Ishq e Yaram Novel by Areej Shah, Areej shah is one of the best famous Urdu novel writers. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is the latest novel by Areej Shah. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.
Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download Ishq e Yaram Novel to click on the link given below, or you can also read it online.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel
Ishq e Yaram Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Ishq e Yaram Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society
↓ Download link: ↓
If the link doesn’t work then please refresh the page.
Ishq e Yaram Novel by Areej Shah Ep 1 to Last
Read Online Ishq e Yaram Novel by Areej Shah:
Episode 1 to 5
عشقِ یارم
اریج شاہ
وہ ہر طرف اسے ڈھونڈ رہا تھا کسی کی اتنی ہمت کہ کوئی اس کی روح کو تکلیف پہنچائے
کون تھا اس کا ایسادشمن جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول سے پنگا لیتا ۔
راشد اس کھیل کا سب سے کمزور مہورا تھا ۔جس میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ وہ ڈیول کی کمزوری پر حملہ کرتا
ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔اور پھر اسے ایک فون آیاتھا ۔
اگر روح کو بچانا چاہتے ہو تو جس جگہ کی لوکیشن میں تمہیں سینڈ کر رہا ہوں وہاں چلے جاؤ روح کو اس شخص نے وہیں پر رکھا ہے ۔
لیکن تم کون ہو۔۔۔! وہ پاگلوں کی طرح روح کو ڈھونڈتے تھک چکا تھا جب کسی امید کے روشن دیے کی طرح کسی نے اسے فون کیا
میں جو بھی ہوں اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ملیکن یں ہوچاہتا ن تم مجھے یاد رکھو دنیا مجھے ہارٹ لیس کے نام سے جانتی ہے میری ذات کھنگالنے سے بہتر ہے کہ تم اپنی روح کی جان بچاؤ فون بند ہوچکا رہا
اور لوکیشن اس کے موبائل پر آ چکی تھی ۔
وہ شخص کون تھا کون نہیں یارم کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن یا رم کی ذات پر اس کا ایک احسان تھا جو یارم کاظمی مرتے دم تک چکا نہیں سکتا تھا ۔
°°°°
وہ یارم کے لیے سب سے مشکل ترین وقت تھا جب ہرچلتی سانس کے بعد اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی روح اس سے دور جا رہی ہے
ڈاکٹر نے اس کا جنون اور دیوانگی دیکھتے ہوئے ہی اسے مناسب الفاظ میں بتایا تھا
کہ روح کی جان بچانا اور تقریبا ناممکن ہے یہ سب کچھ کہتے ہوئے ڈاکٹر خود بھی اس سے خوفزدہ تھا یقیناًاسے اپنی جان بہت عزیز تھی ۔
وہ یارم کے جنون کے ہتھے نہیں چڑناچاہتا تھا وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی اس شخص کے لئے اس کی زندگی ہے
لیکن اندھیری کالی قبر سے نکلنے کے بعد روح اپنے آپ کو بےجان محسوس کر رہی ہے اس میں جینے کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔
یارم کا بس چلتا تو شاید وہ ڈاکٹر کو ہی جان سے مار دیتا ہے ۔
اگر وہ ڈاکٹر زندہ تھا تو صرف اور صرف خضر کی وجہ سے جس نے اس وقت یارم پر کنٹرول کیا تھا ۔
اور پھر وہ اپنی روح کو لے آیا تھا وہاں سے اس کا مہنگے سے مہنگا علاج کروایا ۔امریکا کے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ روح کے اندر صرف دس پرسنٹ ہی جینے کی نوعیت باقی ہے
اگر وہ خود زندگی کی طرف لوٹ آئے تو اس کی جان بچائی جا سکتی ہے
اور پھر یارم کی محبت کے سامنے روح نے ضد چھوڑ دی وہ لوٹ آئی اپنے یارم کے لیے کیونکہ وہ بھی جانتی تھی روح کے بنا یارم کچھ نہیں ۔
پورے دو ماہ بعد وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی ۔اور تب سے ہی ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی بات یاد کروانے یا پھر ٹینشن دینے سے سختی سے منع کیا تھا ایسا کرنے سے اس کی دماغی حالت بھگڑ سکتی تھی وہ اپنی یاداشت بھول سکتی تھی
اور یارم ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا اسے تو بس اپنی روح واپس چاہیے تھی جیسی وہ تھی بالکل ویسی ہی
°°°°°°°
یارم کے لیے روح ہی اس کا سب کچھ تھی اس کے بنا وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ جانتا تھا وہ ان سب چیزوں سے عاجز آچکی ہے وہ چاہتی ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے یہ وقت اس کے لیے بہت مشکل ہے ڈاکٹر نے دو ماہ تک یارم کو روح کے پاس جانے سے بھی منع کر دیا تھا
اسے یاد تھا ۔کتنی مشکل سے وہ اسے نارمل زندگی کی طرف لا پایا تھا
تین ماہ گزر چکے تھے اس حادثے کو لیکن روح آج بھی پہلے کی طرح نہیں ہو پائی تھی ۔
ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کی پرانی بات یاد دلوا کر ٹینشن دینے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وہ سب کچھ بھولتی ہی نہیں تھی وہ اس کے سامنے ظاہر کرتی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن یارم جانتا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے وہ ساری رات اس کے قریب بیٹھا جاگتا رہتا تھا کہ کہیں وہ خواب میں ڈرنا جائے یارم ہر ممکن طریقے سے اسے ہر قسم کی ٹینشن سے دور رکھے ہوئے تھا ۔
کل اسے پورا ایک مہینہ ہو جانا تھا قومہ سے واپس ہوش میں آئے ہوئے ۔دو مہینے تک اسے کچھ بھی ہوش نہیں تھا ڈاکٹر کے مطابق شائد ہی وہ زندہ بچ پاتی۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ ایک مردہ وجود ہے وہ زندہ نہیں بچ پائے گی لیکن یارم نے ہمت نہیں ہاری ۔اسے اپنی روح چاہیے تھی اور وہ اپنی روح کو واپس لے آیا تھا
یہ ایک معجزہ تھا
جو یارم کی زندگی ہوا اور اسے ایک بار پھرروح مل گئی
اللہ نے اس پر رحم کیا تھا اس کی روح کو اسے واپس دے دیا تھا ورنہ اس کے معاملے میں توخضر لیلیٰ شارف اور معصومہ بھی ہمت ہار چکے تھے۔وہ اس سے چھپ کر روتے تھے وہ پوری طرح سے اس بات کو قبول کرچکے تھے کہ اب روح کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں بچی اور کسی بھی وقت روح کی موت کی خبر یارم کی زندگی ہلاسکتی تھی
لیکن یارم کی محبت زندہ تھی اسے واپس آنا تھا اور اللہ کو اس پر رحم آگیا جس کے لیے وہ ہر وقت اپنے رب تعالیٰ کا شکر گزار تھا
ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر روح کی سانس اکھڑنے لگتی اکثر وہ اپنے آپ کو ایک اندھیری قبر میں محسوس کرتی اچانک نیند میں اس کی آنکھ کھل جاتی
اس کا خوف زدہ وجود کانپنے لگتا اور یارم بے بس تھا بالکل بے بس یہاں وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا یہاں اس کی ہر پاور بے بس تھی
یارم اسے بالکل بھی اکیلے نہیں چھوڑتا تھا اسے صرف اور صرف اپنی روح کی پرواہ تھی جس کے بنا وہ ادھورا تھا نامکمل تھا" روحِ یارم" مطلب یارم کی روح وہ یارم کی روح تھی روح کے بنا یارم کبھی مکمل نہیں ہو سکتا تھا
یارم کا کہنا تھا کہ وہ مطلبی ہے وہ روح کا نہیں بلکہ اپنا خیال رکھتا ہے اپنے جینے کی وجہ کا خیال رکھتا ہے کیونکہ روح کے بنا وہ جی نہیں سکتا
اور یار م کی حددرجہ کیئرنگ پر وہ بری طرح سے جھنجھلا گئی تھی ۔ہر چیز میں روک ٹوک کھانے پر روک ٹوک'اٹھنے بیٹھنے پر روک ٹوک یہاں تک کہ وقت پر نہ سونے پر روک ٹوک وہ آج کل یارم سے بہت زیادہ چڑی ہوئی تھی اکثر ناراض بھی ہو جاتی اور یارم کو اس کی فضول اور بےجا ضد بھی ماننی پڑتی
اب وہ پہلے کی طرح یارم کی ایک گھوری پر خاموش نہیں ہوتی تھی اب وہ ضد کرتی تھی جانتی تھی کہ جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی یارم اس کو ڈانٹنا تو دور غصہ کرنے کا بھی نہیں سوچ سکتا لیکن پھر بھی یارم کا لال چہرا سوخی بھری آنکھیں اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام نہیں کرنے دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس سے لڑتی بھی تھی لیکن اس کے بدلے بھی سامنے سے ٹھنڈا ری ایکشن ملتا تو وہ بےزار ہو جاتی
ایسے میں لیلیٰ کی پریگنسی نے اس کی صحت پر بہت اچھا اثر ڈال دیا تھا ۔
اور اس کی خوشی اور ضد دیکھتے ہوئے یارم نے اسے لیلیٰ کے پاس دوپہر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی
°°°°°
وہ سارا سارا دن لیلٰی کے پاس ہی رہتی تھی
کیونکہ خضر کے مطابق وہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے مافیا ماحول میں پرورش نہیں پانے دے گا یہی وجہ تھی کہ لیلٰی کو سارا کام کاج چھوڑ کر پریگنسی کے پہلے مہینے میں ہی گھر بیٹھنا پڑ گیا ۔
ایسے میں روح کا آجانا لیلیٰ کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھایہ الگ بات ہے کہ اب آہستہ آہستہ وہ اس کے لیے زحمت ثابت ہو رہی تھی
اس کی پریگنسی کی وجہ سے یارم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لیلی کے پاس چھوڑ کے آتا تھا وہ تو روح کی ہر چیز بلکہ ایک ایک سیکنڈ پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا وہ شام کو خود ہی لے کر جاتا یہاں تک کہ وہ اس کے معاملے میں وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتا تھا
لیلیٰ کے گھر میں لگے کیمروں کی مدد سے وہ ہر وقت اس پر نظر رکھتا تھا ۔
لیکن وہ جانتی تھی کہ آفس سے لے کر لیلی کے گھر کے سفر تک وہ اسے نہیں دیکھ پاتا اور آج تو شارف نے فون پر بتایا تھا کہ ڈیول کسی کا صفایا لرنے گیا ہے
مطلب وہ لیٹ آئے گا اور وہ اس چیز کا فائدہ اٹھاتی تھی لیلی کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کررہی تھی
لیلی کے لیے تو روح بھی اپنے ماموں سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی وہ بھی اس کی پریگنسی کو لے کر کافی ٹچی ہو رہی تھی کبھی ایک چیز تو کبھی دوسری چیز وہ اس کو کھلا کھلا کر کچھ ہی دن میں اس کا وزن بڑھانے میں کامیاب رہی تھی
اس وقت بھی وہ دونوں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی جبکہ لیلی کو یارم نے روح سے کوئی بھی کام کروانے سے منع کر رکھا تھا لیلیٰ کی سانسیں سوکھی ہوئی تھی کیونکہ یارم کے آنے کا وقت ہو رہا تھا ۔
اور یہ ماموں کی بھانجی اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی ۔
روح خدا کے لئے بس کر دو یار میں خود بنا کر پی لوں گی تمہیں ویڈیو سینڈ کر دوں گی مگر تم مت بناؤ ڈیول کبھی بھی آتا ہوگا
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اسے منع کرنے کی کوشش کر رہی تھی
یارم نام ہے ان کا ماشاء اللہ سے کتنا خوبصورت نام ہے اور تم لوگ ڈیول ڈیول کہہ کربگاڑ رہے ہو ان کا نام اللہ معاف نہیں کرتا نام بگاڑے والوں کو وہ چڑکر بولی
تمہیں نام کی پڑی ہے روح ڈیول ہمارا نقشہ بگاڑ دے گا اگر تمہیں ذرا سی بھی تکلیف ہوئی تو۔وہ اس کی بات کاٹ کر جلدی سے بولی جب اسے پیچھے سے قدموں کی بھاری چاب سنائی دی۔
تم یہاں میری بیوی سے کام کروا رہی ہووہ غصے سے سرد آواز میں بولا ۔
لیلیٰ تو اچھل پڑی جب کہ روح کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا
شارف بھائی نے تو بولا تھا کہ یہ کہیں گئے ہوئے تھے اور آج لیٹ آنے والے تھے تو اتنی جلدی ۔۔۔ وہ ناخن منہ میں ڈالے سوچنے لگی
جب یارم کی سخت گھوری نے ہاتھ منہ سے نکالنے پر مجبور کر دیا
نہیں ڈیول می۔۔۔ می۔۔ می۔۔۔میں نہیں روح کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔بہت بہت بار منع کرنے کی کوکوکوک۔۔۔۔۔۔ کوشش کی لیکن یہ میری سنتی۔۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔ ۔لیلی کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دبنے لگے تھے آواز کمبخت باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی
یارم سے وہ لوگ ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رہتے تھے لیکن جب سے روح کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا تھا ان کی زندگی پھڑپھڑاتا پرندہ بنی ہوئی تھی
جیسے ڈیول کبھی بھی آزاد کر سکتا تھا
اور اب تو وہ روح کے معاملے میں خود پے بھی یقین نہیں کرسکتا تھا تو لیلیٰ تو پھر لیلیٰ تھی
تو تم اسے کچن میں لے آئی کہ جو دل میں آئے کرو ۔۔وہ اس کی بات کاٹ کر غصے سے جبڑےبھیجے بولا
نہیں ڈڈڈ۔۔۔ڈیول یہ مان نی۔۔۔ نہیں رہی تھی ۔۔۔ لیلی نظرجھکا گئی۔جبکہ یارم نےانگلی کی مدد سے اس کا چہرا اوپر کیا۔
اگر اسے اتنی سی تکلیف ہوئی نہ تو میں تمہیں زندہ زمین میں گاڈ دوں گا یاد رکھنا اس کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا جب کہ وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی لیلیٰ کی شامت دیکھ رہی تھی ۔
آواز کرنے کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ نہ ہو کے اس کے لیلی کے گھر آنے پر پابندی لگ جائے اور اب وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہی تھی ۔اسے آپنے بالکل نزدیک دیکھ کر روح نے آنکھیں میچ لیں
جب اس کی نرم سی گرفت اپنے ہاتھ پر محسوس ہوئی وہ بنا کچھ بولے اسے اپنے ساتھ باہر لےجانے لگا جس کا صاف مطلب تھا کہ یارم آج بھی اس پر غصہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس آدمی میں اتنا صبر کہاں سے آیا تھا سمجھ پانا مشکل تھا
روح نے بےفکر ہو کرایک نظر پیچھے کھڑی لیلی کو دیکھا اور اسے سوپ پینے کا اشارہ کرنے لگی لیلیٰ نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔
مطلب کہ اس کی جان اٹکی ہوئی تھی اور وہ اسے سوپ پینے کے لئے کہہ رہی تھی ۔آج اس کے شوہر کے ہاتھوں وہ شہید بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن اسے تو اس کی بالکل پرواہ ہی نہیں تھی لیلی اندر ہی اندر غصہ پیتی سوپ کا پیالا لیے باہر آئی
اور اسے ٹیبل پر پٹکتے ہوئے موبائل کا کیمرہ آن کیا ویڈیو بنتی جارہی تھی اور لیلی منہ بناتی سوپ پیتی جا رہی تھی ۔کیونکہ بنا ثبوت وہ اس پر یقین نہیں کرتی کہ اس نے سوپ پیا ہے
°°°°
وہ خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا جب کہ روح کب سے چور نظروں سے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔
نہ تو وہ اسے ڈانٹتا تھا اور نہ ہی غصہ کرتا تھا اس کا سارا غصہ باقیوں کے لیے تھا روح کو تکلیف پہنچانا اب اس کے بس کی بات ہی نہیں تھی
وہ کنتی کوشش کرتی تھی کہ یارم اس پر غصہ ہو اسےڈانٹے پھر پیار کرء لیکن اب تو یارم کو اس سے زیادہ اس کی سوتن بیماری سے پیار ہو گیا تھا وہ منہ کے ڈائزین بناتی مسلسل اس کو دیکھتی سوچ رہی تھی
اس کے کھو جانے کے ڈر نے یارم کو اس حد تک بے بس کردیا تھا کہ اب وہ روح کو درد دینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا ۔
کہاں وہ اس کے ذرا سی سخت نگاہ پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی تھی اور اب وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرتی تھی۔خیر اس سب چیزوں کا تو وہ بعد میں گن گن کے بدلا لینے والا تھا اس کا حساب تو روح کو ٹھیک ہونے کے بعد دینا ہی تھا
لیکن فلحال اس کے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یارم اس کو کچھ نہیں کہتا تھا ۔اس کی حد سے زیادہ فکر کرنا اس کا خیال رکھنا ۔اس سب کے علاوہ جیسے یارم کو اور کوئی کام ہی نہیں تھا ۔
اس بورنگ روٹین اور عجیب و غریب زندگی سے روح اجزا چکی تھی ۔
وہ سب کچھ پہلے جیسا چاہتی تھی اور پہلے جیسا سب کچھ تبھی ہو سکتا تھا جب وہ بالکل ٹھیک ہوتی اور اب وہ کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی لیکن یارم کا یہی کہنا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے
جس کی وجہ سے یارم کی اسٹریک کیئرنگ اب بھی جاری تھی
وہ کب سے نوٹ کر رہا تھا کہ روح کا سارا دھیان اسی کی جانب ہے لیکن وہ جان بوجھ کر اسے دیکھ نہیں رہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ سچ میں غصے میں تھا اور وہ اپنا غصہ اس پر نکال نہیں سکتا تھا
اس لیے وہ اپنا غصہ اسٹینڈنگ پر نکالتے ہوئے گاڑی چلانے میں مصروف تھا جب اسے اپنے ہاتھ اور کندھے پر روح کا لمس محسوس ہوا وہ اس کا بازو تھا میں اس کے کندھے کے اپنا سر رکھ چکی تھی
یارم نے نرمی سے اپنا حصار اس کے گرد کھینچتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا کچھ ہی دیر میں وہ گہری نیند میں اتر چکی تھی۔گھر کے باہر گاڑی روک ہر یارم نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔
لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ اس کی لریزتی پلکیں دیکھ چکا تھا
بڑی بھاری ہو گئی ہو ۔اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی کی تو اس کے لبوں پر شرارتی سی مسکان کھلی
اور کھلایں نہ وہ دوائیاوں کی دکان اب ہو گئی نہ میں موٹی اب کیسے اٹھاکے چلیں گے مجھے۔۔وہ دونوں آنکھیں پٹپٹاتی سیریس انداز میں بولی۔
تم ایک بار بنا کوئی بھی مستی کیے یہ کورس مکمل کر لو میں ساری زندگی تمہیں یوں ہی اپنی باہوں میں اٹھا کر چلوں گا۔وہ محبت سے بولا تو روح نے آنکھیں گھومئی ۔
اور اگر میں دوائیاں نہیں کھاؤں گی تو کیا آپ مجھے اپنی باہوں میں نہیں اٹھائیں گے وہ اس کے گلے میں باہر ڈالتی اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے بولی
تم دوائی ضرور کھاؤ گی روح وہ سختی سے بولا تھا ۔
ہاں تو میں کب انکار کر رہی ہوں میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک دن نہ کھانے سے کون سا کچھ ۔۔۔۔۔۔نہیں ہوجائے گا بہت کچھ ہو جائے گا مجھے دوائی کھانی چاہیے ضرور کھانی چاہیے ۔وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی جب اسے اپنی کمر پر یارم کی سخت انگلیوں کا ہلکا سا لمس محسوس ہوا وہ فورا بات بدل گئی ۔
گڈ گرل بے بی ۔۔وہ اسے لئے گھر کے اندر داخل ہوا
بس ذرا ذرا سی بات پر گھورنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی موٹی موٹی آنکھوں سے ۔کوئی ان کو بتائے نیلی آنکھیں خوبصورتی کی نشانی ہوتی ہیں نہ کہ وہ دہشت پھیلانے گی ۔وہ برابڑتے ہوئے بولی جب کہ یارم اس کی اس سرگوشی پر اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکا تھا
ہاں بس نمائش کروالیں ان سے اور تو کوئی کام ہے نہیں وہ اس کے ڈمپل میں انگلی گھساتی اس کی مسکراہٹ کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
جبکہ اس کی اس حرکت یارم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی
یارم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس لکے لیے ڈنر بنایا ۔وہ سچ میں کمال کا کوک تھا اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا ۔اور اگر ذائقہ نہ بھی تو تب بھی ہارم کی بےپناہ محبت پر وہ انکار نہیں کرسکتی تھی ۔
اور پھرظالم جس ادا سے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا کوئی انکار کر کے دیکھائےوہ اس کے ہاتھوں سے کھاتی سوچ رہی تھی جب اپنی بےلگام سوچوں پے لعنت ڈالتی اونچی آواز میں بولی
اللہ نہ کرے۔کہ آپ کسی اور کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیں ۔
کیا بول رہی بےبی منہ کھولو ۔بس یہ تھوڑا سا رہ گیا ہے ۔اس کی بات کی گہری سمجھے بغیر یارم نے ایک اور نوالہ اس کے منہ میں ڈالا
اس وقت یارم کے لیے اس کا کھانا اہم تھا ۔ورنہ یقیناً اس کے اظہارِ جلن پر وہ خوش ہوتا۔کیوں کہہ روح بھی اس کے معاملے میں کافی پوزیسسو ثابت ہوئی تھی اسے بھی پسند نہیں تھا اپنے علاوہ یارم کی توجہ کا مرکز کسی اور کی ذات دیکھنا ۔
اکثر مارکیٹ یا شاپنگ مال میں وہ اس سے آگے پیچھے کہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔
جب کہ وہ جانتی بھی تھی کہ یارم اس کے علاوہ کسی اور کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا
ہاں لیکن اس کی یہ جلن یا رم کو بہت بھاتی تھی ۔اسے اچھا لگتا تھا روح کا اس کے لیے اتنا ٹچی ہونا لیکن یہ وقت خوش ہونے کا نہیں تھا کیونکہ وہ کھانا بنانے میں پہلے ہی لیٹ ہو چکے تھے ۔روح تو بہت خوشی کے ابھی تک اس کا منہ کڑوانہیں ہوا تھا لیکن یارم کو اس کی فکر لگی ہوئی تھی ۔
میرا بچہ جلدی سے یہ ختم کرو ۔پھر میں تمہیں اچھی سی چائے بنا کر پلاتا ہوں ۔وہ چائے کیلئے پانی چڑاتا بہت محبت سے بولا تھا ۔
مطلب آپ کو یاد ہے یارم آپ کی یاداشت کتنی اچھی ہے نا مجال ہے جو کچھ بھول جائیں
وہ دانت پیستی یار م کو مسکرانے پر مجبور کر گئی
لو جی پھر شروع ہوگئی نمائش ۔
ہٹیں پیچھے آج چائے میں بناوں گی۔وہ کرسی سے اٹھ کر بولی
نہیں روح تم ابھی گیس کے قریب نہ آو یہ خطرناک ہے وہ اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتا اسے واپس بیٹھانے لگا۔
یارم اب بس کریں نہ پلیز میں تنگ آ گئی ہوں یوں بیٹھے بیٹھے ۔۔پلیز کم از کم چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔وہ منت کرنے والے انداز میں بولی ۔
نہیں روح پلیز ابھی نہیں صرف کچھ ٹائم صبر کر لو پھر سب تم نے ہی تو کرنا ہے نا وہ سمجھنے والے انداز میں بولا تو روح منہ بنا کر واپس بیٹھ گئی ۔
آج میں تمہیں بہت مزے کی چائے پلاوں گا۔وہ اسے پیار سے پچکارتے ہوئے منانے میں کامیاب ہوا تھا۔
اور واقع ہی اس کی چائے بہت زبردست تھی ہمشہ کی طرح وہ اس میٹھی میٹھی چاِپئے کے بعد وہ اسے گندی گندی دوائیاں کھلانے والا تھا۔جس پر اس کا منہ ساری رات اس کڑوے زہر کے زیراثر رہے گا
آخر کب ختم ہو گا یہ میڈیسن کا سلسلہ وہ سوچتے ہوئے یارم کے پیچھے منہ بنائے کمرے میں آئی تھی
°°°°°
یارم اب نہ میں آپ سے پکی والی خفا ہو جاوں گی اسے میڈیسن باکس لیے اپنی طرف آتا دیکھ وہ منہ بنا کر بولی
کوئی بات نہیں بےبی مجھے میرے بچے کو منانے کا طریقہ آتا ہے وہ محبت سے اس کا ماتھا چومتامیڈیسن نکالنے لگا
آپ کو پتا ہے کوئی بھی کام زبردستی کروانے سے گناہ ملتا ہے آپ کو بھی گناہ مل رہا ہے جب آپ مجھے زبردستی یہ دوائیاں کھلاتے ہیں ابھی بھی وقت ہے توبہ کر لیں ۔کسی بھی طریقے سے جب وہ اس کی باتوں میں نہیں آیا تو روح اب اسے خدا سے ڈر آنے لگی ۔
لیکن میں یہ کام تمہاری بھلائی کے لئے کرتا ہوں اور جو کام کسی کی بھلائی کے لیے کیا جائے اس کا گناہ نہیں ہوتا ۔وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا
ہیں۔۔۔۔! بھلائی کیا بھلائی ہے اس میں اچھے خاصے منہ کو کڑوا بادام بنا کے رکھ دیتے ہیں آپ اور آپ کہتے ہیں کہ یہ میری بھلائی ہے آپ کھائے ذرا یہ دوائی ذرا بیمار ہوں آپ۔۔۔۔ استغفراللہ کیا بکواس کر رہی ہوں میں اللہ نہ کرے آپ کو کچھ بھی ہو کوئی بھی بیماری آپ کو چھو کر بھی گزرے وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتی اللہ سے معافی مانگتے ہوئے اپنی بات کی توبہ کرنے لگی ۔۔پھر زراواقفے سے بولی
آپ ذرا یہ دوائی کھائیں پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کیسی ہے ۔گلے سے نیچے نہیں اترتی یہ تو میں صرف آپ کی خاطر سمجھوتا کر لیتی ہوں ۔ورنہ میں ساری زندگی اسے منہ نہ لگاتی
اپنا منہ کھولتے ہوئے وہ روز کی طرح اپنی بڑاس بھی نکال رہی تھی
آخر اس سوتن بیماری کو خود کے اور یارم کے بیج سے نکالنا بھی تو تھا
ورنہ اس کا تو یہی کہنا تھا کہ اس کی اس سوتن بیماری سے یارم کو اس سے زیادہ محبت ہو گئی ہے
یہ دوائی تمہاری احسان مند رہے گی ساری زندگی کے تم نے اسے منہ لگایا ۔وہ شرارتی انداز میں اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگاتے ہوئے بولا تو روح نےآخری گولی بھی نگل لی
گڈ میرابچہ اب جلدی سے لیٹ جاؤ سونے کا وقت ہو گیا ہے
یارم مجھے ابھی نہیں سونا مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں ۔وہ جلدی سے بولی تھی ۔
ہم صبح باتیں کریں گے اس وقت تمہیں سونا ہے چلو شاباش وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے زبردستی بیڈ پر لیٹ آنے لگا
نہیں نا یارم مجھے نہیں سونا پلیز نہ ہم تھوڑی دیر باتیں کرتے ہیں پھر سو جائیں گے نہ روح کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی میڈیسن میں ایک میڈیسن نیند کی بھی ہے یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر اس سے دیر سے سونے کی ضد کرتی تھی لیکن یارم نہیں چاہتا تھا کہ رات میں اس کی نیند ڈسٹرب و یا وہ ڈر کر جاگ جائے
ورنہ شاید وہ خود بھی اسے اتنی جلدی سونے پر کبھی مجبور نہ کرتا
اوکے بابا ہم کر رہے ہیں باتیں آرام سے لیٹ جاؤ میں بھی یہی ہوں تمہارے پاس وہ مان جانے والے انداز میں کہتا بیڈ کی دوسری جانب آیا تو روح کو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ اسے سینے سے لگایا تھا
اور اب یقیناً روح کی بے تکی باتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا ۔
اور انہی باتوں کے دوران ہی اس نے گہری نیند میں اتر جانا تھا یارم جانتا تھا
°°°°°
یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔جلدی لیلیٰ ماں بن جائے گی ۔اورخضر ماموں کا ایک پیارا سا بیٹا ہوگا یا شاید بیٹی لیکن یارم ہمارے بچے کب ہوں گے ۔
کاش ہمارا بچہ ہوتا تو اب تک تو کچھ ہی وقت میں وہ ہمارے پاس آنے والا ہوتا
ہم دونوں اس سے بہت پیار کرتے ہیں نا یارم ۔
لیکن شاید میں اس کی ماں بننے کے قابل نہیں تھی اسی لئے تو وہ آیا ہی نہیں شاید میں ہی اللہ کے دیے اس تخفے کو سنبھال نہیں پائی ۔ایک بار پھر سے اپنے اندر خالی پن کا احساس جاگتے ہی روح اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی اور یارم نے سختی سے لب بھیج لیے
یہی وجہ تھی روح میں تمہیں لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے رہا تھا ۔اس طرح سے رو رو کر تم اپنی طبیعت خراب کر لوگی
جو کچھ بھی ہوا وہ سب ہمارے نصیب کا لکھا تھا خبردار جو تم نے اس میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا ۔
وہ ہمارے نصیب کی اولاد نہیں تھا ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ بے اولاد رہیں گے ان شاء اللہ جلد بھی ہمارے بچے ہوں گے ۔اور ہم انہیں بہت پیار کریں گے بہت خیال رکھیں گے ۔
اور اس طرح سے آنسو بہا بہا کر اللہ کو ناراض نہ کرو۔وہ بے نیاز ہے ہمیں اوقات سے بڑھ کر نوازے گا ان شاءاللہ ۔لیکن اس طرح سے رو رو کر تم نا قدری کر رہی ہو جو ہے اس کی ۔وہ اسے سختی سے ڈپتے ہوئے بولا ۔
اچھا نہیں کہتی کچھ بھی ڈانٹتے کیوں ہیں ۔۔۔! وہ لاڈ سے اس کے گرد باہیں پھیلائے بولی۔
ڈانٹ کہاں رہا ہوں بس سمجھا رہا ہوں ۔اپنی اس نا لائق اسٹوڈنٹ کو ۔یا رم نے اسے اپنے مزید قریب کیا
میں نالائق نہیں ہوں ۔وہ روٹھے روٹھے انداز میں بولی
ہاں بہت لائق ہو تم ۔مجال ہے جو کوئی بھی بات اس نھنے سے ذہن میں بٹھا لو ہر چیز پر ضد کرنا اپنا فرض سمجھتی ہو ۔اس کے روٹھنے پر یارم نے اسے مزیدچھڑا۔
بس بہت ہوگیا یارم بہت اڑا لیا آپ نے میرا مذاق ہے ایک بار ٹھیک ہو جانے دیں مجھے منہ بھی نہیں لگاؤں گی آپ کو ۔دن رات بیماری بیماری کرتے رہتے ہیں نہ پھر رہنا اسی سوتن بیماری کے ساتھ ۔
روح ہاتھ نہیں آئے گی تب وہ اس کے سینے سے سر اٹھا کر تکیے پر رکھتے ہوئے بولی ۔یہ ناراضگی کا اظہار کرنے کا طریقہ تھا یارم کو بالکل پسند نہیں تھا ۔کیوں کہ اسے باہوں میں لیے بغیر تو اسے ساری رات نیند بھی نہیں آتی تھی ۔
ہاں یہ بیماری مجھے پیاری ہے کیونکہ اس وقت یہ تم سے جڑی ہوئی ہے ۔لیکن تم نے اسے اپنی سوتن کیوں بنا لیا ۔ وہ پچھلے دو دن سے اس کی بیماری سوتن والےطعنے سن رہا تھا
سوتن ہی تو ہے جب سے یہ سوتن ہم دونوں کے بیچ میں آئی ہے آپ مجھے کم اور اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔
بتائیں کب کہا تھا آپ نے مجھے آئی لو یو میرا بچہ ۔۔۔بولنے بتائیں میں بتاتی ہوں آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا اور اتوار والے دن صبح کچن میں آپ کو یاد آیا تھا کہ میں آپ کی بیوی ہوں جس سے آپ بہت پیار کرتے ہیں
ورنہ تو ہر وقت دوائیاں کھا لو روح
وقت پر سو جاؤروح
وقت پر کھانا کھاؤروح ۔
طبیعت خراب ہو جائے گی روح
بیمار پر جاؤں گی روح ۔
آپ کی ہر بات اس سوتن بیماری سے جڑی ہوتی ہے ۔ررح تو کہیں ہے ہی نہیں بس ہر جگہ یہ سوتن بیماری ہے
تو ہوا نہ آپ کو اس سوتن بیماری سے مجھ سے زیادہ پیار
وہ عجیب و غریب لاجک بیان کرتی اپنے بات کی وضاحت دے رہی تھی
اور یارم بھرپور توجہ سے اس کی ایک ایک بات کے ساتھ اس کے احساسات کو بھی سمجھ رہا تھا
ہاں یہ سچ تھا جب سے وہ ہوش میں آئی تھی یارم کو صرف اور صرف اس کی صحت کی فکر لگی ہوئی تھی ۔
وہ صرف اور صرف اس کی پروہ کر رہا تھا اس کا خیال رکھ رہا تھا
وہ اسے محبت نہیں دے رہا تھا وہ اسے توجہ دے رہا تھا
اور سچ یہی تھا کہ یہ اس کی روح کے ساتھ زیادتی تھی ۔
جس کے لیے وہ خود کو قصوروار بھی سمجھتا تھا
لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی روح بالکل ٹھیک ہو جائے ۔اور یہ بیماری ان دونوں کے بیچ سے نکل جائے ۔
اور اس ان چاہی بیماری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے یارم کو فلحال اس کی صحت کی فکر کرنی تھی۔
تم ایک بار بالکل ٹھیک ہو جاؤ روح ۔
یارم کاظمی کی محبت پر ہی نہیں بلکہ اس کی سانس سانس پر صرف تمہارا حق ہےجو تم سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔
کوئی بیماری ہم دونوں کے بیچ میں نہیں آسکتی ۔
دنیا کی کوئی بھی چیز یارم کاظمی کیلئے روح سے زیادہ عزیز نہیں ہوسکتی ۔
بس ایک بار تم ٹھیک ہو جاؤ ۔پھر دیکھنا میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا ۔
وہ ایک ہی لمحے میں اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتا شدت سے کہتا اسے اپنے سینے میں بھیج گیا۔
ہاں میں بھی تبھی کی بات کر رہی ہوں میں آپ کو منہ نہیں لگاؤں گی اتنے نخرے دکھاؤں گی ۔کہوں گی جائیں نہ اپنے لاڈلی بیماری کے پاس میرے پاس کیا کر رہے ہیں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اترتی نہ جانے کیا کیا بڑابڑا رہی تھی ۔
لیکن اس کے باوجود بھی اپنی آنکھیں کھولے یا رم سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی
۔ایسی بیوقوفی بھری باتیں وہ ہوش میں کبھی نہیں کرتی تھی ۔
یہ سب ان میڈیسن کا اثر تھا جو اپنی سوچوں کو عجیب لفظوں میں پرو کر اس کے سامنے بیان کرتی تھی
ہاں لیکن وہ اپنے دل میں کچھ نہیں رکھتی تھی ۔
اور اس کی صحت کے لیے یہ بہت اچھا ہے
یارم کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ وہ بڑی مشکل سے آنکھیں کھولے اسے گھورنے لگی
میں یہاں اتنے سیریس موضوع پر بات کر رہی ہوں اور آپ مسکرا رہے ہیں چھپائیں اسے چھپائے اس ڈمپل کو ورنہ میں کھا جاؤں گی ۔
بلکہ نہیں آپ بھلا کیوں چھپائیں گے آپ تو نمائش کریں گے ۔آخر اللہ نے دیں جو دیا ہے ۔لیکن میں آپ کو بتا دوں یارم کاظمی صاحب اللہ نمائش کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا قہ سر گوشانہ انداز میں اس کے کان کے قریب بولی تھی ۔
جس پر یارم کے ڈمپل مزید گہرے ہوئے تھے ۔
اگر روح کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ رات کو وہ نیند کے خمار میں اس سے کیا کیا بولتی ہے ۔تویقیناً تین چار دن تو اس سے چھپ کر گزار دیتی
ہاں لیکن یہ الگ بات تھی کہ صبح اس کی شروعات بالکل نئی ہوا کرتی تھی رات وہ کیا کیا کہتی ہے اس کے ذہن میں ایک دی بات نہ ہوتی ۔
اس کی گرم گرم سانسیں وہ اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا مطلب کے شاید وہ سوچکی تھی ۔
یا رم نے اسے سیدھا کرنا چاہتا تو مزید یارم سے لپٹ گئی ۔
اس سے پہلے کہ یارم اپنی آنکھیں بند کرتا وہ اچانک سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔
کچھ رہ گیا کیا میرا بچہ ۔۔۔! وہ بہت محبت سے بولا ۔
اینگو مینگو یارم ۔۔۔اینگومینگو سو مچ ۔۔اس کے معصومانہ انداز میں کہنے پر یارم کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھی
رات کے بارہ بجے اسے آئزلینڈک لینگویج بولنے کا جوش چڑ چکا تھا ۔
آئی لو یو ٹو میرا بچہ ۔۔۔وہ ایک بار پھر سے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتا تھکنے لگا ۔
جب اچانک اس نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا یارم نے ٹھنڈی بھری نہ جانے اب اسے کیا یاد آیا ہوگا ۔
اب کیا ہوا بےبی۔۔۔!یارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا
جب اچانک ہی وہ اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتی شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی ۔
یہ جانے بغیر کے ایک اور رات کو ہی یارم کے لیے بہت مشکل بنا چکی ہے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے بےحد قریب کی یہ وہ سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔
تمہیں اس سب کا حساب چکانا ہو گا روح بےبی ۔یہ سب کچھ کر کے تم اپنے آنے والے وقت کو مشکل بنا رہی ہو۔تمہیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا ۔یہ ساری حرکتیں معاف کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔اس کے ماتھے کو شدت سے چومتے وہ خود میں ہی کہیں قید کر لینا چاہتا تھا
°°°°°
یارم پلیز مان جائیں نہ میں وعدہ کرتی ہوں میں کوئی کام نہیں کروں گی کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگاوں گی میں کچھ نہیں کروں گی پلیز مجھے لے چلیں نا ۔
وہ صبح اٹھتے ہی اس کی منتیں کرنے لگی تھی کیونکہ یارم نے کہا تھا کہ اب وہ اسے لیلیٰ کے گھر نہیں جانے دے گا
بلکہ میری اور شفا ہی اس کا خیال رکھیں گیں۔اور اس کے ایک ایک سیکنڈ کی رپورٹ اس تک پہنچائیں گیں ۔
سوری بےبی میں اس معاملے میں تم پر بالکل یقین نہیں کر سکتا ۔تمہارے ہاتھ پیر کنٹرول نہیں ہوتے اس لیے بہتر ہے کہ تم گھر پر ہی رہو اگر چاہو گی تو لیلیٰ یہاں آ جایا کرے گی لیکن تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گا ۔اس کا گھر میرے آفس سے بہت دور ہے اور واپسی کے راستے پر بھی تمہیں دیکھ نہیں پاتا
لیلی ماں بننے والی ہے یارم وہ بھلا روز روز یہاں کیسے آئے گی اور میں اپنے ہاتھ پیر کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گی نہ میں کوئی کام نہیں کروں گی آپ یقین کر کے تو دیکھیں ۔وہ اسے اپنے سامنے بٹھائےزبردستی ناشتہ کروا رہا تھا جس دوران وہ مسلسل اس کی منتیں کرتے ہوئے اسے منانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
روح میں نے کہا نہیں تو اس کا مطلب نہیں ہے وہ سختی سے بولا ۔
اس کا مطلب نہیں ہے تو پھر میں بھی ناشتہ نہیں کروں گی اور نہ ہی وہ دوائیاں کھاؤں گی ۔وہ پھر سے ضدی ہونے لگی
جب اچانک یا رم نے غصے سے ایک ہاتھ ٹیبل پر مارا وہ اچھل کر دور ہوئی۔اور اب کچھ فاصلے پر کھڑی خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی وہ کیا کرنے والا تھا ۔
یارم اٹھ کر اس کے پاس آیا اسے ہاتھ پکڑ کر زبردستی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروانے لگا سرخ آنکھوں میں اس وقت اتنا غصہ تھا کہ وہ بنا کچھ بولے ناشتہ کرنے لگی اس وقت اس کے اندر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی کرنا تو ضد کرنا تودور کی بات تھی۔
ناشتہ کروانے کے بعد وہ اسی غصے سے اٹھ کر اس کے لیے دوائیاں لے کر آیا اور روح بنا چواں چراں کے کھانے لگی ۔جبکہ اس کی سختی پر آنکھیں نم ہو ہو رہی تھی لیکن اس کے سامنے آنسو بہانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جلدی سےباہر آو اور خبردارجو وہاں کوئی بھی کام کیا ۔وہ سختی سے کہتا باہر نکل گیا جبکہ روح اپنے کانوں پر یقین کرتی خوشی سے باہر بھاگی تھی ۔۔
روح تم نے اسے گود میں کیوں لیا ہے
اس کتے کو نیچے اتارو گاڑی میں۔بیٹھے ہی روح نے شونو کو اپنے گود میں دیا تو یارم کا غصہ ہمیشہ کی طرح ہائی ہوگیا ۔
یارم پلیز رہنے دیں نا بیچارہ بیمار ہے پہلے ہی اور آپ اس پر غصہ ہو رہے ہیں ۔
کل سے وہ کچھ سست کیا ہوگیا روح نے تو اسے بیمار ہی بنا لیا
۔وہ بالکل ٹھیک ہے بس تھوڑا سا موسم کا اثر لے رہا ہے لیکن اسے اپنی گود سے اتارو تم
اور خبردار جو آئندہ تم نے اسے گود میں لیا وہ غصے سے شونو کا پٹا پکڑ کر پیچھے والی سیٹ پر پھینک چکا تھا
یارم آپ کیسے ایک معصوم چھوٹے سے جانور کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک کر سکتے ہیں
روح نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
۔ایسے ہی جیسے میں نے ابھی کیا ہے یارم نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی جب کہ شونوکا سارا سست پن پچھلی سیٹ پر جاتے ہیں ختم ہو چکا تھا
وہ تو مچلتا ایک بار پھر سے روح کی گود میں آنے کو تیار تھا
۔جب یا رم نے اسے گھور کر دیکھا
وہ جانور جیسے اس کی نظروں کا محفوظ سمجھتا تھا ۔فورا ہی خاموش ہوکر سیٹ پر بیٹھ گیا
یارم کتنے بے رحم انسان ہیں کیسے گھور رہے ہیں اس معصوم کو میں پوچھتی ہوں کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا ۔جو آپ اس پر اس طرح سے غصہ ہوتے رہتے ہیں ۔
جانوروں کے ساتھ کوئی بلا اس طرح کا سلوک کرتا ہے ۔
اس کے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور شونو کے ڈر کر چپ ہو جانے پر روح خاموش نہ رہ سکی
کیا مطلب ہے کیا بگاڑا ہے کیا تم اب بھی نہیں جانتی کہ اس کتے کے بچے نے میرا کیا بگاڑا ہے ۔یہ تمہارے اور میرے درمیان آیا ہے
۔یہ تم سے میرا وقت لیتا ہے۔ وہ بھنا کر بولا ۔
یار م آپ ایسا نہیں کہہ سکتے بالکل غلط بیانی ہے یہ میں کب اس کے ساتھ آپ کے ہوتے ہوئے وقت گزارتی ہوں جب آپ گھر پر نہیں ہوتے تب ہی میں شونو کے پاس رہتی ہو روح نے فورا اس کی بات کی نفی کی تھی ۔یہ تو روح کو اپنی ذات پر ایک الزام کی طرح لگا تھا ۔
جب کہ اس وقت میں تم مجھے یاد کر کے میری محبت کا ثبوت بھی دے سکتی ہو
۔اپنی محبت کو ظاہر بھی کر سکتی ہو
لیکن تم نے تو اس کتے کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے۔
میرے حصے کا پیار تم اس کتے کے بچے کو دیتی ہوں ۔یہاں تک کہ تم اسے اپنی گود میں بیٹھاتی ہواس کے بال سہلاتی ہو۔اس سے پیار کرتی ہو ۔کتے کی طرف داری پر یارم بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا ۔
جب کہ اس کے بات مکمل ہوتے ہی شونو نے ایک بار پھر سے بھونکتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلایا ۔
دیکھا دیکھا کباب میں ہڈی اسے ہی کہتے ہیں اس نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر شونوکو دیکھتے ہوئے جتلایا
شونو میری جان خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ آپ کے پاپا ابھی غصے میں ہیں۔
یارم کا غصہ دیکھتے ہوئے اس نے شانوکی جان بچانے کی خاطر کہا۔
روح تم نے پھر سے مجھے اس کتے کا باپ بولا۔روح بات پر یارم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
۔او سوری میں بھول گئی تھی شونو آپ کے پاپا نہیں بس آپ کی ماما کے ہسبنڈ ابھی غصے میں ہے ابھی آپ کچھ مت بولو روح نے بات بدلی
۔اور وہ بات بدل کر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہیں کر پائی تھی
کیونکہ اس کی بات کا مطلب تو وہی تھا اب حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ اسے ایک کتے کو گود لینا پڑ رہاتھا اب بہتر تھا یارم اس سے لڑنے کی بجائے اپنی ڈرائیونگ پر فوکس کرتا
ورنہ پتہ نہیں وہ اس کتے سے اس کی کون کون سی رشتہ داریاں نکلوا لیتی
°°°°
خضر یارم کے آنے کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہی آفس کے لیے نکلے
جب گاڑی سے روح اور شونو کو نکلتے دیکھ کر وہ بے اختیار ہی مسکرا دیا
اسے یقین تھا کہ آج یارم اسے کسی قیمت پر یہاں نہیں لائے گا کیونکہ کل کی ساری کہانی لیلی اسے سنا چکی تھی۔
اسو روح کو یہاں دیکھنے پر حیرت تو بنتی تھی۔
السلام علیکم ماموں کیسے ہیں ۔
روز کی طرح فریش سا چہرہ دیکھ کر خضر کو خوشی ہوئی تھی مطلب کے وہ اپنے ضد منوا کر یہاں آ چکی تھی ۔
میں تو بالکل ٹھیک ہو ماموں کی بھانجی لیکن تم ضد چھوڑو کیوں نہیں دیتی اسے اتنا تنگ مت کیا کرو خضر نے سمجھایا
تم کون ہوتے ہو اسے یہ کہنے والے پیچھے سے آتے یارم نے اس کی بات سنی
۔ اور روح کے بالکل قریب آ کر کھڑا ہوا ۔
یہ میری روح ہے خضر اس کا حق بنتا ہے کہ یہ مجھے تنگ کرے مجھے ستاۓ ۔تم اس کے ماموں ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے مجھ سے زیادہ چاہتے ہو ۔وہ اس کے روبرو کھرپڑا کہنے لگا تو خضر مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا
۔میری اتنی مجال کے میں اسے کسی کام سے منع کر سکوں ۔خضرت نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا
۔اس حادثے کے بعد یارم خضر کے ساتھ بھی مقابلے پر اتر آیا تھا
وہ روح کا اکلوتا رشتہ تھا ۔لیکن یہاں بھی یارم کا یہی کہنا تھا کہ اس سے زیادہ روح پر اور کسی کا کوئی حق نہیں
اور خضراس بات کو دل و جان سے قبول کرتا تھا
۔اس کی اتنی مجال کہاں کہ وہ یارم کے ہوتے ہوئے روح پر اپنا حق جتائے۔
اپنا خیال رکھنا روح اور دوائی ٹائم پر کھانا میں لیلیٰ کو بتا کر جاؤں گا اور اس کتے سے دور رہنا ۔کتا کہیں کا صبح صبح لڑائی کروا دی۔وہ شونو کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولا تو خضر بے اختیار مسکرا دیا ۔
یہ کتا جب سے آیا تھا تب سے ہی یارم کو اس سے سخت چڑ تھی
لیکن اس کے باوجود بھی جن دنوں میں روح بیمار تھی یا رم نے کسی عزیز کی طرح اس کا خیال رکھا تھا ۔
یارم اظہار کرے نہ کرے لیکن روح کی جان بچا کر یہ کتا اس کے لئے بھی بہت خاص ہو چکا تھا
اور وہ بھی اسے اپنے ہی گھر کا ایک فرد سمجھنے لگا تھا
۔یارم کے گھر میں دو نہیں بلکہ تین جانے بستی تھی
اس بات کو یار م قبول کرتا تھا ۔روح کو بے شمار ہدایت دینے کے بعد وہ اپنے کام کے لئے نکل چکے تھے ۔
جبکہ یہاں سے آفس پہچنے کے درمیان میں لیلیٰ کے ہزار بار منع کرنے کے باوجود بھی روح نے چائے بنائی ۔
تمہارا شوہر مجھے سولی پر ٹانگ دے گا اور تم وہی سامنے کھڑے ہو کر نظارہ کرو گی
اچھی طرح سے سمجھ رہی ہوں میں تمہاری پلیننگ ۔مروانا چاہتی ہونا مجھے تو ماپنے یاں کے ہاتھوں۔ ۔
تو صاف صاف کہہ دو ہو سکتا ہے تمہیں خوش کرنے کی خاطر وہ مجھے مار ڈالے
لیکن اللہ کا واسطہ ہے روح مجھے قسطوں میں مت مارو ۔
اس طرح سے میری سانس رکنے لگتی ہے ۔
ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ہٹلر واپس آ ہی نہ جائے دیکھو روح اب میں اکیلی نہیں ہوں میرے ساتھ ایک نھنی سی جان بھی ہے میرا نہ سہی ہے اس معصوم کا ہی خیال کر لو ۔
لیلیٰ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تھی
۔اتنے بھی برے نہیں ہیں یار م جتنا تم سمجھتی ہو
تمہیں پتا ہے کل انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ اتنے پیار سے میرے لیے کھانا بنایا روح نے اس کا خوف کم کرنے کی خاطر بولا
۔لیکن اب لیلی بیچاری اسے کیا بتاتی کہ جو کچھ بولنا تھا وہ تو کل اسے کہہ کر گیا تھا
وہ اسے زندہ زمین میں گاڈے کی بات کر رہا تھا اور روح اب بھی بے فکری سے وہی سارے کام کر رہی تھی جن سے یارم کوچڑ تھی
°°°°°
ڈیول اس سب سے تمہیں بہت غصہ آرہا ہوگا لیکن تم خود سوچو کہ اس کام میں کتنا فائدہ ہے اور ہم کسی کے ساتھ کی کوئی زبردستی نہیں کرتے
وہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں ہار کر یہاں تک کہ چلی آتی ہیں ۔
اور ان میں سے کوئی بھی نیک اور پارسا لڑکی تو نہیں ہو سکتی جو آدھی رات کو اپنے معشوق سے ملنے کے لیے اپنی عزت کی پرواہ کیے بغیر ایسی جگہوں پر آجائے
۔اپنی مرضی سے آتی ہیں وہ سب اور پھر ان میں اچھی لڑکیاں نہیں ہوتی ۔یہ لڑکیاں محبت کے نام پر فریب دیتی ہیں۔ لیکن یہاں یہ خود فریب میں آ جاتی ییں اور اس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے
وارث بہت مزے سے اسے اپنے کارنامے سنا رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت نیک کام کر رہا ہو
یارم نے ایک نظر سامنے کھڑے پانچ خوبصورت لڑکوں پر ڈال
۔یہ اسٹائلیش اور خوبصورت لڑکے کیسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتے تھے
شکل سے کسی امیر گھرانے کے لگتے تھے ۔اور ایسے لڑکوں کا ہی تو خواب لڑکیاں دیکھتی ہیں
۔جو یہ سوچتیں ہیں کہ کسی امیر لڑکے کو اگر ان سے پیار ہو جائے تو ان کی ساری زندگی سنور سکتی ہے ۔لیکن ان خوبصورت چہروں کے پیچھے چھپے گھٹیا ارادوں کو وہ لڑکیاں کیوں نہیں سمجھ پاتی ۔اپنی عزت کو اپنے ہاتھوں گنوا دیتی ہیں ۔
کیوں وہ کردار کو مضبوط نہیں رکھ پاتی
کیوں عورت اپنا معیار اتنا گرا دیتی ہے
کیوں اپنے شوہر کی امانت میں خیانت کر کے اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کر دیتی ہے
۔ان لڑکیوں کو سوچتے ہوئے اسے ایک پل کے لئے اپنی روح کی یاد آئی تھی پاکیزہ معصوم مضبوط کردار کی مالک جو اپنے شوہر کو ہی اپنے تن بدن کا مالک سمجھتی ہے
اور دین حق پر چلتی ہے اور دوسری طرف تھی یہ لڑکیاں صرف خوبصورت چہرے اور چند پیسوں کے خاطرکیسے اپنا آپ برباد کر دیتی تھیں۔ اس کے سامنے میز پر ستر سے زیادہ ویڈیو کلپ کی ڈیٹیلز پڑی تھی ۔جن میں ان لڑکیوں کی عزت کا سودا کیا جارہا تھا
میں نے تمہیں منع کیا تھا وارث کوئی بھی ایسا کام مت کرنا کہ جیسے تم میری نظروں میں آؤ
لیکن تم نے وہی کیا اب تم بتاؤ تمہیں اس گناہ کی کیا سزا دوں
۔ڈیول نے جیسے اس کی تقریر سنی ہی نہیں تھی ۔
ڈیول میں تمہیں بتا تو چکا ہوں میرا کوئی قصور نہیں ہے یہ لڑکیاں خود میرے لڑکوں کی محبت میں کھینچی یہاں چلی آتی ہیں ۔اور ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی زبردستی کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوئی تم یہ ویڈیو دیکھ سکتے ہو
یہ لڑکیاں اپنی مرضی سے میرے لڑکوں کے ساتھ تعلقات بناتی رہی ہیں وارث اب بھی اپنا جرم قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور یہ بات یارم کو مزید غصہ د** رہی تھی
شارف نے میز سے اوریجنل سی ڈی اٹھاتے ہوئے توڑنا شروع کر دی تو وارث کو بہت غصہ آیا لیکن ڈیول کے سامنے کچھ بھی بولنا اس کی اوقات سے باہر تھا
۔سامنے کرسی پر بے نیاز اور بے فکر بیٹھاوہ شارف کو یہ کام کرتے دیکھ رہا تھا
۔باقی کچھ اور بھی ہے یا بس یہی ہیں شارف نے پوچھا
۔اور کچھ نہیں ہیں بس یہی سی ڈیز تھی جو تم نے ضائع کر دی وارث نے شارف کو گھورتے ہوئے دانت پیس کر کہا ۔
بیٹا ابھی تو ہم تجھے بھی ضائع کریں گے اور تیرے ان لوگوں کو بھی اس کے اس طرح سے کہنے پر ہی خضر بھی بول اٹھا ۔
اسے پہلے لگا تھا کہ وارث اپنی غلطی کو قبول کرے گا لیکن وہ تو سینہ تانے اپنے گناہ کو غلط کہنے کو تیار ہی نہ تھا
اور ایسے لوگوں کاوہی انجام ہوتا ہے جو ڈیول آج تک کرتا آیا ہے ۔
کیا مطلب ہے تمہارا تم ایسے نہیں کر سکتے میرے ساتھ ڈیول میں نے تمہارا بہت ساتھ دیا ہے ۔
اور میں نے کبھی بھی تمہارے خلاف جا کر کوئی کام نہیں کیا
یہ لڑکیاں خود لوٹنے کو تیار ہیں تو کونسا آدمی پیچھے ہٹے گا ۔یارم کی خاموشی پر وارث پریشانی سے بولا تھا کیونکہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی بھی ہوسکتی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ڈیول کی بیڈ لسٹ میں نا آجائے ۔
شارف ان لڑکوں کو یہاں سے لے کر چلے جاؤ ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی خوبصورتی کو غلط طریقے سے کیش کیا ہے
لیکن ان کی غلطی کی سزا بھی انہیں ملے گی
ان کی شکل صرف دیکھنے کے لائق ہونی چاہیے چاہنے کے نہیں وہ اٹھ کر ان لڑکوں کے سامنے کھڑا کہنے لگا تو پانچوں بوکھلا گئے
۔ڈیول ہمیں معاف کر دیں ہم سے غلطی ہوگئی ہم دوبارہ ایسا کام نہیں کریں گے ان میں سے دو لڑکے یارم کے پیروں پر جھکے معافی مانگنے لگے
۔جب کہ ان دونوں کو اس طرح سے معافی مانگتے دیکھ کر باقی تینوں بھی اپنی موت کو اپنے قریب دیکھتے ہوئے ہاتھ باندھ چکے تھے
۔ہم ایسا کام دوبارہ نہیں کریں گے ڈیول پلیز ہمیں چھوڑ دیں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے وہ لڑکیاں خود ہمارے ساتھ آنے کو تیار تھی
اور جو بھی ہوا ہے ان کی مرضی سے ہوا ہے ہم نے کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں کی
وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے
لڑکی اپنی عزت اپنے عزت کے محافظ کے حوالے کرتی ہے جسے وہ چاہتی ہے جسے وہ اپنا مانتی ہے جس کی خاطر وہ اپنا تن من دینے کو تیار ہو جاتی ہے
محبت دنیا کی سب سے انمول چیز ہے اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ اور اس تحفے کو تم نے اتنا بے مول کر دیا ہے کہ آج لوگوں کا محبت پر سے ایمان اٹھ گیا ہے
۔میں یہ نہیں کہتا کہ قصور صرف تم لوگوں کا ہے قصوروار وہ لڑکیوں کا بھی ہیں جو بنا کسی جائز رشتے کہ تم لوگوں کے ساتھ یہاں تک آتی رہی
اور کل ان سی ڈیز کی صورت میں بازاروں میں بکنے والی تھی ۔قصوران لڑکیوں کا بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے میں لڑکیاں دل سے سوچتی ہیں دماغ سے نہیں اور بعد میں تم لوگ انہی معصوم دلوں کے ساتھ کھیل کر ان کی زندگی برباد کر دیتے ہو
کتنی عام سی بات ہے نا ہم اکثر سنتے ہیں کہ کسی لڑکی کا ایم ایس لیک ہوتے ہیں آج ایک لڑکی کا توکل دوسری لڑکی کا
اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے کسی ایک جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی
تو دوسری جگہ سے خبر آتی ہے کہ لڑکی کے باپ بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا
۔اور تم جیسے لڑکے پھر کسی دوسرے شکار کو ڈھونڈنے نکل جاتے ہو ایک بار تم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ جس کو تم نے اس غلط راہ پر لگایا وہ اپنی جان گنوا چکی ہے
۔کل تک شاید ان لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا اور نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہو چکا ہوگا ۔اور تم لوگ آج معافی مانگ رہے ہو
لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ڈیول کی کتاب میں معافی کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔شارف لے جاؤ ان کو یہاں سے اور دوبارہ کسی لڑکی کے ساتھ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا
یارم سختی سے کہتا ایک بار پھر سے وارث کے سامنے آ بیٹھا تھا
۔تمہاری بیٹی بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے نہ وہ اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے ٹیبل پر پھینک چکا تھا وہ بھی کسی لڑکے کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہے ممکن ہے کہ کل ایسی ہی کوئی ویڈیو تمہاری بیٹی کی بھی لیک ہو جائے تم نے میرے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے وارث مجھے تم سے ایسے گھٹیا کام کی کبھی امید نہیں تھی ۔
میں امید کرتا ہوں کہ تم دوبارہ ایسا نہیں کرو گے
لیکن یہ مت سوچنا کہ تم ڈیول کی نظر میں گنہگار نہیں ہو
میں تمہیں تمہارے گناہ کی سزا میں ضرور دوں گا لیکن اس سے پہلے تم اپنی بیٹی کو بچا لو
جلد ملیں گے یارم نے باہر کی طرف قدم بڑھائے تو خضر اور شارف بھی اس کے پیچھے چل دیئے
جب کہ وارث بے چینی سے تصویریں دیکھ رہا تھا جو یارم اس کے سامنے ٹیبل پر پھینک کر گیا تھا
°°°°°
مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وارث کوچھوڑ دو گے خضر نے نکلتے ہوئے کہا
میں اسے سزا کیسے دے سکتا تھا خضرجبکہ اسے سزا اللہ نے دی ہے اس کی بیٹی کے روپ میں ۔
جس لڑکے سے وہ محبت کر بیٹھی ہے وہ ایسے ہی ایک گینگ پر لیڈر ہے
جو میری نظر میں بھی ہے ۔اور بہت جلد میں اسے بھی اس کے انجام تک پہنچ جاؤں گا لیکن وارظث کی بیٹی کے لیے دعا کرتا ہوں کہ تب تک اس کی عزت کی حفاظت اس کا باپ کر سکے
۔مکافات عمل شاید اسی کو کہتے ہیں شارف نے کہا ۔
یہ تو حل ہو گیا اور دوسرے کیس کا کیا کرنا ہے اور جس کے بارے میں میں نے خضر کو سب بتایا تھا
کون سا کیس خضر نے تو کسی کیس کا ذکر نہیں کیا وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا ہاں وہ دراصل میرے دماغ سے نکل گیا یونیورسٹی میں ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا لڑکی کے انکار پر اس نے لڑکی کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا یہ ایک ہفتے پہلے کی بات ہے لڑکی کی مسلسل سرجریز کی جارہی ہیں لیکن اب بھی حالات بہت خراب ہیں ۔اور اب ۔۔۔۔خضر نے بتاتے ہوئے ایک نظر اس کے ماتھے کی رگوں پر ڈالی تھی
۔اور پھر خاموش ہو گیا
اس کا ڈیول موڈ اون ہو رہا تھا جو ان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
پوری بات بتاؤ خضر خاموش کیوں ہوگئے وہ غصے سے دہارا تھا
۔اور وہ لڑکا شادی کر رہا ہے آج رات اس کی شادی ہے ۔
وہ بات مکمل کرکے پھر خاموش ہو گیا ۔
مطلب کے ایک معصوم لڑکی کی زندگی کو برباد کرکے وہ خود شادی کر رہا ہے
۔ایک معصوم کی ساری خوشیاں لوٹ کے وہ اپنا گھر بسانے جا رہا ہے
اور اسے لگتا ہے کہ ڈیول ایسا ہونے دے گا
۔ایڈریس بتاؤ اس کا یارم سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
۔مجھے یہیں چھوڑ جاؤ ڈیول مجھے اور کچھ کام ہے اس کا خطرناک موڈدیکھتے ہوئے شارف نے فورا کہا تھا ۔
ڈیول کے ایسے موڈ کے ساتھ وہ کہیں بھی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
اسی لیے وہیں پر ہی اتر گیا جبکہ خضر یارم کو راستہ بتا رہا تھا ۔
ہیلو لیلی روح کا خیال رکھنا اور اپنا بھی ڈیول اور خضر کو آنے میں دیر ہو جائے گی ان کے جاتے ہی شارف نے لیلی کو فون کیا تھا
۔خیریت تو ہے لیلی نے ایک نظر باہر ٹی وی لگائے روح کی جانب دیکھا تھا
۔ہاں ٹھیک ہے سب کچھ بس ڈیول کا ڈیول موڈ آن ہوچکا ہے پتہ نہیں آج کس کی شامت آئی ہے بس دعا کرنا کہ وہ جو بھی ہو اس کو آسان موت ملے شارف نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تو لیلیٰ کی ہنسی نکل گئی ۔
فکر مت کرو میں روح کو سنبھال لوں گی اور تم بھی اپنا خون نا جلاو گھرچلے جاؤ معصومہ انتظار کر رہی ہو گی کیونکہ اتنی ہمت تم میں ہے نہیں کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جا پاتے لیلی نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا
لیلی میں تمہاری ہمت سے بھی اچھے سے واقف ہوں اور تمہاری طرح پریگنٹ ہو کر گھر نہیں بیٹھا بہت کام ہے مجھے ۔اتنا ہی فارغ ہوں نا وہ سنانے والے انداز میں کہتا فون بند کر چکا تھا جب کہ اپنی بات پر غور کرکے جہاں اس نے خود پر لعنت بھیجی تھی وہی لیلی کا قہقہ اسے فون بند ہونے تک سنائی دیتا رہا
Episode 6 to 11
Episode 12 to 16
Episode 17 to 22
Episode 23 to 28
Episode 29 to 33
یارم پلیز مت جائیں نا کام پر آج تو آپ کو بہت سارا آرام کرنا چاہیے ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے
اور اس کے پیچھے پیچھے آتی اسے منا رہی تھی
میں گھر پر بور ہو رہا ہوں میری بیوی ایک بہت ہی بورنگ انسان ہے
یارم یہ کہتے ھوئے آگے بڑھ گیا
نہیں ہوں میں بورنگ پلیز مت جائیں وہ منتیں کر رہی تھی اگر وہ آفس چلا جاتا تو یارم نے شارف کا وہ حال کرنا تھا کہ ساری زندگی یاد رکھتا
ایک تو پہلے ہی وہ اس کی نازک سی ناک بیڑا غرق کر چکا تھا
اور اس کے معصوم سے ماموں کا بازو بھی توڑ آیا تھا
اور نہ جانے اب کیا کیا توڑنے والا تھاوہ اپنے ماموں اور بھائی کی زندگی مزید مشکل میں نہیں ڈال سکتی تھی
یارم کیا اپنی اتنی پیاری بیوی کی بات بھی نہیں مانیں گے وہ اس کے گلے میں باہیں ڈالتی اس کے بے حد قریب آ چکی تھی
میری بیوی بہت ہی نکمی ہے اپنے شوہر کو منانا بھی نہیں آتا اس کو اس لئے میں اس کی بات ماننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوں وہ اس کا نازک سا بازو اپنے گلے سے نکال کر بولا
ارے آپ موقع دو دیں روح کی زبان پر اختیار پھسلی ۔ اور تیزی سے س کے گلے میں واپس باہیں ڈالتے ہوئے یارم کی شرٹ کا بٹن لٹکنے لگا ۔
جس سے جہاں روح کے چہرے کی ہوائیاں اڑ رہی تھی وہی یارم کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ آرُکی
وہ اپنی شرٹ سے لٹکتے ہوئے بٹن کو توڑ کر اس کی نازک سی کمر میں اپنا ہاتھ ڈال گیا ۔تو میری پیاری سی بیوی چاہتی ہے کہ میں اسے موقع دے کر اپنا ریپ کروالؤں۔پر کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں وہ اپنے کھلے گریبان کو دیکھ کر شرارت سے بولا جبکہ روح کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہے گی
اوکے کیا یاد کرو گی دیا تمہیں موقع وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا جب کہ اس کی مسکراہٹ نے روح کو گھبرانے پر مجبور کر دیا
نہیں چاہیے موقع وہ جلدی سے بولی
لیکن میں تم اب موقع دوں گا ۔چلو اس بار منا لو مجھے وہ ایک آنکھ دباتا اس کا نازک سا وجود باہوں میں لیے صوفے پر آ بیٹھا
عجیب زبردستی ہے مجھے موقع نہیں چاہیے ۔وہ جلدی سے کہتی اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی کیونکہ اس کا موڈ بدل گیا تھا ۔جب سے یارم واپس آیا تھا اس کی جان مشکل میں ڈالی ہوئی تھی ۔
اسے ایک پل کو سکون نہیں لینے دیا تھا ۔اور اب وہ اس کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے پریشان ہو چکی تھی
جب کہ یارم تو ہمیشہ کی طرح اب مکمل مدہوش ہو چکا تھا
وہ اسے نہ تو کچھ کہنے دے رہا تھا اور نہ ہی اٹھنے دے رہا تھا
جب کہ روح یہ سوچ کر آدھی ہوئی جا رہی تھی کہ یارم اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا ۔
کیا اسے لگ رہا ہو حا کی شرٹ کے بٹن توڑنے والی حرکت اس نے جان بوجھ کر کی ۔
لیکن وہ تو احساس نہیں چاہتی تھی وہ تو صرف اپنے بھائی کو بچانا چاہتی تھی یارم کے قہر سے لیکن خود پھنس گئی
جبکہ یارم جب باہر آیا تو اس کو اپنی میری سوچوں میں مصروف دیکھا
یقیناً وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اسے کیسے منائے یارم اسے مزید تنگ کرنے کے لیے آفس جانے کا بہانہ کرنے لگا ۔
اور اس کی سوچ کے عین مطابق وہ اسے آفس نہیں جانے دے رہی تھی ۔
اس کی شرٹ کا بٹن شرٹ پہنتے ہوئے ہی ٹوٹ چکا تھا اور اب وہ اسے روح کے پاس لے کر جانے والا تھا تاکہ روح اسے جوڑتے ہوئے اس کے بے حد قریب آجائے
اسے روح کو تنگ کرنے میں بہت مزہ آ رہا تھا وہ اس سے روٹھا ہوا تھا اور وہ اسے منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اور اس دوران اس کی من مستیاں من مانیاں اس کی گستاخیاں سب خاموشی سے برداشت کر رہی تھی ۔
یہاں تک کہ اس کی ناراضگی دور کرنے کے لئے اس کے ایک اشارے پر اس کے قریب دوڑی چلی آتی
یارم کو اب اس پر ترس بھی آرہا تھا
لیکن اس کے قریب آتے ہی یارم خود پر قابو رکھو دیتا ۔
اور پر اپنی شدت لٹانے لگتا
ابھی تو اس کی جدائی کی بیقراریاں بھی ختم نہیں ہوئی تھی
وہ دن یاد کرتے ہی اسے روح کی طلب پوری شدت سے محسوس ہونے لگتی
وہ اتنی وقت کر کے بغیر رہا کیسے ۔۔۔۔؟
یہ سوچ اسے خود بھی پریشان کر رہی تھی اور اب تو وہ اس سے ایک لمحے کی دوری برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔
اور نہ ہی وہ اسے خود سے دور جانے دے رہا تھا
°°°°
وہ سب لوگ مل کر آفس کا ایک ایک کونہ چمکا چکے تھے
اور اب شارف اور حضر پرسکون ہو کر آفس میں آکر بیٹھے
روح نے نہ جانے یارم کو کیسے روکا ہوگا ۔لیکن اس کا نا آنا فائدہ مند ثابت ہوا تھا
اس کے نہ آنے کی وجہ سے شارف کے ساتھ ساتھ آفس کے باقی لوگوں کی جان بھی بچ گئی تھی
ابھی انہیں سکون سے بیٹھ گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ صارم ان کے سر پر سوار ہوا
ہاتھ میں آریسٹ وارنٹ تھا جو یقین شارف کے نام کا تھا ۔
کیونکہ کل رات ایک دوست سے شرط جیتنے کے چکر میں اس نے ٹریفک پولیس والے کا والٹ چورایا اور بھاگ گیا
تھوڑا آگے جا کر اس نے والٹ کو ہی زمین پر پھینک دیا اور وہ شرٹ جیت گیا
لیکن اس کی یہ حرکت صارم کے ایک دوست ساتھی پولیس والے سے چھپی نہیں رہ سکی اور وہ شارف کو بھی پہچان گیا
چشم دید گواہ ہونے کی وجہ سے شارف اچھا خاصہ پھنس چکا تھا اور اب صارم اس کے سر پر سوار تھا
یارم کی موت کی خبر جھوٹی نکلنے کے بعد صارم تو اب بس ایک موقع کی تلاش میں تھا
اسے بس ایک بہانہ چاہیے تھا
اتنی آسانی سے تو وہ ان لوگوں کو بھی معاف کرنے والا نہیں تھا
وہ بے چارے تو صارم نامی اس مصیبت کو بھول ہی گئے تھے
لیکن اپنا دیدار کروا کر صارم نے انہیں واپس حقیقت کی دنیا میں آیا تھا
اور اب وہ شارف کا کیا حال کرنے والا تھا یہ تو وہ جانتا تھا یا پھر شارف
دیکھو انسپکٹر نمٹ میں رہ کر ورنہ میں سیدھے ہائی کورٹ جاؤں گا میں بتا رہا ہوں شارف اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا جب کہ وہ تو اسے گھسیٹ کر لے جا رہا تھا
اور پھر جاتے جاتے خضر کے کان سے بھی نکال دیا کہ تم اپنی خیر مناؤ اس بار میں تمہیں بھی چھوڑنے والا نہیں بچپن کی دوستی بھاڑ میں ۔
اور اس کے ارادے خضر کو بھی کافی خطر ناک لگے تھے
°°°
وہ کب سے اس کے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا ساتھ ہی ساتھ اس کا ہاتھ روح کے بال سہلا رہا تھا
اسے پتہ تھا کہ وہ جاگ رہی ہے لیکن پھر بھی آنکھیں بند تھی یارم کی ساری ناراضگی ہوا ہو چکی تھی
اس کی روح نے اسے منا لیا تھا
یار بھوک لگی ہے وہ آہستہ سے منمنائی اور کے قریب سے اٹھنے کی کوشش کی اس کا ارادہ کچن میں جاکر کچھ بنانے کا تھا
لیکن اس سے پہلے ہی یارم نے اسے روک لیا
میرے بچے کو بھوک لگی ہے میں خود اپنی جان کے لیے کچھ اچھا سا بنا کے لاتا ہوں تو پیار سے اس کے ماتھے پر بوسہ لیتا ہوا بولا تو روح مسکرائی
اس کا پیارا ساانداز روح نے اسے منا لیا تھا اس نے پرسکون سے سانس لی اور اپنا سر تکیہ رکھا ۔
اب روح خوش تھی وہ اسے منانے میں کامیاب ہو چکی تھی اس کا یارم مان تھا اور اب اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا
°°°°°
یارم بہت پیار سے اس کے لئے کچھ بنا رہا تھا پھر یوٹیوب سے ٹپ لینے کا سوچتے ہوئے فون اٹھایا
لیکن فون ان لاک کرتے ہی شارف کی کال ریکارڈ دیکھی اور سوچا کے اس نے آج کل یہ پھر واپس آنے کے بعد شارف کو فون تو نہیں کیا تو پھر یہ آج کی کال ریکارڈ کی شوہور ہی ہے
شاید روح نے کال کی ہوگی وہ ریکارڈر آن کرتے ہوئے سوچ رہا تھا
وہ جانتا تھا کہ شارف اس کی ناراضگی وجہ سے کافی پریشان ہے کل یارم نے اسکا کافی برا حال کیا تھا ۔
لیکن اسے یقین تھا کہ ان شارف اس کی روح کوکبھی کوئی مشورہ نہیں دیکھا
فون سے شارف اور روح کی گفتگو سنتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنا کھانا بھی بنا رہا تھا ۔
اور جیسے جیسے سن رہا تھا اس کا چہرہ لہوچھکنے خگا
روح اس کی اور اپنی اتنی پرنسل باتیں شارف کو بتا چکی تھی اور اس سے مشورہ مانگ رہی تھی کہ وہ یارم کو کیسے منائے۔
روح اتنی بے وقوف کیسے ہو سکتی ہے غصے سے اس کا پارہ ہائی ہوگیا اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا باول پوری شدت سے زمین پر دے مارا جس کی آواز سن کر فوراً کمرے سے باہر آ گئی تھی
کیا ہوا یارم کچھ گر گیا ہے کیا آپ کو چھوٹ تو نہیں لگی فکرمندی سے بولتی اس کے پاس آئی
اسے سامنے دیکھتے ہی یارم اس کے شانے تھام کر اسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا اس کا انداز انتہائی جارحانہ تھا
تم میرے جذبات کبھی نہیں سمجھ سکتی تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اور اپنی پرسنل لائف کسی تیسرے سے شیئر کرنے کی
اب کوئی تیسرا تمہیں بتائے گا کہ تمہیں اپنی شوہر کو کیسے منانا چاہیے تم ایک انتہائی بے وقوف اور کم عقل لڑکی ہو
تم بس میرے جذبات کے ساتھ کھیل سکتی ہو کبھی میری محبت کی قدر نہیں کر سکتی وہ اسےپیچھے دکھا دیتا ہے وہاں سے نکل گیا
آج روح کی اس حرکت میں یارم کو سچ میں بہت ہرٹ کیا تھا ۔
وہ تیزی سے یارم کے پیچھے بھاگتے ہوئے کمرے تک آئی تھی اور کافی دیر کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہی
لیکن یارم نےدروازہ نہیں کھولا
اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ یارم اس حد تک خفا ہو جائے گا ۔اور اب اسے بھی یہی لگ رہا تھا کہ یہ ان دونوں کا بے حد پرسنل میٹر تھا
جس میں کسی تیسرے کو نہیں لانا چاہیے تھا اسے شارف سے مشورہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا یہ بات وہ کیچن کاؤنٹر پر رکھے فون کی ریکارڈنگ سے پتہ لگا چکی تھی
کہ یارم کو یہ بات کہاں سے پتہ چلی
لیکن اب وہ کیا کرے گی ابھی سے منائے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا تھا کہ وہ پھر سے ناراض ہو گیا اور اس بار تو وہ سچ میں سیریس والا ناراض ہو گیا تھا
شام کو وہ کمرہ خود ہی انلاک کر کے آئی تھی کمرے میں اندھیرہ تھا جبکہ سگریٹ کی سمیل نے اندر آتےہی اس پر کافی بُرا اثر چھوڑا تھا
اس وقت وہ سر سے پیر تک اس کی پسند بنی تھی۔اس کے بدن پر موجود ہر چیز یارم کی پسند کی تھی ۔
جو وہ خود اس کے لیے لایا تھا۔اور اکثر اسے پہنے کے لیے بھی کہتا لیکن وہ ساڑھی میں خود کو انکفرٹیبل محسوس کرتی تھی۔
یارم کا کہنا تھا کہ روح صرف اس کے سامنے یہ لباس پہنے لیکن روح نے اس کی یہ فرامائش کبھی پوری نہیں کی تھی۔
لیکن آج اس کو منانے کے لیے وہ خود بنا اس کے بولے اس کی پسند میں ڈھل کر آئی تھی
ڈارک ریڈ ساڑھی میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
اوپرسے لمبے سیاہ بال اسے کسی دوسرے جہاں کی پری بنا رہے تھی۔
اور پھر ڈارک ریڈ کلر کی لپس ٹک نے اپنا ہی جلوہ بکھیرا تھا۔
یارم نے آیک نظر اس کی تیاری دیکھی ۔ پھر سر جھک کر سگریٹ سلگانے لگا ۔شاید وہ ماننا ہی نہیں چاہتا تھا۔یا روح کو اس وقت دیکھنے کا خواہش مند ہی نہیں تھا۔
وہ اس سے نظریں پھیر کر باہر جانے لگا لیکن روح نے راستہ روک لیا
اتنے خفا ہوگٙئے کہ مجھے دیکھیں گے بھی نہیں ۔ وہ معصومیات سے کہتی بہت پیاری لگ رہی تھی ۔لیکن آج اس کا یہ روپ یارم کا دل دھڑکا نہیں رہا تھا بلکہ جلا رہا تھا
۔راستے سے ہٹو کس سے یہ سستا مشورہ لے کے آئی ہو ۔۔۔
کس کس کو سنا کر آئی ہوکہ تمہارہ شوہر تم سے خفا ہے۔اور اسے ماننے کے لیے تمہیں کوئی مشورہ چاہے ۔
وہ کب کا تپا بٹھا تھا۔
میں نے کسی سے مشورہ نہیں لیا میں خود آپ کو منانے آئی ہوں ۔وہ یقین دلا رہی تھی جو یارم کو نا آیا۔
وہ اس کی بات پر طنزیہ سی مسکراہٹ لیے باہر نکل گیا ۔جبکہ روح اس کے پیھے بھاگتی ہوئی آئی وہ اس پر اعتبار نہیں کر رہا تھا لیکن روح کو تو اسے منانا تھا۔
وہ بھی اپنے پاس سے۔۔۔۔ اس نے غلطی کی تھی اسے یہ باتیں شارف یا کسی اور کو نہیں بتانی چاہے تھی ۔اور وہ شرمندہ تھی ۔اب وہ اپنے یارم کو منا لینا چاہتی تھی جو کافی مشکل تھا
وہ اپنی ساڑھی سمبھالتی باہر میوزک سسٹم کے پاس آئی ۔
تاکہ یارم کی پسند کا کوئی رومنٹک گانا لگا کر اسے منائے لیکن یارم تو زیادہ گانے سنتا ہی نہیں تھا
کوئی بات نہیں کوئی بھی اچھا سا لگا لیتی ہوں
وہ خود سے کہتی کوئی بھی گانا پلے کر کے یارم کی طرف آئی جو صوفے پر بٹھا آنکھیں بند کیے سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا
وہ بلکل اس کے پاس آگئی اور صوفے کے پیچھے کھڑی اس کو دیکھنے لگی۔
"چاہا تھا تمہیں"
"پایا ہے تمہیں"
"مانگا تھا تمہیں"
"پایا ہے تمہیں"
"سینے سے لگا لو مجھ کو'
جذبات نہیں ہیں بس میں"
جذبات نہیں ہیں بس میں"
یہ رات نہیں ہے بس میں ۔"
اس کے بلکل قریب اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہی تھی۔لیکن آج تو جیسے ہر چیز اہم تھی سوائے روح کے ۔یارم وہاں سے بھی اٹھ کر باہر جانے لگا لیکن اس سے پہلے ہی روح اس کا ہاتھ تھام کر کے بے حد نزدیک آ چکی تھی
"پھر چمک اٹھی میری بندیا"
"پھر اڑنے لگی میری نیندیا'
"پھر موسم آئے سہانے "
"پھر ساون لگا ہے گانے "
"نہ جانے کب تک برسے"
"برسات نہیں ہے بس "
"جذبات نہیں ہیں بس میں"
"یہ رات نہیں ہے بس ہے "
روح اپنی تمام تر جمع کرکے اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھونے ہی والی تھی کہ یارم نے اسے دھکا دیتے ہوئے خود سے بے حد دور کردیا
اس نے شدت سے یہ حرکت کی تھی کی روح صوفے پر جا گری
کیوں کر رہی ہو تم یہ سب کچھ ۔۔۔۔؟
کیا تمھیں سمجھ نہیں آرہا تھا مجھے نہیں چاہے یہ سب ۔۔۔۔
اور اس بار کس سے آئیڈیا لے آئی ہو یہ سب کچھ کرنے کا یہ سب لیلیٰ ہی کر سکتی ہے
اسی کے مشورے پر چل رہی ہو نہ تم وہ انتہائی غصے سے اس کے پاس آیا تھا
روح کبھی تو مجھے سمجھنے کی کوشش کرو
کیوں تمہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنی پرسنل لائف کسی تیسرے کے بغیر چاہتا ہوں
میں تمہارے اور اپنے بیچ کسی کی مدالفت نہیں برداشت کرسکتا
کیوں تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مجھے پسند نہیں ہے میری اور اپنی پرنسل لائف تم کسی اور کے ساتھ شئیر کرو
وہ انتہائی غصے سے بول رہا تھا جبکہ روح کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی
آپ میرے یار م ہیں ہی نہیں ۔۔۔آپ کوئی اور ہیں
میرے یارم میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں کر سکتے ۔نجانے یارم ابھی غصے میں کیا کیا بولنے والا تھا لیکن روح کے الفاظ نےاسے خاموش کر دیا ۔
آپ نہیں ہیں میرے یارم۔جب سے یہ حادثہ پیش آیا ہے میرے یارم کہیں کھو ہی گئے ۔آپ کبھی میرے یارم کی جگہ نہیں لے سکتے
وہ کبھی اپنی روح کو یوں خود سے دور نہیں کر سکتے ۔آپ نہیں ہیں میرے یارم وہ بُری طرح سے روتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر بھاگ گئی
جب کہ یارم پہلے تو کتنی دیر اس راستے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ بھاگ کر گئی تھی
اس کے آنسو اس کی تکلیف کی یارم کو پرواتھی
لیکن یہ روح کا مشورہ نہیں ہو سکتا تھاوہ کبھی بھی یہ سب سوچ نہیں سکتی تھی
لیکن وہ یارم کو منانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی
تو کیا یہ سب کچھ روح نےاپنی مرضی سے کیا وہ اپنا فون نکال کر لیلیٰ کو کال کرنے لگا
°°°°°
یارم کا فون آتا دیکھ لیلیٰ نے پریشانی سے فوراً ہی فون اٹھا لیا
لیلی بہتر ہوگا کہ تم اپنی زندگی پر توجہ دو میرے اور روح کے بیچ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنے میٹرزخود حل کر سکتے ہیں آئندہ تم مجھے روح کو مشورہ دیتی نظر نہ آؤ ورنہ میں تم دونوں کی ملاقات ہی بند کر دوں گا وہ انتہائی غصے سے بولا تھا
یارم کیا ہوگیا ہے تمہیں میں نے کب روح کو کوئی مشورہ دیا
میری روح سے بات ہی نہیں ہوئی
جھوٹ بولنا بند کرو لیلیٰ اگر تمہاری روح سے بات نہیں ہوئی تو یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ۔۔۔۔ وہ اس کی بات کاٹ کر بولا
یارم مجھے کیا پتا وہ کیا کر رہی ہے اور کیا نہیں میری اس سے بات کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اس کا فون ہی گم ہوچکا ہے
پہلے وہ یہاں پر بھی تو تو ہم آمنے سامنے بات کر لیتے تھے لیکن جب سے وہ تمہارے ساتھ گئی ہے میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے
بس شارف نے صبح بتایا تھا کہ اس نے روح سے تمہارے فون پر بات کی ہے اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتی یارم۔میں نے روح کو کوئی مشورہ نہیں دیا اور نہ ہی میری اس سے بات ہوئی ہے
اور میری تو کیا شارف کے علاوہ اس کی کسی اور سے بات بھی نہیں ہوئی ابھی لیلیٰ نہ جانےاپنی صفائی میں کیا کیا کہنے والی تھی کہ یارم فون ہی بند کر دیا
ہو گیا بیڑا غرق مطلب یہ سب کچھ میری شہزادی خود سے کر رہی تھی مجھے منانے کے لیے اور میں نے کیا کیا ۔وہ اپنے سر پہ ہاتھ مارتا بند دروازے کی جانب دیکھنے لگا
°°°°
روح میری جان میرا بچہ پلیز دروازہ کھولو وہ دروازے کے باہر کھڑا کب ہے اسے آواز دے رہا تھا جب کہ وہ کمرے میں بیٹھی روئے جارہی تھی کتنی محنت سے تیار ہوئی تھی اس کے لئے اس نے کیا کیا
کوئی کیسے کر سکتا ہے اپنی معصوم سی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک
نہیں ہوں میں آپ کا بچہ اور نہ ہی میں آپ کی جان ہوں اور اب کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی آپ میرے یارم ہو ہی نہیں اندر سے روتی ہوئی نم سی آواز آئی جس پر یارم بے چین ہو گیا
روح تم نہیں آؤ گی تو میں اندر آ جاؤں گا یارم نے ہارتے ہوئے کہا
خبردار جو آپ نے ایکسٹرا کی سےدروازہ کھولا میں ساری زندگی بات نہیں کروں گی آپ سے وہ فوراً اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی
اتنے برے لگ رہے ہیں نہ آپ مجھے اس وقت کہ آپ کا چہرہ دیکھنے کا بھی دل نہیں کر رہا
اور نہ ہی مجھے آپ کا چہرا دیکھنا ہے چلے جائیں یہاں سے اپنے آفس روم میں بیٹھ کر سگریٹ پیے ۔اس سوتن کو منہ لگائے میرے منہ نے کی ضرورت نہیں ہے
وہ روٹھی روٹھی ایسی باتیں کر رہی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یارم کو ہنسی آ جاتی
لیکن وہ بالکل بھی ہنسا نہیں تھا کیوں کے اس وقت اسے روح کو منانا تھا
کیا ہو رہا تھا یہ سب کچھ جب یارم مانتا تھا تب روح روٹھ جاتی ہے اور جب روح مانتی یارم روٹھ جاتا
لیکن یار م کواسے منانے کے بہت سارے طریقے آتے تھے اسے روح کے لیے کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی ۔
°°°°°
اس کو منانے کی ہر کوشش میں ناکام ہونے کے بعد یا رم نے مجبور ہو کر ڈپلیکیٹ کی سے دروازہ کھولا تھا
اس کو دیکھتے ہی وہ منہ پھیر کر بیٹھ گئی ۔
افف بے بی ایم سوری یار غلطی ہو گئی مجھ سے معاف کر دو وہ بیڈپر یٹھی تھی اور یارم زمین پر بیٹھ کر اس سے معافی مانگنے لگا
میں نہیں کروں گی آپ کو معاف آپ بہت گندے ہیں میں بات ہی نہیں کرنا چاہتی آپ سے جائیں یہاں سے جا کر وہ سوتن سگریٹ پیئں وہ غصے سے بار بارسگریٹ کو ہی بیچ میں لا رہی تھی
اچھا نہ یار نہیں پیتا تمہاری سوتن کو وہ شرارتی انداز میں کہتا ہے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر چومنے لگا
بس یہی غلطی معاف کر دو اس کے بعد کبھی کوئی غلطی نہیں ہوگی وعدہ کرتا ہوں وہ اپنےکانوں کو ہاتھ لگاتے بولا تو روح ذرا نرم پڑگئی
خبردار جو آئندہ مجھ سے اس طرح سے بات کی یا مجھے خود سے دور کیا
اور اب اگر کبھی مجھ سے ناراض ہوئے تو میں پکی والی ناراض ہو جاؤں گی ۔
مجھ سے نہیں ہوتےیہ منانے والے کام میں روٹھوں گی اور آپ منائیں گے ہمیشہ مجھ سے نہیں اٹھائے جاتے آپ کے یہ نخرے
وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی جس پر یار م نے فوراً ہاں میں سر ہلایا
میری مجال جو میں تمہارے سامنے نخرے دکھاؤ ں وہ اس کا چہرہ تھا میں اس کے دونوں گال کو چومتے ہوئے پیار سے بولا
ویسے کون سا گانا تھا وہ کافی ہوٹ لگ رہی تھی لیکن تم نے ساڑھی اتار کیوں دی یار آج پہلی بار تو میری خواہش کو پورا کیا تھا
ہاں برے آئے آپ دیکھ ہی کہاں رہے تھے مجھے میں ہی پاگل ہوئے جا رہی تھی آپ کو منانے کے لئے وہ بے ہودہ لباس پہن لیا ۔اور بال بھی کھول دیے
پتا نہیں یہ فلم میں ہیروئن بال کھول کر ناچ کیسے لیتی ہے میرے تو سارے بالوں منہ میں آ رہے تھے ۔
وہ اپنے بندھے ہوئے بالوں کو ایک بار پھر سے پیچھے کرتے ہوئے بولی
یہ پریکٹس ہے میری جان تم بھی پریکٹس کیا کرو تمہارا ہیرو تو ہر وقت حاضر رہتا ہے تمہیں سراہنے کے لیے لیکن تم ہیروئن بننے کی کوشش ہی نہیں کرتی وہ ایک ہی جھٹکے میں اسے بیڈ پر گراتا ہوا اس کے اوپر آ چکا تھا
مجھ سے نہیں ہوتے یہ فلمی ڈرامے اگر آپ کو مجھ سے پیار کرنا ہے تو ایسے ہی کریں اور ویسے بھی یہ سب کچھ کرنا اچھا نہیں ہوتا وہ منہ بنا کر بولی
بےبی شوہر کے سامنے کچھ بھی کرنا بُرا نہیں ہوتا ۔ایک لڑکی اپنے شوہر کے سامنے جیسے چاہے ویسے رہ سکتی ہے ۔اور تمہارے تو کسی بھی انداز پر مجھے اعتراض نہیں وہ اس کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا اس کی گردن پر اپنے لب رکھ چکا تھا اور اب پھر وہ خاموش ہو گئی
اور یارم مزید مدہوش ہونے لگا تھوڑی دیر بعد اسے روح کی آواز سنائی دی تھی
بس ذرا سا مان کیا جاؤں بندہ بلکل فری ہو جاتا ہے ۔وہ نفی میں سر ہلاتی اس انداز میں بولی کی یارم قہقہ لگا اٹھا
یہ بندہ تو پہلے دن سے ہی تم پر فدا ہے اور فری ہونے کا تو حق حاصل ہے مجھے وہ کہتا ہوا اس بار اس کے لبوں کو اپنا نشانہ بنا چکا تھا
جب کہ وہ آہستہ سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکال کر اس کے گرد لپٹ گئی
°°°°°
چھ ماہ گزر چکے تھے معصومہ نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا جب کہ دو مہینے پہلے لیلی کے ہاں دو جڑواں بیٹی پیدا ہوئی تھی
جو لیلی کو تگنی کا ناچ نچا رہی تھی لیکن خضر اپنی بیٹیوں کو پا کر بے حد خوش تھا
اور آج معصومہ کے ہاں بھی ایک روشن ستارہ چمکا تھا
وہ ان کو مبارک باد دینے کے بعد ابھی ابھی گھر آئے تھے روح کا تو آنے کا ارادہ ہی نہیں تھا لیکن یارم کی گھوریوں نے اسے آنے پر مجبور کر دیا
یارم اب مجھے بےبی چاہیے سب کے پاس بےبی ہو چکا ہے بس ہمارا ہی نہیں ہے ہمارا کب آئے گا
وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی معصومیت سے کہہ رہی تھی جبکہ شونو بھی قدم قدم ان کے ساتھ ہی آ رہا تھا
اور اس کے ہمارے بےبی کہنے پر اس نے بھونکتے ہوئے احساس دلایا کہ میں یہیں پر ہوں تمہارے ساتھ
لیکن اس بار روح کو اپنا بچہ چاہیے تھا کتے کا نہیں
میرا نہیں خیال کہ فی الحال تم ایک بچے کو ہینڈل کر سکتی ہو ایک بار لیلیٰ اور معصومہ کا ایکسپیرنس چیک کرو پھر ہم اپنے بچے کے بارے میں سوچیں گے ۔
وہ ہمیشہ والا جواب دیتا اپنے آفس روم میں بند ہو گیا مطلب اس وقت وہ کام کرنے والا تھا ۔اس سے اب رات کو ہی بات ہو گی
روح منہ بناتے کچن میں آگئی آج اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ہر قیمت پر یا رم سے بات کرکے رہے گی
اسے اب اپنا بچہ چاہئے تھا کہ کسی بھی حال میں
°°°°°°
رات یارم کمرے میں آیا تو اس کا موڈ کافی خوشگوار تھا جس پروجیکٹ پر وہ کچھ عرصے سے کام کر رہا تھا آج وہ مکمل ہو گیا
اور اب وہ پھر سے روح کو کہیں گھومانے پھرانے لے کر جانے والا تھا
لیکن کمرے میں آتے ہی اسے ایک بار پھر سے بچے کی باتوں میں مصروف پایا وہ بھی ہنستے ہوئے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا
آپ نے دیکھا شارف بھائی کا بچہ کتنامعصوم ہے اس کے ہاتھ کتنے چھوٹے چھوٹے ہیں ہمارے بچے کے بھی ایسے ہی ہوں گے نہ
آپ نے اسے ٹچ نہیں کیا یارم
اگر آپ نے اسے ٹچ کیا ہوتا نا تو اس لمس کو محسوس کرکے آپ کے اندر بھی اپنےبچے کی خواہش ضرور جاگتی
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی آخر کب تک وہ بچوں کے بغیر رہنے کا ارادہ رکھتا تھا
سوئٹزر لینڈ میں تو وہ خود اس سے بچے کے بارے میں بات کر رہا تھا لیکن اب اچانک اسے ہوا کیا تھا
اسے اب بچہ کیوں نہیں چاہیے تھا وہ کیوں روح کو ان میچور کہتا تھا وہ کیوں کہتا تھا کہ وہ ایک بچہ سنبھال نہیں سکتی
میری بات غور سے سننا روح جب مجھے لگے گا کہ اب ہمارا بچا ہو جانا چاہیے تب ہو جائے گا لیکن فی الحال مجھے نہیں لگتا کہ تم ایک بچے کو سنبھال سکتی ہو سوتم ہماری زندگی پر غور کرو ہمارے بارے میں سوچو جب اللہ نے بچا دینا ہوا دے دے گا وہ اس کا چہرہ تھامیں بہت پیار سے بول رہا تھا
جبکہ اس کے جواب پروہ ناراض ہو کر کروٹ بدل گئی لیکن یارم نے اسے منانے کی کوشش بلکل نہیں کی تھی
ایک سال میں 2 میجر نروس بریک ڈاؤن جھیلنے کے بعد اس کی صحت اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ اس کی صحت پر بچے کا رسک لیتا
پہلی پریکنسی اور پھر مس کیریج کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے روح کی جان بھی جا سکتی تھی
بچے کی خواہش اپنی جگہ لیکن اسے روح سے زیادہ عزیز اور کچھ نہیں تھا اب اس کے لیے روح اسے غلط سمجھے یا صحیح اسے فرق نہیں پڑتا تھا اسے بس اپنی روح کی فکر تھی
جبکہ روح سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ آخر یارم بچوں سے اس حد تک خار کیوں کھانے لگا ہے
°°°°°°
معصومہ اور لیلی کے بچے اہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے
ان کی شرارتیں بھی بھرنے لگی تھی
ان کا زیادہ تر وقت روح کے ساتھ ہی گزرتا تھا
اس نے خود معصومہ اور لیلی سے کہا تھا کہ جب تک وہ کام پر ہوتی ہیں وہ اپنے بچے اس کے پاس چھوڑ سکتے ہیں
اور ایسا کرنے سے روح کا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا
لیکن یارم کو لگ رہا تھا کہ اس طرح سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے
اور آج تو لیلیٰ نے ایسی آگ لگائی تھی کہ اس نے بھی اسے خونخوار نگاہوں سے دیکھا تھا
لیلیٰ نے اس سے کہا تھا کہ اب تمہیں اور یارم کو بھی ایک بےبی پلان کر لینا چاہیے ۔
اور اس کے بعد یارم اور روح کی اچھی خاصی لڑائی ہوگئی تھی
وقت کو جیسا پر لگ گئے تھے دو دن کے بعد لیلیٰ کی بیٹیوں کی تیسری سالگرہ تھی ۔لیکن یارم کو اب تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اب اسے اپنے بچے کے بارے میں سوچنا چاہیے
وہ اسے یہ بھی کہہ چکی تھی کہ وہ کوئی معصوم چھوٹی سی بچی نہیں ہے جو بچہ نہیں سنبھال سکتی
۔لیکن یارم کے تو اپنے ہی اصول تھے
اب تو وہ یارم کی اس فضول ضد سے بھی تنگ آ گئی تھی آخر وہ کیوں نہیں سمجھ رہا تھا کہ اس کے اندر ممتا کے احساس جاگ رہے تھے
ہر لڑکی کی طرح اس کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہو چکی تھی کہ اب اس کا بھی ایک بچہ ہونا چاہیے ۔لیکن یارم تو جیسے اس کے جذبات سمجھنے سے ہی قاصر تھا
°°°°°°
دو دن سے یار م سے بات چیت بالکل بند تھی آج وہ لیلیٰ کی بیٹیوں کی برتھ ڈے پارٹی سے واپس آئی ۔
تو اسے اپنی طبیعت میں کچھ غیر معمولی محسوس ہوا
لیکن یارم سے ناراض تھی اسی لیے اسے بتانا ضروری نہیں سمجھا فی الحال وہ اسے احساس دلانا چاہتی تھی کہ وہ اس سے خفا ہے اور کیوں خفا ہے
لیکن یارم نے اس کی ناراضگی کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا تھا وہ بہت نارملی اس سے بات کرتا تھا جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو
ابھی بھی اسےکمرے میں جانے کا کہہ کر وہ آفس روم میں چلا آیا جبکہ وہ اپنے کمرے میں منہ پھولا کر چلی گئی ۔اس کی ناراضگی کو وہ بہت اچھے سے سمجھ رہا تھا
۔لیکن کچھ بھی بولا نہیں وہ کافی پرسکون تھا ۔
ایک ماہ پہلے وہ ڈاکٹر سے مل چکا تھا ۔ڈاکٹر اب روح کی کنڈیشن کافی بہتر بتا رہے تھے اب ممکن تھا کہ اس کی ذہنی حالت اس پر برا اثر نہیں ڈالتی ۔لیکن پھر بھی وہ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا روح کی ضد کے سامنے اب وہ بھی ہارنےلگا تھا
خضر اور شارف کت بچے دیکھ کر کہیں نہ کہیں دل میں اپنے بچے کی خواہش بھی انگڑائی لینے لگی تھی ۔پچھلے تین سال سے روح کے پاس بس ایک ہی موضوع تھا اس سے لڑنے کے لیے ۔
اب اسے کوئی بہانہ ہی نہیں دیتا تھا لڑائی کرنے کا ناراض ہونے کا اور یہاں آ کر وہ خاموش ہو جاتی کیونکہ ان اسے کہیں نہ کہیں سے یہ بات پتہ چل چکی تھی
کہ یارم بچہ کیوں نہیں جاتا
اور پچھلے تین سال میں وہ دس بار اپنا مکمل چیک اپ کرواکے رپورٹس اس کے سامنے رکھ چکی تھی ۔
لیکن یارم تو پھر بھی یارم تھا وہ اسے منانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔
اور اب جب روح اپنا زیادہ تر وقت لیلیٰ اور معصومہ کے بچوں کے ساتھ گزارتی تو یارم کو بھی شدت سے احساس ہوا تھا کہ اب انہیں اپنے بچے کے بارے میں سوچنا چاہیے
۔وہ جب بھی گھر واپس آتا تو روح وہ کا موڈ اچھا ہوتا
وہ اس کی ساری باتیں لیلی اور معصومہ کے بچوں کے بارے میں ہی باتیں کرتی تھی ۔اور انہی سب باتوں کے اینڈ پر وہ کہتی کہ کاش ہمارا بھی بچہ ہوتا
تو وہ رات کو بھی میرے پاس ہی رہتا
میں اسے اپنے پاس سلاتی
اور یہی سب باتیں یارم کو بھی اچھی لگتی تھی
اسکے دل میں بھی کہیں نہ کہیں بچے کی خواہش تھی جو زبان پر نہیں لاتا تھا ۔اب تو پچھلے ایک مہینے سے روح اسے خوب ناراضگی دکھا رہی تھی
کبھی وہ مان جاتی کبھی پھر سے ناراض ہو جاتی اس بیچاری کا بھی یارم کے علاوہ اور کون تھا
اس لیے یارم سے روٹھنا اس کے بس سے باہر تھا اور اس معاملے میں بھی یارم بھی ذرا سخت طبیعت تھا
وہ اسے اپنے آپ سے زیادہ دیر روٹھنے نہیں دیتا تھا
°°°°°
رات کو کمرے میں آیا تو روح کو واش روم میں ووٹنگ کرتے دیکھا وہ پریشانی سے اس کے پاس آیا تھا
روح میری جان تم ٹھیک تو ہو تمہاری طبیعت خراب ہو رہی ہے میں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا
وہ جو اس سے کافی ناراض تھی اس کی فکر مندی پر اسے دلاسہ دینے لگی
میں ٹھیک ہوں وہ کیا ہے نہ لیلی نے مجھے اورنج جوس پلایا تھا جس کے بعد سے نہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا اب میں ٹھیک ہو جاؤں گی آپ فکر نہ کریں وہ اس کا سہارا لیتی باہر بیڈ تک آئی
نہیں روح تمہیں بےاحتیاطی نہیں کرنی چاہیے اور جوس سے ایسا کچھ نہیں ہوتا تمہاری طبیعت خراب ہے میرے خیال میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس چلا چاہیے یارم فکر مندی سے بول رہا تھا
اچھا بابا صبح چلوں گی ابھی مجھے سخت نیند آ رہی ہے وہ ہار مانتے ہوئے بولی کیوں کہ جانتی تھی کہ یارم اتنی آسانی سے اس کی جان نہیں چھوڑنے والا
ٹھیک ہے لیکن صبح میں تمہیں خود لے کر جاؤں گا میرے جانے کے بعد تم چیٹنگ کرو گی جاؤ گی ہی نہیں اس معاملے میں تو ویسے بھی یارم کو اس پر بھروسہ نہیں تھا روح اسے گھور کر رہ گئی
اس میں آج بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اکیلی گھر سے باہر نکلتی شاپنگ کے لیے لیلیٰ اور معصومہ اسے باہر لے کر جاتی تھی
اور گھومنے پھرنے لانچ یا ڈنر پر یار م اسے اپنے ساتھ لے کر جاتا ۔وہ آج بھی اتنی ہی بزدل تھی جتنی کے پہلے یارم کی روح آج بھی ویسی ہی تھی لیکن اسے کوئی کمزور نہیں کہہ سکتا تھا
وہ لڑتی نہیں تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ لڑنا جانتی نہیں تھی
اپنی زندگی میں کسی قسم کا کوئی دکھ کوئی تکلیف کوئی پریشانی نہیں چاہتی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ دکھ تکلیف یا پریشانیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی
وہ ہر قسم کے حالات کو فیس کرسکتی تھی ۔لیکن وہ یہ سب کچھ تب کرتی جب یارم اس کے ساتھ نہ ہوتا لیکن وہ تو ہر قدم پر اس کے ساتھ تھا ہر پل اس کے ساتھ چلتا تھا وہ کیسے اپنی روح کو اکیلا چھوڑ دیتا ۔
روح کے راستے میں آنے والی ہر مصیبت کو پہلے یارم جیسی چٹان کا سامنا کرنا تھا اور یارم کو یقین تھا کہ اس کے بعد بھی اس کی روح اکیلی نہیں ہوگی خضر شارف صارم سب اس کے ساتھ تھے اور کہیں نہ کہیں" وہ' بھی
ہاں اب اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ اس کے جانے کے بعد اس کی روح اکیلی ہو جائے گی اسے پتا تھا کہ اس سے جڑے رشتے اس کی روح کو محفوظ رکھیں گے اس کی روح کی حفاظت کریں گے
°°°°°°°°
بہت بہت مبارک ہو شی از پریگنیٹ ۔۔ڈاکٹرروح کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد یارم سے کہنے لگی
جبکہ روح کبھی ڈاکٹر تو کبھی یارم جانب دیکھ رہی تھی اسے تو سامنے والی کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا
یارم ڈاکٹر نے ابھی ابھی کیا بولا وہ ڈاکٹر کو نظرانداز کرتی یارم سے پوچھنے لگی
وہی جو تم نے سنا روح یارم مسکرا کر بولا
یارم مطلب ہمارا بےبی۔۔۔
مطلب ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے میرا اور آپ کا یارم میرا اپنا بےبی جو 24 گھنٹے میرے پاس رہے گا اور رات کو سوئے گا بھی میرے پاس وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی اس کی شرٹ کو جھنجوڑ چکی تھی جب کہ یارم نے ایک نظر ڈاکٹر کی جانب دیکھا جو چہرہ نیچے جھکائے مسکرائے جا رہی تھی
بےبی وہی ہمارا اپنا بےبی آنے والا ہے وہ ہنستے ہوئے بولا تو روح بے اختیار ہی اس کے سینے سے آ لگی
یارم میں بہت خوش ہوں بہت زیادہ میرا بے بی دنیا میں آنے والا ہے میں اس کا بہت خیال رکھوں گی
میں اس سے بہت پیار کروں گی وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا دیکھے گا آپ میرا بے بی سب سے پیارا ہوگا
وہ خیالوں کی دنیا میں نہ جانے کہاں سے کہاں نکل چکی تھی جب کہ یارم جہاں اس کی بات پر مسکرا رہا تھا وہی اس کی نم آنکھوں نے اسے پریشان کر دیا
یارم اس بار ہم اپنے ہونے والے بی کا بہت خیال رکھیں گے کوئی گڑبڑ نہیں ہونے دیں گے سب کچھ اچھا اچھا ہوگا اس بارے میں کچھ بھی برا نہیں ہونے دوں گی
پہلی خوشی کو یاد کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھی
یارم م نے آہستہ سے اس کے آنسو صاف کیے
اس بار کچھ بھی غلط نہیں ہوگا ہم دونوں اپنے بچے کو اس دنیا میں ویلکم کریں گے ہم دونوں مل کر اس کا خیال رکھیں گے اسے پیار کریں گے اور وہ ہمارا بےبی ہوگا پر ہمیشہ ہمارے پاس رہے گا
اس کا ہاتھ چومتے ہوئے اس نے ڈاکٹر کی جانب دیکھا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روح کو اپنے ساتھ لے آیا
روح تو ابھی سے اتنی ایکسائٹڈ ہو رہی تھی کہ حد نہیں جبکہ اس کی خوشی سوچ کر یارم نھی بے حد خوش تھا ۔
اس کا یہ پیارا سا انداز سیدھا یارم کے دل میں اتر رہا تھا
°°°°°°
خضر معصومہ لیلیٰ شارف ۔اپنے بچوں سمیت شام سے پہلے ان کے گھر ٹپک چکے تھے
سب نے ہی روح کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی طرف سے گفٹ بھی دیے تھے ۔
جبکہ شونوتو ان کی خوشی کو نہ سمجھتے ہوئے بھی ناچ ناچ کر خوش ہو رہا تھا جیسے ان کی خوشی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہو
جو بھی تھا لیکن روح کا پہلا بچہ تو وہی تھا
جس سے اسے بہت زیادہ محبت تھی۔
اور اس کی موجودگی کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرسکتی تھی
°°°°°°
دن تیزی سے گزرنے لگے تھے
یارم ہر وقت اس کے آس پاس رہتا اس کا خیال رکھتا
لیلیٰ اور معصوم اس کی نرس بنی ہوئی تھی
اس کا حد سے زیادہ خیال رکھتی اور اسے کوئی بھی الٹا سیدھا کام کرنے ہی نہیں دیتی
ڈاکٹر کے مطابق اس کی ذہنی کنڈیشن بہت اچھی تھی لیکن صحت پھر بھی ڈاؤن تھی
جس کی چلتء لیلی اسے روز کسی نہ کسی چیز کا ملک شیک بنا کر دیتی
جس کو دیکھتے ہی روح کو ووٹنگ ہونے لگتی
لیلی کا کہنا تھا کہ ایک بار پیٹ کے اندر چیز چلی جائے پھر باہر آئےبھاڑ میں جائے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
اس کے لئے روح کو کھانا تو پڑے گا ۔
ویسے تو خود بھی اپنا بہت خیال رکھتی تھی کیونکہ خود اسے اس بچے کی بے حد ضرورت تھی لیکن پھر بھی لیلیٰ اور معصومہ کی اسپیشل ٹریٹمنٹ کی وجہ سے وہ اسی بیزار ہو چکی تھی
اور یارم بھی اس کا حد سے زیادہ خیال رکھتا
اب تو اس نے نیا شوشا چھوڑ دیا تھا
کہ وہ اس کے ساتھ آفس چلا کرے وہاں وہ خود اس کا خیال رکھے گا اور وہ 24 گھنٹے اس کی نظروں کے سامنے رہے گی
لیکن روح کو یہ منظور ہرگز نہیں تھا وہ اپنی زندگی یا رم کی بورنگ روٹین کی نظر نہیں کر سکتی تھی
یہاں یارم کی نظروں سے بچ کر وہ جو تھوڑی بہت بے احتیاطی یا اچھل کود کرتی تھی یار م نے وہ بھی بند کروا دینی تھی
اس لیے اس نے بہت بہانے لگائے تھے یارم کے ساتھ نہ جانے کے یارم کا تو کہنا تھا کہ اس کی زندگی بہت انٹرسٹنگ ہے
وہ تو شکر تھا کہ لیلہ نے کہہ دیا کہ خون خرابہ دیکھ کر روح کی صحت پر خراب اثرات پڑ سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ روح کی صحت بھی بگڑجائے ۔
لیلیٰ پراعتبار کرنا تو وہ بہت پہلے سے ہی چھوڑ چکا تھا اسی لئے اس معاملے میں بھی اس نے ڈاکٹر کی رائے لی تھی
اور ڈاکٹر کا بھی یہی کہنا تھا کہ کوشش کی جائے کہ روح کے سامنے خون کا ایک قطرہ بھی بہے اور اسے ایک جگہ بند بھی نہ کیا جائے کھلی اور تازہ فصا میں رکھا جائے تاکہ بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑے
کھلی فضا والی بات یارم کو بالکل اچھی نہیں لگی تھی کیوں کہ کام زیادہ ہو جانے کی وجہ سے یارم آج کل رات کو فارغ ہوتا
اور ایسے میں روح وقت لیلی کے ساتھ گزار رہی تھی جس سے لیلی اسے ہر طرف لے کر جاتی ۔لیلی کے ساتھ کوئی دشمنی تو نہیں تھی
لیکن روح کو عادت کی اپنے دن بھر کی ساری مصروفیات یا رم سے شیئر کرنے کی
اور وہ رات کے ایک ڈیڑھ بجے تک لیلیٰ کی گردان نہیں سن سکتا تھا
لیکن آج کل اسے مجبوری میں یہ بھی کرنا پڑ رہا تھا
°°°°°
یارم مجھے آئسکریم کھانی ہے رات کے ساڑھے تین بجے وہ بیڈ پر چوکڑی مارے آرام سے بیٹھی ہوئی تھی
میرا بچہ میں ابھی لے کے آتا ہوں وہ اس کا ہاتھ چوم تھا اس کے پاس سے اٹھنے ہی والا تھا
مجھے فریج والی نہیں کھانی باہر والی کھانی ہے وہ معصومیت سے کہہ رہی تھی
اد کی پریگنسی کو چھ مہینے گزر چکے تھے اپنی صحت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ کہیں سے بھی چھ ماہ کی پریگنٹ لیڈی نہیں دکھتی تھی
بےبی رات کے ساڑھے تین بجے تمہارے لیے آئس کریم کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں یارن نے مسکین صورت بنائی تھی
آجکل روح کی روٹین یہ ہوچکی تھی کس کا دن سوتے ہوئے اور ساری رات جاگتے ہوئے گزرتی اور آدھی رات کو کبھی اسےکوئی مووی دیکھنے کا دل کرتا تو کبھی وہ کچی کیریاں کھانے ضد لے کر بیٹھ جاتی
اور جب تک یارم اس کی ضد کو پواا نہ کرتا تب تک وہ نہ خود سوتی تھی نہ اسے سونے دیتی تھی
یارم ہاں میں سر ہلاتا باہر آیا اور فون اٹھا کر صارم کو کال کرنے لگا
رات کو ساڑھے تین بجے یار م کی کال نے اسے پریشان کیا تھا
یارم سب خیریت تو ہے تم اس وقت فون کیوں کر رہے ہو وہ گہری نیند سے جاگا تھا
تمہاری وردی کا تھوڑا فائدہ ہوسکتا ہے کیا یارم نے سوال کیا
میں سمجھا نہیں تم کیا کہنا چاہتے ہو صارم سچ میں نہیں سمجھا تھا
مجھے ابھی اور اسی وقت اپنی بیوی کے لئے آئس کریم چاہیے لا کر دے سکتے ہو
آبادی سے باہر ایک ریسٹورنٹ ہے ساتھ میں آئس کریم پالر بھی ہے تمہیں وہاں سے آسانی سے مل جائے گی میں اتنی رات کو روح کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتا
خضر کو میں نے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر بھیجا ہوا ہے ۔شارف کو مشارف نے اٹھنے نہیں دینایار م نے تفصیل سے بتایا
صارم نے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا
انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔اتنے دور جانے سے بہتر تھا کہ وہ اپنی وردی کا تھوڑا بہت ٹشن دکھا کر یہیں کہیں پاس ہے کوئی پالر کھلوالے ۔اور شاید یارم نے بھی وردی کی بات اسی لئے کی تھی
میں تقریبا پندرہ بیس منٹ میں لے کر پہنچتا ہوں صارم نے فون بند کرتے ہوئے کہا اور پھر 15 منٹ کے بعد آئسکریم اس کے گھر تک بھی پہنچا گیا
جسے کھا کر روح پرسکون ہو کر سوئی تھی ۔ڈاکٹر نے ویسے تو آئس کریم یا ایسے ہی چھوٹی موٹی چیزیں بند کر رکھی تھی ۔لیکن یارم روح کو کسی بھی چیز کے لئے ترسا نہیں سکتا تھا اسی لئے ایک حد تک جس سے اسے یا اس کے ہونے والے بچے کو نقصان نہ پہنچے دیتا رہتا تھا ۔
°°°°°
ڈاکٹر نے ڈیلیوری کی ڈیٹ دے دی تھی لیکن آجکل روح کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی ابھی اس نو مہینے مکمل نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی روح کی طبیعت حد درجہ خراب رہنے لگی تھی جس کی وجہ سے یارم بہت پریشان تھا
وہ روح کے لیے ڈاکٹرز کی پوری ٹیم رکھ چکا تھا
جو اس کی ننھی سی ننھی سے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی
جو اس کی زرا سی تکلیف پر بھاگ کر اس کے پاس آتے تھے لیکن یہ درد تو قدرت کا نظام تھا جسے سہنا سب عورتوں کے لئے ایک برابر تھا
یارم ہر وقت اس کے پاس رہتا تھا وہ کام پر جانا بھی چھوڑ چکا تھا روح سے زیادہ اہم تو اس کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اور اب تو اس کا بچہ بھی اس کی اہمیت کا طلبگار تھا
وہ ہر وقت اس کا سایہ بنے اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا
ابھی بھی روح آنکھیں موندے ہوئی تھی یارم اس کے سرہانے بیٹھا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا
اسے محسوس کرتے ہوئے وہ مسکرائی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اسے درد شروع ہونے لگا نرس نے اسے فوراً ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس پر یارم نے عمل کیا تھا
°°°°°
مسٹر یارم پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہے ہم پیشنٹ کو پہلے ہی بتا چکے تھے
بچے یا مدر میں سے کسی ایک کو بچانا مشکل ہو جائے گا لیکن انہوں نے ہماری بات کو سیریس نہیں لیا اور آپ سے بھی یہ بات شیئر کرنے سے منع کردیا
ہمیں جس چیز کا ڈر تھا وہی ہو رہا ہے ہم دونوں میں سے کسی ایک کو ہی بچا پائیں گے آپ ان پر سائن کر دیں
آپ کو کس کی جان سے زیادہ عزیز ہے ۔جبکہ دوسرا پیپر اس بات کی گارنٹی ہے کہ اگر کوئی بھی آپریشن میں جان سے جاتا ہے تو ہسپتال ذمہ دار نہیں ہوگا ڈاکٹر اس کے ہاتھ میں پکڑا کر آگے جا چکی تھی
وہ ابھی تک اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی اس نے یہ بات یارم سے نہیں شئیر کی
تو کیا یہ بچہ اس کے لیے اتنا اہم تھا
لیکن اس کے لئے
اس کی روح اہم تھی اسے روح سے زیادہ اہم تو اس کے لیے اپنی جان بھی اہمیت نہیں رکھتی تھی
۔لیکن اگر اس نے روح کو بچا لیا اور یہ بچہ نہ رہا تو کیا روح اسے معاف کرے گی کیا وہ دوسری بار اپنا بچہ کھونے کا حوصلہ پیدا کر سکے گی
اور وہ بھی اس کنڈیشن میں کہ وہ کبھی دوبارہ ماں بھی نہیں بن سکتی ۔آج پہلی بار یارم کو لگ رہا تھاکے اس کا سب کچھ لٹ رہا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتا
خضر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
تو یارم نے بنا اس کی طرف دیکھے اپنی روح کو بچانے کے لئے پیپر پر سائن کر دیے
ہر گزرتا لمحہ ایک امتحان سے کم نہیں تھا .
اندر اس کی روح کا آپریشن چل رہا تھا ۔اور وہ باہر بیٹھا بے چینی سے آنے والے لمحات کا انتظار کر رہا تھا .
نہ جانے کیا ہونے والا تھا .
وہ بس اللہ سے اپنی روح کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا ۔
شاید ان کے نصیب میں اولاد کا سکھ لکھا ہی نہیں ۔
وہ بس یہ مشکل لمحات گزرنے کا انتظار کر رہا تھا
وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی روح کو سمجھا سکتا ہے
وہ اسے بتائے گا کہ بچہ نہ ہونا قدرت کا فیصلہ ہے جسے ان دونوں کو قبول کرنا ہوگا
روح نہ جانے کس طرح ری ایکٹ کرے گی کیا وہ اسے معاف کر سکے گی دوسری بار اپنا بچہ کھو کر ایک اچھی زندگی گزار سکے گی ۔
اور جب اس کوپتہ چلے گا کہ وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تو کیا بیتے گی اس کے دل پر۔
کہیں وہ اپنے بچے کا گناہ گار اسے نہ سمجھے چار سال کے طویل انتظار کے بعد اسے موقع ملا تھا اپنی ممتا کو سکون پہنچانے کا
۔اپنی ممتا کسی پر نثار کرنے کا کسی کے ننھے وجود کو اپنے سینے سے لگانے کا
لیکن ان کی یہ خوشی بھی ان سے چھن چکی تھی
ڈاکٹر نے کچھ ہی دیر میں آکر بتا دینا تھا کہ اس کا بچہ اس دنیا میں نہیں رہا ۔
لیکن روح کے لئے بھی یہ آپریشن بہت خطرناک تھا
وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نظر لال بتی پر جمائے ہوئے تھا جہاں سے کبھی بھی کوئی بھی فیصلہ آسکتا تھا
یارم ہم اور تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن دعا تو کر سکتے ہیں خضر اس کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا دعا کرو کہ روح ٹھیک ہوجائے
ہاں یارم بھائی آپ تو کہتے ہیں نہ کہ اللہ روح سے بے انتہا محبت کرتا ہے تو وہ ہماری روح کو اس کنڈیشن سے ضرور نکالے گا ۔
اور بچے کا کیا ہے لوگ ہزار بچے گود لیتے ہیں دن میں ۔اگر روح کی کنڈیشن زیادہ خراب ہو گئی تو ہم اس کے لیے ایک بچہ گود لی لیں گے ۔اس کی حالت سبنھال جائے گی وقت ہر درد کا مرہم ہے شارف اس کے دوسری طرف بیٹھتے ہوئے بولا
اگر اللہ روح سے اتنی محبت کرتا ہے تو وہ اسے اسی کی اولاد کیوں نہیں دیتا سارے امتحان میری روح کے لئے ہی کیوں بنائے ہیں ۔۔۔۔
وہ روح کو خوشیاں دے کر خوشیاں چھین کیوں لیتا ہے ۔۔۔۔
جب سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے تو وہ پھر خراب کیوں کرتا ہے کیوں روح پر سکون زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔کیوں خضر کیوں۔۔
خضر حیرانگی سے یارم کے یہ ناشکرانہ الفاظ سن رہا تھا
آج پہلی بار اسے یارم کے لب و لہجے پر یقین نہ آیا
اسےناشکری سے نفرت تھی اور آج روح کی اس حالت کو دیکھ کر وہ خود ناشکری کر رہا تھا
اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو بس بہنےکو بے چین تھے لیکن شایدوہ اپنے آنسو بہانا ہی نہیں چاہتا تھا
اگر وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے تو کیوں نہیں دے دیتا اسے اس کے حصے کی خوشیاں وہ خضر کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جب اچانک ڈاکٹر باہر آیا
بہت بہت مبارک ہو مسٹر یارم بیٹا ہوا ہے آپ کی مسز کی کنڈیشن اتنی خراب تھی کہ ہمیں لگا کہ شاید ہم کسی ایک کو ہی بچا پائیں گے
لیکن وقت رہتے سب کچھ کوراپ ہوگیا
نرس تھوڑی ہی دیر میں آپ کا بیٹا باہر لے آئے گی ڈاکٹر اس سے ہاتھ ملاتا اسے حیرانگی میں گھیرے دیکھ کر مسکرا دیا
جبکہ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا یارم اسے روک لیا تھا
میری روح کیسی ہے۔۔۔؟
اس کے لہجے کی بے چینی نے ڈاکٹر کو بھی ایک لمحے کے لیے پریشان کردیا تھا
ابھی تو میں نے بتایا کہ ان کی کنڈیشن بھی کافی بہتر ہے
پہلی پریگٹسی کی وجہ سے کنڈیشن کافی کرٹیکل ہو گئی تھی لیکن ہم نے وقت رہتے ان کی کنڈیشن پر قابو پا لیا
فی الحال وہ بےہوش ہیں ا نہیں دو تین گھنٹوں میں ہو جائے گا جب تک آپ اپنے بیٹے سے باتیں کریں اس کی حالت ایسی تھی کہ ڈاکٹر بہلانے والے انداز میں کہنے لگا
نہیں مجھے میری روح کو دیکھنا ہے ۔یارم نے ایک نظر نرس کی طرف دیکھا جو بچے کو سفید کپڑےمیں چھپائے اس کے پاس لا رہی تھی
اس وائے ٹاٹ آپ اپنی مسز کے پاس رہ سکتے ہیں جب تک ان کو ہوش اتا ہے انہیں تھوڑی ہی دیر میں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپاتا آگے بڑھ چکا تھا
خضر نرس کے ہاتھ سے اس پیارے سے بےبی کو لے کر اس کی طرف قدم بڑھائے تھے لیکن یارم نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں
یارم روح اور تمہارا بےبی دونوں بالکل ٹھیک ہیں اس طرف دیکھو تو صحیح کتنا پیارا ہے یہ وہ بچےکو اپنے ہاتھوں میں لیے یارم کو اس کی طرف متوجہ کر رہا تھا
خضر میں نے بہت ناشکرا نا الفاظ استعمال کے ہیں نا دیکھا اس پاک ذات نے ایک پل میں دکھا دیا کہ وہ جسے چاہے جتنا چاہے نوازتا ہے
اس نے میرے لیے امتحان کی گھڑی رکھی اور میں اس میں صبر کرنے کے بجائے شکایت کرنے لگا
کتنا کم عقل انسان ہوں نا میں اس کی ذات کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ سکا ۔میں سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ پاک زات ہر جگہ موجود ہے ہمیں سنتی ہے ہمیں دیکھتی ہے ۔
کتنی جلدی اس نے اپنا آپ مجھ پر ظاہر کر دیا
میں سب سے پہلے اس کے پاس جاؤں گا اوراس چھوٹے کارٹون کو اپنی روح کے ساتھ ہی دیکھوں گا لیکن پہلے اس کا تو شکریہ ادا کر لوں جس نے اوقات سے بڑھ کر نوازا ہے
اپنی آنکھوں میں آئے آنسو کو ہاتھوں سے صاف کرتا ہے وہ مسکرایا جبکہ حضر بھی مسکراتے ہوئے بے بی کو شارف کی گود میں ڈال چکا تھا ۔
جو کب سے بے چین تھا اسے دیکھنے کے لئے
یارم شکرانے کے نفل ادا کرنے جا چکا تھا
اور شارف کو یہ ننھا سا فرشتہ یارم اور روح کی نہیں بلکہ اپنی کاپی لگ رہا تھا
°°°°°°
یارم نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی تھی اپنی ناشکری پر وہ بے حد شرمندہ تھا ۔اس کا اللہ اسے بہت چاہتا تھا
اور اپنی محبت میں ان دونوں کو ایک بہت پیارا سا تحفہ بھی دے ڈالا تھا
اللہ رحیم و کریم ہے
روح سے ملنے سے پہلے اس نے اپنی غلطی کی معافی مانگی تھی ۔
اتنا ناشکرا وہ کبھی بھی نہیں تھا ۔
وہ تو خود سب کو گمراہی سے دور کرتا تھا اور آج خود گمراہی کے راستے پر چل پڑا
وہ پچھتا رہا تھا بہت پچھتا رہا تھا
رو رو کر اپنے سجدوں میں اللہ سے معافی مانگی تھی وہ اس کا بہت شکر گزار بھی تھا
جس نے روح جیسی پاک سیرت لڑکی اس کے نصیب میں لکھی تھی ۔
پر اپنی رحمتوں کا تحفہ ایک ننھے فرشتے کے روپ میں بھیجا تھا
اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگ کر وہ روح کے پاس آیا
اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا وہ خاموشی سے اس کے قریب کرسی رکھتا اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا
وہ اپنے بیٹے کا چہرہ اپنی بیوی کے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا روح کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا لیکن وہاں لیلیٰ اور معصومہ اس ننھے بچے کو اپنے تینوں شیطانوں سے بچا رہی تھی
جو اس کے ہاتھ پر پر بلون باندھ کر اسے اڑانے کی کوشش کر رہے تھے
جہاں بچے اسے پا کر بے حد خوش تھے وہی معصومہ اور لیلی کو ڈر تھا کہ کہیں یہ سب اسے غبارے سے باندھ کر آسمان میں ہیں نہ اڑا دیں۔
کیونکہ وہ بہت کمزور تھا
شارف اور خضر بے حد خوش تھے جب کے صارم بھی تھوڑی ہی دیر میں اپنی فیملی کے ساتھ آچکا تھا
ہسپتال میں اتنا رش نےڈاکٹر کو پریشان کر دیا تھا لیکن صارم نے کمرے کا دروازہ بند کرکے کہہ دیا کہ شور کی آواز باہر نہیں جائے گی
اور اب صارم کے دونوں بچے بھی یارم کے معصوم سے بیٹے کو اڑانے کی کوشش کر رہے تھے
یہ الگ بات ہے کہ شونو کو یہ سب کچھ بالکل پسند نہیں آیا
جیسے ہی لیلیٰ نے چھوٹے میاں کو کاٹ میں لٹایا شونو اس کی رکھوالی کے لیے اس کے سر پر بیٹھ گیا
اور اب شونو کے ڈر سے کوئی بھی چھوٹے میاں کے پاس ہی آ رہا تھا
سوائے ماہرہ کے سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے اسے تھوڑا بہت سمجھدار ہونے کا خطاب حاصل تھا
ماما اس کا نام کیا ہوگا ماہرہ بے بی کی گال چومتے ہوئے عروہ سے پوچھنے لگی
وہ تو اس کی ماں ہوش میں آنے کے بعد بتائے گی
عروہ نے مسکراتے ہوتے ہوئے کہا
جبکہ یارم کی نگاہیں ابھی ابھی صرف اور صرف روح پر ہی ٹکی ہوئی تھی
جو اس شور شرابے کی وجہ سے اب آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھول رہی تھی اس کی آنکھیں کھولتے ہوئے ایک نظر پورے کمرے میں موجود ہر شخص پر ڈالی
یارم اس کے بے حد قریب تھا وہ اسے دیکھتے ہوئے اس کے پاس بیٹھا تھا
روح نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اس سے اٹھانا گیا
لیکن اس کے چہرے پر کسی قسم کی خوشی نہیں بلکہ ایک ڈر ایک خوف تھا جو یارم بہت اچھے سے محسوس کر چکا تھا
°°°°°
وہ آہستہ سے کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس بیٹھا اور اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اٹھایا
یارم میرا بچہ کہاں ہیں سب ٹھیک تو ہے نہ
یارم پلیز کچھ بولیں آپ خاموش کیوں ہیں
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
سب کچھ ٹھیک ہے روح پلیز ریلکس یارم اس کا ماتھا چومتے ہوئے کے بال سہلا رہا تھا لیکن روح کو سکون یا آیا
تومیرا بچہ کہاں ہے پلیز بتائیں مجھے وہ یارم کا کالر جھنجھوڑتے ہوئے بولی
روح کیا ہو گیا ہے تمہیں ریلکس ہو جاؤ بےبی یہیں پر ہے ابھی سویا ہے بچے اسے سونے نہیں دے رہے تھے وہ تو شکر ہے کہ شونو کاروعب تھوڑا چل گیا ورنہ ہماری تو کوئی سنتا ہی نہیں ہیں یہاں
عروہ نےاٹھ کر کاٹ سے بےبی اٹھایا اور اس کے پاس لے آئی
روح تمہارا بیٹا مسٹر چھوٹے میاں فل حال ہم نے یہی نام رکھا ہے باقی اس پرسنیلٹی پر سوٹ کرنے والا نام تم خود رکھ لینا وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بےبی اس کی گود میں رکھ چکی تھی
اس کے سفید کپڑے سے اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا
ارے چھوٹے میاں اب اپنے بابا کو بھی اپنا چہرہ بھی دیکھا دیں عروہ نے شرارت سے کہتے ہوئے اس کے چہرے سے سفید کپڑا ہٹایا
پر نور معصوم سے چہرے کو دیکھتے ہی روح کے ساتھ ساتھ یار م کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز کر گئی
روح میڈم آپ کےشوہر صاحب کا کہنا تھا کہ جب تک میری روح اپنے بیٹے کو نہیں دیکھتی تب تک وہ بھی نہیں دیکھے گے ہم دونوں اسے مل کر دنیا میں ویلکم کریں گے اب آپ دونوں اسے ویلکم کر لو عروہ نے مسکراتے ہوئے کہا
تو روح نے بھیگی آنکھوں سے مسکرا کر یا رم کو دیکھا
یارم نے آہستہ سے اس کی دونوں آنکھیں چومتے ہوئے اپنے بیٹے کے گال کو چھوا تھا جس پرروح تو سب کے سامنے یارم کی اس جسارت پر چہرہ جھکاتے ہوئے اپنے بیٹے کے چہرے پر جھک گئی
وہ خود پریشان تھی کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ کوئی ایک ہی زندہ بچ سکتا ہے اور اب اس کا بیٹا اس کے ہاتھ میں کیسے تھا اس کے چہرے پر لکھی الجھن کی تحریریں یارم چکا تھا
اللہ تم سے بہت محبت کرتا ہے روح اس نے ہمارے لیے تحفہ بھیجا ہے بس شکر ادا کرووہ نرمی سے اس کا ماتھا چومتا اس کے آنسو صاف کرنے لگا
روح نظریں اپنے بیٹے کے چہرے پر جمائےیارم کے سینے پر سر رکھ کر خاموشی سے آنسو بہانے لگی
وہ پاک ذات ہر چیز پر قادر ہے ۔اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ۔آج اس نے ان مو بے حد نوازا تھا ۔بے شک کون ہے اس پاک ذات کے علاوہ
°°°°°
ہسپتال میں پچھلے تین دن سے اچھی حاصی رونق لگی ہوئی تھی لیکن ڈاکٹر کے مطابق یہ ان کے اصولوں کے خلاف تھا
لیکن یہاں ڈاکٹرز کی سنتا کون تھا صارم کا قانونی لائسنس اور کسی چیز کے کام آئے یا نہیں لیکن یہاں آ رہا تھا
کمرے کا دروازہ بند ہونے کے بعد آواز باہر نہیں جاتی تھی اور صارم کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر دیتا اور اگر شور ہی نہیں ہوتا تھا تو باقی مریض ڈسٹرب کیسے ہوتے صارم کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو ڈسٹرب نہیں کریں گے بس اپنے کام سے کام رکھیں گے
اور وہ ایسا ہی کرتے تھے
روح کو ایک ہفتے کے بعد یہاں سے چھٹی ملنی تھی
تب تک اس کا سارا وقت ہسپتال میں اپنے بیٹے اور یارم کے ساتھ ہی گزرتا تھا یارم اس کے پاس ہی رہتا
اور کمرے میں ہی موجود صوفے پر رات کو سوتا چھوٹے موٹے سارے کام نرس ا کر 'کرجاتی تھی
لیکن روح نے ایک چیز بہت شدت سے نوٹ کی تھی کہ اس نے ابھی تک اپنے بیٹے کو اپنی باہوں میں اٹھایا نہیں تھا
روح نے بہت سوچ وچار کے بعد اپنے بیٹے کا نام رویام رکھا تھا
یارم اور روح کا نام جوڑ کر اسے ایک ہی نام سمجھ میں آیا یہ ان کی محبت کی نشانی تھی جس کا نام بھی بے حد محبت سے ہی رکھا تھا
یارم کو بھی اپنے بیٹے کا نام بے حد پسند آیا
یارم آپ اسے اپنی باہوں میں کیوں نہیں اٹھاتے وہ بے بی کاٹ کے قریب کرسی رکھے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا یہ روح کی آواز سنی
روح یاروہ اسے تھوڑا سا بڑا ہو جانے دو یہ چھوٹا سا ہے یہ نہ ہو کے میری باہوں میں پھسل جائے
یارم نے ایک بے تکی سی لاجک دی تو روح نے حیرت سے منہ بنا کر اسے دیکھا
کیا یار منہ کھولے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے ڈر لگتا ہے یہ نہ ہو کہ یہ میرے ہاتھ سے گر جائے ابھی بہت چھوٹا ہے یہ تھوڑا سا بڑا ہوگا تب میں اسے اٹھایا کروں گا
فی الحال اسے تم ہی اٹھاؤ
مجھے تو ایک بات سمجھ میں نہیں آتی تکلیف اتنی زیادہ دے رہا تھا ہے
آور یہ ہے کتنا سا ۔۔۔۔؟
آتے ہی ناک میں دم کر رکھا تھا اور اب کیسے مزے نیند پوری کر رہا ہے
ہیلو مسٹر اٹھو یہ تمہارے باپ کا ہسپتال نہیں ہے جہاں آرام سے نیند پوری کر رہے ہو اور نرس کو گھور کر کیوں دیکھ رہے تھے
اپنے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا مجھے اس طرح دوسرے کی ماں بہنوں پر نظر رکھنے والے لوگوں سے سخت چڑ ہے
تمہیں بھی ٹھیک کر دوں گا یہ مت سوچنا کہ میرے بیٹے ہو جو تمہیں سب آلاؤٹ ہے
وہ گھورتے ہوئے بولا تو نہ چاہتے ہوئے بھی روح کی ہنسی نکل گئی
یارم ہوسکتا ہے وہ اس نرس میں مجھے ڈھونڈ رہا ہوں آپ تو میرے معصوم بچے کو ٹھرکی بنا رہے ہیں روح نے ہنستے ہوئے کہا تو یارم بھی مسکرایا
جب سے رویام دنیا میں آیا تھا روح ابھی تک کھل کر ہنسی نہیں تھی اور نہ ہی کھل کر یارم سے بات نہیں کی تھی
اسے لگ رہا تھا کہ یارم اس سے خفا ہو گا کیونکہ اس نے اپنی کریٹیکل کنڈیشن کے بارے میں اس کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا
لیکن یارم اس سے ناراض نہیں تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ سب قسمت کا کھیل ہے زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے اپنی یا کسی اور کی آنے والی موت کو روک نہیں سکتا
لیکن روح یہ سوچ کر پریشان تھی کہ شاہد یا رم دل ہی دل میں اس سے خفا ہو گا ابھی نہیں بتا رہا لیکن آج اسے لگ رہا تھا کہ یارم اس سے خفا ہےوہ بہت پیار سے بات کرتا ہے اس کا خیال رکھ رہا تھا
اور آج بہت دنوں کے بعد وہ پرسکون ہو کر کھل کر اس سے باتیں کر رہی تھی کھل کر مسکرا رہی تھی
یارم نے ایک بار پھر رویام کے چہرے کی طرف دیکھا شاید رویام بھی مسکرایا رہا تھا یارم نے ایک نظر روح کو دیکھا
جو انہیں کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی لیکن یارم دوبارہ بیٹے کی جانب متوجہ ہو گیا
اس کا دھیان مسکراتے ہوئے رویام کے گال پر پڑھتے گہرے ڈمپل پر تھا
یہ وہ واحد چیز تھی جو اپنی اولاد میں روح کی محبت بٹ جانے کے خیال سے نہیں چاہتا تھا ۔
تمہاری دعا قبول ہوگی روح اس نے بتایا تو روح پھر سے کھل کر ہنسی
میں جانتی ہوں ۔۔آپ اس کے ڈمپل کی بات کر رہے ہیں نا کتنا پیارا ڈمپل ہے میرے بیٹے کااپنی ماں صدقے میرے بچے پر
یارم پلیزاٹھا کر دیجیے مجھے اس کے ڈمپل پر کس کرنا ہے وہ ایکسائٹڈ سی ہو کر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اس سے رویام مانگ رہی تھی کیوں کہ فی الحال ڈاکٹر نے اسے بیڈ سے اٹھنے سے منع کیا تھا
میں یہ نہیں کر سکتا یار میرے ہاتھ سے گر گیا تو
کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ چھوٹا سا تو ہے آپ اٹھا کر دے دیں مجھے
روح نےاس کی ہمت برائی تھی اور یارم میں تھوڑی ہمت آ بھی گئی تھی
اس نے بہت نرمی سے رویام کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا اب وہ بہت چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اسے روح کی جانب لے کر جا رہا تھا
یہ ننھا سا احساس بالکل نیا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ پھول سا نازک وجود اس کی اولاد ہے
لیکن تھوڑی ہی دیر میں اس کی اولاد نے اسے احساس دلادیا کہ وہ یارم کاظمی کی اولاد ہے
بدتمیز تم ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔۔۔؟
تمہیں شرم نہیں آئی میں تمہارا باپ ہوں وہ اس گھورتے ہوئے بولا جب کے روح کی ہنسی کنٹرول نہیں ہورہی تھی
یار م اس بچارے کو تھوڑی نہ پتہ تھا کہ یہاں سوسو نہیں کرنا کیونکہ یہ اس کے بابا کی گود ہے اور اس کے بابا دبئی کے ڈون ہیں ۔روح نے مصنوعی مسکین سی شکل بناتے ہوئے اس کے ہاتھ سے رویام کو لے لیا
نرک کی بچی کہاں گئی کیا اسے پتہ نہیں ہے کہ اسپتال میں بچے کو پیمپر پہنا کر رکھتے ہیں ۔اپنی بھیگی شرٹ کو دیکھ کر اب اسے نرس پر بھی غصہ آ رہا تھا لیکن روح سے اپنی ہنسی کو کنٹرول نہیں ہورہی تھی
وا میرے شہزادے تو نے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی نہیں کر سکا روح رویام کے گال چومتے ہوئے بولی
روح کی ضد پر یارم آج چوتھے دن ہی اسے اپنے ساتھ واپس گھر لے کر جا رہا تھا
ڈاکٹر نے ایک ہفتے کے ریسٹ کے لئے کہا تھا
لیکن روح اپنے بچے کو ہسپتال میں نہیں رکھ سکتی تھی
اسے لگتا تھا کہ یہاں اچھے خاصے شخص کی صحت خراب ہو جائے وہ بیچارہ تو ابھی ابھی پیدا ہوا تھا اور اس کی صحت بھی کافی نازک تھی
اور وہ اپنے کمزور سے بچے کو ہسپتال میں بالکل نہیں رکھنا چاہتی تھی
اسے ہسپتال کی نرسوں کی نہیں بلکہ اپنی ماں کی ضرورت تھی
اور اوپر سے کیسے عجیب لوگ تھے اس ہسپتال کے ہر تھوڑی دیر کے بعد رویام کو اس سے دور کاٹ میں لیتا دیتے اور اسے ریسٹ کرنے کے لیے کہہ دیتے
بھلا کون کہتا ہے کسی ماں کے ساتھ ایسا ۔۔۔۔؟
اندر ہی اندر اسے اس بات کا غصہ تھا ۔کہ وہ لوگ رویام کو زیادہ دیر اس کے پاس نہیں رہنے دے رہے تھے ۔روح کا بس چلتا تو وہ تو اسے ایک سیکنڈ کے لیے بھی خود سے دور نہ کرتی
دو تین بار تو اس نے نرس سے کہہ بھی دیا کہ کاٹ کو ہی اس کے بیڈ کے پاس رکھ جائے وہ بس دور سے ہی رویام کو دیکھتی رہے گی لیکن نرس نے مسکرا دیا جیسے وہ کوئی بےوقوفی والی بات کر رہی ہو
اور جاتے ہوئے بےبی کاٹ کو بھی آگے کر کر نہیں گئی ظالم عورت
وہ تو یارم سے ضد چل گئی اور وہ اسے گھر لے آنے کے لیے تیار ہو گیا
ورنہ یہ ہسپتال والے تو اسے اس کے بچے سے ہی دور کردیتے۔ بے وقوف بے حس لوگ ایک ماں کی فیلنگز کو نہیں سمجھتے تھے (بقول روح کے)
ایک تو اتنی منتوں مرادوں کے بعد اسے ایک بچہ ملا تھا وہ بھی ان ہسپتالوں کی ظلم کی نظر ہو رہا تھا ۔
خضر اور شارف نے تو بہت منع کیا کہا کہ ابھی روح کو ہسپتال میں ہی رہنے دو ہم سب یہاں اس کا بہت خیال رکھیں گے لیکن روح کے جھوٹے آنسووں پر یارم پگھل گیا ۔
اور اب روح سکون سے واپسی کی تیاری کر رہی تھی
°°°°°
یہ سب کیا ہے ۔۔۔؟
بڑے بڑے کاٹن کو ہسپتال کے اندر رکھتے ہوئے آدمی کو دیکھ ڈاکٹر نے پوچھا
سر یہ بےبی پیمپرز ہیں
یارم کاظمی کی طرف سے آرڈر ملا ہے آدمی نے تفصیل بتائی
تو ڈاکٹر ہاں میں سر ہلاتا یارم کے پاس چلایا
سر آپ نے ہسپتال میں اتنے زیادہ پیپرز کیوں منگوائے ہیں
کیوں کہ آپ کی نرس بتا رہی تھی کہ اتنے بڑے ہسپتال میں پیپر ختم ہوگئے ہیں
اور میرے بیٹے کو بغیر پیپر کے رکھا گیا تھا مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں آئی یارم اسے گھورتے ہوئے اس انداز میں بولا جیسے کہہ رہا ہوآئندہ کبھی پیپرز ختم نہیں ہونے چاہیے
جبکہ خضر اور شارف کو ایک بار پھر سے ہنسی آنے لگی
انہوں نے یہ نظارہ لائو تو نہیں دیکھا تھا
لیکن روح نے ایسے چٹخارے دار انداز میں انہیں پوری کہانی سنائی تھی کہ ابھی تک یاد کرتے ہی انہیں ہنسی آجاتی
تھینک یو سو مچ سر ڈاکٹر شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا
جب کے یار م نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں خضر اور شارف اپنا قہقہ روکے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ کھڑے تھے
تم لوگوں کو یہاں کھڑے رہنے کے لئے نہیں بلایا ہے میں نے جاؤ روح کا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھو
اور ہاں اس نمونے کو بھی ساتھ اٹھا کرلے جانا
یارم نے اس انداز میں کہا کہ وہ دونوں اسے گھورنے لگے وہ کس نمونے کی بات کر رہا تھا
یارم نمونہ کون شونو تو خود اپنے پیروں پر چل سکتا ہے ۔۔۔۔۔
میں اس کتے کے بچے کی نہیں اپنے بچے کی بات کر رہا ہوں ان دونوں کے حیران ہونے پر وہ سمجھاتے ہوئے بولا
ارے یارم نے نگینہ کہاہے ہمیں سننے میں غلطی ہوگئی خضر شارف کے کندھے پر چماٹ لگاتے ہوئے بولا
تم لوگوں کے لیے وہ جو بھی ہو لیکن میرے لیے تو نمونہ ہی ہے
آتے ہی میری روح پر قبضہ کرلیا اس ایلفی کے بچے نے جب سے آیا ہے اس دنیا میں روح نے مجھ سے ایک بار نہیں پوچھا یارم آپ نے کھانا کھایا
یارم آپ نے کل سے یہی کپڑے پہنے ہیں اتارے کیوں نہیں
ابھی چار دن کا ہے اور میری جگہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے
اسے تو میں ٹھیک کروں گا بس زرا بڑا ہو جائے ابھی بہت چھوٹا ہے یارم جلدی جلدی بول رہا تھا جب ان دونوں کو حیرانگی سے خود کو دیکھتے پایا
پھر وہ اپنی باتوں پہ غور کر کے ذرا ٹھنڈے لہجے میں بولا
کیا سوچ رہے ہوں گے یہ دونوں اس نے تین چار دن کے بچے سے دشمنی پل لی ہے یارم نے سوچتے ہوئے بات بدلی اور وہ دونوں جو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے بے ساختہ قہقہ اٹھے
یارم اتنی جیلسی یار کیا ہوگیا ہے تمہارا بچہ ہے وہ آخر روح کے ساتھ ہی رہے گا نہ خضر اس کےکاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے سمجھانے لگا
فضول بولنا بند کرو جتنا کہا ہے اتنا کرو یارم اس کا ہاتھ جھٹکتا اندر چلا گیا جب کہ خضر اور شارف کو اپنی ہنسی روکنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام لگ رہا تھا
ہاہاہاہا ڈان بنا پھرتا ہے اب پتہ چلے گا بیٹا ڈان کے اوپر بھی ایک ڈان ہوتا ہے
وہ دونوں قہقہ لگاتے ہوئے سامان اٹھانے نکل گئے
°°°°°°
روح یار یارم نے کہا ہے کہ رویام گاڑی تک لے چلو تم اٹھا کر نہیں چل پاؤ گی
ابھی تمہیں خود سہارے کی ضرورت ہے
اسے شارف اٹھا لے گا اور تمہیں میں تھام کر چلوں گا صرف تمہیں صرف سہارا دوں گا گاڑی میں بیٹھتے ہی تم رویام کواپنی گود میں لے لینا
اور شارف کون سا اسے دوسری گاڑی میں لے کر جانے والا ہے جو تو اسے اٹھانے ہی نہیں دے رہی
خضرنے سمجھاتے ہوئے کہا
یارم اس کے ڈسچارج پیپر تیار کروانے جا چکا تھا
جبکہ روح اب یہ ضد کر رہی تھی کہ وہ خود اسے اپنی گود میں اٹھا کر باہر لے کر جائے گی پتا نہیں بچے کے معاملے میں روح بہت زیادہ ٹچی کیوں ہوتی جا رہی تھی
اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ہر وقت رویام کو اپنی گود میں لے کر رکھے
وہ تو اسے ایک پل کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے
شارف نے بہت آہستگی سے اس کی گود سے رویام کو اٹھایا
خضر روح کے گرد ہاتھ پھیلاتے ہوئے اس شارف کے ساتھ ہی باہر لے آیا
روح کی جزباتی طبیعت کو سمجھتے ہوئے شارف نے ایک قدم بھی اس سے فاصلے پر نہیں اٹھایا تھا وہ اس کے بالکل برابر چل رہا تھا
بلکہ ساتھ ساتھ ہیں وہ دونوں رویام کے نقش و نگار پر غور کر رہے تھے
وہ نہ صرف یارم سے بےحد ملتا تھا بلکہ اس کی آنکھوں کا کلر بھی یارم جیسا تھا اور چہرے پڑتا گہرا ڈمپل اس کے چھوٹے سےچہرے کو مزید روشن بنا دیتا تھا
روح اپنے بچے کو بچا کر رکھنا تمہارا شوہر تمہارے بیٹے سے بہت جلتا ہے ۔خضر نے ساتھ ہی اسے راز کی بات بتائی تھی
کیا ہوگیا ہے آپ کو ماموں بلا کوئی باپ اپنے بیٹے سے جل سکتا ہے ۔روح نے ہستے ہوئے کہا
تم ابھی تک یارم کاظمی کو نہیں جانتی روح وہ اپنی ملکیت پر صرف اپنا حق سمجھتا ہے
اور یہاں یہ جناب چھوٹے میاں اس کی ملکیت میں حصہ دار بننا گئے ہیں اب یہاں پر جلیسی تو بنتی ہے
خضر کا انداز مزے لینے والا تھا ۔جب کہ اس کی بات کو سمجھ کر نا چاہتے ہوئے بھی روح مسکرائی
میرے یارم اپنے بیٹے سے بہت پیار کریں گے ۔روح نے فوراً یارم کی سائیڈ لی تھی
ارے تو ہم نے کونسا کہا یارم اس سے پیار نہیں کرے گا یارم اس سے بہت پیار کرتا ہے ۔اور بے شک وہ اسے تم سے بھی زیادہ چائے گا ۔
لیکن تمہارا دھیان یارم سے بھی ہٹنا نہیں چاہیے ورنہ دبئی میں باپ بیٹے کی ایسی جنگ چھڑے گی کہ تم کبھی بھول نہیں پاؤ گی خضر کا انداز ڈرانے والا تھا
جبکہ نیچے اترتے ہی یار م نے اپنے نمونے کو اپنی گود میں لے لیا تھا اور ساتھ ہی حضرنے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے یارم کو روح کو تھامنے کا موقع دیا
چلو نکلو تم لوگ پچھلی گاڑی میں آؤ
وہ ان دونوں کو آرڈر دے رہا تھا اور ساتھ ہی شارف کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کا اشارہ بھی کر ڈالا
ہمہیں بھی رویام کے ساتھ چلنا ہے شارف نے کہا
جب کہ ان سے پہلے شونو گاڑی کے اندر بیٹھ چکا تھا
میں نے کہا پچھلی گاڑی میں آؤ یاتم نے سخت لہجے میں کہتے ہوئے روح کو گاڑی میں بٹھایا اور رویام کے سوئے ہوئے وجود کو آہستہ سے اس کی گود میں رکھ دیا
خضر اور شارف دور تک ان کی گاڑی کو دیکھتے رہے
یارہم سے زیادہ تو ان دونوں کی زندگی میں اس کتے کی اہمیت ہے کیسا کتا ہے اپنے باپ کی گاڑی سمجھ کر فورا بیٹھ جاتا ہے
شارف نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی
ایک تو ویسے بھی رویام کے چہرے سے نظر ہٹا نے کا دل نہیں کرتا تھا اور اوپر سے یارم نے اتنے کام دے ڈالے تھے خضر آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر پھیلاتے ہوئے اسے چلنے کا اشارہ کرنے لگا
کیونکہ یارم کا آرڈر فالو کرنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتے تھے
°°°°°°
یارم آپ شارف بھائی کو آنے دیتے نہ ساتھ ان کا کا کتنا دل کر رہا تھا رویام کے ساتھ آنے کا آج پہلی بار سفر کے دوران روح کی نظریں نہ تو یارم کے چہرے کی طرف تھی اور نہ ہی باہر سڑک کی طرف وہ مسلسل رویام کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی
روح مجھے تھوڑی پرائیویسی چاہیے
کتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں وہ آہستہ سے جھک کر اس کے چہرے کو ایک ہاتھ سے تھام کر اس کے گال پرلب رکھتے ہوئے پیچھے ہٹا جب کہ اس کی بے باکی پر وہ ایک پل میں سرخ ہو چکی تھی
یارم کی کیا حرکت ہے ڈرائیونگ پر فوکس کریں وہ سرخ ہوتے ہوئے اسے ڈانٹ کر بولی جبکہ یارم مسکرایا
ادھر کیسے فوکس کروں جب ساتھ میں اتنی حسین بیوی بیٹھی ہو
اور اگر شارف کا چہرہ تمہیں اتنا ہی اداس لگ رہا تھا تو تم رویام کو اس کے حوالے کر دیتی رویام اس کے ساتھ آ جاتا لگے ہاتھ ہمارا رومانس ۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے گال پر جھکا
یارم باز آ جائیں آپ رویام دیکھ رہا ہے اس نے یہ رویام کی طرف اشارہ کیا جو اپنی دونوں گول گول آنکھیں کھولے اپنے باپ کو گھورے جا رہا تھا
بڑا ہی کوئی بے شرم ہے ماں باپ کو رومانس کرتے ہوئے نہیں دیکھتے وہ اس کی آنکھیں بند کرتے اس کے چھوٹے سے چہرے پر اپناہاتھ انتہائی نرمی سے رکھ کر اٹھاتے ہوئے بولا
جبکہ اس کی حرکت پر اس کے گال کے ڈمپل نمایاں ہوئے
جیسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے روح نےاس کے گال پہ اپنے لب رکھتے ہوئے چھوا
بہت ہی غلط بات ہے روح کبھی میرے ڈمپل کو اس طرح سے نہیں چھواتم نے یار م نے اسے گھورتے ہوئے کہا
آپ کا اور اس کا بھلا کیا مقابلہ یہ تو میرا چھوٹا سا بیٹا ہے میرء جگر کا ٹکڑا ہےوہ ایک نظریارم کی طرف دیکھ کر پھر سے جانثار نظروں سے رویام کو دیکھتے ہوئے بولی
میں بھی تمہارا شوہر ہوں تمہارے دل پر میرا حق ہے بیٹے کے آجانے سے تم مجھے بھول نہیں سکتی یارم نے جیسے یاد دلایا تھا
یارم میں آپ کو نہیں بھولی کیا ہوگیا ہے آپ کو ۔۔۔
ویسے آپ ہیں کون کیا میں آپ کو جانتی ہوں یارم کی بات پر روح پہلے تو جذباتی انداز میں بولی لیکن پھر شرارت سے بات بدل گئی
گھر چلو پھر بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں اس کے انداز پر وہ مسکراتے ہوئے بولا
جب کہ سچ تو یہ تھا کہ یارم کی نظر بھی بار بار بھٹک رویام کے چہرے کی طرف جا رہی تھی
رویام کے چہرے سے نظر ہٹا نے کا اس کا بھی بالکل دل نہیں کر رہا تھا
لیکن مجبوری یہ تھی کہ اسے گاڑی بھی چلانی تھی
سب کا کہنا تھا کہ اس کے سارے نقش یارم سے ملتے ہیں
اور اگر ایسا تھا تو بے شک یارم بچپن میں بہت ہی پیارا بچہ ہوا ہوگا کیونکہ اس کا بیٹا بے حد پیارا تھا اور یہ بات وہ دل سے قبول کرتا تھا
°°°°°
یا رم نے لمبا راستہ کیا تھا اور انہیں آنے میں کافی دیر ہوگئی دوسرے راستے پر چڑھائی زیادہ تھی
اور وہ روح اور اپنے بچے کو بالکل سیفٹی سے گھر لانا چاہتا تھا
شارف اور خضر پہلے سے ہی ان کے گھر پر پہنچ چکے تھے
جبکہ لیلی اور معصومہ اپنے بچوں سمت پہلے سے ہی یہاں تھی
اور صارم بھی اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر فیملی کے ساتھ آج انہیں کے پاس تھا
سب نے بہت خوشی سے رویام کو گھرمیں ویلکم کیا
لیلی اور معصومہ نے تو پورے گھر کو ہی سجا ڈالا تھا ہسپتال میں لی گئی پہلے دن کی تصویر کو فریم کرکے گھر کی سینٹر والی دیوار پر لگایا تھا جہاں روح اور یارم ایک ساتھ بیٹھے رویام کو اپنی گود میں لیے مسکرا رہے تھے
سب کے ہاتھوں میں رویام کے لئے تحفے تھے جن سے کھیلنے کے وہ فی الحال قابل تو نہیں تھا ۔لیکن وہ سارے تحفے ایک سے بڑھ کر ایک تھے
رویام کو پہلے دن کے کپڑے خضرکے گھر سے پہنائے گئے تھے کیونکہ خضرر بہت فخر سے اس بات کو قبول کر رہا تھا کہ وہ رویا م کانانا ہے
ہاں لیکن لیلیٰ کو نانی بنتے ہوئے بہت عجیب لگ رہا تھا
اب کیا صرف 29سال کی عمر میں وہ نانی بنتی اچھی لگتی کیا لیکن اب تو ہر کسی کو بہانہ مل گیا تھا اسے چھڑنے کا
اور تو اور اب یارم اسے بلاتا رویام کی نانی کے نام سے تھا ۔
شارف رویام کواپنی گود میں لئے سب بچوں کو اس سے متعارف کروا رہا تھا
ویسے تو وہ سب اس سے مل بھی چکے تھے اور اسے غبارے باندھ کراڑانے کی کوشش بھی کر چکے تھے لیکن گھر آنے کے بعد وہ ایک نئے انداز میں اس سے ملے
مشارف صاحب کا تو کہنا تھا کہ وہ اکیلے ہیں اسی لیے اسے اپنے ساتھ ہی لے چلیں لیکن اس کی بات سن کر یارم نے کہا کہ اپنے باپ سے رابطہ کرو وہ تمہیں بہن بھائی دے سکتا ہے ہمارے بچے پر نظر رکھنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے
اب جو بھی تھا آپنے چند دن کا بچہ تھا تو اسے بھی بہت پیارا تھا
سب کے جانے کے بعد یار اسےایک کمرے میں آنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود اندر چلا گیا
روح آہستہ سے رویام کو اٹھاتی شونو کو اشارہ کرتی اس کی پیچھے چلی گئی
°°°°
یہ ایک بے حد پیارا کمرہ تھا جو کسی بچے کے لیے سجایا اور بنایا گیا تھا
اس سے پہلے کل تک یہ ایک ایکسٹرا بیڈ روم تھا جس میں ایک بیڈ اور صوفہ کے ساتھ کسی مہمان کے رہنے کی مکمل جگہ بنائی گئی تھی
کیسا لگا ہمارے رویام کا کمرا ۔۔۔۔¡یا رم نے مسکراتے ہوئے پوچھا
کمرے میں ایک منی سائز کا بیڈ تھا
ہر طرف کھلونے ہی کھلونے تھے کمرے کو پورا بلو کلر کیا گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ یارم کو پتہ چلا تھا کہ بیٹے کی صحت پر نیلا کلر اچھا اثر کرتا ہے جب کہ بیٹی کی صحت پر ہلکا گلابی کلر اچھا اثر کرتا ہے
بہت پیارا کمرہ ہے یارم یہ آپ نے سجایا روح کو یقین نہیں آرہا تھا
آف کورس میں نے بنایا ہے اپنے بیٹے کے لئے ویسے میں بہت اچھا ڈیزائنر نہیں ہوں لیکن ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے
وہ آہستہ رویام کو روح کی گود سے لیتے ہوئے بیڈ پر لیٹاچکا تھا
جہاں وہ پر سکون نیند کے مزے لیتا اتنا پیارا لگ رہا تھا کہ روح کا دل کیا کہ ابھی جائے اور اسے پیار کرنے لگے
روح یار یہ اتنا زیادہ سوتا کیوں ہے روح کو اپنے بے حد قریب کیے وہ سوال کرنے لگا
پتا نہیں میں نے بھی لیلی سے پوچھا تھا اس نے کہا تھا بچے ایسے ہی سوتے ہیں
سوتے ہیں اور روتے ہیں لیکن ہمارے بیٹے کی کوالٹی چیک کریں وہ صرف سوتا ہے اور مسکراتا ہے روح نے فخر سے بتایا تھا
اور واقعی یہ بات سچ تھی رویام کو ابھی تک روتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔بس جب اس کا رونے کا دل کرتا تو اتنی پیاری شکل بناتا کہ روح ا سے فورا اپنی گود میں لے لیتی اور وہ خود ہی چپ ہو کر مسکرانے لگ سکتا
اچھا چلو اب ہم اسے بالکل ڈسٹرب نہیں کرتے اپنے کمرے میں چلتے ہیں وہ روح کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
ہاں تو اسے ساتھ لے کر جائیں گے یہاں اکیلےچھوڑ تو نہیں سکتے روح نے فکر مندی سے کہا
روح تو ایسے بات کر رہی ہو جیسے دوسرے کمرے میں نہیں کسی دوسرے گھر میں جا رہے ہیں یہیں پر ہی اگر روئے گا تو آواز آ جائے گی کیا یارم نے پیار سے کہتے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا
بالکل نہیں یارم کیا ہوگیا ہے آپ کو میں فی الحال اسے بالکل بھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کمرے میں ہمارے ساتھ لے کر چلے وہیں پر سویا کرے گا ہمارے سینٹر میں روح نے اسے کرتے ہوئے کہا
کیا مطلب ہے تمہارا یہ میرے اور تمہارے بیچ میں سوئے کا ہم دونوں کے درمیان یار م شاکڈ کی کیفیت میں تھا
جبکہ روح ہاں میں سر ہلاتی رویام کو اٹھاتی آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی جانب چل دی
یارم کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا یہ چھوٹا سا نمونہ اب اس کے اور اس کی بیوی کے بیچ میں سویا کرے گا
روح تم بیکار میں پریشان ہو رہی ہویہ یارم کاظمی کا بیٹا ہے بالکل نہیں ڈرنے والا اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھتے ہوئے کہا جہاں روح بیڈ کےسینٹر میں رویام کو لیٹا چکی تھی
نہیں میں بالکل رسک نہیں لے سکتی وہ لیٹتے ہوئے بولی جب یارم آہستہ سے اپنی سائیڈ آ کر لیٹ گیا
اور یہ کب تک ہمارے بیچ میں ایسے ہی رہے گا اس نے پھر سے سوال کیا
تقریبا پانچ سال تک تو میں اسے بالکل اکیلا نہیں چھوڑنے والی یارم روح نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا جب کہ یارم خاموشی سے اپنا سر تکیے پر گرا گیا
Episode 34 to 40
Episode 40 to 45
Episode 46 to 49
Episode 50 to Last
♥ Download More:
⇒ Cousin Rude Hero Based romantic novels
آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں گے
Copyright Disclaimer:
We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.