Ain ul Hayat by Mirha Noor , She is one of the best famous Urdu novel writers. Ain ul Hayat by Mirha Noor is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel. Butter Scotch by Huma Waqas is a very special novel based on our society and love.
She has written many famous novels that her readers always liked. Now she is trying to instill a new thing in the minds of the readers. She always tries to give a lesson to her readers, so that a piece of writing read by a person, and his time, of course, must not get wasted.
Ain ul Hayat by Mirha Noor
Ain ul Hayat by Mirha Noor Urdu Novel Read Online & Free Download, in this novels, fight, love, romance everything included by the writer. there are also sad moments because happiness in life is not always there. so this novel is a lesson for us if you want to free download Butter Scotch by Huma Waqas to click on the link given below, or you can also read it online.
Ain ul Hayat by Mirha Noor | Rude Hero Based Novel
Ain ul Hayat is the latest novel. Although it is much the latest, even though it is getting very much fame. Every novel reader wants to be in touch with this novel.
↓ Download link: ↓
If the link doesn’t work then please refresh the page.
"انسان چاہے جس بھی رشتے سے بندھا ہو وہ کسی رشتے سے تب تک ہی نبھا سکتا ہے جب تک وہ اسے فائدہ دیتا رہے.یہاں آپ کی کوشش رُکی وہاں انکی مخلصی یہاں تو غیرت پر بات آجائے تو خود اپنے ہاتھوں سے باپ بیٹی کا گلا گھوپ دیتا ہے۔یہاں کام نہ آسکو تو دوست ساتھ نہیں رہتے جیب خالی ہو تو محبت نہیں ملتی مختضر ہر رشتے کو ہی آپ سے کوئی نہ کوئی غرض تو ہوتی ہے بنا غرض کے تو رشتے ہی نہیں بنتے"۔
حیات بیٹا آجاؤ کھانا لگ گیا ہے۔"وہ اپنی ڈائری پر رشتوں کے پیمانے ناپ تول کر لکھ رہی تھی جب اسکی امی نے اسے آواز دی۔۔" وہ کرسی سے اٹھی کتاب اور ڈائری سائیڈ پر رکھی اور کمرے سے باہر آگئی۔۔.... کیچن کے باہر ہی زمین پر دسترخوان بچھا ہوا تھا۔جس پر ایک ہی قسم کاسالن رکھا ہوا تھا۔ساتھ ایک پانی کی بوتل اور دو گلاس رکھے تھے۔اور دسترخوان پر اسکی اماں ایک آسیہ بیگم ایک طرف بیٹھی تھی۔دوسری طرف دو بہنیں جویریہ اور ایشال بیٹھی ہوئی تھی۔ (جویریہ سب سے بڑی تھی پھر ایشال اور حیات اور حیاتِ کے بعد اس، کا چھوٹا بھائی عمر تھا۔۔ )اپنے چھوٹے بھائی عمر کے ساتھ جاکر بیٹھ گئی۔ ان کے بابا چارپائی پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔۔ "نہیں ان کے گھر ڈائننگ ٹیبل نہیں تھا ۔ان کے گھر تین اقسام کے کھانے نہیں پکتے تھے۔گھر کے مرد چارپائی پر اور عورتیں اور بچے زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔۔یہ ایک سادہ زندگی گزارنے والے عزت دار اور مڈل کلاس لوگ تھے ۔جن کے گھر بہن بھائیوں کے الگ الگ کمرے نہیں ہوتے۔۔" تمہارے انٹر کا رزلٹ کب آئیگا حیات ؟؟.."بابا نے کھانا ختم کرنے کے بعد پوچھا۔۔ اسی ماہ کی کسی تاریخ کو آنا ہے بابا... (اس نے پانی کا پانی گلاس ایشال کی طرف بڑھاتے ہوئے جواب دیا ) آہ... کیا تاریخ ہے آج عمر نے فورا سےپوچھا ۔۔۔ پورا دن گھر پر پڑے رہنے نہ ٹیوشن نہ اسکول بس موبائل پر پب جی کھیلتے رہو تو تاریخ کہاں یاد رہتی ہے۔.. "ایشال نےایک زبردست طعنہ عمر کو مارا۔۔ عمر نے ایک کھا جانے والی گھوری ایشال پر ڈالی پھر اس سے زیادہ عاجزانہ انداز سے عدنان صاحب یعنی اپنے والد صاحب کو دیکھا کہ اب وہ کن کن تمغوں سے نوازیں گے... مگر جس خاموشی سے وہ اٹھ کر چلے گئے تھے. (ان کے زاویے بتا رہے تھے کی وہ کس قدر اس اولاد سے بیزار ہیں۔۔) کھانا ختم کرنے کے بعد حیات برتن دھو کر کمرے میں اگئی اور تھوڑی چہل قدمی کرتے موبائل اٹھائے کھڑکی کے پاس رکھے صوفے پر جابیٹھی۔۔ کیسی ہو ماہم ۔۔؟ اس نے سکرین پر ٹائپ کیا اور سامنے نظر آنے والے نمبر پر سینڈ کردیا۔۔ ابھی کچھ پل گزرے تھے کہ سامنے سے جواب موصول ہوگیا۔ "میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو حیات؟. " میں ٹھیک ہوں... مجھے تم سے کچھ کام تھا.."حیات نے بنا وقت ضائع کیے کام کی بات کی۔۔۔ ہاں ہاں کہو کیا کام ہے۔۔دوسری طرف سے بھی فوراً جواب آیا۔" کیا تم پتہ کردوگی کہ کالج کا رزلٹ کب آئیگا.؟؟ میرے بابا بھی آج مجھ سے پوچھ رہے تھے۔۔"اس نے فکر ظاہر کرتے ہوئے کہا... اسی ماہ کے آخر میں آجائیگا۔۔۔ اوہہ ٹھیک ہے شکریہ پھر بات ہوتی ہے اللہ حافظ دوسری طرف سے بھی اللہ حافظ کا میسج موصول ہوا۔۔
تو اس نے اپنا فون سائیڈ پر، رکھ دیا ڈائری کھول کر بیٹھ گئی۔۔ "بہت افسوس ہوتا ہے مجھے ایسے لوگوں پر جو دوسروں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں.اور انہیں خود کے قابل ہونے پر غرور ہوتا ہے.انسان جس بھی حال میں ہو ہمیشہ اپنے آپ میں بےمثال ہوتا ہے.اور یہی بات اس کی سب سے خوبصورت ہوتی ہے۔ اور رہی بات غرور کرنے والوں کی تو ان کے لیے تو واضح آیات ہیں کہ عزت دینا اور لینا بس اللہ کے ہاتھ میں ہے۔.اور تکبر کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں ہیں۔۔ "دائری لکھتے لکھتےاس کے دماغ میں ماضی کے چند کڑوے باب کھل گئے تھے۔جن میں سے اسے لگنے والا ایک ایسا تھپڑ بھی تھا۔جسکی سرخی اسکے گالوں پر اب تک دکھائی دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔!!
"وہ موبائل لے کر فارغ میم اسکرول کرنے میں لگی تھی. جب اسکی ماں نے پیچھے سے ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا۔۔ "کیا ہے امی آپ تو ہر وقت میری جان نہیں چھوڑتی.."حیات سخت چڑھ گئی تھی..." زبان کینچی کی طرح چلانے کے بجائے کاش تم نے اپنے ہاتھ چلائے ہوتے۔اور کیچن میں رکھے برتن دھولیے ہوتے مگر نہیں تمہارا موبائل بھاگ رہا تھا نہ۔۔۔ اگر ساری عمر یہی موبائل چلاتی رہوگی تو نہ یہاں کی رہوگی نہ وہاں کی۔۔( آسیہ بیگم تو تنگ آگئی تھی۔اسکی اس کام میں بیزاریت اور لاپرواہی کی عادت سے وہ اسے کافی سمجھاتی تھی.مگر حیات حد درجہ کی لاپرواہ اور بغیر ذمہ دار تھی)..
"مگر زندگی پریوں کا دیس نہیں ہے کہ جتنے پیارے آپ اتنا پیارا دن زندگی بہت پیچیدہ اور مشکل ہے۔اور یہی ہے جو ہے آپ اس کے رنگ میں نہ بھی ڈھلنا چاہےتو یہ آپ کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔۔۔
آج اس نے لڈو اسٹار فرسٹ ٹائم ڈاؤنلوڈ کی تھی۔۔اور یہ گیم اسے بہت حد تک پسند نہیں تھی۔مگر اسکی دوستوں کے اسرار پر اس نے اسے ڈاؤن لوڈ کرلیا تھا،۔۔۔ "یار عالیہ مجھے سمجھ نہیں آرہا یہ گیم کس طرح کی ہے۔۔یہ تو اصلی والی سے کافی مشکل ہے اور یہاں کوئی چیٹنگ بھی نہیں کرسکتا۔۔''وہ واٹس ایپ گروپ میں میسج کررہی تھی۔...
ارے تم نئی ہو بس اسلیے تم جلدی ہی سیکھ جاؤ گی تو تمہیں کافی دلچسپی ہوگی..."عائشہ نے اس کے میسج کا ریپلائی دیا۔۔ تو وہ موبائل رکھ کر بیڈ پر لیٹ گئی.... مسلسل فون کی گھنٹی پر اس کی آنکھ کھلی.تو اس نے دیکھا کہ وہ پین لیے ڈائری پر ہی سر رکھے سورہی تھی۔۔۔ "اس نے پریشانی سے فون اٹھایا تو جنید بھائی کا نمر سامنے جھگمگا رہاتھا۔"جنید حیات کا کزن اور خالہ ذات بیٹا تھا۔جس کی جویریہ سے بات پکی ہوچکی تھی۔" اس نے فون پیک کیا.. اسلام و علیکم..!! حیات "سامنے سے کہا گیا تھا جس کے جواب پر حیات نے بھی سلام کیا... وعلیکم اسلام جنید بھائی کیسے ہیں آپ؟... (فون کے دوسری طرف سے کچھ کہا گیا تھا..) میں بھی ٹھیک ہوں گھر پر بھی سب ٹھیک ہیں۔میں ابھی دیتی ہوں امی کو روکیں۔۔۔ "وہ یہ کہتے ہوئے سیدھا امی کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔."" مما جنید بھائی کی کال ہے بتارہے ہیں کہ خالہ کچھ بات کرنا چاہتی ہے۔۔۔ اچھا۔۔۔لاؤ دو..."آسیہ بیگم نے فون اس کے ہاتھ سے لیا اور کان سے لگادیا۔۔۔ تھوڑی دیر حال احوال جاننے کے بعد انہوں نے انگلی سے حیات کو کمرے سے جانے کا اشارہ کردیا۔۔۔"شاید وہ وہ کچھ ضروری بات کرنا چاہ رہی تھیں.
تم امی کے کمرے میں کیا کرنے گئی تھی۔"ایشال جو سیڑھیوں سے اتر رہی تھی۔اسے کمرے سے نکلتا دیکھ فورا بولی۔۔" کچھ انہیں جنید بھائی کی کال تھی۔خالہ کو امی سے کوئی ضروری بات کرنی تھی۔مجھے تو لگتا ہے شادی کی بات کررہے ہیں۔امی نے مجھے بھی کمرے سے نکال دیا ہے۔۔۔"وہ بات کرتے کرتے سامنے رکھے صحن کے صوفے پر جابیٹھی اور پاس رکھی اخبار کی جانچ پڑتال کرنے لگی۔۔" کیا مطلب۔۔۔۔تم سچ کہہ رہی ہو؟؟ (ایشال کو تو جیسے جھٹکا لگ گیا تھا۔۔) تو کیا میں جھوٹ بولوگی اب؟ .."حیات نے آنکھیں گھما کر اسے کی طرف دیکھا..." ارے یار...!!! اگر ایسا ہوا تو سچ میں مزہ ہی آجائیگا... ایشال کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ناچ گانے شروع کردے "اس کی اور جویریہ کی عمر میں دو سال کا فرق تھا اسلیے ان کی آپس میں اکثر ضد رہتی تھی۔اور لڑائی یوں ہو تی تھی جیسے ڈبل یو ڈبل یو وڑلڈ چمپین شپ ہورہی ہو.۔۔۔""
کیا بات ہورہی ہے کوئی مجھے بھی بتائے۔جویریہ نے ان کو کھس پھس کرتے دیکھ پوچھا آجاؤ آجاؤ۔۔۔۔تمہاری ہی کمی تھی۔خود کنفرم کرلیں تو سب سے پہلے تمہیں ہی بتائیں گے۔"ایشال نے مسکراہٹ لبوں پر بکھیری "".. اچھا پر ہوا کیاہے۔؟کیا کنفرم کرنا ہے.؟.(جویریہ کو کافی تجسس ہونے لگا تھا...)
تمہاری شادی۔۔۔۔۔۔۔ کی دیٹ کی بات کررہے ہیں ہم...ایشال نے منہ موڑ کر کہا.." کیا مطلب..؟"جویریہ کا تو جیسے منہ ہی کھلا کا کھلا رہ گیا تھا.. ارے کچھ نہیں میں ابھی شیور نہیں ہوں۔بس مما نے میرا فون لیا ہے۔اور کمرے سے جانے کوکہا کہ کچھ ضروری بات کرنی ہے خالہ سے مجھے لگا۔۔۔۔۔ اور تمہیں لگا کے وہ میری شادی کی بات ہے رائٹ ۔۔"جویریہ نے تیور بدل اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔ جی بلکل اور بلکل صحیح لگتا ہے۔اسے میڈم۔۔"ایشال نے منہ چڑھا کر جواب دیا۔۔ ابھی ان دونوں کی بحث شروع ہونی تھی۔مگر اتنے میں آسیہ بیگم کمرے سے باہر آگئی۔۔ ارے امی۔۔!! حیات انہیں دیکھ کھڑی ہوئی.تو ایشال اور جویریہ بھی کھڑی ہوگئی۔۔ یہ لو حیات اپنا موبائل..۔۔ انہوں نے موبائل، حیات کیطرف بڑھایا۔۔ "امی کیا بات کرنی تھی خالہ نے حیات نے فون لیتے ہوئے پوچھا..
کچھ نہیں وہ کراچی آرہے ہیں دو دنوں میں کل سے ہی گھر کی صفائی شروع کردو۔اور ایشال تم شام کو عمر کے ساتھ جاکر کچھ ضروری سامان ہے وہ لے آنا۔۔ جی امی۔۔" اس نے خاموشی سے سر ہلادیا۔اور آسیہ بیگم کیچن کی طرف چلی گئ. اب یقین ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔"ایشال نے اسے اتراتے ہوئے کہا.. مجھے تو یہاں پوری دال ہی کالی لگ رہی ہے.اور ہائے اگر یہ بات سچ ہے کہ خالہ جان ڈیٹ مانگنے آرہی ہیں تو میں صاف منع کردوگی۔۔ " جویریہ نے غصہ سے ان دونوں کو انگلی دیکھاتے ہوئے کہا. " پہلی بات یہ انگلی مجھے مت دیکھاؤ.اور،دوسری بات جیسے منگنی کے ٹائم کہا تھاکہ انکار کردوگی۔اور پھر منہ سے جی بھی نہیں نکل سکا ۔۔بڑوں کے اگے۔۔" حیات نے اسے طنزیہ انداز میں کہا.تو وہ منہ بنا کر وہاں سے چلی گئ۔۔ چلو ایک بلا تو جائے گی کچھ بابا کا بھی بوجھ ہلکا ہوگا۔"ایشال نے صوفے پر خود کو نیم دراز کرتے ہوئے کہا۔۔ بلکل اور پھر اگلا نمبر آپ جناب کا۔۔"حیات یہ کہہ کر ہنستی ہوئی وہاں سے چلی گئی.. میں تو چاہتی ہی یہی ہوں.."وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے پاس رکھے اخبار کو پڑھنے لگی۔۔
رات کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ سب صحن میں بیٹھے باتیں کررہے تھے.جب عدنان صاحب نے بات چھیڑی "اور عمر میٹرک کا رزلٹ کب تک آئیگا تمہارا؟؟ ابا اگلے مہینے کے آخر میں ۔۔"عمر کا تو گلہ ہی خشک ہوگیا تھا.. کیا ارادہ ہےاگے پڑھنا بھی چاہتے ہو یا بس کریانہ شاپ ڈال دو تمہیں بھی۔۔؟"ان کے لہجے میں سخت طنز و طعنہ تھا.۔ اللہ نہ کرے ابو کیوں نہیں پڑھنا چاہوں گا۔رزلٹ تو آنے دیں میں نے تو ٹوپ کرنے کی حد تک اچھے پیپر دیے ہیں۔بابا پر آپ بہتر جانتے ہیں۔سندھ بورڈ والے کسی کو پار کرتے ہیں تو کسی کو بیچ میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔۔" وہ باتوں باتوں میں ان کو یہ سمجھا رہا تھا.کہ رزلٹ بہتر آنے کی امید نہیں ہے.اور عمرسے ان کو تھی بھی کہا... "بیٹا میں تمہاری عمر گزار کر آیا ہوں۔ باپ ہوں تمہارا تو مجھ سے تو چالاکیاں مت کریں۔۔۔پتہ ہے مجھے کیا کارنامہ کیا ہوگا۔۔۔ اور ایک بات بتادوں آپ کا رزلٹ آپکی تعلیم آپ لوگوں کے ہی کام آئے گی۔ہم نے جو پڑھنا تھا پڑھ لیا جو کرنا تھا۔کرلیا ہم نے اتنا کمالیہ کہ اب باقی عمر بڑھ کر بھی کھائے تو ہمیں مسئلہ نہیں۔ یہ تعلیم یہ گریڈ یہ ڈگری تم لوگوں کے لیے تم لوگوں کے آنے والی زندگی کے لیے ہے۔ ہم نے پڑھائی کروا کر اچھا کپڑے اچھا گھر، اچھی لائف دے کا اپنا حق پورا کرلیا۔اب اسکے علاوہ تم اپنے انجام کے زمہ دار خود ہو دنیا میں جینا ہے تو وقت کی دوڑ میں بھاگنا شروع کردو... کیونکہ اگر پیچھے رہ گئے تو نہ بھر وقت ہاتھ آئے گا نہ بھاگنے کافائدہ ہوگا..' ان کی باتوں کا اثر عمر نے لیا ہوکہ نہیں مگر حیات نے بہت اچھے سے سمجھ لیا تھا.کہ واقعی انسان اگر دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو دنیا کے رنگ میں رنگنا ہوگا.دنیا پیچھے رہ جانے والوں کو طعنہ تو دیتی ہے مگر موقع نہیں۔۔
صبح فجر کی نماز پڑھ کر آسیہ بیگم نے حیات ایشال اور جویریہ کو بھی جگادیا تھا.۔ایشال کا تو نیند سے اٹھنا محال ہوجاتا تھا۔".. ".کئی بار تو وہ نیند میں ہی یہ سوچ لیتی تھی کہ نماز پڑھ لی۔جویریہ اور حیات دونوں اٹھ گئی تھی۔نماز کے بعد جویریہ تو لیٹ گئ تھی. مگر حیات کیچن میں امی کا ہاتھ بٹانے چلی گئی۔۔
ارے حیات...!!! آسیہ بیگم نے اسے کچن میں اس وقت دیکھا تو حیرت ظاہر کی.. سوچا کچن میں آپ کا ہاتھ بٹا دو صبح تک کیچن تو صاف ہوہی جائیگا پھر دن بھر ان کا کھانا پینا بھی ہوگا۔ تو کام نہیں ہوپائے گا۔۔۔""حیات نے سامنے رکھے کپڑے کو اٹھاتے ہوئے کہا.. ہمممم... """"بات ٹھیک ہے تمہاری چلو پھر لگ جاؤ کم پر اور مسکراتے ہوئے حیات کی پیٹھ ٹھپٹھپا کر وہ اگے رکھے سامان کو باہررکھنے میں مصروف ہوگئی۔۔ کام کے دوران کچھ دیر یونہی خاموشی رہی تو آسیہ بیگم نے چپ توڑتے ہوئے کہا۔۔ "حیات میں ہمیشہ تمہاری لاپرواہی بدتمیری حد دہرمی اور پڑھائی میں عدم دلچسپی کو دیکھتی تھی تو مجھے لگتا تھا۔شاید تم کبھی نہیں بدل پاؤ یا شاید اگے جاکر تمہاری زندگی تمہیں بہت سی ضرب ایسی دے جو شاید تمہاری معصومیت ختم کردے کیونکہ لاڈ اور ناز نخرے ماں باپ ہی اٹھاسکتے ہیں۔سسرال جتنا بھی اچھا ہو مائیکا نہیں بن جانا شیر کو پالنے سے یہ ڈر ختم نہیں ہوتا.کہ وہ کبھی بھوکا ہونے پر تم پر حملہ نہیں کرے گا۔۔۔" میں تمہیں تبدیل دیکھنا چاہتی تھی کامیاب بہتر صحت مند لیکن مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تم خودکو اتنا بدل دوگی۔۔۔۔حیات سمجھدار اور سنجیدہ ہونا بہتر ہے مگر خاموش اور مایوس ہونا انسان کو تباہ کردیتا ہے۔تمہاری اس تبدیلی کے پیچھے ہم نہیں ہیں میں اتنا تو جانتی ہوں وجہ کچھ اور ہے۔اور اگر تم چاہو تو بانٹ سکتی ہو۔میں ماں ہو تمہاری اور تمہیں بہتر سمجھ سکتی ہوں اور سمجھا سکتی ہوں۔ " نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں ہےبیس سال کی ہوگئ ہوِں۔اور پھر ماں باپ کا دل دکھا کر نافرمانی کر کے میں رہ تو لوں گی مگر سکون میں نہیں بس اسلئے بدل دیا خود کو اور امی ہر بار آپ کو خود کو بدلنے کے لیے زمانے کے تھپڑ ہی نہیں کھانے پڑتے کبھی کبھی آپ کا ضمیر بھی آپ کے وجود کو ایسی گالیاں دیتا ہے.کہ اسکے بعد جھنجوڑ کر خود کو ہوش میں لینا لازم ہوجاتا ہے۔ تم باتیں کتنی گہری اور پیچیده کرنے لگی ہو حیات بیٹا... (آسیہ بیگم کو اسکی باتوں پر حیرت ہورہی تھی۔اور اولاًد کے تغیرات پر والدین کی حیرت جائز بھی ہے اور جب بدلاؤ اس قدر زیادہ ہو۔۔) ابھی آپ نے ہی تو کہا کوئی بات ہے تو مجھے بتاؤ تو اب بتارہی ہوں۔تو آپ کے اوپر سے جارہے ہیں سارے الفاظ خیر آپ بے فکر رہیں.سب امن ہے ۔"وہ انہیں تسلی دے کر پھر کام میں مصروف ہو گئی تھی۔۔۔ (اور وہ جواب دینا اسے سیکھ گئی تھی کہ سوال کرنے والا سوال بھول جاتاتھا ۔۔)
آج اس نے پورا دن صفائی کرنے اور باقی کاموں میں خوار کیا تھا.اب اس میں مزید ہمت نہیں تھی.وہ تھک کر کمرے میں آئی اور ایسے ہی بیڈ پر جا کرلیٹ گئی کچھ دیر تو وہ یونہی لیتی رہی اچانک اس کی نظر چھت سے لٹکے پنکھے پر گئی تو اسے ایک گہری سوچ نے اگھیرا۔۔ '.کہتےہیں اس دنیا میں انسان سب سے زیادہ پیار خود سے کرتا ہے۔اگرآپ دنیا کے اعتبار سے دیکھیں تو شاید سب ہی بلکہ یقیناً سب خود سے ہی پیار کرتے ہیں ہے.. مگر پھر آخر کیا چیز انسان کو اتنی ہمت دیتا ہے۔اتنا حوصلہ کہ وہ اس پنکھے سے َلٹک کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان دے دیتا ہے.؟؟ "وہ پہلے سوچا کرتی تھی تو فضول سوچا کرتی تھی۔اور اب اتنا معنی خیز سوچتی تھی کہ یہ بھی اس کے سر میں درد کرنے لگتا تھا۔۔۔ "مگر اسکے سوالوں کے جواب وہ خود ہی خود کو دے سکتی تھی۔.. "" اور اس نے دیا بھی وقت نے جو اس کے ساتھ کیاتھا. تو اسکے نفس نے اسے بھی اکسایا تھا خود کشی کے لیے مگر اس نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ دنیا اسکے عقیدے پر غالب نہیں آسکتی تھی۔جو اس کامسلمان ہونے کا ناطے اپنے عقیدے پر تھا۔
"کہ اللہ آخری حد تک آزمائے گے مگر نوازدے گے اس سے بھی جس کی حسرت آپکے دل کو ویران رکھتی ہے۔۔۔'
"اسے لڈو گیم کھیلتے کھیلتے اس میں دلچسپی ہونے لگی تھی۔اور وہ پیپرز کی تیاری کرنے کے بجائے موبائل پر فراغت ظاہر کرنے میں ہی مصروف رہتی تھی. نہ وہ کام کرتی تھی۔نہ اپنے علاج کا خیال نا کھانے کا پتہ کچھ اس نے خود کو سوشل لائف میں اتنا غرق کردیا تھا۔کہ دنیا اسکے لیے عذاب بنتی جارہی تھی اور نصیحت تواسے زہر لگتی تھی۔ عائشہ فری ہو تو گیم میں آجاؤ ۔۔۔"اس نے عائشہ کو میسج کیا آج وہ کافی بور ہورہی تھی۔
ارے نہیں یار میں نہیں آسکتی ابھی گھر کا کام کررہی ہوں میں "عائشہ نے قریب پندرہ منٹ بعد جواب دیا تھا۔۔۔" اچھا ٹھیک ہے.. !"اس نے فورا سے جواب دیا۔اور گیم کھیلنے میں مصروف ہوگئی۔۔ اچانک اسکے نمبر پر کوچنگ کے سر علی کی کال آنا شروع ہوگئی۔ "اف کیا مصیبت ہے ساری گیم خراب کردی..اس نےمنہ بنا کر گیم بند کی اور کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگادیا۔ اسلام و علیکم سر...!!! وعلیکم سلام حیات بیٹا کیا آپ کل فری ہو۔۔؟؟ سر نے فوراً بات کہی تھی۔۔ کیوں سر کوئی خاص بات اس۔۔؟؟" نے سر کےسوال پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ کل تئیس مارچ کے حوالے سے ایک پروگرام منعقد کیا ہے چاہتے ہیں۔کہ تم بھی آؤ۔۔ آہ۔۔۔۔۔سر میں امی سے پوچھ کر ہی جواب دے پاؤ گی. "ہمارے یہاں کسی بات کا انکار کرنا ہو تو صاف انکار نہیں کرتے بلکہ بات گھما پھرا کر اماں ابا یا مصروفیت کے سر ڈال دی جاتی ہے. "
"اچھا آپ پوچھ کے جواب دیجیئے گا۔"اور سامنے سے کال کٹ گئی . حیات فون رکھ کر اسٹڈی روم سے باہر آگئی امی امی امی۔۔۔۔۔ وہ پورے گھر میں شور ڈالے ہوئے تھی۔ کیا ہوگیا ہے کیا موت پڑھ گئی ہے تمہیں حیات۔۔؟ "جویریہ جو صحن میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہی تھی اس کی آواز پر سخت چڑھ گئی تھی۔۔.
تم اپنا منہ بند رکھو تمہیں منہ نہیں لگایا جب لگاؤ تب جواب دینا۔۔"اس نے انتہائی بدتمیزی سے اسے جواب دیا اور امی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی.. "عدنان صاحب سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ کے آخبار پڑھ رہے تھے۔اور آسیہ بیگم کپڑے الماری میں سیٹ کررہی تھی۔جب حیات ایک دم سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔ "امی مجھے بات کرنی ہے۔ اف حیات تمہیں تمیز ہے بابا بیٹھے ہوں تو طریقے سے اندر آیا کرو۔ (آسیہ بیگم کو اسکی اس حرکت پر سخت غصہ آیا تھا۔۔ اچھا نا امی آپ تو ہر بات پر ہی زلیل کردیتی ہیں..حیات کا، منہ بن گیا تھا۔۔" رہنے دو یہ بتاؤ کس کام کے لیے آئی ہو میڈم۔؟ "عدنان صاحب اسکی بات کاٹ کر بیچ میں بولے. "اس کے بابا اسے ہمیشہ پیار اور طنز دونوں صورتوں میں میڈم کہاکرتے تھے تو سمجھ نہیں آتا تھا کب طنز کر رہے ہیں۔ اور کب پیار .." بابا کل کوچنگ میں ایک تقریب ہے سر نے آنے کی دعوت، دی ہے اور کہاں کے فیملی سے اجازت لے لیں۔۔ تو اس میں کیا مسئلہ ہے چلی جاؤ تم۔۔ انہوں نے پیار سے کہا۔" پر کیوں بابا اجازت دے رہے ہیں "اسے لگا تھا انکار کردیں گے. کچھ دیر گھر پر نہیں ہوگی تو سکون ہوگا۔اسلیے جاؤ ہر وقت گھر پر بیٹھی رہوگی تو کمر میں پانی پڑجائے گا۔تمہارے گھوما پھرا کرو۔۔۔"آسیہ بیگم نے کافی اچھی خاصی کردی تھی اب وہ مزید یہاں روکتی تو یا لڑنے لگی جاتی یا رونے۔۔تو، منہ بنا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔'"
اور باہر آتے ہی اسے کے زاویے دیکھ اسکا مذاق بنانے کے لیے باہر بیٹھے تھے۔بھوکے شکاری جو شکار کی تلاش میں تھے۔ بہن بھائی بھی کسی چلتی پھرتی ذلت سے کم نہیں ہوتے ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا موقع دے دو بس انہیں۔۔۔ "وہ بنا رکے سیدھا کمرے میں اگئ تھی اور اپنے پیچھے آنے والی قہقہوں کی آواز وہ اب تک سن پارہی تھی۔ اف۔۔""سوتن اور دشمن ان کو نہیں چاہیے ہوتے جن کے ایسے بھائی بہن ہوں وہ سخت چڑ کر منہ پر تکیہ رکھے۔بیڈ پر لیٹ گئ تھی۔کچھ دیر یونہی سوچ بیچار کے بعد اسکی آنکھ لگ گئی۔۔
دروانے پر ایشال کے شور سے اسکی آنکھ کھلی تھی.وہ عمر سے کسی بات پر جھگڑ رہی تھی۔. اف..!!مجھے سمجھ نہیں آتا اس لڑکی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔اتنی بڑی ہوکر بھی اسے عقل نہیں آئی تو کسی کو نہیں آسکتی۔آدھی نیند سے بیدار ہونے کی وجہ سے وہ سخت چڑھ گئی تھی..۔ کیا مسئلہ ہے تم لوگوں کا کیا تم لوگ رات کو بھی چین نہیں کروگے.."وہ اٹھ کر سیدھا ان کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی.. تم اپنے کام سے کام رکھو.."ایشال اس وقت سخت غصہ سے لال ہورہی تھی۔ مجھے تمہارے معاملات میں داخل اندازی کرنے کا شوق بھی نہیں ہے۔تم کمرے کے باہر کھڑی ہوکر شور کررہی ہو.. "حیات کو اسکی بدتمیزی پر سخت غصہ آیا تھا۔. تو یہ ہمارا بھی کمرہ ہے صرف تمہارا نہیں ہے.."ایشال اب عمر کو بھول کر اس پر شروع ہوگئی تھی. تو پھر دوسرے پر اور خود پر ترس کھاؤ اور خود بھی اس کتے کے دماغ کو آرام دو اور ہمیں بھی انسان کا بچہ رہنے دو۔۔."حیات غصے سے سب بول کر کمرے میں چلی گئی تھی۔وہ مزید اسکے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی۔..
دن بد اس کے تیور تو بدلتے جارہے ہیں۔۔۔اسے تو بعد میں دیکھ لوگی اورایشال منہ بنائے سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔
وہ صبح سے کیچن میں کھانے پکانے میں مصروف تھی جب گیٹ پر بیل بجی۔۔ جاؤ دیکھو حیات گیٹ پر کون یے خالہ لوگ ہی نہ ہوں ۔۔"آسیہ بیگم نے کمرے سے نکل کر اسے کہا. وہ فورا گیٹ کی طرف بڑھی اور گیٹ کھول دیا۔ اسلام و علیکم خالہ جان۔۔!! خوش آمدید...!! وعلیکم اسلام حیات کیسی ہو۔۔"انہوں نے فراغ دلی سے اسے گلے لگایا۔اور اندر داخل ہوگئی۔ ارے سعدیہ.. ""خوش آمدید خوش آمدید آسیہ بیگم نے اگے بڑھ کر اسے گلہ لگایا...
اسلام و علیکم فرحت کیسی ہو۔؟.(حیات اگے بڑھ کر فرحت سے ملی.) فرحت سعدیہ کی چھوٹی بیٹی تھی۔اسد سب سے بڑا تھا۔شادی شدہ تھا اور اس کے بعد جنید۔"۔
میں ٹھیک ہوں حیات تم کیسی ہو.۔؟ "فرحت نےخوش اخلاقی سے پوچھا. ٹھیک ہوں.. اس نے بھی جواب دیا۔ ابھی وہ لوگ صحن میں بیٹھے ہی تھے.کہ جہانگیر صاحب اور عدنان صاحب بھی گھر میں داخل ہوئے..
رات کا کھانا کھا کر سب کچھ دیر تو باتیں کرتے رہے۔اور پھر سونے چلے گئے۔ کمرے میں لائٹ آف تھی۔اسلیے حیات صحن میں بیٹھ کر ہی بک پڑھ رہی تھی۔۔ کچھ دیر بک پڑھتے پڑھتے اس کا دھیان کتاب سے ہٹ کر میز پر رکھی چھڑی پر چلاگیا اسے سمجھ ہی نہیں آئی کب اس نے بک رکھ کر چھڑی اٹھالی تھی۔ ابھی وہ ایسے یہاں سے وہاں وہاں سے یہاں پھیر رہی تھی کہ اچانک سیڑھیوں سے اترتی فرحت کی نظراس پر پڑی "جسکی آنکھ پیاس لگنے کی وجہ سے کھل گئی تھی.. کیا کررہی ہو حیات۔۔۔!!!وہ پیچھےسےبھاگتی ہوئی اس کی طرف آئی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی یا شاید نہ کرتی اس نے اسکے ہاتھ سے چھڑی لے کر میز پر پھنیک دی۔۔"" کیا کررہی ہو حیات؟
کچھ بھی نہیں کچھ نہیں کررہی تھی میں۔۔"حیات نے ایک اطمینان کی نظر اس پر ڈالی.. تم چھڑی کے ساتھ کیا کررہی تھی." فرحت کی دھڑکن اب تک نارمل نہیں ہوئی تھی .. مجھے لگتا ہے تمہیں ڈرامے دیکھ دیکھ کرنے کی بھی عادت ہوگئی ہے.میں چھڑی کو صرف دیکھ رہی تھی.کیونکہ میز پر کوئی کیڑا دکھا تھا۔اور تمہیں پتا ہے مجھے کیڑے مکوڑوں سے ڈر لگتا ہے۔اسلیے جلدی میں چھڑی سے ہی ماردیا تو بس وہی دیکھ رہی تھی۔۔"حیات نے بڑی صفائی بات پلٹی تھی.اور ہاتھ پر اوپر کی طرف بنے نشان کو استین سے چھپادیا تھا جو اس بات کہ گواہ تھے کہ وہ چھڑی سے کیا کرنے والی تھی۔۔" اف حیات..!!اتنا سرد رویہ دن بدن عجیب ہو رہی ہو تم۔۔"خیر میں پانی پینے آئی تھی۔میں پی کر چلتی ہوں کمرے میں بہتر ہے تم بھی اب سوجاؤ.."وہ اسے ہدایت کرتے کچن کی طرف چلی گئی.. حیات۔۔۔!!! "وہ مہمان ہے تمہیں اس کے ساتھ جانا چاہیے تھا. یا شاید اب جانا ٹھیک نہیں. "اسے کرنےسے زیادہ کام کو سوچنے کی ایک بری عادت تھی. ہم کہہ سکتے تھی کہ وہ ایک اوور ٹھینکر لڑکی تھی۔۔"
آپ ہمیں آپنی پسند کے بارے میں بتائیں ہم آپ کے لیے اردو ڈائجیسٹ، ناولز، افسانہ، مختصر کہانیاں، ، مضحکہ خیز کتابیں،آپ کی پسند کو دیکھتے ہوے اپنی ویب سائٹ پر شائع کریں گے
Copyright Disclaimer:
We Shaheen eBooks only share links to PDF Books and do not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through world’s famous search engines like Google, Bing etc. If any publisher or writer finds his / her book here should ask the uploader to remove the book consequently links here would automatically be deleted.