انگلیاں ٹاٸپ کر رہی تھیں ایک ایک لفظ انگلی کی پور کے نیچے دبنے کے بعد ابھر رہا تھا لفظ ابھرنا بند ہوۓ اور ایک آلے کی روشنی بند ہونے کے چند سکینڈز کے بعد کتنی ہی روشنیاں ابھر کر کتنی ہی آنکھوں میں لفظوں کا عکس دینے لگیں ۔۔۔۔
**********
” دیبا۔۔۔ دیبا ۔۔۔ بھٸ جلدی ناشتہ دو “
احمد نے ٹاٸ کی ناٹ کو درست کرتے ہو ہانک لگاٸ اور کرسی کھینچ کر اخبار کو سیدھا کرتے ہوۓ بیٹھ گیا ۔ معمولی سی نجی ملازمت تھی آفس دیر سے پہنچنے پر مالک سے سننی پڑی جاتی تھیں ۔
سامنے رکھے لکڑی کے میز پر کچھ رکھنے کی آواز پر اخبار کو نظروں کے سامنے سے تھوڑا پیچھے کیا تو جنت اپنے نننھے ہاتھوں میں پلیٹ تھامے میز پر رکھ رہی تھی ۔ یہ اس کی چوتھے نمبر والی بیٹی تھی اس کی چار بیٹاں اور ایک بیٹا تھا ۔ اور جنت سب سے چھوٹی تھی پانچ سال کی ہو چلی تھی ۔ تین بیٹیوں کے بعد اللہ نے بیٹا دیا تھا پھر جوڑی بنانے کی خواہش میں جنت آ گٸ ۔
” الے میری گڑیا بھٸ واہ آج ابا کو ناشتہ جنت کرواۓ گی “
احمد نے محبت سے آگے ہوتے ہوۓ اس کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑا اور میز پر رکھ دیا ۔ جنت مسکا دی آنکھیں چمک گٸیں ابا ہمیشہ لاڈ میں آ کر اسی کے لہجے میں اس سے بات کرنے لگتے تھے توتلا بولتی تھی ابھی تک بار بار چھوٹا سا دوپٹہ جو کل ہی دیبا نے پرانے دوپٹے سے کاٹ کر دیا تھا سر پر اور گلے میں درست کر رہی تھی بڑی بڑی گھنی پلکیں اوپر کو مڑی چمکتی معصوم سی آنکھوں کو اور پیارا بنا رہی تھیں ۔
”رخسار کے بابا آج تو دے جاٸیں نا شانزے کی فیس رو رہی دو دن سے اکیڈمی نہیں جا رہی “
دیبا نے پریشان سی صورت بناۓ احمد کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ۔ جب کے ہاتھ احمد کے سامنے میز پر ناشتے کے باقی لوزامات رکھ رہے ۔ شانزے ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی میٹرک میں ساٸنس رکھی تھی تو اکیڈمی میں جانا ضرورت بن گٸ تھی ۔
” دیکھو تمہیں کیا ضرورت تھی اسے اتنے مشکل مضمون پڑھوانے کی پتہ تو ہے کتنے اخراجات ہیں پہلے ہی اور اب ۔۔۔۔ “
احمد نے پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ غصے میں کہا پھر دیبا کی پریشان سی صورت دیکھے گہری سانس خارج کی
”اچھا آج اختر صاحب سے مانگتا ہوں پھر کچھ ادھار اچھا اب دیر ہو رہی ہے ناشتہ کرنے دو رونی صورت بناۓ مت دکھاٶ مجھے صبح صبح ، پہلے ہی طبیعت آج بوجھل سی ہے “
احمد نے بے زار سے لہجے میں کہا اور پراٹھے کی پلیٹ کو اپنی طرف کھسکایا ۔
*********
” نماز پڑھ رہے تھے شاہد ؟ “
نازلین اڑتی ہوٸ آٸ اور پاس بیٹھ گٸ ایک ٹہنی پر ۔ سر پر دوپٹہ ٹکا تھا اور لبوں پر مسکان تھی ۔
”ہاں تم نے کیا نہ پڑھی پگلی “
شاہد نے اڑتے ہوۓ گھوم کر ٹہنی پر اس کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ پوچھا تو وہ ہنس دی ۔ وہ چاشت کی نماز سے فارغ ہوا تھا ۔ جو نازلین پہلے ہی پڑھ چکی تھی ۔
”کیوں نہ پڑھی ابھی تو دعا کے ہاتھ چہرے پر پھیرے رخ تمھاری طرف کیا پر تم مگن بہت ہوتے ہو نا عبادت میں “
نازلیں نے محبت سے دیکھتے ہوۓ جواب دیا ۔شاہد ہنس دیا ہاتھ لمبا کیا اور سڑک پار لگی کیاری میں سے پھول توڑ کر نازلین کے درخت سے نیچے گرتے بالوں میں کان کے قریب اٹکا دیا ۔
”شاہد کہیں اور بسیرا کرتے ہیں نا اس برگد کے پیڑ سے دل اکتانے لگا ہے “
نازلین نے لاڈ سے کہا ۔ پھول کو ہاتھ سے پکڑے کان پر ٹکایا اور بے زار سی نظر سامنے بند کراینے کی دکان پر اور ساتھ ادھ تعمیر شدہ مکان پر ڈالی ۔
”ارے پگلی آج کیسی باتیں کر رہی ہے سو برس سے یہیں تو بیٹھے ہیں “
شاہد نے پچکارتے ہوۓ پوچھا ۔ وہ اب منہ کے زاویے بدل رہی تھی ۔
”بس کہیں ایسی جگہ جہاں یہ انسان نا بستے ہوں اب دیکھ نا یہاں تو قریب قریب کتنی آبادی ہونے لگی ہے یہ سامنے ایک دوکان بن گٸ یہ ایک طرف ایک مکان بننے لگا ہے “
نازلین نے ناک چڑھاتے ہوۓ کہا ۔ شاہد قہقہ لگا گیا ۔ چڑیاں بھک سے درخت پر سے اڑیں ۔
” پگلی ان کو ہم کونسا دکھیں ہیں جو تو الجھے ہے “
شاہد نے محبت سے سر پر چپت لگاٸ ۔ پر نازلین پھر بھی اداس تھی ۔
” پر مسٸلہ تو یہ بنے کہ ہم کو یہ دکھیں ہیں “
نازلین نے ٹھنڈی آہ بھری اور بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی ۔ برگد کے پیڑ پر ایک نظر ڈالی۔ اور پھر محبت سے دیکھتے شاہد پر ۔
*********
”تم آ رہی ہو یا نہیں “
موباٸل پر پیغام پڑھتے ہی سمیرا کی پیشانی پر پھر سے لکیریں سی بن گٸ تھیں ۔ بے چینی سے اردگرد دیکھا۔ اماں تو کچن میں ہی مصروف تھی صبح سے اور بڑا بھاٸ بھی آج وقت پر ہی کام پر چلا گیا تھا ۔
”نبیل کیسی باتیں کرتے ہو ایسے کیسے ملنے چلی آٶں بہت ڈر لگتا ہے بھٸ “
سمیرا نے پریشان سی صورت بناۓ جوابی پیغام ٹاٸپ کیا ۔ انیس سالہ سمیرا میٹرک کے بعد سے پڑھاٸ چھوڑے گھر بیٹھی تھی ۔ پچھلے سال ہی دوسرے نمبر والے بھاٸ نے جو دبٸ میں کسی ورکشاپ پر ملازمت کرتا تھا موباٸل بھیج دیا ۔ بس پھر کیا تھا موباٸل تھا اور سمیرا تھی بیلنس کی قلت رہتی تو فیس بک کے فری ہونے کے مزے تھے بس وہیں پر ایک دن نبیل سے دوستی ہو گٸ اور اتفاق ایسا وہ بس دو گھنٹے کے سفر کے فاصلے پر دوسرے شہر کا مکیں نکلا ۔
” میں نا جانوں کچھ محبت ہے محبت ہے کی گردان آلاپتی نا تھکتی ہے اور اب ملنے باری ٹھس ہو جاتی ہے “
نبیل کا خفگی بھرا پیغام تھا پھر تو موٸ سمیرا نے کتنے پیغام بھیج ڈالے ٹک ٹک کی آواز میں پر وہ تو اپنے نام کا ڈھیٹ تھا نا مانا ۔ بس ایک ہی رٹ لگاۓ ہوۓ تھا تمھارے شہر آیا ہوں صرف تم سے ملنے ۔ محلے سے باہر سنسان سی جگہ ہے برگد کے پیڑ کے پاس ایک آدھ تعمیر شدہ مکان ہے وہاں چلی آ ملنے پر سمیرا کا دل نہیں مانے تھا ۔ ایک خوف سا تھا جو بار بار روک رہا تھا ۔ ایسے کیسے ملنے واسطے چل دوں نا بابا نا ۔ پہلے رشتہ تو بھیج دے ۔
وہ دو بھاٸیوں کی اکلوتی بہن تھی ابا حیات نہیں تھے بڑا بھاٸ پاکستان میں ورکشاپ پر کام کرتا تھا اور چھوٹے کو دبٸ بھیجا تھا جس کی وجہ سے تین وقت کا گھر کا چولہا چلتا تھا اور اس کا جہیز کا سامان بنتا تھا ۔
*********
”اٹھ جا ابے کھول لے دوکان جا کر دن چڑھ آیا “
رضیہ نے چادر کھینچ کر اتاری ۔ بیتس سالہ حارث نے منہ کے زاویے بگاڑ کر ماں کی طرف دیکھا ۔ پیشانی پر بھی ناگواری کے بل پڑ گۓ ۔
”اٹھ جا کچھ تو کر لے کچھ تو کر لے ڈھنگ سے کیوں مونگ دلتا ہے مارے سینے پر دوکان ڈال دی ڈھنگ سے چلا لے “
رضیہ نے پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوۓ اونچی آواز میں کہا ۔ حارث غصے میں اٹھ بیٹھا اور سر کھجانے لگا ۔ تکیے کے نیچے سے موباٸل نکالا اور وقت دیکھا ساڑھے گیارہ کا وقت تھا ۔
”اچھا اچھا چلا جاتا ہوں کیا سر کھاتی رہتی ہے میرا “
وہ بدتمیزی سے چیختا ہوا اٹھا ۔ اور پاٶں میں چپل آڑستا بغلیں کھجاتا باتھ روم کا ٹوٹا سا دروازہ لگا کر اندر چلا گیا ۔ باہر نکلا تو قمیض پہن رکھی تھی ۔
” کہا ہے شادی کرا دے میری شادی کرا دے اس کی فکر نہیں کنوارا ہی بڈھا ہو جاٶں گا “
وہ پاٶں پٹختا اب باتھ روم سے باہر بنے چبوترے پر نل سے نکلتے پانی کے چھینٹے منہ پر مار رہا تھا ۔
”شرم کر لے شرم بڑی بہن طلاق لے کر گھر میں بیٹھی ہے تجھے دن رات خود کی فکر کھاتی ہے “
رضیہ نے ہاتھ نچا نچا کر لعن تان کی ۔
”ہاں تو کیا میرا قصور ہے نا کرتی شوہر سے بدکلامی نا وہ دھکے مارتا “
حارث نے ناگواری سے کہا اور کچے صحن کے ایک کونے میں پڑی ساٸیکل کو اٹھا کر باہر نکل گیا ۔
*********
”جنت ۔۔۔۔۔ جنت ۔۔۔۔ بیٹا “
دیبا جنت کو پکارتی متلاشی نظریں گھماتی گھر کے کھلے دروازے تک آٸ تو وہ باہر گلی میں کھیل رہی تھی ۔ سکول سے بارہ بجے ہی آ جاتی تھی محلے کے سکول میں جاتی تھی تو خود ہی واپس آ جاتی تھی ۔
”جنت لے جا پتی لے آ سر میں بے تحاشہ درد ہے آج تو چاۓ ہی پیوں گی تو ہی ختم ہو گا یہ نگوڑا درد “
دیبا نے پیسے اس کے ننھے سے ہاتھوں میں تھماتے ہوۓ کہا ۔اس کی بڑی بڑی آنکھیں خوشی سے چمک گٸیں ۔
” دی امی ابھی داتی ہوں “
وہ ہنستے ہوۓ پیسے پکڑ کر بولی ۔ تھوڑا سا بھاگی پھر جلدی سے واپس مڑی ۔
”امی پیسے بچیں تو کیا ٹافی لے لوں نا “
معصومیت سے سوال کیا ۔ دیبا نے غصے سے گھورا ۔
”نہیں بچیں گے پورے پورے ہیں بس پتی لے کر واپس آ جلدی “
دیبا نے چڑ کر جواب دیا تو اس کی آنکھوں میں چمکتے خوشی کے دہے بجھ سے گۓ ۔
*******
موباٸل کو منہ بسورے کھولا بار بار نبیل کا پیغام دیکھ رہی تھی پر وہ ناراض تھا تو کیسے کرتا بات۔
دل اداس سا ہوا انگوٹھا فیس بک پر سکرین کو اوپر کو دھکیلنے لگا ۔ تحریریں ہی پڑھ سکتی تھی بس بیلنس کے نام پر تو کبھی تیس کا لوڈ کروا بھی لیتی تھی تو نبیل کی آواز سننے کے چکر میں ختم کر ڈالتی ۔ بہت سے ناول والے پیجز کے پسند کے انگوٹھے کو نیلا کیۓ ہوۓ تھی ۔بس دن رات یہی تھی ایک واحد خوشی ۔
انگوٹھا تھم گیا تھا اور آنکھوں میں لفظ عکس بنانے لگے تھے ۔ کچھ تھا جو وہ الفاظ ذہن میں بننے لگے تھے ۔ گال تپنے لگے تھے ۔ چوری سے اردگرد دیکھا اور پھر نچلا لب دانتوں میں دباۓ پڑھنے لگی ۔
کوٸ کیفیت تھی عجیب سی جو سر کو چڑھ رہی تھی ۔ الفاظ ہی تھے پر ذہن میں تو جیسے برہنہ فلم چل پڑی تھی ۔ہر گندی چیز اچھی سی لگنے لگی تھی نبیل یاد آنے لگا تھا ۔ اس کی محبت اس کی باتیں سچنی لگنے لگی تھیں ۔ ملنے کی جو براٸ کچھ دیر پہلے دل کو نا بابا نا کہنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ اب ہاں ہاں کی آوازیں لگانی لگیں ۔
جلدی سے پیغام پر گٸ ۔ ہاتھ کانپ رہے تھے پر اب کپکپی کی وجہ کچھ اور ہی تھی ۔
”نبیل میں آ رہی ہوں اس مکان میں آ جانا“
پیغام لکھ کر گھٹنا بیڈ پر نچاتی اس کے جواب کی منتظر نگاہیں سکرین پر جماٸیں ۔
”جان آنکھیں بچھا کر بیٹھا ہوں “
کچھ دیر کے بعد کے جواب پر جیسے دل بلیوں اچھلنے لگا ۔ جلدی سے سیاہ حجاب زیب تن کیا اماں کو شازیہ کی طرف جا رہی ہوں کی ہانک لگاٸ ۔ اور گیٹ سے باہر نکل گٸ ۔
*********
”انتل پتی کا پیت دے دو تھوتا“
جنت نے دوکان کے کاونٹر کے سامنے اڑیاں اوپر کیے ہاتھ کاونٹر پر دھر کر دوکاندار سے کہا ۔ دوکاندار نے اخبار پر سے نظر ہٹاٸ جنت کی طرف دیکھا ۔
”بیٹا پتی تو ختم ہے میری دوکان پر “
دوکاندار نے نفی میں سر ہلاتے جواب دیا اور پھر سے اخبار کو جھٹک کر آنکھوں کے آگے سجا لیا ۔ جنت نے ہونٹ باہر نکالے ۔ اور گال پر انگلی رکھے سوچنے لگی ۔ پر پھر امی کے سر درد کے خیال سے ٹانگیں اچھال اچھال کر ہرن کے بچے کی طرح برگد کے درخت کے قریب کی دوکان کی طرف چل دی ۔ اچھلنے سے دوپٹہ بار بار گلے سے ڈھلک جاتا تو اٹھا کر پھر سے گردن کے گرد گھوما دیتی ۔
”شاہد او شاہد وہ دیکھ ننھی سی کلی “
نازلین نے گھوم کر شاہد کی توجہ ہرن کی طرح اچھلتی نظم گنگناتی جنت کی طرف دلاٸ ۔
شاہد نے ہاتھ کو ہوا میں اشارہ دیا قرآن خود بخود بند ہو گیا ۔
”نازلین انسانوں کے بچے کتنے پیارے ہوتے ہیں ہے نہ ؟ “
شاہد نے محبت سے ننھی خوبصورت بچی کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔ نازلین تو خود اس چھوٹی سی پری کو دیکھ کر کھوٸ کھوٸ سی بیٹھی تھی۔
”ہاۓ شاہد دل چاہے جا کر چوم لوں پر ڈر جاۓ گی اور اللہ کی نافرمانی بھی ہو جاۓ گی “
نازلین نے دل مسوس کر جواب دیا ۔ اور بازو دور تک لمبا کیے اس کے پاس سے گزار کر واپس لے آٸ ۔ جنت اب دوکان کے سامنے کھڑی تھی ۔کاونٹر چھوٹا تھا اس لیے ایک قدم اندر تھا ۔
”بھاٸ تاۓ کی پتی تا تھوتا پیت دے دو “
جنت نے دوکان کے اندر موباٸل سکرین پر سر گھساۓ حارث سے کہا ۔ وہ جو تحریر پڑھنے کے بعد جزبات کو قابو کۓ بیٹھا تھا اچانک یوں جنت کو دیکھ کر عجیب عجیب سے خیال ذہن پر غبار کی طرح چڑھنے لگے ۔ زینب کے معصوم مقدس چہرے کے بجاۓ اس کے ننھے سے جسم پر نظریں گڑنے لگیں ۔ تحریر میں موجود کرادروں کے رشتے کہاں یاد تھے بس ایک ہیجان سا تھا جو اب ذہن کو جکڑ چکا تھا ۔
جلدی سے کاونٹر پر ہاتھ دھرے گردن کو باہر نکالے اردگرد دیکھا اور پھر سے سیدھا ہو بیٹھا ۔
”ادھر آ پتی دوں تجھے “
آنکھیں اوپر کو چڑھنے لگی تھیں ۔ جبکہ جنت تو کاونٹر پر پڑے رنگ برنگی ٹافیوں سے بھرے ڈبے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ننھی ننھی معصوم سی آنکھوں پورے ڈبے کا عکس تھا ۔
”پتی دلدی دے دو امی تے سر میں درد ہے “
جنت نے معصومیت سے کہا جبکہ نظریں ڈبے پر ہی جمی تھیں ۔ جیسے دیکھ کر ہی سیر ہو جاۓ گی بد نصیب ننھی سی جنت ۔
”اچھا۔۔۔۔۔۔ “
حارث کے دماغ میں امڈتے خیال کے زیر اثر وہ جلدی سے اٹھا اور پتی کا پیکٹ اٹھا کر شاپر میں ڈالا
”یہ لے بات سن ٹافی چاہیے تجھے “
حارث نے شاپر جنت کو پکڑاتے ہو اس کے ہاتھ کو پکڑ کر گھن زدہ لہجے میں پوچھا ۔ جنت نے چہکتے ہوۓ سر کو زور زور سے ہوا میں مارا
”چل ٹھیک ہے جا اپنی امی کو پتی پکڑا کر آ جا کسی کو مت بتاٶ ۔۔۔۔ دس ٹافیاں دوں گا پوری بتایا تو پتہ چل جاۓ گا مجھے کوٸ ٹافی نا دوں گا “
حارث نے آنکھیں نچاتے ہوۓ کہا ۔ جنت کی خوشی تو دیدنی تھی چہکتے ہوۓ تیز تیز شاپر کو ہلاتی بھاگ گٸ گھر کو
**********
چار قدم تھے برگد کے درخت کی طرف بڑھتے ایک انیس سالہ اور ایک پانچ سالہ چار قدم بڑھ رہے تھے ۔ پھر ایک جگہ آ کر الگ سے ہو گۓ انیس سالہ قدم برگد کے درخت کے داٸیں طرف بنے مکان میں گھسے پر پانچ سالہ قدم درخت کے سامنے دوکان کی طرف گۓ ۔
”شاہد۔۔۔۔ دیکھ وہ پھر سے آ گٸ ہے کلی کیا کرنے کو چکر لگاۓ ہی جا رہی ننھی سی جان “
نازلین نے شاہد کو ٹہوکا جو ساتھ کے مکان میں داخل ہوتی سمیرا کو دیکھ رہا تھا ۔ شاہد نے ایک نظر جنت پر ڈالی پھر افسوس سے سر جھکا دیا
”نازلین ایک لڑکی گٸ ہے اس ویران سے مکان میں “
شاہد نے نازلین کی توجہ دلاٸ نازلین نے گردن کو لمبا کیا دیوار سے سر کو گھسایا اور پھر گردن کو واپس کیے خوف سے پھیلی آنکھیں لیے آٸ ۔
”شاہد لڑکا ہے ایک اس کے سینے سے لگی کھڑی ہے کم بخت “
نازلین کی آواز میں دکھ تھا ۔ دوکان کا شٹر زور سے اندر سے بند ہوا نازلین نے جھٹکا کھا کر اس طرف دیکھا ۔
”شاہد ۔۔۔۔ شاہد۔۔۔۔۔ کلی اندر ہے چھوٹے والی کلی وہ دوکان کے اندر وہ دوکاندار ۔۔۔۔۔“
نازلین کا سانس اٹک گیا تیزی سے اڑ کر گٸ شٹر میں گھسی پھر پھٹی آنکھوں سے واپس آٸ ۔
”شاہد ابلیس اس دوکاندار کے سر پر بیٹھا ہے ۔ ہنس رہا ہے لگاتار ہنس رہا گردن اکڑی ہوٸ ہے کلی کا منہ اس کے ہی دوپٹے سے باندھ رکھا ہے “
نازلین کی آواز کانپ رہی تھی ۔ پر شاہد کی حالت اس سے بھی پریشان حال تھی ۔
”نازلین ادھر والی کلی کے سینے پر بیٹھا ہے ابلیس قہقے لگا رہا ہے اینٹوں پر دھرے حجاب پر کچھ رنگین کپڑے بھی پڑے ہیں “
شاہد کا سر جھک گیا ۔ پر نازلین تڑپ کر مکان کی طرف بڑھی ۔ پھر اسی تیزی سے ہواٸیاں اڑاۓ چہرہ لیے آٸ ۔
”شاہد بچا لے نہ دونوں کو شاہد بچا لے خدا کا واسطہ ۔۔۔ “
نازلین زارو قطار رونے لگی کبھی اڑ کر دوکان کے بند شٹر میں گھس جاتی اور کبھی مکان میں شاہد کا بھی یہی حال تھا ۔
”شاہد مسل رہا کلی کو وہ ننھی بلک رہی ہے شاہد ابلیس قہقے لگا رہا ہے میں کیا کروں پاس جانے لگی تو دھاڑ پڑا مجھ پر جا یہاں سے جا اس وقت کوٸ نہیں بچا سکتا جنت کو “
نازلین نے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوۓ کہا ۔ پھر شاہد پر غور کیا تو وہ تو آخری سانسیں لے رہا تھا سینے پر وار تھا سیدھا ابلیس کا ۔
”شاہد ۔۔۔۔۔ یہ کیا ہوا “
نازلین کی ہولناک چیخ ابھری ۔
”گیا تھا مکان میں بچانے بڑی کلی کو وہاں دو ابلیس ہیں لڑنے لگا تو وار کر دیا بولے جا تیرا کیا کام خود کیا ہے دونوں نے بربادی کا سامان“
شاہد نے بمشکل الفاظ ادا کیے پھر آنکھیں موند لیں اور روشنی اوپر کو اٹھنے لگی ۔
”شاہد !!!!!!!!!!!“
فلک شگاف چیخ ابھری پھر نازلین آنکھوں آگ لیے دوکان کے شٹر میں گھسی پر کسی نے اتنی زور سے باہر پٹخا کہ برگد کے درخت میں آ کر ایسی لگی وہیں ڈھیر ہو گٸ ۔
بمشکل آنکھیں کھول کر دیکھا انیس سالہ قدم ڈگمگاتے سے برگد کے درخت سے دور جا رہے تھے ۔ پر یہ کیا بڑی کلی رو رہی تھی دھوکا دھوکا ۔۔۔۔۔ جسم سے پیار تھا بس
پھر کسی لڑکے کے قدم تھے وہ بھی جا چکا تھا ۔ نازلین کی آخری سانسیں تھیں بس ۔
دھندلہ سا نظر آ رہا تھا دوکاندار برگد کے درخت کے نیچے قبر کود کھود رہا تھا ننھی سی قبر اپنی جنت کی قبر ۔۔۔۔۔
ابلیس کے قہقے چاروں اوڑھ سے گونج رہے تھے ۔
ختم شد