Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir is very romantic novel, if you love to read romantic novels then you must read Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir.
This novel by Tania Tahir is a special novel, many social evils has been represented in this novel. Different things that destroy today’s youth are shown in this novel. All type of people are tried to show in this novel.
Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir
Tania Tahir has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
If you want to download this novel, you can download it from here:
↓ Download link: ↓
Note! If the link doesn’t work please refresh the page
Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir PDF Ep 1 to Last
Read Online Yeh Dil Ashiqana by Tania Tahir:
Episode 1 to 5
داود اٹھ جاو. "اسنے اپنے بیٹے کے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرہ….
اور اسکی چمکتی رنگت…. کو.. غور سے.. دیکھ کر مسکرائ…
وہ سوتے میں اچھا خاصا معصوم لگتا تھا.. مگر حقیقت میں.. وہ فساد تھا…..
داود نے… ماں کے کہنے پر انکھ نہیں.. کھولی….
وہ شاید گھیری نیند میں تھا…..
عابیر… اسکو یوں ہی چھوڑ کر.. اسکے کمرے کو دیکھنے لگی…
یہ چھوٹا سا کمرہ.. کافی بے ترتیبی کا شکار تھا…
اسکی شرٹس….
اسکے پینٹس اسکی سوکس….. سب… ادھر ادھر پڑیں تھیں…
حتئ.. کہ ٹاول.. اسکے پاوں کے نیچے تھا….
اور اندھا سو رہا تھا..
نا جانے کہاں سے اس میں یہ عادت ائ تھی.. اندھا سونے کی..
اب بھلا انسان.. اندھا اخر کب تک سو سکتا ہے.. مگر… وہ… ایک ہی اینگل میں سوتا.. اور اٹھتا تھا…..
کوئ لحاظ نہیں ہے کہیں سے لگتا ہی نہیں.. اس گھر کے بڑے ہو تم "عابیر بڑبڑا رہی تھی جبکہ اسی بربڑاہٹ میں اسکی انکھ کھلی…
اور پنکھے کی گرم ہوا…. سے غلے میں خشکی محسوس کر کے.. اسکا پہلے سے گھما گھمایا میٹر مزید گھوم گیا…
کیا مصیبت ہے یہ" وہ چیخا جبکہ اسکے.. ماتھے پر ائے بالوں کے نیچے پسینے کی بوندیں اکھٹی ہو چکیں تھیں……
جنھیں اسنے ہتھیلی سے صاف کیا.. اور تکیہ اٹھا کر جھلے میں زمین پر دے مارا…
عابیر نے اسکیطرف دیکھا….
گرمی سے اسکے شفاف چہرے پر سرخی ائ ہوئ تھی..
تمھیں کس نے کہا تھا اے سی سے… باہر نکلو… اور ادھر ا کر سو جاو…. "عابیر جانتی تھی وہ اسی بات پر چیڑہ تھا…
واہ کیا بات ہے
. اس اے سی والے کمرے میں پوری قوم سوتی ہے.. اور میں بھی.. وہیں
. زمینوں کی نظر ہو جاو.. اتنا سٹنڈرڈ نہیں گیرہ میرا" اسنے تڑخ کر جواب دیا تو عابیر مسکرا کر… اسکے نزدیک ائ…
اب تمھارے بابا کی کمائ سے ایک ہی اے سی ا سکتا تھا…
اور سب اڈجسٹ کرتے ہیں.. تمھیں بھی تھوڑی اڈجیسٹمنٹ کرنی چاہیے…. اور ایک اور بات جیسے تم نے پیسے جمع کر کے.. ہیوی بائیک لی ہے ویسے ہی تم… اے سی بھی لے لو اور اپنے روم میں لگوا لو سیمپل"اسنے اسے سمھجایا….
تو اسنے ماں کو دیکھا….
اپ کو بھی بس…. معاذ صاحب ہی ملے تھے شادی کرنے کو… کسی… بینکر.. انجینیر.. یا سیاستدان سے شادی کر لیتیں .. تو اج اپ کے بیٹے کے پاس ہر سہولت ہوتی.. اسے.. ہر آسائش کے لیے پیسے جمع نہ کرنے پڑتے یہ بھی ٹھیک ہے.. دل کی خواہش… کو… زبان پر لانے سے پہلے ہزار بار سوچو… کہ اگر یہ.. خواہش پوری کی تو… گھر کیسے چلے گا… حد ہو گئ… "وہ.. غصے سے کھولتا ہوا….
ادھر ادھر چیزیں پٹخ کر… واشروم میں چلا گیا جبکہ عابیر… ایک لمہے کو سن کھڑی رہی..
اسنے خواب میں بھی کبھی اسکو نہیں سوچا تھا…. جبکہ اج دواد کے منہ سے… سن کر.. وہ.. اپنا ذہن جھٹک گئ..
وہ تو ایسا ہی تھا…..
مما…. پانی بھی نہیں ہے… "واشروم سے.. ہی اسکے دھاڑنے پر وہ اچھل اٹھی…
اف یہ لڑکا…" اسنے.. سر پر ہاتھ مارا اور موٹر چلانے باہر نکل گئ….
باہر معاذ ناشتہ کر رہا تھا….
جبکہ اسکے ساتھ ہی روشنی بیٹھی.. ناشتہ کر رہی تھی….
اور دوسری طرف… فیزہ بھی ناشتہ کر رہی تھی اسکا اج انڑویو.. تھا…
ماں باپ کے انتقال کے بعد.. وہ… معاذ کے پاس.. ا گئ تھی..
وہ تینوں چپ چاپ ناشتہ کر رہے تھے..
جبکہ عابیر نے نئے سرے سے ناشتہ بنانا شروع کر دیا تھا…
وہ.. کبھی بھی چائے پراٹھا نہیں کھاتا.. تبھی وہ اسکے لیے خصوصی…
بریڈ انڈے کے ساتھ شیک کا انتظام کر رہی تھی…..
وائٹ شرٹ… اور بلیو جینز میں… وہ.. جوگرز ہاتھ میں لے کر باہر ایا.. اور… چئیر کھینچ کر.. بیٹھ گیا.. جبکہ… دوسرے ہاتھ سے.. جوگرز پہن کر وہ یوں ہی ماتھے پر بل سجائے اسنے ہاتھ دھوے اور دوبارہ بیٹھ گیا…
روشنی اسکے ساتھ بیٹھی… تھی جبکہ فیزہ اور معاذ سامنے…
ایک پرائیویٹ کالج میں… بات چلوائ ہے میں نے تمھاری اپنے دوست سے کہہ کر…. چلے جانا اج.. انٹرویو ہے تمھارا "معاذ نے.. ناشتہ ختم کرتے ہوئے کہا.. تو اسنے گھیری سانس لی..
مجھے نہیں پڑھانا پڑھونا….
میں جس چیز کی تیاری کر رہا ہوں… بس…. وہی کام کرو گا…"
وہ سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا….
اور اسے.. ان چھوٹی چھوٹی نوکریوں میں ہرگیز بھی دلچسپی نہیں تھی وہ.. اپنی زندگی اپنے انداز اپنا لائف سٹائل.. بدلنا چاہتا تھا…
جس.. لڑکے نے میٹرک میں… تین سپلیاں اور ایف ایس سی… میں دو سپلیاں کھائی ہوں…. اسے سی ایس ایس کی تیاری کرتے ہوئے شرم انی چاہیے "معاذ نے.. اسے.. شدید تانا دیا…
اپ بھول رہے ہیں…. بی بی اے بھی کیا تھا.. جس میں ٹاپ کیا تھا…" اسنے.. چیڑتے ہوے بتایا…
ہاں تب شاید تمھاری قسمت اچھی تھی اور پھر دوبارہ سی ایس ایس کی دو اٹمنٹ میں فیل ہونے کا تمغا سجا لیا "معاذ نے شانے اچکائے.. فیزہ اور روشنی دونوں ان دونوں کی تکرار کو روز کیطرح سن رہے تھے…
قسمت کا تو پتا نہیں ہاں جن دنوں کا اپ تانا مار رہے ہیں.. تب مجھے ہوش نہیں تھا کہ میں نہایت غریب ہوں "اسنے… غصے سے کہا…
یہ فضول کی ناشکریاں میرے سامنے مت کیا کرو
تمیز سے جو کہا گیا ہے وہ کرو…." معاذ اسے گھورتا ہوا… اٹھ گیا….
جبکہ وہ بھی ناشتہ چھوڑ کر معاز کو گھورے جا رہا تھا….
داود…. میری جان اتنی سختی اچھی نہیں ہوتی.. جو اپکے بابا کہہ رہے ہیں.. وہ بات مان لیں" عابیر جانتی تھی وہ ایسے زیر نہیں ہو گا….
تبھی نرمی سے اسے رام کرنا چاہا…
اسنے.. بغیر جواب دیے.. اپنی بائیک کی چابی اٹھائ… اور بلیک گاگلز ناک کی چونچ… پر سجا کر.. وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر نکل گیا…
جبکہ معاذ کا اسپر ہر وقت خون کھولتا تھا…
اسکی حرکتیں واضح تھیں…
وہ کن دو لوگوں کا ملاپ تھا… عابیر اور معاذ دونوں کو یہ بات نظر اتی تھی…
اور معاذ اکثر اسی بنا پر اس سے چیڑ کھا کر… اولاد والی نرمی بھلا دیتا تھا…
جاو بیٹا… تم دونوں… "روشنی اور فیزا کو…. خدا حافظ کہہ کر وہ باہر تک چھوڑ کر….
کمرے میں ائ جہاں معاز گھڑی پہن رہا تھا…
انکی چھوٹی سی گاڑی تھی جسے وہ افس کے لیے یوز کرتا تھا…
چھوٹا سا… خوبصورت… پانچ کمروں کا یہ گھر تھا جس میں… دو کمرے تو.. داود نواب کے تھے.. باقی ایک فیزا.. کا جبکہ.. ایک سٹور روم تھا.. روشنی ابھی میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی.. اور.. ماں باپ کی لاڈلی.. تبھی.. وہ انکے ساتھ ہی روم شئیر کرتی تھی…
جینے کے لیے وہ سب خوشیاں میسر تھیں…ہاں یہ بھی حقیقت تھی.. کہ… یہاں اسائشوں کی مقدار کم تھی….
مگر آسائشیں تھیں تو سہی….. پھر بھی اس گھر میں.. روز.. داود اور معاز کی لڑائ.. ہونی ضروری تھی…
وہ بڑا ہو چکا ہے…. تم اس سے بحث مت کیا کرو "عابیر نے اسکے ہاتھ سے گھڑی لے کر خود پہناتے ہوئے کہا…
یار تم حد کرتی ہو… میں بحث کرتا ہوں.. دو بار کی اٹمنٹ میں فیل ہو چکا ہے وہ…
ستائیس سال کے بیٹے.. کو گھر میں بیٹھا کر میں پالو….
باپ کا سہارا بننے کے بجائے وہ.. ہر چیز کی ناشکری لیے بیٹھا ہے…
یہ سامنے… ریاض…. جانتی ہی ہو نہ….
ہڈ. حرام انسان…. اج تک.. اپنا گھر نہیں دے سکا بیوی بچوں کو… سب تو ہے ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے…
اسکا بیٹا.. جوتیاں چٹخا رہا ہے نوکریاں کر رہا ہے.. اور یہاں داود.. نواب….
خود کو…. توپ چیز سمجھے بیٹھے ہیں…
ٹیسا ہے کہ نیچے ہی نہیں.. اترتا…..
بلکل تم پر گیا ہے.. بلکل… "وہ چیڑ کر بولا..
عابیر نے اسکی جانب دیکھا…
ہاں.. تو میرا بیٹا ہے مجھ پر ہی جاے گا" وہ مسکرا کر اسکی ٹائ ٹھیک کرنے لگی..
معاذ میں جانتی ہوں تم نے کوئ کمی نہیں چھوڑی ہمیں پرسکون زندگی دینے کے لیے…
مگر ٹھیک ہے.. وہ بہت بدتمیز ہے…
نہیں اتا وہ اسطرح قابو مگر وہ اسطرح بھی نہیں ائے گا جس طرح تم اسے کرنا چاہ رہے ہو
…تم باپ ہو اسکے
دوستوں کی طرح.. ٹریٹ کیا کرو "
مطلب باپ ہی جھکے اولاد… سر پر ناچے" وہ کافی غصے سے بولا… اور.. اس سے الگ ہوا…
میں بتا رہا ہوں اگر… یہ کالج میں انٹرویو دینے نہ گیا تو میرے گھر کی روٹی.. نہیں ملے گی اسے "وہ.. انگلی اٹھا کر غصے سے بولا… اور باہر نکلتا کہ… سرخ چہرہ لیا داود کو کھڑا دیکھا…
وہ اپنا والٹ لینے ایا تھا.. اور معاذ کی ساری گفتگو سن چکا تھا…
باپ کو… کھولتی نظروں سے دیکھ کر.. وہ اندر چلا گیا جبکہ معاذ پرواہ کیے بغیر باہر.. نکل گیا.. عابیر نے گھیرہ سانس بھرا…
اور صحن میں ا گئ…
صحن میں دوسری طرف بڑے سارے پنجرے میں بند عقاب کو دیکھ کر وہ اکثر ڈر جاتی تھی…
یہ شوق.. بھی داود کا تھا.. جس پر معاذ نے.. تقریبا.. گھر سر پر اٹھا لیا تھا.. مگر داود کے سامنے… وہ اپنی منوا نہیں سکا…
وہ حد سے کچھ زیادہ ہی بدتمیز تھا.. اپنی مرضی اپنی بات اپنے فیصلے پر.. ایسے اڑ جاتا تھا.. جیسے… اگر وہ اس سے اگے ایک قدم بھی چلا تو… نہ جانے کیا ہو جائے.. میٹرک کے بعد وہ یہ لایا.. تھا اب تو تقریبا سب کو عادت ہو گئ تھی.. اور وہ بھی سدھایا ہوا تھا تبھی اج تک کسی کو نقصان نہیں دیا مگر جیسے… وہ گھورتا تھا سب ہی ڈر جاتے تھے سواے اسکے.. وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا… اور پنجرے کے سامنے ا کھڑا.. ہوا…
اسکا دوست… پنجرے کی زمین پر بیٹھا… اوپر اسی کی جانب دیکھ رہا تھا… داود بھی نیچے بیٹھ گیا…
اسکی جانب دیکھتا رہا…
جبکہ… عقاب نے.. اپنے پروں کو ہلکی سے جنبش دی…
اس سڑیل کے لب مسکراے…
اور دیکھتے ہی دیکھتے..
اس عقاب نے… ہوا میں بڑی جوشیلی اڑان بھری…
داود…. ایکدم اٹھا…
جبکہ اب عقاب.. پنجرے کی اوپری سطح پر بیٹھا تھا…
عابیر چپ چاپ یہ منظر دیکھ رہی تھی…
داود نے ماں کی جانب دیکھا….
شاید تمھارے دوست نے بھی تمھیں تمھارے بابا کی بات ماننے کے لیے کہا ہے "عابیر نے… کہا.. تو… وہ مسکرایا….
معمولی سا….
جو اس نے کہا… وہ میں سمھجہ گیا…." اسنے… کہا… اور….
ماں کا ہاتھ اگے بڑھ کر چوما.. اور…
باہر نکل گیا.. جبکہ عابیر… نے سرد سانس کھینچ کر اسکے لیے دعا کی….
…………………..
بیٹھو میں تمھیں چھوڑ دیتا ہوں… "اپنی ہیوی بائیک پر… اول تو وہ کسی کو بھی بیٹھاتا نہیں.. تھا.. مگر.. فیزا کو… دھوپ میں.. روڈ کراس کرتے اس بڑی ساری بیلڈینگ کیطرف جاتا دیکھ کر اسنے معمولی سی ہمدردی دیکھائ..
فیزا اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوئ….
میں… چلی جاو گی وہ سامنے ہی ہے.." فیزا نے کہا تو داود نے گھورا…
فضول نہ ہانکو مجھ سے" اسنے تیور بگاڑے… جبکہ فیزا… جلدی سے.. اسکی بائیک پر بیٹھ گی…
اور کچھ ہی فاصلے پر موجود بڑی ساری بیلڈینگ.. کے سامنے.. اسنے بائیک روکی… تو
فیزا کو لگا.. اتنی سی دیر میں… ساری لو اسکے منہ پر اکھٹی ہو گئ ہو.. اتنی ہی تیز بائیک اسنے چلائ تھی..
اترو بھی" وہ بولا… تو وہ اتر گئ..
ابھی وہ بائیک گھماتا کہ.. پیچھے سے تیز پراڈو کے ہارن پر اسنے بس سر گھما کر دیکھا….
بلیک پراڈو چمچما رہی تھی…
اسنے بائیک نہیں ہٹائ..
کیا تمھیں نظر نہیں ا رہا یہاں پارک کرنی ہے مجھے گاڑی" گاڑی کا شیشہ کھلا.. اور ایک شخص کی غصیلی اواز سنائ دی تو… وہ.. تو جیسے ہر کسی سے بھیڑنے کو تیار رہتا تھا…
بائیک سے اترا… فیزا کو یہ سب خطرے کا الارم لگ رہا تھا..
داود…" اسنے اسے پکارنا چاہا.. مگر مجال ہے جو وہ سنے…
تجھے نظر نہیں ا رہا میری بائیک کھڑی ہے" وہ.. بھی اسی انداز میں بولا…
موبائیل میں مگن ایک اور لڑکے نے بھی گاڑی میں سے.. اس لڑکے کی جانب دیکھا…
جو
.. اس تڑپتی دھوپ میں بھی دودھ کی مانند باکمال لگ رہا تھا..
مگر ناک پر نکھرا واضح نظر ا رہا تھا..
کیا بکواس ہے ہٹا اپنی بائیک" مراد کے پتنگے لگے…
اس سمیت….
سارگل نے بھی اس کی بےتکان ضد پر ماتھے پر بل ڈالے…
بکواس میں نہیں تو کر رہا.. ہے.. یہ ڈبا گاڑی لے کر… تو نے یہ سمھجھ لیا یہ پارکینگ تیرے باپ کی ہے.. اور روڈ تیرے دادا کا…"
داود…. چھیگاڑہ.. سارگل… گاڑی کا دروازہ کھول کر.. باہر نکلا جبکہ دروازہ اسنے پیچھے پٹخا.. تو دھڑ سے دروازہ بند ہوا…
فیزا.. داود کو روکنا چاہتی.. تھی… مگر.. داود.. اسے ہاتھ سے پرے کر کے تن کر کھڑا تھا…
ہاں یہ روڈ… میرے دادا کا ہے
. اور یہ پارکینگ میرے باپ کی….
اب تو بتا تیرا کیا ہے جس کی اکڑ.. تجھ میں گھس رہی ہے "سارگل… نے… اسکو گھورا… جبکہ مراد بھی پیچھے ا چکا تھا..
بس ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا.. جو سہم رہی تھی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی…
یہ جو تیری اکڑ ہے
. ایک منٹ میں تیرے اس باپ کے روڈ پر ہی نکال دوں گا…. سائیڈ پر ہو" داود…. نے دانت پیس کر کہا…
اور.. سارگل کو پرے دھکیلا…
کہ
سارگل… کا دماغ
. اوٹ ہوا.. اس سے پہلے. وہ اسکے منہ پر جڑتا…
دواد بیچ میں ہی اسکا.. ہاتھ روک چکا تھا…
اج تک کسی کا ہاتھ… مجھ تک نہیں پہنچا…
تو تو کیا ہے" اسنے.. سارگل کا ہاتھ موڑتے ہوئے اسے پیچھے دھکیلا…
جبکہ مراد.. بھی غصے میں اسکی بائیک تک پہنچ چکا تھا…
اور کھینچ کر لات ماری اسکی ہیوی بائیک زمین پر جا گیری.
داود.. داود پلیز چھوڑیں" فیزا نے ایک بار پھر اسے روکا.. جبکہ دواد کو.. لگا… اسکا دماغ اب اسکے قابو میں نہیں ہے
. وہ شیر کیطرح.. مراد پر جھپٹ پڑا.. جبکہ.. مراد.. چاہ کر بھی اس سر پھیرے کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا.. تبھی سارگل کو بھی بیچ میں کودنا پڑا.. اور.. ان دونوں نے بھی داود.. کو مارا…
یہ سب کیا ہو رہا ہے"اس سے پہلے وہ تینوں ایک دوسرے کا سر پھاڑتے..
پیچھے سے
. مراد کو اپنے باپ کی اواز سنائ دی…
مگر داود کو کیا سنائی دے رہا تھا.. اسے فیزا کی چیخیں سنائ نہیں دے رہی تھی.. پھر معاویہ کی اواز کیسے سنائ دیتی…
وہ.. سارگل کا منہ اس سے پہلے سجا دیتا…
معاویہ نے اسے پیچھے دھکیلا…
جبکہ وہ بری طرح اسکا ہاتھ جھٹک کر.. اپنی بائیک کے پاس.. پہنچا تھا..
اسکی بائیک کو شکر تھا کوئ نقصان نہیں ہوا تھا.. مگر.. وہ ان دونوں لڑکوں کا کافی نقصان کر چکا تھا..
فیزا.. نے.. دیکھا اسکے ہاتھوں پر چوٹیں ائ تھیں…
یہ کیا کیا اپ نے"فیزا نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا..
چھوڑو مجھے" وہ چنگھاڑا…
اور دوبارہ مراد اور سارگل کو گھورا…
کون ہو تم کیوں لڑ رہے تھے "معاویہ نے… پوچھا… تو.. وہ معاویہ کو گھور کر…
اپنی باییک پر بیٹھا اور وہاں سے نکل گیا.. جبکہ فیزا
. کو لگا.. اب اسے.. یہاں کون جوب دے گا.. تبھی وہ پلٹنے لگی کہ
. روکی..
روک جائیں… میرے خیال سے اپ.. جاب کے لیے ائ ہیں" معاویہ نے کہا تو وہ کچھ خوف زدہ سی.. سر ہاں میں ہلا گی..
تو اندر جائیں باہر کیوں کھڑی ہیں" اسنے کہا.. تو وہ حیران ضرور ہوئ مگر.. اندر چلی گئ..
جبکہ مراد اور سارگل.. اب ایک دوسرے کو کوس رہے تھے کہ وہ اسکا مقابلہ نہیں کر سکے…
تم دونوں اندر چلو بتاتا ہوں تم دونوں کو" معایہ نے غصے سے کہا.. تو وہ دونوں… غصے سے کھولتے.. اندر ہو لیے…
……
…………….
ساری دنیا مل کر میرے پیچھے پڑ چکی ہے" بائیک کی سپیڈ تیز کرتے ہوئے اسنے چیڑ کر سوچا.. جبکہ وہ بھول گیا.. وہ بلاوجہ دنیا کے پیچھے پڑا تھا…
بائیک کو.. گھما پھیرہ کر
. وہ… ایک کالج کے سامنے لے ایا… وہ نہیں جانتا تھا یہ وہی کالج ہے جس کا معاز نے ذکر کیا تھا مگر.. اسے لگا یہ وہی کالج ہے
غصے سے.. اسنے… باپ کے بات مان ہی لی.. کہ.. وہ خاموشی سے اپنی تیاری کرے گا تب تک معاز کا منہ بند رہے گا جب تک وہ نوکری کرے گا.. اور ابھی تو.. اسے 9 ماہ تھے.. پیپر دینے میں تبھی.. وہ.. کالج ا گیا…
یہ گلز کالج تھا… اور بے شمار لڑکیوں نے اس ہینڈسم کو… دیکھا.. تھا..
اف پرسنلٹی ہے یار"اسنے فقرہ سنا.. مگر… کچھ بھی بولے بغیر.. وہ.. ہیڈ افس کی جانب چلنے لگا..
اپنے اندازے سے وہ.. درست جگہ پہنچ گیا تھا…
افس کے باہر پی این کو جاب کا کہا… اور. وہ.. اندر ا گیا…
پرنسپل نے. اسکی جانب دیکھا.. لڑکے کے ماتھے پر بل دیکھ کر وہ مسکراے…
جوانی اور جوانی کا غصہ برحال سی وی دیکھائیں "وہ مدھم سا بولے…
جبکہ.. اسکے پاس.. سی وی نہیں تھی.. اسے اب اپنے اوپر غصہ انے لگا…
عجیب ادمی تھا.. بس ہر حالت میں غصہ کرنا تھا…
سی وی نہیں ہے بھول گیا" اسنے شانے اچکا کر کہا.. اور اٹھنے لگا.. کہ پرنسپل نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا..
کس سبجیکٹ میں انٹرسٹ ہے" انھوں نے.. پوچھا…
کسی میں بھی نہیں "اسنے… تڑخ کر کہا.. پرنسپل نے حیرت سے اسکیطرف دیکھا…
کون سا سبجیکٹ پڑھا لو گے" انھوں نے پھر سے پوچھا..
کوئ بھی" مختصر جواب ایا…
انگلش پڑھا لو گے"انھوں نے صبر سے پوچھا.. یہ لڑکا.. کسی کو.. بھی غصہ دلانے کے لیے زبردست تھا…
جب میرے پاس سی وی ہی نہیں تو اپ مجھے جاب پر کیسے رکھیں گے" اسنے.. ٹیبل… پر دونوں ہاتھ ٹیکا کر.. پوچھا تو… پرنسپل نے… اسکے ہاتھ پر چوٹ دیکھی..
یہ اپکے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا.." انھوں نے اسکی توجہ.. دلائ…
تو وہ… نفی میں سر ہلا گیا…
شکریہ"وہ اٹھتا.. کہ پرنسپل جو اسکی پرسنلٹی سے کافی ایمپریس… ہو رہا تھا..
اسکو جاب دے گیا…
ہمیں انگلیش کے ٹیچر کی ضرورت ہے…
کل یہ اج.. اپ جاب سٹارٹ کر لیں "اسنے کہا…
تو داود اسے… عقابی نظروں سے ہی گھورنے لگا….
پرنسپل مسکرا رہے تھے….
اپ اج سے جوائن کر لیں ہمارا انگلش کا لیکچر ابھی ہونا ہے…" انھوں نے کہا… تو… وہ… سر ہلا گیا…
سیلری"اسنے انکی طرف دیکھا جو ضرورت سے زیادہ شفیق ہورہا تھا اسکے ساتھ…
یہ ایک بڑا کالج ہے…. اور یہاں کی سیلری پیکج.. بہت شاندار ہے…
اپکو نا امیدی نہیں ہو گی "پرنسپل پھر مسکرایا… تو اسے اسکے فالتو مسکرانے سے بھی چیڑ ہوئ….
کہہ تو اپ ایسے رہے ہیں جیسے گھر اور گاڑی میرے ہاتھ میں تھما دیں گے برحال….
اگر سیلری پیکج اچھا نہ ہوا تو میں پھر کام نہیں کر سکتا معزرت" اسنے اٹھتے ہوئے کہا..
برخوردار بیٹھ جاو….
چھوٹی چھوٹی باتوں پر چیڑ جاتے ہو" پرنسپل کو اس ٹھڑی ہڈی پر حیرت ہی ہو رہی تھی…
داود نے اسکی جانب دیکھا…
یہاں کے اونر احمر خان ہیں….
جلد ہی… تمھاری سیلری… اور کالج کے پیچھے….
ہاسٹل… روم تمھیں دے دیا جائے گا… اور باقی رہی گاڑی کی بات تو اسکے لیے تمھیں کچھ وقت درکار ہے" اسنے سہولت سے بتایا… تو…
وہ… سر ہلا گیا…
اسے بلکل بھی امید نہیں تھی کہ.. اسے جاب ملے گی اور یہاں بیٹھ کر.. اور انکی لگزریز سن کر اسے اندازا ہو گیا تھا کہ یہ وہ کالج نہیں جس کی بات معاذ کر رہا تھا.. کیونکہ یہ شہر کی سطح سے تھوڑا دور… تھا….
مزید ایک دو رسمی سی باتیں کر کے.. وہ وہاں سے اٹھا… اور… کسی دوسرے سینیر پرفیسر کے ساتھ اسے.. اسکے روم کی جانب بھیجوا دیا….
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اپنی مخصوص چال.. چل رہا تھا… جبکہ.. ناک پر گاگلز.. اب بھی رکھے تھے.. اور بال… بھی ماتھے پر بکھر رہے تھے.. وائٹ شرٹ میں.. وہ.. کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا..
وہاں لڑکیاں اسکو.
کافی شدت سے دیکھ رہیں تھیں مگر اسے ایک میں بھی انٹرسٹ نہیں تھا…
تبھی اسے.. وہ پروفیسر.. روم کے اندر لے ایا بے شمار لڑکیوں کی آوازیں… خاموشی میں بدل گئیں….
وہ سب.. اسے.. گھور رہیں تھیں…
اسکا دل کیا اپنا سر پھاڑ لے..
وہ کیوں ایا یہاں..
سو گرلز یہ اپکے نیو پرفیسر ہیں پروفیسر داود…
انگلش ٹیچر ہیں…. "سینیر پروفیسر نے.. اسکا تعارف کرایا.. تو…
سب لڑکیوں میں سے شوخ لڑکیوں نے اسے.. زور دار ہیلو کیا.. جس کا جواب دینا اسنے ضروری نہیں سمھجا…
وہ یوں ہی گاگلز کے پیچھے سے.. سب کو دیکھتا رہا…
کلاس میں چیماگویاں ہونے لگیں تو سر نے ڈسک بجایا…
سائیلینس….
اپ لوگ.. اپنی سٹیڈی پر فوکس کریں باتوں کے لیے عمر پڑی ہے "سر نے کہا.. تو سب ہنسنے لگی.. داود کی برداشت پر بات بن رہی تھی..
وہ سر بھی ہنس کر.. اسے گڈ لک کہہ کر باہر نکل گئے…
بہت سی لڑکیاں اب بھی باتوں میں مشغول تھیں اور… ٹوپک.. اسی کا وجود تھا…
جس نے بولنا ہے یہ میرے بارے میں قصیدے کرنے ہیں باہر جا سکتا ہے" وہ سنجیدگی سے بولا..
کلاس میں خاموشی چھا گئ…
داود… نے… ان سب کو خاموش دیکھ کر ریجیسٹر کھولا….
اور.. نیم کال کرنے لگا.. سب تمیز سے… جواب دیتے رہے.. تبھی
دروازہ بجا…
اسنے یس کہا…
اور…. سفید ملائم ہاتھ جس میں… گھڑی کی پیچھے.. بینڈز تھے.. اس ہاتھ نے دروازہ کھولا… اور… وہ نازک سی.. لڑکی روم میں داخل ہوئ..
جبکہ داود کو دیکھ کر ٹھٹکی…
بلیک جینز پر… بلیک ہی ہاف بازو کا اور گھیرے گلے کا ٹاپ پہنے وہ لازمی غضب ڈھا رہی تھی.. جبکہ کھلے بال بنا پرواہ کے پڑے تھے…
شانے پر بیگ.. تھا تو ہاتھ میں سیل…
مے ائ کم ان "عینہ نے پوچھا.. اسکی اواز بھی نرم تھی..
داود کے ماتھے پر بل ڈلے.. وہ کس خوشی میں اتنی توجہ دے رہا تھا…
نو" اسنے سرد مہری سے کہا…
عینہ کی بڑی بڑی ہیزل براون آنکھوں نے اسکو دیکھا…
کس خوشی میں محترمہ لیٹ ہیں….
اپکے فادر کا کالج ہے.. جو.. اپ کسی بھی وقت منہ اٹھا کر بغیر یونیفارم کے.. پہنچ جائیں گی" وہ اصل روپ میں ا گیا..
اور دنیا بھر کے لوگوں کے باپ کے پیچھے پڑا رہتا تھا…
تو عینہ کا باپ کیسے بچ سکتا تھا…
عینہ اسی کیطرف دیکھ رہی تھی….. وہ کتنی بدتمیزی سے بولا تھا….
جی" اسنے مدھم اواز میں جواب دیا…
داود نے.. آنکھیں چھوٹی کر کے… اسکیطرف دیکھا
یہ جی سے کیا مراد ہے.. تمیز ہے اپکو اپنے بڑوں سے بات کرنے کی…" وہ ریجیسٹر پر پین پھینکتا.. چیخا.. عینہ سمیت ساری لڑکیاں اچھل پڑیں
کوئ اس سے پوچھتا… کہ وہ اپنے بڑوں کی کتنی عزت کرتا ہے جو.. اسے سنا رہا تھا..
اسکی آنکھوں میں انسو اترنے لگے….
تبھی اپنی انگلیاں مڑوڑتی… وہ… کنفیوز سی دیکھی….
سر…. وہ سچ کہہ رہی ہے.. یہ کالج عینہ کے ہی فادر کہ ہے…
ائ مین… "
دوسری رو سے ایک لڑکی.. اٹھ کر ایکسپلین کرنے لگی…
کہ اسنے… انگلی کے اشارے سے اسے دفع ہو جانے کو کہا…
اس لڑکی.. کا منہ ہی اتر گیا…
عینہ کو.. شدید رونا ایا…
اج تو دن ہی نہیں اچھا…
اس لڑکی کے ساتھ ساتھ وہ بھی باہر نکلتی…
کہ…
اپکو کسی نے کہا ہے اپنے قدموں کو زہمت دیں"ایک اور طنز.. اڑتا اڑتا.. عینہ تک پہنچا…
وہ روک گئ…
اج سے پہلے اسکی کبھی اتنی بیستی نہیں ہوئ..
تھی سب ہی… اسکی حساس مگر شوخ… طبعیت سے واقف تھے..
جہاں وہ جلد…. گھبرا جاتی تھی وہیں….
زیادہ بول بول کر سب کو پکانا….
ہر وقت گنگنانا…..
اور رومنٹک مویز.. دیکھنا….
اسکی شخصیت کا حصہ تھا….
اور یہیں عینہ اس ادمی کو نکلوانے کی ٹھان چکی تھی….
اج کے بعد اپ میری کلاس میں لیٹ آئیں… تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا..
باپ کا کالج ہے تو… سر پر سوار ہو گئ مطلب محترمہ"وہ گھور کر بولا…
عینہ نے اسکو دیکھ کر.. قدم اپنی.. چئیر کیطرف بڑاھاے.. کہ داود کی پھر سے اواز ائ…
محترمہ… اج کی سزا اپکی یہ ہے.. کہ اپ. پورے 50 منٹ کھڑی ہو گئیں وہ بھی پیچھے… تاکہ اپ سمیت سب کو احساس ہو.. کہ میں پاگل نہیں ہو جو.. اپ لوگوں.. کوپڑھانے کے لیے.. ا رہا ہوں "اسنے…. تیور ہمیشہ کی طرح بگاڑ کر کہا… اور ایک لڑکی سے
. بک مانگی جس کی تو باچھیں کھلیں ہوئ تھیں..
عینہ تو پورے کالج کی فیورٹ تھی.. حالانکہ.. کبھی اسنے…. بہت شاندار نمبر نہیں لیے پھر بھی لڑکیاں اسکی گلکاری.. اسکے سٹائل
.. اور سب سے بڑھ کر… کالج کے اونر کی فیملی سے ریلیٹیڈ ہونے کی وجہ سے اسے سر پر اٹھائے پھیرتیں تھیں.. اور یہ بات…
منشا کو.. بہت زہر لگتی تھی. وہ ٹوپر تھی.. پھر بھی….
اسے کوئ نہیں پوچھتا تھا..
جبکہ اس کالج کے ساتھ ہی بلکل بوائز برانچ تھی…
اور… فنکشنز پر ہی دونوں… کمبائن ہوتیں تھیں….
اور وہاں بھی عینہ عینہ.. ہر لڑکے کی زبان پر تھا…
غرض منشا عینہ سے کافی جیلس تھی.. اور اج ایک… غضب کے ہینڈسم بندے نے اسکی عزت کی تھی.. وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی…
اسنے جلدی سے اگے بڑھ کر.. داود کے ہاتھ میں بک دی…
جبکہ
. داود نے ایک نظر عینہ کو دیکھا…
فضول میں.. اس چٹخنی جتنی لڑکی کی آنکھیں اتنی بڑی بڑی ہیں… "اسنے دل میں سوچا اور ایک بار پھر غصے کا گراف بھڑ گیا….
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکی وجہ سے.. بک پر فوکس نہیں کر پا رہا تھا وہ بھی اسکی سرخ آنکھوں کی وجہ سے.. جو وہ بلاجواز اسے گھورنے میں صرف کر رہی….
اور اب اسکی برداشت سے باہر ہو چکا تھا..
یو گیٹ اوٹ" اچانک ہی وہ بک ٹیبل پر پٹخ کر… چیخا… تو وہ سب اچھل پڑیں…
جبکہ عینہ نے منہ پر ہاتھ رکھا.. اور وہ.. بھاگتی ہوئ وہاں سے نکل گئ…
داود نے اسکی جانب دیکھا سب ہی لڑکیاں داود کو افسوس سے دیکھ رہیں تھیں.. وہ حد سے زیادہ ہی اسکی انسلٹ کر چکا تھا.. جبکہ منشا بے حد خوش تھی…..
اسنے بک کو ٹیبل پر پٹخا…..
اور خود بھی کلاس سے باہر نکل گیا…
موڈ شدید بگڑ چکا.. تھا…
اور ابھی وہ کالج سے باہر نکلتا کہ واچمین اسکے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا ایا….
اسے یقین ہی نہیں ا رہا تھا اسے نوکری مل چکی ہے خوشی بہت تھی البتہ.. کیونکہ وہ اپنے مامو (معاز) کا سہارا بننا چاہتی تھی.. اور سیلری پیکج بھی کافی اچھا… تھا…
مگر اسکا باس بلکل اچھا نہیں تھا… اسے سمھجہ نہیں ایا… وہ اتنا کھڑوس کیوں ہے.. ہاں اس سے بیر ڈالنا تو خیر جائز بھی تھا… کیونکہ… داود نے کس بری طرح ان دونوں کو پیٹا تھا….
وہ مسلسل اسے کھا جانے والی نظروں سے.. نفرت سے دیکھتا رہا تھا.
دن مشکل سے گزرا تھا کیونکہ… یہ بات عجیب ہی لگتی ہے کہ باس نئ انے والی ایمپالائر جو باس کو جانتی بھی نہیں اسکو سالم نگلنے… کا ارادہ کرے…
اللہ اللہ کر کے دن گزر گیا…
اور وہ
. جلدی سے سب سے پہلے.. وہاں سے نکلی.. خوشی یہ تھی کہ گھر جا کر سب کو یہ خوشخبری دینی تھی…
مگر.. سارے راستے.. وہ مراد سر.. کا رویہ بھی سوچتی ائ تھی…
انکے والد نے اسے رکھ تو لیا تھا.. مگر اگے کیا ہونے والا تھا.. وہ نہیں جانتی تھی….
وہ گھر پہنچی تو اسی وقت داود کی بائیک بھی اسکے ساتھ ہی دروازے پر ا رکی…
گاگلز.. اسنے ڈھلتی شام میں بھی لگائے ہوئے تھے جبکہ موسم قدرے بہتر تھا مگر خیر اسکی مرضی….
فیزا نے اسکیطرف دیکھا.. جس کے ماتھے پر بل ڈلنا شروع ہونے لگے کیونکہ وہ اسے گھور رہی تھی اور اس سے پہلے وہ چیختا.. اور گھر بھر میں نئے طریقے سے فساد اٹھاتا… وہ اندر گھس گئ…
داود بھی بڑبڑاتا ہوا اندر ایا…
پوری دنیا نے بیر ڈالا ہوا ہے مجھ سے "وہ بائیک سے اترا…
عابیر نے مسکرا کر اسکیطرف دیکھا… داود نے گھیری سانس بھری…
اور.
وہ مسکرایا تو نہیں… کیونکہ کافی رینٹ ا جاتا.. ہاں البتہ.. ماتھے کے بل کم ہو گئے تھے….
پہلے فریش ہو جاو.. پھر کھانا کھاو.. پھر تم سے پوچھو گی.. کہ اج.. میرے بیٹے… نے کس کا سر پھاڑا…. اپس.
میرا مطلب… داوود احمد.. کے پیچھے اس دنیا کہ معصوم لوگ جو پڑ گئے ہیں…
اب پوچھناتو بنتا ہے.. نہ.. تاکہ اپکے.. بابا…
کہ پاس.. کوئ خبر ائے اور مجھے پتا نہ ہو "وہ نرمی سے ہنستی ہوئ اس سے کہہ رہی تھی وہ بچپن سے ہی ایسا تھا…
جب گھر سے باہر نکلتا ضرور ایسا کام کرتا کہ لوگ اسکی شکایتیں لے کر اتے اور پھر گھر میں ایک محاز کھڑا ہو جاتا…
داود… عابیر کی بات پر ہلکا سا مسکرایا
.. بڑا جانتی ہیں اپ مجھے مائے بیسٹ لیڈی" اسنے ماں کو کہا تو.. ہنس دی..
اخر کو دل جان سے فدا تھی اپنے بیٹے پر.. حالانکہ وہ جانتی تھی اس میں لاکھ برائیاں ہیں….
داود اپنے روم میں ایا… ڈریس لیا اور شاور لینے چلا گیا….
تقریبا بیس منٹ بعد وہ اپنے روم سے باہر ایا.. تو سامنے ٹیبل پر سب کھانا کھا رہے تھے جبکہ…
وہ بھی فیزا کے ساتھ چئیر کھینچ کر بیٹھ گیا….
اور خاموشی سے… کھانا کھانے لگا… کیونکہ عابیر نے اسکے سامنے کھانا چن دیا تھا…
مامو.. سیلری پیکج بہت اچھا
.. ہے… "فیزا کی اواز ابھری….
اچھی بات ہے بیٹا…. بس… لڑکی ذات ہو…. دھیان اور توجہ سے رہنا" معاذ نے نرمی سے کہا… داود نے گھور کر باپ کو دیکھا.. اس سے بات کرتے ہوئے سارے کریلے.. اس ادمی کے منہ میں بھرے ہوتے ہیں…
برحال وہ کھانا کھاتا رہا….
جی مامو… "فیزا نے اثبات میں سر ہلایا…
تو معاذ کا رخ داود کیطرف ہوا…
تمھیں تو نوکری نہیں ملی ہو گی….
جا کہ ہیڈ ماسٹر کا ہی سر پھاڑا ہو گا تم نے" اسنے ہمیشہ کیطرح طنز کیا….
ہاں جی پھاڑ دیا تھا…. "اسنے منہ میں لقمہ رکھتے ہوئے فٹ جواب دیا…
معاذ نے اسکو گھورا…
داود جان.. بابا کو ٹھیک بات بتاو "عابیر.. نے.. نرمی سے پوچھا…
انھوں نے جیسا سوال کیا تھا ویسا جواب ملا ہے… اور میں کچھ نہیں بتا رہا جب انھیں یقین ہے کہ مجھے نوکری نہیں ملی"اسنے سنجیدگی سے کہا…
تو عابیر کے دل کو کچھ…
نہیں داود.. مجھے پتا ہے
. اپکو جاب مل چکی ہے… "وہ اٹھ کر بیٹے کی سائیڈ پر ا گئ..
داود نے کوئ جواب نہیں دیا….
بس جا بے جا اسکی حمایت کے علاوہ.. تمھیں کچھ بھی نہیں اتا"معاذ نے.. سختی سے کہا…
پلیز معاذ" عابیر.. نے.. اسکی جانب دیکھا….
وہ اکثر.. داود کو اسی طرح ہرٹ کر دیتا تھا.. جبکہ اس چیز کا احساس بھی اسے نہیں ہوتا تھا…
اول تو یہ وہاں گیا ہی نہیں… اور دوسرا.. وہ اسے جاب دینا بھی نہیں چاہتے.. جتنے اسنے سی وی پر تمغے چیپکا رکھے ہیں….
نوکریاں بھی شعور والے.
اور لائق لوگوں کی لگتی ہیں "معاذ.. کہاں باز اتا….
جبکہ داود نے کانٹا.. پلیٹ پر پٹخا….
روشنی اور فیزا.. دونوں بھی کھانا چھوڑ چکیں تھیں….
مل چکی ہے مجھے جاب…. اور سیلری پیکج… اپ کی سیلری سے کئ گناہ زیادہ ہے…..
جبکہ… گھر گاڑی بھی ملے گی.. کیونکہ شہر کا مشہور کالج ہے……..
اور بغیر سی وی اور بغیر وہ تمغے دیکھے ملی ہے….
لائق لوگوں کو ملتی ہیں"وہ غصے سے دھاڑتا… وہاں سے نکل گیا..
جبکہ عابیر.. نے.. معاذ کی جانب دیکھا..
تمیز سیکھاو اسکو…. انھیں کا پیٹ اکیلا بھر رہا ہوں… جو.. تانا دے کر گیا ہے کہ.. میری تنخا سے زیادہ ہے.. باپ کا مقابلہ… کبھی نہیں کر سکتا" معاذ.. اسکو گھور کر بلند اواز میں بولا
. جو.. صحن میں لگے واشبیسن میں ہاتھ دھو رہا تھا…
باپ کا مقابلہ کرنا بھی نہیں مجھے…. پیٹ.. پیٹ…
اتنا بھی.. کیا کھا لیا.. جو ہر وقت ایک ہی بات ہے میرا پیٹ بھرا ہے اپ نے…." داود نے بھی بدمزاجی سے پوچھا… جبکہ معاذ… غصے سے… چیل اٹھا گیا.. اور اس سے پہلے وہ چپل.. اسکو لگتی وہ.. ماں باپ کے کمرے میں گھس گیا.. اور دروازہ بھی لاک کر لیا…
اور اندر وہ شطانی مسکراہٹ لیے… دروازے کو دیکھتا رہا.. اب تو یہ دروازہ صبح ہی کھلنا تھا اچھا تھا.. اج سب گرمی میں سڑتے…
جان بوجھ کر گیا ہے یہ "معاذ نے عابیر کیطرف دیکھا…
بہت بدل گئے ہو معاز تم.. کھانا بھی حرام کر دیا ہے تم نے" عابیر بھی غصے سے کہتی.. وہاں سے اٹھ گئ..
معاذ.. نے ان دونوں کو دیکھا…
کھانا کھاو بیٹا… کھا لیں گے دونوں جب بھوک لگے گی…
چلو ایک تو اچھی بات ہوئ…
اسنے اگل دیا کہ نوکری لگ گئ.. ورنہ کبھی نہ بتاتا" معاذ.. نے کہا.. تو.. فیزا اور روشنی ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئیں..
………………
حالانکہ وہ نوکری چھوڑ ایا تھا….
اس سے زیادہ اوور ایکٹینگ کر لیتے
.. داود صاحب…" اسنے.. موبائل پٹخ کر.. سوچا….
دو گھنٹے سے وہ یہ ہی سوچ رہا تھا…
پرنسپل نے اسے اپنا نمبر دیا تھا کہ اگر دوبارہ مائنڈ بنے تو. وہ اسے بس کال کر دے…
جبکہ داود کی انا پر کاری ضرب لگ رہی تھی.. کہہ تو دیا تھا.. اب کرنا کیا تھا معلوم نہیں….
اسنے موبائل اٹھایا.. وقت دیکھا…
10 بج رہے تھے….
ہمت کر کے.. اسنے.. پرنسپل کو کال کر لی….. پہلی بار باپ کی وجہ سے اسکی انا کی دیوار گیری تھی…
…………….
اپنے ہی افس کے سامنے… دونوں پٹ رہے تھے.. بزدل کہیں کے "معاویہ نے کہا.. تو سارگل اور مراد… نے… ضبط سے اسکیطرف دیکھا…
جو اب مزے سے مسکرا رہا تھا…
تم لڑے ہو" باپ کی اواز پر سارگل نے.. بہرام کیطرف دیکھا…
نہیں بھائ یہ پیٹا ہے "معاویہ نے پھر لقمہ دیا…
سارگل" بہرام کی گھوری خطرناک تھی.. جبکہ عینہ…. ایشا
کی کھی کھی الگ ہی تھی…
گھر بھر میں بس وہ دو ہی لڑکیاں تھیں جبکہ.. باقی سب.. لڑکے تھے…
ڈیڈ.. اس بددماغ ادمی نے لڑائ شروع کی تھی "سارگل نے.. اسے بتایا…
تو بہرام… نے اپنے لبوں میں ہی مسکراہٹ روکی…
اور تم پٹ لیے مطلب سارگل بہرام خان اتنا بڑا وکیل ہو کر بھی… کسی نے دیکھا تو نہیں عزت کا سوال ہے.. جگر" اسکی بات پر.. دونوں کو پتنگے لگے
کب سے اپ لوگ لگے ہوئے ہیں.. مزاق بنانے میں "ارمیش… نے.. دونوں کو گھورا… جبکہ معاویہ سمیت بہرام کا بھی قہقہ.. بلند ہوا.. سارگل اور مراد جو.. بہرام اور معاویہ کی کاپی تھے
دونوں سڑ بھن گئے تھے….
انوشے.. نے معاویہ کو پیچھے سے ٹھونگا مارا…
ڈارلنگ یہ رومینس کا وقت نہیں ہے " معاویہ نے مدھم اواز میں کہا.. تو وہ سٹپٹا گئ..
شرم کریں.. ایک تو میرے بیٹے کے پیچھے پڑیں ہیں دوسرا…
اب میرے پیچھے پڑنا چاہا رہے ہیں" وہ بڑبڑاتی ہوئ
. مراد کے پاس ا گئ.. جہاں. ارمیش سارگل کے پاس پہلے سے کھڑی تھی…
میرا بیٹا کھانا کھاو کسی کی بات پر توجہ نہ دو "ارمیش نے… پیار سے پچکارہ.. تو… سامنے… ہی.. بیٹھے حیدر کی نگاہ.. اسپر اٹھی..
اسکا جوان.. بیٹا.. تھا….
اور کتنے اعتماد سے
وہ اپنے شوہر کے سامنے بیٹے کو ڈیفینڈ کر رہی تھی…
مگر زیادہ دیر.. وہ نہیں دیکھ سکا.. تبھی نگاہ کا زاویہ بدل لیا…
بہرام
اب بس کریں… وہ ناشتہ نہیں کر کے گیا تھا شاید اسی لیے اس کی انرجی کم ہو گئ تھی"ارمیش نے اپنی جانب سے بڑی سمھجداری کا مظاہرہ کیا جبکہ بہرام معاویہ سمیت اب سب ٹیبل پر کھانا چھوڑے ہنس رہے تھے
مما یار یہ کیا بات ہوئی" سارگل نے تو سر تھام لیا.. جبکہ.. بہرام اور معاویہ.. مزید
. ہنسی کے فوارے چھوڑنے لگے….
اپس "ارمیش.. نے مسکراہٹ دبائ…
اچھا.. ڈیڈ میں پیٹا ہیپی" سارگل نے کہا… تو مراد نے اسے چٹکی لی…
تو مان لے.. تاکہ.. ساری زندگی.. یہ دونوں ادمی ہمیں یہ ہی تانا مارتے رہیں "وہ اسکے کان میں گھس کر بولا…
جی بیٹا جی یہ ہی پوچھ رہا ہوں ناشتہ کیوں نہیں کیا تھا"
ایک بارپھر ہنسی کا فورا.. اٹھا… تو ان دونوں نے ٹیبل ہی چھوڑ دی….
جبکہ ارمیش نے بہرام کو گھورا تھا…
اب اگر اپ نے میرے بیٹے کو بھڑکانے کی زرا سی بھی کوشش کی تو اپکو کھانا نہیں ملے گا.."
اپکو بھی"انوشے نے بھی انگلی اٹھائ.. تو ان دونوں نے سیلینڈر کیا…
جبکہ سارگل اور مراد دوبارہ اکڑ کر بیٹھ گئے….
ٹیبل پر خاموشی سے.. ہلکی پھولکی باتوں کے دوران کھانا کھایا جا رہا تھا….
حویلی کا ماحول داجی کی وفات کے بعد ویسا نہیں رہا تھا…
اور پھر بی جان.. اور یاور خان کے چلے جانے کے بعد تو سیرے سے ہی بدل گیا…
دستار.. اب بھی معاویہ خان کے سر تھی مگر… ان معملات میں بھی تبدیلی ا گئ تھی سارا دھیان اپنے بزنس کو دے کر ان لوگوں نے اپنی کدی کو بس نام کا ہی رہنے دیا تھا.. ہاں اب بھی کوئ اگر اپنا مسلہ لے اتا تو.. وہ سب ضرور فیصلوں میں شمولیت کرتے مگر.. وہ پہلے کی داجی کے دور کی سختی.. نہیں رہی تھی.. معاویہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنا جہاں بیزنیس سمبھال رہا تھا.. وہیں… بہرام… اپنی سیاسی.. دنیا میں خوش تھا جبکہ.. بیٹا… سارگل… اپنی مرضی سے.. وکالت میں گیا… تھا…
وہ کافی مہنگا اور بڑا.. وکیل تھا….
اسکی نیچر.. بلکل باپ کے جیسی… نہیں تھی…
اپنے کمائے گائے.. پیسے سے.. جتنی سارگل بہرام خام.. کو محبت تھی.. اتنی تو شاید حویلی میں کسی کو.. کسی سے ہو گی….
پیسا کمانا اسکا شوق تھا….
بہرام اس بات کو جانتا تھا…
اور اکثر وہ اسے… اس بات پر ٹوک بھی دیتا.. کہ وہ.. کئ کئ دن… گھر سے غائب اپنے کیسیز کی وجہ سے رہتا.. مگر یہ بات شاید مراد کے سوا کوئ نہیں جانتا تھا.. کہ وہ پیسے کی دھن میں ہر جائز نا جائز کیس لڑتا ہے….
اور کامیابی تو جیسے اسکا مقدر تھی….
جبکہ مراد کی شخصیت بھی معاویہ سے بلکل الگ.. تھی وہ.. اکثر اسے اپنی اولاد ماننے سے انکار کر دیتا تھا.. کہ.. اسکے بقول تو اسکے باپ دادا میں بھی کوئ اتنا سخت پیدا نہیں ہوا تھا…
وہ ریزرو سا شخص تھا….
سارگل کے علاوہ… کبھی کسی سے.. اسنے اپنی بات شئیر نہیں کی تھی…
طبعیتا وہ خاصا. روڈ تھا….
جبکہ….. ایک طرف اس حویلی میں ایک اور سپوت بھی تھا…
جو کوئ مان ہی نہیں سکتا تھا.. احمر پر گیا ہے…
صارم…. حویلی کا کون سا انسان تھا جس سے.. وہ ڈانٹ نہیں کھاتا تھا… بڑے چھوٹے… سب.. اسے صلواتیں سناتے تھے.. کیونکہ… وہ…. ڈاکٹر. کم… لطیفہ زیادہ لگتا تھا…..
زندگی میں کبھی سیریس ہونا.. اسنے نہیں سیکھا تھا…
جبکہ بڑوں کی مانے بغیر یہ کہے بغیر ہی اسنے ایشا کو اپنی منگیتر بنا لیا… تھا….
جبکہ اس حویلی کی لاڈلی عینہ…. جو بہت حساس… اور کچھ موڈی سی تھی…..
…………………..
باو چھوڑ ماں کو "وہ چیخی…. مگر اسکا باپ اسکی ماں کو بری طرح مار رہا تھا….
کہ اب اسکا سر پھٹ چکا تھا….
یہ سب تایا کی لگائ ہوئ اگ تھی…
وہ ایک بے حد غریب اور شاید گندے گھرانے کی لڑکی تھی جہاں.. رشتوں کی تمیز.. نہیں تھی..
تایا.. اسکی ماں پر گندی نظر رکھتا تھا….
جبکہ.. اج جب.. رات کے وقت سب سونے کے لیے لیٹے…. اور اسکے لیے اور اسکی ماں کے لیے چارپائ نہ بچی… تو.. وہ.. اپنی ماں کی اغوش میں لیٹ گئ..
زمین پر پیڑ کے نیچے….
کچھ دیر بعد جیسے اسے احساس ہوا… کہ… کوئ دبا دبا سا چیخ رہا ہے.. اور اسکی ماں کی گود اسکے سر سے جدا ہو رہی ہے.. اسکی انکھ کھل گئ…
سیدھا نظر مچھلی کیطرح تڑپتی اپنی ماں پر گئ…
جس کے منہ پر تایا ہاتھ رکھ کر.. اسے گھسیٹ رہا تھا….
وہ.. سترہ سال کی لڑکی…
تیزی سے ماں کیطرف بڑھی…
اور پاس پڑی اینٹ… اٹھا کر اسنے تایا کے شانے پر ماری.. تبھی تایا… کی چیخ نکلی… اور… اسکی چیخ سے.. سارا گھر جاگ گیا..
تایا کی.. ناپاک چیخ سے تو گھر بھر جاگ گیا.. جبکہ اسکی ماں کی بے بسی.. پر کوئ نہیں جاگا تھا.. اسکی ماں نے.. جلدی سے.. روتے ہوئے اپنے سینے پر دوپٹہ پھیلایا… جبکہ.
.. بیٹی.. کو.. بھی سینے سے لگا لیا… اور اسپر بھی اپنا دوپٹہ ڈالا
مشل سر سے پاوں تک بری طرح کانپ رہی تھی سب انھیں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے…
ستار اپنی اس نیچ بیوی… کو لے کر یہاں سے نکل جا….
بدذات.. میری چارپائ… پر میرے بستر میں گھس رہی تھی..
اور جب میں نے.. میں نے اسے دور کیا دھکیلا تو اسکی اس مہرانی نے اینٹ مجھے مار دی….
ایک ایک منٹ بھی تیرے… گندے کنبے کو میں اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گا"تایا بلند اواز میں چیخا.. جبکہ ماں کی گرفت اسپر سخت ہو گئ..
اسکے کانوں نے… ماں کے دل کی سسکیاں بھی سنیں تھیں..
باو تو جیسے اپے سے باہر ہو گیا.. سنتے ہی ماں کو بری طرح پیٹنے لگا.. وہ کماتا دھرتا نہیں.. تھا لوگوں سے بھیک مانگ کر گزارا کرتا تھا.. جبکہ…
یہ چھت بھی تایا کی تھی….
اور اب اس چھت سے نکلنے کو سن کر.. وہ ماں کو مار دینا چاہتا تھا…
باو چھوڑ دے.. تایا جھوٹ بول رہا ہے "وہ.. باو کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی.. مگر باو نے اسے بھی دھکا دیا.. وہ زمین پر جا پڑی…
بھاگ جا مشل" ماں… کی نہیف اواز سن کر.. اسکا بدن کانپ اٹھا….
تایا رک.. باو کو.. مار دے گا.. ماں کو "اسنے تایا کے پاوں پکڑے… تو وہ ہنسنےلگا.. جبکہ تائ سسمیت اسکے بچے بھی…
جبکہ باو… صحن میں لگی
. پانی کی ٹوٹی.. پر ماں کا سر.. مارے جا رہا تھا….
اسکے سر سے خون نکل رہا تھا..
مشل جیسے ہوا میں معلق ہو گئ….
باو ہٹ جا باو…" اسنے اپنے کمزور ہاتھوں سے باپ کی کمر پر مسلسل وار شروع کر دیے.. مگر نتیجہ کچھ نہ ہوا.. ماں خون میں لت پٹ زمین پر پڑی تھی جبکہ باو نے.. سیل اٹھا کر.. ماں کے سر پر دے ماری…
کھس کم جہاں پاک" ماں نے اخری سسکی بھری….
ماں"اسکی چیخ سے.. گھر… بھر جیسے دھل گیا..
اے ہاے مار دیا "تائ کی اواز ائ..
بہت اچھا کیا" تایا نے باو کے شانے تھپتھپائے…
اسکی ماں اسکی جانب دیکھ رہی تھی…
جبکہ اب اسکے بدن میں جان باکی نہیں تھی…
اس کو بھی مار کر قصہ ختم کروں "باو.. اسکیطرف بڑھا….
اور اسکا گلہ دبا دیا… اسے کچھ محسوس نہیں ہوا…
اوو پاگل.. اس کو کیوں مار رہا ہے.. اپنے قاصم کی دلہن ہے.. یہ…" تایا.. نے باو کا ہاتھ ہٹایا….
تو باو نے کھا جانے والی نظروں سے اسکیطرف دیکھا…
لے جا قاصم اسے… "باو نے کہا.. تو قاسم.. کی باچھیں کھلیں..
بھاگ جا مشل"یہ اخری لفظ تھے اسکی ماں کے….
ابھی قاسم.. اسکیطرف بڑھتا…
کہ… وہ… بنا کچھ دیکھے اپنی ماں کا دوپٹہ.. جو.. اسنے اسکے سینے پر پھیلا دیا تھا.. سختی سے.. تھامے.. باہر
. بھاگ گئ…
ابے پکڑ اسے"تایا سمیت باو بھی چنگھاڑا جبکہ قاسم اسکے پیچھے بھاگا…………..
صبح کمرے سے باہر نکلا تو… وہ کافی بشاش سا تھا…
مورنگ مام" لاڈ سے ماں کے گلے میں بازو ڈال کر… اسنے کہا…
تو عابیر نے اسکے ہاتھ ہٹا دیے…
اپس"وہ ہنسا….
تم……. ناراض ہو…… " وہ مدھم سا گنگنایا…
کبھی کبھی ہی وہ گنگناتا تھا.. اور اسکی اواز بہت حسین تھی…
کام کرنے دو داود مجھے" عابیر نے کوئ نوٹس نہیں لیا..
یار پلیز اس ادمی کی طرح سڑیل نہ بنیں اپ" اسنے کہا.. کیا پتا تھا معاذ پیچھے ہی کھڑا ہے.. پتہ تو تب چلا جب.. گدی پر معاذ کا ہاتھ پڑا….
وہ ایکدم پلٹا…
بدتمیزوں کے بھی باپ ہو تم…. "اسنے کہا.. تو داود نے… منہ بنایا…
اویں مار دیا… "وہ پاس پلیٹ میں رکھے انڈے کو توڑتا بڑبڑایا…
عابیر نے دونوں کیطرف توجہ ہی نہیں دی..
ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا…
یہ اپکی وجہ سے ہوا ہے میری لیڈی ناراض ہو گئ ہیں "داود نے ماتھے پر بل ڈالے..
تمھاری وجہ سے ہوا ہے… "معاذ نے بھی الزام اسپر ڈالا…
میں نے کیا کیا ہے"وہ دوبادو ہوا…
کیا کیا ہے… جینا حرام..
بس کریں اپ دونوں" عابیر.. زور سے چلائ.. دونوں چپ ہو گئے. ناشتہ کرنا ہے تو ٹیبل پر جائیں اور اب مجھے اواز نہ ائے"اسنے چمٹا اٹھتے ہوے….
کہا ..
اپکو چمٹا دکھا رہیں ہیں…. ایک دو لگ ہی جانے چاہیے" دانت نکال کر کہتا.. وہ معاز کو کلسا کر باہر بھاگا جبکہ معاز نے بنا لحاظ کے سٹینڈ میں رکھی پیاز اسکی کمر میں دے ماری… جس سے اسے فرق تو کوئ بھی نہیں پڑا…. البتہ ہنسا ضرور تھا
عابیر نے معاز کو گھورا..
دیکھا….
بلکل چپ ایک لفظ بھی نہیں سننا مجھے" عابیر بولی تو.. بیچارہ منہ دبا کر باہر نکل گیا…
جبکہ اب کوئ ادھے گھنٹے بعد.. وہ دوبارہ ٹیبل پر ایا…
بلیو ٹی شرٹ میں اسکی رنگت کمال لگ رہی تھی..
جبکہ ناک کی چونچ پر گاگلز.. سجاے وہ بائیک کی چابی اور والٹ.. جیب میں رکھ رہا تھا…
اکثر وہ بلکل بہرام جیسا لگتا تھا…
یہ.. گاگلز.. ہٹاو"وہ جھنجھلا کر بولا.. اسکا بیٹا اس پر ہی نہیں گیا تھا…
سب سے زیادہ چیڑ اسے اس بات کی تھی…
کیوں اپکی ناک پر تو نہیں رکھی" وہ کہاں لحاظ برت سکتا تھا…
معاذ نے دانت کچکائے….
اگر اب.. داود تم ایک لفظ اور بولے تو… پھر دیکھنا "عابیر نے.. کہا.. تو… مزید اکھا ہوا…
لیں ایک اور اپکا وٹر آ گیا "اسنے معاز کو کہا…
اور.. عابیر پر ایک نظر ڈال کر بنا ناشتے کے گھر سے نکل گیا..
عابیر اسکے پیچھے بھی گئ
. مگر وہ الریڈی نکل چکا تھا…
مامو میں بھی چلتی ہوں "فیزا نے کچھ جھجھک کر کہا…
ناشتہ نہیں کیا تم نے.. "عابیر نے پوچھا..
مامی.. افس میں کر لوں گی" اسنے کہا. اور وہاں سے وہ بھی نکل گئ…
……………………..
اسکے پاس پیسے تھے… مگر… پھر بھی اسنے پیدل ہی چلنے کو اہمیت دی.. اور بیلڈینگ میں داخل ہوئ…
جبکہ… وہ اتنی سوستی سے چل رہی تھی کے پیچھے چلتے مراد کا ضبط جواب دے گیا.. اسنے اسکے شانے پر سختی سے ہاتھ رکھا.. اور گھما کر اسکو پیچھے کر دیا..
فیزا تو جیسے پوری حل گئ…
جبکہ مراد اندھی طوفان کیطرح.. لیفٹ میں سوار ہوا….
فیزا کو بھی اسی لیفٹ میں جانا تھا.. مگر مراد کو دور سے دیکھ کر.. ہی اسکا دم خشک ہونے لگا کجا کہ. وہ اسکے ساتھ اس لفٹ میں سوار ہوتی….
لیفٹ… کا ابھی اسنے بٹن پش نہیں کیا تھا.. فیزا مرتےقدموں سے لیفٹ کے قریب ا رہی تھی جبکہ مراد پیٹھ موڑے سارگل سے بات کر رہا تھا..
جو اسے اپنے دوسرے شہر جانے کی اطلاع دے رہا تھا…
یار مسلہ کیا ہے تیرے ساتھ…
تو جانتا ہے وہ لڑکی بے قصور ہے پھر بھی اپوزیشن میں کیس لڑ رہا ہے "مراد کو غصہ ہی ایا…
مراد.. خان… سارگل خان نے انات حاشرم نہیں کھولا.. وہ لڑکی.. پہلے مجھے ہائیر کر سکتی تھی.. برحال…
دو دن بعد ملیں گے" اسنے لاپرواہی سے کہا
تو یہ کیس ہارے گا" مراد نے جیسے تنبہی کی…
کبھی نہیں… کڑوڑوں کا سوال ہے.. برو… ہاں اگر وقت پر وہ لڑکی.. کوئ سٹیپ لیتی ہے.. تو.. فائدے میں رہے گی" وہ ہنسا جبکہ مراد نے جل کر فون بند کر دیا….
ابھی وہ بٹن پوش کرتا ہی کہ.. فیزا.. اسکے سامنے. سر جھکائے کھڑی تھی لفٹ کے باہر…
پہلے ہی سارگل کی وجہ سے.. اسکا.. موڈ.. بری طرح سلگا ہوا تھا.. اور اب یہ…
اسنے.. پاکٹ میں موبائل ڈالا…
اور فورتھ فلور پر پش کیا….
فیزا نے کنپتی پلکیں اٹھائیں وہ اسے ہی گھور رہا تھا….
ہمت کر کے.. اسنے… قدم اندر رکھا.. جبکہ لفٹ کا دروازہ بند ہونے لگا…
دروازہ اسکے قریب ا گیا تھا کہ.. وہ ادھی اندر ادھی باہر رہ گئ..
اسکی کمر سے.. دروازہ لگ.. کر ٹک کی اواز سے ایک بار پھر کھلا..
اسکی کمر میں کافی زور سے دروازہ لگا تھا.. کہ اسکی پلکیں بھیگ گئیں.
کتنا برا انسان تھا یہ شخص..
کچھ دیر تو.. مراد یہ ڈرامہ دیکھتا رہا.. اور جب دوبارہ لفٹ کا دروازہ بند ہونے لگا جبکہ وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی اسنے اکتا کر.. اسکو اندر کھینچ لیا.. اور دروازہ بند ہو گیا…
مراد کے کھینچنے کی وجہ سے.. فیزا.کی پشت. اسکے سینے سے جا لگی….
جبکہ منہ کھلا رہ گیا..
فائلز ہاتھوں سے چھوٹ گئ…
جبکہ.. مراد کی نگاہ… اسکے کان کے پیچھے سے.. .. گردن پر رینگتی ہوی نیچے جاتی پسینے کی لڑی پر تھی…
جبکہ سماعت.. اسکے دل کی تیز دھڑکنوں پر….
وہ اسکے کافی قریب تھی اور اب بھی ساکت لیفٹ کے دروازے کو دیکھ رہی تھی..
جبکہ مراد اسکی صاف شفاف گردن.. کو دیکھ رہا تھا..
تقریبا.. ایک منٹ.. وہ دونوں یوں ہی رہے اور پھر فیزا کو اپنے گرد.. مہنگے کلون کی خوشبو محسوس ہوئ وہ.. ہڑبڑا گئ..
وہ جھٹکا کہا کر اس سے الگ ہوئ.. اور سامنے دیوار کو چیپک گئ..
رو روکیں اس لیفٹ کو "وہ رو دینے کو ہوئ…
ایک لفٹ میں. ایک غیر مرد کے ساتھ تھی وہ.. اب اسے شدت سے احساس ہوا…
مراد نے تیوری چڑھا کر اسکیطرف دیکھا….
کس خوشی میں" اسنے پوچھا
. تو فیزا کے پاس کوی جواب نا بنا…
مج.. مجھے سیڑھیوں سے جانا ہے "اسنے کہا…. سر جھکا ہوا تھا..
اپنی فائلز کو دیکھ رہا تھا جو بکھری پڑیں تھیں….
مراد نے گھور کر اسکی جانب دیکھا…
اوکے "اسنے لفٹ کو دوبارہ فرسٹ فلور پر… کر دیا.. جبکہ فیز اجلدی جلدی فائلز سمیٹنے لگی.. فائلز سمیٹنے میں اسکے بوٹ سے بھی ایک بار اسکی انگلی چھو گی.. جسے وہ فورا کھینچ گئ.. مراد یہ سب تماشہ دیکھ کر خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا..
تب تک لفٹ فرسٹ فلور پر تھی..
ٹک کی اواز سے.. لفٹ کھلی..
فیزا باہر نکلی.. وہ.. تھرڈ فلور پر بھی روک سکتا تھا.. لفٹ کو.. مگر وہ جان بوجھ کر.. فرسٹ فلور پر لے ایا…
مگر فیزا کو غرض نہیں تھی..
ویٹ.. "فیزا اس سے پہلے غائب ہوتی اسکی اواز پر روکی..
یہاں سے سیدھا… 10 فلور پر ملیں مجھے مس فیزا" اسنے جیسے ایک ایک لفظ کو چبا چبا کر کہا…
فیزا نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا…
رونا تو اسے خوب ایا.. کہ اسکی ٹانگیں ٹانگیں نہیں تھیں کہ وہ سب سے.. اوپر اسے بلا رہا تھا.. اور خود لفٹ میں جاتا…
مگر کچھ بھی بولے بغیر.. وہ.. چل پڑی…
جبکہ مراد نے پھر فورتھ فلور پر پریس کیا…
اسے اکونٹینٹ سے ملنا تھا.. جبکہ اسکے بعد وہ.. 8 فلور جہاں اسکا کیبن تھا وہاں جاتا….
اسے لگا اج اسکی ٹانگیں ٹوٹ جائیں گیں….
3 فلور پر ہی اسکے سانس بری طرح پھول گئے کے وہ سیڑھیوں میں بیٹھ گئ..
جبکہ آنکھوں سے انسو رواں دواں تھے..
وٹ ہیپینڈ مس فیزا.. "فائق جو وہیں سے گزر رہا تھا اسے روتے دیکھ.. اسکی جانب ایا.. وہ.. فورتھ فلور پر.. اسی کے انڈر کام کرتی تھی…
فیزا نے سرخ آنکھیں اٹھائیں.. …
پلیز. پانی…" وہ بس اتنا بولی.. کہ فائق نے سر ہلا کر اسکیطرف ہاتھ بڑھایا.
. اپ اٹھیں…" تقریبا فورتھ فلور پر تو وہ ا گئ تھی…
فیزا نے اسکا ہاتھ تھام لیا..
اور وہیں لیفٹ کی جانب اتے.. اکاونٹینٹ کے ساتھ.. مراد نے.. فائق اور فیزا کو دیکھا…
اسکے ماتھے پر پڑے بلوں کی تعداد میں بیش بھا اضافہ ہوا..
مسٹر فائق "وہ دھاڑا.. فائق نے فیزا کا ہاتھ چھوڑ دیا..
فیزا کی ٹانگیں اتنی کانپ رہیں تھیں کہ.. وہ دوبارہ زمین پر پڑی…
تینوں نے اسکیطرف دیکھا.. مگر مراد نے اگنور کر دیا…
اپکے پاس کوئ اور کام نہیں ہمدردی کے سوا" وہ غصے سے بولا..
وہ سر مس فیزا کی طبعیت "
شیٹ اپ" اسنے جھاڑ دیا.. فائق.. سر جھکا کر وہاں سے چلا گیا..
واٹر بوٹل.." اسنے.. اکونٹینٹ کے پیچھے اتی اپنی سیکڑی سے کہا.. جس نے اسکی پرسنل بوٹل حیرت سے.. اسکی جانب دیکھتے.. اسے تھما دی..
جائیں اپ دونوں "اسنے دونوں کو کہا تو وہ دونوں بھی چلے گئے..
فیزا بے اواز رو رہی تھی..
پانی "اسنے بوتل کھول کر اسکی طرف بڑھائ…
جبکہ.. وہ گٹھنوں کے بل بیٹھا تھا..
فیزا کو اسکیطرف دیکھ کر غصہ انے لگا..
چھوٹی سی ناک پھلا کر اسنے چہرہ موڑ لیا..
نو تھینکس "پھولتے سانسوں میں اسنے جواب دیا.. مراد نے… غصے سے بوتل.. اسپر پھینک دی…
فائق کا ہاتھ تھام رہی تھی جبکہ اس سے.. بوتل پکڑتے ہوئے اس معمولی سی لڑکی کے نکھرے دیکھو…
اسکی ساری فائلز سمیت کپڑے بھی گیلے ہو گئے..
مراد نے تمسخر سے اسکی جانب دیکھا.. اور وہاں سے چلا گیا.. جبکہ اسکی سیکٹری نے بھی.. اس شو کو انجوائے کیا تھا.. وہ اتنی خوبصورت تھی اب تک مراد نے اسے گھانس نہیں ڈالی تھی کجا کہ یہ لڑکی…
…………………
ہیوی بائیک پارکینگ میں روک کر وہ اندر ایا.. وہ لیٹ تھا…
مگر…. پھر بھی.. وہ اپنے روم کی جانب چل دیا..
10 بجنے میں پانچ منٹ تھے.. وہ… کلاس میں داخل ہوا.. تو.. جیسے سب لڑکیوں نے سرد آہیں بھریں..
کیا تھا.. وہ.. اتنا خوبصورت… اتنا ڈیشینگ باکمال.. اور اوپر سے بے نیازی…
غضب تھی…
لاشعوری طورپر… داود کی نظر کلاس میں گھومی مگر وہ وہاں.. نہیں… تھی…
اسکے ماتھے پر بل پڑے…
اور اسنے ریجیسٹر اوپن کر کے… رولنمبر بولنا شروع کیے.. سب انس کرتے رہے مگر کچھ لڑکیاں تھیں جو غائب تھیں…
اسنے.. گاگلز اتار کر… شرٹ میں اٹکائے.. اور اپنے سفید بازوں ڈائس پر رکھ کر.. اسنے سب پر نگاہ گھمائ…
جو سٹوڈنٹس اپسینٹ ہیں وہ واقعی اپسینٹ ہیں یہ اس لیکچر سے فرار ہیں "اسنے… سرد سے لہجے میں پوچھا…
تو سب سے پہلے منشانے ہاتھ اٹھایا..
سر عینہ پریزینٹ ہے….
اور اسکی دو دوستیں بھی.. باقی دو لڑکیاں اپسینٹ ہیں" اسنے فرمابرداری سے کہا…
تو
. دواد نے…. سر ہلایا….
اوکے… لے کر آئیں مس عینہ اور انکی فرینڈز کو "داود نے ارڈر دیا تو منشا سر ہلا کر باہر نکل گئ جبکہ پیچھے سے.. وہ اپنا غصہ ضبط کرتے.. ہوئے اب بک میں سے سب کو پڑھا رہا تھا….
تقریبا لیکچر گزر گیا جبکہ.. نہ ہی منشا کی واپسی ہوئ.. اور نہ عینہ سمیت باقی لڑکیوں کی…
لیکچر اف ہو گیا تو.. وہ روم سے باہر نکل گیا…
تو سامنے سے منشا اتی دیکھائ دی..
سر… وہ عینہ اور اسکی فرینڈز نہیں ا رہیں انھوں نے کہہ دیا ہے کہ جب تک اپ انکا لیکچر لیں گے وہ کلاس ہی اٹینڈ نہیں کریں گیں…
اور وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ وہ اپکو نکلوا کر ہی چھوڑیں گی"منشا نے.. پٹ پٹ سب بتایا.. تو.. ہمیشہ کی طرح داود بھڑک گیا.. بغیر منشا کو جواب دیے وہ اگے چل دیا جبکہ منشا پیچھے سے مسکرائ تھی…
اسنے… پورے گراونڈ میں نگاہ گھمائ اسے وہ کہیں نہ دیکھی…
تم… دو چھٹانک کی لڑکی مجھے نکلواو گی" اسنے تیور بگاڑ کر سوچا.. اور کالج کی طرف سے دیے گئے.. روم کو دیکھنے کا سوچتے ہوئے.. وہ سٹاف حال کی جانب بڑھا….
کہ پیچھے کے گراونڈ سے گزرتے ہوئے اسے عینہ.. نظر ا گئ….
وہ کافی ساری لڑکیوں کے جھمگٹے میں تھی جبکہ… لڑکیاں تالیاں بجا رہیں تھیں اور وہ مزے سے کوئ انگریزی رومانوی دھن گنگا رہی تھی.. اور یہیں شاید عینہ کی قسمت میں… اج عزت افزائ لکھی تھی..
داود دندناتا ہوا اس تک پہنچا….
کیپ کوائٹ"وہ ایکدم دھاڑا.. تو جیسے سب کی.. جان ہوا ہوئ تھی…
یہ درس گاہ ہے یہ… کوئ سرکس….
جہاں اپ سب ان کے تماشے پر تالیاں پیٹ رہیں ہیں…
وہاں اپ سب کے لیچرز ہیں… اور اپ لوگ بنک کر کے.. یہ فضول سا گانا انجوائے کر رہیں ہیں ہاو شیم فل….
شرم انی چاہیے اپ سسب کو کہ اپکے پروفیسرز کتنی محنت سے.. اپکو کسی قابل کرناچاہتے ہیں اور اپ لوگ. اپنا قیمتی وقت..فضول کی شوغل بازی میں ضائع کر رہیں ہیں "وہ.. غصے سے بلند اواز سے ان سب کو ڈانٹ رہا تھا…
عینہ جو اج پنک ٹی شرٹ. اور سیاہ جینز میں… اپنے حسن سے کسی کو بھی چندھیا دینے کی صلاحیت رکھتی تھی.. اپنی اسقدر بے عزتی پر اس کی انکھ سے انسو روک نہ سکے…
داود کی ڈانٹ پر سب رفتہ رفتہ سوری سر کہہ کر وہاں. سے غائب ہو گئیں..
اپ دونوں کو کلاس سے سٹک اف کر دیا گیا ہے.. جب تک اپ کے پیرنٹس نہیں آئیں گے اپ ریاینٹر نہیں ہو سکتیں جائیں اب یہاں سے "اسنے عینہ کی دنوں دوستوں کو کہا تو اب دونوں کے رنگ اچانک ہی اڑے اور وہ گھبرا کر وہاں سے ہٹیں.. جبکہ داود نے اب.. عینہ کی طرف دیکھا…
ان کے ارد گرد اب کوئ نہیں تھا….
وہ خوبصورت شعلہ صفت.. چھوٹی سی لڑکی.. اسے نکلواتی اسے تو یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی….
عینہ نے اپنی انکھ سے بہتے انسو کو صاف کیا.. اور ابھی وہ اسکے پاس سے گزرتی… داود نے اچانک ہی لاشعوری طور پر اسکا ہاتھ تھام لیا….
وہ نہیں جانتا تھا کیسے.. مگر وہ اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا….
عینہ نے جھٹکا کہا کر اسکیطرف دیکھا…
تو اپ مجھے نکلوا دیں گی.. رائٹ….
یہ کالج… اوہ یہاں کی مالکن تو اپ ہیں… یہاں تو سب اپکی مرضی سے ہو گا.. کالج میں کوئ لڑکی ود اوٹ یونیفارم نہیں ہوتی اپکے سوا….
اپ تو ٹھیک اپنی امارت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہیں ہیں "اسنے طنز کے تیر اچھالے.. عینہ.. نے نہ سمھجی سے اسکیطرف دیکھا.. اول تو اسنے یہ سوچا ضرور تھا.. مگر وہ گھر جا کر بھول چکی تھی کہ کوئ داود نامی شخص بھی انکے کالج میں ایا ہے….
اور دوسرا اسکو یہ بات کیسے پتہ چلی.. جبکہ اسنے تو کسی سے ایسا نہیں کہا…
اور جب تک میں رہو گا تب تک اپ کلاس اٹینڈ نہیں کریں.. گی.. مطلب واو… اتنی اکڑ… کیا اپ بھول چکیں ہیں کہ پروفیسر ہوں میں اپکا "اسنے اسکے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے اسکی انجان آنکھوں میں دیکھا…
ہاتھ چھوڑیں سر میرا" عینہ کو.. درد ہوا… وہ انسان بلاوجہ اسکے پیچھے پڑ گیا تھا..
اگر کل اپ کلاس میں نہ ہوئی.. تو اپ اپنے لیے کافی برا کرا لیں گی "وہ اسکا ہاتھ چھوڑتا وارن کرنے لگا…
جبکہ عینہ.. نے اپنی کلائ پر اسکی چھپی ہوئ انگلیاں دیکھیں..
اسنے سرخ آنکھیں اٹھائیں……
جبکہ منہ سے چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کہہ سکی….
اور.. وہ خاموشی سے وہاں سے چلی گئ…
داود.. جبکہ وہیں ان سرخ آنکھوں کے سحر میں کھڑا رہ گیا….
اچھی بات یہ تھی وہ چھوٹی سی لڑکی اسکے سامنے بولتی نہیں تھی اور روتی ہوئ بھی کافی اچھی لگتی تھی.
اسکی آنکھیں حد سے زیادہ خوبصورت تھیں.. داود اسکے چلے جانے کے بعد بھی اسکی آنکھوں کے نشے میں محو رہا..
اور جب اسے اپنی اس نادانی کا احساس ہوا تو اسکے ماتھے پر بل ائے…
مگر زیادہ دیر نہیں.. اسنے.. سر اٹھا کر دیکھا.. عینہ اس سے کافی دور جا چکی تھی.. وہ وہیں سے اسکی جانب دیکھتا رہا..
دو بار اس لڑکی کی آنکھوں میں انسووں کا وہ سبب بنا تھا مگر اسکے بقول وہ رائٹ پر تھا….
عینہ کلاس لینے کے بجائے مین گیٹ کیطرف جا رہی تھی جہاں سے.. کوئ اندر داخل ہوا…
اور وہ اس شخص کے سینے سے لگ گئ….
داود… کے ماتھے پر بل ایک بار پھر نمایاں ہوئے..
اس لڑکے کی پشت تھی اسکی جانب تبھی وہ سمھجہ نہیں سکا وہ کون ہے.. مگر وہ بلکل نہیں جانتا تھا کہ اسے کیوں نہیں اچھا لگ رہا.. کہ وہ کسی لڑکے کے گلے لگی ہوئ ہے..
اور ایسے کیسے وہ کسی بھی لڑکے کے گلے لگ سکتی ہے..
وہ لڑکا اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر اس سے سوال کر رہا تھا…
اگر داود مزید کچھ دیر وہاں ٹھرتا.. تو ضرور.. توپ بن کر اس لڑکے پر پھٹتا.. مگر.. وہ وہاں سے ہٹ گیا…
مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ اسے.. بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا..
کیوں معلوم نہیں…..
……………………..
پورے ایک دن.. سے وہ سڑکوں پر.. بغیر کچھ کھایے پیے… ماری ماری پھیر رہی تھی..
اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ… پولیس سٹیشن کہاں ہوتا ہے…
پہلے تو وہ قاصم کے خوف.. سے.. درختوں کے پیچھے چھی رہی…
اور پھر جب وہ.. نکلی تو شام ہو چکی تھی اور اسے بہت وقت گزر چکا تھا.. اسکی ماں مر گئ تھی..
زندگی میں اسکا واحد اور ایک سہارا…
اب وہ کیا تھی کہاں جانا تھا کیا کرنا تھا.. کچھ نہیں پتہ تھا..
مگر.. وہ. ان سب کو سزا دلانا چاہتی تھی جو اسکی ماں کے قاتل تھے…
وہ اس فضا میں سکون کی سانس کبھی نہیں لے سکتے اسنے سوچا.. اور ایک نئے سرے سے اسکے وجود میں طاقت بھر گئ…
اور یوں ہی..وہ لوگوں سے پوچھتے.. پوچھتے پولیس سٹیشن تک پہنچی.. تو اسے وہاں لوگوں کی نظروں سے وحشت ہوئ سب.. اسے کھا جانے والی نظروں..
سے دیکھ رہے تھے.. اسکا دل بری طرح دھڑک رہا تھا…
مگر ہمت کر کے ابھی وہ اگے بڑھتی کے سامنے روم سے ایک ادمی باہر نکلا.. اور اسکی جانب دیکھ کر ٹھٹکا…
جبکہ کچھ دیر بعد اسنے باقی سب کو گھورا…
سب دوبارہ اپنے کاموں میں مگن ہو گئے.. جبکہ وہ ادمی اسکیطرف ایا..
کیا کام ہے بیٹا اپ یہاں کیوں ائ ہو"اس ادمی کے پوچھنے کی دیر تھی مشل کی آنکھیں انسو سے لبالب بھر گئیں…
اپ اندر جاو میں اتا ہوں" وہ ادمی اسے کہ کر باہر چلا گیا جبکہ وہ اسکے روم میں ا کر چییر پر بیٹھ گئ.. بس دس منٹ بعد وہ واپس ایا تھا…
مشل نے اسکے کچھ پوچھنے سے پہلے آنسوں کے درمیان اپنے باپ اور تایا کے ظلم کی دستان سنا دی….
جبکہ انسپیکٹر ایکدم الرٹ ہوا…
کب کا واقع ہے یہ" اسنے پوچھا.. تو مشل کی جیسے ہمت بھال ہوئ…
کل.. کلبرات" اسنے انسو صاف کر کے بتایا انسپیکٹر نے سر ہلا کر فون اٹھایا اور اڈرز دیے… اور اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا.. وہ جانتی تھی بس اب وہ سن گرفتار ہوں گے اور پھر پھانسی پر چڑھ جائیں گے اسکی معصوم ماں کو مارنے کا انجام اس سے بھی برا ہونا چاہیے تھا ویسے…. کچھ ہی دیر میں.. وہ دوبارہ اپنی ماں کے قاتلوں کے گھر کے سامنے تھی…..
انسپیکٹر صاحب سمیت وہ اندر گئ…
تو اب وہاں اسکی ماں نہیں تھی جبکہ سب صحن میں ہی بیٹھے تھے.. اور وہاں پولیس کی نفری دیکھ کر.. اچانک اٹھ پڑے…
کس نے مارا ہے اس لڑکی کی ماں کو "انسپیکٹر نے گھور کر سب کو دیکھا.. تو سب کے وہاں رنگ اڑ گئے…
جبکہ تایا اگے ایا…
صاحب جی… وہ عورت خود مری ہے.. جی….
نہایت کوئ گندی عورت تھی.. کبھی جو.. غیر مردوں سے جی اسنے تعلق ختم کیا ہو…
بدزات نے تو مجھ پر بھی گندی انکھ ٹکائ ہوئ تھی…
پانی بھر رہی تھی جی… پھر… پاو پھیسلا اور.. ٹوٹی پر جا پڑی… اور بس جی.. ختم ہو گئ..
ہم تع جی اہنی دھی رانی کو بھی کب سے ڈھعنڈ رہے ہیں مگر یہ بھی بھاگ گئ"تایا نے بڑی معصومیت سے بتایا…
جبکہ مشل کا رو رو کر برا حال تھا..
صاحب یہ جھوٹ بول رہا یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں" اسنے کہا.. تو انسپیکٹر نے.. تایا.. کے بازوں پر ڈانڈا.. مارا…
تم سب کے نام کا پرچہ کٹ چکا ہے.. اب عدالت. میں یہ طوطے کیطرح زبان چلا لینا "انسپیکٹر نے سنجیدگی سے کہا…
اور سب کو اریسٹ کرنے کا حکم دیا.. تائ.. اور قاصم نے خوب واویلا مچایا… مگر.. تایا اور ابا کو اریسٹ کر لیا گیا تھا.. ابا اسے بری طرح جبکہ.. تایا اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا.. اسکے دل پر ڈھنڈی پھوار پڑی.. اسسکی ماں کو انصاف.. ملنا چاہیے تھا…
……………. ……..
دو.. دن بعد.. وہ پاکستان کی عدالت کا انصاف دیکھ کر…. رہ گئ.. صرف دو دن میں تایا اور ابا.. باہر نکل ایے تھے…
قاصم نے وکیل ہائیر کر لیا تھا.. جبکہ.. اسکے ساتھ تو کوئ بھی نہیں تھا.. نہ پیسے تھے نہ وکیل.. نہ کوئ سر برا…
تایا.. اور ابا.. اسکے سامنے.. پوری عزت اور شان سے.. چلے گئے جبکہ… تایا.. اسکے کان میں کہہ کر گزرا…
تجھے میں نہیں تو یہ زمانہ.. ضرور کچل دے گا "وہ ہنسا.. جبکہ ابا.. نے تو بات بھی ضروری نہیں سمھجی…
مشل کا دل کیا یہیں دھاڑے مار مار کر رو دے.. مگر بے سود… امڈ امڈ انے والے آنسوں کو اسنے بہنے دیا…
انسپیکٹر شفی.. نے اسکی حالت دیکھی.. انھیں اسپر خوب ترس ا رہا تھا…
مگر وہ کر بھی کیا سکتے تھے.. وہ اسکا کیس عدالت تک لے ائے تھے.. اگے شاید وہ اسکی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے…
مشل نے انکی جانب دیکھا…
انکو پھانسی کیوں نہیں ہوئ.. انھوں نے قتل کیا یے"وہ اپنی عمر اور معصومیت کے حساب سے بولی..
تو انھوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا…
بیٹا.. یہ اندھا قانون ہے.. پیسے کی زبان بولتا ہے…..
مگر.. میں تمھیں ایک انسان کا پتہ دے سکتا ہوں… جو شاید تمھاری ماں کے قاتلوں کو سولی پر لٹکا دے…" انکی بات سنتے ہی وہ.. ایکدم چوکنا ہوئ..
کو.. کون ہے وہ.." اسنے پوچھا…
سارگل بہرام خان…. اس وقت کا سب سے بڑا لائیر ہے….
مگر افسوس وہ پیسے کے بغیر کام نہیں کرتا.. مگر اگر تم کوشش کرو… تو شاید کچھ بات بن جائے "انھوں نے کہا.. تو.. وہ جیسے دوبارہ جی اٹھی.. وہ نہیں جانتی تھی وہ.. اندھرے میں تیر چلانے دوڑ پڑی تھی.. انسے پتہ لے کر… وہ.. سارگل خان کیطرف… چل دی…
سارگل کے ساتھ وہ گھر ا گئ تھی مگر… اب بھی اسکی سو سو جاری تھی…
ہنی کیا تم مجھے یہ بتانا پسند کرو گی کہ ہوا کیا ہے جو تم مسلسل روے جا رہی ہو "سارگل نے اب تپ کر پوچھا.. گاڑی حویلی کی جانب چل رہی تھی…
لالا کچھ نہیں ہوا.. میری طبعیت نہیں ٹھیک بس" اسنے.. کہا. اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بھائ کو دیکھا… وہ صرف بیس سال کی تھی.. جب کہ وہ اس سے.. پورے 8 سال بڑا تھا….
اور… وہ جانتاتھا وہ کتنی حساس ہے….
ٹھیک ہے پھر ڈیڈ ہی تم سے پوچھیں گے…
اور…. تم نے مجھے پرنسپل سے بات بھی نہیں کرنے دی" وہ گھور کر بولا… تو. عینہ نے… کوئ جواب نہیں دیا…
وہ کیا بتاتی… ایک انسان جو دو دن پہلے ایا تھا.. اسکی عزت افزائ کرنے میں ایک لمہہ نہیں چھوڑتا تھا…
وہ چاہتی تو.. وہ.. شکایت کر سکتی تھی… مگر.. اسنے ایسا کچھ نہیں کیا تھا…. اگلا راستہ یوں ہی کٹ گیا.. اور عینہ.. جلدی سے.. گاڑی سے نکل کر اپنے روم کی جانب چلی گئ…
ارمیش.. نے اسے روکنا چاہا مگر وہ نہیں روکی… جبکہ اب اسنے سارگل کیطرف دیکھا جو اوپر جاتی.. عینہ کو ہی دیکھ رہا تھا…
کیا یوا ہے… عینہ کو… اور.. اپ لے کر آئیں ہیں.. اسکی اپنی گاڑی کہاں ہے "ارمیش نے پریشانی سے پوچھا.. تو سارگل نے اسکے… شانے پر ہاتھ ٹکایا…
کچھ نہیں ہوا… اسکی طبعیت ٹھیک نہیں تھی…
اسی لیے وہ. میرے ساتھ ا گئ..
اور مجھے احمر انکل سے کام تھا مجھے لگا وہ کالج میں ہوں گے.. مگر پھوپھو سائیں نے بعد میں فون کر کے بتا دیا تھا وہ کراچی گئے ہوئے ہیں.. بس "اسنے تفصیلی جواب دے کر.. ماں کو مطمئین کیا..
نہ جانے اب کیا ہوا ہے صبح تک تو ٹھیک تھیں… " مگر ارمیش کو عینہ کی فکر کھائے جا رہی تھی..
اپ جانتی ہیں نہ ہمارے گھر میں دو پارٹیز ہیں….
اسکو ڈیڈ ہینڈل کر لیں گے.. اپ ٹنشن نہ لیں.. مجھ پر فوکس کرئیں.. "اسنے.. پیار سے کہا تو ارمیش مسکرا دی..
یہ پارٹیز بھی اپکے ڈیڈ کی بنائ ہوئ ہیں.. ورنہ مجھے تو اپ دونوں ہی عزیز ہو…" اسکے.. بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسنے اپنے بیٹے.. کے خوبرو چہرے کو چاہ سے دیکھا.. تو سارگل بھی مسکرا دیا…
ارمیش.. کچن کیطرف بڑھ گئ.. تاکہ اسکے لیے کھانے کا انتظام کرے.. جبکہ سارگل… نے ایل ائ ڈی کھول لی..
اپکے کیس کا کیا ہو اسارگل…. پہلی بار.. میں نے.. اپکو… اس کیس پر تھوڑی سی محنت کرتے دیکھا تھا "ارمیش نے اسکے سامنے کھانا رکھتے ہوئے پوچھا جبکہ اسنے.. شانے اچکا کر.. ایل ای ڈی کیطرف اشارہ کیا..
جہاں… ایک طرف نیوز میں اسکے باپ کی ہیڈلائن چل رہی تھی تو.. اوپر کیطرف.. اسکے ایک پولیٹیشن کے بیٹے کو بازیاب کرانے کی خبر نشر تھی…." ارمیش.. جو ہر بات سے انجان تھی فخر سے اسکیطرف دیکھا…
اللہ میری چھوٹی سی فیملی کو نظر بد سے بچائے" اسنے… دل سے دعا کی…
جبکہ یہ بات تو سارگل ہی جانتا تھا کہ وہ کیس کس طرح جیتا…
مگر اس میں اسکا کوئ قصور نہیں تھا.. وہ لڑکی بھی ایک اچھی سٹرونگ فیملی سے تعلق رکھتی تھی مگر اسنے جب.. اسکی بات کو اہمیت نہیں دی تو… وہ کسی کو کیوں دیتا…
دنیا پیسے کی تھی…. اور… اسکے نزدیک.. پیسہ… ہر چیز کو خرید سکتا ہے…..
اور اسکا پیشہ ایساتھا کہ اسنے.. پیسے سے جزابات بھی خریدتے دیکھے تھے….
اکثر.. جب بہرام اسے اس بات پر ٹوکتا….
تو وہ بس اسے ایک ہی بات کہتا…
Dad father's money makes him a minister while his money only gives him a kingdom
(ڈیڈ باپ کا پیسہ وزیر بناتا ہے…
جبکہ اپنے پیسے سے صرف بادشاہی ملتی ہے…)
……………………
اپنی ہیوی بائیک گھر کے سامنے روک کر.. وہ باہر نکلا… تو اسکے دماغ میں سارے راستے صرف عینہ کی آنکھیں رہیں.. اسکی سفید بے داغ کلائ پر اپنی انگلیوں کے ناشانات دیکھے.. جبکہ…
دماغ صرف ایک ہی بات سوچ رہا تھا
کہ وہ اتنی بھی بری نہیں جتنا.. وہ اسے سمھجہ رہا تھا.. اور اسکے علاوہ.. وہ خوبصورت اور معصوم ہے… شاید اسکی سوچ سے زیادہ….
وہ اندر داخل ہوا تو.. روشنی کو.. اپنے ایگل کے پاس پایا…
روشنی یہ تمھیں چوٹ پہنچا سکتا ہے "اسنے بہن کی محویت کو توڑا…
بھیا یہ کتنا.. گندا ہے.. دیکھنے میں" روشنی نے منہ بنایا
داود کی ائبرو اچکی..
تم سے زیادہ پیارا ہے.. "اسنے منہ بنا کر کہا…
جبکہ روشنی کا منہ کھل گیا…
اپ.. اپنی چھوٹی سی بہن کا مقابلہ اس گندے مارے ایگل سے کر رہیں ہیں"
چھوٹی سی بہن نہیں ہے پورا ڈبہ ہے جو.. بابا کے سامنے میری شکایتوں کے لیے بجتا رہتا ہے… جو ہر وقت مجھ سے پیسے مانگنے کے لیے بجتا ہے… "اسنے آنکھیں دیکھائ…
تو روشنی نے منہ بسورا…
مگر اگلے کو پرواہ کب تھی…
بھاگو یہاں سے مجھے اسکو باہر نکلنا ہے کبھی بلاوجہ چیخیں مارو" اسنے کہا.. تو روشنی نے اسکیطرف دیکھا..
اللہ کرے اڑ جاے یہ منحوس"وہ کہہ کر بھاگی جبکہ داود نے کھا جانے والی نظروں سے اسکیطرف دیکھا…
اور پھر اپنے پسندیدہ پرندے کو… اسنے اپنے بازو پر بیٹھا لیا…
یار اسکی آنکھیں بہت پیاری ہیں.. "اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے وہ مدھم سا بولا… جبکہ.. اسکا دوست.. خاموش بیٹھا اردگرد دیکھ رہا تھا..
داود بھی مدھم سا مسکرا کر خاموش ہو گیا…
تبھی عابیر اسکے نزدیک ائ…
ناراض ہے میرا بیٹا" عابیر… کو اس پرندے سے کچھ گھبراہٹ تو ہوئ مگر.. وہ دوسری طرف سے.. داود کے پاس ائ…
داودنے چہرہ موڑ لیا…
انکو کہہ دو…. میرا ان سے تعلق ختم.. بیٹے کو چھوڑ کر.. یہ اپنے شوہر سے محبت کر رہیں ہیں" اسنے کہا اور چئیر پر بیٹھ گیا..
ایگل اب بھی اسکے بازو پر تھا.. جبکہ وہ.. اسکے پر دیکھ رہا تھا…
عابیر کو ہنسی ا گئ…
پوری دنیا کے سامنے بھی کہہ سکتی ہوں مجھے میرے بیٹے سے زیادہ کیسی سے محبت نہیں…." اسنے پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرہ…
داود نے.. اسکیطرف دیکھا.. اسکی آنکھوں میں شرارت ناچی تھی.. بھلہ کبھی وہ سیدھی طرح مان سکتا تھا..
ٹھیک ہے پھر ایگل کو تھوڑی دیر اپنے شولڈر پر بیٹھائیں.. میں فریش ہو کر اتا ہوں" اسنے کہا.. اور ماں کیطرف کیا ہی تھا.. عابیر کی بری طرح چیخ نکلی…
داود" اسکی آنکھیں پھٹیں….
جبکہ داود کا قہقہ.. نکلا..
اہ.. مما اب بہت ڈرپوک ہیں.وہ کب سے ہمارے ساتھ ہے وہ کچھ نہیں کہے گا اپ فیملی سمھجیں"اسنے پھر کوشش کی.. مگر عابیر بھاگ.. اٹھی…
اتنی خطرناک فیملی… "اسنے کچن.. میں سے جھانک کر دیکھا دل کی دھڑکن کی سپیڈ الگ ہی تھی
داود ہنس دیا… اور اسے دوبارہ سے پنجرے میں بند کرنے چلا گیا…
اسے.. اب کچھ وقت اپنی بوکس کو دینا تھا…
ورنہ وہ گھنٹے بھی.. اسکے ساتھ ضائع کر سکتا تھا…
مگر ایک چیز تھی جو.. مسلسل اسکے ساتھ تھی… وہ خوبصورت مگر سرخ آنکھیں تھیں…
……………
ایکسکیوز می سر.. یہ فائل.. مراد سر کے پاس بھجوانی ہے.. مرزا صاحب کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی انھوں نے مجھے کہا کہ.. میں یہ فائل انھیں دے دو مگر دیر ہو گی ہے مجھے گھر جانا ہے تو پلیز یہ فائل اپ پہنچا دیں "اس وقت تقریبا افس خالی ہو چکا تھا اسنے فائق کو کہا جو خود کافی عجلت میں تھا..
مس فیزا… میری بیٹی ہوئ ہے.. اور میرا ابھی اپنی بیوی کے پاس ہونا بہت ضروری ہے اگر ضروری کام نہ ہوتا تو یقیناً میں اپکا کام ضرور کر دیتا معافی چاہتا ہوں" اسنے کہا تو فیزا نے حلق تر کیا..
اپکو بہت مبارک ہو" اسنے رسمی سا کہا.. یہ جانے بغیر کے.. کیمروں میں کوئ. انھیں ہی دیکھ رہا ہے..
فائق نے.. خوشدلی سے مبارک بعد وصول کی.. اور سامان اٹھا کر نکل گیا…
جبکہ… فیزا.. نے پہلے تو سوچا وہ بھی یہ فائل ادھر ہی چھوڑ کر نکل جائے پھر مرزا صاحب کی بات یاد ا گئ کہ یہ فائل بہت قیمتی ہے…
تو. نہ چاہتے ہوئے بھی وہ لیفٹ میں سوار ہو گئ
.
8 فلور.. پر بس کچھ ہی لوگ نظر ا رہے تھے اسنے سوکھ کا سانس لیا..
اسے.. مراد کی سیکٹری نظر ا گئ تھی..
وہ اسکے پاس گئ…
ایکسکیوز می اسنے کہا تو.. لیلا نے اسکی جانب دیکھا…
کیا مسلہ ہے "وہ تڑخ کر بولی…
فیزا نے کچھ عجیب سی نظروں سے اسکابدتمیزانہ رویہ دیکھا.. اور پھر فائل اسکی طرف کی..
یہ فائل مراد سر کو دے دو… مرزا صاحب کی ہے" اسنے کہا.. تو لیلا نے کھا جانے والی نظروں سے اسکیطرف دیکھا..
نہیں تمھیں یہ دیکھتا ہے میں تمھاری نوکر ہوں…. "وہ.. غصے سے بولی تو فیزا نے حیرت سے اسکیطرف دیکھا..
وہ رہا مراد سر کا روم.. جاو.. اور خود دو… "اسنے اشارے سے کہا.. اور.. اپنا بیگ اٹھا کر.. لیفٹ کی جانب چل دی…
گراونڈ فلور کا بٹن پش کرتے ہی اسے.. احساس ہوا وہ غلط کر چکی ہے.. یہ وہ پہلی لڑکی تھی جس کے ساتھ مراد سر نے ہمدردی دیکھائ تھی..
اسنے فورا.. 6 فلور سے.. 8 فلور پر بٹن پش کیے..
جب تک وہ پہنچی تو باہر کوئ نہیں تھی..
فیزا.. جا چکی تھی.. اسنے دروازہ بجایا.. تو یس کی اواز ای..
وہ سوچ چکی تھی وہ اسکی جانب دیکھے بغیر.. فورا وہاں سے فائل دے کر نکل جاے گی تبھی ہمت کر کے.. اسنے دروازہ بجایا.. اور. یس پاتے ہی وہ اندر داجل ہوئ..
کمرہ تھا یہ محل وہ تو.. اس روم کی چکاچوند کو ایک پل کو دیکھتی رہ گئ..
جبکہ مراد اسی کیطرف دیکھ رہا تھا.. چیئر کی بیک سے ٹیک لگائے…
وہ ارد گرد دیکھتی اسکیطرف ائ.. فائل ٹیبل پر رکھ کر.. وہ.. اسکی چییر کے پیچھے خوبصورت منظر کو دیکھنے لگی..
جہاں سے رات کی تاریکی میں. دور لائٹس.. جگنو کی مانند لگ رہیں تھیں…
اہممم"مراد کھنکھارا.. تو اسکی محویت ٹوٹی اور بس.. شرمندگی سے اسکا سر جھک گیا…
کیا مسلہ ہے مس اپکا" وہ چیڑ کر بولا…
وہ.. س… سر… یہ فائل.. م مرزا صاحب نے ک.. کہا تھا.. اپ. اپکو دے.. د.. د. دے دو.. "اسنے فائل بڑھا کر بمشکل بات مکمل کی.. مراد نے گھڑی کیطرف دیکھا.
. پورے.. 15 سیکینڈ اپ نے میرے قیمتی وقت میں سے ضائع کر دیے وہ بھی یہ فضول سی بات کہنے کے لیے" اسنے سنجیدگی سے کہا.. فیزا.. کا چہرہ.. اس عزت افزائ پر سرخ ہو گیا…
مرزا صاحب کے ہاتھ ٹوٹ گئے تھے جو انھوں نے اپکو زحمت دی" فون اٹھاتے ہوے …
وہ غصے سے بولا..
فیزا نے اوپر سر اٹھایا..
پ..پلیز اپ فون مت کریں.. وہ بزرگ ہیں انکی طبعیت کافی خراب تھی "وہ بولی.. تو مراد.. کا ہاتھ رک گیا..
اوہہہ. مطلب بزرگو کی ڈانٹ اپ کھاتی ہیں.. اسی لیے.. اپکو ہائیر کیا گیا ہے.. "وہ گھور کر بولا…
فیزا.. کے ماتھے پر بل ڈلے..
کتنا بدتمیز انسان تھا یہ…
اسکا ایک نہایت بدتمیز سے پالا پڑا ہوا تھا.. وہ صرف داود کی بدتمیزی افورڈ کر سکتی تھی
اور بدتمیز وہ. افورڈ نہیں کر سکتی تھی…
سر یہ فائل میں نے اپ تک پہنچا دی ہے… باقی اپ مرزا صاحب کے ساتھ کچھ بھی کریں" وہ تڑخ کر کہتی.. باہر نکلتی.. کہ مراد کی اواز پر رکی..
کس طرح بات کر رہیں ہیں اپ.. تمیزتہزیب کچھ نہیں ہے" اسنے آنکھیں نکالیں اور اپنی جگہ سے اٹھا..
مجھے تو ہے مگر اپکو نہیں ہے.. افس ٹائم ختم ہو چکا ہے اب میں اپکی ایمپلائیر نہیں ہوں جو اپ مجھے باتیں سنا رہے ہیں" فیزا.. نے بھی دو بادو جواب دیا..
رئیلی… "اسنے.. دانت پیس کر دیکھا…
یس رئیلی.. اور اپ میرے سر نہیں ہیں.. میرے سر فائق صاحب ہیں.."وہ کہہ.. کر… ابھی وہاں سے نکلتی.. کہ.. مراد نے اسکا ہاتھ جکڑ لیا..
بہت نہیں زبان چل رہی تمھاری.. تم میری نوکر ہو.. فائق بھی میرا نوکر ہے.. سمھجی تم"مراد کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور وہ.. نہیں جانتا تھا وہ.. کیا کہہ رہا ہے..
ہاتھ چھوڑیں میرا…
اپنے مال پر اتنا ہی تکبر ہے تو.. سارے نوکروں کو فارغ کر کے خود کیوں نہیں ہر کام کر لیتے.. یہاں تو اپکا پین اٹھانے کے لیے بھی.. وہ بدتمیز لڑکی موجود ہے" اسنے ہاتھ چھڑایا…
مراد.. کو حیرت بھی ہوئ.. مگر غصہ شدید تھا…
تمیز سے بات کرو" اسنے انگلی اٹھا کر وارن کیا
.. جو خود تمیز نہیں جانتے دوسروں سے بھی امید نہ رکھیں…
اور چھوڑ دی میں نے اپکی نوکری… نہیں ہوں اب میں اپکی نوکر سمھجے اپ "بلند اواز میں کہتی.. وہ غصے سے باہر نکل گی..
باہر ہی لیلا دروازے سے کان لگاے کھڑی تھی..
فیزا نے اسے بھی غصے سے دیکھا..
اور.. لیفٹ میں سوار ہو گئ..
جبکہ لیلا نے.. پیچھے سے.. مراد کے روم کی ٹیبل پر پڑا اسکا افیورٹ اور مہنگا واس ہوا میں.. اچھلتا دیوار کی جانب جاتا دیکھا..
8 فلور پر چھناکے کی اواز گونجی..
جبکہ وہ مسکرا دی..
………..
میری میٹھی کیسے بیمار ہو گی ہے ہمم"بہرام.. نے.. اسکے شالڈر پر بازو رکھ کر خود سے قریب کیا..
عینہ نے.. سرخ آنکھوں سے باپ کیطرف دیکھا.. اسکی آنکھیں بری طرح جل رہیں تھیں وہ ااتنی ہی حساس تھی..
دوائ کھائ ہے.." اسنے پوچھا جبکہ عینہ نے برا سا منہ بنایا…
پلیز ڈیڈ.. میڈیسن.. بہت کڑوی ہوتی ہے "وہ نقاہت سے بولی.. اور دوبارہ بستر میں گھسنے لگی کی.. بہرام.. نے کمبل ہٹا دیا..
نو.. مجھے اپنی چڑیا بلکل ٹھیک چاہیے ورنہ میرا دلبر بھی پریشان پریشان پھیرتا ہے"اسنے ارمیش کیطرف دیکھ کر انکھ دبائ.. جبکہ ارمیش کی تو آنکھیں ہی پھیل گئیں..
عینہ مدھم سا مسکرائ…
اسکا باپ اسکا ائیڈیل تھا.. وہ ایک پرفیکٹ مین تھے.. اسنے کبھی اپنے باپ کو سختی برتے نہیں دیکھا…
میں سب دیکھ رہا ہوں" سارگل… جو ابھی ابھی روم میں ایا تھا بولا.. اور عینہ کیطرف بڑھا..
کیسی ہو ہنی" ہر کوئ اسکو.. الگ الگ ناموں سے پکارتا تھا…
میں ٹھیک ہوں لالا"وہ سب کی فکر پر نازاں تھی…. سب اس سے کتنی محبت کرتے تھے..
اسنے پیار سے بہن کے سر پر ہاتھ رکھا اور باپ کو دیکھا..
ڈیڈ اپ اپنی پروپرٹی تک محدود کیوں نہیں رہتے.. اپکو پتہ ہونا چاہیے مام میری پروپرٹی ہیں.. پھر بھی آنکھیں مارتے ہیں" اسنے ماں کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بے باکی سے کہا… تو بہرام سمیت عینہ کا بھی قہقہ نکلا جبکہ ارمیش ان بے ہودہ لوگوں میں سرخ سی شرمندہ ہو گئ…
سارگل" اسنے بیٹے… کو گھورا..
ڈارلنگ یہ اپکا بندہ بہت خراب ہے… بتا رہا ہوں… "اسنے لاڈ سے ماں.. کو کہا.. تو بہرام نے اسکو گھورا…
یہ باپ کے بارے میں نادر خیالات ہیں تمھارے بیٹے کے"اسنے ارمیش کیطرف دیکھا…
اپکا ہی بگاڑا ہوا ہے یہ.. لڑکا…" اسنے صاف ہری جھنڈی دیکھائ..
ارمیش سائیں.. بیٹے کے پروں پر.. زیادہ مت پھیلو.. جانا اپکو میرے ساتھ میرے کمرے میں ہی ہے"اسنے آنکھیں دیکھائ.. ارمیش کے ایکدم رنگ اڑے.. جبکہ بہرام.. سنجیدہ تھا…
سارگل تو منہ ہر ہاتھ رکھ کر ہنسی دبا رہا تھا.. جبکہ عینہ کا بھی یہ ہی حال تھا.. وہ اپنے ماں باپ کو اسی طرح دیکھتے ائے تھے انکی ماں.. اتنی ہی شرمیلی سی تھی…
اپکو بلکل کوئ لحاظ نہیں ہے"ارمیش پاوں پٹخ کر باہر نکل گی.. جبکہ جاتے جاتے عینہ کا گال بھی چوما تھا.. اخر کو بیٹی کی فکر بھی تھی…
جبکہ سارگل.. بھی.. باپ کیطرف ایا..
گڈ لک ڈیڈ" اسنے بہرام کا شانا تھپتھپایا…
اور اس سے پہلے بہرام کوئ ایکشن لیتا.. سارگل فرار ہو چکا تھا..
بہرام نے عینہ کیطرف دیکھا جو مسکرا کر اسی کیطرف دیکھ رہی تھی..
اسنے عینہ پر بلنکیٹ درست کیا.. اور اسکے پاس ہی بیٹھ گیا…
کوئ بات ہے.. کسی نے کچھ کہا ہے… ایسے تو.. میں جانتا ہوں اچھے سے.. میری چڑیا… بیمار نہیں ہو سکتی"اسکا ہاتھ تھام کر.. وہ اسے گھیری نظروں سے دیکھ رہا تھا…
عینہ کی آنکھوں میں بس ایک پل کو داود ایا…
کچھ بھی نہیں ہے ڈیڈ… شاید گرمی زیادہ تھی.. اج" اسنے بہانا بنایا..
تو جان بہرام.. گراونڈ میں کیوں بیٹھی کلاس روم میں بیٹھتی نہ"وہ فکر سے بولا…
ڈیڈ.." اسنے راز سے کہا اور.. باپ کی بریڈز میں ہاتھ پھیرہ جیسے وہ بچپن میں پھیرتی تھی..
بہرام اسکی جانب جھکا.. جبکہ لب مسکرائے تھے..
بنک کیا تھا نہ لیکچر اسی لیے "وہ کھلکھلائ.. بہرام بھی ہنسا…
تو… چڑیا… دھڑلے سے لیکچر بنک کرنا تھا نہ…. گراونڈ میں کیوں چھپی اج کے بعد اپ نے.. گراونڈ میں نہیں چھپنا" اسنے تنبھی کی..
اپ جانتے ہیں نہ.. مما.. کتنی کونشیس ہیں.. میرے بار بار.. نمبر کم انے پر وہ بہت کونشیس ہو جاتی ہیں بس اسی لیے.. کہ شکایت نہ ا جائے چھپنا پڑتا ہے دوست سمھجا کرو" وہ.. بولی تو بہرام نے سر ہلایا..
یہ تو ہے.. اب کیا کر سکتے ہیں.. اپکی مما.. کا" اسنے شانے اچکائے.. اور دونوں ہنس دیے..
بہرام نےا گے بڑھ کر.. اسکا ماتھا چوما..
کوئ بھی بات ہو.. کبھی مجھ سے کچھ مت چھپانا.. اوکے"اسنے پیار سے کہا تو عینہ نے سر ہلایا..
اور بہرام اسکو زبردستی میڈیسن دے کر…
باہر نکل گیا…
جبکہ عینہ.. کی سوچ کے دھاگے نہ چاہتے ہوئے بھی داود کی جانب چلے گئے..
………………
صاحب.. ایک بچی ہے وہ.. کل دو دن سے جی اپکے افس کے باہر بیٹھی ہے کہتی ہے اپ سے ملنا ہے… "بلاخر تیسرے دن.. اختر جھنجھلایا سا.. سارگل کے کیبن میں ا ہی گیا وہ جانتا تھا.. وہ چڑچڑا انسان ہے.. تبھی زرا سمبھل کر بولا..
سارگل جو بہت اہم فائل.. دیکھ رہا تھا اس ڈیسٹربینس پر.. غصے سے اسکی جانب دیکھنے لگا
میں تمھیں کوئ چیپ ہیرو یہ جوکر دیکھ رہا ہوں جو بچے بچیاں مجھ سے ملنے ائیں گے… "؟ وہ تڑخ کر بولا..
اختر نے… جلدی سے نفی میں سر ہلایا..
اور وہاں سے نکلتا کہ سارگل کی بات پر روکا..
یہ پیسے دو اور فارغ کرو اسے" اسنے.. 500 کا نوٹ اسکیطرف بڑھایا…
اختر نے وہ نوٹ تھام لیا.. اور باہر ا گیا.. جہاں مشل بڑی اس سے اختر کو دیکھ رہی تھی..
وہ تین دن میں زمانے کی دھول چاٹ کر اس بری طرح کمالائ کہ اسکا ملائ سا حسن بھی مانند پڑ گیا..
منہ نہ دھونے کی وجہ سے.. سارا گرد اسکے منہ اور ہاتھوں پر چیپکا تھا…
یہ لو لڑکی اور جاو یہاں سے صاحب مصروف ہیں "اختر نے اسکے ہاتھ میں پیسے دیے…
مشل کا دل ڈوب سا گیا..
میں بھکاری نہیں ہوں" گلے میں اسکے گٹھلی پھنس گئ تھی…
اختر.. نے افسوس سے اس لڑکی کو دیکھا..
مگر وہ کیا کر سکتا تھا…
خدارا ایک بار ملنے دیں بس ایک بار "اسنے اختر کے اگے ہاتھ جوڑے…
اختر نے نا چاہتے ہوئے بھی اسکے گڑگڑانے پر…
اسے اندر جانے دیا…
کیونکہ اگر وہ دوبارہ اجازت لیتا تب بھی اسے اجازت نہیں ملنی تھی تو.. وہ.. اس لڑکی کی وجہ سے ڈانٹ ہی کھا سکتا تھا اب…
مشل کو تو جیسے زندگی مل گئ تھی.. وہ اندر.. بغیر دروازہ بجائے داخل ہوئ…
تو اسے لگا.. وہ کسی شہزادے کے محل میں ا گئ ہے..
جیسے.. بلیو آنکھوں والا شہزادہ… اپنی سلطنت میں مگن تھا…
وہ ایک ٹیک اسکی جانب دیکھے گئ…
سارگل نے.. انکھ اوپر اٹھا کر دیکھا تو اپنے سامنے. ایک میلی سی لڑکی کو پایا..
اسکے ماتھے پر کئ بل پڑے..
اختر "وہ ایکدم فائل پٹخ کر دھاڑا… تو مشل اپنی جگہ پر اچھل اٹھی…
مگر اختر اندر نہیں ایا…
صاحب…" مشل کو رونا ایا… اسے لگا ہاں یہ شخص اسکی ماں کے خون کا بدلہ لے سکتا ہے.. یہ تو شہزادہ ہے.. شہزادے تو کچھ بھی کر سکتے ہیں..
اسنے اسکے اگے ہاتھ جوڑ دیے.. سارگل نے تیوری چڑھائ.. جبکہ مشل اسے روتے روتے سب بتاتی چلی گئ…
اور.. اس دوران وہ اسکے قدموں میں ا بیٹھی تھی سارگل نے تھوڑی سی چئیر پیچھے کی..
اور جب اسکی کہانی سن لی تو اسے.. باخوبی اندازا ہو گیا کہ وہ کیوں اس سے ملنا چاہتی تھی…
کس نے پتہ دیا ہے تمھیں میرا "اسنے سختی سے پوچھا…
مشل کو ڈر بھی لگا..
وہ جی… وہ پولیس والے نے دیا تھا…" وہ ناک اپنے دوپٹے سے صاف کرتی بولی…
کتنی جاہل ہو تم"اسنے برا سا منہ بنایا… مشل شرمندہ ہوئ…
10 لاکھ.. ایک ہیرینگ کے.. دے دو گی" اسنے.. زرا اسکیطرف جھک کر تیوری چڑھائے ہی تمسخر سے کہا…
مشل کے تو کھاک بھی پلے نہ پڑی…
میری فیس… 10 لاکھ.. ایک پیشی کی ہے.. "اسنے اب صاف لفظوں میں کہا.. مشل کا تو تھوک ہی اٹک گیا.. وہ آنکھیں پھاڑے اسکی جانب دیکھ رہی تھی..
صاحب مگر میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں." وہ معصومیت سے بولی..
بیبی یہ انات حاشرم نہیں ہے…
تمھاری ماں.. بے قصور ہے… یہ تبھی ثابت ہو گا.. جب.. مجھے میرا پیسہ ملے گا… ورنہ.. ساری زندگی کے لیے یہ بات مان لو.. کہ تمھاری ماں بھی اس گند میں شامل تھی.. ٹھیک ہے.. اب جاو" اسنے ٹکا سا جواب دیا…
اور.. ابھی چئیر کا رخ موڑتا ہی کہ… اسکا فون بجنے لگا…
مراد کا تھا..
ہاں مراد بولو" اسنے کہا..
اچھا.. یار پہنچتا ہوں میں تو پارٹی کے بارے میں بھول گیا تھا.. اچھا میں پہنچتا ہوں "وہ بڑی عجلت میں لگا اتنی کہ ایک وجود اسکے قدموں میں بیٹھا تھا وہ یہ بھول گیا.. اور. وہاں سے نکل گیا..
جبکہ مشل.. اس جھومتی چییر کو دیکھ رہی تھی..
اسکا کوئ نہیں تھا.. اسکی ماں کو کبھی انصاف نہیں مل سکتا تھا وہ بھری دنیا میں تنہا تھی..
بس سوچتے ہی وہ بلک بلک کر رو دی.. اب وہ کہاں جائے گی کس سے انصاف مانگے گی..
یہ وہ شہزادہ نہیں تھا جو.. سب کچھ کر جائے….
وہ برئ طرح ہچکیوں سے رو رہی… تھی..
اسے دس منٹ گزر گئے تھے آنکھوں کے پپوٹے پھول گئے تھے.. زمانے کی سرد گرم سہتے سہتے بھوک الگ لگی تھی…
اسنے آنکھیں صاف کیں اور اٹھی اب کیا کام تھا بھلہ اسکا یہاں.. اور اس سے پہلے وہ باہر نکلتی اسے ایک ٹیبل پر کھانے پینے کا سامان نظر ایا.. وہ بس اسکیطرف کھنچتی چلی گئ.. اور بے اوسان ہو کر کھانے لگی…
کچھ ہی دیر میں اسے اس سنگین غلطی کا احساس ہوا…
اگر یہاں وہ چوکیدار ا جاتا تو…
اور یہ سب…
وہ پریشانی کے عالم میں بھاگنے کا سوچنے لگی..
لیکن. رات ہونے کو ائ تھی اگر.. وہ یہاں سے بھی چلی جاتی تو کہاں جاتی..
اگر وہ یہیں کہیں چھپ جائے.. اور کل ایک بار پھر.. اس شہزادے کو رام کرنے کی کوشش کرے.. اسے ہار نہیں ماننی چاہیے تھی..
کھانا کھاتے ہی دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو.. وہ بھاگ کر.. واشروم میں چھپ گئ..
اسکی قسمت اچھی تھی تبھی اختر نے دروازہ کھول کر چیک کیا تھا.. سارگل کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے وہ… کچھ دیر کے لیے وہاں سے ہٹ گیا تھا.. اور اب واپس ایا تو.. سارگل بھی نہیں تھا اور نہ ہی وہ لڑکی..
افسوس "اسنے لڑکی کے بارے میں سوچا.. کھانے کی ٹیبل پر اسکی نگاہ گئ ہی نہیں.. اور اسنے دروازے کو تالا لگا دیا
..
مشل کو جب اطمینان ہوا کہ اب باہر کوئ نہیں تو اسنے.. سکون کا سانس لیا کھانے نے اسکے اندر توانائیاں بھر دیں تھیں اسنے ائینے میں خود کو دیکھا تو ڈر ہی گئ..
اسکا چہرہ میل سے بھرا ہوا تھا.. جبکہ میل کے اندر سے اسکا… چمکتا رنگ جھلک رہا تھا..
اسنے خود کو اچھے سے صاف کیا.. وہاں موجود صابن شیمپو کا.. بے ڈھنگے طریقے سے استعمال کیا…
اور نہا دھو کر… باہر ا گئ…
اسے خود میں سے بہت اچھی خوشبو ا رہی تھی…
مگر ڈر بھی الگ لگ رہا تھا…
لمبے بالوں کو یوں ہی الجھا بکھرا چھوڑ کر… وہ.. ٹیبل کے نیچے چھپ گئ..
زمین پر سونے کی تو پہلے بھی عادت تھی..
وہ.. سارگل کی.. ٹیبل کے نیچے… سکڑ کر بیٹھ گئ.. جبکہ پیٹ بھرنے کی وجہ سے جلد ہی اسے نیند نے جا لیا…
ایک دن بعد وہ کالج ائ تھی اور دعا یہ ہی تھی کہ اسکا داود سے تو بلکل بھی سامنا نہ ہو…
وہ اپنے اپشنل لیکچر لے کر… فری ہوئ تو.. انگلش کا لیکچر ہو گیا..
جبکہ… ابھی وہ روم میں جاتی کہ سیاہ قمیض شلوار.. میں.. اسی طرح گاگلز لگائے وہ روم کیطرف ا رہا تھا… وہ حد سے زیادہ ہی ہینڈسم تھا…
اس میں کوئ شک نہیں تھا..
تین دنوں میں ہی ہر لڑکی کے منہ پر اسکانام تھا…وہ اسکو پاگلوں کیطرح دیکھتی رہی حتی کہ داود اسکے نزدیک ا گیا…
اور اسنے اسکے سامنے چوٹکی بجائ..
عینہ کو شدت سے اپنی کوتاہی کا احساس ہوا.. اور اسنے شرمندگی سے.. ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا..
داود کے اندر تو.. اس دن سے عجیب احساسات جنم لے رہے تھے…
اور کل کی اسکی چھٹی نے.. اسے احساس دلایا تھا.. کہ اسکے اندر ان احساسات کی ادھم.. کیا حشر مچا گئ ہے…
مس عینہ… اپکا ہی ہوں.. ساری عمر دیکھیے گا.. ابھی کلاس لیں"وہ کہہ کر دوبارہ گاگلز لگا کر اندر چلا گیا جبکہ عینہ کو لگا اسکی سماعتوں نے غلط سن لیا..
اسکے ہاتھ پاوں کانپ اٹھے اسکا پرفیسر.. اسے ایسی بات کہہ گیا.. نچریلی.. اسکے احساسات تھے کچھ ڈر خوف کے کچھ عجیب سے…
اسکے اندر ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کلاس کے اندر جائے..
جبکہ داود روم میں اسکے اندر انے کا انتظار کر رہا تھا..
اور پھر وہ تو تھا ہی صدا کا جزباتی کہاں انتظار کر سکتا تھا..
منشا عینہ یہیں باہر بت بن گئیں ہیں انھیں اندر لے کر ائیں.. "اسنے کہا.. منشا.. کو تو اگ ہی لگی وہ اسکی نوکر تھی جو اسکو لے کر اتی.. مگر کچھ کہے بغیر وہ باہر نکلی اور ابھی عینہ کچھ کہتی وہ گھسیٹ کر اسے اندر لے ائ…
عینہ تزبزب کا شکار تھی….
اج سے پہلے وہ اتنا نروس کبھی نہیں ہوئ تھی.. کالج یونیفارم میں پونی ٹیل کیے.. رنگ برنگا بیگ ڈالے وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی اوپر سے اسکا اسکی اتنی سی بات سے ڈر جانا.. داود کے احساسات کو مزید گدگدا گیا…
مس عینہ جگہ پر بیٹھ جائیں یہ وہ کام بھی کوئ اور کرے "اسنے بلاخر طنز کر ہی دیا..
عینہ نے.. اسکی جانب دیکھا.. اور.. اپنی جگہ پر بیٹھ گئ..
لیکچر شروع ہوا.. اور… عینہ.. نے محسوس کیا.. وہ اسکے ڈیسک کے گرد ہی منڈلا رہا تھا..
اسے نہیں معلوم تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے اخر…
………………..
لیکچر اف ہوا تو وہ سب سے پہلے وہاں سے نکلی…
جبکہ… اسے اپنی فرینڈز مل گئیں…
جو اسے ویلکم پارٹی کے بارے میں بتا رہیں تھیں…
جو کچھ دنوں میں ہی ہونے والی تھی…
عینہ کو خوشی ہوئ…
مزاہ انے والا ہے"اسنے کچھ ایکسائٹیڈ ہو کر کہا..
ہاں اور تمھیں پتہ ہے ویلکم پارٹی ہمیشہ کمبائن ہوتی ہے..
یار مزاہ دوبالا ہونے والا ہے" فریہ نے کہا.. تو عینہ ہنس دی..
جبکہ نوشی بھی ہنسی…
داود نے بھی انکی باتیں سن لیں تھیں…
نوشی اور فریہ کی نظر داود پر گئ.. جو کڑے تیوروں میں انھیں گھور رہا تھا…
اپ دونوں ہیڈ افس جائیں.. کچھ ہی دیر میں اپ سے وہاں ملاقات کرتا ہوں میں" اسنے سنجیدگی سے کہا تو.. وہ دونوں.. وہاں سے چلیں گئیں غلطی انکی ہی تھی تین دن سے وہ سٹک اف تھیں مگر اپنی مستی میں مگن تھیں…
عینہ نے.. بھی وہاں سے جانا چاہا.. مگر داود.. کچھ ترچھا ہو کر اسکے اگے ا گیا…
ایسے کے اس کوریڈور میں کسی کو بھی ایسا محسوس نہ ہو کہ.. وہ اس سے مخاطب ہونے والا ہے..
میرے کیبن میں او… "وہ کہہ کر اگے چلا گیا… جبکہ عینہ وہیں کھڑی تھی…
اب کہ اسے غصہ انے لگا تھا…
سمھجتا کیا ہے یہ شخص خود کو… وہ بغیر نوٹس لیے…
نوشی اور فریہ کی طرف تیزی سے بڑھی..
کہیں نہیں جا رہی ہو تم دونوں.. انھیں یاد بھی نہیں رہے گا.. ہم.. بڑے ہال کیطرف چلتے ہیں… یار گانے کی ریہرسل کریں گے "عینہ کافی پر جوش لگ رہی تھی
یار عینہ ہیڈ افس… نہ گئے تو کل… وہ شخص ہمیں باہر نکلوا دے گا…" نوشی نے منہ بسورا…
یار… سائیکو سا انسان ہے… مجھے تو بلکل سمھجہ نہیں اتی… "عینہ نے بلاخر تجزیہ کر ہی دیا…
واو سن لیا نہ.. تو سائیکو… تیرا حولیہ بگاڑ دے گا" فریہ نے ہنس کر کہا..
اور.. اسکے بعد اسکا کیا ہو گا" عینہ نے سوالیہ نظروں سے دنوں کو دیکھا.. اور تینوں کھلکھلا دیں…
اور بڑے ہال کیطرف چلیں گئیں…
جہاں.. ایک دنیا ادھم مچا رہی تھی…
بہت ساری لڑکیوں سے بڑا حال بھرا ہوا تھا جبکہ سٹیج پر کوئ نہیں تھا…
وہ پرجوش سی سٹیج پر چڑھ گئ…
عینہ عینہ…" پورا کالج ہی جانتا تھا وہ کتنا اچھا گاتی ہے.. اور پیچھلے دو سالوں سے وہ.. ہر ویلکم پارٹی اینول فنکشن… یہ کوئ بھی ایوینٹ ہو.. اس میں لازمی… وہ پرفوم کرتی تھی جبکہ… بوائز برانچ سے… افنان… جو اسکا کومپیٹیٹر بھی تھا….
اور.. بہرام کے دوست کا بیٹا بھی….
جس کی وجہ سے دونوں کی اپس میں.. اچھی بات چیت تھی…
مائک ہاتھ میں لے کر.. عینہ… بنا میوزک کے… انگریزی دھن… گنگناے لگی….
وہ اتنی خوبصورتی سے گا رہی تھی کہ.. اسکا لہجہ.. اور انگریزی دھن…. بلکل… بھی الگ الگ نہیں لگ رہے تھے..
حال میں اسکی اواز کا ایک سرور سا چھا گیا….
جبکہ عینہ خود مدہوش سی تھی….
اسکے خاموش ہوتے ہی حال تالیوں سے گونج اٹھا…
…………………..
وہ کافی دیر اسکا اپنے کیبن میں انتظار کرتا رہا جبکہ اس سے پہلے وہ ہیڈ افس بھی گیا تھا جہاں.. کوئ بھی نہیں تھا…
مطلب تینوں لڑکیوں نے اسکی بات نہیں مانی تھی..
اسکا میٹر بری طرح گھما.. جبکہ.. اسے صاف صاف لگا وہ تینوں اسکو بے عزت کر کے نکل چکیں ہیں…
اسنے ٹیبل پر رکھا نوٹ پیڈ اٹھا کر…
دور پھینک دیا…
دل تو کیا پہنچ جائے… اسکے پاس اور دو چانٹیں لگا دے کہ.. اسکی بات نہ ماننے کی ہمت بھی کیسے ہوئ…
مگر.. وہ اسپر کون سا ایسا اختیار رکھتا تھا جو.. اسطرح اپنا حق جیتاتا…
بہت جلد… میری ہر بات پر سر خم کرنے کی تمھیں عادت ہو جائے گی… "اسنے.. سوچا… اور.. بائیک کی کیز اٹھا کر وہ وہاں سے نکل گیا…
……………..
وہ بڑی عجلت میں اپنے کیبن میں داخل ہوا.. اسکے پیچھے ہمدانی انڈسٹریز کے چئیر مین تھے…
ہمدانی صاحب اپکا کیس نہایت ڈیفیکلٹ ہے" اسنے کہا اور چئیر کھینچ کر بیٹھا.. ہی تھا.. کہ اسکا بوٹ.. نرم چیز سے ٹکرایا.. اسنے ترچھی نگاہ کر کے دیکھا….
اور ایک لمہے کے لیے تو اسکا دماغ اڑا تھا…
سر جی اپ سے رابطہ بھی تو اسی لیے کیا ہے.." ہمدانی چاپ لوسی کرتا ہوا.. اسکے سامنے چئیر کھینچ کر بیٹھا.. جبکہ سارگل نے چونک کر اوپر دیکھا…
ایک کروڑ" اسنے سنجیدگی سے ہمدانی کیطرف دیکھا.. وہ اپنے دوست کو.. پھنسا کر کمپنی ہتھیانہ چاہتا تھا…
سر جی "ہمدانی کا تو دم خشک ہوا.. جبکہ.. اسنے کوئ تاثر نہیں دیا اسکے دماغ کے دھاگے.. اپنی ٹیبل کے نیچے تھے…
سوچ لو… پھر ا جانا یاد رکھنا.. تمھارا وہ دوست بھی مجھ تک پہنچ سکتا ہے… " اسنے کہا… اور.. اسے انگلی کے اشارے سے چلے جانا کا کہا.. تو ہمدانی کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا.. وہ جانتا تھا وہ ایک لالچی انسان ہے دوبارہ کبھی نہیں ائے گا.. جبکہ.. اسکا دوست الریڈی اس سے کنٹیکٹ میں تھا…
اسنے ہمدانی کے نکلتے ہی ٹیبل سے اپنی چئیر دور کی.. اور.. اس لڑکی کی جانب دیکھا…
جو… پرانے سے کپڑوں میں… اپنے بے پناہ حسن سے بے پرواہ آنکھیں موندے ہوئے تھی…
کسی سوچ کے تحت.. اسنے.. اپنی دوسری ٹیبل کیطرف دیکھا..
جہاں.. فروٹس.. کو بڑی بری طرح کھایا گیا تھا…
اسنے دوبارہ لڑکی کیطرف دیکھا…
ملائم کریم کی مانند.. رنگ.. تیکھے نقوش… جبکہ بلا کی معصومیت لیے… وہ سونے کا شغل فرما رہی تھی…
اسنے.. ایک ہاتھ بڑھایا.. اور اسکے چمکتے گال… پر انگلی.. رکھی… جبکہ.. اسکی انگلی کی حرکت اسکے گال پر سستی سے بڑھتی گئ.. یہاں تک کہ. اسکے گلابی لبوں پر ٹھر گئ…
اچانک اسکے دماغ میں کل انے والی لڑکی یاد ائ..
اور وہ گھیرہ سانس بھر کر پیچھے ہو گیا….
رولنگ چئیر پر ریلکس ہو کر بیٹھے وہ اسے ہی گھور رہا تھا.. جبکہ.. چئیر زور زور سے ہل رہی تھی…
مشل کو خود پر کسی کی جھلستی نگاہیں محسوس ہوئیں تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھی سر اٹھایا.. جو ٹیبل کے نوکڑ پر بہت زور سے لگا..
وہ منہ کھولے سر تھام گئ.. دن میں تارے التے نظر ائے..
جانتی ہو… ایک لائیر کے کمرے میں.. چھپ کر اسکی چیزیں چوری کرنے پر تمھیں کم از کم بھی دس پندرہ سال کی قید ہو سکتی ہے"وہ سنجیدگی سے بولا… اب بھی چئیر جھول رہی تھی مشل نے بڑی بڑی گرے آنکھوں سے.. اس شہزادے کو دیکھا جس کی آنکھوں میں زرا بھی کوئ تاثر نہیں تھا…
مشل کو شرمندگی بھی ہوئ اور اسنے باہر نکلنا چاہا مگر سارگل نے اپنا بوٹ.. پھنسا کر چئیر کو مزید قریب کر لیا
..
کہ اسپر جھکنے سے.. وہ اسے اسانی سے چھو سکتا تھا..
مشل… کا دل بری طرح دھڑکا…
یہاں تک کہ اس سے نگاہ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں گیا….
مگ
.. مگر میں نے کچھ چوری نہیں کیا صاحب"اسنے ہمت کر کے بولنا چاہا… مگر.. اسے محسوس ہوا.. اسکی ٹانک… کے پاس.. سارگل کا بوٹ حرکت کر رہا ہے….
اب.. حقیقی معنوں میں اسے اس اجنبی سے خوف محسوس ہوا تھا.. وہ بھی تو مرد تھا. وہ کس اس کس بھروسے پر یہاں تھی…
مگر کیس بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے.. وہ بھی میرے جیسے بندے کے لیے "وہ تیوری چڑھائے.. سنجیدگی سے بولا.. مشل کو رونا انے لگا… وہ مزید پھنس گئ تھی..
صاحب.. م معاف کر دیں…. بس میری ماں کو انصاف دلا دیں 2ہ بے قصور تھیں.. انکا قتل کر دیا…
مجھے دربدر کر دیا…
پھر بھری دنیا کے سامنے میری ماں کی پاک روح کو.. ناپاک بنا دیا..
میں اپکے اگے ہاتھ جوڑتی ہوں.. مجھے انصاف دلا دیں میرا پاس پیسہ نہیں ہے.. مگر.. میں پھر بھی اپ سے التجا کرتی ہوں… "وہ رونے کے دوران.. سسکتی ہوئ بولی… سارگل نے مدھم سا مسکرا کر چئیر دور کی..
باہر او" اسنے کہا.. تو.. مشل نے اسکی جانب دیکھا.. اور پھر وہی دوپٹے سے ناک صاف کر کے.. وہ… باہر نکل ائ اور اس سے کافی فاصلے پر کھڑی ہو گئ..
سارگل اسے اوپر سے نیچے تک گھورتا رہا…
وہ ایک کم عمر.. مگر بلا کی حسین لڑکی تھی…
8 لاکھ" چئیر پر کھونی ٹکا کر.. اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ سجائے وہ اسے گھورتے ہوئے پیسے کچھ کم کر گیا…
مشل نے اسکی جانب دیکھا..
کیا یہ بہت بڑا احسان تھا.. کہ اسنے دو لاکھ کم کر دیے تھے مگر اسکے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی…
یہاں مزید کھڑا ہونا اسے بے کار لگا.. اوپر سے اسکی آنکھیں جن نظروں دے اسے دیکھ رہیں تھیں اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا.. تبھی وہ خاموشی سے پلٹ کر باہر نکلنے لگی.. کہ سارگل نے پیپر ویٹ بجایا…
ایکا اوپشن ہے…. اگر چاہو تو….
اسکے بعد.. تمھارا کام اسان ہو جائے گا. اور تمھاری ماں کے قاتل تمھارے سامنے.. سولی پر لٹکیں گے"وہ سکون سے بولا.. مشل نہ چاہتے ہویے بھی پلٹ کر اسکیطرف دیلھنے لگی اسکے دیکھنے میں ایک جوش تھا…
جیسے وہ اسکی مدد کو مان گیا ہو..
سارگل نے بھی اسکی آنکھوں میں دیکھا..
دو راتیں میرے ساتھ گزار لو….سیمپل…" سکون سے کہہ کر اسنے… چئیر کی بیک سے ٹیک لگا لی.. جبکہ.. مشل کا دل ڈوب سا گیا..
وہ حیران رہ گئ..
اسکے نزدیک پڑھے لکھے لوگ ایسے نہیں ہوتے..
جبکہا سکا تایا یہ قاسم یہ اسکا باپ خود انپڑ جاہل تھا تبھی بس یہ سوچ رکھتا تھا..
عزت تقدس پامال صرف جاہل کرتیں ہیں.. مگر وہ بھول گئ تھی امیروں میں تو سودا بازی چلتی ہے…
وہ.. ساکت کھڑی تھی جبکہ سارگل اپنی جگہ بیٹھا چئیر پر جھلنے لگا…
اسکے اندر اب کہ غصہ بھرنے لگا….
میری طرف سے انکار ہے.. اپکی اس مدد کی ضرورت نہیں مجھے "سمبھل کر… وہ مظبوط لہجے میں بولتی اپنی عمر سے کافی بڑی ہی لگی…
جبکہ سارگل مسکرایا…
مشل نے اسکی زہریلی مسکراہٹ کو دیکھا…
اب وہ اسے شہزادہ تو بلکل نہیں لگ رہا تھا…
دیکھو… میری نہ دماغ کی ایک رگ فالتو ہے…
جس چیز کی مجھے ضد چڑھ جائے تو چڑھ جاتی ہے…
تمھیں میری بات مان لینی چاہیے مجھے لگتا ہے اس میں تمھارا فائدہ ہے.. اسکے بعد تمھارے پاس لازمی اتنا پیسہ ہو گا کہ تم یوں دربدر نہ پھیرو"وہ.. اپنی عقل سے اسے ٹریپ کرنے لگا.. اخر کو ایک کامیاب وکیل تھا جو صرف… اپنی بات سے.. دوسرے کو رام کر سکتا تھا…
ن.. نہیں" اسکے نزدیک اتے ہی مشل کا سارا کنفیڈینس ہوا ہو گیا جبکہ وخف ایک ابر پھر تاری ہو گیا…
سوچ لو… "اسنے ہاتھ اٹھا کر.. اسکے لمبے الجھے ہوئے بالوں.. کی لٹ کو پیچھے کرنا چاہا.. جبکہ مشل اس سے بہت دور جا کھڑی ہوئ..
اور دروازہ کھولنے لگی جو کہ لاک تھا…
اسے لگا.. اسک ادم نکل جائے گا.. چڑیا سا دل پھڑپھڑا اٹھا..
فکر نہ کرو…. مجھے زبردستی کی بیماری نہیں..
مگر تمھیں میری بات ہر ھال میں ماننی چاہیے.. کیونکہ.. اگر تم نے نہ مانا تو تم جیل جاو گی.. اور جیل جا کر بھی تو وہاں کسی نہ کسی کا لقمہ بنو گی "وہ سکون سے بولتا.. اسکے قریب ا گیا..
مشل کا دل کیا.. زمین… پھٹے اور وہ اس میں سما جائے. کاش کاش اسکی ماں اسے بھی ساتھ لے جاتی….
سارگل اسکی انکھ کے موتی تیزی سے ٹپکتے ہوئے دیکھ رہا تھا…
اسکے وجود کی جانب اسکا دما~ بری طرح کھنچ رہا تھا…
مشل نے.. پھر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی.. جو ناکام ہی ہوئ…
سارگل نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایا. …
جبکہ وہ چیخ مار کر… اس سے دور ہوی…
سارگل کو یہ سرا سر ڈرامی ہی لگا..
غریب لڑکی تھی اپنا مقصد نکلوا سکتی تھی.. شاید…
مگر.. نہیں لڑکیاں اور ان کے ڈرامے..
اسنے تیوری چڑھا.. کر.. اسکی جانب.. قدم بڑھایے..
اور.. ایک پل میں وہ اسکے نزدیک تھا.. جبکہ شل نے چیخوپکار مچا دی.. سارگل نے اسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسکی اواز دبا دی..
مشل کو لگا. وہ مر جائے گی.. ہاں ایک عزت اسکے پاس تھی اگر وہ بھی یہ شخص لے لیتا تو ضرور.. اسکے لیے صرف موت رہ جاتی…
اسے کچھ سمھجہ نہیں ا رہا تھا.. اسنے دنیا کا یہ روپ دیکھا تھا.. مگر.. وہ تو پڑھے لکھے لوگوں کو بہت اچھا تصور کرتی ائ تھی.. مگر یہ وقت گم منانے کا نہیں تھا کیونکہ اسکے سامنے ایک خوبصورت چہرہ.. شیطانیت سجایے.. اسکے ساتھ کچھ بھی کر دینے کے در پر تھا….
ام.. ام… اسنے ضرور ضرو سے.. اپنا منہ اس سے چھڑانا چاہا…
سارگل نے ہاتھ ہٹایا…
ہاں. سن رہا ہوں.. بتاو. منظور ہے تمھیں ڈیل کیوں کہ ایسے میں تمھارے قریب نہیں. اسکتا تم کتنے گندے لباس میں ہو "اسنے منہ بنایا اور دور ہوا..
اسکے نخرے اور اپنی حالت.. بلکہ وہ ہر شے پر حیران تھی…
اپ….. اپ..
پلیز میں… مجھ سے شادی کر لیں" وہ اسکے قدموں میں بیٹھتی.. بولی….
کیونکہ اس وقت اسے کوئ ہل نہیں نظرا یا تھا سوائے اسکے.. سارگل نے چونک کر اسکی جانب دیکھا…
اور کمرے کی فضا میں.. قہقہ گونج اٹھا..
شکل دیکھی ہے تم نے اپنی" وہ ہنسا… دل کھول کر اور ہنستا ہنستا دوبارہ چئیر پر ڈھیر ہو گیا…
وہ ڈرنک نہیں تھا.. بس.. اس لرکا کا وجود.. اسکے لیے اٹریکشن کا باعث تھا.. اج سے پہلے بھیا سنے ایس اکچھ نہیں کیا تھا.. نہ وہ ان چیزوں کا عادی تھا.. ایک انجانی سی کشش. اور اس لڑکی کی بے بسی.. سب مل کر اسکے دماع کو.. بھکا چکیں تھیں.. مگر شادی..
ناممکن "
وہ ہنستا رہا..
مشل.. مٹھیوں سے آنکھیں چھپائے روتی رہی…
تبھی مراد کالینگ اپنے فون پر دیکھ کر…
اسنے ہنسی روکی…
ہاں یار بولو" ہنستے ہوئے پوچھا..
کافی خوش ہو "مراد.. نے کہا..
اااا.. خوش تو میں ہر وقت رہتا ہوں مگر فلحال ایک زبردست جوک سنا ہے اسپر ہنس رہا ہوں "وہ پھر سے ہنسا..
اچھا ایسا بھی کیا سن لیا.. مراد نے پوچھا.. تو.. وہ جو ایک بات بھی اس سے نہیں چھپاتا تھا سب بتاتا چلا گیا.. جبکہ دوسری طرف مراد اپنی چئیر ایلدم چھوڑ کر اٹھ چکا تھا..
کتنے سال کی ہے وہ لڑکی.." اسے اس وقت سارگل پر.. اتنا غصہ تھا کہ وہ اسکے سامنے ہوتا تو لازمی دو تین تھپڑ کھا چکا ہوتا…
امم ہو گی.. 17 18 سال کی" وہ نارملی بولا..
خیر.. "ابھی سارگل فون بند کرتا.. کہ مراد بولا…
سارگل… تم اسے کچھ نہیں کہو گے… " مراد نے تنبھی کی..
سارگل زور سے ہنسا
معلوم نہیں" اور فون بند کر دیا..
جبکہ مراد ایک لمہے میں افس سے.. نکلا تھا. وہ نہیں چاہتا تھا کسی کے ساتھ ظلم ہو.. تبھی. اسنے سارگل کے افس کیطرف.. گاڑی دوڑائ..
……………….
عینہ حویلی ائ.. تو کافی تھکی ہوی تھی جبکہ اسکی اواز بھی بیٹھی ہوی تھی..
اسے مام کہیں نظر نہیں ائ.. وہ وہیں سے بولنے لگی..
مام "بھوک بھی کافی لگی تھی..
اہ ڈیڈی کیوں چیخ رہی ہو" صارم جو ابھی کچھ دیر پہلے.. اپنی نائٹ ڈیوٹی سے واپس ایا تھا اسکے چیجنے پر منہ بنا کر بولا..
کیا ہے اپکو میرا نام عینہ ہے"عینہ چیڑ کر بولی..
نہیں مجھے تو تم. وہ جو جھند میں کالی کالی اڑتی ہیں نہ.. وہ ٹیڈی لگتی ہو"صارم کو اسکو تپانے کا موقع مل گیا..
عینہ نے غصے سے پاوں پٹخا…
اللہ کرے اپ گنجے ہو جائیں "وہ غصے سے بولی..
اللہ اللہ.. ایشا کا کیا ہو گا پھر.." اسنے اہنے بالوں میں ہاتھ چلایا.. اور سامنے.. دیکھا جہاں ایشا ابھی انسیٹیوٹ سے ائ تھی.. بے ایے کے بعد وہ.. کوکینگ کورس کر رہی تھی صارم کی بات پر مسکرا دی.. وہ دونوں ہی ایک دوسرے وک پسند کرتے تھے اور سب جانتے تھے یہ بات…
بہت کوئ بدقسمت ہے ایشا.. جو اپکے پلے پڑے گی.. ایسے خوفناک نام رکھتے ہیں اپ"عینہ نے بیگ صوفےپر پھینکا جبکہ صارم بھی دوسرے صوفے پر لیت گیا.. اور ایشانے بھی اپنی دش جو وہ بنا کر لای تھی تیبل پر رکھی.. صارم اور عینہ بیقوقت اسپر ٹوٹے تھے..
مجھے بھی کھانا ہے لالا" عینہ چیخی.. ارمیش بھی انکی اواز سن کر ا گئ…
اور نفی میں سر ہلا کر.. وہ کچن کی جانب چل دیا..
ایشا تو بس منہ کھول کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو ایک دوسرے سے چھین کا.. سوئیٹ ڈش کا کام تمام کر چکے تھے..
اس میں میرا بھی حصہ تھا شاید" ایشا نے خفگی سے ان دونوں کو دیکھا..
بے بی ڈول میں ہوں نہ پورا پورا سالم
تمھارے حصے میں اور ویسے بھی یہ.. ڈیڈی زیادہ کھا گئ.." اسنے صاف الزام عینہ پر ڈالا.. عینہ نے اسپر کوشن اچھالا…
احمر بابا.. آئیں گے تو.. اپکی.. مار پروا کر سکون ملے گا مجھے "وہ کہتی.. نخرہ دیکھتی وہاں سے اٹھی…
ایشا بھی خفگی سے جانے لگی.. کہ صارم نے اسک اہاتھ پکڑ لیا.. اور ادھر ادھر دیکھا. کہیں اسکی ماں تو نہیں اریب قریب..
تم کہاں جا رہی ہو.. پاس بیٹھو" اسنے پیار سے کہا..
جا رہی ہوں میں "ایشا نے منہ بنایا اور ہاتھ چھڑا کر بھاگ گئ..
عجیب بس.. بندہ رومینس بھی نہیں جھاڑ سکتا "صارم.. بڑبڑایا..
…………………
گرمی بہت شدید تھی جبکہ.. اسکا اور معاز کا شدید جھگڑا ہوا تھا… اور غصے میں وہ.. اوپر چھت پر ا گیا تھا…
اب گرمی اسے اتنی لگ رہی تھی کہ.. بیٹھنا مشکل تھا..
جبکہ اسک اباپ اسے کمرے سے نکال کر.. خود اے سی میں سو رہا تھا.. وہی عام سی چھوٹی سی بات.. کہ داود نے ہمیشہ کیطرحا ہنے کمرے میں سیپرٹ اے سی لگوانے کی ضد لگای ہوئ تھی اور دوسرے طرف وہ بھی ضد پر تھا..
دونوں کا جھگڑا بھڑتا گیا.. وہ غصے میں روم سے باہر نکل گیا. اور معاذ نے کمرہ ہی لاک کر لیا..
عابیر… جو کہ فیزا کے ساتھ اسکی فرینڈ کے ہاں گئ تھی…
اب تک نہیں ائ تھی.. یہ اگر ا بھی گئ تھی تو.. اسکے باپ نے ضرور بڑھا چڑھا کر بتا دیا ہو گا..
داود"اسنے… اسکے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرہ..
مجھے اج تک یہ سمھجہ نہیں ایا انھیں میرے ساتھ پروبلم کیا ہے.. مجھے یاد ہے میری ہر خواہش پر یہ مجھے اسطرح جھڑک دیتے تھے جیسے میں انکا نہیں پڑوسیوں کا بچہ ہوں… " وہ سنجیدگی سے بولا.. عابیر.. نے اسکی پیشانی چوم لی..
وہ چیڑ چیڑے ہو گئے ہیں.. سچ بتاو وہ کبھی ایسا نہیں تھا…
بہت فرینڈلی تھا.." اسنے کہا. تو داود نے ماں کیطرف دیکھا..
یہ بات میں بہت اچھے سے جانتا ہوں وہ بہت فرینڈلی ہیں…
فیزا اور روشنی کے ساتھ انکا رویہ.. مجھے دیکھتا ہے.. جبکہ میرے ساتھ… انکا رویہ… " وہ چپ ہو گیا..
اپ بھی تو ہر بات پر اڑ جاتے ہو "عابیر نے.. پیار سے پچکارہ.. کیا بتاتی وہ اسے.. کہ اسکا حسین چہرہ جس شخص سے ملتا تھا.. وہ معاذ کو کبھی بھی برداشت نہیں ہوا تھا..
داود کی پیدائش کے بعد سے ہی وہ بہت.. بدل گیا تھا جبکہ داود کے ساتھ کبھی اسکا رویہ درست نہیں رہا.. پھر جیسے جیسے وی جوان ہوتا گیا…
اسکی حرکتیں بھی.. اس شخص میں ملنے لگیں جس.. کا نام لینا بھی وہ دونوں پسند نہیں کرتے تھے…
اڑ جاتا.. ہوں…
بس میرا اڑنا دیکھتا ہے… اپکو… رگیں فالتو ہیں نہ میرے پاس… جتنے وہ سخت اہنی جان میں بننے کی کوشش کرتے ہیں نہ وہ جانتے نہیں ہیں… میں پھر کیا ہوں دیکھتی جایین اب اپ "اسنے کہا.. اور بس اسکے دماغ نے سپیڈ سے حرکت کی تھی..
وہ نیچے دھرا دھڑ.. اترا.. اور.. مین سوئچ.. بند کر دیا.. پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا.. عابیر نے سر تھام لیا..
داود.." اسنے گھورا..
مجھ سے پنگے کا انجام یہ ہی ہے… "اسنے شانے اچکائے..
اگر اپ نے کھولا. تو.. پھر میری اپکی ختم"اسنے صاف کہا.. تو. عابیر ہنس دی…
ٹھیک ہے.. او کچھ کھاتے ہیں.." اسنے.. بیتے کا ہاتھ تھامہ.. اور ادھی رات کو دونوں مان بیٹے.. بریانی سے انصاف کر رہے تھے..
مما ایک بات کہو" اچانک اسکے دماغ میں عینہ ای..
ہاں کہو" عابیر نے.. اسکی جانب دیکھا…
یہ عینہ نام کیساہے" اسنے.. لاپرواہی سے پوچھا.. عابیر.. نے چمچ منہ.. میں بھرہ اور اسکیطرف دیکھا…
بہت پیارا نام ہے.. نازک سا.. جیسے جس بھی لڑکی کا ہو.. وہ کوئ پری.. یہ.. کسی کے خوابوں کی فیری ہو گی "اسنے تفصیلاً جواب دیا..
داود نے سر ہلا.. وہ زرا بھی کوئ تاثر دیتا تو عابیر کو شک ہو جاتا.. اور وہ اسکے پیچھے پڑ جاتی..
تم نے کیوں پوچھا.." عابیر نے کچھ مشکوک نظروں سے اسکیطرف دیکھا..
ایسے ہی.. "وہ جلدی سے بولا
. یہ. سلاد پاس کریں" اسنے کہا. تو عابیر نے اسکی جانب سلاد بڑھایا.. اور.. ابھی بجلی بند کیے ہوئے.. ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ. وہ سب.. جو اے سی کے مزے لے رہے تھے رفتہ رفتہ باہر نکلنے لگے..
مما یہ لائٹ کب ائے گی"روشنی تو عابیر کے کندھے پر جھولی..
عابیر نے داود کی جانب دیکھا..
کبھی نہیں" دانت نکلتا. وہ چھت پر چلا گیا…
جبکہ عابیر.. نے روشنی کو.. سمھجایا..
معاز خود.. ہاتھ میں پنکھا تھامیں.. بجلی والوں کو کوس رہا تھا.. جبکہ وہ.. چھت پر صرف عینہ کو سوچ رہا تھا..