"بی بی جی یہی وہ اپارٹمنٹ ہے جس کا آپ نے ایڈریس بتایا تھا"
بیلا کے بتائے ہوئے ایڈریس پر ڈرائیور کار روکتا ہوا اس سے بولا تو بیلا آٹھ منزلہ عمارتوں کو دیکھنے لگی جو اس کے دائیں اور بائیں جانب بنی ہوئی تھی یہ وہی اپارٹمنٹ تھا جس کا ایڈریس ازلان نے اس کے ہاتھ پر لکھا تھا مگر آگے بیلا کو علم نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا تھا۔۔۔ وہ ازلان کے کہنے کے مطابق دوسرے دن شام میں یہاں پہنچ چکی تھی اس سے پہلے وہ ڈرائیور کو آبان نامی شخص کے بارے میں معلوم کرنے کا کہتی اس کا موبائل بجنے لگا جس پر انجان نمبر سے کال آرہی تھی
"جب میں نے تم سے اکیلے آنے کو کہا تھا تو اس دم چلھے کو ساتھ لے کر کیوں آئی ہو"
موبائل کا نمبر بےشک انجانا تھا مگر یہ آواز بالکل انجانی نہیں تھی ازلان خفا ہوتا ہوا اس سے پوچھنے لگا
"کہیں بھی جانا ہو میں شروع سے ہی ڈرائیور کے ساتھ آتی جاتی ہو، بھائی مجھے اکیلا کہیں بھی جانے کی پرمیشن نہیں دیتے"
بیلا گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی ہلکی سی آواز میں ازلان کو بتانے لگی ساتھ ہی وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب بنی عمارتوں کو ایک بار پھر غور سے دیکھنے لگی ناجانے وہ اس وقت اسے کہاں سے دیکھ رہا تھا
"ٹھیک ہے اسے دو گھنٹے بعد آنے کا کہہ کر گاڑی سے باہر نکل آؤ"
ڈرائیور کو انفرم کرکے بیلا ازلان کی بات کی پیروی کرتی ہوئی گاڑی سے باہر نکل آئی۔۔ وہ نازنین اور افراہیم سے یونیورسٹی فیلو کے گھر جانے کا کہہ کر یہاں آئی تھی وہ دونوں ہی حیرت زدہ تھے مگر خوش بھی تھے لیکن بیلا ان دونوں سے جھوٹ بول کر اچھی خاصی شرمندہ تھی
"اب رائیڈ سائیڈ پر ٹرن ہوجاؤ سامنے بی بلاک ہے۔۔۔ لفٹ سے فورتھ فلور پر آجاؤ"
بیلا اپنا موبائل کان سے لگائے ہوئے تھی جیسے جیسے ازلان بولتا گیا ویسے ویسے وہ فلیٹ نمبر 504 میں پہنچ گئی جہاں اذلان کے مطابق،، فلیٹ کا دروازہ پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ بیلا فلیٹ میں جیسے ہی داخل ہوئی تو فلیٹ کا دروازہ ایک دم سے بند کردیا گیا۔۔۔ بیلا ایک دم مڑی تو اس نے اپنی پشت پر ازلان کو موجود پایا۔۔۔ فلیٹ کا دروازہ بند کرنے کے بعد وہ بیلا کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ سنہری بالوں کو جوڑھے کی شکل میں لپیٹے سادہ سے قمیض شلوار میں وہ اسے آج بھی پہلے کی طرح کوئی مومی گڑیا لگی تھی۔۔۔ ازلان کے اتنے غور سے دیکھنے پر بیلا کو اپنا دل اور زور سے دھڑکتا ہوا محسوس ہوا
"پورے 15 منٹ لیٹ ہو تم اس وقت 05:15 ہورہے ہیں"
وہ چلتا ہوا بیلا کے مزید پاس آکر اس سے بولا
"ایڈریس ڈھونڈنے میں ٹائم لگ گیا تھا"
بیلا بہت قریب سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی وہ ازلان کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔۔۔ کل کی بانسبت وہ آج اس سے دوستانہ لہجے میں بات کررہا تھا بس اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی۔۔۔ ازلان کے چہرے کے تاثرات سے وہ اندازہ لگاسکتی تھی کہ اس کی شخصیت میں کافی بدلاؤ آچکا ہے
"اگلی بار ایسا نہیں ہونا چاہیے، میں جو بھی ٹائم دوں گا تمہیں ہمیشہ اسی ٹائم پر یہاں پہنچنا ہوگا رائٹ"
وہ ابھی بھی سنجیدہ تاثرات لیے بیلا کو دیکھتا ہوا بولا تو بےساختہ بیلا کے منہ سے نکلا
"مگر میں یہاں پر اگلی بار کیوں آؤ گیں"
بیلا کی بات پر ازلان کے چہرے پر مدھم سی طنزیہ مسکراہٹ ابھری
"تم یہاں ابھی بھی کیوں آئی ہو؟؟ میرے بلانے پر ہی ناں، تو نیکسٹ ٹائم بھی جب میں تمہیں یہاں بلاؤ گا تو تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا"
طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ازلان طنز کرتا ہوا بیلا سے بولنے لگا جس پر بیلا سے کوئی جواب بن نہیں پڑا وہ خاموشی ہی رہی
"آؤ روم میں چلتے ہیں"
ازلان اس سے بولتا ہوا اندر کی طرف روم میں جانے کے لیے مڑا تو بیلا اس کمرے کو دیکھنے لگی جہاں وہ کھڑی تھی
یہ بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جس میں صوفے موجود تھے اور ایک سائیڈ پر میز کے ساتھ چار کرسیاں بھی موجود تھی۔۔۔ بیلا ازلان کے پیچھے چلنے لگی،،، ازلان جس کمرے میں داخل ہوا وہ بیڈ روم تھا جو زیادہ بڑا نہ تھا
"کھڑی کیوں ہو بیٹھو"
بیلا کمرے کا جائزہ لے رہی تھی تب ازلان کی آواز پر چونکی وہ اسے ٹو سٹر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کررہا تھا جو بیڈ کے دائیں جانب موجود تھا
بیلا صوفے پر بیٹھنے لگی تو ازلان نے روم کا دروازہ بند کردیا،، بیڈروم کا دروازے بند کرنے کی لاجک بیلا کو سمجھ نہیں آئی تھی مگر ازلان کو اسپلٹ آن کرتا دیکھ کر بیلا کو اطمینان محسوس ہوا مگر یہ اطمینان اس وقت رخصت ہوگیا جب ازلان اس کے بےحد پاس صوفے پر آکر بیٹھا تو وہ صوفے پر اپنی جگہ سمٹ سی گئی
"فزکس کی بک لائی ہو ناں"
اذلان کے سوال پر وہ ہونق بنی ازلان کو دیکھنے لگی۔۔۔ ازلان سنجیدگی سے اس کو دیکھتا ہوا پوچھ رہا تھا
"مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم نے مجھے یہاں پڑھانے کے لئے بلایا ہے"
بیلا کو اپنی بات بولتے ہوئے خود بہت عجیب سا محسوس ہوا کہ وہ یہ کیا بول رہی ہے
"تو پھر میں نے تمہیں یہاں پر پھر کس لیے بلایا ہے ذرا مجھے بھی تو بتاؤ"
اذلان بیلا کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹوں کو پیھے کرتا ہوا پوچھنے لگا جس پر بیلا مزید شرمندہ ہوگئی مگر دوسرے ہی پل ازلان نے اس کا ہاتھ پکڑا تو بیلا حیرت سے ازلان کو دیکھنے لگی، ازلان اپنے ہاتھ میں بیلا کا نازک ہاتھ پکڑے کچھ سوچتا ہوا اس سے بولا
"اس وقت روم کے ٹمپریچر کے حساب سے تمہارے ہاتھ ٹھنڈے ہورہے ہیں لیکن اگر میں اس کمرے کی ٹھنڈک میں اپنی باڈی کو وارم اپ کرنا چاہو تو مجھے کیا کرنا چاہیے ایکسپلین کرو"
ازلان کے عجیب سے سوال پر وہ ہونق بنی اسے دیکھنے لگی، آئستہ سے اس نے ازلان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر ناکام رہی
"مم۔۔۔۔ مجھے کیسے معلوم ہوسکتا ہے میں پچھلے دنوں غیر حاضر ہونے کی وجہ سے کلاسس نہیں لےسکی تھی،، مجھے گھر جانا ہے اب"
یہ سوال بہت عجیب سا تھا نہ جانے سلیبس میں یہ سوال تھا بھی کے نہیں۔۔۔ بیلا نے بولنے کے ساتھ ایک بار پھر ازلان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر ازلان اس کا ہاتھ چھوڑے بغیر صوفے سے اٹھا تو اس کی وجہ سے بیلا کو بھی اٹھنا پڑا
"اس سوال کا جواب دیے بغیر تو تم اس بیڈروم سے باہر نہیں جاسکتی واپس اپنے گھر جانے کا تصور تو آج بھول ہی جاؤ"
ازلان بولنے کے ساتھ بیلا کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ تک لایا
"مجھے نہیں معلوم ازلان تم کیا پوچھ رہے ہو پلیز مجھے اپنے گھر جانا ہے"
ازلان کا یہ ردعمل اس کی طبیعت سے بالکل میل نہیں کھا رہا تھا بیلا کو اب اس سے گھبراہٹ ہونے لگی وہ ازلان سے درخواست کرتی ہوئی بولی
"تمہیں اس سوال کا جواب نہیں معلوم تو اس میں اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے میں تمہیں آج مثال دے کر سب سمجھا دیتا ہوں"
ازلان نے بولنے کے ساتھ ہی بیلا کو بیڈ پر دھکا دیا اس سے پہلے وہ بیڈ سے اٹھتی ازلان نے اس پر جھکتے ہوۓ بیلا کی دونوں کلائیوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑلیا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی نہ اپنے پاؤں چلا پائی تھی نہ ہی ازلان سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا پائی تھی
"ازلان نہیں۔۔۔ میں مر جاؤں گی اب کے بار،،، تمہیں خدا کا واسطہ ہے،، میرے ساتھ کچھ برا مت کرنا"
بیلا خوف کے مارے بری طرح سے چیختی ہوئی ازلان سے بولی،، اس کی چھٹی حس نے اس کو یہاں آنے سے پہلے ایسا کوئی الارم نہیں دیا تھا جو ازلان اس کے ساتھ کررہا تھا،، وہ تو ازلان کو لےکر ایسا کچھ بھی نہیں سوچ سکتی تھی
"کیوں سب کے سامنے نام لیا تم نے میرا جواب دو، کیوں دنیا کے سامنے ذلیل اور رسوا کرکے رکھ دیا تم نے مجھے، بتاؤ۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری ہستی، میری فیملی سب برباد ہوگئی، تمہیں معلوم ہے تم سے دوستی کی کتنی بڑی قیمت چکائی ہے میں نے میرا باپ اس دنیا سے چلاگیا میری ماں بہن کے سر سے چھت چھن گئی، میرے زندہ ہوتے ہوۓ میری ماں بہن رل کر رہ گئیں، جانتی ہو جیل کی چار دیواری میں کیا کیا اذیتیں سہی ہیں میں نے کیسے کیسے دن دیکھنا پڑے ہیں مجھے"
ازلان غصے سے بھری آواز میں اسی کی طرح چیختا ہوا بیلا سے بولا
بیلا اس کی گرفت میں موجود روتی ہوئی ازلان سے معافی مانگنے لگی۔۔۔ ساتھ ہی ازلان کی گرفت میں بیلا کی حالت غیر ہونے لگی اس کی آنکھیں بند ہونے لگی اور جسم کانپنے لگا،، بیلا کی بگڑتی ہوئی حالت اور اس کیفیت کو دیکھ کر ازلان اپنے غصہ کو ضبط کرتا ہوا حواسوں میں آیا اور بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر اپنے دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھ گیا
بیلا کافی دیر تک بیڈ پر لیٹی ہوئی روتی رہی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ازلان کو اپنے کندھے پر بیلا کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو وہ سر اٹھا کر بیلا کو دیکھنے لگا جو روئی ہوئی آنکھوں کے ساتھ صوفے پر بیٹھی ہوئی اذلان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ بیلا نے ازلان کے کندھے پر سر رکھ کر ایک بار پھر رونا شروع کردیا
"میں اس وقت بہت زیادہ ڈر گئی تھی اگر میں اس کا نام بتادیتی تو وہ دوبارہ سے میرے ساتھ وہی سب کرتا۔۔۔۔ میں دوبارہ سے وہ سب برداشت نہیں کرپاتی ازلان۔۔۔ اس لئے بابا کے پوچھنے پر میں نے تمہارا نام لےلیا مجھے معاف کردو"
بیلا کے باآواز رونے سے ازلان اس کے اندر کا چھپا ہوا درد اور کرب صاف محسوس کرسکتا تھا جو وہ پچھلے دس سالوں سے محسوس کرتی آئی تھی
"کون تھا وہ"
اذلان اس کے سنہری بالوں پر ہاتھ رکھتا ہوا پوچھنے لگا تو بیلا ازلان کے کندھے پر رکھا ہوا سر ہٹا کر اسے دیکھنے لگی
"کیا فائدہ بتانے کا"
بیلا سیدھی ہوکر بیٹھی نظریں چراتی ہوئی اپنے آنسو صاف کرنے لگی تو ازلان نے بیلا کا رخ دوبارہ اپنی جانب کیا
"کیسے فائدہ نہیں ہے بتانے کا، بیلا مجھے اس کا نام جاننا ہے، کون تھا وہ شخص جس نے اس رات تمہیں ساتھ وحشیانہ سلوک کیا تھا جس کی سزا میں نے کاٹی اور وہ اب تک آزاد گھوم رہا ہے بتاؤ مجھے کون تھا وہ"
ازلان غصے میں بیلا سے بولا بےشک جیل میں اس کی سزا معاف ہوچکی تھی مگر یہ اذیت کم نہیں تھی کہ اس کی فیملی بکھر چکی تھی،، اس کا باپ اسے قصوروار سمجھ کر اس دنیا سے جاچکا تھا۔۔ اس کی ماں اور بہن نے اس واقعہ کے بعد کیسا دور برداشت کیا تھا
"اصفر بھائی۔۔۔۔ ازلان میں نے انہیں افراہیم بھائی کی طرح اپنا بھائی سمجھا اور انہوں نے اس رات میرے ساتھ"
بیلا اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپاکر روتی ہوئی بولی اپنے اندر چھپے ہوئے دکھ کو آج وہ دوبارہ آنسوؤں میں بہا رہی تھی۔۔۔
اس رات گھر کے پچھلے حصے پر اصفر نے ہی بیلا کو آنے کا کہا تھا بقول اصفر کے کہ وہ بیلا کو وہاں اس کا گفٹ دیکھانا چاہتا ہے
اصفر کا نام سن کر ازلان غصے سے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرنے لگا۔۔۔ اگر اس وقت اصفر اس کے سامنے ہوتا تو ازلان اس کے پراخچے ہوا میں اڑا دیتا اتنے میں اذلان کا موبائل بجنے لگا
"ہاں ٹھیک ہے تم یہاں پر فیضی اور ندیم کو لےکر آجاؤ میں ویٹ کررہا ہوں"
بیلا اپنے چہرے سے ہاتھوں کو ہٹاکر ازلان کو دیکھنے لگی جو موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا،، رابطہ منقطع کرنے کے بعد ازلان بیلا کے آنسو صاف کرتا ہوا اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا
"دس منٹ کے بعد میرے چار دوست اور نکاح خواں یہاں پر آئیں گے جن کی موجودگی میں ہمارا نکاح ہوگا اس کے بعد تم اپنے ڈرائیور کو کال کرکے واپس اپنے گھر جانے کے لیے بلاسکتی ہو"
ازلان بیلا کے سر پر اس کے دوپٹے کو اسکاف کے اسٹائل میں باندھتا ہوا اس کے سر پر بم پھوڑ چکا تھا بیلا حیرت زدہ ہوکر ازلان کا چہرہ دیکھنے لگی
"ہم دونوں کا نکاح، کیا مطلب ہے کیوں ہورہا ہے ہمارا نکاح"
ازلان بڑی فرصت سے بیلا کا اسکارف سیٹ کررہا تھا۔۔۔۔ بیلا کی بات سن کر اس کا ہاتھ رکا وہ خفا ہونے والے انداز میں بیلا کو دیکھتا ہوا اس سے بولا
"ٹھیک ہے میں منع کردیتا ہوں فیضی کو کہ وہ یہاں پر کسی کو مت لےکر آئے۔۔۔۔ تمہیں اعتراض ہے تو تم کال کرکے اپنے ڈرائیور کو بلالو اور چلی جاؤ واپس اپنے گھر"
ازلان نے بولنے کے ساتھ ہی اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور کال کرنے لگا
"پر میں نے اعتراض کب کیا ہے میں تو بس یونہی سوال کر رہی تھی تم سے"
بیلا جلدی سے ازلان کے ہاتھ سے موبائل چھین کر بولی اس کی بات سن کر ازلان جس طرح زور سے ہنسا تو بیلا اچھی خاصی شرمندہ ہوگئی۔۔۔ ازلان بیلا سے اپنا موبائل لےکر اسکارف میں اس کی تصویر لینے لگا
"اچھی لگ رہی ہو"
ازلان بیلا کو دیکھ کر مسکراتا ہوا بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا
تھوڑی دیر بعد بیلا کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بطور وکیل اس سے نکاح نامہ پر سائن کروانے کے لئے فیضی آیا یہ اس کا کلاس میٹ تھا بیلا کو اندازہ نہیں تھا ازلان اس سے اس فیضی کا ذکر کر رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ بیلا عباد سے بیلا ازلان بن چکی تھی
افراہیم اپنے گھر کمرے کی کھڑکی کے پردے برابر کررہا تھا تب اس کی نظر گیٹ کے پاس کھڑی نوف پر پڑی جو گلاب خان سے بات کررہی تھی، کچھ تھا جو افراہیم کو محسوس ہوا آج اس نے افراہیم کا دیا ہوا پینک کلر کا ڈریس پہنا تھا جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی افراہیم کی نظریں بار بار اس کی طرف اٹھ رہی تھی تھوڑی دیر پہلے رات کے کھانے کے بعد جب وہ نازنین کے کمرے میں آیا تو اتفاق سے نوف وہی عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی افراہیم کتنی دیر تک اس کے چہرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا تھا اس بات کا نوٹس لیے بغیر کہ نازنین افراہیم کی حرکت پر اس کو گھور رہی تھی مگر اس وقت افراہیم کو جیسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی
نوف نماز ادا کرنے کے بعد فورا وہاں سے چلی گئی تھی،، نوف کے کمرے سے جانے کے بعد نازنین نے افراہیم سے جو بات کہی، اس بات کو سن کر وہ ایک پل کے لیے خاموش ہوگیا تھا،، نازنین چاہتی تھی کہ وہ یمنہ سے شادی کرلے
اپنی ماں کی اس بات پر شاید اس کو برا ماننا چاہیے تھا جس لڑکی کی فیملی کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا جس کا بیک گراؤنڈ وہ نہیں جانتا تھا جس کو یہاں آۓ جمعہ جمعہ آٹھ دن گزرے تھے،،، اس کی ماں اس انجان لڑکی کے بارے میں اتنی بڑی بات کیسے کہہ سکتی تھی۔۔۔ لیکن نازنین سے زیادہ اسے اپنے اوپر حیرت ہورہی تھی کیوکہ ایسی بات سن کر اسے غصہ آنا تو دور برا بھی نہیں لگا تھا مگر وہ فوری طور پر نازنین کے سامنے کچھ بھی اظہار نہیں کر پایا اور اس کے کمرے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا لیکن رات کے اس پہر نوف کا گلاب خان سے بات کرنا اسے اچھا نہیں لگا اس لئے وہ اپنے کمرے سے نکلتا ہوا باہر کی جانب جانے لگا
آج اتفاق سے ایسا پہلی بار ہوا تھا وہ عشاء کی نماز اپنے کمرے میں ادا کرنے کی بجائے نازنین کے کمرے میں پڑھ رہی تھی تب مسلسل اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ کسی کی نظروں کے حصار میں تھی جب سے وہ یہاں آئی تھی اس کی کوشش رہی تھی کہ افراہیم سے اس کا سامنا کم ہو، وہ افراہیم کو صرف ضرورت کے وقت مخاطب کیا کرتی۔۔۔ آج اس نے افراہیم کے لائے ہوئے ڈریسز میں سے ایک ڈریس پہنا تھا یہ ڈریس بھی سلیولیس اور کافی اسٹائلش تھا۔۔۔ اسے اس طرح کے ڈریسنگ کرنے کی بالکل عادت نہیں تھی، جس میں بےپردگی کا احساس ہو اور اپنے بازوں کو بار بار چھپانا پڑے۔۔ مگر وہ جانتی تھی اس میں افراہیم کا بھی قصور نہیں تھا وہ اس کے لئے ویسے ہی کپڑے لےکر آیا تھا جیسے کپڑے میں وہ اسے اتنے دن سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ لیکن آج جن نظروں سے افراہیم اس کی طرف دیکھ رہا تھا نوف کو اپنے اوپر اٹھتی اس کی نظریں کافی محسوس ہورہی تھی۔۔۔ نماز ادا کرنے کے بعد وہ نازنین کے کمرے سے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ گلاب خان سے اس کی بیٹی کی طبیعت کا پوچھنے گیٹ تک آئی تھی کیوکہ دوپہر میں گلاب خان کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ نازنین سے آدھے دن کی چھٹی لے کر اپنی بیٹی کو اسپتال دکھانے گیا تھا ابھی وہ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر اس سے پہلے وہاں افراہیم آگیا
"کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں"
افراہیم نے آنے کے ساتھ ہی نوف کو مخاطب کیا جس کی وجہ سے اس کو رکنا پڑا وہ افراہیم کو حیرت سے دیکھنے لگی
"جی سب ٹھیک ہے"
نوف افراہیم کو جواب دیتی ہوئی گھر کے اندر جانے لگی تو افراہیم دوبارہ بول پڑا
"گلاب خان سے کیا کہنے آئی تھی"
افراہیم کی بات سن کر نوف خاموشی سے دوبارہ اسے دیکھنے لگی بھلا وہ کون ہوتا ہے اس سے سوال کرنے والا
"گلاب خان کی بیٹی کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اسی کا پوچھنے آئی تھی"
نوف ضبط کرتی ہوئی افراہیم کو بتانے لگی وہ نازنین کو دوا دینے کے بعد اپنے کمرے میں جانا چاہتی تھی نہ جانے یہ انسان کیوں اس وقت یہاں آپہنچا تھا
"تمہارے پوچھنے سے گلاب خان کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک ہوجائے گی"
افراہیم اس کے اکتائے ہوئے لہجے اور بیزار سے انداز کو دیکھ کر مذید جراح پر اتر آیا کیوکہ افراہیم نے محسوس کیا تھا وہ صرف اسی سے بات کرنے سے کتراتی تھی، اس کی بیلا سے بھی اچھی دوستی ہوچکی تھی۔۔۔ آج شام میں وہ بیلا کے ساتھ کچن میں موجود کوکنگ کرتی ہوئی باقاعدہ بیلا کو کچھ بنانا سکھارہی تھی اور نازنین سے اسکی انڈر اسٹینڈنگ کو تو کوئی غیر بھی اچھی طرح محسوس کرسکتا تھا
"مجھے نہیں لگتا کہ غریب لوگوں سے بات کرنے میں کوئی قباحت ہے،، نہ ہی مجھے ان سے بات کرنے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے"
آخر وہ کون ہوتا تھا اس پر اپنی مرضی چلانے والا وہ جس سے دل چاہے اس سے بات کرے، نہ جانے کیوں اس انسان کو اسکے گلاب خان سے بات کرنے پر تکلیف ہورہی تھی۔۔۔ نوف اسے جواب دے کر اندر جانے لگی مگر اس سے پہلے افراہیم سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوچکا تھا کیوکہ اسے اس لڑکی کی اپنے سامنے زبان درازی بالکل پسند نہیں آئی تھی
"تو پھر پیسے والے سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے،، مجھے تو ایسا لگتا ہے مجھ سے بات کرنے میں نہ صرف تمہیں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے بلکہ میری کسی بات کا جواب دینے میں تمہاری شان بھی گھٹتی ہے"
افراہیم سنجیدہ تاثرات لیے بول کر خود بھی سلگا تھا اور اسے بھی سلگا چکا تھا
"مجھے یہاں جاب پر آپ نے اپنی مدر کی دیکھ بھال کے لئے رکھا ہے نہ کہ اپنے آپ سے باتیں بنانے کے لئے،، بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے میرا کام کرنے دیں اور آپ خود اپنے کام سے مطلب رکھیں"
پہلی بار ایسا ہوا تھا جب وہ افراہیم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے جواب دے رہی تھی وہ بیشک یہاں پر جاب کررہی تھی مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا کہ وہ افراہیم کی مرضی سے ہر کام کرے،، افراہیم کو اپنے سامنے کھڑی اس لڑکی کا گستاخ بھرا لہجہ بالکل پسند نہیں آیا تھا،، سر اٹھا کر بات کرنے کا مشورہ افراہیم نے ہی اس کو دیا تھا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ افراہیم سے ہی بدتمیزی کرے۔۔۔ نوف کو وہاں سے جانے کے لیے پر تولتا دیکھ کر افراہیم اس کی کلائی پکڑ چکا تھا
"یہ کیا حرکت ہے ہاتھ چھوڑیں میرا"
نوف پہلے تو آنکھیں کھول کر حیرت سے افراہیم کا چہرہ دیکھنے لگی جو ایک دم غصے اور ضبط سے سرخ ہوچکا تھا پھر وہ اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتی ہوئی افراہیم سے بولی
"سمجھتی کیا ہو تم خود کو،، یہ ہاتھ تو میں اب نہیں چھوڑنے والا اگر تم میں ہمت ہے تو چھڑوا کر دکھاؤ"
افراہیم نے غصے میں بولتے ہوئے اس کی کلائی پر اپنی گرفت اور بھی زیادہ سخت کردی نوف جانتی تھی وہ جتنی زور آزمائی کرلے طاقت میں اپنے سامنے کھڑے شخص کا مقابلہ نہیں کرسکتی
"مرد ہیں نان آپ تو پلیز ذرا مردانگی کا ثبوت دیں، یہ سب حرکتیں کم ازکم اس آدمی پر زیب نہیں دیتی جس کے اپنے گھر میں ماں بہن موجود ہو، یہاں جاب میں صرف اور صرف مجبوری کے تحت کررہی ہوں ورنہ آپ کی اس حرکت پر مار ڈالتی میں آپ کو جان سے"
بولتے ہوئے نوف کی آنکھ سے بےبسی کے مارے ایک آنسو لڑھک کر گال پر آگرا۔۔۔ گرنے والے اس آنسو کا اثر تھا کہ لفظوں کا افراہیم نے اپنے ہاتھ کی گرفت جیسے ہی ڈھیلی کی نوف فورا اپنا ہاتھ چھڑوا کر گھر کے اندر چلی گئی
"آج تو سچ میں جان لے مس یمنہ تم نے افراہیم عباد کو"
افراہیم آہستہ آواز میں بولتا ہوا نازنین کے کمرے میں جانے لگا کیونکہ نوف بھی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی سیدھے نازنین کے کمرے میں گئی تھی
"اوہو یمنہ بتاؤ تو سہی اس طرح رو کیوں رہی ہو مجھے پریشانی ہورہی ہے کچھ بولو تو سہی کیا ہوا ہے"
نازنین نوف کے رونے سے پریشان ہوتی ہوئی بولی پھر اپنے پاس بیٹھی ہوئی بیلا کو دیکھنے لگی بیلا خود بھی اس کے رونے پر حیرت زدہ تھی جبھی نوف کے پاس آکر پوچھنے لگی
"کیا تمہیں کسی کی بات بری لگی ہے یا تمہیں کسی نے کچھ کہہ دیا ہے پلیز یمنہ بولو مما پریشان ہورہی ہیں تمہارے اس طرح رونے سے"
بیلا نوف سے پوچھ رہی تھی کہ افراہیم کمرے میں آگیا
"افی دیکھو ناں کس طرح رو رہی ہے تم پوچھو اس سے کیا ہوا ہے،، مجھے تو گھبراہٹ ہورہی ہے اس کے اس طرح رونے سے"
نازنین افراہیم کو اپنے کمرے میں آتا ہوا دیکھ کر بولی تو نوف سر اٹھاکر ناراضگی سے افراہیم کی طرف دیکھنے لگی
"ہونا کیا ہے میں نے اس کو چند منٹ پہلے پرپوز کیا تھا بس اسی بات پر رونے لگ گئی اور یہاں آپ کے پاس آگئی" افراہیم کے بولنے پر کمرے میں موجود تینوں خواتین کا منہ حیرت سے کھل گیا اور تینوں ہی حیرت سے افراہیم کو دیکھنے لگیں
"بس بہت ہوگیا، سمجھ کیا رکھا ہے آپ نے مجھ کو، آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ میرے بارے میں کچھ بھی کہہ ڈالے اور میں خاموشی سے برداشت کرلوں"
نوف افراہیم کو دیکھ کر غصے میں بولتی ہوئی صوفے سے اٹھ گئی تو اس کے برابر میں بیٹھی ہوئی بیلا بھی اٹھ گئی
"بیٹا اس میں اتنا برا ماننے والی کیا بات ہے چند دن پہلے تم ہی نے تو کہا تھا کہ تم میری خدمت کسی غرض یا صلے کے بدلے میں نہیں کرتی ہو بلکہ مجھے اپنی ماں کی جگہ تصور کرکے کرتی ہو، ایسے ہی ان دو ہفتوں میں تم مجھے بھی بیلا کی طرح عزیز ہوچکی ہو آج میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار افی سے کردیا تھا اور اس نے تمہیں پروپوز کر ڈالا"
نوف کو غصے میں روتا ہوا دیکھ کر نازنین پیار سے اسے سمجھانے لگی مگر نازنین کی بات مکمل ہونے پر وہ کمرے سے باہر نکل گئی، افراہیم نازنین اور بیلا پر نظر ڈال کر خود بھی کمرے سے باہر چلا آیا
"کہاں جارہی ہو یمنہ رکو"
افراہیم نوف کو گھر سے باہر جاتا ہوا دیکھ کر اس کے پیچھے آتا ہوا بولا تو نوف رک کر اسے بولنے لگی
"نہیں رہنا مجھے یہاں پر میں یہ جاب چھوڑ کر جارہی ہوں"
نوف افراہیم کو بولتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تبھی افراہیم نے غصے میں نوف کا بازو پکڑا
"دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے تمہارا، ایسا کیا برا لگ گیا تمہیں جو تم یہ گھر چھوڑ کر جارہی ہو، پرپوز والی بات مذاق میں نہیں بولی تھی میں نے،، میں واقعی میں تم سے شادی"
افراہیم کے کچھ بولنے سے پہلے نوف اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتی ہوئی بولی
"آگے ایک لفظ بھی مت بھولیے گا افراہیم مجھے نہیں رہنا یہاں،، جانا چاہتی ہوں میں اس گھر سے"
اگر نازنین اور افراہیم سچ میں ایسا چاہتے تھے تو نوف کو لگا کہ اسے پہلی فرصت میں یہاں سے چلے جانا چاہیے مگر نوف کی بات سن کر غصے میں دوبارہ افراہیم نے نوف کا بازو سختی سے پکڑا
"تم یہ صلہ دے رہی ہو مما کی محبت اور خلوص کا۔۔۔ جاکر دکھاؤ تم اس گھر سے میں تمہاری ٹانگیں توڑ ڈالوں گا"
افراہیم کو واقعی اس پر شدید غصہ آیا تھا جبھی وہ نوف کو دھمکی دیتا ہوا بولا
"میں آپ کے گھر میں جاب کرتی ہوں آپ کی خریدی ہوئی کوئی غلام نہیں ہوں جو آپ میری ٹانگیں توڑ ڈالیں گے،،، پلیز اب مجھے مت روکیے گا اور نہ ہی میرے راستے میں آئیے گا"
نوف افراہیم کو بولتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی
"بھائی یمنہ تو چلی گئی اب کیا ہوگا"
بیلا ہال میں آکر پریشان ہوتی ہوئی بولی تو افراہیم کو نوف کی حرکت پر غصہ آنے لگا وہ خاموشی سے ٹراؤزر کی پاکٹ سے اپنا موبائل نکال کر میسج ٹائپ کرنے لگا جبکہ بیلا افراہیم کے اتنے آرام سے کھڑے رہنے پر حیرت زدہ ہوکر اس کو دیکھتی ہوئی دوبارہ بولی
"بھائی آپ یمنہ میں واقعی انٹرسٹڈ ہیں یا صرف مما کے کہنے پر اس کو پرپوز کردیا آپ نے"
بیلا کے پوچھنے پر افراہیم اسکرین سے نظر ہٹاکر اس کی طرف متوجہ ہوکر بولا
"عجیب ایٹیٹیوڈ والی بندی ہے یار مگر ناٹ بیڈ، گزارہ ہوجائے گا میرا اس کے ساتھ ویسے تم بتاؤ اگر تمہیں بھابھی کے طور پر وہ قبول نہیں ہے تو میں ارادہ بدل دیتا ہوں اپنا"
افراہیم اپنے موبائل پر آنے والے میسج کو پڑھ کر اطمینان کرتا ہوا بولا
"کوئی ایٹیٹیوڈ والی بندی نہیں ہے کم ازکم اس تاشفہ سے تو لاکھ درجے بہتر ہے جس کی تصویر میں نے آپ کے موبائل میں دیکھی تھی مگر اب کیا ہوگا یمنہ تو یہاں سے گھر چھوڑ کر چلی گئی"
بیلا کو نوف کے گھر سے نکلنے پر پریشانی لاحق ہوچکی تھی بیلا کا بولا ہوا آخری جملہ کمرے سے باہر آتی ہوئی نازنین کے کانوں میں پڑ گیا
"افی یمنہ گھر چھوڑ کر چلی گئی اور تم نے اسے جانے دیا اسے تو راستوں کو بھی صحیح سے معلوم نہیں ہے پلیز اسے جاکر لے آؤ"
نازنین بھی نوف کے جانے سے پریشان ہوچکی تھی تبھی وہ افراہیم سے بولی
"دماغ خراب ہوگیا ہے میرا جو میں اس کو جاکر لے آؤ،، خود ہی گئی ہے تو پھر خود ہی واپس آجائے گی۔۔۔ آپ دونوں کو بھی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے جاکر اپنے اپنے کمروں میں آرام کریں"
افراہیم بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ بولتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ نازنین پریشان ہوکر بیلا کو دیکھتی ہوئی بولی
"میں جاکر گلاب خان کو بولتی ہو وہ واپس لےکر آجائے گا یمنہ کو"
نازنین باہر جانے لگی تو بیلا اس کو روکتی ہوئی بولی
"مما رہنے دیں آپ ٹینشن فری ہوکر اپنے کمرے میں جاکر ریسٹ کریں،، اگر یہ کوئی ٹینشن والی بات ہوتی تو اس وقت بھائی اپنے کمرے میں جانے کی بجاۓ یمنہ کے پیچھے اس کو لینے چلے گئے ہوتے اگر بھائی کو کوئی ٹینشن نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے یمنہ واقعی خود آجاۓ گی"
بیلا نازنین سے بولتی اسے اس کے کمرے میں لے جانے لگی
وہ سڑک پر بےمقصد پیدل چل رہی تھی،، افراہیم پر غصہ کرتی ہوئی وہ گھر سے باہر نکل تو آئی تھی مگر اب اس کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کس سے مدد لے اور کہاں جاۓ۔۔۔ ماں سے جدائی اور بھائی سے دوری کا غم بےشک اس کے دل میں موجود تھا مگر ان چند دنوں میں اسے اپنی عزت کی طرف سے کوئی دھڑکا نہیں لگا رہتا تھا جو پچھلے دس سالوں سے اسے اپنے سگے چچا کے گھر میں عدنان کی وجہ سے ہر وقت لگا رہتا تھا۔۔ ابھی وہ صحیح طور پر فیصلہ نہیں کرپائی تھی کہ کس سے مدد لے نوف کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے پلٹ کر دیکھا تو دو پندرہ پندرہ سال کے بچے اس کے پیچھے پیچھے آرہے تھے
"ہم بھی اکیلے تم بھی اکیلے مزا آرہا ہے قسم سے"
ان میں سے ایک لڑکا نوف کو دیکھ کر بےسری آواز میں ہانکا نوف جلدی سے مڑی اور واپس گھر کی طرف چلتی ہوئی اس نے اپنی اسپیڈ بڑھادی۔۔۔۔ جب نوف گیٹ کے اندر گھر میں داخل ہوئی تو اس کی سانسیں بحال ہوئی مگر وہاں افراہیم کھڑا تھا جسے دیکھ کر بےبسی سے نوف کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگی۔۔۔ افراہیم نوف کا ہاتھ پکڑ کر اسے اس کے کمرے میں لے آیا۔۔۔ نوف نے اب کی بار افراہیم کے ہاتھ پکڑنے پر کوئی احتجاج نہیں کیا وہ خاموشی سے افراہیم کے ساتھ کمرے میں چلی آئی
"گھر سے باہر نکلنے کا شوق پورا ہوگیا تو اب آگے کا ارادہ بتادو پھر کیا سوچا ہے تم نے"
افراہیم اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر بالکل نرم لہجے سے پوچھنے لگا
"اگر آپ آنٹی کے کہنے پر مجھے اپنانا چاہتے ہیں اور آنٹی ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے مگر میری ایک شرط ہے شادی کے بعد آپ میرے بالکل بھی قریب نہیں آئیں گے"
نوف جلدی جلدی بول کر خاموش ہوگئی اور ساتھ ہی شرم کے مارے اپنا سرجھکا گئی جبکہ افراہیم اپنے سامنے کھڑی ملکہ عالیہ کی شرط سن کر اندر تک بری طرح جل اٹھا۔۔۔ وہ چلتا ہوا نوف کے قریب آیا جس پر نوف دو قدم پیچھے ہوئی اور سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی
"کیا ہو تم ہاں، سمجھتی کیا ہو آخر خود کو۔۔۔۔ مجھے لڑکیوں کی کمی ہے یا میں مرا جارہا ہوں تم سے شادی کرنے کے لئے۔۔۔ اگر میں تم سے شادی کروں گا تو صرف مما کی وجہ سے کیونکہ میں ان کی خواہش کو رد نہیں کرسکتا ورنہ میں تمہارے جیسی نخرے والی لڑکی کو منہ لگانا پسند نہ کرو"
افراہیم غصے میں نوف کو بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا تبھی اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی
"افراہیم بھائی سسٹر کو باعزت طریقے سے واپس آپکے گھر پہنچا دیا ہے"
بیلا اپنا تیار کردہ فزکس کے اسائنمنٹ پر آخری نظر ڈالتی ہوئی اسے سبمٹ کروانے کے لیے اسٹاف روم میں پہنچی جہاں اتفاق سے ازلان کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیچر موجود نہیں تھا اور ازلان خود بھی کسی سے موبائل پر بات کررہا تھا،، کل شام اس نے اپنے دوستوں کی موجودگی میں بیلا سے نکاح کیا تھا مگر اس کے فورا بعد ڈرائیور کے آنے کی وجہ سے بیلا کو واپس اپنے گھر جانا پڑا۔۔۔۔ غیر محسوس طریقے سے کل رات بیلا اس کی کال کا انتظار کرنے لگی مگر ازلان کی طرف سے کوئی کال نہیں آئی
اپنے اور اذلان کے نکاح والے پورے منظر کی فلم یاد کر کے وہ رات میں سوچکی تھی اور اب جب وہ صبح یونیورسٹی آئی تھی تو ازلان ازلان نہیں تھا،، بلکہ ایک سخت گیر ٹیچر آبان بنا ہوا تھا۔۔۔ جس نے فزکس کے پیریڈ میں سارے اسٹوڈنٹس کے ساتھ اس کا بھی خون خشک کیا ہوا تھا بلکہ سب اسٹوڈنٹس کی موجودگی میں اسائنمنٹ ٹائم پر سبمٹ نہیں کروانے پر ایک گھنٹے پہلے اس نے بیلا کو اچھا خاصا ڈانٹا بھی تھا
"مے آئی کم ان"
بیلا نے پھولے ہوئے منہ کے ساتھ اذلان سے اندر آنے کی اجازت مانگی جس پر ازلان موبائل پر بات کرتا ہوا آنکھوں سے اشارہ کرکے اسے اندر آنے کی اجازت دے چکا تھا
"نہیں اتنا تو مجھے اندازہ ہے کہ وہ اسی شہر میں موجود ہے لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے اسے کہیں پر بھی دیکھا نہیں گیا ہے، اس کے باوجود میں ناامید نہیں ہوں بس مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے"
ازلان کو موبائل میں بات کرتا ہوا دیکھ کر وہ اپنا اسائنمنٹ ٹیبل پر رکھ کر جانے کے لیے مڑنے لگی تبھی ازلان نے بیلا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ بیلا نے ازلان کی طرف دیکھا وہ ابھی بھی اپنے موبائل پر بزی تھا
"نہیں اس معاملے کا بھی ابھی کچھ نہیں بنا، سمجھیں وہ معاملہ بھی فل الحال ٹھنڈہ ہے"
ازلان بیلا کے چہرے پر نظر ڈالتا ہوا موبائل پر بات کررہا تھا اس کے ہاتھ کے نیچے ابھی تک بیلا کا ہاتھ دبا ہوا تھا، اس وجہ سے وہ ازلان کے قریب ہی کھڑی ہوئی تھی
"بیٹھو"
چند منٹ بعد کال رکھنے کے ساتھ ہی ازلان نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ ہٹایا اور کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا تو بیلا خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی
"کیسی ہو"
ازلان بیلا کے ناراض چہرے پر نظر ڈال کر اس کا حال پوچھنے لگا
"بہت بری، جبھی تو تم نے تھوڑی دیر پہلے دوسرے اسٹوڈینٹس کے سامنے مجھے ڈانٹ دیا"
بیلا منہ بناتی ہوئی ازلان سے بولی،، ازلان نے بیلا کی تیز آواز پر باقاعدہ اس کو آنکھیں دکھائی جس پر بیلا سنبھل گئی بےشک اس وقت اسٹاف روم میں کوئی موجود نہیں تھا مگر بیلا جانتی تھی اس کو دھیمے لہجے میں ازلان پر غصہ کرنا چاہیے تھا
"صرف تمہیں نہیں ڈانٹا تھا میں نے، رابیل اور عثمان کو بھی ڈانٹا تھا کیوکہ ان دونوں نے بھی وقت پر اسائنمنٹ جمع نہیں کروایا تھا"
ازلان بیلا کا اسائنمنٹ چیک کرتا ہوا اسے آئستہ آواز میں بتانے لگا تو بیلا اس کو گھورتی ہوئی کرسی سے اٹھنے لگی کیوکہ عثمان اور رابیل اس کی بیوی نہیں تھے بیلا کے خیال میں ازلان کو اسے تو تھوڑی بہت رعایت دینی چاہیے تھی
"کہاں جارہی ہو"
ازلان بیلا کو اٹھتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا
"اس فضول اسائنٹمنٹ کو مکمل کرنے کے چکر میں، میں نے لنچ نہیں کیا وہی کرنے جارہی ہوں"
بیلا روٹھے ہوۓ لہجے میں ازلان کو جتاتی ہوئی بولی تاکہ ازلان کو احساس ہو وہ اس کے ڈانٹنے کی وجہ سے اب تک بھوکی بیٹھی اسائنمینٹ مکمل کررہی تھی
"اگر دوسرے اسٹوڈینٹس کی طرح تم بھی وقت پر اسائینمنٹ سبمٹ کروا دیتی تو تمہیں بھوکے رہنے کی خواری برداشت نہیں کرنا پڑتی،، جاؤ جاکر کچھ کھالو اور کل کی طرح آج شام بھی پانچ بجے پہنچ جانا"
بیلا کو ازلان کے انداز پر اور بھی غصہ آنے لگا یعنی اسے سرے سے ہی احساس نہیں تھا کہ وہ دو گھنٹے سے خالی پیٹ ہے اور اس کی وجہ سے کتابوں میں سر مار رہی تھی۔۔۔ اور وہ اس پر احسان کرتا ہوا اسے کھانے کا کہہ رہا تھا وہ بھی فضول قسم کی نصیحتوں کے ساتھ
"اور آج میرے تمہارے اپارٹمنٹ میں آنے پر کیا ہوگا"
بیلا ٹیبل پر کہنی ٹکا کر اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتی ہوئی طنزیہ انداز میں اذلان سے پوچھنے لگی۔۔۔ اگر کوئی دوسرا شخص یا اسٹوڈنٹ اسے یوں کلاس ٹیچر سے فری ہوکر بات کرتا ہوا دیکھ لیتا تو حیرت ہی کرتا
"ہوسکتا ہے کچھ ہو ہی جائے۔۔۔ آجانا میں انتظار کروں گا"
ازلان بھی اپنی کہنی ٹیبل پر ٹکاۓ اپنے گال پر ہاتھ رکھتا ہوا بیلا کو غور سے دیکھ کر اسی کے انداز میں بولا مگر اس کی بات پر بیلا سمٹ کر رہ گئی اور ٹیبل سے اپنی کہنی ہٹاکر سیدھی ہوکر بیٹھی
"آج شام بھائی کا نکاح ہے تو میں بزی ہوگیں میرا آنا ممکن نہیں ہوگا"
بیلا ازلان کے دیکھنے پر اس سے نظریں ملاۓ بغیر اسے افراہیم کے نکاح کے بارے میں بتانے لگی جو آج شام میں طے پایا گیا تھا
"واہ بھئی تو سالے صاحب بھی بہنوئی کے نقشے قدم پر چل نکلے۔۔۔ شام کا پروگرام پھر کینسل کردیتے ہیں میں تمہارا پھر رات میں ویٹ کروں گا"
ازلان پرسکون لہجے میں بولا تو بیلا حیرت سے اسے دیکھنے لگی
"اور تمہیں یقین ہے میں رات میں تمھارے پاس آجاؤ گی"
وہ کتنا آسان سمجھ رہا تھا بیلا کا اس کے پاس آنا، یہ بیلا ہی جانتی تھی وہ کل کس طرح اس کے اپارٹمنٹ میں آئی تھی
"نہیں مجھے تم پر یقین نہیں لیکن اپنے اوپر پورا یقین ہے اگر تم میرے پاس نہیں آئی تو آج رات میں ضرور تمہارے گھر پر تمہارے پاس آ جاؤں گا"
ازلان آئستہ آواز کے ساتھ شریفانہ انداز میں مسکراتا ہوا بیلا کو دیکھ کر بولا کیوکہ دو ٹیچرز کلاس روم میں داخل ہوچکے تھے
"کل رات میں ایک کال تک تو تم سے کی نہیں،، مطلب ایک انسان نے نکاح کیا ہے تو اس خوبصورت رشتے کی خاطر کوئی پیار بھرا سا جملہ بول دے، نئے رشتے کو لےکر اپنے پاٹنر سے اپنی فیلیگز شیئر کردے۔۔۔ کوئی احساس ہی بےدار کردے بندہ نئے رشتے کو لےکر اور تم آج رات میری فیملی کی موجودگی میں میرے گھر آنے کی بات کررہے ہو کاش کہ میں اس سڑے ہوۓ جوک پر زبردستی ہنس سکتی"
بیلا نرم لہجے میں اس پر گہرے گہرے طنز کرتی ہوئی کرسی سے اٹھ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی ازلان نے اس کے گھر آنے والی بات ایسے ہی بولی ہوگی
صبح سے ہی گھر میں عجیب افراتفری کا سماں تھا ملازم یہاں سے وہاں دوڑ لگاتے ہوئے نظر آرہے تھے،، کہنے کو تو نکاح کی تقریب گھر میں سادگی سے رکھی گئی تھی لیکن نازنین کے ارمانوں نے اس تقریب کو سادہ ہرگز نہیں رہنے دیا تھا۔۔۔۔ وہ صبح سے ہی کچھ نہ کچھ منگوانے کے لیے ڈرائیور کے باہر کے دس چکر لگوا چکی تھی۔۔
شام میں ہونے والی نکاح کی تقریب میں افراہیم اور نازنین کے دوستوں کے علاوہ چند دو تین رشتہ دار بھی شامل تھے۔۔۔ نازنین کو آج کے دن ناصرف بیلا کے یونیورسٹی اور افراہیم کے آفس جانے پر غصہ تھا بلکہ وہ نوف کے پارلر نہ جانے پر بھی اس سے خفا تھی مگر نوف بھی کیا کرتی، اب اسے گھر سے باہر قدم نکالنے پر خوف آنے لگا تھا۔۔۔ نازنین کی ناراضگی کو دیکھکر اس نے نازنین کو بیوٹیشن کو گھر بلوانے کا مشورہ دے تو دیا تھا مگر تھوڑی دیر پہلے بیوٹیشن نے جو سروس کے نام پر نوف کے ہاتھ پاؤں پر ویکس کے بعد فیشل کرنا شروع کیا تھا وہ بری طرح اکتا چکی تھی، ابھی بھی اس کی اکتاہٹ ختم نہیں ہو پائی تھی کہ نازنین کے کہنے پر بیوٹیشن نے اس کے ہاتھ پاؤں کو مہندی کے ڈیزائن سے بھرنا شروع کردیا
کمرے سے باہر نازنین کی صلواتیں سنانے سے وہ اندازہ لگا چکی تھی کہ افراہیم آفس سے گھر آچکا تھا، بیوٹیشن تھوڑی دیر پہلے ہی مہندی سے اس کے ہاتھ پاؤں پر نقش و نگار بناکر جاچکی تھی چند گھنٹے بعد ہی دوسری بیوٹیشن کو آجانا تھا اس کو شام کی تقریب کے لیے تیار کرنے کے لیے، لیکن اس وقت شدید بھوک لگنے کی وجہ سے نوف کو رونا آنے لگا تھا۔۔۔ اس نے ٹینشن اور افراتفری میں صبح سے ہی کچھ نہیں کھایا تھا اور اب اس نے اپنا خالی کمرہ دیکھ کر رونا شروع کردیا تھا
"تمہیں کیا ہوگیا ہے رو کیوں رہی ہو تم"
ابھی روتے ہوئے اس کو چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ افراہیم اس کے کمرے میں آتا ہوا نوف کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ افراہیم کو اپنے سامنے دیکھ کر نوف نے مزید بلک بلک کر رونا شروع کردیا
"یمنہ مجھے کچھ بتاؤں گی کہ تمہیں کیا ہوا ہے"
افراہیم نوف کے رونے پر بیڈ پر اس کے قریب بیٹھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو نوف کو احساس ہوا اس کا دوپٹہ بیڈ پر رکھا ہوا تھا۔۔۔ نوف نے دوپٹہ اٹھانے کے لئے آگے ہاتھ بڑھایا اس سے پہلے افراہیم نے اس کا بازو پکڑا
"کیا کررہی ہو سارا ڈیزائن خراب ہوجائے گا مہندی کا"
افراہیم نے بولنے کے ساتھ احتیاط سے اس کے کندھے پر دوپٹہ رکھا
"اب مجھے بتاؤ کہ رو کیوں رہی ہو اس طرح"
افراہیم نے دوپٹہ اس کے کندھے پر ڈالنے کے ساتھ نوف سے اس کے رونے کی وجہ پوچھی
"مجھے بھوک لگ رہی تھی بہت زیادہ"
نوف افراہیم کو دیکھ کر اپنے رونے کی وجہ بتانے لگی
"او گاڈ کوئی بھوک لگنے پر اس طرح روتا ہے، حیرت ہورہی ہے مجھے۔۔۔ رکو میں کچھ بندوبست کرتا ہوں تمہاری بھوک کا"
افراہیم مسکراتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا تو نوف کو عجیب افسردگی نے آگھیرا۔۔۔۔ کیا وہ اس کو ذرا سی بھی یاد نہیں تھی بےشک دس سال پہلے ان دونوں کی اتنی زیادہ ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن کیا وہ اتنی بھی اس قابل نہیں تھی کہ افراہیم اس کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا۔۔۔ آج نکاح کے وقت وہ ولدیت میں اس کے باپ کا نام دیکھ کر بھی وہ اس کو نہیں پہچانے گا اور اگر افراہیم اس کو آج یا پھر بعد میں جان جاتا تب افراہیم کا کیا ردعمل ہوگا
"اب یہ کھاؤ گی کیسے سارا تمہارے ہاتھوں کا ڈیزائن خراب ہوجائے گا چلو میں اپنے ہاتھ سے کھلا دیتا ہوں تمہیں"
افراہیم واپس کمرے میں آکر نوف کے ہاتھوں کو دیکھنے کے بعد خود سلوشن نکالتا ہوا بولا اور ہاتھ میں اسپگیٹی سے بھری ہوئی پلیٹ بیڈ پر نوف کے سامنے ہی رکھ کر بیٹھ گیا
"جی نہیں میں کوئی بچی نہیں ہوں جو آپ مجھے آپنے ہاتھ سے کھلاۓ گے میں خود اپنے ہاتھ سے کھالو گی"
نوف اسکو فری ہوتا دیکھ کر بولی تو افراہیم کو اس کی اکھڑ دکھانے پر غصہ آنے لگا لیکن آج کے دن وہ اس لڑکی سے نیا رشتہ قائم کرنے جارہا تھا تو اس پر غصہ نہیں کرسکتا تھا
"اگر یہ مہندی کا ڈیزائن ذرا سا بھی خراب ہوگیا تو مما کو ٹینشن شروع ہوجائے گی،، آج کے دن انہیں اپنے افی کی دلہن بالکل پرفیکٹ نظر آنی چاہیے کیونکہ مرگز نگاہ تم ہوگی،، صبح سے ہی انہیں کاموں کی وجہ سے اتنا ڈپریشن ہے ابھی انہیں نیند کی ٹیبلٹ دے کر آرہا ہو تاکہ وہ تھوڑی دیر ریسٹ کرلیں،، اب نخرے دکھائے بغیر جلدی سے منہ کھولو پھر مجھے بھی دوسرے کام نمٹانے ہیں"
افراہیم اسے آرام سے سمجھاتا ہوا اسپیگیٹی سے بھرا چمچہ اس کے منہ کے قریب لایا تو نوف کو ناچاہتے ہوئے بھی منہ کھولنا پڑا
" مگر مجھے مرکز نگاہ بننے کا شوق نہیں ہے، نہ ہی مجھے سج سنور کر لوگوں کو اپنا آپ دکھانا ہے،، مجھے اس مہندی سے بھی بہت الجھن ہورہی ہے۔۔۔ میں اس طرح بالکل کمفرٹیبل فیل نہیں کررہی ہو"
افراہیم کی نگاہیں اپنے چہرے پر محسوس کرکے نوف جان بوجھ کر اکتائے ہوئے لہجے میں بولی، تو افراہیم دوسرا چمچہ بھر کر، اس کے منہ کے قریب لے جاتا ہوا بولا
"مجھے بھی شوق نہیں ہے اپنی چیز کو مرکز نگاہ بنانے کا، آج کے دن تمہارا سجا سنورا روپ میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھے گا میں مما کو خاص طور پر یہ بات بول دو گا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ پاؤں واش کرلینا آج کے دن مہندی کا رنگ ہاتھوں پر گہرا چڑھے یہ ضروری نہیں،، محبت کا رنگ ایسا ہونا چاہیے جو تاعمر اپنی گہری چھاپ قائم رکھ سکے"
افراہیم جذبے لٹاتی نظروں سے نوف کو دیکھ کر بولا تو نوف کا دل زور سے دھڑکنے لگا، وہ خاموشی سے افراہیم کو دیکھنے لگی
"منہ تو کھولو یار کہاں کھو گئی"
افراہیم کے بولنے پر نوف نے ذرا سا منہ کھولا تو افراہیم اس کو پھر سے اسپیگیٹی کھلانے لگا۔۔۔ نوف کو گھبراہٹ ہونے لگی وہ اس سے ایسی باتیں کیوں کررہا تھا جبکہ وہ اپنی شرط اسے بتا چکی تھی۔۔۔ افراہیم اس کی جھکی ہوئی پلکیں دیکھ کر اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا، ناجانے ایسی کون سی کشش تھی جس سے وہ بار بار اس لڑکی کی طرف کھچا چلا آتا تھا۔۔۔ اس کے اتنا نظرانداز کرنے کے باوجود افراہیم اس سے اپنا مضبوط بندھن باندھ رہا تھا تاکہ وہ اس کے پاس کبھی بھی نہیں جاسکے
آج سے پہلے وہ اتنا زیادہ تیار پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنے بھائی کی شادی کی خوشی نہیں تھی وہ افراہیم کی شادی سے بہت زیادہ خوش تھی مگر اس طرح سے خود کو تیار کرنے کا اس نے پہلے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔۔۔ آج اس کا دل چاہا کہ وہ اپنے آپ کو سنوارے شاید کہیں غیر شعور میں وہ یہ بات محفوظ کر چکی تھی کے ازلان نے اسے رات میں آنے کا کہا تھا،، جو کوئی بھی آج اس کو دیکھ رہا تھا وہ سراہا رہا تھا۔ِ۔ نازنین نے تو باقاعدہ اس کی نظر اتاری تھی،، ہر کسی کو بس ایک ہی شکایت تھی۔۔۔ اور وہ یہ کہ دلہن کا گھونگھٹ اتنا زیادہ نکالا ہوا تھا کہ افراہیم کی دلہن کا چہرہ کوئی بھی نہیں دیکھ پا رہا تھا، نہ ہی کسی کو دیکھنے کی اجازت تھی۔۔۔ بیلا نے ابھی جود بھی نوف کو دلہن کے روپ میں نہیں دیکھا تھا کیوکہ افراہیم کی عجیب منطق تھی کہ اس سے پہلے اس کی دلہن کا سجا ہوا روپ اور کوئی نہیں دیکھے گا نازنین تو افراہیم کی عجیب وغریب منطق پر پریشان تھی اور اپنی دوستوں اور رشتہ داروں سے معذرت کررہی تھی۔۔۔ اس عجیب منطق کی وجہ سے اسے سب کو صبح دوبارہ گھر آنے کی دعوت دینا پڑی تھی تاکہ نوف کا چہرہ دکھا کر منہ دکھائی کی رسم کی جاسکے
"بیلا شارجہ سے تمہاری فہمیدہ پھپھو کی کال آئی ہے۔۔۔ وہ تم سے بات کرنا چاہ رہی ہیں"
نازنین بیلا کے پاس آکر اس سے بولی تو بیلا نازنین کو خاموشی سے دیکھنے لگی
"میری جان صرف پھپھو ہیں ویڈیو کال پر پلیز بات کرلو ان سے"
نازنین بیلا کے تاثرات دیکھ کر اسے اپنا موبائل پکڑاتی ہوئی پیار سے بولی۔۔۔ نازنین کے پاس اس کی دوست آکر اس سے باتوں میں لگ گئی
"کیسی ہیں پھپھو آپ"
بیلا سلام کرنے کے بعد صوفے پر بیٹھتی ہوئی ویڈیو کال پر اپنی پھوپھو کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی، وہ بہت ہی کم نازنین کے بہت زیادہ اسرار کرنے پر فہمیدہ سے بات کیا کرتی تھی
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ میری بیٹی کتنی بڑی ہوگئی ہے اور کتنی خوبصورت بھی"
فہمیدہ خوش ہوکر موبائل کی اسکرین پر بیلا کا چہرہ دیکھ کر اس سے بولی تو اچانک فہمیدہ سے موبائل اصفر نے لے لیا۔۔۔ اتنے سالوں بعد اصفر کا چہرہ اسکرین پر دیکھ کر بیلا ایک دم خوفزہ ہوگئی
"واقعی تم تو بڑی ہوکر اور بھی زیادہ خوبصورت ہوگئی ہو۔۔۔ لگتا ہے اب دوبارہ پاکستان آنا پڑے گا بیلا ڈارلنگ اور یقین جانو اب کی بار پہلے سے بھی زیادہ مزہ آئے گا"
اصفر کی بات سن کر بیلا نے خوف کے مارے موبائل کو یوں دور پھینکا جیسے اصفر موبائل سے نکل کر اس کے پاس آجائے گا۔۔۔ لوگوں کے ہجوم میں اس کی حالت غیر ہونے لگی،، آنسوؤں کی صورت آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور خوف سے اس کے ہونٹ کانپنے لگے
وہ کتنی بےدردی سے برے طریقے سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھے اسے روندتا جارہا تھا،،، بیلا نے بچپن کا وہ منظر یاد کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زور سے ہاتھ رکھا ورنہ اس کے چیخنے پر سب اس کی طرف متوجہ ہوجاتے۔۔۔ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہوئی نازنین مہمانوں میں مصروف ہوچکی تھی،، دور کھڑے افراہیم پر بیلا کی نظریں گئی،، آج اسے اپنے بھائی کے چہرے پر خوشی اور اطمینان نظر آیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ خوشی اور اطمینان آج اس کے بھائی کے چہرے سے رخصت ہوجائے یا نازنین اس کو ڈسٹرب دیکھ کر خود بھی پریشان ہوجائے،، بیلا وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی آئی اور دروازہ بند کر لیا
"لگتا ہے اب دوبارہ پاکستان آنا پڑے گا بیلا ڈارلنگ یقین جانو اب کی بار پہلے سے زیادہ مزہ آئے گا"
اصفر کی آواز اس کے کانوں میں ایک بار پھر گونجی
"نہیں نہیں پلیز نہیں"
بیلا اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر روتی ہوئی اپنی چیخوں کو دبانے لگی
"نہیں میں مرجاؤ گی پلیز"
وہ روتی ہوئی ٹیبل کی طرف بڑھی اور اپنا موبائل اٹھاکر ازلان کا نمبر ملانے لگی
"پک اپ مائی کال ازلان پلیز"
بیل جا رہی تھی، کان پر موبائل لگاۓ بیلا روتی ہوئی بڑبڑانے لگی
"آئی نیڈ یو ازلان"
جب کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو بیلا روتی ہوئی ازلان کو میسج ٹائپ کرنے لگی۔۔۔ اس کے بعد بیلا نے اپنے موبائل پر دیکھا جہاں پہلے سے عون کی کال آئی ہوئی تھی۔۔۔ کیا عون کو پہلے سے معلوم ہوچکا تھا کہ اسے کسی کے سہارے کی ضرورت پڑنے والی ہے،، وہ اپنا سیل آف کرکے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گئی
اس کی ذات کی تذلیل کرنے والا، اس کو دنیا کے سامنے تماشا بنانے والا، آج بھی خوش باش مطمئن ہوکر اپنی زندگی جی رہا تھا اور وہ پچھلے دس سالوں سے کیسی اذیت میں مبتلا تھی،، گزرا ہوا وقت یاد کرکے وہ آج بھی کیسی تکلیف محسوس کرتی تھی یہ اس کا دل ہی جانتا تھا
آج پھر اس کے روپ کو سجا سنوار کر اسے شہزادی کی طرح تیار کیا گیا تھا مگر اب کی بار کسی نامحرم کے لئے نہیں بلکہ اسے اپنے محرم کے لیے سجایا گیا تھا،، بیوٹیشن نے جب نوف کو مکمل تیار کردیا تو گھونگھٹ ڈالنے سے پہلے وہ خاموشی سے اپنے سجے ہوئے روپ کو آئینے میں دیکھنے لگی۔۔۔ اتنی محنت اور مہارت سے میک اپ کرنے کے بعد بیوٹیشن کو سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ وہ برائیٹ کا چہرہ مکمل طور پر گھونگھٹ کی نظر کردے اور یہ تاکید کرنے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ افراہیم تھا جو آج قانونی اور شرعی طور پر اس کا حق دار بن چکا تھا
چند دن پہلے جب اسے روحیل کے لئے تیار کیا جارہا تھا تب نوف کو اپنا آپ کسی لاش کی مانند محسوس ہورہا تھا،، اب کی بار اس کے کیا محسوسات تھے وہ اپنی فیلیگز سے یکسر انجان تھی بس وہ خاموش بیٹھی ہوئی اپنے آس پاس لوگوں کی فرمائشیں سن رہی تھی جو اس کو دیکھنے کے طلبگار تھے مگر نازنین خوبصورتی سے ہر ایک کو ٹال رہی تھی،، جب نکاح نامہ اس کے سامنے رکھا گیا تب نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے وہ رخشی، قیوم اور ازلان کو یاد کر کے بےتحاشہ روئی تھی اپنی زندگی کی ڈور کسی دوسرے کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے اس کی سسکیاں نکلنے لگی تھی لیکن یہ فیصلہ اس نے بھوکے بھیڑیوں سے اپنی عزت محفوظ رکھنے کے لئے کیا تھا۔۔۔
نوف کے بہت زیادہ رونے پر نازنین اسے افراہیم کے کمرے میں بٹھاکر جاچکی تھی۔۔۔ اب اس کو اپنے گھونگھٹ سے الجھن ہونے لگی تھی اس کا پورا وجود بیٹھے بیٹھے دکھنے لگا تھا اس لئے وہ دوپٹے کو اپنے چہرے سے اوپر کرکے بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر آرام دہ انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔ نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی نوف کو احساس بھی نہیں ہوا۔۔۔
جب اسے اپنے ہاتھ پر کسی مردانہ ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو اچانک نوف کی آنکھ کھلی افراہیم کو اپنے بےحد قریب بیٹھا دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی،، افراہیم مہبوت سا، پلکیں جھپکائے بنا یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا جس کی وجہ سے نوف مزید سمٹ کر بیٹھ گئی۔۔۔ افراہیم کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کرکے نوف نے دوبارہ اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپانا چاہا تو افراہیم نے نوف کو ایسا کرنے سے روک دیا
"مجھ سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے آج کے دن تمہیں میرے لیے ہی سجایا گیا ہے اور میں مکمل حق رکھتا ہوں تمہارے اس روپ کو دیکھنے کا"
وہ نوف کے دونوں ہاتھ پکڑ دوپٹے سے ہٹا کر نیچے کرتا ہوا بولا۔۔۔ افراہیم کی نظریں ابھی بھی اس کے چہرے کا مکمل طواف کررہی تھی جس کی وجہ سے نوف کو اپنی پلکیں اٹھانا مشکل مرحلہ لگنے لگا۔۔۔ افراہیم اس کی تھوڑی کے نیچے انگلی رکھ کر اس کا چہرہ اوپر کرتا ہوا دوبارہ بولا
"میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ تم بہت خوبصورت ہو،، اور آج تمہارے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل مرحلہ لگ رہا ہے، میں وہ لفظ تلاش نہیں کر پارہا جس سے تمہارے اس روپ کی تعریف کرسکوں،، میری طرف سے یہ محبت کا خراج قبول کرو"
جذبوں سے گوندھی ہوئی افراہیم کی آواز نوف کے کانوں سے ٹکرائی جس کے بعد افراہیم نے نوف کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے تو وہ اپنی پوری جان سے لرز اٹھی۔۔۔ احتجاجا نوف نے افراہیم کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے ہٹانا چاہا مگر افراہیم اس کے احتجاج کی پرواہ کیے بغیر نوف کی کمر پر اپنے دونوں بازوؤں کو لپیٹ کر نوف کے اوپر جھکتا ہوا اسے بیڈ پر لٹا چکا تھا
"افرا۔۔۔۔
نوف افراہیم کی حرکت پر ڈرتی ہوئی اسے پکرانے لگی مگر اس سے پہلے افراہیم اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر نوف کو چپ کروا چکا تھا
"تم چند گھنٹے پہلے اپنے جملہ حقوق میرے نام کرچکی ہوں، اب تمہاری نہیں چلے گی اور آج تو بالکل بھی نہیں"
افراہیم نے نوف کو باور کرواتے ہوئے اس کے گلے سے نگینوں سے جڑا نیکلیس اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ساتھ ہی وہ نوف کی گردن پر جھ چکا تھا
افراہیم کے ہونٹوں کا محبت کا بھرا لمس اپنی گردن پر جگہ جگہ محسوس کرکے نوف کا دل بری طرح کانپنے لگا،، اس کی کمر پر لپٹا ہوا افراہیم کا ہاتھ اب نوف کے پیٹ پر سراہیت کررہا تھا۔۔۔ آہستہ سے نوف کے منہ سے سسکی نکلی تو،، افراہیم اٹھ کر نوف کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔ نوف افراہیم کو دیکھ کر گھبراہٹ کے مارے نفی میں سر ہلانے لگی
"یمنہ افراہیم آج افراہیم عباد تم پر اپنا رنگ چڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے مطلب محبت کا رنگ۔۔۔ اور تم بالکل بھی اعتراض نہیں کرو گی"
افراہیم کا لہجہ نرم ہونے کے باوجود اس کا انداز ایسا تھا نوف اسے کچھ بھی بول نہیں پائی
افراہیم اس کی تھوڑی پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا سر پر ٹکا ہوا نوف کا دوپٹہ اتار چکا تھا۔۔۔۔ نوف بےبسی کے عالم میں اپنی آنکھیں بند کرچکی تھی وہی افراہیم مدہوشی کے عالم میں نوف کے ہونٹوں پر اپنا انگوٹھا رگڑ کر اس کی لپ اسٹک صاف کرتا ہوا، باری باری اس کے دونوں گالوں کو چومنے لگا تب نوف کو اپنے دونوں گال جلتے ہوئے محسوس ہوئے
دس سال پہلے یہ مغرور شخص بہت بےدردی سے اسکے انہی گالوں پر جابجا تپھڑ مار کر انہیں سرخ کرچکا تھا۔۔۔ تب نوف نے اس شخص کی بےحسی کی انتہا دیکھی تھی اور آج یہی شخص اپنی دیوانگی کی انتہا دکھا رہا تھا تو نوف سے برداشت کرنا مشکل ہوگیا
"افراہیم ہٹ جائے میں کہتی ہوں پیچھے ہٹ جاۓ"
نوف تڑپ کر تیز آواز میں بولی تو افراہیم کو پیچھے ہٹنا پڑا۔۔۔ ایک سحر کی سی کیفیت جو افراہیم کے اوپر طاری تھی وہ نوف کے آنسو دیکھ کر کہیں غائب ہوچکی تھی۔۔۔ نوف اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی تو افراہیم بیڈ سے اٹھتا ہوا بولا
"واٹ ربش،، تم رو کیوں رہی ہو،،، ظاہر کیا کرنا چاہتی ہو تم مجھ پر۔۔۔۔ شادی ہوئی ہے ناں آج ہماری یا پھر میں یوں ہی بناء شادی کے زبردستی تمہارے ساتھ۔۔۔۔
افراہیم کو اس وقت نوف کا رونا انتہائی برا لگا تھا وہ بگڑے ہوئے موڈ کے ساتھ نوف سے پوچھنے لگا
"اور اس شادی سے پہلے ایک شرط رکھی تھی میں نے،،، آپ وہ کیوں بھول رہے ہیں"
نوف بولتی ہوئی خود بھی بیڈ سے اٹھ کر گھڑی ہوگئی اس کی بات سن کر افراہیم کو ہنسی آنے لگی
"تم کیا بچی ہو جو ایسی شرط رکھ کر یہ توقع کررہی ہو کہ میں اس فضول سی شرط کو سیریس لےکر تمہارے پاس نہیں آؤں گا،، شادی کی ہے میں نے تم سے کوئی مذاق نہیں ہوتا ہے کسی سے رشتہ جوڑنا،، اب آگے سے میرے سامنے کوئی بھی بےوقوفی والی بات مت کرنا،، میں آج کا دن بلکل بھی برباد نہیں کرنا چاہتا تمہاری کسی بےوقوفی کی باتوں کی وجہ سے"
افراہیم نے بولتے ہوئے دوبارہ نوف کی جانب اپنے قدم بڑھائے تو نوف تیزی سے پیچھے ہوئی
"وہی رک جائیں افراہیم اگر آپ میرے قریب آئے تو اچھا نہیں ہوگا آپ سے شادی میں نے صرف آنٹی کی وجہ سے کی ہے اور ایک محفوظ پناہ گاہ کی وجہ سے۔۔۔ اگر آپ میرے لئے اس گھر کو محفوظ نہیں رہنے دیں گے تو پھر میرے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اگر آپ نے میرے ساتھ زبردستی کی تھی تو میں اسی وقت یہاں سے چلی جاؤ گی۔۔۔ اگر آپ کو اپنی ویڈینگ نائٹ انجوائے کرنا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے آپ شوق سے دوسری شادی کرسکتے ہیں"
نوف افراہیم کو بولتی ہوئی رکی نہیں تھی بلکہ کمرے سے باہر نکل گئی یہ دیکھے بغیر کہ افراہیم کو اس کی بات سن کر کتنا غصہ آیا تھا
ڈائیننگ ہال مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مہمان کافی دیر پہلے جاچکے تھے۔۔۔ نازنین اور بیلا اپنے اپنے کمروں میں موجود تھیں،، نوف افراہیم کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کررہی تھی تب اچانک ہی گپ اندھیرا چھا گیا گھر کی ساری لائٹس بند ہونے کی وجہ سے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن کوریڈور میں موجود لمبے چوڑے ہیولے کو دیکھ کر نوف ڈر گئی۔۔۔ افراہیم کا قد بھی اچھا نکلتا ہوا تھا مگر یہ افراہیم ہرگز نہیں تھا اس سے پہلے نوف کچھ بولتی وہ آگے بڑھ کر جلدی سے نوف کا منہ بند کرچکا تھا۔۔۔ ازلان اس وقت اندھیرے کی وجہ سے اس لڑکی کو پہچان نہیں پایا تھا مگر اسے اتنا اندازہ تھا کہ یہ بیلا ہرگز نہیں ہے۔۔۔ اس سے پہلے وہ لڑکی شور مچاتی ازلان اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کرچکا تھا،، اس کے مچلتے ہوۓ وجود کو بےہوش کرنا اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ اچانک ایک کمرے کا دروازہ کھلا
"یمنہ یہ کیا حرکت ہے فورا روم میں واپس آؤ"
افراہیم کی آواز سن کر ازلان اس یمنہ نامی لڑکی کے بےہوش وجود کو اٹھائیں دائیں جانب کمرے میں چلا آیا، افراہیم کے قدموں کی چاپ اسے اسی کمرے میں آنے کا پتہ دے رہی تھی ازلان نے بےہوش وجود کو جلدی سے بیڈ پر ڈال کر،، افراہیم کے دروازہ کھولنے سے پہلے خود بیڈ کے نیچے چھپ گیا تب تک لائٹ بھی آچکی تھی جو اس کے کہنے پر چند سیکنڈ کے لیے بند کی تھی لیکن بےحد غلط ٹائم پر
"اس طرح اگر تمہیں مما نے یا پھر بیلا نے اس کمرے میں دیکھا تو وہ دونوں کیا سوچیں گے،، یہ بچگانہ حرکتیں بند کرو اور واپس اپنے کمرے میں چلو۔۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں تم سو نہیں رہی ہو بلکہ جاگ رہی ہو"
بیڈ کے نیچے چھپے ہوئے ازلان کو افراہیم کی آواز سنائی دی ساتھ ہی وہ بولتا ہوا بیڈ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ افراہیم کی آواز ازلان پہلے ہی پہچان چکا تھا اور یمنہ نامی یہ لڑکی یقینا اس کی بیوی تھی جس سے آج افراہیم کی شادی ہوئی تھی آج دوپہر والی بیلا کی بات ازلان کو یاد آئی
"یمنہ سنا نہیں تم نے، میں کیا بکواس کررہا ہو اٹھو فورا یا پھر میں تمہیں اٹھاکر واپس کمرے میں لے جاؤ"
افراہیم کو اس وقت اپنی بیوی کی ہٹ دھرمی پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا مگر وہ ضبط کرتا ہوا بولا،، وہ افراہیم کو دیکھ کر سوتی ہوئی بن گئی تھی مگر افراہیم جانتا تھا کہ وہ جاگی ہوئی ہے جبھی افراہیم نے اس کو خود اٹھانے کی دھمکی دی تھی۔۔۔ اور چند سیکنڈ ہی افراہیم نے اس کے اٹھنے کا انتظار کیا تھا اور پھر خود اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر اپنے کمرے میں لے جاچکا تھا
ازلان لمبی سانس خارج کرتا ہوا بیڈ کے نیچے سے باہر نکلا، آج کا دن اس کے لئے ذرا اچھا ثابت نہیں ہوا تھا کیونکہ چند گھنٹے پہلے وہ کس کرب سے گزرا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔ شام میں جب وہ اپنے اپارٹمنٹ میں موجود اپنے لیپ ٹاپ پر ورک کررہا تھا تب اس کے پاس مبشر کا فون آیا۔۔۔ کمشنر امان اللہ کے کہنے پر مبشر نے نوف کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔۔۔ بقول مبشر کے آج ایک انیس سال کی لڑکی کی لاوارث لاش ملی ہے جس کا آدھا چہرہ بری طرح جھلسا ہوا تھا کیوکہ اس لڑکی کے نقش کافی حد تک نوف کی تصویر سے ملتے ہیں اسلیے شناخت کے لیے ازلان کو آنے کے لیے کہا گیا تھا
اس خبر کے سنتے ہی ازلان کو لگا اس کے ادھے جسم سے جان نکل چکی ہے،،، نوف کو لےکر وہ ایسی خبر کی توقع تو کر ہی نہیں سکتا تھا،، نہ ہی اپنی بہن کے لیے ایسا برا سوچ سکتا تھا۔۔۔ اسے معلوم نہیں کیسے وہ کار ڈرائیو کرتا ہوا سرد خانے تک پہنچا تھا
اس کے لیے کتنا مشکل عمل تھا،، اس لڑکی کی مسخ شدہ لاش کو دیکھنا۔۔۔ مضبوط دل رکھنے کے باوجود اس وقت ازلان کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ مبشر نے اس کو حوصلہ دیا تو وہ خدا کا شکر ادا کرکے، نوف کی سلامتی کی دعا کرنے لگا
واپس گھر پہنچا تو ایک عجیب بےنام سی اداسی نے اس کو گھیرے میں لیا۔۔۔ اس کا دل ہر چیز سے اوچاٹ ہونے لگا۔۔ تب اس نے بیلا کو کال ملائی،، دنیا میں اس کے پاس کون رشتہ بچا تھا ایک بہن جو نہ جانے اس وقت کہاں تھی۔۔ ایک بیلا جس سے ازلان نے اپنے دل کی پوری رضامندی سے رشتہ بنایا تھا شاید اس کے فوری طور پر مگر خفیہ نکاح کرنے کی وجہ یہی تھی وہ اپنے اور بیلا کے رشتے میں کسی قسم کی روک ٹوک یا بدمزگی نہیں چاہتا تھا۔۔۔ مگر اس وقت شاید بیلا بزی تھی جبھی اس کی کال ریسیو نہیں کررہی تھی لیکن جب بیلا کی اس کے پاس کال آنے لگی تو وہ فوری طور پر کال ریسیو نہیں کرسکا۔۔۔ بیلا کا میسج پڑھ کر ازلان کو اندازہ ہوگیا کہ صرف اسے ہی نہیں اس وقت بیلا کو بھی اس کی ضرورت تھی۔۔۔ ازلان نے دو سے تین بار اس کا نمبر ٹرائی کیا تھا جو کہ مسلسل بند تھا،، جانا تو اسے آج ویسے بھی بیلا کے پاس تھا کیوکہ اپنے دوسرے کاموں کی وجہ سے وہ بیلا سے صحیح سے بات چیت نہیں کر پارہا تھا۔۔۔ اس لیے وہ یہاں چلا آیا
"بیلا اٹھو دیکھو تمہیں ضرورت تھی ناں میری۔۔۔ میں آگیا ہوں تمہارے پاس آنکھیں کھولو"
اس وقت وہ کافی ہیوی کپڑے پہنے اور میک اپ کیے بےخبر سو رہی تھی ازلان اس کے گال پر ہاتھ رکھتا ہوا آہستہ آواز میں بولا
"ازلان"
بیلا نے آنکھیں کھولیں تو اپنے قریب ازلان کو بیڈ پر بیٹھے دیکھا۔۔۔ بیلا نے فورا اٹھ کر ازلان کے سینے میں منہ چھپا کر رونا شروع کردیا
"شش خاموش ہوجاؤ بیلا،، میں آگیا ہوں ناں تمہارے پاس، مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے"
بیلا کا میسج پڑھتے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہے۔۔۔ اس لیے ازلان اس کے رونے پر حیرت زدہ یا پریشان نہیں ہوا وہ اپنا ایک ہاتھ بیلا کے سر پر رکھے دوسرے ہاتھ سے اس کے گرد حصار باندھ کر اپنائیت بھرے لہجے میں پوچھنے لگا۔۔۔ بیلا آنسوؤں سے تر چہرہ لئے ازلان کو دیکھتی ہوئی بولی
"وہ مجھے بول رہا تھا وہ دوبارہ پاکستان آۓ گا،،، وہ پھر سے میرے ساتھ وہی سب کچھ۔۔۔
بیلا روتی ہوئی ازلان کو بتانے لگی ہے اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ازلان نے سختی سے اس کو جھنجھوڑا
"اب تمہارے ساتھ کوئی بھی کچھ غلط نہیں کرسکتا،، کچھ کرنا تو دور کوئی چھو نہیں سکتا کوئی تمہیں۔۔۔ تمہاری طرف جس کی بھی بری نظر اٹھی تو میں آنکھیں نکال ڈالوں گا اس کی"
ازلان جان چکا تھا بیلا کس کی بات کررہی تھی۔۔۔ اسے اصفر نامی بےغیرت انسان پر شدید غصہ آنے لگا تھا۔۔۔۔ ازلان بیلا کو ایک بار پھر اپنے حصار میں لےچکا تھا
"مجھے جب جب وہ منظر آج بھی یاد آتا ہے تو میں رات میں سو نہیں پاتی ہوں،، اگر سو جاؤ تو وہ سب خواب میں نظر آتا ہے۔۔۔ مم مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی اس وقت۔۔۔ ابھی بھی بہت تکلیف ہوتی ہے وہ سب کچھ سوچتے ہوئے ازلان اس نے میرے ساتھ بہت برا کیا"
بیلا روتی ہوئی ازلان سے وہ باتیں شیئر کرنے لگی جو اس نے آج تک کبھی کسی سے شیئر نہیں کی تھی۔۔۔ ازلان کا چہرہ ضبط سے سرخ ہوچکا تھا وہ بیلا کے سنہری بالوں پر ہونٹ رکھتا ہوا اس کی کمر سہلانے لگا
"وہ سب ایک بھیانک خواب تھا،، مت ذہن میں لایا کرو ان باتوں کو جو صرف تمہیں اذیت میں مبتلا کرے۔۔۔۔ صرف اور صرف میرے اور اپنے متعلق سوچا کرو ہمارے نئے رشتے کے بارے میں، ایک شوہر کے لیے یہ احساس بہت اطمینان بخش ہوتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی غیرموجودگی میں بھی اپنے محرم کو یاد کرے اسی کو سوچے"
ازلان اسے اپنے حصار میں لیے آہستہ آواز میں بولا تو بیلا حیرت سے ازلان کے سینے سے سر اٹھاکر اسے دیکھنے لگی
"تم۔۔۔۔ اس وقت سچ میں میرے کمرے میں موجود ہو، مطلب تم یہاں تک آۓ کیسے وہ بھی اتنی رات میں"
ازلان کی باتیں سن کر وہ مکمل اپنے حواسوں میں آتی ہوئی ازلان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر شدید قسم کی حیرت میں مبتلا تھی اسکے حیران کن فیس ایکسپریشن دیکھ کر ازلان مسکرایا
"بہت جلدی خیال آگیا تمہیں کہ میں اس وقت تمہارے کمرے میں موجود ہو۔۔۔ ویسے بھی آج آنا تو مجھے لازمی تھا، میری نئی نویلی بیوی آج دوپہر میں مجھ سے شکوہ جو کرکے گئی تھی کہ کل رات میں نے اس کو کال نہیں کی، اس سے خوبصورت رشتہ بنایا تو کوئی پیار بھرا جملہ نہیں بولا۔۔۔ نہ ہی نئے رشتے کو لےکر اپنی فیلیگز شئیر کی۔۔۔ اور مجھے تمہارے اندر اس رشتے کو لےکر کچھ احساس تو لازمی بیدار کرنے چاہیے۔۔۔ سمجھو میں آج رات یہ سارے شکوے دور کرنے کے لئے آیا ہوں"
ازلان بولتا ہوا بیلا کو اپنے حصار میں لےکر بیڈ پر لیٹ گیا تو بیلا ازلان کی بےباکی پر ایک دم ہڑبڑا اٹھی۔۔۔ ازلان بیڈ پر لیٹا ہوا اپنے سینے پر جھکی ہوئی بیلا کا چہرا غور سے دیکھنے لگا
"وہ سب کچھ تو آج دوپہر میں میرے منہ سے ایسے ہی نکل گیا تھا تم نے بلاوجہ میں اتنا سیریس لےلیا میری باتوں کو"
بیلا ازلان کے خاموشی سے دیکھنے پر کنفیوز ہوکر بولتی ہوئی اس کے اوپر سے اٹھنے لگی تو ازلان نے فورا اس کا بازو پکڑا
"اس وقت تمہاری خود کی بھی بھلائی اسی میں ہے کے تم بھی مجھے اس وقت سیریس لو اور اسی طرح میرے قریب رہو، اب دوبارہ اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے"
ازلان سنجیدگی سے بیلا کا چہرہ دیکھتا ہوا اس سے بولا تو بیلا نے دوبارہ اس کے سینے سے اٹھنے کا ارادہ ترک کردیا
"ہمارے نکاح کے فورا بعد اتنی جلدی کیوں چلی گئی تھی مجھے واپس تو کمرے میں آنے دیتی"
ازلان بیلا کے چہرے کے ایک ایک نقش کو انگلیوں سے چھوکر محسوس کرنے کے ساتھ غور سے اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بیلا سے پوچھنے لگا
"فورا واپس نہیں گئی تھی پورے آدھے گھنٹے تمہارا ویٹ کیا تھا مگر تم دوسرے روم میں آدھے گھنٹے سے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے باتوں میں مصروف تھے"
بیلا ازلان کے شکوے پر اس کو جتاتی ہوئی بولی جس پر ازلان اپنی مسکراہٹ روکتا ہوا بولا
"ہاں یہ بات بھی صحیح ہے مجھے اپنے دوستوں سے معذرت کرتے ہوۓ اسی وقت ان کے پاس سے اٹھ جانا چاہیے تھا،، کہ یار میرا ابھی ابھی نکاح ہوا ہے تو ذرا میں اپنی بیوی کو دو تین پیار بھرے جملے بول کر، ساتھ ہی اس کی ڈھیر ساری تعریف کرکے تم لوگوں کے پاس آتا ہوں"
ازلان کے بولنے پر بیلا آنکھیں دکھاتی ہوئی اسے گھور کر بولی
"اف کتنا بےتکا بول رہے ہو تم ازلان خاموش ہوجاؤ"
بیلا کے ٹوکنے پر ازلان نے اپنے کندھے پر رکھا ہوا بیلا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا
"کل اچانک تم نے مجھ سے نکاح کرنے کا فیصلہ کرلیا مجھے ابھی تک حیرت ہورہی ہے تمہارے اس جلد بازی والے اقدام پر"
بیلا ازلان کو دیکھتی ہوئی وہی بولنے لگی جو وہ کل سے سوچ رہی تھی
"یہ فیصلہ اتنا اچانک بھی نہیں کیا ایسا کرنے کا تو پہلے سے ہی سوچا ہوا تھا۔۔۔ ایک لڑکی سے دس سال پہلے وعدہ جو کیا تھا ہمیشہ اس کا ساتھ نبھانے کا"
ازلان دھیمے لہجے میں بیلا کو دیکھتا ہوا بولا تو بیلا خاموشی سے ازلان کو دیکھنے لگی
"بس میرا دل کل خوش اس بات پر ہوا جب تم نے فٹافٹ بغیر کوئی ڈرامے کیے نکاح کرنے پر راضی ہوگئی"
ازلان نے اس کا تھاما ہوا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگایا تو بیلا ایک دم جھینپ گئی اور اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئی اٹھ بیٹھی پھر ایک دم بولی
"اور اگر میں کل نکاح سے انکار کردیتی تو"
وہ ازلان سے یونہی پوچھ بیٹھی، لیکن وہ انکار کر بھی کیسے سکتی تھی ایک پل کے لیے اس کا دل نہیں مانا کہ وہ اپنے لیے کسی غلط شخص کا انتخاب کررہی ہے۔۔۔ بس اسے گلٹ اس بات کا تھا کہ یہ نکاح اس نے افراہیم اور نازنین کی غیر موجودگی میں انہیں بتائے بغیر کیا ہے مگر اسے اندازہ تھا کہ نازنین اس کے اس انتخاب پر بالکل خفا نہیں ہوگی
"تو مجھے ایک خوبصورت لڑکی کے ہاتھ سے نکلنے کا غم کئی سال تک رہتا ہے"
ازلان خود بھی بیڈ پر بیٹھ کر اسے جواب دیتا ہوا بولا۔۔۔ بیلا کو اپنے حصار میں لےکر بیڈ پر لٹایا اور اس پر جھکتا ہوا بیلا کو سنجیدگی سے دیکھنے لگا جس پر بیلا کا دل بہت زور سے ڈھڑکنے لگا
"تمہیں کل اس لیے کال نہیں کرسکا تھا کیوکہ میں کل بہت زیادہ بزی تھا ویسے بھی بیچ میں کئی دن ایسے آتے ہیں کہ جب میرے اوپر کام کا لوڈ زیادہ ہوجاتا ہے پھر میں اپنے خود کے لئے بھی وقت نہیں نکال پاتا۔۔۔ یہ بات تمہیں آج اس لئے بتارہا ہوں تاکہ تم آئندہ مجھے کال نہ کرنے کا طعنے نہیں دے سکو اور اب باری ہے تم سے ہمارے نکاح کی فیلیگز شیئر کرنے کی، میں تم سے نکاح کرکے نہ صرف بہت زیادہ خوش ہوں بلکہ بےحد مطمئن بھی ہوں کیوکہ مجھے ایسا لگتا ہے میں نے تم سے رشتہ جوڑ کر اپنے لئے درست فیصلہ کیا ہے،، تم سے زیادہ اچھی لڑکی میری زندگی میں اب تک نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی تم ایک ایسی لڑکی ہو جس کے ساتھ میں اپنی آنے والی زندگی خوش اور مطمئن ہوکر گزاروں گا اس بات کا مجھے پورا یقین ہے"
ازلان نے بولتے ہوئے نہ صرف اس کو اپنی فیلیگز بتائی بلکہ اس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرکے اسے پیار بھرا مان بھی بخشا،، بیلا سانس روکے نہ صرف اس کو اپنے اتنے قریب دیکھ رہی تھی بلکہ اپنے لیے اس کی فیلیگز بھی سن رہی تھی
"مجھے میری ہی نظروں میں اتنی ویلیو دینے کے لیے شکریہ"
بیلا آئستہ آواز میں ازلان کو دیکھتی ہوئی بولی تو وہ مسکرا کر بیلا کے بالوں میں انگلیاں پھنساتا ہوا بولا
"تمہیں کال نہ کرنے کی وجہ بتادی، اپنے اور تمہارے رشتے کو لےکر اپنی فیلیگز تم سے شئیر کرلیں۔۔ اب میں یہاں سے جانے سے پہلے تمہارے اندر ہمارے قائم ہونے والے رشتے کو لےکر کچھ احساسات جگانا چاہتا ہو"
ازلان بیلا کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا پھر اس کے ہونٹوں کی طرف جھکنے لگا ویسے ہی بیلا اپنے چہرے کا رخ دوسری سمت کرتی ہوئی بولی
"بدتمیزی مت کرو ازلان فورا پیچھے ہٹ جاؤ،،، جب سے تم آئے ہو کسی نہ کسی طریقے سے احساسات ہی جگا رہے ہو اب بس کرو پلیز"
جو وہ کرنے والا تھا بیلا کو سوچ کر گھبراہٹ ہونے لگی اس لئے اپنے چہرے کا رخ پھیرتی ہوئی اذلان سے بولی
"بیلا میری جان ذرا آہستہ بولو،، تیز آواز میں بات کرکے کیوں اپنے بھائی کے خوبصورت لمحات میں خلل پیدا کررہی ہو،، ویسے ہی اس بے چارے کی بیوی پہلے ہی اس سے روٹھی ہوئی ہے"
ازلان بیلا کو ٹوکتا ہوا شرافت کا مظاہرہ کرکے خود بھی اٹھ چکا تھا
"کیا کیا کیا یمنہ خفا ہے بھائی سے مگر کیوں اور یہ تمہیں کیسے معلوم"
بیلا بھی اس کی بات سن کر آئستہ آواز میں بولتی ہوئی بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی
"اب اس کے خفا ہونے کی وجہ تو نہیں معلوم البتہ تمہارا بھائی اپنی شریک حیات کو مناتا ہوا واپس کمرے میں لےگیا تھا تھوڑی دیر پہلے، خیر چھوڑو یہ تو ان دونوں میاں بیوی کی آپس کی بات ہے۔۔ تم یہ رکھو اپنے پاس یہ میرے اپارٹمنٹ کی ڈوبلیکیٹ چابی ہے اب تم سو جاؤ میں چلتا ہوں"
ازلان بیلا کو چابی تھماتا ہوا کلائی پر بنی ہوئی واچ میں ٹائم دیکھنے لگا
"اور یہ ازلان سے آبان بننے کا کیا چکر ہے وہ تو بتاتے جاؤ"
سب سے اہم سوال جو بیلا کے دماغ میں شروع دن سے گلبلا رہا تھا وہ یہ بات پوچھنا ہی بھول گئی تھی۔۔۔ بیلا کی بات سن کر ازلان بیلا کے شولڈرز پر اپنے دونوں ہاتھ ٹکا کر بیلا سے خود پوچھے لگا
"تمہیں کیا لگتا ہے ایسا کیوں کروں گا میں"
وہ بیلا سے پوچھنے کے ساتھ ہی اسے جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا
"اگر تم میرے لیے یونیورسٹی میں سر عتیق کی جگہ آئے ہو تو نام بدلنے کی کیا وجہ تھی"
بیلا ناسمجھنے والے انداز میں ازلان کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی
"یا اللہ میری بیوی کو ساری زندگی ایسے ہی خوش فہم رکھنا،، بہت ہی زیادہ کوئی فارغ انسان سمجھ لیا ہے تم نے مجھے جو میں صرف تمہارے لئے یونیورسٹی اپنا نام بدل کر آؤں گا"
ازلان اس کے سر پر پیار سے چپت لگاتا ہوا باہر کی طرف جانے لگا مگر پلٹ کر دیکھا تو بیلا غصے میں ازلان کو گھور رہی تھی
"مذاق کررہا ہوں یار،، تمہارے لیے ہی تمہاری یونیورسٹی آیا ہوں اب اتنی محبت سے میری طرف مت دیکھو مجھے واپس جانا ہے، اگر گلاب خان جاگ گیا تو مسئلہ ہوجائے گا۔۔۔ اب جاکر بیڈ پر لیٹو اور اپنی آنکھیں بند کرلو تمہیں اب سونے سے پہلے صرف میرے بارے میں سوچنا ہے یاد ہے ناں"
وہ یہاں سے جاتے وقت اپنی بیوی کو ناراض بھی نہیں کرسکتا تھا اس لئے یونیورسٹی والی بات بیلا کا دل رکھنے کے لیے بولتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا
"یہ گلاب خان کتنا بدتمیز آدمی ہے ڈیوٹی کے ٹائم پر سو رہا ہے کل کو کوئی اور چلا آئے ہمارے گھر پر، میں بھائی کو بتاؤں گی صبح"
بیلا خود سے بولتی ہوئی واپس بیڈ پر لیٹ گئی وہ جانتی تھی ازلان اس کو کچھ نہیں بھی بول کر جاتا وہ سونے سے پہلے وہ اسی کو سوچتی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی اس کا شوہر بچارے گلاب خان کو یہاں آنے سے پہلے ایسا گلاب سونگا چکا ہے جس کی وجہ سے گلاب خان تھوڑی دیر کے لئے دنیا کے غم و فکر سے بیگانہ ہوکر سوچکا تھا