Hanam by Amraha Sheikh Novel is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one.
Hanam by Amraha Sheikh Novel
Hanam by Amraha Sheikh is a special novel, many social evils has been represented in this novel. Different things that destroy today’s youth are shown in this novel. All type of people are tried to show in this novel.
Rude Hero Based Hanam by Amraha Sheikh Novel | Romantic Urdu Novels
Amraha Sheikh has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
If you want to download this novel, you can download it from here:
↓ Download link: ↓
Note! If the link doesn’t work please refresh the page
Hanam by Amraha Sheikh PDF EP 1 to Last
Read Online Haam by Amraha Sheikh:
Episode 1 to 5
رات کا دوسرا پہر چل رہا تھا ایسے میں ایک گھنٹے سے جو ہلکی ہلکی بوندا باندی نے موسم کو دلکش بنایا ہوا تھا یُکدم ہی تیز گرج چمک کے ساتھ بارش نے اسی موسم کو خوفناک کردیا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"اللّه رحم۔۔۔۔۔۔۔لاہور کہ ایک پوش علاقے میں واقع یہ ایک سفید کوٹھی تھی جسکی دوسری منزل کے کمرے کی کھڑکی سے کچھ فاصلے پر پلنگ پر بیٹھی اپنے گٹھنوں تک آتے لمبے گھنے بالوں کی چٹیا بنانے کے ساتھ وہ گنگنانے میں بھی مگن تھی جب بادلوں کے گرجنے پر چونک کر آہستگی سے کہتی آخری بل دے کر اسنے چٹیا کو جھٹکا دیا پتلی نازک کمر پر اسکی لمبی سیاہ چٹیا لہرائی جبکہ اس سب سے بے خبر پلنگ سے ڈوپٹہ اوڑھ کر وہ کھڑکی تک آئی تھی۔۔۔
گرے خوبصورت رنگ کی نظریں اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھتے اس نے اپنے سفید مومی ہاتھوں سے کھڑکی کے دونوں پٹ کھول کر مسکراتے ہوئے اپنی ہتھیلی کو پھیلایا تھا کے لمحوں میں اسکی مہندی سے سجی ہتھیلیاں بھیگ گئیں تھیں۔۔۔جبکہ مسکرانے سے اسکے بائیں رخسار پر گڑھا پڑا تھا۔۔۔۔
"اللّه تیری قدرت۔۔۔۔ماشاءالله۔۔۔۔۔دھیمی خوبصورت آواز میں بولتی وہ ایک بار پھر مسکرائی تھی بلاشبہ وہ ایک حسین دوشیزہ تھی جسکی ایک جھک کے لئے کتنے ہی دل بےتاب اپنی دولت اسکے قدموں میں رکھنے کو تیار رہتے تھے لیکن وہ تو جیسے ہر انسان سے بیزار تھی اسے انتظار تھا تو بس ایک چیز کا۔۔۔۔اور وہ ایک چیز "موت" تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بارششش۔۔نورین کی کان پھاڑ دینے والی آواز پر عائشہ جو اسکے پاس ہی صوفے پر نیم دراز تھی ڈر کر چیخ مارتے ہوۓ اٹھ بیٹھی جبکہ نورین جو اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے کی کھڑکی کی جانب بڑھی تھی گھور کر اسے دیکھنے کے بعد پھر آگے بڑھ کر کھڑکی کھول کر اس نے اپنی ہتھیلیوں کو پھیلایا تھا۔۔
"یار عائشہ دیکھو تو کتنی تیز بارش ہورہی ہے۔ ۔۔ ہائے اللّه۔۔۔۔
"بس بس مجھے بھی نظر آرہا ہے۔۔عجیب چڑیل قسم کی ہو ابھی میرا دل بند ہوجاتا تو۔۔۔عائشہ تو جیسے جل بھون گئی تھی۔۔
نورین نے اسکی بات پر پلٹ کر اسے دیکھا تو زور سے ہنستی ہوئی اسکی طرف آتے اپنے گیلے ہاتھ اسکے رخسار پر رکھ دیے۔۔
نورین کی حرکت پر عائشہ نے چیختے ہوۓ اسکے ہاتھوں کو جھٹکا تھا۔۔۔۔
جبکہ نورین ایک بار پھر قہقہ لگاتی کمرے سے باہر بھاگی تھی۔۔
"نورین امجد" ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔فیملی میں امجد احمد خان(والد) نادیہ امجد (والدہ) ایک بڑی بہن جو دو سال بڑی تھی اس سے (عائشہ امجد) جبکہ ایک ہی بھائی جسکی عمر گیارہ سال تھی (فہیم امجد)۔۔۔
نورین فرسٹ ائیر کی طلبہ تھی ابھی چند ہی ہفتے ہوئے تھے اسے کالج جاتے جبکہ عائشہ سیکنڈ ائیر کی طلبہ تھی۔۔۔سولہ سال کی نورین گھر بھر میں سب کی لاڈلی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"روکو لڑکی کہاں بھاگے جا رہی ہو اتنی رات میں نادیہ بیگم جن کی آنکھ باہر ہوتی موسلادھار بارش کے شور سے کھلی تھی نورین کو دیکھتے ہی پوچھنے لگیں جبکہ نورین جو چھت پر جانے کا ارادہ رکھتی تھی سٹپٹا کر رہ گئی تھی۔۔
"وہ میں۔۔۔۔مجھے پیاس لگ رہی تھی امی۔۔۔نورین اٹک اٹک کر جواب دیتی اپنی گردن پر بھی ہاتھ رکھ کر یقین دلانے لگی۔۔۔
"میں اچھے سے جانتی ہوں تمہیں...خبردار اتنے خطرناک موسم میں چھت پر گئی وقت دیکھو تین بج رہے ہیں۔۔۔۔
"لیکن امی اتنی پیاری بارش ہو رہی ہے۔۔۔نورین نے یکدم نادیہ بیگم کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا تھا کہ نادیہ نے آگے بڑھ کر اسکا کان مڑوڑا۔۔۔
"دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے تمہارا کسی محلے والے نے دیکھ لیا تو مرچ مصالہ لگا کر خبرنامہ بنا دیں گے اور یہ کوئی وقت نہیں ہوتا چھتوں پر جانے کا اللّه ناں کرے کوئی ہوائی چیز چمڑ جاۓ۔۔۔چلو جاؤ کمرے میں شاباش۔۔۔نادیہ بیگم سمجھاتے ہوۓ اسکا کان چھوڑ چکی تھیں جبکہ نورین اپنی ماں کی پوری بات سن کر منہ لٹکا کر کمرے کی جانب بڑھ گئی پیچھے نادیہ بیگم منہ میں آیت الکرسی پڑھتے اپنے بچوں کا حصار کرتیں کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھک ٹھک ٹھک!
دستک پر کھڑکی بند کر کے اس نے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا تھا.۔۔
"آجاؤ.۔۔۔۔
اجازت ملتے ہی انیلا نے دروازہ کھول کر سر کہ اشارے سے سلام کرتے اسے دیکھا تھا۔
"ہانم باجی رئیس صاحب آئے ہیں۔۔۔انیلا ہچکچا کر بتاتی اپنے دائیں جانب دیکھنے لگی جب ایک وجیہہ ستائیس سالہ نوجوان دروازے پر نمودار ہوا ہانم نے اسے دیکھتے ہی سر پر ڈوپٹہ لیتے سلام کیا تھا۔۔۔رئیس علی کسرتی جسم کا مالک جس کا قد چھ فٹ تھا وہ واحد شخص تھا جو اس کوٹھے کا خوش نصیب شخص تھا۔۔جسے ہانم کی تنہائی کے چند لمحے میسر ہوئے تھے۔
رئیس نے اسکے سلام پر مسکرا کر سر کو جنبش دے کر اپنے پیچھے کھڑی انیلا کو دیکھا جو اسکا اشارہ سمجھتی دروازہ بند کر کے چلی گئی تھی.۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"اتنے طوفان میں آنے کی کیا ضرورت تھی آپ کو رئیس۔۔۔۔ہانم اسکے ساتھ سے گزرتی ڈوپٹہ اتار کر سنگھار میز کے پاس جا کر اپنی چٹیا کھولنے لگی جبکہ رئیس نے مسکراتے ہوۓ اسے گہری نظروں سے سر تا پیر دیکھا۔۔۔
"آپ کے لئے تو میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔یہ تو پھر بارش ہے۔۔
"اچھا تو پھر ہمیں یہاں سے کب لے جائیں گے؟ ہانم نے اسکی بات پر مصروف سے انداز میں مسکراتے ہوۓ کہتے اپنے بالوں کو کھول کر ایک طرف سے آگے ڈالا پھر کاجل اٹھا کر آنکھوں میں لگانے لگی جبکہ رئیس کچھ دیر کہ لئے خاموش ہوگیا تھا۔۔
"خیر چھوڑیں رہنے دیتے ہیں اس بات کو۔۔۔آپ بتائیں بیوی بچے کیسے ہیں؟ ہانم نے تکلیف سے آنکھوں کو موند کر کھولتے ساتھ مسکراتے ہوۓ اسکی جانب رخ کر کے پوچھا تھا۔
"آہ! انھیں کیا ہونا ہے۔۔۔۔سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔
"ہمم اور آپکا بیٹا؟ ہانم اسکی بیزاریت محسوس کرنے کہ باوجود پوچھنے لگی۔۔
"وہ بھی۔۔اب ذرا آپ ادھر آئیں۔۔۔۔ہم اب اپنی بات کرلیں۔۔۔رئیس لاپرواہی سے کہتا ہانم کا ہاتھ تھام کر اپنے نزدیک کرتے ہوۓ بولا۔۔۔
"آپ بےحس ہیں رئیس ہم نے آپکو سب سے الگ سمجھا تھا۔۔۔ہانم یُکدم ہی اس سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہتی گہری سانس لیتی دروازے تک پہنچ کر انیلا کو پکارنے کے بعد رئیس کی جانب پلٹی جس نے غصے میں لب بھینچ لئے تھے۔
"ہانم باجی آپ نے بلایا؟ انیلا اسکی آواز پر بھاگتی ہوئی وہاں حاضر ہوئی تھی۔
"ہاں۔۔رئیس صاحب جا رہے ہیں۔۔۔لیکن پھر بھی اگر یہ یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں تو حرا اماں سے کہہ دو کہ اپنے مہمان کی مہمان نوازی کسی اور سے کروا لیں ہانم کے پاس یہ دوسرا اور آخری مرد اب نہیں آنا چاہیے.۔۔۔۔سرد لہجے میں کہہ کر ہانم اسکے کمرے سے نکلنے کا انتظار کرنے لگی رئیس غصّے میں قہر آلود نظروں سے اسے دیکھتا وہاں سے تیزی سے نکلتا چلا گیا۔۔۔دونوں کے جاتے ہی ہانم نے گہری سانس لے کر کمرے کا دروازہ بند کرتے پشت دروازے سے ٹکالی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آرام سے کھاؤ لڑکی انڈا کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔۔۔۔صبح کا وقت تھا جب گھر کے افراد دسترخوان کے گرد بیٹھے تھےنورین جو جلدی جلدی ناشتہ کر رہی تھی عائشہ کے ٹوکنے پر روکی۔
"انڈے کی امی آگئی تو اسے لئے جلدی جلدی کھا رہی ہوں چلو تم بھی کھاؤ۔۔۔نورین کی بات پر سب نے مسکرا کر نورین کو دیکھا تھا جبکہ عائشہ افسوس سے سر جھٹک کر ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نورین بیٹی یہ لو پیسے۔۔۔۔نادیہ بیگم کمرے میں آتے ہی اس کی طرف پیسے بڑھا کر بولیں جو کالج جانے کے لئے تیار اپنے بیگ کو کندھے پر لٹکا رہی تھی۔
"تھینک یو میری پیاری ماں۔.۔۔
"دیھان سے جانا نورین اور ہاں آج پکا بات کرلینا وین والے سے۔۔۔۔۔نادیہ بیگم متفکر سی ہوتی ہوئیں اسے ہدایت دے رہی تھیں گھر کی بیک سائٹ سے دو تین گلیاں چھوڑ کر اس کا کالج تھا وین ابھی نہیں لگوائی تھی کہ وہ پیدل چلی جاتی تھی جبکہ نادیہ بیگم کو اس کے پیدل جانے سے ڈر لگا رہتا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آہ!!! سونیا کی چیخ بے ساختہ تھی جبکہ کمر پر زور سے ہنٹر پڑھنے پر ہانم کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا جبکہ اپنی آواز دبانے کہ لئے اس نے لبوں کو سختی سے بھینچ لیا تھا۔
حرا بائی جو اس کوٹھے کی مالک ہے غصّے سے پلٹ کر سونیا کو دیکھا تھا پھر گردن موڑ کر ہانم کی کمر کو دیکھا جہاں قمیض اٹھا کر اسکی برہانہ کمر پر وہ اپنا غصّہ اتار رہی تھی۔۔سفید کمر پر دو سے تین بلٹ سے نشان بنے تھے جس سے اب خون رس رہا تھا لیکن ہانم بالکل چپ کھڑی تھی ایسے جیسے اسے نہیں کسی اور کو مارا جا رہا ہو۔۔۔
"پتہ نہیں وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب تجھے سڑک سے اٹھا کر لائے تھے کہ چلو جوان ہوکر کما کر دے گی لیکن بیس سال کی ہوگئی ہے آج تک ناچنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا تو نے اور میں بھی زبردستی اس لئے نہیں کرتی کے چلو تیرے مجرے میں ہی اتنا پیسہ مل جاتا ہے لیکن آج جو تو نے کیا اس امیر زادے کے ساتھ جانتی ہے ایک رات۔۔۔
"بہت ہوچکا حرا اماں، میں اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی ہوں اگر میرے ساتھ زبردستی کی تو خود کو مار ڈالوں گی پھر جو مجرے پر پیسہ ملتا ہے وہ بھی نہیں رہے گا۔۔۔۔ہانم کے یکدم غصّے میں کہنے پر حرا بائی کہ ساتھ سونیا اور انیلا نے بھی آنکھوں کو حیرت سے پھیلا لیا تھا جبکہ ہانم قمیض سہی کر کہ ڈوپٹہ سر پر اوڑھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی جیسے جیسے وہ دور جا رہی تھی پائل کی چھن چھن بھی دور ہوتی جا رہی تھی.۔۔۔۔۔
kaun kisko yaha bhala samajha
humne kya samajha tumne kya samajha
bewafa humne tumko samajha sanam
tumne humko hi bewafa samajha
jhute iljaam meri jaan lagaya na karo
jhute iljaam meri jaan lagaya na karo
dil hai nazuk isay tum aise dukhaya na karo
jhute iljaam meri jaan lagaya na karo
dil hai nazuk isay tum aise dukhaya na karo
jhute iljaam
meri aankho me jo ache nahi lagte aansu
meri aankho me jo ache nahi lagte aansu
toh jalaya na karo mujhko sataya na karo
toh jalaya na karo mujhko sataya na karo
dil hai nazuk isay tum aise dukhaya na karo
jhute iljaam.........
رات کے دو بجے کا وقت تھا ایسے میں سفید کوٹھی کو آج دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔۔۔۔بڑے سے حال کمرے میں امیر کبیر مرد حضرات گدیوں پر بیٹھے تھے سامنے ہی سب کہ اہتمام کے لئے پان اور مشروب کا انتظام بھی کیا گیا تھا ہر کسی کی نظر درمیان میں رقص کرتی دوشیزہ پر ٹکی تھی جسکا رقص لاہور کے اس علاقے میں بہت مشہور تھا کہ مرد رقص دیکھنے کہ لئے شام ہوتے ہی وہاں آجاتے تھے۔۔۔۔ ہر ایک کی آنکھ میں ہوس تھی جسے چھونے کی خواہش لئے وہ یہاں آتے تھے لیکن نامراد ہی واپس لوٹ جاتے تھے۔۔رئیس علی بھی انہیں میں سے ایک تھا لیکن جانے قسمت کیسے اس پر مہربان ہوئی کے ہانم کی آرام گاہ تک جانے کا اسے دو بار شرف حاصل ہوچکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ مرسیڈیز سنسان سڑک پر فراٹے بھرتے جا رہی تھی گاڑی میں تیز میوزک نے ساتھ بیٹھے "بالاج طارق" پر کافی برا اثر ڈالا تھا۔۔۔بالاج طارق جو ایک اپر کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والا نوجوان تھا جس کی عمر ابھی صرف چوبیس سال تھی دوستوں کے کہنے پر زبردستی پارٹی میں جا رہا تھا لیکن وہ اس بات سے انجان تھا کہ اس کے دوست اسے پارٹی کی بجائے حرا بائی کے کوٹھے پر لے جا رہے تھے۔۔۔
جیسے ہی گاڑی سفید کوٹھی پر آکر رکی بالاج نے تیوری چڑھا کر اپنے چاروں دوستوں کو گھورا تھا ایسا نہیں تھا کہ وہ اس جگہ کو جانتا نہیں تھا لیکن اسے اپنی زندگی میں استعمال شدہ چیزیں ہرگز پسند نہیں تھیں۔۔۔
"گھورنا بند کر بیٹا چل آجا۔۔۔ساجد آنکھ دبا کر گاڑی سے اترا تھا جبکہ پیچھے سے وہ تینوں بھی ہنستے ہوئے اتر کر بالاج کے اترنے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔
"ابے آجا ناں یار۔۔سنا ہے ہماری ہانم داؤد کا مجرا ہے۔۔کبیر نے کہتے ساتھ آہ بھری تھی۔
"اب یہ کون بلا ہے سالوں۔۔۔۔اور تم لوگ اچھے سے جانتے ہو میں ان َعورتوں کو چھونا پسند نہیں کرتا۔۔۔۔بالاج کھڑکی پر بازو رکھ کر انھیں کہ کر دوبارہ سیدھا بیٹھ چکا تھا جب ساجد کی بات پر اس نے چونک کر اسے دیکھا تھا. ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیفنس میں واقع گرے رنگ کے بنگلے کا بھاری گیٹ آہستہ سے کھلا تھا ایک گاڑی تیزی سے پورچ میں آکر رکی تھی۔۔۔۔۔
رئیس علی نےگاڑی سے اترتے ہی ملازم کو بیگ نکال کر رکھنے کا حکم دیا اور خود لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر بڑھ گیا.۔۔۔
رئیس نے جیسے ہی لاؤنج میں قدم رکھا اسکے چہرے کے تاثرات یکایک بدل گئے۔۔۔۔
گہری مسکراہٹ کے ساتھ اس نے باآواز بلند سلام کیا تھا یاسمین (رئیس کی بیوی) کے ساتھ تسنیم علی (رئیس کی بہن) نے مسکرا کر جواب دیا ساتھ ہی تسنیم اٹھ کر بھاگنے کے انداز میں اپنے اکلوتے بھائی کی طرف بڑھتی اسکے گلے لگی تھی۔۔۔
تسنیم علی اور رئیس علی اپنے والدین کی دو ہی اولادیں تھیں۔۔والد کے انتقال کے بعد سارا بزنس اسکی ذمہ داری تھی جسے بخوبی وہ نبھا رہا تھا۔۔۔انہیں دنوں اسے ایک لڑکی پسند آئی تھی جس سے شادی کا فیصلہ اسکا خود کا تھا۔۔۔یاسمین اور رئیس کی شادی کو دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اب ان دونوں کا ایک سال کا بیٹا تھا۔۔۔۔
تسنیم علی بیس سال کی تھی جو اپنی ماں کہ ساتھ اسلام آباد میں تعلیم حاصل کر رہی تھی.۔۔۔تسنیم ایک جرنلسٹ بننا چاہتی ہے جبکہ اسکے بھائی کو یہ بات ہمیشہ ناگوار گزرتی تھی جسکا علم اسے بھی تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اسلام باد میں رہائش پذیر تھی لیکن یہ بھی رئیس کو پسند نہیں تھا وہ کئی بار اپنی ماں اور بہن کو لاہور شفٹ ہونے کا بول چکا تھا۔۔۔
"کیسی ہو؟
"اچھی ہوں۔۔۔۔آپ بتائیں روز اتنی دیر سے گھر آتے ہیں؟ تسنیم نے بتاتے ساتھ اس سے پوچھا تھا رئیس نے ایک نظر اپنی بیوی کو دیکھا پھر اسے دیکھ کر مسکرایا۔
"ارے نہیں وہ تو بس دوستوں کے ساتھ تھا۔۔اچھا سب چھوڑو یہ بتاؤ امی کیسی ہیں؟
"کل آرہی ہیں فلائٹ سے پھر خود ہی پوچھ لیجئے گا۔۔۔تسنیم کی بات پر رئیس کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔
"پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے اور اگر آنا ہی تھا تو ساتھ کیوں نہیں آئیں؟
"وہ اس لئے کیونکہ امی اپنی سب دوستوں سے آخری بار مل کر آنا چاہتی ہیں تبھی میرے ساتھ نہیں آئیں اور میں تو آپ تینوں کو بہت مس کر رہی تھی مجھ سے صبر ہی نہیں ہورہا تھا اس لئے جھٹ پٹ آگئی۔۔۔۔تسنیم کی بات پر اسے واقعی خوشگوار حیرت ہوئی تھی وہ جانتا تھا کہ تسنیم نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔۔
"لیکن تسنیم تمہاری پڑھائی۔۔۔
"بھائی وہ یہاں بھی تو ہوسکتی ہے، بس اب ہم اکیلے نہیں رہنا چاہتے بھائی۔۔۔تسنیم یکدم ہی سنجیدہ ہوئی تھی کہ رئیس نے آگے بڑھ کر اپنی لاڈلی بہن کو گلے سے لگایا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آئیے آئیے خوش آمدید۔۔۔۔حرا بائی کی نظر جیسے ہی اندر آتے لڑکوں پر پڑی تیزی سے آگے بڑھ کر پرجوش انداز میں کہتی ادا سے بالوں کو جھٹک کر انھیں لئے اندر کی جانب بڑھنے لگی۔۔
بالاج سخت تاثرات لئے چلتا ہوا وہاں موجود سجی سنوری لڑکیوں کو نظر انداز کرتا اندر بڑے سے حال میں آیا تھا جہاں انکی طرف پشت کیے گھونگھٹ میں لڑکی ایک بار پھر رقص شروع کر رہی تھی حرا بائی نے مسکراتے ہوۓ انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا
بالاج سرسری سی نظر درمیان میں موجود لڑکی پر ڈال کر بیٹھ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔
laakh iss dil ko humne samajhaya
dil yaha phir bhi humko le aaya salaam salaam
tumhari mehfil me aa gaye hain
tumhari mehfil me aa gaye hain, toh kyun naa hum yeh bhi kaam karlein
salaam karne ki aarzu hai
salaam karne ki aarzu hai, idhar jo dekho salaam karlein
tumhari mehfil me aa gaye hain, toh kyun na hum yeh bhi kaam karlein
salaam karne ki aarzu hai, idhar jo dekho salaam karlein
yeh dil hai jo aa gaya hai tum par, wagar naa sach yeh hai banda parwar
yeh dil hai jo aa gaya hai tum par, wagar naa sach yeh hai banda parwar
jise bhi hum dekh le palat kar
jise bhi hum dekh le palat kar, usi ko apna gulaam karlein
salaam karne ki aarzu hai, idhar jo dekho salaam karlein
bahot si baatein hai tumko kehni, bahot si baate hai humko kehni
bahot si baate hai tumko kehni, bahot si baate hai humko kehni
kabhi jo tanha milo kahi tum
kabhi jo tanha milo kahi tum, toh baate hum yeh tamaam karlein
salaam karne ki aarju hai, idhar jo dekho salaam karlein
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالاج اکتاہٹ سے سامنے موجود رقص کرتی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس نے ابھی تک اپنا گھونگھٹ نہیں اٹھایا تھا پاس ہی اسکے دوست اس کے قدموں پر نوٹ نچھاوڑ کر رہے تھے بلکے وہ ہی نہیں محفل میں ہر ایک مرد یہی کر رہا تھا بالاج نے تیکھی مسکراہٹ سے اسے دیکھا تھا جو گھونگھٹ ہونے کہ باوجود ہر مرد کو دیوانہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
"یہ اپنا چہرہ نہیں دکھاتی کیا؟ بالاج نے یُکدم کبیر کا بازو جکڑ کر اسکے کان کے قریب جھک کر پوچھا تھا۔
"ہائے ایک جھلک دیکھنے کہ لئے ہی تو ہم یہاں حاضر ہوۓ ہیں۔۔۔بس ایک بار ہی اسکا دیدار ہوا تھا یہ اصول صرف اسی کہ لئے ہی بنا ہے کہ مجرا گھونگھٹ میں ہی کرتی ہے۔۔۔۔۔۔کبیر بتاتے ہوۓ ساتھ پیسے بھی اسکی جانب اچھال رہا تھا جبکہ بالاج اسے چھوڑ کر غور سے اسے دیکھنے لگا جسکا گھونگھٹ نیٹ کا تھا لیکن پھر بھی چہرہ واضح نہیں دیکھ رہا تھا بالاج کی نظریں اسکے چہرے سے ہوتیں پیروں پر پڑی تھی جسکی گوری پنڈلیاں نظر آرہی تھیں بالاج کا دل یکدم ہی اسے دیکھنے کے لئے مچلا تھا۔۔۔
انگلیوں میں دبائی سگریٹ کو مسل کر اس نے ایک جانب پھینکا تھا پھر جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں موجود حرا بائی کو اشارہ کر کے وہاں سے چلتا چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے صاحب کیا ہوا یوں محفل ادھوری کیوں چھوڑ دی؟ حرا بائی اسکے پاس آکر تعجب سے پوچھنے لگی تھی۔۔
بالاج نے اسکی بات سنتے ہی پلٹ کر اسے دیکھا تھا جو خود ایک دعوت بنی ہوئی تھی۔۔
"مجھے ایک رات کے لئے تمہاری ہانم داؤد چاہیے۔۔بالاج کی بات سن کر حرا کی آنکھیں چمکیں بالاج طارق ایک بزنس ٹائیکون طارق سلیم کا اکلوتا وارث تھا اور یہ بات ساجد نے ہی اسے ایک رات بتائی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔
"کہاں کھو گئی؟ بالاج نے اسکے سامنے چٹکی بجاتے ہوۓ کہا کہ حرا بائی ہڑبڑا کر ہوش میں آئی تھی۔۔
"آ۔۔وہ تو ٹھیک ہے صاحب لیکن ہانم بہت ٹیڑھی ہے کبھی ہاتھ نہیں آئے گی۔۔
"ہنہہ!۔ایک طوائف کہ اتنے نخرے؟
"ارے نہیں بس کنواری ہے اور حسین بھی بہت ہے تبھی نخرہ کرتی ہے۔۔میں تو ایک بار اسکے کس بل نکال دوں لیکن ہاتھ نہیں آتی۔۔
بالاج سامنے کھڑی مکار عورت کی باتیں سن کر زور سے ہنسا تھا۔۔
"اب تو واقعی ہانم داؤد سے ملنا ہی پڑے گا۔۔۔بالاج ہنسی روک کر کہتا جھٹکے سے پلٹ کر کوٹھی سے نکالتا چلا گیا تھا۔۔۔
"کیا بات ہے یہ کہاں گیا؟ ساجد کی آواز پر حرا بائی نے پلٹ کر اسے دیکھا تو مسکرا کر چلتے ہوۓ اسکے نزدیک گئی۔
"تمھارے دوست کو ہانم چاہئے۔۔
"تو میری جان دے دو کیا مسلئہ ہے؟ ساجد خماری میں کہتا زور سے ہنسا تھا۔۔۔۔
"وہ نہیں مانے گی۔
"تو مناؤ ورنہ مجھے بتاؤ میں ٹھیک کرتا ہوں کمینی کو۔۔۔۔ساجد نحوست سے کہتا حرا بائی کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔
ساجد کا کام تھا کہ وہ امیر گھرانوں کہ لڑکوں سے دوستی کر کے انھیں زبردستی دو تین بار وہاں لاتا تھا کے بعد میں وہ خود ہی اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے تھے۔۔۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے تجھے جانے کی میں وہاں سب دیکھ رہی تھی کیسے پیسہ نچھاوڑ کر رہا تو اس پر اور مجھے ایک کوڑی نہیں دیتا۔۔۔حرا بائی نے منہ بنا کر کہتے الماری سے پیسے کی گڈی نکال کر اسکی طرف اچھالی تھی جسے کیچ کرتے ساجد نے گڈی کو سونگھنے کے بعد چوما تھا۔
"کیا بات ہے آج اتنی مہربانی؟ ساجد نے زیادہ نوٹ دیکھ کر اسے دیکھا۔۔
"ہاں لڑکا مالدار ہے۔۔۔تو نے جو اسے یہاں لانے کہ لئے کہا مجھے نہیں لگتا وہ اب پیچھے ہٹے گا ضدی مرد جب واقعی ضد پر آجائے تو وہ سب کر گزرتا ہے جو ہم کبھی گمان بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔بس ایک بار ہانم بیگم میری مٹھی میں آجائے۔۔۔۔پھر تو دیکھنا محفل میں آئے ہر ایک مرد کے بستر کی زینت بناؤں گی اسے۔۔۔...حرا بائی نفرت سے بول کر ہنسی تھی. ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانم باجی ایک بات کہوں آپ سے؟ انیلا جو ہانم کے پیروں کو دبا رہی تھی ساتھ اسے بھی دیکھ رہی تھی جس نے۔ سر پر ڈوپٹہ لئے آنکھوں کو موند رکھا تھا۔
"ہمم کہو۔
"میں آپ کو باجی صرف کہتی نہیں مانتی بھی ہوں۔انیلا کی بات پر اس نے افسردگی سے مسکراتے ہوۓ آہستہ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔۔
"آج پھر حرا اماں کی جاسوسی کی ہے تم نے؟ ہانم کی بات پر انیلا کا منہ حیرت سے کھول گیا۔۔۔
"آپ کو کیسے پتہ چلا؟
"یہ جو تمہارا چہرہ ہے نہ اس پر واضح لکھا ہے کہ آج پھر انیلا بیگم نے حرا اماں کی چوکیداری کی ہے۔۔۔ہانم آگے کو ہو کر اسکی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔۔
"پھر آپ تیار رہیں کبھی بھی وہ شخص آپ کے دروازے پر دستک دینے آسکتا ہے.۔۔انیلا نے خفگی سے کہتے سر نیچے کر لیا جبکہ ہاتھ ہنوز اسکے پیر دبانے میں مصروف تھے۔۔
"آجائے ہم دیکھ لیں گے اسے بھی۔۔۔۔
"اففف! ہانم باجی یہ سب بہت غلط ہورہا ہے۔۔۔
"غلط؟ کیا تم نے غلط کہا انیلا؟ ہانم نے چونک کر اسے دیکھا یکدم گرے انکھیں نم ہونے لگیں تھیں۔۔
"یہ غلط نہیں انیلا یہ گناہ ہورہا ہے اور ہم اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔۔جانتی ہو جب ہم بھری محفل میں ناچتے ہیں تو کتنی گھن آتی ہے اپنے وجود سے۔۔۔اور یہ خوبصورتی کیا اتنی بے مول ہوتی ہے کے ہر شخص اسے غلیظ نظروں سے دیکھے،کبھی تو دل کرتا ہے کہ واقعی خود کو ختم کردیں لیکن ہم وہ بھی نہیں کر پاتے۔۔اس گناہ کہ دلدل میں ہم کچھ نہ کرتے ہوئے بھی گنہگار ٹھہرا دیے گئے ہیں۔۔۔۔ہم کتنی پاک دامن ہیں اسکا گواہ صرف اللّه ہے انیلا۔۔۔۔بولتے بولتے ہانم کی آواز روندھ گئی تھی جبکہ رونے سے ناک اور گال سرخ ہوگئے تھے جبکہ انیلا چپ سی اسے دیکھنے لگی۔۔
"آہ! جاؤ۔۔۔اب ہم آرام کرہں گے۔۔ہانم گہری سانس لیتے اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ کر اسے کہتی دوبارہ آنکھوں کو موند چکی تھی جبکہ انیلا خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے نکال گئی تھی۔۔
اتوار کا دن تھا ایسے میں نورین عائشہ اور پڑوس سے آئی اسکی دوست کنزا ساتھ بیٹھیں ٹی وی پر umrao jaan مووی دیکھ رہی تھیں۔۔۔ابھی مووی میں پہلا گانا ہی آیا تھا کے کنزا یکدم ہی کچھ یاد آنے پر پرجوش انداز میں انکی جانب گھومی تھی۔۔
"ارے یار تم لوگوں کو معلوم ہے پرسوں کالج سے واپسی پر میں نے ایک طوائف کو دیکھا تھا۔۔۔
کنزا کے پرجوش انداز پر دونوں جو اسی کی طرف متوجہ ہوئی تھیں حیرت سے پہلے اسے پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔۔
"تمہیں کیسے معلوم کے وہ طوائف ہے؟ اور یہ فضول بات کرنے کا مقصد ہی کیا ہے آخر۔۔۔ابھی امی نے سن لیا نہ تو تم گھر سے باہر ہوگی۔۔۔۔عائشہ نے گھورتے ہوۓ اسے کہا تھا جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔
"اففف! ایک تو عائشہ آپا تم ڈرتی بہت ہو۔۔رہا سوال مجھے کیسے پتہ چلا تو وہ وین والے انکل ساتھ بیٹھے ہمارے اسکول کے لڑکے کو بتا رہے تھے۔۔
"ارے واہ۔۔۔کتنی عجیب بات ہے یہ وہ وین والا اسے کیوں بتا رہا تھا؟ عائشہ کو یہ بات سن کر کافی عجیب لگی تھی جبکہ نورین نے سنجیدگی سے ٹی وی کی جانب دیکھا تھا جہاں اتنے مردوں کے درمیان ہیروئین رقص کرنے کے ساتھ ہر مرد کے سامنے جا کر بیٹھ کر ادا دکھاتی پھر واپس گھوم جاتی۔۔۔
عائشہ اور کنزا ہنوز بحٹ میں لگ گئی تھیں۔۔
"کبھی پاس سے دیکھا ہے تم لوگوں نے ان عورتوں کو؟ نورین کی بات سنتے ہی عائشہ نے اپنی بہن کو گھور کر کانوں کو ہاتھ لگایا تھا۔۔۔۔جبکہ کنزا اسکی شامت آنے کے خیال سے ہی مسکرانے لگی تھی۔۔۔
یکدم ہی عائشہ نے اسکے سر پر ہاتھ جڑا تھا۔۔۔
"استغفرالله کرو لڑکی اللّه ایسی عورتوں اور ایسی جگاہوں سے محفوظ رکھے ہر لڑکی کو۔۔۔بیوقوف کہیں کی سوچ کر تو بولا کرو ابھی امی نے سنا ناں تو گھر سے نکلنا بند کردیں گی تمہارا۔۔۔۔عائشہ کو تو جیسے اسکی بات پر پتنگے لگ گئے تھے۔۔
نورین نے اپنا سر سہلاتے چہرہ پھیر لیا تھا۔۔
"میں تو بس ایک بات کر رہی تھی۔۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے ایسی غلاظت بھری باتیں کرنے کی۔۔حد ہوگئی۔۔۔
"عائشہ ایسے تو مت کہو یہ سب بھی مجبوری میں۔۔۔
"تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا ہے؟ تم اب ایسی عورتوں کی وکالت کرو گی اپنی عمر دیکھو ایسی بکواس تمہیں زیب دیتی ہے۔۔۔عائشہ غصّے میں جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ کنزا بھی ڈر کر وہاں سے جانے کے لئے پر تولنے لگی
"میں وکالت نہیں کر رہی ہوں عائشہ لیکن ہر روز کتنی ہی لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے بیچا جاتا ہے کون کہاں سے کہاں غائب ہوجاتی ہے کسے پتہ کہ وہ لڑکی کہاں جاتی ہے۔۔۔۔کتنی لڑکیاں عورتیں ان گندی جگاہوں میں بیچ دی جاتی ہونگی۔
"تمہارا سچ میں دماغ خراب ہوگیا ہے نورین۔۔عائشہ سختی سے کہتی آگے بڑھ کر ٹی وی بند کر چکی تھی۔۔
"آئیندہ ایسی مووہز دیکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی ورنہ میں امی کو جا کر ابھی بتا دوں گی سمجھی اور تم بھی کنزا اپنی پڑھائی پر توجہ دو ضروری نہیں ہے جو بھی سنو اسے آکر دوسروں کے سامنے چٹخارے لے کر بتاتی پھیرو۔۔۔۔استغفرالله اللّه کا شکر کرو کہ تم لوگ محظوظ اپنے والدین کے سائے تلے ہو۔۔۔۔۔۔عائشہ دونوں کا دماغ ٹھکانے لگا کر وہاں سے چل دی تھی۔
کنزا تو اپنی اتنی بے عزتی پر منہ پھولا کر وہاں سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئی جبکہ نورین اپنے کمرے کی جانب بڑھتی اسی منظر کو سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھائی آپ کہیں جا رہے ہیں؟ تسنیم کندھے پر ہینڈ بیگ لٹکاتے ہوئے رئیس کے پیچھے آئی تھی۔۔
وہ جو آج جلدی کام نبٹا کر پھر حرا بائی کہ کوٹھے پر جانے کہ لئے نکل رہا تھا تسنیم کی آواز پر یُکدم روک کر پلٹا تھا۔۔۔
"ہاں ایک بزنس ڈنر ہے وہیں جا رہے ہیں۔۔۔۔تم بتاؤ یہ سواری کہاں جا رہی ہے ؟
"یہ سواری مارکٹ جا رہی ہے۔۔۔
"یاسمین اور امی۔۔۔۔۔
"نہیں وہ تو نہیں جا رہیں مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں قریب ہی جا رہی ہوں۔۔۔۔تسنیم نے یکدم ہی رئیس کی بات کاٹ کر بتایا۔۔۔
"چلو ٹھیک ہے پھر خیال سے جانا۔۔۔اللّه حافظ۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔اللّه حافظ بھائی.۔۔۔تسنیم مسکرا کر آگے بڑھ کر رئیس کا گال چوم کر اس سے پہلے نکل گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانم آپی۔۔۔۔انیلا کی آواز پر اس نے چونک کر اسے پلٹ کر دیکھا تھا۔۔۔
"کیا بات ہے انیلا؟ ہانم نے نماز کے اسٹائل میں بندھے ڈوپٹے کو کھولتے ہوۓ اسے دیکھ کر پوچھا
"نماز پڑھ رہی تھیں؟
"ہاں۔۔۔۔۔کیوں طوائف پر نماز فرض نہیں ہے؟ ہانم نے مسکرا کر اس سے سوال کیا تھا۔
"نہیں۔۔میرا مطلب ایسی کوئی بات نہیں ہے انسان اور اللّه کا تعلق اتنا کمزور بھی نہیں ہے۔۔۔میں تو بس آپکے پاس حرا اماں کا پیغام لائی تھی۔۔۔انیلا کی بات سن کر ہانم کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔۔
"بتاؤ ہم سن رہے ہیں۔۔۔
"تیار ہوجائیں کچھ دیر میں آپ کو بالاج صاحب کے فارم ہاؤس جانا ہے۔۔۔۔انیلا کے ہچکچا کر بتانے پر ہانم نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا ایسا پیغام پہلی بار اسے دیا گیا تھا یہ جاننے کے باوجود کے وہ کبھی کہیں نہیں جاۓ گی تو پھر کیونکر اسے یہ حکم دیا گیا تھا۔
ضبط سے ہانم کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا۔۔۔
"جا کر کہہ دو انھیں ہانم نہ کبھی کہیں گئی ہے نہ ہی جاۓ گی۔۔
"نہیں گئی تو آج جاؤ گی کافی بڑی قیمت ملی ہے تیری اسلئے نہ جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا انیلا وہ گرے ساڑی نکال کر دے اسے۔۔
کمرے میں حرا بائی کی آواز پر دونوں نے چوکھٹ پر کھڑی حرا بائی کو دیکھا تھا جو اسے کہہ کر انیلا سے بولی تھی
"آپ ایسے زبردستی نہیں کر سکتیں ہمارے ساتھ۔۔ہم کہیں نہیں جائیں گی سنا آپ نے ورنہ۔۔۔۔
"ورنہ کیا ہاں خود کو آگ لگائےگی یا زہر کھائے گی؟ ہانم بری طرح کانپنے کہ باوجود مضبوط لہجے میں کہہ رہی تھی جب اچانک حرا بائی کے عقب سے ساجد نے اندر آتے ہوۓ اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔
انیلا جو الماری سے ساڑی نکال رہی تھی آواز پر سہم کر اس نے ساجد کو دیکھا تھا جس کہ ہاتھ میں چمڑے کی بیلٹ تھی۔۔
ّوہ حرا بائی کا خاص لڑکا تھا جو وہاں کی ہر لڑکی پر تشدد کر کے انھیں قابو کرتا تھا یہی نہیں کبیر بھی انہی کی گنگ کا حصّہ تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم آپ سے بات نہیں کر رہے ہیں تو بہتر ہے۔۔۔۔۔آآآآآا!! ہانم کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ ساجد نے اسے بالوں سے جکڑ کر پوری قوت سے زمین پر پٹخا تھا۔
"ہانم آپی۔۔۔انیلا تیزی سے اسکی طرف بڑھی لیکن ساجد نے بیچ میں ہی کھینچ کر انیلا کو بیلٹ مار کر کمرے سے جانے کا کہا انیلا تڑپ کر پیچھے ہٹتے کمرے سے بھاگی تھی۔۔
"پانچ منٹ میں تیار ہوجاؤ اگر ایک منٹ بھی دیر ہوئی تو میں خود آؤں گا تیرے کپڑے بدلنے اور یہاں کسی کا باپ مجھے نہیں روک سکے گا۔۔۔سمجھی پانچ منٹ۔۔ ساجد پنجوں کہ بل بیٹھ کر سنگین لہجے میں حکم دے کر اٹھا۔۔
"تم جیسوں کی پکڑ بہت سخت ہوگی دیکھ۔۔۔چٹاخ!!
ہانم کی بات ادھوری رہ گئی تھی کے ساجد نے گُھما کر اسکے گال پر تھپڑ رسید کیا تھا کہ حرا بائی نے آگے بڑھ کر جلدی سے اسکا بازو پکڑا تھا
"پاگل ہوگیا ہے کیا چہرہ خراب کرے گا۔۔۔
"جتنا اکڑنا ہے ابھی اکڑ لے جہاں جا رہی ہے نہ وہ بندا تیری ساری اکڑ آج رات توڑ کر رکھ دے گا پھر دیکھتا ہوں تجھے۔۔۔۔۔۔ساجد غصّے میں کہتا کمرے سے چلا گیا حرا بائی نے آواز دے کر شمائلہ کو اندر بلا کر اسے تیار کرنے کا حکم دے کر تفاخر سے چلتی کمرے سے نکل گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے رئیس صاحب آپ کب آئے؟ حرا بائی جیسے ہی حال کمرے میں آئی اسے دیکھتے ہی کھل اٹھی تھی۔۔
"کیا کریں ہمارا تو دن ہی اچھا نہیں گزرتا کتنے دنوں سے ہانم کو دیکھا جو نہیں۔۔۔رئیس اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے بولا تھا کہ حرا بائی گہری مسکراہٹ سے سر کو ہلانے لگی۔۔۔
"ہماری ہانم ہے ہی ایسی کے کوئی بھی اسکا آثیر ہوجاۓ لیکن معاف کیجئے گا ابھی اس سے ملنا ممکن نہیں ہے۔۔
"پر کیوں؟ رئیس یکدم ہی بے چین ہو اٹھا تھا۔۔
"دراصل موسم اور پھر کل کی محفل کہ بعد طبیعت تھوڑی ناساز ہوگئی ہے بس اسی وجہ سے دوائی کھا کر آرام کر رہی ہے۔۔
"کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟ رئیس کی بات پر حرا بائی لمحے بھر کہ لئے گھبرائی تھی لیکن وہ مکار عورت تھی۔۔۔
"معافی چاہتی ہوں وہ اندر سے دروازے کو کنڈی لگا کر سوتی ہے۔۔۔حرا بائی کی بات پر رئیس نے کوٹ کی جیب سے پیسے نکال کر سامنے رکھے تھے جسے مسکرا کر اس نے پکڑ لیے۔
"آج واقعی ممکن نہیں ہے پر ہاں کل آپ آجائیں بیشک ایک رات کہ لئے ساتھ بھی لے جائیے گا۔۔۔حرا بائی کے ذومعنی انداز پر رئیس کھل اٹھا تھا۔۔۔
"ٹھیک ہے پھر کل اسے ہم خود لینے آئیں گے خباثت سے کہتا وہ کرسی سے اٹھ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا جب ہانم کے دل دہلا دینے والی چیخیں پوری کوٹھی میں گھونجی تھی۔۔۔۔۔
"ہائے اللّه یہ لڑکی کتنی ضدی ہے۔۔ ساجد چھوڑ اسے۔۔۔۔حرا بائی بڑبڑا کر چیختی ہوئی سیڑیوں کی طرف بھاگی تھی۔ ۔
"یار کہاں رہ گئی تھی کب سے انتظار کر رہا ہوں؟ تسنیم جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوئی مقابل نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔۔تسنیم نے مسکرا کر اسکے دونوں گالوں کو بچوں کے انداز میں کھینچا تھا۔۔
"سوری بابا تم تو جانتے ہو بھائی کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔۔اچھا مان جاؤ نہ یار دیکھو تو میں تمھارے لئے کیا لائی ہوں۔۔تسنیم نے اسے کہتے ساتھ ہاتھ میں تھامے شوپنگ بیگ سے ٹی شرٹ نکالی تھی۔۔جسے احان دیکھتے ہی دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔وہ اسکے چاچا کا بیٹا تھا احان کی فیملی بھی لاہور میں ہی رہائش پذیر تھی۔۔
"اچھا اچھا بس رہنے دو بہانے باز لڑکی سب جانتا ہوں مجھے منانے کے لئے تمہیں ان خریداری کی ضرورت نہیں ہے،چلو اب جلدی میرے پیٹ میں چوہے بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔۔۔۔۔احان نے کہتے ساتھ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا کے دونوں ساتھ ہنستے ہوۓ ٹیبل کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرا بائی ہانپتی کانپی جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی ہانم کو دیکھ کر گنگ رہ گئی سب لڑکیاں وہاں موجود تھیں لیکن ساجد کے وحشیانہ سلوک کی وجہ سے کوئی بھی آگے بڑھ کر روکنے کی اسے ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔
"نکلو باہر سب۔۔۔۔۔ نکلو۔۔۔۔۔۔ساجد کی دھاڑ پر سب کمرے سے بھاگی تھیں جبکہ حرا بائی نے آگے بڑھ کر اسے پیچھے دکھیلا تھا۔۔
"کیا کر رہا ہے پاگل ہوگیا ہے۔۔۔یہ، یہ کیا حالت کردی تو نے،گاڑی لینے آنے والی ہوگی اسے۔۔۔۔اور تو نے اسے لہو لوہان کردیا۔۔۔۔حرا بائی ہانم کی حالت دیکھ کر تو جیسے پاگل ہوگئی تھی جبکہ ساجد کا غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا۔۔
"بھاڑ میں گیا سب۔۔۔چل نکل یہاں سے تو اسکی تو میں اکڑ نکالوں گا۔۔۔۔ساجد کی بات پر ہانم جس کے ماتھے سے خون نکل کر گال پر بہہ رہا تھا خوف سے کانپتی کھسک کر سامنے کھڑے سفاک شخص کی ٹانگ پکڑ کر سر کو نفی میں ہلانے لگی۔
"نہیں اللّه کے واسطے ایسا مت کریں۔۔۔آپ جو کہیں گے ہم کرنے کو تیار ہیں۔۔۔۔ہم۔۔۔۔ہم ابھی تیار۔۔۔آآآ
"ابے چل سالی بہت ہوگیا تیرا نخرہ۔۔۔ساجد غصّے سے اسکے کندھے پر لات مار کر کہتا حرا بائی کو زبردستی کمرے سے نکال کر کمرے کو لاک لگا چکا تھا جبکہ حرا بائی دروازہ پٹتی اسے روکنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجد دروازہ لاک کر کہ پلٹ کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے کے ساتھ قدم قدم چلتا تھر تھر کانپتی ہانم کو پکڑ کر بیدردی سے پلنگ پر دکھیل چکا تھا۔۔
"ہانم داؤد کل کی صبح تمھارے لئے بہت خوبصورت ہونے والی ہے۔۔۔ساجد کہتے ساتھ چھت پھاڑ قہقہے لگانے لگا۔
ہانم کی ہمت اب ٹوٹ رہی تھی خون بہنے کے ساتھ جسم پر زخموں نے اسے نڈھال کر دیا تھے چت لیٹی وہ سامنے موجود شخص کو قریب آتے دیکھ رہی تھی آہستہ ہی آہستہ اسکی آنکھوں کہ سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔
ساجد نے جیسے ہی اسکی گردن کو چھوا ہانم کے جسم کو ساکت دیکھ کر تیزی سے پیچھے ہٹ کر شرٹ اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا بات ہے ابھی تک کیوں جاگ رہی ہو کل کالج نہیں جانا تمہیں؟
عائشہ نے اٹھ کر وقت دیکھا پھر اسے دیکھ کر بستر سے اتر کر اس تک آئی تھی جو کرسی پر بیٹھی سامنے میز پر رکھی اپنی ڈائری کو گھور رہی تھی۔۔۔عائشہ کی آواز پر چونک کر اسکی جانب دیکھنے لگی. ۔۔
"بس نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔کھوئے کھوئے انداز میں بولتی وہ اپنی ڈائری کو گھورے لگی عائشہ نے گہری سانس لے کر اسکی کرسی کو گھمایا تھا کہ وہ چونک کر ہوش میں آئی تھی۔
"مجھے پتہ ہے تمہیں میرا ڈانٹنا اچھا نہیں لگا لیکن نورین ہم جس موضوع کو لے کر بحث کر رہے تھے وہ بالکل بھی درست نہیں تھا۔۔انکی دنیا بہت گندی ہے۔۔پنجوں کے بل بیٹھی وہ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سمجھا رہی تھی نورین نے اسکی بات سن کر سر کو اثباب میں ہلایا جس پر عائشہ یکدم مسکرائی تھی۔
"گڈ! اب دفع کرو ان باتوں کو ہمم چلو اٹھو اب سوجاؤ۔۔۔۔عائشہ اسے گال پر پیار کرتی اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھ گئی جبکہ نورین گہری سانس لے کر ڈائری کو دراز میں سب سے نیچے رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں بھئی آگئی عقل ٹھکانے تیری یا رات کو آؤں دوبارہ؟
انیلا اپنے ہاتھ سے ہانم کو سیب کھلا رہی تھی ایک طرف حرا بائی سر پکڑے بیٹھی تھی جب ساجد انگڑائی لیتا وہاں آتے ہوۓ بولا ہانم بنا اسکی طرف دیکھے سیب کھانے میں مگن تھی۔۔
"پڑھ گئی تیرے کلیجے کو ٹھنڈک۔۔حرا بائی غصّے سے چیخی تھی۔
"لو میں نے کیا کیا ہے۔
"کیا؟ تجھے نظر نہیں آرہا ہاں دیکھ اسکا چہرہ۔۔کیا حشر کیا ہے تو نے اسکا اوپر سے میرا نقصان کروا دیا،جانتا ہے ایک رات کے تیس ہزار دے رہا تھا اور اب لنگڑی کچھ دن ناچ بھی نہیں سکتی۔۔حرا بائی تو جیسے پھٹ پڑی تھی جبکہ ساجد اسکی بات پر اکتا کر صوفے پر نیم دراز ہوتا انیلا کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کرنے لگا انیلا پلیٹ بستر پر رکھتی ڈرتے ڈرتے اس تک گئی تھی ہانم نے نظر اٹھا کر اسے نفرت سے دیکھا تھا لیکن اگلے ہی لمحے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔۔
"میری جان فکر نہ کر اسے اچانک گھر جانا پڑھ گیا تھا۔ اب دیکھ کل کوئی گاڑی آئی؟ نہیں ناں۔۔۔ساجد انیلا کو اپنے نزدیک بیٹھا کر اسکے کھلے بالوں کو چَِھیڑتے ہوۓ بتانے لگا حرا بائی کے ماٹھے پر پڑے بل یکدم غائب ہوئے تھے۔
"ہاں یہ بھی پھر شکر ہے اللّه کا۔۔۔لیکن دیکھ ساجد آئیندہ تو اسے ہاتھ نہیں لگائے گا۔
"ٹھیک ہے نہیں مارتا۔۔۔۔چل اب بور مت کر،میں انیلا کو لے کر جا رہا ہوں شام تک واپس آجاؤں گا۔۔ساجد اسکی باتوں سے اکتا کر بولتا اٹھ کھڑا ہوا انیلا نے بےبسی سے ہانم کو دیکھا تھا جس نے اسے آنکھ کے اشارے سے تسلی دی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"بالاج۔۔۔۔شگفتہ بیگم کی آواز پر وہ جو فون پر بات کر رہا تھا جلدی سے بات کو سمیٹ کر موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اپنی ماں کی طرف متوجہ ہوا جو ساڑی میں ملبوس کہیں جانے کے لئے تیار تھیں۔۔۔
"جی مام؟
"میری جان۔۔۔شگفتہ بیگم قریب آکر اسکے گال کو پیار سے چھوتے ہوئے مسکرائیں۔
"تمہارے بیگز اور ریفریشمنٹ کے لئے ڈرنکس چپس بسکٹس چاکلیٹ سب پیک کروا دیا ہے راستے میں جب بھوک لگے تو کھا لینا
"تھینک یو سو مچ پر اس کی ضرورت نہیں تھی میں راستے سے خود خرید لیتا۔۔۔
"کوئی بات نہیں میری جان اپنے بیٹے کے لئے میں اتنا تو کر ہی سکتی ہوں۔۔۔۔اچھا چلو اب میں چلوں گی پہلے ہی لیٹ ہوگیا ہے مسز عمران ناراض ہوجائیں گی۔۔۔۔۔شگفتہ پیار سے اسے جواب دے کر کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتیں اسے گلے لگا کر دروازے تک جا کر پلٹیں۔۔
"Take care...Have a safe trip my son....
بالاج انکی بات سن کر صرف دھیرے سے مسکرا دیا تھا۔ اسکی ماں کو ہمیشہ سے پارٹیز اور خاص کر اپنی آزادی پیاری تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے شوہر اور بیٹے سے بہت محبت کرتی تھیں۔۔۔۔
بالاج بائے روڈ اسلام آباد جا رہا تھا اپنے بچپن کے دوست کے بھائی کی شادی میں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سفید کوٹھی کہ سامنے تیزی سے آکر گاڑی رکی تھی۔۔
"ڈیڈ میں آپ کو بعد میں فون کرتا ہوں۔۔۔جی میں ابھی گھر سے نکلا ہوں۔۔آہ! ٹھیک ہے۔۔۔اللّه حافظ۔۔۔بالاج سنجیدگی سے بات کرتا موبائل کان سے ہٹا کر بونٹ پر رکھ چکا تھا۔۔۔
"آہ! میں تو اسے بھول ہی گیا تھا۔۔۔۔بالاج خودکلامی کرتا گاڑی سے اتر کر اندر بڑھا تھا۔۔
بالاج کے اندر جاتے ہی ایک اور گاڑی آکر رکی تھی۔۔۔
رئیس گاڑی سے اتر کر اپنے کوٹ کا بٹن لگاتا مسکراتے ہوئے اندر بڑھا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانم آپی حرا اماں کہہ رہی ہیں کہ تیار ہوجائیں۔۔۔انیلا اسکے قریب آکر پیغام دے پلٹنے لگی جب ہانم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔
"انیلا ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے.۔۔۔ہانم اسے دیکھ کر کہتی انیلا کہ گلے لگ گئی تھی ۔
"آپ بہت بہادر ہیں ہانم آپی ،مجھے آپ پر بھروسہ ہے آپ کا لباس میں نے نکال دیا ہے تیار ہوکر آجائیں۔۔۔ انیلا اسے کہہ کر الگ ہوتی اسکے ہاتھوں کی پشت چوم کر کمرے سے نکل گئی۔۔
اسکے جاتے ہی ہانم کی سسکی نکلی۔۔۔
"یا اللّه مجھے بچا لیں۔۔۔اللّه۔۔۔ہانم روتے ہوئے نیچے گرنے کے انداز میں بیٹھتی سامنے لٹکے گھیردار سیاہ فراک کو دیکھتی پھوٹ پھوٹ کر روتی چلی گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"معافی چاہتی ہوں بالاج صاحب لیکن ہانم تو چلی گئی ہے رئیس صاحب کہ ساتھ ۔۔۔حرا بائی صفائی سے جھوٹ بولتی افسوس کا اظہار کرنے لگی جبکہ بالاج نے اسکی بات پر تعجب سے سر کو ہلکے سے جھٹکا تھا۔۔
"کمال ہے حرا بائی تم نے تو کہا تھا کہ وہ کسی سے تنہا نہیں ملتی پھر چلی کیسے گئی؟
"ہاہاہا!!! ارے بالاج صاحب یہ کوٹھا ہے اور وہ ایک طوائف۔۔۔ہنہہ یہ تو بس شروع شروع کے نخرے ہوتے ہیں ان کے یہ صرف پیسے سے چلتی ہیں۔۔۔ویسے فکر مت کریں ساجد صاحب نے بتایا تھا کہ آپ جھوٹا نہیں چھوتے پر یہ ناچیز آپ کے لئے ہیرا نکال کر لائے گی تب تک انتظار کریں۔۔۔
حرا بائی خوش اخلاقی کا دکھاوا کرتے ہوۓ کہتی اسکے جانے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
اسے ساجد سے ہی معلوم چلا تھا کہ وہ یہاں سے جا رہا تھا پھر وہ اس کی وجہ سے رئیس سے کیسے ہاتھ دھو بیٹھتی اسے تو بس پیسے سے مطلب تھا چاہے بالاج سے ملے یا پھر رئیس سے۔۔۔
"اوکے۔۔۔۔۔بالاج کہتے ہی دروازے کی طرف بڑھ گیا دروازے سے نکلتے ہوے جہاں رئیس نے اسے دیکھ کر چہرہ پھیرا تھا وہیں بالاج سوٹ میں موجود اس شخص کو دیکھ کر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میز کے گرد بیٹھیں وہ تینوں رات کا کھانا کھا رہی تھیں جب تسنیم نے اپنی بھابھی کو دیکھا۔
"کیا ہوا بھابھی؟ تسنیم کی بات پر اسکی ماں نے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔
"مجھے کیا ہونا ہے تسنیم۔۔۔۔میری حیثیت ہی کیا ہے اس طوائف کہ سامنے۔۔۔یاسمین نے اسکے پوچھتے ہی دکھ سے کہا کہ دونوں ماں بیٹی نے ایک دوسرے کو دیکھ کر نظریں چُرائیں۔۔۔
"ایسے مت کہیں بھابھی ایک طوائف کا آپ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔۔۔دکھی مت ہوں میں سب ٹھیک کَردوں گی۔ ۔۔۔
"لیکن کب تسنیم ہاں کب ؟ جانتی بھی ہو کتنی اذیت ہوتی ہے مجھے جب وہ اس گھٹیا عورت کہ پاس جاتے ہیں لیکن وہ بہت مکار ہے رئیس کو تڑپا رہی ہے،آج پھر وہ وہاں گئے ہیں۔۔۔تم نے دیکھا نہیں آج کتنے خوش تھے ضرور وہ آج رات نہیں آئیں گے دیکھ لینا. ۔۔۔یاسمین بولتے بولتے زاروقتار رونے لگی جبکہ تسنیم کی نفرت کا گراف اس طوائف کہ لئے کچھ اور بڑھا تھا۔۔
"اللّه غرق کرے تمہیں۔۔۔۔تسنیم نے زہرخند لہجے میں کہتے ہاتھ میں پکڑی روٹی کو پلیٹ میں رکھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہیلو مام۔۔۔جی میں ڈیڈ سے نکلتے وقت بات کر چکا ہوں.۔۔۔۔آہ آپ فکر مت کریں مجھے بھوک لگے گی تو کھا لوں گا۔۔۔بالاج پیٹرول پمپ پر روکا ہوا تھا ساتھ ہی اپنی امی سے بھی محو گفتگو تھا۔۔۔جب پٹرول فل ہوتے ہی اس نے جلدی سے بات ختم کرتے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھا تھا۔۔پھر زن سے گاڑی مین روڈ پر لاتے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر گانے کی آواز تیز کردی ۔۔۔
"اففف!! یا اللّه اسلام آباد پہنچنے تک تو یہ ہمیں بھہرا کر دیں گے۔۔۔۔۔ہانم نے روہانسی ہوتے اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھا کہ اچانک بالاج کا ہاتھ پیچھے اپنے بیگ پر آیا تھا ساتھ ہی وہ جو پچھلی سیٹ پر کالی چادر اور سامان کو اپنے اوپر خود ہی سیٹ کر کے چھپی ہوئی تھی دھک سے رہ گئی۔. ۔۔۔۔
"ہانم داؤد تم تو گئی۔۔۔۔۔۔خوف سے آنکھوں کو سختی سے میچ کر اس نے چادر میں چہرہ چھپایا تھا۔
بالاج نے کوک کا کین نکال کر ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا تھا ہانم نے سکون بھرا سانس لے کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں جبکہ بالاج کوک کا کین پیتے ساتھ خود بھی گا رہا تھا۔۔۔
ہانم نے ڈبل آواز پر کانوں سے انگلیاں نکالی تو بے ساختہ مسکرا دی۔۔۔۔
"اتنی دیر ایک ہی زاویے پر پڑے پڑے ہم تو اکڑ جائیں گے۔۔۔اففف!! اللّه اب کیا کریں ہم ان کے سامنے آگئے تو یہ جانے کیا کریں گے۔۔۔سفر جاری تھا جب ہانم کو زخموں میں ٹیس اٹھنے پر اپنی حالت کا احساس ہوا تھا۔۔
اس سے قبل وہ کچھ اور سوچتی گاڑی یکدم رکی تھی ہانم نے ڈر کر جتنی بھی دعائیں آتی تھیں پڑھ کر خود پر حصار کرنا شروع کردیا جبکہ بالاج گاڑی سے اتر کر شاپ کی طرف بڑھتا اندر گھس گیا تھا ۔۔
بمشکل دو منٹ ہی گزرے تھے جب ہانم نے آہستگی سے چادر سے چہرہ نکال کر گاڑی میں نظر دوڑائی۔۔۔
پھر دھیرے دھیرے اٹھ کر باہر دیکھنے لگی وہاں اکا دکا ہی دکانیں تھیں اور اس وقت صرف ایک ہی کھولی تھی جبکہ وہاں گھروں کا نام و نشان نہیں تھا۔۔۔
"یہ۔۔یہ کس جگہ آگئے ہیں ہم.۔یہاں تو کوئی گھر بھی نہیں ہے اگر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو کس سے مدد مانگیں گے۔۔۔ہانم کو ایک نیا ڈر لاہک ہوا تھا۔۔۔
"ہمیں تو راستے بھی نہیں معلوم.۔۔۔اب کیا کریں۔۔ہانم خود سے باتیں کرتے کرتے رونے لگی تھی جب نظر بالاج کہ بیگز پر پڑی اور اسے یاد آیا کہ اس نے شام سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
"اس میں کچھ تو ہوگا کھانے کے لئے۔۔۔۔ہانم تیزی ہاتھ چلا کر بیگز کھول کر دیکھتی جو بھی ہاتھ آیا نکال کر واپس زب لگا کر ایک نظر دوبارہ شاپ پر ڈال کر لیٹ چکی تھی اسکے لیٹتے ہی بالاج شاپ سے نکل کر گاڑی کی جانب آتے موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا جب ٹھٹھک کر روک گیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم بھائی۔۔تسنیم جو لاؤنج میں بیٹھی احان سے موبائل پر باتیں کر رہی تھی رئیس کو آتے دیکھ کر موبائل کان سے ہٹا کر خوشگوار حیرت سے بولی۔۔۔اسے خوشی تھی کہ وہ وہاں روکا نہیں تھا جبکہ رئیس بنا جواب دیے گیسٹ روم میں جا چکا تھا۔
"انہیں کیا ہوا؟ ضرور اس طوائف نے نکال باہر کیا ہے تبھی تو ایسی حالت ہوئی ہے،چلو اچھا ہی ہوا۔۔۔تسنیم خودکلامی کرتی مسکرا کر دوبارہ سے موبائل کان پر لگا چکی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھاڑ سے کمرے کا دروازہ کھولتا وہ اندر بڑھ کر کمرے کی چیزوں کو تہس نہس کرنے لگا لیکن غصّہ تھا کہ کسی بھی طور کم نہیں ہورہا تھا۔۔
"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔تم کیسے بھاگ سکتی ہو۔۔۔۔آآاا!! ہانم تم نے بھاگ کر اچھا نہیں کیا۔۔۔ایک بار صرف ایک بار مل جاؤ ہم تمہیں وہ سزا دیں گے کہ تمہاری روح تک کانپ اٹھے گی۔۔۔۔۔ہماری شرافت کا بہت ناجائز فائدہ اٹھایا ہے تم نے کتنا پیسہ دیا ہے اس عورت کو، بس ایک بار مل جاؤ سارے حساب سود سمیت لیں گے تم سے۔۔۔۔رئیس غصّے سے پاگل جنونی سا ہوگیا تھا۔۔۔کانپتے ہاتھوں سے اس نے کوئی نمبر ملایا تھا۔۔۔
"ریاض ہیلو ہاں ہم رئیس علی بات کر رہے ہیں، ہمیں تمھارے لڑکے چاہیے۔۔۔۔۔ٹھیک ہے پھر ہم وہاں آکر بتاتے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اے کون ہو تم دونوں۔۔۔۔۔بالاج زور سے چیختے ہوۓ گاڑی کی طرف بھاگا تھا کہ وہ دونوں اسے دیکھتے ہی تیزی سے وہاں سے غائب ہوۓ تھے اندر موجود ہانم آواز پر گھبرا کر بے اختیار اٹھ کر بیٹھی تھی کہ بالاج جو بھاگ کر اپنی گاڑی کے پاس آیا تھا پچھلی سیٹ پر کسی کا سایہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا گاڑی کے شیشے ہلکے کالے ہونے کی وجہ سے وہ جو بھی تھا واضح طور پر نظر نہیں آیا تھا بالاج نے سر گھوما کر اردگرد دیکھا دور دور تک سب سنسان تھا جبکہ آس پاس جھاڑیاں اور گھنے درخت تھے بالاج نے آگے بڑھ کر لاک کو پکڑ کر کھینچا تو وہ بند تھا جبکہ اندر بیٹھی ہانم جلدی سے واپس لیٹی تھی۔۔
"ابھی بتاتا ہوں۔۔۔یہ سوچ اسے آگ لگانے کے لئے کافی تھی کہ وہ جو بھی تھا اسکی گاڑی میں پہلے سے چھپا ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔
"ارے تین گھنٹے بعد صبح ہوجاۓ گی ساجد لیکن اس حرام زادی کا ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔ہائے کیسے بھاگ گئی وہ۔۔۔۔کس یار کے ساتھ بھاگی ہے پارسہ.۔۔۔. حرا بائی نے جیسے پوری کوٹھی کو سر پر اٹھایا ہوا تھا کبیر بھی وہاں ساجد اور چند اپنے ساتھیوں کہ ساتھ پورا علاقہ چھان کر واپس آچکے تھے انیلا اندر ہی اندر خوفزدہ ہورہی تھی لیکن اسے اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے ہانم کو دس سال بعد ہی سہی لیکن اس دوزخ سے رہائی دلا دی تھی۔۔۔۔
ساجد کی نظر یُکدم ہی اس پر گئی تھی سب جانتے تھے ہانم کی ہمدرد اور چمچی اس کوٹھے میں صرف ایک وہی تھی۔۔۔
انیلا نے اسے خود کو دیکھتا پایا تو اسکی ٹانگیں کانپنے لگی تھی۔۔۔
"اس۔۔۔اس دوسری حرافہ سے پوچھا یہ تو ہر وقت اسی کے گرد منڈلاتی رہتی تھی نا؟ ساجد کہتے ساتھ بیلٹ نکالتا انیلا کے قریب ایا تھا پھر پوری قوت سے اسے بیلٹ سے ضرب لگائی تھی کے انیلا کی دل خراش چیخ پورے حال میں گونجی تھی۔
"مم میں نہیں جانتی۔۔۔مم م مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔۔میں تو حرا اماں کے پاس تھی۔۔انیلا تڑپ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگی جب حرا بائی ماتھے پر بل ڈالے ساجد کے ساتھ آکر کھڑی ہوئی۔۔
"ارے حرا اماں اسے تو آپ نے بھیجا نہیں تھا ہانم باجی کے لئے جوڑا دے کر۔۔۔۔سونیا جو ہانم اور انیلا دونوں سے جلتی تھی جھٹ یاد دلانے لگی۔۔انیلا کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں زور زور سے نفی میں سر ہلاتے وہ پیچھے کی طرف کھسکنے لگی۔۔
"دیکھ انیلا بتا دے اس حرافہ کا۔۔۔۔میرا وعدہ ہے تجھے اپنی رانی بنا کر رکھوں گا۔۔۔
"مم میں قسم کھاتی ہوں ساجد مجھے نہیں پتہ ہانم باجی کہاں گئیں۔۔ ساجد تو یقین کر میرا۔۔۔تو۔۔۔آآآ! انیلا خوف کے مارے ہکلا رہی تھی یقین دلا رہی تھی لیکن وہاں موجود کسی بھی شخص کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا ساجد نے زور سے اسکے پیٹ پر بوٹ سمیت لات ماری تھی کہ انیلا کو لگا اسکا اندر سب پھٹ گیا۔۔۔سانس لینے میں مشکل ہونے لگی ساجد اسکے سامنے بیٹھتا انیلا کو بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوۓ کمرے کی طرف جانے لگا۔۔
"چھوڑ دے مجھے ساجد چھوڑ دے۔۔انیلا بلک بَلَک۔کر روتی اس سے بھیک مانگنے لگی مگر وہ بھول گئی تھی کہ یہاں انسان نہیں درندے بستے تھے جو عورت کہ جسم کو نوچ کر رکھ دیتے تھے۔۔۔
کمرے میں لاکر اس نے انیلا کو بیڈ پر پھینکا تھا جو درد کی شدت سے چیخ پڑی تھی۔۔۔
"عارف رسی لا....ساجد چیختے ہوۓ اس کی طرف دیکھ کر سر کو نفی میں ہلانے لگا انیلا نے رسی کا سنتے ہی تڑپ کر اسے دیکھا تھا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا انیلا ہانم سے دو سال ہی بڑی تھی لیکن پھر بھی وہ ہانم کے رکھ رکھاؤ کی وجہ سے اسے باجی کہتی تھی۔۔
"سس ساجد تو۔۔تو شادی کرنے والا تھا نا مجھ سے۔۔۔
"ہاں پر کیا ہے نا ہمارے دھندھے میں ان سب کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔میں تو بس تیرے کہنے پر چند کَاغذوں پر سائن کر رہا تھا تاکہ اپنی بھی اولاد ہوکر میری نسل کو بڑھا سکے لیکن اب میرا ارادہ بدل چکا ہے۔۔۔
انیلا کی آنکھیں اسکی باتوں پر مزید پھیلیں تھیں۔
"تو نے تو اپنے ہونے والے شوہر کے ہی پیٹ پر لات ماردی ہے۔۔۔تجھ سے اولاد پیدا کروا کر تجھ جیسے غداروں کو پالوں تاکہ جوان ہوکر وہ مجھے ہی راستے سے ہٹا دیں،بالکل بھی نہیں۔۔ساجد نفی میں سر ہلا کر بستر پر پیر رکھ کر اسکی جانب جھکا تھا جب پیچھے عارف رسی لے کر آیا۔۔۔
"مجھے چھوڑ دو پلیز۔۔۔انیلا زور زور سے روتی ایک نظر رسی کو دیکھ کر ساجد کہ سامنے ہاتھ جوڑنے لگی لیکن اگلے ہی پل دونوں نے مل کر اسے قابو کرتے ہاتھوں اور پیروں کو پیڈ سے باندھ دیا۔۔۔۔
انیلا کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ چکا تھا۔۔
"جا تو اب۔۔۔۔ساجد اپنا کام ختم کرتا عارف سے بولا تھا۔۔اسکے جاتے ہی ساجد نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چھو چھوڑ دیں ہمیں۔یم کہیں نہیں جائیں گی۔.۔۔۔۔ہانم نے ڈوپٹے سے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ بالاج کہ ہاتھ میں تھا۔۔۔۔
بالاج غصّے سے اسے گاڑی سے کھنچ کر باہر نکال رہا تھا لیکن ہانم تھی کہ اندر جپک کر رہ گئی تھی بالاج کو اسکی حرکت پر طیش چڑھ رہا تھا لیکن ہانم کسی قیمت پر گاڑی سے اترنے کا رسک نہیں لینا چاہتی تھی ۔
"میں نے کہا باہر نکلو ورنہ میں تمہیں یہیں پھینک کر چلا جاؤں گا۔۔
"نہیں نہیں اللّه کہ واسطے ہمیں گاڑی میں رہنے دیں۔۔۔
"تم.۔۔۔بالاج کو اسکی بات پر شدید حیرت ہوئی تھی کہ لمحے بھر کہ لئے وہ روک کر ڈوپٹے میں چھپی اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔۔
"میں آخری بار کہہ رہا ہوں گاڑی سےاترو ورنہ تمہیں میں پولیس اسٹیشن لے جاؤں گا۔۔۔بالاج کی دھمکی سنتے ہی ہانم کے ہاتھ کپکپائے تھے جسے بالاج نے بھی محسوس کیا تھا۔۔
"دیکھو میں تمہیں یہاں نہیں چھوڑ کر بھاگوں گا۔۔بالاج کا لہجہ اس بار نرم تھا ہانم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا بالاج دیکھنے میں کافی ہینڈسم تھا شاید وہ جم جانے کا شوق رکھتا تھا تبھی اپنی عمر سے وہ بڑا لگتا تھا۔۔۔
"وعدہ کریں ہمیں چھوڑیں گے نہیں۔۔ہانم کے اچانک کہنے پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔
"ٹھیک ہے وعدہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا بس اب نیچے اترنے کی زحمت کر سکتی ہیں آپ پہلے ہی ہم کسی پارک میں نہیں شہر سے دور سنسان جنگل میں کھڑے ہیں۔.۔۔بالاج کی بیزاریت سے بتانے پر ہانم اس کے بیگز کو ہٹا کر آہستہ سے نیچے اتری تھی۔۔
بالاج اس سے پیچھے کھڑا سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھنے لگا سامنے موجود لڑکی پانچ فٹ چار انچ کی تھی بالاج نے ابھی تک اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا ۔۔۔
ہانم نے گاڑی سے اتر کر جھک کر اپنے گٹھنوں پر ہاتھ رکھ کر جیسے ہی سر اٹھایا ہوا سے اسکا ڈوپٹہ سر سے ڈھلک گیا۔۔۔۔
بالاج کی آنکھوں کی پتلیاں سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر جیسے ساکت ہوگئی تھیں بلاشبہ وہ بہت حسین تھی لیکن بالاج جیسے دیکھ کر ساکت ہوا تھا وہ اسکے چہرے پر زخم تھے جبکہ ہانم نے اس بار ڈوپٹہ سر پر لیتے چہرہ نہیں چھپایا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کون ہو تم؟ اور یہ تم پر کس نے تشدد کیا ہے، دیکھو لڑکی مجھے سچ سچ بتاؤ ورنہ میں تمہیں یہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔بالاج تیزی سے اسکے مقابل روک کر گھبرائے ہوۓ لہجے میں بول رہا تھا جبکہ ہانم جو پچھلے ایک ڈیڑھ گھنٹے سے اسے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرنے کے بعد تنگ آکر سوچنا چھوڑ چکی تھی بالاج کے نزدیک آنے پر چھپاک سے اسکے ذھن میں وہ چہرہ گھوما تھا.۔۔۔۔
ناچتے ناچتے جب وہ اسکے سامنے بیٹھی تھی لیکن ساجد کے ہاتھ پکڑنے سے پہلے ہی وہ رقص کرتے ہوۓ پیچھے ہٹ گئی تھی۔۔
مطلب وہ ساجد کہ ساتھ آیا تھا اور اگر اسے معلوم ہوگیا تو۔۔۔ہانم سوچ کر ہی جھرجھری لے کر بنا اسکو جواب دیتی بالاج کو اچانک ہی زور سے دھکا دے کر پوری قوت سے بھاگی تھی جبکہ بالاج اس اچانک آفتاد پر لڑکھڑا کر زور سے زمین بوس ہوا تھا۔
"اسکی تو۔۔۔۔روک جاؤ۔۔۔۔میں نے کہا روکو۔۔۔۔۔بالاج غصّے سے چیختے ہوۓ کہتا اسکے پیچھے جاتے جاتے روک کر اردگرد دیکھتا دوبارہ اپنی گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔۔
دوسری طرف ہانم تکلیف کی پرواہ کیے بغیر بھاگے چلی جا رہی تھی جب کسی پتھر سے پیر مڑنے پر وہ منہ کے بل گری تھی۔۔۔
"آآآآآ!!!! ہانم کے منہ سے نکلی چیخ خاموشی میں دور تک گئی تھی۔۔
"اللّه میرا پیر۔۔۔۔ہانم دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھ کر سہارے سے اٹھ کر بیٹھتی اپنے پیر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگی جب دور سے کتے کے بھونکنے کی آواز پر ہانم اپنا درد بھول کر اردگرد دیکھتی دھک سے رہ گئی۔
اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ بھاگتے بھاگتے وہ جنگل میں اتنا اندر پہنچ جاۓ گی۔
ڈر کے مارے اس نے ایک بار پھر شدّت سے رونا شروع کردیا تھا جب پتوں کی آواز پر ہانم نے اپنے لبوں پر سختی سے ہاتھ رکھ کر اپنی آواز کو دبایا لیکن شاید اسکی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے کمبخت یہاں میرا سکون برباد ہوچکا ہے اور تو اندر اس کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔۔۔۔نکل باہر۔۔۔حرا بائی غصّے سے دروازے پر ہاتھ مارتے ہوۓ ساجد پر چلا رہی تھی۔۔۔
"بس کردے اپنا یہ سپیکر۔۔۔کیوں عذاب ڈالا ہوا ہے رات سے۔۔۔۔۔ساجد غصّے سے دروازہ کھول کر اس پر دھاڑتا شرٹ کے بٹن لگاتا حال کی طرف بڑھا تھا جبکہ حرا بائی غصّے سے اسکے پیچھے گئی تھی۔۔
اس سے قبل وہ اسے کچھ بولتی ساجد نے یکدم ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی بولنے سے روکا تھا۔۔۔
"دیکھ حرا بائی میری ماں نے مجھے یہیں پیدا کیا اور خود اللّه کو پیاری ہوگئی تب سے یہ میرا اپنا گھر ہے کوئی بھی پریشانی آئے گی ساتھ مل کر اسکا حل نکالیں گے سمجھی اسلئے ابھی جو بکواس کی تھی آئیندہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہاں یہ حرافہ جب تک اپنا منہ نہیں کھول لیتی اسے ہر طریقے سے تشدد کا نشانہ بنانا ہے سمجھی۔۔شیطانیت سے کہتا وہ عارف اور فیضان کی طرف متوجہ ہوا. ۔۔۔
"یہ کام تم دونوں کے حوالے کر رہا ہوں اس کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کھلی اجازت ہے تم دونوں کو جو بھی کرنا چاہتے ہو کرو بس اس کا منہ کھلواؤ۔۔۔۔۔سفاکیت کی انتہا تھی جبکہ عارف اور کبیر خوشی سے نہال ہوتے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"ابے دیکھ کیا ہی حسین لڑکی ہے۔۔۔دونوں ہانم کے سامنے کھڑے للچاتی نظروں سے اسے دیکھ کر بول رہے تھے یہ وہ ہی تھے جو بالاج کی گاڑی کا لاک کھول رہے تھے لیکن وقت پر بالاج کے دیکھ لینے پر وہ دونوں وہاں سے بھاگتے ہوۓ جنگلی کی طرف آگئے تھے۔۔
ہانم ان کی غلیظ نظریں اپنے وجود پر محسوس کرتے ڈوپٹے سے خود کو ڈھانپ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی اس سے قبل وہ سہی طرح کھڑی ہوتی ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اسکی ٹانگ میں ٹانگ اڑا کر اسے دوبارہ گرایا تھا۔۔
"آآ!!! نہیں پلیز مجھے جانے دو۔۔۔
"ہاہاہا۔۔!! دونوں نے اسکی بات پر اونچے اونچے قہقہے لگانے شروع کیے۔۔
ہانم کی ہچکی بندھ گئی تھی نیچے گرے ہی کھسک کر ان دونوں سے پیچھے ہٹنے لگی لیکن اگلے ہی لمحے ایک آدمی نیچے بٹھتا اسے پیروں سے پکڑ کر اپنی طرف کھنچ کر نیچے لیٹا چکا تھا۔۔
"نہیں۔۔۔۔نہیں اللّه میری مدد کریں۔۔۔۔
"ہاہاہا!! ہاہاہا!! مدد کو چھوڑ ہم تیری خدمت کر دیتے ہیں۔۔۔ہاہاہا۔۔آدمی اسکی بات پر ہنستے ہوۓ جواب دیتا ہانم پر جھکنے لگا جبکہ ہانم نے آنکھوں کو میچ کر چہرہ پھیر لیا تھا۔۔۔
"آہ! وہ جو اس پر جھکنے والا تھا آواز پر تیزی سے پلٹا تھا اسکا ساتھی اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے نیچے گرا تھا اس سے قبل وہ کچھ کر پاتا زوردار ڈنڈے کی ضرب لگنے سے وہ بھی چیختا ہوا زمین بوس ہوچکا تھا
ہانم نےجھٹ سے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تھا جہاں بالاج اپنے دونوں بیگز کندھے پر ڈالے ہاتھ میں درخت کے ٹوٹے تنے کو پکڑے ہوۓ تھا غصّے سے اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔۔
بالاج نے اسے دیکھ کر پاس ہی تڑپتے آدمی کو زور زور سے لاتیں مارنی شروع کردیں جبکہ ہانم اسکا جنون دیکھ کر سہم کر اٹھ کر بیٹھتی سر جھکا کر سوں سوں کرنے لگی جبکہ بالاج اپنا غصّہ اتار کر اسکے منہ کے سامنے پانی کی بوتل بڑھا چکا تھا۔۔
"لو پانی پیو۔۔۔۔۔۔
"نہیں، ہمیں۔۔۔۔
"اپنی بکواس بند رکھو اور پانی پی کر اٹھو اس سے پہلے کوئی اور یہاں آجائے۔۔۔بالاج نے بیچ میں ہی اسکی بات کاٹ کر چڑتے ہوۓ کہا تھا۔۔
ہانم کی آنکھوں میں پھر آنسوں جما ہونے لگے تھے آہستہ سے اسکے ہاتھ سے پانی کی بوتل لے کر گٹاگٹ پانی پی کر بوتل اسکی طرف بڑھا دی جس نے بوتل لینے کے بجائے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیا تھا لیکن ہانم تڑپ کر واپس بیٹھ گئی تھی۔۔
"کیا مصیبت ہے تمھارے ساتھ ہاں۔۔پہلے میری گاڑی میں بیٹھ گئی پھر مجھ پر حملہ کرکے خود بھی مصیبت میں پھس گئی اور اب۔ ۔ بالاج نے غصّے میں اسے ڈپٹا کہ ہانم درمیان میں بول اٹھی
"سہی کہا ہم مصیبت ہیں۔۔۔کاش ہم اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر جاتیں تو اس دنیا سے ایک مصیبت کم ہو جاتی..یا کاش ہم کسی غریب کے ہاں پیدا ہوجَاتیں۔۔۔
"ہاں بالکل لیکن تم جہاں پیدا ہوتی ان بیچاروں کی مصیبتوں میں ایک اور کا اضافہ ہوجاتا۔بالاج اسکی باتوں پر بے اختیار مسکرا کر پَنجوں کے بل بیٹھ کر ہانم کی بات کا جواب دے کر مسکرایا تھا ہانم نے خفگی سے اسے دیکھا لیکن بالاج کے مسکرانے پر پلک جھپکانا بھول گئی۔۔۔اپنی زندگی میں اس نے پہلا ایسا مرد دیکھا تھا جس کی مسکراہٹ پر اسکا دل دھڑکا تھا۔۔۔
(تو ایک طوائف ہے ہانم داؤد جسے تاعمر مردوں کو خوش کرنے کے لئے اس کوٹھے میں بھیجا ہے نا کے نخرے دکھانے کے لئے) حرا بائی نے غصّے سے اسے کہا تھا۔۔۔
ہانم نے کرب سے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا اس بات سے انجان کے ہانم داؤد کی محبت کی داستان یکطرفہ نہیں تھی۔۔۔
بالاج جس کا دل کبھی کسی لڑکی کہ لئے نہیں دھڑکا تھا مقابل آنسوؤں سے تر چہرے والی لڑکی کے لئے دھڑک اٹھا تھا۔۔