"روحین۔۔۔"
معاذ کچن میں داخل ہوا تھا۔۔۔
"ارے بابا کیا جلدی ہے۔۔۔ باہر ہی آرہی ہوں۔۔۔"
"نہیں سب چھوڑو ابھی باہر چلو۔۔۔ روحین۔۔"
معاذ سب کے سامنے روحین کو لے آیا تھا۔۔۔
"معاذ بیٹا کیا ہوا ہے۔۔۔"
"موم ڈیڈ۔۔۔ آپ سب ابھی چل رہے ہیں۔۔۔ حیدر مینشن میں۔۔۔"
"معاذ۔۔ سب ٹھیک ہے آپ اتنا گھبرا کیوں رہے ہیں۔؟؟"
"روحین۔۔۔ابھی فون آیا تھا تمہارے ڈیڈ کا۔۔۔ رمیز چچا اور چچی کراچی سے واپس آرہے تھے جب۔۔۔ انکی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔۔۔"
"یا اللہ۔۔۔ چلیں ہوسپٹل۔۔۔ آپ۔۔"
روحین نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔
"روحین۔۔۔وہ دونوں کی دیتھ ہوچکی ہے۔۔۔ تم۔۔۔رومیسہ کو بتاؤ۔۔۔"
اور پیچھے کھڑی رومیسہ یہ خبر سن کر وہیں گر گئی تھی۔۔۔
"معاذ تم نے غلط سنا ہوگا بیٹا ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔۔؟؟"
"ڈیڈ۔۔۔ پلیز ملازمہ کو بلائیں وہ رومیسہ کو اٹھا کر لے جائیں کمرے میں۔۔"
"آپ اٹھا نہیں سکتے معاذ پلیز اٹھا کر ہمارے کمرے میں لے جائیں۔۔"
روحین نے ڈانٹ دیا تھا معاذ کو۔۔۔ معاذ نے ہچکچاتے ہوئے رومیسہ کو اٹھا لیا تھا اور اوپر اپنے بیڈروم میں لے گیا تھا۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"کچھ ہفتے بعد۔۔۔"
۔
روحین۔۔۔"
روحین چائے کا کپ رکھ کر معاذ کے پاس بیٹھ گئے تھی باہر لان میں صبح کے وقت وہ دونوں ایسے ہی وقت دیتے تھے ایک دوسرے کو باقی پورا دن مصروفیات میں گزر جاتا تھا روحین کا۔۔
رومیسہ کے لیے وہ اپنا آپ بھلا بیٹھی تھی پچھلے کچھ دنوں سے۔۔۔
۔
"رمیز چچا اور چچی کے جانے کے بعد کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا معاذ۔۔"
"روحین جانے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔پر کیا تم ایگری کرتی ہو جو فیصلہ تمہارا دادا جان نے لیا۔۔؟؟"
چائے کا کپ روحین سے لیکر ٹیبل پر رکھ دیا تھا معاذ نے اور اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر پوچھا تھا
"کیسا فیصلہ معاذ۔۔۔؟؟ ایم سوری میں کچھ زیادہ دھیان نہیں دے پارہی ہوں کچھ چیزوں پر۔۔۔"
"ہممم۔۔۔ تمہارے دادا جان نے سب پراپرٹی رومیسہ اور عاقب کے نام کردی ہے انکے والدین کے انتقال کے بعد۔۔۔۔ تم اور تمہارے باقی کزنز کا کیا۔۔؟؟
تم تو لاڈلی ہو نہ انکی۔۔؟؟"
معاذ کے چہرے پر نفرت سی ابھری تھی کچھ لمحے کو
"معاذ دادا جان کو میں جانتی ہوں ماں باپ کے جانے کے بعد وہ نہیں چاہتے کہ رومیسہ کو کوئی بھی غیر سمجھے۔۔۔ اب پراپرٹی اسکے نام پر چلی گئی ہے تو سب ہی عزت دیں گے چچا چچی والا مقام دیں گے۔۔۔ اور ویسے بھی مجھے جائیداد دولت روپے کی کیا ضرورت میرے پاس تم ہو نہ۔۔۔"
روحین نے اسکے گال پر بوسہ دے کر بہت محبت سے کہا تھا
۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔؟؟"
"دیکھ رہا ہوں ہر معاملے میں تم پوزیٹو دیکھتی ہو حالانکہ یہ سب باتیں اتنی پوزیٹو نہیں تھی روحین تمہارا بھی حصہ ہے۔۔۔جو تمہارا حق تھا میں خود بات کروں گا۔۔۔"
"نہیں آپ کسی سے بات نہیں کریں گے۔۔۔ میرے پاس آپ ہیں تو سب کچھ ہیں معاذ۔۔۔"
۔
ہاتھوں میں ہاتھ لئیے وہ دونوں وہاں گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے تھے بہت دنوں کے بعد۔۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"یو فوول اس نے منع کیا اور تم ہوگئے۔۔؟؟ تم سچ میں اتنے بیوقوف ہو معاذ۔۔؟؟"
"میں کچھ سمجھا نہیں ڈیڈ۔۔۔"
شہریار صاحب نے دونوں ہاتھ آفس ڈیسک پر مارے تھے
"روحین کے ساتھ شادی کا فیصلہ میں نے اس لیے لیا تھا کیونکہ شہرورز حیدر نے اپنی وصیت میں جائیداد کا 70 فیصد حصہ روحین کے نام کیا ہوا تھااور اب ایک دم سے سب کچھ کسی اور پوتی کے نام کردیا۔۔؟؟"
"پر ڈیڈ وہ بچی بھی تو یتیم ہوگئی ہے اور میں اس سب میں کیا کرسکتا ہوں۔۔؟؟ روحین نے منع کردیا ہے"
"وہ تو منع کرے گی ہی پاگ ہورہی ہے اس لڑکی کے پیچھے۔۔۔ کاش میں نے روحین کی جگہ اس لڑکی سے تمہاری شادی کردی ہوتی۔۔۔
معاذ تم جانتے ہو انکی جائیداد کتنی ہے۔۔؟؟ کتنی مالیت کی ہے۔۔۔"
معاذ تو والد کی بات سن کر حیران پریشان ہوگیا تھا
"کیا دیکھ رہے ہو۔۔؟؟ یو ایڈیٹ۔۔۔ جاؤ اپنی بیوی کو راضی کرو کہ وہ اپنا حصہ لے۔۔۔بلکہ 70 فیصد حصہ لے۔۔۔ معاذ روحین سونے کی چڑیا تھی اب اسکا حق اسکی کزن کو مل رہا یقین کرو میں پچھتانے پر مجبور ہورہا ہوں۔۔ کہیں یہ نہ ہو میرے غصے کا عذاب تمہاری بیوی کو دیکھنا پڑ جائے جاؤ اور مناؤ اسکو۔۔۔"
۔
"ڈیڈ۔۔۔؟؟ آپ تو روحین کو اپنی بیٹی مانتے تھے پھر اچانک سے۔۔۔؟؟"
"اچانک سے کچھ نہیں روحین کی پراپرٹی کی وجہ سے میں نے اتنی پروجیکٹ لے لئیے تھے آگے فیوچر پلاننگ کی ہوئی تھی بزنس پارٹنرشپ دلاور سے تھی اب وہ کیا دے گا پروفٹ میں۔۔؟؟
اس سے اچھا تھا تمہاری شادی رومیسہ سے ہوجاتی۔۔"
وہ اپنی فائل اٹھا کر اپنے کیبن سے چلے گئے تھے۔۔۔
۔
"فکر نہ کریں انکل۔۔۔ بہت جلدی آپ کے بیٹے کی شادی مجھ سے ہوگی۔۔۔"
رومیسہ جہاں چھپی ہوئی تھی وہاں سے نکل کر واپس اپنے کیبن میں چلی گئی تھی جلدی سے۔۔۔
۔
"روحین۔۔۔ اس سے کیسے بات کروں گا۔۔؟؟ کیا سمجھے گی وہ مجھے۔۔؟؟
کیا میری بات مان لے گی۔۔؟؟"
۔
وہ رومیسہ کو آفس کے اور کام دے کر گھر چلا گیا تھا بیوی سے بات کرنے۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"ایک پاؤں آگے کرنا ہے اس پر وزن زیادہ نہیں ڈالنا۔۔۔کچھ سیکنڈ کے بعد رائٹ والا
اوکے کم لیٹس سٹارٹ۔۔۔"
ڈاکٹر نیہا نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا
"میں۔۔۔میں خود سے کوشش کرنا چاہتا ہوں بنا کسی کا سہارا لئیے۔۔۔"
اسکے لہجے میں سختی انتہا کی تھی اس وقت
"کسی کا سہارا۔۔؟؟ ایم یور ڈاکٹر مسٹر ازلان۔۔۔ آپ سوفٹ لہجے میں بھی بات کرسکتے ہیں مجھے پسند نہیں ہے یہ سخت لہجے۔۔۔"
وہ بھی غصے سے کہہ کر جانے لگی تھی جب ازلان نے ہاتھ پکڑا تھا
"پلیز۔۔۔ نیہا۔۔۔ میں خود سے کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔"
"ہممم۔۔۔اوکے۔۔۔"
گہرا سانس بھر کے آہستہ سے کہا تھا انہوں نے۔۔۔
۔
اور ازلان نے پہلے دونوں ٹانگیں بیڈ سے نیچے رکھی تھی ابھی بھی وہ ہسپتال کے اس سپیشل وارڈ میں تھا
"سلولی سلولی زیادہ پریشر نہیں ڈالنا۔۔۔"
وہ دور کھڑی انسٹرکٹ کررہی تھی ازلان کو جو اپنی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔اور آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا تھا۔۔۔
مگر کچھ ہی سیکنڈ میں وہ نیچے گرگیا تھا جب لیفٹ ٹانگ پر تکلیف کیشدت زیادہ ہوئی تھی۔۔
"مجھ۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوپارہا۔۔۔"
ڈاکٹر نیہا نے اسکے کندھے سے پکڑ کر سہارا دیا تھا اور وارڈ بوائے کو اندر بلایا تھا جلدی سے جنہوں نے ازلان کو واپس لٹا دیا تھا
"مجھ سے نہیں ہو پارہا۔۔۔"
وہ مایوس ہوگیا تھا ٹانگ پر لگے سٹیچز سے خون نکلتے دیکھ کر
"آپ دونوں جائیں یہا ں سے ضرورت ہوئی تو میں پھر بلا لوں گی۔۔"
وارڈ بوائز کو بھیج دیا تھا روم سے اور ازلان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر واپس بیڈ پر لٹا دیا تھا
"ازلان۔۔۔"
"میں کچھ وقت اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔"
"زخموں سے خون نکل رہا ہے انہیں صاف کئیے بغیر میں کہیں نہیں جاؤں گی مسٹر۔۔۔"
وہ پاس بیٹھ گئیں تھیں ازلان کی ٹانگ کی پٹی کھولنے کے بعد بلڈ صاف کرتے ہوئے ازلان کی طرف دیکھا تھا
"تم نے کہا تھا تم نے پاکستان واپس جانا ہے اپنی فیملی کو ملنا ہے انہیں دیکھنا ہے اور شاید کسی سے بدلہ بھی لینا ہے۔۔۔ کیسے لو گے بدلہ جب تم خود چل نہیں پا رہے۔۔۔"
"کوشش کررہا ہوں۔۔۔ آپ کے سامنے کوشش کی ۔۔۔"
وہ بھی غصے سے چلایا تھا
"کوشش کررہے ہو ایک بار کوشش کی اور مایوس ہوگئے۔۔؟؟ یہ کیسی کوشش ہے ازلان۔۔؟؟ جو مایوس ہوتے ہیں وہ کبھی کوشش نہیں کرتے۔۔
اور جو کوشش کرتے ہیں مایوسی انکے پاس بھی نہیں بھٹکتی۔۔۔ تم کیسی کوشش کررہے ہو۔۔؟؟
بہنوں سے ملنے نہیں جانا۔۔۔؟؟ اپنے موم ڈیڈ سے ملنا چاہتے ہو تو مایوسی کو چھوڑ دو۔۔۔ آج پٹی کررہی ہوں اس لیے تمہیں یہ کوشش بھی اب کچھ دن بعد کرنی ہوگی تاکہ زخم نہ کھل جائیں۔۔۔یہ کچھ دن ہیں جن میں تم نے ڈیسائیڈ کرنا ہے ازلان مرتضی۔۔۔"
وہ وہاں سے چلی گئیں تھیں ازلان کو اکیلا چھوڑ کر۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"آپ کے سب فیصلے ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھے میں نے مگر یہ فیصلہ مجھے اچھا نہیں لگا حیدر صاحب"
ملازمہ دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر کمرے سے جیسے ہی باہر گئی تھی روشان بیگم نے اپنی بات مکمل کی تھی
"ہاہاہا اتنی ناراضگی۔۔؟؟ اور کونسا فیصلہ۔۔؟؟"
"ساری پراپرٹی فیکڑیز کارخانے سب کچھ رومیسہ اور عاقب کے نام کردیا۔۔؟؟
دلاور کو چھوڑیں پر اسکے بچے۔۔۔؟؟ روحین کا کیا۔۔۔؟"
"روحین کا سوچنے کے لیے اسکا باپ زندہ ہے اسکے سر پر باپ اور شوہر دونوں ہیں پر رومیسہ۔۔
اسکا باپ دنیا سے چلا گیا ہے بیگم۔۔۔"
انہوں نے تلخی سے کہا تھا
"مجھے کیوں لگتا ہے آپ نے روحین کو معاف نہیں کیا۔۔۔ یہ فیصلہ بھی ایک سزا کے تحت لیا آپ نے روحین کو دینے کے لیے۔۔۔"
بیگم کی بات پر حیدر صاحب نے اپنا چشمہ اتار کر انہیں دیکھا تھا
"اور میں اسے کیوں سزا دوں گا۔۔؟؟ وہ بھی میرا خون ہے میری لاڈلی ہے وہ۔۔۔"
"ازلان کا کوئی آتا پتہ نہیں آپ روحین پر غصہ نکالنا چاہتے ہیں حیدر میں جانتی ہوں آپ کو۔۔۔
مگر جو فیصلہ آپ نے غصے میں لیا ہے اسکے نتائج کہیں روحین کو بھگتنے نہ پڑ جائیں اگر کل کو اسے کہیں ضرورت پڑ گئی تو وہ کس کا منہ دیکھے گی۔۔؟؟"
"اسکا شوہر باپ سسر سب ہی بزنس مین ہیں روشان بیگم بس اب رومیسہ کے بارے میں سوچیں روحین اتنی سمجھدار ہے اگر اپنے فیصلے خود کرسکتی ہے تو اپنا اچھا بُرا بھی سوچا ہوگا اس نے ۔۔۔"
"اور آپ کہہ رہے تھے وہ لاڈلی ہے۔۔؟؟ اور یہ سخت رویہ اسکے لیے جو لاڈلی ہے۔۔؟؟
شہروز حیدر صاحب،،، آپ کے انصاف میں بہت تضاد دیکھائی دے رہا ہے مجھے،،،
میری دعا ہے آپ مستقبل میں کہیں پچھتائیں نہ اپنے اس فیصلے پر۔۔۔"
حیدر صاحب اپنی بیگم کو دیکھتے رہ گئے تھے وہ اس کمرے سے باہر چلی گئیں تھیں بات کرکے،،،
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"رومیسہ آفس جانا کوئی ضروری ہے تم آرام کرو کل سے آفس جانا بند۔۔۔"
"میں پاگل ہوجاؤں گی روحین گھر بیٹھے بیٹھے۔۔آفس اور معاذ۔۔۔میرا مطلب ہے آفس وہ واحد جگہ ہے جہاں کچھ گھنٹوں کے لیے سب بھول جاتی ہوں۔۔۔
امی ابو کا چہرے۔۔۔ میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔۔۔
وہ اتنی جلدی چلے گئے چھوڑ کر۔۔۔"
رومیسہ رونا شروع ہوگئی تھی
"رومیسہ۔۔۔ایم سووو سوری اگر یہی تمہاری مرضی ہے تو تم جاری رکھو آفس۔۔۔
رو رو کر تم نے کیا حال کرلیا ہے اپنا۔۔۔"
روحین خود بھی آبدیدہ تھی مگر رومیسہ کو چپ کروا رہی ھی اس سے دیکھا نہیں جارہا تھا رومیسہ کا یوں ٹوٹ کر بکھر جانا۔۔۔
"روحین میرا کوئی نہیں رہا امی ابو چلے گئے سب چلے گئے ایسا لگتا ہے سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔۔۔"
"اب میں ایک تھپڑ ماروں گی پاگل۔۔۔ ہم سب تمہارے اپنے ہی ہیں معاذ میں یہاں سب لوگ اور موم ڈیڈ دادا جان دادی ماں۔۔۔سب لوگ۔۔۔"
اس نے رومیسہ کو اپنے گلے سے لگا کر ہر طرح کا دلاسہ دیا تھا تسلی دی تھی اسے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"ڈاکٹر نیہا آپ کا شک ٹھیک تھا کوئی ہے جو فالو کررہا ہے جو نظر رکھے ہوئے ہے آپ لوگوں پر۔۔۔
اس لیے آپ کے لیے سیف نہیں ہے یہاں اس ہسپتال میں رہنا آپ پرائیویٹ اپنے اپارٹمنٹ میں رہ سکتی ہیں جہاں سیکیورٹی چوبیس گھنٹے حفاظت کرے گی آپ کی۔۔۔"
"میں اپنے پئشنٹ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔۔۔آپ پتا لگائیے کون ہے وہ۔۔۔؟؟
میں نہیں چاہتی کے میری وجہ سے میرے کسی مریض کی زندگی خطرے میں پڑے۔۔"
"ہم وہی کوشش کررہے ہیں آپ فکر نہیں کریں۔۔ آج شام تک آپ کو کچھ گارڈز بھی دہ دئیے جائیں گے ۔۔"
آفیسرز وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔
اپنا لیب کوٹ پہن کر ڈاکٹر نیہا بھی اپنے روم سے باہر آگئی تھیں اور سیدھا ازلان کے روم میں گئی تھی۔۔۔
جہاں کے منظر نے انکی دھڑکنیں روک دی تھی
گن مین ازلان پر پسٹل تانےکھڑا تھا۔۔۔
"جو کام گاؤں میں پورا نہیں ہوسکا وہ یہاں پورا کردیتے ہیں اب دلاور صاحب کا حکم ٹال بھی نہیں سکتے۔۔۔"
وہ فائر کرنے لگا تھا جب ڈاکٹر نیہا آگئی تھی اندر۔۔۔
"ڈاکٹر نیہا۔۔۔ ابھی باہر جاؤ۔۔۔آؤٹ۔۔۔"
ازلان جو ابھی تک رہ ایکٹ نہیں کررہا تھا اب ڈر سا گیا تھا جب اس گن مین نے پستول کا رخ ڈاکٹر نیہا کی طرف کردیا تھا
"کون ہو تم۔۔۔یہاں کیا کررہے ہو۔۔؟؟ازلان تم ٹھیک ہو۔۔؟"
وہ باہر جانے کے بجائے ازلان کی طرف بڑھی تھی
"نیہا باہر جاؤ تم ان سب میں نہ پڑو۔۔۔"
"ہاہاہاہاہا روحین کی محبت اتنی جلدی بھول گیا ناکام عاشق۔۔۔؟؟ نئی محبوبہ بنا لی۔۔؟؟ وہ بھی ڈاکٹر۔۔؟؟ ہوٹ ہے ویسے۔۔۔؟؟"
اس نے ڈاکٹر نیہا کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا اور ازلان اپنی جگہ سے اٹھ نہیں پایا تھا
"ہاتھ چھوڑ اسکا گھٹیا۔۔۔"
ازلان چلایا تھا وہ اتنی تکلیف میں بھی بار بار اٹھنے کی کوشش کررہا تھا
"تیرا وقت ختم ہوگیا ہے۔۔۔"
اس نے فائر کرنے کی کوشش کی تھی جب نیہا نے اسے پیچھے دھکا دہ دیا تھا اور ازلان کو سہارا دیا تھا۔۔۔
"چل پہلے یہ ڈاکٹر ہی سہی۔۔۔"
اس نے جیسے ہی فائر کی تھی ازلان نےنیہا کو پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی پر گولی لگ گئی تھی اسکو۔۔۔
"نیہا۔۔۔"
ازلان چلایا تھا نیہا کے زمین پر گرتے وجود کو دیکھ کر۔۔۔
"وہ بھی نیہا کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
"یہ ایک ہی تھا جسے اپنا سمجھنے لگا تھا اسے بھی چھین لیا۔۔۔
دلاور شہروز حیدر۔۔۔۔ میرا قہر قیامت بن کر ٹوٹے گا تم لوگوں پر۔۔۔ کسی ایک کو بھی نہیں بخشوں گا میں۔۔۔"
"نیہا۔۔۔"
اس ہسپتال کے کمرے کو آگ لگا دی تھی اس گن مین نے اور کھڑکی سے باہر بھاگ گیا تھا۔۔۔۔۔
"نیہا۔۔۔"
"ازلان۔۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔تم۔۔۔"
۔
نیہا کی آنکھیں جیسے ہی بند ہوئی تھیں ازلان نے اپنی پوری کوشش پوری ہمت سے نیہا کو اٹھا لیا تھا اپنی بانہوں میں اور آگ سے بچتے بچاتے باہر لے گیا تھا۔۔۔جہاں ہسپتال کا سٹاف اور سیکیورٹی کھڑی آگ بھجا رہی تھی
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"تمہیں آج کا دن ہی ملا تھا یہ سب کہنے کے لیے معاذ۔۔۔؟؟ اس لیے نہیں آئی تھی میں یہاں تمہارے آفس۔۔۔"
"تمہیں اب میری باتیں فالتو لگ رہی ہیں۔۔؟؟"
"تمہیں بھی تو آج کا دن فالتو ہی لگا نہ ڈیم اٹ ویڈنگ اینیورسری ہے آج ہماری۔۔
اور تم میری جائیداد جانے کے سوگ میں بیٹھے ہو۔۔۔"
"واچ یور ماؤتھ روحین۔۔۔ شوہر ہوں تمہارا کس لہجے میں بات کررہی ہو۔۔۔"
"یو نو وٹ معاذمیں ہی غلط ہوں جو یہاں تک چل کر آئی۔۔۔ تم سے بات کرنا ہی فضول ہے۔۔۔"
وہ چلائی تھی اور کیبن کے دروازے تک پہنچی تھی جب معاذ نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا
"فضول ہاں۔۔؟؟ فضول۔۔۔ تم کیا ہو۔۔؟؟ ایک اینیورسری بھولا ہوں اور تم نے مجھے میری اوقات دیکھا دی۔۔؟؟ مر نہیں گیا تھا وش کرنے ہی والا تھا پر تم ٹپیکل وائف کی طرح آفس تک آگئی۔۔؟؟ یو جسٹ۔۔۔"
جسٹ وٹ۔۔؟؟ عزت خراب ہوگئی ہے۔۔؟؟ ایم سوری مسٹر معاذ غلطی ہوگئی۔۔۔"
"تم نے مجھے بہت دس اپاؤنٹ کیا ہے روحین۔۔۔"
معاذ نمے سرگوشی کی تھی
"جیسے تم نے مجھے کیا معاذ۔۔۔۔۔"
۔
وہ آنسو صاف کرکے وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔
۔
۔
گاڑی فل سپیڈ میں چلاتے ہوئے وہ ہر سگنل کراس کرگئی تھی۔۔۔۔
اور اچانک سے ایک فلیش بیک اسے دیکھائی دیا تھا اتنے مہینوں۔۔۔ ہفتوں۔۔اتنے دنوں کے بعد وہ چہرہ اسے دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔
۔
۔
"شادی ہوجانے دو ہر دن خاص بنا دوں گا میری جنت۔۔۔۔ تمہاری سالگرہ سے لیکر ہماری ویڈنگ اینیورسری تک ہر ایک خاص دن بہت خاص طریقے سے منایا کریں گے۔۔۔
اس طرح کہ تم ناز کرو گی مجھ سے شادی کے فیصلے کو روحین۔۔۔۔"
"مجھے نہیں پتہ تھا مسٹر ازلان مرتضی آپ اتنے رومینٹک بھی ہیں۔۔۔"
"ابھی آپ ٹھیک سے جانی نہیں ہیں مجھے محترمہ۔۔۔آپ۔۔۔"
۔
۔
روحین کی گاڑی کو سامنے سے آتی گاڑی کی ٹکر لگنے پر وہ اپنی کھوئی دنیا سے واپس آئی تھی۔۔۔
گاڑی لین سے نیچے اتر گئی تھی۔۔۔ وہ کچھ دیر میں پٹرول لیک ہونے پر گاڑ ی میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔
۔
"ازلان۔۔۔۔مرتضی۔۔۔۔"
۔
وہ نام اسکے لبوں سے ایک تکلیف دہ آہ کی صورت میں نکلا تھا۔۔۔
۔
"ڈاکٹر۔۔۔ڈاکٹر میری بیوی روحین ۔۔وہ یہیں اسی۔۔۔"
"آپ 'آئی-سی-یو' چلے جائیں سیدھا جا کر لیفٹ سائیڈ۔۔۔انکی حالت کافی کریٹیکل ہے۔۔۔"
معاذ اسی سمت بھاگا تھا اور اسکے پیچھے اسکی فیملی کے لوگ۔۔۔
وہ وہاں آئی سی یو کے باہر جاکر ایسے ہی سب سے پوچھ رہا تھا
"سر انکا آپریشن چل رہا ہے۔۔۔آپ انتظار کیجیے۔۔۔ بلڈ کافی بہہ گیاہے آپ لوگ بلڈ بھی ارینج کیجئے۔۔۔"
وہ روم سے باہر آتے ہی ہدایت دے کر چلے گئے تھے۔۔۔
"روحین۔۔۔ڈیڈ۔۔۔پلیز بلڈ کا ارینج کروا دیں۔۔۔"
"اسکی ضرورت نہیں میرے خون کا آخری قطرہ بھی میری بیٹی کو دیا جائے۔۔۔"
دلاور صاحب بھی آگئے تھے وہاں۔۔۔
"بڑے ابو۔۔۔"
رومیسہ روتے ہوئے دلاور صاحب کے گلے لگی تھی جو ابھی تک بلکل چپ چاپ تھی جو دل ہی دل میں جشن منا رہی تھی۔۔۔وہ تو چاہتی تھی روحین مر جائے۔۔۔چلی جائے سب چھوڑ چھاڑ کر۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"حیدر صاحب ابھی لے چلیں مجھے روحین کے پاس۔۔۔ یا اللہ رحم کرے کیا ہوگیا ہے ہمارے خاندان کو اتنی آفتیں۔۔۔پہلے رمیز چلا گیا ہمیں چھوڑ کر اب روحین کا ایکسیڈنٹ،،،"
دادا ماں روتے ہوئے دعائیں کررہی تھی
وہ دونوں بھی گاؤں سے چل پڑے تھے شہر کے لیے کچھ دیر پہلے ہی فون آیا تھا
گاڑی جیسے ہی سٹارٹ ہوئی تھی حیدر صاحب نے مرتضی صاحب کے گھر کی طرف دیکھا تھا جہاں انکے لگائے ہوئے ملازم گھر کو پہلے جیسا بنا رہے تھے۔۔۔
انہوں نے سرد آہ بھری تھی ازلان اور روحین دونوں کے چہرے انکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔۔۔۔
"یا اللہ رحم کرنا میری بچی پر۔۔۔وہ بہت معصوم ہے۔۔۔"
حیدر صاحب نے سرگوشی کی تھی۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"یہ ایکسیڈنٹ نہیں سوچی سمجھی سازش تھی کسی نے آپ کی بہو کو مارنے کے لیے ہائر کیا تھا اسے۔۔۔"
"کیا بکواس کررہے ہو۔۔؟؟ کون ہے وہ میں اسے زندی گاڑھ دوں گا۔۔۔"
دلاور صاحب آگے بڑھے تھے غصے سے ایک تو انکی بیٹی کو ہوش نہیں آرہا تھااوپر سے یہ سچ جاننے کے بعد انکا خون خول رہا تھا
"وہ جس نے یہ ایکسیڈنٹ کروایا اسکا سراغ تو ابھی تک نہیں مل سکا۔۔۔ پر جس سے ایکسیڈنٹ کروایا اسے بھی موقع پر مار دیا گیا۔۔۔اسکی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دی گئی ہے۔۔۔ فون ری کور کرلئیے گئے ہیں ہم جلدی ہی رپورٹ تیار کرلیں گے۔۔۔
آپ کی بیٹی کو جیسے ہی ہوش آئے گا ان سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک پولیس انکا سٹیٹ منٹ ریکارڈ نہ کرلے۔۔۔"
وہ آفیسرز وہاں سے چلے گئے تھےان سب کو شاکڈ چھوڑ کر۔۔۔
"میری بچی۔۔۔ کس نے ایسا کیا میری بیٹی کے ساتھ دلاور پلیز ابا جان کو فون کریں وہ اس مجرم کو ڈھونڈ نکالیں گے۔۔۔انہیں اطلاع دیں۔۔۔"
معاذ واپس شیشے کے پاس کر کھڑا ہوگیا تھا جہاں سے اسے روحین پٹیوں میں بندھی ہوئی مشینوں میں گھری ہوئی دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔
۔
"روحین ایم سوری۔۔۔پلیز معاف کردو پھر کبھی نہیں بھولوں گا ہماری اینیورسری۔۔۔
تمہاری سالگرہ۔۔۔ پھر کچھ نہیں بھولوں گا۔۔۔"
آنکھوں سے بےتحاشہ آنسو بہہ رہے تھے جب روحین کے والدہ نے معاذ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا
"وہ ٹھیک ہوجائے گی بیٹا بس دعا کرو۔۔۔پلیز۔۔۔"
۔
۔
کچھ گھنٹے صدیوں کے جیسے گزرے تھے بہت سے رشتے دار آئے اور چلے گئے تھے
سب روحین کا پوچھ رہے تھے پر اسے تو ہوش آہی نہیں رہا تھا۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا ڈاکٹرز ایک ہی جواب دے رہے تھے کومے میں جانے کا۔۔۔
یہ جواب اور پریشان کررہے تھے گھر والوں کو۔۔۔
معاذ نے خود کو ایک کارنر پر جیسے اس روم کے سامنے جکڑ لیا تھا وہ کسی سے بات نہیں کررہا تھا کسی کا جواب نہیں دے رہا تھا۔۔۔وہ خاموش ہوگیا تھا پوری طرح سے۔۔۔
بار بار روحین کا نام لیکر معافی مانگ رہا تھا اور کچھ نہیں۔۔۔
۔
پئشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔۔۔۔"
۔
ڈاکٹر کی آواز نے جیسے معاذ کو ایک نئی زندگی بخشی تھی۔۔۔سب سے پہلے وہ اندر جانے لگا تھا جب پولیس آفیسر نے اسکا راستہ روک دیا تھا
"پہلے ہم سٹیٹ منٹ لیں گے سر۔۔۔"
اور وہ لوگ اندر چلے گئے تھے۔۔۔۔
۔
"دیکھیں میڈم کچھ یاد کرنے کی کوشش کیجئے آپ کے سامنے کوئی ایسا چہرہ یا کوئی شخص جسے آپ نہ جانتی ہوں کوئی تو۔۔۔"
پر روحین نے آنکھیں بند کرلی تھی ایکسیڈنٹ سے پہلے اسے ایک ہی چہرہ دیکھائی دے رہا تھا
جو اسکا ماضی تھا جسے وہ چاہ کر بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
۔
"نہیں آفیسر۔۔۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی میری تو دشمنی بھی نہیں کسی کے ساتھ۔۔پلیز میں اب اور کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی۔۔۔"
"اوکے میم۔۔۔اگر آپ کو کوئی بھی ایسی بات محسوس ہو جو خطرے کا باعث ہو آپ ہمیں ان نمبرز پر کال کرکے بتاسکتی ہیں۔۔۔"
سائیڈ ٹیبل پر وہ اپنا کارڈ رکھ کر چلے گئے تھے
۔
"ہم نے ان کا سٹیٹ منٹ تو لے لیا ہے۔۔۔مگر آپ سب سے یہی کہیں گے کہ آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں جنہوں نے ایک بار حملہ کیا وہ دوبارہ بھی کرسکتے ہیں۔۔۔"معاذ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں نے سب باتیں کی تھی اسے مخاطب کرکے اور وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"معاذ سنبھالیں خود کو اگر آپ ہمت ہار جائیں گے تو روحین کو کون سنبھالے گا۔۔؟"
"مجھ میں ہمت نہیں کہ ایک نظر اس چہرے کو دیکھ سکوں تو روحین کیسے برداشت کرے گی جب وہ اپنی آنکھیں کھولے گی۔۔۔ کہاں جاؤں میں۔۔۔کیسے کروں اسکا سامنا۔۔؟؟"
سب کے سامنے رومیسہ نے معاذ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور کسی کو زرا فرق نہیں پڑا رہا تھا سب ہی اتنے پریشان ہوگئے تھے روحین کا چہرہ دیکھ کر سب کو اسکی ری ایکشن نے اور غمزدہ کردیا تھا۔۔
۔
"معاذ بیٹا بتانا تو پڑے گا کچھ دیر تک ہوش آجائے گا اسے۔۔۔ میری بیٹی سہی سلامت ہے مجھے اس بات کی خوشی ہے۔۔۔"
۔
وہ لوگ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے تھے پھر نرس روحین کے روم سے باہر آئی تھی جلدی میں۔۔
"پئشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔۔ میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر لائی آپ لوگ انکی اجازت کے بعد مل سکتے ہیں۔۔۔"
۔
۔
"دیکھیں انہیں دوسری بار ہوش آیا ہے۔۔۔ پولیس اپنا سٹیٹمنٹ لے گئی ہے آپ لوگوں سے ریکوئسٹ ہے کوئی بھی ایسی بات نہ کیجئے گا کہ انہیں پریشانی ہو کوئی بھی۔۔۔"
ڈاکٹر باہر آگئے تھے اور کسی میں ہمت نہیں تھی سب نے معاذ کو اندر جانے کا کہا تھا
جو خود بہت کترا رہا تھا۔۔۔
وہ بنا شور کئیے اندر داخل ہوا تھا روحین کے ماتھے پر جیسے ہی بوسہ دیا تھا لیفٹ سائیڈ پر لگی پٹی نے اسے اشکبار کردیا تھا
"ہیے جان۔۔۔ آج تو جان ہی نکال دی تھی تم نے۔۔۔"
"معاذ۔۔۔۔"
بیڈ پر اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا اس نے۔۔۔
"معاذ میں۔۔۔"
"ایم سوری روحین میں نے لڑائی کی تھی غصہ کیا تھا۔۔۔اب پھر کبھی نہیں کروں گا۔۔۔
ایم سوری۔۔۔"معاذ روحین کے کندھے پر سر رکھے رونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔
جس نے روحین کو اتنا شاکڈ کردیا تھا اس لمحے۔۔۔
"معاذ۔۔۔"
"سب کچھ میری وجہ سے ہوا۔۔اگر آفس سے اس وقت تمہیں جانے نہ دیتا تو تم آک سہی ہوتی ۔۔"
"معاذ میں ٹھیک ہوں۔۔۔مجھے کیا ہوگا۔۔۔"
"بات کرتے کرتے روحین کا ہاتھ اسکے ماتھے سے ہٹ کر اسکے گال کی طرف چلا گیا تھا جہاں بہت موٹی بینڈایج بندھی تھی۔۔۔
"معاذ یہ۔۔۔"
"ابھی نہیں۔۔۔پلیز ابھی زخم بھرنے دو۔۔۔ ہم بہت بڑے ڈاکٹرز کودیکھائیں گے یہ نشان بھی چلے جائیں گے۔۔"
وہ روحین کو چہرے کو چومتے ہوئے دلاسے دے رہا تھا اب یہ نہیں پتہ تھا اسے دے رہا تھا یا خود کو۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"کچھ ہفتے بعد۔۔۔۔"
۔
"تم نے کہا تھا ہم ڈاکٹر کے جائیں گے۔۔۔تو یہ داغ ختم کیوں نہیں ہورہا۔۔۔"
روحین نے اپنے بیڈروم کے شیشے پر گلدان اٹھا کر مارا تھا
"روحین۔۔۔پاگل ہوگئی ہو۔۔۔ تمہیں لگ بھی سکتا ہے کانچ وہیں کھڑی رہو۔۔۔جوتا پہنو کہیں قدم نہ رکھنا زخمی ہوجاؤ گی۔۔۔"
پر وہ اپنی جگہ سے ہل گئی تھی پاؤں پر کانچ چبھ گیا تھا مگر اسے تکلیف نہ ہوئی اس نے آج اپنا آپ دیکھا تھا شیشے میں۔۔۔وہ نیچے بیٹھ گئی تھی ٹوٹے ہوئے شیشے کو اٹھا کر خود کو دیکھا تھا اور پھر معاذ کو۔۔۔
"تم کیسے برداشت کرتے رہے مجھے۔۔۔؟؟ معاذ مجھ سے تو میرا اپنا وجود برداشت نہیں ہوپارہا۔۔۔کیا بن گئی ہوں میں۔۔۔۔"
۔
پورے کمرے کی چیزیں برباد کردی تھی اس نے۔۔۔ معاذ اسے بچا رہا تھا اور وہ ہاتھ پاؤں مار کر اسکی گرفت سے خود کو چھڑا رہی تھی۔۔۔
"چھوڑ دو مجھے۔۔۔ معاذ۔۔۔ میں کیا سے کیا بن گئی۔۔۔"
معاذ کے سینے میں سر چھپائے پوری طرح بریک ڈاؤن ہوچکی تھی اسکی ہستی۔۔۔۔
۔
"بس روحین بس۔۔۔میری جان بس ۔۔۔"
وہ خود بھی آبدیدہ تھا روحین کا درد اسے اندر تک گھائل کررہا تھا