تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی
مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا
تری داستاں کوئی اور تھی
مرا واقعہ کوئی اور ہے
جو دشمن سامنے نظر آتا ہے اس سے لڑنا آسان ہوتا ہے بانسبت اس دشمن نما دوست کے جو آستین میں سانپ بن کر بیٹھا ہوتا ہے، تاریخ گواہ ہے کے آج تک بڑے بڑے جنگجووں کو اگر شکستِ فاش ہوئی ہے تو محض اپنوں کی وجہ سے
آج بھی ہم نہیں جانتے کے بظاہر محبت سے پیش آنے والا انسان اپنے دل میں ہمارے لیے کیا کچھ لیے ہوئے ہے، حریم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا، بظاہر اس کی دوست نظر آنے والی فریحہ اس کی سب سے بڑی دشمن بن گئی تھی جس کا حریم کو اندازہ تک نہیں تھا
فریحہ کے دل میں موجود کینہ اور نفرت دن بادن بڑھتی جارہی تھی، اسے ہر صورت میں ارتضی اور حریم کو جدا کرنا تھا، اپنی اس نفرت میں وہ یہ تک بھول گئی تھی کے وہ کس شعبے سے تعلق رکھتی ہے، اور اگر بالفرض ارتضی حریم کو چھوڑ بھی دیتا تو کیا وہ فریحہ کا ہوتا
حریم آج صبح سے بہت خوش تھی کیونکہ پرسوں اس کے اور ارتضی کے نکاح کو پانچ سال ہونے والے تھے، یہ دن ہر سال اس کے لیے بہت سی خوشیاں لے کر آتا تھا کیونکہ ارتضی ہر ممکن کوشش کرتا تھا اس دن کو خاص بنانے کی
اسے یاد نہیں تھا کے ارتضی کو اس سے محبت کب ہوئی، کیونکہ جب سے اس نے ہوش سمبھالا تھا تب سے ہی وہ ارتضی کی اس محبت اور کئیر کو دیکھتی آئی تھی، عائشہ نے اسے بتایا تھا کے جب وہ پیدا ہوئی تھی تو اسے سب سے پہلے ارتضی نے دیکھا تھا، اس کا نام تک ارتضیٰ کی پسند پر رکھا گیا تھا
ارتضیٰ زین کو بھی اس کے پاس نہیں آنے دیتا تھا، ہر وقت اس کا سایہ بنا رہتا، سویرا اور ولید بامشکل اسے گھر لے کر جاتے تھے ورنہ اس کا بس چلتا تو ایک منٹ کے لیے بھی حریم سے الگ ناں ہوتا، عباد کے جانے کے بعد جس طرح ارتضی نے اسے سمبھالا
وہ سب لوگ ارتضیٰ کی دیوانگی سے واقف تھے، اسی لیے زین پرنیاں اور حرم مجتبی کے ساتھ ان کا بھی نکاح کر دیا گیا، ارتضی تو ہمیشہ سے ہی حریم کا تھا مگر پھر حریم کو بھی مکمل طور پر ارتضیٰ کے سپرد کر دیا گیا
فریحہ جو اس کا کھلتا چہرہ دیکھ کر جل بھن رہی تھی اس کے دماغ میں اس وقت زہریلی سوچوں کے جال بن رہے تھے اس نے سوچ لیا تھا کے وہ یہ دن ان دونوں کی زندگی کا سب سے بدتر دن بنا دے گی، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کے ہماری تدبیروں سے بڑھ کر اللّٰہ کی تدبیر ہوتی ہے
"حریم، تم نے کیا گفٹ لیا کمانڈر ارتضیٰ کے لیے" ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ حریم سے مخاطب ہوئی جو بیڈ پر لیٹی سونے کے تیاری کر رہی تھی
"گفٹ؟" اس نے تھوڑا سا اٹھ کر حیرانی سے اسے دیکھا کیونکہ آج تک ہمیشہ ارتضی نے اسے گفٹس دیے تھے اس نے تو کبھی ارتضی کو گفٹ نہیں دیا تھا
"ہاں گفٹ، کیوں کیا تم صرف لیتی ہو دیتی نہیں ہو؟" طنزیہ انداز میں بولتی وہ اسے تاسف میں گھیر چکی تھی
"ارتضیٰ کو مجھ سے گفٹ لینا نہیں پسند، وہ کہتے ہیں میں پرنسس ہوں اور پرنسس صرف تحفے قبول کرتی ہے دیتی نہیں ہے" اپنی سادگی میں وہ آرام سے اسے بتا گئی جبکہ فریحہ اس کی بات پر سیخ پا ہو گئی تھی
"ایسا تو سب کہتے ہیں مگر کتنا برا لگتا ہے کے ہم خود تو گفٹس لیتے رہیں جبکہ سامنے والے کو کچھ بھی ناں دیں" وہ آہستہ آہستہ اس کو اپنے مطلب کی طرف لارہی تھی
"تو، اب میں کیا کروں؟" معصوم سا چہرہ بنائے اس سے پوچھا
"کرنا کیا ہے، کل چلتے ہیں شاپنگ کرنے میں تمہیں بہت پیارا گفٹ دلواوں گی" شیطانی مسکراہٹ لیے کہا
"مگر سر مان جائیں گے؟" ان کی کلاس تھی اسی لیے اسے ڈر تھا ناجانے سر جانے دیں یا نہیں
"دے دیں گے، ویسے بھی کچھ ہی دن ہیں ہمارے کیڈیٹس کی حثیت سے، پاس آوٹ تک کھل کر یہ دن جی لیں" وہ لوگ سینئر تھے اور دو ماہ میں ان کی پاس آوٹ کی تقریب تھی اکیڈمی میں سینئرز کو فریشنرز کی نسبت آزادی حاصل ہوتی تھی، پہلے سال انہوں نے بہت سختیاں برداشت کی تھی مگر اب وہ اپنا بدلنے نئے آنے والوں سے لے رہے تھے
"اوکے" وہ کہتے خاموشی سے لیٹ گئی، تمام فکروں سے دور وہ آنے والے حسین کل کے خواب دیکھ رہی تھی جبکہ کوئی اس کے اس حسین کل کو تباہ کرنے کی سازش کرنے میں مگن تھا
اگلے دن کلاس کے بعد انہوں نے اکیڈمی سے باہر جانے کا پلان بنایا تھا، کلاس لے کر وہ چینج کرتے باہر نکلی، فریحہ اسے لیے اکیڈمی سے کچھ دور موجود مال میں آگئی، فریحہ اسے ایک شاپ سے دوسری شاپ میں گھما رہی تھی
اس نے ایک خوبصورت سی واچ پسند کی تھی ارتضیٰ کے لیے، وہ لوگ واپس جانے لگے جب فریحہ اسے وہاں رکنے کا کہہ کر واپس اندر چلی گئی، اور اس سے چھپ کر دوسرے دروازے سے نکل کر وہ واپس اکیڈمی چلی گئی
حریم کافی دیر اس کا انتظار کرتی رہی مگر وہ واپس نہیں آئی رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تو حریم نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے، ٹیکسی لے کر وہ اکیڈمی کی طرف روانہ ہوئی، راستے میں ایک سنسان سڑک پر کچھ لوگون نے ٹیکسی رکوائی
وہ باہر نکلی تو وہ چھے سات آوازہ لڑکے تھے جو شاید شرارت سے ان کی گاڑی رکوا گئے تھے، اس نے باہر نکل کر ہمت سے ان سے پوچھا، آخر وہ ایک آرمی آفیسر تھی، مگر افسوس اس وقت اس کی گن اس کے پاس نہیں تھی
اسے دیکھتے ان لڑکوں کی نیت میں فتور آیا تھا، یا شاید انہیں اسی لیے بھیجا گیا تھا اس میں کچھ تو راز تھا، وہ قدم با قدم اس کی طرف بڑھنے لگے، اگر ایک یا دو ہوتے تو شاید وہ ان کا مقابلہ کر لیتی مگر وہ ایک چھوٹی سی جان ان سب سے اکیلے نہیں لڑ سکتی تھی
اس نے الٹے قدموں بھاگنا شروع کر دیا، وہ لڑکے بھی اسے بھاگتا دیکھ اس کے پیچھے بھاگے، بھاگتے بھاگتے سڑک پر اس کے پاوں کے نیچے پتھر آیا جس پر وہ بری طرح نیچے گری تھی، وہ لڑکے ہنستے ہوئے اس کے سر پر کھڑے تھے
ان میں سے ایک نے بڑھ کر اسے ہاتھ لگانا چاہا جس پر حریم نے اس کے ہاتھ کو ہٹاتے اس کے منہ پر مکہ مارا اچانک حملے پر وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا، غصے سے اسے گھورتے وہ دوبارہ اس کی طرف بڑھا، پیچھے سے دو تین لڑکے اور ایک ساتھ آئے تھے
"مجھے مارے گی ۔۔۔۔" گالی نکالتے ہوئے وہ سب حریم کی طرف بڑھے مگر اس سے پہلے کے اسے ہاتھ لگاتے ان چاروں کے ہاتھ دو دو مضبوط ہاتھوں نے تھامے تھے
حریم نے سر اٹھا کر دیکھا تو موحد اور ارتضی اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے تھے ارتضی نے ایک ایک مکہ ان دونوں لڑکوں کے مارا اس کے ہتھوڑے جیسے ہاتھ کا مکہ کھاتے ان کے منہ میں خون کا ذائقہ گھلا تھا،
موحد نے بھی باقی دونوں کے پنچ مار کر انہیں گرایا، وہ دونوں شیر بن کر جھپٹے تھے ان سب پر، کچھ ہی دیر میں وہ انہیں مار مار کر ادھ موا کر چکے تھے، ارتضی کے سر پر خون سوار تھا، وہ ان سب کی جان لینے کے در پے تھا
"میری پرنسس کو ہاتھ لگاو گے تم لوگ، ان کی طرف گندی نظر بھی کیسے ڈالی تم سب نے، میں جان سے مار ڈالوں گا تم سب کو" وہ پے در پے ان سب کو مار رہا تھا
"سر، سر پلیز آپ حریم کو دیکھیں، میں ان کو سمبھالتا ہوں" موحد نے اسے تھام کر روکنا چاہا جو کچھ ہی پلوں میں ان سب کو ادھ موا کر چکا تھا
" سر پلیز" موحد نے ایک دم اسے جھٹکا دیتے سیدھا کیا جس پر اس نے مڑ کر حریم کو دیکھا، حریم ان دونوں کو دیکھ کر ضبط کھوتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی، عورت چاہے کسی بھی شعبے سے ہو عزت کے معاملے میں وہ بہت حساس ہوتی ہے
"پرنسس" ارتضی خود کو چھڑاتا جلدی سے اس کے پاس آیا، اس نے تو کبھی اپنی پرنسس کو گرم ہوا تک نہیں لگنے دی تھی تو اب یہ سب کیا ہونے جارہا تھا
"ارتضی" ارتضی نے اسے تھام کر کھڑا کیا تو وہ سسکتے ہوئے بولی
"ارتضیٰ کی جان، میرا بچہ، پلیز مت روئیں سویٹ ہارٹ، مجھے معاف کر دیں، میں لیٹ ہو گیا ، معاف کر دیں" ارتضی دیوانہ وار اس کے چہرے کے ہر نقش پر اپنا احساس چھوڑ رہا تھا جان نکلنا کسے کہتے ہیں وہ کچھ لمحوں میں سمجھ گیا تھا
"آپ، آپ یہاں کیسے آئیں" ارتضیٰ نے اسے اس ویران جگہ اکیلے دیکھ کر پوچھا جس پر اس نے اسے ساری بات بتا دی، ارتضی جانتا تھا یہ گھٹیا حرکت فریحہ ہی کر سکتی وہ کوئی بچہ نہیں تھا جو فریحہ کی نظروں اور حرکتوں کو سمجھ ناں پاتا
"آپ اور موحد بھائی یہاں کیسے؟" کچھ دیر بعد حریم کے حواس بحال ہوئے تو اس نے پوچھا انکا اس طرح آنا کوئی اتفاق نہیں تھا
موحد کو فریحہ کا اس سے ملنا یاد آیا، وہ اکیڈمی سے ہوسٹل کی طرف جارہا تھا جب اسے فریحہ سامنے سے آتی نظر آئی، وہ وہاں سے گزرنے کی بجائے اس کے پاس آیا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا
"کیا ہوا فریحہ، آپ پریشان لگ رہی ہیں؟ سب ٹھیک ہے؟" موحد اس کا چہرہ دیکھتے بےساختہ پوچھ گیا
"وہ، وہ کیڈٹ موحد، میں اور حریم مال تک گئیں تھیں، مگر جب واپس آنے لگے تو وہ ناجانے کہاں چلی گئی واپس بھی نہیں آئی" اپنے چہرے پر مصنوعی فکر سجاتے اس نے اسے ساری رداد سنائی، موحد پریشانی سے اسے دیکھتا باہر کی جانب بڑھا
اس نے حریم کو بہن کہا ہی نہیں مانا بھی تھا، حریم کا معصوم چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا، اگر وہ کسی مشکل میں پھنس جاتی تو، اس کے جاتے ہی فریحہ مسکرا دی، اس کا ارادہ کچھ دیر بعد ارتضی کو بتانے کا تھا تاکے وہ جب حریم کو ڈھونڈنے جاتا اسے موحد کے ساتھ دیکھ پاتا
اس نے آنے سے پہلے کچھ لڑکوں کو پیسے دیتے حریم کے پیچھے بھیجا تھا، موحد وہاں سے نکل کر باہر آیا تو سامنے سے ارتضیٰ آتا دکھائی دیا، اس نے جلدی سے ارتضی کو حریم کے غائب ہونے کا بتایا جس پر وہ دونوں بنا وقت ضائع کیے اسے ڈھونڈنے نکلے تھے
اکیڈمی کی طرف آتی سڑک پر آئے تو انہیں دور ایک سنسان جگہ پر کچھ لڑکے دکھائی دیے، اس وقت اس سڑک پر ان لڑکوں کا ہونا عجیب تھا تب ہی وہ لوگ گاڑی سے نکلے ، وہاں بیٹھی لڑکی پر انہیں حریم کا گمان ہوا تھا سو اسے بچانے کے لیے اس کے پاس آگئے
"چلیں سر، ان سب کو میں پولیس کے حوالے کر آوں، آپ کیڈیٹ حریم کو لے کر اکیڈمی جائیں" موحد ان لڑکوں کو دیکھتا ہوا بولا جو کچھ دور زمین پر گرے ہوئے تھے
"اوکے، ویسے تھینک یو موحد، مجھے وقت رہتے اگاہ کرنے کا، میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا" ارتضی موحد سے بات کر رہا تھا جب اچانک ایک گاڑی آئی جس میں نے تین لڑکے اترے، جلدی جلدی ان سب کو اس میں بیٹھاتے وہاں سے فرار ہوگئے،
انہوں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی مگر کچھ فاصلہ ہونے کی وجہ سے وہ سب بھاگنے میں کامیاب ہو گئے ویسے بھی ان کے لیے ارتضی کا سکھایا گیا سبق ہی کافی تھا، وہ دونوں حریم کو لیے گاڑی کی طرف بڑھے
"پرنسس دوبارہ آپ مجھے بتائے بغیر کہیں نہیں جائیں گی، اوکے" ارتضی حریم کی حالت کی وجہ سے پیچھے اس کے ساتھ بیٹا تھا جبکہ موحد گاڑی چلا رہا تھا تب ہی ارتضی اس کا ہاتھ تھامتے بولا
"سوری ارتضیٰ" معصوم سا چہرہ بنائے اس کی طرف دیکھا، اسے پتا تھا غلطی اس کی ہے، ارتضی کو اب بس کسی بھی طرح فریحہ کو حریم سے دور رکھنا تھا، جو اس کی معصوم سی پرنسس کو نقصان پہنچانا چاہتی تھی
سویٹی کی برتھڈے کے اگلے دن ہی وہ سب لوگ کمراٹ آگئے تھے، حوزان کا ضروری کیس تھا جس کی وجہ سے وہ جا نہیں سکا تھا، حسال اور بہرام بھی آفس کی وجہ سے نہیں آسکے، انہیں دو دن بعد آنا تھا، مگر سویٹی کو تو گاوں جانے کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا
اب بھی دو دن سے وہ لوگ کمراٹ آئے ہوئے تھے، اور وہ مسلسل کٹورہ جھیل جانے کی ضد کر رہی تھی، وہ جھیل صرف آب اور دلکش کی ہی پسندیدہ نہیں تھی بلکہ ان کی اولاد بھی اب اس کے نقشِ قدم پر چل نکلی تھی
سویٹی شاہ زیب کو کہہ رہی تھی کے وہ اسے کٹورہ جھیل لے جائے مگر شاہ زیب کو ایک ضروری جرگے کے سلسلے میں جانا تھا سو اس نے انکار کر دیا، مگر اس کی ضد پر اس نے اسے ڈرائیور کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی
وہ ڈرائیور کے ساتھ وہاں آتو گئی تھی مگر اسے حسال، حوزان ، بہرام اور داہیم کے بغیر بلکل مزہ نہیں آرہا تھا، کچھ لمحے وہاں کی خوبصورتی سے مبہوت رہنے کے بعد وہ واپسی کے لیے اٹھ گئی، اس سے پہلے وہ اوپر سڑک پر جاکر گاڑی میں بیٹھتی کسی وجود نے اس کا راستہ روکا تھا
بہادر خان سویٹی کے پل پل کی خبر گوہر خان کو دے رہا تھا، جب سے گوہر خان کو پتا چلا تھا کے سویٹی کمراٹ آرہی ہے اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اسے کسی بھی طرح سویٹی سے ملنا تھا
"ہیلو بہادر خان؟ بولو کیا خبر ہے؟" آج صبح گوہر خان نے بہادر کو فون کیا تو دوسری طرف سے سنی جانے والی خبر سن کر اس کا دل باغ باغ ہوا تھا
"خان، خانم آج کٹورہ جھیل دیکھنے جارہی ہیں" بہادر خان نے آرام سے اسے اس کے مطلب کی خبر دی
"کس کے ساتھ جارہی ہے ہماری خانم؟" چہرے پر چمک لیے سنجیدگی اور بےتابی سے پوچھا
" معلوم نہیں خان، مگر شاید اکیلی کیونکہ شاہ زیب خانزادہ ابھی ابھی کہیں گئے ہیں، اور ان کے گھر میں فلحال کوئی مرد نہیں" بہادر خان یہ ساری خبریں باتوں باتوں میں کبھی ڈرائیور تو کبھی چوکیدار سے پوچھ لیتا تھا
"ہممم، ٹھیک ہے، " گوہر خان نے ہنکارا بھرتے فون بند کر دیا
"تو اب آپ سے دوبارہ روبرو ملنے کا وقت آگیا ہے خانم" سامنے لگے شیشے میں دیکھتے گوہر خان نے خود سے سرگوشی کی تھی
وہ اسی وقت سوات سے کمراٹ کے لیے روانہ ہوا تھا، اور تقریباً دو گھنٹے میں وہ کٹورہ جھیل پہنچ چکا تھا، گاڑی سے اترتے نیچے نظر دوڑائی تو سویٹی پتھر پر بیٹھی تھی، ہلکے گلابی رنگ کے لباس پر کالی چادر اوڑھے وہ دور سے ہی دیکھنے والوں کو متوجہ کر رہی تھی حالانکہ کے اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا
گوہر خان وہاں سے اتر کر نیچے آیا، وہ شاید واپس جانے کا ارادہ رکھتی تھی جب ہی گوہر خان اس کے سامنے آتے اس کا راستہ روک گیا
"پخیر راغلے خانم، کیسی ہیں آپ؟" اس کی ہری جھیلوں میں جھانکتے وہ بڑی محبت سے بولا تھا
"آپ، آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" سویٹی اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوئی تھی ناجانے کیوں یہ شخص اس کے پیچھے پڑ گیا تھا
"اوہ تو آپ نے ہمیں پہچان لیا، بھئی بھول بھی کیسے سکتی ہیں، ہم بھولنے والی چیز ہی نہیں ہیں، اور جہاں تک رہی یہاں آنے کی بات تو ہم یہاں آپ سے ملنے آئے ہیں" مسکراتے ہوئے وہ ایک غرور سے بول رہا تھا جبکہ سویٹی کو وہ اس وقت زہر لگ رہا تھا
"دیکھیں، ہم شادی شدہ ہیں، سو آپ ہمارا پیچھا چھوڑ دیں" سویٹی نے سخت آواز میں کہا، اس نے سوچ لیا تھا کے وہ اب ڈرے گی نہیں ورنہ اس شخص کو مزید ڈھیل ملے گی
"شادی شدہ نہیں خانم، صرف نکاح ہوا ہے، اور کوئی بات نہیں جس طرح نکاح ہوا ویسے ہی ٹوٹ بھی جائے گا" اس کی بات پر بھی گوہر خان کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا
"آپ کا دماغ خراب ہے، آپ کی ہمت کیسے ہوئی اتنی گھٹیا بات کرنے کی، میرے خان کو پتا چل گیا تو وہ آپ کو جان سے مار دیں گے" یہ شخص اب اپنی حد سے بڑھ رہا تھا، اسے اس کے خان سے الگ کرنے کی بات کر رہا تھا
"ناں ناں خانم، آپ کا خان صرف میں ہوں، اگر سردار حوزان خاقان ہمارے راستے سے نہیں ہٹا تو وہ جان سے جائے گا" سویٹی کے حق سے میرا خان کہنے پر گوہر خان کو آگ لگ گئی تھی
"چٹاخ، آپکی ہمت کیسے ہوئی میرے خان کے بارے میں ایسا سوچنے کی بھی، اگر میں چپ ہوں تو اسے میری کمزوری مت سمجھیں، اگر کسی نے، کسی نے بھی میرے خان کی طرف بری نظر اٹھائی تو مجھ میں اتنی ہمت ہے کے اس کی آنکھیں نکال سکوں " سویٹی نے زوردار تھپڑ گوہر خان کے رسید کیا تھا، اس نے اس کے خان کو مارنے کے بارے میں سوچ بھی کیسے لیا
وہ اس کے ایک طرف سے ہوکر نکلتی چلی گئی جبکہ گوہر خان ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھیں پل بھر میں آگ کی طرح دھکنے لگی تھیں، سویٹی نے اس پر ہاتھ اٹھا کر اس کی مردانگی پر وار کیا تھا ایک خان ہوکر اس نے ایک چھوٹی سی لڑکی سے تھپڑ کھایا
"اس تھپڑ کا حساب آپ کو چکانہ ہوگا خانم، اور یہ قیمت آپ کا خان چکائے گا، اس کی زندگی کے دن گننا شروع کر دیں، اور خود کو میری زوجیت میں دینے کی تیاری کر لیں خانم" دانت پیستے اس نے سویٹی کو جاتے دیکھ سرگوشی کی تھی، وہ چاہتا تو ابھی اس سے بدلہ لے سکتا تھا مگر وہ سمجھ گیا تھا کے سویٹی کی جان کس میں قید ہے
سو اب وہ اس کی کمزوری پر وار کرتے اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا، وہ اس وقت غلط سہی ہر فرق بھول گیا تھا، اسے اب بس کسی بھی طرح سویٹی کو حاصل کرنا تھا، حوزان کو مار کر اس کا مان توڑنا تھا، وہ مان جو اسے اپنی محبت پر تھا
"ہیلو، ہاں پینتھر بولو؟" لیپرڈ اور سوان آج اپنے پلان پر عمل درآمد کرنے کی تیاری کر رہے تھے جب پینتھر کا فون آیا
" راجہ کیسا؟ (بولا کچھ اس نے)" اس نے کوڈ ورڈ یوز کرتے پوچھا کیونکہ دشمنوں کے بیچ رہتے انہیں اختیاط کرنی تھی
"ہاں اس نے اڈریس بتا دیا، ہم لوگ آج حملہ کرنے والے ہیں" لیپرڈ نے اسے پلان سے آگاہ کرتے بتایا
"کہاں جارہا ہے راجہ؟(کہاں حملہ کرنا تم لوگوں نے؟)" دوبارہ اسی انداز میں پوچھا
"شہر سے باہر جاتی سڑک پر ایک بلڈنگ ہے، جو ابھی زیرِ تعمیر ہے، وہیں جانا " لیپرڈ نے سوان کو دیکھا جو مزے سے ٹی وی چلائے انڈین ڈرامہ دیکھ رہی تھی
"ہممم میں فارغ ہوکر ملنے جاوں گا راجہ سے، اسے کہنا مجھے فون کرتا رہے ( میں تمہارے بلاتے ہی آجاؤں گا، بس ایک سگنل دے دینا)" پینتھر پرسوچ انداز میں بولتا فون بند کر گیا
"او ہیلو میڈم، ہم تمہاری نانی کے گھر نہیں آئے جو مزے سے ٹی وی دیکھ رہی ہو، ہمیں اٹیک کرنا ہے کچھ دیر میں" لیپرڈ نے سوان کے پاس آتے اسے گھرکا تھا
"سر کیوں سٹریس لے رہے ہیں، ناجانے پھر موقع ملے ناں ملے سوچا یہ لاسٹ ایپی دیکھ لوں" شرارت سے کہتے وہ نظریں دوبارہ ٹی وی پر مرکوز کر گئی
"ٹھیک ہے، تم آخری ایپی دیکھ لو، میں جارہا ہوں اکیلے" لیپرڈ غصے سے کہتا اپنے روم کی جانب مڑا
"میں اکیلا جارہا ہوں" اس کو متوجہ ناں ہوتا دیکھ اونچی آواز میں بولا
"اوف او، آپ ناں سر، چلیں، چلتے ہیں میں بھی ریڈی ہوں اور ساری تیاری بھی کر چکی ہوں" سوان غصے سے ٹی وی بند کرتے اٹھ کر اس کی جانب آئی
وہ دونوں اپنے اپنے روم میں بڑھے کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں ماسک سے ڈھکے چہرے اور پورے بلیک لباس پہنے باہر نکلے تھے سوان نے اوپر عبایہ پہن لیا تاکے کسی کو شک ناں ہو، جبکہ لیپرڈ نے ماسک اتار کر جیب میں رکھ لیا
گاڑی میں بیٹھ کر وہ دونوں اس کھنڈر نما عمارت کے سامنے آئے تھے، یہ عمارت یوں محسوس ہوتی تھی جیسے برسوں پہلے کوئی اسے بنانا چھوڑ چکا ہو، وہ دونوں ماسک سیٹ کرتے باہر نکلے، آہستہ سے چلتے ہوئے اندر آئے
"سر، یہاں تو دیوار ہے" سوان نے سامنے ہر طرف دیوار دیکھ کر کہا، جبکہ ٹارگٹ یہیں شو ہورہا تھا
"یہ دیوار نہیں ہے، یہاں کہیں ناں کہیں کوئی بٹن ہوگا، چیک کرو" لیپرڈ نے کہتے خود بھی تلاشی لینی شروع کی،
" مگر سر یہاں تو کچھ نہیں، بس یہ ڈبہ سا لگا ہے، جیسے ہیمر سٹینڈ ہو" سوان نے ایک طرف لگے ایک چھوٹے سے ڈبے کو دیکھتے کہا
"نو سوان، اسے چھیڑنا مت، یہ ہیمر بوکس نہیں ہے، یہ اس دروازے کو کھولنے کی چابی ہے، میں اسے کھولتا ہوں تم میرے اشارہ کرنے پر گیس بم پھینکنا" لیپرڈ اس باکس کی طرف آتا ہوا بولا
اس نے اس ڈبے ہو ہلایا تو ایک دم سے وہ دیوار چاک ہوئی تھی، سوان نے جلدی سے گیس بم پھینک دے چاروں طرف گیس پھیل چکی تھی، وہ دونوں گن اٹھائے اختیاط سے اندر کی جانب بڑھے تھے
اور آتے ہی ڈیسک اور الماری کے پیچھے چھپ گئے، سامنے والے بھی کسی ناں کسی چیز کی اوٹ میں تھے، دونوں طرف سے کچھ کچھ دیر بعد فائر کی آواز گونجتی، مگر سب کے نشانے خطا ہورہے تھے
زین کو اپنوں پر گولیاں چلاتے بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا، وہ خاموشی سے گن نیچے کیے سائیڈ پر ہوگیا، اس سے نہیں ہونا تھا یہ سب کچھ، جبران نے غصے سے اسے سائیڈ پر ہوتے دیکھا، زین اس کا پلان خراب کر رہا تھا
مظہر ٹبیل کے نیچے سے چلتا ہوا سوان کے پیچھے آیا، سوان سامنے کی طرف دیکھتے فائر کر رہی تھی، اپنے پیچھے ہلچل محسوس کرتے اس نے فائر کرنا چاہا مگر مظہر اس کے ہاتھ پر گن مارتے اسے گن دور پھینک چکا تھا
"گن پھینک دو، تمہاری ساتھی ہمارے قبضے میں ہے" مظہر کی آواز پر لیپرڈ کی فائر کرتی بندوق خاموش ہوئی تھی، وہ ایک دم رکتے سوان کی طرف مڑا جو اب سامنے مظہر کے قابو میں تھی جس نے اسکی کنپٹی پر بندوق رکھی ہوئی تھی
"کیا لگا تھا تم لوگوں کو جبران نے کچی گولیاں کھیلی ہیں، اتنا آسان نہیں مجھے پکڑنا، اگر لڑکی کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو گن پھینک دو" جبران اسے دیکھتا تمسخر سے بولا
"گن پھینکو" لیپرڈ کو گن ناں چھوڑتے دیکھ وہ دہاڑا، لیپرڈ نے آہستہ سے گن پھینک دی، جبران قدم با قدم چلتا اس کے پاس آیا
" تم آئی ایس آئی والے خود کو سمجھتے کیا ہو؟ بہت تیس مار خان ہو؟ اصل میں تو تم لوگ بےوقوف ہو، میرے بچھائے جال میں پھنس گئے، میں نے ہی سانو کو تم لوگوں کو سچ بتانے کا کہا تھا، اور دیکھو تم دونوں یہاں آگئے؟" جبران عرف رام مکروہ مسکراہٹ لیے بولا
"اب تم دونوں میری قید میں رہو گے، جبکہ تمہاری جگہ میرا آدمی آئی ایس آئی میں شامل ہوگا" جبران نے مسکراتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا جہان زین کھڑا تھا، وہ کیا کرت کیا ناں کرے کی کشمکش میں تھا،
اس نے سوچا تھا وہ جبران کا دھیان بھٹکتے ہی ان آفیسرز کو بھگا دے گا، اور خود بھی بھاگ جائے گا، کیونکہ وہ نہیں کر سکتا تھا یہ سب، اسے نفرت تھی اس خون خرابے سے
گن پھینک دو رام، تمہارا کھیل ختم" ایک اجنبی آواز پر جبران نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں ایک اور نقاب پوش کھڑا تھا، سوان کا دھیان بٹتے ہی کہنی مار کر اسے دور کرتے گن چھین چکی تھی
"تم لوگ مجھے تو مار دو گے" رام آہستہ آہستہ پیچھے ہورہا تھا
"مگر اپنے ہی لوگوں کو کیسے مارو گے" اچانک اس نے زین کو کھینچ کر اپنے سامنے کیا تھا،
"چچچچ ایک شہید آفیسر کا بیٹا، ملک کا غدار بن گیا، اپنے دشمنوں کا ساتھ دے رہا تھا، مگر پھر بھی ہے تو تم لوگوں کے ملک کا، تم لوگوں کا بھائی، تم لوگ اسے تو نہیں مار۔۔۔۔ " ابھی اس کے الفاظ منہ میں تھے جب پینتھر کی گن سے نکلی گولی اسے چپ کرواچکی تھی