کھانا نہايت خوشگوار ماحول ميں کھايا گيا۔ احتشام کے چچا کا گھر ان کے قريب ہی تھا۔ ان کی بيٹی "اسوہ" اکثر اسکی مدد کروانے آجاتی تھی۔ بہت ہی اچھی اور ملنسار تھی۔ نجوہ کی تو بہت اچھی دوستی تھی۔
قريب ہی اسکول ميں جاب بھی کرتی تھی۔
اس وقت بھی وہ اسکے گھر موجود تھی اور بہت اچھی ميزبانی کررہی تھی۔
کھانے کے بعد احتشام اور فراج کچھ الگ تھلگ سے بيٹھے باتيں کررہے تھے۔ جبکہ زہرہ، شہباز (فراج کے والد) اور فضيلہ کو اسوہ اور احتشام کے چچا چچی کمپنی دے رہے تھے۔
"فراج بات سنو" نجوہ نے ہولے سے قريب آ کر اسے کچن ميں آنے کا کہا۔
وہ احتشام سے ايکسکيوز کرتا اسکے پيچھے کچن ميں گيا۔
"کيسی لگی لڑکی؟" جيسے ہی فراج اندر داخل ہوا۔ نجوہ کاؤنٹر کے قريب ہی کھڑی ايک ہاتھ کمر پر ٹکاۓ کچن کے دروازے کے بالکل سامنے رکھے صوفے پر بيٹھی اسوہ کو ديکھ کر جوش سے اپنے سامنے آکر رکتے فراج کے سينے پر بندھے بازو پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
فراج لمحہ بھر کو ساکت ہوا۔ پھر آنکھوں ميں شرارتی مسکراہٹ سجاۓ ايک نظر اوپر سے نيچے اسے ديکھ کر مسکرايا۔
"بہت پياری۔۔ ہميشہ کی طرح" اسکے خود کو يوں شرارتی انداز ميں ديکھنے پر نجوہ ماتھے پر بل لا کر اب کے اسکے بازو پر رکھے اپنے ہاتھ کو زور سے اسکے بازو پر مارا۔
"ہاں تو۔۔ ابھی تو يہی ايک لڑکی کھڑی ہے۔۔ تو اسی کے بارے ميں بتاؤں گا نا" مسکراہٹ دباۓ بولا۔ مگر اسکی آنکھوں ميں ناچتی شرارت نجوہ کو تپا گئ۔
"کبھی ڈھنگ سے جواب نہ دينا" اس سے پہلے کے وہ کچھ اور کہتی احتشام کچن کے دروازے پر نمودار ہوا۔
"احتشام بھائ ۔۔ آپ انصاف کريں۔۔۔ انہوں نے پوچھا لڑکی کيسی لگی۔ يہ نہيں بتايا کہ کون سی لڑکی۔۔ اور ميں بے چارا يہ سوچ کر کہ اب ميزبان کے منہ پہ کيا سچائ بولوں، نہ صرف ان کی جھوٹی تعريف کرگيا، بلکہ اللہ جھوٹ نہ بلواۓ ۔۔ ان کو لڑکی بھی کہہ ديا" احتشام کو اپنے دکھ ميں شامل کرتے وہ دہائياں دينے لگا۔
"اب اگر ان کو لڑکی نہ کہتا تو انہوں نے تو جھٹ ميرا کان مروڑ دينا تھا" احتشام اسکی آہ ہ بکا پر مسکراۓ جا رہا تھا۔ جناتا تھا وہ کتنا بڑا ڈرامے باز ہے۔
"ميری بيوی ابھی بھی لڑکی ہی ہے۔۔ تم اپنی نظر ٹيسٹ کرواؤ" احتشام کے اسکی سائيڈ لينے پر نجوہ کے ماتھے پر پڑے بل سيدھے ہوۓ۔ گردن اکڑا کر فراج کو ديکھا۔
"بھئ يہ باتيں آپ ہی کرسکتے ہيں۔۔ کيونکہ آپکی بھی محبوری ہے۔ اب اگر سچ بوليں گے تو رات گھر سے باہر ہی گزارنی پڑے گی" فراج نے بھی اس پر چوٹ کی۔ احتشام کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"ديکھيں ذرا باتوں ميں لگا کر اصل بات سے ہی ہٹا ديا ہے۔۔ ارے ڈفر ميں اسوہ کی بات کررہی ہوں۔ احتشام کی کزن۔۔
بس مين نے اسے تمہارے لئے پسند کرليا ہے" اپنے ہاتھ اٹھا کر اس نے جيسے بات ہی ختم کردی۔
"يہ اچھا طريقہ ہے کھانے پہ بلا کر اپنی مرضی ٹھونسنے کا" فراج برا سا منہ بنا کر بولا۔
"ارے نہيں يار۔۔ ظاہر ہے زندگی تمہيں گزارنی ہے لہذا آخری فيصلہ بھی تمہارا ہوگا۔ ہم تو صرف مشورہ دے رہے ہيں۔" احتشام نے فورا بات سنبھالی۔ ورنہ نجوہ سے بعيد نہيں تھی اسی وقت مولوی بلوا کر اس کا نکاح بھی کروا ديتی۔
"اس پر چھوڑا نا۔۔ تو اس نے اگلے چھ سال بھی اس ٹاپک پر نہيں آنا" نجوہ نے اسے لتاڑا۔
"سوچنے ديں يار۔۔ چليں ديکھ ليتے ہيں آپکی اسوہ کو بھی" اب احتشام کے سامنے وہ اسکی کزن کے بارے ميں کوئ حتمی بات تو کہہ نہيں سکتا تھا۔ لہذا ان سے سوچنے کا وقت مانگا۔
"کوئ جلدی نہيں ہے تم آرام سے سوچو" احتشام نے اسے کشمکش ميں ديکھ کر سہولت سے مشورہ ديا۔
"کيوں جلدی نہيں ہے۔ بس ايک دو دن ميں دے رہی ہوں۔ جلدی سوچو" وہ اپنے ہی راگ الاپ رہی تھی۔
"نجوہ۔۔" احتشام نے اب کی بار اسے تنبيہہ کی۔
"اچھا نا۔۔ مگر اب باہر جا کر صحيح سے ديکھنا اسے۔ ايم اے انگلش ہے۔ جاب بھی کرتی ہے۔ کانفيڈينٹ اور سگھڑ بھی ہے۔" اس نے جلدی جلدی اسکی ساری خوبياں بيان کيں۔ اور احتشام کی گھوریوں کو ديکھ کر جلدی سے کچن سے نکل گئ۔
"سوری يار۔ پليز نجوہ کی جلد بازی کا برا نہيں منانا۔۔ تم جانتے ہو نا وہ تم سے کتنی اٹيچڈ ہے۔ اور چاہتی ہے کہ تمہاری زندگی کا يہ اہم فيصلہ وہ کرے۔۔۔ ميں جانتا ہوں ايسے حق جتانا غلط ہے۔ تمہاری زندگی ہے تم سوچ سمجھ کر فيصلہ لو" نجوہ کے کچن سے نکلتے ہی احتشام اسکے سامنے آيا۔ اسکے کندھے پر دھيرے سے ہاتھ رکھتے اسے سمجھايا۔
"آپ يہ سب کہہ کر مجھے يہ احساس دلا رہے ہيں کہ ميں آپ سب اور خاص طور پر نجوہ کے لئے کوئ غير ہوں" افسوس سے بھری نظريں اس پر ڈالتے شکوہ کيا۔
"ارے نہيں يار" احتشام نے فورا نفی کی۔
"نجوہ کا مجھ پر ہر طرح کا حق ہے۔ وہ جس سے کہيں گی۔ جب کہيں گی۔ ميں شادی کرنے کو تيار ہوں۔" ايک ايک لفظ پر زور ديتے وہ احتشام کو بہت کچھ باور کروا گيا۔
"تھينکس۔۔ يہ سن کر وہ خوشی سے نہال ہوجاۓ گی" احتشام نے مسکراتے ہوۓ اسکے کندھے کو تھپتھپايا۔
"وہ اور آپ بہت اہم ہيں ميرے لئے۔۔ ميرا نہيں خيال مجھے يہ بتانے کی ضرورت ہے" اسکے مان بھرے انداز پر احتشام نے بے اختيار اسے گلے لگايا۔ نہ فراج کا کوئ بھائ تھا نہ ہی احتشام کا۔ اسی لئے وہ ہميشہ فراج کو چھوٹے بھائ کی طرح ٹريٹ کرتا تھا۔ اور يہی حال فراج کا تھا۔
___________________
جيسے ہی فراج کے اصرار پر نجوہ نے گھر ميں احتشام کا ذکر کيا۔ سب اسکے پيچھے لگ گئے۔
"اماں ميں نے کون سا اسے ہاں کہہ دی ہے۔ ميں آپ کو ايسی لگتی ہوں" وہ افسوس سے ماں کو ديکھ رہی تھی جو احتشام کا سن کر کب سے سر پکڑے بيٹھی تھيں۔
"تمہاری پھوپھو نے پہلے سے ہی تمہارے لئے تمہارے ابا سے بات کی ہوئ ہے۔ اب انہين مين کيا جواب دوں" وہ سر سے ہاتھ ہٹا کر اسے گھور کر بوليں۔
نجوہ نے افسوس بھری نظروں سے فراج کو ديکھا۔ اس وقت وہ تينوں لاؤنج ميں صوفوں پر آمنے سامنے بيٹھے ہوۓ تھے۔
"ميں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ جب بھی ميری باری آئ ۔۔ ميں کنواری رہ جاؤں گی مگر خاندان ميں نہيں کروں گی" وہ کڑے تيوروں سے ماں کو ديکھ رہی تھی۔
"ہاں بس کچھ فيصلے تم کرلو۔۔ کچھ تمہارے ابا کر ليں۔ اور ميرے لئے تو قبر کھدوا دو" وہ بھی پنجے جھاڑ کے اسکے پيچھے پڑ گئيں۔
"خالہ ملنے ميں تو کوئ حرج نہيں۔۔ اور نجوہ کون سا کہہ رہی ہيں کہ آپ پہلی بار ميں ہاں کرديں۔ مگر ميرا خيال ہے لڑکا اور لڑکے کی مرضی کے بغير يہ سب کرنا ٹھيک نہيں۔" فراج کی بات سنتے ہی شمع نے تيکھے چتونوں سے اسے ديکھا۔
"تو بھی مل چکا ہے؟" تيور خطرناک ہوتے جارہے تھے۔
"خالہ ملا نہيں۔ بے اتفاقيہ ملاقات ہوئ تھی۔" اور پھر فراج نے صاف گوئ سے اس دن کا واقعہ کہہ سنايا۔
"خالہ يہ کہاں اور کس کتاب مين لکھا ہے کہ ايک جگہ رشتے کی بات کردی۔۔ اولاد راضی نہيں ہوئ۔ تو پھر بھی اسے وہيں نتھی کرنا ہے۔ آپ خود پڑھی لکھی ہيں۔ مجھے کم از کم آپ سے ايسی فرسودہ بات کی اميد نہيں" فراج نے جس بے تکلفی سے شمع کو اس اہم مسئلہ کی جانب نشاندہی کی شمع تو شمع۔۔ نجوہ بھی حيرت زدہ اسے ديکھ کر رہ گئ۔ وہ فراج جو اپنے کام سے کام رکھنے والا تھا۔
نجوہ يوں اسے اپنی وکالت کرتے ديکھ کر شديد حيرت زدہ تھی۔ اس کی حمايت پر بے اختيار اس پر پيار بھی آيا۔
"ميں خالو سے بھی بات کرنے کو تيار ہوں۔ ميرا نہيں خيال کہ اتنی سی بات پر يوں کسی کی زندگی کو تباہ کرديا جاۓ" شمع نے کسی قدر فخر سے اسے ديکھا۔ انہين اس لمحے وہ اٹھارہ سالہ فراج نہيں کوئ بہت بردبار مرد محسوس ہوا۔ انکی بہن نے واقعی اسکی تربيت بے حد اچھی کی تھی۔
"ميں بات کرتی ہوں تمہارے خالو سے۔ بس دعا کرو وہ اڑنہ جائيں" شمع انکی بات مان تو رہيں تھيں۔ مگر اپنے شوہر کی بہن سے محبت کے بارے ميں بھی واقف بھی تھيں۔
اور وہی ہوا۔ رات ميں جس وقت انہوں نے بات کی شوکت صاحب نے تو ہنگامہ کھڑا کرديا۔
"تو يہ سب تمہيں اس وقت سوچنا چاہئيے تھا جب تمہاری رضا مندی سے ميں نے انہيں ہاں کی تھی۔" وہ انگارے چباتے بولے۔
"ہاں مگر ابھی بات ہم دو خاندانوں کے درميان ہے۔۔ کون سا ہم نے سب کو بتا دی ہے" شمع منمنائيں۔
"بھيجو نجوہ کو ميرے پاس" قہر برساتی نظروں سے انہيں ديکھتے وہ يکدم کوئ حتمی فيصلہ کرتے بولے۔
شمع الٹے قدموں باہر کی جانب بھاگيں۔
"تمہارا بلاوا آيا ہے" وہ جو لاؤنج ميں بيٹھی پريشانی سے ناخن چبانے ميں مصروف تھی۔ ماں کی ہوائياں اڑتی شکل ديکھ کر تھوگ نگل کر رہ گئ۔ باپ سے وہ تينوں جتنی فرينک تھيں۔ اتنی ہی ان کے غصے سے ان کی جان جاتی تھی۔ ربيعہ اور فراج بھی وہاں موجود تھے۔
ان دونوں نے اس کا حوصلہ بڑھايا۔
وہ ڈرتے ڈرتے اندر کی جانب بڑھی۔
"ابا آجاؤں" دروازہ ناک کرکے ان سے اجازت ملتے ہی کمرے کے اندر آئ۔ جہاں کمرے کے وسط ميں دونوں ہاتھ کمر کے پيچھے باندھے وہ اسے لال انگارہ آنکھوں سے ديکھ رہے تھے۔
"تمہاری ماں نے تمہيں بتا ديا ہوگا کہ تمہاری پھوپھو کے بيٹے رحمان سے ميں نے تمہاری بات کچھ عرصہ پہلے طے کر دی تھی" انہوں نے گلا کھنکھارتے بات شروع کی۔
"مجھے اب معلوم ہوا ہے۔ پہلے معلوم ہوتا تو اپنی پسند کو وہيں دفنا ديتی" آنکھيں نيچے کئے وہ نرم لہجے مين بولی۔
اسکی بات پر شوکت نے ابرو اچکا کر اسے ديکھا۔
"اب پتہ چل گيا نا۔۔ تو جو خناس تمہارے دماغ ميں ہے اسے نکال باہر کرو۔۔ ميں اپنی بہن کے سامنے شرمندہ نہيں ہونا چاہتا" انکی آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ باہر بيٹھے لوگوں تک بآسانی پہنچتی۔ نجوہ نے انکی بات پر لمحہ بھر کے لئے دکھ بھری نگاہ اپنے باپ پر ڈالی جن کے لئے اولاد سے زيادہ بہن اہم تھی۔
اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی۔ يکدم دروازہ ناک ہوا۔ شوکت نے غصے سے دروازے کو گھورا۔
"آجاؤ" آنے والے کو اجازت ملی۔ نجوہ نے بھی گردن موڑ کر دروازے مين ايستادہ فراج کو حيرت سے ديکھا۔ وہ کيا کرنے آيا تھا۔
"مداخلت کے لئے معذرت" نجوہ کے برابر کھڑے ہوتے اس نے ادب سے ہاتھ باندھے اور آنکھيں جھکا کر کھڑا ہوگيا۔
"آپ کی بات بجا ہے خالو۔ مگر کيا اسلام ميں بيٹی کے رشتے کے لئے بيٹی کی مرضی سے پہلے رشتہ داروں کی مرضی کو اہميت دی جاتی ہے؟" اسکی بات پر وہ برہم ہوۓ۔
"اب تم مجھے اسلام سکھاؤ گے" نجوہ کا دل کيا سر پيٹ لے۔ اسکی خاطر وہ ڈانٹ کھانے آگيا تھا۔
"اللہ مجھے معاف کرے۔ ميری مجال۔۔ ميں تو صرف ايک سادہ سا سوال لے کر آيا ہوں۔ تاکہ کل کو جب مين اپنی بيٹی کی شادی کروں تو مجھے يہ معلوم ہو کہ مجھے کس کی پسند کو پہلے فوقيت دينی ہے" اسکے معصوم بن کر اتنی گہری بات کرنے پر وہ لمحہ بھر کو چپ ہوۓ۔ جبکہ نجوہ نے اپنی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دبالی۔
"احتشام مسلمان ہے۔ اور ہمارے ہی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ ايک بار مل کر جانچ لينے ميں حرج نہيں۔ جب ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے ميں دو تين آپشنز کو ہميشہ مدنظر رکھتے ہيں۔ پلين اے اور پلين بی بناتے ہيں۔ اسی لئے ايک پلين يا آپشن نہ چل سکے تو دوسرے سے استفادہ ليں۔ تو پھر اس معاملے ميں ہم کيوں اتنے اصولوں کے سخت ہوجاتے ہيں۔ نجوہ نے يہ تو کہا ہی نہيں کہ صرف انکی پسند کو ہی مد نظر رکھا جاۓ۔ وہ تو ايک آپشن آپ کو بتا رہی ہيں۔
آپ تو اتنے جانبدار ہيں کہ مجھے لگا کہ آپ فورا اس آپشن کو ديکھنے پر اصرار کريں گے۔" فراج جس طريقے سے نجوہ کی وکالت کررہا تھا وہ سب ديکھنے اور سننے لائق تھا۔
"کيا آپ بھی اپنے آپشن پر ويسے ہی سخت اصول رکھتی ہيں جيسے خالو" اب کی بار اس نے نجوہ سے سوال کيا۔ اس اچانک حملے کے لئے وہ تيار نہيں تھی۔ ہق دق اسے ديکھا۔ پھر نفی مين سر ہلايا۔
"ميں نے تو ابھی پوری بات کی ہی نہيں کہ ابا نے حرف آخر کی طرح فيصلہ سنا ديا" اب کی بار نجوہ نے بھی بہترين الفاظ کا چناؤ کيا۔
"ميں تو صرف يہ کہنا چاہتی تھی کہ آپ ايک بار احتشام سے مل ليں۔ ميرا کوئ جذباتی تعلق وابستہ نہيں۔ ہاں مگر زندگی گزارنے کے لئے بہتر انسان لگا۔ يا يہ کہنا بہتر ہے کہ ميں نے ہميشہ آپ جيسی صفات کا حامل لڑکا چاہا۔ اور ويسی ہی صفات والا لڑکا ملا تو سوچا يہی بہتر ہے" نجوہ کی خواہش پر اب شوکت کے پاس ماننے کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے ہنکارا بھرا۔
"ٹھيک ہے۔ اس لڑکے کو کہو اس اتوار کو مجھ سے ملے۔ اور يہ بات تم نہيں فراج اس سے کہے گا۔ تم کل پھر اس لڑکے سے تفصيلی ملاقات کرو۔ اور مجھے اسکی عادات کے بارے ميں تفصيل سے بتاؤ۔ اور اگر ميرے ملنے اور تمہارے ملنے پر اسکی عادات ميں جھول محسوس ہوا۔ ميں وہيں انکار کردوں گا۔ فی الحال ميں رحمان کو بھی نظر ميں رکھنا چاہتا ہوں" انکی بات پر فراج اور نجوہ نے ايک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کی۔
"اب جاؤ۔۔ ميرا منہ کيا ديکھ رہے ہو" انہيں وہيں جمع ديکھ کر وہ خشونت بھرے انداز سے بولے۔
دونوں نے باہر کی جانب دوڑ لگائ۔
کمرے سے باہر آتے ہی نجوہ يکدم فراج کے گلے لگی۔
"تھينک يو بڈی" فرط جذبات سے اسے سمجھ نہيں آرہا تھا کہ اسکے ساتھ دينے پر اس کا شکريہ کيسے ادا کرے۔
فراج چند لمحوں کے لئے اسکی حرکت پر گنگ رہ گيا۔ اس کے ہاتھ پہلو ميں ہی رہے۔
نجوہ اس سے الگ ہو کر اب ماں اور بہن کی جانب بھاگی۔ جبکہ وہ چںد ثانيے اپنی جگہ سے ہلنے کے قابل نہيں رہا۔
___________________________
اگلے دن رات ميں فراج نے نجوہ کو فون کرکے اسوہ کے لئے گرين سگنل دے ديا۔
نجوہ کی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔
"آج کوئ خاص بات ہے" احتشام جس وقت گھر آيا تب سے رات تک وہ نجوہ کا خوشی سے دمکتا چہرہ مسلسل نظروں کے فوکس مين رکھے ہوۓ تھا۔
"آپکے لئے سرپرائز" اسکے برابر بيڈ پر بيٹھتے وہ تجسس آميز انداز ميں بولی۔
"ہممم۔۔۔۔۔ ميں پھر سے بابا بننے والا ہوں" کچھ پل سوچنے کے بعد احتشام کی بات پر نجوہ سر پيٹ کر رہ گئ۔
"بس شادی شدہ ہونے کا يہی نقصان ہے آدمی کو ہر وقت يہی فکر رہتی ہے کہ بيوی گیارہ بچوں کی ٹيم بنا لے" نجوہ اسکی بات پر بدمزہ ہوئ۔
"گيارہ نہيں۔۔ ميں تو بارہ کی ٹيم بناؤں گا" احتشام شرارتی لہجے ميں بولا۔
"افف۔ آپ تو گس نہ ہی کريں۔ ميں خود بتا ديتی ہوں۔ فراج اسوہ سے شادی کے لئے مان گيا ہے" وہ چہکتے لہجے ميں بولی۔
"واؤ ديٹس گريث" فراج جو بيڈ پر نيم دراز تھا نجوہ کی بات سنتے ہی فورا سے پہلے اٹھ کر بيٹھا۔
"اس نے کہا ہے دوہفتوں تک نکاح کرديں۔ منگنی ونگنی کے وہ حق ميں نہيں۔ اور پھر چھ ماہ بعد شادی" وہ پرجوش لہجے ميں بولی۔
"يہ تو بہت اچھا ہے" احتشام بھی اسکے فيصلے سے خوش ہوا۔
"اور ہاں اس نے کہا ہے احتشام بھائ سے کہيں کہ چچا کو سختی سے جہيز سے منع کرديں" نجوہ نے اہم بات بتائ۔
"يار اب ايسے تو نہيں ہوسکتا۔ ظاہر ہے انکی کی اکلوتی بيٹی ہے وہ تو ضرور اسے شان سے بياہيں گے" احتشام کچھ پريشان ہوا۔
"ليکن احتشام يہ تو اچھا ہے نا۔۔ اگر ہم ايسی فرسودہ رسموں کو ختم کرديں۔ ميں خود چچا سے بات کرلوں گی" نجوہ تو فراج کے اس فيصلے سے بے حد خوش تھی۔
"اللہ کا ديا سب کچھ ہے زہرہ خالہ کے پاس اور پھر فراج بھی سيٹلڈ ہے۔۔۔ آفس شروع کرچکا ہے۔ کہيں سے کوئ کمی نہيں ہوگی اسوہ کو" وہ ان وقتوں کا حق ادا کررہی تھی جب فراج نے اسکی شادی کے لئے سب کو مناتے وقت ايڑی چوٹی کا زور لگا ديا تھا۔
"بات تمہاری غلط نہيں۔ ليکن اگر وہ کوئ سامان نہيں دے سکے تو مجھے پکا يقين ہے کہ چچا پيسے تو لازمی اسوہ کو ديں گے۔" احتشام بھی اپنے چچا کو اچھے سے جانتا تھا۔
"اب انہين منانا ہمارا کام ہے۔ بس کل شام ميں چليں گے۔ کيونکہ پرسوں خالہ باقاعدہ رشتہ لے کر آنا چاہ رہی ہيں" نجوہ نے اسے مزيد بتايا۔
"چلو ٹھيک ہے کل چليں گے" احتشام نے ہامی بھری۔
"بس اب اللہ کرے سب اچھے سے ہوجاۓ" لائٹ بند کرکے احتشام کے قريب ليٹ کر اسکے سينے پر سر رکھتے وہ اپنے سے زيادہ فراج کے مستقبل کے خواب بن رہی تھی۔
"ان شاءاللہ سب اچھا ہوگا۔ اب تم اپنے ڈريسز کی فکر کرو" احتشام نے ايک اور بات کی جانب اسکی توجہ دلائ۔
"اوہ ہاں۔۔ ديکھيں۔ فراج ميرا دوست نہيں ميری سہيلی ہے۔ اور اپنی سہيلی کی شادی پر ميں سب سے اچھا لگنا چاہتی ہوں" احتشام کی توقع کے عين مطابق اب وہ نئ فکر پر پوری رات سير حاصل گفتگو کرسکتی تھی۔
"ميری جان تو اب بھی سب سے اچھی لگتی ہے" اسکے بالوں ميں ہولے سے انگلياں پھيرتے ماتھے پر بوسہ ديتے اسے خود ميں بھينچا۔
"نہيں جناب يہ خالی خولی تعريفوں سے بات نہيں بنے گی۔ جيب ڈھيلی کرنی پڑے گی" وہ يکدم فاصلہ قائم کرتی دھونس بھرے لہجے ميں بولی۔
"ايکسکيوزمی مسز۔۔۔ ميری سب جيبيں تم پہلے ہی کتر چکی ہو" اسکی بات پر وہ غصے اور افسوس کے ملے جلے تاثرات لئے يکدم اسکے سينے پر ہاتھ مار گئ۔
"مجھے جيب کترا کہہ رہے ہيں" غصے سے لال پيلی ہوئ۔
"ميں نے يہ کب کہا۔ اب تم خود اپنے بارے ميں زيادہ جانتی ہو" مسکراہٹ دباۓ اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت ميں لے کر دبايا۔
"نہيں آپ نے مجھے چور کہا ہے" وہ بات کہاں سے کہاں لے گئ۔ احتشام کا مذاق ہميشہ کی طرح اسے مشکل ميں ڈال چکا تھا۔
اب ساری رات اسے مناتے گزرنی تھی
-----------------------------
احتشام سے ملنے اور اسے جانچنے کے بعد شوکت صاحب کو نجوہ کے لئے بہتر وہی لگا۔ کچھ فراج نے بھی انکی وقتا فوقتا برين واشنگ کی کہ انہيں مانتے ہی بنی۔
احتشام کی تين بہنيں اور وہ ايک ہی بيٹا تھا۔ بہنيں سب شادی شدہ تھيں۔ ماں باپ ميں سے بھی ماں تو تھی نہيں صرف سرمد صاحب تھے۔ چھوٹی سی يہ فيملی شوکت اور شمع کو پسند آئ۔
شوکت صاحب نے بہن سے معذرت کی جبکہ وہ يہ فيصلہ سنتے ہی بھائ سے قطع تعلق ہوگئيں۔ شمع اور شوکت نے بہت کوشش کی کہ وہ ملنا نہ چھوڑيں مگر وہ کسی صورت نہيں مانيں۔ شوکت صاحب کے باقی بہن بھائيوں نے انہيں يہ کہہ کر سمجھايا کہ وقتی غصہ ہے ٹھيک ہوجائيں گی۔ مگر وہ بہن کے چکر ميں اپنی بيٹی کا نقصان نہ کريں۔
يوں ربيعہ کی مہندی پر احتشام اور نجوہ کا نکاح رکھا گيا۔
دن پر لگا کر اڑے ۔۔۔ فراج گھن چکر بن گيا۔ دو دوکزنز کی شاديوں کا کام تھا اور وہ اکيلا گھر ميں سب ذمہ داريوں کو اجسن طريقے سے نبھا رہا تھا۔
شادی سے دو دن پہلے زہرہ اور فضيلہ بھی آچکے تھے۔ باقی کے بھی رشتہ دار بھی آہستہ آہستہ جمع ہونے لگ گۓ تھے۔
"زہرہ تم نے تو ہيرا پيدا کيا ہے" شمع اور زہرہ اس وقت باقی مہمانوں کے ساتھ بيثھی ربيعہ کی جہيز کی چيزيں رکھ رہی تھيں۔
"بس آپ اللہ کا شکر ہے اس نے ميرے بچے کو اچھے راستے پر ہی لگاۓ رکھا" زہرہ کے لہجے ميں بيٹے کے لئے محبت ہی محبت تھی۔
"بے شک۔ اللہ کی مرضی کے سوا پتہ بھی نہيں ہل سکتا۔ مگر ميں تو کہوں گی کے ايسے بچے آجکل کے دور ميں کہاں نظر آتے ہيں۔ فراج نے تو ميرے بيٹے ہونے کا حق ادا کيا ہے" وہ فخر سے لاؤنج کے دروازے سے ملازموں کے ساتھ اندر آتے فراج کو ديکھ کر بوليں۔ جو اس وقت گھر کے ہی لان ميں مہندی کا انتظام کروا رہا تھا۔
"نہ اس لڑکے نے دن ديکھا ہے نہ رات۔۔ ميرا اور ميری بچيوں کا ہر کام کيا ہے"
"بس آپا اللہ نے اسے آپکی آسانی کا ذريعہ بنايا۔ دعا کريں ميرے بچے کی زندگی ميں بھی ہميشہ ايسی ہی آسانی رہے" زہرہ نے تشکر سے کہا۔
"ان شاءاللہ کيوں نہيں۔۔ اللہ اسکے نصيب ميں ايسا ہی ہيرا لکھے جيسا يہ خود ہے" فراج کو خلوص دل سے انہوں نے دعا دی۔
وہاں بيٹھے سب لوگوں نے آمين کہا۔
__________________________
وہ آفس ميں بيٹھا کام کررہا تھا کہ نجوہ کالنگ پر چونکا۔
سرعت سے فون اٹھايا۔
"السلام عليکم! کيسی ہيں؟" مصروف سے انداز پھر بھی توجہ بھرپور تھی۔
"وعليکم سلام جيتے رہو! ميں بالکل ٹھيک تم سناؤ" ہميشہ کی طرح بشاش لہجہ۔
"ميں بھی ٹھيک" مختصر جواب ديا۔
"آج شام ميں گھر آسکتے ہو؟" اسکی فرمائش پر اب کے کام روکا۔
"خيريت؟" اس کا سوال بے ساختہ تھا۔
"ہاں کچھ ضروری کام ہے" اس نے گول مول جواب ديا۔
"حاضر ہوجاؤں گا۔۔ کب تک آؤں؟" فورا ہامی بھری۔
"پانچ چھ بجے تک آجانا" جلدی سے ٹائم سيٹ کيا۔
"ٹھيک۔۔ اور کوئ حکم" لہجہ خاص تھا۔
"نہيں بس آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے" وہ اسکی تابعداری پر مسکرائ۔
خدا حافظ کہہ کر وہ واپس کام ميں مصروف ہوگيا۔
شام ميں اسکے طے کردہ وقت کے مطابق وہ آچکا تھا۔
ضماد جو کے لان ميں کھيل رہا تھا۔ اسے گود ميں اٹھاۓ لاؤنج ميں داخل ہوا۔ سامنے صوفے پر نجوہ کے ساتھ اسوہ بھی بيٹھی ہوئ نظر آئ۔
"السلام عليکم" اس نے بلند آواز ميں سلام کيا۔
نجوہ نے گرمجوشی سے جواب ديا جبکہ اسوہ نے ايک نظر اسے ديکھ کر ہولے سے جواب ديا۔
اس ايک نظر ميں بھی وہ اسکی وجاہت کی قائل ہوچکی تھی۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، کندھے تک آتے بال رف سے تھے اس وقت پھر بھی اسے وجيہہ بنا رہے تھے۔ ہلکی سی شيو۔۔ اندر کو دھنسی آنکھيں جنہيں وہ شايد ہی پورا کھولتا تھا، صاف رنگت، کالے سنہری مکس بال۔۔ بھنچے لب۔۔ کسرتی جسم۔۔ بليک پينٹ اور آف وائٹ شرٹ پہنے اور آف وائيٹ ڈاٹس والی ٹائ لگاۓ ۔۔۔ اسوہ کو اپنی قسمت کا روشن ستارہ لگا۔
"کيسی ہيں آپ؟" خوش اخلاقی سے دونوں کا حال چال پوچھا۔
"بالکل ٹھيک۔۔ تمہارا ہی انتظار کررہی تھی" دو دن ہو چکے تھے۔ زہرہ اسوہ کے گھر رشتہ لے کر گئيں اور ہاں کروا کر ہی اٹھيں تھيں۔ اب دونوں جانب نکاح کی تيارياں عروج پر تھيں۔
"کيا لو گے؟ جوس، چاۓ ۔ کافی"وہ سامنے صوفے پر بيٹھا تھا۔ اسوہ نے اٹھتے ہوۓ پوچھا۔
"آپ جانتی تو ہيں پھر پوچھتی کيوں ہيں" اسکی بات پر يکدم اسوہ نے اسکی جانب ديکھا۔ جو نجوہ کو ايک نظر ديکھ کر ضماد کے کسی ٹواۓ کو ديکھنے ميں مصروف تھا۔ ںظر ميں کچھ خاص چمک تھی۔ جو اسوہ کو الجھا گئ۔
"تمہاری يہ عادت نہيں چھوٹی۔۔ سردی گرمی کافی پينے کی" وہ ہنستے ہوۓ کچن کی جانب بڑھی۔ اسکی بات پر وہ جو سر اٹھا کر اسکا ہنستا چہرہ ديکھ رہا تھا بے خيالی ميں کچن جانے تک فراج کی نظروں نے نجوہ کا پيچھا کيا۔
يکدم نظر موڑ کر اس نے خود کو ديکھتی اسوہ کی جانب ديکھا۔
اسکے يکدم نظروں کا زاويہ خود پر آتے ديکھ کر اسوہ نے گھبرا کر نظريں جھکائيں۔
"آپ کی جاب کيسی چل رہی ہے؟"فراج نے اسے ديکھتے ديکھتے ہی سوال کيا۔
"جی اچھی" اسے اميد نہيں تھی کہ وہ ايکدم اسے مخاطب کرے گا۔
"کون سے سبجيکٹ پڑھاتی ہيں آپ؟"بات سے بات نکال رہا تھا۔
"انگلش" اسوہ نے اسے ديکھا
"گريٹ"اس نے سراہا۔
"آپ کا آفس سيٹ ہوگيا؟" فراج کی ان چھوٹی چھوٹی باتوں نے اسے ريليکس کيا۔ وہ بھی اب سوال پوچھنے لگی۔
"الحمداللہ۔۔ پراجيکٹس تو پہلے سے يہاں سے ملنے لگ گئے تھے۔ مگرانہيں پراسيڈ تبھی کر سکتا تھا جب يہاں آکر اپنا سيٹ اپ بناتا۔ اسی لئے آنے سے پہلے انہيں ہالڈ کروا ديا تھا۔ آنے سے پہلے احتشام بھائ نے آفس کی بلڈنگ اور انٹيرئير سب سيٹ کرديا تھا۔ ميں نے تو بس بيٹھنا ہی تھا آکر۔" فراج نے تفصيل سے سب بتايا۔
"ويسے حيرت ہے لوگ باہر سے پڑھ کر وہيں سيٹ ہوجاتے ہيں ۔۔ آپ واپس کيوں آئے" اسوہ کا سوال اسے کچھ چبھا۔
"ميں وہاں صرف پڑھنے کی نيت سے گيا تھا۔ خود سيٹ ہونے نہيں۔ کتنی مضحکہ خيز بات ہے کہ ہم اپنے ملک کے خرچوں پر اعلی تعليم تو لے آتے ہيں۔ مگر جب اس کو واپس فائدہ پہنچانے کی بات آتی ہے تب ہم منہ پھير کر يہ کہہ ديتے ہيں کہ يہاں کيا رکھا ہے۔ يہ نہيں سوچتے اس ملک نے ہی ہميں قابل بنايا ہے کہ ہم اپنا آپ دنيا ميں منوا کر آئيں۔" فراج کا لہجہ عام ہر گز نہيں تھا۔ اسوہ کو اپنا سوال گلے پڑتا محسوس ہوا۔
"ميں نے تو ايسے ہی پوچھا تھا۔ آپ کو ہرٹ کرنا مقصد نہيں تھا" وہ جلدی سے وضاحت دينے لگی۔
"ميں نے بھی ايسے ہی جواب ديا ہے آپ کو شرمندہ کرنا مقصد نہيں" فراج کے چہرے کی بڑھتی سنجيدگی ديکھ کر اسوہ کو اب خاموش ہونا بہتر لگا۔
اسی اثناء ميں نجوہ کافی لے آئ۔
"ارے تم لوگ خاموش کيوں بيٹھے ہو؟" وہ انہيں خاموش ديکھ کر حيرت سے بولی۔
"ہم کافی سير حاصل گفتگو کرچکے ہيں" فراج کی بات پر اسوہ کو ايسا محسوس ہوا جيسے اس نے اسے سنايا ہو۔
"اچھا بھابھی مين چلتی ہوں" اسے وہاں سے جانا ہی مناسب لگا۔ سامنے بيٹھا شخص اسے پہلے جتنا سيدھا لگا تھا۔ اب اتنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔
"ارے ابھی تھوڑی دير پہلے تو آئ ہو" نجوہ نے ان دونوں کو ملانے کے لئے ہی تو فراج کو آفس سے بلايا تھا۔
"سکول کا کچھ ضروری کام ياد آگيا" وہ جان چھڑانے والے انداز ميں بولتی فورا اٹھی اور لاؤنج سے باہر نکل گئ۔
فراج اس تمام گفتگو ميں لاتعلق سا بيٹھا رہا۔
"ارے عجيب ہے۔۔ اور تم۔۔ ساری زندگی کيا اب خاموشی سے ہی رہو گے اسکے ساتھ۔۔ انسان کوئ بات ہی کرليتا ہے" ناسمجھی سے لاؤنج سے نکلتی اسوہ کو ديکھ کر اب اس نے توپوں کا رخ فراج کی جانب کيا۔ جو مزے سے کافی پيتا موبائل ميں نجانے کيا کررہا تھا۔
"ميں تو پريکٹس کررہا تھا۔۔ عموما شوہر حضرات کو بيويوں کے سامنے خاموشی کا ہی لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے۔ کيا پتہ کب کون سی بات دل ناتواں پر ٹھک کرکے لگے اور شوہر بچارہ اپنی غلطی ہی ڈھونڈتا رہے" نجوہ کے غصے کا اس پر کوئ اثر نہيں تھا۔
"بہت ڈھيٹ ہو" اس نے تاسف سے اسے ديکھا۔
اسوہ سے بات کرکے اسے کوئ خاص خوشی نہيں ہوئ تھی۔ وہ عام سی سطحی سوچ کی لڑکی لگی۔ مگر وہ پہلی ہی ملاقات ميں اسکے بارے ميں کوئ خاص رائے قائم کرنا نہيں چاہتا تھا۔
____________________________
"ہيلو فراج جلدی سے اوپر ميرے روم ميں آؤ" وہ ابھی اسٹيج کی ڈيکوريشن کروا کے فارغ ہوا ہی تھا کہ فون پر نجوہ کی کال آئ۔ عجلت ميں کہہ کر اس نے فون جلدی سے رکھ ديا۔
"فراج بھائ يہ گجرے اوپر نجوہ آپی کو دے ديں" نجوہ کے چچا کی بيٹی فراج کو اوپر جاتے ديکھ کر تيزی سے اسکی جانب آئ اور ايک لفافہ پکڑا کر اسی تيزی سے نيچے کے ايک کمرے ميں گم ہوگئ جہاں مہمان ٹہراۓ گئے تھے۔
فراج لفافہ پکڑ کر تيزی سے سيڑھياں طے کرتے نجوہ کے کمرے کے دروازے کے سامنے رکا۔ ہاتھ بڑھا کر ناک کيا۔
"آجاؤ" نجوہ کی آواز آتے ہی وہ مصروف سے انداز ميں اندر آيا۔ مگر چند پل کو سامنے کا منظر ديکھ کر وہ ساکت ہوگيا۔
پستہ رنگ کی ديدہ زيب ميکسی ميں۔ خوبصورت سا ہئير سٹائیل بناۓ ٹيکا جھومر ہر سنگھار کئے وہ فراج کو مبہوت کرچکی تھی۔ شيشے کے سامنے بيوٹيشن کے ساتھ کھڑی کانوں ميں آويزے پہنتی آج فراج کو کوئ اور ہی نجوہ لگ رہی تھی۔ اس نے کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلايا۔
نجوہ بھول چکی تھی کہ اس نے فراج کو کمرے ميں آنے کا کہا تھا۔ يکدم مڑتے ہوۓ فراج کو ديکھ کر مسکرائ۔ اس نے نظروں کا زاويہ بدلا۔
"يہ پھول" جلدی سے ہاتھ ميں تھاما شوپر آگے کيا۔
"ميں کيسی لگ رہی ہوں" اسکے سوال پر فراج نے ضبط سے آنکھيں اٹھا کر لمحہ بھر کر اسکے خوبصورت روپ کو ديکھا۔
"بہت اچھی۔۔" مسکرا کر اسکے روپ کو سراہا۔ پھر سے نظريں اسکے سندر روپ سے ہٹائيں۔
نجوہ نے اسکے بڑھے ہاتھ سے شاپر تھاما۔
"تھينک يو۔ تم بھی تيار ہو جاؤ اب" شاپر کھولتے اس ميں سے گجرے نکال کر پہنتے فراج کو مشورہ ديا۔
"جی۔۔" وہ نظريں جھکاۓ فورا وہاں سے نکلا۔
کچھ ہی دير ميں ربيعہ اور نجوہ کے سسرال والے آگئے۔
پہلے نجوہ اور احتشام کا نکاح کيا جانا تھا۔
فراج، شوکت، اور گھر کے تمام بڑے پہلے نجوہ کے کمرے ميں پہنچے۔ نيٹ کے دوپٹے کا گھونگھٹ نکالے وہ صوفے پر بيٹھی تھی۔ مولوی کے ساتھ شوکت صاحب بھی اسکے دائيں بائيں جانب بيٹھے۔
آف وائيٹ شلوار کرتے پہ ڈارک گرے چادر کندھوں پر ڈالے وہ بے حد خاموش سا نجوہ کو سائن کرتے ديکھ رہا تھا۔ نجانے ايک عجيب سی خاموشی کيوں اسکے اندر باہر تھی وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ يہ کيوں ہورہا تھا۔ نجوہ سے سائن کروا کر وہ سب باہر موجود اسٹيج پر بيٹھے احتشام کی جانب بڑھے۔ تين بار قبول ہے کہتے ہی اس نے سائن کئے۔
سب سے پہلے اسکے گلے لگ کر مبارک دينے والا فراج تھا۔
"تھينکس يار۔۔ تم نے بہت مدد کی" احتشام اسکے گلے لگے سرگوشی نما آواز ميں بولا۔
"تھينکس نہ کہي۔ کبھی آپ کی بھی مدد کا موقع ميں ايسے ہی لوں گا۔۔ پھر ميرا شکريہ پورا ہوگا" وہ خوشگوار انداز ميں بولا۔
"اينی ٹائم يار۔۔ ابھی بتاؤ يہاں کون پسند ہے۔۔ ہم ابھی کوششيں شروع کرديتے ہيں" وہ بھی اسکی بات کا مزہ لے کر بولا۔
"ہے تو يہيں کہيں۔۔" اسکی بات پر فراج نے حيرانگی سے اسکے چہرے کی چمک کو ديکھا۔
"مذاق کررہا ہوں" اسکی حيران شکل ديکھ کر وہ ہنس کے پيچھے ہوتے اسٹيج سے اترا۔
نجوہ کو اسٹيج تک لانے کے لئے شمع نے فراج اور شوکت کو بھيجا۔
"چلو بھئ بہن کو لے کر آؤ" ربيعہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ اسے نجوہ کے کمرے کی جانب دھکيلا۔
"بہن نہيں دوست" وہ اسکی تصحيح کروانے لگا۔
"چليں جی اپنے سئياں کے پاس" فراج نے داياں ہاتھ اسکی جانب بڑھا کر شرارتی آواز ميں کہا۔
اسی لمحے شوکت صاحب بھی اندر آئے۔ نجوہ کو ساتھ لگا کر پيار کيا۔ اسکا باياں ہاتھ فراج کے ہاتھ ميں تھا اور داياں شوکت کے ہاتھ ميں۔ فراج نے بائيں ہاتھ سے اسکی ميکسی کو ہولے سے اٹھايا تاکہ اسے چلنے ميں دقت نہ ہو۔ وہ ہر ہر لمحہ نجوہ کا خيال رکھتا تھا۔ اس محبت پہ نجوہ کی آنکھوں ميں آنسو لہراۓ۔
"آپکی رخصتی نہيں ہورہی ابھی۔ زيادہ خوش ہو کر سينٹی نہ ہوں" اسکی آنکھوں ميں آنسو لہراتے ديکھ کر اسے چھيڑنے والے انداز ميں بولا۔ ہاتھ کو بھينچ کر اسے تسلی دی۔ سپاٹ لائيٹ ميں لئے وہ دونوں اسے تھامے اسٹيج کے قريب لا رہے تھے۔
احتشام اسے ريمپ پہ آتے ديکھ کر بے اختيار اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ يہ تو کوئ اور ہی نجوہ تھی۔
اسٹيل گرے شلوار قيمض پر بليک کوٹ پہنے وہ خود بھی بے حد وجيہہ لگ رہا تھا۔ مگر اس لمحہ نجوہ اسے مات کررہی تھی۔
Lover, please take care of me
If you’re not here than I’m not living
Cause lover, I’m meant to be
So close to you I hear your heart beat
I’m the one that you know
And the one you call home
The one that you love
The one that you’re keeping
From the moment you wake
Till we break for the day
You’re the one that I love
The heart that I’m stelaing
فراج نے نجوہ کی اينٹرنس کے ساتھ ہی يہ خوبصورت گانا بجانے کا پہلے سے ہی ڈی جے کو کہہ رکھا تھا۔
ہر لفظ ان دونوں کی محبتوں کی عکاسی کررہا تھا۔
اسٹيج کے قريب آتے ہی فراج نے اسکا ہاتھ احتشام کے بڑھے ہاتھ ميں تھمايا۔ اسکی عمر بھر کی خوشی کی دعا ديتے اسٹيج سے اتر گيا۔
انکے اسٹيج پر آتے ہی دوسری جانب کے اسٹيج پر ربيعہ کی مہندی کی رسم شروع ہوئ۔ وہ دن تھکا دينے والے تھے۔ جن ميں فراج نے بھرپور طريقے سے شوکت اور شمع کا ساتھ ديا۔
_______________________________
رات میں کاموں سے فارغ ہو کے اس نے فراج کو فون کیا. نکاح میں چند دن رہ گئے تھے اور ابھی تک اسوہ کا ڈریس نہیں لیا تھا.
احتشام ابھی تک گھر نہیں آیا تھا.
چوتھی بیل کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا تھا.
"کیسی ہیں آپ" سلام دعا کے بعد فراج نے حال پوچھا.
"میں تو ٹھیک ہوں دلہے میاں.. تم اب ذرا جلدی تیاریاں پکڑو" فون کندھے سے لگائے. بیڈ پر پاؤں رکھے دونوں ہاتھوں سے ان پر لوشن لگارہی تھی.
"اب کس بات کی تیاری.. کہیں آپ رخصتی کی تیاری تو نہیں کر رہیں" وہ اچنبھے سے بولا.
"ارے نہیں بھئ! کل تم شام میں جلدی آجانا. اسوہ کو ساتھ لے جا کر نکاح کا ڈریس پسند کر لینا..اوراب کچھ انڈرسٹینڈنگ بناؤ اس سے" وہ حکمیہ انداز میں بولی.
"شاپنگ پہ بس میں اور آپکی بھابھی ہی جائیں گے؟" اس نے تصدیق چاہی.
"نہیں پورے خاندان کو لے کر جانا. اففف فراج میں تمہارا کیا کروں.. باہر پڑھنے کے دوران بس چھولے بیچتے رہے ہو.. حد ہوگئ.." وہ تلملا گئ. اسکی تلملاہٹ پر فراج کا قہقہہ بے ساختہ تھا.
"نہیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں. پڑھائ کے ساتھ کیا میں گرل فرینڈز بناتا رہا ہوں" اب وہ تفتیشی انداز پہ اترا
"ویسے سچ بتاؤ کیا واقعی کوئ لڑکی پسند نہیں آئ.. ایسا ہو نہیں سکتا... اتنے ہیرو سے تو ہو تم... آخر کوئ تو ہوگی" وہ رازدارانہ انداز میں بولی.
"ہاں... ایک تھی" ایک گہرا سانس کھینچ کر وہ عجیب سے انداز میں بولا.
"تو پاگل پہلے کیوں نہیں بتایا. ہم تو ایسے دقیا نوسی نہیں.. کہتے تو بات آگے چلاتے" وہ پریشان سی ہوئ.
" محبت میں ملن تو ضروری نہیں..اسکی اور میری محبت ان ضرورتوں سے کہیں آگے کی تھی" وہ پہلی بار یوں نجوہ پہ کھلا
"فراج تم نے کبھی بتایا کیوں نہیں.. کون تھی.. یا اللہ.. لگتا ہے روگ لگالیا.. میں تو بیسٹ فرینڈ تھی تمہاری.. مجھے کیوں نہیں بتایا کبھی" اسکا دل ڈوبا.. وہ بات ہی ایسی کر رہا تھا..
" بالکل آپ ہی بیسٹ فرینڈ ہیں.. مگر بتانے کو کچھ تھا نہیں کیا بتاتا... مجھے بس اسکی چاہ ہے.. اسکے ملنے کی چاہ نہیں.. خیر چھوڑیں.. آپکی اسوہ بہت اچھی ہے. پلیز اسکے سامنے ایسی کوئ بات مت کرنا. نجانے کتنے ارمان لے کر وہ مجھے زندگی میں شامل کررہی ہے. میں اسکے ساتھ پورے خلوص سے یہ رشتہ نبھانا چاہتا ہوں"نجانے کس رو میں وہ اپنی آدھی ادھوری محبت بتا گیا تھا.. یکدم احساس ہونے پہ خود کو سنبھالا..
"فراج.. سچ بتاؤ کوئ کسک تو نہیں" وہ بھی تو محبت کی ستائ ہوئ تھی کیسے نہ جانتی کے محبت میں نہ ملنا کیسا تکلیف کا باعث ہے. اس نے بھی تو احتشام سے ڈوب کر محبت کی تھی. فراج کے علاوہ کوئ اس حقیقت سے واقف ہی کہاں تھا.
" کسک ہوتی تو نئے بننے والے رشتے میں خیانت کا مرتکب ہوتا اور یہ خیانت میرے ہر انداز سے ظاہر ہوتی..ایسا کچھ نہیں.. بس سمجھیں میں نے آپکو کبھی کچھ بتایا ہی نہیں.اس بات کو اسی اندھیری رات کی نظر کر دیں.
اچھ اسوہ سے پوچھ کر مجھے ٹائم بتا دیں کب اسے پک کروں اور ہاں مجھے اسکا موبائل نمبر بھی دیں.
کب تک آپ کبوتر بن کے پیغام ادھر سے ادھر کریں گی" لہجے میں بشاشت لاتے وہ نجوہ کو کچھ دیر پہلے والی کیفیت سے باہر نکال لانے میں کامیاب ہو گیا.
"اچھا جی تو اب میں کھٹکنے لگی ہوں" وہ ہمیشہ کی طرح اسکی باتوں میں آکر کچھ دیر پہلے کی باتیں بھلا چکی تھی.
"ہاں نا.. اب انڈراسٹینڈنگ ایسے ہی تو ہوگی.."وہ شرارتی لہجے میں بولا.
"اچھا بتاتی ہوں. ابھی فون رکھو.. بلکہ اسوہ کو تمہارا نمبر دے کر کہتی ہو ں خود ہی بتا دے" وہ جلدی سے سب طے کرکے بولی
"نہیں آپ ایک کام کرین مجھے اسکا نمبر سینڈ کریں. میں خود یہ نیک کام کر لیتا ہوں.. لڑکیاں پہل کرتے اچھی نہیں لگتیں.اورشاید وہ جھجھک بھی جائے.. بہتر ہے میں خود یہ بے تکلفی کی دیوار گراؤں" اس نے سہولت سے سمجھایا.
"ہائے فراج.. کتنے سمجھدار ہو تم.. ماشاءاللہ... اسوہ بہت خوش رہے گی"نجوہ کے لہجے میں تفاخر تھاا.
"ان شاءاللہ.. چلیںاب فون بند کریں اور اپنے میاں کے کان کھائیں. "وہ پھر سے شریر لہجے میں بولا.
"وہ تو آئے ہی نہیں ابھی تک" وہ منہ بنا کے بولی.
"رات کے گیارہ بج رہے ہیں. ان کو اب آجانا چاہئیے.. پتہ کریں کہاں پھر رہے ہیں..زیادہ ڈھیل نہ دیں" وہ اسے چھیڑنے والے انداز میں بولا..
"جی نہیں وہ ایسے نہیں.." وہ اسکے چڑانے پہ چڑ کے بولی.
"میں نے کب کہا ایسے ہیں. میں تو کہہ رہا ہوں ویسے ہیں".
"اچھا زیادہ میرے میاں کے خلاف باتیں نہ کرو.. اسوہ کا نمبر بھیجتی ہوں"اسکی باتوں پہ ہنستے ہوئے اس نے فون بند کیا
____________________________
دو سال کب پر لگا کر گزرے پتہ ہی نہيں چلا۔ انہی دنوں احتشام کی پوسٹنگ لاہور ہوگئ۔ اس نے افسروں کو کہلوا کر نجوہ کی پوسٹنگ بھی لاہور کروا دی۔ تاکہ شادی کے فورا بعد وہ دونوں وہاں شفٹ ہوجائيں۔
شادی کی تيارياں زوروں پر تھيں۔ ربيعہ کی شادی سے بھی بڑھ کر فراج نے نجوہ کی شادی ميں پل پل کام کيا۔
ربيعہ اور ماريہ اپنے بچوں کے ہمراہ آچکی تھيں۔ گھر ميں خوب رونق لگی ہوئ تھی۔
"چل بھئ فراج آجا" ڈھولکی رکھے وہ دونوں فراج کو اپنے ساتھ گھسيٹ رہی تھيں۔ دونوں کے بچے اور شوہر نامدار بھی موجود تھے۔
"نجوہ مہندی لگوانے کے بعد ايک تھپڑ کس کے فراج کو مارنا تاکہ اسکی بھی شادی جلدی ہو۔" ربيعہ نے شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ صوفے پہ بيٹھی نجوہ سے کہا۔ سب اس وقت لاؤنج ميں موجود تھے۔
"جی بالکل اور ميرا ايم ايس آپ کريں گی" فراج کی خواہش تھی کے انجينرنگ کی چار سال کی ڈگری کے بعد وہ باہر کے ملک ايم ايس کے لئے جاۓ۔
"بھئ وہيں سے کوئ ڈھونڈ لو۔۔ دونوں اکٹھے شادی کے بعد ايم ايس کرنا۔۔ ايم ايس کا ايم ايس اور ہنی مون کا ہنی مون ہوجاۓ گا۔ وہ بھی لونگ ہنی مون" ربيعہ لونگ پہ زور دے کر بولی۔
"مرتضی بھائ۔۔ يہ ربيعہ آپا جب تک ہمارے پاس تھيں۔ ايسی ہر گز نہيں تھيں۔ آپ کيا کھلاتے ہيں انہيں" فراج نے اسکی بے باکی پہ چوٹ کرتے ہوۓ کہا۔
"بھائ مجھے تو پہلے دن سے ايسی ہی ملی تھی۔ شايد تم لوگوں سے ٹيلنٹ چھپايا ہو" وہ بھی فراج کے ساتھ مل کر ربيعہ کا ريکارڈ لگانے لگا۔
"حد ہے ويسے ۔۔۔ يہ تو بس ہے ہی نجوہ کا۔ اور آپ بھی اسکے ساتھ مل کر ميرا ريکارڈ لگانے لگے۔" ربيعہ نے افسوس سے سر ہلاتے کہا۔
"يہ تم اسے جہيز ميں کيوں نہيں لے جاتيں" اب کی بار ماريہ کے شوہر رميز نے بھی گفتگو ميں حصہ ليا۔
سوال نجوہ سے تھا اور اشارہ فراج کی جانب تھا۔
"اس غدار نے يہاں ايڈميشن لے ليا نہيں تو يہ بھی وہيں ہوتا لاہور ميں" نجوہ پيلے جوڑے ميں بيٹھی مزے سے بولی۔
"ہاں تو اب يہاں سے جا کر وہاں آپکا ميکا بھی تو بسائيں گے نا۔۔ اب روز آپ اپنے دکھڑے رونے خالہ کے پاس تو نہيں آسکتيں۔ ہاں ممی اور ميرے پاس تو آسکتی ہيں"
"ہاۓ ميں صدقے۔۔۔" نجوہ محبت سے مسکراتے ہوۓ بولی۔
"اچھا چلو بھئ يہاں تو مذاکرات ختم نہين ہورہے گانے شروع کرو" ماريہ نے انکی توجہ اصل کام کی جانب دلائ جس مقصد کے لئے وہ سب اکٹھے بيٹھے تھے۔
رات گۓ تک پھر يہ محفل جاری رہی۔
________________________________
"کيسی ہيں؟" اگلے دن شام ميں فراج اسوہ کو لينے اسکے گھر پہنچ چکا تھا۔ گاڑی سے اتر کر پہلے اندر آگيا۔ سب سے مل کر اسوہ کے والدين سے اس کو لے جانے کی اجازت لے کر اسے لئے باہر نکلا۔
گاڑی ميں بيٹھتے کے ساتھ ہی اسکا حال پوچھا۔ براؤن جديد تراش خراش کا سوٹ پہنے بالوں کو ادھ کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ ہلکا سا ميک اپ کئے وہ اس لمحے فراج کو ايک خوش شکل لڑکی لگی۔
وہ خود اس لمحے لائيٹ براؤن سوٹ اور کافی کلر کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔ اسوہ نے ايک نظر اس وجيہہ شخص کو ديکھا۔ اسے اپنی قسمت پہ ناز ہوا۔
رات ميں جس وقت فراج نے اسے کال کی پہلے تو اسے يقين نہيں آيا مگر پھر آدھا گھنٹہ اس سے بات کرکے اسوہ کے خيالات اسکے بارے ميں بالکل بدل گۓ۔ اس دن نجوہ کے گھر پر باہر سے واپس آنے پر ان کی جو بحث ہوئ تھی اسکے بعد سے اسے فراج اپنے لئے اچھا انتخاب نہيں لگا۔
مگر رات جس دھيمے اور اچھے انداز ميں اس نے اسوہ سے بات کی۔ اس کو ايسا لگا کہ اس شخص کے ساتھ زندگی يقينا بہت خوبصورت گزرے گی۔
"الحمداللہ! بالکل ٹھيک۔ آپ کيسے ہيں۔ تھکے ہوۓ لگ رہے ہيں؟" رات کے بعد اتنا تو ہوا تھا کہ انکے درميان بے تکلفی کی ديوار گری تھی۔
"ارے نہيں۔۔ ميں بہت مضبوط اعصاب کا بندہ ہوں۔۔ آپ کو روز شاپنگ پہ لے جاسکتا ہوں" فراج نے ہلکے پھلکے انداز ميں کہا۔
"آپ کو کون سا کلر پسند ہے؟" اسوہ نے شرميلے سے لہجے ميں پوچھا۔
"ڈريس آپ نے پہننا ہے۔ کلر مجھ سے پوچھ رہی ہيں" وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ چکا تھا۔
"ہاں تو اب آپکی ہی پسند کی چيزيں پہنوں گی نا" وہ ناز سے بولی۔
"اچھا جناب۔۔ ويسے ميں نے سنا ہے آجکل پاکستان ميں نکاح پر آف وائيٹ کلر کا بہت ٹرينڈ ہے۔ تو ايسا کرتے ہين اسی ميں آپ اور ميں دونوں ڈريس لے ليتے ہيں" فراج نے اسے پتے کی بات بتائ۔
"ہاں ايسا تو ہے" اس نے بھی ہاں ميں ہاں ملائ۔
اسے اچھا سا ڈريس دلوا کر اور اپنا بھی لے کر۔ رات ميں کھانا کھلا کر پھر اس نے اسوہ کو گھر چھوڑا۔ وہ شام ان دونوں کی انڈرسٹينڈنگ کی شروعات کی شام تھی۔ اسوہ کو اتنی دير ميں يہ تو سمجھ آگيا کہ فراج بہت رومينٹک انسان نہيں ہاں ليکن بے حد خيال رکھنے والا ہے۔ اسکے لئے فی الحال يہی بہت تھا۔
__________________________
شادی کا دن بھی آپہنچا۔ فراج جس لمحے اسے پارلر لینے پہنچا۔ وہ اور ربيعہ باہر گاڑی ميں آئيں۔
اسے پيچھے بٹھا کر ربيعہ خود آگے فراج کے ساتھ بيٹھی۔
جيسے ہی وہ گاڑی چلانے لگا نجوہ کی چہکتی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ۔
"بڈی ايک بار ديکھ تو لو مجھے۔" اسکی آواز پر ايکسليٹر دباتا اسکا پاؤں چند لمحے وہيں ساکت ہوا۔ خود کو کمپوز کرتے اس نے جيسے ہی پيچھے مڑ کر ديکھا۔ ڈيپ ريڈ اور مہندی گرين لہنگے ميں دلہن بنی وہ فراج کو اس لمحے دنيا کی سب سے حسين لڑکی لگی۔
خوشی نے اسکے چہرے کا احاطہ کرکے عجيب سی چمک اسکے چہرے اور آنکھوں ميں پيدا کررکھی تھی کہ جس سے نظريں چرانے کے سوا فراج کے پاس اور کوئ راستہ نہيں تھا۔
"ارے آنکھيں چرا رہے ہو۔۔ تعريف تو کردو۔ کيا بری لگ رہی ہوں" اسے نظريں چراتے ديکھ کر پہلے وہ حيران اور پھر يہ سوچ کر پريشان ہوئ کہ کہيں ميک اپ برا نہ کرديا ہو۔
"يو لک سٹننگ۔۔ " تين لفظوں ميں گويا وہ سب کہہ گيا۔
اسکے لہجے کی گمبھيرتا پر غور کئے بنا وہ خوشی سے مسکرائ۔
"تھينک يو۔۔ مجھے پتہ تھا تم ميری سچی تعريف کروگے" وہ مان سے بولی۔
"اچھا۔۔ تو کيا احتشام بھائ جھوٹی تعريفيں کرتے ہيں۔۔۔" خود کو کچھ دير پہلے کی کيفيت سے نکالتے اس نے گاڑی آگے بڑھائ۔
"ہاں نا۔۔ نکاح کے بعد اب چاہے اچھی لگے يا بری۔ اس بے چارے کو تو تعريف کرنی ہی پڑے گی" ربيعہ بھی اسے چھيڑنے لگی۔
"ہاں ہاں کر لو اچھی طرح ميری بے عزتی۔۔ بچو آج کے بعد ياد کروگے مجھے" اسکی بات پر يک لخت فراج کی نگاہوں نے اسکے گھونگھٹ ميں چھپے چہرے کو ديکھنے کی پھر سے تمنا کی۔
"نہ بھئ ہم تو شکرانے کے نفل پڑھيں گے۔ کيوں فراج" ربيعہ کسی طور اسے بخشنے کو تيار نہيں تھی۔
"جی بالکل ميں نے تو سو مانے ہوۓ ہيں۔۔" فراج مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ بولا۔
"بہت برے ہو تم لوگ" وہ روہانسے لہجے ميں بولی۔ شادی ہال جانے تک پھر فراج اور ربيعہ اسے منانے ميں لگے رہے۔ چند لمحوں بعد سب رسميں پوری کرکے وہ احتشام کے سنگ رخصت ہوچکی تھی۔ اپنی محبت کو پانے کے لئے۔
______________________
سب اس وقت تيار ہوچکے تھے مگر احتشام کی آفس سے واپسی ابھی تک نہيں ہوئ تھی۔ اسوہ پارلر سے نا صرف تيار ہوکر آچکی تھی بلکہ دلہے والے بھی آچکے تھے۔
احتشام اور نجوہ کی خواہش پر اسوہ اور فراج کا نکاح ان کے گھر ميں منعقد کيا گيا تھا۔
شمع، شوکت، ربيعہ اس کا شوہر اور بچے بھی موجود تھے۔ ماريہ نہيں آسکی تھی۔ مگر شادی پر آنے کا اس کا پورا ارادہ تھا۔
"کہاں رہ گيا احتشام" وہ سجی بنی يہاں سے وہاں پھر رہی تھی۔ بے بی پنک اور رائل بلو پشواز ميں خوبصورتی سے تيار ہوئ وہ مہمانوں کی آؤ بھگت ميں لگی تھی۔ سب انتظام پورے تھے بس احتشام کا انتظار تھا۔
اسکے آتے ہی نکاح شروع ہونا تھا۔
"اچھی بھلی چھٹی لی ہوئ تھی۔ بس عين دوپہر کو ان کے آفس والوں کو ضروری کام ياد آگيا۔ آفس سے نکل پڑے ہيں بس ميرے لئے گجرے لينے رک گئے ہيں۔ کہا بھی ميں نے کے کيا ضرورت ہے۔ کہنے لگے نہيں ميری بيوی کی تياری گجروں کے بغير کيسے پوری ہوسکتی ہے" زہرہ کے پوچھنے پر اس نے تفصيلی جواب ديا۔ محبت بھرے لہجے پر زہرہ نے بے اختيار اسکی بلائيں ليں۔
"ايسا شوہر بھی نصيیب والوں کو ملتا ہے۔ قدر کيا کر اسکی" اسے بازو پہ چپت لگاتيں وہ اسوہ کی ماں کی جانب بڑھی۔
سب مہمان خوش گپيوں ميں مصروف تھے۔ احتشام کی بہنيں۔ والد۔ اسوہ کے ماں باپ اور چند اور رشتے دار سب اکٹھے تھے۔ دوسری جانب سے فراج کے ددھيال ميں سے بھی ايک تايا کی فيملی اور ايک پھوپھو کی فيملی موجود تھی۔ باقی کے دو اور چچا اور پھوپھو باہر کے ملکوں ميں سيٹل تھے۔ سبھی کا ارادہ اب شادی پر آنے کا تھا۔
نجوہ ضماد کے لئے بسکٹس لينے کچن ميں گئ۔ فراج بھی اسکے پيچھے پيچھے تھا۔
"آپ کے شوہر نامدار کے کيا ارادے ہيں۔۔ کيوں ميرے نکاح ميں خلل ڈال رہے ہيں۔ اب آ بھی جائيں۔ چيف گيسٹ ميں اور اسوہ ہيں مگر بن وہ رہے ہيں" فراج اسکا دماغ کھانے پہنچ چکا تھا۔
"وہ اپنی بيوی کے لئے گجرے لے کر نکل چکے ہيں۔ بس پہنچنے والے ہوں گے۔ سيکھو ان سے بيوی کو خوش رکھنے کے گر" کيبنٹ سے بسکٹ نکال کر اسے بی اماؤں کی طرح سمجھايا۔
"جی جی انکی طرح کے دو چار اور مجنوں پيدا ہوگۓ تو يہ دنيا بس ليلی مجنوؤں کی ہی بن جاۓ گی۔ لوگ اپنے کاموں سے بھی جائيں گے۔" آف وائٹ شلوار قميض ميں سينے پر ہاتھ باندھے وہ اسکے سجے سنورے روپ کو ديکھ کر چڑا رہا تھا۔
"تم تو ہو ہی نکمے" اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے وہ باہر نکلی۔ اسی لمحے فراج کے موبائل پر کال آئ۔
"کيا کہہ رہے ہيں۔ احتشام بھائ۔۔۔ ليکن کيسے۔۔ کون سے ہاسپٹل ميں" فراج کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر نجوہ کے کچن کے دروازے سے نکلتے قدم وہيں جم گئے۔
"جی ميں آرہا ہوں" وہ تيزی سے نجوہ کے پاس سے آندھی طوفان کی طرح نکلا۔۔ نجوہ کو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ دل نے کسی انہونی کا راگ الاپا اس ميں اتنی ہمت نہ ہوئ کہ فراج سے فون کی بابت پوچھتی۔
بس خالی نظروں سے باہر ديکھا۔۔ يکدم بھگدڑ سی مچی۔ احتشام کے والد، چچا، شوکت، فراج سميت باہر کی جانب دوڑے۔ احتشام کی بہن کی دلدوز چيخ سن کر نجوہ وہيں بيثھتی چلی گئ۔
ربيعہ اور زہرہ کی نظر بے اختيار کچن کے دروازے ميں اڑے حواسوں ميں بيٹھی نجوہ پر پڑی۔ وہ بے اختيار اسکی جانب بڑھيں۔
"سب خت۔۔ خخ۔۔ ختم ہوگيا" کچھ دير پہلے جن آنکھوں ميں زہرہ نے احتشام کی محبت کے جگنو ديکھے تھے اب وہاں جدائ کا ٹھاٹھيں مارتا سمندر تھا۔
"نہيں ميری جان۔۔۔ سب۔۔ سب ٹھيک ہوگا۔ بس ايکسيڈينٹ ہوا ہے۔۔ اللہ خیر کرے گا" زہرہ نے اسکے سندر روپ سے نظريں چرائ۔
"سب ٹھيک ہوگا۔۔ سب ٹھيک ہوگا" وہ اس وقت اپنے حواسوں ميں نہيں تھی۔ زہرہ کے الفاظ بڑبڑانے لگی۔
"سب ٹھيک ہوگا۔۔ تو سب بين کيوں کررہے ہيں" يکدم وہ چلائ۔ احتشام کی بہنيں يکدم اسکے چلانے اور زور زور سے رونے پر اسکی جانب بڑھيں۔۔
سب کے دلاسوں کے باوجود اسے سب غلط لگ رہا تھا۔
اور وہی ہوا گھنٹے بعد ايمبولينس ميں احتشام کا مردہ وجود لے کر سب مرد اندر آۓ۔
وہ گھر جو کچھ دير پہلے خوشيوں کا گہوارہ بنا تھا اب وہاں صف ماتم بچھ چکا تھا۔
_____________________________