو ضرور قبول کرے گا یارم نے کہتے ہوئے ایک جھٹکے سے رویام کا بازو پکڑا اور اسے اپنے پیٹھ سے نیچے کرتے ہوئے اپنی باہوں میں دبوچ کر اپنی داڑھی چھبونے لگا
یا رم میرے معصوم بچے نے کیا بگاڑا ہے آپ کا رویام کے چلانے پر روحاسے چھڑانے لگی
میں بھی کسی کا معصوم بچہ ہوا میں نے کیا بگاڑا ہے تم ماں بیٹے کا اور میری پیٹھ کیا اسے گھوڑے کی سواری لگتی ہے جو آرام فرما رہا تھا
یارم اس کو بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اپنے جارحانہ انداز میں اسے پیار کرتا ہوااس کے گال سرخ کرچکا تھا جبکہ روح اپنے معصوم بچے کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر چکی تھی
ماما بتاو ماما بتاو(ماما بچاؤ ماما بچاؤ )ہر تھوڑی دیر کے بعد رویام کی بس اتنی ہی آواز نکلتی اور پھر وہ یارم کے شکنجے میں آ جاتا
روح بہت کوشش کے باوجود بھی سے بچا نہیں پائی تھی
یہاں تک کہ رویام کو بچانے کے لیے اس نے یارم کے بازو پر کاٹ بھی دیا تھا
لیکن یارم اپنے بازو پر زخم دیکھتا ہوا بس اتنا کہہ گیا تمہیں تو میں رات کو دیکھوں گا اور ایک بار پھر سے اپنے بازوؤں میں مچلتے رویام کی جانب متوجہ ہو گیا جب رویام تھک ہار کر رونے لگا تو وہ اس کے پیٹ میں گدگدی کرتا اسے پھر سے کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کر گیا
جتنا وہ اس کے جارحانہ پیار سے چڑتا تھا یارم کو اس سے پیار کرنے میں اتنا ہی مزا آتا تھا
اور وہ جانتی تھی کہ چاہے وہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلے یارم نے نہ تو اپنا انداز بدلنا تھا اور نہ ہی رویام نے اس سے چڑنا چھوڑنا تھا
°°°°°°
سب کو ہی پتہ چل گیا تھا کی روح جان چکی ہے کہ آج اس کا برتھ ڈے ہے اسی لئے اب ساری پلاننگ اس کے سامنے ہی ہو رہی تھی
لیکن کتنے مزے کی بات تھی وہ اس کی سالگرہ کی تیاری کر رہے تھے اور اسے بالکل اہمیت نہیں دے رہے تھے
کچن میں آج لیلیٰ اور معصومہ کا قبضہ تھا کیونکہ برتھڈے گرل کو کام کرنے کی بالکل اجازت نہیں تھی
اور اگر یارم کے سامنے وہ ہاتھ پیر ہلاتی تو اس نے سب کے سامنے اسے ڈانٹ دینا تھا پر روح اس کی ڈانٹ نہیں کھانا چاہتی تھی کیونکہ وہ ہر روز رویام کے سامنے اسے ڈانٹ کر یہ کہتی تھی کہ اس کی ماں اس کے باپ کو بھی ڈانٹ سکتی ہے اور یارم کی ڈانٹ رویام کے سامنے کھا کر اپنا ایمج خراب نہیں ہونے دے سکتی تھی
دوپہر کے وقت جب پری نے ان کے گھر میں قدم رکھا تو روح کو ایک امید تھی کہ وہ بھی اندر آئے گا لیکن جب پری نے یہ بتایا کہ ڈرائیور کے ساتھ آئی ہے تو وہ ایک بار پھر سے دل مسوس کر رہ گئی
ہاں لیکن رویام پری کے آ جانے سے بہت خوش ہو گیا تھا
پری نے اسے بتایا تھا کہ اس نے درک کو چلنے کے لیے کہا ہے لیکن درک نے ا سے اجازت دے دیں یہی بہت ہے اس کا یہاں آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے کسی دوست کی پارٹی میں آج کلب میں گیا ہوا ہے
مطلب صاف تھا کہ اس کا وہ دوست روح سے زیادہ اس کے لئے عزیز تھا
وہ ایسا ظاہر کرنا چاہتا تھا لیکن اس پر ایسا ظاہر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا
اس نے پری کو کہہ کر بھیجا تھا کہ روح کو بتا دینا کہ وہ اپنے دوست کی پارٹی میں گیا ہے اگر روح درک کے لیے اہمیت نہ رکھتی تھی تو وہ پری کو یہ کہہ کر کیوں بھیجتا کہ" روح کو بتا دینا "مطلب کے کہیں نی کہیں تو اس کے اندر بھی جذبات تھے وہ اپنے جذبات کو کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا وہ ہارٹ لیس نہیں تھا بس خود کو ہارٹ لیس بنانا چاہتا تھا
°°°°°°
اس نے پری کو فون کرکے بتایا تھا کہ وہ بہت لیٹ آئے گا
اور وہ خود اسے لینے آئے ڈرائیور نہیں اور اسے گھر کے باہر آنے کے لئے فون کرے گا تو پری خاموشی سے گھر سے باہر آ جائے کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ باہر سے لینے کون آیا ہے لیکن گھر کے باہر پہنچ کر اس نے پہلے وقت دیکھا رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے محفل ختم ہو چکی تھی اور اس کی سالگرہ بھی
وہ اس پر یہ ظاہر کرنے میں کامیاب رہا تھا کہ روح کا ہونا نہ ہونا اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا
اس نے دو تین بار پری کو فون کیا تو اس نے فون نہیں اٹھایا کچھ سوچ کر اس نے اپنے قدم گھر کے اندر کی جانب بڑھائے تو گھر میں خاموشی تھی
اسے دیکھتے ہی شونو بھاگ کر اس کے پاس آ گیا تھا
جبکہ ساتھ ہی اس کے آگے آگے چلتا اسے روم میں لے آیا
وہ سب لوگ خاموشی سے بیٹھے تھے عجیب سکوت تھا سب نے اسے دروازے پر کھڑا دیکھا تھا
ٹیبل پر بڑا سا کیک رکھا گیا تھا جیسے ٹچ بھی نہیں کیا گیا تھا تقریبا سبھی بچے سو رہے تھے اسے دیکھتے ہی روح کے چہرے پر ایک رونق سی آ گئی تھی وہ اداسی کہیں چھپ گئی تھی
اتنی دیر لگا دی آنے میں میں نے کہا تھا نہ جب تک آپ نہیں آؤ گے میں کیک نہیں کاٹوں گی مجھے پورا یقین تھا آپ ضرور آئیں گے آپ کی بہن کی سالگرہ ہو اور آپ نہ آئے ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ اس کا ہاتھ تھامیں اس کے سینے سے آ لگی
وہ چاہ کر بھی اسے خود سے دور نہیں کر پایا تھا
ہاں لیکن بے حد سرد لہجے میں بولا میں صرف یہاں پری کو لینے آیا تھا کسی کی سالگرہ منانے کے لیے نہیں
اور اگر تم میرا ویٹ کر کے اپنی سالگرہ کا دن خراب کر چکی ہو تو تم نے بہت غلط کیا ہے تمہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا میرے لیے یہ ساری باتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تم پتھر پر سر مار کر اپنا ہی سر زخمی کر رہی ہومیرے نزدیک یہ سب باتیں صرف بچپنا ہے روح
میں نہ کل تم سے کوئی رشتہ رکھنا چاہتا تھا نہ ہی آج رکھنا چاہتا ہوں
میں تم سے صرف اس لئے ملنا چاہتا تھا کہ میں تمہیں تمہاری ماں کی کچھ چیزیں لوٹآنا چاہتا ہوں
لیکن خضر نے مجھے یہ کہہ کر تم سے دور کر دیا کہ تم اپنے باپ کے قاتل سے ملنا کبھی بھی پسند نہیں کروں گی میرے دل میں تمہارے لیے کچھ نہیں تھا روج کبھی بھی نہیں میں کبھی بھی تمہارے ساتھ بھائی بہن کا رشتہ نبھانا نہیں چاہتا تھا میں تو کسی سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتا اس دنیا میں میرا بس ایک ہی راستہ ہے
اور وہ رشتہ پری سے ہے باقی مجھے دنیا کے کسی شخص سے کوئی مطلب نہیں
چلو پری وہ بے حس بنا اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہنے لگا
پری کو اس کا انداز بہت بُرا لگا
ایکٹنگ بہت اچھی کرتے ہیں آپ کیا خیرکیک کاٹنے تک بھی نہیں رکیں گے میں صرف آپ کا انتظار کرتی رہی کیا آپ میرے لئے اتنا بھی نہیں کریں گے اس کا انداز اتنا معصومانہ تھا کہ وہ چاہ کر بھی پیرآگے نہ اٹھا سکا
فائن اگر یہ تم نے میرے لیے کیا ہے تو میں کیک کاٹنے تک تمہارے لئے یہاں رک سکتا ہوں لیکن اس کے بعد تم اپنی یہ بے جا ضد چھوڑ کر اپنی زندگی میں آگے بھڑہو گی وہ اس کی بات مانتے ہوئے کہنے لگا اور اس کے بعد بھی وہ کہتا تھا کہ وہ روح کے لیے جذبات نہیں رکھتا صرف روح کی اداسی کے لیے وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہوگیا تھا
بہت کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو وہ ظاہر نہیں کر پاتا تھا جو کرنا چاہتا تھا روح کے چہرے کی مسکراہٹ یارم نے اندر اپنے دل میں بسائی تھی
سب کی موجودگی میں کیک کاٹا اور ہمیشہ کی طرح ہاتھ یارم کی جانب بڑھا نے لگی لیکن یارم نے اشارے سے اس سے کیک درک کی طرف بڑھا نے کے لئے کہا تو بےساختہ ہی وہ ہاتھ پلٹ کر اچانک اس کی منہ کے قریب کیک پیس لے آئی اور بنا اس کی مزاحمت کی پرواہ کیے کہ پیسہ اس کے لبوں سے لگایا
وہ نا چاہتے ہوئے بھی مجبور ہوگیا تھا
اس نے اسے گفٹ دیا تھا اس کی ماں کا لاکٹ
روح بے حد خوش تھی آج کی اس برتھ ڈے پر اس کے خونی رشتے بھی شامل تھے
پارٹی ختم ہوتے ہی وہ اپنے آپ پر پھر سے سخت خول طاری کرتا پری کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا لیکن روح بہت خوش تھی اور اس کی خوشی کی وجہ یارم بہت اچھے سے جانتا تھا
کیک کاٹنے کے انتظار میں رویام صرف چاکلیٹ کھا کر گہری نیند اتر چکا تھا اس کا روح کو بہت افسوس تھا
اس لئے وہ صبح ہی اس کے لیے کیک بنانے کا ارادہ کر چکی تھی
°°°°°°
اس کے سینے پر سر رکھ درک کو ہی سوچ رہی تھی اسے اب سمجھ چکی تھی کہ وہ ویسا نہیں ہے جیسا خود کو ظاہر کرتا ہے
اور وہ دن دور نہیں جب درک بھی اسے اپنی بہن مان کر اس کے اس حسین رشتے کو قبول کرے گا
اور وہ قبول کرتا تھا وہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھتا آج جانے سے پہلے وہ اسے اس کی ماں کا ایک چاندی کا لاکٹ دے کر گیا تھا
اور اسے بتایا تھا کہ یہ اس کی ماں کا ہے روح کتنی خوش تھی اسے پا کر صرف وہی جانتی تھی اس کے پاس اپنی ماں کی کوئی چیز نہیں تھی لیکن آج درک کی وجہ سے اسے اپنی ماں کا لمس بھی محسوس ہوا
جب کہ اس کی خوشی کو محسوس کرکے یارم بھی بے حد خوش تھا بھائی جیسا بھی ہوتا تو بھائی ہے اور یہ رشتہ ایک بے حد حساس رشتہ ہے بھائی چھوٹا ہو یا بڑا لیکن بہن اپنے آپ کو اس کے ہوتے ہوئے محفوظ اور مضبوط محسوس کرتی ہے
خضر اور شارف نے کبھی اسے بھائی کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی لیکن درک کے آجانے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اور زیادہ مضبوط محسوس کرنے لگی تھی
وہ اپنی ہی سوچوں میں ڈوبی کب سے اپنے بالوں پر اس کا لمس محسوس کر رہی تھی اس کے ہاتھ روکے تو بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی
کتنے جلتے ہیں نا آپ مجھے سوچوں میں بھی نہیں سوچنے دیتے کسی اور کووہ شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی تو یارم مسکرایا
رات کے تین بج رہے ہیں بیوی اور اس وقت تمہیں صرف اپنے شوہر کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔اگر تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم دن رات اپنی سوچوں پر کسی اور کو سوار رکھو گی اور میں یہ چیز قبول کر لوں گا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے
روح کی سوچوں پر صرف اور صرف یارم کا حق ہے وہ اس کا سر ایک بار پھر سے اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بولا تو وہ بے اختیار مسکرا ئی
سوچوں پر یہ کیوں روح کی آنکھوں پر
روحکے بالوں پر
روح کے لبوں پر
روح کے چہرے پر
روح کی زندگی پر
اور روح کی روح پر صرف اور صرف یارم کا حق ہے ۔
روح سر سے پاؤں تک صرف اور صرف یارم کاظمی کی ہے ۔
وہ یہ سب کچھ بھی بولنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی روح بول گئی تو وہ قہقہ لگاتے ہوئے اسے اپنے سینے میں بھنچ چکا تھا
روح تو بہت سمجھدار ہے وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا اس کے کان کی لو چوم کر بولا تو وہ مسکرا کر اس کے سینے میں اپنا آپ چھپایا گئی
آپ یوں مجھ سے دور جائیں گے تو مجھے بہت برا لگے گا درک بھائی وہ اس کے سینے سے لگی مسلسل رو رہی تھی
میں پری کا علاج کروانے جا رہا ہوں جلدی واپس آ جاؤں گا وہ اسے کسی قسم کا کوئی دلاسہ دینا نہیں چاہتا تھا لیکن مجبور تھا
مجھے آپ کی بہت یاد آئے گی وہ آنکھوں میں آنسو لیے بولی
مجھے یاد کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی زندگی کی طرف غور کرو میرے آنے سے پہلے بھی تمہاری زندگی بہت پیاری تھی ۔
یہ رونا دھونا بند کرو مجھے آنسو بالکل بھی اچھے نہیں لگتے وہ یہ نہیں کہ پایا تھا کہ اسے اس کی آنکھ سے بہتے آنسو اچھے نہیں لگ رہے
بس کرو روح آپی کتنا رو گی ۔
میں بھی تو اپنے رومی بے بی سے دور جا رہی ہوں کہ میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔اسے دور کرتا درک وہاں سے باہر نکلا تو روح وہیں بیٹھ کر رونے لگی جبکہ اس کے رونے پر پری اس کے قریب آ کر کہنے لگی
اللہ تمہیں شفا دے پری اور تم ٹھیک ہو کر جلدی واپس آؤ اس کے گلے سے لگتی کہنے لگی
آمین چلونہ باہر چلو رومی کو بولو کہ مجھے کسی کرے میں کب سے منتیں کررہی ہوں بالکل میری بات نہیں مان رہا
اور تو اور مجھے کہتا ہے پرائی لڑکیوں کو کسی کرنا گناہ ہے وہ منہ بسور کر اس کی شکایت روح سے کرنے لگی ۔اس کے انداز پر روح کو ہنسی آئی
یار ہنسو نہیں بس ایک چھوٹی سی کسی ہی تو مانگ رہی ہوں۔اتنے نخرے تو کبھی تمہارے بھائی نے نہیں دکھائےجتنا تمہارا بیٹا دکھاتا ہے
اب مجھے کیا پتا میرا بھائی تمہیں کتنے نخرے دکھاتا ہے ۔تمہارے معاملے میں تو بالکل بیچارا ہی محسوس ہوتا ہے ۔روح نے ہنستے ہوئے کہاتو پری جھینپ گئی بے دھیانی میں وہ ہمیشہ ہی غلط الفاظ کا استعمال کرتی تھی
میرا وہ مطلب نہیں تھا اور اتنے بھی بیچارے نہیں ہیں وہ دیکھتی نہیں ہو کیسے ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں مجھے
تم اگر وقت پر دوائیاں لے لو تو وہ تمھیں نہیں ڈانٹیں گےروح نے فورا اس کی سائیڈ لی
میں تو بھول گئی کہ میں تو درکشم صاحب کی چمچی سے بات کر رہی ہوں اس دن جب میں تمہارے گھر پہ تھی توتم نے فون کرکے بتایا تھا نا کہ میں نے میڈیسن نہیں لی تمہیں پتا ہے گھر آکر مجھے کتنا ڈانٹا انہوں نے ۔
یار تم فیل ہو تم جیسی نند نہیں چاہیے تھی مجھے چلو اب تمہی نصیب میں ہو تو تم ہی سہی چلونا باہر رومی سے کسی دلاوادوپلیز۔
اب تو میں اپنے رومی کو روز دیکھ بھی نہیں پاؤں گی۔وہ منتیں کر رہی تھی روح کوئی اس کی بات ماننی پڑی
°°°°
اس طرف بھی کسی دو پری نے اسے دیکھتے ہوئے اپنا دوسرا گال آگے گیا تو وہ اسے گھورنے لگا
ات ہی کشی تی دیل اوی تی (ایک ہی کسی کی ڈیل ہوئی تھی) وہ ماں کے ہاتھوں سے چوکلیٹ لیتے ہوئے بولا
روح نے بہت ساری منتیں کرنے کے بعد اسے لالچ دے کر پری کو کس کرنے پر منایا تھا
رویام کوئی بات نہیں مامی کو کس کر لو روح نے سمجھایا
خبردار جو مجھے مامی کہا گرل فرینڈ ہوں میں اس کی پری تڑپ کر بولی
یہ رشتہ دار یاں تم اپنے بھائی تک محدود رکھو میرے اور رویام کے بیچ میں جو رشتہ ہے اسے خراب کرنے کی ضرورت نہیں
وہ وارن کرتے ہوئے بولی روح نے فورا اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا
ویسے میری انفارمیشن کے مطابق اس کی کلاس میں بھی 1 ۔2 گرل فرینڈ ہیں روح نے بتایا تو پری اسے گھورنے لگی
ابھی اسے پلے کلاس میں جاتے ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا تھا
کیا تم نے میرے علاوہ بھی کسی کو گرل فرینڈ بنا کے رکھا ہے وہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی
اں میلی کلاش می بت شالی گلزہے تو میلی پھریڈےے(ہاں میری کلاس میں بہت ساری گرلز ہیں جو میری فرینڈز ہیں )۔رویام نے فوراً معصومیت سے کہا
کیا یار وہ گرل فرینڈ تھوڑی نہ ہوئی ہو تو فرینڈز ہوئی وہ روح کو دیکھتے ہوئے خود کو دلاسہ دیتے انداز میں بولی
نی دب گل او اول پھریڈ او وہ گل پھریڈ اہ ہتی اے(نہیں جب گرل ہو اور فرینڈ بھی ہو وہ گرل فرینڈ ہی ہوتی ہے) رویام اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولا تو بہت چاہتے ہوئے بھی روح اپنی ہنسی نہ چھپا سکی
رویام تم صرف مجھ سے پیار کرتے ہو یاد رکھنا میں تمہاری گرل فرینڈ ہوں وہ اسے سمجھا رہی تھی
میں شرف اپلی ماما شے پیار ترتا ہوں(میں صرف اپنی ماما سے پیار کرتا ہوں )۔وہ بہت سوچ کر بولا
ارے میرے گولو ماما سے تو سب لوگ پیار کرتے ہیں لیکن میرا اور تمہارا رشتہ الگ ہے وہ اسے سمجھا رہی تھی جب کہ روح سے اپنی ہنسی کو کنٹرول نہیں ہورہی تھی
اس کا الگ ہے یہ تمہاری مامی ہوتی ہے اسے پیچھے سے درک کی آواز سنائی دی تو روح کے دل کو کچھ ہوا تھا آج پہلی بار اس نے خود کو روح کا بھائی تو نہیں کہا تھا لیکن پری کو رویام کی مامی کہہ کر اپنے رشتے کو قبول کر لیا تھا
پری پیر پٹک کر رہ گئی روح کے جذبات اس کی سوچ سے بہت دور تھے
جب ہم دونوں بڑے ہو جائیں گے نہ ہم دونوں شادی کریں گے درک کے وہاں موجود ہونے پر وہ بہت آہستہ آواز میں بولی تھی درک سفر کے لیےسامان پیک کر کے گاڑی میں رکھ رہا تھا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ یہاں سے نکلنے والے تھے
لیتن مدے آپ شے سادی نی ترنی سادی تع می دانو تھائی سے تروں دا آپ اپلے کھلوش دیو تے پاش رہو (لیکن مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی شادی تو میں جانو سائئں سے کروں گا آپ اپنے کھڑوس دیو لے پاس رہو)وہ پہلے سے ہی فیصلہ کر کے بیٹھا تھا
روح اپنے بیٹے کو دیکھ کر عش عش کر اٹھی
گرل فرینڈ اس کی پری تھی پارٹ ٹائم گرل فرینڈز کلاس میں مل چکی تھی اور شادی اس نے جانو سائیں سے کرنی تھی ۔
یا رم اسے ٹھرکی کہتا تھا اور یہ غلط نہیں تھا ہاں لیکن یہ بات وہ یارم کے سامنے قبول نہیں کرتی تھی
°°°
آج کل شارف اپنے کام پر کم اور معصومہ پر زیادہ دھیان دے رہا تھا
آخر اپنے گھر میں آنے والے نئے بےبی کو ویلکم بھی کرنا تھا
ابھی تو بے بی کو آنے میں بہت وقت تھا لیکن شارف پھر بھی اس کا بہت خیال رکھتا تھا خضرا سے جوڑو کا غلام کہتا تھا لیکن شارف اس بات کو قبول نہیں کرتا تھا اس کا کہنا تھا کہ اگر بیوی کا خیال رکھنا جوڑو کا غلام بننا ہے
تو اسے اس بات میں کوئی اعتراض نہیں تھا ۔
جبکہ خضر بھی لیلیٰ کی ساری باتیں مانتا تھا اس کا خیال رکھتا تھا اور لیلیٰ کے سامنے تو اس کی چلتی بھی نہیں تھی
لیکن اس کے باوجود بھی شارف کی شرارتیں اور محبت بھری نیچر سب کے سامنے تھی جس کی وجہ سے آفس میں جوڑو کا غلام مشہور تھا
°°°°°
لیلیٰ ایک گھنٹہ پہلے ہی جاگ چکی تھی اور اس وقت وہ مہر کے بال بنانے میں مصروف تھی ان دونوں بہنوں میں بس یہی فرق تھا کہ ایک کے بال گھگھرلے اور دوسری کے بالکل سیدھے تھے مہر کے بال بناتے بناتے ایک گھنٹہ تو لگ ہی جاتا
اس لیے وہ اسے خضر کی غیر ماجودگی ایک گھنٹہ پہلے جگاتی تھی کیونکہ اگر خضر ہوتا تو اس کے لیے آسانی ہوجاتی
جب تک وہ اس کے بال بناتی ہے تب تک تو عنایت بالکل تیار بھی ہو جایا کرتی تھی جس دن خضر گھر پے ہوتا وہ زیادہ شور مچاتی توخضر خود بہت نرمی سے اس کے بال بنا دیتا
لیکن رات لیٹ آنے کی وجہ سے آج لیلیٰ نے اسے تنگ نہیں کیا تھا بلکہ خود ہی ایک گھنٹہ پہلے جاکر کام ختم کرنے لگی
اور اب وہ ان دونوں کو تیار کرکے خود ہی سکول چھوڑنے جانےوالی تھی۔
آج رات کووہ لوگ کسی اہم کام کے لیے جانے والے تھے واپسی بھی لیٹ ہی ہونی تھی اس لیے وہ چاہتی تھی کہ خضر ذرا آرام کر لے
پھر بعد میں اسی نے ہی یہ سب کچھ کرنا ہے
اب وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی تھی انہیں سمجھتی اور خود کو سمجھنے کا موقع دیتی خضر نے اس پر جو ستم کیا تھا اس کے بعد وہ اپنی بیٹیوں کو ذرا بھی نظرانداز نہیں کرتی تھی اور خضر کو یہ بات بے حد پسند تھی
اس حادثے کو یاد کر کے خضر کو آج بھی تکلیف ہوتی تھی لیلیٰ کی مارکا وہ درد یاد کرکے وہ آج بھی تڑپ اٹھتا لیکن اس کے بعد لیلیٰ اپنی بیٹیوں کے قریب آگئی تھی اور یہ ایک بہت اچھی بات تھی
اب وہ اپنے جذبات چھپاتی نہیں تھی بلکہ کھل کر اپنی بیٹیوں پر ظاہر کردیتی
°°°°°
آج وہ ایک بہت ہی اہم کام کے لئے جانے والا تھا آئینے کے سامنے کھڑا وہ اپنے بال بنا رہا تھا جب اچانک ہی دھیان آئینے میں بیڈ پر موجود رویام پر گیا جو اس کی پوری طرح سے نقل کر تا یقیناًاپنی ہی دھن میں تھا
یارم بالوں کی طرف ہاتھ لے کر جاتا تو وہ بھی بیڈ کر کھڑا اپنے ننھے سے ہاتھوں سے اپنے بال پیچھے کرنے لگتا
روح تو اتنا شور مچاتی تھی کہ اس کے بال کٹوائے لیکن وہ وہ تو اپنے بالوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا تھا
یارم کب سے نوٹ کر رہا تھا وہ اس کی ایک ایک حرکت کی نقل اتار رہا ہے بے ساختہ ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی
اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ پورے بالوں میں گھماتے ہوئے بالوں کو جھٹکا دیا اور اسی کے انداز میں رویام نے بھی یہ حرکت کی تھی یارم نے اپریس والے انداز میں سر ہلایا
اور اپنے چہرے پر موجود داڑھی کو اپنے انگوٹھے سے سہایا
رویام نے اس کی نقل کرتے ہوئے سیم ٹو سیم یہی کام کیا تھا
یارم اپنے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا انگلیاں چلاتا ہوا اسے بھی یہ کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اچانک یارم نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو جیسے وہ چور چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا اگلے ہی لمحے وہ بیڈ پر بیٹھ چکا تھا
یہ کیا کر رہا تھا تووہ اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگا جبکہ رویام انجان بن گیا
می تو کتھ نی تر را تا(میں تو کچھ نہیں کر رہاتھا) وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ دائیں بائیں لہراتا ہوا جواب دے کر اپنا ٹیڈی بیئر اٹھا چکا تھا مقصد کمرے سے بھاگ جانے کا تھا
کچھ نہیں کر رہا تھا کہ بچے میری نقل کر رہا تھا تو ۔۔یارم نے اسے پیچھے سے پکڑ کر واپس بیڈ پر رکھ دیا
ماما بتاو ماما بتاو( ماما بچاؤ ماما بچاؤ )رویام زمین سے واپس بیڈ تک پہنچنے تک یہی نعرہ لگاتا رہا
تجھے تو بیٹا میں بچاؤں گا یارم نےاسے بیڈ پر پھینک کر دروازے کیا قر اس کی طرف آیا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا اس نے دروازہ اندر سے لاک کیا
اب یارم میں تھا اور اس کا شکار
چل بیٹا اب میں تجھے بتاؤں گا میری نقل کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے یارم مسکراتا ہوا اس کی طرف بڑھا
یہ توکلٹ لیں اول مدے شول دیں(یہ چوکلیٹ لیں اور مجھے چھوڑ دیں)اس نے لالچ دیا
مجھے نہیں چاہیے میں تو تجھے ہی کھاؤں گا وہ کتنے اہم کام کے لئے گھر سے نکلنے والا تھا اس کے ذہن سے بالکل نکل چکا تھا اس وقت تو اسے رویام کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے تھے
می تلاو دا ماما آتر دانتے دی (میں چلا جاؤں گا ماما آ کر بہت ڈانٹے گی) وہ ڈرانے لگا
جب تک وہ آئے گی میں اپنا کام کر لوں گا وہ اچانک اسے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے اس کے چھوٹے سے گال کو انتہائی جارحانہ انداز میں چومنے لگا
اور اس کے ساتھ ہی رویام کی چیخ اور پکار روح کے کانوں کا رستہ پہچان چکی تھی
روح کچن میں تھی جبکہ اسے کمرے سے تھوڑی تھوڑی آواز آ رہی تھی وہ رویام کو تیار کرکے کچن میں آئی تھی یارم اس وقت نہا رہا تھا۔روح نے سوچا کہ جب تک وہ اس کا ناشتہ بنائے گی تب تک وہ اس کے ساتھ رہے گا لیکن رویام نے وہیں پر یار م کا موبائل پکڑ لیا اور بیڈ پر لیٹ گیا لیکن اب تو اس کی دبی دبی آواز آ رہی تھی مطلب صاف تھا کہ وہ یارم کے شکنجے میں آ چکا ہے
یا اللہ میرا معصوم بچہ
وہ جلدی سے کمرے کی جان بھاگی جہاں پہلے ہی شونو بھونکنے میں مصروف تھا
مطلب دروازہ اندر سے لاک تھا آج تو اس کا بیٹا شاید ہی بچنا تھا
اندر سے کبھی اس کے کھکھلانے کی آواز آتی تو کبھی وہ روح کو پکار رہا ہوتا
وہ دروازہ کھٹکھٹا کر تھک چکی تھی لیکن شاید آج اس نے بچنا ہی نہیں تھا
لیکن آج رویا م رو نہیں رہا تھا بلکہ وہ یارم کا پورا پورا مقابلہ کر رہا تھا
وہ یارم کا ایک ہاتھ پکڑ کر اسے خود سے دور کرتا ہوا سیدھا کرکے اس کے اوپر بیٹھ گیا
می ارو ہو آپ بلین ہو میں اپلی رو تو لے داوں دا (میں ہیرو ہوں آپ ویلن ہیں وہ اپنی روح کو لے جاؤں گا )وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑتا مقابلےکی بھرپور کوشش کر رہا تھا بلکہ اس کے انداز پر یارم بہت مزے سے انجوائے کر رہا تھا
اور میں سب سے پہلے اس ویلن کو اٹھا کر لے جاؤں گا وہ اسے ایک بار پھر سے بیڈ پر پھینک تا ہوا داڑھی اس کی گردن پر چبونے لگا
لیتن ارو تو می ہونا(لیکن ہیرو تو میں ہوں نا) رویام نے بتایا جیسے مقصد اسے یہ بات سمجھانے کا ہو کے ہیرو جیتا ہے اور ویلن ہارتا ہے وہ اسے لے کر نہیں جا سکتا کیوں کہ ہیرو تو رویام ہے
تو ہیرو لڑکر جیت جائے یارم بے حد پیار سے کہتا ایک بارپھر اسے اپنے اوپر بٹھا چکا تھا
وہ یارم کے دونوں ہاتھوں پر جتنا زور ڈال سکتا تھا ڈال کر اسے بیڈ کے پاس لے گیا جس کا مطلب تھا کہ اب وہ جیت چکا ہے
اب وہ یارم کے پیٹ کے اوپر ہی ایسی ایسی اچھل کود کر رہا تھا اس کے بعد روح کو رویام کے بجائے یارم کی آواز سنائی دی
روح بچاو روح بچاؤ تمہارا بیٹا مجھے مار ڈالے گا باہر روح نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کچن کی طرف قدم بڑھائے جب اسے رویام کی آواز سنائی دی
توئی بتانے نی آئے دا روح شرف میلی اے (کوئی بچانے نہیں آئے گا روح صرف میری ہے) رویام بالکل ہیرو کی طرح پرفارم کر رہا تھا اس نے ایک نظر شونو کی جانب دیکھا اور پھر اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔پتہ نہیں رویام اور یارم کی جنگ کب ختم ہوئی تھی
اب وہ ان کے چکر میں اور کتنی دیر بھوکی بیٹھتی
شونو بھی دونوں کو اگنور کرتا روح کے پیچھے پیچھے ہی آ گیا
°°°°
مجھے بچا لو ڈیول مجھے مار ڈالے گا اس نے خود فون کرکے مجھے کہا ہے کہ اگلی باری میری ہے صرف تم ہی مجھے بس بچا سکتے ہو وہ صارم کے سامنے ہاتھ جوڑرہا تھا
آپ فکر نہ کریں سر آپ کی ٹائٹ سیکیورٹی کا انتظام میں کر چکا ہوں ڈیول تو کیا یہاں کوئی نہیں آ سکتا آپ بے فکر ہو جائیں صارم نے یقین دلایا
کیسے بے فکر ہو جاؤں آفیسر ڈیول نے مجھے فون کیا ہے اور کہا ہے کہ اگلی باری میری ہے تو مجھے جان سے مار ڈالے گا پلیز مجھے بچا لو
میں مرنا نہیں چاہتا وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رہا تھاصارم بےحد اکتایا ہوا تھا پہلے نوجوان نسل کی تباہی کے لئے ڈرگز کا دھندا کرکے اس نے پوری یونیورسٹی میں لڑکوں کو برباد کر دیا تھا اور اب جب اس کی ٹیم کے ممبرز ڈیول کے ہاتھوں قتل ہو رہے تھے تو وہ اپنی جان کی بھیک آفیسر صارم سے مانگ رہا تھا
اپنے لیے ٹائٹ سکیورٹی کا انتظام کرنے کے باوجود بھی وہ بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا ڈیول نام کا سایہ اس کے سر پر منڈلا رہا تھا آج صبح ڈیول نے فون کرکے اسے خود کہا تھا کہ آج کی رات تمہاری زندگی کی آخری رات ہے
جتنی بری حالت میں باقی کی لاشیں ملی تھیں اسے یقین تھا وہ بھی زندہ نہیں بچے گا
اور موت بھی ایسی موت ہوگی کہ زمانہ یاد کرے گا
سر میں نے آپ کو بتایا نہ کہ میں آپ کی سکیورٹی کا انتظام کر چکا ہوں یہ آفیسرز 24 گھنٹے آپ کے ساتھ رہیں گے آپ کافی رات ہو چکی ہے مجھے چلنا چاہیے
صارم نے کہا تو آدمی اور زیادہ خوفزدہ ہوگیا
نہیں تم مت جاو مجھے تم پر بھروسہ ہے اور کسی مت روکو لیکن تم مت جاؤ مجھے یقین ہے تم مجھے بچا لو گے وہ منتیں کر رہا تھا صارم کو اچھا خاصا غصہ چڑھ گیا
ابے اوئے غلطیاں تو کرے اور رات ساری یہاں سولی پر میں چڑا رہوں میرا مطلب ہے سر میری ڈیوٹی اوور ختم ہوچکے ہیں اب میں یہاں نہیں رک سکتا وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے اسے سمجھانے والے انداز میں بولا وہ اس وقت اتنا زیادہ ڈرا ہوا تھا کہ صارم کے بدتمیزانہ لہجے کو بھی اگنورکرگیا
میں چلتا ہوں میرےآفیسر آپ کے ساتھ رہیں گے یہ آپ کے سیکیورٹی کا خاص خیال رکھیں گے خدا حافظ اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتا صارم وہاں سے نکل کر باہر آ گیا
تم لوگ یہیں پر رکنا تمہاری چائے پانی کا انتظام کر دیا ہے میں نے بالکل بھی کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے یہی باہر رہنا اس آدمی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے وہ ان دونوں کو آرڈر کرتا باہر نکل کر اپنا فون نکال چکا تھا
فون لگتے ہی وہ شروع ہوگیا
دیکھو یارم جس کو کاٹنا ہے کاٹو جس کو مارنا ہے مارو لیکن اللہ کے واسطے پہلے وارننگ مت دیا کرو یارہم لوگ پھنس جاتے ہیں کیا چپکو آدمی میرے پیچھے لگا دیا ہے جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا ڈیول مجھے مار ڈالے گا ڈیول مجھے مار ڈالے گا دماغ خراب کر رکھا ہے اس آدمی نے یہ کون سا طریقہ نکالا ہے تم نے بدلہ لینے کا
وہ کافی بیزار سے انداز میں بولا
یہ میرا سٹائل ہے سارا میں جسے مارتا ہوں اسے پہلے ہی بتا دیتا ہوں کہ اس کی موت قریب ہے تاکہ وہ اپنی آخری سانسیں لینے کے لئے تیار ہوجائے ۔وہ اپنے آفس میں بیٹھا ہوں لیکن انداز میں بولا
اچھا اسے کتنے بجے ٹپکنے کا ارادہ رکھا ہے تم نے صارم اس کے وفادار ساتھی کی طرح پوچھنے لگا
رات پونے دو بجے ۔یارم نے ایمانداری سے وقت بتایا کیونکہ وہ جانتا تھا صارم اسے بچانے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیکن ڈیول کے ہاتھوں جسے مرنا ہے اسے مرنا ہے
اچھا ٹھیک ہے میں ڈیڑھ بجے ہیں کیمرے بند کروا دوں گا ۔جن سیکیورٹی گارڈز کو میں نے وہاں پر رکھا ہے
میرا ایک آدمی ان کو ڈیوٹی اوورز میں چیزیں فراہم کرے گااور اس میں بے ہوشگی کی دوائی ڈال دے گا لیکن یہ آدمی بچنا نہیں چاہیے ڈیول اس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے ۔صارم نے اسے پورا پلان بتایا تو یارم نے آئی برواچکائی
یہ میں کس سے بات کر رہا ہوں ایماندار آفیسر صارم سے یا یہ کوئی اور ہے اس کا انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا
یارم پلیز یار اس وقت میں یہ ساری باتیں کرنے کی بالکل موڈ میں نہیں ہوں اس آدمی کو مر ہی جانا چاہیے پوری یونیورسٹی کے لڑکوں کو تباہ کر دیا ہے اس نے اور اب ہم سے یہ سکیورٹی چاہتا ہے اس سے زیادہ اہم کام ہے مجھے لیکن اوپر سے آرڈر اس کی سکیورٹی کے آرہے ہیں
تم اسے راستے سے ہٹاو تاکہ میں سکون سے اپنا کام کر سکوں ۔بے فکر ہو کے آنا یہاں تو میں کوئی خطرہ نہیں ہو گا صارم نے یقین دلایا
انسپکٹر صارم خان تم چاہے اپنا سارا زور بھی لگا دو تب بھی مجھے کہیں پر کوئی خطرہ نہیں لیکن تمہارا کام ہو جائے گا فکر مت کرو وہ اسے یقین دلایاکر فون بند کر چکا تھا صارم نے سکون کا سانس لیا
یقینا اس بندے سے اس کی جان چھوٹ ہیجانی تھی
ابے سالے میں تجھے سیکیورٹی دونگا میں تجھے خود اپنے ہاتھوں سے مار دوں لیکن میرا فرض اس چیز کی اجازت نہیں دیتا اسی لیے تو اللہ نےتم جیسے لوگوں کے لیے ڈیول جیسے لوگ بنائے ہیں تاکہ وہ تم لوگوں کے کالے کارناموں کے انعام میں تمہیں تمہارے عبرت ناک انجام تک پہنچائیں
ایک وقت تھا جب صارم اس کے کام کے خلاف تھا لیکن اب وقت ایسا آ گیا تھا کہ وہ اس کے کام کو سمجھ چکا تھا جو کام صارم وردی پہن کر نہیں کر سکتا تھا یا ر وہ بنا کسی پاور کے کرتا تھا ۔
اور سچ یہی تھا اس دنیا کو صارم جیسے ہاتھ باندھے آفیسرز کی نہیں بلکہ یارم سے آزاد ڈیول کی ضرورت تھی
°°°°°
رات ڈھائی بجے کا وقت تھا جب اس نے گھر میں قدم رکھا
اپنے کمرے میں جانے کے بجائے وہ دوسرے کمرے میں آیا ۔اور اپنے کپڑے بدل کر ریلکس ہوا ۔
اپنے خون آلودہ کپڑوں کو اس میں باہر لان میں موجود چھوٹے سے ڈبے پھینک کر آگ لگائی ۔اورآگ کے راگ بننے تک وہیں رہا
جب اسے پوری طرح سے یقین ہوگیا کہ اب کوئی ثبوت نہیں بچا وہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے لان کی طرف نکلنے والے دروازے کو بند کیا
اور سیدھا اپنے کمرے میں آگیا
روح بے حدنرمی سے رویام کو اپنے ساتھ لگائے سو رہی تھی جب کہ اسی کے انداز میں رویام اپنے ٹیڈی کو اپنے ساتھ لگائے گہری نیند میں تھا ۔
اس کے رویام کے ننھے سے وجود پر بہت پیار آیا پیار تو خیر اسے روح پر بھی بہت آیا تھا لیکن رویام کے اتنے پاس ہوتے ہوئے وہ روح پر اپنا پیار ظاہر نہیں کر سکتا تھا
آج اس کیس کا آخری گناہ گار بھی وہ موت کے گھاٹ اتار آیا تھا ۔اب وہ اپکچھ دن کا ریسٹ لے اگلے کیس کی جانب بھرنے والا تھا
لیکن اس کے لیے پہلے کی تھکن اتار نہ رو رہی تھی
وہ کتنی دیر کھڑا ان دونوں کو دیکھتا رہا کتنی حسین اور مکمل زندگی تھی اس کی ۔مصیبتیں آئیں تھیں لیکن ثابت قدم رہنے پر اللہ نے شاید ان کے امتحانات میں کمی کردی
وہ آہستہ سے بیڈ کے قریب آتے ہوئے روح کا ہاتھ رویام کے اوپر سے ہٹاتا اسے نرمی سے اٹھا کر بےبی کاٹ میں رکھا
میرا بچہ ہر وقت ماما سے چپکنا نہیں چاہئے تھوڑا موقع بابا کو بھی دینا چاہیے آخر بابا کا بھی حق ہے نہ تیری ماں پے وہ نرمی سے اس کا ماتھا چومتا اس کے بال پیچھے کرنے لگا جویارم سے ضد لگانے کے چکر میں کافی لمبے ہو گئے تھے
اگر وہ اس وقت جاگ رہا ہوتا تو روح سے ڈائریکٹ پوچھتا ماما آپ صرف میری ہونا اور وہ اس کی محبت میں کہتی میں صرف رویام کی ہوں
وہ اپنے بیٹے سے شرط نہیں لگاتا تھا ہاں لیکن اس بات پر جلن تو ہوتی تھی
وہ ہمیشہ سے روح پر صرف اپنا حق سمجھتا آیا تھا اسے کسی کے ساتھ بانٹنےکا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔
لیکن اب اسے رویام کے وجود کی عادت ہو گئی تھی اور یہاں سے کمپرومائز کرنا پڑ گیا تھا ۔وہ اسے چھوڑ کر بیڈ پر آنے لگا تو وہاں رویام کی جگہ رویام کے ٹیڈی صاحب کو لیٹے دیکھا
اپنی بیوی کے پاس تو میں تیرے مالک کو بھی نہ آنے دوں سالے۔وہ ڈیڈی سے کہتا اسے رویام کے پاس لے جانے لگا
نہیں تو میرے بیٹے کے پاس بھی نہیں رہ سکتا ہم تینوں میں کسی چوتھے کی جگہ نہیں ہے ۔وہ اسے ہوا میں کک کرتا ایک بار پھر سے رویام کو دیکھنے لگا
ہاں اسے پسند نہیں تھا اس کا بیٹا ہر کسی کی طرف متوجہ ہوں ۔یا ہر کسی سے پیار کرے
۔ان دونوں کے معاملے میں وہ تھوڑا سا مطلب تھا وہ نہیں چاہتا تھا رویام روح کو اس سے زیادہ چاہے اور روح رویام کو اس سے زیادہ محبت کرے
لیکن جانتا تھا وہ تینوں ایک دوسرے کے لیے بے حد اہم ہے ۔وہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے
رویام کا ماتھا چوم کر اس نے آہستہ سے اس کا سر تک یہ ٹھیک کیا۔
چل میرا پتر اب تو چھٹی کر ۔وہ بے حد محبت سے اس کے اوپر چادر اڑاتا روح کی جانب آ گیا ۔
روح کو اپنے بے حد قریب کیے اور اس کی گردن پر لب رکھتا اس کی خوشبو اپنے سینے میں اتارنے لگا
یارم۔اس کی جسارت بھرتی محسوس کرکے روح نے اسے خود سے دور کرنا چاہا
روح میں بہت تھک گیا ہوں اس وقت کوئی نخرا نہیں وہ اس کا ہاتھ چومتا اس کے چہرے پر جھک گیا تھا
جبکہ روح جو اپنی نیند خراب ہونے پر اسے ناراضگی سے خود سے دور کرنے لگی تھی اس کی تھکن زدہ آواز سنتے ہوئے اس کے گرد اپنی باہوں کے حصار تنگ کیا ۔
یارم اس کے پور پور پر اپنی محبت کی چھاپ چھوڑتا اسے خود میں سمیٹنے لگا ۔روح لبوں پر خوبصورت سے مسکراہٹ لئے اس کی جسارتوں کو محسوس کر رہی تھی
زندگی خوبصورت تھی اور شاید یہ خوبصورت زندگی یوں ہی آہستہ آہستہ گزر جانی تھی ایک دوسرے کی باہوں میں ایک دوسرے کی فکر کرتے ہوئے ۔
روح اور یارم کی زندگی کا سفر ہے روحِ یارم بن کر ان دونوں کی زندگی کو بے حد خوبصورت بنا گیا تھا لیکن رویام کی آمد نے انہیں عشق کا مطلب سمجھ آیا۔وہ دونوں اس کا عشق تھے عشقِ یارم تھے ۔اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے میں روح نے کبھی یارم کی محبت کو کم ہوتے نہیں محسوس کیا تھا یہ محبت پہلے دن سے بڑھتی چلی جارہی تھی ۔
اور شاید یہ محبت ایسے ہی بڑھتی چلی جانی تھی بناروکے
اسے دیکھتے ہی روح اس سے محبت کر بیٹھی تھی ۔وہ کوئی عام مرد نہیں تھا ۔وہ یارم کاظمی تھا ایک دنیا مرتی تھی اس پر اور وہ اس پر مر مٹا وہ کہاں جانتی تھی ۔ایک عام سی لڑکی روح یارم بن جائے گی ۔
فاطمہ بی کہتی تھی کہ اس کی زندگی میں ایک شہزادہ آئے گا اور یارم سچ میں ایک شہزادہ تھا ۔ضروری نہیں انسان صرف شکل و صورت سے شہزادہ بنے اس کا کردار بھی اسے شہزادہ بنا دیتا ہے یارم ایک مضبوط کردار کا انسان تھا روح کو اس کی شکل و صورت سے نہیں بلکہ اسکے کردار سے محبت تھی ۔
ہمارا کردار ہی ہمیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھ آتا ہے اللہ ہم سب کے کردار مضبوط رکھے اور ہمیشہ صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
°°°°°
دا اینڈ

 

♥ Download More:

 Areej Shah Novels

 Zeenia Sharjeel Novels

 Famous Urdu novel List

 Romantic Novels List

 Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

 

 

آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.

About the author

Muhammad Qasim

Muhammad Qasim, founder of Shaheen ebooks website, which is an online ebooks library serving Urdu books, novels, and dramas to the global Urdu reading community for the last 3 years (since 2018. Shaheenebooks.com.

Leave a Comment