لان میں اسے روشنی سی محسوس ہوئی تھی۔ اس وقت لان میں کون ہوسکتا ہے؟
اس نے سوچا اور لان کی طرف قدم بڑھا دیا۔لان کے قریب آکر اس نے دیکھا کہ لان میں موجود کرسیوں اور میز کو بہت خوب صورتی سے پھولوں سے سجایا گیا ہے۔اور میز کے قریب کوئی کھڑا ہے پر اس کا منہ دوسری طرف ہے۔
کو۔۔۔کون ہیں آپ؟
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
ابھی وہ شخص مڑتا اور بتاتا کہ وہ کون ہے۔
اس سے پہلے ہی بی جان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔
اٹھ جاؤں میرال! صبح کے گیارہ بج گئے ہیں۔
پتا نہیں تم اتنی گہری نیند کیسے سو لیتی ہو کہ تمہیں میری آواز بھی نہیں آرہی ہے۔ میں کب سے تمہیں اٹھا رہی ہوں۔
بی جان کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی اور وہ خوابوں کی دنیا سے واپس آئی۔
بی جان!آج تو سونے دیں۔ آج تو سنڈے ہے۔ روز میں جلدی اٹھ تو جاتی ہوں۔
اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ اس کو اپنے خواب کے ادھورے رہنے اور اس شخص کا چہرہ نہ دیکھنے کا دکھ تھا۔
ٹھیک ہے سوتی رہو۔ تمہیں پتہ بھی ہے کہ میں تمہارے بغیر ناشتہ نہیں کرتی ہوں اور مجھے ناشتے کے بعد دوائی بھی کھانی ہوتی ہے پر کوئی نہیں آج دوائی نہیں بھی کھاتی تو تمہیں کون سا فرق پر جانا ہے۔
بی جان نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
بی جان! آپ کو پتا تو ہے کہ مجھے آپ کی کتنی فکر ہے۔ پھر بھی آپ ایسی باتیں کیوں کرتی ہیں۔ میرال اب اٹھ چکی تھی۔
ہاں مجھے پتا ہے کہ تمہیں کتنی میری فکر ہے۔ اس لئے تو مجھے تنگ کرتی ہو۔
بی جان نے جان بوجھ کر ایسا کہا۔
میں نہیں کروں گی تو کون تنگ کرے گا۔ پر اب آپ اپنی ناراضگی ختم کرئے۔ اب تو میں اٹھ گئی ہوں ۔بس دو منٹ میں برش کرکے نیچے آتی ہوں۔
میرال نے کمفرٹر ایک سائڈ پر رکھا۔
اچھا ٹھیک ہے آجاؤ جلدی میں نیچے جارہی ہوں۔
آج ناشتہ تمہاری پسند کا بنایا ہے۔
بی جان نے کہا اور نیچے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد میرال اور بی جان ڈائنگ ٹیبل پر موجود تھیں۔
ویسے بی جان آج ناشتہ بہت مزے کا ہے۔ میرال نے اپنے پسند کا آملیٹ کھاتے ہوئے کہا۔
ہاں آج مینا نے ناشتہ بہت مزے کا بنایا ہے۔
بی جان نے ملازمہ کا نام لیا۔
ہائے! بی جان اللہ کا شکر ہے آج آپ نے میری تعریف کی ورنہ آپ تو مجھے ڈانتی ہی رہتی ہیں۔
مینا نے آتے ہی شکایت کی اور ہاتھ میں پکڑی ٹوسٹ کی پلیٹ ٹیبل پر رکھی۔ مینا کا اصل نام تو ماہین تھا پر اس کی ڈرامائی حرکتوں کی وجہ سے میرال نے اس کا نام مینا کماری رکھا ہوا تھا۔
میں تمہیں تمہاری حرکتوں کی وجہ سے ہی ڈانتی ہوں۔ کام کرتے ہوئے تمہارا سارا دھیان تو ٹی وی ڈراموں کی طرف ہوتا ہے۔
بی جان نے اس کو اس کی غلطی بتائی۔
میں چائے لانا تو بھول ہی گئی ۔ میں چائے لے کر آتی ہوں۔
مینا نے فوراً وہاں سے جانے کی کی۔
اس کے ڈرامے تو چلتے رہیں گے۔ تم بتاؤں تمہارا انٹر کا رزلٹ کب آرہا ہے؟
بی جان نے بریڈ پر جیم لگایا۔
اگلے ہفتے آرہا ہے۔ مجھے تو بہت ٹینشن ہورہی ہے کہ رزلٹ کیا آئے گا؟
میرال نے جوس گلاس میں ڈالا۔
ٹینشن نہ لو۔
بی جان نے اسے حوصلہ دیا۔
کوشش کرتی ہوں کہ ٹینشن نہ لوں۔ آپ یہ بتائے کہ آج آپ گھر پر ہی ہیں یا کہیں جانا ہے؟
میرال نے پوچھا۔
ہاں میں نے جانا ہے اپنی NGO تھوڑی دیر کے لئے۔ پر شام تک آجاؤں گی۔ رات کا کھانا ساتھ ہی کھائے گے۔ تم نے کہیں جانا ہے کیا۔
بی جان نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
مینا چائے لاچکی تھی۔
جی میں نے عنایہ کی طرف جانا ہے۔
میرال نے اپنی بچپن کی دوست کا نام لیا۔
اچھا چابی لے جانا۔
بی جان نے کہا۔
اس کا گھر یہ تین گھر چھوڑ کر تو ہے۔ آپ جب گھر آئے گی تو مجھے کال کردئیے گا میں آجاؤں گی۔
میرال نے جوس کا آخری سیپ لیا۔
اچھا ٹھیک ہے۔ میں تیار ہونے جارہی ہوں ۔ NGO ٹائم پر پہنچنا ہے۔ مینا یہ برتن کچن میں رکھ کر میرے کمرے میں آنا۔ اور مجھے کپڑے استری کردینا۔
بی جان نے کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تمہیں اس طرح کا خواب کیوں آیا۔
وہ کچھ دیر پہلے عنایہ کے گھر آئی تھی اور اس کو اپنا خواب سنا چکی تھی۔
میں بھی یہی سوچ رہی کہ ایسا خواب کیوں آیا ۔ ابھی تو رزلٹ آنے والا ہے اور مجھے اس طرح کے خواب آرہے ہیں۔ مجھے تو کوئی رزلٹ کے حوالے سے خواب آنا چاہئے۔
میرال نے سوچتے ہوئے کہا۔ آج صبح کا سارا خواب اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔
پر عنایہ مجھے اس چیز کا افسوس رہے گا کہ میں اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ سکی ۔
میرال کو پھر افسوس ہوا۔
تم بس یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ خواب والا شخص ریحان ہے کہ نہیں۔
عنایہ نے اس کی دل کی بات کہی۔
ہاں ویسے چاہتی تو میں یہ ہی ہوں۔
ریحان کا نام سن کر میرال کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ آگئی۔
پر ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ شخص کوئی اور ہو ریحان نہ ہو۔
عنایہ نے اس کو چڑانے کے لئے کہا۔
تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔
میرال ناراض ہوئی۔
میں ایسا اس لئے کہہ رہی ہوں کہ تمہاری تائی بہت چلاک ہے۔ وہ تمہیں اپنی بہو آسانی سے نہیں بنائے گی۔
عنایہ میرال کی تائی کی فطرت سے واقف تھی۔
تائی امی اچھی ہیں۔ بس میری اور ان کی سوچ الگ ہے۔ پر وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ اور مجھے ایسا لگتا ہےکہ وہ جانتی ہیں کہ میں ریحان کو پسند کرتی ہوں۔ اس لئے وہ کبھی کبھی سختی سے بات کرتیں ہیں۔ آخر کون ساس اپنی بہو کو پسند کرتی ہے۔
میرال نے اپنی تائی کی سائڈ لی اور آخری بات پر عنایہ کو آنکھ ماری۔
اگر تائی کو پتا ہے تو پھر ریحان کو بھی پتا ہی ہوگا۔
عنایہ نے کہا جو وہ کچھ دنوں سے کہنا چاہتی تھی۔
نہیں ان کو نہیں پتا ہوگا۔ وہ یہاں پر ہوتے ہی کب ہیں۔ وہ تو ڈوبئ میں ہوتے ہیں۔
میرال نے نفی میں سر ہلایا۔
پر گھر بھی آتا ہی ہے سال میں ایک دو دفعہ ۔ میں نہیں مانتی کہ اسے پتا نہیں ہوگا۔ اسے پتا ہوگا۔ پر اگر اس نے ابھی تک تم سے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی تو تم خود کرلو کہ پتا تو لگے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔
عنایہ نے اسے سمجھایا۔
اچھا کوشش کروں کی بات کرنے کی۔ تم نے مجھے کچھ کھلانا ہے کہ نہیں ۔
میرال نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
مجھے تمہاری بہت فکر ہے میرال ۔
عنایہ نے کہا اور کھانے کے لئے کچھ لینے کچن میں چلی گئی۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
میرال صبح سے ہی دس بجنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ دس بجے رزلٹ آنا تھا۔
"بی جان دس کب بجے گے"۔
میرال سے اب اور انتظار نہیں ہو رہا تھا۔
بس دس منٹ رہ گئے ہیں۔ تھوڑا صبر کرلو۔
بی جان تسبیح پر کچھ پڑھ رہیں تھی۔
یہ دس منٹ بھی دس گھنٹے کی طرح لگ رہے ہیں۔ میں عنایہ کو فون کرتی ہوں۔ اس کا کیا حال ہے۔
میرال نے اپنے فون سے عنایہ کا نمبر ڈائل کیا۔
اسلام و علیکم!
عینی! کیا کر رہی ہو؟ مجھ سے تو انتظار نہیں ہو رہا کہ کیسا آئے گا رزلٹ۔۔
میرال نے عنایہ کے فون اٹھاتے ہی بولنا شروع کردیا۔
وعلیکم السلام! بس کرو مجھے بھی بولنے دو۔
مجھے ٹینشن ہے پر اتنی بھی نہیں۔
میرال ٹائم ہو گیا ہے میں رزلٹ چیک کرنے لگی ہوں بعد میں تم سے بات کرتی ہوں۔
عنایہ نے فوراً فون بند کردیا۔
میرال نے فون سائڈ پر رکھ کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور بی جان کے ساتھ بیٹھ کر رزلٹ چیک کرنے لگی۔ اس کے بہت اچھے نمبر آئے تھے۔
بی جان! آپ کی دعائیں اور میری محنت رنگ لے آئی یہ دیکھیں میرے کتنے اچھے نمبر آئے ہیں۔
میرال نے بی جان کو رزلٹ دیکھایا۔
ماشاءاللہ ماشاءاللہ میری بچی کے کتنے اچھے نمبر آئیں ہیں۔ میں ابھی چوکیدار سے مٹھائی مگواتی ہوں۔
بی جان نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر چوکیدار کو مٹھائی کا کہنے چلی گئیں۔
میرال کو عنایہ کا فون آیا ۔
کیوں جی اب ٹینشن ختم ہوگئی؟.
عنایہ کی آواز سے خوشی چھلک رہی تھی۔ اس کے بھی اچھے نمبر آئے تھے۔
ہاں اب تو میں بہت خوش ہوں۔ اچھا چل بعد میں بات کرتی ہوں۔ ابھی بابا کو فون کرنا ہے۔
میرال اپنے بابا کو فون کرنے لگی تھی پر عنایہ کا فون آگیا تھا۔
اچھا چل سہی ہے۔
عنایہ نے کہا اور فون بند کردیا۔
میرال ابھی اپنے بابا کو فون کرنے لگی تھی کہ اس کے بابا کا خودی فون آگیا۔
اسلام و علیکم بابا!
وعلیکم اسلام ! مبارک ہو بھی میری بیٹی اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی ہے۔
ہمدان صاحب نے خوشی سے کہا۔
بابا میں نے بتانا تھا۔ پر آپ نے پہلے ہی میرا رزلٹ چیک کرلیا۔
میرال ناراض ہوئی۔
کیا کروں بیٹا مجھ سے صبر ہی نہیں کیا گیا۔ اس لئے چیک کرلیا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ میری بیٹی کو کیا گفٹ چائیے ؟
ہمدان صاحب نے پوچھا۔
جو آپ کا دل کرئے ۔ پر گفٹ آپ خود لےکر آئیں گے۔ ویسے بھی آپ دوماہ پہلے آئے تھے۔ اب کب آنا ہے؟
میرال نے پوچھا۔
ابھی تو بہت کام ہے کچھ دنوں تک بتاؤں گا کہ کب آنا ہے۔
ہمدان صاحب نے اس کو پیار سے کہا۔
ٹھیک ہے پر جلدی آنے کا پروگرام بنائے ۔ آئی مس یو۔۔۔
میرال نے کہا اور اپنی آواز میں آئی نمی کو چھپایا۔ وہ اکثر اپنے بابا سے بات کرتے ہوئے رونے لگ جاتی تھی۔
میرال میری بھی بات کرواؤ ۔
بی جان ابھی لاونج میں آئی تھیں۔
جی یہ لیں ۔
میرال نے بابا کو اللّٰہ حافظ کہہ کر بی جان کو فون دے دیا۔ اور خود اپنے کمرے میں چلی گئی۔
تم ہمیشہ میری پوتی کو اداس کر دیتے ہو۔
بی جان اپنے بیٹے سے ناراض ہوئی۔
امی جی آپ جانتی تو ہیں کہ میں مصروف ہوتا ہوں۔ آپ نے کہا تھا کہ کاروبار پاکستان شیفٹ کرلو۔ پر یہ آسان نہیں ہے۔
ہمدان صاحب نے اپنی ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
میں تو سمجھ جاتی ہوں پر میرال کو کون سمجھائے وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے۔ اس لئے چاہے آسان ہو یا مشکل تم اپنا کاروبار پاکستان میں شیفٹ کرو ۔
بی جان نے حکم دیا۔
جی ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا۔ پر دو تین سال تو لگ جائیں گے۔
ہمدان صاحب نے مجبوراً اپنی امی کی بات مانی۔ جب ان کی بیوی حور کا انتقال ہوا تو کچھ دن بعد انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا تھا ۔ اس وقت میرال صرف چار سال کی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بی جان اور میرال کو بھی لے کر جانا چاہتے تھے پر بی جان اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی ۔ اس وقت میرال چھوٹی تھی۔ اس لئے اس کو ہمدان صاحب نے بی جان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
میرال ۔۔۔۔۔ میرال چلو فرحان ( میرال کے تایا) کے گھر مٹھائی دیں آئے ۔
بی جان نے اس کے کمرے میں آکر کہا۔
مٹھائی پر کیوں؟
میرال بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
تمہارے پاس ہونے کی خوشی میں۔
بی جان نے کہا۔
بی جان ان کے گھر سے تو کوئی نہیں آیا مٹھائی لے کر آخر ایان کا بھی تو رزلٹ آیا ہے تو پھر ہم کیوں جائیں۔
میرال نے اپنے تایا کے چھوٹے بیٹے کا نام لیا جو میرال کا ہم عمر تھا ۔ میرال ایان اور عنایہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ اب ان تینوں کا ایک ہی یونی میں ایڈمیشن لینے کا ارادہ تھا۔
ہاں تو کچھ نہیں ہوتا ہم ان کے گھر پہلے مٹھائی لے جاتے ہیں۔
بی جان نے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے پر ہم کچھ دیر ہی رکے گے۔
میرال نے کہا اور الماری سے اپنے لئے کپڑے نکالنے لگی۔
تایا ابو کا گھر ان کے گھر کے برابر میں ہی تھا۔
وہ تیار ہوکر نیچے آئی تو بی جان بھی تیار تھیں اور پھر دونوں گھر کے گیٹ سے باہر آگئے۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
اسلام و علیکم! تائی امی۔
میرال نے لاونج میں داخل ہوتے ہی تائی امی کو سلام کیا۔
وعلیکم السلام بیٹا کیا حال ہے؟ اسلام و علیکم امی جی آپ کو بہت مبارک ہو ۔ میری بیٹی کے بہت اچھے نمبر آئے ہیں۔ مجھے ایان نے بتایا تھا۔ ناہید بیگم نے میرال کو گلے لگاتے ہوئے کہا اور مٹھائی کا دبا پکڑ کر ٹیبل پر رکھا۔
ناہید بیگم اپنی ساس اور میرال کو دیکھ کر خاصی بدمزہ ہوئیں تھیں۔ ان کی اپنی ساس سے کبھی بنی نہیں تھی ۔ اور میرال تو انہیں حور کی وجہ سے بری لگتی تھی۔ پر وہ کیسی مقصد کی وجہ سے میرال پر اپنا جھوٹا پیار جتاتی رہتی تھیں۔
میں ٹھیک تائی امی آپ بتائیں زارا آپی کہاں ہیں؟
میرال نے لاونج میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
میں یہاں ہوں۔ اسلام و علیکم بی جان۔
زارا جوس کے گلاس ٹرے میں رکھ کر لے آئی ۔
وعلیکم السلام! بیٹا تم تو اور کمزور ہوگئی ہو۔
بی جان نے جوس کا گلاس لیتے ہوئے کہا۔
جی وہ بس آج کل میں ڈائٹنگ کر رہی ہوں۔
زارا نے کہا اور میرال کے ساتھ بیٹھ گئی۔
بس اس کی منگنی کی تاریخ نزدیک آرہی ہے اس لئے ڈائٹنگ شروع کی ہوئی ہے۔
ناہید بیگم نے بتایا۔
بی جان مجھے تو یاد ہی نہیں تھا کہ زارا کی منگنی اگلے ہفتے ہے ابھی تائی امی نے بات کی تو یاد آیا۔ میں نے تو ابھی تک کپڑے بھی نہیں بنائے۔
میرال کو فوراً ٹینشن ہو گئی۔
اچھا آج شام کو چلیں گے شاپنگ پر ۔
بی جان نے اس کو کہا۔
آپ دونوں ایان کے ساتھ چلے جائیے گا
ناہید بیگم نے کہا۔
ویسے یہ کہاں ہے ایان؟؟ میں صبح سے فون کررہی ہوں۔ پر میرا فون ہی نہیں اٹھا رہا ہے۔
میرال نے جوس پیتے ہوئے کہا۔
وہ اپنے دوست کی طرف گیا ہے کچھ دید میں جائے گا۔ تب اس سے پوچھ لینا۔
ناہید بیگم نے کہا۔
ویسے میری منگنی ہے تو ریحان بھائی نے آنا ہے۔ زارا نے میرال کے کان کے قریب سرگوشی کی۔
میرال جو جوس پی رہی تھی۔ گلاس اس کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔
ریحان نے آنا ہے پر مجھے تو لگا کہ وہ مصروف ہونگے اور نہیں آپائیں گے۔
میرال کا دل خوشی سے ناچ رہا تھا۔
آج صبح ان کا فون آیا تھا کہ وہ آرہے ہیں۔
زارا نے پھر اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔
زارا کو پتا تھا کی وہ ریحان کو کتنا پسند کرتی ہے۔
کچھ دنوں میں ریحان بھی آجائیں گے۔ کتنا مزا آئے گا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اور بی جان ایان کے ساتھ شاپنگ کرکے واپس آئے تھے۔ بی جان کو ناہید بیگم نے منگنی پر کیا دینا ہے کا مشورہ لینے کے لئے روک لیا تھا۔میرال اپنے گھر آگئی تھی۔ وہ لاونج میں بیٹھی کب سے ریحان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کا اور ریحان کا سارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا۔ بچپن میں ریحان اسے بہت تنگ کرتا تھا اور وہ اس سے بہت چڑتی تھی پر پھر کب اسے اس سے محبت ہوگئی اسے پتا ہی نا چلا۔ پر اس میں کبھی اتنی ہمت ہی نہ ہوئی کہ وہ اس کو بتا سکے کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی ہے۔جب ریحان کو دوبئی سے جاب کی آفر ہوئی تو میرال بہت اداس تھی کہ وہ جارہا ہے پر ریحان بلکل بھی اداس نہ تھا بلکہ وہ بہت خوش تھا۔ پھر وہ چلا گیا۔ ریحان کو گئے ہوئے دو سال ہوگئے تھے۔ ان دو سالوں میں وہ بس دو دفعہ آیا تھا۔ وہ بھی کچھ دنوں کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
اب تو شاید وہ زیادہ دن رکیں۔ آخر ان کی بہن کی منگنی ہے۔
میرال نے سوچا۔
ویسے ان کی فیس بک آئی ڈی یا انسٹا چیک کرتی ہوں۔ وہاں پر ہوسکتا کہ کچھ لگایا ہو پاکستان آنے کا ۔ میرے خیال سے کل پرسوں تک ہی آئیں گے۔
میرال نے موبائل پر اس کی فیس بک چیک کی۔
پر وہاں پر ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ پھر وہ اس کی انسٹا چیک کرنے لگی۔وہاں پر کچھ نیو پیکس اس نے پوسٹ کی ہوئی تھی۔ پر وہ پیکس اس کی کسی لڑکی کے ساتھ تھی۔ آخر یہ ہے کون جو آج کل ریحان کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔
اس نے سوچا۔
ہوگی کوئی دوست یا آفس میں ساتھ کام کرتی ہوگی۔
اس نے اپنے آپ کو کئی دفعہ دی گئی تسلی پھر دی۔ کیونکہ کافی دنوں سے روز ہی وہ اس لڑکی کے ساتھ لی گئی تصاویر پوسٹ کر رہا تھا۔
میرال!! چلو آجاؤ کھانا کھا لیں۔ اور رات کو ٹائم پر سوجانا صبح تم نے ایڈمیشن کے سلسلے میں یونیورسٹی بھی جانا ہے۔
بی جان آتے ہی میرال کو جلدی سونے کی تلقین کرنے لگی۔
بی جان آپ فکر نہ کریں میں وقت پر سو جاؤں گی۔ چلیں پہلے کھانا کھا لیں ۔ویسے بھی آج ہم کافی لیٹ ہو گئے ہیں آپ نے دوائی بھی کھانی ہے ۔ آپ وہاں سے جلدی آجاتیں ۔ میں روز آپ کو کہتی ہوں کہ دوائی وقت پر لیا کریں ۔ پر آپ میری بات سنتی ہی نہیں ہیں۔
میرال نے اپنا موبائل سائڈ پر رکھا اور بی جان کے ساتھ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھ گئی۔
تم کتنا بولتی ہو۔ ناہید سے کوئی کام کی باتیں کر رہی تھی اس لئے وقت لگ گیا۔
بی جان نے پیار سے اس کی گال کھنچی۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ہیلو! میرال نے نیند میں فون اٹھایا۔
تم ابھی تک سو رہی ہو؟؟
دوسری طرف ایان تھا۔
تو اس ٹائم میں اٹھ کر کیا کرتی ۔ تم نے ٹائم دیکھا ہے۔
میرال نے گھڑی دیکھی جہاں 3 بج رہے تھے۔
ہاں 3 بج رہے ہیں۔ تو۔۔۔
ایان نے ایسے کہا جیسے عام سی بات ہو۔
تو یہ کہ مجھے اس ٹائم فون کیوں کیا ہے؟
میرال کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مار لے۔
مجھے یہ کہنا تھا کہ میں صبح تمہارے ساتھ یونی نہیں جاسکتا ہوں ۔ مجھے اپنے ایک دوست کو لینے ایر پورٹ جانا ہے۔ میں ابھی ایر پورٹ کے لئے نکل گیا ہوں ۔ اس لئے سوچا ابھی فون کرکے بتا دیتا ہوں بعد میں کہیں بھول نہ جاؤں ۔
ایان نے اسے تفصیل سے بتایا۔
یہ تمہیں رات کو نہیں یاد تھا کہ دوست کو لینے جانا ہے۔ اب یاد آرہا ہے۔
میرال کا تو دماغ ہی گھوم گیا۔
ارے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی دوست کا فون آیا تھا۔ کہ ایک گھنٹے میں اس کی فلائٹ ہے۔ اور میں نے اس کے ساتھ اس کا فلیٹ سیٹ کرنے میں مدد کرنی ہے۔ اگر فلیٹ سیٹ نہ کرنا ہوتا تو میں تمہارے ساتھ چلا جاتا پر اب نہیں جاسکتا ہوں ۔ سوری۔
ایان نے کہا اور جلدی سے اس کی سنے بغیر فون بند کردیا۔
ہیلو ۔۔۔۔۔ ہیلو ۔ بدتمیز ہمیشہ ایسی صورت حال میں فون بند کردیتا ہے۔
میرال کو اس پر بہت غصّہ آرہا تھا۔
اس نے 7 بجے کا الارم لگایا اور سونے کے لئے لیٹ گئی۔ اس کو بہت نیند آرہی تھی۔ کچھ دیر میں وہ سو چکی تھی۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔ اب تم میرا دماغ خراب نہ کرو۔ پہلے اس ایان نے میرا دماغ خراب کیا ہوا ہے وہ بھی نہیں جارہا ہے اور اب تم نے جانے سے انکار کر دیا ہے۔
میرال ابھی کچھ دیر پہلے ہی اٹھی تھی۔ اور اس نے ساتھ ہی عنایہ کو فون کیا تھا۔
یار میری بھی مجبوری ہے ۔ خالہ نے آنا ہے تو امی کہہ رہی ہیں کہ تم گھر پر رہنا ۔ ورنہ میں چلتی ۔ تم ایک کام کرو تم ڈرایئور کے ساتھ چلی جانا۔
عنایہ نے اسے مشورہ دیا۔
بہت شکریہ آپ کے مشورے کا۔ جب میں نے اکیلے جانا ہے تو مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا دل کررہا کہ میں ایان اور تمہارا سر پھاڑ دوں۔
میرال نے غصے میں فون بند کیا۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بی جان کے دو بیٹے تھے ۔ بڑا بیٹا فرحان اور چھوٹا بیٹا ہمدان۔ بی جان کے شوہر کو فوت ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ اس وقت صرف فرحان کی شادی ہوئی تھی۔فرحان کی شادی بی جان نے اپنے خاندان میں کی تھی۔ ناہید بیگم ان کے دور کے رشتےداروں میں سے تھی۔ ناہید بیگم نے آتے ہی گھر میں جھگڑے شروع کر دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے بی جان اکثر پریشان رہتی تھیں۔ ہمدان صاحب نے اپنی پسند سے حور سے شادی کی تھی۔ حور ان کے ساتھ یونی میں پڑھتی تھی۔ فرحان صاحب اور ناہید بیگم کے تین بچے تھے۔ ریحان زارا اور ایان۔ ہمدان صاحب اور حور کی ایک ہی بیٹی تھی میرال ۔ میرال جب چار سال کی تھی تو حور کا انتقال ہوگیا تھا۔ اسکو کینسر ہو گیا تھا۔ جس کا پتا انہیں آخری سٹیج پر چلا تھا۔ ہمدان صاحب اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے تھے ۔ اس لئے ان کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہی لندن چلے گئے تھے۔ وہ میرال اور بی جان کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے پر بی جان نہیں مانی اور میرال چھوٹی تھی ۔اس لئے اسے بی جان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا۔ ہمدان صاحب سال میں پانچ چھ چکر پاکستان کے لگا لیتے تھے۔ پر وہ جب بھی پاکستان میں ہوتے تھے تو ان کو حور کی بہت یاد آتی تھی۔ اس لئے وہ اکثر اداس رہتے تھے۔ ریحان میرال سے پانچ سال بڑا تھا۔ زارا میرال سے دو سال اور ایان اور میرال ہم عمر تھے۔ اس لئے دونوں کی کافی دوستی تھی۔ جب میرال دس سال کی ہوئی تو ہمدان صاحب نے اپنے آبائی گھر کے ساتھ والا گھر خرید لیا تھا اور میرال اور بی جان وہاں شفٹ ہو گئے تھے۔
- •••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
آج کتنی گرمی ہے ۔۔
وہ کچھ دیر پہلے یونی پہنچی تھی۔ اور ایڈمیشن کی ڈیٹیل لے کر واپس جانے کا سوچ رہی تھی۔ کہ اسی وقت عنایہ کا فون آیا ۔ پہلی دو تین بار تو اس نے فون ہی نہیں اٹھایا۔ پر عنایہ بھی بہت ڈھیٹ تھی۔ اس نے بھی فون کرنا نہیں چھوڑا۔ تو مجبوراً اس نے فون اٹھا لیا۔
اب کیا مسئلہ ہے؟ کیوں بار بار فون کرکے تنگ کررہی ہو؟ تمہاری طرح ویلی نہیں ہوں۔ مصروف ہوں۔
میرال نے مصروف انداز میں کہا۔
میں بھی کوئی ویلی نہیں ہوں ۔ مجھے تو تمہاری فکر ہورہی تھی کہ پتا نہیں کیسے گئی ہوگی پر نہیں تمہیں تو عزت راس ہی نہیں ہے۔
عنایہ بھی اس سے کہاں کم تھی۔
بہت شکریہ آپ کی فکر کرنے کا اگر اتنی فکر ہوتی تو میرے ساتھ آتی تم۔
میرال بھی اس کو اسی کی زبان میں سنا رہی تھی۔
اسی وقت یونی میں ایک تیز رفتار گاڑی داخل ہوئی۔ میرال فون میں اتنی مگن تھی کہ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ گاڑی اس کے سر پر پہنچ گئی۔ ایک دم سے گاڑی کو اتنا قریب دیکھ کر اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا اور موبائل گاڑی کے ٹائر کے نیچے آگیا۔
میرا موبائل۔۔۔
میرال چیخی۔۔۔۔
گاڑی والے نے ایک دم سے بریک لگائی۔
میرال نے غصے میں گاڑی کی کھڑکی ناک کی۔
گاڑی میں ایک لڑکا تھا۔ اس نے شیشہ نیچے کیا۔
آپ کو نظر نہیں آتا۔ آپ کی گاڑی کے نیچے آکر میرا موبائل ٹوٹ گیا ہے۔
میرال نے غصے سے کہا۔
دیکھیں میں نے بریک لگانے کی کوشش کی تھی پر آپ بھی تو پتا نہیں کس دنیا میں تھی کہ آپ پتا ہی نہ چلا۔
اس لڑکے نے آرام سے کہا۔
تو آپ کو سا آرام سے گاڑی چلا رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ گاڑی چلا نہیں رہے بلکہ اڑا رہے ہیں۔
میرال نے کہا اور اس کے ہاتھ میں پکڑا موبائل چھینا۔
آپ میرا موبائل واپس کریں ۔
اس لڑکے نے اس سے موبائل چھیننے کی کوشش کی۔
میرال نے اس کا موبائل زور سے دور پھینکا ۔
میرا فون۔۔
اس لڑکے نے بس اتنا ہی کہا۔
آپ نے میرا فون توڑا میں نے آپ کا فون توڑ دیا۔ حساب برابر۔۔۔۔
میرال نے کہا اور تیزی سے اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہا۔ اس کو ڈر بھی لگ رہا تھا۔
وہ لڑکا میرال کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر نے دور تک میرال کا پیچھا کیا تھا۔
کہاں رہ گئی تھی؟ اور تمہارا فون کیوں بند جارہا ہے؟
میرال ابھی ابھی گھر پہنچی تھی۔ بی جان اس کا انتظار بہت دیر سے کر رہی تھیں۔
"بس ٹریفک تھی اس لئے ٹائم لگ گیا اور موبائل اس لئے بند ہے کیونکہ میرا موبائل ٹوٹ گیا ہے"۔
میرال نے ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور صوفے پر بیٹھ کر پینے لگی۔
پر موبائل کیسے ٹوٹ گیا؟
بی جان نے اس کا موبائل اٹھا کر دیکھا جس کی سکرین بلکل ٹوٹ چکی تھی۔
"وہ میں یونی سے نکل رہی تھی کہ اسی وقت ایک گاڑی تیز رفتار میں آئی اور میرا موبائل میرے ہاتھ سے گر گیا اور گاڑی کے نیچے آگیا"۔
میرال نے بی جان کو بتایا۔
"تم ضرور فون پر بات کررہی ہوگی"۔ بی جان کو اس کی عادت کا پتا تھا۔
"جی فون پر بات ہی کررہی تھی۔ عنایہ نے دماغ کھایا ہوا تھا"۔
کیا میری بات ہورہی ہے؟؟
ابھی میرال کی بات مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ عنایہ آگئی۔
"جی آپ کی ہی بات ہورہی ہے۔ اب تم مصروف نہیں ہو؟ صبح تو بہت مصروف تھی"۔
میرال کو اس کو دیکھ کر اور غصہ آگیا۔
"مصروف تو میں بہت ہوں۔ پر مجھے تمہاری فکر ہورہی تھی۔ بی جان کا فون آیا تھا کہ تم ابھی تک نہیں آئی ہو تو اس لئے میں آگئی کہ شاید اب تک آگئی ہوگی اور دیکھو تم آگئی"۔
عنایہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
بی جان آپ اتنا پریشان کیوں ہو گئی تھیں؟ "میں اتنی بھی لیٹ نہیں آئی ہوں ۔ابھی صرف دوپہر کے دو بجے ہیں"۔
میرال نے اپنا منہ بی جان کی طرف کیا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ عنایہ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔
"مجھے فکر ہورہی تھی کہ صبح 9بجے تم گئی تھی۔ اور اتنا ٹائم تو نہیں لگتانا اور میرے پاس ڈرائیور کا فون نمبر بھی نہیں تھا"۔
بی جان نے اپنی پریشانی بتائی۔
تمہاری خالہ نہیں آئیں؟
میرال کو یاد آیا تو عنایہ کی طرف منہ کرکے پوچھا۔
"نہیں وہ کل آئیں گی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کا فون آیا تھا"۔
میرال کے گھور کر دیکھنے پر اس نے جلدی جلدی کہا۔
"بی جان آپ تو کہہ رہی تھی کہ میرال ابھی تک نہیں آئی یہ میرال بیٹھی تو ہوئی ہے"۔
ایان لاونج کے داخلی دروازے سے اندر آیا۔
بی جان آپ نے کس کس کو فون کیا تھا؟
ایان کو دیکھ کر میرال کا دل کیا کہ وہ اس کا سر پھاڑ دے۔
"میں نے صرف ان دونوں کو فون کیا تھ"ا۔
بی جان نے ایان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"اب تم دونوں آگئے ہو۔ جب میں صبح کہہ رہی تھی تب تو تم دونوں کو کوئی نا کوئی کام تھا"۔
میرال کو ان دونوں پر بہت غصہ تھا۔
میرال کیا ہوگیا ہے؟ اتنا غصہ کیوں کررہی ہو؟ بی جان نے اسے ٹوکا۔
"یہ آپ ان دونوں سے پوچھیں ۔ ان دونوں کو میرے ساتھ یونی جانا تھا پر یہ دونوں صبح مصروف تھے"۔
میرال نے اپنے غصے پر قابو کرنے کی کوشش کی ۔
"پر تم یہ بھی تو دیکھو کہ ان دونوں کو تمہاری کتنی فکر ہے ۔یہ دونوں اپنے سارے کام چھوڑ کر آگئے ہیں"۔
بی جان نے اسے پیار سے سمجھایا۔
"تو اور کیا میرال دیکھو مجھے اور عنایہ کو تمہاری کتنی فکر ہے۔ میرے دوست کا ابھی پورا سامان اس کے گھر میں شفٹ بھی نہیں ہوا تھا ۔ میں فوراً بی جان کی کال پر آگیا"۔
ایان نے معصوم شکل بنائی۔
"اپنے ڈرامے بند کرو مجھے پتا ہے تمہیں کتنی فکر ہے میری"۔
میرال نے منہ بنایا۔
"بری بات میرال "۔
بی جان کے ٹوکنے پر میرال چپ ہوگئی۔
"اچھا تم تینوں باتیں کرو میں مینا کو چائے اور سموسے فرائی کرنے کا کہتی ہوں"۔
بی جان اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔
"ویسے میرال تم سہی کہہ رہی تھی ۔ مجھے تمہاری فکر بلکل بھی فکر نہیں ہے ۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا اگر تم مر گئی تو میرے بھائی کا کیا ہوگا"۔
ایان نے شرارت سے مسکرایا۔
"میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں"۔
میرال نے صوفے پر پڑا کشن ایان کو مارا۔
ویسے تمہارا فون کیسے ٹوٹا ہے؟
عنایہ نے اس کا فون دیکھا جو ٹیبل پر پڑا تھا۔
"تمہاری وجہ سے۔ میں تم سے فون پر بات کررہی تھی تو میرے ہاتھ سے گر گیا اور گاڑی کے نیچے آگیا"۔
میرال نے اسے پوری بات بتادی۔
"ارے یاد آیا ۔تمہارا فون اچانک بند ہوگیا تھا اس لئے مجھے تمہاری زیادہ فکر ہورہی تھی اور پھر بی جان کا بھی فون آگیا"۔
عنایہ کو یاد آیا۔
"مجھے تم دونوں پر اس لئے بھی غصہ ہے کیونکہ تم میں سے کوئی میرے ساتھ ہوتا تو شاید میرا موبائل نہ ٹوٹتا یا اگر ٹوٹ بھی جاتا تو تم دونوں اس کو سہی سبق سیکھاتے"۔
میرال کو پھر اس لڑکے پر غصہ آنے لگا۔
"ویسے تو تم نے بھی اس کو سہی سبق سیکھایا ہے۔ اس کا فون ہی توڑ دیا"۔
عنایہ کو دکھ ہورہا تھا۔
"تمہیں کیوں اتنا دکھ ہورہا ہے ۔ کوئی بدتمیز انسان تھا"۔
میرال کو پھر وہی سین یاد آیا جب اس نے گاڑی اسکے فون پر چڑھا دی تھی۔
"مجھے اس لئے افسوس ہورہا ہے کہ تم نے جان بوجھ کر اس کا موبائل توڑا ہے۔ اور اس نے غلطی سے تمہارا موبائل گاڑی کے نیچے دیا تھا"۔
عنایہ نے اس لڑکے کی سائڈ لی۔
"پر اس کو گاڑی آہستہ چلانی چاہئے تھی"۔
ایان نے میرال کا ساتھ دیا۔
"تو اور کیا"۔
میرال نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
"پر پھر بھی اس نے میرال کو کچھ بھی نہیں کہا جب اس نے اس کا فون توڑا"۔
عنایہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
"ہاں ویسے میں حیران تھی کہ اس نے کچھ کہا ہی نہیں بس غصے سے دیکھ رہا تھا۔ اور مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں کچھ کہہ ہی نہ دے اس لئے میں فوراً گاڑی میں بیٹھ گئی"۔
میرال نے تفصیل سے بتایا۔
"ویسے کل ریحان بھائی آرہے ہیں"۔
ایان نے موضوع بدلا۔
میرال کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔
"اچھا میں بی جان کو دیکھ کر آتی ہوں ۔ مینا کو چائے کا کہنے گئی تھی ۔ ابھی تک آئی نہیں"۔
میرال ریحان کے ذکر پر اٹھ گئی۔ ویسے تو ایان اور عنایہ دونوں جانتے تھے کہ وہ ریحان کو پسند کرتی ہے پر پھر بھی اس کو شرم آرہی تھی۔
"تمہارا بھائی میری دوست کے ساتھ بلکل اچھا نہیں کر رہا ہے۔ وہ اس کے نام پر بھی شرما جاتی ہے اور وہ اس سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا"۔
میرال کے جانے کے بعد عنایہ نے کہا۔
"ہاں کل بھائی آتے ہیں تو میں ان سے بات کرتا ہوں۔ کام کی وجہ سے کافی مصروف رہتے ہیں اس لئے شاید میرال سے ٹھیک سے بات نہیں کر پاتے۔ پر مجھے لگتا ہے کہ وہ بھی میرال کو پسند کرتے ہیں"۔
ایان نے کہا۔
"بات ضرور کرنا" ۔
عنایہ نے دوبارہ کہا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
میرال آج صبح جلدی اٹھ گئی تھی ۔ اور اب تیار ہورہی تھی ۔کیونکہ ایان نے کچھ دیر پہلے فون کرکے بتایا تھا کی وہ ریحان کو لینے ایر پورٹ جارہا ہے۔
میرال کتنا ٹائم لگانا ہے تیار ہونے میں؟
بی جان اسے کمرے میں آگئیں۔
"بس میں تیار ہوں"۔ آپ تیار ہوگئیں؟
میرال نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تو تیار ہوں۔ تم جلدی سے نیچے آجاؤ" ۔
بی جان نے کہا اور نیچے جانے لگیں۔
"چلیں ساتھ ہی چلتے ہیں"۔
میرال نے اپنا پرس اٹھایا اور ان کے ساتھ چلنے لگی۔
"مینا گھر کا دھیان رکھنا ۔ ہم فرحان کے گھر جارہے ہیں ۔ کچھ دیر تک آجائے گے"۔
بی جان اور وہ نیچے آچکے تھے ۔ بی جان نے مینا کو ضروری ہدایات کیں۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ان دونوں کو فرحان صاحب کے گھر آئے کافی دیر ہوگئی تھی پر ریحان اور ایان ابھی تک نہیں آئے تھے۔
یہ دونوں کہاں رہ گئے ہیں؟
بی جان نے فرحان صاحب سے پوچھا۔
"پتا نہیں امی جی ! فون کررہا ہوں پر دونوں میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا رہا ہے"۔
"ہم اسلئے فون نہیں اٹھا رہے تھے کیونکہ ہم گھر کے نزدیک ہی تھے"۔
فرحان صاحب کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ایان لاونج میں داخل ہوا اس کے پیچھے ریحان بھی تھا۔ میرال جو کچھ ریلکس ہوکر بیٹھی تھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
ریحان نے سب کو سلام کیا اور بی جان کے پاس پیار لینے کے لئے آیا ۔ میرال بی جان کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔ اس کے آتے ہی وہ نظریں جھکا گئی۔
"کیسی ہو میرال "؟؟
ریحان نے بی جان سے پیار لیتے ہی میرال کی طرف متوجہ ہوا۔
"می۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں" ۔ آپ کیسے ہیں؟
میرال نے اسے دیکھا۔ بلو جینز اور شرٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ اس کے اچانک اسے مخاطب کرنے پر وہ گھبرا ہی گئی تھی ۔ پر اب اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں" ۔
ریحان نے اس کی بات کا جواب دیا اور باقی سب سے مل کر فرحان صاحب کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔
"یہ لیں آپ سب کے لئے جوس"۔
زارا جو ریحان سے ملتے ہی کچن میں چلی گئی تھی ۔ سب کے لئے جوس لے آئی۔
"ارے ابھی میں نے اور میرال نے کچھ دیر پہلے تو پیا ہے"۔
زارا نے بی جان اور میرال کے آگے دوبارہ جوس کیا تھا۔
"کچھ نہیں ہوتا بی جان میرے آنے کی خوشی میں دوبارہ پی لیں۔ اور ویسے بھی اوریج جوش تو میرال کو بہت پسند ہے"۔ کیوں میرال؟؟
ریحان نے اس سے تصدیق چاہی۔
"جی مجھے اوریج جوس پسند ہے"۔
میرال نے ٹرے سے گلاس اٹھایا۔
اسکو خوشی تھی کہ ریحان کو یاد ہے کہ اسے اوریج جوس کتنا پسند ہے۔
سب کچھ نا کچھ باتیں کر رہے تھے ۔ پر میرال خاموش تھی ۔وہ بس وقفے وقفے سے ریحان کو دیکھ رہی تھی۔ دو تین دفعہ دونوں کی نظریں ملیں تو میرال نظر چرا گئی۔
کچھ دیر بعد میرال زارا کے ساتھ کچن میں آگئی اور دوپہر کے کھانے میں اس کی مدد کرنے لگی۔
"ویسے آج تو تم بہت خوش ہوگی" ۔
زارا نے چکن کو مصالحہ لگا کر فریج میں رکھا۔
"جی میں خوش ہوں ۔ ریحان جو آگئے ہیں"۔
"ویسے آج تو سب کچھ ان کی پسند کا ہی بنا ہوگا"۔
میرال نے کھیرے کاٹتے ہوئے کہا۔
"ہاں آج تو سب کچھ بھائی کی پسند کا بنا ہے"۔
زارا کتنا ٹائم ہے کھانے میں؟
ناہید بیگم کچن میں آئیں ۔
"جی بس آدھے گھنٹے تک سب کچھ تیار ہو جائے گا"۔
زارا نے کہا اور بریانی میں چاول ڈالنے لگی۔
"اچھا ٹھیک ہے میرال تمہیں بی جان بلا رہیں ہیں"۔
ناہید بیگم نے میرال سے کہا اور کچن سے باہر چلی گئیں۔
جی بی جان آپ نے بلایا تھا؟
میرال نے بی جان کے پاس آئی ۔
"ہاں وہ کیک بنایا تھا نا رات کو تم نے اور مینا نے وہ لے آؤ"۔
بی جان نے اس کو یاد دلایا۔
"جی وہ تو ہم لانا ہی بھول گئے"۔
میرال کو یاد آیا ۔
"میں بھی جاؤں میرال کے ساتھ اس بہانے آپ کا گھر بھی دیکھ لوں گا ۔ کافی عرصے سے دیکھا نہیں ہے"۔
ریحان بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار تھا۔
"بیٹا تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بھی تمہارا ہی گھر ہے۔چلے جاؤ" ۔
بی جان نے پیار سے کہا۔
وہ اور ریحان گھر سے باہر آگئے اور میرال کے گھر جارہے تھے۔
میرال اس کے ساتھ خاموشی سے چل رہی تھی۔ اس کو خوشی تھی کہ وہ اس کے ساتھ جارہا ہے ۔اس کو ساتھ ساتھ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
میرال نے بیل بجائی ۔ مینا نے دروازہ کھولا سلام کیا اور اپنے کوارٹر میں چلی گئی۔
"آپ لوگوں کا گھر تو کافی اچھا لگ رہا ہے اور اس کی ڈیکوریشن بہت زبردست ہے٫۔
ریحان اور میرال گھر کے لاونج میں آچکے تھے۔
ریحان نے پورے لاونج کا جائزہ لیا۔ ہر چیز بہت سلیقے سے رکھی گئی تھی۔
"جی ڈیکوریشن میں نے اور بی جان نے کی ہے"۔
میرال نے خوشی سے کہا اور کچن میں چلی گئی ۔ وہ بھی میرال کے پیچھے کچن میں آگیا۔
میرال نے فریج سے کیک نکالا۔
"واؤ کیک کتنا اچھا لگ رہا ہے"۔
ریحان نے کیک کی تعریف کی۔
"ویسے میں نے پہلی دفعہ بنایا ہے ۔ پتا نہیں کیسا بنا ہے"۔
میرال نے کیک شیلف پر رکھا۔
"پہلی دفعہ میں ہی لگتا ہے کافی دل سے بنایا ہے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میرا دل کر رہا ہے کہ ابھی کھالوں"۔
ریحان نے کہتے ساتھ ہی ریک سے چمچ اٹھایا۔
"نہیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ابھی نہیں کھانے کے بعد کھایئے گا"۔ میرال نے فورا کیک پیچھے کیا اور کیک کے اوپر رکھا ہوا شیشے کا ڈھکن ٹھیک کیا۔
"چلو تم کہتی ہو تو ٹھیک ہے"۔
ریحان نے چمچ واپس ریک میں رکھ دیا۔
"اچھا چلو باقی گھر بعد میں دیکھ لوں گا ۔ ابھی چلتے ہیں"۔
ریحان کو کیسی کا میسج آیا اور اس نے جانے کا کہا۔
"چلیں ٹھیک ہے"۔
میرال نے کیک اٹھایا پر اس کے ہاتھ سے گرنے لگا تو اس نے دوبارہ شیلف پر رکھ دیا۔
"ارے دھیان سے میں اٹھا لیتا ہوں"۔
ریحان نے کیک اٹھایا اور وہ دونوں گھر سے باہر نکل گئے۔
"تم دونوں کو اپنے گھر سکون نہیں آتا"۔ وہ اور بی جان کچھ دیر پہلے فرحان صاحب کے گھر سے اپنے گھر آئے تھے۔ اب وہ ٹی وی اون کرکے بیٹھی تھی کہ ایان اور عنایہ آگئے۔
"ریحان بھائی سونے چلے گئے تھے۔ اس لئے میں نے سوچا کیوں نا تمہیں تنگ کیا جائے اور یہ محترمہ تو پہلے سے ہی گیٹ پر کھڑی تھیں"۔
ایان نے عنایہ کی طرف اشارہ کیا۔
"اس کو چھوڑو تم بتاؤ" ۔ ریحان بھائی آئے ہیں تم ملی؟
عنایہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
"ارے! ملی میرال اور ریحان بھائی نے کافی باتیں بھی کی"۔
میرال کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ایان بول پڑا۔
اچھا واقعے! عنایہ ایان کی طرف متوجہ ہوئی۔
"ہاں بس کچھ بات کی کوئی اتنی زیادہ بھی باتیں نہیں کیں"۔
میرال نے نارمل انداز میں کہا۔
"ہاں تو میرا بھائی اور کتنی باتیں کرتا۔ آج ہی تو آیا ہے تھکا بھی ہوا تھا۔ پھر بھی اس نے کھانا سب کے ساتھ کھایا اور تم سے باتیں بھی کیں"۔
ایان نے اپنے بھائی کی طرف داری کی۔
"تم اپنے بھائی کی اتنی سائڈ نہ لو"۔
عنایہ نے اسے منہ چڑایا۔
"کیوں نہ لوں آخر میرا بھائی ہے"۔
ایان نے بھی اسے منہ چڑایا۔
"تم دونوں نے اگر لڑنا ہی ہے تو کہیں اور جاکر لڑو۔ میں دماغ خراب نہ کرو"۔
میرال پہلے ہی کافی تھک گئی تھی۔ اب ان کی باتوں سے اور بور ہو رہی تھی۔
"میرال اس کی باتوں کی طرف دھیان نہ دو"۔ "میں نے تو ایک پلین سوچا ہے تمہارے اور ریحان بھائی کے لئے"۔
عنایہ نے وہ بات شروع کی جو کرنے آئی تھی۔
کیا پلین ؟
میرال اور ایان نے ایک ساتھ پوچھا۔
"کل تم لوگ شاپنگ پر جانا اور ریحان بھائی کو بھی ساتھ لے جانا"۔
عنایہ نے ان دونوں کو پورا پلین بتایا۔
"پر تم بھی ہمارے ساتھ چلنا"۔
ایان نے عنایہ سے کہا۔
میں کیوں جاؤں؟
"کیونکہ مجھے بھی کمپنی دینے والا کوئی ہونا چاہیے"۔
ایان نے آرام سے کہا۔
"ہاں عنایہ تم بھی ساتھ چلنا آخر پلین تمہارا ہے اور اگر ہم کچھ بھول جائے تو بتا دینا"۔
میرال نے بھی اس کو جانے کے لئے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے تم لوگ تیار رہنا"۔
عنایہ مان گئی تھی۔
"ویسے یہ بی جان کہاں ہے۔ کافی دیر سے نظر نہیں آئیں"۔
ایان نے ادھر اُدھر دیکھا۔
"بی جان اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں"۔ مینا کچھ۔۔۔
ابھی میرال مینا کو کہنے ہی لگی تھی کہ کچھ کھانے کے لئے لے کر آئے کہ وہ پہلے ہی چائے اور کباب ٹرے میں رکھے لے آئی تھی۔
"ارے واہ تم تو میرے کہنے سے پہلے ہی چائے لے آئی"۔
میرال خوش ہوئی۔
"جی میں نے آپ کی آوازیں سن لی تھی۔ اس لئے چائے بننے کے لئے رکھ دی تھی"۔
مینا نے مزے سے بتایا۔
ایان کو کوئی فون آیا وہ سننے کے لئے باہر چلاگیا۔
"ویسے مینا کافی سگھڑ ہو گئی ہے اس کی شادی نہ کردیں"۔
عنایہ نے مینا کو چھیڑا۔
"بس میرے منگیتر کو نوکری مل جائے پھر میری شادی ہو جائے گی"۔
مینا نے شرماتے ہوئے منہ کے آگے دوپٹہ کیا۔
"مینا تم جاکر اپنا کام کرو"۔
میرال نے مینا کو واپس کچن میں جانے کے لئے کہا۔
"تم کیوں اس کو تنگ کرتی رہتی ہو"۔
میرال نے عنایہ کو ٹوکا۔
"میں تو ویسے ہی بس تنگ کر رہی تھی اس کو تنگ کرنے کا بڑا مزا آتا ہے"۔
کس کو تنگ کر رہی تھی؟
ایان ابھی ابھی واپس لاونج میں آیا تھا۔
"کیسی کو نہیں"۔ میرال نے جواب دیا۔
"تم چائے پیو"۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ صبح جلدی اٹھ گئی تھی۔ کافی دیر سے ایان کے فون کا انتظار کررہی تھی۔ پر وہ تو جیسے ان تینوں کا پلین بھول ہی گیا تھا۔ تھک ہار کر اس نے خود ہی فون کرنے کا سوچا۔
ہیلو! "میں تمہیں ہی فون کرنے والا تھا"۔
ایان نے فورا عنایہ کا فون اٹھایا۔
"تو فون کیا کیوں نہیں " ۔
عنایہ نے اپنے غصے کو قابو کیا۔
"میں جب سے اٹھا تھا۔ اپنے پلین پر ہی کام کر رہا تھا۔ پر ریحان بھائی مان ہی نہیں رہے تھے"۔ "ابھی بڑی مشکل سے مانے ہیں۔ تم ایک کام کرو میرال کو فون کر دو کہ دوبجے تک تیار رہے" ۔
ایان نے بات مکمل کی ۔
"اچھا ٹھیک ہے"۔
عنایہ نے فون بند کیا۔
دو بجے وہ میرال کے گھر تھی۔ دونوں بلکل تیار تھے۔ کچھ دیر میں ایان اور ریحان بھی آگئے اور وہ سب شاپنگ کرنے کے لئے نکل گئے۔
"میرال وہ دیکھوں وہ ڈریس کتنا اچھا لگ رہا ہے"۔
عنایہ نے میرال کو کہا۔
"ہاں اچھا تو لگ رہا ہے آؤ دیکھتیں ہیں"۔
میرال اور عنایہ اس شاپ میں چلی گئیں ۔
ایان اور ریحان بھی ان دونوں کے پیچھے گئے۔
"تم لوگوں نے اور کتنی شاپنگ کرنی ہے؟ میرا اور ریحان بھائی کا شاپنگ بیگ اٹھا اٹھا کر ہاتھ تھک گیا ہے"۔
"ارے میرا تو نہیں تھکا تم آرام سے شاپنگ کرو میرال" ۔
ریحان نے خوش دلی سے کہا۔
"واہ! میرال ریحان بھائی تو لگتا ہے کہ تم پر دل وجان سے فدا ہیں"۔
عنایہ نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
میرال نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اسے گھورا۔
"مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ پہلے کچھ کھا لیتے ہیں پھر تم لوگ کرتی رہنا شاپنگ"۔
ایان کہتے ہی شاپ سے باہر نکل گیا۔ مجبوراً ان سب کو بھی اس کے ساتھ جانا پڑا۔
"ارے میں اپنا ایک شاپنگ بیگ تو دکان میں ہی بھول آئی۔ ایان میرے ساتھ چلنا دیکھ کر آتے ہیں"۔
ابھی وہ لوگ کچھ کھانے کے لئے بیٹھے تھے کہ
عنایہ پلین کے مطابق وہاں سے اٹھ گئی۔
"ریحان بھائی اب کھانے کا آرڈر دیں میں آتا ہوں"۔
ایان بھی اس کے ساتھ چل دیا۔ اور وہ دونوں وہاں سے کچھ دور جاکر کھڑے ہوگئے۔ جہاں سے وہ دونوں ان دونوں کو دیکھ سکیں پر ان دونوں کو پتا نہ چلے۔ ان تینوں کا یہی پلین تھا کہ میرال اور ریحان کو اکیلے بات کرنے کا موقع دیا جائے۔
اور تمہاری کیا مصروفیات ہیں آج کل؟
ریحان نے بات شروع کی کھانے کا آرڈر وہ دے چکے تھے۔
"آج کل تو گھر میں ہی ہوتی ۔ ایڈمیشن کے لئے اپلائے کیا ہے ۔ ابھی لیسٹ نہیں لگی ہے"۔
اور آپ بتائے؟ آپ کی جاب کیسی جارہی ہے؟
میرال نے بھی سوچا کہ پوچھ لے۔
"اچھی جارہی ہے جاب تو ۔ اب تو میں سوچ رہا ہوں کہ زارا کی شادی کے ساتھ ہی یا اس کے بعد میں بھی شادی کرلوں"
ریحان کی بات پر میرال نے اسے حیران ہوکر دیکھا۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کوئی لڑکی پسند ہے آپ کو؟
میرال نے فوراً نظریں جھکا لی۔
"ہے پر ابھی تک اس سے اس بارے میں بات نہیں کی"۔
ریحان نے سیدھا سا جواب دیا۔
میرال اس کے جواب پر الجھ گئی۔
"ویسے مجھے لگتا ہے کہ ایان تمہاری دوست کو پسند کرتا ہے۔ دیکھوں پہلے خود ہی کہہ رہا تھا کہ بھوک لگی ہے۔ اور اس کے ایک دفعہ کہنے پر فوراً اس کے ساتھ چلا گیا"۔
ریحان کو جو لگ رہا تھا اس نے بتایا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے ہم تینوں بچپن سے ساتھ ہیں تو اس کی اور ایان کی بھی کافی اچھی دوستی ہے"۔
ریحان کی بات پر میرال نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اگر یہ بات ان دونوں کو پتا چل جائے تو ۔۔۔ ان کے ری ایکشن سوچ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
اور وہ دونوں جو دور سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔ سمجھیں کہ شاید ریحان نے اس سے اظہار محبت کر دیا ہے ۔اس لئے وہ مسکرا رہی ہے۔
اکیلے اکیلے کیوں مسکرایا جارہا ہے؟
ایان اور عنایہ واپس ٹیبل پر آگئے اور کرسی کھینچ کے بیٹھ گئے۔
"میں نہیں مسکرارہا۔ میرال مسکرا رہی ہے"اور بیگ ملا؟
ریحان نے ان دونوں کے خالی ہاتھوں کو دیکھا۔
"نہیں اس کو شاپ پر جاکر یاد آیا کہ اس نے تو وہ ڈریس خریدا ہی نہیں تھا"۔
ایان نے کہا۔ اسی وقت کھانا بھی آگیا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"پھر میرا پلین اچھا تھا نا"۔
عنایہ اور ایان میرال کے روم میں موجود تھے۔
"بہت ہی فضول پلین تھا۔ میری الجھن اور بڑ گئی ہے"۔
میرال نے پریشانی سے بولا ۔
کیوں ایسا کیا ہوگیا؟ کیا کہہ دیا ریحان بھائی نے؟ "ہم تو خوش ہورہے تھے کیونکہ جب ہم آئے تھے تو تم مسکرا رہی تھی"۔
ایان بھی گفتگو میں شامل ہوا۔
"میں مسکرا رہی تھی شرما نہیں رہی تھی"۔
میرال کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
اچھا یہ تو بتاؤ کیا بات ہوئی اور ریحان بھائی نے کیا کہا؟
عنایہ نے پوچھا۔
"باتیں تو بہت ہوئی اور باتوں باتوں میں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی جاب کیسی جارہی ہے۔ تو کہتے کہ اچھی جارہی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کے شادی کرلوں۔ پھر میں نے پوچھا کہ کوئی لڑکی پسند ہے تو کہتے کہ ہے پر ابھی اس کو نہیں بتایا"۔
میرال نے بات مکمل کی۔
"کیا پتا وہ لڑکی تم ہی ہو"۔
عنایہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں مجھے ایسا لگا کہ وہ شاید کیسی اور کی بات کر رہے ہیں"۔
میرال کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی سین آیا جب اس نے یہ کہا تھا۔
پر اگر وہ تمہیں پسند نہیں کرتا تو پھر انہوں نے تم سے یہ بات کیوں کی؟؟
ایان نے پوچھا۔
"پتا نہیں ! اس لئے تو کہہ رہی ہوں کہ ان کی باتوں کی وجہ سے میں اور الجھ گئی ہوں۔اور ایک بات اور بھی وہ کہہ رہے تھے"۔
میرال نے ایان اور عنایہ کی طرف دیکھا۔
کیا کہہ رہے تھے؟؟
دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
"وہ کہہ رہے تھے کہ ایان کو تو بہت بھوک لگی تھی پر عنایہ کے ایک دفعہ کہنے پر اس کے ساتھ چل دیا۔ مجھے لگتا ہے یہ عنایہ کو پسند کرتا ہے"۔
میرال نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے ریحان جیسے کہہ رہا تھا ویسے ہی کہا۔
"کیا!!!! ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے پلین کا حصہ تھا کہ ہم تم دونوں کو اکیلے بات کرنے کا موقع دیں گے"۔
ایان تو اچھل ہی پڑا۔
"تو اور کیا۔ ریحان بھائی پتا نہیں کیا سمجھ رہے اور ویسے انہیں اپنی بھائی کی حرکتیں نہیں پتا۔ میں اس کو کیوں پسند کروں گی"۔
عنایہ نے بھی کہا۔
"کیوں میری حرکتیں اب ایسی بھی نہیں ہے کہ تم پسند نہ کر سکو۔ اور ویسے بھی بھائی کو لگتا کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔ پر انہیں یہ نہیں پتا کہ تم کتنی بیواقوف ہو۔ مجھے عقل مند لڑکیاں پسند ہیں"۔
ایان نے بھی اپنا بدلہ پورا کیا۔
"کیا میں تمہیں بیوقوف لگتی ہوں۔ تمہارے ساتھ کوئی دو منٹ بیٹھے تو پاگل ہو جائے"۔
عنایہ کو بھی غصہ آگیا۔
"اچھا تم تو کب سے بیٹھی ہو تم تو پاگل نہیں ہوئی"۔
ایان نے اسے کہا۔
"تم دونوں تو لڑنا بند کرو۔ میں نے ان کو کہہ دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ہم تینوں بچپن سے ساتھ ہیں اس لئے تم دونوں کی اچھی دوستی ہے۔پر تم دونوں تو ایسے لڑتے ہو۔ اگر ریحان تم دونوں کی لڑائی دیکھ لیں تو دوبارہ ایسا کبھی نہ سوچیں۔ اس لئے اگر اب تم دونوں کا لڑنے کا دل کرے تو ریحان کے سامنے لڑنا"۔
میرال ان کی لڑائی سے تنگ آگئی تھی۔
"ویسے یہ صحیح ہے۔ میں بی جان سے مل کر آتا ہوں۔ ویسے بھی اگر یہاں بیٹھا تو دوبارہ میری اس سے لڑائی ہوجائے گی"۔
ایان نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
"ویسے میرال زارا آپی کی منگنی والے دن ہی یونی میں لیسٹ لگنی ہے۔ تمہیں اس لئے بتا رہی کہ جس کو یاد رہا وہ چیک کر لے"۔
عنایہ نے بیڈ پر پڑا کشن اپنی گود میں رکھا۔
اچھا کیا کہ بتا دیا۔
"بس اب اللّٰہ کرے کہ ہم تینوں کا نام لیسٹ میں آجائے"۔
"آمین" ۔
دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
تمہارے بابا نے زارا آپی کی منگنی پر آنا ہے؟
عنایہ نے پوچھا۔
"نہیں وہ شادی پر آئے گے"۔
میرال نے بتایا۔ وہ کچھ اداس بھی ہوئی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"یہ ایان کب آئے گا۔ آج تو میں نے اس کو مار مار کر سیدھا کر دینا ہے"۔
زارا نے غصے سے کہا۔
میرال عنایہ اور زارا کو ایان نے ہی پالر میں چھوڑا تھا۔ وہ تینوں کافی دیر سے تیار ہو چکی تھیں۔ پر ایان ابھی تک لینے نہیں آیا تھا اور فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔
"زارا آپی کافی ٹائم ہو گیا ہے ہمیں ہال بھی پہنچنا ہے وہاں تو مہمان آنا شروع ہوگئے ہوں گے"۔
میرال نے پریشانی سے گھڑی دیکھی جہاں شام کے سات بج رہے تھے۔
"میں ابو کو فون کرتی ہوں۔ یہ ایان تو پتا نہیں کہاں ہے"۔
زارا نے فرحان صاحب کا نمبر ملایا۔
"اسلام علیکم! ابو ہم لوگ کب کے تیار ہو گئے ہیں پر ایان ابھی تک نہیں آیا"۔
زارا نے فوراً ایان کی شکایت کی۔
"وعلیکم السلام! میں بتانا ہی بھول گیا۔ ایان اپنے کیسی دوست طرف گیا ہے ۔ میں ڈرائیور کو کہتا ہوں تم تینوں کو لے آئے"۔
فرحان صاحب نے اللّٰہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
کیا کہا تایا ابو نے ؟
میرال بھی اب انتظار کر کر تھک گئی تھی۔
"وہ کہتے ہیں کہ ایان اپنے کیسی دوست کی طرف گیا ہے ۔ ڈرائیور آرہا ہے کچھ دیر میں" ۔
زارا نے بتایا۔
"اس ایان کی آج خیر نہیں پتا نہیں اس کے کتنے دوست ہیں" ۔
"تو اور کیا ۔ اس کو آج بتانا ہی ہوگا" ۔
عنایہ کو بھی بہت غصہ تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
تمہیں یاد آگیا کہ تمہاری بہن کی آج منگنی ہے؟
میرال عنایہ اور زارا کچھ دیر پہلے ہی ہال پہنچی تھیں۔ میرال ہال کے داخلی دروازے کے پاس ہی چکر لگا رہی تھی کہ جیسے ہی آیان آئے وہ اس کو سیدھا کرے۔
"مجھے تو یاد ہی تھا لگتا ہے تم بھول گئی ہو گی اس لئے اس طرح کی باتیں کر رہی ہو"۔
ایان کو اندازہ تھا کہ وہ ضرور اسی کا انتظار کر رہی ہوگی تاکہ اسے باتیں سنا سکے اس لئے وہ تیار ہو کر آیا تھا۔
"پھر تم یہ بھول گئے تھے کہ تم نے اپنی تین بہنوں کو پالر چھوڑا ہے اور ان کو وہاں سے لے کر بھی آنا ہے"۔
میرال کو غصہ تو بہت تھا پر آس پاس کے مہمانوں کا خیال کرتے ہوئے وہ اپنے منہ پر ہلکی سے مسکراہٹ سجا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
"میری صرف ایک ہی بہن ہے"۔
ایان نے اسے یاد دلایا۔
"تو میں اور عنایہ تمہاری بہنیں نہیں ہیں"۔
میرال نے معصوم سی شکل بنائی۔
"ہاں تم بھی میری بہن ہو۔ بلکہ تمہیں تو میں اپنی بھابھی بنانا چاہتا ہوں۔ پر عنایہ وہ تو میری بہن نہیں ہے"۔
ایان نے مزے سے کہا۔
کیا تم عنایہ کو پسند کرتے ہو؟
" اگر عنایہ کو یہ پتا لگ گیا نہ تو وہ تو تمہیں مار ہی دے گی"۔
اس کی بات پر میرال کو کافی حیرت ہوئی۔
ویسے آج وہ کتنی پیاری لگ رہی ہے۔
ایان نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سامنے دیکھا جہاں سے وہ آرہی تھی۔ اس نے پنک کلر کی میکسی پہنی تھی اور ہم رنگ دوپٹہ کندھے پر پن اپ کیا ہوا تھا۔
"ویسے پیاری تو لگ رہی ہے۔ تم بھی کم نہیں لگ رہے ۔ بلیک تھری پیس سوٹ تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے"۔
میرال نے اس کی تعریف کی۔
"ویسے ریحان بھائی اور میری آج کی ڈریسنگ ایک جیسی ہے"۔
ایان نے اس کو بڑی رازداری سے بتایا۔
"تو اس بات کو تم اتنی رازداری سے کیوں بتا رہے۔ تمہارا دماغ سہی ہے مجھے تم کچھ پاگل پاگل لگ رہے ہو"۔
میرال کو وہ پاگل ہی لگا۔
"اب تم مجھے پاگل نہ کہو"۔
ایان عنایہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
" اور یاد آیا جب میں نے بتایا تھا کہ ریحان نے بھی یہی کہا تھا کہ تم عنایہ کو پسند کرتے تو تب تو تم مکر گئے تھے"۔
میرال کو اس دن والی بات یاد آئی ۔
"ہاں کیونکہ عنایہ وہی موجود تھی اگر میں اس کے سامنے مان جاتا کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں تو وہ تو مجھے اسی وقت مار دیتی" ۔
ایان ابھی بھی اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ کیسی سے بات کررہی تھی۔
"ویسے اگر میں اس کو بتا دوں تو وہ تو تمہیں ابھی بھی مار سکتی ہے"۔
میرال نے مزے سے کہا۔
"اب تم مجھے بلیک میل نہ کرو"۔
ایان کو لگا کہ اس سے غلطی ہو گئی جو اس کو بتا دیا۔
"بلیک میل تو ابھی میں نے کیا بھی نہیں ہے وہ تو ابھی میں کروں گی"۔
"دیکھو اگر ایسا کچھ کیا تو پھر میں بھی ریحان بھائی کو بتا دوں گا کہ تم انہیں پسند کرتی ہو"۔
ایان نے اسے دھمکانا چاہا۔
"بتا دو بلکہ ابھی ریحان آتے ہیں تو بتا دینا ۔ اس طرح تو میرا کام آسان ہو جائے گا۔ میں تو کب سے انہیں بتانا چاہ رہی پر ہمت ہی نہیں ہورہی ہے"۔
میرال اس کی دھمکی میں بلکل بھی نہ آئی۔
ویسے یہ بتاؤ کون سے دوست کی طرف گئے تھے؟
میرال نے بات بدلی۔
"وہی جس کو اس دن ایئرپورٹ سے لینے گیا تھا۔اس کو بھی میں نے منگنی پر بلایا تھا پر اس کو ابھی پاکستان کے راستے نہیں پتا اس لئے اس کو لینے گیا تھا"۔
ایان نے پوری بات بتائی۔
ویسے یہ ریحان کب آئے گے؟
میرال کو کب سے اس کا انتظار تھا۔
"وہ دیکھو آگئے "۔
ایان نے داخلی دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔
میرال نے ریحان کو دیکھا۔ بلیک تھری پیس میں وہ بہت ہنڈسم لگ رہا تھا۔ کم تو وہ بھی نہیں لگ رہی تھی۔
اس نے پنک پاجامے کے ساتھ پنک شاٹ فراک پہنا ہوا تھا اور ہم رنگ دوپٹہ کندھے پر پن اپ کیا ہوا تھا۔
"ہائے پریٹی گرل!
ریحان نے اس کے پاس آکر کہا۔ ایان کسی کام کا بہانہ بنا کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
"ہائے! آپ بھی بہت اچھے لگ رہے"۔
میرال نے بھی اس کی تعریف کی۔
"تھینک یو! پر تم زیادہ اچھی لگ رہی ہو"۔ تم میرا ویلکم کرنے کے لئے ہی کھڑی تھی نا؟
ریحان نے اس کی طرف دیکھا۔
"ن۔۔۔ن نہیں میں تو ایان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی"۔
میرال نے فوراً آنکھیں جھکا لیں۔وہ بہت خوش تھی کہ ریحان نے اس کی تعریف کی ہے۔
"اچھا مجھے لگا کہ میرے لئے کھڑی تھی"۔
"اچھا چلو باقی سب کے پاس چلتے ہیں"۔
ریحان اور وہ ایک ساتھ چل رہے تھے۔
"میرال ادھر آؤ"۔
بی جان نے اس کو بلایا۔
"جی آتی ہوں"۔ میرال بی جان کی بات سننے چلی گئی۔
"جی بی جان" ۔
"جاؤ تم اور عنایہ جاکر زارا کو لے آؤ" ۔
"جی اچھا"۔
میرال برائیڈل روم کے اندر گئی وہاں عنایہ پہلے سے موجود تھی۔ وہ دونوں زارا کو سٹیج تک لے اور ارحم کے ساتھ بیٹھا دیا۔ ارحم زارا کی خالہ کا بیٹا تھا اس لئے منگنی کی فنکشن کمبائن تھا۔
وہ اور عنایہ خود سٹیج پر پڑے صوفے کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئیں۔
عنایہ کے والدین بھی انوئٹڈ تھے پر ان کو کہیں اور فیملی میں کیسی شادی پر جانا تھا۔ اس لئے وہ نہیں آ پائے تھے ۔
منگنی کی رسم شروع ہوئی ۔ زارا نے ارحم کو انگھوٹھی پہنائی اور پھر ارحم نے زارا کو انگھوٹھی پہنا دی۔ سب نے خوب تالیاں بجائیں اور شور مچایا۔
ان سب کی بہت سی تصویریں اتری تھیں۔ پھر جب فیملی فوٹو اترنے لگی تو میرال کے ساتھ
ریحان آکر کھڑا ہوگیا اور عنایہ کے ساتھ ایان ۔ ابھی تصویر کھچنے میں کچھ ٹائم تھا کیونکہ ابھی سب سیٹ ہو رہے تھے۔
"میرال میں تو یہ تصویر اپنے پاس سنبھال کر رکھوں گا"۔ ایان نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"میں بھی"۔
میرال نے بھی آہستہ آواز میں کہا۔
ایان فوراً اپنی جگہ پر واپس چلا گیا۔
ریحان اور عنایہ نے ان دونوں کی بات نہیں سنی تھی۔
کھانا کھل چکا تھا۔ وہ اپنی پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ڈال کر بی جان کے ساتھ آکر بیٹھ گئی تھی۔
"میرال!عنایہ کہاں پر ہے ؟
بی جان کو عنایہ کا خیال آیا انہوں نے کافی دیر سے اسے نہیں دیکھا تھا۔
"بی جان! اس کو گھر سے کال آئی تھی۔ وہی سننے گئی ہے"۔
میرال نے چاول کھانا شروع کئے۔
"مبارک ہو میرال"!
عنایہ اس کے اور بی جان کے قریب آکر چیخی تھی۔
"کس چیز کی مبارک؟
بی جان نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ میرال بھی اسی کو دیکھ رہی تھی۔
"وہ میرا٫ میرال اور ایان کا یونی لیسٹ میں نام آگیا ہے۔ ابھی امی کا فون اس لئے آیا تھا۔ ان کو میں کہہ کر آئی تھی کہ آج لیسٹ لگنی ہے"۔
عنایہ نے خوشی سے بتایا۔
"پر لیسٹ تو صبح کے وقت لگتی ہے ابھی تو رات کے نو بج رہے ہیں"۔
بی جان نے اس سے سوال کیا۔
"بی جان! عنایہ آج صبح جب ہمارے گھر آئی تھی اس وقت اپنی امی کو لیسٹ چیک کرنے کا کہہ کر آئی تھی"۔
میرال نے جواب دیا۔
"جی پر امی بھی بھول گئیں تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے انہیں یاد آیا تو انہوں نے چیک کیا"۔
عنایہ نے بی جان کو پوری تفصیل بتادی۔
"اچھا اچھا سہی! یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم تینوں کا نام آگیا ہے۔ اب تم بھی کچھ کھا لو"۔
بی جان خوش ہوئیں۔
"میں کھانا پلیٹ میں ڈال کر لاتی ہوں"۔
عنایہ کرسی سے اٹھ گئی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
زارا کی منگنی کو دو ہفتے ہو گئے تھے۔ ریحان اسکی منگنی کے اگلے دن ہی واپس دوبئی چلا گیا تھا۔
آج ان تینوں کا یونی میں پہلا دن تھا۔
"ایان جلدی سے میرے گھر آجاؤ۔ میں اور عنایہ کب سے تمہارا انتظار کررہے ہیں"۔
میرال نے کوئی پانچویں دفعہ اس کو میسج کیا تھا ۔ پر وہ میسج سین ضرور کر رہا تھا پر جواب نہیں دے رہا تھا۔
"پتا نہیں کیا کررہا ہے ۔ میسج سین کر رہا ہے پر جواب ہی نہیں دے رہا"۔
میرال کو اب غصہ آرہا تھا۔
"میں پہلے دن ہی لیٹ نہیں ہونا چاہتی"۔
عنایہ نے گھڑی پر ٹائم دیکھا۔
"آجاتا ہے۔ تم دونوں اتنا پریشان نہ ہو"۔
بی جان نے دونوں کو ٹوکا۔
"میں آگیا"....
ایان نے ان دونوں کے پاس ڈورتا ہوا آیا۔
"تم آرام سے بھی آسکتے تھے" اور میرے میسجز کا جواب کیوں نہیں دے رہے تھے؟
میرال نے اسے گھورا۔
"میں آرام سے آتا تو پھر تم نے ہی کہنا تھا کہ لیٹ ہوگئے اور میں تیار ہورہا تھا اس لئے تمہارے میسجز کے جواب نہیں دے سکا اور اب تم دونوں لیٹ کروا رہی ہو میں گاڑی سٹارٹ کررہا ہوں آجاؤ"۔ اللّٰہ حافظ بی جان!
ایان کہتا ہوا باہر نکل گیا اس کے پیچھے وہ دونوں بھی بی جان کو اللّٰہ حافظ کہتی باہر آگئیں۔
ایان نے گاڑی سٹارٹ کی میرال آگے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور عنایہ پیچھے بیٹھی ایان نے گاڑی گھر کے پورچ سے روڈ پر ڈالی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"یار! آج تو میں نے سوچا تھا کہ پہلا دن ہے تو یونی گھومیں گے پر پہلے دن ہی اتنے لیکچرز"۔۔۔۔۔
وہ تینوں لگاتار چار لیکچرز لینے کے بعد اب فری ہوئے تھے۔اور کینٹین میں آئے تھے۔
عنایہ تو بہت تھک گئی تھی۔
"میں اپنے لئے چپس اور کوک لینے جارہا ہوں"۔ تم دونوں نے کیا کھانا ہے؟
ایان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ تم میرے لئے بھی کوک اور چپس لے آؤ"۔
میرال نے کینٹین پر ایک سائڈ پر بنے کاؤنٹر کی طرف دیکھا۔ جہاں پر کافی ساری کھانے کی چیزیں تھیں۔
"میرے لئے بھی یہی لے آؤ"۔
عنایہ نے موبائل پر ٹائم دیکھا اور موبائل ٹیبل پر رکھ دیا۔
"میرال وہ دیکھو وہ لڑکا کب سے تمہیں اتنے غصے سے دیکھ رہا ہے"۔
عنایہ کی نظر اچانک ساتھ والی ٹیبل پر گئی تھی۔
"کون؟
میرال نے موبائل سے نظریں ہٹا کر ساتھ والی ٹیبل کی طرف دیکھا۔
"ارے! یہ تو وہی لڑکا ہے۔ جس کا میں نے موبائل توڑا تھا"۔ پر یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟
میرال اس لڑکے کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ کیونکہ وہ ابھی بھی اس کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔
"پڑھتا ہوگا یہاں پر"۔
عنایہ نے اندازہ لگایا۔
"چلو یہاں سے چلتے ہیں۔ مجھے ویسے ہی یہ انسان بہت عجیب لگ رہا ہے۔ باہر جاکر ایان کو کال کر دیتے ہیں کہ وہ چیزیں لے کر باہر آ جائے"۔
میرال کو اس لڑکے کے اس طرح غصے سے دیکھنے سے ڈر لگا تھا۔وہ کوئی تماشا نہیں چاہتی تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے باہر چلتے ہیں"۔
عنایہ نے اپنا بیگ اٹھایا۔ وہ اور میرال ایک ساتھ کرسی سے اٹھیں۔
اس لڑکے کی نظروں نے میرال کا کینٹین سے باہر نکلنے تک تعاقب کیا۔
"تم دونوں اچانک کینٹین سے باہر کیوں آگئی؟
وہ دونوں گراؤنڈ میں آکر بیٹھ گئیں تھیں۔ اب ایان آیا تھا۔
"ویسے ہی میرا دم گھٹ رہا تھا"۔
عنایہ ایان کو بتانے لگی تھی پر میرال نے اس کو نہ بتانے کا اشارہ کیا اور خود بتادیا۔
"کیا ہوا تمہیں طبیعت ٹھیک ہے؟
ایان پریشان ہوا۔
"ہاں میں اب ٹھیک ہوں۔ اس لئے تو باہر آگئے تھے کہ کھلی ہوا میں سانس سہی آئے گا"۔
میرال نے جواب دیا۔ اور چپس کا پیک کھولا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
آج اس کا یونی آنے کا بالکل بھی دل نہیں تھا پر وہ صرف اپنے دوست نبیل کی وجہ سے آیا تھا۔
"کہاں ہو؟ میں تمہارا کب سے کینٹین میں انتظار کررہا ہوں"۔
اس نے کہا اور فون بند کردیا۔
اسی وقت ساتھ والی ٹیبل پر دو لڑکیاں آکر بیٹھیں۔ ان کے ساتھ ایک لڑکا بھی تھا جو شاید کچھ کھانے کے لئے لینے چلا گیا تھا۔ان میں سے ایک لڑکی وہی تھی جس نے اس کا موبائل توڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر اس کو بہت غصہ آیا۔
"ارے تم یہاں۔ میں دوسری طرف ڈھونڈ رہا تھا"۔
نبیل اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھا۔
"مائر! تم اتنے غصے میں کیوں ہو؟
اس کے کوئی جواب نہ دینے پر وہ سمجھ گیا کہ وہ غصے میں ہے۔
"مجھے اس لڑکی پر غصہ آرہا ہے"۔
مائر نے آنکھوں کے اشارے سے بتایا۔ نبیل نے مڑ کر ساتھ والی ٹیبل کی طرف دیکھا۔
"کیوں ؟ اس نے کیا کیا؟
نبیل کو وہ کوئی نیو سٹوڈنٹ لگی کیونکہ اس نے پہلے اس کو یونی میں نہیں دیکھا تھا۔
"یہ وہی لڑکی ہے جس نے اس دن میرا موبائل توڑا تھا"۔
مائر کو اس دن والا واقعہ پھر یاد آگیا۔
"او! تو یہ وہ بہادر لڑکی ہے جس نے میرے دوست کا فون توڑا تھا۔ ویسے تو نے بھی اس کا فون گاڑی کے نیچے دے دیا تھا"۔
نبیل نے اس کو یاد کرایا۔
"پر میں نے جان بوجھ کر اس کا فون گاڑی کے نیچے نہیں دیا تھا۔ پر اس نے جان بوجھ کر میرا فون توڑا تھا" ۔
اس کو بہادر کہنے پر اس نے اس کو گھور کر دیکھا۔ آنکھیں غصے سے لال ہورہی تھیں۔
"بس یار اتنے غصے سے بھی نہ دیکھ اسے"۔
نبیل نے اس کو ٹوکا۔
کچھ دیر بعد جب اس لڑکی نے اسے دیکھا تو وہ فوراً اپنی دوست کو لے کر وہاں سے چلی گئی تھی۔
اس نے دور تک اس کو دیکھا تھا۔
"دیکھ تو نے اتنے غصے سے اس کو دیکھا کہ وہ یہاں سے چلی ہی گئی"۔
نبیل کو افسوس ہوا۔ اسے خود کبھی کبھی اپنے دوست کے غصے سے ڈر لگتا تھا۔
"اچھا ہوا چلی گئی ورنہ میں غصے میں پتا نہیں کیا کرتا"۔
مائر کو غصہ تو بہت آتا تھا پر وہ اپنے غصے کو کافی حد تک کنٹرول کر لیتا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••وہ آج پھر لیٹ گھر آیا تھا۔
"مائر! تم آج پھر اتنے لیٹ آئے ہو"۔
زاہد صاحب کب سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
"اسلام وعلیکم! بابا۔ وہ میرا ایک یونی کا پروجیکٹ ہے اسی پر کام چل رہا ہے ۔ اسلئے لیٹ ہوگیا"۔
مائر نے انہیں بتایا۔
"پھر بھی جلدی آنے کی کوشش کیا کرو تمہاری ماں پریشان ہو جاتی ہے"۔
زاہد صاحب کو ہمیشہ اس کی فکر لگی رہتی تھی۔
"پہلی بات تو یہ کہ وہ میری ماں نہیں ہے۔ وہ صرف آپ کی سیکنڈ وائف ہے۔ اور دوسری یہ کہ انہیں کہہ دیں میری فکر نہ کیا کریں"۔
ہاجرہ بیگم کا نام سن کر اس کا حلق تک کڑوا ہوا تھا۔
"وہ تو تمہیں اپنا بیٹا ہی مانتی ہے ۔ تم پتا نہیں کیوں اس کو ماں نہیں مانتے"۔
جب وہ چار سال کا تھا تو اس کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد زاہد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی۔ پر اس نے یہ قبول نہیں کیا تھا۔ اور زاہد صاحب اکثر ان دونوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
ہاجرہ بیگم ایک اچھی خاتون تھی۔ پر مائر کو ہمیشہ وہ کوئی مطلبی خاتون ہی لگی تھی۔
"میں سونے جارہا ہوں اللّٰہ حافظ بابا"!
مائر اپنے روم کی طرف جانے لگا۔
"تم نے کھانا نہیں کھانا؟
زاہد صاحب نے پیچھے سے سوال کیا۔
"میں کھاکر آیا ہوں"۔
فوراً جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"آپ نے کیوں اس کو بتایا کہ میں اس کے لئے پریشان تھی۔ آپ کو پتا تو ہے کہ میری اور اس کی کبھی بنی نہیں تو پھر آپ نے ایسے ہی اس کا موڈ خراب کردیا" ۔
ہاجرہ بیگم جو اپنے کمرے میں اس کی ساری باتیں سن رہی تھیں۔اس کے جانے کے بعد کمرے سے باہر آئیں۔
"میں نے تو ایسے ہی بات کی پر اس کو بری لگ گئی"۔ "مجھے مائر کی بہت فکر ہے ۔ اس کے مزاج میں کتنا غصہ آگیا ہے اور وہ کبھی کھل کر کوئی بات بھی نہیں کرتا ہے"۔
زاہد صاحب اور وہ اپنے کمرے میں آگئے۔
"آپ اس سے زیادہ سے زیادہ باتیں کرنی کی کوشش کیا کریں۔ اور میرا ذکر اس کے سامنے نہ کیا کریں"۔
ہاجرہ بیگم نے انہیں اس سے بات کرنے کا طریقہ بتایا۔
"اور غصہ اتنا بھی نہیں کرتا وہ"۔
ہاجرہ بیگم نے مائر کی سائڈ لی۔
"میں مصروف بھی تو اتنا ہوتا ہوں کہ اسے ٹائم ہی نہیں دے پاتا۔ پر میں کوشش کروں گا"۔
آج اتوار کا دن تھا۔ وہ کب سے برتنوں کے ساتھ کشتی کررہی تھی۔جب عنایہ نے کچن میں جھانکا۔
"آج سورج کہاں سے نکلا ہے"۔ تم برتن کیوں دھو رہی ہو؟
عنایہ حیران ہوئی۔
"تم حیران ہونا بند کرو۔ اور آکر میری مدد کرواؤ۔ ایک تو یہ برتن ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے"۔
میرال برتن دھو دھو کر تنگ آگئی تھی۔
مینا کہاں ہے؟
عنایہ نے ادھر اُدھر دیکھا۔
"مینا کماری کے کسی کزن کی شادی ہے اس لئے آج صبح ہی گاؤں گئی ہے۔ اس لئے تو ان برتنوں سے میں کشتی لڑ رہی ہوں"۔
میرال نے برتنوں کی طرف اشارہ کیا۔
"ویسے تم کتنے عرصے بعد برتن دھو رہی ہو؟
عنایہ نے دھلے ہوئے برتنوں کو کپڑے سے خشک کرنا شروع کیا۔
"شاید چھے مہینے پہلے دھوئے تھے۔ جب مینا بیمار تھی۔ تب تو بی جان سے بڑی ڈانٹ پڑی تھی۔ کیونکہ میں نے ان کے پسند کے ڈنر سیٹ کی دو پلیٹیں توڑ دی تھیں"۔
میرال کو وہ دن یاد آیا۔
"آج سارے برتن سلامت ہیں یا کچھ ٹوٹا ہے؟
عنایہ ساتھ ساتھ جو برتن خشک ہوچکے تھے کیبنیٹ میں رکھ رہی تھی۔
"ہاں یار! آج بھی دو گلاس ٹوٹے ہیں۔ پر بی جان کو نہیں پتا اور میں نے ٹوٹے ہوئے گلاس ڈسٹبن میں پھینک دیئے ہیں"۔
میرال نے مزے سے بتایا۔
"کیا تم نے دو گلاس توڑ دیئے"۔
بی جان جو عنایہ کی آواز سن کر کچن میں آئی تھیں۔ میرال کی بات سن کر سر پر ہاتھ رکھا۔
"آپ چھپ چھپ کر ہماری باتیں سن رہی تھیں؟
میرال گلاسوں والی بات کو گول کرگئی۔
"بات گھمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ تمہیں کب کام کرنا آئے گا۔ جب بھی تمہیں کوئی کام کہو تو تم ضرور کچھ نا کچھ توڑتی ہو"۔
بی جان نے اپنا سر تھام لیا۔
"اب ایسے بھی نہ کہیں۔ بی جان! اس دن میں نے ریحان کے لئے کیک بنایا تو تھا اور سب کو بہت پسند آیا تھا۔ اس میں، میں نے کوئی کام خراب نہیں کیا تھا اور کچھ توڑا بھی نہیں"۔
اس نے بی جان کو یاد کرایا۔
"ہاں تو ایک دن کوئی کام خراب نہیں کیا تو کیا ہوا۔ باقی تو پورا سال تم کوئی نا کوئی کام خراب کرتی رہتی ہو"۔
بی جان کا آج پورا موڈ تھا اس کو داٹنے کا۔
"تم ہسنا بند کرو"۔
عنایہ جو اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرال کی بات پر دوبارہ ہنسی۔
"میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں۔ اب کوئی چیز نہ توڑنا"۔
بی جان جاتے جاتے بھی اس کو نصیحت کرنا نہ بھولیں۔
"تم کیوں آئی ہو؟
میرال نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
"کیوں میں نہیں آسکتی کیا اور تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے میں ہمیشہ کسی کام سے آتی ہوں"۔
عنایہ نے اس کے لہجے کی پروا نہ کی۔
"ویسے تم کتنی بدل گئی ہو۔ ابھی کچھ دنوں پہلے جب ہمارے ایگزام نہیں ہوئے تھے تو ہم کتنی مستی کرتے تھے۔ پر اب تم بہت سیریس ہو گئی ہو"۔
عنایہ کچھ دیر بعد بولی۔
"میں بدلی تو نہیں ہوں۔ وہ تو بس تائی امی نے کہا تھا کہ ریحان کو سیریس ٹائپ کی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں تو اس لئے میں بھی سیریس ٹائپ کی لڑکی بننے کی کوشش کررہی ہوں"۔
میرال نے شرماتے ہوئے کہا۔
"اچھا! اس لئے تم اتنی سیریس ہوگئی ہوں۔ پر اب تو وہ واپس دوبئی چلے گئے ہیں" تو۔۔۔۔۔
عنایہ نے تو کو کافی لمبا کیا۔
"تو کیا؟
میرال نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"تو یہ کہ آج میں نے کچھ نوٹس فوٹوکاپی کروانے تھے تو راستے میں میں نے ایک گھر کے لان میں امرود کا درخت دیکھا۔ وہ درخت کافی حد تک باہر کی طرف تھا۔ تو میں سوچ رہی کہ کیوں نا وہاں سے امرود توڑے جائے"۔
عنایہ نے اپنا پلین بتایا۔
"پر مجھے پتا ہے کہ تم میرے ساتھ نہیں چلو گی کیونکہ اب تم بدل گئی ہو۔ بلکہ اب تو تم نے لوگوں سے ڈرنا شروع کردیا ہے"۔
عنایہ نے جان بوجھ کر ایسا کہا۔
"میں کن لوگوں سے ڈرنا شروع ہوگئی ہوں؟
میرال نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"اس دن یونی میں تم اس لڑکے سے کتنا ڈر گئی تھی"۔
عنایہ نے یاد کرایا۔
"وہ تو میں ایان کی وجہ سے ڈری تھی۔ کہ کہیں کوئی جھگڑا ہی نہ ہوجائے۔اور پھر ایان کا بھی تو پتا ہے اس نے سب کچھ بی جان کو بتا دینا تھا"۔
میرال نے اس کو وجہ بتائی۔
"ویسے یار! یہ بات چھوڑو میرے منہ امرودوں کا سوچ کر ابھی سے پانی آرہا ہے۔ یہ برتن تم خشک کرکے کیبنٹ میں رکھو۔ میں ابھی کپڑے چینج کرکے آئی"۔
میرال نے بات جلدی جلدی سنک کا نلکا بند کیا اور اپنے دوپٹے سے ہاتھ پونچھے۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ دونوں اپنے گھر والی گلی سے دو گلیاں چھوڑ کر اس گھر کے سامنے کھڑے تھے۔
"ویسے ہمارا کبھی اس گلی سے گزرنا ہی نہیں ہوا"۔
میرال نے گھر کا جائزہ لیا۔
"ہاں وہ آج میں نے سوچا کہ رستہ بدل کر گھر جاتے ہیں تو میں نے یہ دیکھا۔"
عنایہ نے درخت کی طرف اشارہ کیا۔
درخت کافی حد تک باہر کی طرف تھا۔
"عنایہ درخت کافی اونچا ہے"۔
میرال نے کافی کوشش کی کہ امرود تک ہاتھ پہنچ جائے پر امرود اس کے ہاتھ سے کافی اونچے لگے ہوئے تھے۔
"ایک کام کرتے ہیں جو ہم کانٹی بنا کر لائے ہیں اس سے امرود اتارنے کی کوشش کرتے ہیں"۔
عنایہ نے مشورہ دیا اور کانٹی کو گھوما کر امرود والی ٹہنی پر ڈالا اور کھینچنا شروع کیا۔
درخت کی ٹہنیاں بہت زور سے حل رہی تھی
"عنایہ آرام سے گھر والوں کو پتا چل گیا تو عزت افزائی ہوجانی ہے"۔
میرال نے اس کو ٹوکا۔
"ارے! فکر نہ کرو ۔ جتنی خاموشی ہے اس گھر میں مجھے نہیں لگتا یہاں کوئی رہتا ہوگا"۔
عنایہ نے امرود کی ٹہنی کو زور سے کھینچا ۔دو تین امرود نیچے گرے۔
"یہ درخت اتنا ہل کیوں رہا ہے"۔ ہوا بھی نہیں چل رہی پھر یہ کیسے؟
مائر جو ابھی لان میں آیا تھا درخت کو ہلتے ہوئے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔
"لگتا ہے بچے امرود توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔
اس نے سوچا اور گیٹ کھول کے دیکھنے لگا کہ کون سے بچے ہیں۔ پر گیٹ کھولتے ساتھ ہی اس کو شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔
"تم یہاں کیا کررہی ہو؟
اس نے اونچی آواز میں کہا۔
"آ۔۔۔۔۔آپ؟؟
وہ جو امرود توڑنے میں مگن تھی۔ اس کی اونچی آواز سے ڈر ہی گئی۔
"جی میں! تم میرے گھر کے باہر یہ کیا کر رہی ہو؟
مائر نے غصے سے اسے گھورا۔
"میں امرود توڑ رہی ہوں"۔
میرال نے اپنے ہاتھ میں پکڑے امرود اسے دیکھائے۔
"وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے۔ تمہیں شرم نہیں آتی ایسے بچوں کی طرح امرود توڑتے ہوئے۔ میں ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں"۔
مائر نے جیب سے اپنا فون نکالا۔
"ارے! امرود توڑنے کی بھلا کیا سزا ہوتی ہے"۔
میرال کو حیرت ہوئی۔ عنایہ خاموشی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"امرود توڑنے کی سزا نہیں بھی ہوتی تو کیا ہوا۔ میں پولیس کو کہوں گا کہ تم دونوں میرے گھر چوری کرنے آئے ہو"۔
مائر نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ نمبر ڈائل کررہا ہو۔
"ارے! آپ ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ نے میرا فون توڑا تھا تو میں نے پولیس کو بلایا تھا"۔
میرال کو اب واقع میں دڑ لگا۔
"پر تم نے خود تو میرا فون توڑ دیا تھا نا"۔
مائر نے اس کو یاد کرایا۔
"ہاں تو غصے میں تو بندہ ایسا کرہی دیتا ہے"۔
میرال نے پریشانی میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں مڑورنا شروع کی۔
"یہاں کیا ہو رہا ہے؟
ہاجرہ بیگم جو شور سن کر باہر آئیں تھیں۔ دو لڑکیوں کو دیکھ کر حیران ہوئیں۔
"اسلام وعلیکم ! آنٹی"۔
میرال اور عنایہ نے فوراً سلام کیا۔ مائر ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کر کیا رہیں ہیں۔
"آپ دونوں مائر کی دوست ہیں؟
ہاجرہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
"جی نہیں پر ہم یونیورسٹی فیلو ہیں"۔
میرال نے جلدی سے کہا۔
"اچھا سہی۔ آپ دونوں اندر تو آئیں"۔
ہاجرہ بیگم دونوں کو اندر لے جانے لگی۔مائر بلکل خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔
میرال اور عنایہ نے جلدی سے امرودوں کو شاپر میں رکھا اور ان کے ساتھ اندر جانے لگیں۔
"آپ دونوں بیٹھے یہاں پر میں ایک منٹ میں چائے کا کہہ کر آتی ہوں"۔
ہاجرہ بیگم نے ان دونوں کے ہاتھ میں امرود کا شاپر دیکھ لیا تھا۔ اور انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان دونوں نے امرود توڑے ہیں۔ اس لئے شاید مائر ان دونوں پر غصہ ہورہا تھا۔
"نہیں آنٹی! ہم بہت لیٹ ہو جائے گے۔ آپ چائے رہنے دیں"۔
میرال نے ہاجرہ بیگم کو روکنا چاہا۔
"نہیں بیٹا ایسے اچھا نہیں لگتا۔تم دونوں بیٹھو میں آتی ہوں"۔
ہاجرہ بیگم کچن میں چلی گئیں۔
"ویسے ہم دوست کب سے ہوگئے؟
مائر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
"وہ۔۔۔وہ میں نے کب کہا کہ ہم دوست ہیں۔ میں نے تو کہا کہ ہم یونیورسٹی فیلو ہیں"۔
میرال نے فوراً آنکھیں جھکا کر ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔
"میسز زاہد! میں اپنے دوست کی طرف جارہا ہوں"۔
اس نے وہی سے آواز لگائی اور چلا گیا۔
"بس کچھ دیر میں چائے آجائے گی"۔
ہاجرہ بیگم نے اس کی آواز پر اچھا کہا اور ان دونوں کے پاس آگئیں۔
"بیٹا آپ دونوں کا نام کیا ہے؟ میں نے پوچھا ہی نہیں اور گھر کہاں ہے؟
میرال کے ساتھ بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
"میرا نام میرال ہے اور یہ میری دوست ہے اس کا نام عنایہ ہے ہم لوگوں کا گھر دوگلیاں چھوڑ کر ہے"۔
میرال نے بتایا۔ عنایہ تو بس خاموشی سے بیٹھی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔
"آپ دونوں کا ابھی یونیورسٹی میں نیو ایڈمیشن ہوا ہے ؟
ہاجرہ بیگم نے پوچھا۔ اتنی دیر میں چائے بھی آگئی۔
"جی ابھی نیو ہی ایڈمیشن ہوا ہے"۔
عنایہ نے جواب دیا۔
"اچھا اچھا۔ مجھے تو آپ دونوں بہت اچھی لگی ہو۔ آجایا کرو ہمارے گھر میں گھر میں اکیلی ہی ہوتی ہوں۔ مائر اور زاہد صاحب تو رات کو ہی گھر پر ہوتے ہیں"۔
ہاجرہ بیگم نے ان دونوں کو دوبارہ آنے کی دعوت دی۔
"جی ضرور"۔
میرال نے بھی پیار سے کہا۔ اس کو یہ آنٹی اچھی لگی تھیں۔
"بیٹا! آپ مجھے اپنا نمبر دے سکتی ہو؟
ہاجرہ بیگم کے نمبر مانگنے پر میرال کو حیرت ہوئی۔
"جی آنٹی میں آپ کو اپنا نمبر دے دیتی ہوں"۔ میرال نے پہلے سوچا کہ نہ دے نمبر۔ پھر اس نے سوچا کہیں آنٹی کو برا ہی نہ لگ جائے۔
چائے تو پیو۔
ہاجرہ کے کہنے پر اس نے کپ اٹھایا۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"ویسے تم تو مائر کو دیکھ کر دڑ ہی گئی تھی اور اس کی پولیس والی دھمکی نے تو ساری کسر پوری کردی"۔
عنایہ اس کی اس وقت کی حالت یاد کرکے ہنس رہی تھی۔ ابھی وہ دونوں گھر جارہے تھے۔
"تم ہسنا بند کرو ایک تو مجھے تم پر اور اس مائر پر بہت غصہ آرہا ہے"۔
میرال نے اپنے غصے کو دبایا۔
"مجھ پر کیوں غصہ آرہا ہے؟ "تم خود اسکی باتوں سے ڈر گئی تھی ۔میں نے تو بس یہی کہا اس میں غصہ کرنے والی بات کیا ہے"۔
عنایہ نے مزے سے کہا۔
"تم پر اس لئے غصہ آرہا ہے کیونکہ یہ سارا پلین تمہارا تھا اور ڈری میں اس لئے تھی کیونکہ وہ پولیس بلا رہا تھا۔ اور گھر پر نہ بابا ہیں نہ ریحان اور تایا ابو اور ایان بھی آفس گئے ہوئے ہیں"۔ تو اگر ہم جیل چلے جاتے تو ہمیں وہاں سے چھڑانے کون آتا؟ "اور اگر کوئی آبھی جاتا تو ڈانٹ بہت پڑتی"۔" وہ تو اچھا ہوا کہ اس کی امی باہر آگئیں"۔
میرال سانس لینے کو رکی۔
"ویسے ہم ایان کو بھی فون کرکے بلا سکتے تھے"۔
عنایہ نے مشورہ دیا۔
"ایک نمبر کا چمچہ ہے وہ بی جان کا گھر جاتے ہی ہماری شکایت لگاتا"۔
"ہاں ویسے یہ تو ہے۔چلو چھوڑوں اس بات کو یہ بتاؤ تم یہ امرودوں والا شاپر کیوں ساتھ لے آئی ہوں؟
عنایہ نے اس کے ہاتھ میں شاپر دیکھا۔
" ارے! اتنی مشکل سے ہم نے یہ امرود توڑے تھے اور پھر ہم پکڑے بھی گئے تو ایسے ہی چھوڑ آتی۔ تمہارے گھر چل کر ان کی چاٹ بناتے ہیں"۔
میرال نے مزے سے چٹخارہ لیتے ہوئے کہا۔وہ دونوں عنایہ کے گھر کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔
"ویسے آنٹی کتنی سوئٹ تھیں"۔
وہ دونوں اپنی اپنی چاٹ کی پلیٹ لے کر ابھی ٹی وی لاونج میں بیٹھے تھے۔
"ہاں آنٹی کافی اچھی تھیں۔ مجھے ان سے مل اچھا لگا۔ وہ تو اس مائر کی ماں بلکل بھی نہیں لگتی"۔
میرال نے عنایہ کی بات کی تائید کی۔
"ویسے مجھے لگتا ہے وہ واقع ہی اسکی ماں نہیں ہیں۔ تم نے دیکھا تھا وہ اپنی ماں کو نام سے پکار رہا تھا"۔
عنایہ کو یاد آیا۔
"میں نے تو نہیں دیکھا اور نہ سنا ۔ ویسے بھی ان کے گھر کا معاملہ ہے۔ ہم کیوں ڈیسکس کریں"۔
میرال نے اسکو ٹوکا۔
"ویسے آج ایان آفس کیوں گیا ہے؟
عنایہ ایان کو مس کر رہی تھی۔
"کیوں تم بہت مس کر رہی ہو؟
میرال نے شرارت سے کہا۔
"ہاں مس تو کر رہی ہوں۔ اس کی باتیں مزے کی ہوتی ہیں"۔
"ارے واہ! تم ایان کی تعریف کررہی ہو"۔
میرال کو حیرانی ہوئی۔
"تو نہیں کرسکتی کیا؟
عنایہ نے اسے گھورا ۔
"کر سکتی ہو کر سکتی ہو۔ اچھا یاد آیا تم ابھی میرے ساتھ میرے گھر چلنا۔ آج رات کا کھانا میں نے بنانا ہے تو تم میری مدد کرنا ٹھیک ہے"۔
میرال کو ابھی یاد آیا تھا۔
"اچھا پر شام تک آؤں گی۔ ورنہ امی نے گھر سے ہی نکال دینا ہے کہ وہاں پر سارا دن رہتی ہو رات کو رہ لینا"۔
عنایہ نے آہستہ آواز میں کہا۔
"اچھا ابھی آنٹی کو بتاتی ہوں"۔
میرال نے اس کو دھمکایا۔
"ارے! نہیں تم کیا چاہتی ہو مجھے ابھی مار پر جائے"۔
عنایہ تو واقع ہی ڈر گئی تھی۔
"اچھا اب میں اپنے گھر چلتی ہوں تم یہ برتن دھو دینا"۔
میرال نے خالی چاٹ کی پلیٹ ٹیبل پر رکھی اور اپنے گھر جانے لگی۔
"ویسے بہت ہی بدتمیز ہو کھایا پیا اور چلے گئے"۔
عنایہ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ کب سے میرال کو سمجھا رہی تھی کہ ایسے چکن کو مسالا لگانا ہے پر اس کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔ پھر اس نے خود ہی چکن کو مسالا لگانا شروع کیا۔
"ہائے گلز! کیا بنایا جارہا ہے۔
ایان ابھی آیا تھا اور آتے ساتھ ہی اس نے کچن میں جھانکا۔
"میں کچھ نہیں بنا رہی۔ عنایہ تکا بریانی بنا رہی ہے اور مجھے سیکھانے کی کوشش کر رہی ہے"۔
میرال نے کھیرا کاٹنا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ وہ کھا بھی رہی تھی۔
"تم سے نہیں پوچھ رہا ہوں"۔
ایان نے کھیرے والی پلیٹ سے کھیرا اٹھا کر منہ میں ڈالا۔
"ویسے مجھے تو عنایہ کے ہاتھ کے کھانے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں تو کھانا کھا کر ہی جاؤں گا"۔
عنایہ نے اس کی تعریف پر اسکو مڑ کر حیرت سے دیکھا۔ آج کل وہ کچھ زیادہ ہی اس کی تعریف کرنے لگا تھا۔
"ارے! ایان میرے ساتھ آنا"۔
میرال اس کو کہتی کچن سے باہر نکل گئی۔
"کیا ہے؟ "تم نے مجھے کیوں بلایا؟
ایان بھی کچن سے باہر آیا۔
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔ تم کیا چاہتے ہو کہ عنایہ تمہارے ساتھ ساتھ میرا سر بھی پھاڑ دے"۔
میرال نے آہستہ آواز میں کہا۔
"میں نے ایسا کیا کیا"۔
ایان کو سمجھ نہ آیا۔
"مجھے عنایہ کے ہاتھ کے کھانے بہت پسند ہیں۔ او بھائی! اتنی تعریفیں نہ کرو کہ اس کو شک ہوجائے"۔
میرال نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"میں نے ایسے ہی کہا تھا"۔
ایان گھبرا ہی گیا۔
"پر وہ تمہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ ویسے بھی ابھی ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے کہ نہیں"۔ "جب تک ہمیں پتا نہیں لگ جاتا تب تک تم اپنے جذبات کو قابو میں رکھو"۔ "کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تینوں کی دوستی خراب ہوجائے"۔
میرال نے اس کو سمجھانا چاہا۔
"ہاں میں خیال رکھوں گا"۔ "میں بی جان سے مل کر آتا ہوں اور ہاں میرے لئے بریانی رکھ لینا"۔ "میں جاتے ہوئے اپنے گھر لے جاؤں گا اور آرام سے کھاؤں گا"۔
ایان جاتے جاتے بھی فرمائش کرگیا تھا۔ میرال نے اس کی بات پر بس سر ہلایا۔
"ایان کہاں گیا؟
عنایہ نے اس کو اکیلے کچن میں آتے دیکھا تو پوچھا۔
"وہ بی جان کو ملنے گیا ہے۔ اچھا مجھے بتاؤ اور کیا کرنا ہے"۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"مائر ابھی تک گھر نہیں آیا۔ آپ کو پتا ہے کب تک آئے گا؟
ہاجرہ بیگم نے زاہد صاحب سے پوچھا۔ جو ابھی کچھ دیر پہلے گھر آئے تھے۔
"ہاں اس کا فون آیا تھا۔ وہ اپنے دوست کی طرف تھا۔ کہہ رہا تھا تھوڑی دیر میں آجائے گا"۔
"آپ اس کی اتنی فکر نہ کیا کریں"۔
زاہد صاحب نے ان کو سمجھایا۔
"چلیں آپ فریش ہو جائے میں کھانا لگاتی ہوں"۔
ہاجرہ بیگم کچن میں کھانا گرم کرنے چلی گئی۔ ویسے تو ان کے گھر ہر کام کے لئے ملازم موجود تھے پر وہ رات کا کھانا خود ہی گرم کرتی تھیں۔
" آج میں مائر کی یونیورسٹی فیلو سے ملی مجھے بہت اچھی لگی"۔
دونوں ڈائنگ ٹیبل پر موجود تھے۔ جب ہاجرہ بیگم نے بات شروع کی۔
"مائر کی کلاس فیلو سے آپ کی کیسے ملاقات ہوئی"۔
زاہد صاحب نے سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھا۔
ہاجرہ بیگم نے آج کا پورا واقعہ ان کو سنا دیا۔
"مجھے تو وہ لڑکی بہت اچھی لگی۔ وہ اور اس کی دوست شاید ہمارے لان میں جو امرود کا درخت ہے وہاں سے امرود توڑ رہیں تھیں ۔ اور مجھے لگتا ہے کہ انکو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ مائر کا گھر ہے"۔
ہاجرہ بیگم مسکراتے ہوئے ساری بات بتا رہی تھیں۔
"ویسے نام کیا ہے اس بچی کا؟
زاہد صاحب بھی مسکرا رہے تھے۔
"میرال نام ہے۔ مجھے تو بہت اچھی لگی ہے۔ میں نے تو اس کا نمبر بھی لے لیا ہے۔ اور اس دوبارہ آنے کی دعوت بھی دی ہے۔
ہاجرہ بیگم نے چاول کھانا شروع کئے۔
"ویسے اچھی بات ہے ۔ پر آپ کے بیٹے کو لگتا ہے کہ وہ بلکل اچھی نہیں لگتی"۔
زاہد صاحب نے اندازہ لگایا۔
"مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ پر وہ لڑکی کچھ دیر ہمارے گھر میں رہی تھی اور اتنی رونق ہو گئی تھی کہ کیا بتاؤں"۔
ہاجرہ بیگم پانی پینے کو رکی۔
"ویسے ایسے مزاج کی لڑکی ہی ہمارے بیٹے کی زندگی میں رونک لا سکتی ہے"۔
زاہد صاحب نے کھانا ختم کرکے نیپ کن سے ہاتھ صاف کئے۔