Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz Novel is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their heart. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one.
Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz Novel
Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz is a special novel, many social evils has been represented in this novel. Different things that destroy today’s youth are shown in this novel. All type of people are tried to show in this novel.
Rude Hero Based Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz Novel | Romantic Urdu Novels
Sumaira Sarfaraz has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
If you want to download this novel, you can download it from here:
↓ Download link: ↓
Note! If the link doesn’t work please refresh the page
Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz Complete PDF
Read Online Wafa K Rastoon Pr by Sumaira Sarfaraz:
Episode 1 to Last
ناول : وفا کے رستوں پہ
مصنفہ : سمیرا سرفراز
ماحد کی شادی کی بات کیا چلی ،چھوٹی تائی نے پھر دل پکڑ لیا ۔خدا نخواستہ انہیں ماحد کی شادی کا نہ کوئی غم تھا نہ اعتراض ۔انکا تو سدا سے ایک ہی دکھ تھا ۔
"ثانیہ کا کہیں رشتہ نہیں لگا ۔" (انکا مخصوص جملہ )
"بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی دکھ کرنے والی بات تھی؟ "
بلکل یہی جملہ چھوٹے تایا نے کوئی پچاسویں بار ان سے بولا ۔
"ہاں آپکو کیوں دکھ لگے گا ؟ ابّا میاں کے بیٹے جو ٹھہرے ،جیسے انھیں ثانیہ کی کوئی عمر ہی نظر نہیں آتی ویسے ہی آپکو بھی نہیں دکھتا کہ اس سے چھوٹوں کی شادیاں منگنیاں اسی چھت تلے کس دھوم دھام سے نمٹتی جارہی ہیں ۔"
چوٹی تائی پھپھک کر رودیں ۔وہ بیچاری سیدھی سادھی عورت تھیں لڑھنا جھگڑنا انھیں نہیں آتا تھا بس سوں سوں رو کر ہی احتجاج ریکارڈ کروادیتیں اور ابّا میاں نے بھی انکی پسپائی کا خوب ہی فائدہ اٹھایا تھا ۔ہر سال اس گھر میں کسی نہ کسی کا رشتہ طے ہوجاتا ،منگنی کی مٹھائی بٹتی ،شادیانے بجتے اور ہر بار چھوٹی تائی ابّا میاں کے حضور منمناکر عرضی پیش کرتیں ۔
"ابّا میاں ثانیہ ان سب سے بڑی ہے ،آپ نے سب سے چھوٹی توقیر تک کا رشتہ پکّا کردیا ،آخر آپ ثانیہ کے لئے کیوں نہیں سوچتے ۔"
وہ روہاںسی ہوجاتیں اور ابّا میاں کا بھی وہی سدا کا جواب تھا ۔
"کوئی عمر نہیں نکلی جارہی ۔ثانیہ کی فکر چھوڑدو چھوٹی دلہن ۔"
انکا اطمینان قابل دید ہوتا ۔چھوٹی تائی شکل دیکھ کر رہ جاتیں ۔بقول بڑے چاچو کے تیمور کے ۔
"خدا کی قسم سارا قصور چھوٹی تائی کی شرافت کا ہے۔ انکی جگہ میری اماں ہوتیں تو اسوقت ثانیہ آپی کے دو تین بچے یہاں اچھلتے کودتے پھر رہے ہوتے ۔"
تیمور بڑے چاچو کا چھوٹا سپوت ،بقول چھوٹے چاچو کی اکلوتی دختر توقیر انور کے :
"تیمور بھائی کی زبان گھر میں سب سے لمبی ہے۔ یہ تو اپنی بیوی کی بھی ساس بن جاینگے ۔"
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی تیمور کی شعلہ بیانیوں سے پناہ مانگتی مگر اس کے سوا گھر میں سب کو پتا تھا کہ اس ساس نما شوہر کی بیچاری بیوی وہی غریب بننے والی تھی۔ اسکی کم عمری اور سادہ مزاجی کے سبب ابّا میاں نے سخت تاکید کی تھی کہ اسے بالکل ابھی اس رشتے سے آگاہ نہ کیا جائے ۔یوں بھی وہ گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔نازک سی توقیر کا نام اتنا بھاری اور مردانہ کیوں تھا تو اسکا سیدھا سا جواب یہ تھا کہ چونکہ وہ اپنی اکلوتی اماں کی اکلوتی بیٹی تھی تو اسی حساب سے اپنی نانی کی اکلوتی نواسی بھی تھی سو بڑے ارمانوں سے نانی اماں نے اسکا نام توقیر تجویز کیا تھا اور یہاں بھی کسی کو اعتراض کی جرّات نہ ہوئی کہ خیر سے توقیر کی نانی اور دادی آپس میں سگی خالہ زاد اور پکّی والی سہیلیاں تھیں ۔نانی اماں کی وفات اسکی پیدائش کے اگلے ہی ماہ ہوگئی تھی سو اس غم میں بھی اماں بی (دادی) نے توقیر کا نام اپنی سہیلی کی نشانی کے طور پر بدلنے نہ دیا۔اب تو خیر عرصہ ہوا اماں بی بھی راہئ عدم ہوچکی تھیں۔ یوں بھی گھر میں سکّہ ابّا میاں کا چلتا تھا سو وہ اب بھی سب کے سربراہ کے طور پر اس گھر میں موجود تھے ۔
******************
بات ہورہی تھی ما حد کی شادی کی۔ ما حد بڑے چاچو کا بڑا بیٹا، تیمور کا بڑا بھائی تھا۔ گھر کے چند سلجھے ہوئے بچوں میں سے ایک۔ اسکا قرعہْ فال پھوپو کی بیٹی ماہا کے نام نکلا ۔دونوں کی ذاتی پسندیدگی ابّا میاں کی زیرک نگاہوں سے بچ نہ سکی لہٰذا انھیں سب کے سامنے شرمندہ کرنے کے بجاۓ سیدھے طریقے سے جائز بندھن میں باندھ دیا گیا ۔اس کے علاوہ بڑے چاچو کی سبسے بڑی اور اکلوتی بیٹی ہانیہ خیر سے دو سال پہلے پیا دیس سدھار چکی تھی۔ چھوٹے تایا کی ثانیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تھی جو پھوپو کے بڑے بیٹے ہارون سے بیاہ دی گئی تھی ۔ان دونوں سے چھوٹا ایک بیٹا تھا جو فا لحال یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ۔ان سب سے پرے اس گھر میں ایک خاندان سب سے بڑے تایا ابّا اور تائی اماں کا بھی تھا ۔ان کے اکلوتے بیٹے فاران بھائی تا حال کنوارے تھے اور اکثر منظر عام سے غائب ہی رہتے تھے .کہا جاتا ہے کہ کچھ سال پہلے جب وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنا اچھا خاصا کاروبار جما چکے تھے اور تائی اماں ان کے سر پر سہرا سجانے کی تیاریوں میں تھیں تب اچانک ایک دن خبر ملی کہ جس زمین پر فاران نے اپنی چھوٹی سی فیکٹری ڈالی تھی وہ زمین ناجائز تجاوزات کی زد میں آگئی تھی سو فیکٹری بند کرنا پڑی، زمین چونکہ فاران کی اپنی نہیں تھی لہٰذا وہ کسی قانونی معاملے میں نہیں گھسیٹے گئے مگر نقصان بہرحال انھیں بھی خاصا ہوا۔ انکا جما جمايا کاروبار خطرے میں پڑگیا اور اس پریشانی میں وہ سب سے لاتعلّق ہوگئے ۔ایسے میں شادی کا معاملہ ازخود ہی ٹھنڈا پڑگیا ۔ کچھ عرصہ سوچ بچار کے بعد فاران نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور شہر چھوڑ گئے ۔ کچھ دوستوں کی معاونت سے ایک دوسری جگہ وہی کام پھر سے شروع کیا اور اللّه نے پھر برکت ڈال دی ، روزگار کی وجہ سے فاران کا ٹھکانہ بھی بدل گیا سو اب وہ مہینے دو مہینے میں ایک چکّر گھر کا لگا لیتے تھے ۔ ینگ پارٹی میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ فاران بھائی کی شادی کس سے ہونے والی تھی کیونکہ تائی اماں نے صرف شوشہ چھوڑا تھا باقاعدہ بات کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی لہذا گھر میں کسی کو بھی ٹھیک سے اس بات کا علم نہیں تھا مگر تیمور کو پکّا یقین تھا کہ ابّا میاں کو تو ضرور ہی اس سارے معاملے کی خبر تھی کیونکہ انکی مرضی اور دخل اندازی کے بغیر تو گھر میں کھانا تک نہیں پكتا تھا تو پھر کیسے ممکن تھا کہ سب سے بڑے اور لاڈلے پوتے کی شادی کا معاملہ ان سے مخفی رہتا ۔ بات ٹھیک تھی مگر کسی بڑے سے پوچھنے کی ہمّت بہرحال ان میں سے کسی میں نہیں تھی پھر جس طرح ابّا میاں نے ثانیہ آپی کے معاملے میں بے نیازی طاری کر رکھی تھی ویسے ہی فاران بھائی کا نام بھی وہ کبھی نہیں لیتے تھے ۔ ملنے جلنے والوں میں یہ بات اکثر ہی موضوعِ گفتگو رہتی تھی مگر ابّا میاں سے براہ راست کوئی بھی کچھ نہ کہتا تھا۔ بس ایک تیمور ہی تھا جسے ہر تھوڑے دن بعد فاران اور ثانیہ کا غم ستاتا تھا۔ اب بھی اپنی اماں محترمہ کے پہلو میں بیٹھی ثانیہ کو دیکھ کر اسکی زبان میں کھجلی ہوگئی تھی۔
"ہائے ثانیہ آپی کاش میں آپ سے بڑا ہوتا تو آپ جیسی لڑکی کو کبھی ہاتھ سر جانے نہ دیتا۔"
اسکی بے پر کی اڑانے پر بڑی چچی نے رج کے اسے گھورا تو جوڑے پیک کرتی ثانیہ کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
"ہاں اور آپ کی لمبی زبان کے جوہر دیکھ کر ثانیہ آپی آپ کی روز مار لگاتیں۔"
پاس سے گزرتی توقیر نے فوراً لقمہ دیا ۔ اس بار تیمور کا قہقہہ سب سے بلند تھا۔ بڑی چچی بھی سر نیچا کرکے مسکرادیں ۔
"ویسے تیمور مجھے تو اب بھی تمہارے مستقبل کے آثار کچھ ایسے ہی نظر آرہے ہیں ۔"
ثانیہ نے دہلیز پار کرتی توقیر کو دیکھ کر کہا ۔
تیمور پھر ہنس دیا۔
"چھوڑیں آپی اسے تو یہ سنتے ہی ہارٹ اٹیک آجاۓ گا ۔ وہ بھی ماں کا لحاظ کئے بغیر بولا ۔
"اچھا چپ خبردار جو کبھی اس کے سامنے یہ شوشہ چھوڑا ۔وقت آنے پر ہم خود بتادینگے ۔"
چچی نے اسے گھرکا ۔
"تو کب آئے گا وہ وقت ؟"
وہ پھر دوبدو بولا۔ چچی نے سر پکڑ لیا ۔ثانیہ پھر ہنس دی ۔
"دیکھو اس بے شرم کو۔ "
وہ اسکا سر ہلا کر خود اٹھ گئیں ۔
"چچی کا تو لحاظ کرلیا کرو بے صبرے ۔"
ثانیہ نے اسے آنکھیں دکھائیں ۔وہ بے پروائی سے ہنس دیا ۔
ثانیہ پھر جوڑوں کے ساتھ مصروف ہوگئی ۔
"یہ فاران بھائی کب آئیں گے ۔تین دن بعد تو رسمیں شروع ہورہی ہیں۔ "
اسے پھر فاران کا دورہ پڑگیا تھا۔ ثانیہ نے چونک کر اسے دیکھا جیسے اسے خود یہ خیال ابھی آیا ہو ۔
"پتہ نہیں ۔ان کے بارے میں تو بس ابّا میاں کو ہی ٹھیک سے پتہ ہوتا ہے ۔ویسے بھی وہ کونسا ہر تقریب میں شرکت کرتے ہیں ۔وقت ہوا تو آگئے ورنہ نہیں ۔"
اس نے لا پرواہی سے کہتے ہوئے دوپٹے کی تہہ لگائی ۔
"ویسے ثانیہ آپی آپکو تو پتہ ہوگا کہ تائی اماں نے فاران بھائی کے لئے کس لڑکی کو پسند کیا تھا۔ "
تیمور کی رگِ جاسوسی پھر پھڑک اٹھی ۔
"پتا نہیں تیمور میں اسوقت کالج میں پڑھتی تھی۔ فاران بھائی بہت خوش رہتے تھے ۔ہروقت ابّا میاں سے راز و نیاز میں مصروف رہتے اور کسی سے انکی گھر میں اتنی بے تکلفی نہیں تھی۔ مگر جب انکا بزنس ٹھپ ہوا وہ اچانک بہت خاموش رہنے لگے اور پھر چلے ہی گئے ۔تایا ابّا تائی اماں نے پلٹ کر نام نہیں لیا انکی شادی کا۔ مجھے تو لگتا ہے وہ لڑکی فاران بھائی کی اپنی پسند تھی اور یقیناً اسنے بھی انکار کردیا ہوگا ورنہ وہ یوں شہر چھوڑ کر تو نہ جاتے۔"
ثانیہ آج پہلی بار تفصیل سے بولی تھی۔ تیمور بہت دھیان سے ساری بات سن رہا تھا ۔
"اور آپ سے کیا بیر ہے ابّا میاں کو؟ "
اس کے اچانک سوال پر ثانیہ کا دھیان ٹوٹا۔
"اللّه نہ کرے ۔مجھ سے کیوں بیر ہونے لگا انہیں ۔مجھ سے تو وہ سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔"
اس نے برا سا منہ بنا کر تیمور کو گھورا ۔
"پھر آپ کے لئے آنے والے ہر رشتے کو کیوں انکار کردیتے ہیں وہ ؟"
تیمور آج سارے جواب جان لینا چاہتا تھا۔
"مجھے ابّا میاں پر پورا بھروسہ ہے۔ وہ میرے لئے جو بہتر سمجھتے ہیں وہی کرتے ہیں۔امی کو بھی میں یہی سمجھاتی ہوں مگر وہ ماں ہیں ان سے میں نہیں لڑسکتی ۔اور رہا سوال رشتوں کا۔ تو جب مجھے کوئی جلدی نہیں تو باقی لوگوں کو کیا پریشانی ہے۔جب اللّه نے لکھا ہوگا ہوجائیگا۔ "
اس کے لہجے کا سکون اسکے اندرونی اطمینان کو ظاہر کررہا تھا جبھی چھوٹی تائی نے اسے آواز دی تو وہ تیمور سے معذرت کرتی ہوئی چلی گئی ۔
"گھر کے دونوں بڑے کنوارے ! ہو نہ ہو اس بات کا آپس میں تعلّق ضرور ہے ۔"
تیمور نے کمرے سے نکلتی ثانیہ کو دیکھ کر سوچا تھا ۔
*******************
بنو ری بنو مری
چلی سسرال کو
آنکھوں میں پانی دے گئی
دعا میں میٹھی گڑ خانی دے گئی
شادی کے ہنگامے شروع ہوچکے تھے ۔پہلا مایوں پھوپھو کے گھر ماہا کا ہورہا تھا۔ وہ ساری کی ساری 'نَندیں' بن کر بری لے کر آئی تھیں اور اب بہنیں بن کر بدائی کے گیت گارہی تھیں۔ ماہا لیمن اور آتشی رنگ کے خوبصورت فراک پجامے میں بے حد پیاری لگ رہی تھی اور مسکرا مسکرا کر سب سے مبارک باد وصول کر رہی تھی۔ ثانیہ بڑی چچی کے ساتھ مل کر سارا سامان سیٹ کرہی تھی جو پھوپھو کی فرمائش پر نمائش کے لئے پیش کیا جارہا تھا کہ آخر ان کے سسرال والوں کو بھی پتا چلے کہ انکا میکہ اور انکی بیٹی کا سسرال کوئی كنگلا نہیں ہے۔ تائی اماں اور چھوٹی چچی کی طرح بڑی چچی بھی ثانیہ پر ہی انحصار کرتی تھیں کہ ایک تو وہ بڑی اور سمجھدار تھی پھر ہر ایک کی مدد کے لئے ہمہ وقت خود کو پیش کئے رکھتی تھی۔ کھانے پکانے سے لے کر دیگر معاملات تک میں اس کی اپنی خاص مہارت تھی اور اپنی نرم خوئی کے سبب وہ سب کی پسندیدہ ہںستیوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اس کے چہرے پر ہر وقت اک نرم تاثر رہتا جس کے باعث گھر کا ہر فرد اس سے بلا جھجک اپنے دل کی بات کہہ لیتا تھا۔
اب بھی آسمانی اور سفید چکن کاری کے سوٹ پر دھانی رنگ کا دوپٹہ اوڑھے، اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وہ سب میں منفرد لگ رہی تھی ۔اس کے نقوش تیکھے نہ سہی مگر رنگت خوب دمکتی ہوئی تھی جو اسے ازخود ہی سب میں نمایاں کردیتی تھی۔
" تم ثانیہ ہونا ۔عابدہ کی بھتیجی ؟"
وہ توقیر کے ساتھ کھڑی بری کے جوڑوں پر تبصرہ کر رہی تھی جب ایک خاتون نے اسے بازو سے پکڑ کر مخاطب کیا۔
" جی آپ پھوپھو کی امریکہ والی نند ہیں نا فضیلہ آنٹی ؟"
وہ بنا گھبراۓ پہچان کے مراحل طے کر گئی ۔
" واہ بھئی تمہاری یادداشت کی تو داد دینی پڑیگی بیٹا۔ میں کم و بیش پانچ سال بعد پاکستان آئی ہوں ۔"
فضیلہ آنٹی حیران ہوئیں تو ثانیہ دھیمے سروں میں ہنس دی۔
"آجکل کیا کر رہی ہو بیٹا؟ "
فضیلہ آنٹی نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
" کچھ خاص نہیں آنٹی بس ماسٹرز کے بعد گھر میں ہی ہوتی ہوں۔ گھر کی مصروفیت ہی اتنی ہوتی ہے کہ کچھ اور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔ "
وہ حسبِ عادت اخلاق نبھانے لگی ۔ کچھ فاصلے پر بیٹھی تائی اماں اور چھوٹی تائی بظاھر لوگوں سے محوِ گفتگو ہونے کے باوجود اپنے اپنے دھیان میں اسی طرف متوجہ تھیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں ثانیہ فضیلہ آنٹی کو تائی اماں اور چھوٹی تائی کے پاس چھوڑ کر خود لڑکیوں کے جھنڈ کی طرف بڑھ گئی تھی ۔
**************
اگلے دن ماحد کا مایوں تھا اور اسکے بعد بارات اور ولیمے کی تقریب ،جہاں سب نے جی بھر کر انجوئے کیا وہیں ہر تقریب میں ثانیہ کے لئے چھلکتا فضیلہ آنٹی کا خصوصی التفات بھی کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا تھا۔ ثانیہ فطرتاً گھلنے ملنے والی خوش مزاج لڑکی تھی لہٰذا اس نے اس معاملے میں بھی کچھ خاص محسوس نہیں کیا مگر گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں اور پھر وہی ہوا جو سب کے ذہنوں میں پک رہا تھا۔ ایک شام فضیلہ آنٹی عابدہ پھوپھو کے ساتھ گھر پر ملنے آئیں اور جاتے جاتے اپنے بیٹے کا رشتہ چھوٹی تائی کو پیش کرگئیں۔
**************
اس بار وہ ہوگیا تھا جو کبھی نہیں ہوا تھا یعنی اس بار چھوٹی تائی نے ضد پکڑلی تھی۔ابّا میاں کے سامنے اڑھ گئی تھیں،وہ کسی بھی طور یہ رشتہ گنوانے کے حق میں نہیں تھیں۔ فضیلہ آنٹی انکی دیکھی بھالی تھیں۔ عابدہ پھوپھو کے سسرال والے کوئی ایسے ویسے لوگ نہ تھے،پھر فضیلہ آنٹی تو عرصے سے امریکہ میں مقیم تھیں،بڑا اچھا کاروبار سیٹ تھا وہاں ان کے شوہر کا۔ان کا بڑا بیٹا بھی باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک تھا۔تصویر میں تو دکھ بھی بڑا اچھا رہا تھا۔چھوٹے تایا بھی کچھ کچھ متّفق سے ہورہے تھے،روز ابّا میاں کے کمرے میں بیٹھک لگتی،عابدہ پھوپھو بھی قائل کرنے پہنچ جاتیں۔
"ابّا میاں اب تو ہاں کردیں۔ہارون کی دفعہ بھی میں نے کتنے مان سے رشتہ مانگا تھا مگر آپ نے جھٹ ثانیہ کو ہٹا کر تانیہ کو پیش کردیا،چلیں یہ تو نصیبوں کی بات تھی،تانیہ بھی مجھے کم پیاری نہیں مگر اب تو اتنا اچھا رشتہ ہے،بھیا بھابھی کو بھی اعتراض نہیں پھر آپ ۔۔۔"
"ان کی مجال ہے کوئی اعتراض کرنے کی ۔"
ابّا میاں جو اب تک پتهر کی مورت بنے بیٹھے تھے پھوپھو کی اس بات پر اچانک جلال میں آگۓ مگر پھوپھو ذرا نہ گھبرائیں ۔
"بالکل مجال ہے انکی ،آخر کو ماں باپ ہیں وہ ثانیہ کے اور پھر آپ کوئی وجہ بھی تو نہیں بتارہے انکار کی ۔"
وہ اکلوتی بیٹی ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھارہی تھیں ورنہ ابّا میاں کو دوبدو جواب دینے والا پیدا نہ ہوا تھا۔چھوٹے تایا یوں دروازے سے ٹیک لگائے کھڑے تھے جیسے یہ انکی نہیں کسی اور کی بیٹی کا معاملہ ہو اور وہ بس سن گن لینے آئے ہوں۔بچوں کو اسطرف آنے کی اجازت نہیں تھی ۔چھوٹی تائی چاۓ کی ٹرے لئے آئیں تو ابّا میاں کے تاثرات دیکھ کر ماحول کی گرمی کا اندازہ کرنے لگیں۔ابّا میاں نے ایک سنجیدہ نظر انکے گھبراۓ ہوئے چہرے پر ڈالی اور اپنا مخصوص کپ اٹھالیا ۔
"اب کچھ تو بولیں ابّا میاں۔"
پھوپھو نے بڑا گھونٹ چاۓ کا بھر کر پھر ابّا میاں کوچھیڑا۔
"میں بول چکا جو بولنا تھا،تم کچھ بھی کہہ لو ثانیہ کا رشتہ وہاں نہیں ہوگا۔"
انہوں نے کپ کنارے رکھ کر پھوپھو کو انگلی دکھائی۔
"ابّا میاں اللّه کا واسطہ آپکو! یا تو مجھے واضح وجہ بتادیں انکار کی یا پھر مان جائیں۔ "
چھوٹی تائی کے مشہورِ زمانہ آنسو پوری رفتار سے بہنا شروع ہوئے تو وہ لمحوں میں ابّا میاں کے قدموں میں بیٹھ گئیں۔ابّا میاں اچھل کر پیچھے ہٹے۔
"اٹھاؤ اسے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ "
وہ پوری طاقت سے چھوٹے تایا پر چلاۓ۔
"نہیں آج میں جواب لیکر جاؤنگی،آخر ثانیہ کی شادی کیوں نہیں ہونے دیتے آپ۔ "
چھوٹی تائی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔چھوٹے تایا اور پھوپھو انکو سنبھالنے لگے۔ابّا میاں کو یہ ضد ایک آنکھ نہ بھائی مگر وہ اندر سے حیران ضرور ہوئے تھے اس جرات پر۔آوازیں شاید باہر جارہی تھیں جبھی تایا ابّا اور تائی اماں افتاں و خیزاں دوڑے چلے آئے۔
"ابّا میاں یہ ۔۔۔"
تایا ابّا کا جملا مکمل نہ ہوا تھا کہ ابّا میاں اٹھ کھڑے ہوئے۔
"چلے جاؤ سب یہاں سے ابھی اور اسی وقت ۔"
انکی سنجیدہ اور گہری آواز ایک مکمل تنبیہ تھی ۔چھوٹی تائی نے ایک ملامتی مگر بےبس نگاہ سے انھیں نوازا اور باہر نکل گئیں۔رفتہ رفتہ سبھی باہر آگئے۔بچے بھی اندر کا ماحول بھانپ گئے تھے،ثانیہ کچن کے دروازے سے لگی اپنی ماں کی حالت دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار اس کے دل میں ابّا میاں کو لیکر سلوٹ آئی۔ابّا میاں نے رسیور کان سے لگاۓ ایک نمبر ملايا اور ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔
"ٹھیک ہے بس پھر میں ثانیہ کے لئے فضیلہ کو ہاں کردیتا ہوں،کارڈ ملجاۓ تو آجانا کھانا کھانے۔"
ابّا میاں نے آخری بات کر کے جوں ہی رخ پھیرا تو ثانیہ کو وہاں کھڑے پایا،لائن ابھی کاٹی نہیں گئی تھی،ابّا میاں خود ہی دوبارہ بولنے لگے۔
"لو ثانیہ بھی آگئی۔ہاں ہاں بہت خوش نظر آرہی ہے ،اس کے ماں باپ بھی بہت خوش ہیں ۔چلو تم مصروف ہوگے پھر بات کرینگے ۔"
انہونے فوراً فون رکھ دیا۔ثانیہ نے صرف آخری باتیں ہی سنی تھیں۔وہ جو پہلی بار اپنی ماں کی محبت میں ابّا میاں سے سوال کرنے آئی تھی۔انکی باتیں سنکر حیران رہ گئی ۔منہ سے ایک لفظ نہ نکالا گیا۔شرم الگ آرہی تھی ۔
"کوئی کام تھا بیٹا ؟"
ابّا میاں فطری محبت سے پوچھنے لگے۔
"وہ ۔۔وہ ابّا میاں وہ کتاب چاہئے تھی جو آپ رات کو پڑھ رہے تھے ۔"
اس نے بروقت بہانہ گھڑا ۔ابّا میاں نے سائیڈ ٹیبل سے جھٹ کتاب اٹھاکر اسے تھمادی ۔ثانیہ الٹے قدموں بھاگ آئی ۔
"آخر یہ کون تھا جسے ابّا میاں اسکی شادی کی خوش خبری دے رہے تھے اور ابھی تو انہوں نے منع کیا ہے سب کو اس رشتے کے لئے۔"
وہ سوچ سوچ کر حیران ہونے لگی ۔
"یہ ابّا میاں بھی نا سمجھ نہیں آتے کبھی کبھی ۔"
اس نے مطمئن ہوکر کتاب کھول لی کہ اب تو یہ بات خود ہی سب لوگوں تک پہنچ جائے گی ۔"
******************
"سنا ہے ابّا میاں نے ہاں کردی ہے فضیلہ آنٹی کو۔ "
صبح وہ کچن میں کھڑی انڈے پھینٹ رہی تھی جب عقب سے تیمور کی آواز آئی ۔ثانیہ نے ڈر کر پیچھے دیکھا پھر اسکی بات سن کر رخ پھیر کر بولی ۔
"مجھے نہیں پتہ کچھ بھی۔ "
"ارے کیسے نہیں پتا آپکو ۔آخری بار آپ ہی انکے کمرے سے نكلتی دیکھی گئی ہیں ۔"
وہ لڑاکا عورتوں کی طرح آستینیں چڑھا کر اندر آگیا ۔
"تم نے کب دیکھ لیا تم تو کل رات گھر پر ہی نہیں تھے ۔"
ثانیہ نے حیران ہو کر اسے دیکھا ۔تیمور اس کے اتنی جلدی قبول کر لینے پر بے ساختہ مسکرایا ۔
"اجی ہماری بھی کچھ سورسز ہیں ۔"
اس نے کالر جھاڑے تو ثانیہ مسکراہٹ روک نہ سکی ۔
"بس رہنے دو تمہاری سورسز ۔توقیر سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہیں ۔"
تیمور اس کے اتنے صحیح اندازے پر قہقہہ مار کر ہنس دیا۔
"تو آپ مان رہی ہیں نا کہ ابّا میاں نے فائنلی آپ کا کیس نمٹا دیا ہے ۔"
وہ پوری فراغت سے چاۓ کپ میں نکال کر وہیں ٹک گیا ۔
"تم میرا دماغ مت کھاؤ اور اپنی ننھی منی سورس سے کہو پکّا ثبوت لیکر آئے۔ "
وہ مسکراتے ہوئے آملیٹ پلیٹ میں نکالنے لگی ۔ابّا میاں کا ناشتہ بالکل تیار تھا ۔ثانیہ ٹرے لیکر نکلنے لگی۔
"ایک کپ چاۓ کا اور بڑھا لیں ۔"
تیمور نے گھونٹ بھر کر اسے ٹوکا ۔
"وہ کس کے لئے ؟"
ثانیہ جاتے جاتے پلٹی ۔
"فاران بھائی آئے ہیں صبح کی فلائٹ سے ۔میں انکو ہی تو لینے گیا تھا صبح ۔"
ثانیہ نے چونک کر دیکھا ۔واقعی اپنی دھن میں اس نے غور ہی نہیں کیا تھا کہ تیمور آج اتنی صبح کیوں اٹھ گیا تھا ۔اس نے ایک اور کپ چاۓ ٹرے میں رکھی اور ابّا میاں کے کمرے کی طرف آگئی ۔فاران پردہ ہٹا کر باہر نکل رہا تھا جب وہ سامنے آگئی ۔
"السلام و علیکم فاران بھائی ۔"
اپنی طرف سے اس نے بڑے خلوص اور خوشدلی سے سلام جھاڑا تھا ۔آخر کو وہ اتنے عرصے بعد گھر آئے تھے۔ گہری نیلی شرٹ پر آسمانی رنگ کی جینز چڑھائے۔کچی نیند کے خمار سے سرخ ہوتی آنکھوں اور پر شکن پیشانی کو ہاتھ سے مسلتے ہوئے وہ اسکی آمد سے مکمل بے خبر جارہے تھے ۔اسکی آواز پر چونک کر سر اٹھایا اور چند لمحے بس خالی نظروں سے اسے دیکھتے رہے پھر ٹھنڈی سانس بھر کر اپنا ارتکاز خود ہی توڑ دیا ۔
"یہ چاۓ تم میرے لئے لائی ہوگی؟"
کپ کی طرف اشارہ کر کے اس نے پوچھا ۔
"جی۔ "
ثانیہ انکی حالت سے الجھ سی گئی ۔انہوں نے کپ اٹھایا اور آگے بڑھ گئے ۔ثانیہ پلٹ کے دیکھنے پر مجبور ہوگئی ۔وہ بنا رکے سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے ۔
"نہ سلام نہ دعا ۔شاید تھک گئے ہیں ۔"
وہ خود ہی اندازے لگاتی ابّا میاں کے کمرے میں آگئی ۔
"فاران بھائی کیسے آگئے ابّا میاں ؟"
وہ پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔ابّا میاں بھی گم سے تھے ۔
"وہ تو ہمیشہ ہی ایسے آجاتا ہے ۔۔بنا بتاۓ ۔"
انہونے ٹرے قریب کھسکائی اور کھانے لگے ۔ابّا میاں کا گم سم رویہ اسے باہر نکلنے پر مجبور کر گیا ۔
********************
آج کی تاریخ سے کوئی آٹھ سال ادھر کی بات تھی۔ فاران نے ماسٹرز کیا تھا کمپیوٹر سائنس میں ۔مگر وہ دورانِ تعلیم ہی فری لانسنگ کیا کرتا تھا۔پانچ سالوں میں اس نے اچھا خاصا پیسہ جمع کرلیا تھا ۔اخراجات تایا ابّا اور ابّا میاں کی بدولت پورے ہورہے تھے سو اپنا پیسہ اس نے خاص مقصد کے تحت جمع کرلیا تھا۔ کھانے پینے کا شوقین تھا اور پکانے سے بھی دلچسپی تھی،کچھ دوست بھی ہم مزاج تھے ،سب نے ملکر فلیورز بنانے کا کارخانہ کھول لیا ۔گھر والوں نے حوصلہ افزائی ہی کی کیونکہ گھر کا سب سے بڑا اور لائق بچہ تھا وہ اور ابّا میاں کی خصوصی شفقت بھی حاصل تھی۔اللّه نے ہاتھ پکڑ لیا اور فاران کا کام خوب پھلنے پھولنے لگا ۔چھوٹے کارخانے سے اوسط درجے کی فیکٹری کھول لی گئی ۔گھر میں اسکی شادی کی باتیں ہونے لگیں۔اسکی کوئی خاص پسند نہیں تھی۔ بس شریف سی پڑھی لکھی لڑکی ہی چاہئے تھی ۔نظر باز نہ تھا کہ کسی کو نظر میں رکھتا ۔یوں ہی ایک رات وہ انٹرنیٹ کنیکٹ کرنے کی غرض سے لاؤنج میں رکھا فون اٹھانے آیا تو باتوں کی آواز سن کر محتاط ہوگیا ۔ایک لائن اوپر کی منزل کے برآمدے میں بھی لگی ہوئی تھی اور اس سیٹ پر ثانیہ اپنی دوست سے باتوں میں مصروف تھی ۔بات ہی ایسی تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سننے لگا ۔
"پلیز حرا یہیں روک دو اس بات کو۔میرے ماں باپ مجھ پر اعتماد کر کے مجھے تعلیم حاصل کرنے باہر بھیجتے ہیں اور میرا مقصد بھی صرف علم کا حصول ہے۔ میں سر اٹھاکر جینا چاہتی ہوں ،مثال بننا چاہتی ہوں اپنے گھر کے سب بچوں کے لئے ۔"
" مگر ثانیہ میرا بھائی بہت شریف لڑکا ہے۔اسے تم اچھی لگی ہو پلیز میری خاطر ایک بار انکی بات سن لو۔ "
حرا بضد تھی۔ فاران حرا کو اچھی طرح پہچانتا تھا ۔وہ ثانیہ کی بیسٹ فرینڈ تھی ۔گھر میں آنا جانا تھا اس کا ۔
"اپنے بھائی سے کہنا ثانیہ شریف لڑکی ہے اور شریف لوگ نہ نظر رکھتے ہیں نہ نظروں میں آنا چاہتے ہیں ۔اور میرا خیال ہے کہ آج کے بعد ہم دونوں بھی نہ ملیں ۔میں نہیں چاہتی کہ ہم ایک دوسرے سے برے دل سے ملیں ۔"
اتنا کہہ کر ثانیہ نے فون رکھدیا تھا مگر فاران رسیور تھامے ہی رہ گیا ۔ثانیہ کے جواب نے ایک نا معلوم سا فخر اس کے اندر بھر دیا تھا ۔اس دن کے بعد سے وہ لا شعوری طور پر ثانیہ پر نظر رکھنے لگا ۔وہ صبح چھوٹے تایا کے ساتھ کالج جاتی تھی واپسی پر کبھی چھوٹے تایا یا کبھی ابّو اسے گھر چھوڑ جاتے تھے ۔کئی بار فاران بھی اسے پک کرنے کالج گیا اور یہ دیکھ کر اسے شدید حیرت ہوئی کہ اس نے واقعی حرا سے دوستی ختم کردی تھی ۔کئی بار چھوٹی تائی نے پوچھا بھی کہ حرا کیوں نہیں آئی اتنے دن سے مگر ثانیہ نے جھوٹ بول کر انہیں بھی مطمئن کر دیا ۔ فاران ہر گزرتے دن کے ساتھ ثانیہ میں انوالو ہونے لگا تھا ۔اس کی چھوٹی چھوٹی خوبیاں روز بروز اسے متاثر کرنے لگی تھیں ۔ وہ خوش شکل تھی۔گھریلو تھی تعلیم بھی حاصل کرہی تھی اور سب سے بڑھ کر شریف تھی ۔فاران کا دل خود بخود اس کے حق میں گواہیاں دینے لگا ۔وہ جذبات کی عمر تھی ۔وہ خوش رہنے لگا ۔ہر دم تروتازہ ،کام کے بعد سارا وقت گھر پر گزارتا ،ثانیہ کو کبھی مخاطب نہ کرتا ،کیا یہ کم تھا کہ وہ اسی گھر میں رہتی تھی اور کبھی یہاں سے جانے والی نہ تھی ۔ثانیہ کا حصول اسے کبھی بھی مشکل نہ لگتا تھا ۔پھر ایک دن ابّا میاں کے کمرے میں وہ اور تایا ابّا ،تائی اماں موجود تھے ،موضوعِ گفتگو اسکی شادی ہی تھی ،تائی اماں ماں تھیں ،بیٹے کی پسندیدگی بھانپ چکی تھیں تو پھر دیر کس بات کی تھی ،بس ابّا میاں کو بتانا تھا تاکہ وہ ثانیہ کے والدین سے باقاعدہ بات کرتے ،اسکا کالج کا ایک سال باقی تھا، فاران ماشاءالله برسرِ روزگار تھا۔ وہ فخریہ اپنے بیٹے کو پیش کرسکتی تھیں ۔
"ابّا میاں اس دن آپ فاران کی شادی کی بات کررہے تھے نا ۔"
تائی اماں مودبانہ تمہید باندھنے لگیں ۔ابّا میاں رات کی دوائی کھارہے تھے ،کن اکھیوں سے مسکراکر فاران کو گھورنے لگے ،وہ دانستہ سر جھکاکر مسکرانے لگا۔
"میں نے تو لڑکی بھی پسند کرلی مگر خیر تم اپنی کہو بڑی دلہن ۔"
ابّا میاں نے جیسے لطف لیا ۔تائی اماں نے گھبراکر بیٹے کو دیکھا ۔اس نے بھی اسی نظر سے ماں باپ کو دیکھا ۔
"ابّا میاں ہم ثانیہ کے لئے سوچ رہے تھے ۔"
انہوں نے مری آواز میں مدعا بیان کیا ۔ابّا میاں بے ساختہ ہنس دئیے جیسے انھیں بہت اچھا لگا ہو ۔
"چلو شکر ہے اس معاملے میں کوئی بحث نہیں ہوگی ۔میرا تو انکے بچپن سے یہی ارمان ہے کہ فاران کی دلہن ثانیہ کو بناؤں،کیوں میاں تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟ "
وہ اچھی طرح بھانپ چکے تھے کہ ثانیہ کے نام سے ہی فاران کے چہرے پر گلاب کھل رہے تھے مگر یوں ہی چھیڑھنے لگے کہ آخر کو وہ انکا چہیتا اور بے تكلف پوتا تھا ۔فاران نے مسکراہٹ روکتے ہوئے انہیں دیکھا اور وہ نہال ہوگئے ۔
"بس تو چلو کل ہی چھوٹی دلہن اور ابراھیم سے بات کرتے ہیں ۔"
***********************
یہ معاملہ ایک طرف ہوگیا تھا۔اگلے دن صبح ابّا میاں نے ناشتے کے دوران چھوٹے تایا کو مخاطب کیا تھا۔
"رات کو کھانے کے بعد تم اپنی بیوی کے ساتھ میرے کمرے میں آجانا،کچھ بات کرنی ہے ۔"
چھوٹی تائی فطری طور پر گھبرا گئی تھیں مگر ابّا میاں سے قبل از وقت کچھ پوچھا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ فاران سوکر اٹھا تو دیکھا کہ موبائل بند پڑا ہے،یقیناً بیٹری ڈیڈ ہوگئی تھی۔وہ فریش ہوکر نیچے آیا،ٹی وی کھول کر فون بھی پاس ہی چارجنگ پر لگا لیا ۔ٹی وی پر ہر طرف ایک ہی خبر نشر ہورہی تھی ،
"سائٹ ایریا میں غیر قانونی تجاوزات پر حکومت کا چھاپہ۔۔۔کئی چھوٹی بڑی فیکٹریاں مسمار کردی گئیں ۔"
تفصیلات نے فاران کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی تھی ۔اسکی افراتفریح دیکھ کر سارا گھر ہی لمحے میں ٹی وی کے آگے جمع ہوگیا تھا ۔اس نے پھولی سانسوں اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کسی طرح موبائل آن کیا تو اسکے دوستوں کی مس كالز اور میسیجز نے موبائل جام کردیا ۔وہ سب اسی کی طرح بدحواس تھے ،سب کا مشترکہ سرمایہ تھا جو بلڈوزر تلے کچل گیا تھا ۔بات واقعی پریشانی کی تھی۔ فاران سر پر ہاتھ رکھے بس ٹی وی پر چلتی ویڈیو دیکھ رہا تھا اسی پل ثانیہ ناشتے کی ٹرے لئے اس کے قریب آئی ۔
"کیا بہت نقصان ہوگیا فاران بھائی ؟"
ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے وہ پوچھنے لگی ۔
فاران نے اسکی مخصوص خوشبو سے چونکتے ہوئے اسے دیکھا ۔آنکھوں میں فکر،چہرے پر ہمدردی لئے وہ اسے ایک پل کو سب کچھ بھلا گئی ۔جیسے تپتی دھوپ میں چلتے ہوئے اچانک سایہ دار درخت مل جائے ۔
"نہیں سب ٹھیک ہے ۔۔سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔"
وہ اس کے چہرے سے نظر ہٹاتا ہوا بے ربط سا بولنے لگا ۔کل جو خواب تعبیر پانے جارہا تھا آج اسکا حصول مشکل نظر آنے لگا۔
"فاران بھائی ناشتہ تو کرلیں ۔"
وہ كترا کر نکلنے لگا جب عقب سے ثانیہ کی نرم آواز ابھری مگر وہ پھر پلٹ کر نہ دیکھ سکا ۔وہ سارا دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مارا مارا پھرتا رہا ،ایک آفس سے دوسرے آفس ،کبھی کسی سے بات کبھی کسی کی منّت مگر جو نقصان ہوچکا تھا اسکی بھرپائی ممکن تھی ہی نہیں ۔ابّا میاں اسکی ذہنی کیفیت اچھی طرح سمجھ رہے تھے ،دل دکھ سے بهرگيا تھا ،کل ہی تو وہ کتنا خوش اور مطمئن تھا اور آج جیسے خالی ہاتھ رہ گیا تھا ۔وہ بھول ہی گئے تھے کہ انہوں نے چھوٹے تایا سے کوئی بات بھی کرنی تھی ۔تائی اماں تایا ابّا الگ اس کے لئے پریشان تھے ،وہ صبح کا نکلا اب تک گھر نہ لوٹا تھا ،فون مسلسل بزی جارہا تھا ،رات کے کھانے کے بعد ابّا میاں حسبِ عادت عشاء کی نماز ادا کر کے تسبیح پڑھ رہے تھے جب ان کے کمرے میں رکھا فون بج اٹھا ،انہوں نے ریسیور کان سے لگایا ہی تھا کہ چھوٹے تایا اور چھوٹی تائی کمرے میں داخل ہوئے ۔
"ابّا میاں ابھی چھوٹے تایا سے ثانیہ کے متعلق کوئی بات مت کیجئے گا ،میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں اور مالی طور پر تو بالکل کنگال ہوگیا ہوں ۔"
فاران کی پریشانی میں ڈوبی مایوس سی آواز انکا دل چھلنی کر گئی تھی ۔سامنے ہی چھوٹے تایا ابّا میاں کے فارغ ہونے کے منتظر بیٹھے تھے ۔
"خدا نخواستہ ایسی بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی ۔یوں مایوس نہیں ہوتے بیٹا ۔"
وہ نرمی سے اسے تسلی دینے لگے ۔وہ اس کی شادی کے معاملے کو ملتوی کرنے کے ہرگز حق میں نہیں تھے ۔یہ وقتی پریشانی تھی جس سے وہ انشاءلله ابھر جانے والا تھا ،انہیں یقین تھا اور مالی لحاظ سے وہ خود اور ان کی سب اولادیں خاصی مستحکم تھیں سو کسی کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں ہوسکتا تھا مگر ادھر بھی فاران تھا ۔
"میرے لئے یہ قیامت ہی ہے ابّا میاں،میری سالوں کی محنت مٹی میں مل گئی ہے ۔مجھے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے وقت چاہئے پلیز ۔"
ابّا میاں جیسے لاجواب ہو گئے ۔وہ فون بند کر چکا تھا سو انہوں نے بھی خاموشی سے رسیور رکھ دیا ۔
"کس کا فون تھا ابّا میاں؟فاران کا ؟"
چھوٹے تایا شاید گفتگو سے بھانپ گئے تھے ۔
"ہاں وہی تھا۔ کیسی پریشانی میرے بچے پر آگئی ہے ۔"
ابّا میاں پیشانی مسلنے لگے ۔
"بس ابّا میاں سب چیزیں اللّه کی طرف سے ہوتی ہیں ۔یقیناً آزمائش مطلوب ہے اللّه کو فاران کی ۔"
چھوٹے تایا بھی پریشان تھے ۔
"ابّا میاں آپ نے بلایا تھا ،کوئی خاص بات تھی ؟"
وہ مدعے پر آگئے تھے ادھر ابّا میاں مسلسل کوئی بہانہ سوچنے میں مصروف تھے ،فاران نے انہیں دوہری پریشانی میں ڈال دیا تھا۔
"ہاں وہ بس بڑی دلہن فاران کی شادی کے متعلق بات کر رہی تھیں ،شاید کوئی لڑکی بھی پسند کی تھی انہوں نے مگر فلحال مجھے نہیں لگتا کہ یہ بات مناسب رہیگی ۔ذرا فاران اپنے مسئلے سے نمٹ لے پھر وہ خود ہی سب کو بتائیں گی ۔"
ابّا میاں نے بہت آسانی سے بات بنادی اور واقعی چھوٹے تایا اور تائی مطمئن بھی ہوگئے ۔ایک ہفتے فاران کی شکل کسی کو دیکھنے کو نہیں ملی ۔ناشتہ کھانا سب چھوڑ رکھا تھا اس نے ۔صبح جلدی نکل جاتا اور رات کو دیر سے گھر آتا ۔کچھ دن میں سب نارمل بھی ہوگئے تھے بس ایک وہ تھا جو دن رات بھلا بیٹھا تھا ۔
***************
انہی دنوں ثانیہ کے لئے حرا اپنے بھائی کا رشتہ لئے چلی آئی تھی ،بہت ہی غیر متوقع طور پر ۔۔۔۔بنا اطلاع دئیے ،حرا اپنی امی اور بڑی بہن کے ساتھ انکے گھر آگئی تھی۔تائی اماں حیران تھیں تو چھوٹی تائی بہت خوش بھی تھیں ۔ابھی اسکا کالج مکمل نہیں ہوا تھا اور اس کا پہلا رشتہ بھی آگیا تھا۔انھیں بہت اچھا پروٹوکول دیا گیا اور وہ بھی بڑی پر امید ہوکر یہاں سے لوٹیں۔ ثانیہ حرا کے اچھے رویہ سے شرمندگی محسوس کرنے لگی ۔
"اب بولو شریف لڑکی!اب تو کوئی اعتراض نہیں ہے نا ۔"
ثانیہ سے کوئی جواب نہ بن پڑا ۔رات کو فاران آیا تو تائی اماں کھانا لیکر اس کے کمرے میں آگئیں۔
"ثانیہ کا رشتہ آیا ہے ۔اسکی دوست اپنے بھائی کے لئے اسکا رشتہ مانگنے آئی تھی ۔"
انہوں نے نہ اسکی خیریت پوچھی نہ ہی کوئی اور بات کی ۔ ٹاول سے چہرہ صاف کرتے فاران کے ہاتھ کانپ سے گئے ۔وہ یک ٹک ماں کا چہرہ دیکھنے لگا ۔
"مجھے اجازت دو فاران ۔میں کل ہی ابراھیم سے بات کرتی ہوں ۔مجھے یقین ہے کہ تمہارے مقابلے پر وہ کسی کو ترجیح نہیں دیں گے ۔"
وہ اس کے چہرے کے تاثرات سے پگهل سی گئیں ۔آنکھوں میں آنسو بھر گئے ۔فاران ان سنی کرتا ہوا کمرے سے نکل گیا ۔اسکا رخ ابّا میاں کے کمرے کی طرف تھا ۔سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ابّا میاں بھی سو چکے تھے ۔اس نے بنا دستک دئیے اندر جاكر لائٹ جلادی ۔ابّا میاں کی نیند میں خلل پڑا ،مندی آنکھوں سے اسکا چہرہ دیکھا تو حیران رہ گئے ۔
"ثانیہ میری امانت ہے آپ کے پاس ابّا میاں۔اسے آپ کسی کو نہیں دینگے ۔مجھے وقت دیں تاکہ میں پھر سے خود کو اس کے قابل بنا سکوں ۔اپنے بل بوتے پر اسکی خوشیوں اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو سکوں ۔تب تک آپ اسکی حفاظت کریں گے ۔مجھ سے وعدہ کریں ۔"
وہ انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک سانس میں کہہ گیا ۔ابّا میاں اسکی سرخ آنکھوں سے جهلكتا عزم اور سچائی دیکھ کر اندر سے ہل گئے تھے ۔
یہ بات پسندیدگی کی نہیں تھی ۔۔
یہ بات وفا داری کی تھی۔۔۔
یہ بات امانت داری کی تھی ۔۔۔۔
انہوں نے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی۔
"تمہارے ابا میاں کی سانس جب تک باقی ہے میرے بچے ! میں یہ عہد نبھاؤں گا ۔تم بے فکر ہوجاؤ ۔"
وہ تھک کر ان کے گلے لگ گیا تھا ۔
*****************************
اگلی صبح اس نے اعلان کیا کہ وہ شہر چھوڑ کر جا رہا ہے ،اس کے ایک دوست کے چچا لاہور میں رہتے تھے ،ان کی وساطت سے ایک نسبتاً چھوٹی جگہ کرائے پر مل گئی تھی ۔ابتداً وہ سب چچا کے گھر میں اوپر کی منزل پر کرائے پر رہنے والے تھے ،سب ہی اپنا گھر چھوڑ رہے تھے تاکہ کام پر توجہ دی جاسکے ۔حوصلہ ہارا نہ تھا ،ہمت جوان تھی ،تایا ابا تائی اماں اکلوتی اولاد کے آگے مجبور تھے ،اس پر بھروسا بھی تھا ،ابا میاں سے دل کا رشتہ تھا سو کسی نے اعتراض نہ کیا اور وہ چلا گیا ۔ادھر ابا میاں نے حرا کے بھائی کے رشتے کے لئے صاف الفاظ میں منع کر دیا ۔ایک تو ثانیہ کی عمر نہیں تھی شادی کی دوسرے وہ غیر برادری سے تھے ،پہلا رشتہ تھا ،چھوٹی تائی کو دکھ تو ہوا مگر وہ ہضم کر گئیں۔ یوں یہ بات آئی گئی ہوگئی ۔مگر پچھلے آٹھ سال میں ثانیہ کے لئے آئے آٹھ دس رشتوں کو ابا میاں نے جس بے فکری اور بے نیازی سے چلتا کیا تھا یہ کوئی نظر انداز کرنے والی بات نہ تھی ۔ہر رشتے کی خبر وہ فاران کو دیتے بھی نہ تھے،کچھ ایسے تھے جو خود ابا میاں کے جاننے والوں میں سے تھے اور ان کی تو بھنک بھی ابا میاں نے چھوٹی تائی کو لگنے نہ دی تھی ۔مگر اب یقیناً چھوٹی تائی اور چھوٹے تایا کی برداشت جواب دے گئی تھی ۔ان آٹھ سالوں میں گھر کے باقی بچے بھی بڑے ہوگئے تھے ۔ثانیہ اور فاران سے چھوٹوں کی شادیاں بھی ہو گئی تھیں۔ اب تو ابّا میاں بھی تھکنے لگے تھے ۔ہر فون پر فاران کو یاد دلاتے ،ڈراوے دیتے مگر وہ نہ جانے کیا سوچے بیٹھا تھا ۔اور اس بار تو حد ہو گئی تھی فضیلہ آنٹی والے معاملے پر جس طرح پھوپھو اور چھوٹی تائی ایک ہو گئی تھیں،ابا میاں کو صاف لگ رہا تھا کہ اب کوئی ان کی ماننے والا نہیں لہذا اس بار انہوں نے صاف الفاظ میں فاران سے کہہ دیا تھا کہ اگر اب وہ نہیں آیا تو ثانیہ کے لئے فضیلہ آنٹی کو ہاں کر دیں گے اور وہ سچ مچ آگیا تھا۔۔۔بوکھلایا ہوا ۔۔۔تھکا تھکا ۔۔۔جیسے یہاں سے گیا تھا ۔۔آج بھی اسی نے منہ اندھیرے آکر انہیں جگا دیا تھا ۔
"ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ؟ آپ نے کہا تھا مجھ سے کہ وہ میری امانت ہے آپ کے پاس !۔"
وہ حیران بے یقین سا ان سے سوال کر رہا تھا ۔
"وہ جیتی جاگتی لڑکی ہے میاں ،اس کے ماں باپ بھی ہیں تم نے کیا سمجھ لیا اسے ۔"
ابا میاں کے انداز بدلے ہوئے تھے ۔
"ابا میاں آپ جانتے تو ہیں میرا کام۔"
وہ بیزار سا کہنے لگا ۔
"آٹھ سال ہو گئے تمہیں گئے ہوئے فاران ،آٹھ ماہ نہیں ،ماشاء اللہ خوب چل رہا ہے تمہارا کام ،اب کیا قباحت ہے ؟"
ابا میاں نے کڑے تیوروں سے اسکی کھینچائی کی ۔
"ابا میاں یہ اصلی زندگی ہے ،آٹھ سالوں میں میں کروڑ پتی تو بن کر نہیں لوٹ سکتا ،شراکت میں کام شروع کیا تھا ،ابھی ایک سال ہوا ہے اپنا کام الگ کیے ہوئے ،مجھے گھر بنانا ہے گاڑی لینی ہے ثانیہ کے لئے ۔"
"ثانیہ کچھ نہیں جانتی ،میں جس سے کہوں گا وہ اس سے شادی کر لے گی ،تم بناتے رہنا اپنا گھر اور لیتے رہنا گاڑی ،آج آ رہی ہے فضیلہ ،بس بہت رکھ لیا میں نے تمہارا بھرم ۔"
ابا میاں نے رکھائی سے کہہ کر کروٹ بدل لی۔
"ابا میاں !؟"
فاران کو جیسے یقین نہ آیا کہ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
"جاؤ آرام کرو میری تو نماز کا وقت ہو رہا ہے ۔"
وہ اسے بھگانے کے لیے کہنے لگے ۔
"کہیں نہیں جا رہا میں ۔"
وہ ہٹ دھرمی سے کہتا ہوا وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ابا میاں نے جیسے زچ سا ہو کر اسے گھورا ۔
"ہاں تو پڑے رہو یہی اور اچھی طرح سوچ لو ،شام تک کا وقت دے رہا ہوں ۔"
وہ اسے وارن کرتے ہوئے واش روم میں چلے گئے ۔فاران شدید تھکا ہوا تھا مگر نیند بلکل اڑ گئی تھی ۔
"ابا میاں کیوں نہیں سمجھتے میری خاطر انہوں نے ان گزرے سالوں میں ثانیہ کے لئے آئے بہترین پروپوزلز ٹھکرائے ہیں تو کم از کم مجھے بھی اس قابل ہونا چاہئے نا کہ چھوٹی تائی کو ثانیہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کوئی افسوس نہ ہو اور اب جو یہ فضیلہ آنٹی کا امریکی نژاد خوبرو بیٹا سوالی بن کر آگیا ہے،بھلا کس منہ سے ابّا میاں مجھے اس کے مقابلے پر پیش کرینگے؟ لیکن ان سب سے پرے خود مجھ میں اتنا حوصلہ کب ہے کہ میں ثانیہ سے دستبردار ہوجاؤں؟ آٹھ سال میں نے خود پر صبر کر کے اس سے دوری بنائے رکھی ہے۔اپنے ہر جذبے کے آگے بند باندھا ہے کہ ایک دن اسے اس کی صحیح قدر کے ساتھ اپناؤں گا ،اپنی بھرپور وفاؤں کے ساتھ اسے دنیا کی ہر خوشی مہییا کروں گا ۔"
وہ آنکھیں بند کئے اسے ہنستا مسکراتا دیکھ رہا تھا ،اسکی پیشانی جلنے لگی تھی ۔
"اٹھو فاران اپنے کمرے میں جاؤ ،ابھی ثانیہ آجاۓ گی میرا ناشتہ لیکر ۔"
ابّا میاں نے نماز سے فارغ ہوکر اسے جگایا ۔وہ سویا تو نہیں تھا مگر ہلکی غنودگی ضرور طاری ہونے لگی تھی ۔اس کا سامان تیمور جبھی اوپر لے گیا تھا۔وہی پل تھا جب وہ ابّا میاں کے کمرے سے نکل رہا تھا اور ثانیہ سے سامنا ہو گیا تھا ۔وہ آج بھی ویسی ہی تھی۔معصوم صورت۔۔مہربان صفت،اسکی نظر سے انجان ۔۔اسکے ہر جذبے سے نا آشنا ۔۔۔فاران کی نظروں میں زمین و آسمان گھوم گئے ۔۔۔
وفا کے جن رستوں پر وہ تنہا چل رہا تھا اگر اب بھی ثانیہ اسکی ہمسفر نہ ہوئی تو شاید وہ تھک کر بیچ راہ میں ہی گر جاۓ گا۔
ایک طویل سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا تھا ۔
*********************
"ثانیہ آپی یار میں نے بولا تھا آپکو کہ فروٹ ٹرائفل بنائیے گا آپ نے فروٹ یوگرٹ بنالیا ۔"
شام کو توقیر کچن میں کھڑی ثانیہ سے لڑرہی تھی ۔
"تمہارے رشتے کے لئے نہیں آرہے وہ لوگ جو تم اپنی پسند بتانے کھڑی ہوگئیں ۔"
تیمور خود کھانے پینے کا سامان چیک کرنے وہاں کھڑا تھا ۔توقیر کو بھی آڑھے ہاتھوں لے لیا ۔توقیر نے منہ بناكر اسے گھورا ۔
"جب میرے رشتے کے لئے آئینگے نا تو دیکھئے گا سب سامان باہر سے منگواوؑنگی اپنی پسند کا اور بتادوں گی کہ مجھے باہر کا کھانا پسند ہے لہٰذا ان فیوچر مجھ سے کھانا پکوانے کی امید بالکل نہ رکھی جائے ۔"
اس نے ادا سے بال پیچھے گرائے اور تیمور کو ٹکا سا جواب دیدیا۔تیمور کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
"تمہاری پسند کی تو ایسی کی تیسی ! نہ تم سے پاۓ نہاری پکوائی تو میرا نام تیمور نہیں ۔"
وہ بسکٹ پلیٹ میں پٹخ کر توقیر پر جھپٹا ۔ثانیہ نے کام چھوڑ کر دونوں کے بیچ رکاوٹ کھڑی کی ۔
"کیا ہوگیا ہے تیمور؟ "
وہ آنکھوں سے اشارہ کر کے اسے سمجھانے لگی ۔
"دیکھیں نا ثانیہ آپی میں اپنی بات کررہی تھی یہ بلا وجہ بیچ میں آگئے بیچ کے بلے بن کر ۔"
وہ ثانیہ کی اوٹ میں ہوتی ہوئی بولی ۔تیمور کو پھر تاؤ آگیا ۔"یہ بیچ کا بلا ہمیشہ بیچ میں ہی رہیگا بی بی ۔۔یہ بٹھالو اپنی یاداشت میں ۔"
اس نے پوری آنکھیں کھول کر توقیر کو گھورا ۔ثانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کیا مبادا وہ آج توقیر کے حواسوں پر بم گرا ہی نہ دے ۔
"تیمور بس اب کچھ نہیں بولنا ،نکلو تم یہاں سے ۔"
"کیا یار آپی ! کب تک بچہ بنائے رکھیں گے آپ لوگ اسے ،بات کرتا ہوں میں امی سے ،کھولیں اب یہ پنڈورہ باکس ۔"
وہ جھنجھلا تا ہوا باہر نکلا ۔سیڑھیوں سے اتر کر راہدای کی طرف آتے ہوئے فاران نے اس کا تپا تپا چہرہ غور سے دیکھا ۔اڑتی پڑتی اس کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی ۔
"کونسا پنڈورا بكس ہے بھئی ہمیں بھی تو پتا چلے ۔"
قریب پہنچ کر اس نے ہلکے پھلکے انداز میں تیمور کو چھیڑا ۔
"ضرور ! میں تو سب کو بتانے کے لئے مر رہا ہوں مگر کوئی مجھے بتانے ہی نہیں دیتا ورنہ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ عمر گزار دیتے ہیں مگر منہ سے بھاپ تک نہیں نکالتے ،وقت ضائع کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔"
اس کی اتنی لمبی لن ترانی پر فاران نے چونک کر اسے دیکھا ۔وہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس گھر میں کسی کو بھی اس کے معاملے کی خبر تھی مگر تیمور نے جس انداز میں یہ بات کہی تھی ،اسے لگا صاف اسے ہی سنائی گئی ہے ۔وہ کھڑا رہ گیا اور تیمور مزے سے چلتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا ۔
ثانیہ کی آواز کچن سے آرہی تھی ۔وہ بے اختیار چلتا ہوا اسی طرف آگیا ۔
"اچھا بابا تمہارا ٹرائفل بھی بناؤں گی کسی دن ،آج دیکھو فاران بھائی بھی آئے ہوئے ہیں نہ ،ان کو بھی فروٹ یوگرٹ پسند ہے اس لئے یہی بنا لیا ۔"
وہ ابھی تک توقیر کو منانے میں لگی ہوئی تھی جو تیمور کے رویے سے روہانسی ہو گئی تھی ۔فاران چپ کھڑا اسے دیکھتا رہا ،اس کے سوا اس گھر میں کوئی لڑکی نہیں بچی تھی ،سب اپنے گھروں کی ہو کر خوش حال زندگی گزار رہی تھیں اور اس کا یہ حال تھا کہ گھر والوں کی فرمائشوں سے لے کر خود اپنے لیے آنے والے رشتوں تک کا اہتمام اسے خود کرنا پڑ رہا تھا ،کوئی اس کا ہاتھ تک بٹانے والا نہیں تھا ۔
"کیا اس دن کے لئے اسے چھوڑ کر گئے تھے فاران احمد کے سالوں بعد بھی وہ تمہارے بجائے کسی اور کی ہونے جا رہی تھی ؟"
اس کے اندر سے کسی نے اسے جھنجھوڑا ۔وہ قدم اٹھاتا کچن میں داخل ہوا ۔ان دونوں نے رک کر اسے دیکھا ۔
"کچھ چاہیے تھا فاران بھائی ؟"
ثانیہ نے فوراً پوچھا۔
"ہاں۔۔۔وہ۔۔۔ تو قیر میرا فون لا دو۔۔۔اوپر میرے کمرے میں رہ گیا ہے۔"
اس نے فورا بہانہ گھڑ کر توقیر کو چلتا کیا۔وہ ایک لمحے میں غائب ہو گئی۔۔ثانیہ پلٹ کر چائے گرم کرنے لگی ۔
"کوئی آ رہا ہے کیا شام کو؟۔۔یہ اہتمام ؟"
اس نے وہیں ٹکتے ہوئے بات شروع کی ۔
"جی وہ عابدہ پھپھو کی نند فضیلا آنٹی۔۔۔۔وہ آ رہی ہیں ۔"
ثانیہ نے دبے لہجے میں اطلاع دی۔نظریں چاۓ پر سے اٹھ نا سکیں۔
"خیریت کوئی خاص وجہ ؟"
فاران نے اسے جانچا۔ فیروزی سوٹ میں وہ نکھری نکھری پرکشش لگ رہی تھی ۔
"وہ ۔۔۔ آپ کو ابا میاں نے نہیں بتایا ؟"
ثانیہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیسے کہے ۔فاران نے اس کی جھجک پر مسکراہٹ دبائی ۔
"ہاں یاد آیا کچھ رشتے وغیرہ کے سلسلے میں شاید۔۔۔۔۔ہیں نا ۔"
اس نے اداکاری کی ۔
"جی "۔
ثانیہ نے کپ اس کے آگے رکھا ۔
"تو تم راضی ہو اس رشتے پر ؟"
اس نے گھونٹ بھرتے ہوئے پھر اسے گھورا ۔ثانیہ کی نظریں بدستور نیچی ہی تھیں ۔
"میری کیا رضا بس جو ابا میاں بہتر سمجھیں ۔،"
کھویا کھویا سا جواب آیا ۔فاران کو اس پر ترس سا آنے لگا ۔
"ایک بات پوچھوں ؟"
وہ کپ رکھ کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا ۔ثانیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔سیاہ ٹی شرٹ کی آدھی آستینوں سے نکلتی اس کی گندمی کہنیاں ٹیبل پر ٹکی تھیں اور دونوں ہتھیلیاں آپس میں پیوست اس کی تھوڑی کو سہارا دیے ہوئے تھیں۔ گہری گہری آنکھوں میں ہلکورے لیتا حزن اور انوکھی چمک سے پھوٹتی شعائیں پہلی بار ثانیہ کے حواسوں پر دستک دینے لگی تھیں۔ وہ اس کے سوال کی منتظر بے خیالی میں اسے ہی کھو کر دیکھنے لگی ۔ فاران کو وہ لمحہ ملکوتی لگا۔
"اگر ابا میاں تمہیں کسی ایسے شخص کا رشتہ پیش کریں جسے تم ہمیشہ سے جانتی ہو جس کی پسند عادات کچھ بھی تمہارے لیے انجان نہ ہو تو کیا تم اسے فضیلہ آنٹی کے امریکی نژاد انجان بیٹے پر ترجیح دوں گی؟"
وہ بہت محتاط انداز میں پوچھ رہا تھا ،نظریں اس کے چہرے کے ہر رنگ کو پڑھ لینا چاہتی تھی ۔
"ایسا کون ہے بھلا ؟"
ثانیہ کو لگا کہ یہ سوال بے معنی تھا ۔فاران نے سانس بھر کر ہاتھ گرائے اور کھڑا ہوگیا ۔
"بس اتنا یاد رکھنا کہ اسے تمہاری خوشی ہر حال میں عزیز ہے مگر اس کی ہر خوشی بس تمہارے ساتھ ہے۔"
وہ پھر اسے نظروں سے باندھ کر کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔پلٹ کر تک نہ دیکھا ،ثانیہ سارے جواب پا گئی اور سالوں کا حساب پل میں اس کے سامنے آگیا۔اس نے اردگرد دیکھا بہت کام پڑا تھا مگر اب سب بے معنی لگ رہا تھا ۔وہ بے دلی سے بھاری من کے ساتھ وہاں سے نکل گئی۔
*********************
عصر کی نماز اس نے خیالوں کی یورش کے ساتھ ادا کی ۔ذہن عجیب الجھن میں گھر گیا تھا ۔دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بس یہی الفاظ منہ سے ادا ہوئے ۔
"یا اللہ جو تیری رضا وہ میری رضا ۔"
دو آنسو ٹوٹ کر اس کے دوپٹے میں جذب ہو گئے ۔
وہ مبتلا نہیں تھی ۔۔!
وہ باخبر بھی نہیں تھی !
مگر فا ران کے اقرار نے اس کا من بوجھل کر دیا تھا۔وہ دوہری کیفیات کا شکار ہوگئی تھی ۔اسی الجھن میں شام ہو گئی ۔وہ خود کو گھسیٹتی باہر لے آئی ۔امی اور چچی کچن کا باقی کام سمیٹ چکی تھیں۔
"تیار ہو گئیں تم ۔"
اسے آتا دیکھ کر انہوں نے پوچھا ساتھ ایک تنقیدی نگاہ بھی اس پر ڈالی۔
"تھوڑا میک اپ کر لیتی ثانیہ ۔" چچی نے کہا ۔
"بس ٹھیک ہے رشتے کے لیے آنے والوں کے لیے اتنا سنگھار بہت ہوتا ہے ۔منگنی شادی ہو جائے تو کوئی بات بھی ہو ۔"
امی کا اپنا نظریہ تھا ثانیہ نے جان بخشی پر شکر ادا کیا ۔دل کسی طرف ہو کر نہیں دے رہا تھا ۔ذہن پر بس فاران کے لفظوں نے قبضہ کر رکھا تھا ۔وہ نظریں جھکائے لاؤنج میں آگئی فاران سفید کرتا شلوار میں نک سک سے تیار بیٹھا موبائل پر مصروف تھا۔اسے آتا دیکھا تو نظریں وہیں جم گئیں ۔ثانیہ کو اسکی محویت نے نظریں اٹھانے پر مجبور کردیا ۔کتنی الگ تھی وہ نظریں جن سے آج فاران اسے دیکھ رہا تھا ۔وہ زندگی میں پہلی بار اس کی موجودگی سے بے آرام ہوئی۔فاران اس کی گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ رہا تھا جب ہی ایک مہربان دوستانہ مسکراہٹ سے اسے نواز کر دوبارہ موبائل پر جھک گیا ۔ثانیہ دھڑکتے دل پر قابو پاتی رہ گئی ۔تایا ابا اسے مخاطب نہ کر لیتے تو وہ یقینا یہاں سے چلی جاتی۔جلد ہی فضیلہ آنٹی کی آمد کا شور اٹھ گیا ۔وہ عابدہ پھوپھو کے ساتھ اندر داخل ہو ئیں۔ سب کے سلام کا جواب دے کر ثانیہ کی طرف متوجہ ہوئی مگر آج ان کے انداز میں پہلے جیسی گرمجوشی مفقود تھی۔۔۔
******************
ناشتے پانی سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگ ڈرائنگ روم میں ابّا میاں کی سربراہی میں بیٹھے تھے ۔ ینگ لوگوں میں سے کوئی نہ تھا۔صرف فاران گھر کے بڑے پوتے ہونے کی حیثیت سے وہاں موجود تھے ۔
"ابّا میاں پھر کیا سوچا ہے آپ نے ؟"
عابدہ پھوپھو نے گفتگو کا آغاز کیا ۔فضیلہ آنٹی آج خلاف معمول کچھ گم صم سی تھیں۔ ابّا میاں نے اک نظر فاران پر ڈالی پھر فضیلہ آنٹی کو دیکھا ۔
"ویسے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مطلب فضیلہ کو ہم عرصے سے جانتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر عمر یہاں آجاتا ۔ہم سب بنفس نفیس اس سے مل لیتے ۔آخر بیٹی بیاہنی ہے ۔تسلی ضروری ہے ۔"
ابّا میاں نے بہت محتاط انداز میں بات شروع کی ۔چھوٹی تائی اور تایا پہلے بے چین پھر متفق نظر آنے لگے ۔فضیلہ آنٹی نے پہلو بدلا ۔عابدہ پھوپھو کو بھی یہ بات ٹھیک لگی تھی ۔وہ بھی سوالیہ انداز میں نند کو دیکھنے لگیں ۔
"آپ کی بات ٹھیک ہے ابّا میاں مگر عمر کا اتنی جلدی آنا ممکن نہیں ہے ۔"
فضیلہ آنٹی نے طریقے سے بات بنائی ۔
"تو ہمیں بھی کوئی جلدی نہیں ۔جب عمر آئے گا ہم تب بات آگے بڑھا ئیں گے۔ "
ابا میاں نے سابقہ انداز میں کہتے ہوئے چھوٹی تائی کی طرف دیکھا۔فاران اس دوران خاموش بیٹھا ابا میاں کی پالیسی کو جانچتا رہا۔
"میں سمجھی نہیں ابا میاں ۔آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے ۔یہ تو آپ نے بالکل غیروں والی بات کردی ۔"
فضیلہ آنٹی اپنی سوچوں سے اچانک چونک کر بولی تھیں۔چھوٹی تائی ان کے انداز پربے چین سی ہو کر سب کو دیکھنے لگیں۔
"بیٹا اس میں غیریت والی کوئی بات نہیں۔ہم تمہارے بیٹے سے کبھی نہیں ملے ۔لڑکی ہم نے اس سے بیاہنی ہے ۔اور یہ بالکل جائز مطالبہ ہے ۔کوئی بھی ماں باپ اپنی بیٹی کی شادی بنا لڑکے سے ملے تو نہیں کر دیتے ۔کیوں چھوٹی دلہن ؟"
ابا میاں نے انتہائی شرافت سے کہتے ہوئے بندوق چھوٹی تائی کہ کندھے پر رکھ دی ۔ فاران نے سر مزید موبائل پر جھکا کر ہنسی ضبط کی ۔
"ویسے فضیلہ باجی ابامیاں کی بات کسی حد تک درست ہے۔بے شک ہم عمر سے اسکائپ پر فون پر کتنی بھی بات کر لیں مگر شادی جیسے معاملے کے لئے روبرو ملنا بہت ضروری ہوتا ہے۔"
عابدہ پھوپھو نے بھی تائید کی۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے عابدہ لیکن میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ پہلے میں رشتہ طے کروں گی تو عمر ایک ہی بار آئے گا شادی کے لیے امریکہ سے روزروز آنا آسان تو نہیں ہے۔"
فضیلہ آنٹی کو عجیب سا پریشر محسوس ہونے لگا تھا گویا گھر بلا کر انہیں ذلیل کیا جارہا تھا ۔
"ٹھیک ہے آپ ایسا کریں کہ عمر کو کال کریں ،ابا میاں اور ابراہیم بھائی کی لائیو چیٹ کروا دیں ،کچھ ان کی بھی تسلی ہو جائے گی ۔"
عابدہ پھوپھو نے درمیانی راہ دکھائی مبادا نند برا ہی نہ مان جائیں۔باقی سب بھی تائیدی انداز میں عابدہ پھوپھو کو دیکھنے لگے۔
"اچھا میں کوشش کرتی ہوں ویسے وہ اس وقت آفس میں ہوگا ۔"
فضیلہ آنٹی نے مرے مرے انداز میں فون نکالا۔
"ایک منٹ ذرا آواز نہیں آرہی ۔"
ازخود کہتے ہوئے وہ برآمدے کی طرف نکل گئیں۔
"ابا میاں مجھے لگتا ہے کہ فضیلہ کو برا لگ گیا ۔"
بڑی تائ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ۔
"برا لگنے کی کیا بات ہے ۔ہم نے کوئی ناجائز مطالبہ تو نہیں کر دیا۔اب شادی کرنے کے لیے لڑکے سے ملے بھی نہ؟کیا ایسی ہی بھاری ہے ہم پر ہماری بچی ؟۔"
ابا میاں کے تیور ذرا ترش ہوئے۔
"کہیں یہ رشتہ بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔"
چھوٹی تائی کی فکر بلآخر زبان پر آگئی۔
"رشتہ ہاتھ سے نہ نکل جائے چاہے لڑکی آگے کچھ بھی بھگتے، عجیب سوچ ہے تمہاری چھوٹی دلہن ۔"
ابا میاں نے فی الفور انہیں جھاڑا ۔
"لیکن ابا میاں ۔۔۔۔"
وہ پھر منمنائی ۔
"ثانیہ کے لئے رشتے بہت ۔۔"
ابا میاں نے ازلی بے نیازی سے سر جھٹکا ۔
"ایسے بول رہے ہیں جیسے رشتے نہ ہوئے گھر میں پڑے بیکار پرزے ہو گئے زرا دراز کھنگالی نہیں کہ جھٹ ہاتھ میں آ گئے۔
چھوٹی تائی بھنائیں۔ اندر ہونے والی بحث سے لا تعلق برآمدے میں فون کانوں سے لگائے کھڑی فضیلہ آنٹی کی اپنی پریشانی بہت بڑی تھی ۔عابدہ کے میکے میں رشتہ ڈال کر جب انہوں نے یہ خوشخبری بیٹے کو دی تو ادھر سے نئی ہی فرمائش سننے کو ملی۔
"میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا امی کہ مجھے پاکستان میں شادی نہیں کرنی اور اگر پھر بھی آپ کو شوق ہو رہا ہے وطن پرست بننے کا تو لڑکی میری پسند کی ہوگی ۔وہ روشن خیال اور بولڈ ہونی چاہیے اعلی تعلیم یافتہ اور ہماری سوسائٹی میں موو کرنے والی ہوں کوئی پردے کی بوبو مجھے نہیں چاہیے ۔آپ جانتی ہیں میری پسند ۔ایسی کوئی لڑکی ملتی ہے تو ٹھیک ورنہ میری طرف سے صاف جواب ہے ۔"
وہ اپنی کہہ کر فون رکھ چکا تھا ۔ فضیلہ سر پکڑ کر رہ گئیں۔ ثانیہ تو عمر کی پسند سے بالکل الگ اور متضاد تھی۔ خود فضیلہ نے اسے اس کی سادگی اور شرافت کی وجہ سے ہی پسند کیا تھا مگر کیا کیا جاتا کہ ان کا بیٹا ہی ایسی لڑکی کا ساتھ نہیں چاہتا تھا۔ امریکہ میں پلنے والی ان کی اولاد ان کے قابو میں ہرگز نہیں تھی۔اب وہ شدید پریشانی کے عالم میں گھری، فون پر عمر کی تصویر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ نمبر ڈائل کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔اندر سب ان کی غیر موجودگی محسوس کرنے لگے۔
"عابدہ دیکھو ذرا سب ٹھیک تو ہے ؟"
تایا ابا نے فکرمندی سے عابدہ پھوپھو کو اشارہ کیا۔عابدہ پھوپھو سر ہلاتی ہوئی فضیلہ آنٹی کے پیچھے برآمدے میں آگئیں۔
"سب خیریت ہے باجی؟ کیا ہوا عمر فون نہیں اٹھا رہا ؟"
عابدہ پھپھو نے پیچھے سے جا کر ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔فضیلہ چونک گئیں۔ ان کا چہرہ اس وقت ان کی مکمل اندرونی کشمکش کا غماز تھا ۔
"کیا ہوا باجی ؟"
عابدہ ٹھٹک گئیں ۔اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ فضیلہ انہیں اعتماد میں لیتیں۔ عمر کا انکار اور اس کی پسند کے متعلق ساری باتیں عابدہ کو بتاکر وہ شرمندگی سے انکی طرف دیکھنے لگیں۔
"اب تم ہی بتاؤ کیا کروں میں ؟"
عابدہ پھوپو کو بہت افسوس ہوا مگر اب اس معاملے میں وہ کیا بہانہ کرتیں سو انکا ہاتھ دباکر اندر لے آئیں۔
"ابّا میاں ایک مسئلہ ہوگیا ہے ۔"
عابدہ پھوپو نے بات شروع کی۔ فضیلہ سے تو نظریں اٹھانا دوبھر ہورہا تھا۔
"خیریت ہے بیٹا کیا ہوا ؟"
ابّا میاں فطری طور پر گھبرا گئے ۔
"خیریت تو ہے بس وہ عمر ۔۔۔وہ کسی اور کو پسند کر چکا ہے وہاں امریکا میں، تو بس ۔۔۔فضیلہ باجی کو بھی نہیں معلوم تھا ،ابھی اس نے بتایا فون پر ،باجی تو خود بہت شرمندہ ہیں اسی لئے اتنی دیر سے باہر کھڑی ہیں کہ آپکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔"
عابدہ پھوپو نے جس طرح بات بناكر فضیلہ کا بھرم رکھا ،وہ حقیقی معنوں میں شرمندہ ہوگئیں اور دل میں عابدہ کی عزت کئی گنا بڑھ گئی۔ کاش عمر مان جاتا تو ایسے نیک اطوار کی لڑکی انکے آنگن میں بھی اجالا کردیتی ۔انہوں نے رشک سے اس گھر کے بزرگوں کو دیکھا جو آج کے زمانے میں بھی ایسی اعلیٰ روایات اور اخلاقیات کو زندہ رکھے ہوئے تھے ۔
عابدہ کی بات سے اک پل کو کمرے میں سناٹا چھاگیا مگر چار نفوس ایسے تھے جن کے لئے یہ سناٹا سکون کا باعث تھا ۔
ابّا میاں ،فاران ،تایا ابّا ،تائی اماں ! بے اختیار اپنے اپنے من میں شکر گزار ہوئے۔ دوسری طرف چھوٹی تائی نے پھر دل پکڑ لیا تھا۔
"ابّا میاں میں بہت شرمندہ ہوں۔"
فضیلہ آنٹی کی آواز بھرا گئی ۔
"ارے نہیں بیٹا جب تم خود لاعلم تھیں تو ہماری ناراضگی کا کیا جواز؟ یوں بھی ہم نے کون سا رشتہ طے کردیا تھا ۔اچھا ہوا پہلے ہی بات صاف ہوگئی ۔اللّه نے یقیناً میری بچی کے لئے بہت بہتری لکھی ہوگی۔کوئی بات نہیں تم دل میلا نہ کرو ۔"
ابّا میاں کی زبان سے شیرینی ٹپک رہی تھی اور چھوٹی تائی کی آنکھ سے آنسو! تھوڑی دیر کے دلاسے تسلی کے بعد فضیلہ آنٹی وہاں سے ہلکی پھلکی ہوکر رخصت ہوئیں تو اندر ایک نیا ہنگامہ تیار تھا۔چھوٹی تائی زار زار رورہی تھیں ۔
"ہاۓ میری بچی کے سیاہ نصیب! آخری رشتہ بھی رخصت ہوگیا ۔۔کیا اللّه نے اسکا جوڑ ہی نہیں اتارا ۔"
اللّه نہ کرے صفیہ کیوں برے الفاظ منہ سے نکالتی ہو ۔"
تائی اماں انکو سمجھانے لگیں۔
"صحیح بات ہے بھابھی شکر کریں ابھی پتہ چل گیا ورنہ یہ امریکا کی شادیوں میں فراڈ ہونا تو عام بات ہے ۔"
بڑی چچی نے بھی تسلی دی ۔
"اور پھر ہماری ثانیہ میں بھلا کس بات کی کمی ہے جو اسے ایسے ویسے لوگوں میں دھکا دیدیں ۔"
چھوٹی چچی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا ۔مرد حضرات ایک طرف خاموش بیٹھے تھے ۔ابّا میاں اپنے ہی تانے بانے میں مصروف تھے ۔فاران نے کئی بار انکو ٹہوکا دیا مگر وہ انجان بنے ادھر ادھر دیکھتے رہے ۔آخر اس سے برداشت نہ ہوا تو خود اٹھ کر چھوٹی تائی کے آگے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا ، انہوں نے روتے روتے اسکی طرف دیکھا ۔
"چچی جان !آپکو اعتراض نہ ہو تو میں ثانیہ سے شادی کے لئے تیار ہوں ۔فضیلہ آنٹی کے بیٹے جتنا امیر تو نہیں ہوں مگر خوش رکھوں گا اسے ۔"
وہ انکے گھٹنے پر دباؤ ڈالے کہہ رہا تھا ۔گاہے بگاہے ساتھ بیٹھی اپنی ماں پر بھی تائیدی نظر ڈال رہا تھا جو مبہم سا مسکراۓ جارہی تھیں ۔چھوٹی تائی رونا بھول کر اسے ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگیں ۔
"دیکھ رہے ہو اسماعیل اپنے سپوت کو، ابھی ہم بیٹھے ہیں میاں ۔یہ کیا دیدہ دلیری سے تم رشتہ مانگنے پہنچ گئے ۔"
ابّا میاں کو جیسے ابھی ہوش آیا تھا ۔شرارت انکی آنکھوں میں ناچ رہی تھی ۔فاران خوب سمجھ رہا تھا انکی چالاکیاں ۔جان بوجھ کر انہوں نے اسے اگنور کیا تھا تاکہ وہ خود یہ بات اپنے منہ سے کہہ دے۔
"آپ بیٹھے ہیں اسی لئے آج تک چپ رہا اور آپ نے کیا کیا ؟میرا راستہ صاف کرنے کے بجاۓ آپ اسکا رشتہ طے کرنے بیٹھ گئے۔"
وہ بھی جھٹ میدان میں آگیا۔باقی سب ناسمجھی سے دادا پوتے کی لن ترانیاں ملاحظہ کرنے لگے ۔راہداری میں تیمور توقیر بھی آن کھڑے ہوئے ۔
"میاں تمھارا راستہ تو خود اللّه نے ہی صاف کردیا ورنہ تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور تم چھوٹی دلہن !۔"
ابّا میاں کا رخ اب چھوٹی تائی کی طرف ہوگیا ۔
"ساری عمر مجھے قلق رہا کہ میں نے ابراھیم کی شادی تم جیسی کم عقل سے کردی مگر چلو تمھاری سادہ مزاجی نے اس پر پردہ ڈال دیا مگر تم واقعی اتنی کم عقل ہوگی یہ میں نے نہیں سوچا تھا ۔تمھیں یہ تو نظر آگیا کہ ثانیہ کو چھوڑ کر ساری لڑکیوں کی شادی ہوگئی،یہ نظر نہ آیا کہ سارے لڑکوں سے پہلے فاران کی شادی کیوں نہ ہوئی؟ یہ اب تک کیوں چھڑا چھانٹ پھر رہا ہے ۔"
انہوں نے باقاعدہ چھڑی ہلا ہلا کر چھوٹی تائی کو لتاڑا۔وہ بیچاری پھر رونے لگیں ۔
"افوہ اب روتی رہوگی یا جواب بھی دوگی ۔بولو فاران قبول ہے تمہیں اپنی بیٹی کے لئے ؟"
واہ کیا دھونس جما کر رشتہ مانگا جارہا تھا ، انہوں نے ایک شکوہ کناں نگاہ ابّا میاں سمیت چھوٹے تایا پر ڈالی تو ان میں بھی روح پھنکی۔
"کیا بات کرہے ہیں ابّا میاں ! فاران ہمارا خون ہے ، ہمارا اپنا بچہ ، انکار کیسا؟"
وہ کھلکھلاتے ہوئے اٹھے اور فاران کی پیٹھ تھپکی ۔لمحوں میں پورا کمرا مبارک سلامت کے شور سے گونج اٹھا ۔
"واہ یہ ہے نہ ہیپی اینڈنگ !"
توقیر اپنی جگہ اچھل کر چلائی۔تیمور نے حیرت سے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو دیکھا ۔
"اس میں ہیپی کیا ہے ؟"
وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے گھورنے لگا ۔
"ہائے ثانیہ آپی کتنی لکی ہیں ، فاران بھائی ہمیشہ سے انہیں چاہتے ہیں اور فائنلی ان کو پا بھی لیا انہوں نے ۔ کتنا رومانٹک لگتا ہے یہ سب ۔"
وہ جوشِ جذبات میں بھول ہی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار ثانیہ آپی سے نہیں بلکہ تیمور سے کر گئی ہے ۔ تیمور نے پوری آنکھیں کھول کر اس کی دیوانگی ملاحظہ کی ۔
"اگر تمہاری اینڈنگ بھی ایسی ہی ہیپی ہو جائے تو ؟"
وہ اسے نظروں میں سموئے تھوڑا بہکا ۔
"میں تو مر ہی جاؤں گی خوشی سے ۔"
توقیر نے بلکل بھی اس کا انداز محسوس نہیں کیا ۔
"ٹھیک ہے دیکھیں گے ۔"
وہ شرارت سے ہونٹ دبا تا باہر نکل گیا اور توقیر سیدھی ثانیہ کے روم میں بھاگی ۔
*********************
فاران اسے ڈھونڈتا ہوا ہر کمرے کا جائزہ لے کر چھت پر آ گیا تھا ۔وہ منڈیر پر چہرہ جھکائے گم کھڑی تھی ۔مغرب کی ازان ہوئے آدھا گھنٹہ ہونے والا تھا ۔آسمان ابھی پوری طرح سیاہ نہیں ہوا تھا ۔چاند تارے ڈوبتے سورج کی اجارہ داری میں اپنی جگہ بنانے کی تگ و دو میں تھے ۔جاتی گرمیوں کی ٹھنڈی شام تھی۔ ہوا میں نمی محسوس کن تھی۔ فاران دبے قدموں سے چلتا ہوا اس کے عقب میں کھڑا ہو گیا۔ تیز ہوا سے اس کا آنچل اڑے جا رہا تھا مگر وہ ہر شے سے بے نیاز ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔ فاران نے اس سکون آور خاموش فضا میں عجیب سی طمانیت محسوس کی۔ اک بے اختیار مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کرلیا۔ آج دوپہر تک وہ جس بے چینی اور کرب کا شکار تھا، اب اس کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔
"ثانیہ !"
وہ سرشار سا اسے پکار بیٹھا۔ ثانیہ نے چونکتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔
"آپ یہاں ؟"
ثانیہ کے سارے حواس یک لخت مجتمع ہو گئے تھے۔ فاران نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔
"دوپہر میں ایک سوال تمہارے روبرو چھوڑا تھا میں نے۔"
وہ جان بوجھ کر اسے ستانے لگا۔ ثانیہ کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
"اور میں نے بھی آپ سے پوچھا تھا کہ کون ہے وہ شخص ؟"
اس کا جواب فاران کو لطف دے گیا۔
"ہممم تو یہ بات ہے ۔"
وہ سینے پر ہاتھ لپیٹ کر منڈیر سے پشت ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔ ثانیہ فطری طور پر دو قدم پیچھے ہٹی ۔
"تو مس ثانیہ ابراھیم ! قصّہ کچھ یوں ہے کہ وفا کے رستے پر تنہا چلتے چلتے فاران احمد اب تھکنے لگا ہے۔ اگر اب بھی تم ہمسفر نہ ہوئیں تو یہ مسافت اسکی جان لے لے گی۔"
اس کے دلبرانہ انداز نے جی بھر کر ثانیہ کو حیران کیا ۔اس نے عرصے بعد فاران کو اس کے اصلی رنگ میں لوٹتا دیکھا تھا۔
تو کیا یہ سب اسکی محبت کو پالینے کا اثر تھا؟؟
اسکا دل مغرور ہونے لگا۔
"اور اگر ثانیہ ابراھیم آپ کی ہمراہی قبول کرلے تو؟ "
اس نے مبہم مسکراہٹ اور جھکی پلکوں سے بمشکل جملہ ادا کیا۔ فاران اس کے جواب پر کھلکھلا اٹھا ۔
"تو۔ ۔۔تو میں عمر بھر آپ کی خوشیوں کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں ۔"
اس نے تھوڑا جھک کر اپنی چوڑی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔ ثانیہ رخ پھیر کر مسکرانے لگی۔
"ارے وعدہ تو پکّا کرو۔ "
وہ بضد ہوا۔ ثانیہ یونہی مسکراتی ہوئی واپسی کیلئے پلٹ گئی۔ فاران کے مطمئن اور جاندار قہقہے نے نیچے تک اسکا پیچھا کیا تھا۔
***********
آف وائٹ انگرکھے پر گولڈن کھسے پہنے وہ شہزادیوں کی سی تمکنت سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ دیسی اسٹائل میں پراندہ ڈالے وہ خود میں بڑی مگن سی تھی۔ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تیمور بڑی فرصت سے اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔ ارد گرد چہل پہل تھی۔ آج فاران اور ثانیہ کے نکاح کی تقریب تھی۔ چند بیحد قریبی عزیزوں کے سوا کوئی بھی مدعو نہیں تھا مگر گھر کے افراد ہی اتنے تھے کہ اچھی خاصی تقریب کا سماں بندھ گیا تھا۔ سارے لڑکے آف وائٹ کرتے پاجامے اور ویسٹ کوٹ میں بلکل ایک جیسے ہی لگ رہے تھے۔ لڑکیوں نے بھی رنگ ایک ہی چنا تھا مگر کپڑوں کے اسٹائل سب کے اپنی پسند کے تھے۔ توقیر کی آج چھب ہی نرالی تھی یا تیمور کی آنکھوں میں ہی آج نئے رنگ اتر رہے تھے۔
فاران ماحد اور ہارون کے ساتھ بیٹھا وقتاً فوقتاً اسکی محویت نوٹ کرہا تھا۔ اس پر ترس بھی آرہا تھا پھر کچھ سوچ کر اس نے تیمور کو مخاطب کیا۔
"ہاں بھئی میاں صاحب زادے! اس دن آپ کچھ بتانے کے لئے مر رہے تھے۔ اب بتا ہی دیں اس سے پہلے کہ آپ کوچ کر جائیں۔"
تیمور نے جیسے چونک کر فاران کی بات سنی۔
"میں تو بتا دونگا مگر مجھ سے پہلے کوئی اور کوچ نہ کر جاۓ ۔"
اسکا اشارہ صاف توقیر کی طرف تھا۔
"مطلب تم پہلے ہی قدم پر ہمت ہار گئے ؟"
اس نے تیمور کو چھیڑتے ہوئے مصنوعی افسوس سے سر ہلایا ۔
"آپ نے تو جیسے بڑی جلدی دکھائی تھی۔ "
تیمور نے جھٹ حساب برابر کیا ۔
"جلدی کی یا دیر ۔ کم از کم ہمت تو کی! تم اپنی کہو ۔"
فاران نے آج اسے نہیں چھوڑنا تھا۔
"چھوڑیں بھائی اس کے بس کا کچھ نہیں امی سے جوتے پڑیں گے اسے۔"
ماحد نے بھی اسے چڑایا اور تیمور سچ مچ چڑ گیا ۔
"مجھے چیلنج مت کریں نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ۔"
وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا فاران نے قہقہہ لگایا ۔
"بس ہو جائے آج "
"اوکے۔ "
"توقیر تمہیں ایک بات بتاؤں۔؟"
وہ سیدھا توقیر کے سر پر جا کر کھڑا ہو گیا جو ہانیہ سے گجرا بندھوا رہی تھی ۔ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
"یہ مرا آج ۔"
ماحد نے کان کھجایا ۔وہ سارے قریب ہی صوفے پر بیٹھے تھے، توقیر اور ہانیہ بھی اسی لاؤنج کے دوسرے سرے پر کھڑی تھیں ۔
"بولیں تیمور بھائی۔"
اس نے گجرا فکس کروا کر ہانیہ سے ہاتھ چھڑایا ۔
"تمہیں کسی نے بتایا ہے کہ تم مجھ سے انگیجڈ ہو؟ مطلب میں اور تم۔۔۔۔"
اپنے طور پر بالکل سنجیدہ لہجہ اپنائے وہ اس پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا مگر دل آج اس کے حسن سے خواہ مخواہ مرعوب ہوئے جا رہا تھا۔اس کے لفظوں کی جوڑ توڑ جاری تھی کہ اچانک نظر توقیر کے چہرے پر پڑی جو لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی جمع ہوگیا تھا۔
"امی ۔۔۔۔۔۔۔"
وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔
"ہاہ تیمور بھائی۔۔!!! ایسے کیسے بول دیا آپ نے ۔"
ہانیہ اپنی جگہ کانوں کو ہاتھ لگاتی حیران ہوتی وہاں سے بھاگ گئی۔تیمور کو اچانک احساس ہوا کہ اس نے ماحد اور فاران کی باتوں میں آکر کیا کہہ دیا ہے اور وہ بھی کس انداز میں ! اسے اندازہ تو تھا مگر توقیر کی چیخ نے اسے مزید تاؤ دلا دیا ۔دوسری طرف فاران اور ماحد ہنس ہنس کر دوہرے ہو رہے تھے۔ وہ ان دونوں کو اگنور کرتا توقیر کے پیچھے لپکا جو شاید اپنی امی کی تلاش میں ادھر ادھر جھانک رہی تھی۔ تیمور نے سرعت سے اس کی کلائی پکڑی اور برآمدے کی طرف لے آیا شکر کے شام کے اس پہر یہاں کوئی نہیں تھا ۔توقیر کے چہرے پر خوف پھیلا تھا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے تیمور کو دیکھنے لگی ۔
"کیا میں اتنا برا ہوں کہ تم یوں چیختے ہوئے بھاگ رہی تھیں؟ "
اس کے انداز کی نسبت آواز میں خاصی نرمی تھی۔ توقیر نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔
"ادھر دیکھو !"
اس نے تحکمانہ انداز میں اسے متوجہ کیا ۔
"کیا میری شکل بہت بری ہے ؟"
گہری گہری آنکھیں اس کے چہرے پر گڑائے وہ پوچھ رہا تھا۔
توقیر سے مر کر بھی 'ہاں' نہ ہوتا ۔
"کیا میں خراب لڑکا ہوں ؟"
توقیر نے جھٹ گردن دائیں بائیں ہلادی۔
"پھر کیا مصیبت ہے؟"
اب کی بار وہ جھنجھلایا ۔
"آپ۔۔۔آپ ڈانٹتے ہیں بہت ۔"
اس نے اٹکتے ہوئے جواب دیا ۔تیمور چہرے پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا
"اچھا تم بتاؤ فاران بھائی نے ثانیہ آپی کو پسند کیا اور سب نے مل کر ان کو ملوادیا، یہی کچھ ماحد بھائی اور ماہا آپی کے ساتھ بھی ہوا اور میں جو تمہارے ہوش سنبھالنے سے اب تک تمہارا باقاعدہ منظور شدہ منگیتر ہوں! اسے کوئی یہ اختیار بھی نہیں دیتا کہ وہ کم از کم تمہیں یہ حسین حقیقت بتا ہی دے؟ تو کیا مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے؟"
وہ کتنے آرام سے اپنی فیلنگز بتا رہا تھا دوسرے معنوں میں توقیر کے ہوش اڑا رہا تھا مگر اب یہاں تنہا اس کے ساتھ کھڑے ہوکر وہ 'امی امی' بھی نہیں پکار سکتی تھی ۔
"سب کو لگتا ہے کہ تم بہت چھوٹی ہو اس بات کو ایکسپٹ کرنے کے لئے مگر مجھے لگتا ہے کہ اب تمہیں یہ بات پتا ہونا چاہیے ورنہ جس طرح آج تم میرے ہوش اڑا رہی ہو، کسی اور کے اڑا بیٹھیں تو میرا بڑا نقصان ہو جائے گا ۔"
تیمور کے انداز بدلنے لگے تو توقیر کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔
"پلیز تیمور بھائی۔۔۔آپ مجھے کنفیوز کر رہے ہیں۔۔۔ میں جاؤں اب؟ "
وہ گریزپا ہوتی ہوئی کھسکنے کے چکر میں تھی۔ یہ انکشاف سچ مچ اس کے لیے بہت بڑا تھا۔ ایک ایک کرکے تیمورکی کئی باتوں کے مطلب اب اس کی سمجھ میں آ رہے تھے۔ وہ اس وقت مکمل تنہائی چاہتی تھی اور وہ تھا کہ آج سب کہنے کے در پہ تھا۔
"اچھا سنو وہ اس دن تم کہہ رہی تھی کہ تمہاری اینڈنگ بھی ثانیہ آپی جیسی ہیپی ہو جائے تو۔۔۔؟"
وہ پھر اسے چھیڑنے لگا ۔
"تیمور بھائی پلیز۔۔۔۔۔ مجھے جانے دیں ۔"
تیمور کو اس کی گھبراہٹ لطف دے گئی ۔
"اچھا اب تو امی کو نہیں بلاؤں گی ؟"
"میں جا رہی ہوں "
توقیر سے ٹھہرنا دوبھر ہوگیا۔ وہ دونوں آ گے پیچھے اندر آئے تو وہاں ماحول بدلا ہوا تھا۔ ابا میاں کے پاس صوفے پر بڑی چچی بیٹھی تھیں اور سب اچانک ہی ان دونوں کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔
"ادھر آؤ توقیر۔"
ابا میاں نے اسے پاس بلایا اور ساتھ بٹھا دیا۔ چچی نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی میں تیمور کے نام کی انگوٹھی قید کردی
"اب ہوئی توقیر ہماری۔"
انہوں نے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی ۔سب نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں ۔ تیمور خواب آور سی کیفیت میں گھرا سب کو تک رہا تھا۔
"ہم نے سوچا اب بچے کی فائل اوپر آ جانی چاہیے بہت صبر کر لیا بیچارے نے۔"
فاران اور ثانیہ ساتھ کھڑے اسے چھیڑنے لگے۔
"کہو کیسا لگا سرپرائز؟"
ثانیہ نے اسے ایک مکا جڑا۔
"مطلب یہ سب آپ نے جان بوجھ کر۔۔۔۔؟"
وہ حیران سا ہوکر فاران کو گھورنے لگا ۔ وہ سب اس کی حالت سے محظوظ ہو کر ہنسنے لگے اور وہ کن انکھیوں سے اپنی منظور نظر کو دیکھنے لگا جو شرمائی گھبرائی بہت اپنی اپنی سی لگ رہی تھی ۔
********************ختم شد *************************
Another Novels by Amraha Sheikh Are:
ابھی پل سٹور سے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور پائیں منتھلی ڈائیجیسٹ، اردو ناولز اور بہت کچھ
[su_button id=”download” url=”https://play.google.com/store/apps/details?id=com.flutterdev101.eookapp.ebboks” target=”blank” style=”3d” background=”#ef2d74″ size=”5″ radius=”round” icon=”icon: download”] Install Now [/su_button]
♥ Download More:
⇒ Cousin Rude Hero Based romantic novels
آپ ہمیں اپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں گے
Copyright Disclaimer:
We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.