Areej Shah Novels

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah | Best Urdu Novels

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah,  Areej shah is one of the best famous Urdu novel writer.Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel is the latest novel by Areej Shah . Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel.Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society and love.

Areej Shah has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein by Areej Shah

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by areej shah Complete Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer.there are also sad moments because happiness in life is not always there.so this novel is a lesson for us if you want to free downloadGum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah to click on the link given below, or you can also read it online.

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah | Rude Hero Based Novel

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Urdu Novel is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah is a very special novel based on our society

↓ Download  link: ↓

If the link doesn’t work then please refresh the page.

Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein Novel by Areej Shah Complete

OR

Gum Hain Kisi K Pyar Main Novel by Areej Shah

 

 

Read Online Gum Hai Kisi Ke Pyar Mein:

پارٹی اپنے عروج پر تھیں ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے برقی قہقوں سے ماحول جمایا گیا تھا ۔جگہ جگہ میڈیا کے نمائندے اپنی نیوز پیپر کو چار چاند لگانے کے لیے کسی نہ کسی بزنس مین کو پکڑے اس کے انٹرویو میں مصروف تھے

جب کہ جس کے لیے پارٹی دے گئی تھی وہ تو ابھی تک پارٹی میں شامل بھی نہیں ہوا تھا ۔اسے یہ سب کچھ بالکل پسند نہیں تھا لیکن یہ پارٹی آج اسی کو بیسٹ بزنس مین اووڈ ملنے کی خوشی میں دی گئی تھی

اسے ان سب چیزوں سے الجھن تھی یہ بناوٹی دنیا اسے زہر لگتی تھی لیکن یہ اس کی مجبوری تھی کہ اسے پارٹی میں شامل ہونا تھا ۔ اس کی ساری فیملی اس پارٹی میں شامل تھی جب کہ فرحت تو پل پل اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔

کیونکہ خالو نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ آج پارٹی میں سب کے سامنے وہ  یہ اعلان کریں گے کہ فرحت کوئی غیر نہیں بلکہ ان کی ہونے والی بہو ہے اور بہت جلد اسے پوری شان و شوکت سے ان کے خوبر بیٹے اشعر شاہ کی زندگی کا حصہ بنا دیا جائے گا ۔

لیکن نہ جانے یہ اشعر کہاں رہ گیا تھا جو ابھی تک پارٹی میں نہیں آیا یہ تو وہ بھی جانتی تھی کہ اشعر ایسی پارٹی اٹینڈ نہیں کرتا ۔اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اسے بھی کچھ خاص پسند نہیں کرتا لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی جو بری طرح سے اشعر اور اس کی بے پناہ دولت پر فدا تھا ۔

اور آج کا دن اس کے لیے بہت اہم تھا اسی لئے تو وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس مغرور شخص کا انتظار کر رہی تھی جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا

°°°°°°°°

اس نے بے زاری سے حال میں قدم رکھا تھا اسے اس طرح کے ماحول سے نفرت تھی یہ بے باکیاں یوں عورتوں کا مردوں کی باہوں میں باہیں ڈال کے گھومنا انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنا ان کا دل بہلانا ان کی انٹرٹینمنٹ کا سامان بنا عورت کتنا گرا لیتی ہے اپنے آپ کو وہ اس ماحول کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا

میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا اشعرتم جانتے ہو نہ آج میں بہت اہم اناؤنسمنٹ  کرنے والا ہوں بابا نے کہتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگایا

بابا اگر یہ اہم اناوسمنٹ فرحت کی طرف ہے تو میں پہلے بتا رہا ہوں وہ لڑکی میرے معیار پر نہیں اترتی ۔فرحت کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر بیزاری آ گئی تھی عیاں بازو دراز گلے کا ڈیزائن وہ کبھی اس کی پسند نہیں ہو سکتی

اس کو ایک ایسی لڑکی چاہیے تھی جو خود کو سمیٹ کر رکھے چھپا کر رکھے اس کے لئے تو وہ اس کی امانت میں کبھی خیانت نہ کرےوہ اپنی لائف پارٹنر کو لے کر تھوڑے الگ خیالات رکھتا تھا ۔

فرحت نہیں تو پھر کون۔۔۔ کون ہے وہ لڑکی جس سے تم شادی کرو گے ہاں چھوٹے بچے نہیں رہے تم 26 سال کے ہو چکے ہو بابا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

بابا مجھے جو پسند آئے گی میں اس سے شادی کر لوں گا یہ معاملات آپ مجھ پر چھوڑ دیں جس دن وہ مجھے پسند آئے گی نہ ایک منٹ کی دیر کیے بغیر میری زندگی میں شامل کر لوں گا

وہ اس گھٹن زدہ ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب اس کا فون بجا

 سر اذان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ اس وقت ہوسپیٹل میں ہے پلیز جلدی آجائیں فون پر اس کے سیکرٹری نے اسے اطلاع دی تھی ۔

بابا اذان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مجھے ابھی جانا ہوگا اس نے اپنے ورکر کا نام لیتے ہوئے کہا باباکے چہرے پر تھوڑی بے زاری آئی تھی

بیٹا ایک ورکر کے لیے تم اپنا  اہم ترین وقت برباد نہیں کر سکتے انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی ۔لیکن وہ اس معاملے میں سمجھنے کا عادی نہیں تھا اسے اپنے ورکرز کی اتنی ہی فکر ہے جتنی وہ وہ اپنی فیملی کی کرتا تھا

اور ازان تو اپنا گھر بار چھوڑ کر صرف اس کے لئے اتنی دور شہر میں کام کرتا تھا اسے اس وقت اس کی ضرورت ہے اور وہ اس مشکل وقت میں وہ اسے چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا

اسی لئے بابا کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بنا کچھ کہے پارٹی سے نکل گیا جبکہ میڈیا کے بارے میں  وہ جانتا تھا کہ بابا ان سب کو اچھے سے سنبھال سکتے ہیں

°°°°°°

ابھی وہ اذان سے مل کر باہر نکل تھا شکر ہے وہ ٹھیک تھا ایکسیڈنٹ تو بہت برا ہوا تھا لیکن پھر بھی اذان کی کافی بچت ہو گئی تھی وہ کوریڈور سے باہر کی طرف جا رہا تھا جب اچانک اسے کونر پر بیٹھے ایک وجود کی سسکیاں سنائی دی ۔

وہ اپنے آپ کو پوری طرح سے چھپائے ہوئے آہستہ آہستہ لرز رہی تھی اس کے دل کو کچھ ہوا ۔اس کو لگا اس کا تصور حقیقت بن کے سامنے آگیا ہے اس کے دل کی رفتار نے زور پکڑا کچھ تو الگ تھا اس لڑکی میں ورنہ اشعر شاہ کا دل اتنا بےلگام تونہ تھا وہ بس اسے ہی دیکھے جارہا تھا

جب اگلے ہی لمحے کمرے سے ڈاکٹر نکلے وہ بھاگ کر ڈاکٹر کے پاس گئی تھی ایک لمحے کے لیے اس نے اس کا چہرہ دیکھا ۔

ڈاکٹر کیسے ہیں میرے پاپا کیا ہوا ہے انہیں پلیز مجھے بتائیں وہ ٹھیک تو ہیں نا وہ بری طرح سے روتے ہوئے بولی

دیکھیں مس آپ کے پاپا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ان کی حالت بہت خراب ہے ابھی آپریشن کرنا ہوگا آپ کاؤنٹر پر 30 لاکھ روپے جمع کر دیں  ڈاکٹر نے کہتے ہوئے آگے قدم بڑھائے

٣٠ لاکھ اتنے پیسے کہاں سے لاؤں میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ پاپا کی دوائی لے کے آ سکوں وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی سسکتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گئی اشعر نے بے اختیار اس کی جانب قدم اٹھا چکا تھا ۔

کیا تھا اس لڑکی کے آنسووں میں کہ اشعر شاہ اس کی طرف کنچھتا جا رہا تھا

اگر تم چاہو تو میں تمہیں 30 لاکھ روپے دے سکتا ہوں وہ ہمیشہ کی طرح اپنے ازلی مغرور انداز میں بولا تھا اس نے امید بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا اس کے باپ کے پاس وقت کم تھا اس وقت تو وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔

آپ میری مدد کریں گے وہ امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتی معصومیت سے بولی اشعر شاہ کا دل آج الگ انداز میں دھڑکا تھا اس کا دل چاہا کہ اک لمحہ ضائع کیے بغیر اس لڑکی کو اپنے آپ میں چھپا لے

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اس کے ساتھ ہوا کیا ہے اچانک اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ وہ تو اپنے ائیر رنگ بھی لیتے ہو پورے محلے سے جا کر پوچھتی تھی کہ یہ  اس پر سوٹ بھی کریں گے یا نہیں اور یوں اچانک نکاح کا فیصلہ ایک ایسے شخص سے جیسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔

پہلے تو ایک انجان شخص کا اسے مدد کی آفر کرنا اور پھر اس کی یہ شرط کہ وہ اس سے نکاح کرے گا یہ بات اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئی تھی اس پر برا وقت تو آیا تھا سب اپنے ساتھ چھوڑ چکے تھے اپنے تھے ہی کون وہ تو اپنے محلے والوں کو ہی اپنا سمجھتی تھی۔

وہی تھے ان کے دکھ سکھ کے ساتھی ماں تو تب ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی جب اس صحیح غلط کی پہچان ہی نہ تھی ۔بس محلے والےبن ماں کے بچی سوچ کر  پیار سے بات کرتے تھے لیکن غیروں سے بھی کوئی کیا امید رکھے بابا اسے محلے کی سائیڈ بھی کم ہی جانے دیتے تھے ۔

کل رات بابا کو ہارٹ اٹیک آیا تو صرف محلے کے دو تین مرد ہی اسے ساتھ لئے ہسپتال آئے تھے کسی ایک کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کے بابا کا علاج کروا سکے کل رات جو لوگ اس کے ساتھ یہاں تک آئے تھے کہیں اس کی ذمہ داری ان لوگوں کے سر نہ آ جائے اسی لئے ہسپتال واپس نہیں آئے تھے  اور آج کے زمانے میں اتنی بڑی رقم تو کوئی ادھار بھی نہیں دیتا تھا

ساری زندگی نوکری کرنے کے باوجود بھی بابا اپنا گھر نہیں لے سکتے تھے ۔ ان کی بس یہی خواہش تھی اور کچھ نہ سہی وہ اپنی بیٹی کو ایک اپنی چھت ہی فراہم کر سکے لیکن ساری زندگی  محنت مزدوری کے باوجود بھی ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی

جگہ جگہ سے محلے کے لوگوں کا قرض لیا ہوا تھا جو اکثر لوگ گھر تک مانگنے کے لیے آتے بابا کسی نہ کسی طریقے سے ٹال دیتے  ۔اور اسے بس اتنا ہی کہہ دیتے تم اپنی پڑھائی کرو میں سب کچھ سنبھال لوں گا اور سب سمبھالتے سمبھالتے بابا آج ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے

وہ انہی سب سوچوں میں مصروف تھی جب اچانک مولوی صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ اپنے بابا کے لیے اس نے اس انجان آدمی کی شرط مان لی تھی کیونکہ اس کے بابا کے پاس وقت کم تھا اور آپریشن ہونا بہت ضروری تھا اور اس کی شرط قبول کرتے ہی بابا کا آپریشن شروع ہو چکا تھا ۔

اور آپریشن شروع ہوتے ہی اس شخص نے مولوی اور گواہوں کا انتظام کرلیا تھا جیسے اسے ڈر ہو کہ وہ بعد میں مکر جائے گی ۔

مولوی صاحب اس کے سامنے بیٹھے نکاح کی رسم ادا کر رہے تھے ۔ اس وقت نمیش کے اندر نہ تو کوئی احساس تھے اور نہ ہی کوئی جذبات ابھی تک تو اس نے اپنی زندگی میں اس فیلنگ کو محسوس ہی نہیں کیا تھا کہ اس کی بھی شادی ہوگی

°°°°°°°°

وہ اس کے سامنے کوئی شرط نہیں رکھنا چاہتا تھا وہ تو پہلی نظر میں ہی محبت کا شکار ہوا تھا اور محبت کے سامنے کیسی شرط  محبت میں شرطیں نہیں ہوتی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ہر احساس پہ حاوی ہوتا ہے ۔

وہ اس سے بات کرکے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپریشن کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے وہ کافی عرصے سے اس بیماری سے لڑ رہے تھے آپریشن صرف ایک امید ہے کہ شاید ان کی زندگی بچ سکے ۔لیکن اب کام آپریشن سے اوپر جا چکا ہے ۔

اس جگہ پر اس کی فیملی کا اور کوئی انسان موجود نہیں تھا  سوائے ایک بوڑھے آدمی کے جو اس کے محلے میں رہتا تھا  اس نے اس آدمی سے جب پوچھا کہ وہ کون ہے تو اس نے بس یہی بتایا کہ اس لڑکی کا آخری  سہارا صرف اس کا باپ ہی ہے اگر وہ بھی اس سے بچھڑ گیا تو وہ تنہا ہو جائے گی

وہ سمجھ سکتا تھا ایک اکیلی تنہا لڑکی زندگی کا اتنا مشکل وقت کس طرح فیس کرے گی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب اس لڑکی پر کوئی بھی مصیبت آئے

وہ تو خود بھی نکاح کے لئے اتنی جلدی تیار نہیں تھا ہاں لیکن اس لڑکی کا سہارا بننا چاہتا تھا نہ جانے کیسے ایک ہی ملاقات میں اس کے لئے اتنی اہم ہوگئی کہ وہ اسے مسز نمیش اشعر شاہ بنانے کے لیے تیار ہو گیا۔

ورنہ اس طرح سے اپنی فیملی سے چھپا کر اور یوں اچانک شادی  کے حق میں نہیں تھا خیر اپنی فیملی کو تو وہ خود ہی سمجھا لے گا ۔بس اب اس لڑکی کو سمجھانا تھا ۔جو ایک ہی ملاقات میں اس کے دل میں اتر چکی تھی

°°°°°°°°

ہسپتال کے کوریڈور میں اس وقت اس کی چیخیں گونج رہی تھی ۔اس کا واحد سہارا اس سے چھن چکا تھا آپریشن کامیاب نہیں ہوسکا ۔ بہت زیادہ دیر ہوجانے کی وجہ سے ڈاکٹر انہیں بچا نہیں پائے تھے ۔

اشعر خاموشی سے اس کے پاس بیٹھا اس کی چیخ و پکار سن رہا تھا ۔زاہد چاچا اسے سہارا دینے کی کوشش کر رہے تھے ۔لیکن جب زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہی اس سے دور ہو گیا تھا تو وہ کسی اور کے سہاروں پر کیا رہتی ۔

میت کو اس کے گھر  پہنچا دیا گیا تھا اشعر بھی ساتھ ہی آیا تھا اس کے بابا کی تمام آخری رسومات اس نے خود ادا کی تھی کل تک وہ بالکل تنہا تھا اکیلا تھا آزاد تھا لیکن آج اس پر ایک ذمہ داری آ چکی تھی

اس نے سوچ لیا تھا چوتھا دن گزرتے ہی وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے گا ۔ لیکن اس سے پہلے اپنی فیملی تک یہ بات پہنچا نا بہت ضروری تھی ۔  وہ نمیش کو بھی سمبھلنے کا موقع دینا چاہتا تھا یقینا اس سے جڑے اس رشتے کو قبول کرنے کے لئے بھی اسے وقت کی ضرورت تھی

ایک ہفتہ گزر چکا تھا

نمیش اس کی موجودگی کو محسوس تو کر رہی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ سے بالکل بھی بات نہیں کرتی تھی

 نکاح ہو جانے کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کے لئے ہیں بالکل انجان تھے

 اشعر اس کے بارے میں ساری معلومات لے چکا تھا

 لیکن نمیش  کے لیے وہ بلکل کسی انجان انسان سے کم نہ تھا اسی لیے شاید وہ اس سے بالکل بات نہیں کرتی تھی البتہ جب سے اس کے بابا کی ڈیتھ ہوئی تھی وہ یہیں پر رہ رہا تھا

صرف رات کے وقت ہی وہ اپنے گھر جاتا تھا اور پھر صبح ہوتے ہی واپس وہیں چلا جاتا اس کا کام بھی بری طرح سے ڈسٹرب ہوا تھا لیکن اس وقت اسے نمیش کے علاوہ اور کسی کی پروا نہیں تھی

 اور تقریبا سارا ہی وقت اس کے ساتھ گزارتا بس اسے زیادہ مخاطب نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ ہر وقت روتی رہتی تھی

اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں  اس کا دل بے چین کرتی تھی

 .وہ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا وہ اس سے گھر چلنے کی بات کرے گا اور اسے یہاں سے لے جائے گا ابھی تک اس نے اپنے گھر والوں سے اس بارے میں بات نہیں کی تھی خیر گھر والے تو اس کی مرضی کو ہمیشہ سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے

 اس لئے اسے ان لوگوں کی سے زیادہ ٹینشن نہیں تھی

لیکن مسئلہ تھا تو اس لڑکی کا جو اسے یہاں آنے کے بعد بلکل منہ نہیں لگا رہی تھی یہاں تو وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی تھی جیسے وہ صرف اس کے باپ کے جنازے میں شامل ہونے والا ایک عام آدمی ہو

جیسے اس کے ساتھ تو اس کا  سرے سے کوئی رشتہ ہی نہ ہو لیکن وہ اس پر جلد ہی  اپنے اور اس کے رشتے کو پوری طرح سے واضح کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

کیوں کہ اب وہ اسے اگنور کر رہی تھی اور اشعر شاہ کی ذات کو کوئی اس طرح سے نظر انداز کرے یہ اس کی برداشت سے باہر تھا

آج تک وہ جہاں بھی گیا تھا سب کی نظریں اسی پر ہوا کرتی تھی وہ سب کی نظروں میں اپنے لیے اہمیت دیکھنے کا اس قدر عادی تھا کہ اس لڑکی کی اگنورنس اسے کھول کر رکھ دیتی

۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت وہ دکھ میں ہے اور نہ ہی وہ اس سے ٹھیک سے جانتی ہے لیکن کیا یہ پہچان کافی نہیں تھی کہ وہ اس کے نکاح میں ہے

°°°°°°°

نمیش آج شام پانچ بجے تیار رہنا میں تمہیں لینے آؤں گا ہم دونوں گھر چلیں گے  ۔

کیا مطلب گھر چلیں گے یہی میرا گھر ہے اور میں یہی پر رہوں گی اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو چلے جائیں یہ ان دونوں کے مابین پہلی گفتگو تھی جو کہ نمیش کی جانب سے کافی تلخ تھی

نہیں یہ تمہارا گھر نہیں ہے تمہارا گھر وہ ہے جہاں پر میں رہتا ہوں

 اور میں تمہیں وہی لے جانے کی بات کر رہا ہوں اپنا ضروری سامان پیک کر لو ہم آج ہی وہاں شفٹ ہو رہے ہیں وہ جیسے آخری فیصلہ کرتے ہوئے اسے بتا رہا تھا

میں آپ کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانے والی سمجھے آپ اور میں بہت جلدی آپ کے تیس لاکھ بھی آپ کو واپس کر دوں گی وہ اس کی بات کو کاٹتے ہوئے سخت انداز میں بولی

میں تم سے پیسوں کی بات نہیں کر رہا نہ میں تو میں بس یہ بتا رہا ہوں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جا رہا ہوں اور بہتر ہو گا کہ تم بھی خاموشی سے چلنے کی تیاری کرو ۔

میں آپ کے ساتھ یہاں سے کہیں بھی نہیں جاؤں گی اور بہت جلد میں آپ کو آپ کے پیسے لٹا دوں گی اس لیے بہتر ہوگا کہ مجھ پر حکم نہ چلائیں

۔ آپ کے پیسے آپ کو مل جائیں گے اور اس کے بعد یہ کاغذی رشتہ یہیں پر ختم ہوگا میں نے یہ نکاح صرف اپنے پاپا کی جان بچانے کے لئے کیا تھا

میں اس وقت مجبور تھی لیکن اب مجبور نہیں ہوں مجھے کمزور سمجھنے کی ہرگز کوشش مت کیجئے گا میں اپنی لڑائی خود لڑسکتی ہوں وہ اپنے آپ کو بہادر ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب کہ اس کے اس انداز پر اشعر نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا

اس وقت اس لڑکی کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی چھوٹی سی بچی اپنے کھلونے کے لیے کسی دوسرے بچے سے لڑ رہی ہو ۔

نمیش میں شام پانچ بجے تمہیں لینے آؤں گا اور میں تمہارا یہ انداز نہیں دیکھنا چاہتا اب اشعر بالکل اس طرح سے بات کر رہا تھا جیسے کسی چھوٹے بچے کو کسے غلط کام سے روکنے کے لیے ذرا سے سختی کی جاتی ہے اور پھر وہ بنا اسے کچھ بولنے کا موقع دیے خود اٹھ کر باہر چلا گیا

°°°°°°°°

سر آپ  میڈم کو اپنے ساتھ حویلی لے کر نہیں جائیں گے وہ اپنا نیا گھر کھلوانے کا کہہ رہا تھا جب اس کے سیکرٹری نے پوچھا

نہیں ابھی نہیں پہلے میں نمیش کو پوری طرح سے رشتے کے لیے تیار کر لوں پھر گھر والوں کو بتاؤں گا ۔

تب تک یہ بات باہر نہیں جانی چاہیے

وہ ہمیشہ سے ہی الگ تھلگ رہنا پسند کرتا تھا اس نے بہت پہلے اپنے لیے ایک گھر بنوایا تھا جس میں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا

لیکن اس کی ماں کا ہمیشہ سے یہی کہنا تھا چاہے وہ اس کے باپ کی پسندیدہ بیوی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ اپنے فرائض سے یوں منہ نہیں پھیرے گی حالات جو بھی ہو وہ ہمیشہ اس کے باپ کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی

وہ 17 سال کا تھا یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں تھی جب اس کا باپ اپنی من چاہی بیوی کو حویلی لایا تھا

دادی نے بہت شور مچایا کہ خاندانی بیوی ہونے کے باوجود وہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہے لیکن اس کے باپ نے صاف صاف کہا تھا کہ یہ وہ اس کی من پسند بیوی ہے جس کے ساتھ وہ سات سال پہلے ہی نکاح کر چکا ہے

اس کے بعد ہی اس نے یہ گھر بنوایا تھا تاکہ وہ اپنی ماں کو لے کر ان سے الگ ہو سکے لیکن اس کی ماں نے سب کچھ خاموشی سے قبول کر لیا ۔

وہ اپنی ماں کو تو اس گھر میں نہیں لا سکا تھا لیکن نمیش کے ساتھ اپنی زندگی کی ایک خوبصورت شروعات اسی گھر سے کرنا چاہتا تھا

چاچا آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا اس دنیا میں نہیں رہے تو کیا میرا کوئی نہیں ہے

 ان کے سمجھانے پر وہ بے بسی سے بولی تھی

دیکھو بیٹا میں بس تمہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارا باپ ہر وقت یہی دعائیں کرتا تھا کہ اس کی بیٹی کی تقدیر سنور جائے اور اب جب اتنا اچھا لڑکا تم سے نکاح کر چکا ہے تو میں اپنا نام دے چکا ہے تمہارے باپ کی ہر پریشانی کو اپنے سر چکا ہے تو تم اسے قبول کیوں نہیں کر رہی ہو ۔

کیونکہ اس نے میری بے بسی کا فائدہ اٹھایا ہے

 ۔اس نے میری مدد کرنے کے لئے میرے سامنے نکاح کے شرط رکھی

 میں نے مجبور ہو کر نکاح کے لیے حامی بھر لی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

 اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے اور بابا کی جان بچانے کے لیے اس سے نکاح کرنا پڑا

 لیکن اس کے باوجود بھی میں بابا کو نہیں بچا پائی

 اور اب اگر بابا ہی نہیں رہیں تو میں کیوں یہ زبردستی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈال کر گھومتی رہوں

کیونکہ وہ تمہارا سہارا ہے

وہ کوئی غیر نہیں تمہارا شوہر ہے

 اس نے تمہارے سامنے کوئی ناجائز خواہش ظاہر کرنے سے بہتر تم سے نکاح کرنا سمجھا

 اسی بات سے اس کی نیک نیتی کا اندازہ لگا لو

 چاچا اب بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے

میں انہیں برا نہیں کہہ رہی چاچا بس میں یہ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی میں ان سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی

 بہتر ہے اس کو ختم کر دوں میں نہیں چاہتی کہ ساری زندگی وہ مجھے اس رشتے کے نام پر تانے مارتا رہے ۔

شرطوں پے بنے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی

 میں نے اس کے سامنے اپنے باپ کے لیے اپنا آپ بیچ دیا

یہ صرف ایک کاغذی کاروائی تھی جو میرے بابا کے ساتھ ہی ختم ہو گئی

میں اس پر خلع کا کیس کرونگی میں مجبوری اور سمجھوتوں کے رشتے نہیں نبھا سکتی چاچا

مجھے یہ رشتہ نہیں نبھانا ۔اور نہ ہی اس شخص کے ساتھ اس کے گھر سے جانا ہے وہ اٹل فیصلہ کرتے ہوئے بولی ۔

نہ نمیش یہ گھر تو تمہیں چھوڑنا ہوگا سامنے بیٹھی چاچی نے تلخ انداز میں کہا

آخرکار ہمیں بھی اپنی بیٹیاں بہانی ہیں کتنے عرصے سے تم لوگ اس گھر میں رہ رہے ہو

 اور اب تو تم لوگوں نے پچھلے نو مہینوں کا کرایہ تک ادا نہیں کیا ہے

چاچا کا انداز بہت جتلاتا ہوا تھا

چاچی میں جلد ہی ایک اچھی نوکری ڈھونڈ لوں گی  میں آپ کے سارے پیسے دے دوں گی وہ شرمندگی سے بولی ۔

اس کی ضرورت نہیں ہے ہم کرایہ تمہیں معاف کر دیں گے

 تم بس یہ گھر چھوڑ دو اور جاو اپنے شوہر کے گھر چاچی کے انداز پر چچا نے گھور کر انہیں دیکھا تھا ان کا انداز شاید انہیں بھی پسند نہیں آیا تھا ۔

 مجھے گھورنا بند کریں ایک لڑکی عقل سے پیدل ہے شوہر دروازے پر کھڑا ہے اور یہاں بیٹھے ناشکری کر رہی ہے

جانتی بھی ہے کتنا امیر انسان ہے وہ جس کی نظر نہ جانے کیسے اس  پہ آ کر رک گئی اور یہ تو اسے منہ تک نہیں لگا رہی

اب کیا ساری زندگی ہم محلے والوں کے سر پر بیٹھ کر ناچنا چاہتی ہے

 کون دے گا بارھویں پاس کو نوکری ہمیں بھی تو پتہ چلے ایک مضبوط سہارے کے ساتھ ایک مضبوط چھت تک مل رہی ہے اوپر سے جائز رشتہ جیسے یہ اپنی بے عقلی میں گنوا رہی ہے ۔۔

یہ میری زندگی کا فیصلہ ہے

 اسے مجھ پر چھوڑ دیں ان کے تلخ لہجے پر وہ بھی تلخ ہوئی تھی

۔جب اچانک کمرے میں کوئی داخل ہوا ۔اسے اچانک اپنے گھر دیکھ کر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ہے ان دس دن میں نجانے کتنے اس چکر لگا چکا تھا

°°°°°°°°

میں نے تمہیں صبح کہا تھا تیار رہنا اور تم یہاں بیٹھ کے آنسو بہا رہی ہو

نمیش میں ایک بات تمہیں کتنی بار سمجھاوں نکاح ہوچکا ہے تمہارا اور ہر لڑکی نکاح کے بعد اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے

 چلو میرے ساتھ بند کرو اپنی یہ ضد وہ اسے سمجھانے کے لیے اس کے ساتھ بیڈ پربیٹھا تھا

 جب کہ اسے اپنے برابر بیٹھے پا کر فورا ہی اس کے قریب سے اٹھ کر ایک دو نہیں بلکہ دس قدم دور ہوئی تھی ۔

جبکہ اس کا یہ انداز اشعر شاہ کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ چھوڑ چکا تھا

تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو نمیش میں کوئی غیر تو نہیں وہ مسکراتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا تھا ۔

دور رہے مجھ سے ورنہ وہ انتہائی غصے سے انگلی اٹھا کر اسے وارن کرنے لگی

جو اگلے ہی لمحے  اس کی انگلی تھامتے ہوئے کھینچ کراس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے آپنے بے حد نزدیک کر لیا تھا ۔

میں نے سنا ہے کہ حسین بیوی جب قریب آ کر دھمکی دیتی ہے تب اور بھی حسین لگتی ہے مجھے بھی تو پتہ چلے کہ سچ ہے یا جھوٹ وہ آنکھ دباتے ہوئے مسکرا کر بولا جبکہ اس کے انداز پر نمیش دھڑکتے دل کے ساتھ اسے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی

اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری یہ جدوجہد کامیاب ہوگی تو تم بالکل غلط ہو وہ اس سے خود سے لڑتے پا کر جلانے والے انداز میں بولا ۔

دیکھیں مسٹر اشعر شاہ  آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے وہ اپنی تمام تر ہمت جمع کئے  پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔

مسز نمیش اشعر شاہ اگر میں آپ کے ساتھ زبردستی کرتا تو اس وقت آپ میری نظر سے نظر ملا کر بات کرنے کے بجائے شرما رہی ہوتی

اور یہ جو آپ کی حسین آنکھیں مجھ سے بدگمانی کی داستان سنا رہی ہے نہ میری دیوانگی میرے جنون کی تپش سہہ کر اب تک میرے عشق کے خُمار میں جھکی ہوئی ہوتی

 ۔برحل میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں ۔اسی لئے بار بار زبردستی زبردستی کہہ کر مجھے زبردستی کرنے پر مجبور نہ کریں

  ۔وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے دلکشی بولا

نجانے کون سا منہوس وقت تھا جب میں نے اس شخص کی مدد لی ۔اس کی نظروں سے ہارتے ہوئے بربرائی جبکہ اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے وہ گہرا سا مسکرایا ۔۔

میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہتی وہ اٹل انداز میں بولی

اور میں تمہیں کسی بھی قیمت پر یہاں سے لے کر جاؤں گا اسلئے نخرے بند کرو اور چلو میرے ساتھ وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے گھسیٹ کر اپنے ساتھ باہر لے آیا تھا اور اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا رہا تھا

میں نے تمہیں  بہت بار منانے کی کوشش کی کہ میرے ساتھ گھر چلو لیکن تم نہیں مانتی زبردستی کرنے پر مجبور تم نے کیا ہے تو بہتر ہوگا کہ تم اس چیز کے لیے مجھ سے شکایت نہ کرو

 وہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے پرسکون انداز میں بولا جبکہ خود کو بے بس پاکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔

 وہ اسے چپ کروانے کی بجائے سارے راستے خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا

وہ اسے اسی انداز میں گھر لے کر آیا تھا

گاڑی اپنے گھر کے باہرروکتے ہوئے اسے گھسیٹ کر سیدھا گھر کے اندر لایا

 اور اپنے کمرے میں لا کر ہی دم لیا

کیا لگتا ہے آپ کو یوں زبردستی آپ مجھے وہاں سے یہاں لےآئیں گے تو میں آپ کے سامنے بے بس ہو جاؤں گی

 تو ایسا بالکل نہیں ہے میں آپ پر کیس کروں گی

  ایک لڑکی کو ٹرپ کر کے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا ہے آپ نے میں آپ کو آپ کے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی

مجھے کوئی کمزور یا دبو لڑکی ہرگز مت سمجھیے گا

 میں اپنا دفاع کرنا بہت بہتر طریقے سے جانتی ہوں

 اگر میں نے مجبوری میں آپ کی مدد لی ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ میرے ساتھ جو چاہے وہ کر سکتے ہیں

وہ غصے سے بھری پڑی تھی جو کہ اسے نکالنے کا اچھا موقع مل گیا تھا

ابھی کچھ دن نہیں ہوئے تھے ان کو ملے ہوئے اور یہ شخص اس طرح سے حق جتا رہا تھا

غلط فہمی ہے  آپ کی کہ آپ کو آپ کا دفاع کرنا آتا ہے

 اگر دفاع کرنا آتا تو جب میں آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہا تھا تب آپ اپنی عقل کا استعمال کرتی جس طرح سے اب کر رہی ہے  سمجھدار ہیں آپ ماشاءاللہ سے اپنے آپ کو ٹرپ کر رہا تھا عقل کہاں تھی استعمال کیوں نہیں کیا آپ نے اپنی عقل کا

اور ایک اور بات میں تمہارے ساتھ جو کرنا چاہو کر سکتا ہوں کیونکہ تمہارے تمام تر حقوق میرے نام ہیں تم مجھے روکنے کا نا تو حق رکھتی ہوں اور نہ ہی ہمت اگر چاہو تو ایک ڈامبو بھی دکھا سکتا ہوں

وہ اسی کے انداز میں کہتا ہوا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کر چکا تھا

اور اب بنا اسے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے اس کے نازک لبوں کو اپنے لبوں کی دسترس میں لے چکا تھا وہ جو اپنے آپ کو بہادر ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی اشعر کے اس بے باک انداز پر ساکت سی  ہوگئی  ۔

دل تو جیسے دھڑکنا بھول گیا ہاتھ پیر مکمل ساتھ چھوڑ چکے تھے

اشعر اسے اپنی باہوں میں قید کیے اس کی سانسوں میں اپنے سانس بسائے کچھ ہی پل میں چھوڑ چکا تھا ۔شرم سے زیادہ حیرانگی اور بے یقینی اس کے دل و دماغ پر سوار تھی وہ اس سے اچانک اس طرح کی کوئی امید نہیں رکھتی تھی

یہ تھا تمہاری سوچوں کا ایک ٹریلر اگر تم نہیں چاہتی کہ میں پوری فلم دکھاؤں تو قدم گھر سے باہر مت نکالنا

کیونکہ تم نے اپنی عقل کا زیادہ استعمال کیا  تو تمہیں ڈھونڈنا اشعرشاہ کے لیے کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے

نکاح کے لیے حامی بھر کر تم اپنی  عقلی مندی کا ثبوت پہلے ہی دے چکی ہو ۔اسی لیے مزید اپنی عقل کا استعمال کرنے کے بجائے وہ کرو جو ایک شادی شدہ لڑکی کرتی ہے

جیسے اپنا گھر سوارتی ہے اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے بہانے ڈھونڈتی ہے ویسے اس کام میں تمہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ تمہارے نام کا ایک گھر اشعر شاہ اپنے دل میں پہلے ہی تعمیر کر چکا ہے اور اب تم اس میں بسنے کی خواہش کرو یا نہ کرو رہنا تو میں یہیں پڑے گا

ایک ضروری کام پر جا رہا ہوں اگر چاہو تو میری واپسی کا انتظار کرو ورنہ کھانا کھا کر سو جانا اس کا حکمرانا انداز اور یہ بے باکی نمیش کو پریشان کر گئی تھی

وہ جلد سے جلد اس سے پیچھا چھڑانے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن یہ تو آسانی سے اس سے چھوڑنے والا ہی نہیں تھا ۔

°°°°°°°°

ایسے کیسے شادی کر لی لڑکی کون ہے کس خاندان کی ہے

 تم جانتے ہو تمہارے بابا فرحت سے تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں

 وہ لڑکی دن رات یہاں ہمارے گھر میں تمہاری پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے

 اور تم امی بہت پریشان لگ رہی تھی

امی میں نے فرحت سے ایک بار بھی نہیں کہا کہ میں اس سے شادی کروں گا

 بلکہ ہمیشہ اسے بتاتا رہا کہ وہ کبھی میری پسند نہیں بن سکتی میں نے کبھی اس کے جذبات کو ہوا نہیں دی ۔

اور جہاں تک خاندان اور لڑکی کی بات ہے تو ہمارے خاندان میں کہاں پسند کی شادی میں یہ ساری چیزیں دیکھی جاتی ہیں

میں اس لڑکی کو پسند کرتا تھا اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور بس آپ کو بتانے حویلی آیا تھا وہ آتے ہی اپنی ماں کے کمرے میں اسے سب کچھ آکر بتا چکا تھا ماں کے علاوہ اور کسی کو بتانا وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا۔

دیکھو بیٹا اپنے بابا  کی باتوں کو دوہراؤ مت اگر تم اس لڑکی کو پسند کرتے ہوتو الگ بات ہے لیکن تم جانتے ہو ہماری شادیاں خاندانوں میں ہوتی ہیں اس طرح سے تمہیں اپنے بابا کے خلاف قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا ۔

جی بالکل صحیح فرما رہی ہیں آپ ہمارے خاندان میں خاندان کے اندر شادیاں ہوتی ہیں اور پھر اس خاندانی بیوی کو کسی فالتو شو پیس کی طرح اپنے نکاح میں رکھ کر ساری زندگی اسے اذیت دی جاتی ہے دوسری من پسند بیوی کے نام پر امی کم ازکم میں ہی کام نہیں کر سکتا

میں اپنے نام پر کسی خاندانی لڑکی کی زندگی برباد نہیں کروں گا مجھے جو لڑکی پسند تھی میں نے اس سے شادی کر لی اور اب بہتر ہوگا کہ آپ سب میری فرحت سے شادی کی خواہش کو چھوڑ دیں اس کا فیصلہ اٹل تھا

اس کو بہت کچھ سہنا پڑے گا اشعر کب تک لاو گے اسے یہاں امی نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا

امی کیسے لاؤں اسے یہاں پر ایک تو ہمارا خاندان اوپر سے ابھی ابھی اس کے پاپا کی ڈیتھ ہوئی ہے فی الحال تو وہ میرے ساتھ جوڑے رشتے کو قبول نہیں کر پا رہی فلحال میں اسے اس ٹیشن زدہ ماحول میں نہیں لا سکتا ۔

آپ کو اپنی شادی کا بتانا میرے لئے سب سے زیادہ اہم کام تھا اسی لیے یہاں آیا ہوں ورنہ اتنی رات کو اسے اکیلے نہیں چھوڑ سکتا ۔

وہ ان کے قریب سے اٹھتے ہوئے بولا یقیناً وہ واپس جآ رہا تھا

ابھی کچھ وقت پہلے کی بات ہے جب اس نے کہا تھا امی میں جس لڑکی سے شادی کروں گا اسے ہر خوشی دے دونگا بابا کی طرح نہیں کہ ایک شادی اپنے والدین کی مرضی سے کر لی اور دوسری شادی اپنی مرضی سے اور پھر ساری زندگی پہلی بیوی کو یہ کہہ کر اذیت دی کہ ہم اپنی خاندانی بیویوں کو طلاق نہیں دیتے ۔چاہے وہ پسند ہو یا نہ ہو ۔

اس کی ماں تو اس کے باپ کے دوسرے نکاح کے پہلے روز سے ہی جانتی تھی کہ وہ اپنی پسند کی لڑکی سے نکاح کر چکا ہے

لیکن پھر سب سے اہم بات یہ تھی کہ خاندانی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اس کے باپ کے ساتھ اس کی ماں کو ہی کھڑا کیا گیا

 خاندان کی یا بزنس کی کسی بھی بڑی ترکیب میں جو اہمیت اس کی ماں کو حاصل تھی وہ اس کی سوتیلی ماں کو نہیں تھی ۔

اور دوسری سب سے اہم بات انہوں نے مسٹر شاہ کو ایک بیٹے سے نوازا تھا جبکہ دوسری بیوی سے انہیں کوئی اولاد نہ تھی

°°°°°°°°

اس نے گھر میں قدم رکھا تو ملازمہ شاید اسی کی آنے کا انتظار کر رہی تھی

سر میڈم کھانا کھا کے سو گئی ہیں

اب میں بھی چلتی ہوں ملازمہ نے آتے ہی اسے بتایا اشعر کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی تو کیا وہ اتنی جلدی اس کی بات کو سمجھ گئی

اسے کافی اچھا لگا تھا وہ اپنے کمرے میں آیا تو ملازمہ کے کہے کے عین مطابق وہ اس کے بیڈ پر گہری نیند سو رہی تھی اشعر اسے بنا تنگ کیے خود چینج کرنے چلا گیا

واپس آیا تو آہستہ سے بیڈ پر بیٹھا اور اسی طرح پرسکون سے انداز میں بیڈ کر لیٹ گیا تاکہ اس کی نیند بالکل بھی ڈسٹرب نہ ہو ۔

وہ گہری نیند سو رہی تھی جب کہ اس کا سکون اشعر کو حیرت میں مبتلا کر رہا تھا

کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں لڑکی تم ضرور کوئی نہ کوئی بیوقوفی کرنے والی ہو

وہ اتنی آسانی سے کھانا کھانے کے بعد سو بھی گئی تھی با ظاہر یہ سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن اشعر کو یقین تھا آگے جو بھی ہونے والا ہے وہ اچھا تو نہیں ہوگا

یہ لڑکی اس کے لئے بالکل سیدھی ثابت ہو رہی تھی جلیبی کی طرح

صبح اشعر کی آنکھ کھلی تو نمیش  اس کے ساتھ نہیں تھی

 وہ اٹھ بیٹھا اتنی جلدی وہ اس کی غیر موجودگی پر پرسکون تو نہیں رہ سکتا تھا

وہ فورا اٹھ کر باہر آیا تو اس کو ناشتے کی ٹیبل پر ناشتے سے انصاف کرتے دیکھا

 وہ پرسکون ہو کر واپس فریش ہونے چلا گیا

آخر کیا چل رہا تھا اس لڑکی کے دماغ میں کوئی تو کھچڑی پک رہی تھی

کچھ تو وہ کرنے والی تھی ورنہ اتنی پرسکون ہو کیسے رہ سکتی ہے

یہی سب سوچتے ہوئے وہ فریش ہوکر نیچے آیا

 جہاں اب وہ ناشتہ کرنے کے بعد چائے کا کپ لیے لان کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی

سر آپ کا ناشتہ لگاوں ملازمہ نے پوچھا

نہیں صرف چائے لاو وہ نہ میں سرہلاتا اس کے پاس لان میں ہی چلا آیا

تو ایک خوبصورت سی پری اس خوبصورت صبح کو انجوائے کر رہی ہے

وہ دوستانہ انداز میں اس کے بالکل پاس سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تھا

اس نے غیر محسوس انداز میں اس سے تھوڑی سی دوری اختیار کی تھی جو کہ اشعر نے محسوس کرتے ہوئے اسی صفائی سے مٹا ڈالی  ۔

میرے ساتھ جوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے کیا تھوڑا سا دور ہٹ کر بیٹھیں نا اتنی جگہ ہے وہ تپ کر بولی

نہیں یار مجھے تو میری بیوی کےبالکل پاس بیٹھنا ہے وہ مسکرایا تھا

ہاں تو میری گود میں آ کر بیٹھ جائے ۔۔۔پاس ہی تو بیٹھے ہیں وہ غصے سے بولی

 اگر میں تمہاری گود میں بیٹھا تو میری ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی میرا نہیں خیال کہ  تمہاری  نازک ٹانگیں میرا بوجھ اٹھا پائیں گی وہ اس کی غصے میں کہی گئی بات کو اپنے ہی رنگ میں لئے بولا

چلو چھوڑو ان سب باتوں کو ہی یہ بتاؤ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہےتم اتنی آسانی سے سکون سے نہیں بیٹھ سکتی تو بتاؤ مجھے کہ کیا سوچا ہے تم نے وہ اسے نظروں کے حصار میں لیے پوچھنے لگا

آپ نے ہی کہا تھا نہ کہ اگر میں عقلمند ہوں تو اپنی عقل کا استعمال کروں تو اب میں اپنی عقل کا استعمال کر رہی ہوں

 مطلب وہ اسے آسان لفظوں میں بتا رہی تھی کہ وہ کچھ تو کر رہی ہے ۔

آل رائٹ جو دل میں آئے وہ کرو کوئی مسئلہ نہیں ہے تمہارا گھر ہے جیسے چاہو رہو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ملازمہ ہر وقت حاضر ہے تم کہہ سکتی ہو اسے مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔

وہ اس وقت بھی اتنا ہی پرسکون تھا جتنا کے کل رات مطلب کہ وہ اس کی عقل مندی پر کوئی امید ہی نہیں رکھتا تھا ۔وہ تلملا کر رہ گئی ۔

اب تم بھی میری عقل کا استعمال دیکھو گے مسٹر اشعر شاہ وہ انتہائی غصے سے کہتی اپنی چائے کے گھونٹ بھرنے لگی

جبکہ اشعر اپنی چائے کاکپ اٹھاتا آفس کے لیے تیار ہونے جا چکا تھا ۔چائے پینے کے بعد اس نے ایک نظر پورے گھر کی طرف دیکھا پھر بلا ارادہ ہی اٹھ کر اس گھر کی خوبصورتی کو دیکھنے لگی

°°°°°°°°

یہ ایک بہت بڑا گھر تھا اور بہت ہی خوبصورت  تعمیر تھی گھر کے اندر آنے کے بجائے پہلے گھر کے باہر نکلتے  واسیع اور خوبصورت سے لان کی طرف آئی تھی جہاں شاید ہر وہ پھول موجود تھا جو اس کی خوبصورتی کو بڑھا سکتا تھا

وہ ایک پل میں اندازہ لگا چکی تھی کہ اشعر کو گارڈننگ کا شوق ہے کیونکہ یہ پھول اور پتے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اسے بتا رہے تھے کہ انہیں بہت محبت سے تراش خراش کر رکھا گیا ہے

سیمنگ پول کی ایک سائیڈ پر ایسے ہی خوبصورت پھولوں کو رکھا گیا تھا

واو بیوٹیفل اس کے منہ سے بے اختیار کر پھسلا۔

اتنے سڑے ہوئے ٹماٹر کی اتنی اچھی پسند کیسے ہو سکتی ہے وہ پھولوں اور خوشبو سے خود بھی بہت متاثر تھی اس سے خود بھی گارڈننگ کا بہت شوق تھا ۔

لیکن ان کے گھر میں اتنی جگہ ہی کہاں تھی کہ وہ کوئی پودا لگا سکتی ہاں لیکن گھر کی سیڑھیوں پر اس نے چار گھملے رکھے تھے نہ جانے ان کو کسی نے پانی بھی دیا ہوگا یا نہیں اسے اچانک ہی یاد آگیا

پھر اپنے بابا کی یاد آنے لگی

بیٹا باپ کے گھر میں جو تو خواہش پوری نہیں کر سکتی وہ شوہر کے گھر پے کرنا اللہ نے چاہا تو تیرے شوہر کا گھر اتنا بڑا ہوگا کہ تو کوئی بھی پودا وہاں لگا سکے گی بابا کی حسرت بھری آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی اس نے بے اختیار ہی سامنے لان کی طرف دیکھا

لیکن میں زبردستی کے رشتے کو قبول نہیں کر سکتی بابا میں کبھی بھی   اپنی مجبوری کو سمجھوتہ نہیں بننے دوں گی ۔

نہیں ہے قبول مجھے یہ رشتہ میں جانتی ہوں وہ مجھے طعنے مارے گا ہر وقت اپنے پیسے کا رعب جمائے گا اور ویسے بھی تو میں نے یہ سب کچھ آپ کے لیے کیا تھا بابا اگر آپ ہی نہیں ہیں تو میں اس زبردستی کے رشتے کو کیوں قبول کروں

جہاں باپ کی یاد آنکھوں میں آنسو لا رہی تھی وہی وہ اشعر سے جوڑے اس رشتے سے مکمل بدگمان ہوئے بیٹھی تھی ۔اسے امیر لوگوں پر یقین نہیں تھا کوئی بھی امیر انسان اتنا اچھا نہیں ہو سکتا کہ کسی بے سہارا لڑکی سے شادی کرے اسے تیس لاکھ روپے دے اور پھر کے باپ کے مر جانے کے بعد اسے اپنی بیوی کا رتبہ دے کر قبول کر لے

وہ کون سا کوئی حور پری تھی یا دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی اسے اپنے حسن پر بھی کوئی مان نہیں تھا وہ تو ایک عام سی لڑکی تھی اور عام  لڑکیوں کی زندگی میں شہزادے نہیں آتے وہ شہزادہ بھی اس کا نہیں تھا

وہ صرف اس کے قریب آنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا یقینا اسے حاصل کرنے کے بعد وہ اسے منہ بھی نہیں لگائے گا اس نے تلخی سے سوچا

لیکن اگر اسے مجھے حاصل ہی کرنا ہوتا تو ہسپتال میں بابا کی جان بچانے کے لیے 30 لاکھ روپے دیتے ہوئے نکاح کے بجائے کوئی اور شرط رکھ سکتا تھا اس کے دل نے صدا دی تھی ۔

جسے سنتے ہوئے بھی وہ نظر انداز کر گئی

 جب ملازمہ بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی بی بی جی آپ نے جن کو بلایا تھا وہ آگئے ہیں ملازمہ نے اسے بتایا تو وہ ہاں میں سر ہلا کر گھر کے اندر کی طرف جانے لگی

اشعر شاہ اب تم دیکھنا میری عقل کا استعمال وہ بڑبڑاتی ہوئے اندر کی جانب بھری تھی

°°°°°°°°

اس نے گھر کے اندر قدم رکھا تو سامنے صوفے پر اسی کے ساتھ وکیل صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور اندر آئی اور انہیں سلام کرتے ہوئے وہ ان کے سامنے آ کر بیٹھی تھی

اشعر صاحب مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ مجھے آپ کے گھر بلایا جائے گا

مجھے آپ کی مسز کا فون آیا تو انھوں نے آپ کا ایڈریس نوٹ کروایا اور صبح ہوتے ہی میں یہاں آگیا ۔

آپ کو میں نے بلایا ہے نا تو مجھ سے بات کریں انہیں کیوں صفائیاں پیش کر رہے ہیں وہ غصے سے بولی وکیل کی اس کے ساتھ نرم مزاجی اسے ہرگز پسند نہیں آئی تھی

جی میم بولے وکیل نے ہربڑا کر اس کی طرف دیکھا

 مجھے خلع کا کیس کروانا ہے ان پر وہ اشعر کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے بولی وکیل نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا تھا جبکہ پرسکون انداز میں اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا

مجھے بالکل اندازہ تھا کہ تم ان روحوں میں سے ہی نہیں ہوں جو آرام سے بیٹھ جائیں

 ہاں تو وکیل صاحب ایم سوری آپ کو یہاں آنے کی زحمت کرنی پڑی اب آپ جا سکتے ہیں وہ اسے جواب دینے کے بعد وکیل کی طرف متوجہ ہوا تھا

ایسے کیسے جا سکتے ہیں انہیں میں نے بلایا ہے آپ نے نہیں وہ غصے سے بولی تھی

وکیل صاحب میری مسز کو آپ ذرا پلیز بتا دیں آپ اپنے ایک کیس کی کتنی فیس لیتے ہیں اس حساب سے یہ آپ کو ہیئر  کریں گی۔

کیوں کہ آپ پہلے ہی میری مقروض ہیں میں نہیں چاہتا کہ آپ پر مزید بوجھ پڑے اس کے انداز نے اسے وکیل کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا جس نے اپنی ہنسی دبانے ہوئے ایک لاکھ کہا تھا ۔نمئش کی تو پوری آنکھیں ہی کھل کر باہر آنے کو تھی

اتنی زیادہ فیس سائن تو ہم نے کرنا ہے آپ کس بات کی اتنی فیس لے رہے ہیں آپ نے کیا کرنا ہے وہ غصے سے بولی تھی

ایم سوری وکیل صاحب کیا ہے نا کہ میری مسز اکثر مجھ سے ناراض ہوتی ہے ابھی ہماری شادی کو با مشکل دس دن ہوئے ہیں یہ مجھ سے ناراض ہو کر میرے ساتھ ایسے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے ڈارلنگ تم نے وکیل صاحب کا بہت وقت برباد کر دیا میں وعدہ کرتا ہوں میں تمہاری ہر بات مانوں گا وہ انتہائی محبت سے بولا تھا

ایم سوری وکیل صاحب  میری وجہ سے آپ کا وقت برباد ہوا مجھے بہت برا لگا ۔

وہ معذرت کرتے ہوئے بولا تو وکیل ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔

کوئی بات نہیں جناب اس عورتوں کی مخلوق کو سمجھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے میرا اپنا یہی حال ہے میری شادی کو ابھی بمشکل تین ماہ ہوئے ہیں وہ اپنا دکھڑا سنانے لگا تو قہقہ لگااٹھا جبکہ ان دونوں کا یہ دوستانہ انداز دیکھتے وہ اندر ہی اندر وکیل کو گالیوں سے نوازتی اپنے کمرے کی جانب بھر گئی تھی ۔

جب کے وکیل کو دروازے پر چھوڑنے کے بعد وہ اس کی عقل ٹھکانے لگانے کمرے کی طرف جا رہا تھ

 °°°°°°°°

وہ بہت غصے میں کمرے میں آیا تھا لیکن کمرے میں آکر اس کے کھلے بال حسین بھیگا ہوا چہرہ اور اسے آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کا غصہ بری طرح دم توڑ چکا تھا ۔

اور اب اس کی بات سن کر تو بلکل ہی سکتے میں آگیا تھا

آپ مجھے ادھار ایک لاکھ روپے دے سکتے ہیں ویسے بھی مجھے آپ کے تیس لاکھ روپے دینے ہیں ایک لاکھ اور سہی مجھے وکیل کو اس کی فیس دینی ہے وہ بالکل سیریز انداز میں کہہ رہی تھی اس کے انداز سے کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ مذاق  کر رہی ہے

کیا  یہ لڑکی سچ میں اتنی بے وقوف تھی اشعر نے سر تا پاؤں اس کا جائزہ لیتے ہوئے سوچا تھا

نہیں میں تمہیں ایک روپیہ اور نہیں دوں گا میں پہلے ہی اپنے تیس لاکھ روپے برباد کر کے پچھتا رہا ہوں وہ جل کر بولا تھا

زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے پہلے ہی پتہ ہے تم امیر لوگوں کے گھر تو بڑے بڑے ہوتے ہیں لیکن دل کے تم لوگ چھوٹے ہوتے ہو فکر مت کرو دے دوں گی تمہارے پیسے تمہیں "امیر کہیں کے" وہ  اس طرح سے بولی تھی جیسے اس نے اشعر کو امیر نہ کہا ہو  بلکہ کوئی گالی دے ڈالی ہو ۔

یہاں بیٹھو میں تم سے بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہوں وہ اس کی بیوقوفیاں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا

میرے کان بالکل ٹھیک ہیں اور وہ آپ کی بات یہاں سے سن سکتے ہیں وہ وہی آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش پھیرتی اس کا دل دھڑکا رہی تھی ۔

مجھے ڈر ہے کہ وہاں تمہاری موٹی عقل میں میری بات گھسے گی بھی یانہیں اسی لیے پلیز یہاں آ کر بیٹھو مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے وہ بالکل سیریز انداز میں بولا جب کہ اس طرح سے غصہ کرنے پر اس نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا

 یہ فیصلہ تو اس نے پہلے ہی کر لیا تھا کہ اب وہ اشعر کو بہت تنگ کرنے والی ہے اتنا کہ وہ خود ہی تنگ آ کر اسے چھوڑ دے

اور اب وہ جو کچھ بھی بول رہی تھی محض اسے تنگ  کرنے کے لئے ہی تو بول رہی تھی اتنی بیوقوف تو وہ بھی نہیں تھی کہ خود ہی اس سے طلاق کے لیے پیسے مانگتی  وہ تو بس اسے تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی بس وہ اس شخص  کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی

اور نہ ہی اپنی زندگی اسے کنٹرول کرنے دے سکتی تھی ۔ مجبوری نے اسے اس شخص کے ساتھ  جوڑدیا تھا لیکن اب وہ ساری زندگی اس کے حکم کی غلام بن کر نہیں رہ سکتی تھی یہ اس کی زندگی تھی اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل تھا

اپنے بالوں کو ایسے ہی کھلا چھوڑ کر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ پر آ بیٹھی  باغور اسے دیکھ رہی تھی

اب مہربانی کرکے فرمائیں جو فرمانا چاہتے ہیں اسے خود کو یوں گھورتے پا کر وہ تھوڑا نروس ہو گئی تھی لیکن پھر ہمت سے بولی

جب اشعر نے نکاح نامہ جیب سے نکال کر اس کے سامنے رکھا

یہ نکاح نامہ ہے اور تم دیکھ سکتی ہو اس پر تمہاری طرف سے طلاق لینے کا حق محفوظ نہیں ہے مطلب کے تم مجھ سے کبھی بھی خود طلاق نہیں مانگ سکتی اور نہ ہی رشتہ ختم کر سکتی ہو

اور اب کوئی ڈرامے بالکل بھی نہیں کرنا وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔

نمیش پر تو جیسےآسمان آ گرا تھا وہ کیا کہہ رہا تھا کیا نہیں اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے تو خود پہلی بار اپنے نکاح پر نکاح نامہ دیکھا تھا وہ کہاں جانتی تھی نکاح نامے میں کیا کیا شرائط ہوتی ہیں ۔

دیکھو نمیش میں چاہوں تو ابھی اسی وقت تم سے اپنے تمام حقوق وصول کر سکتا ہوں اور تم انکار بھی نہیں کر پاؤ گی لیکن میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں محبت بھی محبت سے کرنا چاہتا ہوں تمہاری ساری بیوقوفیوں  اور غلطیوں کے باوجود بھی میں تمہیں ایک موقع دے رہا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا ۔

میں جانتا ہوں ہماری شادی بہت جلد بازی میں ہوئی ہے ایسے میں یہ سب قبول کرنا آسان نہیں ہوتا اسی لیے میں تمہیں وقت دے رہا ہوں تمہارے پاس ایک مہینے کا وقت ہے اچھی طرح سوچ سمجھ کر اس رشتے کی نئی شروعات کرو اس رشتے کو قبول کر لو ۔

کیوں کہ میں تمہیں کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا تم سے نکاح کیا ہے تو اسے نبھاؤں گا تمہیں لگتا ہے نہ امیر لوگ جذبات نہیں رکھتے بس لوگوں کا دل توڑنا اور ان کی فیلنگز کے ساتھ کھیلنا جانتے ہیں تو تم مجھے آزما لو ۔

اگر تمہیں میری محبت میں کہیں پر بھی گھوٹ محسوس ہوئی تو تم جا سکتی ہو

محبت بہت خوبصورت رشتہ ہے نمیش اور نکاح کے بعد تو محبت ہو ہی جاتی ہے وہ اسے سمجھا رہا تھا پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا

تمہارے وکیل صاحب نے میرا بہت وقت برباد کر دیا ہے  مجھے کام پر جانا ہے اپنا خیال رکھنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ملازمہ کو کہہ دینا وہ مسکرا کر اس کاگال تھپتھپا کر چلا گیا

تو جناب چاہتے ہیں کہ انہیں آزماؤں ٹھوک بجا کر چیک کروں ایسا ہے تو ایسا ہی سہی ایسے امیر ذادے بگڑے لڑکوں کو میں اچھی طرح سے جانتی ہوں اشعر صاحب چار دن میں اپنے اصل رنگ دکھا دو گے جب میں اپنی پے آئی نہ تمہاری محبت کھڑکی کے  راستے بھاگے گی

بی ریڈی مسٹر اشعر شاہ وہ کچھ سوچتے ہوئے مسکرائی

 اتنی آسانی سے وہ اشعر شاہ کو اپنے تمام حقوق نہیں دے سکتی تھی اور وہ بھی تب جب اس نے دھوکے سے اس سے نکاح کیا تھا وہ بھی نکاح کی شرائط بتائے بغیر نمیش نے اسے غلط ثابت کرنے کے لیے خود سے ہی ایک کوئی بات بنا لی تھی۔

°°°°°°°°

آپ کیوں بار بار فرحت کو اس کے پاس بھیج دیتے ہیں وہ پہلے ہی کتنی بار اس رشتے سے انکار کر چکا ہے اسے فرحت پسند نہیں ہے صوفیہ بیگم  نے ضیاء شاہ صاحب سے کہا

تم بھی تو مجھے پسند نہیں تھی لیکن میں نے  تم سے شادی کی ہے نہ تو اسے کیا مسئلہ ہے آخر  بس کہہ دیا میں نے  اس کی شادی فرحت سے ہوگی تو ہوگی یہ میرا آخری فیصلہ ہے ضیاء صاحب انتہائی غصے سے بولے تھے ۔

انہیں صوفیہ بیگم کبھی بھی پسند نہیں تھیں پہلے بچپن میں ان کا نام ان کے ساتھ جوڑا گیا اور بعد میں شادی کے بعد تو انہیں ان سے عجیب ہی چڑ ہو گئی۔

انہوں نے کبھی بھی صوفیہ بیگم کو محبت و چاہت کا احساس نہیں دلایا تھا وہ ہمیشہ ان کی نفرت کی وجہ بنی رہی ہے ۔

ماں باپ کی وجہ سے وہ ان سے جوڑے تعلق کو نبھانے پر مجبور تو ہو گئے لیکن ہمیشہ انہیں کہتے رہے کہ وہ کبھی بھی ان کی محبت نہیں بن٣ پائے گی ۔ان کی پہلی اور آخری محبت صرف زرین ہے اور وہی رہے گی ۔

صوفیہ نے بھی کبھی ان سے محبت نہیں مانگی وہ تو بس اپنے ماں باپ کی عزت کے لیے خاموش رہیں اور پھر بعد میں اپنی اولاد کے لیے ۔

 اشعر کے سامنے ہی ان کی ساری زندگی گزری تھی وہ بچپن سے ہی اپنے باپ کی نظر اندازی دیکھتا آیا تھا اس نے کبھی اس کے سامنے اس کی ماں سے نرمی سے بات تک نہیں کی تھی وہ بارہ سال کا تھا جب اس کے باپ کی زندگی میں ایک اور عورت نے جگہ لے لی اور اس کی ماں کی جو تھوڑی بہت اہمیت تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔

اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر اپنی دوسری بیوی کے پاس چلا جاتا اس شخص نے کبھی بھی احساس نہیں کیا تھا کہ اس کی ماں پر کیا گزرتی ہو گی ۔اپنے شوہر کو کسی اور کے ساتھ دیکھ کر ۔

لیکن ایک بات تھی جو خاندان میں اہم تھی اس گھر میں صرف خاندانی عورت کو ہی اہمیت دی جاتی تھی اور شوہر کی نظر میں بیوی کی اوقات ہو نہ پو لیکن خاندان صرف خاندانی لڑکی کو عزت اور چاہت دیتا تھا اور اس اہمیت پر صوفیہ ہی پوری اترتی تھی زرین کی یہاں کوئی اہمیت نہیں تھی

وہ شوہر کے دل پر راج کرتی تھی لیکن سارا خاندان اسے کسی خقیر شے کی طرح دیکھتا تھا لیکن پھر بھی زرین کے پاس وہ تھا جو صوفیہ کبھی حاصل نہ کر پائیں

شوہر کی محبت ۔

شادی کے پانچ سال کے بعد اس کا شوہر اپنی دوسری بیوی کو لے کر حویلی آ گیا تھا

اور اس کی وجہ سے اکثر ان دونوں میں جھگڑا رہتا صوفیہ تڑپ تڑپ کر ساری رات روتی ۔

اپنے باپ کی بےوفائی کے بعد اشعر نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جس سے وہ محبت کرتا ہے ناکہ ساری زندگی کسی کو اپنے نام پر سولی پر چڑھ جائے گا

۔

اس کی ماں نے اپنی زندگی کی تڑپ تڑپ کر گزار دی وہ جو درد اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھتا تھا وہ کسی اور کی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔

یہی وجہ تھی کہ وہ خود ہی فرحت  کو اس رشتے سے انکار کر چکا تھا لیکن شاید اس کے  پاس اب بھی کوئی امید باقی تھی ۔

اور صوفیہ اس امید ختم کر دینا چاہتی تھی وہ اسے بتا دینا چاہتی تھی کہ اس نے شادی کرلی ہے لیکن فی الحال اشعر  خود بھی انہیں یہ بات کسی کے سامنے بتانے سے منع کر چکا تھا ۔صوفیہ بیگم کو پتہ تھا ایک اور طوفان آنے والا ہے باپ بیٹے کی تلخی مزید بھر جائے گی لیکن وہ کیا کر سکتی تھی وہ تو اپنے حق کے لیے بھی کبھی کچھ نہیں کر پائی تھی

ہاں لیکن اس بار سوال ان کے بیٹے کی زندگی کا تھا

بس کرو اور مجھے یہاں سے جانے دو وہ غصے سے ملازمہ کو دیکھتے ہوئے بولی

 ایم سوری میم آپ ایسے ہی نہیں جاسکتی ملازمہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔

میں بھی دیکھتی ہوں مجھے کون روکتا ہے غصے سے کہتے ہوئے آگے بڑھ چکی تھی جبکے ملازمہ ابھی تک اسے روکنے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ باہر آ رہی تھی ۔

دیکھو تم جا کر اپنا کام کرو اور خبردار جو میرے پیچھے آئی وہ اسے دیکھتے ہوئے گھور کر بولی ۔

اچھا میم میں آپ کو نہیں روکوں گی پلیز جانے سے پہلے مجھے بتا کر تو جائیں کہ آپ کہاں جارہی ہیں اشعر سر پوچھے تو میں انہیں کچھ بتا سکوں میم میری نوکری کا سوال ہے وہ مینتوں پے اترائی ۔

نمیش کو اس پر ترس آگیا تھا وہ بیچاری تو اپنا کام کر رہی تھی ان امیروں کو کیا پتا ہے غریبوں کو کیا کیا مجبوریاں ہوتی ہیں جو وہ ان کے گھروں میں آکر کام کرتے ہیں وہ تو بس ان کی ذرا سی غلطی پر انہیں نوکری سے نکالنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں ۔

پریشان مت ہو میں آپنے گھر جا رہی ہوں مجھے اپنا کچھ سامان لینا ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے تسلی بخش انداز میں بولی تو ملازمہ خاموش ہوگئی ۔

لیکن میم اس حویلی میں کس چیز کی کمی ہے آپ کو جو اپنا سامان وہاں سے لانے جا رہی ہیں ملازمہ نے پوچھا

اپنی چیزوں کی کمی ہے صدف تم نہیں سمجھو گی ۔ یہ ساری  چیزیں تو اس شخص نے لا کر دی ہیں لیکن وہ چیزیں جو میرے بابا اپنی محنت سے میری لئے لاتے تھے میں انہیں پھینک نہیں سکتی مجھے وہ ساری چیزیں لینے جانا ہے وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی ۔

ٹھیک ہے میم آپ  چلی جائے  میں ڈرائیور کو کہہ دیتی ہوں اس کے نرم انداز پر ملازمہ خوشی سے بولی اور اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر باہر چلی گئی ۔

کچھ ہی دیر میں ڈرائیور اسے لے جانے کے لیے تیار دروازے پر کھڑا تھا ۔

اب اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اسی لیے آ کر گاڑی میں بیٹھی اور اسے اپنے محلے کی طرف جانے کا کہا

۔اور اب وہ گاڑی اس کے محلے کے راستے پر ڈال چکا تھا اتنی بڑی گاڑی میں سفر کرنے کا نمیش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا لیکن سوچا تو اس نے کبھی یہ بھی نہیں تھا کہ اس کی شادی اشعر جیسے امیر ترین آدمی سے ہوگی کتنی فلمی تھی اس کی لائف اس نے سوچتے ہوئے سر جھٹکا۔اور نظر چلتی سڑک پر ڈالی جو اس کے محلے کی طرف ڈور رہی تھی

اس کے جاتے ہی ملازمہ نے اشعر کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے محلے کی طرف کی ہے اشعرنے کوئی خاص ری ایکشن نہ دیا تو ملازمہ پر سکون ہو کر اپنا کام کرنے لگی

°°°°°°°°

نوکری بیٹا بلا تمہیں نوکری کی کیا ضرورت ہے تم تو اتنے امیر انسان کی بیوی ہو تم نوکری کیوں کرنے لگی

 چاچا کو اس کے دماغی فتور کا علم تو ہمیشہ سے ہی تھا

وہ جانتے تھے کہ اس نے پھر سے اپنی طرف سے کوئی مضبوط دلیل تیار کر رکھی ہوگی انہیں مطمئن کرنے کے لئے ۔

لیکن پھر بھی اس سے پوچھنا تو تھا ہی کے آخر اب اس کے دماغ میں کیا خرافات چل رہے ہیں

 ۔یہ لڑکی سیدھی طرح سے تو ان کی سمجھ میں کبھی آئی ہی نہیں تھی اب جب سب کچھ ٹھیک تھا اس کے پاس ایک مضبوط سہارا تھا تو یہ اپنی بیوقوفیوں سے اپنا گھر برباد کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

اشعر صاحب نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر ان سے آزادی چاہتی ہوں تو انہیں وہ پیسے واپس چاہیے جو میں نے ان سے لیے تھے مطلب نکاح کی شرط پوری کرنے کے لیے

کیونکہ نکاح نامے پر میرے پاس طلاق کا کوئی حق محفوظ نہیں ہے ۔

انہوں نے مجھے ایک مہینہ دیا ہے اس رشتے کو قبول کرنے کے لئے لیکن میں چاہتی ہوں کہ مجھے کوئی اچھی سی نوکری مل جائے

باقی کچھ قرضہ وغیرہ لے کر میں ان کی رقم ادا کردوں گی اور بعد میں نوکری کر کے قرضہ چکا لونگی اس نے ان کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا تو وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئے ۔

وہ تو خیر اسے کبھی کچھ کہتے نہیں تھے کیونکہ جانتے تھے کہ اس کی سمجھ میں ان کی کوئی بات نہیں آنی لیکن چاچی نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے اسے ہمیشہ کی طرح خوب  سنایا

ہاں بی بی نوکریاں تو تمہارا باپ چھوڑ کر گیا ہے نا تمہارے لئے ایف اے پاس کو کون نوکری دے گا اور وہ بھی اتنے برے نمبروں سے ایف اے کیا ہے تم نے کہ مر کر بھی تمہیں کوئی نوکری پر نہ رکھے اور اب بی بی  کے خیالات سنیں نوکری کرے گی قرضہ لے کر  شوہر کے پیسے دے گی اور پھر نوکری کرے گی اور قرض چکائے گی واہ بی بی ۔

لوگ تو راستے میں بیٹھے ہیں نا اسے نوکری دینے کے لیے مرے جا رہے ہیں وہ اونچی آواز میں انتہائی غصے سے کہتی اسے سنا رہی تھی

چاچو آپ ان کی باتوں پر دھیان نہ دیں آپ بس میرے لیے کسی اچھی سی نوکری کا انتظام کر دیں باقی میں خود سنبھال لوں گی

 اسے تو بس کسی بھی طرح اشعر سے جان چھڑانی تھی اسی لئے چاچی کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ چاچو سے کہنے لگی ۔

چاچو نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا کیونکہ جانتے تھے کہ وہ اتنی آسانی سے ان کی جان نہیں چھوڑنے والی ۔

چاچی اب بھی خاموش نہیں ہوئی تھی وہ تب سے اسے سنائے جا رہی تھی جیسے کچھ پتہ ہی نہ ہو ایف اے پاس لڑکی کو نوکری ملنا ایک ناممکن سی بات تھی

 لیکن وہ تو کوئی بھی نوکری کرنے کو تیار تھی بلکہ جھاڑو پوچھا لگانے کے لیے بھی وہ بالکل تیار بیٹھی تھی بس کسی بھی طرح سے اسے اشعر کو یہ یقین دلانا تھا کہ وہ اسے اس کے پیسے دے دے گی تو ہو سکتا ہے وہ اسے ایسے ہی چھوڑ دے

 ۔ورنہ تو وہ شخص تیار بیٹھا تھا اسے اپنی باتوں میں لگانے کے لیے لیکن یہاں تو مرغی کی ایک ہی ٹانگ تھی کہ اتنا امیر شخص اتنا اچھا ہو ہی نہیں سکتا ۔

پتا نہیں اس سے کون سے مطلب پورے کرنا چاہتا تھا اتنا میٹھا بنا ہوا تھا لیکن نمیش بے وقوف تھوڑی تھی جو اس کی باتوں میں آ جاتی

°°°°°°°°

بیٹا تمہاری نوکری کا انتظام ہو گیا انہوں نے کمرے میں آتے ہی اسے خوشخبری سنائی تو وہ خوشی سے اچھل پڑی ۔

اتنا جلدی چاچو کوئی جادو کی چھڑی گھمائی ہے کیا وہ ان کے سامنے کھڑی ایکسائیڈ  ہو کر پوچھنے لگا لگی

ہاں بیٹا بس یہی سمجھ لو جیسے تمہاری نوکری کا انتظام کر دیا ہے بس تم سے یہاں انٹرویو دینے چلے جانا ۔انہوں نے ایک کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔

جسے وہ فورا فوراً تھام چکی تھی یہی تو ایک راستہ تھا اس سے جان چھڑانے کا ۔

بس کل صبح اسے یہ نوکری مل جائے اس نے کارڈ پے لکھا نام پڑھا شاہ انڈسٹریز ۔اس کے دماغ میں ایک نام آیا ۔

لیکن پھر اپنا خیال جان کر حویلی واپس جانے کی تیاری کرنے لگی کیونکہ جو بھی تھا اب اس کا مضبوط سہارا تو اشعر ہی تھا اور اس کا گھر جہاں اس نے رہنا تھا ۔ جب تک وہ اس سے جان نہیں چھڑا لیتی

 °°°°°°°°

وہ صبح سویرے اٹھ چکی تھی وہ  آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا جب کہ وہ اس کے بعد نکلنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔

اشعر بہت غور سے اس کا ایک ایک موومنٹ دیکھ رہا تھا آخر وہ کر کیا رہی ہے اشعر نے باغور اس کا جائزہ لیا

جو کبھی دائیں تو کبھی بائیں گھوم رہی تھی وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ اس کے جانے کا انتظار کر  رہی ہے

دیکھو لڑکی آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو جب تک تم میرے سامنے پیٹ بھر کر ناشتہ نہیں کرتی تب تک میں یہاں سے نہیں ٹلنے والا ۔

وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا تو نمیش فورا ہی سمجھ چکی تھی کہ وہ اس لئے ناشتہ نہیں کر رہا ہے کیونکہ وہ اسے ناشتہ کرائے بغیر آفس کے لئے نہیں نکلتا تھا

اس کے اس طرح سے کیئر کرنے پر ایک پل کے لئے نمیش کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن زیادہ دیراس نے اس فیلنگ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا ۔

وہ فوراً اس کے سامنے بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگی اور وہ اسے دیکھتا رہا ۔

کل تمہارا دن کیسے گزرا محلے میں گئی تھی میں واپس آیا تو تم سو رہی تھی اس لیے تمہیں جگایا نہیں وہ ناشتہ کرتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا

بہت اچھا آپ کیوں پوچھ رہے ہیں اسے کچھ گڑبر کا احساس ہوا وہ رات کافی دیر لاشعوری طور پر اس کا انتظار کرتی رہی لیکن جب وہ نہیں آیا تو اسے خود ہی نیند آگئی ۔

بیوی ہو میری تمہارا خیال رکھنا تمہارا دھیان رکھنا میرا فرض ہے اسی لئے پوچھ لیا اگر کہیں بھی آنا جانا چاہو تو ڈرائیور کے ساتھ چلی جایا کرو ۔وہ اسے کھلی آفر کر رہا تھا

نمیش نے صرف سر ہلایا اس وقت وہ اس سے کسی بھی قسم کا جھگڑا یا بحث نہیں کرنا چاہتی تھی ویسے بھی اب اسے نوکری ملنے والی تھی

جلدہی وہ اس سے جان چھڑا لے گی ۔ اور پھر  سب ختم ہو جائے گا ۔بس جب تک اسے نوکری مل نا جائے تب تک وہ اشعر کو اس بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ کیا پتا وہ اس کے گھر سے نکلنے پر ہی بین لگا دے ۔

سنو لڑکی ایک بات بتاؤ مجھے تم نے آج صبح سے اپنی عقلمندی کا ایک بھی ثبوت نہیں دیا کیا کرنے والی ہو تم اخر اشعر سے صبر نہ ہوا تو وہ خود ہی اس سے پوچھ بیٹھا ۔

کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ اگر میں نارمل ہوں تو مجھے نارمل رہنے دے بیکار میں پیچھے پڑے رہتے ہیں میرے وہ چڑکر بولی تو اشعر مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

اچھا بابا سوری میں آفس جا رہا ہوں اپنا خیال رکھنا وہ نرمی سے اس کے ماتھے پر بوسہ لیتا محبت سے بولا اس کے اس طرح سے قریب آنے پر ایک پل کے لئے نمیش نے اپنی سانسیں روک لی لیکن اس کے دور ہوتے ہی وہ نارمل ہو گئی ۔

عجیب آدمی تھا اس کی پل بھر کی قربت بھی نمیش کے رونگٹے کھڑے کر دیتی تھی ۔

ظالم ہینڈسم بہت ہے  اس نے مسکرا کر اس کے چہرے کو یاد کیا لیکن پھر بھی اپنی بات پر لعنت بھیجتی اٹھ کر تیار ہونے لگی ۔

°°°°

تیار ہو کر نیچے آئی تو محلے کے کچھ لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے ۔

السلام علیکم چچا کیسے ہیں آپ وہ محلے کے دکاندار کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولی تھی ۔

وعلیکم السلام بیٹا ٹھیک ہوں میں تم سناؤ کیسی ہو

 بیٹا میں یہاں ایک بہت ضروری کام کے لئے آیا ہوں تم تو جانتی ہو کہ کچھ عرصے میں میری بیٹی کی شادی ہے تمہارے ابو نے مجھ سے ادھار لیا تھا  پچاس ہزار روپے ۔اور ان سب سے وہ دکان سے ادھار لیتے رہے ہیں ۔

لیکن وہ واپس دینے سے پہلے ہی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اسی لئے اب تمہارے پاس آئے ہیں بیٹا اگر مجبوری نہیں ہوتی تو تمہیں کبھی اس طرف نہیں آتا ۔

افضل چاچا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو نمیش پریشان ہو کر رہ گئی

آپ فکر نہ کریں چاچا میں کہیں سے پیسوں کا انتظام کرکے آپ کو دے دوں گی مجھے بس ایک مہینے کی مہلت دیں۔  آپ فکر نہ کریں آپ کو آپ سب کے پیسے مل جائیں گی بس مجھے تھوڑے وقت کی ضرورت ہے اور وہ کافی پریشان لگ رہی تھی ۔

بیٹا تمہارا شوہر تو اتنا امیر آدمی ہے اس سے کہو کہ ہمارے پیسے دے دے چاچا نے حل پیش کیا ۔

جی چاچا میں پیسے دے دوں گی آپ فکر نہ کریں اور وہ انھیں یہ نہیں پتا پائی تھی کہ وہ اسے اپنا شوہر نہیں مانتی تو وہ اس سے پیسے لے کر کیسے انہیں دیتی لیکن ادھار تو ادھارتھا دینا تو تھا ہی اور وہ جانتی تھی کہ چاچا مجبور ہو کر یہاں تک آئے ہیں ورنہ کبھی اس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔

°°°°°°

یہ ایک بہت بڑی کمپنی تھی پہلے تو اسء قدم رکھتے ہوئے اسے ڈر لگ رہا تھا اسے یہاں جھاڑو پوچھے  کے لیے بلایا گیا ہوگا اس نے سوچا

کیونکہ جدید ترین کمپیوٹر سسٹم اعلی ترین عمارت اور مہنگے سے مہنگا فنیچر اسے پل میں ہی اپنی اوقات یاد آ گیا تھا ۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ جائے تو کہاں جائے جب ایک آدمی اس کے پاس آیا آپ نمیش ہیں وہ اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا تھا اس نے فوراً ہاں میں سر ہلایا ۔

واثق صاحب اس کمرے میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں وہ ایک آفس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تو وہ ہاں میں سر ہلاتی اس طرف چلی گئی

دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی کرسی پر تھری پیس سوٹ میں ایک خوبر سا نوجوان بیٹھا تھا ۔یہ کافی دیکھا دیکھا لگ رہا تھا لیکن کون اسے یاد نہ آیا

آئیں بھابھ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے مس نمیش شریف رکھے وہ کچھ کہتے کہتے رک کر بولا تو وہ فورا ہاں میں سر ہلاتی اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھی

سر مجھے اس نوکری کی بہت ضرورت ہے لیکن مجھے پتا ہے میری تعلیم اتنی اعلی نہیں ہے مجھے جو بھی کام دیا جائے گا میں کر لوں گی وہ اپنے ڈاکومنٹس اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی تو اس نے ہاں میں سر ہلایا ۔

جی جی مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پریشان ہونے یا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بس آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو کافی بنانی آتی ہے وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا تو نمیش نے ہاں میں سر ہلایا اب یہ اتنا مشکل کام تو ہرگز نہیں تھا ۔

گریٹ آپ کی نوکری پکی یہ پیپر پکڑے اور اس پر سائن کردیں وہ ایک فائل اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا تو نمیش نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اتنی جلدی کیسے نوکری پکی ہو گئی ۔

ہمارے جو باس ہیں شاہ صاحب ان کی ایک کمزوری ہے انہیں ہر دو تین گھنٹے کے بعد کافی کی شدید طلب جاگتی ہے اور آپ کو بس یہی کام کرنا ہے آپ کو ہر  دوسے تین گھنٹے کے بعد ان کے لئے ایک کافی کا کپ بنا کر ان کی ٹیبل پر رکھنا ہے ۔

آپ کی پرسنل سیٹ بھی انہیں کے آفس میں ہی ہے آپ کو ایک مہینے کی 50 ہزار روپے ملیں گے اگر آپ کو مناسب لگے تو سائن کر دیں وہ اسے مکمل بات بتا رہا تھا جب اگلے ہی لمحے اس نے پن اٹھاتے ہوئے پیپر پر سائن کردیئے 50 ہزار ایک مہینے کی وہ بھی صرف کافی بنانے کے بندے کو اور چاہیے کیا ۔

وہ خوشی خوشی سوچتی پیپرز پر سائن کر کے پیپر دوبارہ اس کے حوالے کر چکی تھی ۔

ویسے ان پیپرز پر سائن کرنے کے بعد آپ یہ نوکری چھوڑ نہیں سکتی اس ڈیل کے مطابق اب آپ کو چھ مہینے تک اسی آفس میں کام کرنا ہوگا اور ہماری ڈیل کے مطابق آپ کا کام بس کافی بنانا ہی ہوگا ۔

آپ آج ہی اپنے کام پر لگ جائیں  رحمان انہیں سر کے آفس میں لے جاؤ  اس نے مسکرا کر کہا تو وہ فورا اٹھ کر اس کے پیچھے آئی ۔

کافی بناناتو اسے آتی ہی تھی اور اچھی بنانا وہ سیکھ لے گی آفس کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہی تھی پیون اسے دفتر کے دروازے تک چھوڑ کر واپس لوٹ گیا جب کہ دروازے کو ناک کرتی اندر داخل ہو چکی تھی

°°°°°°°°

آفس میں باس کے علاوہ سامنے کرسیوں پر دو لوگ بیٹھے تھے وہ انہیں چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئی جو ٹیبل کی دراز میں سردیے نہ جانے کیا کر رہا تھا ۔

اس نے ایک نظر سامنے دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ پیر ساکت رہ گئے جس سے جان چھڑا رہی تھی وہی تو اس کے سامنے بیٹھا تھا ۔

اشعر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر سامنے بیٹھے لوگوں کی طرف متوجہ ہو گیا

کافی مشین اس طرف ہے اس نے ایک نظر سامنے نمیش کو دیکھا پھر کہا مطلب وہ یہاں اس کی آمد سے پہلے واقف تھا ۔مطلب کہ اسے پھسایا گیا ہے اس نے گھور کر اشعر کو دیکھا جو اسے نظر انداز کیا اپنے کام کی طرف مکمل متوجہ تھا ۔

لیکن اسے اسی طرح سے سامنے کھڑے دیکھ کر اس نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر کافی روڈلی  انداز میں بولا

شاید آپ کو سنائی نہیں دیا نمیش جی کافی مشین اس طرف ہے مطلب صاف تھا یہاں جس کام کے لئے آئی ہو وہ کرو مجھے تارنا بند کرو

نمیش غصے سے پیر پٹکتی باہر نکل گئی اب اسے وہ بندہ بھی یاد آ گیا تھا جس دن کا نکاح ہوا تھا اس دن وہ  گواہ کے طورپر ان کے ساتھ تھا ۔

ارے کیا ہوا مس نمیش آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں وہ اس کے سامنے کھڑا مسکرا کر پوچھ رہا تھا

تم یہ سب کچھ جانتے تھے نا اور تم وہی ہو جو اس دن ہسپتال میں نکاح کے وقت ساتھ  تھے

ارے واہ آپ نے مجھے پہچان لیا لیکن میری کوئی غلطی نہیں ہے میں نے وہی کیا جو آپ کے شوہر  نے مجھ سے کہا

ٹھیک ہے تو بتا دینا انہیں میں واپس جا رہی ہوں وہ انتہائی غصے سے کہتی وہاں سے جانے والی تھی جب واثق نے کہا

آپ ایسے نہیں جا سکتی آپ نے کنٹریکٹ پیپر پر سائن کیا ہے چھ مہینے تک آپ نوکری کو چھوڑ نہیں سکتی اگر آپ نے اس نوکری کو چھوڑا تو فوری طور پر آپ کو ہماری کمپنی کو پانچ لاکھ روپے دینے پڑیں گے اور اگر آپ نے نہیں دیے تو آپ کو جیل بھی ہوسکتی ہے وہ اسے سمجھا رہا تھا یا دھمکا رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی

تم لوگ مجھے جیل بیھجو گے مجھے وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو واثق نے ہاں میں سر ہلایا

میرا باس اندرآپ کا انتظار کر رہا ہے اور آپ کی کافی کا بھی اگر آپ جیل نہیں جانا چاہتی تو کافی بنانا اتنا مشکل کام نہیں ہے اور سیلری بھی اچھی خاصی ہے کبھی سنا ہے کہ کافی بنانے والے کو 50 ہزار روپے مل رہے ہو وہ بھی ایک مہینے کے

ذرا عقل سے کام لیں اور باس کو کافی دیں خدا حافظ وہ اسے ڈراتے ہوئے دوبارہ اپنے کیبن کی طرف چلا گیا تھا جب کہ وہ سچ میں ڈر  چکی تھی ویسے بھی اس کی ذات سے اشعر کو کون سا فائدہ تھا جو وہ اسے جیل جانے سے بچاتا

وہ دروازہ کھٹکھٹائے بغیر اندر داخل ہوئی اور شاید یہی بات اشعر کو بہت غصہ دلا گئی تھی مس نمیش آپ کو اتنی تمیز نہیں ہے کہ کسی کے روم میں آنے سے پہلے ناک کیا جائے دوبارہ باہر جائیں اور دروازہ کھٹکھٹا کر میری اجازت کے بعد اندر داخل ہوں اس کے انداز سے کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ مزاق کر رہا ہے مطلب وہ اس کی اتنی بےعزتی کر رہا تھا لیکن اس وقت اس کے ذہن پر جیل جانے کا خوف زیادہ سوار تھا

وہ باہر گئی دروازہ کھٹکٹایا اشعر کی آواز پر وہ پیر پھٹکتے واپس آفس میں آئی اور بنا کسی کو مخاطب کیے کافی بنانے لگی ۔

آشعر کو اس کا غصے سے بھرپور چہرہ دیکھ کر بہت مزا آ رہا تھا ۔

تھوڑی دیر میں وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے

نمیش کو اشعر کے آفس میں ہی  ٹییل کرسی دی گئی تھی یہ بات تو وہ واثق اسے  بتا ہی چکا تھا ۔

آپ نے مجھے دھوکہ دے کر میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا ان کے جاتے ہی وہ غصے سے بولی

اور تم جو شوہر کو بتائے بغیر اس طرح نوکریاں تلاش کرنے لگی تھی اس کا کیا وہ بھی اسے دیکھ کر کہنے لگا تو ایک پل کے لئے شرمندہ ہوئی ۔

لیکن پھر سوچا کہ اس سے جان  چھڑانی ہے تو پھر شرمندگی کیسی وہ سر اٹھا کر بولی

تو کیا ساری زندگی آپ کے سہارے پر بیٹھی رہوں گی آج نہیں تو کل مجھے نوکری کرنی پڑے گی

تم میری بیوی ہو نمیش میں زندگی بھر تمہارے ساتھ ہوں تمہیں ان نوکریوں کی ضرورت نہیں ہے وہ سمجھا رہا تھا

 مجھ سے فالتو کی باتیں مت کریں میں صرف یہاں کوفی بنانے کے لیے رکھی گئی ہوں اس کے احساس دلانے پر وہ چڑ کر بولی کیوں کہ دل اب بھی یہی کہہ رہا تھا اشعر شاہ اتنا اچھا نہیں جتنا بن رہا ہے

اس کا انداز ایسا تھا کہ اشعر کو شک ہوا کہ باس وہ ہے یا سامنے بیٹھی لڑکی ۔

اشعر نے سارا دن اسے بہت زیادہ تنگ کیا تھا

 اسےخود بھی بہت مزہ آ رہا تھا نمیش کا چہرہ سرخ ٹماٹر ہو رہا تھا

لیکن اشعر باز نہیں آیا شادی کے پہلے دن سے وہ اسے تنگ کر رہی تھی

 اب آخرکار اشعر کو اچھا موقع ملا تھا اسے تنگ کرنے کا تو وہ اسے کیسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔

صبح سے افس میں جو بھی آیا تھا اشعر نے سب کے لیے کافی اسی سے بنوائی تھی

کافی بناتے بناتے اس کے ہاتھ سچ میں تھک گئے تھے

 لیکن اب اس کا یہ کام تھا جو اس نے کرنا تھا

وہ تو اس وقت کو پچھتا رہی تھی جب اس نے ان پیپرز پر سائن کئے کیا سوچ کے اتنی خوشی سے اس نے سائن کر دیے تھے

 کیا وہ اتنی بے وقوف تھی کہ اشعر کی چال کو سمجھ نہیں آتی ۔

 اللہ جی یہ سب خواب بنا کر مجھے نیند سے جگا دیں اس نے دل سے دعا کی تھی لیکن یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی

لڑکی تمہیں سنائی نہیں دے رہا میں کب سے تمہیں کوفی کا کہہ رہا ہوں

اشعر نے اونچی آواز میں کہا تھا کیونکہ وہ اپنے ہی خیالوں میں کیوٹ کیوٹ فیس بنا رہی تھی اور اشعر بے چارے کے دل کی دھڑکن ہلا رہی تھی ۔

یہ لڑکی کیا ہوتا ہے

 میرا نام نمیش ہے نمیش

اور بہتر ہوگا کہ آپ مجھے میرے نام سے پکارے ورنہ آپ کو آپ کے اس افس کے ساتھ اٹھا کر باہر پھینک دوں گی

وہ انتہائی غصے سے کیا بول رہی تھی یہ تو وہ خود بھی نہیں سمجھتی تھی وہ غصے سے کیا کہتی تھی اسے خود بھی پتا نہیں ہوتا تھا ۔

یار مجھے تو ٹھیک ہے لیکن میرے آفس کو کیسے اٹھا کر باہر پھینکوگی

 وہ سیریس انداز میں پوچھنے لگا جبکہ اس کی حالت اسے بہت مزہ دے رہی تھی ۔

آپ میرے ساتھ فضول باتیں نہ کریں میں یہاں صرف کافی بنانے کے لیے آئی ہوں یہ بات اس نے صبح سے اب تک اسے تقریبا نوے بار یاد دلائی تھی۔

ہاں تو وہی تو کہہ رہا ہوں کہ فضول بحث مت کرو بلکہ کافی بناو میرے لیے اشعر بھی کہاں چپ رہنے والا تھا جب کہ اس کے اس باس والے انداز پر اندر سے کھولتی رہ گئی

اب اشعر نے سوچ  لیا تھا کہ اب وہ اسے اسی کے انداز میں ڈیل کرے گا یہ لڑکی آسانی سے ہاتھ نہیں آنے والی اسی لئے اشعر نے اسی کا انداز اپنا لیا تھا

جو اس کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہو رہا تھا وہ سارا دن اس کے سامنے رہے گی تو کوئی بھی بیوقوفی نہیں کر پائے گی وہ تو شکر تھا چچا کا جنہوں نے پہلے ہی اسے فون کر کے بتا دیا کہ نمیش نوکری کی تلاش کر رہی ہے ۔

اور ایسے میں اشعر نے ان سے کہا کہ وہ اسے اسی کے آفس میں بھیج دیں وہ سب سنبھال لے گا اور اس نے سب کچھ سنبھال لیا تھا

°°°°°°°°

سنو نمیش پلیز تھوڑی دیر یہیں رک جاؤ ہم دونوں ساتھ چلیں گے

 وہ چھ بجے اٹھتے دیکھ کر بولا

 سب لوگ ہی جا رہے تھے تو وہ یہاں کیوں رکتی ۔

مجھے آپ کے ساتھ  نہیں جانا میں خود کر جا سکتی ہوں

 وہ نخرے دکھاتے ہوئے بولی جب اشعر نے اس کا ہاتھ تھام لیا

یار تھوڑی دیر رک جاؤ دونوں ساتھ چلیں گے

وہ اسے سمجھا رہا تھا

سردی کی شام کے اندھیرے میں اسے اکیلے گھر نہیں بھیج سکتا تھا کیونکہ شادی کے ان پندرہ سولہ دنوں میں وہ اسے اچھے سے تک جان چکا تھا کہ وہ کتنی بے وقوف ہے اور وہ اب اسے کسی بھی قسم کی بیوقوفی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا ۔

دیکھیں مسٹر باس آپ باس میرے صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک ہیں اس کے بعد میں کیا کرتی ہوں آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے

وہ صبح سے ہی اس پر تپی ہو گئی تھی اب غصہ تو بنتا تھا

بالکل ٹھیک کہا تم نے میں تمہارا باس صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک ہوں اس کے بعد میں تمہارا ہزبنڈ ہوں اور ہزبنڈ کیا کرتے ہیں ایک جھلک تو بنتی ہے وہ اس گردن میں ہاتھ ڈالتا اگلے ہی لمحے اس کے لبوں کو قید کر چکا تھا

یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ نمیش کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا ۔

لیکن وہ اسکو اپنے ساتھ اس طرح سے فری نہیں کر سکتی تھی اس کے اس انداز پر جہاں اس کا دل بری طرح سے دھڑکا تھا وہیں اس نے اپنے نازک ہاتھ کے مکے اس کے سینے پر برسانا شروع کر دیے لیکن وہ تو شاید لوہے کا بنا تھا جس پر کوئی اثر نہ ہوا ۔

جب کچھ لمحوں کے بعد اس نے اس کے لبوں کو اپنی دسترس سے آزاد کیا تو نمیش  زمین پر دیکھنے لگی شرم کے مارے نظر تک نہیں اٹھاپا رہی تھی دل۔الگ بے ترتیب ہو رہا تھا لیکن وہ اسے معاف کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی اسی لئے غصے سے بولی

آپ ایک انتہائی چھچھوڑے اور آوارہ آدمی ہیں

 کچھ لمحات کے بعد بولنے کے قابل ہوئی یا تو یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلتے تھے اور اشعر کا تو اختیار قہقہ بلند ہوا

کیا کروں جان تمہیں دیکھ کر ہو جاتا ہوں ویسے بھی بیوی کے ساتھ یہ سب کچھ الاو ہے نہ وہ مسکرا کر کہتا ہے ایک بار پھر سے اس کے قریب آیا تھا

اگر تم نے میری بات نہیں مانی اور میرے فارغ ہونے سے پہلے تو افس سے باہر نکلی تو آج کی رات میں اپنے تمام وعدے بھول جاؤں گا یہ دھمکی تھی یا کچھ اور لیکن نمیش پر اثر کر گئی تھی

وہ پلٹ کے باہر نکل گئی لیکن گئی کہیں نہیں تھی وہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی اور اشعر کو پتا تھا اور کچھ نہ سہی لیکن یہ دھمکی ضرور دکھائے گی

°°°°°°°°

کام سے فارغ ہوتے ہوتے آٹھ بج چکے تھے

نمیش تو بہت غصے میں تھی لیکن جیسے ہی اشعر نے اسے چلنے کو کہا تو وہ اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔

پہلے تو بند کمرے میں اس نے کس کیا تھا یہ نہ ہو کہ یہاں سب کے سامنے شروع ہو جائے یہ لفنگا

 ۔وہ دل ہی دل میں کہتی اس کے ساتھ افس سے آنے پر بھی کچھ نہیں بولی تھی وہ اس کے ڈر کو سوچ کر مسکرا دیا

چلو آئس کریم کھاتے ہیں وہ گاڑی ایک آئس کریم پارلر کے سامنے رکھتے ہوئے بولا

مجھے کچھ نہیں کھانا گھر چلے وہ غصے سے بولی تھی ۔

ایک تو آفس میں اس نے زبردستی ڈنر کروایا تھا وہ بھی وہی دھمکی دے کر اور اب گاڑی یہاں روک دی تھی جبکہ نمیش کو اس وقت بہت نیند آ رہی تھی ۔

یار اتنا گھبرا کیوں رہی ہو پیسے تمہاری تنخواہ سے نہیں کاٹوں گا وہ ہنستے ہوئے بولا تھا نمیش نے انتہائی غصے سے اس کی طرف دیکھا تھا ۔

آپ کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ یہ سب کچھ

میں کہ چکی ہوں نا میں یہ زبردستی کا رشتہ نہیں نبھانا چاہتی میں مجبور کی مسٹر اشعر وہ وقت میرے لئے مشکل تھا لیکن مجھے نہیں لگتا تھا کہ آپ اس وقت کو لے کر مجھے یوں بلیک میل کریں گے ۔

اس دنیا میں کم لڑکیاں نہیں ہیں جوآپ کی عیش و عشرت پر مرتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے آ جائیں گی اور نہ ہی اس دنیا میں خوبصورتی کی کمی ہے تو کیوں آپ میرے پیچھے پڑ رہے ہیں کیوں آپ میری مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کیا بگاڑا ہے میں نے آپ کا  نا چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی

 وہ پچھلے پندرہ سولہ دن سے اشعر کو تنگ کر رہی تھی اور بس ایک دن وہ اشعر کو برداشت نہیں کر پائی وہ بے اختیار مسکرا دیا

میں جانتا ہوں نمیش اس دنیا میں کم لڑکیاں نہیں ہیں جو میری دولت کے پیچھے کھینچی میرے پاس چلی آئیں گی اور نہ ہی اس دنیا میں خوبصورت لڑکیوں کی کمی ہے ۔

لیکن تمہیں پتا ہے تم وہ واحد لڑکی ہو جسے دیکھتے ہی مجھے لگا کہ تن نے دل کی دنیا ہلا دی ہے تمہیں روتے دیکھ کر ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کروں گا وہ پہلی نظر کا پیار کہتے ہیں نہ وہ ہوگیا تھا مجھے تم سے

جانتا ہوں تم ان سب باتوں پر یقین نہیں کرو گی مجھے ایک برا انسان سمجھو گی نمیش میں چاہتا تو اس وقت تمہاری مجبوری کا فائدہ کسی اور انداز میں بھی اٹھا سکتا تھا میں نے تمہیں نکاح کی آفر کی جو تمہیں ٹھیک لگی تم نے نکاح کے لیے حامی بھر لی گئی لیکن اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی ۔ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ وقت مشکل تھا

اس وقت تم کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں تھی لیکن اب تمہاری ان بے وقوفیوں کا میں کیا مطلب نکالوں کیا خرابی ہے مجھ میں جو تم اس رشتے کو قبول نہیں کر پا رہی میں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دے سکتا ہوں نمیش لیکن تم مجھے ایک موقع نہیں دے سکتی

تم میری بیوی ہو نمیش میں جب چاہوں جو چاہوں کر سکتا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی میں تمہیں اس رشتے کے لیے وقت دے رہا ہوں تاکہ تم سنبھل جاؤ اس رشتے کو سمجھ جاؤ لیکن تم اپنی بیوقوفیوں اور اپنی سوچوں کی وجہ سے نہ تو اس رشتے کو قبول کر پا رہی ہو اور نہ ہی مجھے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو ۔

میں تم سے محبت کرتا ہوں یار اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھ پا رہی ہواب اشعر کو غصہ آنے لگا تھا اور وہ اس کے غصے سے خوفزدہ ہو گئی تھی

میں اتنی خوبصورت نہیں ہوں وہ نظر جھکا کر منمنائی تھی

مجھے کوئی خوبصورت لڑکی نہیں چاہئے نمیش مجھے ایک ایسی لڑکی چاہیے جو مجھ سے پیار کرے ۔وہ اب بھی سمجھا رہا تھا ۔

آپ کو کوئی بھی لڑکی مل جائے گی جو آپ سے پیار کرتی ہے آپ اتنے دولت مند ہیں اتنے امیر ہیں آپ وہ پھر بولی تھی

عیش و عشرت شہرت دولت سے تو مجھے بہت ساری لڑکیاں مل جائیں گی لیکن ایسا دل جو پیار کرے وہ تمہارے علاوہ اور کہیں سے نہیں ملے گا وہ جیسے آج اسے کسی بھی طرح اپنی بات سمجھانا چاہتا تھا

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا وہ اتنی دیر کے بعد بولی بھی تو کیا ۔۔

تو سمجھا تو رہا ہوں میری جان سمجھنے کی کوشش کروں گی تو کچھ سمجھ آئے گا نہ میں جانتا ہوں تم مجھ سے پیار نہیں کرتی اسی لیے یہ سب کچھ کر رہی ہو لیکن تم مجھے ایک موقع تو دو میں تم سے بس ایک موقع مانگتا ہوں تمہیں خود مجھ سے پیار ہو جائے گا ۔

نمیش تم مجھ سے پیار مت کرو بس میرے پیار کو سمجھو میں تمہارے ساتھ کوئی زبردست نہیں کروں اور نہ ہی تمہیں فورس کروں گا ۔ مجھے تھوڑا وقت دو اگر میں تمہارے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا پایا تو وہی ہو گا جو تم چاہو گی

ٹھیک ہے لیکن اپنی بات پر قائم رہیے گا وہ اس کی بات کاٹ کر بولی وہ اشعر نے اداسی سے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا. 

اب بھی وہ اس کی بات کو سمجھنے کی بجائے اپنے انداز میں لے چکی تھی اس کے دماغ میں اس وقت بھی اشعر کو چھوڑنا ہی تھا لیکن اشعر محبت میں مجبور تھا اسی لیے چھپ ہو گیا شاید محبت ایسی ہی ہوتی ہے

°°°°

 °°°°°°°

جس دن سے اشعر نے اس کے سامنے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا تھا اس نے بھی اسے تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا

 وہ ایسا کوئی کام نہیں کر رہی تھی جس سے اشعر کو شک ہو کہ وہ ابھی تک اس کے معاملے میں اپنے دل کو مطمئن نہیں کر پائی ۔

اشعر نے اس سے ایک مہینے کا وقت مانگا تھا جس میں ایک ہفتہ گزر چکا تھا

وہ دونوں صبح ایک  ساتھ آفس جاتے شام کو ان کی ایک ساتھ ہی واپسی ہوتی وہ سارا دن اشعر کے ہی آفس میں رہتی تھی اس کا سارا دن کافی بورنگ گزرتا

کیونکہ اشعرزیادہ تر اپنی میٹنگ میں ہی مصروف رہتا ۔

آفس میں اس کا زیادہ تر وقت اکیلے ہی گزرتا تھا کیونکہ اشعر میٹنگ کے سلسلے میں باہر رہتا باقی سب کچھ تو ٹھیک تھا

لیکن اسے آفس میں موجود اشعر کی سیکٹری  سومیہ  بالکل پسند نہیں تھی کہنے کو تو بہت ماڈرن بولڈ اور اسٹائلش لڑکی تھی

لیکن اس نے نوٹ کیا تھا کہ وہ اشعر کے ساتھ کچھ زیادہ ہی چپکتی ہے ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتے رہتی

کبھی ایک کام تو کبھی دوسرے کام کے لیے آفس میں آتی اور سب سے بُری بات جو اسے لگتی تھی وہ تھی اس کا بے تکلفی سے اپنے لئے کافی بنانے کا آرڈر دینا ۔

اس وقت بھی وہ دونوں ایک ساتھ ہی کسی میٹنگ کے سلسلے میں باہر جا چکے تھے جب کہ وہی اندر بیٹھی بور ہو رہی تھی ۔ایک بار اپنے لئے کافی بنا کر پئیں اور پھر اشعر کا پورا اآفس چیک کرنے لگی اب تو اسے ایک ایک کی زبانی یاد ہو چکی تھی کیونکہ اس کا سارا دن ہی یہی پر گزرتا

کہنے کو تو اشعر اس کے سامنے محبت کے بہت بڑے بڑے دعوے کرتا تھا لیکن اس کے اکیلے پن کی اسے اتنی سی بھی فکر نہیں تھی

سارا دن نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا رہتا ہے مجال ہے جو ایک بار پوچھ لے کہ کیسی ہو بیوی ۔۔۔۔!لل

وہ اپنی سوچ میں بری طرح سے چونکی تھی

پھر اگلے ہی لمحے اٹھ کر واش روم کی طرف بھاگ گئی تھی وہ واش بیسن میں تین بار کلی کرکے اس نے خود کو لعنت بھیجی تھی

حد ہوتی ہے نمیش کیا تیری اتنے برے دن آگئے ہیں کہ تو اس شخص کو اپنا احساس دلائے گی ۔وہ غصے سے بولی

پھر خود کو مطمئن کرنے کے لئے بول دیا تو کیا ہوا اتنا تو سوچ لے سکتی ہوں اس کے بارے میں نکاح ہوا ہے یہ تو لیگل ہے

اور کون سا صرف سوچنے سے وہ میرا شوہر ہو جائے گا

میں مانوں گی تو ہو گا نا

وہ میرا کبھی کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایک امیر آدمی ہے اور امیر آدمی کبھی کسی کا نہیں بن سکتا اس نے اپنی سوچوں کو پھر سے خود پر سوار کرتے ہوئے اپنی سوچ پر قائم رہنے کی قسم کھائی تھی

 کیونکہ اب اشعر کی محبت بھری نگاہیں محبت بھرا لمس اور اس دن کا اظہار محبت اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر گیا تھا

°°°°°°°°

یہ کیا تم صبح صبح کہاں جانے کی تیاری کر رہی ہو

 آج تو میں نے سوچا تھا ہم ایک ساتھ لنچ کریں گے کہیں باہر جاکر آج سنڈے تھا اور وہ نمیش کے ساتھ باہر جانے کی پلاننگ کر رہا تھا جب صبح صبح ہی وہ محلے جانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی ۔

آپ نے مجھے پہلے نہیں بتایا محلے میں میلاد ہے اور میں تو وہاں ضرور جاؤں گی

آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا تومیں پہلے پلیننگ نہیں کرتی یا خالہ کو انکار کر دیتی اب تو مجھے جانا ہوگا میں نے وعدہ کیا ہوا ہے ان کے ساتھ

نمیش ایسے بول رہی تھی جیسے وہ زبردستی سے اپنے ساتھ لنچ پر لے جائے گا ۔

اچھا تم میلا پہ جا رہی ہو یہ تو بہت اچھی بات ہے جاو ثواب کماو  باہرتو ہم بعد میں بھی جا سکتے ہیں یہ زیادہ اہم ہے ویسے میں بھی اپنے دوست کی طرف نکلنے والا تھا تم آرام سے جاؤ ہم نیکسٹ ویک لنچ باہر کریں گے اس کے گھبرانے پر اشعر نے اسے ریلیکس کرنے کے لیے کہا ۔

ہاں وہی تو میں کہہ رہی ہوں لنچ تو ہم کبھی بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ ثواب کا کام ہے میلاد میں شرکت کرنا تو مجھے نکلنا چاہیے یہ نہ ہو کہ وہاں میلاد شروع ہو جائے نمیش جلدی جلدی اس کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتی تھی ۔

اور کچھ نہ سہی لیکن وہ اس کے لائے ہوئے کپڑے استعمال کرنے لگی تھی وائٹ فراک پر وائٹ دوپٹے کو حجاب کی صورت میں کیے ہوئے وہ آسمان سے اتری کوئی حورہی لگ رہی تھی ۔چہرے پر ایک پیارا سانور تھا جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا ۔

میلاد میں میرے لئے بھی دعا کرنا ہو سکتا ہے میری لئے بھی کچھ بہتری ہو جائے ۔

ہاں کیوں نہیں میں دعا کروں گی کہ اللہ آپ کی ہر مراد پوری کرے وہ جلدی جلدی کہتی باہر نکل گئی تھی اشعر اس کی دعا سن کر مسکرا دیا ۔

اب تو میری مراد  تمہیں پا کر ہی پوری ہو گئی نمیش اشعر شاہ ۔وہ زیر لب بڑبراتے ہوئے اوپر کمرے کی طرف آیا ۔ آخر ایسی کیا بات تھی کہ میں اس کو اشعر پر بھروسہ نہیں کرنے دے رہی تھی کیا کمی تھی اس میں کہ نمیش اس طرح اسے نظر انداز کر رہی تھی

 اس کترانہ گھبرانا اشعرکی نگاہوں سے چھپا ہوا نہیں تھا

ابھی وہ نہا دھو کر فریش ہوا ہی تھا کہ باہر اس کے ملازم نے بتایا کہ کوئی لڑکی آپ سے ملنے آئی ہوئی ہے

 کسی لڑکی کا جان کر وہ پریشان ہوا تھا کہیں فرحت تو نہیں آ گئی وہ سوچتے ہوئے نیچے آیا تو سامنے ایک انجان لڑکی کھڑی تھی جو مسکرا رہی تھی دیکھنے میں کافی خوبصورت تھی لیکن کون تھی یہ اشعر کے لیے یہ چہرا بالکل انجان تھا

°°°°°°°°

السلام علیکم میرا نام فرح ہے نمیش کی دوست ہوں میں آپ مجھے نہیں جانتے لیکن بیٹھے میں آپ اپنا تعارف کرواتی ہو یقینا میری امد آپ کو بری نہیں لگے گی وہ مسکراتے ہوئے بولی یہ خوش اخلاق سی لڑکی اشعر کو بھی بری نہیں لگی تھی اور نمیش کا حوالہ تو اسے اور بھی اچھا لگا تھا اس نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے اس کے سلام کا جواب دیا

 وعلیکم سلام بیٹھے وہ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا تو وہ مسکرا کر بیٹھ گئی ۔

نمیش تو محلے گئی ہوئی ہے شاید آپ کو پتہ نہیں وہاں کوئی میلاد ہے وہ کہنے لگا تو فرح مسکرائی

 جی میں جانتی ہوں دراصل جو بات میں آپ سے کرنے آئی تھی اس کے لئے نمیش کا یہاں نہ ہونا زیادہ بہتر ہے ۔

کیا مطلب میں سمجھا نہیں ۔

میں آپ سے نمیش کے بارے میں چند باتیں کرنے آئی ہوں جو جان کر شاید آپ کو اچھا لگے گا شاید آپ کو اچھا نہ لگے لیکن کچھ ایسی باتیں ہیں جن کا جاننا ضروری ہے ۔ فرح کا انداز اسے متجسس کر گیا تھا وہ اپنی بیوی کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا ۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نمیش کوئی بہت ناشکری لڑکی ہے اس کا یوں اتنے امیر آدمی سے نکاح ہو گیا آپ کا اتفاق سے ملنا نکاح کرنا مشکل میں اس کا ساتھ دینا لیکن سب کے باوجود بھی نمیش آپ کی باتوں کو سمجھنے کے بجائے اپنی بیوقوفیاں سرانجام دے رہی ہے  آپ کی قدر نہیں کر رہی اتنی دولت شہرت ہے آپ کے پاس لیکن اس کے باوجود بھی آپ  اس کے دل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔

آپ یقینا اسے ایک بے وقوف ناشکری عقل سے پیدل قسم کی لڑکی سمجھتے ہوں گے لیکن وہ ایسی نہیں ہے ۔کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ آپ پر بھروسہ کیوں نہیں کر پا رہی فرح اس سے پوچھنے لگی تو وہ فورا میں سر ہلا گءیا

 میں اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا کیوں اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجودبھی میں اسے مانا نہیں پا رہا کیوں مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کر پا رہی میں جانتا ہوں کہ وہ جانتی ہے کہ نہ اس سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی کیوں کہ میری محبت کو نظر انداز کرتی ہے  کیوں وہ میرے ساتھ کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول نہیں کر پا رہی ۔

میں نے اس کی پچھلی زندگی کے بارے میں سب کچھ پتا لگایا ہے میرے اندر یہ ڈر تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہو لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے اس کی زندگی میں مجھ سے پہلے اور کوئی انسان نہیں تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ میری چاہت کو جو نظر انداز کر رہی ہے

آج پہلی بار اشعر نے کسی کے سامنے نمیش کا یوں ذکر کیا تھا ۔

کیوں کہ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرپاتی خاص کر کسی امیر شخص پر تو بالکل بھی نہیں فرح نے اپنی بات کا آغاز کیا تو وہ خاموش ہو گیا

°°°°°°°°

 یہ تین سال کی بات ہے ہم لوگوں نے نیا کالج جانا شروع کیا تھا  ہمارے کالج میں ایک لڑکا پڑھتا تھا ہم لوگوں کو پتہ تھا ہماری دوست سعدیہ اس کو پسند کرتی ہے

 امیر ہونے کی وجہ سے سعدیہ اپنی اوقات میں رہتی تھی باسل کو پسند کرنا ایک الگ بات تھی لیکن اس کے ساتھ زندگی کے خواب سجانا صرف خواب ہی تھا یہ سعدیہ بہت اچھے طریقے سے جانتی تھی وہ نمیش کے سامنے اکثر اپنی محبت کا اظہار کر دیتی ۔

نمیش نے بہت بار اس سے کہا کہ وہ باسل سے اپنی محبت کا ذکر کرے لیکن سعدیہ خاموش ہی رہتی ہے ایک دن اتفاق ہی سا ہوا کہ باسل  خود اس کے سامنے آ کر پورے کالج کے سامنے اسے پرپوز کرنے لگا سعدیہ کی خوشی کی تو کوئی انتہا ہی نہیں تھی ہم سب کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا

پورے کالج میں ان کی لو سٹوری کے چرچے ہونے لگے نمیشں بھی اپنی بیسٹ فرینڈ کے لئے بہت خوش تھی لیکن ایک دن جب سعدیہ نے شادی کا ذکر کیا تو اس کے الفاظ سن کر سعدیہ جیسے زندہ درگور ہو گئی ۔

اس نے کہا کہ وہ صرف سعدیہ کو ایک شرط کے طور پر ڈیٹ کر رہا تھا اس نے اپنے دوست کے ساتھ شرط لگائی تھی کہ وہ سعدیہ کو ایک مہینے تک ڈیٹ کرے گا اور اب اس کی شرط پوری ہو چکی ہے باسل نے اسے اس طرح سے روندھا کے شاید ہی وہ کسی پر یقین کر پاتی

وہ بہت کوشش کے باوجود بھی اپنی شرط کو پورا نہیں کر پایا وہ اس کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کر گیا لیکن اس کی عزت کے ساتھ نہیں کھیل سکا ۔اس دن نمیش کے دل میں باسل کے ساتھ ساتھ امیر لوگوں کی نفرت بھی پیدا ہونے لگی

وہ اکثر کہتی کے امیر لوگ صرف  غریب لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں اب کسی امہر شخص پر یقین کرنا اب نمیش کے بس سے باہر تھا

سعدیہ بالکل خاموش ہو چکی تھی ایک دن اس کے گھر کسی بہت امیر گھر سے اس کا رشتہ آیا اس کے ماں باپ نے اس کی مرضی جانے بغیر اس کی اس شخص سے شادی کر دی شادی کی تقریبا چھ ماہ تک سب کچھ ٹھیک چلا سعدیہ بھی اس نے رشتے کو قبول کرکے زندگی میں آگے بڑھ چکی تھی لیکن باسل کا سایہ اب تک اس کی زندگی سے ختم نہیں ہوا تھا ایک دن اتفاق سے باسل سعدیہ کے گھر چلا گیا کیونکہ وہ اس کے شوہر کا دوست تھا اس نے سعدیہ کے بارے میں سب کچھ بتایا

اس کے شوپر نہ صرف سعدیہ کو طلاق دے دی بلکہ سعدیہ کو اتنے برے طریقے سے مارا کہ اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گیا اور اسی انفیکشن سے سترہ دن کے بعد سعدیہ کی موت ہوگئی ۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سعدیہ کو اپنے گناہ کی سزا ملی تھی اس نے ایک نامحرم سے محبت کرنے کی غلطی کی تھی ۔

لیکن اس معصوم نے تو اپنے محرم سے بھی محبت کر لی تھی اور اس کا محرم بھی اسے رسوا کر گیا میں جانتی ہوں کہ آپ یہ سب سوچ رہے ہوں گے کہ آپ ایسے شخص نہیں ہیں آپ نے تو سچے دل سے اس کا ہاتھ تھاما ہے لیکن وہ معصوم تو ان سب باتوں کو نہیں جانتی نہ ۔اس کے لیے ہر امیر شخص باسل جیسا آوارہ اور ہر شوہر سعدیہ کی شوہر کی طرح ذلیل ہے ۔

میں کچھ دن سے یہاں نہیں تھی جب مجھے انکل کی موت پتہ چلا بہت افسوس ہوا لیکن یہ بھی پتہ چلا کہ ایک اچھے شخص نے نمیش کا ہاتھ تھام لیا ہے لیکن کل میرا چچا کے گھر جانا ہوا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں بھی حالات بہت خراب ہیں

 میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ نمیش کے لئے اپنے دل میں کوئی بھی بدگمانی رکھیں اسی لیے میں یہاں آئی آپ کو یہ سب کچھ بتانے کے لئے پلیز نمیش سے بدگمان مت ہوئیے گا اس کے لئے یوں کسی پر بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ اس کا ساتھ ضرور نبھائیں گے ۔فرح کہتے ہوئے اٹھ گئی تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی اٹھا

فرح میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا تم نے مجھے نمیش کے بارے میں سب کچھ بتا کر بہت اچھا کیا ۔

اپ نمیش کو چھوڑیں گے تو نہیں نہ وہ بہت اچھی ہے بس تھوڑی سی بے وقوف ہے فرح کے لب و لہجے میں اپنی سہیلی کے لئے محبت تھی ۔

اب تو میں اسے پہلے سے زیادہ شدت سے اسے مناؤں گا اسے مجھ سے محبت کرنی ہی پڑے گی اس نے مسکرا کر کہا تو فرح بھی مسکرائی اور اپنی سہیلی کے اچھے نصیبوں کے لیے دعا مانگی

°°°°°°°°

شام کو نمیش گھر آئی تو اس کے لیے ایک بہترین ڈنر تیار تھا

اشعر نے اسے بلایا تو وہ اسے سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی

سوچا لنچ  نہ سہی ہم ڈنر تو ہی کر سکتے ہیں ۔وہ مسکراتے ہوئے انداز میں بولا تو نمیش میں خاموشی سے اٹھ کر باہر آ گئی ۔

ڈنر خوشگوار ماحول میں ہوا اشعر اسے کل کے میٹنگ کے بارے میں بتانے لگا۔

مطلب کیا کل آپ اس صبح شمائلہ کے ساتھ میٹنگ پر جائیں گے اور میں سارا دن بور ہوں اور یہ چڑیل آپ کے ساتھ اتنا زیادہ چپکتی کیوں ہے زہر لگتی ہے مجھے وہ ضرورت سے زیادہ سٹائلش شمائلہ  اس کا انداز ایسا تھا کہ اشعر بے ساختہ مسکرا دیا

ارے یار وہ میری سیکٹری ہے میرے ساتھ کام کرتی ہے تو اسے رہنا تو میرے ساتھ ہی ہے نا اسی لئے اس کا میرے ساتھ جانا ضروری ہے لیکن اگر تم زیادہ بور ہو رہی ہو تو میرے ساتھ آ سکتی ہو اشعر نے آفر کی تھی ۔

ہاں میں آپ کے ساتھ چلوں گی لیکن یہ مت سوچیے گا کہ میں اس شمائلہ سے جیلس ہو رہی ہو اس سے جلتی ہے میری جوتی اس کی زبان غلط جگہ پھسلی تھی اشعر بے اختیار اسے دیکھتا چلا گیا ۔

مطلب بات جلدی جیلسی تک آ پہنچی تھی اگلا سفر بھی اب مشکل نہیں تھا ۔

میں نے کب کہا تم سے کہ تم جیلس ہو رہی ہو یہ ایسا کچھ بھلا تم کیوں جلس ہونے لگی تم کون سا مجھ سے پیار کرتی ہو یا مجھے اپنا شوہر مانتی ہوں   میں تو صرف بائے داوئے ایک بات کہہ رہا تھا اشعر نے مسکراتی نگاہیں اس کے چہرے پر جمائے ہوئے کہا ۔

ہاں تو میں نے بھی آپ کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بول دیا غلط فہمی تو کسی کو بھی ہو سکتی ہے ہو سکتا تھا آپ کو ہو جائے نمیش جھینپ کر بولی

ہاں غلط فہمی والی بات تو تم نے بالکل ٹھیک کیہی غلط فہمی تو کسی کو بھی کبھی بھی ہو سکتی ہے اب دیکھو نہ بیٹھے بیٹھے مجھے یہ غلط فہمی ہو گئی کہ میرا شمائلہ کے ساتھ جانا تمہیں برا لگا ۔

نہیں نہیں آپ کو اس طرح کی کوئی غلط فہمی پالنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے کچھ بھی برا نہیں لگا آپ چاہے اس کے ساتھ سیر سپاٹے کریں یا اسے باہر گھمانے لے کر جائے اس کے ساتھ  ڈیٹ ماریں یا وہ شمائلہ سارا دن آپ کے ساتھ چپکی رہے آئی وانٹ کیئر بس میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ وہ ورکر ہے اور ورکر کا کام ہوتا ہے کام کرنا نہ کہ ہر وقت بہت کے ساتھ چپکے رہنا ۔ہمیں  اپنے ورکرز کو ایک لمنٹ میں رکھنا چاہیے ۔وہ اس کے سامنے بات مکمل کرتے اپنے دل کی ساری  بھڑاس نکال چکی تھی ۔

ہاں یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن وہ میری سیکٹری ہے اور سکٹیری کے تھوڑا قریب ہی رہنا پڑتا ہے بلکہ  کافی قریب رہنا پڑتا ہے ۔وہ کافی کو لمبا کھنچتے ہوئے اس سے مزید بات کرنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا اور انہی باتوں میں اسے نمیش کے اندر کا حال بھی پتہ چل رہا تھا

لیکن اس کی بات سن کر میں اس کو نہ جانے کیوں نمیش کو تپ چڑ گئی تھی جو اسے گھور کر دیکھنے لگی ۔

لیکن اگر تم چاہتی ہو تو میں پھر بھی کوشش کروں گا میں اس سے دور رہوں وہ مسکراتے ہوئے بولا جب کہ ادھر تو اس کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا ۔

آپ اس سے دور رہے ہیں یا آپ اس کے ساتھ چپک کر بیٹھیں میری بلا سے بھاڑ میں جائیں ایک تو فضول میں میرے گلے پڑگئے ہیں  ۔

مجھے بھاڑکا ایڈریس نہیں معلوم وہ اس کی بات مکمل ہوتے ہی بول پڑا

تو میں کیا کروں ۔۔۔!وہاں سے گھورتے ہوئے کہنے لگی

پلیز مجھے وہاں چھوڑ آؤ بلکہ اور دونوں ساتھ چلتے ہیں اسی بہانے لونگ ڈرائیو بھی ہو جائے گی۔وہ ذرا سا اس کی طرف جھک کر بڑے دلکش انداز میں بولا

مجھے آپ کے ساتھ جنت میں نہیں جانا تو بھاڑ میں کیا جاؤں گی آپنی اس شمائلہ کو لے کر جائیں وہ انتہائی غصے سے کہتی پیر پٹکتی منہ بناتی  اپنے کمرے کی طرف چلی گئی  جبکہ اشعر کا بے اختیار قہقہ اسے دور تک سنائی دیتا رہا ۔

°°°°°°

میں نے تم سے کہا تھا نہ کہ مجھے پارٹی پر جانا ہے ابھی تک تم نے میری ڈریس تیار نہیں کی کہاں ہے میرا سوٹ وہ غصے سے ان کے سر پر سوار تھے ۔

صوفیہ بیگم نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور پھر بتانے لگیں۔

آپ کا سوٹ تو میں نے صبح ہی آپ کے کمرے میں رکھوا دیا تھا شاید آپ نے دیکھا نہیں الماری میں ہے ۔

تو کیا بتا نہیں سکتی کب سے چلا رہا ہوں گنوار عورت پہلے جواب نہیں دے سکتی تھی ۔جب تک آ کر نہ پوچھو تب تک زبان نہیں ہلتی تمہاری وہ انتہائی غصے سے بغیر لحاظ کیے بولتے تھے ۔

شاہ جی آپ بھی کن باتوں میں لگ گئے چلیں  کتنا وقت ہو گیا ہے ہم پارٹی کے لیے لیٹ ہو جائیں گے ۔زریں نفس ساڑھی میں ان کے پاس ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہنے لگی ۔

جب کہ وہ ایک نظر انتہائی محبت سے زریں کے سراپے کو دیکھتے ہوئے صوفیہ بیگم کو اندر تک جلا گئے تھے ۔

ہاں چلو ویسے بھی یہاں بہت وقت برباد ہو گیا ہے فضول لوگوں سے بحث کرنے میں وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے  جتا رہے تھے کہ وہ ان کی زندگی میں ہمیشہ سے صرف ایک فالتو عورت ہے اور کچھ نہیں

زریں ایک طنزیہ نگاہ ان کی طرف دیکھتی اپنی ساڑھی سنبھالتے ان کے پیچھے پیچھے ہی کمرے کی جانب جا چکی تھی ۔

لیکن پھر مزید دس منٹ کے بعد ان کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آ رہی تھی ۔

میرے جوتے کہاں ہے ۔

میری ٹائی کہاں ہے ۔

فضول عورت گاڑی کی چابی کہاں رکھی ہے ۔

وہ انتہائی غصے سے ان کی عزت کو دو کوڑی کا کرتے ہوئے ہر بات میں انہیں ہی پکار رہے تھے ۔

وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھتی ہوئی ان کا سامان اپنے ہاتھ میں تھام چکی تھی اور اب ان دروازہ کھٹکھٹانے لگی ان کی کمرے میں ان کو دروازہ کھٹکھٹائے آنے کی اجازت نہیں تھی ۔

اجازت نہ ملنے پر وہ کمرے میں داخل ہوئیں اور ان کا سامان کی طرف بڑھنے لگی جبکہ زریں بیڈ پر بیٹھی اپنے پاؤں میں جوتے پہن رہی تھی ۔انہیں دیکھتے ہی نفرت سے نظریں پھیر گئی ۔

خود ساختہ نفرت ۔۔۔۔۔ جبکہ حق تو وہ ان کا لوٹ چکی تھی شوہر تو ان کا چھینا گیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے کبھی بھی اس عورت سے نفرت نہیں کی تھی اور اگر کی بھی تھی تو کبھی ظاہر نہیں کیا تھا ۔جس طرح سے وہ کھلے عام ان سے اپنی نفرت کا اظہار کرتی تھی ۔

اب وہ انہیں سوٹ کوٹ پہنا رہی تھیں ان دونوں سے بے نیاز زرین آپ نے تیاری مکمل کر رہی تھی ۔

انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ان کا شوہر اپنی پہلی بیوی کی طرف دیکھتا ہے یا اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی ان کی ساری ذمہ داری ان کی پہلی بیوی نے اٹھا رکھی ہے ۔

کیونکہ شاہ صاحب کو انہوں نے اس طرح سے اپنی طرف لگایا تھا ان کی نظر میں ان کی پہلی بیوی کی اوقات ایک نوکرانی سے بڑھ کر نہیں کی ۔

لیکن پھر بھی یہ ایک انتہائی کڑوا سچ تھا کہ وہ بے اولاد تھی اور اس خاندان میں شاہ صاحب کی بیوی ہونے کا رتبہ صرف اور صرف صوفیہ کو حاصل تھا ۔

°°°°°°°°

سچ تو یہ ہے کہ میں تم سے بہت خفا ہوں اور تم نے مجھے اپنی ابھی تک اپنی بیوی سے نہیں ملوایا ۔وہ فون پر اس سے بات کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے لگیں

 ایک وہی تو تھا جس کے سامنے وہ اپنے دل کی ہر بات کہہ سکتی تھی لیکن وہ بیٹا تھا وہ اپنے شوہر کی بے اعتنائی کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔

 ماما آپ کی بہو ابھی مجھے منہ نہیں لگاتی آپ سے اسے کیسے ملاؤں فلحال زیادہ تر ناراض ہی رہتی ہے اور آپ تو جانتی ہیں جن حالات میں شادی ہوئی ہے ۔وہ بات کرتے کرتے رک گیا انہیں تو پھر ساری بات مکمل بتا چکا تھا ۔

وہی تو مجھ سے ملاو اسے میں اسے بتاؤں گی کہ تم اسے کتنا چاہتے ہو اس سے کتنی محبت کرتے ہو تم پر نہ سہی لیکن تمہاری ماں پر یقین کرے گی ۔

انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو ان کی محبت پر وہ بھی مسکرا دیا ۔

مجھے یقین ہے ما ما وہ آپ کی بات پر ضرور یقین کرے گی لیکن مجھے تھوڑا سا وقت دیں میں بہت جلد اسے آپ سے ملوانے لے آؤں گا ویسے بھی اب حالات بدل رہے ہیں اور اس کے دل کی دنیا بھی میری طرف سے پلٹ رہی ہے اس نے مسکراتے ہوئے خوشخبری سنائی تھی 

یہ تو بہت اچھی بات ہے میری جان اس کا مطلب ہے کہ میں اپنی بہو کی گھر آنے کی تیاری کر لوں مسکراتے ہوئے کہا

ہاں بالکل تیاری کریں اور اپنے شوہر صاحب سے میری پٹائی کروانے کی بھی تیاری کرلیں کیونکہ وہ تو پیچھے پڑے ہوئے ہیں اپنی بیوی کی بھانجی کو میرے گلے ڈالنے کے لیے ۔ان کا بس چلے تو کہیں سے بھی مولوی بلا کر اس فرحت سے میرا نکاح پڑھوا دیں۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دیں۔

ان شاءاللہ جو بھی ہوگا بہتر ہوگا نکاح تو بہت بابرکت فریضہ  ہے جو تم نے کیا ہے وہ تو ایک بہت نیک کام ہے اور سب سے بڑھ کر تم اس لڑکی سے محبت کرتے ہو اس سے زیادہ بھلا اہم اور کیا بات ہو سکتی ہے تمہارے بابا تمہارے جذبات کو ضروری سمجھیں گے انہوں نے یقین سے کہا ۔

 °°°°°°°

وہ ان کے ساتھ آج میٹنگ پر آئی تھی شمائلہ کو اس کاساتھ آنا بالکل بے مقصد اور بے فضول لگا تھا وہ اپنے کام میں مصروف ہوں گے وہ بلا یہاں کیا کرنے والی تھی ۔بس بیکار میں ان کے ساتھ منہ اٹھا کر آ گئی شمائلہ کا تو آج اشعر کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے کا ارادہ تھا

وہ تو اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لنچ کرنے والی تھی اور یہ جھوٹ کہنے والی تھی کہ آج اس کی سالگرہ ہے تاکہ اشعر انکار نہ کر سکے اور کچھ نہ سہی کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے مروتاً وہ اس کے ساتھ ضرور آجاتا لیکن اس لڑکی نے سارا پلین چاپٹ کر دیا ۔

آفس سے نکلتے ہوئے وہ اسے کے ساتھ ساتھ آ کر فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی ۔نمیش کو تو کرنٹ لگا

وہ بلا اس کے شوہر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر کیوں بیٹھے۔ لیکن اس نے اشعرکو تو  خود ہی منع کردیا تھا کہ آفس میں وہ کسی کو بھی نہ بتائے کہ وہ اس کی بیوی ہے

وہ اس کے نام پر نہیں بلکہ اپنے نام پر آفس میں کام کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے اشعر نے بھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا آپنے نکاح کے بارے میں

لیکن وہ یہاں کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لیے غصے میں منہ بناتی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی دو گھنٹے کی میٹنگ تھی شمائلہ نے اسے باہر بیٹھنے کے لیے کہا

جبکہ اشعر اس سے پہلے ہی اندر جا چکا تھا اس کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا وہ ان کے ساتھ آئی ہی کیوں تھی اگر وہاں آفس میں بیٹھ کر وہ بور ہوتی تھی تو یہاں کون سا داتا دربار کا لنگر بٹ رہا تھا ۔جو باقی سب کھا گئے اور وہ رہ گئی ۔

میٹنگ سے جان چھوٹ گئی تو ان کی واپسی کا لمبا سفر شروع ہوا شمائلہ نے فرنٹ سیٹ دوڑ کھولنا چاہیی لیکن اس سے پہلے ہی نمیش اسے پیچھے کی طرف دکھا دیتی خود فرنٹ سیٹ پر سوار ہو گئی

وہ پیچھے میری طبیعت خراب ہوتی ہے مجھے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے اس نے کہا تو شمائلہ اسے گھور کر رہ گئی جبکہ اشعر نے مسکراتے ہوئے اسے پیچھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا

پلیز سیٹ پر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے محترمہ کو  طبیعت خراب ہوتی ہے میڈم کی جیسے لاکھوں گاڑیوں کی مالکن ہو بڑبڑای ہوئی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ۔۔

 جبکہ نمیش  پر سکون سی اشعر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی

شمائلہ کو غصہ آ رہا تھا آخر وہ اشعر کے ساتھ بیٹھنے کا موقع گنوا گئی تھی لار میں بالکل خاموشی ہو چکی تھی جب اچانک نمش نے فرمائش کردی مجھے آئس کریم کھانی ہے

۔اشعر نے مسکرا کر گاڑی ایک آئس کریم پارلر کے سامنے رکی تو شمائلہ کی تو آنکھیں کھل چکی تھی نمیش کے ساتھ اشعر نے اس کے لئے بھی آئس کریم منگوائی تو نمیش کو اچھا نہیں لگا

پھر احسان کرنے والے انداز میں بولی کیا یاد کرو گی میری طرف سے آئس کریم کھاؤ ۔

تمہاری طرف سے نہیں اشعر کی طرف سے۔۔وہ جتلا کر بولی 

لیکن فرمائش تو میری تھی وہ پیچھے کی طرف دیکھتے بچوں کی طرح لڑنے والے موڈ میں بولی تو اشعر کو بہت پیاری لگی

لیکن پوری  تو پھر بھی اشعرنے ہی کی وہ ایک بار پھر سے جتاتے ہوئے بولی نمیش کو بالکل بھی اچھا نہیں لگا

تم۔۔۔۔ اس نے کچھ کہنا چاہا ۔۔

تم نہیں آپ مجھے تمہارا یہ تم کہہ کر مخاطب کرنا بالکل پسند نہیں ہے میں تمہاری باس ہوں یاد رکھنا اس کا انداز بہت روکھا سا تھا اشعر کو بھی بہت عجیب لگا

وہ تو آفس کے اندر ہونا باہر تو نہیں نمیش نے منہ بنا کر کہا

میں اندر اور باہر دونوں جگہ تمہارے لئے میڈم ہی ہوں میرا تم سے ایسا کوئی تعلق نہیں ہے جس کی بنا پر تم مجھے تم کہہ کر بلاؤ سینئر اور باس میں فرق ہوتا ہے آئندہ یہ بات یاد رکھنا

اشعر میں  ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ ۔آج کل کے یہ ورکرز  اپنے اور دوسروں کے درمیان کا ہر فرق بلاچکے ہیں ایسے لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلاتے رہنے چاہیے

 ۔وہ اتنے تیکھے لہجے میں بولی تو نمیش کی آنکھوں میں آنسو آگئے

تم ٹھیک کہ رہی ہوں شمائلہ آج کے بعد مجھے میرے نام سے مت پکارنا ہم کالج میں فرینڈ تھے لیکن اب نہیں اب میں تمہارا بوس ہوں اور بہتر ہوگا کہ آئندہ تم مجھے سرکہ کربلاؤ اس کے انداز پر اشعر جتاتے ہوئے انداز میں اس سے بولا تھا وہ تو اسے دیکھ کر رہ گئی

وہ تو نمیش کو اس کی اوقات یاد دلانے والی تھی اسے کیا پتا تھا کہ اسے اس کی اوقات یاد دلائے دے گا اس نے ایک نظر میں اس کی طرف دیکھا جس کا چہرہ معصومیت کی حد تک پھیلا ہوا تھا اشعر کے دل میں ایسی خواہشات جاگی کہ اگر  نمیش کو پتہ چل جاتا تو کبھی اس سے نظر ملانے کے قابل نہ رہتی اور نہ ہی زبان لڑانے کے

ہاں لیکن شمائلہ کی انسلٹ پر اس کا چہرہ ایک دم ہی چمک اٹھا تھا رنگ بدل چکے تھے شمائلہ کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا شرم کے مارے اس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا

 جب کہ نمیش ۔۔۔ اس کا چہرہ تو کھلتا گلاب بن گیا تھا  وہ بار بار اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔

شاید وہ تو اس سے بدلہ نہیں لے پائی لیکن اشعر نے اس سے اچھا بدلہ لے لیا تھا اس کی بےعزتی کا آج پہلی بار اسے اشعر حد سے زیادہ اچھا لگا تھا

 لیکن وہ اسے بتا نہیں سکتی تھی پتہ نہیں کیسا دماغ تھا اس آدمی کا کچھ بھی خوش فہمی پال لے تو

وہ لوگ سیدھا آفس ہی واپس آئے تھے شمائلہ تو ان دونوں کو مخاطب کیے بغیر اپنے کیبن میں جا چکی تھی

 جبکہ وہ اس کے پیچھے پیچھے آئی اور اس کی فرمائش سے پہلے ایک زبردست سی کافی بنا کر پلائی

 نمیش کا اپنا ہی انداز تھا تھنک یو بولنے کا ۔

°°°°

میم مجھے نہیں پتا وہ لڑکی اشعر سر کے آفس میں رہتی ہے کافی میکر ہے ویسے تو لیکن ہر وقت ان کے ساتھ چپکی رہتی ہے اور وہ بھی اسے بہت اہمیت دیتے ہیں

 شمائلہ تو جب سے آئی تھی جلے پیر کی مچھلی بنی گھوم رہی تھی وہ دو سال سے اس کے آفس میں کام کر رہی تھی اس نے اپنے ہر انداز سے اشعر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی ہر کوشش کی تھی لیکن وہ ایک دن بھی نہ آیا جس میں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئی ہو ۔

پھر اسے ایک دن فرحت کے بارے میں پتہ چلا کہ اشعر کی شادی اس کے ساتھ ہونے والی ہے اور وہ اشعر کی اسٹپ مدد کی بھانجی ہے فرحت کا رشتہ اس سے طے کر دیا گیا ہے ۔

اور چاہے کچھ بھی ہو جائے انہیں دونوں کی شادی ہو گئی اور پھر فرحت بھی آفس میں کہیں بار آ چکی تھی اشعر اور فرحت کے بارے سے افس کے لوگ میں سب لوگ اسے اچھے سے جانتے تھے ۔

اس کا باس والا انداز شمائلہ کو زہر بھی  زیادہ کڑوا لگتا تھا اس کا دل چاہتا تھا کہ فرحت کی جان لے لے کتنی بار ان سب کے سامنے کہہ چکی تھی کہ اس کی پرسنل پراپرٹی ہے

اسی لیے آج جب شمائلہ نے اشعر کو نمیش کو زیادہ اہمیت دیتے دیکھا تو اس کا دل جلانے کے لئے سب سے پہلے اسے ہی فون کیا تھا یہ الگ بات تھی کہ نمیش کو اہمیت ملتے ہی اس کا اپنا دل جل اٹھا تھا

وہ اشعر کی منگیتر تھی اور اس کی مجبوری تھی کہ وہ اسے بہت اہمیت دیتی تھی اس کی عزت کرنا تو ان سب پر فرص تھا اس آفس کا مالک اشعر شاہ اگر فرحت کی پرسنل پراپرٹی تھا تو اس طرح سے کسی اور کو اہمیت کیوں دے رہا تھا شمائلہ نے فون کرکے اس کا یہی غرور توڑنا چاہتا تھا

اور اس کی باتیں سن کر سچ میں ہی اسے بہت غصہ آیا ۔۔۔ لیکن سمبھال کر بولی ۔

اوو کم آون شمائلہ اتنی سی بات پر تم نے مجھے فون کی مجھے لگا نجانے کون سی اہم ترین بات کرنا چاہتی ہو تم ۔۔۔ خیر میرے پاس ان فضول باتوں کا وقت نہیں  وہ کہہ لر اسے بائے کر چکی تھی شمائلہ کا غصے سے برا حال ہونے لگا ۔۔

فرحت اشعر اور شمائلہ ایک ہی کالج یونی میں ہونے کے بعد اب شمائلہ اشعر کے آفس میں بھی کام کرتی تھی ۔اور اشعر کو اس کا کام کرنے کا انداز بھی بہت پسند تھا لیکن اسے فرحت سے شروع سے ہی نفرت تھی اور اشعر کو پھسا کر وہ اپنی زندگی بنانے کے خواب دیکھتی لیکن اس کی قسمت نے اس کا کبھی ساتھ نہیں دیا تھا ۔

اور جو کھیل کھیلنے کی کوشش اس نے آج کی تھی اس میں بھی وہ کامیاب نہ ہوئی۔

°°°°°

انکل کیا میں اندر آ سکتی ہوں

 وہ دروازے پر کھڑی اجازت مانگ رہی تھی شاہ صاحب کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا

ہاں میری جان کیوں نہیں پلیز اندر آؤ انہوں نے خوش دلی سے اجازت دی

انکل مجھے آپ سے ایک بہت اہم بات کرنی ہے انہیں کام میں مصروف دیکھ کر وہ اپنے انداز میں بولی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر رکھ دیا وہ ہمیشہ سے انہیں بہت عزیز تھیی

ایک تو ان کے بہت قریبی دوست کی بیٹی تھی

اور دوسری ان کی من پسند بیوی کی بھانجی تھی اور سب سے اہم بات ہیں کہ تھی کہ زرین اسے حد سے زیادہ اہمیت دیتی تھی 

اور وہ اپنی بیوی کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے اپنی بیوی کی خواہش پر ہی انہوں نے فرحت کا رشتہ اشعر سے کیا تھا

فلحال اشعر اس رشتے تیار نہیں تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ اس سے اس رشتے کے لئے تیار کرلیں گے وہ ان  کا بیٹا تھا ان کی بات کیسے مکر سکتا تھا اور اب تو بزنس میں قدم رکھ چکا تھا

اتنی جلدی بزنس کی ایک نامور پرسنیلٹی  بن چکا تھا ان کے لئے یہ سب کچھ کرنا اتنا مشکل نہیں تھا بس کسی بھی پارٹی میں فرحت کا نام اشعر کے ساتھ لینے کی ضرورت تھی

اشعر نے ساری ضد چھوڑ کر صرف اور صرف اپنی عزت کے بارے میں سوچنا تھا انہیں یقین تھا کہ وہ بڑی محفل میں کبھی بھی اپنے باپ کو رسوا نہیں ہونے دے گا

 °°°°°°°

وہ نہا کر نکلی تو اشعر کو لیپ ٹاپ میں مصروف دیکھا

 اسے فرح کی باتیں یاد آنے لگی

 وہ کل ہی اس سے ملی تھی اور اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ اشعر سے ملی ہے

 اسے لینے وہ اس کے گھر گئی تھی تو وہاں نمیش تو نہیں لیکن اشعر سے اس کی ملاقات ہوئی تھی

فرح نے اس سے کہا تھا

نمیس مجھے اشعر بھائی برے نہیں لگتے  میں نے اس کی آنکھوں میں تمہارے لئے محبت دیکھی ہے

 وہ زاہد کی باسل کی طرح ہرگز نہیں ہیں

وہ باقی مردوں سے بہت الگ ہیں

فرح نے اسے سمجھانے کے لیے 2سے3 گھنٹے صرف کیے تھے

 لیکن اس کے باوجود بھی نمیش کی سوچ وہیں پر اٹکی ہوئی تھی کہ امیر آدمی کبھی کسی کا نہیں ہوسکتا

 باسل نے جس طرح سے اس کی جان سے پیاری سہیلی کی زندگی برباد کی تھی اس کے بعد تو وہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتی تھی

 اور زاہد اس کی نظروں میں شوہر زاہد کی طرح ہوتے تھے جن کا اعتبار وقت کے ساتھ بدلتا تھا

 ایسے میں اشعر پر یقین کرنا اس کے لئے ایک ناممکن سی بات تھی

وہ اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی جب اچانک اسے اپنی کمر پر اشعرکے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا

اور پھر ایک نرم سا لمس اپنی گردن پر محسوس ہوا اس کا دل بے ترتیب ہونے لگا

وہ اس کے بے حد قریب کھڑا تھا

 اور نہ صرف کھڑا تھا بلکہ اپنے لبوں سے اس کی گردن پر پانی کے قطروں کو چُن رہا تھا

نمیش کو لگا اس کے لبوں کے لمس پر وہ جان سے جائے گی۔  دھڑکتے دل کے ساتھ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ۔

سانسوں میں اٹھتا طوفان  اس نے آج سے پہلی بار سنا تھا اس کا دل اسے بہت کچھ کہہ رہا تھا

یہ لمس یہ احساس یہ حصار اسے برا کیوں نہیں لگ رہا تھا

۔اس کا دماغ کہہ رہا تھا کہ اشعر کی یہ قربت صرف وقتی ہے جبکہ دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ سچ میں اسے چاہتا ہے

دل و دماغ کی اس جنگ میں وہ بری طرح سے الجھ کر رہ چکی تھی ۔جب اچانک اشعر نے اسے اپنی طرف موڑ لیا اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لیے وہ گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

جب کہ وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔۔

 نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی مزاحمت

اشعر نے اس کا رخ اپنی جانب کیا

۔کافی دیر وہ اس کے چہرے کو دیکھنے کے بعد بھی جب میں اس نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ بے اختیار مسکراتے ہوئے اس کے لبوں پر جھک گیا

تھوڑی دیر اس کے لبوں کی نرمی کو محسوس کرتے ہوئے وہ اس سے دور ہٹا نمیش کی سانسیں بے ترتیب سی تھی دل میں اس کی محبت کا طوفان سا اٹھنے لگا

 لیکن اظہار کرنا مشکل تھا اور ابھی تک تو دماغ نے اس کی محبت کو قبول نہیں کیا تھا وہ صرف دل کی صداؤں پر لبیک نہیں کہہ سکتی تھی

وہ اس سے دور ہٹا اور ایک بار پھر سے نگاہیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں

 جب کہ وہ اپنی نگاہیں چراتے ہوئے اس کی شرٹ کے بٹن کو دیکھنے لگی تھی جیسے اس سے زیادہ حسین چیز اس نے زندگی میں کبھی نہ دیکھی ہو وہ اس کے نروس ہونے پر مسکرایا

تم جلدی سے تیار ہو جاؤ میں نیچے ناشتے کی ٹیبل پر تمہارا انتظار کر رہا ہوں

مل کر ناشتہ کرتے ہیں اس کے ماتھے پر مہر ثبت کرتا ہوں وہ وہاں سے باہر چلا گیا ۔

جبکہ نمیش وہی کھڑی  دروازے کو دیکھتی رہی ۔

°°°°°°°°°°

اشعر کا اس طرح سے چھونا نمیش کو برا نہیں لگا تھا کتنے آرام سے وہ اس کی زندگی میں اپنی جگہ بنا رہا تھا

شمائلہ کے سامنے اس نے بتایا تھا کہ اشعر کے لیے وہ  کتنی اہمیت رکھتی ہے اس نے اسے نمیش کی انسلٹ نہیں کرنے دی تھی

اس کا معصوم دل تو تب سے اشعر کے گن گانے لگا تھا

 اور اسے اشعر کا یوں پیار کرنا اپنی طرف دیکھتے پانا اسے اس کے لبوں کو چھونا یہ سب کچھ اسے برا نہیں لگ رہا تھا

اس کا لمس اس کے دل کی دنیا بدل رہا تھا

اس آدمی کے سامنے وہ اپنے آپ کو بے بس پانے لگی تھی

 اس کے پاس آنے پر وہ کوئی مزاحمت نہیں کرتی تھی

کسی قسم کا کوئی غصہ ظاہر نہیں کرتی تھی

 وہ خود بھی اپنی بدلتے دل کی کیفیت پر حیران تھی

ایک طوفان تھا جو اس کے دل میں برپا ہو چکا تھا

فرح  بات بات میں اس کی تعریفیں کر کے پہلے ہی اس کے دل پر اشعر کے نام کی دستک دینے کی ہر ممکن کوشش کی تھی

اب تو اس کی بیسٹ فرینڈ بھی اسی کا نام لے رہی تھی

 اور فرح وہ واحد انسان تھی جس کو وہ سمجھتی تھی اور مانتی تھی اس کی بات تو ہمیشہ سے ہی ٹھیک لگتی تھی اور کہیں نہ کہیں اشعر خود بھی اپنی جگہ اس کے دل میں بنانے لگا تھا ۔

لیکن کب کہاں کیسے  وہ اس کے دل میں اترا کیسے وہ اس کے بارے میں سوچنے لگیی

 وہ خود کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی اس کا دل اس سے سوال کر رہا تھا لیکن اس کا جواب تو صرف اور صرف خدا جانتا تھا

جس نے نکاح جیسا بندھن قائم کیا تھا اور اس کے بعد تو محبت ہو ہی جاتی ہے ۔

اور پھر  اس کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا

محبت کی حسین کلیوں نے اس کے دل پر دستک دینا شروع کر دی تھی

نکاح کے دو بول نے اسے اشعر کے معاملے میں بالکل بے بس کردیا تھا

وہ تیار ہو کر نیچے آئی تو اشعر ناشتے کی ٹیبل پر اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے بیٹھتے ہی وہ خود ہی اسے کھانا سرو کرنے لگا

یہ بھی آج ہی اس نے نوٹ کیی تھی کہ وہ روز صبح خود اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرواتا تھا اس سے پہلے تو اس نے کبھی اس بات کو محسوس بھی نہیں کیا تھا ۔

دل کے جذبات اور خیالات بدل تو اسے سارے منظر صاف نظر آنے لگے

دونوں نے آرام سے ناشتہ کیا اور پھر وہ اشعر کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی آفس کے لیے نکل چکے تھے ۔

آفس پہنچتے ہی سب ورکرز کھڑے ہوکر اسے سلام کرنے لگے جبکہ وہ آگے آگے چلتا بار بار پیچھے کی طرف دیکھتا مسکراتے ہوئے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔

یہ سب کچھ نیا یا الگ نہیں تھا یہ تو روز ہوتا تھا ۔لیکن آج یہ سب کچھ اتنا زیادہ محسوس کیوں ہو رہا تھا

یہ بات وہ نہیں سمجھ نہیں پا رہی تھی کیوں اس شخص کی باتیں اس کا انداز اور وہ خود اسے بہت اچھا لگنے لگا تھا

وہ آج کی بانسبت کل بہت پرسکون تھی آج تو دل بے چین تھا بہت بے چین ۔نہ جانے کیوں آج سب کچھ نیا نیا لگ رہا تھا سب کچھ الگ رہا تھا تو کیا یہ محبت کا ایک ہی رات میں ہو جاتی ہے کیا کچھ ہی لمحات میں دل کی دنیا بدل جاتی ہے ۔

اسے تو لگا تھا کہ جب اسے محبت ہوگی سب کچھ بدل جائے گا

لیکن کچھ بھی نہیں بدلا تھا سب کچھ ویسا ہی تھا بس دل کی دنیا بدل گئی تھی

°°°°°°°°°°°°

اشعر کی پارٹی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھی

 ہر طرف اشعر کی سالگرہ کا شور مچا ہوا تھا کچھ ہی دنوں میں سالگرہ تھی جس میں شہر کے بڑے بڑے بزنس مین کے ساتھ سیاستدان بھی شامل تھے

اس کی پارٹی ہر سال بہت عروج پر ہوا کرتی تھی اس سال بھی شان شوکت سے پارٹی کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔

اور شاہ صاحب کو پارٹی کا سب سے زیادہ انتظار تھا کیونکہ وہ اس سال بہت بڑا فیصلہ کرنے جا رہے تھے

اس سال وہ اشعر کی شادی اناؤنس کرنے والے تھے ۔

کیوں کہ فرحت بہت زیادہ ضد کر رہی تھی کہ اشعر اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا

 نہ تو فون پر اس سے بات کرتا ہے

اور نہ ہی اسے باہر کہیں گھمانے پھرانے لے کر جاتا ہے

 اور نہ ہی اس سے ملاقات کرتا ہے ۔

اور یہ ساری باتیں انہیں پریشان کر رہی تھی کیونکہ ان سب چیزوں کی وجہ سے زرین ان سے ناراض ہو رہی تھی جس کی ناراضگی کو کبھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے

اشعرکو یوں فرحت لو نظر انداز کرتے دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ جلد سے جلد ان کی شادی کا فیصلہ کر دیں گے ۔

تاکہ وہ بھی اپنی زندگی میں سیٹل ہوجائے اور فرحت کے ساتھ ایک حسین زندگی کی شروعات کریں ۔

اور بس تین دن کے بعد وہ پوری محفل کے سامنے فرحت اور اس کی شادی کی اناؤنسمینٹ کرنے والے تھے ۔

اشعر سمجھ گیا تھا کہ نمیش  اس کے بارے میں سوچنے لگی ہے نہ جانے کون سی بات تھی اس کی جونمیش کے دل پر جا لگی تھی اس کا بے اختیار اپنی طرف دیکھتے رہنا اور پھر اس کے دیکھتے ہی نظر جھکا لینا اشعر کو بہت کچھ سمجھنے پر مجبور کر گیا تھا ۔

اور وہ اندر ہی اندر اس کی بدلتی کیفیت پر بہت خوش بھی تھا

وہ اس کے پاس کھڑا رہتا یا اسے اپنے قریب کر لیتا ہے وہ کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کرتی تھی اشعر سمجھنے لگا تھا کہ وہ بھی اس کے رشتے کو قبول کرنے لگی ہے اور یہ بات اشعر کے لیے ایک بہت خوشگوار بات تھی ۔

°°°°°°°°°°

یہ ڈیل تو ہماری ہے اشعر بس اب کل تمہیں سائن کرنے ہیں پھر تمہارا سب سے بڑا ڈریم پورا ہو جائے گا ۔

تمہارے بزنس کریئر کی سب سے بڑی ڈیل ۔وہ کب سے چہکتی شمائلہ کو سن رہی تھی اور اشعر مسکرا رہا تھا کچھ جیت لینے کی خوشی اس کے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی ۔

نمہش اس کو بھی اس کا ہنستامسکراتا چہرہ بہت بھا رہا تھا ۔وہ صاف اندازہ لگا سکتی تھی کہ یہ پروجیکٹ اس کے لیے کتنا اہم ہے یہ اس کے بزنس کریئر کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا جس کے لیے وہ تقریبا ایک سال سے دن رات ایک کر رہا تھا اور اب فائنل اس کا یہ ڈریم پورا ہونے جارہا تھا ۔

جس کی نمیش کو بھی بہت خوشی تھی۔

°°°°°°°°°°

وہ کیوں اشعرکے بارے میں اتنا کچھ سوچنے لگی ہے کیوں اسے خود پر حاوی کرنے لگی ہے یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے آپ کو بہت زیادہ ڈسٹرب کر لیا تھا جس کا نتیجہ شدید بخار نکلا

اشعر ڈنر ٹیبل پر اس کی غیر حاضری کو محسوس کرتے ہوئے اوپر جانے لگا کیوں کے اس نے لنچ بھی نہیں کیا تھا ایک اہم میٹنگ کی وجہ سے اسے لنچ ٹائم پر میٹنگ میں جانا پڑا جس کی وجہ سے اب اسے بہت بھوک لگی تھی اور ڈنر تو نمیش کے ساتھ کرنے کی عادت سی پڑ گئی تھی ۔

آج وہ بہت پر سکون تھا کیونکہ کل وہ اپنے ڈریم کو حاصل کرنے جا رہا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ نمیش سے صاف بات کرے گا ایک مہینہ ہونے کو ہے ان کی شادی کو اور کسی بھی رشتے کو قبول کرنے کے لیے یہ ایک ماہ بہت تھا اب اسے اور نمیش کو اپنی اگلی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہیے

یہ تو وہ بھی جان چکا تھا کہ نمیش بھی اسے پسند کرنے لگی ہے تو پھر یوں کھنچا کھنچا  دور دور رہنا سب بے معنی تھا ۔

اس ے کمرے میں قدم رکھا تو نمیش کو بیڈ پر لیٹی گہری نیند میں سوتے پایا وہ اس طرح اتنی جلدی سوتی تو ہرگز نہیں تھی وہ پریشانی سے اس کے پاس آیا ۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس کا چہرہ بخار کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا ۔

اس کا ٹمپریچر چیک کرتے ہوئے اس نے صدف کو آواز دینا شروع کر دی ۔اپنے ٹھنڈے اور نرم مزاج باس کو اس طرح سے آوازیں دیتے دیکھ کر صدف بھی بھاگے بھاگے اس کے کمرے میں آئی

صدف ڈاکٹر کو فون کرو نمیش اس کی طبیعت بہت خراب ہے جلدی کرو وہ  کافی بے چین لگ رہا تھا اس کی بےچینی نے صدف کو بھی تیز تیز ہاتھ پیر ہلانے پر مجبور کر دیا

°°°°°°°°°°

کچھ نہیں آج کل کی لڑکیاں ذرا سی بات کو اپنے دماغ پر حاوی کر لیتی ہیں میٹلی ڈسٹربنس کی وجہ سے انہیں بخار ہوگیا ہے میں دوا دے دی ہے صبح تک آرام ملے گا ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا

لیکن اشعر تو مسکرا بھی نہیں پایا تھا

پتہ نہیں کون سی بات تھی جسے نمیش نے اس حد تک اپنے اوپر سوار کر لیا تھا کہ وہ بخار کا شکار ہوگئی ۔اس کا بس چلتا تو اپنی نمیش کو ہر مشکل سے دور کر دیتا ہے اس کی ہر پریشانی کو خود پر لے لیتا ۔

نمیش کی بخار میں دہکتی صورت دیکھ کر اسے سکون نہیں آیا تھا وہ ساری رات اس کے ساتھ بیٹھا رہا ۔ایک سیکنڈ کو بھی اسکی آنکھ نہ لگی تھی ۔

اور نہ ہی وہ سونے کا ارادہ رکھتا تھا اس کا بس چلتا تو اسےایک پل کے لئے بھی اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دیتا۔

°°°°°°°°°°

 اس کی آنکھ صبح گیارہ بجے کے قریب کھلی تو اپنے ساتھ رکھی کرسی پر ایسے بیٹھے دیکھ کر پریشان ہوئی کل کے کپڑوں میں بھری ہوئی شیو کے ساتھ وہ کافی بے چین سا لگا ۔اس کی بکھری بکھری سی حالت دیکھ کر  اس کو بھی اس پر ترس آ گیا وہ ساری رات اس کی وجہ سے یہاں بیٹھا رہا

کرسی پر بیٹھے بیٹھے شاید وہ سو گیا تھا ۔نمیش نے ذرا سی حرکت کی تو اگلے ہی پل وہ سرخ آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا

اب کیسی طبیعت ہے تمہاری اس کے انداز سے بے قراری صاف جھلک رہی تھی

آپ کی میٹنگ تھی نو بجے وہ ہوش میں آتے ہوئے بولی

بھاڑمیں گئی میٹنگ تم بتاؤ تمہاری طبیعت کیسی ہے اب سر میں درد تو نہیں ہو رہا بخار تو نہیں ہے وہ اس کے دونوں گالوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہا تھا

وہ آپ کا ڈریم پروجیکٹ تھا اشعر۔ ۔۔۔۔۔۔اس کے حلیے سے وہ یہ اندازہ تو لگا ہی چکی تھی کہ وہ میٹنگ پر نہیں گیا ۔اسی لیے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی

تم سے اہم نہیں تھا نمیش ۔ بلکہ تم سے اہم کچھ بھی نہیں ہے تمہیں کیا لگتا ہے میں اس میٹنگ کے لیے تمہیں اس طرح بخار میں تپتا چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔ تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو اس دینا کی کوئی بھی چیز تم سے اہم نہیں ہے ۔

چلو اٹھو فریش ہو جاؤ میں تمہارے لئے ناشتہ لے کر آتا ہوں اسے خود کو دیکھتے پاکر وہ اٹھ کھڑا ہوا لیکن وہ تو اب بھی ساکت اسے دیکھتے جا رہی تھی ۔

جو اس کے لیے اپنے ڈریم پروجیکٹ کو چھوڑ کر بالکل بے فکر تھا ۔

°°°°°°°°

وہ ناشتہ لے کر کمرے میں  آگیا تھا نمیش فریش ہو کر نکلی تو وہ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہا تھا

جلدی آؤ یار میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا صبح کل تمہارے ساتھ ناشتہ کیا تھا اور اب تک بھوکا ہوں ابھی تک تو بھوک فیل نہیں ہوئی تھی لیکن اب تمہیں ٹھیک دیکھ کر پیٹ میں چوہے نے دھمال برپا کر رکھا ہے ۔

ّوہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے صوفے پر بٹھاتے بہت محبت سے کہہ رہا تھا

وہ اس کے لئے ساری رات بھوکا رہا اس کے لیے اپنی ناجانے کتنےسالوں کی محنت کو نظر انداز کر دیا ۔نہ جانے کتنے کا نقصان کر دیا ۔اس کے لیے ساری رات جاگتا رہا اس کا خیال رکھتا رہا ۔بات بات پر اس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کرناہر چیز میں سب سے زیادہ اس کو اہمیت دینا ۔تو کیا یہ سب کچھ محبت نہیں تھی ۔اس سب کے بعد بھی وہ اس کی محبت کو دکھاوا اور ڈرامہ کہتی تھی تو وہ بہت بڑی بے وقوف تھی۔

نمیش اسے دیکھے جا رہی تھی

یار جب میں بہت ہینڈسم لگتا ہوں تب تم میرے طرف دیکھتی نہیں ہواور جب میں نےکل سے وہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور ٹھیک سے منہ تک نہیں دھویا  تو تم مجھے ایسے دیکھ رہی ہو جیسے مجھ سے ہنڈسم بندہ تم نے زندگی میں نہیں دیکھا ۔

وہ ٹیبل پر ناشتہ لگاتے مسکرا کر بولا تو وہ بے اختیار اپنی نظریں چرا آگئی ۔لیکن دل کی دھڑکنوں نے تو تہلکا مچا رکھا تھا ۔اور نظریں بے اختیارباربار اس کی طرف اٹھتی  بہت کنٹرول کرنے کے بعد بھی وہ نہیں کر پائی تھی اور اشعر بھی اس کی ان حرکتوں کو نوٹ کرکے بہت محفوظ ہو رہا تھا

°°°°°°°°

شام کو اشعر کو آفس کے لئے تیار ہوتے دیکھ کر وہ پوچھیے بنا نہ رہ سکی

 ایک تو ویسے بھی اسے بیڈ سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا اور خود اب باہر جا رہا تھا

یار آج مہینے کی پہلی تاریخ ہے مجھے آفس جانا ہوگا سب ورکرز کو ان کی پے  بھی تو دینی ہے ۔چاہے جو بھی ہو جائے پہلی تاریخ کو آفس لازمی جاتا ہوں کیونکہ اس دن بہت سارے لوگوں کو مجھ سے بہت ساری امیدیں ہوتی ہے جہیں میں نظر انداز نہیں کر سکتا ۔

ویسے تو یہ کام میرے آفس کے مینیجر بھی کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کے چہرے پر خوشی دیکھ کر مجھے سکون ملتا ہے اسی لئے میں خود اپنے ہاتھ سے ان کا حق انہیں دیتا ہوں

میں بس ایک گھنٹے کے لئے جاؤں گا واپس آ جاؤں گا ۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا جب نمیش بولی

میں بھی آپ کی ورکر ہوں ۔ میری تنخواہ کہاں ہے ۔میں بیمار ہوں آج آفس نہیں جا سکتی تو آپ میری تنخواہ یہی دے دیں

 ۔اسے اچانک ہی چچا یاد آ گئے تھے جن کی بیٹی کی شادی تھی اور اپنے بابا کا قرض ادا کرنا تھا

یہ رہی بیگم آپ کی تنخواہ یہ میں نے پہلے ہی الگ کر دیئے تھے ۔اس نے مسکراتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی لفافے کی طرف اشارہ کیا ۔

نمیش کو نجانے کیوں بہت خوشی ہو رہی تھی پھر اس کے ساتھ ہی وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی

مجھے محلے میں جانا ہے ۔۔۔۔۔! اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا مطلب کہ وہ چاہتی تھی کہ وہ خود اسے راستے میں چھوڑ کر جائے

نمیش تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یار صبح چلی جانا ۔وہ سمجھانے لگا لیکن وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی

نہیں مجھے جانا ہے آپ دو منٹ رکیں میں چینج کرکے آتی ہو اس نے تو ہمیشہ سے ہی  اس کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔وہ بھی خاموش ہو گیا

°°°°°°°°

وہ بہت خوشی سے اپنے محلے میں آئی تھی اشعرا سے ڈراپ کرکے جا چکا تھا سب سے پہلے وہ چچا کی دکان کی طرف آئی تھی تاکہ انہیں ان کے پیسے واپس کر سکے نہ جانے بابا کا قرضہ اتارتے ہوئے اس کے چہرے پر اتنی خوشی کیوں تھی وہ اتنی پرسکون تھی کہ اب اس کے بابا کو سکون ملے گا

چاچا کے دکان پر آتے ہی انہیں سلام کرتے ہوئے وہ لفافہ اس کو دینے لگی تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگے

چاچا آپ کے پیسے جو بابا نے آپ سے قرض لیا تھا دیکھیں میں وقت پر لوٹا رہی ہوں اس نے خوشی سے کہا لیکن چاچا کے اگلے الفاظ اسے پریشان کر گئے تھے

لیکن بیٹا تم یہ پیسے کیوں دے رہی ہو پیسے تو تمہارا شوہر مجھے دے گیا ہے بلکہ اس نے تو مجھے زیادہ پیسے دیے ہیں تاکہ میں اپنی بیٹی کی شادی اچھے سے کر سکوں ۔

بہت نیک بچہ ہے اللہ نے اس کے سینے میں سونے کا دل رکھا ہے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اگر اور پیسوں کی ضرورت ہو تو میں اسے بتاؤں تاکہ اس کی بہن کی شادی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے

مجھے تو اس کے روپ میں ایک بیٹا مل گیا ہے کیا اس نے تمہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا وہ حیرت سے اس سے پوچھے تھے جبکہ نمیش کے پاس تو بولنے کے لیے الفاظ ہی ختم ہو گئے ۔

بنا کچھ بولے وہ وہاں سے چاچا کے گھر آ گئی ۔اب تک تو شاید چچا نے اس کے گھر کا نقشہ بدل دیا ہوگا وہ دو کمروں کا مکان جہاں اس کا بچپن گزرا تھا اسے بہت عزیز تھا

لیکن تھا تو کرائے کا ہی اور سچ ہے کرائے کے گھروں میں خوبصورت یادوں کا بسیرا نہیں ہوتا چاچی تو نجانے کتنے سالوں سے انہیں یہ گھر چھوڑنے کے لئے کہہ رہی تھی وہ تو چا چااپنا دل بڑا کر کے دوست کی حمایت پر اتر آتے

اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ گھر کا جو سامان اس کے باپ کی محنت کا ہے وہ اشعر کے گھر لے جائے گی کیوں بیکار میں وہاں لوگوں کے گلے پر رہی تھی ۔چچا نے تو بابا کے جانے کے بعد بھی اپنا دامن نہ چھوڑا یا تھا لیکن وہ خود بیوقوف تو نہیں تھی ان کی اپنی دو بیٹیاں تھیں جن کے لیے اچھا سوچنا ان کا فرض تھا اور حق بھی

اسی لیے اس نے سوچا تھا کہ وہ اپنی ساری چیزیں اس گھر سے نکال لے گی تاکہ چاچا کسی اور کو وہ کرائے پر دے سکے

°°°°°°°°°°

سب لوگ اس سے بہت خوشی سے ملے تھے اور چاچی کا انداز تو بالکل ہی الگ تھا ۔

اس نے گھر سے جانے کے بات کی تو چاچا بھی حیرت سے اسے دیکھنے لگے

بیٹا اپنے ہی گھر سے سامان کیوں اٹھوانا بلا

تمہارا گھر ہے تمہارا سامان ہے اور اگر تم اپنا سامان یہاں سے چلے جاؤ گی تو میکے کے نام پر تمہارے پاس رہے گا ہی کیا ۔چاچی کا انداز بہت نرم تھا کہاں وہ ان کے ایسے مزاج کی عادی تھی ۔

لیکن چاچی یہ گھر میرا اپنا تو نہیں۔ ہے تو کرائے کا ہی اور کرائے کی چیزوں پر قبضہ نہیں جمایا جاتا ۔اس کا انداز بہت بجھا بجھا سا تھا شاید وہ لوگ ہمدردی دکھا رہے تھے

کیا مطلب کرائے کا ہے کیا تجھے تیرے شوہر نے بتایا نہیں کہ وہ گھر ہم سے خرید چکا ہے ۔چاچی نے اس کے انجان بننے پر دھماکا ہی تو کیا تھا ۔

اور وہ اس دھماکے کی زد میں انہیں دیکھتی چلی جا رہی تھی

کس طرح سے کھل رہا تھا وہ شخص اس پر ۔

ہم نے تو کہا کہ ہم یہ گھر نہیں بھیجیں گے آخر یہ ہمارے گھر کا حصہ تھا لیکن تیرے شوہر نے مارکیٹ کے مقابلے میں تین گنا رقم دی ہے اس دو کمروں کے گھر کی

اس کا کہنا ہے کہ میری بیوی نے یہاں اپنا بچپن گزارا ہے ۔اس کے بچپن کی خوبصورت یادیں ہیں یہاں اس کے باپ کی یادیں ہیں اور وہ اس کے باپ کی یادوں کو یوں دربدر ہوتے نہیں دیکھ سکتا

اور اس کی باتوں نے تیرے چچا کے دل پر ایسااثرکیا کہ انہوں نے بھی گھر  بیچ کر ہی دم لیا ۔

وہ گھر اب تیرا ہے نمیش تیرے نام ہے جب چاہے وہاں آ سکتی ہے جیسے چاہے وہاں رہ سکتی ہے چاچی کے کہنے کی دیر تھی کہ  اس کی آنکھوں میں نمی اس کے آنسو میں بدلی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر ان کے سینے سے لگی روتی چلی گئی ۔

اس نے سمجھنے میں دیر کر دی تھی لیکن جو شخص اس کو ملا تھا وہ تو قسمت والوں کو بھی نہیں ملتا تھا اس نے کتنی بے قدری کی تھی اس شخص کی فرح کی ایک ایک بات اسے آج سمجھ آئی تھی ۔

کتنا کچھ کر چکا تھا وہ اس کے لئے اور ایک بار بھی جتایا تک نہیں ۔

اب بھی اگر وہ اس کی محبت کو خود غرضی  کا نام دیتی تو اس سے بے قدرا اور کوئی نہ تھا

°°°°°°°°°°

اشعر جلدی جلدی کام نپٹا کر گھر واپسی کی تیاری کر رہا تھا ابھی تو اپنے آفس سے نکلنے کیوں والا تھا کہ اسے فرحت آتی نظر آئی ۔اس کا موڈ بری طرح سے خراب ہوا تھا جلدی جلدی گھر جانا چاہتا تھا نمائش کی طبیعت کو لے کر وہ ویسے بھی پریشان تھا اور اب جب وہ اس کے بارے میں سوچنے لگی تھی تو وہ زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا لیکن مروت تو نبھانی ہی تھی ۔ورنہ بابا نے اس سے ناراض ہو کر ضرور اس کی ماں کی تربیت پر انگلی اٹھانی تھی۔ اور اپنی ماں کی تربیت پر بات وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا

اس نے مسکرا کر فرحت کو ویلکم کیا ۔

فرحت بھی اس کے مسکرانے پر مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی ۔لیکن اس کی جھوٹی مسکراہٹ کو وہ بہت اچھی طرح سے نوٹ کر چکی تھی وہ جانتی تھی اس کے یہاں آنے پر اسے کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی ۔

اس نے مسکراتے ہوئے اشعر کا بھرا ہوا ہاتھ تھام لیا جسے وہ زندگی بھر کے لیے تھامنا چاہتی تھی آخر وہ کروڑوں کی جائیداد کا اکلوتا وارث تھا ورنہ اس کا اس مغرور انسان سے بھلا کیا لینا دینا وہ تو بس اپنا فیوچر سکور  کرنا چاہتی تھی ورنہ اس قدر نظر اندازی پر وہ کبھی مڑ کر بھی اسے نہ دیکھتی ۔

کیسی ہو فرحت تم اچانک یہاں یہ تو سرپرائز ہو گیا صاف لگ رہا تھا کہ وہ صرف مروت نبھا رہا ہے ۔فرحت پھیکی سی مسکراہٹ آئی ۔

سرپرائز دینے ہی تو آئی تھی تمہیں یہاں اتنے دنوں سے نہ جانے کہاں غائب ہو تم بہت مس کر رہی تھی تمہیں اسی لیے یہاں چلی آئی میرا آنا تمہیں برا تو نہیں لگا شاید تم باہر جا رہے تھے ۔۔

ہاں میں باہر جا رہا تھا جبکہ گھر واپس جا رہا تھا ۔اور تمہارا آنا بھلا مجھے برا کیوں لگے گا وہ مسکرایا تھا ۔

ہاں بالکل میرا آنا والا تمہیں برا کیوں لگے گا آخر ساری زندگی کے لیے تمہاری زندگی میں آنا ہے اور اپنے مطلب کی بات پر آئی تھی ۔اس بار اشعر مسکرا نہ سکا ۔

کیا ہوا تم خاموش کیوں ہوگئے کافی آرڈر کرنے کے بعد وہ کافی دیر کچھ نہ بولا تو فرحت نے پوچھا ۔

فرحت میرے خیال میں ہمیں اس خاندانی رشتہ داری سے باہر نکل آنا چاہیے ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں تم اپنی زندگی میں آگے کیوں نہیں بھر جاتی تمہیں بہت اچھا انسان ملے گا جو مجھ سے کہیں درجہ بہتر ہوگا ۔

ہم بیکار میں ایک دوسرے کی زندگی کو مشکل میں ڈال رہے ہیں میں جانتا ہوں تم یہ شادی صرف اور صرف اپنی پھوپھو کی مرضی پر کر رہی ہو تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے جو صرف ایک ہی بار ملی ہے کم از کم اس زندگی کو اپنی طریقے اپنی مرضی سے گزارنا چاہیے ۔

میں جانتا ہوں اگر تمہیں تمہاری زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے تو وہ انسان میں نہیں ہوگا جسے تم چاہتی ہو گی ۔ہم سکے کے دو الگ پہلو ہے فرحت ۔فرض کرو اگر ہماری شادی ہو بھی جاتی ہے تو ہم کبھی ایک دوسرے کے معیار پر پورے نہیں اتریں گے ۔میری پسند میری سوچ کوئی اور ہے ۔

تم کبھی میری پسند نہیں بن سکتی اور جس طرح کا شوہر تم چاہتی ہو وہ میں کبھی نہیں بن سکتا ۔ہم ایک دوسرے سے بہت الگ ہیں فرحت اس سے پہلے اشعر نے کبھی فرحت سے اس طرح کی باتیں نہیں کی تھی لیکن اب نمیش اس کی زندگی کا اہم ترین حصہ بن چکی تھی تو فرحت کو کسی جھوٹی امید پر نہیں بٹھا کے رکھ سکتا تھا

نمیش کے بارے میں ابھی اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا کیوں کہ یہ اچانک بتانے والی بات ہرگز نہیں تھی وہ آرام سکون سے اپنے باپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کسی کو شامل کر چکا ہے وہ انہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ اس کی پسند فرحت نہیں بلکہ کوئی اور ہے اور یہ باتیں سکون سے بیٹھ کر کرنے والی تھی نہ کہ دھماکا کرنے والی۔

کیا ہو گیا ہے تمہیں اشعر تم اس طرح کی باتیں کیوں کر رہے ہو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو تم  بتا سکتے ہو مجھے میں تو ہر کوشش کرتی ہوں جس طرح سے تمہیں پسند ہے میں ویسے ہی اپنی لائف سٹائل کر لوں لیکن پھر بھی نہ جانے ایسا کیا ہے جو تمہیں پسند نہیں

اور جہاں تک اس رشتے کی بات ہے تو صرف اپنی فیملی کے لئے نہیں شادی نہیں کر رہی بلکہ میں خود بھی تمہیں پسند کرتی ہوں یس آئی لائک یو میں کوئی اولڈ فیشن  نہیں ہوں جس کے ساتھ زور زبردستی کی جائے گی اور تمہیں بھلا کون انکار کر سکتا ہے یو آر آپرفیکٹ مین اور اس پرفیکٹ انسان کے ساتھ بھلا کون زندگی نہیں گزارنا چاہے گا ۔

وہ جیسے یہ موضوع ہی ختم کر دینا چاہتی تھی آج وہ اس کے سامنے صاف الفاظ میں کہہ رہا تھا کہ وہ اس کی پسند نہیں ہے کل سب کے سامنے کہہ سکتا تھا اور وہ اپنے فیوچر پر کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتی تھی۔

میں نہیں چاہتا فرحت اب وہ صاف گوئی سے بولا

میں یہ رشتہ نہیں چاہتا میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا میں اس سب کو یہیں ختم کر دینا چاہتا ہوں اس تعلق  کو کسی قسم کا نام دینے سے پہلے ختم کرنا چاہتا ہوں ۔فرحت تم  وہ لڑکی نہیں ہوجسے میں چاہتا ہوں جسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا لیکن میں اس زبردستی کے رشتے کو بھی نہیں نبھا سکتا ۔میرا مقصد تمہارا دل دکھانا ہرگز نہیں ہے لیکن اپنی زندگی پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا اس کے انداز میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ تھی

تو پھر کون پسند ہے تمہیں۔۔۔۔۔! بتاؤ کون ہے وہ لڑکی جسے تم پسند کرتے ہو۔۔۔۔! یقینا تو ہی ہوگی تمہاری ورکرہو گی خیر اچھے سے جانتی ہوں میں ایسی دو کوڑی کی لڑکیوں کو

باس کو پھسنا تو بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں اور مجھے بہت پہلے سے پتہ ہے تمہارے افیئر کا لیکن مجھے لگا کے دو تین دن کی بات ہے جب تمہارا دل بھر جائے گا تم خود اسے چھوڑ دو گے

 لیکن نہیں وہ لڑکی تو شاید تمہارے دماغ پر سوار ہو چکی ہے کون کون سی دواہیاں دی ہیں اس نے تم سے شادی کے لیے ہاں یقیناً وہ تمہیں بلیک میل کر رہی ہوگی ورنہ اتنی تھرڈ کلاس پسند تو تمہاری بھی نہیں ہے

لیکن تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ایسی لڑکیوں کو ہینڈل کرنا میں اچھے سے جانتی ہوں وہ نجانے کیا سمجھ رہی تھی اور کیا کیا بول رہی تھی۔

شٹ اپ فرحت کیا بکواس کیے جا رہی ہو تم مجھے لگا تھا میں تمہیں ایزیلی ہینڈل کر پاؤں گا لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ میری سوچ غلط تھی

 اسی لیے میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں ہاں یہ سچ ہے کہ میں کسی کو پسند کرتا ہوں اور اسی آفس میں کام کرتی ہے لیکن جو الفاظ تو اس کے لئے استعمال کر رہی ہو اوہ سی ہرگز نہیں ہے

وہ اب بھی بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا بلکہ اسے سمجھانا چاہتا تھا وہ غلط سمجھ رہی تھی

چھوڑو ان سب باتوں کو اشعر مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ان سب میں وہ کون ہے کون نہیں میں نہیں جانتی اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں بہتر ہو گا کہ تم بھی اسے بھول جاؤ ورنہ تمھیں اپنے بابا کے سامنے ان سب باتوں کا جواب دینا ہوگا وہ دھمکی دے کر اسے خاموش کرنا چاہتی تھی ۔

فائن تو اپنے بابا کے سامنے ہی تم سے شادی سے انکار کروں گا وہ بھی جیسے بات ختم کرتے ہوئے اٹھا

واٹ ڈو یو مین انکار کرو گے تم ایک دو کوڑی کی لڑکی کے لیے مجھ سے شادی سے انکار کرنے والے ہو اسے یقین نہ آیا ۔

وہ دو کوڑی کی لڑکی نہیں بلکہ اشعر شاہ کے دل کی دھڑکن ہے او میرے لیے خاص ہے فرحت اور وہی میری زندگی میں شامل ہو گی ۔میں تمہارے لئے نہ تو اسے چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ہی کبھی بھلا سکتا ہوں اسی لئے بہتر ہے کہ اپنے راستے بدل لو ۔تم کبھی اشعر شاہ کے معیار پر کھڑی نہیں اتر سکتی آج وہ صاف الفاظ میں کہہ گیا تھا

اشعر شاہ کو صوفیہ جیسی ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والی بیوی چاہیے زرین جیسی دوسروں کا گھر توڑنے والی نہیں اور تم صرف زرین بن سکتی ہو صوفیہ بننا تمہاری اوقات نہیاں لفاظ تھے یا پھگلتا ہوا سیسہ جو آجاشعر نے اس کے کانوں میں اڈیل گیا تھا فرحت وہی ساکت کھڑی اسے دیکھتے رہ گئی اور اشعر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔

جب کسی فرحت ٹکرائے جانے کے احساس کی پیچھے تک نہ آ سکی

°°°°°°°°°°

وہ خراب موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا تو دیکھا کہ آج پہلی بار نمیش ٹیبل پر ڈنر لگا رہی تھی

نمیش یہ تم کیا کر رہی ہو تمہاری طبیعت پہلے بھی ٹھیک نہیں ہےاور تم کام کر رہی ہو صدف کہاں مر گئی ہے وہ غصے میں تھا اسی لئے جھنجلا کر بولا ۔

کیا ہوگیا ہے اشعر میں تو ایسے ہی صدف کی مدد کرنے لگی اور کونسا کسی غیر کے گھر کام کر رہی ہوں میرا اپنا تو گھر ہے یہ سب کچھ مجھے ہی تو سنبھالنا ہے آج اس کے انداز بدلے بدلے تھے اشعرنے لمحے میں نوٹ کیا تھا اور اس کا اوف موڈ اپنے آپ ی خوش گوار ہونے لگا ۔

طبیعت کیسی ہے اب تمہاری وہ اس کے ماتھے کو ہاتھ لگاتے کہنے لگا

اتنا خیال رکھنے والا شوہر ہو تو بھلا بیماری کیا مجال جو میرے آس پاس بھٹکے وہ کہتے ہوئے شرمائی تھی اشعر کی مسکراہٹ گہری ہوئی

کیا ہوگیا ہے بیوی لگتا ہے بخار سر چڑھ گیا ہے تبھی تو اتنی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو اور اشعر کواس کا یہ اندازہ لگا  تھا

لیکن اس کے اس جملے نے نمیش کا موڈ خراب کر دیا تھا

آپ تو بس چاہتے ہیں ہمیشہ منہ پھلا کر بیٹھی رہوں ہمیشہ آپ سے خفا رہوں تاکہ جہاں چاہے منہ مارے ایک بات کان کھول کر سن لیں اب سے آپ کو اپنی مرضی ہرگز نہیں کرنے دوں گی اب جو بھی ہو کر سب میری پسند سے ہوگا کیسا میں چاہوں گی ویسا ہوگا

اور میں جانتی ہوں میں جیسا چاہو گی ویسا ہی ہوگا کیوں کہ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور کبھی مجھے تکلیف نہیں پہنچا سکتے ۔۔۔۔اس کی آواز میں مان تھا  اس کی اگلی حرکت پر اثر پریشان ہو کر رہ گیا تھا

اشعر کیوں کرتے ہیں آپ مجھ سے پیار میں اتنی اچھی تو نہیں ہوں نہ جانے اس کے آنے پر کیا کیا سوچے ہوئے تھی اس کی نظروں میں اپنے لیے بے پناہ محبت دیکھ کر اس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

چاچی نے تو منع کیا تھا اسے رونے سے کہا تھا بالکل مت رونا ہنسی خوشی اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنا قسمت والی ہو کے اشعر جیسا شوہر تمہیں ملا ہے اب تم نے اس کی اور اپنی زندگی کو جنت بنانا ہے کتنے عزم لے کر آئی تھی وہ یہاں

کہ وہ اس رشتے کو قبول کرے گی اشعر کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرے گی لیکن اس شخص کے احسان تلے وہ اس حد تک دبی ہوئی تھی کہ وہ اپنے آنسو پر کنٹرول ہی نہ کر سکی کتنا عظیم تھا یہ شخص جو اتنا سب کچھ کرنے کے بعد جتلاتا تک نہیں  تھا ۔

نمیش کیا بے وقوفی ہے اس طرح سے رو کیوں رہی ہو  وہ جواس کے انداز پر خوش تھا اس کے یوں رونے پر پوری طرح سے بوکھلا اٹھا

اشعر میں بہت بری بیوی ہوں میں نے آپ کو بہت تنگ کیا آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا پلیز مجھے معاف کر دیں ۔آپ نے میرے لئے اتنا کچھ کیا ہمیشہ میرے ہم درد بن کر میرے ساتھ کھڑے رہے اور میں آپ کی محبت کی قدر نہ کرسکی

اتنی ناقدری ہوں میں ۔میرا اچھا نصیب میرے سامنے باہیں پھیلا کر کھڑا تھا اور میں اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے اسے ٹکراتی چلی گئی ۔کتنی نہ سمجھ ہوں بلکہ بہت بڑی بے وقوف ہوں میں گدی ہوں میں

وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے اسے اپنی خوبیاں گنوا رہی تھی ۔جبکہ اشعر مسکرائے جا رہا تھا

اس میں تو کوئی شک نہیں گدی تو تم واقع ہی ہو ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا تو نمیش نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا لیکن وہ اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بغیر اس کا سر دوبارہ اپنے سینے پر رکھ چکا تھا

نمی ڈارلنگ اب جب تمہیں ہوش آہی گیا ہے تمہاری عقل ٹھکانے لگ ہی چکی ہے تو اب تمہارا شوہر تمہیں مزید کوئی بیوقوفی نہیں کرنے دے گا

آج ہم اپنی زندگی کی نئی شروعات کریں گے ایک دوسرے کے ساتھ وہ محبت سے کہہ رہا تھا جب کہ نمیش مسکراتے ہوئے نظر جھکا گئی لیکن اس سے اگلی بات پر بے اختیار اس کی نظریں اٹھی تھی

تو پھر چلیں روم میں وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامیں بہت محبت سے بولا  جبکہ نمیش تو بری طرح سے گھبرائی

اشعر مجھے بھوک لگی ہے وہ اس سے دور ہوتے ہوئے کہنے لگی لیکن گرفت میں مضبوطی تھی

ایسی کی تیسی تمہاری بھوک کی اس کی مزاحمت کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اسے ایک ہی لمحے میں اپنی باہوں میں اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ گیا

°°°°°°°°°°

فرحت بیٹا رونا بند کرو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کوئی بھی باہر کی لڑکی اشعر  کی زندگی میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتی اور جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ میرا بیٹا ہے میرے سامنے کبھی انکار نہیں کر سکتا

حویلی کے بیچوں بیچ فرحت نے رونا دھونا مچا کے رکھا تھا جبکہ گھر کے تمام افراد وہیں پر موجود تھے دادا دادی کو تو وہ ہمیشہ سے ہی بالکل پسند نہیں تھی لیکن آج اشعر کا صاف انکار انہیں سرشار کر گیا تھا

جب کہ شاہ صاحب کو جب کچھ بھی سمجھ نہیں آتا تو وہ صوفیہ کو ہی اپنے غضب کا نشانہ بناتے تھے اس وقت بھی وہ ان کی تربیت کو کوس رہے تھے ۔صوفیہ تو اس سب کے لیے پہلے ہی تیار تھی وہ جانتی تھی آج نہیں تو کل یہ سب کچھ ہونا ہی ہے ۔

جبکہ زرین اپنی بھانجی کو اپنے ساتھ لگایا سے رونے سے روکنے کی بجائے اشعر کو ہیں کوس رہی تھی

شاہ صاحب سن لیں آپ اگر اس نے میری بھانجی کو انکار کیا تو اپنے خاندان میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گی میں پورے خاندان میں یہ بات کہہ کے آئی ہوں کہ میں اپنی بھتجی کو اپنی بہو بناؤں گی اگراشعر نے انکار کیا تو اچھا نہیں ہو گا ۔

زرین نے اپنا رونا دھونا مچا کے رکھا تھا اور شاہ صاحب کا سارا غصہ باربار صوفیہ بیگم پر ہی نکل رہا تھا

اب خاموش کیوں کھڑی ہو فون کرو اپنے بیٹے کو رو سے یہاں بلاو وہ انتہائی غصے سے صوفیہ بیگم پر چلائے تھے جب صوفیہ نے ایک نظر ان پھوپو بتیجی کی طرف دیکھا اور پھر فون کی جانب بڑھ گئی

وہ اسے اپنی باہوں میں اٹھائے بیڈروم میں لے آیا نمیش نرمی سے اس کے سینے پر سر رکھے چہرہ چھپائے ہوئے تھیی

اشعر نے اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے ایک نظر اس کے حسین چہرے کو دیکھا تو وہ شرما کر رخ موڑگئی اشعر اس کی اس ادا پر وہ مسکرا دیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے اس کی جانب پیش قدمی کی

نمیش نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کیا تھا

آخر یہ شخص اس کی دل کی دنیا کا مالک بننے میں کامیاب ہو ہی گیا اس کے پاس آتے ہوئے اشعر نے اس کا چہرہ اپنی جانب کیا تو نظر جھکائے بنا کسی مزاحمت کے اس کے بالکل قریب آ چکی تھی

 اشعر نے عقیدت سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقوش کو چومتے ہوئے اسے خود میں سمیٹا تو وہ اس کی باہوں میں سمٹتی چلی گئی

آج ان دونوں نے اپنی منزل کو پا لیا تھا آج صحیح معنوں میں ان کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوئی تھی جس میں وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قدم اٹھا رہے تھے

°°°°°°°°

بہت بار فون کرنے کے بعد بھی اشعر نے فون نہیں اٹھایا تو صوفیاہ بیگم پریشان ہوگئیں

انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اشعر فون کیوں نہیں اٹھا رہا وہ تو گھر کا فون نمبر دیکھتے ہی فوراً ہر کام چھوڑ کر انہیں فون کرتا تھا تو آج کیا وجہ تھی جو وہ انہیں ان کا فون نظر انداز کر رہا تھا وہ اتنا غیر ذمہ دار تو کبھی نہیں رہا تھا

فرحت میری جان تم فکر مت کرو اشعر نے تمہیں انکار کیا ہے لیکن مجھے انکار نہیں کر پائے گا کل ہی اس کی برتھ ڈے ہے اور کل شام وہ جہاں بھی ہوا گھر واپس ضرور آئے گا اور کل کی محفل میں سب کے سامنے یہ علان کروں گا کہ تم اشعر شاہ کی ہونے والی بیوی اور میری ہونے والی بہو ہو صاحب نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا تھا

لیکن انکل اشعر ۔۔۔۔وہ آنکھوں میں نمی لیے ہوئے سوالیہ انداز میں کہنے لگی

وہ میرا بیٹا ہے فرحت اور وہی کرے گا جو اسے میں کہوں گا وہ کبھی تمہیں ٹھکرا نہیں پائے گا تمہی میرے گھر کی بہو بنو گی یہ میرا وعدہ ہے تم سے کل پوری محفل کے بیچ وہ کبھی تمہیں انکار نہیں کر پائے گا اور نہ ہی اپنے باپ کی عزت کو داؤ پر لگائے گا

شاہ صاحب نے یقین سے کہا تو فرحت اٹھ کر ان کے سینے سے آ لگی

جبکہ صوفیہ بیگم وہی تھوڑے فاصلے پر رکیں ان لوگوں کی باتیں سن رہی تھیں

کل ان کے بیٹے کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا کل اسے اپنے باپ یا پھر بیوی میں سے کسی ایک کو چننا تھا ابھی تو شاہ صاحب جانتے تک نہیں تھے کہ اشعراپنی زندگی میں بہت آگے بڑھ چکا ہے

صوفیہ بیگم رات ساری بار بار اشعر کو فون کرنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن اس کا فون نہ لگا

°°°°°°°°

وہ ساری رات ایک لمحے کو بھی نہ سو سکا اسے حاصل کرنے کے بعد اس کی محبت میں کمی نہ آئی تھی بلکہ آج تو وہ اس لڑکی کے لئے اپنی محبت کو بھرتا ہوا محسوس کر رہا تھا

 آج یہ لڑکی اسے اپنی رگ جان سے زیادہ قریب لگی تھی وہ اس کے لئے اہم تو ہمیشہ سے ہی تھی لیکن آج وہ اسے اپنا آپ محسوس ہوئی

وہ اسے دیکھے جا رہا تھا اس کا حسین روپ اشعر کو بے خود کر رہا تھا اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے نمیش نے آنکھیں کھولیں تو اسے خود کو دیکھتے پایا اس وقت اس شخص سے نظریں ملانا نمیش کے لیے دنیا کا سب سے مشکل ترین کام تھا

جبکہ اس کا یوں اپنے آپ کو دیکھتے رہنا نمیش کو کنفیوز کر رہا تھا اوراشعر کو اس کی حالت مزہ دے رہی تھی آخرکار اس کی نظروں سے گھبرا کر اس نے اٹھنا بہتر سمجھا لیکن اشعر نے ایسا نہیں ہونے دیا چھوڑیں مجھے پلیزاشعر اور اب بھی جائیں فریش ہوں اور جائیں آفس آپ کی اہم میٹنگ تھی نہ آج وہ نا جانے اسے کون سے اہم میٹنگ کا احساس دلانا رہی تھی جب کہ آج تو اشعر کی کوئی اہم میٹنگ نہیں تھی اور اسے یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے کبھی نمیش کو اپنی اہم میٹنگ کا یاد دلانے کا کام دیا بھی نہیں تھا۔

مجھے ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے نمی ڈارلنگ کہ میں اپنی اتنی پیاری بیوی کو اپنی برتھ ڈے والے دن اکیلے چھوڑ کر چلا جاؤں اور میری بیوی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اچھی بیویوں کی طرح اپنے شوہر کی سالگرہ کی اسپیشل بناتے ہوئے سارا دن اس کے ساتھ گزارے وہ اسے اپنی باہوں میں لیے اس کے چہرے پر جھکا

اشعر کیا سچ میں آج آپ کی برتھ ڈے ہے وہ بے یقینی سے کہنے لگی جبکہ اس کا حصار اب تنگ ہو رہا تھا

جی محترمہ آج اتفاق سے آپ کے شوہر کی سالگرہ ہے اور آپ اچھی بیویوں کی طرح اسے وش کرو وہ اس کے لبوں پر جھکتے ہوئے کہنے لگا ۔

آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ آج آپ کی برتھ ڈے ہے میں آپ کے لیے کوئی گفٹ لے کر آتی وہ اس کے لبوں پر ہاتھ جمائے ناراضگی سے کہنے لگی

جتنا خوبصورت گفٹ کل رات تم نے مجھے دیا ہے نا ایسا گفٹ کوئی مجھے نہیں دے سکتا وہ مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہوںٹھوں سے ہٹا کر اس کے لبوں کو چوم چکا تھا

آئی لو یو نمیش تھینک یو سو مچ میری زندگی میں آنے کے لیے میری محبت کو قبول کرنے کے لئے اس کے چہرے پر جابجا اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے ہوئے وہ محبت سے کہہ رہا تھا جبکہ نمیش اس کی باہوں میں پگلتی ان خوبصورت لمحات کو محسوس کر رہی تھی

°°°°°°°°°°

وہ باہر آیا تو اپنا فون باہر ٹیبل پر پڑا دیکھا کل نمیش کے ساتھ خوبصورت وقت گزارنے کے لئے اس نے اپنا فون سائیڈ پر لگاتے ہوئے باہر ہی چھوڑ دیا تھا

 وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی انہیں ڈسٹرب کرے اب فون کو دیکھتے ہوئے اس نے گھر سے اتنی زیادہ کالز دیکھی تو تھوڑا پریشان ہوگیا پھر سوچا شاید وہ لوگ اس کی برتھ ڈے کے بارے میں بات کرنے کے لیے فون کر رہے ہوں گے

 کیونکہ یہ بات تو وہ بھی جانتا تھا کہ آج اس کے گھر میں ایک بہت بڑی محفل کا انتظام کیا گیا ہوگا ۔

پہلے لینڈ لائن سے فون آتا رہا بعد میں اس کی ماں اپنے پرسنل فون سے بھی اسے بار بار کال کرنے کی کوشش کرتی رہیں اپنی ماں کی محبت اور فکر دیکھتے ہوئے مسکرا کر اس نے انہیں فون کیا تھا لیکن آگے سے جو بات انہوں نے اسے بتائی و اسے سچ میں پریشان کر گئی تھی

لیکن آج نہیں تو کل تو یہ ہونا ہی تھا وہ ان سب کے لئے ہمیشہ سے تیار تھا ۔اپنی ماں کو بے فکر ہونے کا کہہ کر اس نے فون بند کیا اور کمرے میں آ کر نمیش کو تیار ہونے کے لیے کہا

ہم کہیں جارہے ہیں کیا نمیش نے پوچھا

یس نمی ڈارلنگ آج تم اپنے سسرال جا رہی ہو اس نے مسکراتے ہوئے اس کا ماتھا جوما نمیش کافی کنفیوزنگ رہی تھی لیکن وہ اسے وہاں لے کر جانے سے پہلے کسی قسم کی کوئی خوش فہمی نہیں دینا چاہتا تھا اس نے نمیش کو یہ نہیں کہا تھا کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یا وہاں سب کچھ اچھا ہو گا یا وہ لوگ تم سے پیار کریں گے

یا وہ لوگ تمہارے ساتھ کس طرح کا سلوک کریں گے ۔

اس نے بس اتنا کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور ہمیشہ رہوں گا اور نمیش کے لیے بس یہی الفاظ کافی تھے

°°°°°°°°

محفل اپنے عروج پر تھی یہ شہر کی سب سے بڑی پارٹی تھی یہاں بڑے بڑے بزنس مین سے لے کر ادکار فنکار بھی شامل تھے شہر میں موجود ہر برا نام اس محفل کی زینت بنا ہوا تھا ۔

صوفیہ بیگم شاہ صاحب کے پہلو میں کھڑی مہمانوں سے مل رہی تھیں جبکہ زرین تھوڑے فاصلہ پر فرحت کے ساتھ کھڑی جلن سے سرخ ہو رہی تھی آج اتنے سالوں کے بعد بھی وہ ان سب کی نظروں میں اپنا وہ مقام نہیں بنا پائی تھی جس کے لیے انہوں نے شاہ صاحب سے شادی کی تھی انہیں دولت مل گئی جائیداد مل گئی وہ اپنی مرضی کی مالک بن چکی تھی وہ جس چیز پہ ہاتھ رکھتی شاہ صاحب ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے

انہیں ان کی زندگی کی ہر خوشی ملی تھی لیکن جو خوشی وہ حاصل نہیں کرپائی وہ تھی صوفیہ بیگم کی جگہ ان کا مقام 

وہ صوفیہ بیگم کو جاھل گوار عورت کہا کرتی تھی اور انہیں ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور صوفیہ بیگم کچھ بھی نہ کہتے ہوئے ایسی محفلوں میں شاہ صاحب کے پہلو میں کھڑے ہوکر سب حساب برابر کر لیتیں۔

زرین نے شاہ صاحب کو کتنی بار کہا کہ وہ محفل میں سب کے سامنے انہیں وہ اہمیت دیں جو صوفیہ بیگم کو ملتی ہے ۔

شاہ صاحب نے ان کی خوشی کے لئے ایک آدھ بار کوشش بھی کر لی تھی ۔لیکن سچائی نہ بدلی ۔دنیا والوں نے ایک سیکرٹری کو شاہ صاحب کی بیوی کے روپ میں قبول نہ کیا ان کے خاندان والوں نے انہیں بہت برے الفاظوں سے مخاطب کیا ۔

شاہ صاحب کے والد نے انہیں جائیداد سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی تو شاہ صاحب نے کچھ وقت کے لئے زرین کا ہاتھ چھوڑ دیا لیکن پھر اچانک ہی یہ پتا چلا کہ وہ زرین سے نکاح کر چکے ہیں

شاہ صاحب کو اپنی شادی کے کتنے سال تک دنیا سے یہ بات چھپانی بھری کہ انہوں نے اپنی سیکرٹری سے چھپ کر شادی کر لی ہے ۔

اور جب یہ بات سامنے آئی تو اشعر کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا دس سال انہوں نے اپنے اس بے نام شادی کو چھپا کر رکھا ۔لیکن شاہ صاحب کے والد کے لیے یہ جھٹکا بھی کم نہیں تھا کہ ان کی بہو صوفیا بیگم ان کی شادی کے بارے میں ہمیشہ سے جانتیں تھیں شاہ صاحب نے کبھی بھی انہیں اپنی بیگم تسلیم نہیں کیا صوفیہ بیگم کی اہمیت ان کی نظروں میں بس اتنی ہی تھی کہ وہ ان کے والدین کی پسند ہیں لیکن شاہ صاحب نے اپنے والدین کی پسند کو اپنی پسند کبھی نہیں بننے دیا ۔

اور ان کی پسندیدہ بیوی زرین کبھی بھی ان کے والدین کی پسند نہ بن پائیں اور جس کو ان کے خاندان نے قبول نہ کیا اسے خاندان والے یا سوسائٹی والے کیا قبول کرتے ان سب کی نظروں میں زرین ایک لالچی اور بدکردار عورت تھی جس نے اپنے باس کو نہ صرف پھنسایا بلکہ ان سے نکاح کر کے صوفیہ بیگم جیسی نرم دل عورت کا دل دکھایا ۔

سزرین جو یہ مقام حاصل کرنا چاہتی تھی آج بھی صرف اقوال زرین کے ایک جاھل گوار عورت سے ہار گئی تھی ۔

°°°°°°°°°

اشعر یہ تو بہت بری پارٹی لگ رہی ہے میں کبھی اس طرح کی پارٹی میں نہیں گئی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے وہ گاڑی سے اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی سرخ شفون کی ساڑھی میں اس کا نازک ساوجوداشعر کے دل پر بجلیاں گرا رہا تھا ۔

ڈارلنگ تم خود اندر چل رہی ہویا میں تمہیں اپنی باہوں میں اٹھا کر لے چلوں ویسے بھی تو میں یہاں اندر لے جانے کے لیے کچھ اسپیشنل کرنا چاہیے اخر تم آج پہلی بار آئی ہو اپنے سسرال وہ مسکراتے ہوئے شرارت سے کہنے لگا تو نمیش نے اسے گھورتے ہوئے گاڑی سے باہر قدم رکھا ۔

اور اس بار اشعر نے نمیش کی ایک بھی بات سنے بغیر اس کا ہاتھ تھاما اور اندر کی طرف قدم بڑھائے ۔

ایک ملازم نے اشعر کو اندر آتے دیکھ کر فورا شاہ صاحب کو خبر کی اور شاہ صاحب نے اپنے پلان کے مطابق مائیک کو اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔

لیڈیز اینڈ جنٹرمین جیسا کیا آپ سب جانتے ہیں کہ آج یہ محفل میرے بیٹے کی سالگرہ کی خوشی میں دی گئی ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور بہت خاص مقصد ہے جس کے بارے میں آج ایک اناؤنسمنٹ کرنا چاہتا ہوں

 آج میں نے اشعر کی زندگی کا ایک بہت اہم فصیلہ کیا ہے ۔شاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے اشعر کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو انہوں نے اپنا بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔جبکہ اس کے ساتھ کھڑی سرخ ساڑھی میں اس لڑکی کو وہ مکمل نظر انداز کر چکے تھے

لیکن محفل میں موجود سب لوگ ہی اس سرخ ساڑھی والی حسین لڑکی کو دیکھ رہے تھے فرحت کی آنکھوں میں جلن سے اترنے لگی جب کہ زرین اس لڑکی کو دیکھ کر اچھی خاصی پریشان ہو چکی تھی

اشعر نے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے ان کے ہاتھ سے مائیک لے لیا ۔

آئی ایم سوری ڈیڈ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں خود یہ اہم خبر سب کو دوں ۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میری سالگرہ پر ڈیڈ کوئی نہ کوئی دھماکا تو کرتے ہی رہتے ہیں کبھی کوئی نئی کمپنی سے بزنس ڈیل ہو جانے پر خوشی تو کبھی کوئی نئی برینڈ کو ہائر کرنے کی خوشی لیکن آج میں جو دھماکہ کرنے جارہا ہوں وہ شاید پچھلے تمام دھماکوں سے برا ہوگا ۔

جی بالکل ۔آج میں آپ سب کو اپنی شادی کے بارے میں بتانے جا رہا ہوں ۔اشعر کے چہرے پرکھلی مسکراہٹ اب شاہ صاحب کو پریشان کرنے لگی تھی ۔اور اصل جھٹکا تو انہیں تب لگا جب اس نے سامنے کھڑی اس سرخ ساڑھی والی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنی طرف بلایا ۔

نمیش کنفیوژن سی کھڑی یہ سب کچھ سن رہی تھی اسے ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جب اس نے اپنے کندھے پر ایک مہربان سالمس محسوس کیا ایک خوبصورت سی عورت اس کے بالکل پاس کھڑی مسکراتے ہوئے اسے اشرر کے پاس جانے کا کہہ رہی تھی

°°°°°°°°

نمیش مسکراتے ہوئے اس کے پہلو میں جا روکی تھی ۔تمام اینکرز اور رپورٹرز ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ان سے سوال کرنے میں مصروف ہو چکے تھے ۔

فرحت اور زرین تو غصے سے محفل ہی چھوڑ چکی تھی زرین کو محفل چھوڑتے ہوئے شاہ صاحب نے بہت غور سے دیکھا تھا لیکن ان کی مجبوری تھی وہ سب کے سامنے یوں جا نہیں سکتے تھے ۔

اشعر نمیش کا ہاتھ تھامیں ان سب کے سوالوں کے جواب دیتا اب انہیں نمیش کی طرف متوجہ کر چکا تھا سب کے سامنے نمیش کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے کیک کاٹا ۔

جب کہ وہ اس کے پہلو میں مسکراتے ہوئے بے حد خوش تھی وہ اسے چاہتا ہے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن وہ اپنی محبت کا یوں ثبوت ساری دنیا کے سامنے اسے مان بخشش کر دے گا یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔

جہاں اشعر اس کی مسکراہٹ میں جی رہا تھا وہی آنے والے وقت کو سوچ کر کافی پریشان بھی تھا کیونکہ جانتا تھا کہ اس محفل کے ختم ہونے کے بعد یہاں کون سا طوفان آنے والا ہے

°°°°°°°°

اشعر یہ ہمارا کمرہ ہے وہ اسے اپنے بیڈ روم میں لے کر آیا تو نمیش پورے کمرے کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی اشعر نے ہاں میں سر ہلایا

میری جان تم یہاں تھوڑی دیر آرام کرو تب تک میں سب مہمانوں کو سی آف کر کے آتا ہوں پھر مل کر دیکھیں گے یہ کمرا اور یہ پورا گھر بھی اس نے مسکراتے ہوئے اس کے گال پر بوسہ دیا جس پر نمیش شرماتے ہوئے سرجھکا گئی اسے وہی شرماتا چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر نکل آیا تھا ۔

°°°°°°

باہر لان میں ہی اس کی سوچ کے عین مطابق بابا نے شور مچا رکھا تھا اور ان کے تمام تر تیروں کا رخ اس کی ماں کی جانب تھا

یہ تمہاری ہی تربیت کا اثر ہے بیکار اور تمہاری وجہ سے آج میرا بیٹا ایک بیکارن کو اٹھا کر لے آیا ہے

بات ہم تک رہتی تو میں میڈیا تک جانے سے روک لیتا لیکن اس لڑکے نے تو اس لڑکی کو اشتہار بنا کر پوری دنیا کے سامنے کھڑا کر دیا ہے

ایک بات کان کھول کر سن لو میں کسی  دو کوڑی کی لڑکی کو اپنے گھر کی بہو ہرگز نہیں مانوں گا ۔اس گھر میں میری بہو بن کر صرف اور صرف فرحت ائے گی جس سے میں نے وعدہ کیا ہوا ہے ۔اس لیے بہتر ہو گا کہ تم بھی اپنے بیٹے کے دماغ سے یہ سارے فتور نکال دو وہ انتہائی غصے سے صوفیہ بیگم کو سخت سست سنا رہے تھے

آپ کو جو بات کرنی ہے مجھ سے کریں بابا ماما کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر پایا اس لئے ان کے سامنے آ کر کہنے لگا

آؤ تو جناب آپ کو بھی فرصت مل گئی اپنی بیگم سے کہاں سے اٹھا لائے ہو یہ گندگی ہمارے گھر میں ابھی کے ابھی اس لڑکی کو  طلاق دو اسے یہاں سے فارغ کرو ۔

تم نے سوچا بھی کیسے کہ تم کسی کو بھی اٹھا کر لے آؤ گے اور ہم اسے اپنے گھر کی بہو بنا لیں گےاور تم نے کس سے پوچھ کر اسے بھری محفل میں اپنی بیوی کے طور پر متعارف کروایا  بابا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ پر ہی جھاڑ دیں

اگر میں نے نکاح کے لئے کسی سے اجازت نہیں مانگی تو آپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہے بابا کہ مجھے اسے سب کے سامنے متعارف کروانے کے لیے  آپ کے کی اجازت کی ضرورت ہوگی نمیش میری بیوی ہے اور میں نے اللہ اور اس کے رسول کو حاضر ناظر جان کر اس سے نکاح کیا ہے دوسرے تیسرے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ طلاق کی بات آئندہ مت کیجئے گا بہت مان سے میں نے اسے اپنی بیوی بنایا ہے اور اب مرتے دم تک وہ ہی میری بیوی رہے گی

وہ بھی انہی کا بیٹا تھا اسی لیے شاید ان ہی کی زبان میں ان سے بات کر رہا تھا نارمل بات تو ویسے بھی شاہ صاحب کی سمجھ سے باہر تھی

مطلب تم ایک عام لڑکی کے لئے اپنے ماں باپ کے سامنے بغاوت کرو گے ۔تم ایک لڑکی کیلئے اپنے ماں باپ سے اس لہجے میں بات کرو گے

اگر ایسی بات ہے تو سن لو اشعر اب تمہیں اس لڑکی یا ہم میں سے کسی کے کو چھننا ہو گا ۔یہ لڑکی بہت اہم ہے نہ تمہارے لئے تو بتاو تمہیں یہ لڑکی چاہئے یا اپنے ماں باپ وہ غصے سے اسے گھورتے ہوئے بولے سیڑیوں سے اترتی نمیش بھی ان کی باتیں سن کر پرہشان ہو گئی تھی۔

اشعر نے ایک نظر نمیش کی جانب دیکھا اور پھر آہستہ سے قدم اٹھاتا اس کے پاس آیا

اگر آپ یہ ہی سننا چاہتے ہیں تو سن لیں شاہ صاحب میں آپ کو چھوڑ سکتا ہوں مگر نمیش کو نہیں اشعر نے مضبوط لہجے میں کہا

تم اس لڑکی کے لیے اپنے ماں باپ کو چھوڑنے کی بات کر رہے ہو شاہ صاحب کو جھٹکا لگا

ماں باپ کونہیں صرف باپ کو مجھے یقین ہے میری ماں میرے ہر فیصلے میں میرے ساتھ ہے اس نے یقین سے کہا تو شاہ صاحب نے ایک نظر صوفیہ بیگم کو دیکھا جن کو دیکھ کے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اس سب کے بارے میں کافی پہلے سے جانتی ہیں۔

میں پہلے سے جانتا تھا یہ سب تمہاری ہی دی ہوئی چھوٹ ہے وہ مسز شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے پھر پلٹ کر اشعرکو جواب دینے لگے اس بار جو تمہارا کسی نے ساتھ دیا نا اشعرتو اسے میرا ساتھ چھوڑنا ہوگا شاہ صاحب نے جیسے ضد باندھ لی تھی اسے ہرانے کی ۔

جبکہ ان کے الفاظ نے تو صوفیا بیگم کو دل پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر دیا تھا کتنی آسانی سے یہ شخص انہیں ان کے بیٹے کے سامنے دو کوڑی کا کر گیا تھا اس شخص کا ساتھ دینے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا انہوں نے اور یہ صلہ دیا تھا شاہ صاحب نے ان کی اتنے برسوں کی وفاؤں کا ۔

اب میں اپنی ماں کو یہاں رہنے بھی نہیں دوں گا بس بہت ہوگیا بابا آپ کبھی اس عورت کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتے آپ کبھی ان کی قربانیوں کو نہیں سمجھ سکتے ان کی وفاؤں کا صلہ نہیں دے سکتے آپ اس کے قابل ہی نہیں ہیں ان کے انداز نے اشعر کو بھی اچھا خاصہ غصہ دلادیا تھا جس کا اظہار کرنے میں آج وہ پیچھے نہ ہٹا ۔

میں تمہاری ماں کے قابل نہیں ہوں میں شاہ انڈسٹریز کا مالک ایک کامیاب بزنس ٹائیکون تمہاری ماں کیا ہے اب وہ مقابلے پر اتر آئے تھے ۔

میری ماں بھی آج  کامیاب ترین بزنس وومن ہو سکتی تھی بابا لیکن آپ کے لئے آپ کے گھر کے لئے آپ کے بوڑھے ماں باپ کے لئے اور آپ کی اولاد کے لیے آج میری ماں صرف مسز شاہ ہے اور کچھ نہیں ہے ۔

لیکن یہ ساری باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی آپ کبھی میری ماں کو سمجھ ہی نہیں سکتے ارے آپ کیوں چھوڑیں گے چھوڑ تو ہم رہے ہیں آپ کو آپ کو آپ کا یہ محل یہ نوکر چاکر یہ محفل یہ رونق مبارک ہوں میں اپنی ماں کو لے کر یہاں سے جا رہا ہوں ۔

کیونکہ میری ماں کو یہ غلط فہمی تھی کہ آپ کو ان کی ضرورت ہے لیکن آج یہ غلط فہمی دور ہو گی ۔چلیں ماں یہاں سے اس گھر میں آپ کی ضرورت کسی کو نہیں ہے سوائے آپ کے بیٹے کے وہ صوفیہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہنے لگا وہ تو کتنے سالوں سے انہیں یہاں سے چلنے کے لئے کہہ رہا تھا لیکن وہی امید کے ایک سہارے پر بیٹھی تھی کہ آج نہیں تو کل شاہ صاحب لوٹ آئیں گے ۔

لیکن شاید اب ان کے لوٹ کر آنے کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا انہوں نے ایک نظر اپنے بوڑھے ساس سسر کی طرف دیکھا دونوں ہاں میں سر ہلاتے ہوئے انہیں عذاب سے نکل جانے کا کہہ رہے تھے ۔

تین دن کے بعد وہ لوگ بھی عمرے کی ادائیگی کے لیے یہاں سے جانے والے تھے اور آج بھی اس لمحے کو پچھتاتے تھے جب اپنے بیٹے کی ضد کو نظرانداز  کرکے انہوں نے صوفیا کو ان کی زندگی میں شامل کر دیا تھا لیکن صوفیہ بیگم کبھی بھی اپنا حق منوا نہ پائیں اور آج انکا بیٹا انہیں اس عذاب سے نکالنا چاہتا تھا تو وہ بھی ان کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے

اس نے ایک نظر اپنے باپ کی جانب دیکھا اور پھر اپنی ماں  اور نمیش کا ہاتھ تھامتے ہوئے بنا مڑے وہاں سے نکلتا چلا گیا

°°°°°°°°

شاہ صاحب آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں دو دن یہ عیش و عشرت نہیں ملے گی تو خود ہی لوٹ آئے گا آپ بیکار میں اپنا بی پی ہائی کررہے ہیں زرین ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے ان کے قریب آ بیٹھی۔

نہیں زرین  پریشانی کی بات تو ہے اس طرح وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا بابا جان نے ساری جائیداد میرے نام کرنے کے بجائے اشعر کے نام کردی ہے اب میرے پاس گھر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے

خیر اس بات کی تو مجھے پرواہ بھی نہیں ہے سب کچھ اسی کا ہے اسی کے نام ہونا تھا آج نہیں تو کل سہی

مگر مجھے فکر  اسی بات کی ہے نہ جانے کس لڑکی کو اٹھا کر گھر لے آیا تھا پتا نہیں کون ہے جس سے نکاح پڑھوالیا ہے ایسی لڑکیاں بہت تیز ہوتی ہیں دو دن میں لوٹ کھائیں گی اسے شاہ صاحب پریشانی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے جبکہ زرین کی تو سر پر لگی گھر پر بجھی مطلب کے ساری جائیداد کا مالک اشعر تھا شاہ صاحب تو دو کوڑی کے بھی مالک نہیں تھے اس بزنس میں اور وہ کس امید پر اتنے سالوں سے ان کے ساتھ بنتی چلی جا رہی تھی

سچائی جاننے کے بعد ان کے پاس ہمت دینے کے لیے دو بول بھی نہ رہے وہ غصے سے اٹھ کر باہر چلی گئی جبکہ شاہ صاحب اب تک اس بات پر یقین نہیں کر پائے تھے کہ صوفیہ میں بھی انہیں چھوڑ کر جا چکی ہیں

°°°°°°°°°°

کیا مطلب ہے آپ کا پھوپو ۔۔۔!مطلب کہ اس جائیداد میں آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہے آپ تو کہہ رہی تھی کہ بس سب کچھ آپ کے نام لگنے کی دیر ہے فرحت اس کا سرخ چہرہ دیکھتے ہوئے کہنے لگی انداز ایسا تھا کہ ہمدردی کم اور مزاق اترتا زیادہ محسوس ہوا

نہیں یہ سب کچھ میرا ہے میرے اتنے سالوں کی محنت ہے اس طرح سے تو میں اس لڑکی کو قبضہ کرنے نہیں دوں گی میں جلد ہی کوئی حل نکالوں گی اس سب کا

شاہ صاحب مجھے اس طرح سے نا امید تو نہیں کر سکتے جائیداد میں کچھ نہ کچھ تو مجھے دیں گے ہیں ۔

نہیں تو اس جائیداد کے لیے جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی میں اس جائیداد کے وارث اشعر کو ہی راستے سے ہٹا دوں گی انہوں نے اپنے خطرناک ترین ارادے اس پر ظاہر کی تو فرحت پریشان ہوگئی

پھوپو یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں مطلب آپ اشعر کو مروانا چاہتی ہیں فرحت کو جھٹکا لگا تھا

اس جائیداد کے لئے مجھے جو بھی کرنا پڑا میں کرونگی فرحت اور اگر تم میرا ساتھ دو گی تو تمہیں بہت فائدہ بھی ہوگا وہ اسے لالچ دینے لگی

آئی ایم سوری پھوپھو لیکن کل صبح کی فلائٹ سے میں امریکہ جا رہی ہوں مجھے اشعر میں پہلے بھی کوئی انٹرسٹ نہیں تھا وہ تو صرف اس کی جائیداد کے لیے میں اس کے آگے پیچھے گھوم رہی تھیں خیر اشعر نہیں تو کوئی اور سہی لیکن آپ کے ان خطرناک ارادوں میں میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں آئی ایم سوری وہ اپنا بیگ اٹھاتی صاف جواب دے کر باہر نکل گئی ۔

سب کے پر نکل آئے ہیں کوئی بات نہیں جب یہ جائیداد میرے نام ہوگی تب پھر سے تلوے چاٹتے پھرو گے میرے زریں بڑبڑاتے ہوئے اپنے پلان کوترتیب دینے لگی۔

°°°°°°°°°°

ماما پلیز رونا بند کریں اس طرح سے رونے سے کیا ہوگا بھلا وہ ان کے قدموں میں بیٹھا ان کے گھٹنوں پر سر رکھے بہت پیار سے سمجھا رہا تھا

لیکن صوفیہ بیگم کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے آج بیٹے کا مان بڑھانے کے لیے وہ اس کے ساتھ تو آگئی تھی لیکن اپنا گھر بار چھوڑ دینا بھی ان کیلئے آسان نہیں تھا

نہیں اشعر تم نہیں سمجھو گے ایک عورت کا اصل گھر اس کی شوہر کا گھر ہوتا ہے جسے میں چھوڑ آئی ہوں وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی ۔

لیکن وہ آپ کا گھر کبھی تھا ہی نہیں ماما وہ زرین آنٹی کا گھر تھا اور آج بھی انہی کا ہے اور ایسے شوہر کا کیا فائدہ جیسے آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو انہوں نے ایک بار آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کی بس اپنا فیصلہ سنا دیا اور ان کے فیصلے کے بعد اگر میں آپ کو وہاں رہنے دیتا تو یہ میری غیرت کی توہین تھی۔ اتنے سالوں میں انہوں نے کبھی آپ کی قدر نہیں کی 28 سال انہوں نے آپ کو اپنی بیوی نہیں مانا لیکن آپ اپنے فرائض سرانجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں اب ان کی باری ہے اگر انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے تو آپ کو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے وہ ان کے آنسو صاف کرتا کہنے لگا ۔

نہیں اشعر میں ان کی طرح یوں رشتوں سے منہ نہیں پھیر سکتی یہ رشتہ میرے ماں باپ نے جھوڑا ہے مجھے ان کے نکاح میں دیا ہے میں اس طرح سے اس نکاح کو نہیں چھوڑ سکتی یہ میرے 28 سال کا رشتہ ہے

اس بات کا احساس انہیں بھی ہونا چاہیے ماما یہ صرف آپ کی زندگی کے 28 سال نہیں بلکہ ان کی زندگی کے بھی تھے ۔پچھلے 28 سال سے انہوں نے ایک ایک پل آپ کو اذیت دی لیکن آپ سہتی رہی لیکن کب تک ماما ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے ایک حد ہوتی ہے ۔

اور اب حد ہو چکی ہے بابا کبھی نہیں بدل سکتے اور ایسے شخص کے ساتھ میں اپنی ماں کو اذیت میں جیتے نہیں دیکھ سکتا ۔

نمیش جاوماما کے لئے پانی لے کر آؤ وہ  بات ختم کرتے ہوئے نمیش سے کہنے لگا جو اس سب کا حصہ ہوتے ہوئے بھی انجان تھی اشعر کے کہنے پر بھاگ کر پانی لے آئی ۔

اشعر نے زبردست انہیں تھوڑا سا کھانا کھلایا اور پھر میڈیسن دینے کے بعد ان کے سو جانے تک ان کے کمرے میں رہا تاکہ وہ یہ سب سوچ سوچ کر ٹینشن نہ لیں

لیکن اس نے سوچ لیا تھا اب وہ اپنی ماں کو دوبارہ واپس نہیں جانے دے گا تب تک تو نہیں جب تک کہ وہ انہیں وہ عزت نہیں دیتے جو زرین بیگم کو دیتے ہیں

میرے کپڑے کہاں ہیں ۔۔۔۔۔!

جوتے تک پالش نہیں ہیں میرے کہاں مر گئے ہو سب کے سب شاہ صاحب انتہائی غصے سے نوکروں پر برس پڑے تھے

یہ سارے کام تو صوفیہ بیگم صاحبہ کرتی ہیں انہوں نے کبھی آپ کے کام ہمیں کرنے ہی نہیں دیے آپ کے سارے کام کی ذمہ داری تو انہوں نے خود اٹھائی ہوئی ہے نوکرنے سہمے ہوئے انداز میں بتایا

تو تم لوگوں کو کس چیز کی تنخواہ دیتا ہوں میں ایک بھی کام نہیں ہوا ہے میرا جاؤ جا کر ناشتہ لے کر آؤ وہ غصے سے کہتے میز کے قریب سے کرسی گھسٹتے ہوئے بیٹھ گئے تھے جبکہ نوکر ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے

سر آپ کا کھانا صوفیہ بیگم خود اپنے ہاتھوں سے بناتی ہیں آپ کو نوکروں کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں آتا اسی لیے آپ کے سارے کام صوفیہ بیگم اپنے ہاتھوں سے کرتی ہیں تو بلا ہم کیسے آپ کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔ نوکر نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی شاہ صاحب اس کی بات کاٹ گئے

بند کرو اپنی بکواس اگر سب کچھ وہ کرتی ہے تو تم یہاں کیا کر رہے ہو دفع ہو جاؤ یہاں سے نکل جاؤ میرے گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں وہ غصے سے نوکر کو کہتے ہوئے واپس سیڑھیاں چڑھ گئے جبکہ باقی نوکر ہمدردی سے اسے دیکھنے لگے جو ابھی ابھی اپنی نوکری شاہ صاحب کے غصے کے ہاتھوں گنوا چکا تھا

اور وہ سب یہ بھی جانتے تھے کہ آج پہلی بار صوفیہ بیگم کی غیر حاضری کی وجہ سے وہ سب باری باری اپنی اپنی نوکریاں گنوآئیں گے ۔اور اب وہ سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئے آخر اپنی نوکری بھی توبچانی تھی

°°°°°°°°

یا خدا یا یہ سب کچھ کیا ہے شاہ صاحب نہانے کے لیے واش روم میں داخل ہوئے تو آج انہیں نارمل پانی بھی نہ نصیب ہوا ۔

گیزر آن تو تھا لیکن گرم اور ٹھنڈے پانی کیلئے انہیں ایک بار پھر سے صوفیہ بیگم کی یاد آئی جو خود ہی صبح پانی کو نورمل کرکے تیار کرتی تھی وہ خاموشی سے واش روم سے باہر نکلے تو سامنے بیڈ پر زرین کو خود کا کوئی کام کرتے پایا

زرین جاو ٹھنڈا اور گرم پانی میں مکس کر دو آج صوفیہ نہیں ہے تو میرا کوئی بھی کام نہیں ہوا ۔میں ذرا کسی ملازم سے اپنے کپڑے ٹھیک سے پریس کرواتا ہوں کیسے پریس کیے ہیں اور اس طرح سے کون جوتے پالش کرتا ہے یہ سارے کام صوفیا ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہے آخر کار انہوں نے اعتراف کیا تھا

کمال کرتی ہیں شاہ صاحب کیا ہوگیا ہے آپ کو آپ کو کیا لگتا ہے آپ میں یہ سارے چھوٹے موٹے کام کروں گی یہ سارے کام کرنے کے لئے گھر میں نوکروں کی فوج ہے اب ان میں سے کسی سے کہیں

مجھ سے یہ سب کچھ نہیں ہوتا اور ویسے بھی آپ تو ہمیشہ سے کہتے تھے کہ صوفیہ اور تو کچھ نہیں کر سکتی ہاں لیکن آپ کے چھوٹے چھوٹے کام کرکے وہ آپ کی نظروں میں برا بننے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور آج آپ کہہ رہے ہیں کہ اس سے بہتر یہ سب کچھ کوئی کر ہی نہیں سکتا

خیر آپ جائیں فریش ہو جائیں میں کسی نوکر کو بھجوا کر یہ کام کرواتی ہوں زرین کا توکل سے ہی یہ جان کر موڈ آف ہو چکا تھا کہ ساری جائیداد اشعر کے نام ہے اور اوپر سے شاہ صاحب کا حکم دیتا لہجا انہیں مزید غصہ دلا گیا تھا اسی لیے ان سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ شاہ صاحب کو آج انہیں اپنی دی گئی چھوٹ کا فیصلہ غلط لگا تھا

°°°°°°°°

شاہ صاحب نوکروں پر اپنا غصہ نکال کر بنا ناشتہ کئے ہی چلے گئے نہ تو ان کے کپڑے وقت پر تیار تھے اور نہ ہی جوتوں کو ان کے مطابق پالش کیا گیا تھا اس کے علاوہ بھی آج ان کا بریفکیس  تھام کر کوئی دروازے تک نہیں آیا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی آج صوفیا کی کمی کو انہوں نے شدت سے محسوس کیا تھا

آج انہیں  پہلی بار احساس ہوا تھا کہ صوفیہ کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی زندگی کا ایک بہت اہم حصہ تھی

جب کہ ان کے جاتے ہی دادا اور دادی اشعر کو گھر کی تمام خبر پہنچا چکے تھے جیسا اشعر نے سوچا تھا بالکل ویسا ہی ہوا تھا اشعر اس عمر میں اپنے ماں باپ کو الگ کرنے جیسا گناہ  کبھی نہیں کر سکتا تھا اسی لیے دادا اور دادی کے ساتھ مل کر اس نے یہ پلاننگ کی تھی کہ وہ اپنی ماں کو اس کا حق دلوانے گا

جس میں دادا اور دادی اس کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ شاہ صاحب کو صوفیہ کی اہمیت کا احساس ہو اور آج انہیں اس پلاننگ میں شامل کرکے اشعر نے انہیں خوش کر دیا تھا

وہ ہمیشہ سے صوفیہ کی زندگی کی تباہی کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے ایک نیک سیرت  پیاری سی لڑکی کی زندگی برباد ہو گئی ان کے بیٹے نے صوفیا کو کہیں کا نہ چھوڑا اور خود اپنی من جاھی عورت کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا

اگر زرین ایک اچھی اور نیک عورت ہوتی تو وہ کیسے بھی اسے قبول کر لیتے ہیں لیکن ایک ایسی عورت جو اپنا گھر بار چھقڑ چھاڑ کر ان کے ساتھ بھاگ کر آئی وہ کیسے ایسی عورت کو اپنے گھر کی ذمہ داری دے سکے ۔

وہ ان کی نظروں میں صوفیہ کی جگہ کبھی نہیں لے پائیں اور نہ ہی زرین نے کبھی کوشش کی تھی زرین کو ان سب چیزوں سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا اسے دولت اور جائیداد چاہیے تھی جس پر وہ عیش کر سکے اور وہ اس کو شاہ صاحب کی طرف سے میسر تھا

تو پھر وہ بھلا شاہ صاحب کی فیملی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے اپنا وقت کیوں برباد کرتی

°°°°°°°°

اشعر آپ کا یہ پلآن کام تو کرے گا نا آپ نے ماما کو نہیں دیکھا وہ بہت پریشان ہیں بہت اداس رہتی ہیں سارا سارا دن روتی رہتی ہیں

ایک عورت کے لیے کہ اس کے شوہر کا گھر ہی اس کا اصل گھر ہوتا ہے وہ آپ کا مان بچانے کے لئے آپ کے ساتھ تو آگئی لیکن اپنے شوہر کے بغیر دل سے خوش نہیں ہیں نمیش بھی صوفیہ بیگم کو لے کر بہت پریشان تھی

تم فکر مت کرو نمی ڈرالنگ میں سب کچھ سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں میں اس عمر میں اپنے ماں باپ کو الگ کر کے گناہ کمانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے میرے بابا کو میری ماں کے ہونے کی قدر تب ہی ہوگی جب وہ ان سے دور رہیں گے

ورنہ وہ کبھی میری ماں کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکیں گے تم دیکھنا بہت جلد میرے ماں باپ ایک بار پھر سے ساتھ ہوں گے ۔کل رات گھر آتے ہی وہ اپنے کمرے میں آکر سب سے پہلے نمیش سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کر چکا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ اس پیلنگ میں دادا اور دادی بھی اس کے ساتھ شامل ہیں

وہ اپنی ماں کے حق کے لیے لڑ رہا تھا تو بھلا اس کا ساتھ کیوں نہ دیتی ۔لیکن صوفیہ کا پریشان ہونا رونا اسے بھی پریشان کر رہا تھا اور اس بات کو اشعر بھی بہت اچھے طریقے سے سمجھتا تھا

°°°°°°°°

دادا اور دادی عمرے پر جا چکے تھے زرین کا ہونا نہ ہونا ایک برابر تھا آج کل شاہ صاحب جلدی گھر لوٹ آتے تھے کیونکہ ان کا کہیں بھی دل نہیں لگتا تھا جبکہ زرین کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا کہ ان کا شوہر کیا کر رہا ہے اور کیا نہیں ۔

صوفیہ کے جانے کے بعد انہیں احساس ہوا تھا کہ صوفیہ سے زیادہ بہتر انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا زندگی کے اس دور پر آ کر انہیں احساس ہوا تھا کہ صوفیہ ہی ان کی وہ جیون ساتھی ہے جس کی ضرورت اس عمر میں ہوتی ہے

زرین صبح گھر سے نکلتی اور رات گئے کسی پارٹی سے لوٹتی شاہ صاحب کبھی سوال نہیں کرتے تھے لیکن اب زرین کی روٹین نے ان سے سوال کرنے پر مجبور کر دیا تھا

پارٹی پر گئی تھی پتا تو ہے آپ کو کونسا آپ سے چھپ کر جاتی ہو جو آپ اس طرح سخت لہجے میں مجھ سے بات کر رہے ہیں آئندہ اس طرح ساتھ لہجے میں بات مت کیجئے گا میں زرین ہوں شاہ صاحب صوفیہ نہیں جویہ سب برداشت کروں گی ان کا لہجہ کافی بدتمیزانہ تھا

لیکن زرین یہ کوئی سہی وقت نہیں ہے گھر واپس لوٹ کر آنے کا وقت دیکھا ہے تم نے رات کے دو بج رہے ہیں اس طرح کسی شریف گھرانے کی عورت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ آدھی رات تک پارٹیاں کرے ان کا لہجہ انہیں بھی غصہ دلآگیا ۔

تو کیا زیب دیتا ہے شریف عورتوں کو مردوں کے کپڑے جوتے کرنا یا ان کے بچے پیدا کرنا یا پھران کا سامان گاڑی تک پہنچانا یا پھر ان کے لیے سارے دن چولہا چوکہ کرتے رہنا یہ آپ کی نظروں میں شریف عورتوں کے کام ہوں گے لیکن میری نظروں میں صرف گوار عورتوں کے کاموں کے علاوہ اور کچھ نہیں

وہ آپ کی بیوی جو خود تو زیرو تھی خود ساری زندگی کچھ نہیں کر سکی اس عورت کے کام آپ کو وقت پر نہیں مل رہے تو آپ مجھ سے اس طرح سے بات کر رہے ہیں ۔تو کان کھول کر سن لیجئے شاہ صاحب میں اس کی طرح کوئی ان پڑھ گوار نہیں بلکہ ایک گریجویٹ عورت ہوں

جسے تم ان پڑھ گوار کہہ رہی ہوں وہ تم سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہے اور اس نے یہاں سے نہیں بلکہ امریکا سے اپنی تعلیم پوری کی تھی لیکن یہ عورت عورت کا فرق ہوتا ہے آج مجھے خاندانی عورت اور ایک باہر کی عورت میں فرق سمجھایا ہے وہ ایک خاندانی عورت ہے جو اتنا پڑھ لکھ کر بھی اپنے خاندانی رسم و رواج نہیں بھولیں

اور دوسری طرف تم ہو جو چار جماعتیں پڑھ کر خود کو ماڈرن تو کہلوا سکتی ہے لیکن ایک خاندانی عورت کبھی نہیں بن سکتی ان کی بلند ہوئی آواز پر شاہ صاحب نے ایسا طنز کیا تھا کہ زرین کو تو مانو چپ ہی لگ گئی لیکن شاہ صاحب بنا کچھ بولے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے آج انہیں زرین اور صوفیہ میں واضح فرق سمجھایا تھا

°°°°°°°°°°

دو ہفتے گزر چکے تھے ۔

صوفیہ کی حالت آج بھی ویسی ہی تھی کبھی ان شاہ صاحب کے کپڑوں کی فکر لگی ہوتی تو کبھی ان کے جوتوں کی فکر لگی رہتی ہے تو کبھی وہ یہی سوچتی کہ شاہ صاحب تو نوکروں کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں کرتے نہ جانے کچھ بھی کھاتے پیتے بھی ہوں گے یا نہیں تو پھر کبھی کبھی اپنی ناقدری پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی تھی کہ وہ اتنی بےمول تھی  کہ ان کے ہونے نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق ہی نہ پڑھا ۔

جبکہ اشعر کا بس یہی کہنا تھا کہ تھوڑا سا انتظار کریں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔اشعر کے کام پر جانے کے بعد نمیش سارا وقت انہیں کے ساتھ رہتی تھی آجکل وہ ان سے اچھی کوکنگ سیکھ رہی تھی  وہ کام کاج ٹھیک ٹھاک کر ہی لیتی تھی لیکن ان کے آنے سے یہ فائدہ ہوا تھا کہ وہ اشعر کی پسند ناپسند کے بارے میں سب کچھ جانے لگی تھی ۔

ابھی وہ کچن میں ان کے ساتھ ا شعر کے لیے رات کے کھانے میں کچھ اسپیشل بنا رہی تھی کہ جب اچانک اسے چکر آئے اس سے پہلے کہ وہ گرتی صوفیہ بیگم نے اسے تھام کر پاس رکھی کرسی پر بیٹھا یا

نمی بیٹا مجھے تمہاری طبیعت بہت خراب لگ رہی ہے تم یہاں رو کو میں ڈرائیور کو بلاتی ہوں تمہیں ہسپتال لے کر چلتی ہوں

صوفیہ بیگم پریشانی سے ہاتھ رومال سے پنچھتی باہر کی جانب بڑھ گئی جبکہ نمیش ارے نہیں نہیں کرتی رہ گئی

°°°°°°°°°°

رات تقریبا ڈیڑھ بجے کا وقت تھا جب شاہ صاحب کو ایسا محسوس ہوا کہ زرین بیگم بیڈ پر موجود نہیں ہیں

وہ ان کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے اٹھ کر باہر کی جانب آئے کیوں کہ زرین بیگم رات گھر واپس آ گئی تھی تو اب وہ کہاں چلی گئی ہیں

پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل ان میں لڑائیاں ہو رہی تھی زرین بیگم شاہ صاحب کو اپنے اصل رنگ دکھا رہی تھی کبھی رات کو دیر سے واپس آنا تو کبھی نہ آنا کبھی حد سے زیادہ شاپنگ کرنا تو کبھی کلبز میں پائی جانا شاہ صاحب سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں تھا

شاہ صاحب نے سوچ لیا تھا کہ وہ صوفیہ بیگم کو گھر واپس لے آئیں گے اور انھیں کے حقوق واپس کریں گے جو اپنی نادانی میں وہ زرین جیسی مطلبی عورت کے نام کر گئے تھے ۔وہ ان سے بہت زیادہ شرمندہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ شرمندگی سے وہ ان کا سامنا نہیں کر پا رہے تھے اتنے دنوں سے وہ اپنے اندر صوفیہ بیگم کے سامنے جانے کی ہمت پیدا کر رہے تھے ۔

جن کو ہمیشہ زرین بیگم کی وجہ سے ٹکراتے آئے ۔

ابھی وہ زرین کو دیکھتے ہوئے نیچے کی طرف جا رہے تھے جب انہیں سرگوشی نما آواز سنائی دی ۔

تم وہ کرو جتنا میں نے تمہیں کہا ہے کل اشعر کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کر دو اس کی جان نہیں بچنی چاہیے اگر وہ بچ گیا نہ تو تم لوگ میرے ہاتھوں نہیں بچو گے اور اس کام کے لیے تم جتنا پیسہ مانگو گے میں تمہیں دونگی لیکن اشعر زندہ نہیں بچنا چاہیے ان کی آواز نے جیسے شاہ صاحب کے قدموں سے زمین کھینچ لی تھی تو کیا یہ عورت اتنا گر گئی کے دولت کے لئے کسی انسان کی جان تک لینے کو تیار تھی

ابھی وہ نہ جانے کیا کیا کہتی ہے کہ قدموں کی چاپ سن کر اس نے مڑ کر شاہ صاحب کی جانب دیکھا ۔اور سکتے میں آگئی

°°°°°°°°°°

مکار عورت مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تم اتنا گر گئی کیوں آخر کیوں کیا تم نے یہ سب کچھ جواب دو مجھے کہاں کمی رہ گئی میری محبت میں

کہ تم  آج میرے بیٹے کو جان سے مارنے کی پلاننگ کر رہی ہو

جواب دو مجھے آخر کیوں کیا تم نے یہ سب کچھ جواب دو آخر کیوں تم میرے بیٹے کی جان لینا چاہتی ہو۔۔۔۔۔!شاہ صاحب انتہائی غصے سے ان کے دونوں بازو پکڑے انہیں جھنجوڑ رہے تھے جبکہ زرین بیگم اس سچویشن کے لیے تیار نہ تھی

شاہ صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میرا وہ مطلب نہیں ۔۔۔۔۔

چٹاخ۔ ۔خاموش ہو جاؤ مکار عورت تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے جو میں اپنے کانوں سے تمہارے پلاننگ کو سنوں اور یوں نظر انداز کر دوں تمہاری لالچی اور مکار فطرت کو تو میں ہمیشہ سے ہی سمجھتا تھا لیکن ان آنکھوں میں تمہاری جھوٹی محبت کی پٹی باندھی تھی جس نے مجھے اندھا کر رکھا تھا لیکن اب اور نہیں تم میرے بیٹے کی جان لینا چاہتی ہو۔۔۔۔۔ میرے بیٹے کی۔۔۔۔۔؟

 صرف اس دولت اور شہرت کے لیے ۔

صرف اس پیسے کے لیے تم میرے بیٹے کی جان لینے کے بات کر رہی ہو مکارعورت میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا

چٹاخ۔ ۔۔ایک کے بعد ایک تھپڑ زرین کا دماغ گھوم گھما کر رہ گیا تھا

تم جیسی مکار اور گھٹیا عورت کے لیے میں نے اپنا سب کچھ برباد کر دیا اپنے ماں باپ سے بغاوت کی یہاں تک کہ صوفکہ جیسی  وفا شعار اور وفادار عورت کو تمہارے لیے ٹکراتا رہا اس کی ناقدری کرتا رہا اور تم اتنی گری ہوئی اور گھٹیا نکلی

میں تمہاری جان لے لوں گا شاہ صاحب کا ہاتھ اب ان کی گردن پر تھا اور وہ اس کی گردن کو اس بے دردی سے دبا رہے تھے کہ شاید جان نکلنے میں بس کچھ ہی وقت باقی تھاجب یہ سب چیخ و پکار سن کر نوکروں نے بھاگتے ہوئے ان کو  زرین بیگم سے الگ کیا

چھوڑ دو مجھے میں اس عورت کو جان سے مار ڈالوں گا میں اس کی جان لے لوں گا شاہ صاحب کا غصہ اور پاگل پن کسی بھی طرح کم نہیں ہو رہا تھا

شاہ صاحب خود پر قابو کریں اس طرح سے تو آپ ان کی جان لے کر خود بھی گناہ گار بن جائیں گے میں پولیس سٹیشن فون کرتا ہوں ایک نوکر نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روکا جبکہ باقی لوگ ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہے تھے

°°°°°

وہ آہستہ آہستہ کھانے میں مصروف تھی جب کے صوفیہ بیگم اس کے سر پر کھڑی ڈنڈے کے زور پر زبردستی کھلا رہی تھی اور اشعر اپنی مسکراہٹ روکتا کھانے کی طرف متوجہ تھا

بس ماما میرا ہو گیا میں اس سے زیادہ نہیں کھا سکتی نمیش نے انہیں دیکھتے ہوئے التجا کی تھی

خاموش لڑکی اس طرح سے تم میری نسل کو پروان چڑھاوگی کھاتی پیتی تم کچھ ہو نہیں اور مستیاں تمہاری ختم نہیں ہوتی صوفیہ بیگم نے اسے گھورتے ہوئے گڑکا تو وہ ایک بار پھر سے نظریں جھکائے تیز تیز کھانا کھانے لگی

اور ماما کل جو یہ بارش میں بھیگی تھی اشعر نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا

آپ خاموش ہو کر بیٹھے آپ کو تو میں بعد میں دیکھوں گی اس نے دانت پیسے تھے

ہائے میں تو منتظر ہوں کے آپ مجھے کب دیکھیں گی وہ اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں گنگنایا جس پر میں صرف اسے گھور کر رہ گئی

اور صوفیہ کے ڈر سے ایک بار پھر سے کھانا چگنے لگی

 اتنی پیاری تھی اس کی ساس اتنی محبت کرنے والی بلکل غصہ نہیں کرتی تھی لیکن ایک ہفتہ پہلے جو بھی انہیں پتہ چلا کہ نمیش بننے والی ہے تب سے ان کی ساری محبت غصے میں بدل گئی تھی اب تو ان کو بقل نمیش کے ان کو نمیش کی بالکل فکر نہیں تھی اگر فکر تھی تو صرف اور صرف اپنے ہونے والے پوتے یا پوتی کی

ماما میں وعدہ کرتی ہوں میں آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گی پلیز مجھ سے  یہ نہیں کھایا جا رہا اپنی شرارتوں پر توبہ کرتی وہ التجا کرنے لگی تو صوفیہ بیگم  ایک بار پھر سے سخت ساس سی نرم ماں بن گئی ۔

میں تمہاری دشمن نہیں ہوں میری جان لیکن ایک ماں بنے والی عورت کے لئے یہ ساری چیزیں نقصان دہ ہو سکتی ہے جیسے بارش میں بھیگنا بار بار سیڑھیاں چڑھنا اترنا یہ سب کچھ بےبی کیلئے ہلتھدی نہیں ہوتا اب وہ پیار سے اسے سمجھا رہی تھی

جب کے اشعر اپنی ماں کا پل پل بدلتا روپ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا اس کی ماں پچھلے کچھ وقت سے بہت زیادہ مینٹلی ڈسٹرب تھی لیکن ایک ہفتے سے وہ بھی خوش رہنے لگی تھی ان کا سارا وقت نمیش کا خیال رکھتے ہوئے گزر جاتا تھا

جبکہ دوسری طرف شاہ صاحب کی حویلی میں کیا ہو رہا تھا اسے ہرایک پل کی خبر تھی زرین کو جیل بھیج دیا گیا اور شاہ صاحب نے پورے میڈیا کے سامنے آنہیں طلاق دیکھ کر خود سے جڑے ہر رشتے سے فارغ کر دیا تھا ۔

اصل بات کیا ہوئی تھی یہ سب کچھ کیسے ہوا اشعر نہیں جانتا تھا ہاں لیکن اپنے باپ کی طرف سے اپنی ماں کے لئے معافی نامے کا انتظار ضرور کر رہا تھا

ان دونوں کو ایک دوسرے میں مصروف دیکھ کر ان دونوں کو خدا حافظ کہتا نے آفس کے لیے نکل گیا

جب کہ اسے خدا حافظ کہہ کر وہ دونوں ایک بار پھر سے ایک تو سر مصروف ہو چکی تھی۔جبکہ اشعر کا ارادہ آج آفس کے بعد بابا سے ملنے جانے کا تھا  یہ جو سب کچھ ہوا تھا ایسے بھی میڈیا کو جواب دینا تھا یہ سب کچھ کیوں ہوا کیسے ہوا کیا اللہ نے اس کی سن لی کیا اس کی ماں کے حصے کی محبتیں عزت حق اسے ملنے جا رہا تھا

°°°°°°°°

وہ اپنی سوچوں میں ڈوبے سگار سلگاتے رہے تھے جب دروازے کی طرف نگاہ اٹھی تو سامنے اپنے والدین کو دیکھ کر شرمندگی سے سر جھکا گئے

یہ سب خبروں میں کیا آ رہا ہے بیٹا یہ سب کیا ھو رہا ہے تم نے زرین کو طلاق دے دی اچانک ایسا کیا ہوگیا بیٹا ماں جی  بہت پریشانی سے اس کے پاس آ کر بیٹھی تھی

امی میں ایک بہت نافرمان بیٹا ہوں میں نے کبھی آپ کے فخر کی وجہ نہیں بن پایا اور صوفیہ کو بھی بہت تکلیف دی ہے زرین کی خاطر وہ عورت میرے بچے کو مجھ سے جدا کرنا چاہتی تھی میرے بیٹے کی جان لینا چاہتی تھی اس دولت کے لیے شہرت کے لئے اسی لئے میں نے اس عورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی سے نکال دیا ایسی مکار اور فریبی عورت کی میری زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے ان کا لہجہ بہت مضبوط تھا

تو کیا بچے گھر واپس آ گئے ماں جی کی آنکھوں میں حسرت تھی جسے دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے شرمندہ ہو گئے

نہیں ماں جی میں ہمت ہی نہیں جھٹا پایا صوفیہ کا سامنا کرنے کی اس سے معافی مانگنے کی اسے گھر واپس لانے کے التجا کرنے کی مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے ماں جی میں اس کا سامنا کروں اپنی کیی غلطیوں کی معافی مانگ سکوںں

نہیں ہے مجھ میں اتنی ہمت کیا وہ مجھے معاف کرے گی ان کی آنکھوں میں شرمندگی صاف جھلک رہی تھی

وہ تمہاری بیوی ہے میری جان وہ بھلا تمہیں معاف کیوں نہیں کرے گی تم ایک بار جاؤ تو سہی تھوڑی ہمت کرو تو سہی دیکھنا تمہارے ایک بار کہنے سے ہی وہ واپس آ جائے گی تمہیں معافی مانگنے کا بھی موقع نہیں دے گی ماں جی نے ان کی ہمت برآئی تھی

میں آپ لوگوں کا بھی گنہگار ہوں ماں جی مجھے معاف کر دیجئے اپنی ضد اورانا کی خاطر میں نے آپ لوگوں کو بھی بہت شرمندہ کیا اولاد ہونے کا حق ادا نہیں کر سکا وہ ان دونوں سے معافی مانگ رہا تھا

ماں جی نے ا  کے ہاتھ کھولتے ہوئے ان کے ماتھے پر بوسہ لیا جب کہ شاہ صاحب نے تو اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا تھا

ان کو اشعر کا یہ فیصلہ بہت اچھا لگا تھا آج اس کے اس پیلنگ کی وجہ سے سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا ماں باپ تو اپنے بچوں کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک کرتے ہی ہیں لیکن فخر کے قابل ہوتی ہے ایسی اولاد  جو حود سے پہلے اپنے ماں باپ کا سوچتی ہے اشعر بھی انہی اولادوں میں سے ایک تھا جو حود سے زیادہ اپنے ماں باپ کی بھلائی کا سوچ رہا تھا اور بے شک انہیں اپنے پوتے پر فخر تھا

شاہ صاحب خود اپنے بیٹے کو منا کر اس کی ہمت بڑھا کر ایک بار پھر سے اپنی بہو کو لینے جا رہے تھے

°°°°°°°°°°°°

ا خر کار وہ اپنی تمام تر جمع کر کے یہاں تک آ گئے تھے ان کی گاڑی کو گھر می .  داخل ہوتے دیکھ لان میں بیٹھی صوفیہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی

ان کے والدین تو ان سے مل کر بہت خوش ہوئے جبکہ نمیش کو بھی بہت اچھے سے ملے جبکہ شاہ صاحب اس سب کے دوران شرمندگی سے سر جھکائے پیچھے ہی کھڑے رہے صوفیہ ان کو پہلےہیدیکھ چکی تھی ۔لیکن آج بھی وہ ان سے کسی اچھے کی امید نہیں کر رہی تھیں

صوفیہ بیٹا شاہ تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے اکیلے میں ماں جی نے صوفیہ کو دیکھتے ہوئے کہا

جب باہر شاہ صاحب کی گاڑی دیکھ کر اشعر خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا تھا اور وہ لمحہ آ ہی گیا تھا جب وہ اس کے ماں باپ ایک بار پھر سے ساتھ ہونے جا رہے تھے صوفیہ بیگم نے ایک نظر اشعر کی طرف دیکھا جو ان اندر جانے کا اشارہ کر رہا تھا وہ بس خاموشی سے ایک نظر شاہ صاحب کو دیکھ کر اندر داخل ہو گئیں جب کہ شاہ صاحب ان کے پیچھے شرمندگی سے سر جھکائے ہوئے آئے تھے

اور ان کے جاتے ہی دادا اور دادی نے اشعر کو مکمل بات بتانے لگے کہ کیسے زرین نے اس کی جان لینے کے لئے پلاننگ کی تھی جس کے بعد  شاہ صاحب نے زرین کو طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی سے فارغ کرکے جیل میں ڈلوا دیا

جبکہ دادا اور دادی اشعر کو بھی داد دے رہے تھے آخر اس کی پلاننگ نے کام کیا تھا اور شاہ صاحب اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کے لئے یہاں تک آئے تھے

والدین تو ہمیشہ ہی اپنی اولاد کے لیے اچھا سوچتے ہیں ان کا اچھا چاہتے ہیں لیکن اپنے والدین کے لئے خود سے پہلے سوچنے والی اولاد خوش قسمت والدین کو ملتی ہے جس طرح ا شعرکے والدین کو ملی تھی

°°°°°°°°°°

صوفیہ میں تمہارا گناہ گار ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کیا کبھی تم سے ٹھیک سے بات نہیں کی ہمیشہ تمہاری ناقدری کی کبھی تمہیں بیوی ہونے کا حق نہیں دیا کبھی تمہیں عزت نہیں دی اور جسے عزت دیتا رہا اس نے میرے ساتھ کیا کیا صرف دولت اور شہرت کے لیے اس نے مجھے برباد کرنے کی کوشش کی میرے بیٹے کو مارنا چاہتی تھی وہ

مجھ سے غلطی ہوگئی صوفیہ مجھے معاف کر دو میں تمہارا گناہگار ہوں میں نے تمہاری زندگی کے 28 سال برباد کر دیے میں جانتا ہوں میں معافی کے لائق نہیں ہوں لیکن پھر بھی تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوں ان کی آنکھوں میں نمی آچکی تھی صوفیہ بیگم نے تڑپ کر ان کے ہاتھ کھولتے ہوئے ان ہاتھوں پر اپنا سر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

صوفیہ میں نے تمہیں ساری زندگی خراب کر دی میں بہت بڑا گنہگار ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تمہارے بغیر یہ چند دن گزرے تو احساس ہوا کہ زرین سے تو میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں تھی محبت میں تم سے کرتا تھا حق میں تم پر جتاتا تھا اور تمہیں اپنی بیوی کہنے کا حق نہیں دیتا تھا میں بہت برا انسان ہوں مجھے معاف کردو صرف ایک بار میں کبھی دوبارہ تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا شاہ صاحب ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے التجا کر رہے تھے

میں آپ سے کبھی خفا تھی ہی نہیں شاہ صاحب میں نے تو کبھی بھی آپ کے لئے کچھ غلط نہیں سوچا آپ ہمیشہ میرے شوہر تھے میرے سرتاج ہیں آپ کے بارے میں برا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں جانتی ہوں یہ میرا امتحان تھا اور اللہ اپنے پسندیدہ لوگوں سے امتحان لیتا ہے یقینا وہ مجھے بہت چاہتا ہے تبھی تو اس نے آج میری دعائیں سن لیں اور آپ کو یہاں بھیج دیا

صوفیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو شاہ صاحب بھی ایک بار پھر سے جی اٹھے

تو چلو اپنے گھر تمہارا گھر تمہارا شوہر تمہارا منتظر ہے وہ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے خود بھی صوفے سے اٹھا چکے تھے

آور آج صوفہ ان کے ساتھ ان کے ساتھ مان اور عزت سےاپنے گھر جا رہی تھیں

°°°°°°°°°°

یایایاہو سب کچھ ٹھیک ہوگیا ماما بابا آپ ایک ساتھ دونوں بہت پیارے لگتے ہیں نمیش نے اپنے دل سے تعریف کی اور صوفیہ بیگم کے گلے سے لگی جبکہ اشعر بھی بہت خوش تھا

ہاں تو چلو سب لوگ گھر چلتے ہیں شاہ صاحب نے مسکراتے ہوئے بہو کے سر پہ ہاتھ رکھا جس پر نمش کو اپنے بابا کی یاد آنے لگی

ہاں ہاں ضرور جائے ماما پلیز کم از کم میری سوپ اور دلیے سے تو جان چھوٹے گی نمیش نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا

بالکل بھی نہیں ایسا سوچنا بھی مت میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی اور ا شعر کا پہلا بچہ اپنے گھر میں پیدا ہوگا وہی پروان چڑے گا وہی جو ان ہوگا اور میں ایک ایک لمحے کو تمہارا خیال رکھوں گی تم کسی خوش فہمی میں مت رہنا صوفیہ بیگم نے اسے گڑکا

کیا مطلب نمیش بہو امید سے ہے اماں جی کا تو مانو خوشی سے برا حال تھا صوفیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا

تو اسے یہاں اکیلے ہرگز نہیں چھوڑنا اسے ابھی اپنے ساتھ لے کر چلو ماں جی فورا اس کا ہاتھ تھام کر تقریبا زبردستی اسے اپنے ساتھ لے جانے لگی .  نمیش  نے ایک نظر مڑ کر اشعر کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا

جو آہستہ آہستہ چلتا اس کے پاس آیا اور اس کے بالکل کان کے قریب بولا

نمی ڈارلنگ میں بتانا بھول گیا میری دادی ماں میری ماں سے زیادہ گرم مزاج کی ہیں تو ان کے سامنے بالکل بھی نو مستی ۔وہ ا سے ہری جھنڈی دکھا ڈرائیونگ سیٹ سنبھال رہا تھا جب کہ نمیش کا منہ  کھل گیا

نمیش آگے مت بیھٹو ٹھنڈی ہوا لگے گی  طبیعت خراب ہو جائے گی  ماں جی نے اسے گاڑی کا اگلا دروازہ کھولتے دیکھ کر کہا ۔نمیش نے ایک نظر اشعر کی جانب دیکھا جو شرارتی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا

کتنا ظالم سماج ہے یہ ابھی مجھے ماں اور دادی ماں ملی ہی تھی کہ وہ بھی ظالم ساس اور دادی ساس بن گئی وہ سوچتے ہوئے منہ پھلا کر گاڑی میں بیٹھ گئی جب کہ ان کی زندگی کے حسین سفر کی شروعات ہو چکی تھی

 

♥ Download More:

 Areej Shah Novels

 Zeenia Sharjeel Novels

 Famous Urdu novel List

 Romantic Novels List

 Cousin Rude Hero Based romantic  novels

 

 

 

آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں  گے

Copyright Disclaimer:

We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.

About the author

Muhammad Qasim

Muhammad Qasim, founder of Shaheen ebooks website, which is an online ebooks library serving Urdu books, novels, and dramas to the global Urdu reading community for the last 3 years (since 2018. Shaheenebooks.com.

Leave a Comment