مہرماں
امرحہ شیخ
ہسپتال کے سرد کوریڈور میں بینچ پر بیٹھیں بی جان کی نظریں بند دروازے پر جمی تھیں ساتھ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کہ دانے بھی تیزی سے آگے پیچھے ہورہے تھے۔۔۔۔
"اللّه سب بہتر کرے گا دراب فکر مت کرو۔۔۔۔دائم صاحب نے اپنے بھائی کہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں حوصلہ دیا تھا لیکن کہیں نہ کہیں وہاں موجود تمام افراد ہی بے حد فکرمند تھے۔۔
"ان شاءلله۔۔۔۔بیک وقت سب کہ لبوں سے نکلا تھا ایک گھنٹہ ہونے کو آیا تھا آپریشن ہنوز جاری تھا۔...
"ہانیہ(دائم کی بیوی) بیٹی گھر پر منّت کو فون کر کہ ذرا بچوں کی خبر تو لو جانے یہاں ہمیں اور کتنا وقت لگ جاۓ۔۔۔
"جی میں نے ابھی پانچ منٹ پہلے ہی بات کی ہے۔۔۔کینیڈا سے بھی نور بھابھی(جیٹھانی) کا دو بار فون آچکا ہے منال(دیورانی) کی خیریت کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔ہانیہ بیگم کی بات مکمل ہوتے ہی آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔
دراب صاحب کہ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔
"ڈاکٹر صاحبہ سب ٹھیک تو ہے؟ دائم صاحب نے آگے بڑھ کر دھڑکے دل سے پوچھا تھا۔
"الحمدلللہ اللّه نے بہت کرم کیا ہے ماں اور بچہ دونوں سہی ہیں ۔۔
"ؓمم مطلب بچہ۔۔ڈاکٹر کی بات سنتے ہی جیسے دراب صاحب جی اٹھے تھے۔۔
"مبارک ہو آپ کو بیٹی ہوئی ہے۔۔۔ڈاکٹر کہ پیشہ ورانہ انداز میں بتانے پر بی جان نے آگے بڑھ کر دراب صاحب کو گلے سے لگا لیا تھا۔۔۔
دائم اور ہانیہ نے بھی خوشی سے دراب کو دیکھا تھا۔۔۔
شادی کہ سات سال بعد بلآخر اللّه نے انھیں رحمت سے نوازا تھا۔ ۔۔
"مبارک ہو بیٹا اللّه تیرا شکر ہے ورنہ یہ بڑھیا اس بار کا غم برداشت نہ کر پاتی۔۔
"بی جان اللّه نہ کرے ایسی باتیں مت کریں۔۔۔ہانیہ نے آگے بڑھ کر مسکراتے ہوۓ کہا تھا جب ڈاکٹر کی آواز پر سب انکی جانب متوجہ ہوۓ تھے۔۔
"کیا بات ہے؟ سب ٹھیک تو ہے نہ؟ بی جان نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہوۓ پوچھا جب نرس گود میں سفید کپڑے میں لپٹی بچی کو اٹھا کر وہاں آئی تھی۔
"دراصل ایک نہیں دو بچیوں کی پیدائش ہوئی ہے لیکن مجھے افسوس کہ ساتھ کہنا پڑے گا کہ آپکی پہلی بیٹی ماں کہ پیٹ سے ہی مردہ پیدا ہوئی ہے۔۔۔۔ڈاکٹر کی بات سنتے ہی سب کو سانپ سونگ گیا تھا بی جان نے یکدم ہی اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
سات سال۔۔۔ہاں سات سال میں یہ انکی تیسری اولاد تھی جو دنیا میں آنے سے قبل ہی چلی گئی تھی۔۔۔
"ڈاکٹر دوسری بچی؟ دائم کانپتے ہاتھوں سے بچی لیتا ان سے پوچھنے لگا دراب صاحب میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کھڑے بھی رہ سکیں۔۔
"وہ ٹھیک ہے پر کمزور ہے۔۔۔
"شکر ہے۔۔۔۔کیا ہم دیکھ سکتے ہیں؟
"تھوڑی دیر میں منال کو روم میں شفٹ کردیا جاۓ گا پھر آپ مل سکتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر مسکرا کر کہتیں اپنے کیبن میں آکر بیٹھی ہی تھیں کہ نرس بھی پیچھے ہی اندر آئی تھی۔
"ڈاکٹر آپ نے انہیں بتایا کیوں نہیں کہ بچی غیر معمولی(abnormal) ہے
"تم نے مجھے اتنا سخت دل سمجھ رکھا ہے دیکھا نہیں تھا کیسی حالت ہوگئی ہے ویسے بھی بچی جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہے۔۔
"پر ڈاکٹر۔۔
"ڈاکٹر۔۔۔دائم کی آواز پر دونوں نے گھبرا کر دروازے کی سمت دیکھا تھا جہاں دونوں بھائی کھڑے تھے۔۔
یقیناً دونوں انکی باتیں سن چکے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی شہر کے پوش علاقے میں واقعہ انکا اپنا ذاتی بڑا گھر تھا۔۔۔۔شہباز خان اور نائلہ خان دونوں کی پسند کی شادی تھی۔۔اللّه نے انھیں تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔۔۔۔
درانی شہباز جنھیں کینیڈا تعلیم حاصل کرنے کا ایسا شوق چڑھا کے تعلیم کہ بعد اپنی ہی کلاس فیلو سے شادی کر کہ کینیڈا میں ہی رہائش پذیر ہو گئے۔۔نور درانی پاکستانی تھیں جو پڑھنے کہ گرز سے ہی گئی تھیں۔۔۔درانی صاحب کے اس اقدام پر ایک سال شہباز صاحب نے اپنے بیٹے سے بات نہیں کی تھی لیکن کب تک آخر کو اولاد تھی وہ بھی پہلی۔۔درانی صاحب کے دو ہی بچے تھے "یزان درانی" دوسری بیٹی" ہالہ درانی"۔
درانی صاحب کہ بعد "دائم شہباز" تھے جنکی شادی اپنی ہی خالہ زاد سے ہوئی تھی....ہانیہ دائم۔۔۔۔انکے تین بیٹے جبکہ دو بیٹیاں تھیں۔۔۔
"بلال دائم، ہاشم دائم،داور دائم جبکہ دو بیٹیاں میرال دائم اور بسمہ دائم ہیں۔۔۔۔پھر تیسرے بیٹے "دراب شہباز ہیں بیوی "منال دراب" ہے۔۔۔دونوں نے کورٹ میرج کی تھی کیونکہ منال کہ گھر والے اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔۔۔۔شادی کو سات سال ہوچکے تھے منال تین بار ماں بنیں لیکن ہر بار بچہ یا تو مردہ ہوتا یا چند سیکنڈ ہی زندہ رہتا۔۔۔۔
"نہیں دائم میں اب یہ سب برداشت نہیں کر سکتی نہیں دیکھ سکتی اپنے ہی جگر کہ ٹکڑوں کو بے جان۔۔۔۔۔منال کو جب سے پتہ چلا تھا کہ وہ ایک بار پھر ماں بننے والی ہیں تو زاروقطار رونے لگیں۔۔لیکن شاید اس بار تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔"منحہ دائم" جسکی باتیں اور شرارتیں والدین اور دادی دیکھ کر جتنا پسند کرتے تھے اتنا ہی گھر کے دوسرے بچوں کہ لئے وہ کسی چابی کی گڑیا جیسی تھی۔۔۔جیسے جیسے بچے جوان ہورہے تھے منحہ کا وجود انکے لئے شرمندگی تو کبھی مذاق کا باعث بنتا جا رہا تھا۔۔
سب سے چھوٹی بیٹی منت شہباز تھیں جنکے دو ہی بچے تھے۔۔۔
مومنہ علی، حمزہ علی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دھپ۔۔۔۔۔زور سے اسکی کمر پر ہاتھ جڑتے16 سالہ میرال نے 12 سالہ منحہ کو بازو سے پکڑ کر صوفے سے اتار کر گھسیٹتے ہوئےکمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ بسمہ جو 14 سال کی تھی زور زور سے ہسنے لگی ہاشم اور داور جو وہیں موجود تھے مسکرانے لگے۔۔۔
"ووووو جھولا۔۔منحہ جو ماربل کہ چکنے فرش پر گھسٹتی جا رہی تھی مزے لیتے ہوۓ کہتی میرال کو آگ لگا گئی جبکہ اسکی بات پر ان تینوں کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔
"کیوں ہنس رہے ہو ہاں یہ تو پیدائشی پاگل ہے۔۔
"ہاہاہا یار میرال آپی غصّہ مت کریں اتنی پیاری ہے ہمارا موڈ اچھا کر دیتی ہے۔بسمہ نے ہنستے ہوۓ میرال سے کہا جب داور کی بات پر منحہ اسے دیکھنے لگی۔
"کیا دیکھ رہی ہو باولی میری بات دماغ کہ اینٹینے تک پہنچی؟ داور نے اٹھ کر اسکی کنپٹی پر انگلی بجاتے ہوۓ پوچھا تھا جو تیوری چڑھا کر اسے دیکھتے رہنے کہ بعد یکدم ہی داور کہ بال زور سے کھینچ کر بھاگی تھی کہ وہ چیخ اٹھا تھا۔۔
"منحہ کی بچی چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔۔پاگل کہیں کی۔۔۔داور کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ کر پیچھے بھاگا تھا جو سیدھا بی جان کہ کمرے میں جا کر گھسی تھی کہ داور کہ ساتھ میرال نے بھی مٹھیاں بھینچ لی تھیں کہ بی جان کی جان تھی منحہ۔۔
"داور بھائی۔۔۔منحہ کی آواز پر دونوں نے اسے دیکھا جو زبان چڑا کر دوبارہ اندر غائب ہوئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا منحہ کمرے میں بیٹھی اپنی گڑیا سے کھیلنے میں مگن تھی۔۔۔جب منال بیگم کمرے میں آتے ہی مسکرا کر اپنی بیٹی کہ ساتھ قالین پر بیٹھی تھیں۔۔۔
"ماما کی منحہ کیا کر رہی ہے
"منحہ گڑیا کو چھپا رہی ہے۔۔۔منحہ رازداری سے منال کہ کان میں بول کر دوبارہ اپنے کھیل میں لگ گئی تھی۔
"اور منحہ کس سے چھپا رہی ہے گڑیا کو؟ منال لب بھینچ کر منحہ کہ سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگیں۔۔۔
جب کمرے کا دروازہ کھلا تھا نور بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھیں پیچھے ہی یزان اور ہالہ بھی تھے۔۔۔۔
"ماما منحہ کی گڑیا کو سب ڈانٹتے ہیں اور یوں یوں میرال آپی اسے مارتی ہے اور اور سب ہنستے ہیں۔۔کوئی بھی منحہ کی گڑیا کہ ساتھ نہیں کھیلتا۔۔۔منحہ بتانے کہ ساتھ ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو مارنے کہ ساتھ پھینک کر بتا رہی تھی جبکہ منال بیگم سن بیٹھیں اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں
دروازے پر کھڑی نور بیگم نے دکھ سے اسے دیکھا تھا یقیناً یہ سب اسکے ساتھ ہو رہا تھا ۔
19 سالہ ہالہ اور 21 سالہ یزان نے حیرانگی سے اپنی کزن کو دیکھا تھا وہ لوگ پہلی بار پاکستان آئے تھے کہ درانی صاحب اور نور بیگم بھی خود تہواروں میں چار پانچ بار آچکے تھے بچوں کا رابطہ انٹرنیٹ کہ ذریعے تھا لیکن منحہ کی اپنی ہی پریوں کی کہانی جیسی دنیا تھی۔۔۔۔
اس بار بھی وہ اکیلے آتے لیکن بی جان کہ سختی سے حکم دینے پر درانی صاحب پوری فیملی کے ساتھ آج ہی آئے تھے لیکن در حقیقت نور بیگم اپنے بھائی سے رشتہ جوڑنے پاکستان آئی تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
منحہ کی نظر جیسے ہی ان تینوں نفوس پر پڑی تیزی سے اپنی ماں کہ ساتھ چپک کر سرگوشی میں انھیں بتانے لگی۔
"منحہ کی تائی امی ہیں یہ۔۔۔منال نے مسکراتے ہوۓ کہتے نور بیگم کو دیکھا تھا جو اپنے بچوں کہ ساتھ اندر بڑھی تھیں۔۔
"ارے یہ تو ہماری بہت ہی پیاری سی منحہ ہے۔۔۔نور بیگم اسکے سامنے بیٹھی تھیں کہ منحہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا جیسے ان سے تائید چاہ رہی ہو۔۔۔
"برو یہ پاگل ہماری کزن ہے۔۔۔۔ہالہ یزان کے قریب جھک کر سرگوشی میں ناگواری سے بولی تھی جس بے اسکی بات پر کوئی ردِعمل نہیں دیا وہ تو اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو اپنی ماں کہ کچھ بولنے پر تیزی سے نور بیگم کے گلے سے لگی تھی۔۔
نور بیگم جو مصنوعی پیار جتا رہی تھیں بری طرح گھبرا گئیں۔۔
"منحہ گڑیا تائی امی کا گلہ چھوڑو۔۔۔منال نور کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر آگے بڑھی تھیں وہ جانتی تھیں منحہ کبھی بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتی تھی۔۔
"تائی امی۔۔۔منحہ پیچھے ہٹتی انھیں کہتی ہالہ اور یزان کو دیکھنے لگی۔۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں اب نیچے چلنا چاہیے۔۔نور بیگم منحہ کا رخ اپنے بچوں کی طرف دیکھ کر تیزی سے کھڑی ہوتیں ہالہ کا ہاتھ تھام کر زبردستی مسکرا کر بولیں۔۔
"جی ٹھیک ہے چلئیے۔۔۔منحہ آپ کھیلو اور کمرے سے مت نکلنا میں آپ کا چاکلیٹ ملک شیک بنا کر ابھی لاتی ہوں ٹھیک ہے پھر ہم کل تایا ابّو سے ملیں گے۔۔۔
"ٹھیک ہے ماما منحہ کمرے میں ہی رہے گی۔۔
منال خود پر ضبط کرتیں پیار سے اسے کہتیں دروازے کی سمت بڑھ گئیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ انکی بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا رویہ رکھے۔۔۔
منحہ کہ فرمابرداری سے سر کو زور و شور سے ہلا کر کہنے پر یزان درانی کہ لبوں پر تبسم بکھرا تھا۔۔
تینوں کہ جاتے ہی یزان اسکے سامنے پنجوں کہ بل بیٹھا تھا جو گڑیا کو اسکے بیڈ پر لیٹا رہی تھی۔۔
"السلام علیکم۔۔۔میرا نام یزان درانی ہے اس چھوٹی سی گڑیا کا کیا نام ہے؟ یزان کی بھاری سنجیدہ آواز پر منحہ نے نظریں اٹھا کر مقابل بیٹھے ہینڈسم شخص کو دیکھا تھا۔۔
"وعلیکم السلام میری گڑیا کا نام گڑیا ہے۔۔۔
یہ تو بہت پیارا نام ہے اور آپ کا؟ اس سے قبل وہ کچھ بولتی میرال اندر آئی تھی۔۔۔
ؓمنحہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا جو آج اسکے کمرے میں پہلی بار آئی تھی۔
"یزان آپ اس کہ پاس۔۔۔میرا مطلب یہاں کیا کر رہے ہیں چلیں تائی جان بولا رہی ہیں۔۔۔میرال منہ بنا کر منحہ کو ایک نظر دیکھ کر شیرین لہجے میں یزان سے بولی تھی جو سرسری سی نظر اس پر ڈال کر دوبارہ منحہ کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔
"آپ میرال آپی کے دوست بلی کہ گوشت ہیں۔منحہ نے خفگی بھرے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔۔یوں جیسے اسے یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔۔
"نہیں میں تمہاری تائی امی کا پڑا بیٹا یعنی تمہارا کزن ہوں۔۔۔یزان مسکراتے لہجے میں اسے جواب دے رہا تھا میرال کو اپنا نظرانداز کیے جانا آگ بگولا کر گیا تھا۔۔۔
"اففف یہ کیا حالت کی ہوئی ہے تم نے کمرے کی پاگل لڑکی تھوڑی سی تو تمیز سیکھ لو اتنا گند تو بچے بھی نہیں کرتے ہیں۔۔۔۔میرال کہ یکدم ہی غصّے سے بولنے پر منحہ سہم کر اسے دیکھنے لگی تھی جو بولنے کہ ساتھ ہی چلتی ہوئی دونوں کے پاس آ کر رکی تھی۔۔
"یز۔۔۔
"اسٹاپ اٹ! مجھے ایک ہی بات بار بار سننے کی عادت نہیں ہے میرال تم نے کہہ دیا میں نے سن لیا بات ختم مطلب ختم۔۔۔...اب تم جا سکتی ہو۔۔۔۔۔میرال کی بات ابھی منہ میں ہی تھی کہ یزان جھٹکے سے اٹھتا سرد لہجے میں کہتا میرال کے تن بدن میں آگ بھڑکا گیا تھا اپنی اتنی بے عزتی وہ بھی اسکے سامنے جس سے وہ بلاوجہ ہی حسد کرتی تھی۔۔
توہین کہ احساس سے میرال کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا پیر کو زور سے زمین پر پٹختی وہ تیزی سے کمرے سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔
یزان اسکے جاتے ہی دوبارہ منحہ کی طرف متوجہ ہوا تھا جو اپنی گڑیا کو خود سے لگائے کھڑی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
"وہ چلی گئی۔۔۔۔منحہ کے سامنے چٹکی بجاتے یزان نے اسے کہا جس نے سٹپٹا کر اسے دیکھا تھا۔۔
"آپ کو ڈر نہیں لگا؟
"کس سے؟
"میرال آپی سے۔۔۔۔منحہ کی بات پر یزان اسے دیکھنے لگا اتنی دیر میں منال ہاتھ میں ملک شیک سے بھرا مگ لے کر کمرے میں داخل ہوئی تھیں کہ یزان کو دیکھ کر چونکی پھر مسکرا کر اندر آگئیں۔۔
"بیٹا تم ابھی تک یہاں ہو۔۔۔
"چاچی منحہ اپنی گڑیا سے ملوا رہی تھی۔۔یزان نرم نظروں سے اسے گڑیا سے باتیں کرتا دیکھ کر منال سے بولا جو اسکی بات پر مسکرا کر اپنی بیٹی کو دیکھنے لگیں منحہ نے چاکلیٹ ملک شیک دیکھتے ہی گڑیا کو رکھ کر مگ پکڑا تھا۔۔۔منحہ کا وہ فیورٹ تھا۔۔۔
"آپ کو پینا ہے؟ منحہ ایک گھونٹ لینے کہ بعد یکدم ہی یزان کی طرف مگ بڑھاتے ہوۓ پوچھنے لگی منال نے محبت سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔۔
"نہیں لیکن تم جلدی سے اسے ختم کرو۔۔۔یزان جسے دودھ پسند نہیں تھا اسے کہتا جانے لگا کہ منحہ تیزی سے اسکے پیچھے بڑھی تھی۔۔
"منحہ کہاں جا رہی ہو بچے ماما نے منع کیا ہے نہ کمرے سے باہر نہیں جانا۔۔شاباش آجاؤ دیکھو گڑیا اکیلی ہے۔۔۔منال بیگم کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا منحہ کی نظر گڑیا کی طرف اٹھی تھی جبکہ یزان کی نظر منحہ پر۔۔۔
"چاچی۔۔۔آپ کیوں روک رہی ہیں اسے آنے دیں اس طرح بند کمرے میں اکیلے رہنے سے وہ تنہائی پسند ہونے کہ ساتھ اپنی خود اعتمادی کھو دے گی۔۔کیا آپ چاہتی ہیں وہ زندگی بھر کمرے میں بند ایک بے جان گڑیا سے کھیلتی رہے۔۔۔
"بیٹا ایسا کچھ نہیں ہے میری بچی بہت معصوم ہے بالکل بچہ دماغ ہے۔۔۔کمرے سے نکلتے ہی سارے گھر میں اچھلتی کھودتی رہتی ہے۔۔میں یہ بھی جانتی ہوں کوئی مار یا ڈانٹ بھی دے گا تو زبان چڑا کر کمرے میں آتے ہی سو جاتی ہے۔.۔۔منال دکھ سے کہتیں اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں جو گڑیا کو اٹھا کر بیڈ پر جا کر لیٹ گئی تھی۔۔
دروازے کی آواز پر منال بیگم نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔یزان جا چکا تھا۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میرال آپی کتنے ہینڈسم ہیں نہ یزان بھائی۔۔۔ڈائننگ ٹیبل کہ گرد بیٹھے سب کھانا کھا رہے تھے میرال اور بسمہ عین یزان کہ مقابل بیٹھی تھیں جب بسمہ نے اپنی بہن کہ کان میں سرگوشی کی تھی میرال نے ناک چڑھا کر جیسے ہی یزان کو دیکھا اسکی آنکھیں چمکی تھیں۔۔
"ہمم واقعی اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن بہت اکڑو ہے ۔۔
"آپ کو کیسے پتہ؟
"میرال بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے مسٹر جب سے آیا ہے سلام دعا کہ علاوہ کوئی بات ہی نہیں کی ہے ایک اس کی بہن ہے کیسے خوش اخلاقی سے مل رہی ہے۔۔ہوہنہہ یہ خود کو پتہ نہیں کیا سمجھ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ہینڈسم بندے میرے دوست ہیں۔۔
"جلنے کی بھی حد ہوتی ہے تمھارے دوستوں کو میں نے دیکھا ہے داور صاحب۔۔۔۔ہاشم اسکی بات اچکتا تپاتے ہوۓ بولا کہ داور نے گھورتے ہوئے چمچ اسکے ہاتھ پر مارا تھا۔۔
"کیا ہوگیا ہے داور؟ بی جان کی آواز پر سب نے انھیں دیکھا تھا جبکہ داور کی نظر یزان کی جانب اٹھی تھی جو ہنوز سنجیدگی سے کھانے میں مصروف تھا۔۔
۔۔۔۔۔
صبح کہ چھ بجے کا وقت تھا ایسے میں منحہ جمائی لیتی دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر آنکھوں پر مسلتی اٹھ کر باتھ روم کی سمت بڑھ گئی۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ ڈریسنگ ٹیبل کہ سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش کرنے کہ بعد ٹیڑی میڑی ڈھیلی سی پونی باندھ کر دوپٹے کو گلے میں ڈال کر اپنی ماں کو دیکھنے لگی جو دوسری طرف رخ کیے سو رہی تھیں منحہ آگے بڑھ کر مسکرا کر انکے چہرے کو دیکھتی تیزی سے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر بھر میں خاموشی کا راج تھا
منحہ اردگرد دیکھتی کچن میں داخل ہوتی برنر کہ پاس جا کر کھڑے ہوکر اسے دیکھتی لب کچلنے لگی پھر فریج کے پاس جا کر اسے کھول کر جائزہ لینے لگی سامنے ہی دودھ کی تھیلی دیکھ کر منحہ کا چہرہ کھل سا گیا تھا ۔۔۔ماما بھی ہمیشہ یہی تھیلی نکالتی تھیں۔۔۔
جلدی سے دونوں ہاتھوں سے تھیلی نکال کر اس نے دروازہ بند کیا ہی تھا کہ تھیلی اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر کِچن کہ فرش پر گرتے ہی پھٹ گئی تھی
"او۔۔۔۔منحہ نے صدمے سے فرش پر پھیلے دودھ کو دیکھتے جیسے ہی پنجوں کہ بل بیٹھ کر ہاتھ دودھ کی سمت بڑھایا کسی نے تیزی سے اسکے ہاتھ کو پکڑ کر روکا۔۔
"منحہ یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔۔یزان کی آواز پر اس نے تیزی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔۔یزان صبح سویرے ہی اٹھ کر جوگنگ کرنے کا عادی تھا۔۔۔
دونوں کی نظریں ملتے ہی یزان نظریں چراتا اسے وہاں سے ہٹا کر کچن میں ہی رکھی میز کہ گرد کرسی پر بیٹھا کر فرش کو دیکھتا اطراف میں دیکھنے لگا۔۔
"یزان بھائی بھوک لگی ہے۔۔۔۔منحہ منہ پھولا کر اسے بتانے لگی جو فرش صاف کرنے کہ لئے کپڑا ڈھونڈ رہا تھا۔۔
منحہ اٹھ کر اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔
"منحہ واپس جا کر بیٹھو۔۔۔
"منحہ کو بھوک لگ رہی ہے یزان بھائی کیا میں یہ کھا لوں؟ منحہ کی بات پر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا تھا جو ہاتھ میں انڈا اٹھا کر کھڑی تھی۔۔یزان نے تیزی سے اسکے ہاتھ سے انڈا جھپٹا تھا۔۔۔
منال روز ناشتے میں اسے یہی دیتی تھیں دونوں ماں بیٹی سب کہ اٹھنے سے پہلے ہی کچن میں ناشتہ کر لیتی تھیں۔۔
"واپس دیں۔۔۔
"میں بنا دیتا ہوں تم جاؤ شاباش کرسی پر بیٹھو۔۔۔
"نہیں وہ گندی ہے۔۔
"منحہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔جاکر بیٹھو۔۔۔یزان کہ سنجیدگی سے کہنے پر منحہ نظریں جھکا کر واپس کرسی پر بیٹھ کر یزان کو دیکھنے لگی۔۔۔
یزان درانی جو ہر جگ ہی اکڑو اور کھڑوس مشہور تھا خود سے نو سال چھوٹی منحہ دراب کہ ہاتھوں صبح ہی صبح گھن چکر بن گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان بھائی میں بھی کروں۔۔۔۔منحہ کہتے ساتھ اٹھ کر برنر کہ پاس آئی تھی وہ جو فرش صاف کرنے کہ بعد اب انڈا بنانے کی تیاری کر رہا تھا آواز پر اسے دیکھنے لگا جو قد میں اسکے سینے تک بھی نہیں تھی ۔۔
"منحہ کی گڑیا کہاں ہے؟ یزان بہانے سے اسے وہاں سے ہٹانے کہ گرز سے پوچھنے لگا۔۔
"گڑیا کے سر میں درد ہے نہ اسلئے وہ ماما کہ ساتھ سو رہی ہے۔۔۔منحہ بار بار ایڑیاں اٹھا کر اونچی ہو کر یزان کو بتانے کہ ساتھ اسکے کندھے کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔
یزان جو اسی کو دیکھ رہا تھا منحہ کے بازو کو پکڑ کر اسے روکا۔۔
"منحہ کیا دیکھ رہی ہو؟
"کک کچھ بھی نہیں۔۔۔منحہ نے ایک بار پھر چور نظروں سے اسکے کندھے کو دیکھ کر سر نفی میں ہلایا تھا۔۔
"ٹھیک ہے مت بتاؤ پھر میں میرال سے دوستی کرلوں گا۔۔یزان نے جان بوجھ کر میرال کا نام لیا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کے انجانے میں کتنی سنگین غلطی کر چکا تھا اگلے ہی لمحے منحہ نے اسٹینڈ سے گلاس اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔۔یزان ششدر سا اسے دیکھنے لگا جو بڑبڑانے کہ ساتھ ایک اور گلاس اٹھا کر نیچے پھینکنے والی تھی کہ منال جو اسے ڈھونڈھتی وہیں آرہی تھیں تیزی سے اسکی طرف بڑھی تھیں۔۔
"منحہ میری جان۔۔۔منحہ کیا ہوا۔۔۔منال نے جلدی سے اسے پکڑا تھا جو یزان کو خود سے ہٹاتی چیخنے کہ ساتھ زاروقطار رورہی تھی۔۔
"منحہ ۔۔یزان نے اسے ہاتھ لگانا چاہا جو بے قابو ہوتی اس سے پیچھے ہٹ رہی تھی۔
"یزان بیٹا تمھارے چاچو کمرے میں ہیں انھیں بلاؤ جا کر۔۔۔
ؓمنحہ کو زبردستی پکڑ کر وہ یزان سے بولیں جو تیزی سے وہاں سے گیا تھا۔۔
"منحہ ماما کی جان کیا ہوا۔۔۔منال اسے سینے سے لَگاتیں لاؤنج میں آئیں تھیں جو سینے سے لگی روتی ہوئی سرگوشی کر رہی تھی۔
"ماما یزان بھائی منحہ کے دوست ہیں ناں وہ میرال آپی کہ دوست نہیں ہیں وہ منحہ کے دوست ہِیں۔۔۔وہ منحہ کے ہیں۔
"ہاں میری جان یزان بھائی صرف منحہ کے دوست ہیں۔۔منال اسے ساتھ لگائے ہی سوفے پر بیٹھی تھیں کہ بی جان بھی وہاں آکر اس پر دم کرنے لگیں
دیکھتے ہی دیکھتے شور کی آواز پر سب وہیں آگئے تھے منال نے نم ہوتی آنکھوں سے یزان کی جانب دیکھا تھا جسکے پاس میرال آکر کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
یزان کی نظریں منحہ پر تھیں جو روتے روتے سو گئی تھی لیکن نیند میں بھی وہ بڑبڑا رہی تھی۔۔
"پھر دورہ پڑا ہے اسے۔۔۔داور اپنی نیند خراب ہونے کی وجہ سے چڑ کر اسے دیکھتے ہوۓ بسمہ سے بولا۔۔
"کیا اسے دورے پڑتے ہیں؟ ہالہ نے حیرت سے اس سے پوچھا۔۔
"ہاں جب اسے کوئی بات شدید ناگوار گزرے یا پھر وہ جسے یہ اپنی ملکیت سمجھنے لگے۔۔
"بیچاری۔۔۔ویسے ابھی تو یہ چھوٹی ہے بڑی ہو کر کیا کرے گی۔۔ہالہ داور کی بات سن کر آنکھیں گھما کر بولی۔۔
"ہاہاہا! اگر ایسا ہی رہا تو پاگل خانے جاۓ گی اور کیا۔۔۔داور ہنستے ہوۓ کہتا اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔۔
دراب صاحب نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا لیا تھا۔
"معافی چاہتا ہوں آپ سب کی نیند خراب ہوگئی۔
"کیسی بات کر رہے ہو دراب۔۔یہ صرف تمہاری بچی نہیں ہے ہماری بھی کچھ ہے خبردار آئیندہ یہ بات کی تو۔۔۔درانی صاحب نے یکدم ہی انھیں جھڑکا تھا۔۔باقی سب جیسے بھی ہوں لیکن بھائیوں میں محبت مثالی تھی۔۔۔۔
دراب صاحب پھیکا سا مسکراتے منحہ کو اٹھائے منال کہ ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے۔۔
"منال اچانک ایسا کیا ہوا تھا جو منحہ اس قدر آپے سے باہر ہوگئی ۔۔دراب صاحب منحہ کہ پاس ہی بیٹھے پریشانی سے پوچھنے لگے۔۔
"بھوک کی وجہ سے شاید۔۔۔.
"یہ کیا کہہ رہی ہو؟ ہماری منحہ بھوک میں تو بالکل خاموش ہوجاتی ہے منال۔۔۔دراب صاحب کو انکی بات پر ذرا برابر یقین نہیں آیا تھا'یقین تو منال بیگم کو خود بھی نہیں تھا لیکن جس بات کا انھیں احساس ہوگیا تھا وہ سوائے یزان کہ کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہیں کر سکتی تھیں ایک ہی دن میں اگر منحہ کی یہ حالت ہوسکتی ہے تو آگے۔۔۔۔نہیں آگے تو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھیں۔۔
"منحہ پاپا کی شہزادی۔۔۔۔منال جب تک میں گھر پر نہ ہوں تم پلیز اسکے ساتھ رہا کرو۔۔۔دراب صاحب نے اپنی بیٹی کو پیار کرتے بھاری ہوتی آواز میں انہیں کہا تھا۔
"آپ فکر مت کریں میں خیال رکھوں گی اسکا۔۔۔منال بیگم نے آگے بڑھ کر انکے مضبوط کندھے ہاتھ رکھا تھا جن کی نظریں اپنی بیٹی پر جمی تھیں جہاں سفید گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں واضح تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان تم کہاں تھے جب یہ ہوا؟ نور بیگم اسکے پیچھے آتے ہوۓ پوچھنے لگیں کیونکہ وہ جب وہاں آئیں تھیں تو ان چاروں کہ علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
یزان نے انکی بات پر گہری سانس لی تھی۔۔
"امی مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔
"یزان تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔نور بیگم نے سخت لہجے میں اسکی پشت کو گھورتے ہوۓ کہا تھا۔۔
"اگر میں وہاں تھا بھی تو اس میں کون سی انہونی والی بات ہے امی؟ یزان سپاٹ لہجے میں کہتا کپڑے لے کر باتھروم چلا گیا تھا۔۔
"دیکھا تائی جان۔۔۔،میرال جو کمرے کہ باہر کھڑی تھی کمر پر ہاتھ رکھتی نور بیگم کے قریب آئی۔۔
"کل آپ کہ کہنے پر میں بلانے گئی تھی پہلی بار اس پاگل کہ کمرے میں لیکن الٹا مجھے ہی ڈانٹ دیا تھا۔۔۔میرال لاڈ سے نور بیگم کہ کندھے پر سر رکھتے ہوئے بولی
"ارے کوئی بات نہیں سویٹی اسکی بات کا برا مت ماننا یزان دل کا برا نہیں ہے بس ہر کسی سے بے تکلف ہونا پسند نہیں ہے اسے
"ہمم سمجھ گئی۔۔میرال مصنوعی مسکراہٹ سے کہہ کر انکے ساتھ ہی کمرے سے نکل گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یزان نہا کر جینس اور ٹی شرٹ میں ملبوس بالوں کو سیٹ کرنے کہ بعد پرفیوم چھڑکتا پیروں میں شوز پہن کر کمرے سے نکل کر منحہ کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا جب منال بیگم کی آواز پر چونک کر رکتا انھیں دیکھنے لگا۔۔۔
"بیٹا کہاں جا رہے ہو؟
"وہ منحہ۔۔۔
"منحہ کی جب بھی ایسی کنڈیشن ہوتی ہے بیٹا وہ تین چار گھنٹے سے پہلے نہیں جاگتی اور جاگنے کہ بعد وہ بالکل نارمل ہوجاتی ہے۔۔۔منال بیگم نے اسکی بات اچک کر سنجیدگی سے بتایا تھا۔
"ٹھیک ہے لیکن وہ بھوکی تھی چاچی۔۔۔کیا کبھی آپ نے اسے اٹھانے کی کوشش کی ہے؟ یزان کے سنجیدگی سے پوچھنے پر وہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔۔۔دل انجانے ڈر سے دھڑکنے لگا۔۔یزان کی ہمدردی انکی بیٹی کی زندگی کو کوئی نقصان ناں پہنچا دے۔۔
یزان کوئی جواب نہ پا کر خود ہی آگے بڑھنے لگا کہ منال بیگم سر جھٹک کر تیزی سے اسکے پیچھے بڑھی تھیں۔۔۔
"یزان بیٹا اس سے مت ملو تو سب کہ لئے بہتر ہے اس سے بھی زیادہ منحہ کے لئے اچھا ہے ۔۔منال بیگم کی بات پر اسکے قدم رکے تھے۔۔۔
گردن موڑ کر اس نے تعجب سے انھیں دیکھا تھا جو اسکے مقابل آئیں تھی۔
"میری بیٹی نارمل نہیں ہے یزان وہ دوسرے بچوں جیسی نہیں ہے۔۔۔تم لوگ ایک ڈیڑھ مہینے کہ لئے پاکستان آئے ہو ایسے میں تمہارا بار بار ملنا۔۔۔تمہیں نہیں لیکن اسے عادی بنا دے گا۔۔۔جانتے ہو سینے سے لگی اپنے ہوش میں نہ ہوتے ہوۓ بھی وہ مجھ سے تمہاری شکایت لگا رہی تھی کہ یزان بھائی صرف اسکے دوست ہیں۔۔اس لئے بہتر ہے جب تک یہاں ہو اس سے مت ملو بیٹا پلیز۔۔۔۔منال یزان کہ بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے بول کر وہاں سے چلی گئیں جبکہ یزان دم سادے جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"یار یزان ہمارے ساتھ بھی بیٹھ کر باتیں کرلو یا پاکستان آنا پسند نہیں آیا تمہیں؟ شام کا وقت تھا ایسے میں سب گھر کہ چھوٹے سے لان میں موجود چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
داور کے طنز پر یزان نے اسے دیکھ کر دوبارہ کپ کو میز پر رکھا تھا جبکہ ہانیہ بیگم نے گھور کر اپنے بیٹے کو دیکھا تھا۔۔۔
"لگتا ہے تمہاری نظر خراب ہے ورنہ یزان درانی بلی کا بچہ ہرگز نہیں ہے کیوں بلال بھائی۔۔لطیف سا طنز کرتا وہ اسے لاجواب کر گیا تھا جبکہ اسکی بات پر سب کہ چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔۔۔
"رہا سوال پاکستان کے پسند کا تو میرا پہلا عشق پاکستان ہے بیشک کینیڈا میں رہا ہوں لیکن میری پیدائش اور پہچان پاکستان ہے۔۔۔مجھے فخر بھی ہے اور اللّه کا شکر بھی کہ میں ایک پاکستانی ہونے کہ ساتھ مسلمان اور نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا اُمتی ہوں شکر الحمدلللہ۔۔یزان بات مکمل کرتا دوبارہ کپ کو اٹھاتا لبوں سے لگا چکا تھا جبکہ داور لب کچلتا پہلو بدل کر رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کیسی طبیعت ہے بچہ؟ بی جان منحہ کہ بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوۓ پوچھنے لگیں جو انکی گود میں سر رکھ کر لیٹی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔
"دیکھو تو ماما منحہ کہ لیے فرنچ فرائز بنا کر لائی ہیں۔منحہ کو پسند ہے ناں
منال بیگم ہاتھ میں ٹرے پکڑے اندر داخل ہوتے ہوۓ بولیں تھی جو دروازہ کھلنے پر منال بیگم کہ پیچھے دیکھنے لگی شاید وہ آیا ہو لیکن منال بیگم کے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہوچکا تھا۔۔
"ماما یزان بھائی؟ منحہ کی چہخنے سے آواز بیٹھ گئی تھی۔۔۔
منال بیگم نے ایک نظر بی جان کو دیکھا پھر اسے جسکی آنکھیں رونے سے سوجی ہوئی تھیں۔۔۔
"منحہ یزان بھائی کو اچانک گھر جانا پڑا اسلئے کینیڈا واپس چلے گئے ہیں۔۔منال بیگم نظریں چرا کر اس سے جھوٹ بولتیں سامنے آکر بیٹھی تھیں بی جان جنھیں منال نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا اپنی بہو کو دیکھ کر رہ گئیں۔۔
منحہ کی آنکھیں لبالب نمکین پانی سے بھر گئی تھیں۔۔
منال بیگم نے تیزی سے اسے سینے سے لگا کر کمر سہلانا شروع کی تھی۔
"ماما و وہ منحہ سے ناراض ہوگئے۔۔منحہ نے ان پر غصہ کیا تھا اس اسلیے وہ چلے گئے۔۔منحہ اچھی نہیں ہے۔۔۔منحہ گندی ہے۔۔۔منحہ گندی ہے۔۔۔منال بیگم کے سینے سے لگی وہ ایک بار پھر رو رہی تھی منال بیگم نے زور سے اسے بھینج لیا تھا بے آواز آنسوں آنکھوں سے بہتے منحہ کے سر پر گر رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان۔۔۔۔۔۔میرال کی آواز پر وہ جو کمرے کی سمت بڑھ رہا تھا آواز پر اسکی جانب متوجہ ہوا جو نک سک سی تیار اسکے قریب آئی تھی یکدم یزان کی سماعتوں میں منحہ کا رونا تڑپنا گونجتے ہی اسکا اظراب بڑھنے لگا تھا صبح سے اس نے ایک بار بھی منحہ کو نہیں دیکھا تھا اور اب منال بیگم نے اس پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ اسکے سامنے نہ آئے
"وہ میں آپ سے معافی مانگنے آئی تھی کل جو ہوا اسکے لئے۔۔میرال کی بات پر اس نے گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا ۔۔
"اوکے۔۔۔یزان کہتے ہی جانے لگا کہ میرال دوبارہ اسکے سامنے آئی تھی۔۔
"میں واقعی شرمندہ ہوں میں منحہ سے بھی معافی مانگ لوں گی۔۔۔میرال نے کہتے ساتھ اپنا ہاتھ اسکے سامنے بڑھایا تھا۔
"اگر معاف کردیا تو پھر دوستی کریں آخر کو ہم کزنز بھی ہیں۔۔میرال کی بات پر اس نے میرال کا ہاتھ دیکھا تھا۔۔
"ہم کزنز ہیں تو پھر دوستی کی کیا ضرورت ہے کزنز کا دوسرا نام دوست ہی تو ہے لیکن شاید تم ٹھیک ہو کیونکہ سب کہ کزنز کزنز ہونے کا فرض نہیں جانتے ہیں۔۔۔سرد مہری سے کہتا وہ آگے بڑھ گیا تھا جبکہ میرال غصّے سے اسے گھورتی چلی گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ درانی؟ ہرگز نہیں میں یہاں نہیں رہ سکتی۔۔
"اس میں قباحت ہی کیا ہے نور۔۔
"یہ پوچھیں کیا نہیں ہے۔۔نور بیگم نے گھورتے ہوۓ انھیں کہا۔۔۔
"اچھا کیا نہیں ہے؟
"دیکھیں میں قطعی مذاق کہ موڈ میں نہیں ہوں ناں ہی آپکی بات مانوں گی۔۔
"آہ۔۔۔۔نور ٹھنڈے دماغ سے سوچو میرے کاروبار میں نقصان ہورہا ہے بہت، اسلئے میں نے فیصلہ کیا ہے کینیڈا میں اپنا گھر بیچ کر ہم یہیں اپنے ملک اپنے شہرِ کراچی میں اچھا سا گھر لے لیں گے اس سے ہم اپنوں کہ قریب بھی رہیں گے پلیز میرے لئے۔۔۔درانی صاحب نے انکے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بے بسی سے کہا کہ وہ سوچ میں پڑھ گئیں۔
"آہ! آپ میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔۔
"اسے فائدہ اٹھانا نہیں کہتے بیگم۔۔
"اففف۔۔۔ٹھیک ہے لیکن میں اپنے گھر جاؤں گی تب تک آپ بھی واپس آجائیے گا۔۔۔
"صحیح ہے پھر میں اگلے ہفتے ہی نکلتا ہوں۔۔تھنک یو۔۔۔درانی صاحب سر ہلا کر مسکراتے ہوۓ انھیں اپنے گلے سے لگا چکے تھے۔۔
"گڑیا تم بہت بری ہو۔۔۔۔تمہاری وجہ سے یزان بھائی چلے گئے۔۔۔منحہ کہ یزان بھائی چلے گئے۔۔۔۔رات کہ ڈیڑھ بجے کا وقت تھا جب منحہ دبے قدموں چلتی ہوئی الماری کا دروازہ کھول کر سب سے نیچے کہ خالی خانے میں جا کر ٹانگوں کو موڑ کر خود سے لگا کر بیٹھتے ہوۓ گڑیا سے کہہ رہی تھی۔
"اب منحہ بھی تم سے ہمیشہ کہ لئے ناراض ہے۔۔تم بہت بری ہو۔۔بہت گندی ہو۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ اسے توڑنا شروع کیا تھا۔۔گڑیا کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ توڑ کر الماری سے باہر پھینک کر گڑیا کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگی۔۔
(ٹھیک ہے مت بتاؤ پھر میں میرال سے دوستی کرلوں گا) یزان کی بات یاد آتے ہی اسکی آنکھوں میں جنون اتر آیا منحہ نے گڑیا کی گردن کو توڑ کر پھینکنے کہ ساتھ دھڑ کو بھی باہر ہی پھینکتے دونوں گٹھنوں کو سینے سے لگا کر سمیٹ کر بیٹھتی اپنی گڑیا کے ہر حصے کو بکھرا دیکھتی رہی یہاں تک کہ آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پر پھسلتے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔
"تم بہت بری ہو گڑیا۔۔اب کون بات کرے گا مجھ سے۔۔منحہ نے کہتے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے آنسوں پونچھے تھے۔۔۔
"منحہ کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا۔۔منحہ کہتے ساتھ گیلی سانس اندر کھینچتے سر اپنے گھٹنوں میں رکھ کر بڑبڑائے جا رہی تھی یہاں تک کہ منحہ وہیں بیٹھے بیٹھے سو چکی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزان ایک گھنٹے سے سونے کی کوشش کرتا کروٹ پے کروٹ بدل رہا تھا لیکن نیند تھی جو آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔۔
بے چینی جب حد سے سوا ہوئی تھی خود پر سے چادر اتار کر بیڈ سے اتر کر کمرے کا دروازہ کھول کر اطراف کا جائزہ لینے لگا۔۔پورے گھر میں سناتا پھیلا ہوا تھا سوائے لاؤنج کہ دروازے پے جہاں ایک بلب روشن تھا جو کچن تک ہلکی روشنی پھیلا رہا تھا۔۔۔
"کیا مصیبت ہے آخر کیوں اتنی بے چینی ہے۔۔۔۔یزان جھنجھلا کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا کمرے کا دروازہ بند کر کے چھت کہ زینے کی جانب بڑھنے لگا جب دروازہ کھلنے اور قدموں کی آواز پر یزان نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا جہاں سے منال بیگم بدحواس سی اردگرد دیکھتیں دوسرے کمرے کی جانب بڑھنے لگیں کہ یزان تیزی سے ان کی طرف بڑھا تھا۔۔
منال بیگم کا کمرہ کھولتا ہاتھ بیچ میں ہی رہ گیا تھا۔
"چاچی کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟ یزان کی آواز پر وہ جھٹکے سے اسکی طرف پلٹی تھیں۔۔
"وہ۔۔۔۔وہ بیٹا.۔۔
"منحہ ٹھیک ہے۔۔۔منال بیگم کہ ہچکچانے پر یزان نے کچھ جھجھک کر ان سے پوچھا تھا جو اسکے سوال پر گہری سانس لیتے سر کو نفی میں ہلانے لگیں۔۔۔
"میرے ساتھ ہی کافی گہری نیند میں سو رہی تھی وہ تو اچانک باتھروم جانے کہ لئے اٹھی تو بستر خالی تھا دیکھنے کہ لئے اٹھی تو اسکی گڑیا کہ حصے جگہ جگہ بکھرے تھے اور الماری کا دروازہ کھلا۔۔۔۔اسے بتاتے ہوۓ یکدم ٹھٹھک کر خاموش ہوئی تھیں۔۔دونوں ہی اپنی جگہ ایک جگہ آکر ٹھٹھک گئے تھے اور اگلے ہی لمحے یزان تیزی سے بھاگا تھا۔۔۔
"منحہ۔۔۔منال بیگم کہ رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔۔جانے منحہ کب سے۔۔۔منال بیگم نے سر جھٹکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یزان کمرے میں آتے ہی الماری کے ہر پٹ کھولنے لگا جب تیسرے پٹ کے کھولتے ہی آواز پر نیچے جھکا تھا سامنے ہی وہ خود میں سمٹی بیٹھی تھی۔۔۔۔منحہ جو سوچکی تھی یکدم دروازہ کھلنے پر نیند میں ہی زور سے سانس لی تھی۔۔۔
"منحہ۔۔۔۔یزان حیرت زدہ سا اسے دیکھتا وہاں سے نکال کر بیڈ تک لایا تھا جبکہ منال بیگم ساکت کھڑی اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔پہلی بار انھیں منحہ سے خوف آیا تھا۔
۔۔
یزان نے اسے لٹاتے ہی منحہ کی پشانی کو چھوا تھا جو بخار کی وجہ سے تپ رہی تھی۔۔
"چاچی اسے تو بہت تیز بخار ہورہا ہے۔۔یزان کی آواز پر جیسے وہ ہوش میں آئی تھِیں۔۔
"منحہ یہ کیا کردیا بیٹی۔۔منال بیگم منحہ کے سرہانے بیٹھتے ہوۓ نڈھال آواز میں استفسار کرنے لگیں۔۔
"چاچی اگر آپ کہیں تو ہم ہسپتال چلتے ہیں۔۔
"نہیں میں ابھی دوائی دے دیتی ہوں ان شاءلله کل تک ٹھیک ہوجاۓ گی۔۔منال بیگم کہ قطعیت سے کہنے پر وہ لب بھینچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔
"تمہارا بہت شکریہ بیٹا۔۔۔یہ بھی اللّه کا شکر ہے کہ میں جاگ گئی تھی اگر سوتی رہتی تو۔۔
"چاچی جو نہیں ہوا اسے سوچ کر خود کو تکلیف دینے سے کیا فائدہ ہے؟ اگر دوائی سے فرق نہ پڑے تو ہم ہسپتال بھی جا سکتے ہیں۔۔آپ بے جھجھک مجھے آکر جگہ دیجئے گا ۔۔
"تمہارا بہت شکریہ بیٹا میں منحہ کے ابو کو جگادوں گی ویسے بھی پہلی بار پاکستان آئے ہو جگہوں سے ناواقف ہوگے۔۔منال بیگم کی بات پر یزان مدھم سا مسکرایا تھا۔۔
"ٹھیک ہے جیسے آپ کو بہتر لگے۔۔یزان انہیں یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ گوگل میپ کہ ذریعے بآاسانی کہیں بھی جا سکتا تھا وہ سمجھ گیا تھا منال بیگم نہیں چاہتی تھیں کہ منحہ اسے دیکھ لے۔
یزان مسکرا کر ایک نظر دوبارہ اسے دیکھتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دو دن گزر چکے تھے منحہ کی طبیعت اب جا کر سمبھلی تھی۔۔۔
یزان نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا ایسے میں میرال اس سے بات چیت کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی تھی بسمہ اپنی بہن کو دیکھ کر حیران تھی وہ جو گھر کہ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھی کالج جا کر ہی سب پر احسان عظیم کرتی تھی اب بڑھ چڑھ کر کاموں میں ہاتھ بٹا رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ گرج چمک کہ ساتھ بارش کا امکان تھا یہی وجہ تھی کہ صبح سے ہی موسم بہت ہی ابرِ آلود تھا۔۔
لاؤنج میں ہی سب بیٹھے تھے جب یزان نے ہاشم کو منحہ کے کمرے کی طرف بڑھتے دیکھا۔۔۔
"یزان پکوڑے۔۔۔۔میرال کی آواز پر اس نے سر جھٹکا تھا۔۔
"شکریہ۔۔۔میرال کے ہاتھ سے پلیٹ لیتے اس نے دوبارہ ترچھی نظروں سے ادھر دیکھا تھا شاید منحہ کمرے سے باہر نکل آئے لیکن یہ اسکی بھول تھی۔۔
"ؓبرو کہیں گھومنے جانے کا پروگرام بنائیں؟
"مثلا کہاں؟ یزان نے ہالہ کی آواز پر چونک کر اسے دیکھ کر آبرو اچکائی۔۔۔
"بیچ پر چلتے ہیں؟
"کوئی ضرورت نہیں ہے میرا سارا رنگ جل جاۓ گا۔۔میرال نے یکدم ہی بسمہ کو ٹوکا تھا۔۔
"اچھا تو پھر مووی دیکھنے چلتے ہیں نیوپلیکس پھر وہاں سے ڈنر۔۔۔
"نہیں مجھے موویز باہر جا کر دیکھنا پسند نہیں ہے اگر تم لوگ دیکھنا چاہتے ہو تو جا سکتے ہو۔۔۔۔یزان نے یکدم ہی داور کی بات کو رد کیا تھا۔۔
"پہلی ہار سن رہا ہوں میں یہ عجیب بات ہے۔۔
"اس میں عجیب کیا ہے؟ بڑی سی اسکرین ،اے سی کی ٹھنڈک گہرا اندھیرا ہاتھ میں پاپ کارن اور ڈرنک؟ یہ ماحول تو گھر میں بھی ہوسکتا ہے۔۔یزان مزے سے کہتا کندھے اچکاتا پکوڑے کھانے لگا جبکہ سب اسے دیکھتے چلے گئے۔۔
"آدم بیزار شخص۔۔۔۔میرال سوچ کر رہ گئی۔۔
"ٹھیک ہے پھر ایک کام کرتے ہیں لونگ ڈرائیور پر چلتے ہیں ڈنر کہ بعد پھر آئسکریم۔۔۔کیا کہتے ہیں؟
میرال نے بتاتے ساتھ یزان کو دیکھا جو ہاشم کو آتے دیکھ کر پہلو بدل کر رہ گیا تھا۔۔
"یزان۔۔۔۔
"ہمم ہاں ٹھیک ہے۔۔۔۔یزان نے چونک کر اسے جواب دیا جسکی پیشانی پر بل نمودار ہوئے تھے۔۔
"کیا بات ہے یزان لگتا ہے آپ کا دیھان یہاں نہیں ہے۔۔۔
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔میں ذرا آتا ہوں۔۔۔یزان اسے جواب دے کر اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
کچن کی دہلیز پر روکتے ہی وہ الٹے قدموں لمبے لمبے ڈگ بھرتا منحہ کے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ا
۔۔۔۔۔۔۔
یزان نے جیسے ہی ہینڈل پر ہاتھ رکھا یکدم ہی لائٹ چلی گئی تھی۔۔
"بوندا باندی شروع نہیں ہوئی اور لائٹ بند۔۔۔۔ہاشم کی جھنجھلائی ہوئی آواز یزان کہ کانوں میں پڑی۔۔
سر جھٹک کر کمرے کا دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا تھا کہ منحہ کی سہمی ہوئی آواز اسکی سماعت میں پڑی اس سے قبل وہ آگے بڑھتا دروازہ کھول کر منال بیگم اندر داخل ہوئیں تھیں کہ یزان اندھیرے کا فائدہ اٹھاتا جلدی سے پردے کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔۔اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ ایسی بچکانہ حرکت کیوں کر رہا ہے وہ بس اتنا جانتا تھا کہ ایک بار وہ منحہ کو دیکھ لینا چاہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال بیگم نے جلدی سے آگے بڑھ کر دراز سے ایمرجنسی لائٹ نکال کر چلائی تھی کہ کمرہ روشن ہوگیا تھا یزان کی نظر بیڈ پر پڑی تھی جہاں منحہ لحاف میں دبک کر بیٹھی بے آواز آنسوں بہاتی بری طرح کانپ رہی تھی۔۔
"منحہ ماما کی جان ماما آپکے پاس ہیں۔۔۔
"ماما کہاں چلی گئی تھیں منحہ کو اندھیرے سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔
"ہاں میرا بچہ ماما کو معلوم ہے لیکن اب ماما پاس ہیں ناں آپکے پاس۔۔۔منال بیگم اسے خود سے لگائے ہوۓ تھیں جبکہ یزان یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"منال منحہ ٹھیک تو ہے؟ بی جان کی آواز پر منحہ نے انھیں دیکھا تھا جبکہ یزان لب بھینچ گیا۔۔
"منحہ کو باہر لے اؤ۔۔۔
"نہیں۔۔میرا مطلب میں ہوں اسکے پاس۔۔۔منال بیگم یکدم گڑبڑائی تھیں۔۔
"منال جو تم کر رہی ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔
"بی جان یہی بہتر ہے۔۔۔منال نے نظر چراتے ہوۓ منحہ کو دیکھا جو خفگی سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔
"دادی مجھے باہر جانا ہے۔۔۔منحہ نے منانا کر بی جان سے کہا۔۔
"ہاں کیوں نہیں میری جان آجاؤ باہر بارش بھی ہو رہی ہے۔۔
"سچی؟ منحہ بارش کا سنتے ہی بستر ہر کھڑی ہوئی تھی کہ یزان مسکرا دیا تھا۔۔
"بی جان ابھی ابھی تو بخار اترا ہے اسکا اللّه نہ کرے پھر چڑھ جاۓ گا۔۔
"منال کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ بہت ہوچکا۔۔۔آجاؤ منحہ۔۔بی جان انکے بار بار انکار پر جلال میں آئیں تھیں کہ منحہ نے سہم کر اپنی ماں کو دیکھا تھا۔
"دادی میں نہیں جا رہی۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ اپنی ماں کی گود میں سر رکھا تھا کہ منال بیگم نے نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔۔
"منال تم خود اپنی بچی کہ ساتھ ظلم کر رہی ہو۔۔
"بی جان۔۔۔منال نے دکھ سے انھیں دیکھا تھا۔
"بس منال مجھ سے ایک ہی بات بار بار مت دوہراؤ کہ وہ عادی ہوجاۓ گی کیا اسی ایک ڈر کی وجہ سے اسے کمرے میں قید کر کے رکھو گی تاکہ اسے دوسری بیماریاں گھیر لیں۔۔حد ہوتی ہے منال جس سے تم اسے چھپا رہی ہو وہ اب ہمیشہ کہ لئے یہیں رہنے والا ہے سمجھی۔۔۔بی جان غصّے میں انہیں کہتیں کمرے سے نکل گئیں۔
یزان جو پردے کے پیچھے چھپا تھا گہری سانس لیتا وہیں نیچے بیٹھ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما۔۔۔دادی نے غصہ کیا آپ پر؟ منحہ نے سر اٹھا کر منال سے پوچھا۔۔
"نہیں میری جان۔۔۔۔وہ شاید ٹھیک ہیں۔۔۔منال بیگم نے رندھی ہوئی آواز میں کہتے جھک کر اسکے سر پر پیار کیا تھا کہ یکدم ہی لائٹ آنے پر کمرہ روشنی میں نہا گیا تھا۔۔
منحہ نے تیزی سے اٹھ کر خوشی کہ اظہار پر تالیاں بجائی تھیں کہ منال بیگم اسے دیکھ کر ہنستی ہوئی ایمرجنسی لائٹ کو بند کرتی دراز میں رکھ کر اسے دیکھنے لگیں۔۔۔
یزان مسکراتے ہوۓ آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
"منحہ کسی کو تنگ نہیں کرنا ٹھیک ہے ناں؟ منال بیگم نے پیار سے اسکے بالوں کو ٹھیک کرتے ہوۓ کہا جس نے زور و شور سے سر کو اثباب میں ہلایا تھا۔۔
"ٹھیک ہے ماما منحہ کسی کو تنگ نہیں کرے گی۔۔۔منحہ کہ کہتے ہی منال بیگم کمرے سے نکلی تھی جبکہ منحہ جو جلدی سے اتر کر کمرے کہ دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ آواز پر ساکت ہوگئی۔۔
"منحہ۔۔
"یزان بھائی۔۔۔منحہ نے پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھا تھا جو اسکے مقابل کھڑا مسکرا رہا تھا۔
"منحہ۔۔
"یزان بھائی۔۔۔منحہ نے پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھا تھا جو اسکے مقابل کھڑا مسکرا رہا تھا..
"کیسی طبیعت ہے منحہ کی؟ یزان قدم قدم چلتا اسکے قریب آکر جھک کر منحہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگا جو ہنوز بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔۔یزان کہ سامنے کھڑی وہ بالکل بچی لگ رہی تھی۔۔
یزان نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ادھ کھلا منہ بند کیا تھا جبکہ منحہ اسکے لمس سے جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔۔
"یزان بھائی۔۔۔منحہ کی آواز کہ ساتھ ناک بھی سرخ ہونے لگی تھی کہ یزان کہ مسکراتے لب یکدم سکڑے تھے۔۔۔
"رونا مت۔۔۔
"نا نہیں رو رہی ۔۔منحہ نے روتے ہوۓ سر نفی میں ہلایا تھا۔۔
"سچ میں منحہ نہیں رو رہی ناں؟
"سچی مچی۔۔۔منحہ نے دونوں ہاتھوں سے آنسوں پونچھتے ہوۓ رندھی ہوئی آواز میں کہتے اسے دیکھا کہ پھر منحہ کی آنکھ سے آنسوں ٹوٹ کر گرا تھا جسے اس نے انگلی کے پوروں سے چنا تھا۔۔۔
"منحہ نے رونا بند نہیں کیا تو یزان ناراض ہوکر واپس چلا جاۓ گا۔۔۔۔یزان نے اسے دھمکی دی کہ منحہ نے سر کو زور زور سے نفی میں ہلاتے اسکے بازو کو جکڑ لیا تھا۔
"نہیں یزان بھائی۔۔۔میں نہیں رو رہی دیکھیں۔۔منحہ نے کہتے ساتھ ایک ہاتھ سے آنسوں پونچھے تھے۔
"منحہ کو چھوڑ کر مت جائِیں منحہ کا کوئی دوست نہیں ہے۔۔۔کوئی بھی نہیں کھیلاتا اور۔۔اور میرال آپی یوں بال کھینچتی ہیں ا اور بسمہ آپی میری چاکلیٹ چھین لیتی ہیں۔۔داور بھائی بھی ڈانٹتے رہتے ہیں اور ہاشم بھائی ڈراتے ہیں ا اور وہ بلال بھائی تو بات ہی نہیں کرتے۔۔ منحہ سب کا رویہ بتانے کے ساتھ اشارے کر کہ بھی سمجھا رہی تھی کہ یزان نے لبوں کو سختی سے بھینچ لیا۔
"ششش!! میں ہوں ناں منحہ کا دوست پھر دوسروں کی کیا ضرورت ہے۔۔۔شاباش اب رونا بند کرو۔۔۔۔یزان اسے بہلاتا کمرے سے باہر لے کر نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"ماما دیکھیں یزان بھائی آگئے۔۔۔۔۔منحہ کی چہکتی ہوئی آواز پر سب نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔۔۔میرال کی نظر اسکے ہاتھ پر پڑی تھی جس سے یزان کہ بازو کو پکڑا ہوا تھا۔۔۔
نور بیگم کہ ساتھ ہالہ نے بھی ناگواری سے منحہ کو یزان کہ ساتھ دیکھا تھا
کہاں انکا اتنا قابل بیٹا اور کہاں یہ چھٹانگ بھر کی ذہنی مریضہ۔۔۔تفاخر سے سوچتیں وہ اسے نحوست سے دیکھنے لگیں جو کھلے ہوۓ چہرے کہ ساتھ یزان سے سب کو ملواتی "یہ میرے پکے والے دوست ہیں" کہتی میرال کو زبان چڑا کر یزان کو لے کر باہر نکلی تھی میرال خونخوار نظروں سے اسے دیکھ کر سر جھٹک کر اٹھ کر باہر نکلی تھی کہ پیچھے ہی بسمہ اور ہالہ بھی بڑھی تھیں۔۔
"ارے بارش رک گئی۔۔۔منحہ نے دکھ سے کہتے سر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا تھا جبکہ یزان ہلکی سی مسکراہٹ کہ ساتھ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔چھوٹی سی معصوم چہرے والی منحہ میں جانے ایسا کیا تھا کہ وہ اسکی طرف کھچتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔
"یزان ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔۔۔میرال کی آواز پر دونوں نے چونک کر پیچھے دیکھا تھا جہاں اسکی بہن بھی کھڑی تھی۔
"ٹھیک ہے داور اور ہاشم کو بھی بلوا لو میں تب تک کپڑے بدل کر آتا ہوں۔۔
منحہ ناسمجھی سے کھڑی ان سب کو دیکھ رہی تھی جب یزان اس سے مخاطب ہوا تھا۔
"منحہ چلو تم بھی جا کر دوسری چپل پہن کر آؤ۔۔۔یزان مسکرا کر اسے کہتا اندر بڑھا تھا کہ وہ بھی اندر جانے لگی کہ ہالہ کے روکنے پر اسے دیکھنے لگی۔
"کہاں جا رہی ہو؟
"چپل پہننے۔۔۔منحہ نے اپنے مخصوص انداز میں ایڑیاں اٹھاتے ہوۓ بتایا۔۔
"کیا تمہیں سیدھا نہیں کھڑا ہونا آتا ؟
"سیدھی تو کھڑی ہوں۔۔۔منحہ نے اسکی بات پر اردگرد دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ بسمہ ہنس پڑی تھی۔۔
"ہممم تو پھر یہ بندروں کی طرح اچھل کیوں رہی ہو؟ ہاں اور تم۔۔۔۔ابھی اسکا جملہ منہ میں ہی تھا کہ یزان بلیک شرٹ کے آستیں کہنیوں تک چڑھاتا وہاں آیا تھا۔۔
"چلیں؟ ارے منحہ چپل نہیں بدلی۔۔۔یزان نے کہتے ساتھ جیسے ہی اسے دیکھا پوچھنے لگا منحہ نے ہالہ کو دیکھا جو اسے آنکھیں دکھا رہی تھی۔۔۔
"آپی نے روکا مجھے۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ دوبارہ کھڑے کھڑے اچھلنا شروع کردیا۔
"ہالہ کیا بات ہے؟
"نہیں برو کچھ بھی نہیں وہ تو میں اسے کہہ رہی تھی کہ سیدھی کھڑی ہو دیکھیں ابھی بھی کیا کر رہی ہے۔۔۔
"یزان بھائی میں سیدھی کھڑی ہوں دیکھیں۔۔منحہ نے اسکی بات سن کر یزان کو یقین دلانا چاہا تھا جو اسے دیکھتے ہی مسکرانے لگا تھا۔۔
"ہاں بالکل منحہ ٹھیک کہہ رہی ہے چلو تم لوگ بیٹھو میں آتا ہوں۔۔چلو منحہ۔۔۔۔یزان انھیں کہتا منحہ کو لے کر اندر بڑھ گیا۔۔
"ہونہہ! پاگل لڑکی۔۔۔میرال تلملا کر رہ گئی تھی۔۔
"مما کو بتانا پڑے گا۔۔۔۔ہالہ پُرسوچ انداز میں غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے کہتے سر جھٹک کر گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
یزان اس کے ساتھ کمرے میں آیا تھا منحہ چپل اتار کر دوسری چپل پہننے لگی جبکہ وہ کھڑا دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
منحہ چپل پہن کر ڈریسنگ ٹیبل پر دونوں ہتھیلیاں جماتی آئینے کہ بلکل نزدیک چہرہ لے جا کر دیکھنے لگی۔۔
"منحہ یہ کیا کر رہی ہو؟ یزان مسکراتے ہوۓ اسی کہ انداز میں کہنیاں ٹکا کر اسے دیکھنے لگا جس نے تیزی سے اسکی طرف چہرہ پھیرا تھا کہ وہ اسے اتنے نزدیک سے دیکھنے پر نظریں چرا گیا تھا۔
"آپی نے کہا میں بندر ہوں۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ دوبارہ آئینے میں دیکھتے ہوۓ اپنے چہرے کو چھوا تھا جبکہ یزان لب بھینچ گیا تھا۔۔۔
"منحہ ادھر دیکھو وہ مذاق کر رہی تھیں منحہ تو بہت پیاری ہے۔۔۔
"سچی۔۔۔منحہ اپنی تعریف سن کر دوبارہ اچھلتے ہوئے بولی تھی۔
"مچی۔۔۔۔چلو اب۔۔۔یزان اسکی ناک دباتا منحہ کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گھومنے پھرنے کے بعد وہ لوگ کولاچی(دو دریا) کھانا کھانے آئے تھے۔۔
ؓگاڑی سے اترتے ہی منحہ نے خوشی کہ اظہار پر اچھلتے ہوئے تالیاں پیٹنی شروع کردِیں تھی کے ہاشم نے آگے بڑھ کر اسکا بازو سختی سے پکڑ کر جھٹکا دیا تھا۔۔
"تمیز نہیں ہے جاہلوں والی حرکتیں مت کرو ورنہ گاڑی میں ہی بند کردوں گا۔۔
"یہ تو ہے ہی پاگل سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں بے عزتی کروانے لے آئے ہیں اسے۔ داور نے بھی ناک چڑھا کر کہا تھا کہ وہ جسکا چہرہ یہاں آتے ہی کھل گیا گیا تھا بری طرح سہم گئی تھی۔۔
یزان جو بلال کہ ساتھ دونوں گاڑیاں پارک کرنے گیا تھا دور سے چلتے ہوئے انکے قریب آئے۔
"کیا بات ہے چلو اندر یا یہیں کھڑے رہنا ہے۔۔بلال کی بات پر وہ سب آگے پیچھے چلنے لگے منحہ سہم کر انھیں دیکھتی وہ اب آہستہ آہستہ سر جھکا کر چلنے لگی جب اپنے برابر میں کسی کی موجودگی کہ احساس پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
"یزان بھائی۔۔۔یزان نے اسے دیکھا تھا۔۔
"تم ٹھیک ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ یزان اسکی بھیگی پلکیں دیکھتا ٹھٹک گیا تھا۔۔
"نہیں 'نہیں تو۔۔۔۔منحہ نے ڈر کر تیزی سے سر نفی میں ہلایا تھا کہ وہ اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔
میز کہ گرد بیٹھے سب باتوں میں مصروف تھے جب ہالہ بسمہ اور میرال کہ ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"ہالہ سیلفی لیتے ہیں ادھر کھڑے ہوکر۔۔۔
"ہاں یزان کو بھی بلا لو ویسے پھر پہلی بار آئے ہو۔۔۔بسمہ کی بات پر میرال نے بالوں کو آگے کرتے ہوۓ ہالہ سے کہا تھا۔۔
Bro plz come lets take a selfie...
ہالہ کی آواز پر وہ جو مینیو دیکھ رہا تھا چونک کر اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔
"تم لوگ لو میں ذرا آرڈر کر دوں۔۔۔یزان کہتے ساتھ منحہ کی طرف گھوما تھا جو مسکرا کر کرسی پر ہی بیٹھی گردن اونچی کر کے پانی کو دیکھ رہی تھی۔۔
"منحہ کیا کھاؤ گی؟ یزان اسے جواب دیتا منحہ سے بولا جو کھانے کا سن کر آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ میں پکڑے مینیو کارڈ پر دیکھنے لگی۔۔
میرال نے مٹھیاں بھینچ کر اسے دیکھا تھا جبکہ ہالہ نے بھی کافی ناگواری سے اسے دیکھا تھا یزان درانی جس پر گوریاں بھی اپنا دل ہار بیٹھتی تھیں جس سے بات کرنے کہ لئے وہ ہالہ سے دوستی کرتیں تھیں آج انہی کی بارہ سالہ دماغی مریضہ کزن کیسے اسکے ساتھ جڑ کر بیٹھی تھی اور اسکا بھائی۔۔۔
"جادوگرنی۔۔۔۔ہالہ سر جھٹک کر بڑبڑائی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہلکی پھلکی باتوں کے دوران سب کھانا کھا رہے تھے جبکہ منحہ جس نے یزان کی دیکھا دیکھی چکن منچورین ود رائس منگوا لیے تھے جسے وہ کھا کم چمچ سے شور زیادہ مچا رہی تھی۔۔
"منحہ تمیز سے نہیں کھا سکتی ہو۔۔میرال نے گھورتے ہوۓ اسے جھڑکا تھا۔۔
"آرام سے میرال۔۔۔۔یزان نے ہلکی آواز میں اسے کہا تھا۔۔
"یزان وہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔محفل کہ کچھ آداب ہوتے ہیں اپنے کمرے میں نہیں ہے یہ۔۔۔داور نے بھی جھٹ اسے کہا تھا ماحول میں یکدم ہی بدمزگی پھیلنے لگی تھی منحہ ہاتھ روکے گہری سنجیدگی سے سب کو دیکھ رہی تھی۔۔
منحہ کا بچہ دماغ ضرور تھا لیکن وہ سمجھدار تھی ہر کسی کا رویہ سمجھتی تھی۔۔
"داور یہ۔۔۔
"پلیز یار اب تم لوگ بحث شروع مت کردینا کتنے لوگ ہیں آس پاس۔۔۔بلال نے یکدم ہی یزان کو ٹوکتے ہوۓ ان سب سے کہا تھا۔۔
"منحہ گڑیا کھاؤ لیکن چمچ پلیٹ میں زور سے نہیں مارنا بری بات ہوتی ہے۔۔۔۔بلال نے منحہ سے کہا تھا جس نے سر ہلا کر بہت آہستہ سے اس بار چمچ پلیٹ پر رکھا تھا۔۔
یزان کا دل یکدم ہی ہر چیز سے اچاٹ ہوا تھا۔۔
"تم لوگ کھاؤ۔۔۔
"یزان یار اب تو بات ختم ہوچکی ہے۔۔۔۔ہاشم نے اسے روکتے ہوۓ کہا تھا۔
"بالکل ہوچکی ہے لیکن میں نے جتنا کھانا تھا کھا لیا ہے تم لوگ بھی کھانا ختم کر کہ آجانا میں گاڑی میں ہوں۔۔۔یزان سنجیدگی سے کہتا آگے بڑھ گیا تھا کہ منحہ بھی اٹھ کر تیزی سے پیچھے گئی تھی۔۔
ریسٹورنٹ میں رش تھا اس سے قبل وہ اس تک پہنچتی کسی لڑکی سے ٹکرا گئی۔۔۔
"اندھی ہو۔۔۔۔مقابل نے غصے میں اسے دھکا دیا تھا کہ یزان نے بھی رک کر پیچھے دیکھا۔۔
"منحہ۔۔۔یزان تیزی سے اسکی طرف بڑھا جو اسکے دھکا دینے پر رونے والی ہوگئی تھی۔۔
"تم ہوگی اندھی بلبٹوری ناسہ چوڑی کہیں کی تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی ہماری کزن کو دھکا دینے کی۔۔۔بسمہ نے تڑاخ کر اسے دھکا دیتے ہوۓ کہا تھا کہ سب ہنسنے لگے تھے۔۔
"یو۔۔۔
"چل چل یو کی بچی۔۔۔چلو منحہ ہونہہ چلتا پھرتا لنڈا بازار۔۔۔بسمہ سر تا پیر اسے دیکھ کر کہتی منحہ کو لیے کر آگے بڑھنے لگی جب اس لڑکی کہ ساتھ آیا لڑکا ان سے لڑنے پہنچ گیا تھا یزان سب کو دیکھ کر نفی میں سر ہلاتا منحہ کا ہاتھ پکڑ کر صدر دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ منحہ ڈری سہمی یزان کہ ساتھ گاڑی تک پہنچی تھی ۔
"یزان بھائی۔۔منحہ کی سہمی ہوئی آواز پر اس نے مسکرا کر منحہ کو دیکھا تھا۔۔
"فکر مت کرو اپنی عزت انسان کے خود کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔۔اب دیکھ لو پڑھے لکھے جاہل بھی جنگ کہ میدان میں کھود کر صلح کروانے کے بجائے خود بھی تلواریں لئے پہنچ گئے۔۔۔
"کیا کہہ رہے ہیں یزان بھائی منحہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔۔منحہ ہونکوں کی طرح پوچھنے لگی جسے اسکی بات کی زرا بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔
یزان اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔
"کچھ نہیں پیاری آنکھوں والی۔۔۔یزان نے کہتے ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔۔
منحہ کے بیٹھتے ہی سب بھی آچکے تھے میرال نے بیٹھتے ہی منحہ کے پیر پر اپنی سینڈل اسکے پیر پر رکھتے دباؤ دیا تھا کہ وہ تڑپ اٹھی تھی۔۔
"منحہ کیا ہوا۔۔یزان نے تیزی سے اسے دیکھ کر پوچھا تھا۔
"سوری سوری میرا پیر غلطی سے لگ گیا تھا۔۔اس سے قبل منحہ اسے دوبارہ ذلیل کرواتی میرال نے خود ہی بتا دیا تھا۔۔
گاڑی کے رکتے ہی سب اتر کر اندر بڑھنے لگے تھے منحہ جیسے ہی گاڑی سے اتر کر درد ہوتے پیر کہ ساتھ آگے بڑھی ہی تھی کے پلٹ کر یزان کو دیکھنے لگی جو میرال کے پاس کھڑا تھا۔۔
"یہاں کیوں کھڑی ہو چلو اندر۔۔داور کے قریب آکر کہنے پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی جس نے اسکے دیکھنے پر ایک قدم آگے لیا تھا۔
"جانتی ہو تمہیں چاچو چاچی کہ علاوہ کوئی باہر کیوں نہیں لے کر جاتا ہے؟ داور سخت نظروں سے اسے دیکھتا ہلکی آواز میں بولا تھا کہ منحہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
"باولی کہیں کی مجھ سے پوچھو کیوں۔۔بولو۔۔۔۔داور نے اس بار اسکی کلائی پکڑی تھی۔۔
"کیا؟
"کیا نہیں بولو کیوں۔۔
"کک کیوں؟ منحہ سہم کر اپنی کلائی اسکی گرفت سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
"گڈ۔۔۔۔تو سنو منحہ دراب۔۔تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں کہیں لے جایا جا سکے۔۔۔تم پاگل ہو سنا تم نے ایک پاگل،آج تمہاری وجہ سے کتنی بےعزتی ہوئی ہے ہم سب کی۔۔۔بہت شوق ہے تمہیں گھومنے کا ہاں۔۔۔۔
"کیا ہو رہا ہے وہاں۔۔یزان کی آواز پر وہ جو اسکی طرف جھک کر منحہ کے اندر تور پھوڑ کر چکا تھا منحہ کو چھوڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوا جو سخت تاثرات لیے ان دونوں کے نزدیک آیا تھا۔۔
منحہ نے تیزی سے سر جھکایا تھا۔۔
"کچھ نہیں میں بس اس کا پیر دیکھ رہا تھا بیچاری کو درد ہورہا ہے۔۔۔داور اسے کہتا وہاں سے اندر بڑھ گیا تھا۔۔
اسکے جاتے ہی میرال بھی آندھی طوفان بنی منحہ کے پاس سے گزری تھی۔۔
"منحہ پیر دکھاؤ۔۔۔۔۔یزان کہتے ساتھ پنجوں کہ بل بیٹھتے اسکے پیر کو ہاتھ لگانے لگا جو اس سے تیزی سے پیچھے ہوئی تھی۔۔
"منحہ کیا ہوا دکھاؤ مجھے۔۔
"نہیں۔۔۔منحہ نے چیخ کر کہتے اندر کی جانب دوڑ لگادی تھی جبکہ یزان حیرت زدہ رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔
دس منٹ سے وہ کمرے میں ٹہل رہی تھی غصّہ تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔
"اوہ فو کیا ہوگیا ہے میرال تم کیوں اس چھوٹی سی بچی کہ ساتھ اپنا مقابلہ کر رہی ہو یار۔۔۔۔
"نہیں ہالہ میں نے سوری بھی کہا تھا لیکن وہ مکار لڑکی جب سے تم لوگ آئے ہو مجھے ذلیل کروائے جا رہی ہے،مجھے تو ابھی بھی حیرت ہے یزان کیسے اسے ہمارے ساتھ لے کر گئے ہمارا اور اسکا کوئی مقابلہ نہیں ہے، ناں ہی اسے یوں کبھی چاچی کے بغیر کہیں لے کر جاتے ہیں۔۔۔میرال نے اسکی بات پر جھٹکے سے اسے دیکھ کر بتایا تھا۔۔
"یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو ایسے لوگوں کا تو کوئی بھروسہ بھی نہیں ہوتا۔۔
"وہی تو۔۔۔خیر میں نے سوچا ہے کل ہم شاپنگ پر چلیں؟
"ہاں کیوں نہیں مجھے تو بہت پسند ہے شاپنگ کرنا۔۔میرال کی بات پر ہالہ نے پرجوش انداز میں کہا تھا کہ وہ مسکرا کر یزان کے بارے میں سوچنے لگی۔۔
"یزان بہت کرچکے ذلیل اب تم دیکھنا کیسے میں تمہیں اس منحہ سے دور کر کے اپنی جگہ بناتی ہوں ۔۔۔میرال سوچتے ہوۓ مسکرا کر اپنے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کے بارہ بجے کا وقت تھا منحہ جو چت لیٹی چھت پر نظریں مرکوز کیے ہوئے تھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ پر تیزی سے اٹھ کر کمرے سے نکلی۔۔۔۔جب بسمہ کو چھت پر جاتا دیکھتی خود بھی اسکے پیچھے بھاگی تھی۔۔
"منحہ اوپر مت جاؤ۔۔۔منال بیگم کی آواز پر منحہ کہ قدم رکے تھے۔
"کیوں ماما؟
"طبیعت خراب ہوجاۓ گی آجاؤ ماما منحہ کو کہانی سناتی ہیں۔۔۔۔منال اسے بہلا کر اسے کمرے میں لے کر جانے لگی جو بار بار پلٹ کر سیڑیوں کی جانب دیکھ رہی تھی منال اسے لے کر کمرے میں چلی گئی دونوں کہ جاتے ہی نور بیگم نحوست سے سر جھٹک کر کمرے میں جانے لگیں۔۔
(منال مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔نور بیگم موقع ملتے ہی منال بیگم کہ پاس آئیں تھیں جو منحہ کے لیے ملک شیک بنائے کی تیاری کر رہی تھیں۔
"جی بھابھی کہیں نا؟
منال کے مسکرا کر کہنے پر نور بیگم نے دروازے کی طرف دیکھا تھا پھر چل کر انکے ساتھ آکر کھڑی ہوئیں۔
"دیکھو منال میری بات کو غلط مت سمجھنا۔۔۔منحہ بہت پیاری بچی ہے ابھی صرف بارہ سال کی ہے ایسے میں یزان اسے چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کر رہا ہے لیکن منحہ اس چیز کو کوئی اور رنگ نہ دے دے۔۔۔تم سمجھ رہی ہو ناں؟
"یہ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی آپ؟ ایک طرف اسے آپ بچی کہہ رہی ہیں اور دوسری طرف۔۔۔منال بیگم کو بے وقت غصّہ اور رونا آنے لگا وہ کیسے انکی معصوم بچی کہ لئے ایسی باتیں کر سکتی تھیں۔۔
"آہ! منال تم مجھے غلط مت سمجھو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ایک مہینے تک یہاں سے شفٹ ہوجائیں گے اسکے بعد سوچا ہے کیا ہوگا؟ کیونکہ یہ تو تہہ ہے کہ یزان کہ لئے ہم نے ایک ایجوکیٹڈ لڑکی کا ہی تصور کیا ہے جو ہر طرح سے پرفیکٹ ہوگی باکل ایک محبوب بیوی کی طرح نہ کے کوئی بچی۔۔اسلئے بہتر ہے کہ منحہ کو تم خود اس سے دور رکھنے کی کوشش کرو۔۔۔آج ریسٹورنٹ میں بھی اسکی وجہ سے سب کو اتنی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی،امید ہے تم سمجھ گئی ہوگی۔۔نور بیگم اپنی بات مکمل کرتیں کچن سے نکل گئیں تھیں۔یہ جانے بنا کہ انکی باتوں نے منال بیگم کہ دل کو کتنا زخمی کردیا تھا)
"ماما منحہ کو بارش پسند ہے۔۔۔۔
"ہاں میری جان ماما جانتی ہیں منحہ کو کل ماما پارک لے کر جائیں گی۔۔منال بیگم اسکے ساتھ لیٹتے ہوئے بولیں تھیں۔۔
"ماما جھولے پر بھی جائیں گے۔۔
"ہمم۔۔
"اور آئسکریم بھی کھائیں گے
"ہمم ٹھیک ہے۔۔۔منال دوبدو جواب دیتیں اسکی پیشانی چومنے لگیں
"ماما یزان بھائی بھی جائیں گے؟ منحہ کی بات پر منال بیگم اسے دیکھنے لگیں۔۔
"ماما بتائیں ناں۔۔۔
"منحہ سوجاؤ شاباش۔۔۔۔منال بیگم بنا کوئی جواب دیے اسکا سر دوبارہ اپنے بازو پر رکھتے ہوۓ بولیں تھیں کہ وہ معصومیت سے انھیں دیکھنے لگی۔۔
"آنکھیں بند کرو شاباش۔۔۔منال بیگم کہ دوبارہ کہنے پر منحہ نے آنکھوں کو تیزی سے بند کیا تھا کہ منال بیگم اسے دیکھتی چلی گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔
بارش سے لطف اندوز ہوتی میرال یزان کو ہاشم کہ ساتھ کھڑا دیکھ کر انکی جانب بڑھی تھی۔۔
"چلو میں جا رہا ہوں۔۔ہاشم کی بات پر میرال خوش ہوگئی تھی ہاشم کہ جاتے ہی یزان بھی جانے لگا کہ میرال نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا یزان نے چونک کر اسے دیکھا تھا جو بری طرح بھیگی ہوئی تھی کہ شلوار قمیض اسکے جسم سے چپک گئے تھے۔۔۔
"یزان ناراض ہیں؟
"نہیں۔۔۔سنجیدگی سے کہتا وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر جانے لگا تھا کہ میرال ہلکی سی چیخ کہ ساتھ زمین بوس ہونے لگی تھی کہ یزان نے بے ساختہ اسے بچانے کے لئے میرال کو کمر سے پکڑ کر جھٹکا دیا تھا کہ وہ اسکے سینے سے ٹکرائی تھی۔۔
تیز بارش ہنوز برس رہی تھی چھت پر موجود واحد بلب بھی روشن تھا کہ یَکدم ہی لائٹ جانے پر اندھیرا بڑھ گیا۔۔۔۔۔
ایک طرف سب کزن شور کرنے کہ بعد دوبارہ ہنسی مذاق میں لگ گئے تھے یزان نے تیزی سے اسے پیچھے کیا تھا کہ میرال نے اسکی ٹی شرٹ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا۔۔
"کیا بدتمیزی ہے میرال۔۔۔یزان نے سب کی موجودگی کی وجہ سے دبی دبی آواز میں غصّے سے کہا تھا ورنہ تو دل کر رہا تھا اسکا منہ توڑ دے۔۔
"یزان کیا ہم دوست نہیں بن سکتے۔۔۔میرال کہتے ساتھ اسکے رخسار پر ہاتھ رکھ کر اپنا چہرہ اسکے نزدیک کرنے لگی کہ یزان کی گرم سانسیں اسکے چہرے پر پڑھتی میرال کو مدہوش کر رہی تھی۔۔
"یزان آئ آئ ریلیی لائک یو سو مچ پتہ نہیں لیکن یں آپکو بہت پسند کرنے لگی ہوں۔جانتی ہوں یہ ٹھیک نہیں ہے پر میں خود کو کہنے سے روک نہیں سکی ۔۔۔میرال کہتے ساتھ یزان کہ گال کو سہلاتی ہوئی نزدیک ہونے لگی۔۔
"میرال اپنی حد میں رہو۔۔
یزان نے زور سے اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا تھا۔۔
"میرال۔۔۔داور کی آواز پر وہ تیزی سے یزان سے دور ہوتی انکی جانب بڑھی تھی جبکہ یزان غصّے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیڑیاں عبور کر چکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان یونیورسٹی میں ایڈمشن لینے کہ بارے میں کیا سوچا ہے؟
یزان جیسے ہی ناشتے کہ لئے کرسی کھینچ کر بیٹھا بلال کہ سوال پر چونکا۔۔
"یزان کل کینیڈا جا رہا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔درانی صاحب کی بات پر سب نے حیرت سے انھیں دیکھا جبکہ یزان کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں تھی جبکہ میرال جو وہیں آرہی تھی لڑکھڑا کر رہ گئی۔
"یزان چلا جاۓ گا۔۔۔۔میرال سوچ کر ہی لب بھینچ گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"پاپا آپ نے تو اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔۔۔
"میں بات کرنے ہی والا تھا یزان ویسے بھی میں چاہتا ہوں تم وہیں سے اپنی تعلیم مکمل کرو۔
"درانی اگر ایسا ہے تو گھر کیوں بکوا رہے ہو؟ بی جان کی بات پر نور بیگم نے پہلو بدلہ تھا۔۔اسکا حل میں نے پہلے سے سوچ لیا ہے میرا ایک دوست ہے وہاں رہے گا یہ۔۔۔درانی صاحب اطمینان سے کہتے ناشتے کرنے لگے جبکہ یزان اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی یہ سب کیا ہے؟ پاپا نے اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا؟
"یزان اس میں برائی ہی کیا ہے بیٹا؟ نور بیگم نے اسے دیکھا جو بری طرح بے چین ہوگیا تھا۔۔
"پاپا اگر مجھ پر پیسہ لگا دیں گے تو گھر اور کاروبار کا کیا ہوگا امی کیا یہ سوچا ہے؟
"آہ! بس اتنی سی بات؟ ہم بے فیصلہ کیا ہے ہم یہیں رہیں گے۔۔۔نور بیگم کی بات پر یزان انھیں دیکھنے کہ بعد گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"ٹھیک ہے۔۔یزان انھیں کہتا کمرے سے نکل گیا۔۔
"مما آپ کو لگتا ہے یہ فیصلہ ٹھیک ہے؟ برو کی پڑھائی جیسے ہی مکمل ہوگی وہ یہیں آئیں گے اسکے بعد؟
"ڈونٹ وری ہالہ یہ وقتی ہمدردیاں جلد ہی ختم ہوجاتی ہیں اور تمہیں کیا لگتا ہے وہ پڑھائی مکمل کر کے واپس آ بھی گیا تو اس پاگل کہ لئے پاگل ہوگا؟ ہرگز نہیں۔۔۔نور بیگم نے ناک چڑھا کر کہتے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جو مسکرا کر کمرے سے نکل گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سے شام ہوگئی تھی اسے یزان کو دیکھے پارک میں بھی اسکا دل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
"ماما گھر چلیں۔۔۔منحہ اچھلتی کھودتی منال بیگم کہ پاس آئی تھی جو اپنی دوست سے باتیں کر رہی تھیں۔۔
"ٹھیک ہے ابھی چلتے ہیں۔۔آپ جب تک سفیان بھائی کے ساتھ کھیلو۔۔۔منال بیگم کی بات پر وہ دوبارہ سر ہلاتی سفیان کہ پاس پہنچی تھی وہ جو اس سے تین سال بڑا تھا منہ بنا کر اسے دیکھنے لگا۔۔
ؓمنحہ خوبصورت تھی لیکن اسکی حرکتوں سے وہ چڑتا منحہ کو کھیل کھیل میں ہی مارتا رہتا تھا۔ ۔
"سفیان بھائی میں بھی کھیلوں گی۔۔۔منحہ کی بات پر سفیان نے اپنے دوست کو دیکھا تھا۔۔
"ٹھیک ہے پھر اسے کھیچ کرو۔۔۔۔سفیان نے مسکراہٹ دباتے ساتھ اسکی جانب گیند اچھالی تھی جو سیدھا اسکی پیشانی پر جا کر لگی تھی کہ سفیان اور اسکے دوست نے ایک دوسرے کہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا تھا۔۔
"ماما۔۔!! منحہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنی پیشانی پر ہاتھ جمائے تھے سفیان اسکے چیخنے پر تیزی سے اسے خاموش کروانے کہ لئے آگے بڑھا تھا ورنہ اسکی شامت پکّی تھی۔۔
"یار منحہ کیچ کرتی نہ۔۔۔سفیان اسکے ہاتھ ہٹا کر پیشانی کو دبانے لگا جو زور زور سے رو رہی تھی۔۔
"منحہ کیا ہوا ماما کی جان۔۔
"آنٹی وہ ہم کیچ کیچ کھیل رہے تھے غلطی سے اسکے سر پر لگ گئی۔۔۔سفیان کہ دوست نے جلدی سے اپنے دوست کی گواہی دی تھی۔۔۔فاطمہ بیگم نے جانچتی نظروں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا تھا وہ جانتی تھیں سفیان کی حرکتیں۔۔۔
"ممی آپ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں میں نے جان کر اسے چوٹ نہیں پہنچائی ہم تو دوست ہیں۔۔ہیں نا منحہ۔۔
"منحہ تمہاری دوست نہیں ہے۔۔۔منحہ روتے ہوۓ اپنی بہتی ہوئی ناک کو اسکی جیکٹ سے صاف کرتی اپنی ماں کہ ساتھ جانے لگی۔۔
"یک گندی۔۔۔۔سفیان چیخا تھا جو اسے زبان چڑا کر منال بیگم کہ ساتھ آگے بڑھ گئی تھی جبکہ منال بیگم نے اشارے سے ہی فاطمہ بیگم سے معذرت کی تھی جو اپنے بیٹے کی حرکت کی وجہ سے خود شرمندہ تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزان لان میں چہل قدمی کرتا منحہ کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔۔صبح سے اس نے ایک بار بھی منحہ کو نہیں دیکھا تھا وہ اسکے لئے پریشان تھا آخر کیسے اسے بتاۓ گا کہ وہ کل جا رہا ہے اور وہ کیا اسے سمجھا سکے گا۔۔۔
"یزان ۔۔میرال کی آواز پر یَکدم ہی غصّے سے اسکی گردن کی رگیں تنی تھیں۔۔۔میرال کی حرکت معافی کے لائق نہیں تھی۔۔اسکی جگہ اگر وہ ایسی حرکت کرتا تو یقیناً اسکا اپنا ہی باپ اسے گھر سے بے دخل کردیتا۔۔
"یزان میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔میرال کہ یَکدم کہنے پر وہ طنزیہ مسکرایا تھا۔۔
"واقعی میرال؟ چلو فرض کرو اگر میں کل تمہاری حوصلہ افزائی کرتا پھر کیا کرتی تم؟
"یزان پلیز میں سچ میں تمہیں پسند کرتی ہوں۔۔۔میرال کی نظر گیٹ سے اندر آتی منال بیگم اور منحہ پر پڑی تھی کہ میرال نے آگے بڑھ کر یزان کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔
منال بیگم انھیں دیکھتے ہی منحہ کو وہاں سے لے جانے لگی تھیں۔۔
"گیٹ لاسٹ۔۔۔۔یزان اسے کہتا جیسے ہی پلٹا تھا کہ منال بیگم اور منحہ کو جاتا دیکھ کر تیزی سے انکی طرف بڑھا تھا جو منحہ کو کمرے میں جاتے ہی لاک لگانے لگی تھیں کے یزان تیزی سے اندر داخل ہوا تھا ۔۔
"چاچی۔۔۔
"کیا بات ہے یزان بیٹا؟
"یزان بھائی۔۔۔منحہ اسے دیکھتے ہی تیزی سے قریب آکر سر اٹھا کر اپنی پیشانی دکھانے لگی جو تیزی سے پنجوں کہ بل بیٹھا تھا۔۔
"منحہ گڑیا یہ چوٹ کیسے لگی؟ یزان نے اسکی پیشانی دیکھتے ہوۓ پوچھا جہاں سفید پیشانی پر سرخ دائرہ بنا ہوا تھا۔
"یزان بیٹا کھیلتے ہوۓ بال لگ گئی تھی۔۔
"نہیں ماما سفیان بھائی نے مارا۔۔۔منحہ نے جھٹ سے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا تھا کے یزان منال بیگم کو دیکھنے لگا۔۔
"یزان کیا بات ہے؟ منال بیگم کے پوچھنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
"چاچی دراصل کل میں جا رہا ہوں۔۔۔یزان کے بتانے پر دونوں نے اسے دیکھا تھا۔۔
"کہاں جا رہے ہو؟
"منحہ بھی جاٙئے گی۔۔۔۔منحہ نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔۔۔
"نہیں منحہ نہیں جا سکتی۔۔۔یزان بھائی کو اکیلے جانا ہے۔۔۔یزان دوبارہ اسکے سامنے بیٹھتے ہوۓ بولا تھا کہ منحہ نے پلکیں جھپک کر اسے دیکھا۔۔
"یزان بھائی منحہ نہیں جائے گی؟ منحہ کے آہستگی سے کہنے پر یزان اٹھ کھڑا ہوا۔۔
"یزان۔۔منال بیگم نے آگے بڑھ کر منحہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ اسے دیکھا تھا جو منحہ کو دیکھ رہا تھا۔۔
"چاچی کینیڈا جا رہا ہوں پاپا کے ساتھ۔۔
"اچھا چند دنوں کہ لئے جا رہے ہو۔۔۔منحہ یز۔۔۔
"نہیں میں چند سالوں کہ لئے جا رہا ہوں پتہ نہیں کب واپسی ہو۔۔۔منال بیگم جو سن کر منحہ کو تسلی دینے لگی تھیں یزان کہ یَکدم کہنے پر حیرت سے اسے دیکھنے لگیں جبکہ منحہ اپنی ماں کہ ساتھ لگی یزان کو دیکھ رہی تھی۔
"کل صبح جا رہا ہوں اسلئے ملنے آگیا۔۔۔آپ اسے پڑھائیں اور ہو سکے تو کمرے میں بند کرنے کی بجائے اسے جہاں مرضی جانا ہو جانے دیں۔۔۔یزان نے آگے بڑھ کر منحہ کہ سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے منال بیگم سے کہا تھا جو سر ہلا کر یزان کہ سر پر ہاتھ رکھتیں مسکرا کر اسے دیکھنے لَگِیں۔
"صبح کب تک جاؤ گے؟
"چھ بجے تک نکلوں گا۔۔۔
"چلو ٹھیک ہے۔۔خیر سے جاؤ بیٹا۔۔۔منال بیگم کی بات پر یزان مسکراتا ہوا کمرے سے نکلا تھا کہ منحہ بھی اسکے پیچھے جانے لگی۔۔
"منحہ رکو کہاں جا رہی ہو۔۔منال بیگم نے تیزی سے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔۔
"ماما یزان بھائی جا رہے ہیں؟ منحہ کی بات پر منال بیگم گہری سانس لیتیں اسکے سامنے بیٹھی تھیں۔۔
"ماما۔۔منال بیگم کو گہری نظروں سے خود کو دیکھتا پاتی وہ انہیں پکارنے لگی۔
"منحہ ماما کی جان لوگوں کی ذہانت بہت گندی ہے،میں جانتی ہوں میری بچی کتنی معصوم ہے۔۔۔آج سے آپکی دوست ماما ہیں۔۔۔منحہ ماما کہ ساتھ کھیلےگی جو بھی چاہیے ماما سے کہے گی۔۔۔۔منحہ ماما سے دوستی کرے گی ناں؟ منال بیگم کی آواز رندھ گئی تھی۔۔منحہ نے خوشی سے سر کو اثباب میں ہلایا تھا۔
"پاپا سے بھی کوئی دوستی کرلے۔۔۔دراب صاحب کی آواز پر منحہ نے پلٹ کر اپنے باپ کو دیکھا تھا جو مسکرا کر اسکے سامنے بیٹھے تھے کہ منحہ تیزی سے اپنے باپ کے سینے سے لگی تھی۔
"منحہ ماما پاپا دونوں کی دوست ہے۔۔۔۔۔منحہ نے چہکتے ہوۓ دراب صاحب کے گال پر پیار دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار کیا ہے مجھ سے کیوں منہ بنایا ہوا ہے؟ بسمہ نے منہ بسورتے ہوۓ میرال کو دیکھا تھا جو اسکی بات پر گھور کر اسے دیکھتی سر جھٹک گئی تھی۔۔
"تمہیں کیا ہے اس سے ہاں تم جاؤ ناں اپنی چہیتی کزن کہ پاس بہت سائیڈ لی جا رہی تھی کل اسکی۔۔۔میرال نے گھورتے ہوۓ اسے کہا تھا جو اسکی بات پر حیرت زدہ رہ گئی تھی۔۔
"میرال آپی کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کہ ساتھ وہ ہماری کزن ہے بہنوں کی طرح ہے ہاں وہ دماغی طور پر ہم جیسی نہیں ہے لیکن کسی انجان شخص کا کوئی حق نہیں ہماری کزن سے بدتمیزی کرے وہ تو مجھے روک لیا تھا ورنہ اس لنڈا بازار کو گنجا کر دیتی میں تو۔۔
"ہونہہ میری بلا سے۔۔میرال اسکی بات سن کر ہنکار بھرتی وہاں سے چل دی تھی۔
"بیچاری اتنی معصوم سی تو ہے اوفف میرال آپی بھی نا۔۔۔بسمہ خودکلامی کرتی اپنی کتاب کھول کر بیٹھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا وقت تھا یزان بیگ کندھے پر ڈالے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر لاؤنج میں آیا صوفے پر بی جان کو بیٹھا دیکھ کر ان سے ملنے لگا درانی صاحب بھی وہیں موجود تھے۔۔یزان ان سے ملتا باری باری سب سے ملنے لگا میرال کو دیکھتے ہی اسکے مسکراتے لب سکڑے تھے۔۔
"یزان پلیز۔۔۔میرال نے آہستہ سے اسے کہا جس نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
"اللّه حافظ۔۔یزان کہتے ہی آگے بڑھا تھا کہ اسکے اس طرح کرنے پر میرال کو شرمندگی سے نظریں اٹھانا محال ہوگیا تھا۔۔۔
یزان سب سے ملنے کہ بعد کمرے کی جانب دیکھنے لگا۔۔
"یزان چلو بیٹا۔۔۔۔درانی صاحب کی آواز پر اس سے آخری بار بند دروازے پر ڈالی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
منحہ جو نیند میں کسمسائی تھی کروٹ لیتے یی یَکدم اٹھ کر بیٹھی تھی اپنی ماں کو کمرے میں نہ پا کر وہ پریشان ہوگئی تھی
"ماما۔۔۔منحہ آنکھوں کو مسلتی بیڈ سے اتر کر باتھروم کی جانب بڑھی تھی لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھیں۔۔
"ماما۔۔۔منحہ روہانسی ہوتی تیزی سے کمرے سے نکل کر لاؤنج تک پہنچی تھی کہ میرال جو اندر آرہی تھی یَکدم ہی مسکرا کر منحہ کہ قریب آئی تھی۔۔
"ارے منحہ بہت جلدی اٹھ گئی؟ میرال کی آواز پر وہ اسکی جانب متوجہ ہوئی۔
"میرال آپی ماما کہاں ہیں؟
"وہ تو باہر ہیں یزان جا رہا ہے نا۔۔۔
"یزان بھائی چلے گئے؟ منحہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
"ہاں کیوں تم سے نہیں ملے؟
"ملے تھے ناں کل۔۔۔منحہ نے اسکی بات پر سر ہلایا تھا۔۔
"اچھا کل لیکن وہ تو ابھی ہم سے مل کر گئے ہیں۔۔۔میرال کی بات پر وہ اسے دیکھنے لگی کہ دوازے سے بی جان کہ ساتھ ہانیہ بیگم اور منال بیگم اندر آتی دکھائی دیں۔۔
"ماما۔۔۔۔یزان بھائی چلے گئے۔۔۔منحہ بھاگتی ہوئی ان سے لپٹ کر بولی تھی۔
"منحہ اٹھ گئی میری جان۔۔۔
"ماما یزان بھائی۔۔۔
"ارے منحہ یزان بھائی پڑھائی کہ لئے گئے ہیں۔۔۔ہانیہ بیگم نے مسکرا کر اسکےگال پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تھا کہ انھیں دیکھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
"ہم کو خوشی ملی بھی تو کہاں رکھیں گے ہم"
"آنکھوں میں حسرتیں ہیں تو دِل میں کسی کا غم"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یزان کو کینیڈا گئے تین مہینے گزر چکے تھے ان تین مہینوں میں ایک دو بار ہی یزان کی کال آئی تھی۔۔
منحہ روز اپنی ماں سے یزان کا پوچھتی تھی اور وہ اسے دوسری باتوں میں الجھا دیتیں تھیں۔۔
ایسے ہی ایک دن منحہ نے نور بیگم کہ منہ سے یزان کا نام سنا تو تیزی سے انکے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔
"تائی امی۔۔۔
"کیا ہے؟ منحہ کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھتے ہی لٹھ مار جواب دیا تھا۔۔
"تائی امی یزان بھائی کہاں ہیں؟ منحہ نے انکی نظروں سے خائف ہوتے ہوۓ پوچھا..
"میری بات غور سے سنو لڑکی۔۔۔میرے بیٹے سے دور رہو سمجھی اب اگر تمھارے اس گندے منہ سے میں نے اپنے بیٹے کا نام بھی سنا ناں تو بہت برا پیش آؤں گی سمجھی دفع ہوجاؤ یہاں سے گندی لڑکی۔۔۔۔نور بیگم نے سختی سے اسکے دونوں بازؤں کو پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے خود سے پیچھے کیا تھا کہ وہ ان سے بری طرح خوفزدہ ہوچکی تھی جبکہ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں منحہ کے کپڑے واٹرکلر اور چاکلیٹ سے گندے ہورہے تھا۔۔
منحہ کے ہاتھ سے سفید شیٹ چھوٹ گئی تھی تیزی سے بھاگتی وہ کمرے میں جاتے ہی الماری کو کھول کر آخری خانے سے سامان کو نکال کر خود بیٹھ گئی تھی۔۔
نور بیگم نے اسکے جاتے ہی آگے بڑھ کر اس شیٹ کو اٹھا کر پلٹا تھا۔۔
جس پر پینٹ سے بچوں کی طرح یزان کا نام لکھا گیا تھا۔۔
"YAZAN"
"ہونہہ...منال یہ ضرور تمہاری ہی حمایت ہے ورنہ جس بچی کو اپنے نام کی سپیلنگ نہیں معلوم وہ کیسے میرے بیٹے کا نام لکھ سکتی ہے۔۔
نور بیگم نے ہنکار بھرتے اس شیٹ کہ دو ٹکڑے کرتے ڈسٹ بن میں ڈال دیے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا ایسے میں بارش وقتاً فوقتاً کبھی تیز ہوجاتی تو کبھی ہلکی۔۔۔
جبکہ منحہ گھاس پر بیٹھی ہاتھ میں پکڑی اپنی نئی گڑیا سے باتیں کر رہی تھی جب اچانک بارش کہ دوبارہ تیز ہونے پر منحہ اچھلتی ہوئی بارش میں بھیگتی خوش ہورہی تھی۔۔
"امی میں آتا ہوں دوست کہ پاس جا رہا ہوں کمبائیں اسٹڈی کے لئے۔۔داور کہتے ساتھ جیسے ہی وہاں آیا منحہ کو دیکھ کر ٹھٹھکا ۔۔
یَکدم ہی اسکی پیشانی پر لاتعداد بل پڑے تھے بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اسکے کپڑے جسم سے چپکے ہوۓ تھے۔۔
داور کی نظر ملازم کہ بیٹے کی جانب پڑی تھی جو منحہ کو ہی دیکھ رہا تھا غصّے سے وہ منحہ کے پاس گیا تھا جبکہ ملازم کا بیٹا داور کو دیکھتے ہی وہاں سے رفو چکر ہوا تھا۔
"منحہ چلو اندر۔۔۔۔داور نے کہتے ساتھ اسکا بازو پکڑ کر کھنچا تھا جو اچانک اسکے جھٹکا دینے پر اسکے سینے سر ٹکرائی تھی منحہ کا گداز وجود جیسے ہی اس سے ٹکرایا تھا داور کرنٹ کھا کر اس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔داور منحہ سے چھ سال بڑا تھا۔۔۔
"داور بھائی۔۔۔منحہ نے سہم کر داور کو دیکھا تھا جو بنا کچھ کہے تیزی سے وہاں سے گیا تھا کہ منحہ اپنی گڑیا اٹھا تیزی سے اندر بھاگی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔
"یادوں کی کتاب اٹھا کر دیکھی تھی میں نے
پچھلے سال ان دنوں تم میرے تھے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بجے کا وقت تھا ایسے میں وہ اپنے اپپارٹمنٹ سے نکلتا دونوں ہاتھوں کو جیکٹ کی جیبوں میں پھنسائے چیونگم چباتا چلتا جا رہا تھا جب اچانک ہی سناتے میں چار ہیوی بائیکس رفتار میں اسکے عین سامنے آکر رکی تھیں کہ روشنی آنکھوں میں پڑھتے ہی اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا تھا کہ دوسری طرف سے فوراًِ ہی لائٹس بند کی گئی تھیں۔۔۔
"ہیلو گائیز۔۔۔۔۔۔۔اپنی بھاری اونچی آواز مِیں بولنے پر اسکے دوست مسکرا کر بائیکس سے اترتے اسکی طرف بڑھنے لگے جنکے پیچھے انکی گرل فرینڈز ہونے کہ ساتھ وہ بھی تھی۔۔۔"عنایہ سمیر" دودھ جیسی رنگت، پانچ فٹ سات انچ قد، اخروٹی رنگ کہ کندھوں تک آتے سلکی بال، بھوری آنکھیں۔پینٹ شرٹ پر اوور کوٹ پہنے وہ مسکرا کر نزدیک آتے ہی اسکے گلے لگی تھی جس نے دونوں ہاتھ اسکے گرد باندھتے اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔۔
"آئی مس یو۔۔۔۔۔کان کہ نزدیک کہتی وہ مسکرائی تھی۔۔
"آئی مس یو ٹو۔۔۔یزان نے جواب دیتے ساتھ اسکے کان پر لب رکھے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔
"اہم اہم۔۔۔۔اگر ایک دوسرے سے مل چکے ہو تو ہم سے بھی مل لو۔۔۔۔احسن کی آواز پر دونوں ایک دوسرے سےالگ ہوتے انکی طرف متوجہ ہوۓ تھے وہ سب یونیورسٹی فیلو تھے جو یونیورسٹی ختم ہونے کہ بعد بھی ساتھ ہی تھے ۔
عنایا بھی پاکستان سے ہی تھی یزان کو وہ پہلی ملاقات میں ہی پسند آگئی تھی جو خوبصورت ہونے کہ ساتھ پُراعتماد زہین، بہاد اور میچیور بھی تھی۔۔وقت کے ساتھ دونوں کی دوستی محبت کا روپ اختیار کر چکی تھی لیکن ابھی تک دونوں نے نہ تو اظہار کیا تھا نہ ہی شادی کی کوئی بات۔۔۔
احسن کی بات پر وہ ہنستا ہوا اس سے ملا تھا۔۔
۔۔۔۔۔
سب کہ جاتے ہی یزان عنایہ کے ساتھ اپنے فلیٹ میں آیا تھا۔۔
"سو مسٹر یزان اب بتاؤ کیا سوچا ہے۔۔۔عنایا اسکے مقابل فلور کشن پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔
"کس بارے میں؟
"پاکستان اپنے گھر جانے کہ بارے میں،چھ سال ہوچکے ہیں اب کیا زندگی بھر یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔
"نہیں ایسا کچھ نہیں ہے سوچا تھا پڑھائی مکمل کرنے کہ بعد دو سال یہاں جاب کر کہ تجربہ حاصل کروں گا۔۔
"یعنی اب؟ عنایا اٹھ کر اسکے نزدیک بیٹھی تھی جو مسکرا کر آگے کو ہو کر اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتا اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا ۔۔
"یعنی کہ میں پاکستان اکیلے نہیں جاؤں گا۔یزان نے کہتے ہی جیکٹ کی اندرونی جیب سے چھوٹا سا باکس نکال کر کھولتے اس میں سے نازک سی ڈائمنڈ رنگ نکال کر عنایا کو دیکھا تھا جو ساکت سی بیٹھی تھی۔۔۔
"Miss Anaya Sameer Will you marry me?
یزان نے کہتے ساتھ اسے دیکھا تھا جس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔
"Yes...yes i"ll marry you...
عنایا مسکرا کر کہتی ہنسنے لگی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ بن مانگے ہی اسے وہ مل جاۓ گا۔۔
یزان اسکے ہاں کہتے ہی اسے رنگ پہنانے لگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بی جان آپ نے بلایا؟ منال بیگم کی آواز پر بی جان نے سر گھما کر انھیں دیکھا تھا۔۔۔
"ہاں بیٹی کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔یہ منحہ کہاں ہے؟
"جی وہ لان میں ہے۔۔۔منال بیگم کہ جھجھک کر بتانے پر وہ خفیف سا مسکرائیں تھیں۔۔۔
"خیر فکر مت کرو اللّه سب بہتر کرے گا۔۔
"نہیں بی جان وقت کہ ساتھ بہتری آنے کی بجائے وہ بگڑتی جا رہی ہے۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہا ایسا کیوں ہورہا ہے،کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے مجھے بددعائیں چمٹ گئی ہیں۔۔
"منال کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔
"صحیح کہہ رہی ہوں بی جان آپ جانتی ہیں اس شادی سے میرے ماں باپ ہی خوش نہیں تھے لیکن میں آپکے بیٹے کے لئے جیسے دیوانی ہوگئی تھی کہ مجھے انکے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آرہا تھا اور شاید تبھی آج مجھے میری اولاد کی صورت سزا مل رہی ہے۔۔۔منال بیگم کہتے ساتھ بے آواز آنسوں بہانے لگیں۔۔۔
بی جان گہری سانس لیتیں انھیں دیکھنے لگیں۔
"جانتی ہو اولاد جتنی بھی بری ہو والدین کے لئے پھر بھی ان سے اچھا اور پیارا کوئی نہیں ہوتا،ہمیں لگتا ہے بد دعا دینے سے زیادہ اثر کرتی ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بنا کچھ کہے بھی دلوں پر لگے زخموں کا درد عرش تک پہنچ جاتا ہے،بد دعا کے لئے زبان نہیں دل میں لگے زخموں کا ہونا لازمی ہے۔۔۔بی جان نے کہتے ساتھ انکے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
"ویسے یہ لڑکی لان میں اکیلی ہے ؟
"نہیں منّت اور پڑوس کہ بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔۔۔منال بیگم کے مسکرا کر بتانے پر وہ بھی مسکرا دیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھاگو بھاگو بھاگو۔۔۔اور تیز۔۔یس یس۔۔۔رانیہ رانیہ۔۔۔18 سالہ منحہ زور و شور سے تالیاں بجاتی چیخنے کہ ساتھ اچھل رہی تھی جبکہ رانیہ ،الماس اور اسد تینوں بہن بھائی کہ بیچ ریسنگ کا مقابلہ ہو رہا تھا۔۔
"میں جیت گئی۔۔۔۔میں جیت گئی۔۔۔۔الماس کہ خوشی سے پرجوش نعرہ لگانے پر منحہ ٹھٹھک کر رکتی اسے دیکھنے لگی جبکہ رانیہ نے منہ لٹکا کر منحہ کو دیکھا تھا اگلے ہی لمحے منحہ خوشی سے دوبارہ تالیاں بجاتی الماس کی جانب بڑھی تھی۔۔
"الماس۔۔۔۔ الماس۔۔۔۔منحہ کہتے ساتھ اس کے قریب آتی خوشی کا اظہار کر رہی تھی جبکہ رانیہ صدمے سے اسے دیکھتی چلی۔ ۔۔
"ہاہاہا۔۔۔۔رانیہ یہ کیا ہوا تمھارے ساتھ منحہ آپی نے تو ٹیم ہی بدل لی۔۔۔مومنہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنستے ہوۓ اسے چڑانے لگی جو منہ بنا کر کرسی پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔
"چلو اب تم تینوں کی باری۔۔۔۔اسد کے کہتے ہی منحہ دوپٹے کو کمر پر کس کر باندھ کر اندر جانے لگی۔۔
"کہاں بھاگ رہی ہو اب غدار لڑکی رانیہ کی آواز پر منحہ نے اسے دیکھا۔۔
"پانی پی کر آتی ہوں۔۔۔۔
"میرے لئے بھی ایک گلاس۔۔۔۔حمزہ کی آواز پر منحہ سر ہلا کر اندر بھاگی تھی۔۔۔
اسکے جاتے ہی بیرونی گیٹ کھلتے ہی سیاہ گاڑی اندر داخل ہوئی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بلال اور ساتھ داور بیٹھا تھا
دونوں کہ مسکرا کر اترتے ہی پچھلی طرف کا دروازہ کھولتے یزان درانی اپنی بھرپور وجاہت کے ساتھ اتر کر اطراف میں دیکھنے لگا چھ سال میں پہلی بار وہ اپنے ملک اپنے گھر آیا تھا۔۔یزان کے اترتے ہی اسکے پیچھے عنایہ اور ہالہ بھی اتری تھی۔۔۔۔
"تو یہ ہے یزان صاحب آپ کا گھر۔۔۔۔عنایہ کہ مسکرا کر پوچھنے پر یزان نے اسے دیکھتے ہوۓ اثباب میں سر ہلاتے قدم اندر بڑھائے تھے
"دونوں ساتھ کتنے پرفیکٹ لگ رہے ہیں۔۔۔بلال کی بات پر داور اور ہالہ نے بھی اسکی تائد کی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کون ہیں؟ مومنہ نے حمزہ سے پوچھا جو خود کندھے اچکا کر رہ گیا تھا کہ یزان کو ان دونوں نے اپنے بچپن میں ہی دیکھا تھا تبھی پہنچان نہیں پائے تھے۔۔
یزان جیسے ہی لاؤنج کہ دروازے تک پہنچا کسی کہ آندھی طوفان کی طرح آنے پر زور سے دونوں کا تصادم ہوا تھا کہ منحہ کے ہاتھ میں موجود پانی سے بھرے گلاس سے پانی یزان کی شرٹ پر چھلکنے کے ساتھ ہی گلاس زمین بوس ہوتے ہی چکنا چور ہوا تھا منحہ جو ایک ہاتھ سے سر جھکا کر چلتی قدموں کو گننتی کرتی جا رہی تھی اچانک ہوئی افتاد پر بری طرح گھبرا گئی تھی۔۔
کانچ ٹوٹنے کی آواز پر وہ جو پہلے ہی یزان کی آمد سے باخبر تھے تیزی سے کمرے سے نکلتے وہاں پہنچے تھے۔۔
"اللّه گلاس ٹوٹ گیا۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ جھک کر کانچ کو اٹھا کر ہتھیلی پر رکھنا شروع ہی کیا تھا کے منال بیگم نے تیزی سے اسے روکتے اسے وہاں سے اٹھایا تھا۔۔
"منحہ چوٹ لگ جاۓ گی بیٹی۔۔۔
"ماما گلاس ٹوٹ گیا حمزہ کو پانی پینا تھا۔۔۔منحہ نے روہانسی ہوتے ہوۓ کہا جبکہ یزان حیرت سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔۔
"بس تماشا شروع۔۔۔۔نور بیگم حقارت سے منحہ کو دیکھتیں تیزی سے آگے آئیں تھیں۔۔
"یزان میری جان۔۔۔۔نور بیگم پرجوش انداز میں اپنے بیٹے کےگلے لگیں تھیں جس کی نظر بے ساختہ منحہ کی جانب اٹھی تھی کیا وہ اسے پہچان گئی ہوگی لیکن یہ اسکی خام خیالی ہی تھی منحہ کا سارا دھیان گلاس کی طرف تھا۔۔
آخر اسکا دوست پانی گرنے پر پیاسا جو رہ جانے والا تھا۔۔۔
"منحہ کوئی بات نہیں آجاؤ ماما دوسرا گلاس دے دیتی ہیں۔۔۔منحہ کو بہلاتیں وہ کچن کی جانب بڑھنے لگیں تھیں یزان کی نظر منحہ کی کمر پر لہراتی چاٹیا پر تھی۔۔۔
"منحہ۔۔۔یزان کہ منہ سے یَکدم اسکا نام پھسلا تھا کہ عنایا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
"گنوار نے آتے ہی میرے بچے کہ کپڑے خراب کر دیے۔۔۔نور بیگم نے منہ بناتے ہوۓ کہا تھا۔۔
"امی کیا ہوگیا ہے پانی ہی تو ہے۔۔یزان کو انکا یہ لب و لہجہ ناگوار گزارا تھا جو اسکی بات پر سر جھٹک کر عنایا سے ملنے لگیں تھیں۔
بی جان نے یزان کہ ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھ کر گہری سانس لی تھی۔۔
"السلام علیکم! دادی کیسی ہیں آپ؟
"وعلیکم السلام۔۔۔یاد آگئے ہم؟ بی جان نے شکوہ کناں نظروں سے یزان کو دیکھا تھا جو مسکرا کر انکے گلے لگا تھا۔۔
"یاد کرنے کے لئے بھولنا پڑھتا ہے اور میں کبھی بھی آپ کو نہیں بھول سکتا۔
"تبھی ایک بار بھی اس بچی کی خبر نہیں لی جو یزان بھائی کرتے نہیں تھکتی تھی۔۔بی جان نے ہلکی آواز میں اسے لتاڑا تھا۔۔
"سراسر الزام ہے یہ آپ جانتی ہیں امی اور چاچی کبھی بھی کسی نے اس سے بات نہیں کرنے دی چاچو کو جب بھی کال کرو وہ باہر ہوتے تھے ویسے آپکی پوتی صاحبہ نے پہنچانا نہیں اس کہ بارے میں کیا کہیں گی آپ؟ یزان نے آبرو اچکا کر انھیں دیکھا تھا۔۔منحہ کا نظرانداز کیے جانا کہیں نہ کہیں اسے بھی اچھا نہیں لگا تھا۔
"بہت سخت ناراض ہے، مجھے کہہ دیا تھا کہ دادی منحہ اب کبھی بھی یزان بھائی سے بات نہیں کرے گی لو دیکھ لو میری پوتی اپنی بات پر قائم رہی ہے۔۔۔بی جان نے تفاخر سے یزان سے کہا تھا جو انکی باتوں سے لطف اندوز ہورہا تھا۔۔
"کیا کھسر پھسر ہورہی ہے دادی پوتے میں؟ نور بیگم عنایہ کو ساتھ لگائے مسکرا کر پوچھنے لگیں آج وہ بے تحاشا خوش تھیں بلآخر جس بات کا انھیں خطرہ لاحق تھا وہ آج عنایا کو دیکھ کر ختم ہوچکا تھا۔۔
عنایا کو ساتھ لانے کا مشورہ بھی انہی کا تھا۔۔۔
"بی جان یہ ہے عناہا بتایا تھا نہ آپ کو بہت ہی قابل بچی ہے۔۔۔۔۔نور بیگم فخر سے اس کا تعارف کروا رہی تھیں۔۔۔منحہ جو گلاس پکڑے منال بیگم کہ ساتھ آرہی تھی نور بیگم کی بات پر عنایا کو گھورنے لگی۔
"چڑیل آنٹی۔۔۔منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر اس نے عنایا کو پھر یزان کو دیکھا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں کہ منال بیگم کو گلاس پکڑا کر تیزی سے اپنے کمرے میں جا کر اپنی مخصوص الماری کہ نچلے خانے میں جا کر بیٹھ گئی الماری کے خانے بڑے بڑے تھے یہی وجہ تھی وہ بآاسانی وہاں چھپ جاتی تھی اور اب اسکی یہ عادت منال بیگم بھی اچھے سے جانتی تھیں تبھی اس الماری کا لاک انہوں سے نکلوا دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"میں کبھی بھی ان سے بات نہیں کروں گی،وہ چڑیل آنٹی منحہ کو بالکل بھی اچھی نہیں لگی،تم بھی اس سے بات مت کرنا ٹھیک ہے۔۔۔منحہ ہلکی آواز میں گڑیا سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔جب حمزہ کی آواز پر خاموش ہوئی۔۔
"منحہ۔۔۔۔حمزہ اسے آوازیں دیتا الماری کہ سامنے آکر جھکا تھا۔۔
"کس نےڈانٹا؟ میرال آپی نے؟ حمزہ کی بات پر اس نے اندر ہی بیٹھے بیٹھے رخ پھیر لیا تھا۔
"حمزہ بھائی یہ کیا کر رہے ہیں منحہ آپی کہاں ہیں۔۔یکدم مومنہ نے اندر آتے ہوۓ پوچھا۔۔
"اپنے بل میں۔۔۔حمزہ کہ کہتے ہی مومنہ بھی حمزہ کہ ساتھ آکر بیٹھی تھی جبکہ منحہ نے منہ بسورتے ہوۓ ان دونوں کو دیکھا تھا۔
"میں بھی آجاؤں۔۔
"نہیں یہ صرف منحہ کی جگہ ہے۔۔۔مومنہ کہ خوشی سے پوچھنے پر اس نے جلدی سے ہاتھ رکھ کر روکا تھا۔۔
"اچھا ٹھیک ہے پر چلیں رانیہ وغیرہ انتظار کر رہے ہیں ریسنگ کرنی ہے نا۔۔۔مومنہ کی بات پر اس نے حمزہ کی۔ طرف دیکھا تھا حمزہ منحہ کا ہی ہم عمر تھا۔۔۔
منّت کا سسرال حیدرآباد میں تھا اب بھی وہ لوگ بلال کی شادی کہ لیے روکنے آئے ہوۓ تھے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"چلو۔۔۔۔دوستوں کا خیال آتے ہی وہ سب بھول بھال کر تیزی سے باہر نکل کر کمرے سے نکلتی یَکدم رکی تھی۔۔۔
"رکو رکو رکو۔۔۔ہم یہاں سے ریسنگ لگاتے ہیں۔ ۔۔
"ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن باہر جاتے ہی گاڑی کو ہاتھ لگانا ہے۔۔۔
"ڈن۔۔۔،مومنہ کی بات پر حمزہ نے بھی پرجوش انداز میں کہا تھا۔۔۔اگلے ہی لمحے تینوں آگے پیچھے تیزی سے بھاگتے ہوۓ لاؤنج عبور کرتے گاڑی تک پہنچنے ہی والے تھے کہ یزان اور میرال کو دیکھ کر وہ وہیں روک گئی تھی جبکہ دونوں مسکراتے ہوئےآگے بڑھ گئے تھے۔
تینوں کہ آتے ہی میرال جس کی منگنی دائم صاحب نے اپنے دوست کے بیٹے سے کردی تھی منحہ کو ترحم بھری نگاہوں سے دیکھتی اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔
"منحہ۔۔۔۔یزان مسکرا کر کہتا جیسے ہی آگے بڑھنے لگا منحہ نے حمزہ کہ قریب آتے ہی اسکا ہاتھ پکڑ کر لان کی طرف کھینچا تھا جو گرتے گرتے بچا تھا۔
"اوئے منحہ کی بچی۔
"چلو ہم کھیل رہے تھے۔۔۔۔منحہ منہ بنا کر اسے کہتی ان تینوں کی جانب بڑھی تھی جبکہ یزان لب بھینچے کھڑا اسے دیکھنے لگا جو سب کے ساتھ باتیں کر رہی تھی جبکہ ہاتھ ہنوز حمزہ کہ ہاتھ میں تھا۔۔
"برو آپ کو مما اندر بلا رہی ہیں۔۔۔۔ہالہ کہ آنے پر وہ چونکا۔۔
"ہالہ یہ پھوپھو کہ بچے ہیں ؟ وہ کب آئیں؟
"جی حمزہ اور مومنہ۔۔۔دو دن ہی ہوۓ ہیں آئے افف شام ہوتی نہیں اور یہ میڈم دوستوں اور دونوں کو ساتھ لئے ہنگامہ مچا کر رکھتی ہے،دادی کی لاڈلی ہے نہ تبھی کوئی کچھ کہتا نہیں ہے۔۔۔دیکھیں ذرا یہ عمر ہے اس کی۔۔۔
"بس کرو ہالہ میں نے صرف تم سے پھوپھو کا پوچھا تھا تم تو پورا شجرہ کھول کر بیٹھ گئی ہو۔۔۔۔۔یزان اسے ٹوکتا تیزی سے اندر کی جانب بڑھا تھا جانے کیوں لیکن منحہ کے خلاف وہ چھ سال پہلے بھی نہیں سن پاتا تھا نا ہی آج سن پایا تھا۔۔
"ہاں تو وہی تو بتا رہی تھی۔۔برو بھی نہ۔۔۔خیر مجھے کیا۔۔۔ہالہ اسکے ڈپٹنے پر بڑبڑا کر کندھے اُچکاتی اندر بڑھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کی اذان ہوتے ہی منحہ بی جان کہ کمرے میں داخل ہوئی تھی جو اسے دیکھتے ہی مسکرائِںں تھیں جبکہ یزان اور عنایا کو دیکھ کر وہ دروازے پر ہی ٹک گئی تھی۔۔
"اچھا دادی ان شاءلله پھر ملاقات ہوگی۔۔۔عنایا مسکرا کر کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"ٹھیک ہے بیٹی اللّه حافظ۔۔۔۔
بی جان سے ملتی وہ یزان کہ ساتھ چلتی ہوئی جیسے ہی دروازے کہ نزدیک آنے لگی منحہ تیزی سے ایک طرف ہوتی اپنے دوپٹے سے کھیلنے لگی۔۔
"یزان سب سے تو ملوا دیا لیکن اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔عنایا کی بات پر منحہ نے اسے دیکھا تھا۔۔
"تم منحہ ہو نا؟ یزان بہت ذکر کرتا ہے تمہارا۔۔
"دادی اذان ہوگئی ہے۔۔۔منحہ عنایا کی بات پر لب کچل کر صرف سر ہلانے پر اکتفا کرتی تیزی سے بی جان کی طرف بڑھی تھی جبکہ عنایا کا مسکراتا چہرہ توہین کہ احساس سے سرخ ہوا تھا۔۔زندگی میں پہلی بار کسی نے اسے یوں نظرانداز کیا تھا جبکہ یزان کان کی لو مسلتا دھیرے سے مسکرایا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کہ تمام نفوس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے یزان بھی ابھی آکر بیٹھا تھا۔۔
"ماما بھوک لگ رہی ہے۔۔۔منحہ کی آواز پر یزان نے اسے دیکھا تھا۔
"ہاں تو آجاؤ کھانا کھاؤ۔۔۔۔منال بیگم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ کہا جس نے زور زور سے نفی میں سر ہلانا شروع کردیا تھا۔۔
"نہیں منحہ کو ملک شیک اور فرنچ فرائز کھانے ہیں۔۔۔
"ضد مت کرو منحہ شاباش بیٹھو یہاں خاموشی سے۔۔
"نہیں ماما منحہ کو یہ نہیں کھانا۔۔۔
"منال بیٹی بنا دو نا جو اسے چاہیے۔۔۔دل نہیں چاہ رہا ہوگا۔۔بی جان نے یَکدم ہی سر اٹھا کر انھیں کہا تھا۔۔
دراب صاحب کھانا بھولے اپنی بیگم کو دیکھ رہے تھے وہ جو منحہ کہ کہنے پر آدھی رات کو اٹھ کر بھی اسکی فرمائش پوری کرتی تھیں آج اچانک ایسا کیا ہوا تھا کہ منحہ کے اتنا ضد کرنے پر بھی وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی تھیں۔۔
"منال میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔
"منحہ بیٹھو۔۔۔منال بیگم منحہ پر نظر جمائے بی جان کی بات کو نظر انداز کر گئیں تھیں۔۔
"ماما منحہ کو یہ اچھا نہیں لگتا۔۔
"اوفف ہر وقت کا تماشا لگا رہتا ہے اس گھر میں تو اب تو بندا سکون سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا ہے۔۔۔منحہ نے اس بار منمنا کر کہا تھا کہ نور بیگم کی اونچی بڑبڑاہٹ پر منال بیگم کا ضبط ٹوٹا تھا جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر سختی سے منحہ کا بازو جکڑ کر اسے جھٹکا دیا تھا۔۔
"ایک بار کی بات سنائی نہیں دیتی تمہیں۔۔بیٹھو یہاں اور جو بھی ہے کھاؤ۔۔زور سے جھٹکا دیتیں وہ اسے کرسی پر بیٹھاتیں پلیٹ میں کھانا ڈالنے لگیں میز پر سکوت چاہ گیا تھا منحہ سختی سے لبوں کو بھینچے روۓ جا رہی تھی۔۔
"کھانا شروع کرو فوراً۔۔۔۔سختی سے کہتیں وہ اسکے پاس ہی بیٹھ گئیں تھیں۔
"آہ!! منہ کھولو،تم ایسے نہیں مانوں گی۔۔اسے یونہی بیٹھا دیکھ کر وہ خود ہی نوالہ بنا کر اسکے منہ کہ قریب لائیں تھیں۔
"منال بہت۔۔۔۔
"رہنے دو دراب۔۔۔بی جان نے یَکدم ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا تھا۔۔
یزان کی نظر اسی پر تھی جو بری طرح ڈری ہوئی تھی۔
"منحہ۔ ۔۔منال بیگم کی آواز پر اس نے سوں سوں کرتے منہ کھولا تھا۔۔
"مرچی ہے ماما۔۔۔۔منحہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی کھانسی تھی کہ یزان نے تیزی سے پانی کا گلاس اسکے سامنے رکھا تھا۔۔
"مجھے نہیں کھانا۔۔۔۔یزان کہ گلاس رکھتے ہی وہ اونچی آواز میں کہتی تیزی سے اٹھ کر بھاگی تھی۔۔
"منال کیا ہوگیا ہے؟
"کچھ نہیں۔۔آپ سب کھانا کھائیں۔۔۔منال بیگم ہانیہ بیگم کو جواب دیتیں خود بھی اٹھ کر وہاں سے نکلتی چلی گئی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں جا رہے ہو؟
"پیٹ بھر گیا۔۔۔یزان سپاٹ لہجے میں کہتا اٹھ کر لاؤنج عبور کر گیا تھا کہ نور بیگم خالی کرسی کو دیکھتی چلی گئیں۔۔۔
"معاف کرنا دراب لیکن گھر میں روز کوئی نہ کوئی نیا ڈرامہ کھڑا کیا ہوتا ہے اس لڑکی نے ہوسکے تو رشتہ کرو اس کا کیا معلوم شادی کہ بعد تھوڑا سدھار آجائے۔۔۔اگر تم کہو تو ایک رشتہ ہے میری نظر میں کھاتے پیتے گھر کا خوش شکل لڑکا ہے عمر بھی یہی کوئی تیس بتیس سال ہوگی۔۔۔۔
"نور خاموش رہو۔۔۔۔ہماری بچی نا تو ہم پر بوجھ ہے نا ہی اپنے باپ پر،بی جان یَکدم ہی جلال میں آئیں تھیں درانی صاحب نے سخت گھوری سے اپنی بیگم کو نوازا تھا۔۔۔
"میں تو اچھے کہ لئے کہہ رہی تھی باقی مرضی ہے ویسے بھی سب کو معلوم ہے منحہ نارمل نہیں ہے ایسے میں کوئی اسے قبول کرلے وہی بہت بڑی بات ہے ورنہ تو آج کل لوگ لڑکی کہ قد کہ ساتھ عمر رنگ وزن جانے کتنی مین میخ نکالتے ہیں۔۔۔ہم تو بس کہہ ہی سکتے ہیں۔۔۔نور بیگم کہتی ہوئیں اٹھ کر چلی گئی تھیں ماحول میں کافی بدمزگی کی فضا قائم ہوگئی تھی۔۔
رات کہ اس پہر جہاں ہر طرف خاموشی کا راج تھا ایسے میں جانے اسے کتنا وقت گزر چکا تھا۔۔
ؐلان میں رکھی کرسی پر بیٹھے اسکی نظر سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے چاند پر ٹکی تھی جس کی آنکھ مچولی عجیب لطف دے رہی تھی۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ذہن کو پرسکون کر رہی تھی لیکن اسکے باوجود بھی وہ بے چین سا ہو رہا تھا۔۔۔۔
"یزان بھائی۔۔۔۔۔سکوت کو توڑتی بسمہ کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا تھا 20 سالہ بسمہ اسکے دیکھنے پر مسکراتی ہوئی پاس رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔۔
یزان اسکے بیٹھتے ہی دوبارہ سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا جبکہ بسمہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
ایک بار پھر وہاں خاموشی چاہ گئی تھی جسے بسمہ کی آواز نے توڑا تھا۔
"یزان بھائی آپ پریشان ہیں؟
"ہاں۔۔۔
"کس کے لئے؟ بسمہ کہ سوال پر اسکے چہرے پر تبسم بکھرا تھا۔۔
"منحہ کے لیے۔۔۔۔
"تعجب ہے آپ آج بھی اس کے لئے پریشان ہیں۔۔۔
"آج بھی سے کیا مراد ہے؟ میں پہلے تو کبھی پریشان نہیں رہا ہاں لیکن پہلی بار جب میں نے منحہ کو دیکھا تو مجھے بہت دکھ پہنچا تھا دوسرا سب کا اسکے ساتھ رویہ مجھے بہت ناگوار گزرتا تھا اور آج جو ہوا اسکے بعد ہاں تم کہہ سکتی ہو کہ میں اسکے لئے پریشان ہورہا ہوں۔۔یزان بے بات مکمل کرتے اسے دیکھا تھا جو مسکرا رہی تھی۔۔
"آپ سہی کہہ رہے ہیں ایک وقت تھا جب میں بھی میرال آپی کہ ساتھ مل کر اسکی حرکتوں پر مذاق بناتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا مجھ میں، آپ میں، ہم سب میں بہت کچھ بدلہ ہے لیکن منحہ کا صرف ظاہر بدلہ ہے،ورنہ آج بھی وہ وہی منحہ ہے۔۔ماما کی منحہ ،گڑیا سے باتیں کرنے والی، یزان بھائی کی دوست جس سے وہ بہت سخت خفا ہے کیوں وہ اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔یزان مسلمل اسکی باتیں سن کر مسکرائے جا رہا تھا۔۔
بسمہ کہ خاموش ہوتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
"میں منالوں گا اسے۔
"اور اگر وہ پھر بھی نا مانی؟ بسمہ بھی مسکرا کر کھڑی ہوئی۔
"کیوں نہیں مانے گی؟
"کیونکہ یزان بھائی کی زندگی میں کوئی اور آچکی ہے اسلیے اور جتنا میں اسے جانتی ہوں اسے اپنی پسندیدہ چیزیں کسی کے ساتھ بانٹا پسند نہیں ہے پھر آپ تو اسکی زندگی میں شامل ہونے والے پہلے شخص تھے جس نے اس سے دوستی کہ ساتھ اسے اہمیت دی،اہمیت جو وہ ہم سب سے چاہتی تھی۔۔
"بہت زیادہ نہیں سمجھنے لگی ہو اسے؟ بسمہ کہ کندھے اچکا کر کہنے پر یزان متاثر ہوتے ہوۓ پوچھنے لگا کہ وہ ہنس دی تھی۔
"ظاہر ہے آپکے جانے کے بعد منحہ کی دوست ایک اور کزن بنی تھی اور وہ کزن میں ہوں۔۔بسمہ کہ بتاتے ہی یزان گہری سانس لیتا مسکرایا تھا۔۔
"ہممم۔۔۔تو چلو پھر دوست میری مدد کرو۔۔۔۔یزان کہتے ہوۓ اندر کی جانب بڑھا گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان بھائی کیا کرنے والے ہیں؟ دونوں جیسے ہی کچن میں داخل ہوۓ بسمہ نے حیرت سے اس سے سوال کیا جو چاکلیٹ ملک شیک کے لئے دودھ کا ڈبہ نکال رہا تھا۔۔
"اپنی ناراض دوست کو منانے کی چھوٹی سی کوشش۔۔
"ہاہاہا۔۔۔ٹھیک ہے یہ بھی کر کہ دیکھ لیں۔۔
"اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟ یزان نے پلٹ کر اسے مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوۓ پوچھا۔۔
"بس ایسے ہی۔۔۔میں پھر آلو چھیل دیتی ہوں۔۔۔بسمہ مسکراہٹ ضبط کرتی ٹوکری سے آلو نکالتے ہوئے بولی جبکہ وہ سر ہلا کر کبنٹ کھنگالنے لگا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"منال کیا میں پوچھ سکتی ہوں کھانے پر آخر وہ سب کیا تھا؟ منال بیگم بی جان کہ کمرے میں موجود تھیں جو غصے سے ان سے استفسار کر رہی تھیں جبکہ منال بیگم لبوں کو سئیے سر جھکا کر بیٹھی تھیں۔
"منال جواب دو؟ نور کا غصّہ کیوں تم نے بچی پر اتارا،آہ! دیکھو منال میرے یا تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا بیٹی سوچا تھا درانی سے بات کروں گی لیکن میرے پوتے نے تو موقع ہی نہیں دیا۔۔داور اور ہالہ کا بھی رشتہ جوڑ رکھا ہے دونوں بچے بھی اس فیصلے پر خوش ہیں یہ بات اچھے جانتی ہو تم رہے ہاشم اور حمزہ تو ہاشم دفتر میں ہی کسی کو پسندکرتا ہے ہانیہ نے بتایا تھا کہ بلال کی شادی پر بھی بلاوا دیا ہے اور حمزہ وہ تو خود ابھی چھوٹا ہے ایسے میں بیٹی کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے۔۔۔۔بھلا رشتے بھی کبھی زبردستی سے جڑے ہیں، چلو میرے کہنے پر مان بھی گئے تو کیا اس بات کی ضمانت تم یا میں دے سکتی ہیں کے اسے وہی مان وہی محبت، بیوی جیسا رتبہ دیا جاۓ گا؟ بی جان کی باتوں کو سنتیں وہ رونے لگی تھیں۔۔
"آپ ہی بتائیں بی جان میں کیا کروں۔۔۔
"حوصلہ اور صبر رکھو منال اللّه نے اگر اسے ایسی زندگی دی ہے تو ہر انسان کی طرح اسکا بھی نصیب لکھ دیا گیا ہے بنا نصیب کے کوئی دنیا میں نہیں آیا ہے۔۔ویسے بھی کون سی عمر گزر رہی ہے اسکی،ان فکروں کو رفع کرو۔۔۔
"آپ صحیح کہہ رہی ہیں بی جان لیکن میں چاہتی تھی کے میری بیٹی میری آنکھوں کہ سامنے رہے یزان مجھے میری بچی کہ لئے بہت اچھا لگا تھا۔۔منال بیگم نے گیلی سانس اندر کھینچتے ہوۓ انھیں کہا تھا۔
"بچے اسکی ماں اور بہن دونوں کا رویہ ہم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، جاؤ میری پوتی کو جو چاہیے بنا کر دو خبردار میری پوتی بھوکی سوئی تو۔۔
"ٹھیک ہے پوتی کی دادی جی۔۔۔۔۔منال بیگم مسکرا کر کہتیں کمرے سے نکل کر جیسے ہی کچن کی دہلیز تک پہنچی سامنے ہی یزان اور بسمہ کو دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔۔
یزان جو ٹرے سیٹ کر رہا تھا منال بیگم کو دیکھ کر خفیف سا مسکرایا تھا۔
"چاچی آئیں نا۔ ۔
"یہ سب کیا ہورہا ہے؟
"چاچی وہ منحہ۔۔۔
"بسمہ میں بنانے آ ہی رہی تھی تم نے کیوں اتنی زحمت کی۔۔۔۔بسمہ کو ٹوکتیں وہ سپاٹ لہجے میں کہتی سرسری سی نظر یزان پر ڈال کر بسمہ کہ پاس جا کر رکی تھیں۔۔
"نہیں میں۔۔۔۔
اچانک یزان نے اسے نا بتانے کا اشارہ کیا تھا۔
"میرا مطلب زحمت کیسی بہن ہے میری۔۔۔
"خوش رہو۔۔۔جاؤ پھر لے جاؤ باقی میں تل دیتی ہوں،جاگ رہی ہے۔۔۔منال بیگم نے مسکرا کر اسکے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ ایک بار پھر بسمہ نے یزان کو دیکھا تو جو مسکرا کر سوری والا کاغذ اٹھا کر آنکھ سے اسے تسلی دیتا باہر نکل گیا تھا۔
بسمہ کے جاتے ہی منال بیگم نے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا تھا۔۔۔
"میں جانتی ہوں یزان یہ تم ہی ہو لیکن میں اپنی بیٹی پر اب کوئی تہمت برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔منال بیگم دکھ سے سوچتیں دوبارہ رخ موڑ چکی تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا وقت تھا یزان ہمیشہ کی طرح جاگنگ کر کہ جیسے ہی گیٹ سے اندر داخل ہوا منحہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اسکی جانب بڑھنے لگا سیاہ ٹی شرٹ میں اسکے کسرتی بازو نمایاں تھا۔۔
"منحہ صبح بخیر! وہ جو پہلے ہی اسکی موجودگی محسوس کر چکی تھی گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی اس سے قبل وہ جاتی حمزہ اور مومنہ دونوں جَمائیاں روکتے ہوئے انکے قریب آئے تھے۔۔
"صبح بخیر یزان بھائی۔۔۔
"صبح بخیر۔۔۔تم دونوں بھی اتنی جلدی اٹھ جاتے ہو۔۔
"ارے نہیں یہ منحہ کی بچی ہماری نیند کی دشمن بنی ہے ورنہ میں تو ابھی بھی جا کر سو سکتا ہوں۔۔۔یزان کی بات پر حمزہ نے بیچارگی سے اسے بتایا تھا کہ منحہ نے اسکے سر پر چپت لگائی تھی
یزان نے بغور ان کی بے تکلفی دیکھی تھی۔۔
"منحہ ناراض ہو؟ یزان کے پوچھنے پر منحہ لب کچلتے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگی۔۔
یزان اسکے جواب کا منتظر تھا جو اس سے بات کیا یزان کی جانب دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔۔
یزان نے حمزہ اور مومنہ کو دیکھا جو خود اسکے جواب کے منتظر تھے۔۔
"کوئی بات نہیں۔۔۔۔یزان گہری سانس لیتا اسے کہتے ہوۓ جانے لگا تھا کہ اسکا موبائل بجنے لگا۔۔
ٹراؤزر کی جیب سے موبائل نکال کر جیسے ہی اس نے اسکرین دیکھی "عنایا کالنگ* دیکھ کر کال پک کرتا کان سے لگایا تھا۔
"کیا کروں۔۔۔۔منحہ خود سے سوال کر رہی تھی جب یزان کہ منہ سے عنایا سن کر منہ بنا کر رہ گئی۔
"چڑیل آنٹی میرے دوست کو چھین لیا ۔۔
"اوے منحہ بت بن کر کیوں کھڑی ہو چلو اب۔۔۔حمزہ کی آواز پر وہ چونک کر انکی جانب متوجہ ہوئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
"یزان موم ڈیڈ ملنا چاہتے ہیں تم سے۔۔
"کس لئے؟ یزان الماری سے کپڑے نکلتے ہوۓ چونک کر بولا۔۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا یزان ہماری شادی کے سلسلے میں۔۔عنایا کی بات پر اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا تھا۔۔
"ہا ہاں ٹھیک ہے پھر میں بات کر کے امی سے بات کرواتا ہوں۔۔۔
"گریٹ.۔۔۔ویسے آج کا کیا پروگرام ہے کہیں چلتے ہیں۔۔
"عنایا آج تو ممکن نہیں ہے پاپا کہ ساتھ دفتر جا رہا ہوں پھر شام میں بلال کے ساتھ جانا ہے۔۔
"مطلب ہم نہیں مل سکتے۔۔۔عنایا نے منہ بناتے ہوئے کہتے ساتھ جیسے ہی دروازے کی طرف دیکھا اپنی بھابھی کہ بھائی کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔
"ایسا ہی ہے۔۔چلو پھر بات ہوتی ہے اللّه حافظ۔۔یزان کہ کہتے ہی دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی تھی۔۔
یزان نے جیسے ہی موبائل رکھا آوازوں پر کھڑکی کی جانب بڑھ کر اسے کھولا تھا لان کی گھاس پر بیٹھے وہ تینوں پینٹنگ کر رہے تھے یزان کی نظر منحہ کے کھلکھلاتے چہرے کی طرف اٹھی تھی کہ بے ساختہ اسکے چہرے پر بھی مسکراہٹ رینگی تھی۔۔۔۔
"بسمہ تم نے منحہ کی زندگی کا پہلا شخص تو بتا دیا لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ یزان درانی کی زندگی میں یہ پہلی لڑکی تھی جو اسکی دوست بنی تھی۔۔۔۔یزان نے خودکلامی کرتے آسمان کی طرف دیکھا تھا جبکہ منحہ جو کسی بات پر ہنس رہی تھی بے اختار اسکی نظر یزان پر پڑی تھی کہ وہ اسے دیکھتی چلی گئی لیکن جیسے ہی یزان نے سر جھکایا منحہ نے تیزی سے نظریں جھکا لیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہٹا رہے ہیں پردہ, سر عام چپکے چپکے,
میں نظارہ کر رہا ہوں, سر شام چپکے چپکے.
یہ جھکی جھکی نگاہیں, یہ حسیں حسیں اشارے,
مجھے دے رہے ہیں شاید, یہ پیام چپکے چپکے.
نہ دکھاؤ چلتے چلتے, یوں قدم قدم پہ شوخی,
کوئ قتل ہو رہا ہے, سرعام چپکے چپکے.
کبھی شوخیاں دکھانا, کبھی ان کا مسکرانا,
یہ ادائیں کر نہ جائیں میرا کام چپکے چپکے.
یہ جو ہچکیاں مسلسل مجھے آ رہی ہیں اعظم,
کوئ لے رہا ہے شاید میرا نام چپکے چپکے.
"شام کا وقت تھا گھر بھر میں زور و شور سے شادی کی شاپنگ کرنے کے لیے ہانیہ بیگم نور بیگم اور منّت بیگم اپنی بیٹیوں کہ ساتھ بازار جا رہی تھیں جبکہ منال بیگم نے جانے سے منع کر دیا تھا۔۔
"کیا ہوا ہے منال شادی میں دس دن رہ گئے ہیں کپڑے درزی کو بھی دینے ہیں سو کام ہیں ۔۔۔۔پھر داور اور ہالہ کا نکاح بھی ہے ایک دن کی اور تقریب ہے۔۔
"سب ہوجاۓ گا ہانیہ بھابھی میں دراب کے ساتھ کر آؤں گی آپ لوگ جائیں، بی جان بھی گھر میں اکیلی ہیں۔۔۔
"منال۔۔۔
"امی چلیں بلال بھائی بلا رہے ہیں۔۔۔میرال کہ اچانک آنے پر ہانیہ بیگم کہ باقی کہ جملے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔
"ٹھیک ہے چلو۔۔۔۔ہانیہ بیگم سپاٹ لہجے میں کہتیں تیزی سے باہر نکلی تھیں۔
"آپ نہیں چل رہیں؟
"نہیں میرال بیٹی دراصل منحہ اور بی جان اکیلی ہوں گی گھر پر ایسے میں وہ انھیں تنگ نہ کرے۔۔
"ہمم صحیحی کہا۔۔اوکے اللّه حافظ۔۔۔میرال انکے بتانے پر تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکا کر وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ منال بیگم گہری سانس لیتیں دوبارہ الماری میں کپڑے ترتیب دینے لگیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مومنہ،حمزہ چلو آجاؤ جلدی۔۔۔منّت بیگم کی آواز پر وہ جو منحہ کہ ساتھ ہی کھڑے تھے تیزی سے انکی جانب بڑھے ۔۔
"ممی منحہ کو بھی ساتھ لے چلیں۔۔۔
"ہم شوپنگ کرنے جا رہے ہیں نا کہ سرکس۔۔۔نور بیگم کی بات پر سب نے ایک دوسرے سے نظروں کا تبادلہ کیا تھا۔۔
"ممانی ایسے۔۔۔
"حمزہ خاموش رہو۔۔۔منحہ نہیں جا سکتی ہمارے ساتھ کیونکہ اسکی ماما بھی گھر میں ہی ہیں۔۔۔۔
"کیا ماما نہیں جا رہیں۔۔۔منّت بیگم کی بات پر منحہ نے حیرت سے کہہ کر اندر کی جانب دوڑ لگائی تھی جبکہ حمزہ منہ پھولا کر دوسری گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔
"منّت میری مانوں تو تم بھی دور کرو اپنے بچوں کو اس باولی سے خاص طور پر اپنے بیٹے کو، یہ حسین معصوم چہرہ آسیب بن سکتا ہے دوسرا بی جان کی لاڈلی ہے آگے تم خود سمجھدار ہو۔۔۔۔نور بیگم انھیں ورغلا کر گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما۔۔۔۔۔ماما ہم کیوں نہیں جا رہے سب کے ساتھ؟ منحہ دھڑام سے دروازہ کھولتی بھاگتی ہوئی اندر آکر منال بیگم سے سوال کرنے لَگِی۔
"منحہ دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اگر سب چلے جائیں گے تو دادی کی دیکھ بھال کون کرے گا؟
"کیا دادی بیمار ہیں؟
"ہاں صبح سے انھیں بخار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ منحہ کے حیرت سے پوچھنے پر منال بیگم بے ہاتھ میں پکڑا سوٹ اندر رکھتے ہوۓ بتا کر جیسے ہی رخ پھیرا منحہ کمرے سے غائب ہوچکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔
"آہ!! منحہ جیسے ہی بی جان کہ کمرے میں داخل ہوئی باہر آتے یزان سے زور کا تصادم ہوتے ہی منحہ کا سر گھوم کر رہ گیا تھا اس سے قبل وہ پیچھے گرتی یزان نے تیزی سے اسکے بازو کو پکڑ کر کھینچا تھا۔۔
"سمبھل کر۔۔۔۔یزان کی آواز وہ بھی اتنے نزدیک سے سن کر اس نے گھبرا کر سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"منحہ کیا ہوا؟ بی جان کی آواز پر اس نے یزان کے پیچھے سے جھانکا تھا۔۔
"دادی منحہ یزان بھائی سے ناراض ہے آپ کہہ دیں منحہ اب کبھی بات نہیں کرے گی۔۔۔منحہ کی بات پر بے ساختہ یزان جی جان سے مسکرایا تھا جبکہ اندر بیڈ پر نیم دراز بیٹھیں بی جان نے مسکراتے ہوۓ اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا۔
"دادی آخر یزان نے کیا کیا ہے منحہ سے پوچھیں۔۔۔یزان نے بھی مسکراہٹ ضبط کرتے چہرہ پیچھے کرتے اونچی آواز میں پوچھا تھا۔۔
"دادی یزان بھائی منحہ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۔منحہ خفگی سے کہتی اپنا بازو چھڑوا کر دوپٹے سے کھیلنے لگی جبکہ یزان کہ چہرے سے مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔۔
"واپس آ گیا ہوں اب کبھی نہیں جاؤں گا۔۔۔۔یزان اسے دیکھتے ہوۓ بولا تھا جس کا دوپٹے سے کھیلتا ہاتھ اسکی بات پر روکا تھا دوسری طرف بی جن مسکراتی ہوئیں بیڈ سے اتر کر وہاں آئیں تھیں۔
"منحہ۔۔بی جان کی آواز پر منحہ نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا تھا
"آپ چڑیل آنٹی کہ ساتھ آئے ہیں منحہ کو وہ نہیں پسند۔۔
"آہ! منحہ بری بات بیٹی وہ یزان بھائی کی ہونے والی بیوی ہے۔۔۔بی جان نے دکھ سے اسے دیکھتے ہوۓ بتایا تھا منحہ اپنی معصومیت میں جو دل میں تھا بول چکی تھی جبکہ یزان کی سماعتوں میں بسمہ کی باتیں گونجنے لگی ہاں اتنی ناراضگی کی وجہ وہ نہیں اسکے ساتھ آئی عنایا تھی۔۔۔
"منحہ تم ملی ہی نہیں ہو اس۔۔۔
"مل چکی ہوں۔۔۔وہ مجھے نہیں پسند۔۔۔یزان کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر منحہ اونچی آواز میں کہتی تیزی سے بھاگی تھی۔۔
یزان ششدر رہ گیا تھا اتنا غصہ۔۔۔
"یزان میرا خیال ہے اسے اسکے حال پر چھوڑ دو پہلے ہی میری بچی سے سب کی ازلی دشمنی ہے۔۔۔۔بی جان کہتے ہوۓ اندر چلی گئی تھیں جبکہ یزان لب بھینچے تیزی سے وہاں سے گیا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"یزان بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ منال بیگم جو لاؤنج میں صوفے پر بیٹھیں جاول چن رہی تھیں اسے دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگیں۔۔
"چاچی باہر جا رہا ہوں آپ کو کچھ منگوانا ہے؟
"نہیں میں بس یونہی پوچھ رہی تھی۔۔منال بیگم کی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے پر وہ لاؤنج عبور کر گیا لیکن جیسے ہی وہ بائیک کی طرف بڑھنے لگا اچانک ہی اسکی نظر لان کی طرف اٹھی تھی۔
یزان ٹھٹکا منحہ کرسی پر بیٹھی گڑیا سے باتیں کرنے میں مگن تھی منحہ کو دیکھ کر جانے کیوں سینے میں درد کی لہر اٹھی تھی۔۔سب کہ ہونے کے باوجود بھی آج بھی وہ اکیلی تھی اسکی چھوٹی معصوم سی گڑیا تنہا تھی۔۔۔۔
اس سے قبل وہ اسکی جانب قدم بڑھاتا ندیم(ملازم کا بیٹا) کو اسکی طرف جاتے دیکھ کر یزان کی رگیں تن گئی تھیں آخر اس وقت اس کا یہاں کیا کام تھا۔۔
اس سے قبل وہ آگے بڑھتا بپ کی آواز پر چونکا موبائل نکال کر دیکھا جہاں عنایا کا میسج آیا ہوا تھا۔۔
"یزان باہر ہو؟
"ہاں۔۔۔ایک نظر دوبارہ سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے جلدی سے لکھ کر سینڈ کرتے موبائل جیب میں رکھ کر تیزی سے انکی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔
"مجھے نہیں چاہیے۔۔۔۔منحہ کے کہتے ہی اس نے دوبارہ منحہ کو چاکلیٹ دینے کی کوشش کی تھی۔۔
یزان نے نزدیک آتے ہی اسکا رخ اپنے سامنے کرتے اسکا گریبان جکڑا تھا کہ وہ بری طرح گھبرا گیا تھا۔
"کیا کر رہا ہے اس وقت یہاں ہاں۔۔۔۔۔
"ص صاحب جی وہ باجی نے یہ منگوائی تھی میں تو بس دے رہا تھا لیکن اب منع کر رہی ہیں۔۔۔ندیم کے سفید جھوٹ پر منحہ حیرت سے اسے دیکھتی اپنی جگہ سے اٹھی تھی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
"نہیں۔۔۔جھوٹ یزان بھائی۔۔۔میرے پاس تو پیسے بھی نہیں ہیں۔۔۔ہیں نہ گڑیا تم بتاؤ۔۔۔منحہ نے کہتے ساتھ اپنی سچائی ثابت کرنے کہ لئے گڑیا سے گواہی دلوانی چاہی تھی اتنے گمبھیر ماحول میں بھی یزان نے لبوں کو سختی سے بھینچ کر اپنی امنڈ آنے والی مسکراہٹ دبائی تھی۔۔
"نہیں صاحب یہ جھوٹ ہے۔
"منحہ جھوٹ نہیں بولتی سمجھا۔۔۔اس سے پہلے میں تیری ہڈیاں توڑ دوں دفع ہوجا یہاں سے ورنہ وہ حشر کروں گا کہ بولنے کہ قبل بھی نہیں رہےگا۔۔۔ہٹ! یزان غصّے سے کہتے اسے دھکا دے چکا تھا۔۔
یزان کے چھوڑتے ہی وہ دم دبا کر بھاگا تھا ورنہ کوئی بعید نہیں تھا کہ یزان واقعی اسکی ہٹڈیاں توڑ دیتا۔۔
ندیم کہ وہاں سے جاتے ہی یزان نے منحہ کی جانب رخ کیا تھا جو گڑیا کو سینے سے لگائے اپنے سامنے لمبے چوڑے یزان کہ مقابل چھوٹی سی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔
"منحہ جب کوئی گھر میں نا ہو تو اکیلے مت رہا کرو ۔
"تو کیوں سب اکیلا چھوڑ کر جاتے ہیں؟ تائی امی بھی غصّے سے دیکھتی ہیں منحہ کو تبھی کوئی بھی ساتھ لے کر نہیں جاتا۔۔۔۔منحہ نے منہ بناتے ہوۓ شکایت لگائی تھی۔۔
یزان نے اسکی بات پر گہری سانس لیتے منحہ کہ ہاتھ سے گڑیا چھینی تھی کہ منحہ نے تیزی سے اس سے واپس کھینچنی چاہی تھی ۔
"دیں میری گڑیا۔۔۔۔منحہ نے اچھلتے ہوئے اس سے گڑیا لینی چاہی جس نے اپنا ہاتھ اونچا کر لیا تھا۔۔
"پہلے مجھے میری گڑیا واپس کرو۔۔۔۔یزان اسکے چہرے پر نظر جمائے بولا تھا۔۔
"میرے پاس نہیں ہے۔۔
"بالکل ہے۔۔۔
"اللّه کا پکّا وعدہ منحہ کے پاس ایک ہی گڑیا ہے۔۔۔منحہ نے اسے یقین دلانا چاہا تھا۔
"اللّه کا پکّا وعدہ میری گڑیا تمھارے پاس ہی ہے۔۔۔یزان نے بھی اسی کہ انداز میں کہا۔۔
ؓمنحہ نے اسکی بات پر لب کچلنا شروع کردیے تھے یزان اسکی کیفیت سمجھتے ہی مسکرا کر اسکی ناک کو آہستہ سے چھو کر مسکرایا۔۔
"یہ۔۔۔ یزان کا اشارہ اسکی طرف تھا لیکن منحہ کہ جواب پر اسکا دماغ بھک سے اڑا تھا۔۔
"یہ تو ناک ہے میری۔۔۔۔۔منحہ اپنی ناک کو چھوتے ہوۓ بولی اسے حیرت تھی اتنے بڑے ہو کر بھی اسے ناک اور گڑیا کا فرق نہیں معلوم تھا۔۔
"آہ! ٹھیک ہے پھر یہ۔۔ یزان نے کہتے ساتھ اسکے مومی ہاتھ تھامے تھے۔۔
"یزان بھائی یہ ہاتھ ہے آپ کو اسکول میں نہیں پڑھایا۔۔۔
"کیا واقعی اسے ہاتھ کہتے ہیں؟ یزان لب دبا کر مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ پوچھنے لگا اپنی حیرانگی میں وہ بھول گئی تھی کہ یزان سے وہ سخت ناراض تھی۔۔
"جی یہ ہاتھ ہے۔۔
"اور اسے کیا کہتے ہیں؟ یزان نے اسکی چٹیا پکڑ کر پوچھا۔۔
"اسے بال کہتے ہیں ہاہاہاہا یزان بھائی کڑھ مغز۔۔۔منحہ نے بتاتے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوۓ اسے کہا تھا کہ یزان اسکے ہنسنے پر کھل کر مسکرایا تھا۔۔
"منحہ کی بچی مجھےکڑھ مغز کہا ہاں۔۔۔۔مصنوعی گھوری سے اسے دیکھتا وہ منحہ کہ پیچھے بھاگا تھا دونوں لان میں آگے پیچھے بھاگ رہے تھے منحہ اور یزان دونوں کہ کھلکھلانے کی آوازیں وہاں گونج رہی تھیں۔۔آوازوں پر منال بیگم نے کھڑکی سے جھانکا تو حیران رہ گئیں۔۔۔ستائیس سالہ یزان درانی اس وقت کہیں سے بھی بڑا نہیں لگ رہا تھا۔۔
دونوں کہ چہرے ہنسنے اور بھاگنے سے سرخ ہوچکے تھے۔
دونوں ایک دوسرے میں اتنے مگن تھے کہ گیٹ سے اندر بڑھتی گاڑی کا بھی معلوم نہیں چل سکا منال بیگم نے چونک کر روش پر دیکھا تھا جہاں عنایا اپنی فیملی کہ ساتھ موجود تھی۔۔
"یہ یزان ہے نا؟ عنایا کی بہن نے طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا جو دنگ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔یزان نے منحہ کو پکڑتے ہی کیاریوں سے ہی پھلانگ کر اندر کی جانب قدم بڑھائے تھے۔۔
عنایا کی آنکھوں کہ سامنے کینیڈا کے مناظر گھومنے لگے جہاں وہ اکثر لڑکوں کہ چیلنج کرنے پر ریسلنگ کیا کرتا تھا۔۔۔۔ہر کوئی اس سے متاثر تھا۔۔۔
"لو عنایا تم یہاں اسے سرپرائز دینے آئی تھی لیکن یہاں تو کوئی اور ہی نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔۔۔عنایا کی بھابھی نے بھی کندھے اچکائے تھے۔۔
عنایا یزان کو سرپرائز دینے کہ لئے اپنی بہن بھابھی کہ ساتھ آئی تھی تاکہ جب یزان گھر پہچے تو اسے دیکھ کر خوش ہوجاۓ۔۔۔۔