Ishq e Yaram Novel by Areej Shah, Areej shah is one of the best famous Urdu novel writers. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is the latest novel by Areej Shah. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.
Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download Ishq e Yaram Novel to click on the link given below, or you can also read it online.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel
Ishq e Yaram Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society
↓ Download link: ↓
If the link doesn’t work then please refresh the page.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Ep 1 to Last
Read Online Ishq e Yaram Novel by Areej Shah:
Episode 1 to 5
عشقِ یارم
اریج شاہ
وہ ہر طرف اسے ڈھونڈ رہا تھا کسی کی اتنی ہمت کہ کوئی اس کی روح کو تکلیف پہنچائے
کون تھا اس کا ایسادشمن جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول سے پنگا لیتا ۔
راشد اس کھیل کا سب سے کمزور مہورا تھا ۔جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول کی کمزوری پر حملہ کرتا
ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔اور پھر اسے ایک فون آیاتھا ۔
اگر روح کو بچانا چاہتے ہو تو جس جگہ کی لوکیشن میں تمہیں سینڈ کر رہا ہوں وہاں چلے جاؤ روح کو اس شخص نے وہیں پر رکھا ہے ۔
لیکن تم کون ہو۔۔۔! وہ پاگلوں کی طرح روح کو ڈھونڈتے تھک چکا تھا جب کسی امید کے روشن دیے کی طرح کسی نے اسے فون کیا
میں جو بھی ہوں اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ملیکن یں ہوچاہتا ن تم مجھے یاد رکھو دنیا مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتی ہے میری ذات کھنگالنے سے بہتر ہے کہ تم اپنی روح کی جان بچاؤ فون بند ہوچکا رہا
اور لوکیشن اس کے موبائل پر آ چکی تھی ۔
وہ شخص کون تھا کون نہیں یارم کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن یا رم کی ذات پر اس کا ایک احسان تھا جو یارم کاظمی مرتے دم تک چکا نہیں سکتا تھا ۔
°°°°
وہ یارم کے لیے سب سے مشکل ترین وقت تھا جب ہرچلتی سانس کے بعد اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی روح اس سے دور جا رہی ہے
ڈاکٹر نے اس کا جنون اور دیوانگی دیکھتے ہوئے ہی اسے مناسب الفاظ میں بتایا تھا
کہ روح کی جان بچانا اور تقریبا ناممکن ہے یہ سب کچھ کہتے ہوئے ڈاکٹر خود بھی اس سے خوفزدہ تھا یقیناًاسے اپنی جان بہت عزیز تھی ۔
وہ یارم کے جنون کے ہتھے نہیں چڑناچاہتا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی اس شخص کے لئے اس کی زندگی ہے
لیکن اندھیری کالی قبر سے نکلنے کے بعد روح اپنے آپ کو بےجان محسوس کر رہی ہے اس میں جینے کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔
یارم کا بس چلتا تو شاید وہ ڈاکٹر کو ہی جان سے مار دیتا ہے ۔
اگر وہ ڈاکٹر زندہ تھا تو صرف اور صرف خضر کی وجہ سے جس نے اس وقت یارم پر کنٹرول کیا تھا ۔
اور پھر وہ اپنی روح کو لے آیا تھا وہاں سے اس کا مہنگے سے مہنگا علاج کروایا ۔امریکا کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ روح کے اندر صرف دس پرسنٹ ہی جینے کی نوعیت باقی ہے
اگر وہ خود زندگی کی طرف لوٹ آئے تو اس کی جان بچائی جا سکتی ہے
اور پھر یارم کی محبت کے سامنے روح نے ضد چھوڑ دی وہ لوٹ آئی اپنے یارم کے لیے کیونکہ وہ بھی جانتی تھی روح کے بنا یارم کچھ نہیں ۔
پورے دو ماہ بعد وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی ۔اور تب سے ہی ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی بات یاد کروانے یا پھر ٹینشن دینے سے سختی سے منع کیا تھا ایسا کرنے سے اس کی دماغی حالت بھگڑ سکتی تھی وہ اپنی یاداشت بھول سکتی تھی
اور یارم ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا اسے تو بس اپنی روح واپس چاہیے تھی جیسی وہ تھی بالکل ویسی ہی
°°°°°°°
یارم کے لیے روح ہی اس کا سب کچھ تھی اس کے بنا وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ جانتا تھا وہ ان سب چیزوں سے عاجز آچکی ہے وہ چاہتی ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے یہ وقت اس کے لیے بہت مشکل ہے ڈاکٹر نے دو ماہ تک یارم کو روح کے پاس جانے سے بھی منع کر دیا تھا
اسے یاد تھا ۔کتنی مشکل سے وہ اسے نارمل زندگی کی طرف لا پایا تھا
تین ماہ گزر چکے تھے اس حادثے کو لیکن روح آج بھی پہلے کی طرح نہیں ہو پائی تھی ۔
ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی پرانی بات یاد دلوا کر ٹینشن دینے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وہ سب کچھ بھولتی ہی نہیں تھی وہ اس کے سامنے ظاہر کرتی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن یارم جانتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ساری رات اس کے قریب بیٹھا جاگتا رہتا تھا کہ کہیں وہ خواب میں ڈرنا جائے یارم ہر ممکن طریقے سے اسے ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھے ہوئے تھا ۔
کل اسے پورا ایک مہینہ ہو جانا تھا قومہ سے واپس ہوش میں آئے ہوئے ۔دو مہینے تک اسے کچھ بھی ہوش نہیں تھا ڈاکٹر کے مطابق شائد ہی وہ زندہ بچ پاتی۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ ایک مردہ وجود ہے وہ زندہ نہیں بچ پائے گی لیکن یارم نے ہمت نہیں ہاری ۔اسے اپنی روح چاہیے تھی اور وہ اپنی روح کو واپس لے آیا تھا
یہ ایک معجزہ تھا
جو یارم کی زندگی ہوا اور اسے ایک بار پھرروح مل گئی
اللہ نے اس پر رحم کیا تھا اس کی روح کو اسے واپس دے دیا تھا ورنہ اس کے معاملے میں توخضر لیلیٰ شارف اور معصومہ بھی ہمت ہار چکے تھے۔وہ اس سے چھپ کر روتے تھے وہ پوری طرح سے اس بات کو قبول کرچکے تھے کہ اب روح کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں بچی اور کسی بھی وقت روح کی موت کی خبر یارم کی زندگی ہلاسکتی تھی
لیکن یارم کی محبت زندہ تھی اسے واپس آنا تھا اور اللہ کو اس پر رحم آگیا جس کے لیے وہ ہر وقت اپنے رب تعالیٰ کا شکر گزار تھا
ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر روح کی سانس اکھڑنے لگتی اکثر وہ اپنے آپ کو ایک اندھیری قبر میں محسوس کرتی اچانک نیند میں اس کی آنکھ کھل جاتی
اس کا خوف زدہ وجود کانپنے لگتا اور یارم بے بس تھا بالکل بے بس یہاں وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا یہاں اس کی ہر پاور بے بس تھی
یارم اسے بالکل بھی اکیلے نہیں چھوڑتا تھا اسے صرف اور صرف اپنی روح کی پرواہ تھی جس کے بنا وہ ادھورا تھا نامکمل تھا" روحِ یارم" مطلب یارم کی روح وہ یارم کی روح تھی روح کے بنا یارم کبھی مکمل نہیں ہو سکتا تھا
یارم کا کہنا تھا کہ وہ مطلبی ہے وہ روح کا نہیں بلکہ اپنا خیال رکھتا ہے اپنے جینے کی وجہ کا خیال رکھتا ہے کیونکہ روح کے بنا وہ جی نہیں سکتا
اور یار م کی حددرجہ کیئرنگ پر وہ بری طرح سے جھنجھلا گئی تھی ۔ہر چیز میں روک ٹوک کھانے پر روک ٹوک'اٹھنے بیٹھنے پر روک ٹوک یہاں تک کہ وقت پر نہ سونے پر روک ٹوک وہ آج کل یارم سے بہت زیادہ چڑی ہوئی تھی اکثر ناراض بھی ہو جاتی اور یارم کو اس کی فضول اور بےجا ضد بھی ماننی پڑتی
اب وہ پہلے کی طرح یارم کی ایک گھوری پر خاموش نہیں ہوتی تھی اب وہ ضد کرتی تھی جانتی تھی کہ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی یارم اس کو ڈانٹنا تو دور غصہ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا لیکن پھر بھی یارم کا لال چہرا سوخی بھری آنکھیں اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام نہیں کرنے دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس سے لڑتی بھی تھی لیکن اس کے بدلے بھی سامنے سے ٹھنڈا ری ایکشن ملتا تو وہ بےزار ہو جاتی
ایسے میں لیلیٰ کی پریگنسی نے اس کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈال دیا تھا ۔
اور اس کی خوشی اور ضد دیکھتے ہوئے یارم نے اسے لیلیٰ کے پاس دوپہر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی
°°°°°
وہ سارا سارا دن لیلٰی کے پاس ہی رہتی تھی
کیونکہ خضر کے مطابق وہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے مافیا ماحول میں پرورش نہیں پانے دے گا یہی وجہ تھی کہ لیلٰی کو سارا کام کاج چھوڑ کر پریگنسی کے پہلے مہینے میں ہی گھر بیٹھنا پڑ گیا ۔
ایسے میں روح کا آجانا لیلیٰ کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھایہ الگ بات ہے کہ اب آہستہ آہستہ وہ اس کے لیے زحمت ثابت ہو رہی تھی
اس کی پریگنسی کی وجہ سے یارم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لیلی کے پاس چھوڑ کے آتا تھا وہ تو روح کی ہر چیز بلکہ ایک ایک سیکنڈ پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا وہ شام کو خود ہی لے کر جاتا یہاں تک کہ وہ اس کے معاملے میں وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتا تھا
لیلیٰ کے گھر میں لگے کیمروں کی مدد سے وہ ہر وقت اس پر نظر رکھتا تھا ۔
لیکن وہ جانتی تھی کہ آفس سے لے کر لیلی کے گھر کے سفر تک وہ اسے نہیں دیکھ پاتا اور آج تو شارف نے فون پر بتایا تھا کہ ڈیول کسی کا صفایا لرنے گیا ہے
مطلب وہ لیٹ آئے گا اور وہ اس چیز کا فائدہ اٹھاتی تھی لیلی کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کررہی تھی
لیلی کے لیے تو روح بھی اپنے ماموں سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس کی پریگنسی کو لے کر کافی ٹچی ہو رہی تھی کبھی ایک چیز تو کبھی دوسری چیز وہ اس کو کھلا کھلا کر کچھ ہی دن میں اس کا وزن بڑھانے میں کامیاب رہی تھی
اس وقت بھی وہ دونوں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی جبکہ لیلی کو یارم نے روح سے کوئی بھی کام کروانے سے منع کر رکھا تھا لیلیٰ کی سانسیں سوکھی ہوئی تھی کیونکہ یارم کے آنے کا وقت ہو رہا تھا ۔
اور یہ ماموں کی بھانجی اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی ۔
روح خدا کے لئے بس کر دو یار میں خود بنا کر پی لوں گی تمہیں ویڈیو سینڈ کر دوں گی مگر تم مت بناؤ ڈیول کبھی بھی آتا ہوگا
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اسے منع کرنے کی کوشش کر رہی تھی
یارم نام ہے ان کا ماشاء اللہ سے کتنا خوبصورت نام ہے اور تم لوگ ڈیول ڈیول کہہ کربگاڑ رہے ہو ان کا نام اللہ معاف نہیں کرتا نام بگاڑے والوں کو وہ چڑکر بولی
تمہیں نام کی پڑی ہے روح ڈیول ہمارا نقشہ بگاڑ دے گا اگر تمہیں ذرا سی بھی تکلیف ہوئی تو۔وہ اس کی بات کاٹ کر جلدی سے بولی جب اسے پیچھے سے قدموں کی بھاری چاب سنائی دی۔
تم یہاں میری بیوی سے کام کروا رہی ہووہ غصے سے سرد آواز میں بولا ۔
لیلیٰ تو اچھل پڑی جب کہ روح کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا
شارف بھائی نے تو بولا تھا کہ یہ کہیں گئے ہوئے تھے اور آج لیٹ آنے والے تھے تو اتنی جلدی ۔۔۔ وہ ناخن منہ میں ڈالے سوچنے لگی
جب یارم کی سخت گھوری نے ہاتھ منہ سے نکالنے پر مجبور کر دیا
نہیں ڈیول می۔۔۔ می۔۔ می۔۔۔میں نہیں روح کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔بہت بہت بار منع کرنے کی کوکوکوک۔۔۔۔۔۔ کوشش کی لیکن یہ میری سنتی۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔ ۔لیلی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دبنے لگے تھے آواز کمبخت باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی
یارم سے وہ لوگ ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رہتے تھے لیکن جب سے روح کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا تھا ان کی زندگی پھڑپھڑاتا پرندہ بنی ہوئی تھی
جیسے ڈیول کبھی بھی آزاد کر سکتا تھا
اور اب تو وہ روح کے معاملے میں خود پے بھی یقین نہیں کرسکتا تھا تو لیلیٰ تو پھر لیلیٰ تھی
تو تم اسے کچن میں لے آئی کہ جو دل میں آئے کرو ۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر غصے سے جبڑےبھیجے بولا
نہیں ڈڈڈ۔۔۔ڈیول یہ مان نی۔۔۔ نہیں رہی تھی ۔۔۔ لیلی نظرجھکا گئی۔جبکہ یارم نےانگلی کی مدد سے اس کا چہرا اوپر کیا۔
اگر اسے اتنی سی تکلیف ہوئی نہ تو میں تمہیں زندہ زمین میں گاڈ دوں گا یاد رکھنا اس کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا جب کہ وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی لیلیٰ کی شامت دیکھ رہی تھی ۔
آواز کرنے کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ نہ ہو کے اس کے لیلی کے گھر آنے پر پابندی لگ جائے اور اب وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔اسے آپنے بالکل نزدیک دیکھ کر روح نے آنکھیں میچ لیں
جب اس کی نرم سی گرفت اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی وہ بنا کچھ بولے اسے اپنے ساتھ باہر لےجانے لگا جس کا صاف مطلب تھا کہ یارم آج بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس آدمی میں اتنا صبر کہاں سے آیا تھا سمجھ پانا مشکل تھا
روح نے بےفکر ہو کرایک نظر پیچھے کھڑی لیلی کو دیکھا اور اسے سوپ پینے کا اشارہ کرنے لگی لیلیٰ نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔
مطلب کہ اس کی جان اٹکی ہوئی تھی اور وہ اسے سوپ پینے کے لئے کہہ رہی تھی ۔آج اس کے شوہر کے ہاتھوں وہ شہید بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن اسے تو اس کی بالکل پرواہ ہی نہیں تھی لیلی اندر ہی اندر غصہ پیتی سوپ کا پیالا لیے باہر آئی
اور اسے ٹیبل پر پٹکتے ہوئے موبائل کا کیمرہ آن کیا ویڈیو بنتی جارہی تھی اور لیلی منہ بناتی سوپ پیتی جا رہی تھی ۔کیونکہ بنا ثبوت وہ اس پر یقین نہیں کرتی کہ اس نے سوپ پیا ہے
°°°°
وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جب کہ روح کب سے چور نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔
نہ تو وہ اسے ڈانٹتا تھا اور نہ ہی غصہ کرتا تھا اس کا سارا غصہ باقیوں کے لیے تھا روح کو تکلیف پہنچانا اب اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی
وہ کنتی کوشش کرتی تھی کہ یارم اس پر غصہ ہو اسےڈانٹے پھر پیار کرء لیکن اب تو یارم کو اس سے زیادہ اس کی سوتن بیماری سے پیار ہو گیا تھا وہ منہ کے ڈائزین بناتی مسلسل اس کو دیکھتی سوچ رہی تھی
اس کے کھو جانے کے ڈر نے یارم کو اس حد تک بے بس کردیا تھا کہ اب وہ روح کو درد دینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا ۔
کہاں وہ اس کے ذرا سی سخت نگاہ پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی تھی اور اب وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرتی تھی۔خیر اس سب چیزوں کا تو وہ بعد میں گن گن کے بدلا لینے والا تھا اس کا حساب تو روح کو ٹھیک ہونے کے بعد دینا ہی تھا
لیکن فلحال اس کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یارم اس کو کچھ نہیں کہتا تھا ۔اس کی حد سے زیادہ فکر کرنا اس کا خیال رکھنا ۔اس سب کے علاوہ جیسے یارم کو اور کوئی کام ہی نہیں تھا ۔
اس بورنگ روٹین اور عجیب و غریب زندگی سے روح اجزا چکی تھی ۔
وہ سب کچھ پہلے جیسا چاہتی تھی اور پہلے جیسا سب کچھ تبھی ہو سکتا تھا جب وہ بالکل ٹھیک ہوتی اور اب وہ کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی لیکن یارم کا یہی کہنا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے
جس کی وجہ سے یارم کی اسٹریک کیئرنگ اب بھی جاری تھی
وہ کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ روح کا سارا دھیان اسی کی جانب ہے لیکن وہ جان بوجھ کر اسے دیکھ نہیں رہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ سچ میں غصے میں تھا اور وہ اپنا غصہ اس پر نکال نہیں سکتا تھا
اس لیے وہ اپنا غصہ اسٹینڈنگ پر نکالتے ہوئے گاڑی چلانے میں مصروف تھا جب اسے اپنے ہاتھ اور کندھے پر روح کا لمس محسوس ہوا وہ اس کا بازو تھا میں اس کے کندھے کے اپنا سر رکھ چکی تھی
یارم نے نرمی سے اپنا حصار اس کے گرد کھینچتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔گھر کے باہر گاڑی روک ہر یارم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔
لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اس کی لریزتی پلکیں دیکھ چکا تھا
بڑی بھاری ہو گئی ہو ۔اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی تو اس کے لبوں پر شرارتی سی مسکان کھلی
اور کھلایں نہ وہ دوائیاوں کی دکان اب ہو گئی نہ میں موٹی اب کیسے اٹھاکے چلیں گے مجھے۔۔وہ دونوں آنکھیں پٹپٹاتی سیریس انداز میں بولی۔
تم ایک بار بنا کوئی بھی مستی کیے یہ کورس مکمل کر لو میں ساری زندگی تمہیں یوں ہی اپنی باہوں میں اٹھا کر چلوں گا۔وہ محبت سے بولا تو روح نے آنکھیں گھومئی ۔
اور اگر میں دوائیاں نہیں کھاؤں گی تو کیا آپ مجھے اپنی باہوں میں نہیں اٹھائیں گے وہ اس کے گلے میں باہر ڈالتی اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے بولی
تم دوائی ضرور کھاؤ گی روح وہ سختی سے بولا تھا ۔
ہاں تو میں کب انکار کر رہی ہوں میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک دن نہ کھانے سے کون سا کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں ہوجائے گا بہت کچھ ہو جائے گا مجھے دوائی کھانی چاہیے ضرور کھانی چاہیے ۔وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر یارم کی سخت انگلیوں کا ہلکا سا لمس محسوس ہوا وہ فورا بات بدل گئی ۔
گڈ گرل بے بی ۔۔وہ اسے لئے گھر کے اندر داخل ہوا
بس ذرا ذرا سی بات پر گھورنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی موٹی موٹی آنکھوں سے ۔کوئی ان کو بتائے نیلی آنکھیں خوبصورتی کی نشانی ہوتی ہیں نہ کہ وہ دہشت پھیلانے گی ۔وہ برابڑتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کی اس سرگوشی پر اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکا تھا
ہاں بس نمائش کروالیں ان سے اور تو کوئی کام ہے نہیں وہ اس کے ڈمپل میں انگلی گھساتی اس کی مسکراہٹ کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
جبکہ اس کی اس حرکت یارم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی
یارم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس لکے لیے ڈنر بنایا ۔وہ سچ میں کمال کا کوک تھا اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا ۔اور اگر ذائقہ نہ بھی تو تب بھی ہارم کی بےپناہ محبت پر وہ انکار نہیں کرسکتی تھی ۔
اور پھرظالم جس ادا سے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا کوئی انکار کر کے دیکھائےوہ اس کے ہاتھوں سے کھاتی سوچ رہی تھی جب اپنی بےلگام سوچوں پے لعنت ڈالتی اونچی آواز میں بولی
اللہ نہ کرے۔کہ آپ کسی اور کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیں ۔
کیا بول رہی بےبی منہ کھولو ۔بس یہ تھوڑا سا رہ گیا ہے ۔اس کی بات کی گہری سمجھے بغیر یارم نے ایک اور نوالہ اس کے منہ میں ڈالا
اس وقت یارم کے لیے اس کا کھانا اہم تھا ۔ورنہ یقیناً اس کے اظہارِ جلن پر وہ خوش ہوتا۔کیوں کہہ روح بھی اس کے معاملے میں کافی پوزیسسو ثابت ہوئی تھی اسے بھی پسند نہیں تھا اپنے علاوہ یارم کی توجہ کا مرکز کسی اور کی ذات دیکھنا ۔
اکثر مارکیٹ یا شاپنگ مال میں وہ اس سے آگے پیچھے کہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔
جب کہ وہ جانتی بھی تھی کہ یارم اس کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا
ہاں لیکن اس کی یہ جلن یا رم کو بہت بھاتی تھی ۔اسے اچھا لگتا تھا روح کا اس کے لیے اتنا ٹچی ہونا لیکن یہ وقت خوش ہونے کا نہیں تھا کیونکہ وہ کھانا بنانے میں پہلے ہی لیٹ ہو چکے تھے ۔روح تو بہت خوشی کے ابھی تک اس کا منہ کڑوانہیں ہوا تھا لیکن یارم کو اس کی فکر لگی ہوئی تھی ۔
میرا بچہ جلدی سے یہ ختم کرو ۔پھر میں تمہیں اچھی سی چائے بنا کر پلاتا ہوں ۔وہ چائے کیلئے پانی چڑاتا بہت محبت سے بولا تھا ۔
مطلب آپ کو یاد ہے یارم آپ کی یاداشت کتنی اچھی ہے نا مجال ہے جو کچھ بھول جائیں
وہ دانت پیستی یار م کو مسکرانے پر مجبور کر گئی
لو جی پھر شروع ہوگئی نمائش ۔
ہٹیں پیچھے آج چائے میں بناوں گی۔وہ کرسی سے اٹھ کر بولی
نہیں روح تم ابھی گیس کے قریب نہ آو یہ خطرناک ہے وہ اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتا اسے واپس بیٹھانے لگا۔
یارم اب بس کریں نہ پلیز میں تنگ آ گئی ہوں یوں بیٹھے بیٹھے ۔۔پلیز کم از کم چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔وہ منت کرنے والے انداز میں بولی ۔
نہیں روح پلیز ابھی نہیں صرف کچھ ٹائم صبر کر لو پھر سب تم نے ہی تو کرنا ہے نا وہ سمجھنے والے انداز میں بولا تو روح منہ بنا کر واپس بیٹھ گئی ۔
آج میں تمہیں بہت مزے کی چائے پلاوں گا۔وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے منانے میں کامیاب ہوا تھا۔
اور واقع ہی اس کی چائے بہت زبردست تھی ہمشہ کی طرح وہ اس میٹھی میٹھی چاِپئے کے بعد وہ اسے گندی گندی دوائیاں کھلانے والا تھا۔جس پر اس کا منہ ساری رات اس کڑوے زہر کے زیراثر رہے گا
آخر کب ختم ہو گا یہ میڈیسن کا سلسلہ وہ سوچتے ہوئے یارم کے پیچھے منہ بنائے کمرے میں آئی تھی
°°°°°
یارم اب نہ میں آپ سے پکی والی خفا ہو جاوں گی اسے میڈیسن باکس لیے اپنی طرف آتا دیکھ وہ منہ بنا کر بولی
کوئی بات نہیں بےبی مجھے میرے بچے کو منانے کا طریقہ آتا ہے وہ محبت سے اس کا ماتھا چومتامیڈیسن نکالنے لگا
آپ کو پتا ہے کوئی بھی کام زبردستی کروانے سے گناہ ملتا ہے آپ کو بھی گناہ مل رہا ہے جب آپ مجھے زبردستی یہ دوائیاں کھلاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے توبہ کر لیں ۔کسی بھی طریقے سے جب وہ اس کی باتوں میں نہیں آیا تو روح اب اسے خدا سے ڈر آنے لگی ۔
لیکن میں یہ کام تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں اور جو کام کسی کی بھلائی کے لیے کیا جائے اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا
ہیں۔۔۔۔! بھلائی کیا بھلائی ہے اس میں اچھے خاصے منہ کو کڑوا بادام بنا کے رکھ دیتے ہیں آپ اور آپ کہتے ہیں کہ یہ میری بھلائی ہے آپ کھائے ذرا یہ دوائی ذرا بیمار ہوں آپ۔۔۔۔ استغفراللہ کیا بکواس کر رہی ہوں میں اللہ نہ کرے آپ کو کچھ بھی ہو کوئی بھی بیماری آپ کو چھو کر بھی گزرے وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتی اللہ سے معافی مانگتے ہوئے اپنی بات کی توبہ کرنے لگی ۔۔پھر زراواقفے سے بولی
آپ ذرا یہ دوائی کھائیں پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کیسی ہے ۔گلے سے نیچے نہیں اترتی یہ تو میں صرف آپ کی خاطر سمجھوتا کر لیتی ہوں ۔ورنہ میں ساری زندگی اسے منہ نہ لگاتی
اپنا منہ کھولتے ہوئے وہ روز کی طرح اپنی بڑاس بھی نکال رہی تھی
آخر اس سوتن بیماری کو خود کے اور یارم کے بیج سے نکالنا بھی تو تھا
ورنہ اس کا تو یہی کہنا تھا کہ اس کی اس سوتن بیماری سے یارم کو اس سے زیادہ محبت ہو گئی ہے
یہ دوائی تمہاری احسان مند رہے گی ساری زندگی کے تم نے اسے منہ لگایا ۔وہ شرارتی انداز میں اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگاتے ہوئے بولا تو روح نےآخری گولی بھی نگل لی
گڈ میرابچہ اب جلدی سے لیٹ جاؤ سونے کا وقت ہو گیا ہے
یارم مجھے ابھی نہیں سونا مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔وہ جلدی سے بولی تھی ۔
ہم صبح باتیں کریں گے اس وقت تمہیں سونا ہے چلو شاباش وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے زبردستی بیڈ پر لیٹ آنے لگا
نہیں نا یارم مجھے نہیں سونا پلیز نہ ہم تھوڑی دیر باتیں کرتے ہیں پھر سو جائیں گے نہ روح کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی میڈیسن میں ایک میڈیسن نیند کی بھی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر اس سے دیر سے سونے کی ضد کرتی تھی لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ رات میں اس کی نیند ڈسٹرب و یا وہ ڈر کر جاگ جائے
ورنہ شاید وہ خود بھی اسے اتنی جلدی سونے پر کبھی مجبور نہ کرتا
اوکے بابا ہم کر رہے ہیں باتیں آرام سے لیٹ جاؤ میں بھی یہی ہوں تمہارے پاس وہ مان جانے والے انداز میں کہتا بیڈ کی دوسری جانب آیا تو روح کو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ اسے سینے سے لگایا تھا
اور اب یقیناً روح کی بے تکی باتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا ۔
اور انہی باتوں کے دوران ہی اس نے گہری نیند میں اتر جانا تھا یارم جانتا تھا
°°°°°
یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔جلدی لیلیٰ ماں بن جائے گی ۔اورخضر ماموں کا ایک پیارا سا بیٹا ہوگا یا شاید بیٹی لیکن یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔
کاش ہمارا بچہ ہوتا تو اب تک تو کچھ ہی وقت میں وہ ہمارے پاس آنے والا ہوتا
ہم دونوں اس سے بہت پیار کرتے ہیں نا یارم ۔
لیکن شاید میں اس کی ماں بننے کے قابل نہیں تھی اسی لئے تو وہ آیا ہی نہیں شاید میں ہی اللہ کے دیے اس تخفے کو سنبھال نہیں پائی ۔ایک بار پھر سے اپنے اندر خالی پن کا احساس جاگتے ہی روح اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی اور یارم نے سختی سے لب بھیج لیے
یہی وجہ تھی روح میں تمہیں لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے رہا تھا ۔اس طرح سے رو رو کر تم اپنی طبیعت خراب کر لوگی
جو کچھ بھی ہوا وہ سب ہمارے نصیب کا لکھا تھا خبردار جو تم نے اس میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا ۔
وہ ہمارے نصیب کی اولاد نہیں تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ بے اولاد رہیں گے ان شاء اللہ جلد بھی ہمارے بچے ہوں گے ۔اور ہم انہیں بہت پیار کریں گے بہت خیال رکھیں گے ۔
اور اس طرح سے آنسو بہا بہا کر اللہ کو ناراض نہ کرو۔وہ بے نیاز ہے ہمیں اوقات سے بڑھ کر نوازے گا ان شاءاللہ ۔لیکن اس طرح سے رو رو کر تم نا قدری کر رہی ہو جو ہے اس کی ۔وہ اسے سختی سے ڈپتے ہوئے بولا ۔
اچھا نہیں کہتی کچھ بھی ڈانٹتے کیوں ہیں ۔۔۔! وہ لاڈ سے اس کے گرد باہیں پھیلائے بولی۔
ڈانٹ کہاں رہا ہوں بس سمجھا رہا ہوں ۔اپنی اس نا لائق اسٹوڈنٹ کو ۔یا رم نے اسے اپنے مزید قریب کیا
میں نالائق نہیں ہوں ۔وہ روٹھے روٹھے انداز میں بولی
ہاں بہت لائق ہو تم ۔مجال ہے جو کوئی بھی بات اس نھنے سے ذہن میں بٹھا لو ہر چیز پر ضد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو ۔اس کے روٹھنے پر یارم نے اسے مزیدچھڑا۔
بس بہت ہوگیا یارم بہت اڑا لیا آپ نے میرا مذاق ہے ایک بار ٹھیک ہو جانے دیں مجھے منہ بھی نہیں لگاؤں گی آپ کو ۔دن رات بیماری بیماری کرتے رہتے ہیں نہ پھر رہنا اسی سوتن بیماری کے ساتھ ۔
روح ہاتھ نہیں آئے گی تب وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر تکیے پر رکھتے ہوئے بولی ۔یہ ناراضگی کا اظہار کرنے کا طریقہ تھا یارم کو بالکل پسند نہیں تھا ۔کیوں کہ اسے باہوں میں لیے بغیر تو اسے ساری رات نیند بھی نہیں آتی تھی ۔
ہاں یہ بیماری مجھے پیاری ہے کیونکہ اس وقت یہ تم سے جڑی ہوئی ہے ۔لیکن تم نے اسے اپنی سوتن کیوں بنا لیا ۔ وہ پچھلے دو دن سے اس کی بیماری سوتن والےطعنے سن رہا تھا
سوتن ہی تو ہے جب سے یہ سوتن ہم دونوں کے بیچ میں آئی ہے آپ مجھے کم اور اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
بتائیں کب کہا تھا آپ نے مجھے آئی لو یو میرا بچہ ۔۔۔بولنے بتائیں میں بتاتی ہوں آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا اور اتوار والے دن صبح کچن میں آپ کو یاد آیا تھا کہ میں آپ کی بیوی ہوں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں
ورنہ تو ہر وقت دوائیاں کھا لو روح
وقت پر سو جاؤروح
وقت پر کھانا کھاؤروح ۔
طبیعت خراب ہو جائے گی روح
بیمار پر جاؤں گی روح ۔
آپ کی ہر بات اس سوتن بیماری سے جڑی ہوتی ہے ۔ررح تو کہیں ہے ہی نہیں بس ہر جگہ یہ سوتن بیماری ہے
تو ہوا نہ آپ کو اس سوتن بیماری سے مجھ سے زیادہ پیار
وہ عجیب و غریب لاجک بیان کرتی اپنے بات کی وضاحت دے رہی تھی
اور یارم بھرپور توجہ سے اس کی ایک ایک بات کے ساتھ اس کے احساسات کو بھی سمجھ رہا تھا
ہاں یہ سچ تھا جب سے وہ ہوش میں آئی تھی یارم کو صرف اور صرف اس کی صحت کی فکر لگی ہوئی تھی ۔
وہ صرف اور صرف اس کی پروہ کر رہا تھا اس کا خیال رکھ رہا تھا
وہ اسے محبت نہیں دے رہا تھا وہ اسے توجہ دے رہا تھا
اور سچ یہی تھا کہ یہ اس کی روح کے ساتھ زیادتی تھی ۔
جس کے لیے وہ خود کو قصوروار بھی سمجھتا تھا
لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی روح بالکل ٹھیک ہو جائے ۔اور یہ بیماری ان دونوں کے بیچ سے نکل جائے ۔
اور اس ان چاہی بیماری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے یارم کو فلحال اس کی صحت کی فکر کرنی تھی۔
تم ایک بار بالکل ٹھیک ہو جاؤ روح ۔
یارم کاظمی کی محبت پر ہی نہیں بلکہ اس کی سانس سانس پر صرف تمہارا حق ہےجو تم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
کوئی بیماری ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آسکتی ۔
دنیا کی کوئی بھی چیز یارم کاظمی کیلئے روح سے زیادہ عزیز نہیں ہوسکتی ۔
بس ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ ۔پھر دیکھنا میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا ۔
وہ ایک ہی لمحے میں اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتا شدت سے کہتا اسے اپنے سینے میں بھیج گیا۔
ہاں میں بھی تبھی کی بات کر رہی ہوں میں آپ کو منہ نہیں لگاؤں گی اتنے نخرے دکھاؤں گی ۔کہوں گی جائیں نہ اپنے لاڈلی بیماری کے پاس میرے پاس کیا کر رہے ہیں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اترتی نہ جانے کیا کیا بڑابڑا رہی تھی ۔
لیکن اس کے باوجود بھی اپنی آنکھیں کھولے یا رم سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی
۔ایسی بیوقوفی بھری باتیں وہ ہوش میں کبھی نہیں کرتی تھی ۔
یہ سب ان میڈیسن کا اثر تھا جو اپنی سوچوں کو عجیب لفظوں میں پرو کر اس کے سامنے بیان کرتی تھی
ہاں لیکن وہ اپنے دل میں کچھ نہیں رکھتی تھی ۔
اور اس کی صحت کے لیے یہ بہت اچھا ہے
یارم کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ وہ بڑی مشکل سے آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی
میں یہاں اتنے سیریس موضوع پر بات کر رہی ہوں اور آپ مسکرا رہے ہیں چھپائیں اسے چھپائے اس ڈمپل کو ورنہ میں کھا جاؤں گی ۔
بلکہ نہیں آپ بھلا کیوں چھپائیں گے آپ تو نمائش کریں گے ۔آخر اللہ نے دیں جو دیا ہے ۔لیکن میں آپ کو بتا دوں یارم کاظمی صاحب اللہ نمائش کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا قہ سر گوشانہ انداز میں اس کے کان کے قریب بولی تھی ۔
جس پر یارم کے ڈمپل مزید گہرے ہوئے تھے ۔
اگر روح کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ رات کو وہ نیند کے خمار میں اس سے کیا کیا بولتی ہے ۔تویقیناً تین چار دن تو اس سے چھپ کر گزار دیتی
ہاں لیکن یہ الگ بات تھی کہ صبح اس کی شروعات بالکل نئی ہوا کرتی تھی رات وہ کیا کیا کہتی ہے اس کے ذہن میں ایک دی بات نہ ہوتی ۔
اس کی گرم گرم سانسیں وہ اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا مطلب کے شاید وہ سوچکی تھی ۔
یا رم نے اسے سیدھا کرنا چاہتا تو مزید یارم سے لپٹ گئی ۔
اس سے پہلے کہ یارم اپنی آنکھیں بند کرتا وہ اچانک سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔
کچھ رہ گیا کیا میرا بچہ ۔۔۔! وہ بہت محبت سے بولا ۔
اینگو مینگو یارم ۔۔۔اینگومینگو سو مچ ۔۔اس کے معصومانہ انداز میں کہنے پر یارم کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھی
رات کے بارہ بجے اسے آئزلینڈک لینگویج بولنے کا جوش چڑ چکا تھا ۔
آئی لو یو ٹو میرا بچہ ۔۔۔وہ ایک بار پھر سے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا تھکنے لگا ۔
جب اچانک اس نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا یارم نے ٹھنڈی بھری نہ جانے اب اسے کیا یاد آیا ہوگا ۔
اب کیا ہوا بےبی۔۔۔!یارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا
جب اچانک ہی وہ اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتی شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔
یہ جانے بغیر کے ایک اور رات کو ہی یارم کے لیے بہت مشکل بنا چکی ہے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بےحد قریب کی یہ وہ سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔
تمہیں اس سب کا حساب چکانا ہو گا روح بےبی ۔یہ سب کچھ کر کے تم اپنے آنے والے وقت کو مشکل بنا رہی ہو۔تمہیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا ۔یہ ساری حرکتیں معاف کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔اس کے ماتھے کو شدت سے چومتے وہ خود میں ہی کہیں قید کر لینا چاہتا تھا
°°°°°
یارم پلیز مان جائیں نہ میں وعدہ کرتی ہوں میں کوئی کام نہیں کروں گی کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاوں گی میں کچھ نہیں کروں گی پلیز مجھے لے چلیں نا ۔
وہ صبح اٹھتے ہی اس کی منتیں کرنے لگی تھی کیونکہ یارم نے کہا تھا کہ اب وہ اسے لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے گا
بلکہ میری اور شفا ہی اس کا خیال رکھیں گیں۔اور اس کے ایک ایک سیکنڈ کی رپورٹ اس تک پہنچائیں گیں ۔
سوری بےبی میں اس معاملے میں تم پر بالکل یقین نہیں کر سکتا ۔تمہارے ہاتھ پیر کنٹرول نہیں ہوتے اس لیے بہتر ہے کہ تم گھر پر ہی رہو اگر چاہو گی تو لیلیٰ یہاں آ جایا کرے گی لیکن تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گا ۔اس کا گھر میرے آفس سے بہت دور ہے اور واپسی کے راستے پر بھی تمہیں دیکھ نہیں پاتا
لیلی ماں بننے والی ہے یارم وہ بھلا روز روز یہاں کیسے آئے گی اور میں اپنے ہاتھ پیر کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گی نہ میں کوئی کام نہیں کروں گی آپ یقین کر کے تو دیکھیں ۔وہ اسے اپنے سامنے بٹھائےزبردستی ناشتہ کروا رہا تھا جس دوران وہ مسلسل اس کی منتیں کرتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
روح میں نے کہا نہیں تو اس کا مطلب نہیں ہے وہ سختی سے بولا ۔
اس کا مطلب نہیں ہے تو پھر میں بھی ناشتہ نہیں کروں گی اور نہ ہی وہ دوائیاں کھاؤں گی ۔وہ پھر سے ضدی ہونے لگی
جب اچانک یا رم نے غصے سے ایک ہاتھ ٹیبل پر مارا وہ اچھل کر دور ہوئی۔اور اب کچھ فاصلے پر کھڑی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی وہ کیا کرنے والا تھا ۔
یارم اٹھ کر اس کے پاس آیا اسے ہاتھ پکڑ کر زبردستی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانے لگا سرخ آنکھوں میں اس وقت اتنا غصہ تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ناشتہ کرنے لگی اس وقت اس کے اندر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی کرنا تو ضد کرنا تودور کی بات تھی۔
ناشتہ کروانے کے بعد وہ اسی غصے سے اٹھ کر اس کے لیے دوائیاں لے کر آیا اور روح بنا چواں چراں کے کھانے لگی ۔جبکہ اس کی سختی پر آنکھیں نم ہو ہو رہی تھی لیکن اس کے سامنے آنسو بہانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جلدی سےباہر آو اور خبردارجو وہاں کوئی بھی کام کیا ۔وہ سختی سے کہتا باہر نکل گیا جبکہ روح اپنے کانوں پر یقین کرتی خوشی سے باہر بھاگی تھی ۔۔
روح تم نے اسے گود میں کیوں لیا ہے
اس کتے کو نیچے اتارو گاڑی میں۔بیٹھے ہی روح نے شونو کو اپنے گود میں دیا تو یارم کا غصہ ہمیشہ کی طرح ہائی ہوگیا ۔
یارم پلیز رہنے دیں نا بیچارہ بیمار ہے پہلے ہی اور آپ اس پر غصہ ہو رہے ہیں ۔
کل سے وہ کچھ سست کیا ہوگیا روح نے تو اسے بیمار ہی بنا لیا
۔وہ بالکل ٹھیک ہے بس تھوڑا سا موسم کا اثر لے رہا ہے لیکن اسے اپنی گود سے اتارو تم
اور خبردار جو آئندہ تم نے اسے گود میں لیا وہ غصے سے شونو کا پٹا پکڑ کر پیچھے والی سیٹ پر پھینک چکا تھا
یارم آپ کیسے ایک معصوم چھوٹے سے جانور کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کر سکتے ہیں
روح نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
۔ایسے ہی جیسے میں نے ابھی کیا ہے یارم نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی جب کہ شونوکا سارا سست پن پچھلی سیٹ پر جاتے ہیں ختم ہو چکا تھا
وہ تو مچلتا ایک بار پھر سے روح کی گود میں آنے کو تیار تھا
۔جب یا رم نے اسے گھور کر دیکھا
وہ جانور جیسے اس کی نظروں کا محفوظ سمجھتا تھا ۔فورا ہی خاموش ہوکر سیٹ پر بیٹھ گیا
یارم کتنے بے رحم انسان ہیں کیسے گھور رہے ہیں اس معصوم کو میں پوچھتی ہوں کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا ۔جو آپ اس پر اس طرح سے غصہ ہوتے رہتے ہیں ۔
جانوروں کے ساتھ کوئی بلا اس طرح کا سلوک کرتا ہے ۔
اس کے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور شونو کے ڈر کر چپ ہو جانے پر روح خاموش نہ رہ سکی
کیا مطلب ہے کیا بگاڑا ہے کیا تم اب بھی نہیں جانتی کہ اس کتے کے بچے نے میرا کیا بگاڑا ہے ۔یہ تمہارے اور میرے درمیان آیا ہے
۔یہ تم سے میرا وقت لیتا ہے۔ وہ بھنا کر بولا ۔
یار م آپ ایسا نہیں کہہ سکتے بالکل غلط بیانی ہے یہ میں کب اس کے ساتھ آپ کے ہوتے ہوئے وقت گزارتی ہوں جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تب ہی میں شونو کے پاس رہتی ہو روح نے فورا اس کی بات کی نفی کی تھی ۔یہ تو روح کو اپنی ذات پر ایک الزام کی طرح لگا تھا ۔
جب کہ اس وقت میں تم مجھے یاد کر کے میری محبت کا ثبوت بھی دے سکتی ہو
۔اپنی محبت کو ظاہر بھی کر سکتی ہو
لیکن تم نے تو اس کتے کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔
میرے حصے کا پیار تم اس کتے کے بچے کو دیتی ہوں ۔یہاں تک کہ تم اسے اپنی گود میں بیٹھاتی ہواس کے بال سہلاتی ہو۔اس سے پیار کرتی ہو ۔کتے کی طرف داری پر یارم بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا ۔
جب کہ اس کے بات مکمل ہوتے ہی شونو نے ایک بار پھر سے بھونکتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلایا ۔
دیکھا دیکھا کباب میں ہڈی اسے ہی کہتے ہیں اس نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر شونوکو دیکھتے ہوئے جتلایا
شونو میری جان خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ آپ کے پاپا ابھی غصے میں ہیں۔
یارم کا غصہ دیکھتے ہوئے اس نے شانوکی جان بچانے کی خاطر کہا۔
روح تم نے پھر سے مجھے اس کتے کا باپ بولا۔روح بات پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
۔او سوری میں بھول گئی تھی شونو آپ کے پاپا نہیں بس آپ کی ماما کے ہسبنڈ ابھی غصے میں ہے ابھی آپ کچھ مت بولو روح نے بات بدلی
۔اور وہ بات بدل کر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں کر پائی تھی
کیونکہ اس کی بات کا مطلب تو وہی تھا اب حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ اسے ایک کتے کو گود لینا پڑ رہاتھا اب بہتر تھا یارم اس سے لڑنے کی بجائے اپنی ڈرائیونگ پر فوکس کرتا
ورنہ پتہ نہیں وہ اس کتے سے اس کی کون کون سی رشتہ داریاں نکلوا لیتی
°°°°
خضر یارم کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہی آفس کے لیے نکلے
جب گاڑی سے روح اور شونو کو نکلتے دیکھ کر وہ بے اختیار ہی مسکرا دیا
اسے یقین تھا کہ آج یارم اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں لائے گا کیونکہ کل کی ساری کہانی لیلی اسے سنا چکی تھی۔
اسو روح کو یہاں دیکھنے پر حیرت تو بنتی تھی۔
السلام علیکم ماموں کیسے ہیں ۔
روز کی طرح فریش سا چہرہ دیکھ کر خضر کو خوشی ہوئی تھی مطلب کے وہ اپنے ضد منوا کر یہاں آ چکی تھی ۔
میں تو بالکل ٹھیک ہو ماموں کی بھانجی لیکن تم ضد چھوڑو کیوں نہیں دیتی اسے اتنا تنگ مت کیا کرو خضر نے سمجھایا
تم کون ہوتے ہو اسے یہ کہنے والے پیچھے سے آتے یارم نے اس کی بات سنی
۔ اور روح کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا ۔
یہ میری روح ہے خضر اس کا حق بنتا ہے کہ یہ مجھے تنگ کرے مجھے ستاۓ ۔تم اس کے ماموں ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے مجھ سے زیادہ چاہتے ہو ۔وہ اس کے روبرو کھرپڑا کہنے لگا تو خضر مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا
۔میری اتنی مجال کے میں اسے کسی کام سے منع کر سکوں ۔خضرت نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا
۔اس حادثے کے بعد یارم خضر کے ساتھ بھی مقابلے پر اتر آیا تھا
وہ روح کا اکلوتا رشتہ تھا ۔لیکن یہاں بھی یارم کا یہی کہنا تھا کہ اس سے زیادہ روح پر اور کسی کا کوئی حق نہیں
اور خضراس بات کو دل و جان سے قبول کرتا تھا
۔اس کی اتنی مجال کہاں کہ وہ یارم کے ہوتے ہوئے روح پر اپنا حق جتائے۔
اپنا خیال رکھنا روح اور دوائی ٹائم پر کھانا میں لیلیٰ کو بتا کر جاؤں گا اور اس کتے سے دور رہنا ۔کتا کہیں کا صبح صبح لڑائی کروا دی۔وہ شونو کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولا تو خضر بے اختیار مسکرا دیا ۔
یہ کتا جب سے آیا تھا تب سے ہی یارم کو اس سے سخت چڑ تھی
لیکن اس کے باوجود بھی جن دنوں میں روح بیمار تھی یا رم نے کسی عزیز کی طرح اس کا خیال رکھا تھا ۔
یارم اظہار کرے نہ کرے لیکن روح کی جان بچا کر یہ کتا اس کے لئے بھی بہت خاص ہو چکا تھا
اور وہ بھی اسے اپنے ہی گھر کا ایک فرد سمجھنے لگا تھا
۔یارم کے گھر میں دو نہیں بلکہ تین جانے بستی تھی
اس بات کو یار م قبول کرتا تھا ۔روح کو بے شمار ہدایت دینے کے بعد وہ اپنے کام کے لئے نکل چکے تھے ۔
جبکہ یہاں سے آفس پہچنے کے درمیان میں لیلیٰ کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود بھی روح نے چائے بنائی ۔
تمہارا شوہر مجھے سولی پر ٹانگ دے گا اور تم وہی سامنے کھڑے ہو کر نظارہ کرو گی
اچھی طرح سے سمجھ رہی ہوں میں تمہاری پلیننگ ۔مروانا چاہتی ہونا مجھے تو ماپنے یاں کے ہاتھوں۔ ۔
تو صاف صاف کہہ دو ہو سکتا ہے تمہیں خوش کرنے کی خاطر وہ مجھے مار ڈالے
لیکن اللہ کا واسطہ ہے روح مجھے قسطوں میں مت مارو ۔
اس طرح سے میری سانس رکنے لگتی ہے ۔
ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ہٹلر واپس آ ہی نہ جائے دیکھو روح اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ایک نھنی سی جان بھی ہے میرا نہ سہی ہے اس معصوم کا ہی خیال کر لو ۔
لیلیٰ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی
۔اتنے بھی برے نہیں ہیں یار م جتنا تم سمجھتی ہو
تمہیں پتا ہے کل انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ اتنے پیار سے میرے لیے کھانا بنایا روح نے اس کا خوف کم کرنے کی خاطر بولا
۔لیکن اب لیلی بیچاری اسے کیا بتاتی کہ جو کچھ بولنا تھا وہ تو کل اسے کہہ کر گیا تھا
وہ اسے زندہ زمین میں گاڈے کی بات کر رہا تھا اور روح اب بھی بے فکری سے وہی سارے کام کر رہی تھی جن سے یارم کوچڑ تھی
°°°°°
ڈیول اس سب سے تمہیں بہت غصہ آرہا ہوگا لیکن تم خود سوچو کہ اس کام میں کتنا فائدہ ہے اور ہم کسی کے ساتھ کی کوئی زبردستی نہیں کرتے
وہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں ہار کر یہاں تک کہ چلی آتی ہیں ۔
اور ان میں سے کوئی بھی نیک اور پارسا لڑکی تو نہیں ہو سکتی جو آدھی رات کو اپنے معشوق سے ملنے کے لیے اپنی عزت کی پرواہ کیے بغیر ایسی جگہوں پر آجائے
۔اپنی مرضی سے آتی ہیں وہ سب اور پھر ان میں اچھی لڑکیاں نہیں ہوتی ۔یہ لڑکیاں محبت کے نام پر فریب دیتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ خود فریب میں آ جاتی ییں اور اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے
وارث بہت مزے سے اسے اپنے کارنامے سنا رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت نیک کام کر رہا ہو
یارم نے ایک نظر سامنے کھڑے پانچ خوبصورت لڑکوں پر ڈال
۔یہ اسٹائلیش اور خوبصورت لڑکے کیسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتے تھے
شکل سے کسی امیر گھرانے کے لگتے تھے ۔اور ایسے لڑکوں کا ہی تو خواب لڑکیاں دیکھتی ہیں
۔جو یہ سوچتیں ہیں کہ کسی امیر لڑکے کو اگر ان سے پیار ہو جائے تو ان کی ساری زندگی سنور سکتی ہے ۔لیکن ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے گھٹیا ارادوں کو وہ لڑکیاں کیوں نہیں سمجھ پاتی ۔اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں گنوا دیتی ہیں ۔
کیوں وہ کردار کو مضبوط نہیں رکھ پاتی
کیوں عورت اپنا معیار اتنا گرا دیتی ہے
کیوں اپنے شوہر کی امانت میں خیانت کر کے اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کر دیتی ہے
۔ان لڑکیوں کو سوچتے ہوئے اسے ایک پل کے لئے اپنی روح کی یاد آئی تھی پاکیزہ معصوم مضبوط کردار کی مالک جو اپنے شوہر کو ہی اپنے تن بدن کا مالک سمجھتی ہے
اور دین حق پر چلتی ہے اور دوسری طرف تھی یہ لڑکیاں صرف خوبصورت چہرے اور چند پیسوں کے خاطرکیسے اپنا آپ برباد کر دیتی تھیں۔ اس کے سامنے میز پر ستر سے زیادہ ویڈیو کلپ کی ڈیٹیلز پڑی تھی ۔جن میں ان لڑکیوں کی عزت کا سودا کیا جارہا تھا
میں نے تمہیں منع کیا تھا وارث کوئی بھی ایسا کام مت کرنا کہ جیسے تم میری نظروں میں آؤ
لیکن تم نے وہی کیا اب تم بتاؤ تمہیں اس گناہ کی کیا سزا دوں
۔ڈیول نے جیسے اس کی تقریر سنی ہی نہیں تھی ۔
ڈیول میں تمہیں بتا تو چکا ہوں میرا کوئی قصور نہیں ہے یہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں کھینچی یہاں چلی آتی ہیں ۔اور ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی زبردستی کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوئی تم یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہو
یہ لڑکیاں اپنی مرضی سے میرے لڑکوں کے ساتھ تعلقات بناتی رہی ہیں وارث اب بھی اپنا جرم قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور یہ بات یارم کو مزید غصہ د** رہی تھی
شارف نے میز سے اوریجنل سی ڈی اٹھاتے ہوئے توڑنا شروع کر دی تو وارث کو بہت غصہ آیا لیکن ڈیول کے سامنے کچھ بھی بولنا اس کی اوقات سے باہر تھا
۔سامنے کرسی پر بے نیاز اور بے فکر بیٹھاوہ شارف کو یہ کام کرتے دیکھ رہا تھا
۔باقی کچھ اور بھی ہے یا بس یہی ہیں شارف نے پوچھا
۔اور کچھ نہیں ہیں بس یہی سی ڈیز تھی جو تم نے ضائع کر دی وارث نے شارف کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر کہا ۔
بیٹا ابھی تو ہم تجھے بھی ضائع کریں گے اور تیرے ان لوگوں کو بھی اس کے اس طرح سے کہنے پر ہی خضر بھی بول اٹھا ۔
اسے پہلے لگا تھا کہ وارث اپنی غلطی کو قبول کرے گا لیکن وہ تو سینہ تانے اپنے گناہ کو غلط کہنے کو تیار ہی نہ تھا
اور ایسے لوگوں کاوہی انجام ہوتا ہے جو ڈیول آج تک کرتا آیا ہے ۔
کیا مطلب ہے تمہارا تم ایسے نہیں کر سکتے میرے ساتھ ڈیول میں نے تمہارا بہت ساتھ دیا ہے ۔
اور میں نے کبھی بھی تمہارے خلاف جا کر کوئی کام نہیں کیا
یہ لڑکیاں خود لوٹنے کو تیار ہیں تو کونسا آدمی پیچھے ہٹے گا ۔یارم کی خاموشی پر وارث پریشانی سے بولا تھا کیونکہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہوسکتی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ڈیول کی بیڈ لسٹ میں نا آجائے ۔
شارف ان لڑکوں کو یہاں سے لے کر چلے جاؤ ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی خوبصورتی کو غلط طریقے سے کیش کیا ہے
لیکن ان کی غلطی کی سزا بھی انہیں ملے گی
ان کی شکل صرف دیکھنے کے لائق ہونی چاہیے چاہنے کے نہیں وہ اٹھ کر ان لڑکوں کے سامنے کھڑا کہنے لگا تو پانچوں بوکھلا گئے
۔ڈیول ہمیں معاف کر دیں ہم سے غلطی ہوگئی ہم دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گے ان میں سے دو لڑکے یارم کے پیروں پر جھکے معافی مانگنے لگے
۔جب کہ ان دونوں کو اس طرح سے معافی مانگتے دیکھ کر باقی تینوں بھی اپنی موت کو اپنے قریب دیکھتے ہوئے ہاتھ باندھ چکے تھے
۔ہم ایسا کام دوبارہ نہیں کریں گے ڈیول پلیز ہمیں چھوڑ دیں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے وہ لڑکیاں خود ہمارے ساتھ آنے کو تیار تھی
اور جو بھی ہوا ہے ان کی مرضی سے ہوا ہے ہم نے کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کی
وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے
لڑکی اپنی عزت اپنے عزت کے محافظ کے حوالے کرتی ہے جسے وہ چاہتی ہے جسے وہ اپنا مانتی ہے جس کی خاطر وہ اپنا تن من دینے کو تیار ہو جاتی ہے
محبت دنیا کی سب سے انمول چیز ہے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ اور اس تحفے کو تم نے اتنا بے مول کر دیا ہے کہ آج لوگوں کا محبت پر سے ایمان اٹھ گیا ہے
۔میں یہ نہیں کہتا کہ قصور صرف تم لوگوں کا ہے قصوروار وہ لڑکیوں کا بھی ہیں جو بنا کسی جائز رشتے کہ تم لوگوں کے ساتھ یہاں تک آتی رہی
اور کل ان سی ڈیز کی صورت میں بازاروں میں بکنے والی تھی ۔قصوران لڑکیوں کا بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے میں لڑکیاں دل سے سوچتی ہیں دماغ سے نہیں اور بعد میں تم لوگ انہی معصوم دلوں کے ساتھ کھیل کر ان کی زندگی برباد کر دیتے ہو
کتنی عام سی بات ہے نا ہم اکثر سنتے ہیں کہ کسی لڑکی کا ایم ایس لیک ہوتے ہیں آج ایک لڑکی کا توکل دوسری لڑکی کا
اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے کسی ایک جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی
تو دوسری جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی کے باپ بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا
۔اور تم جیسے لڑکے پھر کسی دوسرے شکار کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہو ایک بار تم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ جس کو تم نے اس غلط راہ پر لگایا وہ اپنی جان گنوا چکی ہے
۔کل تک شاید ان لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہوگا ۔اور تم لوگ آج معافی مانگ رہے ہو
لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ڈیول کی کتاب میں معافی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔شارف لے جاؤ ان کو یہاں سے اور دوبارہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا
یارم سختی سے کہتا ایک بار پھر سے وارث کے سامنے آ بیٹھا تھا
۔تمہاری بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے نہ وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے ٹیبل پر پھینک چکا تھا وہ بھی کسی لڑکے کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہے ممکن ہے کہ کل ایسی ہی کوئی ویڈیو تمہاری بیٹی کی بھی لیک ہو جائے تم نے میرے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے وارث مجھے تم سے ایسے گھٹیا کام کی کبھی امید نہیں تھی ۔
میں امید کرتا ہوں کہ تم دوبارہ ایسا نہیں کرو گے
لیکن یہ مت سوچنا کہ تم ڈیول کی نظر میں گنہگار نہیں ہو
میں تمہیں تمہارے گناہ کی سزا میں ضرور دوں گا لیکن اس سے پہلے تم اپنی بیٹی کو بچا لو
جلد ملیں گے یارم نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو خضر اور شارف بھی اس کے پیچھے چل دیئے
جب کہ وارث بے چینی سے تصویریں دیکھ رہا تھا جو یارم اس کے سامنے ٹیبل پر پھینک کر گیا تھا
°°°°°
مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وارث کوچھوڑ دو گے خضر نے نکلتے ہوئے کہا
میں اسے سزا کیسے دے سکتا تھا خضرجبکہ اسے سزا اللہ نے دی ہے اس کی بیٹی کے روپ میں ۔
جس لڑکے سے وہ محبت کر بیٹھی ہے وہ ایسے ہی ایک گینگ پر لیڈر ہے
جو میری نظر میں بھی ہے ۔اور بہت جلد میں اسے بھی اس کے انجام تک پہنچ جاؤں گا لیکن وارظث کی بیٹی کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تب تک اس کی عزت کی حفاظت اس کا باپ کر سکے
۔مکافات عمل شاید اسی کو کہتے ہیں شارف نے کہا ۔
یہ تو حل ہو گیا اور دوسرے کیس کا کیا کرنا ہے اور جس کے بارے میں میں نے خضر کو سب بتایا تھا
کون سا کیس خضر نے تو کسی کیس کا ذکر نہیں کیا وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا ہاں وہ دراصل میرے دماغ سے نکل گیا یونیورسٹی میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا لڑکی کے انکار پر اس نے لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا یہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے لڑکی کی مسلسل سرجریز کی جارہی ہیں لیکن اب بھی حالات بہت خراب ہیں ۔اور اب ۔۔۔۔خضر نے بتاتے ہوئے ایک نظر اس کے ماتھے کی رگوں پر ڈالی تھی
۔اور پھر خاموش ہو گیا
اس کا ڈیول موڈ اون ہو رہا تھا جو ان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
پوری بات بتاؤ خضر خاموش کیوں ہوگئے وہ غصے سے دہارا تھا
۔اور وہ لڑکا شادی کر رہا ہے آج رات اس کی شادی ہے ۔
وہ بات مکمل کرکے پھر خاموش ہو گیا ۔
مطلب کے ایک معصوم لڑکی کی زندگی کو برباد کرکے وہ خود شادی کر رہا ہے
۔ایک معصوم کی ساری خوشیاں لوٹ کے وہ اپنا گھر بسانے جا رہا ہے
اور اسے لگتا ہے کہ ڈیول ایسا ہونے دے گا
۔ایڈریس بتاؤ اس کا یارم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
۔مجھے یہیں چھوڑ جاؤ ڈیول مجھے اور کچھ کام ہے اس کا خطرناک موڈدیکھتے ہوئے شارف نے فورا کہا تھا ۔
ڈیول کے ایسے موڈ کے ساتھ وہ کہیں بھی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
اسی لیے وہیں پر ہی اتر گیا جبکہ خضر یارم کو راستہ بتا رہا تھا ۔
ہیلو لیلی روح کا خیال رکھنا اور اپنا بھی ڈیول اور خضر کو آنے میں دیر ہو جائے گی ان کے جاتے ہی شارف نے لیلی کو فون کیا تھا
۔خیریت تو ہے لیلی نے ایک نظر باہر ٹی وی لگائے روح کی جانب دیکھا تھا
۔ہاں ٹھیک ہے سب کچھ بس ڈیول کا ڈیول موڈ آن ہوچکا ہے پتہ نہیں آج کس کی شامت آئی ہے بس دعا کرنا کہ وہ جو بھی ہو اس کو آسان موت ملے شارف نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تو لیلیٰ کی ہنسی نکل گئی ۔
فکر مت کرو میں روح کو سنبھال لوں گی اور تم بھی اپنا خون نا جلاو گھرچلے جاؤ معصومہ انتظار کر رہی ہو گی کیونکہ اتنی ہمت تم میں ہے نہیں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جا پاتے لیلی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا
لیلی میں تمہاری ہمت سے بھی اچھے سے واقف ہوں اور تمہاری طرح پریگنٹ ہو کر گھر نہیں بیٹھا بہت کام ہے مجھے ۔اتنا ہی فارغ ہوں نا وہ سنانے والے انداز میں کہتا فون بند کر چکا تھا جب کہ اپنی بات پر غور کرکے جہاں اس نے خود پر لعنت بھیجی تھی وہی لیلی کا قہقہ اسے فون بند ہونے تک سنائی دیتا رہا